FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فہرست مضامین

صلیب بر دوش

 

 

غزلیں

 

 

اقبال متین

 

 

 

 

 

غزلیں

 

 

 

 

اقبال متین

 

 

 

خود کو بھول بیٹھے ہم، تم ادھر نہیں آئے

اب خودی کو پوجیں گے تم اگر نہیں آئے

یہ تو سچ ہے ہم اپنے ساتھ بھی نہیں اُٹھے

پھر بھی تیری محفل سے بے خبر نہیں آئے

کچھ عدم کی را ہوں میں کھو کے ر ہ گئے شاید

تجھ کو پوچھنے والے پھر ادھر نہیں آئے

اب تو دل کی ویرانی یوں بسی ہے سینے میں

جیسے رات بھی بیتے اور سحر نہیں آئے

راستہ تو سیدھا تھا جانے کیا ہوا ہم کو

تیرے در سے اٹھ کر ہم اپنے گھر نہیں آئے

رات خواب میں ہم نے اپنی موت دیکھی تھی

اتنے رونے والوں میں تم نظر نہیں آئے

ہم نے ان کو دیکھا ہے نام تھا متین ان کا

وہ اِدھر سے گزرے تھے لوٹ کر نہیں آئے

 

 

 

 

تمھیں سے درد چھپانے کی اپنی خو کر لیں

نظر ملاؤ کہ ہم یہ بھی آرزو کر لیں

 

کچھ اس قدر ہے تری یاد کی مہک دل میں

کہ دل کے زخم چمن بندیِ لہو کر لیں

 

اِدھر سے گزرے تو جی بھر کے دیکھ لیں اس کو

جو وہ رُکے تو گھڑی بھر کو گفتگو کر لیں

 

مری نگاہ کو آنکھوں میں اپنی رکھ کر وہ

جو بن پڑے تو پھر آئینہ روبرو کر لیں

 

یہ راہ و رسمِ وفا بھی ہمیں عزیز ہوئی

کہ تجھ کو دوست کہیں جان کو عدو کر لیں

 

صلیبِ دوش پہ ، زخموں سے چور چور بھی ہیں

ہمارے سینے میں جھانکو کہ اور طور بھی ہیں

 

خدا نہ دے کسی دشمن کو ایسی محرومی

کہ تیرے پاس بھی ہیں اور تجھ سے دور بھی ہیں

 

اب اس کو کیا کریں ، کیسے کہیں ، کسے سمجھائیں

وہ جان و دل سہی ، لیکن وہی نفور بھی ہیں

 

ہمارا کیا ہے ، ہماری وفا کا ذکر ہی کیا

اسی فسانے میں لیکن کہیں حضور بھی ہیں

 

زمیں پہ بھیج کے وہ ہم کو بھولنے والے

بجھے بجھے سے یہ چہرے ترا ظہور بھی ہیں

 

 

 

امڈے بادل کی طرح آنکھوں سے برسے یارو

پھر بھی ہم پیار کی اک بوند کو ترسے یارو

ہم اٹھائے بھی گئے ، ہم کو نکالا بھی گیا

کوڑے کرکٹ کی طرح اپنے ہی گھر سے یارو

ڈوب جانا ہی محبت کا مقدر ہو گا

اب تو ہر موجِ بلا گزرے ہے سر سے یارو

ہم لٹے بھی تو سرِ راہِ وفا ایسے لٹے

کوئی آواز نہ آئی کسی در سے یارو

اُف رے پندار کہ جس وقت بھی سر اپنا جھکا

لوٹ آئی ہے دعا،بابِ اثر سے یارو

ڈوبتی رات ہے ، رستے کا دیا ہے ، میں ہوں

کوئی گزرا تھا سرِ شام ادھر سے یارو

 

 

 

جو جیتے رہتے تو عالم کے روبرو ہوتے

زبان خلق پہ ہم حرف آرزو ہوتے

ہمیں نے سی لیے لب اپنے ورنہ اے صیاد

چمن میں پھولوں کے دل بھی لہو لہو ہوتے

وہ اک سچائی جسے سو جتن سے پالا تھا

خود اس کو قتل نہ کرتے تو کو بکو ہوتے

وفا کی بات جو چھڑتی تو دیکھتے تم بھی

ہمیں تھے بزم میں جو وجہِ گفتگو ہوتے

ہم اے نگار جہاں اب تو تجھ سے بھر پائے

تجھے عزیز جو ہوتے تو شعلہ خو ہوتے

ہوئے جو سنگِ در میکدہ تو کیا حاصل

کسی کے ہاتھ سے ٹوٹا ہوا سُبو ہوتے

وفا کڑی تھی مگر شرط زندگی ٹھہری

جو مر بھی سکتے تو مر کر ہی سرخ رو ہوتے

 

 

 

میں تو سب جان کے بھی وقت سے بیکل گزرا

آج آیا بھی نہیں تھا کہ ترا کل گزرا

بوند بن کر مری پلکوں سے نہ ٹوٹا تارا

ابر بن کر ترے مہتاب سے آنچل گزرا

وقت کے ہاتھوں ہوا میں بھی تو ریزہ ریزہ

کون اس دور سے اے جان مکمل گزرا

اتنی فرصت ہی ملی تھی کہ میں خود کو رولوں

حیف ایسے میں تری آنکھوں سے کاجل گزرا

یہ بھی انداز ہوا یاد کا تیری آخر

دل میں برچھی کی انی رکھ کے کوئی پل گزرا

جانے کیوں آنکھ مری نم نہ ہوئی اب کے برس

دل کے ویرانے سے بے بر سے ہی بادل گزرا

میں ہی ٹھہرا نہ مرے شام و سحر ہی ٹھہرے

پر وہ لمحہ جو ٹھہر کر بھی مسلسل گزرا

 

 

 

 

دل میں کانٹا سا اک چبھو بیٹھے

کیا بتائیں کہ کس کے ہو بیٹھے

میز پر خط سجا لیے اس کے

جن کی تحریر اشک دھو بیٹھے

ہم سے پوچھے ہے ساری دنیا کچھ

ہم خموشی میں نطق بو بیٹھے

ان کی چاہت کے فاصلے جو بڑھے

وہ رگِ جاں کے پاس ہو بیٹھے

مجھ پہ جاں دینے والے میرے دوست

مجھ کو پایا تو مجھ کو کھو بیٹھے

اس کو چاہا توہم ملے نہ ہمیں

اس کو بھولے تو اس کے ہو بیٹھے

آپ کب تک چلیں گے ساتھ اپنے

ہم متینؔ آپ کو تو رو بیٹھے

 

 

 

 

رات تیری یادوں نے اس قدر ستایا ہے

جتنا مسکرائے ہیں اتنا جی بھر آیا ہے

 

فصلِ گل جو آئی ہے ، شامِ غم بھی چمکے گی

ہم نے اشک بوئے تھے ، ہم نے دل جلایا ہے

 

آؤ دام پوچھیں گے ، کوئی شخص سنتے ہیں

اپنی عمر کا حاصل بیچنے کو لایا ہے

 

کتنی بار چاہا ہے آج جان ہی لیں گے

زندگی یہی ہے یا زندگی کا سایا ہے

 

ہم وفا کے مارے تھے بار ہا لرز اٹھے

جب چھوا کسی گل کو تو بھی ساتھ آیا ہے

 

 

آؤ تم کو سمجھائیں یوں نہیں لکھا کرتے

نامہ برنے خط دے کر اشکِ غم ہی پایا ہے

 

کل کسی نے رستے میں ہم سے خیریت پوچھی

تو کہاں تھا ایسے میں تو جو یاد آیا ہے

 

رات گوشۂ دل میں اک کرن جو در آئی

ہم تو یہ سمجھ بیٹھے چاند بھی ہمارا ہے

 

تم تو میرے ہو جاتے ، سب سے تم کو کیا لینا

سب کا درد میرا ہے ، میرا غم تمھارا ہے

 

آؤ ان کتابوں کی گرد ہی جھٹک ڈالیں

علم و فن کی ذلت میں یہ بھی اک سہارا ہے

 

 

 

جو تم پہ حرف بھی آئے تو اپنا سر دیں گے

تمھارے لوگ ہمیں قتل بھی تو کر دیں گے

ترے خطوط کی دولت تو سونپ دی تجھ کو

یہ جی میں ہے کہ تجھے عظمتِ ہنر دیں گے

پڑھی ہے اس نے کہانی مری ، رسالے میں

اب اس پہ لوگ رسالے بھی بند کر دیں گے

اسے پکارو ، کہیں دل میں چھپ گیا ہے وہ

یہ گھر اسی کا ہے ، ہم ا سکو سارا گھر دیں گے

دھڑک رہا ہے دل باغباں بھی غنچوں میں

پہ پھول تو تری زلفوں میں بھی شر ر دیں گے

یہی سمجھ کے بڑے مطمئن ہیں دیوانے

قفس کھلا ہے تو صیّاد بال و پر دیں گے

وفا کی راہ میں ، ہم اٹھ گئے ، تو تم ہی کہو!

وہ کون ہوں گے جو ہر سرکو سنگِ در دیں گے

 

 

 

مجھے بتاؤ یہ گھپ اندھیرے دلوں سے باہر کہاں چھپیں گے

کہ آج چہرہ تو ہو بہو ہے ، عداوتوں اور دوستی کا

وہ میرے پہلو میں بیٹھ کر بھی نہ جانے کس کے خیال میں تھا

مری وفائیں لرز گئی تھیں یہ حال تھا اس کی بے رخی کا

ذرا کتابوں کی گرد جھاڑو ذرا مری میز صاف کر دو

قلم کو تر سی ہوئی یہ پوریں حساب مانگے ہیں زندگی کا

چلو کہ بازار میں بکے ہے وہ حسنِ جنسِ وفا کہ جس کو

خرید لینا بھی بے بسی کا فروخت کرنا بھی بے بسی کا

مجھے ستاروں میں پھینک ڈالو زمیں چبا کر نہ تھوک ڈالے

کہ میں تو صحرا ہوں تا سمندر سراب ہوں اپنی آگہی کا

ترے خطوں میں پکارتا ہے ترا بدن میرے جسم ہی کو

مگر یہ دل ہے ازل سے تنہا کہ جیسے ماتم ہو زندگی کا

رُکی تھی پل بھر کو عمرِ گزراں مگر صدی جیسے درمیاں تھی

وہ میرا ہو کر بھی اجنبی تھا عجیب عالم تھا بیکسی کا

 

 

 

 

کسی کا غم ہو وہ دل کے قریب آتا ہے

مرے وجود کا احساس تو دلاتا ہے

سنا رہا ہوں کچھ اس طرح سے فسانۂ غم

کہ لفظ لفظ مرے غم کا بوجھ اُٹھاتا ہے

میں آنسوؤں کی یہ چلمن ذرا ہٹاؤں بھی

وہ کوئی شخص ہے آنکھوں سے دل میں آتا ہے

یہ جی میں ہے کہ کہیں راہ میں ہی کھو جاؤں

ترا مکان تو ہر راستے میں آتا ہے

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

وہ جتنا پاس ہو اتنا ہی دور جاتا ہے

ہیں ٹوٹی نیند کی کچھ کرچیاں سی آنکھوں میں

یہ کون ایسے میں دستِ کرم بڑھاتا ہے

 

 

کوئی صلیب اُٹھائے ملے ، تو لٹکا دو

مری گلی سے جو گزرو تو میرا گھر ڈھا دو

یہ آنکھیں خشک ہیں ، تم آنسوؤں سے چھلکا دو

بہت اُداس ہے اس زندگی کو بہلا دو

یہ لوگ بھاگتے پھرتے ہیں رات خوابوں میں

ذرا انھیں بھی سنبھالو اے گھر کی بنیادو

میں اپنی جاگتی آنکھوں سے ڈر گیا ہوں بہت

تمھارے پاس جو نیندیں ہیں میری لوٹا دو

یہ سارے پاس کے منظر تو کچھ عجیب سے ہیں

جو ہو سکے تو انھیں دور کر کے دُھندلا دو

وہ ،یوں بھی بارِ سماعت کہاں اُٹھاتا ہے

ذرا سنبھل کے مرے دشتِ دل کی فریادو

برہنہ پا بھی ہوں ، تپتی ہوئی زمین بھی ہے

بہت کڑی ہے ابھی دھوپ کچھ تو سایا دو

یہ کن مزاروں پہ یوں سر جھکائے بیٹھے ہو

متین تم ہو کہاں دفن یہ تو بتلا دو

 

 

 

 

رسم پابندیِ آداب اُٹھا دی جائے

اُس کے در پر جو کھڑے ہیں تو صدا دی جائے

 

آئینے عکس نہ دکھلاتے تو کچھ بات بھی تھی

اب تو تصویر ہی کمرے سے ہٹا دی جائے

 

میں اسے درد کی صورت بھی نہ پہچان سکوں

مجھ کو جینے کی کچھ ایسی بھی سزا دی جائے

 

میں تو ٹوٹی ہوئی اک چیخ کا سناٹا ہوں

میری آواز کہیں ہو تو سنا دی جائے

 

 

 

 

کوئی کوندہ سا لپک کر غم جاں بن تو گیا

رات اُمڈ کر نہ گھٹا چھائی نہ کھل کر برسا

وہ جو خوابوں کے جزیروں سے نکل کر بھاگا

میری آنکھیں ابھی نم تھیں تو پلٹ کر آیا

روح پیاسی تھی بہت خون مگر پی نہ سکی

لو جھلس دے گی مرے جسم کو معلوم نہ تھا

اس پہاڑی پہ بھلا آگ لگا دی کس نے

دیکھتے دیکھتے منظر وہ سبھی راکھ ہوا

نیند ٹوٹی ہے کہیں دور لتاؔ گاتی ہے

تو کہاں ہے کہ اس آواز سے رشتہ ہے ترا

آنکھیں بھیگی تھیں کہ دروازے پہ آہٹ سی ہوئی

وہ کوئی تھا ہی نہیں صرف ہوا کا جھونکا

 

 

 

درد لے جاتا ، زیاں لے جاتا

کون یہ تحفۂ جاں لے جاتا

میں کہ لرزاں تھا جھکی شاخوں میں

مجھ کو جھونکا بھی کہاں لے جاتا

مجھ کو کیوں ڈھانپ دیا، شاید میں

جل نہ سکتا تو دھواں لے جاتا

اتنا ارزاں ہے یہ بازارِ وفا

میں کہاں جنسِ گراں لے جاتا

تیرا کمرہ ہے ، مگر تو ہی نہیں

تو ہی آتا ، یہ سماں لے جاتا

تو مرا دوست ہے اے کاش کہ تو

آہ دے جاتا ، فغاں لے جاتا

اتنا پندار تو ہوتا مجھ میں

تو مکیں تھا ، میں مکاں لے جاتا

میں تو اس کا ہی تھا اقبالؔ متین

اس کا جی چاہے جہاں لے جاتا

 

 

ہم سے مل کر، ہم سے ملنا مت بھولو

تم غنچہ ہو ، کھلنا گویا مت بھولو

ساتھ چلو ، لیکن اتنا تو یاد رکھو

سایہ سایہ نہیں ہے رکنا مت بھولو

چہرہ دھولو، بالوں میں کنگھی کر لو

آنسوؤں پی کر شام کو ہنسنا مت بھولو

گہرا پانی ، سرد ہوا اور کالی را

پھر بھی اونچائی سے اتر نا مت بھولو

دن کے سارے ہنگاموں سے بچ نکلو

شام ہمارے دل میں چھپنا مت بھولو

میں اس کا ہوں ، میں نے کب انکار کیا

وہ کس کا؟ اور وہ بھی کتنا مت بھولو

خواب بھی دیکھو ، سوچو اُس کو، رو بھی لو

یاد آئے تو، اس کو اتنا مت بھولو

ہمری اتنی بات سنو ، اقبالؔ متین

ہم کو اپنے دل میں رکھنا مت بھولو

 

 

کیا حسیں رات بنا دی تو نے

چاندنی مجھ کو پلا دی تو نے

میں نے ہنس ہنس کے چھپائے آنسو

مجھ کو جینے کی دعا دی تو نے

کس سے کہتا کہ میں تیرا ہی تو تھا

کچھ نہ کہنے کی سزا دی تو نے

میں تجھے دیکھ کے رو بھی نہ سکا

لو چراغوں کی بڑھا دی تو نے

کیسا یہ ، ہو، کا سماں ہے سر شام

دل میں کیا راکھ اڑا دی تو نے

مجھ سے جب بارِ امانت نہ اُٹھا

وہ امانت ہی اٹھا دی تو نے

یہ بھی کیا طرزِ وفا ہے کوئی

رات لمبی تھی، گھٹا دی تو نے

شہر سنسان تھا اقبالؔ متین

رات کس کس کو صدا دی تو نے

 

 

دور تلک بارش کا سماں

بھیگی آنکھیں ، قلب تپاں

پاؤوں میں چاندی کی چین

آنکھوں میں سونے کا سماں

ٹیڑھی میڑھی پگڈنڈی

گوری کے قدموں کے نشاں

ہونٹوں پر صحرا کی پیاس

آنکھوں میں برسات نہاں

میں بھی اس کا تھا لیکن

اس کے دل میں کوئی کہاں

اُس کی آنکھیں جھیل ہی جھیل

میرے آنسو آبِ رواں

تجھ کو پا لینے کی ہوس

تجھ کو کھونے کے امکاں

سنتے ہو اقبالؔ متین

وہ تو نہیں ، تم سا ناداں

 

 

 

 

 

یہ کھڑکیاں تھیں ، یہ دیوار تھی، یہاں در تھا

اسی زمین پہ یارو کبھی میرا گھر تھا

درون دل کوئی ویرانہ بس گیا ہو گا

وگر نہ باغ میں ایسا نہ کوئی منظر تھا

میں خود کو سنگِ درِ دوست بھی سمجھ بیٹھا

وگرنہ میں تو مہ و مہر سے بھی بر تر تھا

یہ لوگ مجھ کو ہٹا کر ہوئے ہیں خوش کیا کیا

کہ جیسے میں ہی ترے راستے کا پتھر تھا

غموں کے پاس سوا درد کے نہ تھا کچھ بھی

امید تھی کہ تہی دست میں ، سمندر تھا

متین وہ بھی اسی راستے سے گزرا ہے

متین میں بھی اسی راستے کی ٹھوکر تھا

 

 

 

 

دل سے احساس کا نشتر لے جا

آئینہ خانے سے پتھر لے جا

مجھ کو جینے دے تری یاد ہوں میں

میرے صحرا میں گُلِ تر لے جا

آگ سینے میں لگا کر رکھ دے

اشک جتنے ہیں اُٹھا کر لے جا

ریت کے تو دوں پہ بارش برسا

اور آنکھوں سے سمندر لے جا

راہ کی خاک ہوں پلکوں پہ سجا

آ، مجھے بھی کبھی گھر گھر لے جا

کبھی دل میں کبھی آنکھوں میں چھپا

اور چھپ جاؤں تو باہر لے جا

پو بھی پھٹنے کو ہے اقبالؔ متین

نیند کے شانوں پہ بستر لے جا

 

 

 

 

اس کو نغموں میں سمیٹوں تو بُکا جانے ہے

گر یہ شب کو جو نغمے کی صدا جانے ہے

میں تری آنکھوں میں اپنے لیے کیا کیا ڈھونڈوں

تو مرے درد کو کچھ مجھ سے سوا جانے ہے

اس کو رہنے دو مرے زخموں کا مرہم بن کر

خونِ دل کو جو مرے رنگِ حنا جانے ہے

میری محرومیِ فرقت سے اُسے کیا لینا

وہ تو آہوں کو بھی مانندِ صبا جانے ہے

ایک ہی دن میں ترے شہر کی مسموم فضا

میرے پیراہنِ سادہ کو ریا جانے ہے

میں کبھی تیرے دریچے میں کھِلا پھول بھی تھا

آج کیا ہوں ، ترے گلشن کی ہوا جانے ہے

مجھ سے کہتا ہے مرا شوخ کہ اقبالؔ متین

تم رہے را ت کہاں ، یہ تو خدا جانے ہے

 

 

 

پسِ دیوار بھی ، دیوار اُٹھائے ہوئے ہیں

میرے ساتھی ، مرے لاشے کو چھپائے ہوئے ہیں

کس سے پوچھوں کہ مرے نام کی تختی ہے کہاں ؟

میرے سینے میں تو ویرانے سمائے ہوئے ہیں

اُن سے کہہ دو جو مکیں ہیں مرے گھر میں کہ مجھے

لوگ پھر بیچنے بازار میں لائے ہوئے ہیں

ظلمتیں اُن کا اجارہ ہیں ، چلو یوں ہی سہی

ہم بھی لو دل کے چراغوں کی بڑھائے ہوئے ہیں

آسماں پر نہ ستارے نہ زمیں پر جگنو

کون پھر ماتھوں پہ کرنیں سی سجائے ہوئے ہیں

ہم تو پت جھڑکی صدا ہیں ہمیں دیکھو نہ سنو

ہم کو سو چو کہ بہاروں کو سجائے ہوئے ہیں

ریت پر میں بھی گھروندا لیے بیٹھا ہوں متین

وہ بھی ہر قطرۂ بارش میں سمائے ہوئے ہیں

 

 

 

 

 ہواؤں کی طرح ، گلشن ، دریچے ، دشت دیکھوں بھی

وطن چھوٹا ہی ہے ، تو کارِ بود و ہست دیکھوں بھی

اُتر کر آ بھی جا، کرنوں کے رستے ، سب کھُلے رکھّوں

تو مجھ کو دیکھتا ہے میں بھی تیرا است دیکھوں بھی

سمندر ہوں تو میرے ہیں ، خذف ریزے بھی، موتی بھی

صدف بن جاؤں تو، راز کشاد و بست دیکھوں بھی

قلم میرا، مجھی سے خونِ دل مانگے ہے کاغذ پر

میں آنکھیں موند لوں ، جذبِ دروں کی جست دیکھوں بھی

مرے اشعار کو، اپنے ہی افسانوں سے شکوہ ہے

میں افسانہ چھپا لوں ، شاعری کا تخت دیکھوں بھی

انا کی کیچ میں گھر بار سارا دھنس گیا میرا

میں اوجِ فن تری رفعت سے اپنے پست دیکھوں بھی

محبت ہی محبت باندھ کر دے دی ہے یاروں نے

میں یہ گٹھری ، اٹھا لوں اور اپنا دست دیکھوں بھی

 

 

کچھ عجب طرح کا طوفان اُٹھا ہے دل میں

دل کی دھڑکن ہے کہ آسیب بلا ہے دل میں

اب کہاں ڈھونڈنے جاتے ہو بھلا تم اس کو

وہ تو آنکھوں کی نمی بن کے چھپا ہے دل میں

خشک آنکھوں کو ابھی رونے کی حسرت ہے بہت

اس کو تھمنے دو جو کہرام مچا ہے دل میں

اتنے سناٹے میں آواز کا دم گھٹتا ہے

اور ایسے میں بھی اک حشر بپا ہے دل میں

وہ جدا ہو کے کچھ اس درجہ قریب آ پہنچا

اب تو بس ایک وہی ہے کہ بسا ہے دل میں

اتنی سنسان ڈگر ہے کہ تکے جاتا ہوں

کوئی رستہ ترے رستے سے ملا ہے دل میں

تو گیا ہے تو مجھے میرا پتا دے جاتا

خود مجھے جیسے کوئی ڈھونڈ رہا ہے دل میں

دشتِ جاں میں ہے شبِ تار بھی آندھی بھی متین

ایک غم ہے کہ دیا جس کا جلاہے دل میں

 

 

 

گمان و وہم نہیں ہیں ، مرا یقیں ہیں اب

مرے قدم ، مرے احساس کی زمیں ہیں اب

میں جام اُٹھا کے یہی سو چتا رہا اکثر

نشہ بھی لے گئے وہ لوگ جو نہیں ہیں اب

کبھی جو ساتھ تھے میرے ، مری رگِ جاں تھے

دلوں کو چھوڑ کے محلوں میں جاگزیں ہیں اب

ہمیں نہ پا سکا آسیبِ ظلمتِ دوراں

ہر ایک خالی مکاں میں ہمیں مکیں ہیں اب

کچھ ایسی چرب زبانی سے جہل چھُپتا ہے

یہ لوگ اپنے لیے مارِ آستیں ہیں اب

فرید و نشو و پپن کے ساتھ ہے عمران

پتا تو دے گئے ہوتے ، جہاں کہیں ہیں اب

چلو متینؔ وہیں جا کے پھر انھیں ڈھونڈھیں

وہ صورتیں جو زمین بن کے دل نشیں ہیں اب

 

 

 

وہ شخص کیا ہوا وہ اُس کا گھر کہاں ہو گا

اب اس دیار میں ، مجھ سے بسر کہاں ہو گا

 

میں جس کے سائے میں جا بیٹھتا تھا دن دن بھر

کوئی بتائے کہ اب وہ شجر کہاں ہو گا

 

نظر جھُکا کے چرا لے گیا جو ہوش و خرد

پھر اس کا سامنا اب عمر بھر کہاں ہو گا

 

ورق ورق ہیں کتابوں کے سینے شق پھر بھی

اس انتشار میں عرض ہنر کہاں ہو گا

 

چراغِ راہ وہی ہے ، گلی کا موڑ وہی

وہ میرا یار، وہ آشفتہ سر کہاں ہو گا

 

مٹی مٹی تری تحریر چوم لیتا ہوں

ان آنسوؤں کا مقدر مگر کہاں ہو گا

 

سفید خون میں سُرخی ملا کے جی لیں گے

علاج اس کے سوا چارہ گر کہاں ہو گا

 

یہ کیسی بے گھری اب ساتھ ہو گئی میرے

وہ کھڑکیاں کہاں ہوں گی وہ در کہاں ہو گا

 

عروجِ فن پہ کمندِ زیاں جو پھینک سکے

ہمارے ایسا بھی صاحب نظر کہاں ہو گا

 

متین بے سر و سامانیاں ہی ساتھ رکھو

شعورِ عجز ہنر در بدر کہاں ہو گا

 

 

 

 

 

ایک بھیگی غزل مغنی تبسم کے نام

 

بہت رونے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا آخر

جو یادوں کے جھروکوں کو بھی شاید دھو گیا آخر

نہ ماتم ہے ، نہ سناٹا عجب سرگوشیاں سی ہیں

مری چوکھٹ پہ سر رکھ کر وہ لڑکا سو گیا آخر

میں خود اشکوں کے دریاؤں کی پہنائی کا حاصل تھا

مگر وہ ایک قطرہ بارِ ہستی دھو گیا آخر

مجھے بھیگی ہوئی آنکھوں میں رہنے کا سلیقہ ہے

میں گیلے کاغذوں میں لفظ سارے بو گیا آخر

وہ رستہ جو تری تربت سے ہو کر مجھ تلک آیا

وہ رستہ وقت کی پہنائیوں میں کھو گیا آخر

متین اقبال آنکھیں پونچھ لو، تکیہ چھپا رکھو

وہ دیکھو اپنے آنگن میں سویرا ہو گیا آخر

 

 

 

 

سجا کے جہل کی سو تختیاں مکانوں پر

تو آ گیا ہے تو تالے لگا زبانوں پر

وفا کے شہر میں یہ کیسا ہو کا عالم ہے

کسی کا نام ہی کندہ کریں چٹانوں پر

بہت قریب سے گزرا ہے زندگی کا جلوس

میں پھینک آؤں کمندِ زیاں زمانوں پر

مجھے نہ تاک کہ میں آبِ خشک دریا ہوں

وہ مہتاب ہے اس کو رجھا اڑانوں پر

نہ دل کے راز ، نہ آپس کے غم نہ دردِ حیات

علامتوں کی ہے یلغار سی فسانوں پر

میں اپنے اشک بھی نذرِ حضور کر نہ سکا

مچی تھی لوٹ کچھ اس طرح آستانوں پر

میں اپنا زادِ سفر چھوڑ کر چلوں بھی متینؔ

کوئی تو آئے گا اجڑے ہوئے ٹھکانوں پر

 

 

 

 

دیارِ یار پہ دل کا گمان ہو گا بھی

مری زمیں کا کوئی آسمان ہو گا بھی

میں تجھ کو بھول کے اتنا تو یاد رکھ لیتا

تری گلی میں ہی ، میرا مکان ہو گا بھی

مری انا کو ترا لطف بھی نہ راس آیا

ترا ہی دھیان کہیں درمیان ہو گا بھی

بہت کڑی ہے اگر زندگی کی دھوپ تو کیا

کہیں تو یادوں کا اک سائبان ہو گا بھی

بہت پر بریدہ سہی، قلب خوں چکیدہ سہی

مگر یہ فاصلۂ دو جہان ہو گا بھی

میں آگ پی کے بھی جاں سوختہ نہیں ہوتا

سرشکِ غم ترا نم ، پاسبان ہو گا بھی

نہ غم نہ ضبطِ فغاں ،نے بھرم نہ تنہائی

متین کوئی تو اب درمیان ہو گا بھی

 

 

 

کچھ اتنا بے نیاز ہوں جینے کے باب میں

جس طرح دریا خود کو چھپا لے سراب میں

آ زندگی تلاش کریں کوئی اور زہر

اپنے لیے تو کچھ نہ رہا اب شراب میں

وہ عالمِ فراق تھا اللہ کی پناہ

ہر شے جھلس رہی تھی شبِ ماہتاب میں

تجھ کو ہی دیکھتی رہیں آنکھیں تو کیا کریں

اک تو ہی بس گیا تھا جہانِ شباب میں

میں بھی جہاں سے اس طرح اٹھ جاؤں گا متینؔ

جس طرح ترک رکھ کے اٹھا ہوں کتاب میں

 

 

 

 

خونی چہرے پہ بھی وہ سانولا پن ہے کہ نہیں

یہ مری جان مری ارض دکن ہے کہ نہیں

 

ایسی نا قدری کہ بے رحمی بھی شر ما جائے

میں نہ جانوں کوئی میرا بھی وطن ہے کہ نہیں

 

مجھ سے دربانِ ادب نے یہ کہا چپکے سے

روشنائی میں بھی چاندی کا چلن ہے کہ نہیں

 

وسعتیں جتنی ہیں سینے میں اٹھا کر رکھ لیں

پھر یہ سوچیں کہ کہیں دل میں چبھن ہے کہ نہیں

 

ان سلا سل سے کبھی بوئے وفا تو آئے

زندگی یوں بھی سلا خوں کا چمن ہے کہ نہیں

 

جانے کس نے اسے یہ بات بتا دی ہو گی

دل سیہ ہے تو رہے رُخ پہ پھبن ہے کہ نہیں

 

کوئی آئے مرا سر کاٹ کے دے دے مجھ کو

اور یہ پوچھے تری پوشاک میں تن ہے کہ نہیں

 

ہم تو اقبال متین آپ سے اتنا سیکھیں

لفظ چن لیں تو یہ سوچیں بھی سخن ہے کہ نہیں

 

 

 

 

تو دکھائے جو سماں دیکھتا جاؤں میں بھی

دلِ آشفتہ کے اسرار نہ پاؤں میں بھی

 

پھر مجھے صورتِ فسوں سازِ کا شعلہ دے جا

شہر غم، پھر کوئی قندیل جلاؤں میں بھی

 

گریۂ شب کو ستاروں کی نمی کیا دے گی

ابر چھٹ جائے تو دل میں اتر آؤں میں بھی

 

وہ جو سیلاب تھا آنکھوں میں اتر کر ہی رہا

بند ٹوٹے تو ترا شہر بہاؤں میں بھی

 

تجھ کو دیرینہ تعلق تھا میرے رونے سے

تو بھی رو دے کہ تری نیند چراؤں میں بھی

 

سب کے سب اپنی انا ساتھ لیے بیٹھے ہیں

ان کے کیا نام ہیں کچھ پوچھ تو آؤں میں بھی

 

کوئی آواز تو اس کوچۂ دلدار سے آئے

کس کی آواز میں آواز ملاؤں میں بھی

 

تو ملے بھی تو بہ انداز دگر تجھ سے ملوں

تو جو کھو جائے تو پھر خود کو نہ پاؤں میں بھی

 

مجھ سے اقبال متین روز ہی ملتا ہے مگر

اس کو ملنے کے کچھ آداب سکھاؤں میں بھی

 

 

 

 

خوابوں میں بھی ساتھ رہیں ، جو آوازیں

نیند سے اٹھا کر ان کو ہی دو آوازیں

کل کی نہ سو چو ، کل کس کا ہے ، آج کے دن

مٹی نم ہے ، مٹی میں بو ، آوازیں

چیخ کہیں ہو اتنا چپ چپ مت سن لو

سناٹوں میں ڈھونڈھنے نکلو آوازیں

کیسی محبت کس کی تمنا کس کا دل

سایہ سایہ ہر سائے کو آوازیں

اور امڈتے بادل رکھ لو سینے میں

بے برسے اشکوں میں بھگو لو، آوازیں

چلتے ہیں اقبال متین ، اب رات ڈھلی

رستوں میں دیں ، گھر والوں کو آوازیں

 

 

 

 

 

عید کا چاند بلندی سے دکھا تا میں بھی

چھت کہاں ہے کہ کوئی پنچھی اُڑاتا میں بھی

میں کہاں نکلوں کہ سینے میں دبی آہ ہوں میں

میں ہوا ہوں تو ترے در ہی پہ آتا میں بھی

راستے جتنے بھی تھے ختم ہوئے سب ورنہ

مجھ کو جینے کی کوئی راہ سمجھاتا میں بھی

مجھ کو جنت کی تمنا ہے کہ عقبیٰ کی ہوس

تو بلاتا بھی تو کیا دوڑ کے آتا میں بھی

میرے رعشے نے مجھے پینے کے آداب دئے

ورنہ لبریز کئی جام اُٹھاتا میں بھی

اب مجھے اپنے دریچے کی ہواؤں میں نہ ڈھونڈ

کیا گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آتا میں بھی

آؤ اقبال متین اس کو اجڑتا دیکھیں

وہ جو آ جاتا تو کیا پھول کھلاتا میں بھی

 

 

 

گھر سے باہر نکلے ہو تو گھر تک واپس آؤ بھی

جیون ہی جب گھات میں ہو تو کہیں کہیں رک جاؤ بھی

 

اس کا کیا ہے وہ تو سب کا تم ہی اکیلے پھرے ہو

اب تم اپنے اکیلے پن کو اپنا میت بناؤ بھی

 

آنکھیں تم تھیں اور وہ اکثر نام تمہارا لیتا تھا

جانے والا اب نہ رکے گا ، سوچو بھی آ جاؤ بھی

 

تم کو کیسے بھلا سکتا ہے ، میخانہ تو تم سے تھا

دیکھو جام و سبو چپ چپ ہیں آؤ ہاتھ بڑھاؤ بھی

 

کل ہی تو اقبال متین جس نیم کے نیچے بیٹھے تھا

آج اس کا سایہ بھی نہیں ہے ، کوئی پیڑ اگاؤ بھی

 

 

 

 

خیالِ و خواب بھی وہ ، حرز رائگاں بھی وہ

صریرِ خامۂ انگشتِ خوں چکاں بھی وہ

جو کچھ کہوں تو سرشکِ سرِ مژہ بھی وہی

میں چپ رہوں تو مرے درد کی زباں بھی وہ

نہ راستے ہیں ، نہ منزل ہے اور نہ زادِ سفر

ہے سنگ میل بھی وہ، گردِ کارواں بھی وہ

مرا قیام مجھے زندگی سے کاٹ نہ لے

کہ اب یقین بھی میرا وہی ، گماں بھی وہ

نقیب طالعِ ہنگامِ دشمناں بھی وہ

ستم طرازیِ دشنامِ دوستاں بھی وہ

وہی ہے تیرگی دشتِ جان و قلبِ حزیں

ستارۂ شب ہجراں کی کہکشاں بھی وہ

متینؔ اس کے لیے دام آگہی نہ بچھا

وہ تیری جان بھی ہے جان کا زیاں بھی وہ

 

 

 

تو ہے دیا تو روشنی تیری ، راہ دکھانے والا میں

تو ندیا کا بہتا پانی ، ناؤ ترانے والا میں

آتی جاتی پت جھڑ رت کو سبز بنانے والا تو

ذہن و دل کے ویرانوں میں پھول کھلانے والا میں

آنسو بن کر آنکھوں سے پلکوں پر آنے والا تو

تجھ کو اپنے دل میں رکھ کر سب سے چھپانے والا میں

منظر منظر تیرا پیکر ، نفس نفس تیری ہی شبیہ

تیرے بدن کو اپنے بدن کا راز بنانے والا میں

بر ساتوں میں آگ لگا کر مجھ کو جلانے والا تو

بھیگ بھیگ کر اپنے غم کی راکھ بجھانے والا میں

رات رات بھر مجھ میں چھپ کر باتیں کرنے والا تو

تجھ کو اپنے باہر لا کر پیار جتانے والا میں

عرضِ وفا پر چھپ چھپ ہنسنے والا تو

تیری ہنسی کو سہن سہن کر اشک بہانے والا میں

 

 

 

 

کتابیں میری ساری جل رہی تھیں خواب کیسا تھا

سوا نیزے پہ سورج تھا تو پھر مہتاب کیسا تھا

سوادِ شب ردائے تیرگی کی وسعتیں اوڑھے

بھٹکتا پھر رہا تھا کرمکِ شب تاب کیسا تھا

شناور میں بھی تھا ، بھوکے نہنگوں کے سمندر میں

مرے اطراف لیکن خون کا گرداب کیسا تھا

میں اپنی زندگی کو لمحہ لمحہ کھوج بھی لیتا

مگر وہ قطرہ قطرہ پیاس کا زہراب کیسا تھا

مجھے نیندوں کے لٹتے قافلوں کی لاج رکھنی تھی

وگرنہ تجھ کو رونے دیدۂ خوناب کیسا تھا

وہ نس نس میں سما کر بھی گریزاں مجھ سے کیونکر تھا

وہ میرا ہو گیا تھا اور پھر نا یاب کیسا تھا

متین اقبال اتنی بات تم نے بھی نہیں سمجھی

محبت کا وہ دریا اس قدر پایاب کیسا تھا

 

 

 

شعرو سخن کی آن کہیں میں ، افسانے کی جان کہیں

لیکن میرے گھر میں میری ’ ہو بھی تو پہچان کہیں

کیسے کیسے لوگوں کی میں صورت ٹک ٹک تکتا ہوں

ان کی انا کو اپنے عجز کا سمجھوں بھی بہتان کہیں

اس جا میرا کچّا گھر تھا، آج محل یہ کس کا ہے

میری دھُن میں بسے ہوئے ہیں کمرے اور دالان کہیں

میرے عہد کا کیا پوچھے ہو، ذہن میں کچھ ہے دل میں کچھ

میّا جی کی کوکھ کہیں ہے ، پتا کہیں ، سنتان کہیں

سارے رشتے سارے ناتے سب ہیں آن واحد کے

دوست نما دشمن سے ہزیمت اور مرا تاوان کہیں

کتنی اونچی شاخوں پر میں چڑھ چڑھ کر حیران ہوا

بچپن بیت گیا سنتا ہوں اب ڈھونڈھوں اوسان کہیں

تم جس شخص کا رستہ تکتے بیٹھے ہو اقبال متین

اب اس کی کیا بات کریں ہم وہ تو ہے مہمان کہیں

 

 

 

 

غرورِ حسن و جفا اس کا سب شُنیدہ تھا

مگر وہ سامنے آیا ، تو آبدیدہ تھا

چٹان کی طرح سنگلاخ تھی زمیں ساری

مگر وہ غنچہ تہہِ سنگ نو دمیدہ تھا

مجھے قبول کہ تھا بے حساب اُس کا کرم

اسے بھی علم کہ دامن مرا دریدہ تھا

غموں کے ساتھ محبت کے کتنے پیماں تھے

غموں کا ساتھ مگر دستِ نا رسیدہ تھا

وہ اعتبارِ ہنر ساتھ کیوں لیے پھرتا

کہ اس کی جھولی میں ہر لفظ نا چشیدہ تھا

 

 

 

 

بستر کی ہر ایک شکن میں تم خوشبو ہو جانا تھا

اب تو پو پھٹنے کو آئی اب تو تم سو جانا تھا

ہم کو اپنا اک اک پل بھی ساتھ نہیں رہنے دینا

مجھ سے میرا سب کچھ لے کر تم مجھ میں کھو جانا تھا

کیسی باتیں سوچ رہی ہو اب وہ زمانے بیت گئے

جاتے جاتے اپنے غم کا چہرہ تو دھو جانا تھا

وہ جیسا بھی تھا میرا تھا میرے گھر آ جاتا تھا

اپنی انا کے گھاؤ چھپائے مجھ کو اس کا ہو جانا تھا

میرے پاس سے اٹھنے والا پھر میرے پاس آ بیٹھا

اس کی وحشت بوجھ تھی دل پر لیکن مجھ کو جانا تھا

درو دریچے کھلے پڑے ہیں دیواروں پر کائی جمی ہے

تم کو یہ گھر یاد تو ہو گا آنا تھا رو جانا تھا

وہ دیکھو اقبال تمھارا پیڑ کے نیچے بیٹھا ہے

ننگا بُچا پیڑ ہے یارو بیچ کوئی بو جانا تھا

 

 

 

 

اب دل دکھا کے کارِ خرد ہو سو کچھ کریں

آنکھوں میں تیرتے ہوئے اشکوں کو کچھ کریں

وہ پاس تھا تو ہم کو دکھائی نہ کچھ دیا

دیواروں کو جو پاس ہی رکھ لیں تو کچھ کریں

دامن کے ساتھ جیب کی دھجی بھی ٹانک دیں

پھر اس کے بعد کارِ رفو جو ہو کچھ کریں

ہم سے حسد میں اس نے سکوں اپنا کھو لیا

اب اس کے پاس کیا ہے مداوا جو کچھ کریں

یہ رت جگے بھی اپنی ہی آنکھوں کو سونپ دو

یہ تہمتیں بھی اپنے ہی سرلے لو ، کچھ کریں

آنکھوں میں دل میں ذہن میں ہر ایک سانس میں

وہ جس طرح بھی رہتا ہے رہنے دو کچھ کریں

قاتل وہی تھا جس نے سزا دی مجھے متین

اب خون بہا بھی مجھ سے ہی لے لو تو کچھ کریں

 

 

 

 

اس کا کیا ہے وہ تو ، ہنسی کے کتنے روپ بنا لے گا

تم کو رلانا جب چاہے گا ہنسی ہنسی میں رلا لے گا

 

اب یہ میرے بس میں نہیں ہے ملنا اور بچھڑ جانا

دیوانہ دل جب چاہے گا تیری قربت پالے گا

 

دیکھو چڑھتی دھوپ کا سورج کیسے ڈھلے گا تیزی سے

اب تو میرا سایہ مجھ کو رستے ہی میں جالے گا

 

وہ کوّا دیوار سے اُڑ کر آنگن میں جو آ بیٹھا

دیدے گول گھما لے گا تو چونچ بڑھا کر کیا لے گا

 

گوری نے چڑیا کو اُڑا کر خالی ہانڈی اوندھا دی

باپ نے سیکل باہر رکھ لی اب منا بستہ لے گا

 

میں بھی اس کے پاس نہیں ہوں وہ بھی مجھ سے دور نہیں

اب ایسے میں کیا جانے وہ کیا دے گا کیا کیا لے گا

 

دیواروں پر کائی جمی ہے سیلن جیسی سیلن ہے

سو کھے کنویں میں ڈول پڑا ہے دل کس سے بدلا لے گا

 

یہ جو اندر جبڑے پھاڑے ، دانت نسوڑے بیٹھا ہے

اب یہ بھو کا شیر مجھے تو سوتے میں ہی کھا لے گا

 

تم کو تو اقبال متین کتنا ہم نے سمجھایا

گھر کی چوکھٹ بھولنے والا کب دروازہ پالے گا

 

 

 

 

لوگ ہمیں تکتے ہی رہتے ہم کچھ ایسا کر جاتے

تہمت اپنے سرلے لیتے اور خوشی سے مر جاتے

درو دریچے بند ہوئے سب سڑکیں اب سنسان ہوئیں

کوئی یاد دلا دیتا توہم بھی اپنے گھر جاتے

ساقی نے اتنا تو کیا ہے گرد نہ جمنے دی ورنہ

مٹی کے یہ خالی پیالے مٹی ہی سے بھر جاتے

اس کے ہو کر رہنا ہے تو اس پر سب قربان کریں

دے دیتے ہونٹوں کا تبسم لے کر چشم تر جاتے

پھر نہ کہیں پر آگ بھڑکتی پھر نہ کہیں سے شور اٹھتا

ان جسموں کے سارے ٹکڑے سب کو اک جاں کر جاتے

سب اپنے ہیں ہم بھی سب کے پر نشّو کی بات کہاں

اس کے دل میں رہتے تھے ہم اس کے بعد کدھر جاتے

عمر کی اس منزل میں کب تک بھٹکو گے اقبال متین

آج کی شب تو یار کم از کم تم اپنے ہی گھر جاتے

 

 

 

 

شاطر تھا وہ شومی مجلس بہت بڑا بیوپاری تھا

میں نے شوشہ چھوڑ دیا تھا وہ بھی کب انکاری تھا

ہائے سیاست کے سب چہرے دست و گریباں ہوتے تھے

کوئی کسی کا باپ نہ بیٹا جو کچھ تھا سرکاری تھا

مانگے کی موٹر سے منہ میں پائپ دبا کر اترا تھا

اندر جتنا خالی تھا وہ اوپر اتنا بھاری تھا

جس کی بیٹی قتل ہوئی تھی بد کاروں کے ہاتھوں سے

ہوم منسٹر کا چاچا تھا گاؤں کا وہ پٹواری تھا

شاردا مجھ سے ملنے آئی ، میں نے کیڈبری دی اسے

شاردا لے کر بھاگ گئی تھی، غصے میں گردھاری تھا

دیکھو بھی اقبال متین کہ ہر شئے عمر کے ساتھ بھلی

تم مسجد کی چوکھٹ پر تھے ، تم پر نشّہ طاری تھا

 

 

 

وہ مجھ کو کھو کے زمانے میں خود ہی رسوا تھا

وہ شخص اپنی ہی نفرت میں آپ تنہا تھا

میں کس کے آگے محبت کا ہاتھ پھیلاتا

مری ہتھیلی میں میرا نصیب اس کا تھا

جہاں پرندوں نے پر اپنے نوچ ڈالے تھے

وہاں کچھ اور نہ تھا آندھیوں کا دھوکا تھا

وہ کون ہاتھ میں پتھر اُٹھائے بیٹھا ہے

اسے بتاؤ کہ کل میں یہاں سے گزرا تھا

وہ ایک کشتی تو ساحل پہ آ کے ٹھری تھی

مگر ہوا کا وہ جھونکا ادھر نہ آیا تھا

ٹھہر گیا تھا کسی جھیل کی طرح تو بھی

میں غم کی آخری سرحد پہ ایک دریا تھا

تجھے خیال تو ہوتا ترا متین اقبال

ترا بدن تری پوشاک تیرا سایا تھا

 

 

 

تو میرے درد کو دنیا نئی نئی دینا

مرے خدا مجھے کچھ اور آگہی دینا

جو حسرتیں ہی مری زندگی کا حاصل ہیں

تو حسرتوں کے اندھیروں کو زندگی دینا

جو تو نے اپنے کرم سے دیا ہے اپنوں کو

مری مژہ کو ان اشکوں کی بھی نمی دینا

یہ غم کدہ تو سنورتا رہا ہے برسوں سے

اسے جو راس نہ آئے وہی خوشی دینا

میں تجھ سے کچھ بھی نہیں مانگتا مرے مالک

مرے قلم کو مرے خوں کی چاشنی دینا

جہاں سے دل کو بچا کر میں تجھ تلک لاؤں

وہیں پہ سینے میں نیزے کی اک انی دینا

متین تیرا نہیں ہے تو اور کس کا ہے

بہشت دینا تو دوزخ کی آگ بھی دینا

 

 

آدمی ہوتا ہوا بھی کوئی اوتار لگے

وہ گزر جائے جہاں سے وہیں بازار لگے

شب کے سناٹے میں پر تول رہی تھی دنیا

پو پھٹے ایک کرن دوشِ زمیں بار لگے

کوئی دیوارِ سرِ راہ رکاوٹ بن جائے

کوئی رستہ سر منزل مجھے دیوار لگے

ا سکے کوچے میں مری شانِ انا بھی دیکھو

کتنے ارمانوں کے جمگھٹ ہیں سرِ دار لگے

اس کے اقرار میں انکار کا پہلو نکلے

اس کا انکار بھی اک طرح سے اقرار لگے

ہائے اس شخص کا اندازِ کرم بھی دیکھو

میرے پاس آئے تو خود اپنے سے بیزار لگے

جھک کے ملتے رہے ہم اہلِ زمانہ سے مگر

دو قدم پیچھے بھی رہتے ہوئے سردار لگے

وہ جو اک شخص نے چاہا مجھے اقبال متین

اس کے گھر جاؤں تو وہ در پئے آزار لگے

 

 

کبھی بادل کبھی اڑتے ہوئے آنچل مانگے

دل عجب شئے ہے کہ اشکوں میں بھی کاجل مانگے

تو اگر سامنے آ جائے تو نظریں جھک جائیں

تو نہیں ہو تو یہ دل تجھ کو مسلسل مانگے

بھری برسات میں صحرا کا بگولا ہوں میں

خشک صحرا میں محبت میری جل تھل مانگے

تو اگر ساتھ ہو میں ڈھونڈنے نکلوں خود کو

تو نہیں ہو تو مرا دل تجھے پل پل مانگے

دار پر چڑھ کے سچائی پہ لرزتا ہوا دل

کیا قیامت ہے کہ ہر جھوٹ پہ مقتل مانگے

سادگی اس کی کبھی نظروں میں کھب جائے متین

اس کا پیراہنِ رنگیں کبھی جھل جھل مانگے

 

 

 

تم کہاں جا کے مری زحمتِ جاں کو سمجھو

مجھ میں بس جاؤ، مرے دردِ نہاں کو سمجھو

ایسی افتاد تھی لب سی لیے ہم نے لیکن

ہم پہ جو بیت گئی اس کی زباں کو سمجھو

ہم کو خوش آیا ہے یوں جاں کا زیاں اب کے برس

چپ رہو تم بھی اگر جاں کے زیاں کو سمجھو

یہ بھی سچ ہے کہ بتوں میں بھی دھڑکتے دل ہیں

تم حرم میں بھی کبھی حسنِ بتاں کو سمجھو

شکر کرنا ہے تو پھر پھوٹ کے رولو اک شب

خشک آنکھوں کی مگر طرزِ فغاں کو سمجھو

مجھ سے کل رات کوئی نیند میں کہتا تھا متین

خواب دیکھو نہ کبھی اس کے زیاں کو سمجھو

 

 

 

 

اب آنسوؤں کا نہ پلکوں سے واسطہ رکھنا

مرے خطوط کے پرزے بھی اب اٹھا رکھنا

میں آ سکوں کہ نہیں آ سکوں خدا جانے

تم اپنے گھر کا دریچہ مگر کھلا رکھنا

تمہیں امید ہے جب شب کی شب وہ آئے گا

تو پھر ہوا میں بھی دہلیز پر دیا رکھنا

وہ ایک شخص جو ہر حسن میں نظر آئے

اس ایک شخص کو دل میں بہت چھپا رکھنا

میں تیرے رستے کی مٹی ہوں بچھ کے بکھروں گا

تو خاکِ راہ کو پلکوں پہ بھی سجا رکھنا

چھپا کے اپنے کو میرے سخن کے پردے میں

گلا رندھے بھی تو خود کو ضرور لار کھنا

ملے کہیں جو وہ آشفتہ سر متین اقبال

تو اس کو روکنا ، پچکارنا بٹھا رکھنا

 

 

 

ہم برے ہیں بھی تو ہر دل میں اتر جاتے ہیں

دشمنوں کو بھی دعا دے کے گزر جاتے ہیں

سب ہمارے ہیں ہمیں بھی کوئی اپنا سمجھے

کہہ نہیں سکتے مگر سوچ کے ڈر جاتے ہیں

اور کیا دو گے چلو زخم ہی سی لیں مل کر

آج کل اچھے بھلے لوگ بھی مر جاتے ہیں

اپنی چوکھٹ پہ ٹھٹک جاتے ہیں دستک کی طرح

اپنے آنگن میں بھی مانندِ سحر جاتے ہیں

جب کبھی وہ نہیں دیتا ہے ہمیں اذنِ سفر

لے کے ہم کاسۂ اوصافِ ہنر جاتے ہیں

دیکھنے والے تجھے دیکھ کے جی لیتے ہیں

چاہنے والے تجھے دیکھ کے مر جاتے ہیں

ہم کو اقبال متین اتنا بتاتے جانا

کب تری آنکھوں سے اشکوں کے شرر جاتے ہیں

 

 

 

کچھ نظر اور جھکا کر ملنا

مجھ کو پلکوں میں چھپا کر ملنا

شہر دل شہر خموشاں تو نہیں

پھر بھی تم پاؤں دبا کر ملنا

پیر اشکوں سے دھلا دوں گا میں

تم مرے گھر کبھی آ کر ملنا

نیند آنکھوں میں بھلی لگتی ہے

مجھ کو نیندوں میں بسا کر ملنا

مجھ کو آواز نہ دینا ہر گز

میری تنہائی پہ چھا کر ملنا

وہ جو چپ چاپ سا بیٹھا ہے وہاں

اس کی آنکھوں میں سما کر ملنا

ہاں وہی شخص ہے اقبال متین

آئینہ اس کو دکھا کر ملنا

 

 

 

ہوائیں تیز ہیں بادل نہ جانے کس جگہ برسے

بغیچہ میرا شاید آج بھی اک بوند کو ترسے

بھری بستی نے دیکھا ہے وہ آیا تو ادھر ہی تھا

مگر کچھ لوگ اس کو پوچھتے پھرتے تھے کس ڈر سے

وہ لڑکی چھپ کے ، آنچل سر پہ اوڑھے بولتی تھی کچھ

چھپا ئی عمر بھی تیری کہو میرے ستم گر سے

بھرم رکھوں میں اس کا بھی وہ جانِ شعر و نغمہ ہے

وہ سو پردوں سے نکلا ہے مجھے لے کر مرے گھر سے

وہ جب چاہے مرا سارا سراپا اوڑھ لیتا ہے

وہ جب چاہے کرن کی طرح اٹھ جاتا ہے بستر سے

کھڑا تھا میں جہاں ثابت قدم ، اس کی گلی تھی وہ

لہو بہتا تھا ٹخنے سے ،لگی تھی چوٹ پتھر سے

متین اقبال اشکوں کی زباں اس کو بھی سمجھا دیں

وہ اکثر ہنس کے ملتا ہے ہمارے دیدۂ تر سے

 

 

 

اپنے آنگن میں اپنی بچی کو سمیٹے بیٹھی ہے

اب میں تیرا کیا ہو تا ہوں تو میری کیا ہوتی ہے

کیسی سہانی چھب ہے جاناں پیارا مکھڑا شیشے میں

مجھ کو چھپتا دیکھ کے تو بھی حیرت ہے ہنس لیتی ہے

اک دن اس نے ہاتھ پہ میرے ہاتھ رکھا اور رونے لگی

میں تو مرد جہاں دیدہ ہوں ، وہ بھی کیسی لڑکی ہے

اس ندیا کے سوکھے تٹ سے اس کا بھلا کیا رشتہ ہے

اس منڈوے کی بیل نہیں وہ پھر بھی چنبیلی کھلتی ہے

میں نے کب کا اس کی گلی میں آنا جانا چھوڑ دیا

دل میں چھپ کر یاد تو اس کی میرے غم سے ملتی ہے

وہ دیکھو وہ آنے والی کوئی ہو اقبال متین

میں جانوں وہ تو نہیں لیکن کچھ تو تیری جیسی ہے

 

 

 

بونے اپنا رستہ ناپیں کندھوں پر بستر رکھ کر

رات ڈھلے وہ سو جائیں گے ، پیٹ میں اپنے سر رکھ کر

ساتھ اگر رہنا ہے تم کو اتنی بات سمجھ رکھو

روزن روزن چہرے ہیں یاں ، پچھتا ؤ گے گھر رکھ کر

تجھ سے روٹھ کے جانے والے جان ہی اپنی ہار گئے

میں بھی رستہ دیکھ رہا ہوں رستے میں پتھر رکھ کر

ندی کنارے پر بکھرے ہیں پھر بھی شکاری تاک میں ہیں

ایک پرندہ سوچ میں ہے کچھ ، چونچ میں اپنی پر رکھ کر

اب کے برس برسات کا پانی جل تھل کر کے سوکھ گیا

خون کے دھبے دھو لیتے تم دامن اپنا تر رکھ کر

اس کی گلی کا چپہ چپہ چاپ مری پہچانے ہے

میں تو خود کو ڈھونڈ رہا تھا سامنے اس کا در رکھ کر

تم بھی اٹھو اقبال متین اب آئینے سب ٹوٹ گئے

پاگل دل کا کیا کرنا ہے سامنے یہ منظر رکھ کر

 

 

 

کس کو آتا دیکھ رہا ہوں ، کون یہاں اب اپنا تھا

یہ رستہ سنسان ہے کب سے میں ہی روز بھٹکتا تھا

آتی جاتی رُت کے سائے اس کو ڈھونڈنے نکلے ہیں

وہ خود ہی تو ہر موسم میں موسم بن کر پھرتا تھا

میرا بغیچہ پو پھٹنے پر میرا رستہ تکتا ہے

میں سودائی بادِ صبا کا پتی پتی چنتا تھا

اتنا تم بھی سوچو لوگو وہ کب میرا میت ہوا !

میں ہی اس کی دیواروں سے مٹی بن کر جھڑتا تھا

میں تو یارو قطرہ قطرہ جی لیتا ہوں جھر جھر کر

وہ بھی میرے اندر رہ کر ہریالی پر چلتا تھا

میں تو اتنا جان کے چپ تھا ، میں اس کا رکھوالا ہوں

وہ بھی ایک جھروکا بن کر ہر رہرو کو تکتا تھا

جھوٹ ہے یہ اقبال متین اب تم سے اس کو انس نہیں

تم جب رستے میں ملتے تھے ، وہ بھی خود سے ملتا تھا

 

 

 

 

کوئی سنے نہ سنے میں ہی اپنی کر دیکھوں

تری گلی کو چلوں اور تیرا گھر دیکھوں

 

بہت قریب سے دیکھا تجھے مگر جاناں

اب اپنے جذبِ دروں کو بھی کارگر دیکھوں

 

شعورِ درد یہی ہے تو زندگی معلوم

دعا کروں بھی تو کس بات میں اثر دیکھوں

 

میں اپنے زعمِ انا میں بہت بلند اڑا

بلندیوں سے ذرا کھائی میں اتر دیکھوں

 

صداقتیں تو بہت سی ہیں سب کو دکھلانے

فرازِ دار تک آؤں تو اپنا سر دیکھوں

 

مہک مہک مجھے زخمِ جگر کی یاد آئے

بغیچہ گھر کا مہکتا ہوا اگر دیکھوں

 

کنارِ آب پرندوں کے جھنڈ دیکھے ہیں

کنارِ آب ہی بکھرے یہ بال و پر دیکھوں

 

میں تم کو لے کے کہاں تک چلوں متین اقبال

جو رک سکوں تو میں تم کو بھی اک نظر دیکھوں

 

 

 

 

پسِ پندار کوئی شعلہ نم روتا ہے

میں نے خود جس کو تراشا وہ صنم روتا ہے

 

اب تو کم کم ہی تری یاد کبھی آتی ہے

اب تو میرا دلِ ناشاد بھی کم روتا ہے

 

ضبط گر یہ ہے نوازش تری ، لیکن جاناں

میں ہنسا لیتا ہوں جب خود کو تو غم روتا ہے

 

میں تو سائل ہوں ترے در پہ ٹھہر جاؤں گا

کیسے مرے بیٹوں کو دیواروں کا خم روتا ہے

 

میں نے جی لینے کا کیا ڈھنگ نکالا دیکھو

میں نہیں روتا ہوں جب میرا قلم روتا ہے

 

تار چھیڑوں بھی تو جھنکار سے محروم رہوں

اور جو مضراب سے چھولوں بھی تو سم روتا ہے

 

ظلم کی جب کوئی تاریخ نہیں لکھ سکتا

خون ہر سانس سے بہتا ہے ، ستم روتا ہے

 

فن کو فن کار کا انعام سمجھنے والوں

نقشِ مانی پہ بھی ژولیدہ رقم روتا ہے

 

کچھ مرے دیدہ پر آب پہ موقوف نہیں

ان کے ہاتھوں گلِ شاداب کا نم روتا ہے

 

وہی حضرت تو بنے پھرتے ہیں اقبال متین

جن کے ترانے پہ خود ان کا بھرم روتا ہے

 

 

 

میں دور دور رہا بھی تو تیرے پاس رہا

مگر یہ سچ ہے کہ جاناں بہت اداس رہا

نہ بچ کے جا سکا تیرے بدن کی خوش بو سے

ہوا کا جھونکا بھی آشفتہ حواس رہا

ملی نہ فرصتِ یک لمحہ اس کو اپنے سے

نظر شناس رہا وہ ، نہ غم شناس رہا

بہت عزیز تھی مجھ کو بھی اپنی برنائی

مگر وہ دردِ تہہ جام بے سپاس رہا

مگر وہ زعم ترے سامنے پنپ نہ سکا

مگر یہ رنج انا کی مری اساس رہا

یہ التفات بھی کیا کم ہے اک زمانے میں

تو ننگے پاؤں رہا میں بھی سبز گھاس رہا

متین روزنِ دل سے ذرا سا جھانک تو لے

وہ تو ہی ہے جو کسی وقت اپنا داس رہا

 

 

وعدہ کر کے نہ آنے والا آج بھی اب تک آیا نہیں

اس کو دیکھو آس کا مارا پگلا جی، گھبرا یا نہیں

بات ہماری جھوٹ لگے تو اس کی گلی میں جا کر پوچھ

شام ہوئی گھر سے نکلا تھا، بھور بھئی گھر آیا نہیں

کاجل گالوں پر پھیلا ہے ، پیشانی بھی گیلی ہے

صبح کا چاند او ر شام کا سورج کون گہن گہنایا نہیں

ندی کنارے بھیڑ لگی ہے ، بجرا کوئی کھیتا ہے

ڈوبنے والا ڈوب رہا ہے تو دیکھنے کو آیا نہیں

کون اسے چھپ چھپ کر دیکھے کون اسے دل میں رکھ لے

وہ تو ایسا ہر جائی ہے آج تلک پچھتا یا نہیں

بستی بستی آگ لگے ہے ، مسجد مندر سب جلے

ایک زمین پر ایک گگن ہے ، اوم نہیں خدایا نہیں

اب یوں چپ چپ رہنا چھوڑو ہمری سنو اقبال متین

کوئی کسی کا میت نہیں یاں ، اپنا نہیں جو، پرایا نہیں

 

 

 

ملے ہیں خود تو اب تم کو بھول جائیں گے

زمین تنگ نہیں ہے تمہیں بتائیں گے

 

ابھی تو مردہ پرندے کو پھینک آؤ کہیں

جو نوچ رکھے ہیں وہ پر بھی کل اُڑائیں گے

 

تم ان کی گرمیِ گفتار دیکھتے رہنا

ہم اپنے حسن سخن کے بھی گل کھلائیں گے

 

ابھی تو دوست حنائی گلو تک آیا ہے

میں ساز چھیڑ کے رو دوں تو گنگنائیں گے

 

وہ رہ گیا ہے کہاں ساتھ آنے والا تھا

ہم آپی آپ چلے ہیں تو لوٹ آئیں گے

 

ابھی تو روزن در سے گلی میں جھانکا ہے

کھلے جو در تو نظر بھی نہیں اٹھائیں گے

 

غرور حسن سے میری انا تو ٹکرائے

رموز عشق وہ پھر بھی سمجھ نہ پائیں گے

 

اب اور کچھ نہ سہی ، سانس ہی پہ سب کچھ ہے

ہم اس وجود کی آلایشیں اٹھائیں گے

 

یہ سچ ہے اب بھی کلیجے کی کور کٹتی ہے

یہ سچ نہیں ہے وہ ہر سانس میں سمائیں گے

 

شعور و حزن و قلم پھر ہنر کی ناقدری

ہمارے ساتھ ہی رہتے ہیں ساتھ جائیں گے

 

متین شاخ پہ اک پھول بھی نہیں ہے ابھی

بہار آئے تو دامن بھی سی کے لائیں گے

 

 

اٹھی تھی میری طرف ، جھک پڑی تو روئی ہے

وہ اک نظر ہی مرے دل کے پاس سوئی ہے

عجیب طرح کے منظر دکھا گیا مجھ کو

مرے بغیچے میں تیرے سوا بھی کوئی ہے

یہ جھٹ پٹے کا سماں دھل کے یوں نکھر آیا

زمیں کے درد کو جیسے حیات روئی ہے

سیاہیوں میں دمک سی ہے تیرے چہرے کی

یہ رات تو نے مرے آنسوؤں سے دھوئی ہے

مجھے تو دیکھ عقوبت کو دیکھنے والے

وہی ہوں جس نے تری کائنات کھوئی ہے

ثمر نہ دے گا تو مجھ کو اتار ہی لے گا

وہ جس نے فصل کٹا کر صلیب بوئی ہے

متین عشق کی اجرت ہی مانگ لی ہوتی

یہ زندگی تو ہر اک گام پر فروعی ہے

 

 

 

 

ہم میں ہی ایسی خامی ہے کچھ ، اک اک کر کے ہر گھر چھوٹا

یا ہم سچ کے آدھاری ہیں ، یا جیون کا پل پل جھوٹا

 

سب اچھے ہیں ہم نے سب کو آنکھوں میں دل میں رکھا

ایک ہوا کا جھونکا آیا آنکھیں بھیگی دل بھی ٹوٹا

 

ہنستے بولتے اٹھ جانے کا دکھ تھا چاہنے والوں کو

اپنا بھی تھا طور طریقہ آنسو بن کر بگیا لوٹا

 

سوکھی سوکھی اس دھرتی پر کتنے ارماں بو لیتے ہو

یاد رکھو بھی غم ہی ملے گا پھوٹے گا جب بوٹا بوٹا

 

چلتے چلتے تھک کر گولی خشک زباں کے نیچے رکھنا

یہ تو نہیں جینے کا سلیقہ کون رکے گا گر دم ٹوٹا

 

جس دریا کے تٹ پر بیٹھا کوئی موجیں گنتا تھا

آج سنا واں ڈوب مرا وہ بھیڑ کہے تھی، چشمہ چھوٹا

 

ایک پرندہ شاخ سے چمٹا مرا ہوا ہے گرا نہیں ہے

یہ بھی شاید ریت ہے کوئی ، شاخ ہری ہے پر نہ پکھوٹا

 

صاحب جی، اقبال متینؔ اب کتنے رستے ناپو گے تم

دیکھو جی اب بیٹھ رہو بھی ، یہ چھوٹا تھا یا وہ چھوٹا

 

 

 

 

 

ایک کچی کلی چٹکی میں مسل کر آئے

وہ بغیچے میں مرے ہاتھوں کو مل کر آئے

ساری محفل میں سبھی تیرے ہیں لیکن جاناں

بات جب ہے کہ تو گھر تک مرے چل کر آئے

دم دلاسہ تو سبھی دیتے ہیں دینے والے

کوئی سچ ہے تو کسی دل سے نکل کر آئے

میں تو مٹی کی طرح جھڑتا ہوں اپنے گھر میں

جو بھی آئے در و دیوار میں ڈھل کر آئے

قتل ہو کر بھی تو رسوائے زمانہ ہیں ہم

سرخ رو ہوکے جو آئے وہ سنبھل کر آئے

خوف کے دھبے ہیں دھل جائیں گے دھلتے دھلتے

اس سے کہہ دو کہ وہ پوشاک بدل کر آئے

ہم بھی رو رو کے ابھی سوئے تھے اقبال متین

وہ بھی کمرے سے دبے پاؤں نکل کر آئے

 

 

بے شجر دھوپ میں تپتا ہوا آنگن ٹھہرا

آج تو میرا قلم ہی مرا دشمن ٹھہرا

کون آیا تھا گئی رات کے سناٹوں میں

صبح دم میرا بغیچہ بھی مجھے بن ٹھہرا

ہائے کس چہرے کی میں بات کروں گا تجھ سے

مجھ کو جو شخص ملا میرا ہی درپن ٹھہرا

سب مرے چاہنے والے مجھے رو رو بیٹھے

میرا فن ان کے لیے ذات کا قدغن ٹھہرا

تیرے کھو جانے سے کیا چیز نہ کھوئی ہم نے

زندگی ساتھ رہی بھی تو نہ تن من ٹھہرا

میں کہاں جا کے تری رحمتِ پرساں دیکھوں

جب مرا شیشۂ دل مجھ کو ہی آہن ٹھہرا

کس نے اقبال متیں تجھ کو بھی اپنا سمجھا

ہر اندھیرا تو ترے نام سے روشن ٹھہرا

 

 

 

 

 

 

 

میرے اشکوں کی مری آہوں کی بن آئی ہے

یہ تری فوج ہے جو چھوڑ کے رن آئی ہے

 

بات کرنی ہمیں آئی نہیں جب تو آیا

اور اب پلکوں پہ سوغاتِ سخن آئی ہے

 

جب کبھی آنکھوں نے پڑھ لی ہے حنا کی تحریر

مجھ کو لینے تری خوشبوۓ بدن آئی ہے

 

میں تو ہر سوچ کو لفظوں میں اٹھا لایا ہوں

کون وہ ایسی کٹھن شئے مرے فن آئی ہے

 

رنگِ تصویر بتاں جب کھلا گلشن گلشن

اپنی شادابی جاں ، سوختہ تن آئی ہے

 

لوگ کہتے تھے مری جان پہ بن آئے گی

لوگ کہتے ہیں مری جان پہ بن آئی ہے

 

وہ تو تک تک کے تجھے جان گنوا بیٹھا ہے

اب ترے چہرے پہ یہ کیسی پھبن آئی ہے

 

مجھ کو اقبال متین زورِ تموّج ہے عبث

باڑھ آئی ہے تو پھرتا بہ دہن آئی ہے

 

 

 

 

 

 

پو پھٹے میرے بغیچے کا عجب منظر ہے

کوئی پھولوں میں بسائے ہوئے چشمِ تر ہے

یوں چلا جاتا ہے رستہ ہوں میں جیسے اس کا

اس طرح آتا ہے دل جیسے اسی کا گھر ہے

ٹوکتا رہتا ہے ہر ایک قدم پر مجھ کو

وہ مرا دوست نہیں ہے جو مرے اندر ہے

کون دیکھے مری پہچان یہی ’’لفظ،، تو ہیں

دوست دہلیز تک آ کر بھی نہ سمجھے در ہے

اور کیا ہو گا نگاہوں کی بلندی سے پرے

ہم تو یہ سوچ کے چپ ہیں یہیں خیر و شر ہے

ہائے ! کیا بات لیے بیٹھے ہو اقبال متین

وہ بڑے لوگ ہیں بے چاروں کے دل میں سر ہے

 

 

 

سمٹ رہی تھی وہاں رات پیکرِ جاں میں

عجیب ہو کا سماں تھا دیارِ جاناں میں

وہ ٹکٹکی ہی نہ تھی لفظ جس سے بول اٹھے

کوئی صدا ہی نہ تھی اب تو دشتِ امکاں میں

کہاں گیا وہ ترے ساتھ کا تعلقِ جاں

کہ سب اندھیرے تھے پنہاں جبینِ تاباں میں

حیاتِ زار ہوئی دیکھتے رہے ہم بھی

کہ کوئی بھی تو پشیماں نہ تھا دل و جاں میں

میں تیرا راز تھا تیرے وجود سے پہلے

تری تو چھب بھی نہ تھی جب دیارِ خوباں میں

مرض ضرور ہے آشفتگی نے جان لیا

مگر امید نہیں رہ گئی تھی درماں میں

وہ طے شدہ تھا جسے پوچھنے چلے تھے متین

نہیں نہیں میں ملا کچھ نہ اس کی ہاں ہاں میں

 

 

 

ذہن و دل بے سرو ساماں تھے جدھر سے گزرے

آگ ہی آگ تھی جب دیدۂ تر سے گزرے

زندگی تجھ سے گلہ بانٹ ہی لیتے غم جاں

خس و خاشاک لیے برق و شر ر سے گزرے

میں نے سب دے کے بھی کیا رکھ لیا اللہ جانے

میرے بیٹے میرا غم پوچھتے در سے گزرے

مجھ کو کچھ اور نہیں چاہیے میرے مولا

سائباں ایسا تو ہو دھوپ نہ سر سے گزرے

ہاۓ وہ شخص جو بیٹھا رہے دروازے پر

ہاۓ وہ شخص جو سو بار ادھر سے گزرے

ایسی کیا بات تھی خود کو بھی نہ پہچان سکے

اپنا گھر ڈھونڈتے ہم اپنے ہی گھر سے گزرے

کوئی آیا نہ گیا ، اٹھو بھی اقبال متین

ایک سایہ تو کہیں راہ گزر سے گزرے

 

 

 

 

٭

دل کے ہر درد کو چپ چاپ ہی سہتے رہنا

اور ندیا کی طرح خواب میں بہتے رہنا

 

اس کی کیا بات ہے ، آئے کہ نہیں آئے وہ

وہ ضرور آئے گا ہر ایک سے کہتے رہنا

 

وہ صبا ہے تو بغیچے سے گزر جائے گا

تم جہاں رہتے ہو بس تم وہیں رہتے رہنے

٭

 

 

 

 

 

٭

اپنے ہی حسن کی وہ اس لیے شیدائی تھی

اس کی آنکھوں میں مری آنکھوں کی بینائی تھی

 

ڈھونڈتی پھرتی تھی غنچوں میں گلوں میں مجھ کو

پو پھٹے بادِ صبا باغ میں سودائی تھی

 

دور ٹھیری تھی کوئی رات کی تاریکی میں

میں نے پہچان لیا شام کی تنہائی تھی

٭

 

 

 

 

 

 

 

تشکر: شارپ کمپیوٹرس
پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید