FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

کتاب: ایمان کے متعلق

 

باب : ایمان کا پہلا رکن لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے۔

1: ابو جمرہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا ابن عباسؓ  کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباسؓ کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی اور گھڑے کے نبیذ کے بارہ میں پوچھا۔ سیدنا ابن عباسؓ نے کہا کہ عبدالقیس کے وفد رسول اللہﷺ کے پاس آئے تو آپﷺ نے پوچھا کہ یہ وفد کون ہیں؟ یا کس قوم کے لوگ ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ربیعہ کے لوگ ہیں آپﷺ نے فرمایا کہ مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمندہ ہوئے (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کے لئے آئے ، اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے ، لونڈی غلام بنائے جاتے ، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے ) ان لوگوں نے کہا یا رسول اللہﷺ! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپﷺ کے درمیان میں کافروں کا قبیلہ مضر ہے تو ہم نہیں آ سکتے آپﷺ تک، مگر حرمت والے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلائیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپﷺ نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا۔ ان کو حکم کیا اللہ وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ ایمان کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بیشک محمدﷺ اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں، اب ایک پانچویں بات اور ہے ) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصہ کا ادا کرنا (یعنی کفار کی سپاہ یا مسلمانوں کے خلاف لڑنے والوں سے جو مال حاصل ہو مال غنیمت کہلاتا ہے ) اور منع فرمایا ان کو کدو کے برتن، سبز گھڑے اور روغنی برتن سے۔ (شعبہ نے ) کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا مقیر سے۔ (یعنی لکڑی سے بنائے ہوئے برتن ہیں)۔ اور فرمایا کہ اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے مَنْ وَّرَآئَکُمْ کہا بدلے مِنْ وَرَآئِکُمْ کے۔ (ان دونوں کا مطلب ایک ہی ہے )۔ اور سیدنا ابن معاذؓ نے اپنی روایت میںﷺ پنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہﷺ نے عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبد اللہ بن عوف تھا) فرمایا کہ تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ، ایک تو عقل مندی، دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا جلدی نہ کرنا۔

2: سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک دن لوگوں میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا اور بولا یا رسول اللہﷺ! ایمان کسے کہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے دل سے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوؑ پر اور اس سے ملنے پر اور اس کے پیغمبروں پر اور یقین کرے قیامت میں زندہ ہونے پر۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! اسلام کیا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اسلام یہ ہے کہ تو اللہ جل جلالہ کو پوجے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے اور قائم کرے تو فرض نماز کو اور دے تو زکوٰۃ کو جس قدر فرض ہے اور روزے رکھے رمضان کے۔ پھر وہ شخص بولا کہ یا رسول اللہﷺ! احسان کسے کہتے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو عبادت کرے اللہ کی جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اگر تو اس کو نہیں دیکھتا (یعنی توجہ کا یہ درجہ نہ ہو سکے )تو اتنا تو ہو کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا یا رسول اللہﷺ! قیامت کب ہو گی؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جس سے پوچھتے ہو قیامت کو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن اس کی نشانیاں میں تجھ سے بیان کرتا ہوں کہ جب لونڈی اپنے مالک کو جنے تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب ننگے بدن ننگے پاؤں پھرنے والے لوگ سردار بنیں تو یہ قیامت کی نشانی ہے اور جب بکریاں یا بھیڑیں چرانے والے بڑی بڑی عمارتیں بنائیں تو یہ بھی قیامت کی نشانی ہے۔ قیامت ان پانچ چیزوں میں سے ہے جن کو کوئی نہیں جانتا سوا اللہ تعالیٰ کے۔ پھر رسول اللہﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ ”اللہ ہی جانتا ہے قیامت کو اور وہی اتارتا ہے پانی کو اور جانتا ہے جو کچھ ماں کے رحم میں ہے (یعنی مولود نیک ہے یا بد، رزق کتنا ہے ، عمر کتنی ہے وغیرہ) اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کرے گا اور کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس ملک میں مرے گا۔ اللہ ہی جاننے والا اور خبردار ہے “۔ (لقمان: 34) پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا گیا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اس کو پھر واپس لے آؤ۔ لوگ اس کو لینے چلے لیکن وہاں کچھ نہ پایا (یعنی اس شخص کا نشان بھی نہ ملا) تب آپﷺ نے فرمایا کہ وہ جبرئیلؑ  تھے ، تم کو دین کی باتیں سکھلانے آئے تھے۔

3: سعید بن مسیب (جو مشہور تابعین میں سے ہیں)اپنے والد (سیدنا مسیب صبن حزن بن عمرو بن عابد بن عمران بن مخزوم قرشی مخزومی، جو کہ صحابی ہیں) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ جب ابو طالب بن عبدالمطلب (رسول اللہﷺ کے حقیقی چچا اور مربی) مرنے لگے تو رسول اللہﷺ ان کے پاس تشریف لائے اور وہاں ابو جہل (عمرو بن ہشام) اور عبد اللہ بن ابی امیہ بن مغیرہ کو بیٹھا دیکھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے چچا تم ایک کلمہ لا الٰہ الا للہ کہہ دو، میں اللہ کے پاس اس کا گواہ رہوں گا تمہارے لئے (یعنی اللہ عزوجل سے قیامت کے روز عرض کروں گا کہ ابو طالب موحد تھے اور ان کو جہنم سے نجات ہونی چاہیئے انہوں نے آخر وقت میں کلمہ توحید کا اقرار کیا تھا)۔ ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ بولے کہ اے ابو طالب! عبدالمطلب کا دین چھوڑتے ہو؟ اور رسول اللہﷺ برابر یہی بات ان سے کہتے رہے (یعنی کلمہ توحید پڑھنے کے لئے اور ادھر ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ اپنی بات بکتے رہے ) یہاں تک کہ ابو طالب نے اخیر بات جو کی وہ یہ تھی کہ میں عبدالمطلب کے دین پر ہوں اور انکار کیا لا الٰہ الا اللہ کہنے سے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم میں تمہارے لئے دعا کرونگا (بخشش کی) جب تک کہ منع نہ ہو۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پیغمبر اور دوسرے مسلمانوں کو جائز نہیں کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی ہوں، اس امر کے ظاہر ہو جانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں“ (التوبۃ: 113) اور اللہ تعالیٰ نے ابو طالب کے بارے میں یہ آیت اتاری، رسول اللہﷺ سے فرمایا کہ ”آپﷺ جسے چاہیں ہدایت نہیں کر سکتے بلکہ اللہ تعالیٰ ہی جسے چاہے ہدایت کرتا ہے۔ ہدایت والوں سے وہی خوب آگاہ ہے “ (القصص:56)۔

باب : مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کا اقرار کر لیں۔

4: سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے وفات پائی اور سیدنا ابو بکر صدیقؓ خلیفہ ہوئے اور عرب کے لوگ جو کافر ہونے تھے وہ کافر ہو گئے تو سیدنا عمرؓ نے سیدنا ابو بکر صدیقؓ سے کہا کہ تم ان لوگوں سے کیسے لڑو گے حالانکہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ”مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ لا الٰہ الا اللہ کہیں۔ پھر جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا اس نے مجھ سے اپنے مال اور جان کو بچا لیا مگر کسی حق کے بدلے (یعنی کسی قصور کے بدلے جیسے زنا کرے یا خون کرے تو پکڑا جائے گا) پھر اس کا حساب اللہ پر ہے “۔(اگر اس کے دل میں کفر ہوا اور ظاہر میں ڈر کے مارے مسلمان ہو گیا ہو تو قیامت میں اللہ اس سے حساب لے گا۔ دنیا ظاہر پر ہے ، دنیا میں اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو گا)۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے کہا اللہ کی قسم میں تو لڑوں گا اس شخص سے جو فرق کرے نماز اور زکوٰۃ میں اس لئے کہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ اللہ کی قسم اگر وہ ایک عقال روکیں گے جو دیا کرتے تھے رسول اللہﷺ کو تو میں لڑوں گا ان سے اس کے نہ دینے پر۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا اللہ کی قسم پھر وہ کچھ نہ تھا مگر میں نے یقین کیا کہ اللہ جل جلالہ نے سیدنا ابو بکرؓ  کا سینہ کھول دیا ہے لڑائی کیلئے۔ (یعنی ان کے دل میں یہ بات ڈال دی) تب میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔

5: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم ہوا ہے لوگوں سے لڑنے کا یہاں تک کہ وہ گواہی دیں اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کے اور بیشک محمدﷺ اس کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں پھر جب یہ کریں تو انہوں نے مجھ سے اپنی جانوں اور مالوں کو بچا لیا مگر حق کے بدلے اور ان کا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔

باب : جس نے کافر کو لا الٰہ الا اللہ کہنے کے بعد قتل کیا۔

6: سیدنا مقداد بن اسودؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہﷺ! اگر میں ایک کافر سے بھڑوں وہ مجھ سے لڑے اور میرا ایک ہاتھ تلوار سے کاٹ ڈالے پھر مجھ سے بچ کر ایک درخت کی آڑ لے لے اور کہنے لگے کہ میں تابع ہو گیا اللہ کا تو کیا میں اس کو قتل کر دوں جب وہ یہ بات کہہ چکے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو مت قتل کر۔ میں نے کہا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! اس نے میرا ہاتھ کاٹ ڈالا پھر ایسا کہنے لگا تو کیا میں اس کو قتل کروں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کو قتل مت کر۔ (اگرچہ تجھ کو اس سے صدمہ پہنچا اور زخم لگا) اگر تو اس کو قتل کرے گا تو اس کا حال تیرا سا ہو گا قتل سے پہلے اور تیرا حال اس کا سا ہو گا جب تک اس نے یہ کلمہ نہیں کہا تھا۔

7: سیدنا اسامہ بن زیدؓ  کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے ہمیں ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم صبح کو حرقات سے لڑے جو جہنیہ میں سے ہے۔ پھر میں نے ایک شخص کو پایا، اس نے لا الٰہ الا لالہ کہا میں نے برچھی سے اس کو مار دیا۔ اس کے بعد میرے دل میں وہم ہوا (کہ لا الٰہ الا اللہ کہنے پر مارنا درست نہ تھا) میں نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا اس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور تو نے اس کو مار ڈالا؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس نے ہتھیار سے ڈر کر کہا تھا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا تاکہ تجھے معلوم ہوتا کہ اس کے دل نے یہ کلمہ کہا تھا یا نہیں؟ (مطلب یہ ہے کہ دل کا حال تجھے کہاں سے معلوم ہوا؟) پھر آپﷺ بار بار یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے آرزو کی کہ کاش میں اسی دن مسلمان ہوا ہوتا (تو اسلام لانے کے بعد ایسے گناہ میں مبتلا نہ ہوتا کیونکہ اسلام لانے سے کفر کے اگلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  نے کہا کہ اللہ کی قسم میں کسی مسلمان کو نہ ماروں گا جب تک اس کو ذوالبطین یعنی اسامہ نہ مارے۔ ایک شخص بولا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا ہے : ”اور تم ان سے اس حد تک لڑو کہ ان میں فساد عقیدہ (شرک، بت پرستی) نہ رہے اور دین اللہ ہی کا ہو جائے “؟ تو سیدنا سعدؓ  نے کہا کہ ہم تو (کافروں سے ) اس لئے لڑے کہ فساد نہ ہو اور تو اور تیرے ساتھی اس لئے لڑتے ہیں کہ فساد ہو۔

8: صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ سیدنا جندب بن عبد اللہ بجلیؓ  نے عسعس بن سلامہ کو کہلا بھیجا جب سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ  کا فتنہ ہوا کہ تم اپنے چند بھائیوں کو اکٹھا کرو تاکہ میں ان سے باتیں کروں۔ عسعس نے لوگوں کو کہلا بھیجا۔ وہ اکٹھے ہوئے تو سیدنا جندبؓ  آئے ، ایک زرد برنس اوڑھے ہوئے تھے (بُرنس وہ ٹوپی ہے جسے لوگ شروع زمانہ اسلام میں پہنتے تھے ) انہوں نے کہا کہ تم باتیں کرو جو کرتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا جندبؓ  کی باری آئی (یعنی ان کو بات ضرور کرنآپڑی) تو انہوں نے برنس اپنے سر سے ہٹا دیا اور کہا کہ میں تمہارے پاس صرف اس ارادے سے آیا ہوں کہ تم سے تمہارے پیغمبر کی حدیث بیان کروں۔ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کا ایک لشکر مشرکوں کی ایک قوم پر بھیجا اور وہ دونوں ملے (یعنی آمنا سامنا ہوا میدانِ جنگ میں) تو مشرکوں میں ایک شخص تھا، وہ جس مسلمان پر چاہتا اس پر حملہ کرتا اور مار لیتا۔ آخر ایک مسلمان نے اس کو غفلت (کی حالت میں) دیکھا۔ اور لوگوں نے ہم سے کہا (کہ) وہ مسلمان سیدنا اسامہ بن زیدؓ  تھے۔ پھر جب انہوں نے تلوار اس پر سیدھی کی تو اس نے کہا لا الٰہ الا اللہ لیکن انہوں نے اسے مار ڈالا اس کے بعد قاصد خوشخبری لے کر رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔ آپﷺ نے اس سے حال پوچھا۔ اس نے سب حال بیان کیا یہاں تک کہ اس شخص کا بھی حال کہا تو آپﷺ نے ان کو بلایا اور پوچھا کہ تم نے کیوں اس کو مارا؟ سیدنا اسامہؓ  نے کہا یا رسول اللہﷺ! اس نے مسلمانوں کو بہت تکلیف دی، فلاں اور فلاں کو مارا اور کئی آدمیوں کا نام لیا۔ پھر میں اس پر غالب ہوا ، جب اس نے تلوار کو دیکھا تو لا الٰہ الا اللہ کہنے لگا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا تم نے اس کو قتل کر دیا؟ انہوں نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! میرے لئے بخشش کی دعا کیجئے ! آپﷺ نے فرمایا تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟ پھر آپﷺ نے اس سے زیادہ کچھ نہ کہا اور یہی کہتے رہے کہ تم کیا جواب دو گے لا الٰہ الا اللہ کا جب وہ قیامت کے دن آئے گا؟

باب : جو شخص اللہ تعالی کو ایمان کے ساتھ ملا اور اس کو کسی قسم کا شک نہیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔

9: سیدنا عثمانؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص مر جائے اور اس کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ جل جلالہ کے تو وہ جنت میں جائے گا۔

10: سیدنا ابو ہریرہؓ  (یا سیدنا ابو سعیدؓ  ) سے روایت ہے (یہ اعمشؓ  کو، جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں، شک ہے ) کہ جب غزوہ تبوک کا وقت آیا (تبوک ملک شام میں ایک مقام کا نام ہے ) تو لوگوں کو سخت بھوک لگی۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! کاش آپ ہمیں اجازت دیتے تو ہم اپنے اونٹوں کو، جن پر پانی لاتے ہیں ذبح کرتے ، گوشت کھاتے اور چربی کا تیل بناتے۔ آپﷺ نے فرمایا : اچھا کر لو۔ اتنے میں سیدنا عمرؓ  آئے اور انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر ایسا کریں گے تو سواریاں کم ہو جائیں گی (اس کے بجائے ) آپﷺ تمام لوگوں کو بلا بھیجئے اور کہئے کہ اپنا اپنا بچا ہوا توشہ لے کر آئیں۔ پھر اللہ سے دعا کیجئے توشہ میں برکت دے ، شاید اس میں اللہ کوئی راستہ نکال دے (یعنی برکت اور بہتری عطا فرمائے ) رسول اللہﷺ نے فرمایا اچھا۔ پھر ایک دستر خوان منگوایا اور اس کو بچھا دیا اور سب کا بچا ہوا توشہ منگوایا۔ کوئی مٹھی بھر جوار لایا اور کوئی مٹھی بھر کھجور لایا۔ کوئی روٹی کا ٹکرا، یہاں تک کہ سب مل کر تھوڑا سا دستر خوان پر اکٹھا ہوا۔ پھر رسول اللہﷺ نے برکت کے لئے دعا کی۔ اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا کہ اپنے اپنے برتنوں میں توشہ بھرو، تو سبھی لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھر لئے یہاں تک کہ لشکر میں کوئی برتن نہ چھوڑا جس کو نہ بھرا ہو۔ پھر سب نے کھانا شروع کیا اور سیر ہو گئے۔ اس پر بھی کچھ بچ رہا تب رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں۔ جو شخص ان دونوں باتوں پر یقین کر کے اللہ سے ملے گا، وہ جنت سے محروم نہ ہو گا۔

11: صنابحی ، سیدنا عبادہ بن صامتؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ میں ان کے پاس گیا اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے۔ میں رونے لگا تو انہوں نے کہا کہ ٹھہرو، روتے کیوں ہو؟ اللہ کی قسم اگر میں گواہ بنایا جاؤں گا تو تیرے لئے (ایمان کی) گواہی دوں گا اور اگر میری سفارش کام آئے گی تو تیری سفارش کروں گا اور اگر مجھے طاقت ہو گی تو تجھ کو فائدہ دوں گا۔ پھر کہا اللہ کی قسم نہیں کوئی ایسی حدیث جو کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنی اور اس میں تمہاری بھلائی تھی مگر یہ کہ میں نے اسے تم سے بیان کر دیا البتہ ایک حدیث میں نے اب تک بیان نہیں کی، وہ آج بیان کرتا ہوں اس لئے کہ میری جان جانے کو ہے۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص گواہی دے (یعنی دل سے یقین کرے اور زبان سے اقرار) کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور بیشک محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں تو اللہ تعالیٰ اس پر جہنم کو حرام کر دے گا۔ (یعنی ہمیشہ جہنم میں رہنے کو یا جہنم کے اس طبقہ کو جس میں ہمیشہ رہنے والے کافر ڈالے جائیں گے )۔

12: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے گرد بیٹھے تھے اور ہمارے ساتھ اور آدمیوں میں سیدنا ابو بکرؓ  اور سیدنا عمرؓ  بھی تھے۔ اتنے میں رسول اللہﷺ اٹھے (اور باہر تشریف لے گئے ) پھر آپ نے ہمارے پاس آنے میں دیر لگائی تو ہم کو ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو اکیلا پا کر مار نہ ڈالیں۔ ہم گھبرا گئے اور اٹھ کھڑے ہوئے۔ سب سے پہلے میں گھبرایا تو میں آپ کو ڈھونڈھنے کے لئے نکلا اور بنی نجار کے باغ کے پاس پہنچا۔ (بنی نجار انصار کے قبیلوں میں سے ایک قبیلہ تھا) اس کے چاروں طرف دروازہ کو دیکھتا ہوا پھرا کہ دروازہ پاؤں تو اندر جاؤں (کیونکہ گمان ہوا کہ شاید رسول اللہﷺ اس کے اندر تشریف لے گئے ہوں) دروازہ ملا ہی نہیں۔ (شاید اس باغ میں دروازہ ہی نہ ہو گا یا اگر ہو گا تو سیدنا ابو ہریرہؓ  کو گھبراہٹ میں نظر نہ آیا ہو گا) دیکھا کہ باہر کنوئیں میں سے ایک نالی باغ کے اندر جاتی ہے ، میں لومڑی کی طرح سمٹ کر اس نالی کے اندر گھسا اور رسول اللہﷺ کے پاس پہنچا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا ابو ہریرہ ہے ؟ میں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپﷺ نے فرمایا کہ کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ہم لوگوں میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپﷺ باہر چلے آئے اور واپس آنے میں دیر لگائی تو ہمیں ڈر ہوا کہ کہیں دشمن آپ کو ہم سے جدا دیکھ کر نہ ستائیں، ہم گھبرا گئے اور سب سے پہلے میں گھبرا کر اٹھا اور اس باغ کے پاس آیا (دروازہ نہ ملا) تو اس طرح سمٹ کر گھس آیا جیسے لومڑی اپنے بدن کو سمیٹ کر گھس جاتی ہے اور سب لوگ میرے پیچھے آئے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! اور مجھے اپنے جوتے (نشانی کے لئے )دئیے (تاکہ لوگ میری بات کو سچ سمجھیں) اور فرمایا کہ میری یہ دونوں جوتیاں لے جا اور جو کوئی تجھے اس باغ کے پیچھے ملے اور وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور اس بات پر دل سے یقین رکھتا ہو تو اس کو یہ سنا کر خوش کر دے کہ اس کے لئے جنت ہے۔ (سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ میں جوتیاں لے کر چلا) تو سب سے پہلے میں سیدنا عمرؓ  سے ملا۔ انہوں نے پوچھا کہ اے ابو ھریرہ یہ جوتیاں کیسی ہیں؟ میں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کی جوتیاں ہیں۔ آپﷺ نے یہ دے کر مجھے بھیجا ہے کہ میں جس سے ملوں اور وہ لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہو، دل سے یقین کر کے ، تو اس کو جنت کی خوشخبری دوں۔ یہ سن کر سیدنا عمرؓ  نے ایک ہاتھ میری چھاتی کے بیچ میں مارا تو میں سرین کے بل گرا۔ پھر کہا کہ اے ابو ہریرہ! لوٹ جا۔ میں رسول اللہﷺ کے پاس لوٹ کر چلا گیا اور رونے والا ہی تھا کہ میرے ساتھ پیچھے سے سیدنا عمرؓ  بھی آپہنچے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں عمرؓ  سے ملا اور جو پیغام آپﷺ نے مجھے دیکر بھیجا تھآپہنچایا تو انہوں نے میری چھاتی کے بیچ میں ایسا مارا کہ میں سرین کے بل گر پڑا اور کہا کہ لوٹ جا۔ رسول اللہﷺ نے سیدنا عمرؓ  سے کہا کہ تو نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔ ابو ہریرہ کو آپ نے اپنی جوتیاں دے کر بھیجا تھا کہ جو شخص ملے اور وہ گواہی دیتا ہو لا الٰہ الا اللہ کی دل سے یقین رکھ کر تو اسے جنت کی خوشخبری دو؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہاں۔ سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ (آپ پر میرے ماں باپ قربان ہوں) ایسا نہ کیجئے کیونکہ میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس پر تکیہ کر بیٹھیں گے ، ان کو عمل کرنے دیجئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اچھا ان کو عمل کرنے دو۔

13: سیدنا معاذ بن جبلؓ  کہتے ہیں کہ میں سواری پر رسول اللہﷺ کے ہمراہ پیچھے بیٹھا ہوا تھا، میرے اور آپﷺ کے درمیان سوائے پالان کی پچھلی لکڑی کے کچھ نہ تھا۔ آپﷺ نے فرمایا اے معاذ بن جبل! میں نے عرض کیا کہ میں حاضر ہوں آپ کی خدمت میں اور آپ کا فرمانبردار ہوں یا رسول اللہﷺ! پھر آپﷺ تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یا رسول اللہﷺ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ پھر آپﷺ تھوڑی دیر چلے اس کے بعد فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یا رسول اللہﷺ! فرمانبردار آپ کی خدمت میں حاضر ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو جانتا ہے اللہ کا حق بندوں پر کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اسی کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ پھر آپ تھوڑی دیر چلے پھر فرمایا کہ اے معاذ بن جبل! میں نے کہا یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوں اور آپ کا فرمانبردار ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو جانتا ہے کہ جب بندے یہ کام کریں تو ان کا اللہ پر کیا حق ہے ؟ جب بندے یہ کام کریں (یعنی اسی کی عبادت کریں، کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ کریں) میں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب نہ کرے۔

14: سیدنا محمود بن ربیعؓ  سیدنا عتبان بن مالکؓ  سے سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں مدینہ میں آیا تو عتبان سے ملا اور میں نے کہا کہ ایک حدیث ہے جو مجھے تم سے پہنچی ہے (پس تم اسے بیان کرو) عتبان نے کہا کہ میری نگاہ میں فتور ہو گیا (دوسری روایت میں ہے کہ وہ نابینا ہو گئے اور شاید ضعفِ بصارت مراد ہو) میں نے رسول اللہﷺ کے پاس کہلا بھیجا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے مکان پر تشریف لا کر کسی جگہ نماز پڑھیں تاکہ میں اس جگہ کو مصلی بنا لوں(یعنی ہمیشہ وہیں نماز پڑھا کروں اور یہ درخواست اس لئے کی کہ آنکھ میں فتور ہو جانے کی وجہ سے مسجدِ نبوی میں آنا دشوار تھا) تو رسول اللہﷺ تشریف لائے اور جن کو اللہ نے چاہا اپنے اصحاب میں سے ساتھ لائے۔ آپﷺ ندر آئے اور نماز پڑھنے لگے اور آپﷺ کے اصحاب آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ (منافقوں کا ذکر چھڑ گیا تو ان کا حال بیان کرنے لگے اور ان کی بُری باتیں اور بُری عادتیں ذکر کرنے لگے ) پھر انہوں نے بڑا منافق مالک بن دخشم کو کہا (یا مالک بن دخیشم یا مالک بن دخشن یا دخیشن) اور چاہا کہ رسول اللہﷺ اس کے لئے بد دعا کریں اور وہ مر جائے اور اس پر کوئی آفت آئے (تو معلوم ہوا کہ بدکاروں کے تباہ ہونے کی آرزو کرنا بُرا نہیں) اتنے میں رسول اللہﷺ نماز سے فارغ ہوئے اور فرمایا کہ کیا وہ (یعنی مالک بن دخشم) اس بات کی گواہی نہیں دیتا کہ اللہ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں۔ صحابہ نے عرض کیا وہ تو اس بات کو زبان سے کہتا ہے لیکن دل میں اس کا یقین نہیں رکھتا۔ آپﷺ نے فرمایا جو سچے دل سے لا الٰہ الا اللہ کی گواہی دے اور محمد رسول اللہﷺ کی پھر وہ جہنم میں نہ جائے گا یا اس کو انگارے نہ کھائیں گے۔ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ یہ حدیث مجھے بہت اچھی معلوم ہوئی تو میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اس کو لکھ لے ، پس اس نے لکھ لیا۔

باب : ایمان کیا ہے ؟ اور اس کی اچھی عادات کا بیان۔

15: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ کچھ لوگ عبدالقیس کے رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہﷺ! ہم ربیعہ کی ایک شاخ ہیں، اور ہمارے اور آپﷺ کے بیچ میں قبیلہ مضر کے کافر ہیں اور ہم آپﷺ کے پاس حرام مہینوں کے علاوہ (کسی اور مہینے میں) نہیں آ سکتے تو ہمیں ایسے کام کا حکم کیجئے کہ جسے ہم ان لوگوں کو بتلائیں جو ہمارے پیچھے (رہ گئے ) ہیں اور ہم اس کام کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب کہ ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو اور میں تمہیں چار چیزوں سے منع کرتا ہوں۔ کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اللہﷺ ! نقیر آپ نہیں جانتے۔ آپﷺ نے فرمایا کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے ، جسے تم کھود لیتے ہو، پھر اس میں قطیعا (ایک قسم کی چھوٹی کھجور، اس کو شریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔ سعید نے کہا یا”تمر‘ بھگوتے ہو۔ پھر اس میں پانی ڈالتے ہو۔ جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے (نشہ میں آ کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی، اپنے بھائی کو جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی بُرائی ہے ، جسے آپ نے بیان کیا) راوی نے کہا کہ ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی وجہ سے ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا لیکن میں اس کو رسول اللہﷺ سے شرم کے مارے چھپاتا تھا۔ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چمڑے کی مشقوں میں پیو، جن کا منہ (ڈوری یا تسمے سے ) باندھا جاتا ہے۔ لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! ہمارے ملک میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے تو آپﷺ نے فرمایا چمڑے کے برتنوں میں پیو اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں، اگرچہ ان کو چوہے کاٹ ڈالیں۔ (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو، چوہوں سے حفاظت کرو لیکن ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں) راوی نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے عبدالقیس کے اشج سے فرمایا کہ تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ، ایک تو عقلمندی اور دوسری سہولت اور اطمینان۔ (یعنی جلدی نہ کرنا)۔

16: سیدنا ابو ذرؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کونسا عمل افضل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ پر ایمان لانا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا۔ میں نے کہا کونسا بندہ آزاد کرنا افضل ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ جو بندہ اس کے مالک کو عمدہ معلوم ہوا ور جس کی قیمت بھاری ہو۔ میں نے کہا کہ اگر میں یہ نہ کر سکوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو کسی صانع کی مدد کر یا کسی بے ہنر شخص کے لئے مزدوری کر (یعنی جو کوئی کام اور پیشہ نہ جانتا ہو اور روٹی کا محتاج ہو) میں نے کہا اگر میں خود ناتواں ہوں؟ (یعنی کام نہ کر سکوں یا کوئی کسب نہ کر سکوں؟) آپﷺ نے فرمایا کہ تو کسی سے بُرائی نہ کر، یہی تیرا اپنے نفس پر صدقہ ہے۔

باب : ایمان کا حکم اور اللہ کی پناہ مانگنا شیطانی وسوسہ کے وقت۔

17: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لوگ تم سے علم کی باتیں پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہیں گے اللہ نے تو ہمیں پیدا کیا، پھر اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ راوی نے کہا کہ سیدنا ابو ہریرہؓ  اس حدیث کو بیان کرتے وقت ایک شخص کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔انہوں نے کہا سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے ،مجھ سے دو آدمی یہی پوچھ چکے اور یہ تیسرا ہے یا یوں کہا کہ ایک آدمی پوچھ چکا ہے اور یہ دوسرا ہے۔

سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ اے ابو ہریرہ!ﷺ لوگ تجھ سے (دین کی باتیں) پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یوں کہیں گے کہ بھلا اللہ تو یہ ہے اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ کہتے ہیں کہ ایک بار میں مسجد میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں کچھ دیہاتی آئے اور کہنے لگے کہ اے ابو ہریرہ! اللہ تو یہ ہے ، اب اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ یہ سن کر سیدنا ابو ہریرہؓ  نے ایک مٹھی بھر کنکریاں ان کو ماریں اور کہا کہ اٹھو، اٹھو! سچ کہا تھا میرے دوست رسول اللہﷺ نے۔

باب : اللہ پر ایمان لانے اور اس پر ڈٹ جانے کے متعلق۔

18: سیدنا سفیان بن عبد اللہ الثقفیؓ  سے روایت ہے کہ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ! مجھے اسلام میں ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ پھر میں اس کو آپﷺ کے بعد (اور ابو اسامہ کی روایت میں ہے کہ آپﷺ کے سوا) کسی سے نہ پوچھوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کہہ میں اللہ پر ایمان لایا پھر اس پر قائم رہ۔

باب : نبیﷺ کے معجزات اور ان پر ایمان لانے کے متعلق۔

19: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر ایک پیغمبر کو وہی معجزے ملے ہیں جو اس سے پہلے دوسرے پیغمبر کو مل چکے تھے پھر ایمان لائے اس پر آدمی لیکن مجھے جو معجزہ ملا وہ قرآن ہے جو اللہ نے میرے پاس بھیجا (ایسا معجزہ کسی پیغمبر کو نہیں ملا) اس لئے میں امیدکرتا ہوں کہ میری پیروی کرنے والے قیامت کے دن سب سے زیادہ ہوں گے۔

20: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے (میرے اس زمانہ سے قیامت تک )کوئی یہودی یا نصرانی (یا اور کوئی دین والا) میرا حال سنے پھر اس پر ایمان نہ لائے جو کہ میں دیکر بھیجا گیا ہوں (یعنی قرآن و سنت پر) تو وہ جہنم میں جائے گا۔

21: سیدنا صالح بن صالح الہمدانی ، شعبی سے روایت کرتے ہیں کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا جو کہ خراسان کا رہنے والا تھا اس نے شعبی سے پوچھا کہ ہمارے ملک کے لوگ کہتے ہیں کہ جو شخص اپنی لونڈی کو آزاد کر کے پھر اس سے نکاح کر لے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی قربانی کے جانور پر سواری کرے۔ شعبی نے کہا کہ مجھ سے ابو بردہ بن ابی موسیٰ نے بیان کیا، انہوں نے اپنے والد سے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”تین قسم کے آدمیوں کو دوہرا ثواب ملے گا۔ ایک تو وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو“ (یعنی یہودی یا نصرانی) اپنے پیغمبر پر ایمان لایا ہو اور پھر میرا زمانہ پائے اور مجھ پر بھی ایمان لائے ، میری پیروی کرے اور مجھے سچا جانے گا تو اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس غلام کو جو اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالک کا بھی، اس کو دوہرا ثواب ہے۔ اور ایک اس شخص کو جس کے پاس ایک لونڈی ہو، پھر اچھی طرح اس کو کھلائے اور پلائے اس کے بعد اچھی طرح تعلیم و تربیت کرے ، پھر اس کو آزاد کر کے اس سے نکاح کر لے تو اس کو بھی دوہرا ثواب ہے۔ پھر شعبی نے خراسانی سے کہا کہ تو یہ حدیث بغیر محنت کئے لے لے ، نہیں تو ایک شخص اس سے چھوٹی حدیث کے لئے مدینے تک سفر کیا کرتا تھا۔

باب : ان عادتوں کا بیان کہ جس میں یہ عادتیں پیدا ہو گئیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔

22: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں گی وہ ان کی وجہ سے ایمان کی مٹھاس اور حلاوت پائے گا۔ ایک تو یہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے دوسرے سب لوگوں سے زیادہ محبت رکھے۔ دوسرے یہ کہ کسی آدمی سے صرف اللہ کے واسطے دوستی رکھے (یعنی دنیا کی کوئی غرض نہ ہو اور نہ ہی اس سے ڈر ہو) تیسرے یہ کہ کفر میں لوٹنے کو بعد اس کے کہ اللہ نے اس سے بچا لیا اس طرح برا جانے جیسے آگ میں ڈال دیا جانا۔

23: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کو میری محبت اولاد، ماں بآپﷺ ور سب لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔

24: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ کوئی آدمی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے یا ہمسایہ بھائی کے لئے وہی نہ چاہے جو وہ اپنے لئے چاہتا ہے۔

باب : جو شخص اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر راضی ہو گیا، اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا۔

25: سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اس نے ایمان کا مزا چکھ لیا جو اللہ کے پروردگار عالم (لائق عبادت) ہونے ، اسلام کے دین ہونے اور محمدﷺ کے پیغمبر ہونے پر راضی ہو گیا۔

باب : جس شخص میں چار باتیں موجود ہوں، وہ خالصتاً منافق ہے۔

26: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: چار باتیں جس میں ہوں گی وہ تو خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان چاروں میں سے ایک خصلت ہو گی، تو اس میں نفاق کی ایک ہی عادت ہے ، یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے۔ ایک تو یہ کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے ، دوسری یہ کہ جب معاہدہ کرے تو اس کے خلاف کرے ، تیسری یہ کہ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے ، چوتھی یہ کہ جب جھگڑا کرے تو بدکلامی کرے یا گالی گلوچ کرے۔ اور سفیان کی روایت میں ”خلہ“ کی جگہ ”خصلۃ“کا لفظ ہے۔

27: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹی بات کرے ، جب وعدہ کرے تو وعدہ کے خلاف کرے اور جب اسے امانت سونپی جائے تو اس میں خیانت کرے۔

باب : مومن کی مثال کھیت کے نرم جھاڑ کی سی اور منافق اور کافر کی مثال صنوبر (کے درخت) کی سی ہے۔

28: سیدنا کعب بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: مومن کی مثال ایسی ہے جیسے کھیت کا نرم جھاڑ ہو، ہوا اس کو جھونکے دیتی ہے ، کبھی اس کو گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کر دیتی ہے ، یہاں تک کہ سوکھ جاتا ہے۔ اور کافر کی مثال ایسی ہے جیسے صنوبر کا درخت، جو اپنی جڑ پر سیدھا کھڑا رہتا ہے ، اس کو کوئی چیز نہیں جھکاتی یہاں تک کہ ایک بارگی اکھڑ جاتا ہے۔ایک روایت میں ہے کہ مومن کی مثال اس کھیتی کی طرح ہے جس کو ہوا کبھی گرا دیتی ہے اور کبھی سیدھا کھڑا کر دیتی ہے حتی کہ وہ پک کر تیار ہو۔ اور منافق کی مثال اس صنوبر کے درخت کی طرح ہے سیدھا کھڑا ہو اور اس کو کوئی چیز نہ پہنچے۔

وضاحت : اجل سے مراد وقت مقررہ ہے اور کھیتی کے لئے اجل: اس کا پک جانا اور کٹائی کے تیار ہونا ہے (م۔ع)

باب : مومن کی مثال کھجور کے درخت کی سی ہے۔

29: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے ، بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اکرمﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ مجھے اس درخت کے متعلق بتاؤ جو مومن (مسلم) کے مشابہ ہے یا مسلمان آدمی کی طرح ہے ، (اس کی نشانی یہ ہے کہ) اس کے پتے نہیں گرتے ، پھل ہر وقت دیتا ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ کھجور کا درخت ہے اور میں نے دیکھا کہ سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ  کوئی بات نہیں کر رہے تو میں نے بات کرنا یا کچھ کہنا اچھا خیال نہ کیا۔ (بعد میں آپﷺ نے کھجور کا درخت بتایا۔ اور عبد اللہ بن عمرؓ  نے سیدنا عمرؓ  سے ذکر کیا ) تو سیدنا عمرؓ  نے کہا کہ اگر تو اس وقت بول دیتا تو مجھے ایسی چیزوں سے زیادہ پسند تھا۔ (یعنی مجھے بہت خوشی ہوتی)۔

باب : حیاء ایمان میں سے ہے۔

30: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایمان کی ستر پر کئی یا ساٹھ پر کئی شاخیں ہیں۔ ان سب میں افضل لا الٰہ الا اللہ کہنا ہے اور ان سب میں ادنیٰ، راہ میں سے موذی چیز کا ہٹانا ہے اور حیا ایمان کی ایک شاخ ہے۔

31: سیدنا ابو قتادہؓ  کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمران بن حصینؓ  کے پاس ایک رہط (دس سے کم مردوں کی جماعت کو رہط کہتے ہیں) میں تھے اور ہم میں بشیر بن کعب بھی تھے۔ سیدنا عمرانؓ  نے اس دن حدیث بیان کی کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ حیا خیر ہے بالکل، یا حیا بالکل خیر ہے۔ بشیر بن کعب نے کہا کہ ہم نے بعض کتابوؑ میں یا حکمت میں دیکھا ہے کہ حیا کی ایک قسم تو سکینہ اور وقار ہے اللہ تعالیٰ کے لئے اور ایک حیا ضعفِ نفس ہے۔ یہ سن کر سیدنا عمرانؓ کو اتنا غصہ آیا کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور انہوں نے کہا کہ میں تو رسول اللہﷺ کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تو اس کے خلاف بیان کرتا ہے۔ سیدنا ابو قتادہ نے کہا کہ سیدنا عمرانؓ نے پھر دوبارہ اسی حدیث کو بیان کیا۔ بشیر نے پھر دوبارہ وہی بات کہی تو سیدنا عمران غصہ ہوئے (اور انہوں نے بشیر کو سزا دینے کا قصد کیا) تو ہم سب نے کہا کہ اے ابو نجید! (یہ سیدنا عمران بن حصینؓ کی کنیت ہے ) بشیر ہم میں سے ہے (یعنی مسلمان ہے ) اس میں کوئی عیب نہیں۔ (یعنی وہ منافق یا بے دین یا بدعتی نہیں ہے جیسے تم نے خیال کیا)۔

باب : اچھی ہمسائیگی اور مہمان کی عزت کرنا ایمان میں سے ہے۔

32: سیدنا ابو شریح الخزاعیؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے ہمسایہ کے ساتھ نیکی کرے اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہما ن کے ساتھ احسان کرے اور جو شخص اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے (جس میں بھلائی ہو یا ثواب ہو) یا چپ رہے۔

باب : وہ شخص جنت میں داخل نہ ہو گا جس کا ہمسایہ اس کی مصیبتوں سے محفوظ نہ ہو۔

33: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وہ شخص جنت میں نہ جا ئیگا جسکا ہمسایہ اسکے مکر و فساد سے محفوظ نہیں ہے۔

باب : برائی کو ہاتھ اور زبان سے مٹانا اور دل میں برا سمجھنا ایمان میں سے ہے

34: طارق بن شہاب کہتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے عید کے دن نماز سے پہلے خطبہ شروع کیا وہ مروان تھا (حکم کا بیٹا جو خلفاء بنی امیہ میں سے پہلا خلیفہ ہے ) اس وقت ایک شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ نماز خطبہ سے پہلے ہے۔ مروان نے کہا کہ یہ بات موقوف کر دی گئی۔ سیدنا ابو سعیدؓ  نے کہا کہ اس شخص نے تو اپنا فرض ادا کر دیا، میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص تم میں سے کسی منکر (خلافِ شرع) کام کو دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے ، اگر اتنی طاقت نہ ہو تو زبان سے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو تو دل ہی سے سہی۔ (دل میں اس کو بُرا جانے اور اس سے بیزار ہو) یہ ایمان کا سب سے کم درجہ ہے۔

35: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پہلے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا کہ جس کے ، اس کی امت میں سے حواری اور اصحاب نہ ہوں جو اس کے طریقے پر چلتے تھے اور اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے۔ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے نالائق لوگ پیدا ہوتے ہیں جو زبان سے کہتے ہیں اور کرتے نہیں اور ان کاموں کو کرتے ہیں جن کا حکم نہیں دیئے جاتے۔ پھر جو کوئی ان نالائقوں سے ہاتھ سے لڑے وہ مومن اور جو کوئی زبان سے لڑے (ان کو بُرا کہے اور ان کی باتوں کا رد کرے ) وہ بھی مومن ہے اور جو کوئی ان سے دل سے لڑے (دل میں ان کو بُرا جانے ) وہ بھی مومن ہے اور اس کے بعد دانے برابر بھی ایمان نہیں۔ (یعنی اگر دل سے بھی بُرا نہ جانے تو اس میں ذرہ برابر بھی ایمان نہیں)۔ سیدنا ابو رافعؓ  (جنہوں نے اس حدیث کو سیدنا ابن مسعودؓ  سے بیان کیا، وہ رسول اللہﷺ کے مولیٰ تھے ) نے کہا کہ میں نے یہ حدیث عبد اللہ بن عمرؓ  سے بیان کی، انہوں نے نہ مانا اور انکار کیا۔ اتفاق سے میرے پاس سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  آئے اور قناۃ (مدینہ کی وادیوں میں سے ایک وادی کا نام ہے ) میں اترے تو سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  مجھے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کی عیادت کے لئے اپنے ساتھ لے گئے۔ میں ان کے ساتھ گیا۔ جب ہم بیٹھے تو میں نے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اسی طرح بیان کیا جیسے میں نے سیدنا ابن عمرؓ  سے بیان کیا تھا۔

باب : علیؓ  سے محبت کرنے والا مومن اور بغض رکھنے والا منافق ہے۔

36: سیدنا زر بن حبیشؓ  کہتے ہیں کہ سیدنا علی بن ابی طالبؓ  نے کہا کہ قسم ہے اس کی جس نے دانہ چیرا (پھر اس سے گھاس اگائی) اور جان بنائی، رسول اللہﷺ نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے سوائے مومن کے کوئی محبت نہیں رکھے گا اور مجھ سے منافق کے علاوہ اور کوئی شخص دشمنی نہیں رکھے گا۔

باب : انصار سے محبت ایمان کی نشانی، اور ان سے بغض نفاق کی نشانی ہے۔

37: سیدنا براءؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے انصار کے بارے میں فرمایا کہ ان کا دوست مومن ہے اور ان کا دشمن منافق ہے اور جس نے ان سے محبت کی اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرے گا اور جس نے ان سے دشمنی کی اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا۔

باب : ایمان مدینہ کی طرف سمٹ جائے گا۔

38: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایمان اس طرح سمٹ کر مدینہ میں آ جائے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں سما جاتا ہے۔

باب : ایمان بھی یمن والوں کا ہے اور حکمت بھی یمن کی اچھی ہے۔

39: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ یمن کے لوگ (خود مسلمان ہونے کو)آئے اور وہ لوگ نرم دل ہیں اور نرم خو ہیں۔ ایمان یمن کا ہی اچھا ہے اور حکمت بھی یمن ہی کی (بہتر) ہے اور غریبی اور اطمینان بکریوں والوں میں ہے اور بڑائی و شیخی مارنا اور فخر اور گھمنڈ کرنا گھوڑے والوں اور اونٹ والوں میں ہے جو چلاتے ہیں اور وبر والے ہیں، سورج کے طلوع ہونے کی طرف سے۔

وضاحت : وبر کا معنی اونٹ کے بال۔ مراد اونٹوں والے۔ (م۔ ع)

40: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دلوں کی سختی اور کھرکھرآپن مشرق (پورب) والوں میں ہے اور ایمان حجاز والوں میں۔

باب : جو شخص ایمان نہ لائے اس کو نیک عمل کوئی فائدہ نہ دے گا۔

41: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جدعان کا بیٹا جاہلیت کے دَور میں ناتے جوڑتا تھا (یعنی رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا تھا) اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا، کیا یہ کام اس کو (قیامت کے دن) فائدہ دیں گے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اسے یہ اعمال کچھ فائدہ نہ دیں گے کیونکہ اس نے کبھی یوں نہ کہا کہ اے میرے پروردگار میرے گناہوں کو قیامت کے دن بخش دے۔

باب : جنت میں تم اس وقت تک داخل نہ ہو گے جب تک ایمان نہ لاؤ گے

42: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا کہ تم جنت میں نہ جاؤ گے جب تک کہ ایمان نہ لاؤ گے اور ایماندار نہ بنو گے اور جب تک ایک دوسرے سے محبت نہ رکھو گے۔ اور میں تم کو وہ چیز نہ بتلا دوں کہ جب تم اس کو کرو گے تو آپس میں محبت ہو جائے ؟ (پس اس کے لئے تم) سلام کو آپس میں رائج کرو۔

باب : زانی زنا کرتے وقت مومن نہیں ہوتا۔

43: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: زنا کرنے والا زنا نہیں کرتا مگر یہ کہ عین زنا کرتے وقت وہ مومن نہیں رہتا اور نہ ہی چور عین چوری کرتے وقت مومن رہتا ہے اور نہ شراب پینے والا عین شراب پیتے وقت مومن رہتا ہے۔ اور سیدنا ابو ہریرہؓ  اس میں اتنا اور ملا دیتے تھے کہ نہ لوٹنے والا شخص، ایسی لوٹ جو بڑی چیز ہو (یعنی حقیر چیز نہ ہو) جس کی طرف لوگوں کی نظر اٹھے تو وہ بھی عین لوٹتے وقت مومن نہیں ہوتا۔ اور ہمام کی روایت میں یرفع الیہ المؤمنون اعینھم کی جگہ وھو حین ینتھبھا مؤمن کے الفاظ ہیں۔ اور ایک روایت میں ہے کہ خیانت کرتے وقت (بھی بندہ) مومن نہیں ہوتا۔

باب : مومن ایک بل (سوراخ) سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جاتا (یعنی ایک ہی غلطی دو مرتبہ نہیں کرتا)۔

44: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ مومن کو ایک سوراخ سے دو بار ڈنک نہیں لگتا۔ (یعنی مومن جب کسی معاملہ میں ایک بار خطا اٹھائے تو دوبارہ اس کو نہ کرے )۔

باب : ایمان میں وسوسے کا بیان۔

45: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ صحابہؓ میں سے کچھ لوگ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کہ ہمارے دلوں میں وہ وہ خیال گزرتے ہیں کہ جن کا بیان کرنا ہم میں سے ہر ایک کو بڑا گناہ معلوم ہوتا ہے (یعنی اس خیال کو کہہ نہیں سکتے کیونکہ معاذ اللہ وہ خیال کفر یا فسق کا خیال ہوتا ہے جس کا منہ سے نکالنا مشکل معلوم ہوتا ہے ) آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم کو ایسے وسوسے ہوتے ہیں؟ لوگوں نے کہا جی ہاں۔ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ تو عین ایمان ہے۔

باب : سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔

46: سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکر اپنے والد (سیدنا ابو بکر)ؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہﷺ کے پاس تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں تم کو بڑا کبیرہ گناہ نہ بتلاؤں؟ تین بار آپﷺ نے یہی فرمایا (پھر فرمایا کہ)اللہ کے ساتھ شرک کرنا (یہ تو ظاہر ہے کہ سب سے بڑا کبیرہ گناہ ہے ) دوسرے اپنے ماں باپ کی نافرمانی کرنا، تیسرے جھوٹی گواہی دینا یا جھوٹ بولنا۔ اور رسول اللہﷺ تکیہ لگائے بیٹھے تھے ، آپﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور بار بار یہ فرمانے لگے (تاکہ لوگ خوب آگاہ ہو جائیں اور ان کاموں سے باز رہیں) حتیٰ کہ ہم نے اپنے دل میں کہا کہ کاش آپﷺ خاموش ہو جائیں۔ (تاکہ آپ کو زیادہ رنج نہ ہو ان گناہوں کا خیال کر کے کہ لوگ ان کو کیا کرتے ہیں)۔

47: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سات گناہوں سے بچو جو ایمان کو ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ صحابہؓ نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: 1۔ اللہ کے ساتھ شرک کرنا۔ 2۔ اور جادو کرنا۔ 3۔ اور اس جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تعالیٰ نے حرام کیا ہے ، لیکن حق پر مارنا درست ہے۔4۔ اور سود کھانا۔ 5۔ اور یتیم کا مال کھا جانا۔ 6۔ اور لڑائی کے دن کافروں کے سامنے سے بھاگنا۔ 7۔ اور شادی شدہ ایمان دار ، پاک دامن عورتوں کو جو بدکاری سے واقف نہیں، عیب لگانا۔

باب : نبیﷺ کے اس فرمان کا مطلب کہ میرے بعد تم آپس میں ایک دوسرے کی گردن زنی (قتل و غارت) کر کے کافر نہ ہو جانا۔

48: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے حجۃ الوداع میں فرمایا کہ میرے بعد کافر مت ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔

باب : جو اپنے باپ سے بے رغبتی کرے (اپنا باپ کسی اور کو کہے ) تو یہ عمل کفر ہے۔

49: سیدنا ابو عثمان سے روایت ہے کہ جب زیاد کا دعویٰ کیا گیا تو میں سیدنا ابو بکرہؓ  سے (زیاد ان کا مادری بھائی تھا) اور میں نے کہا کہ تم (یعنی تمہارے بھائی) نے کیا کیا؟ بیشک میں نے سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ  سے سنا وہ کہتے تھے کہ میرے کانوں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے آپﷺ فرماتے تھے کہ جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد اپنے باپ کے سوا اور کسی کو باپ بنایا تو اس پر جنت حرام ہے۔ سیدنا ابو بکرہؓ  نے کہا کہ میں نے بھی خود رسول اللہﷺ سے یہی سنا ہے۔

باب : جو شخص اپنے (مسلمان) بھائی کو کافر کہے۔

50: سیدنا ابو ذر غفاریؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اپنے آپ کو کسی اور کا بیٹا کہے اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا بیٹا نہیں ہے (یعنی جان بوجھ کر اپنے باپ کے سوا کسی اور کو باپ بتلائے ) وہ کافر ہو گیا اور جس شخص نے اس چیز کا دعویٰ کیا جو اس کی نہیں ہے تو وہ ہم میں سے نہیں ہے اور وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے اور جو شخص کسی کو کافر کہہ کر بلاوے یا اللہ تعالیٰ کا دشمن کہہ کر، پھر وہ شخص کہ جسے اس نام سے پکارا گیا ہے ایسا (یعنی کافر) نہ ہو تو وہ کفر پکارنے والے پر پلٹ آئے گا۔

باب : سب سے بڑا گناہ کونسا ہے ؟۔

51: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  سے روایت ہے ، کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اللہ کے نزدیک بڑا گناہ کونسا ہے ؟  آپﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو کسی کو اللہ تعالیٰ کا شریک کرے حالانکہ تجھے اللہ (ہی) نے پیدا کیا۔ اس نے کہا پھر کونسا (گناہ بڑا ہے )؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنی اولاد کو اس ڈر سے قتل کرے کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔ اس نے کہا پھر کونسا (گناہ بڑا ہے )؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو اپنے ہمسایہ کی عورت سے زنا کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس حدیث کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی کہ ”اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے ، نہ وہ زنا کے قریب جاتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا“ (الفرقان : 68)۔

باب : جو اس حال میں فوت ہوا کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتا تو جنت میں داخل ہو گا۔

52: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  کہتے ہیں کہ ایک شیخ نے نبیﷺ سے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ دو واجب کر دینے والی چیزیں کیا کیا ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا: جس کو اس حال میں موت آئے کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرتا ہو، وہ جنت میں جائے گا اور جس کو اس حال میں موت آئے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہو، وہ جہنم میں داخل ہو گا۔

53: سیدنا ابو الاسود الدیلی سے روایت ہے کہ سیدنا ابو ذرؓ  نے ان سے یہ بیان کیا کہ میں نبیﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سفید کپڑے اوڑھے ہوئے سو رہے تھے (میں واپس لوٹ گیا)۔ جب دوبارہ آیا تو بھی آپﷺ سوئے ہوئے تھے۔ جب تیسری بار آیا تو آپﷺ جاگ چکے تھے تو میں آپﷺ کے پاس بیٹھ گیا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص لا الٰہ الا اللہ کہے (یعنی اللہ کی توحید کا عقیدہ رکھے اور پھر اسی پر) وہ فوت ہو جائے تو جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ اگرچہ اس سے چوری اور زنا بھی ہو جائے ، پھر بھی؟ تو آپﷺ نے فرمایا ”ہاں اگرچہ اس سے زنا اور چوری بھی ہو جائے “ چنانچہ میں نے تین بار آپﷺ سے یہی سوال کیا اور آپﷺ نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا اور چوتھی مرتبہ فرمایا ”ہاں وہ جنت میں داخل ہو گا اگرچہ ابو ذرﷺ کی ناک مٹی میں مل جائے “ پھر سیدنا ابو ذرؓ یہ کہتے ہوئے نکلے کہ اگرچہ ابو ذر کی ناک خاک آلود ہو۔

باب : جس شخص کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

54: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی غرور اور گھمنڈ ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا(اوروں سے ) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے ؟) آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی پسند کرتا ہے۔ غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے ) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔

باب : نسب میں طعن کرنا اور میت پر چلا کر رونا کفر میں سے ہے۔

55: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: لوگوں میں دو باتیں موجود ہیں اور وہ دونوں کفر ہیں۔ ایک نسب میں طعن کرنا اور دوسرا میت پر چلا کر رونا (اس کے اوصاف بیان کرنا، جسے نوحہ کرنا کہتے ہیں)۔

باب : اس شخص کے کافر ہونے کا بیان جو یہ کہے کہ بارش ستاروں کی گردش کی وجہ سے برسی ہے۔

56: سیدنا زید بن خالد جہنیؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں صبح کی نماز حدیبیہ میں (جو مکہ کے قریب ایک مقام کا نام ہے ) پڑھائی اور رات کو بارش ہوئی تھی۔ جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟ انہوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میرے بندوں میں سے بعضوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پر۔ تو جس نے یہ کہا کہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی تو وہ تاروں کے بارش برسانے کا منکر ہوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش تاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور تاروں پر ایمان لایا۔

باب : غلام کا بھاگ جانا کفر ہے۔

57: شعبی سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا جریر بن عبد اللہؓ  کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ جو غلام اپنے مالک سے بھاگ جائے تو وہ کافر ہو گیا (یہاں کفر سے مراد ناشکری ہے کیونکہ اس نے مالک کا حق ادا نہ کیا) جب تک لوٹ کر ان کے پاس نہ آئے۔ منصور نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ حدیث تو مرفوعاً رسول اللہﷺ سے مروی ہے لیکن (میں نے یہاں مرفوعاً بیان نہیں کی بلکہ سیدنا جریر کا قول بتایا) مجھے بُرا معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث مجھ سے اس جگہ بصرہ میں بیان کی جائے۔

58: سیدنا جریرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب غلام (اپنے مالک کے پاس سے ) بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہ ہو گی۔

باب : (رسول اللہﷺ کا ارشاد کہ) میرے دوست تو صرف اللہ اور ایماندار نیک لوگ ہیں۔

59: سیدنا عمرو بن عاصؓ  کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا آپﷺ چپکے سے نہیں بلکہ پکار کر فرماتے تھے کہ فلاں کی اولاد میری عزیز نہیں بلکہ میرا مالک یعنی دوست اللہ ہے اور میرے عزیز وہ مومن ہیں جو نیک ہوں۔

باب : مومن کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں میں ملتا ہے اور کافر کی نیکیوں کا بدلہ اس کو دنیا میں ہی دے دیا جاتا ہے۔

60: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کسی مومن پر ایک نیکی کے لئے بھی ظلم نہ کرے گا۔ اس کا بدلہ دنیا میں دے گا اور آخرت میں بھی د ے گا اور کافر کو اس کی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں دیا جاتا ہے یہاں تک کہ جب آخرت ہو گی تو اس کے پاس کوئی نیکی نہ رہے گی جس کا کہ اسے بدلہ دیا جائے۔

باب : اسلام کیا ہے ؟ اور اس کی خصلتوں کا بیان۔

61: سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ  سے روایت ہے کہ نجد والوں (نجد عرب میں ایک علاقہ ہے ) میں سے ایک شخص رسول اللہﷺ کے پاس آیا جس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آواز کی گنگناہٹ سنی جاتی تھی لیکن سمجھ میں نہ آتا تھا کہ کیا کہتا ہے یہاں تک کہ وہ رسول اللہﷺ کے نزدیک آیا، تب معلوم ہوا کہ وہ اسلام کے بارے میں پوچھتا ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ وہ بولا کہ ان کے سوا میرے اوپر کوئی اور نماز (فرض) ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل پڑھنا چاہے اور رمضان کے روزے ہیں۔ وہ بولا کہ مجھ پر رمضان کے سوا اور کوئی روزہ (فرض) ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل روزہ رکھنا چاہے۔ پھر آپﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بیان کیا تو وہ بولا کہ مجھ پر اس کے سوا اور کوئی زکوٰۃ (فرض) ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں مگر یہ کہ تو نفل ثواب کے لئے صدقہ دینا چاہے۔ راوی نے کہا کہ پھر وہ شخص پیٹھ موڑ کر چلا اور کہتا جاتا تھا کہ اللہ کی قسم میں نہ ان سے زیادہ کروں گا اور نہ ان میں کمی کروں کا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ اپنے اس (بات کے ) کہنے میں سچا ہے تو بیشک یہ کامیاب ہو گیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس کے باپ کی کہ اگر یہ سچا ہے تو اس نے نجات پائی یا (یہ فرمایا کہ) اس کے باپ کی قسم! اگر یہ (اپنی بات کے کہنے میں) سچا ہے تو یہ جنت میں داخل ہو گا۔

باب : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔

62: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ہے (یہ تشبیہ ہے کہ اسلام کو ایک گھر کی مانند سمجھو یا ایک چھت کی مانند کہ جس میں پانچ ستون ہوں) اللہ جل جلالہ کی توحید (وحدانیت کی گواہی دینا) نماز کو قائم کرنا، زکوٰۃ دینا، رمضان کے روزے رکھنا اور حج کرنا۔ ایک شخص بولا کہ حج اور رمضان کے روزے رکھنا (یعنی حج کو پہلے کیا اور روزوں کو بعد) سیدنا ابن عمرؓ  نے کہا رمضان کے روزے اور حج۔ میں نے رسول اللہﷺ سے یوں ہی سنا ہے۔

باب : کونسا اسلام بہتر ہے ؟

63: سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کون سا اسلام بہتر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا: یہ کہ تو (بھوکے شخص اور مہمان کو) کھانا کھلائے اور ہر شخص کو سلام کرے خواہ تو اس کو پہچانتا ہو یا نہ پہچانتا ہو۔

باب : اسلام ، اپنے سے پہلے گناہ ختم کر دیتا ہے۔ اسی طرح حج اور ہجرت سے بھی سابقہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔

64: عبدالرحمن بن شماسہ المہری کہتے ہیں کہ ہم سیدنا عمرو بن عاصؓ  کے پاس گئے اور وہ اس وقت قریب المرگ تھے تو وہ (سیدنا عمرو ص) بہت دیر تک روئے اور اپنا منہ دیوار کی طرف پھیر لیا تو ان کے بیٹے کہنے لگے کہ اے ہمارے والد! آپ کیوں روتے ہیں؟ کیا رسول اللہﷺ نے آپ کو یہ خوشخبری نہیں دی، یہ خوشخبری نہیں دی؟ تب انہوں نے اپنا منہ سامنے کیا اور کہا کہ سب باتوں میں افضل ہم اس بات کی گواہی دینے کو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمدﷺ اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور میرے اوپر تین حال گزرے ہیں۔ ایک حال یہ تھا کہ جو میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ رسول اللہﷺ سے زیادہ میں کسی کو بُرا نہیں جانتا تھا اور مجھے آرزو تھی کہ کسی طرح میں قابو پاؤں اور آپﷺ کو (معاذ اللہ) قتل کر دوں پھر اگر میں اسی حال میں مر جاتا تو جہنمی ہوتا۔ دوسرا حال یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام کی محبت ڈالی اور میں رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ اپنا داہنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے (اسلام پر) بیعت کروں۔ آپﷺ نے اپنا ہاتھ بڑھایا تو میں نے اس وقت اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ میں ایک شرط کرنا چاہتا ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کونسی شرط؟ میں نے کہا کہ یہ شرط کہ میرے تمام گناہ معاف ہو جائیں گے (جو میں نے اب تک کئے ہیں) آپﷺ نے فرمایا کہ اے عمرو! تو نہیں جانتا ہے اسلام پہلے تمام گناہوں کو گرا دیتا ہے اور اسی طرح ہجرت پہلے گناہوں کو گرا دیتی ہے۔ اسی طرح حج تمام پیشتر گناہوں کو گرا دیتا ہے۔ پھر مجھے رسول اللہﷺ سے زیادہ کسی سے محبت نہ تھی اور نہ میری نگاہ میں آپ سے زیادہ کسی کی شان تھی اور میں آپﷺ کے جلال کی وجہ سے آپ کو آنکھ بھر کر نہ دیکھ سکتا تھا۔ اور اگر کوئی مجھ سے آپﷺ کی صورت کے بارے میں پوچھے تو میں بیان نہیں کر سکتا کیونکہ میں آنکھ بھر کر آپﷺ کو نہیں دیکھ سکتا تھا اور اگر میں اس حال میں مر جاتا تو امید تھی کہ جنتی ہوتا اس کے بعد چند اور چیزوں میں ہمیں پھنسنآپڑا۔ میں نہیں جانتا کہ ان کی وجہ سے میرا کیا حال ہو گا۔ تو جب میں مر جاؤں تو میرے جنازے کے ساتھ کوئی رونے چلانے والی نہ ہو اور نہ آگ ہو اور جب مجھے دفن کرنا تو مجھ پر اچھی طرح مٹی ڈال دینا اور میری قبر کے ارد گرد اتنی دیر تک کھڑے رہنا جتنی دیر میں اونٹ کاٹا جاتا ہے اور اس کا گوشت بانٹا جاتا ہے تاکہ تم سے میرا دل بہلے (اور میں تنہائی میں گھبرا نہ جاؤں) اور دیکھ لوں کہ میں پروردگار کے وکیلوں(فرشتوں ) کو کیا جواب دیتا ہوں۔

باب : مسلمان کو گالی دینا گناہ ہے اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔

65: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مسلمان کو گالی دینا (یا اس کا عیب بیان کرنا) فسق ہے (یعنی گناہ ہے اور ایسا کرنے والا فاسق ہو جاتا ہے ) اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

باب : جب آدمی کا اسلام اچھا ہو تو جاہلیت کے اعمال پر مواخذہ نہیں ہوتا۔

66: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا ہم سے ان کاموں کی بھی پوچھ گچھ ہو گی جو ہم نے جاہلیت کے زمانے میں کئے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جو اچھی طرح اسلام لایا (یعنی دل سے سچا مسلمان ہوا) اس سے تو جاہلیت کے کاموں کا مؤاخذہ نہ گا اور جو بُرا ہے (یعنی صرف ظاہر میں مسلمان ہوا اور اس کے دل میں کفر رہا) تو اس سے جاہلیت اور اسلام کے کاموں ، دونوں کے بارے میں مؤاخذہ ہو گا۔

باب : جب تم میں سے کسی کا اسلام اچھا ہو تو ہر نیکی، جسے وہ کرتا ہے ، دس گنا لکھی جاتی ہے۔

67: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ جب میرا بندہ دل میں نیک کام کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کے لئے ایک نیکی لکھ لیتا ہوں، جب تک کہ اس نے وہ نیکی نہیں کی۔ پھر اگر وہ نیکی کی تو اس کو میں اس کے لئے دس نیکیاں (ایک کے بدلے ) لکھتا ہوں اور جب دل میں برائی کرنے کی نیت کرتا ہے تو میں اس کو بخش دیتا ہوں جب تک کہ وہ بُرائی (پر عمل) نہ کرے۔ اور پھر جب وہ برائی (پر عمل) کرے تو اس کے لئے ایک ہی بُرائی لکھتا ہوں اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ فرشتے کہتے ہیں کہ اے پروردگار یہ تیرا بندہ ہے ، بُرائی کرنا چاہتا ہے ، حالانکہ اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ اپنے بندے کو دیکھ رہا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھتے رہو! اگر وہ بُرائی کرے تو ایک بُرائی ویسی ہی لکھ لو اور اگر نہ کرے (اور اس بُرائی کے ارادے سے باز رہے ) تو اس کے لئے ایک نیکی لکھ لو کیونکہ اس نے میرے ڈر سے اس بُرائی کو چھوڑ دیا اور رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا اسلام بہتر ہوتا ہے (یعنی خالص اور سچا، نفاق سے خالی) تو پھر وہ جو نیکی کرتا ہے اس کے لئے ایک کے بدلے دس نیکیاں سات سو گنا تک لکھی جاتی ہیں اور جو بُرائی کرتا ہے تو اس کے لئے ایک ہی بُرائی لکھی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مل جاتا ہے۔

68: سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری امت سے (گناہ کے ) ان خیالات سے درگزر کیا جو دل میں آئیں جب تک کہ ان کو زبان سے نہ نکالیں یا ان پر عمل نہ کریں۔

باب : مسلمان وہی ہے جس سے دیگر مسلمان محفوظ ہوں۔

69: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاصؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کونسا مسلمان بہتر ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان بچے رہیں (یعنی نہ زبان سے کسی مسلمان کی بُرائی کرے اور نہ ہاتھ سے کسی کو ایذا دے )۔

باب : جس نے جاہلیت میں کوئی نیک عمل کیا پھر وہ مسلمان ہو گیا۔

70: عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں سیدنا حکیم بن حزامؓ  نے بتایا کہ انہوں (سیدنا حکیم) نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کیا سمجھتے ہیں کہ جو نیک کام میں نے جاہلیت کے زمانہ میں کئے تھے جیسے صدقہ یا غلام کا آزاد کرنا یا ناتا ملانا، ان کا ثواب مجھے ملے گا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تو اسی نیکی پر اسلام لایا ہے جو کہ پہلے کر چکا ہے۔ (یعنی وہ نیکی قائم ہے ، اب اس پر اسلام زیادہ ہوا)۔

باب : آزمائش سے ڈرانا۔

71: سیدنا حذیفہؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ تھے ، آپﷺ نے فرمایا کہ گنو کتنے آدمی اسلام کے قائل ہیں؟ پھر ہم نے کہا کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا آپﷺ ہم پر (دشمنوں کی وجہ سے کوئی آفت آنے سے ) ڈرتے ہیں؟ اور بیشک ہم چھ سو آدمیوں سے لیکر سات سو تک ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے شاید مصیبت میں پڑ جاؤ۔ سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ پھر ایسا ہی ہوا کہ ہم مصیبت میں پڑ گئے یہاں تک کہ بعض ہم میں سے نماز بھی چپکے سے (چھپ کر) پڑھتے۔

باب : اسلام کی ابتداء غربت سے ہوئی (اور) عنقریب اسلام پہلی حالت میں لوٹ آئے گا اور وہ دو مسجدوں (مکہ و مدینہ) میں سمٹ کر رہ جائے گا۔

72: سیدنا ابن عمرؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ اسلام غربت میں شروع ہوا اور پھر غریب ہو جائے گا جیسے کہ شروع ہوا تھا اور وہ سمٹ کر دونوں مسجدوں (مکہ مدینہ) کے درمیان میں آ جائے گا، جیسے کہ سانپ سمٹ کر اپنے سوراخ (بل) میں چلا جاتا ہے۔

باب : رسول اللہﷺ کی طرف وحی کی ابتداء۔

73: عروہ بن زبیر سے روایت ہے اور انہیں اُمّ المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی،انہوں نے کہا کہ پہلے پہل جو وحی رسول اللہﷺ پر شروع ہوئی وہ یہ تھی کہ آپﷺ کا خواب سچا ہونے لگا۔ آپﷺ جب کوئی خواب دیکھتے تو وہ صبح کی روشنی کی طرح نمودار ہوتا۔ پھر آپﷺ کو تنہائی کا شوق ہوا۔ آپﷺ غارِ حرا میں اکیلے تشریف رکھتے ، کئی کئی راتوں تک وہاں عبادت کیا کرتے اور گھر میں نہ آتے ، اپنا توشہ ساتھ لے جاتے۔ پھر اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس لوٹ کر آتے اور وہ اتنا ہی اور توشہ تیار کر دیتیں یہاں تک کہ اچانک آپﷺ پر وحی اتری (اور آپﷺ کو وحی کی توقع نہ تھی) آپﷺ اسی غارِ حرا میں تھے کہ فرشتہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ پڑھو! آپﷺ نے فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ (آپﷺ نے فرمایا کہ) اس فرشتے نے مجھے پکڑ کر دبوچا، اتنا کہ وہ تھک گیا یا میں تھک گیا، پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھ! میں نے کہا میں پڑھا ہوا نہیں۔ اس نے پھر مجھے پکڑا اور دبوچا یہاں تک کہ تھک گیا، پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ ”پڑھ! اپنے رب کے نام سے ، جس نے پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا۔ تو پڑھتا رہ، تیرا رب بڑے کرم والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا۔ جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا“۔ یہ سن کر رسول اللہﷺ لوٹے اور آپﷺ کے کندھے اور گردن کے بیچ کا گوشت (ڈر اور خوف سے ) پھڑک رہا تھا (چونکہ یہ وحی کا پہلا مرحلہ تھا اور آپﷺ کو عادت نہ تھی، اس واسطے ہیبت چھا گئی) یہاں تک کہ آپﷺ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ مجھے (کپڑوں سے ) ڈھانپ دو، ڈھانپ دو۔ انہوں ڈھانپ دیا یہاں تک کہ آپﷺ کا ڈر جاتا رہا اس وقت اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ اے خدیجہ مجھے کیا ہو گیا اور سب حال بیان کیا اور کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگز نہیں آپ خوش رہیں۔ اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہ کرے گا یا کبھی رنجیدہ نہ کرے گا۔ اللہ کی قسم آپ ناتے کو جوڑتے ہیں، سچ بولتے ہیں اور بوجھ اٹھاتے ہیں (یعنی عیال اور اطفال اور یتیم اور مسکین کے ساتھ تعاون کرتے ہیں، ان کا بار اٹھاتے ہیں) اور نادار کے لئے کمائی کرتے ہیں اور مہمان کی خاطرداری کرتے ہیں اور سچی آفتوں (جیسے کوئی قرض دار یا مفلس ہو گیا یا اور کسی تباہی )میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ پھر اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا آپﷺ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور وہ اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے چچازاد بھائی تھے (کیونکہ ورقہ نوفل کے بیٹے تھے اور نوفل اسد کے بیٹے ، اور اُمّ المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا خویلد کی بیٹی تھیں اور خویلد اسد کے بیٹے تھے تو ورقہ اور خدیجہ کے باپ بھائی بھائی تھے ) اور جاہلیت کے زمانہ میں وہ نصرانی ہو گئے تھے اور عربی لکھنا جانتے تھے ، تو جتنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا انجیل کو عربی زبان میں لکھتے تھے اور بہت بوڑھے تھے ، ان کی بینائی (بڑھاپے کی وجہ سے ) جاتی رہی تھی۔ اُمّ المؤمنین خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ اے چچا! (وہ چچا کے بیٹے تھے لیکن بزرگی کے لئے ان کو چچا کہا اور ایک روایت میں چچا کے بیٹے ہیں) اپنے بھتیجے کی سنو۔ ورقہ نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! تم نے کیا دیکھا؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ کیفیت دیکھی تھی سب بیان کی تو ورقہ نے کہا کہ یہ تو وہ ناموس ہے جو موسیٰؑ  پر اتری تھی۔(ناموس سے مراد جبریلؑ  ہیں) کاش میں اس زمانہ میں جوان ہوتا، کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں نکال دے گی۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ مجھے نکال دیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں! جب کوئی شخص دنیا میں وہ لے کر آیا، جسے تم لائے ہو (یعنی شریعت اور دین) تو لوگ اس کے دشمن ہو گئے اور اگر میں اس دن کو پاؤں گا تو اچھی طرح تمہاری مدد کروں گا

74: یحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ سے پوچھا کہ سب سے پہلے قرآن میں سے کیا اترا؟ انہوں نے کہا کہ ﴿یَآیُّہَ الْمُدَثِّرُ﴾ میں نے کہا کہ یا ﴿اِقْرَأْ﴾ (سب سے پہلے اتری؟) انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے پوچھا کہ قرآن میں سب سے پہلے کیا اترا تو انہوں نے کہا کہ ﴿یَآیُّہَ الْمُدَثِّرُ﴾میں نے کہا کہ یا ﴿اِقْرَأْ﴾ (سب سے پہلے اتری؟)سیدنا جابرؓ  نے کہا کہ میں تم سے وہ حدیث بیان کرتا ہوں جو رسول اللہﷺ نے ہم سے بیان کی تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں (غار) حرا میں ایک مہینے تک رہا۔ جب میری رہنے کی مدت پوری ہو گئی تو میں اترا اور وادی کے اندر چلا، کسی نے مجھے آواز دی، میں نے سامنے اور پیچھے اور دائیں اور بائیں دیکھا، کوئی نظر نہ آیا۔ پھر مجھے کسی نے آواز دی، میں نے دیکھا مگر کسی کو نہ پایا۔ پھر کسی نے مجھے آواز دی تو میں نے سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو وہ ہوا میں ایک تخت پر ہیں یعنی جبریلؑ۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت (ہیبت کے مارے ) لرزہ چڑھ آیا۔ تب میں خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آیا اور میں نے کہا کہ مجھے کپڑا اڑھا دو! انہوں نے کپڑا اُڑھا دیا اور پانی (ہیبت دور کرنے کے لئے ) میرے اوپر ڈالا۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیتیں اتاریں۔ ”اے کپڑا اوڑھنے والے۔ کھڑا ہو جا اور آگاہ کر دے۔ اور اپنے رب ہی کی بڑائیاں بیان کر۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ ……“ (المدثر 1,4)۔

باب : وحی کا کثرت سے اور لگاتار نازل ہونا۔

75: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ بے شک اللہ عزوجل نے رسول اللہﷺ پر آپﷺ کی وفات سے قبل پے درپے وحی اتاری حتی کہ آپﷺ نے وفات پائی۔ اور سب سے زیادہ وحی آپﷺ کی وفات کے دن نازل ہوئی۔

باب : رسول اللہﷺ کا آسمانوں پر تشریف لے جانا (یعنی معراج) اور نمازوں کا فرض ہونا۔

76: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: میرے سامنے ایک سفید براق لایا گیا، اور وہ ایک جانور ہے سفید رنگ کا، لمبا، گدھے سے اونچا اور خچر سے چھوٹا، اپنے سم وہاں رکھتا ہے جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے (تو ایک لمحہ میں آسمان تک جا سکتا ہے )۔ فرمایا: میں اس پر سوار ہوا اور بیت المقدس تک آیا۔ فرمایا: وہاں میں نے اس جانور کو اس حلقہ سے باندھ دیا، جس سے اور پیغمبر اپنے اپنے جانوروں کو باندھا کرتے تھے (یہ حلقہ مسجد کے دروازے پر ہے اور باندھ دینے سے یہ معلوم ہوا کہ انسان کو اپنی چیزوں کی احتیاط اور حفاظت ضروری ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں) پھر میں مسجد کے اندر گیا اور دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر نکلا تو جبریلؑ  دو برتن لے کر آئے ، ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ میں نے دودھ پسند کیا تو جبریل نے کہا، آپ نے فطرت کو پسند کیا۔ پھر جبریلؑ مجھے آسمان پر لے کر گئے ، (جب وہاں پہنچے ) تو فرشتوں سے دروازہ کھولنے کے لئے کہا، انہوں نے پوچھا کون ہے ؟ جبریل نے کہا کہ جبریل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلائے گئے تھے ؟ جبریلؑ  نے کہا کہ ہاں بلائے گئے ہیں۔ پھر ہمارے لئے دروازہ کھولا گیا اور میں نے آدمؑ  کو دیکھا تو انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریلؑ ہمارے ساتھ دوسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون شخص ہے ؟ انہوں نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ ان کو بلانے کا حکم ہوا تھا؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں حکم ہوا ہے۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے دونوں خالہ زاد بھائیوں کو دیکھا یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہما السلام کو۔ ان دونوں نے مرحبا کہا اور میرے لئے بہتری کی دعا کی۔ پھر جبریلؑ  ہمارے ساتھ تیسرے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا، تو فرشتوں نے کہا کہ کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے کہا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ؟ جبریلؑ  نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا ان کو بلانے کے لئے پیغام گیا تھا؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں پیغام گیا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے یوسفؑ  کو دیکھا۔ اللہ نے حسن (خوبصورتی) کا آدھا حصہ ان کو دیا تھا۔ انہوں نے مجھے مرحبا کہا اور نیک دعا کی۔ پھر جبریلؑ  ہمیں لے کر چوتھے آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا تو فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟جبریلؑ نے کہا کہ جبریل۔ انہوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ دوسرا کون ہے ؟ جبریلؑ  نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کہ وہ بلوائے گئے ہیں؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ادریسؑ  کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ اللہ جل جلالہ نے فرمایا ہے کہ ”ہم نے ادریس کو اونچی جگہ پر اٹھا لیا“ (تو اونچی جگہ سے یہی چوتھا آسمان مراد ہے )۔ پھر جبریلؑ  ہمارے ساتھ پانچویں آسمان پر چڑھے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون؟ کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے سا تھ کون ہے ؟ جبریلؑ نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ کیا وہ بلائے گئے ہیں؟ جبریلؑ نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ہارونؑ  کو دیکھا۔ انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے نیک دعا دی۔ پھر جبریلؑ  ہمارے ساتھ چھٹے آسمان پر پہنچے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ جبریلؑ  نے کہا کہ جبریل۔ فرشتوں نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ انہوں نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے کہا کہ اللہ نے ان کو لے کر آنے کے لئے پیغام بھیجا تھا؟ جبریلؑ نے کہا، ہاں! بھیجا تھا۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے موسیٰؑ کو دیکھا، انہوں نے مرحبا کہا اور مجھے اچھی دعا دی۔ پھر جبریلؑ  ہمارے ساتھ ساتویں آسمان پر چڑھے اور دروازہ کھلوایا۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کون ہے ؟ جبریلؑ  نے کہا کہ جبریل ہوں۔ پوچھا کہ تمہارے ساتھ اور کون ہے ؟ جبریلؑ  نے کہا کہ محمدﷺ ہیں۔ فرشتوں نے پوچھا کہ کیا وہ بلوائے گئے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ہاں بلوائے گئے ہیں۔ پھر دروازہ کھلا تو میں نے ابراہیمؑ  کو دیکھا کہ وہ بیت المعمور سے اپنی پیٹھ کا تکیہ لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ (اس سے معلوم ہوا کہ قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے بیٹھنا گناہ نہیں) اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں کہ پھر کبھی ان کی باری نہیں آئے گی۔ پھر جبریلؑ  مجھے سدرۃ المنتہیٰ کے پاس لے گئے۔ اس کے پتے اتنے بڑے تھے جیسے ہاتھی کے کان اور اس کے بیر قلہ جیسے۔ (ایک بڑا گھڑا جس میں دو مشک یا زیادہ پانی آتا ہے ) پھر جب اس درخت کو اللہ تعالیٰ کے حکم نے ڈھانکا تو اس کا حال ایسا ہو گیا کہ کوئی مخلوق اس کی خوبصورتی بیان نہیں کر سکتی۔ پھر اللہ جل جلالہ نے میرے دل میں القاء کیا جو کچھ القاء کیا اور پچاس نمازیں رات اور دن میں مجھ پر فرض کیں۔ جب میں وہاں سے اترا اور موسیٰؑ  تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ تمہارے پروردگار نے تمہاری امت پر کیا فرض کیا؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار کی طرف لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو، کیونکہ تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی اور میں نے بنی اسرائیل کو آزمایا اور ان کا امتحان لیا ہے۔ میں اپنے پروردگار کے پاس لوٹ گیا اور عرض کیا کہ اے پروردگار! میری امت پر تخفیف کر۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ نمازیں گھٹا دیں۔ میں لوٹ کر موسیٰؑ کے پاس آیا اور کہا کہ پانچ نمازیں اللہ تعالیٰ نے مجھے معاف کر دیں۔ انہوں نے کہا تمہاری امت کو اتنی طاقت نہ ہو گی ، تم پھر اپنے رب کے پاس جاؤ اور تخفیف کراؤ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اس طرح برابر اپنے پروردگار کے درمیان آتا جاتا رہا، یہاں تک کہ اللہ جل جلالہ نے فرمایا کہ اے محمدﷺ! ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں ہیں ، اور ہر ایک نماز میں دس نمازوں کا ثواب ہے۔ تو وہی پچاس نمازیں ہوئیں (سبحان اللہ! مالک کی اپنے بندوں پر کیسی عنایت ہے کہ پڑھیں تو پانچ نمازیں اور ثواب پچاس نمازوں کا ملے ) اور جو کوئی شخص نیک کام کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کر سکے تو اس کو ایک نیکی کا ثواب ملے گا اور جو کرے تو اس کو دس نیکیوں کا اور جو شخص برائی کرنے کی نیت کرے اور پھر اس کو نہ کرے ، تو کچھ نہ لکھا جائے گا اور اگر کر لے تو ایک ہی بُرائی لکھی جائے گی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں اترا اور موسیٰؑ  کے پاس آیا تو انہوں نے کہا کہ پھر اپنے رب کے پاس لوٹ جاؤ اور تخفیف چاہو۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے رب کے پاس بار بار گیا یہاں تک کہ میں اس سے شرما گیا ہوں۔ (یعنی اب جانے سے شرماتا ہوں)۔

باب : نبیﷺ کا انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ کرنا۔

77: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان چل رہے تھے کہ ایک وادی پر گزرے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ یہ کون سی وادی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ وادی ازرق ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ گویا میں موسیٰؑ کو دیکھ رہا ہوں، (پھر موسیٰؑ  کا رنگ اور بالوں کا حال بیان کیا جو (راوی حدیث) داؤد بن ابی ہند کو یاد نہ رہا)۔ جو انگلیاں اپنے کانوں میں رکھے ہوئے ، بلند آواز سے تلبیہ پکارتے ہوئے اس وادی میں سے جا رہے ہیں۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ ہم پھر چلے یہاں تک کہ ایک ٹیکری پر آئے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ کون سی ٹیکری ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ’ہرشا‘ کی یا ’لفت‘ کی۔ آپﷺ نے فرمایا: گویا کہ میں یونسؑ  کو دیکھ رہا ہوں کہ صوف کا ایک جبہ پہنے ہوئے ایک سرخ اونٹنی پر سوار ہیں اور ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے چھال کی ہے ، وہ اس وادی میں لبیک کہتے ہوئے جا رہے ہیں۔

78: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب مجھے معراج کرائی گئی تو میں موسیٰؑ  سے ملا۔ پھر آپﷺ نے ان کی صورت بیان کی۔ میں خیال کرتا ہوں کہ آپﷺ نے یوں فرمایا (یہ شک راوی ہے ) کہ وہ لمبے ، چھریرے بدن والے ، سیاہ بالوں والے جیسے شنؤ ۃ کے لوگ ہوتے تھے۔ اور فرمایا کہ میں عیسیٰؑ  سے ملا۔ پھر آپﷺ نے ان کی صورت بیان کی کہ وہ درمیانہ قد والے ، سرخ رنگت والے جیسے کہ ابھی کوئی حمام سے نکلا ہو (یعنی ایسے تر و تازہ اور خوش رنگ) تھے اور آپﷺ نے فرمایا کہ میں ابراہیمؑ کو دیکھا، تو میں ان کی اولاد میں سب سے زیادہ ان سے مشابہ ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر میرے پاس دو برتن لائے گئے۔ ایک میں دودھ تھا اور ایک میں شراب، اور مجھ سے کہا گیا کہ جس کو چاہو پسند کر لو۔میں نے دودھ کا برتن لے لیا اور دودھ پیا تو اس (فرشتے نے جو یہ دونوں برتن لے کر آیا تھا) کہا کہ تم کو فطرت (ہدایت) کی راہ ملی یا تم فطرت (ہدایت) کو پہنچ گئے۔ اور اگر تم شراب کو اختیار کرتے تو تمہاری امت گمراہ ہو جاتی۔

باب : نبیﷺ کا مسیح عیسیٰ اور دجّال کا تذکرہ فرمانا۔

79: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن لوگوں کے درمیان مسیح دجال کا ذکر کیا تو فرمایا: کہ اللہ جل جلالہ کانا نہیں ہے اور مسیح دجال داہنی آنکھ سے کانا ہے۔ اس کی کانی آنکھ ایسی ہے جیسے پھولا ہوا انگور۔ (پس یہی ایک کھلی نشانی ہے اس بات کی کہ وہ مردود اپنے خدائی دعوے میں جھوٹا ہے )۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک رات خواب میں میں نے اپنے آپ کو کعبہ کے پاس دیکھا کہ ایک گندمی رنگ کا شخص جیسے کوئی بہت اچھا گندمی رنگ کا شخص ہوتا ہے ، اس کے بال کندھوں تک تھے اور بالوں میں کنگھی کی ہوئی تھی، سر میں سے پانی ٹپک رہا تھا، اور وہ اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ کون شخص ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مریم کے بیٹے مسیح علیہ السلام ہیں۔ اور ان کے پیچھے میں نے ایک اور شخص کو دیکھا جو کہ سخت گھونگھریالے بالوں والا، داہنی آنکھ کا کانا تھا۔ میں نے جو لوگ دیکھے ان سب میں ابن قطن اس سے زیادہ مشابہ ہے ، وہ بھی اپنے دونوں ہاتھ دو آدمیوں کے کندھوں پر رکھے ہوئے طواف کر رہا تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ مسیح دجال ہے۔

باب : نبیﷺ کا انبیاء علیہم السلام کو نماز پڑھانا۔

80: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں نے اپنے آپ کو حطیم میں دیکھا اور (دیکھا کہ) قریش مجھ سے میری سیر (معراج) کا حال پوچھ رہے تھے ، تو انہوں نے بیت المقدس کی کئی چیزیں پوچھیں جن کو میں ذہن میں محفوظ نہیں رکھتا تھا۔ مجھے بڑا رنج ہوا، ایسا رنج کبھی نہیں ہوا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس کو اٹھا کر میرے سامنے کر دیا، میں اس کو دیکھنے لگا اور اب جو بات وہ پوچھتے تو میں بتا دیتا تھا۔ اور میں نے اپنے آپ کو پیغمبروں کی جماعت میں پایا، دیکھا کہ موسیٰؑ  کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، وہ ایک درمیانہ قداور گٹھے ہوئے جسم کے شخص ہیں جیسے کہ (قبیلہ) شنؤۃ کے لوگ ہوتے ہیں۔ اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کو بھی دیکھا کہ وہ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، اور میں ان کے سب سے زیادہ مشابہ عروہ ابن مسعود ثقفیؓ  کو پاتا ہوں۔ اور دیکھا کہ ابراہیمؑ بھی کھڑے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں، ان کے سب سے زیادہ مشابہ تمہارے صاحب (یعنی اپنے آپ کو مراد لیا) ہیں۔ اور پھر نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی اور سب پیغمبروں نے میرے پیچھے نماز پڑھی۔ جب میں نماز سے فارغ ہوا تو ایک بولنے والا بولا کہ اے محمدﷺ! یہ جہنم کا داروغہ ”مالک“ ہے اس کو سلام کرو۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے خود پہلے مجھے سلام کیا۔

باب : معراج (والی رات )میں نبیﷺ کا سدرۃ المنتہی تک پہنچنا۔

81: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ کو معراج کرائی گئی تو آپﷺ سدرۃ المنتہیٰ تک لے جایا گیا اور وہ چھٹے آسمان میں ہے۔ زمین سے جو چڑھتا ہے ، وہ یہیں آ کر ٹھہر جاتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اور جو اوپر سے اترتا ہے ، وہ بھی یہیں ٹھہرتا ہے پھر لے لیا جاتا ہے۔ اللہ عزوجل نے فرمایا کہ ”جب کہ سدرہ (بیری) کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو اس پر چھا رہی تھی“ (النجم : 16) سیدنا عبد اللہؓ نے کہا کہ یعنی سونے کے پتنگے۔ پھر رسول اللہﷺ کو وہاں تین چیزیں دی گئیں۔ ایک تو پانچ نمازیں، دوسری سورۂ بقرہ کی آخری آیتیں اور تیسرے اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کی امت میں سے اس شخص کو بخش دیا جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے گا ، (باقی تمام تباہ کرنے والے گناہوں کو معاف کر دیا جاتا ہے سوائے شرک کے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنَ اَوْ اَدْنیٰ﴾ کا مطلب

82: شیبانی سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے زِرّ بن حبیشؓ  سے اللہ تعالیٰ کے اس قول ”پس وہ دو کمانوں کے بقدر فاصلہ رہ گیا بلکہ اس سے بھی کم“ (النجم : 9) کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے جبرائیلؑ  کو دیکھا تھا ، ان کے چھ سو پر تھے۔

83: سیدنا ابن عباسؓ  اللہ تعالیٰ کے قول ”دل نے جھوٹ نہیں کہا جسے (پیغمبر نے )دیکھا … اسے تو ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (النجم : 11,13) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے اللہ تعالیٰ کو اپنے دل سے دو بار دیکھا۔ (سیدنا ابن عباسؓ کا یہ اپنا نقطہ نظر ہے ) (م۔ع)۔

باب : اللہ تعالیٰ کے دیدار کے بیان میں۔

84: مسروق سے روایت ہے کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تکیہ لگائے ہوئے بیٹھا تھا تو انہوں نے کہا کہ اے ابو عائشہ! (یہ مسروق کی کنیت ہے ) تین باتیں ایسی ہیں کہ جو کوئی ان کا قائل ہو، اس نے اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ میں نے کہا کہ وہ تین باتیں کونسی ہیں؟ انہوں نے کہا کہ (ایک یہ ہے کہ) جو کوئی سمجھے کہ محمدﷺ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا ہے ، اس نے اللہ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ مسروق نے کہا کہ میں تکیہ لگائے ہوئے تھا، یہ سن کر میں بیٹھ گیا اور کہا کہ اے اُمّ المؤمنین! ذرا مجھے بات کرنے دو اور جلدی مت کرو۔ کیا اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمایا کہ ”اس نے اس کو آسمان کے کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے “ (التکویر: 23) ”اسے ایک مرتبہ اور بھی دیکھا تھا“ (النجم : 13)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اس امت میں سب سے پہلے میں نے ان آیتوں کے متعلق رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان آیتوں سے مراد جبرائیلؑ  ہیں۔ میں نے ان کو ان کی اصلی صورت پر نہیں دیکھا سوا دو بار کے جن کا ذکر ان آیتوں میں ہے۔ میں نے ان کو دیکھا کہ وہ آسمان سے اتر رہے تھے اور ان کے جسم کی بڑائی نے آسمان سے زمین تک کے فاصلہ کو بھر دیا تھا۔ پھر اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اس (اللہ) کو تو کسی کی نگاہ نہیں دیکھ سکتی اور وہ سب نگاہوں کو دیکھ سکتا ہے اور وہی بڑا باریک بین باخبر ہے “ (الانعام: 103) کیا تو نے نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”نا ممکن ہے کہ کسی بندہ سے اللہ تعالیٰ کلام کرے مگر وحی کے ذریعہ یا پردے کے پیچھے سے یا کسی فرشتہ کو بھیجے اور وہ اللہ کے حکم سے جو وہ چاہے وحی کرے بیشک وہ برتر ہے حکمت والا ہے “ (الشوریٰ: 51)؟ (دوسری یہ ہے کہ) جو کوئی خیال کرے کہ رسول اللہﷺ نے اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سے کچھ چھپا لیا، تو اس نے (بھی)اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ”اے رسولﷺ! جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے ، پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی“ (المائدہ : 67)۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اور جو کوئی کہے کہ رسول اللہﷺ کل ہونے والی بات جانتے تھے (یعنی آئندہ کا حال) تو اس نے (بھی) اللہ تعالیٰ پر بڑا جھوٹ باندھا۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ ”(اے محمدﷺ!) کہہ دیجئے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا کوئی غیب کی بات نہیں جانتا“۔ اور داؤد نے اتنا زیادہ کیا ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اگر رسول اللہﷺ اس (یعنی قرآن) میں سے کچھ چھپانے والے ہوتے جو کہ ان پر نازل کیا گیا ہے ، (یعنی قرآن) تو اس آیت کو چھپاتے کہ (یاد کرو) جب کہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا، جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں وہ بات چھپائے ہوئے تھا، جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اس سے ڈرے “ (الاحزاب: 37)۔

85: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کھڑے ہو کر ایسی پانچ باتیں سنائیں۔ آپﷺ نے فرمایا: 1۔ اللہ جل جلالہ سوتا نہیں اور سونا اس کے لائق ہی نہیں (کیونکہ سونا عضلات اور اعضائے بدن کی تھکاوٹ سے ہوتا اور اللہ تعالیٰ تھکن سے پاک ہے ، دوسرے یہ کہ سونا غفلت ہے اور موت کے مثل ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے )۔2۔ اور وہی ترازو کو جھکاتا اور اس کو اونچا کرتا ہے۔ 3۔ اسی کی طرف رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے اٹھایا جاتا ہے۔4۔ اس کا پردہ نور ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اس کا پردہ آگ ہے۔ 5۔ اگر وہ اس پردے کو کھول دے تو اس کے منہ کی شعاعیں، جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی ہے مخلوقات کو جلا دیں۔

86: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا قیامت کے روز ہم اپنے پروردگار کو دیکھیں گے ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہو؟ (یعنی اژدحام اور ہجوم کی وجہ سے )۔ یا تمہیں چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کچھ تکلیف ہوتی ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ نہیں یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپﷺ نے فرمایا کہ بھلا تمہیں سورج کے دیکھنے میں، جس وقت کہ بادل نہ ہو (اور آسمان صاف ہو) کچھ مشقت ہوتی ہے یا ایک دوسرے کو صدمہ پہنچاتے ہو ؟ لوگوں نے کہا نہیں یا رسول اللہﷺ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پھر اسی طرح (یعنی بغیر تکلیف، مشقت، زحمت اور اژدحام کے ) تم اپنے پروردگار کو دیکھو گے۔ اللہ تعالیٰ لوگوں کو قیامت کے دن جمع کرے گا تو فرمائے گا کہ جو کوئی جس کو پوجتا تھا اسی کے ساتھ ہو جائے۔ پھر جو شخص سورج کو پوجتا تھا وہ سورج کے ساتھ ہو جائے گا اور جو چاند کو پوجتا تھا وہ چاند کے ساتھ اور جو طاغوت کو پوجتا تھا وہ طاغوت کے ساتھ ہو جائے گا۔ بس یہ امت محمدﷺ باقی رہ جائے گی جس میں منافق لوگ بھی ہوں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس ایسی صورت میں آئے گا کہ جس کو وہ نہ پہچانیں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں۔ وہ کہیں گے کہ ہم تجھ سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم اسی جگہ ٹھہرے رہیں گے یہاں تک کہ ہمارا پروردگار آئے گا تو ہم اس کو پہچان لیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کے پاس اس صورت میں آئے گا جس کو وہ پہچانتے ہوں گے اور کہے گا کہ میں تمہارا رب ہوں، تو وہ کہیں گے کہ تو ہمارا رب ہے۔ پھر وہ اس کے ساتھ ہو جائیں گے اور دوزخ کی پشت پر پُل رکھا جائے گا تو میں اور میری امت سب سے پہلے پار ہوں گے اور سوائے پیغمبروں کے اور کوئی اس دن بات نہ کر سکے گا۔اور پیغمبروں کا بول اس وقت یہ ہو گا کہ یا اللہ بچائیو! (یہ شفقت کی وجہ سے کہیں گے مخلوق پر) اور دوزخ میں کڑے ہیں (لوہے کے ، جن کا سر ٹیڑھا ہوتا ہے اور تنور میں جب گوشت ڈالتے ہیں تو کڑوں میں لگا کر ڈالتے ہیں) جیسے سعدان جھاڑی کے کانٹے (سعدان ایک کانٹوں دار جھاڑ ی ہے ) نبیﷺ نے صحابہؓ سے فرمایا کہ کیا تم نے سعدان جھاڑی دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں دیکھی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ پس وہ سعدان کے آنکڑے کانٹوں کی شکل پر ہوں گے لیکن سوائے اللہ تعالیٰ کے یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ کڑے کتنے بڑے بڑے ہوں گے۔ وہ لوگوں کو دوزخ میں گھسیٹیں گے (یعنی فرشتے ان کڑوں سے دوزخیوں کو گھسیٹ لیں گے ) ان کے بد عملوں کی وجہ سے۔ اب بعض ان میں برباد ہوں گے جو اپنے بد عمل کے سبب سے برباد ہو جائیں گے اور بعض ان میں سے اپنے اعمال کا بدلہ دئیے جائیں گے یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فراغت پائے گا اور چاہے گا کہ دوزخ والوں میں سے جس کو چاہے اپنی رحمت سے نکالے ، تو فرشتوں کو حکم دے گا دوزخ سے اس شخص کو نکالیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کیا ہو، جس پر اللہ نے رحمت کرنی چاہی ہو، جو کہ لا الٰہ الا اللہ کہتا ہو گا، تو فرشتے دوزخ میں ایسے لوگوں کو پہچان لیں گے اور وہ انہیں سجدوں کے نشان سے پہچانیں گے۔ آگ آدمی کو جلا ڈالے گی سوائے سجدے کے نشان کی جگہ کے (کیونکہ) اللہ تعالیٰ نے آگ پر اس جگہ کا جلانا حرام کیا ہے۔ پھر وہ دوزخ سے جلے بھنے نکالے جائیں گے ، تب ان پر آبِ حیات چھڑکا جائے گا تو وہ تازہ ہو کر ایسے جم اٹھیں گے جیسے دانہ پانی کے بہاؤ میں جم اٹھتا ہے (پانی جہاں پر کوڑا کچرا مٹی بہا کر لاتا ہے وہاں دانہ خوب اگتا ہے اور جلد شاداب اور سرسبز ہو جاتا ہے اسی طرح وہ جہنمی بھی آبِ حیات ڈالتے ہی تازے ہو جائیں گے اور جلن کے نشان بالکل جاتے رہیں گے ) پھر جب اللہ تعالیٰ بندوں کے فیصلے سے فارغ ہو گا اور ایک مرد باقی رہ جائے گا جس کا منہ دوزخ کی طرف ہو گا اور یہ جنت میں داخل ہونے والا آخری شخص ہو گا ، وہ کہے گا کہ اے رب! میرا منہ جہنم کی طرف سے پھیر دے کیونکہ اس کی بو مجھے ایذا میں ڈالنے والی اور اس کی گرمی مجھے جلائے دے رہی ہے۔ پھر اللہ سے دعا کرے گا جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اگر میں تیرا سوال پورا کروں تو تو اور سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں، پھر میں کچھ سوال نہ کروں گا اور جیسے جیسے اللہ کو منظور ہوں گے وہ قول اقرار کرے گا، تب اللہ تعالیٰ اس کا منہ دوزخ کی طرف سے (جنت کی طرف) پھیر دے گا۔ جب جنت کی طرف اس کا منہ ہو گا تو جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا چپ رہے گا، پھر کہے گا کہ اے رب مجھے جنت کے دروازے تک پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تو کیا کیا قول اور اقرار کر چکا ہے کہ پھر میں دوسرا سوال نہ کروں گا، برا ہو تیرا، اے آدمی تو کیسا دغا باز ہے ؟ وہ کہے گا کہ اے رب! اور دعا کرے گا یہاں تک کہ اللہ تعالی فرمائے گا کہ اچھا اگر میں تیرا یہ سوال پورا کر دوں تو پھر تو اور کچھ مانگے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں قسم تیری عزت کی اور کیا کیا قول اور اقرار کرے گا جیسے اللہ کو منظور ہو گا، آخر اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے دروازے تک پہنچا دے گا۔ جب وہاں کھڑا ہو گا تو ساری جنت اس کو دکھلائی دے گی اور جو کچھ اس میں نعمت یا خوشی اور فرحت ہے وہ سب۔ پھر ایک مدت تک جب تک اللہ کو منظور ہو گا وہ چپ رہے گا۔ اس کے بعد عرض کرے گا کہ اے رب! مجھے جنت کے اندر لے جا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے کیا پختہ وعدہ اور اقرار نہیں کیا تھا کہ اب میں کچھ سوال نہ کروں گا؟ بُرا ہو تیرا اے آدم کے بیٹے ! تو کیسا دھوکہ باز ہے۔ وہ عرض کرے گا کہ اے میرے رب میں تیری مخلوق میں بدنصیب نہیں ہوں گا اور دعا کرتا رہے گا یہاں تک کہ اللہ جل شانہ ہنس دے گا اور جب اللہ تعالیٰ کو ہنسی آ جائے گی تو فرمائے گا کہ اچھا، جا جنت میں چلا جا۔ جب وہ جنت کے اندر جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ اب تو کوئی اور آرزو کر۔ وہ کرے گا اور مانگے گا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو یاد دلائے گا کہ فلاں چیز مانگ، فلاں چیز مانگ۔ جب اس کی آرزوئیں ختم ہو جائیں گی تو حق تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب چیزیں تجھے دیں اور ان کے ساتھ اتنی ہی اور دیں۔ (یعنی اپنی خواہشوں سے دو گنا لے۔ سبحان اللہ ! کیا کرم اور رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر اور اگر وہ کرم نہ کرے تو اور کون کرے ؟ وہی مالک ہے وہی خالق ہے ، وہی رازق ہے ، وہ پالنے والا ہے ) عطاء بن یزید نے کہا جو اس حدیث کے راوی ہیں کہ سیدنا ابو سعید خدریؓ  بھی اس حدیث کی روایت کرنے میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کے موافق تھے کہیں خلاف نہ تھے۔ لیکن جب سیدنا ابو ہریرہؓ  نے یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں تو سیدنا ابو سعید خدریؓ نے کہا کہ اے ابو ہریرہ! اس کے مثل دس گنا اور بھی۔ تو سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ مجھے تو یہی بات یاد ہے کہ رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور اتنی ہی اور دیں۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ  نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ نے یوں فرمایا کہ ہم نے یہ سب تجھے دیں اور دس حصے زیادہ دیں۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  نے کہا کہ یہ وہ شخص ہے جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا (تو اور جنتیوں کو معلوم نہیں کیا کیا نعمتیں ملیں گی)۔

باب : اللہ کی توحید کا اقرار کرنے والوں کا جہنم سے نکلنا۔

87: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (یعنی ہمیشہ وہاں رہنے کے لئے ہیں جیسے کافر اور مشرک) وہ تو نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے ، اللہ تعالیٰ ان پر موت طاری کرے گا یہاں تک کہ وہ جل کر کوئلہ ہو جائیں گے تو ان کے لئے شفاعت کی اجازت ہو گی اور یہ لوگ گروہ در گروہ لائے جائیں گے اور جنت کی نہروں پر پھیلائے جائیں گے اور حکم ہو گا کہ اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو۔ تب وہ اس طرح سے اُگیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں اگتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔ (یہ سن کر) ایک شخص بولا کہ گویا رسول اللہﷺ! (معلوم ہوتا ہے ) آپﷺ جنگل میں رہے ہیں (جبھی تو آپ کو یہ معلوم ہے کہ بہاؤ میں جو مٹی جمع ہوتی ہے اس میں دانہ خوب اگتا ہے )۔

88: سیدنا انسؓ اور سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: سب سے آخر میں جو شخص جنت میں جائے گا، وہ ایک ایسا شخص ہو گا جو چلے گا، پھر اوندھا گرے گا اور جہنم کی آگ اس کو جلاتی جائے گی۔ جب دوزخ سے پار ہو جائے گا، تو پیٹھ موڑ کر اس کو دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی برکت والی ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ (جہنم) سے نجات دی۔ بیشک جتنا اللہ تعالیٰ نے مجھے دیا ہے اتنا اگلوں پچھلوں میں سے کسی کو نہیں دیا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھلائی دے گا، وہ کہے گا کہ اے رب، مجھے اس درخت کے نزدیک کر دے تاکہ میں اس کے سایہ میں رہوں اور اس کا پانی پیوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! اگر میں نے تیرا یہ سوال پورا کر دیا تو تو اور بھی سوال کرے گا؟ وہ کہے گا کہ نہیں اے میرے رب! اور عہد کرے گا کہ پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا۔ اور اللہ تعالیٰ اس کا عذر قبول کر لے گا اس لئے کہ وہ ایسی نعمت کو دیکھے گا جس پر اس سے صبر نہیں ہو سکتا (یعنی انسان بے صبر ہے جب وہ تکلیف میں مبتلا ہو اور عیش کی بات دیکھے تو بے اختیار اس کی خواہش کرتا ہے )۔ آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا اور وہ اس کے سایہ میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک اور درخت دکھلائی دے گا، جو اس سے بھی اچھا ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے پروردگار مجھے اس درخت کے نزدیک پہنچا دے تاکہ میں اس کے سائے میں جاؤں اور اس کا پانی پیوں اور میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو نے عہد نہیں کیا تھا کہ میں پھر سوال نہ کروں گا؟ اور اگر میں تجھے اس درخت تک پہنچا دوں، تو پھر تو اور سوال کرے گا۔ وہ اقرار کرے گا کہ نہیں پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ اس کو اس نعمت پر، جو وہ (شخص) دیکھتا ہے ، صبر نہیں۔ تب اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے نزدیک کر دے گا، وہ اس کے سائے میں رہے گا اور وہاں کا پانی پئے گا۔ پھر اس کو ایک درخت دکھائی دے گا جو جنت کے دروازے پر ہو گا اور وہ پہلے کے دونوں درختوں سے بہتر ہو گا۔ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے اس درخت کے پاس پہنچا دے تاکہ میں اس کے نیچے سایہ میں رہوں اور وہاں کا پانی پیوں، اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! کیا تو اقرار نہ کر چکا تھا کہ اب میں اور کچھ سوال نہ کروں گا؟ وہ کہے گا کہ بیشک میں اقرار کر چکا تھا، لیکن اب میرا یہ سوال پورا کر دے ، پھر میں اور کچھ سوال نہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو معذور رکھے گا اس لئے کہ وہ ان نعمتوں کو دیکھے گا جن پر وہ صبر نہیں کر سکتا۔آخر اللہ تعالیٰ اس کو اس درخت کے پاس کر دے گا۔ جب وہ اس درخت کے پاس جائے گا تو جنت والوں کی آوازیں سنے گا اور کہے گا کہ اے میرے رب! مجھے جنت کے اندر پہنچا دے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم کے بیٹے ! تیرے سوال کو کون سی چیز پورا کرے گی؟ (یعنی تیری خواہش کب موقوف ہو گی اور یہ بار بار سوال کرنا کیسے بند ہو گا) بھلا تو اس پر راضی ہے کہ میں تجھے ساری دنیا کے برابر دے کر اتنا ہی اور دوں؟ وہ کہے گا کہ اے میرے رب! تو سارے جہاں کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے ؟ پھر سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  ہنسنے لگے اور لوگوں سے کہا کہ تم مجھ سے پوچھتے نہیں کہ میں کیوں ہنستا ہوں؟ لوگوں نے پوچھا کہ تم کیوں ہنستے ہو؟ تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ بھی (اس حدیث کو بیان کر کے ) اسی طرح ہنسے تھے۔ لوگوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ کیوں ہنستے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ رب العالمین کے ہنسنے سے ، میں بھی ہنستا ہوں جب وہ بندہ یہ کہے گا کہ تو سارے جہان کا مالک ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے ؟ تو پروردگار ہنس دے گا (اس کی نادانی اور بیوقوفی پر) اور اللہ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کرتا (مذاق کرنا میرے لائق نہیں وہ بندوں کے لائق ہے ) بلکہ میں جو چاہتا ہوں کر سکتا ہوں۔

89: ابو الزبیر نے سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت کی ہے کہ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے قیامت کے دن لوگوں کے آنے کے حال کے بارے میں پوچھا گیا؟ تو انہوں نے کہا کہ ہم قیامت کے دن اس طرح سے آئیں گے یعنی یہ اوپر سب آدمیوں کے۔ پھر سب امتیں اپنے اپنے بتوں اور معبودوں کے ساتھ پکاری جائیں گی۔ پہلی امت، پھر دوسری امت۔ اس کے بعد ہمارا پروردگار آئے گا اور فرمائے گا کہ تم کس کا انتظار کر رہے ہو؟ (یعنی امتِ محمدیﷺ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمائے گا) وہ کہیں گے کہ ہم اپنے پروردگار کا انتظار کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تمہارا مالک ہوں، وہ کہیں گے ہم تجھ کو دیکھیں گے تو تب(معلوم ہو گا) پھر اللہ ان کو ہنستا ہوا دکھائی دے گا اور ان کے ساتھ چلے گا اور سب لوگ اس کے پیچھے ہوں گے اور ہرا یک آدمی کو خواہ وہ منافق ہو یا مومن، ایک نور ملے گا۔ لوگ اس کے ساتھ ہوں گے اور جہنم کے پل پر آنکڑے اور کانٹے ہوں گے ، وہ پکڑ لیں گے جن کو اللہ چاہے گا۔ اس کے بعد منافقوں کا نور بجھ جائے گا اور مومن نجات پائیں گے۔ تو پہلا گروہ مومنوں کا (جو ہو گا) ان کے منہ چودھویں رات کے چاند کے سے ہوں گے (وہ گروہ) ستر ہزار آدمیوں کا ہو گا جن سے حساب و کتاب نہ ہو گا۔ ان کے بعد گروہ خوب چمکتے ستارے کی طرح ہوں گے۔ پھر ان کے بعد کا ان سے کم، یہاں تک کہ شفاعت کا وقت آ جائے گا اور لوگ شفاعت کریں گے اور جہنم سے وہ شخص بھی نکالا جائے گا جس نے لا الٰہ الا اللہ کہا تھا اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی نیکی اور بہتری تھی۔ یہ لوگ جنت کے صحن میں ڈال دئیے جائیں گے اور جنتی لوگ ان پر پانی چھڑکیں گے (جس سے ) وہ اس طرح اگیں گے جیسے جھاڑ پانی کے بہاؤ میں اگتا ہے۔ اور ان کی سوز جلن بالکل جاتی رہے گی۔ پھر وہ اللہ سے سوال کریں گے اور ہر ایک کو اتنا ملے گا جیسے ساری دنیا بلکہ اس کے ساتھ دس گنا اور بھی۔

90: یزید بن صہیب فقیر سے روایت ہے کہتے ہیں کہ میرے دل میں خارجیوں کی ایک بات کھب گئی تھی (اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو جہنم میں جائے گا وہ پھر وہاں سے نہ نکلے گا)، تو ہم ایک بڑی جماعت کے ساتھ اس ارادے سے نکلے کہ حج کریں۔ پھر خارجیوں کا مذہب پھیلائیں گے۔ جب ہم مدینے میں پہنچے تو دیکھا کہ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  ایک ستون کے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کو رسول اللہﷺ کی حدیثیں سنا رہے ہیں۔ یکایک انہوں نے دوزخیوں کا ذکر کیا تو میں نے کہا کہ اے صحابی رسول اللہﷺ ! تم کیا حدیث بیان کرتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ ”اے ہمارے پالنے والے ! تو جسے جہنم میں ڈالے ، یقیناً تو نے اسے رسوا کیا“ ( آلِ عمران: 192) نیز ”جب کبھی اس سے باہر نکلنا چاہیں گے تو اسی میں لوٹا دئیے جائیں گے “ (السجدہ : 20)۔ اور اب یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟انہوں نے کہا کہ تو نے قرآن پڑھا ہے ؟ میں نے کہا ہاں۔ انہوں نے پھر کہا کہ کیا تو نے رسول اللہﷺ کا مقام سنا ہے (یعنی وہ مقام جو اللہ تعالیٰ قیامت کے روز عنایت فرمائے گا)؟ میں نے کہا جی ہاں! میں نے سنا ہے۔ انہوں نے کہا یہ ہی محمدﷺ کے لئے ہے ، جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جنہیں چاہے گا، جہنم سے نکالے گا۔ پھر انہوں نے پل صراط کا حال اور اس پل پر سے لوگوں کے گزرنے کا حال بیان کیا اور اور مجھے ڈر ہے کہ شاید مجھے یاد نہ رہا ہو مگر انہوں نے یہ کہا کہ کچھ لوگ دوزخ میں جانے کے بعد اس میں سے نکالے جائیں گے اور وہ اس طرح نکلیں گے جیسے آبنوس کی لکڑیاں (سیاہ جل بھن کر)۔ پھر جنت کی ایک نہر میں جائیں گے اور وہاں غسل کریں گے اور کاغذ کی طرح سفید ہو کر نکلیں گے۔ یہ سن کر ہم لوٹے اور ہم نے کہا کہ تمہاری خرابی ہو! کیا یہ بوڑھا رسول اللہﷺ پر جھوٹ باندھتا ہے ؟ (یعنی وہ ہرگز جھوٹ نہیں بولتا، پھر تمہارا مذہب غلط نکلا)۔ اور ہم سب اپنے مذہب سے پھر گئے مگر ایک شخص نہ پھرا۔ یا جیسا ابو نعیم فضل بن دکین (امام مسلم کے استاذ کے استاذ) نے بیان کیا۔

91: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دوزخ سے چار آدمی نکالے جائیں گے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے کئے جائیں گے۔ ان میں سے ایک جہنم کی طرف دیکھ کر کہے گا کہ اے میرے مالک! جب تو نے مجھے اس (جہنم) سے نجات دی ہے ، تو اب پھر اس میں مت لے جانا۔ اللہ تعالیٰ اس کو جہنم سے نجات دیدے گا۔

باب : شفاعت کا بیان۔

92: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہﷺ کے پاس گوشت لایا گیا تو دستی کا گوشت آپﷺ کو دیا گیا، وہ آپﷺ کو بہت پسند تھا۔ آپﷺ نے اس کو دانتوں سے نوچا اور فرمانے لگے کہ میں قیامت کے دن سب آدمیوں کا سردار ہوں گا۔اور کیا تم جانتے ہو کہ کس وجہ سے ؟ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام اگلوں پچھلوں کو ایک ہی میدان میں اکٹھا کرے گا، یہاں تک کہ پکارنے والے کی آواز ان سب کو سنائی دے گی اور دیکھنے والے کی نگاہ ان سب پر پہنچے گی، اور سورج قریب ہو جائے گا، اور لوگوں پر ایسی مصیبت اور سختی ہو گی کہ اس کو وہ سہہ نہ سکیں گے۔ آخر آپس میں ایک دوسرے سے کہیں گے کہ دیکھو کیسی تکلیف ہو رہی ہے ؟ کیا کوئی سفارشی ، شفیع نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس تمہاری کچھ سفارش کرے ؟ بعض کہیں گے کہ آدمؑ کے پاس چلو، تو سب کے سب آدمؑ کے پاس آئیں گے اور ان سے کہیں گے کہ آپ تمام آدمیوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اپنی طرف سے روح آپ میں پھونکی اور فرشتوں کو حکم کیا تو انہوں نے آپ کو سجدہ کیا، آپ پروردگار سے ہماری شفاعت کیجئے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اور کس قدر تکلیف میں ہیں۔ آدمؑ کہیں گے کہ آج میرا رب اپنے غصہ میں ہے کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا غصہ ہوا تھا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور اس نے مجھے اس درخت (کے پھل) سے منع کیا تھا، لیکن میں نے (کھا لیا اور) اب مجھے خود اپنی فکر ہے ، تم کسی اور کے پاس جاؤ، نوحؑ  کے پاس جاؤ۔ پھر لوگ نوحؑ  کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے نوح!ؑ  تم سب پیغمبروں سے پہلے زمین پر آئے ، اللہ نے تمہارا نام عبداً شکوراً (شکر گزار بندہ) رکھا ہے ، تم اپنے رب کے پاس ہماری سفارش کرو، کیا تم نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر آئی ہے ؟ وہ کہیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اتنا غصے میں ہے کہ نہ تو ایسا پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد ہو گا اور میرے واسطے ایک دعا کا حکم تھا (کہ وہ مقبول ہو گی)، وہ میں اپنی امت کے خلاف مانگ چکا ( وہ مقبول دعا اپنی قوم پر بددعا کی شکل میں کر چکا ہوں جس سے وہ ہلاک ہو گئی تھی)، اس لئے مجھے اپنی فکر ہے ، تم ابراہیمؑ  کے پاس جاؤ۔ پھر سب ابراہیمؑ  کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور ساری زمین والوں میں اس کے دوست ہیں، آپ اپنے پروردگار کے ہاں ہماری سفارش کیجئے ، کیا آپ نہیں دیکھتے جس حال میں ہم ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ؟ وہ کہیں گے کہ میرا پروردگار آج بہت غصے میں ہے اتنا غصے میں کہ نہ تو اس سے پہلے کبھی ایسا ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا اور وہ اپنی جھوٹ باتوں کو بیان کریں گے (جو انہوں نے تین بار جھوٹ بولا تھا جو کہ دراصل توریہ تھا) اس لئے مجھے خود اپنی فکر ہے ، تم میرے علاوہ کسی دوسرے کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ موسیٰؑ  کے پاس جائیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰؑ  ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیام (رسالت) اور کلام سے تمام لوگوں پر فضیلت و بزرگی دی ہے ، آپ اپنے پروردگار سے ہماری سفارش کیجئے ، کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں؟ اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ؟ موسیٰؑ  ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایسے غصے میں ہے کہ اتنا غصے میں نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا، اور میں نے دنیا میں ایک شخص کو قتل کیا تھا، جس کا مجھے حکم نہ تھا، اس لئے مجھے اپنی فکر پڑی ہے ، تم عیسیٰؑ کے پاس جاؤ۔ وہ عیسیٰؑ  کے پاس آئیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں آپ نے (ماں کی) گود میں لوگوں سے باتیں کیں، اور اس کا وہ کلمہ ہیں جس کو اس نے مریم کی طرف ڈالا تھا اور اس کی طرف سے روح ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے کیا آپ نہیں دیکھتے ہم جس حال میں ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے ؟ عیسیٰؑ  ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب بہت غصے میں ہے ، اتنا غصے میں کہ نہ اس سے پہلے کبھی ہوا اور نہ اس کے بعد کبھی ہو گا (اور ان کا کوئی گناہ بیان نہیں کیا) مجھے تو خود اپنی فکر ہے تم اور کسی کے پاس جاؤ ، محمدﷺ کے پاس جاؤ۔ تو وہ لوگ میرے (محمدﷺ) کے پاس آئیں گے اور عرض کریں گے کہ اے محمدﷺ! آپ اللہ کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ بخش دئیے ہیں، آپ اپنے رب سے ہماری سفارش کیجئے ، کیا آپ ہمارا حال نہیں دیکھتے کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس مصیبت میں ہیں؟ پس میں یہ سنتے ہی (میدانِ حشر سے ) چلوں گا اور عرش کے نیچے آ کر اپنے پروردگار کو سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرا دل کھول دے گا اور اپنی وہ وہ تعریفیں اور خوبیاں بتلائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں بتلائیں، (میں اس کی خوب تعریف اور حمد کروں گا) پھر (اللہ تعالیٰ) کہے گا کہ اے محمدﷺ ! سر اٹھا اور مانگ، جو مانگے گا، دیا جائے گا، سفارش کر، قبول کی جائے گی۔ میں سر اٹھاؤں گا اور عرض کروں گا اے میرے رب میری امت پر رحم فرما، اے میرے رب میری امت پر رحم فرما۔ حکم ہو گا کہ اے محمدﷺ! اپنی امت میں سے جن لوگوں سے کوئی حساب کتاب نہیں ہو گا ان کو جنت کے داہنے دروازے سے داخل کرو اور وہ جنت کے باقی دوسرے دروازوں میں بھی دوسرے لوگوں کے شریک ہیں (یعنی ان دروازوں میں سے بھی جا سکتے ہیں لیکن یہ دروازہ ان کے لئے مخصوص ہے ) (آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ) قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ! کہ جنت کے ایک دروازے کی چوڑائی ایسی ہے ، جیسے مکہ اور حجر(بحرین کے ایک شہر کا نام ہے ) کے درمیان کا فاصلہ یا مکہ اور بصریٰ (ملک شام کا شہر) کے درمیان کا فاصلہ۔ (راوی کو شک ہے )۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میں سب سے پہلے جنت کے متعلق سفارش کروں گا اور دیگر انبیاء سے میرے متبعین زیادہ ہوں گے۔

93: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: میں سب سے پہلے جنت (کے بارے ) میں سفارش کروں گا اور کسی پیغمبر کو اتنے لوگوں نے نہیں مانا (پیروی نہیں کی) جتنے لوگوں نے مجھے مانا (میری پیروی کی) اور کوئی پیغمبر تو ایسا ہے کہ اس کا ماننے والا (ایمان لانے والا) ایک ہی شخص تھا۔

باب : نبیﷺ کا جنت کا دروازہ کھلوانا۔

94: سیدنا انس بن مالکؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : میں قیامت کے دن جنت کے دروازے پر آؤں گا اور دروازہ کھلواؤں گا۔ چوکیدار پوچھے گا کہ تم کون ہو؟ میں کہوں گا کہ میں محمدﷺ ہوں۔ وہ کہے گا کہ مجھے آپ ہی کے واسطے حکم ہوا تھا کہ آپ سے پہلے کسی کے لئے دروازہ نہ کھولوں۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ ہر نبی کی ایک دعا قبول کی گئی ہے۔

95: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ہر نبی کی ایک دعا ہے جو ضرور قبول ہوتی ہے اور ہر نبی نے جلدی کر کے وہ دعا (دنیا ہی میں) مانگ لی اور میں اپنی دعا کو قیامت کے دن کے لئے ، اپنی امت کی شفاعت کے لئے چھپا کر رکھتا ہوں اور اللہ کے حکم سے (میری) شفاعت ہر اس امتی کے لئے ہو گی جو حال میں فوت ہوا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔

باب : نبیﷺ کا اپنی امت کے لئے دعا فرمانا۔

96: سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاصؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ابراہیمؑ  کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تلاوت فرمائی کہ ”اے میرے پالنے والے (معبود) انہوں نے بہت سے لوگوں کو راہ سے بھٹکا دیا ہے ، پس میری تابعداری کرنے والا میرا ہے اور جو میری نافرمانی کرے ، تو تو بہت ہی معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے “ (ابراہیم: 36) اور عیسیٰؑ  کا قول (جو کہ قرآن پاک میں منقول ہے ) کہ ”اگر تو ان کو سزا دے ، تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو معاف فرما دے ، تو تو زبردست ہے حکمت والا ہے “۔ پھر نبیﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ اے میرے رب! میری امت ، میری امت۔ اور رونے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! تم محمدﷺ کے پاس جاؤ اور تیرا رب خوب جانتا ہے لیکن تم جا کر ان سے پوچھو کہ وہ کیوں روتے ہیں؟ جبرئیلؑ  آپﷺ کے پاس آئے اور پوچھا کہ آپ کیوں روتے ہیں؟ آپﷺ نے سب حال بیان کیا۔ جبرئیل نے اللہ تعالیٰ سے جا کر عرض کیا، حالانکہ وہ تو خود خوب جانتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے جبرئیل! محمدﷺ کے پاس جا اور کہہ کہ ہم تمہیں تمہاری امت کے بارے میں خوش کر دیں گے اور ناراض نہیں کریں گے۔

97: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ طفیل بن عمرو دوسیؓ  رسول اللہﷺ کے پاس آئے (مکہ میں ہجرت سے پہلے ) اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! آپ ایک مضبوط قلعہ اور لشکر چاہتے ہیں؟ (اس قلعہ کے لئے کہا جو کہ جاہلیت کے زمانہ میں دوس کا تھا) آپﷺ نے اس وجہ سے قبول نہ کیا کہ اللہ تعالیٰ نے انصار کے حصے میں یہ بات لکھ دی تھی کہ (رسول اللہﷺ ان کے پاس ان کی حمایت اور حفاظت میں رہیں گے ) پھر جب رسول اللہﷺ نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، تو سیدنا طفیل بن عمروؓ  نے بھی ہجرت کی اور ان کے ساتھ ان کی قوم کے ایک شخص نے بھی ہجرت کی۔ پھر مدینہ کی ہوا ان کو ناموافق ہوئی (اور ان کے پیٹ میں عارضہ پیدا ہوا) تو وہ شخص جو سیدنا طفیلؓ  کے ساتھ آیا تھا، بیمار ہو گیا اور تکلیف کے مارے اس نے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے تو اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا۔ دونوں ہاتھوں سے ، یہاں تک کہ وہ مر گیا۔ پھر سیدنا طفیلؓ نے اسے خواب میں دیکھا اور اُس کی حالت اچھی تھی مگر اپنے دونوں ہاتھوں کو چھپائے ہوئے تھا۔ سیدنا طفیلؓ نے پوچھا کہ تیرے رب نے تیرے ساتھ کیا سلوک کیا؟ اس نے کہا :مجھے اس لئے بخش دیا کہ میں نے اس کے پیغمبر کی طرف ہجرت کی تھی۔ سیدنا طفیلؓ نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ تو اپنے دونوں ہاتھ چھپائے ہوئے ہے ؟ وہ بولا کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ ہم اس کو نہیں سنواریں گے جس کو تو نے خود بخود بگاڑا ہے۔ پھر یہ خواب سیدنا طفیلؓ نے رسول اللہﷺ سے بیان کیا، تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی بخش دے جیسے تو نے اس کے سارے بدن پر کرم کیا ہے (اس کے دونوں ہاتھوں کو بھی درست کر دے )۔

باب : اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے متعلق کہ ”(اے محمدﷺ ) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرایئے “۔

98: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ جس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ ”اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے “ (الشعراء: 214) تو رسول اللہﷺ نے قریش کے لوگوں کو بلایا، وہ سب اکٹھے ہوئے تو آپﷺ نے (پہلے ) سب کو بالعموم ڈرایا اور پھر خاص کیا (یعنی نام لے کر ان لوگوں کو) اور فرمایا کہ اے کعب بن لوئی کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے مرہ بن کعب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے عبد شمس کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے ہاشم کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے چھڑاؤ۔ اے عبدالمطلب کے بیٹو! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ اے فاطمہ(رضی اللہ عنہا)! اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، اس لئے کہ میں اللہ کے سامنے کچھ اختیار نہیں رکھتا (یعنی اگر وہ عذاب کرنا چاہے تو میں بچا نہیں سکتا) البتہ تم جو ناتا مجھ سے رکھتے ہو، اس کو میں جوڑتا رہوں گا (یعنی دنیا میں تمہارے ساتھ احسان کرتا رہوں گا)۔

باب : کیا نبیﷺ ابو طالب کو کوئی فائدہ پہنچا سکے ؟

99: سیدنا عباس بن عبد المطلبؓ  سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا یا رسول اللہﷺ! کیا آپ نے ابو طالب کو بھی کچھ فائدہ پہنچایا؟ وہ آپ کی حفاظت کرتے تھے اور آپ کے واسطے غصہ ہوتے تھے (یعنی جو کوئی آپ کو ستاتا تو اس پر غصہ ہوتے تھے )۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ”ہاں“ وہ جہنم کے اوپر کے درجہ میں ہیں اور اگر میں نہ ہوتا (یعنی میں ان کے لئے دعا نہ کرتا)، تو وہ جہنم کے نیچے کے درجے میں ہوتے (جہاں عذاب بہت سخت ہے )۔

100: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : سب سے ہلکا عذاب ابو طالب کو ہو گا، وہ دو ایسی جوتیاں پہنے ہو گا کہ جن سے اس کا دماغ کھولے گا (جیسے ہنڈیا میں پانی کھولتا ہے )۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میری امت میں سے ستر ہزار افراد بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوں گے۔

101: سیدنا حصین بن عبد الرحمنؓ  کہتے ہیں کہ میں سیدنا سعید بن جبیرؓ  کے پاس تھا انہوں نے کہا کہ تم میں سے کس نے اس ستارہ کو دیکھا جو کل رات کو ٹوٹا تھا؟ میں نے کہا کہ میں نے دیکھا کہ میں کچھ نماز میں مشغول نہ تھا (اس سے یہ غرض ہے کہ کوئی مجھے عابد، شب بیدار نہ خیال کرے ) بلکہ مجھے بچھو نے ڈنک مارا تھا (تو میں سو نہ سکا اور تارا ٹوٹتے ہوئے دیکھا) سیدنا سعیدؓ  نے کہا کہ پھر تو نے کیا کیا؟ میں نے کہا کہ میں نے دم کروایا۔ انہوں نے کہا کہ تو نے دم کیوں کرایا؟ میں نے کہا کہ اس حدیث کی وجہ سے جو شعبی نے ہم سے بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ شعبی نے کونسی حدیث بیان کی؟ میں نے کہا کہ انہوں نے ہم سے سیدنا بریدہ بن حصیبﷺ سلمیؓ  کی حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ دَم فائدہ نہیں دیتا مگر نظر کے لئے یا ڈنک کے لئے (یعنی بد نظر کے اثر کو دُور کرنے کے لئے یا بچھو اور سانپ وغیرہ کے کاٹے کے لئے مفید ہے ) سیدنا سعیدؓ  نے کہا کہ جس نے سنا اور اس پر عمل کیا تو اچھا کیا لیکن ہم سے تو سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ  نے حدیث بیان کی، انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ میرے سامنے پیغمبروں کی امتیں لائی گئیں۔ بعض پیغمبر ایسا تھا کہ اس کی امت کے لوگ دس سے بھی کم تھے اور بعض پیغمبر کے ساتھ ایک یا دو ہی آدمی تھے اور بعض کے ساتھ ایک بھی نہ تھا۔ اتنے میں ایک بڑی امت آئی۔ میں سمجھا کہ یہ میری امت ہے۔ مجھ سے کہا گیا کہ یہ موسیٰؑ  اور ان کی امت ہے ، تم آسمان کے کنارے کو دیکھو۔ میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے۔ پھر مجھ سے کہا گیا کہ اب دوسرے کنارے کی طرف دیکھو میں نے دیکھا تو ایک اور بڑا گروہ ہے ، مجھ سے کہا کیا کہ یہ تمہاری امت ہے اور ان لوگوں میں ستر ہزار آدمی ایسے ہیں کہ جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ پھر آپﷺ کھڑے ہو گئے اور اپنے گھر تشریف لے گئے تو لوگوں نے ان لوگوں کے بارے میں گفتگو کی جو بغیر حساب اور عذاب کے جنت میں جائیں گے۔ بعضوں نے کہا کہ شاید وہ لوگ ہیں جو رسول اللہﷺ کی صحبت میں رہے۔ بعض نے کہا نہیں شاید وہ لوگ ہیں جو اسلام کی حالت میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا۔ بعض نے کچھ اور کہا۔ اتنے میں رسول اللہﷺ باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم لوگ کس چیز میں بحث کر رہے ہو؟ﷺ انہوں نے آپﷺ کو خبر دی تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ لوگ ہیں جو نہ دَم کرتے ہیں اور نہ دَم رکھتے ہیں نہ دَم کراتے ہیں اور نہ بد شگون لیتے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں۔ یہ سن کر عکاشہ بن محصنؓ  کھڑے ہوئے اور کہا کہ آپﷺ اللہ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے ان لوگوں میں سے کر دے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تو انہی لوگوں میں سے ہے۔ پھر ایک اور شخص کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میرے لئے بھی دعا کیجئے کہ اللہ مجھے بھی انہی لوگوں میں کرے ، تو آپﷺ نے فرمایا کہ عکاشہؓ  تجھ سے پہلے یہ کام کر چکا۔

باب : نبیﷺ کا فرمان کہ میں امید کرتا ہوں کہ جنت والوں میں آدھے تم ہو گے (یعنی مسلمان)۔

102: سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ  کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک خیمہ میں تھے جس میں تقریباً چالیس آدمی ہوں گے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ اہل جنت کے چوتھائی تم لوگ ہو؟ ہم نے کہا ہاں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ تم اس بات سے خوش ہو کہ اہل جنت کے ایک تہائی تم ہو؟ ہم نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمدﷺ کی جان ہے ، مجھے امید ہے کہ تم جنتیوں کے آدھے ہو نگے اور یہ اس لئے کہ جنت میں وہی جائے گا جو مسلمان ہے اور مسلمان مشرکوں کے اندر ایسے ہیں جیسے ایک سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں ہو یا ایک سرخ بیل کی کھال میں ایک سیاہ بال ہو۔

 

باب : اللہ عز و جل کا آدمؑ کو یہ فرمانا کہ ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے افراد جہنم کے لئے نکالو۔

103: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے آدم! وہ کہیں گے کہ حاضر ہوں تیری خدمت میں اور تیری اطاعت میں اور سب بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے۔ حکم ہو گا کہ دوزخیوں کی جماعت نکالو۔ وہ عرض کریں گے کہ دوزخیوں کی کیسی جماعت؟ حکم ہو گا کہ ہر ہزار آدمیوں میں سے نو سو ننانوے آدمی جہنم کے لئے نکالو (اور ایک آدمی فی ہزار جنت میں جائے گا) آپﷺ نے فرمایا کہ یہی تو وقت ہے جب بچہ بوڑھا ہو جائے گا (بوجہ ہول اور خوف کے یا اس دن کی درازی کی وجہ سے ) ”اور ہر ایک پیٹ والی عورت اپنا پیٹ ڈال دے گی اور تو لوگوں کو دیکھے گا کہ جیسے نشہ میں مست ہیں اور وہ مست نہ ہوں گے لیکن اللہ کا عذاب بہت سخت ہے “ (الحج : 2) صحابہؓاس امر کے سننے سے بہت پریشان ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم! دیکھئے اس ہزار میں سے ایک آدمی (جو جنتی ہے ) ہم میں سے کون نکلتا ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ تم خوش ہو جاؤ کہ یاجوج ماجوج کے کافر اس قدر ہیں کہ اگر ان کا حساب کرو تو تم میں سے ایک آدمی اور ان میں سے ہزار آدمی پڑیں۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، مجھے امید ہے کہ جنت کے ایک چوتھائی آدمی تم میں سے ہوں گے ، اس پر ہم نے اللہ کی تعریف کی اور تکبیر کہی۔پھر آپﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، مجھے امید ہے کہ جنت کے تہائی آدمی تم میں سے ہوں گے۔ اس پر ہم نے اللہ تعالیٰ کی تعریف کی اور کبریائی بیان کی۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! مجھے امید ہے کہ جنت کے آدھے آدمی تم میں سے ہوں گے۔ تمہاری مثال اور امتوں کی مثال ایسی ہے جیسے ایک سفید بال سیاہ بیل کی کھال میں ہو یا ایک نشان گدھے کے پاؤں میں۔

 

 

کتاب: وضو کے مسائل

باب : اللہ تعالیٰ کوئی نماز وضو کے بغیر قبول نہیں کرتا۔

104: مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  ابن عامر کے پاس عیادت کو آئے کیونکہ ابن عامر بیمار تھے۔ ابن عامر نے کہا کہ اے ابن عمرﷺ تم میرے لئے دعا نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ہے ، آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کرتا اور اس مالِ غنیمت میں سے دئیے گئے صدقے کو بھی قبول نہیں کرتا جو تقسیم سے پہلے اڑا لیا جائے اور تم تو بصریٰ کے حاکم رہ چکے ہو۔

باب : نیند سے جاگتے وقت، برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھوں کو دھونے کیا بیان۔

105: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگے تو اپنا ہاتھ برتن میں داخل کرنے سے پہلے تین بار دھوئے اس لئے کہ اس کو نہیں معلوم کہ اس کا ہاتھ رات کو کہاں رہا۔

باب : راستہ میں اور سایہ میں پاخانہ پھرنے کی ممانعت۔

106: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: تم لعنت کے دو کاموں سے بچو (یعنی جن کی وجہ سے لوگ تم پر لعنت کریں) لوگوں نے کہا کہ وہ لعنت کے دو کام کونسے ہیں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ایک تو راہ میں (جہاں سے لوگ آتے جاتے ہوں) پائخانہ پھرنا اور دوسری سایہ دار جگہ (جہاں لوگ بیٹھ کر آرام کر لیتے ہوں) پائخانہ پھرنا (ان دونوں کاموں سے لوگوں کو تکلیف ہو گی اور وہ بُرا کہیں گے لعنت کریں گے )۔

باب : پیشاب کرتے وقت ستر کو چھپانا۔

107: سیدنا عبد اللہ بن جعفرؓ  کہتے ہیں کہ مجھے ایک دفعہ رسول اللہﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر میرے کان میں ایک بات کہی وہ بات کسی سے بیان نہ کروں گا اور آپ کو حاجت کے وقت ٹیلے کی یا کھجور کے درختوں کی آڑ پسند تھی (تاکہ ستر کو کوئی نہ دیکھے )۔ ابن اسماء نے ایک حدیث میں ”حائش نخل“ کی بجائے ”حائط نخل“ کہا۔

باب : جب بیت الخلاء میں داخل ہو تو کیا پڑھے ؟

108: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے کہ ”اے اللہ! میں پناہ مانگتا ہوں تیری، ناپاک شیطانوں اور شیطانیوں سے یا پلیدی یا نجاستوں سے یا شیاطین اور معاصی سے “۔

باب : پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کیا جائے۔

109: سیدنا ابو ایوبؓ  سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: جب تم پاخانے کو جاؤ تو پیشاب یا پاخانہ کرنے میں قبلہ کی طرف منہ نہ کرو نہ پیٹھ کرو، بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو۔(اس سے مراد ان علاقوں کے لوگ ہیں جن کا قبلہ شمال یا جنوب کی سمت ہو۔ جن کی سمت قبلہ مشرق یا مغرب میں ہے ، وہ مشرق یا مغرب کی بجائے شمال یا جنوب کی منہ کرینگے ) سیدنا ابو ایوبؓ نے کہا کہ پھر ہم شام کے ملک میں آئے اور دیکھا تو لیٹرینیں (بیت الخلاء) قبلہ کی طرف بنی ہوئی ہیں، ہم ان پر سے منہ پھیر لیتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتے تھے۔

باب : بنے ہوئے بیت الخلاء میں اس بات کی رخصت۔

110: واسع بن حبان کہتے ہیں کہ میں مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا اور سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  اپنی پیٹھ قبلہ کی طرف لگائے ہوئے بیٹھے تھے۔ جب میں نماز پڑھ چکا تو ایک طرف سے ان کے پاس مڑا۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب حاجت کو بیٹھو تو قبلہ اور بیت المقدس کی طرف منہ نہ کرو۔ (ایک دفعہ جب) میں چھت پر چڑھا تو رسول اللہﷺ کو دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لئے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے دیکھا (یعنی جب بیت المقدس کی طرف منہ ہو گا تو قبلہ کی طرف پیٹھ ہو گی)۔

باب : پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کہ پھر اس سے غسل بھی کیا جائے

111: سیدنا ابو ہریرہؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے ( اور یہ بھی نہ کرے کہ پیشاب کر کے ) پھر اسی پانی سے غسل کرے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ تو ایسا مت کر کہ تھمے ہوئے پانی میں پیشاب کرے جو بہتا نہیں ہے اور پھر اسی پانی سے غسل کرے۔

باب : پیشاب سے بچنے اور پردہ کرنے کا بیان۔

112: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ دو قبروں پر سے گزرے تو فرمایا کہ ان دونوں قبر والوں پر عذاب ہو رہا ہے اور کچھ بڑے گناہ پر نہیں۔ ایک تو ان میں سے چغل خوری کرتا تھا (یعنی ایک کی بات دوسرے سے کرنا اور لڑائی کے لئے ) اور دوسرا اپنے پیشاب سے بچنے میں احتیاط نہ کرتا۔ پھر آپﷺ نے کھجور کی ہری ٹہنی منگوائی اور چیر کر اس کو دو کیا اور ہر ایک قبر پر ایک ایک گاڑ دی اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ ٹہنیاں نہ سوکھیں اس وقت تک ان کا عذاب ہلکا ہو جائے۔

باب : دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے کی ممانعت۔

113: عبد اللہ بن ابی قتادہ اپنے والد (ابو قتادہ)ؓ  سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کوئی تم میں سے اپنا ذکر پیشاب کرنے میں داہنے ہاتھ سے نہ تھامے اور نہ پاخانہ کے بعد داہنے ہاتھ سے استنجا کرے اور نہ برتن میں پھونک مارے۔

باب : پیشاب یا پاخانے سے فارغ ہو کر پانی سے استنجاء کرنا۔

114: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک باغ کے اندر گئے اور آپ کے پیچھے ایک لڑکا گیا، اس کے پاس ایک لوٹا تھا، وہ لڑکا ہم میں سب سے چھوٹا تھا۔ اس نے لوٹا ایک بیری کے پاس رکھ دیا اور پھر رسول اللہﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہوئے اور پانی سے استنجا کر کے باہر نکلے۔

باب : طاق ڈھیلے استعمال کرنے کا بیان۔

115: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پاخانہ کی جگہ کو ڈھیلوں سے صاف کرے تو طاق ڈھیلوں سے صاف کرے اور جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو ناک میں پانی ڈالے پھر ناک جھاڑے۔

باب : پتھر سے استنجاء کرنے کا بیان اور گوبر یا ہڈی سے استنجاء کرنے کی ممانعت۔

116: سیدنا سلمانؓ  کہتے ہیں کہ ان سے پوچھا گیا کہ تمہارے نبیﷺ نے تم کو ہر ایک بات سکھائی۔ یہاں تک کہ پاخانہ اور پیشاب کی بھی تعلیم دی، انہوں نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے ہمیں قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب اور پاخانہ کرنے سے منع کیا اور اس بات سے بھی منع کیا کہ داہنے ہاتھ سے یا تین سے کم پتھروں سے یا گوبر اور ہڈی سے استنجا کریں۔

باب : مردہ جانور کی کھال سے فائدہ حاصل کرنا۔

117: سیدنا ابن عباسؓ  کہتے ہیں کہ اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کی کسی لونڈی کو ایک بکری صدقہ میں دی گئی تھی، وہ مر گئی۔ اور رسول اللہﷺ نے اس کو پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا کہ تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ رنگ کر کام میں لاتے۔ تو لوگوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! وہ مردار تھی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ مردار کا کھانا حرام ہے۔

باب : جب چمڑا رنگ لیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے۔

118: یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے کہ ابو الخیر نے ان سے بیان کیا کہ میں نے ابن وعلہ السبئی کو ایک پوستین پہنے دیکھا۔ میں نے اس کو چھوا، انہوں نے کہا کہ ابن وعلہ کیوں چھوتے ہو (کیا اس کو نجس جانتے ہو)؟ میں نے سیدنا عبد اللہؓ سے کہا کہ ہم مغرب کے ملک میں رہتے ہیں وہاں بربر کے کافر اور آتش پرست بہت ہیں وہ مینڈھا ذبح کر کے لاتے ہیں۔ ہم تو ان کا ذبح کیا ہوا جانور نہیں کھاتے اور مشکیں لاتے ہیں، ان میں چربی ڈال کر۔ سیدنا ابن عباسؓ  نے کہا کہ ہم نے رسول اللہﷺ سے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے (یعنی کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے اگرچہ کافر نے رنگی ہو)۔

باب : جب کتا تمہارے برتن میں منہ ڈال دے تو اس برتن کو سات مرتبہ دھونا چاہیئے۔

119: سیدنا عبد اللہ بن مغفلؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے کتوں کو مار ڈالنے کا حکم کیا۔ پھر فرمایا کہ ان لوگوں اور کتوں کا کیا حال ہے ؟ پھر شکار کے لئے اور مویشیوں کی حفاظت کے لئے کتا پالنے کی اجازت دی (یعنی بکریوں کی حفاظت کے لئے ) اور فرمایا کہ جب کتا برتن میں منہ ڈال کر پئے تو اس کو سات بار دھوؤ اور آٹھویں بار مٹی سے مانجھو۔ اور یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے کہ نبیﷺ نے شکار، بکریوں اور کھیتی کی حفاظت کے لئے کتے کی اجازت دی۔

باب : وضو کی فضیلت کا بیان۔

120: سیدنا ابو مالک اشعریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: طہارت آدھے ایمان کے برابر ہے اور الحمد للہ ترازو کو بھر دے گا۔ (یعنی اس قدر اس کا ثواب عظیم ہے کہ اعمال تولنے کا ترازو اس کے اجر سے بھر جائے گا) اور سبحان اللہ اور الحمد للہ دونوں آسمانوں اور زمین کے بیچ کی جگہ کو بھر دیں کے اور نماز نور ہے اور صدقہ دلیل ہے اور صبر روشنی ہے اور قرآن تیرے لئے دلیل ہو گا یا تیرے خلاف دلیل ہو گا (اگر قرآن پر عمل ہو گا تو دلیل بن جائے گا ورنہ وبال بن جائیگا)۔ہر ایک آدمی (بھلا ہو یا برا)صبح کو اٹھتا ہے یا تو اپنے آپ کو (نیک کام کر کے اللہ کے عذاب سے ) آزاد کرتا ہے یا (بُرے کام کر کے ) اپنے آپ کو تباہ کرتا ہے۔

باب : وضو کے ساتھ گناہوں کا دور ہونا۔

121: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب بندہ مسلمان یا مومن (یہ شک ہے راوی کا) وضو کرتا ہے اور منہ دھوتا ہے تو اس کے منہ سے وہ سب گناہ (صغیرہ) نکل جاتے ہیں جو اس نے آنکھوں سے کئے۔ پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ (جو منہ سے گرتا ہے یہ بھی شک ہے راوی کا)۔ پھر جب ہاتھ دھوتا ہے تو اس کے ہاتھوں میں سے ہر ایک گناہ جو ہاتھ سے کیا تھا ، پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے۔ پھر جب پاؤں دھوتا ہے تو ہر ایک گناہ جس کو اس نے پاؤں سے چل کر کیا تھا ، پانی کے ساتھ یا آخری قطرہ کے ساتھ نکل جاتا ہے یہاں تک کہ سب گناہوں سے پاک صاف ہو کر نکلتا ہے۔

باب : وضو کے وقت مسواک کرنا۔

122: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ وہ ایک رات رسول اللہﷺ کے پاس رہے تو پچھلی رات کو آپﷺ اٹھے اور باہر نکل کر آسمان کی طرف دیکھا۔ پھر یہ آیت پڑھی جو سوۂ آل عمران میں ہے ﴿اِنَّ فِی خَلْقِ السَّمَواتِ والاَرض وَاخْتِلاف الیل …﴾ سے ﴿وقِنَ عَذَابَ النَّار﴾ تک۔ پھر لوٹ کر اندر آئے اور مسواک کی اور وضو کیا اور کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔ پھر لیٹ گئے پھر اٹھے اور باہر نکلے اور آسمان کی طرف دیکھا اور یہی آیت پڑھی۔ پھر لوٹ کر اندر آئے اور مسواک کی اور وضو کیا اور پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔

123: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب گھر میں آتے تو پہلے مسواک کرتے۔

باب : وضو یا دیگر کاموں میں دائیں طرف سے شروع کرنا۔

124: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ بیشک رسول اللہﷺ طہارت میں، کنگھی کرنے میں جوتا پہننے میں داہنی طرف کو بہت پسند کرتے تھے۔

باب : رسول اللہﷺ کے وضو کا طریقہ۔

125: سیدنا عبد اللہ بن زید بن عاصم انصاریؓ  سے روایت ہے ، اور وہ صحابی تھے ، کہ ان سے لوگوں نے کہا کہ ہمیں رسول اللہﷺ کی طرح وضو کر کے بتلائیے۔ چنانچہ انہوں نے ایک برتن (پانی کا) منگوایا ، اس کو جھکا کر پہلے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ (اس سے معلوم ہوا کہ وضو شروع کرتے وقت دونوں ہاتھوں کا انگلیوں سمیت دھونا مستحب ہے ، پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ) اور انہیں تین بار دھویا۔ پھر ہاتھ برتن کے اندر ڈالا اور باہر نکالا اور ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار ایسے ہی کیا۔ پھر ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور منہ کو تین بار دھویا (بخاری کی روایت میں ہے کہ دونوں چلو ملا کر پانی لیا اور تین بار منہ دھویا) پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو دو بار دھوئے۔ پھر برتن میں ہاتھ ڈالا اور باہر نکالا اور سر پر مسح کیا ، پہلے دونوں ہاتھوں کو سامنے سے پیچھے لے گئے پھر پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے (یعنی پیشانی تک واپس لائے ) پھر دونوں پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے۔ اس کے بعد کہا کہ رسول اللہﷺ اسی طرح وضو کیا کرتے تھے۔

باب : ناک میں پانی ڈال کر جھاڑنا۔

126: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جو شخص وضو کرے تو ناک میں پانی ڈالے پھر ناک جھاڑے۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ ناک کو جھاڑے کیونکہ شیطان ناک کی چوٹی یا ناک کے بیچ والی رگوں میں رات گزارتا ہے۔

باب : پیشانیوں اور ہاتھ پاؤں کی چمک پورا وضو کرنے سے ہو گی۔

127: نعیم بن عبد اللہ مجمر سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا ابو ہریرہؓ  کو دیکھا کہ وضو کرتے ہوئے انہوں نے منہ دھویا تو اس کو پورا دھویا۔ پھر داہنا ہاتھ دھویا یہاں تک کہ بازو کا ایک حصہ بھی دھویا۔ پھر بایاں ہاتھ دھویا یہاں تک کہ بازو کا ایک حصہ بھی دھویا۔ پھر سر کا مسح کیا۔ پھر سیدھا پاؤں دھویا تو پنڈلی کا بھی ایک حصہ دھویا۔ پھر بایاں پاؤں دھویا یہاں تک کہ پنڈلی کا بھی ایک حصہ دھویا۔ پھر کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایسا ہی وضو کرتے ہوئے دیکھا ہے اور کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن پورا وضو کرنے کی وجہ سے تمہاری پیشانیاں اور ہاتھ پاؤں سفید (نورانی) ہوں گے۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اپنی چمک کو بڑھانا چاہے تو بڑھائے۔ (یعنی اپنے اعضاء کو خوب آگے تک دھوئے )۔

128: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ قبرستان میں تشریف لائے تو فرمایا ”سلام ہے تم پر یہ گھر ہے مسلمانوں کا اور اللہ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔ میری آرزو ہے کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں“ (اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیک بات کی آرزو کرنا درست ہے جیسے علماء اور فضلاء سے ملنے کی) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ یار سول اللہﷺ! کیا ہم آپﷺ کے بھائی نہیں ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم تو میرے اصحاب ہو اور بھائی ہمارے وہ لوگ ہیں جو ابھی دنیا میں نہیں آئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ اپنی امت کے ان لوگوں کو کیسے پہچانیں گے جن کو آپﷺ نے دیکھا ہی نہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا بھلا تم میں سے کسی کے سفید پیشانی، سفید ہاتھ پاؤں والے گھوڑے سیاہ مشکی گھوڑوں میں مل جائیں، تو وہ اپنے گھوڑے نہیں پہچانے گا ؟ صحابہؓ نے عرض کیا کہ بیشک وہ تو پہچان لے گا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن وضو کی وجہ سے میری امت کے لوگ سفید منہ اور سفید ہاتھ پاؤں رکھتے ہوں گے اور حوض کوثر پر میں ان کا پیش خیمہ ہوں گا۔ خبردار رہو کہ بعض لوگ میرے حوض پر سے ہٹائے جائیں گے جیسے بھٹکا ہوا اونٹ ہنکایا جاتا ہے۔ میں ان کو پکاروں گا آؤ آؤ۔ اس وقت کہا جائے گا کہ ان لوگوں نے آپﷺ کے بعد رد و بدل کر لیا تھا (یا ان کی حالت بدل گئی تھی، بدعت اور ظلم میں گرفتار ہو گئے تھے )۔ تب میں کہوں گا کہ جاؤ دور ہو جاؤ۔ جاؤ دور ہو جاؤ۔

باب : جس نے بہترین انداز سے وضو کیا۔

129: حمران سے روایت ہے جو سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ، انہوں نے کہا کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے وضو کا پانی منگوایا اور وضو کیا تو پہلے دونوں ہاتھ کلائیوں تک تین بار دھوئے ، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر تین بار منہ دھویا، پھر داہنا ہاتھ دھویا کہنی تک پھر تین بار بایاں ہاتھ دھویا پھر مسح کیا سر پر۔ پھر داہنا پاؤں دھویا تین بار پھر بایاں پاؤں دھویا تین بار۔ اس کے بعد کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی طرح وضو کیا جیسے میں نے اب وضو کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص میرے وضو کی طرح وضو کرے پھر کھڑے ہو کر دو رکعتیں پڑھے اور ان (کے پڑھنے ) میں اور کسی خیال میں غرق نہ ہو تو اس کے اگلے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ ابن شہاب نے کہا کہ ہمارے علماء کہتے تھے کہ یہ وضو سب وضوؤں میں سے پورا ہے جو نماز کے لئے کیا جائے۔

130: حمران سے روایت ہے کہ سیدنا عثمانؓ  نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس نے مکمل وضو کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حکم دیا ہے ، تو فرض نمازیں اس کے ان تمام گناہوں کا کفارہ بن جائیں گی جو ان نمازوں کے درمیان ہوں گے۔

131۔ سیدنا عثمان (بن عفان)ؓ  سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا ، آپﷺ فرماتے تھے کہ جو شخص نماز کے لئے پورا وضو کرے ، پھر فرض نماز کے لئے (مسجد کو) چلے اور لوگوں کے ساتھ یا جماعت سے یا مسجد میں نماز پڑھے ، تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ بخش دے گا۔

باب : مجبوری میں (بھی) کامل وضو کرنے کی فضیلت۔

132: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا میں تمہیں وہ باتیں نہ بتلاؤں کہ جن سے گناہ مٹ جائیں (یعنی معاف ہو جائیں یا لکھنے والوں کے دفتر سے مٹ جائیں) اور (جنت میں)درجے بلند ہوں؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں یا رسول اللہﷺ! بتلائیے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وضو کا پورا (اچھی طرح) کرنا سختی میں (جیسے سردی کی شدت میں یا بیماری میں) اور مسجدوں کی طرف قدموں کا بہت زیادہ ہونا (اس طرح کہ گھر مسجد سے دور ہو اور بار بار جائے ) اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا۔ یہی رباط ہے (یعنی نفس کا روکنا عبادت کے لئے )۔

باب : (جنت میں) زیور وہاں تک پہنچے گا، جہاں تک وضو کا پانی پہنچے گا۔

133۔ ابو حازم سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابو ہریرہؓ  کے پیچھے تھا ، وہ نماز کے لئے وضو کر رہے تھے اور اپنے ہاتھ کو اتنا لمبا کر کے دھوتے تھے ، یہاں تک کہ بغل تک دھوتے تھے۔ میں نے کہا کہ اے ابو ہریرہ (ص ) یہ کیسا وضو ہے ؟ تو انہوں نے کہا ”اے  فروخ کی اولاد (فروخ ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے ، جس کی اولاد میں عجم کے لوگ ہیں اور ابو حازم بھی عجمی تھے ) تم یہاں موجود ہو؟ اگر میں جانتا کہ تم یہاں موجود ہو تو میں اس طرح وضو نہ کرتا۔ میں نے اپنے دوست (رسول اللہﷺ) سے سنا ، آپﷺ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن مومن کو وہاں تک زیور پہنایا جائے گا، جہاں تک اس کا وضو پہنچتا ہو گا۔

باب : جو وضو کی جگہوں کو کچھ چھوڑ دے ، وہ اسے دھوئے اور نماز لوٹائے۔

134: سیدنا جابرؓ  سے روایت ہے کہ مجھ سے سیدنا عمر بن خطابؓ  نے بیان کیا کہ ایک شخص نے وضو کیا اور ناخن برابر اپنے پاؤں میں کسی جگہ کو سوکھا چھوڑ دیا تو رسول اللہﷺ نے اس کو دیکھا تو فرمایا کہ جا اور اچھی طرح وضو کر کے آ۔ چنانچہ وہ لوٹ گیا ، پھر آ کر نماز پڑھی۔

باب : غسل اور وضو میں کتنا پانی کافی ہے ؟۔

135: سیدنا انسؓ  کہتے ہیں کہ نبیﷺ ایک مُد سے وضو کرتے اور ایک صاع سے لے کر پانچ مُد تک غسل کرتے تھے۔ (ایک صاع اڑھائی کلو کا ہوتا ہے اور ”مد“ ایک صاع کا چوتھا حصہ ہے )۔

باب : موزوں پر مسح کرنے کا بیان۔

136: ہمام سے روایت ہے کہ سیدنا جریرؓ  نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور موزوں پر مسح کیا۔ لوگوں نے کہا کہ تم ایسا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہاں ، میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نے پیشاب کیا، پھر وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔ اعمش نے کہا کہ ابراہیم نے کہا کہ لوگوں کو یہ حدیث بہت بھلی معلوم ہوتی تھی کیونکہ جریر سورۂ مائدہ (جس میں وضو میں پاؤں دھونے کا بیان ہے ) کے اترنے کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔

137۔ سیدنا ابو وائلؓ  سے روایت ہے کہ ابو موسیٰؓ  پیشاب کے معاملہ میں نہایت سختی کرتے تھے حتی کہ شیشی میں پیشاب کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بنی اسرائیل میں جب کسی کے بدن کو پیشاب لگ جاتا تو وہ (قینچیوں سے ) کھال کترتا تھا۔ سیدنا حذیفہؓ  نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ابو موسیٰؓ  ایسی سختی نہ کرتے تو بہتر تھا(کیونکہ) میں رسول اللہﷺ کے ساتھ چل رہا تھا ، آپﷺ ایک قوم کے گھورے (یعنی کوڑے کرکٹ کی جگہ) پر آئے اور دیوار کے پیچھے آپﷺ کھڑے ہوئے جس طرح تم میں سے کوئی کھڑا ہوتا ہے ، پھر پیشاب کیا۔ میں دور ہٹا تو آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ میرے پاس آ، یہاں تک کہ میں آپﷺ کی ایڑیوں کے پاس کھڑا رہا، جب تک کہ آپﷺ پیشاب سے فارغ نہ ہوئے۔ ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ پھر وضو کیا اور دونوں موزوں پر مسح کیا۔

138: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  سے روایت ہے کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا، آپﷺ نے دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ میں نے کہا جی ہاں ہے۔ آپﷺ سواری پر سے اتر ے اور چلے یہاں تک کہ اندھیری رات میں نظروں سے چھپ گئے۔ پھر لوٹ کر آئے تو میں نے ڈول سے پانی ڈالا۔ آپﷺ نے منہ دھویا۔ آپﷺ نے اون کا جبہ پہن رکھا تھا، آپﷺ کے لئے ہاتھ آستینوں سے باہر نکالنا مشکل ہو گیا تو آپﷺ نے نیچے سے ہاتھوں کو باہر نکال کر دھویا اور سر پر مسح کیا۔ پھر میں ، آپﷺ کے موزے اتارنے کے لئے جھکا، تو آپﷺ نے فرمایا: رہنے دو۔ میں نے ان کو طہارت پر پہنا ہے اور ان دونوں پر بھی مسح کیا۔

باب : موزوں پر مسح کرنے کی مدت کا بیان۔

139: شریح بن ہانی سے روایت ہے کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ، ان سے موزوں پر مسح کے بارے میں پوچھنے آیا تو انہوں نے کہا کہ تم ابو طالب کے بیٹے (یعنی علی ص) سے پوچھو (اس لئے کہ) وہ رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر کیا کرتے تھے۔ ہم نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے مسافر کے لئے مسح کی مدت تین دن تین رات مقرر فرمائی اور مقیم کے لئے ایک دن رات۔

باب : پیشانی اور دستار (عمامہ) پر مسح کرنا۔

140: سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سفر میں پیچھے رہ گئے اور میں بھی آپﷺ کے ساتھ پیچھے رہ گیا۔ جب آپﷺ حاجت سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس پانی ہے ؟ چنانچہ میں پانی کا ایک لوٹا لے آیا۔ آپﷺ نے دونوں ہاتھ دھوئے اور منہ دھویا۔ پھر بازو آستینوؑ سے نکالنا چاہے تو آستین تنگ ہو گئی( یعنی نہ نکال سکے ) چنانچہ آپﷺ نے نیچے سے ہاتھ کو نکالا اور جبہ کو اپنے مونڈھوں پر ڈال دیا اور دونوں ہاتھ دھوئے اور پیشانی، عمامہ اور موزوں پر مسح کیا۔ پھر سوار ہوئے تو میں بھی سوار ہوا۔ جب اپنے لوگوں میں پہنچے ، تو وہ نماز پڑھ رہے تھے۔ سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ  ان کو نماز پڑھا رہے تھے اور وہ ایک رکعت پڑھ چکے تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ رسول اللہﷺ تشریف لائے ہیں، تو وہ پیچھے ہٹنے لگے۔ آپﷺ نے اشارہ فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو۔ پھر انہوں نے نماز پڑھائی۔ جب سلام پھیرا تو رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے اور میں بھی کھڑا ہوا اور ایک رکعت جو ہم سے پہلے ہو چکی تھی پڑھ لی۔

باب : پگڑی (دستار یا عمامہ) پر مسح کرنا۔

141: سیدنا بلالؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے موزوں اور عمامہ پر مسح کیا۔

باب : ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھنا۔

142: سیدنا بریدہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دن ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھیں اور موزوں پر مسح کیا۔ سیدنا عمر فاروقؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ آپ نے آج وہ کام کیا جو کبھی نہیں کیا تھا، آپﷺ نے فرمایا کہ میں نے قصداً ایسا کیا ہے۔

باب : وضو کے بعد کیا کہا جائے۔

143: سیدنا عقبہ بن عامرؓ  سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کو اونٹ چرانے کا کام تھا، میری باری آئی تو میں اونٹوں کو چرا کر شام کو ان کے رہنے کی جگہ لے کر آیا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ کھڑے ہوئے لوگوں کو وعظ سنا رہے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے ، پھر کھڑا ہو کر دو رکعتیں پڑھے ، اپنے دل کو اور منہ کو لگا کر (یعنی ظاہراً اور باطناً متوجہ رہے ، نہ دل میں دنیا کا خیال لائے نہ منہ ادھر اُدھر پھرائے ) اس کے لئے جنت واجب ہو جائے گی۔ میں نے کہا آپﷺ نے کیا عمدہ بات فرمائی (جس کا ثواب اس قدر بڑا ہے اور محنت بہت کم ہے )۔ اس پر ایک کہنے والا میرے سامنے کہہ رہا تھا کہ پہلی بات اس سے بھی عمدہ تھی۔ میں نے غور سے دیکھا تو وہ سیدنا عمر فاروقؓ  تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں تجھے دیکھ رہا تھا کہ تو ابھی ابھی آیا ہے۔ (لہٰذا یہ بھی سن لے کہ) آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جو کوئی تم میں سے اچھی طرح ، پورا وضو کرے ، پھر کہے (ترجمہ)”میں گواہی دیتا ہوں کہ کوئی عبادت کے لائق نہیں سوائے اللہ کے اور محمدﷺ اس کے بندے اور بھیجے ہوئے ہیں“۔ تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیئے جائیں گے کہ جس دروازے سے چاہے (جنت میں) داخل ہو جائے۔

باب : مذی کو دھونا اور اس کی وجہ سے وضو کرنا۔

144: سیدنا علیؓ  کہتے ہیں کہ میں زیادہ مذی والا آدمی تھا اور (مذی سے مراد سفید پانی ہے جو شہوت کے وقت منی سے پہلے نکلتا ہے۔ اس سے غسل واجب نہیں ہوتا مگر اس کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ) میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھنے میں شرم کی کیونکہ آپﷺ کی صاحبزادی میرے نکاح میں تھیں، تو میں نے سیدنا مقداد بن اسودؓ  سے (پوچھنے کو) کہا ، انہوں نے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے اور وضو کرے۔

باب : بیٹھنے والے کی نیند وضو نہیں توڑتی۔

145: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ) نماز کے لئے اقامت کہی گئی اور رسول اللہﷺ ایک آدمی سے سرگوشی فرما رہے تھے۔ عبد الوارث کی حدیث کے الفاظ ہیں کہ نبیﷺ ایک آدمی سے سرگوشی کر رہے تھے تو آپﷺ نماز کے لئے کھڑے نہیں ہوئے حتی کہ قوم (بیٹھی بیٹھی) سو گئی۔ اور شعبہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ سرگوشی میں مصروف رہے یہاں تک کہ صحابہ (بیٹھے بیٹھے ) سو گئے۔ پھر آپﷺ آئے اور انہیں نماز پڑھائی (نیا وضو بنانے کا حکم نہیں دیا)۔

باب : اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد وضو کرنا۔

146: سیدنا جابر بن سمرہؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا میں بکری کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ چاہے تو کر اور چاہے تو نہ کر۔ پھر اس نے پوچھا کہ اونٹ کا گوشت کھا کر وضو کروں؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں! اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو کر۔ اس نے کہا کہ کیا بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں۔ اس نے کہا کہ اونٹوں کے باڑے میں نماز پڑھوں؟ آپﷺ نے فرمایا کہ نہیں ۔

باب : ہر اس چیز سے وضو کرنا جس کو آگ نے چھوا ہو۔

147: عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن ابراہیم بن قارظ نے انہیں اس بات کی خبر دی کہ انہوں نے سیدنا ابو ہریرہؓ  کو مسجد میں وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پنیر کے ٹکڑے کھائے ہیں اس لئے وضو کرتا ہوں، کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے کہ اس چیز کے کھانے سے وضو کرو جو آگ پر پکی ہو۔

باب : آگ سے پکی ہوئی چیز سے وضو کا حکم منسوخ ہے۔

148: جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری اپنے والد سیدنا عمرو بن امیہ الضمریؓ  سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا کہ ایک بکری کا شانہ چھری سے کاٹ کر کھا رہے تھے۔ اتنے میں نماز کے لئے بلائے گئے تو آپﷺ نے چھری رکھ دی اور نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔

149: سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے دودھ پیا۔ پھر پانی منگوایا اور کلی کی اور فرمایا کہ دودھ سے منہ چکنا ہو جاتا ہے۔

باب : اس آدمی کا بیان جسے نماز میں (ہوا نکلنے ) کا خیال آئے۔

150: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو (دوران نماز) اپنے پیٹ میں خلش معلوم ہو، پھر اس کو شک ہو کہ (پیٹ سے ) کچھ نکلا یا نہیں یعنی ہوا خارج ہوئی یا نہیں تو مسجد سے نہ نکلے ، جب تک کہ آواز نہ سنے یا بو نہ سونگھے (یعنی حدث ہونے کا یقین نہ ہو)۔

 

 

کتاب: غسل کے مسائل

 

باب : ”اِنَّمَﷺ الْمَاءُ مِنَ الْمَاءِ“ کے متعلق۔

151: سیدنا عبدالرحمن بن ابی سعید خدری اپنے والد سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ میں پیر کے دن رسول اللہﷺ کے ساتھ مسجدِ قبا کی طرف نکلا۔ جب ہم بنی سالم کے محلے میں پہنچے ، تو رسول اللہﷺ نے سیدنا عتبان بن مالکؓ  کے دروازے پر کھڑے ہو کر اس کو آواز دی تو وہ اپنی ازار گھسیٹتے ہوئے نکلے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہم نے اس کو جلدی میں مبتلا کر دیا۔ سیدنا عتبانؓ  نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! اگر کوئی شخص جلدی اپنی عورت سے الگ ہو جائے اور منی نہ نکلے ، تو اس کا کیا حکم ہے (یعنی غسل کرے یا نہیں)؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ پانی کا استعمال پانی نکلنے سے ہے (یعنی منی نکلنے سے غسل واجب ہوتا ہے )۔

باب : منی کے نکلنے ہی سے غسل واجب ہونے کا حکم منسوخ ہے اور شرمگاہوں کے ملنے سے غسل واجب ہونے کا بیان۔

152: سیدنا ابو موسیٰؓ  کہتے ہیں کہ (وجوب غسل کے ) اس مسئلہ میں مہاجرین اور انصار کی ایک جماعت نے اختلاف کیا۔ انصار نے کہا کہ غسل جب ہی واجب ہوتا ہے کہ منی کود کر نکلے اور انزال ہو، جبکہ مہاجرین نے کہا کہ جب مرد عورت سے صحبت کرے ، تو غسل واجب ہے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ میں تمہاری تسلی کئے دیتا ہوں۔ میں اٹھا اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے مکان پر جا کر ان سے اجازت مانگی۔ انہوں نے اجازت دی، تو میں نے کہا کہ اے اُمّ المؤمنین میں آپ سے کچھ پوچھنا چاہتا ہوں، لیکن مجھے شرم آتی ہے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تو اس بات کے پوچھنے میں مت شرم کر جو اپنی سگی ماں سے پوچھ سکتا ہے جس نے تجھے جنم دیا ہے۔ میں بھی تو تیری ماں ہوں (کیونکہ رسول اللہﷺ کی بیویاں مومنین کی مائیں ہیں) میں نے کہا کہ غسل کس سے واجب ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ تو نے اچھے واقف کار سے پوچھا، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جب مرد عورت کے چاروں کونوں میں بیٹھے اور ختنہ ختنہ سے مل جائے (یعنی ذکر فرج میں داخل ہو جائے ) تو غسل واجب ہو گیا۔

153: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  نے اُمّ کلثوم رضی اللہ عنہا سے روایت کی اور انہوں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے کہا کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اگر کوئی مرد اپنی عورت سے جماع کرے ، پھر انزال نہ کر سکے تو کیا دونوں پر غسل واجب ہے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ میں اور یہ (یعنی اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا) ایسا کرتے ہیں، پھر غسل کرتے ہیں۔

باب : جو عورت نیند میں وہ چیز دیکھے جو کچھ مرد دیکھتا ہے تو وہ عورت بھی غسل کرے گی۔

154: اسحاق بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا انسؓ  نے کہا کہ سیدہ اُمّ سلیم رضی اللہ عنہا (اور وہ راوی حدیث اسحاق بن ابی طلحہ کی دادی تھیں رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور وہاں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بھی بیٹھی تھیں، انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! عورت اگر سوتے میں ایسا دیکھے ، جیسا کہ مرد دیکھتا ہے (یعنی منی کو تو کیا حکم ہے )؟ یہ سن کر اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ اے اُمّ سلیم! تو نے عورتوں کو رسوا کر دیا (اس وجہ سے کہ احتلام اسی عورت کو ہو گا جو بہت پر شہوت ہو اور منی بھی اسی کی نکلے گی) تیرے ہاتھ میں مٹی لگے (اور یہ انہوں نے نیک بات کہی) آپﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ! تیرے ہاتھ میں مٹی لگے اور اُمّ سلیم سے فرمایا کہ اے اُمّ سلیم! جب عورت ایسا دیکھے تو اس صورت میں غسل کرے۔

باب : غسل جنابت کا طریقہ۔

155: اُمّ المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں، میں نے رسول اللہﷺ کے لئے غسل جنابت کے واسطے پانی رکھا۔ آپﷺ نے پہلے دو بار یا تین بار دونوں ہاتھ دھوئے ، پھر ہاتھ برتن میں ڈالا اور شرمگاہ پر پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر بائیں ہاتھ کو زمین پر زور سے رگڑ کر دھویا پھر وضو کیا جیسے نماز کے لئے کرتے تھے ، پھر اپنے سر پر تین چلو بھر کر ڈالے ، پھر سارے بدن کو دھویا، پھر اس جگہ سے ہٹ کر اور پاؤں دھوئے۔ پھر میں بدن پوچھنے کو رومال (تولیہ) لے کر آئی تو آپﷺ نے نہ لیا۔

باب : کتنے پانی سے غسل جنابت کیا جا سکتا ہے۔

156: ابو سلمہ بن عبدالرحمن (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے ) کہتے ہیں کہ میں اور اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی بھائی (عبد اللہ بن یزید) ان کے پاس گئے اور رسول اللہﷺ کے غسل جنابت کے متعلق پوچھا؟ انہوں نے ایک برتن منگوایا جس میں صاع بھر پانی آتا تھا اور ہمارے اور اپنے درمیان پردے کی آڑ سے غسل کیا اور انہوں نے اپنے سر پر تین بار پانی ڈالا۔ ابو سلمہ نے کہا کہ رسول اللہﷺ کی بیویاں اپنے بال کتراتی تھیں اور کانوں تک بال رکھتی تھیں۔ (ازواجِ مطہرات نے آپﷺ کی رحلت کے بعد زینت ختم کرنے کے لئے ایسا کیا تھا کیونکہ بال عورت کی زینت ہیں)۔

باب : غسل کرنے والے کا کپڑے سے پردہ کرنا۔

157: سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جس سال مکہ فتح ہوا، وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور آپﷺ مکہ کے بلند جانب میں تھے۔ آپﷺ غسل کرنے کے لئے اٹھے ، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک کپڑے کی آڑ آپ صل اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کی، پھر آپﷺ نے اپنا کپڑا لے کر لپیٹا اور پھر آٹھ رکعتیں چاشت کی پڑھیں۔

باب : اکیلے آدمی کا غسل جنابت کرنا اور پردہ کرنا۔

158: سیدنا ابو ہریرہؓ  محمد رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کے لوگ ننگے نہایا کرتے اور ایک دوسرے کے ستر کو دیکھا کرتے تھے۔ اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام اکیلے نہاتے تھے۔ لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام ہمارے ساتھ مل کر اس لئے نہیں نہاتے کہ ان کو تو فتق کی بیماری ہے (یعنی خصیے بڑھ جانے کی)۔ ایک دفعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہانے کو گئے اور کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھے ، تو پتھر (خود بخود اللہ کے حکم سے ) ان کے کپڑے لیکر بھاگ کھڑا ہوا۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام اس کے پیچھے دوڑے اور کہتے جاتے کہ اے پتھر میرے کپڑے دے ، اے پتھر میرے کپڑے دے ! یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے ان کا ستر دیکھ لیا اور کہنے لگے کہ اللہ کی قسم! ان کو تو کوئی بیماری نہیں ہے۔ اس وقت پتھر کھڑا ہو گیا اور انہیں خوب دیکھا گیا۔ پھر انہوں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور (غصے سے ) پتھر کو مارنا شروع کیا۔ سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! اس پتھر پر سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی چھ یا سات ماروں کا نشان ہے۔

باب : مرد یا عورت کے ستر دیکھنے کی ممانعت۔

159: سیدنا ابو سعید خدریؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک مرد دوسرے مرد کے ستر کو (یعنی وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے ) نہ دیکھے اور نہ عورت دوسری عورت کے ستر کو دیکھے اور نہ مرد دوسرے مرد کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے اور نہ عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں لیٹے۔

باب : شرمگاہ کو چھپانا اور انسان ننگا نظر نہیں آنا چاہیئے۔

160: سیدنا جابر بن عبد اللہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ لوگوں کے ساتھ تعمیر کعبہ کے لئے پتھر ڈھو رہے تھے اور آپﷺ تہبند باندھے ہوئے تھے کہ سیدنا عباسؓ  جو آپﷺ کے چچا تھے ، نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! تم اپنی ازار اتار کر کندھے پر ڈال لو تو اچھا ہے۔ آپﷺ نے ازار کھول کر کندھے پر ڈال لی تو اسی وقت غش کھا کر گر پڑے۔ پھر اس دن سے آپﷺ کو ننگا نہیں دیکھا گیا۔

باب : میاں بیوی کا ایک ہی برتن سے غسل جنابت کرنا۔

161: سیدہ معاذہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں اور رسول اللہﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے ، جو میرے اور آپﷺ کے درمیان میں ہوتا تھا۔ آپﷺ جلدی جلدی پانی لیتے ، یہاں تک کہ میں کہتی کہ تھوڑا پانی میرے لئے چھوڑ دو (سیدہ معاذہ) راویہ حدیث کہتی ہیں:اور دونوں جنابت سے ہوتے تھے۔

باب : جنبی جب سونے یا کھانے پینے کا ارادہ کرے ، تو پہلے وضو کر ے۔

162: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب جنبی ہوتے اور کھانا یا سونا چاہتے تو وضو کر لیتے جیسے نماز کے لئے کرتے تھے۔

باب : جنبی، غسل کرنے سے پہلے سو سکتا ہے۔

163: سیدنا عبد اللہ بن ابی قیس سے روایت ہے کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہﷺ کے وتر کے بارے میں پوچھا پھر حدیث (وتر کے متعلق) بیان کی۔ میں نے کہا آپﷺ جنابت میں کیا کیا کرتے تھے ؟ کیا آپﷺ سونے سے پہلے غسل کرتے تھے یا غسل سے پہلے سو جاتے تھے ؟ انہوں نے کہا کہ آپﷺ دونوں طرح کرتے تھے ، کبھی غسل کر لیتے ، پھر سوتے اور کبھی وضو کر کے سو رہتے۔ میں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے اس امر میں گنجائش رکھی۔

باب : جو کوئی اپنی بیوی کے پاس دوبارہ جانا چاہے تو وضو کر لے۔

164: سیدنا ابو سعید خدریؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی عورت سے صحبت کرے ، پھر دوبارہ صحبت کرنا چاہے ، تو وضو کر لے (پھر صحبت کرے )۔

باب : تیمم کے بارہ میں جو کچھ بیان ہوا ہے۔

165: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہﷺ کے ساتھ سفر میں نکلے ، جب بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے (بیداء اور ذات الجیش خیبر اور مدینہ کے درمیان مقام کے نام ہیں) تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر گر گیا اور رسول اللہﷺ اس کے ڈھونڈھنے کے لئے ٹھہر گئے۔ لوگ بھی ٹھہر گئے۔ وہاں پانی نہ تھا اور نہ لوگوں کے پاس پانی تھا۔ لوگ سیدنا ابو بکرؓ  کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ تم دیکھتے نہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کیا ہے ؟ رسول اللہﷺ کو ٹھہرایا ہے اور لوگوں کو بھی، جہاں پانی نہیں اور نہ ان کے پاس پانی ہے۔ یہ سن کر سیدنا ابو بکرؓ  آئے اور رسول اللہﷺ اپنا سر میری ران پر رکھے سو گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ تو نے رسول اللہﷺ کو روک رکھا ہے اور لوگوں کو جہاں نہ پانی ہے اور نہ لوگوں کے پاس پانی ہے اور انہوں نے غصہ کیا اور جو اللہ نے چاہا وہ کہہ ڈالا اور میری کوکھ میں ہاتھ سے گھونسے مارنے لگے۔ میں ضرور ہلتی مگر رسول اللہﷺ کا سر میری ران پر تھا، اس وجہ سے میں نہ ہلی۔ پھر آپﷺ سوتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور پانی بالکل نہ تھا تب اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری تو سب نے تیمم کیا۔ سیدنا اسید بن حضیرؓ  جو نقیبوں میں سے تھے ، نے کہا کہ اے ابو بکر کی اولاد! یہ تمہاری کچھ پہلی برکت نہیں ہے (یعنی تمہاری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ مسلمانوں کو فائدہ دیا ہے ، یہ بھی ایک نعمت تمہارے سبب سے ملی) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ پھر ہم نے اس اونٹ کو اٹھا یا جس پر میں سوار تھی ، تو ہار اس کے نیچے سے مل گیا۔

باب : جنابت سے تیمم کرنا۔

166: شقیق کہتے ہیں کہ میں سیدنا عبد اللہ (بن مسعود ) اور سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ اے ابو عبدالرحمن (یہ کنیت ہے ابن مسعودؓ  کی) اگر کسی شخص کو جنابت ہو اور ایک مہینے تک پانی نہ ملے تو وہ نماز کا کیا کرے ؟ سیدنا عبد اللہ نے کہا کہ اسے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو بھی تیمم نہ کرے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ پھر سورۂ مائدہ میں یہ جو آیت ہے کہ ”پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کرو“ اس کا کیا حکم ہے ؟ سیدنا عبد اللہ نے کہا کہ اگر اس آیت سے ان کو جنابت میں تیمم کرنے کی اجازت دی گی تو وہ رفتہ رفتہ پانی ٹھنڈا ہونے کی صورت میں بھی تیمم کرنے لگ جائیں گے۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نے کہا کہ تم نے سیدنا عمارؓ  کی حدیث نہیں سنی کہ رسول اللہﷺ نے مجھے ایک کام کو بھیجا، وہاں میں جنبی ہو گیا اور پانی نہ ملا تو میں خاک میں اس طرح سے لیٹا جیسے جانور لیٹتا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ کے پاس آیا اور آپﷺ سے بیان کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تجھے دونوں ہاتھوں سے اس طرح کرنا کافی تھا۔ پھر آپ نے دونوں ہاتھ زمین پر ایک بار مارے اور بائیں ہاتھ کو داہنے ہاتھ پر مارا۔ پھر ہتھیلیوں کی پشت اور منہ پر مسح کیا۔ سیدنا عبد اللہؓ  نے کہا کہ تم جانتے ہو کہ سیدنا عمرؓ  نے سیدنا عمارؓ  کی حدیث پر قناعت نہیں کی۔ (سیدنا ابن مسعود اور عمر رضی اللہ عنہما کا خیال تھا کہ جنابت سے تیمم کافی نہیں ہے۔ لیکن احادیث سے ثابت ہے کہ انہوں نے اپنے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا)

باب : سلام کا جواب دینے کے لئے تیمم کرنا۔

167: سیدنا عمیر مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں اور عبدالرحمن بن یسار جو اُمّ المؤمنین نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بیوی میمونہ رضی اللہ عنہا کے مولیٰ تھے ابو الجہم بن حارث کے پاس گئے۔ ابو الجہم نے کہا کہ رسول اللہﷺ بئر جمل (مدینہ کے قریب ایک مقام ہے ) کی طرف سے آئے ، راہ میں ایک شخص ملا، اس نے آپﷺ کو سلام کیا۔ آپﷺ نے جوا ب نہیں دیا یہاں تک کہ ایک دیوار کے پاس آئے اور منہ اور دونوں ہاتھوں پر مسح کیا اور پھر سلام کا جواب دیا۔

باب : مومن نجس نہیں ہوتا۔

168: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کو مدینہ کے ایک راستے میں ملے اور وہ جنبی تھے ، تو کھسک گئے اور جا کر غسل کیا۔ رسول اللہﷺ نے انہیں گم پایا، جب وہ آئے تو پوچھا کہ کہاں تھے ؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ! جس وقت آپ مجھ سے ملے میں جنبی تھا، میں نے غسل کئے بغیر آپﷺ کے پاس بیٹھنا ناپسند کیا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا سبحان اللہ! مومن کہیں نجس ہوتا ہے ؟

باب : ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا۔

169: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہر وقت ہر حال میں اللہ کی یاد میں مشغول رہتے تھے۔

باب : مُحدِث آدمی کھا پی سکتا ہے اگرچہ اس نے وضو نہ کیا ہو۔

170: سیدنا ابن عباسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ بیت الخلا سے نکلے اور کھانا لایا گیا۔ لوگوں نے آپ کو وضو یاد دلایا تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا میں نماز پڑھنے لگا ہوں جو وضو کروں؟۔

 

 

کتاب: حیض کے مسائل

باب : اللہ تعالیٰ کے فرمان: وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضٍ … کے بیان میں۔

171: سیدنا انسؓ  سے روایت ہے کہ یہود میں جب کوئی عورت حائضہ ہوتی، تو اس کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے ، نہ گھر میں اس کے ساتھ رہتے۔ رسول اللہﷺ کےﷺ صحابہ نے آپﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ”پوچھتے ہیں تم سے حیض کے بارے میں، تم کہہ دو کہ حیض پلیدی ہے ، تو جدا رہو عورتوں سے حیض کی حالت میں“(الآیۃ) رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ سب کام کرو سوا جماع کے۔ یہ خبر یہود کو پہنچی، تو انہوں نے کہا کہ یہ شخص (یعنی محمدﷺ) چاہتا ہے کہ ہر بات میں ہمارے خلاف کرے یہ سن کر سیدنا اسید بن حضیرؓ  اور سیدنا عباد بن بشرؓ  آئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! یہود ایسا ایسا کہتے ہیں تو ہم حائضہ عورتوں سے جماع کیوں نہ کریں (یعنی جب یہود ہماری مخالفت کو بُرا جانتے ہیں اور اس سے جلتے ہیں تو ہمیں بھی اچھی طرح خلاف کرنا چاہئیے ) یہ سنتے ہی رسول اللہﷺ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ (انکے یہ کہنے سے ہم جماع کیوں نہ کریں آپﷺ کو بُرا معلوم ہوا اس لئے کہ خلافِ قرآن بات ہے ) ہم یہ سمجھے کہ آپﷺ کو ان دونوں شخصوں پر غصہ آیا ہے۔ وہ اٹھ کر باہر نکلے ، اتنے میں کسی نے آپﷺ کو دودھ تحفہ کے طور پر بھیجا، تو آپﷺ نے ان دونوں کو پھر بلا بھیجا اور دودھ پلایا تب ان کو معلوم ہوا کہ آپ کا غصہ پر نہ تھا۔

باب : عورت حیض کے بعد اور جنابت کا غسل کیسے کرے ؟

172: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ (شکل کی بیٹی یا یزید بن سکن کی بیٹی) اسماء رضی اللہ عنہا نے رسول اللہﷺ سے غسل حیض کے متعلق پوچھا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پہلے پانی بیری کے پتوں کے ساتھ لے اور اس سے اچھی طرح پاکی کرے (یعنی حیض کا خون جو لگا ہوا ہو، دھوئے اور صاف کرے ) پھر سر پر پانی ڈال کر خوب زور سے ملے ، یہاں تک کہ پانی مانگوں (بالوں کی جڑوں) میں پہنچ جائے۔ پھر اپنے اوپر پانی ڈالے (یعنی سارے بدن پر) پھر ایک پھاہا (روئی یا کپڑے کا) مشک لگا ہوا لے کر اس سے پاکی کرے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں کیسے پاکیزگی حاصل کروں؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا ”سبحان اللہ پاکیزگی حاصل کر لے گی“ تو اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے چپکے سے کہہ دیا کہ خون کے مقام پر لگا دے۔ پھر اس نے غسل جنابت کے متعلق پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ پانی لے کر اچھی طرح طہارت کرے ، پھر سر پر پانی ڈالے اور ملے ، یہاں تک کہ پانی سب مانگوں میں پہنچ جائے ، پھر اپنے سارے بدن پر پانی ڈالے۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ انصار کی عورتیں بھی کیا اچھی عورتیں تھیں کہ دین کی بات پوچھنے میں شرم نہیں کرتی تھیں۔ (اور یہی لازم ہے کیونکہ شرم گناہ اور معصیت میں ہے اور دین کی بات پوچھنا ثواب اور اجر ہے )۔

باب : حائضہ عورت کا کپڑا یا مصلیٰ وغیرہ پکڑانا۔

173: سیدنا ابو ہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تھے کہ آپﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: مجھے کپڑا اٹھا دے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو حائضہ ہوں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے۔ پھر انہوں نے کپڑا اٹھا دیا۔

باب : حائضہ عورت کا آدمی کے سر کو دھونا اور کنگھی کرنا۔

174: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں (جب اعتکاف میں ہوتی) حاجت کے لئے گھر میں جاتی اور چلتے چلتے جو کوئی گھر میں بیمار ہوتا تو اس کو بھی پوچھ لیتی اور رسول اللہﷺ مسجد میں رہ کر اپنا سر میری طرف ڈال دیتے اور میں اس میں کنگھی کر دیتی اور آپﷺ جب اعتکاف میں ہوتے تو گھر میں نہ جاتے مگر حاجت کیلئے۔

باب : حائضہ عورت کی گود میں تکیہ لگانا اور قرآن پاک پڑھنا۔

175: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میری گود میں تکیہ لگاتے اور قرآن پڑھتے تھے جبکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔

باب : ایک ہی لحاف میں حائضہ عورت کے ساتھ سونا۔

176: اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک میں حائضہ ہو گئی۔ میں کھسک گئی اور اپنے حیض کے کپڑے اٹھا لئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تجھے حیض آیا؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ آپﷺ نے مجھے بلایا، پھر میں آپﷺ کے ساتھ اسی چادر میں لیٹی۔ راویہ حدیث (زینب) نے کہا کہ اُمّ المؤمنین اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہﷺ دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کیا کرتے تھے۔

باب : حائضہ عورت سے مافوق الازار مباشرت کرنا (یعنی ساتھ لیٹنا)۔

177: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم میں سے جب کسی عورت کو حیض آتا تو رسول اللہﷺ حیض کے خون کے جوش کے دوران تہبند باندھنے کا حکم کرتے ، پھر اس سے مباشرت کرتے (یعنی بیوی کے ساتھ سو جاتے ) اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ تم میں سے کون اپنی خواہش اور ضرورت پر اس قدر اختیار رکھتا ہے جیسا رسول اللہﷺ رکھتے تھے۔

باب : حائضہ عورت کے ساتھ ایک ہی برتن میں پینا۔

178: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں پانی پیتی تھی، پھر پی کر برتن رسول اللہﷺ کو دیتی، آپﷺ اسی جگہ منہ رکھتے جہاں میں نے منہ رکھ کر پیا تھا اور پانی پیتے ، حالانکہ میں حائضہ ہوتی اور میں ہڈی نوچتی، پھر رسول اللہﷺ کو دے دیتی، آپﷺ اسی جگہ منہ لگاتے جہاں میں نے لگایا تھا۔

باب : استحاضہ کے متعلق اور مستحاضہ کا غسل کرنا اور نماز پڑھنا۔

179: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اُمّ حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ خون ایک رگ کا ہے تو غسل کر اور نماز پڑھ۔ پھر وہ ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔ لیث نے کہا کہ ابن شہاب نے یہ نہیں بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو ہر نماز کے لئے غسل کرنے کا حکم کیا تھا بلکہ اُمّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خود ایسا کیا۔

باب : حائضہ عورت نماز کی قضا نہیں دے گی البتہ روزے کی قضا دے گی۔

180: سیدہ معاذہ سے روایت ہے کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ حائضہ عورت روزوں کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی؟ تو انہوں نے کہا کہ تو حروریہ تو نہیں؟ میں نے کہا کہ نہیں میں تو پوچھتی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہم عورتوں کو حیض آتا تھا تو روزوں کی قضا کا حکم ہوتا تھا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ (کتنا عمدہ جواب دیا کہ دین تو اللہ اور رسول کے حکم کا نام ہے جس کا حکم دیا، کر لیا اور جس کا حکم نہیں دیا، نہیں کیا)۔

باب : پانچ چیزیں فطرت میں سے ہیں۔

181: سیدنا ابو ہریرہؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: فطرت پانچ ہیں یا پانچ چیزیں فطرت سے ہیں۔ 1۔ختنہ کرنا۔ 2۔ زیر ناف بال مونڈنا۔ 3۔ ناخن کاٹنا۔ 4۔ بغل کے بال اکھیڑنا۔ 5۔ مونچھیں کترانا۔

باب : دس چیزیں فطرت میں سے ہیں۔

182: اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دس باتیں پیدائشی سنت ہیں۔ 1: مونچھیں کترنا۔ 2: داڑھی چھوڑ دینا۔ 3: مسواک کرنا۔ 4: ناک میں پانی ڈالنا۔ 5: ناخن کاٹنا۔ 6:پوروں کا دھونا (کانوں کے اندر اور ناک اور بغل اور رانوں کا دھونا)7 : بغل کے بال اکھیڑنا۔ 8 : زیر ناف بال لینا۔ 9: پانی سے استنجاء کرنا (یا شرمگاہ پر وضو کے بعد تھوڑا سا پانی چھڑک لینا)۔ مصعب نے کہا کہ میں دسویں بات بھول گیا۔ شاید کلی کرنا ہو۔ وکیع رحمۃ اللہ نے کہا: انتقاص المآءٍ (جو حدیث میں وارد ہے ) اس سے استنجاء مراد ہے۔

باب : بڑے کو مسواک دینا۔

183: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ میں نے اپنے آپ کو خواب میں مسواک کرتے دیکھا۔ پھر وہ مسواک مجھ سے دو آدمیوں نے مانگا، ان دونوں میں سے ایک بڑا تھا۔ میں نے مسواک چھوٹے کو دے دی، تو مجھے حکم ہوا کہ بڑے کو دیں، تو میں نے بڑے کو دے دی۔

باب : مونچھیں کتراؤ اور داڑھی بڑھاؤ۔

184: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: (تمام اقوال و افعال میں) مشرکوں کے خلاف (کرو) مونچھوں کو کترواؤ اور داڑھیوں کو پورا رکھو (یعنی داڑھیوں کو چھوڑ دو اور ان میں کانٹ چھانٹ نہ کرو)۔

185: سیدنا انس بن مالکؓ  سے روایت ہے کہ ہمارے لئے مونچھ کترنے ، ناخن کاٹنے ، بغل کے بال نوچنے اور زیر ناف بال مونڈنے کی میعاد مقرر ہوئی کہ ان کو چالیس دن سے زیادہ تک نہ چھوڑیں۔

باب : مسجد سے پیشاب دھونا۔

186: سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اتنے میں ایک اعرابی آیا اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب نے اسے ایسا نہ کرنے کے لئے آواز لگائی تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اس کا پیشاب مت روکو، اس کو چھوڑ دو۔ لوگوں نے چھوڑ دیا، یہاں تک کہ وہ پیشاب کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے بلایا اور فرمایا کہ مسجدیں پیشاب اور نجاست کے لائق نہیں ہیں۔ یہ تو اللہ کی یاد کے لئے اور نماز اور قرآن پڑھنے کے لئے بنائی گئی ہیں یا ایسا ہی کچھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا۔ پھر ایک شخص کو حکم کیا، وہ ایک ڈول پانی کا لایا اور اس پر بہا دیا۔

باب : بچے کے پیشاب کی وجہ سے کپڑے پر چھینٹے مارنا۔

187: اُمّ قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس اپنے ایک بچے کو لے کر آئیں جو کھانا نہیں کھاتا تھا۔ عبید اللہ (راوی حدیث) نے کہا کہ ام قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ اس بچے نے رسول اللہﷺ کی گود میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہﷺ نے پانی منگوایا اور کپڑے پر چھڑک لیا اور اس کو دھویا نہیں۔

باب : کپڑے سے منی کا دھونا۔

188: سیدنا عبد اللہ بن شہاب خولانی بیان کرتے ہیں کہ میں اُمّ المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہاں مہمان ٹھہرا۔ مجھے اپنے کپڑوں میں احتلام ہو گیا، تو میں نے ان کو پانی میں ڈبو دیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کی لونڈی نے مجھے دیکھ لیا، تو اس نے انہیں جا کر بتایا۔ ام المؤمنین نے میری طرف پیغام بھیجا کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے ؟میں نے کہا کہ خواب میں میں نے وہ دیکھا ہے جو سونے والا دیکھتا ہے (یعنی احتلام)۔ اُمّ المؤمنین نے کہا کہ کپڑوں میں تم نے (منی کا) کچھ اثر دیکھا؟میں نے کہا نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر کپڑوں میں تو کچھ دیکھتا تو بھی اس کا دھونا ہی کافی تھا۔ میں تو رسول اللہﷺ کے کپڑے سے خشک منی کو اپنے ناخنوں سے کھرچ دیا کرتی تھی۔

باب : کپڑے سے حیض کا خون دھونا۔

189: سیدہ اسماء بنتِابی بکر رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور اس نے پوچھا کہ ہم میں سے کسی کے کپڑے میں حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا کرے ؟ آپﷺ نے فرمایا کہ پہلے اس کو کھرچ ڈالے ، پھر پانی ڈال کر مل کر دھو ڈالے اور پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔