FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

بغیر عنوان کے

 

 

ناول

 

سعادت حسن منٹو

 

یہ ناول منٹو کے کاغذات میں ملا تھا اور بغیر عنوان کے تھا۔ اسے کتاب ’باقیاتِ منٹو‘ میں شامل کیا گیا تھا۔

 

 

 

 

انتساب

 

 

پنڈت جواہر لال نہرو (وزیر اعظم ہندوستان) کے نام

 

 

 

 

 

 

پنڈت نہرو کے نام پنڈت منٹو کا پہلا خط

 

 

(جو اس کتاب کا دیباچہ بن گیا)

 

پنڈت جی۔ السلام علیکم

یہ میرا پہلا خط ہے جو میں آپ کی خدمت میں ارسال کر رہا ہوں۔ آپ ما شاء اللہ امریکنوں میں بڑے حسین متصور کئے جاتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میرے خد و خال کچھ ایسے برے نہیں ہیں۔ اگر میں امریکہ جاؤں تو شاید مجھے بھی حسن کا رتبہ عطا ہو جائے۔ لیکن آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں اور میں پاکستان کا عظیم افسانہ نگار۔ ان میں بہت بڑا تفاوت ہے۔ بہر حال ہم دونوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ آپ کشمیری ہیں اور میں بھی۔ آپ نہرو ہیں ، میں منٹو…. کشمیری ہونے کا دوسرا مطلب خوبصورتی ہے، اور خوبصورتی کا مطلب، جو میں نے ابھی تک نہیں دیکھا،

مدت سے میری تمنا تھی کہ آپ سے ملوں ( شاید بشرط زندگی ملاقات ہو بھی جائے) میرے بزرگ تو آپ کے بزرگوں سے اکثر ملتے جلتے رہے ہیں لیکن یہاں کوئی ایسی صورت نہ نکلی کہ آپ سے ملاقات ہو سکے۔

یہ کتنی بڑی ٹریجڈی ہے کہ میں نے آپ کو دیکھا تک نہیں۔ آواز ریڈیو پر البتہ ضرور سنی ہے وہ بھی ایک دفعہ۔

جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں مدت سے میر ی تمنا تھی کہ آپ سے ملوں ، اس لئے کہ آپ سے میرا کشمیر کا رشتہ ہے۔لیکن اب سوچتا ہوں ، اس کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کشمیری کسی نہ کسی راستے سے کسی نہ کسی چوراہے پر دوسرے کشمیری سے مل ہی جاتا ہے۔

آپ کسی نہر کے قریب آباد ہوئے اور نہرو ہو گئے اور میں اب تک سوچتا ہوں کہ منٹو کیسے ہو گیا۔ آپ نے تو خیر لاکھوں مرتبہ کشمیر دیکھا ہو گا، مگر مجھے صرف بانہال تک جانا نصیب ہوا ہے۔ میرے کشمیری دوست جو کشمیری زبان جانتے ہیں۔ مجھے بتاتے ہیں کہ منٹو کا مطلب’’ منٹ‘‘ ہے یعنی ڈیڑھ سیر کا بٹہ۔ آپ یقیناً کشمیری جانتے ہوں گے۔ اس خط کا جواب لکھنے کی اگر آپ زحمت فرمائیں تو مجھے ضرور لکھئے کہ ’’ منٹو کی وجہ تسمیہ کیا ہے۔؟

اگر میں صرف ڈیڑھ سیر ہوں تو میرا آپ کا مقابلہ نہیں آپ پوری نہر ہیں۔ اور میں صرف ڈیڑھ سیر، آپ سے میں کیا ٹکر لے سکتا ہوں ؟ لیکن ہم دونوں ایسی بندوقیں ہیں جو کشمیریوں کے متعلق مشہور کہاوت کے مطابق’’ دھوپ میں ٹھس کرتی ہیں ….‘‘

معاف کیجئے گا۔ آپ اس کا برا نہ مانئے گا…. میں نے بھی یہ فرضی کہاوت سنی تو کشمیری ہونے کی وجہ سے میرا تن بدن جل گیا۔ چونکہ یہ دلچسپ ہے، اس لئے میں نے اس کا ذکر تفریحی کر دیا۔  حالانکہ میں اور آپ دونوں اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہم کشمیری کسی میدان میں آج تک نہیں ہارے۔

سیاست میں آ پ کا نام میں بڑے فخر سے لے سکتا ہوں کیونکہ آپ بات کہہ کر فوراً تردید کرنا خوب جانتے ہیں۔ پہلوانی میں ہم کشمیریوں کو آج تک کس نے ہرایا ہے۔ شاعری میں ہم سے کون بازی لے سکا ہے۔ لیکن مجھے یہ سن کر حیرت ہوئی ہے کہ آپ ہمارا دریا بند کر رہے ہیں۔ لیکن پنڈت جی آپ تو صرف نہرو ہیں۔ افسوس کہ میں ڈیڑھ سیر کا بٹہ ہوں۔ اگر میں تیس چالیس ہزار من کا پتھر ہوتا تو خود کو اس دریا میں لڑھکا دیتا کہ آپ کچھ دیر کے لئے اس کو نکالنے کے لئے اپنے انجینئروں سے مشورہ کرتے رہتے۔

پنڈت جی اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ بڑے آدمی ہیں ، آپ ہندوستان کے وزیر اعظم ہیں ، اس ملک پر جس سے ہمارا بھی تعلق رہا ہے۔ آپ کی حکمرانی ہے۔ آپ سب کچھ ہیں۔لیکن گستاخی معاف، کہ آپ نے اس خاکسار( جو کشمیری ہے) کی کسی بات کی پرواہ نہیں کی۔

دیکھئے۔ میں آپ سے ایک دلچسپ بات کا ذکر کرتا ہوں۔ میرے والد صاحب( مرحوم) جو ظاہر ہے کہ کشمیری تھے۔ جب کسی ہاتو، کو دیکھتے تو اسے گھر لے آتے ڈیوڑھی میں بٹھا کر اسے نمکین چائے پلاتے، ساتھ قلچہ بھی ہوتا۔ اس کے بعد وہ بڑے فخر سے اس ’’ہاتو‘‘ سے کہتے’’ میں بھی کاشر ہوں ‘‘

پنڈت جی آپ کاشر ہیں …. خدا کی قسم اگر آپ میری جان لینا چاہیں تو ہر وقت حاضر ہے۔ میں جانتا ہوں بلکہ سمجھتا ہوں کہ آپ صرف اس لئے کشمیر کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں کہ آپ کو کشمیر سے کشمیری ہونے کے باعث بڑی مقناطیسی قسم کی محبت ہے۔ یہ ہر کشمیری کو خواہ اس نے کبھی کشمیر دیکھا بھی نہ ہو، ہونا چاہئے۔

جیسا کہ میں اس خط میں پہلے لکھ چکا ہوں ، میں صرف بانہال تک گیا ہوں ، کد۔ بٹوت، کشٹوار یہ سب علاقہ میں نے دیکھے ہیں لیکن حسن کے ساتھ میں نے افلاس چپکا دیکھا۔ اگر آپ نے اس افلاس کو دور کر دیا ہے تو آپ کشمیر اپنے پاس رکھئے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کشمیری ہونے کے باوجود اسے دور نہیں کر سکتے، اس لئے کہ آپ کو اتنی فرصت ہی نہیں۔

آپ ایسا کیوں نہیں کرتے…. میں آپ کا پنڈت بھائی ہوں ، مجھے بلا لیجئے۔ میں پہلے آپ کے گھر شلجم کی شب دیگ کھاؤں گا۔ اس کے بعد کشمیر کا سارا کام سنبھال لوں گا۔ یہ بخشی وغیرہ اب بخش دینے کے قابل ہیں …. اول درجے کے چار سو بیس ہیں انہیں آپ نے خواہ مخواہ اپنی ضروریات کے مطابق اعلیٰ رتبہ بخش دیا ہے…. آخر کیوں ؟…. میں سمجھتا ہوں کہ آپ سیاست دان ہیں ، جو کہ میں نہیں ہوں ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں کوئی بات سمجھ نہ سکوں۔

بٹوارہ ہوا۔ ریڈ کلف نے جو جھک مار نا تھا مارا۔ آپ نے جونا گڑھ پر نا جائز طور پر قبضہ کر لیا، جو کہ کشمیری، کسی مرہٹے کے زیر اثر ہی کر سکتا ہے۔ میرا مطلب پٹیل سے ہے( خدا اسے مغفرت کرے)

حیدر آباد پر بھی آپ نے جارحانہ حملہ کیا وہاں ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا اور آخر میں ا س پر قبضہ جما لیا۔کیا یہ سراسر زیادتی نہیں آپ کی؟

آپ انگریزی زبان کے ادیب ہیں …. میں بھی یہاں اردو میں افسانہ نگاری کرتا ہوں ….اس زبان میں جس کو آپ ہندوستان میں مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ پنڈت جی، میں آپ کے بیانات پڑھتا رہتا ہوں۔ ان سے میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ آپ کو اردو عزیز ہے لیکن میں نے آپ کی ایک تقریر ریڈیو پر جب ہندوستان کے دو ٹکڑے ہوئے تھے، سنی…. آپ کی انگریزی کے تو سب قائل ہیں ، لیکن جب آپ نے نام نہاد اردو میں بولنا شروع کیا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کی انگریزی تقریر کا ترجمہ کسی کٹر مہا سبھائی نے کیا ہے، جسے پڑھتے وقت آپ کی زبان کا ذائقہ درست نہیں تھا۔ آپ ہر فقرے پر ابکائیاں لے رہے تھے۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ نے ایسی تحریر پڑھنا قبول کیسے کی…. یہ اس زمانے کی بات ہے جب ریڈ کلف نے ہندوستان کی ڈبل روٹی کے دو توس بنا کے رکھ دئیے تھے۔ لیکن افسوس ہے کہ ابھی تک وہ سینکے نہیں گئے۔ ادھر آپ سینک رہے ہیں ، اور ادھر ہم۔ لیکن آپ کی ہماری انگیٹھیوں میں آگ باہر سے آ رہی ہے۔

پنڈت جی، آج کل بگو گوشوں کا موسم ہے…. گوشے تو خیر میں نے بے شمار دیکھے ہیں۔لیکن بگو گوشے کھانے کو جی بہت چاہتا ہے۔یہ آپ نے کیا ظلم کیا کہ بخشی کو سارا حق بخش دیا، کہ وہ بخششیں میں بھی مجھے تھوڑے سے بگو گوشے نہیں بھیجتا۔

بخشی جائے جہنم میں اور بگو گوشے…. نہیں وہ جہاں ہیں سلامت رہیں مجھے آپ سے دراصل کہنا یہ تھا کہ آپ میری کتابیں کیوں نہیں پڑھتے۔ آپ نے اگر پڑھی ہیں تو مجھے افسوس ہے کہ آپ نے داد نہیں دی۔ اگر نہیں پڑھیں تو اور بھی زیادہ افسوس کا مقام ہے، اس لئے آپ ادیب ہیں۔

آپ سے مجھے ایک اور بھی گلہ ہے۔ آپ ہمارے دریاؤں کا پانی بند کر رہے ہیں اور آپ کی دیکھا دیکھی آپ کی راج دھانی کے پبلشر میری اجازت کے بغیر میری کتابیں دھڑا دھڑ چھاپ رہے ہیں۔ یہ بھی کوئی شرافت ہے…. میں تو یہ سمجھتا تھا کہ آپ کی وزارت میں ایسی کوئی بے ہودہ حرکت ہو ہی نہیں سکتی۔ مگر آپ کو فوراً معلوم ہو سکتا ہے کہ دلی۔ لکھنؤ اور جالندھر میں کتنے ناشروں نے میری کتابیں ناجائز طور پر چھاپی ہیں۔

فحش نگاری کے الزام میں مجھ پر کئی مقدمے چل چکے ہیں ، مگر یہ کتنی بڑی زیادتی ہے کہ دلی میں ، آپ کی ناک کے عین نیچے وہاں کا ایک پبلشر میرے افسانوں کا مجموعہ’’ منٹو کے فحش افسانے‘‘ کے نام سے شائع کرتا ہے۔

میں نے کتاب’’ گنجے فرشتے‘‘ لکھی …. اس کو آپ کے بھارت کے ایک پبلشر نے ’’ پردے کے پیچھے‘‘ کے عنوان سے شائع کر دیا…. اب بتایئے میں کیا کروں…. آپ ہی کچھ کیجئے۔

میں نے یہ نئی کتاب لکھی ہے کہ اس کا دیباچہ یہی خط ہے جو میں نے آ پ کے نام لکھا ہے…. اگر یہ کتاب بھی آپ کے یہاں نا جائز طور پر چھپ گئی تو خدا کی قسم کسی نہ کسی طرح دلی پہنچ کر آپ کو گریبان سے پکڑ لوں گا۔ پھر چھوڑوں گا نہیں آپ نے…. آپ کے ساتھ ایسا چمٹوں گا کہ آپ ساری عمر یاد رکھیں گے۔ ہر روز صبح کو آپ سے کہوں گا کہ نمکین چائے پلائیں۔ ساتھ ایک تافتانہ بھی ہو شلجموں کی شب دیک تو خیر ہر ہفتے کے بعد ضرور ہو گی۔

یہ کتاب چھپ جائے تو میں اس کا ایک نسخہ آپ کو بھیجوں گا۔ امید ہے آپ اس کی رسید سے مجھے ضرور مطلع کریں گے،اور میری تحریر کے متعلق اپنی رائے سے بھی ضرور آگاہ کریں گے۔

آپ کو میرے خط سے جلے ہوئے گوشت کی بو آئے گی…. آپ کو معلوم ہے ہمارے وطن کشمیر میں ایک شاعر غنی رہتا تھا جو غنی کاشمیری کے نام سے مشہور ہے۔ اس کے پاس ایران سے ایک شاعر آیا ہے۔ اس کے گھر کے دروازے کھلے تھے، اس لئے کہ وہ گھر میں نہیں تھا۔ وہ لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ میرے گھر میں ہے کیا جو میں دروازے بند رکھوں۔ البتہ جب میں گھر میں ہوتا ہوں تو دروازے بند کر دیتا ہوں ، اس لئے کہ میں ہی تو اس کی واحد دولت ہوں۔

ایرانی شاعر اس کے ویران گھر میں اپنی بیاض چھوڑ گیا۔ اس میں ایک شعر نامکمل تھا مصرع ثانی ہو گیا، مگر مصرع اولیٰ اس شاعر سے نہیں کہا گیا تھا۔ مصرع ثانی یہ تھا

کہ از لباس تو بوئے کباب  می آید

جب وہ ایرانی شاعر کچھ دیر کے بعد واپس آیا تو اس نے اپنی بیاض دیکھی مصرع اولیٰ موجود تھا

کدام سوختہ جان دست زدبد امانت

پنڈت جی، میں بھی ایک سوختہ جان ہوں۔ میں نے آپ کے دامن میں اپنا ہاتھ دیا ہے، اس لئے کہ میں یہ کتاب آپ کے نام سے معنون کر رہا ہوں۔

سعادت منٹو

27 اگست1954ء

٭٭

 

 

 

 

(۱)

 

آئے دن سعید کو زکام ہوتا تھا۔ ایک روز جب اس زکام نے تازہ حملہ کیا تو اس نے سوچا…. مجھے عشق کیوں نہیں ہوتا؟ سعید کے جتنے دوست تھے سب کے سب عشق کر چکے تھے۔  ان میں سے کچھ ابھی تک اس میں گرفتار تھے۔ لیکن جس قدر وہ محبت کو اپنے پاس دیکھنا چاہتا۔ اسی قدر اس کو اپنے سے دور پاتا۔ عجیب بات ہے مگر اس کو ابھی تک کسی سے عشق نہیں ہوا تھا۔ جب کبھی وہ سوچتا کہ واقعی اس کا دل عشق و محبت سے خالی ہے تو اسے شرمندگی سی محسوس ہوتی اور وقار کو ٹھیس سی پہنچتی۔

بیس سال کا  عرصہ جس میں کئی برس اس کے بچپن کی بے شعوری کی دھند میں لپٹے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی اس کے سامنے لاش کی مانند اکڑ جاتا تھا۔  اور سوچتا کہ اس کا وجود اب تک بالکل بیکار رہا ہے۔ محبت کے بغیر آدمی کیونکر مکمل ہو سکتا ہے؟

سعید کو اس بات کا احساس تھا کہ اس کا دل خوبصورت ہے اور اس قابل ہے کہ محبت اس میں رہے، لیکن وہ مرمریں محل کس کام کا جس میں رہنے والا کوئی بھی نہ ہو، چونکہ اس کا دل محبت کرنے کا اہل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسے اس خیال سے بہت دکھ ہوتا کہ اس کی دھڑکنیں بالکل فضول ضائع ہو رہی ہیں۔

اس نے لوگوں سے سنا تھا زندگی میں ایک بار محبت ضرور آتی ہے۔ خود اسے بھی اس بات کا ہلکا سا یقین تھا کہ موت کی طرح محبت ایک بار ضرور آئے گی۔ مگر کب؟ کب؟ کاش اس کی کتاب حیات اس کی اپنی جیب میں ہوتی۔ جسے کھول کر وہ اس کا جواب فوراً پا لیتا۔ مگر یہ کتاب تو واقعات خود لکھتے ہیں۔  جب محبت آئے گی تو خود بخود اس کتاب حیات میں نئے ورقوں کا اضافہ ہو جائے گا۔ وہ ان نئے ورقوں کے اضافے کے لئے کتنا بے تاب تھا۔

وہ جب چاہے اٹھ کر ریڈیو پر گیت سن سکتا تھا۔ جب چاہے کھانا کھا سکتا تھا۔ اپنی مرضی کے مطابق ہر وقت وسکی بھی پی سکتا تھا۔ جس کی اس کے مذہب میں ممانعت تھی۔ وہ اگر چاہتا تو استرے سے اپنے گال بھی زخمی کر لیتا۔ مگر حسب منشا کسی سے محبت نہیں کر سکتا تھا۔

ایک بار اس نے بازار میں ایک نوجوان لڑکی دیکھی، اس کی چھاتیاں دیکھ کر اسے ایسا معلوم ہوا کہ دو بڑے بڑے شلجم ڈھیلے کرتے میں چھپے ہوئے ہیں۔ شلجم اسے بہت پسند تھے۔ سردیوں کے موسم میں کوٹھے پر جب اس کی ماں لال لال شلجم کاٹ کر سکھانے کے لئے ہار پرویا کرتی تھی۔ تو وہ کئی کچے شلجم کھا جایا کرتا تھا۔ اس لڑکی کو دیکھ کر اس کی زبان پر وہی ذائقہ پیدا ہوا جو شلجم کا گودا چباتے وقت پیدا ہوتا ہے، مگر اس کے دل میں اس سے عشق کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا۔ وہ اس کی چال کو غور سے دیکھتا رہا جس میں ٹیڑھا پن تھا۔ ویسا ہی ٹیڑھا پن، جیسا کہ برسات کے موسم میں چارپائی کے پایوں میں کان کے باعث پیدا ہو جایا کرتا ہے۔وہ اس کے عشق میں خود کو گرفتار نہ کر سکا۔

عشق کرنے کے ارادے سے وہ اکثر اوقات اپنی گلی کے نکڑ پر دریوں کی دکان پر جا بیٹھتا تھا۔ یہ دوکان سعید کے ایک دوست کی تھی جو ہائی سکول کی ایک لڑکی سے محبت کر رہا تھا۔ اس لڑکی کی محبت لدھیانے کی ایک دری کے ذریعے سے پیدا ہوئی تھی۔ دری کے دام اس لڑکی کے بیان کی بموجب اس کے دو پٹے کے پلو سے کھل کر کہیں گر پڑے تھے۔ لطیف چونکہ اس کے گھر کے پاس رہتا تھا اس لئے اس نے اپنے چچا کی جھڑکیوں اور گالیوں سے بچنے کے لئے اس سے دری ادھار مانگی اور…. دونوں میں محبت ہو گئی۔شام کو بازار میں آمدورفت زیادہ ہو جاتی۔ اور دربار صاحب جانے کے لئے چونکہ راستہ وہی تھا۔ اس لئے عورتیں بھی کافی تعداد میں اس کی نظروں کے سامنے سے گذرتی تھیں۔ مگر جانے کیوں اسے ایسا محسوس ہوتا کہ جتنے لوگ بازار میں چلتے پھرتے ہیں۔ سب کے سب شفاف ہیں۔ اس کی نگاہیں کسی عورت، کسی مرد پر نہیں رکتی تھیں۔ لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کو اس کی آنکھیں ایک ایسی متحرک جھلی سمجھتی تھی جس میں سے وہ آسانی کے ساتھ جدھر چاہیں دیکھ سکتی ہیں ….

اس کی آنکھیں کدھر دیکھتی تھیں۔ یہ نہ آنکھوں کو معلوم تھا، اور نہ سعید کو، اس کی نگاہیں دور بہت دور سامنے چونے اور گارے کے بنے ہوئے پختہ مکانوں کو چھیدتی ہوئی نکل جاتیں۔ نہ جانے کہاں اور خود ہی کہیں گھوم گھام کر اس کے دل کے اندر آ جاتیں۔بالکل ان بچوں کی مانند جو اپنی ماں کی چھاتی پر اوندھے منہ لیٹے ناک، کان اور بالوں سے کھیل کھال کر اپنے ہاتھوں کو تعجب آمیز دلچسپی سے دیکھتے دیکھتے نیند کے نرم نرم گالوں میں دھنس جاتے ہیں۔

لطیف کی دکان پر گاہک بہت کم آتے تھے۔  اس لئے وہ اس کی موجودگی کو غنیمت جانتے ہوئے اس سے مختلف قسم کی باتیں کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ سامنے لٹکی ہوئی دری کی طرف دیکھتا رہتا، جس میں رنگ برنگ کے بے شمار دھاگوں کے الجھاؤ نے ایک ڈیزائن پیدا کر دیا تھا۔ لطیف کے ہونٹ ہلتے رہتے ، اور وہ یہ سوچتا رہتا کہ اس کے دماغ کا نقشہ دری کے ڈیزائن سے کس قدر ملتا جلتا ہے۔ بعض اوقات تو وہ یہ خیال کرتا کہ اس کے اپنے خیالات ہی باہر نکل کر اس دری پر رینگ رہے ہیں۔

اس دری میں اور سعید کی دماغی حالت میں بلا کی مشابہت تھی، فرق صرف اتنا تھا کہ رنگ برنگ کے دھاگوں کے الجھاؤ نے اس کے سامنے دری کی صورت اختیار کر لی تھی۔ اور اس کے رنگ برنگی خیالات و محسوسات کا الجھاؤ ایسی صورت اختیار نہیں کر تا تھا، جس کو وہ دری کی مانند اپنے سامنے بچھا کریا لٹکا کر دیکھ سکتا!

لطیف بے حد خام تھا۔ گفتگو کرنے کا سلیقہ تک اسے نہیں آتا تھا، کسی شے میں خوبصورتی تلاش کرنے کے لئے اس سے کہا جاتا تو فرط حیرت سے بالکل بے وقوف دکھائی دیتا، اس کے اندر وہ بات ہی پیدا نہیں ہوئی تھی، جو ایک آرٹسٹ میں پیدا ہوتی ہے، لیکن اس کے باوجود ایک لڑکی اس سے محبت کرتی تھی۔ اس کو خط لکھتی تھی، جس کو لطیف البتہ یوں پڑھتا تھا جیسے کسی تیسرے درجے کے اخبار میں جنگ کی خبریں پڑھ رہا ہے، ان خطوط میں وہ کپکپاہٹ اسے نظر نہیں آتی تھی جو ہر لفظ میں گندھی ہوئی ہے۔ وہ لفظوں کی نفسیاتی اہمیت سے بالکل بے خبر تھا۔ اس سے اگر یہ کہا جاتا، دیکھو لطیف یہ پڑھو…. لکھتی ہے۔‘‘ میری پھوپھی نے کل مجھ سے کہا، کیا ہوا ہے تیری بھوک کو؟ تو نے کھانا پینا کیوں چھوڑ دیا ہے۔ جب میں نے سنا تو معلوم ہوا کہ سچ مچ میں آج کل بہت کم کھاتی ہوں۔ دیکھو میرے لئے کل شہاب الدین کی دو کان سے کھیر لیتے آنا…. جتنی لاؤ گے سب چٹ کر جاؤں گی۔ اگلی پچھلی کسر نکال دوں گی…. کچھ معلوم ہوا تمہیں اس سطر میں کیا ہے…. تم شہاب الدین کی دوکان سے کھیر کا ایک بہت بڑا ڈونا لے کر جاؤ گے۔ لیکن لوگوں کی نظروں سے بچ بچا کر ڈیوڑھی میں جب تم اسے یہ تحفہ دو گے تو اس خیال سے خوش نہ ہونا کہ وہ ساری کھیر کھا جائے گی، وہ کبھی نہیں کھا سکے گی …. پیٹ بھر کر وہ کچھ کھا ہی نہیں سکتی، جب دماغ میں خیالات کا ہجوم جمع ہو جائے تو پیٹ خود بخود بھر جایا کرتا ہے، لیکن یہ فلسفہ اس کی سمجھ میں کیسے آتا۔ وہ تو سمجھنے سمجھانے سے بالکل کورا تھا۔ جہاں تک شہاب الدین کی دکان سے چار آنے کی کھیر اور ایک آنے کی خوشبو دار ربڑی خریدنے کا تعلق تھا، لطیف بالکل ٹھیک تھا، لیکن کھیر کی فرمائش کیوں کی گئی اور اس کے ذریعہ سے اشتہا پیدا کرنے کا خیال کن حالات کے تحت اس کی محبوبہ کے دماغ میں پیدا ہوا۔ اس سے لطیف کو کو ئی سرور کار نہیں تھا۔ وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ ان باریکیوں کو سمجھ سکے۔ وہ موٹی عقل کا آدمی تھا، جو لوہے کی زنگ آلود گز سے نہایت بھونڈے طریقے سے دریاں ماپتا تھا۔ اور شاید اسی طرح کے گز سے اپنے احساسات کی پیمائش بھی کرتا تھا۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک لڑکی اس کی محبت میں گرفتار تھی، جو ہر جہت سے اس کے مقابلہ میں ارفع و اعلیٰ تھی۔ لطیف اور اس میں اتنا ہی فرق تھا، جتنا لدھیانے کی دری اور کشمیر کے گدگدے قالین میں۔

سعید کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ محبت پیدا کیسے ہوتی ہے۔ بلکہ یوں کہئے کہ پیدا ہو سکتی ہے۔ وہ خود جس وقت چاہے رنج و الم طاری کر سکتا تھا۔ محبت جس کے لئے وہ اس قدر بے تاب تھا۔

اس کا ایک اور دوست جواس قدر کاہل تھا کہ مونگ پھلی اور چنے، صرف اس صورت میں کھا سکتا تھا اگر ان کے چھلکے اترے ہوئے ہوں اپنی گلی کی ایک حسین لڑکی سے محبت کر رہا تھا، ہر وقت اس کے حُسن کی تعریف میں رطب اللسان رہتا تھا۔ لیکن اگر اس سے پوچھا جاتا…. یہ حسن تمہاری محبوبہ میں کہاں سے شروع ہوتا تو یقیناً وہ خالی الذہن ہو جاتا۔ جس کا مطلب وہ بالکل نہیں سمجھتا تھا۔ کالج میں تعلیم پانے کے باوجود اس کے ذہن کی نشوونما بڑے ادنیٰ طریقے پر ہوئی تھی، لیکن اس کی محبت کی داستان اتنی لمبی تھی کہ اقلیدس سے بڑی کتاب تیار ہو جاتی۔ آخر ان لوگوں کو…. ان جاہلوں کو عشق و محبت کرنے کا کیا حق حاصل ہے؟…. کئی بار یہ سوال سعید کے دماغ میں پیدا ہوا اور اس کی پریشانی بڑھ گئی لیکن دیر تک سوچ بچار کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت کرنے کا حق ہر شخص کو حاصل ہے،خواہ وہ بے شعور ہو یا با شعور….

دوسروں کو محبت کرتے دیکھ کر دراصل اس کے دل میں حسد کی چنگاری بھڑک اٹھتی تھی، وہ جانتا تھا کہ وہ بہت بڑا کمینہ پن ہے مگر وہ مجبور تھا، محبت کرنے کی خواہش اس پر اس قدر غالب رہتی کہ بعض اوقات دل ہی دل میں محبت کرنے والوں کو گالیاں بھی دیا کرتا۔ لیکن گالیاں دینے کے بعد اپنے آپ کو بھی کوستا۔ کہ ناحق اس نے دوسروں کو برا بھلا کہا۔ اگر دنیا کے سارے آدمی ایک دم محبت کرنے لگیں تو اس میں میرے باوا کا کیا جاتا ہے مجھے صرف اپنی ذات سے تعلق رکھنا چاہئے اگر میں کسی کی محبت میں گرفتار نہیں ہوتا تو ا س میں دوسروں کا کیا قصور ہے، بہت ممکن ہے کہ میں کسی لحاظ سے اس قابل ہی نہیں ہوں ، کیا پتہ ہے کہ بیوقوف اور بے عقل ہونا ہی محبت کرنے کے لئے ضروری ہو….‘‘

سوچتے سوچتے ایک دن وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ محبت ایک دم پیدا نہیں ہوتی۔ وہ لوگ جھوٹے ہیں۔ جو کہتے ہیں کہ محبت ایک دم پیدا ہو تی ہے۔  اگر ایسا ہوتا تو ظاہر ہے کہ اس کے دل میں اب سے بہت عرصہ پہلے محبت پیدا ہو گئی ہوتی، کئی لڑکیاں اس کی نگاہوں سے اب تک گذر چکی تھیں ، اگر محبت ایک دم پیدا ہو سکتی تو وہ ان میں سے کسی ایک کے ساتھ خود کو بڑی آسانی کے ساتھ وابستہ کر سکتا تھا۔ کسی لڑکی کو صرف ایک دو بار دیکھ لینے سے محبت کیسے پیدا ہو جاتی ہے، یہ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔

تھوڑے روز ہوئے ایک دوست نے جب اس سے کہا، کمپنی باغ میں آج میں نے ایک لڑکی دیکھی ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیا تو اس کی طبیعت مکدر ہو گئی۔ ایسے فقرے اس کو بہت پست معلوم ہوتے تھے۔ایک ہی نظر میں اس نے مجھے گھائل کر دیا۔ لاحول ولا…. جذبات کا کس قدر عامیانہ اظہار ہے۔‘‘

جب وہ اس قسم کی پست اور تیسرے درجے کے فقرے کسی کی زبان سے سنتا تو اسے ایسا معلوم ہوتا کہ اس کے کانوں میں پگھلتا ہوا سیسہ ڈال دیا گیا ہے۔

مگر پست ذہنیت اور لنگڑے مذاق کے لوگ اس سے زیادہ خوش تھے یہ لوگ جو عشق و محبت کی لطافتوں سے بالکل کورے تھے…. اس کے مقابل میں بہت زیادہ سکون اور آرام کی زندگی بسر کر رہے تھے۔

محبت اور زندگی کو ایم۔ اسلم کی نگاہوں سے دیکھنے والے خوش تھے۔ مگر سعید جو کہ محبت اور زندگی کو اپنی صاف اور شفاف آنکھوں سے دیکھتا تھا۔ مغموم تھا…. بیحد مغموم….

ایم، اسلم سے اسے بے حد نفرت تھی۔ اتنا چھچھورا رومان نویس…. اس کی نظروں سے کبھی نہ گذرا تھا۔ اس کے افسانے پڑھ کر ہمیشہ اس کا خیال ٹبی اور کٹڑہ گھنیاں کی کھڑکیوں کی طرف دوڑ جاتا۔ جن میں رات کو کسبیوں کے غازہ لگے گال نظر آتے ہیں۔ مگر تعجب ہے کہ اکثر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اسی کے افسانے معاشقہ پیدا کرتے تھے۔

جو عشق ایم۔ اسلم کے افسانے پیدا کرتے ہیں۔ کس قسم کا عشق ہو گا! جب وہ اس پر تھوڑی دیر غور کرتا تو اسے تصور میں یہ عشق ایک ایسے سفلے آدمی کی شکل میں دکھائی دیتا جس نے نمائش کی خاطر اپنے سب اچھے اچھے کپڑے پہن رکھے ہوں ، ایک کے اوپر ایک؟

ایم۔اسلم کے افسانوں کے بارے میں اس کی رائے کیسی بھی ہو۔ لیکن یہ حقیقت تھی کہ نوجوان لڑکیاں انہیں چھپ چھپ کر پڑھتی تھیں۔اور جب ان کے جذبات بر انگیختہ ہوتے تھے تو وہ اسی آدمی سے محبت کرنا شروع کر دیتی تھیں جو ان کو سب سے پہلے نظر آ جائے۔ اسی طرح بہزاد جس کی غزلیں ہندوستان کی ہر جان اور بائی، رات کوٹھوں پر گاتی ہے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بہت مقبول تھا۔ کیوں ؟ یہ اس کی سمجھ سے بالاتر تھا؟

بہزاد کی وہ عامیانہ غزل جس کا مطلع

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے

ہے قریب قریب ہر شخص گاتا تھا۔ اس کے اپنے گھر میں اس کی چپٹی ناک والی نوکرانی جو اپنی جوانی کی منزلیں طوعاً و کرہاً طے کر چکی تھی برتن مانجتے وقت ہمیشہ دھیمے سروں میں گنگنایا کرتی تھی

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے

اس غزل نے اسے دیوانہ بنا دیا تھا جہاں جاؤ

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے

الاپا جا رہا ہے۔ آخر کیا مصیبت ہے۔ کوٹھے پر چڑھو تو کانا اسمٰعیل ایک آنکھ سے اپنے اڑتے ہوئے کبوتروں کی طرف دیکھ کر اونچے سروں میں گا رہا ہے۔’’ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔‘‘ دریوں کی دکان پر بیٹھو تو، بغل کی دکان پر لالہ کشوری مل بزاز اپنے بڑے بڑے چوتڑوں کی گدیوں پر آرام سے بیٹھ کر نہایت بھونڈے طریقے پر گانا شروع کر دیتا ہے۔’’ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔‘‘ دریوں کی دکان سے اٹھو اور بیٹھک میں جا کر ریڈیو کھولو تو اختری بائی فیض آبادی گا رہی ہے۔’’دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے‘‘ کیا بیہودگی ہے، وہ ہر وقت یہی سوچتا رہتا۔ لیکن ایک روز جبکہ وہ بالکل خالی الذہن تھا اور پان بنانے کے لئے چھالیا کاٹ رہا تھا اس نے خود غیر ارادی طور پر گانا شروع کر دیا۔

دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے

وہ اپنے آپ میں بے حد خفیف ہوا۔ اسے خود پر بہت غصہ بھی آ یا۔ لیکن پھر ایکا ایکی زور سے ہنسنے کے بعد اس نے جان بوجھ کر اونچے سروں میں گانا شروع کیا، ’’ دیوانہ بنانا ہے تو دیوانہ بنا دے۔‘‘ یوں گاتے ہوئے اس نے تصور کے زور  پر بہزاد کی ساری شاعری ایک قہقہے کے نیچے دبا دی اور جی ہی جی میں خوش ہو گیا۔

ایک دو بار اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہ بھی ایم، اسلم کی افسانہ نویسی اور بہزاد کی شاعری کا گرویدہ ہو جائے اور یوں کسی سے عشق کرنے میں کامیابی حاصل کر لے۔ لیکن قصد کرنے پربھی وہ ایم اسلم کا افسانہ پورا نہ پڑھ سکا۔اور نہ بہزاد کی غزل ہی میں کوئی خوبصورتی دیکھ سکا؟ ایک دن اس نے اپنے دل میں عہد کر لیا۔ جو ہو سو ہو میں ایم اسلم اور بہزاد کے بغیر ہی اپنی خواہش پوری کروں گا جو خیالات میرے دماغ میں ہیں ان سب کے سمیت ، میں کسی لڑکی سے محبت کروں گا…. یہی ہے نا کہ، ناکام رہوں گا۔ تو بھی ناکامی ان دو ڈگڈگی بجانے والوں سے اچھی ہے۔‘‘ اس دن سے اس کے اندر عشق کرنے کی خواہش اور بھی تیز ہو گئی۔ اور اس نے ہر روز صبح کو ناشتہ کئے بغیر ریل کے پھاٹک پر جانا شروع کر دیا۔ جہاں کئی لڑکیاں ہائی سکول کی طرف جاتی تھیں۔

پھاٹک کے دونوں طرف لوہے کا ایک بڑا توا جس پر لال روغن پینٹ کیا گیا تھا، جڑا تھا۔ دور سے جب وہ ان دو لال لال تووں کو ایک دوسرے کے پیچھے دیکھتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ فرنٹیر میل آ رہی ہے پھاٹک کے پاس پہنچتے ہی فرنٹیر میل مسافروں سے لدی ہوئی آتی اور دندناتی ہوئی اسٹیشن کی جانب غائب ہو جاتی۔

پھاٹک کھلتا اور وہ لڑکیوں کے انتظار میں ایک طرف کھڑا ہو جاتا۔ ادھر سے پچیس نہیں ، چھبیس لڑکیاں ( پہلے دن اس نے گننے میں غلطی کی تھی) وقت پر ادھر سے گذرتیں اور لوہے کی پٹڑیوں کو طے کر کے کمپنی باغ کے ساتھ والی سڑک کی طرف ہو جاتیں جدھر ان کا اسکول تھا۔ ان چھبیس لڑکیوں میں سے دس لڑکیوں کو جو کہ ہندو تھیں وہ اس لئے غور سے نہ دیکھ سکا کہ باقی سولہ مسلمان لڑکیوں کی شکل و صورت برقعوں میں چھپی رہتی تھی۔

دس روز وہ متواتر پھاٹک پر جاتا رہا۔ شروع شروع میں دو تین دن ان پردہ پوش اور بے پروہ لڑکیوں کی طرف متوجہ رہا۔ مگر دسویں روز جب صبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ جس میں کمپنی باغ کے تمام پھولوں کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ اس نے یک لخت اپنے آپ کو لڑکیوں کے بجائے ان پست قد درختوں کی طرف متوجہ پایا جس میں بے شمار چڑیاں چہچہاتی تھیں۔ صبح کی خمار آلود خاموشی میں چڑیوں کا چہچہانا کتنا بھلا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ جب اس نے غور کیا تو اسے پتہ چلا کہ وہ ایک ہفتہ سے لڑکیوں کی بجائے ان چڑیوں ، درختوں اور فرنٹیر میل کی موت جیسی یقینی آمد سے دلچسپی لیتا رہا ہے۔

عشق شروع کرنے کے لئے اس نے اور بھی بہت سے حیلے کئے مگر نا کام رہا۔ آخر کار اس نے سوچا۔ کیوں نہ اپنی گلی ہی میں کوشش کی جائے،چنانچہ ایک روز اس نے اپنے کمرے میں بیٹھ کر ان تمام لڑکیوں کی فہرست بنائی جن سے عشق کیا جا سکتا تھا۔ جب فہرست تیار ہو گئی تو نو لڑکیاں اس کے پیش نظر تھیں۔

نمبر ایک حمیدہ، نمبر دو صغریٰ، نمبر تین نعیمہ، نمبر چار، پشپا، نمبر پانچ، بملا، نمبر چھ راجکماری، نمبر سات فاطمہ عرف پھاتو، نمبر آٹھ زبیدہ عرف بیدی

نمبر9…. اس کا نام اسے معلوم نہیں تھا۔ یہ لڑکی پشمینے کے سوداگروں کے ہاں نو کر تھی۔

اب اس نے نمبر وار کرنا شروع کیا۔

حمیدہ خوبصورت تھی بڑی بھولی لڑکی۔  عمر بمشکل پندرہ برس کی ہو گی۔ سدا متبسم رہتی تھی بڑی نازک، اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید شکر کی پتلی ہے، بھربھری اگر ذرا اس کو ہاتھ لگایا تو اس کے جسم کا کوئی حصہ گر جائے گا۔ ننھے سینے پر چھاتیوں کا ابھار ایسے تھا جیسے کسی مدھم راگ میں دو سُر غیر ارادی طور پر اونچے ہو گئے ہیں۔

اگر اس سے وہ کبھی یہ کہتا، حمیدہ میں تم سے محبت کرنا چاہتا ہوں تو یقیناً اس کے دل کی حرکت بند ہو جاتی۔ وہ اسے سیڑھیوں میں ایسی باتیں کہہ سکتا تھا۔ تصور میں وہ حمیدہ سے اسی جگہ ملا…. وہ اوپر سے تیزی کے ساتھ نیچے اتر رہی تھی، اس نے اسے روکا اور اس کی طرف غور سے دیکھا۔ اس کا ننھا سا دل سینہ میں یوں پھڑپھڑایا جیسے تیز ہوا کے جھونکے دیئے کی لو۔ وہ کچھ نہ سمجھ سکا۔

حمیدہ سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا، وہ اس قابل ہی نہیں تھی کہ اس سے محبت کی جاتی۔ وہ صرف شادی کے قابل تھی۔ کوئی بھی خاوند اس کے لئے مناسب تھا۔ کیونکہ اس کے جسم کا ہر ذرہ بیوی تھا۔ اس کا شمار ان لڑکیوں میں ہو سکتا تھا، جن کی ساری زندگی شادی کے بعد گھر کے اندر سمیٹ کر رہ جاتی ہے جو بچے پیدا کرتی ہیں اور چند ہی برسوں میں اپنا سارا رنگ روپ کھو دیتی ہیں۔ اور رنگ روپ کھو کر بھی جن کو اپنے میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوتا۔

ایسی لڑکیوں سے محبت کا نام سن کر جو یہ سمجھیں ایک بہت بڑا گناہ ان سے سرزد ہو گیا ہے، وہ محبت نہیں کر سکتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ اگر وہ کسی روز غالب کا ایک شعر اسے سنا دیتا، تو کئی دنوں تک نماز کے ساتھ بخشش کی دعائیں مانگ کر بھی، وہ یہ سمجھتی کہ اس کی غلطی معاف نہیں ہوئی…. اپنی ماں سے اس نے فوراً ہی ساری بات کہہ سنائی ہوتی۔ اور اس پر جو ادھم مچتا اس کے تصور ہی سے سعید کانپ کانپ اٹھتا۔ ظاہر ہے کہ سب اسے مجرم قرار دیتے اور ساری عمر کے لئے اس کے کردار پر ایک بد نما داغ لگ جاتا۔ کوئی اس بات کی طرف دھیان نہ دیتا کہ وہ صدق دل سے محبت کرنے کا متمنی ہے۔

نمبر دو صغریٰ اور نمبر 3 نعیمہ کے بارے میں سوچنا ہی بیکار تھا۔ اس لئے کہ وہ ایک کٹر مولوی کی لڑکیاں تھیں۔ ان کا تصور کرتے ہی سعید کی آنکھوں کے سامنے اس مسجد کی چٹائیاں آ گئیں جن پر مولوی قدرت اللہ صاحب لوگوں کو نماز پڑھانے اور اذان دینے میں مصروف رہتے تھے۔ یہ لڑکیاں جوان اور خوبصورت تھیں ، مگر عجیب بات ہے کہ چہرے محراب نما تھے۔ جب سعید اپنے گھر میں بیٹھا ان کی آواز سنتا تو اسے ایسا لگتا۔ کہ عادت کے طور پر کوئی دھیمے دھیمے سروں میں دعا مانگ رہا ہے۔  ایسی دعا جس کا مطلب وہ خود بھی نہیں سمجھتا۔ ان کو صرف خدا سے محبت کرنا سکھایا گیا تھا۔ اسی لئے سعید ان سے محبت کرنا نہیں چاہتا تھا۔

وہ انسان تھا اور انسان کو اپنا دل دینا چاہتا تھا۔صغریٰ اور نعیمہ کی اس دنیا میں اس طور پر تربیت ہو رہی تھی کہ وہ دوسرے جہان میں نیکو کار مردوں کے کام آ سکیں۔

جب سعید نے ان کے متعلق سوچا تو اپنے آپ سے کہا۔’’ بھئی نہیں۔ ان سے میں عشق نہیں کر سکتا۔ جو انجام کار دوسرے آدمیوں کے حوالے کر دی جائیں گی۔مجھے اس دنیا میں بھی گناہ کرنے ہیں ، اس لئے میں جو انہیں کھیلنا چاہتا۔ مجھ سے یہ نہ دیکھا جائے گا کہ اس دنیا میں جس سے محبت کرتا ہوں چند گناہوں کے بدلے وہ کسی پرہیز گار کے سپرد کر دی جائیں۔

چنانچہ اس نے فہرست میں سے صغریٰ اور نعیمہ کا نام کاٹ دیا۔

نمبر چار پشپا، نمبر پانچ بملا، نمبر چھ راج کماری، یہ تین لڑکیاں جن کا آپس میں خدا معلوم کیا رشتہ تھا سامنے والے مکان میں رہتی تھیں۔ پشپا کے متعلق سوچ بچار کرنا بالکل فضول تھا۔ اس لئے کہ اس کا بیاہ ہونے والا تھا، ایک بزاز سے جس کا نام اتنا ہی بدصورت تھا جتنا پشپا کا خوبصورت، وہ اکثر اسے چھیڑا کرتا تھا اور کھڑکی میں سے اس کو اپنی کالی اچکن دکھا کر کہا کرتا تھا۔ پشپا بتاؤ تو میری اچکن کا رنگ کیسا ہے۔ پشپا کے گالوں پر ایک سیکنڈ کے لئے گلاب کی پتیاں سی تھرتھرا جاتیں اور وہ بہادری سے جواب دیا کرتی۔’’ نیلا۔‘‘

اس کے ہونے والے خاوند کا نام کالو مل تھا۔ لا حول ولا۔ کس قدر غیر شاعرانہ نام۔ جانے اس کا نام رکھتے ہوئے اس کے والدین نے کیا مصلحت دیکھی تھی۔

وہ جب پشپا اور کالو مل کے متعلق سوچتا، تو اپنے دل سے کہا کرتا، اگر اور کسی وجہ سے ان کی شادی رک نہیں سکتی تو صرف اسی وجہ سے روک دینی چاہئے کہ اس کے ہونے والے پتی کا نام نہایت ہی لغو ہے…. کالو مل…. ایک کالو اور پھر اس پر’’ مل‘‘ لعنت ہے…. آخر اس کا مطلب کیا ہوا….‘‘

لیکن پھر سوچتا اگر پشپا کی شادی کالو مل بزاز سے نہ ہوئی تو کسی گھسیٹا رام حلوائی یا کسی کروڑی مل صراف سے ہو جائے گی۔ بہر حال وہ اس سے عشق نہیں کر سکتا تھا۔ اگر کرتا تو اسے ہندو مسلم فساد کا ڈر تھا۔ مسلمان اور ہندو لڑکی سے محبت کرے…. اول تو محبت ویسے ہی بہت بڑا جرم ہے اور پھر مسلمان لڑکے اور ہندو لڑکی کی محبت…. نیم پر کریلا چڑھانے والی بات تھی۔

شہر میں کئی ہندو مسلم فساد ہو چکے تھے لیکن جس گلی میں سعید رہتا تھا نامعلوم وجوہات کی بناء پر ان کے اثرات سے اب تک محفوظ رہی تھی۔ اگر وہ پشپا۔بملا یا راج کماری سے محبت کرنے کا ارادہ کر لیتا تو ظاہر ہے کہ دنیا کی تمام گائیں ، اور تمام سور اس گلی میں اکٹھے ہو جاتے ہندو مسلم فسادوں سے سعید کو سخت نفرت تھی۔ اس لئے نہیں کہ یہ لوگ ایک دوسرے کا سر پھوڑتے ہیں اور لہو کے چھینٹے اڑتے ہیں۔ نہیں۔ اس لئے کہ ان فسادوں میں سر نہایت بھدے طریقے پر پھوڑے جاتے ہیں۔ اور لہو جیسی خوبصورت شے کو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر بکھیرا جاتا ہے۔

راج کماری جوان دونوں سے چھوٹی تھی، اسے پسند تھی، اس کے ہونٹ جو سانس کی کمی کے باعث خفیف طور پر کھلے رہتے تھے اسے بے حد پسند تھے، ان کو دیکھ کر اسے ہمیشہ خیال آتا تھا، کہ شاید کہ ایک بوسہ ان کے ساتھ چھو کر آگے نکل گیا ہے، ایک مرتبہ اس نے راج کماری کو جو ابھی اپنی عمر کی چودھویں منزل طے کر رہی تھی اپنے مکان کی تیسری منزل پر غسل خانے میں نہاتے دیکھا تھا۔ اپنے مکان کے جھرنوں سے جب سعید نے اس کی طرف دیکھا تو اسے ایسا محسوس ہوا۔ کہ اس کا کوئی نہایت ہی اچھوتا خیال دماغ سے اتر کر سامنے آ کھڑا ہوا ہے، سورج کی موٹی موٹی کرنیں ، جن میں بیشمار فضائی ذرے مقیش کا چھڑکاؤ سا کر رہے تھے۔اس کے ننگے بدن پر پھیل رہی تھیں۔ ان کرنوں نے اس کے گورے بدن پر سونے کا پترا سا چڑھا دیا تھا، بالٹی میں سے جب اس نے ڈونگا نکالا اور کھڑی ہو کر اپنے بدن پر پانی ڈالا تو وہ سونے کی پتلی دکھائی دی، پانی کے موٹے موٹے قطرے اس کے بدن پر سے گر رہے تھے اور جیسے سونا پگھل پگھل کر گر رہا تھا۔

راجکماری، پشپا اور بملا کے مقابلے میں بہت ہوشیار تھی۔ اس کی پتلی پتلی انگلیاں جو ہر وقت یوں متحرک رہتی تھیں جیسے خیالی جرابیں بن رہی ہیں۔ اسے بہت پسند تھیں ، ان کی انگلیوں میں رعنائی تھی اور اس رعنائی کا ثبوت، کروشیئے اور سوئی کے ان کاموں سے ملتا تھا جو کئی بار دیکھ چکا تھا۔

ایک بار راج کماری کے ہاتھ کا بنا ہوا میز پوش دیکھ کر اسے خیال آیا کہ اس نے اپنے دل کی بہت سی دھڑکنیں بھی، غیر ارادی طور پر اس کے ننھے ننھے خانوں میں گوندھ دی ہیں۔ ایک بار جبکہ وہ اس کے بالکل پاس کھڑی تھی اس کے دل میں محبت کرنے کا خیال پیدا ہوا۔ مگر جب اس نے راج کماری کی طرف دیکھا تو وہ اسے ایک مندر کی صورت میں دکھائی دی۔ جس کے پہلو میں وہ خود بخود مسجد کی شکل میں کھڑا تھا…. مسجد اور مندر میں کیونکر دوستی ہو سکتی ہے۔

گلی کی تمام لڑکیوں کے مقابلے میں یہ ہندو لڑکی ذہنی لحاظ سے بلند تھی۔ اس کی پیشانی جس پر ہر وقت ایک مدھم سی سلوٹ گہرائی اختیار کرنے کا ارادہ کئے رہتی تھی، اسے بہت بھلی معلوم ہوتی تھی۔ اس کا ما تھا دیکھ کر وہ دل ہی دل میں کہا کرتا جب دیباچہ اتنا دلچسپ ہے تو معلوم نہیں کتاب کتنی دلچسپ ہو گی…. مگر…. آہ…. یہ مگر!…. اس کی زندگی میں یہ مگر سچ مچ کا مگر بن کر رہ گیا تھا۔جو اسے غوطہ لگانے سے ہمیشہ باز رکھتا تھا۔

نمبر سات فاطمہ عرف پھاتو۔ خالی نہیں تھی۔ اس کے دونوں ہاتھ عشق سے بھرے ہوئے تھے۔ ایک امجد سے جو ورکشاپ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور دوسرا اس کے چچیرے بھائی سے جو دو بچوں کا باپ تھا۔ فاطمہ عرف پھاتو ان دونوں بھائیوں سے عشق کر رہی تھی۔ گویا ایک پتنگ سے دو پیچ لڑا رہی ہے، ایک پتنگ میں جب دو اور پتنگ الجھ جائیں تو کافی دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے لیکن اگر اس تگڈے میں ایک اور پیچ کا اضافہ ہو جائے تو ظاہر ہے کہ الجھاؤ ایک بھول بھلیاں کی صورت اختیار کر لے گا۔ اس قسم کا الجھاؤ سعید کو پسند نہیں تھا۔ اس کے علاوہ پھاتو جس قسم کے عشق میں گرفتار تھی، نہایت ہی ادنیٰ قسم کا تھا۔ جب سعید اس قسم کے عشق کا تصور کرتا۔ تو پرانی عشقیہ داستانوں کی بوڑھی کٹنی پیلے کاغذوں کے بدبو دار انبار میں سے اس کی آنکھوں کے سامنے لاٹھی ٹیکتی ہوئی آ جاتی۔ اور اس کی طرف یوں دیکھتی جیسے کہنا چاہتی ہے۔ میں آسمان کے تارے توڑ کر لا سکتی ہوں بتا تیری نظر کس لونڈیا پر ہے، یوں چٹکیوں …. میں تجھ سے ملا دوں گی۔

اس بڑھیا کے تصور کے ساتھ ہی وہ پائیں باغ کے متعلق سوچتا، یا ظاہراً پیر کا مزار اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ جہاں وہ بڑھیا اس کی محبوبہ کو کسی بہانے سے لا سکتی تھی…. اس خیال کے آتے ہی اس کی محبت کا سارا جذبہ سمٹ جاتا اور ایک ایسی قبر کی صورت اختیار کر لیتا جس پر سبز رنگ کا غلاف چڑھا ہو اور بے شمار ہار اس پر بکھرے ہوں ….

کبھی کبھی اسے یہ بھی خیال آتا اگر کٹنی نا کام رہی تو کچھ دنوں کے بعد اس محلے سے میرا جنازہ نکلے گا، اور دوسرے محلے سے میری نو جوان محبوبہ کا، یہ دونوں جنازے راستے میں ٹکرائیں گے، اور دو تابوتوں کا ایک تابوت بن جائے گا۔ یا عشقیہ داستانوں کے انجام کی طرح جب مجھے اور میری محبوبہ کو دفن کیا جائے گا۔ تو ایک معجزہ رونما ہو گا اور دونوں قبریں آپس میں مل جائیں گی۔ وہ یہ بھی سوچتا کہ اگر وہ مر گیا اور اس کی محبوبہ کسی وجہ سے جان نہ دے سکی تو ہر جمعرات کو اس کی قبر پر نازک نازک ہاتھ پھول چڑھایا کریں گے اور دیا بھی جلایا کریں گے۔ بال کھول کر وہ اپنا سر قبر کے ساتھ پھوڑا کرے گی، اور چغتائی ایک اور تصویر بنا دے گا جس کے نیچے یہ لکھا ہو گا

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

یا کوئی شاعر ایک اور غزل لکھ دے گا۔ ایک زمانے تک تماش بین جسے کوٹھوں پر طبلے کی تھاپ کے ساتھ سنتے رہیں گے، اس غزل کے شعر اس قسم کے ہوں گے

مری لحد پہ کوئی پردہ پوش آتا ہے

چراغ گور غریباں صبا بجھا دینا!

ایسے شعر جب کبھی وہ کسی غزل میں دیکھتا تو اس نتیجے پر پہنچتا کہ عشق گور کن ہے جو ہر وقت کاندھے پر کدال رکھے عاشقوں کے لئے قبریں کھود نے کے لئے تیار رہتا ہے۔ اس عشق سے وہ اس عشق کا مقابلہ کرتا جس کا تصور اس کے ذہن میں تھا۔ ان میں زمین و آسمان کا فرق پاتا تو یہ سوچتا کہ یا تو اس کا دماغ خراب ہے یا وہ نظام ہی خراب ہے جس میں وہ سانس لے رہا ہے۔

سعید اگر کوئی دیوان کھولتا۔ تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ کسی قصائی کی دکان میں داخل ہو گیا ہے، ہر شعر اسے بے کھال کا بکرا دکھائی دیتا تھا جس کا گوشت چربی سمیت بو پیدا کر رہا ہو۔ ہر بات ایک خاص ذائقہ پیدا کرتی ہے جب وہ اس قسم کے شعر پڑھتا تو اس کی زبان پر وہی ذائقہ پیدا ہوتا جو قربانی کا گوشت کھاتے وقت وہ محسوس کیا کرتا تھا ….‘‘

وہ سوچتا جس صوبے میں آبادی کا چوتھا حصہ شاعر ہے اور ایسے ہی شعر کہتا ہے وہاں محبت ہمیشہ گوشت کے لو تھڑوں کے نیچے دبی رہے گی، یہ مایوسی کسی نہ کسی وجہ سے ایک دو روز کے بعد غائب ہو جاتی۔ اور وہ پھر نئی تازگی کے ساتھ اپنی محبت کے مسئلے پر غور و فکر کرنا شروع کر دیتا۔

نمبر آٹھ زبیدہ عرف بیدی بھرے بھرے ہاتھ پیر والی لڑکی تھی۔ دور سے دیکھنے پر گندھے ہوئے میدے کا ایک ڈھیر دکھائی دیتی تھی۔ گلی کے ایک لڑکے نے اس کو ایک بار آنکھ ماری۔ بیچارے نے یوں اپنی محبت کی بسم اللہ کی تھی لیکن اس کو لینے کے دینے پڑ گئے، لڑکی نے ماں کو ساری رام کہانی سنائی۔ ماں نے اپنے بڑے لڑکے سے پوشیدہ طور پر بات چیت کی اور اس کو غیرت دلائی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک آنکھ مارنے کے دوسرے روز شام کو جب عبد الغنی صاحب طبابت عرف حکمت سیکھ کر واپس آئے تو ان کی دونوں آنکھیں سوجی ہوئی تھیں۔ کہتے ہیں کہ زبیدہ عرف بیدی چق میں سے یہ تماشہ دیکھ کر بہت خوش ہوئی، سعید کو چونکہ اپنی آنکھیں بہت پیاری تھیں۔ اس لئے وہ زبیدہ کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ عبد الغنی نے آنکھ کے پلکارے سے محبت کا آغاز کرنا چاہا تھا۔ سعید کو یہ طریقہ بازاری معلوم ہوتا تھا۔ وہ اگر اس کو اپنی محبت کا پیغام دینا چاہتا تو اپنی زبان استعمال کرتا جو دوسرے روز ہی کاٹ لی جاتی۔ عمل جراحی کرنے سے پہلے زبیدہ کا بھائی کبھی نہ پوچھتا کہ بات کیا ہے بس وہ غیرت کے نام پر چھری چلا دیتا۔ اس کو اس کا خیال کبھی نہ آتا کہ وہ چھ لڑکیوں کی عصمت برباد کر چکا ہے، جن کی داستانیں وہ بڑے مزے سے اپنے دوستوں کو سنایا کرتا ہے۔

نمبر نو، جس کا نام اسے معلوم نہیں تھا۔ پشمینے کے سوداگروں کے ہاں نو کر تھی۔ ایک بہت بڑا گھر تھا جس میں چاروں بھائی رہتے تھے، یہ لڑکی جو کشمیر کی پیداوار تھی۔ ان چاروں بھائیوں کے لئے سردیوں میں شال کا کام دیتی تھی۔ گرمیوں میں وہ سب کے سب کشمیر چلے جاتے تھے اور وہ اپنی کسی دور کی رشتہ دار عورت کے پاس چلی جاتی تھی۔ یہ لڑکی جو عورت بن چکی تھی۔ دن میں ایک دو مرتبہ اس کی نظروں کے سامنے سے ضرور گزرتی تھی اور اس کو دیکھ کر وہ ہمیشہ یہی خیال کرتا تھا، کہ اس نے ایک عورت نہیں بلکہ تین چار عورتیں اکٹھی دیکھی ہیں۔ اس لڑکی کے متعلق جس کے بیاہ کے بارے میں اب چاروں بھائی فکر کر رہے تھے اس نے کئی بار غور کیا وہ اس کی ہمت کا بہت قائل تھا کہ گھر کا سارا کام کاج اکیلی سنبھالتی تھی اور ان چار سوداگر بھائیوں کی فرداً فرداً خدمت بھی کرتی تھی۔

وہ بظاہر خوش تھی، ان چار سوداگر بھائیوں کو جن کے ساتھ اس کا جسم متعلق تھا وہ ایک ہی نظر سے دیکھتی تھی۔ اس کی زندگی جیسا کہ ظاہر ہے کہ ایک عجیب و غریب کھیل تھا جس میں چار آدمی حصہ لے رہے تھے۔ ان میں سے ہر ایک کو یہ سمجھنا پڑتا تھا کہ باقی تین بیوقوف ہیں۔ اور جب اس لڑکی کے ساتھ ان میں سے کوئی مل جاتا تو وہ دونوں یہ سمجھتے ہوں گے کہ گھر میں جتنے آدمی رہتے ہیں سب کے سب اندھے ہیں ،لیکن کیا وہ خود اندھی نہیں تھی اس سوال کا جواب سعید کو نہیں ملتا تھا۔ اگر وہ اندھی ہوتی تو بیک وقت چار آدمیوں سے تعلقات پیدا نہ کرتی بہت ممکن ہے، وہ ان چاروں کو ایک ہی سمجھتی ہو…. کیونکہ مرد اور عورت کا جسمانی تعلق عام طور پر ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے دن بڑے مزے سے گذارتی تھی، چاروں سوداگر بھائی اسے چھپ چھپ کر کچھ نہ کچھ ضرور دیتے ہوں گے۔ کیونکہ مرد جب کسی عورت کے ساتھ کچھ عرصہ لطف انگیز تخلئے میں گذارتا ہے تو اس کے دل میں اس کی قیمت ادا کرنے کی خواہش ضرور پیدا ہوتی ہے۔ چونکہ یہ خواہش عام طور پر تخلیہ حاصل کرنے سے پہلے پیدا ہوتی ہے۔ اس لئے زیادہ بار آور ثابت ہوتی ہے۔

سعید اس کو اکثر بازار میں شہاب الدین حلوائی کی دکان پر کھیر کھاتے یا بھائی کیسر سنگھ میوہ فروش کی دکان کے پاس پھل کھاتے دیکھتا تھا۔ اسے ان چیزوں کی ضرورت تھی اور پھر جس آزادی سے وہ پھل اور کھیر کھاتی تھی اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ ان کا ایک ایک ذرہ ہضم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ایک بار جب سعید، شہاب الدین کی دکان پر فالودہ پی رہا تھا، اور سوچ رہا تھا کہ اتنی ثقیل شے کیسے ہضم کر سکے گا وہ آئی اور چار آنے کی کھیر میں ایک آنے کی ربڑی ڈلوا کر دو منٹوں میں ساری پلیٹ چٹ کر گئی۔ یہ دیکھ کر سعید کو رشک ہوا جب وہ چلی گئی تو شہاب الدین کے میلے ہونٹوں پر ایک میلی مسکراہٹ پیدا ہوئی اور اس نے کسی بھی جو سن لے مخاطب کرتے ہوئے کہا، سالی مزے کر رہی ہے۔

یہ سن کراس نے لڑکی کی طرف دیکھا جو کولہے مٹکاتی پھلوں کی دکان کے پاس پہنچ چکی تھی۔ اور شاید بھائی کیسر سنگھ کی ڈاڑھی کا مذاق اڑا رہی تھی…. وہ ہر وقت خوش رہتی تھی۔ اور اس کو خوش دیکھ کر سعید کو بہت دکھ ہوتا تھا۔ خدا معلوم کیوں اس کے دل میں یہ عجیب و غریب خواہش پیدا ہوتی تھی کہ وہ خوش نہ رہے۔

سنہ تیس کے آغاز تک وہ اس لڑکی کے متعلق یہی فیصلہ کرتا رہا کہ اس سے محبت نہیں کی جا سکتی۔

 

 

 

 

(۲)

 

سن اکتیس کے شروع ہونے میں صرف رات کے چند برفائے ہوئے گھنٹے باقی تھے۔ سعید لحاف میں سردی کی شدت کے باعث کانپ رہا تھا، وہ پتلون اورکوٹ سمیت لیٹا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سردی کی لہریں اس کی ہڈیوں تک پہنچ رہی تھیں۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے کمرے کی سبز روشنی میں جو سردی میں اضافہ کر رہی تھی، اس نے زور زور سے ٹہلنا شروع کر دیا تاکہ دوران خون تیز ہو جائے۔

تھوڑی دیر یوں چلنے پھرنے کے بعد جب اس کے اندر گرمی پیدا ہوئی تو وہ آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور سگریٹ سلگا کر اپنا دماغ ٹٹولنے لگا۔ اس کا دماغ چونکہ بالکل خالی تھا۔ اس لئے اس کی قوت سامعہ بہت تیز تھی، کمرے کی ساری کھڑکیاں بند تھیں مگر وہ باہر گلی میں ہوا کی مدھم گنگناہٹ بڑی آسانی سے سن رہا تھا۔ اسی گنگناہٹ میں اسے انسانی آوازیں سنائی دیں ،ایک، دبی دبی چیخ دسمبر کی آخری رات کی خاموشی میں کے اول کی طرح ابھری۔ پھر کسی کی التجائیہ آواز لرزی۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے کھڑکی کی درز میں سے باہر کی طرف دیکھا۔

وہی…. وہی لڑکی، یعنی سوداگروں کی نو کرانی بجلی کی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ صرف ایک سفید بنیان میں بجلی کی سفید روشنی میں یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس کے بدن پر برف کی ایک پتلی سی تہہ جم گئی ہے۔ اس بنیان کے نیچے اس کی بد نما چھاتیاں ناریلوں کی طرح لٹکی ہوئی تھیں۔ وہ اس انداز میں کھڑی تھی، گویا، ابھی ابھی کُشتی سے فارغ ہوئی ہے۔ اس حالت میں دیکھ کر سعید کے صناعانہ جذبات کو دھکا سا لگا۔

اتنے میں کسی مرد کی بھینچی ہوئی آواز آئی…. خدا کے لئے اندر چلی آؤ…. کوئی دیکھ لے گا۔ تو آفت ہی آ جائے گی، وحشی بلی کی طرح غرا کر،لڑکی نے جواب دیا، نہیں آؤں گی…. بس ایک بار جو کہہ دیا کہ نہیں آؤں گی….

سب سے چھوٹے سوداگر کی آواز آئی۔’’ خدا کے لئے اونچے نہ بولو…. کوئی سن لے گا راجو….‘‘

تو اس کا نام راجو تھا۔

را جو نے اپنی لنڈوری چٹیا کو جھٹکا دے کر کہا۔، سن لے خدا کرے کوئی سن لے …. اور اگر تم یونہی مجھے آنے کے لئے کہتے رہے تو میں خود محلے بھر کو جگا کر سب کچھ کہہ دوں گی….سمجھے؟‘‘

راجو، سعید کو نظر آ رہی تھی، مگر جس سے وہ مخاطب تھی، اس کی نظروں سے اوجھل تھا۔ اس نے بڑے سوراخ میں سے راجو کی طرف دیکھا، تو اس کے بدن پر جھرجھری سی طاری ہو گئی، اگر وہ ساری کی ساری ننگی ہوتی تو شاید اس کے صناعانہ جذبات کو اتنی ٹھیس نہ پہنچتی، لیکن اس کے جسم کے وہ حصے ننگے تھے، جو دوسرے مستور حصوں کو عریانی کی دعوت دے رہے تھے، راجو برقی لالٹین کے نیچے کھڑی تھی۔ سعید کو…. ایسا محسوس ہوا کہ عورت کے متعلق اس کے تمام جذبات اپنے کپڑے اتار رہے ہیں۔

راجو کی غیر متناسب باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں ، نفرت انگیز طور پر لٹک رہی تھیں ، مردانہ بنیان کے کھلے اور گول گلے میں سے اس کی نیم پخت، ڈبل روٹی جیسی موٹی اور نرم چھاتیاں ، کچھ اس انداز سے باہر جھانک رہی تھیں ، گویا سبزی ترکاری کی ٹوٹی ہوئی ٹو کری میں سے گوشت کے ٹکڑے دکھائی دے رہے ہیں۔ زیادہ استعمال سے گھسی ہوئی پتلی بنیان کا نچلا گھیرا خود بخود اوپر کو سمٹ گیا تھا۔ اور ناف کا گڈھا اس کے خمیرے آٹے جیسے پھولے ہوئے پیٹ پر یوں دکھائی دیتا تھا جیسے کسی نے انگلی کھبو دی ہے۔

یہ نظارہ دیکھ کر سعید کے دماغ کا ذائقہ خراب ہو گیا، اس نے چاہا کہ کھڑکی سے ہٹ کر اپنے بستر کی طرف چلا آئے، اور سب کچھ بھول بھال کے سو جائے، لیکن جانے کیوں سوراخ پر آنکھ جمائے کھڑا رہا۔ راجو کو اس حالت میں دیکھ کر اس کے دل میں کافی نفرت پیدا ہو گئی تھی، شاید اسی نفرت کے باعث وہ اس سے دلچسپی لے رہا تھا۔

سوداگر کے سب سے چھوٹے لڑکے نے جس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہو گی ایک بار پھر التجائیہ لہجہ میں کہا۔’’ راجو خدا کے لئے اندر چلی آؤ، میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ پھر کبھی نہیں ستاؤں گا…. لو اب من جاؤ…. دیکھو خدا کے لئے اب مان لو…. یہ تمہاری بغل میں وکیلوں کا مکان ہے ان میں سے کسی نے دیکھ لیا تو بڑی بدنامی ہو گی۔

راجو خاموش رہی لیکن تھوڑی دیر کے بعد بولی۔ مجھے میرے کپڑے لا دو بس اب میں تمہارے یہاں نہیں رہوں گی۔ میں تنگ آ گئی ہوں ، میں کل سے وکیلوں کے ہاں نو کری کر لوں گی…. سمجھے! اب اگر تم نے مجھ سے کچھ کہا تو خدا کی قسم شور مچانا شروع کر دوں گی…. میرے کپڑے چپ چاپ لا کر دے دو…. سوداگر کے لڑکے کی آواز آئی…. لیکن تم رات کہاں کاٹو گی؟

راجو نے کہا جہنم میں۔ تمہیں اس سے کیا۔ جاؤ تم اپنی بیوی کی بغل گرم کرو۔ میں کہیں نہ کہیں سو جاؤں گی…. اس کی آنکھوں میں آنسو تھے….

سوراخ پر سے آنکھ ہٹا کر سعید پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا راجو کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر اسے ایک عجیب قسم کا صدمہ ہوا اس میں کوئی شک نہیں کہ اس صدمے کے ساتھ وہ نفرت بھی لپٹی ہوئی تھی۔ جو راجو کو اس حالت میں دیکھ کر سعید کے دل میں پیدا ہوئی تھی۔ مگر غایت درجہ نرم دل ہونے کے باعث وہ پگھل سا گیا۔ راجو کی آنکھوں میں جو شیشے کے مرتبان میں چمکدار مچھلیوں کی طرح سدا متحرک رہتی تھیں۔  آنسو دیکھ کر اس کا جی چاہا کہ اٹھ کر اسے دلا سا دے۔

راجو کی جوانی کے چار قیمتی برس سوداگر بھائیوں نے معمولی چٹائی کی طرح استعمال کئے تھے، ان برسوں پر چاروں بھائیوں کے نقش قدم کچھ اس طرح غلط ملط ہو گئے تھے کہ ان میں سے اب کسی کو اس بات کا خوف ہی نہیں رہا تھا کہ کوئی ان کے پیروں کے نشان پہچان لے گا۔ اور’’ راجو‘‘ کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ نہ اپنے قدموں کے نشان دیکھتی تھی، نہ دوسروں کے، اسے بس چلتے جانے کی دھن تھی۔ کسی بھی طرف مگر اب شاید اس نے مڑ کر دیکھا تھا…. مڑ کر اس نے کیا دیکھا تھا، جو اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے…. یہ سعید کو معلوم نہیں تھا۔

جو چیز معلوم نہ ہو، اس کو معلوم کرنے کی خواہش شاید ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ کرسی پر بیٹھا، سعید دیر تک اپنی معلومات کو الٹ پلٹ کر کے سوچتا رہا۔ اور جب اٹھ کر اس نے کچھ اور دیکھنے کے لئے سوراخ پر آنکھ جمائی تو راجو وہاں نہیں تھی۔ دیر تک وہ اس سوراخ پر آنکھ جمائے رہا۔ لیکن اسے لالٹین کی برفیلی روشنی گلی کے ناہموار فرش اور گندی موری کے سوا جس میں پالک کے بے شمار ڈنٹھل پڑے تھے، اور کچھ نظر نہ آیا۔

باہر سنہ 30 کی آخری رات دم توڑ رہی تھی، اور اس کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ راجو کہاں ہے…. کیا اندر چلی گئی ہے…. کیا مان گئی ہے، مگر سوال، کہ وہ کس بات پر جھگڑی تھی؟۔

راجو کے کانپتے ہوئے نتھنے ابھی تک سعید کو نظر آ رہے تھے ضرور اس کے اور سوداگر کے چھوٹے لڑکے کے درمیان جس کا نام محمود تھا، کسی بہت بڑی بات پر جھگڑا ہوا تھا، جبھی تو وہ دسمبر کی خون منجمد کر دینے والی رات میں صرف ایک بنیان اور شلوار کے ساتھ باہر نکل آئی تھی۔ اور اندر جانے کا نام تک نہیں لیتی تھی۔

جب سعید سوچتا کہ ان کے درمیان جھگڑ ے کی بناء…. مگر وہ اس بناء پر غور ہی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کس قدر گھناؤنا منظر اس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتا۔ لیکن وہ خیال کرتا کہ یہ بات جھگڑے کا باعث نہیں ہو گی۔ کیونکہ وہ دونوں تو اس کے عادی تھے۔ ایک زمانہ سے راجو ان سوداگر بھائیوں کو بڑے سلیقے سے ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھلا رہی تھی۔ لیکن اب ایکا ایکی کیا ہو گیا تھا۔ راجو اور اس کے یہ الفاظ اس کے کانوں میں ضدی مکھی کی طرح بھنبھنا رہے تھے…. جہنم میں ….تمہیں اس سے کیا…. جاؤ تم اپنی بیوی کی بغل گرم کرو…. میں کہیں نہ کہیں سو جاؤں گی…. ان الفاظ میں درد تھا۔

اس کو دکھی دیکھ کر سعید کے ایک نامعلوم جذبے کو تسکین ضرور پہنچی تھی، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کے دل میں رحم بھی پیدا ہو ا تھا۔ کسی عورت سے اس نے آج تک ہمدردی ظاہر نہیں کی تھی وہ اس کو دکھی دیکھنا چاہتا تھا۔ تاکہ وہ اس سے ہمدردی کا اظہار کر سکے…. وہ اس سے ہمدردی کا اظہار کر سکتا تھا۔ اس لئے کہ وہ اس کو سہہ لیتی۔ اگر وہ گلی کی کسی اور لڑکی سے ہمدردی کا اظہار کرتا، تو ظاہر ہے بہت آفت برپا ہو جاتی۔ کیونکہ اس کی ہمدردی کا مطلب کچھ اور ہی لیا جاتا۔، راجو کے سوا گلی کی تمام لڑکیاں ایسی زندگی بسر کر رہی تھیں۔ جس میں ایسے لمحات بہت ہی کم آتے ہیں جب ان سے خاص قسم کی ہمدردی کی جا سکتی ہے،اور اگر ایسے لمحات آتے ہیں ، تو وہ فوراً ہی ان کے سینوں میں ہمیشہ کے لئے دفن ہو جاتے ہیں۔ امیدوں اور تمناؤں کی قبریں اگر بنتی ہیں۔ تو فاتحہ پڑھنے کی اجازت نہیں ملتی۔ یا اس کا موقعہ ہی نصیب نہیں ہوتا۔اگر محبت کی کوئی چتا تیار ہوتی تو آس پاس کے لوگ اس پر راکھ ڈال دیتے ہیں کہ شعلے نہ بھڑکیں۔

سعید سوچتا کہ یہ کتنی تکلیف دہ مصنوعی زندگی ہے۔ کسی کو اجازت نہیں کہ وہ اپنی زندگی کے گڑھے دوسروں کو دکھائے،وہ لوگ جن کے قدم مضبوط نہیں ان کو اپنی لڑکھڑاہٹیں چھپانا پڑتی ہیں۔کیونکہ اس کا رواج ہے، ہر شخص کو ایک زندگی اپنے لئے اور ایک دوسروں کے لئے بسر کرنا ہوتی ہے، آنسو بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ قہقہے بھی دو قسم کے، ایک وہ آنسو جو زبر دستی آنکھوں سے نکالنے پڑتے ہیں ،اور ایک وہ خود بخود نکلتے ہیں اور خاص اصولوں کے ماتحت حلق سے بلند کرنا پڑتے ہیں۔

شاعر جس کی ساری عمر کوٹھوں پر اور شراب کے ٹھیکوں میں گذری ہو۔ موت کے بعد حضرت مولانا اور رحمۃ اللہ علیہ بنا دیا جاتا ہے، اگر اس کی لائف لکھی جاتی۔تو اس کو فرشتہ ثابت کرنا سوانح نگار اپنا فرض سمجھتا ہے۔ آغا حشر کی ساری زندگی کسبیوں میں گذری۔ مگر موت کے فوراً بعد ہی اس کے سارے کیریکٹر کو دھوبی کے ہاں بھیج دیا گیا۔ جب وہاں سے واپس آیا۔ اور لوگوں نے دیکھا تو اس میں کوئی داغ، کوئی شکن نہیں تھی….‘‘

گدھے، گھوڑے، خچر، اونٹ، غرضیکہ ہر جاندار اور بے جان شے پر اخلاق مرد تسمہ پاکی طرح سوار ہے، ادب پر، شاعری پر، تاریخ پر، ہر انسان کی گردن پر اخلاق بٹھا دیا گیا ہے، مہاتما گاندھی سے لے کر ماسٹر نثار گوئیے تک سب کے سب اخلاق زدہ ہیں۔ سعید حق بجانب تھا۔ کہ راجو کی سدا متبسم آنکھوں میں آنسو نظر آئیں ، اور وہ ان آنسوؤں کو اخلاق سے بے پرواہ ہو کر اپنی انگلیوں سے چھوئے، وہ اپنے آنسوؤں کا ذائقہ اچھی طرح جانتا تھا۔ مگر وہ دوسروں کی آنکھوں کے آنسو بھی چکھنا چاہتا تھا۔ خاص کر کسی عورت کے آنسو! چونکہ عورت شجر ممنوعہ ہے، اس لئے اس کی یہ خواہش اور بھی تیز ہو گئی۔

سعید کو یقین تھا کہ اگر وہ راجو کے قریب ہونا چاہے گا۔ تو وہ جنگلی گھوڑی کی طرح بد کے گی نہیں۔ راجو غلاف چڑھی، عورت نہیں تھی۔ وہ جیسی بھی تھی، دور سے نظر آ جاتی تھی۔ اس کو دیکھنے کے لئے خورد بین یا کسی اور آلے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بالکل شفاف تھی۔ اس کی بھدی اور موٹی ہنسی جو اکثر اس کے مٹمیلے ہونٹوں پر بچوں کے ٹوٹے ہوئے گھروندے کی مانند نظر آتی تھی اصلی ہنسی تھی بڑی صحت مند اور اب کہ اس کی سدا متحرک آنکھوں نے آنسو اُگلے تھے۔ تو ان میں کوئی مصنوعی پن نہیں تھا۔ راجو کو سعید ایک مدت سے جانتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے چہرے کے خطوط تبدیل ہوئے تھے اور وہ غیر محسوس طریقے پر لڑکی سے عورت بننے کی طرف متوجہ ہوئی تھی…. چونکہ اس کے اندر ایک کے بجائے تین چار عورتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ چار سوداگر بھائیوں کو وہ ہجوم نہیں سمجھتی تھی۔ یہ …. ہجوم سعید کو پسند نہیں تھا۔ اس لئے کہ ایک عورت کے ساتھ وہ صرف ایک مرد منسلک دیکھنے کا قائل تھا مگر یہاں یعنی راجو کے معاملے میں اسے پسندیدگی اور نا پسندیدگی کے درمیان رک جانا پڑتا تھا، کیونکہ مختلف قسم کے خیالات اس کے دماغ میں جمع ہو جاتے۔ اور بعض اوقات اسے غیر ارادی طور پر راجو کو داد دینا پڑتی۔ یہ داد کس بات کی تھی۔ اس کے متعلق وہ یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس لئے کہ خیالات کی بھیڑ بھاڑ میں وہ اس جذبے کو پہچاننے سے ہمیشہ قاصر رہا تھا۔ جو اس داد کا محرک ہوا کرتا تھا۔

گلی کے سب با شعور آدمی راجو کے متعلق جانتے تھے، ماسی محنتو، گلی کی سب سے عمر رسیدہ عورت تھی۔ اس کا چہرہ ایسا تھا جیسے پیلے رنگ کے سوت کی انٹیاں بڑی بے پرواہی سے نوچ کر ایک دوسرے میں الجھا دی گئی ہیں ، یہ بڑھیا بھی جس کی آنکھوں کو بہت کم سجھائی دیتا تھا۔ اور جس کے کان قریب قریب بہرے تھے، راجو سے چلم بھروا کر اس کی غیبت میں اپنی بہو سے یا جو کوئی بھی اس کے پاس بیٹھا ہو کہا کرتی تھی۔’’اس لونڈیا کو گھر میں زیادہ نہ آنے دیا کرو۔ورنہ کسی روز اپنے خصموں سے ہاتھ دھو بیٹھو گی….‘‘یہ کہتے وقت شاید اس بڑھیا کی تمام جھریوں میں اس کی گم گشتہ جوانی کی یاد رینگ جاتی تھی….‘‘

راجو کی غیر حاضری میں سب اس کو برا کہتے تھے۔ اور ان گناہوں کے لئے خدا سے معافی مانگتے تھے۔ جو شاید آگے چل کران سے سرزد ہو جائیں عورتیں جب راجو کا ذکر کرتی تھیں ، تو اپنے آپ کو بہت بلند سیرت تصور کرتی تھیں ، اور دل ہی دل میں یہ سوچ کر فخر محسوس کرتی تھیں ، کہ ان کے دم سے نسوانیت کا وقار قائم ہے….!

سب راجو کو برا سمجھتے تھے، لیکن عجیب بات ہے۔ کہ اس کے سامنے آج تک کسی نے بھی نفرت کا اظہار نہیں کیا تھا۔  بلکہ محبت پیار سے اس کے ساتھ پیش آتے تھے، شاید اس کا باعث وہی نام نہاد اخلاقی معیار ہو۔ مگر اس اچھے سلوک میں راجو کی خوش باش اور دوسروں کو ممنون کرنے والی طبیعت کو بھی کافی دخل تھا۔ سوداگروں کے گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر جب کبھی وہ کسی ہمسایہ کے ہاں جاتی، تو وہاں بیکار گپ نہیں اڑاتی تھی۔کبھی کسی کے برتن مانج دئیے کبھی کسی کے بچے کے پوترے بدل دئیے۔ کبھی کسی کی چوٹی گوندھ دی۔ کبھی کسی کے سر میں سے جوئیں نکال دیں مٹھی چاپی کر دی، وہ بغیر کام کے دراصل کہیں بیٹھ ہی نہیں سکتی تھی۔ اس کے موٹے اور بھدے ہاتھوں میں بلا کی پھرتی تھی، اور اس کا دل جیسا کہ ظاہر ہے، ہر وقت اس تلاش میں رہتا تھا کہ کسی کو خوش کرنے کا موجب ہو۔

راجو دوسروں کی خدمت میں کئی کئی گھنٹے صرف کرتی تھی، مگر شاباش یا شکریہ کے الفاظ سننے کے لئے ایک منٹ بھی انتظار نہیں کرتی تھی۔ ماسی محنتو کی چلم بھری، سلام کیا اور چل دی، مصنف صاحب کو بازار سے فالودہ لا کر دیا، ان کے بچے کو تھوڑی دیر گود میں کھلایا، اور چلی گئی، غلام نیچہ بند کی بڑھیا دادی کی پنڈلیاں سہلائیں اور اس کی دعائیں لئے بغیر چل دی….‘‘

یہ گنٹھیا کی ماری بڑھیا، جو اپنی عمر کی ایسی منزل پر پہنچ گئی تھی۔

جہاں اس کا وجود ہونے یا نہ ہونے کے برابر تھا، اور جسے غلام محمد حقے کا بیکار نیچہ سمجھتا تھا۔ راجو کے ہاتھوں ایک عجیب قسم کی راحت پاتی تھی۔ اس کی اپنی بیٹیاں اس کے پاؤں دابتی تھیں ، مگر ان کی مٹھیوں میں وہ رس نہیں تھا۔ جو راجو کے ہاتھوں میں تھا۔ جب راجو اس کی پنڈلیاں سہلاتی تو وہ اسے فرشتہ تصور کرتی، مگر اس کے چلے جانے کے بعد فوراً ہی کہا کرتی، حرامزادی اس طرح پیر دبا دبا کر ان سوداگر بچوں کو پھانسا ہو گا….‘‘؟

خیالات کی رو جانے سعید کو کہاں بہا لے گئی…. یکایک وہ چونکا اور سوراخ پر آنکھ جما کراس نے پھر باہر کی طرف دیکھا۔بجلی کی روشنی گلی میں ٹھٹھری رہی تھی۔ رات کی خاموش گنگناہٹ سنائی دے رہی تھی۔ مگر راجو وہاں نہیں تھی!

اس نے کھڑکی کا دروازہ کھولا اور باہر جھانک کر دیکھا، اس سرے سے اس سرے تک رات کی سرد خاموشی بہہ رہی تھی اور ایسا معلوم ہوتا تھا، کہ لالٹین کے نیچے کبھی کوئی کھڑا ہی نہیں تھا، پیلی روشنی میں عجیب قسم کے ویرانی گھلی ہوئی تھی۔ اس کا دل بھر آیا۔ اس کی زندگی اور افیون کھانے والے آدمیوں کے چہروں جیسی گلی میں کتنی مشابہت تھی۔

سعید نے کھڑکی کا دروازہ بند کر دیا۔ سونے کی خاطر اس نے لحاف اوڑھا تو ایک بار پھر سردی اس کی ہڈیوں تک پہنچنے لگی….

 

 

 

 

(۳)

 

نیا سال دھوپ تاپ رہا تھا۔سعید ابھی تک بستر ہی میں لیٹا تھا۔ صرف  لیٹا نہیں تھا۔  بلکہ گہری نیند سور ہا تھا اس لئے کہ رات بھر جاگتا رہا تھا۔ کہیں سات بجے کے قریب اس کی آنکھ لگی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ گیارہ بجنے پر اس نے جاگنے کا نام نہیں لیا تھا۔

سرہانے پڑی ہوئی ٹائم پیس نے بارہ مرتبہ ٹن ٹن کی مگر دھات کی اس آواز کے بجائے اس کے کانوں نے راجو کی آواز سنی،جیسے بڑی دور سے آ رہی ہے۔ وہ ایک دم جاگ پڑا۔ یوں ایکا ایکی بیدار ہونے پر ایسا محسوس ہوا۔ جیسے وہ گھبرا کے اٹھا ہے اور اس کا ریشمی پاجامہ باوجود سنبھالنے کے نیچے گر گیا ہے۔ اس کی ہلکی پھلکی نیند اسی بینڈے طریقے سے پھسل گئی تھی، اس بوکھلاہٹ میں اور بھی اضافہ ہو گیا جب اس نے راجو کو اپنے سامنے دیکھا…. ایک دم اس کی نگاہیں کھڑکی کی طرف اٹھیں ، راجو کی طرف مڑیں وہاں سے دروازے کی جانب گھومیں۔ اور پھرپھرا کر۔ راجو پر جم گئیں ….،

راجو نے ٹائم پیس کی طرف دیکھا اور کہا…. میاں جی! بارہ بج گئے ہیں۔ بی بی جی آپ کو بلاتے ہیں ، چائے تیار ہے!

یہ کہہ کر راجو نے ٹائم پیس اٹھائی اور اس میں کوک بھرنا شروع کر دی۔ کوک بھرنے کے بعد اس نے تپائی پر سے پانی کا گلاس اٹھایا۔ اور چلی گئی….

اس کا مطلب کیا ہے….؟…. کیا راجو، سوداگروں کی نو کری چھوڑ کر یہاں آ گئی ہے۔ سعید کی سمجھ میں نہیں آتا تھا،کہ کیا بات ہے، اس کی ماں غائت درجہ رحم دل تھی۔ وہ جانتی تھی کہ راجو کا چال چلن اچھا نہیں۔ مگر اس کے باوجود اسے برا نہیں کہتی تھی۔ دل کا حال خدا بہتر جانتا ہے۔ لیکن باطن سے جو کچھ عیاں تھا۔ اس سے سعید نے یہی نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس کی ماں ایک خدا ترس عورت ہے۔ خدا ترسی اس حد تک اس کے دل میں جا گزیں تھی۔ یا اس حد تک اس نے خود پر طاری کر رکھی تھی کہ وہ کسی کو برا کہہ نہیں سکتی تھی۔جب وہ سنتی کہ فلاں آدمی نے چوری کی ہے،تو کہا کرتی،بیچارے کو ضرورت نے مجبور کیا ہو گا۔

راجو کی برائیاں سن کر اس نے کئی بار کہا تھا۔ کسی نے آنکھ سے تو اس کی برائیاں نہیں دیکھیں۔ کیا پتہ ہے کہ سب تہمتیں ہی ہوں۔ اللہ سے ہر وقت ڈرنا چاہئے۔ ہم خود بہت گناہ گار ہیں۔‘‘

سعید کی ماں اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی گناہگار سمجھتی تھی۔ ایک بار سعید نے مذاق مذاق میں اپنی ماں سے کہا تھا، بی بی جی آپ ہر وقت کہتی رہتی ہیں ، میں گناہگار ہوں ، میں گناہگار ہوں ، کہیں ایسا نہ ہو فرشتے سچ مچ گناہگار سمجھ کر دوزخ میں دھکیل دیں ،ہاں یہ تو بتائیے کیا اس وقت بھی آپ یہی کہے جائیں گی میں گناہگار ہوں ،میں گناہگار ہوں !

اس کی ماں پانچ وقت باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتی تھی، زکوٰة دیتی تھی غرض یہ کہ وہ تمام باتیں کرتی تھی۔ جو گناہگاروں کو کرنی چاہئے….‘

سعید بہت دیر سوچ بچار کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا۔ چونکہ اب نماز روزے کی عادی ہو گئی ہے۔ اس لئے ہر وقت گناہ کا خیال کرنا بھی اس کی عادت میں داخل ہو گیا ہے۔

سعید گناہ اور ثواب کے جھگڑے میں اپنے دماغ کو پھنسانے ہی والا تھا۔ کہ اسے راجو کا خیال آیا جو ابھی ابھی اس کے کمرے سے باہر گئی تھی…. دو باتیں ہو سکتی ہیں …. یا تو وہ سوداگروں کی نو کری چھوڑ کر ہمارے یہاں چلی آئی ہے، اور میری ماں نے ثوابوں میں ایک اور ثواب کا اضافہ کرنے کے لئے اسے اپنے پاس رکھ لیا ہے۔ یا پھر سوداگروں ہی کے پاس ہے اور ویسے ہی ادھر آ نکلی ہے، اور جیسا کہ اس کی عادت ہے۔ شیشے کا گلاس اٹھا کر لے گئی ہے۔ جو تپائی پر غیر ضروری سا دکھائی دیتا تھا۔ مگر رات کا واقعہ؟…. اس نے راجو کے چہرے پر سے اس واقعہ کے بجھے ہوئے نقوش دیکھنے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ کوری سلیٹ کی طرح صاف تھا۔

ایک دم سعید کا دل بغیر کسی ناقابل بیان وجہ کے نفرت کے جذبات سے بھر گیا۔ اسے راجو سے نفرت تھی وہ اپنے حافظے کی تختی پر راجو کی تصویر کھینچتا تھا ہمیشہ ان گھسمیلے رنگوں سے جو اسے راجو کی زندگی میں نظر آتے تھے اس کی صناعانہ طبیعت کو صدمہ پہنچتا تھا۔جب راجو کے پلومیں وہ چار مردوں کو بندھا دیکھتا۔ گوشت اور چھچھڑوں کی صورت میں ، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار اسی فیصلے پر پہنچا تھا کہ اسے راجو سے نفرت ہے،آج بھی بڑی سوچ بچار کے بعد وہ اسی نتیجہ پر پہنچا کہ اسے راجو سے نفرت ہے…. مگر یہ چیز اسے بہت ستاتی تھی کہ راجو کو اپنے آپ پر نفرت نہیں ، وہ اپنے آپ سے بہت خوش تھی….‘‘

ایک مرتبہ سعید سے ایسی حرکت سرزد ہو گئی تھی، جو کمینگی کی حد تک بری تھی، مگر جب اس کے ضمیر نے اس کو سرزنش کی تو وہ کئی دنوں نہیں ، کئی مہینوں تک اپنے آپ سے متنفر رہا۔ اس کا خیال تھا کہ جس طرح لوگ بری حرکتوں پر دوسروں کو ملامت یا نفرت کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں ، اسی طرح ایسے موقعوں پر وہ اپنے آپ سے بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ مگر راجو یا تو اپنے آپ سے بے خبر تھی، یا اس کے اندر وہ حس ہی نہیں تھی، جو ترازو کا کام دیتی ہے۔

اس لڑکی کے بارے میں سعید نے اس قدر سوچا تھا ، کہ اب مزید غور کرنے کے خیال ہی پر اسے غصہ آتا تھا۔ وہ اس کے متعلق بالکل سوچنا نہیں چاہتا تھا، اس لئے کہ اس میں کوئی ایسی انوکھی بات ہی نہیں تھی۔ جس پر غور کیا جاتا۔وہ ایک نہایت ہی پست عورت تھی۔ سعید اٹھ کھڑا ہوا اور اس انداز سے اس نے راجو کو اپنے دماغ سے جھٹکا، جیسے کسی گھوڑے نے اپنے جسم سے تمام مکھیاں ایک ہی، جھرجھری کے ذریعہ اڑا دی ہیں۔ اس نے اب خود کو رت جگے کے اثرات کے باوجود ترو تازہ محسوس کیا۔

سورج کی کرنیں کھڑکیوں کی درزوں میں سے پھنس پھنس کر کمرے کے اندر داخل ہو کر ایسی روشنی پیدا کر رہی تھیں جو شاعرانہ طور پر مصنوعی تھی۔ اس نے کھڑکیاں نہ کھولیں اور تپائی کے پاس آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔ ابھی وہ اپنے آپ کو کرسی میں آرام دہ طریق پر پھیلانے کی کوشش ہی کر رہا تھا، کہ راجو نمودار ہوئی۔کچھ کہے بغیر اس نے ایک ایک کر کے سب کھڑکیاں کھولیں اور جھاڑ پونچھ کر دی۔ سعید اس کی تمام حرکات غور سے دیکھتا رہا۔ راجو کے موٹے موٹے ہاتھوں کی جنبش میں کوئی نزاکت یا خوبصورتی نہیں تھی…. شیشے کے پھولدان کو اس نے اس طریقے، اسی انداز سے صاف کیا جس طرح لو ہے کے قلمدان کو کیا تھا۔ جھاڑن سے اس نے تصویروں کی گرد پونچھی۔ آتشدان پر رکھی ہوئی تمام چیزیں صاف کیں۔مگر آواز پیدا کئے بغیر وہ چلتی بھی تو اس کے قدموں کی چاپ سنائی نہیں دیتی تھی۔ وہ جب باتیں کرتی تھی۔ تو ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ ہر بول روئی کے نرم نرم گالوں میں لپٹا ہے، کان کے پردوں سے اس کی آواز ٹکراتی نہیں تھی۔ صرف چھوئی جاتی تھی۔ اس کی حرکت، اس کی ہر آواز نے ربڑ سول جوتے پہن رکھے تھے۔ سعید اسے دیکھتا رہا…. نہیں اسے سننے کی کوشش کرتا رہا۔

راجو نے گہرے سبز رنگ کا اونی پل اوور پہن رکھا تھا جو کہنیوں پر سے پھٹ رہا تھا۔ یہ پل اوور غالباً سوداگر کے سب سے بڑے بیٹے نے اسے دیا تھا اس کے نیچے گرم کپڑے کا کرتہ تھا۔ جس پر جگہ جگہ میل کے گول گول داغ تھے۔ کھادی کی شلوار زیادہ استعمال کے باعث شلوار کی صورت میں دکھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ اس نے اپنی ٹانگوں پر ایک گہرے رنگ کی چادر لپیٹ رکھی تھی بہت زیادہ غور سے دیکھنے پر اس شلوار کے پائنچے نظر آتے تھے۔ جو اس قدر کھلے تھے کہ پیر بالکل غائب ہو گئے تھے….!

سعید اس کے پائینچوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ کہ راجو مڑی اور یہ کہہ کر اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔’’’آپ کی چائے تیار ہے بی بی جی آپ کی راہ دیکھ رہی ہیں۔‘‘

سعید کا جی چاہتا تھا کہ اس سے کلام کرے، مگر جانے کیوں اس نے پوچھ لیا۔ چائے بنانے کے لئے ان سے کس نے کہا تھا؟

راجو نے پلٹ کر حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ آپ نے…. ابھی ابھی تو آپ نے کہا تھا۔ کہ ہاں تیار کی جائے…. سعید کرسی پر سے اٹھ کھڑا ہوا بغیر کسی جھجک کے اس نے کبھی ایسا نہیں کہا…. صبح کی چائے ساڑھے بارہ بجے کون پیتا ہے۔ اب ناشتہ کروں گا۔ تو دوپہر کا کھانا رات ہی کو کھاؤں گا…. اور رات کا کھانا…. راجو ہنس پڑی…. رات کا کھانا…. صبح کو۔۔

سعید فوراً سنجیدہ ہو گیا۔اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے۔ جاؤ بی بی جی سے کہہ دو میں چائے نہیں پیوں گا۔  کھانا کھاؤں گا …. کھانا تیار ہے کیا؟

راجو اپنے چہرے پر سے ہنسی کے پیدا کردہ اثرات کوشش کے باوجود دور نہ کر سکی۔ اس کی سنجیدگی اس رنگ کے مشابہ تھی جو ٹھنڈے پانی میں گھول کر اونی کپڑے پر چڑھایا جائے اور نہ چڑھے، اس نے آہستہ سے جواب دیا،’’جی ہاں تیار ہے…. میں ابھی بی بی جی سے کہہ دیتی ہوں کہ آپ ناشتہ نہیں کریں گے، کھانا کھائیں گے‘‘ یہ کہہ کر وہ تیزی سے دروازے کی طرف بڑھی۔

’’ دیکھو‘‘ ( سعید نے اسے روکا) بی بی جی سے یہ کہنا کہ…. میں میں ناشتہ نہیں کروں گا، کھانا کھاؤں گا…. میں رات بھر جاگتا رہا ہوں ، سمجھ میں نہیں آتا۔میری نیند کو کیا ہو گیا تھا۔ گلی میں شور ہو تو مجھے بالکل نیند نہیں آتی۔ رات باہر خدا معلوم کیا گڑ بڑ ہو رہی تھی…. ہاں تو میں ناشتہ نہیں کرو ں گا۔ البتہ چائے کی ایک پیالی پی لوں گا۔ اور اس کے بعد کھانا کھاؤں گا۔ یعنی روز مرہ کے وقت پر…. بی بی جی کہاں ہیں ؟…. باورچی خانے میں ہیں یا دھوپ تاپ رہی ہیں۔ لیکن ٹھہرو میں خود معلوم کر لوں گا…. لیکن تم تم، یہاں کیا کر رہی ہو۔ میرا مطلب یہ ہے میرے کمرے کی چیزیں صاف کرنے کے لئے تم سے کس نے کہا تھا۔ یعنی تم یہاں کیسے آ گئی ہو…. تم تو سوداگروں کے یہاں تھیں۔

ایک ہی سانس میں سعید اتنی باتیں کہہ گیا۔  اور چور نظروں سے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔  سرخی کی ایک ہلکی سی جھلک اس کو نظر آ ئی تھی۔ جب اس نے باہر گلی میں گڑ بڑ کی طرف اشارہ کیا تھا۔ مگر اس کے بعد وہ اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہ دیکھ سکا۔ البتہ ہنسی نے اس کے چہرے پر جو پھیلاؤ سا پیدا کر دیا تھا۔ ابھی تک اس کے باقیات نظر آ رہے تھے۔

راجو نے کوئی جواب نہ دیا۔ اور کمرے سے باہر چلی گئی۔ جیسے اس سے کچھ پوچھا ہی نہیں گیا۔ اس پر سعید کو بہت غصہ آیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں نے کچھ پوچھنے کے لئے اس سے باتیں نہیں کیں ، بلکہ یونہی غیر ارادی طور پر کچھ کہتا چلا گیا ہوں۔ جس میں کوئی ربط نہیں تھا۔

مگر میری خواہش تھی، خواہش کیا مجھے پورا پورا یقین تھا کہ وہ گھبرا جائے گی۔ اور رات کا واقعہ اس کے چہرے کے ہر مسام سے پھوٹ نکلے گا۔ مگر یہ عورت ہے یا…. یا کیا ہے؟

سعید اس کے متعلق بالکل غور کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن کو ئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہو جاتی کہ اسے سوچ بچار کرنا ہی پڑ جاتا۔  یہ عورت اس کی زندگی میں خواہ مخواہ داخل ہوتی چلی جا رہی تھی۔ یہ داخلہ سعید کو پسند نہیں تھا۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اسے اپنے مکان میں نہیں رہنے دے گا۔

جب وہ اپنی ماں سے باورچی خانے میں ملا تو وہ راجو کے بارے میں ارادے کے باوجود کوئی بات نہ کر سکا۔ اس کی ماں نے جو سعید سے دیوانگی کی حد تک پیار کرتی تھی۔ چائے کی پیالی بنا کر کہا…. بیٹا رات تیرے دشمنوں کو نیند کیوں نہیں آئی۔ مجھے راجو نے ابھی کہا ہے کہ گلی میں کچھ گڑ بڑ تھی۔ اس لئے تو سو نہ سکا۔…. میں نے تو کچھ بھی نہیں سنا…. میں کہتی ہوں ، اگر تو ادھر میرے کمرے میں سو جایا کرے، تو کیا ہرج ہے، مجھے کئی کئی بار رات میں ادھر تیری طرف آنا پڑتا ہے، میرے پاس سوئے گا تو یہ میری بے چینی تو دور ہو جائے گی…. لے بابا میں کچھ نہیں کہتی، جہاں چاہے سو۔ اللہ تیرا نگہبان رہے…. لے چائے پی…. میں تجھ سے کچھ نہیں کہتی….‘

سعید دراصل راجو کے بارے کچھ کہنے والا تھا۔ اور اس کی ماں نے سمجھا کہ وہ حسب معمولی یہ کہے گا۔ بی بی جی آپ تو خواہ مخواہ پریشان ہوتی رہتی ہیں۔ میں اکیلا ہی سونے کا عادی ہوں چنانچہ وہ چپ ہو رہا۔ اور ادھر اس کی ماں نے اس کی ضد پر زیادہ بحث نہ کی۔ راجو چولہے کے پاس خاموش بیٹھی رہی….‘‘

 

 

 

 

(۴)

 

سعید کے گھر میں راجو کو نو کری کرتے ایک مہینہ گذر گیا۔ مگر اس عرصے میں ارادے کے باوجود اپنی ماں سے نہ کہہ سکا کہ اسے نکال دیا جائے۔ اب فروری کا آغاز تھا، سردی آہستہ آہستہ گرمیوں میں حل ہو رہی تھی۔ دن خوشگوار تھے۔ راتیں خوشگوار تر تھیں۔ پنجاب میں فروری کا مہینہ بہت سہانا ہوتا ہے، صبح جب وہ سیر کو نکلتا تو ہلکی پھلکی خشک ہوا بہت دیر تک پیتا رہتا…. اسے ہر شے حسین نظر آتی….،

انہی دنوں کا ذکر ہے، ایک روز جب وہ کمپنی باغ کی سیر سے گھر واپس آیا۔ تو اسے اعضاء شکنی محسوس ہوئی۔ بستر میں لیٹتے ہی اسے بخار آگیا۔ اور پھر زور کا زکام ہوا، کہ اس کی ناک بے حس سی ہو گئی۔ دوسرے روز کھانسی شروع ہوئی۔ تیسرے روز سینے میں درد۔ اور رفتہ رفتہ درجہ حرارت ایک سو پانچ تک پہنچ گیا۔ اس کی ماں نے پہلے روز ہی ڈاکٹر کو بلوایا تھا۔ مگر اس کی دوا سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔

یہ عجیب بات ہے، کہ جب سعید کو شدت کا بخار چڑھتا۔ تو اس کا ذہن غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتا۔ ایسی ایسی باتیں اس کے دماغ میں آتیں جو ویسے کبھی سوچ ہی نہیں سکتا تھا، قوت فکر اس قدر تیز ہو جاتی، اور طبیعت میں اتنی جولانی پیدا ہو جاتی کہ وہ گھبرا جاتا۔ بخار اس کے دل و دماغ میں ایک نیا زاویہ پیدا کر دیتا تھا۔ جس کا تصور وہ معمولی حالت میں نہیں کر سکتا تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا کہ اس کے تمام خیالات سان پر لگ کر نکیلے اور تیکھے ہو گئے ہیں ….‘‘

بخار کی حالت میں وہ دنیا کے تمام مسائل پر غور کرتا۔ ایک نئی روشنی میں ، ایک نئے انوکھے انداز میں وہ دنیا کی نکمی سے نکمی چیز پر غور کرتا۔ چیونٹیوں کو اٹھا کر وہ آسمان کے تاروں کے ساتھ چپکا دیتا۔ آسمان کے ستاروں کو توڑ کر زمین پر بکھیر دیتا۔

درجہ حرارت ایک سو پانچ ڈگری سے کچھ اوپر ہوا تو سعید کا دماغ تاریخ کی ورق گردانی کرنے لگا۔ سینکڑوں اوراق آن کی آن میں الٹ گئے، تمام مشہور واقعات اوپر تلے اس کے کھٹ کھٹ کرتے دماغ میں گذر گئے۔ درجہ حرارت کچھ اوپر چڑھا تو پانی پت کی لڑائیاں۔ تاج محل کی مرمریں عمارت میں گڈ مڈ ہو گئیں۔ اور قطب صاحب کی لاٹ(مشہور تاریخی ہیرو) کے کٹے ہوئے بازو میں تبدیل ہو گئی۔ پھر آہستہ آہستہ چاروں طرف دھند ہی دھند چھا گئی۔

ایک دم زور کا دھماکہ ہوا۔ اور اس دھند میں سے محمود غزنوی برق رفتار گھوڑے پر سوار اپنے لشکر سمیت باہر نکلا…. کئی اونچے اونچے پہاڑ کاٹے گئے کئی وسیع و عریض میدان گھوڑوں کی سموں کے نیچے سے نکل گئے۔ کئی پاٹ دار دریا چشم زدن میں عبور ہو گئے …. آخر کار محمود غزنوی کا گھوڑا سومنات کے جگ مگ، جگ مگ کرتے مندر کے سنہرے پھاٹک کے سامنے رکا۔

کھل جا سم سم…. محمود غزنوی پکارا۔ مندر کے دروازے گڑگڑاہٹ کے ساتھ کھلے…. محمود غزنوی اندر داخل ہوا…. کیا دیکھتا ہے، کہ سامنے ایک سونے کی مورتی کھڑی ہے…. راجو…. راجو کیسے ہو سکتی ہے۔ محمود غزنوی نے سوچا، راجو آج سے کئی سو سال پہلے کیا سونے کی مورتی تھی؟…. بکواس ہے۔لیکن وہی آنکھیں تھیں۔ وہی موٹے موٹے مٹمیلے ہونٹ۔

محمود غزنوی نے گرز اٹھا کر ایک بار پھر اس طلائی مورتی کی طرف دیکھا جس کے اعضاء راجو ہی کی طرح بھدے تھے۔ چھاتیاں بھی اس کی چھاتیوں کی مانند موٹی موٹی تھیں …. محمود غزنوی نے سوچا۔ نہیں نہیں یہ راجو کی مورتی نہیں …. کالی ماتا کی ہے…. کالی ماتا نہیں ہو گی تو کوئی اور دیوی ہو گی۔

محمود غزنوی للکارا…. مندر کے سارے پجاری دو زانوں ہو گئے۔ اور تمام زور جواہر اس کے آگے ڈھیر کر کے التجاء کی’’ مہاراجہ یہ سب مال و دولت لے لے لیکن اس سونے کی مورتی کی طرف نہ دیکھ۔‘‘

محمود غزنوی نے پہلے زر و جواہر کے ڈھیر کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں تمتما اٹھیں پھر اس نے سونے کی مورتی کی طرف دیکھا اور اس کا دل دھڑکنے لگا…. راجو…. محمود غزنوی نے سوچا یہ کمبخت راجو کہاں سے آ گئی اس کی سلطنت میں اس نام کی عورت کون تھی…. کیا وہ اسے جانتا ہے…. کیا وہ اس سے محبت کرتا ہے…. محبت کا خیال آتے ہی محمود غزنوی نے زور کا قہقہہ لگایا…. محمود غزنوی اور محبت!…. محمود غزنوی کو اپنے غلام ایاز سے محبت ہے…. اور ایاز، راجو کیسے ہو سکتا ہے۔

محمود غزنوی نے ایک بار پھر سونے کی مورتی کی طرف دیکھا، اور بلند آواز میں پکارا….‘‘ میں بت شکن ہو….‘‘ بت فروش نہیں ….‘‘ اور یہ کہہ کر اس نے اپنا وزنی گرز اٹھایا۔ اور اس سونے کی مورتی پر پے در پے ضربیں لگانا شروع کر دیں۔ گرز جب پیٹ پر لگا تو وہ پھٹ گیا، اور اس میں شہاب الدین کی کھیر اور فالودہ نکلنے لگا۔ محمود غزنوی نے جب یہ دیکھا تو گرز اٹھا کر اپنے سر پر دے مارا۔

سعید کا سر پھٹ گیا، محمود غزنوی کے سر پر جو گرز پڑا تھا۔ اس کا دھماکہ اس کے سر میں گونج رہا تھا۔ جب اس نے کروٹ بدلی تو چھاتی پر کوئی ٹھنڈی ٹھنڈی چیز رینگتی محسوس ہوئی…. سومنات اور اس کی سونے کی مورتی اس کے دماغ سے نکل گئی۔ آہستہ آہستہ اس نے اپنی گرم گرم آنکھیں کھولیں۔ راجو فرش پر بیٹھی پانی میں کپڑا بھگو بھگو کر اس کے ماتھے پر لگا رہی تھی۔

جب راجو نے ماتھے پر کپڑا اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو سعید نے اس کو پکڑ لیا۔ اور اپنے سینے پر رکھ کر ہولے ہولے پیار سے اپنا ہاتھ اس پر پھیرنا شروع کر دیا۔ اس کی سرخ آنکھیں دو انگارے بن کر دیر تک راجو کی طرف دیکھتی رہیں۔ راجو اس کی ٹکٹکی کی تاب نہ لا سکی اور ہاتھ چھڑا کر اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

اس پر وہ بستر میں بیٹھ گیا۔ اور کہنے لگا۔ راجو…. راجو…. ادھر میری طرف دیکھ۔ محمود غزنوی…. اس کا دماغ بہکنے ہی والا تھا۔ کہ اس نے قوت ارادی سے کام لیا۔ اور محمود غزنوی کا خیال جھٹک کر کہنے لگا۔ ادھر میری طرف دیکھو۔ جانتی ہو۔ میں تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔بہت بری طرح تمہاری محبت میں گرفتار ہوں۔ اسی طرح میں تمہاری محبت میں پھنس گیا ہوں ، جس طرح کوئی دلدل میں پھنس جائے…. میں جانتا ہوں تم کیا ہو میں جانتا ہوں تم محبت کے قابل نہیں ہو۔ مگر میں یہ جانتے بوجھتے تم سے محبت کرتا ہوں …. لعنت ہو مجھ پر…. لیکن چھوڑو ان باتوں کو…. ادھر میری طرف دیکھو۔ خدا کے لئے مجھے تکلیف نہ دو…. میں بخار میں اتنا پھنکتا رہا جتنا کہ تمہاری محبت میں پھنک رہا ہوں۔ راجو۔ راجو۔میں۔ میں۔‘‘اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا، اور اس نے ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ سے کونین کے نقصانات پر بحث شروع کر دی۔

ڈاکٹر بھاٹیہ: میں آپ کو کیسے سمجھاؤں یہ کونین بہت زیادہ نقصان دہ چیز ہے۔ میں مانتا ہوں کہ کچھ عرصہ کے لئے ملیریا کے جراثیم مار دیتی ہے۔ مگر نیچرل طور پر بیماری رفع نہیں کر سکتی۔ اس کے علاوہ اس کی تاثیر بے حد خشک اور گرم ہے، میرے کان بند ہو گئے ہیں۔ میرا دماغ بند ہو گیا ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دماغ میں اور کانوں میں سیاہی چوس کاغذ ٹھونس دئیے گئے ہیں۔ میں اب ہرگز کونین کا ٹیکہ نہیں لگواؤں گا۔ غزنوی بت شکن…. سومنات…. سومنات کی ایسی تیسی…. راجو…. راجو تم سومنات نہیں جاؤ گی…. میرے ماتھے پر ہاتھ رکھو….اف….اف یہ کیا بیہودگی ہے۔میں ….میں …. میرے دماغ میں بے شمار خیالات آ رہے ہیں۔ بی بی جی آپ کیوں حیران ہوتی ہیں۔ مجھے راجو سے محبت ہے، ہاں۔ ہاں۔ اس راجو سے جو سوداگروں کے ہاں نو کر تھی، اور جو اب آپ کے پاس ملازم ہے۔ آپ نہیں جانتیں کہ اس عورت نے مجھے کتنا ذلیل بنا دیا ہے اس لئے کہ میں اس کے عشق میں گرفتار ہوں۔یہ محبت نہیں خسرہ ہے…. بخدا خسرے سے بھی بڑھ کر ہے،اس کا کوئی علاج نہیں ، مجھے تمام ذلتیں برداشت کرنا ہوں گی۔ ساری گلی کا کوڑا اپنے سر پر اٹھانا ہو گا۔ گندی موری میں ہاتھ ڈالنے ہوں گے۔ یہ سب کچھ ہو کہ رہے گا…. یہ سب کچھ ہو کے رہے گا۔ آہستہ آہستہ سعید کی آواز کمزور ہو تی گئی۔ اور اس پر غنودگی طاری ہو گئی۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔مگر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پلکوں پر بوجھ سا آ پڑا ہے۔راجو پلنگ کے پاس بیٹھی اس کی بے جوڑ ہذیانی گفتگو سنتی رہی۔مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا….وہ ایسی بیماریوں کی کئی مرتبہ تیمار داری کر چکی تھی….،

بخار کی حالت میں جب اس نے اپنی محبت کا اعتراف کیا تو راجو نے کیا محسوس کیا، اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لئے کہ اس کا گوشت بھرا چہرہ جذبات سے بالکل عاری تھا۔ بہت ممکن ہے اس کے دل کے گوشے میں سرسراہٹ پیدا ہوئی ہو۔ مگر چربی کی تہوں سے نکل کر یہ سرسراہٹ باہر نہ آ سکی۔

اس نے رومال نچوڑ کر تازہ پانی میں بھگویا اور اس کے ماتھے پر رکھنے کے لئے اٹھی۔ اب کی بار اسے اس لئے اٹھنا پڑا کہ سعید نے کروٹ بدل لی تھی۔ جب اس نے آہستہ سے سعید کا سر ادھر کو موڑ کر اس کے ماتھے پر گیلا رومال جمایا تو اس کی نیم وا آنکھیں یوں کھلیں جیسے لال لال زخموں کے منہ ٹانکے ادھڑ جانے پر کھل جاتے ہیں۔ اس نے ایک لمحے کے لئے راجو کے جھکے ہوئے چہرے کی طرف دیکھا۔ جس پر گال تھوڑے سے نیچے لٹک آئے تھے۔ اور یک دم اسے اپنے دونوں بازوؤں میں جکڑ کر سعید نے اس زور سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچا کہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کڑ کڑ بول اٹھی۔  اٹھ کر اس نے راجو کو اپنی رانوں پر لٹا دیا اور اس کے موٹے اور گدگدے لبوں پر اس زور سے اپنے تپتے ہوئے ہونٹ پیوست کر دئیے، جیسے وہ گرم گرم لوہے سے ان کو داغنا چاہتا ہے….؟

سعید کی گرفت اس قدر زبردست تھی کہ راجو کوشش کے باوجود خود کو آزاد نہ کرا سکی۔ اس کے ہونٹ دیر تک اس کے لبوں پر استری کرتے رہے۔ پھر ہانپتے ہوئے دفعتاً اس نے راجو کو ایک جھٹکے سے الگ کر دیا اور اٹھ کر یوں بیٹھ گیا جیسے اس نے کوئی نہایت ڈراؤنا خواب دیکھا ہے راجو ایک طرف سمٹ گئی۔ وہ سہم گئی تھی۔ اس کے لبوں پر ابھی تک اس کے پپڑی جمے ہونٹ رڑک رہے تھے۔

راجو نے اس کی طرف کنکھیوں سے دیکھا تو وہ اس پر برس پڑا۔ تم یہاں کیا کر رہی ہو۔ جاؤ۔  جاؤ۔ یہ کہتے کہتے سعید نے اپنے سر کو دونوں ہاتھوں میں تھام لیا،جیسے وہ گر پڑے گا۔ اس کے بعد وہ لیٹ گیا اور ہولے ہولے بڑبڑانے لگا۔راجو….مجھے معاف کر دو۔مجھے معاف کر دو۔مجھے کچھ معلوم نہیں میں کیا کہہ رہا ہوں۔ اور کیا کر رہا ہوں۔ بس صرف ایک بات اچھی طرح جانتا ہوں کہ مجھے تم سے دیوانگی کی حد تک محبت ہے…. او میرے اللہ…. ہاں مجھے تم سے محبت ہے۔ اس لئے نہیں کہ تم محبت کرنے کے قابل ہو۔ اس لئے نہیں کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو…. پھر کس لئے…. کاش کہ میں اس بات کا جواب دے سکتا۔میں تم سے محبت کرتا ہوں اس لئے کہ تم نفرت کے قابل ہو۔تم عورت نہیں ہو ایک سالم مکان ہو۔ایک بہت بڑی بلڈنگ ہو، لیکن مجھے تمہارے سب کمروں سے محبت ہے اس لئے کہ وہ غلیظ ہیں۔ ٹوٹے ہوئے ہیں …. مجھے تم سے محبت ہے۔کیا یہ عجیب بات نہیں۔‘‘یہ کہہ کر سعید نے ہنسنا شروع کر دیا۔

راجو خاموش رہی۔ اس پر ابھی تک سعید کی گرفت اور اس کے خوفناک بوسے کا اثر تھا۔ وہ اٹھ کر کمرے سے باہر جانے کا ارادہ ہی کر رہی تھی کہ اس نے پھر ہذیانی کیفیت میں بڑبڑانا شروع کر دیا۔ راجو نے اس کی طرف دھڑکتے ہوئے دل سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں نیم وا تھیں۔ اور وہ کسی غیر مرئی آدمی سے باتیں کر رہا تھا….’’ تم ظالم ہو…. انسان نہیں حیوان ہو مان لیا کہ و ہ بھی تمہاری طرح حیوان ہے۔ مگر پھر بھی عورت ہے…. عورت اگر پاش پاش بھی ہو جائے۔ جب بھی عورت رہتی ہے…. لیکن تم یہ باتیں کبھی نہیں سمجھو گے۔ بھینس میں اور عورت میں تم کو ئی فرق نہیں سمجھتے۔ لیکن خدا کے لئے جاؤ، اور اسے اندر لے آؤ۔ باہر سردی میں کپڑوں کے بغیر اس کا سارا خون جم گیا ہو گا۔ میں پوچھتا ہوں ، آخر اس کے ساتھ تمہاری لڑائی کس بات پر ہوئی…. لالٹین کے نیچے وہ صرف تمہارا بنیان پہنے کھڑی ہے، اور تم …. تم…. لعنت ہو تم پر…. تم سمجھتے کیوں نہیں ہو،راجو عورت ہے…. پشمینے کا تھان نہیں جسے تم چرخ پر چڑھاتے رہو….‘‘

پہلی مرتبہ راجو کو معلوم ہوا کہ اس رات والے واقعہ سے بی بی کا لڑکا واقف ہے۔ چنانچہ وہ دہشت زدہ ہو گئی۔ لوگ اس کے اور چار سوداگر بھائیوں کے بارے میں طرح طرح کی باتیں کر تے تھے، مگر وہ جانتی تھی کہ کسی نے بھی اپنی آنکھوں سے کچھ نہیں دیکھا۔ اس لئے وہ کبھی خوفزدہ نہیں ہوتی تھی۔ لیکن اب یہاں اس کے سامنے بستر پر وہ آدمی لیٹا تھا۔ جو کہ دیکھ اور سن چکا تھا۔ اس آدمی کے متعلق آج تک اس نے غور نہیں کیا تھا۔ وہ صرف اتنا جانتی تھی کہ میاں غلام رسول مرحوم کا یہ لڑکا کسی سے بھی زیادہ باتیں نہیں کرتا۔ اور سارا دن اپنی بیٹھک میں موٹی موٹی کتابیں پڑھتے رہنا اس کا شغل ہے۔ اور بس۔ گلی کے دوسرے لڑکوں کے بارے میں ہر روز نئی نئی باتیں سنتی تھی۔ لیکن اس کے متعلق اس نے فقط یہی سنا تھا کہ بڑا بد مزاج ہے اور میاں غلام رسول مرحوم سے بھی زیادہ اسے اپنے خاندانی ہونے پر گھمنڈ ہے۔ اس کے سوا و ہ کچھ نہیں جانتی تھی۔ مگر آج اسے معلوم ہوا، کہ وہ اس کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ اور، اور اس سے محبت بھی کرتا ہے….

اس کی محبت کا انکشاف راجو کے لئے تکلیف دہ نہیں تھا۔ اس کو دراصل یہ بات بڑی تکلیف پہنچا رہی تھی، اس نے سب کچھ دیکھ لیا۔ یہ بڑی شرم کی بات تھی، چنانچہ اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی۔ کہ بی بی جی کا لڑکا۔ وہ تمام واقعہ بھول جائے، اس نے تھوڑی دیر اپنے دماغ پر زور دیا، اور آخر کار ایک طریقہ سوچ کراس نے کہنا شروع کیا’’ خدا قسم…. اللہ قسم…. پیرو دستگیر کی قسم…. یہ سب جھوٹ ہے۔ میں مسجد میں قرآن اٹھانے کے لئے تیار ہوں ، کہ جو کچھ آپ سمجھتے ہیں ، بالکل غلط ہے۔ میں نے اپنی مرضی سے سوداگروں کی نو کری چھوڑ دی ہے۔ وہاں کام بہت زیادہ تھا۔ اور اس روز رات کو بھی اس بات کا جھگڑا تھا۔ میں دن رات کیسے کام کر سکتی ہوں چار نوکروں کا کام۔ مجھے اکیلی جان سے کیسے ہو سکتا ہے، میاں جی‘‘

سعید بخار میں بے ہوش پڑا تھا۔ راجو جب اپنے خیال کے مطابق تمام ضروری باتیں کہہ چکی تو اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ لیکن اس نے سوچا کہ ایک ہی سانس میں اس نے جتنی جھوٹی قسمیں کھائی ہیں شاید ناکافی ہیں۔ چنانچہ اس نے پھر کہا….‘‘میاں جی پاک پروردگار کی قسم…. مرتے وقت مجھے کلمہ نصیب نہ ہو اگر میں جھوٹ بولوں …. یہ سب بہتان ہے، میں کوئی ایسی ویسی تھوڑی ہوں۔ مجھ سے زیادہ کام نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے میں نے ان کو چھوڑ دیا…. اب اتنی سی بات کا بتنگڑ بن جائے۔ تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔‘‘

یہ کہنے کے بعد اس نے گویا اپنا فرض ادا کر دیا۔ اور قریب تھا کہ کمرے سے باہر چلی جائے کہ سعید نے آنکھیں کھولیں اور پانی مانگا۔ راجو نے بڑی پھرتی سے پانی کا گلاس اس کے ہاتھ دے دیا اور پاس ہی کھڑی رہی۔ تاکہ واپس لے کر اسے تپائی پر رکھ دے۔

ایک ہی گھونٹ میں گلاس کا سارا پانی پینے کے بعد اس کی پیاس کو تھوڑی بہت تسکین ہوئی۔خالی گلاس راجو کے ہاتھ میں دے کر نگاہیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھا، کچھ کہنا چاہا مگر خاموش ہو گیا۔ اور تکئے پر سر رکھ کر لیٹ گیا۔

اب وہ ہوش میں تھا۔ اس نے بڑی سنجیدگی اور متانت سے راجو کو مخاطب کیا’’ راجو‘‘

راجو نے دبے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔’’جی‘‘

’’ دیکھو‘ بی بی جی کو یہاں بھیج دو۔‘‘

یہ سن کر راجو نے خیال کیا کہ وہ بی بی جی کو اس رات کی ساری داستان سنانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس نے پھر قسمیں کھانا شروع کیں ’’ میاں جی‘‘…. قرآن مجید کی قسم۔ اللہ پاک کی قسم۔ اور کوئی بات نہیں تھی…. میرا ان سے صرف اسی بات پر جھگڑا ہوا تھا۔ کہ میں زر خرید لونڈی نہیں ہوں کہ دن رات کام کرتی رہوں …. آپ نے میری زبان سے اس کے سوا اور کیا سنا تھا۔

بستر پر سعید نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی۔ ٹھنڈے پانی نے اس کے تمام جسم میں ایک کپکپاہٹ سی دوڑا دی تھی۔ راجو کی طرف حیرت سے دیکھ کر اس نے پوچھا’’ کیا کہہ رہی ہو تم۔‘‘ پھر فوراً ہی جب اسے خیال آیا کہ ہذیانی کیفیت میں اس سے بے شمار باتیں کر چکا ہے، اور اپنی محبت بھی اس پر ظاہر کر چکا ہے تو اسے اپنے آپ پر بے حد غصہ آیا۔ ملیریا کے باعث اس کے منہ کا ذائقہ بہت خراب ہو گیا تھا۔ اب اس غلطی کے احساس نے اس کے منہ کا ذائقہ بہت خراب کر دیا تھا۔ اب اس غلطی کے احساس نے اس کے منہ میں اور زیادہ کسیلاپن پیدا کر دیا۔ اور اس کو اپنے آپ سے نفرت ہونے لگی۔

’’ مجھے راجو سے باتیں نہیں کرنا چاہئے تھیں …. راجو پر اپنی محبت کا اظہار تو قطعی طور پر نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اس لئے کہ وہ اس کی اہل ہی نہیں میں نے راجو کو اپنے دل کا راز نہیں بتایا۔ بلکہ اپنے تمام وجود کو ایک گندی موری میں پھینک دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نیم بیہوشی کے عالم میں مجھ سے یہ غلطی ہوئی۔ لیکن اگر میں کوشش کرتا تو جذبات کے دھارے کو روک سکتا تھا۔ مجھ میں اتنی طاقت ہے۔  مگر افسوس اس بات کا خیال ہی نہ آیا۔ اور میں بکتا چلا گیا۔‘‘

جو کچھ وہ راجو سے کہہ چکا تھا۔ اس کا لفظ لفظ تو سعید کو یاد نہیں تھا۔ لیکن وہ سوچ سکتا تھا۔ کہ اس نے کیا کہا ہو گا۔ وہ اس سے پہلے عالم خیال میں راجو سے کئی مرتبہ گفتگو کر چکا تھا۔ اور ہر بار ندامت محسوس کر چکا تھا۔ مگر اب وہ سچ مچ اس سے ہمکلام ہوا تھا۔ اور اس پر اپنی محبت بھی ظاہر کر چکا۔ جس سے وہ خود کو بھی غافل رکھنا چاہتا تھا۔…. یہ سعید کی زندگی کا عظیم ترین حادثہ تھا۔

راجو اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ملیریا اپنے برفیلے ہاتھ پھر اس کے جسم پر پھیر رہا تھا۔ ایک نہایت ہی ناگوار کپکپاہٹ اس کے رگ و ریشہ کے اندر کھنکھجورے کے مانند رینگ رہی تھی اور اس کے دل میں ایسی تلخی پیدا ہو رہی تھی، جو اس نے اس سے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک دم اسے اتنا بخار چڑھے کہ بیہوش ہو جائے۔ تاکہ وہ کچھ جو ہو چکا ہے اس کا احساس کچھ عرصہ کے لئے اس سے دور رہے۔

بڑی مشکل سے اس نے خود کو راجو سے یہ کہنے پر آمادہ کیا۔ جاؤ بی بی جی کو یہاں بھیج دو۔ میں یہاں مر رہا ہوں کچھ میرا بھی تو خیال کریں۔ اس پر راجو نے ہولے سے کہا۔ آپ ہی کے لئے سو نفل پڑھ رہی ہیں۔ میں جا کر دیکھتی ہوں ختم ہوئے ہیں کہ نہیں ….‘‘جاؤ…. خدا کے لئے جاؤ…. یہ کہہ کر سعید نے لحاف اپنے منہ پر اوڑھ لیا۔ اور سردی کی شدت کے باعث جو  ملیریا کے تازہ حملے کا نشان تھی۔ زور زور سے کانپنا شروع کر دیا۔

راجو کمرے سے باہر چلی گئی۔

 

 

 

 

(۵)

 

’’ سردی چونکہ بہت شدت کی تھی‘‘

اس لئے بد احتیاطی کے باعث سعید کو نمونیہ ہو گیا۔ اور اس کی حالت بہت نازک ہو گئی۔ اس کی ماں بیچاری کیا کر سکتی تھی۔ دن رات دعائیں مانگنے میں مصروف رہتی اور اپنے بیمار بیٹے کے پاس بیٹھی رہتی۔ راجو نے بھی تیمار داری میں کوئی دقیقہ فرد گذاشت نہ کیا۔ مگر بجائے آرام کے ا س کی خدمت میں مریض روحانی اذیت محسوس کرتا رہا….

سعید کے دل میں کئی مرتبہ آئی کہ اپنی ماں سے صاف صاف لفظوں میں کہہ دے کہ راجو کی موجودگی پسند نہیں کرتا۔ مگر کوشش کے باوجود ایسا نہ کہہ سکا۔ چنانچہ اس اذیت میں جو کہ وہ محسوس کر رہا تھا۔ اس شکست کے باعث اور بھی اضافہ ہو گیا….‘‘

ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ نے یہ رائے دی تھی کہ اسے ہسپتال میں داخل کر دیا جائے تو ٹھیک رہے گا۔ وہاں تیمار داری بھی اچھی طرح ہو سکے گی اور دوا وغیرہ بھی وقت پر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ضرورت کے وقت اچھے سے اچھا ڈاکٹر بھی مل سکے گا۔  لیکن اس کی ماں رضا مند نہیں ہوتی تھی۔ ہسپتال سے اسے سخت نفرت تھی۔  لیکن جب اس کے چہیتے بیٹے نے خود ہسپتال میں داخل ہونے پر اصرار کیا، تو وہ دل پر پتھر رکھ کر خاموش ہو گئی۔ اس نے اپنے بچے کی آج تک کوئی بات نہیں ٹالی تھی۔ چنانچہ نمونیہ ہونے کے دوسرے روز ہی ڈاکٹر مکند لال بھاٹیہ اسے بڑی احتیاط سے سول ہسپتال میں لے گیا۔ اور وہاں اسپیشل وارڈ میں داخل کرا دیا۔….‘‘

ہسپتال میں سعید چند دنوں کے اندر اندر ہی ٹھیک ہو گیا۔ نمونیہ کا حملہ کافی زبر دست تھا۔ مگر وہ بچ گیا۔ وہ بخار وغیرہ بھی دور ہو گیا۔ ہسپتال کے کمرے میں جس کی ہر چیز سفید تھی۔ اس کو روحانی تسکین حاصل ہو ئی۔ چونکہ راجو وہاں نہیں تھی۔ اس لئے اس کے دل پر جو بوجھ سا آ پڑا تھا بہت حد تک ہلکا ہو گیا۔ اور وہ مکمل صحت کی بڑی شدت سے خواہش کرنے لگا…. لیکن یہ طے تھا کہ گھر میں نہیں رہے گا۔ جہاں راجو موجود تھی۔ وہ اس عورت کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کو دیکھ کر اس کے دل و دماغ پر ایک ایسی کیفیت طاری ہو جاتی تھی۔جس سے وہ پہلے بالکل نا آشنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس کی محبت میں بہت بری طرح گرفتار ہو گیا تھا۔ مگر وہ اس محبت کو بالکل دبا دینا چاہتا تھا….‘

ظاہر ہے کہ یہ کام بہت مشکل تھا۔ مگر وہ اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے پوری پوری کوشش کر رہا تھا۔اور اس نے اس دوران میں خو د کو آہستہ آہستہ اس بات کا یقین بھی دلایا تھا۔ کہ راجو کو بھول کر وہ ایک ایسے معر کے کا کام کرے گا جو آج تک کوئی نہیں کر سکا۔

ہسپتال میں داخل ہونے کے آٹھویں روز کمزوری اور نقاہت کے باوجود سعید بہت ترو تازہ محسوس کر رہا تھا۔ صبح سویرے جب سفید پوش نرس نے اس کا ٹمپریچر لیا تو اس نے مسکرا کر کہا۔’’ نرس میں تمہارا ممنون ہوں۔ تم نے میری بہت خدمت کی ہے۔ کاش میں اس کا صلہ تم سے محبت کر کے دے سکتا۔‘‘ اینگلوانڈین نرس کے لبوں پر ایک باریک مسکراہٹ پھیل گئی۔ آنکھوں کی پتلیاں نچا کر اس نے کہا ’’تو کیوں نہیں کرتے…. کرو۔‘‘

اس نے بغل سے تھر ما میٹر نکال کر نرس کو دیا۔ اور جواباً کہا۔ میں اپنے دل کے کواڑ ہمیشہ کے لئے بند کر چکا ہوں ‘‘ تم نے اس وقت دستک دی ہے جبکہ صاحب خانہ ہمیشہ کے لئے اپنی کوٹھڑی میں سو گیا ہے۔ مجھے اس کا افسوس ہے۔ تم اس قابل ہو کہ تم سے آئیڈو فارم کی تیز بو سمیت محبت کی جائے مگر…. اٹ از ٹو لیٹ مائی ڈیئر!‘‘

نرس ہنس پڑی۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ ہار کا دھاگا ٹوٹنے سے موتی ادھر ادھر بکھر گئے ہیں۔ اس کے دانت بہت سفید اور چمکیلے تھے…. سعید نرسوں کی کمزوری سے واقف تھا۔ چنانچہ اس نے بڑے پر لطف انداز میں کہا۔’’ نرس تم ابھی پوری طرح جوان کہاں ہوئی ہو…. شباب آنے دو،ایک چھوڑ پوری درجن محبتیں تمہارے ارد گرد چکر لگانا شروع کر دیں گی…. لیکن اس وقت مجھے ضرور یاد کر لینا۔ جس نے ہسپتال کے اس کمرے میں ایک بار تمہاری پنڈلیوں کی تعریف کی تھی۔ اور کہا تھا۔اگر چار چار ہوتیں تو میں اپنے پلنگ میں پایوں کی بجائے لگوا لیتا۔

نرس نے تختی پر ٹمپریچر نوٹ کیا۔ اور’’ یو نوٹی بوائے‘‘ کہہ کر اپنی پنڈلیوں کی طرف داد بھری نگاہوں سے دیکھتی ہوئی باہر چلی گئی۔

سعید بہت خوش تھا۔ یا یوں سمجھئے کہ وہ اپنے آپ کو خوش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ دراصل وہ راجو کو کسی نہ کسی حیلے سے بھول جانا چاہتا تھا۔ کئی بار اس کو گفتگو کا خیال آتا۔ جو اس نے بخار میں اس سے کی تھی مگر فوراً ہی دوسرے خیالوں کے نیچے اسے دبا دیتا۔

ہسپتال میں اب اسے مزید چار روز رہنا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نمونیہ اور ملیریا نے اس کی بہت سی طاقت لوٹ لی تھی۔ مگر اسے اپنی کمزوری کا بالکل خیال نہیں تھا۔  بلکہ الٹا خوش تھا۔ اب اسے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ کہ بہت سا غیر ضروری بوجھ اس پر سے اٹھ گیا ہے۔ خیالات میں اب وہ پہلا سا کھچاؤ نہیں تھا۔ اور نہ پراگندگی ہی تھی۔ بخار اور نمونیہ نے فلٹر کا کام دیا تھا۔ وہ محسوس کرتا تھا۔ کہ اب اس میں وہ بھاری پن نہیں رہا۔ جو اسے پہلے تنگ کرتا رہا ہے۔ بخار نے اس کے نوکیلے جذبات کو گھسا دیا تھا۔ اس لئے اب اسے چبھن محسوس نہیں ہوتی تھی۔!

دماغ بالکل ہلکا تھا۔ باقی اعضا بھی ہلکے پھلکے ہو گئے تھے۔ جس طرح دھوبی میلے کپڑے کو پھٹک پھٹک کر اجلا کر تا ہے۔ اس طرح بخار نے اچھی طرح جھنجھوڑ نچوڑ کر اس کا سارا میل نکال دیا تھا۔

جب نرس اپنی پنڈلیوں کی طرف دیکھتی ہوئی باہر نکلی تو سعید دل ہی دل میں مسکرایا۔ پھر اس نے سوچا، نرس کی پنڈلیاں واقعی خوبصورت ہیں۔ دوسرے مریضوں کے لئے ایسے چار دن گذارنا بہت مشکل تھا۔ مگر سعید نے بڑے مزے سے یہ دن کاٹے۔ شام کو اس کے دوست آ جاتے تھے۔ ان سے وہ ادھر ادھر کی دلچسپ باتیں کرتا رہتا۔ صبح کو اس کی ماں آتی۔ جو اپنی مامتا سے اس کا دل خوش کر جاتی۔ دوپہر کو سو رہتا۔ اور بیچ میں جب اس کے پاس کوئی نہ ہوتا۔ تو رسالے پڑھتا رہتا۔ جن کا ایک انبار اب کھڑکی کی سل پر جمع ہو گیا تھا!

جب اس کے رخصت ہونے کا وقت آیا۔ تو ڈاکٹر، نرس، خدمت گار، اور ہسپتال کے ایک، دو، اور ملازمین اس کے کمرے میں جمع تھے۔ دو بھنگی انعام لینے کے لئے کھڑے تھے، باہر پھاٹک پر تانگہ کھڑا تھا۔ جس میں اس کا ملازم غلام نبی بیٹھا انتظار کر رہا تھا۔ جیسے وہ لندن جا رہا ہے۔ یا لندن سے واپس آ رہا ہے۔ اور اس کے دوست احباب اس کو خیر باد کہنے یا اس کا استقبال کرنے کے لئے جمع ہیں۔

نرس اس سے بار بار کہہ رہی تھی’’ آپ نے اپنی سب چیزیں یاد سے اٹیچی میں رکھ لی ہیں نا؟….اور وہ بار بار اس کا جواب دے رہا تھا جی ہاں رکھ لی ہیں۔‘‘

نرس پھر کہتی تھی۔’’ وہ آپ کی گھڑی کہاں ہے۔ دیکھئے گدیلے کے نیچے ہی نہ پڑی رہے۔‘‘

اس پر اسے کہنا پڑتا۔ میں نے گھڑی اٹھا کے اپنی جیب میں رکھ لی ہے۔

’’ اور آپ کا فونٹین پن؟‘‘

’’ وہ بھی میری جیب میں ہے۔‘‘

’’ اور آپ کی عینک؟‘‘

’’ وہ میری ناک پر ہے۔ آپ اپنا اطمینان کر سکتی ہیں۔‘‘

اس پر نرس مسکرا دیتی۔

نرس نے سعید کی بہت خدمت کی تھی۔ جیسے ننھے ننھے بچوں کا کوئی خیال رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ اس کا خیال رکھتی تھی۔اور اب کہ وہ ہسپتال سے جا رہا تھا۔ وہ اس کو یوں رخصت کر رہی تھی۔ جیسے ماں بچے کو اسکول بھیجتی ہے اور اس کے دروازے سے باہر نکلنے تک کبھی اس کی ٹوپی ٹھیک کرتی رہتی ہے، یا کبھی اس کی قمیص کے بٹنوں کو بند کرتی رہتی ہے نرس کی اس قسم کی خدمت نے اس پر بہت اثر کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس سے ہمیشہ پر لطف طریقے سے گفتگو کرتا تھا….‘‘

جب سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہو گیا تو سعید نرس سے مخاطب ہوا۔

’’ نرس‘‘ دیکھنا میری ٹائی کی ناٹ کیسی ہے‘‘؟

نرس نے ٹائی کی گرہ کی طرف دیکھا۔ مگر فوراً ہی سمجھ گئی کہ اس سے مذاق ہو رہا ہے۔ چنانچہ مسکرا دی۔ بالکل ٹھیک ہے۔ مگر آپ اپنا آئینہ یہیں بھولے جا رہے ہیں۔

یہ کہہ کر وہ کمرے کی آخری کھڑکی کی طرف بڑھی۔ جس کے پاس ہی لوہے کا نعمت خانہ رکھا تھا۔ اسے کھو ل کر اس نے آئینہ نکالا۔ اور سعید کے اٹیچی کیس میں رکھ کر کہا۔ کیوں جناب ایک چیز تو آپ بھول ہی گئے تھے نا۔

اس پر سعید نے کہا۔’’ اب مجھے کیا معلوم کہ آئینے بھی پھلوں اور دودھ کی طرح نعمت خانے میں رکھے جاتے ہیں۔ میں نے تو اسے وہاں نہیں رکھا۔ آپ نے کبھی اس کی مدد سے اپنے ہونٹوں پر سرخی لگائی ہو گی۔ اور وہ بھی اس وقت جبکہ میں سو رہا ہوں گا۔

اس قسم کی پر لطف باتوں کے بعد اس نے ڈاکٹر سے ہاتھ ملایا۔ چند کاغذات پر دستخط کئے۔ نرس وغیرہ کا شکریہ ادا کیا۔ اور خیراتی بکس میں کچھ روپے ڈال کر اس کمرے سے باہر نکل آیا جہاں اس نے پورے پندرہ روز بیماری کی حالت میں گذارے تھے۔

جب باہر سڑک کی جانب نکلا تو اس نے ایسے ہی مڑ کر اپنے پیچھے دیکھا جدھر اس کے کمرے کی کھڑکیاں کھلتی تھیں ، تین کھڑکیاں بند تھیں۔  مگر ایک کھلی تھی۔ جس میں سے نرس جھانک رہی تھی۔ جب ان دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں تو نرس نے اپنا ننھا سا سفید رومال لہرایا اور کھڑکی بند کر دی….‘

اس کے دوست عباس نے جب یہ تماشا دیکھا تو آنکھ مار کر رشید سے کہا۔’’ بھئی مجھے کچھ دال میں کالا نظر آتا ہے۔‘‘

 

 

 

 

(۶)

 

پندرہ دنوں کی غیر حاضری کے بعد جب سعید گھر میں داخل ہوا۔ تو سب سے پہلے اسے راجو نظر آئی۔ جو دوڑی دوڑی بڑے دروازے سے باہر نکل رہی تھی۔ اسے دیکھ کر رک گئی۔ اور تتلا۔ تتلا کر کہنے لگی’’ میاں جی!‘‘ آپ ٹھیک ہو گئے …. ٹھیک ہو گئے…. میں …. میں پانچ روپے کے پیسے لینے جا رہی ہوں …. یہ کہہ کر وہ چلی گئی، اور سعید نے اطمینان کا سانس لیا۔ آگے بڑھا تو اس کی ماں نے اسے جھٹ چھاتی سے لگا لیا اور چٹ چٹ بلائیں لینا شروع کر دیں ….‘‘

سعید کو اپنی ماں کے حد سے زیادہ بڑھے ہوئے پیار سے بہت الجھن ہوتی تھی۔ مگر اب کے اس کی طبیعت میں ایک قسم کی نرمی پیدا ہو گئی تھی۔ اسے ماں کی محبت کا جوش اچھا معلوم ہوا اور اس نے فرحت محسوس کی۔

جب گھر میں داخل ہوا۔ تو اس کے ساتھ مہمانوں کا سا سلوک کیا گیا نئے ٹی سٹ میں چائے دی گئی۔ اندر کمرے میں نیا فرش بچھایا گیا تھا۔ کرسیوں پر نئی گدیاں دھری تھیں۔ پلنگ پر وہ چادر بچھی ہوئی تھی۔ جس پر اس کی ماں نے بڑی محنت سے تار کشی کا کام کیا تھا۔ ہر شے قرینے سے رکھی گئی تھی اور کمرے میں ایسی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ جو مسجد میں جمعہ کی نماز پر دیکھنے میں آیا کرتی ہے۔ جب بہت سے آدمی نہا دھو کر اجلے کپڑے پہنے ہوتے ہیں۔

چائے پی کر وہ دیر تک اپنی ماں کے پاس بیٹھا رہا۔ گلی کی سب عورتیں ایک ایک کر کے آئیں۔ اور سعید کی صحت یابی پر اس کی ماں کو مبارکباد دے کر چلی گئیں۔ جب فقیروں کو پانچ پیسے بانٹنے کا وقت آیا اور گلی میں شور مچ گیا۔ تو سعید اٹھ کر اپنی بیٹھک میں چلا آیا۔

غلام نبی نے کمرہ خوب صاف کر رکھا تھا۔ سب کی سب کھڑکیاں کھلی تھیں اس کی والدہ کو معلوم تھا کہ وہ اپنے ہی کمرے میں جا کر بیٹھے گا سگریٹ کا نیا ٹن تپائی پر رکھا تھا۔ اور پاس ہی نئی ماچس بھی پڑی تھی۔

جب کمرے میں داخل ہوا تو اس نے اپنی تمام چیزوں کا جائزہ لیا۔ ہر شے اپنی اپنی جگہ پر تھی۔ اس کبوتر تک جو بارہ بجے تک اس کے باپ کی بڑی تصویر کے بھاری فریم پر اونگھتا رہتا تھا۔

تھوڑی دیر تک وہ صاف کی ہوئی دری پر ننگے پیر ٹہلتا رہا۔ اتنے میں اس کے دوست آنا شروع ہو گئے۔ دوپہر کا کھانا وہیں کھایا گیا۔ جو کہ پرہیزی تھا مگر ہسپتال کی خوراک سے بدرجہا بہتر! کھانے کے بعد سگرٹوں کادور چلا اور دیر تک گپ بازی ہوتی رہی۔  اسی دوران میں عباس نے کہا’’ اماں ‘‘ ہسپتال کی وہ لونڈیا بری نہیں تھی…. رشید نے مسکرا کر کہا۔ آپ کا ڈبل نمونیہ بغیر دوا کے یوں ہی تو اچھا نہیں ہو گیا۔ بعض نرسیں امرت دھارا ہوتی ہیں عباس کو رشید کی بات بہت پسند آئی۔واللہ کیا جملہ کہا ہے۔ نرس اور امرت دھارا…. میں سمجھتا ہوں …. سعید آدھی بوتل تو ختم کر دی ہو گی۔تم نے….؟…. بھئی ایسی دوائیں بید ردی سے استعمال نہیں کی جاتیں ….؟ سعید کو یہ واہیات گفتگو اچھی معلوم ہوئی۔ چنانچہ اس نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ کیا خیال ہے۔  تمہارا ہسپتال میں اس جیسی تیکھی نرس شاید ہی کوئی اور ہو…. بھئی ہسپتال والوں کی نبض شناسی کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے مس فریا کو میری خدمت پر مامور کیا….یوں تو اس شہر میں کسی عورت کی ننگی ٹانگ نظر ہی نہیں آتی اور اب تو سردی زوروں پر ہے۔  سب ٹانگیں موٹے موٹے غلافوں میں رہتی ہیں۔ اس لئے اس کی ننگی پنڈلیوں نے بڑی فرحت بخشی…. لیکن تم نے اس کی پنڈلیاں نہیں دیکھیں۔!

’’عباس بولا! کیا مشہور مقامات میں شامل کرنے کے لائق ہیں ؟‘‘

اس پر سعید دفعتاً سنجیدہ ہو گیا۔بھئی مذاق برطرف، مگر اس نے میری بہت خدمت کی ہے بچہ سمجھ کر میری تیمار داری کرتی تھی۔ معمولی سے معمولی چیز کا خیال رکھتی تھی، بعض اوقات میرا منہ بھی دھلاتی تھی۔ ناک بھی پونچھتی تھی۔ جیسے میں بالکل اپاہج ہوں۔ میں اس کا بہت احسان مند ہوں ، میرا خیال ہے کہ اس کو ایک ساڑھی تحفے کے طور پر بھیج دوں۔ ایک بار اس نے کہا تھا۔ کہ اسے ساڑھی پہننے کا بہت شوق ہے، کیوں عباس تمہارا کیا خیال ہے….‘‘

عباس نے کہا! نیکی اور پوچھ، پوچھ، مگر شرط یہ ہے کہ ساڑھی میں لے جاؤں گا…. طے ہے، اور یہ بھی طے ہے کہ ساڑھی سفید ہو گی، کیونکہ یہ رنگ مجھے پسند ہے….،

چنانچہ دوسرے روز گوکل کی مارکیٹ سے عباس اور سعید نے ایک سفید رنگ کی ساڑھی منتخب کی جس کے کنارے کنارے ایک سفید تلے کابورڈر دوڑ رہا تھا۔ قیمت ادا کر دی گئی اور ایک چٹ پر اپنا اور نرس کا نام لکھ کر اسے ساڑھی کے ساتھ چپکا دیا گیا۔

عباس نے بکس بند کیا۔ اور اسے لے کر ہسپتال روانہ ہو گیا۔ جانے سے پہلے سعید نے عباس سے کہا۔ مگر دیکھو ہسپتال میں جا کر تحائف دینا ٹھیک نہیں ‘‘ عباس نے کمرے سے باہر نکل کر جوا ب دیا۔ میں نرس کے گھر جا رہا ہوں۔ ہسپتال میں تو بیمار جاتے ہیں۔

عباس چلا گیا۔ اور شام کو واپس آیا۔ جب سعید چائے وائے پی کر اپنی ماں کے پاس تھوڑی دیر بیٹھ کر ادھر مردانے کی طرف آ رہا تھا۔ دروازے پر جب دستک ہوئی اور ’’ خواجہ صاحب‘‘ کی آواز بلند ہوئی تو اس نے سمجھ لیا۔ کہ عباس ہے، اور کوئی دلچسپ خبر لایا ہے۔ جب دونوں ، اطمینان سے کمرے میں بیٹھ گئے تو باتیں شروع ہوئیں۔

عباس نے گفتگو کا آغاز کیا۔’’ بھئی مجھے ایسا شک ہوتا ہے کہ اسے تم سے بہت بری طرح محبت ہے۔ اور وہ دن بھر تمہارے فراق میں آہیں بھرتی رہتی ہے۔ رات کوسو نہیں سکتی۔وغیرہ وغیرہ‘‘

’’ ارے بھئی نہیں۔ تم مذاق مت سمجھو۔ اس نے خود تو کچھ نہیں کہا۔ مگر میں نے اندازہ لگایا ہے۔ کہ وہ تمہاری محبت میں گرفتار ہے۔  جانے تم نے اس پر کیا جادو کر دیا ہے؟‘‘

’’ میں پوری بات تو سن لوں ….‘‘؟

’’ میں وہاں گیا۔ اس کا ٹھکانہ معلوم کیا۔ وہ ڈیوٹی پر نہیں تھی۔ اس لئے اس نے مجھے اپنے چھوٹے سے کمرے میں بلایا۔ اور میرے آنے کی وجہ پوچھی، میں نے ساڑھی کا بکس اس کو دے دیا۔ اسے کھول کر جب اس نے ساڑھی دیکھی تو اس کی آنکھوں میں نمی پیدا ہو گئی۔ کہنے لگی…. ناحق تکلیف کی۔ مگر مجھے یہ ساڑھی پسند ہے، ان کا ذوق بہت اچھا ہے، گو سفید کپڑے پہن پہن کر میں سفید رنگ سے اکتا سی گئی ہوں۔ مگر اس میں ایک خاص بات ہے…. یہ …. یہ بوڈر کتنا پیارا ہے۔ اگر بڑا ہوتا تو ساری خوبصورتی ضائع ہو جاتی۔ میری طرف سے ان کا بہت بہت شکریہ ادا کیجئے گا…. لیکن…. لیکن وہ آپ کیوں نہیں آئے۔ یعنی انہیں خود آنا چاہئے تھا۔ یہ کہتے کہتے وہ رک سی گئی اور بات کا رخ بدل دیا۔

آپ نے بھی کافی زحمت اٹھائی ہے۔ مجھے آپ کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا….‘

یہ سن کر سعید نے عباس سے پوچھا، مگر اس گفتگو سے کیا ثابت ہوتا ہے کچھ بھی نہیں ….

ارے بھئی میرے بتانے سے کیا ثابت ہو گا میں مس فریا نہیں ہوں ، تم وہاں ہوتے تو وہی نتیجہ اخذ کرتے جو میں نے کیا ہے۔ اور پھر اس نے یہ بھی تو کہا۔ ان سے کہئے گا کہ وقت کے وقت جب ادھر کمپنی باغ کی طرف آ نکلیں تو مجھے ضرور ملیں۔ میرے کمرے کا نمبر آپ ان کو دبتا دیجئے گا۔ اس لئے انہیں تکلیف نہ ہو گی۔ لیکن ٹھہرئیے….؟

تمہیں معلوم ہے اس کے بعد اس نے کیا کہا؟

تم سے کہا ہو گا تشریف لے جائیے۔‘‘

اس نے چھوٹے سے پیڈ پر تمہیں ایک خط لکھا۔  لیکن تھوڑی دیر سوچ کر اسے پھاڑ دیا۔ پھر ایک نیا لکھا اسے بھی پھاڑ دیا۔ اور میری طرف بیوقوفوں کی مانند دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجہ میں کہنے لگی۔ سمجھ میں نہیں آتا…. شکریہ کن الفاظ میں ادا کروں۔ یہ کہہ کر اس نے پھر کوشش کی جو بار آور ثابت ہوئی بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے ایک خط لکھا۔ اسے لفافے میں بند کر کے مجھے دیا اور کہا یہ ان کو دے دیجئے گا۔  میں یہ خط لے کر باہر نکلا اور….

سعید نے پوچھا ہے؟

عباس نے بڑی بے پروائی سے جواب دیا۔ میرے پاس…. ہاں تو میں نے باہر آ کر لفافے کو دیکھا۔ اس پر لکھا تھا۔ پرائیویٹ چنانچہ میں نے کھول لیا….‘‘

تم نے کھول لیا….؟

کھول لیا! اور پڑھ کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ آپ سے ملنے کے لئے بہت بے قرار ہے۔ خط کا مضمون یہ ہے! میں تم سے ملنا چاہتی ہوں میری طبیعت آج کل بہت اداس ہے۔ ساڑھی کا بہت بہت شکریہ میں اسے پرسوں بال میں پہن کر جاؤں گی۔ جو چھاؤنی میں ہو رہا ہے۔

یہ کہہ کر اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور لفافہ نکال کر سعید کو دے دیا’’ تم خود بھی پڑھ لو۔ شاید بین السطور میں تمہیں کوئی اور عبارت نظر آ جائے۔‘‘

سعید نے لفافہ کھول کر پڑھا۔ وہی مضمون تھا۔ جو عباس نے سنایا تھا۔ فرق صرف یہ تھا۔ کہ مس فریا نے انگریزی میں چار سطریں لکھی تھیں۔ جس کا ترجمہ عباس نے کر دیا….،

یہ خط پڑھ کر سعید سوچ میں پڑ گیا…. وہ مجھ سے کس لئے ملنا چاہتی ہے، اور اداس کیوں ہے۔ کیا اداسی مجھ سے ملاقات کرنے سے دور ہو جائے گی۔ کیا یہ ممکن ہے کہ اس کی طبیعت میں اداسی کرنے والا میں ہوں کیا یہ سچ مچ عباس کے کہنے کے مطابق وہ مجھ سے محبت کرتی ہے۔

اس آخری خیال پر اسے بے اختیار ہنسی آ گئی عباس تم نرے کھرے بیوقوف ہو۔ اسے مجھ سے محبت نہیں ہوئی۔ بلکہ کسی اور سے ہوئی ہے۔ اور مجھے اس کا سارا حال سنانا چاہتی ہے۔ میں نے اس سے ایک بار مذاق میں کہا تھا جونہی تم کسی سے محبت کرنے لگو۔ مجھے ضرور بتانا ممکن ہے۔ کیوپڈ نے اس کے سینے پر اپنا پہلا تیر چلا دیا ہو۔ خیر چھوڑو اس قصے کو یہ بتاؤ کیا تم نے کسی اینگلو انڈین لڑکی سے محبت کی ہے؟

عباس نے بڑی سنجیدگی سے کہا۔ میں نے ٹھیٹ یورپین لڑکی سے لے کر بھنگن تک سب سے محبت کی ہے مگر یہ محبت فریق ثانی تک کبھی نہیں پہنچ سکی…. سچ پوچھو تو میں تمہاری اس فریا ہی سے محبت کرنے لگا ہوں مگر اس قسمت کا کیا کروں ، جیسا کہ تم کہتے ہو۔ وہ کسی اور کی محبت میں گرفتار ہو چکی ہے۔ میں سمجھتا ہوں۔ اپنا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔ آخر ایک روز شادی ہو جائے گی۔ اور چلو چھٹی ہوئی۔‘‘

عباس افسردہ ہو گیا۔ اس پر سعید نے پوچھا۔ عباس تم واقعی کسی سے محبت کرنا چاہتے ہو؟

عباس تڑپ کر بولا۔ یہ واقعی محبت کی بھی خوب رہی، ارے بھئی ایک زمانہ ہو گیا ہے کوشش کرتے کرتے اور اب تو محبت کی خواہش بہت شدت اختیار کر گئی ہے۔ کوئی بھی ہو۔ مگر عورت ہو عورت، خدا کی قسم مزا آ جائے۔ ‘‘

یہ کہہ کر عباس نے زور زور سے مزا لینے کی خاطر اپنے ہاتھ ملنا شروع کر دئیے لیکن میں ایسی محبت کا قائل نہیں جو دق یا سل کے روگ کی طرح ہمیشہ کے لئے چمٹ جائے۔  میں زیادہ سے زیادہ ایک یا دو برس کسی عورت سے عشق کر سکتا ہوں اور بس۔ اس سے زیادہ عشق کرنا میرے نزدیک جہالت ہے۔ غالب نے کیا خوب کہا ہے، کہ مصری کی مکھی بنو! شہد کی مکھی نہ بنو۔ تو بھئی میں تو مصری کی مکھی ہوں …. اپنا تو یہی اصول ہے چاہے عشق ہو نہ ہو مگر یہ اصول نہیں بدلے گا۔ شادی الگ رہے اور عشق جدا ہوں۔ واللہ اگر ایسا ہو جائے تو کیا کہنے ہیں۔ لیکن مجھے ایسا لگتا ہے، کہ بس کسی سے عشق کرنے میں کامیاب ہونے ہی والا ہوں۔ ایک قلعہ سر ہو گیا۔ تو بس سارا جرمنی میرا ہے۔مجھے سگیفرلائن توڑنی ہے جس روز ٹوٹ گئی۔ بیڑا پار سمجھو….‘

عباس کی تقریر سن کر سعید نے اپنے اور اس کے عشق کا موازنہ کیا۔ زمین و آسمان کا فرق تھا۔ لیکن ایک بات ضرور تھی کہ عباس نے دوسرے آدمیوں کی طرح اپنے جسمانی عشق پر پردہ نہیں ڈالا تھا۔ اس نے صاف صاف کہہ دیا تھا۔ کہ وہ ایک یا دو برس سے زیادہ کسی عورت سے عشق کرنا حماقت سمجھتا ہے۔

عشق کتنی دیر قائم رہتا ہے۔ سعید کو معلوم نہیں تھا میعادی بخار کی طرح کیا اس کی مدت محدود ہے یہ بھی اس کے علم میں نہیں تھا۔  محرقہ بخار اس کو ایک بار چڑھا تھا۔ جو اس کی ماں کے کہنے کے مطابق سوا مہینے تک رہا تھا۔لیکن یہ عشق جو ابھی ابھی اس کے دل میں پیدا ہوا تھا۔ کب تک اسے تکلیف دیتا رہے گا۔ یہ سوال اس کے دماغ میں پیدا ہوا ہی تھا۔ کہ راجو اور اس کے ارد گرد کی تمام چیزیں نگاہوں کے سامنے گھومنے لگیں اور وہ اس آدمی کی طرح جو اچانک کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے، سخت گھبرا گیا۔ چنانچہ اس نے فوراً ہی اپنے آپ کو ان خیالات سے آزاد کرانے کی خاطر عباس سے کہا۔ عباس آج کوئی پکچر دیکھنا چاہئے۔

عباس جس کے دماغ میں عشق بسا ہوا تھا۔ کہنے لگا، خالی تصویریں پیاس نہیں بجھا سکتیں دوست…. مجھے عورت چاہئے عورت۔ گرم گرم گوشت والی عورت جس کے گالوں پر میں اپنی محبت کے سرد توس سینک سکوں تمہیں ایک موقعہ مل رہا ہے ، بخدا اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ جاؤ وہ نرس تمہاری ہے۔ واللہ تمہاری ہے اس کی آنکھوں نے مجھے بتا دیا تھا۔  کہ وجہ ایک غلطی کر کے رونا چاہتی ہیں جاؤ اس کو اپنی زندگی کی پہلی غلطی میں مدد دو…. بیوقوف نہ بنو اگر غلطیاں نہ ہوتیں ، تو عورتیں بھی نہ ہوتیں …. میری سمجھ میں نہیں آتا تمہارا فلسفہ کیا ہے، بھئی ایک جوان لڑکی تمہارے ذریعہ سے اپنے زندگی کا فسانہ رنگین بنانا چاہتی ہے۔ تم اگر اپنا رنگوں کا بکس بند کر لو۔ تو یہ تمہاری حماقت ہے…. کاش تمہاری جگہ پر میں ہوتا۔ پھر پھر دیکھتے کیسے کیسے شوخ رنگ اس کی زندگی میں بھرتا….!

عباس کی تقریر سعید ان کانوں سے سننے کی کوشش کر رہا تھا۔ جن میں راجو کی محبت بھنبھنا رہی تھی۔ ہسپتال میں وہ اس کو قریب قریب بھول چکا تھا۔ مگر اب پہلے ہی دن گھر میں آ کر وہ پھر اس کے اندر داخل ہو گئی تھی۔ عباس باتیں کر رہا تھا اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی کہ اٹھے اور اندر جا کر راجو کو ایک نظر دیکھ کر پھر آ جائے۔ اس کی طرف محبت بھری نظروں سے دیکھے۔ نفرت آلود نگاہوں ہی سے دیکھے۔ مگر دیکھے ضرور۔ مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ جو ارادہ وہ کر چکا ہے۔ اتنی جلدی فنا ہو جا ئے۔

چنانچہ بڑی قوت سے کام لے کر اس کو ایک بار پھر اس نے اپنے دل کے اندر کچل دیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔‘‘ عباس کوئی اور باتیں کرو…. سچ پوچھو تو میں محبت کا صحیح مطلب ہی ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ یہ محبت وہ چیز نہیں ہے جس کا ذکر تم کرتے ہو۔ تم ایک عورت سے صرف ایک دو برس تک محبت کرنے کے قائل ہو۔  مگر میں تو عمر بھر کا پٹہ  لکھوانا چاہتا ہوں۔ اگر مجھے کسی سے عشق ہو جائے…. تو میں اس پر اپنی ملکیت چاہتا ہوں۔ وہ عورت ساری کی ساری میری ہونی چاہئے۔ اس کا ایک ایک ذرہ میری محبت کے ماتحت ہونا چاہئے۔ عاشق اور ڈکٹیٹر میں کوئی زیادہ فرق نہیں سمجھتا۔ دونوں طاقت چاہتے ہیں۔ دونوں حکمرانی کی آخری حد کے خواہشمند ہیں …. محبت…. تم محبت محبت پکارتے ہو۔ میں خود محبت محبت کہتا ہوں۔ لیکن اس بارے میں ہم کتنا جانتے ہیں …. کسی اندھیرے غار میں یا باغ کی کسی گھنی جھاڑی کے پیچھے اگر تمہاری کسی شہوت کی بھو کی عورت سے ملاقات ہو جائے تو کیا تم کہو گے میں نے عشق لڑایا ہے۔ میری زندگی میں ایک رومان داخل ہو گیا ہے۔ غلط ہے۔ بالکل غلط ہے۔ یہ محبت نہیں ، محبت کچھ اور ہے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا۔ کہ محبت ایک نہایت ہی پاک جذبے کا نام ہے۔ اور جیسا ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ یہ شہوت سے بالکل ملوث نہیں ہونی چاہئے۔ میں اس کو بھی نہیں جانتا مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مجھے معلوم ہے، محبت کیا ہے…. مگر…. مگر…. میں واضح طور پر اپنا ما فی الضمیر بیان نہیں کر سکتا میں سمجھتا ہوں ، محبت ہر شخص کے اندر ایک خاص انفرادیت لے کر پیدا ہوتی ہے جہاں تک فعل کا تعلق ہے ایک ہی رہتا ہے۔ عمل بھی ایک ہی ہے۔ نتیجہ بھی عام طور پر ایک ہی جیسا نکلتا ہے لیکن جس طرح روٹی کھانے کا فعل بظاہر یکساں ہے اور بہت سے آدمی جلدی جلدی نوالے اٹھاتے ہیں اور بغیر چبائے ان کو نگل جاتے ہیں اور بعض دیر تک چبا چبا کر لقمے کو اپنے معدے میں داخل کرتے ہیں۔ لیکن یہ مثال بھی واضح طور پر کچھ بیان نہیں کر سکتی۔ بھئی میرا دماغ خراب ہو جائے گا خدا کے لئے یہ محبت کی باتیں ختم کرو۔ ہماری محبت بہت سے پتھروں کے نیچے دبی ہوئی ہے۔ جب کھدائی ہو گی اور اس کو نکالا جائے گا۔ تو ہم دونوں اس کے متعلق اچھی طرح بات چیت کر سکیں گے۔

سعید کی اس ناہموار تقریر میں اتنے دھچکے تھے عباس کے دماغ میں ایسی کیفیت پیدا ہو گئی۔  جو تھرڈ کلاس تانگے میں بیٹھ کر شکستہ سڑک پر چلنے سے پیدا ہوتی ہے۔ وہ بھی اٹھ کھڑا ہوا۔ جانے تم نے کیا بکواس کی ہے۔ مگر میں صرف اتنا سمجھا ہوں کہ عورت سے عشق کرنا، اور زمین کا خریدنا تمہارے لئے ایک ہی بات ہے۔ سو تم محبت کرنے کے بجائے ایک دو بیگھا زمین خرید لو اور اس پرساری عمر قابض رہو…. لاحول ولا آخر تمہیں ہو کیا گیا ہے۔ تمہارے اندر شاعری کا کیا ہوا…. ؟ بیمار رہنے کے بعد تم اتنے کور ذوق کیوں ہو گئے ہو۔ بھئی اتنی معمولی سی بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی کہ عشق جو زیادہ دیر تک قائم رہے۔ عشق نہیں۔ لعنت ہے۔ ہم انسان ہیں۔ فرشتے نہیں جو ایک ہی حور پر قانع ہو کر رہ جائیں اگر ایک ہی عورت سے میں نے اپنے آپ کو ہمیشہ کے لئے چپک دیا۔ تو زندگی اجیرن ہو جائے گی…. میں خود کشی کر لوں گا…. زندگی میں صرف ایک عورت…. صرف ایک…. اور یہ دنیا کیوں اس قدر بھری ہوئی ہے….؟ کیوں اس میں اتنے تماشے جمع ہیں …. صرف گندم پیدا کر کے ہی اللہ میاں نے اپنا ہاتھ کیوں نہ روک لیا۔

میری سنو! اور اس زندگی کو جو کہ تمہیں دی گئی ہے۔ اچھی طرح استعمال کرو کہ تم اس عورت کو جو تمہارے راستے میں ڈال دی گئی ہے، کچھ دنوں کے لئے کیونکر خوش کر سکتے ہو…. اپنی خوشی مقدم ہے….؟ فلسفے میں خود کو نہ الجھاؤ۔عورت کو نا قابل فہم سمجھنے کی ضرورت ہی کیا ہے جب تک وہ تمہارے پچکارنے پر اپنی کٹی دم ہلاتا رہتا ہے اور تمہارے کہنے پر گیند دبوچ لیتا ہے۔ میں پوچھتا ہوں ، عورت کے متعلق زیادہ سوچ بچار کی ضرورت ہی کیا ہے، وہ اگر ا تھاہ سمندر ہے تو ہوا کرے۔ اونچا تارا ہے تو اس سے کیا جب تک وہ عورت ہے اور ان خوبیوں کی مالک ہے جو عورت میں ہونی چاہئیں صرف ایک ہی بات پر غور کرنا چاہئے۔کہ اسے کیونکر حاصل کیا جا سکتا ہے!

یہ تقریر سننے کے بعد سعید نے عباس سے دفعتاً پوچھا! لیکن عورتیں ہیں کہا۔

عباس نے ڈبے سے ایک سگریٹ نکال کر سلگایا اور جواب دیا۔ یہاں وہاں ادھر۔ ادھر، ہر جگہ عورتیں موجود ہیں۔ کیا اس گھر میں کوئی عورت موجود نہیں ہے۔ وہ تمہاری نوکر راجو کیا بری ہے۔ جس نے اس دن تمہاری بیٹھک کا دروازہ میرے لئے کھولا تھا۔ تم میری طرف یوں آنکھیں پھاڑ کر کیا دیکھ رہے ہو۔ بھئی ہمیں عورت چاہئے اور راجو سو فیصدی عورت ہے۔ وہ تمہاری نو کر سہی لیکن اس سے اس کی نسوانیت میں تو کچھ فرق نہیں آتا…. مانتا ہوں کہ میری یہاں اکثر عورتیں صندوقوں میں بند ہیں ، لیکن اس کا یہ تو مطلب نہیں کہ جو صندوقوں سے باہر ہیں۔ نہ ان کی طرف ہم توجہ دینا چھوڑ دیں …. دستر خوان پر جو کچھ حاضر ہو کھانا ہی پڑے گا۔ یہ کہہ کر عباس نے زور سے سگریٹ کی راکھ جھاڑی اور اپنے دوست سعید کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا مگر وہ نظریں ملانا نہیں چاہتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ اسے اس بات کا ڈر ہے کہ عباس اس کی آنکھوں میں راجو کی محبت کا سارا قصہ پڑھ لے گا۔ چنانچہ وہ ایک طرف ہٹ گیا۔ انگیٹھی کی سل پر اپنی تصویر کے فریم کو ذرا ادھر ہٹا کر اس نے عباس سے کہا۔ تم…. تم…. کچھ نہیں تمہاری گفتگو بہت گھناؤنی ہے…. تم بات کرتے ہو۔ اور مجھے تمہارے منہ سے خون کی بو آتی ہے۔ تم لہو پینے والے انسان ہو۔’’ اور تم۔‘‘ عباس نے پھر سگریٹ کی راکھ جھاڑی، تم؟…. میں لہو پینے والا انسان ہی سہی لیکن تم جیسے دودھ پینے والے جانوروں سے بدرجہا اچھا ہوں۔ تم نیکی اور بدی کے بیچ میں لٹکے ہو…. شکر ہے کہ میں ایسی چمگادڑ نہیں میں ایک طوفانی سمندر ہوں۔ تم خشکی پر کھڑے ہو،…. میں شاعر ہوں تم ایک خشک نثر نویس تم ایک ایسے گاہک ہو جو عورت کو حاصل کرنے کے لئے ساری عمر سرمایہ جمع کرتے رہو گے، مگر اسے ناکافی سمجھو گے۔

میں ایسا خریدار ہوں۔  جو زندگی میں کئی عورتوں سے سودے کرے گا تم ایسا عشق کرنا چاہتے ہو۔ کہ تمہاری ناکام موت پر کوئی ادنیٰ درجے کا مصنف ایک کتاب لکھے جسے نرائن دت سہگل۔ لال، پیلے کاغذوں پر چھاپے اور ڈبی بازار میں ایک ایک آنے میں تمہاری محبت کا افسانہ بکے…. میں اپنی کتاب حیات کے تمام اوراق دیمک بن کر چاٹ جانا چاہتا ہوں۔ تاکہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے…. تم محبت میں زندگی چاہتے ہو…. میں زندگی میں محبت چاہتا ہوں۔ میں سب کچھ ہوں …. لیکن تم کچھ بھی نہیں ہو…. ذرا سوچو تو آخر تم ہو کیا۔

تھوڑی دیر کے لئے سعید کو ایسا محسوس ہوا، کہ عباس واقعی سب کچھ ہے۔ اور وہ کچھ بھی نہیں ہے،اس نے سوچا کہ آخر میں کیا ہوں۔ یہاں اس گھر میں ایک لڑکی موجود ہے۔ جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ لیکن۔ لیکن یہ محبت کیا ہے۔ کیسی ذلت آفرین چیز ہے۔ میں چاہتا ہوں۔ کہ وہ میری ہو جائے۔ لیکن پھر ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہوں کہ اس کے خیال تک کو نوچ کر پھینک دوں۔ میں کس مصیبت میں گرفتار ہو گیا ہوں۔ کیا محبت اسی کا نام ہے؟

کچھ بھی ہو۔ مگر سعید اتنا ضرور سمجھتا تھا کہ یہ مصیبت یا جو کچھ بھی اس کا نا م رکھ لیا جائے۔ محبت تھی۔ جو اس کے دل میں آہستہ آہستہ جڑ پکڑ گئی تھی جس طرح لوگ بھوت پریت سے ڈرتے ہیں۔ اسی طرح وہ اس محبت سے ڈرتا تھا۔ اس کو ہر دم خوف رہتا تھا۔ کہ ایک وقت ایسا آئے گا۔ جب اس کے جذبات بے لگام ہو جائیں گے اور وہ کچھ کر بیٹھے گا۔ کیا کر بیٹھے گا…. یہ اس کو معلوم نہیں تھا۔ مگر وہ اس طوفان کا منتظر تھا۔ جس کے آثار اسے اپنے اندر دکھائی دے رہے تھے۔ اس محبت نے اسے ڈرپوک بنا دیا تھا۔، وہ بزدل ہو گیا تھا۔….؟ عباس اپنے خیال میں مگن تھا۔اس لئے وہ اپنے دوست کی دلی کیفیت نہ تاڑ سکا۔ دراصل وہ دوسروں کی ذات پر غور کرنے کا عادی بھی نہ تھا اسے صرف اپنی ذات سے دلچسپی تھی، وہ ہر وقت اپنے ہی اندر سمایا رہتا تھا اسے اتنی فرصت ہی نہیں ملتی تھی، کہ دوسروں کی بابت غور کرے۔ لیکن اس کے باوجود اچھا دوست تھا۔ شاید اس لئے کہ وہ دوستی اور اس کے معانی پر غور ہی نہیں کرتا تھا۔ وہ اس کو نازک رشتے کی صورت میں دیکھنے کے لئے کبھی تیار نہیں تھا۔ وہ کہا کرتا تھا۔ اماں چھوڑو…. تم کن وہموں میں گرفتار ہو گئے ہو۔ دوستی دوستی سب بکواس ہے۔ دھات یا پتھر کے زمانے میں دوست ہوا کرتے ہوں گے۔ آج کل کوئی کسی کادوست نہیں ہو سکتا۔ لوگ اگر دوستی ہی کی رسی بٹنا شروع کر دیں ، تو سارے کا سارا کاروبار بند ہو جائے …. تم مجھے دوست کہتے ہو، کہو، میں تمہیں دوست کہتا ہوں ٹھیک ہے۔ سنتے جاؤ، مگر اس سے زیادہ اس پر غور نہ کرنا چاہئے…. جتنا زیادہ غور کرو گے، اتنے زیادہ گڑھے پیدا ہوتے جائیں گے۔ آج دنیا میں جتنی سیاہ کاریاں ہو رہی ہیں سب اسی غور و فکر کا نتیجہ ہیں۔

قتل ہوتے ہیں زیادہ سوچ بچار کے باعث، چوریاں ہوتی ہیں زیادہ سوچنے کی وجہ سے۔ ڈاکے پڑتے ہیں۔ زیادہ فکر و تردد کرنے سے…. دماغ اور بارود کی میگزین میں کوئی فرق نہیں۔ اور سوچ بچار چقماق پتھر سے جھڑی چنگاریاں ہیں …. گاؤ دی، بیوقوف، اُلو ہو جاؤ۔ مگر خدا کے لئے عقلمند اور مفکر نہ بنو؟

عباس باتیں بہت مزیدار کرتا تھا۔ معمولی سی بات کو بھی ایک خاص رنگ دلچسپ طریقے پر پیش کرنے کا عادی تھا۔ دنیا کے بارے میں اس کے بنائے ہوئے چند اصول تھے جن پر وہ ایک عرصے سے نہایت پابندی کے ساتھ چل رہا تھا…. اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ فکر و تردد سے پرہیز کرتا تھا۔ لیکن ان باتوں پر اسے تھوڑے عرصے کے لئے غور کرنا ہی پڑتا تھا جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہوتی تھیں …. اس وقت بھی وہ کسی بات پر غور کر رہا تھا۔ کیونکہ اس کے چہرے پر اطمینان کی وہ لہر نہیں تھی جو عام طور پر نظر آیا کرتی تھی۔ نیا سگرٹ سلگا کر وہ بڑے زور سے کش لے رہا تھا۔ اور اس کا دوست سعید آتش دان کے پاس ایک زبر دست ذہنی اور روحانی کشمکش میں مبتلا تھا۔

دفعتاً عباس چونک پڑا۔’’ اجی ہٹاؤ، خواہ مخواہ اس الجھن میں اپنے آپ کو کیوں پھنسا یا جائے…. جو ہو گا دیکھا جائے گا ، اپنے دوست سے مخاطب ہو کر پھر اس نے کہا اجی حضرت آپ کن وہموں میں گرفتار ہو گئے ہیں کرسی پر تشریف رکھئے۔ آپ ابھی ابھی بیماری سے اٹھے ہیں۔ ایسا نہ ہو پھر ہسپتال جانا پڑے…. لیکن دوست اس دفعہ اپنی جگہ مجھے دینا…. واللہ وہ لونڈیا مجھے بھا گئی ہے۔

یہ کہہ کر وہ خود آرام کرسی پر بیٹھ گیا۔

سعید آتشدان کے پاس کرسی پر بیٹھ گیا۔ زیادہ بات چیت اور سوچ بچار نے اسے کمزور کر دیا تھا۔ چنانچہ تھکی ہوئی آواز میں اس نے عباس سے کہا عباس میں بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ میرا خیال ہے۔  کچھ دنوں کے لئے کہیں باہر چلا جاؤں۔ تبدیلی آب و ہوا ہو جائے گی۔

عباس نے پوچھا کہاں جاؤ گے؟

سعید نے جواب دیا۔’’ کہاں جاؤں گا۔ یہی تو سوچ رہا ہوں۔ سردیوں میں کہا جانا چاہئے۔ کوئی ایسی جگہ بتاؤ_´ جہاں موسم معتدل ہو،بمبئی چلا جاؤں …. کلکتہ بھی برا نہیں۔ لیکن …. لیکن…. کرسمس تو گذر چکا۔ کرسمس کو چھوڑ و…. تو بمبئی چلا جاؤں۔دراصل میں کچھ دنوں کے لئے امرتسر کو بھول جانا چاہتا ہوں۔ یہاں مجھے وحشت سی ہو رہی ہے۔‘‘

عباس نے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا‘‘ امر تسر سے آپ کو وحشت ہو رہی ہے؟یا وحشت…. امرتسر نے آپ کو کہاں کاٹ کھایا تھا۔

اس پر سعید کے دل میں آئی کہ عباس کو اپنا راز دار بنائے مگر اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اس کے راز سے واقف ہو۔ اگر یوں ہو تا کہ راز فاش کرنے پر بھی اس کا راز فاش نہ ہوتا تو وہ یقیناً اپنا دل عباس کے سامنے کھول دیتا۔ مگر اسے معلوم تھا کہ ایک بار اس نے راجو سے محبت کی داستان سنا دی۔ تو وہ چڑیا پھر سے اڑ جائے گی۔ جس کو وہ پنجرے ہی میں مار ڈالنا چاہتا ہے۔ چونکہ عباس کو اپنا راز دل سنانے کے لئے وہ آگے جھکا تھا۔  اس لئے اسے ڈبے سے سگرٹ نکال کر سلگانا پڑا۔ عباس تاڑ گیا کہ اس کا دوست کچھ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا۔ چنانچہ اس نے ان کے اندر جرات پیدا کرنے کو کہا۔ بات کو زیادہ دیر تک پیٹ میں نہ رکھا کرو! سعید ہاضمہ خراب ہو جائے گا۔ کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ تمہیں امر تسر سے کیوں وحشت ہو تی ہے۔ تم باہر کیوں جانا چاہتے ہو۔  کیا کوئی خاص بات ہے۔ خاص بات تو کوئی بھی نہیں ہوتی۔ ہم اور تم خواہ مخواہ باتوں میں خاص پن پیدا کر دیتے ہیں۔ کہو کیا کہنا چاہتے تھے تم….!

سگریٹ کا ایک کش لے کر سعید نے عباس سے کہا۔’’ کچھ بھی نہیں کوئی خاص بات نہیں ہے۔ میں خود نہیں سمجھ سکا۔ میں امر تسر کیوں چھوڑنا چاہتا ہوں دراصل کچھ عرصے سے مجھے روحانی کوفت محسوس ہو رہی ہے! میں شور و غل میں رہنا چاہتا ہوں۔

شور و غل میں رہنا چاہتے ہیں آپ۔تو یہ کیا مشکل ہے۔ میں اسی کمرے میں آپ کے لئے شور و غل پیدا کر سکتا ہوں۔ فرمائیے شور و غل کی آپ کو ضرورت ہے! رشید، وحید، ناصر، پران، سب آپ کی خدمت میں حاضر ہو جایا کریں گے۔ اتنا شور برپا ہوا کرے گا، کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دے گی…. فرمائیے، کیا حکم ہے….‘‘

عباس ہنسنے لگا۔ تو سعید بے چین ہو گیا۔ عباس کو معلوم نہیں تھا کہ سعید کے اندر کیسا طوفان برپا ہے اور وہ کن کن عذابوں میں سے گذر رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اس کا مذاق اڑا رہا تھا۔ ہنستے ہوئے عباس نے ایک بار پھر پوچھا۔ فرمائیے کیا حکم ہے؟

اس پر سعید اور بے چین ہو گیا۔ اور اٹھ کھڑا ہوا۔ میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ اس ہفتے کہیں باہر چلا جاؤں گا۔ میں بہت اداس ہو گیا ہوں۔ میں یہاں رہنا نہیں چاہتا۔ بس ایک دو مہینے باہر رہ کر جب میری طبیعت ٹھیک ہو جائے گی تو واپس آ جاؤں گا۔ مجھے یہاں کون سے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں ….تم بھی میرے ساتھ چلو…. عباس مسکرایا۔‘‘ لیکن مجھے تو بہت سے ضروری کام کرنے ہوتے ہیں ….؟

کیا….؟

ایک ہو تو بتاؤں سینکڑوں مثال کے طور پر مجھے ایک دو لڑکیوں سے عشق لڑانا ہے اور اینگلو انڈین لڑکیوں سے بات چیت کرنے کے سارے آداب سیکھنے ہیں۔ کچھ تھوڑے سے بازاری قسم کے مذاق بھی ازبر یاد کرنے ہیں اور دس بیس سستے ناول پڑھنا ہیں ؟ اور، اور…. لیکن میں تمہیں اپنا پروگرام کیوں بتاؤں …. تم جاؤ۔ میں یہاں اپنی دلچسپی کا سامان پیدا کر لوں گا۔ خط لکھتے رہنا۔ لیکن جاؤ گے کہاں ؟

سعید نے سوچا کہ واقعی جائے گا کہاں۔ ایسی کون سی جگہ تھی۔ جہاں وہ آرام سے رہ سکتا تھا۔ ہوٹلوں میں رہنا اسے پسند نہیں تھا اور رشتہ داروں کے یہاں قیام کرنا اسے ویسے ہی ناپسند تھا۔ کیونکہ اس کی آزادی میں خلل آتا تھا۔ یہ سب باتیں اس کے ذہن میں تھیں مگر امر تسر چھوڑ دینے کی خواہش لحظہ بہ لحظہ شدت اختیار کر رہی تھی۔ وہ خود جانا چاہتا تھا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ راجو کو نکال دینے کا خیال تک اس کے دماغ میں پیدا نہ ہوا۔

اس روز وہ کوئی ارادہ نہ کر سکا۔لیکن یہ طے تھا کہ و ہ کہیں چلا جائے گا….‘‘

 

 

 

 

(۷)

 

امرتسر سے لاہور میں صرف تیس بتیس میل حائل ہیں ایک گھنٹے میں سست سے سست رفتار ٹرین بھی آپ کو امرتسر سے لاہور پہنچا دیتی ہے۔ لیکن جب سعید امر تسر چھوڑ کر لاہور چلا آیا۔ تو اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ ہزاروں میل اپنے پیچھے چھوڑ آیا ہے۔ اور اب اسے راجو کا ڈر نہیں رہا۔‘‘

ماں نے اس کو روکنے کی بہت کوشش کی مگر وہ اپنے ارادے سے باز نہ آیا۔اور ہسپتال سے گھر واپس آنے کے چوتھے روز ہی اپنا مختصر اسباب لے کر چل دیا۔ لاہور میں اس کے تین چار رشتہ دار تھے۔ ان سے ملا۔ مگر ان کے یہاں قیام نہ کیا۔ وہ رشتہ دار بھی اس کی چنداں پرواہ نہ کرتے تھے۔ سعید ان کے اس سلوک سے بہت خوش تھا۔مہمانوں کی طرح چند گھنٹوں کے لئے ہر ایک کے پاس ٹھہرا اور رسمی گفتگو کرنے کے بعد اپنے ہوٹل میں چلا آیا۔

اس ہوٹل سے اس کا جی ایک ہفتے کے بعد ہی اکتا گیا۔ ویسے کرایہ بھی زیادہ تھا۔ اور وہ ان آدمیوں میں گھرا ہوا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ جو ہندوستان میں پیدا ہو کر یورپین بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ چنانچہ اس نے مال روڈ پر اپنے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ دیکھ لیا۔ اور کرایہ ورایہ طے کر کے اس میں اٹھ جانے کا فیصلہ کر لیا۔

ہوٹل کا بل ادا کر کے وہ ٹانگے میں اسباب رکھوا رہا تھا کہ اس نے ایک اور ٹانگے سے مس فریا نرس کو اترتے دیکھا۔ پہلے اس نے خیال کیا کہ فریا نہیں کوئی اور ہو گی۔ کیونکہ اینگلو انڈین لڑکیوں کی شکل و صورت عام طور پر ایک جیسی ہوتی ہیں۔ مگر جب فریا اس کو دیکھ کر بے تابانہ آگے بڑھی۔ تو اس کو یقین آگیا۔کہ سچ مچ فریا ہی ہے۔ اس کے دماغ میں سینکڑوں سوالات تلے اوپر پیدا ہوئے۔ لاہور میں یہ کیا کرنے آئی ہے اور کب آئی اور کیا اکیلی ہے اس ہوٹل میں اس کا کون ہے۔ کیا اسی ہوٹل میں ٹھہری ہے۔ وغیرہ وغیرہ؟

سعید ہوٹل کے نو کر کی ہتھیلی میں کچھ روپے دبا کر فریا کی طرف بڑھا۔ اور اس سے بڑے تپاک کے ساتھ ملا۔ مس فریا کسے معلوم تھا کہ یہاں لاہور میں تم سے ملاقات ہو گی۔ تم کب سے یہاں آئی ہو؟‘‘

اس نے اور بہت سے سوال فریا سے کئے۔ مگر اس نے ایک کا جواب نہ دیا۔ وہ بڑی مضطرب تھی۔ اس قدر مضطرب کہ اس کے چہرے پر ایک نا قابل بیان سکون پیدا ہو گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا۔  کہ وہ ایک دم کسی صدمے سے دو چار ہوئی ہے۔ اس کا رنگ بہت زرد تھا۔ اس کے ہونٹوں پر سرخی کے لیپ کے باوجود پپڑیاں نظر آ رہی تھیں ….؟

ادھر ادھر دیکھ کر فریا نے اس سے کہا’’ مجھے آپ سے بہت باتیں کرنی ہیں …. یہ کہتے ہوئے اس نے ٹانگے کی طرف دیکھا۔ جس میں اسباب لدا ہوا تھا مگر آپ ابھی ابھی آئے ہیں یا کہیں جا رہے ہیں ؟

مجھے یہاں آئے پورے سات روز ہو گئے ہیں ، اب میں یہ ہوٹل چھوڑ رہا ہوں۔

اس پر فریا کا رنگ اور زرد ہو گیا۔  تو بس اب آپ گھر جا رہے ہیں ؟ نہیں نہیں گھر تو میں دو ڈھائی مہینے کے بعد جاؤں گا۔ یہ ہوٹل کا سلسلہ مجھے پسند نہیں تھا۔ اس لئے میں نے اپنے لئے ایک علیحدہ کمرے کا بندوبست کر لیا ہے۔

تو چلو مجھے وہیں ساتھ لے چلو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کچھ جھینپ سی ہو گئی۔ آپ کو اگر تکلیف نہ ہو تو یعنی اگر بات یہ ہے کہ مجھے آپ سے بہت کچھ کہنا ہے اور یہاں ہوٹل کے سامنے چند منٹوں میں آپ سے کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘‘

سعید نے فریا کی طرف دیکھا، تو اس کی موٹی موٹی آنکھوں میں اسے آنسو نظر آئے۔ نہیں نہیں تکلیف کی کیا بات ہے….؟

میں یہ سوچ رہا ہوں۔ تمہیں وہاں تکلیف ہو گی۔ اس لئے کہ وہاں سامان و امان کچھ بھی نہیں۔  خالی کمرہ ہے ابھی تک میں فرنیچر نہیں لا سکا۔ خیر دیکھا جائے گا۔ چلو آؤ….‘‘

کرایہ ورایہ چکا کر اور ہوٹل کے چھو کروں کو انعام دے دلا کر وہ مال روڑ کی طرف روانہ ہوئے۔ راستے میں کوئی بات نہ ہوئی۔ کیونکہ دونوں خیالات میں محو رہے۔ حتیٰ کہ وہ بلڈنگ آ گئی جہاں دوسری منزل پر اس نے اپنے لئے ایک کمرہ کرائے پر لیا تھا؟

اسباب وغیرہ رکھوا کر جب سعید نے فریا کی طرف دیکھا۔ تو وہ لوہے کی چار پائی پر بیٹھی اپنے آنسو پونچھ رہی تھی۔ دروازہ بھیڑ کر وہ اس کے پاس آیا۔ اور ہمدردی بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔ ’’مس فریا کیا بات ہے تمہاری آنکھیں تو کبھی رونے والی نہیں تھیں ….؟

یہ سن کر فریا نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ جس پر سعید بہت پریشان ہوا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس لڑکی کو کس طرح تسکین دے یہ پہلا موقعہ تھا کہ ایک نو جوان لڑکی اس کے پاس بیٹھی تھی او وہ رو رہی تھی، اس کا دل بہت نرم تھا۔ چنانچہ فریا کے رونے سے اس کو بہت دکھ ہوا۔ گھبرا کر اس نے کہا۔ ’’مس فریا تم مجھے بتاؤ! تو سہی، شاید میں تمہاری مدد کر سکوں ….؟

فریا چار پائی سے اٹھ کر کھڑی ہو گئی اور کھڑکی کھول کر اس نے باہر بازار کی طرف دیکھنا شروع کر دیا…. پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا…. میں اسی لئے تو آپ کے ساتھ آئی ہوں …. اگر آپ سے میری اتفاقیہ طور پر ملاقات نہ ہوتی تو جانے کیا ہوتا۔ میں سچ مچ زہر کھا کے مر جاتی…. میرے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے…. آپ کو یاد ہو گا ساری ملنے پر میں نے آپ کو شکریہ کا خط لکھا تھا۔  اور آپ سے درخواست کی تھی۔ کہ آپ مجھے ضرور ملیں اچھا ہوا آپ نہ آئے۔ ورنہ وہ میری پہلی خوشی دیکھ کر آپ کو اب بہت حیرت ہوتی…. میری زندگی میں یہ انقلاب کیا آیا ہے گویا بھونچال آیا ہے۔ جس کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ خوبصورت مرد دھوکے باز ہو سکتے ہیں۔ مجھے اس سے محبت ہو گئی اس نے بھی مجھ سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔وہ اتنی اچھی باتیں کرتا تھا کہ ان کو سن کر میرے دل میں ناچنے اور ناچتے چلے جانے کی خواہش پیدا ہوتی تھی۔  مگر …. مگر…. یہ سب خواب تھا۔ اس نے مجھ سے کہا میں بہت امیر آدمی ہوں۔ چنانچہ اس نے مجھے ایک عمدہ ڈریس پیش کیا۔ ایک انگوٹھی بھی بنوا دی۔ وہ مجھ سے جلد از جلد شادی کرنا چاہتا تھا۔ میرے ماں باپ تو تھے نہیں۔ کہ میں اجازت طلب کرتی چنانچہ راضی ہو گئی۔ شادی کرنے کےلئے وہ مجھے لاہور لے آیا اور ہم دونوں اسی ہوٹل میں ٹھہرے جہاں آپ ابھی کچھ روز رہے ہیں۔ سات آٹھ دن اس نے مجھے ہر طرح سے خوش رکھا۔ لیکن ایک روز صبح اٹھ کر میں نے دیکھا اس کا اسباب وغیرہ سب غائب ہے اور اس کا بھی کوئی پتہ نہیں۔  میں نے اسے تلاش کرنے کی کوشش کی۔ مگر اس کا کوئی ٹھکانہ بھی تو مجھے معلوم نہیں میں نے کتنی غلطی کی آپ یقین جانیں میں نے اس کا پورا نام تک نہ پوچھا۔ خدا جانے وہ کون تھا کہاں کا رہنے والا تھا۔ اور کیا کرتا تھا۔ میری عقل پر پتھر پڑ گئے اور میں نرسنگ ہوم چھوڑ کر اس کے ساتھ چلی آئی…. شادی کرنے…. میں کتنی خوش تھی۔اور شادی کرنے کے بعد گھر بنانے اور اسے سجانے کے لئے میں نے دل ہی دل میں کتنے منصوبے باندھ رکھے تھے…. اب میں کیا کروں۔ ہسپتال کیسے واپس جا سکتی ہوں۔نرسیں کیا کہیں گی اور سسٹر میرا کتنا مذاق اڑائے گی …. میں نے مرنا چاہا مگر…. مگر میں مرنا بھی نہیں چاہتی….مجھے زندہ رہنے کا شوق ہے، وہ مجھ سے شادی نہ کرتا۔ میرے ساتھ ایسے ہی رہتا۔ خدا کی قسم میں خوش تھی۔ مگر وہ کتنا ظالم نکلا…. میں یہ نہیں کہتی کہ میں نے اس پر کوئی احسان کیا، میں تو اس کا احسان مانتی تھی۔ کہ اس نے مجھے ایک نئی دنیا کا راستہ بتایا اور مجھے خوش کرنے کی کوشش کی۔  مگر وہ تو مجھے دھوکہ دے گیا۔ اس نے ظلم کیا۔ یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ ہوٹل والے مجھے شک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ بیرے میری طرف یوں دیکھتے ہیں گویا میں چڑیا گھر کا کوئی پرندہ ہوں …. میں ابھی تک وہاں صرف اس لئے ٹھہری ہوں ،کہ ہوٹل والے یہ سمجھیں کہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کو سب باتوں کا پتہ ہے، کیونکہ ایک روز بڈھے بیرے نے مجھ سے کہا’’ میم صاحب‘‘ وہ آپ کے صاحب اب نہیں آئیں گے۔ آپ چلی جائیں …. میں نے شکریہ ادا کرنے کے بجائے اس کو گالیاں دیں۔ کیا کروں میں چڑ چڑی ہو گئی تھی۔ لیکن اب میرے دل میں سکون پیدا ہو گیا ہے۔ آپ کو دیکھ کر مجھے ایسا لگتا ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے۔ اس کا خیال میرے دل و دماغ سے دور ہو جائے گا۔ مجھے دوست کی ضرورت ہے۔ لیکن۔ لیکن یہ میری دوسری بیوقوفی ہو گی۔ اگر میں آپ کو دوست سمجھوں کیا پتہ ہے، کہ آپ مجھے دوست نہ بنانا چاہیں۔ ہسپتال میں آپ چند دن رہے،آپ نے ہمیشہ مجھ سے اچھا سلوک کیا۔  اس لئے میں سمجھی شاید آپ میرے دوست بن سکیں …. اچھا تومیں اب جاتی ہوں ….؟

یہ سن کر جانے سعید کو کیوں ہنسی آ گئی۔ کہاں جاؤ گی…. بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے اس کا بازو پکڑ کر اسے چارپائی پر بٹھا دیا۔ جب وہ بیٹھ گئی تو دفعتاً سعید کے سارے جسم میں اس احساس سے ایک سنسنی سی دوڑ گئی کہ ایک نے ایک نو جون لڑکی کو یوں بے باکانہ بازو سے پکڑ کر بٹھایا ہے، اور اس سے یوں بات کی ہے جیسے وہ اس کا ایک زمانے کا دوست ہے، اور اس کو اچھی طرح سمجھتا ہے، چنانچہ اس ا حساس نے وہ جذبہ بالکل سلا دیا۔ جو تھوڑی دیر پہلے فریا کے متعلق اس کے دل میں پیدا ہوا تھا۔ وہ تمام باتیں جو ایک ایک کر کے اس کے دماغ میں بیجوں میں سے نکلنے والے ننھے پودوں کی طرح ابھری تھیں دب گئیں۔ اور وہ بے چین سا ہو گیا اس کی اس بے چینی کو دیکھ کر فریا پھر اٹھ کھڑی ہوئی اور کہنے لگی…. میرا اس دنیا میں کوئی بھی نہیں۔ یہ مجھے آج معلوم ہوا ہے، آج سے کچھ روز پہلے میں سمجھتی تھی۔ سب دنیا میری ہے…. یہ دنیا پھر کب میری ہو گی؟…. اس سوال کا جواب میں تو نہیں دے سکتی۔‘‘ وہ آہوں میں باتیں کر رہی تھی۔’’ میں ہسپتال کبھی واپس نہیں جاؤں ، کبھی نہیں جاؤں گی۔ لاہور میں چند دن میں نے بڑی خوشی سے گذارے ہیں۔  میرے غم کے دن بھی یہیں گذریں گے….‘‘

میں یہاں کسی دوکان میں ملازم ہو جاؤں گی۔ اور…. اور…. اور باقی دن یونہی بیت جائیں گے….؟

یہ کہہ کر فریا پھر دروازے کی طرف بڑھی۔ مگر سعید نے اسے روک لیا مس فریا…. جو کچھ تم نے کہا ہے،اس کا مجھ پر بہت اثر ہوا ہے۔ جس شخص نے بھی تم کو دھوکا دیا ہے۔ نہایت ذلیل آدمی ہے۔ تم کو دھوکا دینا بہت بڑی بات نہیں ہے، اسی لئے تم اس قابل نہیں ہو کہ تم سے فریب کیا جائے مجھے تم سے کامل ہمدردی ہے، کاش جو کچھ ہو چکا ہے۔ میں اس کی اصلاح کر سکتا۔ پھر یک لخت سعید نے ایک نئے لہجے میں نئے انداز میں کہنا شروع کیا۔ فریا معاف کرنا تم ایک بالکل غلط آدمی کے پاس آئی ہو۔ تم سمجھتی ہو، میں عورتوں سے واقف ہوں۔ اور ان کو سمجھ سکتا ہوں۔ بخدا تم پہلی عورت ہو جس سے میں نے کھل کر بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہسپتال میں تم سے جتنی باتیں ہوتی تھیں بالکل مصنوعی تھیں۔  اس لئے کہ میں صرف ایک ایسی عورت سمجھ کر تم سے باتیں کرتا تھا۔ جس سے میں جواب کے بغیر باتیں کر سکتا ہوں۔ تم ہماری سوسائٹی سے واقف نہیں ہو۔ ہم لوگ اپنی ماں بہن کے سوا اور کسی عورت کو نہیں جانتے ہمارے یہاں عورتوں اور مردوں کے درمیان ایک موٹی دیوار حائل ہے۔ ابھی ابھی تمہارا بازو پکڑ کر میں نے تمہیں اس چار پائی پر بٹھایا تھا۔ جانتی ہو میرے دماغ میں کیسے کیسے خیالات چکر لگا رہے ہیں …. مجھے بھوک محسوس ہو رہی ہے۔ میرے پیٹ میں ہلچل مچ رہی ہے میر روح ساکن ہو گئی ہے اور سارا جسم متحرک ہو گیا۔ تم نے اپنے اس عاشق کی باتیں کی ہیں اور میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی رہی کہ، کہ اٹھ کر تمہیں اپنے سینے سے لگا لوں۔ اور اتنا بھینچوں، اتنا بھینچوں کہ خود مجھے غش آ جائے لیکن مجھے اپنے جذبات پر قابو پانے کا گُر حاصل ہو چکا ہے۔ اس لئے کہ میں کئی خواہشیں اب تک کچل چکا ہوں۔ تم حیران کیوں ہوتی ہو۔ میں سچ کہتا ہوں۔ عورت کے معاملے میں میری کوئی خواہش اب تک پوری نہیں ہوئی۔ تم پہلی عورت ہو، جس کو میں نے اس قدر قریب سے دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں …. میں تمہارے اور زیادہ قریب جانا چاہتا ہوں لیکن…. لیکن میں شریف آدمی ہوں میں تم سے محبت نہیں کرتا…. لیکن لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں تم سے نفرت کرتا ہوں یا چونکہ مجھے تم سے محبت نہیں ہے، اس لئے میں تم سے دلچسپی نہ لوں گا…. یہ بات نہیں ہے…. محبت محبت…. میں نہیں سمجھ سکا کہ یہ محبت کیا ہے، جو محبت کئے جانے کے بالکل قابل نہیں۔…. مجھے اس سے نفرت ہے، بخدا اس کے نام سے ہی نفرت ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ اسی نفرت نے ، اسی حقارت نے میرے دل میں اس کی محبت کے بیج بو دئیے ہیں۔

فریا نے پوچھا۔’’ کون ہے یہ لڑکی؟‘‘

کون ہے! تم اسے جان کر کیا کرو گی…. ایک معمولی لڑکی ہے، جو بہت عرصہ سے عورت بن چکی ہے اس کا دل و دماغ لطافتوں سے خالی ہے وہ گوشت پوست کی ایک پتلی ہے اور بس اس سے زیادہ کچھ بھی نہیں …. میرے گھر میں نو کر ہے…. پہلے کسی اور کی نو کر تھی۔ میں اسی لئے امر تسر چھوڑ کر چلا آیا ہوں۔ کہ اس کو دیکھ کر میرے دل میں ایک ناقابل بیان طوفان برپا ہو جاتا ہے…. میں چاہتا ہوں کہ اس سے اپنے طریقے پر محبت کروں مگر وہ…. وہ…. مس فریا خدا کے لئے مجھ سے نہ پوچھو! کہ وہ محبت کو کیا سمجھتی ہے، میں جانتا ہوں میں سمجھتا ہوں کہ محبت میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جن کا خام تصور اس عورت کے ذہن میں ہے، مگر میں یہ بھی تو چاہتا ہوں کہ کبھی کبھی وہ کسی اچھی بات پر کسی چست فقرے پر، کسی شاعر کے نازک خیال پر، کسی تصویر کی جاذب نظر لکیر پر تڑپ اٹھے…. مگر اس کی آنکھیں ان تمام چیزوں پر بند ہیں۔ میں دماغ سے سوچتا ہوں۔وہ پیٹ سے سوچتی ہے۔ لیکن تماشہ تو یہ ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔ اور اس محبت نے میرے دل کے کواڑ دوسری محبتوں کے لئے بالکل بند کر دئیے ہیں …. میں …. میں ہمدردی کے قابل ہوں ….‘‘

یہ کہہ کر سعید چا ر پائی پر افسردگی کی حالت میں بیٹھ گیا۔ اور مس فریا نے اس کی پیٹھ پر یوں ہاتھ پھیر کر اسے دلا سا دینا شروع کیا۔جیسے وہ بچہ ہے۔ اس کو فریا کی اس ہمدردی سے روحانی تسکین حاصل ہوئی۔ اس کی ماں اکثر اس کی پیٹھ پر اس طرح ہاتھ پھیرتی تھی۔ مگر فریا کے ہاتھ میں اس نے اور ہی لذت پائی۔ اور اسے محسوس ہوا کہ وہ واقعی ہمدردی کے قابل ہے اور دنیا کی سب عورتوں کو چاہئے کہ اس کی پیٹھ پر اسی طرح پیار و محبت سے ہاتھ پھیریں۔ اور اسے دلاسا دیں۔ پھر یکایک اسے کچھ خیال آیا۔ اور اس نے فریا کا دوسرا ہاتھ جو کہ خالی تھا۔ اٹھا کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ اور شکریے کے طور پر اسے دبانا شروع کر دیا۔

فریا نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رہنے دیا۔ اور کہا۔ یہ عجیب بات ہے تم ایک عورت سے محبت کرتے ہو۔ اور پھر ساتھ ہی محبت کرنا بھی نہیں چاہتے۔

اس پر سعید نے فریا کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ یہاں تو چاہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کسی عورت سے محبت کرنے کے لئے میں جتنے برس تڑپتا رہا ہوں اس کا تمہیں کچھ انداز نہیں۔ اور پھر محبت کا جو نظریہ میرے دل و دماغ میں محفوظ ہے وہ بھی تمہیں معلوم نہیں …. جس مصیبت میں آج کل میں گرفتار ہوں۔ اس کا پیدا کرنے والا خود میں ہوں۔ اس عورت کی محبت میں مجھے کسی باہر کی طاقت نے گرفتار نہیں کیا۔ میں خود اس جال میں پھنسا ہوں۔ اور اب خود ہی اس سے نکل بھاگا ہوں۔ لیکن …. لیکن میں بالکل بے جوڑ باتیں کر رہا ہوں …. دراصل …. دراصل میں کہنا چاہتا تھا کہ جب میرا دل ایک عورت کی محبت میں بھرا ہے۔ تو میں کسی دوسری عورت سے کیسے محبت کر سکتا ہوں وہ جذبات جو اس عورت کے لئے میرے دل میں پیدا ہوتے ہیں۔ تمہارے لئے یا کسی اور کے لئے تو پیدا نہیں ہو سکتے…. میں جب اس کا تصور دماغ میں لاتا ہوں تو خود کو اپنی سہولت کی خاطر مظلوم سمجھتا ہوں۔ لیکن تم شاید میرا مطلب نہیں سمجھ سکی ہو۔ یہ کہہ کر وہ اضطراب کی حالت میں اٹھ کھڑا ہوا۔

فریا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔’’ دنیا میں عجیب و غریب آدمی بستے ہیں …. میں …. میں بہت ہی کوشش کرتی ہوں کہ اس کو جس نے مجھے ابھی دھوکا دیا ہے ظالم یقین کروں۔ اور ان لوگوں کو جو اس سے پہلے مجھے فریب دے چکے ہیں۔ وحشی درندے سمجھوں مگر جانے میں کیوں ایسا نہیں کر سکتی۔  میں الٹا یہ سوچتی ہوں کہ شاید میں نے ہی ان پر ظلم کیا ہے۔ کیا پتہ ہے مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو گئی ہو۔ جس سے ان کو دکھ پہنچا ہو…. کبھی کبھی غصے میں آ کر ان کو برا بھلا کہتی ہوں۔ لیکن بعد میں افسوس ہوتا ہے۔ آپ نرس کی اس زندگی کو اچھی طرح نہیں جانتے۔ ہسپتال میں جو کوئی بھی آتا ہے روگی اور دکھی ہوتا ہے، ہر مریض کو ہماری ہمدردی اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے…. لوگ مجھ سے عشق اور محبت کی باتیں کرتے ہیں۔ اور میں سمجھتی ہوں انہیں کوئی مرض ہے جس کا علاج میرے پاس ہے۔ چنانچہ میں …. میں …. میں بڑی بیوقوف ہوں …. اور آپ….

میں ، سعید نے مسکرا کر کہا۔’’ میں سب سے بڑا بے وقوف ہوں !‘‘

فریا مسکرائی اور اچانک طور پر اس نے سعید کے ہونٹ چوم لئے…. تھوڑی دیر کے لئے اس پریدہ بوسے نے سعید کے ہوش گم کر دئیے۔ وہ سخت گھبرا گیا…. مس فریا …. یہ کیا …. پھر سنبھل کراس نے کہا…. اوہ….اوہ….کچھ نہیں …. میں دراصل ایسی چیزوں کا عادی نہیں ہوں۔‘‘

وہ اٹھ کھڑا ہوا کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا…. میں ، میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں۔‘‘

یہ سن کر، فریا بہت ہنسی ، شکریہ! …. شکریہ…. ! تم بالکل بچے ہو…. ادھر آؤ…. اور خود آگے بڑھ کر اس نے اس کو اپنے بازو میں لے لیا۔ اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ جما دئیے، اس عمل نے سعید کو اور پریشان کر دیا۔’’ مس فریا…. مس فریا…. فریا نے ہٹ کر اس کی طرف دیکھا اور کہا۔’’ تم بیمار ہو…. تمہیں ایک نرس کی ضرورت ہے….!

اپنی گھبراہٹ دور کر کے سعید نے مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے فریا سے کہا۔’’ مجھے ایک فقط نرس ہی کی نہیں۔ اور بہت سی چیزوں کی بھی ضرورت ہے مگر مصیبت یہ ہے کہ یہ سب چیزیں ملتی نہیں ہیں۔ میں …. میں تم سے پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ بہت سی خواہشیں میرے سینے میں اپاہج ہو چکی ہیں میرے بہت سے احساسات لنگڑے ہو چکے ہیں …. اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ میں خود بھی نہیں سمجھ سکتا کہ میں کیا ہوں۔ اور کیوں ہوں۔ ایک چیز کے لئے خواہش کرتا ہوں پر ساتھ ہی یہ بھی چاہتا ہوں کہ اس خواہش کا اظہار نہ کروں اس میں کچھ تو سوسائٹی کے واضح کردہ اصولوں کا قصور ہے۔ اور کچھ میرا اپنا…. میں ایک بہت بڑا آدمی ہوتا۔ یعنی میرے اندر مخالف قوت کا مقابلہ کرنے کی ہمت ہوتی۔ تو بالکل جدا بات تھی۔ مگر افسوس ہے کہ میں ایک معمولی انسان ہوں جس کا ذہن اونچے مقاموں کی سیر کرنا چاہتا ہے۔ یہ کتنی بڑی ٹریجیڈی ہے۔

فریا نے اس کی بات سنی۔ اور تھوڑی دیر کے بعد کہا۔’’ لیکن میں نے تو کبھی اپنے آپ کو معمولی عورت نہیں سمجھا۔ شاید یہی خیال تمام مصیبتوں کی جڑ ہے میں نے ہمیشہ یہی سوچا ہے کہ میں غیر معمولی عورت ہوں۔ یعنی مجھ میں محبت کرنے کا مادہ دوسری عورتوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ اور میں بہت مخلص ہوں مگر یہ عجیب بات ہے۔ میں کسی مرد کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مرد عورت میں کیا چاہتے ہیں ؟‘‘

میرا خیال ہے ایسی باتوں کے متعلق سوچنا ہی نہیں چاہئے…. مرد عورت میں کیا چاہتا ہے، عورت مروں میں کیا چاہتی ہے۔ اور پھر یہ دونوں مل کر کیا چاہتے ہیں …. یہ چاہنے کا سلسلہ لا متناہی، ہے جو کبھی ختم نہیں ہو گا۔ آؤ کچھ اور باتیں کریں …. ہاں یہ بتاؤ تم کیا کرنا چاہتی ہو؟‘‘

فریا زور سے ہنسی۔ یہ چاہنے کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہو گا….‘‘

سعید بھی ہنس پڑا۔

فریا بولی۔ میں بہت افسردہ تھی۔ لیکن ان باتوں نے میری ساری افسردگی دور کر دی ہے۔ یوں تو میں بہت دیر تک مغموم رہ بھی نہیں سکتی لیکن پھر وہ باتیں آپ کے اور میرے درمیان ہوئی ہیں ، اتنی اچھی اور خوشگوار ہیں کہ وہ تھکن جو میں تین چار روز سے محسوس کر رہی تھی۔ غائب ہو گئی ہے۔ اب میں مستقبل کے متعلق صاف دماغ سے غور کروں گی‘‘

’’ کیا ارادہ ہے؟

کوئی خاص ارادہ تو نہیں۔ لیکن اب امر تسر واپس نہیں جانا چاہتی۔ کیونکہ مجھے وہاں پھر اس بات کا خطرہ رہے گا کہ کوئی آدمی کمپنی باغ میں گھومتا آ نکلے گا اور میری کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر چلتا بنے گا۔ میں اب یہاں لاہور ہی میں رہنا چاہتی ہوں۔ آپ کب تک یہاں قیام کریں گے….؟‘‘

سعید نے جواب دیا۔’’ میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ لیکن خیال ہے، دو ڈھائی مہینے تک یہاں اور رہوں گا۔ میں خود امر تسر نہیں جانا چاہتا۔‘‘

فریا نے کہا۔ تو میں بھی دو ڈھائی مہینے تک یہاں رہوں گی۔ اس کے بعد کوئٹہ چلی جاؤں گی۔ جہاں میری ایک بہن رہتی ہے وہاں سے پھر کدھر جاؤں گی اس کے بارے میں سوچنا فضول ہے۔ میرے پاس دو سو روپے تھے، جن میں سے ڈیڑھ سو باقی رہ گئے ہیں۔ ہوٹل کا کرایہ ورایہ چکا کر میرے پاس سو بچیں گے ان سے کیا دو مہینے گذارہ نہ ہو سکے گا؟‘‘

ہو جائے گا۔ بشرطیکہ تم فضول خرچی نہ کرو۔ میرے پاس دو سو روپے ہیں ، اور مجھے ان سے زیادہ سے زیادہ وقت بسر کرنا ہے…. جب امرتسر سے چلا تھا۔  تو والدہ نے مجھے ڈھائی سو روپے دئیے تھے، اور میرا خیال ہے۔  یہ ڈھائی سو روپے مجھے دے کر اور ہسپتال کی فیس وغیرہ ادا کر کے ان کے پاس صرف ڈیڑھ ہزار روپیہ بچا ہو گا۔ جو ہماری کل پونجی ہے۔‘‘

سعید نے بالکل ٹھیک کہا۔ اس لئے کہ اس کی والدہ کے پاس اب مشکل سے ڈیڑھ ہزار روپیہ باقی بچا تھا۔ باپ کے دس ہزار روپیہ تھے۔ جن میں سے کچھ اس نے اپنے والد کی زندگی میں فضول خرچیوں کے باعث ضائع کر دئیے اور کچھ ان کی موت کے بعد ادھر ادھر برباد کر دئیے۔ سعید نے یہ روپیہ جسمانی عیاشیوں پر صرف نہیں کیا تھا۔ اس کو لڑکپن میں عجیب و غریب شوق تھے۔ ماں سے حیلے بہانوں کے ذریعے یا خود صندوق میں سے روپیہ نکال کر اس نے چوری چوری یعنی باہر ہی باہر کئی سائیکلیں خریدیں اور لطف یہ ہے کہ اس کو سائیکل چلانے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا۔ ان سائیکلوں کو اس کے دوست استعمال کرتے اور وہ خوش ہو جاتا۔ اس طرح اس نے گھر میں سے روپیہ چرا کر ایک چھوٹی سینما کی مشین خریدی۔ غالباً تین سو روپے کی اور یہ مشین وہ کبھی چلا نہ سکا۔ اس لئے کہ اس کے دوست کے گھر میں بجلی نہیں تھی۔ جہاں اس نے اس کو چھپا کر رکھا تھا۔ دو بار گھر سے بھاگ کر بمبئی گیا اور ساتھ میں اپنے دوستوں کو لے گیا۔ وہاں بھی اس نے کوئی عیاشی نہ کی۔ مگر سارا روپیہ فضول برباد ہو گیا….؟

سعید کا باپ اس پر سخت ناراض رہتا تھا۔ وہ ایک تیز طبیعت کا سخت گیر باپ تھا۔ اس کو اپنے بیٹے کی ان حرکتوں پر سخت غصہ آتا تھا اور چنانچہ وہ اس کو کڑی سے کڑی سزا بھی دیتا۔ لیکن وہ اپنی زندگی میں اس کو سدھار نے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ سعید کی ماں اس کے باپ کے بالکل برعکس بیحد نرم طبیعت عورت تھی۔ اسے اپنے بچے سے اتنا پیار تھا۔ کہ اگر کسی سے اس کا ذکر کیا جائے۔ تو افسانہ معلوم ہو۔ اس لڑکے کی خاطر اس نے بہت دکھ جھیلے بے شمار تکالیف برداشت کیں۔ مگر اس کی ہر خواہش کو پورا کیا۔ وہ لوگوں سے کہتی تھی۔ مانتی ہوں ، میرا لڑکا بہت فضول خرچ ہے، اس کو آگے پیچھے کا کوئی خیال نہیں بڑا ہٹ دھرم ہے، لیکن دل کا برا نہیں …. تم دیکھ لینا ایک روز سب دلدر  دور کرے گا۔‘‘ اب بھی اس کا یہی خیال تھا کہ ایک روز اس کا بیٹا جو پر خلوص دل کا مالک ہے، یک بیک ایک نیا آدمی بن جائے گا۔ اور سب لوگ حیرت سے اس کا منہ دیکھیں گے….!

ماں کے دل میں اپنے بیٹے کے متعلق مختلف خواہشوں اور امیدوں کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے…. چونکہ سعید کی ماں پر لے درجے کی خوش اعتقاد اور خدا پر اعتماد رکھنے والی عورت تھی۔ اس لئے وہ کبھی نا امید نہیں ہوتی تھی۔ اس کو خدا کے گھر سے امید تھی کہ اس کا اکلوتا بچہ بہت جلد سدھر جائے گا اور اس کی تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ وہ ہر وقت خدا سے اس کی بہتری کی دعا مانگتی رہتی تھی۔ کیونکہ اس کا ایمان تھا کہ انسان اپنی مرضی سے برائیاں نہیں چھوڑ سکتا اور صرف خدا کے فضل و کرم سے ہی اچھائیاں پیدا ہوتی ہیں ، چنانچہ اس نے اپنے لڑکے سے کبھی باز پرس نہ کی تھی….‘‘

ادھر اس کا لڑکا سعید خدا کے فضل و کرم سے بالکل غافل تھا یہ غفلت ارادی نہیں تھی…. کیونکہ اپنے افعال میں اسے صرف اپنا ہی ہاتھ نظر آتا تھا۔ وہ ایک تیز دھارے میں بہتا چلا جا رہا تھا۔ ایک زمانے سے اس کے خیالات مختلف شکلوں میں ظاہر ہو ہو کر ادھر ادھر بکھر رہے تھے۔ اس کی زندگی ایک ایسا افسانہ تھا۔ جو کاغذ پر نہ لکھا گیا ہو۔ جس طرح افسانے کا پلاٹ بناتے وقت مصنف کے مختلف خیالات کا ایک الجھاؤ سا پیدا ہو جاتا ہے، اور مربوط واقعات و حادثات کا ایک ڈھیر سا لگ جاتا ہے۔ اسی طرح اس کی زندگی ایسے بے شمار خام خیالات کا اجتماع تھی جو تلے اوپر افراتفری کے عالم میں پڑے تھے….!

وہ ایک لمبی نہ ختم ہونے والی پیچ دار سڑک پر جا رہا تھا۔ بڑی تیزی کے ساتھ جو کچھ اس کے پیچھے رہ گیا تھا۔ اس پر اس نے کبھی غور نہیں کیا تھا۔ جو اس کے آگے آنے والا تھا۔  اس سے بھی وہ بالکل بے خبر تھا۔ وہ ماضی اور مستقبل کی سرحدوں کے بیچ میں حال کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ ایسا کھیل جس کا مطلب سمجھنے کے لئے اگر اس نے کوشش بھی کی تو نا کام رہا….‘‘

باپ کی سرزنش اور ماں کی مسلسل دعا اس پر اثر انداز نہ ہو سکی۔ اور وہ اپنی زندگی کو سمجھنے اور نہ سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک ایسے راستے پر چلتا رہا۔ جو بیک وقت دشوار گذار اور سہل تھا۔

اس کا باپ اس کی آنکھوں سے سامنے اس کی ہنگامی اور کج رفتار زندگی پر افسوس کرتا مر گیا۔ باپ کی موت نے اس پر کافی اثر کیا۔ وہ کئی گھنٹے اپنے باپ کی لاش پر رویا۔ لیکن اس ماتم کے دوران میں اس کا ذہن آنسوؤں کے آگے دیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ آگے بہت آگے عورتوں کی چیخوں اور رونے دھونے کی بھیانک آوازوں کے اندر نہ جانے کہاں اس کی اندرونی سماعت ایسی آواز تلاش کر رہی تھی جس کو سن کر اسے روحانی سکون حاصل ہو جائے۔ اس کی آنکھیں روئیں۔ اس کا سارا وجود رویا۔ اس کو باپ کی موت کا واقعی بہت افسوس تھا۔ مگر روتے روتے ایک دم اسے خیال آیا تھا۔ میں رو رہا ہوں یہ لوگ جو آس پاس جمع ہیں کیا دل میں یہ تو نہیں خیال کرتے کہ یہ سب ڈھونگ ہے…. اس خیال نے سعید کو یک بیک ایک نئی دنیا میں پھینک دیا تھا اس کے آنسو بالکل خشک ہو گئے، اور وہ دیر تک اپنے باپ کے بے جان اور پر سکون چہرے کی طرف دیکھتا رہا تھا۔ جس پر اس کی بد عنوانیاں نفرت اور غصے کے ملے جلے جذبات پیدا کرتی رہی تھیں ….!

باپ کو قبر کے سپرد کر کے جب وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کے ہمراہ گھر واپس آیا تھا۔ اور رات کو اکیلے میں اسے یہ محسوس کر کے بہت تعجب ہوا تھا۔ کہ وہ بہت ہلکا ہو گیا ہے۔ جیسے اس کا وجود پر سے منوں وزن اٹھا دیا گیا ہے۔  اس کا مطلب سمجھنے کی اس نے کوشش بہت کی مگر نا کام رہا۔

باپ کی موت کے بعد اس نے ایک روز بیٹھ کر بہت ارادے اپنے سینے میں جمع کئے۔ اور تہیہ کر لیا کہ وہ اپنا نیا راستہ اختیار کر ے گا۔  مگر یہ نیا راستہ اختیار کرنے پر بھی وہ اسی پرانے راستے پر گامزن رہا۔ یہ راستہ چند موڑوں کے بعد ہی اسے اپنے پرانے راستہ پر لے گیا۔ جس پر وہ ایک عرصے سے چل رہا تھا۔ جب اسے اس بات کا احساس ہوا تو اس نے سوچا کہ زندگی خود راستے بناتی ہے راستے زندگی نہیں بناتے چنانچہ اس خیال پر زیادہ غور فکر کئے بغیر وہ چلتا رہا…. اور چلتے چلتے اس کی راجو سے مڈ بھیڑ ہو گئی اس سے اپنا دامن بچا کر وہ بھاگا۔ تو لاہور میں مس فریا سے اتفاقیہ طور پر ملاقات ہو گئی اور اسے ایسا محسوس ہونے لگا۔ کہ اس اینگلو انڈین لڑکی کے لئے اسے اپنا سفر کچھ دنوں کے لئے ملتوی کرنا پڑے گا….‘‘

مس فریا سے محبت کرنے کا خیال فضول تھا۔ کیونکہ اس کو اس زاویے سے دیکھنے کا خیال ہی اس کے دماغ میں پیدا نہیں ہوتا تھا۔ فریا خوبصورت تھی، اس میں وہ تمام باتیں تھیں۔ جو مردوں کی خاص خواہشات پوری کر سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ ایک ایسے سلیقے کی مالک تھی جو سعید کی صناعانہ طبیعت کے بالکل موافق تھا۔ اب کہ حالات نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے بالکل پاس کھڑا کر دیا تھا۔ سعید کے دل میں یہ خواہش پیدا ہو رہی تھی۔ کہ وہ فریا کو چھو کر دیکھے، اس کو سمجھنے اور اس کی زندگی کا حدود اربعہ معلوم کرنے کا خیال اس کے دماغ میں پیدا نہیں ہوا تھا۔

دیکھو مس فریا! اس نے ارادہ کر کے اپنا ما فی الضمیر گول مول طریقے سے ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا’’ دیکھو۔‘‘ لیکن وہ کچھ نہ کہہ سکا۔

اس پر فریا نے اس سے کہا۔تم کچھ کہتے کہتے کیا رک جاتے ہو۔ کہو، جو کچھ تمہیں کہنا ہے، کہو…. میں نہیں کہہ سکتا…. الفاظ میری زبان پر آتے ہیں ، اور پھر اندر لڑھک جاتے ہیں۔ میری یہ کمزوری کبھی دور نہ ہو گی میں کچھ نہیں کہنا چاہتا‘‘

’’ یہ اور بھی برا ہے ، تم کچھ کہنا چاہتے ہو۔ اور پھر کچھ کہنا بھی نہیں چاہتے اور یہ کیا مصیبت ہے۔‘‘

’’ میں تم سے بار ہا کہہ چکا ہوں ، میں نے ایسی فضاء میں پرورش پائی ہے جہاں آزادی گفتار اور آزادی خیال بہت بڑی بد تمیزی متصور کی جاتی ہے۔ جہاں سچی بات کہنے والا بے ادب سمجھا جاتا ہے۔ جہاں اپنی خواہشات کا دبانا بہت بڑا ثواب خیال کیا جاتا ہے….‘‘

اس میں میرا کیا قصور ہے۔ میں …. میں …. تم سے اور کیا کہوں۔ تم خوبصورت ہو۔ تمہاری باتیں بھی مجھے اچھی معلوم ہوتی ہیں۔ میں برا نہیں …. لیکن پھر…. لیکن پھر…. اور یہ تمہارا بوسہ …. یہ تمہارا بوسہ ابھی تک میرے ہونٹوں پر چل رہا ہے…. کیا یہ ہمیشہ یونہی چلتا رہے گا….؟‘‘

فریا نے اس کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا، اور بڑی سنجیدگی سے کہا۔ ایک اور بوسہ تمہارے ہونٹوں پر چلاؤں …. دو ہو جائیں گے تو اچھا رہے گا۔

یہ سن کر سعید نے تھوڑی دیر سوچا اور کہا۔’’ مس فریا میں تم سے ایک بات پوچھوں ….؟‘‘

’’ بڑے شوق سے‘‘۔ ایک کے بدلے دو پوچھو…. تین پوچھو۔ اور چاہے تو پوچھتے جاؤ‘‘

میں پوچھتا ہوں ، کیا تم سے محبت کرنا ضروری ہے یعنی کیا تم سے محبت کئے بغیر دوستی نہیں ہو سکتی‘‘

’’ یہ سوال تمہارا بڑا عجیب و غریب ہے۔ محبت کے بغیر دوستی کیسے ہو سکتی ہے۔ اور دوستی کے بغیر محبت بھی تو نہیں کی جا سکتی۔ تم الجھنوں میں خواہ مخواہ پھنس رہے ہو….‘‘

’’…. یہ کہتے کہتے اس کے گال سرخ ہو گئے۔‘‘ میں نے تو کبھی ایسی باتوں پر غور نہیں کیا۔ اور ایسی باتوں پر غور ہی کون کرتا ہے۔ سوچ بچار کے لئے اور تھوڑی چیزیں ہیں۔

’’ فریا میں ایک نئی دنیا کی سرحدوں پر کھڑا ہوں …. اس کے اندر داخل ہونے سے پہلے مجھے بہت کچھ سوچنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر گزارہ نہ ہو گا….؟‘‘

فریا کے گال اور سرخ ہو گئے۔ تم بالکل بچے ہو اس کے بغیر ہی اچھی طرح گزارہ ہو سکے گا…. تم…. تم…. تم آخر تم چاہتے کیا ہو؟‘‘

فریا کے اس سوال نے سعید کو پریشان کر دیا….

’’ میں …. میں …. کیا چاہتا ہوں …. میں چاہتا ہوں کہ تم میرے پاس رہو۔

یہ کہہ کر سعید کو ایسا محسوس ہوا کہ اس کا سینہ ایک دم خالی ہو گیا ہے۔ جیسے موٹر کے ٹائر سے ہوا خارج ہو گئی ہے، چنانچہ گھبراہٹ کے عالم میں اٹھا اور تیزی سے کمرے کے باہر چلا گیا۔ فریا بیٹھی رہی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ فوراً ہی لوٹ آئے گا۔ مگر جب دس پندرہ منٹ گذر گئے تو اس نے اٹھ کر باہر بالکونی میں دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ نیچے بازار میں نظر دوڑائی۔ تو وہاں بھی سعید نظر نہ آیا فریا کو سخت تعجب ہوا کہ اسے اکیلا چھوڑ کر آخر کہاں بھاگ گیا ہے۔ واپس کمرے میں آ کر وہ اس کا انتظار کرنے لگی….

جرات سے کام لے کر شام کو جب سعید واپس لوٹا اور کمرے میں داخل ہونے لگا۔ تو دروازہ بند تھا۔ اس نے ہولے سے دستک دی۔ تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا وہ اندر داخل ہوا تو فریا نے فوراً ہی کواڑ بھیڑ دئیے اور کہا’’ تمہیں شرم نہیں آئی۔  اتنی دیر کے بعد گھر واپس آئے ہو…. لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔ بتاؤ کہ اب کیا کھائیں گے۔ اور کہاں کھائیں گے۔ مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے۔

وہ جواب میں فریا سے کچھ کہنے ہی والا تھا۔ کہ اس کی نگاہیں لوہے کی چار پائی پر پڑیں بستر بچھا ہوا تھا تکئے پڑے تھے۔ تکیوں کے پاس ہی اس کا وہ ناول رکھا تھا۔ جو اس نے ابھی تک صرف آدھا ہی پڑھا تھا۔ اس کے چاروں شُو بڑے سلیقے سے ایک قطار میں چار پائی کے نیچے رکھے تھے۔ چمڑے کے ٹرنک گھسیٹ کر کونے میں رکھ دئیے گے تھے اور سامنے کھڑکی کی سل پر اس کی ٹائم پیس پڑی تھی۔ ادھر دائیں ہاتھ کو جو غسل خانہ تھا۔ اس کا دروازہ کھلا تھا۔ اور اس نے دیکھا کہ اسٹینڈ پر تولیہ لٹک رہا ہے۔ اس کو ایسا محسوس ہوا کہ ایک زمانے سے وہ اس کمرے میں آباد ہے اور فریا کو وہ ازل سے جانتا پہچانتا ہے۔ اس کو اس احساس نے بڑی راحت بخشی۔

خوش ہو کر سعید نے کہا۔فریا…. بھئی ایک بات کی کمی رہ گئی ہے۔ادھر جنگلے پر تمہارے دھلے ہوئے بنیان لٹکنے چاہئیں اور ساتھ والا کمرہ خالی پڑا ہے۔ اس میں تمہارا سنگھار میز ہونا چاہئے۔ اور اس پر پوڈر اور کریموں کے ڈبے بکھرنے چاہئیں۔ اور…. اور…. اگر ایک پنگوڑا بھی آ جائے تو کیا ہرج ہے، واللہ پورا خاندان جمع ہو جائے اور میں …. میں …. لیکن میں ضرورت سے زیادہ تو نہیں کہہ گیا‘‘….فریا نے بڑھ کر اس کے گلے میں اپنی بائیں حمائل کر دیں …. تم بیکار باتوں کو اپنے دماغ میں جگہ نہ دیا کرو۔ ساتھ والا کمرہ کل ہی لے لینا چاہئے۔ سنگھار میز بھی رہے۔ لیکن یہ پنگوڑے کی بات غلط ہے مجھے اتنی جلدی مکمل عورت بننے کی خواہش نہیں۔ اور میرا خیال ہے۔ تم باپ بننے کے اہل بھی نہیں ہو۔ لیکن کھانے کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے۔ میں کہتی ہوں وہیں ہوٹل میں آخری ڈنر اڑایا جائے۔ اور کرایہ ورایہ چکا کر میں اپنا اسباب یہاں لے آؤں ….‘‘

یہ سن کر سعید گھبرایا۔  فریا کی باہیں علیحدہ کر کے اس نے کہا…. مگر…. مگر اس کمرے میں دو آدمیوں کی جگہ کہاں ہے….‘‘

ہٹاؤ جی۔ فریا نے اپنا ہینڈ بیگ کھول کر گالوں پر پوڈر لگاتے ہوئے کہا۔’’ دیکھا جائے گا…. اس کمرے میں تو ایک درجن مریض سما سکتے ہیں۔ اور ہم تو صرف دو ہیں ، دراصل تم بالکل وہ ہو۔ تمہیں کچھ معلوم نہیں۔ کہ گھر بار، کیسے چلا یا جاتا ہے۔ چلو اب باہر چلیں۔‘‘

٭٭٭

 

کتاب ’باقیاتِ منٹو‘ سے ماخوذ

ماخذ:

اردو نگری 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید