FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

پَلیتہ

 

 

حصہ چہار م

 

 

پیغام آفاقی

 

 

حصہ اول یہاں دیکھیں

حصہ دوّم یہاں دیکھیں

حصہ سوّم یہاں دیکھیں 

 

اچانک اسے  تیز بھوک محسوس ہوئی۔ اب جبکہ اس کی سوچ کا سلسلہ اختتام کو پہنچ گیا تھا بھوک نے  اولیت حاصل کر لی اور اس میں  زیادہ طاقت تھی۔ کیونکہ خالد سہیل کی قوت کی ضرورت اس وجہ سے  بڑھ گئی تھی کہ ایک بہت بڑے  ٹاسک نے  اس کے  دل اور دماغ کو اپنی گرفت میں  لے  لیا تھا۔

 

وہ لوٹا اور چلتا ہوا اپنی اسٹڈی روم کی طر ف مڑ گیا۔

ٹھیک اسی لمحے  جب وہ کمرے  میں  داخل ہونے  جا رہا تھا اس کے  موبائل پر ایک فون آیا۔

یہ اس کے  ایک کزن کا فون تھا جو انڈین انسٹی ٹیوٹ آف مینجمنٹ کا طالب علم تھا۔ اس کے  والد ۳۷ سال سے  کلکتے  میں  رہتے  تھے او ر اسٹیل سے  بنائی جانے  والی عمارتوں  کے  ٹھیکیدار تھے۔ اپنے  کارو بار کی مخصوص نوعیت کی وجہ سے  انھیں  ملک کے  مختلف حصوں  میں  اپنے  کام کے  سلسلے  میں  جانا اور ٹھہرنا پڑتا تھا اور بار بار اپنے  ٹھہرنے  کی جگہ بدلنی پڑتی تھی۔ وہ ایک پڑھے  لکھے  آدمی تھے  لیکن انجیئرنگ کے  علاوہ ان کا سارا مطالعہ ان کے  ذاتی شوق کا نتیجہ تھا کیونکہ اپنی آزاد طبیعت کو وجہ سے  انھوں  نے  کبھی کالج وغیرہ کی تعلیم میں  دلچسپی نہیں  لی۔ مختلف ماحول اور آب و ہوا میں  رہنے او ر کھانے  پینے  کی لاپروا عادتوں  کے  باعث ان کے  جگر اور اسپلن کی مختلف طرح کی بیماریوں  کا شکار ہو گیے  تھے۔ لیکن وہ کبھی اپنا سفر روک نہیں  پائے  کیونکہ انھیں  اپنے  بچوں  کی تعلیم کا خرچ کے  لیے  پیسے  کمانا پڑتا تھا۔ جو بہت اچھے  اسکولوں او ر کالجوں  میں  پڑھ رہے  تھے۔ فون پر اس وقت انکا بیٹا جو بڑی بڑی لڑکی کے  بعد پیدا ہوا تھا۔ وہی خالد سے  زیادہ قربت رکھتا تھا۔ اس کی آواز سے  ہی خالد کو محسوس ہوا کہ وہ کسی زبردست تناؤ میں ہے۔

’’ بھائی سلام علیکم میں  جمشید بول رہا ہوں ‘‘

’’ سب خیریت ہے ؟ اتنے  گھبرائے  ہوئے  کیوں  ہو؟‘‘

بھائی ہم لوگ بہت پریشانی میں  ہیں۔ پاپا کی طبیعت ادھر بہت خراب رہنے  لگی تھی، ادھر ان کے  اسپلن میں بلوکڈ ہونے  کی وجہ سے  پائپ لگا ہوا ہے او ر ڈاکٹروں  کو پابندی سے  دکھانا پڑتا ہے  کیونکہ پائپ بدلنا پڑتا ہے  اس لیے  انھوں  نے  سوچا تھا کہ اب باہر کا کام نہیں  کریں  گے، اس لیے  وہ کل صبح یہاں  آئے  تھے او ر سارا سامان باندھ کر وہ اب گھر سے  نکلنے  ہی والے  تھے  کہ پولیس آئی اور ان کو بلا کر لے  گئی۔ ‘‘

’’ کیوں ؟‘‘

’’ بھائی جان۔ ایسا ہوا تھا کہ یہاں  ایک کیس ہوا ہے  جس میں  کچھ لوگوں  نے  تین ملین ڈالر چرایا ہے۔ وہ لوگ پکڑے  گیے  ہیں۔ ان لوگوں  نے، جن میں  ایک آدمی یہیں  محلے  کا ہے، پاپا سے  ایک دن کہا کہ انکے  یہاں  باہر سے  کوئی مہمان آنے  والے  ہیں اور ان کو کھانا کھلانا ہے او ر ان کے  پاس کوئی اچھی جگہ نہیں  ہے  وہ لوگ مزدور طبقے  کے  لوگ ہیں او ر پاپا یہاں  ڈیڑھ سال سے  کام کر وا رہے  ہیں۔ انھوں  نے  ان کے  کھانے  کا انتظام کر دیا۔ ان لوگوں  سے  ان کا کوئی لینا دینا نہیں  تھا۔ اب انھوں  نے  پاپا کو جیل بھیج دیا ہے ‘‘

’’ جیل بھیجا ہے  یا پولیس کسٹیڈی میں  رکھا ہے ‘‘

’’ ٹھیک سے  بتا نہیں  رہے  ہیں۔ ‘‘

اس سے  تو چپکے  سے  اس کے  جاننے  کا اختیار بھی چھین لیا گیا تھا لیکن اس کو اس کا احساس اس انتہائی تیز دھار والے  ہتھیار کی طرح ہو رہا تھا جس کی کاٹ کی گہرائی کا علم زخمی کو تب ہوتا ہے  جب وہ اپنے  زخم میں  انگلی ڈال کر دیکھتا ہے۔

’’ بھائی جان ان کی حالت بالکل ٹھیک نہیں  ہے۔ وہ تو اسی وجہ سے  اپنا کام بند کر کے  بچا کھچا کام کسی اور کو سونپ کر جا رہے  تھے۔ ‘‘

خالد کے  مشورے  پر انھوں  نے  سب سے  پہلے  ایک وکیل کیا۔ پھر وکیل نے  جب دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ معاملہ عدالت میں  جا چکا ہے او ر ان کو جیل بھیجا گیا ہے۔ خالد سے  بات ہوئی تو وکیل نے  بتایا کہ پولیس کی کہانی کے  مطابق وہ دوسرے  چار آدمیوں  کے  ساتھ موٹر سائیکل سے  جا رہے  تھے او ر ان کے  ساتھ ہی گرفتار ہوئے  تھے او ر ان لوگوں  کے  پاس سے  ڈالر برآمد ہوئے  تھے۔ اور یہ مقدمہ وہاں  کا ہائی پروفائل مقدمہ تھا جس کا نیوز میں  بھی چرچہ تھا۔ جمشید نے  بتایا کہ ان لوگوں  نے  گھر آنے  بعد اس کے  پاپا نے  کہا تھا کہ ان کے  پاس کچھ ڈالرس ہیں  جسے  وہ ہندوستانی کرنسی میں  تبدیل کرنا چاہتے  تھے او ر ان سے  پوچھا تھا کہ کیا وہ اس سلسلے  میں  کلکتے  میں  کسی کو جانتے  ہیں۔ انھوں  نے  صاف انکار کر دیا تھا۔

’’ پا پا اس میں  بالکل ملوث نہیں  ہیں۔ وہ لوگ صرف اتنی سی مدد چاہتے  تھے  کہ مہمانوں  کو بٹھانے  کے  لیے  کوئی ٹھکانے  کی جگہ نہیں  تھی اس لیے  اخلاقاً ان کی مدد کر دی تھی۔ ‘‘

خالد نے  اس کو مشورہ دیا کہ وہ ڈی۔ ایس۔ پی۔ سے  ملے۔

اگلے  فون میں  جمشید نے  بتا یا کہ اس نے  ڈی۔ ایس۔ پی۔ سے  ملاقات کی تھی اور اس کے  پاپا سے  بھی ڈی۔ ایس۔ پی۔ نے  پہلے  بات کی تھی۔ اس کے  پاپا نے  ڈی۔ ایس۔ پی۔ کو پوری کہانی صاف صاف بتا دی تھی۔ ڈی۔ ایس۔ پی۔ نے  تعجب کرتے  ہوئے  ان سے  کہا تھا کہ اتنے  پڑھے  لکھے او ر بزرگ ہو کر بھی وہ ان لوگوں  کی صحبت میں  کیسے  آ گیے۔ جب جمشید ڈی۔ ایس۔ پی۔ سے  ملا اور اپنے  پاپا کے  معصوم اور بے  قصور ہونے  پر اصرار کیا تو  ڈی۔ ایس۔ پی۔ نے  کہا کہ وہ معصوم نہیں  تھے  بلکہ اس کیس میں  اس وقت پولیس کا مخبر بھی شامل تھا اور اس کے  پاپا نے  ان لوگوں  کے  ساتھ ڈنر کیا تھا۔ جمشید نے  ڈی۔ ایس۔ پی۔ کو بتایا کہ وہ ڈنر پر ان کے  ساتھ کہیں  نہیں  گیے  تھے  بلکہ انھوں  نے  مہمانوں  کی ضیافت کے  بارے  میں  جب بیوی کو ہدایت دی تو بیوی نے  کھانے  کا وقت ہونے  کی وجہ سے  ہلکے  پھلکے  چائے  ناشتے  کے  بجائے  کھانا بھی بنا دیا تھا۔ ڈی۔ ایس۔ پی۔ چپ تھا۔ جمشید نے  اس کو بتایا کہ ان کو سڑک پر موٹر سائیکل پر نہیں  پکڑا گیا تھا بلکہ گھر سے  لا یا گیا تھا۔ ڈی۔ ایس۔ پی۔ نے  اس کے  جواب میں  کہا کہ اس کے  پاپا کے  موبائل میں  اس سے  متعلق فون نمبر ملے  ہیں۔ جمشید نے  ان کی صحت کے  بارے  میں بات کی تو  ڈی۔ ایس۔ پی۔ نے  کہا کہ وہ جیل میں  ہیں او ر ان کے  صحت اور علاج وغیرہ کی ذمے  داری جیل کے  حکام کی ہے، پولس تو صرف انکوائری کرتی ہے۔

جمشید پاپا کے  پاس دوائیاں  پہچانے  کے  لیے  بے  حد پریشان تھا۔ خالد نے  جمشید کو کہا کہ وہ جیل کے  حکام سے  مل کر بات کرے او ر ان کو کچھ لے  دے  کر دوائیاں  ان تک پہنچائے  کیونکہ جیل کا عملہ تو اپنے  ڈاکٹر کی بتائی ہوئی دوا ہی دیں  گے۔ لیکن جب جمشید جیل میں  بات کرنے  پہنچا  تو جیل کے  ایک گارڈ نے  اسے  اتنی بری طرح ڈانٹ کر بھگایا کہ وہ سہم گیا۔ اسکول اور کالج سے IIMمیں  پہنچے  ہوئے  بچے  کو اتنی فرصت ہی کب ملی تھی کہ وہ ان دنیاؤں  کے  دستور کو جانے، وہ تو قانون اور اقدار کی روشنی میں  دنیا کو دیکھ رہا تھا۔

خالد نے  اسے  بتا یا کہ یہ سب پیسے  لینے  کی ابتدائی کاروائی ہے او ر جب وہ دوبارہ جائے  گا تو وہی اسٹاف پیسے  کی من پسند رقم ملنے  پر اس کی ہر طرح کی مدد کرے  گا۔ ذہنی پریشانیوں  کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ اسی بیچ پولیس اپنی تفتیش میں  کافی آگے  بڑھ چکی تھی اور اس نتیجے  پر پہنچ چکی تھی کہ جمشید کے  پاپا کا معاملہ واقعی اتنا ہی تھا جتنا کہ وہ  بتا رہے  تھے او ر ان کی گرتی ہوئی صحت کے  مد نظر انھوں  نے  فوراً ان کو چھوڑ دینے  کا فیصلہ کر لیا۔ انھوں  نے  عدالت میں  ان کا بیان کر ا کر ان کو سرکاری گواہ بنا لیا کیونکہ ملزموں  نے  ان سے  ڈالر کی بات کی تھی۔ قصہ بنا کہ وہ عدالت میں  کہیں  گے  کہ وہ بیمار ہیں۔ دوا لانے  گیے  تھے، کوئی سواری نہ ملنے  کے  سبب پیدل آ رہے  تھے۔ اچانک طبیعت خراب ہونے  لگی تو موٹر سائیکل سے  لفٹ مانگی، کچھ دور گیے  تھے  کہ پولیس نے  سب کو پکڑ لیا اور ان لوگوں  کے  پاس سے  ڈالر برآمد ہوئے۔

پولس نے  یہ رپورٹ عدالت میں  داخل کر دی اور یہ لکھ کر دے  دیا کہ وہ بے  قصور ہیں او ر ابھی تک کی تفتیش میں  ان کے  خلاف کوئی ثبوت نہیں  ملا ہے۔ پولس نے  ان کو چھوڑنے  کی سفارش کر دی۔

ادھر ان کی طبیعت،پریشانی اور روزمرہ میں  کھانے  والی دواؤں  کی کمی کی وجہ سے او ر خراب ہونے  لگی تھی اور انھوں  نے  بتایا تھا کہ ٹیوب بدلنے  کا وقت آ گیا تھا۔ بچوں  کے  اندر مقدمے  سے  زیادہ پریشانی ان کی صحت کے  خطرے  کولے  کر تھی ا س لیے  انھوں  نے  ان کی خراب ہوتی حالت کو دیکھتے  ہوئے  انھیں  عدالت سے  چھوٹتے  ہی فوراً انہیں  لے  جانے  کے  لیے  گاڑی کا بندوبست کر لیا اور خالد سہیل کو بھی بتایا کہ پولیس نے  ان کے  بے  قصور ہونے  کا اعتراف کر لیا ہے او ر آج عدالت میں  ان کے  بے  قصور ہونے  کی سفارش لگادی ہے او ر وہ آج چھوٹ جائیں  گے۔ لیکن ایسا ہوا نہیں۔ جج نے  ایک دو کاغذ اور مانگتے  ہوئے  پندرہ دن آگے  کی تاریخ ڈال دی۔ ان باتوں  کا گویا جج کے  اوپر کوئی اثر نہیں  ہوا کہ وہ مرے۔۔ ض ہیں۔ دوسرے  دن علاج کے  حوالے  سے  درخواست دی گئی لیکن اس کو بھی اسی پندرہ دن آگے  والے  تاریخ میں  پیشی کا حکم ہوا۔ جمشید نے  وکیل سے  تیسری ارجنٹ درخواست دینے  کے  لیے  کہا تو اس نے  جواب دیا کہ وہ جج کو ناراض نہیں  کر سکتا۔ جمشید نے  جیلر سے  بات کی تو اس نے  کہا کہ درخواست دینے  کے  بعد اگر انھیں  کلکتہ لے  جانے  کی اجازت مل گئی تو اس کے  لیے  پٹنہ سے  I.Gکی بھی اجازت چاہیے  کیونکہ صوبے   سے  باہر لے  جانا ہے   ا ور اس حکم کے  لیے  چٹھی ڈاک سے  جائے  گی اور پھر وہاں  پانچ دس دن لگیں  گے او ر اس کے  بعد جواب آئے  گا تب پولیس گارڈ میں  ان کو بھیجا جائے  گا۔

’’ اگر اس بیچ میں  ان کو کچھ ہو گیا تو کیا ہو گا ؟‘‘

جمشید نے  مایوس ہو کر پریشانی میں پوچھا۔

’’ یہ سرکار جانے۔ ‘‘

کس کس طرح جمشید کو اس کی دنیا کی سچائی سمجھائی جا رہی تھی۔

جیلر نے  یہ کہا تو ضرور لیکن جب اس نے  ڈاکٹر سے  بات کی تو ڈاکٹر نے  کہا کہ ان کی طبیعت واقعی بہت بگڑ گئی تھی۔ جیلر نے  ان کو میڈیکل بورڈ کو دکھانے  کی ہدایت کی۔ میڈیکل بورڈ نے  بھی یہ سفارش کر دی کہ ان کی حالت نازک ہے او ر ان کو فوراً کلکتہ بھیجا جائے۔ میڈیکل بورڈ کی رپورٹ کے  حوالے  سے  جمشید نے  بضد ہو کر وکیل سے  ایک اور ارجینٹ درخواست کورٹ میں ڈلوائی لیکن جج نے  رپورٹ دیکھنے  کے  بعد اجازت دینے  کی بجائے  کہا۔

’’ بہت ڈالر پیٹ میں  دبا رکھا ہے  اسی لیے  طبیعت خراب ہو رہی ہے۔ ‘‘

جمشید کی بہن اور ماں  دونوں  ساتھ تھے۔ سبھی پریشان ہو اٹھے۔ پھر جمشید نے  آگے  بڑھ کر جج سے  کہا پاپا کی لائف خطر ے  میں  ہے۔ بنا پائپ بدلے  وہ زندہ ہی نہیں  بچیں  گے۔ اگر وہ مر گیے  تو۔ ‘‘

’’ شبھ شبھ بولو۔ اشبھ کیوں  بول رہے  ہو۔ ‘‘

جج نے  آرڈر لکھ کر فائل ہٹا دی۔

یہ کہتے  ہوئے  اس نے  درخواست مسترد کر دی اور فیصلہ سنایا کہ یہ درخواست بھی اگلی تاریخ میں  ہی سنی جائے  گی۔

جونڈس کی کوئی دوا ان کو نہیں  دی جا رہی تھی۔ اگلی تاریخ سات دن آگے  تھی۔ ڈاکٹر کہہ چکا تھا کہ اب پائپ نے  کام کرنا بند کر دیا ہے  اور ان کی حالت تیزی سے  خراب ہو رہی ہے۔

دوسرے  دن جمشید کی ضد پراور جیل میں  پاپا سے  ملنے  کے  بعد جمشید ایک بار پھر عدالت میں  حاضر ہوا اور انتہائی بے  چینی کے  عالم میں  اس نے  جج سے  کہا۔

’’ آپ میرے  پاپا کو چھوڑیے  نہیں  تو پولیس کسٹیڈی میں  بھیج کر صرف پائپ بدلنے  کا موقع دے  دیجئے۔ ‘

جج نے  سنی ان سنی کر دی۔ وکیل بچوں  کو لے  کر واپس باہر آ گیا۔

چاروں  طرف سے  راستہ بند تھا۔ سخت پریشانی کے  عالم میں رات دن وہ کبھی اداس ہوئے۔ کبھی روئے  کہ کہاں  سے  کہاں  وہ شیطان لوگ ان کے  گھر آ گیے  تھے۔ لیکن اب تو پولس نے  ان کو معصوم قرار دے  ہی دیا تھا پھر عدالت ایسا کیوں  کر رہی ہے۔ کہیں  جج پیسہ تو نہیں  چاہتا۔ انھوں  نے  بھی دلی کے  ایک جج کے  بارے  میں  پڑھا تھا کہ وہ فائلیں  اپنے  گھر لاتا تھا اور جن لوگوں  کا مقدمہ ہوتا تھا وہی لوگ اس کے  گھر بیٹھ کر ججمنٹ لکھتے  تھے۔ کسی جج کے  پاس اتنے  اختیارات ہوتے  ہیں  کہ یہ بات سب کے  لیے  ممکن نہیں  کہ اپنے  کو لالچ سے  روک سکیں۔ انھوں  نے  اپنے  وکیل سے  بات کی۔

وکیل نے  کہا کہ یہ جج بہت سخت ہے۔

اس کے  پاپا کی آنکھیں  پوری طرح پیلی ہو چکی اندر دھنس گئی تھیں۔ بستر ہی پر حاجات ہونے  لگی تھی۔ کوئی دوا نہیں  دی جا رہی تھی۔ ڈاکٹروں  کا کہنا تھا کہ جو دوائیاں  اسے  دی جا رہی تھیں  وہی ان کی زندگی کو سنبھالے  ہوئے  تھیں۔

بچے او ر بیوی رات دن تڑپنے  لگے۔ روتے  روتے  جب ان کی بیوی کی آنکھیں  سوج گئیں  تو رات میں  عشاء کی نماز پڑھنے  کے  بعد ان کی بیوی نے  بہت گڑگڑا کر دعائیں  مانگیں۔ ’پروردگار۔ تو جج کے  دل میں  رحم کا جذبہ ڈال کے  وہ میرے  شوہر کی حالت کو سمجھ سکے۔ پروردگار‘ تو جج کے  اندر یہ سمجھ پید ا کر کہ وہ میرے  شوہر کو لاحق خطرے  کو سمجھ سکے۔ یا پروردگار، عدالت کے  بعد ہم تیرے  سوا اور کہاں  جائیں۔ یا پروردگار، تو نے  ایسے  انسان کو جج کیوں  بنا دیا اور میرے  شوہر کو اس کے  ہاتھ میں  کیوں  ڈال دیا۔ یا پروردگار اگر میرے  شوہر نے  زندگی میں  کوئی خطا کی ہو تو انہیں  معاف کر دے۔ یا پروردگار، میرے او ر میرے  بچوں  پر رحم فرما۔ یا پروردگار اس موذی سے  میرے  شوہر کو نجات دلا۔،  وہ نہ جانے  رات میں  کب تک وہیں  دعائیں  مانگتی اور روتی ہوئی جانماز پر ہی آگے  سر جھکائے  ہوئے  سو گئی۔

اب صرف تین دن رہ گیے  تھے۔ جمشید کو امید تھی کہ جو رپورٹ جج نے  مانگی تھی وہ اگلی تاریخ پر پہنچ جائیگی۔ پھر بھی اس نے  تصدق کے  لیے  تھانے  میں  پوچھا۔ ڈی۔ ایس۔ پی۔ نے  بتا یا کہ سارے  کاغذ عدالت میں  جا چکے  ہیں  ڈی۔ ایس۔ پی۔ اب اس کے  تئیں  کا ہمدرد رویہ رکھا رہا تھا۔ جمشید نے  اس معاملے  میں  بالکل بے  بسی کا اظہار کیا۔ جوڈیشیری کا معاملہ تھا۔ کچہری اور تھانے  میں  جمشید نے او ر لوگوں  سے  بات کی۔ کئی لوگوں  نے  اس کی پڑھے  لکھوں  والی ماڈل صورت اور طور طریقے  دیکھ کر کہا کہ’’ یہ ایک دور دراز علاقہ ہے۔ یہاں  یہی ہوتا ہے۔ ‘‘

کسی نے  اسی بیچ بتایا کہ جج  کاپی۔ اے۔ ۲۵ ہزار روپئے  مانگ رہا ہے۔

جمشید رد  و قد کرنے  کے  بعد دینے  کے  لیے  تیار ہو گیا۔ لیکن کوئی معتبر ذریعہ دکھائی نہیں  دیا۔ پیسوں  کے  مارے  جانے  کا خطرہ تھا۔ وہ یہی سوچتے  ہوئے  پیسوں  کا انتظام بھی کر رہا تھا۔ حالانکہ اس دور دراز جگہ پر وہ اپنی ماں اور بہن کے  ساتھ بہت عجلت میں چلا آیا تھا اور کا م کابل نہیں  ادا ہونے  کے  سبب اس کے  پاپا کے  پاس بھی ابھی زیادہ پیسے  نہیں تھے۔

اسی دن جب وہ جیل کے  اسپتال میں  پاپا سے  ملنے  گیا تو دیکھا کہ ان کی آواز میں  لرزش پیدا ہو گئی تھی۔ آنکھیں  مردہ سی ہو گئیں  تھیں او ر پیٹ پھول گیا تھا۔ پھولے  ہوئے  پیٹ کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ فوراً ڈاکٹر کے  پاس گیا۔ ڈاکٹر نے  کہا کہ وہ لکھ کر تو نہیں  دے  سکتا لیکن یہ حقیقت ہے  کہ یہ ۴۸ گھنٹے  کے  مہمان ہیں۔ اور وہ یہ بات آج ہی جا کر جج کو زبانی بتا آیا ہے۔ جمشید فوراً وہاں  سے  آ کر عدالت آیا اور فوراً کورٹ میں  جا کر کھڑا ہو گیا۔ جج نے  اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھا تو اس نے  فوراً کہا۔

’’ سر، میرے  پاپا مرنے  والے  ہیں۔ ابھی بھی آپ اجازت دے  دیں  تو ان کا علاج ہو جائے  گا۔ ‘‘

اس نے  یہ کہتے  ہوئے  اپنا ہاتھ سے  لکھی ہوئی درخواست جج کے  سامنے  رکھ دی۔ جج نے  اس کی درخواست منشی کی طرف بڑھا دی

”Put up on the next date”

انگریزی میں  جج کی آواز نے  جمشید کے  ذہن میں  انگریزوں  کے  دور اور بدلے  کی یاد تازہ کر دی۔

بھائی جان میں  کیا کروں۔ میری سمجھ میں  کچھ نہیں  آ رہا ہے۔ پرسوں  تک شاید وہ بچیں  نہیں۔ میں  سوچ رہا ہوں  ان کو اسپتال سے  ہی اٹھا لے  جاؤں او ر باہر کار میں  رکھ کر چلا جاؤں  پائپ تو بدل جائے  پھر دیکھا جائے  گا۔

’’ ” No. Do not try this. They kill you like.

God will help you and do whatever you can do. Do everything. Do anything that can give result. Go to the judge again, in the court or at residence, whenever he is. You get the number of the senior judge and talk to him.

خالد یہ سب کچھ انگریزی میں  ہی بولتا چلا گیا۔

لیجئے، پاپا سے  بات کیجئے۔ وہ آپ سے  بات کرنا چاہتے  ہیں۔

کیسے  ہیں۔

"I am not OK. Can you hear me.”

His voice was very feeble.

"No. I am not OK.”

Why do you feel like this. have courage.

. "Death is staring in my eyes.

My death has become certain.”

I will try my best.

"No try. Can you save me ????”

سوال اتنا بھاری تھا کہ خالد اس کے  نیچے  ایسے  دب کر رہ گیا جیسے  کوئی بھاری ٹرک اسے  کچل کر آگے  بڑھ گئی ہو۔

دوسرے  دن جمشید پہلے  تو جج کے  پاس گیا اور رونے او ر چلانے  لگا۔ وہ بار بار جج سے  اپنے  باپ کی جان بچانے  کی التجا کر رہا تھا۔ جج خاموش رہا۔ وہاں  کچھ اور بھی لوگ تھے  جو اس کی فریاد سن کر اداس ہو گیے  تھے۔ باہر آنے  کے  بعد انھوں  نے  کہا ’عدالت ایک ایسی ہستی ہے  کہ اس کے  سامنے  کسی کا چارہ نہیں  چلتا۔ اور کوئی اس کی تنقید نہیں  کر سکتا۔ کوئی اس کو حکم نہیں  دے  سکتا۔ کوئی ان کے  کام میں  مداخلت نہیں  کر سکتا۔ ‘

’’پھر ہم نے  ایسی عدالتیں  کیوں  پال رکھی ہیں۔ ‘‘ جمشید نے  مجبور چہرے  کے  ساتھ لگ بھگ روتے  ہوئے  کہا اور جھٹکے  سے  اپنا منھ پھیر لیا۔

پھر اس نے  جج کے  پی۔ اے۔ کے  پاس جا کر بالا تر ججوں  کے  نمبر مانگے۔ پی۔ اے۔ نے  فون نمبر دے  دیے۔ لیکن نمبر دیتے  ہوئے  اس نے  کہا کہ.

’’ جج صاحب ایک لاکھ روپیہ مانگ رہے  ہیں ‘‘

’’ ہم دے  دیں  گے ‘‘

پہلے  لے  کر آؤ پھر بات کرو۔

’’ ان کو ابھی صرف کسٹیڈی میں  علاج کے  لیے  بھیج دیں۔ ابھی ہم پیسوں  کا انتظام کہاں  سے  کر پائیں گے ‘‘

اگر ان کی جان بچانا چاہتے  ہو تو کوشش کرو۔ اور ان کے  اوپر کے  ججوں  سے  تم کچھ کہو گے  تو کوئی تمھاری بات کو قبول نہیں  کرے  گا اور پھر تمہیں  اس سے  بھی زیادہ دینا پڑے  گا۔

جمشید خاموش رہا۔ ایک وقفے  کے  بعد پی۔ اے۔ نے  کہا۔ میں  سمجھ رہا ہوں  کہ تمہیں  یقین نہیں  آ رہا ہے  کہ واقعی یہ پیسہ جج صاحب کے  پاس جائے  گا۔ تمہیں  میرے  اوپر شک ہے۔ تم پیسے  کا انتظام کر کے  لاؤ تمھارا کام ہو جائے  گا۔ لیکن تمھیں  لانا پڑے  گا۔ ‘‘

آپ ہی سوچیے  اس اجنبی جگہ پر ہم پیسوں  کا انتظام کہاں  سے  کریں  گے ‘‘

یہاں  صبح تک کوئی آدمی کلکتے  سے  پیسہ لے  کر یہاں  پہنچ سکتا ہے۔ اگر تم یہاں  انتظام نہیں  کر پا رہے  ہو تو وہاں  سے  منگاؤ۔ کوشش کرو۔ ‘‘

یہ کہتے  ہوئے  پی۔ اے۔ کھڑا ہو گیا۔

شام دیر گیے  جمشید نے  سینیر جج سے  بات کی لیکن اس کا رد عمل بہت ہی سخت تھا۔

’’میں  کچھ نہیں  کر سکتا۔ ‘‘

’’ اگر آپ نہیں  کریں  گے  تو کون کرے  گا‘‘

میں  صرف تبھی اس معاملے  کو دیکھ سکتا ہوں  جب یہ میرے  پاس آئے  گا لیکن اگر میرے  پاپا کی جان چلی گئی تو کیا ہو گا؟‘‘

بھگوان پر بھروسہ رکھو۔

اسی درمیان جمشید کی ماں او ر بہن نے  فوری طور پر اپنے  زیورات بیچ کر اور کچھ ادھار لے  کر ۳۵ ہزار کا انتظام کر لیا تھا۔ جمشید نے  وہ روپئے  لیے او ر سیدھے  پیش کار کے  گھر پہنچا۔ پیش کار جمشید کو لے  کر جج کے  گھر اس انداز میں  چلا جیسے  وہ قطعی پیسوں  کی ذمے  داری اپنے  سر لینا نہیں  چاہتا تھا پیسے  اس نے  اپنے  پیچھے  اپنے  گھر میں  ہی چھوڑ دیے۔

یہ جج کا گھر تھا۔ پیش کار اندر گیا اور پھر باہر آیا اور جمشید کو لے  کر اندر گیا۔ جج وہاں  بیٹھا ہوا تھا۔

’’ سر‘‘

پیش کار نے  جج سے  کہا۔

’’ پورے  ایک لاکھ روپئے  کا انتظام نہیں  کر پائے  ہیں  کیونکہ یہ باہر کے  رہنے  والے  ہیں۔ ‘‘

یہ الفاظ جمشید کے  کان میں  اس طرح داخل ہو رہے  تھے  جیسے  وہ الہامی آیات ہوں  جن کو سننے  کی اس نے  کبھی توقع بھی نہیں  کی ہو

اس لیے  میں  نے  ان سے  ۳۵ ہزار لے  لیے  ہیں او ر باقی یہ چند ہی روز میں  دے  دیں  گے۔

جج نے  جمشید کو دیکھتے  ہوئے  پی۔ اے۔ سے  پوچھا۔ تمہیں  یقین ہے  کہ یہ دے  دیں  گے

’’ یہ دے  دیں  گے  سر۔ مجھے  یقین ہے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے ‘‘

اس کے  بعد جج نے  جمشید کو مخاطب کرتے  ہوئے  کہا

’’شام کے  وقت تم بہت جذباتی ہو رہے  تھے۔ تم نے  بالاتر جج کا نمبر مانگا تھا ان باتوں  کا کوئی فائدہ نہیں  ہوتا۔ یہ سب دنیا داری کی باتیں  ہوتی ہیں۔

اس کی آنکھوں  میں  جج کی تصویر ایسے  جم گئی جیسے  مرنے  والے  کی آنکھوں  میں  قاتل کی تصویربس جاتی ہے۔

oo

 

 

 

دوسرے  دن خالد سہیل سے  جمشید کی بات نہیں  ہو پائی۔ خالد سہیل اپنے  مطالعے  میں  بیٹھا تقریباً آدھی رات گیے  کچھ پڑھ رہا تھا کہ جمشید کا فون آیا

’’ ہم لوگ کار سے  کلکتہ جا رہے  ہیں۔ اور سات گھنٹہ میں  پہنچ جائیں  گے۔ راستے  میں  ان کی ضمانت ہو گئی۔ صبح تک اسپتال پہنچ جائیں  گے۔ وہ بالکل مرنے  کی حالت میں  پڑے  ہوئے  ہیں  لیکن ہم لوگ کہہ نہیں  سکتے  کہ زندہ ہیں  یا مردہ نبض کا کچھ پتہ نہیں  چل رہا ہے۔ ‘‘

’’بدن میں  کچھ حرکت ہے  یا نہیں ؟‘‘

بدن میں کبھی کبھی کچھ حرکت محسوس ہو رہی ہے،

But I am not sure. It may be due to the movement of the car.

اچانک فون نیٹ ورک پرابلم کی وجہ سے  کٹ گیا۔ شاید اس وجہ سے  کہ کار سفر میں  تھی۔ اس  کے  ذہن میں  ایک کمزور سی آواز اٹھی جو دیر تک گنبد کی طرح گونجتی رہی۔

Can you save me.

پھر خالد سہیل کا ذہن جج کی طرف مڑ گیا اور اس کے  ذہن میں  ایک ہیولہ سا ابھرنے  لگا۔ مافیا برگد کے  کسی عظیم درخت کی طرح بڑا ہو چکا ہے او ر اس کے  نیٹ ورک میں  جو لوگ اس کو غذا پہنچا رہے  ہیں  وہ لوگ صرف مزدور نہیں  ہیں  وہ خود بھی اپنے  اختیارات کا استعمال من مانی طور پر کر رہے  ہیں۔ پوری انسانی زندگی اس کے  پنجوں  کے  دائرہ کار میں  آ چکی ہے۔ ہر جگہ زندگی کو خطرہ ہے  مافیا صرف اوپری دائرے  میں  نہیں  اس کے  ڈاکٹر والکر ہر جگہ پیدا ہو چکے  ہیں۔ لیکن کسی بات نے  اس کی سوچ کو پر روک لگا دی۔

اس نے  اپنے  ماموں  کو بچپن سے  دیکھا تھا۔ انتہائی مہذب انسان تھے۔ اس نے  فون دوبارہ ملانے  کی بہت کوشش کی لیکن نہیں  ملا۔ اسے  ایک شدید مجبوری کا احساس ہوا اور اس کے  ساتھ ہی وہ اپنے  کو نڈھال سا محسوس کرنے  لگا لیکن پیچھے  اس کا ذہن کسی اور سطح پر اپنا کام کرتا رہا۔

’’ ڈاکٹر والکر صرف ایک وفادار نوکر تھا۔ لیکن، وہاں، وہاں  دوسرے  ایسے  افراد بھی ضرور تھے  جنھوں  نے  سنہری کا قتل کر دیا۔ ‘‘ اور یہ جج۔

کیا شیر علی صحیح تھا؟

شیر علی نے  جو کیا ٹھیک ہی ہو گا۔

اس نے  اپنی رائے  میں  صحیح قدم ہی اٹھا ہو گا۔ یہ ایک فیصلہ تھا۔ ممکن ہے  اس کا اٹھایا ہو ا قدم درست نہیں  ہو لیکن اس حد تک ضرور درست تھا کہ اس نے  یہ قدم اپنی ذاتی رائے  کے  تحت اٹھایا تھا۔ اسی لیے  شیر علی اہم اور قابل غور ہے۔ اسی لیے  شیر علی لگاتار میرا ذہن کا پیچھا کر رہا ہے۔ اس وقت سے  جب سے  میں  انڈمان گیا تھا۔ اس بات کو بھولا نہیں  جا سکتا کہ اس نے  ان حالات میں  کوئی قدم نہیں  اٹھایا جہاں اس نے  قدم اٹھانا مناسب سمجھا جیسے  اس کا طرزِ عمل جیل کے  قوانین کے  عین مطابق تھا اور قید کے  دوران مکمل طور پر ایسا ہی رہا۔ تو اس نے  قدم تو تبھی اٹھایا ہو گا جب اسے  محسوس ہوا ہو گا کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے  وہ درست ہے۔

شیر علی کا خیال خالد کے  ذہن میں  اعلیٰ ترین انسانیت کے  اقدار کے  چشمے  چھوڑ رہا تھا خالد کے  ذہن میں  رات کے  اندھیرے  میں  جاگتی ہوئی کار میں  ا س کے  ماموں  کی شبیہ اسے  اس طرح ہلا رہی تھی جیسے  کوئی طوفان سمندری طوفان کی تباہیوں  کے  ساتھ گزر رہا ہو۔

 

انھیں  دوبارہ فون پر بات کرنے  کا اس کا جی نہیں  چاہا۔ بری خبر ملنے  میں  جتنی دیر ہو بہتر ہے۔ ہر لمحہ یہ تشویش ا س کے  دل پر بھاری پتھر کی طر ح گھومتا رہا۔

 

اس کا دل اب اُوب گیا۔ اب سوچنے  کا نہیں  کچھ کرنے  کا وقت ہے۔ اب وہ پوری قوت سے  لڑنا چاہتا تھا۔

oo

 

 

 

 

اسے  جنگل کا خیال آیا۔

وہاں سے  وہ ایک فیصلہ کن جنگ ، دنیا کے  عوام کو اپنے  ساتھ لے  کر لڑے  گا۔ جنگ کی طرف یہ اس کا پہلا اعلانیہ قدم تھا۔ اس نے  کسی اور سے  نہیں  لیکن اپنے  آپ سے  کھلا اعلان کیا تھا اور جنگ کا بگل بجا بیٹھا۔ اس کے  سامنے  اب اس جنگ کو جیتے   بغیر واپسی کا کوئی سوال نہیں  تھا۔ وہ اس جنگ میں  مر جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے  اندر کا دبا ؤ اس پر شکنجہ کس چکا تھا۔ اسے  پختہ یقین ہو گیا کہ وہ یہ جنگ جیتے  گا۔ اس کی سوچ بالکل واضح اور مکمل طور پر کارگر تھی۔ وہ دشمن قوتوں  کی ساخت پر حاوی ہو چکا تھا۔ وہ مزید آگے  طبل جنگ بجانے  سے  پہلے  کچھ اور تیاریاں  کرنا چاہتا تھا اور اس کے  لئے  اس خلوت کی ضرورت تھی۔ اس کے  لئے  مزید سوچنا ضروری تھا اور یہ لوگوں  کے  فون اور اس پاس میں  لوگوں  کی موجودگی اس کے  ذہن کو باندھے  ہوئی تھی۔

اس کے  کھیتوں  کے  پار ندی سے  کچھ قریب ہی اس کا وہ خاندانی مچان تھا جو ویران پڑا ہوا تھا۔ اس کے  آس پاس وہ جب بھی جایا کرتا اسے  یک گونہ سکون کا احساس ہوتا تھا۔ وہاں  اتنی خاموشی اور وسعت تھی کہ وہ مراقبے  کی عمیق ترین گہرائیوں  میں  اتر سکتا تھا۔ اب اسے  اپنے  اس کمرے  میں  بے  چینی سی ہونے  لگی۔

وہ رختِ سفر باندھ کر یہاں  سے  نکل پڑنے  کے  لئے  تیار ہو گیا۔

اس نے  اپنی ماں  سے  اپنے  ارادے  کا اظہار کیا تو وہ گھبرا گئی۔ اس کی گرتی ہوئی صحت اور کھانے  پینے  کی طرف سے  لاپرواہی سے  وہ پہلے  ہی بے  حد پریشان تھی۔ خالد نے  بہت مشکل سے  ہی صحیح لیکن بہت پیار سے  ان کو سمجھا لیا کہ جنگل کی ہوا میں  درحقیقت اس کی صحت بہتر ہو جائے  گی۔ وہ ایسا محسوس بھی کر رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی گرتی ہوئی صحت کی اصل وجہ وہ بیماری ہے  جو اس کے  دل و دماغ کو لگی ہوئی تھی اور اس کا علاج وہ سب کچھ حاصل کرنے  میں  ہی تھا جس کے  لئے  وہ پیدا ہوا تھا۔ باپ کو معلوم ہوا تو وہ خاموش رہے۔ وہ خالد کو جانتے  تھے۔

وہ اپنے  کپڑے  وغیرہ لے  کر اس مچان میں  چلا آیا۔ اس سے  پہلے  اس نے  جو نظم کمرے  سے  باہر آ کر پڑھی تھی اس کے  پڑھنے  کے  لہجے  نے  سب کو تعجب میں  ڈال دیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے  مکمل طور پر دیوانہ ہو گیا ہو۔ لوگ اس کو بستر وغیرہ کے  ساتھ جاتے  ہوئے  حیرت سے  دیکھتے  رہے۔

یہاں  وہ اس تالاب کے  کنارے  اکثر آ کر بیتھ جاتا تھا اور رات دیر گئے  تک بیٹھا رہتا تھا۔ جو لوگ یہاں  تالاب سے  سینچائی کے  لئے  پانی نکالنے  آتے  تھے  ان سے  اکثر بہت سی باتیں  بھی کرتا تھا اور ان سے  گھلا ملا رہتا تھا۔

پرانے  زمانے  میں  اس مچان کا استعمال آرام کرنے  کیلئے، رقص کی محفل آراستہ کرنے  کیلئے او ر شکار کے  دوران ٹھہرنے  کے  لئے  ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ ویران پڑا تھا کیونکہ پرانی باتیں  ختم ہو چکیں۔

رات میں  وہ جانوروں  کی اجنبی آوازوں  کو بہت دھیان سے  سنا کرتا تھا جیسے  اس سے  اس کو سوچنے  میں  مدد ملتی ہو۔

رات میں کچھ پرندے  بھی ادھر ادھر درختوں  پر کبھی کبھی بلا وجہ پھڑپھڑاتے۔ یا محض کسی چیز کی حرکت سے  خوفزدہ ہو کر۔

oo

 

 

 

وہ واپس اپنے  کمرے  میں  داخل ہوہی رہا تھا کہ ٹھیک اسی لمحے  اس کے  موبائل پر ایک خاتون کا فون آیا جس سے  پہلے  بھی اس سے  گفتگو ہو چکی تھی۔ اس عورت کو کوئی پریشان کر رہا تھا۔ اس عورت نے  کبھی اپنے  خاندان کو معاشی دشواریوں  سے  نجات دلانے  کے  لیے  اس وقت ایک ملٹی نیشنل بینک سے  اپنا بوٹیک چلانے  کے  لیے  لون لینے  کی رضامندی اسے  دی تھی جب ایک میٹھی آوازوں  والے  آدمی نے  اسے  فون کر کے  بہت آسان شرطوں  پر بینک سے  لون دیے  جانے  کے  بارے  میں  بتایا تھا۔ نا تجربہ کاری کی وجہ سے  لون لینے  کے  بعد اسے  کاروبار میں او ر بھی نقصان ہوا اور وہ قسطیں  ادا نہیں  کر پائی۔ تب اس کے  پاس بینک سے  یاد دہانی کے  فون آنے  لگے۔ دو تین کال کے  بعد فون کرنے  والے  کا لہجہ تبدیل ہونے  لگا۔ اس نے  عورت کو جا کر ملنے او ر اس مسئلے  کو حل کرنے  کے  لیے  کہا اس کے  لیے  اس نے  اس بینک کے  کینٹین میں  بلایا۔ کافی ٹیبل پر بیٹھے  ہوئے  وہ آدمی بغیر کہے  ہوئے  صرف اسے  گھورتا رہا۔ وہ جوان اور خوبصورت تھی صرف 27برس کی دلکش اور پتلی دبلی۔ اس آدمی نے  اسے  بینک کے  لئے  کام کرنے  کا مشورہ دیا۔

’’دیکھو اگر تم نے  اب بینک کی قسطیں  دینے  میں  مزید تاخیر کی تو بینک تمہارے  خلاف چیٹنگ کا مقدمہ دائر کر دے  گا۔ ‘‘

’’لیکن میں  نے  کوئی چیٹنگ نہیں  کی ہے۔ میں  صرف بزنس میں  ناکام ہوئی ہوں۔ ‘‘

’’بینک تمہاری اس صفائی کو قبول نہیں  کرے  گا۔ وہ کہیں  کہ تم نے  لون واپس نہ کرنے  کی نسبت سے  ہی لون لیا تھا۔ وہ کہیں گے  کہ یہ تم نے  بہت سوچ سمجھ کر کیا تھا۔ یہ تمہاری سازش تھی۔ لون واپس کرنے  کا کبھی کوئی ارادہ نہیں  تھا۔ تم ان بینکوں  کو نہیں  جانتی ہو۔ یہ Bankersہیں۔ بے  رحم سود خور۔ یہاں  کوئی انسانی جذبہ نہیں  ہوتا اور عدالت ان کو خاص اہمیت دیتی ہیں او ر ان کی مدد کرتی ہیں۔ تم کو جیل جانا پڑ جائے  گا۔ تمہاری جائیدادیں  ضبط ہو جائیں گی اور بینک انہیں  بیچ کر اپنا پیسہ نکالے  گا۔ ‘‘

عورت کو یاد آیا کہ اس کا شوہر اس لون کو لینے  کے  خلاف تھا اور اس نے  اپنے  شوہر کے  مشورے  کے  خلاف صرف اس خود اعتمادی کی بنیاد پر لون لیا تھا کہ وہ اسے  اپنے  خاندان کی معاشی صورت حال کو پلٹ دے  گی۔ اس نے  سامنے  بیٹھے  ہوئے  اس آدمی کو دیکھا جس کی آنکھوں  میں  تیز کلہاڑی تھی۔ وہ سمجھنے  کی کوشش کر رہی تھی کہ وہ درحقیقت چاہتا کیا تھا تب اس آدمی نے  کہا۔۔۔۔

’’ہم لوگ تمہیں  کچھ اہم گراہکوں  کے  پاس بھیجیں گے۔ بڑے  بڑے  تاجر لیکن معذرت اور خوش سلیقہ ہم ان کو پہلے  فون کر دیں گے۔ جیسے  ہم نے  تمہیں  فون کیا تھا اور انہیں  بتا دیں گے  کہ ہم تمہیں  بینک کی شرطوں او ر فوائد کو واضح کرنے  کے  لیے  بھیج رہے  ہیں۔ تم اس کے  بعد ہی جاؤ گی اور ان سے  ملنے  کے  بعد تم ان کو کسی اچھے  ہوٹل میں  لنچ یا ڈنر پر  مدعو کرو گی۔ ہوٹل کے  خرچے  کا انتظام بینک کی طرف سے  ہو گا۔ ہم لوگ تمہیں  ایک خصوصی Credit Card دیں گے  جس سے  تم اس طرح کے  اخراجات کی ادائیگی کرو گی۔ ان تاجروں  کے  علاوہ بھی اگر تم کبھی کسی کو تعلقات بڑھانے  کے  لیے  ہوٹل وغیرہ میں  کھلانے  پلانے  پر کچھ خرچ کرو گی تو ایک خاص حد تک تمہیں  اپنے  فیصلے  کے  مطابق خرچ کرنے  کا اختیار ہو گا۔ ہم لوگ ہوٹل میں  کمرہ بھی بک کرا دیں گے۔

’’اس آدمی نے  بہت عجیب نظروں  سے  عورت کو دیکھا جیسے  وہ اپنے  دباؤ کا بھرپور استعمال کر رہا ہو اور ایسی بات کرنے  میں  اسے  کسی تکلف کی ضرورت نہ ہو۔ تم جب ہوٹل کے  کاؤنٹر پر جا کر ہمارا دیا ہوا Booking slipانہیں  دو گی تو وہ خود ہی تمہیں  کمرے  تک پہنچا دیں گے۔ کھانے  پینے  کی ساری چیزیں  جو تم آرڈر کرو گی وہاں  ملیں گی۔ وہاں  تم مکمل یکسوئی اور بغیر کسی مداخلت کے  اپنے  Clientسے  بات کر سکو گی۔ بس صرف اپنے  ہاتھوں  سے  کھانے او ر Drinksانہیں Serve کرتی جاؤ بالکل جیسے  اپنے  گھر میں  کرتی ہو اور اس دوران جب ماحول بہت سازگار ہو چکا ہو تم ان کو اسکیم کے  فوائد کے  بارے  میں  بتاؤ لیکن کسی فیصلے  پر پہنچنے  کے  لیے  قطعی اصرار نہ کرو۔ صرف قریب ہوتی جاؤ، بیڈ پر لے  جاؤ، ساتھ میں  سو جاؤ اور پھر ڈیل سائن کرالو۔ اس سے  قبل کہ …..‘‘

وہ آدمی بالکل برچھی جیسی نگاہوں  سے  اسے  دیکھ رہا تھا۔

وہ برف کی طرح ٹھنڈی ہو گئی تھی۔

’’یہ ہمارا تجربہ ہے، سو میں  نوے  معاملات میں  کامیابی یقینی ہوتی ہے او ر اگر کامیابی  نہیں  بھی ملتی تو بھی وہ کچھ نہ کچھ ضرور کرتے  ہیں او ر اس سے  تم اپنے  لون کی ادائیگی کر سکتی ہو۔

Do not think and—-be practical, we will maintain absolute secrecy.”

ذہنی طور پر بے  حد منتشر ہونے  کے  بعد وہ وہاں  سے  چپ چاپ لوٹ آئی تھی۔ اس آدمی نے  اسے  اس وقت اور کچھ نہیں  کہا لیکن دوسرے  دن پھر اس کا فون آیا۔ پہلے  تو وہ بہت لگاوٹ کے  لہجے  میں  نرمی سے  بات کرتا رہا لیکن بعد میں  اس کا لہجہ بہت سخت ہو گیا۔ اور پھر وہ اسے  بہت گندی گندی گالیاں  دینے  لگا اور گالیوں  کے  دوران ہی اس نے  کہا۔۔۔۔

’’اپنے  فون کو سویچ آف رکھنے  کی کوشش مت کرنا۔ اگر تم فون کو سویچ آف کرو گی تو یہ معاملہ وصولی کرنے  والا دستہ کے  حوالے  کر دیا جائے  گا وہ تمہارے  گھر پر پولس کے  ساتھ جائیں گے او ر تمہیں  ساتھ میں  لے  کر آئیں گے۔

اس عورت نے  ایک فنکشن میں  یہ معلوم ہونے  کے  بعد کہ خالد صاحب صحافی ہے  اس سے  تخلیہ میں  یہ بات بتائی تھی اور روتے  ہوئے  اس نے  کہا تھا کہ وہ لوگ اسے  کئی لوگوں  کے  پاس سونے  پر مجبور کر چکے  ہیں  لیکن ابھی بھی لون باقی ہے او ر ان لوگوں  میں  غالباً کوئی بھی لون کی خواہش رکھنے  والا تاجر نہیں  تھا۔ دراصل اسے  خاموشی سے  پوری طرح ایک پیشہ ور کال گرل میں  تبدیل کر دیا گیا ہے۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی یہ کہانی اس کی پہچان کو خفیہ رکھتے  ہوئے  اخبار میں  چھاپ دیا جائے  کہ اس سے  کم از کم دوسرے  لوگوں  کو روشنی ملے  گی۔ خالد نے  یہ کہانی تیار کی تھی لیکن ایڈیٹر نے  اسے  چھاپنے  سے  صاف صاف منع کرتے  ہوئے  اسٹوری اسے  واپس کر دی تھی۔

’’کیا تمہیں  اس کا اندازہ ہے  کہ اس میں  کتنا بڑا خطرہ ہے۔ ‘‘

ایڈیٹر نے  اس کی آنکھوں  میں  دیکھا تھا اور اسے  خاموش لاجواب دیکھ کر حقارت سے  قہقہہ لگایا تھا۔

اب جب اس کا فون آیا تھا وہ اس سے  کچھ بھی نہیں  کہہ پا رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں  نہیں  آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ اس کا ذہن اس وقت پوری طرح مشغول تھا۔ اس نے  کھوکھلی آواز میں  کہا۔ ’’کیا ہم بعد میں  بات کر لیں ؟ عورت نے  حامی بھر لی۔ اس نے  پھر عورت سے  کہا کہ میں  نے  اس سے  پہلے  کبھی آپ کا نام نہیں  پوچھا لیکن کیا میں  آپ کا اصل نام جان سکتا ہوں۔ ‘‘

’’کیوں  نہیں۔ میرا نام سنہری ہے۔ ‘‘

خالد کو صرف اتنا سا خیال آیا،کتنی بار تم نے  سوچا تھا کہ اگر تم اس زمانے  میں  ہوتے  تو یہ کرتیں  وہ کرتیں  نہ جانے  کیا کرتے۔ اب تو تم موجود ہو۔

’کیوں، کیا ہوا ؟

خالد کی طرف سے  مکمل سناٹا ہو گیا۔

یہ تو وہی جانتا تھا کہ کیا ہوا تھا۔ ایک لمحے  میں  سنہری کروڑوں  سنہریوں  میں  تبدیل ہو گئی تھی۔  یہ سنہریاں  ہر جگہ تھیں۔ ہندوستان میں، جاپان میں، پورے  ایشیا میں، پورے  یورپ میں  بلکہ امریکہ کے  بڑے  بڑے  شہروں  کی عظیم ترین عمارتوں  تک میں  بیشمار گوری گوری سنہریاں  بھری پڑی تھیں۔ انسان کی مظلومیت کا درد پوری دنیا میں  نائٹروجن کی طرح بھرا ہوا تھا۔

ادھر سے  پھر ایک آواز آئی۔ ’میں  نے  سوچ لیا ہے  کہ مجھے  کیا کرنا ہے۔ میں  compromise  کروں  گی۔

تو تم نے  مجھے  فون کیوں  کیا؟

یہی بتانے  کیلئے  کہ جب میں  نے  compromise کرنے  کا فیصلہ کر ہی لیا ہے  تو

Why not you. After all you are my friend. May be you can save me from this constant exploitation..’

اپنی زندگی میں  اتنی بڑی گالی اس نے  اس سے  پہلے  کبھی نہیں  سنی تھی۔ خالد نے  محسوس کیا۔ لیکن اب وہ چپ چاپ سب کچھ جھیلنے  کیلئے  تیار  ہو چکا تھا۔

مزید کوئی آواز نہ آنے  پر عورت نے  فون بند کر دیا۔

خالد سہیل کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد آ گئی اور اب جیسے  خالد کے  پاس اس عورت کے  بارے  میں  سوچنے  کے  لئے  کچھ بچا ہی نہیں  تھا کیونکہ یہ کہانی بھی کالا پانی کے  سمندر میں  گم ہو گئی لیکن خالد کا ذہن  پیچھے  مسلسل چلتا ہی رہتا تھا۔

اس کی سوچ کا سلسلہ جاری تھا۔

’ایک عام آدمی کی یہ صورتحال ہے  کہ اگر اسے  ترقی کرنی ہے  تو اسے  جونک کے  پاس جانا ہی ہے۔ ساری کائنات اور دنیا کے  راستے  انتہائی چالاکی سے  اس طرح بند کر دئے  گئے  ہیں  جیسے  شیر کو شکار کے  لئے  ہانکا جاتا ہے۔ ‘ یہ سوچتے  ہوئے  وہ آگے  سوچنے  لگا۔

جمہوریت کے  سورما ایسے  واقعات سے  اسی طرح نظر بچاتے  ہیں  جیسے  برطانوی پارلیامنٹ میں  ڈاکٹر والکر کے  فیصلوں  کو نظرانداز کیا گیا تھا۔ یہ بینک والے  تو غیر تھے،  یہ بھی قطعی ممکن تھا کہ ایک شخص جو کسی عورت کے  ساتھ سوتا ہے، جس سے  وہ عورت پورے  جذبات کے  ساتھ بھرپور محبت کرتی ہے  اسے  وہی شوہر اور اس کے  اہل کنبہ پیسے  کے  لیے  جلائیں  بھی اور وہ یہ سوچ کر اور سناٹے  میں  رہ گیا کہ ڈاکٹر والکر کی تو شاید یہ ڈیوٹی تھی۔

’’لہٰذا اس میں  تعجب کی کوئی بات نہیں  اگر آج کے  سماج کے  اوپری طبقے  کے  لیے  کالا پانی کے  واقعات کی کوئی اہمیت نہیں او ر ان دانشوروں کے  لیے  کالا پانی کے  ان واقعات کو فراموش کر دینا فطری بات ہے۔ ‘‘

خالد نے  سوچا کالا پانی صرف آگے  کے  زمانوں  میں  بڑھتا ہوا اور زیادہ پھیل گیا ہے۔

’’تجارتی اور تمدنی دکھاوے  کے  اس دور میں  ہمارے  چاروں  طرف سماج میں  معصوم، خوبصورت جوان ایسی دلہنوں  کو جن کے  دلوں  میں  پھولوں  کی طرح محبتوں او ر شوہر کی رفاقتوں  کے  خواب بسے  ہوتے  ہیں او ر جو اپنی سسرال اور سسرال کے  چھوٹوں  بڑوں  کو اپنی خوش دلی اور خدمات کی خوشبو کے  جھونکوں  سے  معطر کر دینا چاہتی ہیں۔ وہ گھر جوان کے  لیے  فردوس بریں  کا نقشہ ہوتا ہے  وہاں  اچانک انہیں  محسوس ہونے  لگتا ہے  کہ وہ جو کچھ یہاں  دے  سکتی تھی اس کی کوئی قیمت نہیں  کوئی اہمیت نہیں او ر اس کے  سارے  خواب ایک ایسی سازش کو محسوس کر کے  پارہ پارہ ہو جاتے  ہیں  جو بالآخر پیسہ نوچنے  گھسوٹنے  کا ایک وحشت ناک ہتھیار بن کر ابھرتا ہے۔ لالچ محبت پر غالب، پیسہ انسانوں  پر غالب،یہ سب دیکھ کر ان کا خواب ٹوٹ جاتا ہے او ر منافع بخش ذریعہ نہ بننے  پر اذیتوں  کا دیوتا ڈاکٹر والکر منظر نامے  میں  گھس آتا ہے او ر وہی فیصلہ کرتا ہے  کہ اس دلہن کو زندہ رہنا چاہیے  یا مرنا چاہیے۔

اور یہاں  کوئی Trailنہیں  ہوتا۔

سماج کے  فلسفی اسے  معاشی ترقیات کی ایک پہچان سمجھتے  ہیں۔

خالد سہیل کو اب محسوس ہوا کہ اسے  صرف نظرانداز ہی نہیں کیا جاتا بلکہ کہیں  نہ کہیں  ڈاکٹر والکر کے  فیصلوں  کی طرح جمہوریت کے  غازی اسی طرح اس سے  آنکھ بچاتے  ہیں  جیسے  برطانوی پارلیامنٹ میں  ڈاکٹر والکر کے  فیصلوں  کو نظرانداز کیا گیا تھا۔

ہزاروں  کی تعداد میں  جلی ہوئی عورتوں  کی راکھ نے  پورے  معاشرے  کو دھوئیں  کے  داغ سے  بد رنگ کر دیا اور پورا معاشرہ عورتوں  کی چیخ سے  بھر گیا ہے۔

کالا پانی میں  تو اس شیر علی کا بھی ٹرائل ہوا تھا جس نے  وائسرائے  کو مارا تھا۔

لیکن یہاں کس طرح معصوم عورتوں او ر لڑکیوں  کا شکار کر کے  انہیں  جسم فروشی کے  پیشے  میں  ڈالا جاتا ہے او ر آخرکار ان کے  وجود سے  سرسوں  کے  تیل نکالنے  کے  عمل تیل کی طرح ہر اہم چیز چھیننے  کے  بعد انہیں  پھینک دیا جاتا ہے۔ پورا معاشرہ انہیں  استعمال بھی کرتا ہے او ر ان سے  نفرت بھی کرتا ہے۔ ان عورتوں  کو کہیں  بھی لے  جایا جاتا ہے۔ طاقتوروں او ر عام انسانوں  دونوں  کے  ذریعے  استعمال کیا جاتا ہے او ر بلیک میل ہونے  کا ذرا سا بھی خطرہ محسوس کرنے  پر انہیں  جڑ سے  ختم کر دیا جاتا ہے۔ جنس کے  لیے  استعمال کرنا اور موت کے  ذریعہ ختم کرنا، جہیز کے  لیے  جلائے  جانے  کا عمل یہ سب ایک ایسے  جنسی عمل کی طرف اشارہ کر رہی تھیں  جہاں  انسان بھیڑ بکریوں  سے  زیادہ کچھ نہیں۔

ان دہشت زدہ لڑکیوں او ر عورتوں سے  پوچھو جن کی ابھی تک شادی نہیں  ہوئی ہے۔ اپنی طرف سے  کچھ مان کر مت چلو۔ ان سے  پوچھو کہ ان لڑکیوں  کے  دلوں میں  کیا پلتا ہے  جنہیں  ایک دن دلہن بننا ہے۔ میں  ابھی تک احمقوں  کی دنیا میں تھا میں  جہیز کے  لیے  قتل کے  بارے  میں  جانتا تھا لیکن میں  نے  آج جانا ہے  کہ عورتوں  کا دل انہیں  دنوں  سے  جہنم میں  تبدیل ہونے  لگتا ہے  جب وہ اپنی شادیوں  کے  بارے  میں  سوچتی ہیں۔ اور ہونے  والے  والدین کیوں لڑکا یا لڑکی بتانے  والے  کلنک کی طرف بھاگتے  ہیں۔ عورت پیدا نہیں  ہو گی۔ ہاں  آج کے  حقائق کے  درمیان عورت کو پیدا نہیں  ہونے  دیا جائے  گا۔ وہ پیدائش کے  بعد کیا مریں گی وہ حمل سے  پہلے  ہی مر چکی ہیں۔

تو عورت اپنی آزادی سے  ڈرتی ہے۔ ان رسم و رواج سے  باہر آنے  سے  ڈرتی ہے  جو اس کے  پورے  اوقات کے  اوپر مذہبی اور سماجی ذمے  داریوں  کی ڈوریوں  سے  بنے  ہوئے  جال کی طرح بچھے  ہوئے  ہیں۔ سنہری‘ آج بھی سنہری‘

سنہری‘

سنہری‘

سنہری‘ سنہری‘ سنہری  ہو کر رہ گئی ہے۔

اور اس کی سمجھ میں  نہیں  آتا کہ کون اپنا ہے  ؟ دیسی یا بدیسی۔

اس کی سمجھ میں  نہیں  آتا کہ مغربی تہذیب اچھی ہے  یا مشرقی یا تہذیب کہیں  بھی نہیں  ہے او ر انسان آج بھی اندر سے  جنگلی ہے۔

’نہیں  خالد ایسا مت کہو۔ یہ تو تم وہ بات کہ رہے  ہو جو سبھی بغیر سوچے  سمجھے  کہتے  آئے  ہیں او ر یہ جھوٹے  عقائد کے  ساتھ جینے  والی بات ہے۔ کالا پانی کے  جنگلی کیا گوپی سے  یا انگریزوں  سے  بدتر تھے۔ وہ ڈاکٹر والکر سے  بہتر تھے  کہ انہوں  نے  کم از کم ایک فرار قیدی کو رحم کی بنیاد پر زندہ چھوڑ دیا تھا۔ جن لوگوں  نے  سنہری کو آج بھی سنہری بنا کر رکھا ہے   ان کے  اندر ڈاکٹر والکر جیسا ہی کچھ تھا۔ ڈاکٹر والکر اتنا بدیشی نہیں  تھا جتنا ہمیں  محسوس ہوتا ہے۔

اس میں  تعجب کی کوئی بات نہیں  اگر آج کے  ہندوستانی سماج کے  اوپری طبقے  کے  لئے  کالا پانی کے  واقعات کی کوئی اہمیت نہیں او ر آج کے  ان دانشوروں  کے  لیے  کالا پانی کے  ان واقعات کو فراموش کر دینا فطری بات ہے۔ کیونکہ عالموں  کے  سیمیناروں  میں  اس نے  درد کے  موضوع پر کبھی کوئی گفتگو نہیں  سنی۔ اور بہت سے  خشک دل ادیبوں  کا تیور بھی عالموں  جیسا ہوتا ہے۔

یہ منظر تو کالا پانی کے  خوفناک ملیریا سے  بھی زیادہ وحشت ناک ہے۔ یہاں  تو کمزور، بوڑھے او ر بچے  تک اس نئے  سورج کی انسان کش کرنوں  سے  بچنے  کے  لیے  Human Rights Commissionکی پناہ لینے  پر کچھ اس طرح مجبور ہیں  جیسے  جلتی ہوئی ریت پر چھوڑا گیا کوئی چوہا کسی پودے  کے  سائے  کی طرف بھاگے او ر پودوں  کی شکل میں  بھوکی بلیاں  کھڑی ہوں۔ بیٹے، بھائی باپ سب شکاری بن چکے  ہیں  تبھی تو اخباروں  میں  ڈاکٹر والکر کی شخصیت کا شراب پئے  ہوئے  بھائیوں او ر باپوں  کے  ذریعے  بے  حیا جنسی استحصال کی خبریں  چھپتی ہیں۔

اس خیال نے  خالد کو انتہائی نا امید اور اداس کر دیا۔

خالد کا درد بھرا دل اندر سے  لبریز ہو گیا۔

یہاں  تو جو ایک جگہ مظلوم ہے  وہی دوسری جگہ ظالم بھی ہے۔

اسے  شدید تنہائی کا احساس ہوا۔ اسے  محسوس ہوا کہ شید اس زمین پر اس کا کوئی بھی ہمنوا نہ ہو۔ شاید  اس کے  جیسے  لوگوں  کو قدرت ایسی ہی خوفناک تنہائیوں  کے  ساتھ پیدا کرتی ہے۔ شاید وہ ایسے  لوگوں  کی صحتیابی کا خواہاں  ہے  جنہیں  بیماری میں  لذت ملنے  لگی ہے۔ اس کے  دل کی گہرائیوں  میں  کہیں   ایک انجانا سا ڈر پیدا ہو گیا۔ اسے  اپنی ہمت کچھ کچھ کھوکھلی سی محسوس ہونے  لگی لیکن وہ اس احساس کو ماننے  پر اپنے  کو آمادہ نہیں  کر سکا اور خالد کے  وجود پر کالا پانی اپنے  آگے  کے  زمانوں  میں  امنڈتے  بادلوں  کی طرح اور بڑھتا ہی چلا گیا ہے او ر بڑھتے  بڑھتے  پورے  آسمان پر چھا گیا ہے۔

 

انسان  شاید ذرا سا بھی بدلا نہیں  ہے۔ تبھی تو تمام دعو وں او ر وعدوں  کے  باوجود جب بھی موقع ملتا ہے  انسانوں ایسا ہی ہو جاتا ہی جیسا پہلے  کبھی کبھی دکھ چکا ہوتا ہے۔ انسان  ہمیشہ من مانی قوانین بناتا آیا ہے او ر عورتوں  کو مقید رکھنے  کے  لیے  اس نے  رسم و رواج گڑھے  ہیں او ر خود ان کے  لئے  دوسروں  نے  ویسے  ہی قانون بنائے۔

oo

 

 

 

تبھی اسے  ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد آ گئی۔ سیاست داں، تاجر اور دانشور سبھی اس کے  جادو کی زد میں  ہیں۔ اور اسی کا کلمہ رٹ رہے  ہیں۔ ایک لرزہ خیز بڑھتا ہوا معاشی سیلاب ہے او ر سبھی اوپر آنے  کی کوشش میں  لگے  ہوئے  ہیں۔ اس نے  اپنے  جادوئی جال میں  سب کو ایسے  لپیٹا ہے  کہ کوئی اس سے  بچ نہیں  سکتا۔ جب مغل شہنشاہ اس کے  جادو سے  نہیں  بچ سکے  تو یہ کیا ہیں۔ ایک بار پھر وہی مہا جال ہے،  وہی شکاری،  وہی شکار اور وہی شکار گاہ اور وہی لوٹ مار۔ انسانی اور قدرتی وسائل میں  چھپی ہوئی وہی بے  پناہ دولت جس کے  استحصال کی سرد جنگ میں  قید کی زنجیریں  نہیں  ہیں،  معاشی حربوں  کا دباؤ ہے۔ ایک ایسی جنگ جس میں  آدمی مرتا نہیں،  پیدا ہوتا ہے۔ یہ منظر کالا پانی کی طرح سیاہ نہیں  بلکہ برف کی طرح سفید ہے۔ اس میں  آدمی کٹتا نہیں،  منجمد ہو جاتا ہے  یا گھل جاتا ہے۔ چیخنے  پر سمندر میں  نہیں  پھینکا جاتا صرف اپنی جگہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوٹھریوں  میں  نہیں  بند کیا جاتا بلکہ چھوٹے  چھوٹے  دائروں  میں  چکر لگا لگا کر خود ہی ہمت ہار جانے  کے  لئے  کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ معاشی مقابلے  کا وہ کھیل ہے  جو اس زمین پر جنم لینے  والے  مضبوط اور کمزور سب کے  اوپر نافذ کر دیا گیا ہے۔

کمپٹیشن کے  نام پر کمزور لوگوں  کی جائز توقعات میں  محرومی یعنی جمہوریت کی جگہ ڈاکٹرن آف کمپٹیشن۔

اس وقت بھی تو یہی تھا اور اِس وقت بھی یہی ہے۔

اس وقت میدان جنگ میں  مقابلہ ہوتا تھا اور کمزور قوموں  پر برتری حاصل کر انہیں  لوٹا جاتا تھا اور جانوروں  کی طرح انہیں  ذبح کیا جاتا تھا۔

آج بھی پوری زمین پر مقابلہ ہے۔

ہمیں  ماننا ہی پڑے  گا کہ مقابلہ آج کے  تناظر میں  ایک گندا اور ناقابل قبول لفظ ہے  کہ جہاں  ایک یا دو جگہوں  کے  لیے  سیکڑوں  امید وار ہوں  وہاں  مقابلہ کیسا؟ اپنی صلاحیت اور محنت کے  استعمال کے  لئے  کام کرنے  کا موقع فراہم کرنا جمہوری سماج کا تو نصب العین ہونا چاہئے۔

سماج کے  سارے  اختیارات صرف چند لوگوں  میں  سمیٹ دینا، ان کے  ہاتھوں  میں  باقی تمام لوگوں  کی تقدیریں  دے  دینا۔

ان بیکار نوجوانوں  کو دیکھئے  جو ٹرین میں  ریزرو سیٹوں کے  کونوں  پر یا بیچ والی سیٹ کے  نیچے  فرش پر اکڑوں  بیٹھے  سفر کرتے  ہیں۔ یہ سماج کے  لیے  مسئلہ گردانے  جاتے  ہیں۔ کوئی بھی انہیں  برا بھلا کہہ سکتا ہے او ر ان پر حملہ کر سکتا ہے۔ وہ اپنا بچاؤ نہیں  کر سکتے۔ کبھی کبھی وہ کنڈیکٹر کو دیکھ کر اٹھ بھاگتے  ہیں او ر باہر ٹائلٹ کے  پاس دروازے  پر کھڑے  ہو جاتے  ہیں او ر یوں  بھی ہوتا ہے  کہ جب باہر کی عظیم تنہائی انہیں  اپنی زندگی کی حقیقت کا آئینہ دکھانے  لگتی ہے  تو اپنے  کو غیر ضروری سمجھ کر ٹرین سے  کود جاتے  ہیں۔ کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے  کہ دروازے  پر کھڑے  شخص کو دھکا مار کر گرا دیتا ہے او ر خود اس کے  برتھ پر جا کر سو جاتا ہے  جیسا ایک بار دو ڈھائی سال قبل اس ڈبے  میں  ہوا تھا جس میں  میں  سفر کر رہا تھا اور جب کنڈیکٹر نے  اس سے  ٹکٹ مانگا تو اس نے  جواب دیا تھا کہ ٹکٹ اس کے  ہاتھوں  سے  اڑ کر نیچے  گر گیا تھا۔ ایک دن جب میں  ٹرین سے  دلّی جا رہا تھا تو ایک طالب علم بہت جھنجھلایا ہوا سا مجھ سے  بولا۔ ’’میرے  مسئلے  کو کون سنے  گا؟‘‘ ایک دوسرا مسافر بول اٹھا تمہیں  اپنے  مسئلے  کا حل خود ڈھونڈنا ہو گا۔

کیوں ؟

اس لیے  کہ یہ تمہارا مسئلہ ہے۔

تب اس لڑکے  نے  جواب دیا تھا۔ اس کی باتیں  آج بھی اس دور کے  نغموں  کی طرح میرے  کانوں  میں  گونج رہی ہیں۔

’سماج کی سب سے  پہلی ذمہ داری یہ ہے  کہ وہ اپنے  بچوں  کا خیال رکھے  ان کی خوراک، تعلیم، علاج اور سفر کی ذمہ داری لیکن جن لوگوں  پر یہ ذمہ داری ہے  وہ کسی اور کام میں  مشغول ہیں۔ مجھے  یاد آ رہا ہے۔ لارڈ میو نے  کم از کم ان لوگوں  کی صحت پر دھیان دیا تھا۔ جن سے  وہ کام لیتا تھا لیکن یہ بچے  ان کو سہارا دینے  کے  بجائے  ان کی ذمہ داری اٹھانے  کے  بجائے  انہیں  سکھایا جاتا ہے  کہ فساد کرو، دوسروں  کو قتل کرو اور بے  رحم بنو۔ اور وہ یہ کرنے  پر آمادہ ہو جاتے  ہیں۔ اس کے  لیے  انہیں  کسی تربیت کی ضرورت نہیں  ہوتی۔ ان سے  وعدہ کیا جاتا ہے  کہ اگر ان کا امیدوار کامیاب ہو گیا تو ان کے  ووٹوں  کے  لیے  ان کو انعام ملے  گا اور وہ ایسا کرتے  ہیں۔ ان نوجوانوں  کو خود ان کے  ضمیر کے  گوشت پر زندہ رکھا جاتا ہے۔ یہ لوگ وہ سب کچھ کرتے  ہیں  جو ان سے  کرنے  کے  لیے  کہا جاتا ہے۔ کوئی انہیں  جان سے  بھی مار سکتا ہے، ان کا استحصال کر سکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے  کہ یہاں  سب کا یہی حال ہے۔ کسی کو ان کی فکر نہیں۔ یہ سب کچھ جدید معاشیات اور سیاست کا لازمی جز ہے۔ یہاں  کوئی کسی کی فکر کرنے  والا نہیں۔ لوگ گویا دشمنوں  یا شکاریوں  کے  بیچ میں  رہتے  ہیں۔ میرے  کنبے  کے  لوگوں  کا یہ خیال درست ہے  کہ سرکار کو سرپرست یا خیر اندیش نہیں  سمجھنا چاہیے۔ تو پھر ایک ایسی سرکار قائم کرنے  کی ضرورت ہے  جو ہماری اپنی ہو۔ کیا میری سوچ رک گئی ہے ؟ جمہوریت کے  اندر ایک جمہوری نظام جب قائم ہے  تو پھر اس میں  ایک اپنی حکومت قائم کرنے  کی بات کیوں  اٹھ رہی ہے۔ میں  تو ایک جمہوری ملک کا باشندہ ہوں۔ لیکن برطانیہ بھی ایک جمہوری ملک تھا۔ تو وہ کس طرح جمہوری اور غیر جمہوری علاقوں  میں  تقسیم تھا۔ ایک وہ علاقہ جہاں  خاتون کی حکومت تھی اور دوسرا وہ علاقہ جہاں  خاتون کی حکومت کو صلاحیت کی کمی،مجبوری، دوری اور لاعلمی کے  بنا پر ڈاکٹر والکر کے  حوالے  کر دیا گیا تھا۔ انصاف پرست حکومتوں  کے  زمانے  گزر گئے  تھے  پرانی ندیاں  سوکھ گئی تھیں او ر ان کی جگہ کانٹوں  بھرے  ریگستان آ گئے  تھے۔ زندگی کو مقابلے  کا میدان سمجھنے  والے او ر Killing instinctکو قدر اعلیٰ تسلیم کرنے  والا فلسفہ نہ تو بودھ مت میں  تھا نہ گیتا میں  نہ بائبل میں  نہ قرآن میں۔ یہ فلسفہ تو ان کے  بعد کے  زمانوں  میں  کہیں  سے  ابھر کر آیا ہے او ر اتنا مقبول ہو گیا ہے  کہ ہم اسے  اپنے  بچوں  کو کامیابی کے  نسخے  کے  طور پر پڑھاتے  ہیں۔ یہ چاہے  جہاں  سے  بھی نکل کر آیا ہو لیکن آج یہ زندگی کے  پورے  سمندر میں  زہر کی طرح پھیل چکا ہے  ہم اپنے  بچوں  کو صرف اس کی تعلیم ہی نہیں  دیتے  بلکہ ان کو ان کی آزادی اور بچپن کی مسرت اور خوشیوں  کی قیمت پر انہیں  ایک کبھی نہ ختم ہونے  والے  مقابلے  کی جنگ میں  جھونک دیتے  ہیں۔ کالا پانی میں  نابالغ بچوں  کو نہیں  بھیجا جاتا تھا لیکن آج کا بچہ اپنے  نازک بدن پر کتابوں  کا کمرتوڑ بستہ اس لیے  ڈھوتا ہے  کہ اسے  مستقبل میں  کمانا ہے۔ اس مقابلے  نے  بڑوں  کی زندگی کو بھی کثیرالجہادی میدان جنگ بنا دیا ہے۔ لوگ ہر جگہ لمبی لمبی سانسوں  میں  الجھے  ہوئے او ر مکمل طور پر بھیگے  ہوئے  دکھائی دیتے  ہیں۔ وہ تعلیم نہ جانے  کہاں  چلی گئی جس میں  کہا گیا تھا کہ مذہب اور طبقے  کے  امتیاز کے  بغیر تمہارے  پڑوس میں  کسی بھی شخص کو بھوکا نہیں  سونا چاہیے او ر اگر تم ایسے  لوگوں  کے  بیچ پیٹ بھرکر خراٹے  لیتے  ہو تو تم دوزخی ہو اس ذمہ داری کو نبھانے  کے  عمل میں  کسی بھی طرح کے  بھید بھاؤ اور تعصب کی اجازت نہیں۔ جب میں  اس پر غور کرتا ہوں  تو محسوس ہوتا ہے  کہ اس کا معنی صرف پیٹ بھرنے  تک محدود نہیں  بلکہ وسیع تر معنوں  میں  لوگوں  کو روزی حاصل کرنے  میں  مدد کرنا اور معاشی اور سماجی زندگی میں  ایک ساتھ مل کر جدوجہد کرنا اور اس کے  لیے  پیسے او ر اپنے  ذہن کی طاقت کو مشترکہ طور پر استعمال کرنا اس کے  وسیع معنوں  میں  شامل ہے۔ یقیناً بے  رحم اور خود غرض مقابلہ کسی تعلیم کے  بنیادی جذبے  کو فنا کرتا ہے۔ سوچتے  سوچتے  خالد کو اپنے  آپ یہ تعجب ہوا کہ وہ کس دنیا میں  نکل آیا ہے  کہ میر علی کے  زمانے  کے  بارے  میں  سوچتے  ہوئے او ر عدالت سے  جو نوٹس آیا تھا اس کی فکر کرتے  ہوئے۔

oo

 

 

 

 

دسمبر یا جنوری کے  مہینے  کی تیز سرد برفیلی ہواؤں  میں  کانپتے  ہوئے  اداس پودوں  کی مانند خالد اپنے  ذہن پر بھاری بوجھ لیے  ہوئے  ان بادلوں  کی طرح جو کڑکنے او ر چمکنے  کے  لیے  تیار ہوتے  ہیں  وہ اپنے  کمرے  کی طرف مڑا۔ وہ اپنے  ذہن کو اس بوجھ سے  نجات دلانا چاہتا تھا جو اس کے  دل و دماغ پر کسی اندھیری رات کے  بادلوں  کی طرح چھا گئے  تھے۔ کمرے  تک جانے  والے  بائیں  باغ کے  راستے  کے  اردگرد کھڑے  گل مہر کے  پیڑوں  پر نظر ڈالے  بغیر وہ اپنے  اسٹڈی روم تک پہنچا۔ پرانی لکڑیوں  سے  بنا ہوا دروازے  کا وہ کواڑ کھولا جس پر جیومیٹری کے  ڈیزائن اور پھول پتے  بنے  ہوئے  تھے او ر سیدھے  اپنے  اسٹڈی ٹیبل تک پہنچا۔

پھر وہ کتابوں  میں  کچھ ڈھونڈنے  لگا۔

اسے  نہیں  معلوم تھا وہ کیا ڈھونڈ رہا ہے۔

لیکن اس کے  ذہن میں  کوئی چیز موجود تھی جو اسے  کتابوں  میں  جھانکنے  پر مجبور کر رہی تھی۔

پھر اس نے  محسوس کیا کہ وہ شاید ملٹی نیشنل کمپنیوں  کے  بارے  میں  کچھ پڑھنا چاہتا ہے۔ کیا پڑھنا چاہتا ہے  یہ بھی واضح نہیں  تھا۔ لیکن اس نے  ان کتابوں  کے  لیے  ایک کشش محسوس کی جیسے  وہ جو کچھ ڈھونڈ رہا تھا اس کا سرا ان کتابوں  میں  کہیں  نہ کہیں  موجود تھا-

پھر اسے  خیال آیا کہ اس نے  آج کی ملٹی نیشنل کمپنیوں  کے  بارے  میں  مطالعہ کیا تو تھا لیکن یہ مطالعہ اطمینان بخش نہیں  تھا۔

آج کا بھرپور مطالعہ کل مستقبل میں  اس وقت کم پڑنے  لگتا ہے  جب انسان اپنے  ماحول سے  نئے  حقائق، خیالات اور سوالات اخذ کر لیتا ہے  اچانک محسوس ہوتا ہے  کہ اسے  سب کچھ ٹھیک سے  نہیں  معلوم۔ اس نئے  ابھرتے  ہوئے  تاریک پہلو کے  اندر داخل ہونے  کے  لیے  اس نے  یوں  ہی ایک ایسا میگزین نکالا جس میں  ایک بہت ماہر صحافی کا لکھا ہوا مفصل مضمون شائع ہوا تھا۔ اس مضمون کو پڑھتے  ہوئے  اس کے  ذہن میں  اچانک خیال آیا کہ اپنی منشا اور اپنی نیت کو پوشیدہ رکھنے  کے  لیے  معاشیات، سیاست کو ایک پردے  کے  طور پر استعمال کرتی ہے۔

اسے  ایسے  اشارے  ملے  کہ اس کو لگا کہ ان کمپنیوں کے  وجود میں  آنے  کی تاریخ پڑھنی چاہیے۔ وہ ان کے  ماضی میں  پہنچا تو ان کے  کردار کو سمجھنے  میں  اسے  کالا پانی کے  وجود سے  مدد ملنے  لگی۔ دھیرے  دھیرے  اسے  محسوس ہوا کہ کالا پانی کے  حوالے  سے  ان کو دیکھنے  سے  یہ زیادہ واضح طور پر دکھائی دے  رہے  ہیں  کیونکہ کالا پانی ایک ایسا واقعہ تھا جو ماضی میں  وجود میں  آ چکا تھا اور  وہ کالا پانی کے  وجود میں  اتنی گہرائی تک پیوست ہو چکا تھا کے  یہ اس کے  لیے  ماضی کا ایک دور دراز نقطے  پر موجود واقعہ نہیں  رہ گیا تھا بلکہ وہ جذباتی اور ذہنی مشاہدے او ر تجربے، وابستگی اور سروکار ہر اعتبار سے  اپنے  حال سے  کہیں  زیادہ مضبوطی کے  ساتھ وابستہ تھا۔

جب وہ کالا پانی کی دنیا میں  جاتا تھا تو یہی نہیں  کہ اسے  خیال تک نہیں  رہتا تھا کہ وہ ۲۱ ویں  صدی میں  ہے  بلکہ اگر اسے  خیال بھی آتا اور دیکھتا بھی کہ اس کے  چاروں  طرف ۲۱ ویں  صدی ہے  پھر بھی وہاں  سے  اتر کر نیچے  آنے  کا اس کا جی نہیں  چاہتا تھا۔

اس کے  تجربات نے  اسے  ایک ایسا بلند مقام عطا کر دیا تھا جہاں  سے  وہ پوری دنیا کو اس کے  وسیع زمانی اور مکانی تناظر میں  دیکھ سکتا تھا۔ اپنے  عہد سے  صدیوں  پیچھے  آ کر مستقبل کے  وجود میں  آنے  کے  منظر کو دیکھنا ایک نئی چیز تھی۔ زندگی کو دیکھنے  کو ایک نیا طریقہ جس میں  یہ تقابلی مطالعہ کیا جا سکتا تھا جیسے  کمپیوٹر کے  اسکرین کو ونڈو اسپلٹ کر کے  دو مختلف دور دراز کے  صفحات کو ایک ساتھ دیکھا جا سکتا تھا۔ اور یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ اس وقت لو گ مستقبل کو کس دیکھ رہے  تھے او ر دراصل مستقبل میں  کیا ابھر کر آیا۔

اس نے  محسوس کیا کہ دنیا کا زیادہ صاف صاف اور حقیقی رنگ میں  دیکھنے  کا یہ ایک انتہائی طاقتور آلہ تھا۔ کالا پانی ایسے  اونچے  پہاڑ کی طرح تھا جس کی چوٹی سے  وہ اپنے  زمانے  کے  بحران اور جذباتی لہروں  سے  اوپر اٹھ کر بھرپور طریقے  سے  دنیا کو دیکھ سکتا تھا۔ یہاں  سے  وہ دنیا کو ماضی،  حال،  مستقبل تینوں  تناظر میں  ایک ساتھ دیکھ سکتا تھا۔ اس نے  تاریخ کے  ذریعے  بھی اس منظر کو سمجھنے  کی کوشش کی تھی لیکن تاریخ اسے  اپنے  زمانے  کی پکڑ سے  باہر نہیں  نکال پائی تھی اور ماضی کے  واقعات کو زمانہ حال کے  آئینے  میں  نہیں  دکھا پائی تھی اور سچائی کا تقاضا ہوتے  ہی وہ "تاریخ اپنے  کو دہراتی ہے "اور”تاریخ اپنے  کو کبھی نہیں  دہراتی "کی گلیوں  سے  رفو چکر ہو جاتی تھی۔

لیکن اس چوٹی پر کھڑے  ہو کر دیکھنے  سے  جو منظر دکھائی دے  رہا تھا اس میں  ایک تخلیقی سچائی تھی جو چمکدار تھی اور دائمی تھی اور دیکھنے  کا ایک قابل اعتبار دروازہ کھول رہی تھی۔ یہ روشنی کچھ ایسی ہی تھی جیسی روشنی تاریخ کے  عظیم ترین مفکروں  کے  ذہنوں  میں  اتری تھی۔ پیغمبروں او ر سائنسدانوں  کے  ذہنوں  میں  اتری تھی۔ اس کے  ذہن کا وہ تناؤ جو ان دنوں سے  بڑھتا ہی جا رہا تھا جب اس نے  اپنے  پردادا کے  بارے  میں  جاننے  کے  لیے  کالا پانی کے  بارے  میں  مطالعہ شروع کیا تھا اور کالا پانی جا رہا تھا۔ یہ تناؤ کچھ ویسا ہی تھا جیسا تناؤ ان عظیم انسانوں  کے  ذہنوں  میں  آہستہ آہستہ اس وقت پیدا ہوا تھا جب قدرت نے  ذہنی پختگی ایک خاص سطح تک اٹھانے  کے  بعد انھیں  اس قابل پایا تھا کہ ان کے  سامنے  مسلسل بصیرت کئی آسمانوں  کی کھڑکیاں کھولتے  ہوئے، زندگی کے  نئی جہات سے  آشنا کراتے  ہوئے  ان کی بصیرت کو ایک آتش فشاں  عطا کر دے۔ ایسی تازہ بصیرت جو انھیں  انسانیت کی نجات کے  نئے  راستے  دکھائے او ر انھیں  اس بصیرت کو کے  سمندر میں  بنا کر بھیجتے او ر انسانیت نئے  آب حیات کی طرح خیر مقدم کے  ساتھ استقبال کرے  یعنی کالا پانی اس کے  لیے  ایک اعلیٰ و ارفع پہاڑ کی چوٹی بھی تھا اور ایک ایسا پلتا بھی جو اس کے  اندر روشنی چمکانے  ولا تھا۔

یہی تو ہوا تھا جب راون رام کی سیتا کو اغوا کر کے  لے  گیا۔

نیوٹین کے  ساتھ ایسا ہی ہوا جب اس کے  سر پر ایک سیب پیڑ سے  ٹوٹ کر گرا۔

یہی آرکیمیڈس کے  ساتھ ہوا تھا جب وہ تالاب میں  غوطہ لگا رہا تھا۔

جو ہوتا ہے  کوئی اپنے  ساتھ دانستہ طور پر ایسا نہیں  کرتا بلکہ یہ خود بہ خود ہوتا ہے۔

اور یہی اس کے  ساتھ ہوا تھا۔

یعنی ایک عرفان کا نقطہ تھا۔

اسے  اس حقیقت کو قبول کرنے  میں  کوئی جھجک نہیں  ہوئی اس نے  اپنے  ذہن کو اس وسیع دروازے  کے  لیے  کھول دیا اور جو کچھ اس کے  اوپر نازل ہو رہا تھا اسے  وہ دامن پھیلا کر قبول کرتا جا رہا تھا۔

ذہنوں   کا منجمد ہو جانا ایک بیماری ہے۔ افراد او ر ان سے  بنی حکومتیں جب اپنے  مفاد کے  تحفظ کے  لئی حصار بناتی ہیں او ر اس کے  لئے  دیواروں  کی تعمیر کرتی ہیں  تو اس میں  اکثر وہ  یا تو دوسروں کے  راستوں  پر دخل اندازی کرتے  ہیں  یا ان راستوں  کو اپنے  حصار میں  لے  کر انہیں  بند کر دیتے  ہیں۔ وہ دوسرے  افراد  کو اپنے  مفاد کا  حصہ اور کبھی کبھی بندھوا مزدور یا غلام تک بنالیتے  ہیں او ر انہیں  غلام بنانے  کے  لئے  وہ طاقت کا استعمال کرتے  ہیں۔ شیر علی اور لارڈ میو یا اس کے  ملازم ڈاکٹر  والکر کے  درمیان یہی جھگڑا تھا۔ وہاں  لارڈ میو نے  ایک ایسا رشتہ بنا دیا تھا جس میں  شیر علی کی پوری ذات اور زندگی لارڈ میو کے  لئے  استعمال ہو رہی تھی۔ اور شیر علی کی وہ انسانی خود مختاری جو اس کی ذاتی ارتقا اور تمناؤں  کی تکمیل کی امین تھی پوری طرح ختم  ہو گئی تھی۔ کسی انسان کو حالات کے  شکنجے  میں  باندھ کر اس کو اپنی مرضی کے  خلاف استعمال کرنے   کا عمل بھی جیسے  سنہری کے  ساتھ ہوا تھا، اسی زمرے  میں  آتا ہے۔ دنیا کے  اوپر جنگ یا تجارت کے  ذریعہ قبضہ کرنا اور پھر اپنی فتوحات کو نجی کر لینا اور  دوسروں  کے  لئے  اس کے  راستے  بند کر دینا یا اس کو اتنا مشکل بنا دینا کہ دوسرے  وہاں  تک نہیں  پہنچ پائیں  اسی عمل کی ایک شکل ہے۔ پھر اس کے  اوپر پہرے  لگا دینا، فوجیں  کھڑی کر دینا اسی کاروائی کی توسیع ہیں۔ لیکن یہ سب ایک ایسے  ذہن کی بھی عکاسی کرتے  ہیں  جو توسیع اور کھلے  پن کے  امکانات کو بند کر کے  اپنی خود غرضانہ  بصیرت کے  اندر انجماد کا شکار ہو جاتا ہے او ر یہیں  سے  اس گھٹن اور قید و بند اور تشدد  دہشت گردی اور خونریزی وغیرہ کے  دروازے  کھلتے  ہیں  جن سے  انسانوں  کی زندگی میں  خلفشار پیدا ہوتا ہے۔

یہ غیر جمہوری طرزِ حیات  اس قدر ہمارے  دل و دماغ پر چھا گیا ہے  کہ ہم اسے  پسند کرنے  لگے  ہیں   حتی کہ صدیوں  کے  تجربے  کے  ساتھ یہ ہمارے  ادب کی شکل بھی اپنے  مطابق ڈھال چکا ہے۔ تبھی تو ٹکراؤ کے  ڈائیلاگس میں  ہمیں  اپنی زندگی کا سچا رزمیہ دکھائی دیتا ہے۔

اس کے  ذہن کو اب بھی چین نہیں  تھا۔ کچھ تھا جو اسے  تکلیف دے  رہا تھا۔ اور وہ کچھ ایسا تھا جو بہت وسیع اور بڑا تھا۔ اور اس کی جڑیں  بہت گہرائی میں  پیوست تھیں۔ اور کسی انجانی سمت میں  پوشیدہ تھیں۔ اس نے  حال ہی میں  ایک ناول پڑھا  تھا جو اندرونی مکالمے  سے  بھرا ہوا تھا۔ اس میں  کردار انسانی ٹکراؤ سے  بہت الگ تھلگ جا کر سچائیوں  کو قدرت کی ساخت کے  اندر تلاش کر رہا تھا۔ اس سے  اسے   ادب کی لئے  نئے  آسمانوں  کا پتہ ملا تھا۔ اور یہ تھا وہ مفکر جو انسانی نسل کو آپسی تناؤ سے  نکلنے  کا راستہ دکھا سکتا تھا۔ انسانی ذہن کو آپسی ٹکراؤ سے  نکالنے  کی ضرورت ہے۔

’کہانیاں  جو انسانی ذہن اور سوچ کو سب سے  زیادہ متاثر کرتی ہیں، کہانی جو ہر جگہ ہے، ماں  کو گود سے  لیکر ٹی۔ وی۔ چینلوں  تک،اور روزانہ ہی کرداروں  کے  آپسی ٹکراؤ کی تصویروں  سے  بھرتی رہتی ہے، وہ ناول جو دوسرے  کرداروں  کے  خلاف ہیرو یا  ولن کی کہانیوں  سے  انسانی معاشرے  میں  آگ میں  ایندھن ڈالتے  رہتے  ہیں،ایسے  کردار دیتے  ہیں  جن کو یقین ہوتا ہے  کہ صرف آپسی ٹکراؤ سے  راستے  نکلتے  ہیں،ایسی کہانیاں انسانی سماج کو کسی انجام تک نہیں  پہنچاتیں۔

آخر یہی تو وہ باتیں  تھیں  جن سے  وہ دکھی تھا۔ اس کا ذہن موجودہ فکشن کے  ذخیروں  پر مرکوز ہو گیا۔ اور وہ ادب میں  موجود کرداروں  کی نظرِ ثانی کرنے  لگا۔

عام طور سے  ڈائلاگ کرداروں  کے  مابین ٹکراؤ کی بنیاد پر ہوتی ہے  اس نے  سوچا۔

’ اور اس کی جڑ کرداروں  کے  بیچ مفاد کے  ٹکراؤ یا تفرقہ ہوتا ہے۔ ‘

کیوں  ہمارے  فکشن سنگار یہ نہیں  سوچتے  کہ اس ٹکراؤ کو پیدا کرنے  کا اصل ذمے  دار قدرت ہے، اور اصل مسئلہ انسان اور قدرت کے  بیچ کا ہے۔ اگر بھوکے  لوگوں  کے  بیچ روٹی کا ٹکڑا پھینکا جائے  کا تو وہ آپس میں  ضرور لڑیں  گے۔ تو کیا ہمارے  فکشن نگار انھیں  لڑتے  ہوئے  لوگوں  کے  ڈائلاگ نہیں  لکھتے  ہیں۔ اصل ٹکراؤ تو فرد اور نیچر کے  بیچ ہوتا ہے۔ صرف افراد تو مکمل طور پر ان کے  رویے  یا جرائم کے  لیے  ذمے  دار قرار دینے  کی روایت میں  کہیں  نہ کہیں  گڑبڑ ہے۔ افرد کے  اعمال کے  پیچھیان کی وہ فطرت ہی تو ہوتی ہے  جسے  قدرت نے  ہی بنایا ہے  جس سے  وہ کنٹرول ہوتا ہے او ر بسا اوقات اگر وہ چاہے  بھی کہ ان کمزوریوں  سے  اوپر آئے  تو اس کو اس کا کوئی طریقہ سمجھ میں  نہیں  آتا دونوں  صورت حال میں  وہ اپنی کم مائگی اور کوتاہی کا شکار وہ ہوتا ہے، اس صورت میں  ایک رائٹر کا فرض ہے  کہ وہ تمام انسانوں  کے  لیے  انسان بنام قدرت کے  رشتے  میں  انسان کے  مقام کو مضبوط کرے۔ جواب انسانوں  کی بیچ کی ٹکراؤ میں  قدرت کو تیسرا فریق ہونے  کے  ڈائمنس سے  خالی ہو ایسے  ادب تو انسانی ارتقاء کے  ابتدائی دور کا ادب ہے۔ بڑے  ادیبوں  کی یہ فنی ذمے  داری ہونی چاہیے  کہ وہ ظالم انسانوں  کے  تئیں  محتاط رویہ اختیار کر کے او ر ان کو مکمل طور پر ویلن بنانے  کے  بجائے  ان کی کمینگی میں  شامل قدرت کی طرف سے  ان کے  اوپر مسلط کیے  ہوئے  مقدر کو بھی سامنے  رکھیں او ر ان سے  خیر اور قربانی کی توقع رکھنے  کے  ساتھ جس طرح سائنس دانوں  نے  قدرت کے  اصرار اور ساخت کو واضح کر کے  دولت کو صرف بانٹنے  کے  جھگڑے  سے  ذرا اوپر کے  سے  انتہا دولت اور وائل پیدا کرنے  کے  راستے  واضح کیے  اسی طرح سماج اور افراد میں  ایسی تبدیلی کے  امکانات بھی روشن کرے۔ جس کا سہارا لے  کر انسان اجتماعی طور پر آپسی جھگڑوں  سے  نجات حاصل کر سکے۔

یہی وجہ ہے  کہ جس طرح کسی سائنسداں  کے  کردار سے  ہم ڈائلاگ کی توقع نہیں  رکھتے  کیونکہ نسل انسان کے  سامنے  چیلنج کے  اٹھ کھڑے  ہونے  کے  بعد اس کی ذہنی کشمکش پوری طرح اپنی پوری شدت کے  ساتھ ٹکراتے  ہوئے  اندرونی مونولاگ میں  ڈھیل جاتی ہے او ر اس کے  ذہن کی اصل لڑائی اپنے  ہی ذہن کے  حدود اور سرحدوں  ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی سماجی ٹکراؤ میں  کرداروں کے  اپنی ذہنی سرحدوں  کے   ادراک و عرفان ہونے  کے  ساتھ ہی یہ کردار مونولاگ کے  عمل میں  داخل ہو جاتے  ہیں۔ ایسے  ناولوں  میں  سماجی ٹکراؤ صرف ایسے  مسئلے  کے  طور پر آتا ہے  جو سوچنے  والے  کرداروں  کے  لیے  چیلینج کھڑا کرتے  ہیں۔ ناول کا فن انسانی ذہن کی وسعتوں کو وسیع تر کرنے  کا فن ہے او ر ناول کے  فن کا یہ بنیادی خاصہ ہے  کہ وہ انسان کی دوراندیشی میں اضافہ کرے۔

ہم زندگی کی توسیع کے  امکانات کو کھنگال کر سب کے  لئے  جگہ بنانے  کے   بجائے  بند دائرے  میں  لڑنا زیادہ پسند کرے  ہیں۔ سائنسدانوں  کی طرح قدرت کے  خزانوں  کو دریافت کر کے  سب کو اس سے  مالا مال کرنے  کے  بجائے  ہم ان خزانوں  کے  راستے  بند کرنے  میں  کوئی تردد نہیں  محسوس کرتے۔ اس  کوتاہ نظر ی میں  ہم معاشرے  کے  ان افراد کو بھی لپیٹ لیتے  ہیں  جو کھلی سوچ رکھتے  ہیں او ر آزادانہ طور پر کائنات کے   ذخیروں  سے  اپنے او ر اپنے  معاشرے  کو مالا مال کرنا چاہتے  ہیں۔ اپنی خود غرضانہ پالیسیوں  کے  تحت ہم نے  اپنے  معاشرے  میں  کروڑوں  ایسے  ذہنوں  کو سڑا کر رکھ دیا جو اپنی ذہنی مہمات سے  کائنات کے  ا تھاہ خزانوں  کا دروازہ کھول سکتے  تھے۔ ہم ان کے  لئے  راستے  صاف کرنے او ر ان کی آزادی میں  مخل نہیں  ہونے  کے  بجائے  ان کو اپنے  مطابق چلانے  میں  زیادہ دلچسپی رکھتے  ہیں۔ ہم نے  حکومت کے  حاکمانہ حقوق کی کی سرحدوں  کو افراد کی ذہنی کاوشوں  تک پہنچا دیا ہے۔ یہ جمہوری  معاشرے  کا گلا گھونٹنے  کے  برابر ہے۔ لیکن ہم اس گلا گھونٹنے  کو ایک دفاعی عمل  سمجھتے  ہیں  بلکہ ہمارے  حاکموں  کو تو یہاں  تک خیال آتا ہے  کہ جب وہ اس معاشرے  کے  خود مختار فرماں  روا ہیں  تو ان کی مرضی کے  بغیر اور ان کے  اختیار اور اقتدار کو سجدوں  سے  تسلیم کئے  بغیر معاشرے  کا کوئی فرد اپنی زندگی کی توسیع کیسے  کر سکتا ہے۔ افراد کی اپنی زندگی کی توسیع کرنے  کی آزادی انہیں  اپنے  اقتدار کے  منافی لگتی ہے او ر ان کی پولیٹکل تھیوری ان سے  یہ کہتی ہے  کہ اس طرح کی آزادی بالکل ایسے  ہے  جیسے  کوئی کسی کی حکومت میں  رہتا ہو اور لگان نہیں  دیتا ہو۔ فرد کی خود مختاری کے  اظہار کو وہ سرکشی قرار دیتے  ہیں۔ وہ یہ بھولے  بیٹھے  ہیں  کہ ہم جمہوری معاشرے  میں  جی رہے  ہیں  او ر  کائنات کی لامتناہی وسعتوں  میں اپنی اپنی ذات  کی  توسیع کرنے   کا ہر شخص کو اختیار ہے او ر وہ اس سلسلے  میں فطرت کی طرف سے  خود مختار پیدا کیا گیا ہے۔ اس لئے  ہر شخص کو اس توسیع کی آزادی ہونی چاہئے۔ آزادی  کے  اس تصور کا اطلاق  فرد پر بھی ہوتا ہے او ر افراد کے  اجتماعی گروہ  یعنی معاشرے  پر بھی ہوتا ہے۔ دوسروں  کی آزادی میں  غیر مشروط رکاوٹ یا دخل اندازی کا کسی کو حق نہیں۔ چاہے  یہ دخل اندازی خود غرضی کی وجہ سے  ہو یا کوتاہ نظری کی وجہ سے  ہو۔ اس میں  گڑبڑی سے  پیدا ہونے  والی ساری بیماریوں  کی جڑ حکومتوں اور  برسرِ اقتدار لوگوں او ر دولت مندوں  کی کوتاہ نظری میں  ہوتی ہے  جو اپنی کوتاہ نظری کو ہٹ دھرمی میں  تبدیل کر لیتے  ہیں او ر اپنے  منشا پر قائم رہنے  کے  لئے  طاقت کا سہارا لیتے  ہیں۔ حکومتیں  ا س سلسلے  میں  مطلق العنان ہونا چاہتی ہیں او ر یہ دعوی کرتی ہیں  کہ ان کی کوتاہ نظری کی خامیوں  کو اس بنا پر نظر انداز کیا جانا چاہئے  کہ وہ معاشرے  کی اجتماعی خود مختاری کی نمائندہ ہیں۔ حکومتوں  کی خود مختاری غیر مشروط نہیں  ہو سکتی اور کوتاہ نظری کو اس میں  ڈھانپنے  کی آزادی اس خود مختاری کا حصہ قطعی نہیں  ہے۔ ایک فرد کو یہ پورا حق ہے  کہ کوتاہ نظری کی بنا پر ڈالی گئی رکاوٹ یا کی گئی دخل اندازی کو وہ مسترد کر دے  چاہے  یہ دخل اندازی کسی ایک فرد کی طرف سے  ہو یا اجتماعی طور پر حکومت کی طرف سے  ہو کیونکہ معاشرہ قدرت سے  عظیم تر نہیں  ہے او ر جو چیزیں  قدرت نے  دی ہیں  ان کو چھیننے  کا معاشرے  کو کوئی اختیار نہیں  ہے۔ اس کائنات کے  اندر پھلنے  پھولنے  کا ہر شخص کو پورا حق ہے۔ یہی جمہوری سوچ کی روح ہے۔ پولس اور عدالتیں  اگر اپنی یا قانون سازی کی کوتاہیوں  کو دور کرنے  کے  بجائے  کسی short cutکا استعمال کرتی ہیں  تو یہ جمہوریت کے  منافی ہے۔ جو حکومت یا معاشرہ یہ محسوس کرتا ہے  کہ اجتماعی شعور اور سوچ ایک فرد کی سوچ سے  برتر ہو سکتی ہے  وہ خود یہ ثابت کرے  کہ وہ اپنی کوتاہ نظری پر قابو پانے  کی اہل ہے۔ جو معاشرہ  اپنی توسیع نہ کر کے  اپنے  کسی فرد  کے  ارتقا پر روک لگا کر اسے  اپنے  طور طریقے  پر جینے  پر مجبور کرتا ہے  وہ دراصل اپنے  افراد کا گوشت کھاتا ہے۔ جو معاشرہ اپنی ان ذمہ داریوں  کو پورا نہیں  کرتا جس کے  تئیں  وہ اپنے  افراد سے  مختار نامے  لے  چکا ہے  وہ معاشرہ اپنی  حقِ خود مختاری کی بنا پر اپنی کوتاہیوں  سے  بری ذمہ نہیں  ہو سکتا اور اگر وہ اپنا منصف خود ہی نہیں  بن سکتا چاہے  وہ حکومت ہو یا عدالت ہو اور معاشرہ اور اس کا ہر فرد اس سلسلے  میں  ہمہ وقت اپنے  نتائج پر پہنچنے او ر اور اس کا اعلان کرنے  کا حق رکھتا ہے۔ جو لوگ ان بنیادی باتوں  سے  متفق نہیں  وہ دراصل معاشرے  میں  خلفشار پیدا کرنے  والے  لوگ ہیں۔ وہ جمہوریت کی راہ کا روڑہ ہیں۔ اور یہ وہی لوگ ہیں  جنہوں  نے  معاشرے  میں  بے  پناہ گھٹن پیدا کر رکھی ہے۔ اور جب یہ لوگ اجتماعی طور پر اپنی اس سوچ کو کو عملی جامہ پہنا کر اس کی توسیع کرتے  ہیں  تو یہ غیر جمہوری زندگی کے  فرماں  روا بن جاتے  ہیں  جو مافیا کی ایک شکل ہے۔ آج یہ مافیائی سوچ بہت بی چینی سے  جمہوری سوچ کے  قید و بند کے  لئے  ڈھانچے  بنانے  میں  مصروف ہے۔ اور  اگر عوام نے  چوکنا ہو کر اس کے  قدموں  کو روکنے  کی کوشش نہیں  کی تو یہ دھواں  جس میں  ہماری سانس گھٹ رہی ہے  یہ او ر بڑھے  گا۔ یہ مافیا قوتیں  ہمارے  اوپر ایسے  جال پھیلا رہی ہیں  جو  خود دکھائی نہیں  دیتے  ہیں  لیکن ان کے  نتائج  ایک مخصوص سماجی ڈھانچے او ر اس کی برائیوں  کی شکل میں  ہمیں  صاف دکھائی دیتے  ہیں۔

مافیا کا جال اس کے  خیالات کے  بادلوں  کی طرح چھا گیا تھا۔ جس سے  چاروں  طرف بڑے  بڑے  خوفناک سانپ جھول رہے  تھے۔ اسے  کیسے  مٹائیں۔ ہر فرد کو اپنے  آزاد ذہن اور رائے  کے  ساتھ رو بہ عمل ہونا ہو گا۔ اس اذیت ناک مافیا کے  خلاف انقلاب کرنے  کے  لیے  ہر فرد کے  لیے  لازمی ہے  کہ شیر علی کی طرح اسے  اپنی ذاتی رائے او ر ذاتی فیصلے  کی اہمیت کا احساس ہو کیونکہ جیسے  ہی انسان اپنی ذاتی رائے اور ذاتی فیصلے  کو چھوڑ کر دوسروں  کے  فیصلوں  پر چلنا شروع کرتا ہے او ر یہ تب ہوتا ہے  جب انسان دوسروں  کی رائے  کو اپنی رائے  پر  برتری دینے  لگتا ہے  کہ وہ اس سے  متفق نہیں  ہوتا۔ کیونکہ اگر انسان دوسرے  کی رائے  سے  متفق ہو تب تو یہ خود اس کی اپنی رائے  بنتی ہے او ر وہ اسے  جھٹلا بھی نہیں  سکتا لیکن جب ایسا نہیں  ہوتا تو آغاز ہوتا ہے  اس کے  استحصال کا، اور غلامی کا انسان کی اپنی رائے  بنانے  کی صلاحیت ہی اس کے  مفاد کی واحد پہرے  دار ہوتی ہے او ر اس پر عمل کرنا اور دنیا کی کسی بھی چیز کی پروا کئے  بغیر عمل کرنا چاہیے  وہ کوئی رشتہ ہو یا مقام کو، انسان کے  تحفظ کے  لیے او ر اس کے  ارتقاء اور آزادی کے  لیے  لازمی شے  ہے۔

ممکن ہے  انسان کا یہ فیصلہ کچھ لینے  کے  بجائے  دینے  کا فیصلہ ہو کچھ قربان کرنے  کا فیصلہ ہو لیکن یہ بھی اگر انسان کی اپنی رائے  کے  مخالف ہو تو یہ ایک ایسا گناہ ہے، یہ اپنے  ہی روح کو قتل کرنے  کے  مشابہ ہے۔ انسان کی اپنی رائے  اس کے  سامنے  آئے  ہوئے  دو اعمال کے  تجویزوں  میں سے  کسی ایک کو اختیار کرنے  کا فیصلہ دیتا ہے۔ عمل اور بے  عملی کے  درمیان فیصلہ کرنے  کا اہل بناتا ہے او ر اگر انسان فیصلہ کن نہیں  ہے  تو اسے  فیصلے  تک پہنچنے  کی اپنے  اندر صلاحیت پیدا کرنی چاہیے۔

یہ اپنی روح کے  تئیں  ذمے  داری کا وہ بوجھ ہے  جو اسے  اٹھانا ہی ہے  اگر انسان پہلے  سے  غلامی کی حالت میں  ہے او ر وہ غلامانہ عمل پر مجبور کیا جاتا رہا ہے  یا مجبور ہے او ر وہ کسی اور کے  احکامات کا پابند رہا ہے  تو وہ ایک ایسے  انسان کی طرح ہے  جو کسی ناگزیر بیماری کا شکار ہے۔ اور یہ اس کی اپنی روح کے  تئیں  ذمے  داری ہے  کہ وہ سنجیدگی سے  اس بیماری سے  نجات حاصل کرنے  کے  بارے  میں  سوچے او ر اپنے  ذہن کو صاف اور روشن کرے  کہ یہی روشنی اسے  اندر سے  تندرست بنائے  گی اور جس لمحے  انسان اپنی رائے  پر سوچنے او ر عمل کرنے  کے  لائق ہو جاتا ہے  اسے  چاہیے  کہ اس پر کامیابی کے  ساتھ عمل کرنے  کے  راستے  ڈھونڈے  اسے  چاہیے  کہ جیسے  ہی ا س پر عمل کرے  چاہے  اسے  قربان ہی کیوں  نہ کرنا پڑے۔ کیونکہ آخر کار جو چیزیں  وہ قربان کرے  گا وہ چیزیں ویسے  بھی اس کے  لیے  بیکار ہیں  اگر ان چیزوں  سے  اس کی اپنی زندگی کی تعمیر نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر اس کی رائے  صاف اور روشن ہے  تو اسے  اس پر عمل کرنا چاہیے  انسان کے  اعمال کے  بارے  جواز یہیں  سے  آتے  ہیں، چاہے  پوری دنیا آج یا کل اس کے  بارے  میں  کچھ بھی کہے۔

اسے  شیر علی کی یاد آئی۔ ’ اس نے  عمل کیا۔ ‘

پہلی بار خالد سہیل کو شیر علی کے  بارے  میں  خود اپنی رائے  پر شک ہوا۔

ممکن ہے  شیر علی نے  خود اپنی رائے  پر عمل کیا ہو۔

تو اگر اس نے  خود اپنی رائے  پر عمل کیا تو پھر وہ غلط کیوں  کرتا۔

اس کا عمل ایک فیصلہ کن ذہنی کوشش کا نتیجہ تھا۔

یہ کوئی ایسا لمحاتی عمل نہیں  تھا جو کہ کسی شیر علی صحیح تھا۔

یہ بات خالد کے  ان خیالات کے  اوپر ایک ٹوٹے  ہوئے  پہاڑ کی طرح گری جو اس نے  شیر علی کے  بارے  میں  قائم کر رکھی تھے۔ شیر علی کا قد اچانک اس کے  سامنے  ایک عظیم پہاڑ کی طرح دوبارہ نمودار ہونے  لگا۔ آسمان تک بلند قامت،سنجیدہ،پیغمبرانہ عظمت لیے  ہوئے۔ کیا یہ وہی انسان نہیں  تھا جیسا اس نے  ایک پسندیدہ شہری کے  لیے  تصور کیا تھا۔  oo

 

 

 

 

خالد کے  لیے  اب یہ مشکل درپیش آ گئی تھی کہ وہ لارڈ میو کے  قتل کی تصویر کو کہ ایک قیدی نے  کس طرح پر اسرار طریقے  سے  حملہ کر کے  قانون شکنی کرتے  ہوئے او ر تاریخی اعتبار سے  حکمرانوں  کی برتری کے  تسلیم شدہ اصول کو توڑتے  ہوئے  شیر علی نے  لارڈ میو کا قتل کیا تھا۔

لیکن اس کے  پاس اس خیال کو جو شیر علی کے  بارے  میں اس کے  ذہن میں  ابھرا تھا مسترد کرنے  کی کوئی منطق بھی نہیں  تھی۔ اپنی رائے  پر عمل کرنا ایک ایسا مسئلہ اصول تھا جیسے  خود خالد مسترد کر رہی نہیں  کر سکتا تھا۔ اس اصول کو چیلنج نہیں  کیا جا سکتا تھا۔ کسی فرد کی رائے  میں  خرابی ہو سکتی ہے  لیکن جس شخص نے  اپنی رائے  پر عمل کیا ہو اس شخص کو نظروں  سے  نہیں  گرایا جا سکتا کیونکہ اسی اصول میں  انسان کی عظمت پنہاں  ہے۔ اس میں  انسان کی خود مختاری کی جڑیں  ہیں۔ انسان کو اس بنیاد پر غلام نہیں  بنایا جا سکتا کہ اس کا دماغ چھوٹا، نا پختہ اور لاعلم ہے۔ اور وہ اپنے  بارے  میں  یا سوسائٹی کے  بارے  میں  خود کوئی رائے  قائم کرنے  کی صلاحیت نہیں  رکھتے  کیونکہ ان کے  حالات ان کے  دنیاوی علم کی پیداوار نہیں  ہوتے  بلکہ ان خیالات کی جڑیں  ان کی ارتقاء کی ضرورتوں  کے  اندر شروع ہوتی ہیں او ر دوسروں  کے  لیے  لازمی ہے  کہ اس بات کا پورا دھیان رکھیں۔ یہ دوسروں  کا فرض ہے  کہ وہ شخص کو پوری طرح مطمئن کریں  کہ کیسے  کوئی چیز اس کے  لیے  مفید ہے۔ اگر اس سے  کسی قربانی کی امید کی جاتی ہے  تو وہ قربانی ہی اس کی مر۔ ضی کے او ر فیصلے  کی پیداوار ہونی چاہیے۔ قربانیاں  چربی کی طرح کسی کے  وجود سے  نکالی نہیں  جا سکتیں۔

خالد نے  محسوس کیا کہ حکومت کے  سارے  اجزاء بہت گہرائی سے  سماج کے  عوام کے  اندر پیوست ہوتے  ہیں او ر اپنے  وجود کے  لیے  انہی کے  اوپر قائم و دائم ہوتی ہیں۔

انہی افراد کو شہری کہتے  ہیں۔

oo

 

 

 

 

شیر علی اب بھی اس کے  سامنے  بہت عظیم بن کر ایک پہاڑ کی طرح اس کے  سامنے  موجود تھا جیسے  وہ اسے  اور زیادہ سوچنے  کی دعوت دے  رہا ہو۔

خالد کے  وہ تمام اعلیٰ و ارفع خیالات جن کو اس نے  دائپر آئی لینڈ کے  پھانسی گھر کی زیارت کے  بعد مسلسل غور و فکر کے  ذریعے  کئی دنوں  میں  حاصل کئے  تھا،  وہ اب ٹوٹ کر گر  رہے  تھے او ر وہ کچھ بھی نہیں  کر سکتا تھا۔

انسان کے  لیے  اپنی رائے  کی بنا پر ہی عمل کرنے  کا اصول اب اس کے  نزدیک اتنا بنیادی بن گیا تھا کہ اس کے  سامنے  ساری دوسری چیزیں  جیسے  بڑی بڑی امیدیں او ر مستقبل کے  پلان گھاس پھوس سے  زیادہ اہمیت نہیں  رکھتے  تھے۔

’یہی وہ مقام ہے  جہاں  سے  اس مافیا سے  نجات کا راستہ نکلتا ہے  جس کی سر پرستی دنیا کے  عظیم ترین دماغ پیسے، طاقت، قوانین اور اداروں  جیسے  ہتھیاروں  سے  لیس ہو کر کرتے  ہیں۔

جو کچھ یہاں  کیا جائے  گا اور ہو گا یعنی جو کچھ اس آزاد شہری کے  دل و دماغ میں  ہو گا وہی کل پورے  عالم کے  آفاق پرنمایا ہو گا۔

جس طرح ہر شخص سورج اور چاند کے  درمیان فرق کر سکتا ہے  اسی طرح ہر شخص یہ پہچان سکتا ہے  کہ کون سی طاقتیں  ہیں او ر اگر وہ اپنی جگہ انفرادی طور پر اپنے  اندر پہچاننے  کی صلاحیت پیدا کر لیں  تو نتیجتاً اور آخر کا وہ درحقیقت ایک ساتھ اجتماعی طور پر مافیا طرز فکر کے  خیال کے  خلاف کام کر رہے  ہوں  گے۔

اس طرح وہ آپس میں  بغیر اپنے  خیالات اور  نظرئیے  کا تبادلہ کئے  ایک طرح سے  ایک متفق اور اجتماعی کوشش میں  شریک کار ہوں  گے۔

اگر ہم اس زمین پر مافیا طرز فکر اور مافیا قوتوں  سے  مکمل آزاد کوئی دن دیکھنا چاہتے  ہیں  تو ہمیں  اس بصیرت کو، اس طرز فکر کر ایک روشن چراغ کی طرح اپنے  ذہنوں او ر دلوں  میں  روشن کرنا چاہیے او ر اسے  مضبوطی سے  اپنے  ہاتھ میں  پکڑے  رہنا چاہیے  کہ یہ وہ واحد طریقہ کار ہے  جس کے  ذریعے  پوری دنیا کے  کمزور نحیف افراد دنیا کو تبدیل کر کے  اپنے  خوابوں  کی دنیا کو وجود میں  لا سکتے  ہیں۔

ہمیں  انفرادی طور پر اپنی اپنی جگہ مافیا کے  چھوٹے  مرض کے  جراثیم کو اپنے  آس پاس کے  علاقوں  میں  ختم کرنا ہو گا۔

جو بھی جراثیم ہمارے  جسموں  کے  قریب آتا ہے  وہ دراصل ہمیں  اپنا اگلا شکار بنانے  جا رہا ہے۔ اور یہ ہمارا فرض ہے،اور ہمارے  اوپر لازم کہ ہم اس کے  خلاف مزاحمت کریں او ر ہمارے  اندر لڑنے  کی جتنی طاقت ہے  اپنے  کو محفوظ رکھنے  کے  جتنے  سامان اور صلاحیت ہیں او ر ان کے  ساتھ اس سے  لڑیں۔

اس لیے  اٹھو، مخالفت کرو، لڑو، اور مستقل مزاجی سے  چوکنا اور متحرک رہو۔

خود اپنی جگہ لڑنے  کا حربہ تیار کرو، حملہ کرنے، پیچھے  ہٹنے، شور مچانے،چپ ہونے، عمل کرنے،انتظار کرنے، مظاہرہ کرنے، چھپانے  کے  حربے  پر تم غور فکر اور عمل کرو۔ طریقہ چاہے  جو بھی ہو لیکن زندگی کے  ان دشمنوں کے  خلاف جنگ جاری رکھو۔

اپنے  جسم کے  اعضاء کو بچاؤ۔ ان کی حفاظت کرو اپنے  جسم کی حفاظت اور اپنی روح کی حفاظت کرو۔

تم نے  ہمیشہ یہ سوال کیا۔

کہاں  سے  اس عالم گیر مافیا کے  خلاف جنگ کا آغاز ہو۔ تم اس پر سب سے  پہلے  خود اپنی رائے  قائم کرو۔ پھر اپنی رائے  کو اوروں  تک ترسیل کرو۔ اس سے  انھیں  بھی اپنے  طور پر رائے  قائم کرنے  میں  مدد ملے  گی اور ان ذہنوں  میں  خیالات جنم لیں  گے  اس طرح تمھاری یہ رائے  جنگل کی آگ کی طرح پھیل سکتی ہے۔

ایک انسان کی چنگاری جیسی ایک ایجاد کروڑوں  انسان کے  لیے  ہاتھوں  میں مشعل بن سکتی ہے۔

جب دوسرے  اسے  کار آمد پائیں  گے  وہ اسے  تریاق کی کی طرح اپنے  جسم میں  داخل ہوئے  مافیائی زہر کے  خلاف اپنے  جسم و روح کو بچانے  کے  لیے  ضرور استعمال کریں  گے۔

یہ وہ شئے  ہے  جو بغیر قیمت تقسیم کی جاتی ہے  یہی وہ دوا ہے  جسے  مفلس لوگ بھی جڑی بوٹیوں  کی طرح اپنے  اردگرد سے  لے  کر اپنی زندگی کی حفاظت کر سکتے  ہیں۔

وہ احترام جو تمھاری سوچ کے  عمل، تمھاری آواز یا تمھارے  شکوک کی قربانی مانگ رہا ہے  یہ احترام کا شوہر کا ہو، سرکار کا ہو، باپ کا ہو، عدالت کا ہویا گرو یا مذہبی رہبر کا ہی کیوں  نہ ہو وہ احترام تمھاری آنکھوں  پر پڑے  ہوئے  خطرناک چلمن کی طرح ہے  اسے  ہٹانا چاہیے۔ ‘

اس نے  سوچا اور مسلسل سوچتا چلا گیا۔

’کسی صبح کو اس کی اصل صورت دیکھنے  سے  پہلے  ہی سمجھ لینا بہتر ہے  تاکہ ان ہولناک تجربوں  اذیتوں  سے  نہیں  گزرنا پڑے  جن کا سامنا بلآخر ایک تیر لگے  شکار کی طرح تڑپ تڑپ کر کرنا پڑتا ہے۔

مرض کا پوری طرح سے  شکار ہونے  سے  پہلے  ہی جراثیم جسم میں  اس کے  گھسنے  کے  راستے، اس کی افزائش اور مسکن کی جگہوں  کے  بارے  میں  اپنے  ذہن کو روشن کرنا ہے  بہتر ہے۔

پڑی ہوئی چیزوں، گندگی نالیوں  اور ملاوٹوں  کے  خلاف آواز اٹھانا سختی سے  ان کی مخالفت کرنا اپنے او ر اپنے  بچوں  کی حفاظت کے  لیے  مسلسل ان کے  خلاف محاذ جنگ قائم رکھنا، ان کے  وجود کی پہچان کرنا سیکھنا زندگی کی اہم ترین ضرورت میں  سے  ایک ہے۔

جراثیم کے  خلاف جس طرح جسم کے  اندر موجود سفید خلئے  بغیر کسی سے  حکم لیے  خود بہ خود لڑتے  ہیں او ر یہ نہیں  دیکھتے  کہ دوسرے  سفید خلئے  بھی لڑ رہے  ہیں  یا نہیں  اسی طرح ہر شخص کو لڑنا ہو گا۔

اس جنگ میں  ان سفید خلیوں  کی موت ہوتی ہے۔ کبھی کبھی جنگ میں  مرتے  ہوئے  سپاہیوں  کی طرح ان کی قربانی کا نتیجہ بر آمد ہوتا ہے۔ کبھی کبھی نہیں  ہوتا ہے، لیکن وہ لڑتے  ہیں  کیونکہ لڑنا ان کی فرض ہے۔اور  شیر علی بھی ایسا ہی سفید خلیہ تھا کہ وہ اپنے  ماحول پر چھائے  ہوئے  داد کے  خلاف لڑا تھا۔ ‘

خالد جیسے  جیسے  زندگی کی ان سچائیوں  میں  اترتا گیا جن میں  وہ گھر ا ہوا تھا وہ ویسے۔ ویسے  وہ اس ہولناک حقیقت سے  آشنا ہوتا گیا کہ وہ چاروں  طرف سے  مافیا قوتوں  کی پیدا کردہ جال کے  شکنجے  میں  مکمل طور پر گھرا ہوا ہے، اس قدر کہ اب ایک خوش حال اور پر امن دنیا پیدا کرنا ایک انتہائی مشکل کام بن گیا ہے۔

oo

 

 

 

کالا پانی کے  عظیم آئینے او ر پچھلے  ایک سو پچاس برسوں  کے  اپنے  ذاتی تجربات کی روشنی میں  سوچنے  کے  علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں  تھا۔ یہی وہ طریقہ تھا جو اسے  اس بلندی پر اور اس ممتاز مقام پر لایا جہاں  سے  و ہ حقیقت کو بہت واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ اس کا معائنہ کر سکتا تھا۔ اور اپنی سوچ کو ایک ٹھوس بنیاد دے  سکتا تھا اور یہ قدرت کا ایک کرشمہ تھا کہ اس نے  اسے  کس مقام فکر سے  آشنا کرایا تھا۔

اور اب جیسے  کسی نے  اس کے  اندر سے  اسے  پیغام دیا اور محسوس کروایا کہ یہ ادراک و عرفان یوں  ہی کوئی کھلواڑ نہیں  بلکہ یہ بہ حیثیت انسان اس کے  اوپر ایک فرض۔ عائد کرنے  کے  لیے  نازل ہوا ہے  وہ چلّائے  یا عوام کو آواز دے  اس انسان کی طرح جو گھر کے  اندر خطرناک سانپ کو دیکھنے  کے  بعد چلّا اٹھتا ہے۔

لیکن امریکیوں  کو تو اچانک،بلاوجہ چوٹ پہنچائی گئی تھی پھر وہ اسے  کیسے  برداشت کرتے او ر چپ رہتے، اس لیے  دوسرا یٹم بم تو انھوں  نے  اپنی بقا کے  گرایا تھا۔ ان جنونی مہمات میں  شامل سانحات کی حقیقت کو پوری طرح منظر عام پر لانے  کے  لیے  کچھ انسانی جانوروں  کی تباہی ہونی ہی تھی۔

یہ صورت حال نیو یورک کے  ان میناروں  کی بھی تھی۔ ان امریکی میناروں  پر حملہ تاریخ کو شاہ راہ سے  کود کر الگ جا کر کیا گیا تھا۔ کچھ انسانوں  میں  یہ رجحان ہوتا ہے  کہ وہ،ہیرو شپ حاصل کرنے  کے  لیے  کسی طاقت ور ہستی کو کہیں  نہ کہیں  سے  نقصان پہنچانا چاہتے  ہیں او ر وہ ہاتھ بھی جو تالیاں  بجاتے  ہیں  وہ مجرمانہ جذبات سے  خالی نہیں  ہوتے۔

لیکن یہیں  تو اس عظیم صبر و تحمل کی۔ ضرورت ہوتی ہے  جو دنیا کو مزید بھیانک تباہیوں  سے  بچاتی ہے۔

اپنے اور اپنے  ملک کے  عوام کے  طوفانی درد کو قابو میں  رکھتے  ہوئے  انسانیت کے  جہاز کو آگے  بڑھا سکتی ہے او ر یہی تو کیپٹن کی شخصیت کی عظمت کا امتحان ہوتا ہے۔

نادر شاہ نے  دوچار سپاہیوں  کے  قتل کے  انتقام میں  دلی کے  بظاہر سرد پڑے  ہوئے  شہریوں  کے  قتل و ہلاکت کے  لیے  تین دنوں  کی جو چھوٹ دی تھی اس نے  اس کو بہ حیثیت ایک بادشاہ اس کے  جلال میں  اضافہ ضرور کیا ہو گا لیکن تاریخ کی دیواروں  پر اس کا قد ضرور چھوٹا ہو گیا کہ معصوم انسانوں  کے  قتل سے  بادشاہ ہوں  کی عظمت میں  اضافہ نہیں  ہوتا۔

حاکموں  اور بادشاہوں  کی عظمت میں  اضافہ معصوم انسانوں  کی عزت اور تحفظ سے  ہوتا ہے۔ جو ایک ایسی ذمے  داری ہے  جہاں  بڑے  بڑے  بادشاہوں  کو ناکامی ہوئی ہے۔

جو بادشاہ اس میں  کامیاب ہو جاتے  ہیں  ان کی عظمت اس بنا پر بڑھ جاتی ہے  کہ وہ اپنی فکر اور اعمال کے  ذریعے  انسانیت کو بلند تر قدریں  دے  کر عظیم تر مثالیں اور بادشاہی کو نئے  عظیم تر معانیٰ پہنا جاتے  ہیں۔ قومیں  ایسے  بادشاہوں  کی تاریخ سے  انسانیت کا سبق سیکھتی ہیں  کیونکہ عظمت اپنے  آپ میں  ایک با معنیٰ اور پر وقار شے  ہے  جس کی دنیا تعظیم کرتی ہے او ر جو تاریخ کی پیشانی پر کوہ نور کی طرح چمکتا ہے۔

کاش وہ دوسرا بم نہیں  گرا ہوتا۔ یہ دوسرا بم امریکہ کی پیشانی پر داغ نہ صحیح لیکن یقیناً یہ وہ سانحہ تھا جسے  مریکہ ٹال سکتا تھا۔

خالد نے  سوچا۔

اپنے  وقت کے  کئی واقعات اسے  اس وقت یاد آ گئے۔ دہلی ہائی کورٹ کا جج جس کے  فیصلے  نامے  مقدمہ لڑنے  والوں  کے  وکیل لکھا کرتے  تھے۔

پنجاب کا وہ گورنر جس کا ہیلی کاپٹر گرا تھا تو پوری وادی میں  نوٹوں  کی بارش ہو گئی تھی۔ جب گورنر نے  بدعنوانی سے  اتنا کمایا تھا تو جنھوں  نے  اسے  گورنر بنایا تھا وہ کیا کرتے  ہوں  گے۔ اسے  لارڈ میو اور اس وقت برطانوی حکومت یاد آ گیے۔ پیسہ پہلے  عہدوں  کو پکڑتا ہے  پھر عہدوں  کے  ذریعے  خود اور پیسہ کما تا ہے او ر کسی کی کیا مجال کہ اس پر انگلی اٹھا دے۔ یہ طاقتور عہدے  سرکاری مشینوں  کو جس بے  رحمی سے  استعمال کر سکتی ہیں  اس کا تصور بھی محال ہے۔

کالا پانی تو صرف اس کی ایک ادنی مثال ہے۔

ایک عام آدمی ان کے  منھ کے  نوالے  کے  سوا اور کچھ نہیں۔ انسانی تاریخ کے  اس پہلو نے  اس نظم کو اس کے  ذہن میں  دہرادیا جو وہ تھوڑی دیر پہلے  وارد ہوئی تھی۔

بام گردوں  پہ یہ لٹکا ہوا انساں  کب سے

oo

 

 

 

 

اس کی میز پر آج کا اخبار پڑا ہوا تھا۔ بہت دنوں  سے  اس نے  اخبار پڑھنا بند کر دیا تھا۔ اخبار کی خبریں  تو اندیکھے  جنگل سے  ٹوٹ کر اڑی ہوئی پتیوں  کی طرح تھیں۔ جو کبھی کبھی کہیں  کہیں  سے  آ کر آج کی دنیا میں  گرتی تھیں۔ لیکن ان دنوں  تو وہ بیچ جنگل میں  تھا۔

اسے  اچانک خیال آیا تھا کہ لوگ تو صرف پتوں  کو ہی دیکھتے  تھے، وہ درختوں  سے  اکثر ناواقف ہی ہوتے  تھے۔ اس نے  اخبار کو اٹھا کراس کی خبروں  کو ایک ایک کر کے  پڑھنا شروع کیا تو اسے  لگا کہ وہ خبریں  جو کبھی اسے  دھوکہ دیتی آئی تھیں  اچانک بڑی بڑی روشنیوں  کے  حصار میں  آ کر اپنے  پیچھے  چھپے  ہوئے  اپنے  پورے  جسم کر ننگا کر رہی ہیں۔

وہ خود صحافی تھا اور جانتا تھا کہ بڑے  بڑے  چہروں، بڑے  بڑے  اداروں او ر بڑے  بڑے  واقعات کے  پیچھے  چھپی ہوئی ہزاروں  ایسی سچائیاں  موجود ہوتی ہیں  جنھیں  لوگ ان اخباروں  کی نظر میں  لاتے  ہیں  یا جو گہری تفتیش اور چھان بین کے  دوران پردۂ افشاں سے  باہر آتی ہیں۔ لیکن اخبار کے  ایڈیٹر کی ممنوعہ پالیسی کو مصلحتوں  کی دیواروں  کے  پیچھے  ایسے  رک جاتی ہیں  جیسے  جانور کانٹوں  دار گھروں  کے  پیچھے  رک جاتے  ہیں۔ سچائی کا سب سے  بڑا نقیب ہونے  کا دعویٰ کرنے  والا میڈیا خود کس طرح خوف اور دہشت سے  مرعوب ہوتی ہے  کہ خاموش رہنے  پر آمادہ ہو جاتی ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے  کہ اس خاموشی کو جھوٹ نہیں  مانتی۔

اگر کوئی ایسا شخص جو ہر دکھائی دینے  والی چیز کو بتانے  کا دعویٰ کرتا ہے او ر اس وعدے  کی بنیاد پر پیسہ لیتا ہے  وہ اگر دیکھی ہوئی چیزوں  کو نہیں  لکھتا تو یہ نہ صرف جھوٹ ہے  بلکہ دھوکہ ہے۔

آج عام آدمی نے  اخبار اور ٹی وی پر اتنا بھروسہ کر لیا ہے  کہ اپنے  محلے  میں  ہو رہے  واقعہ کو بھی ٹی وی کے  سامنے  بیٹھ کر دیکھتا ہے ، اور عام آدمی کی زندگی ماضی کے  چھوٹے  چھوٹے  دائروں  سے  باہر نکل کر اتنی وسیع ہو گئی ہے  کہ اب اپنی زندگی سے  متعلق خبریں  رکھنے  کے  لیے  ٹی ٹی وی اور اخبار اس کی مجبوری بن گیے  ہیں۔

ایسے  میں  میڈیا کا ایک ایسا ٹھیکیدار بن جانا کہ پوری سچائی کو نہیں  دکھانا پورے  عوام کو کالا پانی جیسی تنہائی کرنے  جیسا ہے۔

کتنی عجیب بات تھی، کالا پانی اپنے  ہزاروں  جہات کے  ساتھ اس کے  ذہن میں  ایسے  آ بسا تھا جیسے  وہ کسی بہت بڑے  پیڑ کے  بیچ سے  نکلی ہوئی دیوار ہو جو بڑھتی ہی جا رہی ہو۔

خالد سہیل نے  سوچا۔

کیا یہ پیڑ اس وقت تک مجھے  اپنی کوشش کی طاقت سے  نجات نہیں  دے  گا جب تک آج کا پورا دور، اس دور کی مکمل شکل، اس کے  متواتر ہو رہے  ہولناک واقعات، اس میں  رائج پورا نظام، کالا پانی کی طرح ہی دکھائی نہ دینے  لگے۔

یہ کوئی خوف کی بیماری تو نہیں  جو اسے  ہو گیا ہے ! وہ کہیں  جذباتی طور پر ایسی شکست و ریخت کا شکار تو نہیں  ہو گیا ہے  جس نے  اس کے  ذہن کو مجہول کر دیا ہے ‘‘

اس کی سمجھ میں  کچھ نہیں آیا اور وہ جھنجھلا کر ایک بار پھر اس سے  باہر نکل آیا لیکن اس کی سانسیں  تیز ہو گئی تھیں۔                                                        oo

 

 

 

وہ سوچے  ہی جا رہا تھا۔ ’کہاں  انگریزوں  کا وہ زمانہ اور کہاں  آج کا ہمارا جمہوری نظام! یہ سفر تو ہمارے  اجداد نے  نہ جانے  جنگ آزادی کے  کتنے  جفا کش قربانیوں  کے  بعد طے  کیا ہے، آزادی ملی تھی تو اتنی خوشی پیدا ہوئی تھی کہ اس کی یاد کو تازہ رکھنے  کے  لیے  ہم نے  یومِ آزادی اور یومِ جمہوریت کو سالانہ تیوہار بنا ڈالا۔ اتنی خوشی بلاوجہ تو نہیں  ہوئی ہو گی۔

پھر یہ سب کیا ہے او ر کیوں  ہے ؟

کالا پانی سے  زیادہ بے  رحمی اور بے  بسی، کالا پانی سے  زیادہ لا قانونیت۔

اس نے  نظریں  گھما کر جیسے  چاروں  طرف اپنے  ماحول کو دیکھا۔ لوگ ہنس بول رہے  تھے، اپنی مر۔۔ ضی کی زندگی گزار رہے  تھے۔ کسی کے  پاؤں  میں  بیڑیاں  نہیں  تھیں، لوگ حکومتوں  کو گرا دیتے  تھے۔ سڑکوں  پر جلوس نکال سکتے  تھے۔ نعرے  لگا سکتے  تھے۔ متحد ہو کر اپنی  سیاسی پارٹی بنا سکتے  تھے۔ الیکشن لڑ کر خود حکومت کرنے  جا سکتے  تھے۔

سوچتے  سوچتے  اسے  لگا کہ وہ غلط تھا کہ اچانک پھر اس کے  ذہن کو جھٹکا لگا اور وہ سہم گیا جیسے  وہ بہت بڑا دھوکہ کھاتے  کھاتے  بچ گیا ہو۔

’’ چلمن۔ ‘ وہ اس پہلو کو کیوں  بھول گیا تھا۔

آزاد تو شیر علی بھی تھا‘‘ پھر وہی ہوا، کالا پانی کا بھوت پھر اس کے  ذہن کو پٹکنی دے  رہا تھا۔ وہ پھر جیسے  گر ا  پڑا تھا۔

اس کی نظر پھر چلمن پر پڑی۔

اس کا جی چاہا وہ اس چلمن کو ہی چیر پھاڑ کر رکھ دے۔ صرف اسی طرح اس الجھن سے  باہر آ سکتا ہے۔

چلمن کی منافقانہ وجود نے  ہی یہ سارا بکھیڑا کھڑا کیا تھا۔

اسی کو میڈیا نہیں  پڑھ رہی تھی۔

یہیں  تو اندھیرا تھا۔

شاید وہ اپنی زندگی میں یہ کام کر سکے۔ اپنے  پیشے  کا حق ادا کر سکے  گا۔ اسے  لگا کے  اس نے  ایک ایسی چیز دریافت کر لی ہے  جو اس کی زندگی کو با معنیٰ بنا سکتی ہے۔

شیر علی کی طرح۔

پھر شیر علی۔

شیر علی کا مجسمہ اب بھی ایک بیٹھے  ہوئے  شیر ببر کی طرح کسی پہاڑ کی جسامت کے  ساتھ سامنے  آ گیا تھا۔

اس نے  شیر علی کے  مجسمے  سے  نظر بچانے  کے  لیے  نظریں  نیچی کر لیں  جیسے  نظر چرا رہا ہو۔ ایک لمحے  کے  بعد ایک مشفقانہ آواز آئی۔

’’ نندی گرام کے  باسیوں  سے  پو چھو‘‘

خالد سہیل نے  مجبوراً نظر اٹھا لیں او ر شیر علی سے  نظریں  ملا کر اس کی آنکھوں  میں  دیکھنے  لگا جیسے  اب کوئی اجنبیت باقی نہیں  رہ گئی تھی، بالکل ایسے  جیسے  کوئی نوجوان اپنے  بزرگ سے  مکمل یکسوئی کے  ساتھ نصیحت لے  رہا ہو۔ پھر اسے  خیال آیا شیر علی کالا پانی میں  اس کے  دادا کا ہم عصر تھا اور  ان کے  ساتھیوں  میں  رہا ہو گا۔ ممکن ہے  دونوں  کے  خیالات ملتے  ہوں۔

اس کے  ذہن کو اب بھی چین نہیں  تھا۔ کچھ تھا جو اسے  تکلیف دے  رہا تھا۔ اور وہ کچھ ایسا تھا جو بہت وسیع اور بڑا تھا۔ اور اس کی جڑیں  بہت گہرائی میں  پیوست تھیں۔ اور کسی انجانے  سمت میں  پوشیدہ تھیں۔

ادب کا چشمہ حیات کہاں  سوکھ گیا

ناول کا فن انسانی ذہن کی وسعتوں کو وسیع تر کرنے  کا فن ہے او ر ناول کے  فن کا یہ بنیادی خاصہ ہے  کہ وہ انسان کی دوراندیشی میں اضافہ کرے۔

لیکن خود ادب کے  میدان میں  عام آدمی کے  ساتھ کیسا سلوک کیا گیا ہے  ؟

اچانک اسے  کچھ یاد آیا اور اس کی برق رفتار سوچ لڑکھڑا سی گئی۔

ایک بار جب  وہ  ادب میں  جدیدیت کی تحریک کے  بارے  میں  کتابیں  پڑھ رہا تھا تو John Carey  کی کتاب The Intellectuals and the Masses  کے   کچھ جملوں  پر چونکا تھا۔ اس نے  لکھا تھا۔

"The intellectuals could not, of course, actually prevent the masses from attaining literacy. But they could prevent them reading literature by making it too difficult for them to understand۔۔۔۔and this is what they did. The early twentieth century saw a determined effort, on the part of the European intelligentsia, to exclude the masses from culture. In England this movement has become known as modernism. –John Carey, , p. 16-17

ادیبوں  نے  خود  اپنے  لوگوں  کو دھوکا دیا ہے۔ ادیبوں  کہ بارے  میں  پتہ نہیں  کیسے  اس بات کا احساس ہو گیا تھا۔ اور ان پر اس نے   ’شیطان‘ کے  عنوان سے  کبھی ایک نظم بھی لکھی تھی۔

ادیبوں  کو یا تو تفریح کا سامان بنا دیا گیا ہے  یا پھر انہیں  انعامات سے  نواز کر اقتدار کے  چشم و ابرو کے  اشاروں  پر لکھنے  والے  منشیوں  میں  تبدیل کر دیا ہے۔ دنیا کے  انسانوں  کے  لئے  دور اندیشی کی تربیت دینے  والا ادب کہاں  چلا گیا ؟  انسانیت کو روشنیوں  کے  حصار میں  گھیر کر سیہ تحریروں  سے  بے  خبر کر دیا گیا ہے۔ ان کے  ذہنوں  کی تعمیر ایسے  کی جا رہی ہے  جیسے  کمپیوٹر میں  پروگرام لگائے  جاتے  ہیں۔ وہ ادیب جو ذہن و عقل کی کھڑکیاں  آسمانوں  تک کھول دیتے  وہ کہاں  ہیں  ؟ کسی عہد میں عظیم ادیبوں  کے  عنقا ہونے  کا مطلب ہے  عظیم انسانوں  کا پیدا ہونا بند ہو جانا۔ بغیر بڑی سوچ کے  عظیم انسان پیدا نہیں  ہوتے او ر عظیم انسانوں  کے  پاس سوچنے  کی فرصت نہیں  ہوتی۔ سچے  ادیب عوام کے  دوست ہوتے  ہیں  لیکن مافیائی طاقتیں  عوام کے  دوستوں  کی ہی سب سے  بڑی دشمن ہوتی ہیں۔

جان کیری کے  مطابق عوام کے  دوستوں  کی کرسی پر عوام کے  دشمن دوستوں  کے  بھیس میں  بیٹھے  رہے۔

عظیم ذہن پیدا ہونا بند ہو گئے۔

برطانوی حکومت کا ایک دن سورج ڈوبنے  والا تھا لیکن کیا یہ کسی کو دکھائی دے  رہا تھا۔

جاپان پر ایٹم بم گرنے  والا تھا لیکن کیا کسی کو دکھائی دے  رہا تھا۔

روس ٹوٹنے  والا تھا لیکن کیا کسی کو دکھائی دے  رہا تھا؟

کیسے  بڑے  بڑے  دماغ مجبور تماشائیوں کی طر ح ہندوستان کی تقسیم کے  بعد کروڑوں  انسانوں  کی جال سوز ہجرت کے  وقت جو قتل ہوئے  انسانوں  کا منظر دیکھ رہے  تھے۔

کیا خاموشی سے  یہ مان لینا چاہیے  کہ وہ جو کچھ کر رہے  تھے  وہ ان کی پسند کے  مطابق تھا اور اس میں  کیسی ان کے  بصیرت کی کمزوری شامل نہیں تھی؟

یہ سوچنا کہ حکمراں ذہنی اعتبار سے  مکمل ہوتے  ہیں  اپنے  آپ میں  آنکھوں  پر پردہ ڈالنے  جیسی بات ہے۔ یہ سارے  لوگ وقت کے  پیدا کیے  ہوئے  ایسے  نامکمل لوگ ہوتے  ہیں  جن کے  شعور کو تزئین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان پھوڑوں  کی تکلیف سے  ہم تبھی نجات پا سکتے  ہیں  جب ہم ایسے  مفکر پیدا کریں جو ان ذمے  داریوں  کو سنبھال سکیں۔۔

انسانی تہذیب نے  مذاہب اور سماجیات کے  ذریعے  انسانی زندگی کے  چاروں  طرف پھیلے  ہوئے  اندھیروں  میں  مشعل در مشعل روشن کیے  ہیں۔ لیکن اس مہم کو مذبذب گہرائیوں  میں  اتارنے  کی ضرورت ہے۔

انسان کی کوتاہ نظروں  کو دور کرنے  کی اور اس کے  دل میں  کشادگی پیدا کرنے  کی ضرورت ہے۔

مذاہب اور سماجیات نے  جن روشنیوں  کا انکشاف کیا ہے  ان انسان کی بصیرت، تجربے او ر حوصلے  کا حصہ بنانے  کی ضرورت باقی ہے۔

اس کو فطرت کی جانب سے  اپنی گرفتاری میں  رکھنے  کے  لئے  مسلط کی گئی غصہ، نفرت، لالچی خوف انتقام عنا اور بے  بسی جیسے  (غصہ نفرت لالچ)کئے  گئے  عوامل سے  لڑنے او ر ان پر قابو پانے  کے  لئے  میدان فکر مہیا کرنے  کی ضرورت ہے۔

آج کے  دور میں  جب انسان کے  ہاتھوں  میں  ایٹم بم جیسے  تباہ کن ہتھیار آگے  ہیں  یہ بات امن عالم کے  لئے  ضروری ہے  کہ دنیا کے  چھوٹے  چھوٹے  کردار اسے  لے  کر جو جمہوری نظام میں  حکمرانوں  کے  ذہن پر دباؤ بناتے  ہیں، بڑے  کرداروں  تک کے  جو پوری دنیا کو متاثر کر دینے  والے  فیصلے  کر دیتے  ہیں  سب کرداروں  کا ناولوں  میں اس طرح تجزیہ کیا جائے  کہ ان کرداروں  کو اندرونی کشمکش،لغزشوں  کے  امکانات روشن ہوں۔

ادب کا یہ فریضہ ہے  کہ وہ ہدایت نہیں  بلکہ بصیرت کے  ذریعے  ان تمام کرداروں  کے  ذہین کو روشن کر سے۔

ادب کا یہ فریضہ ہے  کہ وہ ان تمام کرداروں  کو اپنے  اندر دوراندیشی کی صفات پیدا کرنے  کا سامان مہیا کرے۔

زمانہ قدیم سے  ہی اہل بصیرت لوگ اپنے  زمانے  کے  حکمرانوں  کی تربیت کرتے  رہے  ہیں۔ دنیا کا ادب ایسی کہانیوں  سے  بھرا پڑا ہے  جن کا نشانہ ارباب حل کی عقد کے  ذہنوں  کو انسانی قدروں  سے  مامور کرنا ہے۔

مقبولیت اور طاقت کی بنیاد پر اقتدار میں  آنے  کے  بعد حکمرانوں  کو دیرپا حکومتیں  قائم کرنے  کے  لئے  علم کی ضرورت پڑتی ہے۔

اور دور اندیشی اس علم کا مرکزی حصہ ہے۔

ویلن ہوں  یا ارباب حل و عقد ہوں  سے  کے  لئے  راہ نجات دینا ضروری ہے۔

آج کی دنیا میں  ادیبوں  خصوصاً ناول نگاروں  کی اہمیت تاریخ کے  بڑے  بڑے  سائنس دانوں  سے  بھی زیادہ ہو گئی ہے۔

لیکن یہی وہ میدان ہے  جس میں  تخلیقی ادب نے  اپنا حق ادا نہیں  کیا ہے۔

ہمارے  ادیب اس منصب اپنے  کا حق ادا کرنے  میں  ناکام رہے  ہیں۔

کہیں  وہ اس لئے  کہ انھوں  نے  اپنی ذمے  داریوں  کو نہیں  سمجھا کہیں  اس لیے  کہ سچائی کو بیان کرنے  میں  انھوں  نے  وہ جراء ت نہیں  دکھائی جوان سائنسدانوں  میں  تھی جنھیں  سچ بولنے  کے  عوض زندہ آگ میں  جلا دیا گیا۔

لیکن جن لوگوں کو قدرت نے  یہ توفیق دی ہے  کہ وہ سچائی کو دیکھ سکیں او ر اس کو بیان کر سکیں  ان سے  انسانیت یہ توقع رکھتی ہے  کہ وہ قدرت کی اس دین کا حق ادا کریں۔

ہمیں  اس ادیب کی ذمے  داری کا پتہ ملتا ہے  لیکن خوفناک جنگلوں، ریگستانوں، کوہستانوں او ر سمندروں  کی طرف جانے  والا یہی راستہ تو بند تھا،بالکل ویسے  جیسے  شیر علی کے  لیے  کالا پانی میں  سارے  راستوں  کے  دروازے  بند تھے۔

ہم ابھی تک تہذیبوں  کے  ٹکراؤ کی دنیا میں  گھر سے  ہوئے  ہیں او ر یہ نہیں  جانتے  کہ ہمارا اصل ٹکراؤ خود اپنے  ذہن کے  اندھیروں  سے  ہے۔

ڈاکٹر والکر کا ذہن بھی انھیں  چلمنوں  میں  گھرا ہوا تھا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو لاڑ دمیو کیوں  مارا جاتا۔

خالد سہیل نے  شیر علی کے  لیے  خیالی مجسمے  کی طرف ایک بار پھر دیکھا۔

اس کنویں  سے  نکلنا ہے  تو صرف ایک رسی پکڑو۔

آتش فشاں  بھی باہر نکلنے  کے  لئے  صرف ایک راستہ ڈھونڈتا ہے۔

حاکم و محکوم کا رستہ ہی ہمارے  گلے  کے  پھندے  کی وہ گانٹھ ہے   جو ہمارے  آبا و اجداد سے  لیکر اب تک ہمیں  جکڑے  ہوئے  ہے او ر اگر اسے  نہیں  کھولا تو یہ گانٹھ ہمارے  بچوں  کے  گلے  میں  منتقل ہو جائے  گی۔

یہ گانٹھ ہمارے  گلے  کے  باہر نہیں  بلکہ ہمارے  دلوں  کے  اندر ہے۔

یہ ہمارے  اس خیال کے  اندر ہے  کہ اس گانٹھ کا وجود ہمارے  اس سماج کو چلانے  کیلئے  ضروری ہے  جس میں  ہم رہتے  ہیں  ورنہ لوگ ہمیں  لوٹ لیں  گے۔ لٹیروں  کو قابو میں  رکھنے  کے  لئے  ڈنڈا ضروری ہے  لیکن اس کیلئے  محافظوں  کو، جن کی تقرر ہوئی ہے  ایسے  نہاں  خانے  بنانے  کی کیا ضرورت ہے   جن کے  اندر جھانکنے  کی خود ہمیں  بھی اجازت نہیں، خود اپنے  دکھوں  کی وجہ جاننے  کیلئے  بھی اس میں  جھانکنے  کی اجازت نہیں۔

ہم لوگوں  کی جن برائیوں  سے  ڈرتے  ہیں  ان کا تدارک تو قانون کے  ڈنڈوں  سے  ہو سکتا ہے۔ حکومت قانون کی ہونی چاہئے، لیکن قانون کی حکومت تو نہیں  ہے  کیونکہ جا بجا وہی لٹیرے  اندرون خانہ محافظوں  کے  دستوں  کے  طور پر کام کرتے  ہیں۔ ان چھوٹے  لٹیروں  کو بھی ان نہاں  خانوں  میں  پچھلے  راستوں  سے  جانے  کی بھرپور اجازت ہے۔ اگر کسی کو اجازت نہیں  ہے  تو ایماندار شہریوں  کو اجازت نہیں  ہے۔ اور ایماندار شہری  باہر بے  بسی کے  عالم میں  بے  دست و پا کھڑے  ہیں۔

ایک بار چلمن اٹھے  تو پورا منظر صاف دکھائی دے۔

یہ نسخہ ہے  جسے  کبھی آزمایا نہیں  گیا۔ اور اس نسخے  کی ہمیشہ مخالفت کی گئی۔ لیکن جن بنیادوں  پر ان کی مخالفت کی گئی وہ فریب ثابت ہوئیں۔ یہ بنیادیں  تھیں  کہ حاکم ایماندار لوگوں  کو ہونا چاہئے او ر وہ ایماندار ہوتے  ہیں او ر وہ تنہائی میں  انتہائی خشوع و خضوع  کے  ساتھ عوام کی بھلائی میں  ڈوبے  رہتے  ہیں۔

یہ بنیادیں  تھیں  کہ لٹیروں  کے  خلاف حربے  بنانے  کیلئے  راز تنہائی کا قلعہ چاہئے۔

لیکن یہ غلط ثابت ہوئیں کیونکہ انسان بنیادی طور پر خود غرض ہے۔ حاکمانہ جبلت رکھتا ہے۔ اختیار کا بھوکا ہے۔ اور اس کے  لئے  اس کے  ایمان کو بدلتے  دیر نہیں  لگتی۔

انسان پیسوں  کے  لالچ میں  اپنے  باپ اور بھائیوں  کو دھوکا دیتا ہے۔ اپنی محبت کرنے  والی بیوی کو جلا دیتا ہے۔ پہر اپنی متاع زندگی کے  بارے  میں  گہرے  فیصلے  لینے  کے  عمل کو خطرناک تخلیہ میں  کیسے  چھوڑا جا سکتا ہے۔ یہ صرف ہماری تساہلی کا نتیجہ ہے۔ اور ہمارے  دکھ اس تساہلی اور سادہ لوحی کا نتیجہ ہیں۔ ہماری تساہلی ہی ہماری گردن میں  پڑی گانٹھ  میں  تبدیل ہو گئی ہے۔ یہ گانٹھ ایک بیماری ہے  جس کا کھلنا ضروری ہے او ر یہیں  سے  ہماری آزادی کی جوالا مکھی باہر نکلے  گی۔

اس گانٹھ کی رسی ہم نے  اپنی گردنوں  میں  خود ہی ڈال رکھی ہے۔ دوسروں  نے  صرف چالاکی سے  اس میں  گانٹھ ڈال دی ہے او ر اب وہ اس گانٹھ کے  فوائد پر اصرار کرتے  ہیں۔ اسے  مختلف دلیلوں  سے  فطری ضرورت بتاتے  ہیں۔ دراصل انہیں  پر نظر رکھنے  کی ضرورت ہے  کہ ان کے  پاس قانون کے  مطابق کام نہ کرنے او ر بد عنوان ہونے  کی صورت میں  حکومت ان کی حفاظت نہ کر سکے ، قانون سے  ان کو کوئی چھوٹ نہ ہو، نہ لمبی کاروائیوں  کے  وقت کھانے  والے  ضابطوں  کی شکل میں ، نہ ان کاروائیوں  کا اختیار صرف ان کے  آقاؤں   کے  پاس ہونے  کی شکل میں۔

جب سوچ بدلتی ہے  تو حکومتیں  بدل جاتی ہیں۔

جب عقیدے  بدلتے  ہیں  تو حکومتیں  بدل جاتی ہیں۔

جب نظر بدلتی ہے  تو نگاہ انتخاب بدل جاتی ہے۔

جب لاوا پگھلتا ہی اور اس سے  دھواں  خارج ہوتا ہے   تو آتش فشاں  کے  منھ خود بخود وا ہو جاتے  ہیں۔

ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں  ٹن بھاری چتانیں  ٹوٹ جاتی ہیں۔

جب تم غذا بننا بند کرو گے  تو جراثیم  خود بخود مٹ جائیں  گے۔

جب زمین کی آب و ہوا بدلتی ہے  تو بڑے  بڑے  ڈائیناسور فنا ہو جاتے  ہیں۔

اس دھوکے  میں  مت آؤ کہ معاشیات بدلتی ہے  تبھی طبقات بدلتے  ہیں۔ سیاسی نظام کی بنیادیں  انسانی سوچ پر قائم ہیں۔

ذہنی راہ عمل کے  انتخاب کے  اس لمحے  میں  اسے   راز داری کی چند مثالیں  یاد آنے  لگیں۔ جب وہ ڈرائیونگ لائیسنس بنوانے  گیا تھا تو کھڑکی پر کتنی لمبی لائن لگی تھی۔ معلوم ہوا کہ اس میں  بیشتر لوگ کئی دنوں  سے  لائن میں  کھڑے  ہو رہے  ہیں او ر ان کے  کاغذات میں  روزانہ کچھ نہ کچھ کمی نکلتی ہے  جبکہ اس دفتر کے  پاس بیٹے  ٹائپسٹوں   کے  بیچ بش شرٹ او ر پینٹ پہنے  جو چوکنا نگاہوں  والے  کئی لوگ  جو وہاں  بظاہر بلا کسی وجہ کے  وہاں  ہوتے  ہیں   وہ پانچ سو روپئے  لیکر اندر جاتے  ہیں  او ر ایک گھنٹے  میں  فوٹو کھنچوا کر لائسنس دے  دیتے  ہیں۔

یہ تو خیر سبھی جانتے  ہیں  لیکن تعجب خیز منظر وہ تھا  جو اسے  اب یاد آ رہا تھا۔ ہوا یہ کہ کچھ بلڈرس نے  ایک جنگل  کے  علاقے  میں  دھڑا دھڑ بڑی بڑی زمینیں  کسانوں  سے  یہ کہ کر خرید لیں  کہ وہ وہاں  کچھ خاص طرح کی کھیتی کرنا چاہتے  ہیں۔ پھر انہوں  نے  وہاں  تک کے  لئے  کچھ معمولی سڑکیں  بنائیں او ر پھر تو وہاں  جو منظر تھا وہ دیکھنے  کی لائق تھا۔ اینٹیں  گرنے  لگیں، بھاری بھاری مشینیں  آنے  لگیں او ر اس لق و دق جگہ پر کئی منزلہ عمارتیں  کھڑی ہونے  لگیں۔ کوئی پوچھے  بھلا یہاں  کون رہے  گا۔ لیکن  جو پوچھے  سو احمق۔ اور احمقوں  کی دنیا میں  کمی نہیں۔

اس کے  بعد اخباروں  میں  خبر آئی کہ حکومت نے  فیصلہ کیا ہے  کہ یہاں  سے  ملک کی ایک بڑی شاہراہ گزرے  گی۔

اسے  اپنا ہی واقعہ یاد آیا۔

وہ مقابلے  کے  امتحان میں  ناکام ہونے  کے  اعلان کے  بعد ملک کی بڑی عدالت میں  پہنچا تھا اور چیلنج کیا  تھا کہ اس کے  نمبر کامیاب ہونے  والے  امیدواروں سے  زیادہ تھے۔ کمیشن نے  اس سے  انکار نہیں  کیا لیکن کہا کہ دراصل نمبر گھٹائے  بڑھائے  بھی جاتے  ہیں۔ سوال کیا گیا کہ ایسا کن بنیادوں  پر ہوتا ہے  تو کمیشن نے  کہا کہ عوام کو یہ بات بتائی نہیں  جا سکتی کیونکہ یہ ایک فن ہے  جو سرکار کی نجی دولت ہے۔

یعنی عوام کو راز داری کے  نام پر اپنے  اصل حاکموں  کے  انتخاب سے  بھی بے  دخل کیا جا چکا تھا۔

یہ معاملہ آمریت سے  کتنی دور رہ گیا تھا۔

جمہوریت اپنے  آپ میں  کوئی مکمل طور پر جنت نہیں  ہوتی۔ اس میں  اگر جنت پیدا ہو سکتی ہے  تو دوزخ کی آگ پیدا کرنے  کی بھی اس میں  مکمل گنجائش ہوتی ہے۔ اس لئے  یہ بھی سن لو لو کہ یہ حکمرانی سے  زیادہ مکاری کا کھیل ہے۔

جمہوریت ایک عبوری دور ہے،

جمہوریت میں  کوئی حکمراں  نہیں  ہوتا۔

جمہوریت نام ہے  دھوکے  میں  رکھ کر لوٹنے  کا۔

بھروسہ دلا کر لوٹنے  کا۔

یہ تاجروں  کا فن ہے او ر اسی سے  تجارت کے  عروج کے  ساتھ یہ دنیا میں  غالب آئی ہے۔

تاجر ہر طرح کے  جذبے  سے  مبرّا ہوتا ہے  کیونکہ وہ ترازو کے  ایک پلڑے  پر کھڑا ہوتا ہے۔

جمہوریت میں  حکمراں  حکومت نہیں  کرتا بلکہ ہمراہ بن کر پیٹھ میں  چھرا بھونکتا ہے۔

ہم تب تک محفوظ نہیں  جب تک حکمراں او ر محکوم کے  تصورات سے  باہر نہ نکل آیں۔

جمہوریت میں  تا جر حکمرانوں  کی شرح منافع ہماری،حکمراں  کی ضرورت  محسوس کرنے  میں  مضمر ہے۔ تاجر حکمراں  جانتا ہے  کہ ہم خود حکومت نہیں  کر سکتے  او ر وہ ہماری اس کمزوری کا حتی الامکان فائدہ اٹھاتا ہے۔

اس نظام میں  وہی کامیاب ہو گا جو تاجرانہ ذہن رکھتا ہو گا۔ اور تاجرانہ ذہن کو سمجھتا ہو گا۔

اور تاجر بھی کیسا ؟

انتہائی مکار اور چالاک۔

جمہوریت حکمرانی اور تجارت کا ایک انتہائی عجیب و غریب حلول ہے۔

جمہوری نظام میں  حاکموں  سے  روایتی حاکموں  جیسی توقع رکھنا بیجا ہے۔

اور سارا دھوکہ اسی میں  ہے  کہ جمہوریت کہ نظام میں  حکومت پر روایتی حکومتوں  جیسا بھروسہ رکھنے  پر مجبور کیا جاتا ہے او ر پردوں او ر پہروں  کے  وہی دبیز چلمن قایم رکھے  جاتے  ہیں۔

بھلا تاجرانہ رشتے  میں  چلمن کیسی؟

دشمنوں  کے  نام پر راز داری۔

لیکن جمہوریت میں  سب سے  زیادہ خطرہ تو خود حاکم سے  ہوتا ہے  کہ وہ نظام کو چلانے  کی ذمہ داری ہی تاجرانہ شرائط  پر لیتا ہے۔ ہر الیکشن کا ایک ٹھیکہ ہوتا ہے۔

اس کے  بعد تو صرف سمن آتے  ہیں۔

جمہوریت کے  عہدیدار بیرونی طور پر حاکم اور اندرونی طور پر ماہر تاجر ہوتے  ہیں۔

جمہوریت میں  کوئی حاکم یا محافظ نہیں  ہوتا، یہاں  سبھی شکاری یا شکار ہوتے  ہیں۔ جو اس بات کو سمجھتا ہے  وہ شکاری بن کر رہتا ہے، جو نہیں  سمجھتا وہ شکار بن کر رہتا ہے، اور شکاریوں  سے  رحم کی امید رکھتا ہے۔ ان سے  بے  رحمی کے  گلے  کرتا ہے۔ اور اپنے  لئے  ایسے  شکاری کی تلاش میں  رہتا ہے  جو اس سے  وفا کرے۔ کچھ شکاری ایسے  وفادار جانوروں  کو پالتو مویشی بنا لیتے  ہیں، اور انہیں  بوقت ضرورت ذبح کرتے  رہتے   یا پھر ان کا دودھ دوہتے  رہتے  ہیں۔ اور زیادہ دودھ حاصل کرنے  کے  لئے  ان کے  بچوں  کو مکاری کے  ساتھ مار دیتے  ہیں۔ بڑی بڑی سیاسی جماعتیں  محض گوشت خور پیڑ ہوتی ہیں۔ ان کی مسکراہٹیں، ان کے  وعدے، ان کی میٹھی آوازیں ، سب ٹھگی کے  ہتھیار ہوتے  ہیں۔

روایتی حکومتوں  سے  تجارتی جمہوریت میں  انتقال دراصل لوگوں  کو محفوظ گھروں  سے  بازی گاہ میں  لانے  کا عمل ہوتا ہے۔ لہٰذا جمہوریت میں  آزادی کے  ساتھ انفرادی خود مختاری،اور خود مختاری کے  ساتھ اس خود مختاری کو بچانے  کی صلاحیت اور قوت اس خطرناک کھیل کے  میدان کا لازمی تقاضا ہے۔

ہم تاریخ کی ایک اہم تبدیلی کے  تحت اس نظام میں  داخل ہوئے  ہیں اور اس کے  لے  دوسرا کوئی ز مہ د ار نہیں۔ یہ ہماری تقدیر ہے او ر ہمیں  اس کو سمجھنا ہے۔ شکار کے  اس میدان میں  فرد کا خیر اس میں  ہے  کہ وہ اپنی ذاتی صلاحیتوں او ر گروہ بندیوں  کے  ذریعہ اپنی بقا اور تحفظ کا انتظام کرے۔

یاد رکھو کہ جمہوریت ایک بے  ایماں  جنگل ہے۔

اور جو شخص اس حقیقت کا منکر ہے  وہ یا تو بیوقوف دوست ہے  یا تمہارا مکار دشمن شکاری۔

جمہوریت کی دلکشی بس اتنی سی ہے  کہ تم اس میں  اپنی تقدیر بغیر تلوار اٹھائے  ہوئے  بدل سکتے  ہو کہ جمہوریت میں  یقین رکھنے  والے  خونی جنگ نہیں  چاہتے۔ لہذا جمہوریت مکمل اس دن ہو گی جب ہر شخص اپنی خود مختاری کی ذمہ داری کو اٹھانے  کا اہل اور اس کے  لے  تیار ہو جائے  گا۔

اور اس کے  علاوہ نجات کا اور کوئی راستہ نہیں۔

کہ اگر اس کی جگہ کوئی آمرانہ حکومت آ گئی تو اس خود مختاری کی ہی موت ہو جائے  گی جس میں  تمہاری مکمل فلاح و بہبود پنہاں  ہے او ر تم مکمل غلامی میں  قید ہو جاؤ گے او ر پھر ڈاکٹر والکر کی حکومت ہو گی اور تم ہو گے۔

تمہاری نجات تمہاری اس جرات میں  پنہاں  ہے  کہ تم اپنی سلامتی کی ذمہ داری خود اٹھاؤ۔

اور تمہاری مکمل تباہی اس تساہلی میں  پنہاں  ہے  کہ تم اس میں  غفلت برتو۔

تمہیں  اپنے  اندر ایک مکمل تاجرانہ ذہن کو فروغ دینا ہو گا۔

اور پھر انسانی قدروں  سے  اپنے  کو روشن کرنا ہو گا۔

تاکہ تمہارے  اندر کوئی کالا پانی وجود میں  نہ آئے۔

تاکہ تم تاجر کے  بجائے  لٹیرے  نہ بن جاؤ۔

اور زمین پر انسانیت کے  چراغ روشن کر سکو۔

اور کائنات کو حاصل کرنے  کے  ساتھ ساتھ قربانی کے  جذبے  کا لطف اٹھاؤ۔

کہ قربانی سے  زیادہ لذیذ اور کوئی جذبہ نہیں

اور یہ بڑے  انسانوں کی پہچان ہے۔

یہ عظمتِ انسانی کا پرچم ہے۔

اور یہ پرچم آج کی دنیا میں  جھکا ہوا ہے۔

بلکہ زمیں  بوس ہو چکا ہے۔

اس پرچم کو زمین پر سرفراز کرو۔

کہ تاریخ میں  فتح انسانی کے  نشان قائم ہوں۔

اور مافیا طرزِ فکر کا زوال ہو۔

کہ روشنی اور اندھیرے  میں  فرق ہے،

اور روشنی سے  مینارۂ نور بنتے  ہیں۔

کہ یہ نفسِ امارہ پر حاوی ہونے  کی نشانی ہے،

بڑے  موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

نہنگ و ازدہا  و  شیر نر مارا  تو کیا  مارا

وہ گنگنانے  لگا

بڑے  موذی کو۔

نہنگ و ازدہا۔۔۔۔

خود غرض لوگ تو دراصل ایک خاص طرح کی بزدلی اور احساسِ عدم تحفظ کے  قیدی ہوتے  ہیں۔

اور ایسے  ہی لوگوں  نے  زمین کو عظمت انسانی سے  محروم کر دیا ہے۔

oo

 

 

اس نے  کچھ چیزیں  بلوگ  کی شکل میں  لکھیں  لیکن ابھی بھیجا نہیں  تھا۔

وہ کون ہے  جو ابھی تک بے  فکری سے  ہمارے  اوپر حکومت کر رہا ہے۔ حاکم و محکوم کا  فرسودہ تصور  ہی کھجلی کا وہ جالا ہے  جسے  شیر علی نے  بہت شدت سے  محسوس کیا تھا۔

ہماری ساری رسوائیاں  انہی درباروں او ر چلمنوں او ر ڈیوڑھیوں  کے  دم سے  ہیں۔ یہ چلمن، یہ ڈیوڑھیاں او ر اس میں  کام کرنے  والے  کارندے۔ یہ سب مشین ہیں  کسی اور کے  ہاتھ کی، ان کے  ہاتھ کے  جن کی تحفظ کے  لئے  یہ ضروری ہیں، کس سے  بچنے  کے  لیے، ان عوام سے  جن کا یہ اس مشین کے  پیچھے  بیٹھ کر خفیہ نلیوں  سے  خون چوستے  ہیں۔ حاکم و محکوم کے  رشتے  والا یہ غیر جمہوری سماجی ڈھانچہ ہی بنیادی طور پر آقا و غلام کے  رشتے  پر قائم وہ خون چوسنے  والی مشین ہے  جو ہر طرح کی حکومت میں  جاری رہتی ہے۔

چاہے  وہ بادشاہت ہو، آمریت ہو یا جمہوریت ہو، اس رشتے  کو قائم رکھنے  والی قوتوں  کی دلچسپی صرف اس ڈھانچے  میں  ہوتی ہے، جب تک یہ رشتہ موجود ہے، ان کی تجارت محفوظ ہے، باقی یہ کہ انقلابات تو انسانوں  کی فطرت میں  ہے او ر انقلابات تو آتے  ہی رہتے  ہیں، اور حکومتوں  کی شکل بدلنا انسان کی انقلابی جبلت کو رام کرنے  کی پینترا بازی  ہی تو ہے۔

اور عیاری کا یہی وہ آسیب ہے  جس نے  ہزاروں  سال سے  ہمارے  خوابوں  کو ہمارے  جسموں  سمیت آسمان میں  لٹکا رکھا ہے۔

یہی وہ بیماری ہے  جو ہمیں  نہیں  چھوڑتی۔

یہی وہ بیماری ہے  جس کا علاج ہمارے  دانشور کبھی نہیں  لا پائے  کہ وہ سبھی خیالوں او ر مفروضوں میں  الجھے  رہے او ر انسان کی سرشت میں  پوشیدہ ان عیاریوں  سے  ناواقف رہے  جو ہر انسان کے  اندر موجود ہوتی ہے او ر اقتدار کی خوراک ملتے  ہی پنپنے  لگتی ہے او ر عیارانہ طریقوں او ر بہانوں  سے  پردوں  میں  لپٹے  تخلیے  کی تعمیر کر کے  رفتہ رفتہ اسے  ایک مضبوط قلعہ میں  تبدیل کر لیتی ہے۔

خوفناک ہتھیاروں  سے  لیس یہ تخلیہ ہی وہ لیبا ریٹری ہے  جہاں  عام آدمی کے  جہنم کی آگ سلگائے  رکھنے  والا مادہ تیار کیا جاتا ہے۔

اور اس تخلیہ کی تعمیر بھی خاموشی سے او ر ناقابلِ تردید دلیلوں او ر بہانوں  کی بنیاد پر ہوتی ہے او ر اس تعمیر کے  فیصلے  کا یہی لمحہ وہ لمحہ ہوتا ہے  جب جمہوریت کے  گلے  پر چھری چل جاتی ہے او ر بیچاری جمہوریت کو پتہ بھی نہیں  چلتا۔

اور پھر یہاں  آنے  والا ہر بکرا  شیر بنتے  ہی سب سے  پہلے  اس قتل گاہ جمہوریت کا سب سے  بڑا محافظ بننے  کا حلف لیتا ہے او ر بصد شوق محافظ بن بیٹھتا ہے۔ اور پھر اس کے او ر عوام کے  بیچ ہزاروں  من بھاری چلمن گرا دیے  جاتے  ہیں۔ وہ وہاں  عوام کی نہیں  قانون کی حفاظت کی قسمیں  کھاتا ہے،اور یہ بھول جاتا ہے  کہ جو قانون عوام کی حفاظت نہیں  کر سکا اس کی حفاظت کی قسمیں  کھانے  کی ایسی عجلت کیا ہے، اور یہ کہ وہ جانے  مانے  قوانین کے  ساتھ ان قوانین کی حفاظت کی قسمیں بھی کھا لیتا ہے  جن کی بنیاد پر عوام کو معاملات حکومت سے  دور رکھنے  والا قلعہ پہلے  سے  کھڑا ہوتا ہے۔ کیسے  کیسے  ایک ہمدرد اور محافظ خطرناک اور بدترین دشمن میں  تبدیل کر دیا جاتا ہے  اس کا فن صرف کہنہ مشق معمار حکومت، بادشاہ گر، حکومت ساز لومڑیاں  جانتی ہیں  جو دراصل انسان کی ابدی محرومی کے  جراثیم ہیں  جن کو مارنے  والی دوا کم از کم ابھی تک انسان نہیں  ایجاد کر پایا کہ وہ ہمیشہ حاکموں  کو ہی اصل حاکم سمجھتا رہا جبکہ سارے  حاکم چاہے  وہ بادشاہ ہوں، آمر ہوں  یا جمہوریت کے  نمائندے، سبھی دراصل اس حسینہ کے  جادو کے  تابع ہوتے  ہیں  لیکن اپنے  کو مالک و مختار سمجھتے  ہیں۔ ،

سوائے  ان لمحوں  کے  جب انہیں  اس حسینہ کے  اشارے  پر اپنی ماں  کو قتل کرنے  سے  بھی انکار کی قطعی گنجایش نہیں  ہوتی۔

oo

 

 

 

کیا یہ باتیں  میرے  پڑھنے  والوں  کے  ذہن میں  اتریں  گی ؟ خالد سہیل نے  سوچا۔

میں  بھی کتنی مشکل بات سمجھانے  کی کوشش کر رہا ہوں۔ عوام سے  پہلے  تو یہ لومڑیاں  چوکس ہو جائیں  گی۔

وہ لوگوں  کو کائنات کی بہترین مشروبات پلا پلا کر محکوم بنے  رہنے  کے  فائدے  سمجھائیں  گے۔

اور جب وہ سمجھائیں  گے  تو دیکھنا اِن لوگوں  کو جن کے  کندھوں  پر سر رکھ کر تم ان سے  انسانی تاریخ کے  لمبے  دکھوں  کے  اسرار پر گفتگو کرنا چاہتے  ہو،   ان کی بات کتنی آسانی سے  سمجھ میں  آئیگی۔

برسوں  سے  وہ لوگوں  کو گھروں  میں، نکڑوں  پر،ٹرینوں  میں  عوام کی بدحالی اور ملک کی انتہائی خراب صورت حال پر بحثیں  کرتے  سنتا آیا تھا۔ لوگ ہر زاویے  سے  بحث کرتے  لیکن آخر میں  اس بات پر ٹھنڈے  پڑ جاتے  کہ کریں  کیا۔ جواب کسی کے  پاس نہیں  تھا کہ کریں  کیا اور کچھ کریں  تو شروع کہاں  سے  کریں۔

آج اسے  اس سوال کا مکمل جواب ملا تھا۔

آج اسے  شاہراہ دکھائی دے  رہی تھی۔

کیا اتنے  بڑے  ملک میں  صرف اسے  ہی یہ شاہراہ پہلی بار دکھائی دے  رہی تھی۔

یقین کرنا تو مشکل تھا لیکن پھر اس نے  سوچا اور ایک نتیجے  تک پہنچا۔

’ایسا ہی ہوتا ہے۔ ‘

’لاکھوں  کروڑوں  انسانوں  میں  کسی ایک کے  ذہن میں  یہ بات اٹھتی ہے  کہ ابلتے  پانی کی کیتلی کی بھاپ میں  انجن چلانے  کی طاقت ہو سکتی ہے۔ ابتدا میں  ایسا سوچنے  والے  بہت معمولی لوگ ہی ہوتے  ہیں  البتہ یہ لوگ وہ ہوتے  ہیں  جو کسی بے چینی کے  شکار ہوتے  ہیں۔ ‘

اسے  لوگوں  کے  اوپر بہت گہرا شک ہے۔

اور وہ اس شک سے  نکل نہیں  پاتا۔

جن کو وہ اپنے  ہی جیسا مظلوم سمجھتا ہے  ان کے  ارادے  کیا ہیں  یہ وہ نہیں  جانتا۔

لوگ اپنے  فائدے  کی باتیں  تو  دھیان سے  سنتے  ہیں  لیکن جب عمل کی دعوت دی جاتی ہے  تو ان کے  دلوں  میں  نہ جانے او ر کیا کیا آتا ہے  جس پر وہ باتیں  بھی کرنا نہیں  چاہتے۔ وہ انقلاب کی دعوت دینے  والوں  کو صرف اپنا خیر خواہ نہیں  سمجھتے  بلکہ ان کو ان کے  فرقے، طبقے او ر نہ جانے  کن کن چیزوں  کی روشنی میں  دیکھتے  ہیں۔ ان کی نظریں  دانشمندی سے  چمکنے  لگتی ہیں۔

ان کے  دلوں  میں  یہ خیال اٹھنے  لگتا ہے  کہ یہ آدمی جو آج ہمارے  برابر ہے  کل کوئی عظیم رہنما نہ بن جائے۔

یہ لوگ سچ مچ کوڑھی اور قیدی ہیں۔

انسانوں  کی یہ دنیا جو مظلومیت کے  اس جیل میں  قید تھی،یہ خود ہی بے  حد چالاک، منافق، پر اسرار اور نا قابل اعتبار تھی۔

اور پھر یہ کہ وہ اپنی دانشوری کو تمہاری سوچ سے  زیادہ اہمیت دیں  گے۔

تم لاکھ ان کی لئے  سوچو، وہ یہی سوچیں  گے  کہ تم نیتا گیری کے  چکر میں  یہ سب کچھ کر رہے  ہو۔ تمہارے  خیالات کو وہ خوبصورت شاعری کی طرح سن یا پڑھ لیں  گے۔ اس کے  بعد دیکھنا۔ آٹے  دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے  گا۔ چپ چاپ کچھ دے  دلا کر اپنے  مقدمے  کو نپٹا لو اور سکون کی زندگی جیو۔ وہ جو سمن آیا ہے  اسے  لے  کر عدالت سے  تحقیقات کرو۔ کسی وکیل کو لگاؤ۔ جواب لکھواؤ۔

ڈیڑھ سو سال سے  یہی تو ہو رہا ہے۔

کچہری سے  لیکر ایوان حکومت تک کے  چکر۔

اس نے  سوچا۔

 

ان سب  باتوں  نے  ایک ساتھ مل کر سہیل کے  حوصلے  کو بری طرح پست کر دیا۔

oo

 

 

 

لوگوں  کو اس کی ذات میں  گہری دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ سب جاننا چاہتے  تھے  کہ کیا ہو رہا ہے۔ لوگ اس کے  بارے  میں  لگ بھگ روز ہی باتیں  کرتے  رہتے  تھے۔ کئی لوگ کبھی کبھی اس کی نظموں  کے  ٹکڑے  بھی آپس میں  سنتے  سناتے  تھے  جو ان کو یاد ہو گئی تھیں۔

لوگوں  کو انتظار تھا کہ وہ کوئی اچھی سی کتاب لکھ کر نکلے  گا۔

لوگ اسے  صوفی کہنے  لگے  تھے۔ والد نے  ہی ایک دن اسے  بتایا تھا کہ کس طرح صوفی فاقہ کرتے  ہیں او ر ترکِ دنیا کرتے  ہیں،  یہ بھی بتایا تھا کہ ترکِ دنیا کا مطلب دنیا کی ذمہ داریوں  یا اس کے  لطف کو ترک کرنا قطعی نہیں  ہے  بلکہ اس کے  معنی صرف یہ ہے  کہ اپنے  اعمال اور کوششوں  کی رہنمائی وہ روشنی کر رہی ہو جو روحانی بلندی عطا کرتی ہے او ر انسان میں  یہ قوت بھر پور طور پر اوج کر آئے  کہ اگر کوئی چیز اصولاً۔ غلط ہو تو محض خواہش کے  اثر میں  آ کر وہ کام نہیں  کیا جائے۔ اور دراصل اسی صلاحیت کو حاصل کرنے  کے  لئے  تربیت کے  زمانے  میں  سختی کے  ساتھ کے  ساتھ کئی جائز خواہشوں  پر بھی قابو پانے  کا مادہ پیدا کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ خالد کی کوششوں  کو بھٹکا ہوا بتاتے  رہے  کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ اصل علم تک پہنچنے  کے  لئے  مولانا روم کو بھی اپنی بھاری بھاری کتابوں  کو کنارے  کرنا پڑا۔ لیکن خالد تو دنیا کی باتیں  کرتا ہے۔

صوفی دنیا کے  جھمیلوں  میں  مثلاً سیاسی نوعیت کی باتوں  میں  نہیں  پڑتے۔

oo

 

 

 

اس کے  ذہن میں  تناؤ مسلسل بڑھتا جا رہا تھا۔

مان لو کہ تمہارے  خیالات سے  آگ لگ بھی گئی تو اس کا کیا ٹھکانہ کہ راکھ سے  کیا نکلے  گا۔ کیا ایک بار پھر وہی نہیں  ہو گا جو ہر انقلاب کے  بعد ہوتا ہے۔ کچھ ایسا جادو چلے  گا کہ آنے  والا انقلاب تمہیں  پھانسی چڑھائے  گا اور یہی لوگ تالیاں  بجائیں  گے۔

اس کے  ذہن میں  تاریکیوں  کے  بڑی بڑی لہروں  والے  طوفان اٹھنے  لگے۔ اور وہ جو ایک عظیم پیڑ کی طرح اگ آیا تھا، ان طوفانوں کا سامنا کرتے  کرتے  ہلنے  لگا۔ اس نے  بے  بسی سے  ادھر دیکھا جدھر سے  ہوا آ رہی تھی،اور اپنے  کو سنبھالنے  کی کوشش کرتا رہا،ہواؤں  کے  دباؤ کا اپنی انتہائی قوت سے  مقابلہ کرتا رہا لیکن پھر اس زمین نے  ہی اس کا ساتھ نہیں  دیا اور  تب اسے  محسوس ہوا کہ وہ جڑ سے  اکھڑ رہا ہے، وہ جان گیا کہ کیا ہو رہا ہے،اور پھر طوفان کے  بوچھار اس کی آنکھوں  میں  آ گئے۔ اور اس بوچھار کے  ساتھ ہی ا ک نظم یاد آ گئی جو اس نے  نہ جانے  کیسے  لمحوں  میں  اخبار میں  ایک دل شکن خبر پر ایک کالم پڑھ کر تین چار برس پہلے  لکھ دی تھی۔

یادوں  کا مجرم

میرا چوکیدار ہی

اب میرا دشمن بن گیا ہے

وہ کہتا ہے  کہ اب وہ میری چوکیدار ی سے  دست بردار نہیں  ہو سکتا۔

وہ مجھے  دنیا کی ہر چیز سے  محفوظ رکھے  گا۔

یہاں  تک کہ میری سوچ سے  بھی۔

پھر اس نے  ایک دن میرے  ہاتھ مانگے  کہ وہ اسے  محفوظ رکھ دے  گا۔

اور میرے  ہاتھ کاٹ لئے۔

سو  اس طرح

پہلے  اس نے  میرے  ہاتھ مانگے

میں  نے  دے  دیے

پھر اس نے  میری آنکھیں  مانگیں،میں  نے  دے  دیں

پھر پاؤں  کاٹ لیے

چند قدم آگے  بڑھنے  کے  بعد وہ واپس آیا

اور اس نے  حکم دیا کہ

کہ میں  اسے  یقین دلاؤں  کہ میں  چلاؤں  گا نہیں

پھر اس نے  میری زبان مانگی

میں  نے  دے  دی

چلتے  چلتے  وہ پھر واپس آیا

اب وہ بڑا مرجھایا ہوا تھا

اس نے  میرے  درد پہ اپنے  اندیشہ کا اظہار کیا

میں  نے  درد بھی دے  دیے

لیکن اس کے  تیور بدل گئے

وہ مجھے  خاموش،شک بھری نظروں  سے  دیکھنے  لگے

میں  اس کے  اگلے  حکم کا منتظر تھا

کہ اسے  بے  پناہ غصہ آ گیا

وہ بے  قابو ہو گیا

اور مجھے  زور کا طمانچہ مارا

میں  لکڑی کے  بت کی طرح کھڑا رہا

پھر اس نے  کہا

تم ضرور کچھ کرو گے

اور وہ وہیں  ٹہل ٹہل کر

میری نگہبانی کرنے  لگا

اب وہ مجھ سے  خوفزدہ ہے

اور میں  چپ ہوں  کہ راہ فرار کدھر ہے۔

کہ میں  پوری طرح اس کی زد میں  ہوں

اسے  وائپر  آئیلنڈ کا جلاد وہاں  ٹہلتا دکھائی دینے  لگا۔

یہ چوکیدار کون تھا ؟

کبھی عوامی کپڑے  پہنتا تھا، کبھی کھدر، کبھی  مغربی لباس، اور کبھی یونیفارم اور کبھی ڈاکٹر کے  لباس میں  آتا تھا۔

یہ چوکیدار کون تھا  ؟

عوام ؟

حکومت ؟

اس کے  عزیز و اقارب اور پڑوسی وغیرہ ؟

یہ لوگ سچ مچ کوڑھی اور قیدی ہیں۔

تو اصل مجرم یہ عوام ہیں   جن کی مظلومیت پر میں  اس قدر دکھی تھا اور جن کے  دکھوں  کو میں  اپنے  دکھوں   اپنا مشترکہ دکھ سمجھتا تھا۔

اس کا پورا کا پورا انقلابی  طوفان  ایک عبرتناک اور ہولناک تباہی  کے  ساتھ کسی ریگستان کی طرح پھیلے  وسیع دلدل میں  دھنسنے  لگا۔ اور دھنستے  دھنستے  اس نے  اب تک جو کچھ سوچا تھا  وہ اس دلدل  میں منھ کے  بل جا کھڑا ہوا۔ نجات انسانی کی تلاش کرتے  کرتے  اس کے  سامنے  اچانک ہی ایک ایسی حقیقت ابھر آئی جس کا سامنا کرنے  کیلئے  اب اس کے  اندر طاقت نہیں  بچی تھی۔ اس کا دل ڈوبنے  لگا تھا۔ اور سر میں  ڈوبتے  جہازوں کے  ہچکولوں سے  چاروں  طرف ابھرتی ہوئی اونچی اونچی لہروں  نے  واپس لوٹ کر سب کچھ برابر کر دیا۔ اور تھوڑی دیر بعد وہاں  فکر و فلسفے  کے  جہاز کا نام و نشان تک نہیں  تھا۔

صرف کروڑوں  عجیب و غریب اور شک آمیز آنکھیں   اسے  گھور رہی تھیں۔

اس کے  والد رات میں  ایک بار آئے  تھے۔ اس وقت بارش ہو رہی تھی۔ ان کو بیٹے  کے  بارے  میں  تشویش تھی کیونکہ وہ جنگل میں  اکیلا تھا۔ اور اتنی دور۔ کوئی بھی نامعلوم بات اسے  نقصان پہنچ سکتی تھی۔ بارش کی وجہ سے  اپنے  گھر کے  باہری دالان میں  کھڑے  وہ  کافی دیر تک جنگلوں  کی طرف دیکھتے  رہے  پھر اندر چلے  گئے  تھے۔

اس کا دماغ بری طرح تھک گیا تھا اور اس کے  اعصاب اب کام نہیں  کر رہے  تھے۔ اس کی وہ آنکھیں  اندر کی طرف دھنس گئی تھیں  جن سے  وہ دنیا میں  جھانک رہا تھا۔ اس کی نظروں  میں  انڈمان کے  آسمان پر اڑتے  ہوئے  گدھ ابھر آئے او ر پھر نیچے  سمندر میں تیرتی کئی لاشوں  کے  بیچ میر علی کی لاش دکھائی دی۔ نہ جانے  کیا سوچ کر وہ رو پڑا۔ اس کے  عار۔ ض پر آنسوؤں  کی ایک لڑی چلنے  لگی۔ اور کافی دیر تک چلتی رہی۔ اس کا پورا سفر ایک کہانی بن چکا تھا او ر یہ پوری کہانی اس کے  ذہن میں  دوبارہ چل پڑی۔ کہانی کے  ختم ہونے  تک اس کے  کپڑے  آنسوؤں  میں  تر بتر ہو چکے  تھے۔ بے  پناہ نقاہت کے  سبب اس پر نیند کی غنودگی طاری ہو رہی تھی۔ اس نے  کتاب کا آخری صفحہ تحریر کیا۔

لوگو، تمہارے  یہ ظالم آقا آسمان سے  نہیں  آتے۔

یہ کوئی اور نہیں  یہ تم خود ہو۔

یہ جو اونچے  اونچے  پیڑ تم دیکھتے  ہو ان کا بیج تم خود ہو۔

یہ ویسے  ہی ہیں  جیسے  تم ہو۔

اگر تم اندر سے  بدلتے  تو یہ بدل گئے  ہوتے۔

کہ ان کی اصل تم ہو۔

یہ صرف تمہارا سایہ ہیں۔

مجرم و ظالم کوئی اور نہیں،

تمہارے  اندر کا شہری ہی مجرم ہے۔

وہ ملک کے   تعزیرات

کے

دفعہ

غفلت مجرمانہ

کا

اس عہد کا سب سے

گھناؤنا مجرم ہے  جس نے  اپنی غفلت کے  ذریعہ معاشرے  کے  ہر شخص کو سنگین خطروں او ر مصیبتوں  میں  ڈال دیا ہے۔

یا تو تم اعلان کرو کہ تم اس ذمہ داری کو نہیں  سنبھال سکتے او ر اپنی زندگی کے  بوجھ سے  دست بردار ہو جاؤ یا پھر اپنی ذمہ داری کو سنبھالو

ورنہ

اس آخری پیغام کے  بعد میں  اپنی روح کی زبان سے  خود بد دعا کرونگا کہ تم اپنے  جرائم کی پاداش میں  ابد لآباد تک یوں  ہی غلامی کی ذلتوں  میں  ڈوبے  رہو۔ اور چور ا چکے  تمہارے  بچوں  کو اپنی غذا بناتے  رہیں۔ اگر تم کو میری بات پر شک ہو تو پچھلی آدھی صدی سے  زیادہ لمبے  عرصے  کا اپنا یہ اعمال نامہ دیکھ لو۔

اگر تم ان تمام خرابیوں  کے  ذمہ دار نہیں  ہو تو مجھے  صرف یہ بتا دو کہ کون ذمے  دار ہے۔ اور اگر تم ذمہ دار ہو تو پھر بہت ہو گیا کہ اب پانی ناک میں  داخل ہو رہا ہے۔

ایسے  شہری دیکھ کہ تمہاری غلط رائے  دہندگی کے  نتیجے  میں  کتنے  قتل ہوئے، کتنی زندگیاں  تباہ ہوئیں، مجھے  بتا کہ میں  کس کا دامن پکڑوں  ؟

کہاں  اپنے  آنسو گراؤں ؟ بتا، مجھے  ٹھکانہ بتا

کہ

میں  رونا چاہتا ہوں۔

مجھے  دکھا کہ مجرم کدھر ہے  کہ مری زبان کی طرح میری آنکھوں  میں  بھی لکنت  ہے  کہ کئی پشتوں  سے  میرے  اجداد نے  بھی سچائی کو نہیں  دیکھا اور یہ کمی اب میری فطرت بن گئی ہے۔

بتا کہ میری زندگی سنگین خطروں او ر اندھیروں  میں  گھری ہوئی ہے  او ر میں اس کو بچانا چاہتا ہوں  او ر دشمن بڑا ہے او ر اس کو ختم کرنا ہے او ر یہ کام مجھ سے  اکیلے  نہیں  ہو گا۔

بتا۔

بتا۔

بتا۔

تو خاموش کیوں  ہے  ؟

تو خاموش کیوں  ہے  ؟؟؟

تو نہیں  بتائے  گا۔

تو نہیں  بتائے  گا۔

تو نہیں  بتائے  گا۔

نہیں  بتائے  گا۔

نہیں۔

تو بتائے  گا۔

بتائے  گا۔

بتاؤ۔

نہیں  بتائے  گا۔

لا الاہ ال لاہ

لا الاہ

لا

اس کے  منہ سے  خون آ گیا۔ اور فرش پر جمع ہونے  لگا۔

اسی بیچ اس کے  ذہن میں  کچھ خیالات  ٹوٹے  چھپر سے  برسات میں  گرنے  والے  پانی کے  قطروں  کی طرح ٹپکنے  لگے۔

’ عوام نے  دنیا کے  بڑے  بڑے  رہنماؤں  کو دھوکا دیا ہے  تو تم ابھی کیا ہو ؟ عوام نے  اپنے  ملک اور اپنی حکومتوں  کی ٹانگ کھینچی ہے۔ اس کی رفتار اور ترقی کے  تقاضوں  کے  تئیں  بے  حسی اور خود غرضی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ عوام سچے  رہنماؤں  کو چھوڑ کر بہکانے  والے   لوگوں  کے  پیچھے  پیچھے  زیادہ چلے  ہیں۔ ان کے  دکھوں  پر مت جاؤ۔ یہ دکھی اسی لئے  ہیں  کہ یہ سچے  رہنماؤں  کو نہیں  پہچانتے  لیکن اپنے  کو انتہائی دور اندیش سمجھتے  ہیں،  جب یہ مصیبتوں  میں  پڑتے  ہیں  تو تمہارے  پاس روتے  ہوئے  آتے  ہیں  لیکن جب تم ان کو راستہ دکھاتے  ہو تو یہ اپنے  آپ کے  بجائے  تمہیں  شک کی نذر سے  دیکھتے  ہیں۔ تب ان کے  آنسو اندر سٹک جاتے  ہیں او ر ان کی انانیت سامنے  آ جاتی ہے۔ یہ حد درجہ کوتاہ اندیش ہیں۔ یہ جان کی بازی لگانے  والے  رہنماؤں  پر بد چلنی اور بد عنوانی کا الزام لگانے  میں  ایک وقفہ نہیں  لگاتے۔ جس کمینگی عوام نے  اپنے  ملک اور اپنی قوم کی ترقی کے  لئے  اٹھائے  گئے  اقدامات کے  تئیں  ثبوت دیا ہے  اس کا تصور کر کے  قربانی دینے  کا عزم رکھنے  والوں  کے  رونگٹے  کھڑے  ہو جاتے  ہیں۔ عوام میں  نہ اپنے  عہد و پیماں  کا پاس ہوتا ہے  نہ وہ وفادار ہوتے  ہیں۔ یہ اگر حتمی و ختمی طور پر کسی زبان کو سمجھتے  ہیں  تو وہ ہے  طاقت کی زبان۔ ان کی بھلائی بھی کرنی ہو تو انہیں  بے  ہوشی کی دوا دیکر آپریشن کرنا پڑتا ہے او ر اگر یہ اس بیچ میں  جاگ گئے  تو یہ تمہارے  اوپر ہی جان لیوا حملہ کر دیں  گے او ر اگر بعد میں  جاگے او ر انہیں  محسوس ہوا کہ اس آپریشن کے  بارے  میں  ان کا ذہن صاف نہیں  ہے  تو یہ تمہارے  دشمن بن جائیں  گے او ر ان بد نیت اور خود غرض لوگوں  کو تمہارے  مقابلے  کرسیوں  پر لا بٹھائیں  گے  جو دراصل ان کے  دشمن ہیں۔ اس لمحے  وہ قطعی طوریہ نہیں  سوچیں  گے  کہ انہیں  تمہاری نیک نیتی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ جو لوگ حکومت کرتے  ہیں  وہ اسی لئے  عوام کی طرف سے  محتاط رہتے  ہیں او ر اپنے  مقاصد اور تحفظ کے  لئے  دوسری چیزوں  کی طرف دیکھنے  پر مجبور ہو جاتے  ہیں۔

اس لئے  ان سے  قطعی امید مت رکھنا کہ یہ تمہارے  آواز دینے  پر تمہارے  ساتھ آئیں  گے۔

یہ تمہاری مدد کے  لئے  بھی تمہاری سچائی کا ثبوت مانگیں  گے۔

اور اگر تمہارے  مخالفین تم پر الزام لگا دیں  گے  تو یہ تم سے  پہلے  ان الزامات کی تردید کر کے  دکھانے  کے  لئے  کہیں  گے۔ یہ تمہارا ساتھ نہیں  دیں  گے۔

جیسے  انہوں  نے  امتحان والے  معاملے  میں  تمہارا ساتھ نہیں  دیا۔

یہ وہ بھکاری ہیں  کہ یہ چاہتے  ہیں  کہ انقلاب ان کو بھیک میں  ملے۔ یہ جو کچھ کہتے  ہیں  اس کا بھروسہ مت کر لینا۔

وقت آنے  پر یہ ایسے  بدلیں  گے  کہ تم دنگ رہ جاؤ گے۔

ان رہنماؤں  کو محض خود غرض نہ سمجھ لینا جو ان کو بیوقوف سمجھتے  ہیں  یا ان کو دھوکا دیتے  ہیں۔ انہیں  نے  بڑے  گہرے  تجربوں  کے  بعد ان کو پہچانا ہے۔ بڑی نا امیدیوں  کے  بعد ان کو چھوڑ کر اپنی دنیاؤں  میں  گم ہو گئے  ہیں۔ تم پہلے  آدمی نہیں  ہو جو ان کے  خیر خواہ ہو۔ تم سے  پہلے  بہت سے  لوگ ان کا خیر خواہ ہونے  کا نتیجہ بھگت چکے  ہیں۔

یاد رکھو کہ تم بہت مشکل اور دشوار لوگوں  کے  درمیان پیدا ہوئے  ہو۔

تم اپنی بے  لوثی کے  آئینے  میں  ان کو مت دیکھو۔

یہ انتہائی خود غرض اور خود بیں  ہیں۔

سوچتے  سوچتے  اس کی سوچ کی رگ کہیں  بے  جان ہو گئی۔ اور وہ دراصل بے  ہوش ہو گیا۔

oo

 

 

 

 

اچانک اس کی آنکھ کھلی تو جیسے  وہ کوئی خواب سا دیکھنے  لگا حالانکہ یہ خواب نہیں  تھا۔

وہ ایک کمرے  میں  بند تھا اور اس میں  بڑی تیزی سے  ایک ازدہا کہیں  نیچے  سے  نکل آیا جیسے  وہ اسی لمحے  کا انتظار کر رہا ہو اور اطمینان سے  اپنا سر اس کی طرف موڑ کر حملہ کرنے   کے  انداز میں  اس کی طرف سرکتے  ہوئے  بڑھنے  لگا۔ اس نے  گھبراہٹ میں  چاروں  طرف دیکھا لیکن اس کے  سامنے  اپنے  بچاؤ کے  لئے  کچھ نہیں  تھا۔ صرف ایک پھانسی کی رسی لٹک رہی تھی۔ کمرے  میں  نہ کوئی دروازہ تھا نہ کوئی لاٹھی تھی۔ اس نے  کود کر وہ رسی پکڑ لی اور اوپر چڑھ کر اس کے  پھندے  میں  اپنا ایک پاؤں  ڈال لیا اور رسی کو پکڑے  ہوئے  اس سے  چمٹا ہوا جھولتا رہا۔

کمرے  میں  ایک روزن تھا جس سے  ڈوبتا ہوا سورج باہر دکھائی دے  رہا تھا۔ دھیرے  دھیرے  کمرہ میں  تاریکی بڑھتی گئی اور پھر کمرہ مکمل اندھیرے  میں  ڈوب گیا۔ صرف دیر رات گئے  تک اژدہا کے  مسلسل پھنکارنے  کی اور اژدہا سے  اس کے  کچھ کہے  جانے  کی آواز آتی رہی۔ پھر مکمل خاموشی چھا گئی۔ وہ رسی سے  نیچے  گر چکا تھا۔ مرنے  سے  پہلے  خالد سہیل نے  اپنی انگلی دیوار پر گھس کر کچھ لکھنے  کی کوشش کی تھی لیکن صرف اتنا لکھ پایا تھا۔

شیر علی۔

سانپ جا چکا تھا۔

نہ جانے  خالد سہیل کیا لکھنا چاہتا تھا ؟

شاید وہ شیر علی کا قائل ہو چکا تھا۔

اس نے  تکلیف کی اتنی شدت کو برداشت کرتے  ہوئے  اپنی انگلی رگڑ کر صرف یہ دو لفظ کیوں  لکھے  تھے۔ یہ راز ابھی تک پراسراریت میں  ڈوبے  ہوئے  ہیں  کہ اس نے  یہ الفاظ کس کے  لئے  لکھے  تھے  ؟اور کن حالات میں  لکھے  تھے  ؟سوال یہ ہے  کہ کیا اس نے   کمرے  میں شیر علی کا چہرہ دیکھا تھا ؟ اگر یہ سچ ہے  تو مرتے  وقت اس نے  شیر علی میں  ایسا کیا دیکھا تھا ؟

کیا وہ کہنا چاہتا تھا کہ شیر علی کی طرح مرنے  سی پہلے  اس نے  بھی کسی کو خنجر مار دیا تھا۔ یعنی کوئی جنگ شروع ہو گئی تھی۔

کیا شیر علی نے  اس کو کوئی پیغام دیا تھا ؟ اور اس پیغام میں  اس نے  سچائی دیکھی تھی   کمرے  کے  وسط میں  ٹیبل پر ایک کتاب روشن تھی لیکن یہ بات وہ کتاب میں  نہیں  لکھ پایا تھا کہ عالم غنودگی میں نہ وہ میز نظر آ سکی تھی نہ کتاب اور اب تو لکھتے  رہنے  کی جگہ جنگ شروع ہو گئی تھی۔

مجاور کی آنکھیں  چمک رہی تھیں۔ وہ آگے  بتاتا جا رہا تھا۔

’صبح تک یہ کتاب کے  علاوہ اس میں  نہ لکھی جا سکنے  والی تحریر کمرے  میں  فاسفورس سے  بھی زیادہ تابناکی سے  چمکتی رہی اور پورا کمرہ یوں  روشن رہا جیسے  کمرے  کی دیواروں  پر، چھت پر اور فرش پر چودھویں  کی چاندنی گر رہی ہو۔ ‘

باہر چاروں  طرف گھپ اندھیرا تھا۔ اس رات شام سے  ہی تمام رات موسلا دھار بارش ہوتی رہی اور اس کی پرانی کوٹھی اور وہ لان اور وہ آسمان جس پر اس نے  لٹکے  ہوئے  آدمی کو دیکھا تھا، سب بارش میں  مسلسل بھیگتے  رہے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے  اس رات بارش ہوئی تھی جس رات عیسیٰ مسیح کو سولی پر چڑھایا گیا تھا۔ وہ رات کوئی معمولی رات نہ تھی۔ یہ رات کائنات کی طرح بے  پایاں او ر وسیع تھی۔ کہتے  ہیں  کہ اس رات، جس رات خالد کی موت ہوئی،   لوگوں  نے  ہندوستان کے  ساحلوں  سے  ایک انسانی چہرہ کو مشرق میں  جزائر انڈمان کی طرف سے  نکل کر آہستہ آہستہ مغرب کی طرف آسمان کی بلندیوں  میں جاتے  ہوئے  دیکھا تھا اور آسمان اور پورا بحرِ ہند ایک پر اسرار روشنی سے  منور ہو اٹھا تھا۔

oo

 

 

 

 

ایٹمی توانائی سے  بھرپور ایک گولا اس کتاب میں  بند جو اس کی تحریر میں  میز پر پڑی تھی اور جو خالد کے  ذہن کا مکمل عکس تھی۔ اور اس گولے  کا پلیتہ دلوں  کے  نہاں خانوں  میں  تھا۔ وہ انقلاب جسے  بیوقوف بنا بنا کر ہزاروں  سال سے  سڑکوں او ر گلیوں  میں  گھسیٹ گھسیٹ کر اتنا رسوا کیا گیا تھا کہ وہ مذاق کا موضوع بن گیا تھا وہ اب گلیوں  سے  اٹھ کر دلوں  میں  داخل ہو چکا تھا جہاں  اسے  پھلنے  پھولنے  سے  کوئی نہیں  روک سکتا تھا۔ نہ اس پر نظر بد پڑ سکتی تھی نہ اسے  کوئی کاٹ سکتا تھا۔ بامِ گردوں  پر لٹکا ہوا انسان اپنی زمین پر اتر چکا تھا۔ وہ کوئی مسیح نہیں،   مسیح سے  بڑھ کر انساں  تھا۔ لوگ اپنے  آپ میں  اس انسان کو تلاش کرنے  لگے  تھے  جو مسیح تھا۔

زندگی کے  گھنے  اندھیرے  میں          آدمی  خود  چراغ   بنتا   ہوا

’وہ ایک جنگ لڑ رہا تھا۔ اور اپنا چراغ اس نے  خود پیدا کیا تھا۔ ‘

’تو یہ جنگ تو ختم ہو گئی۔ وہ مرگیا۔ ‘

مجاور کے  چہرہ جلال سے  دمک اٹھا۔ ’وہ مر نہیں  گیا۔ وہ  میدانِ جنگ میں  کام آ گیا۔ ‘

’جنگ تو اس کی شہادت سے  شروع ہوئی ہے۔ کسی شاعر نے  کیا خوب کہا ہے

صبح سے  شام ہوئی،  رات مری باقی ہے

ابھی دنیا سے ، ملاقات مری باقی ہے

اس کے  خون سے  لکھی تحریریں  اب بھی دیواروں  پر موجود تھیں  جنہیں  لوگوں  نے  محفوظ کرنے  کے  انتظامات کر دئے  تھے۔ اس کی موت بہت بری حالت میں  ہوئی تھی۔ بالکل اورنگ زیب کے  اس بھتیجے  کی طرح جسے  موت کی سزا کے  طور پر افیم کھلا کھلا کر مارا گیا تھا۔

اب خالد تو مر چکا ہے  لیکن اس کی یہ قبر ایک مستقل سوال بنی ہوئی ہے۔

اب آپ چاہیں  تو یہ مان لیں  کہ اس کے  اندر بڑے  اور کامیاب لوگوں  والا مضبوط دل نہیں  تھا اور کمزوری کا الزام اسی کے  اوپر ڈال دیں  کہ وہ مر کیوں  گیا اور عوام کو ہر طرح کی تنقید سے  مبرّا تسلیم کر لیں  تو اس میں  زیادہ کچھ کہنے  کو نہیں  رہ جاتا ہے  لیکن کیا عوام کو بحیثیت مجموعی تنقید کا نشانہ نہیں  بنایا جا سکتا صرف اس لئے  کہ ہمیں  ان کو خوش رکھ کر تبدیلیوں  کے  لئے  ان کی مدد چاہئے۔ یعنی یہیں  پر ہم ایک سیاستداں  کی طرح سوچنا شروع کر دیتے  ہیں او ر ہمارے  اندر کی پیغمبرانہ آن ماند پڑنے  لگتی ہے او ر میرا خیال ہے  کہ اس وقت تک انسانیت اپنی موجودہ صورتحال سے  ایک جست آگے  نہیں  لگا سکتی جب تک ہم پیغمبرانہ جرات سے  عوام کی کھلی اور بھر پور نکتہ چینی پر آمادہ نہ ہو جائیں  لیکن اس کے  لئے  ایک بے  لوث دور اندیشی چاہئے  جو ہمارے  عہد میں  عنقا ہے۔ اور خالد میں  یہ بے  لوث دور اندیشی تو تھی لیکن اس کے  اندر اتنا طاقتور دل نہیں  تھا جو اور وہ عوام سے  یہ توقع رکھتا تھا کہ وہ اس کی اس کمزوری میں  اس کا ساتھ دیں  گے او ر اس کو کم از کم اپنے  بارے  میں  کسی ایسی آزمائش میں  نہیں  ڈالیں  گے  جس کی تاب لانی کی اس میں  سکت نہیں  تھی اور چونکہ وہ ان کا ہمدرد تھا اس لئے  اس کی سمجھ میں  یہ بات نہیں  آتی تھی کہ جو لوگ تخلیقی ذہنوں  سے  مدد کی توقع رکھتے  ہیں  وہی لوگ بجائے  ہاتھ بٹانے  کہ ایسی آزمائشوں  کا تماشہ کیوں  کھڑا کرنا چاہتے  ہیں  جیسے  دوسروں کی طرح اس میں  بھی کوئی ذاتی مفاد پنہاں  ہے۔ اپنے  اوپر یقین نہ کئے  جانے  کے  اسی خطرہ نے  کے  اندیشہ نے  اس کی جان لے  لی۔ وہ حق بجانب تھا کہ نہیں  یہ بات ہی اب باقی نہیں  رہی۔ اس کا ایسا محسوس کرنا اپنے  آپ میں  ایک بڑی سچائی ہے  جس کا ہم آج سامنا کر رہے  ہیں۔ اور یہی سچائی اپنے  آپ میں  ہمارے  بارے  میں  ایک سوال کھڑا کرتی ہے او ر اس کی کتاب اس سوال کا جواب دینے  کی کوشش کرتی ہے۔ اور لوگوں  کی سوچ اس کتاب کا ایسے  حصہ بن گئی ہے  جیسے  شاخیں  کسی پیڑ کا حصہ ہوتی ہیں۔

لوگ محسوس کرتے  ہیں  کہ یہ موت خالد کی کمزوری سے  نہیں  بلکہ ان کی اپنی کمزوری سے  ہوئی ہے او ر لوگوں  کو اسی بات کا گہرا ملال ہے۔ اور اس سوال میں  کہیں  بہت گہرائی میں کوئی طوفانی آتش فشاں  پوشیدہ ہے۔

 

 

13

 

جیلانی اور اس کے  دوستوں  کا ذہن اب کسی نتیجے  تک پہنچنے  لگا تھا جیسے  سب کچھ سمجھ میں  آ گیا تھا۔ کھلی فضا کی تلاش میں  شام کے  وقت وہ کھلے  کھیتوں  میں  چلے  گئے۔ افق پر قدرت اپنے  انتہائی حسن و جمال کے  ساتھ جلوہ افروز تھی۔ مغرب میں  رنگین بادلوں  کے  ٹکڑے  چمچما رہے  تھے۔ ان کے  نیچے  دور کھیتوں  میں  کچھ عورتیں  اپنے  گھروں  کی طرف جاتی ہوئی بے  حد خوبصورت لگ رہی تھیں  جیسے  ان وادیوں  میں  زندگی کی علامت وہی ہوں۔ ندی کے  آگے  کسی بستی سے  شام کے  وقت کھانا پکانے  کی تیاری اور مویشیوں  کے  بدن کو مچھروں او ر کیڑوں  سے  محفوظ رکھنے  کے  لئے  جلائی گئی آگ کا دھواں ہولے  ہولے  آسمان میں  اٹھ رہا تھا۔

انہیں  اپنی بستیاں  یاد آ گئیں۔

اس مقام کی پوری وسعت تنہائی کا ایک ایسا سماں  باندھ رہی تھیں  کہ انہیں  لگ رہا تھا جیسے  وہ زندگی کے  کسی طویل تنہا سفر پر گامزن ہوں۔ خالد سے  متعلق باتیں او ر اس کی  جزائر انڈمان کی یادیں  اس وقت ان کے  ذہن میں  گونج رہی تھیں۔ انہیں  لگ رہا تھا جیسے  وہ کسی حیرت کدے  میں  آ گئے  ہوں  جہاں  انسان تنِ تنہا کائنات کی وسعتوں  کا سامنا کر رہا ہو۔ انہیں  نے  اپنے  مستقبل کے  بارے  میں  باتیں  کیں  جو اب اپنی دھوری بدل رہا تھا۔ انہوں  نے  اپنی ان گرل فرینڈس کو یاد کیا جو دلی میں  تھیں۔ ان کی زندگی میں  نئے  افق اور نئے  امکانات کے  دروازے  کھل رہے  تھے۔ دنیا کو کچھ عظیم انسانوں  کی ضرورت تھی۔ کچھ ایسے  بہادروں  کی جو خالد کے  پرچم کو لے  کر آگے  پوری دنیا میں  جا سکتے  ہوں۔

انہوں  نے  اپنے  شہر کو یاد کیا۔ روزمرّہ میں  ہزاروں  وکیل کچہریوں  میں  جاتے  ہوئے، ہزاروں  ٹیچر اور پروفیسر اپنے  کالجوں او ر اسکولوں  میں  جاتے  ہوئے، سیاست داں  سیاست کرتے  ہوئے، دلال ٹھیکے  دلانے  کو کوششوں  میں  منہمک، جرائم پیشہ لوگوں  کو ٹھگنے  کی اسکیم بناتے  ہوئے  صحافی خبروں او ر چلتی تصویروں  کے  لئے  دوڑ بھاگ کرتے  ہوئے او ر لاکھوں  لوگ کارخانوں  میں  کام کرنے  جاتے  ہوئے۔ ابھی تک ان کا اپنا ارادہ بھی تو کچھ ایسا ہی تھا‘ ان سب کا کہیں  نہ کہیں  ایک حصہ بن جانا لیکن اب جیسے  ان کی آنکھوں  کے  اوپر سے  کوئی پردہ ہٹ گیا تھا۔ ان سب چیزوں  سے  آگے  بھی کرنے  لائق کچھ تھا۔ اس دنیا کو کچھ ایسے  لوگوں  کی ضرورت تھی جو اس کو بہتر رنگ سے  مزین کریں،  اسے  تبدیل کریں،  لوگوں  کی دبی ہوئی روح کو مزید کشادگی کے  لئے  جگہ پیدا کریں۔ انہیں  سوچنے او ر وہ سب کرنے  کے  لئے  وقت چاہئے۔ دنیا کوئی مشین نہیں  ہے  کہ آپ اس کا ایک حصہ بن کر رہ جائیں۔ انسانی روح پھولوں او ر پھلوں  کے  پودوں او ر پیڑوں  کی طرح ہے۔ انہیں  اپنی مخصوص خوشبو دینی چاہئے۔ اس جنگل کے  کھلے  کھلے  راستوں  سے  گزرتے  ہوئے  انہوں  نے  ان تمام باتوں  پر گفتگو کی۔ ان کو اب سمجھ میں  آیا کہ خالد کہیں  جنگلوں  کی اس تنہائی میں  آ بسا تھا۔ اور یہاں  کی یہی عظیم تنہائی ہی چاروں  طرف سے  لوگوں  کو اس جنگل میں  کھینچ کر لا رہی تھی۔ وہ لوگ کچھ تلاش کر رہے  ہیں۔ ان کو کسی چیز کی ضرورت ہے۔ یہ چیز ان کو کون دے  گا ؟ ان کو ہماری ضرورت ہے۔ ہم نے  اعلی تعلیم اور تربیت حاصل کی ہے۔ ہم کچھ کرنے  کی اہلیت رکھتے  ہیں۔ اس دنیا میں  فطری طور پر توقعات ان لوگوں  سے  وابستہ کی جاتی ہیں  جن کے  اندر ان کو پورا کرنے  کی صلاحیت ہوتی ہے۔ یہیں  سے  ذمہ داریاں  جنم لیتی ہیں۔ یہ انسانی سماج کا قانون ہے۔ اور اس وقت اس طرح کی ناگزیر ضرورت سامنے  آ چکی ہے  جس کی ذمہ داری ہم پر عاید ہوتی ہے۔

کیا ایسی کھلی جگہیں  انسان کو اپنے  آپ کو پانے  میں  مدد کرتی ہیں  ؟

ہاں۔

اور یہی تو چیز ہے  جو آج کے  گھنے  شہروں  میں  لگاتار کم ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ شہر ہر اعتبار سے  کاروباری کارخانوں  میں  تبدیل ہوتے  جا رہے  ہیں۔

سامانوں  کی پیداوار ہو یا سیاست، ڈاکٹری ہو یا میوزک، تفریح ہو یا قانون سازی۔ سب کارخانے  بن گئے  ہیں۔ اسی لئے  تو آدمی کو ان شہروں  میں  رہنے  کے  لئے  ہر چیز کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ اور اس کی وجہ سے  ہر لمحہ کمانا پڑتا ہے۔ یہ وجہ یقیناً تھی تبھی خالد اپنے  دوستوں  کے  پاس لوٹ جانے  کے  بجائے  جو اسے  بے  حد چاہتے  تھے،  اس ویران‘ تنہا جگہ پر آ گیا تھا جہاں  سستی قیمت پر زندہ رہا جا سکتا تھا۔ انہوں  نے  ایک دوسرے  کے  ہاتھ تھام لئے۔ اس بات کو محسوس کرنے  کیلئے  جو صرف اس جگہ میں  تھی۔

’  آؤ یہاں  کچھ دیر بیٹھیں۔ میرے  ذہن میں  کچھ ہو رہا ہے او ر میں  مکمل ہونا چاہتا ہوں۔ ‘ ان میں  سے  ایک نے  کہا۔

وہ سب وہیں  کچھ دیر رکے  رہے۔

ادھر ادھر کی وسعتوں  کو گھورتے  رہے۔

سورج نیچے  جا چکا تھا۔

اب اندھیرا ہو رہا تھا۔

ہوا کچھ اس طرح گزر رہی تھی کہ ان میں  دور دور کی بستیوں،  شہروں او ر ملکوں  سے  آتے  ہوئے  انسانی پیغامات سنائی دے  رہے  تھے۔ اس کی پراسرار آواز یں ان تمام باتوں  کا مرکب محسوس ہو رہی تھیں  جو دنیا میں  ہو رہا تھا۔ یہ ہوا بھی تاریخ کی طرح زماں  و مکاں  کی بندشوں  سے  آزاد تھی۔ اس کی آواز میں  ہر چیز شامل تھی۔ زندہ خالد اور مرے  ہوئے  خالد میں  کوئی فرق نہیں  تھا۔ انہوں  نے  خالد کی قبر کی سمت میں  دیکھا۔ کچھ لوگوں  نے  وہاں  روشنی کر رکھی تھی اور خود بھی وہیں  موجود تھے۔ وہ کسی چیز کی متلاشی تھے۔

’وہ ایک سفر کرنا چاہتے  تھے۔ ‘ انہوں  نے  سوچا۔

دوسرے  دن  وہ واپس چلے  جائیں  گے۔

تو خالد کی موت کے  بارے  میں  ان کی دریافت کیا ہے  ؟

وہ یا تو اپنے  دئے  گئے  مشن میں  ناکام ہو گئے  ہیں  یا پھر کامیاب ہوئے  ہیں۔

انہیں  اپنی دریافت کو الفاظ میں  بیان کرنا ہے۔

یہ ایک انتہائی مشکل کام تھا۔

یہ کام دلّی شہر میں  ایک طوفان لیکر داخل ہونے  جیسا تھا۔

لیکن یہ کام وہ کس طرح کریں  گے  ؟

وہ رات کے  سناٹوں  میں  جب پورا شہر زندگی کو بھول کر سو جاتا ہے  اس شہر کی سڑکوں  پر گھومو گے او ر محسوس کرو گے  کہ لوگوں  کو نیند کس طرح آ جاتی ہے۔

انہیں  خود بھی جاگتے۔ رہنے  کا تجربہ کرنا ہو گا اور پھر گنے  والوں  کا ایک پورا قبیلہ پیدا کرنا ہو گا۔

انہیں  اپنے  کام کے  لئے  اپنے او ر اس کے  بعد لوگوں  کی زندگی میں ،  ذہنوں او ر اوقات میں  جگہ پیدا کرنی ہو گی تاکہ اس مشن کو آگے  بڑھا سکیں۔

انہیں  اچانک محسوس ہوا کہ ان کو اپنے  جانچ کی رپورٹ مل گئی ہے۔

’خالد کی موت انسانیت کے  شدید درد کی تاب نہ لا سکنے  کی وجہ سے  ہوئی۔ اپنی انسانی برادری کی زندگی میں  موجود جسمانی اور ذہنی تکالیف کی وجہ سے  نہیں  بلکہ انسانوں  کی اس صورتحال کی روحانی تکلیف کو محسوس کرے  کہ وہ جو کچھ ہیں  یہ و ہ نہیں  ہیں  جو انہیں  ہونا چاہئے  یا جو وہ درحقیقت ہیں  بلکہ ان کی اصل ذات زندہ درگور ہے او ر وہ کوئی اور زندگی جی رہے  ہیں  جو ان پر لادی گئی ہے،  جو ان کے  لئے  کسی اور نے  بنا کر ان پر لاد دی ہے۔ اور وہ اس بات سے  اچھی طرح واقف ہوتے  ہوئے  بھی یہ زندگی جینے  پر مجبور ہیں  ورنہ اگر یہ بندشیں  نہیں  ہوتیں  تو ان کی دنیا اور زندگی کچھ اور ہی ہوتی۔ یہ بالکل وہی صورتحال تھی جو شیر علی نے  اپنی نوٹ بک میں  لکھی تھی۔ اور مزید یہ کہ اس درد کو شیر علی کی نوٹ بک کی تحریر کو پڑھ کر بہتر طور پر محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ‘

وہ یہی رپورٹ لیکر جائیں  گے او ر رپورٹ لکھ کر شیر علی کی تحریر کا اقتباس خالد سہیل کی کتاب ’چلمن‘ سے  لیکر پورا کا پورا اس رپورٹ میں ڈالیں  گے۔

انہوں  نے  ایک بار پھر خالد کی کتاب کھول کر اس میں  سے  شیر علی کے  نوٹ  کے  ایک ایک جملے  کو بآواز بلند پڑھا اور سنا۔ رات کے  اندھیرے  میں  بھی الفاظ جیسے  چمک رہے  تھے۔

دوسری دن وہ خالد کی موت کی وجہ کے  بارے  میں  حتمی و ختمی بات کرنا چاہتے  تھے۔

مجاور نے  بہت سوچ کر کہا۔

’ساری باتیں  اپنی جگہ لیکن میرے  قیاس کے  مطابق تو خالد کی موت کا سبب بنی ایک تحریر۔ خالد کی موت کا سبب تھا عوام کی طرف سے  نا امیدی کی انتہا۔ وہ تھی اخبار میں چھپی ہوئی ایک خبر۔ وہ اپنے  یقین میں صحیح تھا یا غلط اس کا فیصلہ اس خبر کا تجزیہ کر کے  کیا جا سکتا ہے   جو ملک کے  ایک بہت بڑے  اخبار ہندوستان ٹائمز میں  چھپی تھی۔ لارڈ میو کے  قتل کے  تاریخی واقعے  سے  شروع ہونے  والی یہ کہانی جو اس اخبار میں  اس خبر کے  چھپے  تھے  کہ واقعے  تک  پر مکمل سچائی پر محیط ہے  ہمارے  تجزیاتی ذہن کے  لئے  ایک طوفان انگیز چیلنج ہے۔ یہ ایک ایسا مقدمہ ہے  جو خالد کی کتاب کا بغور مطالعہ کرنے  کے  بعد ہمارے  ذہنوں  میں  دھیرے  دھیرے  قائم ہو رہے  ہیں۔ یہ مقدمہ ہماری یاد داشت کی اس عمومی کمزوری سے  باہر لانے  کا ایک  بڑا ذریعہ بن کر آیا ہے  جس کمزوری کی وجہ سے  ہم بار بار دھوکا کھاتے  ہیں۔ ایک بڑی کہانی جو بار بار سنی سنائی جاتی ہے  ایک روشن مینارۂ نور کی طرح ہماری رہنمائی کرتی ہی ہے او ر یہ یادداشت کی کمزوریوں  سے  بار بار چھا جانے  والے  اندھیرے  سے  اس کے  آسیب سے  ہمیں  نجات دلائے  گی۔ اگر ہم نے  اس کہانی کو اپنی دوربین بنا لیا تو ہمارا مستقبل روشن ہے  کیونکہ ہمیں  راستہ صاف صاف دکھائی دیتا رہے  گا۔

میں  آپ کو اخبار میں  چھپی خبر کے  بارے  میں  بتا رہا تھا۔ تو اس سلسلے  میں  ابھی تک مختلف اور کئی متضاد رائے  قائم ہیں او ر کوئی بھی کسی حتمی ختمی نتیجہ پر نہیں  پہنچ پایا ہے  کہ خالد کی موت اسی خبر کی وجہ سے  ہوئی ہے  لیکن میری ذاتی رائے  یہی ہے  کہ خالد کی موت اسی خبر سے  اس پر پڑنے  والے  دباؤ سے  ہوئی اور یہ جو میں  بتا رہا ہوں  اس کی بنیاد یہ ہے  کہ جس دن خالد مرا ہے  یہ خبر اسی دن کے  صبح کے  اخبار میں  تھی اور اسے  تراش کر اس نے  فائل میں  ڈالا تھا جبکہ وہ ان دنوں  اخباروں  کے  تراشے  نکال کر بہت کم رکھتا تھا اور اس نے  اپنی ڈیجیٹل ڈائری میں  چند ہی روز پہلے  لکھا بھی تھا کہ ’ان دنوں  مجھے  اخبار کی خبریں  حقیقت کی بالکل ایسی عام سطح معلوم ہوتی ہیں  جن کو پڑھنے  سے  ذہن کے  پراگندہ ہونے  کے  سوا اور کچھ حاصل نہیں  ہوتا۔

اخبار کی یہ خبر کسی بھی انقلابی شخصیت کو کس طرح بے  حوصلہ کر سکتی ہے  اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے  ہیں۔

مجاور نے  اس خبر کی ایک فوٹو کاپی پڑھنے  کے  لئے  آگے  بڑھایا۔ ان طالب علموں  نے  غور سے  پڑھا۔

مہاتما گاندھی کی جان بچانے  والا کا کنبہ انتہائی بدحالی کا شکار

وجے  مورتی۔ ہندوستان  ٹائمز۔  بتاک میاں نہیں  ہوتے  تو آج ہندوستان کی تاریخ مختلف ہوتی۔ ناتھو رام گوڈسے   سب کو یاد ہے  کیونکہ اس نے  گاندھی جی کو قتل کیا تھا لیکن لوگ اس باورچی کے  بارے  میں  کم جانتے  ہیں  جس نے  مہاتما گاندھی کی جان بچائی تھی۔ بہار کے  موتیہاری ضلعے  کے  اس باشندہ نے  گاندھی کو ۱۹۱۷ میں  زہر دیکر قتل کئے  جانے  سے  بچایا تھا۔ اس وقت گاندھی جی کو نسبتاً کم لوگ جانتے  تھے۔ اس وقت گاندھی تیل کمپنی کے  مزدوروں  کی خستہ حالی اور ان پر ہونے  والے  مظالم کے  بارے  میں  معلومات کرنے او ر ان مظالم کے  خلاف تحریک چلانے  کی غرض سے  وہاں  گئے  تھے۔ یہ گاندھی جی کی پہلی تحریک تھی۔ ’چمپارن کے  مجاہدینِ آزادی‘ نام کی کتاب کے  مطابق ایک نیل کمپنی کے  اروین نامی منیجر نے  گاندھی جی کو اپنے  یہاں   رات کے  کھانے  کی دعوت دی اور اپنے  باورچی باتک میاں  سے  ان کو زہر ملا ہوا دودھ لے  جا کر گاندھی جی کو پیش کرنے  کا حکم دیا۔ باتک میاں  نے  نے  دودھ کا پیالہ گاندھی جی کے  سامنے  رکھتے  ہوئے  چپکے  سے  انہیں  خطرے  کی طرف اشارہ بھی کر دیا۔ ڈاکٹر راجندر پرساد، جو بعد میں  جمہوریہ ہند کے  پہلے  صدر ہوئے،  اس واقعے  کے  چشم دید گواہ تھے۔ باتک میں  کو اپنی اس حب الوطنی کی قیمت ادا کرنی پڑی۔ منیجر نے  انہیں  روح فرسا اذیتیں  دیں،  ان کو قید میں  ڈالا، ان کے  گھر کو قبرستان میں  تبدیل کر دیا اور ان کے  کنبے  کو گاؤں  سے  نکال دیا۔ ۱۹۵۰ میں  ایک بار ڈاکٹر راجندر پرساد وہاں  گئے  تو انہوں  نے  حکم دیا کہ باتک میاں  کے  خاندان کو ۲۴ ایکڑ زمین دی جائے۔ ان کے  پوتے  علاء الدین انصاری نے  بتایا کہ وہ ابھی تک در بدر کی ٹھوکریں  کھا رہے  ہیں۔ باتک میاں  کی ۱۹۵۷ میں  وفات ہو گئی تھی۔ آدھی صدی بعد بھی، جبکہ باتک میاں  کی اولاد اپنی بے  دخلی کے  اثر سے  باہر نہیں  نکل پائی ہے،  ان کی درخواستوں  کی صرف فائلیں  موٹی ہوتی جا رہی ہیں  لیکن انتظامیہ یا سیاست میں  کسی کو دلچسپی نہیں  کہ ان کی مدد کرے۔

ان میں  سے  ایک نے  اس خبر کا عکس اپنے  کیمرے  میں  محفوظ کر لیا۔

وہ اس موذی خبر کے  عکس کو بھی شیر علی کے  نوٹ کے  پہلو بہ پہلو اپنی رپورٹ میں  ڈالیں  گے۔

وہ مجاور کی رائے  سے  متفق تھے  کہ خالد سہیل کی جان دراصل اس خبر نے  ہی لی۔

مجاور نے  آگے  کہا۔

میری رائے  میں خالد کے  سامنے  باتک میاں  کی اولاد کی وہ آنکھیں  ابھر آئیں  جنہوں  نے  اسی سچائی کو دھیرے  دھیرے  دیکھنا شروع کر دیا تھا جسے  وہ کئی دنوں  سے  دیکھ رہا تھا۔ یہ بے  حسی کی وہ کھائی تھی انسان کی کمینگی کی وہ تصویر تھی جسے  دیکھ کر وہ لرز جاتا تھا۔ اس نے  سوچا تھا کو وہ اس بے  حسی کو توڑنے  کی کوئی ترکیب نکالے  گا لیکن رفتہ رفتہ نا امید ہوتے  ہوتے  اس نے  اچانک ایک دن یقین کھو دیا۔ بالکل ویسے  جیسے  کوئی ڈوبتا ہوا جہاز لڑکھڑاتے  لڑکھڑاتے  ایک دم سے  نیچے  زیرِ آب جا بیٹھے۔

وہ جانتا تھا کہ اس سے  نکلنا ممکن ہی لیکن اس میں  اتنی سکت نہیں  تھی اور نہ لوگوں  کی فلاح و بہبود کے  لئے  اتنی خواہش رہی،  اور تھی بھی تب اس نے  جان بوجھ کر اسے  مار ڈالا کہ یہ اسے  بے  حد اذیت دے  رہی تھی۔ یہاں  تک پہنچنے  سے  پہلے  ہی اس کے  اعصاب مجروح ہو  کر کمزور ہو چکے  تھے۔ وہ تو صرف اگلے  خوش کن انکشاف کی امید پر زندہ تھا،  بالکل اس ناؤ کی طرح جو مچھلیوں  کے  شکار کی امید پر بغیر وافر مقدار میں  کھانا ساتھ میں  رکھے  سمندروں  کی عمیق وسعتوں  میں  کبھی نہ واپس آنے  کی غرض سے  گھس گیا ہو،  اور مچھلیاں  نہیں  مل رہی ہوں،  اور وہ مچھلیوں  کی تلاش میں  مزید گہرائیوں  میں  اترتا چلا گیا ہو،  اور پھر اسے  معلوم ہوا ہو کہ وہ غلط موسم میں  ادھر آ گیا ہے او ر اس عظیم تنہائی اور وسیع سمندر میں  سمندر اور موسم کی یہ جانکاری ہی   ملک الموت کی طرح بھوک کی نقاہت سے  کمزور اس کے  بدن کے  اندر سے  اس کی جان ہتھیلی میں  اٹھا کر چل دے۔

لیکن اس نے  جو کچھ دیکھا تھا اسے  لکھ ڈالا تھا۔

اور آخری تحریر اس نے  اپنی دیوار پر رگڑی ہوئی انگلی کے  خون سے  لکھی تھی ’ یعنی وہ ہارا نہیں  تھا،  اس نے  ہتھیار بھی نہیں  ڈالا تھا،  بلکہ اس نے  غنودگی کے  غیر متوقع غلاف کا بھی مقابلہ کرتے  ہوئے  اپنی انگلیوں  کو ہی ہتھیار بنا لیا تھا۔ وہ  لوگوں  کی بے  حسی کے  مایوس کن اور غیر ذمے  دارانہ استعمالِ شہریت کے  خلاف،  اور اس کے  پیچھے  کھڑی بد عنوانیوں  کی انتہائی فعال اور چونکہ فوجوں  سے  انسانیت کی طرف سے  جنگ لڑتے  ہوئے  مارا گیا تھا لیکن پیچھے  نہیں  ہٹا تھا اور اپنی سچائی کے  اوپر اس کو جو یقین تھا وہ متزلزل نہیں  ہوا تھا کیونکہ اس نے  وہ حربہ اور اس حربے  کے  استعمال کے  لئے  ایک ایسا میدانِ جنگ دیکھ لیا تھا جہاں  ازلی مافیا کے  خلاف جنگ کو جیتنا ممکن تھا۔

وہ اس مقام پر آیا تو پھر واپس نہیں  گیا نہ اس نے  اپنے  کو اسی سوچ میں  مٹا لیا، نہ وہ باہر آیا ہم یہاں  آئے  نہ، اس نے  اس سوچ کو مکمل کرنے  میں  اپنی جان ختم کی جو آج ہمارے  لئے  روشنی بنی ہوئی ہے۔ انسانیت کی فکر کا لٹیرا ہی تو اسے  کھا گیا،  لیکن دیکھنا یہ ہے  کہ جس چیز نے  اس کی جان ہی لے  لی وہ کیا تھی۔ وہ کون سی بات تھی جو اس خبر میں  تھی جس کی وہ تا ب نہیں  لا سکا۔ وہی چہرے۔ وہی نہ۔ وہی اپنے  ہی لوگوں  کے  چہرے۔ اپنے  ووٹوں  سے  حکومت بھی کرتے  ہیں او ر اپنی غیر ذمہ داریوں  کا اعتراف بھی نہیں  کرتے۔ انہیں  سوچنا چاہئے  کہ ان کا ووٹ صرف ان کو نہیں  دوسروں  کو بھی متاثر کرتا ہے۔ انہیں  سوچنا چاہئے  کہ وہ جمہوریت اور انسانی نظام کا ستون ہیں او ر ایک ستون کی ذمہ داری کو نبھانا ان کا دھرم بھی ہے او ر ان کی دانشمندی کا بھی تقاضا ہے۔ اور اسی شعور سے  وہ جوالا مکھی یہاں  سے  پھوٹا ہے  جس کی روشنی اور کرنیں  نعرے  اقوالِ زریں،  تقریریں او ر نہ جانے  کیا کیا بن کر چاروں  طرف پھیل رہی ہیں۔ یقیناً یہ کسی معمولی ذہن یا خوشامدی مصنف کی لکھی ہوئی کتاب نہیں  ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ تو نہیں  کہ ہمارے  بیچ پہلی بار ایک ایسی کتاب آ گئی ہے  جسے  پڑھ کر لوگ اپنے  آپ کو گالیاں  دے  رہے  ہیں۔ جس نے  ہم سب کو نہ صرف مجرم بلکہ ذلیل و خوار اور غلام اور کوڑھی قرار دے  رکھا ہے  لیکن اسے  ہم سینے  سے  لگا کر رونے  پر مجبور ہیں۔ اور اس کے  مصنف کو شہید کا درجہ دینے  پر مجبور ہیں۔

ویسے  شہید کا معنی کیا ہوتا ہے  ؟

مجاور یہ سوال سن کر سنجیدہ ہو گیا۔

آپ کا سوال بجا اور معنی خیز ہے  کیونکہ عام طور سے  شہید کا معنی لوگوں  کے  ذہن میں  واضح نہیں  ہوتا۔ شہید لفظ کا معنی ہے ’جس نے  دیکھا ہو۔ اسی سے  شہادت لفظ بنا ہے  یعنی گواہی۔ تو شہید کا معنی ہے  گواہ۔ اب گواہی دینے  میں  گواہی کی سچائی کے  لئے  قسم کھائی جاتی ہے۔ عام طور سے  لوگ اپنے  بچوں  کی یا ایمان کی قسم کھاتے  ہیں  کہ وہ جو کچھ دیکھا ہوا بتا رہے  ہیں  وہ سچ ہے  یا یہ کہ وہ جو بھی کہ رہے  ہیں  تہِ دل سے  کہ رہے  ہیں او ر کسی ذاتی مفاد کی بنا پر وہ جھوٹ نہیں  بول رہے  ہیں  یعنی یہ ان کی سچائی کی گارنٹی ہوتی ہے۔ یہ گارنٹی دینے  پر لوگ اس کی بات کو نہایت سنجیدگی سے  لیتے  ہیں۔ تو شہید اس کو کہتے  ہیں  جو کسی انسانی مفاد کی بات کی اہمیت اور ضرورت میں  یقین رکھتا ہے او ر اس میں  اتنا اٹل ہوتا ہے  کہ اس میں  اپنی جان کو گنوا دیتا ہے  یعنی وہ اپنی جان کی قربانی دے  کر اس بات کی گواہی دیتا ہے او ر کہتا ہے  کہ وہ جو بات کہہ رہا ہے  اس میں  واقعی سچائی ہے۔ اس سے  یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے  کہ کم از کم اس آدمی کی حد تک یہ بات سچ ہے  کہ اس نے  کچھ دیکھا تھا اس کی یہ گواہی لوگوں  کے  ضمیر کو عمیق تریں  گہرائی سے  جھنجھوڑنے  کی طاقت رکھتی ہے،اور جھنجھوڑتی رہتی ہے۔ ایسے  ہی انسانوں  کو انسانی تہذیب کے  سفر میں  سنگِ میل کی طرح موجود رہنے  والے  شہید کا درجہ دیا جاتا ہے۔ شہادت کی یہ خصوصیت ہوتی ہے  کہ وہ لوگوں  کی توجہ اپنی طرف کھینچتی ہے او ر مرنے  والے  کی بات کی سچائی پر انگلی اٹھانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ اس پر انتہائی سنجیدگی سے  غور کرنا پڑتا ہے۔ یہ تو کم از کم ماننا ہی پڑتا ہے  کہ اس نے  کچھ دیکھا تھا۔ انسانی فلاح و بہبود کے  بارے  میں  سوچتے  ہوئے،  اس کے  لئے  کام کرتے  ہوئے او ر اس پر اصرار کرتے  ہوئے  ان جان کی قربانی دینے  والوں  کا مقام تمام انسانوں  میں  بلند ترین ہوتا ہے۔

oo

 

 

 

 

یہ ہے  وہ تحریر۔

مجاور ان و دیواروں  پر لکھی تحریر دکھا رہا تھا۔

لکھا تھا۔

’ابا میں  نے  بہت کوشش کی لیکن میں  ناکام ہو گیا۔ وہ نسخہ میرے  ہاتھ نہیں  آ سکا جس سے  میں  اس طرح کے  مردہ عوام میں  روح پھونک سکوں  جس طرح کے  عوام سے  ہمارا معاشرہ بنا ہے۔ اب،  میں  بہت کمزور ہو گیا ہوں۔ اب میرے  اندر طاقت کا ایک قطرہ بھی باقی نہیں۔ میں  مر رہا ہوں ’ اب‘ میں  مر رہا ہوں۔

میں  آپ کے  حکم کی تعمیل نہیں  کر سکا۔

اور اب کیا۔ اب تو میں  مر رہا ہوں۔ ‘

سرخ سیاہی حروف میں  لکھے  یہ الفاظ چمک رہے  تھے۔

’پولیس آئی تھی۔ ‘

مجاور نے  بتایا۔

’ایس پی موت کی وجہ معلوم کرنے  کے  لئے  ڈاکٹر سے  لاش کا پوسٹ مارٹم کرانا چاہتا تھا۔ اس کے  والد ایس۔ پی۔ کو ہکا بکا ہو کر دیکھتے  رہ گئے  تھے۔ والد نے  اسے  حیرت سے  دیکھا۔ ان کی آنکھیں  پتھرا گئیں۔ پھر انہوں  نے  سوچا ’اس کو کیا معلوم۔ ‘

انہوں  نے  بیان دے  دیا کہ ’میرے  بیٹے  سے  کسی کی دشمنی نہیں  تھی۔ ‘

پھر بھی آپ کو کسی پر شک ہے  تو ہم سے  بتا دیجئے۔ ہم انکوائری کر کے  تسلی کر لیں  گے۔،

’مجھے  کسی پر شک نہیں۔ ‘

پولیس کے  کہنے  پر گاؤں  کے  دشمن بھی وہیں  گئے  تھے۔ ان کے  سر ندامت سے  جھک گئے۔ وہ ڈرے  ہوئے  تھے  کہ ان پر جھوٹا مقدمہ بننے  جا رہا ہے۔

پولیس کے  جانے  کے  بعد وہ خالد کے  والد کے  سامنے  لکڑی کی طرح بالکل خاموش سر جھکا کر کھڑے  ہو گئے  تھے۔

والد کی سمجھ میں  نہیں  آیا کہ وہ کیا کہیں  ان کے  منہ سے  صرف اتنا نکلا

’اﷲ اکبر‘۔

اور پھر بیٹے  کی لاش کی طرف مڑ گئے  تھے۔

وہ کمرے  سے  باہر نکل آئے۔ مجاور نے  زنجیر چڑھا کر تالا لگا دیا۔

’بچے  چھو چھوکر محسوس کرنے  کی کوشش کرتے  ہیں۔ ورنہ یہ جگہ تو کھلی رہنی چاہئے۔،  مجاور نے  کہا۔ اور پھر ان کے  ساتھ ہی باہر گولر کے  پیڑ کے  نیچے  کھڑا ہو گیا۔ وہ بھی اسے  گھیرے  رہے۔

خالد کی کتاب کا اصل مسودے  کہاں  ہے۔

وہ تو اس وقت لوگوں  کے  دل و دماغ میں  ہے۔

یہ بھی ایک عجیب کہانی ہے۔ خالد نے  جو کتاب اپنے  ہاتھ سے  لکھی تھی اس کو لوگوں  نے  کئی بار پڑھا اور سنا۔ پھر ایک دن یہ فیصلہ ہوا کہ اس کتاب کو چھپوایا جائے۔ جب اس کتاب کے  بارے  میں  پبلشر نے  سنا کہ اس کتاب کو بلند آواز سے  بعض پڑھتے  باتے  وقت لوگ آ کر جمع ہو جاتے  ہیں او ر کئی حصوں  کو بار بار سننے  پر اصرار کرتے  ہیں  تو وہ فورا چھاپنے  پر تیار ہو گیا اور بضد ہو کر اس نے  مسودہ اپنے  پاس ہی رکھ لیا کہ وہ اس کی کتابت فورا ہی شروع کرا دینا چاہتا۔ اس پبلشر نے  مشورہ کے  لئے  ایک کمیٹی بنا رکھی تھی جس میں  کچھ نامور لوگ ممبر تھے۔ یہ ممبر دراصل مشورہ تو دیتے  ہی تھے ’ کمیشن لیکر اپنے  رسوخ کا استعمال کر کے  کتابوں  کی نکاس میں  پبلشر کی مدد بھی کرتے  تھے  لیکن اس کے  ساتھ ہی وہ اپنے  گروپ کے  لوگوں  کی مدد کرتے  تھے او ر جو کتابیں  ان کے  نظریوں  سے  ٹکراتی تھیں  ان کو زبردستی رد بھی کر دیتے  تھے۔ یہ اتفاق کی بات تھی کہ جس دن لوگ مسودہ پبلشر کو دیکر آئے  تھے  اسی دن وہ ممبر جو ان سب میں  دبنگ تھا وہاں  آ گیا۔ پبلشر نے  وہ مسودہ اسے  دکھایا۔ مسودے  کے   چند صفحات پڑھنے  کے  بعد وہ اس سے  بالکل چپک گیا اور جاتے  وقت یہ کہہ کر مسودہ ساتھ لے  گیا کہ وہ اسے  فوراً پڑھ کر اپنی رائے  دینا چاہتا ہے۔ پبلشر نے  بہت منع کیا لیکن وہ نہیں  مانا۔ جانے  کے  بعد اس نے  پبلشر سے  کہہ دیا کہ وہ مسودہ ٹرین میں  بیگ کے  ساتھ چھوٹ گیا۔ اس پر بڑا کہرام مچا۔ پھر یہ طے  ہوا کہ لوگوں  کو جو کچھ یاد ہے  وہ قلم بند کیا جائے۔ سو جو کتاب پہلی بار مارکیٹ میں  آئی یہ وہی کتاب ہے۔ اس میں  یا تو وہ باتیں  ہیں  جو اس کتاب میں  خالد کے  الفاظ میں  تھیں  یا پھر وہ باتیں  ہیں  جو ان لوگوں  نے  اپنی زبان میں  بتائیں  لیکن جو باتیں  لوگوں  نے  اپنی زبان میں  بتائیں ان میں  بہت سی باتیں  ایسی بھی ہیں  جو خالد نے  نہیں  کہی تھیں  لیکن اس سے  کوئی فرق نہیں  پڑتا کیونکہ یہ لوگ وہ تھے  جن کا دل خالد سے  ملا ہوا تھا یعنی آپ یہ سمجھئے  کہ اگر ایک پودا ہے او ر اس میں  سے  کچھ شاخیں  کٹ بھی جائیں  تو جو شاخیں  نئی نکلیں  گی وہ بھی تو وہی ہونگی۔

لیکن یہ کتاب تو پھر اصل نہیں  ہوئی نا۔

اس سے  کیا فرق پڑتا ہے۔ اس کتاب کی اہمیت اس بنیاد پر تھوڑے  ہی ہے  کہ یہ خالد کی کتاب ہے۔ اس کتاب کی اصل اہمیت یہ ہے  کہ یہ انسانیت کی کتاب ہے او ر یہ وہ کتاب ہے  جو انسان کی رگوں او ر خون میں  موجود ہے۔ یہ کتاب انسانوں  کے  ذہن اور دل میں  موجود روشنی کا نچوڑ ہے۔ اور اسی بات میں  اس کتاب کی عظمت اور سچائی پنہاں  ہے۔ یہ تو وہ کتاب ہے  میاں  جو نہ مٹ سکتی ہے  نہ اس کے  بدلنے  کا کوئی خطرہ ہے او ر اس کی سچائی کی تصدیق کوئی بھی کر سکتا ہے  کیونکہ اگر اس میں  کوئی ایسی بات ملے  گی جو انسانیت کے  خلاف ہو گی تو اسے  نکالنا پڑے  گا۔

اس کتاب کا ساتواں  ایڈیشن آ چکا ہے او ر اس میں  بہت سی نئی باتیں  شامل ہو چکی ہیں  لیکن یہ سب اس کتاب کا حصہ مانی جائیں  گی کیونکہ یہ ایک ایسی کتاب ہے  جو گھٹتی بڑھتی رہے  گی۔

اس کتاب کے  وجود میں  آنے  کے  بعد انسان کو ایک ایسی کتاب مل گئی ہے   جو نہ کوئی حکم دیتی ہے  نہ اپنے  سچ ہونے  کا دعوی کرتی ہے۔ وہ صرف انسان کی اندرونی روشنی کی سچائی پر اصرار کرتی ہے۔ اس کتاب نے  پہلی بار انسان کو اس کے  مقام کا احساس دلایا ہے،  پہلی بار انسان پر بھروسہ کیا ہے۔ اور اسے  اپنے  اوپر بھروسہ کرنے  کا شعور عطا کیا ہے۔ یہ پہلی کتاب ہے  جو انسان کے  اندر سے  نازل ہوئی ہے او ر مسلسل نازل ہو رہی ہے۔ یہ کتاب ہمیں  تمام کتابوں  کو غور سے  پڑھنے  کا شعور دیتی ہے۔

 

 

14

 

وہ جانے  کی تیاری کر رہے  تھے۔ یہاں  سے  چلنے  سے  پہلے  وہ یہاں  کے  بہت سارے  فوٹو لے  لینا چاہتے  تھے  جو وہ ابھی  تک نہیں  کر پائے  تھے۔ اسی کے  لئے  وہ ادھر ادھر گھوم رہے۔ اگلے  دن صبح ٹرین سے  ان کو جانا تھا۔ اچانک انہوں  نے  دیکھا کہ یہاں  ادھر ادھر بہت سے  لوگ دھیرے  دھیرے  جمع ہو رہے  تھے۔ کسی بھی جگہ لوگوں  کے  جمع ہونے  کا کوئی موقعہ ہوتا ہے۔ انہوں  نے  سمجھنے  کی کوشش کی لیکن یہاں  ایسا کچھ بھی نہیں  تھا لیکن پھر انہیں  محسوس ہوا کہ یہ ایک خالی پن کا احساس تھا جو لوگوں  کو یہاں  کھینچے  لا رہا تھا۔

اچانک آج اتوار کے  دن یہ جانے  بغیر کہ وہ کیوں  جمع ہو رہے  ہیں  وہاں  جمع ہو گئے  تھے۔ لیکن ان کی ذہنی حالت قابلِ توجہ تھی۔ وہ اس مزار کے  قریب آتے اور اچانک خالد کو یاد کر کے  رونے  لگتے  جیسے  کچھ ہونا چاہئے  جو نہیں  ہوا ہو۔

کئی لوگوں  نے  اچانک ماتم سا کرنا شروع کر دیا۔

ایک نوجوان نے  پاگلوں  کی طرح لوگوں  کو دیکھا اور پھر روندھی ہوئی آواز میں  کہنے  لگا  ’ اس نے  ہمیں  کیوں  نہیں  یاد کیا۔ کیا میں  تمہارے  بھروسے  کے  لائق بھی نہیں  رہ گیا۔ ‘

وہ یہی بات بار بار کہہ کہ کر روئے  جا رہا تھا۔ ایک بزرگ سا آدمی جو اس کی بغل میں  بیٹھا تھا اس نے  اسے  تسلی دی ’اب رونے  کا کیا فائدہ۔ اس طرح رونے  سے  وہ واپس تو نہیں  آ جائے  گا۔ ‘

’اس نے  ہمیں  ناکارہ کیوں  سمجھا۔ ‘

’اس نے  تمہیں  ناکارہ نہیں  سمجھا۔ ناکارہ سمجھتا تو یہ کتاب نہیں  لکھتا۔ ‘

ایک عورت الگ شکوہ کر رہی تھی۔

’بچے  نے  کسی سے  کچھ کہا کیوں  نہیں۔ ایک بار زبان کھول دیتا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ لوگ اپنی جان نچھاور کر دیتے۔ اتنا پیار تھا اس سے  لوگوں  کو۔ ‘

اسی پہلے  والے  بزرگ نما آدمی نے  اسے  بھی سمجھایا۔

’اب تم کیا جانتی ہو کہ اس نے  زبان کیوں  نہیں  کھولی۔ جو ہو گیا سو ہو گیا۔ جو کرنا ہے  اب کرو۔ ‘

اب کیا کریں  ؟

اس کے  جیسا بننے  کی کوشش کرو۔

اس کے  جیسا کون بن سکتا ہے  ؟ وہ تو انمول تھا۔

اچھا اب اپنا دل مت دکھاؤ۔ اس سے  اس کی روح کو تکلیف ہو گی۔

 

قوالی شروع ہو گئی۔

 

ادھر کچھ لوگ مزار پر جا کر خاموشی سے  بیٹھے  ہوئے  تھے، خالد کی موت کئی مہینہ پہلے  نہیں  ہوئی ہو بلکہ ابھی ہوئی ہو اور گریہ باقی ہو۔ اور ایسا ہی تھا۔ جیسے  جیسے  یہ معلوم ہوتا جا رہا  تھا کہ خالد کی موت یہ سوچ کر ہوئی تھی کہ کوئی اس کا ساتھ نہیں  دے  گا لوگوں  کا کلیجہ منہ کو آنے  لگا تھا اور ایک شدید بے  بسی آنکھوں  میں  آنسو انڈیل دیتی تھی۔

شروع میں  تو خالد کے  مرنے  کے  بعد اکے  دُکے  ہی کوئی ادھر آ جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ یہ تعداد بڑھتی گئی تھی،  حالانکہ کہ لوگ یوں  ہی آتے  تھے او ر یوں  ہی ایک دوسرے  کا منہ دیکھ دیکھ کر چلے  جاتے  تھے  لیکن اس خالی پن میں  بھی ایک معنی ابھرنے  لگا تھا اور دراصل یہ خالی پن ہی معنیٰ خیز بن کر دکھائی دینے  لگا تھا۔ اور لوگ اب صرف اس لئے  آتے  تھے  کہ اس میں  سے  نتیجہ برآمد ہو۔

خالد کی کتاب بھی اسی طرح کے  خالی پن کو بیدار کر رہی تھی۔ لوگ اس کتاب پر جس قدر زیادہ باتیں  کرتے  جا رہے  تھے  یہ خالی پن اسے  قدر ایک بھنور کی طرح طاقتور ہوتا جا رہا تھا۔ اور لوگ اس خالی پن میں  ہی اپنے  دکھوں  کا علاج تلاش کرنے  لگے  تھے  کیونکہ انہیں  یقین سا ہونے  لگا تھا کہ ان کے  دکھوں  کی جڑ کہیں او ر نہیں  اسی خالی پن میں  ہے۔

اس خالی پن کو لوگ طرح طرح سے  اُبھرنے  کی کوشش کر رہے  تھے۔ اکثر لوگ گھومتے  پھرتے  ادھر ہی آ کر بیٹھ جاتے۔ جب سے  لوگوں  کو معلوم ہوا تھا کہ دلّی سے  ایک ٹیم آئی ہے، وہ ادھر اور بھی آنے  لگے  تھے۔ کسی کو خیال آیا کہ اس موقع سے  ایک مشاعرہ کر ڈالیں  تاکہ باہر سے  آنے  والے  ان کے  خیالات سے  بھی واقف ہوں۔

انہوں  نے  تو یونہی ایک چھوٹی سی نشست رکھی لیکن دیکھتے  دیکھتے  بہت سے  لوگ جمع ہو گئے۔ اس سے  پہلے  ایسی محفلوں  میں  بہت کم لوگ آتے  تھے۔ موسم بھی بہت خوشگوار ہو گیا تھا۔ ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ کبھی کبھی ہوا تیز چلتی تو درختوں  کی پتیوں  کی آواز آنے  لگتی۔ شام کے  دھندلکے  میں  آسمان پر رنگین بادل جادو کا سا سماں  پیدا کر رہے  تھے۔ سبھی اچھے  موڈ میں  تھے۔ دیکھتے  دیکھتے  مشاعرہ بغیر کسی تکلف کے  شروع ہو گیا۔ نہ کوئی صدارت نہ کوئی منتظم بس سنانے  والے او ر سننے  والے  لوگ تھے  جس سے  مشاعرہ اور بھی بے  تکلف ہو گیا۔

اسی دوران اس گاؤں  کے  ایک ٹینٹ لگانے  والا اپنی مائیک اور لاؤڈ اسپیکر سسٹم کولے  کر وہاں  پہنچ گیا۔ مائیک سے  آواز دور دور کے  گاؤں  تک پہنچی تو لوگوں  میں  تجسس پیدا ہوا کہ وہاں  آج کیا ہو رہا ہے۔ دیکھتے  دیکھتے  ایک جمِ غفیر وہاں  جمع ہونے  لگا۔

دلّی سے  گئے  ہوئے  طلباء بھی وہاں  آ کر بیٹھ گئے۔

سب سے  پہلے  آگے  آ کر ایک دبلے  کرتا پاجامہ پہنے  نوجوان نے  بے  حد سنجیدہ اور اُکھڑے  لہجہ میں  ایک نظم سنانی شروع کی اور اسی نے  اس پلیتے  کا کام کیا جس نے  ایک ذہنی انقلاب کو جنم دیا۔ اپنی نظم سنانے  سے  پہلے  اس نے  کہا۔

میں  نے  جب سے  خالد سہیل کی کتاب پڑھی ہے  میری راتوں  کی نیند جیسے  غائب سی ہو گئی ہے۔ مجھے  یہ پوری دنیا کسی اور طرح کی دکھائی دینے  لگی ہے۔ مجھی تو اسی بات پر حیرت ہوتی ہے  کہ پہلے  مجھے  نیند آتی کیسے  تھی۔ میں  سوچنے  لگا ہوں  کہ میں  جس دنیا میں  پیدا ہوا ہوں  کہ یہ دنیا اسی طرح خوف،  کوفت،  دباؤ اور انسان کی اپنی بنائی ہوئی تکلیف دہ حالت میں  جینے  کے  لئے  بنی ہے  یا یہ دنیا بے  حد خوبصورت بھی دکھائی دے  سکتی ہے۔ مجھے  لگتا ہی کہ یہ ایک زندگی جو ہمیں  ملی ہے  یہ بہت ہی سکون اور بے  دھڑک اور بے  روک ٹوک ہنسی خوشی کے  ساتھ بھی جی جا سکتی تھی اگر کچھ لوگوں  نے  اس پر غالب آ کر اس کو خراب نہ کر دیا ہوتا۔ آخر ہماری اس زندگی کو مشکل بنانے  والے  یہ لوگ ہوتے  کون ہیں۔

ہمارا پورا سماج

آج

مافیا اور مظلومین میں  تقسیم ہے

خالد سہیل کی یہ کتاب اسی مافیا کے  خلاف کشمکش کا آغاز ہے

یہ کتاب ہمیں  سماج میں  ہو رہے  عہد رواں  کے  واقعات کے  تئیں  ایک واضح نقطۂ نگاہ قائم کرنے  میں  تعاون کرتی ہے او ر ایک روشن مستقبل کے  قیام کے  تئیں  ہماری ذمہ داریوں  کو واضح کرتے  ہوئے  یہ پیغام دیتی ہے  کہ تہذیب کے  قیامِ نو کے  لیے  یہ ضروری ہے  کہ زندگی کی ہر سطح پر مسلط مافیا کے  خلاف بغاوت ہو اور اس شخص کو جو ایمان دار ہے او ر مافیا جس کی زندگی کے  ساتھ زنا بالجبر کر رہا ہے  اسے  مقدم بنایا جائے  او ر اس فلسفے  کو ہم اپنے  لیے  سیاسی مشعلِ راہ بنا لیں۔ اور حکومت کی طاقت اور مشینری کا استعمال کرتے  ہوئے  مافیا سے  اس لوٹی ہوئی دولت کا حساب لیا جائے  جو وہ غصب کر گیا ہے  کیوں  کہ وہ جو کچھ کھا گیا ہے  یا  دور دراز کے  تہہ خانوں  میں  چھپا رکھا ہے  وہ ملک کی دولت ہے او ر اس پر سب کا حق ہے۔

میری نظم کا عنوان ہے

مافیا

مافیا کی ناقابل برداشت شدت سے  نجات کے  لیے

ضروری ہے  کہ

اندھیرے او ر اجالے  کے  مابین جنگ ہو

اور اس جنگ کو

نوکیلا اور تیز تر بنانے

اور دکھی اور ایمان دار لوگوں  کو ذہنی سطح پر اس جنگ میں  شامل ہونے

اور جمہوریت کے  ذریعے  اندھیروں  کے  ٹھیکیداروں  کا انتہا تک صفایا

جمہوریت کی طاقت کو استعمال کرتے  ہوئے

مافیا کے  درندوں  کو جنہوں  نے  ہمارے  گوشت اور خون کو نوچ کر

اور اپنے  اندر جذب کر کے ،اپنے  کو

بھینسوں او ر گینڈوں  کی طرح موٹا

یا پھر باگھوں او ر لومڑیوں  کی طرح تیز و طرار بنایا ہے  ان کو

ایک مضبوط قانون کے  ذریعے

ایک ایسے  قانون کے  ذریعے

جو دنیا کے  بھیانک ترین دہشت گرد کو بھی تلاش کر لیتا ہے

اور اس کے  پچھلے  برسہا برس کے  حساب قانون کی کتاب پر درج کر کے  دکھا دیتا ہے

ان درندوں  کو عوام کے  سامنے  لائیں

اور ان کی چربی

کا حساب کتاب ہو

اور

وہ آنکھیں  جنہیں  دیکھنے  کی ذمہ داری دی گئی ہے

لیکن جنہوں  نے  اپنے  آپ کو بے  حسی، مکاری،  خود غرضی  اور غرور  کے  زہریلے  خمیر سے

پتھریلا بنا لیا ہے  لیکن جو محض لطف  اُٹھانے  کے  لیے

ان لوگوں  کو مسلسل دھوکا دے  رہے  ہیں

جنہوں  نے  ان پر بھروسہ کیا ہے

اور جنھوں  نے  اپنے  کو بادشاہ وقت سمجھ کر

مکاری،پردہ پوشی اور داؤ پیچ کے  ذریعے

جمہوریت کے  بچوں  کو غلامی کی زنجیروں  میں   باندھ رکھا ہے

ان کی آنکھوں  کی چربی کو چراغ کی لو سے  ٹپکایا جائے

تاکہ انہیں جدوجہد کی دائمی قندیل کی گرمی کا علم ہو

 

اس نظم نے  نظموں او ر غزلوں  کے  انتخاب کی جیسے  ڈگر بنا دی۔ لوگوں  کے  اوپر درد و غم کا ماحول طاری ہو گیا۔ ایک دوسرے  نوجوان نے  ترنم میں  غزل سنانی شروع کی تو ایسا لگا جیسے  اس کی بلا کی درد بھری آواز میں  پوری وادی ڈوب گئی۔ خالد کے  نام الوداعیہ بتاتے  ہوئے  اس نے  جب یہ چھوٹی سی غزل سنائی تو لوگوں  کی آنکھیں  بھر آئیں۔

تمنا اگر ہے  تو میں  کیا کروں

جہاں  بے  جگر ہے  تو میں  کیا کروں

چلے  جا رہے  ہو بیاباں  کے  سمت

یہ شب بے  سحر کہے  تو میں  کیا کروں

تفکر میں  ڈوبے  درختوں  کے  بیچ

تری رہگزر ہے  تومیں  کیا کروں

آخری مصرع پر جب اس نے  خالد کی قبر کی طرف دیکھا تو سب ادھر ہی دیکھنے  لگے۔ پھر جب مایوسی بھری نظریں  سامنے  لوٹیں  تو ایک داڑھی والے  نے  گرجدار آواز میں  اپنی نظم شروع کی۔

شیطان

ہاتھوں  کی برکت

اور جسم کی حرکت لے  گیا کون چھین کر،شیطان

گرتے  پڑتے  جھکتے ،مرتے، سسکتے  ہوئے  انسانوں  کو

انسانوں  سے  جسے  کوئی دلچسپی نہیں، پیار سے  تسلی دیتا ہوا

کون ہے۔۔۔ شیطان

شیطان،

کافی پیتا ہوا شیطان

سگار پیتا ہوا شیطان

خدا کے  کمزور بندوں

کی گردنوں  پر مضبوط بیٹھا ہوا

کتوں  کی طرح جھبرے  بالو ں والا

ہاتھ میں  قلم

زبان میں  آگ

کینوس پر اپنی تصویریں  تخلیق کرتا ہوا

اپنی باتیں  بڑبڑاتا ہوا کون ہے ؟

شیطان

سانپوں  کی  طرح مضبوط

فلسفے  کے  دبیز زرہ بکتر میں  ڈھکا ہوا

حقارت کے  بھاری قدموں  تلے

انسانوں  کو کیڑوں  مکوڑوں  کی طرح روندتا ہوا، کون ہے ؟

شیطان

یہ شیطان

آسمان پہ شیطان، زمین پہ شیطان

ہوا میں  شیطان، خلا میں  شیطان

 

ایسا لگ رہا تھا جیسے  فضا میں  ہر طرف شیطان ہی شیطان اڑتے  پھر رہے  ہوں او ر شاعر ان کی طرف ہاتھ سے  اشارہ کرتا جاتا تھا۔ پھر ایک پتلا دبلا، کمزور سا نوجوان جینس میں  ملبوس اپنی ٹوٹی پھوٹی نظم لیکر سامنے  آیا۔ ’میں  شاعر نہیں  ہوں،  اس نے  تمہید باندھنے  کی کوشش کی۔ ’لیکن غموں  نے  بنا دیا ہو گا۔ ‘ کسی نے  لقمہ دیا۔

ہزاروں  ٹن سے  بھاریCompetitionکی کتابیں

کیریر؟

میں  میں  کیا کروں ؟

ہزاروں  بار اپنے  آپ کو دھتکار کر

خاموش ہوں

وہ چلا کر نظم سنا رہا تھا۔

شاید

خود اپنے  آپ سے  ڈرنے  لگا ہوں

جب نظم ختم ہوئی تو لوگوں  پر ایک گہری خاموشی طاری ہو گئی۔ اس نے  ایک دوسری نظم سنائی۔ یہ نظم خالد کی ہے۔ ان دنوں  کی جب وہ یہاں  رہتے  تھے۔ اور ادھر ادھر تنہا گھومتے  تھے۔

کیسے  کھینچوں  تری تصویر تو گم ہے  اب تک

تجھ کو اے  جانِ جہاں  میں  نے  تو دیکھا بھی نہیں

اس مصرع پر بھیڑ میں  ایک شور سا برپا ہوا۔

جب کبھی ابر شب مہ میں  اڑے   جاتے  ہیں

آبشاروں  سے  صدا آتی ہے  چھن چھن کے  کہیں

یا کبھی شام کی تاریکی میں، تنہائی میں

جب کبھی جلوہ جھلکتا ہے  تیری یادوں  کا

میں  سجاتا ہوں  خیالوں  میں  حسیں  خواب کئی

اس نظم سے  ابھرنے  والی تصویر کے  ساتھ ایسا لگ رہا تھا جیسے  پوری وادی خوابوں  سے  بھر گئی ہو۔

 

سامنے  آتی ہے  دو پل کے  لیے  تو اے  دوست

اور اے  پردہ نشیں  تیرا جو چلمن ہے  حسیں

میں  بڑھاتا ہوں  قدم اس کو ہٹانے  کے  لیے

ناگہاں  دور کی آواز کوئی آتی ہے،

کانپ جاتا ہے، دھڑکتا ہے  میرا شیشۂ دل

اور پھر دھندلی فضاؤں  میں  تو کھو جاتی ہے،

دیکھتا ہوں  جو سہم کر کہ پسِ پشت ہے  کون،

یاس کے  بحر سیہ پوش پہ رقصاں  رقصاں،

زہر آلود تبسم کی کٹاریں  لے  کر

کوئی لہراتا ہوا سایہ نظر آتا ہے !

ماحول یکایک انتہائی سنجیدہ ہو گیا۔ اور ان ہی کی یہ دوسری نظم بھی سنئے  جس سے  اندازہ ہوتا ہے  کہ وہ اپنے  لئے  بالکل نہیں  لیکن ہمارے  لئے  کتنے  دکھی رہتے  تھے۔ ہمیں  رنج ہے  کہ وہ عظیم انسان آج ہمارے  بیچ نہیں  ہے۔ ان کو عوام کے  مستقبل کی کتنی فکر تھی،  سنئے۔

وقت آنے  سے  اس قدر پہلے

رات کے  تین بج چکے  ہیں  دوست

سارا عالم ہے  نیند سے  مدہوش

ایک شاعر ہے  آپ کا لیکن

وادیِ فکر و غم میں  خانہ بدوش

اس کو نیند آئے  کس طرح آخر

سوچتا ہوں  کہ صبح دم اٹھ کر

جاؤں  گا سوئے  شہر میں  جس دم

مجھ سے  پوچھیں  گے  غمزدہ انساں

ہے  ہمارے  دکھوں  کا کچھ درماں

کچھ تو اے  شاعر عزیز کہو!

کیا بتاؤں  گا ان غریبوں  کو،

زندگی جن کی ایک حسرت ہے

جن کی یہ ایک امید ایک فریب

جن کے  سر پر ہیں  موت کے  سائے

جن کا ہر اک قدم غموں  سے  نڈھال

ان کے  اشکوں  کو کون خشک کرے

صرف میں  ہی نہیں،

یہ ساری قوم،

قوم کی آنے  والی نسلیں  تک،

اک نوالہ کی طرح ہیں  شاید!

رات کے  تین بج چکے  ہیں  دوست

کچھ بتاؤ تو تم بتا جو سکو،

ان سوالات کے  جواب ذرا،

اٹھ رہے  ہیں  جو ذہن میں  میرے

وقت آنے  سے  اس قدر پہلے

اور جب وہ لکھتے  تھے  تو کیا عالم ہوتا تھا، دیکھئے۔ نظم ہے۔

شاخ زباں

جب ریت کا صحرا دیکھ کے  ڈر جاتا ہے  ادیب کا سینہ بھی

وہ لمحے  اکثر آتے  ہیں

جب ذہن کے  سارے  پردے  اٹکے  اٹکے  سے  رہ جاتے  ہیں

جب شور مچاتی شاخ زباں  سے  سارے  پرندے  مرمر کے  گرجاتے  ہیں

وہ لمحے  اکثر آتے  ہیں

جب آوازوں  کے  پنجر

اپنے  سوکھے  سوکھے  ہاتھ لئے

میرے  سر پہ چھا جاتے  ہیں

اور میں  گھبرا سا جاتا ہوں

اک قبرستان کی تنہائی

اک بے  معنی خالی رستہ

اور دو پاؤں  کی خالی خالی تھکی تھکی سی چاپ

تو  اپنے  آپ سے  بھی ڈر جاتا ہوں

جب ریت کا صحرا دیکھ کے  ڈر جاتا ہے  قلم کا سینہ بھی

وہ لمحے  اکثر آتے  ہیں۔

اس سے  سراغ ملتا ہی کہ ان کی موت کیوں  ہوئی۔ جو ٹیم ان کی یونیورسٹی سے  یہاں  ان کی موت کے  بارے  میں  تحقیق کرنے  آئی ہے  ان سے  میری گزارش ہے  کہ وہ اس نظم کو شاعری نہیں  عصرِ حاضر کا سنگین ترین مسئلہ سمجھیں۔

وہاں  کے  اسکول کے  ٹیچر آئے۔ میری نظم ترقی پسند ہے۔ ترقی پسندی کو دبانے  کی بہت کوششیں  ہوئی ہیں  لیکن جب تک انسان کی صورتحال نہیں  بدلے  گی ترقی پسند شاعری ہوتی رہے  گی۔ میری نظم کا موضوع ایک رکشے  والا ہے  لیکن انداز نیا ہے۔

رکشہ والا

سن کے  نیتا کی تقریر

وہ

ایک میلی سی دھوتی میں  لپٹا ہوا جانور

گنگنانے  لگا

میں  تو آزاد پیدا ہوا،

اور آزاد ہوں،

جشنِ تقریر کے  بعد نیتا جو رکشے  کے  اُس جانور پر چلا

راہ میں  روک کر اپنا رکشہ وہ آرام کرنے  لگا

اور پھر اک جھنکار کے  ساتھ

زنجیروں  کا ایک جال

اس پہ آ کر گرا

اور پھر اس نے  جانا کہ وہ تو گرفتار تھا،

جانور کی طرح ایک بھاری سے  انسان کو

جسم کی نرم و نازک رگوں  پر اٹھائے

دوبارہ چلا جا رہا تھا

کڑی دھوپ تھی

اور خوابوں  کا رستا ہوا زخم

سانسوں  میں تھا

دوسری نظم طلبا کے  اوپر ہے۔ آج طالب علم مزدور بنا کر مزدور منڈی میں  کھڑا کر دیا گیا ہے۔ عنوان ہے۔

کنو وکیشن

کیریر ڈھونڈتے  ہوئے  کچھ ذہن

امڈ آئے  ہیں  بھیڑ کی صورت

کچھ امیدوں  کی کاغذی شمعیں

ٹمٹماتی ہیں،جگمگاتی ہیں

اپنے  ہاتھوں  میں

ڈگریاں  لے  کر

چند لمحوں  کی مسکراہٹ میں

چند معصوم ڈوب جاتے  ہیں

اور وہ پنڈال

وقت

کا جادو

پھر کسی سازشی کے  ہاتھوں  سے، چپکے  سے

توڑ ڈالا جاتا ہے

 

چند دن ہو گئے او ر آج وہاں

جہاں   پنڈال  میں  ہزاروں  لوگ

تالیوں  سے  جگا رہے  تھے  کچھ

تالیوں  سے  دکھا رہے  تھے  کچھ

خالی خالی سی کچھ ہوائیں  ہیں

اور آواز کا سمندر وہ

ایک لمبے  سراب کی مانند

کچھ نہیں

صرف ایک صحرا ہے

جس پہ ریتوں  کی

گرم بانہوں  میں

بادبانوں  کا اک نظارہ ہے۔

شکریہ جناب،  شکریہ۔

ایک صاحب شیروانی میں  پرانے  وضع قطع میں  آئے  تھے۔ آنکھوں  میں  عینک جس کے  شیشے  بہت موٹے  تھے۔ آواز پتلی تھی۔

 

 

اک پردہ  کو  اٹھ  جانا  تھا  اک  چہرہ  کا  آنا تھا

کتنی حسیں  تھی کتنی حسیں  تھی شرما ئی، شرمائی رات

ہر شاخِ گل میں  تھی یہ نرمی، غنچہ تک گر جاتے  تھے

آج ہر اک ٹہنی پتھر ہے، کیسی آندھی لائی رات

شام کا سا یہ رات میں  گہرا صبح میں او ر بھی گہرا تھا

پھر بھی جانے  سوچ کے  کیا کچھ پل بھر کو مسکائی رات

ایک کرشمہ اک دھوکا تھا ایک تحیر سازی تھی

لیکن اک عالم نے  یہ سمجھا کہ دن سے  ٹکرائی رات

ایک  نیا  در  ایک  نیا گھر ایک  نیا  ہنگامہ  ہے

ایک نئے  رہزن کے  گھر ایک نیا برہمن لائی رات

 

یہ جو میں  سنانے  جا رہا ہوں،  غور سے  سنیں، آپ کی کہانی ہے۔

اک حبس کا عالم ہے  اک نام کا قیدی ہوں

آوارہ نہیں  آخر، نکلا تو وجود اپنا

بے  خوف ہوا آخر انجام سفر آیا

خوش حال میں  ٹوٹا ہے  خوابوں  کا جمود اپنا

جس قبر سے  بھاگے  تھے ، لوٹ آئے  وہیں  آخر

اس قبر میں  پنہاں  ہے  اب نام و نمود اپنا

ان تیز ہواؤں  میں  کچھ بات تو ہے  لیکن

گھلتا ہے  خلاؤں  میں  بے  کام سرود اپنا

ہیرے  کی کنی سی اک بے  چین ہے  سینے  میں

مٹی میں  ملے  گا اب خاموش وجود اپنا

 

آنکھوں  پہ کوئی پردۂ سیمیں  نہیں  رہا

وہ دن گئے  کہ آپ کہیں  دل کہیں  رہا

انصاف ہو سکا نہ جو بانٹا وجود کو

حصے  میں  اپنے  وہ مہ کامل نہیں  رہا

اتنی طویل راہ مگر جانے  کس طرح

میں  گنبد سفر میں  جہاں  تھا وہیں  رہا

ضائع ہوئیں  نمازیں،  دعائیں  تو کیا حرج

وہ سنگ بے  مثال تو زیر جبیں  رہا

باقی ہوں  آج تک تو یہ حیرت کی بات ہے

کہتے  ہیں  جو بھی آیا یہاں  تک نہیں  رہا

الجھی ہوئی فضاؤں  میں  جلتا رہا لہو

بے  داغ اس وجہ سے  مرا آستیں  رہا

یہ غزل خالد مرحوم کی ہے۔

خالد کہئے  خالد مرحوم مت کہئے۔ مرحوم وہ ہوتے  ہیں  جو خود اہم ہوتے  ہیں۔ جن کے  خیالات ہی ان کی زندگی اور روح ہوتے  ہیں  وہ زندہ شہید ہوتے  ہیں۔ خالد مکمل طور پر زندہ ہے۔

یہ میں  بھی مانتا ہوں۔ ان ہی کی نظم سناتا ہوں۔

 

خوابوں  کے  لشکر لے  کر میں  تنہا تنہا رہتا تھا

سوکھا تھا جذبات کا صحرا، ابر کا سایہ بھی نہ ملا

پھول مری را ہوں  میں  اگاتا یہ تو دور کی باتیں  تھیں

کانٹے  پر چلنے  کو جو کہتا کوئی ایسا بھی نہ ملا

میرا وجود اک ایسا معمہ، جیسے  قفس ہو پنچھی کا

ہر ارماں  کا سورج چمکا،مجھ کو تارا بھی نہ ملا

جنت میری راہ میں آ کر بدل گئی ویرانے  میں

جس نے  سہارا مجھ کو دیا، خود اس کا سہارا بھی نہ ملا

لوگ سفینے  میں  جاتے  تھے  میں  چلتا تھا موجوں  پر

میرے  جیسے  راہی کو، کوئی اور سفینہ بھی نہ ملا

کیوں  دل دکھا رہے  ہو میرے  دل میں  ڈوب کر

 

پتھروں  نے  اسے  اجنبی جانا

یہ نہ پوچھو کہ رونے  لگا کیسے

زندگی جس کی برف تھی خون سیاہ

بوجھ رنگوں  کا ڈھونے   لگا کیسے

 

جیسے  بادل  ہوا ؤں میں  گھلتے  ہیں

میں  نے  لمحوں  کو  یوں  کھو دیا کیسے

زخم فرسودہ  تھا اور  بدن رسوا

وقت نے  ہم کو دھو دیا کیسے

 

ایک نظم ہے  جس کا آخری شعر ہے  کہ

 

شعاعِ حق کی گرانی کبھی نہیں  ہوتی

یہ شئے  ہے  وہ کہ پرانی کبھی نہیں  ہوتی

عنوان ہے

صداقت کا انتظار کرو

سنا ہے  مصر میں  اک دور ایسا آیا تھا

کہ سارے  ملک پہ ظلم و ستم کا سایہ تھا

ہر ایک سمت صداقت کی بجھ چکی تھی کرن

چمن چمن پہ مسلط تھا تیرگی کا فن

دلوں  پہ سطوت و قوت کا بول بالا تھا

خدا کے  حکم سے  انساں  کا حکم عالی تھا

کہیں  دکھائی نہ دیتی تھی شمع نور دوام

بھٹک رہا تھا اندھیرے  میں  کاروانِ عوام

ترس رہی تھی ہر اک دید روشنی کے  لیے

تو کوہ طور پہ چمکے  جمال حق کے  دیئے

سحر کا ابر بہت دیر تک ٹھہر نہ سکا

مٹی وہ تیرگی ہر سمت چھا گیا جلوہ

جہان ظلمت و حسرت میں  انقلاب آیا

خدا کا نور اندھیرے  میں  بے  نقاب آیا

ہوئی زمانے  میں  فرعونیت کی رسوائی

دیارِ  مصر  میں   پھر  شمع  طور  لہرائی

ہوا اکھڑ گئی اک لخت چیرہ دستوں  کی

چراغاں  ہو اٹھی محفل خدا پرستوں  کی

وہی نظام مشیت ہے  کائنات وہی

وہی ہیں  شمس و قمر دن وہی ہیں  رات وہی

زمانے  والو، صداقت کا انتظار کرو

جمال طور کو سینے  میں  استوار کرو

ہے  یہ وہ شمع درخشاں  نہیں  فنا جس کو

بجھا سکی نہ کبھی گردش ہوا جس کو

جمال طور ہے  موجود اب بھی سینا میں

کبھی ہے  مسجد اقصی کبھی مدینہ میں

کبھی اتر گیا مظلوم کے  سفینہ میں

کہیں  ہے  جلوہ فشاں  اب بھی چشم بینا میں

شعاع حق کی گرانی کبھی نہیں  ہوتی

یہ شئے  ہے  وہ کہ پرانی کبھی نہیں  ہوتی

 

بدلے  ہوئے  موسم کی ایک نظم۔ جب بادل امڈتے  ہیں  تو کچھ کچھ ہونے  لگتا ہے۔

 

گردشوں  کے  بادل سے، قطرہ قطرہ ٹپکی ہے، لالہ زار کی سرخی

موسموں  کی تبدیلی، ناگزیر ہوتی ہے، جل اٹھا ویرانہ

آج تک بھٹکتے  ہیں، خواب جو صداؤں  میں  ان کو سامنے  لاؤ

اے  مصور اعظم عظمتیں  ہیں، ماضی کی صرف حرف افسانہ

ٹمٹما رہے  ہیں  اب وہ دیئے  جو جلتے  تھے، رات کے  سمندر میں

آ رہے  ہیں  طوفاں  بھی، اور صبح کاذب بھی، راہ بھی ہے  انجانی

ہاتھ میں  ہیں  تلواریں، پاؤں  میں  ہیں  زنجیریں، آنکھ رزم گا ہوں  پر

بے  قرار ہے  عالم بند جس کے  سینے  میں، جاگ اٹھا وہ دیوانہ

 

الگ راہ پر چلنے  کی نظم ہے۔

میرا عزم

 

دنیا  جہاں  پہ آ کے  ٹھہرتی رہی  سدا

اس انتہا سے  آج بڑھا جا رہا ہوں  میں

کچھ نقش پا یہاں  بھی مگر پا رہا ہوں  میں

اس گردش نظام بہار و خزاں  سے  دور

بڑھتے  ہی جاؤ دل کو یہ سمجھا رہا ہوں  میں

معلوم ہے  مجھ ہی کو کہاں  جا رہا ہوں  میں

مجھ  کو امید ہے  مری منزل قریب ہے

دل خوش ہے  گو کہ زخم بہت کھا رہا ہوں  میں

پیہم فصیل مشکل و  غم ڈھا  رہا ہوں  میں

اک آئینہ حیات کو دکھلا رہا ہوں  میں

 

میری غزل بالکل آج کی صورتحال پر ہے۔

آج کی صورتحال پر یا آپ کی صورتحال پر ؟

وہی سمجھ لیجئے۔

ارشاد۔

کیا مقتل پہ قاتل نے  تماشہ اس قدر پیدا

کہ رہرو کی نظر میں  ہو گیا ذوق نظر پیدا

خالد کے  اوپر پوری طرح صادق آتا ہے

زمانہ یہ سمجھتا ہے  کہ یہ حسرت کے  آنسو ہیں

برستی ہیں  مری آنکھیں  تو ہوتے  ہیں  گہر پیدا

سبھی سر ہلانے  لگے۔

گرا ہے  خیمہ گردوں،یہ کب امید تھی اے  دل

ترے  نالوں  سے  ہو جائے  گی جنبش اس قدر پیدا

ابھی گرا کہاں  ہے  لیکن اب گرے  گا۔

سکھاتی ہیں  زمانے  کی ہوائیں  شعلہ افشانی

جو ہوتا ہے  کبھی اقوام کے  اندر شرر پیدا

صحیح بات ہے۔ صحیح بات کیا ہے۔ اب تو یہاں  وہ بھی نہیں  رہا۔ چنگاری نکلے  گی کہاں  سے ؟ ایک آدمی نے  ہتھیلی پر تمباکو ملتے  ہوئے  کہا۔

ان کو چھوڑو،  آپ آگے  سناؤ۔ اگلا شعر ہے۔

صداقت کے  علم کا رنگ جب بھی مٹنے  لگتا ہے

تو ہو جاتا ہے  حیدر کا کوئی لخت جگر پیدا

کیا بات ہے۔ اور کسی نے  اسی خیال کو آگے  بڑھاتے  ہوئے  کیا شعر باندھا ہے

یہ انتہا ہے  وہ آغاز تھا محبت کا

نہ آیا دمبہ کوئی سامنے  برائے  حسین

مجھے  اندازہ ہوتا تو ماں  قسم،  میں  خالد کی جگہ جان دے  دیتا۔

غزل رکنے  کے  بعد پھر آگے  بڑھی۔

یہی آئینِ فطرت ہے  یہی دستورِ گلشن ہے

کہ پھولوں  کیلئے  ہوتے  ہیں  کانٹے  ہمسفر پیدا

یہ تو ہم سب کی زندگی کا حصہ ہے۔

عروج قوم کا ہر راز مخفی زیر خنجر ہے

کہ ہوتا ہے  ہمیشہ دوج کی صورت قمر پیدا

خنجر کی بات بھی کیا خوب کہی ہے۔

ذم کا پہلو نکلتا ہے۔

نکلتا ہے  تو نکلے،  میں  کب منع کر رہا ہوں۔

’یہ ذم کا پہلو کیا ہوتا ہے۔ ‘

پرانے  زمانے  میں  جب اردو تہذیب پروان چڑھ رہی تھی اس وقت پردے  کا خبط لوگوں  کے  اوپر اتنا چڑھا ہوا تھا کہ لوگ جسموں  کے  علاوہ جسم کے  اعضا کی بھی پردہ پوشی کرتے  تھے۔ اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ پردے  کی شدت سے  نگاہیں  مردوں  عورتوں  کو دیکھنے  سے  بھی قاصر تھیں  جبکہ جنسی جبلت کا وہی عالم ہوتا تھا لہذا لوگوں  کو جسمانی اعضا کا نام سن کر تو کیا،  اس سے  ملنے  جلنے  والے  لفظ کو بھی سن کر جسموں  کا خیال آ جاتا تھا۔ اس کے  اثر سے  بچنے  کے  لئے  شاعری میں  اس بات کا لحاظ رکھا جانے  لگا کہ کسی بھی اسم یا مصدر کے  استعمال سے  قاری کا ذہن کسی جنسی عضو یا عمل کی طرف نہ جائے  لہذا لفظوں  یا مصرعوں  کے  ایسے  استعمال کو شعر کا نقص قرار دیا گیا۔ وہی روایت ابھی تک چلی آتی ہے۔

ادھر توجہ چاہتا ہوں۔

ہاں، ہاں  فرمائیے ،  ارشاد۔

عرض ہے  کہ

جہانِ تیرگی کو دور کرنے  کے  لیے  یارب

دیار ہند سے  کر دے  نئے  شمس و قمر پیدا

اس کو انسان پیدا کرنا تھا کر دئے۔ چاند سورج بھی بنا دئے۔ اب نئے  شمس و قمر کی کیا ضرورت پڑ گئی۔

ضرورت ہے۔ اگلا اور آخری شعر ملاحظہ ہو۔

خرد مندوں  کو صحرا میں  کوئی رستہ نہیں  ملتا

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں  لاکھوں  رہ گزر پیدا

واہ،  واہ، واہ۔

مکر ر،  مکر ر۔

خرد مندوں  کو ؟

خرد مندوں  کو صحرا میں  کوئی رستہ نہیں  ملتا

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں  لاکھوں  رہ گزر پیدا

’لاکھوں  رہ گزر پیدا‘ کئے  لوگوں  نے  ایک ساتھ کہا۔

دلی سے  آئے  ہوئے  ماس کوم کے  اس طالب علم نے  پوچھا جو میزو قبیلے  کا تھا۔ وہ مجاور کو چھوڑ کر کافی دیر سے  ادھر ہی آ بیٹھا تھا۔ وہ دراصل کئی دنوں  سے  ادھر ادھر لوگوں  میں  ہی بیٹھنے  لگا تھا اور ان کی باتوں  کو بہت دھیان سے  سنتا تھا۔

وھاٹ از ’خرد مند‘  ؟

اینڈ ’رہ گزر ‘  ؟

اور مجنوں  کہتے  ہیں

دیٹ آئی نو۔

وہ کچھ سوچتا رہا پھر اچانک چونکا۔

گریٹ میننگ۔

وہاٹ یو ہیو سیڈ۔ گریٹ میننگ۔

گریٹ میننگ۔

نوجوان جیسے  مراقبہ میں  چلا گیا تھا اور سوچ کے  بوجھ میں  پھنسا ہوا تھا۔

اس کا چہر کسی مایوسی کے  زیرِ اثر عجیب سا ہو گیا تھا۔

وہ اس بوجھ سے  نجات پانے  کے  لئے  بے  چین تھا۔ یہ وہی کیفیت تھی جو خالد پر طاری تھی۔ لیکن وہ بیمار نہیں  تھا۔

وہ نوجوان اچانک پریشان ہو کر اٹھ کھڑا ہوا جیسے  پاگل ہو گیا ہو اور اس کا ذہن کی طرح ایک ٹوٹی ہوئی مشین کی طرح کہیں  اٹک گیا ہو۔ پھر وہ تڑپنے  لگا جیسے  اسے  مرگی ہو رہی ہو یا اس پر اندر سے  الہام ہو رہا ہو۔

خرد مندوں  کو صحرا میں  کوئی رستہ نہیں  ملتا

چلے  مجنوں  تو ہو جاتے  یں  لاکھوں  رہ گزر پیدا

اس کے  چہرے  پر ایک روشنی سی ابھرنے  لگی لیکن ساتھ ساتھ اس پر کرب کے  آثار بھی طاری تھے۔ اس نے  اس درد سے  آزاد ہونے  کے  لئے  اپنے  سر کو بار بار زور سے  جھٹکا دیا، پھر ایسے  دوڑا جیسے  دیوار میں  سر مار دینا چاہتا ہو اور پھر اچانک ایسے  مطمئن ہو گیا جیسے  اسے  سب کچھ سمجھ میں آ گیا ہو،  کوئی ایسی بات جو وہ کہہ نہیں  سکتا ہو بلکہ جس کا ہونے  سے  تعلق ہو جیسے  ٹھٹھڑتے  ہوئے  ہاتھ کے  لئے  آگ کی کشش ہاتھ کو ادھر پھیلانے  پر آمادہ کرتی ہے۔

جو دلیلوں  سے  اوپر ہو۔ جو صرف ہونے  کا متقاضی ہو۔

جیسے  ساری سوچ بیکار اور بکواس ہو۔ جیسے  اصل چیز کچھ اور ہو۔ جیسے  کسی عالم نے  اصل علم کے  ذریعہ کا عرفان ہوتے  ہوئے  اپنی ان تمام کتابوں  کا بوجھ اتار پھینکا تھا جنہیں  وہ اونٹوں  پر لاد کر چلتے  تھے۔

 

مشاعرہ جیسے  ہی ختم ہوا،  لوگوں  پر ایک اداسی سی چھا گئی جیسے  یہاں  ابھی کچھ اور بھی ہونا چاہئے  تھا جیسے  خالد کی شخصیت کے  بارے  میں  بات ہونی چاہئے  تھی۔ لوگ دراصل یہاں  سے  جانا نہیں  چاہتے  تھے۔

کون سلسلے  کو آگے  بڑھائے  ؟

مولوی صاحب کو بلاؤ ان سے  کچھ سنتے  ہیں۔

کچھ لوگ جا کر مجاور کو جنہیں  وہ  داڑھی رکھنے  کے  بعد مولوی صاحب کہا کرتے  تھے،  بلا لائے۔

اور انہیں  وہاں  بولنے  کیلئے  کھڑا کر دیا۔

وہ سوچنے  لگے  کہ کیا بولیں۔ پھر انہوں  نے  تھوڑی سی مہلت مانگی۔ اپنی پھوس کی کٹیا میں  گئے او ر وہاں  سے  اپنے  ہاتھ میں  ایک کتاب لیکر آئے۔

یہ کتاب وہی کتاب تھی۔

انہوں  نے  کتاب کھولی اور کتاب کے  اندر ہی ایک ورق کو خاص طور سے  کھولتے  ہوئے  ہی بغیر سامنے  دیکھے  ہوئے  بولے۔

’ آپ میں  بہت سے  ایسے  لوگ ہیں  جو اردو نہیں  پڑھ سکتے او ر اس لئے  انہوں  نے  یہ کتاب اب تک نہیں  پڑھی ہو گی لیکن آپ نے  یہ سنا ہو گا کہ بہت سے  لوگ اس کتاب کو پڑھنے  کے  بعد اپنے  آپ کو گالیاں  دینے  لگتے  ہیں۔

میں  آپ کو وہ حصہ سناؤں گا جو خالد نے  اپنی موت سے  کچھ ہی پیلے  لکھا تھا کیونکہ مجھے  یاد ہے  یہ اس کی کتاب کا آخری صفحہ تھا۔ اور میں  نے  خاص طور سے  اس کی کتاب کے  اوریجنل مسودے  سے  اپبے  ہاتھ سے  نقل کر لیا تھا کیونکہ اس میں  ایک طرح سے  میرے  لئے  بھی ایک برائے  راست پیغام تھا۔

تو لیجئے،  سنئے۔

مجاور نے  ایک نظر اس بھیڑ پر ڈالی جو دور دور تک کھیتوں  میں  پھیلی ہوئی تھی اور پیچھ جا کر لگ بھگ ان کھیتوں  میں  گم سی ہو گئی تھی جن کا سلسلہ آگے  دور تک پھیلی ہوئی وادیوں  سے  لیکر دھندلے  ہوتے  ہوئے  آسمان کے  آفاق تک پھیلا ہوا تھا،  کچھ اس طرح جیسے  پورا آسمان ہی کسی اسٹیڈیم کی چھت بن گیا ہو اور پوری دنیا اس اسٹیج سے  اٹھنے  والی آواز کو سننے  کے  لئے  تیار ہو۔

اس نے  لکے  سے  مائک کی آواز کو ٹسٹ کیا اور اطمینان کرنے  کی بعد پڑھنا شروع کیا۔

 

’تم محض ووٹ دیکر اپنی حکومت کو چلانے  کی ذمہ داریوں  سے  بر ی الذمہ نہیں  ہو جاتے۔ ووٹ دیکر کسی کو منتخب کر کے  حکومت کی ذمہ داریوں  کہ وہ وہ شہریوں  کی حفاظت کر ے او ر امانت میں  خیانت نہ کرے،  سے  بری الذمہ نہیں  ہو جاتے۔ اور اپنے  نوکر مقرر کر کے  ان کی حرکتوں  کی ذمے  داریوں  سے  بھی بری الذمہ نہیں  ہو جاتے،  اور اگر وہ بے  ایمانی کی نیت سے  کوئی لوپ ہول بناتے  ہیں  تو اس کے  لئے  بھی تم ہی ذمہ دار ہو۔

یہ مت سوچ لو کہ جمہوریت میں  بہتر ذہنوں  کا انتخاب کرتے  ہو،  بہتر ذہن تو تم خود ہو،  تمہیں  بہتر ذہن کی نہیں،  وفادار ذہن کی ضرورت ہوتی ہے  تاکہ ملکی اور  اجتماعی ملکی اور سیاسی نوعیت کے  کام تم ان کے  ذمہ سونپ سکو کہ اس کے  لئے  تم کو کارندے  کی ضرورت ہوتی ہے  تم حکومتیں  پارلیمنٹ اور عدالتیں  سب اسی ضرورت کہ تحت بناتے  ہے۔

یہ بات جو تمہارے  اندر گھٹی میں  بیٹھی ہوئی ہے  کہ حکومت کرنے  کیلئے  سماج کے  بہترین ذہن کا انتخاب کیا جاتا ہے  یہ بات صحیح نہیں  ہے  کہ سماج میں  لاکھون ایسے  لوگ ہوتے  ہیں  جو ان حکمرانوں  سے  بہتر ذہن رکھتے  ہیں  جو حکومت کے  کام کو نبھانے  پر مقرر کئے  جاتے  ہیں،  فرق صرف یہ ہوتا ہے  کہ وہ دوسرے  کاموں  میں  مشغول ہوتے  ہیں۔ ووٹ دینا ہی صرف حکومت کی ذمہ داریوں  کو نبھانے  کے  لئے  کافی نہیں  ہے  بلکہ ووٹ دیکر کہے  اس کو سیٹ پر بٹھانے  کے  بعد ایک فیکٹری کے  مالک کی طرح مسلسل دیکھتے  رہنا،  چوکنا رہنے او ر مختلف ذریعوں  سے  سپروائز کرنا بھی سیفٹی کے  لئے  ضروری ہے  تاکہ یہ ملازم تمہاری دولتِ زندگی میں  خرد برد کر کے  دولت اپنے  گھر نہ لے  جا رہے  ہوں،  اگر تم میں  یہ صلاحیت نہیں  ہے  کہ اپنی فیکٹری کو سنبھال سکو’ مسلسل اپنی مالکانہ ذمہ داریوں  کو پورا کرتے  رہو تو تم برباد ہو جاؤ گے، برباد ہوتے  رہو گے، اور تم اپنی اسی بربادی کا سامنا کر رہے  ہو۔۔ تم یہ بھول جاتے  ہو کہ جس دن ملک آزاد ہوا اور ملک میں  جمہوریت آہی اس دن تم اچانک فیکٹری کے  مزدور کے  بجائے  فیکٹری کے  مالک بن گئے او ر اپنے  اس منصب کی ذمہ داریوں  سے  نبرد آزما ہونے  کی لئے  تمہارے  کردار میں  بہت زبردست بنیادی تبدیلی کی ضرورت آن پڑی۔ اگر تم اپنے  سونے  جواہرات اپنے  مزدوروں  کے  ہاتھ میں  چھوڑ کر سو جاتے  ہو تو خطرہ خود مول لے  رہے  ہو’ انہیں  بے  ایمان ہونے  کو دعوت خود دے  رہے  ہو،  انہیں  خود بگاڑ رہے  ہو۔ مزدوروں  کو بے  ایمان کہنے  سے  کام نہیں  چلتا، اپنے  کو ناکارہ، کاہل، بے  وقوف،غیر ذمہ دار کہنا ضروری ہے۔ اپنی دولت کی حفاظت کی ذمہ داری تو وہ چیز ہے  جس سے  تم بری الذمہ ہو ہی نہیں  سکتے  لیکن تمہاری یہ حالت ہے  کہ تم اس بوجھ سے  خود گھبراتے  ہو کیونکہ اس کے  لئے  تمہیں  اپنے  ذہن کو تیار کرنا پڑے  گا، اس میں  احساسِ ذمہ داری کوٹ کوٹ کر بھرنا پڑی گا۔ مختلف طریقوں  سے  اس بات کو پکا کرنا ہو گا کہ ووٹ بعد بھی ٹھیک اسے  طرح تم مالک ٹریٹ کئے  جاؤ جس طرح اس ذمے  داری کے  لئے  ملازم کا انتخاب کرنے  میں  ووٹ دیتے  وقت تم مالک ہوتے  ہو اور یہ سیاست دان تمہارے  سامنے  امیدوار کی طرح کھڑے  رہتے  ہیں۔ یہ گھپلا نہیں  ہونا چاہئے  کہ ووٹ دیتے  ہی وہ اپنے  کو مالک سمجھنے  لگیں  کہ اسی پہلو بدلنے  کے  کھیل میں  ساری بیماریوں  کی جڑ ہے۔ اسی گھپلے  کی وجہ سے  تمہارا ہی ملازم تم سے  یہ کہتا ہے  کہ تم کو یہ جاننے  کا حق نہیں  ہے  کہ کس امیدوار کے  نمبر کتنے  تھے  یا کاغذ پر نمبر بدلے  نہ جائیں  اس کا کیا انتظام ہے،  یا جہاں  مجبوری نہ ہو وہاں  شفافیت کیوں  نہ رکھی جائے او ر تمہارا ہی مزدور یہ بڑی بات تم سے  کہہ کر نکل جاتا ہے  کہ امیدواروں  کے  نمبر کم و بیش بھی کئے  جا سکتے  ہیں  تاکہ مناسب امیدوار کا انتخاب ہو سکے او ر اس انتخاب کے  اصول اور معیار کیا ہوں  گے  اس کو جاننے  کا حق تم کو نہیں  ہے  کیونکہ یہ اس کی ذہنی پراپرٹی ہے۔

دراصل تم نے  اپنا خون دیکر، جنگ کر کے  جو آزادی حاصل کی تھی اور اپنی زندگی اور دولت کے  مالک بن بیٹھے  تھے او ر انگریزوں  کو ہٹا دیا تھا اس کی جگہ اب منیجر مالک بن بیٹھے  ہیں او ر تمہاری فیکٹری منیجر چلا رہے  ہیں،  اور تمہاری نا اہلی کے  سبب نہ صرف وہ خرد برد اور بے  ایمانی کرتے  ہیں  بلکہ تمہیں  کتے  کی طرح دھتکار بھی دیتے  ہیں او ر تمہاری پٹائی کرنے  کیلئے  بلکہ تمہیں  جان تک سے  مار دینے  کیلئے  انہوں  نے  پیسے  کی طاقت سے  غنڈے  بھی پال رکھے  ہیں۔ اب شریف اور قابل امیدواروں  کی وہاں  پہنچ ممکن نہیں  کیونکہ انہوں  نے  انتخاب کے  وقت تمہاری خوشامدیں  کر کے ،تم کو اپنے  گلیمر سے  متاثر کر کے  تم کو دارو پلا کر، تمہیں  الو بنا کر یہاں  تک کہ تم کو ڈرا کر تم سے  ووٹ لے  لینے  کا فن سیکھ گئے  ہیں۔ اور سب سے  بڑی کمی یہ رہی ہے  کہ جمہوریت ملنے  کے  بعد حکومت چلانے  والوں  کا انت۔ اب کرنے  کا طریقہ تو مضبوطی سے  لاگو ہوا لیکن انتخاب ہونے  کے  بعد اپنے  ان ملازموں او ر کاروبارِ حکومت کی دیکھ ریکھ کے  طریقے  کو قطعی مضبوط نہیں  ہونے  دیا گیا بلکہ جا بجا  راز داری کے  قانون بنا کر اس کو کمزور کیا گیا۔ اور یہی ہر بیماری کی جڑ ہے۔ یعنی حکمرانی کی خواہش اور اس کو مس یوز کرنے  کا ارادہ رکھنے  والے  طبقے  نے  یہ تو مان لیا کہ ان میں  کون حاکم رہے  گا اس کا فیصلہ الکشن کے  اکھاڑے  میں  ہو گا لیکن اس میں  بھی وہ متحد رہے  کہ انتخاب کے  بعد لوٹنے  کھسوٹنے  کی پوری مشین وہی رہے  گی جو انگریزوں  کے  زمانے  میں  تھی اور عدالتوں  موں  قاضیوں  کو عوام مائی لارڈ شپ ہی کہتے  رہیں  گے او ر منسٹروں  کو محفلوں  میں  ملازموں  کا نہیں  مالکوں  کا درجہ ملے  گا اور عوام کو اپنے  ملازموں  کے  دفتر میں  میں  گھسنے  کی اجازت نہیں  ہو گی،  اور سرکاری باتوں  میں  ان کو جواب طلبی کا کوئی اختیار نہیں  ہو گا۔ اور سرکار خود مختار ہوں گے  لیکن عوام خودمختار نہیں  ہوں  گے او ر دراصل یہاں  کہیں  زبردست فلسفیانہ کمی ہے او ر ایک مضبوط سیاسی فلسفے  کی ضرورت ہے  جو اس کمی کو پورا کر سکے۔ یعنی ایک ایسا فلسفہ جو ضرورت کی حد تک ملازموں  کو اطمینان اور خود مختاری دے  تاکہ وہ اپنا کام کر سکیں  لیکن ان کے  طبقے  کو عوام پر کسی بھی حال میں  برتری نہ دے او ر سپروائز کرنے  کے  وہ سارے  طریقے  مہیا ہوں  جن میں  وہ ان ملازموں  کو بے  ایمانی کرنے  سے  یا اپنے  نکمے  پن کی وجہ سے  کسی شہری کی زندگی کو اجیرن کرنے  والی حرکتوں  کی روک تھام کر سکیں  چاہے  وہ حکومت ہو یا عدالت ہو۔ اور حکومت میں  بٹھائے  گئے  لوگ اپنی اوقات میں  رہیں او ر سول سوسائٹی کو اپنی محکوم نہیں  بنا لیں او ر ان کو عوام کی عملاً اور قانوناً احترام کرنی کی تربیت دی جائے۔

لہذا ہماری موجودہ حالت ایسی اس لئے  ہے  کہ ہم مجاہدین آزادی کے  ناکارہ وارث ہیں  جو ان کی وزرات کی ذمہ داریوں  کو نباہنے  کی زحمت سے  بھی گھبراتے۔ ہیں او ر اور اس جب اس ذمہ داری کو نبھانے  کے  لئے  کبھی ہاتھ پاؤں  ہلانے  کی بات آتی ہے  تو اس کو  ایک مصیبت سمجھتے  ہیں۔ اور ایسا کرنے  میں  ہم نہ صرف خود کو بلکہ اوروں  کو بھی تباہ و رسوا کرتے  ہیں۔ ‘

خالد نے  آخری پیراگراف انگریزی میں  لکھی تھی۔ شاید وہ  یہ الفاظ E-mail سے  کہیں  بھیجنا چاہتا تھا یا اپنی بات زمین کے  کونے  کونے  تک پہنچانا چاہتا تھا۔

‘This book should be the new constitution, a constitution for establishing a sovereign civil society, replacing the existing one in which loop holes from the times of Sher Ali have crept into, which needs to be replaced, no more a government which is a danda that the ‘businessman’ wants for keeping the people being exploited by wicked money making process and tricks and keeping away from reacting or showing ‘non-cooperation’. The spirit of Sher Ali needs to be liberated. But the first requirement for establishing a sovereign civil society will be the sovereign citizen, free from his own poisonous submissiveness to short sightedness and selfishness – the ‘nafse-ammarah’. But father, i am so intensely alone and exhausted, I am feeling giddiness. I have spent energy beyond my limits, I have over spent myself, over stressed perhaps which my health did not permit. But, i have reached the target and written. I am dying. I am dying but I have written before I die. Papa, I have completed it but completed at this cost. I know you did not mean it. But it was my decision to plunge into the clutches of this death which is now appearing before me. before I die I only want to say

اس تحریر کے  آخری حصہ میں  اس کا انتخاب اچانک اپنے  والد کی طرف مڑجاتا ہے  چنکہ تحریر انگریزی میں  ہے۔

اور اس کے  بعد کے  الفاظ اس کی انگلی سے  اس کے  کمرے  کی دیواروں  پر لکھے  گئے۔

میں  یہ نہیں  کہ سکتا کہ وہ پیغمبر تھا،  اور تھا بھی نہیں  لیکن اتنا جانتا ہوں  کہ اس کے  اندر دردِ انسانی کی شدت پیغمبروں  سے  زیادہ تھی۔ وہ انسانی برادری کا پیدا کیا ہوا روحِ انسانیت کا پیغمبر تھا۔ ایسے  پیغمبر تو بہت دیکھے  جن پر آسمانوں  سے  کتابیں  نازل ہوئیں، لیکن ایسا اسی کو دیکھا جس پر کوئی الہام نازل نہیں  ہوا بلکہ خود اس کے  دل کے  اندر سے  درد کے  وہ چشمے  پھوٹے  تھے  جس نے  اس کے  ذہن کو منور کر دیا تھا۔ اور اسی لئے  اپنے  سوچ کے  معاملے  میں  اس نے  کسی بھی طرح کی آقائیت کو تسلیم کرنے  سے  انکار کر دیا تھا۔ وہ مشیت ایزدی کو بھی آقا نہیں،  خالق مانتا تھا۔ جس طرح اوروں  کو پہاڑیوں  میں،   یا کسی پیپل کے  پیڑ کے  نیچے  روشنی ملی تھی۔ اسی طرح خالد کو  جزائر انڈمان میں  روشنی ملی تھی جہاں اس کا دل کالا پانی کی روشنیوں  سے  منور ہوا تھا۔

وہ نوجوان جو مشاعرے  میں کچھ سنانے  کیلئے  بیتاب ہو رہا تھا او ر جس نے  اپنے  ساتھ والے  سے  خرد مندوں  کا معنی پوچھا تھا

بار بار اسی شعر کو زیرِ لب بڑبڑا رہا تھا کہ

خرد مندوں  کو صحرا میں  کوئی رستہ نہیں  ملتا

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں  لاکھوں  رہ گزر پیدا

اور اور بہت دھیان سے  ساتھ ہی ساتھ مجاور کے  ذریعے  سنائی جانے  والی تحریر کو بھی سنتا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد اسے  کچھ ایسا محسوس ہونے  لگا تھا جیسے  اس تحریر اور اس شعر کے  بیچ کوئی ربط سا ہے  اس لئے  اس کا ذہن کے  اندر اس کا خیال بار بار اس تحریر کے  الفاظ کے  ساتھ اس شعر کی طرف جا رہا تھا۔ اس کے  ساتھ ہی اس کے  اندر کچھ اپنے  طور پر محسوس کی ہوئی چیزوں  کی وجہ سے  اس کے  ذہن میں  ایک دباؤ سا پیدا ہونے  لگا تھا۔

اس کے  ذہن پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔

’اور اب تو ہمیں  صرف سپرویزن کرنے  کی ذمہ داریوں  سے  ہی آراستہ نہیں  ہونا ہے  بلکہ با قاعدہ اور بہت گہرائی میں  اتر کر اور تا دیر کوششوں   منیجروں  کی گٹھ بندی سے  بھی نبٹنا اور لڑنا ہو گا جس نے  ہر حال میں  ہمیں  لبھا کر یا بیوقوف بنا کر یا پھر ہمارے  نمائندوں  کو لبھا کر یا بیوقوف بنا کر یا ڈرا کر اپنی حفاظت کا انتظام کر لیا ہے او ر اس فن میں  مشاقی پیدا کر لی ہے  لہذا صرف ایک ایسے  کتاب جو مسلسل مینارہ نور کی طرح ہمیں  اس مہم میں  راہِ راست پر رکھے،  اس کی بنیادی ضرورت ہے او ر یہی اس کتاب کا مقصد ہی جو میں  لکہ رہا ہوں  جو آپ کی موجودہ عہد کے  ساتھ ساتھ اس عہد کی جڑوں  میں  بھی کافی دور لیجا کر پوری شاہراہ کو روشن رکھے۔

حکومت میں بٹھائے  جانے  والے  لوگ تمہارے  باپ کی طرح نہیں  تمہارے  بھائیوں  جیسے  ہیں  جو تمہارے  ساتھ بے  ایمانی بھی کر سکتے  ہیں او ر ایسے  بھائی بہت کم ہوتے  ہیں  جو کسی نہ کسی جائزے  کی بنیاد پر ایسا نہ کریں  اس لئے  یہ تمہاری اپنی ذمہ داری ہی کہ ایک بالغ شخص کے  طور پر اپنی جائداد کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھاؤ۔

یہ کتاب تمہیں  اپنے  آس پاس کے  حالات اور اپنی صورتحال کو سامنے  رکھ کر  دور اندیشی کے  ساتھ فیصلے  لینے  کی تربیت دی گی،  اس  پیمانے  کی سوچ کیلئے  کینوس دے گی اور وقت بوقت فیصلے  لیتے  رہنے  کے  لئے  اپنے  ملازموں  کے  اصلی کردار کو پہچاننے  میں  تمہاری مدد کرے  گی۔

میں  ان دنوں  اپنے  خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ کر اس میں  ڈال رہا ہوں او ر میں  اتنا متفکر اور غمزدہ ہوں  کہ مجھے  بھوک بھی نہیں  لگتی، ممکن ہے  کہ اس کمزوری کی وجہ سے  میری موت بھی ہو جائے،  لیکن اگر صرف میری ایک جان کے  صرف ہونے  سے  ایک ایسی کتاب تیار ہو سکتی ہے  جو کروڑوں  لوگوں  کی زندگی کی شاہراہ کو روشن کر سکے  تو اس زندگی کو اس کام آنا چاہئے او ر چونکہ میرے  ذہن میں  ایسی باتیں  آتی ہیں  اس لئے  مجھ ایسا لگتا ہے  کہ قدرت نے  مجھے  یہی ذمہ داری سونپی ہے او ر اگر میں  نے  اس کو نہیں  نبھایا تو مجھ سے  پوچھ تاچھ بھی صرف اسی کے  بارے  میں  کہ امانت داروں  سے  پوچھ تاچھ تو اسی چیز کے  بارے  میں  ہونی چاہئے  جو چیز اسے  دی گئی ہے۔

میں  نے  بچپن سے  جمہوریت کے  خواب اور جمہوریت کے  موجودہ نظام میں  جو تضاد دیکھا ہی اس نے  مجھے  بہت پریشان کیا ہے۔ مجھے  اب وہ دریچہ دکھا ہے  جہاں  اس اندھیرے  کو دور کرنے  والی روشنیوں  کی بھرمار ہے۔

میں  جانتا ہوں  کہ میں  اتنا لاغر ہو گیا ہوں  کہ مرنے  کے  قریب ہوں۔ کوئی چھوٹا سا صدمہ کبھی بھی میری جان لے  سکتا ہے۔ لیکن اگر میں  مر جاؤں  تو اس کے  بعد سے  متعلق میری صرف ایک آرزو ہے  کہ جس طرح میں  نے  اپنی وہ  ذمہ داری پوری کی ہے  جس کی مجھ سے  توقع کی جا سکتی تھی اسی طرح آپ اپنی اس ذمہ داری کو نبھائیں  جس کی توقع اس کتاب کے  لکھنے  کے  بعد مجھے  آپ سے  ہے۔ آپ میں  سے  ہر شخص کا کام انفرادی طور پر اتنا ہی اہم ہو گا جتنی اہمیت یہ کتاب رکھتی ہے  بالکل ایسے  جیسے  کسی ایک درخت کے  بیجوں  سے  پیدا ہونے  والا ہر درخت اتنا ہی اہم ہوتا جاتا ہے  جتنا وہ درخت جس کا وہ بیج ہوتے  ہیں۔ آپ کو اپنی زندگی کو مکمل کرنے  کیلئے  صرف اپنے  ذہنوں  کو روشن کر نا ہے۔ باقی کام قدرت خود کر دے  گی۔ ‘

لوگ انتہائی سنجیدہ ہو گئے  تھے  جیسے  کسی چیز نے  ان کو اندر سے  جکڑلیا تھا۔

وہ نوجوان اب بھی وہی شعر دہرا رہا تھا۔

خرد مندوں  کو صحرا میں  کوئی رستہ نہیں  ملتا

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں  لاکھوں  رہ گزر پیدا

تحریر کی قرات کے  ختم ہوتے  ہی اسے  جیسے  پسینہ سا آ گیا۔ اچانک وہ اوروں  سے  باہر نکل گیا اور اس نے  زمین پر لات ماری۔

اور چلا کر بلند آواز میں   اپنے  ارد گرد کے  لوگوں  کے  مزاج سے  بے  خبر انگریزی میں  گالی کے  ممنوعہ لفظ کے  ساتھ چلا پڑاجبکہ اس کے  ذہن میں  گالی جیسی کوئی بات ہی نہیں  تھی۔

۔۔۔۔۔    ‘

the mind,

bloody ——– up my mind.

I am a duffer. I will ——- up my mind.

ارے  ایسے  مت چلاؤ۔ یہ گندہ لفظ ہے۔ لوگ برا مانیں  گے۔

No. No. It is not about others. Not about others, you see. I am not accusing any one.

اس نے  چاروں  طرف لوگوں  کو دیکھتے  ہوئے  کہا۔

My own mind.This mind.

اس نے  اپنی انگلیاں  اپنی کنپٹی پر رکھ لیں۔

چند لوگ جو انگریزی کچھ کچھ ہی سمجھتے ، عام طور پر گالی کے  طور پر استعمال ہونے  والے  ان الفاظ کو چلاتے  ہوئے  سن کر سکتے  میں  آ گئے  تھے۔

اس کی چیخ میں  بے  پناہ درد کی ایسی شدت اور بے  چینی تھی کہ وہ  ایک ایسی بھدی سی گالی سرِ عام وہاں  دے  رہا تھا جہاں  پورا غیر انگریزی داں  طبقہ تھا لیکن اس گالی کو وہ بھی کچھ کچھ سمجھتے  تھے۔ اس گالی کا معانی انہیں  انگریزوں  نے  ہی پچھلی صدیوں  کے  دوران سکھایا تھا اور شاید کہیں  اس لڑکے  کا مخاطب بھی وہی تھے  جنہوں  نے  یہاں  کے  لوگوں  کی ماں  بہنوں  کے  حوالے  سے  انہیں  اس گالی کا مطلب سکھایا تھا اور یہ چپ چاپ صرف اس کا معنی سیکھتے  رہے  تھے  لیکن کبھی اس کے  استعمال کی عادت نہیں  پڑی کہ ان کی یہ حیثیت ہی نہ تھی۔

پھر وہ انتہائی بے چینی کے  عالم میں  کہتا رہا اور دوسروں  کو دیکھتا رہا۔

—————-the mind ‘

ارے  یہ کیا کر رہا ہے، یہاں  ہر طرح کے  لوگ ہیں۔

چاروں  طرف سے  ہنگامہ ہونے  لگا کہ اسی بیچ مجاور نے  سب کی طرف دیکھا اور ایک اونچی جگہ پر آ کر بولا۔

سنئے،  میری بات دھیان سے  سنئے۔ اس لڑکے  کی آواز کسی پہاڑی چشمہ کی طرح پاکیزہ ہے۔

اور یہ جو کسی نے  کہ کہ یہاں  ہر طرح کے  لوگ ہیں  تو سنئے ‘

وہاں  بھی ہر طرح کے  لوگ تھے  جب احمد آباد میں  جعفری کے  پورے  کنبہ کے  اکیس لوگوں  کو گھر سے  باہر نکال کر ان کے  بڑوں او ر چھوٹوں، بچوں او ر بچیوں۔ سب کو  ایک دوسرے   کے  سامنے  ننگا کر کے  ان کو مارا گیا تھا۔

ہاں،  وہاں  بھی ہر طرح کے  لوگ ہوتے  ہیں جہاں  جنگی قیدیوں  کو ننگا کر کے  ان کے  اوپر کتے  چھوڑے  جاتے  ہیں ‘

جہاں  عورتوں  کو ننگا کر کے  گلیوں  میں  ننگا گھمایا جاتا ہے او ر ان کی ویڈیو فلم بنائی جاتی ہے۔

وہاں  بھی لاشیں  ننگی پڑی تھیں  جب ممبئی میں  بم بلاسٹ ہوئے  تھے۔ وہاں  بھی لوگوں  کی ننگی لاشیں  پڑی تھیں  جب ٹریڈ ٹاور گرے  تھے۔

۱۹۷۱ میں  وہاں  بھی ہر طرح کے  لوگ تھے  جب فوج مشرقی پاکستان میں اپنے  ہی ملک کی عورتوں  کے  ساتھ زنا بالجبر کر رہی تھی۔

وہاں  بھی سب لوگ تھے  جب کشمیری پنڈتوں  کے  خاندانوں  کو لٹتے  لٹاتے  بھاگ کر اپنی جائے  پیدائش چھوڑنی پڑی تھی۔

سب لوگ ہوتے  ہیں  لیکن ایسے  سب لوگوں  کا کیا فائدہ۔

جو اپنی عورتوں  کی عصمتوں او ر جانوں  کی حفاظت نہیں  کر سکتے  وہ پریشان کن آوازوں  سے  ان کا کیوں  پردہ کرانا چاہتے  ہیں۔

ہمارے  لوگوں  میں  گالیوں  کی آوازوں  کو سننے او ر سمجھنے  کی صلاحیت پیدا ہونی چاہئے۔ ممکن ہے  ہمارے  دکھوں  کا علاج گالیوں  میں  ہی ہو۔

آنکھیں  موند لینے  سے  دنیا نہیں  بدل جاتی۔

جب انسانیت مر جاتی ہے  تو انسان اسی طرح بے  چین ہوتا ہے۔

وہ اینٹوں  کی بارش میں اینٹوں  میں  نہانے  پر آمادہ ہو جاتا ہے۔

احمد آباد کے  فساد سے  متاثر ہو کر کسی نے  ایک نظم کہی تھی جس کا ایک بند یوں  ہے  کہ

بچے  ماں  باپ سے  چمٹتے  ہوئے

علما ء  بچتے  ہوئے  شہادت سے

زندگی کے  گھنے  اندھیرے  میں

آدمی  خود  چراغ  بنتا   ہوا

اور جب آدمی خود چراغ بنے  گا تو روشنی کے  ساتھ دھواں نکلے  گا۔ سمجھنے  کی بات یہ ہے  کہ وہ کون سی قوت ہے  جو بول رہی ہے۔ بلکہ چیخ رہی ہے ،وہ قوت جو تلوار کی طرح ننگی، کاٹ دار اور بے  جھجک ہے۔

شرط صرف یہ ہے  کہ وہ چراغ ہو،  آگ نہیں۔ دھواں  تو دونوں  میں  ہو گا۔

یہ لفظ علی الاعلان بولنے  کے  لئے  تو مروج نہیں  ہے  لیکن چیخنے  کے  لئے  اس کا کوئی بدل بھی نہیں  ہے۔

جیسے  خلوت کے  عالم تخلیق میں  انسان پوری قوت کے  ساتھ اپنی بقا کے  لئے  اپنی انتہائی قوت اور بے  چینی کا اظہار مکمل بے  تکلفی سے  کرتا ہے، نوجوانوں کا یہ گروہ بقا کی اس جنگ کو اجتماعی عمل میں  بدل چکا تھا۔

اچانک جیسے  نوجوانوں  کی اس سے  آنکھ کھل گئی ہو اور وہ جان گئے  ہوں کہ اصل کنجی کہاں  ہے۔

اس لفظ کی خوبی یہ ہے  کہ یہ ہر طرح کی دلیل کی گنجائش کو رد کر دیتا ہے، انسانی وجود کی تمام تر طاقتوں  کو بغیر سوچے  سمجھے  استعمال کرنے  کی دعوت دیتا ہے، اور اس کے  اندر اپنے  عمل کے  صالح،  ضروری، اور ناگزیر ہونے  کا بے  تکلف اعلان ہوتا ہے،  پوری دنیا کو ایک طرف ہٹا کر موت اور زندگی کے  کھیل کا بگل بجانے  کی پیش قدمی ہوتی ہے۔ یہ صرف ایک جنس آلود لفظ نہیں،  اس کا معنی ہوتا ہے  چوٹ کرنا،  کھولنا۔ لیکن اس میں  یہ معنی بھی شامل ہوتا ہے  کہ اب کسی کا حکم، کسی کا دباؤ،  کسی کا خوف، کوئی تکلف۔ یہ کچھ بھی نہیں  چلے  گا۔ یہ لفظ سوچ کی تمام بندشوں  سے  آزادی کا اعلان کرتا ہے او ر اس بات کا اشاریہ بھی ہوتا ہے  کہ اب سوچنے او ر خصوصاً سمجھنے  سمجھانے  کی ساری گنجائشیں  ختم ہو چکیں۔ یہ سمجھنے  سمجھانے  کی ناکامی کے  بعد لئے  گئے  فیصلے  کا اعلان کرتا ہے۔ اس لفظ کے  ساتھ ایک جنسی عمل کی تصویر ضرور ابھرتی ہے  لیکن یہ اس لئے  کہ ان تمام خصوصیات کے  ساتھ یہ جنسی عمل کے  ساتھ ہی مکمل طور پر چپکتا ہے۔ کیونکہ یہ تمام خصوصیات جنسی عمل کے  دوران انسان میں  مکمل طور پر ابھر کر آتی ہیں۔ لیکن یہ بات بھی غور طلب ہی کہ یہ جبلت انسان میں  کیوں  موجود ہے۔ وہ اس لئے  کہ انسانی نسل کی بقا کا سب سے  گہرا تعلق جنسی عمل سے  ہی ہے۔ یہ لڑکا اس جبلت کو آواز دے  رہا ہے او ر اپنے  ذہن سے  اس منصب پر آ کر نتائج حاصل کرنے  کا تقاضا کر رہا ہے۔ اس کے  ذہن میں  جنسی تلذذ  کا سایہ تک نہیں۔ یہ خالص معنوں  میں  اپنی جنسی قوت کو اپنے  ذہن کی طرف موڑنا چاہتا ہے۔ یہ بتانا چاہتا ہے  کہ صرف اولاد پیدا کرنا ہی ضروری نہیں،  اولاد کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔

وہ کیا کہہ رہا ہے ؟  ———– the mind.۔ وہ اعضائے  تناسل کی بات ہی نہیں  کر رہا ہے۔ وہ اس مردانہ قوت کی بات کر رہا ہے  جس کے  اوپر نسل کو آگے  بڑھانے او ر اس کی بھر پور  ترقی کی وہ ذمہ داری ہے  جس سے  وہ کسی بھی حال میں  بری الذمہ نہیں  ہو سکتا اور وہ سمجھ گیا ہے  کہ اس طاقت کے  کھلے  استعمال کا وقت آ گیا ہے او ر ہماری ساری رسوائیوں  کی وجہ اسی طاقت کے  دبے  ہونے  کی وجہ سے  ہے  کہ ہم نے  اپنی سوچ کو اپنی اس طاقت پر اس طرح حاوی کر لیا ہی گویا یہ طاقت compromisable ہے  یہ لڑکا اسی بات کو رد کرنے  کا تقاضا کر رہا ہے او ر چیخ کر اور پوری طاقت کے  ساتھ کر رہا ہے۔ وہ اپنے  ذہن کے  جمود اور اس کی غلامی کی زنجیروں  کو اپنی قوتِ بقا کے  ہتھوڑوں  سے  توڑنے  کی جدوجہد کر رہا ہے  یاد رکھئے  کہ عورت سے  مباشرت کے  بعد نیا بچہ پیدا ہوتا ہے  لیکن ذہن سے  مباشرت کے  بعد نئی دنیا پیدا ہوتی ہے۔ یہ بہت کم لوگ جانتے  ہیں  کہ انسان کی جنسی قوت اس کے  ذہن سے  عظیم تر شئے یہ قوت جب ذہن کی طرف عمل پیرا ہوتی ہے  تو عظیم قومیں  پیدا ہوتی ہیں،  جب اعضائے  تناسل کی طرف قید ہو جاتی ہے  تو صرف غلاموں  کی آبادی پیدا ہوتی ہے۔ یہ جنس ہی تخلیق کی روح ہے۔ اور اس قوت کا باہری قوتوں  کے  سامنے  بر سرِ پیکار رہنا روح کے  زندہ ہونے  کی دلیل ہے۔

خالد کی موت اسی قوت کے  پوری طرح  ذہن کی طرف مراجعت کر جانے  کا نتیجہ تھا۔ لیکن اس نے  جو دنیا بتائی ہے  اس کے  لئے  متوازن کرداروں  کی ضرورت ہے۔ لیکن محض شرافت متوازن کردار نہیں  پیدا کرتی۔ اور جو لوگ ذلیل کئے  جاتے  رہے  ہوں  ان کے  لئے  شرافت ہی بے  لباس ہونے  جیسا ہے۔ انہیں  تو رسوائیوں  کے  گڈھے  سے  نکلنے  کے  لئے  ہر ممکن ہتھیار کو استعمال کرنا چاہئے او ر یہ لڑکا یہی کر رہا ہے۔ اور پھر جیسے  اس لفظ کی غلاظت کا احساس ہی ساری بیماریوں  کی جڑہو،  اور اس کا سب کو حقیقت کے  طور پر اعتراف ہو گیا ہو،  جیسے  اس غلاظت کا کھلا اظہار،  اس کو کھلے  عام رد کرنا،  غلاظت سمجھی جانے  والی چیزوں  کو کھلے  عام قبول کرنے  کی جسارت اور اسے  کھلے  عام قبول کرنے  کی ضرورت کا احساس ایک طوفانی قوت کے  طور پر بغاوت کرنے  پر آمادہ ہو گیا ہو، پورا مجمع اک جٹ ہو کر اپنی اس جسارت کا اظہار کرنے  لگا۔

یہ لفظ علامت ہی اس بات کی کہ اپنے  ننگے  پن سے  شرمانا چھوڑ دو۔ کہ اپنے  ننگے  پن کو رو بہ عمل لاؤ۔ سمجھ لو کہ تم ایسے  ہی ہو اور تمہاری بقا اسی میں  مضمر ہے۔

اور جب عالمی سطح پر گالی دینی ہو تو انگریزی میں  گالی دو۔

Fuck the mind کے  الفاظ میں  جیسے  وہ قوت سما گئی  تھی جو جنگِ آزادی کے  زمانے  میں  انقلاب زندہ باد میں  تھی،  ان الفاظ کے  اندر سے  ایک جوالا مکھی پھوٹ پڑا تھا،  لوگ اپنی ذات اور سرشت کی عمیق گہرائیوں  میں  پنہاں  ان دیکھی قوتوں  کو جیسے  اپنے  کو چیر پھاڑ کر پوری طرح باہر لانا چاہتے  تھے،  اور اپنے  ارد گرد کے  لوگوں  سے  کہنا چاہتے  تھے  کہ وہ سوچ کی شرافت کے  جس حصار میں  گرفتار ہیں  وہی ان کی نامردی کی جڑ ہے،  اور جیسے  مردانگی کے  کھلے  عام اظہار میں  تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ،  خصوصاً جب ان کی عورتوں کو سرِ عام افسروں  کے  سامنے  سر نیچا کر جانا پڑتا ہو اور وہ خود بے  بس تماشائے  بنے  دیکھنے  پر مجبور ہوں،  ہزاروں  باتیں  ان کے  اندار ابل رہی تھیں او ر ان کا اظہار صرف ان الفاظ میں  ہو رہا تھا جسے  آج تک وہ صرف گالی سمجھتے  آ رہے  تھے۔

وہ خالد کی کتاب پڑھنے  کے  بعد اپنے  آپ کو گالیاں  تو بہت دے  چکے  تھے  لیکن انہیں  یہ نہیں  معلوم تھا کہ دراصل ان کے  عمل کا راستہ بھی یہیں  سے  ہو کر جاتا تھا،  کہ ان کی بقا کے  سارے  راستوں  کو اسی نظام نے  بند کر رکھا تھا جس کا وہ اتنا احترام کرتے  تھے  کہ اپنے  جوڑے  سے  مباشرت کرنا تو دور کی بات،  اس کو ہاتھ سے  چھونے  تک میں  تکلف کرتے  آئے  تھے،  اور اس ذہن نے  بند کر رکھا تھا جسے  انہوں  نے  تکلفات اور پرہیز کے  پردوں  میں  لپیٹ رکھا تھا۔ تہذیب نے  کس گہرائی سے  ان کو غلام بنایا تھا اس کا انہیں  اچانک احساس ہوا تھا اور اچانک وہ اپنے  کو قیدی محسوس کرنے  لگے  تھے۔

ان کے  اوپر اچانک یہ منکشف ہوا تھا کہ شدید جنسی عمل دراصل زرخیزی کا جارحانہ اصرار ہوتا ہے او ر اس کی ساری بیچینی سے  اس مانگنے  کی شدت کا اظہار ہوتا ہے،  اور اس کو لینے  کے  اصرار میں  اپنی محبوب ذات سے  بھی غصے  کا اظہار کرنا پڑتا ہے او ر جارحانہ ہونا پڑتا ہے  تاکہ کوئی شک و شبہ یا انکار کی گنجائش باقی نہ رہے  کیونکہ جو کچھ مانگا جا رہا ہوتا ہے  وہ کوئی معمولی چیز یا ایسی چیز نہیں  ہوتی جس میں  حیل و حجت یا انکار کی گنجائش ہو کیونکہ بقا انسان کی سب سے  بڑی ضرورت ہوتی ہے او ر بقا کا راستہ اسی گلی سے  ہو کر جاتا ہے  جو عموماً تکلفات کے  حصار میں  گھری رہتی ہے۔ جو کچھ جہاں  سے  ملتا ہے  اسے  وہیں  سے  لینا ہو گا۔

نعروں  میں  اب عورتیں  بھی شامل ہو چکی تھیں۔

تھوڑی دیر میں  چھوٹے  چھوٹے  بچے  بچیاں  بھی اس میں  شامل ہو گئے او ر بڑے  ان کو دیکھتے  رہے  جیسے  سوچ رہے  ہوں  کہ ان کا جاننا بھی ضروری ہے  کہ اس دنیا کا سامنا تو انہیں  بھی کرنا ہی ہے  پھر کائنات کے  اسرار سے  انہیں  کیوں  نہ واقف کرایا جائے  کی وہ بھی اپنے  اعضائے  تناسل کو دیکھ کر سوچتے  تو ہونگے  کہ یہ کس لئے  ہیں۔

ذہن کو مباشرت پر آمادہ کرنے  کیلئے  ہمیں  اس کے  حسن سے  واقف تو ہونا پڑے  گا۔ اس سے  عشق تو کرنا پڑے  گا۔ اس کے  قریب جانا تو ہو گا اور پھر اس راستے  سے  گزرنا ہو گا جہاں  اپنے  عمل کے  تعین کے  لئے  ہمیں  اپنی نجی خود اعتمادی سے  کام لینا ہو گا۔ وہاں  کوئی باہری تربیت کام نہیں  آتی نہ آنی چاہئے  کہ جنسی ہیجان تربیت سے  آزادی کا دوسرا نام ہے۔ اور بقا کے  سارے  راستے  اسی سے  کھلتے  ہیں۔

ذہنوں  پر تکلفات کے  جو چلمن لٹکائے  جاتے  ہیں  وہ ہمیں  روکنے  کے  لئے  نہیں  بلکہ ہٹائے  جانے  کے  لئے  ہوتے  ہیں او ر اگر وہ راستہ روکنے  لگیں  تو پہلے  یہ ضروری ہو جاتا ہے  کہ  ان کی دھجی اڑا دی جائے۔

ایک آدمی کو یہ بات سمجھ میں  آئی اور اس نے  اچانک بیحد اونچی آواز میں  چیخ کر اس کا اظہار کیا۔

When mind does not work, ———- it. When system does not work  ——–  it.

مجاور کا چہرہ اچانک ادا س ہو گیا تھا۔

ایک بات  اور۔

اس نے  ایک بار اپنی نظریں  نیچی کیں او ر چند لمحوں  کے  بعد اس نے  نظریں  اٹھا تے  ہوئے  کہا۔

’گالیوں  کے  کلچر کو برداشت کرنا ہمارا  مقدر بن گیا ہے۔ جب ہمارے  بچے  اپنے  کو اتنا مجبور اور بے  بس محسوس کرنے  لگتے  ہیں   کہ ان کی جبلت میں  موت اپنا چہرہ دکھانے  لگتی ہے   تو وہ جنس کے  ہتھیار  سے  موت کو للکارتے  ہیں۔ ‘

اس نے  خاموش ہو کر کھوکھلی نظر سے  سب کو دیکھا۔ کسی کے  منھ میں  زبان نہیں  تھی۔ مجاور لگ بھگ رو پڑا۔

’اپنے  آپ کو گالی دینا مجبور انسان کی وہ  اندرونی لڑائی ہوتی ہے  جس سے  اس کو کوئی منع نہیں  کر سکتا۔ یہ مشت زنی ہے  لیکن مجبور آدمی یہ نہیں  کرے  تو اور کیا کرے۔ ‘

اس کی آواز بھرا گئی تھی۔

مجاور جہاندیدہ آدمی تھا۔ وہ تقریر کرتے  کرتے  اچانک اندر سے  کہیں  ٹوٹ گیا تھا۔ اسے  اپنے  علاقے  کے  ان نوجوانوں  کی یاد آ گئی تھی جو اپنے  آپ کو گالیاں  دینے  کے  بجائے  ہتھیار اٹھا کر جرائم کرنے  پر آ مادہ ہو گئے  تھے او ر انکاؤنٹرس میں  مارے  گئے۔

سارا مجمع موت جیسی اداسی میں  ڈوب گیا۔

وہ آگے  کچھ اور کہنا چاہتا تھا لیکن اس  کا گلا رندھ گیا۔ اس کے  چہرے  پر آنسو لڑھک آئے  تھے۔ اس نے  اپنے  گمچھے  سے  اپنے  آنسو پونچھے او ر نیچے  اتر آیا۔ کئی لوگ اس کے  پاس  آئے او ر اس کے  ساتھ پھوٹ پھوٹ کر بہت روئے۔

 

وہاں  کہیں  سے  ایک ٹی۔ وی۔ چینل والا بھی اتفاق سے  آ گیا تھا اور اس پورے  منظر کو کسی عالمی چینل پر براہِ راست ٹیلی کاسٹ کرنے  لگا تھا۔

BREAKING NEWS

‘No more. No more.’

 

THE DEAD MAN SHOUTS

FROM THE TOP OF THE KALAPANI MOUNTAINS

No more, No more.

اس نے  مائکروفون لگا کیمرہ اسی میزو پر ٹکا رکھا تھا جو گالیاں  بک رہا تھا۔

ادھر شاید پوری دنیا کی سول سوسائٹی ہکا بکا ہو کران آوازوں  کو سن رہی تھی۔

’ذہن  پر پڑے  پردوں  کی دھجیاں  اڑا دو۔ ‘

ایک نوجوان چلایا۔

اور میزو قبائلی انگریزی میں  چلائے  جا رہا تھا۔

Hit hard every obstacle that has handicapped you. Fuck the eyes. Fuck the eyes of the mind.

And let us bloody fuck our own  self which has become a den of vices and weaknesses.

Bloody this world has been fucking us for centuries and we have not been able to do anything.

اس کے  منھ سے  غصے  میں  تھوک نکل رہی تھی۔

جن لوگوں  نے  خالد کی کتاب پڑھ رکھی تھی ان کو اس میزو کی آواز جروا قبائلیوں  کی یاد دلا رہی تھی۔

وہ انتہائی نفرت انگیز موڈ میں  اپنا گلا پھاڑ کر چیخ رہا تھا۔ اور اس کی آواز خاموش وادی کو چیرتی ہوئی چاروں  طرف گونج رہی تھی جیسے  عہدِ جدید کی سفاکی سے  ڈرے  سہمے  پیڑ بھی اس کی ہاں  میں  ہاں  ملا رہے  تھے۔

چیختے  چیختے  وہ اچانک بیہوش ہو کر گر گیا۔

چاروں  طرف اچانک ایک  بھیانک خاموشی چھا گئی۔ لوگ دوڑ کر اس کے  قریب جمع ہو گئے۔ اس کے  منھ سے  جھاگ نکل رہی تھی۔

میزو قبائلی کو دیکھتے  ہوئے  رفتہ رفتہ لوگ بے  حد بے  چین ہونے  لگے۔  پھر اچانک  یہ بے چینی آندھی کی طرح پھیلنے  لگی۔ لوگ کبھی آسمان کی طرف دیکھتے او ر کبھی زمین کی طرف۔ ہر شخص اپنے  اعصاب کے  اندر ایک ہلکا ہلکا زلزلہ سا محسوس کر رہا تھا۔ اور ہر ایک کو محسوس ہو رہا تھا جیسے  وہ اس میزو قبائلی کی طرح بے  ہوش ہو کر گرنے  والا ہے۔ ان کے  ذہنوں  میں  کچھ ایسا لاوا ابل رہا تھا جس پر ان کا کوئی اختیار نہیں  تھا۔ ایک آگ سی تھی جو ان کی رگوں  میں  گردش کر رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے  زمین کی ایک ایک چیز اڑ کر آسمان میں  پہنچ جائیگی۔ اور چاروں  طرف ایک قیامت برپا ہو جائیگی۔

لوگ ایک زبردست تناؤ کا شکار تھے  جیسے  ان کے  وجود کے  اندر سے  ایک نئی ان دیکھی دنیا پیدا ہونے  کے  عمل سے  گزر رہی تھی اور لوگوں  کے  پاس اس کے  درد سے  دوچار ہونے او ر انتظار کرنے  کے  علاوہ کوئی چارہ نہیں  تھا کہ موجودہ دنیا اب ان کے  لئے  مکمل طور پر نا قابلِ قبول ہو چکی تھی۔

’شاید اسی شدت نے  خالد کو اپنی جان دینے  پر آمادہ کر دیا تھا۔ ‘ یہ عرفان اس وقت ان گنت ذہنوں  کو ہو رہا تھا۔ خالد کے  وجود میں  چمکنے  والی چنگاری ہزاروں  لاکھوں دل و دماغ میں  موجود بارود کے  لئے  پلیتہ کا کام کر رہی تھی۔

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں  لاکھوں  رہ گزر پیدا

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں۔۔۔۔۔۔

چلے  مجنوں  تو ہو جاتی ہیں  لاکھوں  رہ گزر۔۔

چلے  مجنوں  تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلے  مجنوں  تو۔۔۔۔۔   رہ گزر پیدا

چلے  مجنوں  تو۔۔۔۔۔۔۔۔   لاکھوں  رہ گزر پیدا

چلے  مجنوں

چلے  مجنوں

چلے   ے  ے   ے      ے       ے  مجنوں   مجنوں      مجنوں

لوگ چیختے  جا رہے  تھے او ر زمین پر بے  سمت پاؤں  پٹکتے  جا رہے  تھے۔ اور چیخوں او ر پاؤں  پٹکنے  کی آواز پریڈ میں  جاتی ہوئی فوج کی مارچ کی آواز کی طرح دور دور تک کی بستیوں  میں  سنائی دے  رہی تھی۔ اور لوگوں  پر اپنے  قدموں  کی آواز کی اس طاقت کا نشہ سا طاری ہوتا جا رہا تھا۔

اور لوگوں  کے  ذہن کسی خواب سے  بھرے  غباروں  کی طرح فضا میں  اڑے  جا رہے  تھے۔

مجاور اب نارمل ہو چکا تھا۔ اس کو یاد آیا اس کے  بچپن کے  دنوں  میں  محرم کے  اکھاڑوں  کے  وقت بڑے  بڑے  بوریوں  کے  برابر رنگین کاغذوں  کے  غبارے  بنتے  تھے  جن میں  نیچے  گول سا تار لگا ہوتا تھا۔ جب ان تاروں  میں  بندھے  کپڑوں  کے  گولے  میں  آگ لگائی جاتی تھی تو غبارہ پوری طرح پھول کر اوپر اٹھنے  لگتا تھا اور اسمان چھونے  لگتا تھا۔ گاؤں  کے  بچے  اسکو دیکھ کر تالیاں  بجاتے او ر بڑے  اسے  مسلسل اوپر جاتے  خاموشی سے  دیکھتے  رہتے۔ اس وقت بھی کچھ ایسی ہی کیفیت فضا میں  پھیلی ہوئی تھی۔

انہی لمحوں  میں جیلانی پر،  جو دلی سے  آئے  وفد کا سربراہ تھا،  برجستہ ایک نظم وارد ہونے  لگی تھی۔  اسی کہرام کے  بیچ اس نے  اپنے  سیل فون میں  ہی یہ نظم لکھ کر محفوظ کر لی۔

مہرِ دانش کی یہ روشنی ‘

زندگی کے  اندھیرے ‘

یہ گھمسان کی جنگ‘

یہ خون‘یہ لاش پہ لاش‘

کوئی کھڑا مرثیہ لکھ رہا ہے ‘

کوئی رزمیہ لکھ رہا ہے  ‘

میں  حیران ہوں ‘

کیا لکھوں،  کیا لکھوں۔

 

چہل پہل بڑھتی ہی جا رہی تھی بہت سے  لوگ چادریں  پھیلا پھیلا کر بیٹھنے  لگے  تھے۔

شام ہو چکی تھی۔ دھیرے  دھیرے  رات ہو گئی۔ لوگ یہاں  وہاں  کسی انجانی اور ان دیکھی چیز کے  انتظار میں  کھڑے  ان واقعات پر باتیں  کرتے  رہے۔ ایک گوشے  میں  چند لڑکے  دھان کا پوال بچھا کر بیٹھے او ر نیم دراز لیٹے  ہوئے  کچھ گاتے او ر شور بھی مچاتے  جا رہے  تھے۔ شہیدوں  کے  مزاروں  پر لگیں  گے  ہر برس میلے۔ جب دوسرا مصرع یاد نہیں  آیا تو وہ اسی مصرع کو تال دے  دے  کر اوٹ پٹانگ انداز میں  زور زور سے  گاتے  جا رہے  تھے۔ کسی کو نیند نہیں  آ رہی تھی۔ دلی سے  آئے  وفد کو رات میں  واپس جانے  والی ٹرین سے  ریزرویشن ملی تھی۔ جیلانی اور اس کے  ساتھی مجاور سے  ملنے  آئے۔ جیلانی نے  رخصت ہونے  سے  پہلے  مجاور سے  کہا۔

ہمیں  رخصت کی اجازت دیجئے۔ ہم دن نکلنے  سے  پہلے  دلی پہنچنا  چاہتے  ہیں۔

رات اتنی صاف ہو گئی تھی جیسے  اس میں  کہیں  دن چھپا ہوا ہو۔ مجاور نے  گھڑی دیکھی۔ ابھی تو صرف تین بج رہے  تھے۔

اب ہمیں  یقین ہو گیا کہ وہ جو آپ نے  کہا تھا کہ خالد جس دن مرا تھا اس دن دیکھا گیا تھا کہ بحیرۂ ہند روشن ہو گیا تھا،  وہ واقعہ سچا ہے۔ وہ روشنی ہمیں  اس وقت برصغیر کے  آسمان پر بکھری ہوئی دکھائی دے  رہی ہے۔ اس میں  کوئی شک نہیں  کہ صرف بحیرۂ ہند میں  ہی نہیں  دنیا کے  ساتوں  براعظموں  کے  لئے  ایک نئی روشنی نمودار ہو چکی ہے۔ ایک ایسے  انسان کی پیدائش اور زندگی سے  جو نوعِ انساں  کے  لئے  ایک بہتر زندگی کے  امکانات کا چہرہ ڈھونڈ کر انسانوں  کے  آگے  بڑھنے  کا راستہ کھول دی دنیا کے  اسی طرح روشن ہونے  کا احساس ہوتا ہے۔ جو آگے  بڑھ کر ہماریmythological کہانیوں  میں  محفوظ ہو جاتا ہے۔ ایسے  انسان صدیوں  میں  نمودار ہونے  والے  comets کی طرح ہزاروں  سال کے  انتظار کے  بعد پیدا ہوتے  ہیں۔ یہ دیتے  کچھ نہیں، لیکن یہ ایک پلیتے  کی طرح ہوتے  ہیں  جو زمانے  سے  رگڑ کھاتے  پر گھستے  نہیں  بلکہ روشنی کی ایسی چنگاری پیدا کرتے  ہیں  جو انسانوں  کے  جامد دل و دماغ میں  یقین اور عرفان کی ایک نہ بجھنے  والی آگ روشن کر دیتے  ہیں۔

اس نے  سر جھکایا اور کچھ سوچ کر پھر آگے  کہا۔

اکثر یہ لوگ وہ ہوتے  ہیں  جنہیں  دنیا وحشی،  ان پڑھ اور خلفشار زدہ سمجھتی ہے۔ لیکن یہ آگ ایسے  ہی لوگوں  میں  شدت سے  پنپتی ہے  کیونکہ یہ لوگ سوکھی لکڑیوں  کی طرح ہوتے  ہیں۔ مجھے  اس دیہات کے  لوگوں  میں  زندگی کی ایسی ہی لکڑی دکھائی دے  رہی ہے۔ یہ لوگ جن کے  پیچھے  ایک عظیم تاریخ ہے  لیکن جو لوگ آج سب سے  زیادہ پچھڑے  ہوئے او ر ناکارہ سمجھے  جا رہے  ہیں  ان سے  شاید قدرت یہی عظیم تاریخی کام لینا چاہتی ہے۔ اس مٹی کو تاریخ نے  طرح طرح سے  پیس کر زرخیز بنا دیا ہے او ر سیلاب کے  پانیوں  میں  ڈبو ڈبو کر اتنا گوندھ دیا ہے  کہ یہ مٹی ایک نئی دنیا کی تعمیر کے  لئے  تیار پڑی ہے۔ اور اب اس کے  اوپر دنیا کی ایک نئی تصویر گھوم رہی ہے۔

یہ کہتے  ہوئے  جیلانی نے  دور دور تک پھیلے  لوگوں او ر ان کے  پیچھے  کی بستیوں  کو دیکھا۔

 

جیلانی کو اچانک خالد سہیل کی عظیم بے  چینی کا عرفان ہوا اور اسے  محسوس ہوا جیسے  اسے  حال آ گیا ہو۔ اس کا پورا وجود چشمہ حیات کی زد میں ہلتا ڈولتا اپنے  محور پر ڈگمگا رہا تھا اور کائنات اس کے  ذہن میں  آتش فشاں  بن کر روشنی بکھیر رہی تھی۔

یہ سب کیا ہے  ؟ اس نے  اپنے  آپ سے  پوچھا۔

اور پھر اس کے  ذہن نے  کھلی آواز میں  اس سے  کہا۔

’اس زرخیز زمین پر جب نئے  موسم آتے  ہیں  تو نئے  پودے  ان بیجوں  کے  اندر سے  جنم لیتے  ہیں  جو خاموش پڑے  رہتے  ہیں۔ ان پودوں  کے  اگنے  کے  ساتھ ہی زمین کی شکل بدل جاتی ہے۔ انسانی ذہن لامتناہی بیجوں  کا ذخیرہ ہے او ر یہ دنیا مسلسل ارتقا پذیر ایک باغ ہے۔ اور تم اس باغ میں  نئی تیز ہواؤں  کے  درمیان کھڑے  ہو۔ یہی وہ راز ہے  جس کا جاننے  والا تہذیبِ انسانی کی رہنمائی کا حق ادا کر سکتا ہے۔ اور جو اس راز سے  جتنا دور رہتا ہے  وہ  اسی قدر بے  بسی کی اذیت میں  لپٹا رہتا ہے۔ تبدیلی کائنات کے  اس راز کی لگام اپنے  ہاتھ میں  لو اور انسان ہونے  کا حق ادا کرو۔ یہ دنیا تمہاری کھیتی ہے او ر تم اس کے  دہقان ہو۔ اور یہ تمہاری ذمہ داری ہے۔ ‘ اسے  یہ بات صاف صاف سنائی دے  رہی تھی۔

جیلانی کو خیال آیا۔

’ہرچند کہ بیان کے  لئے  ہمیں  ابھی الفاظ نہیں  مل پائے  ہیں  لیکن ہم نے  جو کچھ دریافت کرنے  کے  لئے  یہاں  کے  سفر کا قصد کیا تھا  وہ کھل کر ہمارے  ذہن اور دل میں  آ چکا ہے۔ ہمارے  ذہنوں  پر یہ بھی واضح ہو چکا ہے  کہ خالد کی موت اور اس کی کتاب نے  ہر انسان کو سوچنے  کا حق ادا کرنے  کا احساس دلایا ہے او ر ہمارا یہ یقین پختہ ہو گیا ہے  کہ روشنیوں  کے  منارے  ٹوٹتے او ر بنتے  رہیں  گے  لیکن تباہ کن وادیوں  کے  بیچ سے  ہو کر انسانی تہذیب رواں  دواں  اس منزل کی طرف آگے  بڑھتی رہے  گی جہاں  پہنچ کر ایک دن ا سے  احکامات اور خوف و وحشت کے  ڈنڈوں  سے  نہیں  ہانکا جا سکے  گا۔ یہی انسان کی شخصیت، اس کی زندگی اور اس کی تہذیب کا معراج ہو گا۔ ‘

اسے  محسوس ہوا جیسے  اس کے  پاؤں  کے  نیچے  کی ڈگمگاتی ہوئی زمین کو قرار آ گیا۔ اب تاخیر ہو رہی تھی۔ اس کے  ساتھی پہلے  ہی جا چکے  تھے۔ وہ تو یہاں  تنہائی میں  کچھ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ اب وہ یہاں سے  جانا چاہتا تھا۔ سامنے  خالد سہیل کی قبر تھی۔ چاروں  طرف میدانوں  میں  پروانوں  کی طرح بکھرے  بیقرار لوگ تھے۔ اس نے  ان سب پر ایک نظر ڈالی اور وہاں  سے  چل پڑا۔

پوری وادی میں  پاؤں  پٹکتے  لوگوں  کے  قدموں  کی آواز رات کے  سناٹے  میں  اب اور بھی صاف صاف سنائی دے  رہی تھی اور ان کے  پیچھے  پیچھے  صبحِ کاذب کی گاڑی آتی دکھائی دے  رہی تھی۔

رات کے  اس آخری پہر میں  اب مرغوں  کی بانگ نے  اس منظر میں مزید رنگ بھر دیا تھا۔

جیلانی پگڈنڈیوں  سے  ہوتا ہوا بستی کی طرف جا رہا تھا جہاں  سے  ایک گاڑی میں  بیٹھ کر اسے  اسٹیشن پہنچنے  کے  لئے  شہر جانا تھا۔ رات کا منظر حسب معمول ویران سا تھا۔ اس کا دل ایک عجیب غم اور اداسی سے  بھاری ہو رہا تھا۔ اسی عالم میں  وہ آگے  بڑھ رہا تھا کہ اسے  محسوس ہوا کہ سامنے  کے  درختوں او ر سبزہ زار میں  کچھ عجیب طرح سے  چمک بڑھ گئی ہے۔ وہ ابھی چند ہی قدم اور آگے  بڑھا تھا کہ اس کو پیچھے  سے  لوگوں  کی ایک چونکانے  والی چیخ و پکار سنائی دی۔ اس نے  پیچھے  مڑ کر دیکھا۔ اور تمام لوگ رک کر آسمان کی طرف دیکھ رہے  تھے۔

وہاں  ایک انتہائی تابناک چہرہ دمک رہا تھا۔

اور کائنات نے  اس کی چاروں  طرف توقعات کے  بیشمار پرندے  اڑا دئے  تھے۔ وہاں  موجود ذہنوں  میں  تناؤ کی ایک ناقابلِ برداشت شدت سمندر کی لہروں  کی طرح  امکانات کے  آسمانوں  میں   فکر  و تخیل کے  تیر چھوڑنے  پر آمادہ تھی۔

لوگ اس انسانی چہرے  کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر سہیل سہیل کہ رہے  تھے۔ جیلانی نے  سہیل کو کبھی نہیں  دیکھا تھا۔ وہ انتہائی غور سے  دیکھنے  لگا۔ ایک ننھا ستارہ مکمل ماہتاب بن کر وادی میں  پھیلی پوری رات کی پیشانی پر چمک رہا تھا۔ پگڈنڈی کی اونچائی سے  ندی کی دکھائی دے  رہی تھی۔ اس کی لہریں  بھی چمک رہی تھیں۔ جا بجا بکھرے  لوگوں  کے  دل و دماغ جوش و خروش سے  لبریز ہو گئے  تھے۔  جو جہاں  تھا وہیں  چکور ہو گیا تھا۔

oo

 

 

 

 

 

جیلانی کا ذہن دور دور کے  علاقوں  تک پھیل گیا۔ جہاں  جہاں  خالد کی کتاب پہنچ رہی تھی ان سب کی نظریں  خالد سہیل کو یونہی دیکھیں  گی جیسے  میزو نے  دیکھی تھی،  جیسا وہ دیکھ رہا تھا یا جیسا لوگ دیکھ رہے  تھے او ر یہ کتاب تو سلگتی آگ کی طرح پھیلتی ہی جا رہی تھی،  اور دنیا کے  ہراس شخص کے  دل و دماغ میں،  جس کے  اندر زندگی سوکھ کر لکڑی ہوئی جا رہی ہو گی،  وہی ہو گا جو اس وقت یہاں  ہو رہا تھا۔ یہ ماہتاب سا چہرہ وقت کے  ساتھ پوری دنیا میں  یہاں  وہاں  سے  دکھائی دینے  لگے  گا۔ خالد کی کتاب جہاں  جہاں  چمکے  گی وہاں  روشنی پیدا ہو گی۔  ایک سرعت کے  ساتھ جیلانی کے  چاروں  طرف زمین سے  آسمان تک روشنی ہی روشنی بھر گئی۔ وہ روشنیوں  میں  جیسے  ڈوب سا گیا تھا۔ انسانی تاریخ اس کے  سامنے  ایک سمندر کی طرح پھیل گئی تھی اور وہ جیسے  اونچی اونچی لہروں  کی طغیانی سے  بھرے  سمندر کے  کنارے  کھڑا تھا۔ اور اس کے  اندر کچھ تپ رہا تھا۔ یہ کیسی گرمی تھی جس میں  پانی اور آگ کا فرق مٹ گیا تھا۔ زندگی کی طرح یہ دونوں  ایک جگہ جمع ہو گئے  تھے۔

اسے  خیال آیا کہ وہ تو چل رہا تھا اور چلتے  چلتے   ٹھہر گیا تھا۔

وہ پھر تیز تیز قدموں  سے  بستی کی جانب چلنے  لگا۔ وہ جلد از جلد اپنے  ساتھیوں  تک پہنچنا چاہتا تھا تاکہ وہ بتا سکے  کہ ویران جنگلوں  سے  وقت تہجد اس نے  کیا دیکھا تھا۔ نیند کا خمار اس کی آنکھوں  میں  اس قدر بھرا ہوا تھا کہ وہ سمجھ نہیں  پا رہا تھا کہ اس لمحے  وہ کہاں  ہے۔ وہ  عالم خواب میں  ہے  یا وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے  وہ حقیقی دنیا ہے۔ مگر وہ اتنا سمجھ رہا تھا کہ زندگی کی وادیوں  سے  گزر رہا تھا او ر اس جانب  تیز تیز چل رہا تھا جدھر کوئی کشش اسے

اس طرح مسلسل کھینچ رہی تھی جیسے  وہ کسی گرداب کی زد میں  آ گیا ہو۔

وہ مڑمڑ کر آسمان میں  چمکتے  اس چہرے  کو دیکھتا رہا جس سے  سرخی اس طرح نمودار ہو رہی تھی جیسے  کسی دودھ سے  بھرے  پیالے  میں گلاب کے  پھول کی پتیاں ڈبوئی ہوئی ہوں  سحر زدہ جیلانی کبھی رکتا اور کبھی چلتا آگے  بڑھتا رہا۔

خالد جلد سے  جلد بستی میں  پہنچ کر اپنے  دل کی دھڑکنوں  کو روک کر اپنے  دوستوں  سے  کہنا چاہتا تھا ’’ دیکھو‘ یہ کیا ہو رہا ہے۔ ‘‘

اس نے  پھر آسمان کی طرف دیکھا۔

خالد سہیل کی روشن آنکھوں سے  خون کے  آنسو چنگاریوں  کی طر ح جھڑ رہے  تھے۔

وہ اور بھی جلدی جلدی اپنے   قدم بڑھانے  لگا۔

خالد کا چہرہ مسلسل چاند کی طرح اس کے  اوپر پیچھے  پیچھے  چل رہا تھا۔

اگر دنیا کے  ہر انسان کے  ساتھ وہ ہو جائے  جو اس میزو لڑکے  کے  ساتھ ہوا ہے  او ر جو مجھے  ہو رہا ہے  او ر جو ان بستیوں  کے  تمام لوگوں  کے  ساتھ ہو رہا ہے  تو تبدیلی یقینی طور پر ممکن ہے۔ اس نے  ایک بار پھر خالد کے  چہرے  کو دیکھا اور کہا۔

O.K.’۔ تم مر گئے  ہو لیکن ہم لوگ زندہ ہیں۔ ہم نہیں  مریں  گے او ر ہم لوگ زندگی کو مکمل آزادی کی شاندار منزل  کی راہ پر آگے  بڑھائیں  گے۔ خالد زندہ باد۔ انسانیت زندہ باد۔ ‘

اور اس کے  ساتھ ہی اس کی راہ میں  مسلسل پھوٹنے  والے   پٹاخوں  کے  گچھوں  کی طرح  اس کی راہ میں  دور تک مشعلوں  کی ایک  ایسی قطار روشن ہوتی چلی گئی جو آگے  بڑھ کر پھیلتی ہوئی مختلف لکیروں  میں  تبدیل ہو کر آفاق تک پہنچ گئی۔ اور ان لکیروں  نے  ہر چیز کو روشنیوں او ر کرنوں  میں  تبدیل کر دیا۔

’اس نے  اپنی آنکھیں  بند کیں او ر اس کے  منھ سے  یہ الفاظ ایسے  نکے  جیسے  خود بخود اندر سے  آ رہے  ہوں۔

’آدمی خود چراغ بنتا ہوا‘

اصل میں  اس کے  چاروں  طرف پھیلی ہوئی روشنیوں  نے   اس  کی سوچ کو جکڑ لیا تھا۔ اس کا پورا وجود سکتے  میں  آ گیا تھا کہ یہ کعا ہوا تھا۔ اس کے  بعد اس کی حرکتِ قلب دوبارہ بیدار ہوئی اور اس بار اس نے  خود سوچ کر یہ الفاظ کہے۔

آدمی خود چراغ بنتا ہوا‘

زندگی کے  گھنے  اندھیرے  میں ‘

آدمی خود چراغ بنتا ہوا

اس  نے  ان الفاظ  کے  معنی کو اپنے  چاروں  طرف دور تک پھیلے  ہوئے  ایک ریگستان کی وسعتوں  کے  ساتھ محسوس کیا۔

جب اسے  کچھ اور ہوش آیا تو اس نے  محسوس کیا کہ

اس کے  پاؤں  ثابت قدمی سے  آگے  بڑھ رہے  تھے۔

وہ جل کر راکھ نہیں  ہوا تھا۔

وہ زندہ تھا۔

وہ بجلیوں  کی نہیں  صرف روشنیوں  کی زد میں  آیا تھا۔

اس نے  اپنی یاد داشت پر زور دیا تو اسے  خیال آیا کہ زندگی میں  اس سے  پہلے  کسی بھی دن یا لمحے  میں   اس نے  اپنے  کو اتنا محفوظ اور مضبوط محسوس نہیں  کیا تھا۔ اس نے  آسمان کی وسعتوں  میں  ایک بار پھر دیکھا۔ اب آسمان خالی تھا۔

اچانک  اسے  محسوس ہوا جیسے  وہ  بلند آواز میں  چلاتے  ہوئے  بے  خبر سوئی ہوئی پوری دنیا کو خالد کی قبر دکھائے۔ وہ  اس وقت جو کچھ محسوس کر رہا تھا وہ  اسی طرح کا عرفان تھا جو عظیم فلسفیوں او ر پیغمبروں  کو صدیوں  میں  کبھی کبھی ہوتا ہے۔ ایسا عرفان جو انہیں  اپنی شدت اور متانت سے  چیخنے، چلانے او ر لوگوں  کو بیدار کرنے  کیلئے  جھنجھوڑنے  پر مجبور کر دیتا ہے۔

اپنے  پیچھے  بیشمار صدیوں  کو چھوڑتی ہوئی، دنیا ابھی ابھی اکیسویں  صدی میں  داخل ہوئی تھی اور اس کو آگے  کا سفر طے  کرتے  ہوئے  مزید صدیوں  سے  گزرنا تھا۔ اس کے  لئے  اسے  ہر قدم پر بہترین راستے  کا انتخاب کرتے  جانا تھا۔ جیلانی نے  محسوس کیا کہ اس سلسلے  میں  اس کے  پاس دنیا کو دینے  کے  لئے  ایک پیغام ہے۔۔

 

 

 

 

 

15

 

جب سے  جیلانی یہاں  آیا تھا وہ یہاں  اتنا منہمک ہو گیا تھا اور اس کی ذہنی دنیا ایسے  بھونچال میں  آ گئی تھی کہ وہ ایک بھی بلاگ ارسال نہیں  کر سکا تھا۔ اس کے  قارئین شدت سے  اس کے  بلاگ کے  منتظر تھے۔ وہ متعجب تھے  کہ ایسا کیوں  ہوا تھا۔ جیلانی نے  اپنا بلاگ اکاؤنٹ کھولا تو ہزاروں  چھوٹے  چھوٹے   میسج آئے  پڑے  تھے  جو اس سے  اگلے  بلاگ کا تقاضہ کر رہے  تھے  لیکن ادھر جیلانی نے  لیپ ٹاپ کھولا ہی تھا اپنا نیا بلاگ بھیجنے  کیلئے  کیونکہ اس کے  پاس دنیا کو دینے  کی لئے  ایک بامعنی خبر تھی۔

اس نے  بلاگ لکھا اور پبلش کا وہ بٹن دبا دیا جس کے  دبتے  ہی اس کے   قارئین کے  موبائل فونوں  تک بلاگ کے  پبلش ہونے  کا میسج پہنچ جاتا تھا۔

بلاگ کا عنوان وہی تھا جو پہلے  ٹی۔ وی۔ چینلوں پرجا چکا تھا۔

 

THE DEAD MAN SHOUTS

FROM THE TOP OF

THE  KALAPANI MOUNTAINS

 

No more, No more.

آگے  جیلانی نے  لکھا۔

Shall we stop being always busy in our darkness and come out and above that to look at the scenario from a height – at least in some full moon night – submitting our hearts and minds to the cause of the progress of our society – be above blaming the Sher Ali’s and rather hearing his voice – may be he was wrong in his method but may be he was right in his ‘agony’. Shall we contribute to a bloodless revolution – an evolution, a metamorphosis – unfurling  flag of a tension free society. Shall we fight out the tension that killed Khalid Suhail ?

END.

 

٭٭٭

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید