FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

مختصر صحیح بخاری

 

 

ترتیب: زین العابدین احمد بن عبداللطیف

 

 

حصہ اول

 

 

 

رسول اللہﷺ پر (نزول)  وحی کا آغاز

 

 رسول اللہﷺ کی طرف وحی کی ابتدا کس طرح ہوئی (یعنی اس کا ظہور کیونکر ہوا)

 

(۱)۔ خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے سنا: تمام اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اور عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔ پس جس کی ہجرت (ترک وطن)  دولت دنیا حاصل کرنے کے لئے ہو یا کسی عورت سے شادی کی غرض سے ہو ‘ پس اس کی ہجرت انہی چیزوں کے لیے (شمار)  ہو گی جن کو حاصل کرنے کے لیے اس نے ہجرت کی ہے۔

(۲)۔  ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے (روایت ہے)  کہ حارث بن ہشام نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا یا  رسول اللہ ! آپ پر وحی کس طرح آتی ہے؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آواز آتی ہے اور (نزول وحی کی تمام حالتوں میں)  یہ (حالت)  مجھ پر زیادہ دشوار ہے۔ پھر (یہ حالت)  مجھ سے دور (موقوف)  ہو جاتی ہے اس حال میں کہ (فرشتے نے) جو کچھ کہا اس کو اخذ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی فرشتہ میرے سامنے آدمی کی صورت میں آتا ہے اور مجھ سے کلام کرتا ہے تو جو کچھ وہ کہتا ہے اس کو میں حفظ کر لیتا ہوں۔ ‘‘ام المومینن عائشہؓ کہتی ہیں کہ بے شک میں نے سخت سردی والے دن آپﷺ پر وحی اترتے ہوئے دیکھی اور سلسلہ منقطع ہونے پر (یہ دیکھا کہ اس وقت)  آپﷺ کی (مقدس)  پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا۔

(۳)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا سب سے پہلی وحی جو رسول اللہﷺ پر شروع ہوئی وہ اچھے خواب تھے۔ پس جو خواب آپﷺ دیکھتے تھے وہ (صاف صاف)  صبح کی روشنی کے مثل ظاہر ہو جاتا تھا۔ (پھر اللہ کی طرف سے)  خلوت کی محبت آپﷺ کو دے دی گئی۔ چنانچہ آپﷺ غار حرا میں خلوت فرمایا کرتے تھے اور وہاں آپ کئی رات (لگاتار)  عبادت کیا کرتے تھے۔ بغیر اس کے کہ اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ کر آتے اور اسی قدر  زاد راہ بھی لے جاتے یہاں تک کہ آپﷺ کے پاس وحی آ گئی اور آپﷺ غار حرا میں تھے یعنی فرشتہ آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے (آپﷺ سے)  کہا کہ پڑھو ! آپﷺ نے فرمایا: میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپﷺ فرماتے ہیں پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور مجھے (زور سے)  بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی۔ پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے !تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ پھر فرشتے نے مجھے پکڑ لیا اور (زور سے)  بھینچا یہاں تک کہ مجھے تکلیف ہوئی پھر مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ پڑھیے۔ تو میں نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں۔ آپﷺ فرماتے ہیں  کہ فرشتے نے مجھے پھر پکڑ لیا اور سہ بار مجھے (زور سے) بھینچا پھر مجھ کہا کہ (اقرا باسم ربک﴾الخ (العلق : ۱۔ ۳) ’’اپنے پروردگار کے نام (کی بر کت)  سے پڑھو جس نے (ہر چیز کو)  پیدا کیا انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیاپڑھو اور (یقین کر لو کہ)  تمہارا  پروردگار بڑا بزرگ ہے‘‘۔ پس رسول اللہﷺ کا دل اس واقعہ کے سبب سے (مارے خوف کے) کانپنے لگا اور آپﷺ ام المومنین خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور (وہاں موجود لوگوں سے)  کہا کہ مجھے کمبل اڑھا دو،مجھے کمبل اڑھا دو۔ چنانچہ انھوں نے آپﷺ کو کمبل اڑھا دیایہاں تک کہ (جب)  آپﷺ کے دل سے خوف جاتا رہا تو آپﷺ نے خدیجہؓ سے سب حال (جو غار میں گزرا تھا)  بیان کر کے کہا کہ بلاشبہ مجھے اپنی جان کا خوف ہے۔ خدیجہؓ بولیں کہ ہر گز نہیں۔ اللہ کی قسم ! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔ یقیناً آپ صلہ رحمی کرتے ہیں ناتواں کا بوجھ اٹھاتے ہیں،جو چیز لوگوں کے پاس نہیں وہ انہیں دیتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع کرتے ہیں اور (اللہ کی راہ میں)  مدد کرتے ہیں۔ پھر خدیجہؓ  آپﷺ کولے کر چلیں اور ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ جو کہ خدیجہؓ کے چچا کے بیٹے تھے،کے پاس آپﷺ کو لائیں اور ورقہ وہ شخص تھا جو زمانہ جاہلیت میں نصرانی ہو گیا تھا اور عبرانی کتا ب لکھا کرتا تھا۔ یعنی جس قدر اللہ کو منظور ہوتا تھا انجیل کو عبرانی میں لکھا کرتا تھا اور بڑا بوڑھا آدمی تھا کہ بینائی جا چکی تھی۔ تو اس سے ام المومنین خدیجہؓ نے کہا کہ اے میرے چچا کے بیٹے ! اپنے بھتیجے (ﷺ)  سے (ان کا حال)  سنو !ورقہ بولے،اے میرے بھتیجے !تم کیا دیکھتے ہو؟ رسول اللہﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا ان سے بیان کر دیا تو ورقہ نے آپﷺ سے کہا کہ یہ وہ فرشتہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے موسیٰؑ پر نازل کیا تھا۔ اے کاش! میں اس وقت (جب آپﷺ نبی ہوں گے)  جوان ہوتا۔ اے کاش میں (اس وقت تک)  زندہ رہتا جب کہ آپﷺ کو آپ کی قوم (مکہ سے)  نکالے گی۔ رسول اللہﷺ نے (یہ سن کر بہت تعجب سے)  فرمایا :کیا یہ لوگ مجھے نکالیں گے ؟ ورقہ نے کہا ہاں جس شخص نے آپﷺ جیسی بات بیان کی اس سے (ہمیشہ)  دشمنی کی گئی اور اگر مجھے آپﷺ (کی نبوت)  کا دور مل گیا تو میں آپﷺ کی بہت ہی بھر پور طریقے سے مد د کروں گا۔ مگر چند ہی روز گزرے تھے کہ ورقہ کی وفات ہو گئی اور وحی (کی آمد عارضی طور پر چند روز کے لیے)  رک گئی۔

(۴)۔ سید نا جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے اور وہ وحی کے بند ہو جانے کا حال بیان کرتے ہیں اور (یہ بھی)  کہتے ہیں کہ (رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک دن)  اس حال میں کہ میں چلا جا رہا تھا تو یکا یک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی،میں نے اپنی نظر اٹھائی تو (کیا دیکھتا ہوں کہ)  وہی فرشتہ جو غار حرا میں میرے پاس آیا تھا،ایک کرسی پر زمین و آسمان میں معلق بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس (کے دیکھنے)  سے ڈر گیا۔ پھر لوٹ آیا تو میں نے (گھر میں آ کر)  کہا مجھے کمبل اڑھا دو،مجھے کمبل اڑھا دو۔ پھر (اسی موقع پر)  اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں ’’اے کپڑا اوڑھنے والے اٹھ کھڑا ہو اور (لوگوں کو عذاب الٰہی سے)  ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کر اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھا کر اور ناپا کی (یعنی بتوں کی پرستش)  کو چھوڑ دے۔ (المدثر:۱۔ ۵)

(۵)۔ سید نا ابن عباس سے اللہ تعالیٰ کے کلام ’’ لا تحریک۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ الخ (سورۃ القیامہ :۱۶کی تفسیر)  میں منقول ہے کہ رسول اللہﷺ کو (قرآن کے)  نزول کے وقت سخت دقت کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ازاں جملہ یہ تھا کہ آپﷺ اپنے دونوں ہونٹ (جلد جلد)  ہلاتے تھے (تاکہ وحی یاد ہو جائے)  ابن عباسؓ نے (سعید  راوی سے)  کہا کہ میں اپنے ہونٹوں کو تمہارے (سمجھانے کے لیے)  اسی طرح حرکت دیتا ہوں جس طرح رسول اللہﷺ اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتے تھے (الغرض رسول اللہﷺ کی یہ حالت دیکھ کر)  اللہ تعالیٰ  نے یہ آیات نازل فرمائیں : ’’اے محمد (ﷺ) (قرآن کو جلد یاد کرنے کے لیے)  اس کے ساتھ تم اپنی زبان کو حرکت نہ دیا کرو تا کہ جلد (اخذ)  کر لو ‘یقیناً اس کا جمع کر دینا اور پڑھا دینا ہمارے ذمہ ہے ‘‘ (سورۃ القیامہ:۱۷۔ ۱۶) سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (یعنی)  قرآن کا تمہارے سینہ میں جمع (محفوظ)  کر دینا اور اس کو تمہیں پڑھا دینا۔ پھر جس وقت ہم اس کو پڑھ چکیں تو پھر تم اس کے پڑھنے کی پیروی کرو۔ (سورۃ القیامۃ :۱۸)  ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ یعنی اس کو توجہ سے سنو اور چپ رہو۔ پھر یقیناً اس (کے مطلب)  کا سمجھا دینا ہمارے ذمہ ہے (سورۃ القیامۃ :۱۹)  (یعنی) پھر بے شک ہمارے ذمہ ہے یہ کہ انھیں یاد ہو جائے پھر اس کے بعد جب آپﷺ کے پاس جبرئیلؑ (کلام الٰہی لے کر) آتے تھے تو آپﷺ توجہ سے سنتے تھے۔ جب جبرئیلؑ چلے جاتے تو اس کو نبیﷺ اسی طرح پڑھتے جس طرح جبرئیلؑ نے اس کو (آپﷺ کے سامنے) پڑھا تھا۔

(۶)۔ سید نا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ تمام لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور تمام اوقات سے زیادہ آپﷺ رمضان میں سخی ہو جاتے تھے (خصوصاً) جب آپﷺ سے جبرئیل علیہ السلام (آ کر) ملتے تھے اور جبرئیل علیہ السلام  آپﷺ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپﷺ سے قرآن کا دور کیا کرتے تھے۔ تو یقیناً (اس وقت)  رسول اللہﷺ (خلق اللہ کی نفع رسانی میں) تندو تیز ہوا سے بھی زیادہ (سخاوت میں)  تیز ہوتے تھے۔

(۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ نے ابو سفیان بن حربؓ سے بیان کیا کہ ہر قل (شاہ روم)  نے ان کے پاس ایک آدمی بھیجا (اور وہ)  قریش کے چند سواروں میں (اس وقت بیٹھے ہوئے تھے)  اور وہ لوگ شام میں تاجر (بن گئے)  تھے (اور یہ واقعہ)  اس زمانہ میں (ہوا ہے)  جبکہ رسول اللہﷺ نے ابو سفیان اور (نیز دیگر)  کفار قریش سے ایک محدود عہد کیا تھا۔ چنانچہ سب قریش ہر قل کے پاس آئے اور یہ لوگ (اس وقت)  ایلیاء میں تھے۔ تو ہر قل نے ان کو اپنے دربار میں طلب کیا اور اس کے گرد سردار ان روم (بیٹھے ہوئے) تھے۔ پھر ان (سب قریشیوں)  کو اس نے (اپنے قریب)  بلایا اور اپنے ترجمان کو طلب کیا اور (قریشیوں سے مخاطب ہو کر) کہا کہ تم میں سب سے زیادہ اس شخص کا قریب النسب کون ہے جو اپنے کو نبی کہتا ہے ؟ ابو سفیانؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ میں ان سب سے زیادہ (ان کا) قریب النسب ہوں (یہ سنکر)  ہر قل نے کہا کہ ابو سفیان کو میرے قریب کر دو اور اس کے ساتھیوں کو (بھی) قریب رکھو اور ان کو ابو سفیان کے پس پشت (کھڑا)  کرو۔ پھر اپنے ترجمان سے کہا کہ ان لوگوں سے کہو کہ میں ابو سفیان سے اس مرد کا حال پوچھتا ہوں (جو اپنے آپ کو نبی کہتا ہے) پس اگر یہ مجھ سے جھوٹ بیان کرے تو تم (فوراً) اس کی تکذیب کر دینا۔ (ابو سفیان)  کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم!اگر (مجھے)  اس بات کی شرم نہ ہوتی کہ لوگ میرے اوپر جھوٹ بولنے کا الزام لگائیں گے یقیناً میں آپﷺ کی نسبت غلط باتیں بیان کر دیتا۔ غرض سب سے پہلے جو ہر قل نے  مجھ سے پوچھا تھا،یہ تھا کہ ان کانسب تم لوگوں میں کیسا ہے ؟ میں نے کہا کہ وہ ہم میں عالی نسب ہیں۔ (پھر)  ہر قل نے کہا کہ کیا تم میں سے کسی نے ان سے پہلے بھی اس بات (یعنی نبوت)  کا دعویٰ کیا ہے ؟ میں نے کہا نہیں (پھر)  ہر قل نے کہا کہ کیا ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ گزرا ہے ؟میں نے کہا نہیں۔ (پھر)  ہر قل نے کہا کہ با اثر لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ میں نے کہا (امیروں نے نہیں بلکہ)  کمزور لوگوں نے۔ (پھر)  ہر قل بولا کہ آیا ان کے پیرو (روز بروز)  بڑھتے جاتے ہیں یا گھٹتے جاتے ہیں ؟ میں نے کہا (کم نہیں ہوتے بلکہ)  زیادہ ہوتے جاتے ہیں۔ (پھر)  ہرقل نے پوچھا کہ آیا ان (لوگوں)  میں سے (کوئی)  ان کے دین میں داخل ہو نے کے بعد ان کے دین سے بد ظن ہو کر منحرف بھی ہو جاتا ہے ؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ (پھر)  ہرقل نے پوچھا کہ کیا وہ (کبھی)  وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟میں نے کہا کہ نہیں۔ اور اب ہم ان کی طرف سے مہلت میں ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ اس (مہلت کے زمانہ)  میں کیا کریں گے (وعدہ خلافی یا وعدہ وفائی)  ابو سفیان کہتے ہیں کہ سوائے اس کلمہ کے اور مجھے موقع نہیں ملا کہ میں بات (آپﷺ کے حالات میں)  داخل کر دیتا۔ (پھر)  ہرقل نے پوچھا کہ کیا تم نے (کبھی)  اس سے جنگ کی ہے ؟ میں نے کہا کہ ہاں۔ تو (ہرقل)  بو لا تمہاری جنگ اس سے کیسی رہتی ہے ؟میں نے کہا کہ لڑائی ہمارے اور ان کے درمیان ڈول (کے مثل)  رہتی ہے کہ (کبھی)  وہ ہم سے لے لیتے ہیں اور (کبھی)  ہم ان سے لے لیتے ہیں (یعنی کبھی ہم فتح پاتے ہیں اور کبھی وہ)  (پھر)  ہر قل نے پوچھا کہ وہ تم کو کیا حکم دیتے ہیں ؟ میں نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور (شرکیہ باتیں و عبادتیں) جو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے،سب چھوڑ دو اور ہمیں نماز (پڑھنے)  اور سچ بولنے اور پرہیز گاری اور صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں۔

اس کے بعد ہرقل نے ترجمان سے کہا کہ ابو سفیان سے کہو کہ میں نے تم سے اس کا نسب پوچھا تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہارے درمیان میں (اعلیٰ)  نسب والے ہیں چنانچہ تمام پیغمبر اپنی قوم کے نسب میں اسی طرح (عالی نسب)  مبعوث ہوا کرتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا یہ بات (یعنی اپنی نبوت کی خبر)  تم میں سے کسی اور نے بھی ان سے پہلے کہی تھی؟تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ میں نے (اپنے دل میں)  یہ کہا تھا کہ اگر یہ بات ان سے پہلے کوئی کہہ چکا ہوا تومیں کہہ دوں گا کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو اس قول کی تقلید کرتے ہیں جو ان سے پہلے کہا جا چکا ہے اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ تھا؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں۔ پس میں نے (اپنے دل میں)  کہا تھا کہ ان کے باپ دادا میں کوئی بادشاہ ہوا ہو گا تو میں کہہ دوں گا کہ وہ ایک شخص ہیں جو اپنے باپ دادا کا ملک (اقتدار حاصل کرنا)  چاہتے ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا اس سے پہلے کہ انھوں نے جو یہ بات (نبوت کا دعویٰ) کہی ہے،کہیں تم ان پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے ؟تو تم نے کہا کہ نہیں۔ پس (اب)  میں یقیناً جانتا ہوں کہ (کوئی شخص)  ایسا نہیں ہو سکتا کہ لوگوں سے تو جھوٹ بولنا (غلط بیانی)  چھوڑ دے اور اللہ پر جھوٹ بولے اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا بڑے (با اثر)  لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے یا کمزور لوگوں نے ؟ تم نے کہا کہ کمزور لوگوں نے ان کی پیروی کی ہے اور (دراصل)  تمام پیغمبر کے پیرو یہی لوگ (ہوتے رہے)  ہیں اور میں نے تم سے پوچھا کہ ان کے پیرو زیادہ ہوتے جاتے ہیں یا کم ؟ تو تم نے بیان کیا کہ زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور (درحقیقت)  ایمان کا یہی حال (ہوتا)  ہے تا وقتیکہ کمال کو پہنچ جائے اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص ان کے دین میں داخل ہونے کے بعد ان کے دین سے ناخوش ہو کہ (دین سے)  پھر بھی جاتا ہے ؟تو تم نے بیان کیا کہ نہیں ! اور ایمان (کا حال)  ایسا ہی ہے جب اس کی بشاشت دلوں میں رچ بس جائے (تو پھر نہیں نکلتی)  اور میں نے تم سے پوچھا کہ آیا وہ وعدہ خلافی کرتے ہیں ؟ تو تم نے بیان کیا کہ نہیں !اور (بات یہ ہے کہ)  اسی طرح تمام پیغمبر وعدہ خلافی نہیں کرتے اور میں نے تم سے پوچھا کہ وہ تمہیں کس بات کا حکم دیتے ہیں ؟ تو تم نے بیان کیا کہ وہ تمہیں یہ حکم دیتے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو نیز تمہیں بتوں کی پرستش سے منع کرتے ہیں اور تمہیں نماز (پڑھنے)  سچ بولنے اور پرہیز گاری (اختیار کرنے)  کا حکم دیتے ہیں پس اگر جو تم کہتے ہو سچ ہے تو عنقریب وہ میرے ان دونوں قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور بے شک میں (کتب سابقہ کی پیش گوئی سے)  جانتا تھا کہ وہ ظاہر ہونے والے ہیں مگر میں یہ نہ سمجھتا تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے۔ پس اگر میں جانتا کہ ان تک پہنچ سکوں گا تو میں ان سے ملنے کا بڑا اہتمام وسعی کرتا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو یقیناً میں ان کے قدموں کو دھوتا۔ پھر ہر قل نے رسول اللہﷺ کا (مقدس)  خط،جو آپﷺ نے سید نا دحیہ کلبی کے ہمراہ میر بصریٰ کے پاس بھیجا تھا اور امیر بصریٰ نے اس کو ہر قل کے پاس بھیج دیا تھا،منگوایا (اور اس کو پڑھوایا)  تو اس میں (یہ مضمون)  تھا

’’اللہ نہایت مہربان رحم والے کے نام سے ‘‘

(یہ خط ہے)  اللہ کے بندے اور اس کے پیغمبر محمدﷺ کی طرف سے بادشاہ روم کی طرف۔ اس شخص پر سلام ہو جو ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد اس کے (واضح ہو کہ)  میں تم کو اسلام کی طرف بلاتا ہوں۔ اسلام لاؤ گے تو (قہر الٰہی سے)  بچ جاؤ گے اور اللہ تمہیں تمہارا ثواب دوگنا دے گا اور اگر تم (میری دعوت سے)  سے منہ پھیرو گے تو بلاشبہ تم پر (تمہاری)  تمام رعیت کے (ایمان نہ لانے)  کا گناہ ہو گا اور ’’اے اہل کتاب ایک ایسی بات کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے یعنی یہ کہ ہم اور تم اللہ کے سوا کسی کی بند گی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں اور نہ ہم میں سے کوئی کسی کو سوائے اللہ کے پروردگار بنائے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ)  پھر اگر اہل کتاب اس سے اعراض کریں تو تم کہہ دینا کہ اس بات کے گواہ رہو کہ ہم تو اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں ‘‘۔ (آل عمران:۶۴)

ابو سفیان کہتے ہیں کہ ہر قل نے جو کچھ کہنا تھا،کہہ چکا اور (آپﷺ کا)  خط پڑھنے سے فارغ ہوا تو اس کے ہاں بہت ہی شور ہونے لگا۔ آوازیں بلند ہوئیں اور ہم لوگ (وہاں سے)  نکال دیے گئے تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا،جب کہ ہم سب باہر کر دیے گئے،کہ (دیکھو تو)  ابو کبثہ کے بیٹے (یعنی محمدﷺ)  کا معاملہ و رتبہ ایسا بڑھ گیا کہ اس سے بنو اصفر (روم)  کا بادشاہ بھی خوف کھاتا ہے۔ پس ہمیشہ میں اس کا یقین رکھتا رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے یہاں تک کہ اللہ نے مجھ کو مشرف بہ اسلام کر دیا۔

فرمایا اور ابن ناطور جو ایلیا ء کا حاکم،ہر قل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا پیر پادری ہے،وہ بیان کرتا ہے کہ ہرقل جب ایلیا ء میں آیا تو ایک دن صبح کو بہت پریشان خاطر اٹھا تو اس کے بعض خواص نے کہا کہ ہمیں (اس وقت)  آپ کی حالت کچھ اچھی دکھائی نہیں دیتی۔ ابن ناطور کہتا ہے کہ ہرقل کا ہن تھا،علم نجوم میں مہارت رکھتا تھا،تو اس نے اپنے خواص سے،جب کہ انھوں نے پوچھا یہ کہا کہ میں نے رات کو جب ستاروں میں نظر کی تو دیکھا کہ ختنہ کرنے والا بادشاہ غالب ہو گیا تو (دیکھو کہ) اس دور کے لوگوں میں ختنہ کون کرتا ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ سوائے یہود کے کوئی ختنہ نہیں کرتا،سو یہود کی طرف سے آپ اندیشہ نہ کریں اور اپنے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں (حاکموں کو)  لکھ بھیجئے کہ جتنے یہود  وہاں ہیں سب قتل کر دیے جائیں۔ پس وہ لوگ اپنی اسی منصوبہ بندی میں تھے کہ ہر قل کے پاس آدمی لایا گیا جسے غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا وہ رسول اللہﷺ کی خبر بیان کرتا تھا سو جب ہرقل نے اس سے یہ خبر معلوم کی تو (اپنے لوگوں سے)  کہا کہ جاؤ اور دیکھو کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے یا نہیں ؟لوگوں نے اس کو دیکھا تو بیان کیا کہ وہ ختنہ کیے ہوئے ہے۔ اور ہرقل نے اس سے اہل عرب کا حال پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ ختنہ کرتے ہیں۔ تب ہرقل نے کہا کہ یہی (نبیﷺ)  اس دور کے لوگوں کا بادشاہ ہے جو ظاہر ہو گیا۔ پھر ہرقل نے اپنے دوست کو رومیہ (یہ حال)  لکھ بھیجا وہ علم (نجوم)  میں اسی کا ہم پلہ تھا اور (یہ لکھ کر)  ہر قل حمص کی طرف چلا گیا۔ پھر حمص سے باہر بھی نہیں جانے پایا تھا کہ اس کے دوست کا خط (اس کے جواب میں)  آگیا۔ وہ بھی نبیﷺ کے ظہور کے بارے میں ہرقل کی رائے کی موافقت کرتا تھا اور یہ (اس نے لکھا تھا)  کہ وہ نبی ہیں۔ اس کے بعد ہرقل نے سردار ان روم کو اپنے محل میں جو حمص میں تھا طلب کیا اور حکم دیا کہ محل کے دروازے بند کر دیے جائیں،تو وہ بند کر دیے گئے،پھر ہرقل (اپنے بالا خانے)  نمودار ہو ا اور کہا کہ اے روم والو! کیا ہدایت اور کامیابی میں (کچھ حصہ)  تمہارا بھی ہے؟اور (تمہیں)  یہ منظور ہے)  کہ تمہاری سلطنت قائم رہے (اگر ایسا چاہتے ہو)  تو اس نبیﷺ کی بیعت کر لو۔ تو (اس کے سنتے ہی)  وہ لوگ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف بھاگے،کواڑوں کو بند پایا۔ بالآخر جب ہرقل نے (اس درجے)  ان کی نفرت دیکھی اور (ان کے)  ایمان لانے سے مایوس ہو گیا تو بولا کہ ان لوگوں کو میرے پاس واپس لاؤ اور (جب وہ آئے تو ان سے)  کہا کہ میں نے یہ بات ابھی جو کہی تو اس سے تمہارے دین کی مضبوطی کا امتحان لینا (مقصود)  تھا اور وہ مجھے معلوم ہو گئی۔ پس لوگوں نے اسے سجدہ کیا اور اس سے خوش ہو گئے اور ہرقل کی آخری حالت یہی رہی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

ایمانیات

 

 باب: نبیﷺ کا ارشاد (ہے)  کہ اسلام (کا محل)  پانچ (ستونوں)  پر بنایا گیا ہے

(۸)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اسلام (کا محل)  پانچ (ستونوں)  پر بنا یا گیا ہے (۱) اس بات کی شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کو ئی معبود نہیں ہے اور اس بات کی گواہی (بھی دینا)  کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں (۲)  نماز پڑھنا (۳)  زکوٰۃ دینا (۴) حج کرنا (۵) رمضان کے روزے رکھنا۔ ‘‘

 

باب:  ایمان کے کاموں کا بیان

(۹)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ایمان ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں رکھتا ہے اور حیا (بھی)  ایمان کی (شاخوں میں سے)  ایک شاخ ہے۔

باب :(اس بیان میں کہ پکا)  مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے)  مسلمان ایذا نہ پائیں۔

(۱۰)۔ سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں آپﷺ نے فرمایا : (پکا)  مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے)  مسلمان ایذا نہ پائیں (اور اصل) مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں کو چھوڑ دے جن کی اللہ تعالیٰ نے ممانعت فرمائی۔

 (اس بیان میں کہ)  کونسا اسلام افضل ہے ؟

(۱۱)۔ سیدنا ابوموسیٰؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کونسا اسلام افضل ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: (اس شخص کا اسلام)  جس کی زبان اور ہاتھ سے (دوسرے) مسلمان ایذا نہ پائیں۔

باب: (کسی کو)  کھانا کھلانا اسلام میں سے ہے

(۱۲)۔ سیدنا عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کونسا اسلام بہتر ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا: کھانا کھلاؤ اور جس کو جانتے ہو اور جس کو نہیں جانتے ہو (سب کو)  سلام کرو۔

باب : اپنے بھائی (مسلمان)  کے لیے وہی بات چاہنا جو اپنے لیے چاہے (یہ)  ایمان میں سے ہے۔

(۱۳)۔ سیدنا انسؓ نبی سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : تم میں سے کوئی ایماندار نہ ہو گا یہاں تک کہ اپنے بھائی (مسلمان)  کے لیے وہی کچھ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔

باب :رسول اللہﷺ سے محبت رکھنا ایمان میں سے ہے

(۱۴)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اس (پاک ذات)  کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ اور اس کی اولاد سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤ ں۔

(۱۵)۔ سیدنا انسؓ سے اسی طرح کی روایت مروی ہے اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’اور تمام لوگوں سے زیادہ (محبوب نہ ہو جاؤں)۔ ‘‘

ایمان کی شیرینی (کا ذکر)

(۱۶)۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ سے (روایت کرتے ہیں)  کہ آپﷺ نے فرمایا : یہ تین باتیں جس کسی میں ہوں گی وہ ایمان کی شیرینی (کا مزہ) پائے گا۔ (۱) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ اس کے نزدیک تمام ماسوا  سے زیادہ محبوب ہوں۔ (۲) جس کسی سے محبت کرے تو اللہ ہی کے لیے اس سے محبت کرے۔ (۳) کفر میں واپس جانے کو ایسا بر ا سمجھے جیسے آگ میں ڈالے جانے کو (ہر کوئی)  برا سمجھتا ہے۔

باب :انصار سے محبت رکھنا ایمان کی علامت ہے

(۱۷)۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : انصار سے محبت کرنا ایماندار ہونے کی نشانی ہے اور انصار سے دشمنی رکھنا منافق ہونے کی علامت ہے۔

(۱۸)۔ سید نا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اس حال میں کہ آپﷺ کے گرد صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت بیٹھی ہوئی تھی کہ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان (کسی پر)  باندھنا جس کو تم (دیدہ و دانستہ)  اپنے ہاتھوں اور اپنے پیروں کے سامنے بناؤ اور کسی اچھی بات میں (اللہ و رسول کی)  نافرمانی نہ کرنا۔ پس جو کوئی تم میں سے (اس عہد کو)  پورا کرے گا تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے اور جو کوئی ان (بری)  باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے گا اور دنیا میں اس کی سزاا سے ملا جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہو جائے گی۔ اور جو ان (بری)  باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہو جائے اور اللہ اس کو (دنیا میں)  پوشیدہ رکھے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے اگر چاہے تو اس سے درگزر کرے اور اگر چاہے تو اسے عذاب کرے (سیدنا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ) ہم سب لوگوں نے آپﷺ سے ان (باتوں)  پر بیعت کر لی۔

باب :فتنوں سے بھا گنا دین کی بات ہے۔

(۱۹)۔ سید نا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : قریب ہے (کچھ بعید نہیں) کہ مسلمان کا اچھا مال بکریاں ہوں جن کو لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں پر اور چٹیل میدانوں میں چلا جائے تاکہ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچا لے۔

باب :نبیﷺ کا ارشاد (ہے) کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ کو جاننے والا ہوں

(۲۰)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب لوگوں کو (نیک اعمال کرنے کا)  حکم دیتے تو ایسے اعمال کا حکم دیتے جن کو وہ (ہمیشہ)  کر سکیں (عبادت شاقہ کی ترغیب کبھی ان کو نہ دیتے تھے تو ایک مرتبہ) صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !ہم آپ کی مثل نہیں،بیشک اللہ نے آپ کے اگلے پچھلے سب گناہ معاف کر دیے ہیں (لہٰذا ہمیں آپ سے زیادہ عبادت کرنی چاہیے) اس پر آپﷺ غضبناک ہوئے حتیٰ کہ چہرہ (مبارک) میں غضب (کا اثر)  ظاہر ہونے لگا۔ پھر فرمایا : ’’ تم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا جاننے والا اور اس سے ڈرنے والا میں ہوں۔ ‘‘

باب :اہل ایمان کا اعمال میں باہم ایک دوسرے سے برتر ہونا (ثابت ہے)

(۲۱)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ نبیﷺ سے (روایت کرتے ہیں)  کہ آپﷺ نے فرمایا: (جب)  جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہو چکے ہوں گے تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ (فرشتوں سے)  فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی)  ایمان ہو،اس کو (دوزخ سے نکالو۔ پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر)  سیاہ ہو چکے ہوں گے۔ پھر وہ نہر حیا (برسات)  یا (نہر)  حیات میں ڈالے جائیں گے یہ شک کے الفاظ امام مالک کے ہیں۔ (جو حدیث کے ایک راوی ہیں)  ’’تب وہ تر و تازہ ہو جائیں گے جس طرح دانہ (ترو تازگی کے ساتھ)  پانی کی روانی کی جانب اگتا ہے (اے شخص!) کیا تو نے نہیں دیکھا کہ وہ زرد باہم لپٹا ہوا نکلتا ہے۔ ‘‘

(۲۲)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اس حالت میں کہ میں سو رہا تھا اور میں نے (یہ خواب)  دیکھا کہ لوگ میرے سامنے پیش کیے جاتے ہیں اور ان (کے بدن)  پر کُرتے ہیں۔ بعضے کُرتے تو (صرف)  چھاتیوں (ہی)  تک ہیں اور بعضے ان سے نیچے ہیں اور عمر بن خطابؓ (بھی)  میرے سامنے پیش کیے گئے اور ان (کے بدن) پر (جو)  قمیض ہے (وہ اتنی نیچی ہے)  کہ وہ اس کو کھینچتے (ہوئے چلتے) ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: (قمیض کی تعبیر میں نے)  دین (لی)  ہے۔

باب :حیاء (بھی)  ایمان سے ہے

(۲۳)۔ سیدنا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (ایک مرتبہ)  کسی انصاری مرد کے پاس سے گزرے اور (ان کو دیکھا کہ) وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کر رہے تھے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : (حیا کے بارے میں)  اس کو (نصیحت کرنا)  چھوڑ دو،اس لیے کہ حیا ایمان میں سے ہے۔

باب :(اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ) اگر (کفار شرک سے)  توبہ کر لیں اور نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ دینے لگیں تو (تم)  ان (کے قتل)  کی سبیل ترک کر دو۔ (التوبہ:۵)

(۲۴)۔ سید نا ابن عمرؓ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس بات کی (بھی گواہی دیں) کہ محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں۔ پس جب یہ (باتیں)  کرنے لگیں تو مجھ سے اپنے خون اور اپنے مال بچا لیں گے سوائے حق اسلام کے اور ان لوگوں کا حساب اللہ کے حوالے ہے۔

باب :جس نے کہا کہ ایمان عمل (کا نام)  ہے۔

(۲۵)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ کونسا عمل افضل ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : اللہ اور اس کے رسولﷺ پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا کہ پھر کونسا عمل افضل ہے ؟ فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر پوچھا گیا کہ اس کے بعد کونسا عمل افضل ہے ؟ تو فرمایا :حج مبرور۔

جب اسلام سے اس کے حقیقی (شرعی)  معنی مراد نہ ہوں (بلکہ ظاہر ی فرمانبرداری یا جان کے خوف سے مان لینا مراد ہو)

(۲۶)۔ سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے کچھ لوگوں کو (مال)  دیا اور سعدؓ (بھی وہاں)  بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر رسول اللہﷺ نے ایک ایسے شخص کو چھوڑ دیا (یعنی نہیں دیا)  جو مجھے سب سے اچھا معلوم ہوتا تھا تو میں نے عرض کیا کہ رسول اللہﷺ کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا (مومن سمجھتے ہو)  یا مسلم ؟ تو میں نے تھوڑی دیر سکوت کیا پھر مجھے جو کچھ اس شخص کی بابت معلوم تھا اس نے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات کہی یعنی یہ کہا کہ کیا وجہ ہے کہ آپﷺ نے فلاں شخص سے اعراض کیا؟ اللہ کی قسم ! میں تو اسے مومن جانتا ہوں تو آپﷺ نے فرمایا: (مومن جانتے ہو)  یا مسلم؟ پھر میں کچھ دیر چپ رہا۔ اس کے بعد جو کچھ میں اس شخص کے بابت جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کر دیا اور میں نے پھر اپنی وہی بات دہرائی اور رسول اللہﷺ نے بھی پھر وہی جواب دیا۔ بالآخر آپﷺ نے فرمایا: اے سعد !میں ایک شخص کو اس اندیشے کے تحت کہ کہیں (ایسانہ ہو کہ اگر اس کو نہ دیا جائے تو وہ کافر ہو جائے اور) اللہ اس کو آگ میں سرنگوں نہ ڈال دے،دے دیتا ہوں۔ حالانکہ دوسراشخص اس سے زیادہ مجھے محبوب ہوتا ہے۔ (اس کو نہیں دیتا کیونکہ اس کی نسبت ایسا خیال نہیں ہوتا)۔

باب :شوہر کی ناشکری (بھی کفر ہے)  لیکن کفر کفر میں فرق ہوتا ہے

(۲۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ (ایک مرتبہ) مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں میں نے  زیادہ تر عورتوں کو پا یا۔ وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا اللہ تعالیٰ کا کفر کرتی ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ شوہر کا کفر و ناشکری کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں۔ (وہ یوں کہ)  اگر تو کسی عورت کے ساتھ عرصۂ دراز تک احسان کرتا رہے اور اس کے بعد کوئی (ناگوار)  بات تجھ سے وہ دیکھ لے تو (فوراً)  کہہ دے گی کہ میں نے تو کبھی تجھ سے آرام (سکھ چین)  نہیں پایا۔

گناہ جاہلیت کے کام ہیں اور ان کا کرنے والا (صرف)  ان کے ارتکاب سے،بغیر شرک (کرنے)  کے، کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔

(۲۸)۔ سیدنا ابو ذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو (جو میرا غلام تھا)  گالی دی یعنی اس کو اس کی ماں سے غیرت و عار دلائی تھی (یہ خبر)  نبیﷺ (کو پہنچی تو آپ)  نے مجھ سے فرمایا : ’’ اے ابو ذر ! کیا تم نے اسے اس کی ماں سے غیرت و عار دلائی ہے ؟بے شک تم ایسے آدمی ہو کہ (ابھی تک)  تم میں جاہلیت (کا اثر باقی)  ہے۔ تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں۔ ان کو اللہ نے تمہارے قبضے میں دید یا۔ پس جس شخص کا بھائی اس کے قبضہ میں ہوا اسے چاہئے کہ جو خود کھائے اسے بھی کھلائے اور جو خود پہنے اس کو بھی پہنائے اور (دیکھو)  اپنے غلاموں سے اس کام کو (کرنے کا)  نہ کہو جوان پر شاق ہو اور جو ایسے کام کی ان کو تکلیف دو تو خود بھی ان کی مدد کرو۔ ‘‘

باب :اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ’’اگر مسلمانوں کے دو گروہ باہم لڑیں تو ان دونوں کے درمیان صلح کروا دو‘‘۔ (الحجرات:۹)

(۲۹)۔ سید نا ابو بکرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’جب دومسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ ملاقات کریں (یعنی لڑیں)  تو قاتل اور مقتول (دونوں)  دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! یہ قاتل (کی نسبت جو آپ نے فرمایا اس کی وجہ تو ظاہر)  ہے مگر مقتول کا کیا حال ہے (وہ کیوں دوزخ میں جائے گا) تو آپﷺ نے فرمایا: (اس وجہ سے کہ)  وہ اپنے حریف کے قتل کا خواہشمند تھا۔

باب :ایک ظلم دوسرے ظلم سے کم (زیادہ ہوتا)  ہے

(۳۰)۔ سیدنا عبد اللہ بن مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’ جب یہ آیت کہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ خلط ملط نہیں کیا۔ ‘‘ (الانعام:۸۲) نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ کے اصحاب (بہت گھبرائے اور) کہنے لگے کہ ہم میں سے کون ایسا ہے جس نے ظلم نہیں کیا؟ تو اللہ بزرگ و برتر نے یہ آیت ’’یقیناً شرک بڑا ظلم ہے ‘‘ (لقمان : ۱۳)  نازل فرمائی۔

باب : منافق کی پہچان (کیا ہے) ؟

(۳۱)۔ سید نا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : منافق کی تین خصلتیں ہیں۔ (۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۲)  جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے (۳)  جب (اس کے پاس)  امانت رکھی جائے تو (اس میں)  خیانت کرے۔

(۳۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ چار باتیں جس میں ہوں گی وہ خالص منافق ہے اور جس میں ان چاروں میں سے ایک بات ہو گی تو (بھی)  اس میں ایک بات نفاق کی (ضرور)  ہے تاوقتیکہ اس کو چھوڑ نہ دے۔ (وہ چار باتیں یہ ہیں)  (۱) جب امین بنا یا جائے تو خیانت کرے (۲) جب بات کرے تو جھوٹ بولے (۳) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔ (۴) جب لڑے تو بے ہو دہ گو ئی کرے۔ ‘‘

باب :شب قد رمیں قیام (عبادت)  کرنا ایمان میں سے ہے

(۳۳)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو کوئی ایمان (یقین)  رکھتے ہوئے ثواب جان کر،شب قدر میں (عبادت کے لیے) بیدار رہے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

باب :اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ایمان میں سے ہے

(۳۴)۔ سید نا ابو ہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں (جہاد کرنے کو)  نکلے اور اس کو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے اور اس کے پیغمبروں پر ایقان ہی نے (جہاد پر آمادہ کر کے گھر سے)  نکالا ہو،اس امر کا ذمہ دار ہو گیا ہے کہ یا تو میں (یعنی اللہ)  اسے اس ثواب اور (مال)  غنیمت کے ساتھ واپس کروں گا جو اس نے جہاد میں پایا ہے یا اسے (شہید بنا کر) جنت میں داخل کر دوں گا۔ اور (رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ) اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو (کبھی)  کسی سریہ (یعنی جس جنگ میں رسول اللہﷺ شریک نہ تھے)  سے بھی پیچھے نہ رہتا اور میں (یعنی نبیﷺ)  یقیناً اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں،پھر مارا جاؤں۔ ‘‘

باب :ماہ رمضان میں نوافل (یعنی تراویح پڑھنا)  ایمان میں سے ہے

(۳۵)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص رمضان میں،ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب سمجھ کر عبادت (یعنی نماز تراویح پڑھا)  کرے تو اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔

باب :ثواب جان کر ماہ رمضان کے روزے رکھنا ایمان میں سے ہے۔

(۳۲)۔ سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جو شخص ماہ رمضان میں ایماندار ہو کر اور ثواب سمجھ کر روزے رکھے تو اسکے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

اسلام بہت آسان دین ہے

(۳۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ ہی سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : دین بہت آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی کرے گا تو وہ اس پر غالب آ جائے گا۔ (نتیجتاً خود پیدا کردہ سختی کا متحمل نہیں ہو سکے گا) پس تم لوگ راست و میانہ روی اختیار کرو اور (ایک دوسرے سے)  قریب رہو اور خوش ہو جاؤ (کہ تمہیں ایسا آسان دین ملا ہے)  اور صبح اور دوپہر کے بعد اور کچھ دیر رات میں عبادت کرنے سے قوت حاصل کرو۔

باب :نماز (قائم کرنا) ایمان میں سے ہے

(۳۸)۔ سید نا براء بن عازبؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ (جب ہجرت کر کے)  مدینہ تشریف لائے تو پہلے اپنے ددھیال یا ننھیال میں،جو انصار سے تھے ان کے ہاں اترے اور آپﷺ نے (مدینہ آنے کے بعد)  سولہ مہینے یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھی مگر آپ کو یہ اچھا معلوم ہوتا تھا کہ آپ کا قبلہ کعبہ کی طرف ہو جائے (چنانچہ ہو گیا) اور سب سے پہلی نماز جو آپﷺ نے (کعبہ کی طرف)  پڑھی،عصر کی نماز تھی اور آپﷺ کے ہمراہ کچھ لوگ نماز میں شریک تھے۔ ان میں سے ایک شخص نکلا اور کسی مسجد کے قریب سے گزرا تو دیکھا کہ وہ لوگ (بیت المقدس کی طرف)  نماز پڑھ رہے تھے تو اس نے کہا کہ میں اللہ تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ مکہ کی طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھی ہے۔ (یہ سنتے ہی)  وہ لوگ جس حالت میں تھے اسی حالت میں کعبہ کی طرف گھوم گئے اور جب آپﷺ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو یہود اور (جملہ)  اہل کتاب بہت خوش ہوتے تھے مگر جب آپﷺ نے اپنا منہ کعبہ کی طرف پھیر لیا تو یہ انہیں بہت نا گوار گزرا۔

باب :آدمی کے اسلام کی خوبی (کا کیا نتیجہ ہوتا ہے؟)

(۳۹)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ فرماتے تھے جب آدمی مسلمان ہو جاتا ہے اور اس کا اسلام اچھا (خوب سے خوب تر اور مضبوط)  ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے تمام گناہوں کو جن کا اس نے ارتکاب کیا تھا،معاف کر دیتا ہے اور اس کے بعد (پھر)  معاوضہ (کا سلسلہ شروع)  ہوتا ہے کہ نیکی کا بد لہ اس کے دس گنا سے سات سو گنا تک اور برائی کااسی کے موافق (دیا جاتا ہے) مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے۔

باب :اللہ کو زیادہ محبوب وہ دین (کا کام)  ہے جو ہمیشہ جاری رہے

(۴۰)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ (ایک دفعہ)  نبیﷺ ان کے پاس آئے تو (دیکھا کہ)  ان کے پاس کوئی عورت (بیٹھی)  تھی۔ آپﷺ نے پوچھا : ’’ یہ کون ہے ؟‘‘ عائشہؓ بولیں کہ یہ فلاں عورت ہے (اور) اس کی نماز (کی کثرت)  حال بیان کرنے لگیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ ٹھہرو (دیکھو)  تم اپنے ذمہ اسی قدر (اعمال کی بجا آوری)  رکھو جن کی (ہمیشہ کرنے کی)  تم کو طاقت ہو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے)  نہیں تھکتا تاوقتیکہ تم خود (عبا دت کرنے سے)  تھک جاؤ اور اللہ کے نزدیک (سب سے)  زیادہ محبوب وہ دین (کا کام)  ہے جس پر اس کا کرنے والا مداومت (ہمیشگی)  کرے۔ ‘‘

باب :ایمان کا زیادہ اور کم ہونا (ثابت ہے)

(۴۱)۔ سید نا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : جو شخص لاالہ الا اللہ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو برابر نیکی (یعنی ایمان) ہو تو وہ بھی دوزخ سے نکل آئے گا جو شخص لا الہ الا اللہ کہے اور اس کے دل میں گندم کے دانے کے برابر نیکی (یعنی ایمان)  ہو تو وہ بھی دوزخ سے نکل آئے گا۔ اور جو شخص لا الہٰ الا اللہ کہے اور اس کے دل میں ذرے کے برابر نیکی (یعنی ایمان)  ہو تو وہ بھی دوزخ سے نکل آئے گا۔ ‘‘

(۴۲)۔ امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ ایک یہودی نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین !آپ کی کتاب (یعنی قرآن)  میں ایک ایسی آیت ہے جس کو تم پڑھتے ہو، اگر ہم پر یعنی یہودیوں پر وہ آیت نازل ہوتی تو ہم اس دن کو (جس دن نازل ہوئی بطور) عید منا لیتے۔ امیر المومنین نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے ؟یہودی بو لا یہ آیت کہ ’’آج میں (اللہ)  نے تمہارے لیے دین کو کامل کر دیا اور تم پر اپنا انعام بھر پور کر دیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضا مند ہو گیا۔ ‘‘ (المائدۃ:۳)

سیدنا عمرؓ سن کر کہنے لگے کہ بیشک ہم نے اس دن کو اور اس مقام کو اور اس مقام کو یاد کر لیا ہے جس میں یہ آیت نبیﷺ پر نازل ہوئی۔ آپﷺ (اس دن)  عرفہ میں مقیم تھے اور جمعہ کا دن تھا۔

باب :زکوٰۃ ادا کرنا اسلام میں سے ہے

(۴۳)۔ سیدنا طلحہ بن عبید اللہؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نجد کا رہنے والا پراگندہ حال،رسول اللہﷺ کے پاس آیا۔ ہم اس کی آواز کی گنگناہٹ سنتے تھے مگر یہ سمجھ پاتے کہ کیا کہتا ہے؟یہاں تک کہ جب وہ قریب آیا  تو (معلوم ہوا کہ) وہ اسلام کی بابت آپﷺ سے پوچھ رہا ہے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:دن رات میں پانچ نمازیں ہیں۔ وہ شخص بولا کہ کیا ان کے علاوہ (بھی کوئی)  نماز میرے اوپر (فرض)  ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا: نہیں !مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے (نفل)  پڑھے۔ (پھر) رسول اللہﷺ نے فرمایا :اور ماہ رمضان کے روزے۔ اس نے عرض کی کہ کیا اس کے علاوہ (اور روزے بھی) میرے اوپر فرض ہیں ؟تو آپﷺ نے فرمایا: نہیں !مگر یہ کہ اپنی خوشی سے رکھے۔ (سید ناطلحہؓ) کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے اس سے زکوٰۃ کا بھی ذکر کیا،اس نے کہا کہ کیا میرے اوپر اس کے علاوہ (اور کوئی صدقہ بھی فرض) ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا:نہیں !مگر یہ کہ تو اپنی خوشی سے دے۔ سید نا طلحہؓ کہتے ہیں کہ پھر وہ شخص یہ کہتا ہوا پلٹا کہ اللہ کی قسم !میں ان (مذکورہ فرائض)  میں نہ اضافہ کروں گا اور نہ (اس میں)  کمی کروں گا۔ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر یہ سچ کہہ رہا ہے تو کامیاب ہو گیا۔

باب :جنازوں کے پیچھے چل کر جانا ایمان میں سے ہے

(۴۴)۔ سید نا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : جو شخص کسی مسلمان کے جنازے کے پیچھے ایمان کا تقاضا اور ثواب سمجھ کر جاتا  ہے اور جب تک کہ اس پر نماز نہ پڑھ لے اور اس کے دفن سے فراغت حاصل نہ کر لے،اس کے ہمراہ رہتا ہے تو وہ دو قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے (اور ان میں سے)  ہر ایک قیراط احد (پہاڑ)  کے برابر ہوتا ہے اور جو شخص (صرف)  جنازہ پڑھ لے پھر تدفین سے پہلے لوٹ آئے تو وہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹتا ہے۔

باب :مومن کا اس بات سے ڈرنا کہ کہیں اس کی بے خبری میں اس کا عمل اکارت (ضائع)  نہ ہو جائے

(۴۵)۔ سید نا عبد اللہ بن مسعودؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے فرمایا : مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے لڑنا کفر ہے۔

(۴۶)۔ سید نا عبادہ بن صامتؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ (ایک مرتبہ لوگوں کو)  شب قدر بتا نے کے لیے نکلے مگر (اتفاق سے اس وقت)  دو مسلمان باہم لڑ رہے تھے تو آپﷺ نے فرمایا: (اس وقت) میں اس لیے نکلا تھا کہ تمہیں (معین)  شب قدر بتا دوں مگر (چونکہ)  فلاں اور فلاں باہم لڑے اس لیے (اس کی قطعی خبر دنیاسے)  اٹھا لی گئی اور شاید یہی تمہارے حق میں مفید ہو (اب)  تم شب قدر کو رمضان کی ستائیسویں اور انتیسویں اور پچیسویں (تاریخوں)  میں تلاش کرو۔

باب :جبرئیلؑ کا نبیﷺ سے ایمان،اسلام،احسان اور علم قیامت کی بابت پوچھنا

(۴۷)۔ سید نا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ لوگوں کے سامنے بیٹھے ہوئے تھے کہ یکا یک آپ کے سامنے ایک شخص آیا اور اس نے (آپ سے) پوچھا کہ ایمان کیا چیز ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا:ایمان یہ ہے کہ تم اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور (آخرت میں) اللہ سے ملنے پر اور اللہ کے  پیغمبروں پر ایمان لاؤ اور قیامت کا یقین کرو۔ (پھر)  اس شخص نے کہا کہ اسلام کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا: اسلام کی یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور نماز قائم کرو اور فرض زکوٰۃ ادا کرو اور رمضان کے روزے رکھو۔ (پھر)  اس شخص نے کہا کہ احسان کیا چیز ہے ؟تو آپﷺ نے فرمایا : احسان یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت (اس خشوع و خضوع اور خلوص سے)  کرو گیا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر (یہ حالت)  نہ نصیب ہو کہ تم اس کو دیکھتے ہو تو یہ خیال رہے کہ وہ تو ضرور تمہیں دیکھتا ہے۔ پھر اس شخص نے کہا کہ قیامت کب ہو گی؟تو اس کے جواب میں آپﷺ نے فرمایا کہ جس سے یہ بات پوچھی جا رہی ہے وہ خود سائل سے زیادہ اس کو نہیں جانتا، (بلکہ ناواقفی میں دونوں برابر ہیں)  اور ہاں میں تم کو اس کی علامتیں بتائے دیتا ہوں کہ (۱) جب لونڈی اپنے سردار کو جنے اور (۲) سیاہ اونٹوں کو چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے لگیں،تو سمجھ لینا کہ قیامت قریب ہے اور قیامت کا علم تو ان پانچ چیزوں میں سے ہے کہ جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر نبیﷺ نے ’’بیشک اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے۔ ۔ ۔ ۔ آخر تک ‘‘ (لقمان: ۳۴) پوری آیت کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد وہ شخص چلا گیا تو آپﷺ نے (صحابہ کرامؓ)  سے فرمایا: ’’ اس کو میرے پاس واپس لاؤ۔ ‘‘ (چنانچہ لوگ اس کے واپس لانے کو گئے) مگر وہاں کسی کو نہ دیکھا تو آپﷺ نے فرمایا: یہ جبرئیلؑ تھے،لوگوں کو ان کے دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔

باب :اس شخص کی فضیلت (کا بیان) جو اپنے دین کی خاطر (مشتبہ چیزوں سے)  علیحدہ ہو جائے

(۴۸)۔ سید نا نعمان بن بشیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے :حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی)  ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے۔ پس جو شخص مشتبہ چیزوں سے بچ گیا تو اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچا لیا اور جو شخص مشتبہ چیزوں میں ملوث ہو گیا (تو وہ)  مثل اس چرواہے کے ہے جو سلطانی چر اگاہ کے قریب چراتا ہے عین ممکن ہے کہ وہ (اپنے مویشی)  اس میں چھوڑ دے۔ (اے لوگو!)  آگاہ رہو کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے آگاہ  ہو جاؤ کہ اللہ تعالیٰ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں ا ور خبر دار ہو جاؤ کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے،جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا بدن خراب ہو جاتا ہے (خوب)  سن لو! وہ ٹکڑا دل ہے۔

باب :خمس (مال غنیمت کے پانچویں حصہ)  کا ادا کرنا ایمان میں سے ہے

(۴۹)۔ سید نا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (قبیلہ)  عبد القیس کے لوگ جب نبیﷺ کے پاس آئے تو آپ نے (ان سے)  فرمایا کہ :یہ کونسی قوم یا (یہ پوچھا کہ)  کونسی جماعت ہے ؟ وہ بولے کہ (ہم)  ربیعہ (کے خاندان)  سے (ہیں) آپ نے فرمایا: قوم یا وفد کا آنا مبارک ہو،تم ذلیل ہو گے نہ شر مسار۔ پھر ان لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ ! ہم سوا ماہ حرام کے (کسی اور وقت میں)  آپ کے پاس نہیں آسکتے (اس لیے کہ) ہمارے اور آپﷺ کے درمیان کفار کا قبیلہ مضر رہتا ہے (ان سے ہمیں اندیشہ ہے) لہٰذا آپ ہمیں کوئی ٹھوس بات (خلاصۂ احکام) بتا دیجیے کہ ہم اپنے پیچھے والوں کو (بھی)  اس کی اطلاع کر دیں اور ہم سب اس (پر عمل کرنے)  سے جنت میں داخل ہو جائیں اور ان لوگوں نے آپﷺ سے پینے کی چیزوں کی بابت (بھی)  پوچھا کہ (کونسی حلال ہیں اور کونسی حرام)  تو آپﷺ نے انھیں چار باتوں کا حکم دیا اور چار باتوں سے منع کیا۔ (۱) ان کو حکم دیا صرف اللہ پر ایمان لانے کا (یہ کہہ کر)  فرمایا:تم لوگ جانتے ہو کہ صرف اللہ پر ایمان لانا (کس طرح پر ہوتا)  ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول (ﷺ) خوب واقف ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود (حقیقی)  نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ)  اللہ کے رسول ہیں۔ (ان کو حکم دیا)  نماز پڑھنے کا۔ زکوٰۃ دینے کا۔ رمضان کے روزے رکھنے کا اور (حکم دیا) اس بات کا کہ مال غنیمت کا پانچواں حصہ (بیت المال میں) دے دیا کر و اور چار چیزوں (یعنی چار قسم کے برتنوں میں پانی یا اور کوئی چیز پینے) سے منع کیا۔ (۱)  سبز لاکھی مرتبان سے (۲) کدو کے تونبے سے (۳)  کریدے ہوئے لکڑی کے برتن (۴) روغنی برتن سے اور کبھی  (سیدنا ابن عباس مزفت کی جگہ)  مقیر کہا کرتے تھے اور آپﷺ نے فرمایا : ان باتوں کو یاد کر لو اور اپنے پیچھے والوں کو اس کی تبلیغ کر دو۔ ‘‘

باب :(حدیث میں)  آیا ہے کہ اعمال (کی قبولیت)  نیت پر (موقوف)  ہے

(۵۰)۔ سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اعمال (کے نتیجے)  نیت کے موافق (ہوتے)  ہیں اور یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (حدیث :۱)  اور (یہاں) اس میں یہ زیادہ ہے کہ (نبیﷺ نے فرمایا) :اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جو وہ نیت کرے۔ لہٰذا جس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہو گی تو (اللہ کے ہاں)  اس کی ہجرت اسی (کام)  کے لیے (لکھی جاتی)  ہے جس کے لیے اس نے ہجرت کی۔

(۵۱)۔ سیدنا ابو مسعودؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جب مرد اپنے اہل و عیال پر ثواب سمجھ کر خرچ کرے تو وہ اس کے حق میں صدقہ (کا حکم رکھتا)  ہے۔

باب :نبیﷺ کا فرمانا کہ دین خیر خواہی (کا نام)  ہے

(۵۲)۔ سید نا جرید بن عبد اللہ بجلیؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے کے اقرار پر بیعت کی۔

(۵۳)۔ سید نا جریر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ میں نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ آپﷺ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں،تو آپﷺ نے مجھے اسلام پر قائم رہنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے کی شرط عائد کی۔ پس اسی پر میں نے آپﷺ سے بیعت کی۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

علم کا بیان

 

باب :علم کی فضیلت کا بیان

(۵۴)۔ سید نا ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن)  اس حالت میں کہ نبیﷺ مجلس میں لوگوں سے (کچھ)  بیان کر رہے تھے کہ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس آیا اور اس نے پوچھا کہ قیامت کب (قائم)  ہو گی؟ تو رسول اللہﷺ (نے کچھ جواب نہ دیا اور اپنی بات)  بیان کرتے رہے۔ اس پر کچھ لوگوں نے کہا کہ نبیﷺ نے اس کا کہنا سن (تو)  لیا مگر (چونکہ)  اس کی بات آپ کو بری محسوس ہوئی اس لیے آپ نے جواب نہیں دیا اور کچھ لوگوں نے کہا کہ (یہ بات نہیں ہے)  بلکہ آپ نے سنا ہی نہیں،یہاں تک کہ جب آپﷺ اپنی بات ختم کر چکے تو فرمایا: ’’ کہاں ہے۔ ‘‘میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بعد یہ لفظ تھے۔ ’’قیامت کا پوچھنے والا؟‘‘تو سائل نے کہا یا رسول اللہ ! میں (یہاں)  ہوں۔ تو نے فرمایا کہ جس وقت امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرنا (سمجھو قیامت آیا ہی چاہتی ہے)۔ اس نے پوچھا کہ امانت کا ضائع کرنا کس طرح ہو گا؟ فرمایا: جب کام (معاملہ)  ناقابل (نااہل)  کے سپر د کیا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا۔

باب :جو شخص علم (کو بیان کرنے)  میں اپنی آواز بلند کرے

(۵۵)۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک سفر میں جو ہم نے نبیﷺ کی رفاقت میں کیا تھا،نبیﷺ ہم سے پیچھے رہ گئے۔ پھر آپﷺ ہم سے اس حال میں ملے کہ نماز میں ہم نے دیر کر دی تھی اور ہم وضو کر رہے تھے تو (جلدی کی وجہ سے)  ہم اپنے پیروں پر پانی لگانے لگے (کیونکہ دھونے میں دیر ہوتی)  پس آپﷺ نے اپنی بلند آواز سے دو مرتبہ یا تین مرتبہ فرمایا: ایڑیوں کو آگ کے (عذاب)  سے خرابی (ہونے والی)  ہے (یعنی خشک رہنے کی صورت میں)۔

باب :امام کا اپنے ساتھیوں کی علمی آزمائش کے لیے سوال کرنا

(۵۶)۔ سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’درختوں میں سے ایک درخت ایسا ہے کہ اس کا پت جھڑ نہیں ہوتا اور وہ مسلمان کے مشابہ ہے،تو تم مجھے بتاؤ کہ وہ کو نسا درخت ہے ؟‘‘تو لوگ جنگلی درختوں (کے خیال)  میں پڑ گئے۔ عبد اللہ عمرؓ کہتے ہیں میرے دل میں آیا کہ وہ کھجور کا درخت ہے مگر (کہتے ہوئے)  شرما گیا،بالآخر صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !آپ ہی ہمیں بتائیے کہ وہ کونسا درخت ہے؟تو آپﷺ نے فر مایا: ’’ وہ کھجور کا درخت ہے۔ ‘‘

باب :(حدیث کا خود)  پڑھنا اور (پڑھ کر)  محدث کو سنانا

(۵۷)۔ سید نا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے ایک شخص اونٹ پر (سوار)  آیا اور اس نے اپنے اونٹ کو مسجد میں (لا کر)  بٹھا کر اس کے پاؤں باندھ دیے پھر اس نے صحابہؓ سے دریافت کیا تم میں سے محمد (ﷺ)  کون ہیں ؟اور (اس وقت) نبیﷺ صحابہؓ کے درمیان تکیہ لگائے بیٹھے تھے،تو ہم لوگوں نے کہا یہ مرد صاف رنگ تکیہ لگائے ہوئے (جو بیٹھے ہیں انہی کا نام نامی محمدﷺ ہے)۔ پھر اس شخص نے آپ سے کہا کہ اے عبد المطلب کے بیٹے !نبیﷺ نے فرمایا: (کہہ)  میں سن رہا ہوں۔ اس نے کہا کہ میں آپ سے (کچھ)  پوچھنے والا ہوں اور (پوچھنے میں)  آپ پر سختی کروں گا تو آپ اپنے دل میں میرے اوپر ناخوش نہ ہونا۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جو تیری سمجھ میں آئے پوچھ لے۔ وہ بولا کہ میں آپ کو آپ کے پروردگار اور آپ سے پہلے لوگوں کے پروردگار کی قسم دے کر پوچھتا ہوں (سچ بتائیے)  کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام آدمیوں کی طرف (پیغمبر بنا کر) بھیجا ہے؟آپ نے فرمایا: اللہ کی قسم ! ہاں (بیشک مجھے پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہے)۔ پھر اس نے کہا کہ میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں (سچ بتائیے)  کیا اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ آپ یہ صدقہ ہمارے مال داروں سے لیں اور اسے ہمارے مستحقین پر تقسیم کریں ؟تو نبیﷺ نے فرمایا: اللہ کی قسم !ہاں۔ اس کے بعد وہ شخص کہنے لگا کہ میں اس (شریعت)  پر ایمان لایا،جو آپﷺ لائے ہیں اور میں اپنی قوم کے ان لوگوں کا جو میرے پیچھے ہیں،بھیجا ہوا (نمائندہ)  ہوں اور میں ضمام بن ثعلبہؓ ہوں (قبیلہ)  نبی سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔

باب :’’المناولہ‘‘ کے بارے میں اور اہل علم کا علم یا علم کی باتیں لکھ کر شہر والوں کو دے دینا

(۵۸)۔ سید نا ابن عباسؓ کہتے ہیں رسول اللہﷺ نے اپنا ایک خط ایک شخص کے ہاتھ بھیجا اور اسے حکم دیا کہ یہ خط بحرین کے حاکم کو دیدے۔ (چنانچہ اس نے دے دیا)  اور بحرین کے حاکم نے اس کو کسریٰ (شاہ ایران)  تک پہنچا دیا۔ پھر جب (کسریٰ نے)  اس کو پڑھا تو (اپنی بد بختی سے)  اس کو چاک کر ڈالا۔ (سیدنا ابن عباسؓ)  کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (یہ سن کر)  ان لوگوں کو بد دعا دی کہ ’’وہ (لوگ بھی) بالکل (اسی طرح)  ٹکڑے ٹکڑے کر دیے جائیں۔ ‘‘

(۵۹)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے ایک خط (شاہ روم یا ایران)  کو لکھایا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ سے یہ کہا گیا کہ وہ لوگ بے مہر کا خط نہیں پڑھتے، (یعنی اس کو وقعت نہیں دیتے) چنانچہ آپﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اس میں ’’محمد رسول اللہ ‘‘کندہ تھا۔ (سیدنا انسؓ کہتے ہیں ایسا محسوس ہو رہا ہے)  گویا میں (اب بھی)  آپﷺ کے ہاتھ مبارک میں اس کی سفید ی کی طرف دیکھ رہا ہوں۔

(۶۰)۔ سیدنا ابو واقد لیثیؓ سے روایت ہے کہ (ایک دن)  اس حالت میں کہ رسول اللہﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ آپﷺ کے پاس (بغرض استفادہ) بیٹھے ہوئے تھے،تین اشخاص آئے تو (ان میں سے)  دو رسول اللہﷺ کے سامنے آ گئے اور ایک چلا گیا (ابو واقدؓ)  کہتے ہیں کہ وہ دونوں (کچھ دیر)  رسول اللہﷺ کے پاس کھڑے رہے پھر ان میں سے ایک نے حلقہ میں گنجائش دیکھی تو وہ وہاں بیٹھ گیا اور دوسر ا سب کے پیچھے (جہاں مجلس ختم ہوتی تھی) بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی چلا گیا۔ پس جب رسول اللہﷺ نے (وعظ سے)  فراغت پائی تو (صحابہ رضی اللہ عنہم سے مخاطب ہو کر)  فرمایا : کیا میں تمہیں تین آدمیوں کی حالت نہ بتاؤں کہ ان میں سے ایک نے اللہ کی طرف رجوع کیا اور اللہ نے اس کو جگہ دی اور دوسرا شر ما یا تو اللہ نے (بھی)  اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ پھیرا تو اللہ نے (بھی)  اس سے اعراض فرمایا۔

باب :نبیﷺ کا فرمانا کہ بسا اوقات وہ شخص جسے (بالواسطہ)  حدیث پہنچائی جائے، (براہ راست)  سننے والے کی بہ نسبت زیادہ یاد رکھنے والا ہوتا ہے۔

(۶۱)۔ سیدنا ابو بکرؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آپﷺ اپنے اونٹ پر بیٹھے تھے اور ایک شخص اس کی نکیل پکڑے ہوئے تھا آپ نے (صحابہؓ سے مخاطب ہو کر)  فرمایا : یہ کونسا دن ہے ؟تو ہم چپ رہے،یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ عنقریب آپﷺ اس کے (اصلی)  نام کے سوا کچھ اور (نام اس کا)  بتائیں گے تو آپﷺ نے فرمایا:کیا یہ قربانی کا دن نہیں ہے ؟ہم نے عرض کی کہ ہاں۔ پھر آپ نے پوچھا : یہ کونسا مہینہ ہے ؟تو ہم نے پھر سکوت کیا یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا کہ شاید آپﷺ اس کا نام بدل کر بتائیں گے تو آپ نے فرمایا: کیا یہ ذوالحجہ نہیں ہے ؟ہم نے عرض کی ہاں۔ (اس کے بعد)  آپﷺ نے فرمایا: یقیناً تمہارے خون اور تمہارے مال اور تمہاری عزتیں آپس میں ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارے اس دن میں،تمہارے اس مہینہ میں،تمہارے اس شہر میں حرام (سمجھتے جاتے)  ہیں، چاہیے کہ (جو لوگ)  حاضر (ہیں وہ)  ان کو یہ خبر پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں اس لیے کہ شاید اس وقت سننے والا ایسے شخص کو یہ حدیث پہنچائے جو اس کہیں زیادہ اس کو یاد رکھے۔

 باب :نبیﷺ کا لوگوں کے وعظ اور علم کے لیے وقت اور موقع کا لحاظ رکھنا (ہر وقت اس طرف مشغول نہ رکھنا)  تاکہ وہ بیزار نہ ہو جائیں

(۶۲)۔ سید نا ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ہمیں نصیحت کرنے کے لیے وقت اور موقع کی رعایت فرماتے تھے، ہمارے اکتا جانے کے خیال سے (ہر روز وعظ نہ فرماتے تھے)۔

(۶۳)۔ سید نا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: (دین میں)  آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور (لوگوں کو) خوشخبری سناؤ اور (زیادہ تر ڈرا ڈرا کر انہیں)  متنفر نہ کرو۔

باب :اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے

(۶۴)۔ سیدنا معاویہؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اللہ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اس کو دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور (نبیﷺ نے فرمایا کہ) میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں اور دیتا تو اللہ ہی ہے اور یاد رکھو کہ یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم (دین) پر قائم رہے گی تو جو شخص ان کا مخالف ہو گا ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ قیامت آ جائے۔

باب :(حصول)  علم میں سمجھداری (بہت اعلیٰ چیز ہے)

(۶۵)۔ سید نا ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے پاس تھے کہ آپ کے پاس ایک کھجور کا گابھہ لایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ درختوں میں سے ایک درخت ایساہے۔ ۔ الخ اور پوری حدیث بیان کی۔ (دیکھے حدیث نمبر۵۶) اور اس روایت میں (ابن عمرؓ نے)  اتنا زیادہ کہا کہ میں سب سے چھوٹا تھا اس لیے چپ رہا۔

باب :علم اور حکمت میں غبطہ (رشک)  کرنا (درست ہے)

(۶۶)۔ سید نا عبدا للہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا: حسد (رشک)  جائز نہیں مگر دو شخصوں (کی عادتوں)  پر۔ (۱) اس شخص (کی عادت)  پر جس کو اللہ نے مال دیا ہو اور اس بات کی توفیق و ہمت بھی کہ اسے (راہ)  حق میں صرف کرے (۲) اس شخص (کی عادت)  پر جس کو اللہ نے علم و حکمت عنایت کی ہواور اسکے ذریعہ سے فیصلے (اور عمل)  کرتا ہوا ور (لوگوں)  کو اس کی تعلیم کرتا ہو۔

باب :نبیﷺ کا فرمانا کہ ’’اے اللہ !اس کو کتا ب (قرآن)  کا علم (فہم و فراست)  عنایت فرما۔

(۶۷)۔ سید نا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے مجھے (ایک مرتبہ) اپنے سینے سے لپٹا لیا اور فرمایا : ’’اے اللہ !اس کو (اپنی)  کتاب کا علم فرما۔ ‘‘

 باب :لڑکے کا سماع حدیث کس (کتنی)  عمر سے درست ہے ؟

(۶۸)۔ سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں (ایک مرتبہ)  ایک گدھی پر سوار ہو کر چلا اور اس وقت میں بلوغت کے قریب تھا اور رسول اللہﷺ منیٰ میں بغیر کسی دیوار (سترہ)  کے نماز پڑھ رہے تھے تو میں صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرا  اور میں نے گدھی کو چھوڑ دیا تاکہ وہ چر لے اور میں صف میں شامل ہو گیا،مجھے (کسی نے)  اس بات سے منع نہیں کیا۔

(۶۹)۔ سید نا محمود بن ربیعؓ کہتے ہیں کہ مجھے رسول اللہﷺ کی ایک کلی یاد ہے،جو آپﷺ نے ایک ڈول سے (پانی) لے کر میرے منہ پہ ماری تھی اور میں اس وقت پانچ برس کا تھا۔

باب :اس شخص کی فضیلت (کا بیان)  جو (دین کا علم)  پڑھے اور (دوسروں کو)  پڑھائے

(۷۰)۔ سیدنا ابو موسیٰؓ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا :اس ہدایت اور علم کی مثال،جس کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے،مثل تیز بارش کے ہے جو زمین پر برسے،تو جو زمین صاف ہوتی ہے وہ پانی کو جذب کر لیتی ہے پھر اس سے بہت سارا چارا اور گھاس اگتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی روک لیتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اس لوگوں کو فائدہ پہنچا تا ہے وہ (اس کو)  پیتے ہیں اور (اپنے جانوروں کو) پلاتے ہیں اور زراعت (کو سیراب)  کرتے ہیں اور کچھ بارش (زمین کے) دوسرے حصہ کو پہنچی کہ جو بالکل چٹیل میدان ہے نہ پانی کو روکتا ہے اور نہ سبزہ اُگاتا ہے۔ پس یہی مثال ہے اس شخص کی جو اللہ کے دین کی سمجھ حاصل کی اور جس چیز کے ساتھ مجھے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے،اس کو فائدہ دے اور وہ (اس کو)   پڑھے اور پڑھائے اور مثال اس شخص کی جس نے اس کی طرف سر (تک)  نہ اٹھا یا اور اللہ کی اس ہدایت کو،جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں قبول نہ کیا۔ (بے آب بنجر زمین اور چٹیل میدان کی ہے)۔

باب :علم کا اٹھ جانا اور جہالت کا ظاہر ہونا

(۷۱)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ بے شک (یہ باتیں)  قیامت کی علامات میں سے ہیں کہ علم اٹھ جائے اور جہالت باقی رہ جائے اور شراب نوشی (کثرت سے)  ہونے لگے اور علانیہ زنا ہونے لگے۔ ‘‘

(۷۲)۔ سید نا انسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ (آج)  میں تم (لوگوں)  کو ایک ایسی حدیث بیان کروں گا کہ میرے بعد (شاید)  کوئی تم سے نہ بیان کرے گا۔ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’قیامت کی علامات میں سے (ایک علامت)  یہ ہے کہ علم کم ہو جائے اور جہالت غالب آ جائے اور زنا علانیہ ہونے لگے اور عورتوں کی کثرت ہو جائے اور مردوں کی قلت،یہاں تک کہ پچاس عورتوں کا سرپرست، (کفیل)  صرف ایک مرد ہو گا۔ ‘‘

باب :علم کی فضیلت (کا بیان)

(۷۳)۔ سید نا ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اس حالت میں کہ میں سورہا تھا، (خواب میں)  مجھے ایک پیالہ دو دھ کا دیا گیا، تو میں نے پی لیا، یہاں تک کہ میں یہ سمجھنے لگا کہ سیر ہونے (کے سبب سے رطوبت)  میرے ناخنوں سے نکل رہی ہے، پھر میں نے اپنا بچا ہوا عمر بن خطا ب (رضی اللہ عنہ)  کو دے دیا۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی کہ یا رسول اللہﷺ ! آپ نے اس کی کیا تعبیر لی ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ علم۔ ‘‘

باب :فتویٰ دینا اس حالت میں کہ (فتویٰ دینے والا)  سواری پر سواریااور کسی چیز پر کھڑا ہو

(۷۴)۔ سدینا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ حجۃ الوداع میں لوگوں کے لیے منیٰ میں ٹھہر گئے۔ لوگ آپ سے مسائل پوچھتے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ نادانستگی میں میں نے ذبح کر نے سے پہلے سر منڈوا لیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ (اب)  ذبح کر لے اور کوئی حرج نہیں۔ ‘ ‘ پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے کہا کہ نادانستگی میں میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ (اب)  رمی کر لے اور کوئی حرج نہیں۔ ‘‘ (عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ اس دن)  آپﷺ سے (مناسک حج کی ترتیب کے بارے میں)  جس چیز کی بابت پوچھا گیا، خواہ وہ مقدم کر دی گئی ہو یا مؤخر،تو آپﷺ نے یہی فرمایا : ’’ اب کر لے اور کوئی حرج نہیں۔ ‘‘

باب :جس شخص نے ہاتھ یا سر کے اشارے سے فتویٰ کا جواب دیا

(۷۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ (عنقریب)  علم اٹھا لیا جائے گا اور جہالت اور فتنے غالب ہو جائیں گے اور ہر ج بہت ہو گا۔ ‘‘ عرض کی گئی یا رسول اللہﷺ ہر ج کیا چیز ہے ؟ تو آپﷺ نے اپنے ہاتھ سے ترچھا اشارہ کر کے فرمایا : ’’ اس طرح ! گویا آپﷺ کی مراد (ہرج سے)  قتل تھی۔ ‘‘

(۷۶)۔ سیدنا اسماء بنت ابی بکرؓ کہتی ہیں کہ میں عائشہ صدیقہؓ کے پاس آئی اور وہ نماز پڑھ رہی تھیں، تو میں نے (ان سے)  کہا کہ لوگوں کا کیا حال ہے (کیوں اس قدر گھبرا رہے ہیں) ؟ تو انھوں نے آسمان کی طرف اشارہ کیا (کہ دیکھو آفتاب میں کسوف (گرہن)  ہے) ۔ پھر اتنے میں سب لوگ (نماز کسوف کے لیے)  کھڑے ہو گئے، تو عائشہؓ نے کہا سبحان اللہ۔ میں نے پوچھا کہ (یہ کسوف کیا)  کوئی نشانی ہے ؟ انھوں نے اپنے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں۔ پھر میں بھی (نماز کے لیے)  کھڑی ہو گئی، یہاں تک کہ مجھ پر غشی طاری ہو گئی تو اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی۔ پھر (جب نماز ختم ہو چکی اور کسوف جاتا رہا)  تو نبیﷺ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا : ’’ جو چیز (اب تک)  مجھے نہ دکھائی گئی تھی، اسے میں نے (اس وقت)  اپنی اسی جگہ میں (کھڑے کھڑے)  دیکھ لیا۔ یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو (بھی) ۔ اور میری طرف یہ وحی بھیجی گئی کہ اپنی قبروں میں تمہاری آزمائش ہو گی۔ مسیح دجال کی آزمائش کے مثل یا اسی کے قریب قریب۔ (فاطمہ (راویہ حدیث)  کہتی ہیں کہ مجھے یا د نہیں اسماءؓ نے ان دونوں لفظوں میں سے کیا کہا تھا)  کہا جائے گا کہ تجھے اس شخص سے کیا واقفیت ہے ؟ تو اگر مومن ہے یا موقن، فاطمہ کہتی ہیں کہ مجھے یا د نہیں اسماءؓ نے ان دونوں میں سے کیا کہا تھا)  وہ کہے گا کہ وہ محمدﷺ ہیں اللہ کے پیغمبر۔ ہمارے پاس معجزات اور ہدایت لے کر آئے تھے، لہٰذا ہم نے ان کی بات مانی اور ان کی پیروی کی اور وہ محمدﷺ ہیں (یہ کلمہ)  تین مرتبہ (کہے گا)۔ پس اس سے کہہ دیا جائے گا کہ تو آرام سے سوتا رہ۔ بے شک ہم نے جان لیا کہ تو محمدﷺ پر ایمان رکھتا ہے۔ لیکن منافق یا شک کرنے والا فاطمہ کہتی ہیں کہ مجھے یاد نہیں کہ اسماءؓ نے ان دونوں لفظوں میں سے کیا کہا تھا، کہے گا میں (حقیقت تو)  نہیں جانتا  (مگر)  میں نے لوگوں کو ان کی نسبت کچھ کہتے ہوئے سنا چنانچہ میں نے بھی وہی کہہ دیا

باب :جو مسئلہ درپیش ہو اس (کی تحقیق)  میں سفر کرنا اور اپنے اہل خانہ کو اس علم کا سکھانا

(۷۷)۔ سیدنا عقبہ بن حارثؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے ابو اہاب بن عزیز کی لڑکی سے نکاح کیا، اس کے بعد ایک عورت نے آ کر بیان کیا کہ میں نے عقبہؓ کو اور اس لڑکی کو جس سے عقبہ نے نکاح کیا ہے، دودھ پلایا ہے (پس یہ دونوں رضاعی  بہن بھلائی ہیں ان میں نکاح درست نہیں) ۔ عقبہؓ نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں نہیں جانتا کہ تو نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو (اس سے)  پہلے کبھی مجھے (اس بات کی)  اطلاع دی۔ پھر عقبہ (مکہ سے)  سوار ہو کر رسول اللہﷺ کے پاس مدینہ گئے اور آپﷺ سے (یہ مسئلہ)  پوچھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ (اب)  کس طرح (تم اس سے ازدواجی تعلق قائم رکھو گے)  ؟ حالانکہ (یہ جو)  بیان کیا گیا (اس سے حرمت کا شبہ پیدا ہوتا ہے) ۔ ‘‘ پس عقبہؓ نے اس عورت کو چھوڑ دیا (اور)  اس نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا۔

باب :علم کے حاصل کر نے میں باری مقرر کرنا

(۷۸) ۔ امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ میں اور ایک انصاری میرا پڑوسی بنی امیہ بن زید (کے محلہ)  میں رہتے تھے اور یہ (مقام)  مدینہ کی بلندی پر تھا اور ہم رسول اللہﷺ کے پاس باری بار ی آتے تھے۔ ایک دن وہ آتا تھا اور ایک دن میں۔ جس دن میں آتا تھا، اس دن کی خبر یعنی وحی وغیرہ (کے حالات)  میں اس کو پہنچا دیتا اور جس دن وہ آتا تھا، وہ بھی ایسا ہی کرتا تھا، تو ایک دن اپنی باری سے میرا انصاری دوست (نبیﷺ کی خدمت میں حاضری دیکر واپس)  آیا تو میرے دروازہ کو بہت زور سے کھٹکھٹایا اور (میرا نام لے کر)  کہا کہ وہ یہاں ہیں ؟ میں (ان اضطرابی حرکات سے)  ڈر گیا اور ان کے پاس نکل (کر)  آیا تو وہ بولے کہ (آج)  ایک بڑا واقعہ ہو گیا ہے (یعنی رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے)  میں حفصہ (ام المومنینؓ)  کے پاس گیا تو وہ رو رہی تھیں، میں نے ان سے کہا کہ کیا رسول اللہﷺ نے تم لوگوں کو طلاق دے دی ہے ؟ وہ بو لیں کہ مجھے نہیں معلوم۔ اس کے بعد میں نبیﷺ کے پاس گیا اور کھڑے ہی  کھڑے میں نے عرض کی کہ کیا آپ  نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ نہیں۔ ‘‘ میں نے (اس وقت نہایت تعجب میں آ کر)  کہا: ’’ اللہ اکبر۔ ‘‘ (انصاری کو کیسی غلط فہمی ہوئی ؟)۔

باب :جب (ناصح و معلم)  کوئی ناپسندیدہ بات دیکھے تو غضبناک انداز میں نصیحت و تلقین کر سکتا ہے۔

(۷۹) ۔ سیدنا ابو مسعود انصاریؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے (آ کر)  کہا کہ یا رسول اللہ ! میں عنقریب نماز (جماعت کے ساتھ)  نہ پا سکوں گا۔ کیونکہ فلاں شخص ہمیں بہت طویل نماز پڑھاتا ہے۔ ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ میں نے نصیحت کرنے میں اس دن سے زیادہ کبھی نبیﷺ کو غصہ میں نہیں دیکھا۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے لوگو ! تم (ایسی سختیاں کر کے لوگوں کو دین سے)  نفرت دلانے والے ہو (دیکھو ؟)  جو کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے اسے چاہیے کہ (ہر رکن کے ادا کرنے میں)  تخفیف کرے، اس لیے کہ مقتدیوں میں مریض بھی اور کمزور بھی ہیں اور ضروریات والے بھی۔ ‘‘

(۸۰)۔ سیدنا زید بن خالد جہنیؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ سے ایک شخص نے گری پڑی (لا وارث)  چیز کا حکم پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ اس کی بندش کو پہچان لے۔ ‘‘یا یہ فرمایا : ’’ اس کے ظرف کو اور اس کو تھیلی کو (پہچان لے)  پھر سال بھر اس کی تشہیر کرے (یعنی اس کے اصل مالک کو تلاش کرے)  پھر اس کے بعد (اگر کوئی مالک اس کا نہ ملے تو)  اس سے فائدہ اٹھا لے اور اگر اس کا مالک (سال بعد بھی)  آ جائے تو اسے اس کے حوالے کر دے۔ ‘‘ پھر اس شخص نے کہا کہ کھویا ہوا اونٹ (اگر ملے تو اس کو کیا کیا جائے) ؟تو آپﷺ غضبناک ہوئے یہاں تک کہ آپ  کے دونوں رخسار مبارک سرخ ہو گئے یا (راوی نے کہا کہ)  آپ  کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپﷺ فرمایا : ’’ تجھے اس اونٹ سے کیا مطلب ؟ اس کی مشک اور اس کا پاپوش اس کے ساتھ ہے، پانی پر پہنچے گا (تو پانی پی لے گا)  اور درخت (کے پتے)  کھا لے گا، لہٰذا اسے چھوڑ دے، یہاں تک کہ اس کو اس کا مالک مل جائے۔ ‘‘ پھر اس شخص نے کہا کہ کھوئی ہوئی بکری (کا پکڑ لینا کیسا ہے)  ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ (اس کو پکڑ لو کیونکہ وہ)  تمہاری ہے یا تمہارے بھائی کی یا (اگر کسی کے ہاتھ نہ لگی تو)  پھر بھیڑیے کی۔ ‘‘

(۸۱)۔ سیدنا ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ)  نبیﷺ سے چند باتیں پوچھی گئیں جو آپ کے خلاف مزاج تھیں۔ (تو آپﷺ نے کچھ جواب نہ دیا مگر)  جب (ان سوالات کی)  آپ کے سامنے بھر مار کر دی گئی تو آپ  کو غصہ آگیا اور آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو کچھ چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ ‘‘ تو ایک شخص نے کہا کہ میرا باپ  کون ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ تیرا باپ حذافہ ہے۔ ‘‘ پھر دوسرا شخص کھڑا ہو اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میرا باپ کون ہے ؟ تو آپ  نے فرمایا : ’’ تیرا باپ سالم ہے، شیبہ کا غلام۔ ‘‘ پھر جب عمرؓ نے آپﷺ کے چہرہ مبارک پر آثار غضب دیکھے تو انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! ہم اللہ بزرگ وبرترسے توبہ کرتے ہیں (یعنی اب کبھی اس قسم کے سوالات آپﷺ سے نہ کریں گے) ۔

باب :جس شخص نے ایک بات کی تین مرتبہ تکرار کی تا کہ خوب سمجھ لی جائے

(۸۲) ۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ جب کوئی بات کہتے تو تین مرتبہ اس کی تکرار کرتے تا کہ (اس کا مطلب اچھی طرح)  سمجھ لیا جائے۔ جب چند لوگوں کے پاس تشریف لاتے تو ان کو سلام کرتے تو تین مرتبہ سلام کرتے۔

باب :مرد کا اپنی لونڈی اور اپنے گھر والوں کو تعلیم دینا

(۸۳)۔ سیدنا ابوموسیٰؑ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تین شخص ایسے ہیں جن کے لئے دو گنا ثواب ہے۔ (۱) وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو وہ، اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور (پھر)  محمدﷺ پر بھی ایمان لائے (۲)  مملوک غلام، جب کہ وہ اللہ کے حق کو اور اپنے مالکوں کے حق کو ادا کر تا رہے ؟ (۳)۔ وہ شخص جس کے پاس اس کی لونڈی ہو، اس نے اسے ادب سکھایا اور عمدہ تربیت کی اور اسے اچھی و عمدہ تعلیم دی پھر اسے آزاد کر دیا اور اس سے نکاح کر لیا، پس اس کے لیے دو گنا ثواب ہے۔

باب : امام کا عورتوں کو نصیحت کرنا اور ان کو تعلیم دینا

(۸۴)۔ سیدنا ابن عبا سؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ (عید کے دن مردوں کی صف سے عورتوں کی طرف)  نکلے اور آپ کے ہمراہ سیدنا بلالؓ تھے۔ آپﷺ نے یہ گمان کیا کہ (شاید)  عورتوں نے (خطبہ صحیح طرح)  نہیں سنا، تو آپ نے انھیں نصیحت فرمائی اور انھیں صدقہ (دینے)  کا حکم دیا۔ پس (کوئی)  عورت بالی اور (کوئی)  انگوٹھی ڈالنے لگی (کوئی کچھ اور)  اور بلالؓ اپنے کپڑے کے دامن میں سمیٹے لگے۔

باب :حدیث (نبویﷺ کے سننے)  پر حرص کرنا

(۸۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں (ابوہریرہؓ)  نے کہا یا رسول اللہ ! قیامت کے دن سب لوگوں سے زیادہ بہرہ مند آپ کی شفاعت سے کون ہو گا ؟ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ بے شک مجھے یقین تھا کہ اے ابوہریرہ ! تم سے پہلے کوئی یہ بات مجھ سے نہ پوچھے گا، اس وجہ سے کہ میں نے تمہاری حرص حدیث  (کے دریافت کرنے)  پر دیکھ لی ہے۔ تو (سن لو !)  سب سے زیادہ بہر مند میری شفاعت سے قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جو اپنے خالص دل سے یا اپنے خالص جی سے لا الہ الا اللہ کہہ دے۔ ‘‘

 باب :(قیامت کے قریب)  علم کس طرح اٹھا لیا جائے گا ؟

(۸۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھاتا کہ بندوں (کے سینوں)  سے نکال لے، بلکہ علماء کو موت دے کر علم کو اٹھاتا ہے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار (مفتی و پیشوا)  بنا لیں گے اور ان سے (دینی مسائل)  پوچھے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے (خود بھی)  گمراہ ہوں گے اور (دوسروں کو بھی)  گمراہ کریں گے۔ ‘‘

باب :کیا (صرف)  عورتوں کو تعلیم کے لیے کوئی دن مقرر کیا جا سکتا ہے ؟

(۸۷)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ عورتوں نے عرض کی کہ (آپ سے فائدہ اٹھا نے میں)  مرد ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں، پس آپ ہمارے لیے اپنی طرف سے کوئی دن (برائے وعظ)  مقرر فرما دیجیے تو آپ نے ان سے کسی دن کا وعدہ کر لیا۔ چنانچہ اس دن آپ ان سے ملے اور انھیں نصیحت فرمائی اور (ان کے مناسب حال عبادت کا)  انھیں حکم دیا، منجملہ اس کے جو آپ نے (ان سے)  فرمایا، یہ تھا کہ جو عورت تم میں سے اپنے تین لڑکے آگے بھیج دے گی (یعنی اس کے تین لڑکے اس کے سامنے مر جائیں گے)  تو وہ اس کے لیے (دوزخ کی)  آگ سے حجاب (آڑ)  ہو جائیں گے۔ ‘‘ ایک عورت بولی اور (اگر کوئی)  دو (لڑکے آگے بھیجے ؟)  تو آپ نے فرمایا : ’’ اور دو (کا بھی یہی حکم ہے)  اور سیدنا ابوہریرہؓ کی روایت میں ہے کہ تین لڑکے (ایسے ہوں)  جو بلوغت (کی عمر)  کو نہ پہنچے ہوں۔

باب :جس نے کوئی بات سنی اور سمجھ نہ سکا پھر اس نے دوبارہ پوچھا تا کہ اسے سمجھ لے

(۸۸) ۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ)  نبیﷺ نے فرمایا : ’’ (قیامت میں)  جس کا حساب لیا گیا، اسے (ضرور)  عذاب کیا جائے گا۔ ‘‘ عائشہؓ کہتی ہیں (یہ سنکر)  میں نے کہا کہ کیا اللہ پاک  نہیں فرماتا ’’عنقریب اس سے آسان حساب لیا جائے گا ‘‘ (الانشقاق :۸)۔ (معلوم ہوا کہ آسان حساب کے بعد عذاب کا ہونا کچھ ضروری نہیں)  تو آپ نے فرمایا : ’’ یہ (حساب جس کا ذکر اس آیت میں ہے در حقیقت حساب نہیں ہے بلکہ اعمال کا)  صرف پیش کر دینا ہے لیکن جس شخص سے حساب میں جانچ پڑتال کی گئی تو وہ (یقیناً)  ہلاک ہو گا۔ ‘‘

باب :جو شخص (محفل میں)  موجود ہو،وہ علمی بات غیر حاضر لوگوں تک پہنچا دے

(۸۹)۔ سیدنا ابو شریحؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فتح مکہ کے دوسرے دن بیان فرمایا تھا، جس کو میرے دونوں کانوں نے سنا ہے اور اس کو میرے دل نے یاد رکھا ہے اور جب آپﷺ نے اس (خطبہ)  کو بیان فرمایا تو میری آنکھیں آپ کو دیکھ رہی تھیں۔ آپ نے اللہ کی حمد و ثنا بیان فرمائی پھر فرمایا : ’’ مکہ (میں جنگ و جدل وغیرہ)  کو اللہ نے حرام کیا ہے، اسے لوگوں نے حرام نہیں کیا۔ پس جو شخص اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو، تو اس کو جائز نہیں کہ مکہ میں خونریزی کرے اور نہ (یہ جائز ہے کہ)  وہاں کوئی درخت کاٹے، پھر اگر کوئی شخص رسول اللہﷺ کے مکہ میں لڑنے سے (ان چیزوں کا) جواز بیان کرے تو اس سے کہہ دینا کہ اللہ نے اپنے رسول اللہ (ﷺ)  کو اجازت دے دی تھی اور تمہیں اجازت نہیں دی اور مجھے بھی صرف ایک گھڑی بھر دن کی وہاں اجازت دی تھی،پھر آج اس کی حرمت (حسب سابق)  ویسی ہو گئی ہے جیسے کل تھی، پس حاضر کو چاہیے کہ وہ غائب کو (یہ خبر)  پہنچا دے۔ ‘‘

باب : اس شخص کا گناہ جو نبیﷺ کی نسبت جھوٹ بولے

(۹۰)۔ سیدنا علیؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ میرے اوپر ہر گز جھوٹ نہ بولنا، کیونکہ جو شخص مجھ پر جھوٹ بولے تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنا لے۔ ‘‘

(۹۱)۔ سیدنا سلمہ ابن اکوعؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ جو کوئی میری نسبت وہ بات بیان کرے جو میں نے نہیں کہی تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کر لے۔ ‘‘

(۹۲)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ میرا نام رکھ لو مگر میری کنیت (میری زندگی میں، جو القاسم ہے)  نہ رکھو اور (یقین کر لو کہ)  جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو یقیناً اس نے مجھے دیکھ لیا، اس لیے کہ شیطان میری شکل و شباہت اختیار نہیں کر سکتا صورت نہیں بن سکتا اور جو شخص عمداً میرے اوپر جھوٹ بولے تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ آگ میں تلاش کر لے۔

باب : علم (کی باتوں)  کا لکھنا (بدعت نہیں ہے)

(۹۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے مکہ سے فیل (ہاتھیوں کے لشکر)  کو یا قتل کو روک لیا اور رسول اللہﷺ اور مومنین کو ان پر غالب کر دیا۔ آگاہ رہو مکہ (میں قتال کرنا)  نہ مجھ سے پہلے کسی کے لیے حلال ہوا ہے اور نہ میرے بعد کسی کے لیے حلال ہو گا۔ آگاہ رہو وہ میرے لیے ایک گھڑی بھر دن میں حلال ہو گیا تھا، آگاہ رہو (اب)  وہ اس وقت حرام ہے۔ اس کا کاٹنا نہ تو ڑا جائے اور اس کا درخت نہ کاٹا جائے اور اس کی گری ہوئی چیز سوائے اعلان کرنے والے کے کوئی نہ اٹھائے (یعنی جو اس کے اصل مالک کو ڈھونڈے اور یہ چیز اس کے حوالے کر ے)  اور جس کسی کا کوئی (عزیز)  قتل کیا جائے تو اسے (ان)  دو صورتوں  میں سے ایک کا اختیار ہے یا اس کو دیت دلا دی جائے یا قصاص لیا جائے (قاتل مقتول کے ورثاء کے حوالے کیا جائے)۔ ‘‘ اتنے میں ایک شخص اہل یمن میں سے آگیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ! (یہ خطبہ)  میرے لیے لکھ دیجیے۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ ابو فلاں کے لیے لکھ دو۔ ‘‘ پھر قریش کے ایک شخص نے کہا کہ (یا رسول اللہ!)  اذخر (گھاس)  کے سوا (اور چیزوں کے کاٹنے کی ممانعت فرمائیے اور اذخر کی ممانعت نہ فرمائیے)  اس لیے کہ ہم اس کو اپنے گھروں اور قبروں میں لگاتے ہیں، تو نبیﷺ نے فرمایا ُ: ’’ (ہاں)  اذخر کے سوا (اور اشیاء کاٹنے کی ممانعت ہے) ۔ ‘‘

(۹۴)۔ سیدنا ابن عبا سؓ سے روایت ہے کہ جب نبیﷺ کا مرض سخت ہو گیا تو آپ نے فرمایا : ’’ میرے پاس لکھنے کی چیزیں لاؤ تا کہ میں تمہارے لیے ایک نوشتہ لکھ دوں کہ اس کے بعد پھر تم گمراہ نہ ہو گے۔ ‘‘ سیدنا عمر بن الخطابؓ نے کہا کہ نبیﷺ پر مرض غالب ہے (طبیعت انتہائی نا ساز ہے)  اور چونکہ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کی کتاب موجو د ہے تو وہی ہمیں کا فی ہے۔ پھر صحابہؓ نے اختلاف کیا یہاں تک کہ شور بہت ہو گیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ میرے پاس سے اٹھ جاؤ اور میرے پاس تنازع (کھڑا)  کر نے کا کیا کام ؟‘‘

باب : رات کے وقت تعلیم و تلقین (درست ہے)

(۹۵)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ ایک رات نبیﷺ نیند سے بیدار ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ سبحان اللہ آج کی رات کس قدر فتنے نازل کیے گئے ہیں اور کس قدر خزانے کھولے گئے ہیں۔ (اے لوگو!)  ان حجرہ والیوں کو جگا دو (کہ کچھ عبادت کریں)  کیونکہ بہت سی دنیا میں پہننے والی ایسی ہیں جو (اعمال نہ ہو نے کے سبب)  آخرت میں برہنہ ہوں گی۔ ‘‘

باب :رات کو علم کی باتیں کرنا (نا جائز نہیں)

(۹۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (ایک مرتبہ)  اپنی اخیر عمر مبارک میں عشاء کی نماز پڑھائی پھر جب سلام پھیر چکے تو کھڑے ہو گئے اور فرمایا : ’’ تم اپنی اس رات کو اچھی طرح یاد رکھنا (دیکھو)  آج کی رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے باقی نہ رہے گا۔ ‘‘

(۹۷) ۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ میں ایک شب اپنی خالہ ام المومنین میمونہ بنت حارث زوجۂ نبیﷺ کے گھر میں سویا اور نبیﷺ (اس دن)  ان کی شب میں انھیں کے ہاں تھے۔ پس نبیﷺ نے عشاء کی نماز (مسجد میں)  پڑھی پھر اپنے گھر میں آئے اور چادر رکعتیں پڑھیں اور سور ہے پھر بیدار ہوئے اور فرمایا : ’’ چھوٹا لڑکا سو گیا ؟ ‘‘ یا اسی کی مثل کوئی لفظ فرمایا پھر (نماز پڑھنے)  کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے)  آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنی داہنی جانب کر لیا اور پانچ رکعتیں پڑھیں اس کے بعد دو رکعتیں (سنت فجر)  پڑھیں پھر سو رہے یہاں تک کہ آپﷺ کے خراٹے لینے کی آواز میں نے سنی پھر آپ نماز (فجر)  کے لیے (مسجد تشریف لے گئے) ۔

باب : علم (کی باتوں)  کا یاد کرنا (نہایت ضروری ہے)

(۹۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہؓ نے بہت سی حدیثیں یاد و بیان کیں اور اگر کتاب اللہ میں (یہ)  دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں ایک حدیث بھی نہ بیان کر تا، پھر پڑھتے تھے ’’ جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں۔ ۔ ۔ رحم و کرم کرنے والا ہوں۔ ‘‘ (البقرہ :۱۵۹، ۱۶۰) بیشک ہمارے مہاجرین بھائیوں کو بازاروں میں خریدو فروخت کرنے کا شغل رہتا تھا اور ہمارے انصاری بھائی اپنے مال کے کام میں مشغول رہے تھے اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ)  اپنا پیٹ بھر کے رسول اللہﷺ کی خدمت میں رہتا تھا اور ایسے اوقات میں حاضر رہتا تھا کہ لوگ حاضر نہ ہوتے تھے اور وہ باتیں یاد کر لیتا تھا جو وہ لوگ نہ یاد کرتے تھے۔

(۹۹) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ میں آپ سے بہت سی حدیثیں سنتا ہوں مگر انھیں بھول جاتا ہوں، تو آپ نے فرمایا : ’’ اپنی چادر پھیلاؤ۔ ‘‘ چنانچہ میں نے چادر پھیلائی تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھ سے چلو بنایا (اور ایک فرضی لپ اس چادر میں ڈال دی)  پھر فرمایا : ’’ (اس چادر کو)  اپنے اوپر لپیٹ لو۔ ‘‘ چنانچہ میں نے لپیٹ لی پھر اسکے بعد میں کچھ نہیں بھولا۔

(۱۰۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دو ظرف (علم کے، دو طرح کے علم)  یا د کر لیے ہیں چنانچہ ان میں سے ایک تو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو اگر ظاہر کروں تو میری یہ گردن کاٹ دی جائے گی۔

باب :علماء (کی باتیں سننے)  کے لیے چپ رہنا (چاہیے)

(۱۰۱)۔ سیدنا جریرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ان سے حجۃ الوداع میں فرمایا : ’’ تم لوگوں کو چپ کر دو۔ ‘‘ (جب لوگ خاموش ہو گئے تو)  اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا : ’’ (اے لوگو !)  تم میرے بعد کافر نہ ہو جانا کہ تم میں سے ایک دوسرے کو گردن زدنی کرنے لگے۔ ‘‘

باب :عالم کو کیا چاہیے کہ جب کہ اس سے پوچھا جائے کہ تم لوگوں میں زیادہ جاننے والا (عالم)  کون ہے ؟ تو وہ علم کی نسبت اللہ کی طرف کر دے

(۱۰۲)۔ سیدنا ابی بن کعبؓ نے نبیﷺ سے روایت کی ہے، آپﷺ فرماتے ہیں : ’’ موسیٰؑ (ایک دن)  بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی ؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، تم میں بڑا عالم ہے۔ موسیٰؑ کہنے لگے اے میرے پروردگار ! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو)  پھر جب (جس مقام پر)  مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ)  وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰؑ چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر)  کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر)  رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں)  مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے)  موسیٰ   ؑاور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰؑ نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا)  بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ  ؑجب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی) ۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا)  ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی)  بھول گیا۔ موسیٰؑ کے کہا یہی وہ (مقام)  ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لو ٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ)  ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا)  بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰؑ نے انھیں سلام کیا تو خضرؑ نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا ؟ تو انھوں نے کہا  کہ میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں)  موسیٰ  (علیہ السلام)  ہوں۔ خضرؑ نے کہا بنی اسرئیل کے موسیٰ ؟ (علیہ السلام)  انھوں نے کہا ’’ہاں ‘‘ موسیٰؑ نے کہا کیا میں اس (امید)  پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی سکھادو ؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر)  ہر گز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ! بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع)  ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع)  ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰؑ نے کہا ان شاء اللہ تم مجھے صبر کر نے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضرؑ راضی ہو گئے)  پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور)  ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر)  گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام)  پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کر ایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثنا ء میں)  ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر (علیہ السلام)  بولے کہ اے موسیٰ ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر (علیہ السلام)  نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰؑ کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے)  بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تا کہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضر (علیہ السلام)  نے کہا ’’ کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کرسکو گے۔ ‘‘ موسیٰؑ نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجیے نبیﷺ نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰؑ سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر)  چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام)  نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰؑ نے کہا کہ ایک بے گناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر (علیہ السلام)  نے کہا : کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر)  ہر گز صبر نہ کرسکو گے ؟‘‘ ابن عینیہ (راویِ حدیث) نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت)  اس میں زیادہ تاکید تھی۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے (صاف)  انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر (علیہ السلام)  نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر)  موسیٰؑ نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام)  بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر)  ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبیﷺ نے (اس قدر بیان فرما کر)  ارشاد فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ موسیٰؑ پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰؑ صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔ ‘‘

باب :جس شخص نے کھڑے ہو کر کسی بیٹھے ہوئے عالم سے (کوئی مسئلہ)  دریافت کیا

(۱۰۳)۔ سیدنا ابو موسیٰؑ کہتے ہیں کہ ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ اللہ کی راہ میں لڑنے سے کیا مراد ہے ؟ اس لیے کہ کوئی ہم میں سے غصہ کے سبب سے لڑتا ہے اور کوئی (ذاتی وگر وہی)  حمیت کی خاطر جنگ کرتا ہے۔ پس آپﷺ نے اپنا سر (مبارک)  اس کی طرف (متوجہ ہونے کے لیے)  اٹھایا اور (راوی کہتا ہے کہ)  آپﷺ نے سر اسی سبب سے اٹھایا چونکہ وہ کھڑا ہو ا تھا، پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اس لیے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو جائے (اور اس کا بول بالا ہو)  تو وہ اللہ کی راہ میں (لڑتا)  ہے۔ ‘‘

باب :اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’ اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔ ‘‘ (بنی اسرائیل : ۷۵)

(۱۰۴) ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ اس حالت میں کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ مدینہ کے کھنڈروں میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی ایک چھڑی کو (زمین)  پر ٹکا کر چل رہے تھے کہ اتنے میں یہود کے کچھ لوگوں کے پاس سے آپﷺ گزرے، تو ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپﷺ سے روح کی بابت سوال کرو۔ اس پر بعض نے کہا کہ نہ پوچھو، ایسا نہ ہو کہ اس کے جواب میں آپ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار لگے۔ پھر بعض نے کہا کہ ہم تو ضرور پوچھیں گے۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہو گیا کہ اور کہنے لگا کہ اے ابو القاسم ! روح کیا چیز ہے ؟ آپﷺ نے سکوت فرمایا۔ (ابن مسعودؓ کہتے ہیں)  میں نے (اپنے دل میں)  کہا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے۔ لہٰذا میں کھڑا ہو گیا۔ پھر جب وہ کیفیت آپﷺ سے دور ہوئی تو آپ نے فرمایا : ’’ اور یہ لوگ آپ (ﷺ)  سے روح کی بابت سوال کرتے ہیں، تو آپ انھیں جواب دیجیے کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں بہت ہی کم علم دیا گیا ہے۔ ‘‘

باب :اس بات کو برا سمجھ کر کہ وہ لوگ نہ سمجھیں گے جس شخص نے ایک قوم کو چھوڑ کر دوسری قوم کو علم (کی تعلیم)  کے لیے مخصوص کر لیا۔

(۱۰۵)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے اس حال میں کہ سیدنا معاذؓ سواری پر آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے۔ فرمایا : ’’ اے معاذ بن جبل !‘‘ انھوں نے عرض کی حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ ! اور مستعد ہوں۔ (پھر)  آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ اے معاذ‘‘! انھوں نے عرض کی حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ اور مستعد ہوں۔ (پھر)  آپ نے فرمایا : ’’ اے معاذ !‘‘ انھوں نے عرض کی کہ حاضر ہوں یا رسول اللہﷺ اور مستعد ہوں۔ ’’ تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا)  پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں ‘‘ تو اللہ اس پر (دوزخ کی)  آگ حرام کر دیتا ہے۔ ‘‘ معاذؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کر دوں تاکہ وہ (بھی)  خوش ہو جائیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس وقت (جب تم ان کو خبر کرو گے)  تو لوگ (اسی پر)  بھروسہ کر لیں گے (اور عمل سے باز رہیں گے) ۔ ‘‘  اور معاذؓ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت (علم کو چھپانے کے)  گناہ خوف سے بیان کر دی۔

باب :علم میں شرما نا (بری بات ہے)

(۱۰۶)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ ام سلیم، رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں کہ یا رسول اللہ ! اللہ حق بات سے نہیں شرماتا تو (یہ بتائیے کہ)  کیا عورت پر جبکہ وہ محتلم ہو غسل (فرض)  ہے ؟ تو نبیﷺ نے فرمایا (ہاں)  جب کہ وہ پانی (یعنی منی)  کو (اپنے کپڑے یا شرمگاہ پر)  دیکھے تو ام سلمہؓ نے (مارے شرم کے)  اپنا منہ چھپا لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں تمہارا داہنا ہاتھ خاک آلود ہو جائے (اگر عورت کی منی نہیں خارج ہوتی)  تو اس کا لڑکا اس کے مشابہ کیوں ہوتا ہے ؟

باب :جو شخص خود شرمائے اور دوسرے کو (مسئلہ)  پوچھنے کا حکم دے

(۱۰۷)۔ سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ میری مذی بہت نکلا کرتی تھی تو میں نے مقداد بن اسودؓ سے کہا کہ وہ نبیﷺ سے (اس کا حکم)  پوچھیں۔ چنانچہ انھوں نے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا: ’’ اس (کے نکلنے)  میں صرف وضو (فرض ہوتا)  ہے۔ ‘‘

باب :مسجد میں علم کا ذکر کرنا اور فتویٰ صادر کرنا

(۱۰۸)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ ہمیں احرام باندھنے کا کس مقام سے حکم دیتے ہیں ؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’ مدینہ کے لوگ ذوالحلفیہ سے احرام باندھیں اور شام کے لوگ حجفہ سے احرام باندھیں اور نجد کے لوگ مقام قرن سے احرام باندھیں۔ ‘‘ سیدنا ابن عمرؓ نے کہا، لو گ گمان کرتے ہیں رسول اللہﷺ نے (یہ بھی)  فرمایا کہ یمن کے لوگ یلملم سے احرام باندھیں۔ ‘‘ اور ابن عمرؓ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہﷺ سے صاف اور صحیح طور پر یہ بات نہیں سنی۔

باب :جو شخص سائل کو اس سے کہیں زیادہ بتا دے جس قدر اس نے پوچھا ہے

(۱۰۹)۔ سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپﷺ سے پوچھا کہ محرم (حج و عمرہ کرنے والا)  کیا پہنے ؟ تو آپ نے فرمایا : ’’ نہ کرتا پہنے اور نہ عمامہ اور نہ پائجامہ اور نہ ٹوپی اور نہ کوئی ایسا کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگ گئی ہو، پھر اگر نعلین (چپلیں)  نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انھیں کا ٹ دے تا کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

وضو کا بیان

 

باب :کوئی نماز طہارت (وضو)  کے بغیر قبول نہیں ہوتی

(۱۱۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا جو شخص حدث کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی یہاں تک کہ وہ وضو کر لے۔ حضر موت (شہر)  کے ایک شخص نے پوچھا کہ اے ابوہریرہؓ ! ’’ حدث ‘‘ کیا چیز ہے ؟انھوں نے جواب دیا ’’ بے آواز یا با آواز ریح خارج ہو نا۔ ‘‘

باب :وضو کی فضیلت (کا بیان)

(۱۱۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ۔ : ’’ میری امت کے لوگ قیامت کے دن بلائے جائیں گے، درآنحالیکہ وضو کے نشانات کے سبب ان کے بعض اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ وضو کر نے کے سبب چمک رہے ہوں گے۔ پس تم میں سے جو کوئی چمک و سفید ی بڑھانا چاہے تو بڑھا لے۔ ‘‘

باب :(محض)  شک سے وضو نہ کرے تاوقتیکہ (وضو ٹوٹنے کا)  یقین نہ ہو جائے

(۱۱۲)۔ سیدنا عبداللہ بن زید الانصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے سامنے ایک ایسے شخص کی حالت بیان کی گئی جس کو خیال بندھ جاتا ہے کہ نماز میں وہ کسی چیز (یعنی ہوا)  کو (نکلتے ہوئے)  محسوس کر رہا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ وہ (نماز سے لوٹے نہیں یا پھرے نہیں یہاں تک کہ (خروج ریح کی)  آواز سن لے یا بو پائے۔ ‘‘

باب :ہلکا وضو کرنا

(۱۱۳)۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ ایک  رات میں اپنی خالہ ام المومنین میمونہؓ کے ہاں ٹھہرا۔ جب رات کا کچھ حصہ گزرا تو نبیﷺ بیدار ہوئے اور آپﷺ نے ایک لٹکی ہوئی مشک سے ہلکا سا وضو کیا۔ ۔ ۔ (پھر آپﷺ نے تہجد کی نماز ادا فرمائی۔ ۔ ۔ یہ حدیث متعدد ابواب میں ہے) ۔

باب :وضو بہ کمال و تمام (اعضاء کا پورا دھونا)

(۱۱۴)۔ سیدنا اسامہ بن زیدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے عرفہ سے چلے یہاں تک کہ جب گھاٹی میں پہنچے تو اترے اور پیشاب کیا پھر وضو کیا، مگر و ضو پورا نہیں کیا۔ تو میں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ نماز (کا وقت قریب آگیا) ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ نماز تمہارے آگے ہے (یعنی مزدلفہ میں پڑھیں گے) ۔ ‘‘

پھر جب مزدلفہ آگیا تو آپﷺ اترے اور پورا وضو کیا پھر نماز کی اقامت کہی گئی اور آپﷺ نے مغرب کی نماز پڑھی (پڑھائی)  اس کے بعد ہر شخص نے اپنے اونٹ کو اپنے مقام پر بٹھا دیا پھر عشاء کی نماز کی اقامت کہی گئی اور آپﷺ  نے (نماز)  پڑھی (پڑھائی)  اور دونوں کے درمیان میں کوئی (نفل)  نماز نہیں پڑھائی۔

باب :منہ کا دونوں ہاتھوں سے دھونا صرف ایک چلو سے (بھی ثابت ہے)

(۱۱۵) ۔ سیدنا ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے وضو کیا، چنانچہ پانی کا ایک چلو لے کر اسی سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر ایک چلو پانی لیا اور اسے طرح کیا یعنی دونوں ہاتھوں کو آپس میں ملایا اس لپ سے منہ  دھویا، پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنا داہنا ہاتھ دھویا،  پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنا بایاں ہاتھ دھویا، (کہنی تک) ، پھر ایک چلو پانی لیا اور اپنے داہنے پاؤں پر ڈالا یہاں تک کہ اسے دھو ڈالا، پھر دوسرا چلو پانی کا لیا اور اس سے اپنے بائیں پیر کو دھویا، پھر (ابن عباسؓ نے)  کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا۔

باب :بیت الخلاء (جانے) کے وقت کیا کہے ؟

( ۱۱۶)۔ سیدنا انسؓ سے کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب بیت الخلاء میں داخل ہوتے تو کہتے ’ ’اے اللہ میں خبیث جنوں اور جنیوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

باب :پاخانہ (جانے)  کے وقت پانی رکھ دینا

(۱۱۷)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ)  نبیﷺ بیت الخلاء میں داخل ہوئے تو میں نے آپﷺ کے وضو کے لیے پانی رکھ دیا۔ (جب آپﷺ وہاں سے نکلے تو)  فرمایا : ’’ یہ پانی کس نے رکھا ہے ؟‘‘ آپﷺ کو بتلایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے اللہ اسے دین کی سمجھ عنایت فرما۔ ‘‘

باب :پاخانہ پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف منہ نہ کیا جائے

(۱۱۸)۔ سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم میں سے کوئی بیت الخلاء میں جائے تو قبلہ کی طرف منہ نہ کرے اور نہ اس کی طرف پشت کرے۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرو۔ (ان ممالک میں جہاں قبلہ مغربی سمت پڑتا ہے، شمالاً جنوباً کیا جائے) ۔

باب :جس شخص نے دو اینٹوں پر (بیٹھ کر)  قضائے حاجت کی

(۱۱۹)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہا کرتے تھے کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم اپنی قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ بیت المقدس کی طرف۔ مگر میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہﷺ کو (قضائے)  حاجت کے لیے دو اینٹوں پر بیٹھے ہوئے بیت المقدس کی جانب منہ کیے ہوئے دیکھا۔

باب :عورتوں کا پاخانہ کے لیے گھر سے باہر جانا (جائز ہے)

(۱۲۰)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہ  طیبہ طاہرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کی بیویاں رات کو جب پاخانہ کے لیے گھر سے باہر جاتی تھیں، تو مناصع کی طرف نکل جاتی تھیں اور مناصع (کے معنی ہیں)  فراخ ٹیلہ، سیدنا عمرؓ نبیﷺ سے کہا کرتے تھے کہ آپﷺ اپنی بیویوں کو پردہ کرائیے مگر رسول اللہﷺ (ایسا)  نہ کرتے تھے۔ تو ایک شب عشاء کے وقت ام المومنین سودہؓ (یعنی)  نبیﷺ کی بیوی باہر نکلیں اور وہ دراز قد عورت تھیں تو انھیں عمرؓ نے محض اس خواہش سے کہ پردہ (کا حکم)  نازل ہو جائے، پکارا کہ آگاہ ہو اے سودہؓ ! ہم نے تمہیں پہچان لیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے پردہ (کا حکم)  نازل فرما دیا۔

باب :پانی سے استنجا ء کر نا (بھی سنت ہے)

(۱۲۱)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب اپنی حاجت کے لیے نکلتے تھے تو میں اور ایک اور لڑکا (دونوں)  آپﷺ کے پیچھے جاتے تھے اور ہمارے ساتھ پانی کا ایک ظرف (برتن)  ہوتا تھا۔

باب :استنجاء خانہ میں (جانے کے لیے)  پانی کے ساتھ نیزہ یا برچھی بھی لے جانا

(۱۲۲)۔ (سیدناا نسؓ سے ہی)  دوسری روایت میں مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ قضائے حاجت کے لیے جاتے تو میں اور ایک اور لڑکا پانی کا ایک ظرف اور چھوٹا نیزہ اٹھا لیتے، پانی سے آپﷺ استنجاء فرماتے تھے۔

باب :داہنے ہاتھ سے استنجاء کر نے کی ممانعت (ہے)

(۱۲۳) ۔  ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی تم میں سے پانی پئے تو برتن میں سانس نہ لے اور جب پاخانے کے لیے جائے تو اپنی شرمگاہ کو اپنے داہنے ہاتھ سے نہ چھوئے نہ ہی اپنے داہنے ہاتھ سے استنجا ء کرے۔

باب :ڈھیلوں سے استنجاء کرنا (بھی مسنون ہے)

(۱۲۴)۔ ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پیچھے پیچھے چلا اور آپﷺ اپنی حاجت (رفع کرنے)  کے لیے نکلے تھے اور آپﷺ (کی عادت تھی کہ)  ادھر ادھر نہ دیکھتے تھے، تو میں آپﷺ سے قریب ہو گیا۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ مجھے پتھر تلاش کر دو تا کہ میں اس سے پاکی حاصل کروں۔ ‘‘ (یا اسی کے مثل (کوئی اور لفظ)  فرمایا) ’’ اور ہڈی میرے پاس نہ لانا اور نہ گوبر۔ ‘‘ چنانچہ میں اپنے کپڑے کے دامن میں پتھر (رکھ کر) آپﷺ کے پاس لے گیا اور ان کو میں نے آپﷺ کو پہلو میں رکھ دیا اور میں آپﷺ کے پاس سے ہٹ آیا۔ پس جب آپﷺ قضائے حاجت کر چکے تو پتھروں کو استعمال کیا۔

باب :گوبر سے استنجا ء کی ممانعت

(۱۲۵)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ پاخانہ کے لیے گئے اور مجھے حکم دیا کہ میں تین پتھر آپﷺ کے پاس لے آؤں۔ دو پتھر تو میں نے پائے اور تیسرے کو تلاش کیا مگر نہ پایا، تو میں نے ایک ٹکڑا (خشک)  گوبر کا لے لیا اور وہ آپﷺ کے پاس لے آیا۔ آپﷺ نے دونوں پتھر لے لیے اور گوبر گرا دیا اور فرمایا کہ یہ نجس ہے۔

باب :وضو میں اعضاء کا ایک ایک مرتبہ (دھونا)

(۱۲۶)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے وضو کیا اور ہر عضو کو ایک ایک مرتبہ دھویا۔

باب :وضو میں اعضا ء کا دو دو مرتبہ (دھونا بھی آیا ہے)

(۱۲۷)۔ سیدنا عبداللہ بن زید انصاریؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے وضو فرمایا اور ہر عضو کو دو دو مرتبہ دھویا۔

 باب :وضو میں اعضا ء کا تین تین بار (دھونا بھی آیا ہے)

(۱۲۸)۔ (عروہ رحمہ اللہ راوی ہیں کہ)  سیدنا عثمان بن عفانؓ نے پانی کا ایک برتن منگوایا اور اپنی ہتھیلیوں پر تین بار پانی ڈلا اور ان کو دھویا۔ (پھر چلو میں پانی لیا)  اور کلی کی اور ناک صاف کی۔ پھر اپنے چہرے کو تین مرتبہ اور دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پیر ٹخنوں تک تین بار دھوئے۔ پھر کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے : ’’ جو کوئی میرے اس وضو کی مثل وضو کرے اور اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور ان میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں کر دیے جائیں گے۔

(۱۲۹)۔ اور ایک دوسری حدیث میں امیر المومنین عثمانؓ  نے (وضو کر نے کے بعد)  کہا کہ میں تم کو ایک حدیث سناتا ہوں، اگر قرآن کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تم کو یہ حدیث نہ سناتا۔ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جو شخص اچھی طرح وضو کرے اور اس کے بعد نماز پڑھے (کوئی فرض نماز)  تو جتنے گناہ اس نماز سے دوسری نماز پڑھنے تک ہوں گے، وہ معاف کر دیے جائیں گے۔ ‘‘ (عروہ نے)  کہا کہ وہ آیت (سورۂ بقرہ کی)  ہے ’’ جو لوگ ہماری اتاری ہوئی آیتیں چھپاتے ہیں ‘‘۔ ۔ ۔ آخر تک۔

باب :وضو میں ناک صاف کرنا (ثابت ہے)

(۱۳۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ جو کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ ناک جھاڑے اور جو کوئی پتھر سے استنجا ء کرے تو چاہیے کہ طاق (پتھروں سے)  کرے۔ ‘‘

باب :طاق پتھروں (عدد کے لحاظ)  سے استنجاء کرنا (چاہیے)

(۱۳۱) ۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب کوئی تم میں سے وضو کرے تو چاہیے کہ وہ اپنی ناک میں پانی ڈالے پھر (اس کو)  صاف کرے اور جو کوئی پتھر سے استنجاء کرے تو چاہیے کہ طاق (پتھروں سے)  کرے اور جب تم میں  سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو وہ اپنے ہاتھ کو وضو کے پانی میں ڈالنے سے پہلے،دھو لے، اس وجہ سے کہ تم میں سے کوئی (بھی)  یہ نہیں جانتا کہ رات کو اس کا ہاتھ کہاں (جسم کے کس کس حصے پر پھرتا)   رہا ہے۔ ‘‘

باب :نعلین (پہننے کی حالت)  میں دونوں پیروں کا دھونا (ضروری ہے)  اور نعلین پر مسح نہیں ہو سکتا

(۱۳۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے (ابن حریج نے)  کہا کہ میں نے تمہیں دیکھا کہ (طواف میں)  سوائے دونوں یمانی (رکنوں)  کے اور کسی رکن کو تم مس نہیں کرتے اور میں نے تمہیں دیکھا کہ تم سبتی جوتیاں پہنتے ہو اور میں نے دیکھا کہ تم زردی سے (اپنے بالوں کو یا لباس کو)  رنگ لیتے ہو اور میں نے تمہیں دیکھا کہ جب تم مکہ میں ہوتے ہو تو اور لوگ تو جب (ذی الحجہ کا)  چاند دیکھتے ہیں (اسی وقت سے)  احرام باندھ لیتے ہیں اور تم جب تک ترویہ (آٹھ ذوالحجہ)  کا دن نہیں آ جاتا اور حرام نہیں باندھتے تو عبداللہ بن عمرؓ بولے کہ (بے شک میں)  یہ کام کر تا ہوں تو ان میں جہاں تک ارکان یمانی کا (طواف میں)  مس کرنا ہے تو میں نے رسول اللہﷺ کو ان دونوں یمانی (رکنوں)  کے سوا اور کسی رکن کو مس کرتے نہیں دیکھا۔ اسی طرح سبتی جوتے ہیں تو بے شک میں نے رسول اللہﷺ کو ایسے جوتے پہنے ہوئے دیکھا ہے جن پر بال نہ ہوں اور آپﷺ اسی جوتے میں وضو فرماتے تھے (یعنی پیر دھوتے تھے، مسح نہیں کرتے تھے) ۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ ایسے ہی جوتے پہنوں۔ اسی طرح زردی (کا رنگ ہے) ، تو بے شک میں نے رسول اللہﷺ کو اس سے رنگتے ہوئے دیکھا ہے۔ لہٰذا میں پسند کرتا ہوں کہ اسی سے رنگوں اور اسی طرح احرام باندھنا ہے تو میں نے رسول اللہﷺ کو (احرام باندھتے ہوئے)  نہیں دیکھا تا وقتیکہ آپﷺ کی سواری نہ چلے (یعنی آٹھویں  تاریخ کو)۔

باب :وضو اور غسل داہنی کی طرف سے شروع کرنا۔

(۱۳۳) ۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ کو جوتی پہننے میں، کنگھی کرنے، طہارت (وضو غسل)  کرنے میں (غرض تمام کاموں میں)  داہنی جانب سے ابتدا کرنا اچھا لگتا تھا۔

باب :وضو کا پانی تلاش کرنا (اس وقت ضروری ہے)  جب نماز کا وقت آ جائے

(۱۳۴)۔ سیدنا انس  بن مالکؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اس حال میں دیکھا کہ نماز کا وقت ہو گیا تھا اور لوگوں نے وضو کے لیے پانی تلاش کیا لیکن کہیں سے نہ ملا تو رسول اللہﷺ کے پاس (ایک برتن میں)  وضو کے لیے پانی لایا گیا۔ پس آپﷺ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھ دیا اور لوگوں کو حکم دیا : ’’ اس سے وضو کریں۔ ‘‘ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پانی کو دیکھا کہ آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے پھوٹ رہا تھا یہاں تک کہ سب لوگوں نے وضو کر لیا۔

 باب :جس پانی سے انسان کے بال دھوئے جائیں (اس کا کیا حکم ہے ؟)

(۱۳۵)۔ اور سیدنا انسؓ ہی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے جب اپنا سرمنڈوایا تو سب سے پہلے ابو طلحہؓ نے آپﷺ کے بال لیے تھے۔

باب :جب کتا برتن میں سے کچھ پی لے (تو کیا کیا جائے)

(۱۳۶)۔ سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب کسی کے برتن میں سے کتا پانی وغیرہ پیے تو اسے چاہیے کہ اسے سات مرتبہ دھو ڈالے۔ ‘‘

(۱۳۷)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے دور میں کتے مسجد میں آتے جاتے رہتے تھے بعض اوقات پیشاب (بھی)  کر جایا کرتے تھے لیکن لوگ ان کے آنے جانے کے سبب سے مسجد میں پانی وغیرہ  چھڑ کتے (تک)  نہ تھے۔

باب :جس نے وضو کو (فرض)  نہیں خیال کیا مگر صرف دونوں مخرج یعنی قبل اور دبر سے (نکلنے والی چیز کے سبب)

(۱۳۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ بندہ برابر نماز میں (شمار ہوتا)  ہے جب تک کہ مسجد میں نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے تاقتیکہ بے وضو نہ ہو جائے۔ ‘‘

(۱۳۹)۔ سیدنا زید بن خالدؓ نے امیر المومنین عثمان بن عفانؓ سے پوچھا کہ بتلائیے اگر (کوئی شخص)  جماع کرے اور انزال نہ ہو تو کیا حکم ہے ؟ چنانچہ سیدنا عثمانؓ نے کہا جس طرح نماز کے لیے وضو کرتا ہے وضو کر لے اور اپنی شرمگاہ کو دھو ڈالے۔ سیدنا عثمانؓ کہتے ہیں کہ میں نے یہ مسئلہ رسول اللہﷺ سے سنا ہے۔ (سیدنا زیدؓ راویِ حدیث کہتے ہیں کہ)  پھر میں نے یہ مسئلہ علی، زبیر طلحہ اور ابی بن کعبؓ سے پوچھا تو انھوں نے (بھی)  اس شخص کو یہی حکم دیا۔

(۱۴۰)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک انصاری شخص کے پاس (بلانے کو) کوئی آدمی بھیجا تو وہ آئے، اس حال میں کہ ان کے سر سے (غسل کا)  پانی ٹپک رہا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ شاید ہم نے تمہیں (بلانے میں)  جلدی کی ؟‘‘ انھوں نے عرض کی کہ ہاں یا رسول اللہ ! تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب جلدی کی جائے یا (اور کسی سبب سے)  انزال نہ ہو تو تمہارے اوپر وضو (فرض)  ہے (غسل فرض نہیں) ۔ ‘‘ (لیکن یہ حکم منسوخ ہے) ۔

باب :کوئی شخص اپنے ساتھی کو وضو کر ا دے (تو کچھ حرج نہیں)

(۱۴۱)۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ سے روایت ہے کہ وہ کسی سفر میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے اور آپﷺ رفع حاجت کے لیے تشریف لے گئے اور (جب آپﷺ واپس آئے تو)  مغیرہ آپﷺ (کے اعضاء شریفہ)  پر پانی ڈالنے لگے اور آپﷺ وضو کر نے لگے یعنی آپﷺ نے اپنے منہ اور ہاتھوں کو دھویا اور سرکا مسح کیا اور موزوں پر (بھی)  مسح کیا۔

باب :وضو ٹوٹنے کے بعد (بغیر وضو کیے)  قرآن کی تلاوت کرنا

(۱۴۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ وہ ایک شب نبیﷺ کی زوجہ محترمہ ام المومنین میمونہؓ کے گھر میں رہے (اور وہ ان کی خالہ ہیں) (ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ)  میں مسند (بستر)  کے عرض میں لیٹ گیا، رسول اللہﷺ اور آپﷺ کی بیوی میمونہ (رضی اللہ عنہ)  اس کے طول میں لیٹ گئے چنانچہ رسول اللہﷺ سوتے رہے، یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی یا اس کے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد تو رسول اللہﷺ بیدار ہوئے اور نیند (کے آثار)  کو مٹانے کے لیے اپنے چہرۂ مبارک کو اپنے ہاتھ سے ملتے ہوئے بیٹھ گئے۔ پھر آخری دس آیات سورۂ آل عمران کی آپﷺ نے تلاوت فرمائیں پھر اس کے بعد ایک لٹکی ہوئی مشک کی طرف (متوجہ ہو کر)  آپﷺ کھڑے ہو گئے اور اس سے اچھی طرح وضو کیا پھر نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے۔ ابن عبا سؓ کہتے ہیں میں (بھی)  اٹھا اور جس طرح آپﷺ نے کیا تھا میں نے (بھی)  کیا، پھر آپﷺ کے بائیں پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آپﷺ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑا اور مجھے اپنی داہنی جانب کر لیا۔ پس آپﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو  رکعتیں پڑھیں پھر دو  رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو  رکعتیں پڑھیں پھر آپﷺ نے وتر پڑھا۔ پھر آپﷺ لیٹ گئے یہاں تک کہ موذن آپﷺ کے پاس آیا تو آپﷺ کھڑے ہو گئے اور دو رکعتیں ہلکی (سنت فجر کی)  پڑھ لیں تو پھر تشریف لے گئے اور صبح کی نماز پڑھی۔

باب :پورے سر کا مسح کرنا (ضروری ہے)

(۱۴۳) ۔ سیدنا عبداللہ بن زیدؓ سے ایک شخص نے کہا کہ کیا آپ مجھے دکھلا سکتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کس طرح وضو کیا کرتے تھے ؟ تو عبداللہ بن زیدؓ نے کہا ہاں (میں دکھا)  سکتا ہوں۔ پھر انھوں نے پانی منگوایا اور اپنے ہاتھ پر ڈالا پھر اپنے ہاتھ دو مرتبہ دھوئے پھر تین مرتبہ کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر جھاڑ ا پھر اپنے منہ کو تین مرتبہ دھویا، پھر دونوں ہاتھ کہنیوں تک دو مرتبہ دھوئے، پھر اپنے سر کا اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کر لیا یعنی ان کو آگے لائے اور پیچھے لے گئے۔ سر کے پہلے حصے سے ابتدا کی اور دونوں ہاتھ گدی تک لے گئے پھر ان دونوں کو وہیں تک واپس لائے جہاں سے شروع کیا تھا پھر اپنے دونوں پاؤں دھو ڈالے۔

باب :لوگوں کے وضو کے بچے ہوئے پانی کا استعمال کرنا

(۱۴۴)۔ سیدنا ابو حجیفہؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن)  نبیﷺ دوپہر کے وقت ہمارے پاس تشریف لائے تو وضو کا پانی آپﷺ کے پاس لایا گیا چنانچہ آپﷺ نے وضو کیا۔ جب آپﷺ وضو کر چکے تو لوگ آپﷺ کے وضو کا بچا ہوا پانی لینے لگے اور اس کو (اپنے چہرے اور آنکھوں پر)  ملنے لگے۔ پھر نبیﷺ نے ظہر کی دو رکعتیں اور عصر کی دو رکعتیں (قصر)  پڑھیں اور آپﷺ کے سامنے غنزہ (یعنی نیزہ)  بطور سترہ کے گڑا ہوا تھا۔

(۱۴۵)۔ سیدنا سائب بن یزیدؓ کہتے ہیں کہ مجھے میری خالہ نبیﷺ کے پاس لے گئیں اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میری بہن کا (یہ)  لڑکا بیمار ہے۔ پس آپﷺ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور میرے لیے برکت کی دعا کی، پھر آپﷺ نے وضو فرمایا تو میں نے آپﷺ کے وضو (سے بچے ہوئے)  پانی کو پی لیا۔ پھر میں آپﷺ کے پس پشت کھڑا ہو گیا تو میں نے مہر نبوت کو دیکھ لیا (جو)  آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان مثل حجلہ کی گھنڈی کے (تھی)۔

باب :مرد کا  اپنی عورت کے ساتھ وضو کرنا

(۱۴۶)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے زمانہ میں مرد اور عورت سب (ایک برتن سے)  اکٹھے وضو کرتے تھے۔

باب :نبیﷺ کا اپنے وضو (سے بچے ہوئے پانی)  کو ایک بے ہوش (شخص)  پر چھڑکنا

(۱۴۷)۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ میری عیادت کے لیے تشریف لائے اور میں (ایسا سخت)  بیمار تھا کہ (کوئی بات)  سمجھ نہ سکتا تھا۔ پس آپﷺ نے وضو فرمایا اور اپنے وضو سے (بچا ہوا پانی)  میرے اوپر ڈالا تو میں ہوش میں آ گیا اور میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! (میری)  میراث کس کے لیے ہے ؟ میرا تو صرف ایک کلالہ وارث ہے ۔ پس فرائض کی آیت نازل ہوئی۔

باب :پیالے میں سے غسل اور وضو کرنا (درست ہے)

(۱۴۹)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نماز کا وقت آیا تو جس شخص کا گھر وہاں سے قریب تھا وہ (وضو کر نے اپنے گھر)  چلا گیا اور چند لوگ رہ گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کے پاس پتھر کا ایک مخضب (ظرف)  لایا گیا جس میں پانی تھا اور مخضب میں یہ گنجائش نہ تھی کہ آپﷺ اپنی ہتھیلی اس میں پھیلا سکیں۔ پس تمام لوگوں نے (اسی تھوڑے سے پانی سے)  وضو کیا۔ (راوی حمید کہتے ہیں)  ہم نے (انسؓ سے)  پوچھا کہ تم لوگ (اس وقت)  کس قدر تھے ؟ انھوں نے کہا کہ اسی اور (بلکہ اسی سے)  کچھ زیادہ ہی تھے۔

(۱۵۰)۔  سیدنا ابوموسیٰؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے ایک قدح (پیالہ)  منگوایا جس میں پانی تھا، پھر اسی میں آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں اور چہرۂ انور کو دھو یا اور اسی میں کلی کی۔

(۱۵۱)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب نبیﷺ (آخری مرض میں بیماری سے)  بوجھل ہو گئے اور آپ کا مرض سخت ہو گیا تو آپﷺ نے اپنی بیویوں سے اجازت مانگی کہ میرے (عائشہ کے)  گھر میں آپﷺ کی تیمار داری کی جائے تو سب نے آپﷺ کو اجازت دے دی۔ پس نبیﷺ (میرے گھر آنے کے لیے)  دو آدمیوں کے درمیان (سہارا لے کر)  نکلے اور آپﷺ کے دونوں پاؤں (مبارک)  زمین پر گھسٹتے ہوئے جار ہے تھے۔ اور آپﷺ سیدنا عباسؓ اور ایک اور شخص (حضرت علیؓ کے ساتھ)  نکلے تھے اور عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبیﷺ جب اپنے گھر میں آ چکے اور آپﷺ کا مرض (اور بھی)  زیادہ ہوا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ سات مشکیں جن کے بند نہ کھو لے گئے ہوں میرے اوپڑ ڈال دو تا کہ میں لوگوں کو کچھ وصیت کروں (چنانچہ اسکی تعمیل کی گئی)  اور آپﷺ ام المومنین حفصہ زوجہ نبیﷺ کے مخضب میں بٹھا دیے گئے۔ اس کے بعد ہم سب آپ کے اوپر پانی ڈالنے لگے یہاں تک کہ آپﷺ نے ہماری طرف اشارہ کیا کہ (بس اب تم تعمیل حکم)  کر چکیں۔ اس کے بعد آپﷺ لوگوں کے پاس باہر تشریف لے گئے۔

باب :طشت سے وضو کرنا

(۱۵۲)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے پانی کا ایک ظرف منگوایا تو ایک کھلے منہ کا چوڑا، اوتھلا پیالہ آپﷺ کے سامنے لایا گیا جس میں کچھ پانی تھا، پھر آپﷺ نے اپنی انگلیاں اس میں رکھ دیں۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں پانی کو دیکھ رہا تھا کہ آپﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے (چشمہ کی طرح)  ابل رہا تھا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان لوگوں کا، جنہوں نے (اس پانی سے)  وضو کیا، اندازہ کیا (تو)  ستر، اسی کے درمیان تھا۔

باب :ایک مد (پانی)  سے وضو کرنا (ثابت ہے)

(۱۵۳)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب بدن دھوتے تھے یا (یہ کہا کہ)  جب نہاتے تھے تو (اس میں)  ایک صاع سے پانچ مد تک (پانی صرف کیا کرتے تھے)  اور وضو ایک مد (پانی) سے کرتے تھے۔

باب :موزوں پر مسح کرنا (ثابت ہے)

(۱۵۴)۔ فاتح ایران سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا اور عبداللہ بن عمرؓ نے (اپنے والد)  عمرؓ سے اس کی بابت پوچھا تو انھوں نے کہا ہاں۔ جب تمہیں سعدؓ کوئی روایت نبیﷺ سے بیان کریں تو پھر اس کی بابت (تصدیق کر نے کے لیے)  کسی دوسرے سے نہ پوچھا کرو۔

(۱۵۵)۔ سیدنا عمرو بن امیہؓ کہتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو دونوں موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

(۱۵۶)۔ سیدنا عمرو ابن امیہؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو اپنے عمامہ اور دونوں موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے

باب :جب موزوں کو وضو کر کے پہنا ہو (تو پھر دوبارہ پیر دھونے کے لیے نہ اتارے

(۱۵۷)۔ سیدنا مغیرہؓ کہتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبیﷺ کے ہمراہ تھا تو میں نے (وضو کے وقت)  چاہا کہ آپﷺ کے دونوں موزوں کو اتار ڈالوں تو آپﷺ نے فرمایا کہ ان کو رہنے دو، میں نے ان کو (پیروں کی)  طہارت کی حالت میں پہنا تھا۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے ان پرمسح کیا۔

باب :جس نے بکری کا گوشت اور ستو (کھانے)  سے وضو نہیں کیا (اس کی دلیل)

(۱۵۸)۔ سیدنا عمرو بن امیہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے بکری کا ایک شانہ کھایا پھر آپﷺ کو نماز کے لیے بلایا گیا چنانچہ آپﷺ نے چھری رکھ دی۔ اس کے بعد آپﷺ نے نماز پڑھی اور (دوبارہ)  وضو نہیں کیا۔

باب :جس نے ستو (کھانے)  سے کلی کر لی اور وضو نہیں کیا

(۱۵۹)۔ سیدنا سوید بن نعمانؓ سے روایت ہے کہ (فتح)  خیبر کے سال وہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ گئے تھے، یہاں تک کہ جب (مقام)  صہباء میں پہنچے اور وہ خیبر سے بہت قریب تھا تو آپﷺ کے عصر کی نماز پڑھی اور پھر توشہ (ناشتہ)  منگوایا تو (صحابہ کرامؓ)  صرف ستو آپﷺ کے پاس لائے۔ آپﷺ نے اس کے گھولنے کا حکم دیا پھر رسول اللہﷺ نے اور ہم سب نے کھایا۔ اس کے بعد آپﷺ مغرب کی نماز پڑھنے کو کھڑے ہو گئے اور (صرف)  کلی کی اور ہم نے (بھی صرف)  کلی کی اور پڑھ لی اور (دوبارہ)  وضو نہیں کیا۔

(۱۶۰)۔ ام المومنین میمونہؓ سے روایت ہے کہ (ایک دفعہ)  ان کے ہاں نبیﷺ نے (بکر ی کے)  شانے کا گوشت کھایا، اس کے بعد نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔

باب :کیا (یہ ضروری ہے کہ)  دودھ (پینے)  کے بعد بھی کلی کی جائے

(۱۶۱)۔ سیدنا ابن عبا سؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے دودھ پیا تو کلی کی اور فرمایا : ’’ دودھ میں چکناہٹ ہوتی ہے۔ ‘‘

باب :سو جانے سے وضو (کرنا ضروری ہے)  اور (کوئی ایسا بھی ہے)  جو ایک دو مرتبہ اونگھ جانے سے یا جھونکا آ جانے، سر کے ہل جا نے سے وضو (کو فرض)  نہیں سمجھتا ؟

(۱۶۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے کہ : ’’ جب تم میں کوئی شخص اونگھنے لگے اور وہ نماز پڑھ رہا تو اسے چاہیے کہ (نماز توڑ کر)  سو جائے، یہاں تک کہ اس کی نیند جاتی رہے۔ اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی نیند کوئی حالت میں نماز پڑھے گا تو وہ کچھ نہیں جانتا شاید استغفار کرتا ہو اور وہ (انجانے میں)  اپنے نفس کوبد دعا دے ڈالے۔ ‘‘

(۱۶۳) ۔ سیدنا انسؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے دوران اونگھنے لگے تو اسے چاہیے کہ سو جائے، یہاں تک کہ (اس کی نیند جاتی رہے اور)  سمجھنے لگے کہ کیا پڑھ رہا ہے؟‘‘

باب:بغیر حدث کے (وضو پر)  وضو کرنا (بھی ثابت ہے)

(۱۶۴)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ ہر نماز کے وقت وضو کیا کرتے تھے۔ (مزید یہ بھی)  کہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک کو جب تک وہ حدث نہ کرے (ایک ہی)  وضو کافی ہوتا تھا۔

باب :اپنے پیشاب (کے چھینٹوں)  سے نہ بچنا کبیرہ گناہوں میں سے ہے

(۱۶۵)۔ سیدنا ابن عبا سؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مدینہ یا مکہ کے باغات میں سے کسی باغ کے پاس سے گزرے تو دو آدمیوں کی آواز سنی جنہیں ان کی قبروں میں عذاب رہا تھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : ’’ ان دونوں پر عذاب ہو رہا ہے اور (بظاہر)  کسی بڑی بات پر عذاب نہیں کیا جا رہا۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ہاں (بات یہ ہے کہ) ان میں سے ایک تو اپنے پیشاب (کے چھینٹوں)  سے نہ بچتا تھا اور دوسرا چغلی کھایا کرتا تھا۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے ایک شاخ منگوائی اور اس کے دو ٹکڑے کیے اور ان دونوں میں سے ہر ایک کی قبر پر ایک ایک ٹکڑا رکھ دیا، تو آپﷺ سے عرض کی گئی کہ یا رسول اللہ ! یہ آپﷺ نے کیوں کیا؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہو جائیں، ان دونوں پر عذاب کم رہے گا۔ ‘‘

باب :پیشاب کے دھو نے کے متعلق جو وارد ہوا ہے

(۱۶۶)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تھے تو میں آپﷺ کے لیے پانی لاتا تھا اور اس پانی سے آپﷺ استنجاء کیا کرتے تھے۔

 باب:نبیﷺ اور سب لوگوں کا اعرابی کو مہلت دینا کہ وہ اپنے پیشاب سے (جو)  مسجد میں (کر رہا تھا)  فراغت حاصل کر لے

(۱۶۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ ایک اعرابی کھڑا ہو گیا اور مسجد میں ہی پیشاب کرنے لگا تو لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لینا چاہا (یعنی مارنا چاہا)  تو ان سے نبیﷺ نے فرمایا : ’’ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر ایک ڈول پانی بہا دو اس لیے کہ تم لوگ آسانی کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو اور سختی کرنے کی لیے نہیں بھیجے گئے ہو۔ ‘‘

باب :بچوں کا پیشاب (نجس ہے یا نہیں ؟)

(۱۶۸)۔ ام قیس بنت محصنؓ سے روایت ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے پاس اپنا ایک چھوٹا بچہ لے کر آئیں جو کھانا نہ کھاتا تھا، تو اسے رسول اللہﷺ نے اپنی گود میں بیٹھا لیا، پھر اس نے آپﷺ کے کپڑے پر پیشاب کر دیا، پس آپﷺ نے پانی منگوایا اور اس پر چھڑک دیا اور اسے دھویا نہیں۔

باب :کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر پیشاب کرنا

(۱۶۹)۔ سیدنا حذیفہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کسی قوم کے کوڑا کر کٹ پھینکنے کی جگہ کے قریب تشریف لائے اور (وہاں)  کھڑے ہو کر پیشاب کیا، پھر پانی مانگا تو میں آپﷺ کے پاس پانی لے آیا اور آپﷺ نے وضو کیا۔

باب :اپنے ساتھی کی موجودگی میں پیشاب کر نا اور دیوارسے حجاب کرنا

(۱۷۰)۔ ایک روایت میں حذیفہؓ سے مروی ہے کہ (جب رسول اللہﷺ نے ایک دفعہ ایک دیوار کی آڑ میں پیشاب کیا تو)  میں آپﷺ سے الگ ہو گیا تو آپﷺ نے میری طرف اشارہ کیا چنانچہ میں آپﷺ کے پاس گیا اور آپﷺ کے عقب میں (یعنی پیچھے)  کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ آپﷺ (پیشاب کرنے سے)  فارغ ہو گئے۔

باب :خون کا دھو ڈالنا (کافی ہے)

(۱۷۱)۔ اسماءؓ کہتی ہیں کہ ایک عورت نبیﷺ کے پاس آئی اور اس نے کہا کہ بتائیے ہم میں سے کسی کو کپڑے میں حیض آئے تو وہ (اسے)  کیا کرے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ وہ اسے کھرچ ڈالے، پھر اسے پانی ڈال کر رگڑے اور اسے (مزید)  پانی سے دھو ڈالے اور اسی میں نماز پڑھ لے۔ ‘‘

(۱۷۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبش نبیﷺ کے پاس آئیں اور کہا کہ یا رسول اللہ! میں ایک ایسی عورت ہوں کہ (اکثر)  مستحاضہ رہتی ہوں پھر (بہت دنوں تک)  پاک نہیں ہو پاتی، کیا میں نماز چھوڑدوں ؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ نہیں ! یہ ایک رگ (کا خون)  ہے اور حیض نہیں ہے، پس جب تمہارے حیض کا زمانہ آ جائے تو نماز چھوڑ دو اور جب گزر جائے تو خون اپنے (جسم)  سے دھو ڈالو، اس کے بعد نماز پڑھو۔ پھر ہر نماز کے لیے وضو کیا کہ یہاں تک کہ پھر وقت (حیض کا)  آ جائے (تو پھر نماز ترک کر دینا) ۔ ‘‘

 باب : منی کا دھو ڈالنا اور رگڑ دینا (دونوں یکساں ہیں)

(۱۷۳)۔ ام المومنین عائشہ  صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نبیﷺ کے کپڑے سے جنابت (منی کے نشانات)  دھو دیتی تھی۔ پھر آپﷺ (اسی کپڑے کو پہن کر)  نماز کے لیے باہر تشریف لے جاتے تھے،  اگرچہ آپﷺ کے کپڑے پر پانی کے دھبے ہوتے تھے۔

باب :اونٹ کا اور چوپایوں کا اور بکری کا پیشاب اور ان کے رہنے کے مقامات (یعنی باڑے نجس ہیں یا نہیں ؟)

(۱۷۴)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ عکل کے یا عرینہ کے کچھ لوگ آئے چنانچہ انھیں مدینہ کی ہوا موافق نہ آئی تو وہ مدینہ میں بیمار ہو گئے تو آپﷺ نے انھیں چند اونٹنیاں دینے کا حکم دیا اور یہ (حکم بھی دیا)  کہ وہ لوگ ان کا پیشاب اور ان کا دودھ پئیں۔ پس وہ (جنگل میں)  چلے گئے (اور ایسا ہی کیا) ۔ جب ٹھیک ہو گئے تو نبیﷺ کے چروا ہے کو قتل کر ڈالا اور جانوروں کو ہانک کر لے گئے، پس دن کے اول وقت یہ خبر نبیﷺ کے  پاس آئی اور آپﷺ نے ان کے تعاقب میں آدمی بھیجے۔ چنانچہ دن چڑھے وہ (گرفتار کر کے)  لائے گئے، پس آپﷺ نے ان کے ہاتھ پاؤں کاٹنے کا حکم  دیا اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھیر دی گئیں اور وہ گرم سنگلاخ جگہ پر ڈال دیے گئے، پانی مانگتے تھے تو انھیں نہ پلایا جاتا تھا۔ (اس لیے کہ انھوں نے بھی احسان فراموشی کی تھی) ۔

(۱۷۵)۔ سیدنا انسؓ ہی بیان کرتے ہیں، مسجد کے بنائے جانے سے پہلے نبیﷺ بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔

باب :جو نجا ستیں گھی میں اور پانی میں پڑ جائیں (ان کا کیا حکم ہے ؟)

(۱۷۶)۔ ام المومنین میمونہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سے ایک چوہیا کے بارے میں پوچھا گیا جو گھی میں گر گئی تھی تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اس کو نکال دو اور اس کے (گرنے کی جگہ)  کے ارد گرد جس قدر (گھی)  ہو وہ بھی نکال دو اور باقی کھالو۔ ‘‘

(۱۷۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ مسلمان کو جو زخم اللہ کی راہ میں لگایا جا تا ہے وہ قیامت کے دن اپنی اسی (تر و تازگی کی)  حالت میں ہو گا (جیسا کہ اس وقت تھا)  جب وہ لگایا گیا تھا (یعنی)  خون بہے گا۔ رنگ تو خون کا سا ہو گا اور اس کی خوشبو مشک کی سی ہو گی۔ ‘‘

باب :ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا (نہ چاہیے)

(۱۷۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’ تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں، جو بہتا ہوا نہ ہو، پیشاب نہ کرے (کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اسے)  پھر (کبھی)  اسی (پانی)  میں غسل کر نا پڑے۔ ‘‘

 باب :اگر نماز پڑھنے والے کی پیٹھ پر کوئی نجاست یا مرد ار ڈال دیا جائے تو اس کی نماز فاسد نہ ہو گی

(۱۷۹)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کعبہ کے قریب نماز پڑھ رہے تھے اور ابوجہل اور اس کے چند دو ست بیٹھے ہوئے تھے کہ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ تم میں سے کوئی شخص فلاں قبیلہ کی اونٹنی (کی)  او جڑی (اور آنتیں وغیرہ)  لے آئے اور اس کو محمد (ﷺ)  کی پشت پر، جب وہ سجدہ میں جائیں، رکھ دے۔ پس سب سے زیادہ بد بخت (عقبہ)  اٹھا اور اس کو لے آیا اور انتظار کرتا رہا یہاں تک کہ جب نبیﷺ سجدہ میں گئے (تو فوراً ہی)  اس نے اس کو آپﷺ کے دونوں شانوں کے درمیان رکھ دیا اور میں (یہ حال)  دیکھ رہا تھا مگر کچھ نہ کر سکتا تھا۔ اے کاش میرا کچھ بس چلتا (تو میں کیوں یہ حالت دیکھتا)  عبداللہؓ کہتے ہیں کہ پھر وہ لوگ ہنسنے لگے اور ایک دوسرے پر (مارے ہنسی اور خوشی کے)  گرنے لگے اور رسول اللہﷺ سجدہ میں تھے، اپنا سر نہ اٹھا سکتے تھے یہاں تک کہ سیدنا فاطمہ الزہرہؓ تشریف لائیں اور انھوں نے اسے  آپﷺ کی پیٹھ سے ہٹایا۔ پس آپﷺ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور بد دعا کی کہ ’’ یا رسول ! اپنے اوپر قریش (کی ہلاکت کو)  لازم کر لے۔ ‘‘ تین مرتبہ (آپﷺ نے یہی فرمایا)  پس یہ ان (کافروں)  پر بہت شاق گزر ا۔ کیونکہ آپﷺ نے انھیں بد دعا دی تھی۔ عبد اللہؓ کہتے ہیں کہ وہ (کافر)  جانتے تھے کہ اس شہر (مکہ)  میں دعا مقبول ہوتی ہے۔ پھر آپﷺ نے (ہر ایک کا)  نام لیا : ’’ اے اللہ ! ابوجہل (کی ہلاکت)  کو اپنے اوپر لازم کر لے اور عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ بن عتبہ اور امیہ بن خلف اور عقبہ ابن ابی معیط (کی ہلاکت)  کو اپنے اوپر لازم کر لے۔ ‘‘ (اور ساتویں کو گنا یا مگر اس کا نام مجھے یاد نہیں رہا)  پس قسم اس (ذوالجلال ذات)  کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میں نے ان لوگوں کو جن کا نام رسول اللہﷺ نے لیا تھا، کنویں یعنی بدر کے کنویں میں (بے گور و کفن)  گرا ہوا دیکھا۔ ‘‘

باب :کپڑے میں تھوک یا ناک یا اس کی مثل (کسی چیز)  کا لے لینا

(۱۸۰)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے اپنے کپڑے میں (ایک مرتبہ) تھو کا۔

 باب :عورت کا اپنے باپ کے چہرے سے خون کو دھو دینا (درست ہے)

(۱۸۱)۔ سیدنا سہل بن سعد ساعدیؓ سے روایت ہے کہ ان سے لوگوں نے پوچھا کہ کس چیز سے نبیﷺ کے زخم کا علاج کیا گیا تو وہ بولے کہ اس کا جاننے والا مجھ سے زیادہ (اب)  کو ئی باقی نہیں رہا (چنانچہ بتلایا کہ)  امیر المومنین علیؓ اپنی ڈھال میں پانی لے آتے تھے اور سیدہ فاطمہ الزہرہؓ آپﷺ کے چہرۂ انور سے خون سے دھوتی تھیں۔ پھر ایک چٹائی لا کر چلائی گئی اور (راکھ)  آپﷺ کے زخم میں بھر دی گئی۔

باب :مسواک کرنا (سنت ہے)

(۱۸۲)۔ سیدنا ابوموسیٰؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے پاس آیا،دیکھا تو آپﷺ ہاتھ میں مسواک لیے ہوئے مسواک کر رہے ہیں اور آپﷺ ’’ اع، اع‘‘ کرتے جاتے تھے اور مسواک آپﷺ کے منہ میں تھی گویا کہ آپ قے کرتے تھے۔

(۱۸۳)۔ حذیفہؓ کہتے ہیں کہ جب نبیﷺ رات کو اٹھتے تو اپنے منہ (دانتوں)  کو مسواک سے رگڑتے (صاف کرتے)  تھے۔

باب :مسواک کا بڑے شخص کو دینا (سنت ہے)

(۱۸۴)۔  سیدنا ابن عمرؓ سےروایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ میں نے خواب میں اپنے آپ کو مسواک سے دانت صاف کرتے ہوئے دیکھا۔ پھر (میں نے دیکھا کہ)  میرے پاس دو شخص آئے، ایک ان میں دوسرے سے بڑا تھا، میں نے ان میں سے یہ چھوٹے کو مسواک دے دی تو مجھ سے کہا گیا کہ ’’ بڑے کو دے دیجیے۔ ‘‘ پھر میں نے وہ مسواک ان میں سے بڑے کو دے دی۔

باب :اس شخص کی فضیلت (کا بیان)  جو با وضو سوئے

(۱۸۵)۔ سیدنا برا ء بن عاز بؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (مجھ سے)  فرمایا : ’’ جب تم اپنی خوابگاہ میں آؤ تو نماز کی طرح وضو کر لیا کر و۔ پھر اپنے داہنے پہلو پر لیٹ جاؤ پھر اس کے بعد کہو ’’ اے اللہ ! میں نے تجھ سے امیدوار اور خائف ہو کر اپنا منہ تیری جناب میں جھکا دیا اور اپنا (ہر)  کام تیرے سپرد کر دیا اور میں نے تجھے اپنا پشتی بان و پناہ دہندہ بنا لیا اور (میں یقین رکھتا ہوں کہ)  تجھ سے (یعنی تیرے غضب سے)  سوا تیرے پاس کے کوئی پناہ نجات کی جگہ نہیں ہے۔ اے اللہ ! میں اس کتاب پر ایمان لا یا جو تو نے نازل فرما ئی ہے اور تیرے اس نبی پر (بھی)  جسے تو نے (ہدایت خلق کے لیے)  بھیجا ہے۔ ‘‘ پس اگر تم اپنی اسی رات میں مر جاؤ گے تو ایمان پر (مرو گے)  اور ان کلمات کو تمام ان باتوں کے بعد کہو جو تم کرنا چاہتے ہو (یعنی اس کے بعد کلام نہ کر و) ۔ ‘‘ سیدنا براءؓ کہتے ہیں کہ میں نے ان کلمات کو نبیﷺ کے سامنے دہرایا پھر جب میں آمَنْتُ بکتَابکَ الَّذیْ اَنْزَلْتَ پر پہنچا تو میں نے کہہ دیا وَرَسُو لکَ (یعنی) ’’ اور تیرے رسول پر ‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا نہیں وَنَبیّکَ الَّذی ْ اَرْسَلْتَ بلکہ ’’ اور تیرے اس نبی پر (بھی)  جسے تو نے (ہدایت خلق کے لیے)  بھیجا ہے۔ ‘‘

نوٹ : حالانکہ آپﷺ نبی بھی تھے اور رسول بھی، لیکن اس کے باوجود آپﷺ نے جس طرح کلمات سکھائے تھے ان الفاظ کو جوں کاتوں باقی رکھا اور ذرا سی تبدیلی بھی گوار ا نہیں کی۔ غور کریں وہ لوگ جو آپﷺ کی مسنون دعاؤں اور کلمات میں اپنی طرف سے اضافہ کر دیتے ہیں اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر روزہ افطار کر نے کی دعا میں ’’وَبکَ اٰمَنْتُ وَ عَلَیْکَ تَوَ کَّلتُ ‘‘ یہ ایسا اضافہ ہے  جو شریعت سازی اور اَحْدَاث فی الدّیْن  نیز کَذبَ عَلَی النَّبیَّﷺ کے زمرے میں آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بدعت و گمراہی سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

غسل کا بیان

 

باب :غسل کرنے سے پہلے وضو کرنا (مسنون ہے)

(۱۸۶)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب جنابت کا غسل فرماتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر وضو فرماتے جس طرح نماز کے لیے وضو فرماتے تھے، پھر اپنی انگلیاں پانی میں داخل کرتے اور ان سے بالوں کی جڑوں میں خلال کرتے پھر اپنے سر پر تین چلو (لپیں پانی)  اپنے دونوں ہاتھوں سے ڈالتے پھر اپنے تمام بدن پر پانی بہا لیتے۔

(۱۸۷)۔ ام المومنین میمونہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے (غسل کے وقت پہلے)  وضو فرمایا جس طرح نماز کے لیے آپﷺ کا وضو ہوتا تھا، سو ادونوں پاؤں کے (دھونے کے)  اور اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں نجاست لگ گئی تھی (اسے بھی دھو ڈالا)  پھر اپنے اوپر پانی بہا لیا۔ اس کے بعد اپنے دونوں پاؤں کو (اس جگہ سے)  ہٹا لیا اور ان کو دھو ڈلا۔ یہ (طریقہ)  آپﷺ کا غسل جنابت (کا تھا) ۔

باب :خاوند کا اپنی بیوی  کے ہمراہ نہانا (درست ہے)

(۱۸۸)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں اور نبیﷺ ایک برتن سے یعنی ایک قدح (ٹب)  سے جس کو فرق کہتے ہیں، غسل کیا کرتے تھے۔

باب :ایک صاع یا اس کے لگ بھگ پانی سے غسل کرنا

(۱۸۹)۔ ام المومنین عائشہؓ صدیقہ سے رسول اللہﷺ کے غسل کی کیفیت پوچھی گئی تو انھوں نے ایک صاع کے قریب (پانی کا)  برتن منگوایا اور (اس سے)  غسل کیا اور اپنے سر پر پانی بہایا اور ام المومنین کے اور پوچھنے والے کے درمیان موٹا پردہ حائل تھا۔

(۱۹۰)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ سے ایک شخص نے غسل کے بارے میں پوچھا (کہ کس قدر پانی سے کیا جائے)  تو انھوں نے کہا کہ ایک صاع (پانی)  تجھے کافی ہے۔ ایک شخص بولا کہ مجھے کافی نہیں ہے توجابرؓ نے کہا کہ (ایک صاع پانی)  اس شخص کو کافی ہو جاتا تھا  جس کے بال تجھ سے زیادہ گھنے تھے اور تجھ سے بہتر بھی تھا (یعنی رسول اللہﷺ)  پھر جابرؓ نے صرف ایک کپڑا پہن کر (نماز میں)  ہماری امامت کی۔

باب : جس نے اپنے سر پر تین بار پانی بہایا

(۱۹۱)۔ سیدنا جبیر بن مطعمؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ میں تو اپنے سر پر تین مرتبہ پانی بہاتا ہوں۔ ‘‘اور (یہ کہہ کر)  آپﷺ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اشارہ کیا۔

باب :جس نے نہاتے وقت حلاب یا خوشبو سے ابتدا کی (اس کا ذکر)

(۱۹۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ جب جنابت سے غسل فرماتے تھے تو کوئی چیز مثل حلاب وغیرہ کے لگاتے تھے اور اسے اپنے ہاتھوں میں لے کر پہلے سر کے داہنے حصہ سے ابتدا کرتے پھر بائیں (جانب)  میں (لگاتے تھے)  پھر دونوں ہاتھ اپنے سر کے درمیان میں رگڑتے تھے۔

باب :جماع کے بعد (بغیرغسل کیے)  پھر جماع کرنا

(۱۹۳)۔ ام المو منین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کو خوشبو لگاتی تھی پھر آپﷺ اپنی (سب)  بیویوں کے پاس جاتے (یعنی وظیفہ زوجیت فرماتے)  پھر دوسرے دن احرام باندھتے ہوئے خوشبو جھاڑ دیتے تھے۔

(۱۹۴)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اپنی (تمام)  بیویوں کے پاس ایک ہی ساعت کے اندر رات کے اور دن میں دورہ کر لیتے تھے اور وہ گیارہ تھیں، ایک روایت میں ہے کہ نو عورتیں تھیں، تو انسؓ سے پوچھا گیا کہ آپﷺ ان سب کی طاقت رکھتے تھے ؟ وہ بولے کہ (ہاں بلکہ)  ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپﷺ کو تیس مردوں کی طاقت دی گئی تھی۔

باب :جس شخص نے خوشبو لگائی اور پھر غسل کیا اور خوشبو کا اثر باقی رہ گیا

(۱۹۵)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ گویا میں نبیﷺ کی مانگ میں خوشبو کی چمک (اب تک)  دیکھ رہی ہوں، اس حال میں کہ آپﷺ محرم (یعنی احرام میں)  تھے۔

باب :غسل میں بالوں کا خلال کرنا (ضروری ہے)

(۱۹۶)۔ اُم المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب غسل جنابت فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ دھوتے اور وضو فرماتے جس طرح آپﷺ کا وضو نماز کے لیے (ہوتا تھا)  پھر غسل کرتے اپنے ہاتھ سے اپنے بالوں کا خلال کرتے تھے یہاں تک کہ جب آپﷺ سمجھ لیتے کہ کھال تر ہو گئی ہے تو اس پر تین بار پانی بہاتے پھر اپنے باقی ماندہ بدن کو دھوتے۔

باب :جس کو مسجد میں (داخل ہو نے کے بعد)  یاد آئے کہ جنبی ہے (تو وہ)  فوراً مسجد سے نکل جائے اور تیمم نہ کرے

(۱۹۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ)  نماز کی اقامت کہی گئی اور صفتیں کھڑی کر کے درست کی گئیں، پھر رسول اللہﷺ ہماری طرف تشریف لائے تو جب آپ نماز پڑھانے کی جگہ یہ کھڑے ہو گئے تو اس وقت یاد کیا کہ جنبی ہیں، پھر ہم سے فرمایا : ’’ تم اپنی جگہ پر (کھڑے)  رہو۔ ‘‘ اور آپﷺ لوٹ گئے اور غسل کیا اور اس کے بعد ہمارے پاس تشریف لائے اور آپ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا، پھر آپﷺ نے تکبیر  (تحریمہ)  کہی اور ہم سب نے آپﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔

فائدہ : معلوم ہوا کہ آپﷺ ننگے سر تھے۔ غسل کر کے سیدھے مسجد تشریف لائے، نہ بالوں کو خشک کیا اور نہ ہی سر ڈھانپے کا تکلف کیا۔ غور کریں وہ لو گ جو ننگے سر نماز کو مکروہ معیوب سمجھتے ہیں۔

باب :جس شخص نے ایک گوشہ میں بحالت تنہائی برہنہ ہو کر غسل کیا

(۱۹۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : ’’ بنی اسرائیل برہنہ غسل کیا کرتے تھے، ایک دوسرے کی طرف دیکھا کرتے تھے اور موسیٰؑ تنہا غسل کیا کرتے تھے تو بنی اسرائیل نے کہا کہ واللہ !موسیٰ علیہ السلام کو ہم لوگوں کے ہمراہ غسل کر نے سے سوا اس کے کچھ مانع نہیں کہ وہ فیق (ایک قسم کی مردانہ بیماری)  میں مبتلا ہیں۔ اتفاق سے ایک دن موسیٰؑ غسل کرنے لگے اور اپنا لباس پتھر پر رکھ دیا، وہ پتھر ان کا لباس لے کر بھاگا اور موسیٰؑ بھی اس کے تعاقب میں یہ کہتے ہوئے دوڑے کہ اے پتھر ! میرے کپڑے دیدے اے حجر میرے کپڑے دیدے۔ یہاں تک کہ بنی اسرائیل نے موسیٰؑ کی طرف دیکھ لیا اور کہا کہ واللہ موسیٰؑ کو کچھ بیماری نہیں ہے اور (پتھر ٹھہر گیا)  موسیٰؑ نے اپنا لباس لے لیا اور پتھر کو مارنے لگے۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم ! (موسیٰؑ کی)  مار سے (اس)  پتھر پر چھ یا سات نشان (اب تک باقی)  ہیں۔

(۱۹۹)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ  نے فرمایا : ’’ اس حال میں کہ ایو بؑ برہنہ نہا رہے تھے، ان پر سونے کی ٹڈیاں برسنے لگیں تو ایوبؑ ان کو اپنے کپڑے میں سمیٹنے لگے تو انھیں ان کے پروردگار نے آواز دی کہ اے ایوبؑ ! کیا میں نے تمہیں اس (سونے کی ٹڈی)  سے جو تم دیکھ رہے ہو بے نیاز نہیں کر دیا ؟ انھوں نے کہاں ہاں قسم تیری بزرگی کی (تو نے مجھے بے نیاز کر دیا ہے)  لیکن میں تیری برکت (کے حصول)  سے بے پرواہ و بے نیاز نہیں۔ ‘‘

باب :لوگوں کے سامنے نہانے کی حالت میں پردہ کرنا

(۲۰۰)۔ سیدہ ام ہانی بنت ابی طالبؓ کہتی ہیں کہ میں فتح (مکہ)  کے سال رسول اللہﷺ کے پاس گئی تو میں نے آپ کو غسل کرتے ہوئے پایا اور سیدہ فاطمہؓ آپﷺ پر پردہ کیے ہوئے ہوئے تھیں آپﷺ نے فرمایا : ’’ یہ کون ہے ؟ ‘‘ میں نے عرض کی کہ میں ام ہانی ہوں۔

باب :جنبی کا پسینہ (پاک ہے)  اور مومن (کسی حال میں)  نجس نہیں ہوتا

(۲۰۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ مدینہ کی کسی گلی میں انھیں رسول اللہﷺ مل گئے اور سیدنا ابوہریرہؓ جنبی تھے (وہ کہتے ہیں کہ)  چنانچہ میں آپﷺ سے کنی کترا گیا اور جا کر غسل کیا، پھر آیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے ابوہریرہ ! تم کہاں (چلے گئے)  تھے۔ ‘‘ سیدنا ابوہریرہؓ نے کہا کہ میں جنبی تھا اور ناپا کی کی حالت میں میں نے آپ کے پاس بیٹھنا برا جانا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ سبحان اللہ مومن (کسی حال میں)  نجس نہیں ہوتا۔ ‘‘

جنبی کا (قبل ازغسل)  سونا (جائز ہے)

(۲۰۲)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطابؓ نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کوئی بحالت  جنابت ہو سکتا ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ ہاں ! جب تم میں سے کوئی جنبی ہو تو وہ وضو کر کے سوئے۔ ‘‘

باب :(غسل جب ہی فرض ہے کہ)  جب مردو عورت کے ختنے (شرمگاہیں)  مل جائیں

(۲۰۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ مرد جب اپنی عورت کے چاروں کونوں کے درمیان بیٹھ گیا پھر اس کے ساتھ (جماع کی)  کو شش کرے تو یقیناً غسل واجب ہو گیا۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

حیض کا بیان

 

باب :حیض کے مسائل کے متعلق جبکہ عورت حائضہ ہو

(۲۰۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ ہم سب لوگ مدینہ سے صرف حج کا خیال کر کے نکلے۔ پھر جب (مقام)  سرف میں پہنچے تو مجھے حیض آگیا۔ رسول اللہﷺ میرے پاس تشریف لائے اور میں رور ہی تھی تو آپ نے فرمایا: ’’ تمہیں کیا ہوا، کیا تمہیں حیض آگیا ؟‘‘ میں نے کہا ہاں۔ آپﷺ نے فرمایا : ’’ یہ ایک ایسی چیز ہے جو اللہ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دی ہے اور لہٰذا جو مناسک حج کر نے والا ادا کرتا ہے، تم بھی کرو مگر تم کعبہ کا طواف نہ کرنا۔ ‘‘ عائشہ صدیقہؓ کہتی  ہیں (کہ پھر)  رسول اللہﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔

باب :حائضہ عورت کا اپنے شوہر کے سرکودھونا اور کنگھی کرنا

(۲۰۵)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں بحالت حیض رسول اللہﷺ کے سر میں کنگھی کر دیا کرتی تھی۔

(۲۰۶)۔ ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ مسجد میں معتکف ہوتے اور اپنا سر مبارک ام المومنین عائشہؓ کے حجرہ میں کر دیتے اور وہ بحالت حیض، اپنے حجرہ میں رہتے ہوئے رسول اللہﷺ کے سر مبارک میں کنگھی کر دیا کرتی تھیں۔

باب :خاوند کا اپنی بیوی کی گود میں (سر رکھ کر)  اس حال میں کہ وہ حائضہ ہو، قرآن کی تلاوت کرنا

(۲۰۷)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ میری گود میں (سر رکھ کر)  تکیہ لگا لیتے تھے حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی، پھر آپﷺ قرآن مجید کی تلاوت فرماتے تھے۔

باب :جو کوئی حیض کو نفاس کہہ دے

(۲۰۸)۔ ام المومنین ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ اس دوران کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ یکایک مجھے حیض آگیا تو میں آہستگی سے کھسک گئی اور اپنے حیض کے کپڑے سنبھالے، تو آپ نے فرمایا کہ : ’’ کیا تمہیں نفاس (حیض)  آگیا ؟‘‘ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر آپ نے مجھے بلا یا میں آپ کے ہمراہ (اسی ایک)  چادر میں لیٹ گئی۔

باب :حائضہ عورت سے اختلاط کرنا (درست ہے)

(۲۰۹)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں اور نبیﷺ ایک ظرف سے غسل کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے تھے اور حالت حیض میں مجھے آپﷺ حکم دیتے تھے تو میں ازار پہن (باند ھ)  لیتی تھی،پھر آپ مجھ سے اختلاط کرتے تھے (یعنی صرف جسم سے جسم ملا لیتے لیکن مجامعت نہیں فرماتے تھے)  اور آپ بحالت اعتکاف اپنا سر میری طرف نکال دیتے تھے اور میں اس کو دھو دیتی تھی، حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔

(۲۱۰)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب ہم میں سے کوئی بی بی حائضہ ہو جاتی تھی اور رسول اللہﷺ اس سے اختلاط کرنا چاہیے تو اسے حکم دیتے تھے کہ اپنے حیض (کے زور اور غلبہ)  کی حالت میں ازار پہن (باندھ)  لے، پھر آپﷺ اس سے اختلاط کرتے تھے (لیکن مجامعت نہیں فرماتے تھے)   ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے کہا کہ تم میں سے اپنی شہوت پر کون اس قدر قابو رکھ سکتا ہے جس قدر نبیﷺ اپنی خواہش پر قابو رکھتے تھے۔

باب :حائضہ عورت کا (فرض)  روزے چھوڑ دینا

(۲۱۱)۔ سیدنا ابوسعد خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ عید الاضحی یا عید الفطر کے دن نکلے اور (عید گاہ میں)  عورتوں (کی جماعت)  پر گزرے تو آپ نے فرمایا : ’’ اے عورتو ! صدقہ دیا کرو اس لیے کہ میں نے تمہیں (معراج میں)  زیادہ دوزخ میں دیکھا ہے۔ ‘‘ وہ بولیں کہ یا رسول اللہ! یہ کیوں ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم لعن طعن کثرت سے کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو اور میں نے تم سے زیادہ کسی کو باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے، پختہ رائے مرد کی عقل کا (اڑ ا)  لے جانے والا نہیں دیکھا۔ ‘‘ عورتوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے دین میں اور ہماری عقل میں کیا نقصان (کمی)  ہے ؟ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ عورت کی گواہی (شرعاً) مرد کی گواہی کے نصف کے برابر نہیں ہے ؟‘‘ انھوں نے کہا ہاں ہے۔ آپ نے فرمایا : ’’ یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت کا حائضہ ہوتی ہے نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ نہ رکھتی ہے ؟ ‘‘ انھوں نے کہا ہاں۔ آپ نے فرمایا : ’’ پس یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔ ‘‘

باب :استحاضہ والی عورت کا اعتکاف کرنا

(۲۱۲)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے ہمراہ آپﷺ کی کسی بیوی نے بھی اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں، خون کو (خارج ہوتے ہوئے)  دیکھتی تھیں۔ پس وہ اکثر اپنے نیچے خون (کی کثرت کے سبب)  سے طشت رکھ لیا کرتی تھیں۔

باب :عورت کا اپنے غسل حیض کے وقت خوشبو لگانا (درست ہے)

(۲۱۳)۔ سیدہ ام عطیہؓ کہتی ہیں (رسول اللہﷺ کے دور میں)  ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کی ممانعت کی جاتی تھی مگر شوہر پر چار مہینہ دس دن تک سوگ کا حکم تھا اور ایسی حالت میں نہ ہم سرمہ لگاتیں نہ خوشبو لگاتیں اور نہ رنگیں کپڑا سوا عصب (جس کپڑے کا سوت بناوٹ سے پہلے رنگا گیا ہو)  کے پہنتیں اور ہمیں طہارت کے بعد، جب کوئی ہم میں سے حائضہ ہو، تھوڑی کست اظفار اور (خوشبو) کی اجازت دیدی گئی تھی اور ہمیں جنازوں کے ہمراہ جانے کی ممانعت کر دی گئی تھی۔

باب :عورت کا اپنے بدن کو ملنا جب کہ وہ حیض سے پاک ہو جائے

(۲۱۴)۔ ام المومنین عائشہؓ سے (روایت ہے کہ)  ایک عورت نے نبیﷺ سے اپنے غسل حیض کی بابت پوچھا تو آپﷺ نے اسے حکم  دیا : ’’ اس طرح غسل کر لے۔ ‘‘ فرمایا : ’’ ایک کستوری لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے اور اس سے طہارت حاصل کر لے۔ ‘‘ اس نے عرض کی اس سے کس طرح طہارت حاصل کروں ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ سبحان اللہ !۔ ۔ ۔  طہارت حاصل کر لے۔ ‘‘ (ام المومنین کہتی ہیں)  تو میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ ’’ اسے خون کے مقام (شرمگاہ)  پر لگائے۔ ‘‘

باب :عورت کا اپنے غسل حیض (کے وقت)  کنگھی کرنا (ثابت ہے)

(۲۱۵) ۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ہمراہ حجۃ الوداع میں احرام باندھا، میں ان لوگوں میں شامل تھی جنہوں نے (حج)  تمتع (کا ارادہ)  کیا تھا اور قربانی کا جانور اپنے ہمراہ نہ لائے تھے۔ پھر انھوں نے کہا کہ وہ حائضہ ہو گئیں اور شب عرفہ تک پاک نہ ہوئیں، تب انھوں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ! یہ عرفہ کے دن کی رات ہے اور میں نے عمرہ کے ساتھ تمتع کیا تھا تو رسول اللہ نے ان سے فرمایا : ’’ تم اپنا سر (احرام)  کھول دو اور کنگھی کرو اور اپنے عمرہ سے رکی رہو (اور حج کر لو)۔ ‘‘ چنانچہ میں نے (ایسا ہی)  کیا پس جب میں حج کر چکی تو آپﷺ نے عبدالرحمن (بن ابی بکرؓ)  کو حصبہ کی رات میں حکم دیا اور وہ میرے اس عمرہ کے بدلے جس کا میں نے احرام باندھا تھا، لیکن کیا نہیں تھا،مجھے تنعیم سے عمرہ کر وا لائے۔

باب :غسل حیض کے وقت عورت کو اپنے بالوں کو کھول دینا

(۲۱۵)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم لوگ ذی الحجہ کے چاند کے قریب (حج کو)  نکلے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر میں ہدی (قربانی کا جانور)  نہ لایا ہوتا تو عمرہ کا احرام باندھتا۔ پس بعض نے تو عمرہ (حج تمتع)  کا احرام باندھا اور بعض لوگوں نے حج (قران)  کا احرام باندھا، اور میں ان لوگوں میں سے تھی، جنہوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا، پس عرفہ کا دن میرے اوپر اس حال میں آیا کہ میں حائضہ تھی، تو میں نے رسول اللہﷺ سے اس کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا : ’’ اپنے عمرہ کو (چندے)  موقوف رکھو اور اپنا سر (بال)  کھول دو اور کنگھی کر و اور حج کا احرام باندھ لو۔ ‘‘ (چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا)  یہاں تک کہ جب حصبہ کی رات آئی تو آپﷺ نے میرے بھائی عبدالرحمن بن ابو بکرؓ کو میرے ہمراہ کر دیا چنانچہ میں تنعیم تک گئی اور میں نے اپنے (فوت شدہ)  عمرہ کے عوض (نئے سرے سے)  عمرہ کا احرام باندھا۔ (ہشام راوی کہتے ہیں کہ)  ان میں سے کسی بات میں نہ قربانی دینا پڑی اور نہ روزہ رکھنا پڑا اور نہ صدقہ دینا پڑا۔

باب :حائضہ عورت نماز کی قضا نہ کرے

(۲۱۷)۔ ام المومنین عائشہؓ سے کسی عورت نے پوچھا کہ کیا ہم میں سے کوئی حیض سے پاک ہو کر اپنی نماز کی قضا پڑھے گی ؟ تو عائشہؓ نے کہا کہ کیا تو حرور یہ ہے ؟ یقیناً (جب)  ہم نبیﷺ کے ہمراہ (رہتے اور)  حائضہ ہوتے تھے مگر آپ ہمیں نماز (کی قضا پڑھنے)  کا حکم نہ دیتے تھے یا (ام المومنین نے)  کہا کہ ہم (ایسا نہ کرتے یعنی)  قضا نہ پڑھتے تھے۔

باب :حائضہ عورت کے ہمراہ اس حال میں سونا کہ وہ حیض کے لباس میں ہو

(۲۱۷)۔ ام المومنین عائشہؓ نے حیض کی حدیث بیان کی اور کہا کہ مجھے اس حالت میں حیض آگیا کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ چادر میں (لپٹی ہوئی)  تھی (تفصیل کے لیے دیکھئے حدیث نمبر ۲۰۷)  یہاں اتنا زیادہ بیان کیا کہ نبیﷺ مجھے بوسے دیتے تھے اور آپﷺ روزہ دار ہوتے تھے۔

باب :حائضہ عورت کا عیدین کی نماز میں حاضر ہونا

(۲۱۸)۔ سیدہ ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ نے فرمایا : ’’ جوان عورتیں اور پردہ نشین اور حائضہ عورتیں باہر نکلیں اور (مجالس)  خیر میں اور مسلمانوں کی دعا میں حاضر ہوں اور حائضہ عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں۔ ‘‘پوچھا گیا کیا حائضہ عورتیں (بھی شریک ہوں)  ؟ تو سیدہ ام عطیہ بولیں کیا حائضہ عورتیں عرفہ میں فلاں فلاں کام میں حاضر نہیں ہوتیں ؟

باب :غیر زمانۂ  حیض میں زردی اور مٹیالے رنگ کا (سیال مادہ)  دیکھنا (حیض میں شمار نہیں ہوتا)

(۲۱۹)۔ سیدہ ام عطیہؓ کہتی ہیں کہ ہم مٹیالے پن کو اور زردی کو (حیض میں )  شمار نہیں کرتے تھے۔

باب :عورت (طواف)  افاضہ کے بعد حائضہ ہو جائے (تو کیا حکم ہے ؟)

(۲۲۰)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہﷺ سے کہا کہ یا رسول اللہ ! صفیہ بنت حي حائضہ ہو گئی ہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ شاید وہ ہمیں روکیں گی ؟ کیا انھوں نے تم لوگوں کے ہمراہ طواف نہیں کیا ؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہاں (کیا تھا)  تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ پھر (کچھ حرج نہیں)  چلو۔ ‘‘

باب :نفاس والی عورت (کے جنازہ)  پر نماز پڑھنا اور اس کا طریقہ

(۲۲۱) ۔ سیدہ سمرہ بن جندبؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت زچگی سے مر گئی تو نبیﷺ نے اس نماز پڑھی اور اس کے درمیان (کی سیدھ میں)  کھڑے ہوئے۔

(۲۲۲)۔ ام المومنین میمونہؓ کہتی ہیں کہ وہ حائضہ ہوتی تھیں تو نماز نہ پڑھتی تھیں اور رسول اللہﷺ کی نماز پڑھنے کی جگہ کے سامنے برابر لیٹی ہوتی تھیں۔ آپﷺ اپنی چادر پر نماز پڑھتے، جب سجدہ کرتے تو آپﷺ کا کچھ کپڑا مجھ سے لگ جاتا تھا۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

تیمم کا بیان

 

باب :اللہ تعالیٰ کا فرمان ’’ پس اگر تم پانی نہ پاؤ۔ ۔ ۔ ‘‘

(۲۲۴)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ ہم کسی سفر میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے، یہاں تک کہ جب  ہم بیداء یا ذات الجیش میں پہنچے تو میرا ہار ٹوٹ (کر گر)  گیا، تو رسول اللہﷺ نے اس کو ڈھونڈنے کے لیے قیام کیا اور لوگ بھی آپﷺ کے ہمراہ ٹھہر گئے اور اس مقام پر کہیں پانی نہ تھا، (اور نہ ہی لوگوں کے پاس پانی تھا)  لہٰذا لوگ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نہیں دیکھتے کہ (ام المومنین)  عائشہ (رضی اللہ عنہ)  نے کیا کیا کہ رسول اللہﷺ اور سب لوگوں کو ٹھہر ا لیا اور وہ بے آب مقام پر ہیں ؟ا ور نہ ہی ان کے ہمراہ پانی ہے۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو کچھ اللہ نے چاہا کہ کہیں،وہ انھوں نے کہہ ڈالا اور اپنے ہاتھ سے میری کو کھ میں کونچہ مارنے لگے، رسول اللہﷺ کا سرمبارک میری ران پر تھا اور آپ سو رہے تھے اس لیے میں درد کی شدت سے جنبش بھی نہ کر سکی پھر صبح کو رسول اللہﷺ اٹھ بیٹھے درآنحالیکہ آپ بغیر پانی والے (مقام)  پر تھے چنانچہ اللہ بزرگ و برتر نے آیت تیمم نازل فرمائی۔ پس سب نے تیمم کیا تو اسی دن سیدنا بن حضیرؓ نے کہا کہ اے آل ابوبکر ! یہ تمہاری پہلی برکت نہیں ہے۔ عائشہؓ کہتی ہیں کہ جس اونٹ پر میں تھی، اس کو اٹھایا تو اس کے نیچے سے ہار مل گیا۔

(۲۲۵)۔ سیدنا جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہ دی گئی تھیں۔ (۱) ۔ مجھے ایک مہینے کی مسافت پر رعب کے ذریعہ مدد دی گئی۔ (۲)  پوری زمین میرے لیے مسجد بنا دی گئی اور پاک بنا دی گئی، پس میری امت میں سے جس شخص پر (جہاں بھی)  نماز کا وقت ہو جائے اسے چاہیے کہ (اسی مقام پر)  نماز پڑھ لے۔ (۳)۔ میرے لیے غنیمت کے مال حلال کر دیے گئے ہیں اور مجھ سے پہلے کسی (نبی)  کے لیے حلال نہ کیے گئے تھے۔ (۴)  مجھے شفاعت کی اجازت دی گئی۔ (۵)  ہر نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث ہوتا تھا جبکہ میں تمام انسانوں کی طرف بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘

باب :حضر میں جب پانی نہ پائے اور نماز کے جاتے رہنے کا خوف ہو تو تیمّم کرنا (ضروری ہے)

(۲۲۶)۔ سیدنا ابوجہیم بن حارث انصاریؓ نے کہا کہ نبیﷺ بئر جمل کی طرف سے آئے اور آپﷺ کو ایک شخص (خود ابو جہیم)  مل گیا اور اس نے آپ کو سلام کیا تو نبیﷺ نے اسے جواب نہیں دیا یہاں تک کہ آپ دیوار کی طرف آئے (اس پر ہاتھ مارا) ، اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح فرمایا پھراسے سلام کا جواب دیا۔

وضاحت : اگرچہ سلام کے لیے وضو کی شرط نہیں لیکن آپﷺ کو یہ بات پسند (اپنے لیے)  نہیں تھی کہ بے وضو اللہ کا ذکر کریں اس لیے پہلے تیمّم کیا پھر جواب دیا۔ سلام بھی اللہ کا ذکر ہے۔

باب :تیمم میں مٹی پر دونوں ہاتھ مار کر پھر (گرد تم کرنے کے لیے)  ان کو پھونکنا

(۲۲۷)۔ سیدنا عمار بن یا سرؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے امیر المومنین عمر بن خطابؓ سے کہا کہ کیا آپ کو یاد نہیں کہ ہم اور آپ سفر میں تھے اور جنبی ہو گئے تو آپ نے تو نماز نہیں پڑھی اور میں (مٹی میں)  الٹ پلٹ گیا اور نماز پڑھ لی، پھر میں نے نبیﷺ سے اس کو بیان کیا تو نبیﷺ نے فرمایا: ’’ تجھے اس طرح کرنا کافی تھا۔ ‘‘ (یہ کہہ کر)  آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارا اور ان میں پھونک دیا پھر ان سے اپنے منہ اور ہاتھوں پر مسح کر لیا۔

  باب :پاک مٹی مسلمان کا وضو (وہ پانی جس سے وضو کیا جاتا)  ہے اور اسے پانی سے کفایت کرتی ہے

(۲۲۸)۔ سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں نبیﷺ کے ہمراہ تھے اور ہم رات کو چلے، یہاں تک کہ جب اخیر رات (ہوئی تو اس وقت)  میں ہم مقیم ہوئے اور سب سو گئے اور مسافر کے نزدیک اس سے زیادہ کوئی نیند میٹھی نہیں ہوتی۔ پھر ہمیں آفتاب کی گرمی نے بیدار کیا، پس سب سے پہلے جو جاگا فلاں شخص تھا،  پھر فلاں شخص، پھر سیدنا عمر بن خطابؓ چوتھے جا گنے والے ہوئے اور نبیﷺ جب سوتے تھے تو ان کو کوئی بیدار نہ کرتا تھا یہاں تک کہ آپ خود بیدار ہو جائیں کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ آپ کے لیے آپ کے خواب میں کیا ہو رہا ہے مگر جب سیدنا عمرؓ بیدار ہوئے اور انھوں نے وہ حالت دیکھی جو لوگوں پر طاری تھی اور وہ سخت مزاج کے آدمی تھے تو انھوں نے تکبیر کہی اور تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کی اور برابر تکبیر کہتے رہے کہ تکبیر کے ساتھ اپنی آواز بلند کرتے رہے، یہاں تک کہ ان کی آواز کے سبب سے نبیﷺ بیدار ہوئے۔ پس جب آپ بیدار ہوئے تو جو مصیبت لوگوں پر پڑی تھی اس کی شکایت آپﷺ سے کی۔ تو آپ نے فرمایا : ’’ کچھ نقصان نہیں ‘‘ یا (یہ فرمایا کہ)  ’’ کچھ نقصان نہ کرے گا، چلو (اس لیے کہ یہ عمداً نہیں تھا) ۔ ‘‘ پھر چلے اور تھوڑی دور جا کر اتر پڑے اور وضو کا پانی منگوایا، پھر وضو کیا اور نماز کی اذان کہی گئی اور آپﷺ نے لوگوں کو نماز پڑھائی تو جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو یکا یک ایک ایسے شخص پر آپ کی نظر پڑی جو گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا، لوگوں کے ساتھ اس نے نماز نہ پڑھی تھی،تو آپ نے فرمایا : ’’ اے فلاں ! تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ؟‘‘ تو اس نے کہا کہ جنابت ہو گئی تھی اور پانی نہ تھا آپ نے فرمایا: ’’ تو لازم پکڑ مٹی کو (تیمم کر)  وہ تجھے کافی ہے۔ ‘‘ پھر نبیﷺ چلے تو لوگوں نے آپﷺ سے پیاس کی شکایت کی، تو آپﷺﷺ پھر اتر پڑے اور ایک شخص کو بلایا اور سیدنا علی بن ابی طالبؓ کو بلایا اور فرمایا کہ دونوں جاؤ اور پانی تلاش کرو۔ پس دونوں چلے تو ایک عورت ملی جو پانی کی دو مشکوں کے درمیان اپنے اونٹ پر بیٹھی جا رہی تھی۔ تو ان دونوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں کل اسی وقت پانی پر تھی اور ہمارے مرد پیچھے رہ گئے ہیں۔ ان دونوں نے اس سے کہا خیر اب تو چل۔ وہ بولی کہاں ؟ انھوں نے کہا کہ رسول اللہﷺ کے پاس۔ اس نے کہا وہی شخص جسے بے دین کہا جاتا ہے ؟ انھوں نے کہا ہاں ! وہیں جن کو (تم یہ خیال کرتی ہو) ، تو چل تو سہی۔ پس وہ دونوں اسے رسول اللہﷺ کے پاس لائے اور آپﷺ سے ساری کیفیت بیان کی۔ سیدنا عمرانؓ کہتے ہیں کہ پھر لوگوں نے اسے اس کے اونٹ سے اتارا اور نبیﷺ نے ایک ظرف (یعنی برتن)  منگوایا اور دونوں مشکوں کے منہ کھول کر اس میں سے کچھ پانی اس برتن میں نکالا۔ (اس کے بعد)  ان کے اوپر والے منہ کو بند کر دیا اور نچلے منہ کو کھول دیا اور لوگوں میں آواز دے دی گئی کہ پانی پیو اور (اپنے جانوروں کو بھی)  پلا لو۔ جس نے چاہا خود پیا اور جس نے چاہا پلایا اور آخیر میں یہ ہوا کہ جس شخص کو جنابت ہو گئی تھی اس کو ایک برتن پانی کا دیا اور آپ نے فرمایا : ’’ جا اور اس کو اپنے اوپر ڈال لے۔ ‘‘ اور وہ عورت کھڑی ہوئی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی کے ساتھ کیا کیا جا رہا ہے اور اللہ کی قسم (جب پانی لینا)  اس کے مشکوں سے موقوف کیا گیا تو یہ حال تھا کہ ہمارے خیال میں وہ اب اس وقت سے بھی زیادہ بھری ہوئی تھیں، جب آپﷺ نے اس سے پانی لینا شروع کیا تھا۔ پھر نبیﷺ نے فرمایا : ’’ کچھ اس کے لیے جمع کر دو۔ ‘‘ تو لوگوں نے اس کے لیے عجوہ کھجور، آٹا اور ستو وغیرہ جمع کر دیے جہاں تک کہ ایک اچھی مقدار کا کھانا اس کے لیے جمع کر دیا اور اس کو ایک کپڑے  میں باندھ دیا اور اس عورت کو اس کے اونٹ پر سوار کر دیا اور کپڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔ پھر آپﷺ نے اس سے فرمایا : ’’ تم جانتی ہو کہ ہم نے تمہارے پانی میں سے کچھ کم نہیں کیا، لیکن اللہ ہی نے ہمیں پلایا۔ ‘‘ پھر وہ عورت اپنے گھر والوں کے پاس آئی چونکہ وہ راہ میں روک لی گئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ تجھے کس نے روک لیا تھا ؟ تو اس نے کہا (کہ عجیب بات ہوئی)  مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے، جسے بے دین کہا جاتا ہے اور اس نے ایسا ایسا کام کیا۔ پس قسم اللہ کی ! یقیناً وہ شخص اس کے اور اس کے درمیان میں سب سے بڑا جادو گر ہے اور اس نے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا پھر ان کو آسمان کی طرف اٹھایا مراد اس کی آسمان و زمین تھی یا وہ سچ مچ اللہ کا رسول ہے۔ پس مسلمان اس کے بعد، اس کے آس پاس کے مشرکوں سے لڑتے رہے اور جس آبادی (بستی)  میں وہ عورت رہتی تھی۔ تو اس نے ایک دن اپنی قوم سے کہا کہ میں سمجھتی ہوں کہ بے شک یہ لوگ عمداً تمہیں چھوڑ دیتے ہیں، پس کیا تمہیں اسلام میں کچھ (رغبت)  ہے ؟ تو انھوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

 

 

 

 

 

نماز کا بیان

 

باب :شب معراج میں نماز کس طرح فرض کی گئی ؟

(۲۲۸)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ابو ذرؓ بیان کیا کرتے تھے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ (ایک شب)  میرے گھر کی چھت کھولی گئی اور میں مکہ میں تھا، پھر جبرئیلؑ اترے اور انھوں نے میرے سینہ کو چاک کیا، پھر اسے زم زم کے پانی سے دھویا، پھر ایک طشت سونے کا حکم و ایمان سے بھرا ہوا لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، پھر سینے کو بند کر دیا۔ اس کے بعد میرا ہاتھ پکڑ لیا اور مجھے آسمان پر چڑھا لے گئے تو جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبرئیلؑ نے آسمان کے داروغہ سے کہا کہ (دروازہ)  کھول دو تو اس نے کہا یہ کون ہے ؟ وہ بولے کہ یہ جبرئیل ہے۔ پھر اس نے کہا کیا تمہارے ساتھ کوئی (اور بھی)  ہے ؟ جبریلؑ نے کہا ہاں ! میرے ہمراہ محمدﷺ ہیں۔ پھر اس نے کہا کیا وہ بلائے گئے ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا ہاں پس جب دروازہ کھول دیا گیا  تو ہم آسمان دنیا کے اوپر چڑھے۔ پس یکایک میری ایک ایسے شخص پر (نظر پڑی)  جو بیٹھا ہوا تھا، اس کی دائیں جانب کچھ لوگ تھے اور اس کی بائیں جانب (بھی)  کچھ لوگ تھے۔ جب وہ اپنے دائیں جانب دیکھتے تو ہنس دیتے اور جب بائیں طرف دیکھتے تو رو دیتے۔ پھر انھوں نے (مجھے دیکھ کر)  کہا ’’مرحبا (خوش آمدید)  نیک پیغمبر اور نیک بیٹے ’’ میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو انھوں نے کہا کہ یہ آدمؑ ہیں اور جو لوگ ان کے داہنے اور بائیں ہیں، ان کی اولاد کی روحیں ہیں۔ دائیں جانب جنت والے ہیں اور بائیں جانب دوزخ والے۔ اسی سبب سے جب وہ اپنی دائیں جانب نظر کرتے ہیں تو ہنس دیتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو رونے لگتے ہیں۔ یہاں تک کہ مجھے دوسرے آسمان تک لے گئے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھولو تو ان سے داروغہ نے اسی قسم کی گفتگو کی جیسے پہلے نے کی تھی۔ پھر دروازہ کھول دیا گیا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں پھر سیدنا ابوذرؓ نے ذکر کیا کہ آپﷺ نے آسمانوں میں آدم ؑ، ادریس، موسیٰ،عیسیٰ اور ابراہیمؑ کو پایا اور (اور ان کے ٹھکانے بیان نہیں کیے، صرف اتنا کہا کہ آپﷺ نے)  آدمؑ کو آسمان دنیا پر اور ابراہیمؑ کو چھٹے آسمان پر پایا۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ جب جبرئیلؑ نبیﷺ کو لے کر ادریسؑ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے کہا ’’ خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی۔ ‘‘ (آپﷺ نے فرمایا کہ (میں نے جبرئیلؑ سے پوچھا کہ یہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا یہ ادریسؑ ہیں، پھر میں موسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے مجھے دیکھ کر کہا ’’ خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی ‘‘ میں نے (جبریل سے)  پوچھا یہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا کہ یہ موسیٰؑ ہیں، پھر میں عیسیٰؑ کے پاس سے گزرا تو انھوں نے کہا ’’ خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بھائی ‘‘ میں نے پوچھا یہ کہ کون ہیں ؟ تو جبریلؑ نے کہا کہ یہعیسیٰؑ ہیں، پھر میں ابراہیمؑ کے پاس گزرا تو انھوں نے کہا ’’ خوش آمدید نیک پیغمبر اور نیک بیٹے ‘‘ میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ جبریلؑ نے کہا کہ یہ ابراہیم  ہیں۔

(راوی نے)  کہا کہ سیدنا ابن عباس اور ابو حبہ انصاریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ پھر مجھے اور اوپر لے جایا گیا یہاں تک کہ میں ایک ایسے بلند و بالا مقام پر پہنچا جہاں (فرشتوں کے)  قلم (چلنے) کی آواز میں سنتا تھا۔ سیدنا انس  بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا پھر اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں۔ پس میں ان کے ساتھ لوٹا یہاں تک کہ جب موسیٰؑ پر گزرا تو موسیٰؑ نے کہا کہ اللہ نے آپﷺ کے لیے آپﷺ کی امت پر کیا فرض کیا ہے ؟ میں نے کہا کہ پچاس نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے (یہ سنکر)  کہا اپنے پروردگار کے پاس لوٹ جائیے، اس لیے کہ آپ کی امت (اس قدر عبادت کی)  طاقت نہیں رکھتی۔ پس میں لوٹ گیا تو اللہ نے اس کا ایک حصہ معاف کر دیا۔ پھر موسیٰؑ کے پاس لوٹ کر آیا اور کہا کہ اللہ نے اس کا ایک معاف کر دیا ہے، پھر موسیٰؑ نے کہا کہ اپنے پروردگار سے رجوع کیجیے، کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی)  طاقت نہیں رکھتی۔ پھر میں نے رجوع کیا تو اللہ نے ایک حصہ اس کا (اور)  معاف کر دیا پھر میں ان کے پاس لو ٹ کر آیا (اور بتایا)  تو وہ بولے کہ آپ اپنے پروردگار کے پاس لو ٹ جائیے کیونکہ آپ کی امت (اس کی بھی)  طاقت نہیں رکھتی، چنانچہ میں نے پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع کیا تو اللہ نے فرمایا : ’’ (اچھا)  یہ پانچ (مقرر کی جاتی)  ہیں اور یہ (درحقیقت باعتبار ثواب کے)  پچاس ہیں اور میرے ہاں بات بدلی نہیں جاتی۔ ‘‘ پھر میں موسیٰؑ کے پاس لوٹ کر آیا، تو انھوں نے کہا کہ پھر اپنے پروردگار سے رجوع کیجیے۔ میں نے کہا (اب)  مجھے اپنے پروردگار سے (بار بار کہتے ہوئے)  شرم آتی ہے، (پھر جبرائیل مجھے لے کر چلے اور سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچا یا)  اور اس پر بہت سے رنگ چھا رہے تھے، (میں نہیں جانتا کہ وہ کیا تھے) ۔ پھر مجھے جنت میں لے جایا گیا تو (کیا دیکھتا ہوں کہ)  اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور وہاں کی مٹی  مشک ہے۔

(۲۲۹)۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ اللہ نے جب نماز فرض کی تھی تو دو، دو رکعتیں فرض کی تھیں، حضر میں (بھی)  اور سفر میں (بھی) ، تو سفر کی نماز (اپنی اصلی حالت پر)  قائم رکھی گئی اور حضر کی نماز میں زیادتی کر دی گئی۔

باب :کپڑوں میں نماز کا وجوب

(۲۳۰)۔ سیدنا عمر بن ابی سلمہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اس کے دونوں سروں کے درمیان تفریق کر دی تھی (یعنی الٹ کر کندھوں پر ڈال لیا)

باب : ایک کپڑے میں، (یعنی)  اس کو لپٹ کر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۳۱)۔ سیدہ ام ہانی بنت ابو طالبؓ کہتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبیﷺ نے ایک کپڑے میں التحاف کر کے آٹھ رکعت (چاشت کی)  نماز پڑھی۔

(۲۳۲)۔ سیدہ ام ہانی اس روایت میں کہتی ہیں کہ آپﷺ نے (فتح مکہ کے دن)  ایک کپڑے میں التحاف کر کے آٹھ رکعت نماز پڑھی، جب فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری ماں کے بیٹے (سیدنا علیؓ)  کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کو مار ڈالوں گا حالانکہ میں نے اسے پناہ دی ہے ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو تو رسول اللہﷺ نے فرمایا اے ام ہانی ! جسے تم نے پناہ دی اسے ہم نے بھی پناہ دی۔ ام ہانی کہتی ہیں کہ یہ (نماز)  چاشت تھی۔

(۲۳۳)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہﷺ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا پوچھا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کیا تم میں سے ہر ایک کے پاس دو دو کپڑے ہیں ؟

باب : جب ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو چاہیے کہ (اس کا کچھ حصہ)  اپنے شانے پر ڈال دے

(۲۳۴)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص ایسے ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس میں اس کے شانے پر کچھ نہ ہو۔

(۲۳۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو چاہیے کہ اس کے دونوں سروں کے درمیان تفریق کر لے۔ (یعنی دایاں سرابائیں کندھے پر اور بایاں سرا دائیں کندھے پر)۔

باب : جب کپڑا تنگ ہو (تو اس میں کیسے نماز پڑھے؟)

(۲۳۶)۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ آپ کے کسی سفر میں نکلا تو ایک رات کو اپنی کسی ضرورت سے میں (آپ کے پاس)  آیا تو میں نے آپ کو نماز پڑھتے ہوئے پایا اور میرے (جسم)  کے اوپر ایک کپڑا تھا، پس میں نے اس کو (زور سے)  لپیٹ لیا اور آپﷺ کے پہلو میں (کھڑے ہو کر)  میں نے بھی نماز پڑھی، جب آپﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا : ’’ اے جابر ! رات کو کیسے آنا ہوا ؟‘‘ میں نے آپ کو اپنی ضرورت بتا دی پھر جب میں فارغ ہوا تو آپ  نے فرمایا : ’’ یہ کپڑا لپیٹنا جو میں نے دیکھا، کیسا تھا ؟‘‘ میں نے کہا ایک کپڑا تھا۔ تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اگر کپڑا وسیع ہو تو اس سے التحاف کر لیا کرو اور اگر تنگ ہو تو اس کی آزار (یعنی تہبند)  بنا لو۔ ‘‘

(۲۳۷)۔ سیدنا سہلؓ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے، بچوں کی طرح اپنی ازاروں کو اپنے شانوں پر باندھ کر اور عورتوں سے کہہ دیا جاتا تھا کہ جب تک مرد سیدھے نہ بیٹھ جائیں اپنے سروں کو نہ اٹھانا۔ (کیونکہ مردوں کے پاس ایک ہی کپڑا ہونے کی وجہ سے بے پردگی کا ڈر ہوتا تھا) ۔

باب : جبہ شامیہ میں نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۳۸)۔ سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ کہتے ہیں کہ میں نبیﷺ کے ہمراہ ایک سفر میں تھا تو آپ  نے فرمایا : ’’ اے مغیرہ ! پانی کا برتن اٹھا لو۔ ‘‘ تو میں نے اٹھا لیا۔ پھر آپﷺ چلے یہاں تک کہ مجھ سے چھپ گئے اور آپﷺ نے اپنی ضرورت رفع کی اور (اس وقت)  آپﷺ (کے جسم اطہر)  پر جبہ شامیہ تھا۔ پس آپ اپنا ہاتھ اس کی آستین سے نکالنے لگے تو وہ تنگ ہوا، لہٰذا آپ نے اپنے ہاتھ کو اس کے نیچے سے نکالا، پھر میں نے آپﷺ کے اعضائے شریفہ پر پانی ڈالا اور آپ نے وضو فرمایا جس طرح آپ کا وضو نماز کے لیے ہوتا تھا اور آپﷺ نے موزوں پر مسح کیا پھر نماز پڑھی۔

باب : نماز کے دوران (اور نماز کے علاوہ)  برہنہ ہو نے کی کراہت

(۲۳۹)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کعبہ (کی تعمیر)  کے لیے قریش کے ہمراہ پتھر اٹھاتے تھے اور آپ (کے جسم اطہر)  پر آپ کی تہبند (بندھی ہوئی)  تھی تو آپﷺ سے آپﷺ کے چچا سیدنا عباس نے کہا کہ اے میرے بھتیجے ! کاش تم اپنی تہبند اتار ڈالتے اور اسے اپنے شانوں پر پتھر کے نیچے رکھ لیتے۔ جابرؓ کہتے ہیں کہ آپ نے ازار کھول ڈالی اور اسے اپنے شانوں پر رکھ لیا، تو بے ہوش ہو کر گر پڑے پھر اس کے بعد آپﷺ (کبھی)  برہنہ نہیں دیکھے گئے۔

  باب : ستر، جس کو ڈھانپنا ضروری ہے

(۲۴۰) ۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سخت بکل مارنے سے اس بات ہے کہ آدمی ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھے اس طرح کہ اس کی شرمگاہ پر اس کا کوئی حصہ نہ ہو، منع فرمایا ہے۔

(۲۴۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے دو (قسم کی)  بیع سے منع فرمایا ہے : لماس (چھونے کی)  اور نباذ (پھینکنے کی)  اور اس بات سے کہ کوئی اشتمال صماء (سخت بکل مارنا)  کرے اور اس بات سے کہ کوئی شخص ایک کپڑے میں گوٹھ مار کر بیٹھے۔

(۲۴۲)۔  سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں مجھے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس حج میں (جو حجۃ الوداع سے پہلے کیا گیا تھا اور سیدنا ابوبکرؓ اس میں سب کے امیر تھے)  قربانی کے دن منادی کر نے والوں کے ساتھ بھیجا تا کہ ہم منیٰ میں یہ اعلان کریں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ (ہو کر)  کعبہ کا طواف کرے۔ پھر رسول اللہﷺ نے (ابو بکر صدیقؓ کے پیچھے سیدنا علیؓ کو بھیجا اور ان کو حکم دیا کہ وہ سورۂ برأت کا اعلان کریں۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ پس سیدنا علیؓ نے قربانی کے دن ہمارے ساتھ منیٰ کے لوگوں میں اعلان کیا : ’’ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہ کرے اور نہ کوئی برہنہ (ہو کر)  طواف کرے۔ ‘‘

  باب : ران کے بارے میں جو روایات بیان کی جاتی ہیں

(۲۴۳)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے خیبر میں جہاد کیا تو ہم نے صبح کی نماز خیبر کے قریب اندھیرے میں پڑھی۔ پھر نبیﷺ سوار ہوئے اور سیدنا ابو طلحہؓ ّ (بھی)  سوار ہوئے اور میں ابو طلحہؓ کے پیچھے سوار تھا، پس نبیﷺ خیبر کی گلیوں میں چلے اور میرا گھٹنا نبیﷺ کی ران سے مس کرتا جاتا تھا۔ پھر آپ نے اپنی ازار اپنی ران سے ہٹا دی یہاں تک کہ میں نبیﷺ کی ران کی سپیدی کو دیکھنے لگا۔ پھر آپ وادی کے اندر داخل ہو گئے تو فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ سب سے بڑا ہے، خیبر کی خرابی گئی، بیشک ہم جس قوم کے میدان میں (بقصد جنگ)  اترے ہوں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری (حالت میں)  ہوتی ہے۔ ‘‘ اسے تین بار فرمایا : ’’ سیدنا انسؓ کہتے ہیں (خیبر کے)  لو گ اپنے کاموں کے لیے نکلے تو انھوں نے کہا محمد (ﷺ آ گئے)  اور خمیس یعنی لشکر (بھی آگیا)  پس ہم نے خیبر کو بزور شمشیر حاصل کیا۔ پھر قیدی جمع کیے گئے تو سیدنا دحیہؓ آئے اور انھوں نے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ ! مجھے ان قیدیوں میں سے کوئی لونڈی دی دیجیے۔ آپ نے فرمایا : ’’ جاؤ اور کوئی لونڈی لے لو۔ ‘‘ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبیﷺ کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ اللہ کے نبیﷺ ! آپ نے صفیہ حیی (قبیلہ)  قریظہ اور نضیر کی سردار دحیہؓ کو دے دی، وہ سوائے آپﷺ کے کسی کے قابل نہیں ہیں۔ تو آپ نے فرمایا : ’’ ان کو صفیہ کے ساتھ لے آؤ۔ ‘‘ پس جب نبیﷺ نے صفیہ کی طرف نظر کی تو (دحیہ سے)  فرمایا کہ : ’’ ان کے کوئی علاوہ اور لونڈی قیدیوں میں سے لو۔ ‘‘ (سیدنا انسؓ)  کہتے ہیں کہ پھر نبیﷺ نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور ان سے نکاح کر لیا۔ یہاں تک کہ جب راہ میں (چلے)  تو ام سلیم نے ام المومنین صفیہؓ کو آپﷺ کے لیے آراستہ کیا اور شب کو آپ کے پاس بھیجا تو صبح کو نبیﷺ نے بحیثیت دولہا فرمایا : ’’ جس کے پاس جو کچھ ہو وہ اسے لے آئے۔ ‘‘ اور آپﷺ نے چمڑے کا ایک دستر خوان بچھا دیا، پس کوئی کھجوریں لایا اور کوئی گھی لا نے لگا۔ (راوی حدیث)  کہتے ہیں میں خیال کرتا ہوں کہ سیدنا انسؓ نے ستو کا بھی ذکر کیا (پھر)  کہتے ہیں پھر انھوں نے سب کو ملا کر ملیدہ بنایا تو یہی رسول اللہﷺ کا ولیمہ تھا۔

باب : عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے ؟

(۲۴۴)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ فجر کی نماز پڑھتے تھے تو آپ کے ہمراہ کئی مسلمان عورتیں اپنی چادروں میں لپٹی ہوئی حاضر ہوتی تھیں،پھر وہ اپنے گھروں کی طرف ایسے وقت لوٹ جاتی تھیں کہ (اندھیرے کے سبب سے)  کوئی انھیں پہچانتا نہ تھا۔

باب : جب کسی ایسے کپڑے میں نماز پڑھے جس میں نقش و نگار ہوں اور اس کو دیکھے

(۲۴۵)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ نبیﷺ نے ایسی منقش چادر میں نماز پڑھی جس میں نقش تھے تو آپﷺ کی نظر اس کے نقوش کی طرف پڑی۔ پھر جب آپﷺ فارغ ہوئے تو فرمایا : ’’ میری اس چادر کو ابو جہم کے پاس لے جاؤ اور مجھے ابو جہم کی سادہ چادر لادو کیونکہ اس (منقش چادر)  نے ابھی مجھے میری نماز سے غافل کر دیا تھا۔ ‘‘

 باب : اگر کوئی کسی مصلب یا تصویر دار کپڑے میں نماز پڑھے تو کیا اس کی نماز فاسد ہو جائے گی؟

(۲۴۶)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کے پاس ایک پردہ تھا کہ انھوں نے اس سے اپنے گھر کے ایک گوشے کو ڈھا نپا تھا۔ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ ہمارے پاس سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو اس لیے کہ نماز میں اس کی تصویریں برابر میرے سامنے آتی ہیں۔ ‘‘

 باب : جس نے حریر کے لباس میں نماز پڑھی پھر اسے اتار ڈالا

(۲۴۷)۔ سیدنا عقبہ بن عامرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ کی خدمت میں ایک ریشمی جبہ (کوٹ، ایک قسم کا لباس جو کپڑوں کے اوپر سے پہنا جاتا ہے)  ہدیہ کیا گیا تو آپﷺ نے اسے پہن لیا اور اس میں نماز پڑھی،پھر جب فارغ ہوئے تو اسے زور سے کھینچ کر اتار ڈالا، گویا آپﷺ نے اسے برا جانا اور فرمایا کہ پرہیز گاروں کو یہ زیبا نہیں ہے۔

باب : سرخ کپڑے میں نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۴۸)۔ سیدنا ابوحجیفہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو چمڑے کے ایک سرخ خیمہ میں دیکھا اور سیدنا جلالؓ کو میں نے دیکھا کہ انھوں نے رسول اللہﷺ کے لیے وضو کا پانی لیا اور لوگوں کو میں نے دیکھا کو وہ اس وضو (کے پانی)  کو دست بدست لینے لگے، پھر جس کو اس میں سے کچھ مل جاتا تو وہ اسے (اپنے چہرے پر) مل لیتا تھا اور جسے اس میں سے کچھ نہ ملتا وہ اپنے پاس والے کے ہاتھ سے تری لے لیتا، پھر میں نے سیدنا بلالؓ کو دیکھا کہ انھوں نے ایک چھوٹا نیزہ اٹھایا اور اسے گاڑ دیا اور نبیﷺ ایک سرخ پوشاک میں (اپنی چادر)  اٹھائے ہوئے برآمد ہوئے اور نیزے کی طرف لوگوں کے ساتھ دو رکعت نماز پڑھی اور میں نے لوگوں کو اور جانوروں کو دیکھا کہ وہ عنزہ کے آگے سے نکل جاتے تھے (یہاں غنزہ یا نیزہ کو بطور سترہ استعمال کیا گیا ہے) ۔

باب : چھتوں پر اور منبر پر اور لکڑیوں پر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۴۹)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ سے پوچھا گیا کہ منبر (نبو یﷺ)  کس چیز کا تھا ؟ تو وہ بولے اس بات کا جاننے والا لوگوں میں مجھ سے زیادہ (اب)  کوئی نہیں (رہا) ۔ وہ غابہ (جنگل)  کے جھاؤ کا بنا ہوا تھا، اسے ایک عورت کے غلام نے رسول اللہﷺ کے لیے بنایا تھا اور جب بنا کر رکھا گیا تو رسول اللہﷺ اس پر کھڑے ہوئے اور قبلہ رو ہو کر تکبیر (تحریمہ)  کہی اور لوگ آپﷺ کے پیچھے کھڑے ہوئے پھر آپﷺ نے قرأت کی اور رکوع فرمایا اور لوگوں نے آپﷺ کے پیچھے رکو ع کیا، پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا، اس کے بعد پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا، پھر منبر پر چڑھ گئے اور قرأت کی اور رکوع کیا پھر اپنا سر اٹھایا اور پیچھے ہٹے یہاں تک کہ زمین پر سجدہ کیا۔ پس منبر کا یہ قصہ تھا۔

باب : چٹائی پر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۵۰)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ ان کی نانی مُلیکہؓ نے رسول اللہﷺ کو کھا نے کے لیے بلایاجو (خاص)  آپﷺ کے لیے انھوں نے تیار کیا تھا۔ پس آپﷺ نے اس میں سے کھایا، پھر فرمایا : ’’ کھڑے ہو جاؤ میں تمہارے لیے نماز پڑھ دوں۔ ‘‘سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ میں اپنی ایک چٹائی کی طرف متوجہ ہو اجو کثرت استعمال سے سیاہ ہو گئی تھی تو میں نے اسے پانی سے دھویا، پھر رسول اللہﷺ (اس پر)  کھڑے ہو گئے اور میں نے اور ایک یتیم نے آپﷺ کے پیچھے صف باندھ لی اور بڑھیا اور ہمارے پیچھے تھی، پس رسول اللہﷺ نے ہمارے لیے دو رکعتیں پڑھ دیں اور لوٹ گئے۔

باب : بستر پر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۵۱)۔ ام المومنین عائشہؓ نبیﷺ کی زوجہ کہتی ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کے سامنے سو جاتی اور میرے دونوں پیر آپﷺ کے سجدہ کی جگہ میں ہوتے تھے جب آپﷺ سجدہ کرتے تھے تو مجھے دبا دیتے تھے، میں اپنے پیر سمیٹ لیتی تھی اور جب آپ کھڑے ہو جاتے تھے تو میں انھیں (پیروں کو) پھیلا دیتی تھی، ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں اس وقت تک کہ گھروں میں چراغ نہ تھے۔

(۲۵۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے گھر کے بچھو نے پر نماز پڑھتے ہوتے تھے اور وہ (یعنی عائشہؓ)  آپﷺ کے اور سجدہ کی جگہ کے درمیان (بچھونے پر)  جنازہ کی مثل لیٹی ہوتی تھیں

باب : گرمی کی شدت میں کپڑے پر سجدہ کرنا (درست ہے)

(۲۵۳)۔ سیدنا انس  بن مالکؓ کہتے ہیں کہ ہم نبیﷺ کے ہمراہ نماز پڑھتے تھے تو ہم میں سے کچھ لوگ گرمی کی شدت کی وجہ سے سجدہ کی جگہ پر اپنے کپڑے کا کنارہ بچھا لیتے تھے۔

باب : جوتوں سمیت نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۵۴)۔ سیدنا انس  بن مالکؓ کہتے ہیں کہ کیا رسول اللہﷺ اپنے جوتوں سمیت نماز پڑھتے تھے ؟ تو انھوں نے کہا کہ ہاں ! (پڑھ لیتے تھے) ۔

باب : موزے پہن کر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۵۵)۔ ہمام بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جریر بن عبداللہؓ کو پیشاب کرتے ہوئے دیکھا، پھر انھوں نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا، پھر نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہو گئے۔ نماز کے بعد لوگوں نے ان سے یہ مسئلہ پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ لوگوں کو یہ حدیث اچھی معلوم ہوتی تھی کہ کیونکہ یہ جریرؓ سب سے آخر میں اسلام لائے تھے۔

باب : سجدہ میں اپنے بازوؤں کو کھولنا اور اپنے دونوں پہلوؤں سے علیحدہ رکھنا

(۲۵۶)۔ سیدنا عبداللہ بن مالک ابن بحینہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب نماز پڑھتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کے درمیان کشادگی رکھتے یہاں تک کہ آپﷺ کی بغلوں کی سپیدی ظاہر ہوتی تھی۔

باب :قبیلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت

(۲۵۷)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جو کوئی ہمارے (جیسی)  نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے، تو وہی مسلمان ہے، جس کے لیے اللہ کا ذمہ اور اللہ کے رسولﷺ کا ذمہ ہے۔ تو تم اللہ کی خیانت اس کے ذمہ (کے بارہ)  میں نہ کرو۔ ‘‘

باب : اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا ’’اور مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ ’’ (واجب تعمیل ہے)

(۲۵۸)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ ان سے ایک شخص کے بارے میں پوچھا گیا جس نے عمرہ کے لیے کعبہ کا طواف کیا تھا اور صفاء مردہ کے درمیان طواف نہ کیا تھا کہ آیا وہ اپنی عورت کے پاس آئے (یا نہیں ؟)  تو انھوں نے کہا کہ نبیﷺ (مدینہ سے)   تشریف لائے تو سات مرتبہ کعبہ کا طواف کیا (یعنی کعبہ کے گرد سات چکر لگائے)  اور مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز ادا کی اور صفاء مروہ کے درمیان طواف (سعی)  فرمایا ور بیشک رسول اللہﷺ (کی ذات)  میں تمہارے لیے عمدہ نمونہ ہے۔

(۲۵۹)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں جب نبیﷺ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے تمام گوشوں میں دعا کی اور نماز نہیں پڑھی یہاں تک کہ آپﷺ کعبہ سے نکل آئے، پھر جب نکل آئے تو آپ کے کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز پڑھی اور فرمایا کہ یہ قبلہ ہے۔

باب : جہاں کہیں ہو (نماز میں)  قبلہ کی طرف منہ کرنا (ضروری ہے)

(۲۶۰)۔ سیدنا براء بن عازبؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے بیت المقدس کی طرف سولہ مہینے یا سترہ مہینے نماز پڑھی۔ (یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرہ کی ۱۴۲سے ۱۴۴تک آیات اتار دیں)  یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے (دیکھیے حدیث : ۳۸) اور دونوں حدیثوں میں الفاظ مختلف ہیں۔

(۲۶۱)۔ سیدنا جابرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ اپنی سواری پر، جس سمت بھی وہ رخ کرتی (اسی سمت نفل)  نماز پڑھتے رہتے اور جب فرض (نماز پڑھنے)  کا ارادہ فرماتے تو اتر پڑتے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیتے۔

(۲۶۲)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے نماز پڑھی، ابراہیم راوی ہیں علقمہ سے اور علقمہ راوی ہیں سیدنا ابن مسعودؓ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ آپﷺ نے (نماز میں کچھ)  زیادہ کر دیا تھا یا کم کر دیا تھا، پھر جب آپﷺ سلام پھیر چکے تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ ! کیا نماز میں کوئی نئی بات ہو گئی ؟ آپﷺ نے فرمایا : ’’ وہ کیا ؟‘‘ لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس قدر نماز پڑھی۔ پس آپﷺ نے اپنے دونوں پاؤں کو سمیٹ لیا اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور دو سجدے کیے، بعد اس کے سلام پھیر ا۔ پھر جب ہماری طرف منہ کیا تو فرمایا : ’’ اگر نماز میں کوئی نیا حکم ہو جاتا تو میں تمہیں (پہلے سے)  مطلع کرتا، لیکن میں تمہاری طرح ہی ایک بشر ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو، میں بھی بھول جاتا ہوں۔ لہٰذا جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دلاؤ اور جب تم میں سے کوئی شخص اپنی نماز میں شک کرے تو اسے چاہیے کہ ٹھیک بات سوچ لے اور اسی پر نماز تمام کرے، پھر سلام پھیر کر دو سجدے (سہوکے)  کرے۔

باب : قبلہ کے متعلق کیا وارد ہوا ہے اور جس نے اس شخص کے لیے جو بھول کر قبلہ کے علاوہ کسی اور طرف نماز پڑھے نماز پڑھے نماز کا دہرانا ضروری نہیں سمجھا ؟

(۲۶۳)۔ امیر المومنین سیدنا عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے پروردگار سے تین باتوں میں موافقت کی میں نے (ایک مرتبہ)  کہا کہ یارسول اللہ ! کاش ہم مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بنا لیں پس یہ آیت نازل ہوئی ’’ اور مقام ابراہیم پر نماز ادا کرو۔ ‘‘ (البقرہ :۱۲۵) اور حجاب کی آیت بھی میری  خواہش کے مطابق نازل ہوئی۔ میں نے کہا کہ یارسول اللہﷺ ! کاش آپﷺ اپنی بیویوں کو پردہ کر نے کا حکم دے دیں، اس لیے کہ ان سے ہر نیک و بد گفتگو کرتا ہے۔ پس حجاب کی آیت نازل ہوئی اور (اور ایک مرتبہ)  نبیﷺ کی بیویوں آپﷺ پر جوش میں (آ کر)  جمع ہوئیں تومیں نے ان سے کہا کہ ’’اگر وہ (نبیﷺ)  تم کو طلاق دے دیں تو عنقریب ان کا رب انھیں تم سے اچھی بیویاں تمہارے بدلے میں دے دے گا۔ ‘‘ (التحریم :۵)  پس یہی آیت نازل ہوئی۔

باب : مسجد میں اگر تھوک لگا ہوا، ہو تو ہاتھ سے اسے صاف کر دینا

(۲۶۴)۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے (جانب)  قبلہ میں کچھ تھوک دیکھا تو آپﷺ کو نا گوار گزرا۔ یہاں تک کہ (غصہ کا اثر)  آپﷺ کے چہرۂ مبارک پر ظاہر ہوا۔ پھر آپ کھڑے ہو گئے اور اس کو اپنے ہاتھ سے صاف کر دیا۔ پھر فرمایا : ’’ تم میں سے کوئی جب اپنی نماز میں کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے پروردگار سے منا جات کرتا ہے یا (آپﷺ نے یہ فرمایا کہ)  اس کا پروردگار اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے، لہٰذا اسے چاہیے کہ اپنے قبلہ کی جانب نہ تھو کے بلکہ اپنی بائیں جانب یا اپنے قدم کے نیچے تھو کے۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے اپنی چادر کا کنارہ لیا اور اس میں تھوک کر اسے مل ڈالا اور فرمایا : ’’اس طرح کر لے۔ ‘‘

 باب : نماز میں داہنی جانب نہ تھو کے

(۲۶۵)۔ سیدنا ابوہریرہؓ اور سیدنا ابو سعیدؓ سے بھی مذکورہ بالا حدیث نخامہ مروی ہے مگر اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : ’’ (دوران نماز)  اپنی دائیں جانب نہ تھو کے۔ ‘‘

 باب : مسجد میں تھو کنے کا کیا کفارہ ہے ؟

(۲۶۶)۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا دفن کر دینا اس کا کفارہ ہے ‘‘

با ب۔ امام کا نماز کے پورا کرنے کے بارہ میں لوگوں کو نصیحت کرنا اور قبلہ کا ذکر

(۲۶۷)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ تم میرا منہ اس طرح سمجھتے ہو حالانکہ اللہ کی قسم مجھ پر نہ تمہارا خشوع پوشیدہ ہے اور نہ تمہارا رکوع اور میں یقیناً تمہیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے (بھی)  دیکھتا ہوں۔ ‘‘

باب : کیا یہ کہنا جائز ہے کہ یہ مسجد فلاں لوگوں کی ہے ؟

(۲۶۸)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ (ایک مرتبہ)  رسول اللہﷺ نے ان گھوڑوں کے درمیان جو سدھائے گئے تھے (مقام)  حفیاء سے گھوڑ دوڑ کرائی اور اس کی انتہا ثنیۃ الوداع تک تھی اور جو گھوڑے سدھائے ہوئے نہ تھے، ان کے درمیان ثنیہ سے بنی زریق کی مسجد تک گھوڑ دوڑ کرائی اور عبداللہ بن عمرؓ بھی ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس گھوڑ دوڑ میں حصہ لیا تھا۔

 باب : مسجد میں (کسی چیز کا)  تقسیم کرنا اور مسجد میں خوشہ لٹکانا

(۲۶۹)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے پاس کچھ مال بحرین سے لایا گیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ اسے مسجد میں پھیلا دو۔ ‘‘ اور وہ (مال)  تمام ان مالوں سے، جو رسول اللہﷺ کے پاس (اس وقت تک)  لائے گئے، زیادہ تھا، پھر رسول اللہﷺ نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا۔ پھر جب آپﷺ نماز پڑھ چکے، آئے اور اس کے پاس بیٹھ گئے اور جس جس کو دیکھتے اسے ضرور دیتے تھے۔ اتنے میں آپﷺ کے پاس سیدنا عباسؓ آئے اور انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھے (بھی)  دیجیے کیونکہ میں نے اپنا بھی فدیہ دیا اور عقیل کا بھی فدیہ دیا تو ان سے رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ لے لو۔ ‘‘ انھوں نے اپنے کپڑے میں دونوں ہاتھوں سے لیا پھر اسے اٹھا نے لگے تو نہ اٹھا سکے۔ تب کہنے لگے کہ یارسول اللہ ! ان میں سے کسی کو حکم دیجیے کہ یہ مجھے اٹھوا دیں تو آپﷺ نے فرمایا ’’ نہیں۔ ‘‘ انھوں نے کہ پھر آپﷺ خود میرے اوپر رکھ دیجیے، آپﷺ نے فرمایا : ’’ نہیں۔ ‘‘ تو عباسؓ نے کچھ اس میں سے گرا دیا اور اسے اٹھانے لگے (اور اٹھا نہ سکے تو)  کہنے لگے کہ یا رسول اللہ ! ان میں سے کسی کو حکم دیجیے کہ اس کو مجھے اٹھوا دیں، آپ نے پھر فرمایا: ’’ نہیں۔ ‘‘ انھوں نے کہا کہ پھر آپ خود ہی اس کو اٹھا کر میرے اوپر رکھ دیجیے تو آپﷺ نے انکار فرمایا تب سیدنا عباسؓ نے اس میں سے کچھ اور گرا دیا۔ اس کے بعد اس کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ لیا اور چل دیے تو رسول اللہﷺ ان کی حرص پر تعجب کر کے ان کو پیچھے سے برابر دیکھتے رہے یہاں تک کہ وہ ہم سے پوشیدہ ہو گئے، پس رسول اللہﷺ وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک وہاں ایک بھی درہم باقی تھا۔

باب : گھروں میں مسجدیں (بنانا ثابت ہے)

(۲۸۰)۔ سیدنا محمود بن ربیع الانصاریؓ کہتے ہیں کہ سیدنا عتبان بن مالکؓ جو کہ رسول اللہﷺ کے ان انصاری اصحاب میں سے ہیں جو شریک بدر تھے، رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول! میں اپنی بینائی کو خراب پاتا ہوں اور میں اپنی قوم کو نماز (بھی)  پڑھاتا ہوں۔ پس جس وقت بارش ہوتی ہے تو وہ میدان جو میرے اور ان کے درمیان میں ہے، بہنے لگتا ہے تو میں ان کی مسجد میں جا نہیں سکتا تاکہ میں انہیں نماز پڑھا دوں۔ تو یا رسول اللہ ! میں چاہتا ہوں کہ آپﷺ میرے پاس تشریف لائیں اور میرے گھر میں نماز پڑھیں تاکہ میں اس مقام کو جائے نماز بنا لوں۔ سیدنا عتبانؓ کہتے ہیں کہ ان سے رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ میں ان شاء اللہ عنقریب (ایساہی)  کروں گا۔ ‘‘ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اور ابو بکرؓ (دوسرے دن)  سورج چڑھے تشریف لائے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے (اندر آ نے کی)  اجازت طلب فرمائی تو میں نے آپﷺ کو اجازت دے دی۔ آپﷺ گھر میں داخل ہوئے اور (ابھی)  بیٹھے بھی نہیں تھے کہ فرمایا : ’’ تم اپنے گھر میں سے کس مقام پر چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں ؟‘‘ تو سیدنا عتبانؓ کہتے ہیں کہ میں نے گھر کے ایک مقام کی طرف اشارہ کیا تو رسول اللہﷺ (وہاں)  کھڑے ہو گئے اور اللہ اکبر کہا۔ ہم نے آپﷺ کے پیچھے صف باندھی۔ پس آپﷺ نے دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد سلام پھیر دیا۔ سیدنا عتبانؓ کہتے ہیں کہ ہم نے آپﷺ کو خزیرہ (گوشت اور آٹا ملا کر بنایا جاتا ہے، کھانے)  کے لیے روک لیا جو آپﷺ کے لیے ہم نے تیار کیا تھا۔ پھر کہتے ہیں کہ محلے والوں میں سے کئی لوگ گھر میں جمع ہو گئے اور ان میں سے ایک کہنے والے نے کہا کہ مالک بن دخشن کہاں ہے ؟ یا (یہ کہا کہ)  ابن دخشن (کہاں ہے ؟) تو ان میں سے کسی دوسرے نے کہا کہ وہ تو منافق ہے، اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ کو دوست نہیں رکھتا تو رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ یہ نہ کہو کیا تم نے اسے نہیں دیکھا کہ اس نے اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لا الہٰ الا اللہ کہا ہے۔ ‘‘ وہ شخص بولا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی بہتر جانتے ہیں بظاہر تو ہم نے اس کی توجہ اور اس کی خیر خواہی منافقوں کے حق میں دیکھی ہے تور سول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ بزرگ و برتر نے اس شخص پر آگ حرام کر دی ہے جو لا الہٰ الا اللہ کہہ دے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اسے مقصود ہو۔ ‘‘

 باب : کیا (یہ جائز ہے کہ زمانہ)  جاہلیت کے مشرکوں کی قبریں اکھاڑ دی جائیں اور ان مقامات پر مساجد بنا لی جائیں ؟

(۲۷۱)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہؓ نے ایک گر جا حبشہ میں دیکھا تھا، اس میں تصویریں تھیں۔ تو انھوں نے نبیﷺ سے اس کا ذکر کیا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ ان لوگوں میں جب کوئی نیک مرد ہوتا اور وہ مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بنا لیتے اور اس میں یہ تصویریں بنا دیتے۔ یہ لو گ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن بد ترین مخلوق ہیں۔ ‘‘

(۲۷۲)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ مدینہ میں (ہجرت کر کے)  تشریف لائے تو مدینہ کی بلندی پر ایک قبیلے میں جس کو بنی عمرو بن عوف کہتے ہیں، اترے اور ان لوگوں میں نبیﷺ نے چودہ راتیں قیام فرمایا پھر آپﷺ نے بنی نجار کو بلوا بھیجا تو وہ تلواریں لٹکائے ہوئے آ پہنچے۔ اب گویا میں نبیﷺ کی طرف دیکھ رہا ہوں کہ آپﷺ اپنی سواری پر ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ آپ کے ردیف ہیں اور بنی نجار کی جماعت آپﷺ کے گرد ہے یہاں تک کہ آپﷺ نے سیدنا ابو ایوب انصاریؓ کے مکان میں (اپنا اسباب)  اتار اور آپﷺ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جس جگہ نماز کا وقت آ جائے وہیں نماز پڑھ لیں اور آپﷺ بکریوں کے رہنے کی جگہ میں بھی نماز پڑھ لیتے اور آپﷺ نے مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا۔ پھر بنی نجار کے لوگوں کو آپﷺ نے بلوا بھیجا اور فرمایا : ’’ اے بنی نجار ! اپنا یہ باغ تم میرے ہاتھ بیچ ڈالو۔ ‘‘ انھوں نے عرض کی کہ اللہ کی قسم ! ہم اس کی قیمت نہ لیں گے مگر اللہ بزرگ برتر سے۔ سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ اس (باغ)  میں وہ چیزیں تھیں جو میں تم سے کہتا ہوں یعنی مشرکوں کی قبریں، ویرانہ اور کھجور کے درخت تھے، تو نبیﷺ نے حکم دیا تو مشرکوں کی قبریں کھود ڈالی گئیں۔ پھر حکم دیا کہ ویرا نے کو برابر کر دیا جائے اور درختوں کو کاٹ دیا جائے پھر کھجور کے درخت مسجد کی (جانب)  قبلہ میں نصب کر دیے اور اس کی بندش پتھروں سے کی اور صحابہ کرامؓ پتھر لانے لگے اور وہ رجز پڑھتے جاتے تھے اور نبیﷺ ان کے ہمراہ تھے اور آپﷺ فرماتے تھے۔

فائدہ جو کچھ کہ ہے فائدہ وہ آخرت کا فائدہ   بخش دے انصار اور مہاجرین کو اے اللہ

باب : اونٹوں کے مقامات پر نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۷۳)۔ (راویِ حدیث نافع کہتے ہیں کہ)  ابن عمرؓ نے اپنے اونٹ کی طرف (اسے بطور سترہ کر کے)  نماز پڑھی اور فرمایا کہ میں نے نبیﷺ کو ایسا کرتے دیکھا ہے

باب : جس شخص نے نماز پڑھی اس حال میں کہ اس کے آگے تنور ہو یا آگ ہو یا کوئی ایسی چیز ہو جس کی پر ستش کی جاتی ہے اور وہ اس نماز سے اللہ کی رضا مندی چاہے

(۲۷۴)۔ سیدنا انسؓ نے کہا کہ نبیﷺ نے فرمایا : ’’ میرے سامنے اس حال میں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، دوزخ پیش کی گئی۔ ‘‘

 باب : مقبروں میں نماز پڑھنے کی کراہت

(۲۷۵) ۔ سیدنا ابن عمرؓ رسول اللہﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ اپنی کچھ نماز، اپنے گھروں میں ادا کیا کرو اور انھیں قبریں نہ بناؤ۔ ‘‘

(۲۷۶)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ اور سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ پر (مرض الموت) طاری ہو ئی تو آپﷺ اپنی چادر اپنے منہ پر ڈالنے لگے۔ پھر جب اس سے آپﷺ کو گرمی معلوم ہوتی تو اس کو اپنے چہرے سے ہٹا دیتے پھر اسی حالت میں فرمایا : ’’ یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو کہ انھوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔ ‘‘ آپﷺ ان کے افعال سے ڈراتے تھے۔

باب : عورت کا مسجد میں سونا (درست ہے)

(۲۷۷)۔ ام المومنین عائشہؓ سے روایت ہے کہ عرب کے کسی قبیلے کی ایک حبشی لونڈی تھی انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا، مگر وہ ان کے ساتھ رہا کرتی تھی، وہ بیان کرتی ہے کہ (ایک مرتبہ)  اسی قبیلے کے لوگوں کی لڑکی باہر نکلی اور اس (کے جسم)  پر سرخ چمڑے کی ایک حمائل پڑی ہوئی تھی، کہتی ہے کہ اس نے اس کو خود اتارا  یاوہ اس سے گر پڑی، پھر ایک چیل اس طرف سے گزری اور وہ حمائل (نیچے)  پڑی ہوئی تھی، چیل نے اسے گوشت سمجھا اور جھپٹ لے گئی، وہ کہتی ہے کہ ان لوگوں نے اس کو تلاش کیا مگر اسے نہ پایا تو اس کا الزام مجھ پر لگا دیا۔ کہتی ہے کہ وہ لوگ میری تلاشی لینے لگے یہاں تک کہ اس کی شرمگاہ کو بھی دیکھا۔ وہ کہتی ہے کہ اللہ کی قسم میں ان کے پاس کھڑی تھی کہ اچانک وہ چیل گزری اور اس نے اس (حمائل)  کو پھینک دیا۔ وہ کہتی ہے کہ حمائل ان کے درمیان آ کر گری۔ کہتی ہے کہ میں نے کہا کہ یہی ہے وہ جس کا الزام تم نے مجھ پر لگا یا تھا، تم نے بد گمانی کی حالانکہ میں اس سے بری تھی اور وہ یہ ہے۔ ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں کہ پھر وہ رسول اللہﷺ کے پاس آئی اور اسلام قبول کر لیا تو مسجد میں اس کا ایک خیمہ تھا یا (یہ کہا کہ)  ایک چھوٹا سا حجرہ۔ اور وہ میرے پاس آیا کرتی تھی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ اور میرے پاس وہ جب بھی آتی تو یہ ضرور کہتی کہ

حمائل والا دن ہمارے پروردگار  کی عجیب قدرتوں میں سے ہے

آگاہ ہو اسی نے مجھے کفر کے شہر سے نجات دی

ام المومنین عائشہؓ کہتی ہیں  میں نے اس سے کہا کہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب کبھی تم میرے پاس آتی ہو تو یہ ضرور کہتی ہو تو اس پر اس نے مجھ سے یہ قصہ بیان کیا۔

باب : مردوں کا مسجد میں سونا (درست ہے)

(۸ ۲۷)۔ سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ سیدہ فاطمہ الزہراءؓ  کے گھر آئے تو سیدنا علیؓ کو گھر میں نہ پایا تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں ؟‘‘ وہ بولیں کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ (تنازعہ)  ہو گیا تو وہ مجھ پر غضبناک ہو کر چلے گئے اور میرے ہاں نہیں سوئے تو رسول اللہﷺ نے ایک شخص سے فرمایا : ’’ دیکھو وہ کہاں ہیں ؟ ‘ ‘ وہ (دیکھ کر)  آیا اور اس نے کہا کہ وہ مسجد میں سو رہے ہیں۔ پس رسول اللہﷺ (مسجد میں)  تشریف لے گئے اور وہ لیٹے ہوئے تھے، ان کی چادر ان کے پہلو سے گر گئی تھی اور ان کے (جسم پر)  مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہﷺ ان (کے جسم)  سے مٹی جھاڑتے اور یہ فرماتے تھے : ’’ اے ابو تراب ! اٹھو۔ اے ابو تراب ! اٹھو۔ ‘‘

باب : جب کوئی مسجد میں آئے تو (اسے چاہیے کہ)  دو رکعت نماز پڑھ لے

(۲۷۹)۔ سیدنا ابو قتادہ السلمییؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو تو اسے چاہیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ  لے۔ ‘‘

باب :مسجد کی تعمیر کا بیان

(۲۸۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ کے زمانے میں مسجد کچی اینٹوں سے (تعمیر کی ہوئی تھی) اور اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور اس کے ستون کھجور کی لکڑی کے تھے تو امیر المومنین سیدنا ابوبکرؓ نے اس میں کچھ زیادتی نہیں کی اور امیر المومنین سیدنا عمرؓ نے اس میں زیادتی کر دی اور اس کو رسول اللہﷺ کے زمانے کی عمارت کے موافق کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے بنایا اور اس کے ستون پھر لکڑی کے لگائے۔ اس کے بعد امیر المومنین سیدنا عثمانؓ نے اس کو بدل دیا اور اس میں بہت سی زیادتی کر دی اور اس کی دیوار منقش پتھروں اور گچ کی بنائی اور اس کی چھت ساگواں (ایک قسم کی لکڑی)  سے بنائی۔

باب : مسجد کی تعمیر میں ایک دوسرے کی اعانت کرنا

(۲۸۱)۔ سیدنا ابوسعید خدریؓ (ایک دن)  حدیث بیان کرنے لگے یہاں تک کہ مسجد (نبویؓ)  کی تعمیر کے بیان پر آئے تو کہنے لگے کہ ہم ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور سیدنا عمارؓ دو دو اینٹیں اٹھاتے تھے تو انھیں نبیﷺ نے دیکھا تو آپﷺ ان (کے جسم)  سے مٹی جھاڑنے لگے اور یہ فرماتے جاتے تھے کہ : ’’ وائے عمار (رضی اللہ عنہ)  کی مصیبت! انھیں ایک باغی گروہ شہید کرے گا، یہ ان کو جنت کی طرف بلاتے ہوں گے اور وہ ان کو دوزخ کی طرف بلاتے ہوں گے۔ ‘‘ ابو سعیدؓ کہتے ہیں کہ عمار کہا کرتے تھے کہ ’’ میں فتنوں سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

 باب : جو شخص مسجد بنائے (اس کا کیا ثواب ہے ؟)

(۲۸۲)۔ سیدنا عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ جب لو گ ان کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے،جس وقت کہ انھوں (عثمان)  نے رسول اللہﷺ کی مسجد بنائی، انھوں نے کہا کہ تم نے (میرے بارے میں)  بہت کچھ کہا حالانکہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ’’ جو شخص مسجد بنائے اور اللہ کی رضا مندی چاہتا ہو۔ اللہ اس کے لیے اسی کے برابر جنت میں مکان بنا دیتا ہے۔ ‘‘

 باب : جب مسجد میں گزرے تو تیر کی پیکان پکڑے

(۲۸۳)۔ سیدنا جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص مسجد میں سے گزرا اور اس کے ہمراہ کچھ تیر تھے تو اس کو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ ان کی پیکان (جس سے آدمی زخمی ہو سکتا ہے)  پکڑ لو۔ ‘‘

 باب : مسجد میں سے گزرنا سے (کس طرح چاہئے ؟)

(۲۸۴)۔ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ جو شخص ہماری مسجدوں یا بازاروں میں سے کسی تیر کے ساتھ گزرے تو اسے چاہیے کہ اس کی پیکانوں کو پکڑے کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھ سے کسی مسلمان بھائی کو زخمی کر دے۔ ‘‘

 باب : مسجد میں شعر پڑھنا (کیسا ہے ؟)

(۲۸۵)۔ سیدنا حسان بن ثابت انصاریؓ نے سیدنا ابوہریرہؓ سے گواہی طلب کی کہ میں تمہیں اللہ کی قسم دیتا ہوں (بتاؤ)  کیا تم نے نبیﷺ سے سنا ہے کہ آپﷺ (مجھ سے)  فرماتے تھے : ’’ اسے حسان ! رسول اللہﷺ کی طرف سے (مشرکوں کو)  جواب دے، اے اللہ ! حسان کی روح القدس کے ذریعے تائید فرما۔ ‘‘ تو سیدنا ابوہریرہؓ بولے کہ ہاں (میں نے سنا تھا) ۔

باب : اسلحہ بردار لوگوں کا مسجد میں داخل ہو نا۔

(۲۸۶)۔ ام المو منین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازہ پر دیکھا اور حبش کے لو گ مسجد میں کھیل رہے تھے اور رسول اللہﷺ مجھے اپنی چادر سے چھپا رہے تھے اور میں ان کے کھیل کو دیکھ رہی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ (حبشی)  اپنی تلواروں سے کھیلتے تھے۔

باب : (قرض دار سے)  مسجد میں تقاضا کرنا (اور اس کے)  پیچھے پڑنا

(۲۸۷)۔ سیدنا کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے مسجد میں ابن ابی حدرد سے اس قرض کا تقاضا کیا جوان پر تھا۔ پس دونوں کی آوازیں بلند ہو گئیں یہاں کہ انھیں رسول اللہﷺ نے سنا اور آپﷺ گھر میں تھے تو آپﷺ ان کے پاس تشریف لائے یہاں تک کہ اپنے حجرہ کا پردہ الٹ دیا اور آواز دی : ’’ اے کعب ! انھوں نے عرض کی لبیک رسول اللہ ! آپﷺ نے فرمایا: ’’ تم اپنے اس قرض سے کچھ کم کر دو اور اس کی طرف اشارہ کیا یعنی نصف (کم کر دو) ۔ ‘‘ کعبؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میں نے کم کر دیا۔ آپﷺ نے (ابن ابی حدرد سے)  فرمایا : ’’ اٹھ اور اسے ادا کر دے۔ ‘‘

 باب : مسجد میں جھاڑ و دینا اور چیتھڑوں اور کوڑے اور لکڑیوں کا اٹھا دینا (بڑے ثواب کا کام ہے)

(۲۸۸)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک حبشی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی جب وہ مر گئی تو نبیﷺ نے اس کی بابت پوچھا تو لوگوں نے کہا کہ وہ تو مر گئی،۔ فرمایا : ’’ تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی ؟ (اچھا اب)  مجھے اس کی قبر بتا دو۔ ‘‘ چنانچہ لوگوں نے بتا دی تو آپﷺ نے اس پر نماز پڑھی۔

باب : مسجد میں شراب کی تجارت کو حرام کہنا (درست ہے)

(۲۸۹)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ جب  سُود کے بارے میں سورۂ بقرہ کی آیات نازل کی گئیں تو نبیﷺ مسجد کی طرف تشریف لے گئے اور ان آیات کو لوگوں کے سامنے پڑھ دیا۔ پھر آپﷺ نے شراب کی تجارت حرام کر دی۔

باب : قیدی اور قرض دار مسجد میں باندھا جائے (تو کیا جائز ہے ؟)

(۲۹۰)۔ سیدنا ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا : ’’ ایک سرکش جن گزشتہ شب میرے سامنے آیا (یا اس کی مثل کوئی کلمہ فرمایا)  تا کہ میری نماز قطع کر دے مگر اللہ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے چاہا کہ مسجد کے ستونوں میں سے کسی ستون کے ساتھ باندھ دوں تا کہ صبح کو اسے تم لوگ دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان (علیہ السلام)  کی دعا یاد آئی کہ ’’ اے میرے پروردگار ! مجھے ایسی سلطنت دے، جو میرے بعد کسی کو نہ ملے۔ ‘‘ (ص:ٓ۳۵) (پھر اسے ذلیل کر کے آپﷺ نے واپس کر دیا) ۔

باب : مسجد میں بیماروں وغیرہ کے لیے خیمہ (نصب کرنا درست ہے)

(۲۹۱) ۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ کہتی ہیں کہ (غزوۂ)  خندق کے دن سیدنا سعدؓ کو  ہفت اندام (ایک رگ کا نام ہے)  میں زخم لگ گیا تو نبیﷺ نے ایک خیمہ مسجد میں نصب کیا تاکہ قریب سے ان کی عیادت کریں۔ پس یکایک اس حال میں کہ مسجد میں بنی غفار کا (بھی) ٰخیمہ تھا ان کی طرف خون بہہ کر آ نے لگا تو ان لوگوں نے کہا کہ اے خیمہ والو ! یہ کیا ہے ؟جو تمہاری طرف سے ہمارے پاس آتا ہے ؟ تو (کیا دیکھتے ہیں کہ)  سیدنا سعدؓ کے زخم سے خون بہہ رہا ہے پس وہ اسی سے شہید ہو گئے۔

باب : ضروریات کے لیے مسجد میں اونٹ کا لے جانا (جائز ہے)

(۲۹۲)۔ ام سلمہؓ کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے شکایت کی کہ میں بیمار ہوں تو آپﷺ نے فرمایا : ’’ تم سوار ہو کر لوگوں کے پیچھے سے طواف کرو۔ ‘‘ پس میں نے طواف کیا اور رسول اللہﷺ کعبہ کے ایک گوشہ میں نماز پڑھ رہے تھے۔ آپﷺ سورۂ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔

(۲۹۳)۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ کے اصحاب میں سے دو شخص اندھیری رات میں نبیﷺ کے پاس سے نکل کر گئے۔ (ایک ان میں سے سیدنا عباد بن بشیرؓ تھے اور دوسرے کو میں سیدنا اسید بن حضیرؓ سمجھتا ہوں)  اور ان دونوں کے ہمراہ (نور کے)  دو چراغ تھے جو ان کے سامنے روشن تھے۔ پھر جب وہ دونوں علیحدہ ہو گئے تو ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک ہو گیا، یہاں تک کہ وہ اپنے گھر پہنچ گئے۔

باب : مسجد میں کھڑ کی اور گزر گاہ (کا رکھنا درست ہے)

(۲۹۴) ۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے (ایک روز)  خطبہ پڑھا تو فرمایا کہ بیشک اللہ سبحانہٗ نے ایک بندہ کو (دنیا کے اور)  اس چیز کے درمیان،جو اللہ کے ہاں ہے، اختیار دیا (کہ چاہے جس کو پسند کر لے)  تو اس نے اس چیز کو اختیار کر لیا جو اللہ کے ہاں ہے تو امیر المومنین ابو بکر صدیقؓ (یہ سن کر)  رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اس بوڑھے کو کون سی چیز رلا رہی ہے ؟ اگر اللہ نے کسی بندہ کو دنیا کے اور اس عالم کے درمیان جو اللہ کے ہاں ہے اختیار دیا اور اس نے اس عالم کو اختیار کر لیا جو اللہ کے ہاں ہے (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے ؟ مگر آخر میں معلوم ہو ا کہ)  بندے سے مراد خود رسول اللہﷺ تھے اور (امیر المومنین)  ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ)  ہم سب میں زیادہ علم رکھتے تھے۔ پھر آپﷺ نے فرمایا : ’’ اے ابوبکر ! تم نہ روؤ بیشک سب لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کر نے والے، اپنی صحبت اور اپنے مال میں، ابو بکر صدیق ہیں اور اگر میں اپنی امت میں سے (کسی کو)  خلیل بناتا تو یقیناً ابو بکر کو بناتا لیکن اسلام کی اخوت اور اس کی محبت (کافی ہے اور)  مسجد میں ابو بکر کے دروازہ کے سوا سب کا دروازہ بند کر دیا جائے۔ ‘‘

(۲۹۵)۔ سیدنا ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنے مرض میں، جس میں آپﷺ نے وفات پائی، اپنا سر ایک پٹی سے باندھے ہوئے باہر نکلے اور منبر پر بیٹھ گئے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی حمدو ثنا بیان کی پھر فرمایا : ’’ اے لوگو! ابوبکر (رضی اللہ عنہ)  سے زیادہ اپنی جان اور اپنے مال سے مجھ پر احسان کر نے والا کوئی نہیں اور اگر میں لوگوں میں سے کسی کو خلیل بناتا  تو یقیناً ابوبکر (رضی اللہ عنہ)  کو خلیل بناتا لیکن اسلام کی خلت (دوستی،بھائی چارہ)  افضل ہے، میری طرف سے ہر کھڑکی کو جو اس مسجد میں ہے، بند کر دو سوائے ابو بکر کی کھڑکی کے (رضی اللہ عنہ) ۔

باب : کعبہ اور مسجدوں میں دروازے اور زنجیر (تالے)  رکھنا

(۲۹۶)۔ سیدنا ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ مکہ میں تشریف لائے تو عثمان بن طلحہؓ کو بلایا، انھوں نے (کعبہ کا)  دروازہ کھول دیا، پھر نبیﷺ اور بلال اور اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہؓ اندر گئے، اس کے بعد دروازہ بند کر لیا گیا، پھر آپﷺ اس میں تھوڑی دیر رہے، اس کے بعد سب لوگ نکلے۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں کعبہ کی طرف جلدی سے بھاگا اور بلالؓ سے پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ نبیﷺ نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے۔ میں نے کہا کس مقام میں ؟ انھوں نے کہا دونوں ستونوں کے درمیان۔ ابن عمرؓ کہتے ہیں مجھ سے یہ بات رہ گئی کہ ان سے پوچھتا کہ آپﷺ نے کس قدر نماز پڑھی۔

باب : مسجد میں حلقہ باندھنا اور بیٹھنا (درست ہے)

(۲۹۷)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبیﷺ سے پوچھا اور آپ (اس وقت)  منبر پر تھے کہ رات کی نماز کے بارے میں آپ کیا حکم دیتے ہیں ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ دو دو رکعت (پڑھنی چاہیے) ۔ پھر جب تم میں سے کوئی صبح (ہو جانے)  کا خوف کرے تو ایک رکعت (اور)  پڑھ لے، پس وہ ایک رکعت اس کے لیے جس قدر پڑھ چکا (سب کو)  وتر کر دے گی۔ اور سیدنا ابن عمرؓ کہا کرتے تھے کہ رات کو اپنی آخری نماز وتر کو بناؤ اس لیے کہ نبیﷺ نے اس کا حکم دیا ہے۔

باب : مسجد میں چت لیٹنا درست ہے

(۲۹۸)۔ سیدنا عبد اللہ بن زید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبیﷺ کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا اور آپﷺ اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھے ہوئے تھے۔

باب :بازار کی مسجد میں نماز پڑھنا (درست ہے)

(۲۹۹)۔ سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جماعت کی نماز، اپنے گھر کی نماز اور اپنے بازار کی نماز سے پچیس (۵۰)  درجے (ثواب میں)  فوقیت رکھتی ہے، اس لیے کہ جب تم میں سے کوئی وضو کرے اور اچھا وضو کرے اور مسجد میں محض نماز ہی کا ارادہ کر کے آئے تو وہ جو قدم رکھتا ہے، اس پر اللہ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور ایک گناہ معاف کر دیتا ہے یہاں تک کہ وہ مسجد میں داخل ہو جاتا ہے تو نماز میں سمجھاجاتا)  ہے، جب تک کہ نماز اسے رو کے اور فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک کہ وہ اس مقام میں رہے جہاں نماز پڑھتا ہے۔ فرشتے یوں دعا کرتے ہیں کہ ’’ اے اللہ ! اس کے گناہ معاف فر مادے، اے اللہ ! اس پر رحم کر‘‘ (یہ دعا اس وقت تک جاری رہتی ہے)  جب تک وہ بے وضو نہ ہو۔

باب : مسجد وغیرہ میں تشبیک کرنا (ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسری میں ڈالنا)

(۳۰۰)۔ سیدنا ابو موسیٰ  نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ مومن، مومن کے لیے مثل عمارت کے ہے کہ اس کا ایک حصہ دسرے حصے کو تقویت دیتا ہے۔ ‘‘ اور آپﷺ نے اپنی انگلیوں میں تشبیک فرمائی۔

(۳۰۱)۔ سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں زوال کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی تو آپﷺ نے ہمیں دو رکعت پڑھا کر سلام پھیر دیا، پھر آپ ایک لکڑی کے پاس کھڑے ہو گئے جو مسجد میں گاڑی ہوئی تھی اور اس پر آپﷺ نے ٹیک لگائی جیسے آپﷺ غضبناک ہوں اور آپ نے اپنا داہنا ہاتھ بائیں پر رکھ لیا اور اپنی انگلیوں کے درمیان تشبیک فرمائی (یعنی ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں)  اور اپنا داہنا رخسار اپنی بائیں ہتھیلی کی پشت پر رکھ لیا اور جلد باز لوگ مسجد کے دروازوں سے نکل گئے تو صحابہ نے عرض کی،نماز کی کر دی گئی ؟ اور لوگوں میں سیدنا ابوبکر و عمرؓ تھے، مگر وہ دونوں آپﷺ سے کہتے ہوئے ڈرے اور ان لوگوں میں سے ایک شخص تھا، جس کے ہاتھ کچھ لمبے تھے، اس کو ذوالیدین کہتے تھے، تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! آپ بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ؟ آپ نے فرمایا: ’’ میں (اپنے خیال میں)  نہ بھولا ہوں اور نہ نماز کم کی گئی۔ ‘‘ پھر آپﷺ نے (لوگوں سے)  فرمایا : ’’ کیا ایسا ہی ہے جیسا ذوالیدین کہتے ہیں ؟‘‘ تو لوگوں نے کہا ہاں۔ پس آپﷺ آگے بڑے اور جس قدر نماز چھوڑی تھی، پڑھ لی۔ اس کے بعد سلام پھیر کر تکبیر کہی اور مثل اپنے سجدوں کے سجدہ کیا یا (وہ سجدہ)  کچھ زیادہ طویل (تھا)  پھر آپﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور تکبیر کہی، اس کے بعد پھر تکبیر کہی اور مثل اپنے سجدوں کے یا اس سے کچھ زیادہ طویل سجدہ کیا۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ پھر آپﷺ نے سلام پھیرا۔ ‘‘

 باب : وہ مسجدیں جو مدینہ کے راستوں پر ہیں اور وہ مقامات جن میں نبیﷺ نے نماز پڑھی (کون سے ہیں)

(۳۰۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ راستہ میں کچھ مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے اور کہتے کہ میں نے نبیﷺ کو ان مقامات میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔

(۳۰۳)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ جب (بھی) عمرہ یا حج ادا فرماتے تو (مقام)  ذوالحلیفہ میں بھی اترتے تھے اور جب کسی غزوہ سے لوٹتے اور اس راہ میں (سے)  ہو (کر آتے) یا حج یا عمرہ میں ہوتے تو وادی کے اندر اتر جاتے، پھر جب وادی کے گہراؤ سے اوپر آ جاتے تو اونٹ کو اس بطحا میں بٹھلا دیتے جو وادی کے کنارے پر بجانب مشرق ہے، پس آخر شب میں وہیں آرام فرماتے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی (یہ مقام جہاں آپﷺ استرا حت فرماتے)  اس مسجد کے پاس نہیں ہے جو پتھروں سے بنی ہے اور نہ اس ٹیلہ پر ہے جس کے اوپر مسجد ہے بلکہ اس جگہ ایک چشمہ تھا کہ سیدنا عبداللہؓ اس کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے، پھر اس میں بطحا سے سیل بہہ کر آیا یہاں تک کہ وہ مقام جہاں سیدنا عبداللہؓ نماز پڑھتے تھے،پر ہو گیا۔

(۴ ۳۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ نے اس مقام پر نماز پڑھی ہے جہاں چھوٹی مسجد ہے، جو اس مسجد کے قریب ہے جو روحاء کی بلندی پر ہے اور سیدنا عبداللہؓ اس مقام کو جانتے تھے جہاں نبیﷺ نے نماز پڑھی ہے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ وہ تمہارے داہنی طرف ہے جب تم مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو اور یہ مسجد راستے کے داہنے کنارے پر ہے جب کہ تم مکہ کی طرف جا رہے ہو، اس کے اور بڑی مسجدکے درمیان کم و بیش ایک پتھر پھینکنے کی دور ی ہے۔

(۳۰۵) ۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس پہاڑی کے پاس (بھی)  نماز پڑھتے تھے جو روحاء کے آخری کنارے کے پاس ہے اور (مکہ کو جاتے ہوئے)  اس پہاڑی کا کنارہ مسجد کے قریب روحاء کے آخری کنارے کے درمیان ہے اور اس جگہ ایک دوسری مسجد بنا دی گئی ہے، مگر عبداللہ بن عمرؓ اس مسجد میں نماز نہ پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے پیچھے بائیں جانب چھوڑ دیتے تھے اور اس کے آگے (بڑھ کر)  خاص پہاڑی کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور سیدنا عبداللہؓ روحا ء سے صبح کے وقت چلتے تھے، پھر ظہر کی نماز نہ پڑھتے تھے یہاں تک کہ اس مقام پر پہنچ جاتے، پس وہیں ظہر کی نماز پڑھتے اور جب مکہ سے آتے تو اگر صبح سے کچھ پہلے یا آخر شب میں اس مقام پر پہنچتے تو وہیں ٹھہر جاتے یہاں تک کہ صبح کی نماز وہیں پڑھتے۔

(۳۰۶)۔ سیدنا عبداللہؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ (مقام)  رویثہ کے قریب راستہ کے داہنی جانب اور راستہ کے سامنے کسی گھنے درخت کے نیچے کسی وسیع اور نرم مقام میں اترتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ اس ٹیلے سے جو برید رویثہ سے قریب دو میل کے ہے، باہر آتے اور اس درخت کے اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے اور وہ درمیان سے دہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے اور اس کی جڑ میں (ریت کے)  بہت سے ٹیلے ہیں۔

(۳۰۷)۔  سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا نبیﷺ نے اس ٹیلے کے کنارے پر (بھی)  نماز پڑھی ہے جو (مقام)  عرج کے پیچھے ہے، جب کہ تم (قریہ)  ہضبہ کے طرف جا رہے ہو، اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، قبروں پر پتھر (رکھے)  ہیں (وہاں آپﷺ نے راستہ کی داہنی جانب راستہ کے پتھروں کے پاس نماز پڑھی ہے)  انھیں پتھروں کے درمیان میں۔ سیدنا عبداللہؓ بعد اس کے کہ دوپہر کو سورج ڈھل جاتا، مقام عرج سے چلتے اور ظہر کی نماز اسی مسجد میں پڑھتے (مطلب یہ ہے کہ ان پتھروں کے درمیان مسجد بن چکی تھی)۔

(۳۰۸)۔ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ اس مسیل میں جو ہرشی (پہاڑ)  کے قریب ہے راستہ کے داہنی جانب درختوں کے پاس اترے مسیل،ہر شی (پہاڑ)  کے کنارے سے ملا ہوا ہے، اس کے اور راستہ کے درمیان قریباً ایک تیر کی مار کا فاصلہ ہے اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ اس درخت کے پاس نماز پڑھتے تھے، جو سب درختوں سے زیادہ راستہ کے قریب تھا اور ان سے سب سے زیادہ لمبا تھا۔

(۳۰۹)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے کہا کہ رسول اللہﷺ اس مسیل پر (بھی)  اترے تھے جو (مقام)  مرالظہران کے اخیر میں مدینہ میں طرف ہے جبکہ کوئی شخص صفرادات (کے پہاڑوں)  سے اترے، آپﷺ اس مسیل کے گھیراؤ میں راستہ کی بائیں جانب، جب کہ تو مکہ کی طرف جا رہا ہو، نزول فرماتے تھے، رسول اللہﷺ کے اترنے کی جگہ اور راستہ کے درمیان صرف ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے۔

(۳۱۰)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ (مقام)  ذی طویٰ میں اترتے تھے اور رات کو وہیں رہتے تھے یہاں تک کہ صبح ہو جاتی اور صبح کی نماز پڑھتے (یہ اس وقت)  جب کہ آپﷺ مکہ تشریف لاتے اور رسول اللہﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک سخت ٹیلہ پر ہے نہ کہ اس مسجد میں، جو وہاں بنائی گئی ہے بلکہ اس سے نیچے اسی سخت ٹیلہ پر ہے۔

(۳۱۱)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے بیان کیا کہ نبیﷺ اس پہاڑ کے دو کونوں کے سامنے آئے وہ کونا کہ جو اس پہاڑ اور بڑے پہاڑ کے درمیان کعبہ کی طرف ہے پھر آپﷺ نے اس مسجد کو جو وہاں بنائی گئی ہے، اس مسجد کی بائیں جانب چھوڑ دیا جو ٹیلہ کی طرف ہے اور نبیﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلہ کی اوپر ہے، ٹیلے سے دس گز یا اس کے قریب چھوڑ کر۔ پھر پہاڑ کے ان دونوں کونوں کی طرف جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہیں منہ کر کے نماز پڑھو۔

باب : امام کا سترہ مقتدیوں کا (بھی)  سترہ ہے

(۳۱۲)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبیﷺ جب عید کے دن (نماز پڑھانے)  نکلتے تو حکم دیتے کہ حربہ (چھوٹا نیزہ)  آپ کے سامنے گاڑ دیا جائے اور آپﷺ اس کی طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھاتے اور لوگ آپﷺ کے پیچھے ہوتے اور سفر میں (بھی)  آپﷺ یہی کیا کرتے تھے، اسی جگہ سے امراء نے اسے اختیار کر لیا ہے۔ (یعنی بر چھی اپنے پاس رکھنے کو اختیار کر لیا) ۔

(۳۱۳)۔ سیدنا ابوحجیفہؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ نے بطحاء میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔ ظہر کی دو رکعت اور عصر کی دو رکعت، اس حالت میں کہ آپﷺ کے سامنے ایک نیزہ گڑا ہوا تھا اور آپﷺ کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔

باب : نماز پڑھنے والے اور سترہ کے درمیان (زیادہ سے زیادہ)  کتنا فاصلہ ہونا چاہیے ؟

(۳۱۴) ۔ سیدنا سہل بن سعدؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے نماز پڑھنے کی جگہ اور دیوار کے درمیان ایک بکری کے گزر جا نے کے بقدر فاصلہ ہوتا تھا۔

باب : نیزہ کی طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھنا (درست ہے)

(۳۱۵)۔ سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ نبیﷺ جب قضائے حاجت کے لیے باہر تشریف لے جاتے تو میں اور ایک لڑکا آپﷺ کے پیچھے جاتے، ہمارے پاس ایک عکازہ (گانسی دار لکڑی)  یا لاٹھی یا نیزہ ہوتا تھا اور ہمارے ساتھ ایک پانی کی چھاگل ہوتی تھی ۔ پس جب آپﷺ اپنی حاجت سے فارغ ہوتے تو وہ چھاگل ہم آپﷺ کو دے دیتے۔

 باب : ستون کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا درست ہے

(۳۱۶)۔ سیدنا سلمہ بن اکوعؓ سے روایت ہے کہ وہ (مسجد نبوی)  میں اس ستون کے پاس نماز پڑھا کرتے تھے جو مصحف کے قریب تھا تو (ان سے)  پوچھا گیا کہ اے ابو مسلم ! میں (یزید بن ابی عبیدہ)  تمہیں دیکھتا ہوں کہ تم اس ستون کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش کیا کرتے ہو ؟ تو انھوں نے کہا میں نے نبیﷺ کو اس کے پاس نماز پڑھنے کی کوشش فرماتے دیکھا ہے۔

باب : بغیر جماعت کے ستونوں کے درمیان نماز پڑھنا (درست ہے)

(۳۱۷)۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ رسول اللہﷺ کے کعبہ میں داخل ہو نے کی حدیث بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ کعبہ میں داخل ہوئے۔ میں نے سیدنا بلالؓ سے پوچھا (جب وہ باہر آ گئے)  کہ نبیﷺ نے (کعبہ نے اندر)  کیا کیا ؟ سیدنا بلالؓ نے کہا کہ آپﷺ نے ایک ستون کو اپنی بائیں جانب کر لیا اور ایک ستون کو اپنی داہنی جانب اور تین ستونوں کو پیچھے کر لیا اور  نماز پڑھی اور اس وقت کعبہ چھ ستونوں پر (بنا ہوا)  تھا۔ ایک دوسری روایت میں ہے (امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں)  کہ دوستونوں کو اپنی داہنی جانب کر لیا۔

باب : سواری، اونٹ، درخت اور کجاوہ کی طرف نماز پڑھنا

(۳۱۸)۔ سیدنا ابن عمرؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ اپنی سواری کو چوڑائی میں بٹھا دیتے تھے اور اس کی طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھتے تھے (عبید اللہ راوی نے نافع راوی سے پوچھا)  کہ جب سواریاں چرنے   کے لیے چلی جاتیں (تو پھر آپﷺ کیا کرتے تھے؟)  وہ بولے کہ آپﷺ کجاوے کو لے لیتے تھے پھر اس کے پچھلے حصے کی طرف یا (یہ کہا کہ)  اس کے آخری حصے کی طرف نماز پڑھ لیتے تھے اور ابن عمرؓ بھی یہی کہتے تھے۔

باب : تخت یا چارپائی کی طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھنا (درست ہے)

(۳۱۹)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ نے کہا کیا تم لوگوں نے ہمیں کتے اور گدھے کے برابر کر دیا ؟ بے شک میں نے اپنے آپ کو چار پائی پار لیٹا ہوا دیکھا اور نبیﷺ تشریف لاتے تھے تو چار پائی کے بیچ میں (کھڑے ہو کر)  نماز پڑھتے اور میں اس بات کو برا جانتی تھی کہ (نماز میں)  آپﷺ کے سامنے رہوں پس میں چار پائی کے پایوں کی طرف نکل جاتی یہاں تک کہ اپنے لحاف سے باہر ہو جاتی۔

باب : نمازی، اپنے سامنے سے گزرنے والے کو واپس کر دے

(۳۲۰)۔ سیدنا ابو سعید خدریؓ جمعہ کے دن کسی چیز کے طرف (منہ کر کے)  نماز پڑھ رہے تھے جو ان کو لوگوں سے چھپاتی تھی۔ پس ایک جوان نے جو (قبیلہ)  بنی ابی معیط سے تھا، یہ چاہا کہ ان کے آگے سے نکل جائے تو سیدنا ابو سعیدؓ نے اس کے سینہ میں دھکا دیا، پس اس جوان نے کوئی سبیل نکلنے کی، سوائے ان کے آگے کے نہ دیکھی تو پھر اس نے چاہا کہ نکل جائے، پس ابو سعیدؓ نے پہلے سے زیادہ سخت اسے دھکا دیا، اس پر اس نے ابو سعیدؓ کی بے حرمتی کی۔ اس کے بعد وہ مروان کے پاس گیا اور ابو سعیدؓ سے جو معاملہ ہو ا تھا اس کی مروان سے شکایت کی اور اس کی پیچھے (پیچھے)  ابو سعیدؓ (بھی)  مروان کے پاس گئے تو مروان نے کہا کہ اے ابو سعید ! تمہارا اور تمہارے بھائی کے بیٹے کا کیا معاملہ ہے ؟ ابو سعیدؓ نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میں سے کوئی شخص کسی ایسی چیز کی طرف نماز پڑھ رہا ہو جو اسے لوگوں سے چھپائے پھر کوئی شخص اس کے سامنے سے نکلنا چاہے تو چاہیے کہ اسے ہٹا دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے، اس لیے کہ وہ شیطان ہی ہے۔

باب : نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزر نے والے کا گناہ

(۳۲۱)۔ سیدنا ابو جہیمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اگر نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والا یہ جان لیتا کہ اس پر کس قدر گناہ ہے، تو بے شک اسے چالیس۔ ۔ ۔ تک کھڑا رہنا بھلا معلوم ہوتا اس بات سے کہ اس کے سامنے سے نکل جائے۔ ‘‘ (ابو نضر)  راویِ حدیث کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ چالیس دن کہا یا چالیس مہینے یا چالیس بر س۔

باب : سوئے ہوئے آدمی کے پیچھے نماز پڑھنا

(۳۲۲)۔ ام المومنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ بے شک رسول اللہﷺ نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور میں عرض کے بل آپﷺ کے سامنے بستر پر سو رہی ہوتی تھی۔ پس جب آپﷺ وتر پڑھنے کا ارادہ فرماتے تو مجھے جگا دیتے تو میں بھی وتر پڑھ لیتی۔

باب : اگر حالت میں نماز میں کسی چھوٹی لڑکی کو اپنی گردن پر اٹھائے (تو کچھ مضائقہ نہیں)

(۳۲۳)۔ سیدنا ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نماز پڑھتے تھے اور آپﷺ (اسی حالت میں)  ابو لعاص بن ربعیہ بن عبدالشمس کی بیٹی امامہ بنت زینب، بنت رسول اللہﷺ کو اٹھائے ہوتے تھے۔ پھر جب سجدہ کرتے تو ان کو اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو ان کو اٹھا لیتے۔ (سیدہ زینبؓ رسول اللہﷺ کی صاحبزادی، امامہ نواسی اور ابو العاص داماد تھے)۔

باب : (کیا جائز ہے کہ)  عورت نماز پڑھنے والے (کے جسم)  سے نا پاکی کی کوئی چیز ہٹا دے؟

(۳۲۴)۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود کی حدیث، نبیﷺ کی قریش پر بد دعا کرنے کے بارے میں، جو کہ آپﷺ نے قریش پر اس دن کی تھی جس دن انھوں نے آپ پر اوجھڑی رکھ دی تھی، پہلے گزر چکی ہے (دیکھے حدیث : ۱۷۸) اور اس روایت میں اتنا زیادہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد وہ گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں ڈال دیے گئے۔ پھر رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’ اس کنویں والوں پر لعنت کی گئی ہے۔ ‘‘

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔