FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

زبیر رضوی

 

مخدوم کی تخلیقی فہم

 

 

مخدوم محی الدین نے اپنی تخلیقی زندگی میں اپنے ہم عصروں کے مقابلے کم لکھا اور اسی تناسب سے ان کی شاعری پر بھی کم لکھا گیا۔ سلیمان اریب کے رسالے ’’صبا‘‘ اور ماہ نامہ ’’نیا آدم‘‘ کے مخدوم نمبروں کے ساتھ داؤد اشرف کا مضمون، مخدوم کے یار مرزا ظفر الحسن نے عمر گزشتہ کی کتاب اور ذکر یار چلے اور دکن اداس ہے یارو ۱۹۸۶ء میں شائع ہونے والی شاذ تمکنت کی کتاب ’’مخدوم محی الدین شخصیات اور فن اور روسی مستشرق الیکسی سوخاچیف کی کتاب کے علاوہ کچھ بکھرے ہوئے مضامین بھی ہیں جو مخدوم کی شاعری کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں۔ بعض لوگوں کے خیال میں عالم خوندمیری نے مخدوم کی نظم ’’زلف چلیپا‘‘ کو مخدوم کی مقبول ہونے والی شاعری سے گریز پائی کا ایک اہم موڑ قرار دے کر مخدوم کے انقلابی اور باغی شاعر کے امیج کو ان کے سیاسی نظریات کا منطقی نتیجہ کہنے کی کم زور دلیل دی تھی۔ بالفرض اگر مخدوم کے پہلے مجموعے ’’سرخ سویرا‘‘ اور اس میں شامل نظموں، جنگِ آزادی، مستقبل، سپاہی، حویلی، مشرق، باغی تلنگانہ اور جہان نو، کو ان کی شاعری کا کلیدی رنگ مان لیا جائے تو بھی اسے شاعر مخدوم کا آدھا ادھورا چہرہ ہی کہا جائے گا۔ الیکسی سوخاچیف نے مخدوم کے اشتراکیت سے مملو باغی شاعر کو ہی اپنی کتاب میں چمک دمک دینے کی سعی کی ہے حالاں کہ ان کی کتاب میں رومانی شاعر مخدوم پر بھی اچھی خاصی روشنی پڑتی ہے۔ سوخاچیف کی کتاب کا قاری چوں کہ اشتراکیت پسند روسی تھا اور وہ اسی فلسفے کی آغوش کا پروردہ تھا اس لیے انھوں نے اپنے تجزیاتی مطالعے میں مخدوم پر تفصیل سے لکھتے ہوئے مخدوم کے شاعرانہ مرتبے کی تعین میں ان کی فطری رومانیت کو ان کی نظریہ آمیز شاعری پر ترجیح نہیں دی۔ ’’سرخ سویرا‘‘ میں مخدوم جس صبح اور جس نئی دنیا اور نئے آدم کے منتظر نظر آتے ہیں وہ ان کے ایقان اور امید کی دین ہے کہ انقلاب آئے گا اور جب وہ آئے گا تو نئے آدم کے ہاتھوں زندگی کا چہرہ ہی بدل کے رہ جائے گا۔ سوخاچیف کی کتاب اسامہ فاروقی کے ترجمے کے حوالے سے اردو قاری تک ۱۹۹۳ء میں پہنچی لیکن اس سے پہلے ۱۹۸۶ء میں شاذ تمکنت کا پی ایچ۔ڈی والا مقالہ ’’مخدوم محی الدین : حیات اور کارنامے ‘‘ کتابی صورت میں شائع ہو چکا تھا۔ سوخاچیف نے مخدوم پر کتاب لکھتے ہوئے شاذ تمکنت کی کتاب کو ایک اہم ماخذ کے طور پر اپنے سامنے رکھا تھا شاذ نے مخدوم کی شاعری اور شخصیت کے سات باب بنائے تھے اور مخدوم کی رومانی شاعری کو کتاب کے دوسرے ہی باب میں موضوع گفتگو بنانا شروع کر دیا تھا کیوں کہ مخدوم کی شاعری جہاں بھی اپنے عشقیہ لہجے میں صورت پذیر ہوئی ہے شاذ کی ساری دید و شنید اسی طرف مرکوز ہو کے رہ گئی ہے کہ شاذ ایک عاشق شاعر تھا اس لیے شاذ کا عاشق شاعر مخدوم کی شخصیت اور اس کی عشقیہ شاعری سے بڑے شوق اور شدت سے قریب آ جانا فطری بھی تھا۔ رومانیت والے اس باب میں شاذ نے اپنے اس خیال کو کلید بنایا:

’’مخدوم اور ان کے معاصرین فیض، مجاز، جاں نثار اختر، جذبی، علی سردار جعفری وغیرہ کی ابتدائی شاعری کے پیشوا دو نہایت اہم شاعر جوش اور اختر شیرانی سامنے آتے ہیں ‘‘۔

شاذ نے اپنی کتاب کے اس حصے میں اثر انداز ہونے والے اور اثر قبول کرنے والے شاعروں کی شاعری میں ایک جیسی کیفیاتی فضا اور لفظیات کے صوتی آہنگ کا حوالہ دے کر انھیں ایک ہی تخلیقی Gene والا تخلیقی کنبہ، قرار دے دیا۔

شاذ کی بعض نظموں میں خود چوں کہ جوش، فراق اور اخترالایمان کا شعری لب و لہجہ جھلکتا دمکتا محسوس ہوتا ہے اس لیے شاذ نے اس ہم رنگی کو خاصی اہمیت دے کر بیان کیا ہے۔ جب کہ اس نوعیت کی تخلیقی مماثلت کے باب میں اردو تنقید ہمیشہ ہی لب کشا ہوتی رہی ہے۔ خود تخلیقی ذہن رکھنے والوں نے اپنے اسلوب، ڈکشن اور شعری لفظیات اور ہیئت پسندیوں کے بارے میں یہ وضاحت بار بار کی ہے کہ دراصل یہ نفسِ مضمون ہے جو اپنے اظہار کے لیے کسی بھی حقیقی شاعر سے اپنی شعری صورت گری کے لیے اسلوب، ڈکشن، تلمیحات اور لفظیات کے تعین اور انتخاب میں سب سے زیادہ معاون بنتا ہے۔ خلیل الرحمن اعظمی اور ناصر کاظمی نے جب میر کے طرز میں غزلیں کہی تھیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جس عہد میں سانس لے رہے ہیں وہ کبھی کبھی ہمیں طرز میر میں غزل کہنے کی تحریک دیتا ہے کیوں کہ یہ طرز میر ہے جو ہمارے اپنے اور ہمارے زمانے کے Ethos کو بیان کرنے کے لیے موزوں ترین اظہار ہے۔ طرز میر کے لیے یہ جواز دینے کے بعد یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر ہماری غزل اور طرز میر والی غزل میں کوئی مشابہت نظر آتی ہے تو اس کی وجہ ایک جیسی تخلیق Gene ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ کسی شاعر کی ابتدائی شاعری کے خمیر میں اپنے عصر کے تخلیقی مزاج سے اثر پذیری قابلِ گرفت نہیں بنتی۔ اس کے برعکس حسن کو نئے رنگوں کے ساتھ اپنے خیالی کینوس پر زندگی کی خاکہ نگاری کرنی ہوتی ہے یا جن کے شعری سفر کو پر خار راہوں سے گزر کر اپنی منزل پانی ہوتی ہے وہ اپنے سفر اور رختِ سفر کی نشانیاں پیچھے چھوڑتے ہوئے ایک نئے طور پر ایک نئی برق تجلی کی تمنا میں ہر دشت امکاں کو نقش پا بنا دیتے ہیں، مخدوم کو اس بات کا عرفان تھا۔ ’’گل تر‘‘ کے دیباچے میں مخدوم نے یہ کہہ کر اپنے تخلیقی خد و خال کو روشن کر دیا تھا:

’’جب آپ گل تر کو پڑھیں گے تو شاید آپ بھی اس عمل سے گزریں اور ذہن ’’سرخ سویرا‘‘ اور ’’گل تر‘‘ میں مقابلہ بھی کرنے لگے، شاید یہ خیال بھی آئے کہ کلام کا یہ مجموعہ اپنی سج دھج، نفس مضمون، حقیقت، ندرت، جمالیاتی کیفیت و کمیت اور تاثر کے اعتبار سے سرخ سویرا سے مختلف ہے ‘‘۔

مخدوم نے یہ بھی وضاحت کی کہ ’’گل تر‘‘ کے مطالعے سے قبل آپ کو میری پچھلی شاعری یویناً یاد آئے گی، وہ اشعار بھی یاد آئیں گے جو آپ کو پسند ہیں اور جو مدت سے آپ کے حافظے میں روشن ہیں۔ مخدوم کو معلوم تھا کہ ’’گل تر‘‘ میں ان کی شاعری اپنا رنگ و آہنگ بدل چکی ہے اور وہ ’’گل تر‘‘ میں اپنی شاعری کے ایک نئے چہرے کے ساتھ سامنے آئے ہیں جس سے مانوس ہونے میں ان کے قاری کو وقت لگے گا۔ دراصل مخدوم کسی قدر دھیمی آواز میں یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ’’گل تر‘‘ کی شاعری اپنے پچھلے تخلیقی امیج کو رد کرنے کا ایک فطری عمل ہے کیوں کہ تخلیقی عمل جامد اور جگہ رک کر تا حیات وہیں قیام کرتے رہنے کا عمل نہیں ہے اور یہ بھی کہ خود کو رد کرنے کا مطلب اپنی شاعری کو ایک نئی صورت دینے کے عمل سے گزرنا ہے۔ مخدوم نے اسی بات کو قاری سے اس طرح کہا ہے :

’’یہ فرق میری نظر میں ایک نیا پن ہے جو عمر تجربے اور خود عہد حاضر کی نوعیت کے اپنے ما سبق سے مختلف ہونے کا نتیجہ ہے جو سماجی اور شعوری ارتقا کی نشان دہی کر تا ہے پھر بھی انسان دوستی اور سمٹا ہوا جمالیاتی اثر مشترک ہے۔ زماں مکاں کا پابند ہونے کے باوجود شعر بے زماں Timeless ہوتا ہے اور شاعر ایک عمر میں کئی عمریں گزارتا ہے ‘‘۔

مخدوم نے ’’گل تر‘‘ کو تمنا کا دوسرا قدم مانا تھا لیکن یہ بات واضح کر دی تھی کہ ان کے شعری ادب کی قرات کس ڈھنگ سے زیادہ مناسب ہو گی یعنی ان کے مشہور کر دیے گئے یا یوں کہیے کہ تشہیر یافتہ شاعرانہ پہچان کے حوالے سے یا پھر ان کے نئے شعری آفاق کے حوالے سے جہاں ان کی شاعری کرۂ ادب پر بے زماں ہو کر دو امیت کا سانس لینا چاہتی ہے۔

مخدوم نے ’’سرخ سویرا‘‘ اور ’’گل تر‘‘ کے درمیان تخلیقی بعد اور فاصلے کا اعتراف کرتے ہوئے اور ادب اور تخلیقی رویے پر نپی تلی بات کرتے ہوئے، انسان دوستی اور انسانی جمالیات کو قدر مشترک قرار دیا ہے۔ ہمیں مخدوم کے انہی کلیدی شعری استعاروں کو سمجھنا ہو گا۔ فیض اکیلے شاعر ہیں جنھیں مخدوم کا ہم مزاج اور ہم مشرب و ہم مسلک شاعر کہا جا سکتا ہے۔ دونوں کی شاعری کی بنا دہکتے ہوئے جوان جذبوں پر استوار ہوئی تھی۔ یہ عہد شباب کے وہ فطری جذبے تھے جو کبھی سینے میں یادوں کے الاؤ روشن کر دیتے تو کبھی کسی کے قدموں کی خواب ناک آہٹیں سننے کے لیے جاگتے رہتے ہیں۔ فیض اور مخدوم کی نظموں میں عشق بے محابا بھی ہے اور بے حساب بھی۔ جذبے اور احساس میں بلا کی گھلاوٹ اور سرشاری ہے۔ محبوب کا جو حیاتی پیکر ان نظموں میں ابھر کے آتا ہے اور بڑی حد تک ان سراپوں اور پیکروں سے بڑا مختلف ہے جو چلمنوں اور آدھے کھلے دریچوں سے چھن چھن کے زاویوں میں تقسیم ہوتا ہوا نگاہوں کی گرفت میں آیا تھا۔ یہاں تو وہ روبرو آنکھوں کے حصار میں قید ہوتا ہوا اپنی دید سے سرشار و مضطرب کرتا ہوا ایک حسن لازوال ہے۔ یہ ہجر اور وصل کے درمیان ہچکولے کھاتا ہوا مانوس عشقیہ تجربہ نہیں ہے۔ یہ غم یار سے غم روزگار کی طرف گریز پا ہونے والا رویہ بھی نہیں ہے (کم از کم مخدوم کی حد تک)۔ یہ عشق کی وہ جمالیات ہے جو انسان کے آفاقی سروکار سے جا ملتی ہے۔ مخدوم نے عشق کی اسی جمالیات سے اپنی نظموں کی کیاریوں میں وہ پھول کھلائے ہیں جو مرجھاتے نہیں اور جن کی خوش بو ازل گیر اور ابد تاب ہے۔ اس عشق کو دیکھ کر خدا بھی مسکرا دیتا ہے، قاضی عبدالغفار نے پتے کی بات کہی تھی، یہ عشق وہ ہے جو اپنے لیے اگر خدا کو مہربان کر لیتا ہے تو زمین آسمان بھی اس کے بوسۂ لب کے لیے مچل اٹھتے ہیں۔

میں نے مخدوم پر اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’سرخ سویرا‘‘ میں مخدوم ’’اندھیرا‘‘ اور ’’انتظار‘‘ جیسی نظم میں اپنے ڈکشن اور لہجے کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ وہ سیاسی کمٹمنٹ جو ’سرخ سویرا‘ میں کسی قدر Loud تھا وہ ’گل تر‘ اور اس کے بعد کی نظموں میں ہلکے بیانیہ کے بجائے رمزیہ تہہ داری سے آراستہ ہوتا چلا گیا۔ اب شاعری میں سیاسی موضوعات کی ارادتاً راہ داری کا احساس نہیں ہوتا۔ قید، جیسی نظم اردو کے زندانی ادب میں سر فہرست نظم بن جاتی ہے۔ فیض دوسرے شاعر ہیں جو زنداں کو اپنے لیے جبر اور زباں بندی کا ایک مستقل استعارہ بنا لیتے ہیں۔ مخدوم کے لیے داروگیر کا موسم تو سدا بہار موسم کی طرح ان کے قدموں میں زنجیر بنا رہتا تھا لیکن وہ قید کے بعد چارہ گر، چاند تاروں کا بن جیسی نظمیں لکھتے رہے ’سرخ سویرا‘ میں وقتی اور علامتی موضوعات پر نظم لکھنے کا رویہ مخدوم کی شاعری میں اب راہ نہیں پاتا۔وہ شاعری کو ابد گیر اور دوامی قدروں کا حامل بنانے والی شاعری کے رموز سے آشنا ہوتے جا رہے تھے۔ پکاسو کی پینٹنگ گویٹرنیکا جسے اسپین کے جمہوریت پرستوں نے جنرل فرانکو کے خلاف جدوجہد کا ترجمان نہ بن سکنے کی بنا پر رد کر دیا تھا آج ساری دنیا کے لیے وہ جبر، ظلم کے خلاف ایک مثالی تخلیقی احتجاج بن کر ابھری ہے۔ اسی طرح مخدوم کی کئی نظمیں بے زماں ہو کر کرۂ ادب کے گرم اور سرد منطقوں میں دوامیت کی حامل زندگی جی رہی ہیں۔

آخری ایک بات یہ کہ مخدوم نے بار بار اپنی شاعری میں ایک نئی صبح اور ظلمت کو سرنگوں کرنے والے خورشید جہاں تاب کی آمد کی نوید سنائی تھی لیکن ’بساطِ رقص‘ کی آخری نظموں تک آتے آتے مخدوم جیسا مستقبل پسند شاعر اداس اور تنہا دکھائی دیتا ہے۔ شاعر کا یہ Disillusion ہم سے ایک نئے تجزیے کی امید رکھتا ہے۔ خاص طور سے ان حالات میں جن میں ہم نے مارکس اور لینن کی آرام گاہ بننے والے سویت یونین کے سقوط کا المیہ اپنی حیرت زدہ آنکھوں سے دیکھا تھا۔

 

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر لئیق صلاح

 

 

مخدوم بہ حیثیت ڈراما نگار اور اداکار

 

 

مخدوم محی الدین کو عموماً لوگ شاعر اور ٹریڈ یونین کی حیثیت سے زیادہ جانتے ہیں لیکن ان کی نثری تصانیف، بہ طور خاص ڈراما نگاری کے تعلق سے بہت کم واقفیت ہے۔ مرزا ظفر الحسن نے مخدوم کی زندگی کو تین زاویوں کا مثلث بتلایا ہے۔ شاعری، ڈراما اور سیاست۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مخدوم ڈراما نگار بھی تھے، ہدایت کار بھی اور اداکار بھی۔ وہ ایک طربیہ (Comedian) اداکار تھے۔

سچ پوچھا جائے تو مخدوم کا پہلا زینہ ’’ڈرامہ نگاری‘‘ ہی ہے۔ مخدوم نے طالبِ علمی کے دور میں ایک نظم ’’پیلا دوشالہ‘‘ منظوم کی تھی۔ وہ ایک وقتی تاثر تھا۔ اس میں شک نہیں کہ اس نظم سے ان کی شعری صلاحیت کا اندازہ ضرور ہوا۔

مخدوم کی ڈرامہ نگاری اور اداکاری کو ایک غیر شعوری فعل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انھوں نے ایک مقالہ ’’اردو ڈراما اور اسٹیج‘‘ ایم۔اے کے امتحان کے لیے سپردِ قلم کیا تھا۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ انھیں اس فن کے تعلق سے کس قدر جان کاری تھی۔

مخدوم نے اپنے مقالے کو دس ابواب (Chapters) میں تقسیم کیا تھا۔ اس میں ڈرامے کے آغاز اور ارتقا پر روشنی ڈالتے ہوئے ساتھ ہی اس کا تعلق ہندی و دیہی ڈراموں سے بتلایا ہے جدید تھیٹر اردو ڈراموں کی خصوصیات اور دوسری زبانوں سے تراجم کا بھی ذکر ہے۔ ان کی نظر میں اردو ڈراما نگاری کی تاخیر کی وجہ فاتح اور مفتوح کا ایک دوسرے کی زبان سے واقفیت ہے۔

مخدوم نے جدید تھیٹر کے بارے میں اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ ’’جنگ پلاسی‘‘ (۱۷۰۷ئ) سے پہلے ہی کلکتہ میں تھیٹر موجود تھا۔ جو ہندستان میں مغربی تھیٹر کا مرکز بنا۔ یہ یورپین تاجروں، پادریوں، افسروں کے علاوہ بنگالی زمین دار اور معززین شہر کی تفریح گاہ تھا۔

جدید تھیٹر کے عروج کی ایک اور وجہ مخدوم کی دانست میں لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی تھی۔ ۱۸۲۳ء سے نصاب میں انگریزی ڈرامے بھی شامل کیے گئے تھے۔ نتیجتاً مغربی افکار، فن ڈراما اور اسٹیج کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ لوگوں میں ڈرامے لکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ مرہٹی اور کنڑی زبانوں میں بھی ناٹک لکھے گئے۔ پارسیوں نے اسے قومی روایات کی پیش کشی کے ایک موثر ذریعہ کے طور پر استعمال کیا۔

مخدوم نے بالکل صحیح نتیجہ اخذ کیا۔ان کے خیال میں پارسیوں نے بڑی دور اندیشی سے لسانی اختلاف کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایسے مقام پر جہاں مختلف زبانیں جاننے والے ہوں ایک ایسی زبان کو وسیلہ اظہار بنایا جو عام فہم ہونے کے علاوہ ہندستان کے گوشے گوشے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے اور یہ خوش نصیب زبان ’’اردو‘‘ تھی۔ اس کا اثر ہندستان کی دوسری زبانوں اور تھیٹر پر بھی ہوا۔ مگر جو مقبولیت ’’اردو ڈراموں ‘‘ کو حاصل ہوئی وہ دیگر زبانوں کو حاصل نہ ہو سکی۔

مخدوم نے اردو کی اس خوش نصیبی کی سراہا ہے کہ اسے کاروباری سرپرستی نصیب ہوئی۔ اردو زبان میں ڈرامائی ادب کا اضافہ ہوا لیکن انھیں اس کا بھی افسوس تھا کہ ڈرامے ادبی تحریک کی بھرپور ترجمانی کرنے سے قاصر ہیں۔ صرف تاجرانہ مقاصد کے تحت اوسط درجے کے تماشا بینوں کی تفریح کے غماز ہیں۔ڈراموں میں ادبی و فنی محاسن نہیں سوائے تفریحی عناصر کے اور کر دار سازی پر بھی توجہ نہیں کی گئی۔مخدوم نے ایک اور اہم نکتے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے ان کے خیال ڈرامے کتب خانوں یا گھروں میں بیٹھ کر پڑھنے کے لیے نہیں ہوتے بلکہ اسٹیج کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ ڈرامے کا تصور اسٹیج کے بغیر ممکن نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ مکالموں کی ادائی، چہرے کے تاثرات، حرکات و سکنات، جذبات کی عکاسی کا اندازہ اسٹیج ہی سے لگایا جا سکتا ہے۔

حیدرآباد میں چند با شعور افراد نے ناٹک کی معاشرتی خامیوں کو دور کرنے کے لیے ایک ادارہ ’’انجمن اصلاح خیال‘‘ کے نام سے ۱۹۰۰ء میں قائم کیا۔ جامعہ عثمانیہ کی تاسیس ۱۹۱۹ء کے بعد ڈراما نگاری نے ترقی کی، طبع زاد ڈرامے بھی لکھے گئے اور مغرب کے شاہکار ڈراموں کا ترجمہ اردو میں کیا گیا۔

روسی محقق الیکسی سوخاچیف نے لکھا ہے کہ جامعہ عثمانیہ کی ادبی و تہذیبی فضا نے مخدوم کی صلاحیتوں کے ابھارنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ بہ طور خاص ہاسٹل کے طالبِ علموں کو ایسے مواقع زیادہ میسر آتے تھے۔ مخدوم نے عزیز احمد کے ڈرامے ’’طالبِ علمی کا زمانہ‘‘ میں اداکاری کی۔ ۱۹۳۱ء میں اشتیاق حسین قریشی کے ڈرامے ’’ہم زاد‘‘ میں بھی انھوں نے وزیر کا کر دار بڑی خوبی سے نبھایا۔ بہ قول مرزا ظفر الحسن مخدوم خوب چمکا، بلکہ حق تو یہ ہے کہ اس نے ڈرامے کو چمکایا۔

مرزا ظفر الحسن کے one act play ’’نیا ہنر مند‘‘ میں مخدوم نے جاگیردار کے بھتیجے کا رول شان دار طریقے پر ادا کیا۔

مخدوم نے تین ڈرامے لکھے۔ پہلا ’’ہوش کے ناخن‘‘ یہ ڈرامہ پروفیسر حسین علی خاں کی ایما پر میر حسن اور مخدوم نے تحریر کیا تھا، جو جارج برناڈشا کے ڈرامے Widowers House کا بہترین ترجمہ ہے۔مقامی اعتبار سے کچھ تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں پُر تکلف زبان کے علاوہ ٹھیٹ دکنی کا بھی استعمال کیا ہے۔ کر دار کی نوعیت کے لحاظ سے مکالمے قلم بند کیے گئے ہیں۔ ’’بندہ علی‘‘ اور ’’شب رنگ‘‘ چوں کہ ان پڑھ تھے اس لیے ان کی مناسب سے، گفتگو کا انداز بھی ویسا ہی ہے۔ غضنفر کے مکالموں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نہایت چالاک اور معاملہ فہم شخص ہے۔ قاری عبدالعزیز کی بات چیت میں ایک خوشامد ی اور درباری کی جھلک نمایاں ہے۔

یہ ڈراما (ہوش کے ناخن) ۱۶/ دسمبر ۱۹۲۴ء کو سالانہ جشن عثمانیہ کی تقریبات کے سلسلے میں ’’لیاقت منزل‘‘ میں اسٹیج کیا گیا تھا۔ مخدوم کو بہترین ادکاری پر انعام بھی ملا ان کی ایکٹنگ سے لوگ خوب لطف اندوز ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ایسا نمائندہ اجتماع نہ صرف جامعہ عثمانیہ کی تاریخ میں بلکہ حیدرآباد کی سماجی زندگی کی پوری تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آیا۔ اس میں دکنی معاشرے کی جھلکیاں بڑی خوبی سے پیش کی گئی تھیں۔

’’ہوش کے ناخن‘‘ کے ناظرین میں نظام، شہزادے، بے شمار مصاحبین کے علاوہ مہاراجا کشن پرشاد، سر اکبر حیدری، بلبل ہند سروجنی نائیڈو اور رابندر ناتھ ٹیگور جیسی عظیم ہستیاں بھی موجود تھیں۔ مخدوم کو ٹیگور نے عمدہ ڈراما لکھنے اور باصلاحیت اداکاری پر مبارک باد دی۔ علاوہ ازیں حصولِ علم کے لیے شانتی نکتین آنے کی دعوت بھی دی۔

مخدوم نے ایک طربیہ ڈراما (Comedy) ’’مرشد‘‘ بھی لکھا ہے۔ کوئٹہ کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کے لیے مرزا ظفر الحسن کا ڈراما ’’ہوش ربا‘‘ اسٹیج کیا اور اس کی آمدنی نواب اعظم جاہ بہادر ولی عہد سلطنت کے فنڈ میں جمع کی۔ جب اعلیٰ حضرت نواب میر عثمان علی خاں کو معلوم ہوا کہ عثمانین زلزلے کے مصیبت زدگان کی امداد کے لیے کر رہے ہیں تو بہت خوش ہوئے اور بار بار ہر ایک کو مخاطب کر کے کہہ رہے تھے کہ میرے بچے ڈراما کر رہے ہیں ہم سب ڈنر کے بعد جائیں گے۔

اعلیٰ حضرت اور شہزادگان کے علاوہ مولانا شوکت علی اور خواجہ حسن نظامی بھی ناظرین میں شامل تھے۔ ’’مرشد‘‘ کی ایکٹنگ مخدوم کر رہے تھے۔ ان کا میک اپ بالکل خواجہ صاحب کی طرح تھا۔ ناظرین میں دونوں خصوصی مہمان بھی محظوظ ہوئے۔

مخدوم کی آخری تین ایکٹ کا ڈراما ’’پھول بن‘‘ چیخوف کے ڈرامے ’’باغ بنفشہ کا ترجمہ ہے۔ اس کا موضوع مخلوط تعلیم ہے۔ تین ایکٹ میں چھ سین ہیں اور چودہ کر دار جن میں زنانہ کر دار بھی شامل ہیں۔ مخدوم نے مرد کا کر دار اور مرزا ظفر الحسن نے ’’مس ارورہ‘‘ کا پارٹ ادا کیا۔

مخدوم نے تین قابلِ تعریف کر دار ادا کیے ہیں۔ ’’ہوش کے ناخن‘‘ کے قاری عبدالعزیز اور ’’ظاہر باطن‘‘ کے لالہ گوہری رام مہاجن کے پارٹ کو مخدوم نے بڑی خوبی سے ادا کیا۔ تیسرا کر دار ’’حشرات الارض‘‘ کے مولوی خیر الامور، مطبع کے مالک کا تھا۔

مرزا شکور بیگ نے اس کر دار کا حلیہ بیان کیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’خیر الامور کے سر پر سفید نقشی کام کی گول ٹوپی، جسم پر مہین ململ کی شیروانی، ٹھڈی پر سفید داڑھی، مونچھیں کتری ہوئیں، آنکھوں میں سرمہ ناک پر عینک، اندازہ کیجیے کہ اس ہیئت کذائی میں مخدوم کیسا دکھائی دیا ہو گا۔‘‘

مکالموں کی ادائیگی ملاحظہ کیجیے مخدوم جب اپنی سفید داڑھی پر ہاتھ پھیر کر فاتحانہ انداز میں کہتا ہے کہ ’’ صاحب زادے یہ بال میں نے دھوپ میں سفید نہیں کیے۔‘‘ تو تھیٹر قہقہوں سے گونج اٹھتا۔

محمد یحییٰ صدیقی (جو محکمہ پولیس کے ایک تجربہ کار افسر اور حیدرآباد سرویس کے رکن تھے ) نے مخدوم کی اداکاری کو اس طرح سراہا ہے۔

’’مزاحیہ اداکاری بہت اچھی کرتے ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اس صف میں حیدرآباد میں چوٹی کے اداکار ہیں تو مبالغہ نہ ہو گا۔ تبدیلی ہیئت کے بعد آپ کی صورت اتنی مضحکہ خیز بن جاتی ہے کہ دیکھنے والوں کو خواہ مخواہ بھی ہنسی آ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیج پر آ جانا ہی لوگوں کو ہنسانے کے لیے کافی ہے۔ سب سے اہم خصوصیت جو ان کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ چہرے کے اتار چڑھاؤ سے اپنے اندرونی جذبات کو ظاہر کرنے میں خاص قدرت رکھتے ہیں جو حیدرآباد کے کسی اداکار کو نصیب نہیں۔‘‘

’’ہوش کے ناخن‘‘ کے مکالموں سے ہی مخدوم کی بذلہ سنجی کا اندازہ ہوتا ہے جو محفل کو زعفران زار بناتی تھی۔ قاری عبدالعزیز کا کر دار مخدوم نے اس طرح پیش کیا۔

غضنفر      :اس خط نویسی کے کام کی وجہ سے دماغ پر گرانی معلوم ہوتی ہے۔ آپ تو ماشا اللہ قاری ہیں کچھ اپنی قرات سے محظوظ فرمائیے۔

قاری (مخدوم):   قبلہ معاف فرمائیے۔ میں کہاں کا قاری۔ افسوس کہ یہ شرف مجھے حاصل نہیں۔ صرف عبدالعزیز سامعہ کو گراں معلوم ہوتا تھا۔ اس لیے قاری کا لفظ نام کے آگے بڑھا لیا۔ تقدیم و تاخیر کاخیال نہ فرما کر اسے تخلص ہی سمجھ لیجیے۔

مخدوم نے عابد حسین کی تحریر کردہ تمثیل ’’غفلت‘‘ کے علاوہ ’’نئی روشنی‘‘، ’’طبیب حاذق‘‘، ’’غلط در غلط‘‘ کے ذریعے اپنی اداکاری کا لوہا منوا لیا۔ الیکسی سوخاچیف نے مخدوم کی ڈراما نگاری اور اداکاری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا ہے

’’یونی ورسٹی میں تعلیم سے فراغت پانے کے بعد مخدوم نے دوبارہ نہ ہی ڈراما نگاری کی طرف توجہ دی اور نہ ہی اداکاری کی طرف، اس کے باوجود یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادبی زندگی میں ان کی یہ سرگرمیاں لاحاصل نہیں رہیں ‘‘۔

٭٭٭

 

سلیمان اطہر جاوید

 

مخدوم کی غزل

 

 

مخدوم کو محبت اور محنت کا شاعر کہا گیا ہے۔۔۔۔۔واقعہ یہ ہے کہ ہمارے بہت کم شاعروں کی زندگی اسی جہد اور جہد مسلسل سے عبارت رہی ہے جیسی کہ مخدوم کی۔ ۲۵، ۲۶ سال کی عمر میں کمیونسٹ پارٹی سے وابستہ ہوئے جب کہ سابق ریاستِ حیدرآباد میں اس پارٹی پر پابندی تھی۔ اس وجہ سے مخدوم کو مختلف اوقات میں اپنی زندگی کے کئی سال روپوشی اور قید میں گزارنے پڑے اور یہی لگ بھگ پچیس سال کی عمر ہو گی انھوں نے شعر گوئی کا آغاز کیا۔ مخدوم کا پہلا مجموعہ کلام ’’سرخ سویرا‘‘ ۱۹۴۴ء میں شائع ہوا جب کہ مخدوم قید میں تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس مجموعہ میں کوئی غزل نہیں۔ گویا مخدوم نے خود کو نظم کے شاعر کی حیثیت سے متعارف کرایا اور منوایا۔ یہ اور بات ہے کہ ’’سرخ سویرا‘‘ کی بعض نظموں میں تغزل کی کیفیت موجود ہے۔ انھوں نے غزلیں نہ کہی ہوں لیکن اسی زمانے میں انھوں نے ’’بزبان غزل‘‘ بہت کچھ کہا ہے۔ ہاں بس صنف غزل سے انھوں نے اپنے قلم کو بچائے رکھا اس کے اور جو بھی اسباب ہوں، ایک سبب یویناً یہ بھی ہو گا کہ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ ترقی پسند بالعموم صنف غزل کو کچھ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ چناں چہ ’’سرخ سویرا‘‘ کی اشاعت کے کوئی پندرہ سال بعد تک مخدوم نے غزل نہیں کہی۔ مخدوم کی پہلی غزل جس کا مطلع ہے

سیماب وشی، تشنہ لبی، باخبری ہے

اس دشت میں گر رخت سفر ہے تو یہی ہے

انھوں نے ۱۹۵۹ء میں کہی اور وہ بھی بمبئی میں منعقدہ ایک طرحی مشاعرہ کے لیے۔۔۔۔۔ یوں مخدوم کی غزل گوئی کا آغاز ہوتا ہے۔ ویسے مجموعی طور پر مخدوم کا شعری سرمایہ ہے ہی کم لیکن ان کی غزلوں کی تعداد اور کم ہے، یعنی صرف (۲۱)۔۔۔۔۔تعداد میں کم ہونے کے باوجود مخدوم کی غزل اپنی ایک پہچان، ایک شناخت رکھتی ہے۔

مخدوم نے شاعری میں کچھ ایسے تجربے نہیں کیے ہیں۔ یہاں تک ہیئت کا تعلق ہے، چند ایک کو چھوڑ کر ان کی زیادہ تر منظومات پابند ہیں۔ دراصل مخدوم کی شاعری فکر کے اعتبار سے اہمیت رکھتی ہے اور اپنے موضوعات کی وجہ سے متوجہ کرتی ہے۔ ان کی غزلیں بھی تعداد میں زیادہ نہ ہوں لیکن ان کو پڑھتے ہوئے مخدوم کے مزاج، فکر اور زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے اور ان کے رومانی مزاج اور حسن سے وابستگی کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔

مخدوم نے اپنے آپ کو زیادہ تر پارٹی کی سرگرمیوں کے لیے وقف رکھا۔ عوامی سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا تھی، جس قدر وقت کہ دینا چاہیے تھا انھوں نے شاعری کے لیے نہیں دیا۔ جذبات جب بہت زیادہ شدت اختیار کر چکے ہوں اور یوں کہیے کہ شعر اپنے آپ کو لکھوانے کے لیے شاعر کو مجبور کر رہا ہو انھوں نے تب ہی شاعری کی ’’گل تر‘‘ کے پیش لفظ میں انھوں نے لکھا ہے :

’’گلِ تر کی نظمیں، غزلیں انتہائی مصروفیتوں لکھی گئی ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں لکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہوں۔ سماجی تقاضے پر اسرار طریقے پر شعر لکھواتے رہے ہیں۔‘‘

کمیونسٹ پارٹی سے گہری اور اٹوٹ وابستگی کے باوجود مخدوم کی سیاسی زندگی اور ادبی زندگی قدرے تفاوت سا رہا ہے۔ وہ اپنی زندگی میں جتنے بھی انقلابی، باغی یا احتجاجی رہے ہوں، بہ حیثیت شاعر ان پر رومانیت غالب ہے۔ وہ یہاں تصوراتی اور تخیل پسند زیادہ ہیں۔ یہ چیز ان کی غزلوں ہی میں نہیں ان کی نظموں کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے من حیث المجموع ان کی شاعری کے بارے میں عرض کر رہا ہوں۔

مخدوم کی بعض منظومات نہایت جوشیلی، بڑی گونج گرج کی حامل اور ولولہ انگیز ہیں بلکہ قاری بھی جولانی اور گرمی محسوس کرتا ہے۔ ’’باغی‘‘، ’’جنگ‘‘، ’’مشرق‘‘، ’’موت کا گیت‘‘، ’’دھواں ‘‘، ’’آزادی وطن‘‘، ’’حویلی‘‘، ’’مستقبل‘‘، ’’قمر‘‘، ’’روح مغفور‘‘، ’’زلف چلیپا‘‘، ’’سپاہی‘‘، ’’اندھیرا‘‘، ’’جنگِ آزادی‘‘، ’’بنگال‘‘، ’’تلنگانہ‘‘ اور ’’قید‘‘۔۔۔۔۔ لیکن اس پہلو سے صرفِ نظر نہیں کرنا چاہیے کہ ان میں ’’تلنگانہ‘‘ اور ’’قید‘‘ کے علاوہ ساری نظمیں ’’سرخ سویرا‘‘ کے پہلے ایڈیشن میں شامل ہیں جس میں مخدوم کے موسومہ سبط حسن کا مکتوب بہ طور ’’دیباچہ‘‘ موجود ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ مخدوم کی شاعری کا انقلابی اور احتجاجی رویہ ’’سرخ سویرا‘‘ کے پہلے ایڈیشن تک رہا۔ ویسے اس دور کی بیش تر منظومات مثلاً ’’طور‘‘، ’’ساگر کے کنارے ‘‘، ’’تلنگن‘‘، ’’سجدہ‘‘، ’’لمحۂ رخصت‘‘، ’’جوانی‘‘، ’’یاد ہے ‘‘، ’’شاعر‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’برسات‘‘، ’’انتساب‘‘، ’’نامۂ حبیب‘‘، ’’وہ‘‘ اور ’’پشیمانی‘‘ پر رومانیت اور حسن و عشق کی فضا چھائی ہوئی ہے اور رہی غنائیت تو لگ بھگ ان کی ہر نظم میں یہ ایک اہم عنصر ہے۔۔۔۔۔ من بعد مخدوم کے کلام میں انقلاب اور احتجاج کی آنچ کم ہوتی جاتی ہے اور رومانیت نسبتاً فزوں۔ اس کی وجہ یہ بھی رہی ہو گی کہ ۱۹۴۷ء میں ملک کی آزادی کے بعد اس نوع کی شاعری ویسے ممکن نہ تھی۔ چناں چہ ان کے ہاں ’’چاند تاروں کا بن‘‘ لوممبا کے قتل پر لکھی گئی نظم ’’چپ نہ رہو‘‘، ’’وقت بے درد مسیحا‘‘ جیسی منظومات ملتی ہیں جن میں بہر کیف انقلاب اور احتجاج کی بلند آہنگ نہیں اور اب تو انھوں نے غزلیں بھی کہنی شروع کر دی تھیں یہاں تک کہ ان کی ایک نظم کا عنوان ہی ’’جانِ غزل‘‘ ہے۔

مخدوم کی غزل میں یہ بجا، ایسا روایتی اور کلاسیکی انداز نہ ہو بہر کیف رومان کی چاشنی، تغزل اور سرشاری کی کیفیات سے ان کی غزلیں سجی رہتی ہیں اور حسن محبوب کے تذکرے سے مزین اور یہ کچھ غیر ارادی طور پر نہیں، خود مخدوم کو غزل کے اور اپنی غزل کے اس رنگ کا بہ خوبی احساس تھا۔ تب ہی تو وہ کہتے ہیں :

کمانِ ابروئے خوباں کا بانکپن ہے غزل

تمام رات غزل گائیں دید یار کریں

آپ اس کو غزل کی جیت کہیے یا کچھ اور لیکن مخدوم کی غزل اس طرح بھی کامیاب ہے۔ ہاں انھوں نے اس خصوص میں روایت سے ہٹ کر چلنے کی سعی کرتے ہوئے اپنی شناخت پیدا کی ہے یہ شاعری روایتی معلوم نہیں ہوتی۔ حسن و عشق کے موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے غزلوں کے ہمہ اشعار ملاحظہ ہوں :

 

اک شہر میں اک آہوئے خوش چشم سے ہم کو

کم کم ہی سہی نسبتِ پیمانہ رہی ہے

 

اس اندھیرے میں اجالے کا گماں تک بھی نہ تھا

شعلہ رو، شعلہ نوا، شعلہ نظر سے پہلے

 

شمیمِ پیرہنِ یار کیا نثار کریں

تجھی کو دل سے لگائیں تجھی سے پیار کریں

 

پھر بلا بھیجا ہے پھولوں نے گلستانوں سے

تم بھی آ جاؤ کہ باتیں کریں پیمانوں سے

 

جہاں بھی بیٹھے ہیں جس جا بھی رات مے پی ہے

انھیں کی آنکھوں کے قصے، انھیں کے پیار کی بات

 

روشن ہے بزمِ شعلۂ رخاں دیکھتے چلیں

اس میں وہ ایک نورِ جہاں دیکھتے چلیں

 

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزہ آخرِ شب

اور بھی سرخ ہے رخسارِ حیا آخرِ شب

 

شہر میں دھوم ہے اک شعلہ نوا کی مخدوم

تذکرے رستوں میں چرچے ہیں پری خانوں میں

 

چشم و رخسار کے اذکار کو جاری رکھو

پیار کے نغمے کو دہراؤ کہ کچھ رات کٹے

 

آنکھوں میں حیا، لب پہ ہنسی آ تو رہی ہے

آغوشِ سحر میں کوئی شرما تو رہا ہے

 

میں نے یہاں کم از کم اشعار کا انتخاب کیا ہے او ر ہر غزل سے صرف ایک شعر۔ ورنہ انہی غزلوں سے اور کئی اشعار بہ آسانی منتخب کیے جا سکتے ہیں۔ و نیز ان غزلوں کے تقریباً سارے اشعار اسی ذیل میں جن کے پہلے مصرعے یہ ہیں :

یہ کون آیا ہے تنہائیوں میں جام لیے

ساز آہستہ ذرا گردشِ جام آہستہ

پھر چھڑی رات بات پھولوں کی

تم گلستاں سے گئے ہو کہ گلستاں چپ ہے

اور جہاں تک لفظیات کے سرمایہ، ترکیبات، تشبیہات اور استعارات وغیرہ کا تعلق ہے، مخدوم کی غزل (بلکہ کل شاعری) اردو شاعری کی روایات سے جڑی ہوئی ہے۔ فیض کی شاعری کی طرح۔ یہ اور بات ہے کہ فیض اور مخدوم نے ان الفاظ اور تشبیہات وغیرہ کو آج کے سیاسی اور معاشرے میں نئے معانی اور نئے مفاہیم کا حامل بنا دیا ان کی تقدیر ہی بدل دی۔ مخدوم اپنی زندگی میں کتنے ہی آزاد رہے ہوں اس معاملے میں وہ روایات کے پابند نظر آتے ہیں۔ اس کا اندازہ کچھ ان ترکیبوں وغیرہ سے ہو گا۔ سیماب وشی، تشنہ لبی، آہوئے خوش چشم، صحبتِ رخسار کا کل شب رنگ، شعلہ رو، شعلہ نوا، شعلۂ نظر، گنجِ قفس، دشتِ الم فزا، شمیمِ پیرہنِ یار، کمانِ ابروئے خوباں، یارِ غم گسار، سر چشمِ وفا، بزمِ شعلہ رخاں، رقص گہِ گل رخاں، نقشِ کفِ پا، مینائے زر فشاں، خیمۂ شب اور خوئے بتاں وغیرہ۔۔۔۔۔

اردو غزل کچھ ایسی لوچ و لچک کی حامل ہے کہ ہم ایک ہی شعر کو مختلف معانی پہنا دیتے ہیں۔ غزل کے اشعار میں تصوف کی مہک تو عام طور پر محسوس کی جاتی ہے اور ایسے بھی بیش تر اشعار ہیں جو ہیں تو عشق مجازی کے لیکن پڑھنے والے جن میں عشق حقیقی کا لطف پاتے ہیں۔ و نیز شعر تو یادِ محبوب لیے ہوتا ہے۔ آپ اسے وطن کی محبت میں بھی گنگنا لیجیے۔ خصوصاً فیض احمد فیض کے یہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں۔ مخدوم کے ہاں بھی ایسے اشعار مل جائیں گے جو اپنے طور پر خواہ کیسے ہی ہوں کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ ان سے شاعر کی حب الوطنی کی ترجمانی ہوتی ہے۔ جی ہاں، غزل کے اشعار۔۔۔۔۔ مثلاً:

جب برستی ہے تری یاد کی رنگین پھوار

پھول کھلتے ہیں درِ مے کدہ وا ہوتا ہے

ایک جھونکا ترے پہلو کا مہکتی ہوئی یاد

ایک لمحہ تری دلداری کا کیا کیا نہ بنا

آپ کی یاد آتی رہی رات بھر

چشم نم مسکراتی رہی رات بھر

ظاہر ہے یہ ’’یاد‘‘ محبوب کی بھی ہو سکتی ہے اور وطن کی بھی۔۔۔۔۔لیکن مخدوم چوں کہ اپنی عملی زندگی میں مجاہد آزادی رہے ہیں اس لیے ان کی غزلوں میں ایسے اشعار بھی مل جاتے ہیں جن سے وطن کی راہ میں ان کی سخت کوشی اور آبلہ پائی کا احساس ہوتا ہے۔ ان کے جذبہ کی صداقت، عزم و حوصلہ کی بلندی اور عالی ہمتی مترشح ہوتی ہے۔ یہ اشعار:

اس گزر گاہ میں اس دشت میں اے جذبۂ شوق

جز تیرے کون یہاں آبلہ پا ہوتا ہے

دراز ہے شبِ غم سوز و ساز ساتھ رہے

مسافرو! مئے مینا گداز ساتھ رہے

قدم قدم پہ اندھیروں کا سامنا ہے

سفر کٹھن ہے، دمِ شعلہ ساز ساتھ رہے

وطن کی آزادی، اس کی خوش حالی، ترقی، بہبودی اور امن و آشتی کے لیے ایثار و قربانی کرنے، اپنے شب و روز کو وقف کر دینے اور وطن کے ایک خوش آئند مستقبل کے لیے جہدِ پیہم سے کام لینے کے با وصف یہ حقیقت ہے کہ حالات مایوس کن ہیں۔ فضائیں تیرہ و تازہ، غیر یقینی عام، جبر و استحصال ہر سو، قدغن اور تحدیدات قدم قدم اور فرد کہ بے بس و بے کس۔۔۔۔۔ ہر سمت ایک سوالیہ نشان، انتشار، تشنگی اور اندھیرے، اندھیرے، اندھیرے ہی اندھیرے۔ کل کیا ہو گا، صبح کیا ہو گا؟ کسی کو خبر نہیں، کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس دور کے ترقی پسندوں کے ہاں ایسے اشعار بالعموم مل جاتے ہیں۔ مخدوم کے ہاں بھی۔ حالات سے مفر کب اور کس کو ہے ؟

کون جانے کہ ہو کیا رنگ سحر رنگ چمن

مے کدہ رقص میں ہے پچھلے پہر سے پہلے

یہ زرد زرد اجالے یہ رات رات کا درد

یہی تو رہ گئی اب جانِ بے قرار کی بات

یہ تمنا ہے کہ اڑتی ہوئی منزل کا غبار

صبح کے پردے میں یاد آ گئی شام آہستہ

سن رہا ہوں حوادث کی آواز کو پا رہا ہوں زمانے کے ہر راز کو

دوستو، اٹھ رہا ہے دلوں سے دھواں، آنکھ لینے لگی ہچکیاں دوستو!

شام سلگاتی چلی آتی ہے زخموں کے چراغ

کوئی جام آیا تو کیا کوئی گھٹا چھائی تو کیا

اس ضمن میں ’’بساطِ رقص‘‘ کی آخری غزل ’’گلوئے یزداں میں نوکِ سناں بھی ٹوٹی ہے ‘‘ خصوصیت کی حامل ہے کہ اس میں رومانیت کے مقابلہ میں حقیقت اور احتجاجی لب و لہجہ ہے۔

اور مخدوم کے ہاں ایسے شعر بھی مل جائیں گے جن میں انھوں نے بڑی حد تک راست اظہار سے کام لیا ہے۔ ملک کے فرقہ وارانہ فسادات کے پس منظر میں اس شعر کو پڑھیے :

دیپ جلتے ہیں دلوں میں کہ چتا جلتی ہے

اب کی دیوالی میں دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے

مخدوم کے ہاں ایسے اشعار بھی ہیں جن میں غم دوراں اور غمِ جاناں دونوں ایک جان دو قالب ہو جاتے ہیں۔ انھوں نے محبت اور محنت کو ہم آمیز کر دیا ہے کہ ان دونوں سے ایک تصویر کی تکمیل ہوتی ہے۔ تغزل اور ترنم کی کارفرمائی تو ہے ہی۔ چند اشعار:

ہر شام سجائے ہیں تمنا کے نشیمن

ہر صبح مے تلخی ایام بھی پی ہے

یہ کوہ کیا ہے، یہ دشتِ الم فزا کیا ہے

جو اک تری نگہِ دل نواز ساتھ رہے

دلوں کی تشنگی جتنی، دلوں کا غم جتنا

اسی قدر ہے زمانے میں حسنِ یار کی بات

آج تو تلخی دوراں بھی بہت ہلکی ہے

گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانوں میں

مخدوم کی زندگی ہمت و حوصلہ سے عبارت تھی۔ نامساعد حالات لیکن پھر بھی عزم محکم اور جواں۔ ان کی منظومات میں تو ایسے کئی اشعار مل جائیں گے لیکن غزلوں میں بھی کہیں کہیں ایسے اشعار مل جاتے ہیں :

اٹھو کہ فرصت دیوانگی غنیمت ہے

قفس کو لے کے اڑیں گل کو ہم کنار کریں

کوہ غم اور گراں اور گراں اور گراں

غم زدو، تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے

مخدوم نے زندگی بھر اور گراں اور گراں کوہ غم کا سامنا کیا ان کو ہنستے ہوئے اٹھایا لیکن اسی کے ساتھ اپنے تیشے کو بھی چمکاتے رہے کہ انھوں نے حالات و حوادث کی یہ پہاڑ جیسی رات، یہ پہاڑ ایسے ہی نہیں کاٹے۔

مخدوم کی غزلوں کا سرمایہ کمیت کے اعتبار سے کم ہے لیکن کیفیت کے اعتبار سے اس کی قدر و قیمت سے کسی نے انکار نہیں کیا۔ ان کی غزلیں (۲۱) سہی لیکن اول تو کوئی (۲۱) غزلیں کہنے والا شاعر ہمارے ادب میں معتبر نہیں رہا۔ و نیز بہت کم شاعر ایسے ہوں گے جن کی صرف (۲۱) غزلوں سے اتنے اشعار منتخب کیے جا سکتے ہوں جتنے مخدوم کی غزلوں سے۔۔۔۔۔ یہ بھی مخدوم کی غزل کا ایک قابلِ توجہ، مثبت، وقیع اور جامع پہلو ہے !

٭٭٭

 

 

 

پروفیسر رحمت یوسف زئی

 

 

مخدوم کی شعری جمالیات

 

 

حیدرآباد کے ساتھ مخدوم کا نام ایسے ہی جڑا ہے جیسے چار مینار کے بغیر حیدرآباد ادھورا ہے۔ حیدرآباد کی ادبی، سماجی زندگی کا ذکر چھڑے تو مخدوم کا ذکر ناگزیر ہے۔ حیدرآباد کے تمام شعرا میں سب سے زیادہ چاہا جانے والا شاعر مخدوم ہی تو ہے۔ مخدوم کی سیاسی زندگی اور ان کے سیاسی افکار سے ہٹ کر ان کی شخصیت میں جھانک کر دیکھیے تو ایک سیدھا سادہ، سچا، محبت کرنے والا، دوستوں پر جان نثار کرنے والا، حسن و جمال کی قدر کرنے والا شخص مسکراتا، قہقہے لگاتا نظر آئے گا۔ سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کے باوجود مخدوم کے چہرے کی ملکوتی مسکراہٹ ہمیشہ اپنا جادو جگاتی رہی۔ انھوں نے زندگی کو اپنے انداز سے برتا۔

انسان عجیب فطرت کا حامل ہے۔ ناہمواری، تضاد اور پیچیدگی اسے ہمیشہ ناپسند رہی۔ لیکن انسان کی مجبوری یہ ہے کہ ناہمواری تضاد اور پیچیدگیوں کے بغیر اس کی زندگی ادھوری سی لگتی ہے۔ انسان بنیادی طور پر حسن پرست ہے۔ حدیث مبارک ہے، ان اللہ جمیل ویحب الجمال اور ظاہر ہے کہ پروردگار نے انسان کو اپنی چند خصوصیات سے متصف کر کے اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا،یعنی اگر خدا کو جمال پسند ہے تو انسان کو بھی جمال پسند ہونا لازم ہے۔ جمال اور ناہمواری ایک دوسرے کی ضد کہے جا سکتے ہیں لیکن دلچسپ پہلو یہ کہ انسان ناہمواریوں اور تضادات کو کچھ اس طرح اپنے تصرف میں لے آتا ہے کہ انہی ناہمواریوں اور تضادات کے بطن سے حسن جنم لیتا ہے۔ بیکن نے تناسب کے انوکھے پن میں حسن کو محسوس کیا تھا۔ یہی انوکھا پن ہے جو ایک خوب صورت اور سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں ایک خاص سلیقے سے رکھے گئے کے کیکٹس یا گل دان میں معمولی گھاس کی آڑی ترچھی پتیوں کو ایک خاص انداز میں لگانے سے دلکشی میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے کانٹ کہتا ہے کہ حسن دراصل انسان کی نظر میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ مخدوم بھی حسن پرست تھے۔ وہ بھی حسن کی لذتوں سے ہم کنار ہونے کا جذبہ رکھتے تھے۔ حسن کو محسوس کرنے کی صلاحیت ان میں بے پناہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں بھی جا بجا ایسے مقامات ملتے ہیں جہاں انھوں نے حسن کو مختلف جہتوں کو اپنے استعاروں اور علامتوں سے اجاگر کیا۔ مخدوم بنیادی طور پر ترقی پسند تھے۔ اس کے باوجود مخدوم نے غزل کو سینے سے لگائے رکھا۔ غزل کا جادو ہی کچھ ایسا ہے کہ سر چڑھ کر بولتا ہے۔ مخدوم غزل کے منکر نہ تھے۔ کیوں کہ غزل میں جمالیاتی عنصر کسی اور صنف کے مقابلے میں زیادہ خوب صورتی سے جلوہ افروز ہوتا ہے۔ ایجاز و اختصار کے ساتھ لطیف اور نازک جذبات میں ہلچل پیدا کرنے کا کام جس خوب صورتی سے غزل کا شعر انجام دے سکتا ہے اس طرح شاید کسی اور صنف کے لیے ممکن نہیں۔ مخدوم اس رمز سے واقف تھے اس لیے اپنی جمالیاتی حس کی تسکین کے لیے انھوں نے غزل کی دیوی کو بھی وسیلہ بنایا۔ چناں چہ غزل کے بارے میں وہ کہتے ہیں :

کمان ابروئے خوباں کا بانکپن ہے غزل

لیکن غزل سے ہٹ کر ان کا تصور جمال نظموں میں بھی کھل کر سامنے آتا ہے۔ حسن کا ایک لازمی نتیجہ کیف و سرور بھی ہے۔ مخدوم اس کیف و سرور کے شیدائی ہیں جو حسن کے توسط سے ذہنوں کو اسیر کر لیتا ہے۔ ان کی ایک نظم ’’نورس‘‘ کے دو شعر ملاحظہ کیجیے :

حوروں کے بہشتی نغموں سے جو راگ بنے وہ راگ ہے وہ

جس سے کہ کلیمی ملتی ہے کچھ ایسی ہی اک آگ ہے وہ

دوشیزگی کا ایک وصف شوخی اور الہڑ پن بھی ہے۔ تبھی تو حسن اپنی تمام جلوہ سامانیوں کے ساتھ ابھرتا ہے۔ مخدوم اپنی شعری تخلیقات میں اس بات کو ملحوظ رکھتے ہیں کہ حسن کی تصویر کشی میں شوخی اور الہڑ پن کا بھی عنصر موجود رہے۔ ان کی نظم جوانی کے یہ دو شعر دیکھیے :

اعضا میں لچک ہے تو ہے اک لوچ کمر میں

اعصاب میں پارہ ہے تو بجلی ہے نظر میں

آنے لگی ہر بات پہ رک رک کے ہنسی اب

رنگین تموج سے گراں بار ہوئے لب

مخدوم کی لفظیات، تشبیہیں، استعارے اور علامتیں جذبات اور احساسات کی ایک وسیع کائنات ہیں اور اس کائنات کے سفر میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ ان کا قاری بھی شامل ہو جاتا ہے۔ کاسۂ دریوزہ گری، شمعِ شبستان خیال، نسخۂ کیمیائے محبت، رات کی تلچھٹیں، کامدیو کی کمان، جسم کا سورج اور ایسی بے شمار تراکیب مخدوم کی شعریات کا اہم جز ہیں، جن سے نہ صرف وہ پیکر تراشتے ہیں بلکہ اس عمل میں قاری کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مخدوم کی جمالیات مشرقی اقدار سے منسلک ہے۔ انھیں ہندستان اور خصوصاً دکن کی مٹی اور یہاں کے ذرے ذرے میں بکھرے ہوئے حسن سے بے پناہ محبت ہے۔ وہ مغربی لبادوں پر ہندوستانی ملبوس کو اہمیت دیتے ہیں۔ غازہ اور لپ اسٹک سے سجے چہرے کے بجائے سادہ اور سرخ لب و رخسار انھیں زیادہ عزیز ہیں۔ انھوں نے مصنوعی زندگی کو کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ حقیقت اور اصلیت کے قائل ہیں۔

یہ شعر دیکھیے :

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزہ آخرِ شب

اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخرِ شب

اور اسی غزل کا شعر ہے :

اس انداز سے پھر صبح کا آنچل ڈھلکے

اسی انداز سے چل، باد صبا آخر شب

خالص ہندستانی مزاج کی پیکر تراشی ملاحظہ ہو۔ کہتے ہیں :

لطف سجدوں میں آ رہا ہے مجھے

چھپ کے کوئی بلا رہا ہے مجھے

آئی آواز اس کی باتوں کی

آ رہا ہے غبار نور بدن

پھیلتی جا رہی ہے بوئے دہن

موج تسنیم و کیف خلد بریں

جگمگاتا بدن چمکتی جبیں

نغمے پازیب کے جگاتے ہوئے

بخت خفتہ مرے جگاتے ہوئے

مخدوم حسن فطرت کے ساتھ حسن انسانی کو بھی محسوس کرتے اور اپنی تخلیقات میں نمایاں کرتے ہیں۔ ان کی مشہور نظم ’’چارہ گر‘‘ سے یہ مصرعے دیکھیں :

اوس میں بھیگتے چاندنی میں نہاتے ہوئے

جیسے دو تازہ رو تازہ دم پھول پچھلے پہر

ٹھنڈی ٹھنڈی چمن کی سبک رو ہوا

صرف ماتم ہوئی

کالی کالی لٹوں سے لپٹ گرم رخسار پر

ایک پل کے لیے رک گئی

اور اس شعر میں دیکھیے :

ہجومِ بادہ و گل میں ہجومِ یاراں میں

کسی نگاہ نے جھک کر مرے سلام لیے

ایک شعر یہ بھی ہے کہ:

کسی خیال کی خوش بو کسی بدن کی مہک

در قفس پہ کھڑی ہے صبا پیام لیے

جب کوئی شاعر اپنی تخلیق میں حسن کی تصویر کشی کرتا ہے تو اس کے دو مقاصد ہوتے ہیں، پہلا تو یہ کہ وہ خود حسن کو محسوس کرنا چاہتا ہے دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ وہ اپنے احساسِ حسن سے قاری کو بھی لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرنا چاہتا ہے۔ مخدوم کے ہاں یہ دونوں پہلو نظر آتے ہیں۔ یہ شعر دیکھیں :

اک بہکتی بہکتی ہوئی رات ہے لڑکھڑاتی نگاہوں کی سوغات ہے

پنکھڑی کی زباں پھول کی داستاں اس کے ہونٹوں کی پرچھائیاں دوستو

مخدوم کے ہاں حسن کبھی استعارے اور کبھی علامت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور جب وہ حسن کی پیکر تراشی کرتے ہیں تو تمام خد و خال ابھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان کی پیکر تراشی میں جنسی جذبہ نہیں بلکہ ایک انبساط کی کیفیت ہوتی ہے۔

یہ دو شعر ملاحظہ ہوں :

وہ خمِ گردن، وہ دستِ ناز، وہ ان کا سلام

ابروؤں کا وہ تکلم، وہ نگاہوں کا پیام

بولتی آنکھوں کا رس، گل رنگ عارض کا جمال

مسکراتا سا تصور، گنگناتا سا خیال

یہ گنگناہٹ ایک الوہی انبساط کی وجہ سے ہے۔ اس میں جنسی جذبات کا دخل نہیں۔ دراصل مخدوم حسن پرست ہیں، بوالہوس نہیں ! اور اس لیے ان کے اظہار میں بے ساختگی کے ساتھ پیکر تراشی کا عمل عروج پر نظر آتا ہے۔ اردو شاعری کا اہم عنصر حسن و عشق کا انبار ہے۔ مخدوم بھی اس سے دامن کشاں نہیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ روایت پرست تھے۔ بلکہ انھوں نے روایات کے بطون سے اپنے استعارے وضع کیے اور انھیں اپنے مخصوص انداز میں استعمال کیا۔ ان کی ایک نظم ’’جان غزل‘‘ کے ابتدائی مصرعے ملاحظہ کیجیے :

اے دلِ نارسا آج اتنا مچل

مست آنکھوں کی جھیلوں میں کھلنے لگیں آنسوؤں کے کنول

مل گیا راہ میں اجنبی موڑ پر کوئی جانِ غزل

آج تو یاد آئیں نہ دنیا کے غم

آج دل کھول کر مسکرا چشم نم

دیکھیے زندگی کی گہما گہمی، وقت کے تیز بہاؤ اور مصائب سے بھرپور مسائل کے درمیان شاعر کس طرح اپنے لیے سامان تسکین فراہم کر رہا ہے۔ ایک اور نظم سناٹا کی کچھ سطریں ملاحظہ کیجیے :

کوئی دھڑکن / نہ کوئی چاپ / نہ سنچل/ نہ کوئی موج / نہ کسی سانس کی گرمی / نہ بدن

ایسے سناٹے میں اک آدھ تو پتا کھڑکے

کوئی پگھلا ہوا موتی / کوئی آنسو / کوئی دل / کچھ بھی نہیں

کتنی سنسان ہے یہ راہ گزر

کوئی رخسار تو چمکے / کوئی بجلی تو گرے

مسائل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں شاعر نے کس خوب صورتی سے اپنی شعری جمالیات کی عکاسی کی ہے۔ اس طرح نظم ’وقت‘ بے درد مسیحا میں وہ کہتے ہیں :

ہلکا ہلکا سا وہ اڑتا ہوا گالوں کا گلال

بھینی بھینی سی وہ خوش بو کسی پیراہن کی

تو یہ بہ ظاہر فرار کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ نامساعد حالات سے نمٹنے اور برداشت کرنے کا ایک طریقہ سمجھاتے ہیں۔ وہ خیر و شر کے روایتی پیمانوں سے ہٹ کرا پنی ایک نئی راہ تلاش کرتے ہیں۔ کہتے ہیں :

بے صحبت رخسار اندھیرا ہی اندھیرا

گو جام وہی مئے وہی مئے خانہ وہی ہے

 

ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی

تو بجائے ساز الفت اور گائے زندگی

مخدوم کا تصورِ حسن آفاقیت لیے ہوئے ہے۔ وہ حسن کو زمانے پر محیط دیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں :

دلوں کی تشنگی جتنی، دلوں کا غم جتنا

اسی قدر ہے زمانے میں حسنِ یار کی بات

اور اسی غزل کا ایک اور شعر ہے :

تمام عمر چلی ہے تمام عمر چلے

الہٰی ختم نہ ہو بار غم گسار کی بات

مخدوم نے اپنے جذبات اور احساسات کو عام روزمرہ اور سلیس انداز میں ظاہر کیا۔ اسی لیے ان کے جمالیاتی تصور سے سبھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور ان کے اظہار میں پوشیدہ پیغام بھی آسانی سے دلوں میں اتر جاتا ہے۔ ’’چاند تاروں کا بن‘‘ سے یہ مصرعے دیکھیے

ہم دمو

ہاتھ میں ہاتھ دو / سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی / منزلیں دار کی / کوئے دل دار کی

دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھا کر چلو

تو قاری پرا یک عجیب قسم کا جذبہ طاری ہو جاتا ہے۔ مخدوم سادگی میں حسن پیدا کرنے پر قادر تھے۔ ان کا ایقان تھا کہ سادگی میں جو حسن ہے وہ پیچیدہ اظہار میں نہیں۔ان کی لئے ان کی سادگی میں پوشیدہ حسن اور معنویت قاری کے دل کو قابو میں کر لیتی ہے۔ یہ صرف چند پہلو ہیں جو مخدوم کی شعری جمالیات کی ہلکی سی عکاسی کرتے ہیں۔ مخدوم بنیادی طور پر حسن پرست ہیں اور ان کا احساسِ جمال ہر وقت تازہ توانا ہے۔ نامساعد حالات کے باوجود انھوں نے اپنے احساسِ جمال کو زنگ آلود یا گرد آلود ہونے نہیں دیا۔ ان کی احتجاجی شاعری میں بھی جمالیاتی عنصر جا بجا دیکھا جا سکتا ہے۔ مخدوم ترقی پسند تھے، مخدوم انقلاب کے علم برادر تھے لیکن جب وہ انقلاب کے نغمے گاتے ہیں تب بھی ان کے ہاں حسن اور احساس جمال کا غیر معمولی درک نمایاں نظر آتا ہے۔ وہ کائنات کی ہر شے میں سے حسن کھوج نکالتے ہیں اور اس سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور شاید یہی فلسفہ جمالیات کا مرکزی نکتہ ہے۔

 

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

ڈاکٹر سید داؤد اشرف

 

 

مخدوم محی الدین کی نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘

 

 

 

مخدوم محی الدین بلاشبہ ایک بلند پایہ شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں جگہ جگہ فن کارانہ حسن کے بڑے خوب صورت اور اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ ان کی شاعری کی اٹھان اور ابتدائی شعری تخلیقات کی چند منفرد خصوصیات کی وجہ سے یہ واضح اشارے ملنے لگے تھے کہ وہ مستقبل میں ایک اہم اور بڑے شاعر کی حیثیت سے نمایاں ہوں گے۔

مخدوم نے گزشتہ صدی کے تیسرے دہے کے بعد شاعری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا مجموعہ ’’سرخ سویرا‘‘ تقریباً دس سال کے فکر سخن کا نتیجہ ہے۔ اس شعری مجموعے میں رومانی اور انقلابی نظموں کے علاوہ ایسی نظمیں بھی شامل ہیں جن میں رومانی اور انقلابی شاعری کا امتزاج پایا جاتا ہے۔ پہلے مجموعے کی اہم نظموں میں مشرق، حویلی، انتظار، انقلاب، اندھیرا اور اسٹالن قابلِ ذکر ہیں۔ سرخ سویرا کی اشاعت کے بعد چوں کہ مخدوم عملی سیاست کے میدان میں داخل ہو گئے تھے۔ اس لیے ایک طویل عرصے تک وہ شاعری کی جانب توجہ نہ دے سکے۔ اس طویل خاموشی کے بعد انھوں نے جو پہلی نظم لکھی وہ آزاد نظم ’’قید‘‘ ہے جو دوسرے مجموعے ’’گل تر‘‘ کی پہلی نظم ہے۔ انھوں نے ’’چارہ گر‘‘ جو ان کی ایک اہم نظم ہے ۱۹۵۶ء میں لکھی۔ اس نظم سے مخدوم کی شاعری کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس نظم کے بعد انھوں نے بڑی اچھی اور حسین نظمیں لکھیں جن میں چاند تاروں کا بن، رقص، سناٹا، لخت جگر، وقت بے درد مسیحا اور رومال شامل ہیں۔ مخدوم کے دوسرے دور کی شاعری کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں اشاریت کا عنصر نمایاں ہے اور بالواسطہ اور شاعرانہ اظہار کو انھوں نے بڑی اہمیت دی ہے۔ احساس جمال، نغمگی اور موسیقیت کا عنصر از ابتدا تا انتہا ان کی شاعری میں موجود ہے۔

مخدوم کی نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘ آزادی پر لکھی گئی بہترین نظموں میں اپنی منفرد شان رکھتی ہے۔ اس نظم کا کینوس Canvas بہت پھیلا ہوا ہے۔ لیکن مخدوم نے اختصار اسے کام لیتے ہوئے بڑی مکمل اور جامع نظم کہی ہے۔ یہ نظم ہندستان کی جد و جہدِ آزادی اور حصولِ آزادی کے بعد کے ہنگاموں اور المیہ کو پیش کرتی ہے۔ یہ نظم مخدوم کی سیاسی اور عوامی زندگی کے تاثرات اور تجربات کا نچوڑ ہے لیکن یہ تاثرات ایک سیاست داں کے نہیں ہیں، ایک شاعر کے ہیں۔ انھوں نے ہر واقعے، ہر موڑ اور ہر بات کا ایک احساس شاعر کی حیثیت سے مشاہدہ اور مطالعہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظم میں بڑی روانی، بڑا تاثر اور موسیقیت ملتی ہے۔ موضوع کی وسعت کے باوجود انھوں نے اختصار سے کام لیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہر لفظ شاعر نے چن چن کر استعمال کیا ہے اور اپنے مجموعی تاثر کو عمیق مطالعے اور گہری سوچ کے بعد ہی نظم کی شکل میں پیش کیا ہے۔ ’’چاند تاروں کا بن‘‘ لکھنے تک مخدوم یہ دیکھ چکے تھے کہ آزادی کے متوالے کس طرح ’’موم کی طرح‘‘ جلتے پگھلتے رہے تاکہ نیا سورج طلوع ہو، اندھیرا چھٹے اور روشنی آئے۔ آزادی کے دیوانوں نے ہر مصیبت جھیلی، سختیاں برداشت کیں، بے غرضی کے ساتھ کسی قسم کا ایثار کرنے میں پیچھے نہیں ہٹے حتی کہ اپنی جانیں بھی قربان کر دیں۔۔۔ انھیں تشنگی ضرور تھی مگر وہ ’’اس تشنگی میں بھی سرشار تھے ‘‘۔ لیکن صبح دم۔۔۔ وہ ایک ’’دیوارِ غم‘‘ بن گئے کیوں کہ ’’رات کی شہ لوگوں کا اچھلتا ہو‘‘۔۔۔ ’’جوئے خون بن گیا‘‘۔۔۔ مخدوم کا اشارہ ان قیامت خیز فسادات کی طرف ہے جو حصولِ آزادی کے مرحلے اور حصولِ آزادی کے بعد دیکھے گئے۔ ’’رات‘‘ نے جاتے جاتے خون کی ندیاں بہا دیں۔ اس نظم میں موم کی طرح جلتے ہوئے شہیدوں ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ ان ’’امامانِ صد مکر و فن‘‘ کی طرف بھی اشارہ ہے جو ہندستان کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ ہر جدوجہد آزادی کی تاریخ میں نظر آتے ہیں جو ’’خونِ نورِ سحر‘‘ پی جاتے ہیں اور سادہ لوح بے غرض انسانوں کو رہزن کے بھیس میں رہنما بن کر ڈس لیتے ہیں مخدوم کا یہ کہنا کہ:

رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے

صبح کا کچھ اجالا اجالا بھی ہے

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

منزلیں دار کی

کوئے دلدار کی منزلیں

روش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

مخدوم کے پیش نظر ایک منزل نہیں بلکہ منزلیں ہیں اور یہ منزلیں دار کی منزلیں بھی ہیں اور پیار کی منزلیں بھی ہیں جنھیں وہ کوئے دلدار کی منزلیں بھی کہتے ہیں۔ یہ منزلیں انسانیت کے ارتقا کی تاریخ میں مرحلوں اور کڑیوں کی شکل میں دکھائی دیتی ہیں۔ شاعر کا شعوری ارتقا اس مقام پر پہنچ چکا ہے کہ اب یہ جستجو اٹل معلوم ہوتی ہے کہ راہوں کے بعد منزل آتی ہے اور منزل کے بعد پھر راہیں شروع ہو جاتی ہیں۔ منزل مقصود تو صرف ایک خیال اور تصور ہے۔ زندگی کو زیادہ حسین، زیادہ خوب صورت اور اس دھرتی کو انسانوں کے لیے زیادہ اچھی رہنے کی جگہ بنانے کے لیے جدوجہد ہمیشہ جاری رہے گی کیوں کہ کش مکش حیات کے ہنگامے ختم نہیں ہو سکتے۔ کوئی سویرا مکمل سویرا نہیں ہوتا۔ یہ اور بات ہے کہ کہیں سویرا ہو جانے کے بعد بھی گھٹا ٹوپ اندھیرے کے چھا جانے کا احساس رہتا ہے اور کہیں سویرا تو ہو جاتا ہے لیکن کچھ کچھ اندھیرا باقی رہتا ہے۔ اس اندھیرے کے فرقِ بیش و کم کا انحصار مخصوص تاریخی حالات، نوعیت انقلاب اور جدوجہد کے فرق پر ہوتا ہے۔

مخدوم کی یہ نظم بڑی جامع اور ان کے دوسرے دور کی شاعری کی بہترین نظم ہے۔ شاعرانہ اظہار کی صداقت اور بھرپور تاثر کی یہ نظم بڑی عمدہ مثال ہے۔ اس نظم میں خوابوں کی تعبیر کے چہرے مسخ شدہ نظر آتے ہیں جن سے لہو کی بوندیں ٹپک رہی ہیں۔آرزوؤں اور تمناؤں میں تصادم نظر آتا ہے۔ اس نظم میں شاعر مایوسیوں، تمناؤں کے خون اور خوابوں کی خوف ناک تعبیروں کو تو بیان کرتا ہے لیکن وہ نا امید نہیں بلکہ پھر ایک سچے شہید کے جذبے کے ساتھ دوش پر صلیب اٹھائے اگلی منزلوں کی طرف آگے بڑھتا ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسے ہی شہیدوں نے انسانی تہذیب کو ارتقا کی منزلیں طے کرائی ہیں۔ یہ شہید زہر کے جام پیتے رہے اور صلیب و دار کا خیر مقدم کرتے رہے ہیں تاکہ آگے کی منزلوں کی طرف سفر حیات جاری رہے اور حسین سے تر کی تلاش کبھی ختم نہ ہو۔

اس نظم اور اس کے تاثر میں روایتی اور سطحی انداز کی حب الوطنی نہیں ملتی اور نہ ہی جذبۂ آزادی محدود اور مقید شکل میں ملتا ہے بلکہ اس کی اشاریت میں آفاقیت کی وسعتیں سموئی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور اس کا تاثر ہر دور کے فرد اور انسان کے شدید ترین جذبے اور غم سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔ غم ذات کو غم حیات اور کائنات سے جوڑنے والی یہ نظم اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا کہ اردو کی شاعری میں اپنی طرز کی بہترین اور انتہائی متاثر کن نظم ہے جو سامعین اور قارئین کو اپنے ساتھ ان تمام مقامات تک بہا لے جاتی ہے جن کی نشان دہی اس نظم میں اشاروں کے ذریعے کی گئی ہے۔ یہی نہیں بلکہ قارئین اور سامعین اس نظم کی فضا میں کھو کر رہ جاتے ہیں اور اس کی معنویت، جامعیت اور اثر پذیری کی گہرائیوں میں ڈوب جاتے ہیں۔

جس دور میں اس نظم کی تخلیق ہوئی اس دور کی عصری شاعری میں راست اظہار اور خطابت کو کبھی کبھی نعروں کی شکل دینے کا رجحان پایا جاتا تھا۔ اس سے بچ کر اور اس ڈگر سے ہٹ کر اس طرح کی شعری کیفیات پیدا کی جا سکتی ہیں یہ نظم اس کی ایک بہترین مثال اور نمونہ ہے۔ یہ نظم آج ہی نہیں بلکہ مستقبل میں جب کبھی پڑھی اور سنی جائے گی وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ شدید اور عمیق تاثر پیدا کرے گی جو پہلے پہل اس نظم کو پڑھنے یا سننے کے بعد قلب اور ذہن کے پردے پر ابھرا تھا۔

چاند تاروں کا بن

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے

پیاسی آنکھوں کے جالی کٹورے لئے

منتظر مرد و زن

مستیاں ختم، مدہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن

رات کے جگمگاتے دہکتے بدن

صبح دم ایک دیوارِ غم بن گئے

خارزارِ الم بن گئے

رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو

جوئے خون بن گیا

کچھ امامانِ صد مکر و فن

ان کی سانسوں میں افعی کی پھنکار تھی

ان کے سینے میں نفرت کا کالا دھواں

اک کمین گاہ سے

پھینک کر اپنی نوکِ زیاں

خونِ نورِ سحر پی گئے

رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے

صبح کا کچھ اجالا، اجالا بھی ہے

ہم دمو

ہاتھ میں ہاتھ دو

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

کوئے دلدار کی منزلیں

روش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

 

٭٭٭

 

 

 

شمیم فیضی

 

 

 

مخدوم، داستانوی شخصیت اور اس کی معنویت

 

مخدوم اپنی زندگی میں ہی داستانوی شخصیت بن گئے تھے۔ شاعر کی حیثیت سے لوگ ان کے دیوانے تھے اور سیاست داں کی حیثیت سے انھیں چاہنے والوں کی تعداد بھی کم نہیں تھی۔ ان کی کثیر جہتی شخصیت اور کثیر رخی سرگرمیوں نے اس داستانوی شخصیت کی تعمیر میں نمایاں کر دار ادا کیا۔ ان کی زندگی میں ہی بعض لوگوں نے ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو الگ الگ کر کے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش شروع کر دی تھی۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اگر وہ سیاسی سرگرمیوں میں اپنی توانائی صرف نہ کرتے تو اس سے بھی بڑے شاعر ہوتے جب کہ بعض دوسرے دوستوں نے ان کی شاعری کو اپنی سیاسی فہم سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ مگر دونوں ہی زمرے کے لوگوں نے ان کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا۔ مخدوم ایک مکمل انسان تھے اور زندگی کے مسائل، ادبی اور سیاسی ہر طرح کے مسائل کے متعلق ان کا بنیادی رویہ انسان دوستانہ تھا۔

سچائی تو یہ ہے کہ مخدوم کی زندگی کے ان مختلف اور کثیر جہتی پہلوؤں سے ہی وہ داستانوی شخصیت تعمیر ہوئی جس کا ایک زمانہ دیوانہ تھا۔ وہ کچھ لوگوں کے لیے محض شاعر تھے تو کچھ اور کے لیے جبر و استبداد اور استحصال کے خلاف برسر پیکار مجاہد تھے۔ مگر سب ہی یہ مانتے تھے کہ وہ بنیادی طور پر انسان دوست ہیں۔ ایک شاعر کی حیثیت سے انھوں نے اپنی تخلیقی سرگرمیوں کا آغاز رومانی نظموں سے کیا۔ مگر جلد ہی انھوں نے یہ عبوری مرحلہ طے کر لیا اور زندگی کی تلخ حقیقتوں نے انھیں ایک نئی دنیا اور اندازِ فکر سے روشناس کروایا۔ ان کی ابتدائی انقلابی نظموں کی طرف عبور کے دوران مخدوم بائیں بازو کی اس انتہا پسندی سے بھی دوچار ہوئے، جسے سید سبط حسن نے ’’ادبی دہشت گردی‘‘ قرار دیا ہے۔ ادبی تخلیقات میں یہ ذہنی سفر، سیاست داں مخدوم کی تعمیرو تشکیل میں معاون بنا۔ آج کے بائیں بازو کے انتہا پسندوں کے برخلاف جو تحریک کے تجربات سے کچھ سیکھنے کے بجائے نظریاتی ادعائیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی اور انقلاب کے پُر تشدد راستہ پر ہی اصرار کرتے ہیں، مخدوم نے جلد ہی محسوس کر لیا کہ انقلاب اور انقلابی تحریک کے فروغ کے لیے عوام کی اکثریت جو استحصال زدہ ہوتی ہے، ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے۔ مخدوم محی الدین کا نظریاتی ارتقا بڑی حد تک مشترکہ کمیونسٹ پارٹی کے آخری جنرل سکریٹری اجے گھوش کے ذہنی اور سیاسی سفر کے مماثل ہے۔ اجئے گھوش ہی کی طرح مخدوم بھی کچھ عرصہ دہشت گردی کے اثرات سے متاثر رہنے کے بعد مارکسزم لینن ازم تک پہنچے۔

ساہتیہ اکادمی نے ’’ہندستانی ادب کے معمار‘‘ کا جو کتابی سلسلہ شائع کیا ہے اس میں سیدہ جعفر نے مخدوم پر کتاب چہ لکھا ہے۔ مخدوم کی ابتدائی رومانوی شاعری کا جائزہ لیتے ہوئے بالکل درست کہا ہے کہ ان کی ابتدائی نظموں میں محبت کا حوصلہ، چاہنے کی تمنا، بت تراشنے کی آرزو اور رومانی کیفیت ہے جو عمر اور سن و سال کا تقاضہ ہے۔ ان نظموں میں سن بلوغت کے ابتدائی برسوں کی معصومیت ہے مگر انسان دوستی کے تصور کے ساتھ، محبت کے ابتدائی سبق کے بارے میں مخدوم کہتے ہیں :

یہیں کی تھی محبت کے سبق کی ابتدا میں نے

یہیں کی جرات اظہار حرف مدعا میں نے

یہیں دیکھے تھے عشوے، ناز و انداز حیا میں نے

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

محبت کی سرشاری میں وہ روزمرہ کے مصائب اور غم و آلام سے بیگانہ نظر آتے ہیں :

بلائے فکر فردا ہم سے کوسوں دور ہوتی تھی

سرور سرمدی سے زندگی معمور ہوتی تھی

ہماری خلوت معصوم رشک طور ہوتی تھی

ملک جھولا جھلاتے تھے غزل خواں حور ہوتی تھی

یہیں کھیتوں میں پانی کے کنارے یاد ہے اب بھی

یہ ایسی بے داغ اور معصوم محبت تھی کہ:

خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے

حالاں کہ مخدوم کی ابتدائی رومانوی نظموں پر اختر شیرانی کا اثر نمایاں ہے، مگر مخدوم کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ اپنے محبوب کو اس کے ماحول سے الگ کر کے نہیں دیکھتے۔ وہ معصوم، تلنگانہ کی، ان کے وطن کی الھڑ جوانی ہے :

پھرنے والی کھیت کی مینڈوں پہ بل کھاتی ہوئی

نرم و شیریں قہقہوں کے پھول برساتی ہوئی

کنگنوں سے کھیلتی، اوروں سے شرماتی ہوئی

اجنبی کو دیکھ کر خاموش مت ہو، گائے جا

ہاں تلنگن گائے جا، بانکی تلنگن گائے جا

مگر معصوم رومانیت کا یہ دور جلد ہی ختم ہو گیا۔ تعلیم کے لیے حیدرآباد گئے، یہاں بھی غربت و افلاس نے ان کا دامن نہیں چھوڑا۔ راج بہادر گوڑ نے لکھا ہے کہ زمانہ طالبِ علمی میں مخدوم کا ناشتہ اور دوپہر کا لنچ دونوں ملا کر نظام کے سکہ میں صرف تین پیسوں کا ہوتا تھا۔ زندگی کے نئے مسائل تھے جن سے مخدوم دوچار تھے مگر معصوم رومانیت کا وہ ابتدائی دور دم ساز بنا ہوا ہے۔

نہ وہ اب کھیت باقی ہے نہ وہ آب رواں باقی

مگر اس عیش رفتہ کاہے، اک دھندلا نشاں باقی

ان کی ابتدائی دور کی رومانوی شاعری کا بہترین نمونہ ان کی نظم ’’انتظار‘‘ ہے۔ جہاں ایک عاشق کی بے تابی، وصال کی امید اور محبوب کے نہ آنے پر مایوسی کی بھرپور عکاسی ہے :

 

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے

نس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے

خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا

اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا

انتظار کی اس تڑپ کے بعد نا امیدی کی کیفیت ملاحظہ فرمائیں :

شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی

آپ کے آنے کی ایک آس تھی اب جانے لگی

صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی

او صبا تو بھی جو آئی تو اکیلی آئی

میرے محبوب، میری نیند اڑانے والے

میرے مسجود، میری روح پہ چھانے والے

آ بھی جا تاکہ میرے سجدوں کا ارماں نکلے

آ بھی جا تاکہ ترے قدموں پہ میری جاں نکلے

مخدوم کی رومانیت کا نقطۂ عروج ان کی وہ غزلیں ہیں جو انھوں نے اپنی زندگی کی آخری دہائی میں کہی ہیں مگر ان تک جانے سے پہلے ضروری ہے کہ اس ’’معصوم رومانیت‘‘ سے انقلابی فکر بلکہ بہ قول سبط حسن ’’ادبی دہشت گردی‘‘ کا بھی جائزہ لے لیا جائے۔

مخدوم حیدرآباد میں ایک نئی دنیا سے روشناس ہوتے ہیں۔ یہ گاؤں کی رو پہلی دھوپ کی تمازت سے علاحدہ دنیا ہے۔ یہاں استحصال اور جاگیردارانہ استبداد کی لو چلتی ہے۔ حالاں کہ مخدوم نے اپنے گاؤں میں ہی اپنے بزرگوں سے روسی انقلاب اور پرولتاری اقتدار کا ذکر سن رکھا تھا، مگر حیدرآباد کے استحصال اور جاگیردارانہ استبداد کی کڑی دھوپ نے ان میں طبقاتی شعور کو بیدار کیا۔ وہ طبقاتی جدوجہد کے ذریعہ انقلاب کی منزل تک پہنچے کے فلسفے سے روشناس ہوئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کی ابتدائی رومانوی نظموں میں معصومیت اور جذبہ کی حلاوت ہے مگر ان کی ابتدائی انقلابی نظمیں گھن گرج اور دہشت گردانہ اندازِ فکر سے پُر ہیں۔ راج بہادر گوڑ لکھتے ہیں کہ انقلابی تصور سے آشنائی کے اس ابتدائی دور میں مخدوم نے سامراج دشمنی اور جاگیردار دشمنی کے جذبات سے معمور نظمیں لکھیں۔ ’’روح فغفور‘‘ میں وہ چینی آمر فغفور کے حوالے سے انسانی قدروں کی پامالی کا ماتم کرتے ہیں :

وہ شب اندام وہ قبر کی تیرگی

میرے گھر میں وہ کل یک بیک گھس گئی

ناچتی کودتی، شور کرتی ہوئی

میری خوشیوں سے جیبوں کو بھرتی ہوئی

پرچم غم ہوا میں لہراتی ہوئی

مسکراتی ہوئی، کھلکھلاتی ہوئی

ایڑیوں سے دلوں کو کچلتی ہوئی

خون پی پی کے گرتی ابھرتی ہوئی

پشت گیتی پہ میں بھی تو ناسور ہوں

دیکھ تو کون ہوں، روح فغفور ہوں

اس طرح اپنی نظم آزادی وطن میں وہ ملک کے نوجوانوں کو للکارتے ہیں کہ آؤ بھارت کی تقدیر بدل دیں :

چھپی خاموش آہیں شور محشر بن کے نکلی ہیں

دبی چنگاریاں خورشید خاور بن کے نکلی ہیں

بدل دی نوجوان ہند نے تقدیر زنداں کی

کہو ہندوستاں کی جے، کہو ہندوستاں کی جے

قاضی نذر الاسلام کی باغیانہ روش اور شاعری نے بھارت کی سبھی زبانوں کے ادیبوں اور شاعروں کو متاثر کیا تھا۔ مخدوم کی نظم باغی، قاضی صاحب کی نظم ’’وردی‘‘ کی بازگشت ہے :

رند ہوں، برق ہوں، بے چین ہوں، پارا ہوں میں

خود پرستار، خود آگاہ، خود آرا ہوں میں

گردن ظلم کٹے جس سے وہ آرا ہوں میں

خرمنِ جور جلا دے وہ شرارا ہوں میں

اس تعارف کے بعد وہ نخوت ارباب زماں، ظلم اور روش اہلِ جہاں اور عشرت آباد، امارت کے مکاں کو توڑنے کے عزم کے ساتھ اعلان کرتے ہیں :

برق بن کر بت ماضی کو گرانے دے مجھے

رسم کہنہ کو تہہ خاک ملانے دے مجھے

تفرقے مذہب و ملت کے مٹانے دے مجھے

خواب فردا کو اب حال بنانے دے مجھے

آگ ہوں آگے ہوں، ہاں ایک دہکتی ہوئی آگے

آگ ہوں آگ بس اب آگ لگانے دے مجھے

’’موت کا گیت‘‘ بھی اسی قبیل کی نظم ہے، جس میں وہ گرج کر کہتے ہیں :

زلزلو آؤ، دہکتے ہوئے لاؤ آؤ

بجلیو آؤ، گرج دار گھٹاؤ آؤ

آندھیو آؤ، جہنم کی ہواؤ آؤ

آؤ یہ کرۂ ناپاک بھسم کر ڈالیں

قصہ دہر کو معمورِ کرم کر ڈالیں

’’جنگ‘‘ وغیرہ بھی اس دور اور قبیل کی نظمیں ہیں۔ مگر میرے خیال سے ان کے اندازِ فکر اور دور کی سب سے نمائندہ نظم ’’حویلی‘‘ ہے جس میں نہ صرف جاگیرداری کے فرسودہ نظام سے نفرت اور اس کے کارندوں کی حقیقی شناخت موجود ہے بلکہ ایک نئے نظام کی تعمیر کا عزم بھی نمایاں ہے۔ نظم کی ابتدا میں کہتے ہیں :

ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج

لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج

اک مسلسل کرب میں ڈوبے ہوئے سب بام و در

جس طرف دیکھو اندھیرا، جس طرف دیکھو کھنڈر

مارو کژدم کا ٹھکانا جس کی دیواروں کے چاک

اف یہ رخنے کس قدر تاریک کتنے ہولناک

جن میں رہتے ہیں مہاجن، جن میں بستے ہیں امیر

جن میں کاشی کے برہمن، جن میں کعبے کے فقیر

اور پھر راست کہتے ہیں :

جانتا ہوں موت کا ہم ساز و ہمدم کون ہے

کون ہے پروردگارِ بزم ماتم کون ہے

کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوس دیں

بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الا میں

اس لیے ان کے اندر کا انقلابی للکارتا ہے :

ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی

تو بجائے ساز الفت اور گائے زندگی

آ، انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

آ، انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

اس کے بعد مخدوم نے اپنے انقلابی سفر میں ادبی انقلابیت کے سفر میں پیچھے مڑ کر دیکھنا سیکھا ہی نہیں۔ ان کی شاعری میں ’’نئی دنیا اور نئے آدم‘‘ کی تلاش کی سرگزشت بن گئی۔ ’’جنگِ آزادی‘‘ جو شاید ہماری انقلابی تحریک کی سب سے مقبول نظموں میں سے ایک ہے۔ ان کی نظریاتی پختگی اور مارکسی اندازِ فکر کی غماز ہے۔ وہ کہتے ہیں :

سارا سنسار ہمارا ہے

پورب پچھم، اتر دکن

ہم افرنگی، ہم امریکی

ہم چینی جانبازانِ وطن

ہم سرخ سپاہی، ظلم شکن

آہن پیکر، فولاد بدن

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

آزادی کے پرچم کے تلے

مخدوم کے اندازِ فکر اور لہجہ کی یہ تبدیلی حیدرآباد میں محنت کشوں کی تحریک کی دین ہے۔ آزادی اظہارِ خیال پر پابندی ہے، عدالتی نظام، جاگیرداری کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ محنت کش بدترین استبداد اور استحصال سے دوچار ہیں۔ اس استبدادی اور استحصالی نظام سے نجات کی جدوجہد میں سرگرداں مخدوم، بعض دوستوں کے ساتھ کامریڈز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھتے ہیں۔ روپوشی میں کام کرنے والے کمیونسٹ کارکنوں سے رابطہ ہوتا ہے۔ وہ ٹریڈ یونین تحریک میں مزدوروں کو منظم کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ انھوں نے ریلوے اور ٹیکسٹائلس مزدوروں کو منظم کرنے میں بھی نمایاں کر دار ادا کیا۔ مگر یہاں میں خاص طور سے سب سے زیادہ استحصال کے شکار بٹن مزدوروں کی یونین بنانے کی پہل کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ جاگیر دار مخالف جدوجہد میں مخدوم کے قریبی رفیق کے۔ایل۔مہندرا لکھتے ہیں ’’اس دور میں جب کہ ٹریڈ یونین تحریک تو کجا، جمہوریت اور آزادی کا نام لینا بھی خطرہ مول لینے کے مترادف تھا۔ حیدرآباد کے جاگیرداروں نے نام نہاد مسلم قیادت کے آگے بڑھا کر انالملک کے پُر فریب نعرہ سے ریاست کے مسلمان محنت کشوں کو ’’دیگر محنت کش طبقات سے الگ رکھنے کی مجرمانہ سازشیں شروع کر دی تھیں۔ مخدوم اور راج (بہادر گوڑ) نے اپنی مساعی سے حیدرآباد کے بٹن ورکرس کی پہلی یونین بنائی۔ مجھے وہ دن اچھی طرح سے یاد ہے جب کہ مغل پورہ کے پبلک پارک میں راج اور مخدوم بٹن مزدوروں جن کی غالب اکثریت دو آنے روزانہ اجرت پر کام کرنے والے چودہ تا سولہ سال کے مسلم بچوں پر مشتمل تھی، مخاطب کرتے ہوئے ہم بادشاہ ہیں کہ اس فریب کا بھرم کھولا اور انا الملک کا نعرہ لگانے والوں سے پوچھا کہ کیا ان بدحال مسلم بچوں کو بھی وہ ریاست کے تاج داروں میں شمار کرتے ہیں۔ مخدوم نے ان استحصال زدہ مسلم بچوں کے ذریعہ حیدرآباد ریاست کے مسلم محنت کشوں کو یہ پیعام دیا کہ وہ بھی جاگیرداری نظام کے اسی طرح مارے ہوئے ہیں جس طرح دوسرے۔ یہاں اس واقعہ کا ذکر اس لیے ضروری ہے کہ بدبختی سے آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد بھی مسلمانوں کی سیاست جذباتی نعروں کے حصار میں رہی ہے۔ مسلمان سیاسی جذباتیت یا جذباتی سیاست کا اسیر رہا ہے، جس نے سب سے زیادہ نقصان، خود مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔

طبقاتی مزدوروں پر مسلمانوں کو متحد کرنے کی مساعی نے مخدوم کی اس داستانوی شخصیت کی تعمیر میں اہم کر دار ادا کیا جو تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کے دوران ابھر کر سامنے آئی۔ مخدوم جاگیرداروں اور سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف جنگ کے مجاہد بن چکے تھے۔ اسی لیے مسلح جدوجہد کے زمانے میں بہ یک وقت کئی مقامات پر مسلح دستوں کی قیادت کرنے والے مخدوم کی شخصیت کے قصے عام ہوئے۔ یہ وہی سحر ہے کہ جب مخدوم نے آصف سابع کی فرق مبارک پر پڑنے والی ضربت کاری کا ذکر کیا تو محنت کش جھوم اٹھے :

لرز لرز کے گرے سقف و بام زر داری

ہے پاش پاش نظام ہلاکو و زاری

پڑی ہے فرق مبارک پہ ضربت کاری

حضور آصف سابع پہ ہے غشی طاری

’’تلنگانہ‘‘ ان کے پہلے مجموعہ ’’سرخ سویرا‘‘ کی آخری نظم ہے۔ اس دور کی ادبی تخلیقات میں شاید ’’قید‘‘ سب سے زیادہ مقبول نظم ہے۔ جس میں شاعر کو افسوس ہے کہ وہ سینکڑوں لاکھوں قدم اور سینکڑوں لاکھوں عوام کے دلوں کی دھڑکن سے ہم آہنگ رہنے کے بجائے زنداں میں محبوس ہے۔ مگر وہ دل شکستہ نہیں ہے :

سالہا سال کی افسردہ و مجبور جوانی کی امنگ

طوق و زنجیر سے لپٹی ہوئی سو جاتی ہے

کروٹیں لینے میں زنجیر کی جھنکار کا شور

خواب میں زیست کی شورش کا پتہ دیتا ہے

 

مجھے غم ہے کہ مرا گنج گراں مایہ عمر نذر زنداں ہوا

نذر آزادی زندانِ وطن کیوں نہ ہوا

ہند کی آزادی اور حیدرآباد میں پولیس ایکشن تاریخ کے اتنے قریبی واقعات ہیں کہ یہاں انھیں دوہرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ میں تو مخدوم کے شاعر اور سیاست داں دونوں حیثیتوں میں زندگی کے دو پہلوؤں کا ذکر ضرور سمجھتا ہوں۔ مخدوم آزادی کے بعد حیدرآباد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور بعد میں لیجسلیٹیو کونسل میں سی پی آئی کے گروپ لیڈر رہے۔ ان دونوں حیثیتوں میں ان کے کارہائے نمایاں کے ذکر کے لیے علاحدہ مضمون درکار ہے۔ اسی دوران مخدوم عالمی ٹریڈ یونین کانگریس (WFTU) کے عہدے دار منتخب ہوئے اور ملک کے باہر چلے گئے۔ انھوں نے موجود سوشلسٹ ملکوں کا تفصیلی دورہ کیا۔ زدنگی کی نئی حقیقتوں سے روشناس ہوئے۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس دوران بعض جذباتی لمحوں کے زیر اثر کوئی نظم کہہ دینے کے سوا بالعموم مخدوم کے تخلیقی سوتے خشک رہے، انھوں نے دنیا کا دورہ کرتے ہوئے پانچ برسوں تک کوئی نظم نہیں لکھی۔ وطن واپسی کے بعد اور ایک بار پھر اپنے محبوب محنت کش عوام کی معیت میں مصروف جدوجہد ہونے کے بعد ان کی سب سے قابل قدر نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘ شائع ہوئی جس کے بارے میں خود مخدوم نے کہا ہے کہ یہ آزادی سے پہلے بعد اور آگے کا منظر نامہ ہے۔ میں اسے مخدوم کی شاعری کی معراج تسلیم کرتا ہوں۔ جس میں مخدوم اپنی زندگی کا سارا تجربہ نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ نظم ان کی رجائیت کی بھی علامت ہے جو ساری زندگی ان کی شخصیت کا سب سے نمایاں عنصر رہی ہے :

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے

پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے

منتظر مرد و زن

مستیاں ختم، مدہوشیاں ختم تھیں، حتم تھا بانکپن

رات کے جگمگاتے دہکتے بدن

آزادی وطن کے بعد امامانِ صد مکر و فن کے خون نور سحر پی جانے کا شکوہ کرنے کے بعد مخدوم آواز دیتے ہیں :

رات کی تلچھٹیں ہیں اندھیرا بھی ہے

صبح کا کچھ اجالا اجالا بھی ہے

ہم دمو!

ہاتھ میں ہاتھ دو

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

منزلیں دار کی

کوئے دلدار کی منزلیں

دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

’’گل تر‘‘ میں اس کے بعد زیادہ تر غزلیں ہیں۔ مخدوم اب عملی زندگی میں زیادہ سرگرم ہیں اور ادبی ذریعہ اظہارِ غزل ہے۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے ’’گل تر‘‘ کے دیباچے میں خود مخدوم کہتے ہیں :

’’زماں اور مکاں کا پابند ہونے کے باوجود شعر بے زمان (Time-less) ہوتا ہے اور شاعر اپنی ایک عمر میں کئی عمریں گزارتا ہے۔ تہذیب انسانی جبلتوں کو سماجی تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے کا مسلسل عمل ہے۔ جمالیاتی حس انسانی حواس کی ترقی اور نشوونما کا دوسرا نام ہے۔‘‘ مخدوم کی غزلیں اس پیمانے پر کھری اترتی ہیں۔ ان میں ان کی رومانیت، بالغ نظری کی اعلیٰ ترین بلندی پر ہے تو اپنے آدرش سے وابستگی بھی نمایاں ہے۔ ان کی غزلیں رومان اور آدرش دونوں کی معراج کی نمائندہ ہیں۔ یہاں اپنی بات ان کی غزلوں کے دونوں جہتوں کے کچھ اشعار نقل کر کے ختم کرتا ہوں۔

رومانیت کے مرقعے :

آج تو تلخی دوراں بھی بہت ہلکی ہے

گھول دو ہجر کی راتوں کو بھی پیمانے میں

تمام عمر چلی ہے تمام عمر چلے

الٰہی ختم نہ ہو یاد غم گسار کی بات

ساز آہستہ ذرا گردش جام آہستہ

جانے کیا آئے نگاہوں کا پیام آہستہ

ہجوم بادہ و گل میں ہجوم یاراں میں

کسی نگاہ نے جھک کر میرے سلام لیے

بڑھ گیا بادۂ گلگوں کا مزا آخر شب

اور بھی سرخ ہے رخسار حیا آخر شب

اور اب آدرش پر اصرار:

گل ہے قندیل حرم، گل ہیں کلیسا کے چراغ

سوئے مے خانہ بڑھے دست دعا آخر شب

اٹھو کہ فرصت دیوانگی غنیمت ہے

قفس کو لے کے اڑیں، گلوں کو ہم کنار کریں

ہم تو کھلتے ہوئے غنچوں کا تبسم ہیں ندیم

مسکراتے ہوئے ٹکراتے ہیں طوفانوں سے

تحفہ برگ و گل باد بہاراں لے کر

قافلے عشق کے نکلے ہیں بیابانوں سے

 

٭٭٭

 

 

پروفیسر فاطمہ بیگم

 

مخدوم کی شاعری میں اسلامی تلمیحات و اشارات

 

اس سمینار کے انعقاد کی تیاری کے سلسلے میں جب مجھ سے موضوع کی بابت دریافت کیا گیا تو میں نے مخدوم کے پہلے مجموعہ کلام سرخ سویرا کے انتساب ’’محبت اور محبت کے نام‘‘ کے حوالے سے مخدوم کو ان کی صد سالہ تقاریب کے ضمن میں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا ارادہ کیا اور اسی موضوع کے حوالے سے گفتگو کی۔ اس عنوان پر اظہارِ خیال کے لیے جب میں نے کلامِ مخدوم کا مطالعہ کیا تو تب میرے ذہن نے اسلامی تلمیحات اور اشارات اور مخدوم کی شاعری پر بات چیت کو زیادہ موزوں سمجھا میں منتظمین کی مشکور ہوں کہ انھوں نے موضوع کی تبدیلی کی اجازت دی۔

مخدوم پر گفتگو کی شروعات دستور کے مطابق ان کے ابتدائی حالاتِ زندگی سے شروع ہوتی ہے اور پتہ چلتا ہے کہ ابھی پانچ سال ہی کے تھے کہ والد کا انتقال ہو گیا۔ والدہ کی دوسری شادی (جس کا پہلے مخدوم کو علم نہ تھا) کی وجہ سے وہ ماں کی شفقت و محبت سے بھی محروم ہو گئے۔ چچا مولوی محمد بشیر الدین جو مذہب اور زمانے کے اہم معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے کی زیر سرپرستی مخدوم کی ابتدائی تعلیم و تربیت ہوئی۔ اس بارے میں خود مخدوم کا کہنا ہے :

’’میری ابتدائی تعلیم گھر پر عربی فارسی میں ہوئی اور تلگو گاؤں کے مکتب میں پڑھی۔۔۔ میرا گھریلو ماحول بڑا مذہبی تھا۔ میں نے مولسری کے بیجوں پر ختمِ خواجگان، مولود شریف پڑھنے سے لے کر مسجد کی جاروب کشی اور اذان تک دی ہے۔ مسجد میں نمازیوں کے لیے کنویں سے پانی نکالنا، ہر جمعہ کو سر منڈانا، سخت گرم پانی سے نہانا اور روزانہ کے معمول میں فرض، سنت اور نوافل کے علاوہ اشراق اور چاشت کی نمازیں پڑھنا۔‘‘

(مخدوم محی الدین سے انٹرویو۔ پروفیسر امیر عارفی)

مخدوم کی ابتدائی زندگی مذہبی ماحول میں بسر ہوئی اس پر خود مخدوم کے اظہارِ خیال کے ساتھ ان پر تحقیقی و تنقیدی کام کرنے والے تقریباً سارے محققین متفق ہیں۔ ڈاکٹر داؤد اشرف، مخدوم محی الدین، ڈاکٹر شاذ تمکنت، مخدوم محی الدین حیات، شخصیت، شاعری، ڈاکٹر عطا الرحمن، مخدوم محی الدین جہات اور شاعری، ڈاکٹر محمد فیروز۔ مخدوم رومانی بھی، انقلابی بھی، مغنی تبسم۔ مخدوم اپنی ذات میں ایک انجمن مختصر سرگزشت۔

غرض گھر کا ماحول مذہبی تھا اور مذہبی فرائض کی انجام دہی میں سختی برتی جاتی تھی اسی زمانے میں مخدوم نے اپنے چچا سے روس اور انقلابِ روس کے بارے میں بہت کچھ سنا اور جب اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا تو محبت اور محنت کو اپنا شعار بنایا۔ یہاں تک کہ زندگی کے آخری لمحہ تک اسے اپنے سے جدا نہیں کیا۔

کمیونسٹ طرزِ فکر اور پارٹی سے قربت نے مخدوم کو ایک با عمل کمیونسٹ قائد کا جیتا جاگتا پیکر بنا دیا اور وہ ایک فعال لیڈر کی شکل میں نہ صرف ہندستان بلکہ بیرون ہند بھی مشہور اور مقبول ہو گئے۔ اس با عمل شخصیت کی تعمیر میں ابتدائی دور میں جو مذہبی عناصر شامل ہو گئے تھے وہ قریب ساری زندگی ان کے ساتھ رہے اور ان کی شاعری کی اساس بنے رہے۔ ان کی فکر اور ان کی شاعری کی لفظیات ہمیشہ اس کے زیر اثر رہی۔

’’سرخ سویرا‘‘ کی پہلی ہی نظم ’’طور‘‘ ہے۔ کوہِ طور خالق اور مخلوق کے رشتے، مخلوق کے تجسس، خالق کی دلدہی کی علامت ہے۔ مخدوم نے ’’طور‘‘ عنوان کے تحت اپنی محبت اور اس کی پاکیزگی اور معصومیت کی عکاسی کی۔

نظم ’’آسمانی لوریاں ‘‘ دن کی رخصت، شام کی آمد اور رات کی تفصیلات پیش کرتی ہے۔ اس میں مخدوم رات کی خاموشیوں میں پیامِ حق سنتے نظر آتے ہیں۔ رات کی خاموشیوں میں اللہ تعالیٰ سے روز و نیاز اور اس کی تفصیلات مخدوم کی زبانی سماعت فرمائیے :

روزِ روشن جا چکا، ہیں شام کی تیاریاں

اڑ رہی ہیں آسماں پر زعفرانی ساریاں

شام رخصت ہو رہی ہے رات کا منھ چوم کر

ہو رہی ہیں چرخ پر تاروں کی کچھ سرگوشیاں

۔۔۔

سرمدی نغمات سے ساری فضا معمور ہے

نطقِ رب ذوالمنن ہیں رات کی خاموشیاں

نیند سی آنکھوں میں آتی ہے جھکا جاتا ہے سر

سن رہا تھا دیر سے میں آسمانی لوریاں

(کلیاتِ مخدوم محی الدین، ص: ۱۰۳)

نظم ’’سجدہ‘‘ مخدوم کی ایک ایسی نظم ہے جس میں مخدوم اپنی محبوبہ کے ساتھ وقت گزارتے نظر آتے ہیں اور اسی قول کی تفسیر پیش کرتے ہیں کہ خدا کے بعد اگر سجدہ کرنے کی اجازت ہوتی تو شریکِ زندگی کو ہوتی کہتے ہیں :

لطف سجدوں میں آ رہا ہے مجھے

چھپ کے کوئی بلا رہا ہے مجھے                                                 (ص: ۱۰۴)

نظم ’’میں ‘‘ میں آدم اور ابنِ آدم کی اہمیت اور افادیت، جبر و قدر، مذہبی انداز میں اس طرح اجاگر کرتے ہیں :

خود تراشیدہ بت ناز آفریں میرا وجود

میری ذاتِ پاک مسجودِ جہانِ ہست و بود

دوسرا کوئی نہیں رہتا جہاں رہتا ہوں میں

اپنے سیلاب خودی میں آپ ہی بہتا ہوں میں

میرے سجدوں کے لیے ہی وقف ہے میری جبیں

میری اقلیم انا میں دوسرا کوئی نہیں                                                        (ص: ۱۱۰)

نظم ’’جنگ‘‘ میں جنگ کی ہولناکیوں اور تباہیوں پر روشنی ڈالتے ہوئے آخر میں ’’آفتابِ رحمت دوراں و انجمِ حمیت یزداں ‘‘ کے طلوع ہونے کی خواہش کرتے نظر آتے ہیں لکھتے ہیں :

خود اپنی زندگی پہ پشیماں ہے زندگی

قربانِ گاہِ موت پہ رقصاں ہے زندگی

انسان رہ سکے کوئی ایسا جہاں بھی ہے

اس فتنہ زار زمیں کا کوئی پاسباں بھی ہے

او آفتابِ رحمت دوراں طلوع ہو

او انجمِ حمیت یزداں طلوع ہو                                                 (ص: ۱۱۷)

اپنی نظم ’’موت کا گیت‘‘ میں انسانی خون کی ارزانی، ایمان و کفر کی تعریف، قسمت اور مقدر کے حیلے وغیرہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ گناہ گار انسان فشار قبر سے دو چار ہوتا ہے اس طرح ظلم کرنے والوں کو متنبہ کرتے ہیں مخدوم لکھتے ہیں :

عرش کی آڑ میں انسان بہت کھیل چکا

خونِ انسان سے انسان بہت کھیل چکا

مورِ بے جاں سے سلیمان بہت کھیل چکا

وقت ہے آؤ دو عالم کو دگر گوں کر دیں

قلبِ گیتی میں تباہی کے شرارے بھر دیں

ظلمتِ کفر کو ایمان نہیں کہتے ہیں

سگِ خون خوار کو انسان نہیں کہتے ہیں

دشمنِ جاں کو نگہبان نہیں کہتے ہیں

جاگ اٹھنے کو ہے اب خوں کا تلاطم دیکھو

ملک الموت کے چہرے کا تبسم دیکھو

جان لو قہر کا سیلاب کسے کہتے ہیں

ناگہاں موت کا گرداب کسے کہتے ہیں

قبر کے پہلوؤں کی داب کسے کہتے ہیں

دورِ ناشاد کو اب شاد کیا جائے گا

روحِ انسان کو آزاد کیا جائے گا                                                 (ص: ۱۲۰)

تاریخ اسلام سے واقف ہر مسلمان حضرت علیؓ کی بہادری، ان کی جنگ، ان کی تلوار ’’ذوالفقار‘‘ کے بارے میں جانتا ہے۔ اپنی نظم ’’جہانِ نو‘‘ میں جہانِ نو کی تعمیر کے لیے مخدوم کو ذوالفقار یاد آتی ہے اور کفر کے اندھیرے کو مٹانے محبت، مساوات، نئی صبح و شام کے اچھوتے نظام کو پھر سے رائج کرنے کے لیے مخدوم ذوالفقار کو باطل کی گردنوں پر چمکنے کے لیے یاد کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں اسلام، بانی اسلام، ترویج اسلام کے شیر، سب کی اہمیت، افادیت مسلمہ طور پر بیان ہوتی ہے۔ اشعار سماعت فرمائیے :

نغمے شر فشاں ہوں اٹھا آتشیں رباب

مضرابِ بے خودی سے بجا سازِ انقلاب

معمار عہد نو ہو ترا دست پُر شباب

باطل کی گردنوں پہ چمک ذوالفقار بن

ایسا جہان جس کا اچھوتا نظام ہو

ایسا جہان جس کا اخوت پیام ہو

ایسا جہان جس کی نئی صبح و شام ہو

ایسے جہانِ نو کا تو پروردگار بن                                                  (ص: ۱۲۷)

نظم ’’نورس‘‘ میں جبرئیل امین اور کلیمی کی تلمیحات کے سہارے مخدوم اپنے ما فی الضمیر کو واضح کرتے نظر آتے ہیں لکھتے ہیں :

جبرئیل امین کے ہونٹوں کی

بے گائے ہوئے نغموں کی صدا

حوروں کے بہشتی نغموں سے

جو راگ بنے وہ راگ ہے وہ

جس سے کہ کلیمی ملتی ہے

کچھ ایسی ہی اک آگ ہے وہ                                                   (ص: ۱۳۷)

نظم ’’انقلاب‘‘ میں انقلاب کا انتظار کرتے ہوئے اور اسے جلد آنے کی دعوت دیتے ہوئے مخدوم کلامِ پاک میں جن انبیا کا بیان ہوا ہے ان کی مخصوص خصوصیات سے زمانہ کو خالی بتاتے ہیں کہتے ہیں :

رخِ حیات پر کاکل کی برہمی ہی نہیں

نگارِ دہر میں انداز مریمی ہی نہیں

مسیح و خضر کی کہنے کو کچھ کمی ہی نہیں

گزر بھی جا کہ ترا انتظار کب سے ہے

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھانے کے واقعہ کو موجودہ عہد سے جوڑتے ہوئے حق و باطل، خیر و شر کے مقابل میں ہار کر بھی جیتنے کی کیفیت کی عکاسی کرتے ہوئے مخدوم نظم پیار کی چاندنی میں رقم طراز ہیں :

ابن آدم کو سولی چڑھاتے رہو

زندگانی سرِ دار گاتی رہے

’’مارٹن لوتھر کنگ‘‘ نظم میں مارٹن لوتھر کے قتل پر مخدوم کو آغازِ اسلام کے سن ۶۰ھ کے قتل حسین، شام غریباں، خیر و شر، نیکی و بدی کا تصادم و ٹکراؤ یاد آتا ہے اور وہ بے ساختہ کہہ اٹھتے ہیں :

یہ قتل، قتل کسی ایک آدمی کا نہیں

یہ قتل، حق کا مساوات کا، شرافت کا

یہ قتل علم کا، حکمت کا، آدمیت کا

یہ قتل حکم و مروت کا خاکساری کا

یہ قتل ظلم رسیدوں کی غم گساری کا

یہ قتل ایک کا، دو کا نہیں، ہزار کاہے

خدا کا قتل ہے، قدرت کے شاہ کار کاہے

ہے شام، شامِ غریباں، ہے صبح، صبح حنین

یہ قتل، قتل مسیحا، یہ قتل، قتل حسین                                                  (ص: ۲۳۱)

ڈاکٹر محمد فیروز کے مطابق ۱۰۸ شعری تخلیقات (بہ حوالہ مضمون ’’مخدوم رومانی بھی، انقلابی بھی)، مخدوم کی کل کائنات، درج بالا مثالیں گیارہ نظموں سے لی گئی ہیں ویسے نظم ’’نالہ حبیب‘‘، ’’لختِ جگر‘‘، بھاگ متی، رات کے بارہ بجے اور چند غزلوں میں بھی علامات، تلمیحات، اسما ایسے مستعمل ہوئے ہیں جن کے سرے مذہب سے جا ملتے ہیں مثلاً تورات، انجیل، قرآن، ہاجرہ، یعقوب، یوسف، کشاکشِ دل پیغمبراں، گلوئے یزداں وغیرہ۔

اس مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مخدوم نے کامریڈ کے طور پر شہرت پائی، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا آج بھی ان کی یاد مناتی ہے اور انھیں اپنا قائد تسلیم کرتی ہے لیکن ادب کے ایک عام قاری کی حیثیت سے جب میں نے سرخ سویرا، گل تر اور بساطِ رقص اور ان کی یکجا شکل ’’کلیاتِ مخدوم محی الدین‘‘ کا مطالعہ کیا تو مجھے ان کی فکر، ان کے اسلوب، ان کی سوچ، ان کے الفاظ کے پس پردہ اسلام، اسلامی فکر، اسلامی تہذیب، اسلامی روایات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آیا جو ان کی پہلی نظم سے ان کے آخری دور کے کلام تک مختلف انداز سے جلوہ گر نظر آیا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب مخدوم نے ہوش سنبھالا اسلامی مملکت قریب قریب معدوم ہو چکی تھی، اسلام اصول و قوانین دہرائے تو جا رہے تھے لیکن صدقِ دل سے ان پر عمل پیرا ہونے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ کارل مارکس کے نظریات یوروپی ممالک میں ہلچل مچا چکے تھے۔ ادب میں انفرادی اور اجتماعی جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہو رہی تھی۔ ہر حساس انسان اپنے ظرف کے مطابق اپنے شعور کے مطابق عالمی سطح پر آزادی، مساوات اور ترقی کا پرچم بلند کرنے کی کوشش میں تھا۔ مخدوم اپنے بچپن میں ہی روس اور اہلِ روس کی کامیابی کے بارے میں جان چکے تھے شاید ان ہی وجوہات کے تحت مخدوم نے کمیونزم سے اور کمیونسٹ تحریک سے رشتہ جوڑا، غریبوں سے محبت، ان کی عزت، ان کے حقوق کی حفاظت اور ان کے لیے سینہ سپر ہونے کی جرات نے جو اسلامی اصول و قوانین سے بڑی حد تک قربت اور مماثلت رکھتے تھے نے انھیں اپنی جانب متوجہ کیا اور انھوں نے اس تحریک کے توسط سے غریبوں اور مزدوروں سے ناطہ جوڑا ان کی خدمت کی۔ گھر کی، پارٹی کی، سماج کی، ذمہ داریوں کو ایک با اصول انسان کی طرح پورا کیا اور اپنا روشن اور قابلِ تقلید کر دار آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑ گئے۔

اس مطالعہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ابتدائی زندگی کی تعلیمات کی اہمیت اور افادیت ان کے ذہن اور ان کے دل نے پوری طرح قبول کی تھیں۔ محبت، خلوص، بھائی چارگی، مساوات، غریبوں، محتاجوں کے کام آتے ہوئے خوشی محسوس کرنا، اپنی ذات سے اوپر اٹھ کر سوچنا، مخدوم کی طبیعت کا، فطرت کا ایک حصہ بن چکے تھے۔ مخدوم نے شعوری طور پر اپنے لیے اس راستے کو منتخب کیا جس پر چلتے ہوئے انھیں اور ان کے متعلقین کو پریشانیوں سے دوچار ہونا پڑا۔ مخدوم کی اس بے لوث خدمت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مخدوم نے اپنے اور پنے گھر والوں کے لیے ایک گھر بھی نہیں چھوڑا اور خود اپنے صاحب زادے نصرت محی الدین کی ملازمت کے لیے بھی اپنے اثر و رسوخ کا استعمال بالکل ہی نہیں کیا۔ ان کے دوست احباب ان کی روزمرہ زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی جفا کشی اور سادگی کی کئی تصویریں پیش کرتے ہیں۔ پارٹی کے دفتر میں سو جانا۔ عام کمپارٹمنٹ میں سفر کرنا۔ بھوک پیاس کی صعوبتیں برداشت کرنا۔ یہ ساری خصوصیات اس حقیقت کی وضاحت کرتی ہیں کہ مخدوم مذہب کی بنیادی روح کو تسلیم کرتے اور اپنی عملی زندگی میں اس سے کام لیتے تھے۔ اب رہی بات نماز کی پابندی نہ کرنا یا مے نوشی میں مشغول رہنا اور دوسری باتیں تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بے عیب ذاتِ خدا اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے درگزر اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشا پر منحصر ہوتا ہے جب کہ بندوں کی خدمت اور محتاجوں کی مدد اللہ کا پسندیدہ عمل ہے۔ استاد محترم پروفیسر مغنی تبسم کے ایک شعر کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں :

کرم کیا ہے کہ توفیق دی گناہوں کی

کرم کرے گا گناہوں کی جب سزا دے گا

٭٭٭

 

 

علی احمد فاطمی

 

احتجاج اور انقلاب کے درمیان ۔    مخدومؔ محی الدین

 

 

ایک خیال ہے کہ ادب کی تخلیق کی بنیاد ہی مزاحمت، اضطراب و احتجاج پر ہوتی ہے۔ یہ ایک فکری سے زیادہ فطری عمل ہے۔ اس لیے کہ نظریے اور فلسفے سے زیادہ بڑا جذبہ بے چینی و اضطراب، اختلاف و انحراف کا ہوتا ہے۔ اس ضمن میں پروفیسر قمر رئیس نے اچھی بات کہی ہے :

’’ حساس ادیب جب اپنے کسی معتبر تجربے کو اظہار کی شکل دیتا ہے تو گویا وہ اختلافی یا انحرافی عمل سے گزرتا ہے۔ وہ بلاشبہ کسی سماج یا انسانی صورتِ حال کے بارے میں اعتماد سے اپنی بات کہتا ہے کہ اس میں کچھ نیا ہے اس میں دوسروں کی سوچ یا علم و آگہی سے ہٹ کر کچھ کہا گیا ہے یعنی اس کا تخلیقی تجربہ دوسروں سے اختلاف کا پہلو رکھتا ہے۔‘‘

احتجاج تو وہاں سے شروع ہوتا ہے جب وہ اپنے ماحول سے ناآسودہ ہوتا ہے اس لیے وہ اپنے کرب کا اظہار کرتا ہے۔

شعر و ادب کے حوالے سے یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے کہ مزاحمت و احتجاج وغیرہ فطری عناصر تو ہیں اور ان کا اظہار بھی فطری عمل ہے لیکن تخلیقی اظہار کے فن کارانہ عمل میں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ادب کا چہرہ مسخ نہ ہونے پائے یعنی ادب کی ادبیت یا شعر کی شعریت ہر حال میں برقرار رہنی چاہیے۔ گزشتہ دہائیوں میں ایک خاص طبقہ ء فکر کی جانب سے یہ بات اتنی بار دہرائی گئی ہے کہ بہ ظاہر یہ بات معقول سی نظر آنے لگی ہے۔ لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ ادب ہے کیا اور اس کی ادبیت کیا ہے اور شعریت کسے کہتے ہیں۔ کچھ بھرے پیٹ اور خالی ذہن کے قارئین و ناقدین کے تئیں اگر ادب یا شاعری سے مراد محض تغزل ہے نغمگی ہے، جذباتیت ہے، لطافت وغیرہ ہے تو پھر کسی نوع کی مزاحمتی شاعری شعر و سخن کے نرم و نازک چہرے کو مسخ تو کرے گی یا کم از کم خراش تو ڈالے گی ہی۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ نغمگی کا چہرہ الگ ہوتا ہے اور کرختگی کا الگ۔ دونوں کی حسّیات و کیفیات الگ الگ ہوتی ہیں۔اگر زندگی کرخت ہے تو شاعری کے کرخت ہونے کے امکانات قوی ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہییں اور اس کے جانچنے پرکھنے کے پیمانے بھی مختلف ہوں گے۔ یہ ممکن نہیں کہ چاروں طرف آہ و زاری ہو، واویلا ہو اور سنجیدہ و ذمہ دار شاعر کسی ٹیلے پر بیٹھا ان خوں ریز مناظر کو دیکھ کر بانسری بجا  رہا ہو۔ چاروں طرف شور و غل ہوتا ہے تو سرگوشیاں از خود اپنی معنویت کھو دیتی ہیں۔ جس طرح زندگی کے چہرے مختلف ہوتے ہیں اسی طرح شعر و ادب کے چہرے بھی الگ الگ ہوتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ہر نوع کی شاعری کی شعریات الگ الگ ہوتی ہے یا الگ الگ ہونی چاہیے۔ شاعری کا اگر کوئی سماجی منصب ہے اور وہ انقلابِ دہر سے گہر ا اور باطنی رشتہ رکھتی ہے تو پھر ہمہ وقت عشق و محبت کے سستے راگ نہیں الاپ سکتی کیوں کہ زندگی بہ ذاتِ خود کہیں نغمہ ہے۔ الاپ ہے اور کہیں چیخ پکار ہے۔ اس نغمہ، الاپ اور چیخ پکار کو الگ الگ ڈھنگ سے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہماری مشکل یہ رہی ہے کہ اردو تنقید نے یا اردو شعریات نے ان سب کو الگ الگ ڈھنگ سے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ غزلیہ شاعری کا مزاج و مذاق اور شعریات اتنی غالب رہی کہ نظم کی حقیقت، خارجیت، مزاحمت وغیرہ راس آئی نہ سمجھ میں آئی اور ہم مخصوص سکہ بند غزل کی شعریات اور اس سے بڑھ کر اپنی پسند و ناپسند تہذیبی پس منظر کے حوالے سے سب کو جانچتے پرکھتے رہے اور غلط قسم کے فیصلے کرتے رہے۔ اس نوع کی غلطیاں تو ترقی پسند نقادوں سے بھی ہوئیں۔ وہ آج تک مزاحمت، احتجاج اور انقلاب کے مابین نازک احساس اور فرق کو پیش نہ کر سکے چناں چہ کلاسیکی تصورات کی انسان دوستی کی شاعری، مزاحمتی شاعری اور بعد کے دور کی احتجاج اور انقلابی شاعری جو ایک دوسرے سے وابستہ ہوتے ہوئے بھی الگ الگ ابواب ہیں۔ ’’مزاحمت اور پاکستان کی اردو شاعری‘‘ کے مصنف ڈاکٹر آغا ظفر حسنین نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :

’’ بلاشبہ احتجاج، انقلاب اور بغاوت کی اصطلاحیں مفہوم کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف تصورات کی حامل ہیں مگر بعض اوقات ادب میں ان تینوں کو ایک دوسرے کے بدل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی توجیحات بھی تقریباً وہی ہیں۔ جو احتجاج اور مزاحمت کی InterChangeability کے ضمن میں بیان کی گئی ہیں۔‘‘

گزشتہ دنوں ان تمام نزاکتوں کو نئے سرے سے غور کرنے کی ابتدا تو ہوئی۔ کچھ اچھے سمینار ہوئے۔ کتابیں بھی منظرِ عام پر آئیں لیکن ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور س کی شعریات و جمالیات کی نزاکتوں اور پرتوں کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔

یہ سچ ہے کہ مزاحمت عربی لفظ اور زحمہ سے مستعار ہے جس کے لغوی معنی حریف سے ٹکر لینے یا مدافعت کرنے کے ہوتے ہیں۔ انگریزی میں اس کا بدل Resistance ہے لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو فرق Resistance اور Protest میں ہے اور جو فرق Protest اور Revolution میں ہے وہی فرق مزاحمت، احتجاج اور انقلاب میں ہے۔ ہمارے پاس ایک اور لفظ بغاوت بھی ہے اور انقلاب کے بہت قریب ہے۔ ڈاکٹر علی جاویدؔ نے اس سلسلے میں کچھ اچھے کام کیے ہیں۔ جعفر زٹلی سے لے کر افہام و تفہیم کے مضامین تک انھوں نے ان اصطلاحوں پر معنی خیز روشنی ڈالی ہے۔ ایک مضمون میں واضح طور پر لکھتے ہیں :

’’ انقلاب، بغاوت اور احتجاج ایک دوسرے سے قریب ضرور ہیں لیکن ان میں بہت فرق ہے۔ جہاں تک انقلاب کا تعلق ہے تو اسے لوگوں نے کئی معنوں میں استعمال کیا ہے لیکن اگر انقلاب کے سائنٹفک نقطہ ء نظر کو دھیان میں رکھا جائے تو انقلاب کے معنی کسی سماج کی معاشیات کے پیداواری رشتے میں مکمل تبدیل یا دوسرے الفاظ میں کسی سماجی ڈھانچے میں مکمل سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلی کے ہیں۔۔۔ انقلاب کے لیے عمل پیہم ضروری ہے اور انقلاب کا تعلق کسی باقاعدہ تحریک سے ہوتا ہے جس کے مقاصد پہلے سے طے ہوتے ہیں۔

ساتھ ہی انقلاب کے لیے انقلابی شعور کا ہونا لازمی ہے جب کہ احتجاج کسی بھی سماجی نظام یا تحریک سے ناراضگی کا ردِ عمل ہو سکتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی تحریک کا مخالف ہے تو اس کی یہ مخالفت کسی طرح کی حکمت عملی کو جنم نہیں دیتی بلکہ ایک طرح کی ذہنی بغاوت کی موجب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ احتجاج کسی بھی شے کے خلاف اسے ختم کرنے کا راستہ ہموار نہیں کرتا۔۔۔‘‘

اگر یہ باتیں ذہن میں واضح نہ ہوں تو اس قسم کی غلطیاں ہو جانے کا امکان بنا رہتا ہے جیسا کہ ہمارے ایک دوست نے اقبال کے اس شعر :

’’جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہ ہو روٹی / اس کھیت کے ہر خوشہ ء گندم کو جلا دو۔‘‘کے بارے میں کہا کہ احتجاج کی یہ آواز چیخ میں بدل گئی ہے اور گوشِ ادب پر گراں گزرتی ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ یہ چیخ نہیں ہے بلکہ غم و غصہ میں ڈوبی ہوئی احتجاج کی وہ منزل ہے جہاں سے انقلاب کی شروعات ہوتی ہے۔ پھر جب زندگی میں کبھی کبھی چیخ کا اپنا ایک عمل ہے ضرورت ہے تو پھر شاعری میں کیوں نہیں ؟ ایک خاص نوع کی شاعری میں چیخ کی وہی اہمیت تھے جیسے ایک خاص نوع کی شاعری میں خاموشی کی۔۔۔ اس لیے کسی چیز پر تبصرہ کرنے یا مذمت کرنے سے قبل اس نوع کی شاعری کی کیفیت و ضرورت پر ضرور غور کر لینا چاہیے۔

’’ سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے / دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے۔‘‘ جیسا شعر فکر و فن اور معیار پرستوں کی جمالیات کے اعتبار سے جو بھی حیثیت رکھتا ہو لیکن بڑے ملک کی بڑی تاریخی، سیاسی اور انقلابی زندگی میں اس نے کلیدی رول ادا کیا اور حصولِ آزادی میں بے حد اہم حصہ دار رہا۔ اگر کوئی شعر روایتی شعریات کے پیمانے پر بہت کھرا نہیں ہے لیکن سماجیات و سیاسیات کے ضمن میں غیر معمولی کامیاب ہے اور تاریخ میں بے حد اہم رول ادا کر رہا ہو یا ادا کر چکا ہو تو اس کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ایلیا اہرن برگ کے یہ مشہور جملے پھر دُہراتا ہوں :

’’ ایک ادیب کے لیے یہی ضروری نہیں کہ وہ ایسے ادب کی تخلیق کرے جو مستقبل کی صدیوں کے لیے ہو۔ اسے ایسے ادب کی تخلیق پر بھی قدرت ہونی چاہیے جو صرف ایک لمحے کے لیے ہو، اگر اس ایک لمحے میں اس کی قوم کی قسمت کا فیصلہ ہونے والا ہے۔‘‘

سراج الدولہ کی موت پر اس کے دوست رام نرائن موزوں نے شعر کہا تھا :

غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی

دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پر کیا گزری

یہ اچھا شعر تو ہے لیکن اس میں محض رنج و غم کا لطیف پیرائے میں اظہار ہے اور تلخی احساس ہے۔ ہلکی سی دبی دبی سی مزاحمت بھی ہو سکتی ہے لیکن احتجاج نہیں ہے لیکن جب یہی تلخی احساس مزید شدید اور کرخت لہجہ اختیار کر لیتی ہے تو مصحفی اور مومن جیسے غزل گو شعرا بھی اس رنگ کے شعر کہتے ہیں :

ہندوستان کی دولت و حشمت جو کچھ کہ تھی

ظالم فرنگیوں نے بہ تدبیر کھینچ لی

مومن حسد سے کرتے ہیں ساماں جہاد کا

ترسا صنم کو دیکھ کے نصرانیوں میں ہم

ان اشعار کی روشنی میں آپ جعفر زٹلی، سودا، نظیر وغیرہ کی نظموں، شہر آشوبوں کا بہ غور ملاحظہ کیجیے۔ یہ مزاحمت اور احتجاج کے آس پاس کی تو مثالیں ہیں لیکن انقلاب ہرگز نہیں کیوں کہ اس وقت تک ادب میں سماجی اور آگے بڑھ کر سیاسی انقلاب کا کوئی واضح تصور نہ تھا۔ اسی لیے ان میں جو مزاحمت اور احتجاج ہے ان میں صوفیانہ اقدار کے تحت انسانی اقدار کے عناصر زیادہ کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ باضابطہ انقلاب تو اقبال اور جوش کے یہاں بھی نہیں ہے۔حالاں کہ کہا جاتا ہے کہ اقبال پہلے شاعر ہیں جنھوں نے لفظ انقلاب کا باقاعدہ استعمال کیا اور جوش تو شاعرِ انقلاب ہی کہے جاتے ہیں۔ ان دونوں کی وسیع المشربی اور انسان دوستی سے کسے انکار ہو سکتا ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اقبال کا انقلاب مبہم طرز کاہے ورنہ وہ صوفیانہ طرز کے پیغام انسانیت کے شاعر ہیں اور جوش کا انقلاب دراصل احتجاج ہے اور ایسا احتجاج جو بقول محمد حسن:

’’احتجاج پورے طور پر یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ کیا چاہتا ہے اور جو کچھ چاہتا ہے اس کی تکمیل کے لیے کون سے ذرائع اور وسائل اختیار کیے جانے چاہیے البتہ وہ یہ ضرور جانتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اس سے نا آسودہ ہے۔‘‘

اسی مقام پر وہ انقلاب سے الگ ہوتا ہے کیوں کہ انقلاب کا مارکسی و اشتراکی تصور اپنے ذہن میں بدلی ہوئی دنیا اور نظام کا واضح تصور رکھتا ہے۔

اس مختصر اور نا مکمل سے پس منظر میں اگر ترقی پسند شاعری کے احتجاج و انقلاب کا معروضی جائزہ لیا جائے تو کچھ کارآمد باتیں برآمد ہو سکتی ہیں … لیکن یہاں مجھے چند باتیں مخدوم کے احتجاج اور انقلاب کے حوالے سے عرض کرنی ہیں … کچھ نقادوں کا خیال ہے کہ پوری ترقی پسند تحریک میں مخدوم اکیلا شاعر ہے جو صحیح معنوں میں ترقی پسند شاعر ہے یعنی جس کے پاس احتجاج و انقلاب کا معقول و مناسب تصور تھا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات سچ ہو… لیکن ایسا شاید اس لیے کہا جاتا ہے کہ مخدوم کی پوری شاعری اپنی ذات کی شاعری نہیں ہے بلکہ عوام کی ہے ہندوستان کی ہے۔ ہندوستانی عوام کی غلامی اور محرومی نے مخدوم کو وہ دردو کرب دیا کہ ان کو پوری شاعری بلکہ پوری زندگی احتجاج و انقلاب میں بدل گئی۔ مخدوم شاعر ہی نہیں بلکہ ٹریڈ یوننیسٹ اور کمیونسٹ رہنما تھے حالاں کہ اگر ایک سچے اور پکے ترقی پسند ہونے کے یہی معیار ہیں تو تحریک کے بعض دیگر شعرا بھی پارٹی کے ممبر تھے۔ تحریک آزادی کے سرگرم کارکن جو جیل بھی گئے اور ان کی شاعری میں بھی احتجاج اور انقلاب ہے لیکن ان میں سے مخدوم کوئی نہ بن سکا حالاں کہ جو جس شکل میں ہے اس کی اپنی منفرد و ممتاز شناخت ہے لیکن مخدوم کی بات پھر بھی اور ہے … بس معاملہ یا مسئلہ یہی ہے کہ یہ پھر بھی اور کیا ہے۔

مخدوم اور دیگر ترقی پسند شعرا کے مابین تھوڑا فرق منظر و پس منظر کاہے … فیض، مجاز، سردار ساحر وغیرہ کے مقابلے مخدوم زندگی بھر ہر اسٹیج پر ہمہ وقت اور ہر سانس میں عوام کے ساتھ تھے۔ قدم قدم پر ان کے ساتھ… پھر انھیں قدموں، دھڑکنوں، تجربوں اور عوامی مسئلوں کو وہ اپنی شاعری میں انداز و آہنگ میں پیش کر دیتے ہیں۔ انھوں نے خود ہی کئی بار کہا ہے … ’’وہ شعر کہتے نہیں ہیں کوئی اور شعر کہلواتا ہے۔‘‘ یہ کوئی اور نہیں اس ملک کے عوام ہیں۔ عام انسان ہیں جن کے شب و روز، رنج و غم دکھ سکھ میں مخدوم سراپا ڈوبے ہوئے ہیں اور صرف ڈوبے ہوئے ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف احتجاج بھی کرتے رہتے ہیں اور ایک کمیونسٹ رہنما ہونے کے ناتے ان کے یہاں صرف احتجاج نہیں ہے بلکہ انقلاب کا واضح تصور ہے وہ جس خوشحال دنیا کو خواب میں دیکھتے ہیں اس کا بھرپور تصور حقیقت میں بھی رکھتے ہیں۔

مخدوم کے پاس فیض کی طرح رقیب، ہجر، تنہائی، صبا، سحر وغیرہ کا کوئی رونا نہیں ہے۔ ان کی حسیات اور لفظیات ہی الگ ہے جس کی وجہ سے ان کی شعریات بھی مختلف و منفرد ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ اردو کی روایتی شاعری یا استعارے و علائم سے واقف نہ تھے ان کی اکثر غزلوں یا بعض نظموں میں اس کے آثار دیکھے جا سکتے ہیں لیکن مخدوم بنیادی طور پر سماجی کرب اور سیاسی شعور کا شاعر ہے۔ اس کا سیاسی شعور عالمی ہے اور سماجی کرب اجتماعی… کمیونسٹ لیڈر ڈانگے نے ان کے تعلق سے کیا خوب بات کہی تھی:

’’مخدوم شیشے میں رہنے والا شاعر نہیں وہ انقلاب اور اس کے آدرش کی حمایت میں بڑی بے باکی سے لکھتا ہے۔ اسی لیے اس کی شاعری اتنی پر اثر ہے کہ لاکھوں کے دل کی آواز بن گئی۔‘‘

یہیں سے وہ دوسرے ترقی پسند شعرا بطورِ خاص فیض سے الگ ہوتے ہیں کیوں کہ فیض کے یہاں انقلاب کا تصور تو واضح ہے لیکن آہنگ و اسلوب روایتی، لفظیات بھی کلاسیکی، یہ الگ بات ہے کہ فیض نے اس میں بڑے سلیقے اور ہنر مندی سے سیاسی اشارے پیدا کر کے نئے معنی و مفاہیم دے دیے ہیں جو فیض کا اپنا منفرد کارنامہ ہے اور جسے اردو کے قارئین و ناقدین نے عمومی طور پر پسند کیا۔ فیض اردو کے روایتی ذہن کے قارئین و ناقدین کی کمزوری سمجھتے تھے اس لیے انھوں نے موضوع کے تقاضوں سے زیادہ ناقدین کے معیار و مذاق کو ذہن میں رکھا لیکن پہلے جزوی طور پر مجاز اس کے بعد کُلی طور پر مخدوم اس سے نہ صرف مختلف و منحرف تھے ان کے ذہن میں ناقد کم تھے قارئین زیادہ اور اس سے بھی زیادہ عوام۔ وہ ان کو اپنی شاعری سے متاثر ہی نہیں تبدیل بھی کرنا چاہتے تھے۔ اس لیے وہ تاثیر سے زیادہ تدبیر پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ شعر و ادب کے معیار سے زیادہ عوامی زندگی کے معیار پر نظر رکھتے ہیں وہ شعریات سے زیادہ حیات پر غور کرتے ہیں اور اسی کو بدلنے کی فکر اور جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی لیے مخدوم ان سب سے الگ تھے۔ مخدوم کے پرانے ساتھی راج بہادر گوڑ نے ایک جگہ لکھا ہے :

’’مخدوم کی شاعری اور خیالات نہ تو آسمان سے ٹپکے ہیں نہ حقے کے کش سے نکلے ہیں بلکہ وہ عوام کے لیے لڑتا رہا ہے اس نے تلنگانے کے کسانوں کی روپوش اور چھاپہ مار لڑائیوں میں ان کا ساتھ دیا۔ اس نے انقلاب اور اس کے آدرش کو اس وقت اپنایا جب کہ وہ با عزت استاد تھا۔ مخدوم نے پہلے ذہنی طور پر یہ راہ اختیار کی پھر عملی طور پر مزدور طبقے کی لڑائیوں میں شریک ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا شاعر ٹریڈیونینوں کی شرح اجرت کی پیچیدگیوں اور گتھیوں کو سلجھانے اور اس کے ساتھ اپنے نغمے سنانے میں مسرت محسوس کرتا ہے۔‘‘

ملاحظہ کیجیے گوڑ صاحب کا یہ خیال کہ مخدوم پہلے ذہنی طور پر پھر عملی طور پر اس لڑائی میں شریک ہوئے اور دوسرا جملہ یہ بھی کہ وہ پامال اور پس ماندہ عوام کو اپنے نغمے سنانے میں مسرت محسوس کرتا تھا نہ کہ اردو کے معیار پرست ناقدین کو سنا کر… پروفیسر زینت ساجدہ نے اپنے ایک تاثراتی مضمون میں لکھا ہے کہ:

’’شعر کا لفظ لفظ جس طرح وارد ہوتا ہے لوگوں کو سنا نے لگتا ہے … راستہ چلتے آدمی کو روک کر سنائے گا بلکہ اُسے دیکھ کر آدمی خود سننے کے لیے رک جائے گا۔کوئی نہیں تو رکشا والے کو سنائے گا۔ ہوٹل کے بیرے کو سنائے گا، ننھے منے بچوں کو سنائے گا… اس کا کلام مرضِ متعدی ہے۔ سننے والے دوسروں کو سنائیں گے اس طرح حیدرآباد کی ساری پبلک توتے کی طرح اس کا کلام رٹ لیتی ہے … خدا جانے کون سا منتر پڑھ کر پھونک دیا ہے اکتا نے کا نام نہیں لیتے۔ باسی پرانی بوسیدہ غزلیں تک شوق سے سنتے ہیں اور دوسرے شاعروں کی سائیکلوجی خراب ہوتی ہے۔‘‘

یہی وہ منتر ہے جہاں سے مخدوم کے معاملات اور تصورات نہ صرف واضح بلکہ اپنے مقصد سے راست طور پر وابستہ ہوتے ہیں اور اسی مقام پر وہ دیگر شعرا سے مختلف بلکہ بلند مقام کے حقدار ہیں اور وہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ:

حیات لے کے چلو کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو

اور یہ بھی…

ہمد مو ہاتھ میں ہاتھ دو

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

منزلیں دار کی

کوئے دلدار کی منزلیں

دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو

……

مخدوم کے یہاں رقیب، تنہائی، ہجر وغیرہ نہیں ہے۔ بلکہ حیات، کائنات، صلیب، منزل اور ہمدم بلکہ ہمد مو ہے یعنی عوام۔۔ اور ان کے ہاتھ میں ہاتھ ہے۔ مخدوم کا تخلیقی عمل محض شعری وجدان، ایران اور توران پرٹکا ہوا نہیں ہے۔ بلکہ انسان ہے اور انسانی سیلاب، ایک جگہ وہ خود کہتے ہیں :

’’شعر میں ہم ماورا کی حدوں کو چھوتے ہیں مگر شعر سماج سے ماور نہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں لکھنے پر مجبور کیا جا رہا ہوں۔ سماجی تقاضے پر اسرار طریقے سے شعر لکھواتے رہے ہیں اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں نے کچھ لکھا ہی نہیں ہے۔‘‘

اب میں مخدوم کی دو نظموں پر گفتگو کروں گا جن کے ذریعے احتجاج اور انقلاب کے مابین فرق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ پہلی نظم ہے ’’حویلی‘‘ اور دوسری ہے ’’جنگِ آزادی‘‘۔

حویلی، مخدوم نے آزادی کے بعد 1950ء کے آس پاس کہی تھی۔ اس نظم میں بوسیدہ حویلی کو فرسودہ سماج سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نظم شروع ہی ہوتی ہے اسی خیال سے پہلے مصرع میں ہی تعارف ہوتا ہے۔

’’ایک بوسیدہ حویلی یعنی فرسودہ سماج……

اور فوراً دوسرے ہی مصرع میں غم و غصہ کا اظہار ہوتا ہے جو شاعر یہ کہتا ہے :

لے رہی ہے نزع کے عالم میں مردوں سے خراج

اس کے بعد یہ غم و غصہ احتجاج کی چادر اوڑھ کر مسلسل کئی اشعار میں پھیل جاتا ہے جن میں ان تمام عناصر کو گرفت میں لیتے ہیں جو اس فرسودہ سماج کو مزید فرسودہ اور کوڑھ زدہ بنائے ہوئے ہیں۔ وہ صرف سرمایہ داروں کو ہی نہیں دوسرے ذمہ داروں پر بھی غصہ و غم کی سنگ باری کرتے ہیں :

جن میں رہتے ہیں مہاجن جن میں بستے ہیں امیر

جن میں کاشی کے برہمن جن میں کعبے کے فقیر

رہزنوں کا قصرِ شوریٰ، قاتلوں کی خواب گاہ

کھل کھلاتے ہیں جرائم جگمگاتے ہیں گناہ

جہاں پورا کہ پورے سماج عام انسانوں اور کمزور طبقوں کے استحصال میں ڈوبا ہوا ہو ظاہر ہے کہ اس سماج کی صورتِ حال کیا ہو گی… کہتے ہیں :

جس جگہ کٹتا ہو سر انصاف کا ایمان کا

روز و شب نیلام ہوتا ہے جہاں انسان کا

زیست کو درسِ اجل دیتی ہے جس کی بارگاہ

قہقہہ بن کر نکلتی ہے جہاں ہر ایک آہ

سیم و زر کا دیوتا جس جا کبھی سوتا نہیں

زندگی کا بھول کر جس جا گزر ہوتا نہیں

ہنس رہا ہے زندگی پر اس طرح ماضی کا حال

خندہ زن ہو جس طرح عصمت پہ قحبہ کا جمال

یہ احتجاج کی ایک شکل ہے جو زندگی کی مکروہ صورتوں کے پیشِ نظر استحصالی قوتوں کو بے نقاب کرتی ہے۔ لیکن مخدوم کے احتجاج کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ صرف ایک یہ شکل پیش نہیں کرتے بلکہ ان گداؤں اور بے نواؤں کی صورتِ حال بھی پیش کرتے ہیں جن کی حالت دگرگوں ہو گئی ہے۔

ایک جانب ہیں وہیں ان بے نواؤں کے گروہ

ہاں انھیں بے نان و بے پوشش گداؤں کے گروہ

جن کے دل کچلے ہوئے جن کی تمنا پائمال

جھانکتا ہے جن کی آنکھوں سے جہنم کا جلال

اے خدائے دوجہاں اے وہ جو ہر اک دل میں ہے

دیکھ تیرے ہاتھ کا شہکار کس منزل میں ہے

جانتا ہوں موت کا ہم ساز و ہمدم کون ہے

کون ہے پروردگارِ بزمِ ماتم کون ہے

کوڑھ کے دھبے چھپا سکتا نہیں ملبوسِ دیں

بھوک کے شعلے بجھا سکتا نہیں روح الا میں

احتجاج کی یہ دوسری شکل ہے جہاں غم و غصہ کے ساتھ انسان دوستی، انسانیت اور اشتراکیت سبھی شیر و شکر ہو گئے اور نغمہ الاپ سے دو قدم آگے بڑھ کر احتجاج بھی بن گیا ہے … اور اسے بننا بھی چاہیے کہ احتجاج کی شعریات۔ فریاد کی شعریات سے بہرحال مختلف ہوتی ہے اور احتجاج کی منزلِ کمال کہ اس کے بغیر احتجاجی شاعری کا کوئی تصور مکمل نہیں ہوتا… یہی نہیں ایک ذمہ دار ترقی پسند شاعر اپنی تخلیق کو صرف آگ اور دھوئیں پر ہی ختم نہیں کرتا بلکہ اس دھوئیں میں روشنی کی کرن بھی تلاش کرتا ہے۔ ہمت و حوصلے کی بات کرتا ہے اور نظم کو امید و نشاط پر ختم کرتا ہے چناں چہ نظم بھی اپنے آخری حصہ میں دعوتِ عمل دیتی ہے محبت اور اخوت کے پیغام پر ختم ہوتی ہے :

ہاں وہ نغمہ چھیڑ جس سے مسکرائے زندگی

تو بجائے سازِ اُلفت اور گائے زندگی

آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

آ انھیں کھنڈروں پہ آزادی کا پرچم کھول دیں

یہ سچ ہے کہ یہ نظم کہیں کہیں احتجاج سے آگے بڑھ کر انقلاب کی حدوں کو چھونے لگتی ہے اور تخلیق میں اتنی پابندی یا خانہ بندی بھی ممکن مناسب نہیں تاہم یہ نظم احتجاجی زیادہ ہے انقلابی کم۔ لیکن مخدوم کی دوسری نظم جنگِ آزادی میرے خیال میں مکمل طور پر انقلابی نظم ہے۔ نظم کے پہلے ہی بند میں شاعر اعلانِ جنگ کر رہا ہے اور صاف کہہ رہا ہے کہ یہ آزادی کی جنگ ہے اور آزادی کی اس جنگ میں ہند کے تمام محکوم، مظلوم، مجبور، دہقان، مزدور سبھی شامل ہیں لیکن دوسرے ہی بند میں شاعر یہ بھی کہتا ہے :

سارا سنسار ہمارا ہے

پورب پچھم اتر دکن

ہم افرنگی ہم امریکی

ہم چینی جاں بازانِ وطن

ہم سرخ سپاہی ظلم شکن

آہن پیکر فولاد بدن

وہ اس انقلابی جنگ میں ساری دنیا کے مظلوموں کو شامل کر لیتا ہے حتیٰ کہ امریکی اور افرنگی عوام کو بھی اور پوری دنیا کے عوام کو سرخ سپاہی کہتا ہے … یعنی ایک خاص قسم کی جدلیت اور اشتراکیت… کیوں کہ یہ لڑائی محض اقتدار کی نہیں ہے بلکہ مکمل آزادی کی ہے اور آزادی تو تمام عوام کا مشترک اور کائناتی مسئلہ ہے۔ اگلے بند میں مخدوم اپنے نظریات اور مطالبات کو مزید واضح کر دیتے ہیں :

وہ جنگ ہی کیا وہ امن ہی کیا

دشمن جس میں تاراج نہ ہو

وہ دنیا دنیا کیا ہو گی؟

جس دنیا میں سوراج نہ ہو

وہ آزادی آزادی کیا

مزدور کا جس میں راج نہ ہو

آخری مصرعے میں وہ باقاعدہ مزدوروں کے راج کا اعلان کر دیتے ہیں یعنی مخدوم کے ذہن میں نہ صرف نظام کے بدلنے بلکہ نیا نظام کیسا ہو اور کس کا ہو… پوری تصویر و تشکیل واضح ہے بلکہ وہ سوال بھی قائم کرتے ہیں کہ جس دنیا میں سوراج نہ ہو، جمہوریت نہ ہو، وہ دنیا دنیا کیا ہو گی؟ اور آزادی بھی مکمل نہیں ہے جس میں مزدوروں کا راج ہو… اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ نظم صرف انقلابی نعرہ نہیں ہے رومانی احتجاج نہیں ہے بلکہ نظامِ کہنہ کو بدلنے کا پختہ عزم تو ہے ہی نیز نظامِ نو کیا ہو اور کیسا ہو اس کا واضح نظریہ بھی ہے … یہیں سے وہ تصور انقلاب میں اقبال اور جوش ہی نہیں بعض دیگر ترقی پسند شعرا سے بھی آگے ہو جاتے ہیں۔ مخدوم کو یہ کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہے بلکہ پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ کہتے ہیں :

لو سرخ سویرا آتا ہے

گلنار ترانہ گاتا ہے

دیکھو پرچم لہراتا ہے

ان تین مصرعوں میں نعرہ محض ہوا میں نہیں اُچھل رہا ہے بلکہ ایک منضبط فکر کا اعلانیہ بھی بن رہا ہے …وہ اعلان ہندوستان جیسے ملک میں کتنا کارگر اور پر اثر ہے یہ الگ بحث ہے لیکن مخدوم کے فکر و نظر اور انقلابی شاعری کے اثر کے ضمن میں بحث و تمحیص کی گنجائش کم سے کم رہتی ہے کہ مخدوم کے یہاں احتجاج اور انقلاب کے تصورات مبہم اور غیر واضح نہیں تھے اس لیے کہ مخدوم سراپا احتجاج اور انقلاب تھے اگر وہ ایک طرف غم و غصے کی شدت میں یہ کہتے ہیں :

آگ ہوں آگ ہوں ہاں ایک دہکتی ہوئی آگ

آگ ہوں آگ بس اب آگ لگانے دے مجھے

تو دوسری طرف بار بار یہ بھی کہتے ہیں :

ایسا جہان جس کا اچھوتا نظام ہو

ایسا جہان جس کا اخوت پیام ہو

ایسا جہان جس کی نئی صبح و شام ہو

ایسے جہانِ نو کا تو پروردگار بن

اور یہی انقلاب کا صحیح تصور ہے … لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ایک سچے انقلاب کے لیے سچے غصے لو احتجاج کی ضرورت ہوتی ہے اور احتجاج کے لیے اضطراب کی کڑی در کڑی ان سلسلوں کو الگ کر کے اور عوام و عوامی دنیا کا بہتر تصور کیے بغیر آپ منزلِ انقلاب تک نہیں پہنچ سکتے … اس سیاق و سباق میں مخدوم محی الدین صرف اپنے ہم عصروں میں ہی نہیں بلکہ پوری اردو شاعری میں منفرد دو معتبر مقام رکھتے ہیں … یہ الگ بات ہے کہ اس نوع کی احتجاجی اور انقلابی شاعری کے بارے میں اردو کے معیار پرست اور جمال پرست نقاد نعرہ بازی کی شاعری، خطابت، خارجیت وغیرہ کا الزام لگا کر اسے معمولی و سطحی شاعری قرار دیتے ہیں … یہاں کوئی پیچیدہ اور لمبی بحث نہیں چھیڑ نے کا وقت نہیں ہے۔ اس پر باتیں ہوتی رہی ہیں اور پھر ہوں گی فی الحال میں برناڈ شا کے اس جملے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں :

’’دنیا دو قسم کے لوگوں سے آباد ہے۔ وہ عقل مند جو خود کو دنیا کے سانچے میں ڈھال لیتے ہیں اور وہ بے وقوف جو دنیا کو اپنے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لہٰذا بے وقوفوں کی ہی بدولت تاریخ اور تہذیب ارتقا پاتے ہیں۔‘‘

مخدوم محی الدین دنیا کے ایسے ہی چند بے وقوف اور دیوانے شاعروں میں سے ایک تھے۔

 

٭٭٭

 

 

 

اودھیش رانی

 

 

مخدوم محی الدین : یادوں کے جھروکے سے

 

حیدرآباد کے عوام کا ایک بڑا طبقہ فخریہ یہ کہتا ہے کہ ہم نے مخدوم کو دیکھا ہے۔ سیاہ تراشیدہ بدن،چمکتی آنکھیں اگر خاموش کھڑے ہوں تو کسی مندر کے بت لگتے تھے، مسکراہٹ ایسی تھی کہ خواہ مخواہ شک ہوتا تھا کہ لیونار ڈونسی نے کہیں اسی مسکراہٹ کو دیکھ کر ہی مونا لیزا نہ بنائی ہو۔ آواز کا جادو تو لگتا تھا کہ حضرت بلال حبشی نے راست بخشا ہو۔

یہاں مخدوم کے چاہنے والوں کے پاس ان کی یادوں کے جھروکے مہکتے رہتے ہیں۔ میں آج نہ صرف آپ کے سامنے اپنی یادوں کے جھروکوں کو کھولوں گی بلکہ کئی بزرگوں اور دوستوں کی یادوں کے جھروکے کھولوں گی جن میں مخدوم آج بھی جھانکتے ہیں۔

میں نے مخدوم بھائی کو کب پہلی بار دیکھا یہ تو یاد نہیں مگر جب میٹرک میں پڑھ رہی تھی تو ایک دن شام کو مخدوم بھائی ہمارے گھر آئے۔ میرے والد رائے محبوب نرائن کے ساتھ مختلف امور پر بات کرتے رہے جو اس وقت میرے پلے نہیں پڑے تھے۔ نہرو کی پالیسیوں اور کمیونسٹ پارٹی کی اس وقت کی لائن وغیرہ وغیرہ۔ کھانا کھانے کے بعد میرے والد نے فرمائش کر دی بھئی کوئی تازہ چیز سنا دو۔ مخدوم نے اپنی نظم ’’چنبیلی کا منڈوا‘‘ سنائی۔ ہم نے اپنے منھ پھٹ انداز میں کہہ ڈالا یہ نظم تازہ نہیں ہے۔ یہ تو دو ہفتے پہلے ’’آئینہ‘‘ میں چھپ چکی ہے۔ یہ پتا نہیں تھا کہ مخدوم بھائی کی نظمیں اور غزلیں تازہ کب رہتی تھیں۔ ان کے خیال کو جب آواز ملتی تب ہی لوگوں کی زبان پر شعر آ جاتے تھے۔ وہ کب تک تازہ رہتیں جب وہ کسی اخبار یا رسالے کی زینت بنتیں اس وقت تک کئی حیدرآبادیوں کو یہ یاد ہو جاتی تھیں۔ خیر وہ ہماری اس گستاخانہ حرکت سے خوش ہو گئے اور فوراً یہ بات ذہن نشین کروا دی کہ جب تک ایک بھی نو عمر یا نئی نسل کا فرد اردو پڑھے گا اردو کا مستقبل محفوظ ہے۔ اس کے کچھ ہی دن بعد حیدرآباد میں انجمن ترقی اردو کی کانفرنس ہوئی۔ اردو ہال ابھی تعمیری مرحلے میں ہی تھا۔ بہت سے شعرا اور ادبا موجود تھے۔ مخدوم صاحب ہم کو لے گئے اور کئی حضرات سے ہم کو متعارف کروایا اور سب سے یہ بتاتے رہے ہم آنے والی نسلوں کے نمائندے ہیں جو اردو کو زندہ رکھیں گے۔ ہم بھی مخدوم صاحب کی طرح مرس کر اپنا سر ہلاتے رہے۔ یہاں یہ بات بتاتی چلوں کہ ’مرسنا‘ ایک تیلگو لفظ ہے جو دکنی میں مروج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اتراہٹ اور مسرت دونوں جذبوں کا ایک ساتھ اظہار ہونا۔ اسے زینت آپا نے مخدوم صاحب کی ۶۰ ویں سال گرہ پر اپنے مضمون میں استعمال کیا تھا اور میں نے اس کا استعمال استاد سے استفادہ کرتے ہوئے کیا ہے۔

یوں تو اکثر مخدوم صاحب سے ملاقات ہوتی رہتی تھی مگر ایک دن راکھی کے تہوار کے بارے میں پوچھا۔ ہم نے کہا اس کے بارے میں کوئی اساطیری کہانی نہیں سنی ہے مگر رانی کرناوتی کا ہمایوں کو راکھی باندھنا، سنا ہے۔کہنے لگے کیوں نہ اس بار آپ کے گھر راکھی کا تہوار منایا جائے۔ ہم خوشی سے پھول گئے اور مخدوم صاحب کے معیار کی راکھی ڈھونڈنی شروع کی۔ مگر یہ کام مشکل تھا۔ ہم نے کارچوب نیا نیا سیکھا تھا، اسی کا مظاہرہ راکھی بنانے میں کیا اور ایک ہتھوڑا درانتی والی راکھی بنا ڈالی۔ راکھی کے دن وہ ہمارے گھر آئے تو نصرت اور ظفر کو بھی ساتھ لے کے، نصرت محی الدین اس روز بہت خاموش اور سنجیدہ بنے رہے، ظفر بہت چھوٹے تھے۔ ان کی سمجھ میں صرف چچا ابا کی بات ماننا ہی بڑی اہم بات تھی اور اس کے بعد جب وہ حیدرآباد میں ہوتے تھے، راکھی پر صبح صبح ہی آ جاتے اور راکھی بندھوا کر جاتے تھے۔ یہاں یہ بات بھی بتا دوں کہ دہلی میں جب ان کا انتقال ہوا اس کے دوسرے روز راکھی تھی اور اسی دن ان کی تدفین ہوئی۔ ہم کو آج بھی لگتا ہے کہ اس قدیم سیکولر تہوار کو ان کی یاد میں ہمیشہ تازہ رکھیں۔ ایک دن ہم ظہیر آپا سے ملنے گئے آپا ایک ڈسٹرکٹ سکریٹری کامریڈ کی بیوی تھیں جو ایم۔ایل۔اے کوراٹرز میں رہتی تھیں ان کے چار بچے تین لڑکے اور ایک لڑکی مخدوم صاحب کو گورے نانا کہا کرتے تھے۔ تو صاحب ہم کو راستے میں مخدوم صاحب مل گئے۔ ہاتھ میں امراؤ کیروسین اسٹوو تھا۔ اب راستے بھر میں ہم کو اس چولہے کی افادیت کے بارے میں بتاتے رہے۔ گھر پہنچ کر رابعہ بھابی کو اس چولہے کی ترکیب استعمال سمجھاتے رہے اور ہم کو اس سے استفادہ کرنے کے لیے وہاں اس وقت تک کھڑا رہنا پڑا جب تک اس چولہے کا افتتاح نہ ہو گیا۔

میں مجلہ ’’عثمانیہ‘‘ کی نائب مدیر اور احمد جلیس مدیر تھے، احمد جلیس، علامہ حیرت بدایونی کے تیسرے لڑکے تھے۔ ہم دونوں نے طے کیا کہ مجلے کا پہلا شمارہ مخدوم صاحب کو دیا جائے اور داد لی جائے تو صاحب پہنچے ایم۔ایل۔اے کوارٹرز چھوٹے سے کمرے میں، چائے وغیرہ ملی۔ مجلہ لے کر مخدوم صاحب نے صفحات الٹائے اور پھر جو نظر ہم دونوں پر پڑی تو ہماری داد لینے کی خواہش کے پرخچے اڑتے نظر آئے۔ جوش کے شعر کو کسی نے تصویر میں ڈھالا تھا۔ چغتائی کی طرز اور اسلوب کی نقل کرنے کی کوشش تھی۔ مگر تصویر میں کچھ عریانیت جھلک گئی تھی۔

ابھی اور اسی وقت اس صفحے کو مجلے سے الگ کیجیے۔ ایسی بیہودگی اور مجلے میں اور میں کسی اور کے پاس بھی یہ تصویر نہیں دیکھنا چاہتا۔ تو صاحب رات بھر ہم جلے سے اس صفحے کو الگ کرنے میں لگے رہے اور دوسرے روز یہ بتا دیا کہ ہم نے اس صفحے کو نہ صرف مجلے سے علاحدہ کیا ہے بلکہ جلا بھی ڈالا ہے۔ ہنسنے لگے، کہا کہ آئندہ دوسروں کو ایسی حرکت سے منع کرنا۔ مگر آج جب ہم مدرسوں اور کالجوں میں بیوٹی کوئن کے مقابلے دیکھ رہے ہیں اور عریانیت کا مظاہرہ تصویروں میں نہیں بلکہ کھلے عام ہو رہا ہے تو سوچتے ہیں آج مخدوم بھائی ہوتے تو ہم بھی ان کے ساتھ جھنڈا ڈنڈا لے کر احتجاج کرتے۔

مخدوم صاحب گھریلو ذمہ داریوں سے فرار اختیار نہیں کرتے تھے ان کو نبھاتے بھی تھے۔ بعض چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھی وہ نظر رکھتے تھے۔ مثلاً وہ تاشقند جا رہے تھے تو انھوں نے بھابی سے پوچھا آپ کے لیے کیا لائیں ؟ بھابی نے فرمائش کر دی چوڑی کا جوڑا لے آئیے۔ مسکرائے اور اس کا ذکر دوستوں کے سامنے کیا۔ پھر خود ہی کہنے لگے حیدرآبادی عورتوں کو چوڑیوں کے جوڑے بہت پسند آتے ہیں۔

حیدرآباد میں عثمانیہ گریجویٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے نمائش لگتی ہے۔ کسی یو۔پی والے نے اس سلسلے میں مخدوم صاحب سے پوچھا : سنا ہے یہاں پر درشنی ہے، یہ ثقیل ہندی مخدوم صاحب ہضم نہ کر سکے، کہنے لگے : شنکری ہے مگر اب بوڑھی ہو چکی ہے۔ شنکری بائی حیدرآباد کی مشہور ہندستانی سنگیت کی ماہر تھیں۔

مخدوم صاحب بے حد مذہبی تھے یعنی وہ مذہب کی اخلاقیات پر پوری طرح پابند تھے۔ جھوٹ بولنے سے گریز کرتے تھے اور دل آزاری کو پاس بھی پھٹکنے نہ دیتے تھے۔

ایک بار کسی انٹرویو کے لیے حسن فرخ اور غیاث متین ساتھ گئے۔ انٹرویو شروع ہوا تو حسبِ عادت سگریٹ سلگا لی اور حسن فرخ اور غیاث متین کو بھی پیش کیا۔ دونوں نے اپنے روزہ دار ہونے کا دعویٰ کر کے معذرت کر لی۔ مخدوم صاحب نے اپنی سگریٹ فوراً بجھا دی اور کہا میں آپ کے احترام کے لیے نہیں پیوں گا۔ دونوں نے کہا آپ پیجیے۔ مگر مخدوم صاحب نے کہا روزہ نہ رکھوں تو میرا حساب کتاب کوئی اور کرے گا مگر آپ کو تکلیف دوں تو اپنا حساب آپ کروں گا۔ اس طرح انٹرویو بغیر سگریٹ کے مکمل ہوا۔ ایسا کام ایک سچا کمیونسٹ ہی کر سکتا ہے۔

مخدوم صاحب کے پاس غرض مند آتے تھے۔ وہ اکثر ضرورت مندوں کی مدد بھی کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ایک شراب کی دکان کے مالک نے ایک سفارش چاہی کہ میونسپل کمشنر سے کہہ کر شراب کی دکان کھولنے کی اجازت دلوا دیجیے۔ مخدوم صاحب راضی ہو گئے۔ میونسپل کمشنر سے ملاقات کا وقت لے لیا گیا اور کمشنر کے دفتر پہنچے۔ کمشنر نے خاطر مدارت کی۔ مدعا بیان کیا گیا تو کمشنر نے قانون بتایا کہ کسی درس گاہ اور عبادت گاہ سے ۲۰۰ گز کے دائرے میں شراب خانہ، جوا خانہ اور سینما گھر کی اجازت نہیں دی جا سکتی جب کہ یہ دکان ایک درس گاہ سے پچاس گز کے فاصلے پر اور ایک عاشورہ خانے سے صرف بیس گز کے فاصلے پر واقع ہے۔ اب مخدوم صاحب غرض مند پر برس پڑے اور کہا آپ کیا چاہتے ہیں ؟ آپ کے فائدے کے لیے میں ایک اچھے قانون کو توڑ دوں۔ افسوس اب سوویں سال گرہ پر اس دکان کی جگہ ایک ڈرگس کا اڈہ تیار ہو گیا ہے اور قانون بنانے والے آنکھیں بند کیے خاموش ہیں۔

مخدوم صاحب کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا۔ ایک غرض مند تشریف لے گئے۔ مخدوم صاحب نے ان سے کہا کہ آپ پھر تشریف لائیے۔ مگر وہ کچھ کہنے کی کوشش کرنے لگے تو مخدوم صاحب نے کہا بھئی میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے آپ بعد میں کبھی آئیے۔ وہ صاحب فوراً پوچھنے لگے ایسا کیا مگر صاحب وہ ہاؤزنگ بورڈ کی میٹنگ میں میرا مسئلہ پیش ہونے والا ہے۔

جیلانی بانو صاحبہ نے بتایا کہ انھوں نے جب پہلی کہانی لکھی تو کسی نے سراہا، کسی نے مذاق اڑایا، مگر ایک دن مخدوم صاحب ان کے گھر گئے۔ علامہ حیرت بدایونی سے ملاقات کی اور ان کی بیٹی سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ بانو آئیں تو کہا اچھی کہانی ہے لکھتی رہنا اور جب ’’روشنی کے مینار‘‘ چھپ چکی تو انھوں نے حسبِ وعدہ رائے لکھی۔ جب جانے لگے تو کہا علامہ بانو کی شادی کسی اپنے جیسے مولوی سے نہ کروانا۔

روپوشی کا ایک واقعہ سن لیجیے۔ مخدوم صاحب تیلگو سے کم واقف تھے۔ ایک صاحب کے گھر رہنا پڑا تو وہاں یہ افواہ اڑا دی گئی یہ ایک بزرگ ہیں جن کی دماغی حالت ٹھیک نہیں ہے، مخدوم صاحب کو سمجھا دیا گیا کہ اگر کوئی ان کی Caste پوچھے تو کہنا ویلما۔ ایک بار وہ باہر نکل کر سگریٹ خرید رہے تھے تو کسی نے پوچھا کہ آپ کی Caste کیا ہے مخدوم نے کہا ’وملا‘۔ مگر جلد ہی جگہ بدلنی پڑی۔

لاہوٹی سرینواس صاحب کو کسی امن کانفرنس کے سلسلے میں تاشقند جانا پڑا۔ پندرہ دن بعد وہ لوٹ کر آئے اور سفر نامہ تاشقند سنایا جس میں کئی بار اس بات کا ذکر ہوا کہ لوگ وہاں ان کو پہچانتے ہیں۔ مخدوم صاحب نے لقمہ لگایا کہ وہاں میں نے ایک سڑک کا نام بھی دیکھا تھا۔ لاہوتی اسٹریٹ۔ بھولے بھالے لاہوٹی صاحب نے کہا میں نے بھی سنا ہے۔ مخدوم صاحب اور کچھ آگے بڑھے اور کہا سڑک پر مقبرہ لاہوتی بھی ہے۔ اب لاہوٹی صاحب کی سمجھ میں آ گیا کہ مخدوم صاحب ابوالقاسم لاہوتی کو لاہوٹی بتا رہے تھے۔

اس سفر کے ذکر میں لاہوٹی صاحب نے کہا میں نے ایک قدیم قرآن شریف اونٹ کی جھلی پر لکھا دیکھا ہے ان کی مراد قرآن شریف کے اس نسخے سے تھی جو اونٹ کی جھلی پر لکھا ہوا ہے اور کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ کی شہادت اسی نسخے کی تلاوت کے دوران ہوئی تھی۔ اس کی پچاس نقلیں زار روس نے بنوائی تھیں اور مختلف ممالک میں بھیجا تھا۔ مخدوم صاحب نے پوچھا کتنا پرانا نسخہ تھا دو ہزار برس تین ہزار برس بیچارے لاہوٹی نے کہہ دیا تین ہزار برس پرانا۔

منیر آپا، اقبال متین صاحب کی بیوی تھیں۔ کھانا کھلانے کی شوقین تھیں۔ اکثر مہمان آتے رہتے تھے۔ کھانا کھاتے مگر تعریف صرف مخدوم صاحب ہی کرتے وہ بھی اس انداز میں، ہاں تو منیر یہ بتاؤ یہ بگھارے بیگن جو آپ نے بنائے اس میں کیا کیا مسالے ڈالے ہیں، کچی املی اور کچے ناریل کا استعمال کیا۔بہت دیر بھونا ہو گا۔ اب منیر آپا بڑے ہی خلوص سے ترکیب بگھارے بیگن بتاتیں اور مخدوم صاحب کسی معصوم بچے کی طرح جو پریوں کی کہانی سنتے ہوئے حیرت زدہ ہو کر سوال پر سوال کرتے جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اب اگلی دعوت مخدوم صاحب خود دیں گے وہ بھی بگھارے بیگن بنا کر۔

ڈاکٹر راج بہادر گوڑ بتاتے ہیں کہ اسی طرح مخدوم صاحب نے بریانی پکانے کی ترکیب لکھ لی اور اشارہ زیرہ دو چمچہ لکھا تھا جس کو موصوف نے دو چھٹانک لکھ لیا اور روپوشی کے زمانے میں بریانی پکا لی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بریانی کے مزے میں کڑواہٹ بھی شامل ہو گئی۔ مخدوم صاحب کو ہر تہذیبی تمدنی امور سے دلچسپی تھی وہ مشاعرہ ہو یا پھر کشتی کا مقابلہ، اگر شرکت کی درخواست ہو تو اپنی مصروفیات سے وقت نکال ہی لیا کرتے تھے۔ چناں چہ شکیلہ بانو بھوپالی کی قوالیوں میں اکثر شریک ہوتے تھے۔ ہم نے پوچھا وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو جواب دیا وہ شوخ تو ہے ہی مگر زبردست حافظہ رکھتی ہے، غضب کی حاضر جواب ہے اسی خوبی کو سراہتا ہوں۔ کشتی کے پروگرام کے علاوہ ایک مرتبہ گالیوں کے مقابلے کی صدارت کی تھی۔ مخدوم صاحب شاعری کے رومانی دور سے گزر رہے تھے۔ ایک نظم لکھی تھی ’’طور‘‘ بہت مقبول عام ہوئی اور جامعہ کے مشاعرے میں مخدوم صاحب نے سنایا، مصرع تھا:

خدا بھی مسکرا دیتا تھا جب ہم پیار کرتے تھے

ایک بزرگ نے کہا مخدوم صاحب تمھاری نظم میں ایطا ہے۔ مخدوم صاحب ان شعری باریکیوں اور نزاکتوں کے قائل نہ تھے انھیں تو جی جی کہہ کر آگے بڑھ گئے مگر آگے آ کر کہنے لگے سب لوگ شعر سن کر گردن ہلا رہے ہیں اور خدا بھی مسکرا رہا ہے۔ ان کو ایطا کیسے نظر آیا۔

مخدوم صاحب نے آزاد نظم لکھنا شروع کر دی تھی۔ کسی نے استادی دکھانے کے لیے کہا کہ بحر اور وزن کا خیال رکھا جائے تو شعر میں معنویت پیدا ہوتی ہے۔

مخدوم صاحب نے کہا تازہ شعر ہے بحر اور وزن کا خیال رکھا ہے۔

۷۱،۷۲،۷۳،۷۴             ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸

اور معنویت آپ پیدا کیجیے، سچ ہے یہ بحر اور وزن میں ہے۔

کامریڈ معین اور ظہیر آپا دونوں ہی کمیونسٹ پارٹی کے کارکن تھے۔ کامریڈ معین کا بیان ہے کہ روپوشی کے دوران جب سب کامریڈ سو جاتے مخدوم صاحب رات بھر جاگتے اور کسی بھی ناگہانی صورتِ حال کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہتے۔

اخبار پڑھنے کا شوق بہت دلچسپ تھا۔ روپوشی کے دوران جیسے ہی اخبار آیا سبھی انتظار میں رہتے مگر وہ پھرتی سے اخبار لے کر بیت الخلا میں چلے جاتے جہاں کوئی بھی اخبار پر حملہ نہیں کر سکتا تھا۔

مخدوم صاحب کا ’باپ کا دل‘ بہت ہی کم زور تھا۔ وہ اولاد سے بے حد پیار کرتے تھے۔ ایک بار نصرت محی الدین صاحب گھر سے غائب ہو گئے۔یہ چاہتے تھے ان کے نصیرہ سے عشق کا اعلان ہو جائے۔ ڈھونڈ رہے تھے پتا نہیں چل رہا تھا۔ رابعہ بھابی نے ایک انجن ڈالنے والے کو بلوایا تاکہ پتا چلا یا جا سکے کہ نصرت کہاں ہیں۔ انجن ایک طرح کا عجیب سا عمل ہے جس میں کہا جاتا ہے ناخن پر کاجل لگا کر سوال کیا جاتا ہے اور ناخن کے کاجل میں سنیما کی طرح سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ ضعیف الاعتقادی ہے۔ مگر مخدوم صاحب ایک ماں کی خواہش کے احترام میں اپنے کمیونسٹ نظریے کو کچھ دیر کے لیے بھول گئے۔ جب کسی کے بھی ناخن پر کوئی نشان نہ ابھرا تو مخدوم صاحب نے کامریڈ ظہیر سے کہا کہ تم بھی کوشش کرو شاید کوئی حل مل جائے۔

مخدوم صاحب نے دو بچوں کے نام رکھے ہیں۔ ایک تو کامریڈ معین اور ظہیر آپا کے بڑے لڑکے کا نام، ان کو یقین ہو چلا تھا کہ کامریڈ سجاد ظہیر پاکستان سے نہیں لوٹیں گے تو انھوں نے اس لڑکے کا نام سجاد رکھ دیا۔

دوسرا لڑکا ہے مجاہد، یہ کامریڈ غلام حیدر اور سکینہ حیدر کے برخوردار ہیں۔ سکینہ بھابی اب تو دہلی والی ہو گئی ہیں، مگر ہیں تو وہ حیدرآباد کے ایک قدامت پسند خاندان سے۔ جب کامریڈ غلام حیدر سے شادی ہوئی تو بالکل ہی ایک ٹریڈ یونین لیڈر بن گئیں۔وہ اپنے تین ماہ کے بچے کو لے کر دھرنے پر بیٹھیں اور گرفتار ہو گئیں تو بچہ بھی ان کے ساتھ جیل کی ہوا کھانے لگا۔ تب مخدوم صاحب نے اس بچے کو ’مجاہد‘ کا نام دیا۔

یادوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا کیوں کہ یہ سینہ بہ سینہ، نسل در نسل جیتی ہیں۔ اب صرف آخری یاد بتا دوں، ۱۹۶۴ء، میں پہلی بار صدر جمہوریہ کا انتخاب ہوا اور اگست میں وہ وی۔وی۔گری کو مبارک باد دینے گئے۔ اس سے پہلے انھوں نے آکاش وانی حیدرآباد پر پہلی بار اور آخری بار مشاعرہ پڑھا اور پرانے شہر میں دوستوں سے ملنے گئے۔ وہاں سے لونی گئے۔ صبح صبح ہی انھوں نے درد دل کی شکایت کی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ پسینے میں ڈوب گئے۔ راج بہادر گوڑ بتاتے ہیں وہ اور کامریڈ معین نے مخدوم صاحب کو ہاسپٹل منتقل کیا۔ ڈاکٹر نے عمر پوچھی گوڑ صاحب نے کہا ۶۵ تو فوراً کہا نہیں ۶۲ برس کا ہوں۔ پھر جب معائنہ جاری تھا انھوں نے کامریڈ معین سے اخبار پڑھنے کو کہا۔ اخبار پڑھتے ہوئے وہ مسجد اقصیٰ پر اٹک گئے تو کہا کیسے مسلمان ہو تم کو اپنے پہلے قبلہ کا نام پڑھنا نہیں آتا۔ حالاں کہ ڈاکٹروں نے اونچی آواز سے بات کرنے سے منع کیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹروں نے گوڑ اور معین کو بتا دیا کہ وہ مجبور اور لاچار ہیں۔ اہلِ خاندان کو اطلاع کر دی گئی۔ نصیرہ اور آساوری کی بچیوں سے کشمیر لے جانے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر دلی میں دل ایسا پھٹا کہ اس کی گونج حیدرآبادیوں کو سب سے زیادہ سنائی دی اور مخدوم صاحب پہلی اور آخری بار وعدہ خلافی کر بیٹھے۔ دلی میں حیدرآبادیوں کا دل خاموش ہو گیا مگر یادیں۔۔۔ وہ دل کے روکنے سے کہاں رکتی ہیں۔ وہ تو نسل در نسل سفر کرتی ہیں۔

پروفیسر رحمت یوسف زئی نے مخدوم صاحب کے انتقال کی خبر سن کر یہ نظم کہی تھی:

مخدوم محی الدین صاحب (جسے مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ پھٹتا ہے )

چارہ گر کھو گیا       ہر طرف اپنی زنبیل سے جس نے بانٹی تھی سورج کرن

چارہ گر کھو گیا       جس کے نغمات سے جگمگاتی رہے گی زمین دکن

وہ مسیحا گیا                        جس نے پھونکا تھا مزدور کے جسم میں ایک عزمِ جواں

وہ مسیحا گیا                        وہ جو محنت کشوں اور غریبوں کا تھا راز داں، ترجماں

وہ سپاہی گیا                       سرخ پرچم تلے حاکم وقت سے جس نے لوہا لیا

وہ سپاہی گیا                       گولیوں کے برستے ہوئے مینھ میں بھی جو بڑھتا رہا

وہ جو گم ہو گیا       اس کی آواز تھی کیمیا، مسکراہٹ تھی جیسے سحر

وہ جو گم ہو گیا        بن کے آیا تھا ظلمت کدہ میں اجالوں کا پیغامبر

اب وہ نغمے کہاں  انقلابات کے وہ جو ایک دور تھا ختم اب ہو گیا

اب وہ نغمے کہاں  جو مغنی تھا اس بزم کا ساز پر رکھ کے سر سو گیا

آج اس جشن صد سالہ میں تم نہیں تمھاری چشم نگراں باقی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر قاسم امام

 

 

فکر و عمل کی اکائی کا شاعر مخدوم

 

 

ترقی پسندی کے بنیاد گزار شعرا میں فیض، مخدوم، جذبی، جاں نثار اختر، سردار جعفری اور مجاز وغیرہ کے نام آتے ہیں۔ ان شعرا پر روایت کی گرفت کافی مضبوط ہے اور اختر شیرانی والی رومانیت کے اثرات بھی نمایاں نظر آتے ہیں لہجے میں دھیما پن ہے۔ ان شعرا نے نظموں میں عزل کی لفظیات سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ ان شعرا کے یہاں مکمل سیاسی شعور ملتا ہے لیکن اس کے اظہار میں وہ شعری جمالیات اور توازن کا پورا پورا خیال رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں الفاظ، جذباتی انداز میں آتے ہیں اور ایک نئی معنویت کے حامل بن جاتے ہیں جو عام طور پر سیاسی یا سماجی صورتِ حال کی عکاسی کرتے ہیں اس طرح ترقی پسندوں کے اولین دور کے شعرا اپنی روایت سے وابستہ رہتے ہوئے ایک نئی شعری فضا تعمیر کرتے ہیں۔ فیض کے پہلے مجموعے ’’نقش فریادی‘‘ میں جہاں ’’مری جاں اب بھ ی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘‘ جیسی نظمیں ہیں وہیں ’’موضوع سخن‘‘، ’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘ اور اس کے علاوہ ’’کتے ‘‘ جیسی نظم بھی ملتی ہے۔ اس سلسلے میں مخدوم کی نظمیں بھی خصوصی توجہ کی حامل ہیں۔ مخدوم نہ صرف شاعر بلکہ کمیونسٹ پارٹی کے ہمہ وقتی کارکن اور ٹریڈ یونین کے بڑے لیڈر بھی تھے۔ گو وہ عملی طور پر پوری طرح کمیونسٹ سیاست میں ڈوبے ہوئے تھے لیکن ان کی نظموں میں توازن و اعتدال نظر آتا ہے۔ یہ بات انھیں دیگر ترقی پسند شعرا سے ممتاز کرتی ہیں۔ ابتدا ان کی بھی رومانی نظموں سے ہوئی رفتہ رفتہ وہ سیاسی و سماجی صورتِ حال کو موضوع بنانے لگے۔ ان کے شعری مجموعے ’’سرخ سویرا‘‘ میں ’’شعلہ طور‘‘ اور ’’انتظار‘‘ جیسی نظمیں بھی ملتی ہیں اور سرمایہ داری اور تلنگانہ جیسی نظمیں بھی۔

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے   سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے   خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا   اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا   نظریں نیچی کیے، شرمائے ہوئے آئے گا   کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا (انتظار)۔

دیارِ ہند کا وہ راہبر تلنگانہ   بنا رہا ہے نئی اک سحر تلنگانہ   بلا رہا ہے بہ سمت دگر تلنگانہ   وہ انقلاب کا پیغامبر تلنگانہ (تلنگانہ)۔

مخدوم کے شعری اظہار میں جو ڈرامائی عنصر پایا جاتا ہے وہ ان کے پہلے مجموعے ’’سرخ سویرا‘‘ سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے۔ اس مجموعے میں شامل نظمیں اپنے موضوع کے اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ حالاں کہ ترقی پسندی کے پس منظر میں اور ’’سرخ سویرا‘‘ کے موضوعات پر نقادوں نے کھل کر گفتگو بھی کی ہے۔ مخدوم کی ترقی پسند تحریک سے وابستگی اور چند ابتدائی نظموں میں خطیبانہ لب لہجے کے باوجود ’’سرخ سویرا‘‘ میں شامل بعض نظموں میں موت کو جس طرح موضوع بنایا گیا ہے وہ اردو شاعری کے قارئین کے لیے ایک حیرت انگیز تجربہ ہے۔ موت کے اس کرخت اور خوف ناک تجربے کو مخدوم نے اپنے اسلوب سے بہت آسان اور رواں دواں بنا دیا ہے۔ ویسے مخدوم شروع ہی سے اشاریت یا تشبیہوں اور استعاروں کے شاعر رہے ہیں۔ ’’سرخ سویرا‘‘ کی چند نظموں کو چھوڑ کر ان کا لہجہ عام طور پر دھیما اور بڑی حد تک خود کلامی سے قریب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مخدوم پر رومانیت کے اثرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ اپنے دور میں انھوں نے علامتوں، استعاروں اور خود کلامی کو اپنا خصوصی طرزِ اظہار بنا لیا اور ان کا یہی طرزِ اظہار موت کو شعری تجربے کے طور پر بیان کرنے میں معاون ثابت ہوا۔ یہاں نظموں کے کچھ ٹکڑے مثال کے طور پر پیش ہیں :

(۱)        ملک الموت کے چہرے کا تبسم

(۲)       موت کا گرداب کسے کہتے ہیں

قبر کے پہلوؤں کی داب کسے کہتے ہیں (نظم: موت کا گیت)

اس زمیں کے پر نشیلے بام و در میں موت ہے   اس کے دل میں موت ہے اس کی نظر میں موت ہے   مندروں میں، معبدوں میں اور کلیساؤں میں موت   خلوتوں میں موت ہے، شاہی شبستانوں میں موت (نظم : زلفِ چلیپا)۔

قبر کے روزن سے اپنا سر نکالا موت نے   بے سہارا جان کر مارا ہے بھالا موت نے   خاندانوں کو بنا ڈالا نوالا موت نے   شیر خواروں کو چبا کر تھوک ڈالا موت نے (نظم: بنگال)

شعلہ زمیں کا عرش کی گود میں سو گیا   امت کا شب چراغ اندھیرے میں کھو گیا

(نظم: اقبال کی رحلت پر)

اس اندھیرے میں وہ مرتے ہوئے جسموں کی کراہ / وہ عزازیل کے کتوں کی کمیں گاہ / ’’وہ تہذیب کے زخم‘‘ / خندقیں   باڑھ کے تار / باڑھ کے تاروں میں الجھے ہوئے انسانوں کے جسم /اور انسانوں کے جسموں پہ وہ بیٹھے ہوئے گدھ / وہ تڑختے ہوئے سر / میتیں ہاتھ کٹی پاؤں کٹی / لاش کے ڈھانچے کے اس پار سے اس پار تلک / سرد ہوا / نوحہ و نالہ و فریاد کناں / شب کے سناٹے میں رونے کی صدا / کبھی بچوں کی کبھی ماؤں کی / چاند کے تاروں کے ماتم کی صدا / رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم / صرف خورشید درخشاں کے نکلنے تک ہے / رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں / رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں (نظم اندھیرا)۔

مندرجہ بالا نظموں کے ٹکڑے مخدوم کے پہلے مجموعے ’’سرخ سویرا‘‘ سے لیے گئے ہیں۔ ان کے دوسرے مجموعے ’’بساطِ رقص‘‘ میں ویت نام کے پس منظر میں تحریر کردہ نظم ’’درۂ موت‘‘ میں موت کا یہ تصور اپنے پورے تخلیقی شباب پر ہے۔

اس تباہی کی گزر گاہ سے چل / یہ کوئی رستہ ہے جس رستے میں / نہ کوئی پھول نہ پتہ / نہ کوئی پیر نہ پھل / اک ہیولائے سیہ / حدِ نظر / جس طرف دیکھو کھنڈر / موت کا درہ ہے تیزی سے گزر / شام کا چہرہ ہے خوں آلودہ / اور خورشید ہوا، قلزم ظلمات میں حل / دشتِ خاموشی سے جب گزرو گے / کئی امیدوں کی لاشوں سے گزرنا ہو گا / اس اندھیرے سے نکل / دامن کوہ میں چپ چاپ اتر آتی ہے رات / اور رستوں سے چمٹ جاتی ہے / سائے مٹ جاتے ہیں / پھر وہی کرب و کراہ / پھر وہی نالہ و شیون / وہی چیخیں، وہی آہ / چیخیں اس زخمی گم گشتہ کی / زندگانی نے جسے کاٹ لیا / ایسے اجڑے ہوئے رستے سے ذرا آگے چل (درہ موت۔ مخدوم)

اس نظم میں ’’شام کا چہرہ ہے خوں آلودہ‘‘ اور خورشید وا قلزمِ ظلمات میں حل، اور دامنِ کوہ میں چپ چاپ اتر آتی ہے رات جیسے مصرعوں سے موت کے درہ کو پینٹ کیا گیا ہے۔ اس نظم کا سب سے نمایاں پہلو اس کا ڈرامائی عنصر ہے جو نظم میں شامل مختلف شیڈس کی مدد سے موت کی خوف ناکی کو اور گہرا کر کے ایک غم انگیز تاثر پیدا کرتا ہے۔ یہاں اگر مخدوم کی نظم ’’اندھیرا‘‘ کا موازنہ ’’درۂ موت‘‘ سے کیا جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ پہلے مجموعے سے دوسرے مجموعے تک شاعر کا گراف بہ تدریج اوپر کی طرف بڑھتا ہے۔ حالاں کہ دونوں ہی نظمیں اپنی منظر نگاری اور ڈرامائی اسلوب کے باعث جدید اردو نظم میں نمایاں مقام کی حامل ہیں۔

جدید اردو نظم میں جو ہیئتی تجربے کیے گئے ان میں مخدوم کی نظموں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ساتھ ہی مخدوم نے نظم معریٰ کو بھی بہت فراوانی اور کامیابی سے برتا ہے۔ کبھی اس ہیئت میں ہر مصرعے کو مکمل اکائی کے طور پر برتا تو کبھی حسبِ موقع مصرعوں کی اکائی کو توڑا بھی ہے۔ یعنی مصرع کے قافیے ہوں اور ہر مصرعہ معنوی اعتبار سے اپنے آپ میں مکمل ہو۔ اس مسلمہ اصول سے انحراف کرتے ہوئے کبھی ایک دوسرے کو معنوی اعتبار سے دوسرے مصرعے میں لے جا کر مکمل کیا گیا یا کبھی ایک ہی مصرعے میں معنوی اعتبار سے دونوں مصرعوں کو جمع کر دیا ہے۔ اس قسم کی نظموں میں وزن کے اعتبار سے تو ہر مصرعہ ہم وزن ہوتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے دونوں مصرعوں کو جمع کر دیا ہے۔ اس قسم کی نظموں میں وزن کے اعتبار سے تو ہر مصرعہ ہم وزن ہوتا ہے لیکن معنوی اعتبار سے یہ پابندی نہیں کی جاتی کہ وزن کے ساتھ ساتھ معنوی اعتبار سے بھی مصرعہ مکمل ہو۔ اس قسم کی نظموں کو ہم آسانی سے آزاد نظم کی ہیئت میں بھی لکھ سکتے ہیں۔ نظم معریٰ کی دوسری شکل جس میں مصرعہ وزن اور معنی ہر دو اعتبار سے مکمل ہوتا ہے۔ لیکن قافیے کا اہتمام نہیں کیا جاتا کو بھی اس عہد میں پوری شدت کے ساتھ برتا گیا۔ مثلاً اپنی نظم ’’چارہ گر‘‘ میں انھوں نے آزاد، پابند اور معریٰ ہیئتوں کو ایک دوسرے میں ضم کر دیا۔ اس نظم کے کچھ حصے آزاد نظم کی ہیئت رکھتے ہیں کچھ حصہ معریٰ نظم اور کچھ چھوٹے بڑے مصرعوں پر مشتمل ہیں۔

ہم نے دیکھا انھیں / دن میں اور رات میں / نور و ظلمات میں / مسجدوں کے مناروں نے دیکھا انھیں / مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انھیں / مے کدے کی دراڑوں نے دیکھا انھیں / از ازل تا ابد / بتا چارہ گر / تیری زنبیل میں / نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے ؟ / کچھ علاجِ مداوائے الفت بھی ہے ؟/ اک چنبیلی کے منڈوے تلے / مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر / دو بدن / چارہ گر! (چارہ گر: مخدوم محی الدین)۔

ترقی پسند تحریک سے اپنی تمام تر وابستگیوں کے باوجود مخدوم بنیادی طور پر لطیف حسیات کے شاعر ہیں وہ ٹھوس چیزوں کو سمعی حسی اور کیفی پیکروں میں ڈھالنے اور غیر مرئی چیزوں کو ٹھوس پیکروں میں ڈھالنے پر غیر معمولی قدرت رکھتے ہیں۔ مثلاً نظم ’’بلور‘‘ میں مخدوم نے اپنی دونوں صلاحیتوں سے کام لیا ہے۔

منور خموشی کے بلور چھنکے / کرن مرمریں فرش پر چھن سے ٹوٹی / کلی چٹکی، آواز کے پھول مہکے / رنگوں کی سروں کی کوئی کہکشاں / کھلکھلاتی ہوئی گود میں آ پڑی / خموشی کے گہرے سمندر کی تہہ سے / کسی جل پری نے مجھے جیسے آواز دی ہو / اندھیرے کے پردے ہلے، ساز چونکے / کئی نور کی انگلیاں جگمگائیں / شفق در شفق، رنگ در رنگ / عارض کا حیرت کدہ سامنے ہے / وہ ہنستا ہوا مے کدہ سامنے ہے / دھنک سامنے ہے / کسی کو یہ قصہ سناؤں تو کیسے / قدم اور آگے بڑھاؤں تو کیسے /

نظم میں ایک لمحہ کی کیفیت پیش کی گئی ہے۔ نظم کا متکلم کسی کے انتظار میں بیٹھا ہوا ہے اور شاید آنے والے کے تصور میں گم اپنے اطراف و ارد گرد سے بے خبر ہے کہ اچانک ایک آواز اس کی جانی پہچانی آواز سنائی دیتی ہے۔ یہاں شاعر مختلف بصری، سمعی پیکروں کے ذریعے اس آواز تجسیم کرتا ہے اور اس کے ساتھ اپنے رد عمل اور اپنی دلی کیفیت کا اظہار کرتا ہے، منور خموشی کے بلور چھنکے، چوں کہ یہ انتظار اور خموشی محبوب کے لیے ہے اس لیے وہ منور ہے۔ کیفیت چوں کہ نازک ہے اس لیے ’’بلور‘‘ ہے۔

آگے کے مصرعوں میں اس آواز کی وجہ سے شاعر کے جذبات میں پیدا ہونے والی کیفیات کا ذکر خوب صورت پیکروں کے ذریعے کیا گیا ہے۔ کلی کا چٹکنا، آوازوں کے پھولوں کا مہکنا، رنگوں اور سروں کی کہکشاں کا گود میں آ گرنا یہ سب ایسے پیکر ہیں جو شاعر کے جذبات و احساسات کی تجسیم کر رہے ہیں۔ اب دور سے آتی ہوئی آواز زیادہ واضح اور خاص شاعر کے لیے ہے اور ’’کسی جل پری نے مجھے جیسے آواز دی ہو اور اسی مخاطبت کی وجہ سے اندھیرے کے پردے ہلتے ہیں، ساز بجنے لگتے ہیں اور نور کی انگلیاں، پردے کو ہٹانے لگتی ہیں اور اس کے بعد پورا پیکر سامنے آ جاتا ہے۔ شفق در شفق رنگ در رنگ عارض کا حیرت کدہ سامنے ہے / وہ ہنستا ہوا مے کدہ سامنے ہے / دھنک سامنے ہے۔ وفورِ جذبات میں محبوب کے لیے کئی خوب صورت استعارے استعمال کیے ہیں۔ مختلف تشبیہات کا استعمال شاعر کی جذبات کی شدت اور اس ذہنی کیفیت کو پیش کرتا ہے۔

جب انسان / اچانک مل جانے والی خوشی کی وجہ سے جذباتی طور پر بے قابو ہو جاتا ہے اور اس کے اظہار کے لیے الفاظ اس کا ساتھ نہیں دیتے، کسی کو یہ قصہ سناؤں تو کیسے، پوری نظم ایک متحرک خوش رنگ اور خوب صورت تصویروں کی سلسلے میں کی طرح سامنے آتی ہے۔ زیادہ تر پیکر ایسے ہیں جن کا تعلق بصارت یا سماعت سے ہے۔ نظم پڑھتے ہوئے قاری اگر حساس ہو تو اپنے ذہن کے اسکرین پر تصویروں کی شکل میں پوری نظم کو دیکھ سکتا ہے۔

اگر ہم یہاں ذرا سا رک کر مخدوم کی زندگی اور انقلاب سے ان کی پُر خلوص لگن کو ذہن میں تازہ کریں تو نظم کی ایک اور سطح ابھرتی ہے۔ محبوب جس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ آنے والا وہ دور بھی ہو سکتا ہے جس کے لیے وہ زندگی بھر جدوجہد کرتے رہے اور جس کے قدموں کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے ممکن ہے تصور میں اس دور کی جھلک دیکھی ہو، ویسے بھی مخدوم کے نزدیک انقلاب اور محبوب میں کوئی فرق نہیں ہے وہ انقلاب کا انتظار اسی ذوق و شوق اور خلوص سے کرتے ہیں۔ جس ذوق و شوق سے محبوب کا انتظار کیا جاتا ہے اور اس کی شہادت ان کی کئی نظموں میں ملتی ہے۔ مخدوم نے فکر و عمل کی یہ اکائی آخر تک برقرار رکھی۔ یعقوب راہی بھی مخدوم کی شخصیت اور شاعری کو بجا طور پر ایک دوسرے سے جدا نہیں سمجھتے۔ مخدوم کی شاعری میں فکرو عمل کی اس اکائی سے متعلق اپنے ایک مضمون میں یعقوب راہی لکھتے ہیں :

’’فکر و جذبہ کا، سوز و گداز کا مجسمہ، صناعی و کاری گری کی کوشش کم سے کم، بے ساختگی ہی سے بے ساختگی، آمد، بہاؤ ہی بہاؤ، شروع سے آخر تک، موسیقیت ہی موسیقیت، شعریت ہی شعریت، عمر کے ساتھ ساتھ جوانی کا جوش تو کم ہوا لیکن نہ کبھی سرکشی کا جذبہ ختم ہوا نہ انقلاب کی آگ سرد ہوئی۔۔۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

ڈاکٹر نکہت جہاں

 

مخدوم کی شاعری اور سماجی شعور

 

 

شاعری انکشاف ذات ہے اور یویناً شاعر اپنی شاعری سے ہی پہچانا جاتا ہے۔ لیکن شاعری کو سمجھنے، اس کے فنی محاسن و معائب کا اندازہ کرنے اور اس کی امتیازی کیفیتوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے شاعر کے ذہن، اس کے نفسیاتی اور سماجی رجحانات اور جذباتی محرکات سے واقف ہونا ضر وری ہے۔ شاعر شعوری طور پر سماج کے متصادم اور پیچیدہ عناصر سے شخصی طور پر وابستہ ہو کر اپنے فن کے ذریعہ اظہار کرتا ہے۔ مخدوم محی الدین کی شاعری بھی ان کے شعور حیات کی جیتی جاگتی تصویر اور فکر و عمل کی سچی ترجمان ہے۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام ’’سرخ سویرا‘‘ کا انتساب ’’محبت اور محنت کے نام‘‘ ہی مخدوم کے ذہنی رویہ، سوچ اور رجحانات کا عکاس ہے۔ انھوں نے ذاتی غم کے بجائے عوام کے درد و کرب کو ترجیح دی۔ اس کی مثال سماجی موضوعات پر ان کی نظمیں مشرق، اندھیرا، زلف چلیپا اور حویلی وغیرہ ہیں۔

مخدوم کا تعلق اس دور سے ہے جب ادب برائے زندگی کا نظریہ عام ہو چکا تھا اور زندگی سے متعلق مسائل کو ادب کا موضوع بنایا جانے لگا تھا۔ جاگیردارانہ عہد دم توڑنے لگا تھا اور یہ احساس ہو چلا تھا کہ انسان کے ہاتھوں انسان کا استحصال نہیں ہونا چاہیے۔ یہ رجحان اس دور کے سارے ادب میں نظر آتا ہے۔ ۱۹۳۶ء میں باقاعدہ اردو کے ادیبوں نے یہ ذمہ داری قبول کی کہ معاشی خوش حالی حاصل کرنے کے لیے عوام کی ذہنی تربیت کی جائے۔ اس تحریک کے پس پشت کارل مارکس کے اقتصادی نظریات کام کر رہے تھے۔ اس تحریک کو ترقی پسندی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چناں چہ ترقی پسند ادیبوں نے آزادی کی لڑائی میں اس نظریہ کے تحت ایک خواب دیکھا کہ وہ انگریزوں کو ہندستان سے نکال کر ایک ایسا ہندستان بنائیں گے جس میں بھائی چارہ ہو، بہتر سماجی حالات ہوں اور کسی قسم کا ظلم نہ ہو۔ مخدوم کی شاعری میں بھی یہی جذبہ کارفرما نظر آتا ہے۔

مخدوم جب اپنے ماحول اور گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو انھیں ہر طرف ذہنی انتشار، افلاس، بھوک، غلامی اور اضطراب نظر آتا ہے۔ ان کی نظم ’’مشرق‘‘ میں ماحول سے بیزاری اور غلامی سے نفرت کا احساس ظاہر ہوتا ہے :

جہل، فاقہ، بھیک، بیماری، نجاست کا مکاں

زندگانی، تازگی، عقل و فراست کا مساں

وہم زائیدہ خداؤں کا روایت کا غلام

پرورش پاتا رہا ہے جس میں صدیوں کا جذام

جھڑ چکے ہیں دست و بازو جس کے اس مشرق کو دیکھ

وہم زائیدہ خداؤں کا روایت کا غلام

پرورش پاتا رہا ہے جس میں صدیوں کا جذام

جھڑ چکے ہیں دست و بازو جس کے اس مشرق کو دیکھ

کھیلتی ہے سانس سینے میں مریض دق کو دیکھ

اک ننگی نعش بے گور و کفن ٹھٹھری ہوئی

مغربی چیلوں کا لقمہ خون میں لتھڑی ہوئی

مخدوم نے دیکھا کہ ان کا وطن جہل، فاقہ، بھوک، بیماری اور نجاست کا مکان ہے۔ عقل و فراست کا مساں ہے، روایت کا غلام ہے جس میں صدیوں کا جذام پرورش پا رہا ہے۔

نغمہ جبرئیل ہے انسان کا گانا نہیں

صور اسرافیل ہے دنیا نے پہچانا نہیں

(اقبال)

مخدوم کی شاعری میں اسلامی تلمیحات، اسلامی روایات اور تصورات کی کارفرمائی کا مطالعہ بعض دل چسپ حقائق کو برافگندہ نقاب کرتا ہے۔ جیسے اس مطالعہ میں یہ بات نہایت واضح اور محسوس انداز میں سامنے آتی ہے کہ مخدوم کی نظموں میں تلمیحات اور اسلامی روایات و تصورات پر مبنی الفاظ کا استعمال زیادہ ہوا ہے۔ غزلوں میں ان الفاظ و تلمیحات کا ورود کم نظر آتا ہے۔ ویسے مخدوم نے نظموں کے مقابلے میں غزلیں لکھی بھی کم ہیں لیکن غزلوں اور نظموں کی تعداد میں جو نسبت ہے اسلامی تلمیحات و روایات کی تعداد اس کے متناسب نہیں ہے۔ اس سلسلے میں یہ مشاہدہ بھی قابلِ ذکر ہے کہ مخدوم کے پہلے مجموعے ’’سرخ سویرا‘‘ میں اسلامی تلمیحات اور اسلامی روایات کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔ اس کے بالمقابل ان کے دوسرے شعری مجموعے ’’گل تر‘‘ میں ان کا استعمال نسبتاً کم ہوا ہے اور تیسرے مجموعے ’’بساطِ رقص‘‘ میں ان کا استعمال اور بھی کم ہے۔ ضخامت کے اعتبار سے ’’گلِ تر‘‘، ’’سرخ سویرا‘‘ سے قدرے کم ہے اور اس میں نظموں کے علاوہ غزلیات بھی شامل ہیں۔ غزلیات میں مخدوم نے تلمیحات کا استعمال کم ہی کیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے اس میں اسلامی تلمیحات و روایات کے استعمال کا تناسب بھی کم ہے۔ اس حقیقت کو دوسرے زاویے سے یوں بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ ’’سرخ سویرا‘‘ کی اشاعت ۱۹۴۴ء میں عمل میں آئی۔ یہ مخدوم کے ابتدائی دس سالہ ریاض سخن کا نتیجہ ہے۔ اس ابتدائی دور میں مذہب اور اس کے متعلقات کے بارے میں ان کا رویہ کچھ اور تھا جو مذہبی علائم و اشارات کو برتنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتا تھا لیکن بعد کے دور میں شاید ان کے خیالات میں شدت پیدا ہوتی گئی اور وہ ان الفاظ و علائم سے اعراض و گریز کرنے لگے۔ خود مخدوم کو بھی احساس تھا کہ گلِ تر کی شاعری سرخ سویرا کی شاعری سے مختلف ہے۔ اس فرق کی وضاحت کرتے ہوئے ’’گلِ تر‘‘ کے دیباچے میں وہ لکھتے ہیں :

’’یہ فرق میری نظر میں ایک نیا پن ہے جو عمر، تجربہ اور خود عہد حاضر کی نوعیت کے اپنے ما سبق سے مختلف ہونے کا نتیجہ ہے جو سماجی اور شعوری ارتقا کی نشان دہی کرتا ہے۔‘‘

’’سرخ سویرا‘‘ کے مقابلے میں ’’گلِ تر‘‘ میں اسلامی تلمیحات و روایات کا تقلیل استعمال ممکن ہے۔ مخدوم کے مزعومہ اسی ’’سماجی اور شعوری ارتقا‘‘ کا نتیجہ ہو۔

 

٭٭٭

 

 

 

شمیم طارق

 

 

مخدوم کی ایک پُر کیف نظم۔ ’’چارہ گر‘‘

 

’’چارہ گر‘‘ مخدوم محی الدین کی ہی نہیں اردو شاعری کی بہترین عشقیہ نظموں میں سے ایک ہے۔ اس کا موضوع محبت کی سرشاری و دل سوزی ہے اس لیے نظم کی ابتدا میں چھوٹے بڑے مقفی اور غیر مقفی مصرعوں کو اس ترتیب سے پیش کر دیا گیا ہے کہ والہانہ و سرور کی ایسی فضا تیار ہو جائے جو محبت کا خاصہ ہے اور قاری محسوس کر لے کہ وہ کون سی خواب گیں کیفیت یا آتش سیال ہے جو لفظوں میں گھول کر اس کو پلائی جانے والی ہے :

 

اک چنبیلی کے منڈوں تلے

مے کدے سے ذرا دور اس موڑ پر

دو بدن / پیار کی آگ میں جل گئے

ان ابتدائی چار مصرعوں کو جو محبت کی تاثیر یا خوابگیں کیفیت کے مظہر ہیں خبر سے بھی تعبیر کیا جا سکتا ہے کیوں کہ ان میں صرف یہ اطلاع دی گئی ہے کہ ’’دو پیار کرنے والے محبت کی آگ میں جل کر راکھ ہو گئے۔‘‘ لیکن اس نظم کا یا نظم کے ان ابتدائی چار مصرعوں کا صرف یہی مطلب ہوتا تو یہ نظم اردو کی نہایت خوب صورت اور مسحور کن نظم نہ تسلیم کی گئی ہوتی۔ انھیں چار مصرعوں میں محبت کے انجام سے بھی باخبر کیا گیا ہے یعنی جو دو بدن یا دو وجود جل کر راکھ ہوئے ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک دوسرے سے پیار کرتے تھے اور پھر ’’چنبیلی کے منڈوے تلے ‘‘ اور ’’مے کدے سے ذرا دور‘‘ جیسے تلازموں اور ترکیبوں کے ذریعے جو آگ سے تضاد کی نسبت رکھتے ہیں، یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جو دو بدن پیار کی آگ میں جل کر راکھ ہو گئے، مرنا ان کی مجبوری نہیں رغبت اور کیفیت تھی۔ جو کچھ ہوا ان کی رضا و رغبت سے ایک خاص کیفیت میں ہوا کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ محبت کا انجام فنا ہے، جانتے بوجھتے انھوں نے محبت کی۔ محبت ان کی سرشت تھی، تقدیر تھی، وہ محبت کے علاوہ کچھ پانا اور حاصل کرنا چاہتے ہی نہیں تھے اس لیے جل کر راکھ ہو گئے۔

اس کیفیت کی مزید تشریح اگلے تین مصرعوں میں ہے :

پیار حرف وفا

پیار ان کا خدا

پیار ان کی چتا

بہ ظاہر ان تین مصرعوں میں پیار کرنے والوں کی دلکش تصویر کشی کے علاوہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ’’وفا‘‘، ’’خدا‘‘ اور ’’چتا‘‘ جیسے لفظوں سے نظم کی عشقیہ ماحول میں شدت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے مگر حقیقت میں ان تین مصرعوں کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ایک دوسرے کی محبت میں سرشار عاشق و معشوق کے لیے وصل کا لمحہ وہ لمحہ ہے جہاں دوئی کا ہر احساس ختم ہو جاتا ہے اور وہ ایک دوسرے میں جذب ہو جاتے ہیں۔

مخدوم کا شمار سعادت مند کمیونسٹوں میں ہوتا تھا۔ انھوں نے پارٹی لائن سے کبھی بغاوت نہیں کی اور کمیونسٹ ہونے کی حیثیت سے وہ ایک ایسے فلسفۂ حیات میں یقین رکھتے تھے جس میں روحانیت و ماورائیت کا کوئی تصور نہیں ہے لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اس نظم کی پوری کیفیت اور فضا ماورائی اور روحانی ہے۔ صوفیہ کے ملفوظات سے صرف نظر کر کے پوری نظم خصوصاً ان تین مصرعوں کو سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ یہ مصرعے اصل میں محبت کے تین مدارج یا مراحل ہیں۔

پہلا مرحلہ ’’حرفِ وفا‘‘ کا تھا جب ’’عہد الست‘‘ میں تمام ارواح نے محبوبِ حقیقی سے یہ عہد کیا تھا کہ وہ دنیا میں اس کو اپنا مالک و محبوب مانتی رہیں گی۔ دوسرا محلہ ’’عہد کی تکمیل‘‘ کا تھا یعنی جب انھوں نے اپنے عہد کی تکمیل کرنے یا پابند وفا رہ کرا پنی زندگی کو بامعنی بنایا تھا۔ یہ وہ مرحلہ ہے جہاں انسان کو ’’پابند وفا‘‘ ہونے کے بدلے محبوب حقیقی کے سوا کچھ مطلوب ہی نہیں ہوتا۔ وہ محبوبِ حقیقی سے اگر کچھ مانگتا ہے تو محبوبِ حقیقی کو ماہی مانگتا ہے اور اگر کسی ذات کو باقی سمجھتا ہے تو وہ ذاتِ حق ہے۔ لسان الحق شاہ تراب علی قلندر نے اس بات کو اپنی غزل کے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے :

عبث ہے آرزو دنیا و دیں کی

تراب اللہ بس، باقی ہوس ہے

یہی انسان کے لیے بقا کا راز اور ہمیشگی و دوام کا مقام ہے کہ وہ مالک وہ محبوب حقیقی کی محبت میں خود کو فنا کر دے کیوں کہ محبت کے دعوے کے بعد اپنی یا اپنے لیے کسی چیز کی فکر کرنا ’’ہوس‘‘ کی مترادف ہے

حقیقی عشق جس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تیسرے مصرعے میں یہی حقیقت اور واضح لفظوں میں بیان کی گئی ہے کہ چوں کہ ’’عشق‘‘ اور ’’ہوس‘‘ ایک ساتھ باقی نہیں رہ سکتے اس لیے عشق حقیقی کے بعد ہر چیز فنا ہو جاتی ہے خود محبت کا انجام بھی فنا ہے لیکن ایسی فنا جو حیاتِ دوام یا بقا کی ضامن ہے یعنی عشق اور ہوس دونوں فانی ہیں مگر ہوس کی فنا عشق حقیقی کی بقا ہے اور عشق حقیقی میں فنا بقا کی ضمانت۔

عشق کے ان مرحلوں کو سمجھنے کے لیے ایک علامتی پرندے کی مثال دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ صوفیہ کے حلقے میں اس پرندے کا بہت ذکر کیا جاتا ہے۔ اس علامتی پرندے کا نام ہے۔ ’’ققنس‘‘ جو اپنی آتش نفس میں جل کر راکھ ہو جاتا ہے مگر بارش کا پہلا قطرہ پڑتے ہی دوبارہ پیدا ہو جاتا ہے اور اسم اعظم کے ورد سے اپنے وجود کو خاک کرنے میں لگ جاتا ہے۔ زندگی و موت کے اس تسلسل میں وہ بار بار موت سے دوچار ہوتا ہے مگر اس ورد کو جاری رکھتا ہے جس کا منطقی نتیجہ موت ہے کہ موت ہی اس کی سرشت ہے اور وہ جانتا ہے کہ بقا صرف اس کی شان ہے جو حی و قیوم ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ اس کی بقا اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ باقی رہنے والی ذات کی یاد میں خود کو فنا کرتا ہے۔

مخدوم نے اپنے دوسرے مجموعۂ کلام ’’گلِ تر‘‘ کے دیباچے میں ایک بہت بلیغ جملہ لکھا ہے وہ جملہ یہ ہے کہ ’’شعر میں ہم ماورا کی حدوں کو چھوتے ہیں مگر شعر سماج سے ماورا نہیں ہوتا۔‘‘ یہ مجموعہ ۱۹۶۱ء میں منظر عام پر آیا۔ یہ وہ دور تھا جب کمیونسٹ پارٹی کا ادبی محاذ کمزور پڑنے لگا تھا۔ فیض، فراق، ممتاز، حسین، خلیل الرحمن اعظمی اور اخترالایمان، علی سردار جعفری کی ادبی ترقی پسندی کی متعین کی ہوئی تعریف کو سن کر زیر لب مسکرانے لگے تھے۔ ہمارے رسائل ان کے درمیان بعض ادبی مناقشوں کے بھی گواہ ہیں۔ ’’گل تر‘ کے دیباچے میں مخدوم نے تخلیقی تجربے کی حیثیت اور شاعر و ادیب کے منصب پر جن لفظوں میں روشنی ڈالی ہے وہ یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دوسرا شعری مجموعہ شائع ہونے تک ان کے اندر کا شاعر ان کے باہر کے کامریڈ پر حاوی ہو چکا تھا۔

’’زمان و مکان کا پابند ہونے کے باوجود شعر بے زماں (Timeless) ہوتا ہے اور شاعر اپنی ایک عمر میں کئی عمریں گزارتا ہے، سماج کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات اور احساسات بھی بدلتے جاتے ہیں مگر جبلتیں برقرار رہتی ہیں۔ تہذیب، انسانی جبلتوں کو سماجی تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے کا مسلسل عمل ہے، جمالیاتی حس انسانی حواس کی ترقی اور نشوونما کا دوسرا نام ہے، اگر انسان کو سماج سے الگ چھوڑ دیا جائے تو وہ ایک گونگا وحشی بن کر رہ جائے گا، جو اپنی جبلتوں پر زندہ رہے گا۔ فنونِ لطیفہ انفرادی اور اجتماعی نفس کا بڑا ذریعہ ہیں جو انسان کو وحشت سے شرافت کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔‘‘

شاعر اپنے گرد و پیش کے خارجی عالم اور دل کے اندر کی دنیا میں مسلسل کشمکش اور تضاد پاتا ہے یہی تضاد تخلیق کی قوتِ محرکہ بن جاتا ہے۔

شاعر اپنے دل میں چھپی ہوئی روشنی اور تاریکی کی آویزش کو اور روحانی کرب و اضطراب کی علامتوں کو اجاگر کرتا اور شاعر میں ڈھالتا ہے۔ اس عمل سے تضاد تخلیل ہو کر تسکین و طمانیت کے مرکب میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ شاعر بہ حیثیت ایک فردِ معاشرہ، حقیقتوں سے متصادم اور متاثر رہتا ہے، پھر وہ دل کی جذباتی دنیا کی خلوتوں میں چلا جاتا ہے، روحانی کرب و اضطراب کی بھٹی میں تپتا ہے شعر کی تخلیق کرتا ہے اور داخلی عالم سے نکل کر عالم خارج میں واپس آتا ہے تاکہ نوعِ انسانی سے قریب تر ہو کر ہم کلام ہو۔

مندرجہ بالا سطور میں جو ’’گلِ تر‘‘ کے دیباچے سے ماخوذ ہے ’’روحانی کرب‘‘، ’’تہذیب نفس‘‘ اور ’’دل کی جذباتی دنیا کی خلوتوں ‘‘ جیسی ترکیبوں کے ذریعے شعر اور شاعری کی جس فنی اور فکری بصیرت کا اظہار کیا گیا ہے وہ ان کی پارٹی کی ادبی محاذ کی نعرہ بازی سے بہت مختلف ہے۔ اگر کسی ترقی پسند شاعر کے کلام میں اس فکر و کیفیت کی کارفرمائی ہے تووہ صرف فیض احمد فیض ہیں۔ فیض اور مخدوم میں ایک مشابہت یہ بھی ہے کہ وہ نظم اور غزل، دونوں اصنافِ سخن میں یکساں دست رس کے علاوہ جداگانہ شان اور پہچان کے حامل ہیں۔ دونوں نے اپنی شاعری میں لفظوں کو معنوی توسیع کے عمل سے گزار کر معنی کی نئی جہات سے ہم کنار کیا ہے دونوں کی شاعری کا غالب عنصر اس کی والہانہ کیفیت اور چمنستانِ محبت کی فضا ہے جو انگاروں پر لوٹتے اور جیل کی سلاخوں کے پیچھے مشقتیں برداشت کرتے ہوئے تخلیق کاروں کو بھی گل و بلبل کے افسانے بیان کرنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے کیوں کہ فکر و فلسفہ کی حدبندی اور جیل کی چہار دیواری تخلیق کار کے جمالیاتی احسا س کو ختم کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ تخلیق کار اپنا جہاں آپ آباد کرتا ہے اور اگر اس کی طبیعت جیل کی چاردیواری میں گل و بلبل کی داستان بیان کرنے کی ہوئی ہے تو جیل میں بھی گل و بلبل کی داستان بیان کرتا ہے۔ فیض جب راولپنڈی سازش کیس میں جیل کاٹ رہے تھے تو انھوں نے رضیہ سجاد ظہیر کو چند نظمیں بھیجنے کے ساتھ لکھا تھا کہ:

’’آپ کی فرمائش پر بنے (سجاد ظہیر) نے میری نئی اور فضول سی نظم غالباً آپ کو بھیج دی ہے۔ میں نے تو منع کیا تھا کہ مت بھیجنا۔ کہیں علی سردار جعفری کی نظر پڑ گئی تو مجھ پر تنزل پسندی کا فتویٰ لگا دے گا۔ یوں بھی لوگ کہیں گے کہ ہمیں جیل میں بیٹھ کر محض گل و بلبل کی سوجھ رہی ہے حالاں کہ لکھنے کو اور اتنی باتیں رکھی ہیں۔ بہ ہر صورت آپ باتیں بناتے رہیے ہمارا جیل میں اگر عاشقانہ شعر لکھنے کا جی چاہے گا تو ہم ضرور لکھیں گے۔‘‘

فارسی اور اردو کی شعری روایت میں عاشقانہ اور رندانہ کو عارفانہ شاعری بنانے کی کامیاب روایت بہت پرانی ہے۔ دونوں قسم کی شاعری میں الفاظ و تلازمات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ فیض و مخدوم نے اس روایت سے پورا پورا فائدہ اٹھایا ہے اور اگر صوفیا نے چشم، ابرو، لب، گیسو، رخ سے ’’بصیرت ازلی‘‘، ’’ربوبیت و عبودیت کا حجاب‘‘، ’’نور قدس سے عقل کا منور ہونا‘‘ یا ’’نفس رحمانی‘‘، ’’تجلی جلالی‘‘ اور ذاتِ حق‘‘ جیسے معنی مراد لیے ہیں تو فیض نے ’’عشق‘‘ سے ’’جذبہ حیرت‘‘، ’’رقبت‘‘ سے رجعت پسندانہ نظام اور ’’عقل‘‘ سے زوال آمادہ ذہنیت مراد لی ہے، اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے مخدوم نے ’’حرفِ وفا‘‘، ’’ان کا خدا‘‘ اور ’’چتا‘‘ کو عوامی جدوجہد، انقلاب اور انقلاب برپا کرنے کی تیاری میں مر جانے کی آرزو و آمادگی کے معنی میں استعمال کیا ہے۔ ان کے استعمال کیے ہوئے لفظوں کی یہ تفہیم انہی کے اس جملے کا آئینہ ہے کہ ’’جمالیاتی حس انسانی حواس کی ترقی اور نشوونما کا دوسرا نام ہے۔ ’’مخدوم یویناً ایک ترقی یافتہ فکر کے حامل تھے اس لیے ان کی فکر جمالیاتی احساس کی جملہ خوبیوں سے مالا مال ہے۔ اس کے علاوہ یہ نظم فنی تکمیل کا بھی احساس دلاتی ہے۔ اس میں داخلیت اور خارجیت، وضاحت اور ابہام پرانے الفاظ اور نئے پیرایہ اظہار کے امتزاج سے پیدا ہونے والی انوکھی شان پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے اور خوبی یہ ہے کہ آزاد نظم کے پیرایے میں یعنی اس پیرایے میں جوا س وقت تک ترقی پسندوں میں زوال پسندی کی علامت سمجھا جاتا تھا۔

نظم کے تیسرے بند میں موضوع کا کوئی نیا پہلو اجاگر کرنے کے بجائے عشق کے نقطۂ کمال ’’وصل‘‘ کی وہ والہانہ کیفیت بیان کی گئی ہے جس میں دوائی یا یاس و حرماں کا ہر احساس مٹ جاتا ہے۔ اس بیان میں مخدوم کی استعمال کی ہوئی امیجری ان کے ترقی یافتہ جمالیاتی احساس کی رہین منت ہے۔ اس نظم کے عشقیہ ماحول میں بلا کی شدت پیدا ہو گئی ہے۔

دو بدن

اوس میں بھیگتے

چاندنی میں نہاتے ہوئے

جیسے دو تازہ رو تازہ دم پھول پچھلے پہر

ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا

صرف ماتم ہوئی

کالی کالی لٹوں سے لپٹ گرم رخسار پر

ایک پل کے لیے رک گئی

چوتھا بند اس یاد دہانی پر مشتمل ہے کہ محبت کا لمحہ، محبت کے جذبے کی طرح تعینات اور حد بندیوں سے مستثنیٰ ہے اس کو بھلے برے، میں نور و ظلمت میں نہیں تقسیم کیا جا سکتا۔ یہ ایک قابلِ تقسیم اکائی ہے۔

ہم نے دیکھا انھیں

دن میں اور رات میں

نور و ظلمات میں

مسجدوں کے مناروں نے دیکھا نہیں

مندروں کے کواڑوں نے دیکھا انھیں

مے کدے کی دراڑوں نے دیکھا انھیں

نظم کے آخری بند میں محبت کی ابدیت اور ہمہ گیری کو اجاگر کرنے کے بعد ’’چارہ گر‘‘ کو مخاطب کیا گیا ہے کہ کیا اس کے پاس ’’کیمیائے محبت‘‘ کا کوئی نسخہ ہے ؟ مگر اسی پل سوال پوچھنے والے کو یاد آتا ہے کہ نسخۂکیمیائے محبت پانے کا مطلب فنا ہو جانا ہے لہذا وہ دوسرے ہی پل یا اسی سانس میں ’’چارہ گر‘‘ سے پوچھ بیٹھتا ہے کہ کیا کیمیائے محبت کا کوئی ایسا نسخہ بھی ہے جو مقصد زندگی کو سرور و کیف میں تو ڈھالے، فنا نہ کرے ؟ یہ سوال ایک خاص فلسفۂ حیات اور سماجی جدوجہد سے وابستگی کا نتیجہ ہے۔ اسی سوال کے ساتھ نظم کی ماورائی فضا سماجی شعور میں تبدیل ہو جاتی ہے اور ’’گل تر‘‘ کے اس بلیغ جملے کی معنویت سامنے آ جاتی ہے کہ ’’شعر میں ہم ماورا کی حدوں کو چھوتے ہیں مگر شعر سماج سے ماورا نہیں ہوتا‘‘۔ ’’چارہ گر‘‘ اس نظم کا بہت وسیع استعارہ ہے یہ سیاسی رہبر وہ مسیحا بھی ہو سکتی ہے اور روحانی شیخ و مرشد اور عالم و رہنما بھی۔

از ازل تا ابد

یہ بتا چارہ گر/ تیری زنبیل میں

نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے ؟

کچھ علاج و مداوائے الفت بھی ہے ؟

نظم کے آخر میں پہلے بند کو مکرر پیش کرنے کے بعد کچھ نئے مصرعوں کے ذریعے مخدوم نے ’’مقصد زندگی‘‘ یا محبوبۂ زندگی پر جان دینے والوں پر زندگی کو بہتر بنانے کی جدوجہد کرتے ہوئے زندہ رہنے والوں کی اہمیت و فوقیت واضح کرنے کی کوشش کی ہے ساتھ ہی مسجد و مندر اور مے کدے سے عوامی جدوجہد کو مقصد حیات یا محبوبہ بنا لینے والوں کی تباہی کا نظارہ کرتے ہوئے ان پر سنگ ملامت پھینکنے والوں یا خود فریبی اور رہبانیت کی زندگی گزارنے والوں کو للکارا ہے کہ ظلم و نا انصافی کی جدوجہد کرتے ہوئے آزمائشوں میں زندہ رہنے کا جو لطف ہے اس کو وہ کیا جانیں جنھیں کسی مقصدِ حیات کو محبوبۂ زندگی بنانے کی توفیق ہی نہیں ہوئی۔ رومانی شعرا بھی ایسے شعر کہتے رہے ہیں مثلاً اختر شیرانی نے کہا تھا:

محبت مبتدا میرا محبت منتہا میرا

محبت ہی محبت ہے حقیقت میں خدا میرا

ترقی پسند شاعروں نے بھی اس روایت کو اپنایا مگر غنائیت اور موسیقیت کو مجروح کیے بنا پرانے لفظوں سے نئے مفاہیم پیدا کر کے شعری روش کو نقطۂ کمال تک پہنچایا فیض نے۔ انھوں نے یہ جانتے بوجھتے کہ اس کا انجام موت ہے ایک نظر حیات یا مقصد زندگی کو نہ صرف محبوبہ کا درجہ دیا بلکہ اس سے محبوبہ جیسا سلوک بھی کیا۔ مثال کے طور پر پیش ہے ان کی نظم کا ایک بند، جس کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مقتل میں محبت کے گیت گا رہے ہیں۔ یہ بہ یک وقت عاشقانہ شاعری بھی ہے اور انقلابی شاعر بھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح صوفیہ کی شاعری بہ یک وقت عاشقانہ شاعری بھی تھی اور عارفانہ شاعری بھی:

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق

نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی

یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول

نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے

ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

مخدوم کی نظم ’’چارہ گر‘‘ مخدوم کے اس خواب کی سب سے خوب صورت تعبیر ہے جس کو انھوں نے ’’گل تر‘‘ کے دیباچے میں پیش کیا تھا۔ وہ زندگی اور مقصد زندگی کے شاعر تھے اور زندگی کے مظاہر اور کیفیتیں اتنی متنوع اور پُر اسرار ہیں کہ جیسے جیسے ان کا ادراک بڑھتا جاتا ہے زندگی کی معنویت اور زندگی کو مزید بہتر بنانے کی تڑپ بھی بڑھتی جاتی ہے اور بالآخر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کیا بیداری اور کیا خواب مقصد زندگی پر محبوبۂ زندگی کا گمان کر کے انسان پکارنے لگتا ہے کہ:

رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے

سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے

٭٭٭

 

 

 

ارجمند آرا

 

 

مخدوم محی الدین کے تخلیقی سروکار

 

مخدوم سے میرا پہلا تعارف ان کی نظم ’’سپاہی‘‘ کے ذریعے ہوا تھا۔ ان دنوں میں جے این یو میں ایم۔اے کی طالبِ علم تھی۔ جے این یو کے طلبہ میں سیاسی مظاہروں اور دھرنوں کے موقعوں پر ایسے گیت گائے جاتے ہیں جو کسی نہ کسی طور سے ظلم و جبر، استحصال اور جنگ کے خلاف ہیں۔ ایسے ہی کسی موقع پر مخدوم کا یہ گیت سنا تھا:

جانے والے سپاہی سے پوچھو

وہ کہاں جا رہا ہے

کون دکھیا ہے جو گا رہی ہے

بھوکے بچوں کو بہلا رہی ہے

لاش جلنے کی بو آ رہی ہے

زندگی ہے کہ چلا رہی ہے

جانے والے سپاہی سے پوچھو

اس گیت سے اداسی اور غم ناکی کی ایک کیفیت دلوں پر طاری ہو جاتی تھی۔ حالاں کہ زیادہ تر ایسے گیت گائے جاتے تھے جس میں رجز ہوتا تھا، گھن گرج اور خطابت ہوتی تھی جو دلوں کو جوش و خروش سے معمور کر دیتی تھی۔ مجھے تجسس تھا کہ یہ کون سا شاعر ہے جو سیاسی سروکار رکھنے والے طالبِ علموں کے لیے تحریک کا باعث بنا ہوا ہے۔ پتا چلا کہ یہ مخدوم محی الدین ہیں جو شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اہم سیاسی کارکن اور تلنگانہ تحریک کے بڑے لیڈر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک ان کا سیاسی موقف، شاعری سے مقدم تھا اور انھوں نے اپنی زندگی بائیں بازو کی سیاست، ٹریڈ یونین ازم اور عوامی کاز کے لیے وقف کر دی تھی۔ میرے ساتھیوں نے مخدوم کا ذکر جس محبت اور فخر سے کیا تھا اس سے مخدوم کے اعلیٰ انسانی قدروں میں یقین اور سچائی پر اعتبار آ گیا اور اسی دن سے مخدوم کے ساتھ ایک اپنائیت کا رشتہ قائم ہو گیا۔

حالاں کہ مخدوم کو باقاعدہ پڑھنے کا موقع عرصے تک نہیں ملا لیکن جب جب بھی ان کی نظمیں پڑھیں، اچھی لگیں۔ میرے ذہن میں ان کی شخصیت دو خانوں میں منقسم تھی۔۔۔ سیاسی کارکن مخدوم اور شاعر مخدوم۔ جو نظمیں میں نے پڑھی تھیں ان سے کبھی نہیں لگتا تھا کہ یہ صاحب پولیٹکل ایکٹوسٹ بھی ہوں گے۔ ان کی سیاسی زندگی کے بارے میں کبھی پڑھنے کا موقع نہیں ملا۔ یوں اس سلسلے میں اندھیرے میں تھی۔ اس طرح ان کی شخصیت میرے ذہن میں دو لخت تھی۔ لیکن پچھلے دنوں جب یہ چرچا ہونے لگا کہ مخدوم کا صد سالہ جشن منایا جائے تو خیال آیا کہ مناسب موقع ہے وقت نکال کر کچھ پڑھ لیا جائے۔ اس طرح مخدوم کے سوانحی حالات اور ان کی سیرت کے بارے میں کچھ کتابیں دیکھیں تو ایک بالکل ہی الگ اور بڑی بھرپور زندگی جینے والے، زندہ دل مخدوم سے ملاقات ہوئی۔ اندازہ ہوا کہ یہ نیا مخدوم شاعر کی روایتی امیج سے بالکل الگ طرح کا شخص ہے۔ یہ خشک مزاج دانش ور بھی نہیں ہے، جوڑ توڑ کا ماہر سیاست داں بھی نہیں، اپنی ذات میں گم شاعر بھی نہیں۔۔۔ پھر بھی دانش ور ہے، سیاست داں ہے اور شاعر بھی۔ غریب ہے، شاہانہ بے نیازی رکھنے والا امیر بھی۔ ہر طرح کے لوگوں میں گھل مل جانے والا سادہ دل عام آدمی بھی ہے، بڑی بڑی ذمے داریاں اپنے کاندھوں پر لے لینے والا اچھا منتظم بھی۔ خوش گپیوں میں گھرا رہنے والا کٹھیا بھی اور سب سے زیادہ حیران کن سوال تو یہ تھا کہ یتیمی تنگ حالی، غربت اور سخت کوشی کی زندگی کے باوجود مخدوم میں زندہ دلی اور چلبلا پن کہاں سے آیا؟ انھوں نے ہر قسم کے مشکل حالات کو شکست دینا کب سیکھ لیا؟ حالات کے خلاف جدوجہد میں ان کے موثر ترین ہتھیار آخر یہی زندہ دلی اور بے نیازی کب اور کیسے بن گئے ؟ یہ ایسی گتھی ہے جس کا سلجھنا آسان نہیں بس یہی کہہ سکتے ہیں کہ مخدوم بڑے سخت جان اور حوصلے والے آدمی تھے۔ مایوسی اور دل شکستگی ان کے قریب سے بھی نہیں گزری تھی۔

مخدوم محض پانچ برس کے تھے کہ ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ ان کی والدہ کی دوسری شادی ہو گئی اور مخدوم اپنے چچا بشیر الدین کی کفالت میں آ گئے۔ اپنے چچا کی تربیت کے زیر اثر ان کا سماجی شعور پروان چڑھا۔ جب مخدوم بچے ہی تھے اپنے چچا کی زبانی انھیں پتا چلا کہ روس ایک ایسا ملک ہے جہاں معاشی اور تہذیبی اعتبار سے سب لوگ برابر ہیں۔ انھوں نے دیکھا کہ ان کے چچا محنت کش عوام اور کاشت کاروں سے ہم دردیاں رکھتے ہیں۔ مریضوں کی خدمت کرتے ہیں۔ مخدوم بھی ان کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ مخدوم نے ابتدائی تعلیم بڑے مذہبی ماحول اور سخت ڈسپلن میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ حیدرآباد آئے۔ وہاں بے سر و سامانی اور بے روزگاری کے عالم میں انھیں ایک مسجد میں پناہ گزین ہونا پڑا۔ کبھی کئی کئی وقت کے فاقے بھی ہو جاتے تھے لیکن ان کے مزاج میں زندہ دلی اس طرح رچی بسی تھی کہ وہ مایوسی کا کبھی شکار نہیں ہوئے۔ گزر اوقات کے لیے کبھی کسی امیر نواب کی عیسائی محبوبہ کو انگریزی میں خط لکھنے کا عجیب و غریب کام کرنا پرا تو ٹھیلے پر لگا کر تصویریں بھی بیچنی پڑیں۔ بے سر و سامانی کا یہ عالم گزرا کہ تن کے کپڑوں سے بستر اور جوتوں سے تکیے کا کام لینا پڑ جاتا تھا۔

اردو میں ایم۔اے کرنے کے تین سال بعد سٹی کالج حیدرآباد میں نوکری مل گئی تو بھی ان کی قناعت اور بے نیازی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ ان کا بے فکرا پن کالج کے لڑکوں میں فیشن بن گیا۔ کالج کے زمانے سے ہی طالبِ علموں کی ہر طرح کی سرگرمیوں، کھیل کود اور ثقافتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ ڈراموں میں حصہ لیتے تھے اور اچھے ایکٹر سمجھے جاتے تھے۔ خود بھی ڈرامے لکھتے اور ان کو اسٹیج کرتے تھے۔ شاعر کی حیثیت سے بھی پہچان بنا لی تھی۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ ان کی آواز کا جادو لوگوں کو مسحور کر دیتا تھا۔ عرض یہ کہ وہ نوجوانی ہی میں ایک مقبول و معروف اور ہر دل عزیز آدمی بن چکے تھے۔ ان کی سیاسی سرگرمیاں بھی شروع ہو چکی تھیں۔ ۱۹۳۲ء میں بی۔اے کرنے کے بعد انھوں نے مارکسزم کا مطالعہ شروع کیا تھا۔ ان دنوں حیدرآباد میں کمیونسٹ پارٹی اور اشتراکی ادب کی فروخت پر پابندی تھی۔ مخدوم نے نریش کمار کو دیے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ۱۹۳۴ء میں مارکسزم کے مطالعے سے دماغ میں کشیدگی پیدا ہوئی اور وہ ۱۹۳۶ء میں کمیونسٹ پارٹی کے رکن بن گئے۔ ۱۹۳۹ء میں ناگپور کے ’’کامریڈ گروپ‘‘ کی مدد سے مخدوم نے حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس یونین بنائی اور اسی تنظیم سے عوامی جدوجہد کا آغاز ہوا۔ ۱۹۴۰ء میں بائیں بازو کی کامریڈ ایسوسی ایشن قائم کر لی جس کے سکریٹری خود مخدوم تھے۔ اس تنظیم نے ۱۹۴۱ء تک اتنے جوش و خروش سے کام کیا اور ممبران کی تعداد اتنی بڑھا لی کہ تنظیم کے مختلف شعبے بنانے پڑے۔ اسی دور میں مخدوم نے ملازمت چھوڑ دی اور پارٹی کے کل وقتی رکن بن گئے۔

پارٹی کے لیے ان کی لگن اور محنت سے کام کرنے کی بہت سی مثالیں دی جاتی ہیں۔ ان کی لگن کا اندازہ اس واقعے سے کیا جا سکتا ہے کہ ناگپور میں آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی کانفرنس میں کامریڈ مخدوم اور کامریڈ راج بہادر گوڑ کو ڈیلی گیٹ کے طور پر شریک ہونا تھا۔ جس دن روانگی تھی اسی روز مخدوم کی چچی کا انتقال ہو گیا۔ سب کو یقین تھا کہ مخدوم اب کانفرنس میں نہ جا سکیں گے لیکن اس وقت سب حیرت زدہ رہ گئے جب انھوں نے مخدوم کو سفر کیلیے کمر کسے پلیٹ فارم کی جانب آتے دیکھا۔ انھوں نے بتایا کہ چچی کی آخری رسوم کی ذمے داریاں انھوں نے اپنے ایک رشتے کے بھائی نظام الدین کو سونپ دی ہیں۔

دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں جو معاشی ابتری پھیلی اس سے مہنگائی اتنی بڑھی کہ مزدور اور کسان احتجاج میں سڑکوں پر اترنے لگے۔ مخدوم اور دوسرے نوجوان کامریڈوں نے اس صورتِ حال کا اندازہ کر کے مزدوروں کو منظم کرنے کا کام شروع کر دیا۔ اس جدوجہد نے مخدوم کو ایک کامیاب ٹریڈ یونین لیڈر بنا دیا۔ دیکھتے دیکھتے حیدرآباد میں سو سے زیادہ ٹریڈ یونینیں قائم ہو گئیں۔ ان کی رہنما طاقت مخدوم ہی تھے۔ اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے مخدوم کو جیل بھی جانا پڑا۔

جب مخدوم سیاسی سرگرمیوں میں مصروف تھے، ترقی پسند ادبی تحریک بھی زوروں پر تھی۔ سجاد ظہیر اور ان کے ساتھی انجمن کے ادبی اور تنظیمی کاموں میں لگے ہوئے تھے۔ انھوں نے حیدرآباد میں انجمن کی شاخ قائم کرنے کا کام کامریڈ سبط حسن اور مخدوم کو سونپا اور ۱۹۴۳ء میں انجمن کی باقاعدہ بنیاد ڈال دی گئی۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کو مسز سروجنی نائیڈو کی سرپرستی حاصل تھی اور اس کے افتتاحی اجلاس کے صدر قاضی عبدالغفار تھے۔ انجمن نے جس طرح سے کام شروع کیا اور جلد ہی باقاعدہ تحریک  بن گئی، اس کے سبب انجمن کی پہلی آل انڈیا کانفرنس بھی حیدرآباد ہی میں منعقد کی گئی تھی جس میں مولانا حسرت موہانی، ڈاکٹر تارا چندر، فراق گورکھپوری اور سید احتشام حسین نے مختلف اجلاس کی صدارت کی تھی۔

انہی دنوں مخدوم کی سیاسی مصروفیات بڑھتی گئیں اور انجمن کے لیے وہ زیادہ وقت نہ نکال سکے۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں مزدور رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوئے تو مخدوم کو بھی روپوش ہونا پڑا۔ روپوشی کے دوران مخدوم نے ایک نئی جدوجہد کا آغاز کیا۔ تلنگانہ کے زمین دار ان مزدوروں کا بری طرح استحصال کرتے تھے اور برائے نام مزدوری دیتے تھے۔ روی نارائن ریڈی کی سربراہی میں مخدوم اور دوسرے روپوش نوجوانوں نے ظلم و جبر کے اس نظام کو توڑنے کی جدوجہد شروع کی اور تلنگانہ جاگ اٹھا۔ تلنگانہ کا یہ سنگھرش ہتھیار بند سنگھرش تھا۔ اس زمانے میں مخدوم زیادہ تر وجے واڑہ میں رہے۔ ۱۹۵۱ء میں مخدوم کو گرفتار کر لیا گیا اور انھیں چنچل گوڑہ جیل بھیج دیا گیا۔ اس جدوجہد کے دوران گیارہ لاکھ ایکڑ زمین پر قبضہ کر کے اسے بے زمین کسانوں میں تقسیم کیا گیا۔ اس قید سے مخدوم کو جنوری ۱۹۵۲ء میں رہائی ملی۔ کہتے ہیں ان کے رہا ہونے پر جلوس نکالا گیا وہ اتنا بڑا تھا کہ اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہ آیا تھا۔ مخدوم کی نظم ’’یہ جنگ ہے جنگِ آزادی‘‘ ان دنوں مزدوروں اور محنت کشوں کے ہر جلسے میں کورس میں پڑھی جاتی تھی۔ یہاں بھی پڑھی گئی۔ مخدوم زندہ باد کے نعروں سے میدان گونج اٹھا۔ مخدوم نے اپنی نظم ’’قید‘‘ پہلی بار اسی جلسے میں سنائی۔ یہ نظم انھوں نے اسی قید کے دوران لکھی تھی۔ یہ ہے مخدوم کی وہ زندگی جو انھوں نے اپنی تمام تخلیقی اور سیاسی سروکاروں میں ہم آہنگی پیدا کر کے بسر کی۔

یہ تھے ان کی زندگی کے سروکار جو دراصل ان کی شاعری کے بھی سروکار بنے۔ مخدوم سب سے محبت کرتے تھے یہ بات تو اپنی جگہ مسلم لیکن بڑی بات یہ ہے کہ وہ محبت پانے کا فن جانتے تھے، جو ہر ایک کے بس کا روگ نہیں۔ ان کا سیاسی موقف اور آدرش اپنی جگہ اس آدرش کے لیے زندگی وقف کر دینے کی لگن اپنی جگہ، لیکن ان کے مزاج کی سادگی، والہانہ پن، اپنائیت، محبت اور خلوص بھی اتنے ہی مستقل تھے کہ سیاسی زندگی ان کی فطری معصومیت کو کبھی نہ چھین سکی۔ چناں چہ ان کی فطری معصومیت کو کبھی نہ چھین سکی۔ چناں چہ اس انقلابی کی شاعری میں رومانیت اور محبت دوش بہ دوش پلتی رہی۔ نہ انقلاب نے رومان کا ساتھ چھوڑا اور نہ رومان پسندی نے انقلاب کے ساتھ کوئی تضاد محسوس کیا۔ وہ جہاں کہیں بھی رہے اپنے نصب العین کو پانے کی کوششیں کرتے رہے۔ جب تھکتے تھے، دل کی دنیا میں پناہ لے لیتے تھے :

تھک کے رہ جاتے ہیں استدلال کے جس جا قدم

ٹوٹ جاتا ہے پہنچ کر جس جگہ منطق کا دم

خواب و عقل و ہوش کی مجہول تعبیروں سے دور

فلسفی کی ’’کس طرح‘‘ اور ’’کیوں ‘‘ کی زنجیروں سے دور

میرے رہنے کا جہانِ جاودانی اور ہے

دل کی دنیائے نہاں کی زندگانی اور ہے

مخدوم اپنے دل کی دنیائے نہاں میں اس لیے نہیں جاتے کہ وہ زندگی سے فرار چاہتے ہیں۔ بلکہ انھوں نے ایک توازن قائم کیا تھا اپنی ذہنی و جذباتی دنیا اور اپنے حقیقی خوابوں کی دنیا کے مابین۔ ان کا خواب محنت کشوں کو ظلم و جبر سے نجات دلانا اور اشتراکی نظریے کے مطابق مساوات قائم کرنا تھا۔ اس خواب نے انھیں کبھی چین سے نہ رہنے دیا اور وہ ہمیشہ ایک نئے جہان کی تعمیر کے لیے محنت کشوں کو اپنی شاعری سے تحریک دلاتے رہے :

نغمے شرر فشاں ہوں، اٹھا آتشِ رباب

مضرابِ بے خودی سے بجا سازِ انقلاب

معمار عہدِ نو ہو ترا دستِ پر شباب

باطل کی گردنوں پہ چمک، ذوالفقار بن

ایسا جہان جس کا اچھوتا نظام ہو

ایسا جہان جس کا اخوت پیام ہو

ایسا جہان جس کی نئی صبح و شام ہو

ایسے جہانِ نو کا تو پروردگار بن

لیکن مخدوم کے لہجے کے دھیمے پن، لطافت اور نغمگی سے کوئی اس دھوکے میں نہ آئے کہ مخدوم کا انقلاب کا تصور محض جذباتی نعرہ تھا۔ انھوں نے اس انقلاب کے لیے مسلسل جدوجہد کی تھی، ان کا تصور انقلاب تجربے کی بھٹی میں تپ کر کندن بنا تھا۔ انقلاب کے تصور کی اچھی ترجمانی ان کی نظم جنگِ آزادی سے ہوتی ہے۔ اس میں ان کے اشتراکی فلسفے کی پرتیں بہ تدریج کھلتی ہیں۔ پہلے بند میں وہ بتاتے ہیں کہ یہ جنگِ آزادی محکوموں، مجبوروں، دہقانوں اور مزدوروں کی جنگ ہے۔ دوسرے بند میں یہ واضح کرتے ہیں کہ دراصل دنیا کے تمام مجبور،’ محکوم، دہقان اور مزدور ایک ہیں اور وہ سب سرخ پرچم کے تلے ہی ایک ہو سکتے ہیں کیوں کہ دنیا کے ان پائمال لوگوں کے مسائل ایک جیسے ہیں، ان کا مقدر ایک سا ہے، اس لیے ان کی جنگ بھی ایک ہی جنگ ہے۔ تیسرے بند میں مخدوم مسلح جدوجہد کی حمایت میں آواز بلند کرتے ہیں اور مکمل آزادی کے لیے دشمن کی بربادی و تاراجی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ وہ سوراج کی مانگ کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کر دیتے ہیں کہ سوراج سے ان کی مراد مزدوروں کا راج ہے اور اس خواب کی تلاش میں جذبات اور جوش سے مغلوب ہو کر انقلاب کی نویدیوں سناتے ہیں :

لو سرخ سویرا آتا ہے

آزادی کا آزادی کا

گلنار ترانہ گاتا ہے

آزادی کا آزادی کا

دیکھو پرچم لہراتا ہے

آزادی کا آزادی کا

یہ جنگ ہے جنگِ آزادی

آزادی کے پرچم کے تلے

 

اشتراکی انقلاب مخدوم کی شاعری کا اہم ترین موضوع ہے۔ ساتھ ہی اشتراکی نظام فکر کے تحت آنے والے سروکار بھی مخدوم کا موضوع ہیں۔ بوسیدہ معاشرتی نظام، فرسودہ روایات، نا برابری اور استحصال کے رشتے، دنیا کو بدلنے کی ضرورت، جدوجہد، جنگ وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن پر مخدوم نے بہ راہِ راست نظمیں لکھی ہیں۔ شکست خوردہ اقدار اور فرسودہ روایات پر بے دردی سے چو کی ہے اور ناسور کا منھ کھول دیا ہے کہ ان خرابیوں کو دور کرنے کا پیغام وہ ڈھکے چھپے انداز میں، رمز و اشارے میں نہیں دینا چاہتے۔ یہاں ان کے نزدیک شاعری کا مقصد لوگوں کے ذہنوں کو ان برائیوں کی جانب متوجہ کرنا اور تبدیلی کی طرف مائل کرنا ہے۔ اس کی بہت واضح مثالیں ان کی نظموں مشرق، حویلی، دھواں، جہانِ نو، انقلاب، جنگِ آزادی، زلفِ چلیپا، قید اور تلنگن وغیرہ سے ہیں۔ چند مثالوں سے اس کی وضاحت مناسب ہو گی۔ ان کی نظم مشرق کے یہ حصے ملاحظہ ہوں :

جہل، فاقہ، بیماری، نجاست کا مکان

زندگانی، تازگی، عقل و فراست کا مسان

وہم زائیدہ خداؤں کا، روایت کا غلام

پرورش پاتا رہا ہے جس میں صدیوں کا جذام

جھڑ چکے ہیں دست و بازو جس کے اس مشرق کو دیکھ

اس کے بعد وہ مشرق کے فرسودہ سماجی نظام کو کوڑھ اور ایسی بے گور و کفن لاش سے تشبیہ دیتے ہیں جو مغربی چیلوں کا لقمہ ہے۔ ایسی مسلسل رات بتاتے ہیں جس کی صبح نہیں اور پھر پیغام دیتے ہیں :

اس زمینِ موت پروردہ کو ڈھایا جائے گا

اک نئی دنیا، نیا آدم بنایا جائے گا

مخدوم کی اس قسم کی نظمیں جو بہ راہِ راست ہیں، مقصدی نظمیں ہیں۔ یہ اکہری ہیں اور ان میں خطابت شدید اور پیغام بالکل واضح ہے۔ ادبی معیار کے اعتبار سے ان کا شمار اعلیٰ پایے کی نظمو ں میں نہیں کیا جاتا۔ ان کے مقابلے میں مخدوم کے شاعرانہ جوہر ان نظموں میں کھلتے ہیں جہاں انھوں نے مظاہر فطرت کو استعارہ بنا کر اپنا مقصد بیان کیا ہے۔ ان نظموں میں ایک کیفیت اور جذبہ ہے جو قاری کو حقیقت کا ادراک اس طرح کراتا ہے کہ وہ غصے یا جوش خروش کے بجائے ایک اداسی کی کیفیت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ اندھیرے میں امید کی کرن دکھاتا ہے، موہوم سا اشارہ کرتا ہے بہتر مستقبل کی جانب۔ غیر حقیقی امیدیں نہیں بندھاتا، کوئی بلند بانگ نعرہ نہیں لگاتا۔ ایسی عمدہ نظموں میں اندھیرا، چاند تاروں کا بھی، قید، چارہ گر وغیرہ شامل ہیں۔ نظم ’’اندھیرا‘‘ میں مخدوم نے اندھیری رات کے آسمان کو گداگر کے کٹورے سے تعبیر کیا ہے جس میں چمکتے ہوئے چاند تاروں کو بھیک میں ملے سکوں کے مانند بتایا ہے۔ پھر وہ اسی بھیک کے نور سے چمکتے ہوئے آسمان کے نیچے واقع ہونے والے انسانیت سوز حادثات، استحصال، ظلم و ستم، جنگ اور قتل و غارت پر بچوں اور ماؤں کے نوحوں اور فریاد کی جانب توجہ دلاتے ہیں لیکن یہ امید بھی رکھتے ہیں :

رات کے ماتھے پہ آزردہ ستاروں کا ہجوم

صرف خورشید درحشاں کے نکلنے تک ہے

رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

رات کے پاس اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں

نظم ’’قید‘‘ کا ڈکشن، جو انھوں نے چنچل گوڑہ جیل میں لکھی، خوب صورت تشبیہوں، استعاروں اور لفظی رعایتوں سے تیار کیا گیا ہے۔ مثلاً ’’قید‘‘ میں جھلملا جاتی ہے انفاس کی لو، جاگ اٹھتی ہے میری شمع شبستانِ خیال‘‘ وغیرہ ہمیں فیض کے ڈکشن کی یاد دلا جاتے ہیں۔ تین بندوں پر مشتمل اس نظم میں ہر بند کے آخر میں لگتا ہے کہ نظم ختم ہو گئی، ہر بار اینٹی کلائمکس ہوتا ہے اور اگلے بند میں نظم پھر سے ایک نئے خیال کے ساتھ اٹھتی ہے مثلاً:

سیکڑوں لاکھوں عوام

سیکڑوں لاکھوں قدم

سیکڑوں لاکھوں، دھڑکتے ہوئے انسانوں کے دل

جبر شاہی سے غمیں، جور سیاست سے نڈھال

جانے کس موڑ پہ وہ دھم سے دھماکا بن جائیں

یہاں لگتا ہے کہ نظم ختم ہو گئی لیکن نظم پھر ایک الگ خیال، شاعر کا موقف پیش کرنے کے لیے یوں آگے بڑھتی ہے :

سالہا سال کی افسردہ و مجبور جوانی کی امنگ

طوق و زنجیر سے لپٹی ہوئی سو جاتی ہے

کروٹیں لینے میں زنجیر کی جھنکار کا شور

خواب میں زیست کی شورش کا پتا دیتا ہے

مجھ کو غم ہے کہ مرا گنجِ گراں مایۂ عمر

نذرِ زنداں ہوا

نذرِ آزادی زندانِ وطن کیوں نہ ہوا؟

شاعر کے دل کی یہ کسک، حالات کے آگے مجبوری کا غم، وطن کے لیے مر مٹنے کی حسرت قاری کو بھی شاعر کا ہم راہی بنا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ نظم کی ہیئت ہمیں اخترالایمان کی نظم ’’ایک لڑکا‘‘ کے در و بست کی یاد دلاتی ہے۔ ارفع ترین انسانی مقصد کو ذہن میں رکھ کر زیست کرنے کا رجائیت بھرا پیغام دونوں کے یہاں یکساں ہے۔

’’چارہ گر‘‘ مخدوم کی بہت مشہور نظم ہے، غالباً اس لیے بھی کہ ایک بے حد خوب صورت اور مقبولِ عام فلمی گیت کی صورت میں مشہور ہے۔۔۔

ایک چنبیلی کے منڈوے تلے

مے کدے سے ذرا دور، اس موڑ پر

دو بدن پیار کی آگ میں جل گئے

اس نظم میں عشق کے انسانی جذبے سے متعلق ایک بڑے مسئلے کو موضوع نظم بنایا گیا ہے۔ ازل سے ہی عشق کرنے والے لوگوں کا انجام یکساں ہوا ہے، مندر، مسجد اور مے کدے اس انجام کے گواہ ہیں۔ ان کے مسئلے کو کوئی مداوا نہیں۔ شاعر پوچھتا ہے :

یہ بتا چارہ گر

تیری زنبیل میں

نسخۂ کیمیائے محبت بھی ہے ؟

کچھ علاج و مداوے الفت بھی ہے ؟

یہ ’’چارہ گر‘‘ جو وقت بھی ہو سکتا ہے، خدا بھی۔۔۔ دراصل چارہ گر نہیں ہے بلکہ وہ جفا جو، سفلہ پور اور کینہ ساز ہے جو کبھی گردش، چرخ، تقدیر، کبھی اتفاقات و حادثات اور وقت کے جبر کی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے اور محبت کرنے والوں کو الم ناک انجام سے دوچار کرتا رہتا ہے، اس نازک و لطیف الم ناک کہانی کے لیے مخدوم نے زبان بھی اور اس کے لیے استعاراتی نظام بھی ویسا ہی نرم و نازک تشکیل دیا ہے تاکہ انجام کی الم ناکی کے تاثر کو زیادہ گہرا کر سکیں :

دو بدن

اوس میں بھیگتے، چاندنی میں نہاتے ہوئے

جیسے دو تازہ رو، تازہ دم پھول، پچھلے پہر

ٹھنڈی ٹھنڈی سبک رو چمن کی ہوا

صرفِ ماتم ہوئی

کالی کالی لٹوں سے لپٹ، گرم رخسار پر

ایک پل کے لیے رک گئی

مخدوم کی تخلیقی کاوشیں ان کی نظم ’’چاند تاروں کا بن‘‘ میں اپنے عروج پر نظر آتی ہیں۔ مخدوم نے اس نظم کی ذیلی سرخی لگائی ہے ’’آزادی سے پہلے، بعد اور آگے ‘‘ نظم کو ہم اسی ترتیب سے تین حصوں میں پڑھ سکتے ہیں کہ وطن کی آزادی کے لیے ہمارے جانبازوں نے کیا کیا قربانیاں دیں، اپنی جانیں ہنسی خوشی نچھاور کیں، اپنی خوشیاں، اپنی سرمستیاں اور بانکپن سب کچھ لٹا دیا لیکن تشنگی میں بھی سرشار رہے کیوں کہ ان کی نظروں کے سامنے عزم آزادی کی منزل تک پہنچنے کا تھا:

موم کی طرح جلتے رہے ہم شہیدوں کے تن

رات بھر جھلملاتی رہی شمع صبح وطن

رات بھر جگمگاتا رہا چاند تاروں کا بن

تشنگی تھی مگر

تشنگی میں بھی سرشار تھے

پیاسی آنکھوں کے خالی کٹورے لیے

منتظر مرد و زن

مستیاں ختم، مدہوشیاں ختم تھیں، ختم تھا بانکپن

لیکن یہ قربانیاں کیا رنگ لائیں ؟ آزادی ملی تو داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحر کی صورت میں :

رات کے جگمگاتے دہکتے بدن

صبح دم ایک دیوارِ غم بن گئے

خارزارِ الم بن گئے

رات کی شہ رگوں کا اچھلتا لہو

جوئے خوں بن گیا

آزادی کے بعد کا یہ دوسرا مرحلہ تھا جس میں خون کی ندیاں بہائی گئیں اور مکر و فریب کے پتلے کچھ امامانِ قوم نے اپنی سانپ جیسی زہریلی پھنکار سے صبح کی روشنی کا خون پی لیا۔ اس کو جلا کر خاک کر دیا۔ لیکن کیا ہم اس انجام کو قبول کر لیں ؟ کیا ہمت ہار بیٹھیں ؟ نہیں ! مخدوم شکست ماننے والوں میں سے نہیں ہیں۔ وہ دیکھتے ہی کہ سامنے صرف رات کی تلچھٹیں اور اندھیرا ہی نہیں ہے بلکہ اس سے پرے صبح کا کچھ کچھ اجالا بھی ہے جس کی روشنی میں آگے بڑھا جا سکتا ہے :

ہم دمو!

ہاتھ میں ہاتھ دو

سوئے منزل چلو

منزلیں پیار کی

منزلیں دار کی

کوے دلدار کی منزلیں

دوش پر اپنی اپنی صلیبیں اٹھائے چلو!

نظم میں صوتی آہنگ ہے اور کچھ حروف کی تکرار سے موسیقی اور نغمگی پیدا کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ساخت اور نظم کے فنی تقاضوں اور لوازم کے اعتبار سے بھی یہ نظم زیادہ پختہ ہے۔

یہ تمام مثالیں جو یہاں پیش کی گئیں ان موضوعات پر مشتمل ہیں جو مخدوم کے مقاصد کے قریب ہیں اور جن سے مخدوم کو عمر بھر سروکار رہا۔ ان موضوعات کو اور ان میں پیش کردہ انداز کو مخدوم کا غالب انداز اور غالب رنگ بھی کہا جا سکتا ہے لیکن یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ مخدوم کے ہاں محبت اور عشق کا رنگ پھیکا ہے۔ اپنی بہت سی نظموں کا موضوع مخدوم نے عشق کو بنایا ہے۔ ان کی نظموں کی محبوبہ زمینی محبوبہ ہے جو اردو کے دوسرے شاعروں کی محبوباؤں کے برخلاف ہر صعوبت میں، ہر مشکل راہ میں، اپنے آدرش کی جانب مرد کی ہم قدم ہے۔ وہ محبوبہ بھی ہے اور ایکٹوسٹ بھی۔

ہر طرف پھیلی ہوئی ہے چاندنی ہی چاندنی

جیسے وہ خود ساتھ ہیں، ان کی جوانی ساتھ ہے

مخدوم کی شاعری کا محبوب فیض کے تصورِ محبوب سے کس قدر مختلف ہے جس میں اپنی ذمے داریوں اور معاشرتی صورتِ حال سے آگاہ مرد اپنی محبوبہ سے معذرت تو طلب کرتا ہے کہ:

اب بھی دل کش ہے ترا حسن مگر کیا کیجیے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے

مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ

لیکن اپنی محبوبہ سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم بھی خود آگاہی اور عرفان کی منزل حاصل کرو اور اسی راہ کی راہی بن جاؤ جس پر تمھارا عاشق گامزن ہے ! مخدوم کے نزدیک تو زندگی عشق اور کام دونوں کو ساتھ ساتھ نباہنے کا نام ہے۔ وہ دونوں میں سے کسی کو ادھورا نہیں چھوڑنا چاہتے۔ ان کے ہاں فرہاد عاشق بھی ہے اور مزدور بھی۔۔۔ اور مخدوم دونوں ہی کو سرخ رو دیکھنا چاہتے ہیں :

الہٰی یہ بساطِ رقص اور بھی بسیط ہو

صدائے تیشہ کامراں ہو، کوہکن کی جیت ہو

مخدوم کی شاعری کے یہ وہ سروکار ہیں جن کو ہم ان کی فکری پرواز، ان کی تربیت، ان کے اشتراکی نصب العین اور آدرشوں کی عطا بھی کہہ سکتے ہیں اور بلند انسانی اقدار کا نمائندہ بھی۔ مخدوم کی شاعری کا دوسرا رخ خالص عشقیہ جذبات کی ترجمانی سے متعلق ہے جس پر الگ سے تفصیلی گفتگو درکار ہے، طوالت کے سبب اس مضمون میں ان کی شاعری کے اس رخ پر گفتگو کی گنجائش نہیں۔ البتہ یہ کہنا ضروری ہے کہ اس سے پہلے کہ مخدوم کے عشقیہ اشعار، ان کی نظموں میں عشق کی مختلف کیفیتوں کا بیان اور جذبات کی شدت لوگوں کو ان کے آدرشوں کے منافی لگے اور اس سے پہلے کہ:

جو چھو لیتا میں اس کو وہ نہا جاتا پسینے میں

جیسے طرزِ اظہار پر لوگ مخدوم کی فکر و شاعری کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کریں یا اس کا کوئی نفسیاتی تجزیہ کرنے لگیں، ہمیں مخدوم کے اس بیان کو ذہن میں رکھنا چاہیے جس میں وہ انسان، بلکہ مکمل انسان کی تصویر کچھ یوں پیش کرتے اور فنونِ لطیفہ سے اس کا رشتہ معین کرتے ہیں :

’’سماج کے بدلنے کے ساتھ ساتھ انسانی جذبات اور احساسات بھی بدلتے جاتے ہیں، مگر جبلتیں برقرار رہتی ہیں۔ تہذیب، انسانی جبلتوں کو سماجی تقاضوں سے مطابقت پیدا کرنے کا مسلسل عمل ہے۔ جمالیاتی حس انسانی حواس کی ترقی اور نشوونما کا دوسرا نام ہے۔ اگر انسان کو سماج سے الگ چھوڑ دیا جائے تو وہ ایک گونگا وحشی بن کر رہ جائے گا جو اپنی جبلتوں پر زندہ رہے گا۔ فنونِ لطیفہ انفرادی اور اجتماعی تہذیب نفس کا بڑا ذریعہ ہیں جو انسان کو وحشت سے شرافت کی بلندیوں پر لے جاتے ہیں۔

شاعر اپنے گرد و پیش کی دنیا اور دل کی دنیا میں مسلسل کشمکش اور تضاد پاتا ہے۔ یہی تضاد تخلیق کی قوتِ محرکہ بن جاتا ہے۔

کہہ سکتے ہیں کہ مخدوم کی شعری کائنات کو سمجھنا ہو، ان کے تخلیقی سروکاروں کی درجہ بندی کرنی ہو تو مخدوم کے مذکورہ بالا بیان کو مشعلِ راہ بنانا چاہیے۔ اس سے ہم نہ صرف یہ ان کے کلام کے تنوع اور رنگا رنگی کو سمجھ سکیں گے بلکہ اس کی تہہ داری پیچیدگی کی بھی معنی آفرینی کر سکیں گے۔

 

٭٭٭

 

 

 

احسن علی مرزا

 

غم زدو تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے

 

 

مخدوم۔۔۔ ’’تھا‘‘ آدمی بجائے خود ایک محشر خیال۔

مخدوم کو، لوگوں نے جن مختلف زاویوں سے دیکھا اور ان کی شخصیت کے بارے میں ہر شخص نے جو رائے قائم کی، وہ اکثر صورتوں میں مختلف و متضاد سی نظر آتی ہے۔ گوپی چند نارنگ انھیں ’’مطرب انقلاب‘‘ قرار دیتے ہیں۔ پروفیسر مسیح الزماں ’’کر دار کا غازی‘‘ کہتے ہیں۔ ظ۔انصاری نے انھیں ’’حدی خواں ‘‘ کا نام دیا۔ جوگندر پال سے وہ ’’معصوم بزرگ‘‘ کے روپ میں ملے۔۔۔ لیکن سب سے زیادہ پتہ کی بات تو واجدہ تبسم نے کہی ہے۔۔۔ ’’م سے محبت سے مخدوم‘‘ محبت، مخدوم کی شخصیت کی تعمیر میں بنیاد کا پتھر بن گئی تھی اور اسی نے انھیں، راج بہادر گوڑ کے الفاظ میں ’’کلچر کے شیدائیوں کے لیے میوزیم، دانش وروں کے لیے لائبریری اور انقلابیوں کے لیے اسلحہ خانہ کا روپ دے دیا تھا۔‘‘ اس ہمہ گیر ہستی میں جو بہ ذاتِ خود ایک انجمن تھی، آخر وہ کیا جادو تھا کہ جس نے ’’سردار جعفری‘‘ کو مخدوم کی وفات کے بعد یہ لکھنے پر مجبور کر دیا کہ ’’مخدوم کے بعد، حیدرآباد میں دھرا ہی کیا ہے کہ کوئی وہاں آئے۔‘‘

کچھ لوگ، مخدوم کی وفات کے بعد چھا جانے والے سناٹے میں، بھانت بھانت کی آوازیں نکال کر، اپنے وجود کو منوانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن اس کے لیے بھی، انھیں مخدوم سے ’’جھوٹ موٹ‘‘ کی قربت کا سہارا لینا پڑا ہے۔ کسی برگد کے سایہ میں بیٹھ کر کسی نہ گزری ہوئی رات کی، کوئی سڑی گندی داستاں سنا کر، وہ اپنی آلائش ذہن کو مخدوم سے ربط و اتصال کی ایک کڑی قرار دینا چاہتے ہیں۔۔۔ لیکن اس ہذیاں سرائی کے پس پردہ محرکات نے، مخدوم کے ان نام نہاد دوستوں کا بھرم کھول دیا۔

مخدوم کی کتاب زندگی کا پہلا صفحہ، حیدرآباد کی طغیانی کے اس دور سے شروع ہوتا ہے جب کہ اس شہر کے مطلق العنان حکم ران نے بھی ہزاروں انسانوں کی نعشوں کو غضب ناک موسی کی سطح پر بے کسی کے عالم میں تیرتا دیکھ کر اگلے وقتوں کے بزرگوں کے بیان کے مطابق اپنے ہاتھی کو بھی پانی میں اتار دیا تھا۔ شاید موسیٰ کی ان ہی طوفانی روایات سے مخدوم کا خمیر گوندھا گیا تھا۔ حسب نسب کے اعتبار سے مخدوم کے جدا علیٰ آنحضرت صلعم کے مشہور صحابیوں میں شامل تھے۔ دادا رشید الدین صاحب اورنگ زیب کی فوج کے ساتھ اعظم گڑھ سے حیدرآباد آئے اور یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ انھوں نے ضلع میدک میں سکونت اختیار کر لی۔ مخدوم کے ہم نام ان کے پردادا، جناب مخدوم محی الدین صاحب حیدرآباد کے بہت اچھے قاریوں میں شمار کیے جاتے تھے۔ مخدوم کے والد جناب غوث محی الدین صاحب تعلقہ اندول میں تحصیل کے صیغہ دار تھے۔ لیکن مخدوم کی پیدائش کے چار سال بعد ہی ان کا انتقال ہو گیا اور ان کے چچا جناب بشیر الدین صاحب نے مخدوم کی کفالت اور پرورش کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہ بھی تحصیل ہی کے صیغہ دار تھے لیکن ترقی کرتے کرتے تحصیل دار بن گئے تھے۔ مخدوم کی ابتدائی تعلیم میدک اور سنگاریڈی میں ہوئی۔ مخدوم صاحب کے بچپن کے دوست جناب ظفرالحسن کے الفاظ میں جو اب پاکستانی بن گئے ہیں۔ سنگاریڈی میں ان بچوں میں شامل تھے جو سڑکوں پر لوہے کا پہیہ گھمانے والے کم عمر لڑکوں پر حقارت کی نظر ڈالتے ہوئے اپنے سے بڑے عمر کے لڑکوں کے ساتھ تالاب کو تیر کر جایا کرتے تھے۔

جناب داؤد اشرف، جنھوں نے مخدوم پر ریسرچ کر کے ایم۔اے کی ڈگری لی ہے، اپنے تحقیقاتی مقالہ میں لکھتے ہیں کہ مخدوم کا گھرانہ بے حد مذہبی واقع ہوا تھا۔ صوم صلوۃ کی پابندی کے علاوہ مخدوم کو نمازیوں کے لیے وضو کا پانی بھرنا اور مسجد میں جاروب کشی بھی کرنا پڑتا تھا۔ پڑھائی لکھائی کے بعد شام میں مخدوم اپنے چچا کی نگرانی میں خوش نویسی اور خطاطی کی مشق کرتے۔ چچا صاحب مذہبی اور پابند شرع ہی نہیں مساوات اور اخوت کے اصولوں کے بھی زبردست حامی تھے۔ تحریک خلافت کے وہ پُر جوش موید رہے ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کی خبر انھوں نے ایک دن دسترخوان پر بیٹھ کر اپنے تمام افراد خاندان کو سنائی اور بتایا کہ اب وہاں امیر و غریب کا فرق ہٹ گیا اور سبھی ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھاتے ہیں، مخدوم کو یہ بات عجیب سی لگی اور وہ سوچتے رہے کہ سب لوگوں کو ایک دسترخوان پر کھانا کھلانے کے لیے اس ملک میں کتنا بڑا دسترخوان بنایا گیا ہو گا۔

مخدوم صاحب کی ابتدائی تعلیم قرآن خوانی گلستان و بوستان سے شروع ہوئی۔ ۱۹۲۹ء میں انھوں نے سنگاریڈی ہائی اسکول سے میٹرک کا امتحان کامیاب کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ چیلہ پورہ کے مدرسہ شبینہ سے انھوں نے منشی کے امتحان میں بھی امتیازی کامیابی حاصل کی اور اسی سال یعنی ۱۹۲۹ء میں جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لیا۔ انٹرمیڈیٹ میں دینیات کے استاد جناب مناظر احسن گیلانی سے ہر وقت کے بحث مباحثہ کی بنا پر انھیں دینیات کی کلاس سے نکال دیا جانے لگا اور دینیات کی جماعتوں میں حاضری کی کمی کی وجہ سے وہ امتحان میں بیٹھ نہ سکے۔ حیدرآباد میں جس رشتہ دار کی سرپرستی میں مخدوم تعلیم حاصل کر رہے تھے اس سے وہ رضاکارانہ طور پر دست بردار و دست کش ہو گئے اور ٹیوشن سے طعام و قیام کے اخراجات کی تکمیل کرنے لگے۔ اس سلسلہ میں انھیں ایک نواب صاحب کی اینگلو انڈین محبوبہ کو انگریزی میں نامہ ہائے محبت بھی تحریر کرنے پڑتے تھے۔ دو تین مہینوں تک سابق ریاست حیدرآباد کے محکمہ ملکی و مال میں تھرڈ گریڈ کی کلرکی بھی کی۔ اخبارات میں کام کیا۔ ہاکر بن کر، اس وقت کی فلم اسٹاروں کی عریاں تصاویر کو بھی فروخت کیا۔ دن بھر محنت و مشقت اور حصولِ علم میں گزرتا اور رات میں اپنے دوست نورالہدیٰ کے ساتھ سلطان بازار کی ہری مسجد میں رہتے لیکن بذلہ سنجی اور زندہ دلی نے آزمائش و امتحان کے اس مرحلہ پر بھی ان کا ساتھ نہ چھوڑا۔ مخدوم نورالہدیٰ میر حسن اور اشفاق حسن اور اشفاق حسین یہ ایک ایسے مربع کی شکل اختیار کر گئے تھے جس کے اندر غم و اندوہ کے لیے کوئی جگہ نکلنی مشکل تھی۔ جمال الدین کے لطیفوں اور پیلا دوشالہ کا خالق مخدوم دنیا کو دار المحن نہیں سمجھتا تھا۔

’’جس طرح کوئی نئے نئے الفاظ تلاش کرتا ہے۔ اس طرح مخدوم بھی نئے نئے لطیفے گھڑتے۔ جہاں بیٹھتے ایک لطیفے بنا دیا۔ جس نے بلایا کسی نہ کسی لطیفہ کی فرمائش کی۔ مخدوم کو حاضرین و سامعین کی ضرورت تھی اور انھیں وہ ٹھوک بھاؤ ملنے لگے۔ لڑکے تفریح چاہتے تھے اور مخدوم نے لطیفوں کے انبار لگا دیے۔ مخدوم کا کاروبار ایسا چمکا کہ سبحان اللہ۔ عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ پہلے محفل سجتی ہے، پھر شمع محفل پیدا ہوتی ہے۔ جامعہ میں اس کے برعکس ہوا پہلے مخدوم چراغ با اور اس کی کرنوں سے محفل بعد میں سجی، چھوٹے بڑے گروپ بننے لگے اور ان میں مخدوم کا ذکر ہونے لگا۔ مخدوم سے پہلے جامعہ میں سماجی جمود تھا اور یہ جمود مخدوم نے توڑا‘‘۔

مخدوم نے ڈرامے لکھے، اسٹیج کیے، ہیرو کا رول ادا کیا اور اس فن میں بھی کمال فن کا ایسا مظاہرہ کیا کہ گرو دیو ٹیگور بھی جو ان کے ایک ڈرامہ کے خصوصی دیکھنے والوں میں شامل تھے، ان کی ذہانت اور اداکاری سے متاثر ہو کر اسٹیج پر چلے آئے اور انھیں شانتی نکیتن میں شرکت کی پیش کش کی۔ جہاں تک مخدوم کی شاعری کا تعلق ہے اس کا آغاز ۱۹۳۳ء میں کہی گئی مزاحیہ نظم ’’پیلا دوشالہ‘‘ سے ہوتا ہے جو شائع تو کہیں نہیں ہوئی، لیکن ہر محفل میں فرمائش کر کے سنی جاتی تھی۔ ان کی پہلی نظم جناب مجنون گورکھپوری کے رسالہ ایوان ۱۹۳۴ء میں ’’طور‘‘ کے زیر عنوان شائع ہوئی۔

انٹرمیڈیٹ کے امتحان میں نہ بٹھائے جانے کے دور ہی میں جناب مخدوم پر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ انھیں ۴۸ گھنٹوں تک بھوکا رہنا پڑا۔ جب ضبط و تحمل کا پیمانہ جھلک اٹھا تو یہ اپنے ایک رشتہ کے چچا کے گھر پہنچ گئے اور وہاں ان کی لڑکی کے اصرار پر انھوں نے اسی کے ہاتھ کی بنائی ہوئی روٹیاں کھائیں اور چھ سات گھنٹوں تک اسی گھر میں سوتے پڑے رہے۔ یہی لڑکی بعد میں ان کی رفیقہ حیات بنی۔ زندگی بھر وہ اس خاتون کا احترام کرتے رہے اور اپنے بڑے لڑکے نصرت محی الدین کے مطابق اپنے بچوں سے کہا کرتے تھے ’’اس خاتون نے میرے اور تمھارے لیے بڑے دکھ جھیلے ہیں، اس کا دل سے احترام کرو۔‘‘

اپنی بیوی کے اسی روپ نے ان کی شاعری کو ’’لذتی شاعری‘‘ سے تیز رکھا راج کی یہ رائے بالکل درست ہے کہ ’’مخدوم کی رومانی شاعری بھی ان کی زندگی کے بلند نصب العین کے تابع رہی۔ وہ داغ کی طرح مٹی کی بھی ملے تو روا ہے شباب میں ‘‘ کے قائل نہ تھے۔ ان کو ایسی خلوت معصوم درکار تھی۔ جس پر طور کو رشک ہونے لگے۔‘‘

مخدوم ادب و شعر ہی کے راستہ محنت کشوں کی ہمہ گیر تحریک میں داخل ہوئے۔ چناں چہ ۱۹۳۶ء میں انھوں نے ہی حیدرآباد میں جناب سبط حسن، اختر حسین رائے پوری اور ڈاکٹر جے سوریا کے اشتراک و تعاون سے انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد ڈالی اور اپنے خلوص، معیار، شعر اور ذہانت و فراست کی بنا پر اس کل ہند ادبی تنظیم کے صف اول کے رہنماؤں میں شمار ہونے لگے۔ ۱۹۴۵ء میں وہ اپنی صاحب زادی اساوری کے ساتھ فرنڈس آف سوویت یونین کی کانفرنس میں شرکت کے لیے ممبئی گئے اور اس موقعہ پر سروجنی دیوی نے ان سے اور ان کی صاحب زادی سے گاندھی جی کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا ’’یہ میرا بیٹا ہے اور یہ لڑکی میرے بیٹے کی بیٹی ہے ‘‘ اس سے پہلے ہی ۱۹۳۰ء میں وہ سروجنی دیوی کی قیام گاہ گولڈن تھرش ہولڈ‘‘ میں پنڈت نہرو بھی متعارف ہو چکے تھے۔

قاضی عبدالغفار صاحب کے بیان کے مطابق بالآخر ’’مخدوم کی زندگی میں وہ وقت بھی بہت جلد آ گیا جب کہ اس نے اپنے بربط کے نغمہ پرور تاروں سے انگلی ہٹا لی اور اسے شعر و ادب کی لذتوں سے رو گردان ہو کر زندگی کے ویرانوں میں قدم رکھنا پڑا۔ اس نے اپنے نغمہ کو لذتوں کی بے پناہ کشاکش میں اس طرح منتقل کر دیا کہ اس کی شاعری کی روح کتابوں کے اوراق کی پابندیوں سے آزاد ہو گئی‘‘ ۔۱۹۳۹ء میں مخدوم کا تقرر سٹی کالج میں بہ حیثیت استاد اردو عمل میں آ چکا تھا۔ اس وقت تک مخدوم کی نظمیں حیدرآباد کی ہر محفل میں سنائی دینے لگی تھیں اور ایک نظم ’’انقلاب‘‘ پر تو علمائے کرام نے کفر کا فتویٰ بھی صادر فرمایا تھا۔ مخدوم نے دو سال تک سٹی کالج میں کام کیا۔ لیکن اس دوران ان کے سیاسی عقائد میں پختگی آنے لگی تھی۔ ان کی سیاسی مصروفیات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔کالج کے بعض گوشوں سے دبی دبی آواز میں یہ شکایت بھی کی جانے لگی کہ ’’مخدوم‘‘ اپنی جماعتوں میں اشتراکیت کا پرچار کیا کرتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر انھوں نے ۱۹۴۱ء میں ملازمت سے استعفیٰ پیش کر دیا۔ مخدوم جن دنوں قید ملازمت سے آزاد ہوئے، ریاستِ حیدرآباد میں اشتراکیت تو بڑی بات ہے جمہوریت اور آزادی کا نام لینا گناہ سمجھا جاتا تھا مجلس اتحاد المسلمین کا اثر بڑھتا جا رہا تھا اور انا الملک کے گم راہ کن نعرے کے ذریعہ باور کرانے کی کوشش کی جا رہی تھی کہ ظلِ سبحانی، اسلامی اقتدار کے مظہر ہیں اور ان کے مقابلہ میں جمہوریت و آزادی کے نعرے لگانے والے اسلام کے دشمن ہیں۔ احتساب و رجعت پسندی کے اس صبر آزما ماحول میں جے سوریا، اختر حسن رائے پوری، سبط حسن اور جے وی نرسنگ راؤ نے مارکسٹ اسٹیڈی سرکل کی بنیاد رکھی۔ اسی اثنا میں ڈاکٹر راج بہادر گوڑ، احسن علی مرزا اور ابراہیم مرحوم نے کامریڈز  اسوسی ایشن کے قیام کا اعلان کیا۔ دوسری طرف کامریڈ روی نارائن ریڈی، اپنے ایک گروپ کے ساتھ مصروف عمل تھے۔ یہ سب ایک دوسرے کی سرگرمیوں سے لاعلم اور ناواقف تھے۔ تاہم کسی نہ کسی طرح ان کو ایک دوسرے سے قریب ہونے کا موقعہ ملا اور مخدوم کامریڈ ایسوسی ایشن کے روحِ رواں بن گئے اور عثمانیہ یونی ورسٹی کے جونیر طلبا کے قائم کردہ اسی ادارہ نے ۱۹۳۹ء میں کمیونسٹ پارٹی کی شکل اختیار کر لی اور کل ہند کمیونسٹ پارٹی سے الحاق عمل میں آیا۔ آندھرا مہاسبھا میں جو ایک خالصتاً تہذیبی اور ثقافتی تنظیم تھی کامریڈ روی نارائن ریڈی اور کامریڈ مخدوم کے اثر کمیونسٹ تحریک کو آگے بڑھانے کا ذریعہ بن گئی اور تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کے آغاز میں اس جماعت نے نمایاں حصہ لیا۔ ۱۹۴۲ء میں مخدوم نے پارٹی کی ہدایت کے مطابق ریلوے ورکرس یونین میں کام شروع کیا اور جلد ہی اس کے چیف وائس پریسیڈنٹ منتخب ہوئے۔ اس سے پہلے ہی مخدوم کے سرکاری ملازمت سے استعفیٰ کے بعد انھیں بغاوت کے الزام میں گرفتار کر کے تین ماہ کی قید کی سزا دی جاچکی تھی اور اپنی رہائی کے بعد ہی سے انھوں نے مزدوروں کو منظم کرنے کا کام انتہائی جوش و خروش سے شروع کر دیا تھا۔ چناں چہ ۱۹۴۵ء میں انھوں نے ٹریڈ یونین خطوط پر بٹن مزدوروں کی پہلی تنظیم قائم کی اور اس کے پرچم تلے پہلی مرتبہ حیدرآباد کی مطلق العنان حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرایا چند ہی مہینوں کے اندر مخدوم نے اپنی کاوش و کوشش سے برتی مزدوروں، بلدی مزدوروں، کوئلہ کے کان کنوں اور دیگر محنت کش طبقات کی ۴۲ ٹریڈ یونین قائم کیں۔

جن لوگوں کو اس وقت کی ریاست حیدرآباد کے حال و ماحول کا اندازہ ہے، وہ محسوس کر سکتے ہیں کہ ان حالات میں مزدوروں اور محنت کش طبقات کو منظم اور مائل بہ عمل کرنے کے لیے کس دل گردہ کی ضرورت تھی۔ مخدوم نے ایک ایسے معاشرہ کی تشکیل کی تمنا میں جو محنت کے استحصال کو گوارہ نہ کر سکے۔ دنیا بھر کی مشقتیں جھیلیں اور ۱۹۴۵ء میں آل حیدرآباد ٹریڈ یونین کانگریس کا سالانہ اجلاس منعقد کرانے میں کامیاب رہے۔ حکومتِ حیدرآباد نے اگرچہ کہ اس اجلاس کے انعقاد کی اجازت دے دی تھی لیکن جلسہ کے دوران ہی مخدوم کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ چلایا گیا۔ عدالت سے مخدوم رہا کر دیے گئے اور قانونی وار و گیر کی اس منزل کو کامیابی سے طے کرنے کے بعد انھوں نے پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور لگن کے ساتھ ٹریڈ یونین تحریک میں حصہ لینا شروع کیا۔ اکتوبر ۱۹۴۶ء میں وہ سمنٹ فکٹری کے مزدوروں کے حالات کی چھان بین کے لیے شاہ آباد گئے ہوئے تھے کہ انھیں وہیں پر اپنے وارنٹ گرفتاری کی خبر ملی اور وہ روپوش ہو گئے چناں چہ ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۱ء تک مخدوم روپوش رہے اور اس دور میں ان کی صعوبتوں کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی لڑکی اساوری اور ان کا لڑکا نصرت دونوں ہی انھیں والد کے بجائے چچا کہنے لگے تھے۔ تاکہ اس وقت کی انتقام جو حکومتیں مخدوم کی محنت کش طبقہ سے والہانہ محبت کی پاداش میں مخدوم کے ان بچوں کو بھی ظلم زیادتی کا ہدف نہ بنائیں۔

روپوشی کے اس دور نے مخدوم کے کر دار اور اس کی شخصیت کو کافی نکھارا اور اپنی استقامت کر دار کی بنا پر وہ ان گھروں میں بڑی توقیر اور بڑے ہی احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے رہے جن میں انھوں نے پناہ لی تھی۔ روایت پسند، بے شعور اور غیر سیاسی گھرانوں کے بڑے بوڑھے بھی، ان کی ہم دردی و دل سوزی سے متاثر ہو کر اپنے آپ کے خطرہ میں گھر جانے کے احساس سے بے نیاز ہو کر ان کی حفاظت کیا کرتے تھے۔ اسی اثنا میں انھوں نے تلنگانہ کی مسلح جدوجہد کی رہنمائی بھی کی۔ پولیس ایکشن کے بعد بھی یہ جدوجہد جاری رہی، مارچ ۱۹۵۱ء میں مخدوم جب حیدرآباد پہنچے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا اور آزاد ہندستان کے پہلے چناؤ سے کچھ ہی قبل انھیں ۱۹۵۲ء میں رہا کر دیا گیا۔ کانگریس کے مقابلہ کے لیے بائیں بازو کے بعض گروہوں اور افراد پر مشتمل عوامی جمہوری محاذ تشکیل دیا گیا۔ مخدوم محاذ کے ٹکٹ پر اسمبلی اور پارلیمنٹ دونوں ہی کے امیدوار نامزد کیے گئے۔ لیکن کانگریس کی دھاندلیوں کی وجہ سے مخدوم کو اپنی بے پناہ مقبولیت کے باوجود کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ البتہ ضمنی چناؤ میں وہ حضور نگر کے حلقہ سے سابق حیدرآباد اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ قیام آندھراپردیش کے بعد وہ ۱۹۵۶ء قانون ساز کونسل میں کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار بنے اور اپنی اچانک وفات تک کونسل میں کمیونسٹ گروپ کے قائد رہے۔

٭٭٭

 

تشکر:پروفیسر رحمت یوسف زئی، جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید