FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

جوئے لطافت

 

 

 

 

ابوالفرح ہمایوں

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

اپنے والد محترم ابو ظفر زین

اور

اپنی بیگم کے والد مولانا اسد القادری

کے نام!

 

جن کو ہماری تربیت اور حوصلا افزائی کے لیے بہت کم وقت ملا، لیکن وہ جاتے جاتے یہ ذمہّ داری اپنی بہو اور بیٹی یعنی ہماری بیگم (ٹو اِن وَن) کو سونپ گئے، جسے وہ اب تک انتہائی خوش اسلوبی سے سر انجام دے رہی ہیں۔

یہ ثابت کر دیا بنا کر تجھ کو دست قدرت نے

کہ ہو سکتی ہیں اک انسان میں اتنی خوبیاں یکجا

آغا حشر کاشمیری

 

 

جوئے لطافت

 

راغب مراد آباد ی

 

ابو الفرح، لائے ہیں جوئے لطافت

کریں کیوں نہ ہم گفتگوئے لطافت

 

یہ انشایئے آپ، اک بار پڑھیے

کہ ہوں محرم رنگ د بوئے لطافت

 

’’ہمایوں ‘‘ ابوالفرح کا لاحقہ ہے

مگر ہے رُخ اس کا بھی سوئے لطافت

 

مصّنف کی ہے نثر، پاکیزہ دل کش

اسی سے تو ہے آبروئے لطافت

 

پڑھیں گے جو ’’جوئے لطافت‘‘ کو راغب!

کریں گے ضرور آرزوئے لطافت

٭٭٭

 

 

 

 

فرح کے والد

 

اطہر شاہ خان

 

ابو الفرح کا نام جس قدر مُفرّحِ قلب ہے۔ ایسے ہی ان کی تحریر بھی مقوّیِ قلب ہے۔ اِن کا پورا نام ہے ’’ ابو الفرح ہمایون‘‘ اور فرح ان کے نام میں کیوں شامل ہے۔ اِس کے لیے ہمیں جدید لُغاتِ اردو دیکھنا پڑی جس میں فارسی لفظ ’’فرح‘‘ واضح طور پر مونّث لکھا ہے، اور بتایا گیا ہے کہ اِس کا مطلب ہے ’’خوشی، شادمانی‘‘۔

 

اِن کا نام ابو الفرح ہونے کے بارے میں جو تحقیق کی گئی ہے اُس کے مطابق بہت سی روایات میں سے ایک پر اکثر غیر مُستند راوی متفق ہیں کہ جب یہ پیدا ہوئے تو رونے کی بجائے کِھلِکھلا کر ہنسے تھے اور ہنستے ہی رہے تھے۔ جب یہ حیرت انگیز واقعہ اِن کے والد محترمہ تک پہنچا تو اُنھیں ایسی فرحت ہوئی کہ جوشِ مسّرت میں اُنھوں نے ان کا نام فرح رکھ دیا۔

 

لیکن لیڈی ڈاکٹر کا ماتھا ٹھنکا۔ اُس ماہر لسانیات نے بتایا کہ فرح تو بہت نسوانی نام ہے اور نومولود خاصہ لڑکا لڑکا سا ہے۔ اس لیے والدِ محترم نے گھبرا کر فرح کے ساتھ احتیاطاً ’’ابو‘‘ کا اضافہ کر دیا اور یوں ہمارے زیر غور مُصنّف ابو الفرح عُرف ہمایوں کے نام سے مشہور و مقبول ہوئے۔

 

ابو الفرح یعنی خوشی اور شادمانی کے ابا ہونے کا بھرم اُنھوں نے اِس طرح رکھا کہ مزاح کو ہمیشہ کے لیے حِرزِ جاں بنا لیا۔

 

ابتداء میں ابو الفرح نے مزاحیہ شاعری بھی کی لیکن شاعروں کے منّت سماجت کرنے اور نقاّدوں کے ہاتھوں اقدامِ قتل سے محفوظ رہنے کے لیے مزاحیہ شاعری سے رُخ موڑ کر نثر کی طرح آئے اور مزاحیہ نثر میں ایسے جھنڈے گاڑے کہ آج ان کی کتاب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔

 

نثر کی طرف ابو الفرح کا فِطری میلان ہے اور یہی اِن کا اصلی میدان ہے، اگرچہ اِن دِنوں بہت سے مزاح نگار مزاح کے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں لیکن ابو الفرح ہمایوں کا اپنا الگ ہی انداز ہے۔

 

کہیں کہیں ان کے کچھ مضامین خبروں پر تبصروں کی وجہ سے اخباری کالم بنتے بنتے بال بال بچے ہیں لیکن اِن کے بیشتر مضامیں کے بنیادی خیالات بالکل اچھُوتے ہیں مثلاً اِن کا ایک مضمون ’’کھجلی‘‘ کے بارے میں بھی ہے اور اِس معمولی اور روز مرّہ سی بات کو مزاح میں لا کر اُنھوں نے قہقہوں کا بھرپور سامان کر دیا ہے۔

 

کئی دوسرے مضامین میں بھی موضوعات بالکل سامنے کے ہیں لیکن اُنھوں نے نوکِ قلم سے لفظوں کو یوں گدگدایا ہے کہ قاری کے لبوں پر بھی تبسّم بکھیر دیتے ہیں۔ کہیں کہیں یہ طنز سے بھی کام لیتے ہیں مگر اِن کا طنز دل آزاری کا سبب نہیں بنتا۔

 

مجھے ابو الفرح ہمایوں کے مزاح میں جو بات بہت اچھی لگی وہ یہ ہے کہ اِن کے ہاں ’’آورد‘‘ نہیں بلکہ آمد ہی آمد ہے یہ مزاح پیدا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کرتے بلکہ مزاح خود بخود تولّد ہو جاتا ہے اور یہ ہی ادبی تحریر کی خُوبی بھی ہے کہ اُسے ٹیسٹ ٹیوب بے بی نہیں ہونا چاہیے۔

 

٭٭٭

 

 

ہم بہت اچھّے ہیں!

 

انور احمد علوی

 

ابو الفرح ہمایوں ایک سیدھے سادے اور بے ضرر قسم کے انسان ہیں ، حالاں کہ نام سے وہ کسی عرب کے شہزادی معلوم ہوتے ہیں۔ قطعِ نظر اِس کے کہ اِس قسم کے نام رکھنے والے آج کل ’’قاعدے‘‘ کی روسے گرفتار کیے جار ہے ہیں ، اُن کی تحریر سے کسی کو کوئی ضرور پہنچنے کا اندیشہ نہیں! وہ اتنے سیدھے ہیں کہ کئی ادبی تقاریب میں شریک ہوئے، مگر کسی کو بھنک تک نہ پڑنے دی کہ وہ بھی ہاتھ میں کلام رکھتے ہیں کلام رکھتے ہیں۔ شاید یہ سمجھتے ہوئے کہ:

 

شرکتِ انجمنِ ناز ضروری ہے، مگر

ہم پسِ سایۂ دیوار بہت اچھے ہیں

کوثر قریشی

 

وہ 19 جولائی 1946ءکو بروز جمعہ پٹنہ (بہار) میں پیدا ہوئے۔ ہمایوں نے بقول قُن کے چودہ برس کی عمر میں لکھنا شروع کیا، جو عام بچے چار پانچ سال کی عمر میں سیکھ لیتے ہیں! بی اے تک تعلیم حاصل کی۔ اور وہ بھی کراچی تا لاہور براستہ سرگودھا یعنی میٹرک لاہور سے، ایف اے سرگودھا سے اور بی اے کراچی سے۔ لگتا ہے کہ اُن کے والدِ محترم ابو ظفر زین بھی ہمارے والد کی طرح ایمان دار آدمی تھے، جو ملازمت کے دوران اتنی جگہوں پر گھمائے گئے!

 

دادا نے اُن کا نام ابو الفرح رکھا تھا اور والد نے ہمایوں فرّح۔ بعد میں جب آگے چل کر یہ کیا ہو جائے گا، اِس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بس یہ دعا ہے کہ ’’فرح ہمایوں ‘‘ نہ ہو۔۔۔۔! ہماری چھوٹی بچّی حفصہ کو ہمایوں صاحب کا نام سن کر حیرت ہوئی کہ یہ کیسا نام ہے۔ ہم نے اُسے بتایا کہ یہ اُن کا قلمی نام ہے جو انھوں نے اپنی بچّی کے نام کی مناسبت سے بنایا ہے۔ تو وہ افسردہ سی ہو کر بولی، ’’ابّو۔۔۔۔ پھر آپ نے اپنا نام ’ابو الحفصہ‘ کیوں نہیں رکھا!‘‘

 

ہمارے ہاں اکثر مزاح نگار، خصوصاً شاعر، یہ سمجھتے ہیں کہ ’لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں کر سکتی‘ لیکن ہمایوں نے اپنی بے کثافت تحریروں سے ہی جلوہ پیدا کر کے دِکھایا اور کسی کا دل نہیں دُکھایا۔ وہ ہلکے پھلکے موضوعات پر قلم اٹھا تہ ہیں اور عام فہم الفاظ سے کام چلاتے ہیں۔ جہاں رکشے سے کام چل سکتا ہو، وہاں خواہ مخواہ ٹریکٹر سڑک پر نہیں لاتے! البتہّ مضامین میں کہیں کہیں فارسی زبان کا ایک آدھ بر محل شعر ضرب المثل استعمال کر جاتے ہیں ، جو اُن کی تحریر کو مزید نکھار بخشتا ہے۔ ہمایوں ایک اوریجنل رائٹر معلوم ہوتے ہیں ، کیوں کہ ملک سے باہر رہنے کے باوجود نہ تو کسی انجمن یا اکادمی نے پاکستان آمد پر اُن کی پذیرائی کی اور نہ اب تک کسی ادبی جریدے نے اُن کا خصوصی نمبر نکالا۔۔۔۔!

 

میر صاحب زمانہ نازک ہے

دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار

 

شروع میں اُنھوں نے فلمی رسالوں اور ڈائجسٹوں کے لیے مضامین لکھے۔ پھر فلم سے علم کی طرف توجہّ راغب ہوئی تو ادبی رسالوں کی طرف رجوع کیا۔ اور اِس طرح ایک عرصے میں جو نام کمایا تھا، اُس پر خود ہی پانی پھیر دیا! اِس لیے ہمایوں کا نام زیادہ بدنام نہ ہو سکا۔ بدنام ہونا ہی کوئی بڑا ادیب یا شاعر ہونے کی کسوٹی بھی نہیں۔ بڑے بڑے جغادری، جن کی تصویریں اور بیانات سال ہا سال اخباروں میں شائع ہوتے ہیں ، الیکشن میں عموماً مار کھاجا تے ہیں۔ اِسی طرح جو اہلِ قلم ادبی رسائل میں اشتہار کی قیمت میں اپنی نگارشات کے لیے صفحات مختص کرواتے ہیں ، وہ بازار میں پٹ جاتے ہیں ، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ہمایوں صاحب بازار میں مار نہیں کھائیں گے۔ اِن کے گھر کی گارنٹی البتہّ ہم نہیں دے سکتے۔۔۔۔!

 

٭٭٭

 

 

دیر آید درست آید

 

شوکت جمال

 

 

میرے برادرِ بزرگ ابو الفرح ہمایوں ، جو ویسے بھی ایک بزرگ ہیں اور کسی حد تک باریش بھی، کی پہلی تصنیف ’’جوئے لطافت‘‘ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کتاب بہت دیر میں آئی ہے۔ لیکن بقولِ شاعر ہوئی تاخر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا۔ فکرِ معاش، فکرِ فردا اور فکر معاشرہ وغیرہ نے ایک عرصے تک اِنھیں ملک بدر کیے رکھا۔ دوسرے مصروفیات کی وہ سے اِس طرفہ جو توجہ دی جانی چاہیے تھی، وہ نہ دی جا سکی۔ بہر حال دیر آید درست آید کے مصداق یہ کام بھی اَلحَمدُ اﷲِ سر انجام پاہی گیا۔

 

پاکستان سے باہر رہنے کی وجہ سے میں نے کتاب کا مسوّدہ نہیں دکھا، اِس لیے اِس کتاب پر ’’سیر حاصل‘‘ تبصرہ کرنا ممکن نہیں ہے۔ ویسے بھی چھوٹا بھائی ہونے کے ناتے میرا کچھ کہنا ایسا ہی ہے جیسے من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو۔

 

ابو الفرح ہمایوں صاحب کے کئی مضامیں جو میں مختلف معیاری رسائل و جرائد میں پڑھتا رہا ہوں ، کافی دلچسپ لگے ہیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ اِن ’’گلہائے پریشان‘‘ کو یکجا کر کے ایک شگفتہ اور تر و تازہ گلدستے کی صورت میں پیش کرنے کی اِس کوشش کو اہلِ ذوق ضرور سرا ہیں گے۔

٭٭٭

 

 

پدرِ شادمانی!

 

کلیم چغتائی

 

ہمیں معلوم نہیں کہ ہمارے دوست ہمایوں فرّخ کے والدین نے اِن کا نام ’’ہمایوں فرّخ‘‘ کیوں رکھا۔ شاید اِن کی ولادت پر اِن کے والدین کو معمول سے زیادہ مبارک باد موصول ہوئی ہو، چنانچہ بچّے کا نام ’’ہمایوں فرّخ‘‘ رکھ دیا گیا، یعنی مبارک مبارک! واضح رہے کہ ہمایوں اور فرّخ دونوں ہم معنی ہیں ، یعنی مبارک، مسعود، البتہّ ’’فرّخ‘‘ میں ایک مفہوم خوب صورتی کا بھی ہے۔

 

ہمارا خیال ہے کہ کسی اور کا خیال ہو یا نہ ہو، خود ہمایوں صاحب کا یہ خیال ضرور ہو گا کہ اُن کی شخصیت میں ’’فرّخ‘‘ کا یہ آخر الذ کّر مفہوم بہت نمایاں ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ہمایوں صاحب کی بیگم نے اِن کے اِس خیال سے ’پر زور اختلاف کیا یا کسی اور نے، بہر حال پُر اسرار وجوہ کی بنا پر ہمایوں فرّخ صاحب نے اپنا نام ’’ابو الفرح ہمایوں ‘‘ رکھ لیا۔

 

سب ہی جانتے ہیں کہ ’’فرح‘‘ سے مراد، خوشی اور شادمانی ہے، چنانچہ ابو الفرح کا مطلب ہوا ’’پدرِ شادمانی‘‘۔ سلیس اردو میں اِسے ’’خوشی کا باپ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ ہمایوں صاحب چوں ’’فرح‘‘ کے نام سے ایک بیٹی ’’تصنیف کر چکے ہیں ‘‘ اِس لیے اِنھیں خود کو ’’ابو الفرح ہمایوں ‘‘ کہلوانے کا پورا حق حاصل ہو گیا ہے۔

 

ہمایوں صاحب اپنے حلیے اور گفتگو سے کسی بھی طرح مزاح نگار محسوس نہیں ہوتے لیکن کمال یہ ہے کہ اُن کے لہجے میں جو دائمی غنودگی سننے والے کو ملتی ہے، اِسے اُن کی تحریروں میں ڈھونڈنے بیٹھیں تو ناکامی ہو گی۔ اُن کی تحریریں چوکس اور بیدار ہوتی ہیں اور قاری کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتی ہیں۔

 

ہم جیسے لوگوں کے لیے، جن کا نقطۂ ضعیف(WEAK POINT) مزاح ہے، یہ خبر مفرّحِ قلب ثابت ہوئی کہ ابو الفرح ہمایوں صاحب ’’جوئے لطافت‘‘ لا رہے ہیں۔ ہم بے اختیار کہہ اٹھے:

 

ہے گرم خبر! بہنے لگی جوئے لطافت

شاید کہ ہماری بھی مٹے جوعِ ظرافت

 

ہمایوں صاحب نے ہمیں بھی از راہِ عنایت جوئے لطافت میں ’’غوطہ زنی‘‘ کی دعوت دی۔ ہم نے دعوت قبول کر لی۔ اندازہ ہوا کہ ’’جوئے لطافت ہے۔ ہمایوں صاحب نے اِسے ابتذال، پھکڑ پن اور بے مقصد باتوں کی کثافت سے محفوظ رکھا ہے:

 

خوبی یہ ہمایوں کی صد لائقِ تحسین

تحریر میں ڈھونڈے سے ملے گی نہ رکاکت

 

ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ ہمایوں صاحب میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں جو فرہاد میں نہیں تھیں۔ وہ ’’جوئے لطافت‘‘ لے کے آئے ہیں جو یقیناً جوئے شیر لانے سے زیادہ مشکل کام ہے۔

ہمایوں صاحب کا مزاح ستھرا مزاح ہے اور گواہی دیتا ہے کہ اِسے کسی معقول آدمی نے لکھا ہے۔ وہ ایسا مزاح تخلیق نہیں کرتے جس کے ساتھ لکھنا پڑے: ’’یہ مزاحیہ تحریر ہے‘‘ بلکہ قاری اِن کی تحریر کا مطالعہ شروع کرتے ہی اپنی طبیعت میں فرحت و انبساط محسوس کرتا ہے۔

 

ہمایوں صاحب کا مزاح پولیسٹر کپڑے کی طرح ہے جسے دکان دار ’’سکسٹی فائیو، تھرٹی فائیو‘‘ کہہ کر فروخت کرتے ہیں۔ ہمایوں صاحب کی تحریر میں مزاح سکسٹی فائیو پرسنٹ اور طنز تھرٹی فائیو پرسنٹ ہوتا ہے۔ اُن کے مزاح کی بُنائی گتھی ہوئی اور مضبوط ہوتی ہے اور سانٹ کوئی نظر نہیں آتی۔ ہمایوں صاحب کا مزاح بار بار دھلنے (یعنی بار بار پڑھنے) سے خراب نہیں ہوتا۔ رنگ پھیکے نہیں پڑتے اور رُواں نہیں نکلتا۔

 

گو کہ ہمایوں صاحب بھی دیگر مزاح نگاروں کی طرح اپنی تحریروں میں ایسے مسکین، صابر اور مظلوم شوہر نظر آتے ہیں جو اپنی زن کے نقوشِ پر گامزن رہتا ہے، لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمایوں صاحب نے بجا اپنا ہی مذاق اُڑا کر خود کو کامیاب مزاح نگار ثابت کیا ہے:

 

دیکھیں تو ذرا ہمّتِ عالی ہے مثالی

اپنی ہی بنا لیتے ہیں د ل کھول کے درگت

 

وہ محض شوہروں کی جانب سے نالہ و فریاد تک محدود نہیں رہے بلکہ اُنھوں نے ایک اچھّے شوہر کی طرح اپنی بیگم کو بالو واسطہ طور پر کچھ مشورے بھی دیے ہیں کہ کھانوں میں ’’تنوّع‘‘ کیسے لایا جا سکتا ہے۔ یہ مشورے آپ اِس کتاب میں ’’آج کیا پکائیں ‘‘ کے زیرِ عنوان ملاحظہ فرما سکتے ہیں۔

 

ہمایوں صاحب پُر لطف تحریروں کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ اُنھوں نے بڑے انہماک سے ’’عروسِ ظرافت‘‘ کو سنوار نے کی کوشش کی ہے۔ چناں چہ اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے:

 

مشاطگیِ زلفِ ظرافت کا ہے چسکا

گویا کہ بناتے ہیں فلم سے یہ حجامت

 

ہمایوں صاحب نہ ’’شوہریات‘‘ سے ہٹ کر بھی چند موضوعات پر قلم اٹھایا ہے، مثلاً ’’سیلز ڈاگ‘‘، ’’ایک ایڈیٹر کا خط‘‘، ’’تندرست بننے کے طریقے‘‘ وغیرہ۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض کھانوں ہی میں نہیں ، مزاح میں بھی تنوّع کے قائل ہیں۔

 

ہمایوں صاحب نے اپنی کتاب کا نام ’’جوئے لطافت‘‘ رکھا ہے۔ اِس سے ایک طرف تو اُن کی منکسر المزاجی ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اپنی کتاب کو ’’جو‘‘ سے زیادہ وسع و عمیق نہیں سمجھتے، دوسری طرف یہ نام اِن کے عزائم کی طرف اشارہ بھی کر رہا ہے کہ اِن کی اگلی کتابیں علی الّترتیب ’’دریائے لطافت‘‘، بحیرۂ لطافت‘‘ اور’’ بحرِ لطافت‘‘، کے ناموں سے منظرِ عام پر آسکتی ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سب سے آخر میں ہمایوں صاحب اپنی ایک کلّیات مرتّب کریں جس کا نام ’’سیلابِ لطافت‘‘ رکھا جا سکتا ہے! واضح رہے کہ موجودہ دور کے شعرا اور مصنّفین اپنی کلّیات خود ہی مرتّب کرنے کے قائل ہو گئے ہیں۔ مبادا بعد میں کسی کو اِس کا خیال نہ آئے، اِس لیے دانائی یہی ہے کہ اپنی کلّیات شائع شدہ حالت میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لی جائے۔

 

اگرچہ ہمایوں صاحب کسی تحریر کے آخر میں ’’برائے ایصالِ ثوابِ مصنّف‘‘ درج نہیں ہوتا، لیکن ہمیں یقین ہے کہ ان کی ہر شگفتہ تحریر اِن کے ثواب میں مسلسل اضافہ کروا رہی ہو گی۔ و اﷲ اعلم بالصّواب! آخر میں ہمایوں صاحب کے لیے ایصالِ ثواب کی دعا کے ساتھ ساتھ یہ کہنے کو جی چاہتا ہے کہ

 

ہے اپنی دعا، بہتی رہے جوئے لطافت

اور لائے ہمایوں کے لیے رفعت و عزّت

 

٭٭٭

 

 

یہ منہ اور۔۔۔۔۔ پیش لفظ

 

ابو الفرح ہمایوں

 

بچّوں کی شادیوں سے فراغت حاصل کرنے کے بعد ہماری بیگم بالکل بے غم ہو چکی ہیں۔ اُن کے پاس ہماری تحریریں پڑھنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ کبھی کبھی تھوڑا سا چارہ ہمیں بھی ڈال دیتی ہیں شاید اب ہم چار یعنی گھاس کھانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ کیا آپ بھی تھوڑی سی گھاس ہمارے سامنے ڈال سکتے ہیں ؟

 

ہم نے اپنی پوری کوشش کر ڈالی ہے کہ ہماری کہانیاں اور نیم فرضی واقعات پڑھ کر آپ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی ایک یا دو یا تین۔۔۔۔ رمق نمودار ہو جائے۔ ہم اپنی اِس کوشش میں کہاں تک کامیاب ہیں ، یہ تو آپ کے رائے موصول ہونے کے بعد ہی معلوم ہو گا۔ آپ کی تنقید یقیناً ہمارے لیے باعثِ افتخار ہو گی اور مستقبل میں کام آئے گی۔ شکریہ۔

 

مجھ کو آمادۂ اصلاح وہ کرتے ہیں جلیل

کتنے اچّھے ہیں جو مجھ کو بُرا کہتے ہیں

(جلیل قد وائی)

 

 

اظہارِ تشکّر

 

ہمارا نام روشن کرنے کی سازش میں مندرجہ ذیل نورتن شریک ہیں۔ اِن کی ایک مشترکہ خوبی یہ ہے کہ وہ ہماری تحریروں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی کرنے میں بے حد فراخ دل واقع ہوئے ہیں :

 

جناب شجاع الدّین غوری    جناب شوکت جمال

ڈاکٹر عابد معز                   سیّد حسن عسکری طارق

جناب سعد عبداﷲ ندوی       جناب ابتصار قادری

سیّد ابو آصف                     جناب انور احمد علوی

 

نویں جناب کلیم چغتائی صاحب ہیں ، جنھوں نے اپنا خاصا قیمتی وقت ضائع کر کے کتاب کی زیب و زینت میں چار چاند لگا دیے۔ محاورے کے مطابق چار سے زیادہ چاند لگائے بھی نہیں جا سکتے۔ شروع میں بھی اِس سے زائد کی اجازت نہیں ہے، لہٰذا ہم نے چغتائی صاحب کے بعد کسی اور کو زحمتِ اصلاح نہیں دی!

 

ابو الفرح ہمایوں

B-33نوید کاٹچز، گلستانِ جوہر، کراچی

 

 

باتیں ہماری بیگم کی

 

لڑکیاں بمقابلہ مرغیاں!

 

ہمارے برابر والے گھر میں لڑکیوں اور مرغیوں کی بہتات تھی۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ وہاں لڑکیاں زیادہ تھیں ، یا مرغیاں! بہر حال دونوں کے دم سے خوب رونق تھی۔ پڑوسن دن بھر باری باری دونوں پر برستی رہتیں ، کبھی کبھی تو دونوں کا ایک ساتھ ہی حشر نشر کر دیتیں۔ اُن کی ڈانٹ ڈپٹ کا انداز دونوں کے لیے تقریباً ایک جیسا ہوتا تھا، کچھ پتا ہی نہ چلتا تھا کہ وہ اپنی لڑکیوں کو ڈانٹ رہی ہیں یا مرغیوں پر غصہّ اُتار رہی ہیں۔ ہماری بیگم، جو اُن کی زبان سے بالکل ناواقف ہیں ، ایک دن انتہائی معصومیت سے بولیں :

’’کیا اِن لوگوں کے ہاں لڑکی اور مرغی کے لیے ایک ہی لفظ بولا جاتا ہے؟ حالاں کہ دونوں میں خاصا فرق ہے!‘‘

’’ہاں فرق تو ہے دونوں میں لڑکی، لڑکی ہے اور مرغی، مرغی۔‘‘ ہم نے ایک تجاہلِ عارفانہ کے ساتھ جواب دیا۔

’’جب فرق ہے، تو یہ فرق الفاظ سے ظاہر کیوں نہیں ہوتا؟ میں نے کئی بار سنا ہے کہ پڑوسن جو لفظ مرغیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں ، وہی لفظ اپنی لڑکیوں کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اُن کی زبان کچھ زیادہ وسیع نہیں ہے۔ اِس میں ایک ایک لفظ کے کئی کئی معنی ہوتے ہوں گے۔‘‘

’’ارے نہیں بھئی! ایسی بات نہیں ہے۔ یہ زبان تو نہایت بلیغ زبان ہے۔ یہاں تک کہ بعض اوقات اس زبان کی کسی کہاوت یا لطیفے وغیرہ ہے کا اُردو زبان میں ترجمہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔۔۔۔ اگر کر بھی دیا جائے تو اصل لطف باقی نہیں رہتا۔ شاید آپ نے غور نہیں کیا، لڑکی اور مرغی میں ایک کاف کا فرق ہے۔ مرغی میں ایک کاف زیادہ ہے!‘‘

’’یہ تو بڑی عجیب سی بات ہے۔ اگر ایک کاف زیادہ ہے تو وہ لڑکیوں میں ہونا چاہیے، بلکہ کئی کاف زیادہ ہونے چاہییں ، کیوں کہ لڑکیاں تو اشرف المخلوقات ہوتی ہیں۔‘‘

ہم نے کچھ جواب دینے کے بارے میں سوچا لیکن پھر خاموش ہو گئے

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں!

٭٭٭

 

 

اور بتاؤں۔۔۔۔۔۔!

 

سبزی والا آج کئی دنوں کے بعد ہماری کالونی میں آیا تھا۔ خواتین نے آتے ہی اُسے گھیر لیا اور چّلا چّلا کر اپنی اپنی پسند کی سبزیاں طلب کرنے لگیں۔ سبزی والے کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے اور وہ بڑی مشّاقی کے ساتھ ہر ایک کو اُس کی ضرورت کی چیزیں تول تول کر دیتا جا رہا تھا۔ بیگم صاحب بھی اپنے کوارٹر کے دروازے پر کھڑی دیکھ رہی تھیں کہ کب سبزی والا فارغ ہو اور وہ اُسے بلاکر سبزی خریدیں۔ خدا خدا کر کے سبزی والے نے ارد گرد کھڑی خواتین کو بھگتایا اور بیگم صاحب کے سامنے حاضر ہو گیا۔

’’کون کون سی سبزیاں ہیں تمھارے پاس؟‘‘

بیگم صاحب نے بڑے رعب سے دریافت کیا۔

’’ادرک، لہسن، آلو، پیاز، ٹماٹر، گوبھی، بھنڈی اور۔۔۔۔۔ بتاؤں۔‘‘

سبزی والے نے تمام سبزیوں کے نام گنوا دیے۔

وہ سبزیوں کی فہرست سن کر یکدم خاموش سی ہو گئیں۔ اُدھر سبزی والا اِس انتظار میں رہا کہ بیگم صاحب کچھ ارشاد فرمائیں تو وہ اُن کی پسند کی چیزیں تو لے۔ خاموشی کے یہ لمحات سبزی والے پر بڑے گراں گزر رہے تھے۔ جب معاملہ اُس کی برداشت سے باہر ہو گیا تو اُس نے بڑی لجاجت سے عرض کیا:’’بیگم صاحبہ! حکم کیجیے، کیا کیا تول دوں ؟‘‘

بیگم صاحبہ یکا یک چونکیں اور غصّے سے بولیں ، ’’تم نے کہا تھا ناں کہ اور بتاؤں۔ ہم اِس انتظار میں ہیں کہ تم اور بتاؤ تم فیصلہ کریں۔‘‘

سبزی والا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور بڑ بڑا نے لگا کہ میں نے تو سب کچھ بتا دیا، اب اور کیا بتاؤں ، مگر پھر فوراً ہی اُس کے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا اور وہ ایک بینگن کو دُم سے پکڑ کر لہراتے ہوئے بولا: ’’بیگم صاحب! یہ ہے بتاؤں۔‘‘

بیگم صاحبہ، کچھ جھینپ سی گئیں اور کھسیانی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں :’’لاؤ یہی دے دو۔‘‘

٭٭٭

 

 

حیوان صاحب!

 

ہمارے دفتر کے ایک ساتھی اعوان صاحب ایک دن کہنے لگے، ’’یار سنا ہے آپ لوگ کڑھی بڑی اچھی بناتے ہو۔ کسی دن ہمیں بھی کھلاؤ نا۔‘‘ ہم نے اُن سے وعدہ کر لیا کہ جلد ہی آپ کو دعوت میں بلائیں گے۔ گھر آ کر بیگم صاحبہ کو بتایا کہ ہمارے ایک دوست اعوان صاحب نے کڑھی کی فرمائش کی ہے تو اُنھوں نے اِسی وقت انتہائی فراخ دلی سے آنے والے اتوار کو کڑھی بنانے کا اعلان کر دیا۔ ہم نے اُن صاحب کو اطلاع دے دی کہ اپ آئندہ اتوار کو کھانا، بلکہ کڑھی ہمارے ساتھ کھائیے گا۔ اتوار کی صبح بیگم صاحبہ تمام لوازمات لے کر بیٹھ گئیں اور کڑھی بنانے کی تیاری شروع کر دی۔ اِس دوران ایک پڑوسن یونہی ٹہلتے ہوئے ہمارے گھر آ دھمکیں اور دعوت کی تیاری دیکھ کر بے ساختہ بولیں :

بیگم صاحب آگ دہکاتے ہوئے بولیں : ’’آج کوئی ’حیوان صاحب‘ آنے والے ہیں۔ اُنہوں نے اِن سے کڑھی کی فرمائش کی تھی (پھر چند لمحے توقّف کے بعد بڑے معصومانہ انداز میں بولیں ، ’’بہن! کیا انسانوں میں بھی ’حیوان‘ ہوتے ہیں۔۔۔۔؟‘‘

پڑوسن یہ سوال سن کر بہت حیران ہوئی کہ کہیں یہ پاگل تو نہیں ہو گئی ہے، مگر پھر اپنی تسلّی کی خاطر دوبارہ پوچھا:

’’کیا مطلب ہے تمھارا؟ کیا تم کسی حیوان کو دعوت پر بلا رہی ہو؟‘‘

’’اُنھوں نے تو یہی کہا تھا کہ کوئی حیوان صاحب کھانے پر آ رہے ہیں۔‘‘

اب پڑوسن سمجھ گئی کہ بیگم صاحبہ کو سننے اور سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے۔ اُس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور اُنھیں بتایا کہ ہمارے ہاں پنجاب میں ’’اعوان‘‘ ایک اونچی ذات ہے۔ یہ سن کر بیگم صاحب کھسیانی سی ہوئیں۔

’’مجھے بھی تمھارے ہاتھ کی کڑھی بے حد پسند ہے، میرا حصہّ نکال کر رکھ دینا، میں خود آ کر لے جاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ واپس چلی گئی۔

٭٭٭

 

 

باہر شیر بیٹھا ہوا ہے۔۔۔۔۔۔؟

 

 

’’میں ذرا پڑوس میں جا رہی ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بیگم لپک جھپک کر باہر کو چلیں ، لیکن فوراً ہی اُلٹے قدموں لوٹ آئیں۔ واپسی کہ وجہ پوچھی تو کہنے لگیں کہ باہر شیر بیٹھا ہوا ہے، سوچا اُس کے لیے کچھ لے لوں۔ ہم بے اختیار ہنس پڑے۔ شیر کو اگر سالم آپ مل جائیں تو اُسے بھلا اور کیا چاہیے۔ ہم نے دل میں سوچا۔ لیکن ہمارے خیالات و جذبات سے بے خبر اُنھوں نے جلدی جلدی شلوار قمیص کا ایک نیا جوڑا اٹھایا اور دھڑ سے باہر نکل گئیں ، جیسے شیر کو آدمیت کے جامے میں لانے کا ارادہ ہو۔

’’اب تک شیر اپنا فرض بخیر و خوبی نبھا چکا ہو گا۔‘‘ یہ سوچ کر اپنے جذبۂ تجسّس کے تحت ہم باہر نکل آئے، مگر وائے حسرت۔۔۔۔! دیکھا تو شیر محمد چوکیدار اپنی تین ٹانگ والی کرسی پر بڑے ٹھسّے سے بیٹا ہوا تھا اور بیگم صاحبہ بڑی خوش مزاجی کے ساتھ اُس کا حال احوال پوچھتے ہوئے اُسے شلوار قمیص کا تحفہ پیش کر رہی تھیں۔ ہمیں شیر محمد پر رشک آنے لگا۔۔۔۔۔۔!

٭٭٭

 

 

خرباش، شوہر مباش!

 

ہماری رہائش گاہ کے عقب میں فٹ پاتھ پر کئی ٹھلیے والے سبزیاں اور پھل فروخت کرتے ہیں۔ شام کے وقت یہاں ہر چیز ذرا سستی مل جاتی ہے۔ اوروں کی طرح ہم بھی یہاں سے اکثر کچھ خریداری کر لیتے ہیں۔ ایک دن چند رشتہ داروں کی دعوت کا پروگرام بنا۔ بیگم کہنے لگیں کہ چلیے ذرا دعوت کے لیے کچھ پھل اور سبزیاں لے آتے ہیں۔ ہم نے تھلیے اٹھائے اور چلنے کو تیار ہو گئے۔ بیگم صاحب نہ ہر ٹھیلے اولے سے کچھ نہ کچھ خریدا اور کسی کو مایوس نہیں کیا۔ یہ تمام سامان ہماری ہی جانِ ناتواں پر بار کیا گیا تھا۔ سامنے چند گدھے مستیاں کر رہے تھے۔ اُنھیں دیکھ کر ہمیں بھی مستی سوجھی اور ہم نے یوں ہی چھیڑ خانی کی خاطر بیگم سے کہا کہ آپ نہ خوب خریداری کی ہے، اب بار برداری کے لیے ایک عدد گدھا بھی خرید لیجیے۔ یہ سن کر وہ ایک شرارت آمیز نگاہ ہے ہماری جانب دیکھ کر مسکرانے لگیں۔۔۔۔۔!

٭٭٭

 

 

 

ادبی ذوق

 

 

کسی جیب تراش نے ہماری جیب پر ہاتھ صاف کر دیا۔ رقم کُل چھ سو روپے تھی۔ بیگم کو جب ہم نے اطلاع دی تو اُنھوں نے انتہائی خشمگیں نگاہوں سے گھورا اور بڑے طنز میں ارشاد کیا:

’’آپ بڑے لاپروا ہیں۔ بھلا ایسی اچھی خاص رقم جیب میں رکھنے کی کیا ضرورت تھی؟ کل سے بس دس بیس روپے رکھا کیجیے اور بس۔‘‘

ہم نے دیکھا کہ چھ سو روپے کی خطیر رقم غائب ہو جانے پر وہ بے حد دل شکستہ تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تیر نے لگے۔ ہم سے یہ دل گداز منظر دیکھا نہ گیا اور آہستہ سے غم زدہ لہجے میں کہا: ’’بیگم شکر کیجیے کہ وہ صرف چھ سو روپے تھے چھ ہزار نہیں۔‘‘

وہ ایک دم سے پھٹ پڑیں اور ہماری طرف یوں گھور کر دیکھا جیسے ہم نے کوئی انتہائی احمقانہ بات کہہ دی ہو: ’’کیا مطلب؟ یعنی چھ سو گنوا کر بھی دل نہیں بھر اور اب چھ ہزار گنوانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ پیسے کہاں گنوا کر آئے ہیں۔ میں بھی دیکھتی ہوں کہ آپ اِتنی رقم لے کر باہر کیسے نکلتے ہیں۔‘‘

ہم نے ان کی کڑوی کسیلی باتوں کو نظر انداز کر کے خوش دلی سے مسکراتے ہوئے کہا: ’’جو چلا گیا اُس پر کفِ افسوس ملنے کے بجائے صبر و شکر ادا کریں کہ بہت زیادہ باقی بچ گیا ہے۔ اِس نکتۂ نظر کو اگر آپ تسلیم تو ایک روحانی خوشی محسوس ہو گی۔ دل کو اطمینان رہے گا۔ فرض کر لینے میں کیا حرج ہے۔ کیا آپ کو وہ شعر یاد ہے؟ پہلا مصرع تو ہمیں بھی یاد نہیں ، دوسرا یہ ہے ’’دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘

’’ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن‘‘ پہلا مصرع سنا کر بیگم کا چہرہ کھل اٹھا۔ اپنی سخن فہمی کا رعب ہم پر ڈال کر وہ بے حد خوش نظر آنے لگیں : ’’ یہ بہادر شاہ ظفر کا شعر ہے۔ کیا بات ہے ظفر کی، لیکن تھا بے چارہ بڑا بدنصیب۔ واﷲ! کیا غضب کا شعر ہے:

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے

’’آپ کی بات کچھ کچھ سمجھ میں آتی جا رہی ہے۔ آج سے میں ہر نقصان صبر و شکر کے ساتھ برداشت کرنے کی عادت ڈالوں گی۔ مگر ذرا یہ تو بتائیے آپ کو اتنی عقل مندی کی بات آخر سکھائی کس نے؟‘‘

اُنھوں نے بڑی شوخ نظروں سے ہماری طرف دیکھا۔ ہم شرمندہ سے ہو کر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئے اور اُن کو اپنے وعدے پر ثابت قدم رکھنے کے لیے عنایت علی خان کا ایک شعر لکھ کر سامنے دیوار پر چسپاں کر دیا:

بل دُگنا ہو کے آیا ہے تگنا نہیں ہوا

ہر بل کے ساتھ شکرِ خدا بھی ادا کریں

٭٭٭

 

 

میٹھی میٹھی باتیں

 

بائی پاس کا فیصلہ سنتے ہی بیگم صاحبہ کی آتش مزاجی میں کافی کمی آ گئی۔ دل بے حد گداز ہو گیا۔ گاہے بگاہے ہمیں اپنے پاس بلاتیں اور میٹھی میٹھی باتیں کرتیں۔ اکثر کہا کرتیں کہ آپ ہمارے بعد دوسری شادی کر لیجیے گا، ہمیں بھول جایے گا اور اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی رہیے گا۔ اُن کی یہ پیاری پیاری باتیں ہمیں بہت بھلی معلوم ہوتیں۔ جی چاہتا کہ وہ بس ایسی ہی اچھی اچھی باتیں کرتی رہیں۔ لیکن رسمِ دنیا نبھانے کے لیے ہمیں بھی اپنی آواز میں رقّت پیدا کرنی پڑتی اور ہم مصنوعی رندھی ہوئی آواز میں کہتے کہ خدا کے لیے ایسی باتیں مت کیا کرو۔ ابھی تو تمھارے ہنسنے کھیلنے کے دن ہیں۔ ویسے بھی تم اتنی جلدی جانے والی کہاں ہو۔ ان شاءاﷲ تم جلدی ہی ٹھیک ہو جاؤ گی وغیرہ۔ اگلی ملاقات میں وہ پھر یہی گفتگو لے کر بیٹھ جاتیں ، بلکہ اب تو اُنھوں نے نِت نئے مشورے بھی دینے شروع کر دیے تھے مثلاً:

آپ اُس عورت سے شادی کر لیجیے گا، جس کو آپ نے شادی سے پہلے چاہا تھا۔ ہم سے تو اچھی ہی ہو گی؟

(اور پھر حسرت زدہ نظروں سے ہماری طرف دیکھتیں ، گویا چاہتی ہوں کہ ہم تردید کر دیں اور جھوٹے منہ ہی کہہ دیں کہ نہیں ، وہ تو تمھاری جوتی کی خاک کے برابر بھی نہیں تھی)۔

وہ عورت کیسی رہے گی، جو دس سال قبل ہمارے پڑوس میں رہنے کے لیے آئی تھی۔

شروع شروع میں وہ ہم سے سلام دعا کرنے کبھی کبھار آ جایا کرتی تھی، لیکن جب اُسے پتا چلا کہ آپ کچھ لکھتے لکھاتے بھی ہیں تو وہ اپنے افسانوں کی اصلاح کے بہانے ذرا زیادہ وقت گزارنے لگی۔ رفتہ رفتہ اُس کا آنا اور باتیں کرنا آپ کو بھی اچھا لگنے لگا، اور پھر یوں ہوا کہ ایک دن اُس کے والد نے یہ محلّہ ہی چھوڑ دیا۔

ہماری ایک سہیلی ہے۔ بیوہ اور غریب ہے۔ بچے بھی نہیں ہیں۔ اُسے سہارے کی ضرورت ہے۔ آپ کے لیے بے حد موزوں رہے گی۔۔۔۔۔ کیا خیال ہے؟

غرض یہ کہ خوب خوب دل لگی کرتیں اور اِسی بہانے ہمارے دل کا حال بھی جاننے کی کوشش کرتیں۔

اچھا آپ خود ہی بتائیں کہ آپ کس سے شادی کریں گے؟ آپ کی نظر میں کوئی نہ کوئی تو ہو گی؟ ہمیں اُس سے ملوادیں۔ ہم اُس خوش نصیب عورت کو دیکھنا چاہتے ہیں جو کل کو ہماری جگہ لے گی۔

ہم یہ سب کچھ سن کر بس مسکرا دیا کرتے اور دل ہی دل میں سوچا کرتے کہ عورتیں تندرستی کی حالت میں ایسی من موہنی باتیں کیوں نہیں کرتیں۔

٭٭٭

 

 

کچھ اِدھر کی، کچھ اُدھر کی

 

نام میں کیا رکھا ہے

 

ایک رسالے کے مدیر کو ڈاک کے ذریعے ایک مضمون موصول ہوا۔ مضمون نگار نے اپنا نام مس دل نشین تحریر کیا تھا۔ خدا جانے یہ اُن کا اصلی نام تھا یا قلمی، یا پھر شاید کسی صاحب نہ دل لگی کی خاطر زنانہ نام اختیار کر کے ایڈیٹر اور قارئین کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مضمون کچھ لچر سا تھا جس کو ایڈیٹر صاحب نے خوب چٹخارے لے کر بار بار پڑھا اور پھر ’’ناقابلِ اشاعت ہے‘‘ کہ کر مسترد کر دیا۔ چند لمحوں بعد اُن کے ہونٹوں پر ایک معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور وہ اپنے مخصوص انداز میں گویا ہوئے، ’’اِس لڑکی کو اپنا نام لکھنے کی ضرورت کیا تھی۔ یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ ہر مس دل نشین ہوتی ہے!‘‘

٭٭٭

بچّے کتنے سچّے

 

ایک خاتون بڑے فخر سے اپنے بچّے کی ذہانت کا ذکر کر رہے تھیں۔ میرا بچّہ ہمیشہ اچھّے نمبروں میں پاس ہوتا ہے۔ استاد اُس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ گھر میں کوئی چیز ٹوٹ پھوٹ جائے تو خود ہی مرمّت کر لیتا ہے۔ نت نئے سوالات کرتا ہے اور ہر چیز کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ پھر اچانک ہی اُنھیں اس کی معصومیت اور سادگی کا بھی ایک واقعہ یاد آگیا۔ کہنے لگیں ، ایک جمعہ کو میں دیر تک سوتی رہ گئی۔ آنکھ ملتے ہوئے اٹھی،منھ ہاتھ دھویا اور اچانک یاد آیا کہ آج جمعہ ہے اور نماز کا وقت بالکل سر پر آن پہنچا ہے۔ بیٹا ابھی تک سو رہا تھا۔ میں نے جلدی جلدی اُسے اٹھایا اور نماز کے لیے جانے کو کہا۔ اُس نے ناشتا مانگا۔ میں نے کہا کہ یہ ناشتے کا وقت نہیں ہے۔ جلدی سے نماز پڑھ کر آؤ پھر ہم لوگ کھانا کھائیں گے۔ اُس نے کپڑے بدلے، وضو کیا اور نماز کے لیے چل پڑا۔ ابھی چند ہی قدم گیا تھا کہ یکدم وہ واپس پلٹا اور مجھ سے پوچھا، امّی۔۔۔۔۔ امّی۔۔۔۔ کیا نہار منھ جمعہ کی نماز ہو جاتی ہے!

٭٭٭

 

 

ڈاگ بردار

 

برِصغیر میں انگریز کی حکمرانی کا دور دورہ تھا۔ فارسی زبان ابھی متروک نہیں ہوئی تھی۔ ضلعے کا انگریز حاکم دورہ کرتے ہوئے ایک گاؤں میں جا نکلا۔ ایک دیسی نائب بھی اُس کے ہمراہ تھا، لیکن یہ دیسی صاحب انگریزوں سے زیادہ انگریز تھے، یعنی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار قسم کے افسر تھے۔ فارسی اور ہندی کو ذرا بھی خاطر میں نہ لاتے اور صرف انگریزی زبان کو ہی ترجیح دیتے۔ دیہاتی زمین دار نے جب دیکھا کہ بڑے صاحب دورے پر آئے ہوئے ہیں تو بہت خوش ہوا۔ اُس کا بڑا بھائی اُن دنوں بے روزگار تھا۔ زمین دار نے موقع غنیمت جانا اور صاحب کی خدمت میں عرض داشت پیش کی کہ حضورِ عالی، یہ میرے سگے برادرِ بزرگ ہیں۔ تھوڑا بہت پڑھے لکھے بھی ہیں۔ آپ میرے سگے برادر پر مہربانی کریں اور اِن کے لیے کسی چھوٹی موٹی نوکری کا بندوبست کر دیں۔ جناب، یہ میرے سگے برادر ہیں۔ بالکل سگے برادر۔ جناب عالی، میں آپ کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔ آپ کی بڑی نواز ہو گی حضور! میرے سگے برادر بھی آپ ہی کے غلام ہیں۔ وہ بھی آپ کے ممنون ہوں گے (نہ جانے اُس کے ذہن میں یہ خیال کیوں سما گیا تھا کہ سگے برادر کی گردان سن کر صاحب پیسج جائیں گے اور کام بن جائے گا) لیکن صاحب سگے برادر کی تکرار سن کر پیج و تاب کھانے لگے۔ اُن کی سمجھ میں نہ آیا کہ یہ سگے برادر کیا چیز ہے۔ وہ اپنے نائب کی طرف مڑے اور پوچھا،

’’وہاٹ از سگے برادر؟‘‘

نائب اِس اچانک افتاد سے پریشان ہو گیا۔ گھبراہٹ کے مارے وہ سگے کے اصل معنی ہی بھول گیا اور تھوک نکلتے ہوئے بولا: ’’ڈاک بردار! سر ڈاگ برادر! یہ آدمی اپنے ڈآگ برادر کے لیے کسی ملازمت کا بندوبست کرنے کے لیے کہہ رہا ہے۔‘‘

’’ڈاگ برادر! یہ کیا ہوٹا؟‘‘ صاحب کی سمجھ میں اب بھی کچھ نہ آیا اور وہ منھ ہی منھ میں کچھ بڑبڑاتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔

٭٭٭

 

کچھ لکھ دیجیے

 

ہمارے ملک میں تعمیراتی کمپنیوں کا دھندا بھی بلا روک ٹوک خوب زور شور سے جاری ہے۔ خوش قسمتی سے جو عمارتیں وقت پر مکّمل ہو جاتی ہیں ، اُن پر جلی حروف میں ’’ماشاء اﷲ‘‘ لکھ کر اپنے کارنامے کا چرچا کیا جاتا ہے۔ ِا شاید اپنے رقیبوں کو دعوتِ مبار زرت دی جاتی ہے۔ لیکن ترقیاتی اداروں اور ہاؤس بلڈنگ کارپوریشن کی جانب سے بے شمار سہولتیں فراہم کیے جانے کے باوجود بعض نامکّمل عمارتیں ایسی بھی ہیں جن کے ڈھانچوں میں عرصہّ دراز سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ ہمارا خیال ہے ایسی عمارتیں شروع ہی اِس نیّت سے کی جاتی ہیں کہ کم از کم موجودہ نسل کو تو کوئی فائدہ نہ پہنچے۔ وہ بس قرضے کی قسط ادا کرتی رہے اور تمام منافع دوسری یا تیسری نسل کے حصّے میں آئے۔ ایسی سوگوار اور اجاڑ ڈھانچے پر بھی کچھ لکھ دیا جائے تو کم از کم عبرت پکڑنے کے ہی کام آئے گا۔ ’’با دلِ ناخواستہ‘‘ کا کتبہ کیسا رہے گا؟

٭٭٭

 

آج کیا پکائیں

 

کیا آپ جانتے ہیں کہ بندر، مکھّی، چوہا، ہاتھی، کتّا، بلّی اور تتلی سب حلال ہیں۔ اگر آپ ابھی تک لاعلم ہیں تو ہم آج آپ کے لیے ایک بڑی خوش خبری لے کر حاضر ہوئے ہیں۔ سنیے اور اپنا سر پیٹے۔ ایک بر کے مطابق جامعہ لازہر کے ایک مفتی نے فتویٰ دیا ہے کہ مذکورہ بلا سب جانور حلال ہیں۔ اب آپ بھی ان کو بلا خوف و خطر حلال کر سکتے ہیں۔ پکائیں اور مزے لے لے کر کھائیں۔ اور ہاں ، مفتی صاحب کی دعوت کرنا نہ بھو لیے گا!

بہت پہلے ایک افواہ اڑی تھی کہ کراچی میں گدھے کا گوشت فروخت ہو رہا ہے (ممکن ہے کہ یہ سچ ہو)۔ نہاری میں سالم بلّی ڈالنے کی روایت بھی سننے میں آئی ہے۔ برطانیہ میں آج کل چوہا بریانی بے حد مقبول ہو رہی ہے۔ شوقین لوگ کسی بھی ریستوران کی شہرت سن کر دور دور سے یہ بریانی کھانے کے لیے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں جگہ جگہ دکانوں پر بھی سفید سفید چوہے پنجروں میں کھیلتے کودتے نظر آتے ہیں۔ آپ اشارہ کریں اور اپنی پسند کا چوہے بنوا کر لے جائیں۔ چین میں مگر مچھ بھی ایک بہترین کھاجا ہے۔ ریستورانوں میں اِس کے گوشت سے مختلف ڈشیں تیار کی جاتی ہیں۔ اگر ہمارے ملک کے باورچی وہاں پہنچ جائیں تو وہ اِس سے ایسی ایسی لاجواب ڈشیں تیار کریں کہ چینی تو چینی، بے چینی والے بھی عش عش کر اٹھیں ، مثلاً پسندے، کوفتے، بہاری کباب، گولا کباب، شامی کباب، سیخ کباب، تکّے، حلیم اور بریانی وغیرہ۔ اِن سے کچھ کچھ ملتی جلتی چیزیں تو چینی بھی بناتے ہی ہوں گے، مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی! اِسی طرح احمس، نیشنل، مہران، شان اور نانی دادی وغیرہ کے مسالوں کی وہاں خوب کھپت ہو سکتی ہے۔ ہمارے بر آمد کنندگان کو اِس طرح بھی توجہ دینی چاہیے۔

شیر گا گوشت بھی خوب دھڑلّے سے چینی ریستورانوں میں فروخت ہو رہا ہے۔ ’’بھوت سوپ‘‘ کی مقبولیت بڑھتی جاری ہی ہے، جو مُردہ عورتوں کی ہڈیوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ چنانچہ عورتوں کے ڈھانچے چرائے جانے کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین کی ہڈّیوں سے تیار کردہ سوپ بہت سی بیماریوں کا علاج ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مردوں کی ہڈیوں میں یہ تاثیر کیوں نہیں! طبّی ماہرین چاہیں تو اس موضوع پر تحقیق کر کے نوبل انعام حاصل کر سکتے ہیں۔ وہاں پر خواتین مرنے کے بعد بھی مردوں کے کام آر ہی ہیں (ڈوب مرنے کا مقام ہے۔۔۔۔۔ ہماری خواتین کے لیے!) اگر ہمارے بھائی بند وہاں چلے جائیں تو وہ مردوں کی ہڈیوں کو بھی بیچ ڈالیں۔ کون دیکھتا ہے کہ سوپ میں کون سی ہڈی استعمال کی گئی ہے۔ بس یہ احتیاط رکھیں کہ ہڈّی پیالے میں نہ جانے پائے، مبادا کوئی ماہرِ استخواں اِسے پہچان لے۔ ہمارا خیال ہے کی چینیوں کو کاروباری داؤ پیچ سکھانے کے لیے یہاں سے چند ماہرینِ غذائیات کو فوری طور پر روانہ کیا جائے۔

برِّ صغیر کے گھرانوں میں تین جانوروں سے بڑی رونق ہے۔۔۔۔ چوہا، چھپکلی اور لال بیگ۔ فتوے کی رُو سے چوہا تو اِس فہرست سے نکل گیا۔ اب اِس کا شمار غذائی جانوروں میں ہو گا۔ خواتین ڈرنے کی بجائے خوش ہو ہو کر چوہا پکڑا کریں گی۔ چوہا دیکھتے ہی اِن کی باچھیں کِھل جایا کریں گی اور رال ٹپکنے لگے گی کہ وہ کیا خوب صورت اور موٹا تازہ چوہا ہے۔ آج کے سالن کا مسئلہ تو حل ہوا۔ اب اِس میں کیا ڈالا جائے۔۔۔۔۔ آلو، گوبھی، بینگن یا لوکی؟ یا خالی شوربے دار چوہا پکا  لیں ؟ گھروں میں اچار ڈالا جائے گا اور بازار چوہے کے اچار کے خوب صورت سر بند ڈبوں سے بھر جائیں گے۔

اب مسئلہ رہ گیا چھپکلیوں اور لال بیگ کا۔ ہم فاضل مفتی کی خدمت میں بصد خلوص یہ عرض کریں گے کہ فلاحِ عامہّ کی خاطر براہ کرم اِن دونوں جانوروں پر بھی نظرِ کرم فرمائیں اور اِن کو بھی حلال قرار دے دیں تو ہماری گھریلو زندگی میں ایک بہار سی آ جائے گی۔

ہر عورت خوشی پاگل ہو جائے گی۔ اب اُسے چھپکلی اور لال بیگ سے ہرگز خوف محسوس نہیں ہو گا۔ وہ اِن کو مرتبانوں میں محفوظ کر لیا کریں گی تاکہ ضرورت کے وقت کام آئیں۔ غریبوں کو بھی روزگار کا ایک موقع مہیا ہو جائے گا۔ اب وہ دن بھر مکھیاں مارنے کی بجائے کچرے کے ڈھیروں میں چوہے، چھپکلی اور لال بیگ تلاش کرتے پھریں گے۔ گائے، بکری، مرغی اور مچھلی وغیرہ کی قیمتوں پر خاطر خواہ اثر پڑے گا۔ سبزیاں اور دالیں تو ٹکے سیر بکنے لگیں گی۔ اِس کے ساتھ ساتھ ’’آج کیا پکائیں ‘‘ کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور خواتین آپس میں کچھ اِس طرح گفتگو کیا کریں گی:

کل تم نے جو چوہے کا سالن بھیجا تھا، بڑا ہی لذیذ تھا۔ میرے میاں کو تو بے حد پسند آیا۔مجھے بھی بتاؤ کیسے پکایا تھا؟

اس میں مشکل کیا ہے؟ پیاز سرخ کرو اور چار پانچ چوہے ڈال کر تھوڑا سا بھون لو، اور پھر باجی کا قورمہ مسالا ڈال کر دس منٹ گلنے کے لیے چھوڑ دو بس سالن تیار ہے!

اور اگر فرائی کرنا ہو تو چاٹ مسالا لگا کر دو تین گھنٹے کے لیے رکھ دو اور پھر فرائی کر لو۔ مزہ آ جائے گا۔

کل میں نے چھپکلیوں کا سالن پکایا تھا، شلجم ڈال کر۔ بالکل بدمزہ بنا چھپکلیاں بھی کچھ سخت رہ گئیں!

بہن کھانے والا سوڈا ڈال لیا کرو، یا پھر کّچا پپیتا استعمال کرو۔ ویسے ذرا چھپکلیاں چھوڑی اور نرم ہوں تو زیادہ مناسب ہے۔

میرے میاں نے آئندہ اتوار کو اپنے دوستوں کی دعوت کی ہے۔ لال بیگ پلاؤ اور بلّی کا سالن پکے گا، مکھی اور تتلی کا سلاد بنا نے کا ارادہ ہے، تم بھی آ جانا۔یہ تو بتاؤ کہ چھپکلیوں اور چوہوں کو پکڑا کیسے جائے؟ میں تو سدا کی بیمار رہتی ہوں۔ مجھ سے اتنی بھاگ دوڑ نہیں ہوتی۔

اپنے میاں اور دیور کی ڈیوٹی لگا دو کہ روزانہ دو تین چھپکلیاں پکڑ لیا کریں اور ہفتے میں ایک آدھ چوہا، اور تم انھیں فریز کرتی رہو۔ لال بیگ خود جمع کر لیا کرو۔ میں تو ایسا ہی کرتی ہوں۔

اچھا مشورہ ہے ٹھیک ہے۔ اب میں چلتی ہوں۔ بلّی، چولھے پر چڑھی ہے، کہیں جل ہی نہ جائے!

آخر میں ایک راز کی بات ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ اِس فتوے کے جاری ہونے کے فوراً بعد ہی چوہے ہمارے گھر سے فرار ہونا شروع ہو گئے ہیں۔!!!

٭٭٭

 

 

جُستہ جُستہ /خَستہ خَستہ

 

عاشقِ صادق

 

بعض لوگ بڑے نڈر، بے خوف اور بے باک ہوتے ہیں۔ اپنے دل کی ہر بات بے دھڑک کہہ جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اپنے عشق کا چرچا بھی برسرِ عام کرتے ہیں۔ گویا دنیا بھر کو چیلینج دے رہے ہوں کہ ہاں ہم نے محبت کی ہے جو بگاڑ سکتے ہو بگاڑ لو۔ ایسے لوگوں کا نعرہ یہ ہوتا ہے

پردہ نہیں جب کوئی خدا سے

بندوں سے پردہ کرنا کیا

ایسے ہی ایک صاف گو ستّر سالہ عاشقِ زار نے اپنے بوسیدہ ریڑھے پر ایک اعلان کندہ کر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ تحریر ریڑھے کے مالک کی طرح بوسیدہ ہو چکی ہے، لیکن ذرا غور کرنے پر پڑھی جا سکتی ہے۔ تحریر یہ ہے:

’’اگر مجھے چند دن کی بادشاہت مل جائے تو میں تیری تصویر کے سکّے جاری کرا دوں۔‘‘

معلوم ہوتا ہے کہ موصوف نظام سقّہ سے کافی متاثّر ہیں ، یا ممکن ہے اِسی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں ،اِسی لیے نظام کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے چمڑے کے سکّوں کی بجائے تصویر کے سکّے جاری کرنا چاہتے ہیں۔ خدا کرے اِن کی یہ آرزو جلد پوری ہو جائے، لیکن ناچیز کی رائے کہ موصوف ’’اُن‘‘ کی تصویر کے سکّے رائج کرنے کا خیال  دل سے نکال دیں۔ عشق کرنا اور محبوبہ کی تصویر کی پرستش کرنا سو فی صد ایک ذاتی فعل ہے۔ آپ عوام کو اُن کے حسن کے جلوے سے کیوں سرفراز کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سراسر آپ کا اور آپ کی محبوبہ کا ذاتی مسئلہ ہے۔ خدایا ’’اُن‘‘ کی تصویر عام کر کے ’’اُنھیں ‘‘ رسوا نہ کریں۔ مانا کہ آپ کے عشق ِ بلا خیز کا طوفان ابھی تک تھمنے نہیں پایا ہے، لیکن آخر پردہ داری کا بھی کچھ تقاضا ہوتا ہے۔ ہم خلوصِ دل سے آپ کو یہ مشورہ دیں گے کہ آپ اپنے ریڑھے پر سے یہ تحریر جلد از جلد مٹا ڈالیں۔ آپ کے دل پر یہ تحریر اور خواہش نقش ہے، بس اتنا ہی کافی ہے۔ اِسی پر گزارہ کریں اور تصویرِ یار کی طرح اپنے اِس جوش و عزم کو کبھی کبھی گردن جھکا کر دیکھ لیا کریں۔ اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

٭٭٭

 

 

جلنے والا تیرا منھ کالا!

 

ہمارے ایک دوست نے اپنی دکان پر بڑے نمایاں انداز میں یہ اشتہار آویزاں کر رکھا ہے:

’’جلنے والے تیرا منھ کالا‘‘

یہ ایک طرح کی دھمکی بھی ہے۔ گویا زبانِ حال سے کہہ رہے ہوں کہ اِن کی ترقّی اور مقبولیت سے جلنے والوں کا منھ کالا کر کے اُسے گدھے پر تمام شہر میں پھرایا جائے گا، تہ کہ دیکھنے والے عبرت پکڑیں اور پھر کسی کو اُن سے جلنے کی ہمّت نہ ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے دوست کا رنگ اِس قدر سیاہ ہے، جیسے اُن کا جسم تارکول سے بنایا گیا ہو۔

دکان کا حال یہ ہے کہ شاذ و نادر ہی کوئی گاہک آتا، یا آتی ہے۔ وہ سرمہ اور کاجل فروخت کرتے ہیں جن سے خود بیچنے والے کا منھ کالا ہو سکتا ہے! بلکہ یہ چیزیں وہ تیار بھی خود ہی کرتے ہیں۔ شاید اُن کے بنائے ہوئے نسخے تیر بہدف ہوتے ہوں اور رموزِ حکمت کے عین مطابق ہوں ، لیکن مشکل یہ ہے کہ گاہک اُن کی من موہنی شکل دیکھ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور غضب تو یہ ہے کہ ’’معیارِ حسن‘‘ میں اُن کی مدِّ مقابل خواتین بھی دکان کے قریب نہیں پھٹکتیں۔ لیکن موصوف ہیں نہایت ثابت قدم، صبح و شام اپنے حسن جہاں سوز سے ایک دنیا کو سرفراز کرتے رہتے ہیں۔ ایک بار ترنگ میں آ کر ہم نے اُنھیں مشورہ دے دیا کہ کوئی خوش شکل اور تیز طرّ ارسی سیلز گرل رکھ لیں ، پھر دیکھیں دکان کیسی چلتی ہے۔ یہ مشورہ اُن کو ذرا نہ بھایا اور وہ ہم پر بے تحاشا برس پڑے:

’’شرم نہیں آتی تمھیں ، ایسی بات کہتے ہوئے، میں ایک خاندانی آدمی ہوں اور اعلیٰ درجے کا طبیب بھی، میں بھلا ایسی گھٹیا حرکت کے ذریعے اپنی روزی کماؤں گا؟

خبردار! جو آئندہ ایسی بے ہودہ بات زبان پر لائے۔‘‘

ہم نے معذرت چاہی، لیکن وہ آج تک ناراض ہیں۔

٭٭٭

 

 

احمق کہیں کا

 

اسپتال میں داخل ہوتے ہیں ہماری نظر ایک صاحب پر پڑی جو اسپیشل وارڈ کے باہر کھڑے کچھ اِس انداز سے رو رہے تھے گویا رونا چاہتے بھی ہوں اور نہیں بھی۔ گھٹی گھٹی سی کچھ آوازیں اُن کے حلق سے برآمد ہوتیں اور پھر ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے سسکیوں میں تبدیل ہو جاتیں۔ ہم نے ایک نظر اُنھیں ہمدردی سے دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ بیگم کے پاس پہنچے۔ اِدھر اُدھر کی چند باتوں کے بعد بیگم نے بتایا کہ کچھ ہی دیر قبل سامنے والے کمرے میں ایک خاتون کا انتقال ہو گیا ہے۔ یہ سنتے ہی ہمارے نظروں کے سامنے ایک ادھیڑ عمر شخص کی روتی، بسورتی تصویر رقص کرنے لگی۔ بے ساختہ ہمارا جی چاہا کہ اُن صاحب سے پوچھیں ، کیا یہ رونے کا مقام ہے۔۔۔۔؟

٭٭٭

 

 

دھلی کے خوش ذائقہ پکوان

 

کہتے ہیں کھانا پکانا ایک فن ہے اور پکا کر فروخت کر دینا اِس سے بھی بڑا فن۔ ہمارے شہر میں کھانے پینے کی اَشیا فروخت کرنے کی دکانوں کی بھر مار ہے۔ جس طرف آنکھ اٹھاؤ ریسٹوران، ہوٹل اور شادی ہال یہاں تک کہ ہر طرف حشرات الاَرض کی طرح پھلیے ہوئے چھوڑے موٹے ٹھلیے بھی کھانے پینے کی چیزوں اور گاہکوں سے بھرے نظر آتے ہیں۔ ہمارے باورچی بڑے ہی با کمال ہیں ، ایک سے بڑھ کر ایک کھانا پکاتے ہیں۔ شاید بدمزہ پکانے والے سب کے سب ریلوے اسٹیشن پر ہی روک لیے گئے ہیں کہ خبردار شہر کے اندر نہ جانا، ورنہ ہمارا شہر بدنام ہو جائے گا۔

آج کل دھلی کی مشہور نہاری، بریانی، حلیم اور کباب کے چرچے عام ہیں۔ جگہ جگہ یہ چیزیں بن رہی ہیں اور اِتنی ہی تیزی سے اُڑائی جا رہی ہیں۔ہم نے اِس بات کا کھوج لگانے کی بہتر کوشش کی کہ ’’دھلی‘‘ نام کا شہر دنیا کے کس حصے میں واقع تھا، جہاں اِس قدر خوش ذائقہ پکوان بنائے جاتے تھے۔ نیز یہ کہ واقعی اِس نام کا شہر ہے بھی یا محض مطعم والوں نے اِس کو اپنا تجارتی نشان بنایا ہوا ہے؟ تاریخ کی کتابیں ہم نے چھان ماریں ، لیکن یہ نام کہیں نہیں ملا۔ شاید ’’دھلی‘‘ نامی شہر تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو گیا تھا، جسے کراچی کے ماہرینِ خوراک نے بہ ہزار وقّت ڈھونڈ نکالا ہے۔ یہ قابلِ قدر درعافت آبِ زر سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ ہمیں تو اِس سے ملتا جلتا صرف ایک ہی نام ملا ہے وہ ہے دہلی جسے دلّی بھی ہتے ہیں :

دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب

گوروں نے اِس کو لوٹ کے ویران کر دیا

تیسرا نام اِس شہر کا انگریزوں کا بخشا ہوا Delhi ہے۔ ہم ابھی تک تن اور من سے تلاش جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کیا ’’دھلی‘‘ کبھی اِس کرّۂ ارض پر موجود تھا؟ اور کیا واقعی وہاں کے پکوان اتنے مزے دار تھے کہ کوئی اِن کا نام لے کر اپنی دکان چمکا سکے؟

٭٭٭

 

 

بس دعائیں دیا کریں!

 

ہماری مذہبی رواداری کا تقاضا ہے کہ کسی کو بد دعا نہ دی جائے۔ آپ نے ایسے فقیروں کی صدائیں بھی سنی ہوں گی، جو ہر حال میں صرف دعا ہی دیتے ہیں ’’جو دے اُس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اُس کا بھی بھلا‘‘ (خواہ نہ دینے والے کو دل ہی دل میں بُرا بھلا کہہ رہے ہوں )۔ مگر ایک صاحب ایسے بھی ہیں جنھوں نے صاف گوئی کی انتہائی کر دی ہے۔ وہ ایک نجی ادارہ چلاتے ہیں۔ اُنھوں نے نمایاں طور پر ایک بورڈ اپنے دفتر میں لگا رکھا ہے ’’ پان تھوکنے والے! اﷲ تجھے خون خون تھکوائے۔‘‘ بد دعا دینے کا یہ انداز انتہائی غیر مہذّبانہ اور غیر شریفانہ ہے۔ ذرا نرم الفاظ میں اِس بات کو اِس طرح بھی کہا جا سکتا تھا کہ پان تھوکنے والے کو حوالۂ پولیس کیا جائے گا۔ ایک اور طریقہ یہ بھی ہے کہ کچھ اِس طرح کی دھمکی دی جائے ’’آپ پان ضرور تھوکیں۔۔۔۔ لیکن اِس میں تھوک ہر گز شامل نہ ہو، ورنہ ایک ہزار روپیہ جرمانہ وصول کیا جائے

گا‘‘ اِس جج کے فیصلے کی طرح جس نے مدّعی کو اجازت دے دی تھی کہ وہ مجرم کے جسم کے کسی بھی حصّے سے ایک پاؤنڈ گوشت کاٹ سکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ خون کا ایک قطرہ بھی نہ بہے!

٭٭٭

 

 

فیض کے اَسباب!

 

ہمارے شہرِ عظیم میں عوام کی فطری مشکل آسان کرنے کا سامان بہت ہی کم، بلکہ نایاب ہے۔ میونسپلٹی والوں نے اِس مسئلے کو کسی حد تک حل کرنے کی کوشش کی ہے اور بعض مقامات پر بیت الخلا بنا دیے ہیں ، لیکن یہ شہر کے وسیع رقبے اور آبادی کے لحاظ سے اِس قدر کم ہیں پریشانی کے عالم میں لوگ کوئی کونا یا دیوار تلاش کرنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ مزید ستم یہ کہ بیت الخلا کو آمدنی کا ایک ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ بغیر رقم خرچ کیے، آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے، بلکہ اب تو بعض مسجدوں کی انتظامیہ نے بھی اپنے بیت الخلا ٹھیکے پردے دیے ہیں۔ پہلے کچھ لوگ یہ عقل مندی کیا کرتے تھے کہ کسی ایسی عمارت میں گھس جایا کرتے، جہاں دفاتر ہوا کرتے ہیں۔ وہاں اطمینان سے ٹوائلٹ میں داخل ہو جاتے، کوئی پوچھنے والا نہ تھا، لیکن اب وہاں ایک سکیورٹی گارڈ مامور ہوتا ہے، جو عمارت میں کام کرنے والوں کے علاوہ کسی فرد کو اپنی مشکل آسان کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ مجبور عوام بھی تو ملک کے معزز شہری ہیں ، لہٰذا ضرورت کے وقت وہ جہاں کہیں بھی موقع محل دیکھتے ہیں ، بیٹھ جاتے ہیں :

بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے

اسکول، مدرسے اور دیگر رفاہی اداروں کے منتظمین دیواروں پر اِس قسم کی تحریر لکھوا دیتے ہیں :

یہاں پیشاب کرنے والے کو حوالۂ پولیس کیا جائے گا

یا

وہ دیکھو گدھا پیشاب کر رہا ہے۔

لیکن اِن نازک لمحات میں کوئی تحریر پڑھنے کی فرصت کسے ہوتی ہے۔ اگر وہ اِن پر توجہ دینے لگیں تو اُن کا تو کام ہو گیا!

٭٭٭

 

 

مقراضِ محبت!

 

پہلے زمانے کے دکان دار انتہائی وضع دار اور خوش اخلاق ہوا کرتے تھے۔ وہ گاہکوں کو اُدھار سامان خریدنے کی قباحت سے باز رکھنے کے لیے تہذیب کے دائرے میں رہ کر کتبے لگا دیا کرتے تھے، مثلاً:

اُدھار مانگ کر شرمندہ نہ کریں

یا

اُدھار محبت کی قینچی ہے۔

لیکن آج کا دکان دار انتہائی صاف گو اور بے باک ہے۔ نئے زمانے کے لحاظ سے اُس نے اِس شریفانہ نعرے کو اِس طرح تبدیل کر دیا ہے، بلکہ گاہک کے منھ پر ماردیا ہے: اُدھار مانگ کر شرمندہ نہ ہوں!

پہلے گاہک اگر اُدھار مانگ لیتا تھا تو دکان دار مارے شرم کے پانی پانی ہو جاتے تھے، گویا کسی نے اُن کو سرِ عام برہنہ کر دیا ہو۔اب وہ اُدھار مانگنے والے کو برہنہ کر دیتے ہیں اور ذرا بھی نہیں شرماتے۔ بعض دکان دار بڑے ہی با ذوق واقع ہوئے ہیں۔ شعر و ادب کا سہارا لیتے ہوئے اُنھوں نے اُدھار جیسے کرخت موضوع کو بھی شگفتہ بنا دیا ہے۔

مثال کے طور پر

لینا ہو نقد آپ کو تو لیجیے شوق سے

اور ہو اگر اُدھار تو وہ اگلے چوک سے

یا

کشمیر کی آزادی تک اُدھار بند ہے!

یا

آپ بہت اچھے ہیں اُدھار اچھا نہیں۔

اور

’’اُدھار ایک جنگ ہے، اِس لیے بند ہے۔‘‘

وغیرہ وغیرہ۔

٭٭٭

 

 

رقیب سُرخ رُو!

 

محفلِ مشاعرہ پورے عروج پر تھی۔ ہر شخص بڑے انہماک اور توجّہ کے ساتھ مختلف شاعروں اور شاعرات کے کلام سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ آخر میں مہمانِ خصوصی کو، جو ایک معروف و مقبول شاعرہ ہیں ، دعوتِ کلام دی گئی۔ ایک دو غزل تحت اللّفظ سنانے کے بعد شاعرہ نے ذرا ترنّم سے اپنی آواز کا جادو جگانا شروع کیا تو ساری محفل جھوم اٹھی۔ ایسا غضب کا ترنّم کبھی کبھار ہی سننے میں آتا ہے۔ آواز کے ساتھ ساتھ اُن کی آنکھوں اور ہاتھوں کے اشارے بھی رواں دواں تھے۔ ہم مارے خوشی کے دیوانے ہوئے جار ہے تھے،کیوں کہ اِن کافر ادا اشاروں کا نشانہ خاص طور پر ہم ہی تھے۔ ہمارا دماغ ساتویں آسمان پر اُڑنے لگا۔ ایسی خوب صورت اور خوش گلو شاعرہ ہم پر عاشق ہوئی جا رہی تھی۔یہ تو مارے خوشی کے مر جانے کا مقام تھا، لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ فکر بھی ہمیں ستانے لگی کہ یہ مہربانیاں ہم پر کیوں کی جا رہی ہیں ، جب کہ آج سے قبل نہ ہم نے انھیں دیکھا تھا اور نہ اُنھوں نے ہمیں۔ ہماری حالت ناگفتہ بہ ہوئی جا رہی تھی اور موصوفہ کے اشارے تیز سے تیز ہوتے جار ہے تھے۔ ہم سوچ رہے تھے کہ کیا موصوفہ کو اپنی بدنامی کا کوئی خوف نہیں ہے! وہ تو خیر گزری کہ ہم نے زمانے کے خوف سے اپنے آپ پر قابو رکھا اور اُنکے کسی اشارے کا جواب نہ دیا۔ لوگ کیا کہیں گے، اِس فکر نے ہمیں پریشان کر رکھا تھا۔ خدا خدا کر کے محفل

اختتام پذیر ہوئی۔ تالیوں کا ایک شور تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی، لیکن پھر ہم نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ لوگ ہمارے برابر بیٹھے ہوئے شخص کو مبارک باد دہے ہیں۔ تب ہم پر یہ عقدہ کھلا کہ موصوف اُس عظیم شاعرہ کے شوہر نامدار ہیں۔ اک ذرا سوچا اور پھر آگے بڑھ کر بڑی فراخ دلی کے ساتھ ہم نے بھی اُن کو مبارک باد دے دی!

٭٭٭

 

 

’’جلیل‘‘ کیسے لکھتے ہیں

 

محلّے کے ایک بزرگ کئی دنوں سے ہمارے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ وقت نکال کر اُن کے دو چار خطوط لکھ دیں۔ ایک دن ہم شام کو اُن کی خدمت میں حاضر ہو گئے کہ بندہ حاضر ہے، جتنے خطوط چاہیں لکھوا لیں۔ اُنھوں نے ایک کاغذ اور بال پین ہمارے ہاتھ میں تھما دیا۔ ہم نے اُن کی جانب دیکھا تو حکم نازل ہوا:

’’لکھو۔ جناب بھائی صاحب ذلیل! السّلام علیکم!‘‘

ہم انتہائی حیرت کے عالم میں اُن کی شکل دیکھنے لگے اگر وہ اپنے بھائی صاحب کو ذلیل سمجھتے ہیں تو پھر اُنھیں خط لکھنے کی ضرورت کیا ہے؟ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ایک اجنبی شخص کو غلط القاب سے کس طرح مخاطب کریں کہ یکا یک اُن کی دھاڑ سن کر ہم سہم گئے،

’’لکھتے کیوں نہیں ؟‘‘

’’ہم آپ کے بھائی کے لیے یہ القاب نہیں لکھ سکتے، جو آپ فرما رہے ہیں۔‘‘ ہم نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔

’’جو ہم کہہ رہے ہیں چپ چاپ لکھتے جاؤ۔‘‘ وہ انتہائی سخت اور کھر درے لہجے میں بولے۔

ہم نے بے بسی کے عالم میں اپنے اوپر سولہ دسمبر طاری کر لیا کہ اِس کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہ تھا، لہٰذا ہم نے اِن کے فرمائے ہوئے الفاظ تحریر کر دیے۔ اتنے میں اچانک انھوں نے کاغذ ہمارے ہاتھ سے اُچک لیا،

’’ہم نے تمھاری خوش خطی کی بے حد تعریف سنی ہے۔ لاؤ، دیکھیں تو سہی، تمھاری تحریر کیسی ہے؟‘‘ لیکن کاغذ پر نظر پڑتے ہی اِن کے تیور بدل گئے۔ ’’کیا لکھا ہے؟ میرے بھائی کو جلیل کر کے رکھ دیا۔‘‘

’’آپ۔۔۔۔ آپ ہی نے تو کہا تھا کہ جو ہم کہہ رہے ہیں چپ چاپ لکھتے جاؤ ‘‘ہم خوف زدہ سے ہو گئے۔

’’پتا نہیں کہاں کہاں سے ڈگری لے کر آ جاتے ہیں۔ پڑھنا آتا نہیں اور ڈینگیں مارتے پھرتے ہیں کہ ہم نے بی اے پاس کر لیا۔‘‘

یہ کہتے ہوئے اُنھوں نے بڑے اطمینان سے ’’جلیل‘‘ لکھا اور نہایت فخر سے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بولے، ’’دیکھو، ذلیل ایسے لکھتے ہیں!‘‘

ہم اپنی کم علمی پر شرمندہ ہو کر رہ گئے!!!

٭٭٭

 

 

بس ’’ایک لاکھ‘‘ کے بھوکے!

 

چراغ دین ایک اعلیٰ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ حالات کی ستم ظریفی کی بدولت تمام عمر غربت و عسرت میں بسر ہوئی۔ اکلوتی بیٹی کی جوانی کو گھن لگنا شروع ہو گیا تھا۔ اس کے رشتے کی تلاش میں وہ سرگرداں تھے، لیکن ہمیشہ غربت آڑے آجاتی۔ ایک دن قدرت کو اُن کے حالِ زار پر رحم آگیا اور رستم خان، جو ایک خاندانی رئیس اور پرانی تہذیب و اخلاق کا نمونہ تھے، اپنے بیٹے کے رشتے کی تلاش میں چراغ دین سے جا ٹکرائے۔ چراغ دین اُنھیں ایسے بھائے کہ فوراً ہی اُنھوں نے ان کی بیٹی کے لیے اپنے بیٹے کا رشتہ دی دیا۔ جہیز کی لعنت کے وہ سخت خلاف تھے، بس ایک اعلیٰ خاندان اور اچھے انسان کی جستجو تھی، جو اُنھیں چراغ دین کی صورت میں مل گیا۔ چراغ دین پر شادیِ مرگ سی کیفیت طاری ہو گئی۔ اُن کے تو تصوّر میں بھی نہ تھا کہ بیٹی کے لیے ایسے اونچے گھرانے کا رشتہ آ سکتا ہے۔ بات چیت طے پا گئی تو ایک دن چراغ دین نے یوں ہی باتوں باتوں میں رستم خان سے پوچھا کہ اگر آپ کی کوئی فرمائش ہو تو شادی سے قبل بتا دیں ، تاکہ میں کچھ انتظام کر سکوں۔ رستم خان کے رعب چہرے پر اک گمبھیر مسکراہٹ پھیل گئی،

’’ہمیں کچھ نہیں چاہیے ہم تو بس ایک لاکھ کے بھوکے ہیں ‘‘

چراغ دین کے چہرے کا رنگ بھک سے اڑ گیا۔ ایک لاکھ تو کیا، وہ ایک ہزار کا بھی بندوبست نہیں کر سکتے تھے۔ رقّت زدہ لہجے میں کہنے لگے:

’’مگر آپ تو شروع سے کہتے چلے آ رہے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ پھر یہ ایک لاکھ کی شرط کیسی۔۔۔۔اگر آپ اِس بہانے سے یہ رشتہ ختم کر نا چاہتے ہیں تو آپ کی مرضی!‘‘

رستم خان پہلے تو چراغ دین کی بات سن کر ہکّا بکّا رہ گئے۔ لیکن پھر فوراً ہی معاملے کی تہ تک پہنچ گئے اور چراغ دین کا ہاتھ پکڑ لیا۔

’’حضور! گستاخی معاف! آپ کو غلط فہمی ہوئے ہے۔ ہم روپے پیسے پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ہم نے تو آپ کی خاندانی شرافت کو دیکھتے ہوئے یہ رشتہ پیش کیا تھا۔ بخدا ہمیں کچھ نہیں چاہیے۔ ہم تو بس ’’ایخ لاق‘‘ (اخلاق) کے بھوکے ہیں۔‘‘ وہ ’’خ‘‘ اور ’’ق‘‘ کو اپنے صحیح مخرج سے ادا کرتے ہوئے بلے۔۔۔۔!

٭٭٭

 

 

ہل من مزید

 

چیئر مین اے سی بی کا ایک کھلا خط

 

 

ڈیئر  چیئر مین پی سی بی! سلامت رہو

تم جانتے ہو گے کہ اے سی بی سے مراد ’’امریکن کرکٹ بورڈ‘‘ ہے، لیکن تمھارے ملک کے چند انتہا پسند اور تاریک خیال لوگوں نے یہ مشہور کر دیا ہے کہ اے سی بی کا مطلب "Atrocious Cricket Board” اور PCB سے مراد "Poverty Cricket Board” ہے۔ ساری دنیا اِس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کا معیارِ زندگی کس قدر بلند ہے، پھر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں غربت ہے۔ جن لوگوں نے امریکن کرکٹ بورڈ کو Atrocious کرکٹ بورڈ یعنی ظالم، خبیث اور بد ذات کرکٹ بورڈ کہنے کی جرات کی ہے، اُن کی شامت اُنھیں آواز دے رہی ہے۔ امید ہے تمھارے تعاون سے ہم بہت جلد ان انتہا پسندوں تک پہنچ جائیں گے!

 

ہو سکتا ہے تم عمر میں ہم سے کچھ بڑے ہی ہو، مگر وہ جو کسی داتا کا قول ہے کہ بزرگی عمر سے نہیں بلکہ دولت اور طاقت سے ہوتی ہے تو اِس لحاظ سے ہم تمھارے بزرگ ہوئے۔ ہمیں یہ جان کر بے انتہا خوشی ہوئی کہ اب تم ہمارے اشاروں کی زبان سمجھنے لگے ہو۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ تم بہت جلد اپنے کوچ کو فارغ کرنے والے ہو۔ بڑا ہی درست اور بروقت فیصلہ کیا ہے تم نے۔ واہ! کیا زبردست چھکّا مارا ہے۔ یقیناً تم انعام کے محقق ہو۔ جب ہم نے تمھیں اپنا دوست بنا لیا تو کوچ تیسری ٹیم کا کیوں ہو؟

 

ہم ہمیشہ سے تمھارے خیر خواہ رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وقتِ ضرور تمھیں خوش فہمی میں مبتلا رکھتے ہوئے ہر اہم کیچ تم سے ڈراپ کرواتے رہے۔ لیکن جب ہم پر برا وقت آیا تو تم نے اور تمھارے امپائروں نے اپنی آغوش ہمارے لیے وا کر دی اور مکمل ترین لاجسٹک سپورٹ فراہم کیا۔ تمھاری مہربانیوں کے صدقے ہم کئی ایک نا پسندیدہ عناصر کو ایل بی ڈبلیو اور اسٹمپڈ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ چند ایک اور جو ابھی کریز پر موجود ہیں اور جھوٹی اکڑفوں دکھا رہے ہیں ، بہت جلد اُن کو بھی رن آؤٹ کر دیں گے۔ ہم تم سے بے حد خوش ہیں۔ ہماری تاریخ میں تمھارا نام آبِ زر سے لکھ دیا گیا ہے۔

 

دنیا بھر میں کھیلے جانے والے کرکٹ میچ ہم ضرور دیکھتے ہیں ، کیوں کہ یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے۔ اکثر میچوں میں تمھاری ٹیم کی بے چارگی اور بے بسی دیکھ پر پہلے تو ہنستے ہنستے ہمارے پیٹ میں بل پڑ جاتے ہیں ، اور پھر بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔ مقابلہ کر کے شکست کھانا شیوۂ مردانگی ہے۔ مگر تم لوگ تو معمولی سی مزاحمت کے بعد ہتھیار ڈال دینے کے عادی ہو گئے ہو۔ ظاہر ہے، رات بھر مختلف مشاغل میں مصروف رہو گے تو میچ کے دوران نیند تو آئے گی ہی۔ بہرحال تمھاری ٹیم کی زبوں حالی پر ہمیں بے حد تشویش ہے۔ ایک دوست کی حیثیت سے ہم تمھاری مدد کرنا چاہتے ہیں۔ بہت سوچ بچار کے بعد ہم نے ایک ایسا راستہ دریافت کیا ہے، جس سے تمھاری ٹیم کی نقاہت دور ہونے کی کافی امید ہے۔ یہ ایک مخلصانہ اور برادرانہ رائے ہے۔ ہم نے تمھیں اپنا برادرِ خُرد تسلیم کر لیا ہے۔ مانو نہ مانو تمھاری مرضی۔ ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں۔

 

ہم جانتے ہیں کہ پی سی بی کو خاص مالی مشکلات کا سامنا بھی ہے۔ یہ بات مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہم نے ایک بھاری بھر کم قرضہ سینیٹ سے منظور کروا لیا ہے۔ موجودہ کوچ کے رخصت ہوتے ہی یہ قرضہ واگزار دیا جائے گا۔ ہمارے منصوبے کے مطابق اِس وقت تمھاری ٹیم کو تین عدد کوچ کی فوری ضرورت ہے۔ بیٹنگ بولنگ، اور فیلڈنگ کوچ۔ وکٹ کیپنگ کوچ کے بارے میں ہم نے اپنا فیصلہ فی الحال محفوظ رکھا ہے۔ اور میچ فکسنگ میں تو تمھارے یہاں ایک سے ایک ماہر اور شاطر پہلے ہی موجود ہے۔ لہٰذا ہماری طرف سے میچ فکسنگ کوچ مقررّ کرنا بے کار ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہر ایک کھلاڑی پر تین تین کوچ مقرر کیے جاتے، لیکن ایک غریب ملک کو اتنا زیر بار کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ گو کہ اِس مد میں ہم کافی رقم دے رہے ہیں اور آئندہ بھی دیتے رہیں گے۔ آخر یہ رقم خرچ بھی تو ہمارے ہی آدمیوں پر ہو گی۔ تم بس وقت پر سود ادا کرنے کے گنہ گار ہو گے۔

 

یہ تینوں کوچ پاکستان کوچ کرنے کے لیے بورڈ کے حکم پر ’’ آن بورڈ‘‘ میں۔ اگرچہ اِن کی عمروں کی سنچری مکمل ہونے والی ہے، مگر ابھی اِن کا دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ ہرگز معلوم نہیں ہوتا۔ اِن کی صحّت دیکھ کر تم بھی رشک کرنے لگو گے۔ بیٹنگ کوچ تو اِس عمر میں بھی بڑے ہی زندہ دل اور شگفتہ مزاج واقع ہوئے ہیں۔ بات سے بات پیدا کر کے قہقہے لگانا اِن کی سرشت میں شامل ہے۔ ہر وقت ہنستے اور ہنساتے رہتے ہیں ، لیکن یہ نہ سمجھ لینا کہ وہ بس ہنسی مذاق میں ہی وقت گزار دیتے ہیں اور مفت کا معاوضہ بٹورتے ہیں۔ خیر سے وہ بے حد فرض شناس کوچ میں اور دن رات کرکٹ کی بھلائی کے بارے میں ہی سوچتے رہتے ہیں۔ اِن کی کرکٹ سے محبت اور وابستگی کا ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے ایک شاعر عزیز نجیب آبادی سے ایک دُعا بھی لکھو لی ہے، ’’ایک کرکٹر کی دعا‘، کے عنوان سے۔ تمھارے بلّے باز میدانِ عمل میں کود پڑنے سے قبل اگر صدقِ دل سے یہ دعا پڑھ لیں تو اُن کی روح میں ایک تازگی سی سرایت کر جائے گی، جسم میں بجلی بھر جائے گی اور وہ میدان میں چوکڑیاں بھرنے لگیں گے۔ یہ دعا اِس خط کے ساتھ منسلک ہے۔ جی چاہے تو ابھی سے اپنی ٹیم کو ازبر کروا دو اور خود بھی یاد کر لو۔

 

ایک کرکٹر کی دعا

 

یہ ارادہ ہے مرا یہ ہے تمنّا میری

زندگی غرق ہو کرکٹ میں خدایا میری

 

پڑھنے لکھنے میں یہ تسلیم رہا ہوں زیرو

مجھ کو کرکٹ میں بنا دے مرے مولا ہیرو

 

گیند بازی میں مرا ہو نہ کوئی ہم پلاّ

رن بر سنے لگیں جس وقت گھماؤں بلاّ

 

ہو مرا عزم جواں اور ارادہ پکّا

میں ہر اک گیند پہ ہر بار لگاؤں چھکّا

 

سنچری میری ہر اک میچ میں دو تین بنے

بولروں کو بھی چبانے پڑیں لو ہے کے چنے

 

کریز سے بھاگ کے رن لوں نہ یہ نوبت آئے

گیند وکٹوں سے بھی میرے نہ کبھی ٹکرائے

 

کیچ لے کر نہ مرا کوئی کھلاڑی اکڑے

چھوٹ جایا کرے ہر گیند وہ جس کو پکڑے

 

ٹیسٹ ہو کوئی یا میں کھیلنے  جائے ون ڈے

ہر جگہ فتح کے میں گاڑ کے آؤں جھنڈے

 

جب کبھی کھیلنے میں ملک سے باہر جاؤں

خالی جھولی کو انعامات سے بھر کر لاؤں

 

مجھ کو اِس کھیل میں ہر طرح کی شہرت دے دے

جو بھی دینا ہے وہ کرکٹ کی بدولت دے دے

 

عزیز نجیب آبادی

 

اِن تینوں کوچز کی قابلیت کا معیار یہ ہے کہ وہ فٹ بال اور بیس بال کے میدانوں میں بھاگ بھاگ کر گیندیں اٹھانے اور صفائی وغیرہ کا کافی طویل تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل ہمارے ماتحت کام کر رہے ہیں ، اِسی لیے انھیں کرکٹ سے کچھ لگاؤ ہو گیا ہے۔ ایک بار ایک کوچ نے ہم سے پوچھا کہ کرکٹ کا کھیل کس نے ایجاد کیا؟ ہم نے جواباً سوال کیا کہ موجود کے بارے میں کیوں جاننا چاہتے ہو؟ کہنے لگا کہ ہم اُس کا کورٹ مارشل کریں گے۔ اِن کی ایک اضافی اور خدا داد صلاحیت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی چند مقامی بولیوں میں کچھ درک رکھتے ہیں (خصوصاً گالیوں پر)۔ اگرچہ منھ میں دانت اور پیٹ میں آنت نہ ہونے کی وجہ سے اِن کا تلفّظ اور لب و لہجہ کچھ مختلف ہو سکتا ہے، لیکن تمھارے کھلاڑی بہت جلد اِن کی باتوں کو سمجھنے کے عادی ہو جائیں گے، کیوں کہ وہ اپنے مطلب کی بات سمجھنے میں بے حد ہوشیار ہیں۔۔۔۔ ہمارا مطلب ہے میچ گک۔۔۔۔ سنگ وغیرہ۔ خاص طور پر اپنے آقاؤں کی زبان سمجھ لینے کی اہلیت پاکستان قوم میں بدرجہ اتم موجود ہے۔

آؤ اب ہم اِن کی ملازمت کی شرائط وغیرہ طے کر لیتے ہیں۔ طے کیا کرنا ہے، بحیثیت برادرِ بزرگ سب کچھ ہم پہلے ہی طے کر چکے ہیں۔ بس تمھیں آگاہ کرنا باقی تھا، سو آج ہم اس فرض سے سبکدوش ہوتے ہیں۔

 

معاہدہ کی شرائط

مدّت معاہدہ             دو سال

تنخواہ                    ایک لاکھ ڈالر ماہانہ

مرسیڈیز کا ر بُلّٹ پروف مع ڈرائیور اور پیٹرول

کراچی اور لاہور میں ایک ہزار گز پر مشتمل بنگلہ فرنشڈ مع ملازمین اور خوردو نوش کا بہترین انتظام۔

اعلیٰ سیکیورٹی سروس اور انشورنگ

تمام طبّی سہولتیں۔ پاکستان کے علاوہ آمریکہ میں بھی۔

ہر تین ماہ بعد ایک ماہ کی رخصت مع تنخواہ۔ امریکہ آمد و رفت کا کرایہ۔

ششماہی تفریحی دورہ تمام اخراجات کے ساتھ۔

ہاں! یہ بتانا تو ہم بھول ہی گئے کہ اِن کی ذمہّ داریاں کیا ہوں گی؟ یہ سب کچھ ہم نے تمہاری صوابدید پر چھوڑ دیا ہے۔ تم لوگ آپس میں مشاورت کر کے تمام طریقۂ کار طے کر سکتے ہو۔ ویسے بھی ہمارے آدمیوں کو خوش رکھنے کا گُر تم لوگوں کو خوب آتا ہے۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلّف فون کر دینا۔ بچوں کا دل بہلانے کی خاطر چند آمریکی بلّے اور گیندیں بھیج رہے ہیں۔

 

خیر اندیش

چیئر مین امریکن کرکٹ بورڈ

 

٭٭٭

 

 

جادو کا ہاتھ

 

کسی دانشور کا قول ہے ’’بیوی سے محبت کرنا ایسا ہی ہے جیسے وہاں کھجایا جائے جہاں کھجلی نہ ہو رہی ہو۔‘‘ اِس سے اہل دل بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کھجلی کا رومانس سے کیسا گہرا تعلّق ہے، بلکہ یوں کہیے کہ اب تو کھجانا بھی آرٹ کی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔

موت اور خارش سے کسی کو مفر نہیں۔ لیکن جس طرح طب کی دنیا میں تحقیقات کا عمل جاری رہتا ہے۔ اِسی طرح کھجلی کے سلسلے میں بھی ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ اِس موذی مرض سے نجات حاصل کرنے کا تازہ ترین علاج یہ دریافت کیا گیا ہے کہ آم زیادہ سے زیادہ کھائیں اور کھلائیں۔ بلکہ کھلانے پر زور زیادہ ہے۔

جیب کی فکر سے یکسر آزاد ہو جائیں کیوں کہ ہر مہمان اپنا نصیب اپنے ساتھ لاتا ہے۔ ان شاءا ﷲ جلد ہی مرض جاتا رہے گا، او بہت ممکن ہے کہ مریض بھی۔ (تقدیر پر کس کا زور چلتا ہے۔) کھجلی بڑی ظالم شے ہے۔ کھجاتے رہیے اور کھجاتے رہیے، لیکن یہ ہے کہ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے اور کسی طرح آپ کے قابو میں نہیں آتی۔ کھجلانے کے لیے دونوں ہاتھوں کو انتہائی تکلیف دہ انداز میں طرح طرح سے ٹیڑھا کرنا پڑتا ہے، بالکل ٹیڑھی کھیر کی طرح۔ اور مزید دل چسپ صورتِ حال تو اُس وقت پیش آتی ہے جب آپ اپنی انگلیاں فگار کر کے اور عقل کے ناخن استعمال کر کے موقعِ واردات تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ، لیکن تب آپ کی مایوسی کی انتہا نہیں رہتی جب اچانک کھجلی اپنی جگہ سے کھسک کر ذرا دائیں بائیں یا آگے پیچھے ہو جاتی ہے۔ اب آپ میں کہ انتہائی بے چینی کے ساتھ پہلو پر پہلو بدل رہے رہیں اور اپنی سی ہر کوشش کر ہرے ہیں کہ اصل ہدف کو جا لیں ، مگر بے سود۔ خارش دم بدم بڑھتی ہی چلی جار ہی ہے۔ اور تب ایسے میں آپ کنگھی یا کسی کھردری لکڑی وغیرہ کا سہارا تلاش کرتے ہیں تا کہ اِس کے ذریعے اپنے بدن کو لہو لہان کر سکیں۔ لیکن کھجلی تو کھجلی ہی ہے۔ اُس کا کام چلنا اور چلتے رہنا ہے اور وہ آپ کو اونچا اُڑا نے کے لیے چلتی ہی چلی جاتی ہے۔ ہر طرف سے مایوس ہو جانے کے بعد آپ بالآخر نڈھال ہو کر گر پڑتے ہیں۔

کچھ دیر بعد جب اپ ہوش کے ناخن لیں گے تو آپ پر ایک نیا راز آشکارا ہو گا۔ سرشاری کی ایک عجیب کیفیت آپ کے قلب و ذہن پر طاری ہو جائے گی۔ آپ کو ایسا محسوس ہو گا کہ جیسے کھجلی آپ کی پشت پر تھی ہی نہیں ، یا وہ آپ کے بے ہنگم اور بے ڈول جسم کو چھوڑ کر نہ جانے کہاں غائب ہو گئی ہے۔ یوں جیسے کوئی بد روح کسی عامل کی جھاڑ پھونک سے خوف زدہ ہو کر بھاگ گئی ہو۔ اب آپ اِس سوچ میں پڑ جائیں گے کہ کہیں آپ عالمِ بالا میں تو نہیں آ گئے؟ موت کا دہشت ناک خیال آتے ہی آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے اور چند لمحے کانپنے کے بعد آپ کی آنکھ کھل جائے گی۔ لیکن ابھی آپ اپنی نئی زندگی کی خوشی سے پوری طرح لطف اندوز بھی نہ ہونے پائے ہوں گے کہ کھجلی دوبارہ آ دھمکتی ہے، گویا کسی عاملِ غیر کامل کا وظیفہ اپنے اثر کی میعاد ختم کر چکا ہو۔ اب آپ دوبارہ تڑپیں گے، مچلیں گے اور فریاد کریں گے لیکن کچھ کر نہ پائیں گے۔

اور اب وہ نازک وقت آتا ہے جب آپ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی بیگم کی خدمات حاصل کرنے پر مجبور ہوں گے۔ اِسی لازوال دن کے لیے ہمارے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ شادی سنّت اور عبادت بھی ہے۔ شادی کے بعد ایک عدد خاتون آپ کی شریکِ حیات بن جاتی ہیں اور وقت بے وقت کام آتی ہیں۔ آپ نے وہ مثل تو سن رکھی ہو گی۔ ’’اہلیہ آید بکار‘‘ یعنی بیوی کام میں آتی ہے۔‘‘ بعض کم فہم لوگوں نے اِس کے غلط سلط معانی بھی گھڑ لیے ہیں ، جیسے ’’بیوی کام سے آتی ہے‘‘ یعنی جب اُسے آپ سے کوئی خاص فرمائش منوانی ہو۔ دوسرے معانی یہ لیے گئے ہیں کہ اہلیہ کار میں آتی ہے۔ یہ معانی تو انتہائی احمقانہ ہیں۔ کیا بیوی گھر پر نہیں رہتی جو کہیں اور سے کار پر آئے گی؟

مگر پیروں کی خارش کی بات ہی اور ہے۔ یہ کھجلانے کے لیے بڑی ہی آئیڈیل جگہ ہے۔ ہر چیز آپ کے سامنے اور مکّمل طور پر دائرۂ اختیار میں ہے۔ آپ آٹھ ناخنوں کا استعمال نہایت بے دردی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ داد اور چنبل کو پھلنے پھولنے میں ذرا دیر نہیں لگتی، اور پھر یہاں کھرنڈ بھی خوب جمے گی۔ کھرنڈ کو کھر چنے میں جو لطف ہے وہ دنیا کی کسی اور چیز میں کہاں۔ جب جب اپ کھرنڈ کو کھرچیں گے تب تب لذّت اور سرشاری کی ایک نئی دنیا سے گذریں گے۔ ایسے موقع پر آپ کسی کی کچھ مت سنیں۔ گھر والے بہت کچھ کہتے رہیں گے مگر آپ گل محمد بن کر اپنا کام کرتے رہیں۔ دوستوں اور دفتر کے ساتھیوں کے تلخ و ترش جملوں کو بھی نظر انداز کر دیں ، کیونکہ کھرنڈ کھرچنے کا جو مزا ہے، اُس کے آگے دنیا کی ہر چیز ہیچ ہے۔

گذشتہ دنوں ہمارے فرزندِ دلبند نے ہمیں ایک نہایت ہی عجیب اور انتہائی غریب یعنی کم خرچ بالا نشین قسم کا تحفہ پیش کیا۔ ایسا نادر و نایاب تحفہ شاید ہی کوئی کسی کو دیتا ہو گا، خصوصاً بیٹا باپ کو۔ یہ پلاسٹک کا ایک چھوٹا سا بازو ہے جس کے دستِ حنائی کے عین درمیان پلاسٹک کے ہی پچیس عدد کانٹے پیوست ہیں۔ اِس ہتھیلی کو آپ مطلوبہ جگہ پر لے جائیں ، ایک بٹن دبائیں اور یہ کانٹے مسلسل گردش کر کے آپ مطلوبہ جگہ پر لے جائیں ، ایک بٹن دبائیں اور یہ کانٹے مسلسل گردش کر کے آپ کو سکون و راحت کی ایک نئی دنیا میں لے جائیں گے۔ آپ کا جب تک جی چاہے اِس ہاتھ سے فائدہ اٹھائیں۔ آپ کے ہاتھ تھک جائیں گے، لیکن یہ ہاتھ نہیں تھکے گا، جب تک کہ سیل ختم نہ ہو جائیں۔

یہ زمانہ لیکن بچکانہ ہاتھ ہے تو کانٹوں سے بھرا ہوا، مگر بے حد کیف آور، ہمارا دوستانہ مشورہ ہے کہ آپ بھی یہ آلہ خرید لیں اور بوقتِ ضرورت اِس کو استعمال کریں۔ کبھی کبھی کانٹے بھی اِس قدر بھا جاتے ہیں کہ بے اختیار اِنھیں سینے سے لگا لینے کو جی چاہنے لگتا ہے۔ اِس دستِ خارزار کی کرامت دیکھ کر بے اختیار لبوں پر یہ مشہور مصرع آ جاتا ہے:

’’گلوں سے خار بہتر ہیں جو خارش تھام لیتے ہیں ‘‘

اب آخر میں اطہر شاہ خان کا ایک شعر سُنتے چلیے جو اُنھوں نے محفل کے آداب اور گنجے پن کے تعلّق سے لکھا، فرماتے ہیں :

ہم اگر گنجے ہیں لوگوں کو توجہّ کیوں دِلائیں

سر میں کھجلی ہو تو گھُٹنے پر کھجانا چاہیے!

٭٭٭

 

 

 

ایک ایڈیٹر کا خط، ایک قلمی معاون کے نام

 

(روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ!)

 

محترمہ جناب بسیار نویس صاحب، آداب عرض!

گزشتہ چند ماہ کے دوران آپ کے بے شمار شاہکار مزاحیہ مضامین ہمارے ادارے کو موصول ہوئے۔ ہم آپ کے بے حد شکر گزار ہیں کہ آپ نے ہمیں اِس قابل سمجھا اور اپنی تحریروں سے نوازا۔ جب ہم نے آپ کی مضمون نویسی کی رفتار کے بارے میں اندازہ لگایا تو اوسط، دس دن فی مضمون کا رہا۔ اِس شان دار کارکردگی پر ہماری طرف سے مبارک باد قبول فرمائیے:

ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند

آئیے! اب کے چند مضامین کے بارے میں کچھ ہلکی پھلکی رائے زنی کر لی جائے۔ آپ کی اوّلین کوشش ’’آپ کا ستارہ‘‘ کے زیرِ عنوان ایک مضمون تھا عنوان سے تو یہ اندازا ہوتا ہے کہ علمِ نجوم اور قسمت کے حال کے بارے میں آپ نے کچھ اظہارِ خیال کیا ہو گا، لیکن مضموں میں آپ نے سارا زور کسی ستارہ نامی خاتموں کی حسن و جوانی کا حال احوال بیان کرنے میں صرف کر دیا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی ’’قربانیوں ‘‘ کے حساب کتاب کا گوشوارہ بھی پیش کیا ہے کہ آپ اب تک کتنے قیمتی تحائف مذکورہ خاتون کی نذر کر چکے ہیں ، مگر حاصل کچھ بھی نہ ہوا۔ اِس شان دار مضمون کا عنوان ’’آپ کی ستارہ‘‘ ہونا چاہیے تھا۔ بہر حال، آپ کی ستارہ آپ کو مبارک ہو! بہتر ہوتا کہ یہ مضمون آپ ماہنامہ ’’عشّاق‘‘ کو ارسال کرتے۔

اِس کے بعد آپ نے ’’جنگ بمقابلہ چنگ‘‘ پر طبع آزمائی کی۔ یہ مضمون آپ ہی کے شایانِ شان تھا۔ بحث کا آغاز تو آپ نہ جنگِ عظیم اوّل اور دوم سے کیا، لیکن پھر اِس کے بعد آپ راستہ بھٹک کر خانہ جنگی میں الجھ گئے اور اپنے گھر کے راز اگلنے شروع کر دیے کہ وہاں جنگ کیسے اور کب شروع ہوتی ہے اور آپ کو یہ جنگ بند کروانے کے لیے کتنے ناگفتہ بہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پھر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ مضمون مزاحیہ ہے، آپ نے اِس میں کچھ بے سروپا باتیں بھی شامل کر دیں۔ غالباً آپ کو خدشہ ہو گا کہ اِس مضمون کو تاریخی اور سیاسی نہ سمجھ لیا جائے۔ بہر حال بیرونِ خانہ اور دردنِ خانہ جھگڑوں پر مبنی یہ مضمون ہمارے رسالے کے لیے ہر گز موزوں نہیں ہے۔

اِس کے چند ہی دنوں بعد ’’ہاتھی اور شیر‘‘ کے عنوان سے آپ کا ایک بھاری بھرکم مضمون ہمارے پاس پہنچا۔ لگتا ہے کہ پوسٹ آفس والوں سے آپ کے بڑے اچھے تعلّقات ہیں ، جو آپ کے مضامیں فوراً متعلّقہ اداروں تک پہنچا دیتے ہیں ،یا پھر اِن کی ہمارے ادارے سے دشمنی ہے کہ ایسے بھاری بھرکم لفافے ہمارے سر تھوپ دیتے ہیں۔

بہر حال، آمد بر سرِ مطلب۔ عنوان سے تو یوں لگتا تھا کہ یہ کوئی عام سا مضمون ہے، جیسے بچّوں کے لیے لکھا گیا ہے، لیکن ہم نے بزمِ اطفال میں شمولیت کے نقطۂ نظر سے جب یہ مضمون پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ یہ تو بالغوں کے لیے ہے۔ آپ نے ہاتھی اور شیر کی کہانی لکھنے کے بجائے ہتھنی اور شیرنی کے پوشیدہ امراض اور اِن کے علاج پر بحث کی ہے۔

اِس قسم کی معلومات بچّوں کو تو کجا بالغوں کو بھی فراہم کرنا ہمارے معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ ہاں ، اگر آپ بحیثیت ڈنگر ڈاکٹر اِس مسئلے پر مزید تحقیق کر کے امراض کی تشخیص اور علاج پر مشتمل ایک کتاب تحریر کر دیں تو یہ کتاب زمانہ جانوروں کے لیے بے حد کار آمد ثابت ہو سکتی ہے۔ یہ بھی امکان ہے کہ اِس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ جانوروں کی خواتین کے مستند ڈاکٹر تسلیم کر لیے جائیں۔ پھر آپ بڑے فخر کے ساتھ اپنے نام کے آگے ماہرِ امراضِ نسواں (حیوانات) بھی لکھ سکیں گے!

اگلا مضمون جو زیرِ بحث ہے، وہ ہے ’’ذرا عمرِ رفتہ کو آواز دینا۔‘‘ آپ نے لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں آپ کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ جب ذرا بحال ہوئی تو آپ کو بچپن سے لے کر جوانی تک کے اپنے تمام بچھڑے ہوئے دوست یاد آنے لگے۔ اِس مضمون کو پڑھ کر ہماری طبیعت ناساز ہونے گلی۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ آپ نے مضمون کے آغاز میں تو عمرِ رفتہ کو آواز شائستگی سے دی ہے لیکن رفتہ رفتہ آپ کا قلم آپ کے دوستوں کی غیر شائستہ حرکات کی تصویر کشی پر اُتر آیا۔ تعجب ہے کہ آپ نے اخلاق کی دہلیز سے اُتر آنے پر اِترانے کی ضرورت بھی محسوس فرمائی۔ ہمارے معذرت قبول فرمائیے۔

پھر صرف چار دن بعد ہمیں آپ کا ایک اور شاہکار ’’انسان مزاح کیوں پسند کرتا ہے‘‘ کے عنوان سے موصول ہوا۔ یہ مضمون رنگ برنگے کارٹون اور عجیب و غریب تصاویر سے مزیّن ہے، جنھیں آپ نے چند رسالوں اور کتابوں سے کاٹ کر چسپاں کیا ہے۔ آپ نے غیر دلچسپ انداز میں یہ واضع کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان مزاح کیوں پسند کرتا ہے۔ مضموں کا انتخاب تو آپ نے واقعی بہت خوب کیا، لیکن آگے چل کر آپ کی ذہنی رو ایک بار پھر بہت گئی اور آپ اِس نکتے پر اپنے علم کے دریا بہارنے لگے کہ کون کون سے اعضائے انسانی پر مزاح کتنا زیادہ یا کم اثر کرتا ہے۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا، لیکن اِس کے بعد آپ گرتے چلے گئے۔

حتیٰ کی تلووں پر آ کر دم لیا۔ آپ کے اِس مضمون کا لبِّ لباب یہ تھا کہ تلووں کی گدگدی بہترین مزاح ہے، جس کے نتیجے میں انسان ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتا ہے۔ بہت خوب، آپ کی اِس لاجواب تحقیق پر آپ کو انعام ضرور ملنا چاہیے۔ آپ مستقبل قریب میں ہمارے دفتر تشریف لائیں ، تاکہ ہم اپ کے تلووں میں گدگدی کر کے آپ کو بے حال کر سکیں۔ آپ یہ بہترین مزاح کبھی فراموش نہ کر سکیں گے۔

اگر ہم آپ کے ہر مضمون پر بحث کریں گے تو یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جائے گا، اِس لیے ہم آپ سے فقط ایک گزارش کر کے اجازت چاہیں گے، اور وہ یہ ہے کہ آئندہ اپنی نگارشات ہمیں ارسال مت کیجیے گا۔ ملک میں ایسے رسائل و جرائد موجود ہیں جو اِس قسم کے مضامیں لکھنے والوں کے نہ صرف گوشے لگاتے ہیں ، بلکہ خصوصی نمبر بھی شائع کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اِن پر بھی نظرِ کرم کیجیے!

 

خر اندیش

ایک مظلوم مدیر

٭٭٭

 

 

 

اُنھیں موٹر چلانا آ گیا ہے

 

ڈرائیونگ بڑا مشکل فن ہے۔ ہر ڈرائیور اِس فن میں طاق نہیں ہوتا، خواہ وہ کتنا ہی طویل تجربہ کیوں نہ رکھتا ہو۔ کار چلانے کے اپنے چالیس سالہ تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے ہم نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ دنیا کا اچھے سے اچھا ڈرائیور بھی دوسروں کی نظروں میں اناڑی ہوتا ہے۔ جس طرح ہر شخص اپنے آپ کو دنیا کا عقل مند ترین شخص قرار دیتا ہے۔ اِسی طرح ہر ڈرائیور اپنے آپ کو ماہر ڈرائیور قرار دے گا اور دوسرے ڈرائیور کو بدھو۔ آپ کو بھی ایسا تجربہ ہوا ہو گا کہ جب آپ ڈرائیونگ کر رہے ہوں تو آپ کے ساتھ بیٹھا ہوا شخص، خواہ وہ ڈرائیونگ کے اصول سے ناواقف ہی کیوں نہ ہو، قدم قدم پر نکتہ چینی کر رہا ہو گا اور کسی سخت گیر استاد کی طرح آپ کو سخت سست کہہ رہا ہو گا، ’’آہستہ کیوں چلا رہے ہو؟ آگے والی گاڑی کو کراس کرو۔ پیچھے سے آنے والی گاڑی آگے جانا چاہتی ہے، خبردار آگے نہ نکلنے پائے۔‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ آپ لمحہ بہ لمحہ نئی نئی ہدایات سنیں گے اور دل ہی دل میں جل بھن کر کباب ہوتے رہیں گے۔ کچھ ایسی ہی صورتِ حال اُس وقت بھی ہو گی جب اسٹیئرنگ کسی اور کے ہاتھ میں ہو گا اور آپ اُس کے ساتھ یہی سلوک کر رہے ہوں گے۔ آپ کو یہ درد مستقل ستاتا رہے گا اِس شخص کو تو ڈرائیونگ کی الف بے کا بھی علم نہیں۔ نہ معلوم ایسے اناڑیوں کو لائسنس کہاں سے مل جاتا ہے۔

بعض ڈرائیور حضرات بڑی جلدی میں ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں اُن کی راہ میں کوئی حائل نہ ہو اور وہ بلا روک ٹوک آگے بڑھتے چلے جائیں۔ آس پاس لہرانے والی گاڑیوں کو دیکھ کر اُن کے اعصاب تن جاتے ہیں اور وہ بڑبڑانا شروع کر دیتے ہیں۔ ’’سب کے سب گاڑی اس طرح چلا رہے ہیں ،جیسے سڑک اُن کے باپ کی ہے۔ سالے، سالوں سے گاڑی چلا رہے ہوں گے، مگر ابھی تک یو ٹرن لینا نہیں آیا، وغیرہ وغیرہ۔

بسوں اور ٹرکوں کے ڈرائیور حضرات تو اُکھڑے ہوئے ایک ادائے خاص سے اکھاڑے میں اُترتے ہیں۔ کسی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ گاڑی یوں چلاتے ہیں گویا اُنھیں قانون کی خلاف ورزی کرنے کا لائسنس مل گیا ہو۔ ٹریفک پولیس کے سوال کوئی اُن کا راستہ نہیں روک سکتا۔اور یہ رکاوٹ بھی خود ہی دور ہو جاتی ہے بس لائسنس کے اندر ایک خاص قسم کے ’’کاغذ‘‘ کا موجود ہونا شرط ہے۔۔۔۔۔!

آپ چوں کہ اپنے شہر کے چّپے چّپے سے واقف ہیں ، لہٰذا ایسے میں کوئی دوست یا شناسا آپ کو راستہ بتانے کی جرأت کرے تو آپ یقیناً تلملا اٹھیں گے۔ ایک صاحب نے جب گاڑی چلانے والے صاحب کو بتایا کہ سگنل سے یو ٹرن ہو کر بائیں ہاتھ دوسری گلی میں مڑ جائیں اور پھر آگے تیسری گلی میں داخل ہو کر باہر نکلیں تو سامنے ہی بلدیہ کا دفتر نظر آ جائے گا۔ وہ صاحب سُنی ان سُنی کرتے ہوئے سگنل عبور کر گئے تو مشورہ دینے والے نے ذرا تلخ لہجے میں کہا کہ میں نے آپ کو سیدھا راستہ بتایا تھا، آپ کہاں چلے جار ہے ہیں ؟ تب گاڑی والے صاحب سے بھی نہ رہا گیا۔ اُنھوں نے اِس سے بھی زیادہ بگڑے ہوئے تیور سے جواب دیا کہ گاڑی میں چلا رہا ہوں یا آپ، خاموش بیٹھے رہیں۔ مجھے معلوم ہے کہاں جانا ہے اور کس راستے سے جانا زیادہ مناسب رہے گا۔

راہِ راست برو گرچہ دور است

اگر آپ کے ساتھ آپ کی بیگم بیٹھی ہوں تو اُنھیں آپ ایسا تلخ جواب نہیں دے سکتے، بلکہ کچھ بھی نہیں کہہ سکتے۔ یہاں آپ کی قوتِ برداشت کا اصل امتحان ہو گا۔ بیگمات اپنے شوہر کی ڈرائیونگ سے کبھی مطمئن نہیں ہوتیں اور قدم قدم پر نکتہ چینی کرنا اپنا فرضِ عین سمجھتی ہیں۔ اُن کا یہ راسخ عقیدہ ہے کہ اگر شوہر پر روک ٹوک نہ کی تو قیامت کے دن خدا ان سے سخت باز پرس کرے گا، لہٰذا بیگم صاحب کی زبان مسلسل چل رہی ہو گی، بالکل اُس گاڑی کی طرح جس کے بریک فیل ہو چکے ہوں ، ’’بریک آہستہ لگایا کریں۔ گیئر سلیقے سے تبدیل کریں ، اتنا جھٹکا کیوں لگا رہے ہیں ، کیا آپ کو سگنل نظر نہیں آ رہا، یہ آپ کسی طرح گاڑی چلا رہے ہیں ، وہ دیکھیں سامنے سے بس آ رہی ہے، دیکھیے پل آ رہا ہے، گاڑی کو ریلنگ سے ذرا فاصلے پر رکھیں!‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

جب بیگم صاحب کار چلا رہی ہوں تب تو آپ کو اور بھی زیادہ صبر اور برداشت سے کام لینا پڑے گا۔ آپ کو چون و چرا کرنے کی بالکل اجازت نہیں۔ آپ اُن کو اُن کی کسی غلطی پر ٹوک نہیں سکتے۔ اگر آپ سے یہ غلطی سرزد ہو جائے تو پھر نتیجے کے ذمہّ دار بھی آپ خود ہوں گے۔ وہ جو کچھ اور جیسے کر رہی ہوں ، کرنے دیجیے بلکہ ہو سکے تو انھیں داد دیجیے، جیسے مشاعروں میں با ذوق سامعین ایک ایک مصرع، بلکہ ایک ایک لفظ اٹھاتے ہیں اور داد دیتے ہیں۔ آپ مکرّر مکرّر کا نعرہ تو یہاں نہیں لگا سکتے، کم از کم واہ واہ تو کر سکتے ہیں۔ اگر غلطی ہو جائے تو بھی حوصلہ افزائی کرنے میں فراخ دلی سے کام لیجیے کہ اِسی میں آپ کا بھلا ہے۔ اگر اُنھوں نے کسی گاڑی کو غلط اوورٹیک کیا تو آپ کہیے، شاباش، بہت اچھے۔ آپ نے ٹھیک کیا جو آگے نکل آئیں ، ورنہ وہ کاہل کا بچہ تو عاجز کر کے رکھ دیتا۔

بیگم صاحب سگنل توڑ کر کہیں پھنس گئی ہیں تو آپ دست بستہ عرض کریں کہ یہاں کا نظام ہی بگڑا ہوا ہے، کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔ اگر کسی گاڑی سے معانقہ ہو جائے تو کہیے کہ بڑا بے ہودہ ڈرائیو ہے، کم بخت کو ذرا بھی تمیز نہیں کہ کسی خاتون کی گاڑی سے سرِ راہ یوں ملاقات نہیں کیا کرتے۔ آپ آرام سے بیٹھی رہیں ، میں ابھی اِس نامعقول کی درگت بنا کر آتا ہوں ، وغیرہ وغیرہ۔

برخلاف اِس کے اگر آپ موٹر سائیکل کے مالک ہیں تو آپ سراسر فائدے میں ہیں۔ یہاں کار والی کیفیت آپ کے ساتھ نہیں ہو گی۔ موٹر سائیکل پر آپ خود مختار اور آزاد ہوتے ہیں۔ جب آگے بیٹھ کر آپ ایکسیلریٹر دبا رہے ہوں گے تو اُس وقت پچھلی نشست پر بیٹھی بیگم صاحب بھیگی بلّی بنی اپنی ساڑھی اور برقع سنبھال رہی ہوں گی۔ لیکن برا ہو ماہرینِ ازدواجیات کا، جو موقع بے موقع عورت کی عظمت اور اُس کی شان میں کوئی نہ کوئی ضرب المثل ایجاد کر ڈالتے ہیں۔

اُنھوں نے اِس موقعے کے لیے بھی ایک فرمان جاری کر دیا کہ ہر بڑے آدمی کی پشت پر کسی نہ کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ موٹر سائیکل رکھنے والے اِس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ چلتے وقت پشت پر اُن کی بیوی کا ہاتھ ہوتا ہے۔۔۔۔۔!

ایک سروے رپورٹ کے مطابق تئیس فی صد خواتین پارکنگ کرتے ہوئے وہاں کھڑی کسی نہ کسی گاڑی سے اپنی گاڑی ٹکرا دیتی ہیں ، جب کہ پندرہ فی صد اپنی گاڑی ریورس کرتے ہوئے دوسری گاڑی کا کام تمام کر دیتی ہیں ، کیوں کہ وہ فاصلے کا تعّین کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتی ہیں۔ نیز اتنے کم حادثے اِس وجہ سے ہوتے ہیں کہ مردوں کے مقابلے میں خواتین ڈرائیونگ کم کرتی ہیں۔۔۔۔۔ اِن کی مسافت گھر سے اسکول یا پھر ’’آپ کے مال‘‘ سے ’’شاپنگ مال‘‘ تک محدود ہوتی ہے!

گزشتہ دنوں ہماری ازدواجی زندگی کی تاریخ میں ایک بڑا سانحہ ہوا یعنی بیگم صاحب نے ڈرائیونگ سیکھ لی! اُن کے ڈرائیونگ سیکھنے سے ہمارا ایک نقصان تو یہ ہوا کہ کار کی چابی ہم سے چھن گئی، اور دوسرا یہ کہ اب کہیں بھی جانا ہو تو بیگم صاحب فرماتی ہیں ، ’’چلیے، میں آپ چھوڑ دیتی ہوں (حالاں کہ اُنھوں نے ابھی تک ہمیں چوڑا نہیں!)۔ آپ کو چھوڑ کر میں ذرا بیوٹی پارلر چلی جاؤں گی۔‘‘ گاہے بگاہے شام کے وقت کسی دوست سے ملنے کی خواہش ہو تو بڑی ادا اور نزاکت سے کہیں گی کہ میری ایک سہیلی بھی اُسی طرف رہتی ہے۔ بہت دنوں سے ملاقات نہیں ہوئی۔ آپ دوست کے پاس بیٹھے رہیے گا، میں واپسی میں آپ کو لے لوں گی۔ اب ہم کر بھی کیا سکتے ہیں۔ سوائے اِس کے کہ اپنی بے بسی پر آنسو بہاتے ہوئے یہ شعر گنگناتے رہیں :

پیامِ قاتلانہ آگیا ہے، قیامت کا زمانہ آگیا ہے

سڑک پر ہمیں مرنا پڑے گا، اُنھیں موٹر چلانا آگیا ہے

٭٭٭

 

 

 

سیلز ڈاگ

(ماخوذ)

 

یہ بے تکلّف دوستوں کی ایک محفل تھی۔ جاوید کہنے لگا:

’’پچھلے اتوار میں ایک دعوت میں گیا۔ اُن کا کتّا بڑا ہی زیرک اور ذہین تھا۔ میں تو اُس کی حرکتوں سے بے حد متاثّر ہوا۔‘‘

’’ہاں! ایسا بالکل ممکن ہے۔ بعض کتّوں میں خدا داد صلاحیت ہوتی ہے۔ اب ذرا میرے ہی کتّے کو دیکھو۔ وہ پچھلے دو پیروں پر چالیس فٹ تک چل لیتا ہے۔‘‘ فاروق نے سک ستائی کی!

’’تم لوگوں نے میرے ٹائیگر کو دیکھا ہو گا۔ وہ اتنا ذہین تھا کہ لوگوں نے اُس کا نام ’آئن اسٹائن ‘ رکھ دیا۔‘‘ زارا بھلا اِن سے پیچھے کیسے رہتی۔

’’لیکن تمھارے کتّے میں ایسی کیا خوبی تھی؟‘‘ جاوید نے سوال کیا۔ ’’میں دعوے کے ساتھ کہتا ہوں کہ تمھارا کتّا اُس کتّے سے بہتر نہیں تھا، جس کو میں نے دعوت میں دیکھا تھا۔ اُس کتّے کو تو سرکس میں کام کرنا چاہیے تھا۔‘‘

’’ہمارے ٹائیگر میں جو خوبیاں تھیں وہ کسی اور کتّے ہو ہی نہیں سکتیں۔‘‘

زارا کا شوہر ارشاد اپنے کتّے کی ہتک برداشت نہ کر سکا۔ ’’ٹائیگر انسانی باتیں بھی اچھی طرح سمجھ لیتا تھا۔ ایک دن مجھے کچھ تھکاوٹ اور سردی محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے زارا سے کہا کہ اگر ایک کمبل مل جائے تو کتنا اچھا ہو۔ ٹائیگر اُسی وقت اٹھ کر گیا اور دو منٹ بعد جب وہ واپس آیا تو اُس کے منھ میں کمبل دبا ہوا تھا۔‘‘

فاروق نے بے یقینی کے ساتھ ارشاد کی طرف دیکھا اور کہنے لگا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ میں تمھارے اِس مبالغے پر یقین کر لوں گا؟ اگر کوئی کتّا واقعی انسانی زبان سمجھ سکتا ہو تو وہ کتّوں کا افلاطون یا سقراط ہو گا۔ میں نہیں مانتا۔‘‘

’’تم نے شاید زارا کی بات دھیان سے نہیں سنی۔ لوگ ہمارے ٹائیگر کو آئن اسٹائن کہتے تھے۔ ابھی میں نے جو کمبل والا واقعہ بیان کیا ہے، وہ تو کچھ بھی نہیں۔ وہ دفتر کے کاموں میں بھی میری مدد کیا کرتا تھا۔‘‘ ارشاد نے اپنے کتّے کی ایک اور خوبی کا ذکر کیا۔

’’دفتر کے کام۔۔۔۔۔۔؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر پوچھا۔

’’ہاں ہاں۔ وہ تمام ڈاک اپنے دانتوں میں دبا کر گاڑی میں رکھ دیتا تھا۔ ہمارا ایک آدمی گاڑی لے کر پوسٹ آفس جاتا تو گاڑی میں ٹائیگر بھی بیٹھ جاتا اور پوسٹ آفس پہنچ کر اِسی طرح تمام ڈاک اپنے منھ میں پکڑ کر کلرک کی کھڑکی پر رکھ آتا۔‘‘

سب لوگ دم بخود یہ داستان سن رہے تھے۔ ارشاد نے انتہائی فخر کے ساتھ ایک ایک کو دیکھا اور پھر اُن کی حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے اپنے کتّے کا ایک اور کمال بیان کرنے لگا:

’’ٹائیگر کا ذہن کاروباری تھا۔ جب کوئی پارٹی بات چیت کے لیے ہمارے دفتر آتی تو ٹائیگر ہماری باتیں بڑے غور سے سنتا۔ اگر بات چیت میرے لیے مفید ہوتی تو اُس کی دم ہلنے لگی۔ دوسری صورت میں وہ زور زور سے بھونکنے لگتا۔ (ارشاد کی زبان تیزی سے چل رہے تھی) کچھ دنوں بعد وہ ہمارے سپر اسٹور میں سیلز مین کے فرائض انجام دینے لگا۔ ہم مختلف اشیا پیک کر کے اُن پر قیمت لکھ دیتے۔ ٹائیگر مطلوبہ پیکٹ گاہک کے حوالے کرتا اور قیمت لے کر کیش باکس میں رکھ دیتا۔

چوں کہ کتے کو تنخواہ نہیں دینی پڑتی تھی، اِس طرح ایک سیلز مین کی تنخواہ بھی بچ جاتی تھی۔ بہت سے گاہک تو محض اِس عجیب و غریب کتّے کو کام کرتا ہوا دیکھنے کے لیے ہمارے اسٹور میں آنے لگے تھے۔‘‘

’’ذرا ٹھہرو!‘‘ جاوید نے قطع کلامی کرتے ہوئے کہا۔ ’’اگر تمھارا ٹائیگر اتنا ہی عجیب و غریب تھا تو اُس کی کوئی خبر کسی اخبار، ریڈیو یا ٹیلی وژن پر کیوں نہیں آئی؟ وہ لوگ تو ایسی خبروں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔‘‘

ارشاد ذرا سراسیمہ ہو گیا، لیکن پھر فوراً اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے بولا: ’’یہ سوال تم اُن سے پوچھو۔ ویسے بھی یہ اُس وقت کی بات ہے، جب ٹی وی اِس ملک میں عام نہیں ہوا تھا (چند لمحوں کے توقّف کے بعد وہ پھر گویا ہوا) ہماری دکان بڑے مزے سے چل رہی تھی۔ ہمارا ’آئن اسٹائن‘ ایک اچھّے سیلز میں کے فرائض انتہائی خوش اسلوبی سے انجام دے رہا تھا۔ خاص طور سے بچّوں کو چاکلیٹ ٹافی وغیرہ فروخت کرتے ہوئے تو اُسے بڑا ہی لطف محسوس ہوتا۔۔۔۔ اور۔۔۔۔‘‘

فاروق اس کی بات کاٹتے ہوئے طنز یہ لہجے میں بولا: ’’کیا وہ کیش رجسٹر اور روزانہ کا حساب کتاب بھی لکھ لیتا تھا؟‘‘

’’اِس میں کیا شک ہے۔ ہم اُسے اِس کام کی بھی تربیت دے رہے تھے اور وہ کافی کچھ سیکھ بھی گیا تھا ارشاد نے مسکراتے ہوئے ایک بار پھر اپنے دم بخود ساتھیوں کو دیکھا اور آہستہ سے کہا ’’ کسی دن ضرور وہ اچھا اکاؤنٹنٹ بن جاتا۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ افسوس۔۔۔۔۔ ایک روز زارا نے اُسے ایک ایسی حرکت کرتے ہوئے دیکھ لیا کہ اُس سے ضبط نہ ہو سکا اور اُس نے لوہے کی ایک سلاخ مار کر ٹائیگر کو ہلاک کر دیا!‘‘

’’ارے! ایسے ذہین اور عجوبۂ روزگار کتّے کو مار ڈالا؟‘‘

فاروق کا یہ سوال تمام حاضرین کے جذبات کی ترجمانی کر رہا تھا۔

’’دراصل بات یہ ہے کہ زارا نے اُسے اپنی ذاتی ڈائری پڑھتے ہوئے پکڑ لیا تھا۔‘‘

ارشاد نے انتہائی افسردگی سے جواب دیا!

٭٭٭

 

 

شہرِ نگاراں

 

ہمیں دنیا بھر کے تمام نگاروں سے بے حد محبت ہے، جیسے افسانہ نگار، مقالہ نگار، ناول نگار، مزاح نگار، نامہ نگار، خاکہ نگار وغیرہ، ہماری نگارشات اور بیگم کی گزارشات اِن کے علاوہ ہمیں! نگاروں کی یوں تو کئی اور بھی اقسام ہیں ، لیکن زمانے میں جس نگار کے چرچے عام ہیں اور جوہر خاص و عام میں مقبول ہے، وہ ہے نقش و نگار۔

ابتدائے آفرینش سے چہرے کے نقش و نگار نے دنیا بھر میں دھوم مچائی ہوئی ہے۔ لوگوں کی اکثریت اس کی دیوانی ہے۔ اپنی جان کا نذرانہ اِس نقش و نگار کے حصول کے لیے ایسے پیش کر دیتے ہیں ، جیسے زندگی کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ چند ایسے بھی دیوانے گزرے ہیں جنھوں نے تاج و تخت کو یک لخت ٹھکرا دیا اور اپنے من پسند نقش و نگار کے ساتھ پوری زندگی یوں گم نامی میں گزار دی گویا دونوں جہاں کی خوشیاں خرید لی ہوں۔

بہت دن ہوئے ایک صاحب ایران گئے اور وہاں سے نقش و نگار سے بھرپور ایک شاہکار اٹھا لائے۔ اُن کا خیال تھا کہ ایسا بے مثال حسن ان کی اور اُن کے خاندان کی قسمت میں چار چاند لگا دے گا، لیکن فلکِ ناہنجار بلکہ اُس حسینہ کے برادران کو اُن کی یہ جرائت ایک آنکھ نہ بھائی۔۔۔۔۔ اور وہ تلاشِ خواہر میں خوار ہوتے ہوتے ہمارے ملک آن پہنچے۔ موقع محل اور ہمارے ملک کے دستور کو ذرا بھی خاطر میں لاتے ہوئے بھری پری سڑک پر سینکڑوں لوگوں کے سامنے حسن و رعنائی کے عظیم شاہکار کے چہرے کے نقش و نگار بگاڑ کر چلے گئے۔ شاید اُنھیں معلوم تھا کہ یہاں طاقت والوں کا قانون چلتا ہے۔

جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ ہر شخص حیرت کی تصویر بنا سب کچھ دیکھتا رہا اور کسی مائی کے لال کو ذرا بھی جنبش کرنے کی ہمّت نہ ہوئی۔ یہاں تک کہ پولیس کو بھی۔۔۔۔۔ جس کا فرض اب یہی رہ گیا ہے کہ بس دیکھا کرو اور جب غنڈے، بدمعاش اور قاتل اپنا کام کر کے چلے جائیں تو نامعلوم ملزموں کے خلاف مقدمہ درج کر لو۔ دو چار روز اخباروں میں سرخیاں شائع ہوں۔ بیانات آئین کہ ملزم بچ کر نہیں نکل پائیں گے، ہم اِنھیں جلد گرفتار کر لیں گے اور اِنھیں قرار واقعی سزا دی جائے گی وغیرہ وغیرہ اور اِس کے بعد سارا معاملہ ٹھپ۔۔۔۔ ملزم نامعلوم۔ مقدمہ داخلِ دفتر۔۔۔۔۔ نہایت آسان حل۔

ایک خاتون نے دیواروں پر آڑے ترچھے نقش و نگار بنا کر اپنے فن کا آغاز کیا۔ اور پھر وہ بڑی ہو گئیں۔۔۔۔ اور بڑی۔۔۔۔۔ وار بڑی۔۔۔۔۔ بلکہ بہت بڑی ہو گئیں۔ اتنی بڑی کہ پورے ملک میں اُن کا شہرہ ہو گیا اور وہ عظیم آرٹسٹ کہلائی جانے لگیں۔ لکین اُن کے بڑے ہونے کا عمل رکا نہیں۔ وہ مسلسل بڑی ہوتی چلی گئیں۔ یہاں تک کہ ہمارے ملک کی سرحدیں بھی اُن کی شہرت کو قابو کرنے میں ناکام ہو گئیں اور اُن کی مصّوری کا ڈنکا دنیا کے کونے کونے میں بجنے لگا۔

دیہات میں رہنے والے ایک شخص نے پہلی بیوی کی بیماری سے تنگ آ کر دوسری شادی کر لی۔

پہلی بیوی کو اُن کی یہ ادا سخت ناگوار گزری اور شادی کے صرف دس دن بعد سوکن اور شوہر پر کھولتا ہوا پانی پھینک کر اُن کے تمام حسین نقش و نگار پر پانی پھیر دیا۔ شاید پلاسٹک سرجری ہی اب اُن کے دکھ کا مداوا بن سکے۔ تیزاب اور گرم پانی سے چہرہ مسخ کر دینے کی رسم کے علاوہ ایک اور رسم بھی ہمارے یہاں خوب رائج ہے۔ آگ لگا کر بھسم کر دینے کی روایت۔۔۔۔۔ کبھی مُردوں کو اور کبھی بہوؤں کو۔

ایک زمانے میں ہفت روزہ زرنگار ہمارا محبوب پرچہ رہا ہے۔ ہم نہایت باقاعدگی سے زرنگار پڑھا کرتے اور کبھی کبھی کوئی فلمی مضمون بھی لکھ مارتے۔ کرنا خدا کا یوں ہوا کہ ہم نے ایک بار ایک انتہائی احمقانہ سوال پوچھ لیا۔ سوال کچھ یوں تھا کہ لوگ سوال کیوں پوچھتے ہیں ؟ آخر تھا نا ایک جاہلانہ اور احمقانہ سوال! سب جانتے ہیں کہ سوال پوچھنے سے معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے سوال کا جواب بھی اُن صاحب نے یہی دیا اور لکھا، ’’جہاں تک میری ناقص رائے کا تعلّق ہے، لوگ اپنے علم میں اضافہ کرنے کے لیے سوال پوچھتے ہیں ، لیکن آپ نے شاید اپنا نام شائع کرانے کے لیے یہ سوال پوچھا ہے۔‘‘ ہم پتا نہیں کس دھن میں آ کر یہ فضول سوال پوچھ لیا تھا، لیکن اگر سوال اتنا ہی احمقانہ تھا تو اُنھوں نے اسے شائع کیوں کیا، ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیتے۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی اُن کی ایک ادا تھی۔

وہ چاہتے تھے کہ تلخ جواب دے کر اپنا غصہّ اتاریں اور ہمیں شرمندہ کریں۔ بہر حال اِس جواب نے ہمارا حوصلہ پست کر دیا اور ہم نے فلمی مضامیں لکھنے سے توبہ کر لی اور ساتھ ہی زرنگار کو بھی ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔

آج کل بیوٹی پارلر نے لڑکیوں ، عورتوں اور خصوصاً دلہنوں کے نقش و نگار بگاڑ نے یا بنانے کی ذمہ داری اپنے سر لے رکھی ہے۔ یہ محنت طلب کام وہاں کام کرنے والی خواتین اِس خوبی اور مہارت سے کرتی ہیں کہ خود گھر والے بھی اِس لڑکی کو شناخت کرنے میں دھوکا جاتے ہیں جو ابھی ابھی بیوٹی پارلر سے نکل کر آئی ہے۔

ایک بار یہ حسین اتّفاق بھی سننے میں آیا کہ دو دلہنیں بننے سنور نے کے لیے بیک وقت بیوٹی پارلر میں داخل ہوئیں اور جب باہر نکلیں تو دونوں کے سر پرست اپنی اپنی لڑکی کو لے کر جانے لگے۔ لڑکیوں نے جب دیکھا کہ اجنبی لوگ اُنھیں اپنے ہمراہ لے جانا چاہتے ہیں تو اُنہوں نے شور مچا دیا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اِدھر کی دُلہن اُدھر اور اُدھر کی دُلہن اِدھر ہو گئی تھی۔

اِس فن میں آمدنی بہت زیادہ ہے۔۔۔۔۔۔ ظاہر ہے بیوٹی پارلر والوں کی۔ وہ اپنے شکاروں کو اِس خوبی سے لٹتی ہیں کہ خود شکار کو اپنے لٹ جانے کی خبر منھ دھونے کے بعد ہی ہوتی ہے۔ لیکن پہلے پہل تو وہ اپنی خوشی سے لٹ جانے میں ایک خاص قسم جی خوشی اور طمانیت محسوس کرتی ہیں ، بالکل اِس طرح جیسے عاشق اپنی محبوبہ کا دل جیتنے کے لیے اپنا سب کچھ نچھاور کر دیتا ہے اور اِس نشے میں سرشار رہتا ہے گویا ساری دنیا کو فتح کر لیا ہو۔

ایک خاتون نے شام کو بیوٹی پارلر سے واپس آنے کے بعد اپنی سات سالہ بیٹی سے دریافت کیا، ’’میں کیسی لگ رہی ہوں ؟‘‘ بیٹی نے جواب دیا ’’آپ بالکل اُس پری کی طرح لگ رہی ہیں ، جس کی کہانی کل رات نانی جان نے مجھے سنائی تھی۔۔۔۔۔۔ لیکن صبح کو آپ اُس چڑیل کی طرح لگیں گی جس کو میں نے خواب میں دیکھا تھا۔‘‘

لیکن اِس حقیقت سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ افزائشِ حسن باقاعدہ ایک فن ہے اور یہ فن سیکھنا ایک علم ہے۔ اپنے فن اور اپنی مہارت سے فائدہ ایک اُٹھانا یقیناً جائز ہے، لہٰذا بیوٹی پارلر والوں کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ اب یہ دوسرے فریق پر منحصر ہے کہ وہ کیسے سودے بازی کرتا ہے۔ یہاں ہم خاص طور پر ایک بہت بڑی خوبی کا ذکر نا چاہیں گے، جس کو تسلیم نہ کرنا کور ذوقی اور کم ظرفی کی علامت ہو گی۔ یہ فن اکثر اوقات عمر کا راز چھپانے میں بھی کامیاب ثابت ہوا ہے۔

ایک عورت صبح سویرے اپنی اصلی حالت میں ایک بیکری پر گئی اور اپنے بیٹے کے سالگرہ کے لیے کیک کا آرڈر دیا۔ شام کو محترمہ میک اپ کرنے کے بعد کیک لانے کے لیے گئیں۔ بیکری والا ایڈوانس آرڈر کی رسید دیکھ کر محترمہ کی شکل و صورت دیکھنے لگا۔ کچھ لمحے سوچا اور پھر بولا، ’’ہاں ہاں ، یاد آیا۔ آپ وہی کیک لینے آئی ہیں جس کا آرڈر صبح آپ کی والدہ محترمہ دے گئی تھیں۔‘‘

اگر ہمیں اِس انتخاب کا موقع دیا جائے کہ ہم دنیا کے کس شہر میں مستقل رہائش پذیر ہونا پسند کریں گے تو ہماری پسند ایک اور صرف ایک ہو گی،یعنی شہرِ نگاراں۔۔۔۔ یہ شہر یقیناً جنّت نظیر ہو گا، کیوں کہ یہاں ہر طرف، آگے پیچھے، دائیں بائیں نگار ہی نگار ہوں گی اور دنیا بھر کی رنگینیاں اور رونقیں اِسی شہر میں یکجا نظر آئیں گی۔ آپ لوگوں نے بھی اِس شہر کا نام سن رکھا ہے، لیکن شاید آپ اِس بات سے واقف نہیں ہوں گے کہ یہ خوب صورت شہر، شہرِ نگاراں دنیا کے نقشے پر کہاں واقع ہے؟

آیئے! ہم یہ بات چپکے سے آپ کے کان میں بتا دیتے ہیں۔ یہ شہر دور نہیں ، بلکہ ہمارے اندر ہی لیکن موجود ہے۔ اپنے دل میں جھانکیے یہ شہر آپ کو ضرور نظر آ جائے گا۔ آدمی خوش و خرّم رہے، ہنستا مسکراتا ہے اور دوسروں کو خوشیاں بانٹا رہے تو یہی اُس کے لیے شہرِ نگاراں ہے۔

گر شہرِ نگاراں بر روئے زمیں است

ہمیں است و ہمیں است و ہیں است

٭٭٭

 

 

 

چند صحّت مند مشورے!

(ترجمہ)

 

آج کے دور میں یہ ناممکن ہے کہ آپ کوئی میگزین، اخبار یا رسالہ اٹھائیں اور اِس میں وزن کم کرنے کا مشورہ، جسم کو متناسب رکھنے کے طریقے اور اپنے آپ کو خوب صورت بنانے کے رموز کے بارے میں قیمتی مشورے نہ دیے گئے ہوں۔ سرد اور گرم موسم کے مطابق الگ الگ ورزشیں اور ٹوٹکے ہیں ، جن پر عمل کر کے آپ نجانے کیا سے کیا بن سکتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے تجربات کی روشنی میں آپ کو چند گُر کی باتیں بتا دوں۔

میرا پہلا اور مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ براہِ کرم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر (یا لیٹ کر) جیسے آپ کا دل چاہے، اپنے پورے جسم کا بغور جائزہ لیجیے اور اپنے جسم پر ایک ناقدانہ نظر ڈالیے کہ اِس میں کہاں کہاں ڈینٹنگ اور پینٹنگ کی ضرورت ہے، اور اِس سلسلے میں آپ کو کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ ہر شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت اپنے آپ کو حسن و رعنائی کا شان دار مجسّمہ گردانتا ہے، لیکن جب آپ گہری نظر سے اپنی شخصیت کا جائزہ لیں گے تو اِس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ایک آدھ جگہ معمولی سی مرمّت کی ضرورت ہے۔ اگر میں آپ کی جگہ پر ہوتا تو میرا طریقِ کار یہ ہوتا کہ میں سب سے پہلے اپنی آرام دہ کرسی پر اطمینان سے جھولتے ہوئے مزے دار کافی نوشِ جاں کرتا۔ آپ کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔ اگر آرام کرسی میسّر نہ ہو تو کہیں بھی بیٹھ جائیں ، اِس لیے کہ آپ لیٹ کر تو کچھ بھی نوشِ جان نہیں فرما سکتے۔

کافی بھی اگر نہ مل سکے تو چائے، بلکہ ٹھنڈے پانی سے بھی گزارہ ہو سکتا ہے۔ ہر گز ہرگز یہ سوچ کر پریشان نہ ہوں کہ کافی اور چائے کے بارے میں ماہرینِ صحت کی کیا رائے ہیں اپنے لیے کافی پر ہی زور دوں گا کیوں کہ میں خوب صورتی کے راز پر یہ مضمون آپ کے لیے لکھ رہا ہوں ، اپنے لیے نہیں۔ میرا دوسرا قدم یہ ہوتا کہ میں گرما گرم کافی کا ایک بھر پور کپ اور پیتا اور پھر اِس نتیجے پر پہنچتا کہ مجھے کچھ نہ ضرور کرنا چاہیے، مگر آج نہیں کل۔

دوسرے دن میں وہ کتاب نکالتا جو سر فرانسس چسڑ نے لکھی ہے۔ کتاب کا نام ہے، ’’اپنے آپ کو صحّت مند رکھنے کا راز‘‘ مصنّف کا دعویٰ ہے کہ آپ اس کتاب کو پڑھنے اور اس کے مندر جات پر عمل کرنے کے بعد ایسے چست و چالاک اور متناسب ہو جائیں گے، جیسا کہ ایک نوجوان چیتا ہوا کرتا ہے (یاد رہے کہ وہ خود بالکل نحیف و لاغر ہے اور اِس کی صحّت ذرا بھی قابل رشک نہیں ، بلکہ قابلِ عبرت ہے)۔

میری بھی خواہش ہے کہ میں ایسا پھر تیلا اور چست و چالاک بن جاؤں ، جیسا کہ ایک چیتا اپنی جوانی کے دور میں ہوا کرتا ہے، لیکن اتنا زیادہ بھی نہیں کہ اپنے جبڑے میں ایک بھاری بھر کم نیل گائے اٹھا کر کئی فر لانگ کا سفر طے کر لوں اور وہ بھی اِس طرح کہ میرے شکار کے جسم کا کوئی حصہ زمین سے نہ لگنے پائے۔ بس میں اتنا چاہوں گا کہ میرا جسم توانائی سے بھر پور ہو۔ میری چال میں شاہانہ وقار آ جائے۔ میرے حواسِ خمسہ پورے عروج پر ہوں۔ مجھے چیتے جیسی وجاہت پسند ہے۔

قابلِ رشک چال اور خوب صورت چمکتا ہوا جسم اچھا لگتا ہے۔ سر فرانسس کہتے ہیں کہ صبح ایک گھنٹا چہل قدمی ضرور کرنی چاہیئے اور اِس دوران پورا منھ کھول کر جماہی لیتے رہنا چاہیے۔ میں نے اِس رائے پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اِس کے بعد مجھے سخت بھوک لگنے لگتی ہے۔ انھوں نے اِس بے چینی اور بھوک کو دور کرنے کا بھی ایک بہترین نسخہ ایجاد کیا ہے یعنی گوئلپا۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ گوئلپا کیا چیز ہے؟ یہ کوئی کھانے کی چیز نہیں ، بلکہ ایک ورزش کا نام ہے جو کہ ورزش سے زیادہ ایک اذیت ہے،بدترین اذیت۔ گوئلپا آپ کو ہر چیز کھانی پینے سے منع کرتا ہے، سوائے سیب کے جوس کے اور وہ بھی پہلے دن صرف ایک کپ۔ پھر دوسرے دن خشک ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا اور تیسرے دن کچھ بھی نہیں۔ اِس طرح آپ کے جسم میں اتنی طاقت ہی نہیں رہے گی کہ آپ انگڑائی اور تیسرے دن کچھ بھی نہیں۔ اِس طرح آپ کے جسم میں اتنی طاقت ہی نہیں رہے گی کہ آپ انگڑائی لینے اور جسم کو سیدھا کرنے کے بارے میں سوچ بھی سکیں۔ رفتہ رفتہ آپ کے جسم کو قوّتِ مدافعت ختم ہو کر رہ جاتی ہے اور وہ ہر قسم کی صلاحیت سے محروم ہوتا جاتا ہے۔

اِس کی تمام خواہشیں دم توڑ دیتی ہیں اور وہ ایک شکستہ جہاز کی طرح سمندر کی تہ میں بیٹھ جاتا ہے، لیکن ایک ہفتے بعد آپ اپنے آپ کو بالکل ٹھیک ٹھاک محسوس کرنے لگیں گے اور اگر آپ گوئلپا پر عمل کرنے کے نتیجے میں اپنی نصف بہتر سے محروم ہو جاتے ہیں یا آپ کی ملازمت جاتی رہتی ہے تو کوئی بات نہیں۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا بھی پڑتا ہے۔ میں مصنّف کو اِن کی ہمّت کی داد دیتا ہوں کہ اُنھوں نے گوئلپا جیسا نادر نسخہ دنیا کو دیا۔ میں نے اور بھی بہت سے نسخے پڑھے اور اِن کا گہرائی سے مطالعہ کیا، لیکن ہر ایک میں کوئی نہ کوئی بات میرے من کو نہیں بھائی۔ کہیں بھی دو ماہرین میں اتفاق نہ تھا۔ ایک ماہر کہتا ہے کہ قوّت بخش غذا کھانی چاہیے۔

دوسرا کہتا ہے کہ فاقہ کر کے وزن کم کرو۔ کوئی کہتا ہے کہ آلو کھانے سے موت تمھاری طرف جلدی آئے گی( جب کہ میری معلومات کے مطابق شمالی ویت نام کے باشندوں نے اٹھارہ سال تک آلو کھا کر امریکا کو لوہے کے چنے چبوائے!) پانچواں کہتا ہے کہ پھلوں پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور صبح شام بس پھل ہی چرتے رہو، علیٰ ہذالقیاس!عا م لو گوں کی طرح مجھے بھی وہ تمام باتیں اچھی لگتی ہیں ، جو جسم کو خوب صورت اور سڈول بنانے کے بارے میں بتائی جاتی ہیں۔ لندن کے ایک معروف و مقبول رسالے نے ایک ڈائٹ پلان تیار کیا ہے، جس میں پہلا مشورہ یہ دیا گیا کہ صبح صبح جاگنے کے فوراً بعد پورے کمرے میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکاؤ کرو اور تقریباً تمام کپڑے اُتار کر پانچ منٹ کے لیے زمین پر لیٹ جاؤ اِس کے بعد یوں ہاتھ پاؤں مارو جیسے لال بیگ اُلٹا ہونے کے بعد مارتا ہے۔

اِس عمل سے گُردوں میں ایک خاص قسم کی تحریک پیدا ہو گی، جو وزن کم کرنے کے لیے بے حد مفید ہے۔ میں نے اس مشورے پر مسلسل ایک ہفتے تک عمل کیا، لیکن نتیجہ کچھ بھی برآمد نہ ہوا۔ سوائے اِس کے کہ گھر والے مجھے پاگل سمجھنے لگے۔ لیکن ایسا شاید اِس لیے بھی ہوا کہ میں پانی فرش پر چھڑک کر خود اپنے پلنگ پر لیٹ کر یہ حرکت دُوہرایا کرتا تھا۔

ایک دوسرے رسالے نے بتایا ہے کہ ہر وہ چیز انتہائی بے تکلّفی سے استعمال کرو جو تمھیں پسند ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ مختلف قسم کی ورزشیں بھی کرتے رہو۔ ان ورزشوں کی تفصیل بھی رسالے میں درج ہے جو میں مضمون کی طوالت کے خوف سے آپ کو نہیں بتا ر ہا ہوں۔ یہ نسخہ مجھے سب سے زیادہ پسند آیا،کیوں کہ اِس میں کھانے پینے پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ اب رہی ورزش کی بات۔۔۔۔۔ وہ میرا ذاتی معاملہ ہے کہ اِس پر عمل کروں یا نہ کروں۔ اِسی لیے میں نے آپ کو بھی نہیں بتایا، تاکہ آپ بھی آزاد رہیں۔

مصنّف نے آپ کے لیے ایک چارٹ تیار کیا ہے کہ کس پریشانی سے انسان کے جسم سے کتنی کلوریز خارج ہو سکتی ہیں مثلاً:

اُف میرے خدا، گزشتہ شب میں عبادت کیے بغیر سو گیا (84 کلوریز)

آج طبیعت ناساز ہے۔ کیا میں دفتر جاؤں یا آرام کروں ؟ (50 کلوریز)

کیا میری حرکتوں کی نگرانی کی جار ہی ہے؟ (40 کلوریز،) اگر آپ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں تو!

دفتر میں یہ نیا آدمی کون ہے اور کیا کام کرتا ہے؟ کہیں یہ ایم ڈی کا خاص آدمی تو نہیں ؟ (60 کلوریز)

فلاں بات سے چیئر مین کی مراد کیا تھی؟ (75 کلوریز)

میرا وزن بڑھتا ہی جا رہا ہے، کیا کروں ؟ (90 کلوریز)

اِس کتاب کے مطالعے سے ایک بہت بڑا راز میرے ہاتھ لگا۔ وہ یہ کہ اُلٹی سیدھی باتیں سوچ کر خواہ مخواہ اپنے آپ کو پریشان رکھیں اور الم ناک واقعات کو یاد کر کے اپنے چہرے پر ہر وقت اُداسی طاری رکھیں ، کیوں کہ شاعروں کی طرح پریشانیوں کی بھی کمی نہیں ، ایک ڈھونڈو ہزار ملتی ہیں۔ یوں۔ اس سوچ بچار کے نتیجے میں اپنے جسم سے فالتو کلوریز نکال کر آپ بھی آسانی خوب صورت اور سمارٹ بن سکتے ہیں!

اب ذرا کمزور حضرات متوجہ ہوں۔ حال ہی میں مجھے ڈاکٹر رابرٹ اینڈریو کی ایک کتاب ملی ہے، جس کا نام ہے ’’وزن کیسے بڑھایا جائے؟‘‘ آپ بھی چونک اٹھے ہوں گے کہ کہاں تو میں وزن کم کرنے کے بارے میں بات کر رہا تھا اور کہاں ایک دم سے پڑی بدل کر وزن بڑھانے کے موضوع پر آگیا، لیکن آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ بھی ایک عالمی مسئلہ ہے۔ جس طرح کچھ لوگ وزن کم کرنے کی فکر میں مبتلا رہتے ہیں۔ جو لوگ سوکھے سڑے جسم کے مالک ہیں ، وہ یہ سوچ کر پریشان رہتے ہیں کہ وہ اتنے دبلے پتلے اور کمزور کیوں ؟ اِس فکر میں وہ اور بھی گھلتے جاتے ہیں۔ اِس کتاب میں مصنّف نے موٹے ہونے کے راز سے پردہ اٹھایا ہے۔ ابھی وہ مریل کتّوں اور بلّیوں پر تجربات کر رہا ہے، جیسے ہی کوئی خوش گوار نتیجہ برآمد ہو گا، وہ آپ کو آگاہ کر دے گا یوں مجھے بھی دوسرا مضمون لکھنے کے لیے کچھ اور مواد مل جائے گا۔

٭٭٭

 

 

ایک چوہے کا پیغام

 

نہنگ و اژدھا و شیرِ مار تو کیا مارا

بڑے موذی کو مارا موشِ عّیارا کو گر مارا

ایک سلیٹی رنگ کا بے ہنگ بھدّا سا جانور۔۔۔۔۔ چوہا کہیں جسے،پچھلے دنوں ہمارے لیے سخت دردِ سر بنا ہوا تھا۔ کہنے کو تو چاہا ایک چھوٹا سا جانور ہے، مگر ہم جس چوہے کا ذکر کر رہے ہیں ، وہ کوئی معمولی چوہا نہیں تھا۔ جسامت بلّی کے برابر، چہرے پر شاہانہ جاہ و جلال اور چال ڈھال ایسی کہ اچّھے اچّھوں کے ہوش اُڑ جائیں۔ چُستی اور پھُرتی اُس کی رگ رگ میں بھری ہوئی، خطرے کی بو فوراً سونگھ لیتا اور پھر ایسا اُڑنچھو ہو جاتا جیسے موقعِ واردات سے پولیس! بلا کا خوش خوراک اور حریص تھا، بلکہ اِس معاملے میں کمینگی کی حد تک بدتمیز تھا۔ خُرد و کلاں کا خیال کیے بغیر،جو اشیائے خورد نوش ہاتھ آتیں منھ میں دبا کر ایک کونے میں بیٹھ جاتا اور چپڑ چپڑ کھانا شروع کر دیتا۔ ہزار ہُش بُش کرو، کسی کی نہیں سنتا تھا، بلکہ دخل در ماکولات کرنے والے کو ایسے خطرناک انداز میں گھورتا جیسے اُسے کّچا ہی چبا جائے گا۔ ایسا ڈھیٹ چوہا ہم نے بھلا کا ہے کو کبھی دیکھا ہو گا۔ اُس کی بے غیرتی دیکھ کر ایک مشہور کہاوت میں تحریف کے لیے دل مچلنے لگتا۔

چہ دلاور است موشے کہ بکف چراغ دارد!

بڑے سے بڑا پیچ دار ڈبّا اور آہنی کلپ لگی بوتلیں کھول لینا اُس کے بائیں پنجے کا کھیل تھا۔ ہم نے اُ س کی دست برد سے محفوظ رہنے کی کئی احتیاطی تدابیر اختیار کر ڈالیں ، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ تاہم اُس کی ایک خوبی کا ذکر نہ کرنا ’’اسپورٹس مین اسپرٹ‘‘ کے خلاف ہو گا۔ رفعِ حاجت کے لیے وہ سیدھا بیت الخلا کا رخ کیا کرتا۔ نا سمجھ بچوں کی طرح نہیں کہ جب اور جہاں جی چاہا، فراغت حاصل کر لی۔ فلش پر باقاعدہ بیٹھ تو نہیں سکتا تھا، چنانچہ اِس کے آس پاس لوٹ پوٹ کر اپنی مشکل آسان کر لیتا۔

بازار میں بکنے والی بے شمار چوہے مار دوائیں اُس پر آزما چکے تھے، لیکن وہ بدستور ہمارے سینے پر مونگ دلتا رہا۔ ہمیں محسوس ہوتا تھا کہ یہ دوائیں اُس کے لیے کشتۂ جان فزا ثابت ہو رہی ہیں ، کیوں کہ وہ ہر دن پہلے مے مقابلے میں زیادہ تر و تازہ نظر آتا تھا۔ جو لوگ صحّت مند اور تندرست ہونے کے لیے قیمتی دوائیں استعمال کرتے ہیں ، اُن کو ہمارا مشورہ ہے کہ وہ چوہے مار دوائیں کھایا کریں۔ کم خرچ بالا نشین۔ ہم خود بھی اپنے آپ پر یہ تجربہ آزمانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

بیگم صاحبہ کئی دنوں سے کہہ رہی تھیں کہ اب بازاری دوائیں کھلانے کا سلسلہ بند کریں اور کوئی دوسرا بندوبست کریں۔ اُسے مارنے کے لیے دوا کی نہیں ، بلکہ کلاشنکوف کی ضرورت پڑے گی۔ ہم عدیم الفرصت ہونے کا بہانہ کر کے کافی عرصے تک ٹالتے رہے، لیکن کب تک۔ بالآخر ہم نے یہ طے کرلا کہ آنے والا اتوار اِس مہم کی نذر کر دیں گے۔ آخرکار اتوار آگیا۔ ہمیں پہلے ہی معلوم تھا کہ کچن اُس کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور اوون کا عصبی حصہ اُس کا بڈ روم۔ بیگم صاحبہ نے فتویٰ صادر کر دیا کہ آج چوہے کو ہلاک کیے بغیر ناشتا کرنا حرام ہے۔

چنانچہ ہم نے صبح ہی صبح کمر کس لی اور مجاہدانہ جذبے کے ساتھ میدانِ کار زار میں کود پڑے اور یہ طے کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو، بیگم صاحب کے سامنے سُرخ رُو ہو کر رہیں گے۔ ہم نے لوہے کا ایک چار فٹ طویل پائپ اپنے ہاتھوں میں سنبھالا، تاکہ چ۔چوہے سے تقریباً چار فٹ دور رہ سکیں۔ پھر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بیگم اور بچّوں کے ہاتھوں میں جوتے دے کر کھڑا کر دیا اور ہدایت کر دی کہ خبردار، چوہا بھاگنے نہ پائے۔ اِس جنگی حکمتِ عملی کو اپنانے کے بعد ہم نے ایک ہاتھ میں پائپ پکڑا اور ہمارے بہادر جوان جوتے کے ایک ہی وار سے اُس کا سر کچل ڈالیں۔

بجائے اِس کے کہ اُس کمبخت پر کوئی اثر ہوتا، ہم پر ایک سرور سا طاری ہو گیا اور اوون بجاتے بجاتے ہم ایک مشہور فلمی دھن بجانے لگے۔ کچھ دیر بعد اچانک ہمارے آنکھ کھلی تو بچّے بے تحاشا قہقہے لگاتے ہوئے ہماری دھُن کی مناسبت سے تالیاں بجا رہے تھے۔ دوسری جانب بیگم صاحبہ خوں بار نگاہوں سے ہمیں گھور رہی تھیں۔ ’’یہ کیا ہو رہا تھا؟‘‘ اُن کی ہولناک آواز گونجی۔ اہم سہم کر رہے گئے، ’’کچھ نہیں ، کچھ نہیں۔‘‘ ہم نے ہکلاتے ہوئے جواب دیا اور دوبارہ چوہے کی جستجو میں لگ گئے۔ اِس اثنا میں وہ عّیار ہمارے منصوبہ بندی سے واقف ہو کر فرار ہو چکا تھا۔

اب ہم نے اُ کی تلاش میں بچے دوڑا دیے۔ اِدھر دیکھا، اُدھر جھانکا۔ بستروں اور تکیوں کے بخیے اُدھیڑ کر رکھ دیے۔ ایک ایک برتن کھنگال ڈالا۔ کھڑکیوں اور دروازوں کے پردوں کے پیچھے دیکھا، لیکن وہ نہ جانے کہاں روپوش ہو گیا تھا۔ اب باری تھی غسل خانوں کی۔ اپنی تمام تر ہمتّیں مجتمع کر کے غسل خانے کا دروازہ کھولتے، اِدھر اُدھر دیکھتے، جب یقین ہو جاتا کہ وہ خبیث وہاں نہیں ہے تو اپنا سینہ پھُلا کر اندر داخل ہو جاتے اور فخر سے گھر والوں کو مطلع کرتے کہ چاہا یہاں نہیں ہے۔

اِس طرح ہم نے گھر کے سارے غلط خانے دیکھ ڈالے۔ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ ہمارا اگلا قدم کیا ہو کہ یکا یک کال بیل بجی۔ ہم دروازے کی جانب لپکے۔ دروازہ کھولا تو اوپر رہنے والے کرائے دار بڑے تحکّمانہ انداز میں بولے، ’’موٹر چلا دیجیے، پانی کا ایک قطرہ نہیں ہے۔‘‘ دروازہ بند کر کے جیسے ہی ہم پانی کی موٹر کے قریب آئے تو ہم پر لرزہ سا طاری ہو گیا۔ ہم ایک فلک شگاف چیخ مار کر پیچھے کو اُلٹ گئے اور چوہا ہمارے پیروں کو چھوتا ہوا دوبارہ گھر میں گھس گیا۔ ہمیں فی الفور کرسی پیش کی گئی۔ شربت پلایا گیا اور حوصلہ افزائی کے کلمات ادا کیے گئے۔

اِس قدر عزّت افزائی کے بعد ہم نے سنبھالا اور تیر و تفنگ سے لیس ہو کر دوبارہ جنگ کے لیے تیار ہو گئے۔ بیوی بچوں کو پہلے کی طرح جوتوں اور چپلوں سے مسلّح کر دیا اور خود اپناپائپ سنبھا کر چوہے کی جانب لپکے، جو فریج کے نیچے پناہ لیے ہوئے تھا۔ ہم نے آگے بڑھ کر بجلی کا بٹن آف کر دیا اور پھر پائپ کو آہستہ آہستہ فریج کی نیچے داخل کرنا شروع کیا۔ مگر وہ چوہانہ جانے کس مٹّی کا بنا ہوا تھا، بجائے اِس کے فرار ہونے کی کوشش کرتا، وہ فریج کے عقب میں نقب لگاتا ہوا اوپر کی جانب چڑھتا چلا گیا۔

فریج کی چھت پر پلاسٹک کی ٹوکریاں وغیرہ رکھی ہوئی تھیں۔ اچانک وہاں پر کچھ ہلچل سی ہوئی۔ ابھی ہم نے وار کرنے کے لیے پائپ اٹھایا ہی تھا کہ چوہے نے پہل کرتے ہوئے ایک زبردست چھلانگ لگائی۔ ہمارے حلق سے ایک دل دوز چیخ نکلی اور ہم نے جھکائی دے کر بڑی مشکل سے اپنے آپ کو بچایا۔ اب وہ ڈرائنگ روم میں صوفوں کے پیچھے دوڑ لگا رہا تھا۔ ہم نے بھی دل میں یہ ٹھان رکی تھی کہ اِس موذی کو آج ٹھکانے لگا کر ہی دم لیں گے، لہٰذا ایک نعرۂ مستانہ لگایا اور جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر اُس کا تعاقب کرنے لگے۔

اب بیگم صاحب سپہ سالار کے فرائض انجام دیتے ہوئے ہمیں ہدایات جاری کر رہی تھیں :

ہے موش اُن کے عقب میں تو سامنے شوہر

کبھی وہ اُس کو کبھی اپنے بر کو دیکھتی ہیں

’’وہ دیکھیے! اُدھر ٹوٹی ہوئی ٹانگ والے صوفے کے پیچھے ہے۔ داہنی جانب سے دبے پاؤں آگے بڑھیں اور ایک ہی وار میں اُس کا خاتمہ کر دیں۔‘‘ ہم تیزی سے آگے بڑھے اور اُسی وقت دو چار پائپ چوہے کے سر پر دی مارے، لیکن چوہا وہاں کہاں تھا۔ وہ تو چھلاوے کی مانند دوسری طرف کھڑا ہمارا منھ چڑا رہا تھا۔ اچانک بچّوں نے شور مچایا۔ ’’ابّو! ابّو! وہ آپ کے کمرے میں جا رہا ہے۔‘‘ اور سب کے سب گرتے پڑتے کمرے کی جانب بھاگے۔ چوہا پلنگ کے نیچے بیٹھا دور سے ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دعوتِ مبارزت دے رہا تھا۔ ہم سے اُس کی یہ دیدہ دلیری برداشت نہ ہو سکی۔ ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، ایک جوتا اٹھایا اور نشانہ تاک کر پوری قوّت سے اُس کے منھ پر دے مارا۔ جواب میں ایک دل خراش چیخ سن کر ہم خوشی سے جھوم اٹھے، لیکن جب غور سے دیکھا تو چھوٹے صاحب زادے اپنے بائیں پیر کا انگوٹھا پکڑے ناچ رہے تھے۔ ابھی بیگم صاحبہ نے ہمارے جانب گھور کر دیکھا تھا کہ اتنے میں چوہا بستر پر جا چڑھا اور تکیے کے اندر سرنگ لگانے کی کوشش کرنے لگا۔ ہم نے جیسے ہی پائپ اٹھایا، وہ اپنی کارروائی ادھوری چوڑ کر لائبریری کی سیر کو جا پہنچا۔ ’’وہ دیکھیے! کتابوں کے بنڈل کے پیچھے بیٹھا ہے۔ جلدی سے۔۔۔۔‘‘ سب ہم آواز ہو کر چّلائے۔ یہ سنتے ہی ہم سنبھل نہ پائے اور کتابوں میں دب کر راہیِ ملکِ عدم ہو جائے گا، لیکن ایں خیال است و محال است و جنوں۔ وہ اِس اثنا میں ایک لمبے پردے پر چڑھ چکا تھا۔ ہم پھونک پھونک کر قدم بڑھاتے ہوئے اُس کی جانب بڑھے اور ایک زبردست حملہ کر دیا۔ اپنی مدافعت میں چوہے نے ایک ہیبت ناک چیخ ماری اور ہماری جانب لپکا۔ اچانک ہمیں اپنے کاندھوں پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا اور ہم تھر تھر کانپنے لگے۔ دیکھا تو بیگم صاحبہ اپنے دونوں ہاتھ ہمارے کاندھوں پر رکھے بڑی ادا سے مسکرا رہی تھیں۔ ’’چوہا مارنے کے لیے بہت دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔!‘‘ ہمارے چہرے پر ایک خفت آمیز مسکراہٹ پھیل گئی (ویسے ہم تلملا کر رہ گئے تھے!) ہمارے بارے میں بیگم صاحبہ کا یہ طنزیہ تبصرہ سن کر چوہے نے نہایت فخر و انبساط کے عالم میں اپنے سر کو ایک ہلکی سی جنبش دی، گویا اُسے تمغائے شجاعت مل گیا ہو، پھر ہماری طرف فاتحانہ انداز سے دیکھا اور تیزی سے باہر نکل گیا۔ اسے دیکھ کر نہ جانے ایسا کیوں محسوس ہوا، جیسے کہہ رہا ہو:

’ تم ہمیں کیا مارو گے، ہم خود ہی برضا و رغبت یہ گھر چھوڑ کر جا رہے ہیں ، تم جیسے کم ہّمت اور مسکین شوہر کے ساتھ رہنا اب ہمیں خود بھی گوارا نہیں۔۔۔۔۔!‘‘

٭٭٭

 

 

ڈھنڈ ورا شہر میں

 

شادی کے بعد اچھا خاصا عرصہ ہم نے بیگم کے ناز اٹھانے میں ضائع کر دیا۔ طرح طرح کے چٹخارے دار اور مزے دار کھانے پینے کا جنوں ، سیر و تفریح اور ڈھیر ساری شاپنگ (بیگم کی!) غرض یہ کہ دنیا کی وہ کون سی جائز عّیاشی تھی، جو ہم نے نہیں کی۔ یہ حسین اور دل فریب شب و روز ہم پر بڑے مہربان تھے۔ ہم نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہر روز عید نیست کہ حلوہ خورد کسے کا وقت بھی آ سکتا ہے۔ پھر یوں ہوا کہ ایک دن وقت نے ہمارے دروازے پر دستک دے دی کہ خوابِ گراں سے جاگنے کے آ گئے ہیں دن۔ ایک ہی سال گزرا تھا، وہ برف کی طرح نامعقول رفتار سے پگھلتی چلی جار ہی تھی۔ اِن حالات میں ہمارے بیگم صاحب کچھ سوچ بچار میں پڑ گئیں اور اُن کی دل جوئی کی خاطر ہم یہ ظاہر کر نے لگے کہ رات کو سوچنے میں ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہیں۔ ایک دانشور نے کہا تھا کہ دو دماغ ہمیشہ بہتر ہوتے ہیں۔۔۔۔۔ اگر تکیہ ایک ہو تو! بیگم کے ساتھ مل کر سوچنے سے فرق یہ پڑا کہ اب ہمارے دماغ نے بھی کام کرنا شروع کر دیا اور چند ہی دنوں میں ہم سوچنے کے معاملے میں خود کفیل ہو گئے۔

بیگم صاحبہ نے بہت سوچ بچار کے بعد اسراف پر روک ٹوک لگانے کا فیصلہ کیا، لیکن ہماری عقل کا فیصلہ زیادہ کارآمد اور شان دار تھا۔ بیگم صاحبہ نے بھی اِس تجویز کی داد دی اور ہمارے ذہنِ رسا کو پہلی بار سراہا (ایک ہم ہیں کہ جا بے جا بیگم کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتے نہیں تھکتے!)۔ ہمارا فیصلا یہ تھا کہ ہمیں جلد از جلد ایک مکان خرید لینا چاہیے، تاکہ کرائے کے مکان سے جان چھوٹے اور ہم دنیا والوں کے سامنے سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ ہم بھی ایک عدد مکان کے مالک ہیں۔ یہ فیصلہ ہو جانے کے بعد میدانِ عمل میں کود پڑے اور مکان تلاش کرنے کے لیے باقاعدہ دوڑ دھوپ شروع کر دی۔ دوستوں سے کہا، رشتے داروں سے کہا، تمام ملنے جلنے والوں سے کہا اور دفتر کے ایک ایک کارکن سے کہا۔ غرض کہ ہر جگہ ڈھنڈ ورا پیٹ دیا کہ ہمیں جلد از جلد ایک مکان خریدنا ہے۔

اب ہمیں کھانے کا ہوش تھا، نہ پینے کا۔ بس ایک ہی دھن سر پر سوار تھی کہ کسی اچھی سی جگہ پر اچھا سا مکان خریدنا ہے۔ ہمارے ایک دوست عبدالحکیم صاحب نے ایک روز کہا کہ کل صبح میرے گھر آ جاؤ، ایک مکان تمہیں دکھا دوں گا، شاید پسند آ جائے۔ دوسرے دن اتوار تھا۔ ہم صبح ہی صبح یعنی بارہ بجے کے قریب اُن کے مکان پر جا دھمکے گھنٹی بجائی، ملازم نے جھانکا اور اطلاع دی کہ صاحب ابھی ابھی اٹھ کر غسل خانے کی جانب تشریف لے گئے ہیں۔ اُنہوں نے ہدایت کی ہے کہ آپ ڈرائنگ رو۴ میں انتظار کریں۔ اندر بیٹھ کر ’’بیکار مباش کچھ کیا کر‘‘ کے مصداق ہم نے اِدھر اُدھر نظر دوڑانی شروع کر دی۔ کچھ غائب کرنے کی نیّت سے نہیں ، بلکہ دہ دیکھنے کے لیے کہ ہمارے دوست کی مالی حیثیت کیا ہے۔ اگر کبھی قرض مانگنے نوبت آ گئی تو کتنی امداد مل سکتی ہے۔ یکا یک ہماری نظر ایک کتاب پر جا پڑی۔ وقت گزاری کی خاطر ہم نے اِس کا مطالعہ شروع کر دیا۔ یہ کتاب مختلف شاعروں کے مزاحیہ قطعات اطہر شاہ خان جیدی کا تھا۔ ہم نے زمین کے قطعے کا خیال چھوڑا اور جیدی صاحب کے قطعے میں کھو گئے:

یا رب دلِ جیدی میں اک زندہ تمنّا ہے

تو خواب کے پیاسے کو تعبیر کا دریا دے

اِس بار مکاں بدلوں تو اسی پڑوسن ہو

جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے

ہمارے ذہن میں پھلجڑیاں سی چھوٹنے لگیں۔ اچّھی پڑوسن کا تصوّر ہمیں کسی اور ہی دنیا میں لے گیا۔ ہمیں لمحہ بہ لمحہ اچھّے پڑوسی کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہونے لگا۔ جیسے جیسے اِس بارے میں غور کرتے گئے، ہم پشیمان ہوتے چلے گئے کہ اِس سے پہلے یہ بات ذہن میں کیوں نہ آئی۔ پڑوسی کے بارے میں مختلف احادیث بھی ہمارے ذہن میں گردش کرنے لگیں اور اسلامی تہذیب کے حوالے سے سوچتے سوچتے ہم مزید مسلمان ہوتے چلے گئے۔

بظاہر تو ایسا نظر آتا تھا کہ شاعر کا روئے سخن پڑوسن کے حسن و جمال کی جانب ہے، لیکن ہم نے شاعر کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے اِس الزام سے بری کر دیا۔ شاید اُن کے افکار کچھ اونچے درجے کے ہوں اور ہم ہی اپنی کور ذوقی کی بدولت بس ایک ہی نکتے پر اٹک کر رہ گئے ہوں۔ کافی غور و خوض کرنے کے بعد ہم نے چند اور پہلو دریافت کیے۔ شاعر کا نکتۂ نظریہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پڑوسن ہنس مکھ اور ملنسار ہو، شاعر یا افسانہ نگار ہو، اداکارہ یا گلوکارہ ہو۔ اِن کے علاوہ ڈاکٹر بھی ایک اچھا انتخاب ہے۔ وقت بے وقت ضرورت پڑتی رہتی ہے۔ یا پھر کھانا پکانے میں یکتا ہو، ایسی کہ انگلیاں چبا جانے کو دل چاہے (پکانے والی کی!)۔ ہمارے ایک دوست کہتے ہیں کہ عمدہ اور لذیذ کھانا کھا کر اُن کا جی چاہتا ہے کہ وہ اُس برتن کو بھی توڑ کر کھا جائیں ، جس میں ایسا کھانا پکا ہے، لیکن ہماری نظر میں یہ بد ذوقی کی انتہا ہے۔ کہاں وہ ککڑی جیسی نرم و نازک انگلیاں اور کہاں وہ سخت اور کرخت المونیم یا اسٹیل کی بدوضع دیگچیاں۔ چہ نسبت خاک رابا عالمِ پاک!

غور و فکر کا یہ سلسلہ اُس وقت ٹوٹا جب عبدالحکیم صاحب ایک گھنٹے کے بعد ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر وارد ہوئے اور حکیم دیا کہ آؤ چلیں ، بہت دیر ہو گئی ہے، میں نے مالک مکان کو بارہ بجے کا وقت دیا تھا۔ عجب بے ہودہ اور بدتمیز دوست تھا۔ خود تو مرزے سے کھا پی کر آگیا اور ہمیں پانی تک بھی نہ پوچھا، حالاں کہ ہم سخت بھوکے تھے۔ صبح سے ایک کھیل تک اُڑ منھ میں نہ گئی تھی۔ گیارہ بجے صبح جب ہم نے بیگم صاحبہ کو اٹھایا کہ ہمیں ایک دوست سے ملنے جانا ہے، کچھ ناشتا وغیرہ دے دو تو وہ خوافنا ک لہجے میں ’’ کیوں تنگ کرتے ہیں ‘‘ کہتے ہوئے دوبارہ نیند کی وادی میں کھو گئیں اور ہم صبر کے گھونٹ پی کر چپ چاپ باہر نکل آئے۔ ہمیں اطمینان تھا کہ دوست کے پاس جا رہے ہیں ، کچھ نہ کچھ تو مل ہے جائے گا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہاں بھی کھانے کو محض صبر کا پھل ہی ملے گا۔ نا چار ہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ عبدالحکیم صاحب ہمیں پیدل گھسیٹتے ہوئے دو تین کلو میٹر دور واقع ایک مکان تک لے گئے۔ ایک اچھّا خاصا مکان تھا، قیمت بھی اچھی خاصی تھی۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد ہم اِس مکان کے مالک بن سکتے تھے۔ لیکن اچھی پڑوسن کا سودا ابھی تازہ تازہ ہمارے دل و دماغ میں سمایا تھا، لہٰذا تھوڑا سا وقت مانگ لیا کہ ایک دو دن میں بتائیں گے۔ ہم نے چھان بین میں ایک ہفتہ لگا دیا۔ بالآخر ہمارے جستجو رنگ لائی۔ ہم یہ پتا چلانے میں کامیاب ہو گئے کہ ’’زیرِ تحقیق‘‘ مکان کے عقب والے مکان میں ہر روز ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ ساس اور بہو زبان کے چٹخارے لینے کی خاطر ایک دوسرے پر وہ وہ الزام تراشیاں کرتی ہیں کہ الاماں۔ آس پاس کے رہنے والوں کو بھی تمام مکالمے ازبر ہو گئے ہیں۔ بلکہ اب محلّے کی لڑکیاں بھی ’’ساس بہو، ساس بہو‘‘ کا کھیل کھیلا کرتی ہیں۔ ہم نے دور اندیشی سے کام لیتے ہوئے سوچا کہ اگر ہم یہاں رہے تو ہماری بہو پر ناخوش گوار اثرات مرتّب ہو سکتے ہیں۔ یہ سوچ کر ہم کسی اور جگہ مکان دیکھنے کی فکر میں لگ گئے۔

دوسرا مکان جو ہمیں پسند آیا، وہ بھی پڑوسن کی وجہ سے مار کھا گیا۔ داہنی طرف جو دو منزلہ مکان تھا، اس میں ایک انگلش میڈیم اسکول کی خوب رُو پرنسپل اپنے تین کمر عمر بچّوں کے ساتھ رہائش پذیر تھیں۔ ہماری تحقیق کے نتیجے میں یہ معلوم ہوا کہ مکان اُن کے بھائی کا ہے، جو برسوں سے امریکا میں رہ رہے ہیں اور واپسی کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔ پرنسپل صاحبہ نے اپنے شوہر سے علاحدگی اختیار کر رکھی ہے۔ اِس کی وہ احساسِ برتری کا زعم تھا، کیوں کہ اِن کے شوہر قابلیت اور جسامت میں اِن کے ہمسر نہیں ہیں۔ وہ مہینے میں ایک بار چھٹی والے دن آتے ہیں اور بچّوں کے ساتھ چند گھنٹے گزار کر چلے جاتے ہیں۔ ہمیں اِن کی یہ بات ذرا بھی اچھی نہ لگی کہ شوہر کے ہوتے ہوئے وہ تنہا رہیں اور بچّے باپ کی شفقت و محبت سے محروم۔

تیسرا مکان جو ہم نے دیکھا، وہ اگرچہ شہر کے ایک صاف ستھرے علاقے میں واقع تھا، لیکن نہ جانے کب سے غیر آباد اور سنسان پڑا ہوا تھا۔ اِس کی ویرانی دیکھ کر ایک ہیبت سی طاری ہو گئی۔ یہ مکان ہمیں خاصے رعایتی داموں میں مل رہا تھا۔ مرمّت اور صفائی وغیرہ پر تھوڑی بہت رقم خرچ ہوتی اور پھر ہم ایک بڑی جائیداد کے مالک بن جاتے، لیکن پڑوسن۔۔۔۔۔! بائیں طرف والے مکان میں جو صاحب رہائش پذیر تھے، اُن کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ بے حد زن مرید ہیں۔ بیگم کی ڈانٹ پھٹکار اور لعن طعن کا اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ اُن کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی، بلکہ اُلٹا مسکرا دیتے ہیں اور بیگم کی خدمت کے لیے اپنا تن من دھن وارنے کو تُلے بیٹھے رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ تمام خوبیاں ہم میں بھی بدرجۂ اتم موجود ہیں ، لیکن جب موصوف کے بارے میں سنا تو ہماری انا کو سخت ٹھیس پہنچی۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنی انفرادیت کو قائم رکھانا پسند کریں گے۔ ایک محلّے میں دو زن مرید نہیں رہ سکتے!

ایک دن ہم ایک مکان پسند کر کے واپس آر ہے تھے کہ اتفاقاً اپنے سامنے والی پڑوسن سے مڈبھیڑ ہو گئی۔ آمنا سامنا تو اکثر و بیشتر ہو ہی جاتا تھا، لیکن بیگم کے خوف سے ہم کترا کر نکل جایا کرتے تھے۔ اُس روز بھی ہم دُم دبا کر نکلنا چاہ رہے تھے کہ محترمہ کی تیز اور کرخت آواز نے ہماری قدموں کی جان نکال دی:

’’ذرا میری بات سنیے!‘‘

اور ہماری سٹّی گم ہو گئی، اُن کا چہرہ دیکھنے کی ہمّت نہ ہوئی، لیکن اُن کی ایک اواز پر ہمارے قدم زمین میں گڑ کر رہ گئے۔ غیرتِ قومی سے نہیں ، بلکہ خود سے! غیرتِ قومی تو ہماری کرکٹ ٹیم میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، جو گزشتہ نو سال سے تشکیلِ نو کے مرحلے سے نہیں گزر سکی اور ہر شکست کے بعد عوام کو آنکھیں دکھانا اپنا فرضِ عین سمجھتی ہے۔ خیر، اِس وقت پڑوسن ہمارے سر پر سوار تھی۔ ہم نے دل ہی دل میں اندازہ لگانے کوشش کی کہ آخر ہم سے کیا خطا ہو سکتی ہے، مگر کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ہم مرے مرے قدموں سے چلتے ہوئے آگے بڑھے اور سر جھکا کر کھڑے ہو گئے۔ ہم گوش بر آواز تھے کہ دیکھیں کیا نادر شاہی حکم موصول ہوتا ہے۔ چند لمحوں بعد ایک پھنکارتی ہوئی آواز ہمارے کانوں میں آئی:

’’ آپ کے بچّے میرے بچّوں کو مارتے ہیں ، اگر آئندہ میں نے کو ئی شکایت سنی تو مجھ سے برا کوئی نہ ہو گا۔‘‘

آپ کا اپنے بارے میں یہ خیال سو فی صد درست ہے (یہ ہم نے دل میں سوچا) اور پھر نہایت عاجزی سے عرض کیا کہ محترمہ، ہمارے تو بچّے ہی نہیں ہیں۔ وہ سٹپٹا کر رہ گئیں ، لیکن شرمندہ ہونے کے بجائے بڑے طمطراق سے فرمایا:

’’پتا نہیں آپ جھوٹ بول رہے ہیں یا سچ، میں اپنے بچوں سے دوبارہ دریافت کروں گی کہ اُنھیں مارنے والے کون سے انکل کے بچے ہیں ؟‘‘

اتنا کہہ کر وہ کھسکنے کی کوشش کرنے لگیں تو ہم نے ہچکچاتے ہوئے درخواست کی کہ اگر برا نہ مانیں تو آج شام اپنے بچّوں سے تعارف کروا دیجیے گا۔ اِس کے بعد ہم دیکھ لیں گے کہ کون اُن کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھتا ہے۔ اُن کے ہونٹوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی، پھر اُنھوں نے ایک خاص ادا سے اپنے شانے اُچکائے اور آگے بڑھ گئیں۔ ہم دیکھتے ہی رہ گئے، اُن کو نہیں ، اپنے گھر کو کہ کہیں بیگم صاحبہ ہماری نگرانی نہ فرما رہی ہوں!

چند ہی دنوں بعد صبح صبح گھنٹی بجی۔ ہم نے جلدی سے جا کر دروازہ کھولا، مبادا بیگم صاحبہ کی نیند خراب ہو جائے۔ سامنے وہی سامنے والی کھڑی تھیں۔ ہم دل ہی دل میں بے حد خوش ہوئے کہ آج نہار منھ ایک اچھی شکل دیکھنے کو ملی۔ نیک شگون ہے، دن اچھا گز رہے گا۔ ہم نے اُنھیں انتہائی ادب سے سلا م کیا اور منتظر رہے کہ کیا حکم صادر ہوتا ہے۔ شاید بحیثیت پڑوسن پیاز، نمک، مرچ، چینی، دودھ یا کوئی اور چیز لینے آ گئی ہوں ، لیکن اچانک وہ گھنگھور گرج اور چمک شروع ہوئی کہ ہم ہکّا بکّا اُن کا منھ دیکھتے رہے گئے۔ اُس دن ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ شیریں سخن اور غنچہ دہن لوگ کیسے ہوتے ہیں۔ وہ کہ رہی تھیں :

’’ تم لوگوں کو تو شرافت نام کی کوئی چیز چھوکر نہیں گزری۔ شہری شعور کیا ہوتا ہے، یہ جانے تمھاری جوتی۔ شرم و حیا اور تمیز تہذیب کا تو تم لوگوں سے کوئی واسطہ ہی نہیں۔ نہ جانے کہاں سے اُٹھ کر یہاں شریفوں کے محلّے میں آ گئے۔ کچھ پیسے کیا آ گئے ہیں کہ اپنے آپ کو نواب سمجھنے لگے۔۔۔۔۔‘‘

اُن کی یہ گل افشانیِ گفتار اِس تیزی سے آگے بڑھ رہی تھی کہ ہم نے سوچا، اگر اِس کے آگے بند نہ باندھا گیا تو یہ سیلابِ بلا ہمیں نہ جانے کہاں بہا کر لے جائے گا۔ بالآخر ہم نے قطع کلامی کی گستاخی کر ہی ڈالی اور انتہائی معذرت کے ساتھ دریافت کیا:

’’خاتون! آپ اِس قدر غصے میں کیوں ہیں ؟ ہمارا قصور تو بتائیے؟‘‘

ہمارا یہ پوچھنا غضب ہو گیا۔ وہ اتنی زور سے دھاڑیں کہ قریبی درختوں سے چڑیاں بھی گھبرا کر اُڑ گئیں۔

’’ تم نے اپنے گھر کا سارا کاٹھ کباڑ جمع کر کے ہمارے دروازے پر ڈال دیا ہے اور پھر پوچھتے ہو کہ ہمارا قصور کیا ہے؟‘‘ اُنھوں نے اپنے دروازے کے طرف انگشت نمائی کی۔ ہم نے دیکھا تو وہاں واقعی بوسیدہ اور گلی سڑی چیزوں کا ایک انبار پڑا ہوا تھا۔ ہمیں اپنی پڑوسن سے ہمدردی محسوس ہونے لگی:

’’ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ یہ کام ہم نے نہیں کیا۔‘‘ ہم نے دست بستہ عرض کیا۔

’’ تم نے نہیں کیا تو آخر کس نے کیا’ مجھے فلاں کے بچّے نے بتایا ہے کہ اِس مکان والے انکل نے میرے سامنے یہ سب گند یہاں ڈالا ہے۔ کیا وہ جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔۔؟‘‘

’’ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ؟ ہم تو آپ کے بالکل بے ضرر اور انتہائی نیک دل پڑوسی ہیں۔‘‘ ہم روہانسے سے ہو گئے۔ ’’اگر آپ کہیں تو ہم کسی مزدور کو بلاکر گندگی کا یہ ڈھیر اُٹھوائے دیتے ہیں ، مزدوری آپ ادا کر دیجیے گا!‘‘

اُنھوں نے ہماری جانب کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا۔ خاتون کا چہرہ بالکل سرخ انگارے کی طرح دہک رہا تھا (بلکہ ہمارے خیال میں ’’دمک‘‘ رہا تھا)۔

’’بیکار کی باتیں مت کرو۔ میں خوب سمجھتی ہوں تم جیسے لوگوں کو۔ چلو۔

اُٹھاؤ یہ سب گند بلا اور سامنے والے میدان میں پھینک کر آؤ۔‘‘

ہم نے عافیت اِسی میں جانی کہ وہ کہہ رہی ہیں اِس پر فی الفور عمل درآمد کر دیا جائے، ورنہ محلّے والے بیدار ہو کر آ گئے تو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ پھر سب سے بڑا خطرہ تو ہماری بیگم صاحبہ کی طرف سے تھا، جو ابھی تک خوابِ خرگوش کے مزے لے رہی تھیں۔ اگر شیطان نے اُن کے کان میں کچھ پھونک دیا تو وہ زور کا رَن پڑے گا کہ اﷲ کی پناہ، اور ہم مفت میں مارے جائیں گے۔ ہم نے فوراً ایک بورے کا بندوبست کیا اور یہ سوچ کر جلدی جلدی وہ کاٹھ کباڑ اُس میں بھر نے لگے کہ ہو سکتا ہے ہمارا یہ نیک عمل پڑوسن کو پسند آ جائے اور وہ ہمیں اپنے پسندیدہ لوگوں کی فہرست میں شامل کر لیں ، مگر مڑ کر دیکھا تو وہ اُسی طرح برقِ تپاں بنی ہمیں گھور رہی تھیں۔ پھر یکایک ہمارے ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا اور ہماری عقل پر پڑا پردہ ایک دم سے چھٹ گیا۔ ہم نے تو کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ایسی نعمتِ غیر مترقّبہ ہمیں بیٹھے بٹھائے مل جائے گی۔

پڑوسن کی آگ بگولا آنکھیں دیکھ کر اور زہر اگلتی ہوئی باتیں سن کر ہمیں اپنی بیگم بہت اچھی لگنے لگیں۔ صبر و شکر کا صحیح مقام کیا ہے، اب ہمارے سمجھ میں آگیا! ہمارے منھ سے بے ساختہ ایک قہقہہ اُبل پڑا۔ پڑوسن ہمارے یہ حالتِ زار دیکھ کر چکھ گھبرا سی گئیں۔ اُنھیں شک گزرا کہ شاید ہمارا دماغ چل گیا ہے۔ اُنھوں نے ترحم آمیز انداز میں ہماری جانب دیکھا۔ پڑوسن کی نگاہوں میں ہمارے لیے ہمدردی کے جذبات جاگے تو، خواہ کسی وجہ سے سہی۔ ہمارا دماغ آسمان پر اُڑنے لگا۔ ہم نے آناً فاناً فیصلہ کر لیا کہ ہم اب اِسی مکان میں رہیں گے۔ مالک مکان اگر اِسے فروخت کرنے پر آمادہ نہ ہوا تو کرائے پر رہ لیں گے، لیکن اِسے چھوڑیں گے نہیں۔۔۔۔۔!

٭٭٭

 

 

 

اِک نیا تاج محل

 

آپ یقیناً ایسی صورت حال سے کئی بار دوچار ہوئے ہوں گے کہ جب آپ کسی ڈرائنگ روم میں داخل ہوتے ہیں تو سب پہلے جس چیز پر نظر پڑتی ہے، وہ ایک جاذبِ نظر جوڑے کی دل کش تصویر ہو گی۔ یہ صاحبِ خانہ کی شادی کی تصویر ہے جو ایک نمایاں مقام پڑ بڑے اہتمام سے اِس لیے آویزاں کی گئی ہے کہ ہر آنے والا موصوف کے ماضی پر رشک اور حال پر افسوس کر سکے۔ ممکن ہے اِس کے ذریعے میزبان یہ پیغام بھی دنیا چاہتا ہو کہ:

دیکھ مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

نیک اور شریف شوہر ایسی تصویر عموماً بیگم صاحب کو یہ باور کرانے کے لیے لگاتے ہیں کہ آج ہم بھی آپ کے انتے ہی گردیدہ ہیں جتان کہ پہلے دن تھے۔ (یہ پہلا دن شادی سے پہلے کا بھی ہو سکتا ہے۔) بیگم صاحبہ سب کچھ سمجھتی ہیں اور انتہائی مکّاری سے مسکراتے ہوئے شوہر کو تسلّی یا دلاسا دیتی ہیں :

من خوب می شناسم پیرانِ پار سارا

ہم بھی کافی عرصہ سے اِس فکر میں سرگرداں تھے کہ بیگم کی نظروں میں ایک بلند و بالا مقام حاصل کرنے کے لیے کون سا ایسا کارنامہ انجام دیا جائے جو اُن کے شایانِ شان ہو۔ تصویر والی بات ہمارے من کو نہیں بھاتی۔ اِس کی وجہ ہمارا احساسِ مکتری بھی ہو سکتا ہے کہ کہیں دیکھنے والے ’’پہلوئے حور میں لنگور‘‘ کی گردان نہ کرنے لگ جائیں۔ بہر حال آپ یقین کریں یا نہ کریں ، ہمارا واحد مقصد کوئی ایسا شاندار قصیدہ تیار کرنا تھا جسے سن کر ایک دنیا عشق عشق کرنے لگے۔

مثکلے نیست کہ آساں نہ شود

مرد باید کہ ہراساں نہ شود

اور آخر کار ہم اپنی جستجو میں کامیاب ہو کر رہے۔ ہم نے اپنے ڈرائینگ روم میں ایک زربفت طغرا لٹکا  دیا جس پر یہ جان فزا ترانہ درج تھا۔

’’ہمیں اپنی بیوی سے محبت ہے۔‘‘

جو بھی یہ اعلان پڑھتا ہے، اُس کے ہونٹوں سے بے اختیار داد و تحسین کے ڈونگرے برسنے لگتے ہیں۔

’’اِس قدر بلیغ اور معنی خیز مکالمہ کہاں سے تلاش کر لائے؟‘‘

’’واہ بھئی واہ! مان گئے ہم تمہیں۔ اپنی محبت کا اظہار کتنے دل کش پیرائے میں کیا ہے۔‘‘

’’وفاداری اور جاں نثاری کا اِس سے بڑا ثبوت ناممکن ہے۔‘‘

’’اِس مختصر اور سادہ سے جملے میں جو پیار پوشیدہ ہے، وہ بھلا تاج محل میں کہاں۔‘‘

غرض یہ کہ اِس قدر دل چسپ اور خوبصورت تبصرے سن کر ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے،۔ دوسری طرف بیگم صاحبہ بھی خوشی سے پھول کر مزید کپّا ہوتی جاتیں۔

لیکن شیطانِ نامراد سے ہماری خوشیاں بھلا کب برداشت ہو سکتی تھیں۔ ہماری بے مثال اظہارِ محبت کا یہ لاجواب طغرا اُسے ایک آنکھ نہ بھایا۔ اُس نے ہماری خوشیوں کو ملیا میٹ کرنے کے لیے ایک انتہائی گھناؤنی چال چلی اور ہمارے دوستوں کے دماغ میں فتور بھرنا شروع کر دیا کہ تمہارا دوست کیسی عظیم غلطی کر رہا ہے۔ اُس کو سمجھاؤ کہ وہ ایسی گھٹیا حرکت سے باز رہے۔ شیطان کی یہ سازش بہت جلد کامیابی سے ہمکنار ہو گئی۔

ایک دن بے قرار صاحب اچانک آن دھمکے۔ پہلے تو بہت بے قرار ہو کر طغرے کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں دو تین بار دیکھا، پھر بڑے ہی غضب ناک انداز میں سر سے پیر تک میرا جائزہ لیا اور نہایت بے قراری سے بولے۔ ’’یہ ’’ہمیں ‘‘ لکھنے کا کیا مقصد ہے؟ ظاہر ہے تم ہی اپنی بیوی سے محبت کرتے ہو، کسی اور کو کیا ضرورت آن پری ہے کہ خوامخواہ مصیبت مول لے۔‘‘

’’تو پھر ہم کیا کریں ؟ کیا محبت کرنا چھوڑ دیں ؟ ہم نے انتہائی معصومیت سے پوچھا۔

وہ غرّائے۔ ’’میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ تم بڑے شوق اور لگن کے ساتھ محبت کیے جاؤ، بس ’’ہمیں ‘‘ کاٹ د۔ یہ اضافی ہے۔

ہم نے اُن کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ’’ہمیں ‘‘ کاٹ دیا۔اب ہمارے من پسند جملے کی مشکل یوں ہو گئی۔ ’’اپنی بیوی سے محبت ہے۔‘‘

چند روز بعد کاٹھوانی صاحب حملا آور ہوئے۔ (بے تکلّفی میں بعض احباب اُنھیں کاٹھ کا الّو بھی کہہ جاتے ہیں )۔ اُنھوں نے یہ طغرا دیکھا اور چراغ پا ہو گئے۔

’’بھئی! یہ ’’اپنی‘‘ کیا ہے؟ کیا تم کسی اور کی بیوی سے محبت کرتے ہو؟‘‘

ہم سرے پیر تک لرز اُٹھے، گویا ہماری چوری پکڑ لی گئی ہو۔ ’’نہیں۔۔۔۔ نہیں تو۔۔۔۔ ہم اپنی بیوی کے سوا بھلا کسی اور سے محبت کیوں کرنے لگے۔‘‘

’’تو پھر ’’اپنی‘‘ کاٹو فوراً۔‘‘ کاٹھوانی صاحب نے حکم صادر کیا۔

ہم نے اُن کی بات پر سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے ’’اپنی کاٹ دیا۔ اب جو الفاظ بچے وہ یہ تھے۔ ’’بیوی سے محبت ہے۔‘‘

پھر ایک دن باری صاحب کی باری آ گئی۔ باری صاحب غزل اور نثر دونوں پر باری باری ہاتھ صاف کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا یا لوگ اُنھیں باری باری یا ڈبل باری کہا کرتے ہیں۔ ہمارے شہکار طغرے پر باری صاحب نے ایک اُچٹی ہوئی نگاہ ڈالی اور ہم پر برس پڑے۔ ’’یہ تم نے ’’بیوی‘‘ کس مقصد سے لکھ رکھا ہے؟ ظاہر ہے، تم اپنی ہی بیوی سے محبت کا اعلان کر رہے ہو۔ مزید ڈھنڈو را پیٹنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

ہم نے اُن کا اعتراف درست تسلیم کرتے ہوئے ’’بیوی‘‘ کو نکال باہر کیا۔

اِس کے بعد صرف ’’ سے محبت ہے‘‘ باقی رہ گیا۔

سمر قنذی صاحب سے ہمارے دیرینہ تعلّقات ہیں۔ ایک عرصے تک ہم یہی سمجھتے رہے کہ موصوف کے آبا و اجداد کا تعلق سمرقنذ سے رہا ہو گا۔ لیکن ایک دن اچانک یہ انکشاف ہوا کہ وہ س سے سمرقنذی نہیں بلکہ ث سے ثمرقنذی ہیں۔ پھلوں سے خاص رغبت ہے۔ مزید ستم یہ کہ ثمرنامی خاتون صنف بہتر کی شکل میں اُن پر نازل ہو گئیں ، جن کو شکر قنذی بہت اچھی لگتی تھی۔ چناں چہ میرے دوست (جن کا اصل نام نہ جانے کیا تھا)۔ نے اپنی پسند یعنی پھل، بیگم صاحب کا نام اور اُن کا پسندیدہ کھاجا یعنی شکر قنذی کا ملیدہ بنا کر اپنے آپ کو ثمرقنذی کر لیا۔ بعض یارِ غار اُن کو ثمر قنذی بھی کہہ جاتے ہیں ،جس کا وہ بالکل برا نہیں مانتے۔

تو ہوا یوں کہ ایک دن ثمر قنذی صاحب نے ایک بہت بڑی غلطی کی طرف توجہ دلائی۔ کہنے لگے۔ ’’یار!بات کچھ نامکّمل سی لگتی ہے۔ ’’سے محبت ہے۔‘‘ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ گویا خالی جگہ پُر کرنے کو کہاں جا رہا ہو۔ چلو! ’’سے‘‘ کو باہر نکالو۔‘‘ ہم نے چپ چاپ ’’سے‘‘ کو مٹا دیا۔ اب رہ گیا ’’محبت ہے۔‘‘

فریدونی صاحب نے ارشاد فرمایا۔ اِس میں ذرا وضاحت کی ضرورت ہے محبت ہے تو کس سے ہے؟ یا تو جملہ پورا کرو یا ’’محبت‘‘ ختم کرو۔ اُن کے اصرار پر ہم نے ’’محبت‘‘ ختم کر دی۔

اب بے چارہ ’’ہے‘‘ تنہا اور بے یارو مددگار رہ گیا۔ درد مند صاحب نے دیکھا تو وہ درد سے بے چین ہو گئے۔ کہنے لگے۔ ’’یہ ’’ہے‘‘ کہاں سے پیدا ہو گیا؟ مجھے تو لگتا ہے کہ In/Out قسم کی کوئی چیز ہے۔ یعنی جب تم گھر میں ہو تو ’’ہے‘‘ والا حصّہ باہر دروازے پر لگا دو گے؟‘‘

ہم نے کوئی جواب دینے کے بجائے ’’ہے‘‘ کو غائب کر دیا۔

ہمارا سب کچھ لُٹ گیا اور ہم اپنی متاعِ زندگی سے محروم ہو بیٹھے۔

اب یہ خالی خالی سا گھر ہمیں کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ دوسری جانب بیگم صاحبہ بھی یہی کر رہی ہیں۔ بقول اُن کے، ہم نے اپنے نامعقول دوستوں کے بہکاوے میں آ کر دنیا کی سب سے بڑی حماقت کر ڈالی اور اُن کی ’’بے عزّتی‘‘ خراب کر دی۔ ہم نے اُنھیں بار ہا سمجھانے کی کوشش کی کہ ’’حسابِ‘‘ زوجین‘‘ در دل۔‘‘ مگر وہ ایک نہ مانیں۔ اُن کی بس ایک ہی رٹ ہے کہ ایک نیا طغرہ بنواؤ اور پہلے والے نہلے پر دہلا لکھو، یعنی اُس سے بھی زیادہ دل کش کوئی بات۔

’’میں اور بھی دنیا میں ہٹ دھرم بہت اچھے

سنتے ہیں کہ بیگم کا ہے اندازِ بیاں اور‘‘

اور ہم اپنی بیگم صاحبہ کا کہا بھلا کہاں ٹال سکتے ہیں ؟ آج کل ہم دن رات اِسی تگ و دور میں مشقِ سخن جاری رکھے ہوئے ہیں کہ کہیں سے وہ خاص الخاص بات تلاش کر کے لائیں۔ دیکھیں اُس لازوال تخلیق کی آمد کب ہوتی ہے؟

٭٭٭

 

 

وہی ڈھاک کے تین پات

 

ہمارے ایک دوست بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ اہلِ ثروت ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ یہ منفر اعزاز اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اُن کا یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے، یہ تو وہی جانیں۔ ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ دور بیں اور خُردبین لگا کر بار بار دیکھنے کے باوجود اہلِ ثروت ہونے کی کوئی خوب ہیں اُن کے اندر نظر نہیں آئی۔ بود و باش، خورد و نوش، تن و توش اور قد و قامت، کچھ بھی تو اُن کے دعوے کی تائید نہیں کرتا۔ ہاں! ایک عدد کار ضرور اُن کے زیرِ تسلّط ہے اور کار کا حصول آج کل کے زمانے میں چند ان مشکل نہیں۔

ہم نے اُن کی اِس منطق کا کھوج لگانے کی بہت کوشش کی کہ آخر کس بل بوتے پر وہ اہلِ ثروت کی فہرست میں شامل ہونا چاہتے ہیں ، لیکن ہم اپنی اِس کوشش میں ناکام رہے، بلکہ ٹوہ لگاتے لگاتے حسد جیسی خوف ناک بیماری میں مبتلا ہو گئے۔ اِس کے باوجود بھی ہم اپنی کوششوں سے باز نہ آئے اور اپنی عقل کے گھوڑے سر پٹ دوڑاتے رہے۔ کبھی ہم یہ فرض کر لیتے کہ اُن کے ہاتھ الہٰ دین کا چراغ لگ گیا ہے، کبھی اِس نتیجے پر پہنچتے کہ شاید وہ چالیس چوروں کا خزانہ لوٹ کر اپنے گھر لے آئے ہیں۔ یوں مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے لیتے بالآخر ہم ایک سراغ لگانے میں کامیاب ہو ہی گئے۔ موصوف نے علم حاصل کرنے کے لیے دربدر کی خاک چھانی ہے۔ وہ نہ صرف امریکا، فرانس، جرمنی اور انگلینڈ پلٹ ہیں ، بلکہ چین بھی ہو آئے ہیں ، جہاں سے علم حاصل کر لینا کسی بھی طالبِ علم کے لیے فخر کا مقام ہے۔ ہو نہ ہو وہ اپنی اِسی خوش قسمتی پر نازاں ہوں گے۔ آخر علم بھی تو کسی خزانے سے کم نہیں۔

لیکن علم کے میدان میں اُن سے مقابلہ کر کے اہلِ ثروت بننا ہمارے بس کی بات نہیں۔ کیوں کہ پڑھائی کے معاملے میں ہم بچپن ہی سے اعلیٰ درجے کے نکمّے واقع ہوئے ہیں۔ اسکول ہم ہفتے میں بس ایک دو بار ہی جایا کرتے تھے اور وہاں بھی آخر بینچ کے ایک کونے میں اپنے آگے والے طالب علم کے عین عقب میں چھپنے کی کوشش کرتے۔ مبادا ماسٹر صاحب کی نگاہِ الفت ہماری جانب اٹھ جائے اور وہ کچھ پوچھ بیٹھیں۔ اگر کبھی بدقسمتی نے ہمیں گھیر لیا اور ماسٹر صاحب نے کھڑے ہونے کا اشارہ کر دیا تو ہم یوں سر جھکا لیتے جیسے ہماری گردن کا منکا ٹوٹ ہو گیا ہو یا ہم سے کوئی ایسی حرکت سرزد ہو گئی ہو کہ اب ہم دنیا کو منھ دکھانے کے قابل نہیں رہے۔ اکثر ماسٹر صاحبان تو ہماری صورت کو تعجب سے دیکھتے کہ کیا ہم اِسی جماعت میں زیرِ تعلیم ہیں ؟ بلکہ تعلیم تو رہی دور کی بات، آیا زیر ہی زیر ہیں یا وہ بھی نہیں۔ خیر! یہ تو لڑکپن کی باتیں ہیں۔۔۔۔ ہمارا مزاج لڑکپن سے غائبانہ ہے اور غائب دماغی ہماری رگ رگ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ اب ہم بڑے بلکہ بہت بڑے ہو گئے ہیں اور عمر کی اُس منزل میں ہیں جہاں بڑے بڑوں کے ہوش و خِرد جاتے رہتے ہیں۔

بہرحال آمدم برسرِ مطلب۔ ہماری کوششیں جاری رہیں اور ہم کسی طرح یہ معما حل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے کہ اُن کے برابر آنے وار معاشرے میں ایک منفرد مقام حاصل کرنے کے لیے کون سا تمغائے امتیاز ہم اپنے سینے پر سجا سکتے ہیں ؟ اور اچانک ہمارے ذہنِ رسا میں ایک خیال آیا، کہیں اُن کی بیگم کا نام ثروت تو نہیں ؟ ایک اچھی شریکِ حیات یقیناً بہت بڑی دولت ہوتی ہے۔ یہ خیال آتے ہی ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم ’’اہلِ مسّرت‘‘ تو بن ہی سکتے ہیں کیوں کہ ہماری اہلیہ کا نام مسّرت ہے۔ چناں چہ ہم نے ببانگِ دہل اپنے اہلِ مسّرت ہونے کا اعلان کر دیا۔ یہ اعلان کر کے ہم خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ ہم نے اپنے دوست کو شکست دے دی تھی۔ وہ اہلِ ثروت ہونے میں ہی خوش ہیں تو اُن کو مبارک ہو۔ انسان کی زندگی میں اگر مسّرت نہ ہو تو قارون کا خزانہ بھی بے کار ہے۔

مگر اب بھی ہمیں سکون اور اطمینان حاصل نہ ہوا اور پر رہ رہ کر ایک عجیب و غریب سا دورہ پڑنے لگا۔ ہم گاہے گاہے اِس فکر میں ڈوب جاتے ہیں کہ اگر ہماری بیگم کا نام مسّرت کے بجائے کچھ اور ہوتا تو کیا ہوتا (وہی ہوتا جو منظورِ والدین ہوتا)۔ کیا ہم حقیقی مسّرت سے محروم رہ جاتے؟ لیکن پھر ایک دن عالمِ فرزانگی میں ہم پر یہ راز آشکارا ہوا کہ نام سے کیا فرق پڑتا ہے۔ اُن کا اسمِ گرامی کچھ بھ ہوتا، ہوتیں تو وہ ہماری بیگم ہی۔ شکلاً اور مزاجاً وہ اپنی موجودہ حیثیت میں ہی برقرار رہتیں اور ہماری اقلیمِ جسم و جاں پر اِسی طرح حکومت کر رہی ہوتیں جیسا کہ اب کر رہی ہیں!۔۔۔۔۔ گویا کہ ہم اہلِ مسّرت بن کر بھی خوش نہ ہوئے اور آج کل پھر اِسی سوچ بچار میں غرق ہیں کہ آخر ہمارے دوست کے اہلِ ثروت ہونے کا اصل راز کیا ہے۔۔۔۔۔!

٭٭٭

 

ماخذ:

کتابیان

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید