FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

استبداد

 

 

 

فیض الابرار صدیقی

 

جمع و ترتیب

 

اعجاز عبید

 

 

 

 

استبداد۔۔۔ عمومی

 

اسلام نے اپنے متبعین کو ایک مکمل نظام حیات دیا ہے انہی شعبہ جات میں سے ایک اہم شعبہ سیاست بھی ہے جس میں معاشرے کے معاملات کو مرتب اور منظم انداز میں وضع کیا جاتا ہے۔  لہٰذا اسلام نے جو اصول و ضوابط اپنے ماننے والوں کو اس ضمن میں عطا کئے ہیں ان کی مدد سے جو زندگی کے تمام شعبہ جات پر محیط ہے۔

 

معاشرے کے سیاسی معاملات کو احسن انداز میں چلانا کہ عوام اپنے بنیادی حقوق سے محروم نہ ہوں اور انہیں اپنے فرائض کا کما حقہ شعور اور ادراک ہو تاکہ کسی بھی ممکنہ فساد سے بچا جا سکے۔

 

اسلام کے سیاسی نظام کے تین اساسی پہلو حکمران، عوام اور نظام ہیں۔  ان میں سے ہر ایک کی حدود و اصول کا تعین کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا جب بھی کوئی ان متعین کردہ اصول و حدود سے تجاوز کرتا ہے تو پھر اس کا ممکنہ نتیجہ فساد فی الارض کی صورت میں سامنے آتا ہے جس سے معاشرے کا حسن مسخ ہو جاتا ہے۔  اور معاشرے کے باسی اپنے فرائض کی ادائے گی سے غافل ہو جاتے ہیں اور پھر حقوق کے حصول کی غیر فطری جنگ شروع ہو جاتی ہے،  نفسا نفسی کے اس عالم میں پھر اس معاشرے کا مقدور صرف تباہی و بربادی ہوتا ہے خواہ وہ کسی بھی انداز کی ہو۔

 

کسی بھی معاشرے میں مسائل کا وجود غیر منطقی نہیں ہوتا بلکہ ان مسائل پر منفی ردِ عمل غیر فطری ہوتا ہے۔  اگر یہ مثلث اپنے افعال و اعمال میں ’’ عدل و توازن‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی معاشرے میں ایسے غیر معمولی مسائل جنم ہی نہیں لیتے جن کے حل کے لئے اقدامات کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے جس سے معاشرے میں انتشار پھیلے۔

 

معاشرے میں موجود انہی غیر فطری اور غیر منطقی رویوں میں سے ایک رویہ جس کا تعلق سیاست سے ہے اسے ہم استبدداد کے نام سے جانتے ہیں۔  جو فطری اندازِ سیاست سے متضاد و مخالف اور منفی طرزِ عمل کا نام ہے۔  لہٰذا سیاست اگر معاملات کو عقل و دانائی کے ساتھ بغرض فلاح عوام چلانے کا نام ہے تو استبدداد معاملات کو ذاتی حرص اور خود غرضی کے ساتھ چلانے کا نام ہے۔

 

لہٰذا استبدداد کے عمومی معنیٰ ہوں گے :

 

’’فردِ واحد یا چند افراد معاملات کو کسی بھی قسم کی جواب دہی کے خوف سے بے پرواہ ہو کر انجام دیں ‘‘

 

ان کا رویہ خود مختارانہ تصرفات پر مشتمل ہوتا ہے،  جس کا تعلق خود غرضی اور مفاد پرستی سے ہوتا ہے۔  حاکم کی رغبت صرف اپنے اقتدار کے ساتھ ہوتی ہے کہ اسے کس طرح قائم رکھا جا سکے اور اسے کس طرح دوام دیا جا سکے اور اس میں اس کے ممکنہ معاونت عوام کی جہالت اور عسکری طاقت کرتی ہیں۔

 

مستبد حکمراں کی منظر کشی اس طرح کی جا سکتی ہیں کہ:

 

مستبد حکمران معاملات کو اپنی خواہش و مفادات کے حصول کے لئے چلاتا ہے اس کے مد نظر عوام کی فلاح و بہبود نہیں ہوتی اس کی سب سے بڑی وجہ ایسے قوانین کو وضع کرنے میں کامیاب ہو جانا جو حرص و ہوس پر مبنی ہوتے ہیں یہ بات واضح ہے کہ مستبد حاکم اس امر سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ وہ غاصب ہے،  لہٰذا مختلف طریقوں سے وہ عوام کی توجہ غیر اہم مسائل کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کرتا ہے تاکہ صدائے حق نہ تو بلند ہو اور نہ عام ہو کہ ہر غاصب ہمیشہ حق کا دشمن، حریتِ فکر کا شدید مخالف ہوتا ہے،  وہ ظلم کا ارتکاب کرنے میں اس لئے کامیاب ہو جاتا ہے کہ کوئی اس کو روکتا نہیں اور اگر وہ کسی روکنے والے سے واقف ہو جائے تو وہ اس کو ختم کرنے میں کوئی بھی حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔

 

مستبد حاکم کے معاشرے میں مختلف شعبہ جات کے افراد سے تعلقات ہوتے ہیں جو اس کے معاون ہوتے ہیں جن کا ذکر درج ذیل ہے۔

 

 

 

 

استبداد اور مذہب

 

استبدداد اور مذہب آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے کیونکہ مستبد حکمران جن امور کو اپنے اقتدار قائم رکھنے کے لئے ضروری سمجھتا ہے ان میں سب سے غالب حصہ مذہب کا ہے کیونکہ استبداد کے مختلف مظاہر ہیں ان میں سے ایک مظہر مذہبی بھی ہے اور ان تمام مظاہر کا گہرا باہمی ربط و تعلق ہوتا ہے کہ ان کا آغاز و اہداف ایک ہوتا ہے لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی اور مذہبی استبدداد کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے۔  کہ دونوں انسان کی غلامی انسان کے لئے ثبت کرتے ہیں ایک دوسرے کے معاون ہیں کہ ایک جسم مسلط ہے تو دوسرا روح پر قابض ہے۔  سیاسی مستبد اپنے اقدار کو طول دینے کے لئے جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے ہیں تو مذہبی مستبد یہی کام اس صورت میں کرتے ہیں کہ لوگوں کو جہنم کی خوفناکیوں اور ہولناکیوں کی انتہائی شدید اذیت ناک منظر کشی سے خوف زدہ کرتے رہتے ہیں اور اس سے نجات کے لئے جو راستے بیان کرتے ہیں ان پر انہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوتی ہے،  اور اس میں ان لوگوں کا سب سے بڑا اسلوب عام لوگوں کو اصل تعلیمات تک نہ پہنچنے دیتا کہ جہاں ضرورت ہو ان سے پوچھ لیا جائے اور اس ضمن میں وہ قرآن مجید سے استدلال کرتے ہیں کہ

 

فَاسَئَلُوا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ

 

جبکہ یہ آیت اس امر سے کہیں بھی نہیں روکتی کہ علم خود حاصل نہ کیا جائے اور اس کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ حصولِ علم میں کوئی ایسا مرحلہ آجائے جس کے بارے میں تم نہیں جاتے تو اہل علم کی طرف رجوع کرو پھر عوام کا مختلف مکاتبِ فکر میں تقسیم کیا جانا اس کے لئے مزید معاون ثابت ہوا،  عام لوگوں کی ان تعلیمات تک براہِ راست رسائی اس طبقے کی اجارہ داری کو ختم کر دیتی ہے ہدف کے حصول میں چھوٹے چھوٹے فروعی مسائل پر ضخیم تحقیقات اور تصنیفات نے اختلاف کی اس آگ کو مزید بھڑکایا۔

 

لہٰذا ان دونوں کی باہمی مشابہت کا نتیجہ عوام کی اکثریت حقیقی معبود اور ظالم حکمران کے مابین فرق کی تمیز کھو بیٹھی اور وہ عملاً دونوں کی تعظیم کرتے ہیں کیونکہ حقیقی معبود کی تعظیم میں اگر محبت کا جذبہ پنہاں ہے تو ظالم حکمران کی تعظیم میں خود و دہشت مضمر ہوتا ہے۔

 

سابقہ زمانوں میں جن حکمرانوں نے الوہیت کے دعوے کئے تھے غالبا اس کی وجہ یہی تھی کہ ہر مستبد حکمران نے اپنی ذات کے جھوٹے تقدس کے لئے کوئی نہ کوئی شان ضرور وضع کر لی تھی، تاکہ عوام اس کے سامنے سر نہ اٹھائیں اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو عوام کے نزدیک برگزیدہ طبقے کا محبوب و مقرب بن سکے اور اس حوالے سے وہ ان مذہبی پیشواؤں کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے ساتھ ملا لیتا ہے جو اللہ اور مذہب کا نام لیکر مخلوق پر اس کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

تاریخ کے وسیع و عریض صفحات اس امر پر شاہد ہیں کہ شاہِ فلسطین، بانی قسطنطنیہ کا اپنی سلطنت میں مذہب کی اشاعت پر سرگرمی سے کمر بستہ ہونا، فلپ روم شاہ اسپین اور ہنیری ہشتم شاہِ برطانیہ کا مذہب کی حمایت میں محکمۂ  احتساب قائم کرنا، حاکم بامر اللہ فاطمی اور دوسرے عجمی بادشاہوں کا صوفیاء کی تائید و اعانت، تکئے اور خانقاہیں قائم کرنا یہ سب محض اس لئے تھا کہ مذہبی طبقے کی ہمدردی حاصل ہو تاکہ اپنا ظلم و جور بے روک و ٹوک جاری رکھ سکیں۔

 

بسا اوقات دونوں طبقوں کے مابین تناقض بھی رونما ہوتا ہے جس کے بعد مذہبی طبقہ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ سیاسی اصلاح کا سب سے زیادہ آسان اور قریبی راستہ مذہبی بنیادوں پر اصلاح ہے،

 

لہٰذا اس فکر کا آغاز یونان کے حکماء سے ہوا جنہوں نے اپنے ظالم اور سرکش حکمرانوں کو پابند کرنے کے لئے اور ان کا اقتدار توڑنے کے لئے توحیدِ الٰہی کی جگہ شرک کو رواج کر دیا۔

 

جس کا سب سے بڑا ناقابلِ تلافی نقصان یہ ہوا کہ ہر طبقہ کے چالاک لوگوں کو الوہی صفات اور روحانی تصرفات میں بے دھڑک عمل دخل کا موقع مل گیا، لہٰذا جو استبداد صرف چند افراد تک محدود تھا وہ وسعت پا کر معاشرے  کے مختلف طبقات میں وجود پا گیا۔

 

اس مشرکانہ دور کے بعد توریت کا دور آیا جس نے شرک کی عمارت ختم کرنے کی کوشش کی، لہٰذا دیوتاؤں کی جگہ فرشتے اور شرک کی جگہ توحید کا تصور دیا لیکن بعض اسرائیلی حکمرانوں سے یہ برداشت نہ ہوا انہوں نے مختلف طریقوں سے اسے پھر مسخ کر ڈالا، پھر انجیل کا دور آیا جس نے از سرِ نو وحدانیت پر زور دیا لیکن یہ لوگ ’’باپ اور بیٹے ‘‘ کے لفظوں میں پھنس کر گمراہی کے نئے صحرا میں گم ہو گئے۔

 

سب سے آخر میں اسلام آیا جس نے شرک کو جڑ سے اکھاڑ دیا، اس کی سب سے بڑی امتیازی خوبی یہ تھی کہ اس نے سیاست اور مذہب کے مابین فرق ختم کر دیا اور اس کے ابتدائی حکمرانی نے دنیا کے سامنے ایسی مثالیں پیش کی جس کی نظر چشم فلک نے پہلے کبھی نہ دیکھی اور نہ دیکھ سکے گی۔

 

چونکہ اسلام میں حکمران کا منصب کسی ذاتی غرض یا مفاد پر مبنی نہ تھا بلکہ وہ احکامِ الٰہی کی تنفیذ کا حقیقی مسؤل ہوتا ہے۔  اسلام نے ہر قسم کی روحانی اور مذہبی استبداد کی نفی کی۔  پاپائیت، پروہیت، وغیرہ کی کوئی گنجائش نہ تھی۔  رسول اکرم ﷺ کے سوا کوئی معصوم نہ تھا، ہر کوئی ذمہ دار ہے،  جس کا احتساب ہو گا، لیکن افسوس تمام مذاہب کی تعلیمات تو تبدیلی و تفسیر کے مراحل سے گزر کر مسخ ہوئیں،  دینِ توحید کی تعلیمات اور ہدایت کو بھی باقی نہ رہنے دیا گیا۔ اس کو بھی مسخ کرنے کی کوشش ہر دور میں کی جاتی رہی۔ اور مستبد حکمران نے یورش کر کے اسے بھی مذہب کے حلیہ میں ڈھال کر قوم میں شقاق و نفاق،  تفریق و تقسیم، قتل و غارتگری کا ذریعہ بنا لیا۔  اس میں مختلف اقسام کے اضافے کر کے اسے اس حد تک بگاڑ دیا کہ عوام تو عوام بسا اوقات خواص حق و باطل کی تمیز سے قاصر ہوتے ہیں اور مزید یہ ستم ہوا کہ فقہی اختلافات کے ذریعے اس قدر مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا کہ موجودہ ہئیت میں اس کے احکام و واجبات، فرائض و مستحبات اور آداب پر عمل مشکل سے مشکل تر ہوتا گیا۔

 

یہ امر ثابت ہوچکا ہے کہ مذہبی استبداد کا قیام آج بھی فروعی مسائل پر اختلافات پر مبنی ہے جو کہ ہر مسلک کے ماننے والے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں۔  طرح طرح کی بدعات و خرافات نے دینِ اسلام کے حسن کو مسخ کر کے استبداد کو مضبوطی دی اور غلامی کی زنجیروں میں انسان کو جکڑ دیا۔ اور اس کا صرف ایک مقصد تھا کہ:

 

’’انسان کو استبداد کی بھاری زنجیروں کے ذریعے صرف اس کے جسم ہی کو نہیں بلکہ دل و دماغ کو بھی جکڑیں ‘‘ کیونکہ آزاد دل و دماغ کسی حال میں بھی استبداد قبول نہیں کرسکتا اور جبکہ استبداد کی کار غلام قوموں میں مذہب صرف مفید مروجہ عبادات کی ادائے گی تک محدود ہو جاتا ہے ایسی مروجہ عبادات جو روح سے خالی ہوں،  عادات بن جانے کے بعد کبھی بھی تزکیہ نفس کا کام نہیں دیتی، نہ جسم و عقل کو فحشاء و منکر کی رذالتوں سے بچاتی ہے یہ اس لئے کہ ان میں اخلاص باقی نہیں رہتا اور خود دل اخلاص سے خالی، ریاکاری کا حامل ہوتا ہے۔  دین اسلام و مذہب کے بہروپ میں بدلنے کے ذریعے یہی مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اور کسی حد تک یہ اہداف حاصل بھی ہوئے۔

 

استبداد اور  علم

 

استبداد چونکہ ظلم سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ظلم کا وجود جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے یعنی علم کی عدم موجودگی ظلم کا سبب بنتی ہے۔  اور ظالم حکمران کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کی رعایا جہالت کے اندھیروں میں ہی رہے کیونکہ اس کا استبداد ظلم پر مبنی ہوتا ہے اور وہ خوب واقف ہوتا ہے کہ اس کا اقتدار اس وقت تک ہے جب تک رعایا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پڑی ہے چونکہ علم انوارِ الٰہی میں سے ایک نور ہے جس طرح اللہ تعالیٰ نے سورج کو سرچشمۂ  حیات بنایا ہے اسی طرح علم کو جہالت ختم کرنے کے لئے اور آزادی و حریت کے جذبے فراہم کرنے والا بنایا ہے تو ایک مستبد حکمران کیونکر اسے برداشت کرسکتا ہے ؟ ایک مستبد کو کبھی بھی ایسے علوم سے خوف محسوس نہیں ہوتا جس میں عمل کا پہلو بالکل غائب ہو لیکن ایسے علوم سے وہ ہمیشہ خائف رہتا ہے جو ظلم و جہالت کے خلاف ہوتے ہیں۔  جو دماغوں کو روشن کرتے ہیں اور جھکے ہوئے سروں کو سر اٹھا کر جینے کا قرینہ سکھاتے ہوں۔

 

مستبد خیانت کو پسند کرتا ہے اور وہ بزدل ہوتا ہے جبکہ ایک حقیقی عالم حق کا بے باک ترجمان ہوتا ہے اگر مستبد خود غرض کا مجسمہ ہوتا ہے تو عالم صداقت کا پرچم بلند کرنے میں مشغول لہٰذا مستبد اور عالم کے مابین ایک وسیع خلیج ہے جو کبھی پر نہیں ہوسکتی بلکہ دونوں کا اجتماع اور آگ اور پانی کا اجتماع ہے۔

 

مستبد اس بات سے بخوبی واقف ہوتا ہے کہ علم کی عزت اور مقام اس سے کہیں بڑھ کر ہے لہٰذا اسے کبھی ضرورت محسوس ہو جائے تو کسی خوشامدی اور ذلیل النفس کو منتخب کرتا ہے جس نے برائے فروخت کا ٹیگ لگایا ہوا ہو اور ویسے بھی یہ جن برائے فروخت ہوسکتی ہے اور غالبا اسی لئے کہا گیا ہے کہ

 

’’مستبد حکمران جس کسی کی عزت افزائی کرے تو سمجھ لو کہ وہ انتہا درجے کا خوشامد پسند، چاپلوس اور ناکارہ ہے گوکہ ظاہر میں وہ کتنا ہی دانا اور علامہ کیوں نہ معلوم ہو کیونکہ اس کی صلاحیتیں مستبد حکمران کے اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال ہوتی ہیں۔ ‘‘

 

ایک مستبد حکمران اپنی رعایا سے اتنا ڈرتا ہے جتنا خود رعایا اس سے نہیں ڈرتی اس کی وجہ یہ ہے کہ مستبد کو رعایا کی قوت کا صحیح علم ہوتا ہے اس لئے ڈرتا ہے لیکن رعایا چونکہ اپنی وقت سے بے خبر ہوتی ہے اس لئے وہ مستبد کے خوف میں مبتلا رہتی ہے اور یہ خوف اور وہم صرف جہالت کا نتیجہ ہوتے ہیں اور اگر اپنی وقت سے واقف ہو جائیں گے تو پھر مستبد کا اقتدار ختم ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔

 

یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے مستبد ہی نہیں بلکہ معمولی درجے کے مستبد جیسے مذہبی پیشوا، کمزور جماعتوں کے سربراہ، علاقائی وڈیرے اور سردار کبھی پسند نہیں کرتے کہ ان کے ماتحت لوگ علم سے روشناس ہوں کیونکہ علم انسان کو توحید پرست بناتا ہے اور یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کہ جس قوم میں توحید عام ہو گی وہ غلامی میں نہیں رہتی، کیونکہ مکمل توحید اور سچا موحد ہر قسم کی غلامی سے نجات حاصل کرسکتا ہے خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی و روحانی۔ اور یہ کیفیت پاکستان میں بدرجہ اتم نظر آتی ہے بالخصوص دیہاتی علاقے اس کی براہِ راست زد میں ہیں۔

 

 

 

استبداد اور عزت

 

استبداد نے جو حشر مذہب اور علم کا کیا وہی حال عزت کے ساتھ بھی کیا۔ استبداد بلاشبہ ہر فساد کی جڑ ہے۔  جس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو تباہی و بربادی کے گھاٹ اتار دیا ہے۔  عزت دنیا میں محبت اور احترام حاصل کرنے کا نام ہے جس کی جستجو ہر کوئی کرتا ہے اور یہ بات عزت کے مقام کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ آزادانسان عزت کو زندگی پر ترجیح دیتا ہے۔  جبکہ غلام زندگی کو عزت پر فوقیت دیتا ہے۔  لہٰذا وہی شخص احترام کا مستحق ٹھہرتا ہے جو اجتماعی فائدہ کو اپنے ذاتی فائدہ پر ترجیح اور فوقیت دیتا ہے کہ عزت ہی انسانیت کی معراج ہے کہ وہ اسے غلامی کی زنجیروں سے آزادی دلا کر ایک ربِ وحید کا کلمہ بلند کرنے کی فکر عطا کرتی ہے اور اس کا حصول عدل و انصاف کے دور میں بہت آسان ہوتا ہے لیکن عہد ظلم میں اس کے حصول صرف ظلم کی مذمت اور قیام حق کی جدوجہد میں مضمر ہے۔

 

یہاں یہ واضح رہے کہ ایک عزت اور بھی ہے جسے جھوٹی عزت کہتے ہیں جو کہ صرف مستبد حکمرانوں کی قربت سے حاصل ہوسکتی ہے جو مصاحبت اور ملازمت کے ذریعے ہی حاصل ہوسکتی ہے یا اعزازی خطاب و عہدے کی صورت میں مستبد حکومت کے یہ مصاحبین اور ملازمین عوام کو دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ آزاد ہیں اور ہماری عزت محفوظ ہے یہ سفید جھوٹ ہوتا ہے نہ تو یہ لوگ آزاد ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کی عزت محفوظ ہوتی ہے اور اپنی اس جھوٹی عزت کو قائم رکھنے کے لئے مستبد حکمران کی ہر قسم کی اہانت برداشت کرتے ہیں صرف برداشت ہی نہیں بلکہ انہیں چھپاتے ہیں اور نہ چھپا سکیں تو سراہتے ہیں اور حقیقت کی پردہ پوشی کرتے ہیں اور ہر اس شخص کی مخالفت کریں گے جو حق کو ظاہر کرے بلکہ مستبد حکمران کی رضا جوئی کے لئے عوام پر جبر و تشدد سے بھی گریز نہ کریں اور یہ تصور بھی دماغ میں نہ دلائیں کہ مستبد حکمران اپنی جھوٹی عزت کو قائم رکھنے کے لئے ان مصاحبین کے ذریعے عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار مستبد حکمران چند ایسے بے ضرر اور اچھے لوگوں کو بھی یہ جھوٹی عزت دیتا ہے بالکل ایسے ہی جیسے ایک دھوکہ باز تاجر اپنی دکان میں چند اچھے نمونہ بھی رکھتا ہے تاکہ خریداروں کو دھوکا دے سکے۔

 

اور ایسے ہی یہ مستبد حکمران کبھی عقلمند، لائق اور دیانت دار افراد کو بھی جھوٹی عزت دیتا ہے تاکہ انہیں خریدے اور ان کی عقل و تدبر سے فائدہ اٹھاس کیں اور اپنے استبداد کو دوام دے سکیں۔

 

مستبد حکومت ابتداء سے انتہاء تک،  اوپر سے نیچے استبدادی حربوں پر مشتمل ہوتی ہے کیا سربراہ، حکام کیا پولیس، کیا سرکاری دفاتر کے چپڑاسی تک سب اس عمل میں مصروف کار ہوتے ہیں تاکہ مستبد کو یقین دلاس کیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔  اس طرح مستبد ان لوگوں پر بھروسہ کرتا ہے اور یہ لوگ مستبد سے فوائد کو حاصل کرنے کے لئے کسی بھی حد کو تجاوز کرنے سے گریز نہیں کرتے اور یہ سب اپنی رذالتوں کے اعتبار سے مستبد کے دربار میں عہدے حاصل کرتے ہیں۔

 

اور کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو مستبد حکمران کے دربار میں رہ کر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حق کے ساتھ ہیں ان کا در پردہ مقصد یا تو عوام کو دھوکہ دینا ہوتا ہے یا پھر مستبد کو ڈرا دھمکا کر مزید فوائد کا حصول ہوتا ہے۔

 

اور بعض اوقات ان ہی میں سے کچھ لوگ جبہ و دستار میں ملفوف قوم کے سامنے نمودار ہو کر مستبد حکمران کے خلاف باتیں کرتے ہیں تاکہ عوام کی ہمدردیاں حاصل کرسکیں لیکن اندرونی خانہ ان ایک بھرپور تعاون مستبد حکمران کے ساتھ ہوتا ہے جس کے عوض ان کو بے حد و حساب فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

 

  استبداد اور دولت

 

ہر وہ چیز دولت ہے جس سے انسان فائدہ حاصل کرسکتا ہے خواہ وہ مادی ہو یا معنوی لیکن ان اقسام کی دولت اور ان کے نتائج و ثمرات پر استبداد کی یلغار رہتی ہے اور وہ تخریب کاری کے لیے تیار رہتا ہے۔

 

اسلام نے دولت کی تعریف وضاحت کے ساتھ بیان کر دی ہے اور اپنی ضروریات کے لیے اس کے حصول کیلئے تین شرائط لازمی قرار دی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :

 

۱۔ جائز و حلال ذرائع سے حاصل ہوا ہو ( یعنی محنت سے کمایا گیا ہو یا کسی چیز کا معاوضہ ہو)۔

 

۲۔ اس کے حصول میں یا جمع کرنے میں دوسروں کی ضروریات کو ضرر یا نقصان نہ پہنچتا ہو۔

 

۳۔ اپنی ضرورت سے زائد نہ ہو۔

 

چونکہ استبدادی حکومت کے نزدیک آئین اور قوانین سب بازیچہ اطفال ہوتے ہیں وہ اپنے ممنوع اور ناجائز و غیر قانونی آئینی اقدامات کے آئینی جواز گھڑنے کے لیے یا ان قبیح و شنیع افعال کو جائز بنانے کے لیے چند عقلمند اور دیانت دار لوگ بھی بھرتی کئے ہوتے ہیں لہذا اسی طرح مستبد حکومت ہر وہ طریقہ استعمال کرتی ہے جس سے اسے تقویت مل سکے اور ان لوگوں کو جوابی طور پر یا صلہ کے طور پر مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

 

اس نظام حکومت میں دین اسلام کی حرام کردہ مالی صورت سود اور اس پر مبنی سودی نظام کو ان کا مکمل تعاون حاصل ہوتا ہے باوجود اس کے کہ سودی نظام شخصی سرمایہ داری کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور یہ شخصی سرمایہ داری استبداد کے لیے بھی راہ آسان کرتی ہے،  یعنی طاقتور کے لیے موقع فراہم کرتی ہے تاکہ وہ کمزور اور غریب لوگوں کے حقوق غصب کرسکیں۔

 

حرص و طمع کے اس میدان میں مستبد حکمران کے لیے دولت اکٹھا کرنا قطعاً مشکل نہیں ہوتا جس کی معروف صورتیں۔  قومی خزانہ سے چوری،  عوام پر ناجائز ٹیکس، قومی اموال کی ناجائز فروخت، اغیار کے سامنے دریوزہ گری وغیرہ وغیرہ سے دولت کا حصول مستبد حکمران اور اس کے زیرسایہ ہر فرد کو حاصل ہوسکتا ہے بشرط کہ دین وایمان،  شرم وحیا، غیرت اور ملی تفکر کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔  اس میں ذخیرہ اندوزی کو بھی اہمیت حاصل ہے۔

 

المختصر انسان استبداد سے خائف کیوں نہ ہو جبکہ اس کے دور میں سب سے زیادہ بدبخت عقل مند اور دولت مند ہوتا ہے اور سب سے زیادہ خوش نصیب جاہل اور فاقہ مست ہوتا ہے۔

 

 

 

استبداد اور اخلاق

 

استبداد نہ صرف انسان کی فکر و عقل پر اثر انداز ہوتا ہے بلکہ اس کی عادات اور اخلاق حسنہ کو بھی ختم کر دیتا ہے۔  اور مستبد حکمران اعلی اور شریفانہ جذبات واحساسات سے خالی ہوتا ہے بلکہ اس کا دماغی اطمینان اور اطمینان قلب بھی سلب ہو جاتا ہے کیونکہ اس کے جذبات کی تعمیر بے وفائی پر ہوتی ہے لہذا وہ سب کو اپنے جیسا ہی دیکھنا پسند کرتا ہے اس غرض سے وہ عوام کی اخلاقی حالت کو تباہ کرنے کے لیے ہر ممکنہ ذرائع استعمال کرتا ہے،  بلکہ عصر حاضر میں تو میڈیا کا بے محابا استعمال جو کہ بے حیائی اور فحاشی پر مبنی ہوتا ہے اس کی واضح مثالیں ہیں۔

 

مستبد حکمران کے خوشہ چیں دن رات عوام کو عالم تخیلات میں مگن رکھتے ہیں اور روشن خیالی کے نام پر اغیار کی ثقافت اُن پر مسلط کرنے کی کوششوں میں مشغول عمل رہتے ہیں۔  جو سراسر بے حیائی اور بے غیرتی کا مجموعہ ہوتی ہے۔

 

اس ثقافتی ماحول کی تخلیق کے لیے کچھ شعراء اور ادباء بھی ضمیر فروش نکل آتے ہیں جن کی صلاحیتیں مستبد حکمران ان سے مستعار لیتا ہے،  رفتہ رفتہ عوام کے اذہان اس کے خوگر ہو جاتے ہیں۔

 

کیا خوب کسی نے کہا ہے کہ :

 

جس قوم میں تعظیم و تکریم اور عجز وانکسار کے الفاظ زیادہ ہوں سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قوم غلامی کی زیادہ خوگر ہے۔  اور جس قوم کا دامن ان سے خالی ہو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ قوم آزادی کی دلدادہ ہے۔

 

اخلاقی استبداد نے قوم کو غلام اور مستبد حکمران اور اس کی حکومت کو آقا بنا دیا اور پھر بتدریج قوم نے بھی اسے تسلیم کر لیا اور غلامی کو اپنا شیوہ بنا لیا۔ اس سے بڑھ کر اخلاق کا نقصان کیا ہو گا کہ استبداد نے غلام اقوام کو یقین دلا دیا ہے کہ :

 

’’ حقوق مانگنے والے ’’مجرم‘‘ اور حقوق چھوڑنے والے ’’وفادار‘‘ ہوتے ہیں مظلوم اگر شکایت کرے تو ’’مفسد‘‘ ہے اور ذہین اور بیدار مغز ’’ملحد اور غدار‘ ‘ ہیں سست اور ناکارہ ’’متدین اور وفادار‘‘ ہیں،  نصیحت ’’یا وہ گوئی ‘‘ ہے۔  غیرت ’’عداوت‘‘ ہے اور خود داری’’ سرکشی ‘‘ہے حمیت ’’دیوانگی‘‘ ہے انسانیت’’حماقت‘‘رحم و کرم ’بیماری‘ ہے۔  ریا و منافقت ’’تدبر‘‘ ہے،  مکاری ’’دانائی‘‘ ہے،  دناعت ’’لطف‘‘ ہے اور خوشامد’’ اخلاق‘‘ ہے۔

 

الغرض ہر اصطلاح کا عملی مفہوم بدل جاتا ہے،  بنیادی حقوق سرعام نیلام ہوتے ہیں یہ اسی کارفرمائی کا نتیجہ ہے کہ مؤرخ سفاک فاتحین کو دنیا کے ہیروتسلیم کرتا ہے۔  اور ان کی خوں خواری کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتا ہے حالانکہ وہ دنیا کے بدترین انسان ہیں۔

 

اخلاق اسی وقت تک اخلاق رہتا ہے جب تک وہ اسوئہ حسنہ کے تابع ہو لیکن اسیر استبداد کیوں کر اس کا تابع ہو کیونکہ وہ ارادہ خیر سے محروم ہوتا ہے کیونکہ ارادہ خیر ہی وہ اساس ہے جو تمام اصولوں کی جان ہے جس پر عمارت اخلاق کھڑی ہے۔

 

اور یہ بات سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے کہ ارادہ خیر کے ذریعے ہی انسان انسان بنتا ہے اور اس کے ذریعے ہی وہ دیگر مخلوقات سے ممیز مقام پاتا ہے۔  پس جس کا ارادہ خیر ہی استبداد نے چھین لیا ہو وہ انسانیت کے درجے پر بھلا کیسے فائز رہ سکتا ہے اور اسی لیے اس کی زندگی میں کوئی اصول نہیں ہوتا۔

 

اور اخلاق کی اصلاح وعظ و نصیحت پر مبنی ہوتی ہے جبکہ مستبد اسے ناممکن بنا دیتا ہے اور اگر مستبد حکمران کے دور میں پائی بھی جائے تو اخلاص سے خالی ہوتا ہے جیسا کہ گھن لگا بیج جو کتنا ہی سینچا جائے جڑ نہیں پکڑ سکتا۔

 

علماء اخلاق کا قول ہے کہ انسان میں جو برائی یا خوبی ہوتی ہے وہی اسے سب میں نظر آتی ہے مثلاً ریا کار سب کو ریا کار اور امانت دار سب کو امانت دار سمجھتا ہے شاید اسی لیے مستبد کو بھی ہر کوئی اپنی طرح غاصب اور مستبد ہی نظر آتا ہے۔  قوموں کی اخلاقی تربیت میں صاحب قلم کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔  لیکن مستبد حکومت میں اس کے خوشہ چیں اصحاب کا جرم یوں بھی سنگین ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ قوموں کی قومیں فنا کر دیتے ہیں اور آنے والی نسلوں کو غلامی کی لعنت میں دھکیل دیتے ہیں۔

 

جس کے نتیجے میں اخلاقی حالت کے بگڑتے بگڑتے عوام کی حالت اس قدر پست ہو جاتی ہے کہ نہ تو عقل سلیم رہتی ہے نہ ہمت و حوصلہ اور نہ ہی عزم صمیم جو کہ قوموں کی تقدیر بدلنے میں خشت اول کا مقام رکھتی ہیں۔  اور یہ امر تو واضح ہے کہ جب بھی کسی قوم میں اخلاقی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں تو سب سے پہلے مستبد حکمران میں رونما ہوتی ہیں پھر اس سے وزراء اور سپہ سالاروں میں منتقل ہوتی ہیں پھر ان سے متعدی وبا بن کر پوری قوم کو ڈس لیتی ہیں کہ بظاہر علاج ناممکن ہو جاتا ہے۔

 

استبداد اور تربیت

 

تربیت علم و عمل کا نام ہے جس کا آغاز زبان کو قول خیر کا عادی بنانا، نفس کو پستی سے بلندی کی طرف لے جانا، ضمیر کو باطل پرستی سے بچانا، عزت کی حفاظت بنیادی حقوق کی معرفت الغرض تربیت مثبت صفات کے حصول کی امین ہے۔  جبکہ استبداد دروغ گوئی، مکر،حیلہ،دھوکہ، نفاق، ریاکاری، عقل سلیم کی عدم موجودگی اور تذلل کی راہ دکھاتا ہے۔

 

اللہ رب العزت نے انسان کو خیر و شر دونوں کی استعداد دی ہے اور حقیقت میں انسانی استعداد و قابلیت کی کوئی حد نہیں ہے وہ اگر خیر کی راہ پر ہو تو فرشتوں سے بھی بڑھ جاتا ہے اور شرکا راہی ہو تو شیطان بھی اس کی ہمسری نہیں کرسکتا اور اچھی تربیت انسان کے جسم،  روح اور عقل پر وہی اثر کرتی ہے جو سفید کپڑے پر کوئی رنگ کرتا ہے۔  اور اس کے برخلاف استبداد جس سے کسی بھلائی کی امید نہیں ہے وہ جسم کو داغدار، روح کو میلا اور عقل کو کند کر دیتا ہے۔

 

منصف حکومت انسان کی تربیت کا آغاز اس وقت سے کرتی ہے جب وہ بطن مادر میں ہوتا ہے اور دیگر مراحل تربیت سے گزر کر جس کا نتیجہ قوم میں اولو العزمی اور حریت فکر جیسے لازوال جذبات کی بیداری اور موجودگی ہوتا ہے جبکہ مستبد حکومت کے زیر سایہ انسانی زندگی ہر طرح کی تربیت سے محروم ہوتی ہے اس میں صرف نمو ہوتی ہے جو کہ خود رو جنگلی پودوں کی مانند ہوتی ہے۔

 

اور ایسے حالات میں عوام کا مقام صرف غلامی ہوتا ہے اور ناکامی ہوتا ہے اور ناکامی کی حقیقی علت سے وہ ناواقف ہوتے ہیں اس لیے ہر چیز کو قسمت،تقدیر، بخت، نصیب کے سپرد کر رکھا ہے اور یہ اسیر استبداد چونکہ حقیقی تربیت سے محروم ہوتا ہے اس لیے دنیاوی عذاب اور ناکامیوں کے بعد دل بہلانے کے لیے آخرت کی خیالی مسرتوں،  جنتوں اور حوروں کے خیال میں مگن رہتا ہے۔

 

جبکہ حقیقی مربی ایک ’’ماں ‘‘ کی تربیت کا مکمل اہتمام کرتا ہے جس کے بعد پوری قوم تربیت یافتہ ہوتی ہے۔  مستبد حکمران اپنے عوام میں تربیت کا ماحول ہی نہیں بننے دیتا اور نہ ہی کوئی مناسب نظام تعلیم رائج ہونے دیتااگر کوئی نظام تعلیم وضع کرتا ہے تو وہ بھی طبقاتی تقسیم کے تحت ایک سے زائد نظام تعلیم۔

 

امراء کے لیے الگ اور غرباء کے لیے الگ نظام تعلیم میں غلام غلام کو ہی جنم دیتا ہے اور آقا کے گھر آقا ہی پیدا ہوتا ہے۔  اس سے یہ واضح ہوا کہ عہد استبداد میں صحیح تعلیم و تربیت کی نہ طلب ہوتی ہے اور نہ وہ ممکن ہوتی ہے کیونکہ تربیت علم و عمل کا مجموعہ اور خوف سے خالی ہوتی ہے جبکہ مستبد کا ضمیر ہی خوف سے اٹھایا جاتا ہے۔

 

پھر مستبد حکمرانوں میں سب سے بڑی برائی وہ خود بھی خیالی پلاؤ پکاتے ہیں اور عوام کو بھی اسی کا حکم اور تلقین کرتے ہیں اور اس تخیلاتی فریب کاریوں کے ذریعے وہ مسلسل عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔

 

 

 

استبداد اور ترقی

 

استبدادنے کس طرح معاشرتی عوامل کو فساد کے گھاٹ اتارا اور کسی بھی شعبہ حیات کو اس کی صحیح حالت میں نہیں چھوڑا بلکہ اسے تباہی و بربادی کے سپرد کر دیا انحطاط کے اس عمل نے معاشرہ کے ہر فرد اور ہر شعبہ کو متاثر کیا۔ ترقی معکوس کا اصل ذمہ دار مستبد حکمران جس کی حیات ہی سمیّت زدہ ہوتی ہے جس کے ذریعے وہ قوم کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے۔

 

لہٰذا مستبد حکمران کی موجودگی میں ترقی کا دعویٰ محض دیوانے کی بڑ اور پاگل کی خرافات کا مقام رکھتا ہے۔  مستبد حکمران صرف ترقی کو نہیں روکتا بلکہ اسے شرم ناک تنزلی سے بدل دیتا ہے اور وہ اوپر کے بجائے انسان کو نیچے کھینچتا ہے،  بار آور کرنے کے بجائے روندتا اور اپنے جہنمی تنور کا ایندھن بناتا ہے اور زہریلی جونک بن کر قوم کو چمٹ جاتا ہے اور اس کی رگوں میں اپنا زہر داخل کرتا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ انسانیت کے شرف سے محروم صرف انسان رہ جاتا ہے اور مستبد قوم کو گراتے گراتے قبر تک پہنچا دیتا ہے۔

 

جبکہ ترقی کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد کا مقصد حیات واضح ہو اور ایک ہو اور وہ قومی حیات کی ترقی و بقاء کے لیے خود کو کسی نہ کسی ذمہ داری کے لیے تیار کرے پھر فرد سے افراد اور افراد سے معاشرہ اور پھر قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔

 

اور جو فرد ایسی کسی مسؤلیت کے لیے تیار نہ ہو تو وہ معاشرے میں بوجھ بن جاتا ہے۔  جسے اتار دینا چاہیے۔  جیسا کہ جسم کا میل کچیل اور مردہ ناخن کا مقدر موت ہوتا ہے شاید اسی لیے نان بائی کو شاعر سے بہتر قرار دیا گیا ہے کہ وہ قوم کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔

 

جبکہ مستبد کا مقصد نفس کا عقل پر غلبہ ہوتا ہے جس کا نتیجہ گمراہی کی صورت میں سامنے آتا ہے۔  اور گمراہی کسی بھی صورت میں قوم کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہونے دیتی اور ہر شعبہ حیات تنزلی کا شکار ہو جاتا ہے ایسے میں ہر فرد کے سامنے صرف اپنی جسمانی بقا ہوتی ہے اور یہی استبداد کا اصل ہدف ہوتا ہے کہ اسی صورت میں اس کا اقتدار قائم و دائم رہتا ہے۔  خود غرض اور نفسا نفسی کی راہ کے مسافر۔

 

 

 

 

کیا استبداد سے نجات ممکن ہے ؟

 

 

غلامی بد ترین سزا ہے جو کسی انسان کو دی جا سکتی ہے۔  توہین انسانیت پر مبنی یہ قبیح جرم ہے۔  اللہ رب العزت نے تو انسان کو آزاد پیدا کیا ہے لیکن یہ طالع آزما بدبخت انسان اپنے ہی جیسے انسان پر بدترین جرم کے ارتکاب میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا استبداد سے نجات ممکن ہے ؟

 

غلامی کی نوعیت اگر جسمانی ہے تو اس سے نجات سو فیصد ممکن ہے اس کی بے شمار مثالیں تاریخ نے پیش کی ہیں وطن عزیز اس کی ایک روشن مثال ہے۔

 

اور اگر اس کی نوعیت ذہنی ہے تو اس سے نجات بہت ہی زیادہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔  معلوم انسانی تاریخ میں اس کی صرف چند مثالیں ہیں اور اسلام کی آمد اس کی واضح مثال ہے۔

 

لیکن اگر اس کی نوعیت روحانی ہو تو اس سے نجات تقریباً ناممکن ہے لیکن اس سے نجات کی انفرادی مثالیں تو ملتی ہیں لیکن اجتماعی مثال پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے کیونکہ یہ مذہبی پاپائیت اور برہمنیت اور ربیّت کے بطن سے جنم لیتی ہے۔

 

اللہ رب العزت نے انسان کے اندر اتنی قوت ودیعت کی ہے جس کی مدد سے بعض اوقات ناممکن کام بھی ممکن ہو جاتا ہے۔  عزم صمیم کا حامل ہر مشکل اور صعب مرحلے سے گزر جاتا ہے اور اسلام کی آمد کا مقصد ہی انسان کو غلامی سے نجات دلانا ہے۔  بعثت محمدی ﷺ کا اصل ہدف ہی یہی تھا کہ انسان ایک رب کو اپنا معبود بنائے اور خود ساختہ تمام خداؤں کی عملاً نفی کرے۔  کیونکہ تمام مخلوقات میں صرف انسان ہی وہ بدبخت مخلوق ہے جو اپنے ہی جیسے انسان کے سامنے کاسئہ گدائی لیکر سر جھکاتا ہے۔

 

استبداد چونکہ ایک منفی قوت ہے لہٰذا اس کا مقابلہ مثبت قوت سے ہی کیا جا سکتا ہے نہ کہ محض زبانی جمع خرچ سے۔ اگر استبداد سے نجات حاصل کرنا ہے تو اس کا حل درج ذیل سوالات اور اس کے جوابات میں موجود ہے۔

 

قوم کیا ہے ؟

کیا قوم خود رو بڑھنے والا جنگلی پودا ہے یا کسی بے رحم آقا کے غلاموں کا گلہ جس کا مقدر ہی مستبد کی خوراک بننا ہے۔  یا ایسی جماعت جن کے افراد کے مابین،  نسل، زبان،وطن اور مشترک حقوق کا مستحکم رشتہ موجود ہو؟

 

حکومت کیا ہے ؟

کیا فرد واحد یا چند افراد کا مجموعہ جو یہ حق رکھتے ہیں کہ انسانوں کی جان و مال اور آبرو پر جس طرح چاہیں دست درازی کریں یا ایک ایسی نیابت ہے جو احکام الٰہی کی تنفیذ میں معاون ہو جو ابد ہی کے احساس کے ساتھ عوام کی فلاح  و بہبود کا کام کریں۔

 

قومی املاک کس کی ملکیت ہیں ؟

*زمین، کانیں،  دریا،ساحل،قلعے،  عبادت خانے،  کارخانے،  بنک،  مختلف صنعتی ادارے وغیرہ یہ سب اشیاء حکومت کی ملکیت ہیں یا وہ ان پر بحیثیت قوی امین اور محافظ کے مسؤل ہیں۔  اور ان سے متمتع ہونے کا حق صرف اصحاب حکومت کو ہے یا قوم کے تمام افراد کو اس کا فائدہ پہنچنا چاہیے۔

 

کیا حکومت کو حق حاصل ہے کہ مادی و معنوی حقوق عامہ میں جس طرح چاہے تصرف کرے یا یہ اجتماعی حقوق ہیں جن سے قوم کے تمام افراد یکساں فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔

 

*کیا حکومت کو افراد کی نجی زندگی میں مداخلت کا حق حاصل ہے یا اس وقت تک جب وہ ملکی آئین یا اجتماعی قوانین کی مخالفت نہیں کرتے۔

 

*حکومت مطلق العنان شاہی مفید ہے یا مقید شاہی یا پھر انتخابی جو کہ شورائیت کے ساتھ ہوں۔  اور ان کی کیا حدود و قیود ہیں۔  ان کا انتخاب، حکومت کے اختیارات کیا ہوں۔  حکومت اور قوم کے مابین اختلاف کی صورت میں کون سا امر فیصل ہو گا۔

 

*کیا حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ رعایا کو بلا قید و شرط اپنی اطاعت پر مجبور رکھے یا نصیحت و ارشاد اور تعلیم و تربیت سے کام لینا تاکہ یہ کام اخلاص و اختیار کے ساتھ ہو نہ کہ خوف و نفاق کے ساتھ۔

 

*مختلف مالیاتی ٹیکس لگانے کے لیے کیا حکومت مکمل خود مختار ہے یا اس کے لیے لازم ہے کہ رعایا سے ان کی آراء بھی معلوم کرے اور اس کا احترام بھی کرے۔

 

*فوجی قوت کے لیے قوانین اور ضوابط وضع کرنے میں قوم کی مرضی و فیصلہ کو کتنی اہمیت حاصل ہے یا حکومت کا جس طرح چاہے فوجی قوت کو استعمال کرے اور عوام کا گلہ دبائے۔

 

*کیا حکومت بے مہار چھوڑ دی جائے کہ بے دھڑک جو چاہے کرے یا قوم کو اس کی نگرانی اور احتساب کا حق حاصل ہے۔

 

*کیا افراد اپنی جان و مال و عزت کی حفاظت کے ذمہ دار خود ہیں یا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان کی حفاظت کرے۔

 

 

 

انصاف کے کیا معنی ہیں ؟

 

*انصاف وہ ہے جو حکومت کی نظر میں انصاف ہے یا وہ جو ان ججوں کا فیصلہ ہے جن کا ضمیر قانون اور حق کے سوا ہر دباؤ حتی کہ عام رائے کے دباؤ سے بھی آزاد ہے۔

 

*کیا فوجی قوت کے لیے حدود و قیود کا تعین ضروری ہے یا وہ جب چاہے حکومتی معاملات میں دخل اندازی کرسکتی ہے۔

 

*قانون سازی کا حق کسے حاصل ہے۔  اور اس میں عوام کا کیا کردار ہے۔  اور اس میں حتمی فیصلہ کس کا ہو گا۔

 

*سرکاری عہدے صرف حاکم کے عزیزوں،  دوستوں اور مصاحبوں کے لیے خاص ہیں یا ان میں پوری قوم کا حق ہے کہ قابلیت و لیاقت کے مطابق اسے حاصل کرسکیں۔

 

*کیا سرکاری عہدے داروں کا احتساب ممکن ہے اور اگر ہاں تو کیسے اور کیا احتساب کا عمل شفاف ہوسکتا ہے۔

 

 

 

استبداد کی بیخ کنی

 

*جس قوم کے بیشتر افراد استبداد کا بوجھ محسوس نہیں کرتے وہ قوم آزادی کی مستحق نہیں۔

 

*استبداد کا مقابلہ قوت و تشدد سے نہیں بلکہ عقل و تدبر کے ساتھ بتدریج ہونا چاہیے۔

 

*استبداد کے خاتمے سے پہلے اس حکومت کا خاکہ تیار کر لینا اشد ضروری ہے جسے استبداد کی جگہ قائم کرنا ہے۔

 

*مستبد کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت و اختیار پر نازاں نہ ہو کیونکہ کتنے ہی سرکش و جبار گزرے ہیں جنہیں مظلوموں نے پچھاڑ کر پھینک دیا ہے کیونکہ ہر مستبد اپنے آپ کو ناگزیر سمجھتا ہے اس کے لیے فرانس کے آنجہانی صدر ڈیکال نے کسی خوشامدی کا منہ بند کرتے ہوئے کہا تھا :

’’ مجھے ناگزیر نہ کہو۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ ‘‘

 

 

 

ایک مثالی حکومت

 

*ایک فرد اپنے جسم  و روح کی سلامتی پر مطمئن ہوتا ہے کیونکہ حکومت اس کی محافظ ہے اور سفروحضر کسی حال میں بھی اس کی حفاظت سے غافل نہیں۔

 

*وہ جسمانی و روحانی مسرتوں کے دوام پر مطمئن ہوتا ہے کیونکہ حکومت اس کی جسمانی، ذہنی و عقلی ضروریات کی کفیل ہوتی ہے بلکہ اس کا احساس یہ ہو جاتا ہے کہ یہ صاف ستھری سڑکیں،  شہری آرائشیں،  تفریح گاہیں، باغ، کلب،غرض کہ جو کچھ ہے خاص اسی کے لیے بنایا گیا ہے۔

 

*وہ اپنی آزادی پر اس طرح مطمئن ہوتا ہے گویا زمین پر تنہا وہی پیدا ہوا ہے نہ اس کا کوئی حریف ہے نہ اس کے شخصی معاملات، خیالات، مذہب میں کوئی دخیل نہیں۔

 

*وہ اپنی قوت پر مطمئن ہوتا ہے گویا ایک زبردست بادشاہ جس کا کوئی مخالف نہیں۔  وہ اپنی قوم میں اپنے مفید                   مقاصد کی بے روک ٹوک اشاعت کرتا ہے۔

 

*وہ اپنی شخصیت پر مطمئن ہوتا ہے گویا ایک ایسی قوم کا فرد ہے جس کے تمام افراد درجہ میں بالکل برابر ہیں نہ اسے کسی پر ترجیح ہے نہ اس پر کسی کو امتیاز ہے ہاں اگر کوئی امتیاز ہے تو صرف اخلاق اور حسن عمل اور قابلیت کا۔

 

*وہ انصاف کی طرف سے مطمئن ہوتا ہے گویا کہ حقوق کا ترازو خود کسی کے ہاتھ میں ہے جس سے سب کو مساوی تولتا ہے اسے کسی زیادتی کا ڈر نہیں کسی حق تلف کا اندیشہ نہیں حتی کہ اسے یقین ہوتا ہے کہ اگر اس میں امارت کی قابلیت ہے تو وہ حکمران بھی ہوسکتا ہے اور ساتھ ہی اگر جرم کا مرتکب ہو گا تو وہ قرار سزا بھی پائے گا۔

 

*وہ اپنے مال و متاع کی طرف سے بالکل مطمئن ہوتا ہے گویا کہ جو کچھ اس نے جائز طریقہ سے حاصل کیا ہے زیادہ ہو یا کم اللہ رب العزت نے صرف اسی لیے اتارا ہے اور کوئی اسے چھین نہیں سکتا نیز وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر دوسرے کے مال کی طرف نظر اٹھائے گا تو اس کی بھی آنکھ نکال لی جائے گی۔

 

*وہ اپنی آبرو پر بالکل مطمئن ہوتا ہے کیونکہ جانتا ہے قانون اس کا ضامن ہے۔  قوم کی پشت پناہی اسے حاصل ہے جو اس کی آبروریزی پر بھی خون بہا دے گی اور حکومت بھی اس کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔

 

*کیا بحیثیت عام پاکستانی مسلمان میں اس کا تصور کرسکتاہوں۔

 

 

 

ماخذ و مصادر

 

۱۔ صفا ت الحکومۃ الاسلامیہ۔ محمد الرحیلی

۲۔ وضع الانظمۃ السیاسیۃ حسب الاسوۃ۔ حسین بن احمد الزاحل

۳۔ اصول سیاست۔ محمد جمیل

۴۔ استبداد۔ عبد الرزاق

۵۔ اسلام کا نظام حکومت۔ پروفیسر احمد علی

٭٭٭

 

ماخذ: جریدہ اسوہ

 

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید