FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

ہندوستان میں اردو سیاست کی تفہیم نو

 

 

جلد اول

 

اطہر فاروقی

 

 

 

 

 

انجمن ترقی اردو(ہند)، نئی دہلی

سلسلۂ مطبوعات انجمن ترقی اردو (ہند) ۱۵۹۶

©  اطہر فاروقی

 

HINDUSTAN MEIN URDU SIASAT  KI TAFHEEM-E-NAU

By : Athar Farooqui

2010

I S B N :   81-7160-154-5

Anjuman Taraqqi Urdu (Hind)

Urdu Ghar : 212, Rouse Avenue, New Delhi-110002

Contact : 23237210, 23236299, Fax : 23239547

E-mail : urduadabndli@bol.net.in, anjuman.urdughar@gmail.com

 

 

 

 

انتساب

 

For Arjumand

Seventeen years of thinking ۔۔ together and separately

جب یہ کتاب انگریزی میں شائع ہوئی تو اس کا انتساب ارجمند آرا کے نام کرتے ہوئے میں نے مندرجہ بالا جملہ لکھا تھا اس کا اردو ترجمہ میں اب بھی نہیں کر سکتا۔ اس لیے یہ نوٹ لکھا رہا ہوں تاکہ انگریزی متن کی وضاحت ہو جائے۔

 

 

 

 

مقدمہ

 

اکیسویں صدی کے ہندوستان میں تیزی سے بدلتی ہوئی سماجی زندگی کے سبب سیاسی نظریات میں بہت سی تبدیلیاں آئیں۔ اقوامِ عالم کا بھی یہی حال رہا۔ آج ہندوستان کی سیاسی سماجی اور تہذیبی زندگی بڑی تیزی سے بدل رہی ہے۔ ماضی کے بہت سے سماجی اور سیاسی رویّے از کار رفتہ ہو چکے ہیں۔ بدلتے ہوئے اقدار، زندگی کے تمام شعبوں میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اپنے نوآبادیاتی دور سے قبل کے ورثے کو محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں اور اقوام عالم میں اپنی ہمسری جتانے کے لیے ہندوستان بھی بدلتے ہوئے اقدار کا ساتھ دے رہا ہے۔ نوآبادیاتی نظام نے ہندوستان کو جو ورثہ عطا کیا تھا اس کے منفی پہلو بھی تھے جس کی وجہ سے ہم نے اپنی شناخت کھو بیٹھی۔ ہمارے لیے یہ مناسب نہیں کہ بار بار ہم اپنے ماضی کا اعادہ کریں اور اس کی خامیوں کا ذکر کرتے رہیں۔ یہ امر بدبختانہ ہے کہ آزادی کے 58 برس بعد بھی ہمارے ماہرینِ علم و ادب نوآبادیاتی دور کی ذہنیت سے پیچھا نہیں چھڑا سکے اور ہندوستان کی اُبھرتی ہوئی تازہ حقیقتوں کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہے۔

ہندوستان میں اردو ایک ایسا مسئلہ رہا ہے جسے کسی نے بھی سلیقے سے حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ مسلمانوں کا با اثر طبقہ ہو کہ علم و ادب سے وابستہ حضرات، کسی نے بھی اسے ٹھوس سمت عطا نہیں کی۔ اربابِ علم و ہنر اس مسئلے سے ابھی تک اُسی طرح نمٹ رہے ہیں جیسے نو آبادیاتی دور کے اصحاب نمٹتے رہے۔ ایک طویل عرصے تک اردو اور دوسری ہندوستانی زبانوں سے متعلق بے کار بحثیں ہوتی رہیں۔ یعنی ادنیٰ سطح پر جو نوآبادیاتی دور کی سطح سے بلند نہ ہوئیں۔ ان میں کوئی گہرائی نہیں تھی۔ تکرار اس پر ہوتی رہی کہ اردو مسلمان حملہ آوروں کی زبان ہے۔ یہی ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کی ذمّے دار ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہندوستانی سماج میں عوام کا جو بنیادی تعلق اس زبان سے تھا اس موقف کو اس سے چھین لیا گیا۔ ایک کوتاہی اس زبان کے بولنے والوں کی بھی رہی کہ اس زبان کو انھوں نے آرٹ اور ادب تک محدود کر دیا۔ اس کے علاوہ ممبئی کی فلمی دنیا میں عام طور پر اردو زبان کو لے کر مسلمانوں کا مذاق اڑایا گیا۔ اردو زبان اور مسلمانوں کے کلچر کی جو تصویر کھینچی گئی اس نے بھی بدگمانیاں پیدا کیں۔ قوالی، مجرہ اور مشاعرہ اس زبان کی پہچان بن گئے۔ اس طرح آزاد ہندوستان میں اردو کو عام استعمال کی زبان نہ سمجھا گیا۔ اس کا فائدہ حکومت کو بھی اپنے خزانے کی بچت سے ہوا۔

اگر لوگ اپنے دور کے تدریسی اداروں کی تحریروں پر، جو مسلمانوں کے بارے میں لکھی گئی ہیں ، یقین کرنے لگیں تو لگے گا کہ انھیں عصری زندگی کا کوئی تجربہ ہے نہ مشاہدہ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو پچھلے دور کے غیر موجود زمینداروں کی صف میں کھڑا کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کے بارے میں جو بھی نظریات قائم ہوتے ہیں وہ حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ یہ تو ثابت ہے کہ حکومت ایسا کوئی کام کرنا نہیں چاہتی جو اردو زبان کے فروغ میں معاون ہو۔ اس نے ایسے ہی مقبول مشوروں کی پشت پناہی کی ہے جو اپنے نام کی خاطر ان اداروں کو چلاتے رہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ اردو کی بقا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک یہ ادارے مدارس کے اندرونی نظام کا ایک حصّہ نہ بن جائیں۔ اس کا دارومدار بھی حکومت کے قطعی فیصلے پر ہے کہ اردو زبان کو ان اداروں کے تعلیمی نظام کا ایک حصّہ بنائے اور اسے نصاب میں شامل کرے۔ آزادی کے بعد حکومت نے ایسا کوئی اقدام نہیں کیا اور نہ کوئی ایسی پالیسی بنائی کہ اردو زبان سرکاری تعلیمی نظام کا ایک جُز بنے۔ اس میں انتظامیہ نے بھی اپنی سہولت دیکھی۔ نتیجتاً اردو کو بالکل ہی نظرانداز کر دیا گیا اور اب یہ محض لٹریچر (شعر و ادب) کی زبان بن کر رہ گئی ہے۔ نہ ہی اس کا ملک کے مالیہ میں کوئی حصّہ ہے اور نہ ہی اس نے سماجی زندگی میں اپنا کوئی رول ادا کیا۔ یوں بھی حکومت نے تعلیمی بجٹ پر خاطرخواہ سرمایہ مختص نہ کیا۔ GDP میں بھی اس کا حصّہ اس قدر کم رہا کہ عوام کی وہ تمنا پوری نہ ہو سکی جو قومی تعلیمی مشن کو آگے بڑھانے کی تھی۔ یہ رویہ صرف اردو کے ساتھ مخصوص نہ رہا بلکہ حکومت نے تمام علاقائی زبانوں کے ساتھ بھی یہی کیا۔ اردو ہو کہ کوئی دوسری علاقائی زبان اس کے فروغ کی کوئی سبیل نہ نکل پائی۔ حکومت کو کبھی اس بات کا خیال نہ آیا کہ مدارس میں کسی اہم علاقائی زبان کی تدریس کا انتظام کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان میں ہمہ جہتی لسانی تبدیلیاں رونما ہوتیں اور سماج کا مستقبل زیادہ روشن ہوتا۔

بجائے اس کے حکومت نے انگریزی زبان کو نشانِ امتیاز قرار دیا۔ اس کے برخلاف حکومت نے اگر اپنی یہ ذمّے داری نبھائی ہوتی جو آئین کی آٹھویں جدول کی رو سے اس پر عائد کی گئی ہے تو اس کا امکان تھا کہ علاقائی زبانیں اپنے امتیاز کو باقی رکھتیں۔ حکومت اپنی ذمّے داری سے عہدہ بر آ نہ ہو سکی۔ یہاں تک کہ ہندوستان کی اہم زبانیں بھی اس کی فہرست میں شامل نہ کی گئیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ علاقائی زبانوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک ہوا۔ حکومت نے عملاً ان زبانوں کو تعلیمی نظام کا جُز نہ بننے دیا۔ اس طرح ہندوستان کی علاقائی زبانیں انگریزی زبان کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہیں۔

فرقہ واری سیاست اور ملک کی تقسیم کے منفی اثرات کے سبب اردو کے سربراہوں نے اس زبان سے بے تعلقی برتی۔ تقسیم کے پس منظر میں اردو بولنے والا بیرونی باشندہ سمجھا جانے لگا۔ مسلمان ہو کہ اردو، دونوں کو ایک ہی ترازو میں تولا گیا۔ اس صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے اردو والوں نے مسلم مذہبی اداروں کا سہارا لیا اور اپنے تمام وسائل ان اداروں کے فروغ اور ان کی بقا کے لیے جھونک دیے۔ اس کا اثر الٹا پڑا۔ اس کی بدولت صرف مدرسوں میں اضافہ ہوا جس کا نقشہ اطہر فاروقی نے بہت خوب کھینچاہے :

’’اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزادی کے بعد حکومت کے اردو کو مسلسل نظرانداز کیے جانے کی وجہ سے اردو والوں کو شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔قدامت پرستی اور تنگ نظری کا شکار یہ طبقہ اس ماڈرن طرزِ زندگی سے محروم ہو گیا جو دنیا کے دوسرے ممالک کے حصّے میں آئی۔‘‘

یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کا وہ طبقہ جس کی مادری زبان اردو ہے اور جو معاشی زبوں حالی کا شکار ہے، ایسے متوازی تعلیمی ادارے قائم نہ کر سکا جو نئی تعلیم سے آراستہ ہوں۔ اس سبب سے زیادہ تر  اردو بولنے والوں کے بچے مدرسوں کے طالبِ علم بننے پر مجبور ہو گئے۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کوئی پانچ لاکھ مدرسے ملک میں قائم ہیں اور یہاں کم از کم پچیس لاکھ لڑکے ہمہ وقتی مذہبی تعلیم پاتے ہیں۔ جز وقتی مدرسوں کو عام طور پر مکتب کہا جاتا ہے اور یہاں صرف مذہبی تعلیم دی جاتی ہے۔ ان مکتبوں کی تعداد الگ ہے جن کا شمار ان اعداد میں شامل نہیں ہے۔ مکتبوں میں پڑھنے والوں کی تعداد بھی نامعلوم ہے لیکن یہ طالبِ علم ان مدرسوں میں بھی پڑھتے ہیں جہاں ماڈرن تعلیم دی جاتی ہے۔ میں یہاں ارجمند آرا کے مقالے سے ایک حوالہ پیش کر رہا ہوں جو اس صورتِ حال کے دو شاخہ ہونے کی عمدہ مثال ہے :

’’زبان کی حیثیت سے اردو صرف اسلامی تعلیم کے لیے مخصوص نہیں ہے لیکن حکومت کے قائم کردہ اسکولوں میں سیکولر نصاب کے نہ ہونے سے طالبِ علموں کو مدرسوں میں پناہ لینی پڑتی ہے۔ ان مدرسوں میں اردو ہی ذریعۂ تعلیم ہے۔ خود حکومت اردو کو مسلمانوں کی زبان بنانے کی ذمّے دار ہے اور اسی لیے ان مدرسوں کے قیام کی ذمّے داری بھی حکومت ہی پر آتی ہے۔ اِنھی حالات نے موقع پرست مسلمان سیاست دانوں کے لیے ایک اور دروازہ کھول دیا ہے تاکہ یہ لوگ اردو کے پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے اردو کی تعلیم کی حمایت کے نام پر سیاست میں اپنا مقام بنا سکیں۔‘‘

کیا میں ایک اہم سوال کر سکتا ہوں : مدرسوں کی حفاظت مسلمان کیوں کرتے ہیں اور انھیں کیوں پروان چڑھاتے ہیں۔ ان کے سربراہ ہمیں بار بار آئین کے تحفظات یاد دلاتے رہتے ہیں۔ اس بات کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ یہ مدرسے بغیر کسی خارجی امداد کے اپنا کام انجام دے رہے ہیں۔ لیکن ان میں اتنی ہمت نہیں کہ خود سے سیکولر تعلیمی ادارے قائم کر سکیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ حکومت کا رویّہ مسلمانوں کے خلاف جانب دارانہ نہیں ہے۔ اس کے لیے یہ لازمی ہے کہ دستور نے شہریوں کو لازمی تعلیم کا جو تیقّن دیا ہے اسے حکومت پورا کرے۔ میں یہ بھی نہیں کہتا کہ مسلمان اردو کی بقا کے نام پر اپنا متوازی تعلیمی نظام قائم کریں اور اس کے لیے انھیں مدرسوں کو پروان چڑھانے کا حق ہو جیسا کہ ہم آج دیکھ رہے ہیں۔ میں اس بات سے کماحقہ واقف ہوں کہ معاشی بدحالی کی وجہ سے مسلمان سیکولر تعلیمی اداروں میں اپنا سرمایہ لگانے سے قاصر ہیں۔ جو لوگ مدرسوں میں سرمایہ لگا کر انھیں پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں وہ انھیں اپنے ذاتی اغراض کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس بات سے غافل نہیں رہنا چاہیے کہ یہ مدرسے ایک طرح سے تعلیم کا متوازی رول ادا کرتے ہوئے معاشی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اس صورتِ حال کے باوجود ایک اور اہم نکتہ جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا وہ یہ ہے کہ مسلمان بہ حیثیت ایک قوم، اور اُن کے غیر مسلم دوست جن میں بعض خیر سے سیاسی قائد بھی ہیں ، وہ شدت سے کمٹڈ محسوس کرتے ہیں۔ اسی لیے وہ ان مدرسوں کے وجود کو خاموشی سے قبول کر لیتے ہیں جس کے سبب مدرسوں کی تعداد غیر متوقع طور پر بڑھتی جا رہی ہے۔ مسلمانوں کے قائدین سوشیل ہوں کہ سیاسی، سیکولر تعلیم کے رجحان سے نابلد ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر حکومت خلوصِ دل سے اردو بولنے والوں کے بچوں کو اسکول کی تعلیم کے مواقع فراہم کرتی یا اگر ہر محلّے میں ایسے اسکول قائم کیے جاتے جہاں اسکول کی تعلیم کے مواقع ہوتے تو حالات اتنے نہ بگڑتے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ایک عرصے سے سیاست داں اس کوشش میں لگے ہیں کہ اردو تعلیم اور مسلمان دونوں کو ایک ہی سکّے کے دو رخ ثابت کریں۔ نو آموز سیاست داں اس سازش کا شکار ہوئے اور انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ مسلمان ہی کیا اگر ہندو بھی رضاکارانہ اساس پر تعلیمی ادارے قائم کریں تو وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔  یہ بھی سچ ہے کہ مسلمانوں کے قائم کردہ اداروں میں غیر مسلم طلبا کو داخلہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ اس طرح مسلم ادارے ایسے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں جہاں ان مسلم طالب علموں کو دوسرے طبقے یا فرقے کے طالب علموں کے ساتھ مل بیٹھنے کا کوئی موقع نہیں ملتا۔ اور جب کبھی انھیں مشترک عوامی مسائل کا سامنا کرنا ہو تو یہ اپنے کو اجنبی محسوس کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ایسے تمام نجی اسکول جہاں جدید علوم کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے وہ صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود ہیں۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے شہروں میں بھی یہ ایک فی صد بچوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتے۔ لہٰذا ہمارے سماج کے کسی بھی طبقے کے لیے ان مدارس کو قبولیت کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔

موجودہ دور میں ماضی کی فرقہ وارانہ ذہنیت کے بہت سے نسخے معدوم ہو چکے ہیں۔ اہل سیاست کے اپنے مسائل ہوتے ہیں۔ حال ہی میں ایل۔کے۔ اڈوانی نے اعلان کیا اور ایم۔اے۔ جناح کو سند عطا کی کہ وہ ایک سیکولر قائد تھے۔ یہ حد سے زیادہ سادہ بیانی ہے۔ آر۔ایس۔ایس۔ کے مزاج میں نہیں کہ نئی دنیا اور نئے سماج کو سمجھ سکے۔ اس دور کی اقوام عالم آج کے حقائق کی روشنی میں سماجی تبدیلی کے لیے بے چین ہیں۔ ماڈرنزم کا دائرۂ عمل انھیں مجبور کر رہا ہے کہ تاریخ کا از سرِ نو جائزہ لیں۔ اس سے ہمیں مد د ملے گی۔ اگر جناح پر الزام ہے کہ وہ 1947 کی خونی تقسیم کے ذمّے دار تھے تو ہمیں اپنی شناخت کی پھر سے تفہیم کرنی پڑے گی۔ یہ تفہیم ماڈرن ہندوستان کی شناخت کی ہو گی۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہندوستان قومی اور بین الاقوامی دونوں محاذوں پر جدوجہد میں لگا ہے۔

1947 کے دہانے پر اردو زبان جدید ہندوستان کی تاریخ کا ایک اہم باب تھی۔ اس زبان میں ہندوستان کی تاریخ لکھنے کی پوری صلاحیت تھی۔ اسے سمجھنے کے لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اردو بولنے والوں کے ساتھ ایک نیا زاویۂ نگاہ اختیار کریں۔ اس کے کئی پہلو ہوں گے۔ اس کی شروعات جدید علوم کی مد د سے قومی دھارے کے سہارے ہو گی۔

اب اگر کوئی ہندوستان کے بارے میں ایک اہم موضوع کو لے کر دوبارہ غور کرنے پر اصرار کرے تو وہ موضوع ہو گا: ہندوستان کی مختلف زبانوں کی حفاظت اور انھیں فروغ دینے کے ذرائع پر غور۔ یہ کام فرقہ وارانہ ذہنیت یا لسانی تنگ نظری کے سایے میں بیٹھ کر نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ انیسویں صدی کے آخری دور میں شمالی ہند کے رجعت پسند سیاست دانوں کی لابی نے کیا تھا۔ آر۔ایس۔ایس۔ نے بھی اس نظریے کی حمایت کی تھی۔ اس کی فرہنگ برطانوی راج کی دین ہے۔ پھوٹ ڈالو اور راج کرو کے نظریے کو اپنایا گیا۔ بعض زبانوں کو عملاً نظر انداز کرتے ہوئے بعض دوسری زبانوں کو اہمیت دی گئی۔ ہندی اور اردو کا دو لسانی نظریہ پیش کرتے ہوئے دونوں کو مختلف زبانیں قرار دیا گیا؟کتنی احمقانہ بات ہے کہ دونوں زبانوں کی شناخت کو الگ الگ بتاتے ہوئے انھیں دو متضاد زبانیں کہا گیا۔ یہ برطانوی حکومت کی کارستانی تھی۔برطانوی حکومت کے خاتمے پر اس نظریے کی طرف داری آر۔ایس۔ایس۔ اور اس کی حلیف پارٹیاں کرتی آ رہی ہیں۔ اگر ہم نوآبادیاتی نظام یا نیو امپیریل اسکول کے نظریے کا حوالہ نہ دیں (ہمارے ہندوستان کے ماہرینِ لسانیات کی اکثریت کا حال یہ ہے کہ نوآبادیاتی نظام یا امریکہ کے تربیت یافتہ لوگوں کے سامنے جب ہندوستانی زبانوں کی، خاص طور پر اردو کی بات آتی ہے تو ان کے نظریات برطانوی ماہرین سے بھی گئے گذرے ہوتے ہیں ) تو اردو اور ہندی دونوں ایک ہی زبان ہیں۔ فرق یہ ہے کہ دونوں الگ الگ رسم الخط میں لکھی جاتی ہیں۔ عام ہندوستانی خواہ وہ ہندو ہو کہ مسلمان انھیں اچھی طرح سمجھتا ہے۔

قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہمارے پرکھوں نے دستور کی دفعہ 351 کے ذریعے ہندوستانی کو ہندی زبان کے مماثل قرار دیا جو ایک مرحلے پر آزاد ہندوستان کی قومی زبان سمجھی جاتی تھی۔ یہ شاید منافقتی سیاست کا کھیل تھا کہ اودھی، برج، میتھلی، مگدھی اور کئی دیگر زبانیں ، جن کا ادبی سرمایہ روایتی شہرت کا حامل تھا، انھیں بھی ہندی کی بولیوں میں شمار کیا گیا۔ اس طرح ہندی زبان کو سیاسی سطح پر طاقت کے بل بوتے پر لاگو کرنے کے سبب ہندی والوں کو کھلی چھوٹ مل گئی اور اس کے خلاف بولنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی۔ ہندی نیشنلزم کے نام پر یہ ایک ناقابلِ تردید عمل بن گیا۔ یہ واقعات بھی 1940 میں ہوئے واقعات کا اعادہ ہیں۔ اس وقت آر۔ایس۔ایس۔ کے مرلی منوہر جوشی اور لوہیا وادی ملائم سنگھ یادو، دونوں نے ایک ہی پلاٹ فارم سے ہندی زبان کی حمایت میں جارحانہ رویہ اختیار کیا تھا۔وہ تمام زبانیں جو دستور کے آٹھویں ضمیمے میں شامل ہیں اگر ان سب کو مساویانہ حقوق عطا کیے جائیں تو تمام زبانوں کو یکساں مواقع حاصل ہو سکتے ہیں۔ تب یہ زبانیں اپنے بولنے والوں کی مادری زبان کی حیثیت سے پروان چڑھ سکیں گی اس لیے کہ انھیں اسکول کے نصاب میں شامل کیا جائے گا۔ اس مقصد کو حاصل کرنا ہو تو ضروری ہے کہ دستور کے آٹھویں ضمیمے کو پھر سے ترتیب دیا جائے تاکہ سیکولر جذبے کی تکمیل ہو اور ہندوستان کی تمام زبانیں اس میں جگہ پا سکیں۔

یوں بھی اب بہت دیر ہو چکی کہ ہندوستان کی ساری زبانوں کے لیے کوئی ایسی ترقی پسند پالیسی اختیار کی جائے جو نوآبادیاتی نظام کے ذہنوں کی نفی کرتی ہو۔ جاری پالیسی پلاننگ میں استواری قائم کرنا ضروری ہے جو اردو کے لیے راہ ہموار کرتی ہو ورنہ نام نہاد مذہب پرستوں اور کٹّر ذہنوں کے مطابق یہ مسلمانوں کی زبان ہے اور ہندی صرف ہندوؤں کی زبان ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بنیاد پرست مسلمان قائدین کے چنگل سے اردو کو کس طرح آزاد کرایا جائے۔ اس میں الجھے بغیر کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے یا نہیں ، اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ ہندوستان کی ایک بڑی اور اہم زبان ہے۔ اس کی گرامر ہندی کی گرامر سے مطابقت رکھتی ہے اور یہ زبان ہندوستانی تمدن کا ایک حصہ ہے۔ اس زبان کو نابود ہونے سے بچانے کے لیے ہمارا فرض ہے کہ اسے اسکولوں میں پڑھانے کا انتظام کریں۔ خواہش مند طالبِ علموں کے لیے لازمی طور پر اس کا انتظام کیا جائے۔ جن بچوں کی مادری زبان اردو ہے ان کے لیے حکومتی مدرسوں میں اس کا انتظام کیا جانا چاہیے کہ وہ اردو پڑھ سکیں۔ یہی نہیں بلکہ دوسری زبانوں کے طلبا اگر خواہش مند ہوں تو ان کے لیے بھی اردو پڑھانے کا انتظام ہو اور ضروری سہولتیں فراہم کی جائیں۔

آزاد ہندوستان پر آر۔ایس۔ایس۔ کے بادل جس طرح منڈلاتے رہے ہیں ان کی وجہ سے مہاتما گاندھی کے ہندوستان کے شعور پر اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ گاندھی جی کے قتل کا ایک سبب زبانوں کا مسئلہ بھی ہو سکتا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر ہم نے ایک ہی زبان کو قومی زبان قرار دے کر اسی کا ایجنڈہ قبول کر لیا ہے۔ ضرورت ہے کہ اس مسئلے کا سنجیدگی سے دوبارہ جائزہ لیا جائے کہ کیا ہندوستان کی تمام زبانیں اس کی تعمیر میں اس کے مستقبل کی ضامن نہیں بن سکتیں۔ یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم خلوصِ دل سے آپسی اختلافات کو ختم کریں ، تکثیریت کو قبول کریں اور اپنے ملک کو خوش حال بنانے کی کوشش کریں۔ باوجود کہ انگریزی میڈیم اسکولوں سے تجارتی اغراض اور ان کی کامیابیاں وابستہ ہیں ، ہمیں چاہیے کہ علاقائی زبانوں میں اپنے حکومتی اسکول چلائیں کیوں کہ ہمارے پاس ذرائع کی کمی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے کثرت سے ان ہی اسکولوں میں پڑھیں تو ہم پر لازم ہے کہ ہم ایسے اسکولوں کو مالا مال کریں اور ان کے ذرائع میں اضافہ کریں جن میں ذریعۂ تعلیم ہندوستانی زبانیں ہیں۔

اردو زبان کو ہمارے آئین نے وہی حقوق عطا کیے ہیں جو قومی زبان کو عطا کیے گئے ہیں۔ باوجود اس کے ہمارے قائدین اس کوشش میں لگے ہیں کہ اردو زبان کا دیس نکالا ہو۔ اس زبان کی حیثیت کو گھٹا دیا گیا۔ اس عرصے میں دریائے جمنا میں بہت سا پانی بہہ گیا۔ دانیال لطیفی اور اطہر فاروقی جیسے بائیں بازو کے دانشوروں نے گذشتہ صدی کے دوران لسانی اقلیتوں کے گلڈ کے توسط سے اردو زبان کی بازیافت کے لیے بہت کوشش کی کہ اسے سماجی سطح پر عام کیا جائے اور مختلف اسکولوں میں پڑھایا جائے۔ یہ ایجنڈہ آسانی سے حاصل ہونے والا نہیں ہے۔ اس کے لیے مسلسل تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

آخر کار لسانی اقلیتی گلڈ نے مسلسل تحریک چلائی۔ اس کے نتیجے میں ان لوگوں نے جن کی مادری زبان اردو ہے، محسوس کیا کہ اردو کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ مدرسوں میں سیکولر نصاب شامل کیا جائے۔ ابھی تک مدرسوں کی جداگانہ تعلیم ناکافی ثابت ہوئی ہے۔ یہ سماجی اور معاشی سطح میں کسی طرح کی تبدیلی نہیں لائی۔ یو۔پی۔ میں جہاں کم از کم دو کروڑ اردو بولنے والے رہتے ہیں ، وہاں اتنے بھی اردو میڈیم کے پرائمری اسکول نہیں کہ انگلیوں پر ہی گنے جا سکیں۔ دستور کی ہدایات (دفعہ 350A کے تحت) کے باوجود کہ مادری زبان میں بچوں کو تعلیم دی جائے، یہ نہ ہو سکا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ شمالی ہند کی ریاستوں اور خاص طور پر یو۔پی۔ میں اردو کو تیسری زبان کی حیثیت سے بھی کوئی طالبِ علم منتخب نہیں کر سکتا کیوں کہ یہاں سہ لسانی فارمولے کے تحت سنسکرت کو ماڈرن زبان کا درجہ دے کر اسے بارہویں جماعت تک لازمی قرار دیا گیا ہے۔

ان حالات میں ان لوگوں کو کیا طمانیت دی جا سکتی ہے جو اپنے بچوں کو کم از کم پانچویں جماعت تک اردو پڑھانا چاہتے ہیں۔ ایک سیدھی سی بات یہ ہو سکتی ہے کہ ان اسکولوں کو، جو اردو بولنے والے علاقوں میں پائے جاتے ہیں ، پانچویں جماعت تک اردو زبان کو ذریعۂ تعلیم سے منسلک کیا جائے۔ ہندی کو تیسری جماعت سے شروع کیا جا سکتا ہے اور انگریزی کو چھٹی جماعت سے تاکہ ایک طالبِ علم آسانی سے وسطانیہ کی سطح پر ہندی میڈیم اسکولوں میں شریک ہو سکے۔ اسے انگریزی بھی تیزی سے سیکھنے میں آسانی ہو گی۔ شمالی ہند کے اسکولوں میں اب تو ہندی ہی تعلیم کا ذریعہ رہ گئی ہے۔ یو۔پی۔ میں تیسری جماعت اور اس کے آگے سنسکرت کو ایک ماڈرن زبان کی حیثیت سے پڑھایا جاتا ہے۔ انگریزی کو چھٹی جماعت سے روشناس کیا گیا ہے۔ چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک ہندی اور سنسکرت کا ایک مشترک نصاب بھی پڑھایا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ امتحانوں میں زبانوں کے 300 نشانوں کے منجملہ 134 نشان سنسکرت کے لیے مختص ہیں۔ 66 نشان ہندی کے لیے اور 100 انگریزی زبان کے لیے۔ اردو کا کوئی ذکر ہی نہیں ! اس صورتِ حال میں تبدیلی لانا ضروری ہے تاکہ ہمہ لسانی اور ہمہ تہذیبی فضا پروان چڑھے۔ ہمارے بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کے اس منظر میں اس تبدیلی کا فیصلہ کن اثر ہو گا۔

اردو بولنے والے جس کھلی ناانصافی کا شکار ہوئے ہیں اس نے صرف اردو کی بقا کے لیے ہی خطرہ پیدا نہیں کیا بلکہ اس طبقے کو ہلا کر رکھ دیا اور اب وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اردو کی بقا میں ان کی خوش حالی مضمر ہے اور یہی انھیں مذہبی، سیاسی اور معاشی استحکام دے سکتی ہے۔ ہمیں اس ذہن کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ان لوگوں کی تعلیمی ضرورت اور سیاسی ارادہ، جن کی مادری زبان اردو ہے، ان میں تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ زبان کے استعمال کی صورتِ حال کو بدلیں۔ اس کی بدولت وہ اپنی سماجی حیثیت میں بھی تبدیلی لا سکتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ ملک کی تقسیم کے بعد ہمارے دانشور طبقے کو اردو زبان سے کچھ زیادہ ہی ہمدردی ہو گئی گو اُن کی بے عملی کے سبب یہ ہمدردی بے اثر ثابت ہوئی۔ بعض دانشوروں نے اردو کی حمایت میں لکھا لیکن یہ تحریریں حکومت کے سامنے حجت و تکرار ثابت ہوئیں۔ حکومت کے وثائق کے ذخیرے میں اضافہ ہوا۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان کی یہ حجت و تکرار بے جان تھی۔ ان کی نمائندگی میں ویژن کا فقدان تھا اس لیے وہ موثر ثابت نہ ہو سکیں۔ جو بات خصوصیت سے اس میں پائی گئی وہ ان کی مخلصانہ کوشش تھی لیکن صرف خلوص سے کام نہیں چل سکتا۔ اردو کو مسلمانوں کا مسئلہ قرار دیا گیا۔ تاہم اہم مسائل پر توجہ نہیں دی گئی۔ ریسرچ اسکالروں نے بھی اس کی اہمیت کو نہ جانا۔ پالیسی سازی کے لیے جس مواد کی ضرورت تھی وہ بھی پیش نہ کیا گیا۔ حکومت کی پالیسی تو اردو ادب کے کلچرل پہلو تک محدود ہے جیسے مشاعرہ، فکشن، ادبی تنقید وغیرہ۔ حکومت کی طرف سے اردو کے نصاب کی تیاری کا کام نام نہاد شاعروں ، ادیبوں اور نقادوں کو تفویض کیا جاتا ہے۔ کسی اردو والے نے کبھی اس کوتاہ نظری کے خلاف احتجاج نہیں کیا۔ اردو زبان کی اصلیت تک حکومت کی پہنچ نہیں ہے۔ ان کے نزدیک اردو زبان گئی گزری زبان ہے اور اب اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اردو بولنے والے ادنیٰ طبقے کو مجبور کیا گیا کہ وہ کوئی دوسرا ہی راستہ اختیار کریں اور ہندی درس گاہوں میں پناہ لیں۔ یہاں تو اردو کو اختیاری زبان کی حیثیت سے بھی پڑھایا نہیں جاتا۔ اکثر حالات میں اردو نصابی کتابوں کا جو ترجمہ کیا جاتا ہے وہ ناقص اور سمجھ سے باہر ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ یہ کتابیں مارکٹ میں دیر سے پہنچتی ہیں۔

ایک اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ شمالی ہند میں اردو میڈیم اسکولوں کا وجود ہی نہیں ہے۔ مہاراشٹر جیسی بعض ریاستوں میں ان کا وجود ہے لیکن یہاں دستیاب کتابوں کا معیار دوسری علاقائی زبانوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہاں علاقائی زبانوں کی کتابوں کا ترجمہ انگریزی میں کیا گیا ہے۔ مزید تباہی یہ کہ اردو کی کتابوں کا ترجمہ علاقائی زبانوں میں کیا گیا۔ ان کم معیاری کتابوں کی دوبارہ جانچ نہیں کی گئی اور اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور ہی نہیں کیا گیا۔ ان میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو NCERT کی شائع کردہ ہیں۔ NCERT نے ان کتابوں کے نصاب کی تیاری اور اشاعت کا کام شاعروں اور نقادوں کو سونپتے ہوئے خودکشی کے رجحان کی طرح ڈالی ہے۔ اگرچہ ہمارے دانشور مصلّموں نے انگریزی نصاب کو زعفرانی لبادہ پہنانے کے خلاف فوراً ہی احتجاج کیا لیکن دکھ کی بات ہے کہ یہاں بھی ہندوستانی زبانوں کو لے کر فرقہ وارانہ عوامل کی کارفرمائی کی وجہ سے بے تعلقی کا سلسلہ جاری رہا، خاص طور پر شمالی ہند میں جہاں ہندی کی کتابوں سے اردو کا ترجمہ کیا گیا۔ اردو نصاب کی کتابوں کی تیاری اور اشاعت کا کام ان شاعروں اور ادیبوں کے حوالے کرتے ہوئے جو یونی ورسٹی اساتذہ کے درجے کے ہیں NCERT نے اردو ادب کے تابوت میں آخری کیل گاڑ دی۔

ہمارا مقصد سہ رخی ہے۔ ہندوستان کے موجودہ دور میں تعلیم کا جو بھی طریقِ کار ہے، اس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ازسرِ نو حقیقت پسندانہ جائزہ لیا جائے کہ اردو کی عملی تعلیم کو کس طرح رو بہ کار لایا جائے۔ اردو بولنے والوں کی نمائندگی قبول کی جائے اور ان کے پیش کردہ مسائل پر غور کیا جائے۔ تیسرے یہ کہ کیا سہ لسانی فارمولے کے تحت اردو کو اول زبان کا درجہ دے کر لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اردو کو سیکولر تدریسی نظام میں ، جو اس کا جائز مقام تھا، اس سے اسے محروم کر دیا گیا ہے۔ اب وہ کاروباری زبان کی حیثیت سے اس وقت تک باقی نہیں رہ سکتی جب تک کہ اسے تحتانوی درجے سے لے کر فوقانوی درجے تک تدریسی نصاب میں شامل نہ کیا جائے۔

اردو کو اختیاری زبان کی حیثیت سے ان طلبا کے لیے پیش کیا جائے جو انگریزی پڑھتے ہیں یا جن کا ذریعۂ تعلیم علاقائی زبان ہے۔ شمالی ہندوستان کے ان علاقوں میں جہاں اردو والوں کی قابلِ لحاظ تعداد ہے اور جہاں دستور کی 26ویں ترمیم کا قانون لاگو ہو سکتا ہے، وہاں طالبِ علموں کو 14 سال کی عمر تک اردو میڈیم میں تعلیم دی جا سکتی ہے۔ ایسے طلبا جنھیں اردو میڈیم میں پانچویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہیں وہ اردو کو پہلی دوسری یا تیسری جماعتوں سے اختیاری زبان کے طور پر بارہویں جماعت تک پڑھ سکتے ہیں۔ اس کا دارومدار ان کی ضرورت اور قابلیت پر ہے۔

جس طرح دیگر ترقی یافتہ اور فعال ممالک میں سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہیں ، اُسی طرح ہندوستان میں بھی یہ تبدیلیاں نمایاں ہیں۔ دستور کی 86 ویں ترمیم، جس کا اعلان 13 دسمبر 2002 کو ہوا، اس کی روٗ سے بچوں کو 14 سال کی عمر تک تعلیم حاصل کرنے کا بنیادی حق ہے۔ مناسب یہ ہو گا کہ بچے یہ تعلیم مادری زبان کے میڈیم سے حاصل کریں اور اردو مادری زبان والے طلبہ کے لیے اس کا انتظام اردو میڈیم سے کیا جائے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ اردو داں حلقوں میں انگریزی ذریعۂ تعلیم کی مخالفت محض برائے مخالفت نہ ہو۔

نوٹس:

.1        منسٹری آف ہیومن رسورس ڈیولپمنٹ کے زیرِ اہتمام نیشنل کونسل برائے فروغِ اردو زبان نے، جو وزارتِ فروغِ انسانی وسائل، حکومتِ ہند کا مشاورتی ادارہ ہے، 21 تا 23 مارچ ایک سہ روزہ سمینار منعقد کیا۔

میں بھی اس سمینار میں موجود تھا جہاں مدھیہ پردیش مدرسہ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر حلیم خاں نے تفصیل سے بتایا کہ مختلف ریاستوں کے مدرسہ بورڈز کے علاوہ ہوم منسٹری کے تحت کام کرنے والے دوسرے اداروں نے بھی بڑی ہی جانفشانی سے مدارس کی تعداد اور ان میں زیرِ تعلیم طلبہ کا ڈیتا جمع کیا ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ مدرسوں کو جدید رجحانات کے تحت لانے کے لیے سال 2003 میں حکومت نے صرف 2 کروڑ روپوں کی رقم مختص کی تھی جو شاید چند مدرسوں کی جدید کاری کے لیے بھی ناکافی ہو۔

یہ بتانا ضروری ہے کہ شمالی ہندوستان میں ہندی زبان کے جارحانہ رویے کا سبب ہندتوا نظریے کی پشت پناہی ہے۔ ہندی زبان کے سوال پر بہت سے آزاد خیال ہندو بھی قومی زبان کے اس محدود نظریے کی طرف جھک جاتے ہیں جو سیاسی یعنی جدید ہندی کو قومی زبان بنانے کا حامی ہے۔ لکھنؤ سے شائع ہونے والے ایک روزنامے میں آر۔ ایس۔ ایس۔ کے سرسنگھچالک کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ انھیں اس اطلاع سے خوشی ہوئی کہ یوپی کے چیف منسٹر ملائم سنگھ یادو نے ہندی اور سودیشی جیسے موضوعات پر آر۔ایس۔ایس۔ کی حمایت کی۔ بی۔جے۔ پی۔ اور یادو کی سماج وادی پارٹی کے ایک دوسرے سے قریب ہونے پر سرسنگھچالک نے کہا ’’یہ ایک صحت مند علامت ہے کہ وہ پارٹیاں جو ابھی تک اقلیتوں کا راگ الاپ رہی تھیں اب وہ ہندتوا کی اہمیت کو محسوس کرنے لگی ہیں۔‘‘ (انڈین اکسپریس۔ نئی دہلی 23 دسمبر2003)

دستور کی 86 ویں ترمیم جس کا اعلان 13 دسمبر 2002 کو ہوا، اس میں بنیادی حقوق کی دفعہ 21-A کے تحت ایک جملہ شامل ہے : 6تا 14 سال کے تمام بچوں کے لیے حکومت لازمی تعلیم کا انتظام کرے گی۔یہ تعلیم کس طرح دی جائے اس کا فیصلہ خود حکومت کرے گی۔

سلمان خورشید

٭٭٭

 

 

مضمون نگار

 

حسن عبداللہ

پیشے سے سائنس داں ہیں اور دلی میں رہتے ہیں۔ ابتدائی تعلیم اردو میڈیم سے حاصل کی اس لیے اردو کے ذریعۂ تعلیم کی پیچیدگیوں کا اندازہ حسن عبداللہ کو اردو کے اکثر ماہرین سے زیادہ ہے۔

 

ارجمند آرا

دلی یونی ورسٹی کے شعبۂ اردو میں لیکچر ر ہیں۔

 

ڈانیالا بریڈی

یونی ورسٹی آف روم La Sapienze کے شعبۂ اورینٹل اسٹڈیز میں جنوبی ایشیا کی اسلامی تاریخ پڑھانے پر ایسوسیٹ پروفیسر کی حیثیت سے مامور ہیں۔

 

اطہر فاروقی

ہندوستان میں آزادی کے بعد اردو کے سیاسی و سماجی منظر نامے کا گہرا مطالعہ کیا ہے۔ اسی موضوع پر جواہر لال نہرو یونی ورسٹی سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔

 

جے۔ ایس۔ گاندھی

سماجیات کے پروفیسر کی حیثیت سے جواہر لال یونی ورسٹی سے ریٹائر ہوئے۔ فی الوقت Distinguish scholar کی حیثیت سے اسی درسگاہ سے وابستہ ہیں۔

 

سلمان خورشید

مرکزی حکومت میں کورپوریٹ افیرس اور اقلیتی امور کی وزارتوں کا قلم دان سنبھالے ہوئے ہیں۔ ایک فعال سیاست داں کے علاوہ ہندوستان کی سپریم کورٹ میں سینیر ایڈوکیٹ کی حیثیت سے پریکٹس کرتے ہیں۔

 

پرتاپ بھانو مہتا

سینٹر فار پالیسی ریسرچ، نئی دلی کے صدر ہیں۔

 

باربراڈی مٹکاف

ان کا اصلی نام ایس ذی میان پامر ہے۔ یونی ورسٹی آف مشیگن میں جنوبی ایشیائی اسٹڈیز کے سینٹر کی ڈائرکٹر اور شعبۂ تاریخ کی پروفیسر ہیں۔ ان کی تحریروں میں Islamic Contestation موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں پر مضامین، بالخصوص برٹش انڈیا میں اسلام کا احیا، دیوبند 1860 تا 1900 اور جدید ہندوستان کی مختصر تاریخ (اشتراک میں ) شامل ہیں۔

 

فالی ایس۔ نریمان

بار ایسوسی ایشن آف انڈیا کے صدر اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے سینئر ایڈوکیٹ ہیں۔

 

کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ

ہیڈلبرگ  یونی ورسٹی کے جنوبی ایشیا انسٹی ٹیوٹ میں اردو پڑھاتی ہیں۔ اپنا پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ اردو ناول نگار قرۃ العین حیدر پر لکھا ہے۔

 

کیلی ہمبرٹن

کولمبیا یونی ورسٹی سے مذہب کے موضوع پر پی ایچ۔ ڈی کی ہے۔ جارج واشنگٹن یونی ورسٹی میں مذاہب کے شعبے اور خواتین کے اسٹڈیز پروگرام سے اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ انھوں نے تقابلی مذاہب کا خصوصی مطالعہ کیا ہے۔ انھوں نے جنوبی ایشیائی مسلمانوں اور ہم عصر اصلاحی ادب جیسے موضوعات پر مضامین لکھے ہیں۔

 

کرن گرافین فان شیون

ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ ہیڈل برگ سے ’’ماڈرن ساؤتھ ایشین ہسٹری‘‘ کے عنوان سے پی ایچ۔ ڈی کا مقالہ لکھا۔ ایک اور مقالہ یو پی میں ہندی اردو نزاعی مسئلے پر بھی لکھا۔ ان کی تحریروں میں Indirekte Herschaft and Reforonpolitik im indirechen Iurstenstaat Hydrabad اور اسلامی قبرستانوں سے متعلق مضامین شامل ہیں۔

 

یوگندر سنگھ

ہندوستان کے صفِ اول کے سوشیولوجسٹ ہیں اور سنٹر فار اسٹڈیز آف سوشیل سسٹم، اسکول آف سوشیل سائنس، جواہر لال نہرو یونی ورسٹی، نئی دہلی میں پروفیسر ایمریٹس ہیں۔

 

سولی جے سوراب جی

ہندوستان کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔

 

یو گیش تیاگی

اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز جواہر لال نہرو یونی ورسٹی دہلی میں انٹرنیشنل لا پڑھاتے ہیں۔

 

تھیوڈور پی۔ رائٹ جونیر

البانی (امریکہ) نیو یارک اسٹیٹ یونی ورسٹی میں پروفیسر ایمر یٹس ہیں۔ ہندوستانی مسلمان اور حیدرآباد، ممبئی، کراچی اور لاہور کے مہاجرین کے بارے میں چالیس سال تک ریسرچ کی ہے۔

 

آمنہ یقین

لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ ایفریکن اینڈ ایشین اسٹڈیز (SOAS) میں اردو پڑھاتی ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

پیش لفظ

 

اطہر فاروقی

 

یہ تالیف ایک کوشش ہے ان تمام مسائل پر غور کرنے کی جو اردو زبان کی بقا اور ہمارے سماج میں اس کے تحفظ سے متعلق ہیں۔ آزاد ہندوستان میں شمالی ہند کے سیاسی پس منظر میں یہ مسائل مسلسل بحث کا موضوع بنے رہے ہیں اور اس طرح سے موجودہ دور کی تاریخ کا یہ ایک باب ہیں۔ اپنا شاندار ماضی کھونے کے بعد اب اردو ان لوگوں کی زبان بن کر رہ گئی ہے جو مسلمان کہلاتے ہیں اور خود بھی اپنے ماضی میں کھوئے رہتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ تمام قوموں کی، خاص طور پر مسلمانوں ، سکھوں اور ہندوؤں کی مشترک زبان تھی لیکن آزاد ہندوستان میں خود ہندوؤں اور سکھوں نے اسے عمداً اپنے دائرۂ عمل سے خارج کر دیا ہے۔ اب ان کے بچے اس زبان کو نہیں سیکھتے۔

ممکن ہے کہ مستقبل کے ہندوستان میں اس زبان کے عام استعمال کے ایک سے زائد طریقۂ کار نکل آئیں۔ میرے خیال میں اردو جو 160 لاکھ افراد کی مادری زبان ہے (2001 کے اعداد و شمار کے مطابق) اُسی وقت ایک کار گرد زبان بن کر زندہ رہ سکتی ہے جب کہ اسے ہندوستان کی ماڈرن زبان کی حیثیت سے اسکول کے نصاب میں شامل کیا جائے۔ (اس خیال کا اظہار دوسرے ادیبوں اور دانشوروں نے بھی بار بار کیا ہے جن کے مقالے اس کتاب میں شامل ہیں ) لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ نام نہاد ہندی علاقوں میں ، جہاں اردو بولنے والوں کی اکثریت ہے، سیکولر تعلیم میں اردو کو جگہ دینے سے مسلسل احتراز اور انکار کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے اردو محدود ہو کر رہ گئی ہے ان مسلم اداروں اور مدرسوں میں جہاں غریب مسلم طلبا تعلیم پاتے ہیں۔ اب یہ مسلمانوں کے کمزور طبقے میں زندہ ہے۔ مسلمانوں سے وابستگی کے سبب برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ زبان ہندو اکثریت کی ناراضگی کا شکار ہو گئی ہے۔ حکومت نے اکثریت کے رویّے کو دیکھتے ہوئے اسے بلا تکلف اسکول کے نصاب سے خارج کر دیا۔ اردو کو کسی بھی ریاست میں دیسی زبان کی حیثیت سے قبول نہ کیا گیا۔ اس وقت بھی، جب زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی تنظیم نو عمل میں آئی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں ، جہاں اردو سرکاری زبان تھی، کسی نے بھی اسے اپنی مادری زبان قرار نہ دیا۔ اس طرح حکومت کے ناموافق رویّے سے اردو والوں کے دستوری حقوق کی نفی ہوئی۔ اردو کو مذہب کے چوکھٹے میں جکڑ دیا گیا۔

چونکہ اردو کی تعلیم روزگار حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتی اس لیے شمالی ہندوستان کے مسلمانوں کے اعلیٰ طبقے نے اس زبان کو یکسر مسترد کر دیا۔ اس اندیشے کے تحت کہ ان پر پاکستان (جس کی سرکاری زبان اردو ہے ) سے نسبت قائم کرنے کا الزام آئے گا، انھوں نے اردو سے سارے جذباتی رشتے توڑ دیے۔ درمیانی طبقے کی بڑھتی ہوئی نسل بھی اپنے آبائی مقامات سے ہجرت کرتی ہوئی اس زبان کو اپنے پیچھے چھوڑ آئی۔ کچھ حد تک ان سیاست دانوں کا کر دار بھی، جو سیکولر جماعتوں سے وابستہ ہیں ، سیاسی وجوہات کی بنا پرڈانواں ڈول ہو گیا ہے کیوں کہ وہ عام ہندوؤں کی اس رائے سے اختلاف کرنے کا حوصلہ نہیں کرتے کہ اردو ان لوگوں کی زبان ہے جنھوں نے پاکستان بنانے کی حمایت کی تھی۔

اس میں شک نہیں کہ اردو ہندوستانی مسلمانوں کا ورثہ ہے اور ان کی محفوظ دولت ہے۔ یہ ہندوستان میں مسلمانوں کی شناخت کا ایک اہم وسیلہ بھی ہے۔ ان کی عوامی زبان بھی ہے۔ اسی سبب سے حکومت کے ہاتھوں اس کا گلا گھونٹنے اور اسکولوں سے اسے خارج کر دینے کے باوجود اس کا وجود مدرسوں کی وجہ سے ابھی بھی قائم ہے۔ لہٰذا اب بھی اس کا شمار مردہ زبانوں میں ہونے سے رہا۔ تھیوڈور پی رائٹ کی اصطلاح میں یہ ’’ماضی کی مقتدر زبان‘‘ ہے جسے آج قوسین میں محسوس کیا جا رہا ہے۔

اردو زبان کے مسائل کا مسلمانوں کے مسائل سے گہرا تعلق ہے۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان اس وقت سے قرار دیا گیا ہے جب انیسویں صدی کے اواخر میں ہندو احیا پرستی کی تحریک شروع ہو چکی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب دو علاحدہ تہذیبوں کے درمیان مذہبی بنیادوں پر لکیر کھینچ دی گئی تھی۔ یہ لکیر مذہبی بنیاد پر ملک کی تقسیم کے بعد مزید مستحکم ہو گئی۔ آزادی کے بعد زبان کے حوالے سے قوم کو دو جھٹکے لگے۔ کوئی بھی زبان اپنے بولنے والوں کو پروان چڑھانے میں اہم کر دار ادا کرتی ہے لیکن اب اردو زبان کو گہن لگ گیا ہے۔ اسے سیکھنے کے مواقع صرف مدرسوں میں حاصل ہیں۔ نتیجتاً بعض مسلمان اسے اپنے مذہب کی سلامتی کا ذریعہ سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت میں لگے ہیں۔ چوں کہ اس زبان میں ان کے مذہبی ادب کا سرمایہ محفوظ ہے اس لیے وہ ڈرتے ہیں کہ اردو کے زوال سے ان کا مذہبی ورثہ گم ہو جائے گا۔

میری عرض ہے کہ ہندو احیا پرستوں کے فرقہ وارانہ تعصب کے نتیجے میں اردو کے ساتھ بڑی نا انصافی ہوئی ہے اور خاص طور پر شمالی ہند میں اب اردو مذہبی معلومات حاصل کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ مدرسوں میں علاحدگی پسند نصاب کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ سے طالب علموں میں بنیاد پرستی کے رجحانات بڑھتے جائیں گے۔ مدرسوں میں انھیں جدید سیکولر تعلیم نہیں دی جاتی۔ اس لیے ایک مشترک اور اجتماعی سماج میں مخصوص مذہبی تعلیم حاصل کرنے والوں اور دیگر جدید علوم سے نابلد ہونے والوں کا علاحدہ پسندی کی طرف مائل ہونا لازمی ہے۔ ایسے طالب علم کبھی کبھی کٹّر متعصبانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ تب فرقہ پرست ہندو اس صورت حال کا استحصال کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کی مہم چلانے کو جائز قرار دیتے ہیں۔

یہ کیفیت اس وقت تک بدلنے والی نہیں جب تک کہ اردو تعلیم کو سیکولر تعلیم سے مربوط نہ کیا جائے۔ اگر اردو کو دوسری زبانوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تو مسلمان سرپرستوں کی اکثریت اپنے اپنے بچوں کو مدرسوں کے بجائے سیکولر اسکولوں میں بھیجے گی۔ یہ قدم بچوں کے نظریات کو وسعت دینے میں معاون ثابت ہو گا اور ایک جمہوری اور سیکولر نظام کو پروان چڑھائے گا۔ مسلم اکثریت کے پس ماندہ اور تنگ نظرانہ خیالات کو بدلنے کے لیے حکومت پر لازم ہے کہ اسکولوں کے نصاب میں اردو کو اس کا مستحق مقام دے۔ اس طرح کی پہل کی جائے تو ہندوستان کی ایک بڑی اقلیت کے نظریات کو جدید رجحانات سے روشناس کرانے اور انھیں لبرل بنانے میں بڑی سہولت ہو گی۔ ہم اپنے دانشوروں ، اسکالروں اور عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ ہماری اصل غایت یہی ہے کہ وہ ہمارے ان خیالات سے اتفاق کرتے ہوئے اور اردو کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہوئے اردو والوں کو سہولتیں دینے کی حمایت کریں اور اس زبان اور اس کے بولنے والوں کو سیکولر بنا کر قومی دھارے میں شامل کرنے کی جدوجہد میں حصّہ لیں تاکہ مسلمانوں میں بھی جدید اور سیکولر نظریات پروان چڑھیں۔

اس کتاب کے مقالوں کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب Contextualizing Urdu سے متعلق ہے۔ اس باب میں ماضی کے پس منظر میں اردو کے موجودہ موقف پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پرتاپ بھانو مہتا، باربرامٹکاف، یو گیندر سنگھ اور تھیوڈور پی۔ رائٹ نے اپنے مقالوں میں اردو کے موجودہ موقف کو سماجی، سیاسی اور تاریخی پس منظر میں متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ سلمان خورشید صاحب کا دیباچہ اردو کے ساتھ سوتیلے برتاؤ اور اس کے نتیجے میں زبان نے کس طرح مذہبی شناخت حاصل کی، ان عوامل کا جائزہ لیتا ہے۔ ان کے پاس اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ اردو کو سیکولر نصاب کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اگر ہندوستان میں سیکولر اقدار قائم کرنا ہے تو اردو کی بقا ضروری ہے۔ پرتاپ بھانو مہتا کا مقالہ گواہی دیتا ہے کہ وہ اردو والوں میں سے ایک ہیں۔ دوسرے مقالوں کی طرح اس میں تاریخی واقعات یا اردو کی عملی مشکلات کا ذکر نہیں ملتا بلکہ انھوں نے ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو عام طور پر کسی بھی زبان اور خاص طور پر اردو زبان سے متعلق ہیں۔ انھوں نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ سیاسی نظریات کی روشنی میں اردو کی بقا کے کیا امکانات ہیں۔

باربرا مٹکاف نے اردو کے موقف کا تاریخی تجزیہ کیا ہے۔ ملک کی تقسیم کے سبب مسلمانوں کی زبان اردو قرار دی گئی ہے۔ تقسیم نے ان پر یہ بار ڈالا ہے کہ یہ زبان اور اس کے بولنے والے 1947 کے بعد اپنے لیے ایسی جغرافیائی حدود پیش نہ کر سکے جہاں ان کی آبادی اکثریت میں ہو۔ اس سے قطع نظر دستوری تحفظات نے بھی کوئی حمایت نہیں کی کہ ان لوگوں کو یہ زبان پڑھائی جاتی جن کی یہ مادری زبان ہے۔ انھوں نے تین مصلحت آمیز تراکیب کی نشاندہی کی ہے جن کو قبول کرنے سے اردو کی تعلیم میں اضافہ ہو سکتا ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچ سکتی ہے۔ اوّل یہ کہ اس کی تعلیم کو ہندی کی تعلیم کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اردو رسم الخط اور اردو کے الفاظ کے استعمال کا طالب علموں کو اختیار رہے۔ دوسرے یہ کہ پالیسی سازوں اور دیگر ادیبوں کو چاہیے کہ وہ اس یقین کے ساتھ کام کریں کہ اردو زبان کی اساس موجودہ ہندوستانی علاقے کی ہے اور اب اسے عبوری زبان کا درجہ ملنا چاہیے۔ ادیبوں اور ناشروں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ جب بھی اپنی کتابیں ناگری زبان میں چھاپیں تو ان میں دونوں زبانوں کو شامل کریں تاکہ ناگری اور اردو میں لکھی ہوئی کتابیں ایک ساتھ مہیا ہو سکیں۔ ان اقدامات کے ذریعے ہی اردو کو ہندوستانی عوام تک پہنچنے کا زیادہ سے زیادہ موقع فراہم ہو سکتا ہے۔

یو گیندر سنگھ اپنی دانست میں اردو کو مسلمانوں کی شناخت کا اہم وسیلہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے شناخت اور اس کے قانونی جواز کے پہلو بہ پہلو ہندوستان میں مسلمانوں کا اردو سے تعلق جیسے مسائل اور ان کے مضمرات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمان قوم کی تہذیبی شناخت بھی اسی راہ سے گزری ہے جو لبرل اور سوشیل جمہوریت کے ساتھ ساتھ معاشی اور اجتماعی تہذیب کی راہ بھی ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس تہذیب کے بعض گوشے ایسے ہیں جو کلیتاً قوم کے اپنے نجی معاملات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس علاحدگی کا بڑا سبب حکومت کی وہ تعلیمی پالیسی ہے جو علاحدگی کو بڑھاوا دیتی ہے اور جس سے مسلمانوں کی پس ماندگی کو دور کرنے کے لیے مساوات کے رویّے سے انحراف برتا گیا ہے۔

تھیوڈور پی۔ رائٹ اردو کا دفاع دنیا کی ان بڑی زبانوں کو سامنے رکھ کر کرتے ہیں جو سیاسی اور تاریخی پس منظر میں ممالک کی فتوحات یا ان میں آئے انقلابات کی بدولت یا تو قائم رہیں یا پھر نابود ہو گئیں۔ قدیم اور عہدِ وسطیٰ کی یورپی (تارین فرنچ) اور ایشیا کی (پانچو) زبانوں کا موازنہ انھوں نے نوآبادیاتی دور کی زبانوں ، جیسے افریقہ اور لاطینی امریکہ کی زبانیں ، ان سے کیا ہے۔ ان کا تجزیہ عالمانہ بھی ہے اور خیال انگیز بھی۔ یہ نظریاتی سانچہ لسانیات کے مقابلے میں تقابلی سیاست سے تعلق رکھتا ہے۔

دوسرے باب میں جو ’’اردو اور شناخت کی سیاست‘‘ کے عنوان سے ہے، اس کا تعلق مذہب اسلام اور تہذیبی شناخت سے ہے۔ ارجمند آرا نے اپنے مقالے میں تجزیہ کیا ہے کہ کس طرح مسلم شناخت کو بنانے میں مدرسوں نے اپنا رول ادا کیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ یہ ادارے سابقہ منصب دارانہ سوسائٹی کی دین ہیں جو اپنی تعلیمی پسماندگی سے چھٹکارا نہ پا سکے اور نہ ہی ہندوستان کے نئے سرمایہ دارانہ نظام کا ساتھ دے سکے۔ اسی لیے وہ ایسے ماڈرن تعلیمی نظام کی وکالت کرتی ہیں ، جو ترقی پذیر ہو اور جو آنے والی نسلوں کو ان کی بڑھتی ہوئی تعلیمی پس ماندگی سے نکالے اور ان کے مستقبل کو سنوارے۔

آمنہ یقین نے فرقہ واریت کے فروغ اور اردو ادب کے زوال کے اسباب کا مطالعہ کیا ہے۔ ہندوستان میں سیکولر تعلیم کے اداروں کا مفقود ہونا اس زوال کا بڑا سبب ہے۔ انھوں نے اردو سے متعلق انیتا دیسائی کی کتاب "In Custody” (ناول) کا حوالہ دیا ہے۔ اس ناول میں اردو والوں سے متعلق ان کے انکشافات کمزور ہیں۔ اس میں اردو کے ایک عمر رسیدہ شاعر کا خاکہ پیش کیا گیا ہے اور اسے اردو بولنے والوں کا نمائندہ کہا گیا ہے۔ نام نہاد اونچے طبقے کے لوگ، جو ماضی میں اردو لکھتے اور بولتے رہے یہ ان کی زبان ہے۔ جو تصویر پیش کی گئی ہے وہ غیر حقیقی ہے، اس میں کوئی گہرائی نہیں۔ لگتا ہے ہمارے دانشور بھی اسی طرح کے خیالی خاکوں کی پذیرائی کرتے ہیں اور ان پر اپنے نظریات قائم کرتے ہیں۔ ممبئی کی فلموں میں جو اردو والوں کی نقالی کی جاتی ہے اور جس طرح ان کے مجازی نمونے پیش کیے جاتے ہیں ، اس سے ایک غلط تصور قائم ہوتا ہے۔ اس مقالے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جو غیر اردو داں طبقہ ہے وہ اردو والوں کے بارے میں کس طرح کے نظریات رکھتا ہے۔ خاص طور پر وہ طبقہ جو سیاسی اور معاشی اعتبار سے امتیازی مقام کا حامل ہے۔

کیلی ہیر برٹن اور ڈانیلابریڈی نے اردو کی بقا سے متعلق ایسے سوالات اٹھائے ہیں جو قوم، زبان، شناخت اور اختیارات کے زمروں میں آتے ہیں۔ اردو کو ہندوستان کے مختلف فرقوں میں باہمی ربط قائم رکھنے کا وسیلہ قرار دیتے ہوئے برٹن وکالت کرتی ہیں کہ اسے ایک ایسی زبان کے طور پر قبول کیا جائے جو الگ سے اپنی پہچان اور شناخت رکھتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایسا طریقۂ کار دونوں محاذوں پر اختیار کیا جانا چاہیے۔ ایک تو حکومت کی سطح پر اور دوسرے چھوٹے چھوٹے اداروں کی سطح پر: ایسی تفسیر جس کی مد د سے اس کے معیار کو قبول کیا جائے اور نظریاتی سطح پر اردو کے معنی و مفہوم کو کسی خاص طبقے تک محدود رکھنے کے بجائے اسے ایسی وسعت دی جائے کہ وہ سارے ہندوستان کے ادبی اور تہذیبی منظر نامے پر پھیل جائے۔

کتاب کا تیسرا باب سماجی موقف، تعلیم اور اردو کے عنوان سے ہے۔ اس میں دیگر موضوعات بھی شامل ہیں۔ اطہر فاروقی نے ہندوستان کی چند بڑی اور نمائندہ ریاستوں میں اردو تعلیم کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کا سروے کیا ہے۔

سید شہاب الدین نے سماجی اور سیاسی لحاظ سے اردو نے جن تلخ حقیقتوں کا سامنا کیا ہے، ان کی تصویر کھینچی ہے۔ انھوں نے جن اہم نکات کی وضاحت کی ہے وہ ہیں اردو سے مسلمانوں کا تعلق، مسلمانوں کے تعلیمی اداروں کے ساتھ حکومت کا برتاؤ، تعلیمی میدان میں اردو کی زوال آمادہ کیفیت، اردو کتابوں کی کم اشاعتی اور ان کی عدم طلب اور اردو بولنے والے اونچے طبقے کا اردو سے سلوک۔ ان مسائل کا ہر سطح پر جائزہ لیتے ہوئے انھوں نے ان کے حل تلاش کیے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے کسی بڑی قربانی کی ضرورت نہیں ہے۔ دستور میں دیے گئے حقوق کو حکومت ہر سطح پر نیک نیتی سے پورا کرے۔ یہی ان کی تلقین ہے۔

کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ہندوستانی دستور کی دفعات کی روشنی میں اردو تعلیم کے موقف کا سروے کیا ہے۔ انھوں نے 1983 اور 2001 کے درمیان ہندوستان کا مختلف اوقات میں دورہ کیا تھا۔ اور کرپلانی کمیٹی رپورٹ کے علاوہ چند منتخب ریاستوں کے مقامی اخباروں میں جو مضامین اور رپورٹیں چھپی تھیں ان سے مواد حاصل کیا اور ان کا جائزہ لیا۔ مزید برآں انھوں نے گزشتہ ان دو دہوں میں ہندوستانی اسکالروں کی سفارشات کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے اپنی ایسی تدابیر پیش کیں  جو اردو زبان کو ایک عام کار کرد زبان بنانے کے امکانات فراہم کر سکتی ہیں۔ مختصراً یہ کہ ان کے مقالے میں اردو اور انگریزی کے میڈیم میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی بات بھی ہے اور اردو تعلیم کو پروان چڑھانے کا مشورہ بھی ہے۔

کیرن گرافن شاورِن ایک ماہر تعلیم کے نظریات پر مبنی، ڈاکٹر ذا کر حسین صاحب کی صدارت میں جو نئی تعلیمی اسکیم تیار کی گئی تھی اس کا حوالہ دیتی ہیں۔ اسے واردھا تعلیمی اسکیم یا 1937 کی نئی تعلیمی اسکیم کہا گیا ہے۔ یہ اردو کی تعلیم اور اردو میڈیم کے بارے میں وضاحت کرتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت اردو نے جو مادری زبان کا کر دار ادا کیا ہے اس کے بارے میں بحث کرتی ہوئی کیرن گرافن نتائج اخذ کرتی ہیں کہ اردو جو پاکستان اور ہندوستان کی عوامی زبان ہے وہ دنیا کے لسانی نقشے سے کبھی مٹ نہیں سکتی کیوں کہ لوگ اس کے شعر و ادب اور نزاکت کے گرویدہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس زبان میں مٹھاس بھی ہے۔

ہندوستان میں اردو کے موجودہ موقف کا جائزہ لیتے ہوئے حسن عبداللہ نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ وہ اردو کا ناتا سماج کے مختلف گروہوں سے جوڑتے ہیں۔ اردو کا مقام، دوسری زبانوں کے ساتھ اس کا میل جول، یہ سب اسے ایک ماڈرن زبان کا درجہ دیتے ہیں اور اس کی اہمیت جتاتے ہیں۔ اردو جاننے والے ذہین اور اونچے طبقے کا رول اور ان کا سماجی معاشی و علمی پس منظر، ان سب پر بحث کرتے ہوئے وہ چند سوالات اٹھاتے ہیں اور ان سب کے حوالے سے مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔

جے۔ ایس۔ گاندھی نے اپنے مقالے میں وضاحت سے بیان کیا ہے کہ کس طرح 1947 میں ہندوستان کی تقسیم کے بعد اردو کی مرکزیت کو زوال کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کا چھپا ہوا بیانیہ ان کے اپنے ذاتی تجربات اور یادداشتوں پر مشتمل ہے اور دکھ بھرا ہے۔ یہاں تقسیم اور طبقہ واریت کا سلسلہ تو قائم ہے لیکن ملاپ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ وہ یقین کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ افرا تفری پالیسی محاذ پر غلط کار روائیوں کا نتیجہ ہی نہیں بلکہ فرقہ واریت کو ایک خاص گروہ سے منسوب کرنے کا سبب بھی ہے۔ اس رویّے کا اثر یقیناً منفی رہا ہے۔ اس کی تصحیح ہونی چاہیے۔ گزشتہ تمام واقعات کا سیاسی، سماجی اور نفسیاتی سطح پر ازسرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ہمارے مشترک تہذیبی ورثے کا احیا ہو۔

چوتھا اور آخری باب، اقلیتی زبان اور قوم، قانونی متعلقات پر ہے۔ ماہرین قانون نے اس موضوع پر مقالات تحریر کیے ہیں۔ فالی ایس۔ ناریمان نے لسانی اور دستوری سانچے کو پیش نظر رکھتے ہوئے تعلیمی موقف پر قلم اٹھایا ہے۔ وہ اکثریتی اور اقلیتی فرقوں کے باہمی رشتوں کو استوار کرنے کی بات کرتے ہیں۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ زبان کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں ہے اور نہ ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر سیموئیل جانسن نے کہا تھا کہ زبانوں کی حیثیت کسی بھی ملک کے پرکھوں جیسی ہے۔ ہندی، اردو اور دوسری زبانیں جو آٹھویں ضمیمے میں شامل ہیں وہ ہندوستان کے پرکھوں میں شمار ہوتی ہیں۔

سولی جے۔ سوراب جی نے بھی اقلیتوں کے موقف پر قلم اٹھاتے ہوئے ان کے مذاہب، ان کے تعلیمی اداروں ، ان کی زبانوں اور ان کے کلچر پر اظہار خیال کیا ہے۔ البانیہ کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے ایک عدالت کے فیصلے کا ذکر کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اگر اقلیتوں کو ان کے اپنے اداروں سے محروم کر دیا جائے تو پھر اکثریت کے ساتھ ان کی مساوات نہیں ہو سکتی، اسی سبب سے اوّل الذکر طبقے کے لوگ یہ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ انھیں اقلیتوں میں شمار کیا گیا ہے۔ قانون کی رو سے مساوات کا مطلب ہی یہ ہے کہ درحقیقت ایک ایسا سماجی نظام جنم لے جہاں ہر معاملے میں برابری ہو اور ساتھ میں توازن بھی برقرار رہے۔

یو گیش تیاگی کا مقالہ ہندوستان کی اقلیتوں کے قانونی موقف پر ہے۔ ان کی توجہ زیادہ تر اقلیتی زبانوں کے سوال پر ہے۔ کسی بھی ملک کے قانون میں اقلیتوں کی زبان کا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ان قوانین کا بین الاقوامی نظریات سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہے۔ ان کا مقالہ عمومی طور پر کسی بھی علاقائی اقلیتی زبان سے اور خاص طور پر اردو سے متعلق ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ قومی سطح پر اعداد و شمار جمع کیے جائیں اور انھی کی بنیاد پر اقلیتی اداروں کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ ان زبانوں کا موثر طور پر تحفظ ہو اور یہ فروغ پا سکیں۔

اب مجھے اس اہم سوال کی طرف لوٹنا ہے جو مادری زبان سے متعلق ہے۔ ہندوستان کے دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہیے۔ (دستور کی دفعہ 530-A ) اور حکومت کی پالیسی کے مطابق سہ لسانی فارمولے کو پانچویں کلاس اور اس سے اگلی کلاسوں پر لاگو کرنا چاہیے۔ اس طرح مادری زبان کو ابتدا ہی سے لازمی زبان کے طور پر (اگر ذریعۂ تعلیم اردو ہو تب بھی) پڑھایا جائے۔ شمالی ہند کی ریاستوں میں پہلی کلاس سے بارہویں کلاس تک ہندی ذریعۂ تعلیم ہے۔ پہلی جماعت ہی سے ہندی کو اول زبان قرار دے کر پڑھایا جاتا ہے۔ یہ سہ لسانی فارمولے کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس طریقۂ کار سے ہندی کو ان غیر ہندی دانوں پر بھی تھوپا گیا ہے جن کی مادری زبان ہندی نہیں ہے۔ ماڈرن زبان کی حیثیت سے اردو کو تیسرا درجہ بھی نہیں دیا گیا۔ اس کے بجائے سنسکرت کو ہندوستان کی ماڈرن زبان قرار دیا گیا ہے اور گھس پیٹ کر اسی کو پڑھایا جاتا ہے۔ ساتھ میں سنسکرت کو ہندی زبان کا لازمی جز قرار دے کر چھٹی جماعت سے بارہویں جماعت تک کے نصاب میں شامل کیا گیا ہے۔ خلاصہ یہ کہ یوپی میں اردو کے طالب علم کے لیے اپنی مادری زبان سیکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ لازماً اسے ہندی اور سنسکرت زبانیں سیکھنا پڑتی ہیں۔

ان صداقتوں کے پیشِ نظر دستور کے حقوق اور اس کی دفعہ 350A کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے۔ اردو یا دوسری اقلیتی زبانوں کو ابتدائی یا وسطانوی یا فوقانوی جماعتوں میں ذریعۂ تعلیم بننے کا موقع کہاں سے مل سکتا ہے۔ وہ طلبا جن کی مادری زبان اردو یا کوئی دوسری اقلیتی زبان ہے اس کی بقا کی کیا گنجائش ہے۔ یہ تو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کا سوال ہے۔ ان میں مسلمان بھی شامل ہیں۔

یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ امتیازی برتاؤ کے خلاف دستور کے دیے گئے تحفظ کے باوجود اردو کو قومی دھارے کے سیکولر تعلیمی اداروں کے نصاب سے منظم طور پر خارج کر دیا گیا ہے۔ جامعاتی نقطۂ نظر سے یہ ممکن تھا کہ ایک ایسا فارمولا تجویز کیا جائے جس کی بدولت اردو کو اسکول کی تعلیم میں شامل کیا جا سکے لیکن جب اس تجویز کو عملی جامہ پہنانے کی بات آئی تو اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔لہٰذا میں محسوس کرتا ہوں کہ اردو کو باقی رکھنا سیاسی ضرورت بھی ہو گی۔ اس کا حل سیاسی مصلحت کا مطالبہ کرتا ہے۔ ابھی تک حکومت اور اس کی تعلیمی ایجنسیاں ایسی پالیسیاں تجویز کرنے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی ذمّے دار رہی ہیں جن کے تحت اردو کو منظم طور پر نصاب سے خارج کر دیا گیا۔ وجوہات واضح ہیں۔ ہندوستان کا دستور تیقّن دلاتا ہے کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے لیکن زمینی حقیقت (ground reality) یہ ہے کہ فیصلہ کرنے اور دستور کو نافذ کرنے والے لوگ سیکولر نہیں ہیں۔ یہی سبب ہے جو عوام، ان کے کلچر اور ان کی مادری زبانوں کو یکساں پروان چڑھانے میں مانع ہے۔ اردو واضح طور پر اس متعصّب ذہنیت کا شکار ہوئی۔

ایک طالب علم کی حیثیت سے میں زبان کی خوبیوں کو تلاش کرتے ہوئے یہ نہیں دیکھ پاتا۔ کیا کسی اور کو بھی دیکھنا نہیں چاہیے کہ اردو جو ایک زندہ زبان ہے، اس کے کر دار کو دوسری زبانوں کے کر دار سے مختلف قرار دیا جائے۔ تعلیمی میدان میں جو رول اردو نے ادا کیا ہے اس کا تجزیہ ان سہولتوں کی روشنی میں کیا جانا چاہیے جو اسے سکنڈری اور سینئر سیکنڈری امتحانات کے بورڈ سے فراہم کی جاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ ان مسائل پر بھی غور کیا جانا چاہیے جو اردو والوں کے سماجی اور معاشی حالات کے پیدا کردہ ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر قبول کریں۔ قابلِ غور مسئلہ ہے کہ حکومت کے سہ لسانی فارمولے کو لازمی قرار دینے کے باوجود اگر کوئی طالبِ علم اردو سیکھنا چاہتا ہے تو اسے کوئی موقع فراہم نہیں کیا جاتا۔ کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ ہم اس اہم مسئلے پر غور کریں۔ یہ واضح ہے کہ ہندوستان میں رہ کر اردو سیکھنا کسی بھی یورپی (سوائے انگریزی) زبان کے سیکھنے کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ہے۔ شمالی ہندوستان میں کسی بھی دوسری علاقائی زبان کے سیکھنے سے زیادہ اردو سیکھنا مفید و کارآمد ہے۔ کم عمر طالب علموں کی معلومات محدود ہوتی ہیں وہ اپنے کیریر کے بارے میں فیصلہ نہیں کر پاتے۔ اس لیے ان سے یہ کہنا کہ وہ فرانسیسی، جرمنی، اسپانش یا سنسکرت، آسامی، ملیالم جیسی کسی زبان کو تیسری زبان کی حیثیت سے سیکھیں تو یہ ان پر زائد بوجھ ڈالنے کے برابر ہو گا۔ اسکول سے تعلیم کی فراغت کے بعد ایک طالب علم خود سے فیصلہ کرنے کے موقف میں ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی بدیسی زبان یا کلاسیکل زبان یا جنوبی ہند کی کوئی بھی زبان سیکھے۔ انگریزی میڈیم،تعلیم پانے والے طالب علم کے لیے بھی، جس کی مادری زبان ہندی ہے (یا کوئی دوسری ہندوستانی زبان۔ خاص طور پر شمالی ہند میں ) اختیاری زبان کی حیثیت سے اردو مفید ہو سکتی ہے۔ چھٹی جماعت اور اس سے اگلی جماعتوں میں جہاں انگریزی زبان اول ہے، دوسری زبان کی حیثیت سے ہندی پڑھائی جا سکتی ہے اور اردو تیسری زبان کی حیثیت سے۔ مجھے یقین ہے کہ جدید ٹکنالوجی کے اس دور میں ان سوالات کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے گا۔ خاص طور پر ایسے دور میں جب کہ شناخت اور کلچر پر زور دیا جا رہا ہے، ان سوالات کی بڑی اہمیت ہے۔

اس کتاب میں شامل سارے مضامین ان معنوں میں مختلف ہیں کہ اردو سے متعلق نہ تو یہ کسی کی ایما پر خاص مقصد سے لکھے گئے ہیں اور نہ ہی یہ کسی غلط فہمی کو جنم دیتے ہیں۔ گزشتہ پانچ سال سے مختلف ادیبوں تک رسائی اور ان سے تال میل کی وجہ سے یہ ممکن ہو سکا کہ ایسے مضامین بھی حاصل کیے جا سکے جو ہندی اردو سے متعلق متنازع ہیں۔ تاریخی پس منظر کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اور ماضی و حال کے سیاسی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے موضوعات کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملک میں اس طرح کے بہت سے مسائل کا از سرِ نو جائزہ لینا ضروری ہے ورنہ ایسے بیشتر موضوعات از کار رفتہ ہو جاتے ہیں۔ اردو کا تعلق اسی نوع سے ہے اور یہ لسانی تاریخ کے پس منظر میں بڑے ہی پیچیدہ مسائل کا سامنا کر رہی ہے جن میں ایسے نظریات کے منفی پہلو بھی ہیں جو جامعاتی سطح پر بڑے اہم اور قابل توجہ ہیں۔

مجھے امید ہے کہ یہ کتاب اردو کے مسائل کو حل کرنے میں ممّد و معاون ثابت ہو گی۔ میں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ ان مقالوں میں پیش کیے گئے نظریات اور مشوروں کو پیش نظر رکھا جائے تو اردو عام سماجی سطح پر (Civic Space) ہمارے ہمہ لسانی، ہمہ مذہبی اور ہمہ تہذیبی ماحول میں ایک کار کرد زبان ثابت ہو گی۔

میں تمام مقالہ نگاروں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ان تمام احباب نے اپنے مقالوں کی تیاری میں اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔ بعض مصروف قلم کاروں نے اپنے مقالے مکمل کرنے میں دوسے تین سال لگائے اور بعض نے اس لیے بھی زیادہ وقت لیا کہ اس تھیم پر پہلے کوئی اکیڈمک تحریر موجود نہیں تھی۔ 1990 سے قبل اس موضوع پر صرف ایک ہی کتاب تھی۔ یہ کتاب بھی بہت پہلے 1974 میں شائع ہوئی تھی۔ اس کتاب کے صرف ایک باب میں شمالی ہندوستان میں زبان کی صورتِ حال کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک امریکن پروفیسر کی تحریر کردہ کتاب ہے جنھوں نے اس پر نظرِ ثانی بھی نہیں کی۔

مجھے امید ہے کہ زیرِ نظر کتاب آنے والے دنوں میں ان ریسرچ اسکالروں کی رہبری کرے گی جو اس موضوع سے دلچسپی رکھتے ہوں گے۔ اگر ایسا ہوا تو مجھے خوشی ہو گی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ میری کامیابی کا سہرا ان لوگوں کے سر ہے جن کے ساتھ میں نے اوکسفرڈ یونی ورسٹی پریس میں تبادلۂ خیال کیا۔ خاص طور پر میں منظر خاں مینیجنگ ڈائرکٹر کا ممنون ہوں کہ ان کی کرم فرمائی اور عنایات ہمیشہ میرے ساتھ رہیں۔

 

نئی دہلی

اطہر فاروقی

٭٭٭

 

 

 

حصّہ اوّل۔ I

 

اردو کا سیاق و سباق

 

 

 

حقوق اور قوم کے درمیان اردو

 

پرتاپ بھانو مہتا

 

جدید ہندوستان میں اردو اور اردو تعلیم کے مطالبے کو سمجھنے کا کون سا معقول اور مناسب استدلال ہو سکتا ہے (1) پہلے ہمیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک معنی میں اس سوال کا جواب بہت ہی سیدھا سادا ہے۔ جیسا کہ مختلف انٹرنیشنل کنونشنوں میں ظاہر کیا گیا ہے ہر شخص کو حق ہے کہ وہ اپنی زبان استعمال کرے اور اپنی مرضی سے سماجی، معاشی، مذہبی اور کلچرل زندگی گزارے۔ ہر وہ شخص جو کسی لسانی گروہ سے تعلق رکھتا ہے، اپنی زبان اپنے حلقے کے لوگوں میں ہو کہ پبلک میں ، بغیر کسی اعتراض یا امتیاز کے استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے لیے نہ کوئی خطرہ ہو سکتا ہے اور نہ کوئی رکاوٹ۔ حکومت کو اختیار نہیں کہ راست یا بالواسطہ اپنی پالیسیوں کے توسط سے اس پر غیر ضروری روک لگائے اور اس لسانی گروہ کو تنگ کرے۔ اگر کوئی سوسائٹی یا حکومت ایسے حالات پیدا کرتی ہے کہ ایک خاص لسانی گروہ کو اپنی زبان کے استعمال میں دشواری پیش آئے تو یہ نہ صرف ان کے لسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ان کے دیگر حقوق بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ بڑی ہی ناروا اور ناگوار بات ہے۔

اردو کا معاملہ قابلِ فہم اور بہت سادہ ہے۔ ہندوستان کی ریاستوں کی اردو کے معاملے میں جو پالیسیاں ہیں وہ نامناسب حد تک اردو والوں کے حقوق کو مجروح کرتی ہیں ، یہاں تک کہ ان سے دستور میں دیے گئے ریاست کے رہنما یا نہ اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ Directive Principles of State Policy کے سکشن 21 میں جو دستور کی دفعہ 350A میں شامل ہے مندرجہ ذیل حقوق دیے گئے ہیں :

مادری زبان میں ابتدائی مرحلے پر تعلیم کی سہولتیں : ہر ریاست اور لوکل ا تھارٹی کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ لسانی اقلیتوں کے بچوں کو ابتدائی مرحلے ہی میں ان کی اپنی زبان میں تعلیم دی جا سکے۔ صدر جب بھی محسوس کرے کسی بھی ریاست کو ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے کہ ان بچوں کی تعلیم کے لیے سہولتیں بہم پہنچائی جائیں۔

اگرچہ کہ لفظ ’’کوشش‘‘ کی توجیہہ کسی بھی ریاست کی ذمّے داری تو نہیں ہے اور اس میں بھی شک نہیں کہ ہمارے دستور نے اردو کے حق میں بہت زیادہ تیقنات بھی نہیں دیے۔ اسی بنیاد پر ہندوستان کی ریاستوں نے اردو کو وہ مراعات نہیں دیں جو انھوں نے دیگر زبانوں کو دیں۔ متعلقہ ریاستوں نے اردو کو سرکاری موقف دینے سے انکار کیا جس کی وہ مستحق تھی۔ اردو ذریعۂ تعلیم کی حیثیت سے گورنمنٹ کے کسی بھی اسکول میں تقریباً موجود نہیں ہے، ایسے علاقوں میں بھی نہیں جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد قابلِ لحاظ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو ذریعۂ تعلیم یا اردو میں تعلیم صرف مدرسوں میں دستیاب ہے۔ اس طرح اردو بولنے والے طالب علموں پر یہ ایسا بار ہے جو ان کے غیر اردو داں ہم جماعتوں پر نہیں ہے۔ اگر وہ گورنمنٹ اسکول کی تعلیم قبول کرتے ہیں تو انھیں اپنے لسانی ورثے کو خیرباد کہنا ہو گا۔ یا پھر پبلک اداروں سے علاحدگی اختیار کرتے ہوئے اپنے لسانی ورثے سے چمٹے رہنے پر اڑے رہنا پڑے گا۔ اردو داں معاشرے کے جغرافیائی حالات کے بھی اتنے ہی پیچیدہ تر ہیں جتنے اس کے سیاسی حالات ہیں۔اگرچہ کہ یہ سب سے بڑی اقلیتی زبان ہے اسے ریاست کی بہت کم حمایت حاصل ہے۔ دوسری تمام اہم اقلیتی زبانوں کو جغرافیائی مرکزیت حاصل ہے اور ریاستی حکومت کی سرپرستی بھی۔ اردو کو صرف جمّوں اور کشمیر کی حکومت کی سرپرستی حاصل ہے جہاں اردو بولنے والوں کی ایک چھوٹی سی تعداد بستی ہے۔ فروغ اردو کے لیے قائم کی ہوئی گجرال کمیٹی نے جو سفارشات پیش کیں ان میں ان علاقوں میں اردو میڈیم اسکولوں کا قیام شامل ہے جہاں اردو بولنے والوں کی تعداد دس فی صد سے زائد ہے۔ کمیٹی نے سہ لسانی فارمولے میں بھی ترمیم کی سفارش کی ہے کہ شمالی ہندوستان میں انگریزی اور ہندی کے ساتھ اردو کو لازمی طور پر شامل کیا جائے۔ ان چند معمولی سفارشات سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اردو کی حالت بہتر ہو گی جب کہ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ریاستیں ان تجاویز پر عمل پیرا نہیں ہوئیں۔

کوئی معقول استدلال پیش نہیں کیا جا سکتا یہ کہنے کے لیے کہ حکومت کی پالیسی کی وجہ سے اردو کے ساتھ ناانصافی نہیں ہوئی ہے۔ بعض اسکالر ہی اس بات سے انکار کر سکتے ہیں کہ اردو سے امتیاز کا سبب حکومت کی غیر جانبدارانہ پالیسی ہی نہیں جو غیر ارادی بھی ہے بلکہ یہ امتیاز واضح طور پر ارادی ہے۔ اردو کا دعویٰ اپنے حق میں انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ مقالہ اردو کے معاملے میں ایک طرح سے بیجا مداخلت ہے۔ یہ وہ فریضہ انجام نہیں دے سکتا جو دوسرے مقالے بہ خوبی انجام دے سکتے ہیں۔ تاریخی اور عملی دشواریاں ، جن سے اردو دوچار ہے، شاید اس میں انھیں سمجھنے اور ان سوالات کو اٹھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کسی زبان کا، خاص طور پر اردو کا کیا مقام ہونا چاہیے۔ اس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح کسی زبان کی حقیقت کی دریافت اور اس کی شناخت زبان کے مسئلے پر بحث کرنے میں مانع ہوتی ہے۔ مقالے کے دوسرے نصف میں سیاسی نظریات کی روشنی میں اردو کا المیہ کیا ہو گا اس پر غور کیا جائے گا۔ ایک جمہوری سماج اردو کے مقدر کا خیال کیوں کرے ؟

اگر چہ کہ اردو بولنے والوں کے ساتھ جو نا انصافی ہوئی ہے وہ محسوس کی جا سکتی ہے لیکن یہ ایک قول محال ہے کہ وہ زبان جو مساوات حقوق اور انصاف کی زبان ہے وہ اردو کے مطالبات کو آگے بڑھانے میں کمزور ثابت ہو چکی ہے۔ یہ اس لیے ہوا ہے کہ زبان سے متعلق ہمارا مکالمہ قومیت کے گھیرے میں پڑ گیا ہے۔ اس مکالمے میں اردو قومیت کی دیگر (other) بن گئی ہے۔ وہ زبان جسے اب تن تنہا تقسیم کا بوجھ اٹھانا ہے۔ اردو کو بتدریج فرقہ واریت سے جوڑا گیا ہے، ایک مخصوص گروہ کی یہ شناخت بن گئی ہے اور زبان کی حیثیت سے اس کا بکھر جانا ایسے ہی ہے جیسے ایک سکّے کے دو رخ ہوتے ہیں۔ اردو کے متعدد دعوے کمزور پڑ گئے ہیں کیوں کہ اب اس کی شناخت ایک مخصوص مذہب سے وابستہ ہو گئی ہے۔ درحقیقت یہ دنیا کی ان زبانوں میں سے ایک ہے کہ اسے صرف زبان نہیں کہا جاتا بلکہ اس کی حیثیت نشان بنانے والے (مارکر) کی ہے اور جو قومیت کے تصور کو جوکھم میں ڈالے ہوئے ہے۔ اردو کے اس زوال کی تصویر انیتا دیسائی کے ناول  (In Custody) میں بڑے ملال کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔ اردو کا ایک پرستار اس ناول میں اپنے آفیسر سے رخصت مانگتا ہے تاکہ وہ اردو کے ایک مشہور و معروف شاعر نور شاہ جہاں آبادی کا انٹرویو لے سکے تو اسے جواب دیا جاتا ہے :

’’میں تمھارا تبادلہ تمھارے چہیتے محکمے اردو میں کروا دوں گا۔ میں اپنے محکمے میں تم جیسوں کو نہیں رکھوں گا۔ تم میرے ساتھ کام کرنے والوں کو اپنے اسلامی نظریات سے تباہ کر دو گے۔ تمھاری اردو زبان ۔۔ میں پرنسپل سے تمھاری شکایت کروں گا۔ تمھارے بارے میں آر۔ایس۔ایس۔ کو مطلع کروں گا کہ تم غدّار ہو۔‘‘

اس طرح کا رجعت پسندانہ رویّہ اردو بولنے والوں کے تردّد و خوف میں اضافہ کر دیتا ہے۔ جہاں زبان مذہبی شناخت کی غمّازی کرتی ہے۔ لیکن زبان اس زاویے سے قوم کی بھی شناخت ہے۔ یہ حیرت کی بات نہیں کہ اردو کو تن تنہا قومی الجھنوں کو سہارنا پڑتا ہے۔ جب بھی اردو کی بات آتی ہے تو انصاف کے تمام دعووں کو اس خوف، الجھن اور دباؤ کے نیچے دبا دیا جاتا ہے۔

اردو سے متعلق اس خوف اور الجھن کو دور کرنے کو جی چاہتا ہے۔ یقیناً اس خوف کی کوئی بنیاد نہیں ہے : مذہبی شناخت یا لسانی الحاق جب قومی وفاداری کے ساتھ ہو جاتے ہیں تو قومیں ایک دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتی ہیں جس کی وجہ سے آپس میں تشد د کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ لیکن نہ تو انھیں اس تشدد کا خوف ہوتا ہے اور نہ کسی طرح کی الجھنوں کی انھیں پروا ہوتی ہے۔ ہم آخر وقت تک کہتے جائیں گے کہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں ہے۔ ہم تاریخی واقعات کو لے کر اس بات کی بھی کوشش کر سکتے ہیں کہ اس وقت اردو اور ہندی کو جس طرح الگ الگ کیا گیا ہے وہ مصنوعی تقسیم ہے۔ ہم اس بات کا عملاً ثبوت پیش کر سکتے ہیں کہ اردو بولنے والے دیس سے بے وفائی نہیں کر سکتے۔ اس کتاب کے بیشتر مقالہ نگاروں نے اس بات کو بڑی مہارت سے ثابت کیا ہے۔ لیکن یہ کوششیں زیادہ کارآمد ثابت نہیں ہوئیں۔ اردو کا مطالبہ مقبول ہو اس کے لیے ہمیں بڑی محنت کرنی پڑے گی۔ انصاف کے تقاضے پورے ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے اور اردو کے وہ مطالبے جو حقوق پر مبنی ہیں ان کی سنوائی مشکل ہے۔ تب ہم کس بات کی اپیل کریں۔

اردو کی مخالفت اور حمایت کرنے والوں کو اردو کے مقدر سے کوئی سروکار نہیں ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے کیسے نمٹیں جو اردو کے واجبی مطالبے کو سننا ہی نہیں چاہتے اور اسے تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کے مخالف ہیں۔

ہماری مشکلات میں ایک اور پیچیدگی ہے۔ اس کے بارے میں رابرٹ کنگ نے جو اصطلاح دی ہے وہ ہے ’’زبان کا عالمانہ استعمال‘‘ اس تصور نے زبان کی مقصدی تعلیم پر منفی اثر ڈالا ہے۔ زبان کے کئی مقاصد ہیں۔ یہ معلومات کا ذخیرہ ہے، خیالات کی ترسیل کا ذریعہ، کلچرل یاد داشت کا ایک خزانہ۔ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ زبان ہی کی وجہ سے ساری دنیا کا وجود قائم ہے۔ چارلس گیلر نے کہا کہ(2) زبان انسانی محسوسات تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔ ایک دوسرے کی سرگرمیوں اور آپسی رشتوں کو جاننے کا ذریعہ۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ صرف ایک ایسا آلہ نہیں جس کی وجہ سے انسانی سرگرمیاں قائم ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہو گا کہ خود زبان سرگرمیوں کی قائم مقام ہے۔ ہمارے لیے اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے کہ زبان اپنے افق سے ماورا کیسے کیسے اظہارات کے امکانات پیدا نہیں کرتی۔

زبان کا ایک اہم استعمال یہ ہے کہ وہ ایک علامت بن کر غیر لسانی منازل طے کرتی ہے۔ ایک سطح پر یہ ہمیں آزادی بخشتی ہے۔ ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس کے استعمال سے ہم کچھ اور بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے زبان کی قدر صرف داخلی نہیں کہ ثقافتی یادوں کی طرح اس کی توقیر ہو اور یہ نصاب ترتیب دینے والی ہو۔ یہ ایک سافٹ ویر کی طرح ہے، ایک ایسا آلہ ہے جس سے کوئی بھی مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے۔ کئی معاملات میں انگریزی زبان اس طرح کے اہم رول ادا کرتی ہے۔ جو لوگ اسے استعمال کرتے ہیں ، اس کی تخلیقی صلاحیتوں سے تحریک پا کر اپنے کو بلند نہیں محسوس کرتے اور نہ ہی اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ انھیں ایسی زبان کے استعمال پر عبور ہے جو دنیا بھر کی کیفیتوں کو اپنے میں سمیٹ سکتی ہے۔ وہ تو اسے صرف معاشی حالت کو بہتر بنانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اس نقطۂ نظر سے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ انگریزی اوکسفرڈ کی ہے یا صرف انگریزی۔ اس کے استعمال کرنے والے کو تو اپنے مقصد کے حصول سے غرض ہے۔

لیکن ہاں ، زبان ایک اور لحاظ سے مقدس رُتبہ حاصل کر سکتی ہے۔ یہ تشخص کی نشان دہی کر سکتی ہے۔ یہ زبان کی اصل قیمت نہیں ہے۔ یہ ایک ادبی قدر ہے، یا گرامر (صرف و نحو) کے وہ امکانات جو اس کے استعمال کرنے والوں کو تحریک دلاتے ہیں یا شاید کسی تشخص سے ان کا تعلق قائم کرتے ہیں۔درحقیقت اس سے وابستہ عوامل واضح کرتے ہیں کہ زبان کے اصل امکانات کیا ہیں ، کیوں کہ ان کے لیے یہ ان کے تشخص کی نشان دہی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر بہت سے وہ لوگ جو سنسکرت زبان کا قصیدہ پڑھتے ہیں ، انھیں سنسکرت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ لیکن اس زبان کی حمایت ان کی مخصوص شناخت پر دلالت کرتی ہے۔

ہندوستان کے تناظر میں گفتگو کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑتا ہے کہ زبان کا عالمانہ یا مقدس استعمال اردو کے لیے دوہرا نقصان دہ ثابت ہوا۔ جب لوگوں کی اکثریت یہ جاننا چاہتی ہے کہ ایک زبان کس طرح ایک خاص مقصد کو حاصل کرنے کا آلۂ کار بنتی ہے تو اس زبان کے تحفظ کے مطالبے پر وہ اپنے کان بند کر لیتے ہیں۔ اس خیال سے کسے اس کی پروا ہے کہ ہم کون سی زبان بولتے ہیں۔ برج یا اردو، ہندی یا انگلش، مقصد پورا ہوتا ہے تو بس۔ ساری زبانوں کو چاہیے کہ مارکٹ کے دباؤ کے لحاظ سے چلیں یا مفقود ہو جائیں۔ اس میں کسی ایسے تصور کی کوئی گنجائش نہیں کہ اس سے کس کا کیا نقصان ہو گا یا کیا غلطی سرزد ہو جائے گی اگر کوئی زبان مفقود ہو جاتی ہے۔ اس سے تو اہم بات یہ ہے کہ ایک شخص کوئی زبان سیکھے، بجائے اس کے کہ وہ کوئی خاص زبان ہی ہو۔ لہٰذا اگر یہ سودا کم خرچ کا ہے، انتظامی سہولتیں ہیں کہ زبانیں کم ہوں تو کسی زبان کے مفقود ہو جانے سے کیا بڑا نقصان ہونے والا ہے۔ اور اگر اقلیتی زبانوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟

زبان کے بارے میں ایسی بحثیں ، خاص طور پر شمالی ہندوستان میں ، ہوتی رہتی ہیں۔ زبانوں کی اہمیت کے بارے میں کوئی بھی بحث بے معنی سی لگتی ہے۔ ایک ایسے کلچر میں جو تاریخ کی نزاکتوں سے بے بہرہ ہے، کسی زبان کے بارے میں یہ دعویٰ کہ یہ زبان تہذیب کا خزانہ ہے یا اس کے کلچر کی اہمیت ہے ایک قصّہ پارینہ ہے۔ یہ کوئی حادثاتی بات نہیں کہ شمالی ہند کے تعلیمی نصاب میں گراوٹ آئی ہے۔ (3)ایک قابلِ غور بات: ہمارے تعلیمی نصاب میں زبان پر مہارت حاصل کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی اور اردو تو اس سے زیادہ ہی بے تعلق ہے۔ اور میں بتدریج اس نتیجے پر پہنچا۔۔ جس کی کم از کم دو وجوہات ہیں ۔۔ پہلی یہ کہ اگر اردو وسیع تر کلچر میں ، جہاں زبان کی اہمیت نہیں ہے، اپنا حق نہیں جتا سکتی تو ایسی سوسائٹی جو زبان کی بالکل پروا نہیں کرتی وہاں اردو کی اپیل پر کون دھیان دے گا؟

دوسری بات یہ کہ زبان سے بے رخی کا رویّہ ہمارے اسکولوں کے تدریسی نظام میں کسی بھی زبان کے لیے بہتر تبدیلی نہیں لا سکتا۔ اردو اسی میں شامل ہے۔ اگر چہ کہ میں ماہر لسانیات نہیں ہوں ، مجھے توقع ہے کہ بہت سے اختلافات جو سنسکرت اور ہندی کو لے کر اردو کے معاملے میں ہوتے ہیں وہ دور کیے جا سکتے ہیں اگر زبانوں سے متعلق کوئی مبسوط لائحۂ عمل ترتیب دیا جائے۔ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ سہ لسانی فارمولے کے تحت ہم سنسکرت کو ماڈرن زبان کا درجہ دیتے ہیں۔ اس زبان کی تعلیم ہمارے اسکولوں میں وسیع پیمانے پر ہوتی ہے۔ اس کے باوجود جو طالب علم سنسکرت نصاب میں پڑھ کر ان اسکولوں سے باہر آتے ہیں ، ان میں قابلیت کی بہت کمی ہوتی ہے۔ پھر ہمارا یہ تعلیمی نظام کیسا ہے کہ ہم اپنا قیمتی وقت ایک زبان کو سکھانے میں لگاتے ہیں لیکن اس کا کوئی مفید نتیجہ نہیں نکلتا۔ اس کے مقابلے میں کیا یہ ممکن نہیں کہ ہم ہندی اور اردو کی ایک ساتھ پڑھائی کریں تب شاید غیر اردو دانوں کا ایک زبان کے لیے حلقۂ انتخاب بن جائے۔ کیا ہم  تباہی کے اس مقام پر پہنچ گئے ہیں کہ ہم زبانوں کی مسابقت کو بچوں کے کھیل سے تعبیر کریں یا یہ کہ ہمارے پاس تعلیم سے متعلق چند خیالی ٹکنکس ہیں جو ہمیں اس دلدل سے نکال سکتی ہیں۔ ہوشیاری تو اس میں ہے کہ ایک ایسا تعلیمی نصاب بنایا جائے کہ مختلف قومیں ، کم از کم شمالی ہند میں اس قدر تو واقف کار ہو جائیں کہ ایک دوسرے کو جانیں اور ایک دوسرے کی زبانوں کا خیال رکھیں۔ یہی ایک طویل مدتی راستہ نظر آتا ہے جس کے ذریعے ہم اقلیتی زبانوں کی حمایت کر سکتے ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں تھی کہ نہرو نے ہندی اردو اور سنسکرت کی بہ یک وقت وکالت کی تھی۔ یہ وہ شخصیت تھی جو زبان کے بارے میں جانتی تھی کہ یہ صرف بول چال کی حد تک محدود نہیں ہے۔ (4) زبان کو خام آلے کے طور پر استعمال کرنے کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے وہ ہندوستانی نقطۂ نظر سے ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے۔ کیا ہندوستان زبان کے معاملے میں جنگ کا میدان کارزار نہیں بن گیا؟ کیا زبان سیاسی تصادم کا اہم محور نہیں ہے ؟ اگر زبان صرف ترسیل کا ذریعہ ہے تو اس کے لیے اس قدر خون کیوں بہایا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ زبان اس وقت مقتدر ہو جاتی ہے جب یہ تقدس اختیار کر لیتی ہے۔ جب یہ تشخص کی ساجھے دار بن جاتی ہے۔ زبان کا اس طرح کا تقدس اور استعمال ہم اپنے اطراف و اکناف دیکھ سکتے ہیں۔ بحث کے طور پر شدھ ہندی کے استعمال کی کوشش بہت کم عملی زندگی میں یا ادب میں کام آتی ہے۔ ہندی نے کبھی بھی عوامی زبان کا مقام حاصل نہیں کیا ہے بلکہ یہ ادبی حلقوں کی اسیر رہی ہے۔ یہ ایک طرح سے کوشش تھی کہ ہندی کے نام پر ایک قومی بُت کھڑا کیا جائے جو آج تک نہ ادبی دنیا کے زیادہ کام آ سکا اور نہ ہی لوگ اسے روزمرہ کی زندگی میں استعمال کر سکے۔ ہندی کا تصور تقسیم کے نتیجے میں اردو کے مقابلے میں کھڑا  کیا گیا۔ اس ہندی کو اصل ہندی اور اردو کے درمیان رشتے کو توڑنے کے لیے لایا گیا اور اسے ہندوستانی کی جگہ رکھا گیا۔ یہ اس کی کامیابی نہیں تھی بلکہ اس نے ایک طرح سے سازش کی اور زبان کے مسئلے کو قومی تشخص سے اس طرح جوڑ دیا کہ انھیں علاحدہ نہ کیا جا سکے اور یہ سمجھا جا سکے کہ ملک کی پوری طاقت زبان کے خالص ہونے میں ہے۔ ماڈرن ہندی، جو سرکاری زبان بھی ہے، اس کی کہانی فطری ارتقا کی کہانی نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک حکمت عملی تھی جس کے ذریعے موجود لسانی فرقوں کے اقتدار کو ختم کرنا تھا۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا کہ اردو سے عداوت شمالی ہند کے غیر اختیاری ابھرتے ہوئے کلچر کے ساتھ آگے بڑھی ہو۔ ہندی اور اردو معنوی اعتبار ہی سے ایک دوسرے سے متصادم رہیں کیوں کہ اردو کو قبول کرنے کا مطلب ہوا شمالی ہند کے ہائی برڈ (hybrid) کر دار کو قبول کرنا۔

ہندی زبان کو جب مقتدر یا مقدس زبان کی حیثیت سے دوسری زبانیں بولنے والوں پر لاد دیا گیا تو انھیں خطرہ لاحق ہوا اور انھوں نے اپنی اپنی زبانوں کے اقتدار کو بڑھایا۔ اہم زبانوں کو جب ذات پات سے جوڑا گیا تو انھیں سیاسی حمایت بھی مل گئی کیوں کہ اب زبان شناخت کا ذریعہ بن گئی۔ بہت سی علاقائی زبانوں نے اسی طرح اپنا سیاسی وقار بڑھایا۔ اس کی اہم مثال تامل ہے۔ جہاں بھی لسانی جذبات کا اظہار پھوٹ پڑا وہاں لسانی بنیاد پر ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ لیکن تقسیم کے بعد اردو کو اس طرح کی تحریک کا کوئی موقع نہیں ملا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ زبان اور مذاہب کے تشخص کا ملاپ بیرونی عوامل کی کارستانی تھی نہ کہ کوئی اندرونی ہلچل۔ اور خطرہ یہ پیدا ہو گیا تھا کہ اردو کی طرف سے کسی طرح کا دباؤ یہی احساس دلائے گا کہ یہ بیرونی عوامل کی کارستانی ہے۔ کوئی شخص کیوں کر اپنی زبان کی حمایت میں دعویٰ کر سکتا ہے جب کہ اس طرح کے رویّے کو فرقہ واریت کا رنگ دیا جائے گا؟ اس کے بعد اردو کا استعمال اور اس کے لیے بڑے بول اس کے مخالفین کی طرف سے بغیر زبان کی قدر و قیمت کو سمجھنے کے جاری رہے۔ یہی عوامل زبان کو سماج سے خارج کرنے اور دربدر کرنے کا سبب بنے۔

مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر زبان کی پالیسی کے بارے میں بحث کرنا اور اردو کے مطالبے کو سمجھنا ہے تو ہمیں سوجھ بوجھ سے کام لینا پڑے گا۔ ہمیں اس کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنا ہے۔ اگر ہم زبان کی ضرورت پر زور دیں تو ہمارا وہی حشر ہو گا جو سرکاری زبان کے کمیشن کی رپورٹ کا ہوا۔ یہی کہ زبان کی اپنی کوئی حقیقت نہیں ہوتی (5) اگر زبان کو صرف عام استعمال اور بول چال کا ذریعہ سمجھا جانے لگے تو کوئی شخص اس کی اہمیت کو کیسے قبول کرے گا۔

اس کے برخلاف اگر ہم تشخص اور زبان کو ہم پلّہ قرار دیں تو ہمارے سامنے دو خطرے ہوں گے۔ ایک خطرہ تو یہ ہے کہ زبان کے زوال پذیر ہونے کا ہمیں صحیح اندازہ نہیں ہو گا۔ زبان کی بقا کی خاطر جو چیز داؤ پر لگے گی وہ شاید ایک بے جان تشخص ہو گا۔ اس سے قطع نظر ہم ایک ایسے وجود کو جنم دیں گے جو اپنے اندر تناؤ اور تضادات کو ساتھ لائے گا۔ دوسری طرف ہندی کا اپنا بلند وقار اردو کو دھمکاتا رہے گا کہ اسے تو سرکاری زبان کا موقف حاصل ہے اس لیے وہ اپنے کو اردو سے پرے رکھے گا۔ اردو پر حملہ صرف فرقہ واریت کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ساتھ ساتھ یہ حملہ ہائی برڈ (hybrid) کلچر کا بھی ہے۔ اور یہ حملہ اس لیے ممکن ہو سکا کہ اردو زبان کو ایسے عناصر سے جوڑا گیا جو ملک و قوم سے بے وفائی کرتے ہیں۔ اس طرح اردو کے حق میں ہندوستانی حکومت جانوس کا چہرہ ثابت ہوئی (جانوس۔ قدیم زمانے کا وہ محافظ جس کے آگے پیچھے دو چہرے ہوا کرتے تھے۔ ) دکھاوے کے لیے حکومت نے اردو کو فروغ دینے کے بہت سے پروگرام بنائے اور بہت سے اداروں کو، جو اردو پڑھاتے ہیں ، مالی امداد بھی دی۔ لیکن آج کی دنیا میں جو چیز زبان کو زندہ رکھ سکتی ہے وہ اس کا سماج میں مقام ہے اور اس کا تعلیمی نظام ہے۔ اسی سے اردو کو محروم رکھا گیا۔

 

اردو اور نئی قومی شناخت

اردو کو لے کر کیا جھگڑا ہے ؟ ظاہر ہے کہ اسے بچائے رکھنا، اس کا فروغ، اس کی ترویج۔ یہ ایک غیر معمولی زبان ہے۔ ہندوستان کی کلچرل زندگی میں اس کا جو انمول حصّہ ہے اسے مختصر الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری طرف ہم لسانی اقلیت کے افراد کے ساتھ اسی وقت انصاف کر پائیں گے جب ان کے ساتھ امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے گا۔ اس سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کن ممالک کی صف میں جگہ بنانا چاہتا ہے۔ اردو کے مطالبات سے انکار ہندوستان کو بنیادی طور پر غیر محفوظ بنا دے گا کیوں کہ یہ ملک اس طرح سے اپنے اندرونی پیچیدہ اختلاف پر قابو پانے میں ناکام ہو گا۔ یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی طرح کا کوئی بھی ملک، جو اس طرح کی پیچیدگیوں کا شکار ہے، اسے مختلف تنازعات کو تیر کر پار کرنا پڑے گا۔ ایک طرف تو اسے اختلافات میں گھرے ہوئے عوام کے دلوں کو ملانا ہو گا اور دوسری طرف تکثیریت کو بھی برقرار رکھنا ہو گا۔ لسانی سیاست اس تناؤ کا سبب ہے جس کی وجہ سے یہ ابھی تک حل نہ ہو سکا۔ حکومت نے ایک طرف ایک قومی زبان کو قائم کرنے کا بیڑا اٹھایا تو دوسری طرف وہ لسانی اختلافات کے دباؤ کے آگے اپنا سرِ تسلیم خم کیے ہوئے ہے۔

کسی بھی ریاست کی شہریت کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اس شخص کے چند حقوق اور ذمّے داریوں کی وجہ سے اسے ایک مقام حاصل ہے۔ شہریت کا مطلب کچھ حد تک یہ بھی ہے کہ ایک شہری اپنے ملک کو اپنا گھر محسوس کرے۔ اسے اس احساس کا حوصلہ ہو کہ اس کا ملک اس کی تاریخ اور اس کے کلچر کا گہوارہ ہے۔ کِملیکا (Kymlicka) کا کہنا ہے : خود آزادی کا تصور ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم اپنی پسند کے کسی مخصوص کلچر سے وابستہ ہوتے ہیں (6)،ایک معتبر اور محفوظ کلچر سے وابستہ رہ کر ہی افراد بامعنی زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب ان کے کلچر کی توقیر ہوتی ہے تو وہ خود بھی اپنے کو باعزت محسوس کرتے ہیں۔ کسی جمہوری ریاست میں مادری زبان کو اہمیت دینے کا تصور بھی کلچر سے جڑا ہوا ہے۔ سماج آپ کو تیقن دیتا ہے کہ وہ آپ کا مخالف نہیں ہے اس لیے کہ وہ واقف ہے کہ آپ کون ہیں۔ سماج میں اگر آپ کی زبان کی کوئی وقعت نہیں ہے تو آپ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس کے نشیب و فراز سے آپ واقف نہیں ہیں اور اس پر آپ کا کوئی اثر و رسوخ نہیں ہے۔ آپ اپنے آپ کو بے گھر محسوس کریں گے۔

اردو بولنے والوں کی اقلیت جن کا سماج میں نمایاں مقام ہے، انھیں پبلک ایجوکیشن سے محروم کرنا ان کے شہری ہونے کے احساس پر حملہ ہے۔ نہرو اس بات سے خوب واقف تھے۔ ان کی نظر میں اردو کی سرپرستی کا مطلب مسلمانوں کو یہ یقین دلانا تھا کہ ہندوستان ان کا اپنا ملک ہے (7)۔ نہرو کے لیے زبان کا مسئلہ اہم تھا۔ ہندی اور انگریزی سے بھی زیادہ انھیں اردو کی فکر لاحق تھی اس لیے کہ یہ اقلیتوں کے مقدر سے جڑی ہوئی ہے اور مستقبل کی انھیں فکر تھی۔ نہرو زبان کی سیاسی اہمیت سے بھی واقف تھے۔ جس شخص کی سماجی اور سیاسی زندگی سے وابستگی ہو گی وہ نہ تو کلچر کو نظرانداز کر سکتا ہے ار نہ ہی لسانی الحاق کی اہمیت کو گھٹا سکتا ہے۔ زبان کے حقوق دینے سے انکار کرنا ایک گروہ کی سیاسی حیثیت کا دوسروں سے ربط و ضبط اور گفت و شنید میں حصّہ لینے سے انکار کے برابر ہے، جو انھیں یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ وہ اس ملک کے سچے شہری نہیں ہیں۔

کیا ہندوستان ایک ایسا ملک بننا چاہتا ہے جو اپنے شہریوں کے ایک اہم گروہ کو بار بار احساس دلاتا رہے کہ وہ بیگانگی اور بے بسی کا شکار ہیں۔ ایسا ملک جس کے اردو بولنے والوں میں ایک انجانا خوف پنپ رہا ہو، کیا وہ اس کے لیے ایک کلچرل پل کی تعمیر کے امکانات پیدا کرے گا؟ کیا وہ ایسا ملک بننا چاہتا ہے جس میں اردو جیسی اہم زبان کو سرکاری اسکولوں کے نصاب میں شامل نہ کیا جائے اور اس زبان کے چاہنے والوں پر اخراجات کا بوجھ بڑھتا رہے۔ انجام کار مجھے شبہ ہے کہ اردو کی حمایت میں آپ کا احساس ان کے حقوق اور امتیازات کے تعلق سے تجریدی رویہ اختیار نہ کر جائے اور جب ہم اردو کے مقدر کو اپنے چہرے کے آئینے میں دیکھنا چاہیں تو اردو کے مطالبات کے بارے میں شاید ہم میں ہلچل پیدا ہو۔ اس لیے کہ وہ آئینہ ہم پر یہ واضح کرے گا کہ ہمارا ملک کلچر کے ہمہ گیر امکانات کے ساتھ قائم نہیں ہے۔ ایک ایسا ملک جو کسی طرح کی کوشش ہی نہیں کرتا اور نہ اپنے تمام شہریوں کو تیقن دے سکتا ہے کہ وہ اپنے گھر میں اپنے کلچر کے ساتھ مگن ہیں۔ اردو کا مقدر ہمارے اعتماد اور ہماری تکثیریت کی پیمائش میں پورا اترنا چاہیے۔

 

اردو کے حقوق

میں یہی کہنا چاہوں گا کہ اردو کی تقدیر کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اپنے ملک کو کیسا بنانا چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ وہ لوگ جو اردو نہیں بولتے ان کا وقار بھی اردو کے مقدر سے جڑا ہوا ہے۔ اخلاق، مدنیّت اور عقل، ان سب کا تقاضا ہے کہ ہم اردو کو پبلک اسکولوں کے نصاب میں شامل کرتے ہوئے اُسے صحیح مقام عطا کریں۔ ویسے اردو کا احیا کوئی آسان بات نہیں ہے۔  زبان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ریاست کی شدید دلچسپی بھی زبانوں کا احیا کرنے میں ناکام رہی ہے اور بعض وقت عوام کی بے رخی کے باوجود کئی زبانیں زندہ رہ گئیں۔ میں کوئی ماہر لسان نہیں ہوں۔ یہ مقالہ اردو سے متعلق گفت و شنید کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایک بہانہ ہے۔ کوئی بھی مباحثہ اس لائق ہونا چاہیے کہ سماج کی اس چنوتی کا مقابلہ کر سکے جس سے آج کل کی بہت سی زبانیں دوچار ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہمیں اردو میڈیم اسکولوں کی ایسی ہی ضرورت ہے جیسی ہندی میڈیم اسکولوں کی اور اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ گجرال کمیٹی کے پیش کردہ فارمولے کے مطابق اردو کو گورنمنٹ اسکولوں میں اختیاری مضمون بنانے کے لیے موثر پیروی کرنی چاہیے۔ اس سے تینوں زبانوں ہندی، انگریزی اور سنسکرت کی بھی وقعت بڑھے گی جب کہ ان تینوں زبانوں نے اردو سے بے رخی برتی ہے۔ سہ لسانی فارمولے کا کیا نمونہ ہونا چاہیے ؟ سید شہاب الدین نے جس ترمیم کا مشورہ دیا ہے وہ یوں ہے : شمالی ہندوستان میں مادری زبان کو پہلا درجہ دیا جائے اور غیر اردو دانوں کے لیے اردو دوسرے درجے پر ہو اور اردو بولنے والوں کے لیے ہندی کا درجہ دوسرے نمبر پر ہو۔ پرائمری سطح پر انگریزی کو ہرگز متعارف نہ کیا جائے۔

میرا خیال ہے کہ یہ فارمولا کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ اس کی تین وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ ہمیں پسند ہو کہ نہ ہو انگریزی یہاں قائم رہے گی۔ اس کی مد د سے ہم وسائل تک پہنچ سکتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے کہ تامل ناڈو اور مغربی بنگال دونوں ریاستوں نے قومی لسانی پالیسی کے دباؤ کے تحت پانچویں کلاس تک انگریزی کا پڑھانا ملتوی کر دیا تھا لیکن پھر انھوں نے دوبارہ اسے ابتدائی سطح ہی سے متعارف کروا دیا۔ والدین کے مطالبے کو ریاست نے قبول کیا۔ دوسری وجہ یہ کہ سیاسی نقطۂ نظر سے ہم خطرہ نہیں مول لے سکتے کہ اردو کو سنسکرت کے مقابلے میں لا کھڑا کریں اور اس طرح زبان کے مسئلے کو جہاں سے شروع کیا تھا اسے وہیں لے آئیں۔تیسری زبان کی حیثیت سے سنسکرت بعض اہم سوالات کو اٹھاتی ہے۔ اس کا نمایاں پہلو یہ ہے کہ تیسری زبان کا پڑھایا جانا زبان کے عام استعمال میں آیا کسی طرح کا استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ نفسِ معاملہ یہ ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کے لیے ذریعۂ تعلیم کے انتخاب کا حق ہو یا یہ کہ ان کا بچہ کون سی زبانیں سیکھے۔ ایک لمحے کے لیے فرض کر لیجیے کہ اٹوپبا جیسے حالات ہیں اور ہمیں زبان کی پالیسی سازی کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہے کہ خانگی اسکولوں میں جو بھی سہولتیں موجود ہیں انھیں ہم میں سے بہت سے خوشی سے قبول کر لیں گے۔ یہاں تو پہلی، دوسری یا تیسری زبان کو پسند کرنا بچے کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اردو کے ساتھ ناانصافی اس طرح ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں اردو بولنے والوں کو وہ موقع نہیں ملتا جو دوسری زبانوں کے بولنے والوں کو ملتا ہے۔ انصاف پر مبنی نظام تو وہ ہے جہاں تمام والدین اپنی مرضی سے اس نظام کو قبول کر لیں یہ نہیں کہ انھیں کسی مخصوص نظام کو قبول کرنے کے لیے مجبور کر دیا۔ ان حالات میں جہاں اردو بولنے والوں کو ان کا بنیادی حق نہیں دیا جاتا، پولیانائش (Pollyanaish) کی طرح ہمیں خیالی گھوڑے دوڑانا پڑیں گے کہ اچانک اردو کو شمالی ہند میں ہر بچے کے لیے کم از کم دوسری زبان کا درجہ دیا گیا ہے۔

ذرائع کی کمی کے پیش نظر کوئی سادہ فارمولا کام کرنے والا نہیں ہے۔ ہر فارمولا اپنے قطب کی تلاش میں ہے۔ ہماری شدید ضرورت یہ ہے کہ ہم ایک مشترک حکمتِ عملی پر غور کریں۔ بعض اضلاع میں ، جہاں اردو بولنے والے موجود ہیں ، وہاں راست اردو میڈیم اسکولوں کے قیام کی ضرورت ہے۔ دوسری جگہوں پر حکومت پر لازم ہے کہ ایسے ذرائع فراہم کرے کہ وہاں اردو کو کم ازکم اختیاری مضمون کی حیثیت سے پڑھایا جا سکے اور ساتھ میں دوسری زبانیں بھی ہوں۔ بعض حالات میں یہ ضروری ہے کہ کسی اہم موضوع کو پڑھانے کے لیے کسی دوسری زبان کو استعمال کیا جائے (کبھی کسی اہم موضوع کے متن کو سمجھنے کے لیے اس زبان کا استعمال جب ضروری ہو جاتا ہے۔ ) خیال رہے کہ ہم اس مقصد کے لیے ایسے استدلال کو پیش نہ کریں جو اردو کے ساتھ بے رخی برتنے کے لیے پہلے بھی استعمال کیا جا چکا ہے۔ یہی تو وہ استدلال تھا جس نے والدین کی پسند سے انحراف کرتے ہوئے حکومت کے فیصلے کو ان پر لاگو کیا تھا اور حکومت نے اپنی مرضی سے مالی اور دیگر ذرائع کا استعمال کیا تھا۔ بہت کچھ حالات پر منحصر ہے۔ کئی راستے نکل سکتے ہیں کہ والدین اپنی مرضی اور پسند کی زبان اپنے بچوں کے لیے قبول کریں۔ ہم لوگ تو اس بات پر الجھ گئے ہیں کہ کس طرح زبان کو ایک اعلیٰ مقام حاصل ہو جائے، بجائے اس کے کہ ہم اپنے تخیل سے کام لے کر اس بحث کو چھیڑتے جس میں زبان اور تدریسی نظام کے بارے میں تبادلۂ خیال ہوتا۔

 

اردو اور مدرسے

اردو کی تعلیم سے متعلق مدرسوں کا کیا مقام ہے، اس موضوع پر کافی اختلافی بحث ہو چکی ہے۔ وہ مدرسے جو روایتی مذہب کے نمائندہ تھے آج کی سیاست کا موضوعِ بحث ہیں۔ ان مدرسوں پر الزام ہے کہ وہ تشد د پسند اور انتہا پسند ہیں۔ ہندوستان کے معاملے میں اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ چند انتہا پسند طالب علموں کی سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر عام مدرسوں کو موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے سیاسی جہاد کا تصور ہندوستان میں اپنے قدم جما نہیں سکا باوجود اس کے مسلمانوں کو اکثریتی فرقے کا خوف ہمیشہ لگا رہا ہے۔ اس کی کئی پیچیدہ وجوہات ہیں۔ ایسا نہیں کہ جمہوریت مذہبی تحریکوں کی انتہا پسندی پر کسی طرح غالب آسکتی ہے۔ جمہوریت کی خامیاں اور کوتاہیاں اپنی جگہ لیکن یہ نظام عوام میں سیاسی شعور پیدا کرتا ہے۔ اپنی تکالیف کا اظہار چھوٹی سی بات ہے ویسے اس کا بیان اس موقع پر مناسب نہیں۔ لیکن کبھی کبھی سیاسی گٹھ جوڑ عروج پر آ جائے تو یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ مسلمان ووٹروں کو اپنا طرفدار بنایا جائے اور دیگر ممالک میں ہونے والی انتہا پسندی کے واقعات کو نظرانداز بھی کیا جائے۔ یہ سچ ہے کہ انتہا پسندوں کا وجود ہے لیکن یہ لوگ سیاسی حمایت حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ یہ کوئی اتفاقی بات نہیں کہ انٹرنیشنل سطح پر جہاد میں ہندوستان شرکت دار نہیں ہے۔

انتہا پسندی کا سوال اپنی جگہ، تعلیمی نظام میں مدرسوں کا کیا مقام ہونا چاہیے۔ خاص طور پر اردو کی تعلیم؟ جس طرح لسانی حقوق ہیں اسی طرح مدرسوں کے لیے کیا اصول ہونے چاہئیں کہ جن کی روشنی میں ہم ان اداروں کے بارے میں سوچ سکیں ؟اس سوال کا جواب مشکل اس لیے ہے کہ اسکول کے انتخاب میں اوروں کی پسند کا بھی دخل ہے۔ فی الحال والدین کی قابل لحاظ تعداد اپنے بچوں کو ان مدرسوں میں شریک کراتی ہے۔ یہ حقیقت تو ہے لیکن کیا اس سے والدین کی ترجیح ظاہر ہوتی ہے ؟ بعض لوگوں نے اس بات سے اتفاق کیا ہے کہ ان مدرسوں کی مقبولیت خود ان کے وجود سے نہیں ہے بلکہ اس مقبولیت کے چند دوسرے عوامل ہیں۔

اردو کی سیکولر تعلیم کے نہ ہونے سے بعض وقت سماج کے رویے اقلیتوں کے خلاف ہوتے ہیں۔ معاشی زبوں حالی، مذہبی اسکولوں کے لیے مالی اعانت حاصل کرنے کے امکانات، ایسے عوامل ہیں جو اس کمیونٹی کے ارادوں کو پست کر دیتے ہیں۔ تاہم مدرسوں کی مقبولیت کا ان سب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ یہ ان کا ایک آسان وسیلہ ہے۔ اگر چند دوسرے ادارے مسلمان والدین کا وسیلہ بن سکتے ہوں تو مدرسوں کی مقبولیت گھٹتی جائے گی۔ اسی لیے یہ ضروری ہے کہ سیکولر اردو تعلیم کے ادارے قائم کیے جائیں۔

اگرچہ مدرسوں کی تعلیم کی طرف رغبت کے کئی پیچیدہ اسباب ہیں لیکن ان میں ایک سوال بڑا اہم ہے۔ حکومت ان کے لیے کیا رویہ اختیار کرے ؟ اصولاً تو اس کا جواب بہت آسان ہے۔ حکومت مختلف اداروں کے آزادانہ قیام کی اجازت دے اور قومیں اپنی مرضی سے جس طرح کے اسکول چاہیں قائم کریں۔ جب تک یہ اسکول حکومت سے کسی مالی اعانت کے طالب نہ ہوں اور انھیں مسلمہ بنانے کی بھی پابندی نہ ہو تو ان اداروں کو اپنے طور پر پھلنے پھولنے کا پورا موقع ملنا چاہیے، سوائے اس کے کہ ان کے خلاف کوئی ایسا واضح ثبوت مل جائے کہ یہ ادارے قوم میں نفرت پھیلانے کا کام انجام دے رہے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ادارہ حکومت سے مد د کا طلب گار ہو اور اسے مسلمہ بنانے کی خواہش کرے تو پھر حکومت پر ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ ان اسکولوں میں جو بنیادی تعلیم دی جائے وہ ایک طالب علم کو اس لائق بنائے کہ وہ جمہوریت کے اصولوں اور عالمی شہریت کے حقوق کی پاسداری کرتا ہوا دنیا میں کہیں بھی گھوم پھر سکے۔ اس طرح کی سوجھ بوجھ مختلف النوع اداروں کے بے موزوں اور مناسب ہے۔

ان حالات میں حکومت کی ذمّے داری ایک امانت دار کی ہے۔ اس پر لازم ہے کہ جن اداروں کو مالی یا غیر مالی امداد دی جا رہی ہو ان کی تصدیق کرے کہ ان اداروں میں جدید تعلیم کا کچھ نہ کچھ انتظام ہے۔ حکومت کا یہ بھی فرض ہے اور وہ اس کا یقین دلائے کہ کسی بھی کمیونٹی کا کوئی بھی طالبِ علم یہ شکایت نہ کرے کہ اس کے اسکول کے پرائمری درجے میں اس کی مادری زبان کی پڑھائی کا انتظام نہیں ہے۔ یہ اصول اکثریتی اور اقلیتی دونوں طبقات پر یکساں لاگو ہونا چاہیے۔ حکومت کی امداد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اصولوں کی پابندی کرائے۔ اگر حکومت امداد نہ دے تو یہ اختیار اور آزادی اسکولوں کی اپنی ہو گی۔ مقصد یہ ہے کہ ان اصولوں کو برتتے ہوئے سیاسی اور دیگر دھاندلیوں پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی امکان ہے کہ حکومت کی امداد حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو میں لگے ہوئے اداروں میں کمی واقع ہو سکتی ہے چاہے وہ اقلیتی ہوں کہ اکثریتی۔ اس بات کا بھی امکان ہی نہیں بلکہ یقین ہے کہ اقلیتی اداروں کو زیادہ تحفظ حاصل ہو سکتا ہے اگر ان کا قیام بنیادی حقوق کے دائرے میں لایا جائے (یہ وہ حق ہے جو تمام شہریوں کو یکساں حاصل ہے ) بجائے اس کے کہ انھیں اقلیتی اداروں کا نام دیا جائے۔

ہندوستان کے حالات پیچیدہ ضرور ہیں۔ حکومت مذہب کے نام پر قائم کیے ہوئے اداروں کو صرف امداد ہی نہیں دیتی بلکہ انھیں مسلّمہ قرار دیتی ہے۔ اگر حکومت ایسی شرائط عائد کرتی ہے کہ ان اسکولوں کے طلبا بھی دوسرے اسکولوں کے طلبا کی طرح اس کے مقرر کردہ امتحانات کامیاب کریں تو پھر کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ نا انصافی تو تب ہو گی جب کسی اسکول کو حکومت امداد دیتی ہے اور وہ اسکول اس لائق نہیں کہ اپنے طالب علم کو ماڈرن مسابقتی امتحان کامیاب کرنے کے قابل بنا سکے۔

مزید دو ایسے نکات ہیں جو اس دعوے کو مضبوط بناتے ہیں۔ اول یہ کہ مذہبی مدرسوں کا اپنا جواز ہے۔ اگر ان مدرسوں کو امداد نہ دی جائے تو ان بچوں کے لیے کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس کا نتیجہ مذہبی مدرسوں کے لیے برا ہو گا۔ اس کا مختصر مدتی نظام تو قبول کیا جا سکتا ہے لیکن حکومت کو یہ نہیں چاہیے کہ جس تعلیمی نظام کو وہ سہارا دیتی آئی ہے اسے بے آب و گیاہ چھوڑ دے۔ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ حکومت ان مدرسوں کو ماڈرن تعلیم دینے سے محروم رکھے۔ اگر والدین روایتی تعلیم کے حق میں ہیں تو وہ اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات خود برداشت کریں۔ دوسرا استدلال یہ ہے کہ مذہبی اسکولوں کا انتخاب والدین ہی کرتے ہیں۔ ایسے والدین جو اپنی خراب مالی حالت کی وجہ سے اپنے بچوں کو بہتر اسکولوں میں شریک نہیں کرا سکتے تو حکومت کو چاہیے کہ ان کی مد د کرے ورنہ اس پر الزام ہو گا کہ وہ امتیاز برت رہی ہے۔ یہ مسئلہ بہرحال اہم ہے لیکن فیصلہ کن نہیں ہے۔ یہ ہمیں احساس دلاتا ہے کہ غریب خاندانوں کے لیے کوئی ایسی صورت نکل آئے کہ وہ اپنے بچوں کے اسکولی اخراجات کے کفیل بن سکیں۔ مذہبی اسکولوں کے معاملات میں حکومت کی کم سے کم مداخلت ہو اس سے ہم سب اتفاق کر سکتے ہیں لیکن اس بات سے اتفاق کرنا ممکن نہیں کہ یہ اسکول حکومت کی شرائط تو قبول نہ کریں لیکن اس کی امداد کے طالب رہیں۔

جہاں تک میری سمجھ کا تعلق ہے، مدرسوں کے مسائل کا نہ تو مسلمان دانشوروں نے اور نہ ہی علم و ادب کی بصیرت رکھنے والے مسلمانوں نے معروضی تجزیہ کیا ہے۔ اس پر گفت و شنید ہمیشہ انھیں جذباتی رو میں بہا لے گئی۔ یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ غیر مسلم اور سیکولر مسلم دانشوروں نے سیاسی بکھیڑوں کی وجہ سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا ہے۔ خوشی کی بات ہو گی اگر یہ لوگ دوسرے مذاہب کی ترجیحات کو پیش نظر رکھتے ہوئے قوانین بنا سکیں۔ لیکن اچھے خاصے پڑھے لکھے مسلمان بھی مدرسوں کے معاملات میں مداخلت کرنے سے کتراتے ہیں۔ انھوں نے ہمیشہ ہی مدرسوں کو قائم رکھنے کی بات کی ہے اور جہاں تک ہو سکا ان کی مالی امداد بھی کی ہے۔ تاہم ایسی شہادتیں موجود ہیں کہ یہ لوگ کبھی اپنے بچوں کو مدرسوں میں شریک نہیں کراتے۔ بعض مسلمان جو اس قابل ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے سیکولر تعلیم کے اخراجات برداشت کریں —چاہے اسکول کسی سطح کا کیوں نہ ہو۔۔ اتفاق سے اگر وہ تیسرے درجے کا گورنمنٹ اسکول بھی ہو۔ مدرسے مفت تعلیم کا بندوبست ہی نہیں کرتے بلکہ قیام و طعام کے لیے بھی والدین کو کچھ دینا نہیں پڑتا۔ جو والدین بچوں کو اپنے گھروں میں ضروری غذا فراہم نہیں کر سکتے ان کے لیے تو مدرسے نعم البدل ہیں۔ مفت کھانا اور زندگی کی دوسری بنیادی ضروریات کا پورا ہونا غریب ماں باپ کے لیے نعمت ہے۔

یہ سچ ہے کہ ہندوستان کی عام معاشی زبوں حالی اور تعلیم پر مختص کیا جانے والاGDP  (gross domestic produce) کا اقل ترین فی صد حکومت کو یہ موقع نہیں دیتا کہ مسلمانوں کے تعلیمی مسائل پر دھیان دے۔ انھیں ترجیح دینے یا ان پر توجہ مرکوز کرنے والی بات تو دور کی رہی۔ اس صورت حال نے مدرسوں کو مزید پھیلنے کا موقع دیا۔ اگر اعداد و شمار پر اعتبار کیا جائے تو ہندوستان میں پانچ لاکھ مدرسے ہیں جہاں پانچ کروڑ بچے ہمہ وقتی تعلیم کے لیے شریک ہوتے ہیں (بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ تعداد مبالغہ آمیز ہے ) (8)۔ یہ معاملہ یقیناً قابلِ غور ہے۔

سوال یہ ہے کہ اس معاملے پر کس طرح غور کیا جائے اور کسی آسمانی مد د کی امید کے بغیر اسے کس طرح حل کیا جائے۔ مدرسوں کے موجود ہونے پر بھی ہندوستان میں جہادیوں کو ابھرنے کا موقع نہیں ملا (یہ بھی ممکن ہے کہ ہندو بھی سیکولر اسکولوں میں اپنے مجاہدین پیدا کریں۔) ہمیں مدرسوں کے مکالمے کے بارے میں توازن رکھنا پڑے گا تاکہ ایک مناسب مباحثہ ممکن ہو۔ بی جے پی کی حکومت نے مدرسوں کو ماڈرن بنانے کے لیے دو کروڑ کا سرمایہ مختص کیا۔ ہنسی آتی ہے۔۔ پچاس کروڑ بچوں کی ضروریات کیسے پوری ہوں گی۔ یہ تو بالٹی میں گھڑے بھر ایک قطرے کے برابر ہے۔

اہم سوال تو یہ ہے کہ کیا بچے ان مدرسوں میں شریک ہو رہے ہیں کیوں کہ ان کے لیے اور بھی راستے کھلے ہیں۔ سوال انصاف کا ہے جنگجو یا نہ رویے کا نہیں۔ انصاف کے دو راستے ہیں۔ ایک تو یہ کہ طالب علموں کو ان کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ دوسرے یہ کہ حکومت اپنے پر ذمّے داری لے اور جو بچے ان اسکولوں میں جاتے ہیں انھیں ہر ممکن سہولت بہم پہنچائے تاکہ وہ ان اسکولوں سے نکل کر اس ماڈرن دنیا کے مطالبات کو پورا کر سکیں۔

اردو پڑھنے والے دراصل مدرسہ الومنائی کہلاتے ہیں (مدرسے کے تربیت یافتہ) جو اردو ادب کی پوری معلومات نہیں رکھتے۔ چوں کہ وہ ان اسکولوں میں اردو کو زبان کی حیثیت سے نہیں پڑھتے اس لیے نہ تو ان کا اس زبان پر عبور ہوتا ہے اور نہ ہی اس ادب کے نظام (ethos) کو سمجھ سکتے ہیں۔ ان کا مذہبی پس منظر بھی اردو ادب کی عظمت اور اس کی نزاکتوں کو سمجھنے میں مانع ہے۔ باوجود یونی ورسٹی کی سطح کی تعلیم حاصل کرنے کے وہ اس سے واقف نہیں ہو پاتے کہ اردو زبان میں کیا حسن ہے اور اس کا سیکولر ایتھاس کیا ہے۔ اردو ادب بہت سے مولویوں کے پلّے نہیں پڑ سکا۔ وہ اردو ادب کو کفر سمجھتے ہیں۔ اس موضوع پر رالف رسل نے اشرف علی تھانوی کے حوالے سے، جو ایک لبرل عالم تھے، بڑی تفصیلی بحث کی ہے۔ اپنی مشہور کتاب ’بہشتی زیور‘ میں تھانوی نے ایک طویل فہرست ان ادبی کتابوں کی دی ہے جنھیں کفر قرار دیا گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ مذہبی تعلیمی اداروں کے سبب ہندوستان میں اردو زندہ رہ سکی۔ اسی کے ساتھ جیسا کہ ہم دلائل پیش کر چکے ہیں مسلمانوں کی شناخت کا اور ان کی حسّیت کا یہ ایک منفی پہلو بھی ہے۔ اس کے دعوے مشکوک ہیں۔

سیکولر تعلیم حاصل کیے ہوئے مسلمانوں کے نزدیک اردو کا کیا مستقبل ہو گا۔ اردو کا المیہ ایسا تو نہیں کہ ان لوگوں نے بھی اسے مدرسوں کی چار دیواری میں محدود کر دیا ہے اور کیا اب یہ مذہبی اور سماجی زنجیر کی کڑیوں کا ایک حصّہ بن گئی ہے ؟ ٹریجڈی یہ ہے کہ اردو بازار کی زبان باقتی نہیں رہی ہے۔ اور اب تو اسے اوسط اور کم اوسط خاندان کے لوگ دور اور دور کرتے جا رہے ہیں۔ دوسرے اعلیٰ طبقے کے لوگوں کی طرح مسلم اعلیٰ طبقہ بھی شاید یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزی یا علاقائی میڈیم کے سیکولر اسکولوں میں تعلیم دلائے۔ نتیجے میں وہ اردو اسکولوں کے قیام کے مشتاق نہ رہے۔ ایسے غریب لوگ جو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کے موقف ہیں نہ تھے انھوں نے کبھی اردو اسکولوں کے قیام کا مطالبہ نہیں کیا۔ ایک عرصے سے اب اردو کے دانشور اردو کو اختیاری زبان کے طور پر پڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور یہ مطالبہ گورنمنٹ اسکولوں کی حد تک ہے۔ ان اسکولوں کے لیے نہیں جہاں اعلیٰ طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ اگرچہ کہ مادری زبان میں تعلیم پانے کا بنیادی حق ہر بچے کا ہے لیکن موجودہ حالات میں اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ اردو کی تعلیم کا فروغ ہو، سوائے اس کے کہ اس مسئلے کو مسلمانوں کے سیاسی پس منظر میں شدت سے اٹھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے سیاست دانوں اور دانشوروں کے علامتی رویوں کو نظرانداز کرنا ہو گا۔ مسلمان دانشور ہوں کہ غیر مسلم حمایتی انھیں اپنے موقف پر اڑ جانا پڑے گا اور اس مسئلے کی تمام پیچیدگیوں پر قابو پانا ہو گا۔

آخر میں ایک اہم سوال کا جواب رہ جاتا ہے۔ سوال ہے : اگر مسلمان قوم اپنے سرمایے سے پانچ لاکھ مدرسے کھول سکتی ہے اور حکومت سے کسی امداد کا مطالبہ بھی نہیں کرتی تو اس کے لیے سیکولر اسکولوں کو چلانے میں کیا امر مانع ہے ؟ کیوں مسلمان بڑے پیمانے پر مذہبی اداروں کو جاری رکھنے کے پیچھے پڑے ہیں جب کہ وہ سیکولر تعلیم کے لیے حکومت سے ہر طرح کی امداد چاہتے ہیں۔ سوال کرنے کا یہ مقصد نہیں ہے کہ انھیں اس کا حق نہیں ہے۔ ایسے نتیجے نہ نکالے جائیں۔ میری تمام دلیلیں مشروط ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ نجی اداروں میں جو سرمایہ کاری ہوئی ہے ان سب کا ایک ہی جیسا طریقۂ کار ہے۔ جس امداد کے سیکولر ادارے مستحق ہیں وہ انھیں کیوں نہیں دی جاتی۔ ہمیں ان عوامل کو ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہے جو مذہبی اور سیکولر تعلیم کو متعین کرتے ہیں۔ انسانی سرشت کا جو نمونہ ساری اقوام عالم میں موجود ہے وہ یہی ہے کہ اپنے اپنے مذہبی اداروں کی طرف جھکاؤ ہوتا ہے۔ اسی لیے بہت سے مذہبی اسکول کھولے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسلمانوں کی اکثریت مذہبی اداروں کے حق میں ہے۔ مختصر یہ کہ ہمیں اپنے مفروضوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر مدرسوں کی تعلیم کا مقصد کیا ہے۔

ادھر مدرسوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر اردو میڈیم کی تعلیم کا مسئلہ زیادہ اہم ہو گیا ہے۔ موجودہ سماجی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اردو کو اختیاری مضمون کے طور پر پڑھانے کا بہت کم فائدہ ہو گا۔ اسی لیے اردو میڈیم اسکولوں کے قیام پر شدت سے بحث ہوئی ہے۔ ایسا سوچنے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے کہ اردو میڈیم اسکول انگریزی میڈیم اسکولوں سے مسابقت نہیں رکھتے۔ ہمارے لیے یہ زیادہ مناسب ہے کہ ایسے اسکول قائم کیے جائیں جہاں مختلف زبانوں میں ذریعۂ تعلیم کا انتظام ہو۔ اس مقصد کے لیے حکومت کو چاہیے کہ اردو میڈیم اسکولوں کے قیام کی پہل کرے۔ اگر کسی طرح حکومت دباؤ میں آکر  ر دانشورو  86ویں ترمیم کے سرو شکھشا ابھیان یا کسی اور اسکیم کے تحت اس منصوبے پر عمل کرتی ہے تو اسے مسلمان علاقوں میں اسکول کھولنے پڑیں گے۔ ایسے علاقوں میں جہاں اردو بولنے والوں کی کثرت سے آبادی ہے۔ یہ اسکول اردو میڈیم کے ہونے چاہئیں۔ اردو میڈیم اسکولوں میں بھی بچوں کو تین زبانیں سیکھنا پڑیں گی۔ ایک سرکاری زبان ہو گئی دوسری مادری زبان اور تیسری بدیسی زبان کی حیثیت سے انگریزی ہو گی۔ بہر صورت اردو میڈیم اسکولوں کے قیام کی شدید ضرورت ہے۔ مدرسوں کے قیام پر اس طرح کی بحث اردو کو بہتر حقوق فراہم کرے گی جیسا کہ اطہر فاروقی نے بڑی عمدگی سے اس کی حمایت کی ہے۔ (9)

اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دلائل سب پر واضح رہیں۔ مالی امداد دینے کے لیے حکومت اسکولوں کو مسلّمہ بنائے تاکہ ان میں یکسانیت ہو۔ یہ کوئی دلیل نہیں ، یہ ابتدائی شرائط میں سے ایک ہے تاکہ تعلیم اپنا منصب بہ خوبی ادا کرے اور اسے یہ کرنا چاہیے۔ یہ تعلیم افراد کو ایسی توانائی بخشے کہ جب وہ اس کے انتخاب کے لیے میدان عمل میں آئیں تو اپنی مرضی اور اپنے حق کا بھرپور استعمال کر سکیں۔

ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ تدریسی نظام سے متعلق سوالات اور ان سوالات کے مضمرات بڑے پیچیدہ ہیں۔ جنگجویانہ اور ریڈیکل رویّہ مغرب کے اوسط خاندانوں کے نوجوانوں میں بھی اسی آسانی سے پھیل سکتا ہے جس آسانی سے مدرسوں میں پھیلتا ہے (حال ہی میں لندن اسکول آف اکنامکس کے جہادیوں کی ایک مثال ہے۔ ) اس طرح کے سیاسی واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا بھی مناسب نہیں۔ حکومت دو اصولوں کے درمیان توازن قائم کرے۔ طالب علموں کو لائق فائق اور ماڈرن شہری بنانے میں دلچسپی لے اور ان کے والدین کو یہ طمانیت بخشے کہ ان کے انتخاب کو رد نہیں کیا جائے گا۔ ان دونوں میں توازن برقرار رکھنے کا ایک راستہ ہے۔ حکومت اصرار کرے کہ جن اداروں نے اس کی مراعات اور مد د حاصل کی ہیں وہ ماڈرن تعلیم کے بنیادی مطالبات کی تکمیل کریں۔ اس سے ان اداروں کی رہبری بھی ہو گی اور ان کے سیکولر نظام میں استحکام بھی آئے گا۔ آگے چل کر بغیر کسی بیرونی مداخلت یا دباؤ کے ان مدرسوں کی روش میں فرق آئے گا اور یہ تبدیلی اردو کے لیے خوش آیند ثابت ہو گی۔

یہ بات ہماری سوچ سے باہر ہے کہ ایک آزاد جمہوریت ایک ایسے کلچر کی حمایت کیوں نہ کرے جو نہ صرف حقیقی بلکہ ہماری تہذیب کا حصّہ ہے اور یہاں مختلف زبانیں اپنی اپنی شناختیں لیے مخلوط اداروں کے ساتھ قائم ہیں۔ ایک سیدھی سی بات ہے کہ کسی بھی لسانی کمیونٹی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی زبان نہ صرف اپنے لوگوں میں بلکہ عام پبلک میں بھی بلا خوف و خطر استعمال کرے۔ شرط صرف یہ ہو گی کہ اس کی وجہ سے دوسری زبان مجروح نہ ہو یا خطرے میں نہ پڑے۔ کسی سے غیر منصفانہ امتیاز نہ برتا جائے۔ کسی دوسرے پر پابندی نہ لگائی جائے اور نہ ہی اس کا اخراج ہو۔ عملاً ان حقوق کے آزادانہ استعمال پر دو طرح کی پابندیاں عائد کی جا سکتی ہیں۔ متعلقہ سوسائٹی یہ طے کرے کہ ان حقوق کو کس طرح استعمال میں لایا جائے۔ استعمال کی اجازت تو ہو گی لیکن اس تحدید کے ساتھ کہ زبان کو فروغ دینے کی گنجائش کہاں تک ہے۔ اس کے استعمال میں کسی امتیاز کی گنجائش نہ ہو گی۔ ہمارے اسکولوں کی ساخت، ان کے ڈیزائن اور زبان کے فارمولے لاگو کرنے کے سبب اردو بولنے والوں کو نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ دوسری بات یہ کہ زبان کے حقوق کے حصول میں کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ ان میں مارکٹ کی ضروریات بھی شامل ہیں۔ اس لیے بعض زبانوں کے لیے بڑا مشکل وقت آ پڑا ہے۔ یہ زبانیں شاید بکھر جائیں یا زوال پذیر ہو جائیں۔ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ حکومت اپنی پالیسیوں کو اس طرح ترتیب دے کہ طابِ علموں کے والدین کی ترجیحات خاص طور پر زبان کے بارے میں محفوظ، خاطرخواہ اور موثر ہوں۔ اردو کے مسئلے میں اس بات کا خیال رہے کہ اردو بولنے والے والدین کی پسندپر ہم نے پہلے ہی تحدید عائد کر دی ہے۔

والدین کی پسند کے امکانات میں کس طرح اضافہ کیا جائے یہ سوال پالیسی بنانے والوں کے لیے بڑا گنجلک ہے۔ اس کام میں پہلا اصول یہ ہے کہ انصاف کے مطالبے کو کسی خوف یا تعصب کا شکار نہ ہونے دیا جائے۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مختلف کلچرل اور لسانی گروہوں میں احساس وطنیت ہو تو ہندوستان ایک معنی خیز، گہری اور دیر پا قومی یکجہتی کی طرف آگے بڑھے گا۔

اپنی اپنی زبانوں کے انتخاب اور پسندیدگی کی، مختلف قوموں کو مراعات دیتے ہوئے ہم اپنے ملک کا بٹوارہ نہیں کرتے۔ یہ عمل ایسے پبلک اداروں کو جنم دے گا جن کی بدولت افراد مسرت کے احساس میں ڈوبے ہوئے خوشحالی کی طرف آگے بڑھیں گے۔ اردو کو گورنمنٹ اسکولوں سے نکال کر ہم نے اسے قومی دھارے سے خارج کر دیا ہے اور اب وہ ہمارے نامیاتی نظام سے مربوط نہیں ہے۔ ہمارے اس عمل نے ہماری ان امیدوں پر جو جمہوریت کے تصور سے وابستہ ہیں ، پانی پھیر دیا۔ اردو کی مدافعت کی بنیاد نہ تو کلچرل نسٹالجیا ہونا چاہیے اور نہ ہی زبانوں کی اہمیت پر اصرا ر۔ اس کی شاخ جمہوریت کے پیڑ سے نکلے جو ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

٭٭٭

 

 

حواشی

 

.1        میں سلمان خورشید صاحب کا ممنون ہوں کہ انھوں نے یہ اہم کام میرے سپرد کیا۔ ساتھ ہی میں اطہر فاروقی کا بھی شکرگزار ہوں کہ انھوں نے بلا تکان مسلسل اس موضوع پر مجھے معلومات بہم پہنچائیں۔ مجھے اندیشہ ہے کہ میں ان کے خیالات سے متفق نہیں ہوں لیکن ان سے ہونے والے تبادلۂ خیال کے نتیجے میں بہت کچھ میں نے سیکھا۔

.2        Charles Taylor, Human Agency and Language, Cambridge: Cambridge University Press, 1985, chapter 1.

.3        CBSE نے اپنے امتحانات میں مختصر سوالات،جوابات کو متعارف کروایا ہے۔ اس سے انشاپردازی کی بنیادی خصوصیات متاثر ہوئی ہیں۔ یہ زبان کے بگاڑ کا عہد نامہ ہے۔ ہم لوگ ایسے طالب علموں میں اضافہ کر رہے ہیں جو انشا پردازی کے اہل نہیں۔

.4        See Robert King’s lucid account in Nehru and the Politics of Language, Oxford: Oxford University Press, 1998.

.5        Report of the Official Language Commission, 1956, p. 9.

.6        Will Kymlicka, Liberalism, Community and Culture, Oxford: Oxford University Press, 1993, pp. 175ff.

.7        Robert King, op. cit., p. 164.

.8        وزارت برائے فروغِ انسانی وسائل، حکومت ہند کا حوالہ دیتے ہوئے ارجمند آرا نے لکھا ہے کہ کوئی پانچ کروڑ طالب علم مدرسوں میں شریک ہیں۔

Arjumand Ara, ‘Madrasas and Making of Muslim Identity in India’, Economic & Political Weekly 3 January 2004.

یہ بڑے ہی فضول اعداد و شمار ہیں۔ بی جے پی حکومت نے اپنے دور میں نیشنل کونسل برائے فروغ اردو زبان (NCPUL) کے توسط سے ان اعداد کا پروپگنڈہ کیا تھا۔ ہندوستان میں خود حکومت کے گوشوارے کے مطابق مسلمانوں کی آبادی اتنی نہیں ہے۔ اس سے یہی ظاہر ہے کہ ہمارے پاس لائق اعتبار اعداد و شمار نہیں ہیں۔ ہوم منسٹری بھی ان اعداد کا حوالہ دیتی ہے۔ دیکھیں

Bikramjit De, ‘Abuse of Urdu’, Economic & Political Weekly 27 November 2004.

.9        The Great Urdu Fraud’, Milli Gazette, New Delhi, 1-15, 16-31 May 2005, and a detailed report entitled ‘Vulnerability of the Invicible’, Milli Gazette, vol. 6, no. 21, 1-15 November 2005, pp. 16-17.

.10     See Ather Farouqui, ‘Urdu Education in India’, Economic and Political Weekly 12 January 2002.

٭٭٭

 

 

 

 

زبان کا جواز اور شناخت

 

آزادی کے بعد ہندوستان میں اردو اور مسلمانوں کی حیثیت

 

یو گیندر سنگھ

 

زبان کسی بھی سماج کی شناخت کا انتہائی اہم جز ہوتی ہے۔ سماج یا قوموں نے روایات کے دھندلکے سے جدیدیت کے روشن راستے پر دور تک کا سفر طے کیا اور اب جبکہ وہ مابعد جدیدیت کی دہلیز پر کھڑی ہیں ، تو خوش حالی کے ان کے اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق ان کی شناخت اور اہمیت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بلاشبہ روایتی دور میں بھی تہذیبی خود آگہی اور شناخت کا احساس کچھ کم نہ تھا، تاہم یہ ا مر تسلیم شدہ ہے کہ چونکہ اُس دور میں نقل و حمل اور پیداواری ٹیکنالوجی کے وسائل اپنے ابتدائی مرحلے میں تھے لہٰذا شناخت کا احساس اتنا گہرا نہ تھا اور اس کی شدّت ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی تھی۔ اس صورتِ حال کے نتیجے میں ماضی میں سماجی شناخت کا مسئلہ محدود پیمانے پر ہی اپنے اثرات مرتب کر سکتا تھا اور اس صورت میں مقامی یا بیرونی رابطوں کے باعث شناخت کے سوال پر کوئی کشاکش پیدا بھی ہوتی تو اس پر قابو پانا آسان تھا۔ پائیدار نوعیت کی ٹیکنالوجیز اور ان کے پروردہ پیداواری نظام کے سہارے روایتی سماج نے اعتدال پسندی پر مبنی جو پُر سکون فضا قائم کر لی تھی، اس نے اس امکان کو کم کر دیا تھا کہ شناخت کے سوال پر زبان عسکریت پسندانہ محاذ آرائی کا باعث بن سکے۔ خاندانی پیشے، روزگار یا کام دھندے کی تلاش میں ترکِ وطن کے محدود امکانات اور رسل و رسائل کے محدود ذرائع جیسے عوامل کے باعث شناخت کے سوال پر سیماب وشی کا ماحول نہیں پیدا ہو سکتا تھا، مسئلہ خواہ لسانی شناخت کا رہا ہو یا تہذیبی تشخص کا۔

مواصلات اور پیداوار سے متعلق ٹیکنالوجی کے شعبے میں جدید سماج نے جو انقلاب برپا کیا ہے اور جس کی شدت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے، اس کی وجہ سے مابعد جدیدیت کے عہد میں خوفناک قسم کی رقابت پیدا ہو گئی ہے اور اس صورتِ حال نے روایتی توازن کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ دور حاضر میں زبانوں کے درمیان مسابقت کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، سماجی اور تہذیبی سطح پر ان کا فرق نمایاں پہو رہا ہے اور یہ عوامل اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کو مربوط کرنے کا وسیلہ بن گئے ہیں۔ زبانیں سماجی حرکت پذیری اور اندرونِ سماج نئے ڈھانچے تعمیر کرنے کا ذریعہ بنتی جا رہی ہیں۔ کشاکش اور چیلنج کا یہ عمل کسی بھی سماج میں اس رجحان کو پروان چڑھاتا ہے کہ وہ سماج لسانی سطح پر اتنی توانائی حاصل کر لے کہ نہ صرف شناخت بلکہ قانونی جواز کے اعتبار سے بھی اسے فوری اہمیت کا مسئلہ تصور کر لیا جائے۔

 

زبانیں اور قانونی جواز

شناخت کا مسئلہ مسلسل قانونی جواز کا تقاضا کرتا ہے اور اس ضمن میں لسانی شناخت کا معاملہ بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ لیکن شناخت جب قانونی جواز کے دائرے میں داخل ہوتی ہے تو صورتِ حال مزید پیچیدہ اور گنجلک ہو جاتی ہے اور وہ عوامل جن کا زبان سے براہِ راست تعلق بھی نہیں ہوتا— مثلاً سماجی اور اقتصادی نا برابری، سماجی اور تہذیبی سطح پر بہتر مواقع حاصل کرنے کی امنگ اور اقتدار تک رسائی حاصل کرنے یا اس میں ناکام ہونے کا مسئلہ وغیرہ۔۔ زیادہ اہمیت اختیار کر جاتے ہیں۔ اس صورت میں زبان کا معقولیت پسندانہ، اقدار پر مبنی وہ روایتی تصوّر جو لسانی ساخت یا علمِ تشخیص کے بیشتر نظریات پر دلالت کرتا ہے، اپنا مفہوم کھونے لگتا ہے۔ نئے تناظر میں زبان کایہ تصور بھی کہ یہ ایک ایسی دولت عطا کرتی ہے جس سے تمام لوگ اس کے ذخیرے میں تخفیف کیے بغیر آزادانہ طور پر بیک وقت فیض یاب ہو سکتے ہیں اور اسے استعمال کر سکتے ہیں اور یہی چیز لاشعوری طور پر اس کے تحفظ کا باعث بنتی ہے اگست کومٹے کے دعوے کے مطابق ایک فضول سی بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ یہ لسانی مساوات کے واہمے کی بنیاد پر قانونی جواز اور اقتدار جیسی چیزوں کو حاشیے پر ڈال دیتی ہے۔ طبقات، اداروں یا انفرادی سطح پر اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کی جو حکمتِ عملی ترتیب دی جاتی ہے خواہ وہ علامتی ہو یا تہذیبی یا سیاسی و اقتصادی نوعیت کی، اس میں زبانیں مسلسل تصرف و تبدیلی کے عمل سے گزرتی ہیں لیکن روایتی تجزیے کی قلمرو میں اس حقیقت کی کوئی پوچھ نہیں ہوتی۔

زبانیں تہذیبی شناخت کے طور پر قانونی حیثیت اُس وقت اختیار کرتی ہیں جب وہ ریاست، مارکیٹ، طبقات او رتہذیبی اقدار یا نظریات جیسی چیزوں سے اپنے روابط استوار کر لیتی ہیں۔ ریاست غیر متغیر طور پر سماجی طریقِ کار کے وسیلے سے اقتدار کے کھیل میں کسی بھی زبان کو ’سرکاری‘ زبان کا درجہ عطا کرتی ہے اور تب کہیں جا کر وہ زبان ’قانونی‘ سطح پر تسلیم شدہ زبانوں کے زمرے میں شامل ہوتی ہے۔ جیسا کہ پیری بورڈی نے بھی کہا ہے کہ ریاست کے سیاسی ضابطوں کے تحت اسے تعلیم کا ذریعہ بنایا جاتا ہے اور اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں قانونی طور پر اس کا داخلہ یقینی ہو جاتا ہے۔ ریاست جن اداروں کو قانوناً جائز تسلیم کرتی ہے انھیں قائم بھی کرتی ہے اور چلاتی بھی ہے۔ وہ عمل جس کے ذریعے زبانوں کو سرکار ی سطح پر قانونی حیثیت حاصل ہوتی ہے یا ریاست کی سرپرستی یا منظوری ملتی ہے، خاصا پیچیدہ ہوتا ہے۔ وہ طریقِ کار جس کے ذریعے یہ مقصد حاصل کیا جاتا ہے، یقیناً پورے طور پر سیاسی نہیں ہوتا بلکہ اس میں کچھ اور عوامل بھی ہوتے ہیں۔ رائے عامّہ کی تہذیبی اور سماجی سطح پر تنظیم، نئے پریشر گروپ کا قیام، نئے طبقات یا تحریکوں کا آغاز، لسانی بنیاد پر منظم ہونے والے لوگوں کے اثرات کو بروئے کار لانے کی بعض حلقوں کی صلاحیت اور اس طرح کے دیگر عوامل ریاست کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ کسی زبان کو قانونی حیثیت عطا کرے۔ یہی عوامل زبان کے اندرونی ڈھانچے میں تبدیلی لانے کی تحریک بھی پیدا کرتے ہیں جس کے تحت مختصر نویسی، صوتیات اور نحوی تراکیب وغیرہ کے مسائل پر بحث کی جاتی ہے اور مناسب تبدیلی عمل میں لائی جاتی ہے۔ اس کی کچھ مثالیں یوں ملتی ہیں کہ اکثر ریاست کے زیرِ اہتمام سرکاری طور پر تالیفِ لغت یا فرہنگ سازی کے کام میں لفظوں کی تدوین عمل میں آتی ہے اور جن زبانوں کو سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے ان کے تدوینِ الفاظ کے کچھ تسلیم شدہ ضابطے ہوتے ہیں۔

مارکیٹ وہ دوسرا طاقتور ادارہ ہے جو زبان کو قانونی حیثیت دلانے کے عمل میں زبردست رول ادا کرتا ہے۔ یہاں مارکیٹ کی اصطلاح کی تشریح محدود اقتصادی معنوں میں بھی کی جا سکتی ہے اور وسیع تر معنوں میں بھی۔ مثلاً سماجی اور تہذیبی معاملات، وسائل کی فراہمی، مانگ اور سپلائی وغیرہ کے معنوں میں۔ استثنائی صورتِ حال میں ، جہاں مارکیٹ پر پورے طور پر سرکاری کنٹرول ہوتا ہے، وہاں زبان کو قانونی حیثیت دلوانے میں مارکیٹ کا رول بہت محدود ہوتا ہے اور چونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے اس لیے معقولیت پسندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس بات کو مان کر چلا جائے کہ مارکیٹ صدیوں سے زبان کے ڈھانچے میں تبدیلی لانے کا بہت اہم وسیلہ رہی ہے کیونکہ سماج کے مختلف طبقات جس طرح زبان اور اس کی قانونی حیثیت کا اقتصادی، سماجی، سیاسی اور ثقافتی شعبوں میں استعمال کرتے رہے ہیں ، اس میں مارکیٹ کے رول کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ زبان میں ادبی تخلیقات اور اسلوب کو مارکیٹ کے مقابلے میں نسبتاً کچھ زیادہ خود اختیاری حاصل ہے لیکن زبان پر مارکیٹ کے اثرات بھی معقول حد تک مرتب ہوتے ہیں۔ آج کے دور میں میڈیا اور سرمایے پر جو عالم کاری کا اثر نمایاں پہو رہا ہے وہ ایسے عوامل کو جنم دے رہا ہے جن میں مارکیٹ کے عناصر کو بالا دستی حاصل ہے یا یوں کہیے کہ وہ اس زبان سے تعلق رکھنے والے سماج کی لسانی شناخت اور حیثیت نیز اس کے رول پر اثر انداز پہو رہے ہیں۔

عالم کاری، مارکیٹ سے وابستہ اداروں کو متحد کرتی ہے۔ یہ مقامی، علاقائی،قومی اور بین الاقوامی سطح پر عوام کے لسانی رویّوں پر اپنے طور سے اثر انداز ہوتی ہے۔ اور یہ عمل زبان کے ڈھانچے اور اس کے استعمال پر دُہرے اور متضاد رجحان کو فروغ دینے کا باعث بنتا ہے۔ ایک طرف قانونی سطح پر وہ اُن خاص زبانوں کی ’علامتی بالا دستی‘ قائم کرنے کے عمل کو تیز تر کرتا ہے جنھیں سرکاری یا قانونی طور پر تسلیم شدہ زبانوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے تو دوسری طرف یہ مقامی، علاقائی اور نسلی شناخت والی اکائیوں میں شدید بیداری کی لہر بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ متضاد طاقتیں جو لسانی بیداری لانے کے عمل میں سرگرم ہوتی ہیں ، دوسری زبانوں پر کسی ایک زبان کی ’علامتی بالا دستی‘ قائم کرنے کے رویّے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں۔ اس کی بنیادیں قانونی سطح کے متعدد اور متضاد اصولوں کی غماز ہو سکتی ہیں مثلاً کسی کی بنیاد یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی زبان کو سرکاری زبان کی حیثیت حاصل ہے اور کسی کی یہ کہ اس کی زبان مارکیٹ کے کاروباری معاملات میں زیادہ اہم رول ادا کر رہی ہے۔ عالم کاری کے عمل میں انگریزی زبان کا جو رول ابھر کر سامنے آ رہا ہے وہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ گویا اس طرح عالم کاری کا عمل نہ صرف یہ کہ لسانی پیچیدگی کے پیچیدہ طریقِ کار کے ذریعے کسی ایک زبان کی علامتی بالا دستی کو ابھار رہا ہے بلکہ اس سے کم حیثیت کی زبانیں بولنے والوں میں بیداری کی لہر بھی لا رہا ہے۔ ان میں اقلیتوں ، مقامی نسلی گروپوں ، بالخصوص ذیلی ثقافت کے حامل حلقوں کی زبانیں شامل ہیں۔ لسانی بیداری کی یہ حرکت پذیری یا صف بندی شناختوں کے رچاؤ کے ایک معاہدے کے عمل سے گزرتی ہے۔

اس مرحلے میں سماجی ڈھانچے کے عوامل، ایک خاص سماج کے، یا عالمی پس منظر میں زبانوں کو قانونی حیثیت دلانے کے عمل سے زبردست ٹکّر لیتے ہیں۔ پیری بورڈی نے اس پورے عمل کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

’’علامتی بالا دستی کی حامل طاقت کی پیش قیاسی یہ ہوتی ہے کہ اس کی بالا دستی کو قبول  کرنے والا حلقہ، جو ایک طرح کا معاہدہ  یا ’ساز باز‘ کرتا ہے، وہ نہ تو بیرونی دباؤ کے تحت انفعالی اطاعت کا مظہر ہوتی ہے اور نہ ہی بہ رضا و رغبت اسے تسلیم کیے جانے کی علامت۔ سرکاری زبانوں کی قانونی حیثیت کا تسلیم کیا جانا لازمی طور پر اس بات کا غماز نہیں ہوتا کہ یہ کوئی صریحی، دانستہ یا ناقابلِ تنسیخ یقین ہے یا کسی ’ضابطہ‘ کو بہ رضا و رغبت تسلیم کیے جانے کا اظہار۔۔‘‘                              (صفحہ1991:50-51)

اگر یہ قیاس کر لیا جائے کہ کسی ایک زبان یا کئی زبانوں کے ایک گروپ کی بالا دستی، مارکیٹ تنظیم کی معقولیت پسندی کی آئینہ دار ہے تو یہ بڑی سادہ لوحی کی بات ہو گی۔ دراصل یہ ایک پیچیدہ عمل ہوتا ہے اور پہلے سے رائج لسانی رویے اور عوامی رجحان اور تنظیم کا پروردہ ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل سے گزرتا ہے جسے بورڈی نے Habitues کا نام دیا ہے۔ زبان کے اخذ وقبول کے تعلق سے مارکیٹ کے زیرِ اثر جو تحریکیں ابھرتی ہیں وہ متعدد انداز سے استدلالی حیثیت اختیار کر لیتی ہیں اور اس کا انحصار کسی خاص زبان کے بولنے والوں کے سماجی اور ثقافتی پس منظر پر ہوتا ہے۔ اس سیاق میں اعلا اور متوسط طبقے کا رول بڑی اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ یہ بات عمومی طور پر ہر ایک کے علم میں ہے کہ اعلا اور متوسط طبقے کے افراد زبانی طور پر تو اپنی زبان او راس زبان کے بولنے والوں کے تئیں سیاسی اور نظریاتی مقاصد کے تحت بڑی گہری وابستگی کا اظہار کرتے ہیں لیکن خصوصی مفادات کے پیشِ نظر اُس وقت اپنی اس وابستگی سے منہہ پھیر لیتے ہیں جب اپنے بچوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں۔ یعنی اُس وقت وہ اس زبان کو ترجیح دیتے ہیں جسے بالا دستی حاصل ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر اردو والوں کا اعلا اور متوسط طبقہ اپنے بچّوں کو انگریزی یا ہندی میڈیم اسکول میں بھیجتا ہے۔ یہ ’دو رنگی‘ ہر اُس سماج کے اعلا اور متوسط طبقے میں نظر آتی ہے جس کی زبان کمتر درجے کی ہو کر رہ جاتی ہے۔ اب اس کا سلسلہ اُن مسائل سے جُڑ جاتا ہے جن کا تعلق کسی لسانی فرقے کے نظامِ طبقات کے ڈھانچے اور طبقاتی تقسیم میں لسانی نظریے سے ہوتا ہے۔ جس طرح اقدار کا ڈھانچہ اور عام نظریہ سماجی نظامِ طبقات سے متاثر ہوتا ہے اسی طرح کسی لسانی فرقے کے اندر سماجی اور اقتصادی نابرابری جیسے عوامل بھی لسانی نظریے میں تفریق کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا کسی بھی سماج کی تہذیبی اور سماجی شناخت کی تعریف کرتے وقت لسانی نظریے کو اس کسوٹی پر پرکھنا ہو گا کہ اندرونِ سماج تفریق کی نوعیت کیا ہے ؟ لسانی نظریے کی تنظیم دو سطحوں پر ہوتی ہے : عمومی اور خصوصی۔ عمومی سطح پر یہ نظریہ خارجی عوامل سے پیوست ہوتا ہے جو مسلسل ایسے منصوبے ترتیب دیتا ہے جن سے کسی زبان کو علامتی بالا دستی حاصل ہو سکے یعنی اسے سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے جسے اقتصادی اور سائنسی امور کے شعبوں میں استعمال کیا جا سکے جبکہ خصوصی سطح پر لسانی نظریہ، زبان کے اندرونی ڈھانچے اور طریقِ کار جیسی چیزوں سے سروکار رکھتا ہے۔ مثلاً ذریعۂ اظہار، اسلوب، ادبی طرزِ اظہار اور ترسیل کی طاقت جیسے معاملات سے بحث کرتا ہے۔ ان دونوں سطحوں پر کسی لسانی فرقے کے رویّے کا دارومدار اس کے سماجی ڈھانچے، تہذیب، اساطیر، روایات اور تاریخ پر ہوتا ہے۔

یہاں اس پہلو پر زور دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کر سکیں کہ کسی بھی فرقے کے لسانی ورثے کے مستقبل کے تعلق سے اس کی خود آگہی کو مارکیٹ پر مبنی عوامل کے اعتبار  سے پورے طور پر نہیں سمجھا جا سکتا۔ تاریخ، تہذیب اور اجتماعی نام آوری یا حافظہ جیسے عوامل کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ یہ چیزیں اس معاشرے کی اجتماعی زندگی کو ترتیب عطا کرتی ہیں اور اس اجتماعی زندگی کو اساطیر، روایات، لوک گیت، اندرونی سماجی تفریق، عمومی اور خصوصی نظریات کے درمیان کامیابی سے ربط پیدا کرنے کی صلاحیت اور اپنے مستقبل کے تئیں مجموعی تصور جیسی چیزوں سے بھی مسلسل استحکام حاصل ہوتا رہتا ہے۔ یہ تمام عوامل مل کر ہی معاشرے کو جامعیت عطا کرتے ہیں۔ انھی پیچیدہ عوامل کے باہمی ٹکراؤ اور ارتقا کے طفیل زبان کا سلسلہ شناخت اور قانونی جواز جیسے مسائل سے جڑتا ہے۔

 

مسلم سماج، شناخت اور اردو زبان

اب تک ان معاملات کا ہم نے جو تجزیہ کیا ہے اس کا مقصد یہ ہے کہ اردو زبان اور شناخت کے مسائل نیز قانونی جواز کا آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی سے کوئی تعلق ہے یا نہیں ، اس سوال کو سمجھنے میں مد د مل سکے۔ یہ تجزیاتی زمرے ایک ایسا فطری ڈھانچہ پیش کرتے ہیں جس کے ذریعے معاملات کا حقیقت پسندی اور جامعیت کے ساتھ جائزہ لیا جا سکتا ہے، خاص طور سے اُس صورت میں جب اس موضوع پر ہونے والی بحث کا رُخ بڑی آسانی سے نہ صرف غلط سمت مڑ سکتا ہے، بلکہ جذباتی رنگ بھی اختیار کر سکتا ہے جس میں تعصبات اور تحفظات کے در آنے کا پورا  اندیشہ ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ اس طرح کی نظریاتی بحث اس بات کو ممکن بنا سکتی ہے کہ اس مسئلے کا زیادہ منظم طور پر جائزہ لیا جائے۔ اسکے علاوہ اس کے عملی پہلوؤں پر مزید غور کیا جا سکے تاکہ اردو زبان اور ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کے لیے مستقبل میں مناسب پالیسیاں وضع کی جا سکیں۔

ہندوستانی مسلمانوں ہی کی کیا، کسی بھی فرقے یا سماج کی شناخت قائم کرنے میں زبان بہت اہم رول ادا کرتی ہے۔ اس کی تعیین سمت اور گہرائی نیز اس کی آبداری، متنوع حالات کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ ان میں تاریخ کے وہ زیرِ وبم جن سے تقسیم کے بعد ہندوستانی مسلمان گزرے ہیں ، ان کی سماجی و اقتصادی حالت، ان کے اور ان کے بچوں کے لیے بہتر مواقع کی کمیابی (دوسرے فرقوں کے مقابلے میں )، ان کی قیادت کا رول اور اس کا ڈھانچہ نیز تاریخی ارتقا کے عمل میں اس فرقے کے اندر پیدا ہونے والی نظریاتی اور تہذیبی تحریکیں شامل ہیں۔ یہ تمام عوامل، ایک کے بعد ایک یا بیک وقت ہندوستانی مسلمانوں کے اجتماعی تصور، ان کے مخصوص ذہنی ڈھانچے اور شناخت پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں مگر ہمارے ملک میں مسلم سماج کی شناخت اور زبان سے اس کے رشتے کے بارے میں بیش تر پہلوؤں پر مطالعے کے لیے تفصیلی مواد موجود نہیں ہے۔

آزادی کے ساتھ تقسیم کا جو بھیانک سانحہ پیش آیا، اس سے مسلمانوں کے سماجی ڈھانچے اور ان کی نفسیات پر بڑی گہری ضرب پڑی۔ اعلا اور متوسط طبقے کے مسلمان نیز کاروباری گھرانے پاکستان ہجرت کر گئے۔ اس طرح ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی اور اقتصادی بنیاد ہی اکھڑ گئی۔ تقسیم اکثریتی فرقے کے دلوں میں ایک ایسا غلط احساس بھی چھوڑ گئی گویا ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمان ہی اس تقسیم کے ذمّے دار تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بیش تر مسلمانوں نے اپنے آپ کو ایک ایسے وقت میں مجرم تصور کیا جب ملک میں قومی تعمیرِ نو اور ترقی کے منصوبے بنائے جار ہے تھے، دستور کی ترتیب عمل میں آ رہی تھی اور منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنایا جا رہا تھا۔ اگرچہ اس پورے عمل میں منتخب قوم پرست مسلم قیادت نے بھی کلیدی رول ادا کیا لیکن مسلم آبادی کی اکثریت کے دلوں میں گھبراہٹ اور بیگانگی کاا حساس باقی رہا۔ آزادی کے بعد پہلی دہائی کے دوران مسلمانوں کی شناخت الجھن کا شکار اور ان کی نفسیات ایک دبے کچلے فرقے جیسی تھی۔

اس زمانے میں مسلم قیادت کو سسٹم کا شریکِ کار بنایا گیا تاکہ زبان سے متعلق پالیسی وضع کرنے میں ان کی مد د لی جائے۔ ایسے ادارے قائم کیے گئے جن کے تحت اردو کو ایک ادبی ورثے نیز تعلیمی اور انتظامی معاملات میں ایک عنصر کے طور پر فروغ دینے کی کوشش کی جائے۔ مسلمان اور ان کی قیادت مخصوص شناخت کے جس بحران سے گزر رہی تھی، شاید اُس کے باعث اردو کی ترقی کے سلسلے میں سود مند پالیسی وضع کرنے سے وہ قاصر رہے کیونکہ وہ بہت زیادہ محتاط ہو گئے تھے۔ اس بحران کی ایک مثال یہ ہے کہ کچھ مسلم دانشوروں کے درمیان یہ فضول بحث شروع ہو گئی کہ اردو کو زیادہ سے زیادہ قابلِ قبول بنانے کے لیے اس کے عربی فارسی رسمِ خط کو بدل دیا جائے اور اس کی جگہ دیوناگری لیپی اختیار کر لی جائے۔

بہرحال، بعد کی دہائیوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی شناخت بہتری کی جانب مائل ہوئی۔ ان میں توازن اور خود اعتمادی پیدا ہونے لگی۔ اس میں کئی عوامل کا ر فرما رہے۔ ملک کی انتخابی سیاست میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے باعث مسلمانوں کی کھوئی ہوئی خود اعتمادی بحال ہونے لگی۔ ان کا رُخ بہتر سمت کی طرف مڑا اور ریاست کے نظام میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے اُس جانب بھی قدم بڑھایا جہاں ان کی زبان اور کلچر کو فروغ دینے کی تنظیمیں کام کر رہی تھیں۔ ان کی دھوم مغربی اور جنوبی ہند میں زیادہ تھی تاہم شمالی ہند کی انتہائی پسماندہ ریاستوں میں بھی یہ سلسلہ فروغ پانے لگا۔ اس دوران مسلمانوں نے تجارت کے شعبے میں بھی دوبارہ قدم رکھا اور چھوٹی اور اوسط درجے کی صنعتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان صنعتوں کا بیشتر حصّہ ان کے روایتی اور آبائی دستکاری کے پیشے پر مشتمل تھا۔ بعض ریاستوں میں تعلیم کے شعبے میں بھی قابلِ ذکر پیش رفت ہوئی۔ اس کا خاص محور مغربی اور جنوبی ہند کی ریاستیں ہیں۔ لسانی، تہذیبی اور سیاسی شناخت کی بنیاد پر بنگلہ دیش کے قیام نے مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والے دو قومی نظریے کو بڑی حد تک ناکام ثابت کر دیا۔ اس کے باعث ہندوستان میں مسلم شناخت کو بڑی توانائی حاصل ہوئی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں اردو بولنے والے مہاجروں کے احساسِ محرومی نے بھی اس شناخت کو مستحکم بنانے میں اپنا کچھ رول ادا کیا۔ہندوستان میں مسلم شناخت قائم کرنے میں تاریخی عوامل اور سماجیات پر سماجی ڈھانچہ بھی اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ سماجیاتی مطالعے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ خاندان اور ذات پات کے سسٹم پر مبنی سماجی اور تہذیبی نا برابری مسلم سماج میں بھی اسی طرح موجود ہے جس طرح یہ ہندو اکثریت میں نظر آتی ہے۔ معمولی سا فرق بس یہ ہو سکتا ہے کہ ان کے یہاں آلودگی اور پاکیزگی کے کچھ اپنے اصول ہیں جو سماجی طور پر دوسروں سے جدا ہیں۔ بہرحال متعدد فرقے ذات پات پر مبنی سماجی صورتِ حال کے باعث اقتصادی اورتعلیمی سطح پر محرومی کا شکار رہے ہیں۔ اس بات کا ثبوت پسماندہ ذاتوں کے کمیشن،  اقلیتی کمیشن وغیرہ کے ذریعے کرائے گئے سروے سے بھی ملتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جغرافیائی طور پر بھی مسلمان پورے ملک میں بکھرے ہوئے ہیں اور اس سے ان کی لسانی شناخت بھی متاثر ہوتی ہے۔ وہ لسانی سطح پر اپنے اپنے علاقوں میں دوسرے فرقوں سے گھلے ملے نظر آتے ہیں۔ ’پیپلز آف انڈیا‘ (پی او آئی) کے ایک سروے کے مطابق پورے ہندوستان میں 4635 ذاتیں آباد ہیں جن میں سے 584 کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ اروناچل پردیش اور میزورم کو چھوڑ کر (جہاں مسلمان سرے سے موجود ہی نہیں ہیں ) ہندوستان کی تمام ریاستوں میں مسلمانوں کی مختلف ذاتوں کے لوگ آباد ہیں۔ گوا، نگر حویلی اور سکم میں ایک ایک ذات کے لوگ ہیں تو گجرات میں مسلم ذاتوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی 87 ہے۔ جن ریاستوں میں ان کی تعداد 30 سے زیادہ ہے، ان میں گجرات (84)، اتر پردیش (70)، جموں و کشمیر (59)، راجستھان (44)، بہار (41)، اور دہلی (30) شامل ہیں۔ اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم سماج کے اندر کتنے گروپ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جغرافیائی اعتبار سے یہ کتنے بکھرے ہوئے ہیں۔ اس میں اردو بولنے والے مسلمان حلقوں کی حد بندی بھی نظر آتی ہے جو شمالی ہند میں آباد ہیں اور ان میں یوپی، راجستھان، بہار اور دہلی میں بسنے والی،  185  مسلم ذاتیں شامل ہیں۔ پی او آئی نے تمام ذاتوں کی شناخت ان کی بولیوں کی بنیاد پر قائم کی ہے۔ مجموعی طور پر 325 زبانوں (بولیوں ) کا ریکارڈ تیار کیا گیا ہے جن میں سے اردو بولنے والی ذاتوں کی تعداد 162 ہے۔ ان میں 4 ذاتیں وہ بھی شامل ہیں جنھیں درج فہرست ذاتوں کے زمرے میں رکھا گیا ہے۔ باقی 158 ’دوسری ذاتیں ‘ ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ مذکورہ سروے میں پیشہ، پیدائش اور ذات پات کی بنیاد پر جو الگ الگ حلقے ہیں انھیں ’فرقہ‘ سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ کچھ حلقے ایسے بھی ہیں جو کسی ذات سے وابستہ نہیں ہیں۔ سروے کا ایک اقتباس یوں ہے :

’’پہلا مسئلہ یہ تھا کہ اس طرح کے فرقوں کا تعیّن کُل ہند پیمانے پر کیا جائے اور اس کے لیے طریقِ کار کچھ ایسا درکار تھا جس کے تحت ذات پات کے علاوہ ذات پات سے باہر کی برادریوں ، اقلیتوں اور اُن لوگوں کا احاطہ کیا جا سکے جو ’ورن جاتی‘ کے ڈھانچے کے باہر ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ لفظ ’جاتی‘ کو ملک گیر پیمانے پر ذات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ’قوم‘ اور ’سمودائے ‘ جیسے لفظ بھی رائج ہیں۔ اگرچہ ذات یا ذات جیسے سسٹم میں بہت سے فرقے شامل ہیں لیکن کچھ فرقے ایسے بھی ہیں جو نظریاتی اور عملی، دونوں سطحوں پر اس سسٹم کو تسلیم نہیں کرتے۔ حالیہ برسوں میں آبائی پیشے سے وابستگی اور اونچ نیچ وغیرہ کے اعتبار سے ذات کا سسٹم کچھ کمزور پڑ گیا ہے۔ اس نے ایک سیاسی طاقت کے طور پر بھی استحکام حاصل کر لیا ہے اور ووٹ بینک بن گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس نے ایک فرقے کی شکل اختیار کر لی ہے اور اپنے آبائی پیشوں کو کچھ لوگ چھوڑتے جار ہے ہیں لہٰذا فرقے یا ’سمودائے ‘ کی اصطلاح کو ان ذاتوں کے لیے کل ہند پیمانے پر حوالے کے طور پر استعمال کرنا زیادہ مناسب ہو گا۔ (کیرالا جیسی ریاستوں میں یہی اصطلاح استعمال ہوتی ہے ) یہ ذاتیں مختلف علاقوں میں مختلف ناموں سے جانی جاتی رہی ہیں ‘‘۔               (ملاحظہ فرمائیں : ایس کے سنگھ 1993،صفحات 23-24)

مندرجہ بالا سطور میں آبائی پیشے کی شناخت پر مبنی ذات پات کے جس سماجی ڈھانچے کی ایک فرقے کے طور پر وضاحت کی گئی ہے وہ اب بڑی حد تک کمزور پڑ گیا ہے اور اس وقت عام رجحان یہی ہے۔ یہ نتیجہ اخذ کرنا بحث طلب ہو سکتا ہے کہ 584 فرقوں میں بٹے مسلمان اپنے پیشے اور سماجی مرتبے وغیرہ کے اعتبار سے اسی صورتِ حال کا حصّہ ہیں جس سے ہندوستان کی باقی ماندہ آبادی گزر رہی ہے۔ اب نظریے یا شناخت پر اس صورتِ حال کی چھاپ اگر پڑتی ہے تو یہ امر حقیقتاً قابلِ ذکر ہو سکتا ہے۔ پی او آئی کے سروے میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے بیش تر فرقوں میں نام رکھنے کا سلسلہ سیکولر نوعیت کا ہے اور صرف تین فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے نام سے مذہبی وابستگی ظاہر ہوتی ہے مثلاً آدی دھرمتی، احمدیہ اور ارادھولو وغیرہ۔ تاہم عمومی طور پر ہندوستان میں مسلم فرقوں کی شناخت تلاش کرتے وقت مذہبی اور تہذیبی عوامل کی اہمیت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔

بہرحال مسلمانوں کے اپنے قائم کردہ تصور کے مطابق تہذیبی اور سماجی شناخت کے دفاع کے سیاق میں اس سماجی نظامِ طبقات اور عدم مساوات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے جو مسلمانوں کے اندر اور اس تعلق سے غیر مسلم فرقوں کے درمیان موجود ہے۔ تقسیم نے مسلم سماج کو متوسط اور اعلا طبقات، پیشہ ور ماہرین اور کاروباری مسلمانوں کے ایک بہت بڑے حلقے سے محروم کر دیا لیکن آزادی کے بعد گزشتہ پانچ  دہائیوں کے دوران سماجی اور اقتصادی ترقی کے عمل نے اس خلیج کو کسی حد تک پاٹا ہے پھر بھی ہر جگہ ایک جیسی صورتِ حال نہیں ہے۔ مغربی اور جنوبی ہند میں مسلمانوں کے مختلف حلقوں نے تجارت، کاروبار اور چھوٹی صنعتوں کے شعبوں میں ترقی کی ہے۔ ان کی تعلیمی صورتِ حال بھی کہیں بہتر ہے۔ شمالی ہند کے بہار، یوپی، مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں جہاں ان کی آبادی کے بڑے حصّے کا ارتکاز ہے، وہاں ان کی اقتصادی اور سماجی نوآباد کاری کا کام خاصا دشوار رہا ہے۔ ان ریاستوں میں مسلمانوں کی سماجی حرکت پذیری بڑے محدود پیمانے کی رہی ہے اور پسماندہ مسلم عوام کے بیچ سے متوسط طبقہ بڑی محدود تعداد میں سماجی منظر نامے پر ابھر سکا ہے۔ بعض جائزوں سے پتا چلا ہے کہ شمالی ہند کی ریاستوں میں اعلا اور دلت نیز پسماندہ طبقوں کے مسلمانوں کے درمیان جذباتی اور سیاسی سطح پر نئی دراڑ پڑنے لگی ہے۔ جو مسلمان غریب اور پسماندہ ہیں ان میں مایوسی کا احساس بہت شدید ہوتا جا رہا ہے وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اعلا طبقے کے لوگ خواہ وہ ہندو ہوں یا مسلمان، صرف ووٹ بینک کے طور پر ان کا استعمال کرتے ہیں اور ان کی سماجی اور اقتصادی ترقی کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتے۔ ان کی جانب سے حکومت سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ ان کی معاشی ترقی اور تعلیمی فلاح کے لیے ٹھوس اقدام کرے۔ مسلمانوں کے مختلف طبقات اس مطالبے کے لیے متحد پہو رہے ہیں اور اپنے اس مطالبے کے لیے انھیں دوسرے مذاہب اور طبقات کی حمایت بھی حاصل ہے۔

مسلم متوسط طبقے کے درمیان شدّت کا احساسِ محرومی موجود ہے۔ سرکاری ملازمت، اعلا پیشہ ورانہ عہدوں اور اسمبلی اور پارلیمنٹ میں ان کی آبادی کے تناسب کے اعتبار سے نمائندگی بہت کم ہوتی ہے۔ رفیق زکریا نے اس صورتِ حال کو بہتر ڈھنگ سے اجاگر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے : ’’مسلمان ہندوستان کی آبادی کا 12 فی صد ہیں اور 1997 میں لوک سبھا کے جو عام انتخابات ہوئے ان میں مہاراشٹر، پنجاب، اڑیسہ، راجستھان اور تمل ناڈو سمیت 20 ریاستیں ایسی تھیں جہاں سے ایک بھی مسلم امیدوار منتخب ہو کر نہیں آیا۔ مرکز کے زیرِ انتظام علاقوں سے بھی کوئی مسلم نمائندہ نہیں آیا (سوائے لکش دیپ کے جہاں کی پوری آبادی مسلمانوں پر مشتمل ہے ) ان کی 12 فی صد آبادی کم از کم 60 سیٹوں کا احاطہ کرتی ہے لیکن بارہویں لوک سبھا میں صرف 28 مسلمان پہنچ سکے۔ سرکاری ملازمتوں اور پبلک سیکٹر کے اداروں میں تو صورتِ حال اور زیادہ ناگفتہ بہ ہے۔ انجینئر 2فی صد، ڈاکٹر 2.5فی صد، آئی اے ایس 2.86 فی صد، آئی ٹی او 3.01 فی صد، کلاس ون افسر 3.3 فی صد، بینک ملازمین 2.18 فی صد، اور بس۔ پرائیویٹ اداروں میں سرکاری زمرے کے اداروں کے مقابلے میں صورتِ حال قدرے بہتر ہے۔ یعنی 4.08 فی صد، (خوشونت سنگھ 1998)۔‘‘ متعدد ایسے پیچیدہ عوامل ہیں جن سے مسلمانوں کی برائے نام نمائندگی کا پتا چلتا ہے۔ ویسے تو اس طرح کا احساس پسماندہ غیر مسلم آبادی میں بھی پایا جاتا ہے لیکن بلاشبہ مسلمانوں میں یہ مسئلہ بے حد سنگین ہے۔ اس مسئلے کو تعلیمی اور سماجی سطح پر حل کرنے کی ضرورت بہت شدید ہے۔ مسلمانوں میں یہ احساسِ محرومی بلاشبہ ان کے سماجی ڈھانچے اور ان کی شناخت پر اثر انداز ہوتا ہے۔

اپنی تہذیبی اور مذہبی شناخت کو مستحکم بنانے کی جو تحریکیں ان کے اندر پیدا پہو رہی ہیں یا صرف مذہبی اور تہذیبی خصوصیات کے سہارے مسلم شناخت قائم کرنے کے لیے ان کی طرف سے جو اصرار پہو رہا ہے وہ دراصل اِسی صورتِ حال اور اقتصادی اور سماجی احساسِ محرومی کی دین ہے۔ ہندوستان میں مسلم شناخت کے موجودہ ڈھانچے میں اردو زبان کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ زبان اب صرف اعلا طبقے کی ادبی یا درباری زبان نہیں ہے اور اس کا اعلا طبقے کا جو پس منظر تھا اس نے عوام الناس کے لیے جگہ خالی کر دی ہے اور اب یہ محض ’کسی‘ اسلوب یا طرزِ اظہار کا معاملہ نہیں رہا  بلکہ ایک زبان کے استعمال اور اس کی اجتماعی نوعیت کے خط و خال کا سوال بن گیا ہے اور یہ احساس ہندوستان کے تقریباً تمام مسلمانوں کے دل میں پیدا ہو گیا ہے۔ یہ زبان اب ان کی تہذیبی شناخت کا ایک حصّہ بن گئی ہے۔ آزادی کے بعد دہائیوں کا سفر طے کرتے ہوئے اردو زبان کے استعمال کے تعلق سے طبقاتی اور خصوصی طرزِ اظہار کی دیواریں ٹوٹ گئی ہیں اور ان کی جگہ یہ تصور پروان چڑھا ہے کہ یہ زبان ان کی مذہبی، تہذیبی اور تمدنی شناخت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس عمل میں مارکیٹ سے وابستہ اس کی اہمیت اور انتظامی سرپرستی اگرچہ کمزور پڑ گئی۔ لیکن تہذیبی شناخت کے مسئلے نے اس زبان کے لیے قانونی جواز پیدا کرنے کی کافی گنجائش پیدا کر دی ہے۔ یہ صورتِ حال ہماری توجہ کی متقاضی ہے کیوں کہ ہم چاہتے ہیں کہ مارکیٹ، انتظامیہ اور بین تہذیبی رابطوں تک اس کی رسائی ہو اور اس طور پر اس کے قانونی جواز کے امکانات وسیع ہوں۔

اردو زبان کی شناخت سے متعلق زاویوں میں ہونے والی نئی تبدیلیوں کے نتیجے میں اس کی پہلے جیسی مقبولیت کم ہو گئی ہے اور اس کی وہ پرانی کشش، جس کی اساس وسیع المشربی تھی اور جس کی وجہ سے یہ شمالی ہند اور دکن کے متوسط طبقے کے بہت سے غیر مسلم حلقوں کو متوجہ کرتی تھی، اب ماضی کا افسانہ بن گئی ہے۔ بلاشبہ اس کی یہ کشش صرف اس کے ادبی یا تہذیبی حسن کی مرہونِ منت نہ تھی بلکہ اس لیے بھی تھی کہ اسے انتظامی سطح پر سرپرستی حاصل تھی اور بازار میں یہ سکّہ کی  طرح رائج تھی۔ اردو زبان کے علم کی بدولت انتظامی امور تک رسائی ہوتی تھی اور ایسے متعدد شعبوں میں روزگار کے مواقع میسّر آتے تھے جن کا نظم و نسق حکومت کے پاس تھا۔ آزادی کے بعد اردو کے تئیں خود مسلمانوں کے رویّے میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔ اس کا رول مسلمانوں کی تہذیبی، سماجی اور مذہبی شناخت تک محدود ہوتا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم، انتظامیہ اور مارکیٹ طریقِ کار کے عام دھارے سے یہ متواتر دور ہوتی گئی۔ مزید برآں مسلمانوں میں ایسا کوئی منظم ادارہ نہیں تھا جو ملک گیر پیمانے پر اردو کی ترقی اور اسے جدید تقاضوں سے آشنا کرانے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتا۔ اس صورتِ حال نے اردو کے فروغ میں رکاوٹ پیدا کر دی۔ مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی اور سیاسی طاقت کے فقدان نے صورتِ حال کو مزید خراب اور پیچیدہ بنا دیا۔

 

مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی

کسی فرقے میں پائی جانے والی شرح خواندگی و تعلیم اور اس کی ترقی و معیارِ زندگی کے درمیان جو ربط ہے اسے اب ترقی سے متعلق سماجیات نے ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر اجاگر کر دیا ہے۔ جنوبی ہند کی ریاستوں میں کچھ مستثنیات سے قطعِ نظر، ملک کے باقی حصوں میں مسلمان دوسرے فرقوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہیں۔ ایسا اس صورتِ حال کے باوجود ہے کہ تعلیمی سطح پر ہمارے ملک میں عام طور پر پسماندگی نظر آتی ہے۔ اگرچہ خواندگی کی شرح میں کچھ اضافہ ہوا ہے لیکن ہندوستان کی تقریباً نصف آبادی اب بھی ناخواندہ ہے اور شمالی ہند کی بعض ریاستوں میں تو صورتِ حال یہ ہے کہ ناخواندہ خواتین کی شرح 90فی صد ہے۔ اب اس پس منظر میں جبکہ آزادی کے پچاس سال بعد بھی اس محاذ پر ہم اتنے پسماندہ ہیں ، مسلمانوں کی تعلیمی صورتِ حال پر نظر دوڑائیے تو حالات نسبتاً بہت زیادہ مایوس کن دکھائی دیتے ہیں۔ اس حقیقت کی تصدیق ایسی کئی سروے رپورٹوں سے ہوتی ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کی تعلیمی صورتِ حال کے بارے میں تیار کی گئی ہیں۔ 1986/87 کے پلاننگ کمیشن کے سروے کے مطابق:

’’قومی پیمانے پر شرح خواندگی 52 فیصد تھی جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح 42 فی صد رہی۔ تعلیم کے معاملے میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نا برابری کا فی نمایاں ہے۔ جن ہندوؤں نے ہائی اسکول تک کی تعلیم پائی ہے ان کی شرح 3.4 فی صد ہے جبکہ مسلمانوں میں یہ شرح صرف 1.2 فی صد ہے۔ ہندوؤں میں گریجویٹ کی تعداد 7.9 فی صد رہی جبکہ مسلمانوں میں صرف 2.3 فی صد لوگ ہی گریجویٹ ہیں۔ مسلمان بچّوں  میں اسکول چھوڑنے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔ تمام تر خواندہ مسلمانوں میں اوسطاً ایک تہائی لوگ ایسے ملتے ہیں جو مطلوبہ سطح تک پہنچنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑ دیتے ہیں۔ مڈل درجات کی سطح پر اسکول چھوڑنے کا رجحان سب سے زیادہ  ہے جبکہ 20 اور 24 سال کی عمر کے طلبہ میں یہ رجحان 50 فی صد ریکارڈ کیا گیا ہے۔ خواندگی کے اعتبار سے مسلمانوں میں مردوں اور خواتین کے درمیان نا برابری کی صورتِ حال خطرناک حد تک مایوس کن ہے۔ مسلم خواتین میں خواندگی کی شرح 34 فی صد ہے اور اسکول جانے والی اکثر مسلم بچیاں دسویں درجے سے پہلے ہی تعلیم کو خیرباد کہہ دیتی ہیں۔ ہائی اسکول تک پہنچنے والی مسلم بچیوں کی تعداد صرف ایک فی صد ہے۔ ہریانہ کی خبر یہ ہے کہ مسلمان خواتین مکمل طور پر ناخواندہ ہیں جبکہ ملک گیر پیمانے پر مسلم خواتین اپنی ہندو بہنوں سے تین گنا پیچھے ہیں۔ مسلمان لڑکیوں میں اعلا تعلیم کا رجحان تو شہری علاقوں میں بھی خال خال ہی نظر آتا ہے۔ ‘‘

(ایم منظور عالم:1998، صفحات 10-11)

مسلمانوں کو اس تعلیمی پسماندگی کے ساتھ ساتھ اقتصادی بدحالی بھی درپیش ہے اور اس پسماندگی کو دور کرنے کے لیے ریاستی حکومتوں اور مرکز کی جانب سے جو ترقیاتی پالیسیاں وضع کی گئیں وہ ابھی تک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکی ہیں۔ پلاننگ کمیشن، نیشنل سیمپُل کمیشن، نیشنل کونسل فار ایپلائیڈ اکو نومک ریسرچ، قومی اقلیتی کمیشن اور اقلیتی پینل نے جو سروے کیے اور جو رپورٹیں پیش کیں ، ان سب سے  اس صورتِ حال کی تصدیق ہوتی ہے۔ سماجی،اقتصادی اور سیاسی محاذ پر مسلمان ایسے مقام پر کھڑے ہیں جہاں وہ دوسرے فرقوں  کے مقابلے بالکل ہی پچھڑے ہوئے ہیں اور اس کے نتیجے میں مجموعی طور پر ترقی کے ثمر سے محروم  دکھائی دیتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کم سے کم ہوتی گئی اور ایسا اس حقیقت کے باوجود پہو رہا ہے : ’’ہندوستان میں مسلم اکثریت کے 14 اضلاع  ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 15فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ 120 پارلیمانی اور 700 اسمبلی حلقۂ انتخاب ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوتے ہیں۔ اب ذرا اس کا مقابلہ اس صورتِ حال سے کیجیے کہ بارہویں لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی صرف 5.9 فیصد رہی یعنی صرف 28 ممبرانِ پارلیمنٹ مسلمان ہیں۔ مسلم نمائندوں کی سب سے زیادہ تعداد 1980 میں تھی 46)ممبران) یوپی کے مسلم ممبرانِ پارلیمنٹ کی تعداد 1991میں 17تھی جو 1998 میں گھٹ کر صرف 6 رہ گئی جبکہ اس ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب 22 فیصد ہے۔ ‘‘ (ایم منظور عالم1998-:صفحہ (13۔ اس مایوس کن صورتِ حال کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو، انتخابی عمل کے ضابطوں میں کوئی خامی ہو یا سیاسی طور پر ہونے والی صف بندی اس کی ذمے دار ہو یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انتخابی نظام ہی ناقص اور اصلاح طلب ہومگر یہ حقیقت ہے کہ مطلوبہ سیاسی طاقت حاصل نہ ہونے کے باعث مسلم شناخت پر اس کا بہت برا اور گہرا اثر پڑ رہا ہے۔ مسلمانوں میں جو عام احساس محرومی ہے اس کے باعث زبان کا مسئلہ ان کی شناخت کا ایک اہم عنصر بن گیا ہے۔

 

اردو زبان کی حالت اور اردو سے متعلق پالیسی

تاریخ نے ملک کی جو تقسیم کرائی اور جس نفسیات کو جنم دیا اس نے آزادی کے بعد اردو زبان سے متعلق ریاست کی پالیسی پر گہرا اثر ڈالا۔ اس مسئلے کو سیاسی اداکاروں اور اکثریتی فرقے نے جذباتی اور فرقے وارانہ نظر سے دیکھا۔ ریاست کی پالیسی جس طور پر ترتیب دی گئی اس میں ان عوامل کا پر تو صاف دکھائی دیتا ہے۔ نئے حالات میں ایک اہم عنصر تو خود جمہوری عمل ہی کا مرہونِ منت ہے یعنی زبان سے متعلق پالیسی میں اسے رائے عامہ سے مطابقت پیدا کرنا پڑی۔ اردو کے تئیں اس کا رویّہ غیر منصفانہ تھا کیونکہ اس بات کو قطعاً نظر انداز کر دیا گیا کہ برطانوی دورِ حکومت میں اسے کیا حیثیت حاصل تھی۔ ریاست اور انتظامی امور سے اردو کو دور رکھا گیا۔ نظامِ تعلیم میں نصاب اور ذریعۂ تعلیم و تحقیق کے زاویے سے اگر دیکھا جائے تو اردو کو سہ لسانی فارمولے کے پھندے میں پھنسا تو دیا گیا مگر عملاً سہ لسانی فارمولا اس طرح رائج کیا گیا کہ اردو عملاً اس سے خارج ہو گئی۔ اس فارمولے کے تحت ایسے متبادل رکھے گئے کہ اردو کو آسانی سے نظرانداز کیا جا سکے۔ بعض ریاستوں نے اسے ’سرکاری‘ حیثیت تو عطا کی لیکن انھوں نے اسے تعلیمی اداروں ، تعلیمی عمل اور انتظامیہ سے مربوط نہیں کیا۔ ادارے، کمیٹیاں ، کمیشن، وغیرہ تو یکے بعد دیگرے قائم ہوتے رہے لیکن ان سے اردو تعلیم کے فروغ میں کوئی مد د نہیں ملی۔ اس کے برعکس سرکار کی جانب سے قائم کیے گئے اداروں بالخصوص اردو اکادمیوں نے مسلم آبادی کے بڑے حلقے کو یہ تاثر دیا کہ حکومت اس طور پر ایک خاص حکمتِ عملی کے ذریعے خود مسلم نواز قیادت کے ساتھ ساز باز کر کے اپنا سیاسی کھیل کھیل رہی ہے۔

اردو کو درپیش بحران دراصل نتیجہ ہے حکومت کی ناکامی کا کیوں کہ حکومت نے پرائمری اور ثانوی سطح پر زبان سے متعلق مناسب پالیسی نافذ نہیں کی۔ اگر حکومت نے اس جانب خاطر خواہ توجہ کی ہوتی تو اعلا سطح پر اردو زبان و ادب کی تعلیم حاصل کرنے نیز اردو میں دوسرے مضامین میں مہارت حاصل کرنے والے اردو طلبہ و طالبات کی معقول تعداد کالجوں اور یونیورسٹیوں میں یقینی طور پر داخلہ لیتی۔ ہائی اسکول اور ثانوی سطح پر اردو تعلیم کی سہولیات کے فقدان کے باعث کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اردو شعبوں میں طلبہ کی تعداد گھٹتی گئی اور ان اداروں کو مجبوراً یونی ورسٹی سطح کی اردو تعلیم حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اہلیت کی شرط ختم کرنا پڑی۔ اس پالیسی نے اردو کے فروغ کے سلسلے میں رکاوٹ پیدا کی اور دو طرح کے منفی نتائج سامنے آئے : پہلی بات چونکہ اردو کی اعلا تعلیم حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ اہلیت کی شرط ختم کر دی گئی اس لیے ریاستی حکومتیں پرائمری اور ثانوی سطح پر موثر ڈھنگ سے اردو پڑھانے کی پالیسی نافذ کرنے کی فکر سے آزاد ہو گئیں۔ دوسری بات یہ ہوئی کہ ایسے گریجویٹ اور انڈر گریجویٹ لوگوں کی بھرمار ہو گئی جن کے پاس اردو زبان کی ڈگری تو ہے لیکن سطح بے حد پست ہے۔ پست معیار کے اردو گریجویٹس کی اس بھرمار سے ایک ایسا چکر چل پڑا جس نے اردو تعلیم و تحقیق کے معیار کو مزید پست کر دیا۔

تعلیم یافتہ مسلم اعلا طبقے، ادیب اور کالجوں اور یونی ورسٹیوں کے اساتذہ کی رائے جاننے کے لیے وسیع تر سیاق میں یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھنا ضروری ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کے اعلا اور متوسط طبقے نے 1950 اور 1960 کی دہائی میں شناخت کی تبدیل شدہ صورتِ حال کے تاریخی عمل اور اردو کے جواز کا جو ادراک کیا تھا اس نے بہت اہم رول ادا کیا۔ ہم نے بعض سماجی اور تاریخی عوامل پر بحث کی ہے جنھوں نے اردو کے مستقبل سے متعلق منظر نامے کو دھندلا اور الجھا دیا ہے۔ اِن عوامل کے پیشِ نظر کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں اردو سے ناواقف مسلم طلبہ کو داخلے سے متعلق جس پالیسی کا انتخاب کرنا پڑا، وہ دراصل کوئی متبادل حل نظر نہ آنے کے باعث ایک نازک صورتِ حال کا غماز تھا۔ اردو کے حق میں رائے عامہ کو بیدار کیے بغیر اور تنظیمی سہارے کی عدم موجودگی میں یونی ورسٹی سطح کی اردو تعلیم کے لیے جو خطرناک قسم کا سمجھوتا کیا گیا وہ بذاتِ خود ایک سنگین اور افسوسناک صورتِ حال کا غماز ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تقسیم کے بعد وہ مضبوط جڑیں جن پر اردو زبان کے شجر لہلہا رہے تھے، یکسر اکھڑ گئیں۔ سرکاری سرپرستی کے فقدان اور مارکیٹ میں گھٹتی ہوئی اہمیت کی وجہ سے اس زبان پر بہت ہی ناخوشگوار اور گہرا اثر مرتب ہوا۔ ایک طرف نظریاتی بحران نے اسے نقصان پہنچایا تو دوسری طرف مسلمانوں کے اعلا اور متوسط طبقے کے مدافعانہ رویے نے اردو کے حق میں فضا کو مزید گنجلک بنا دیا۔

 

آزادی کے بعد اردو کی نشوونما

لفظ نشوونما یا ترقی کی تعریف وضع کیے بغیر ہندوستان میں اردو کی ترقی کا جائزہ لینا نہ تو اثباتی انداز سے ممکن ہو گا اور نہ ہی عمومی انداز سے۔ جیسا کہ ہم نے اس دعوے پر مبنی ایک خاکہ تیار کیا ہے کہ کوئی بھی زبان ترقی کی انتہا تک اس وقت پہنچتی ہے جب اسے تنظیمی سطح پر حکومت یا سرکاری اداروں کا سہارا ملتا ہے، جو مارکیٹ کی ان طاقتوں سے مربوط ہوتی ہے جن کا تعلق پیداوار اور مواصلات کے عمل سے ہوتا ہے، جو اعلا پایے کی دانشوری کو فروغ دیتی ہے، جو معقولیت پسندی پر مبنی فروغِ انسانی وسائل کے توسط سے مہارت پیدا کرتی ہے، جسے صرف اس زبان کے بولنے والوں کا ہی نہیں بلکہ اعلا اور متوسط طبقے کا سہارا بھی ملتا ہے اور آخری بات یہ کہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس بات کا امکان موجود ہو کہ یہ تمام عوامل مل کر ایک منظم ثقافتی اور نظریاتی پالیسی کی شکل میں ظاہر ہو سکیں۔ یہ عوامل اُس خوش امیدی کا تعین کرتے ہیں جو زبان کو وہ اعتبار عطا کرتی ہے جس کے تحت اس کا قانونی جواز پیدا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ہی وہ منزل آتی ہے جب اس زبان کے بولنے والوں کو ایک ایسی دنیا میں اعتماد کا احساس ہوتا ہے جہاں مقامی، قومی اور وسیع المشرب زبانیں ’علامتی بالا دستی‘ حاصل کرنے کے لیے شدید طرز کی مسابقت میں مصروف ہوتی ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ تجزیاتی پیمانوں کو سامنے رکھ کر ہندوستان میں زبانوں کا منظم انداز سے جائزہ نہیں لیا گیااور اس سے اردو بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ پانچ نمائندہ ریاستوں (اتر پردیش، بہار، آندھرا پردیش، مہاراشٹر اور مغربی بنگال) کا ایک جائزہ اطہر فاروقی نے کچھ برس پہلے پیش کیا تھا جس سے حکومت کی پالیسی کی روشنی میں اردو تعلیم کے رجحانات سے متعلق ایک تصویر ابھر کر ہمارے سامنے آتی ہے۔ خاص طور سے ’سہ لسانی فارمولا‘ کی روشنی میں جس کا اعلان تعلیم سے متعلق قومی پالیسی کی قرارداد میں کیا گیا تھا اور جس میں 1975 میں گجرال کمیٹی نے ترمیم کی تھی۔ ان پالیسیوں کا اثر اردو کی ترقی پر واضح طور پر مایوس کن رہا ہے کیونکہ پالیسی میں جو خامیاں تھیں وہ اس بات کا موقع فراہم کرتی تھیں کہ جہاں تک ممکن ہو اردو پڑھانے یا اسے بطورِ ذریعۂ تعلیم استعمال کرنے سے بچا جائے۔ یوپی میں تو اردو تعلیم کی صورتِ حال حد درجہ قابلِ رحم ہے :

’’ اردو میڈیم کا کوئی ایک بھی پرائمری یا جونیئر ہائی اسکول موجود نہیں ہے۔ اردو میڈیم کے صرف دو ہائی اسکول ہیں جن کا الحاق علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی سے ہے اور جن کا نظم و نسق بھی یونی ورسٹی ہی کے ہاتھ میں ہے۔ گزشتہ دہائی کے دوران ریاست میں ہر طرف پرائیویٹ اسکولوں کا ایک جال سا بچھ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے تعلیم کے شعبے میں مزید کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔مثلاً یوپی کے 50 سے 60 فیصد اسکول غیر تسلیم شدہ ہیں۔ اس کے باوجود متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو انھی اسکولوں میں بھیجتے ہیں حالانکہ ان کویہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ ان اسکولوں کی حیثیت کاروباری مراکز جیسی ہے۔ ‘‘

(اطہر فاروقی، ہفت روزہ مین اسٹریم، نئی دہلی۔ 1994 صفحہ 781)

غیر تسلیم شدہ ہونے کے باعث ان اسکولوں میں پانچویں جماعت تک ہی پڑھائی ہوتی ہے۔ اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے بچے تسلیم شدہ ہائی اسکولوں یا انٹرمیڈیٹ کالجوں کا رخ کرتے ہیں۔

یوپی میں جونیئر ہائی اسکول امتحان کی سطح پر اردو میڈیم متبادل تو موجود ہے لیکن ایسے طلبہ کی تعداد بہت کم ہوتی ہے۔ 1982 میں ایسے طلبہ کی تعداد 500 سے بھی کم تھی جبکہ اس کے مقابلے اسی سال بہار میں ایسے طلبہ کی تعداد 40,000 تھی۔ مسلم طلبہ پر کچھ اس طرح کا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ ہندی ذریعۂ تعلیم کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ اپنی پسند کی اعلا تعلیم اور روزگار کے حصول میں اس سے مد د ملتی ہے۔ اردو کے ذریعے تعلیم دینے کی کچھ نئی اسکیمیں ہیم وتی نندن بہو گنا کے زمانے میں شروع ہوئی تھیں لیکن نیک نیتی اور اہل اساتذہ کے فقدان کے باعث اس سلسلے میں خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ اس کے برخلاف بہار کی صورتِ حال اچھی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہاں کے مسلم فرقے نے اپنی مد د آپ کرنے کا اصول اپنایا ہے۔ وہاں اردو کی تعلیم دینی مدارس میں پڑھائی جانے والی مقدس کتابوں سے مربوط ہے۔ بہار میں دینی مدارس کو مسلم متوسط اور نچلے طبقے کی زبردست حمایت حاصل ہے اور وہاں اردو کو ملنے والی طبقاتی حمایت یو پی سے مختلف اور بہتر ہے۔ فاروقی کا کہنا ہے : ’’بہار میں ہر سال اردو میڈیم کے 60ہزار طلبہ جونئیر ہائی اسکول اور ہائی اسکول کا امتحان دیتے ہیں جسے حکومتِ بہار دوسرے تسلیم شدہ بورڈز کے مساوی تسلیم کرتی ہے۔ اس بات کی کوشش بھی پہو رہی ہے کہ اِس طرز کے اسکولوں میں سائنس اور ٹکنالوجی (پیشہ ورانہ) کی تعلیم کا بھی انتظام کیا جائے۔ ان طلبہ کو ایک اہم مسئلہ یہ درپیش ہے کہ نصاب کی معیاری کتابیں اردو میں دستیاب نہیں ہوتیں ، پھر مدرسہ بورڈ میں نظم و نسق کی سطح پر جو خامی ہے اس کے باعث بھی اردو تعلیم کا فروغ صحیح سمت میں نہیں پہو رہا ہے۔ بہتر نصاب کی ضرورت تو مسلم معاشرہ عرصے سے اور شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ ‘‘

اردو تعلیم کے فروغ کے معاملے میں مہاراشٹر نے اچھی مثال پیش کی ہے۔ اس کامیابی کا سہرا بطورِ خاص پرائیویٹ اور رضاکار حلقوں کے سر ہے۔ اس میں تجارت پیشہ لوگوں کی انفرادی کوششیں اور ان کے مختلف ٹرسٹوں کی خدمات بھی شامل ہیں۔ یہ لوگ اردو میڈیم اسکولوں کا نظم و نسق بحسن و خوبی چلاتے ہیں۔ پڑھائی لکھائی کا انتظام بڑی باقاعدگی اور پابندی سے ہوتا ہے اور معیار پر کافی توجہ دی جاتی ہے۔ صرف ممبئی شہرہی میں رجسٹرڈ اردو میڈیم ہائی اسکولوں کی تعداد 124 ہے جبکہ پورے مہاراشٹر میں 230 رجسٹرڈ اردو میڈیم اسکول قائم ہیں۔

اس سلسلے میں مہاراشٹر حکومت بھی تعاون اور مد د کرتی رہی ہے۔ متوسط طبقے کے مسلمان اپنے بچوں کی، اردو میڈیم اسکولوں میں پڑھنے کے لیے بڑی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کیونکہ ان اسکولوں کا معیار بلند ہوتا ہے۔ شاید اس صورتِ حال کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ اس علاقے کے مسلمانوں میں تجارتی حلقے کی روایات موجود ہیں جن کے باعث ایسی قدروں کو فروغ حاصل ہوا جن کے سہارے مسلمانوں میں تہذیبی خود آگہی نے اپنی جڑیں استوار کیں اور انھوں نے اردو کو جدید مضامین کا وسیلہ اور تہذیبی ورثہ سمجھ کر اسے فروغ دیا۔ مہاراشٹر کے جونیئر کالجوں اور دیگر اعلا تعلیمی اداروں میں بھی اختیاری مضمون کی حیثیت سے اردو پڑھائے جانے کی سہولتیں موجود ہیں۔ بعض پبلک اسکول بھی اردو پڑھانے کی آسانیاں مہیا کرتے ہیں۔ مہاراشٹر اس اعتبار سے ایک روشن مثال ہے کہ یہ ریاست اس حقیقت سے آشنا کراتی ہے کہ رضاکارانہ کوششوں اور ریاست کے تعاون سے تعلیم کو بحسن و خوبی فروغ دے کر اچھے نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔

اردو تعلیم کی صورتِ حال کا جائزہ جنوبی ہند کی ریاست آندھرا پردیش میں بھی لینے کی ضرورت ہے۔ دکن صدیوں تک اردو ادب اور علم کے فروغ کا ایک مرکز رہا ہے۔ لکھنؤ اور دلی کے ساتھ ساتھ حیدرآباد نے بھی اردو میں ادبی تخلیقات کے فروغ کی سرپرستی کی ہے۔ ساتھ ہی اس نے خصوصی طور پر نئے لسانی اسلوب اور نفاست سے بھی اس زبان کو آشنا کرایا ہے۔ تقسیم سے قبل اس علاقے میں اردو کو سرکاری سرپرستی اور اعلا طبقے کی حمایت حاصل تھی۔ صوبوں کی تنظیمِ نو سے قبل کی ریاستِ حیدرآباد میں عثمانیہ یونی ورسٹی ایک ایسی یونی ورسٹی تھی جس میں انجینئرنگ اور طب سمیت اعلا سطح کی تعلیم اردو زبان ہی کے ذریعے دی جاتی تھی لیکن صوبوں کی تشکیلِ جدید کے بعد ریاستِ آندھرا پردیش میں اردو کی حالت اب ویسی نہیں رہی۔ فاروقی کا کہنا ہے کہ: ’’حیدرآباد میں اردو بہت تیزی سے موت کی جانب قدم بڑھا رہی ہے۔ ‘‘ اردو درس و تدریس کا معاملہ اندرونِ خانہ محدود ہو کر رہ گیا ہے یا  پھر یہ مدرسوں اور رضاکار تنظیموں کا مرہونِ منت ہے اور یہاں اسکول چھوڑنے (dropout)کا رجحان بھی بہت زیادہ ہے۔ حیدرآباد کے پہلی سے نویں جماعت تک کے 40 فیصد طلبہ اور ہائی اسکول کی سطح پر 43 فیصد درمیان ہی میں اسکول کو خیرباد کہہ دیتے ہیں۔

ریاست میں اردو تعلیم کی یہ صورتِ حال اردو زبان و ادب اور اس کی تہذیبی شناخت کی حفاظت سے متعلق مستقبل کی پالیسی پر گہرا اثر مرتب کرے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو تعلیم کو جدید کاری، سائنس اور ٹکنالوجی نیز مارکیٹ کی مثبت اور توانا تہذیبی قدروں سے مربوط کیا جائے۔ یہاں یہ بات محسوس کی گئی ہے کہ حکومت کا رول، چند مستثنیات سے قطعِ نظر بہت محدود نوعیت کا رہا ہے جو سنگین مضمرات کا حامل ہو سکتا ہے۔ اردو ادبی بلوغت کی حامل ایک زبان، ایک اسلوب اور ایک ذیلی کلچر کے طور پر ارتقا پذیر ہوئی اور اس کی وجہ یہ رہی ہے کہ اس کا تعلق لشکری خیموں ، دربار اور بازار جیسے اداروں سے بہت گہرا رہا ہے۔ لیکن جدید کاری کے ساتھ ساتھ یہ تمام ادارے تبدیلی کے عمل سے گزرے ہیں۔ لشکر اور دربار جیسی چیزوں کی جگہ اب جدید جمہوری ریاست نے لے لی ہے جہاں کی سرگرمیاں سیاسی دباؤ اور گروہی مفادات کی مرہونِ منت ہوتی ہیں۔ آزادی کے بعد لسانی بنیاد پر جب ریاستوں کی تنظیمِ نو ہوئی تو اردو کے حصے میں کوئی علاقہ نہیں آیا۔ اسے ایک زبان کے طور پر تو تسلیم کیا گیا لیکن سیاسی سطح پر اس کی طاقت ختم ہو گئی۔ اس صورتِ حال کے علاوہ تقسیم کے بعد مسلم فرقے کی شناخت کے مسئلے نے جو رخ اختیار کیا اس کے باعث اردو کی ترقی کے لیے ماحول سازگار نہ رہ سکا۔ سماجی اور نفسیاتی سطح پر کچھ ایسے عناصر پیدا ہو گئے جن کے باعث لسانی ورثے کے طور پر اردو زبان سے متعلق حقیقی اور فرضی نوعیت کی متعدد توضیحات سامنے آئیں اور مسئلہ مزید الجھ گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آزاد ہندوستان میں اردو زبان اپنی ڈگر سے ہٹ گئی۔

اطہر فاروقی نے ہندوستان میں اردو زبان کے مستقبل سے متعلق متعدد پہلوؤں اور اس کی ترقی کے ناکافی امکانات کے وجوہ جاننے کے لیے 200 اسکالرز کے خیالات جاننے کے بعد جو رپورٹ پیش کی ہے وہ بڑے دلچسپ نتائج سامنے لاتی ہے۔ بیش تر اسکالر اردو زبان و ادب کو مشترکہ ہندوستانی کلچر کا عنصر سمجھتے ہیں جس میں مسلمانوں اور غیر مسلموں ، دونوں کی حصے داری ہے۔ وہ اردو کا رشتہ خصوصی طور پر اسلام یا مسلمان فرقے سے نہیں جوڑتے۔ وہ یہ بھی نہیں تسلیم کرتے کہ ہندی اور اردو کے مابین کوئی ٹکراؤ ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ دونوں بہنیں ہیں جو تاریخی عمل اور اس کی سیکولر روایات کی امین ہیں۔ اردو کی ترقی کے لیے جو بہتر ماحول پیدا نہ ہو سکا، اس کے لیے اردو کے عام اسکالر اس رویے کو ذمّے دار قرار دیتے ہیں کہ حکومت پر ضرورت سے زیادہ بھروسا کیا گیا۔ یہ بات بھی محسوس کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں میں اپنے بچوں کو اردو میڈیم کے ذریعے نہ پڑھانے اور اردو ادب، اخبارات اور رسائل کی سرپرستی نہ کرنے کا جو رجحان ہے، وہ بھی اردو کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اردو زبان و ادب کا اہم اور بنیادی کر دار سیکولر ہی رہا ہے لیکن بدلتے ہوئے بنیادی حقائق اور اردو کی ترقی کا نیا ڈھانچہ اسے تیزی سے اس قلمرو میں لے جا رہا ہے جہاں اسلامی روایات کا غلبہ ہے۔ اب اس کی وضاحت تو مسلمانوں کے اندر اور باہر کی، بدلتے ہوئے سماجی ڈھانچے کی طاقتیں ہی اپنے اپنے طور پر کر سکتی ہیں لیکن اردو تعلیم کے ضمن میں حکومت کی سرد مہری اور فرقہ وارانہ انداز کی حکمتِ عملی بطورِ خاص اسے غیر سیکولر عناصر سے آشنا کرانے کی ذمے دار رہی ہے۔

تعلیمی اداروں ، اسکولوں اور کالجوں میں تعلیم کے مخلوط ڈھانچے میں اردو کو شامل نہ کیے جانے کے باعث نچلے متوسط طبقے کے مسلمان تاجروں ، دستکاروں اور کسانوں کی قیادت نے یہ ذمے داری سنبھال لی اور اس طرح اردو تعلیم کا مرکز دینی مدارس میں منتقل ہو گیا جہاں تعلیم کے بنیادی ڈھانچے پرہی مذہبی روایات کا رنگ چڑھ جاتا ہے اور اس طرح مذہب اور تعلیم کے درمیان ایک طرح کا ربط پیدا ہو جاتا ہے۔ اس میں بھی کوئی مضائقہ نہ ہوتا اگر دینی تعلیم کو بھی جدید اقدار اور پیشہ ورانہ مہارت سے جوڑ دیا جاتا۔ مدرسوں کے نصاب اور نصابی کتابوں کا جائزہ لینے سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ اس جانب کافی اصلاح کی ضرورت ہے۔

دانشوروں کے اس اصرار کے باوجود کہ اردو سیکولر اور مشترکہ کلچر کی امانت دار ہے اور اس کا یہ کر دار برقرار رہنا چاہیے، یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ پچاس برسوں کے درمیان یہ بطورِ خاص مسلم فرقے سے وابستہ ہوتی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف تو بعض ریاستی حکومتوں نے اردو کی ترقی سے متعلق ایسی پالیسیاں وضع کیں جو اردو عوام کی دل چسپی کا مرکز نہ بن سکیں تو دوسری طرف مسلم قیادت نے اس بات پر تو زور دیا کہ اس کے تہذیبی اور مذہبی ورثے کا تحفظ کیا جائے مگر اس طرف کوئی توجہ نہ دی کہ مذہبی تعلیم کے نظام میں جدید تعلیم کا عنصر بھی شامل ہو۔ دینی مدارس نے اردو زبان و ادب کی تعلیم بھی کچھ اس نہج پر اپنے طلبہ کو دی گویا یہ مسلمانوں کی مذہبی اور تہذیبی شناخت کا محور ہو۔ لہٰذا اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے مستقبل میں جو پالیسی وضع کی جائے گی اس میں کئی طرح کے ایسے مسائل سر اٹھائیں گے جو ماضی میں حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں نظامِ تعلیم کا حصہ بن گئے ہیں۔ ان میں سے ایک مسئلہ یہ ہو گا کہ اردو تعلیم کا رشتہ ملک میں اور بیرونِ ملک ابھرنے والے مارکیٹ مظاہر سے کس طور پر جوڑا جائے۔

 

اردو تعلیم، ذرائع ابلاغ اور مارکیٹ

روایتی طور پر اردو کا وجود مارکیٹ (بازار) سے اس کے گہرے ربط کا مرہونِ منت رہا ہے۔ بلاشبہ اسے حکمراں اور اعلا طبقے کی سرپرستی حاصل رہی لیکن مارکیٹ سے بھی اس کا رشتہ بہرحال استوار رہا۔ اردو کے تعلیم یافتہ طبقے کے لیے بھی کافی مواقع میسر تھے۔ جاگیردار امرا کے سِوِل، عدالتی اور محصولاتی محکموں کا نظم و نسق چلانے میں بھی اردو کی ضرورت پیش آتی تھی۔ برطانوی دور میں بھی یہ صورتِ حال برقرار رہی۔ آزادی اور تقسیم کے بعد اقتصادی اور سماجی ڈھانچے اور تعلیمی پالیسی میں اہم تبدیلیاں لائی گئیں۔ اس کے باعث اردو تعلیم ایک نئی صورتِ حال سے دو چار ہوئی اور مارکیٹ سے جو اس کا رشتہ تھا، وہ بھی قطعی نئے ماحول میں داخل ہو گیا۔ پہلے جیسے تنظیمی رابطے بیشتر شعبوں سے ٹوٹ گئے۔ تعلیم یافتہ اردو داں طبقے کے لیے مارکیٹ کا دروازہ بند ہونے لگا اور اس کا دائرہ تنگ سے تنگ ہوتا گیا اور بالآخر یہ زبان یونی ورسٹی کی درس و تدریس کے شعبے میں چند دستیاب مواقع تک محدود ہو کر رہ گئی۔ کافی عرصے بعد میڈیا اور ابلاغِ عامہ میں کام کے کچھ مواقع نظر آئے لیکن اس کا انحصار بھی اردو پریس، اشاعت کی صنعت اور براڈ کاسٹنگ میڈیا کے مجموعی فروغ پر ہے۔ مسلم فرقے کی اقتصادی ترقی اور سماجی جدید کاری کے عمل میں تیزی لانے کے لیے جو پالیسی وضع کی جائے گی، اس کے لیے یہ ضروری ہو گا کہ ہم اس بات کا باریکی سے جائزہ لیں کہ اردو تعلیم اور مارکیٹ کے درمیان کیسے اور کس نوعیت کا ربط قائم کریں۔

آزادی کے بعد اُن اداروں کا کر دار قطعی بدل گیا جو روایتی طور پر اردو زبان اور تعلیم کی سرپرستی کرتے تھے۔ وہ روایتی بازار جو جاگیردارانہ تجارت پر مبنی معیشت پر قائم تھا اور جس کی پیداوار دست کاری کے طریقِ کار کی مرہونِ منت ہوتی تھی، اسے صنعتی ترقی کے حصار میں دھکیل دیا گیا۔ اب یہ تیزی سے معیشت کے نئے خدماتی شعبے کے شکنجے میں جکڑتا جا رہا ہے۔ عہدِ وسطیٰ اور نو آبادیاتی دور میں دربار کا جو ڈھانچہ تھا، وہ بدل گیا۔ اس کی کچھ خصوصیات کہیں کہیں بھلے ہی بچ گئی ہوں لیکن عام طور سے ان کا قانونی جواز باقی نہیں رہا۔ جاگیرداری اور اس کی سماجی اور تہذیبی اساس کو ختم کر دیا گیا۔ ملک آج کل انفارمیشن ٹیکنالوجی انقلاب کے زبردست لیکن صبر آزما عمل سے گزر رہا ہے۔ ان تمام واقعات نے متعدد تہذیبی اور سماجی اداروں اور حلقوں میں قانونی جواز کا بحران پیدا کر دیا ہے اور ان میں سے بیشتر اس وقت ایسے عمل سے گزر رہے ہیں جس کے تحت وہ نئے حقائق سے خود کو مربوط کر سکیں۔ اس عمل سے زبان اور تعلیم کا معاملہ بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔

اردو زبان کی ترقی سے متعلق مستقبل میں جو بھی منصوبہ بندی کی جائے گی اس میں مارکیٹ اور معیشت سے اسے جوڑنے کا سوال ہی کلیدی اہمیت کا حامل ثابت ہو گا۔ مواصلات اور میڈیا انقلاب کے سہارے معیشت اور ٹیکنالوجی کی جو عالم کاری پہو رہی ہے، وہ زبان اور مارکیٹ کے درمیان مضبوط رابطہ قائم کرنے کا جواز فراہم کرتی ہے جس کے سہارے زبان اندرونِ ملک اور ملک سے باہر اپنے تہذیبی اور اقتصادی رول کو فروغ اور وسعت دے سکتی ہے۔ مختلف اقوام کے درمیان ترکِ وطن کا رجحان اتنا بڑھ گیا ہے کہ عالمی پیمانے پر مختلف فرقوں کے مابین مضبوط تہذیبی اور لسانی رشتے استوار پہو رہے ہیں۔ ٹیلی مواصلات، صحافت، میڈیا اشتہار سازی، حفظانِ صحت، درس و تدریس اور علامتی یا ’کلچرل مصنوعات‘ کی نشر و اشاعت کے شعبوں سے وابستہ افرادی قوت کو پیشہ ورانہ مہارت والے شعبوں میں بالا دستی حاصل ہے۔ تجارت، بینک کاری، انشورنس، نقل و حمل، مینجمنٹ اور ہنر مندی، یہ وہ شعبے ہیں جو نئے صنعتی سماج میں خدمات کے رول کو مزید اجاگر کرتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں مل کر سرمایہ داری اور صنعت کاری کے ڈھانچے اور کار کردگی میں شاندار اور نمایاں تبدیلی کا باعث بن رہی ہیں۔ آج اعلا ہنر مندی اور پیشہ ورانہ مہارت کی طلب کام کرنے والوں سے کہیں زیادہ ہے۔

روزگار کے متلاشی افراد کے لیے مارکیٹ کی صورتِ حال کا تعین تعلیم اور اطلاعات جیسی چیزیں کرتی ہیں۔ نئی سرمایہ دارانہ اور مابعد صنعتی معیشت نہ صرف کلچر اور صارفیت کے ڈھانچے کو عالم کاری سے روشناس کرا رہی ہے بلکہ نسلی اور لسانی میل جول کو فروغ دے کر مقامی اور ذیلی کلچر کے مخصوص علاقے بھی قائم کر رہی ہے۔ اس عمل میں مواصلاتی نظام بھی معاون ثابت پہو رہا ہے کہ اس کا سلسلہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ جیسی اطلاعاتی ٹیکنالوجی سے بھی جڑا ہوا ہے۔ اس طرح گویا اقلیتی یا مقامی لسانی گروپ بھی مارکیٹ کی اس گہماگہمی سے استفادہ کر سکتے ہیں خاص طور سے ثقافت، صحافت، مواصلات اور تجارت کے شعبوں میں ، بشرطیکہ وہ جدید تقاضوں سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کریں۔ اس عمل میں اردو کو بھی مستثنیٰ نہیں سمجھنا چاہیے۔ اقتصادی ترقی کا جو نیا نقشہ ہے اس نے نہ صرف یہ کہ بیرونی طور پر (ملک سے باہر) زبانوں کے لیے مارکیٹ کی صورتِ حال کو ایک نیا رخ دیا ہے بلکہ اندرونِ سماج بھی اسے نئی جہت سے آشنا کرایا ہے۔ وہ اہم عوامل جو گھریلو مارکیٹ میں زبانوں کی بقا کا موجب بنتے ہیں ان میں زبان سے متعلق درس و تدریس کو جدید کاری سے آشنا کرانا اور اسے اس طور پر بڑھاوا دینا شامل ہے کہ اس کا جھکاؤ خدمات کی جانب ہو، مزید برآں اس میں وہ تکمیلی صلاحیت بھی پیدا کرنا ہے جو لسانی فرقے کے اندر نظامِ تعلیم میں ایسی ہنر مندی اور پیشہ ورانہ مہارت کو سمو سکے جس کی ابھرتی ہوئی نئی معیشت متقاضی ہو۔ تعلیم میں ان نئی مانگوں پر جو توجہ دی جائے گی، اس کا اثر مارکیٹ میں کسی بھی زبان کے امکانات پر پڑے گا۔ مثال کے طور پر کسی بھی فرقے کی شرح خواندگی اس  خاص زبان کے پرنٹ میڈیا کی اشاعت پر براہِ راست اثرانداز ہوتی ہے۔ اردو زبان میں کلچر اور ہنر مندی کے مواقع کو فروغ دینے میں پریس، ریڈیو، ٹیلی ویژن، اور دوسرے ذرائع ابلاغ کا رول جو نسبتاً کم رہا ہے اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ حکومت اور کارپوریشن وغیرہ کی پالیسی ناقص رہی ہے بلکہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مسلمان فرقے میں شرح خواندگی کم ہے۔

اردو صحافت اور پریس کا فروغ مسلمان فرقے کی توقعات سے ہم آہنگ نہیں رہا ہے۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات نے جو اعداد وشمار دیے ہیں ان کے مطابق 1992 میں 347 اخبارات/جرائد کی تجدید ہوئی تھی لیکن ان میں صرف 50 ہی عوام تک پہنچتے ہیں۔ اس مسئلے کا جائزہ لینے پر پتا چلا کہ تقسیم کے بعد اردو اخبارات و رسائل کی توسیعِ اشاعت میں زبردست گراوٹ آئی تھی مگر 1980 کی دہائی میں قدرے بہتری نظر آئی کہ اُسی دوران بعض روزانہ اخبارات نئے سرے سے جاری کیے گئے اور بعض اخبارات جن کی اشاعت بند ہو گئی تھی، ان کا دوبارہ اجرا ہوا۔ روزناموں کی اشاعت کاغذوں پر کافی ہے مگر قارئین کی تعداد محدود ہوتی جاتی ہے اور اعلا متوسط طبقے ان اخبارات کی خاطرخواہ پذیرائی نہیں کرتے۔ جنوبی ہند کے مسلمان اپنی علاقائی زبانوں میں اشاعت کو فروغ دیتے ہیں اگرچہ اردو پریس کی صورتِ حال بھی وہیں کچھ بہتر ہے۔

طاقتور اور معروضی اردو پریس اور اشاعتِ ادب کی اہمیت صرف اسی پہلو تک محدود نہیں ہے کہ اس سے اردو تعلیم یافتہ طبقے کے لیے مارکیٹ میں بہتر امکانات پیدا ہوں گے بلکہ یہ اس لیے بھی اہم ہے کہ مسلم فرقے کو مواصلات کا ایک معتبر وسیلہ میسر آئے گا جس کے توسط سے سماجی اقتصادی اور تہذیبی حالات و واقعات کے بارے میں متوازن اور ذمہ دارانہ اطلاعات فراہم کی جا سکیں گی اور اس طرح اہم اور ضروری معاملات کے بارے میں اعتدال پسندانہ نقطۂ نظر کو فروغ حاصل ہو گا۔ پریس صرف خبر رسانی کا ذریعہ نہیں بنتا بلکہ حقائق کی تعبیر و تاویل کا وسیلہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ بعض اوقات فرقہ وارانہ تناؤ کی صورتِ حال میں پریس کا رول بہت حساّس نوعیت کا ہو جاتا ہے۔ انگریزی اور علاقائی زبانوں کے اخبارات کے تقابلی مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ واقعات کی رپورٹنگ کرتے وقت علاقائی زبانوں کے اخبار تعصب اور جانبداری کا شکار ہو جاتے ہیں اور اس کا اظہار نمایاں طور پر شائع کیے گئے مضامین اور اداریوں میں ہوتا ہے جبکہ قومی (انگریزی) اخبارات اس معاملے میں بہتر رول ادا کرتے ہیں۔

اس معاملے میں ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں کے اخبارات کا رول بھی ہماری خصوصی توجہ کا متقاضی ہے۔

ہمارا معاشرہ ایک مخلوط اور جمہوری معاشرہ ہے لہٰذا نظریاتی اختلافات یہاں بہرحال موجود رہیں گے اور اسی طرح سماجی اقتصادی اور ثقافتی شعبوں میں مفادات کے ٹکراؤ کا سلسلہ بھی چلتا رہے گا۔ پریس ابلاغِ عامہ کا ایک طاقتور ذریعہ ہوتا ہے لہٰذا اس کی یہ ذمے داری  ہے کہ وہ نہ صرف حالات و واقعات نیز نقطۂ ہائے نظر کو متوازن اور تعمیری انداز سے پیش کرے بلکہ عوامی شناخت کے ڈھانچے سے وابستہ ثقافتی نشانات و علائم اور امنگوں کی بھی حقیقی تصویر سامنے لائے۔ گویا پریس شناخت کے مسئلے کو توانا بنائے۔ یہ بات تمام نسلی گروپوں اور حلقوں پر صادق آتی ہے لہٰذا ہندوستانی مسلمانوں پر بھی اتنی ہی صادق آتی ہے کہ اس ملک میں 12 کروڑ مسلمان آباد ہیں۔ پریس کو ایک سرگرم اور مربوط طریقۂ کار اختیار کرنا پڑے گا تاکہ نہ صرف یہ کہ وہ اردو تعلیم کو فروغ دینے میں تعاون کر سکے بلکہ اطلاعات کی بہم رسانی کا ایک معتبر اور ذمے دار وسیلہ بھی ثابت ہو سکے۔ یہ بات اس لیے بطورِ خاص ضروری ہو جاتی ہے کہ مسلمانوں میں عام طور سے یہ احساس پایا جاتا ہے کہ پریس نے ان کے سماجی، اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی مسائل کو پورے طور پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش نہیں کی۔

ہمارے مستقبل کے سماج کو پریس اور الیکٹرانک میڈیا مثلاً ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ، فیکس، ای میل اور ملٹی میڈیا جیسی چیزیں ، نئے نظامِ اطلاعات اور نظریات کی بشارت دے رہے ہیں۔ ترقی یافتہ ملکوں میں اس سلسلے میں جو کچھ پہو رہا ہے اس سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ یہ چیزیں ریاست، مارکیٹ، طبقے اور ثقافت پر نہ صرف اپنے اثرات مرتب کر رہی ہیں بلکہ نئے سرے سے ان کی تصریح بھی کر رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں بہت سی موجودہ اور گزشتہ قدروں کو حرفِ غلط بناتی جا رہی ہیں۔ ٹکنالوجی، مینجمنٹ اور مارکیٹنگ کے اعتبار سے آئندہ پریس کو بڑے دباؤ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج مواصلاتی انقلاب جس انداز سے انگڑائیاں لے رہا ہے اس کے نتیجے میں پوری دنیا میں چھوٹے اور برائے نام قسم کے فرقوں کی خود اختیاری میں لازماً اضافہ ہو گا۔ اس سے ان کی شناخت کو برقرار رکھنے میں بھی مد د ملے گی۔ غرضیکہ مواصلاتی انقلاب نہ صرف ثقافتی اختلاط پیدا کرے گا بلکہ مخلوط کلچر اور ذیلی کلچر کی شناخت کو مزید اجاگر کرے گا۔ یہ خوش آئند تبدیلیاں اعلا تعلیم یافتہ سماج کو مزید نعمتیں فراہم کریں گی۔ ہندوستانی مسلمان اس اعتبار سے کچھ زیادہ ہی محرومی کا شکار ہیں۔

اردو تعلیم اور اردو پریس نے اُن علاقوں میں بہتر صورتِ حال کا مظاہرہ کیا ہے جہاں تعلیم یافتہ مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی تعداد معقول ہے جو تجارت یا کاروبار سے وابستہ ہیں۔ یہ لوگ اردو اخبارات نہ صرف جاری کرتے ہیں بلکہ ان کی سرپرستی بھی کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ان علاقوں میں بھی اردو صحافت کی بہتر صورتِ حال نظر آتی ہے جہاں اردو داں طبقے کی آبادی کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن تہذیبی شناخت کا احساس بہت گہرا ہے۔ اطہر فاروقی نے اردو صحافت پر اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے :

’’ہندوستان کے اُن علاقوں میں اردو صحافت کا ماحول کہیں زیادہ سازگار ہے جہاں کے مسلمان اپنی شناخت پر فخر کرتے ہیں اور مقامی کلچر کی روایات کو بھی پُر جوش طریقے سے اپناتے ہیں۔ ہرچند کہ ایسے تمام علاقوں میں شمالی ہند کے مقابلے اردو جاننے والوں کی تعداد کہیں کم ہے مگر اردو کے حالات ان تمام جگہوں پر حوصلہ افزا ہیں۔ حتیٰ کہ اُن علاقوں میں بھی جہاں کے مسلمانوں کی مادری زبان اردو نہیں ہے اردو کی صورتِ حال شمالی ہند سے بہت بہتر ہے۔ اردو کے تئیں یہاں کے مسلمانوں کا رویہ جذباتی نہیں بلکہ معقولیت پسندانہ ہوتا ہے۔ ‘‘ (1995:101)

یہاں ایک بات اور کہی جا سکتی ہے کہ اقتصادیات اور تعلیم کے شعبے میں جنوبی اور مغربی ہند کے مسلمانوں کی بہتر صورتِ حال نے انھیں سماجی اور ثقافتی سطح پر استحکام بخشا ہے اور انھوں نے پورے اعتماد کے ساتھ اپنی شناخت اپنے طور پر قائم کی ہے  مطالعے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ کوئی بھی فرقہ جب تعلیمی اور اقتصادی طور پر مضبوط ہوتا ہے تو تہذیبی خود آگہی مثبت شکل اختیار کرتی ہے اور اس طور پر دونوں عوامل کے درمیان بہتر مطابقت پیدا ہو جاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

حواشی

 

 

.1        Bourdieu P., Language and Symbolic Power, Cambridge: Polity Press, 1991, pp. 50-1.

.2        Singh, K.S., ‘People of India: An introduction, Calcutta: Anthropological Survey of India, 1992, p.23.

.3        Ibid, pp. 23-4

.4        Singh, Khushwant, ‘With Malice Towards One and All’, Hindustan Times, 25 April 1998.

.5        Alam M., Manzoor, ‘Indian Muslims’ Challenge of 21st Century, Azad Alam M., Academy Journal, 1-31 May 1998, pp. 10-11.

مسلمان قوم کی پستی کا عکس خاص طور پر ان کی ناخواندگی کی نچلی سطح پر واضح ہے۔ پلاننگ کمیشن 1987-88 کے مطابق ملک کی خواندگی کا  فی صد تقریباً 52  تھا۔ جب کہ مسلمانوں کا فی صد 42 تھا۔ مسلمانوں اور ہندؤوں کے اس تناسب میں قابلِ لحاظ فرق ہے۔ ہندو لڑکوں کا فی صد، جنھوں نے ہائی اسکول کامیاب کیا، 7.9 ہے جب کہ مسلمانوں کا 4.5 ہے۔ ہائی اسکول سے آگے جانے والے ہندو لڑکوں کا فی صد 3.4 ہے جب کہ مسلمان لڑکوں کا 1.2 ہے۔ ہندو گریجوئٹس 7.9 فی صد ہیں اور مسلمان 2.3 ہیں۔ تعلیم ترک کرنے والوں کا فی صد مسلمانوں میں کافی بڑھا ہوا ہے۔ ضروری تعلیم حاصل کرنے سے قبل ہی ایک تہائی مسلم لڑکے تعلیم ترک کر دیتے ہیں۔ درمیانی سطح پر تعلیم ترک کرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ بیس تا چوبیس سال کی عمر میں یہ کوئی 50 فی صد ہے۔ مسلم خواتین کا حال اور بھی افسوس ناک ہے۔ مسلم خواتین کا خواندگی کا فی صد 34 ہے۔ صرف ایک فی صد عورتیں ہی ہائی اسکول تک پہنچ پاتی ہیں۔ ہریانہ کی رپورٹ کے مطابق اس ریاست میں خواتین کی نا خواندگی صد فی صد ہے۔ ملک کی سطح پر مسلم خواتین بہت پیچھے ہیں۔ شہری علاقوں میں بھی مسلم خواتین کی اعلیٰ تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔

.6        ایضاً ص 13 الکشن میں مسلمانوں کے ووٹ جن کانسٹی ٹیونسیز میں فیصلہ کن ہیں ان میں سارے ہندوستان میں 120 پارلیمنٹ اور 170 اسمبلی کی نشستیں ہیں۔ اس کا تقابل 5.19 فی صد مسلم نمائندگی (128 ارکان) بارہویں لوک سبھا سے کیجئے۔ 1980 میں (46 ارکان) 8.5 فی صد نمائندگی سب سے زیادہ تھی۔ یو پی لوک سبھا میں مسلم منتخب شدہ ارکان کی تعداد قابل لحاظ حد تک گھٹ گئی ہے جب کہ ریاست میں ان کی آبادی 22 فی صد ہے۔

.7        Khurshid, Salman, ‘A Note on Urdu Education’ 1997

.8        Farouqui, Ather, ‘Emerging Dilemma of Urdu in India: A Viewpoint’, South Asia, New Series, vol. XVIII, no 2, December 1995, p. 101.

Farouqui, Ather, ‘Future Prospects of Urdu in India’, Mainstream Annual, NOvember 1992.

Farouqui, Ather, ‘Urdu Education in India: Four Representative States’, Economic and Political Weekly, Vol. XXIX, no. 14, April 1994.

.9        Ibid.

٭٭٭

 

 

 

 

اکیسویں صدی کے ہندوستان میں اردو

 

باربرا ڈی مٹکاف

 

بہت سمجھے تھے ہم اس دور کی فرقہ پرستی کو

زباں بھی آج شیخ و برہمن ہے ہم نہیں سمجھے

اگر اردو پہ بھی الزام ہے باہر سے آنے کا

تو پھر ہندوستاں کس کا وطن ہے ہم نہیں سمجھے

چمن کا حسن تو ہر رنگ کے پھولوں سے ہے راشدؔ

کوئی بھی پھول کیوں ننگِ چمن ہے ہم نہیں سمجھے (1)

راشد بنارسی کی اس غیر مطبوعہ نظم کے یہ اشعار ہندوستان میں اردو کے موقف سے تعلق رکھنے والی کسی بھی بحث کے موضوعات کو واضح یا مربوط طور پر اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک موضوع تو زبان کی چاشنی اور اس کے حسن کا ہے جس پر زور دیا گیا ہے اور جس کا اظہار ان سیدھے سادے اشعار سے بھی ہوتا ہے۔ اس بات سے کم ہی لوگوں کو اختلاف ہو گا کہ اردو یقیناً ایک ایسا پھول ہے جو کسی بھی لسانی چمن کی رونق کے لیے ضروری ہے۔ دوسری بات جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اردو پر یہ الزام ہے کہ وہ ایک غیر ملکی زبان ہے۔ وہ ہماری ’ہم وطن‘ نہیں۔ شاعر نے اس کو شدت سے ادا کیا ہے۔ اسی سے وابستہ کہا ہوا یا ان کہا وہ مفروضہ بھی ہے کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے۔ شاعر اس بات کو واضح کرنا چاہتا ہے کہ یہ ایک فرقہ پرستانہ رویہ ہے شیخ و برہمن کے ترجمانوں کا! لیکن خود شاعر گنگ ہے کہ زبان کے بارے میں کوئی شخص اس طرح کی اصطلاحیں کیسے استعمال کر سکتا ہے۔ غرض ان تمام باتوں پر توجہ کی ضرورت ہے جن کے بارے میں نظم میں اشارہ ملتا ہے اور جو ڈاکٹر ذا کر حسین کے اردو مذا کروں کا کلیدی نکتہ ہے۔ وہ مرکزی خیال ہے اردو کو ذریعۂ تعلیم بنانا جس کے ذریعے یہ زبان زیادہ سے زیادہ طلبہ تک پہنچے اور ان کے لیے ایسے ذرائع فراہم کرے کہ ان کی نفسیاتی اور ذہنی نشوونما ہو۔

 

1947 تک ہندوستان میں اردو

لسانی یا ادبی نہیں بلکہ تاریخی نقطۂ نظر سے گفتگو کی جائے تو اردو کے بارے میں تین اہم نکات سامنے آتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں دہلی اور لکھنؤ جیسے شہروں میں اردو، شاعری کی زبان کے طور پر ابھری۔(2)حالیہ چند برسوں کی تاریخ کی تحقیق نے اس کی تشکیل نو کی۔ اس دور کو انحطاط، تباہی اور انتشار کا دور قرار دیا۔ برطانوی تاریخ دانوں اور قوم پرست تاریخی تحریروں سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ دور زوال اور انحطاط کا دور تھا۔(3) حقیقتاً اس دور میں مرکزیت تحلیل ہو چکی تھی اور افغانوں اور ایرانیوں کے حملوں نے دہلی میں ہی نہیں بلکہ ان تمام علاقوں میں تباہی مچائی تھی جہاں سے یہ گزر کر آئے تھے۔

دہلی سے کیا جانے والا نظارہ ہی سب کچھ نہیں تھا۔ جیسے جیسے مرکزی اقتدار کمزور پڑتا گیا علاقائی طاقتیں ابھرتی گئیں۔ جو توانا اور منظم تھیں انھوں نے نئے نئے ادارے قائم کیے اور ثقافت کو فروغ دیا۔ علاقوں کے صدر مقاموں پر فضا خوشگوار تھی جو شہری اور علاقائی کلچر کی دین تھی۔ اس کلچر نے راجپوتوں کے پہاڑی اور دوسرے علاقائی آرٹ کے شعبوں میں ترقی کی۔ موسیقی کی اور فی البدیہہ شاعری کی نئی روایت کو پروان چڑھایا۔ اٹھارویں صدی کے اردو ادب کو اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ یہ صرف شمالی ہند کا عطیہ نہیں تھا بلکہ بہت پہلے دکن میں مقبول ہو چکا تھا۔ اس دور میں اردو بھی انھی حالات سے گزری جن سے دوسری علاقائی زبانیں دو چار رہیں کیوں کہ فارسی روایت کا استعمال سنسکرت، مراٹھی، سندھی اور پنجابی زبانوں میں بھی ہوا۔ بدیسی زبان کا تصور کیوں ، اردو تو مقامی زبانوں سے مالامال ہوئی، اردو نے بتدریج اس زبان سے انحراف کیا جو برصغیر کی نہیں تھی۔ اگرچہ کہ پانچ لاکھ کے قریب اشخاص نے فارسی زبان کو استعمال کیا لیکن یقیناً یہ وہ لوگ تھے جو شہروں میں رہتے اور دانشور کہلاتے تھے۔ یہ لوگ حکومت میں بھی شریک تھے۔

دوسری اہم تبدیلی انیسویں صدی میں ہوئی جب کہ برطانوی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اونچے درجوں میں انگریزی کو فارسی پر سبقت دی جائے اور نچلے اور علاقائی درجوں پر مقامی زبان کو۔ اس کے علاوہ حکومت کی سرپرستی بھی بنیادی طور پر ان ہی زبانوں کو حاصل تھی نہ کہ کلاسیکی زبانوں کو جن میں فارسی سنسکرت اور عربی شامل ہیں۔ اس طرح ایک ایسے عہد کا آغاز ہوا جس میں بہار، شمالی مغربی علاقوں اور اودھ و پنجاب کے وسیع تر علاقوں میں اعلیٰ طبقے کے مردوں نے اردو کی تعلیم حاصل کی۔ ملک بھر میں زبانوں کی ہئیت بدلی اور اردو کی جدید نثری زبان بھی اسی دور کی پیداوار کہلائی۔ (یورپ میں بھی اخبارات، ناولوں اور دیگر نثری تحریروں کے ذریعے جو بھی سامنے آیا اسے بھی معیاری تصور کیا گیا۔) نئے تعلیم یافتہ لوگوں نے بھی اردو کی نئی ہئیتوں کو صحافت اور ناول میں برتا۔ انھی کے ذریعے معاشرے اور افراد میں اقدار کی جھلکیاںں نمایاں ہوئیں۔ ساتھ میں روایتی ہئیتوں کو بھی برقرار رکھا گیا۔ ان میں قرآنی تراجم اور طب کی باتیں بھی شامل ہیں۔ یہ ہر مذہب کے اعلیٰ طبقے کے پڑھنے لکھنے والوں کی زبان رہی۔ یہاں تک کہ آریہ سماجی جو ہندو احیا پرستی کے موئد تھے انھوں نے بھی انیسویں صدی کے آخر تک اپنی تحریریں اردو میں پیش کیں۔

اس کے بعد وہ تیسرا نازک مرحلہ بھی آیا جب کہ اردو کے بجائے ہندی کو سرکاری زبان بنانے کی تحریک کا آغاز ہوا۔ خصوصیت سے وسطی صوبہ جات (اتر پردیش) میں۔ 1900 میں لفٹننٹ گورنر میکڈونل کا یہ فیصلہ کہ ہندی کو اردو کے مساوی درجہ دیا جائے، ہندوستان کی لسانی تاریخ کا ایک نیا باب تھا۔ یہاں آزادی کے برس ہا برس قبل مذہبی اور نسلی شناخت کے لیے بھیانک خون خرابے کا آغاز ہوا۔ نوآبادیاتی پس منظر میں ابھرنے والی اس کہانی کو دہرانے کا کوئی حاصل نہیں۔ اس دور میں زبانوںں کا کوئی مذہب تو نہیں تھا لیکن اب زبان کو مذہب کی اہم علامت بنایا جا رہا تھا۔ یہ عبادت، روحانیت یا حقانیت کی علامت نہیں تھی بلکہ ایک خاص طبقے کے مفاداتِ حاصلہ کی علامت بنی۔ ہندو قومیت کے نئے نظریات کے تحت اسے ایک طوائف، انحطاط پذیر نوابی دور کی کنیز کے طور پر پیش کیا گیا۔ اس کے مقابلے میں ہندی با عزت اور شریف لوگوں کی زبان قرار پائی۔ مختصر یہ کہ ہندو اصلاح پسندوں نے ہندی کو جدید اور نئے مورث وا طبقے کے اقدار کا ایک حصّہ بنا کر پیش کیا۔ عجیب بات یہ ہے کہ مسلمان اصلاح پسندوں کا بھی یہی رویہّ رہا اور انھوں نے ہندی کو گنواروں کی زبان کہہ کر خارج کر دیا۔

حالات نے ایک اور پلٹا کھایا اور تب اردو پاکستان کی سرکاری زبان بن گئی۔ وہ ملک جس کا قیام مذہب کی اکثریت کی بنیاد پر ہوا تھا اس نے خود اپنے ہی وطن میں اردو کو مشکلات میں پھنسا دیا۔ کرسٹوفرلی نے جس نے ابتدا میں دی گئی راشد بنارسی کی نظم کو حاصل کیا، اردو کی حالیہ نظموں کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اردو مسلمانوں کی شناخت بن گئی ہے جسے متعصب ذہنیتوں نے غیر ملکی قرار دیا۔ قدیم روایتیں ، خصوصیت سے وہ جن کی پہچان قومیت سے وابستہ نیم مذہبی اقدار پر قائم ہے، بڑی مشکل سے فنا ہوتی ہیں۔ اس غیر منصفانہ عمل کے خلاف جس نے اردو کو حاشیے پر ڈال دیا ہے، اس سے برسرِ پیکار ہونے کے بجائے اور ابتدائی دور سے لڑی جانے والی تھکی ہوئی جنگ کو جاری رکھنے کے بجائے کیا یہ بہتر نہ ہو گا کہ آج کے دور میں اردو کے مسائل کے تعلق سے متحدہ قومی اقدار پر توجہ دی جائے۔ اسی بات کو وزیر اعظم نہرو نے آزادی حاصل ہونے کے موقع پر کہا تھا: ’’آج ہم آزاد خود مختار قوم ہیں اور ہم نے ماضی کی گراں باری سے نجات حاصل کر لی ہے۔ ہم ساری دنیا کو مفاہمت کی نظروں سے دیکھتے ہیں اور مستقبل پر خود اعتمادی اور یقین کے ساتھ نظر ڈالتے ہیں۔(5) اپنے ہی ملک کے شہریوں کو غیر ملکی قرار دینا یقیناً ’ماضی کی گراں باری‘ ہے۔ اس کا چولہ اتار پھینکنا چاہیے۔ ‘‘

اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے۔ ہندوستان اس کی اہمیت سے واقف ہے۔ اس کے ادبی ورثے کا فائدہ دونوں ممالک اٹھا سکتے ہیں اور اس کے فروغ میں حصّہ لے سکتے ہیں۔ 1947 میں پاکستان کی کل آبادی کے چار فی صد سے کچھ زائد افراد کی مادری زبان اردو رہی۔ اردو کو اقتدار حاصل ہونے کی وجہ سے بنگالی نالاں رہے۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی علاحدگی کا ایک سبب یہ بھی تھا۔ پاکستان میں آج بھی زبان کا مسئلہ موضوعِ بحث ہے۔ ایک نامور پاکستانی ادیب کا خیال ہے کہ ممکن ہے پاکستان میں اردو کو رائج زبان کی حیثیت سے قبول کر لیا جائے۔

’’اردو کے فروغ کی کوششوں میں چاہے کتنے ہی رخنے پیدا کیے جائیں یہ ہماری زبان ہے (پاکستان کی)۔ قومی زندگی میں پھلتی پھولتے رہے گی کیوں کہ ہم کو اس کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اردو کے مٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن اس کی نوعیت کیا ہو گی؟ یہ میرؔ و غالبؔ کی شاعری کی نزاکتوں کو سمجھنے والی زبان ہو گی یا ادب کی نشاۃ ثانیہ کی یہ تو نہیں معلوم۔ یہ ضرور ہے کہ اردو رائج زبان بن کر رہے گی۔‘‘ (6)

مجھے یاد ہے کہ کئی سال قبل لاہور میں ایک شخص نے بڑی بے باکی سے اعلان کیا تھا کہ شہر میں صرف دو طرح کی اردو بولنے والے ہیں۔ ایک کا تعلق لکھنؤ سے ہے اور دوسرے کا جونپور سے (دونوں ہی ہندوستان کے شہر ہیں )۔ اس میں شک نہیں کہ اردو کو عوامی زبان بنانے میں پاکستان نے قابل لحاظ ترقی کی ہے۔ یقیناً یہ بات دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ہے۔ دانشمندانہ بھی ہے کہ وہ سائنس اور ٹکنالوجی کے شعبوں میں اس کے مواد اور معیار سے یکساں استفادہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ جیسا کہ یورپ میں ہوا ہم انتظار کریں گے جب پرانی رقابتیں علاقائی یکجہتی میں ضم ہو جائیں گی۔ یہی سب کے لیے سود مند ہو گا۔

 

1947 کے بعد اردو سے متعلق کلیدی فیصلے

اسی کتاب کے دیگر مضامین میں لسانی پالیسی کا تفصیل سے احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کے دو ایسے پس منظر ہیں جن پر میں گفتگو کرنا چاہتی ہوں۔ پہلے کا تعلق فی نفسہٕ زبان سے نہیں بلکہ ایک آزاد مملکت کے وِژن سے ہے۔ برطانوی نوآبادیاتی حاکموں کا نظریہ تھا کہ ہندوستان ایک قوم نہیں ہے بلکہ طرح طرح کے عوام کا مجموعہ ہے جو زبان، ذات پات، علاقہ واریت اور سب سے زیادہ مذہبی عقیدوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ اپنے اقتدار کو جائز قرار دینے کے لیے انھوں نے جابرانہ رویہ اختیار کیا تھا۔ انھوں نے اپنا زاویۂ نظر یہ پیش کیا کہ ہندوستان کے مختلف گروہوں کے لیے صرف وہی ایک سائبان مہیا کر سکتے ہیں اور اسی کے زیر سایہ وہ پنپ سکتے ہیں۔ ان کی پالیسی کے مطابق فوج ہو کہ اسکول کے معاملات یا پھر طاقتور نسلوں کے علاحدہ انتظام کی بات یا مختلف فرقوں کے الگ الگ قوانین یہ سب تو فطری ہیں اور یہی نفاق و تقسیم کا سبب ہیں۔

جیسے جیسے قومی تحریک پروان چڑھتی گئی، جو موضوع اہمیت اختیار کرتا گیا وہ یہ تھا کہ آزاد ہندوستان کو ایک لبرل ریاست ہونا چاہیے جہاں ہر شخص کو اس کی شخصی انفرادیت پر نہ کہ اس کی اجتماعی حیثیت پر شہری تسلیم کیا جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو بنیادی شرط تھی وہ یہ تھی کہ انتخابات کے جداگانہ طریقۂ کار کو سرے سے رد کر دیا جائے۔ لیکن قدیم نو آبادیاتی نظام کا طریقۂ کار ابھی زور پکڑے ہوئے تھا۔ جدید ریاست کے نظام میں ضرورت اس بات کی رہی کہ پچھلے دور کے سماج کی ان خامیوں کو دور کیا جائے جو چھوت چھات اور قبائلی طرز زندگی میں ابھی بھی قائم تھیں۔ اسی لیے ایسے امتیازی طرز عمل اور ایسی پالیسی کو مدون کیا گیا جو حصول تعلیم اور روزگار فراہم کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی تھی۔ دوسرا حل یہ تھا کہ پرنسپل لا کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے۔ دونوں حل ایسے نہیں تھے کہ انھیں مستقلاً قبول کیا جاتا۔ دستور میں ضمانت دی گئی ہے کہ سماج میں مذاہب اور نسل کی بنیاد پر امتیاز نہیں برتا جائے گا۔لہٰذا شہریوں پر لازم ہے کہ وہ اپنے طبقاتی یا ذاتی مفادات کے لیے نہیں بلکہ عوامی مفاد کی خاطر اپنے مطالبات پیش کریں۔

دوسرا کلیدی فیصلہ زبان سے متعلق ہے۔ 1920 سے، جب کہ قومی تحریک شروع ہوئی، کانگریس پارٹی نے مادری زبان میں حکومت کرنے کو اپنا منشور قرار دیا۔ برطانوی حکومت کی پرانی ریاستوں نے اس اصول کو اپنایا نہیں تھا۔ اگرچہ کہ ہر بات واضح تھی اور یہ معلوم تھا کہ ریاستوں کی تنظیم نو عمل میں آئے گی۔ ان میں نہ صرف رجواڑے شامل کیے جائیں گے بلکہ جہاں سرحدیں وسعت اختیار کر گئی تھیں ان کی بھی ازسرِ نو تشکیل ہو گی۔ یہ بات غور طلب ہے کہ نہرو نے خود اپنی پارٹی کی پالیسی کی مخالفت کی اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے طرز کی علاقائی تقسیم کو ترجیح دی۔ تاہم ہندوستان میں مذہب کے مقابلے میں زبان کا اپنے مطالبات کو منوانا جائز قرار دیا گیا۔ نتیجتاً نہرو کی تجویز مسترد کر دی گئی۔

ہندوستان میں چوں کہ کہیں بھی اردو والوں کی ایسی اکثریت نہیں ہے جو جغرافیائی وحدت بن سکے اس لیے ضرورت تھی کہ اردو و ادب اور اس کی تعلیم کی سہولتوں پر زیادہ توجہ دی جائے۔ مہاتما گاندھی اور ذا کر حسین جیسے قوم پرستوں کا ایقان تھا کہ قومی زبان ہی میں تعلیم دی جائے۔ ان میں اردو شامل ہے۔ اور جہاں بھی ممکن ہو تعلیم مادری زبان میں ہو۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جامعہ ملیہ (1920) کی اردو ذریعۂ تعلیم کے ادارے کی حیثیت سے ان لوگوں نے بنیاد رکھی۔ یہ وہ لوگ تھے جو علی گڑھ سے آئے تھے جہاں انگریزی ایک مقتدر زبان تھی۔ اسی زمانے میں عثمانیہ یونی ورسٹی کی 1918 میں بنیاد رکھی گئی۔ یہ ملک بھر میں پہلی علاقائی زبان کی یونی ورسٹی تھی۔ جامعہ ملیہ کے بانیوں میں سر راس مسعود بھی شامل تھے جو سر سید احمد خاں کے پوتے تھے جنھوں نے تقریباً نصف صدی قبل ہندوستانی مسلمانوں کو انگریزی تعلیم دلانے کی جدوجہد کی تھی۔

ساری دنیا کے تعلیمی حلقوں میں زبان بہ حیثیت ذریعۂ تعلیم، بحث کے لیے بڑا ہی مرغوب موضوع ہے۔ امریکہ مہاجروں کا ملک ہوتے ہوئے بھی یک لسانی ہے لیکن خود میری ریاست کیلی فورنیا میں ہسپانوی کو پہلی زبان کی حیثیت سے بولنے والوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اگرچہ کہ آبادی کی قابلِ لحاظ تعداد انگریزی کی طرف دار ہے۔ اکثر لوگ مادری زبان میں تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں تاکہ بچوں میں خود داری اور خود اعتمادی کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے کی سہولت ہو۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ہماری آبادی میں تو ہسپانوی بولنے والے ہی نہیں ، چینی، ویٹ نامی، پنجابی اور انگریزی بولنے والوں کی تعداد خاصی ہے۔ اسی لیے ضروری ہے کہ یہاں ایسی فضا پروان چڑھے کہ لوگ بہ آسانی ایک سے زائد زبان بول سکیں۔ بہار جیسے مقامات کے اردو بولنے والے خاندانوں سے آئے ہوئے بچے اردو کے مزید ایسے اسکولوں کے مستحق ہیں جہاں انھیں بہتر تعلیم دی جا سکے۔

 

اب کیا کرنا ہو گا

ہندوستان میں اردو کی صورت حال کے بارے میں عام تشویش ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اردو سے لاعلمی میں اضافہ ہوا ہے۔ ایک مثال پیش ہے۔ کچھ عرصے قبل دہلی اور حیدرآباد دونوں مقامات پر میں نے دیکھا کہ وہ کتب خانے جہاں اردو کی کتابیں موجود ہیں ، وہاں کے ناظمِ کتب خانہ اردو پڑھنا نہیں جانتے۔ ایسے اساتذہ کی کمی ہے جو اردو کو صحیح ڈھنگ سے پڑھا سکیں۔ اردو ادب اور تاریخ کی کتابوں کی اشاعت کے منصوبے دھرے رہ گئے ہیں۔ تشویش کا ایک اور سبب جس پر غور کیا جانا چاہیے وہ کلچر اور جمالیات کا ہے۔ ہندوستان ہو کہ دنیا کے دیگر ممالک سب کے لیے اردو ایک پھول ہے جس کی قدر ہندوستان اور ساری دنیا میں ہے۔ جیسا کہ اس کتاب میں شامل ایک مضمون نگار نے کہا ہے، اس پھول کو مرجھانا نہیں چاہیے۔ ایک دوسرا سبب جسے آشکار سمجھیں یا پوشیدہ، اردو کا ہندوستانی مسلمانوں سے منسوب کیا جانا ہے جو غربت، تعلیم، حکومت اور ملازمتوں میں نمائندگی کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر معاشرے سے یکجہتی قائم رکھنے کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ان مسائل کو یکجا کرنا اور ان کے کمزور پہلوؤں سے واقف ہونا ضروری ہے۔ ان مسائل کو مخلوط کرنے اور انھیں حل کرنے کے خطرات سے بھی ہمیں واقف ہونا چاہیے۔ اگر اردو کو پھیلانے سے فرقہ واریت کو بڑھاوا ملتا ہے اور مسلمانوں کے باڑے قائم ہوتے ہیں تو یہ بات الٹی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔

مزید غور و فکر کے لیے میں یہاں تین تجاویز پیش کرتی ہوں :

سب سے پہلے میرا خیال ہے کہ ہندوستان کی سرحد سے پرے اردو کی صورت حال پر کم ہی توجہ دی گئی ہے۔ اس بات کا خیال نہیں رکھا گیا کہ اردو زبان کو اقوامِ عالم میں تسلیم کیا گیا ہے اور اس کی اہمیت کو مانا گیا ہے۔ کسی حد تک یقیناً یہ زبان بول چال کی صورت میں فلم کی زبان کی حیثیت سے اپنا وجود رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر میرے وہ طالب علم جو ہندوستان، پاکستان، فیجی اور امریکہ سے ہیں اور جن کا تعلق پنجابی، گجراتی اور سندھی بولنے والے خاندانوں سے ہے، ان کی کلاس میں اگر مغلِ اعظم جیسی فلمیں دکھائی جاتی ہیں تو ان میں ایک جذباتی ولولہ دکھائی دیتا ہے۔ شام کے وقت یہ الفاظ لکھتے ہوئے جب میں نے ریڈیو کی خبریں سننا چاہیں تو اس وقت ریڈیو پر سنجیو اور کرونالومبا پر ایک خاص انٹرویو کا سلسلہ جاری تھا۔ جب وہ لوگ گفتگو کر رہے تھے تو میرے کانوں کو، جو امریکن ریڈیو کی سماعت کے عادی ہیں ، برطانوی آواز لگی۔ پھر وہ اپنی نئی ریکارڈ شدہ اردو کی غزلیں سنانے لگے۔ ان کی روحانی غزلوں کی ڈِسک کے ساتھ ساتھ اصل اردو اور اس کے انگریزی، فرانسیسی اور ہسپانوی ترجموں کا کتابچہ بھی تھا۔ (7) 1990 کے ابتدائی دنوں کی بات ہے، حیدرآباد کی ایک محفل میں مجھے شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس محفل میں انگلستان میں مقیم ایک ادبی شخصیت سے میری ملاقات ہوئی۔ انھوں نے خیال ظاہر کیا کہ اردو کا مستقبل مہاجرین سے وابستہ ہے کیوں کہ یہ زبان دوسرے علاقائی زبان بولنے والوں کے درمیان ترسیل کا ذریعہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ بات واضح نہیں کہ پچھلی نسل کے گزر جانے کے بعد یہ خوش گمانی شاید ختم ہو جائے لیکن نئی رکارڈنگ کو سن کر اس بات کا یقین ہونے لگا ہے کہ اردو کسی نہ کسی شکل میں بیرونی ممالک میں ترقی کرتی رہے گی۔ موسیقی اور فلم کی اردو بڑی حد تک زبانی ہے۔

جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے، اہم بات یہ بھی ہے کہ اردو کی اشاعتوں کو پاکستان کے اشتراک سے عمل میں لایا جانا چاہیے۔ اس بات کا خیال رکھا جائے کہ تعلیم اور ادب کی ترویج میں دونوں ممالک مل کر کام کریں۔ نہرو کے کہنے کے مطابق: ’’کھلی آنکھوں سے اور دوستانہ فضا میں۔‘‘ کیوں کہ لسانی ارتقا ایک قابل قدر عمل ہے۔

دوسری بات یہ کہ اردو کے پرستاروں نے اس زبان کو دیوناگری رسم الخط میں شائع کرنے سے شدید اختلاف کیا ہے۔ لیکن یہ ایک ذریعہ ہے ان لوگوں سے قریب ہونے کا جو اردو رسم الخط سے ناواقف ہوتے ہوئے بھی اردو کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ ناگری خط کے ذریعے سے ہی سہی یہ اردو کے دائرے کو پھیلانے کا ایک وسیلہ ہے۔ اس سے اردو بولنے والوں کا علاقہ بڑھے گا۔ ایسی کتابیں زیادہ تعداد میں شائع ہوں گی جن میں دونوں رسم الخط شامل ہوں گے۔ ایک طرف ناگری اور دوسری طرف نستعلیق۔ سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کہہ چکے ہیں : ’’ہندی اور اردو کو مالا مال کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہندی اور اردو کے بولنے والوں کے درمیان تفاعل بڑھے۔ ‘‘ دو رسم الخط والی اشاعتیں اس مقصد کے لیے کارآمد ہوں گی۔ (8)

میری آخری تجویز سب کے لیے غور طلب ہے۔ اس کا تعلق ہے ہندوستان میں اردو کا دوسری زبان یا اقلیتی زبان کی حیثیت سے محدود ہو جانا۔ قانونی نقطۂ نظر سے اردو اور ہندی دو الگ زبانیں ہیں لیکن لسانی طور پر ایک ہیں۔ عام استعمال میں دونوں میں کوئی فر ق نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ بیان کرنا چاہوں گی۔ کچھ عرصے قبل میں آگرہ کی ایک ہوٹل پہنچی۔ ہوٹل والے نے مجھ سے پوچھا: ’’آپ نے اتنی شدھ ہندی کہاں سے سیکھی؟‘‘ عجیب اتفاق کہ ان ہی دنوں میں نے اردو سیکھتے ہوئے لاہور میں چھ مہینے گزارے تھے۔

اردو بولنے والا لڑکا ہندی میڈیم اسکول میں تعلیم پاتا ہے تو کیا اس کا معاملہ ایسا ہی ہے جیسے ریاست متحدہ امریکہ میں ہسپانوی بولنے والے لڑکے کا جو انگریزی میڈیم اسکول میں پڑھتا ہے۔ دوسری صورت میں ممکن ہے ایک لمبے عرصے تک تعلیم پانے کے باوجود ایک ہسپانوی لڑکا عام ضروریات کو بھی بیان نہ کر سکے۔ سہ لسانی فارمولے یا مادری زبان میں تعلیم کے اختیار کو کسی آہنی شکنجے میں جکڑنا نہیں چاہیے تاکہ یہ زبان کی حمایت سے محروم ہونے کا سبب نہ بنے۔ اگر لڑکا ناگری رسم الخط کے ذریعے اردو کی گرامر اور زبان پر مہارت حاصل کرے تو وہ اونچے درجوں میں پہنچ کر اردو رسم الخط کو سیکھ سکتا ہے اور اپنے الفاظ کے ذخیرے میں اضافہ کر سکتا ہے۔ اس کے مضمرات کیا ہو سکتے ہیں ؟ صورت حال بالکل مختلف ہو گی اگر زبان اوّل مراٹھی یا کنڑا ہو۔ مہاراشٹرا میں خصوصیت سے اردو کی ابتدائی تعلیم میں قابل لحاظ کامیابی ہوئی ہے جب کہ کرناٹک میں اردو ذریعۂ تعلیم میں زوال کا سبب مسلمانوں کی تعلیم سے دوری ہے۔ (9)

نوآبادیاتی دور کا ورثہ، جو اپنے سرمائے کو اعلیٰ تعلیمی ذرائع پر ترجیحی بنیاد پر لگانے کی تلقین کرتا ہے، وہ آج بھی ڈاکٹر ذا کر حسین کی وردھا تعلیمی اسکیم کے نظریات کے مقابلے میں ، جن کا پہلے ذکر آ چکا ہے (10) زیادہ موثر ہے۔ باوجود ے کہ ہماری نیک تمنائیں اور ہمارے عزائم ڈاکٹر ذا کر حسین کے رجحانات اور گاندھی جی کے احساس پر قائم ہیں جس کا انجام ذرائع کی خوبیوں کی تلافی نہیں کر سکتا۔ تعلیم سے متعلق ہماری اوّلین ترجیح بچوں کی فلاح و بہبود ہے۔

٭٭٭

 

 

حواشی:

 

.1        Quoted in Christopher Lee, "Hit It with a Stick and It Won’t Die:” Urdu Language, Muslim Identity and Poetry in Varanasi, India’, Annual of Urdu Studies 15:1, 2000, pp. 377-8.

’’لاٹھی سے مارو یہ نہیں مرے گی۔‘‘

.2        English speakers must be grateful to Khurshidul Islam, C.M. Naim, Frances Pritchett, Ralph Russell, Annemarie Schimmel, and Carla Petievich in particular for making these early literary achievements known.

انگریزی بولنے والوں کو خورشید الاسلام، چودھری نعیم، فرانسس پریچٹ، انامیری شمل اور کارلا پیٹی ویچ کا شکر گذار ہونا چاہیے کہ انھوں نے تاریخ کے ابتدائی دور کی باقیات کو دریافت کیا۔

.3        This is the chapter title from Percival Spear, A History of India

.4        See Christopher R. King. The Hindi Movement in Nineteenth Century North India, Bombay: Oxford University Press, 1996, and Vasudha Dalmia, The Nationalization of Hindu Traditions: Bharatendu Harischandra and Nineteenth Century Banaras, Delhi: Oxford University Press, 1997.

.5        Prime Minister Jawaharlal Nehru, broadcast from New Delhi, 15 August 1947.

.6        Professor Muhammad Umar Memon in ‘A Question of Literature’, The News, Karachi, 30 August 2001, www.jang-group.com/thenews/index.html.

.7        Interview on National Public Radio,’ Week-end ‘All Things Considered’ 13 January 2001. The disc is ‘Inspiration Unfolding,’ Times Square Records. See http://www.insideworldmusic.com/library/blrevs70b.htm

.8        Quoted in ‘Urdu to get its Rightful Place: PM’ in Islamic Voice, January 1999.

.9        See many issues of the ‘Islamic Voice’ for reports of successful Urdu-medium schools in Maharashtra, particularly as an option to (often badly taught) English. www.islamicvoice.com. I am grateful to Kelly Pemberton for suggesting this link.

Islamic Voice کی بہت سے اشاعتوں کو ملاحظہ کریں۔ ان رپورٹس کو پڑھیں جو انگریزی کی جگہ اردو میڈیم اسکولوں کو کامیابی سے چلائے جاتے ہیں (Often badly taught English www.islamicvoice.com میں کلیلی پیمرٹن ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کا حوالہ دیا۔

.10     See for example a report of schools in Tamil Nadu deploring the failure to invest in early education, ‘Cart before the Horse’, in contrast to a model of investment in primary education in theh mother-tongue in Karnataka, ‘Shimoga Shows the Way’, Islamic Voice, November 2000.

مثال کے طور پر تامل ناڈو کی وہ رپورٹ ملاحظہ کریں جس میں ابتدائی تعلیم پر سرمایہ کاری کرنے کی ناکامی بیان کی گئی ہے۔ ’گھوڑے کے آگے بگھی‘ یہ اس ماڈل کے برخلاف ہے جو کرناٹک میں مادری زبان کو ابتدائی درجوں میں ذریعۂ تعلیم کے بطور متعارف کروانے سے متعلق ہے۔ ’شمولہ راستہ بتاتا ہے ‘ (Islamic Voice November 2000)

٭٭٭