FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ہندوستانی جمالیات

 

 

حصہ ۶

 

 

شکیل الرحمن

 

 

©  جملہ حقوق بحق عصمت شکیل   محفوظ ہیں۔

 

 

 

 

 

(ایک)

 

رقص۔ ۔ ۔ آفاقی اور کائناتی آہنگ

 

 

 

 

 

 

 

 

عظیم تر روح رقص کرتی ہے!

یہ رقص ہندوستانی جمالیات کا سب سے بڑا سر چشمہ ہے۔ اس کا ہر آہنگ کائناتی اور آفاقی ہے۔ عظیم تر روح کے رقص سے ہی کائنات کی تمام اداؤں اور آوازوں کا جادو پھیلتا ہے۔ عظیم تر روح تمام مترنم آوازوں کا سرچشمہ ہے!

رقص یوگ ہے!

عظیم تر روح شیو ہے جو سب سے بڑا یوگی ہے۔ کائنات کے آہنگ کی وحدت کی سب سے واضح لیکن ساتھ ہی سب سے زیادہ معنی خیز اور تہہ دار علامت! رقص میں اس نے ایک جانب ’یوگ‘ کے تمام رموز و اسرار سے آگاہ کیا ہے اور دوسری جانب ہمہ گیر جمالیاتی وحدت کا احساس بخشا ہے۔ وہ زندگی کے اس چکر کا سب سے معنی خیز اشارہ ہے کہ جو کائنات کے جلال و جمال کے چکر کی حیرت انگیز اور انتہائی مسرّت آگیں کیفیتوں کا سر چشمہ ہے

آہنگ اور آہنگ کی وحدت کا حیرت انگیز  جمالیاتی تجربہ! اظہار و ابلاغ کا نقطۂ عروج

 

پہلا رقص اسی نے کیا۔

اور کائنات کی تخلیق اسی پہلے رقص کا نتیجہ ہے۔

مرکزِ حیات اور کائنات کے دل پر اس عظیم رقاص کا رقص کائنات کے تمام عناصر کو سمیٹ کر ایک وحدت کی صورت دیتا ہے۔ اس رقص سے روح اور جسم کی وحدت کا احساس ملتا ہے۔ اسی وحدت سے کائنات کے پر اسرار عمل اور اس کی پر اسرار فطرت اور کیفیتوں کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

’ہندوستانی جمالیات‘ کے تمام فکری چشمے اسی سرچشمے سے پھوٹے ہیں۔ جسم اور روح اور تمام عناصر و اشیا کی پر اسرار وحدت کا شعور سب سے پہلے اسی عظیم تر رقص سے حاصل ہوتا ہے۔ شیو کا رقص یوگ کا نقطۂ عروج ہے۔

معاملہ صرف سمیٹ لینے اور وحدت کا شعور عطا کرنے کا نہیں ہے بلکہ مترنم آوازوں اور تمام حسین اور خوبصورت عناصر کو کائنات میں بکھیر دینے کا بھی ہے!

شیو کا رقص تمام سچائیوں کی علامت ہے، مذہب اور آرٹ دونوں میں یہ حسّی کیفیتوں کا معنی خیز استعارہ ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں برتر، ارفع اور عظیم تر حسن کی ایسی کوئی علامت نہیں ملتی۔

ہندوستانی اساطیر میں اجتماعی لاشعور کا یہ پیکر اتنا قدیم ہے کہ ماضی کے اندھیروں میں اس کی تلاش و جستجو آسان نہیں ہے۔ یہ پیکر دراوڑ تہذیب کی روح سے طلوع ہوتا محسوس ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ نٹ راج کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا رشتہ جنگل کی تہذیب سے ہے جو فطرت یا، نیچر، سے بے حد قریب تھی، تخلیقی آرٹ کی تاریخ میں اس کے پیکر مختلف صورتوں میں ملتے ہیں اور ہر صورت ایک جلوہ ہے۔ لکڑی، پتھر اور عبادت گاہوں کی دیواروں پر یہ پیکر بظاہر خاموش لیکن باطنی طور پر دائمی حرکت کا غیر معمولی استعارہ ہے۔ یہ بتانا ممکن نہیں کہ اس کا پہلا آہنگ کب اور کہاں محسوس کیا گیا۔ سر جان مارشلؔ نے وادیِ سندھ کے دیوتا کو اصلی تاریخی شیو کہا ہے۔ غالباً اس لیے بھی کہ جو مورتی دریافت ہوئی ہے وہ ’ترمکھی‘ یعنی تین صورتوں والی ہے۔ ایک ایسے یوگی کی صورت یہ پیکر سامنے آیا ہے جو اپنے خاص’ آسن‘ میں زندگی کے تمام بوجھ کو اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ بوجھ نظر تو نہیں آتا لیکن گھٹنوں پر جسم کے دباؤں، دہری ٹانگوں اور ایک دوسرے سے ملی ہوئی ایڑیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ بوجھ کی نوعیت کیا ہے ’شیو‘ نے زندگی کا زہر پیا ہے ممکن ہے یہ اس کا ردِّ عمل بھی ہو۔ کمر کی دوہری زنجیر تمام اذیتوں اور دکھوں کو قبول کرنے کا اشارہ بھی ہوسکتی ہے۔ جان مارشل نے اس پیکر کے گرد جنگلی جانوروں کو دیکھ کر اپنے اس خیال کی تصدیق اس طرح کی ہے کہ شیو ’’پشوپتی‘‘ بھی ہیں لہٰذا جنگلی جانور ان کے ساتھ ہیں۔

وادیِ سندھ کی تہذیب میں شو لنگ کی پرستش کی بھی تصدیق ہو چکی ہے۔ شیو کی اس مورتی کے سر پر سینگ ہیں جو جنگل کی تہذیب کی طرف واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں، کون جانے جنگل کی تہذیب سے ابھرے ہوئے اس جلیل و جمیل پیکر اور ماضی کے اندھیروں سے نکلے ہوئے اس عظیم تر استعارہ کی صورت نئی تہذیب کی روشنی میں تبدیل ہوئی ہو اور یہ سینگ ’’ترشول‘‘ بن گئی ہو۔

ہندوستانی تہذیب نے جسم کے آہنگ کو ہمیشہ اہم تصور کیا ہے، روح کا آہنگ جسم کا آہنگ بن گیا ہے۔ روح اور جسم کی وحدت نے کائنات کے آہنگ سے پر اسرار باطنی رشتہ قائم کیا ہے۔ کائنات اور فطرت کے آہنگ کو چھوتے ہی روح اور جسم میں مترنم حرکت پیدا ہو گئی۔ اور یہی مترنم حرکت شیو یا نٹ راج کے پیکر میں مجسّم ہو گئی۔

رقص کی ابتدا ذات، نسل اور قبیلے کے تحفظ کی وجہ سے بھی ہوئی اور اجتماعی محنت کی وجہ سے بھی، لیکن اس کی تخلیقی صورت آہنگ اور آہنگ کی وحدت سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔ اجتماعی محنت اور ذات قبیلے اور نسل وغیرہ کے تحفظ کے احساس نے بھی فطرت کے آہنگ سے رشتہ قائم کیا ہے۔ موزوں اور مترنم حرکتوں اور اشاروں سے صرف جذبات اور باطنی کیفیات کا اظہار ہی نہیں ہوتا بلکہ جذبات اور باطنی کیفیات موزوں اور مترنم حرکتوں اور اشاروں میں اس طرح جذب ہو جاتی ہیں کہ ہر حرکت ایک جذبہ اور ہر اشارہ ایک باطنی کیفیت بن جاتا ہے اور اس طرح جسم کی متحرک کیفیتوں سے ایک خوبصورت جذباتی دنیا خلق ہو جاتی ہے۔

ہندوستانی جمالیات میں رقص کے ان پیکروں کی اہمیت زیادہ ہے جو کائنات کے مسلسل ابھرنے والے مترنم آہنگ کی ما بعد الطبعیات کے پیکر ہیں۔ انہیں وجدان کی عظیم تر اور پر جلال اور پر جمال صورتوں سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ خالق اور مخلوق کا باطنی آہنگ اور آزادانہ اظہار اور سمٹ جانے کی کیفیت، حرکت اور خاموشی کی متحرک تصویر، تخلیق کی شدت اور سب کچھ سمیٹ لینے کا عمل، نروان کی ارفع اور عظیم تر سطح اور کائناتی عمل میں ہر شے کو آزاد کر دینے کی آرزو —— رقص کے پیکروں میں انسان کے وجدان کی یہ عظیم تر جہتیں ہیں۔

ہندوستانی جمالیات میں رقص نے زمان و مکاں کی زنجیریں جس طرح توڑی ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں، شیو کے رقص کی پانچ جہتوں کو اس طرح پیش کیا گیا ہے۔

 

——پہلے آہنگ (سرشٹی) سے ——کائنات کی تخلیق اور اس کے ارتقا کا عمل!

——دوسرے آہنگ (سیسٹھی) سے —— تمام حسن و جمال کے ساتھ کائنات کا قیام!

——تیسرے آہنگ (سم ہار) سے—— تباہی، کائنات اور اس کے عناصر کو بکھیر دینے کا عمل!

—— چوتھے آہنگ (تیرو بھو) سے —— کائنات اور اس کے عناصر کو اپنے باطن میں سمیٹ لینے کا عمل !

اور

——پانچویں آہنگ (انو گرہ) سے —— کائنات اور اس کے عناصر کو آزاد کرنے اور ہر شے کو اعلیٰ ترین سطح پر لے جانے کا عمل، نروان کی منزل!

برہما،و شنو، ردر، مہیشور اور سداشیوان پانچ جہتوں کی علامتیں ہیں، نٹ راج کے پیکر میں!

’ڈمرو ‘ تخلیق کی آواز یا تخلیق کے آہنگ کا اشارہ ہے۔ ایک ہاتھ میں آگ تخریب کی علامت ہے۔ دوسرا ہاتھ فتح اور آزادی کو سمجھاتا ہے، تیسرا ہاتھ (ابھئے مدرا) امن، سکون اور تنظیم کا اشارہ ہے۔ ایک خاص مدرا میں اٹھے ہوئے پاؤں پانچویں آہنگ کا اشارہ ہے۔ کائنات اور اس کے عناصر کو آزاد کرنے اور انہیں ایک اعلیٰ سطح پر لے جانے کے عمل کی علامت!

ان پانچوں آہنگ میں معنویت کی جانے کتنی سطحیں ہیں، تخلیقی آرٹ نے ان کی معنویت میں بڑی کشادگی پیدا کی ہے، ادب، رقص، مصوری اور مجسمہ سازی میں ان کی خوبصورت ترین تعبیریں ملتی ہیں، مثلاً پہلے آہنگ سے کائنات اور اس کے تمام حسن و جمال کی تخلیق کے تصور نے تخلیقی وجدان میں خالق اور مخلوق کے باطنی رشتے اور حسن کی تخلیق اور جلال و جمال کے مظاہر کی جانے کتنی تصویریں اجاگر کر دیں۔ جمالیاتی رجحانات کی تشکیل میں اس جھنکار اور آہنگ نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ کائناتی عناصر اور ارضی حسن سے والہانہ محبت اور عقیدت کے جانے کتنے رنگ سامنے آئے ہیں۔ دوسرا آہنگ پہلے آہنگ سے باطنی طور پر جذب ہو گیا ہے۔ اور جمالیاتی تصورات کا ایک سر چشمہ ہاتھ لگا ہے۔ اسی طرح تیسرے آہنگ کی معنویت اس طرح پھیلی کہ مقصد صرف تباہی اور بربادی نہیں بلکہ تباہی اور بربادی سے نئے زندہ، تابناک اور حسین عناصر کی تخلیق بھی مقصود ہے، خزاں کے ساتھ بہار کا تصور وابستہ ہے۔ چوتھے آہنگ میں جہاں تمام عناصر کو باطن میں سمیٹ لینے کا عمل ہے وہاں ماضی، حال اور مستقبل تینوں کو اپنے وجود میں جذب کر لینے کی بات پیدا ہوئی۔ جب تمام حقیقی اور غیر حقیقی عناصر سمٹ جائیں اور ماضی، حال اور مستقبل تینوں گم ہو جائیں تو ایسے سناٹے کا تصور پیدا ہوتا ہے جس کی خاموشی کی کوئی اور مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس سناٹے اور ایسی خاموشی کا حسن صرف وجدان ہی محسوس کرسکتا ہے۔ پانچویں آہنگ نے نجات اور نروان کے جمالیاتی تصورات بھی عطا کیے ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں اپنی ذات کو مرکزِ نگاہ بنانے اور تپسیا کی جو باتیں ملتی ہیں ان کا تعلق اس آہنگ سے بہت ہی گہرا ہے تخلیقی وجدان کو نٹ راج کے اس پیکر نے ہر دور میں طاقت بخشی ہے۔ تہہ دار معنویت کے ساتھ اتنا متوازن متحرک پیکر تخلیقی آرٹ کو بھی نصیب نہ ہوا۔

مجموعی طور نٹ راج کی جمالیات کی وضاحت اس طرح کی جا سکتی ہے:

کائنات کی تمام متحرک کیفیتوں کا سر چشمہ ہے، محراب اس کی علامت ہے!

’چکر‘ کے تہہ دار حسیاتی تصور کا افضل ترین تخلیقی نمونہ ہے۔

’مایا‘ کے پردے سے اوپر آزادی کے عرفان کو پیش کرتا ہے۔

آہنگ اور آہنگ کی وحدت کے حسن کا جلوہ ہے۔

کائناتی عشق کے شعور کا فنّی شاہکار ہے۔

جلال و جمال کی دلکش آمیزش کا علاتیہ ہے۔

رقصِ وجود ہے رقصِ کائنات ہے۔

متحرک لاشعور کا انتہائی اثر آفریں اظہار ہے جس سے لاشعور کی بے پناہ صلاحیتوں کی پہچان ہوتی ہے۔

ایک گہری معنویت بھی ہے اور ایسی جمالیاتی تشریح بھی کہ جس کی جہتیں اپنی واضح صورتوں کے باوجود ایسی مجرّد ہیں کہ تمام سچائیوں کو دریافت کرنا آسان نہیں یہ جہتیں اپنی مجرد کیفیتوں کے ساتھ ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک پہنچتی رہی ہیں۔

استغراق کی جمالیاتی سطحوں کی عظمت کا شاہکار ہے۔

وجود کی انتہائی گہرائیوں سے خود اس کا ایک حصّہ جمالیاتی صورت میں ابھرا ہے۔

ہندوستانی جمالیات کی اولین تمثیل کی ایسی تمہیدی نظم PROLOGUE کی صورت یہ رقص ابھرا ہے جو تمام فنون کا نقطۂ آغاز بن گیا ہے۔

یہ رقص اُن قدیم علامت سازوں کی تخلیقی کاوشوں کی اس شدید آرزو کا عظیم شاہکار ہے جو اپنے وجود کے کسی حصّے کو خلق کرنے اور اسے آزادانہ فضا میں دیکھنا چاہتی تھی۔

آہنگ کے حسن کا یہ جمالیاتی پیکر آوازوں، رنگوں اور تصویروں کے تئیں بیدار کر کے جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے۔

علامت اپنی عمدہ جمالیاتی صورت سے پہچانی جاتی ہے اور اعلیٰ اور عمدہ جمالیاتی صورت وہ ہے جو فنکارانہ شعور کی قطعیت اور جمالیاتی احساس اور جذبات کے ہیجان کا آئینہ ہو۔

نٹ راج کا پیکر اس کی سب سے عمدہ مثال ہے۔

اس کی صورت  (FORM) حسّی کیفیتوں کو بیدار کرتی ہے اور ادراک اور حواس سے باطنی رشتہ قائم کر لیتی ہے۔

یہ محض تجریدیت کا کھیل نہیں ہے بلکہ اظہار و ابلاغ کا وہ نقطۂ عروج ہے جہاں آنند یا جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا رہتا ہے اس کی صورت جہاں تخلیقی آرٹ کی عظمت کو پیش کرتی ہے وہاں اعلیٰ ترین فنکارانہ کاوش کو بھی نمایاں کرتی ہے جس سے خوش اسلوبی اور سبک دستی کی قدرو قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔

عام اضطراری کیفیتوں میں جو باتیں موجود نہ تھیں انہیں اس صورت میں جلوہ گر کیا گیا ہے۔ اور اسے دیکھتے ہی پہلی نظر میں محسوس ہوتا ہے کہ اس کے اندر لاشعوری اضطراری کیفیتوں کی ایک دنیا آباد ہے۔ اعلیٰ تخلیقی صورت کی یقیناً یہ ایک بڑی پہچان ہے۔

آرچ ٹائپ ‘‘ کو اس صورت جلوہ گر کر دینا تخلیقی آرٹ کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ ہندوستانی جمالیات کی اصطلاحوں کے پیشِ نظر اسے داخلی، جذباتی اور لا شعوری کیفیات (SATTAVIKA) کا شاہکار بھی کہا جا سکتا ہے۔ اور ظاہری، عضوی اور اشارتی ANGUKA کا جمالیاتی پیکر بھی۔ یہ دونوں ذرائع اور ان کی وحدتِ جلال و جمال (رس) کا اعلیٰ احساس عطا کرتی ہیں۔

’وجدان‘ ہمیشہ آرٹ نہیں بنتا، اعلیٰ تخلیقی وجدان ہی آرٹ کی صورت اختیار کرتا ہے اس لیے آرٹ کو ’وجدان‘ سے تعبیر کیا جاتا رہا ہے۔ نٹ راج اعلیٰ تخلیقی وجدان کی عمدہ ترین صورت ہے اس لیے کہ یہ وجدان کے تخلیقی وجدان کا جلوہ ہے۔

تخلیقی آرٹ کا یہ وہ نمونہ ہے جس سے مِٹھ (MYTH) یا اسطور کا رشتہ جتنا بھی گہرا ہو اس علامت نے خود ایک ’مِتھ؟ کو جنم دیا ہے۔ اور ایک ایسی ہمہ گیر اساطیری فضا خلق کی ہے جو اپنی فطرت میں جمالیاتی ہے۔

احساس اور جذبے یا ’بھو‘ (BHAVA) کا ایسا نمونہ ہے جو لا شعوری آہنگ کے ساتھ مجسم ہو گیا ہے اس کا فارم یا روپ (RUPA) اس آہنگ کے بغیر خلق نہیں ہوسکتا تھا۔

ہندوستان کے تخلیقی آرٹ نے ہر عہد میں اس پیکر کے کئی روپ دیکھے۔ اس کے جلال (سم ہار) کو دیکھا، اس کے یوگ (دکشن) کے عمل کو اپنے وجدان اور اپنے وژن میں جذب کیا۔ اس کے آزادانہ عمل کے تحرک کو محسوس کیا اور نروان کی سطح کو پہنچانے کی کوشش کی اور اس کے رقص کے آہنگ کو اپنے وجود کا آہنگ (نِرت ِ) بنایا!

کہا جاتا ہے کہ نٹ راج نے ۱۰۸ کیفیتوں کو پیش کیا ہے اور ہر کیفیت کا اپنا رس RASA ہے

سرینگار رس          ——————————             (وشنو)

رُدرس               ——————————             (رُدر)

بتھس رس          ——————————             (مہا کالا)

شانت رس          ——————————             (نارائن)

بھیانک رس         ——————————            (سیاہ دیوتا)

ادبھت رس          ——————————            (گندھا روا) وغیرہ

شیو اور نٹ راج نے روشنیوں تاریکیوں، خوشبوؤں، آوازوں، خاموشیوں اور رنگوں کی ہمہ گیر جمالیات سے آشنا کیا ہے۔ ہندوستانی جمالیات کا سب سے بڑا سر چشمہ یہی حسّی پیکر ہیں جو اپنی جمالیاتی خصوصیتوں کے ساتھ فنی صورتوں میں جلوہ گر ہوئے ہیں۔

نٹ راج کی ان کیفیتوں نے ہر رس کو رنگ عطا کیے ہیں جو فنونِ لطیفہ میں احساسات اور جذبات کی مختلف کیفیتوں کے رنگ بن گئے۔ اسٹیج کے کرداروں کی شخصیتوں اور ان کے احساس اور جذبے کو ان رنگوں میں پیش کیا گیا۔ رقص کی مختلف کیفیتوں کو ان رنگوں کے ذریعہ اجاگر کیا گیا اور مصوری میں ان کی معنویت پھیلی۔

دھرتی اور کائنات کے حسن و جمال کی وحدت اور فنکار کے رنگوں کے احساس نے شیو اور نٹ راج کی مختلف اداؤں، مدراؤں، اور کیفیتوں میں ان رنگوں کو نفسی سطح پر شدت عطا کی ہے ’ہندوستانی جمالیات‘ میں رنگوں کی کیفیتوں اور احساس و جذبے سے ان کی وابستگی اور وحدتِ کائنات یا فرد اور کائنات کی اکائی کی معنوی تہوں اور جہتوں کا شعور عطا کیا ہے۔ مثلاً

شیو کا رقص، آہنگ رس اور رنگوں کی وحدت کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ رنگوں کے یہ حسّی تجربے غور طلب ہیں۔ آہنگ اور کیفیتوں کے مختلف رنگوں کا یہ اظہار غیر معمولی شعور کا کرشمہ ہے۔

ہندستان کے تخلیقی آرٹ میں شیو کی جو جہتیں ملتی ہیں ان میں سات جہتوں کی نشاندہی اس طرح کی گئی ہے:

آنند تندو —————            مسرت کا بے باکانہ اظہار!

وہ رقص جس سے جمالیاتی انبساط کا اظہار بھی ہو اور جمالیاتی آسودگی اور مسرّت بھی حاصل ہو۔

سندھیا تندو————— رقص شام/ شام کے حسن اور اس کی پر اسراریت کا احساس ملے

کالیکا تندو ————     وہ رقص جس سے تاریکی جہالت اور برائیوں کے پیکر قتل ہوں، کالیکا کے ساتھ رقص!

تری پورا تندو————— وہ رقص جس سے عفریت (تری پورا) کا قتل ہو/ تری پورا کے قتل کے بعد جو رقص ہو/

سمہار تندو ————— تباہی کا رقص ؍ موت کا رقص ؍ مایا یا التباس سے روح کی آزادی۔ !

گوری تندو————— گوری (پاروتی) کا رقص شیو کے ساتھ۔

اوما تند——————           اُوما کا رقص شیو کے ساتھ۔

کالی اور پاروتی دونوں ایک ہیں، کالی کا رقص بھی اہمیت رکھتا ہے اور پاروتی کی حیثیت سے بھی اس پیکر کا رقص بہت اہم ہے۔ کالی کو شیو کے تھکے ہوئے چت پڑے ہوئے جسم کے اوپر رقص کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کی صورت بھیانک ہے۔ لمبے لہراتے ہوئے بال، باہر نکلی ہوئی سرخ زبان، گردن میں انسان کی کھوپڑیوں کی مالا — سب اس پیکر کے نقش ابھارتے ہیں اور اس کی شخصیت کو حد درجہ محسوس بناتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ شیو کا وہ نصف غضب ناک اور پر جلال پیکر ہے جو کائنات کو بکھیر کر تمام اشیا و عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ شیو ’’اردھ نار ایشور ہے (نصف مرد، نصف عورت) شیو اور کالی کی وحدت سے اس کی معنویت اجاگر ہوتی ہے۔ کالی کے تحرک پر شیو کے تحرک کا انحصار ہے۔

کالی کا رقص جلال اور ہیبت ناک اور غضب ناک عمل کا ایسا نمونہ ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ہر شے کو راکھ بنا کر دنیا کی معنویت کو لا معنویت میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ رقص ’شنہ‘ (صفر) کا علامّیہ ہے۔ اس بنیادی حقیقت کے باوجود کہ شیو کائنات کو پھر خلق کرتا ہے۔ کالی تخریب کار بھی ہے اور تخلیق کار بھی۔

کالی شیو کے جس سفید جسم پر رقص کرتی ہے وہ جسم روشنی (پرکاش) اور اعلیٰ ترین شعور کی علامت ہے۔

کالی اور شیو کے ایسے پیکروں میں عظیم تر روح کے دو پہلو نمایاں ہیں۔ ایک وہ جو تبدیل ہوتا رہتا ہے (کالی) اور دوسرا وہ جو خود تبدیل نہیں ہوتا بلکہ دوسرے پہلو کے تحرک سے بدلتا ہے (شیو)

یونگ کے مطابق یہ دو اہم نفسیاتی اور حسّی تجربوں کی ہمہ گیر علامتیں ہیں۔ مرد کے حسّی تجربے (ANIMA) کی تعریف اس طرح کی ہے۔

’’ہر مرد اپنی حوّا کو اپنے اندر لیے چلتا ہے‘‘!

اور عورت کے نفسیاتی اور حسّی تجربے (ANIMUS) کی تعریف اس طرح کی ہے۔

’’ہر عورت اپنے آدم کو اپنے اندر لیے چلتی ہے ‘‘!

یونگ کا خیال ہے کہ اس نفسیاتی سچّائی کا اظہار خوابوں میں بھی ہوتا ہے اور آرٹ میں بھی اساطیر اور فوق الفطری داستانوں اور قصّوں میں ایسے حسّی پیکروں کی کمی نہیں ہے۔ شیو اور کالی اور شیو اور پاروتی اس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ تانتروں اور تخلیقی آرٹ نے ان پیکروں کو بڑی اہمیت دی ہے چینی افکار و خیالات میں ’’یانگ‘‘ (مرد) اور ’’ین‘‘ (عورت) نے دراصل ان ہی نفسیاتی اور حسّی پیکروں کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ’ین ‘ اور ’یانگ‘ کے ملاپ ہی سے کسی شے کا وجود ممکن ہے۔ دونوں لفظوں کے معنی ہیں:

’’ہر شے کا سر چشمہ ‘‘ !

روایت ہے کہ سب سے پہلے ٹانڈو (TANDAY)  رقص شیو نے کیا۔ اساطیری ذہن نے مشخص کر کے اس شیو کا شاگرد ٹانڈو (TANDU)  بنا دیا اور یہ کہا کہ ’’ٹانڈو ہی نے شیو کے تندو رقص کو عوام میں مقبول کیا۔ ہندوستان کے کلاسیکی رقص کا رشتہ جہاں چاروں دیدوں اور دو بڑی رزمیہ نظموں سے ہے وہاں ’’پرانوں‘‘ سے بھی گہرا ہے۔ دیوتاؤں کے قصوں میں رقص کی اہمیت کا احساس ملتا ہے۔ اس فن کی عظمت کو ویدوں کی سطح پر محسوس کیا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ’’ناٹیہ شاستر‘‘ کو پانچواں وید کہا گیا ہے۔

رقص اور عوام کے تعلق سے ایک اساطیری کہانی کئی لحاظ سے غور طلب ہے روایت ہے کہ ناٹیہ شاستر کے مرتب بھرت سے پوچھا گیا کہ اس پانچویں وید (ناٹیہ شاستر) کی ابتدا کس طرح ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ عوام میں کئی قسم کی برائیاں آ گئی تھیں، لوگ حاسد ہو گئے تھے، حریص ہو گئے تھے اور ہر وقت غصّے کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ان کی رہنمائی کے لیے دیوتاؤں نے برہما سے پانچویں وید کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے چاہا کہ برہما وید کی صورت عوام کے لیے ایسی نعمت عطا کر دیں جسے سنا بھی جا سکے اور دیکھا بھی جا سکے۔ برہمنوں نے چاروں ویدوں کو عوام سے چھپا لیا تھا اور ان کے منتروں کو پڑھنے یا سننے کی اجازت نہیں تھی۔ ایسی صورت میں پانچویں وید کی ضرورت کو خود برہما نے بھی محسوس کیا۔ انہوں نے اندر دیوتا سے کہا کہ وہ دیوتاؤں کو رقص کی تعلیم دیں۔ اندر دیوتا نے جواب دیا کہ دیوتاؤں میں رقص کرنے کی وہ صلاحیت نہیں ہے جو سنتوں، سادھوؤں اور اچاریوں میں ہے۔ اس سچائی کو سمجھتے ہوئے برہما نے خود رقص کی تعلیم کی ذمہ داری لی اور بھرت منی کو رقص سکھایا۔ اس کے بنیادی اصول سمجھائے بھرت معنی نے اپنے سو بیٹوں کو یہ تعلیم دی یعنی ان کے سیکڑوں شاگرد پیدا ہو گئے اور رقص آہستہ آہستہ مقبول ہوتا گیا۔ برہما نے رقص کے ساتھ ڈراما کو بھی اہم تصور کیا لہٰذا پسراؤں کو خلق کیا۔ اس کے بعد ایک اہم ڈراما اسٹیج ہوا جس میں خود برہما موجود ہے۔ اور جب عفریتی عناصر نے اس ڈراما کو برباد کرنا چاہا اور اس کے اسٹیج کو اکھاڑ پھینکنا چاہا تو خود برہما نے درمیان میں کھڑے ہو کر اسٹیج کو گرنے سے بچا لیا یہی وجہ ہے کہ ابتدائی اسٹیج پر درمیان میں پھول رکھے جاتے تھے جو برہما کی علامت تھے۔ کسی ڈرامے کی کامیابی کے لیے پھولوں کا اسٹیج پر رکھنا آج بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔

خالقِ کائنات نے رقص اور ڈرامے کی صورت میں عوام کو جو نعمت عطا کی تھی اس نے خود اس کی حفاظت بھی کی تھی تاکہ ان فنون کے ذریعہ زندگی اور کائنات کی سچائیوں کا احساس ہر وقت ملتا رہے۔ رقص کو ابتدا سے کتنا مقدّس تصور کیا گیا ہے اور اسے تقدس کی کیسی اعلیٰ سطح عطا کی گئی ہے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ اعلیٰ ترین تجربوں کے اظہار کا یہ ذریعہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہو گیا۔ اس میں تمام ویدوں کا تقدّس شامل ہو گیا۔ نٹ، نرت اور نرتیہ تینوں کی ہم آہنگی نے اس فن کو عروج پر پہنچا دیا۔ نٹ (NATYA) سے مراد ڈرامائی عناصر ہیں نرت (NRITTA) خالص رقص ہے کہ جس میں جسم کی مترنم حرکت اہمیت رکھتی ہے اور نرتیہ (NRITYA) رقص اور اس کی اداکاری میں احساسات اور جذبات کا اظہار ہے۔

نٹ راج (چولا عہد، گیارہویں/بارہویں صدی)

نٹ، نرت اور نرتیہ تینوں جمالیاتی تجربوں کے عمدہ اظہار کے ذرائع ہیں۔ احساسات جذبات اور کیفیات اور موضوعات اور خیالات کو یہ ابھینے (ABHINAYA) کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ سنسکرت لفظ ’ابھی‘ کے لغوی معنی ہیں — کی طرف، کی سمت، کی جانب‘ ‘ اور ’نی‘ کے معنی ہیں ’’لے جانا‘‘ مفہوم یہ ہے تماشائیوں کی طرف لے جانا، موضوع، تجربہ، تیور، احساس اور جذبہ سب کی جمالیاتی صورتوں کو تماشائیوں کی سمت کرنا، ان تک پہنچانا! ابھینے درپن (ABHINAYA DARPAN) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ اہم تصنیف دوسری صدی عیسوی کے ناقد نندی کیشور کی ہے۔ نندی کیشور کی پہچان بھرت ہی کی طرح ہو نہیں پاتی۔ کون تھے، کہاں کے تھے؟ ’ابھینے درپن‘ نے رقص کی جمالیات کی جو وضاحتیں کی ہیں اور رقص کی تکنیک کا جو احساس دیا ہے ان کی بڑی اہمیت ہے۔ مثلاً ’’ابھی نے‘‘ (ABHINAYA) کی چار تکنیک آنگک (ANGIK) ویچک (VACHIK) آہاریہ (AHARYA) اور ست وک(SATVIK) کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آنگک سے مراد رقص میں جسم کی معنی خیز حرکت ہے (انگ کے منعی جسم کے ہیں) ’واچک‘ میں آہنگ کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ رقاص نغموں کے ذریعہ بھی تماشائیوں سے رابطہ قائم کرتا ہے اور شاعری اور موسیقی کے ذریعہ بھی، ذریعہ جو بھی ہو موضوع کے مطابق آہنگ کا ہونا ضروری ہے۔ آہاریہ (AHARYA) لباس، زیورات اور میک اپ وغیرہ کی تکنیک ہے۔ رقص دیکھنے والوں تک پہنچنے کے لیے ان کا سہارا بھی لینا پڑتا ہے۔ یہ بھی تجربوں کو پہنچانے کے ذرائع ہیں ’’ست وک‘‘ (SATVIK) میں مختلف قسم کے احساسا ت اور جذبات اور ذہنی کیفیات شامل ہیں جن کا اظہار جسم کی متحرک کیفیتوں اور چہروں کے تاثرات سے ہوتا ہے۔ شیو کا رقص ’ست وک‘ کا نقطۂ عروج ہے۔ یہ رقص تمام رسوں کا ہمہ گیر تجربہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نٹ راج یا شیو کو ’’رسوں‘‘ کا سرچشمہ تصور کیا گیا ہے۔ نٹ راج نے تمام رسوں اور تمام بھوؤں (BHAVAS) کو حیرت انگیز جمالیاتی صورتوں اور کیفیتوں میں پیش کیا ہے۔ ’رسوں‘ کے پیشِ نظر ’’نندی کیشور‘‘ نے ابھینے درپن ‘‘ میں کہا ہے کہ ’’رسوں‘‘ کو پیش کرتے ہوئے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کا مقصد دیکھنے والوں میں ’’رسوں‘‘ کو ابھارنا بھی ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ جہاں ہاتھ اٹھے وہاں آنکھیں بھی جائیں جہاں آنکھیں جائیں وہاں ذہن بھی پہنچ جائے۔ جہاں ذہن پہنچے وہاں تک ’’بھو‘‘ بھی جائے جہاں بھو جائے گا وہیں ’رس جہنم لے گا اور رسوں کا شعور حاصل ہو گا‘ یہ جمالیاتی شعور جمالیاتی انبساط عطا کرے گا۔

ابتدا میں رقص کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ایک حصے کو ’’مارگی‘‘ (MARGI) کہا گیا اور دوسرے کو ’دیسی‘ (DESI) ’مارگی‘ دیوتاؤں کا رقص ہے اور دیسی عوامی دیسی کا مقصد بھی وہی ہے جو ’مارگی‘ کا ہے یعنی جمالیاتی انبساط پانا اور عطا کرنا، غور فرمائیے تو محسوس ہو گا کہ شیو کا رقص بھی اپنی فطرت میں ’دیسی‘ ہے۔ تند و ابتدا میں صرف مرد کا رقص تو رہا لیکن رفتہ رفتہ جب اس میں عورت شامل ہو گئی تو یہ صرف دیوتا کا رقص نہیں رہا اور دیوتا کا رقص رہا بھی تو اس کا ایک بڑا مقصد ’رسوں‘ کا اظہار اور جمالیاتی انبساط عطا کرنا ہو گیا جس کا تعلق عوام سے انتہائی گہرا ہو گیا شیو پاروتی، شیو اوما اور شیو کالیا، سب ایک وحدت کا احساس دلانے لگے اور ایسے شعور کے تئیں بیدار کرتے رہے جو ’رسوں‘ کا سر چشمہ ہے۔ شیو کے ایسے تمام رقص جو اوما، گوری اور کالیا کے ساتھ ہیں انتہائی نازک لیکن حد درجہ پر وقار ہیں۔ انتہائی باریک اور نازک سطح پر احساس اور جذبے اور تاثرات کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے رقص کو ’’لاسیانرت‘‘ کا نقطۂ عروج کہا گیا ہے جس میں یہ تمام خصوصیتیں موجود ہیں۔

ہندوستانی ما بعد الطبعیات نے کائناتی عمل کو ایک پھیلے ہوئے وسیع تر چکر یا دائرے میں محسوس کیا تھا۔ خالق اور مخلوق اور عناصرِ کائنات سب ایک دوسرے کے آہنگ سے وابستہ چکر میں گھومتے ہیں۔ تخلیق اور تخریب اظہار اور سمیٹ لینے یا سمٹ جانے کی خواہش، روشنی اور تاریکی، وقت کی باطنی رفتار اور جلال و جمال کا وجود — سب اسی دائرے میں ہیں۔ خالق کائنات کے تصور کا پہلا اظہار کائناتی آہنگ سے ہوا اور رقص اسی آہنگ کی صورت ہے … شیو کا رقص کائناتی آہنگ ہے۔ کائناتی عمل ہے۔ نٹ راج ہر شے اور ہر عنصر اور جسم کی روح ہے۔ تمام حرکتوں اور آہنگوں کا سر چشمہ ! تخلیق، تخریب، تحفظ، سمٹ جانے اور پھیل جانے کی کیفیت، آزادانہ اظہار، آزادیِ روح، سکون اور نروان سب کے باطن میں اسی کا عمل ہے۔ نٹ راج کا محراب اسی چکر یا دائرے کی علامت ہے۔ اس رقص کا مقصد روح کی خالق کے اندر واپسی اور کائناتی عمل میں اس کا اظہار ہے۔ ’ڈمرو‘ سے کائناتی آہنگ کے وہ سُر سنائی دیتے ہیں جو ابتدائی تخلیق کی کسمساہٹ سے پیدا ہوتے ہیں ’’ڈمرو‘‘ کی آواز کے وقفوں میں وقت کی دھڑکنیں سنائی دیتی ہیں۔ ہندوستان کے تخلیقی آرٹ نے عموماً شیو کے ہاتھوں کی حرکتوں سے کائناتی آہنگ کی متحرک کیفیتوں کو پیش کیا ہے۔ اس عظیم رقص سے ہمدردی، خوف، غم، مسرّت، حیرت اور روحانی برتری کے جذبات ابھرتے ہیں اور وجود استغراق اور عبادت کا لطیف تر احساس ملتا ہے۔

رقص بدامی (چھٹی صدی عیسوی)

مصوّری اور مجسمہ سازی میں ہندوستانی اساطیر کے جلووں کو دیکھتے ہوئے یہ احساس پختہ ہو جاتا ہے کہ ان فنون میں جہاں تک رقص کا تعلق ہے ہندوستانی فکر نے اسے جذبوں کی وحدت اور کل زندگی کے عرفان کا نمونہ اور عکس بنایا ہے۔ ہندوستانی افکار و خیالات میں رقص جہاں ’’پرش‘‘ اور ’’پراکرتی‘‘ کا والہانہ متحرک اور مترنم اظہار ہے۔ وہاں سیکس (SEX) کے اعلیٰ اور ارفع جذبوں کا بھی اظہار ہے۔ سیکس کی جبلت کے آہنگ کا والہانہ اظہار آنکھوں، انگلیوں، چھاتیوں بازوؤں اور پاؤں کی متحرک کیفیتوں سے ہوتا ہے۔ رقص میں جنسی اظہار جہاں حد درجہ لذّت آمیز ہے وہاں یوگ کی اعلیٰ ترین سطح کا شعور بھی ہے جنسی جذبوں اور تجربوں کا اظہار انسان کے پورے وجود کا لطیف تر اظہار بن گیا ہے۔

ہندوستان نے جنسی علامتوں کو کائناتی جلووں اور کائناتی تخلیق کا درجہ دیا ہے، رقص کے تعلق سے جو تصویریں مصوّری کے نمونوں اور مندروں کی دیواروں پر ملتی ہیں وہ سیکس کو کائناتی جلووں میں پیش کر کے جمالیاتی مسرت اور آسودگی عطا کرتی ہیں، سیکس ایک بے قرار اور مضطرب جبلّت ہے جسے ہندوستان کے تخلیقی فنکار نظر انداز نہیں کرسکتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مصوروں اور نقش نگاروں اور مجسمہ سازوں نے غاروں اور عبادت گاہوں کو اس تخلیقی خواہش کی ان گنت جہتوں سے سجا دیا ہے جنسی رقص کی تصویر کشی میں معصومیت بھی ہے اور جذبے کی سرشاری بھی اور ما بعد الطبعیاتی تجربوں کی روشنی بھی ہے پیکروں کے عمل کے ساتھ، فارم، کی کسمساہٹیں بھی لطیف سرگوشیاں کرتی ہیں۔

رقص کے آہنگ کا احساس جنگل کی تہذیب سے اب تک موجود ہے۔ دراوڑی تہذیب نے اس آہنگ کی عظمت کے احساس کو بڑھایا اور رقص کو اعلیٰ اور بہتر جذبوں اور شعوری اور لاشعوری کیفیتوں کے اظہار کا سب سے بہتر ذریعہ سمجھا۔ ہندوستانی رقص کی اعلیٰ ترین روایات آج بھی جنوبی ہند میں موجود ہیں۔ مندروں، غاروں اور خانقاہوں میں رقص کی جانے کتنی ادائیں تصویروں اور مجسموں میں ملتی ہیں جنگل کی تہذیب سے مہنجودارو کی تہذیب تک اور جنوبی ہند سے شمالی ہند تک رقص کی داستان پھیلی ہوئی ہے۔ مذہب اور ما بعد الطبعیاتی نفسیاتی تجربوں سے رشتوں کی وجہ سے یہ فن اعلیٰ ترین تجربوں کے اظہار کا سب سے عمدہ ذریعہ بنا۔ قدیم ترین رقص کی بعض روایات آج بھی منڈاری اور آدی باسی قبیلوں میں موجود ہیں۔ اقتصادی زندگی اور قدیم مذہبی تصورات کی آزاد فضاؤں سے ان کا گہرا رشتہ ہے۔

وادی سندھ کی تہذیب میں رقص کو عبادت تصور کیا گیا۔ رگ وید میں اس عظیم فن کی جانب چند واضح اشارے ملتے ہیں۔ رشی منیوں اور اچاریوں نے آفاقی اور کائناتی رقص کے آہنگ کو محسوس کیا تھا۔ ہندو دیو مالا میں اپسرائیں بھی رقص کرتی ہیں۔ دیوی دیوتا سب رقص کرتے ہیں۔ شمالی ہند میں کرشن کا رقص ہندوستانی رقص کی داستان میں ایک مستقل سنہرا باب ہے۔ کرشن کے بچپن کا رقص ایک جلوہ ہے اور ان کی جوانی کا رقص ’’رس لیلا‘‘ بھی دلکش مظہر ہے۔ کدمبا کے درخت کے نیچے رادھا کے ساتھ رقص ہو یا چاندنی راتوں میں جمنا کے کنارے گوپیوں کے ساتھ، کرشن رقص کرتے ہوئے شدت سے روحانی عشق کی شعاعیں عطا کرتے ہیں۔ کرشن کے ساتھ جہاں رادھا اور گوپیوں کے رقص کی اہمیت بڑھی وہاں یہ احساس بھی ملا کہ کدمبا کا درخت جمنا، متھرا، برندابن، چاندنی رات سب ان کی ذات سے وابستہ ہو کر رقص کر رہے ہیں۔ رادھا اور کرشن ایک ہی پیکر کے دو چہرے ہیں۔ کرشن کا رنگ آسمان کی طرح نیلا ہے اور رادھا کا رنگ زمین کی طرح گندمی۔ آسمان اور زمین کا یہ سنگم ایک جمالیاتی وحدت ہے۔

کرشن کے نام کے ساتھ مہا بھارت کی آفاقیت،بھگوت گیتا کی انسان دوستی اور رادھا اور کرشن کی جمالیات سب کا تصور ابھرتا ہے۔ مریم اور عیسیٰ کے پیکروں کی طرح شمالی ہند میں کرشن رادھا اور جسودھا کے پیکر آرٹ اور شاعری کا سر چشمہ بنے ہیں۔ راجپوت اور پہاڑی اسکول کی مصوّری میں ان پیکروں کے خوبصورت جلوے ملتے ہیں اور لوک گیتوں اور پراکرتوں کے دوہوں میں ان کا جمال نمایاں ہوا ہے۔ پندرہویں صدی میں اس موضوع سے گہری دلچسپی لی گئی۔ ودیاپتی میرا بائی اور سورداس کرشن بھگتی کی تحریک کے بانیوں میں ہیں۔ پریم ساگر کی تخلیق کے بعد کرشن کی کہانیاں اور تمثیلیں عام لوگوں تک پہنچی ہیں۔

شری ولبھ اچاریہ کرشن بھگتی کے رہنما ہیں۔ انہوں نے کرشن کو عوامی ذہن سے قریب تر کر دیا۔ بتایا کہ کرشن ایشور کی روشنی ہیں۔ ولبھ اچاریہ عرفان سے زیادہ عشق کے جذبے کو اہمیت دیتے ہیں، انہوں نے کہا کہ کرشن کے وجود کی روشنی اس دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ روشنی ہی عشقؔ ہے۔ رادھا نے کرشن کے جسم سے جنم لیا اسی طرح آدم کے جسم سے حوّا نے جنم لیا۔ اور پھر کرشن اور رادھا دونوں سے لاکھوں گوپیوں اور گوپوں نے جنم لیا۔ یہ سب عشق کی علامتیں ہیں شری ولبھ اچاریہ کائنات کو کرشن کی لیلا تصور کرتے ہیں۔ اس ’’لیلا‘‘ سے عشق اور اس کی عبادت زندگی کے بنیادی مقاصد ہیں۔ سورداس کرشن بھگتی کے سب سے بڑے شاعر ہیں جنہوں نے رادھا اور کرشن کی کہانیوں کو عوام کے جذبے سے ہم آہنگ کیا۔ وصل، فراق اور وارداتِ عشق کے گیت سنائے۔ سورداس سے قبل کرشن کی کہانیاں مقبول تھیں اور ان کے بھجنوں کی روایت قائم تھی۔ ودیا پتی اور دکن کے مادھو اچاریہ اور میرا بائی کے نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔

کرشن، رقص میں ایک ایسے مکمل رومانی پیکر کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں جو ما بعد الطبعیاتی شعور کی روشنیوں سے معمور ہے۔ کنہیا، سانوریا، بنسری والے، گوکل کا بنسری بجیا، ماکھن چور، نٹور، گھنشیام، گوپال، شیام سب کرشن کے پیارے نام ہیں ٹیگور نے کرشن کو (THE GREAT UNKNOWN) کہا ہے اور ان کی بانسری کو وحدانیت اور خالِق کائنات کے آہنگ سے تعبیر کیا ہے بنگال کے بھگتوں نے اس حسیّاتی پیکر کو سارے ملک سے آشنا کرنے میں نمایاں حصّہ لیا ہے۔ کرشن کے تمام نام رقص کے بے پناہ تحرک کے باعث بنے ہیں۔ ہر نام ایک کہانی ہے اور ہر کہانی ایک رقص۔ کرشن کے رقص نے بھی نٹ، نرت اور نرتیہ کے دائرے کو وسیع کیا ہے۔ اور ابھینے (ABHINAYA) کے ڈرامائی عناصر میں تحرک پیدا کیا ہے۔ آنگک (ANGIKA) واچک (VACHAK) آہاریہ (AHARYA) اور ست وک (SATVAK) جو رقص کے ڈرامائی عمل کے بہتر تکنیک کے خوبصورت عناصر ہیں۔ کرشن کے رقص سے اور زیادہ اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ رقاص کرشن، عشق و غم دونوں کی علامت ہے۔ جمال کا عظیم پیکر ہے۔ رقص کرشن اور رادھا کے وجود کا اظہار ہے۔ بھگوت گیتا میں کرشن نے ارجن سے کہا ہے کہ تمام رقص دیوتاؤں کا بنیادی عمل ہے۔

ہندوستان کے تخلیقی آرٹ میں ان ہی باتوں کی وجہ سے رقص کے تقدس کو ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں تخلیقی آرٹ نے مختلف دیویوں اور دیوتاؤں کے رقص کے مناظر پیش کیے ہیں۔ وشنو عورت کی صورت میں (موہنی) رقص کرتے ہیں۔ جنگ کے دیوتا ’’سیلاپٹ گرام‘‘ کا رقص سامنے آتا ہے۔ کالی، پاروتی، اوما، شیو، گنیش وغیرہ کے جانے کتنے رقص کرتے ہوئے پیکر ملتے ہیں رادھا اور کرشن کے ساتھ وقت اور لمحوں کا رقص بھی جاری رہتا ہے۔ اپسرائیں رقص کرتی ہیں —

—رقص مذہب بن جاتا ہے۔

رقص کی جمالیات کے اس پس منظر میں مصوّری اور مجسمہ سازی کے خوبصورت متحرک نمونے ملتے ہیں اور روایات کے گہرے احساس اور نئے تجربوں کی روشنیوں میں ’بھارت ناٹم‘ کتھا کلی، کتھک اور منی پوری وغیرہ کی زرخیز تخلیقی صورتیں ملتی ہیں۔

 

بھرت ناٹم یا بھارت ناٹم

 

داسی آٹم (DASI ATTAM) ایک قدیم کلاسیکی رقص ہے جس کی جڑیں یقیناً ناٹیہ شاستر کے بہتر اصولوں میں جذب ہیں۔ داسی آٹم کے معنی ہیں ’’دیوداسیوں کا رقص‘‘ بھارت ناٹم اس کی ترقی یافتہ صورت ہے جس کا مفہوم ہے: وہ رقص جو بھارت یا بھرت کے اصولوں کے مطابق ہو۔ ‘‘ ممکن ہے رقص سے داسی یا دیوادسی کے تصوّر کو علیحدہ کرنے کی شعوری کی گئی ہو۔ اس رقص میں دراوڑی اور آریائی کلچر کی خوبصورت آمیزش ہے۔

شیو جنگلوں اور پہاڑوں کے ایک انتہائی حیرت انگیز اور معنی خیز پیکر رہے ہیں انہوں نے جنوبی ہند میں رقص کو نئی معنویت عطا کی ہے۔ رقص میں وہ خالق بھی ہیں اور عناصر و اشیا کے محافظ بھی۔ تخریب کار بھی اور رقص کا عظیم تر سر چشمہ بھی۔ نٹ راج کا ڈمر و تخلیق کے آہنگ اور خود تخلیق کی علامت ہے۔ ان کے بائیں ہاتھ میں تباہی کی آگ ہے اور دوسرے ہاتھ میں تحفظ کا گہرا تاثر۔  ایک ہاتھ جو بائیں پاؤں کی طرف اشارہ کرتا ہے اور کسی قدر اٹھا ہوا ہے خوشیاں اور اور مسرتیں بخشتا ہے۔ دایاں پاؤں عفریت کے جسم پر ہے جسے انہوں نے شکست دی ہے۔ نٹ راج کے توازن اور تنظیم اور سکوت اور حرکت نے ’’داسی آٹم‘‘ کی بنیادیں مضبوط کی ہیں۔ بدھ ازم نے بھی سکوت میں حرکت کو قبول کیا اور مدراؤں کو اہمیت دی۔ جنوبی ہند میں بدھ ازم کے دھیان، گیان، سکوت و حرکت اور مدراؤں کے نقطۂ عروج نے بھی داسی آٹم کے فن کو تقویت بخشی ہے۔ بارہویں صدی میں ’’وشنویت‘‘ نے اپنا گہرا اثر ڈالنا شروع کیا۔ داسی آٹم کا فن اس سے بھی شدت سے متاثر ہوا۔ جنوبی ہند کے بعض مندروں میں رانی سا نتالا (SANTALA) کے رقص کے جو نقوش ملتے ہیں وہ جہاں داسی آٹم کی اداؤں کو اجاگر کرتے ہیں وہاں وشنویت کے اثرات کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ ’’سانتالا‘‘ کے رقص نے آنے والی نسلوں کو بڑی شدت سے متاثر کیا ہے۔

’’داسی آٹم ‘‘ میں ہندوستانی کلاسیکی رقص کے تینوں پہلو ملتے ہیں یعنی ’نرت‘ (خالص رقص) نرتیہ (تاثرات) اور ناٹیہ (ڈراما)

اس رقص کی چندی بنیادی خصوصیات کو اس طرح پیش کیا جائے تو مناسب ہو گا۔

الّا رُپّو (ALLARIPPU)  وہ ابتدائیہ ہے جو خالص رقص کا نمونہ ہوتا ہے۔ اس میں عام طور پر جذبات اور تاثرات کا اظہار نہیں ہوتا اور کوئی کہانی بھی نہیں ہوتی۔ الّا رُپّو کی بنیاد تلگو لفظ الارمپور (ALARIMPU) ہے جس کا مفہوم ہے ’’پھولوں سے سجانا‘‘!

ابتدا میں رقص سے یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ فنکار بکھرے ہوئے پھولوں کو اپنے دیوتا کے لیے جمع کر رہا ہے رقص کرنے والوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اسٹیج کے درمیان برہما موجود رہتے ہیں۔ ابتدا میں یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ آئندہ رقص کے پہلو کس نوعیت کے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائیہ رقص دیکھنے والوں کی دلچسپی میں اضافہ کرتا رہتا ہے۔ ابتدائیہ ہی میں رقاص یا رقاصہ دیکھنے والوں کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتی ہے اور آہستہ آہستہ ایک جذباتی اور تاثراتی رشتہ قائم کر لیتی ہے۔

اسے عورتوں کا رقص تصور کیا گیا تھا لیکن اس میں مرد بھی شامل ہو گئے۔ شیو کے ’’اردھ نار ایشور‘‘ کے حسی تصوّر نے اس سلسلے میں بڑا نفسیاتی سہارا دیا ہے۔ یہ احساس کہ عورت مرد کے بغیر مکمل نہیں ہے اور دونوں کی وحدت کسی بھی فن کے لیے ضروری ہے غیر معمولی احساس ہے اور اسی کی وجہ سے ’’داسی آٹم‘‘ میں عورت کے ساتھ مرد شامل ہوا۔

’’داسی آٹم‘‘ میں دائیں جانب مرد کا جلال و جمال (ٹانڈو) ہوتا ہے اور دوسری جانب نسوانی نزاکت اور نرمی (لاسیہ) ہوتی ہے۔ دونوں کی جذباتی کیفیتوں کی وحدت اچھے ’’داسی آٹم‘‘ کو جنم دیتی ہے۔

سُلّو کوٹس (SOLLO KUTTUS) داسی آٹم کا ایک لازمی جز ہے۔ ایک خاص آہنگ کے ساتھ رقص کی دھمک کے ساتھ بول سنائے جاتے ہیں۔ حرکت اور دھمک کو ان کے آہنگ کے مطابق ’بول‘ عطا کیے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ ’بول‘ رقص کی حرکت اور دھمک کی علامت ہیں۔ وہ آوازیں جو فنکار کے پاؤں کے دھمک سے ابھرتی ہیں ان کی نمائندگی ’بول‘ کے آہنگ سے کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک جاتی (آہنگ) یہ ہے۔

تا۔ کِی۔ تا

دوسری جاتی (آہنگ) جسے چترس کہتے ہیں یہ ہے۔

تا۔ کا۔ دھی۔ می

تیسری جاتی یعنی ’’خاندی جاتی‘‘ یہ ہے۔

تا۔ کی۔ تا‘ کی۔ تا

چوتھی ’جاتی‘ یعنی ’’مِسَرجاتی‘‘ (MISRA)  یہ ہے

تا۔ کا۔ دھی۔ می ‘ تا۔ کی۔ کا۔

اور پانچویں ’جاتی‘ جسے سنکرنا (SANKIRNA) کہتے ہیں یہ ہے۔

تا۔ کا۔ دھی۔ می۔ ’تا‘ کا۔

تا۔ کی۔ کا۔

رقص کے آہنگ کے مطابق بول کے آہنگ کی بڑی اہمیت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ شیو نے ۱۰۸ رقص کیے’ بھرت نے بھی ۱۰۸ تیوروں کی وحدت کا ذکر کیا ہے۔ جسم اور ہاتھوں اور پاؤں کی حرکتوں اور اشاروں کے یہ ۱۰۸ پہلو ’کرانا‘ (KARANA) کہے جاتے ہیں۔ ’’چیدام برم مندر‘‘ میں یہ تمام ’کرانا، نقش ہیں۔ رقص کے تجربوں نے جہاں ان تیوروں میں نئی معنویت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہاں نئے تیور بھی شامل کیے ہیں جو ’’بھارت ناٹم ‘‘ میں عام طور پر نظر آتے ہیں۔

’داسی آٹم‘ میں اس قسم کے کم و بیش پندرہ تیور ہیں۔ کرانا اور ’’اداؤ (ADUVU) اس رقص کے درمیانی حصّے ہیں۔ درمیانی حصّے میں رقص کا نقطۂ عروج پیش ہوتا ہے۔

’’داسی آٹم‘‘ میں اختتام کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ اختتام کو ترمان (TRIMANA) کہتے ہیں۔ اس کی تین صورتیں ہیں:

۱؎ رقاص، رقص کے کسی ایک پہلو کو نقطۂ عروج پر لے آتا ہے اور رقص ختم ہو جاتا ہے۔

۲؎ رقاص ایک ہی پہلو کو اہمیت دیتا ہے اور اس کا اختتام ترمان ہے۔

اور ۳؎ رقاص ابتدا ہی میں کوئی پہلو شدت سے پیش کرتا ہے اور اسے ابتدا ہی میں ختم کر دیتا ہے۔

 

’’شیو لیلا ناٹم‘‘ ’’برہم میلہ‘‘ اور ’’کچّی پوڑی‘‘

’’شیو لیلا ناٹم‘‘ بھی ایک قدیم رقص ہے جس میں شیو کی کہانیاں پیش ہوتی رہی ہیں۔ اپنی ڈرامائی خصوصیتوں کی وجہ سے یہ رقص جنوبی ہند میں بہت مقبول رہا ہے۔

اسی طرح ’’برہم میلہ‘‘ میں برہما کی کہانیوں کو پیش کیا گیا۔

جب بھگوت گیتا نے لوگوں کے دل میں جگہ پالی اور کرشن عوام کے محبوب ترین پیکر ’بول‘ کے ساتھ ’تال‘ کی بھی اہمیت ہے۔ مغلوں کے زمانے میں اس رقص کو کتھک نے متاثر کیا جس کی وجہ سے اس کی صورت ’داسی آٹم‘ سے بہت حد تک مختلف ہو گئی۔

 

 کوراوانجی

 

کوراوانجی (KURAVANJI) جنوبی ہند کا مشہور عوامی رقص ہے۔ اس میں ’’داسی آٹم‘‘ کی تکنیک کا آزادانہ استعمال ہوتا ہے۔ نوجوان لڑکیوں کا یہ محبوب ترین رقص ہے۔ رخساروں پر تِل کی مانند سیاہ نقطے لگائے جاتے ہیں۔ جن سے دوشیزاؤں کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ یہ نگاہِ بد سے بچے رہنے کی بھی علامت ہے۔ جنوبی ہند کے پہاڑی علاقوں میں یہ رقص مقبول رہا ہے ان علاقوں کے مردوں اور عورتوں نے سانپ کے کھیل تماشے دکھاتے ہوئے جانے کتنے علاقوں میں اس رقص کو مقبول بنایا ہے۔

’کوراوانجی‘ میں رومانی اساطیری کہانیاں بھی ہیں اور ایسے قصّے بھی کہ جن میں مستقبل کے اشارے ہیں پیشن گوئیاں کی گئی ہیں۔

شیو کے لڑکے سبرامنیا اور خوبصورت دو شیزہ ولّی (VALLI) کی محبت کے واقعات اس رقص کے محبوب موضوعات ہیں۔ ولّی کو رقّاصہ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کہانی میں گنیش بھی اہم کردار ہیں جو سبرامنیا کی مدد کرتے ہیں۔

بہت سی کہانیوں کے موضوعات میں بھی دلچسپ نکتہ ہے کہ محبوب عموماً جنگل کی زندگی سے وابستہ ہوتی ہے۔ کبھی کسی شہزادے سے عشق ہوتا ہے اور کبھی کسی دیوتا سے۔ ان موضوعات پر جو رقص پیش ہوتا ہے وہ عوامی جذبات و احساسات کے ساتھ قدیم ترین رقص کی تکنیک اور کلاسیکی آہنگ بھی لیے ہوتا ہے۔ اس پر شیو ازم کے اثرات بہت گہرے ہوتے ہیں۔ ’شدت‘ اس رقص کی بڑی خصوصیت ہے۔ جذبات کی شدت رقاص کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے اور اس کا پورا وجود حد درجہ متحرک ہوتا ہے۔

 

 کتھا کلی

 

کتھا کلی کا وطن کیرالا ہے، یہاں صدیوں دوسرے ملکوں کے تاجر، دانشور، فنکار اور علماء آتے رہے ہیں۔ مختلف کلچر کی آمیزشیں ہوتی رہی ہیں۔ یونانی، رومی، عرب اور چینی یہاں بن گئے تو ’’کچی پوڑی‘‘ (KUCHI PUDI) رقص نے ڈرامائی خصوصیتوں کے ساتھ ایک نئی جہت پیدا کی اور ’’بھگوت میلہ‘‘ ناٹک نے رقص کو ایک نیا جلوہ بنا دیا۔

کرشن بھگتی تحریک نے رقص کو نئے تجربوں سے آشنا کیا اور محبت کا ایک لازوال تصور رقص کے وجود میں پگھل گیا۔ بھگتوں نے اس تحریک کے لیے جہاں گیتوں اور نغموں اور موسیقی وغیرہ کا سہارا لیا وہاں رقص اور ڈراموں کو بھی اہمیت دی۔ تمل ناڈ میں ’’بھگوت میلہ ناٹک‘‘ اور آندھرا پردیش میں ’’کچی پوڑی‘‘ رقص اس کے عمدہ نمونے ہیں۔

دونوں رقص پر ’وشونیت‘ کی گہری چھاپ ہے۔ کرشن کو وشنو کا اوتار تصوّر کیا گیا ہے۔ لہٰذا وشنو کے تعلق سے کئی واقعات ’’کچی پوڑی‘‘ اور ’’بھگوت میلہ ناٹک‘‘ میں شامل ہوئے مختلف یوگیوں نے ’’کچی پوڑی‘‘ کو زندہ رکھنے اور اسے جمالیاتی صورت عطا کرنے میں نمایاں حصہ لیا ہے جس میں سدھیندر یوگی کا نام بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ان ہی کے وجدان کا کرشمہ ہے۔ اس رقص کو ’’اوپرا‘‘ کی صورت بھی دی گئی اور اس سلسلے میں ’’کرشن لیلا ترنگنی‘‘ ایک شاہکار تصور کیا جاتا ہے ترتھ نارائن یانی کی تخلیق، گیتا گو بند (جے دیو) اور بھاگوت پر ان سے موضوعات منتخب کیے گئے۔ ان سے تاثرات (ابھینے) کے اظہار میں بڑی مدد ملی اور کرشن کی ادائیں لوگوں کے جذبات سے وابستہ ہو گئیں رمیہہ شاستری کی تخلیق ’’گلّا کالاپم‘‘ GOLLAKAPAM اور تھیاگ راج کی کرتیوں (رقص اور نغمے) نے ’’کچی پوڑی‘‘ کو مقبول بنانے میں بڑا حصّہ لیا ہے۔ ان دونوں نے کرشن کے رقص کو نئی جہتیں عطا کی ہیں۔

یہ رقص قدیم موسیقی اور قدیم رقص کی تکنیک کے ساتھ جلوہ گر ہوتا ہے۔ فنکاروں کے لیے تلیگو اور سنسکرت کا جاننا ضرورت ہے ورنہ یہ رقص ممکن نہیں ہے۔ اس طرح اس کا رشتہ دوسرے فنون سے بہت گہرا ہو جاتا ہے۔ موسیقی اور قدیم رقص کی تکنیک کے مطالعے کے ساتھ ادبیات کا مطالعہ بھی ضروری ہو جاتا ہے۔

اس رقص میں ’’داسی آٹم ‘‘کی بہت سی خصوصیات شامل ہیں مثلاً ’پدم اور ’ورنم ‘ وغیرہ لیکن ساتھ ہی اس کی اپنی انفرادی خصوصیات بھی ہیں جن پر نظر ضروری ہے۔ اس رقص کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ بہت ہی کم وقت میں پوری کہانی پیش کر دیتا ہے۔ اسی طرح ہاتھی دانت، سونا، مور اور دوسرے پرندوں اور جڑی بوٹیوں کی تلاش میں آئے۔ یہودیوں کے لیے بھی یہ پناہ کی جگہ بنی۔ مندروں کی تعمیر اور مچھلیوں کے جال کے بڑے مربعوں پر چینی اثرات نظر آتے ہیں۔ فن تعمیر اور مجسمہ سازی پر یونانیوں، رومیوں اور عربوں کے اثرات ملتے ہیں۔ آریائی اور دراوڑی کلچر کی آمیزش کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔

دراوڑ بھگوتی کی عبادت کرتے تھے جو عظیم ماں یا دھرتی ماں کی صورت ہے۔ فطرت کے تخلیقی عمل کے احساس کا یہ ایک انتہائی پاک، معصومانہ اور بھولا بھالا اظہار تھا۔ دھرتی اناج دیتی ہے۔ اس کے لیے موسموں کے خوبصورت چکر کو قائم رکھتی ہے۔ اسی کے فیض سے نسلیں قائم رہی ہیں اور قائم رہیں گی۔ یہی جنم دیتی ہے، مرنے کے بعد ہم اسی سے مل جاتے ہیں، تخلیق کا بیج اسی میں ہوتا ہے، وہی اسے سنبھالتی ہے، اسی کے بطن سے ہر شے کا وجود ہے۔ عظیم ماں کا ایسا تصور ابتدا ء میں کئی ملکوں میں ملتا ہے ISIS, VENUS, ISHTAR, ASHTORETH, CERES, APNRODITE سب اسی تصوّر کے ابتدائی حسّی پیکر ہیں۔ عظیم ماں یا دھرتی ماں کے ساتھ دراوڑ ناگ اور ناگ دیوتا کی بھی پرستش کرتے تھے، دھرتی سے ناگ نکلتے ہیں اور پھر دھرتی میں چلے جاتے ہیں۔ ناگوں کے نکلنے اور واپس جانے کی علامت اہمیت اختیار کر گئی، ناگ، جنم، سیکس، ارتقا اور روح کی ارتقائی منزلوں موت اور فنا سے پرے زندگی، عرفان، عقل مایا کے پردوں کو چاک کرنے والے پیکر، سب کی علامت ہے۔ قدیم رقص میں سانپ کی علامت مرکزی حیثیت رکھتی ہے ’’پم پن تلّل‘‘ (PAMPIN TILLEL) ناگ ہی کا رقص ہے۔

’کتھا کلی‘ کا مطالعہ کرتے ہوئے ان روایات کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے اس لیے کہ اس رقص میں ان تمام تصورات اور تاثرات نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ ’کتھا کلی‘ کے متعلق عام رائے یہ ہے کہ یہ آریوں سے قبل کے دراوڑ مزاج اور آریوں کی آمد اور ان کے کلچر کی تہذیبی آمیزش کے بعد کے دراوڑ ذہن کا خوبصورت امتزاج ہے۔ اس کی جمالیات ماضی اور حال کے حسن کے تاثرات کا مجموعہ ہے۔ فطرت کی پرستش اور سادگی کا حسن بھی ہے اور نئے مزاج کے جلوے بھی ہیں۔ جن کا ایک واضح اظہار ’’چھندا‘‘ (CHENDA) یعنی نقارہ ہے۔ مدھیہ پردیش، بہار اور اڑیسہ میں اسی نسل کے لوگ آباد ہیں۔ وہ بھی سادگی اور پیچیدگی کے حسن کے امتزاج کو رقص میں پیش کرتے ہیں۔ جب دشمنوں کا تصور شامل ہوا تو عفریتوں کے کردار پیچیدگی پیدا کرنے لگے۔ اس سے قبل بھگوتی کے تصور نے سادگی کا حسن ہی عطا کیا تھا۔

رفتہ رفتہ ’بھگوتی‘ آریوں کی کالی میں جذب ہو گئی اور کالی کی پرستش ہونے لگی۔ ’’نیا یاروں‘‘ (NYARS) نے کالی کو بڑی شدت سے قبول کیا۔ نیاز جنگجو تھے۔ جنگ کے طور طریقوں سے واقف تھے۔ نئی نسل کو جنگ کی مناسب تربیت دیتے تھے (کالی کو قبول کرنے کی نفسیاتی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے) یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے علم کو رقص میں جذب کیا اور ’کتھا کلی‘ کی بنیاد مضبوط کی۔ تربیت دینے کی روایت نے اس میں بڑا حصّہ لیا ہے۔ ناگ کے پیکر کبھی دشمنوں کی صورتوں میں سامنے آئے اور کبھی محافظ کی طرح۔ کالی کی گرفت میں ساری دنیا آ گئی لہٰذا ناگ بھی اس کے حکم کی تعمیل کرنے لگے۔ پاؤں کے تحرک، پاؤں کو کم تھکانے کی خواہش اور کسی بھی جانب آزادانہ حرکت کی آزادی اس رقص کی بنیادی خصوصیات ہیں جن کا گہرا رشتہ جنگ اور جنگ کے طور طریقوں اور تربیتوں سے ہے۔ رفتہ رفتہ آریوں کی بہت سی کہانیاں شامل ہوئیں۔ مہا بھارت، رامائن، شیو پران اور بھگوت پر ان کی کہانیاں اس رقص میں پیش ہونے لگیں۔ موسیقار جو گاتے ہیں رقاص انہیں رقص میں پیش کرتے ہیں۔ رومانی فضاؤں کی تشکیل کے ساتھ یہ رقص خطرناک خونی جنگوں کی فضاؤں کی بھی تشکیل کرتا ہے۔

’کتھا کلی‘ میں ’’معنی خیز حرکت و اشارہ ‘‘ اور ’سوانگ‘ اور ’نقالی‘ دونوں کی اہمیت ہے۔ ان کے لیے مناسب تربیت ضروری ہے اور یہ تربیت بہت مشکل ہے۔  جسمانی ورزش (MAI SADHAKAM) پاؤں کے تحرک پر مکمل اعتماد پیدا کرنے کے لیے پاؤں کی مناسب ورزش (KAL SADHAKAM) معنی خیز حرکات و سکنات اور اشارات کی مناسب تربیت (MURDA SADHAKAM) اور چہروں پر تاثرات کے ابھارنے یا پیدا کرنے کی ورزش اور تربیت (MUKHABHINAYA SADHAKAM) کے بغیر یہ رقص پیش نہیں ہوسکتا۔ اس تربیت میں مختلف آہنگ اور ان کی جہت وار مختلف اور متضاد پہلوؤں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔

کتھا کلی ایک مشکل آرٹ ہے، اس کی تمام تکنیک پر حاوی ہونا آسان نہیں ہوتا۔ اس کی جمالیات کا شعور اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب فنکار صرف اس کی روح اور اس کے جوہر سے واقف نہ ہو بلکہ اس کی تمام خصوصیات پر بھی دسترس رکھتا ہو۔ ’کتھا کلی‘ کی مدراؤں میں صرف ہاتھ کے جانے کتنے معنی خیز اشارے اور کنایے ہیں۔ ہاتھ یا ہاتھوں کی ذرا سی حرکت سے ’مدرا‘ بدل جاتی ہے۔ ’پاٹکہ مدرا‘ میں ہاتھ کھلا رہتا ہے۔ صرف اس ہاتھ کے درمیان کی انگلی جھکی رہتی ہے۔ اس مدرا سے چالیس سے زیادہ معنی پیدا کیے جا سکتے ہیں۔ دو ہاتھوں کا ایک ہی اشارہ آفتاب، طلوع آفتاب، غروب آفتاب، صبح، دن زمین، چاند بادل اور جہنم وغیرہ کا اشارہ بن سکتا ہے اور ایک ہاتھ کا ایک ہی معنی خیز اشارہ تازہ پتوں، آئینہ، آواز، ریت، جسم وغیرہ کا اشارہ بن سکتا ہے۔ حملے دباؤ جنگ کی تیاری اور تشدد وغیرہ کو بائیں ہاتھ سے اس وقت پیش کیا جاتا ہے جب وہ سینے کی بائیں جانب ہو۔ ہاتھ بند رہیں اور انگوٹھا پہلی انگلی پر ہو۔ شیو اور برہما کو عموماً مسر امدرا (MISRA MUDRA) یعنی ایک سے زیادہ مدراؤں کے امتزاج میں پیش کیا جاتا ہے۔ انگلیوں کا ایک دوسرے سے رابطہ پیدا ہوتا رہتا ہے اور اس سے مختلف مدراؤں کے ذریعہ تاثرات ابھارے جاتے ہیں۔

’کتھا کلی‘ کے فنکار ’’مکھ ابھیے سادھ کام  (MUKHABHINAYA SADHAKAM) کی طرف گہری توجہ دیتے ہیں اس لیے کہ یہی بنیادی ابھینے ہے۔ اس میں آنکھوں کے تاثرات یا آنکھوں کا ڈرامائی عمل (نین ابھینے) کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ مختلف جذبات کا اظہار آنکھوں کے ذریعے کس طرح کیا جائے یہی بنیادی بات ہے۔ اس رقص کی جمالیات میں آنکھوں کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہاتھوں کی حرکتوں اور آنکھوں کے عمل کے خوبصورت امتزاج سے اس رقص کی جمالیات سامنے آتی ہے۔

آنکھیں وجود کا اظہار ہیں لہٰذا رقص کی روح آنکھوں میں ہے۔ بعض رقص ایسے بن جاتے ہیں جن میں ’بول‘ یا مصرعوں کا مرکزی نکتہ یا مرکزی خیال صرف آنکھوں سے ظاہر ہوتا ہے۔ اس آرٹ کے لیے ’’نوکی کا نوکا‘‘ کی جمالیاتی اصطلاح استعمال کی گئی ہے جو کتھک کے ’’بھاؤ دکھنا‘‘ (BHAVA DIKHANA) سے زیادہ اہم ہے۔ جب مرکزی خیال یا بنیادی خواہش یا بنیادی جذبہ آنکھوں میں شدّت اختیار کر لیتا ہے تو رقص پورے وجود کی علامت بن کر لمحوں کو منجمد رقص بنا دیتا ہے اور آنکھیں ’’مجسم رقص‘‘ کا استعارہ بن جاتی ہیں۔ پورے رقص کا آہنگ جیسے ایک نقطے پر آ کر ٹھہر گیا ہو —!

آنکھوں کی آٹھ اداؤں کا ذکر ملتا ہے اور یہی آٹھ ادائیں ’’مکھ ابھینے‘‘ کی بنیاد بنتی ہیں۔

سام       آنکھوں کی فطری کیفیت

می لیتا     نصف کھلی آنکھیں

الوکیتا    مکمل کھلی آنکھیں

سانچی     مرکز سے ہر طرف دیکھتی ہوئی آنکھیں

پرالوکیتا  دو جانب دیکھتی ہوئی آنکھیں

اُلو کیتا    اوپر کی طرف دیکھتی ہوئی آنکھیں

انو ویرتیا  لمحوں میں کبھی اوپر اور کبھی نیچے دیکھنے والی آنکھیں

اور                    اؤلوکیتا  نیچے کی طرف دیکھنے والی آنکھیں

یہ آنکھیں اپنی خاص چمک دمک اور آب و تاب سے پہچانی جاتی ہیں۔ سر سری اور اچٹتی ہوئی نظر بھی کسی نہ کسی حقیقت یا تجربے کا احساس عطا کر دیتی ہے۔ ان تمام انداز نظر کا رشتہ گہرے تجربوں سے قائم ہے۔ اور اسی رشتے سے اس رقص کی جمالیات کی پہچان بہتر طور پر ہوئی ہے۔ مثلاً سام —یعنی آنکھوں کی فطری کیفیت کا اظہار عموماً اس وقت ہوتا ہے جب رقص دیوتاؤں کی حسی نقالی کرتا ہے۔ اسی طرح ’می لیتا‘ یعنی نصف کھلی آنکھوں کے بعض تاثرات کا اظہار اس وقت ہوتا ہے جب عبادت کے لمحوں کے تقدس کو پیش کیا جاتا ہے۔ یا سانپ کی سر سراہٹ کا رد عمل ابھارا جاتا ہے۔ جب رتھ یا پہیہ کے چلنے یا کسی بھی چیز کی شدت کو پیش کیا جاتا ہے تو ’الو کیتا ‘ یعنی مکمل طور پر کھلی آنکھوں میں تاثرات ابھارے جاتے ہیں۔

نگاہوں کی نو حرکتیں ہیں۔ آنکھوں کی پتلیوں اور پپوٹوں کو نو طریقوں سے رقص کا حصّہ بنایا جاتا ہے۔ بھویں اس میں نمایاں حصّہ لیتی ہیں۔ ابروؤں یا بھوؤں کی سات حرکتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ ’رسوں‘ کے اعلیٰ ترین اظہار کے لئے ’کتھا کلی‘ کا فن بہت آگے ہے۔ اس فن میں رسوں کو ابھارنے، ان میں تحرک پیدا کرنے اور احتیاط کے ساتھ رقص دیکھنے والوں کے احساس اور جذبے میں شدت پیدا کرنے کی بڑی صلاحیت ہے۔ رسوں کی معنویت اس طرح پھیلی ہے کہ فن فنکار اور اس فن سے لطف اندوز ہونے والے تینوں ایک جمالیاتی دائرے میں آ جاتے ہیں اور یہ ایک غیر معمولی فنکارانہ عمل ہے ’کتھا کلی‘ میں یوں تو کئی سومدرائیں ہیں لیکن فنکاروں نے چوبیس مدراؤں میں ان تمام مدراؤں کا رس نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس فن کے لیے چوبیس مدراؤں کا شعور ضروری ہے یہ رقص مسلسل ریاض کا تقاضا کرتا ہے۔

’کتھا کلی‘ میں آرائش و زیبائش کو ہمیشہ ضروری سمجھا گیا ہے۔ چہروں، آنکھوں اور بالوں کی مناسب آرائش کی طرف خاص توجہ دی جاتی ہے۔ اسی طرح لباس اور زیورات کی بھی خاص نظر رہتی ہے۔ اس رقص میں تو ’تودپیام—‘ رقص بھی شامل ہوتا ہے جو کئی لحاظ سے توجہ طلب ہے۔ اس میں ’شکتی‘ اور ’مایا‘ کو علامتوں کے طور پیش کیا جاتا ہے۔ اسے ’’لیلا‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس رقص کے ذریعہ کائنات کی بنیادی قوت یا طاقت کا احساس پیدا کیا جاتا ہے۔ اسے عموماً ابتدا میں پیش کیا جاتا ہے۔ ’کتھا کلی‘ کی تکنیک نے اس رقص کی تکنیک کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔

ہندوستانی جمالیات میں ’کتھا کلی‘ ایک منفرد دبستان ہے۔  کتھا کلی نے رقص کو ڈراما بنا دیا ہے۔ ایسا ڈراما جو اپنی پیچیدگیوں کا حسن رکھتا ہے۔ یہ فن جلال و جمال کے اظہار کا ایک انوکھا فن ہے جو پورے وجود کے جذباتی اور ذہنی فلسفے کو اپنے مخصوص آہنگ سے نمایاں کرتا رہتا ہے۔

 

 مو  ہنی آٹم

 

’’موہنی آٹم‘‘ کا مزاج اساطیری ہے۔ وشنو نے موہنی کی صورت اختیار کی تھی۔ اس لیے اس رقص کا ایک اساطیری مزاج بنا ہے۔

اس رقص کے ذریعہ دیوتاؤں کی فتح (سمندر کے امرت کو پانے کا واقعہ) کو طرح طرح سے پیش کیا گیا ہے اور جانے کتنی دوسری کہانیاں اس رقص سے وابستہ ہو گئی ہیں۔

موہنی عورت کے حسن و جمال کی علامت ہے۔ ’داسی آتم‘ اور’ کتھا کلی‘ کے نسوانی پہلو (لاسیہ) کی تکنیک اس رقص میں ملتی ہے۔ طوائفوں نے مختلف علاقوں میں اپنا یا اسی وجہ سے اس رقص کی طرف زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کی تکنیک اور اس کے فنکارانہ اظہار پر غور کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ یہ عوامی رقص ’’ابھینے‘‘ یا تاثرات کے فنکارانہ اظہار کی وجہ سے بے حد مقبول رہا ہے۔ اس کا ہر تحرک با وقار ہے عمدہ مختصر رومانی اور اساطیری کہانیوں کے لیے اس رقص کو مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اس کی دھمک میں نرمی اور گداز ہے۔ مدراؤں میں رقص کتھا کلی سے متاثر ہے۔ ہاتھوں اور آنکھوں سے بہتر تاثرات پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ عورت کے خوبصورت، پر کشش اور لذّت آمیز جسم نے اس رقص میں بڑی اہمیت حاصل کر لی۔ اس میں زیادہ سے زیادہ گانے شامل ہونے لگے لہٰذا شاعر اور موسیقار دونوں اس رقص کے لیے ضروری بن گئے۔ عورتوں نے اپنے عام لباس میں یہ رقص کیا ہے اور پھولوں کو صرف آرائش و زیبائش کے لیے پسند کیا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

کتھک اور اس کی جمالیات

 

کتھک ایک قدیم ترین رقص ہے، معنی ہیں ’’کہانی سنانے والا!‘‘ کتھا (کہانی) کتھک کا بنیادی جُز ہے، کتھک کا فن کار اپنے آرٹ سے کہانی کو جلوہ بنا دیتا ہے، ہندوستان کی جانے کتنی اساطیری، مذہبی اور علاقائی کہانیوں کو کتھک نے اپنی جمالیاتی قدروں کے احساس و جذبے سے ہم آہنگ کر دیا ہے۔

ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جانے والے کتھا سناتے تھے اور تجربے بیان کرتے تھے، اپنے علم کی روشنی عطا کرتے تھے، اساطیر اور مذہب سے اپنی واقفیت کا اظہار کرتے تھے، ایسے تمام تجربوں اور کہانیوں اور قصّوں کو لوگوں کے احساس و جذبے سے قریب تر کرنے کے لیے فن کاروں نے رقص کا سہارا لیا، ابتداء میں رگ وید اور اپنشدوں کی خاص خاص باتوں کو رقص کے ذریعہ پیش کیا گیا پھر مہا بھارت اور رامائن وغیرہ کی کہانیوں کو موضوع بنایا گیا تاکہ عوام تک ان کی روشنی تمام رسوں کے ساتھ پہنچ سکے۔ ابتداء میں رقص پر آریائی مزاج غالب رہا۔ ہندو اسطور اور مذہبی خیالات کو موسیقی، شاعری اور نغموں میں پیش کیا گیا اور رقص میں ان سب کو شامل کر کے ڈرامائی کیفیتیں پیدا کی گئیں۔

’کتھک کی تاریخ پر نظر رکھی جائے اور اس کے موضوعات اور اس کی تکنیکی تبدیلیوں کا تجزیہ کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس رقص میں بڑی وسعت اور لچک ہے اس نے ہر دور کے مزاج کو ہم آہنگ کیا ہے۔ جانے کتنے اثرات قبول کیے ہیں، چین وسط ایشیا، ترکی، ایران اور مصر کی تہذیب نے بھی ہندوستان کی مٹّی کی خوشبوؤں کے ساتھ اسے کسی نہ کسی طرح متاثر کیا ہے، بدھ ازم کے آخری زمانے میں اِس رقص نے بدھ کتھاؤں کو بھی موضوع بنایا ہے۔

ہندوستان کے کلاسیکی رقص کی روشنی حاصل کر کے کتھک نے عوامی زندگی اور مجموعی طور پر تہذیبی زندگی سے ایک رشتہ قائم کیا ہے۔ اکبر کے زمانے میں اس فن نے عروج پایا، بھگتی تحریک اور صوفیانہ رجحانات نے اسے بڑی تقویت بخشی ہے، بزرگوں کے تجربوں کا فنکارانہ اظہار ہوا، انسان دوستی کا جذبہ اس رقص کا اہم ترین موضوع رہا ہے۔

’کتھک‘ کے فنکاروں نے ’’نرت‘‘ میں ایسے شعری تجربوں کا سہارا لیا جن میں بھگتی کا حسن اور صوفیانہ تجربوں کی روشنی تھی، اس سے قبل ’’وشنویت‘‘ کے گہرے اثرات واضح طور پر نظر آتے ہیں اور کرشن کے پیکر نے تو وشنویت کی روایت کو اور پختہ کر دیا۔ کرشن ’کتھک‘ کے اہم ترین جمالیاتی موضوع بنے اور اُن کے تعلق سے تجربوں کی ایک بڑی دنیا سامنے آ گئی، اس رقص نے کرشن بھگتی کو جس شدت سے قبول کیا ہے اور اس کے تعلق سے جن اعلیٰ ترین تجربوں کا فنکارانہ اظہار کیا ہے اُس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔

اس خوبصورت رقص میں دراوڑی اور آریائی تجربوں کی بڑی دلآویز آمیزش ملتی ہے اور کرشن بھگتی کے تجربے اس کی عمدہ ترین مثال ہیں، کرشن ، رادھا، کرشن کی بنسری، جسودھا، جمنا، گوپیاں، ورندا بن وغیرہ سب اس رقص کے آہنگ میں شامل ہوئے اور کردار اور آہنگ بن کر رہے، مہا بھارت کے کرشن بھی اپنی تمام خصوصیتوں اور خاص طور پر اپنی گہری فلسفیانہ سنجیدگی کے ساتھ جلوہ گر ہوئے۔

رقص کے لیے یقیناً یہ سب عمدہ ترین موضوعات تھے، ان تمام قصوں اور کرداروں اور ان کی شخصیتوں کے آہنگ میں ’’رس‘‘ تھے، ایسے رس جن سے آنند ملتا ہے، جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے لہٰذا خوبصورت عناصر کے تاثرات اور ردِ عمل کو اس رقص نے جمالیاتی عبادت کی صورت دے دی اور ’رسوں‘ اور آنند کا اعلیٰ ترین احساس بخشا، چنڈیؔ داس، تلسیؔ، میرا بائی، سورداسؔ اور ودیاؔ پتی کے نغموں کو کتھک نے شدت سے قبول کیا، اُن کے ’بول‘ اس رقص سے کچھ اس طرح وابستہ ہو گئے جیسے یہ اسی رقص کے پیش نظر یا اسی رقص کے لیے وجود میں آئے ہوں۔

ایران اور وسط ایشیا کے وہ فن کار جو مسلمانوں کے عہد میں ہندوستان آئے انہوں نے بھی اس کے ارتقا میں نمایاں حصّہ لیا اور دو بڑی تہذیبوں کی آمیزش نے اس رقص کے دائرے کو اور وسیع کیا۔ حضرت امیر خسروؒ نے ’یامنی‘ اور ’کافی‘ کو ہندوستانی راگوں میں شامل کیا اور کتھک نے اس خوبصورت آمیزش کو بڑی شدت سے قبول کیا۔ اس طرح اس کے نئے اسالیب پیدا ہوئے ’’اس کی تکنیک میں نئے تجربے ہونے لگے۔ اکبر نے فتح پور سیکری کے محل میں اس رقص کو نمایاں حیثیت دی اور اس کے ساتھ ہندوستان کے دوسرے درباروں میں اس کی جمالیاتی خصوصیتوں کی قدر و قیمت کا احساس ہونے لگا، مغلوں کے دور تک اس میں بہت سی تبدیلیاں ہوئیں۔ آرائش و زیبائش کے پیشِ نظر لباس میں جو تبدیلیاں ہوئی ہے وہ بھی توجہ طلب ہے، اس کے آہنگ کی کئی جہتیں پیدا ہوئیں اور رقص کے حسن میں اضافہ ہوتا رہا۔ ’دُھر پد‘ کے آہنگ اور بول نے اسے عروج بخشا، شاعری کی نئی خوبصورت علامتوں نے اس کی اداؤں کو نئی معنویت بخشی، بھاؤ (BHAVA) اور ابھینے (ABHINEY) پر بھی گہرے اثرات ہوئے۔

’کتھک‘ کی چند امتیازی جمالیاتی خصوصیات کو اس طرح پیش کیا جا سکتا ہے:

پاؤں کی حرکت و عمل پر زیادہ توجہ رہتی ہے، یہ حرکت و عمل جمالیاتی انبساط پانے کا سب سے اہم ذریعہ ہے، رقص دیکھنے والوں کے احساس اور جذبے تک پہنچنے اور ان کے نروس سسٹم سے ایک رشتہ قائم کرنے کا اہم ترین وسیلہ ہے۔ دھمک اور آہنگ ہی رشتہ پیدا کرتا ہے۔

’رفتار‘ (SPEED) اس رقص کی روح ہے، رفتار کا جمال متاثر کرتا ہے۔

رفتار کی شدت کے ساتھ اچانک رُک جانے اور ساکت و بے حرکت ہو جانے کا عمل توجہ طلب بن جاتا ہے، شدّت اور تیز عمل —اور دھیما پن، سکوت اور اچانک خاموشی، اس رقص کی جمالیاتی خصوصیات ہیں کہ جن سے جمالیاتی انبساط حاصل ہوتا ہے۔

’بھرت ناٹیم‘ اور ’کتھا کلی‘ کی طرح کتھک بھی ایک پُر وقار رقص ہے جو اپنے منفرد انداز سے حُسن کی پُر وقار جہتوں کو پیش کرتا ہے۔ مثبت آفاقی انسانی قدروں کے جمال کو شدّت سے محسوس کرنے کا ایک وسیلہ بن جاتا ہے۔

لطافت و نزاکت کا عمدہ معیار پیش کرتا ہے جس کی وجہ سے اس کا مجموعی تاثر حد درجہ لطیف اور نازک ہوتا ہے۔ یہ رقص لذّت بخش خوشبو بخشتا ہو جیسے ! مسرّت بخش رقص کی اپنی مثال آپ ہے۔ لذّت بخشی اور مسرّت بخشی نے زندگی کے انبساط کو نمایاں طور پر جلوہ بنایا ہے۔

اس رقص میں ’نرت‘ ’نرتیہ‘ اور ’’ناٹیہ‘‘ تینوں کا امتزاج ایک جلوہ بن جاتا ہے۔

موسیقی اس کا لازمی جُز ہے، رقص کا آہنگ موسیقی کے آہنگ سے جذب ہو جاتا ہے۔ آہنگ اور دھن یا نغمہ دونوں کی وحدت اس رقص کی جمالیاتی جہتوں سے آشنا کرتی ہے ’سارنگی ‘ پکھواج اور دو طبلوں کی مدد سے ایک پُر وقار فضا بنتی ہے اور آہنگ کا رشتہ قائم ہوتا ہے۔

خاص لمحوں میں ایک ہی بول کو بار بار دہرانے کے عمل یعنی ’لہرا‘ سے رقص کی شدّت، اُس کے دھیمے پن اور تیز عمل کے ساتھ اچانک رک جانے کی کیفیت کا ردِ عمل اس رقص کے پر وقار اور لطیف و نازک اظہار کا خوبصورت نتیجہ ہے۔ مغل دربار میں ’لہرا‘ کو شامل کر کے اس رقص کے جمالیاتی اظہار کو اور پر کشش بنا دیا گیا۔

’ماترا‘ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے ، موسیقی میں رقص کے عمل کے پیشِ نظر وقت کی تقسیم پر نظر رہتی ہے۔ ’ماترا‘ تال (BEATS) کا خیال ہے، تری تال (سولہ) ایک تال (بارہ ) اور ’دادرا (چھ) ان تینوں کی اہمیت ہے۔ ان تالوں کو ماترا کہا جاتا ہے۔

’تال‘ کے ساتھ ’ لے‘ کی بھی اہمیت ہے۔ ’لے‘ کی تیزی اور شدت، اس کی آہستگی اور اس کی درمیانی کیفیت رقص کے حُسن کو اُبھارتی ہے، ’لے‘ کی آہستگی (ولمبتھ) بھی متاثر کرتی ہے اور اس کی تیزی اور شدت (درتھ) اور اس کی درمیانی کیفیت (مدھیہ) بھی گہرا اثر ڈالتی ہے۔ ’لے‘ کا تعلق رقص کے اپنے آہنگ سے ہے ’انہیں ’تھا‘ (آہستہ) دون (تھاکی دوہری رفتار) اور ’چوگن‘ (’تھا‘ کی چار گنی رفتار) بھی کہتے ہیں۔

کبھی کبھی ’آٹھ گُن‘ (تھا کی آٹھ گنی رفتار) بھی شامل ہو جاتا ہے، ان کے علاوہ ’’لے‘‘ کی کئی اور صورتیں اور کیفیتیں ہیں جن میں ’تھا‘ کی رفتار کو اور تیز کیا جاتا ہے، اسے بار بار دہرایا جاتا ہے۔

اس رقص کا ’ٹکڑا‘ بھی اہمیت کا حامل ہے، فنّی ٹکڑے یا حصّے بھی گہرا تاثر عطا کرتے ہیں، ہر ٹکڑے کے بعد رقاص کتھک کے کسی نہ کسی تیور کا جمالیاتی پیکر بن جاتا ہے چونکہ اس رقص میں رقاص عموماً ابتدا میں آہستگی کے حسن کو پیش کرتا ہے اس لیے ابتدائی ٹکڑے بھی اس کے مطابق ہوتے ہیں، جیسے جیسے رفتار تیز ہوتی ہے ’ٹکڑوں‘ میں بھی تیزی اور شدت آ جاتی ہے۔ ’ولمبتھ‘ (آہستگی) ’مدھیہ‘ (درمیانی رفتار) اور ’دُرتھ‘ (شدت) کے ٹکڑے الگ الگ ہوتے ہیں۔ ’آمد ‘ اور ’سلامی‘’ ولمبتھ‘ کے ٹکڑے ہیں ، ’تت کار‘ ’ نٹ واری‘ اور سنگیت ’مدھیہ‘ کے ٹکڑے ہیں اور ’پران ‘ دُرتھ کا ٹکڑا ہے۔

جب کوئی ’ٹکڑا‘ ایک ساتھ تین بار پیش کیا جاتا ہے اور اس کی رفتار ایک جیسی ہوتی ہے تو اُسے ’’چکر دھارا‘‘ ٹکڑا کہتے ہیں، یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں رقاص کے بہتر فن کی پہچان ہوتی ہے۔ کتھک کا بڑا فن کار اس مقام پر اپنے آہنگ کا رشتہ تال سے قائم کر کے جمالیاتی انبساط عطا کرتا ہے۔

’ٹکڑا‘ کا تصور ’چکر‘ کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا ’چکر‘ اس میں جلوہ بن جاتا ہے۔ ایک پاؤں پر گھومنا یا پنجے کے بل تیز تیز گھومنا ’ٹکڑا‘ کا تقاضا ہے ’چکر‘ شدّت اور تیزی کا تقاضا کرتا ہے، اس چکر کا حسن یہ ہے کہ فنکار اپنے تمام تحرک کے باوجود اُس مقام سے نہیں ہٹتا جس مقام سے رقص کی ابتدا ہوتی ہے۔ چکر میں شدّت کبھی کبھی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ فنکار کے دوسر نظر آنے لگتے ہیں۔

کتھک میں جب کوئی کہانی پیش ہوتی ہے تو بہت ہی کم وقت میں اس کہانی کی فضا اور اس کے کرداروں کے تاثرات پیش کر دیے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ کتھک جاپانی مصوری ہے جس میں تاثرات کے معنی خیز لکیریں تو ہوتی ہیں لیکن فنکار کم از کم لکیروں سے جمالیاتی تجربے کو پیش کر دیتا ہے، اس فن میں وہی تیزی اور شدت ہوتی ہے جو کسی بھی اعلیٰ مصوری کی خصوصیت ہے۔

اس رقص میں چہروں کے تاثرات کے ساتھ ہاتھوں کی مدراؤں کی بھی اہمیت ہے لیکن مدراؤں کی علیٰحدہ حیثیت نہیں ہے، یہ مدرائیں رقص کے مجموعی تحرک کا حصّہ ہیں اس رقص کی مجموعی حرکت ہی سے مدراؤں کی معنویت اُجاگر ہوتی ہے۔

اس سلسلے میں کتھک کی جمالیات کے پیش نظر اس نکتے پر نظر ضروری ہے کہ فنکار کا جسم جذبات و احساسات اور تاثرات کا مجموعہ ہوتا ہے ’’امیج‘‘ یا پیکر بنتا ہے، جسم کا کوئی حصّہ علیحدہ اہمیت نہیں رکھتا اور اسے علیٰحدہ کر کے دیکھنا مناسب نہیں ہے ’کتھک تو حرکت کی سیال صورت کا رقص ہے، رقاص کو درخت، سورج یا چاند کو پیش کرنا ہے تو اپنے ہاتھوں سے اشارہ نہیں کرتا بلکہ اس کا پورا جسم امیج یا پیکر بن جاتا ہے۔

فنکار جب ایک سے زیادہ کردار پیش کرتا ہے تو کرداروں کے مختلف یا متضاد عمل کا معاملہ بھی اُس کے پیش نظر رہتا ہے، اُسے ایک عمل کے بعد دوسرے عمل کی طرف رُخ کرنا پڑتا ہے تاکہ عمل اور عمل اور کردار اور کردار کا فرق محسوس ہوسکے۔ رمزِ اوقاف کا یہ حُسن ’پلٹا‘ میں ملتا ہے ، جسم کی مکمّل تبدیلی کے ساتھ فن کار دوسری جانب آ جاتا ہے۔ رمزِ اوقاف کے حسن کے احساس کے بغیر یہ عمل مُمکن نہیں ہے۔

’پلٹا‘ اس رقص کے دائرے کو اس طرح وسیع اور گہرا کرتا ہے کہ رقص دیکھنے والوں کو موجود منظر کی ایک یا ایک سے زیادہ جہتوں کا صرف احساس ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ جہتیں اُس کی آنکھوں کے سامنے آ جاتی ہیں۔ ’پلٹا‘ میں چہرے اور آنکھوں کے تاثرات اور گردن اور ہاتھوں کی جنبش اور پاؤں کے تحرکات کی اہمیت ہے جو مجموعی طور پر پورے جسم کو ایک پیکر بنا دیتے ہیں۔

٭٭

 

 

 

 

منی پوری رقص

 

’’منی پوری رقص‘’ یعنی ’جگوئی‘ (JAGOI) کا انحصار پُر وقار جسمانی تحرک کے ساتھ جذبات و احساسات کے فنکارانہ اظہار پر ہے، اس کی نغماتی کیفیتیں توجہ طلب بن جاتی ہیں، سر، ہاتھ اور پاؤں کی متوازن حرکتیں اس رقص کا حسن ہیں یہ حسن تناسب اور تنظیم کا احساس عطا کرتا ہے ، پورا جسم اظہار بن جاتا ہے۔

’منی پوری رقص‘ یا ’جگوئی‘ کی روایت بہت قدیم ہے، بعض پُرانے نسخوں مثلاً ’’کرشن رس سنگیت‘‘ اور ’’گووند سنگیت لیلا رس‘‘ میں اس کے بعض اصول اور قاعدے درج ہیں اور ساتھ ہی آرائش و زیبائش اور لباس کے متعلق کچھ ہدایتیں ملتی ہیں۔

اس رقص کا رشتہ ’’شیو ازم ‘‘ سے بہت ہی گہرا ہے اس لیے اس میں مرد اور عورت دونوں کی وحدت کا خوبصورت تصور ہے، پورا جسم اظہار کا ذریعہ بنتا ہے تو نزاکت اور قوت کے دو پہلو اُبھرتے ہیں یعنی ’’لاسیہ‘‘ اور تندوا ، دونوں کا حسن ملتا ہے۔ دونوں کی وحدت ہی متاثر کرتی ہے، ان کے حسن کو پیش کرنے کے لیے کچھ ٹھوس اصول ہیں اور جب ان کی مکمّل پابندی ہوتی ہے تو منی پوری رقص کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔

جس قبیلے نے اس رقص کو اپنے وجود کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے وہ منی پور کی اُس نسل سے تعلق رکھتا ہے جس کا رشتہ ’’تانتر‘‘ اور اس کے رسم و رواج سے بڑا گہرا تھا، اس مسلک سے وابستگی کی وجہ سے ’’شیو‘‘ اور ’’شکتی‘‘ کے حسّی پیکروں نے ایک پُر اسرار سفر کیا ہے، اس رقص کے حُسن کا رشتہ اساطیر اور اس کی رومانیت اور اس کے حُسن سے بڑا گہرا ہے ’براتیہ‘  (BRATYA) کے مذہبی تصوّرات میں کائنات کے حُسن و جمال کے قدیم ترین خیالات، خوف، حیرت اورمسرّت کے پُر اسرار ابتدائی جذبات اور تجربات کے ساتھ موجود ہیں اور ساتھ ہی ’’عظیم ماں‘‘ اور شیو کے حسّی مذہبی پیکر بھی متحرک نظر آتے ہیں۔

مذہبی خیالات و تصورات نے روایتوں اور قصّوں کی صورتوں میں جانے کتنے پُر اسرار واقعات پیش کیے ہیں جن میں کائناتی جلوے بھی ہیں اور فوق الفطری عناصر بھی، یہ سب اس رقص کے موضوع بنتے ہیں ان میں ’’شیو‘‘ اکثر بنیادی مرکزی کردار رہے ہیں، رقص کو کائناتی آہنگ عطا کرنے کی خواہش ’’شیو‘‘ کی وجہ سے ہے۔

رقص کو منی پور کے لوگوں نے ابتداء سے عزیز رکھا ہے، ایک پُرانی روایت ہے کہ منی پور کی وادی شیو کے رقص کا نتیجہ ہے یا شیو کے رقص کی تخلیق ہے!ایک دوسری روایت سینہ بہ سینہ چلی آ رہی ہے کہ یہ وادی ایک جھیل تھی جس کے گرد سبز پہاڑیاں تھیں، شیو پاروتی کے ساتھ رقص کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے اُنہیں کسی خوبصورت ترین جگہ کی تلاش تھی، جب اس خوبصورت جھیل پر نظر پڑی تو اس پر فریفتہ ہو گئے، جھیل کا سارا پانی پی لیا، دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت وادی وجود میں آ گئی جہاں شیو نے پاروتی کے ساتھ رقص کیا اور اپنے ’رس‘ کا اظہار کیا۔

اس روایت میں شیو اور پاروتی کے ساتھ چند دوسرے کردار بھی ہیں، جن سات دنوں میں شیو کا رقص جاری رہا اور سات رسوں کا اظہار ہوتا رہا اُن میں ’’گندھاراؤں (GAND LAVAS) کی آفاقی کائناتی موسیقی بھی جاری رہی۔ رقص اور موسیقی کی اس فضا میں ’ناگ دیوتا‘ بھی آئے جنہوں نے اپنے لعل(منی) سے پوری وادی کو روشن کر دیا، اور اس وادی کا نام اسی وجہ سے منی پور ہے، لعل یا (منی) شیو کے کائناتی آفاقی رقص کی علامت اور روشنی ہے جو تمام ’رسوں‘ کی وحدت کا خوبصورت اشارہ یا علامیہ ہے۔

منی پور کے قدیم باشندوں کا عقیدہ رہا ہے کہ وہ ’گندھاراؤں‘ کی نسل سے ہیں لہٰذا اُن کا رشتہ جنت اور آسمانوں سے ہے، موسیقی کے کائناتی آفاقی آہنگ سے ہے، ان لوگوں نے منی پور کو ’’گندھارا دیس‘‘ بھی کہا ہے شیو کے رقص اور اُن کے رقص کی اداؤں اور مدراؤں سے بھی اُنہوں نے حسّی سطح پر ایک انتہائی خوبصورت رشتہ قائم کر رکھا ہے۔ منی پور کی ایک پہاڑی (مشرقی سرحد کا نام ’’سومارا‘‘ (SOMARA) ہے۔ پہاڑی کی صورت ایک دروازے جیسی ہے جس کے متعلق عقیدہ ہے کہ یہ دروازہ دیوتاؤں نے بنایا ہے اور اس کی حفاظت منی پور کے لوگوں کا فرض ہے، اس پہاڑی کے قریب جو لوگ رہتے ہیں اُنہیں تانگ خُش (TANGKHUS) کہتے ہیں، تندو، تانگ خُش بن گیا ہے یعنی شیو اور اُس کے رقص کی اداؤں اور مدراؤں کو قبول کرنے والے۔ ان کا عقیدہ ہے کہ یہ وہی مقام ہے کہ جہاں شیو نے بھرت (ناٹیہ شاستر کے خالق) کو رقص کے رموز سے آگاہ کیا۔ مہا بھارت میں بھی اس دروازے کا ذکر ہے اور رامائن نے نام لیے بغیر اس پہاڑی کی چوٹی کا ذکر آفتاب کے پُر اسرار رقص کی حرکت اور آہنگ کے تعلق سے کیا ہے۔ اوشا (صبح کاذب) نے پاروتی کو اسی پہاڑی پر رقص کی تعلیم دی۔ رامائن نے اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اوشا دیوی‘ کی پہلی جھلک اسی مقام پر نظر آتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ منی پور کی عورتیں ’اوشا‘ کی عبادت کرتی ہیں اور رقص میں جو لباس استعمال کرتی ہیں اُن میں سیاہ اور سُرخ لکیریں ہوتی ہیں جو رات کی آخری تاریکی اور صبح کی پہلی روشنی کی علامت ہیں، ’اوشا کا رقص ، جسے منی پور کے لوگ ’’چنگِ کھیرول‘‘ (CHINGKHEIROL) کہتے ہیں ایک قدیم ترین رقص ہے جس کا تعلق قدیم اساطیری فکر اور حسّی تصورات سے ہے، یہ تمام تمثیلیں اور روایتیں اور حسّی تصوّرات، منی پوری رقص کا سر چشمہ ہیں۔

منی پور کی ایک معروف ایپک ’’تیبی کھمبا‘‘ (TAIBA KHAMBA) میں جہاں عشق کی ایک داستان ہے وہاں شجاعت اور بہادری کے بھی قصّے ہیں۔ تیبی کھمبا‘ کا رقص منی پوری رقص کی روح بن کر رہا ہے، کہا جاتا ہے کہ مشہور رقص ’’لائے ہاروبا‘‘ ان ہی دونوں کا قدیم رقص ہے، اس رقص کا حسن ایسا ہے کہ لوگ ان دونوں کو ’شیو‘ اور ’پاروتی‘ کی صورتوں میں محسوس کرتے ہیں، منی پوری رقص پر برما اور چین کے بھی اثرات نظر آتے ہیں ، یہاں کے فن کاروں نے ان دونوں ملکوں کا سفر کیا ہے اور وہاں کی بعض جمالیاتی جہتوں کو اپنے رقص سے ہم آہنگ کیا ہے۔

منی پور کے حکمرانوں نے ابتداء سے رقص اور موسیقی کی سر پرستی کی ہے اور فنی روایتوں اور اصولوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے حکمرانوں کے علاوہ مختلف علاقوں میں رقص کی تعلیم دینے والے گرو رہے ہیں جنہوں نے رقص کی تربیت میں نمایاں حصّہ لیا ہے اور ’ایپک‘ کے بیشتر واقعات کو رقص میں پیش کرنے کی بہتر تعلیم دی ہے، ڈھول، نقارہ، جھانجھ اور ’مجیرا‘ وغیرہ نے بھی مناسب تربیت میں حصّہ لیا ہے۔

اٹھارویں صدی کی ابتداء میں بنگالی فنکاروں نے منی پور کے رقص کے موضوعات کو متاثر کرنا شروع کیا، یہی وہ دور ہے جب وشنویت نے اس علاقے میں اپنی تمام اساطیری خصوصیتوں کے ساتھ قدم رکھا، بھگتی کو نجات کا ذریعہ سمجھا گیا اور وشنو کو کائنات کا محافظ! بنگال کے بھگتوں نے ’وشنویت‘ کی روشنی پھیلائی، شراون اور کرتن نے بڑا اثر ڈالا، نیز شاعری اور موسیقی اور فن مصوری نے بھی متاثر کرنا شروع کیا، منی پور کے دربار نے بنگالی فنکاروں اور بھگتوں کی سر پرستی کی، کرشن وشنو کے اوتار کی صورت بے حد مقبول ہوئے، ان کے ساتھ گوپیاں بھی آئیں اور ورندابن کی رومانی فضا بھی منی پور کے ماحول میں جذب ہوئی، خالق کے وجود میں جذب ہو جانے کا تصور مقبول بنا، ان سے منی پور کے رقص کو نئے موضوعات حاصل ہوئے، رقص کے تجربوں میں ایک انقلاب سا آ گیا۔ انتہا یہ ہو گئی کہ اُس وقت کے حکمراں پم ہیبا (PAMHEIBA) کا یہ حُکم ہوا کہ تمام قدیم نسخے اور دستاویزات نذر آتش کر دئیے جائیں، شیو ازم سے تعلق رکھنے والے بہت سے قدیم نسخے اور دستاویزات واقعی نذر آتش ہو گئے اور یہ ایک بہت بڑا نقصان ہوا، بات اسی حد تک نہ رہی بلکہ اس کے حُکم سے شیو اور پاروتی کے بہت سے مجسّمے توڑ دیے گئے، لوگوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ وشنویت کو قبول کریں اور اپنی پرانی روایات سے رشتہ توڑ لیں۔

۱۷۶۴ء میں جب پم ہیبا کا پوتا بھاگیہ چندر تخت نشین ہوا اُس وقت وشنویت وادی میں پھیل چکی تھی، بھاگیہ چندر کرشن بھگتی کو پسند کرتا تھا، لکڑی سے کرشن کے مجسّمے بنوائے اور امپھال میں کرشن کا مشہور مندر ’’گوبند جی‘‘ تعمیر کرایا، بھاگیہ چندر موسیقی اور رقص کا دلدادہ تھا اس لیے اُس نے فنون کی جانب بھی توجہ دی۔ خود بھی ایک رقاص اور موسیقار تھا۔ منی پور کے ’رس لیلا‘ کا خالق وہی ہے ، منی پوری رقص میں ’مہارس‘ و سنت رس، اور کنج رس،کو اُسی نے شامل کیا ہے۔ اُس کا خیال تھا کہ وشنو کے اوتار کرشن کی عظیم ترین روحانی فطرت اور اس کی عظمت کو سمجھنے کے لیے ان رسوں کا سمجھنا ضروری ہے۔ بھاگیہ چندر کی حساس طبیعت نے حسّی سطح پر کرشن کو اکثر بہت قریب محسوس کیا، لکڑی سے کرشن کے پیکر بنانے کا حُکم اُسی وقت دیا تھا جب کرشن نے خواب میں آ کر اُسے ہدایت دی تھی، اسی طرح ’’گووند جی مندر‘‘ کی تعمیر سے قبل اُس نے کرشن کا حُکم سُنا تھا۔ ’رسوں‘ کی وضاحت کے سلسلے میں بھی اُس نے کہا تھا کہ ان رسوں کی اہمیت خود کرشن نے اُسے بتائی تھی ، منی پوری رقص میں جب اُس نے تجربے کیے اور ’’اچھوبا بھانگی پرنگ‘‘ (ACHAUBA BHANGI PARENG) کی اہمیت کا احساس دلایا تو اُس وقت بھی کہا کہ رقص کے یہ انداز اُس نے براہ راست کرشن سے سیکھے ہیں۔

بھاگیہ بلاشبہ بڑا حسّاس فنکار تھا، اُس نے منی پوری رقص کے خوبصورت موضوعات منتخب کیے اور رقص کی اداؤں اور مدراؤں کی بھی خوبصورت تشکیل میں نمایاں حصّہ لیا۔ رقص کے ’رس‘ پر گہری نظر رکھی اور آہنگ کی جہتوں کا احساس دیا۔ اس رقص میں آرائش و زیبائش اور لباس پر بھی غور کیا اور مناسب ہدایتیں دیں۔ ’کومل‘ (KUMIL) یعنی منی پوری رقص کے لباس کا بھی خالق وہی ہے۔

ان تمام انقلابی تبدیلیوں کے باوجود بھاگیہ چندر نے منی پور کی بعض اعلیٰ روایات کو نظر انداز نہیں کیا مثلاً رقص کے لباس پر غور کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا کہ روایت کے مطابق رقص میں عورتوں اور لڑکیوں کی ٹانگیں نظر نہ آئیں اور اُن کے پاؤں کی کوئی جھلک نہ ملے۔ چہرے پر ہلکا سا پردہ ہو جس سے کم از کم نصف چہرہ چھُپا رہے، منی پوری رقص میں عورتیں جب اسٹیج پر آتی ہیں تو اپنے خوبصورت لباس میں تیرتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے یہ کسی اور دنیا سے آئی ہیں۔

اس انقلاب کے باوجود روایتی رقص زندہ رہا اور آج بھی مقبول ہے، قدیم رقص کے لباس پر اس انقلاب کا جو اثر ہوا ہے اُس کی پہچان بھی مشکل نہیں ہے۔ رقص کے قدیم لباس کو ’پھانِک‘ (PHANEK) کہتے ہیں۔ ’پھانک‘ کومِل سے متاثر ہوا ہے لیکن رقص کے پُرانے تیور اب بھی موجود ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جب بھاگیہ چندر نے منی پوری رقص کی تکنیک پر غور کرنا شروع کیا تو اُس نے وادی کے بڑے گرو اور رقص کے بھگتوں کو دعوت دی اور ایک عرصہ تک اُن سے تبادلۂ خیالات کرتا رہا، ’’گووند سنگیت لیلا ولاس ‘‘ اسی کا نتیجہ ہے۔ اس میں رقص کی تکنیک کی اہمیت سمجھائی گئی ہے اور ’رس‘ اور آہنگ اور جسم کی حرکت و عمل کی جمالیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

منی پوری رقص کی چند بنیادی امتیازی جمالیاتی خصوصیات اس طرح پیش کی جا سکتی ہیں:

اس رقص کو انسان کے پورے وجود کا اظہار سمجھا جاتا ہے لہٰذا مرد اور عورت دونوں کا حسن اس کا موضوع ہے۔

مرد کا جلال اور عورت کا جمال احساسات اور جذبات کے ساتھ ’تندو‘ اور ’لاسیہ میں پیش کی جاتی ہیں، دونوں کی وحدت کا جلوہ متاثر کرتا ہے۔

اساطیر کی رومانیت کا عمدہ شعور ملتا ہے، کائناتی آہنگ سے رشتہ قائم کرنے کی ایک تڑپ ملتی ہے جو رقص میں آہنگ اور آہنگ کے رشتے کی وحدت کی صورت واضح کر دیتی ہے۔

شیو ، وشنو، کرشن، پاروتی، رادھا اور اوشا وغیرہ اکثر کرداروں کی صورتوں میں ملتے ہیں۔ روایتی قصوں اور کہانیوں کی رومانیت کے جلوے اس سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں اس رقص کی بعض جمالیاتی جہتوں سے اس حقیقت کی پہچان ہوتی ہے۔

رقص کے آہنگ کو موسیقی کی لہروں کے ساتھ اعلیٰ ترین سطح پر لے جانے کا عمل ملتا ہے، غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے رقاص گندھاراؤں سے ایک بڑا پُر اسرار رشتہ رکھتے ہیں۔ تمام رسوں سے رشتہ قائم کرنے کی لہک کے ساتھ یہ عقیدہ بھی ہے کہ فنکار رسوں کی لذتیں عطا کر رہا ہے۔

مرد، رقص میں زیادہ اُچھلتا ہے، عورت کا ہر تحرک نرم ہوتا ہے،اس کے ہاتھ زیادہ آگے نہیں بڑھتے، عورت کا تحرک تیز ہوتا ہے اور آزادی کا احساس بھی ملتا ہے لیکن اس وقت بھی نرمی اور متوازن کیفیت کا احساس ہوتا رہتا ہے۔

’وشنویت‘ کے اثر سے عبادت کا تقدس بھی منی پوری رقص میں صاف طور پر جھلکتا ہے۔ مرد کے رقص میں ’’چھو لوم‘‘ (CHOLOM) کا انداز اسی کے اثر کی وجہ سے ہے۔ مرد رقص کرتے ہوئے عام طور پر تین عمودی حرکتوں یا عمودی انداز کو پیش کرتا ہے ان میں ایک ’چھوم لوم‘ بھی ہے۔ تحرک کا حُس توجہ طلب بن جاتا ہے۔

بازوؤں اور ٹانگوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے (PARASARANAM) کا انداز شیو کے نندو سے تعلق رکھتا ہے، رقاص عموماً اس تیور یا انداز سے تسخیر کرنے کے تاثرات پیش کرتے ہیں، حرکت، عمل، قوت، تسخیر اور عناصر کو گرفت میں لینے کا یہ انداز متاثر کرتا ہے۔ جمالیاتی انبساط عطا کرنے میں یہ عمل پیش پیش رہتا ہے۔

’بھو‘ (BHAVA) کو پیش کرنے کے لیے رقّاص کا پورا جسم تجربوں کے مطابق عمل کرتا ہے، ایک ہاتھ کے پچیس سے زیادہ اشارے اور کنایے ہیں اور دو ہاتھوں کے چودہ سے زیادہ اشارے اور کنایے۔ تحرک کے حُسن کی پہچان ہر حرکت سے ہوتی ہے۔

رقاص ہاتھوں کی حرکتوں ’’یا ’’ہو بھید‘‘ (BAHUDHADAS) سے واقف ہوتے ہیں لہٰذا ہر حرکت کی معنویت سے آشنا کرتے رہتے ہیں۔

سرکی حرکتوں یا ’’شر بھید‘‘ (SHIRBHEDAS) کا تعلق ہاتھوں اور آنکھوں کی حرکتوں سے ہوتا ہے، سرکی تمام حرکتوں کا انحصار ہاتھوں کے تحرک پر ہے اور آنکھیں بھی ہاتھوں کے تحرک سے وابستہ ہیں۔

گردن اور شانوں، گھٹنوں اور ٹانگوں کی ادائیں اس رقص میں اس کے فن کے مزاج اور تقاضوں کے مطابق اہمیت رکھتی ہیں۔

پاؤں کے تحرک اور قدموں کے مقامات جسے ’چاری‘ (CHARI) کہتے ہیں تجربوں کے آہنگ کے پیش نظر اہمیت رکھتے ہیں۔

’چاری‘ کی چار قسمیں ہیں جن میں اس رقص کے جمالیاتی پہلو واضح ہوتے ہیں:

’بھومی چاری‘ میں فنکار زمین سے لگ کر جمالیاتی تحرک کا احساس دیتا ہے۔

’اُت پلوتی‘ میں وہ اچھلتا ہے اور تیز اور تیز تر تحرک کا حسن پیش کرتا ہے۔

’’اَپ وشٹ‘‘ میں بیٹھ کر اپنے پاؤں کی حرکتوں سے آسودگی بخشتا ہے۔

اور —’بھاری ماری‘ میں گھوم کر تحرک کے حسن کا احساس دیتا ہے۔

ہندوستان کے اکثر کلاسیکی رقص کا رشتہ عوامی رقص سے ہے، ایسے رقص میں عوام کے ابتدائی حسّی تجربے بھی شامل ہیں اور ساتھ ہی فطری اور والہانہ اظہار کی مثالیں بھی ملتی ہیں، اولین اور قدیم تجربوں کے آہنگ کی پہچان مشکل نہیں ہوتی، کلاسیکی رقص نے عوامی رقص سے جہاں ابتدائی تجربوں کی شادابی حاصل کی ہے وہاں تحرک تنظیم اور رنگ آمیزی کی حیرت انگیز وحدت کو بھی پایا ہے ، بلا شبہ کلاسیکی رقص کی جمالیات کا گہرا اور انتہائی معنی خیز رشتہ ہندوستان کے عوامی رقص سے ہے، بعض اداؤں میں تجربوں کا براہ راست اظہار اور سادگی کا حُسن، یہ دو ایسی بنیادی خصوصیات ہیں جن سے کلاسیکی رقص متاثر ہوا ہے، بعض عوامی رقص یا ان کے بعض پہلوؤں کے لیے کچھ اصول اور قاعدے مرتب ہوئے اور اس طرح رقص کا باضابطہ ارتقا ہوتا رہا۔ رقص کے ساتھ ڈھول نقارہ، ڈمرو وغیرہ کو بھی قبول کیا گیا اور ان کے بھی قاعدے اور اصول بنائے گئے، عوامی رقص کی آرائش و زیبائش اور لباس نے بھی کلاسیکی رقص کو شدت سے متاثر کیا ہے۔ اسی طرح عوامی رقص کی ڈرامائی خصوصیتوں کو بھی قبول کر کے اُن میں نیا پن پیدا کیا گیا ہے۔ قبائلی رقص کی وجہ سے جمالیاتی اور رومانی تجربو کی ایک دنیا موجود تھی، مدھیہ پردیش، آندھرا پردیش اُڑیسہ اور بہار کے قبائلی رقص کی فطرت سے جذباتی اور ذہنی وابستگی اور جذبوں کے والہانہ اظہار نے ہندوستان کے کلاسیکی رقص کو متاثر کیا ہے۔ آرا کو کے آدی باسیوں، دکن کے بنجاروں یا لمبا رون اور ناگاؤں کے عوامی رقص نے کلاسیکی رقص پر گہرا اثر ڈالا ہے۔ آسام کے ’’ستّارہ رقص‘‘ سے برہم پتر کی وادی گونجتی رہی ہے۔ وشنویت کے اثر سے ستّارہ رقص کے تجربوں میں کشادگی آئی ہے، سنکرادیو اور مہا دیو نے کرشن کے موضوع سے اس رقص کو ڈرامائی خصوصیتیں عطا کیں۔ اڑیسہ کے ’’اوڈی سی‘‘ (ODISSI) میں مہارس (عورت) اور ’’گوتی پوس‘‘ (مرد) کے ابتدائی رقص نے اساطیری مزاج کو پیش کرتے ہوئے بہتر فن کامظاہرہ کیا۔ ناٹیہ شاستر ’’ابھینے درپن‘‘ اور ’’ابھینے چندر یکا‘‘ وغیرہ کے اُڑیہ تر جموں کے بعد اس رقص میں جو جہتیں پیدا کی گئیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے یہ رقص خود کس نوعیت کی کشادگی کا تقاضا کر رہا تھا۔

٭٭

 

 

 

دو

 

موسیقی۔۔ تخلیقی فن کے باطن کا آہنگ

نقطۂ آغاز

 

 

 

 

 

 

 

موسیقی، فنون لطیفہ کی روح اور تخلیقی آرٹ کے باطن کا آہنگ ہے! بعض علماء اسے فنونِ لطیفہ اور تخلیقی آرٹ کا نقطۂ عروج تصوّر کرتے ہیں اس لیے کہ یہ ذہن کو وقت کی زنجیروں سے آزاد کر دیتی ہے۔ اس کا آہنگ زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہو کر فطرت کے آہنگ سے رشتہ قائم کرتا ہے۔ آوازوں پر اس کی علامتیں فطری آوازوں سے باطنی رشتہ قائم کر کے انتہائی مجرد جمالیاتی قدروں کی تخلیق کرتی ہیں۔

رقص، مصوّری ، مجسّمہ سازی اور فنِ تعمیر، سب کے باطن میں اس کا آہنگ ہوتا ہے رقص کو موسیقی سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا ، مصوری کے خاکوں اور لکیروں اور کینوس کے زاویوں میں موسیقی کی لہریں ہوتی ہیں، مجسّموں کے نقوش اور فن تعمیر اور نقاشی کے اندر اس کی لہریں دوڑتی رہتی ہیں، چونکہ اس کا رشتہ انسان کے بنیادی جذبوں سے ہے اس لیے کسی بھی تخلیق کا تصور موسیقی کے آہنگ کے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔ موسیقی کی لہریں ’’نروس سسٹم‘‘ سے بیدار اور متحرک ہوتی ہیں، فطرت کی آوازوں سے نظام اعصابی میں تحرک پیدا ہوتا ہے اورموسیقی جنم لیتی ہے، اس کی لہروں کو قبول کرنے کے لیے ذہن فطری طور پر اس لیے تیار ہوتا ہے کہ جذبات کی کسی نہ کسی سطح پر کوئی نہ کوئی آہنگ پہلے سے موجود ہے، ان لہروں سے اس آہنگ میں فطری تحرک پیدا ہو جاتا ہے، آوازوں کی جمالیاتی تجسیم سے جذبوں کی جمالیاتی تجسیم ہوتی ہے اور یہی موسیقی کا پیغمبرانہ عمل ہے۔

ہندوستان میں موسیقی کے فطری ارتعاشات (VIBRATIONS) نازک، خوشنما، عمدہ اور نفیس مدارج اور مسلسل باطنی ارتقاء اور آوازوں کے زیر و بم (PITCH) پر ہمیشہ غور کیا گیا ہے۔ کلاسیکی موسیقی اور بعض مقامی موسیقی کے سروں کی ترتیب اور آوازوں کے زیر و بم سے ماضی میں فنکاروں کی تخلیقی فکر اور موسیقی کے تعلق سے اُن کے زاویۂ نگاہ کی پہچان ہو جاتی ہے۔ ہندوستان کے قدیم موسیقاروں نے فطری اور احساساتی ارتعاشات میں ’’وقفہ‘‘ اور ’’زیر و بم‘‘ کا خیال رکھتے ہوئے آوازوں کی جمالیاتی تجسّیم اس طرح کی ہے کہ سننے والوں کے جذبوں میں کئی رنگ پیدا ہو جاتے ہیں، مختلف کیفیتیں لہراتی ہیں، مابعد الطبعیاتی فکر اور کثرت میں وحدت کے جلوے کو دیکھنے کی خواہش نے جمالیاتی آسودگی اور مسرّت کے لیے ارتعاشات کو تخلیقی گرفت میں لے لیا ہے اور لہروں کے تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے نفیس اور نازک مدارج قائم کیے ہیں، بلاشبہ یہ بڑا کارنامہ ہے!

ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کہ جس کی بہتر نمائندگی سام وید سے ہوتی ہے، ارتعاشات اور ارتعاشات کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور اکثر بہت ہی چھوٹی لہروں کی قدر و قیمت کا احساس عطا کرتی ہے۔ رگ وید کے نغموں کے آہنگ اور ان کے ارتعاشات کے زیر و بم کے حُسن کو سام وید نے سمجھایا اور اس کے بعد ہی ہندوستان کے رشی منیوں اور عارفوں نے موسیقی کے رموز کو سمجھنا اور سمجھانا شروع کیا۔ نارو، سویتی، بھرت، ویشا کھِل اچاریہ، کیشپ، سرودرلا، ہرش، بھٹ لوللتا، اود بھٹ، ابھینو گپت، انجنے اور دوسرے کئی رشیوں اور عارفوں نے ساز، آلۂ موسیقی، راگ ، رس، سرا عداد، دھنوں کی ترسیم اور رس وغیرہ پر اظہار خیال کیا اور اپنے بہتر تجربوں سے آشنا کیا، فطرت کے آہنگ کا شعور غیر معمولی تھا، سنّاٹے اور خاموشی کا آہنگ اُن کے تجربوں میں شامل ہوا تو پھولوں اور پتوں پر ٹپکتے ہوئے پانی کے قطروں کا آہنگ بھی اُن کا تجربہ بنا۔ اِن بزرگوں نے پہلی بار بتایا کہ موسیقی حسیّات کے اظہار کا عظیم تر ذریعہ ہے، حسّی سطح پر جمالیاتی ہیئت کی تشکیل و ترتیب کے اس عمل نے موسیقی کو شعری تجربوں سے بلند کر دیا، جذبوں کے آہنگ کا اظہار اس طرح ہوا جیسے روح کی گہرائیوں میں نغمہ ریز لہروں کی ہلچل سی ہو اور یہ لہریں کسی رکاوٹ کے بغیر ظہور پذیر ہو گئی ہوں۔

’’اُپنشدوں‘‘ نے اوم کے جپ سے آہنگ کے رس کا جو احساس عطا کیا تھا وہ انتہائی غیر معمولی تھا، اُوم کے حسّی تصوّر نے ایک دائرے میں تمام حُسن اور تمام مسرتوں اور تمام لذّتوں کو سمیٹ لیا ہو جیسے! یہ ’دائرہ‘ ایک ایسے عظیم تر سر چشمے کی صورت جلوہ گر ہوا جس سے ہر لمحہ زندگی کی نغمہ ریز لہریں نکلتی ہیں۔ ’اوم‘ کے آہنگ نے پوری کائنات کی وحدت کا احساس عطا کیا، ایک — اور صرف ایک — ایسا چکر ہے کہ جس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ اختتام، باطن اور کائنات کے آہنگ کی ایسی جمالیاتی وحدت کی دوسری مثال آسانی سے نہیں ملتی۔ ’شیو‘ کا پیکر ایسی عظیم ’ارفع‘ تہہ دار اور معنی خیز دائرے کی علامت ہے جو اس جمالیاتی وحدت کے آہنگ کو صرف مختلف انداز سے سمجھاتا ہی نہیں بلکہ وہ خود آہنگ کی تجسیم بن جاتا ہے۔ ’ابھینو گپت‘ نے موسیقی کی جمالیات کا رشتہ اسی سر چشمہ سے قائم کیا ہے، نغموں اور آوازوں یا آہنگ کے پیش نظر کائنات بظاہر دو صورتوں میں نظر آتی ہے۔ ایک صورت اظہارِ آہنگ (VACAKA) کی ہے اور دوسری صورت اُن اشیاء و عناصر کی کہ جن کے لیے اظہار آہنگ (VACYA) ہے۔ اظہارِ آہنگ یا اظہاری آوازوں میں آزادی ہے اور دوسری صورت شعور کی افضل ترین روشنی کی فطرت کا اظہار (PRAKASA) ! کائنات اور ابدی حسن یا خالق کے گہرے اور اس رشتے، کی وحدت کے شعور سے نغمہ ریز لہروں کا عمل جاری ہے۔ خود ابدی حسن یا خالق آزادی اور شعور کی افضل ترین روشنی اور تمام نغموں، آوازوں اور آہنگ کی وحدت کا جلوہ ہے۔ ابدی حسن یا خالق کا تحرک نغموں کو بکھیرتا رہتا ہے اور سچائی یہ ہے کہ کائنات اور خالقِ کائنات ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں ہیں۔ روح کی گہرائیوں میں جو نغمہ ریز لہریں ہیں اور کائنات میں آوازوں کا جو ہجوم ہے وہ سب خالق کی نغمہ ریز لہروں اور اُن کے باطن کی آوازوں سے رشتہ رکھتے ہیں۔ جب آہنگ، آہنگ سے رشتہ تلاش کرنے کی عارفانہ یا فنکارانہ کوشش کرتا ہے تو اعلیٰ ترین موسیقی جنم لیتی ہے، موسیقی آہنگ اور آہنگ کی وحدت کی عظیم تر علامت ہے۔ !

پرواز کرتے ہوئے موسیقار، وقت کا میکانکی تصوّر ٹوٹ گیا! اجنتا، غار ۱۷؎

 

موسیقار، آنند اور ’آنند‘ کے رشتے کی بازیافت کرتا رہتا ہے ، دونوں کی ہم آہنگی سے آوازوں کی وحدت (VIMARAS) جنم لیتی ہے، یہ وحدت لطیف اور نازک ہے، موسیقی کے ارتعاشات سے اس کی لطافت خوشبو کی مانند پھیلتی ہے، ’آنند‘ کی اصطلاح کی عظمت کا احساس اُس وقت حد درجہ بالیدہ ہو جاتا ہے جب ہندوستانی جمالیات میں ’بندو‘ کی پُر عظمت اصطلاح سے اس کا رشتہ قائم ہوتا ہے ’بندو‘ کائنات کی تمام آوازوں کا مرکز اور سر چشم ہے لہٰذا موسیقی کا سر چشم بھی یہی ہے، کائنات کی تخلیقی اور تمام اشیاء و عناصر کی تخلیق ’بندو‘ کی مرہون منّت ہے۔ کائنات کی تمام آوازوں اور اس کی لہروں کو اسی نے خلق کیا ہے، ایشور، شکتی اور ودّیا وغیرہ یہ سب اسی کی علامتیں ہیں یہ سب عظیم تر مسرّتوں اور عظیم تر آنند کے استعارے ہیں جن سے موسیقی باطنی رشتہ رکھتی ہے۔ انسان کی نغمہ ریز لہریں اور ان لہروں کے تمام ارتعاشات اپنے اسی مرکز اور سرچشمے کی طرف لوٹتے ہیں اور اس پُر اسرار تخلیقی عمل میں ہر آنند ملتا رہتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں سب سے لطیف آواز کو ’’ندا‘’ کہا گیا ہے، ندا بندو ہی کی ایک جمالیاتی کیفیت ہے۔ جسے خالقِ کائنات نے بندو ہی میں خلق کیا ہے۔ آوازوں کی وحدت کا شعور اسی نے عطا کیا ہے جس کی وجہ سے انسان میں موسیقی کی خوبصورت ترین لہروں کے ساتھ’ بندو‘ کی جانب لوٹنے اور اس سے ہم آہنگی قائم کرنے کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔ ہندوستانی جمالیات میں ’آنند‘ کا لمس کسی پُر اسرار جادو کی مانند اس طرح پھیلا ہوا ہے کہ تخلیقی عمل میں المیہ یا ٹریجڈی کا کوئی گہرا احساس نہیں ملتا۔

ہندوستانی فنونِ لطیفہ میں ’’یوگ‘‘ اور خصوصاً کنڈلی یوگ نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ یہاں صرف اس بات کی جانب اشارہ کرنا ضروری ہے کہ رقص ، موسیقی اور فنِ تعمیر وغیرہ میں شیو اور شکتی کے گہرے بالیدہ شعور نے نیچے سے اوپر اُٹھنے، ابدی حسن سے رشتہ قائم کرنے اور مکاں کو افقتاً (HORIZONTALLY) گرفت میں لینے کی عجیب و غریب طاقت حسّی سطح پر عطا کی ہے۔ ’شکتی‘ نیچے سے اوپر کی طرف بڑھتی ہے اور شیو کی لا محدودیت میں جذب ہو جاتی ہے۔ یہ شکتی سانپ کی طرح کنڈلی مارے بیٹھی رہتی ہے اور تحرک پا کر اوپر کی جانب بڑھتی ہے۔ یہ حسّی تصور بلا شبہ جنگل کی تہذیب کی دین ہے جس نے ’وسعت‘ اور بلندی کے ’’آرچ ٹائپس‘‘ کو شدّت سے بیدار اور متحرک کیا ہے، راگوں کی ترتیب، تال کی صورتوں، آوازوں کے حَجم (VOLUME) اور اُن کے زیر و بم، بہاؤ، عروج کی مختلف سطحوں پر ان کے عمل، تیزی سے اوپر اُٹھنے کے انداز اور نقطۂ عروج پر پہنچنے کے عمل کے علاوہ تنفس کی رفتار وغیرہ پر غور کیا جائے تو ’یوگ‘ اور خصوصاً کنڈلی یوگ، کے بیش قیمت کردار کا بخوبی اندازہ ہو جائے گا۔

’ہندوستانی جمالیات‘ نے موسیقی کے آہنگ کے ساتھ گیتوں کے بول اور موسیقاروں کی آوازوں کو بھی بڑی اہمیت دی ہے اور بعض ایسے خیالات بھی ملتے ہیں کہ جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ’نغمۂ گیت اور موسیقاروں کے بول، قدیم فنکاروں کے ہاں زیادہ اہم ہیں، کہا گیا ہے کہ رقص کے فن کے بغیر مصوری اور مجسّمہ سازی ممکن نہیں، موسیقی کے بغیر رقص کا وجود بے معنی ہے اور نغموں اور نازک اور نفیس آوازوں کے بغیر موسیقی کا تصوّر پیدا نہیں ہوسکتا۔ ’ہندوستانی جمالیات‘ نے موسیقی کی کائناتی اور آفاقی لہروں کو اہمیت دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی باطن میں اُن لہروں کو محسوس کرنے کی فطری صلاحیتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، یہ بتایا ہے کہ اُن سے باطن کی مختلف سطحوں پر رد و قبول کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس سچائی کو سمجھایا ہے کہ موسیقی کی لہروں کے شعور ہی سے دوسرے فنون یعنی شاعری، مصوری، مجسمہ سازی، سنگ تراشی اور فنِ تعمیر میں روح پرور کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں، ان فنون کے آہنگ پر موسیقی کا آہنگ شدّت سے اثر انداز ہوتا ہے۔ صوتی اجزا کی لذّت بخش اور لذّت انگیز کیفیتوں کے بغیر فنون میں عظمت اور گہرائی پیدا نہیں ہوسکتی ، دوسرے فنون کے مقابلے میں موسیقی جادو سے قریب ہے لہٰذا شاعری کے لفظوں استعاروں اور پیکروں، مصوّری کی لکیروں اور رنگوں، سنگ تراشی اور مجسّمہ سازی کی علامتوں اور فنِ تعمیر کی سادگی اور پُر کاری میں جب موسیقی کی لہریں جذب ہوتی ہیں تو وہ آفاقیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے جمالیاتی آسودگی پانے کا سلسلہ صدیوں میں پھیل جاتا ہے۔ اس بنیادی حقیقت پر بھی نظر ہے کہ آواز، بول ، الفاظ — ان کے زیر و بم اور ان کے نفیس مدارج سے موسیقی میں سوز و گداز کی آمیزش ہوتی ہے۔ خالص آفاقی اور کائناتی لہروں کا بھی احساس ہے اور ساتھ ہی انسان کی آوازوں کی حسین آمیزش کا شعور بھی ہے۔

موسیقی کے جادو کا اثر جتنا بھی عارضی ہو، حقیقت یہ ہے کہ ’’نروس سسٹم‘‘ پر اس کے اثرات ہوتے ہیں اور دوسرے فنون میں جذب ہو کر اس کی قدر و قیمت بڑھ جاتی ہے۔ موسیقی کی لہروں اور اس کے سروں سے فنونِ لطیفہ کو دیکھنے اور محسوس کرنے کا ایک تازہ جمالیاتی رجحان اور زاویۂ نگاہ اُبھرا ہے جو جذبات کے جوش اور تحرک، جذباتی اور لاشعوری پیچیدگیوں، باطنی کیفیتوں، جنسی آرزو مندی، ہیجانوں کے اُبھار اور اُن کی ترتیب اور ارتعاشات کے مدارج وغیرہ کے پیش نظر ایک اہم ترین نفسیاتی جمالیاتی رجحان ہے یا زاویۂ نگاہ ہے۔ شاعری ، مصوّری سنگ تراشی اور فنِ تعمیر کے جلال و جمال اور کلاسیکی تخلیقی کارناموں کو دیکھنے کا انداز اس کی وجہ سے بدل کر رہ گیا ہے ’’اجنتا‘‘ کی تصویروں کے بہتے ہوئے پیچ و خم اور نٹ راج ، اور ’بدھ‘ کے پیکروں کی نغمہ ریز لہروں اور مجسّم نغماتی کیفیتوں کی پہچان اسی زاویۂ نگاہ سے ہوتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان تصویروں اور پیکروں نے موسیقی کی جانے کتنی نا معلوم آفاقی لہروں کو جذب کر لیا ہے

موسیقی جذبات کا براہِ راست والہانہ اظہار ہے۔ جنگل کے پُر اسرار اور خوبصورت ماحول سے اس کا بنیادی رشتہ ہے، اس نے اس ماحول میں ہیجانات کو اُبھارنے میں مدد کی ہے۔ ظاہر ہے اس کی اپنی قوت بے پناہ ہے جس کی وجہ سے جنگل کی آوازوں اور نغموں سے ابتدائی موسیقاروں اور مغینوںکا باطنی تعلق قائم ہوا۔ اس کی وجہ سے جانے کتنے جذبوں، ہیجانی اور لمحاتی کیفیتوں کا اظہار ہوا۔ جنگل کی متنوع آوازوں نے تحرک پیدا کی اس لیے کہ ان کے اثرات جسم اور روح دونوںپر ہوتے تھے۔ موسیقی نے روشنی ، تاریکی ،غم، محبت، حس، سکون، انتشار —اور پتوں، جھرنوں اور آبشاروں، ندیوں پرندوں اور جانوروں کی آوازوں اور درختوں کے سکون و انتشار — اور بدلتے ہوئے موسموں کو سمیٹ لیا اور تخلیقی لہروں اور سروں میں جذبوں کے مختلف رنگوں کے ساتھ پیش کیا اور ہر آہنگ میں نشے کی کیفیت پیدا ہو گئی۔

رِگ وید کے نغموں اور منتروں کے آہنگ سے ویدوں کی تخلیق سے قبل کے نغمات اور آہنگ کی بہت حد تک پہچان ہو جاتی ہے، ہندوستانی نغموں کی دو معروف کتابوں ’’ادہائے گان‘‘ اور ’’ارنیائے گان‘‘ میں جنگلوں کے پر اسرار رومانی اور خوبصورت ماحول اور روشنی اور گہری تاریکی کے تجربوں کے نغمے ملتے ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں کتابیں ’’سم وید‘‘ کے زمانے کی ہیں۔ ممکن ہے یہ خیال درست ہو لیکن ان کے نغموں کا رشتہ جنگل کی تہذیب سے ہے، اس دور میں ان کا تحفّظ یقیناً بڑا کارنامہ ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ذہنی اور جذباتی وابستگی کی وجہ سے یہ نغمے بعد کے ادوار میں بھی مقبول رہے ہوں گے۔ ہندوستانی جمالیات میں سنگیت کا رشتہ برہما، شیو، وشنو، بھرت، نارد، مہا دیو وغیرہ سے قائم ہے۔ رقص کی طرح اسے بھی ایک ابدی کائناتی اور آفاقی کردار عطا کیا گیا ہے اور ما بعد الطبعیاتی رومانی فکر نے اس فن میں بھی کائنات اور اس کے آہنگ کو سمیٹ لیا ہے۔

ہندوستانی موسیقی میں سات بنیادی سروں کی تخلیق میں تین ہزار سے زیادہ راگوں کی ترتیب، بیس سے زیادہ ستریوں اور سو سے زیادہ ’تال‘ کی صورتوں میں جہاں آواز کے حجم (VOLUME) زیر و بم (PITCH) بہاؤ، زور، دھیمے پن اور فطری رفتار (NATURAL ACCELARATIONS) وغیرہ کا مکمّل خیال ملتا ہے وہاں جذباتی سطح پر صوتی تخفیف (DIMINUTION) آواز کو عروج کی مختلف سطحوں پر ڈھیلا کرنے (RELAXATION) کے عمل، تیزی سے آگے بڑھنے (ONRUSHES) اور نقطۂ عروج پر جانے کے انداز اور رفتار (PACE) اور تنفس کی رفتار اور تنفس کی کیفیتوں پر بھی نظر ہے، اس طرح ہندوستانی موسیقی ایک با وقار جمالیاتی اظہار اور پر وقار عمل کی صورت جلوہ گر ہوتی ہے۔

شدید مذہبی فکر اور ہمہ گیر مذہبی وجدان سے ہندوستان کے اچاریوں اور تخلیقی فنکاروں نے سچائی یا حقیقت کے جوہر کو اس طرح پایا تھا کہ یہ شے کے باطن اور اس کی خوشبو میں ہوتا ہے، سچائی یا اس کے جوہر کی تلاش اس کے چھلکے یا خول سے بے سود ہے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستانی موسیقی میں تخلیقی قوت نے ایسے پُر اسرار معجزوں کو دکھایا ہے کہ دوسری مثال نہیں ملتی، سروں اور راگوں میں مجرّد سچائیوں کی پیش کش خود ایک معجزہ ہے، اُس عمل پر غور کیجئے جو تخلیقی سچائی کے لیے باطن میں مختلف پُر اسرار منزلوں سے گزرتا ہے، اور مجرد آوازوں کو دریافت کرتا ہے۔ تلاش و جستجو اور دریافت کا یہ عمل صدیوں میں پھیلا ہوا ہے۔ ہندوستانی موسیقاروں نے جامد، بیانیہ اور خارجی طور پر ظاہر ہونے والی عام باتوں سے پرہیز کیا اور جذبوں کے آہنگ سے دلچسپی لی، اور نغموں کے ایسے دائروں کی تخلیق کی کہ جن میں کائنات کے آہنگ کی لہریں جذب ہوتی محسوس ہوئیں۔

آہنگ اور آہنگ کی وحدتوں کے جانے کتنے جلوے نغموں کے دائروں میں موجود ہیں، یہ بڑا غیر معمولی کارنامہ ہے۔

ہندوستانی موسیقی بھی رقص کی طرح ’’یوگ‘‘ کی ایک خوبصورت تین جہت ہے کہ جس میں بار بار ایک ہی عمل یا آہنگ یا آواز کی بار بار ایک ہی صورت اُبھرتی ہے اور لطیف تھکن کا احساس بھی آسودگی بخشتا ہے۔ ایک ہی عمل اور ایک ہی آواز کی جانے کتنی جہتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک ہی بول سے جانے کتنی لہروں کا احساس ہوتا ہے، ان سے جو تھکن ہوتی ہے اس سے ذہنی آسودگی ملتی ہے ، شانتی اور موکش (MOKSHA)  یعنی ذہنی سکون اور ذہن کی آزادی کے تصورات بنیادی سطح پر موجود ہیں۔

ان ہی باتوں کے پیش نظر ڈاکٹر آرنلڈ بیک (ARNOLD BAKE) نے اپنی تصنیف THE NEW OXFORD HISTORY OF MUSIC میں یہ کہا ہے کہ ہندوستانی موسیقی کو علیٰحدہ کر دیا جائے تو ہندوستانی کلچر اپنے تمام فلسفوں کے ساتھ ٹوٹ جائے گا ہندوستانی تفکّر سے اس کا ایک گہرا باطنی رشتہ ہے، موسیقی کے بغیر ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا تصوّر پیدا نہیں ہوتا، ہندوستانی موسیقی نے بدلتی ہوئی تہذیبی قدروں کے سامنے اپنی بے مثال لچک اور اپنی سیّال کیفیت دونوں کا گہرا احساس دیا ہے، راگوں کے معاملے میں ہر عہد میں محتاط روّیہ ملتا ہے، راگوں کا تعلق بنیادی احساس اور جذبے سے ہے لہٰذا ان کی انفرادیت مجروح نہیں ہوئی، مختلف فنکاروں نے راگوں کو اپنی اپنی جمالیاتی حِس اور اپنے اپنے ’وژن‘ کے مطابق قریب کیا ہے لیکن سچائی اپنی جگہ پر رہی ہے — اگرچہ جہتیں پیدا ہوتی رہی ہیں۔

 

راگ بسنت کا ایک جمالیاتی نقش! ۔۔(جودھ پور۔ ابتدائی سترہویں صدی)

 

ارتعاش، مدارج، زیر و بم اور مسلسل ارتقائی صورت میں جذبوں کا آہنگ وقت کے میکانکی تصوّر کو توڑ دیتا ہے۔ گیان اور عبادت کے گہرے تاثر کی وجہ سے ارتقاء کے تسلسل کا ایک نہ رکنے والا عمل جاری ہو جاتا ہے اور اس عمل میں مختلف اور متضاد ہیجانات میں پُر اسرار وحدت پیدا کرنے کی خواہش جمالیاتی آسودگی عطا کرتی رہتی ہے۔ ہندوستانی موسیقی کی جمالیات کا یہ پہلو توجہ چاہتا ہے، یہ خواہش اُس وقت اہم ہو جاتی ہے جب تضادات  (CONTRADICTIONS) کو ایک دوسرے میں جذب کرنے کی کوشش ہوتی ہے ہندوستانی تفکر نے اس بات کو بڑی اہمیت دی ہے کہ انسان کی عظمت کی پہچان تضادات کی وحدت کے عمل سے ہوتی ہے، روحانی اور نفسی سطح پر یہ وحدت پیدا ہوتی ہے۔ ’الاپ‘ ہی سے محسوس ہونے لگتا ہے کہ مختلف اور متضاد ہیجانات میں پُر اسرار وحدت پیدا کرنے کی خواہش بیدار ہو گئی ہے اور درون بینی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ارتقاء کے تسلسل کے نہ رکنے والے عمل میں وقت کی رفتار تیز ہو جاتی ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وقت سیدھی لکیر نہیں بلکہ ایک پر اسرار چکر ہے۔ ایک پُر اسرار دائرے کے بعد دوسرا پُر اسرار دائرہ جنم لیتا جا رہا ہے جس کی کوئی ابتداء ہے اور نہ اختتام! رقص اس طرح موسیقی سے قریب تر ہو جاتا ہے۔ موسیقی کے ’تال‘ ہی سے اس کا رشتہ شروع ہو جاتا ہے، نٹ راج کائنات کی تخلیقی جبلت کا سرچشمہ بن کر نغمہ ریز قوت اور نغمہ آمیز لہروں کی علامت بنتے ہیں، موسیقی میں بھی رقص کے پانچ آہنگ موجود ہیں۔ یعنی کائنات کی تخلیقی اور اس کے ارتقاء کے عمل کا آہنگ (شرسٹی) تمام حسن و جمال کے ساتھ کائنات اور اس کے قیام کا آہنگ (سیٹھتی) کائنات اور اس کے عناصر کو بکھیر دینے کے عمل کا آہنگ (سم ہار) کائنات اور اس کے عناصر کو باطن میں سمیٹ لینے کے عمل کا آہنگ (تیرو بھَو) اور کائنات اور اُس کے عناصر کو آزاد کرنے اور ہر شے کو اعلیٰ ترین سطح پر لے جانے کے عمل کا آہنگ (انو گرہ — نروان !) ہر فنکار اپنے اپنے طور انہیں پیش کرتا ہے، آوازوں کو آزاد چھوڑنے اور انہیں پھر سمیٹ لینے اور پھر آزاد کرنے کے عمل میں ہندوستانی موسیقی کا جمالیاتی نظام اُبھرتا ہے۔ راگوں کی جذبی کیفیتوں اور ان کی تہوں کے کھُلنے کے عمل میں اس سچائی کا جوہر ہے۔ ’گین‘ اور ’تپسّیا‘ کے تصورات کی وجہ سے ہندوستانی موسیقی میں اظہار کا معاملہ مختلف ہو جاتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے باطن کے جانے کتنی سطحوں پر وجود پگھلتا جا رہا ہے۔ ’یوگ‘ نے ’سادھن‘ کا جوہر عطا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے راگوں کی لہریں زماں و مکاں کی زنجیروں کو توڑ کر وقت کی پُر اسرار مجرّد کیفیتوں سے رشتہ قائم کر لیتی ہیں اور مجرّد بن جاتی ہیں، راگوں میں وہ تمام رس موجود ہیں جن کا ذکر علمائے جمالیات نے کیا ہے۔

ہندوستانی موسیقی کی ابتدائی صورتوں کا رشتہ بھی اساطیر یا دیو مالا سے قائم کیا گیا ہے، دیوی دیوتاؤں کے ایسے کتنے قصّے ہیں کہ جن سے موسیقی کو سمجھایا گیا ہے۔ سنگیت کے مفاہیم کی وضاحت کے لیے بھی بعض اہم حسّی پیکر تراشے گئے ہیں، راگ راگنیوں کو حسّی سطح پر پیکروں کی صورتوں میں محسوس کیا گیا ہے۔ آریوں اور غیر آریوں کے جمالیاتی تجربوں کی آمیزش سے ہندوستانی موسیقی نے ارتقاء کی منزلیں طے کی ہیں۔ ویدوں کی کائناتی فکر میں ’ورون‘ یا ’’آکاش‘‘ کی جو اہمیت ہے ہمیں معلوم ہے۔ ’ورون‘ یا ’آکاش‘ تخلیق کی سب سے پہلی صورت ہے، اسے حسّی سطح پر ایک دیو تا کی صورت محسوس کیا گیا۔ اور اس کے بعد اپنی بہتر خصوصیتوں کے ساتھ پیکر سامنے آ گیا۔ تانتروں کے دور میں ویدوں کے بعض دیوتاؤں کو ’’آوازوں کی صورتیں ‘‘ عطا کی گئیں ان میں ’ورون‘ یا ’آکاش‘ بھی آوازوں کی صورتوں میں ظاہر ہوا۔ ان صورتوں کو ’’ورن بیجاس‘‘ کہتے ہیں۔ آکاش یا ’ورون‘ کی اہمیت کم و بیش وہی ہو گی۔ جو ’’ورن پر تیماؤں‘‘ کی اہمیت ہے ’’ورن پرتیما‘‘ رنگوں کے پیکر ہیں ، آوازوں اور رنگوں کے پیکروں کے بعد ہی مورتیاں بنی ہیں، مورتی پرتیما‘‘ کا رشتہ آوازوں اور پیکروں سے بہت ہی گہرا ہے، اسی طرح آریائی اسطور کا ’مترِ‘ (آفتاب) اپنی صوتی تصویر کے ساتھ اُجاگر ہوا۔ ’متر‘ کا وَرن بیجا‘ پنجم ہے اور اسی کے بعد سروں اور راگوں کی تخلیق شروع ہو گئی اور اچاریوں اور فنکاروں نے سنگیت کے اصول بنانے شروع کیے، موسموں اور زراعتی زندگی نے اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بھیرو، میگھ، پنجم، نٹ نارائن، سری ، اور وسنت جیسے بنیادی راگوں کا ان سے گہرا رشتہ ہے موسموں سے راگوں کے رشتے کا ذکر غالباً سب سے پہلے نارد کی تخلیق ’’سنگیت مکارنڈا‘‘ میں ملتا ہے۔ چھ راگوں کو چھ موسموں سے وابستہ کیا گیا اور یہ تمام راگ اپنی خصوصیات کے ساتھ قائم رہے۔ ان میں کسی نے کوئی اضافہ نہیں کیا دھرتی سے گہرے رشتے کی وجہ سے یہ راگ وجود میں آئے، پھر وراگ، کا تعلق ’شیو‘ کی عبادت سے ہے۔ یہ بھی ایک خاص موسم کا راگ ہے۔ جب ہلکی سردی پڑنے لگتی ہے اور کھیتوں کی زرخیزی اپنے جلوے دکھاتی ہے تو یہ راگ آوازوں کے ارتعاشات، زیر و بم اور فطری رفتار اور صوتی تخفیف (DIMINUTION) سے زرخیزی کا شعور بھی عطا کرتا ہے۔ تانتروں کے دور میں ’شیو‘ کی جگہ درگا نے لے لی اور شیو کی عبادت بیساکھ کے مہینے میں ہونے لگی۔ اساڑھ اور ساون میں ’میگھ راگ‘ کی اہمیت ہوئی، بارش دھرتی کو سینچتی ہے اور بے پناہ مسرّتوں کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ’وسنت راگ‘ کا تعلق بہار کے موسم سے ہے۔ پنجم راگ، کا تعلق بہار اور خزاں دونوں سے ہے۔ بنیادی راگوں سے راگنیوں کا بھی جنم ہوا اور لوک گیتوں نے انہیں اپنے اپنے طور پر جذب کر کے علاقائی انفرادیت بھی عطا کی۔

معاملہ صرف موسموں کا نہیں ہے بلکہ وقت اور لمحوں کا بھی ہے۔ ہندوستانی موسیقاروں نے تمام لمحوں کے گرد راگوں کا گھیرا سا ڈال دیا ہے۔ لمحوں کے ساتھ ایک صوتی چکر کے بعد دوسرا صوتی چکر شروع ہو جاتا ہے۔ راگوں اور راگنیوں کے لیے وقت بھی مقرّر ہیں اور وقت کے مطابق آہنگ کی ترتیب ہوئی ہے۔ ’راگ بھوٹ‘ راگ مالوا اور ’سدھا کسکا‘ راگ کے مطالعے سے لمحوں کے مطابق آہنگ کی ترتیب کا احساس مل جاتا ہے، آہنگ کی ترتیب اور آوازوں کے زیر و بم میں جذبہ، احساس اور ہیجانات کا احساس انتہائی گہرا ہے، ان کی وجہ سے ہر راگ ’صوتی تصویر‘ بن کر اُبھرتا ہے، سنگیت کی ترتیب میں انسانی نفسیات کا جو خیال ہے اسے محسوس کر کے حیرت ہوتی ہے۔ درباروں کے دلچسپ ماحول کی وجہ سے رفتہ رفتہ راگوں اور وقت اور لمحوں کا رشتہ ٹوٹتا گیا۔ سنگیت کو اہمیت دیتے ہوئے کسی بھی راگ کو کسی وقت الاپنے کی کوشش ہوئی مثلاً بھوپالی ’صبح کا راگ‘ نہ رہا بلکہ شام کا راگ بن گیا۔ شمالی ہند میں تبدیلیاں زیادہ ہوئی ہیں۔ جنوبی ہند کے فنکاروں نے وقت اور لمحوں کے پیشِ نظر مناسب راگوں کے تحفظ کا ہمیشہ خیال رکھا ہے یہی بھوپالی راگ جسے جنوبی ہند کے موسیقار ’’موہنا‘‘ کہتے ہیں اب بھی صبح کا راگ ہے۔

کلاسیکی موسیقی نے ’علاقائی موسیقی‘ کو شدت سے متاثر کیا ہے اُسی طرح جس طرح علاقائی موسیقی اور سنگیت نے مختلف عہد میں کلاسیکی موسیقی کو متاثر کیا ہے اس آویزش اور آمیزش سے ہندوستانی موسیقی کی جانے کتنی جہتیں پیدا ہوئی ہیں۔ بنیادی ’رسوں‘ (RASAS) کے شدید احساس کے ساتھ جو جہتیں پیدا ہوئی ہیں اُن میں چند یہ ہیں:

جذباتی، جنسی، ولولہ انگیز، پُر جوش — اور پگھل جانے والی!

خواب آور، نرم، خوشگوار، ما بعد الطبعیاتی، مدھم، ماورائی، درد آشنا، شیریں، تجریدی، پُر سکون!

المناک، غم ناک، دھند لا حسرت انگیز، رقّت انگیز، پُر درد، سو گوار!

مسرت آمیز، تجسّس آمیز، شوخیوں سے بھری ہوئی!

پُر وقار، عظیم تر، ارفع ، اعلیٰ، پُر عظمت، سنجیدہ!

ہیجان انگیز، سنسنی خیز، جذبوں کو اُبھارنے والی!

’سترتیوں‘ کے مطالعے سے انفرادی اور اجتماعی سطحوں پر جانے کتنی جہتیں پیدا ہوئی ہیں، ہر جہت میں امتیازی وصف کے باوجود ’کُل‘ میں جذب ہو جانے کا رجحان ملتا ہے۔ کثرت کے جلوے اپنی خوبصورتی کا احساس عطا کر کے وحدت کی طرف بڑھتے ہیں۔ اور آہستہ آہستہ ایک وحدت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔

٭٭

٭٭٭

تشکر:ڈاکٹر شکیل الرحمن  جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید