FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

ہندوستانی جمالیات

 

 

حصہ ۲

 

دس حصوں میں (اصل کتاب دو جلدوں میں)

 

 

شکیل الرحمن

 

 

©  جملہ حقوق بحق عصمت شکیل   محفوظ ہیں۔

 

 

 

 

 

(دو)

 

ہندوستانی فنونِ لطیفہ اور عوامی حِسّیات

 

(الف )  ایک بنیادی امتیازی پیکر ’’ناگ‘‘

(ب)    پھول اور پودے

خاکے اور نقشے

’ینتر‘  منڈل

’منتر‘

(ج)      رنگ کی جمالیات

 

 

ہندوستانی فنون لطیفہ اور عوامی حسیات کا رشتہ انتہائی قدیم ہے۔ جہاں عوامی عقائد اور توہمّات کے بطن سے فنون نے جنم لیا ہے وہاں فنی احساس و شعور نے بھی عقائد اور توہمات اور نئے مذہبی خیالات کو جنم دیا ہے۔ عوام کے احساس جمال نے عقیدوں کو خوبصورت پیکر عطا کیے ہیں۔ قدیم ترین قصّوں اور کہانیوں نے جہاں عوامی احساس اور جذبے میں ہلچل پیدا کی ہے اور حسیات کو متحرک کیا ہے وہاں یہ کہانیاں عقیدوں کے خوبصورت پیکروں میں ڈھل کر فنون لطیفہ کی تاریخ کا حصّہ بھی بنی ہیں، تانتروں اور فسوں گری ، متھ جذباتی علامات اور جنسی عمل میں پیوست ہیں۔

ہندوستان کی لوگ کہانیوں اور قدیم ترین لوک گیتوں میں سانپ کا پیکر حد درجہ متحرک اور معنی خیز رہا ہے۔ جنگلوں اور پہاڑوں کی زندگی سے اس کا گہرا تعلق ہے لہٰذا جانے کب سے سانپوں اور ناگوں کے قصّے عوامی زندگی میں شامل ہیں۔ سانپ کا حسی پیکر اپنے ملک کی زندگی میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ ایک انتہائی قدیم حسی پیکر ہے کہ جو ’آرچ ٹائپ‘ کی صورت آج بھی متحرک ہے، اسے قدیم ترین حسّی پیکروں میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ ہندوستانی فنون لطیفہ کی تخلیق میں اس نے جو حصّہ لیا ہے اس کی ایک بڑی داستان ہے، حسّی اور مذہبی تصورات کا یہ بڑا سر چشمہ ہے جو فنون کا بھی ایک اہم ترین سرچشمہ رہا ہے۔ فن کاروں نے اس پیکر کو عزیز تر رکھا ہے۔

ناگ کی عبادت جس طرح ایک مسلک یا کلٹ (CULT) رہی ہے۔ اسی طرح فنون میں بھی ایک کلٹ بن گئی۔ مجسموں میں شیو کے دس بارہ ہاتھ علامتی ہیں سانپ یا ناگ (سیس ناگ، ذاتِ لا محدود کا علامیہ ہے (سیس ناگ چھرّیا سائبان کی طرح ملتا ہے) وشنواننت ناگ پر لیٹے ہوئے ملتے ہیں۔ یہاں ناگ اجتماعی یا نسلی لا شعور کے بے پناہ بہاؤ میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ ایک تمثیل کے مطابق کائنات تیار ہو رہی تھی فنا کام کی منزل پر تھی تو تمام مادی عناصر ایک ۔ اور صرف ایک سمندر میں جذب ہو گئے تھے اور وہاں ناگ پروشنو لیٹے ہوئے تھے، دشنو ہی سمندر تھے اس لیے کہ تمام عناصر کے جذب ہونے کے بعد پھیلے ہوئے بے پناہ گہرے سمندر کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ کسی شے کی انفرادیت نہیں تھی، شعور ہی گم ہو چکا تھا، سمندر خود میں غرق تھا۔ اننت ناگ کے اندر ہی وشنو اور ارویشی کا ڈرامہ اسٹیج ہوا۔ وشنو نے آم کے میٹھے اور لذیذ رس سے اپنی جانگھ پر ایک حسینہ کی تصویر بنائی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ ایک دلفریب اور انتہائی حسین دوشیزہ کی صورت اختیار کر بیٹھی، اسے ارویشی کا نام دیا۔ یعنی جو جانگھ میں رچی بسی ہو، اننت ، لا محدودیت کا بھی علامیہ ہے۔ ایک تمثیل کے مطابق اپنے عظیم رقص کے بعد جب شیو پاروتی کے ساتھ نندنی پر سوار ہو کر  کیلاش کی جانب روانہ ہو گئے تو اننت ناگ (اتی۔ شیشان) کہ جس نے وشنو کے ساتھ شیو کا رقص دیکھا تھا ایک بار پھر اس رقص کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو گیا۔ رقص کے جلال و جمال کا اس پر ایسا اثر ہوا کہ اس نے وشنو سے گزارش کی کہ وہ اسے کیلاش جانے کی اجازت دیں۔ ہیروں کی مانند چمکتے ہوئے ہزاروں سروالے انت نے اپنا سفر شروع کیا ’’تلائی چیتا مبرم‘‘ یعنی کائنات کے مرکز پر اننت اس وقت شیو کا رقص دیکھے گا جب وہ ناگ کا پیکر تبدیل کر کے انسان کے گھر میں جنم لے گا۔

’’یوگی شیو‘‘ کے پیکر کے قریب پانچ سروں کے ساتھ ناگ ملتا ہے کچھ ایسے پیکر بھی ہیں کہ جن سے سانپ لپٹے ہوئے ہیں۔ ناگ، ذات، شخصیت اور وجود کی بھی علامت ہے جس کے پانچ پھن حواس خمسہ کے اشارے ہیں۔ شیو کے ایسے پیکروں سے یہ سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جب تک ذات حواس خمسہ کی گرفت میں ہے موت کا خطرہ موجود ہے، جب ذات بیدار ہو جاتی ہے اور باطن کی روشنی اپنی تمام شعاعوں کے ساتھ نمایاں ہو جاتی ہے تو حواس خمسہ کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ آگہی کی شدت سے سچی ذات کی پہچان ہوتی ہے۔ داخلی بیداری اور آگہی سے موت بھی ذات کی گرفت میں آ جاتی ہے۔ شیو کے لپٹے ہوئے سانپ ذات کی توانائی کا بھی اشاریہ ہیں ’’کنڈلنی یوگ‘‘ کی بنیاد اسی تصوّر پر ہے کہ توانائی ریڑھ کی ہڈی میں کنڈل باندھ کر سانپ کی طرح بیٹھی رہتی ہے۔ یوگ کے عمل میں سانپ کی مانند آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی ہے اور جیسے جیسے اوپر اٹھتی ہے روحانی بیداری پیدا ہوتی رہتی ہے’ کنڈلنی‘ کی مفہوم ’’سانپ کی طاقت‘‘ ہے اس طرح شیو کے جسم پر سانپ کی علامت خود شیو کو ایک مکمل روحانی وجود بنا دیتی ہے۔

کرشن اور کالیا ناگ کی تمثیل امرت اور زہر کا ایک دلفریب ڈراما اسٹیج کرتی ہے۔ کالیا، تال کو اپنے زہر سے بھر دیتا ہے۔ کرشن اپنے پاؤں سے منتھن کرتے ہیں اور زہر ختم کر کے امرت پیدا کرتے ہیں۔ یہاک ناگ زہر، تباہی اور موت کی علامت ہے۔ وشنو کے پرندے گرودا سے کالیا کی دشمنی موت اور زندگی کی کہانی پیش کرتی ہے،پرندے زندگی اور حرکت کی علامت ہیں ’’اننت‘‘ یا ’’سیش‘‘ زندگی، توانائی، اور تحرک اور کالیا موت، تاریکی اور ویرانی کی علامت ہیں۔ ’بھگوت پران‘ میں زہر اور امرت کے اس معنی خیز ڈرامے کو تفصیل کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ایک بڑے درخت کے نیچے پیش نہ کیے گئے تو ان کا نقصان ہو گا۔ سانپوں کو جو نذرانے ملتے اپنے اپنے حصّے سے وہ کچھ ’’سپرنا‘‘ (خوبصورت پروں والا پرندہ، وشنو کے پرندے گرودہ کا لقب) کے لیے رکھ دیتے تاکہ وہ اس پرندے سے محفوظ رہیں۔ کیشپ (ناگا قبیلے کا باواآدم) کی بیوی کدرو کا بیٹا کالیا انتہائی مغرور تھا، اسے اپنے خطرناک زہر پر ناز تھا، ایک بار اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے نذرانے کا حصہ گرودہ کو نہیں دیگا جب گرودہ کو یہ خبر ملی تو سخت خفا ہوا اور تیزی سے کالیا بھی جھپٹا، کالیا نے اپنے تمام پھن کھول دیے۔ اس کی آنکھوں میں خون اُتر آیا ۔ دونوں میں زبردست ٹکراؤ شروع ہوا۔ کالیا گروہ یعنی سپرنا کو ہمیشہ کے لیے ختم کر دینا چاہتا تھا، گروہ اپنی پوری طاقت کے ساتھ اس پر جھپٹا اور اپنے بائیں خوبصورت سنہرے بازو سے وہ چوٹ دی کہ کالیا کے ہوش جاتے رہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہ تھی کہ کالیا خود کو چھپا لیتا لہٰذا وہ فوراً تال میں تیزی سے اتر گیا، کالندی ندی کا یہ تال انتہائی گہرا تھا۔ ایک دن کرشن اس تال کے قریب آئے تو دیکھا جانے کتنے مویشی مرے پڑے ہیں، وہ بخوبی سمجھ گئے کہ تال کا پانی زہر آلود ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے کالیا کے زہر کو لیے ہوئے زہر آلود لہریں اوپر اٹھنے لگیں اور ان کی وجہ سے اڑتے ہوئے پرندے بھی نیچے گر کر دم توڑنے لگے۔ پھر کرشن تال کے نیچے اترے اور کالیا کے سر پر کھڑے ہو کر  منتھن کرنے لگے آخر وہ لمحہ آ گیا جب کالیا اور اس کی بیویوں نے کرشن کی عبادت شروع کر دی۔

ناگ کے حسّی پیکر نے تخلیقی فکر کی آبیاری کی ہے ، خوف، کا جذبہ عموماً عبادت کی جانب مائل کرتا رہا ہے، سانپ یا ناگ کی عبادت کا معاملہ بھی ایسی نوعیت کا ہے، یہ قدیم ترین تصوّر کہ سانپ کی عبادت اس کے زہر سے محفوظ رکھے گی بہت ہی پرانا ہے ناگ یا سانپ کو دودھ پلا کر، اسے آزادی دے کر اور اسے مسلسل خوش رکھ کر زندگی بسر کی جائے تو انسان بہت سی پریشانیوں، اذیتوں اور حادثوں سے محفوظ رہے گا یہ قدیم ترین احساس غیر معمولی نوعیت کا حامل ہے۔

یہ تصوّر بھی انتہائی قدیم ہے کہ زمین کے اندر سانپوں اور ناگوں کی دنیا آباد ہے، یہ پاتال کے دیوتا ہیں، اس تصوّر یا خیال نے بھی سانپوں کی عبادت کی جانب زیادہ مائل کیا ہے ، پاتال کے ناگ دیوتاؤں کی پرستش اور ان کی خوشی کے لیے ہم نے جانے رقص کی کتنی معنی خیز جہتوں کو پیش کیا، ڈھول اور نقّاروں سے کتنی پر اسرار آوازیں خلق کیں، بنسریوں سے جانے کتنے راگ پیدا کیے، کتنے چھوٹے بڑے مندر بنائے اور مندروں کے اندر اور باہر ان کے کتنے پیکر اور مجسمے تراشے، دیواروں اور عمارتوں پران کے نقش ابھارے اور ان سے اپنا رشتہ جوڑ کر ان کی صورت کے پیشِ نظر اپنے لباس تیار کیے۔ ان کے پھن کی صورت سے متاثر ہو کر اپنے تاج تیار کیے، صدیوں اپنے بچّوں کو پاتال اور ناگ دیوتاؤں کی کہانیاں سنائیں، ان کے تعلق سے قصّے خلق کیے اور خود اپنے خلق کیے ہوئے قصّوں کی تصویریں بنائیں اور ان کہانیوں کو واضح کرنے کے لیے ’پیکروں کی ایک نئی دنیا سجادی‘ کھیتوں اور کھلیانوں میں سانپوں کی بہت اہمیت رہی ہے، بیج ڈال کر کھیتوں میں ایسے پتھروں کو رکھنے کا رواج بہت پرانا ہے کہ جن سے سانپوں کے وجود کا احساس ہو، اناج کے تیار ہو جانے کے بعد ناگ پوجا کی روایت بھی بہت ہی قدیم ہے۔

ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں اور خصوصاً دراوڑی نسل کے لوگوں کی تہذیب کے اوپر آریائی تہذیب کی اتنی تہیں جمی ہوئی ہیں کہ انہیں مکمل طور ہٹا کر سب کچھ دیکھ لینا اور پا لینا آسان نہیں ہے۔ یہ عقیدہ بہت قدیم ہے کہ اگر ہم سانپوں کی حفاظت کرتے رہیں گے تو وہ بھی ہماری حفاظت کریں گے، سانپ اپنی عبادت سے خوش ہوتے ہیں اور وقت پر مدد کرتے ہیں، ان کی حفاظت میں آ جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے خالق کی حفاظت میں آ گئے۔ ناگ اور سانپ ہمیشہ مقدس رہے ہیں اور انہیں دوسرے دیوتاؤں کے ساتھ نمایاں جگہ دی گئی ہے ۔ ہندوستانی اسطور میں ان کی جانے کتنی کہانیاں ہیں جو زندگی کے رموز کو طرح طرح سے سمجھاتی ہیں، ویدی عہد میں ملک کے مختلف علاقوں میں ’’ناگ پوجا‘‘ کی وجہ سے قدیم باشندوں کو ’’ناگا‘‘ کہا جاتا رہا ہے۔ دراوڑ قبیلوں کی پہچان بھی ’’ناگا‘‘ کی اصطلاح یا لفظ سے ہوتی رہی ہے۔ سنسکرت ادب میں لفظ ’’ناگا‘‘ ایسے تمام قبیلوں کی جانب اشارہ کرتا ہے جو قدیم ترین ہندوستانی تھے اور ’’ناگ‘‘ کی عبادت کرتے تھے ، بدھ مت نے بھی ’’ناگ‘‘ کے پیکر کو قبول کیا کہ جس کی عمدہ مثالیں ’’امراوتی‘‘ کے مجسموں میں موجود ہیں۔ قدیم بدھ صندوقوں میں ناگوں کے پیکر ملے ہیں، ایک صندوق میں سونے کا ناگ ملا ہے کہ جس کا نام ’’مہانا مان‘‘ ہے جو خود گوتم کے خاندان کے ایک نام سے عبارت ہے۔

ہندوستانی تہذیب میں ناگ کی عبادت کا مطالعہ کرتے ہوئے اولڈؔ ہم  (C.L.OLDHAM) نے اپنی کتاب  (THE SUN AND THE SERPENT) (۱۹۰۵ء لندن) میں تحریر کیا ہے کہ دراوڑی قبیلے، ناگ پوجا، کی روایت قدیم ایران اور قدیم ایران کی سرحدوں سے لائے تھے، پروفیسر جی۔ ایلیٹ اسمتھ، (G. ELLIOT SMITH) نے اپنی مشہور تصنیف  (THE ANCIENT AND THE ORIGIN OF CIVILIZATION) (لندن ۱۹۲۳ئ) لکھا ہے کہ یہ روایت مصر سے ہندوستان پہنچی ہے اور یہ خیال غلط ہے کہ یہ ہندوستانی روایت ہے۔ ڈبلو۔ جے۔ پیری  (W.J.PERRY) اپنی کتاب  (THE CHILDREN OF THE SUN) (لندن ۱۹۲۳ئ) میں کم و بیش اسی خیال کے حامی ہیں۔

بلا شبہ قدیم ایران اور قدیم مصر میں ناگ کی عبادت موجود تھی لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ افریقہ اور مغربی ایشیا کی روایتیں بھی کم قدیم نہیں ہیں۔ افریقہ اور مغربی ایشیا کے مختلف علاقوں میں ناگ اور سانپ قدیم ترین حسّی پیکر رہے ہیں، یہ ممکن ہے کہ یہ روایت مصر اور ایران سے آئی ہو کہ جسے قبول کرنے کے لیے ہندوستانی ذہن پہلے ہی سے تیار تھا۔ ہمیں اس سچائی کا علم ہے کہ چار پانچ ہزار سال قبل دراوڑی تہذیب نے مصر اور میسو پٹامیا کے کلچر سے کئی تصورات اور خیالات حاصل کیے تھے، مختلف قسم کے تمدّن کی جانے کتنی خصوصیات کو اپنے احساس اور جذبے اور اپنے تصوّرات سے ہم آہنگ کیا تھا، سمندر بہت بڑا ذریعہ تھا، ان دونوں ممالک سے جو تصورات اور قدیم مذہبی افکار و خیالات حاصل ہوئے وہ یہاں کی مٹی میں جذب اور ذہن میں پیوست ہو گئے اور ان کا اپنے طور پر ارتقا ہوتا رہا، ان میں تبدیلیاں ہوتی رہیں کچھ اس طور پر کہ یہ مقامی بن گئے۔ پیریؔ نے تحریر کیا ہے کہ تبدیلیاں اس طرح ہوئیں کہ بعض قدیم ترین خیالات اور تصوّرات اس ملک میں ابتدائی نشان بن کر ارتقاء کی منزلیں طے کرنے لگے، ارتقاء کی ہر منزل مختلف اور منفرد نظر آتی ہے، دراوڑی کے لوگوں نے انہیں اپنی فکر و نظر سے سنوارا، اپنے مزاج کا آہنگ عطا کیا، اپنی ذہانت سے انہیں ملک کے جغرافیائی ماحول سے ہم آہنگ کر دیا۔

ناگا قبیلوں کی مختلف کہانیاں اور ان کے مختلف عقائد اور توہمات، ملک کے کئی حصّوں سے نکل کر ایک دوسرے سے قریب آئے اور اکثر اس طرح کہ ایک دوسرے میں جذب ہو گئے۔ ناگ راجاؤں کی پراسرار طاقتوں کی داستانیں ان علاقوں تک سر سراتی ہوئی پہنچ گئیں کہ جہاں ناگوں اور سانپوں کی عبادت عام طور پر نہیں ہوتی تھی، مقامی لوگوں نے چھوٹی بڑی کہانیوں کو اپنے دیوتاؤں کی کہانیوں سے وابستہ کر دیا۔ قدیم ترین زندگی ناگوں اور سانپوں کی عبادت سے بھی عبارت ہے ’ناگ‘ کو انتہائی مقدس تصوّر کیا گیا ہے اور اسے دیوتا کا درجہ دیا گیا ہے۔ اجتماعی عبادت میں اسے نمایاں جگہ حاصل رہی ہے، حقیقی اور فرضی۔  اور حِسّی سطح پر ابھرے ہوئے قصّے اسطوری بن گئے ہیں۔ مالیالی (MALYALI) عوامی قصّوں میں ناگ ایک اہم ترین مرکزی کردار ہے، آج بھی کیرالاؔ میں جانے کتنے ایسے قصّے سنائے جاتے ہیں کہ جن کا تعلق اس مرکزی پیکر سے ہے، عام مراسم مذہبی میں ناگوں کی عبادت کو نمایاں اور مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مذہبی رسومات سے ناگ کے پیکر اور سانپوں کی عبادت کو علیحدہ کرنا نا ممکن ہے، سانپوں کے قدیم اور مقدس یادگار اور چھوٹے چھوٹے مندر کہ جنہیں ’’پمپن کاؤ  (PAMPIN KAVU) کہتے ہیں کیرلا میں مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ ناگ مندر بنانے کی روایت بہت قدیم ہے، اس کی ابتداء کب ہوئی بتانا ممکن نہیں لیکن اس طرح سوچنا غلط نہ ہو گا کہ پہاڑوں اور جنگلوں سے نکل کر کھیتوں میں ’’ناگ مندر‘‘ پروان چڑھا ہے، اچھی فصل کے لیے ناگ کی عبادت کی گئی ہے، ہر علاقے اور ہر گاؤں کا ایک ناگ دیوتا رہا ہے، اسی طرح ہر کھیت اور ہر گھر میں ناگ پوجا کی روایت رہی ہے، اس کی تاریخ ماضی کے گہرے اندھیرے میں پوشیدہ ہے، یہ اجتماعی شعور اور اجتماعی حسیّات کا کرشمہ ہے جو آج بھی اجتماعی لاشعور میں جذب محسوس ہوتا ہے، ناگ ، آج بھی ایک قدیم ترین ’’آرچ ٹائپ‘‘ کی صورت متحرک ہے، عوامی ذہن نے ناگوں اور سانپوں سے صرف حِسّی اور ذہنی سطح پر رشتہ قائم نہیں کیا بلکہ ان سے خون کا رشتہ بھی قائم کیا۔ آج بھی ہندوستان کے کئی علاقوں میں ایسے قبیلے آباد اور ایسی نسلیں موجود ہیں جن کا عقیدہ ہے کہ وہ ناگوں کے خاندان سے ہیں۔ کیرالا کے نائر  (THE NAIRS)  ابتدا سے جنگجو رہے ہیں۔ ان کا بنیادی عقیدہ ہے کہ ان کے آباء و اجداد ناگ تھے، اس ذات کے پرانے لوگ سر پر، سامنے بالوں میں گانٹھ دے کر ناگ کے پھن کی تصویر پیش کرتے ہیں، نائر آج بھی ناگ کی پرستش کرتے ہیں۔

جنوبی ہند میں ایک عجیب و غریب دیوتا ’’منی سوامی‘‘ کا ذکر ملتا ہے جو ناگ دیوتا سے قدیم ہے، دراوڑی تہذیب میں ’’منی سوامی‘‘ کی بڑی اہمیت رہی ہے، یہ پر اسرار دیوتا کبھی نظر نہیں آتا لیکن اپنے وجود کا احساس دیتا رہتا ہے۔ اس میں ناگ اور خصوصاً بپھرے ہوئے ناگ کی خصوصیتیں موجود ہیں، کہا جاتا ہے کہ یہ خالص دراوڑ کی ذہن کی پیداوار ہے، خباثت اس کی فطرت ہے، اس کی عبادت نہ کی جائے تو اپنی کینہ پروری کا اظہار طرح طرح سے کرتا ہے، نقصان پہنچاتا ہے، ناراض ہو جاتا ہے تو جان لیوا بن جاتا ہے۔ خبیث روح کی مانند منڈلاتا رہتا ہے، گھروں اور درختوں میں پرویش کر کے اس وقت نقصان پہنچاتا ہے جب کوئی بھی شخص اس کے خلاف باتیں کرتا ہے، کبھی چھت توڑ دیتا ہے، کبھی درخت کی شاخیں اچانک گرا دیتا ہے، جس گھر میں آباد ہوتا اسے برباد کر دیتا ہے، لوگوں کا یہ عقیدہ رہا ہے کہ اگر اس کے لیے ہر روز پھول اور پھل رکھ دیے جائیں اور شب میں چراغ روشن کر کے اس کی پرستش کی جائے تو وہ خوش رہتا ہے۔ اکثر بعض گھروں میں جب یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس نے ’’پرویش ‘‘ کیا ہے تو ان گھروں میں رہنے والوں کا یہ فرض ہو جاتا ہے کہ وہ سال میں اس کی عبادت اور پوجا کا بہتر انتظام کریں۔ قیاس یہ ہے کہ جب مصرؔ سے ناگ پوجا کی روایت یہاں پہنچی تو ’’منی سوامی‘‘ کے پر اسرار وجود کی وجہ سے یہ روایت فوراً ذہن و شعور سے جذب ہو گئی ( ممکن ہے منی سوامی نام بعد میں ملا ہو اور اس کے وجود کا احساس صدیوں پہلے سے موجود ہو)

مذاہب ، عقائد، توہمات، اور مختلف تمدنی اور تہذیبی اقدار کے رو و قبول کے عمل کے پیش نظر دراوڑی ذہن کی کئی اہم خصوصیات کو سمجھا جا سکتا ہے۔

دراوڑی ذہن کی سب سے بڑ ی خصوصیت وہ میدان یا رجحان ہے جو اشیاء و عناصر اور تجربوں کا تجزیہ کر کے کچھ عام اصول متعین کر لیتا ہے، اور اپنی آرزو اور اپنے احساس اور جذبے سے اشیاء و عناصر اور حاصل کیے ہوئے تجربوں کی صورتیں تبدیل کرنے کی کوشش کرتا ہے، اس عمل میں ترمیم و تنسیخ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، نئی معنوی جہت پیدا کرنے میں یہ میلان یا رجحان ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔

ناگ کی عبادت پہلے سے موجود منی سوام کے متحرّک حسّی پیکر کی عبادت میں جذب ہو گئی ہے حالانکہ آج بھی منی سوامی کسی نہ کسی صورت مختلف علاقوں میں موجود ہے، ناگ کے ساتھ ’’ناگن دیوی ‘‘ بھی آئی جو عموماً مختلف بستیوں ، علاقوں اور دیہاتوں میں اپنی مختلف جہتوں کو لیے آج بھی موجود ہے، کئی مقامی دیویوں کے پیکر اس میں جذب ہو گئے۔ ایسا بھی ہوا کہ خود ’’ناگن دیوی‘‘ کا پیکر کئی مقامی دیویوں سے ہم آہنگ ہو گیا۔ ایک قدیم ترین دیوی ہے جسے تلگو زبان میں ’’گنگ امّا‘‘ (GANGA AMMA) اور تمل میں ’مریا امّا  (MARIYA AMMA) کہتے ہیں۔ زمین کی زرخیزی اور کھیتوں میں اچھی فصلوں کی ذمہ دار ہے، اس کا ایک بھیانک روپ بھی ہے، چیچک، ہیضہ، اور قحط کی ذمّہ دار بھی ہے یہ کالی، کی کم و بیش تمام اہم خصوصیات لیے ہوئے ہے، لہو پیتی ہے، قربانی چاہتی ہے، مہربان بھی ہے، رحمتیں بھی لے کر آتی ہے، ناگن دیوی میں ’’گنگ امّا‘‘ یا ’مریا امّا ‘ کی تمام خصوصیات موجود ہیں۔

دراوڑی تہذیب کی تاریخ میں یہ بات بہت اہم ہے کہ ڈر اور خوف کے جذبے پر محبت کا جذبہ غالب آتا گیا ہے، ناگوں سے لہو کے رشتے کے احساس نے خوف کے جذبے میں توازن پیدا کر دیا، محبت اور شفقت اور محبت کے تصوّر نے عوامی رشتوں کو مضبوط اور مستحکم کر دیا، ناگ انسانی رشتوں کا مرکز بنا رہا ہے، سب ایک ہی خاندان کے ہیں یہ احساس غیر معمولی ہے اس سے اپنی قوت اور طاقت کا احساس بالیدہ بنا ہے، محنت اور خصوصاً اجتماعی محنت کی قدر و قیمت کو سمجھنے میں آسانی ہوئی ہے، کسی مندر کی تعمیر ہویا کوئی رقص ، کوئی گیت ہو یا کوئی نقّاشی یا مصوّری، عوامی اور اجتماعی محنت ہمیشہ شامل رہی ہے۔ ’ناگ‘ تحفظ کرتے ہیں، اعمال پر نظر رکھتے ہیں، بہتر انسانی رشتوں کو دیکھ کر اپنی رحمتوں کی بارش کرتے ہیں، یہ غیر معمولی نفسیاتی شعور تھا کہ جس سے دراوڑی تہذیب کی عمدہ قدروں کی تشکیل ہوئی ہے، گنگ امّا، اور مُریا امّاں بھی رحمتوں کی دیویاں بن گئیں، ’’نفسیاتی ضرورت‘‘ نے عوامی رشتوں کی قدروں کا تعین کیا۔ ان اقدار میں محبت اور ایک دوسرے کی مدد کی خواہش دونوں کی بڑی اہمیت ہے۔ تمل علاقوں میں اییانا  (AIYANA) دیوتا ان ہی اقدار کا سرچشمہ ہے۔ انہیں قربانی یا لہو کی ضرورت نہیں ہے، وہ گاؤں کے محافظ ہیں، راتوں میں گاؤں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور اونچے اونچے ٹیلوں پر ’’اییا نار‘‘ کے چھوٹے چھوٹے مندر بنائے گئے عموماً ایسے مندروں کے سامنے مٹی کے بنے ہوئے گھوڑے رکھے گئے۔ یہ گھوڑے رات کے اس دیوتا کے لیے سواری بن جاتے ہیں، کھیتوں اور کھلیانوں کے قریب درختوں کے نیچے بھی ان کے مندر ملتے ہیں، ایسے تمام دیوتاؤں اور دیویوں کی روایات ماضی کی تاریکی میں پوشیدہ ہیں، ناگ کی قوت، طاقت، شفقت اور محبت اور اس کی رحمتوں کے بنیادی تصورات نے دوسرے دیوتاؤں اور دیویوں کی شخصیتوں کو تبدیل کر دیا ہے۔

’’سمندر منتھن‘‘ میں جہاں مندر اچل پہاڑ منتھنی ہے وہاں ’’واسکی ناگ‘‘ ڈوری۔ راکشسوں نے ضد کر کے واسکی ناگ کے سر کو پکڑ رکھا تھا جب کہ دیوتاؤں نے دم پکڑ رکھی تھی، راکشس جب ناگ کو کھینچتے تو منہ سے ایسی آنچ نکلتی کہ راکشس جھلسنے لگتے۔ آریوں کے حسّی اور مذہبی قصّوں اور ان کے تصوّرات اور خیالات کی پختگی کے باوجود ہندوستان کے کم و بیش تمام علاقوں میں قدیم ترین عوامی روایات، قصّے، تصورات اور خیالات دھرتی کے اندر سے پھوٹتے رہے ہیں اور اکثر بنیادی عقائد اور روایات بن کر زندہ رہے ہیں یہ سب فنون کا سر چشمہ بھی بنے ہیں، مختلف قوموں کی تہذیبی آمیزش کے بعد ان کا تحرّک فنون کی تخلیق میں شامل رہا ہے، آریائی تصورات کی تخیّلی کے باوجود ہندوستان کے قدیم باشندوں کے دلوں کی دھڑکنیں قائم رہی ہیں، ناگ اور سانپ ان کے دل اور ذہن سے نکل کر فنون کے پیکر بنے ہیں، ان کے مختلف پیکروں کو فن تعمیر نے بھی قبول کیا ہے اور فن مصوّری نے بھی، رقص کے فن نے بھی انہیں نمایاں جگہ دی ہے اور شاعری اور ڈرامے کے فن نے بھی۔

آج بھی کیرلا کے مندروں میں ’ناگ‘ کے پیکر رکھے جاتے ہیں تو منتروں کو پڑھتے ہوئے اور ان منتروں کو سنتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جسے ہم اپنی قدیم ترین تہذیب کے منتروں کے آہنگ سے آشنا ہو رہے ہیں۔ ناگ دیوتاؤں اور ناگن دیویوں کی عبادت کرنے والے آج بھی کچھ قدیم اور کچھ جدید منتر یاد رکھے ہوئے ہیں، سانپ کے انتقام کا جذبہ ان کے لا شعور میں موجود ہے، جانے کتنی پرانی کہانیوں اور روایتی داستانوں میں ناگوں کی ناراضگی اور ان کے انتقام کی باتیں ملتی ہیں۔ وہ کسی قیمت ناگ دیوتاؤں اور ناگن دیویوں کو ناراض کرنا نہیں چاہتے، سرپ کوپم (SARPA KOPAM) یعنی سانپ کی ناراضگی کا قدیم ترین احساس کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے، اجتماعی لا شعور میں ناگ کا پیکر جانے کتنی جہتوں کے ساتھ موجود ہے یہی وجہ ہے کہ ناگ پوجا کے مختلف طریقے اور انداز ہیں، اجتماعی شعور کے خوف نے عوامی سطح پر احترام کے جذبوں کو بڑی شدّت کے ساتھ متحرک کیا ہے احترام میں کمی ہو جاتی ہے تو انسان کی چھوٹی بڑی خواہشیں پوری نہیں ہوتیں، اکثر نقصانات ہی ہوتے ہیں اور احترام میں کمی نہیں ہوتی زندگی کی خوشیاں اور مسرتیں حاصل ہوتی ہیں۔

ایک قدیم عقیدہ یہ رہا ہے کہ ناگ جتنا خوش ہوتا ہے اتنا ہی اس کا فن اُبھرتا اور پھیلتا ہے، عبادت کرنے والے افراد کی تقدیریں ناگ کے پھنوں میں ہیں۔

ہندوستانی صنمیات میں ایک قصّہ یہ ہے کہ وشنوؔ کے چھٹے اوتار ’’پارسو رما‘‘ نے سمندر میں ایک کلہاڑی پھینکی یا سمندر کے سینے پر اپنی تیز چمکتی ہوئی کلہاڑی ماری تو دیکھتے ہی دیکھتے ایک علاقہ وجود میں آ گیا، ایک خوبصورت دھرتی نے جنم لیا ، یہی کیرالا ہے! اسی قصّے میں برہمنوں کا ذکر ہے، یہ کہا گیا ہے کہ ’پارسورما‘ نے اس دھرتی برہمنوں کو آباد کیا، یہ عقیدہ آج بھی زیادہ اہم ہے کہ اس علاقے میں ناگ دیوتاؤں کی حکومت تھی، غالباً اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس علاقے کی اسطوری کہانیاں زیادہ قدیم ہیں، عوامی شعور میں زندہ اور متحرک ہیں، عوامی ذہن نے ان کے پیکر تراشے ہیں، ان کی عبادت کی ہے، اپنے لہو سے ان کا رشتہ قائم کیا ہے، اس علاقے کے لوگوں کے عقائد اور توہمّات کی اپنی طویل داستان ہے، قبائلی صنمیات میں ان کے اپنے قصّے اور پیکر ہیں، ناگ دیوتاؤں کی پر اسرار قوتوں پر ان کا اعتماد آج بھی اتنا زیادہ ہے کہ مذہبی رسومات سے ناگ کے پیکر کو کسی لمحہ علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس معنی خیز اور جہت دار مسلک (CULT) نے قدیم ترین فنون کو شدت سے متاثر کیا ہے اور آج بھی مختلف فنون کا ایک اہم ترین سر چشمہ بنا ہوا ہے۔

جن لوگوں نے ناگ مندروں اور خصوصاً کیرالا کے چھوٹے چھوٹے ’’پم پن کاؤ‘‘  (PAMPIN KAWA) کو دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ ان میں جہاں ’’ناگ دیوتاؤں‘‘ اور ’’ناگن دیویوں‘‘ کے پیکر ہوتے ہیں وہاں اکثر چند ایسے چھوٹے بڑے پتھر بھی ہیں جو علامتی حیثیت رکھتے ہیں، یہ پتھر ناگ دیوتاؤں اور ناگن دیویوں کی علامتیں ہیں، ایک قدیم ترین عقیدہ یہ رہا ہے کہ ناگوں کے پیکر سجانے سے ناگ اور ناگن دونوں میں تلملاہٹ پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اپنے جلال کا اظہار کرنے لگتے ہیں انہیں اپنے پیکروں کے قریب بار بار آنا پڑتا ہے جس سے انہیں تکلیف ہوتی ہے، بہتر صورت یہی ہے کہ گھروں کے چھوٹے چھوٹے مندروں میں ان کی علامتیں رکھی جائیں، علامتوں کے تعلّق سے یہ حسّی پیکر بھی توجہ طلب ہے کہ ناگوں کی پر اسرار طاقت ان پتھروں میں اس طرح سما جاتی ہے کہ علامتی پتھرا لوہیت کا جلوہ بن جاتے ہیں۔

عوامی منتروں کی تاریخ بھی ’’ناگ پوجا‘‘ کی طرح ماضی کی گہری تاریکیوں میں پوشیدہ ہے۔ آریائی یا نئے منتروں نے ان کی جگہ بعد میں لی ہے۔ آریائی منتروں کی بنیاد یہ قدیم عوامی منتر بھی ہوں گے۔ عوامی منتروں کا قدیم تعلق ’’جادو ٹونا‘‘ سے بھی ہے۔ ناگ دیوتا یا ناگن دیوی کے کسی پیکر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پر رکھتے ہوئے منتر پڑھے جاتے ہیں یہ قدیم روایت ہے ایسے منتروں میں خوف اور مسرّت کے جذبے شامل ہوتے ہیں، قدیم ترین روایت کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ قدیم ترین باشندے جب کسی درخت کے نیچے ’’ناگ‘‘ کا پیکر رکھتے تھے تو اجتماعی طور پر منتر پڑھتے تھے، پردہت کی حیثیت کسی کو حاصل نہ تھی۔ انہوں نے اپنے منتر یقیناً خود خلق کیے ہوں گے کہ جن سے باطنی آسودگی حاصل ہوتی ہو گی۔ پروہتوں کے وجود میں آنے سے قبل ہر قسم کے مذہبی عمل اور رسومات میں اجتماعی منتروں کی اہمیت رہی ہے۔ قدیم ترین قبیلوں نے اجتماعی طور پر منتروں کے نقشے اپنے اپنے طور پر مرتب کیے جو تانتروں کی بنیاد میں اہمیت رکھتے ہیں۔ تانتر کا وجود تانتر فلسفے سے کہیں قدیم ہے۔ مجسمہ سازی اور تصویر نگاری کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ سچائی توجہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کے قدیم مجسمہ نگاروں اور تصویر کاروں نے ہمیشہ منتروں کو اہمیت دی ہے، دیوتاؤں کی تصویروں کے خاکوں کو مرتب کرتے ہوئے اور پھر انہیں مجسموں اور تصویروں کی صورتیں عطا کرتے ہوئے منتر پڑھے جاتے تھے، جنگلوں اور پہاڑوں اور قدیم ترین علاقوں کے عوام نے ’’یوگ‘‘ اور ’’آسن‘‘ کو اپنے اپنے طور پر بڑی اہمیت دی تھی۔ ’’یوگ کے پورے فلسفے کا انحصار ان ہی قدیم آسنوں اور طریقوں پر ہے، کسی دیوی یا دیوتا کو سجاتے اور سنواتے۔ قدیم ہندوستانی مجمسہ نگاری کی تاریخ بھی یہ بتائی ہے کہ ’’یوگ‘‘ کی روح سے آشنا ہونے اور تانتر اور اشلوکوں کی قدر و قیمت جاننے کے بعد مجسمہ سازوں کو آسنوں اور منتروں کے تعلق سے خاص تربیتیں دی جاتی تھیں، دیوتاؤں کی آنکھیں بنانے کے لیے خاص آسنوں اور منتروں کی ضرورت ہوتی تھی، خاص منتروں کو پڑھ کر آنکھوں کی تخلیق ہوتی، ہر اشلوک کا اپنا آہنگ ہوتا اور آخری منتر اپنے آہنگ کے ساتھ دیوتا کی تخلیق کر دیتا تھا۔

اسی طرح دیوی دیوتاؤں کے اعضاء کی تخلیق کے لیے ’مختلف آسن‘ منتر اور آہنگ تھے، تخلیقی فن نے عبادت کا درجہ حاصل کر لیا تھا اور تخلیقی فن نے اپنی عظمت کا مظاہرہ کر کے عبادت کرنے کے لیے مجبور کر دیا تھا۔ فنکار تخلیق کے پورے عمل میں عابد تھے اور جب تخلیق ہو جاتی تھی تو ’الوہیت‘‘ کا نور اس طرح روشن ہوتا کہ لوگ عبادت کرنے پر مجبور ہو جاتے۔

مالا بار میں ایسی جانے کتنی قدیم کہانیاں ہیں جو آج بھی بچوں کو سنائی جاتی ہیں کہ جن میں یک ایسی عورت ہوتی ہے جو ایک ساتھ دو بچوں کو جنم دیتی ہے اور ان میں ایک ناگ ہوتا ہے جو اپنی ماں کو چند نصیحتیں دے گر گم ہو جاتا ہے اور برے وقت میں مدد کرتا ہے عموماً مشکل لمحوں میں یاد کرنے سے نمودار ہوتا ہے اور ماں کا آنچل خوشیوں سے بھر دیتا ہے، اس قسم کی عوامی کہانیاں ہندوستان کی قدیم داستانوں میں شامل ہو گئی ہیں۔ کیرالاؔ میں قدیم مشہور ناگ مندر ’’منّار سالہ (MANNARSALA) ہے کہ جس میں ناگوں کے ہزاروں پیکر ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس مندر کی پہلی تعمیر اس وقت ہوئی جب ایک عورت کے ناگ بچّے نے یہ نصیحت کی تھی کہ اس کی عبادت کی جائے، ماں نے اپنے ناگ بچّے کی عبادت شروع کی اور اس کے بعد اس علاقے کے تمام لوگوں نے اس ناگ کی عبادت کو فرض جانا۔ ماں، اس ناگ دیوتا کی پہلی پہچان تھی، اس کے بعد مندروں میں عورتیں پجارن بننے لگیں۔ ایسی پجارن عورتوں کو کیرالاؔ میں ’’ولیا اماں (VALIAAMMA) کہا جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’بڑی امّاں‘‘ ! اسی طرح ناگ کنیاؤں کی کئی کہانیاں مشہور ہیں۔ جو قدیم ترین عوامی کہانیوں سے رشتہ رکھتی ہیں، بعض ناگ کنیاؤں کے لیے مختلف قبیلوں نے چھوٹے چھوٹے مندر بھی بنا رکھے ہیں۔

ناگ پوجا، محض احساس اور عمل نہیں بلکہ اظہار ذات بھی ہے، قدیم ترین نسل کے سچّے اور واضح اور صاف اور اپنی فطرت میں مقدس کردار کا یہ اظہار انسانی اور انسان کی آرزوؤں اور تمنّاوں کو پیش کرتا ہے، ایسے ہی اعتماد ، اعتقاد اور عبارت تہذیب کی بعض اہم اقدار کی تشکیل کی ہے اور سماجی اور اخلاقی خیالات کی بنیادیں قائم کی ہیں، قبیلوں کے ابتدائی مذاہب انسانی زندگی کے کئی پہلوؤں کو نمایاں کرتے ہوئے یہ احساس دیتے ہیں کہ یہ اپنے اندر سے باہر آئے ہیں اور آہستہ آہستہ ارتقا کی منزلیں طے کرتے رہے ہیں۔

ہندوستان کے قدیم ترین باشندوں کے ایسے مشترکہ اعتقادات کو قدیم قبیلوں کے مذہبی ، ثقافتی اور ابتدائی نا محسوس فلسفیانہ نظام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، سب سے اہم بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نظام میں بد خواہی اور فیض رسانی کے جذبوں کا ایک عجیب و غریب امتزاج ملتا ہے کہ جس کا اظہار فطری اور فوق الفطری عناصر کی پیش کش میں ہوتا ہے، تشبیہی خصوصیتوں کے ساتھ سحر انگیزی سے مذہبی نظام میں انگنت دیوی دیوتاؤں کی تخلیق ہوتی ہے۔ ’شمال مشرق‘ کے پہاڑی علاقوں کے قبیلوں کی عبادت کا جائزہ لیا جائے تو چند بنیادی سچائیاں اس طرح سامنے آئیں گی۔

٭        مختلف حصّوں میں تقسیم کر کے فطرت کے جلال و جمال کی عبادت!

٭        اپنے آباء و اجداد کی روحوں کی عبادت!

٭        بعض دیگر روحوں کی عبادت!

٭        اندھے وشواس یا عقیدے کے ساتھ ایسے عناصر کی عبادت کہ جن میں پوشیدہ سحر یا جادو یا سحر انگیز روحوں کی موجودگی کا یقین ہو!

٭        ایک ہی سب سے بڑے دیوتا کی عبادت !

اور

٭        ایسی دیوی یا ایسے دیوتا کی عبادت کہ جس کی حیثیت مرکزی ہو اور جس کے سامنے دوسرے تمام دیوتا اور دوسری تمام دیویاں ثانوی حیثیت رکھتی ہوں۔

کھاسیؔ قبیلوں میں ’’ایک خالق‘‘ کا عقیدہ بہت مضبوط رہا ہے، خالقِ زندگی کو وہ ’’نونگ‘‘ (NONG) ’یو‘ (U) تھو (THAW) بیلی (BELI) جیسے جانے کتنے نام دے رکھے ہیں، ایک خالق ، میں زمین، پانی اور دولت سب کے دیوتاؤں کی خصوصیتیں جذب رہی ہیں، دولت، اور ’جاہ و حشمت‘ کی خصوصیت اس لیے اہم رہی ہے کہ خالقِ زندگی کا یہ پہلو زیادہ متحرک ہو جائے تو انسان اپنی محنت سے زمین کو زیادہ زرخیز بنا سکتا ہے اور پہاڑوں کے اندر سے پانی نکال سکتا ہے، دریاؤں کے رخ موڑ سکتا ہے، دولت اور جاہ و حشمت دونوں قوت اور طاقت سے وابستہ ہیں ’ناگ‘ کی پرستش کے پس منظر میں یہ نفسیاتی سچّائی بھی موجود ہے، وہ طاقت کی علامت ہے لہٰذا دولت اور جاہ و حشمت بھی عطا کرتا ہے، دولت دے کر اس کا محافظ بن جاتا ہے طاقت اور قوت عطا کر کے زندگی پر گزرنے کا بے پناہ حوصلہ بھی عطا کرتا ہے۔

کھاسیؔ قبیلوں کے افراد کی طرح گارؔ و قبیلوں کے افراد بھی ’’ایک خالقِ زندگی، پر یقین رکھے رہے، معبود کے لیے انہوں نے ’’سال جنگ‘‘ (SAL-JUNG) کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کا عقیدہ ہے کہ ’’سال جنگ‘‘ جنت میں رہتا ہے اس کی رفیقۂ حیات کا نام ’’مانم‘‘ ہے، سورج، چاند، ستارے اور روحیں سب پہاڑوں ، جنگلوں اور دریاؤں کی حفاظت ’’سال جنگ‘‘ کے حکم سے کرتے ہیں، گھاسیؔ قبیلوں نے پہاڑوں دریاؤں اور جنگلوں ہمیشہ مختلف قسم کی روحوں کو محسوس کیا ہے، انہیں زندہ اور متحرک تصوّر کیا ہے، ان کی زندگی سے ایک رشتہ قائم کرنے کی کوشش کی ہے، آباء و اجداد کی روحوں کی عبادت کی روایت شمال مشرقی ہندوستان کے پہاڑی قبیلوں میں جانے کب سے قائم ہے۔ سانپوں اور ناگوں میں اپنے آباء و اجداد کی روحوں کو محسوس کرتے رہے ہیں، دیماسا کچھاری (DIMASA KACHARI) بھی ایک معبود کے قائل رہے اسے ’’مادیاس‘‘ کہتے رہے، آہستہ آہستہ ایسے تمام پہاڑی قبیلوں میں ایک خالقِ زندگی کے گرد جانے کتنے چھوٹے بڑے دیوتا اُبھر آئے، ماویاسؔ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے جانے کتنے ’’مادیاس‘‘ پیدا ہو گئے، عوامی دیوتاؤں میں سب سے اہم دیوتا ’’سب رائی‘‘ (SIBRAI) رہا جو زمین کا مضبوط اور طاقت ور دیوتا تھا، اسی کی ایک دوسری صورت ’’ارنم‘‘  (ARNAM) میں اُبھری جس کے گرد تمام فطری عناصر رقص کرنے لگے، ’ارنم‘ ہی کو ’پریتھی راجا‘  (PRITHIRAJA) کہا گیا ہے یعنی ساری دنیا اور ساری زمین کا حاکم! ناگ اس کی علامت بن گیا! اس کے گرد عورتوں اور جانوروں اور پھولوں کے پیکر رقص کرنے لگے۔

ہندوستان کے قدیم ترین جنگلی اور پہاڑی قبیلوں کے ’’مذہبی۔ ثقافتی‘‘ نظام میں اس وقت زبردست تبدیلیاں پیدا ہوئیں جب ’شوازم‘ اور ’تانترازم‘ کے ساتھ ’’وشنو ازم‘‘ اور پھر ’’بدھ ازم‘‘ نے شدّت سے متاثر کرنا شروع کیا ، قدیم ترین باشندوں نے آریوں کے دیوتاؤں کو بھی اپنے طور پر قبول کیا اور انہیں اپنی قدیم روایات سے وابستہ کر لیا ’شوازم ‘ اور تانتر کی تاریخ ماضی کی گہرائیوں میں جانے کہاں پوشیدہ ہے، ماقبل تاریخ ان کے قصّے سفر کرتے رہے ہیں، ’شیو ‘ اہم ترین، ہر دلعزیز اور محبوب تر دیوتا رہے ہیں، جنگلوں اور پہاڑوں کے نظامِ حیات کی سب سے معنی خیز علامت بن کر ! قدم ترین باشندے ’’کیراتا (KIRATAS) شیوؔ کے ہی تحفظ میں تھے، شراب اور گوشت دونوں کے تصورات ’شوازم‘ سے وابستہ رہے۔ آریوں نے ’’شوازم‘‘ کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی لیکن قدیم ترین پہاڑی باشندوں نے اپنی روایت کو کسی نہ کسی طرح قائم رکھا اور تانتروں کے سائے میں رہنا پسند کیا اور ’مقدس ماں‘ یا عظیم ماں، کے پیکر کو مقامی رنگوں کے ساتھ ابھارا، یونی کی علامت کی عبادت شروع کی اور شیو اور شیو لنگ کو اس مسلک سے گہرے طور پر وابستہ کر دیا۔ گاروؔ اور گھاسیؔ قبیلوں میں ’کمکھیا‘ کی ماں کا مسلک قبول ہوتا گیا، یہی صورت حال دوسرے علاقوں کے پہاڑی بستیوں کی رہی، آسٹرک باشندوں کے ’کمکھیا‘ کے قریب جو شیو لنگ رکھا گیا اس کی عبادت کرنے والوں نے ’ماں‘ کے پیکر کو نظر انداز نہیں کیا۔ اور ’لنگ‘ کے ساتھ ’یونی ‘ کو جذب کر کے اپنی سطح پر پہلی بار زندگی کی وحدت کا احساس پایا۔ آسٹرک باشندے اس وحدت کو ، آؤ مئی لودائی فیا UMEI LUDAI FIA کہتے تھے جس کا مفہوم اس طرح سمجھا جا سکتا ہے

اومئی     (UMEI  =ماں

لودائی     LUDAI   =عضو تناسل

فیا         -FIA)    =دیوتا

یہ نام وقت کے ساتھ اپنی صورت اور اندرونی آہنگ تبدیل کرتا رہا، پہلے ’’اومالودا‘‘ (UMA LUDA) ہوا، پھر ’اوما نودا‘ (UMA NUDA) اور اب ’’اومانندا‘‘ (UMA NANDA) ہو گیا ہے۔ گوہاٹی کے قریب برہمپتر وادی کے درمیان جو شیو لنگ، ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ کمکھیا کی دین ہے، کمکھیا، کو دھرتی ماں کی‘ یونی‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

’شیو ازم‘ کے ساتھ ناگ نے اور زیادہ اہمیت اختیار کر لی ، ناگ شیو کی علامت بن گیا۔ شیو لنگ کی صورتیں ’’ناگ‘‘ کی شکلوں میں ڈھلنے لگیں۔ کنڈنی یوگ نے شکتی کی صورت میں ناگ کے پیکر میں محسوس کیا۔ تخلیق کے جڑواں اصول میں خود شعور ہے جو ایک بڑی سچّائی ہے لیکن خاموش اور غیر متحرک ہے اور شعور کی طاقت اور قوت ہے جو حد درجہ متحّرک ہے۔ تانتر، میں اسے شیو اور شکتی سے پہچانتے ہیں۔ کائنات کی ہر صورت میں اسے پہچاننے کی کوشش کی گئی ہے۔ انسان کے جسم میں ’’خالص شعور‘‘ شیو ہے جو دماغ کے مرکز پر ہے اس مرکز کو ’ساہس رار (SAHASRANA) کہا گیا ہے اور ’’شعور کی طاقت‘‘ پراکرتی شکتی ہے جو نیچے ، مُلا دھارا، (MULADHARA) پر رہتی ہے، پراکرتی شکتی کو بیدار کر کے اسے خالص شعور سے ہم آہنگ کرنے کا عمل تانتری عمل ہے۔ پراکرتی شکتی نیچے سے اوپر اٹھتی ہے اور خالص شعور میں جذب ہو کر اسے بیدار اور متحرک کر دیتی ہے اسی ملاپ اور جذبی کیفیت سے انسان سمادھی کی منزل پر پہنچ جاتا ہے، جسم کی طاقت روح کی طاقت سے مل جاتی ہے، کنڈنی یوگ میں’ آنند‘ کا تصوّر اسی مقام پر ملتا ہے، پورا وجود ’’آنند‘‘ یا کائناتی انبساط سے سرشار ہو جاتا ہے۔ فرد کا شعور کائناتی شعور کا حصّہ بن جاتا ہے، ’جیو شیو‘ سے مل کر ایک ہو جاتا ہے ، شکتی بنیادی قوت ہے جو جسم کے تمام حصّوں کو اپنی گرفت میں لیے رہتی ہے، اسے کولا کنڈلی (KULA KUNDALI) کہتے ہیں۔ کنڈلی یوگ نے شکتی یا کولا کنڈلی کو ناگ یا سانپ کی صورت میں کنڈل مارے محسوس کیا ہے۔ انسان کی طاقت کے تمام مظاہر میں اسے پہچانا جا سکتا ہے، ’پار اشکتی‘ کے کئی نام ہیں مثلاً بھجنگی، (سانپ) ایسوری اور ’’کوٹی لنگی‘ ‘ (KUTI LANGI)  وغیرہ۔ ’ملی دھارا‘ میں شکتی سانپ کی طرح کنڈل مارے بیٹھی رہتی ہے اور یوگ کے عمل میں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتی ہے اور دماغ کے مرکز پر پہنچ کر خالص شعور (شیو) میں جذب ہو جاتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ناگ اور سانپ کی علامت نے یوگ کے فلسفے کو کتنا معنی خیز اور جہت دار بنا دیا ہے۔

کیرالا سے کشمیر تک اور کشمیر سے شمال مشرقی پہاڑی علاقوں تک ’’ناگ‘‘ کی عبادت کی روایتیں آج تک زندہ ہیں۔ ہندوستانی فلسفوں نے ان کی بنیادیں مضبوط کی ہیں۔ کشمیر وادی میں ناگ راجاؤں کی حکومت کی جانے کتنی کہانیاں آج بھی مقبول ہیں۔ ناگ دیوتا کے قصّے مشہور ہیں۔ ’ناگ راج سے شیش ناگ اور اننت ناگ تک قدیم ترین تصورات کے ساتھ نئے تصورات کے فلسفیانہ نکات کو بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ ڈوگروں کے عوامی فن میں ناگ ایک مرکزی علامت بنا رہا ہے، کئی مقامات پر آج بھی ناگ کے ’’آئیکون‘‘ موجود ہیں انہیں مقامی لوگ ’’ناگا‘‘ کہتے ہیں ، عموماً چپٹے مربع نما پتھر سے ناگ تراشے گئے ہیں قدیم باشندوں کی رسومات میں ناگوں کو ہمیشہ نمایاں جگہ دی گئی ہے، ناگ عموماً کھیتوں اور کھلیانوں کی نگہبانی اور نگرانی کرتے ہیں، کھیتوں کے درمیان ان کے پیکر بھی ہوتے ہیں اور ان کی علامتیں بھی۔ آج بھی یہ قدیم عقیدہ موجود ہے کہ بارش کے لیے ناگ دیوتا کی عبادت ضروری ہے۔ ڈھول اور نقارے بجا کر ناگوں کو بیدار کیا جاتا ہے اور ان کی بیداری کسی نہ کسی طرح بیداری لے آتی ہے اس دیوتا کو پیار سے ’’بولا دیوتا یعنی بہرا دیوتا بھی کہتے ہیں غالباً اسی لیے ڈھول اور نقاروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ بھدرواؔ کے علاقے میں بزرگ اکثر یہ کہانی اپنے بچوں کو سناتے ہیں کہ جب ناگ دیوتا کی عبادت کے لیے کیلاش کنڈ پر جاتے اور پہاڑ کے اوپر برف کی مانند جمی ہوئی جھیل کو دیکھتے تو انہیں ناگ دیوتا نظر آ جاتے تھے۔ کشمیر میں شیش ناگ کی کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ہے، ریاست جموں و کشمیر میں گنیشؔ ، وشنوؔ ،برہماؔ، مچھ، کچھ اوتار‘‘ اور ’’وارہ اوتار‘‘ وغیرہ سے قبل ناگ وغیرہ کی روایت ملتی ہے، جموں اور بھدؔروا میں آج بھی ایسے خاندان موجود ہیں کہ جن کا عقیدہ یہ ہے کہ ان کا رشتہ ناگا قبیلوں سے ہے، وہ ناگ کی پرستش کرتے ہیں، ’’ناگ پچھمی، کے تہوار پر ڈوگرہ خاندان کے افراد انتہائی عقیدت کے ساتھ’ناگ پوجا‘ کرتے ہیں۔ مختلف خاندانوں میں عبادت کرنے کا انداز مختلف ہے لیکن پوجا ناگ ہی کی ہوتی ہے، ایسے تہوار پر ناگ خاندان کے دوسرے افراد بھی شریک ہوتے ہیں، ناگ کی تصویریں بنائی جاتی ہیں اور ان تصویروں کو پھولوں سے سجایا جاتا ہے، اسی طرح جموں کے بعض علاقوں میں کچھ ایسے برہمن خاندانوں میں جو ناگ کی پرستش کے وقت عمدہ دیسی گھی سے باورچی خانے کی دیواروں پر ناگ کی صورتیں ابھارتے ہیں اور گھروں کی عورتیں انہیں مختلف رنگوں سے اجاگر کرتی ہیں، کھیر بناتی ہیں اور پوجا کے بعد اسے تقسیم کرتی ہیں۔ عورتیں ناگ کے پیکروں کے سامنے بیٹے کی پیدائش کے لیے دعائیں مانگتی ہیں اور تازہ پھل مٹھائیاں ، دیسی گھی اور دودھ چڑھاتی ہیں، جب دعا قبول ہو جاتی ہے تو دودھ دیوتا کو دودھ سے بھرا چاندی کا پیالہ پیش کیا جاتا ہے اور کبھی خوبصورت تراشا ہوا لکڑی کا پیالہ، کشمیری تانتر شاستر میں ناگ کی جو اہمیت ہے ہمیں اس کا علم ہے، ناگ چکر، اور ناگ کی اٹھان کو پورے وجود کے چکر اور پورے جسم کی اٹھان سے منسلک کر دیا گیا ہے، ناگ یا سانپ تانتر اور یوگ دونوں کی روح ہے، دونوں کے جوہر کا مطالعہ اسی کی علامت کے سہارے ممکن ہوتا ہے۔

قدیم ہندوستانی مجسموں میں درخت اور سانپ دونوں کی بڑی اہمیت رہی ہے، یہ عقیدہ رہا ہے کہ درخت کے نیچے خزانہ رہا ہے اور ناگ اس کی حفاظت کرتا ہے، درخت کسی نے کاٹ دیا تو ناگ کا جلال اسے زندہ رہنے نہ دے گا، خزانے کے تصور کے ساتھ قیمتی پتھروں اور قیمتی معدنیات کا تصور بھی وابستہ رہا ہے، یہ سب زمین کے اندر گہرائیوں میں پوشیدہ ہیں کہ جہاں صرف تاریکی ہے۔ اس تاریکی کے بطن سے درخت نکلتے ہیں جو مختلف حالات میں تحفظ دیتے ہیں، ایسی تاریکی کا کرشمہ ہے کہ انسان کو اتنی خوبصورت اور دلفریب دنیا نصیب ہوئی ہے ، تاریکی زندگی کے جوہروں کے سمندر میں ہے جو تمام اشیاء و عناصر کو جنم دیتا ہے، اس گہری تاریکی اور انسان کی زندگی میں ناگ ’’ایک با معنی رشتہ پیدا کر دیتا ہے لہٰذا یہ رحمت ہے اور اس کی عبادت فرض ہے، ناگ پاتال کی تاریکی کی مانند خاموش اور انسان کی زندگی کی مانند تیز اور سبک رفتار ہے پاتال اور انسان کی دنیا کی وحدت ناگ کی وجہ سے قائم ہے۔ ویدی فکر نے جب دنیا اور آسمان کا رشتہ قائم کیا تو درخت بہت اہم بن گئے ،درخت‘ دیوی دیوتاؤں اور آسمانوں ۔ اور دنیا کی وحدت کی علامت بن گئے۔ تری لوک   (TRI LOKA) کا یہ قدیم تصور غیر معمولی ہے کہ جس نے ہندوستانی جمالیات کو بڑی شدت سے متاثر کیا ہے، رقص، مصوری، مجسمہ سازی، موسیقی اور تعمیر کے فنون میں تین بڑی جہتوں کا شعور ابتدا سے موجود ہے، مذہبی تصورات اور فلسفیانہ اور ما بعد الطبیعاتی افکار و خیالات نے آسمانؔ، درختؔ، سانپؔ یا ناگؔ اور دنیا اور زندگی کی وحدت کو بڑی شدت سے قبول کیا ہے۔ وشنوؔ ، تخلیق کائنات سے قبل اننتؔ پر ایک بڑے یوگی کی مانند لیٹے ہوئے نظر آنے لگے، اننت زندگی کے تسلسل اور چکر کی معنی خیز علامت ہے۔ وشنوؔ کے اوپر ناگوں کے سر نظر آنے لگے، بدھ فنکاروں نے ناگ کے پیکروں کو بے حد مقبول بنایا۔ دوسری صدی قبل مسیح ایسے پیکر خلق کئے جن میں ناف سے اوپر کا حصّہ انسان کا ہے یا بودھیؔ ستوا کے جسم کے نیچے ناگ دائروں کی صورتوں میں جلوہ گر ہیں، انسان کے سرپر ایک ساتھ کئی ناگوں کے سر بنائے گئے، بدھ فنکاروں نے پہلی بار ناگوں کو انسان کے پیکر میں پیش کیا۔ سانپ جسے لہراتے ہوئے جسموں کو آج بھی بدھ فن کے بعض نمونوں میں دیکھا جا سکتا ہے ہندو فنکاروں نے ناگ کے جانے کتنے پیکروں سے مندروں کو سجایا، مندروں کو کسی نہ کسی سانپ کی موجودگی آج بھی متبرک سمجھی جاتی ہے سانپوں کو دودھ پلایا جاتا ہے، ناگوں کو کھیتوں کا محافظ تصور کیا جاتا ہے ۔ زراعتی زندگی میں اس پیکر کا گہرا تعلق ہے، عقیدہ یہ رہا ہے کہ جن کھیتوں میں ناگ بس جاتے ہیں ان میں پیداوار زیادہ ہوتی ہے ، ناگ کی عبادت اور ناگ کے احترام سے نفسی سطح پر توانائی میں اضافہ ہوا ہے۔ جنوبی ہند کے بعض علاقوں میں آج بھی بانجھ عورتیں ’’ناگ کال  (NAGA KALAS)  بناتی ہیں، ناگ کال کی روایت کا تعلق کھیتوں اور کھلیانوں سے ہے، اچھی فصل کے لیے کھیتوں میں پتھر کے ناگ رکھے جاتے رہے ہیں جنہیں ناگ کال کہا جاتا رہا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

’’یک سنگی ستونوں کے سامنے جانوروں کی قربانی کے بعد سُرخ لہو کا مظاہرہ ہو یا ناگ دیوتاؤں اور ناگن دیویوں کے قریب مختلف رنگوں اور مختلف پھولوں کے بکھیرنے کا عمل، رنگوں اور خوشبوؤں سے عوامی ذہن کی وابستگی کا پتہ چلتا ہے۔ پھولوں اور پتوں اور عبادت کا تعلق بہت ہی قدیم ہے قدیم تہذیب و تمدّن میں احساسِ جمال کا اظہار پھولوں اور پتوں کے انتخاب کے ذریعے بھی ہوا ہے…… پھول اور پتّے احساسِ جمال کا اظہار پھولوں اور پتوں کے انتخاب کے ذریعے بھی ہوا ہے… پھول اور پتّے احساسِ جمال کے پیکر ہیں، ان کے انتخاب اور ان کی سجاوٹ میں تخلیقی ذہن کا عمل شامل رہا ہے ، تخیل او ر ’فینتاسی‘ کے تحرک میں دونوں نے ہمیشہ نمایاں حصّہ لیا ہے۔ پھول اور پتے داخلی تہذیب کے اشارے ہیں، ان سے تخیل کے رنگ متحرک ہوئے ہیں کچھ اس طور پر کہ جن باتوں میں کوئی سچائی نہ تھی، جن باتوں کا کوئی وجود نہ تھا اور جن باتوں کے وجود میں آنے کا کوئی امکان ہی نہ تھا، انہیں خارج اور باطن کے رنگوں کی وحدت کے ساتھ نمایاں کر دیا۔ دیوی دیوتاؤں کے سامنے خوبصورت اور اپنے پسندیدہ پھولوں کو پیش کرنے کا عمل ’ انتہائی نفیس نفسیاتی عمل ہے کہ جس سے وہ ’رشتہ‘ اور ’تعلق ‘ وجود میں آ جاتا ہے کہ جس کا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا، یہ آرزوؤں اور تمناؤں اور خوابوں کی علامت بن جاتے ہیں۔ کسی بھول میں کوئی جذبہ پھوٹ پڑتا ہے اور وہ اپنی ایک صورت اختیار کر لیتا ہے، کوئی پھول ایک نئے رشتے کی بنیاد ڈال دیتا ہے، کئی پھول مل کر ایک نئی جمالیاتی وحدت بن جاتے ہیں، پھولوں کو پیش کرتے ہوئے اچانک ’وژن ‘ میں کشادگی پیدا ہونے لگتی ہے تجربے، احساسِ جمال کے ساتھ جانے کتنے نئے پیکروں میں ڈھلنے لگتے ہیں اور ان کی کئی نئی تنظیمیں سامنے آ جاتی ہیں جو اپنی معنویت کو مختلف انداز سے محسوس بنا دیتی ہیں، رسومات  (RITUALS) سے قبل پھولوں اور پتوں کے انتخاب اور پیش کش میں ’ذہنی عمل‘ وجدانی کیفیت و حرکت‘ ’تخلیقی فکر‘ اور خود کار اور خود آموز عمل ‘ کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ’’مسائل حل ہو جائیں‘‘ ۔  یہ بنیادی آرزو تھی کہ جس سے وجدان میں حرکت پیدا ہوتی تھی اور ذہن کا نفسیاتی عمل ایک جمالیاتی رشتہ قائم کر لیتا تھا۔ اس عمل کے دو نفسیاتی مظاہر ہیں، ادراک ، فہم اور سمجھ (COMPREHENSION) اور پختہ ارادہ اور عزم کی پختگی (WILL POWER)  جمالیاتی نقطۂ نگاہ سے یہ بات بہت اہم ہے کہ اس عمل میں ’ادراک اور فہم‘ یادیں، افادیت کے پیش نظر ذہنی کیفیت اور جمالیاتی حسّیت سب شامل ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ عمل ہمیشہ جمالیاتی انبساط اور جمالیاتی مسرتیں عطا کرتا رہتا ہے۔

عبادت کرنے والوں نے مختلف قسم کے رنگوں اور مختلف اقسام کے پھولوں اور پتوں کو ہمیشہ پسند کیا ہے، یہ احساس بہت قدیم ہے کہ دیوی دیوتا خوبصورت خوشبودار پھولوں اور پتوں اور مختلف اقسام کے رنگوں کو بے حد پسند کرتے ہیں، اس کا اظہار بہت بعد بھگوتؔ گیتا میں ہوا ہے کرشنؔ کہتے ہیں جو عابد نہایت احترام کے ساتھ پھولوں اور پتوں کو لے کر میری عبادت کرتے ہیں میں انہیں پسند کرتا ہوں۔ بھگوتؔ کے مطابق کرشنؔ ایک بار متھراؔ میں پھول فروخت کرنے والے ایک شخص کے گھر میں اچانک آ گئے تو گل فروش نے انہیں بہت سے پھول پیش کئے اور انہوں نے انہیں بے حد پسند کیا۔ پرانی کہانیوں اور قدیم ہندوستانی قصّوں میں کئی دیوتا ملتے ہیں کہ جن کی عبادت پھولوں اور پتوں کے ساتھ ہوتی ہے۔ ان میں ’من متھ‘ (MANMATHA)  دیوتا بھی ہیں کہ جنہیں رنگ برنگے پھول پسند ہیں۔ اور ان کی پرستش کرنے والے ان کے قریب جاتے ہیں تو ان کے ذوق کے مطابق خوبصورت پھول اور پتے لیے ہوئے ہیں ’’ویکھا نسن آگم‘‘ (VAIKHANSA AGAMA)  اور ’پنچ تنتر‘ میں تو کئی مقامات پر خوبصورت اور خوشبودار پھولوں کا ذکر ہے، کہیں کہیں تو یہ ہدایتیں بھی ملتی ہیں کہ کس قسم کے پھولوں کا انتخاب کرنا چاہیے، معبود کی عبادت کے لیے کن پھولوں کو منتخب کیا جائے اور وہ کون سے پھول ہیں جنہیں معبود حقیقی پسند نہیں کرتا۔ سنسکرتؔ، تملؔ اور ملیالمؔ ادبیات میں جانے کتنے پھولوں اور پتوں کا ذکر ملتا ہے کہ جن کا تعلق عبادت سے ہے۔

قدیم ہندوستان میں مختلف قبیلوں نے دیوی دیوتاؤں کے لیے پھولوں کے پودے لگائے ہیں، اجتماعی طور پر عبادت کے لیے چھوٹے چھوٹے باغ بنائے جاتے تھے اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی تھی، اجتماعی طور پر عبادت اور پھولوں کو توڑنے کے لیے پاکیزگی سب سے بڑی ہدایت تھی، کچھ جنگلی پھول صرف عبادت کے لیے مخصوص تھے، انہیں کسی دوسرے مقصد کے لیے توڑنا گناہ تصوّر کیا جاتا تھا ’پنچ راتر آگم‘ (PANCHARATRA AGAMA) میں تو صبح کی عبادت کے پھولوں اور شام کی عبادت کے پھولوں کو الگ کر دیا گیا ہے، رفتہ رفتہ مختلف اوقات کی عبادت کے لیے خاص پھولوں کی نشاندہی کر دی گئی مثلاً وہ پھول جو صبح میں کھلتے ہیں دن بھر کی عبادت کے لیے جمع کیے جا سکتے ہیں اور وہ پھول جو دوپہر میں کھلتے ہیں انہیں شام کی عبادت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ’یاسمن‘ واکولاؔ، پن ناگؔ، نند باورت، وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے، اسی طرح پتوں اور پتیوں میں ’تلسی‘ کار پورلیتکا ، دامان، وغیرہ کے نام ملتے ہیں، عبادت کے لیے عوامی ذہن نے اپنے احساسِ جمال کے مطابق ، کدم، پن ناگ، ناگ لنگا، یاسمن، چمپا، کاردیرا جیسے پھولوں کو پسند کیا تھا جو آج بھی مختلف نام کے ساتھ موجود ہیں اور مندروں کی زینت بنتے ہیں۔

عوامی احساس و شعور نے پھولوں اور پودوں کی خوشبوؤں اور ان کے رنگوں اور پیکروں سے گہری دلچسپی کا اظہار کر کے اپنے احساسِ جمال کو ہمیشہ نمایاں اور ظاہر کیا ہے۔ ہندوستانی اسطور میں پھولوں اور پودوں کی بڑی اہمیت رہی ہے، ’کنول‘ ہمیشہ ایک پسندیدہ پھول رہا ہے جو رفتہ رفتہ انتہائی معنی خیز علامت بن گیا ہے، لکشمیؔ اور ’کنولؔ‘ ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں کئے جا سکتے، بدھ کے پیکروں کے ساتھ بھی یہ پھول موجود ہے، بدھ ازم نے اسے ایک معنی خیز علامت بنا دیا۔ ’یوگ شاستر‘ اور تانتر، نے اسے جو اہمیت دی ہے ہمیں اس کا علم ہے، عوامی قصّوں اور گیتوں میں ’کنول‘ ہمیشہ اہم رہا ہے، ہندو مسٹی سیزم، میں بھی اسے اہمیت حاصل رہی ہے ۔ دیویوں کے ساتھ پھولوں اور ڈالیوں کا تصور ہمیشہ وابستہ رہا ہے، وشنو پور ان، (VISHNU PURANA) میں اندرؔ، اور کرشنؔ کے تصادم کی جو دلچسپ کہانی ملتی ہے اس میں خوبصورت سحر انگیز پھولوں سے لدے ہوئے درخت، پاری جات، (PARIJATA) کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، کرشن اپنی رفیقۂ حیات ’ست بھاما‘ کے ساتھ ’اندر‘ کی جنت میں آتے ہیں، ست بھاما، چاہتی ہیں کہ جنت کے باغ میں لگا ہوا وہ دلفریب درخت جو پھولوں اور پھلوں سے لدا ہوا ہے انہیں حاصل ہو جائے، یہ درخت انہیں اپنی سحر انگیز کیفیتوں سے متاثر کرتا ہے، پھولوں کا سحر یہ ہے کہ کوئی عورت انہیں اپنے بالوں میں سجالے تو اسے اپنے شوہر کی محبت ہمیشہ حاصل رہے گی اور پھلوں کا جادو یہ ہے کہ انہیں کھا لیا جائے تو اپنے وجود کی پچھلی تمام کہانیاں یاد آ جائیں، ان کی گزارش پر کرشنؔ ’’پاری جات‘‘ کو جڑ سے اکھاڑ لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اندر کی جنت میں ہلچل سی آ جاتی ہے، اندر اپنی تمام قوتیں صرف کر دیتا ہے لیکن نا کام ہو جاتا ہے ، کرشنؔ ’’پاری جات، کوئے، ’گرود ‘ (GARUDA) پر سوار اپنے باغ میں آ جاتے ہیں جہاں یہ درخت تمام موجود درختوں میں مرکزی حیثیت حاصل کر لیتا ہے۔ ہندوستانی اسطور میں ’ اندر‘ کی جنت کی جو مختلف تصویریں ملتی ہیں ان میں درختوں پھولوں اور پھلوں کے مناظر قابل توجہ ہیں، ’میرو ‘ (MERU) کی چوٹی پر ’اندر‘ کا محل ہے، میرو، کی پہاڑی کو دھرتی ، کے مرکز پر محسوس کیا گیا ہے، ہر جانب خوبصورت اور جاذبِ نظر باغ ہیں کہ جہاں دنیا کے تمام پھلوں اور پھولوں کے علاوہ بعض انتہائی سحر انگیز پھل اور پھول بھی ہیں ،پھولوں کی خوشبوؤں سے سارا ماحول خلق ہوا ہے، اپسرائیں سحر انگیز پھولوں کے گرد رقص کرتی ہیں، موسیقاروں کے نغموں سے پھولوں پر عجیب کیفیت طاری رہتی ہے۔ موسیقی اور پھولوں کے آہنگ میں پر اسرار رشتہ قائم ہے، یہ شہر کہ جسے، وشوکرما، (VISHU KARMA) نے بسایا ہے محلوں کی دیواروں کو قیمتی ہیروں سے سجادیا ہے، تخت قیمتی پتھروں سے روشن ہے، بعض پھول بھی سونے کی مانند چمک رہے ہیں۔

پودوں میں ’’سوم‘‘ (SOMA) مرکزی حیثیت رکھتا ہے، ویدی منتروں کے مطابق، سوم، دیوتا ہے جو سوم رس، کی علامت ہے۔ رگ وید کے نویں باب میں ایک سو چودہ نغمے ’سوم‘ کی نذر کیے گئے ہیں، ان کے علاوہ اور بھی کئی منتر، سوم،سے منسوب ہیں۔ بعض منتروں میں ،سوم، خالق کے پیکر میں ابھرتا ہے تمام دیوتاؤں کا جنم اسی کی وجہ سے ہوا ہے، اندر، ’سوم‘ کی عبادت کرتا ہے اس لیے کہ وہ تمام رسموں کا سرچشمہ ہے، ویدوں کے مطابق ’سوم‘ کا پودا کسی پر اسرار پہاڑ سے حاصل ہوا کہ جسے’اندر‘ نے قبول کیا۔ بعض منتروں نے مطابق …… سوم راجا، گندھار اؤں (GANDHAVAS) کے درمیاں رہتا ہے جو راجا اندر کی جنت کے دیوتا ہیں، ’سوم‘ پودے کو حاصل کرنے کے لیے جو جدو جہد ہوئی ہے اس کی کئی کہانیاں ملتی ہیں، اس پودے کے ’رس‘ کو پہلے حاصل کرنے اور پینے کے لیے پہلے دیوتاؤں میں بازی لگتی ہے، رگ ویدؔ میں یہ پودا انتہائی متحرک اور معنی خیز پیکر بن جاتا ہے جو زندگی کا ضامن ہے، صحت اور مسرتیں عطا کرتا ہے ، جمالیاتی انبساط بخشے ہوئے زندگی کا مفہوم سمجھاتاہے، تمام قوتوں اور تمام رحمتوں کا سرچشمہ ہے، انسان کے خوابوں کو حقیقتوں میں تبدیل کرتا رہتا ہے ابدی روشنی اور عظمت  ہے، ’وشنو پوران‘ (VISHNU PURANA)  نے ’سوم‘ کے مفہوم کو تبدیل کر دیا، اور ’سوم‘ چاند کے پیکر میں ڈھل گیا! ستاروں اور سیّاروں کے درمیان نور پھیلانے والا چاند! سورج میں ’اگنی‘ کی خصوصیات ہیں تو چاند میں ’سوم‘ کی!

پودوں اور درختوں میں ’تلسی‘ نیم، پیپل، وات (انجیر) دلوا (جنگلی سیب) اور دروا ، گھاس اور ’کوسا گھاس‘ کے ننھے ننھے پودے اپنے جمال کے ساتھ مقدس بن گئے ہیں۔

نفسی سطح کے مواد صرف ’انفرادی‘ نہیں ہوتے، اجتماعی اور سماجی بھی ہوتے ہیں، ایسے مواد کو یونگؔ (JUNG) نے (MYSTICAL COLLECTIVE IDEAS) سے تعبیر کیا ہے۔‘ (LEVY BRUHL) نے (REPRESENTATIVE COLLECTIVES) کہا تھا اس میں وقت کی تبدیلی کی وجہ سے علاقائی، درباری، سرکاری، مذہبی تصورات جذب ہوتے رہتے ہیں، نفسی سطح پر صرف تصوّرات نہیں ہوتے بلکہ سماجی اور اجتماعی احساسات بھی ہوتے ہیں کہ جن سے قدروں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں، فکری سطح کے ساتھ جذباتی سطح بھی اہمیت اختیار کر لیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم انفرادی اور اجتماعی ’مواد‘ کا ایک سماجی کردار پیدا ہو جاتا ہے اور ایک اخلاقی شعور کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ ظاہر ہے ایسی صورت میں ’مواد‘ اپنی ابتدائی صورت میں نہیں رہتا، شعور کا حصّہ بن جاتا ہے، شعور وقت سے متاثر ہوتا رہتا ہے، لہٰذا ’مواد‘ کی مختلف شاخیں پھوٹتی رہتی ہیں، سماجی عمل کی کئی صورتیں وجود میں آ جاتی ہیں، نفسیات کے علما نے اسے ’فرق‘ یا ’امتیاز‘ (DIFFERENTION) سے تعبیر کیا ہے۔

پھولوں، پودوں، درختوں اور رنگوں کی جمالیاتی قدروں کا بھی، سماجی تاریخی، کردار ہے، معاشی زندگی سے بھی ان کا گہرا باطنی رشتہ ہے، جمالیاتی قدروں میں انسانی یا سماجی رشتوں کی پہچان ہوتی ہے، حسن یا جمال، انسانی تجربوں سے علیٰحدہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کا تعلق انسان، اس کی آرزوؤں اور تمناؤں اور اس کے سماجی رشتوں سے ہے، رد و قبول اور لین دین کے عمل میں جمالیاتی قدروں کے سماجی کردار کی پہچان ہوتی ہے، انسان نے جانوروں، پھولوں، پودوں اور درختوں کی تصویریں بنا کر اپنے وجود کا احساس پیدا کیا۔ ابتدائی تخلیقی فکر اور عمل نے اپنے ماحول کی جمالیاتی عکاسی کی۔

٭٭

 

 

 

 

 

لکیروں، خاکوں، اور رنگوں سے عوامی احساسات و جذبات کی گہری وابستگی کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے۔ ان کا رشتہ جادو، سحر، فسوں اور پر اسرار علوم سے بھی ہے، ان پر اسرار سحر آفریں لکیروں اور نقشوں سے ہے جو قدیم زندگی میں پوشیدہ حقیقتوں سے آشنا کر کے ذہنوں کو متاثر کرتے تھے۔ ’ینتروں‘ (YANTRAS) کے وجود کی داستان بھی ماضی کی تاریکی میں پوشیدہ ہے، بد روحوں اور بھوت پریت کے اثرات سے بچنے، دشمنوں کے عمل کو روکنے کامیابی یا فتح حاصل کرنے،دیوی دیوتاؤں کو خوش رکھنے اور پر اسرار قوتوں سے باطنی طور پر با معنی رشتہ قائم کرنے کے لیے مختلف قسم کی لکیریں کھینچی جاتی تھیں اور مختلف قسم کے نقشے تیار کئے جاتے تھے۔

قدیم عقیدہ رہا ہے کہ زندگی صرف وہ نہیں ہے جو سامنے دکھائی دیتی ہے، زندگی میں کسی بھی حقیقت یا سچائی کو اس کی پر اسرار تہوں اور جہتوں کے بغیر قبول کر لینا غلط ہے اس لیے کہ حقیقت کی پوشیدہ تہیں ہوتی ہیں، ہر ایسی سطح پر کوئی نہ کوئی جوہر پوشیدہ ہوتا ہے اور ہر جوہر میں زندگی کی کوئی نہ کوئی پر اسرار طاقت ہوتی ہے، باطنی طور پر ان جوہروں کی دریافت ضروری ہے، کسی بھی طاقت ور جوہر کی دریافت، ایک انکشاف ہے، ’دریافت‘ کے ساتھ اس کی توانائی یا ’انرجی‘ سے ایک حسّی رشتہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ جب ایسے رشتے قائم ہو جاتے ہیں تو شعور مادّی زندگی کو کسی نہ کسی طرح اپنی گرفت میں لے لیتا ہے، پوشیدہ قوت فرد یا افراد کی قوت بن جاتی ہے اور کسی بھی رونما ہونے والے حادثے پر مٹھی مضبوط ہو جاتی ہے۔

انسان میں بڑی صلاحیتیں ہیں، وہ اپنی خواہش ، اپنے تخیل اور اپنے عمل سے یہ طاقت حاصل کرسکتا ہے، تخلیق کی تخلیقی قوت متحرک ہوتی ہے تو’ وژن‘ ذہنی تصویریں خلق کرنے لگتا ہے۔ ایسی تصویروں کا تعلق حیات و کائنات کی توانائی سے ہوتا ہے لہٰذا یہ تصویریں پیکر خلق کرنے لگتی ہیں، دیوتاؤں کے مختلف پیکروں کی تخلیق ’’وژن‘‘ کی ذہنی تصویروں کا ہی کرشمہ ہے۔ قدیم روایتی منتر اور’ آئیکون ‘(ICONS) اس سلسلے میں مدد کرتے ہیں، ینتروں (YANTRAS) کی بنیاد اسی قدیم عقیدے پر ہے، بنیادی عوامی احساس یہ رہا ہے کہ انسان اور کائنات ایک ہی سچّائی کے دو پہلو ہیں، ایک ہی وحدت کی دو صورتیں! ’ویاشٹی‘ (VYASHTRI) (انسان کائنات کا ایک حصّہ یا پہلو ہے!) شدر  ’برھمانڈ‘ (KSHUDRA BARHMANDA) (انسان شخص اصغر ہے!) اور ’سماشٹی‘  (SMASHTI) (کائنات عالم اکبر ہے!) ’برہمانڈ‘ (BARHMANDA)  (کائنات شخص اکبر ہے) وغیرہ کے تصوّرات کی بنیاد اسی قدیم عقیدے پر ہے، جن لوگوں نے ’’کتھا اُپنشد‘‘ کا مطالعہ کیا ہے انہوں نے محسوس کیا ہو گا کہ اس کی جڑیں ہندوستان کے ماضی میں کسی حد تک پوشیدہ اور پیوست ہیں۔ صدیوں پرانے تجربوں نے ایک انتہائی طویل سفر کے بعد کس طرح ایسے فلسفیانہ تصوّرات کی صورتیں اختیار کر لی ہیں، ’کتھا اپنشد‘ میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ جہاں انسان ہے وہاں کائنات ہے اور جہاں کائنات ہے وہاں انسان ہے، اس صورت کو جو لوگ نہیں پہچانتے وہ گمراہ ہیں!

یہ احساس کہ جو کچھ زندگی میں ہوتا ہے اس کے اثرات کائنات پر ہوتے ہیں، بہت ہی قدیم ہے اسی احساس سے سحر ، جادو یا افسوں نے جنم لیا ہے، اسی سے نقالی، کرنے کی حس شدت سے بیدار ہوئی ہے،۔ کائنات کے عمل یا فطرت کے قوانین کی نقل کی جائے تو وہی نتائج سامنے آئیں گے جو فطرت کے قوانین سے سامنے آتے ہیں، جادو کی بنیاد ’نقالی‘ کا بھی یہی عمل ہے کہ جس نے سحر آفریں لکیروں اور خاکوں کو جنم دیا ہے، دائروں اور زاویوں میں ’منتر‘ لکھے گئے، ’منتر‘ لکھتے ہوئے لفظوں کے آہنگ کا خاص خیال رکھا گیا اس لیے کہ اپنے وجود کے آہنگ سے کائنات کے آہنگ کا رشتہ قائم کرنا مقصود تھا، قدیم قبیلوں کی زندگی میں اقلیدسی صورتیں اہمیت رکھتی ہیں، نقطہ (بندو) دائرہ، زاویہ اور مثلث وغیرہ میں سحر آفریں نقشے اور تصویریں ابھاری جاتی تھیں (منتروں کے الفاظ میں شامل ہوئے) اور آہنگ کا سحر بھر دیا جاتا تھا ۔  اور اس طرح ہر اقلیدسی صورت میں توانائی یا ’انرجی‘ پیدا ہو جانے کا احساس ملتا تھا۔ ’مربع‘ (SQUARE) زمین کی علامت بنا رہا ہے اور آج بھی ہے، مادّی مسائل کو حل کرنے کے لیے مربع کے منتر سے کام لیا جاتا تھا، منتروں کے علاوہ مختلف قسم کی جڑی بوٹیوں اور مختلف قسم کے پودوں کے رسوں سے بھی کام لیا جاتا رہا ہے۔

ہندوستانی تہذیب میں ’’صورت‘‘ یا ’’فارم‘‘ ابتدا سے اپنی زبان رکھتی ہے، لکیریں، دائرے وغیرہ  موضوع بنے رہے ہیں، فن مجسمہ سازی اور فن تعمیر دونوں کی بنیاد صورتوں کی معنویت پر ہے، فن موسیقی اور فن رقص میں صورتوں کے حسّی پیکر ہی اہمیت رکھتے ہیں، اگر ’سلپ شاستر‘ (SILPASASTRA)اور ’وستوستر اپنشد (VASTUSTRA UPNISHAD) کا بغور مطالعہ کیا جائے تو صورتوں کی اپنی داخلی معنویت کی قدیم ترین ، روایات کی یقیناً پہچان ہو جائے گی۔ مجسمہ سازی کے فن میں ’صورت‘ کی داخلی معنویت جذب رہی ہے، ’وستوستر اُپنشد‘ کے مصنف ’پیپل دا (PIPPALADA) نے چھ ابواب قایم کیے ہیں جن میں تشریحی خاکوں، نقشوں اور علامتوں اور خطوط کے ذریعے عمل کے اظہار کے اجزائے ترکیبی کو بڑی اہمیت دی ہے، گفتگو کی جو بنیادیں قائم کی ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتوں کی معنویت کی روایات کتنی قدیم رہی ہیں، یہ روایات نہ ہوتیں تو یہ کارنامہ وجود میں نہ آتا۔ قدیم عقائد میں یہ حسی تصور شامل رہا ہے کہ دائروں، مربعوں اور زاویوں کے اندر منتروں کے آہنگ سے شعاعیں پھوٹتی ہیں۔جو انسان اور کائنات کی وحدت کو معنی خیز بنا دیتی ہیں، سنسکرت زبان کی قدیم تصنیف ’آگم‘  (THE AGAMA)  میں مندروں کی تعمیر سے قبل پیچیدہ علامتوں اور صورتوں کی جانکاری کی جو تفصیل ملتی ہے اس سے ’صورت‘ یا ’فارم‘ کی معنویت کا احساس اور بالیدہ ہو جاتا ہے، مندروں کی تعمیر سے قبل کیسی صورتیں بنائی جائیں اور منتروں کے آہنگ سے ان میں کس طرح ارتعاشات پیدا کیے جائیں، صورتوں کے اندر علامتوں کی تخلیق کس طرح ہو، ان کی پیچیدگی کے حسن کو کس طرح اُبھارا جائے،کون سی رسومات ادا کی جائیں۔ ان پر مفصل گفتگو ملتی ہے، صورت اور منتر ایک دوسرے میں جذب ہوتے ہیں، ’صورت‘ منتر میں ڈھل کر اپنی معنویت کی شعاعیں عطا کرتی ہے کہ جس سے روحانی بیداری پیدا ہوتی ہے اور الوہیت کی پہچان ہوتی ہے۔ خالق کائنات (برہما) شکتی اور شیو کی بنیادی شعاعیں عطا کرتا ہے۔ برہماؔ کی تین صورتیں ان صورتوں میں جذب ہو جاتی ہیں،

(۱) شیو شکتی

(۲) ندا اور بندو

اور        (۳) سد ایشو (کہ جس کی کوئی صورت نہیں ہوتی)

الوہیت کے شامل ہونے کے بعد ’صورتوں ‘ کی معنویت کا احساس اس طرح دیا گیا ہے۔

(۱)برہماؔ کا وہ وجود کہ جس کی اپنی صورت ہے، اس کا روپ دائروں ، زاویوں اور مربعوں میں جذب ہو جاتا ہے (روپ)

(۲)برہماؔ کا وہ وجود کہ جس کی کوئی صورت نہیں ہے( اروپ)

اور        (۳)برہماؔ کا وجود کہ جس کی صورت ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔

(روپا روپ)

وقت کے ساتھ منتروں میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہوں گی لیکن ہر دور میں مندرجہ ذیل صورتیں کسی نہ کسی طرح موجود رہی ہیں:

دائروں،مربعوں اور زاویوں کے اندر منتروں کا تعلق جادو، سحر اور افسوں کے تجربوں سے بہت گہرا ہے، دائرہ، ایک ’بند صورت‘ ہے ، اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ اختتام! آفتاب سے بھی اس کا رشتہ ہے، ’دائرہ‘ کے اندر کوئی شئے بند ہو جائے تو وہ باہر نہیں نکل سکتی، بھوت پریت اور بد روحوں کو بند کرنے میں اسی سے مدد لی گئی ہے۔ ’دائروں ‘ کے بھی مختلف رنگ رہے ہیں جن میں سرخ اور سیاہ رنگوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے، دائرہ، حفاظت اور تحفظ کی علامت رہا ہے، جنوبی ہند میں آج بھی بچّوں کے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھنے کی رسم ہے تاکہ وہ بیماریوں بد روحوں اور مصیبتوں اور تکلیفوں سے محفوظ رہیں۔ یہ پٹیاں، سیاہ دائروں، کی علامتیں ہیں، کائناتی اشیاء و عناصر کی صورتوں کی نقل کی قدیم روایات آج بھی موجود ہیں، ’دائرہ‘ ان میں بہت اہم ہے، اقلیدسی صورتیں کائنات کے توازن کو طرح طرح سے پیش کرتی رہی ہیں، ان میں منتروں کو شامل کر کے زبان کی قوت اور الفاظ کے آہنگ کے تیز اور تیز تر ارتعاشات کا احساس دلایا گیا ہے۔ لفظوں نے انسان کے تخیل میں تحرک پیدا کیا ہے تاکہ ’حقیقت‘ پر زیادہ سے زیادہ گرفت ممکن ہوسکے۔ منتروں کی تخلیق فکری لہروں اور بنیادی آوازوں سے ہوتی رہی ہے۔ ان ہی لفظوں کی صورتیں وجود میں آئی ہیں، سحر انگیزی ان کی بنیادی صفت ہے۔ منتروں کی سحر انگیزی کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ ان میں ’حقیقت‘ کے لطیف ، رقیق، باریک، پیچیدہ، گہرے اور ناقابل بیان پہلو ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ منتر انسان کو سمادھی کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔

منتروں کی کئی صورتیں ہیں، بعض منتر ایک ایک بول

کے ہیں، مثلاً

ہرِم       (HRIM)

۔ اولیں توانائی میرے سر کی حفاظت کرے!

سِرم     (SRIM)

۔کالی میرے چہرے کی حفاظت کرے!

کِرم       (KRIM)

۔عظیم شکتی میرے دل کی حفاظت کرے!

بعض منتر جملوں میں ہیں، ایک طویل منتر میں عظیم توانائی کو سلام پیش کیا گیا ہے،

’اوم یا دیوی سروا بھت تیسو شکتی روپنیا سمس تھیلا

(OM YA DEM SARVABHUTESU SAKTIRUPENA SAMASTHILA)

پورے منتر کا مفہوم یہ ہے: اس محترم ہستی کو میرا سلام، میرا سلام، میرا سلام، میرا سلام،

جو توانائی اور شعور ہے

جو عقل و دانش ہے

جو نیند بن جاتی ہے

جو بھوک بن جاتی ہے

جو پیاس بن جاتی ہے

جو سایہ بن جاتی ہے

جو تمام اشیاء و عناصر کے لیے توانائی کا سرچشمہ ہے

جو رحمت ہے

جو امن ہے

جو محبت ہے

جو تقدیر ہے

امن ہے

اعتماد ہے

محبت ہے

ذہن ہے

جو ماں ہے

اور جو التباس ہے!

’ظاہر لفظوں‘ کے اندر پر اسرار معنی اور آہنگ کی جانب بار بار اشارہ کیا گیا ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ منتروں کو کتابوں سے سیکھا نہیں جا سکتا، منتروں کے مفہوم اور آہنگ کو مناسب تربیت ہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے، انہیں اپنے تصورات اور خیالات اور اپنے پورے وجود میں شامل کرنا پڑتا ہے، وجود اور منتر کے آہنگ میں پر اسرار رشتہ قائم کرنا پڑتا ہے۔ ’منتر‘ وجود کو غیر معمولی توانائی بخشتے ہیں، لفظوں کے پر اسرار آہنگ کو پانا اور اپنے وجود کے پر اسرار آہنگ سے ان کا مضبوط رشتہ قائم کرنا مسلسل عمل کا تقاضا کرتا ہے، عمل بھی منتروں کے لفظوں اور آہنگ اور مفاہیم کے مطابق ہو!

لکیروں، رنگوں، اقلیدسی صورتوں اور منتروں نے جہاں نفسی کیفیتوں میں تحرک پیدا کیا ہے تخلیقی وجدان اور شعور میں بھی وسعتیں اور گہرائیاں پیدا کی ہیں!

تخلیقی بیداری اور نفسی ذرائع کی دریافت میں ان کا حصّہ غیر معمولی ہے۔

اقلیدسی صورتیں، رنگ اور منتر سب مل کر تخلیقی اسرار بن گئے ہیں کہ جن سے تخلیقی بیداری میں بڑی مدد ملی ہے، ’حقیقت‘ کو گرفت میں لینے اور ’حقیقت‘ کی وحدت کو سمجھنے کا یہ شعور مذہبی اور فلسفیانہ تصورات کے لیے بنیاد ہے، ’لنگم‘ سالگرام‘ ’شیو شکتی‘ ’اردھ نار ایشور‘ ’ینتر‘ ’تانتر‘ ’یوگ‘ اور کائناتی شعور وغیرہ کے مذہبی اور فلسفیانہ تصورات کے پس منظر میں ان کی روایات متحرک ہیں، مندرجہ ذیل مذہبی اور فلسفیانہ صورتوں پر نظر رکھیں تو ان روایات کی پہچان ہو جائے گی:

 

 

 

سالگرام

 

’لنگم‘ ناگ کی توانائی کے ساتھ

 

’’برھانڈ‘‘

 

 

کالی ’ینتر‘

 

 

چونسٹھ یوگنیوں کے مندر کا زمینی حصّہ
کنڈنی شکتی

(نفسی توانائی کی کنڈلی صورت کی علامت)

’’سروا سدھی پرواچکر‘‘

(SARVA SIDDHIPARDA CHAKRA)

’’سروا سا پاری پور کا چکر ‘‘

((SARVA SAPARIPURKACHAKRA)

’’ترے لوکیا موہان چکر‘‘

(TRAILOKYA CHAKARA)

 

ہندوستانی تہذیب اور اس ملک کی جمالیات میں ان روایات کی بڑی اہمیت ہے، فن تعمیر اور فن مجسمہ سازی کے ساتھ فن مصوّری میں ان بنیادی تصورات نے نمایاں حصہ لیا ہے۔ تخلیقی عمل اور جمالیاتی فکر و نظر کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کے اسرار کے خارجی اور داخلی دونوں پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔ موضوع اور فن کار کا رشتہ بنیادی طور پر انسان اور اس کی دنیا کا رشتہ ہے، جمالیاتی تخلیقی احساس اور جذبہ دونوں کی پیچیدگی سے متحرک ہوتا رہتا ہے۔ خارجی جمالیاتی عمل اور داخلی جمالیاتی رد عمل سے فنون کا جمالیاتی کردار اُبھرتا ہے جو صدیوں کے تجربوں میں سفر کرتے ہوئے ایک جمالیاتی نظام کی تشکیل کرتا ہے،تخلیقی فنکار میں مشاہدہ کی قوت غیر معمولی ہوتی ہے، مشاہدہ ہی سے وہ حیات و کائنات کے تئیں بیدار ہوتا ہے تخیل میں رد و قبول کا ایک سلسلہ قائم ہو جاتا ہے اور اس کے بعد ہی کوئی نیا جلوہ سامنے آتا ہے۔ ’ینتر‘ اور ’تانتر‘ نے اقلیدسی صورتوں کی فسلفیانہ بنیادیں قائم کی ہیں، رنگاولی، اور مصوری نے انہیں فنون کی بنیاد بھی بنا یا ہے اور ان میں معنی خیز رنگ بھی بھرے ہیں، ایک صورت سے کئی صورتیں خلق کی ہیں اور ایک صورت کو کئی صورتوں میں مختلف انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ ’رنگاولی‘ کی یہ صورتیں توجہ طلب ہیں:

(ینتروں، (YANTRAS) اور منتروں (MANTRAS) کا رشتہ بہت ہی گہرا ہے، ’صورت‘ آواز اور آہنگ سے خلق ہوتی ہے اور ’آواز‘ صورت‘ کے عکس کو مختلف ارتعاشات کے ساتھ نمایاں کرتی ہے، آواز اور آہنگ‘ ’صورت‘ کے ارتعاشات (VIBRATIONS) ہی کا نام ہے۔ ’اوم ‘ ‘(OM)’ اولیں آواز ہے، اولین منتر جو کائنات کے وجود اور اس کے ارتقا کی بنیاد ہے، منتروں کے تمام آہنگ اور تمام صوتی صورتیں اسی آواز سے رشتہ رکھتی ہیں، ’اوم‘ کے آہنگ سے ان کا جنم ہوا ہے ’آواز‘ اور ’صورت‘ کو ایک دوسرے سے علیٰحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہر آواز کی اپنی صورت ہے اور ہر صورت میں آواز کا متحرک عکس ہے۔ چونکہ تمام منتروں کے اپنے اپنے رنگ ہیں لہٰذا وہ رنگ، صورتوں اور ’فارم‘ کے بھی بن جاتے ہیں، کسی منتر کی صورت بنائی جاتی ہے یا کسی ’منتر‘ کو ’ینتر‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے تو منتر کا رنگ، فارم میں ڈھل جاتا ہے۔ یہ غیر معمولی فکری، تخیلی، اور جذباتی عمل ہے، اس کے لیے بڑی درون بینی اور انتہائی گہرے، وژن، کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر یہ تخلیقی جمالیاتی عمل ہے۔ ’ینتروں‘ کی تخلیق فنی کارنامہ ہے ’’ویدی منتروں‘‘ سے ’’ینتروں‘‘ کا رشتہ قائم ہوا تو تو رفتہ رفتہ ان کی مذہبی بنیادیں قائم ہو گئیں، اسی طرح اپنشدوں کی وجہ سے ان کی بنیادیں قائم ہو گئیں لیکن ’ینتروں‘ کی تخلیق کی تاریخ بہت پرانی ہے لکیروں اور رنگوں کے شدید احساس اور حیات و کائنات کے جلال و جمال کے تئیں بیداری نے جانے کب ان کی روایات قائم کی تھی، سحر، جادو اور افسوں نے تخلیقی فکر و شعور کو بیدار کر کے تخلیقی عمل میں شدت پیدا کی اور لکیروں اور رنگوں کو لیے جانے کتنے ’ینتر‘ وجود میں آ گئے۔ رنگوں کے تعلق سے یہ قدیم ترین خیال قابل غور ہے کہ ہر سحر انگیز آواز یا منتر کو ادا کرتے ہوئے یہ محسوس ہوتا جیسے آواز یا منتر کی تصویر ابھر کر اپنے ارتعاشات کا منظر دکھا رہی ہے۔ سائیکی‘ کے ایسے عمل سے ہی شاعری وجود میں آئی ہو گی! ’آواز‘ میں جو متحرک اور ہمہ جہت توانائی پوشیدہ ہوتی ہے وہی اس کی تصویر پیش کر دیتی ہے، ایک یا ایک سے زیادہ رنگوں کے ساتھ ۔  اسی کو نیتر سے تعبیر کرتے ہیں، ’تانتر‘ نے ’منتر‘ اور ’ینتر‘ دونوں کو اپنالیاہے!

’منتر‘ پر اسرار آہنگ پر زندگی کا پر اسرار سفر ہے، ہندوؔ، بدھؔ اور جینؔ سب منتروں پر اعتقاد رکھتے ہیں، ’منتروں اور ’سندھ، بھاشا‘ SANDHA BHASKA) (  دونوں خفیہ (CRYPTIC)  غامض ہیں، ایسی زبان اور ایسی آوازیں کہ جن کی معنویت اجاگر نہیں ہوتی، ’نیتر‘ ایسی ہی آوازوں کی رمزی تصویر اور تحریر ہے کہ جس میں خفیہ یا غامض رمزی تحریروں ۔ (CRYPTOGRAMS) کی خصوصیات ملتی ہیں۔ ’منتر‘ اور ’سندھ‘ بھاشا دونوں کو مخفی اور عام طور پر سمجھ میں نہ آنے والے ’اظہار‘ سے تعبیر کرنا مناسب ہو گا۔ قدیم ویدیؔ یا ’ہند یوروپی‘ کے لفظ ’من‘ سے ’منتر‘ کا لفظ بنا ہے یعنی ’سوچنا!‘ ’تر‘ ے معنی آلہ اور ساز ہے۔ ’موئینر ولیمس (MONIER WILLIAMS) نے اس کے کئی معنی بنائے ہیں مثلاً ’ساز خیال‘ ’مقدس الفاظ‘ ’عبادت اور ’عبادت کا نغمہ‘ ’ویدی اشلوک‘ ’آلۂ آواز‘ وغیرہ۔ ولیمس نے منتروں کو کسی خاص دیوتا سے مخاطب ہونے کے مقدس اصولوں اور دیوتاؤں کی توانائی حاصل کرنے کے طریقوں سے بھی تعبیر کیا ہے۔ آج جب ’منتر‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو عموماً ذہن دیدوں کی جانب مائل ہو جاتا ہے۔ یہی تصوّر کیا جاتا ہے کہ منتروں کا تعلق دیدوں کے اشلوکوں اور جملوں سے ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے تصورات اور خیالات سے وابستہ منتروں کو عموماً اس طرح سمجھایا جاتا ہے۔ منتر ینتر ، ’’منتر انتر‘‘ وغیرہ۔ اس طرح ’منتر‘ کے مفہوم کا دائرہ سمٹ جاتا ہے، قدیم بدھ مت نے منتروں کو بے پناہ اہمیت دی تھی۔ ایسے منتروں کو ’منتر‘ کے دائرہ سے بھلا کس طرح خارج کرسکتے ہیں؟ معروف لاما انا گاریکا گووندا (ANAGARI KA GOVINDA) اپنی کتاب (FOUNDATIONS OF TIBETAN MYSTICISM) (لندن ۱۹۶۱ء نے ’منتر‘ کی تعریف اس طرح کی ہے:

’’علامتی لفظ، مقدس آواز      [تبتّی:   (GZUNS SIGAS)

’منتر‘ کو گرو چیلے کے پورے وجود میں اس طرح جذب کر دیتا ہے کہ چیلے کی شخصیت ’ ہم آہنگی‘ میں مرتعش ہو جاتی ہے اور ارفع اور افضل ترین تجربوں کا گیان حاصل ہو جاتا ہے!

ایچ۔ زمر (H. ZIMMER) نے کہا تھا کہ ’منتر‘ کی توانائی یہ ہے کہ اس کے ادا ہوتے ہی ایک تمثال، پیکر یا تصویر جنم لے لیتی ہے، یہ منتر کا جوہر ہے! شے یا حقیقت اور اس شے، یا حقیقت کو جاننے والا دراصل اپنے ’وژن‘ اور اپنے علم سے اس جوہر کو پہچان لیتا ہے۔

’منتر‘ ایک قوت ہے، انتہائی سحر انگیز اور سحر آفریں قوت! اس کا ہر آہنگ ایک ’واقعہ‘ ہے،الفاظ پگھل جاتے ہیں، آہنگ سچائی یا حقیقت سے باطنی رشتہ قائم کر کے اس پر اثر انداز ہونے لگتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سچائی گرفت میں آ جاتی ہے! لفظ ’اوم‘ اس وقت تک محض ایک لفظ ہے جب تک کہ کوئی گرو اس کے آہنگ کو منتر کی صورت نہ دے دے، کوئی منتر بظاہر جس قدر بھی شعوری توانائی کا احساس دیتا ہو، وہ صرف شعوری توانائی کا مظہر نہیں ہوتا بلکہ باطنی توانائی کے ذریعے کائناتی توانائی سے رشتہ قائم کر لیتا ہے اور ایک مکمل وحدت کا احساس عطا کرتا ہے، اس عمل میں منتروں کی تکرار اور تکرار کے آہنگ کوبڑی اہمیت حاصل ہے، ’’بیج منتروں‘‘  (BIJA MANTRAS) کی بڑی اہمیت ہے،مثلاً ’اینگ‘  (AING) ’کلنگ‘ (KLING) ’ہرنگ‘ (HRING) وغیرہ، بظاہر ان کا کوئی مفہوم نہیں ہے، ایسے منتروں پر عمل کرنے والا ہی جانتا ہے کہ ان کی صورتوں میں ان کی معنویت پوشیدہ ہے، ’بیج منتر، مختلف دیوتاؤں کی صورتیں (SVARUPA) بن جاتے ہیں‘ ہر منتر برہم کے کسی نہ کسی روپ کو پیش کرتا ہے۔ اس گفتگو کی روشنی میں ’ینتر‘ کی قدر و قیمت اور اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے، ’ینتر‘ بنیادی اقلیدسی صورتوں مثلاً نقطہ (بندو) دائرہ، مربع، زاویہ اور ایک سے زیادہ سیدھی لکیروں کو لیے ہوتا ہے، یہ ساری صورتیں علامتی ہوتی ہیں، حیات و کائنات کے عناصر ہی ان میں ظہور پذیر ہوتے ہیں، ان کی فکری اور جذباتی تربیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اسی لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ ’ینتروں ‘ میں جو باریک اور گہری معنویت پوشیدہ ہوتی ہے جو بے پناہ جذباتی توانائی بن جاتی ہے ’ینتروں‘ میں ’مربع‘ (SQUARE) زمین اور زمین کے عناصر کی علامت ہے، ایک مربع کے ساتھ کئی مربعے پیش ہوتے رہے ہیں ’’سروت تو بھدر ‘ (SARVATABHADRA) ’ینتر‘ میں بیالیس مربعے ہوتے ہیں۔ میں نے تیس سے تین سو تک کے مربعوں کے ’ینتر‘ دیکھے ہیں، کہا جاتا ہے کہ تین سو چوبیس مربعوں کے ’ینتر‘ بھی موجود ہیں جو کائنات کی تمام تخلیقی ‘‘ قوتوں کو پیش کرتے ہیں، ان میں پانچ مختلف رنگ ہیں ’زمین‘ کے لیے ’زرد‘ رنگ کا استعمال کیا گیا ہے، پانی کے لیے ’سفید‘ آگ کے لیے ’سرخ‘ ’ہوا‘ کے لیے سبز اور مکان کے لیے ’سیاہ‘ ’ینتروں‘ کا مرکزی نقطہ سب سے اہم ہوتا ہے اس لیے کہ اسی نقطے میں ’نفسی قوت‘ ہوتی ہے جو شعور کو پورے کینوس، پر متحرک کرتی ہے ’ینتر‘ کے لغوی معنی ہیں ’ذریعہ‘ ’اظہار‘ ’اعانت‘ ’امداد‘! انہیں کاغذ پر بھی بنایا جاتا رہا ہے اور پتھروں اور تانبے کے پتروں پر بھی نقش کیا جاتا رہا ہے ’ینتر‘ ایسے نقش بھی ہیں جو دیوتاؤں کے حسّی پیکروں کو عبادت کے لیے ابھارتے ہیں، بعض ’ینتروں‘ کی لکیروں سے ان کے پیکر بنتے ہیں، فنی نقطۂ نگاہ سے یہ مجرد آرٹ کے نمونے ہیں، نقطوں، لکیروں، دائروں، زاویوں اور مربعوں سے دیوتاؤں اور دیویوں کے پیکروں کی مجرد صورتیں وجود میں آتی ہیں ’تکنیک‘ اجزائے ترکیبی، ’ترتیب کے حسن اور ہم آہنگی‘ کے پیش نظر ’ینتر‘ اعلیٰ فنّی معیار کو پیش کرتے ہیں، موضوع اور ترتیب کی ہم آہنگی ایسی ہوتی ہے کہ اقلیدسی صورتیں بیک وقت جامد اور متحرک دونوں نظر آتی ہیں۔ ’ینتروں‘ میں عموماً کوئی نہ کوئی مرکزی نقطہ ہوتا ہے جو موجود پوری صورت کے وجود کو محسوس بنا دیتا ہے۔ ’مرکز‘ اولیں نقطہ ہوتا ہے جو پیکر کے وجود اور اس کی معنویت کو واضح کرتا ہے کچھ اس طور پر کہ پورے ’کینوس‘ پر پیکر کی متوازن شعاعیں اُبھرنے لگتی ہیں، ’ینتروں‘ کی عمودی (VERTICAL) اور افقی (HORIZONTAL) وسعتیں اور جہتیں تناسب اور موزونیت توازن اور تشا کل اور ہم آہنگی کا ایک عمدہ معیار پیش کرتی ہیں۔ مجموعی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی تمام اقلیدسی صورتیں، نفسی، کائناتی توانائی کی علامتی قدروں کو پیش کرتی ہیں۔

مندرجہ ذیل خاکوں سے ’ینتر‘ کی خصوصیات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، الف (۱) کے نیتر کو ’الف ‘ (۲) میں ملاحظہ فرمائیے۔ اسی طرح ’ب‘ (۱) کے ’نیتر‘ کو ’ب‘ (۲) میں دیکھیے: –

 

 

(الف) دھماوتی  (DHUMAVATI)  تانتر مہاودیاؤں کی معروف دیوی ہیں جو بلند ترین سطح کی علامت ہیں۔مکان، (SPACE) اور

الف(۱) کرہّ فلک کے زرد رنگ کو لیے ہوئے ہیں، ان کا چہرہ نظر نہیں آتا

الف(۲) دھمّاوتی کی عبادت کے لیے ان کے وجود کی مجرد تصویر، وجود اور منتروں کے آہنگ کو لے ، نیتر کی صورت اختیار کرتی ہے۔

ب (۱)چنّامست (CHINNAMASTA) بھی ’’تانتر  مہاودیاؤں‘‘ کی معروف دیوی ہیں جو اپنے تعمیری اور تخریبی پہلوؤں کے ساتھ ایک علامت کی صورت جلوہ گر ہیں

ب (۲) چنّاست کا کلاسیکی ’امیج‘ دھمّاوتی کی مانند اقلیدسی صورت میں،تجریدیت کو لیے، لکیروں، دائروں اور زاویوں میں توانائی یا انرجی کا احساس دیتا ہے۔

٭٭

 

 

 

 

 

 

 

 

 

عوامی ذہن کائنات کے رنگوں سے متاثر ہوا تو اُس نے ’ینتروں‘ اور منڈلوں‘‘ (MANDALAS) میں بھی رنگ بھرنے شروع کر دیے، رفتہ رفتہ یہ احساس اور بیدار اور متحرّک ہوتا گیا ہے۔ ’سیاہ ’سفید ‘ زرد، سبز اور ’سُرخ رنگوں سے ہندوستانی ذہن کی وابستگی بہت پُرانی ہے، مظاہر فطرت نے رنگوں کا احساس بخشا ‘ درختوں ، پودوں، پھولوں، پرندوں، پہاڑوں اور قوسِ قزح اور آفتاب وغیرہ نے رنگوں کے احساس کو بالیدہ کیا، عوامی احساسِ جمال کا یہ کرشمہ تھا کہ قدیم ترین ینتروں کے لیے رنگوں کے سفوف تیّار کیے گئے، ہر رنگ کی اپنی معنویت ہوتی تھی۔ دیویوں اور دیوتاؤں کے اپنے رنگ تھے۔ منتر بھی اپنے رنگ سے پہچانے جاتے تھے، جس رنگ کی دیوی ہوتی یا جس رنگ کے ساتھ دیوتا ہوتا، اُس کے منتر میں بھی وہی رنگ ہوتا اور وہ منتر جب ’ینتر‘ میں ڈھلتے تو اپنے مخصوص رنگ کے ساتھ ! دائروں اور مربعوں میں رنگوں کے سفوف سے نقشے بنانے یا تصویر میں اُبھارنے میں رنگوں کی معنویت کا بھی خیال رکھا جاتا تھا، ہندوستانی مورتی کے فن کا ایک قدیم سرچشمہ ’ینتر‘ بھی میں۔ آج بھی پُوجا پاٹ میں مختلف ینتروں، کے اندر رنگوں کے سفوف کا استعمال عام ہے جو لوگ جنوبی ہند کے تیوہاروں اور مذہبی رسوم سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ ’ینتروں‘ اور خاکوں اور نقشوں اور ان کے اندر مختلف رنگوں کے استعمال کی اہمیت کیاہے ’ناگ دیوتا‘ کے پجاریوں کی روایات نے ایک طویل سفر کیا ہے۔ ناگ پوجا (کیرالہ) کی رسومات میں رنگوں کو ہمیشہ بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ’’پمپن تھلل‘‘ (PAMPINTHULLAL) ایک قدیم تہوار ہے کہ جس کا تعلق قدیم قبائلی زندگی سے ہے، اس تہوار کا بنیادی مقصد انسان اور ناگ کے رشتے کی وضاحت ہے۔ دراوڑی تہذیب کے بنیادی رنگ بھی وجود میں آ گئے، گنیش پوجا میں آج بھی جب پنڈال تیّار کیے جاتے ہیں تو کالا (KALAMS) یعنی رنگوں کے سفوف سے تصویریں اُبھاری جاتی ہیں، کالام تصویر کاری کے سفوف کا نام ہے، ان میں ’سیاہ‘ سفید، زرد، سبز اور سرخ، کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی علامتی جہتوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ پہلے ناگ دیوتاؤں اور سانپوں کی تصویروں کے لیے ایسے رنگوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔

رنگ، تجربوں کی مختلف جہتوں کی علامت ہے، ہر شئے کا اپنا رنگ ہے اور جب یہ رنگ تجربے میں شامل ہوتا ہے یا تجربہ بن جاتا ہے تو اس کے حسن اور اس کی معنویت کا تاثر ملتا ہے۔ یہ رنگوں کا ہی کرشمہ ہے کہ ایک شئے کو دوسری شئے سے مختلف دیکھتے یا محسوس کرتے ہیں۔ نفسیاتی سطح پر شعور عموماً اُن رنگوں سے زیادہ متاثر ہوتا ہے ۔ جو زیادہ روشن اور تابناک ہوتے ہیں، سرخ، زرد اور نارنجی وغیرہ ایسے رنگ ہیں جن کی روشنی تیز ہوتی ہے اور شعور ان کی تابناکی کو فوراً قبول کر لیتا ہے۔ انہیں عموماً گرم رنگوں سے تعبیر کیا جاتا ہے، ان کے برعکس کچھ ایسے رنگ ہیں جو روشنی کو جذب کر لیتے ہیں اور لاشعور کو متاثر کرتے ہیں، جس طرح گرم رنگ شعور کی وضاحت کرتے ہیں، کم و بیش اسی طرح ’’سرد رنگ‘‘ لاشعور کی وضاحت کرتے ہیں، لاشعور کے رنگوں میں ’سیاہ ، نیلا، ارغوانی (اُودا) خاکستری، وغیرہ کو خاص اہمیت حاصل ہے، تہذیب کی مختلف منزلوں پر رنگ انسان کے تجربوں کی علامتوں کی صورتوں میں اپنی قدر و محبت کا احساس بخشتے رہے ہیں، جن تجربوں کو انسان لفظوں میں بیان نہ کرسکا، اُس کے لیے اُس نے رنگوں کا بھی سہارا لیا ہے، ہندوستانی ذہن رنگوں کے معاملے میں ہمیشہ بیدار اور حد درجہ متحرّک رہا ہے۔ ’ہندوستانی جمالیات‘ میں رنگوں کو ہمیشہ نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے۔

ہندوستانی فنون بنیادی طور پر علامتی ہیں۔ لہٰذا رنگ، اظہار کا بہترین ذریعہ بنے رہے۔ رنگ عموماً فنون کے باطن سے اُبھرتے ہوئے اور اپنی معنویت کو پُر اسرار انداز سے سمجھاتے ہوئے ملتے ہیں۔ قدیم ہند و اور بُدھ تفکّر میں رنگوں کو بڑی اہمیت حاصل رہی ہے۔ یہ استعارے بھی ہیں اور علامتیں بھی! فکری فلسفیانہ اور مذہبی تصوّرات کو علامتوں میں پیش کرنے کے لیے رنگوں کو بے حد قیمتی تصوّر کیا گیا ہے ، جن تصوّرات کی وضاحت لفظوں میں ممکن نہ تھی اُن کے لیے رنگوں کا انتخاب کیا گیا۔

سرخ بنیادی رنگ ہے جو لہو اور آگ کی علامت بنا رہا ہے ۔ وشنوؔ کے پیکر کے لیے سفید اور سیاہ رنگوں کو استعمال کیا گیا ہے تاکہ معنوی جہتیں واضح ہوسکیں، اُپنشدوںؔ (کم و بیش ۷۰۰ سال قبل مسیح) اور بھگوتؔ گیتا (کم و بیش ۴۰۰ سال قبل مسیح) میں رنگوں کی معنوی جہتوں اور ان کی علامتی صورتوں کا ذکر موجود ہے، یوگؔ اور سنکھیاؔ دبستانوںؔ نے اپنے اپنے طرز پر اِن کی وضاحت کی ہے اور ان کی فلسفیانہ اور مذہبی بنیادیں قائم کی ہیں، عوامی ذہن نے سُرخ رنگ کو بے حد پسند کیا اور اسے عزیز تر رکھا۔ یوگؔ اور سنکھیاؔ دبستانوں نے سرخ رنگ سے ذہنی وابستگی اور اس رنگ کی روایات کا مطالعہ کر کے ان کی بنیادی خصوصیات کو ’راجہ ‘  (RAJAS) سے تعبیر کیا اور یہ کہا کہ یہ رنگ اپنی فطرت میں تخلیقی ہے اور برق کی سی قوّت رکھتا ہے، یہ کائنات کا بنیادی رنگ ہے جو اپنی طاقت یا انرجی کا مظاہرہ کرتا رہتا ہے، اسے کائنات کی توانائی سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نفسی سطح پر اس کا تعلق انسان کی پیدائش اور اُس کے اپنے لہو سے ہے۔ سفید کو ’ست وا‘ (SATTVA) سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کا جوہر اتصال  (COHESION) ہے۔ اس میں چسپاں ہو جانے کی قوّت ہے۔ چسپیدگی اس کی فطرت ہے، سیاہؔ کو ’تما‘ (TAMAS) کہا گیا ہے۔ یعنی وہ توانائی جو انتشار پیدا کرے۔ کائنات کی وہ قوّت کہ جس سے اشیاء و عناصر بکھر جاتے ہیں، منتشر کرنا اس کی فطرت ہے، دراصل ان تینوں رنگوں سے کائنات کا توازن قائم ہے۔

ہندوستانی تخلیقی ذہن نے وشنوؔ کے پیکر سے بنیادی رنگوں کو جس طرح سجایا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ کہا گیا ہے کہ وشنو دس اوتاروں کی صورتوں میں جلوہ گر ہوئے اور ہر صورت کا اپنا منفرد رنگ ہے۔ بھگوت پُوران(۱۹۰۰ء کے مطابق وشنوؔ وقت کے رنگ میں جلوہ گر ہوئے، وقت اور زمانے کا رنگ وہی تھا جو وشنوؔ کا رنگ تھا۔ ’ست یگ‘ میں آئے تو اُن کا رنگ ’سفید‘ تھا، ’دِواپار ‘ (DVAPARA) میں آئے تو سُرخ رنگ میں اس لیے کہ یہ عہدِ تخلیقی تھا، ’تریتا‘ میں جلوہ گر ہوئے تو ان کا رنگ ’زرد‘ تھا یعنی وہ رنگ جو سفید اور سُرخ کی آمیزش سے بنا تھا، اِس دور میں سُرخ اور سفید رنگوں کی آمیزش سے بنا تھا، اس دور میں سفید اور سُرخ رنگوں کی آمیزش کے تجربے تھے ۔  اور اب یہ دور کالی  (KALI) ہے، لہٰذا وشنوؔ کا رنگ ’سیاہ‘ ہے!

عوامی ذہن نے رنگوں کے تعلق سے ’یوگ‘ اور ’ینتر کی‘ بنیادیں مضبوط کی ہیں چکّروں دائروں کے درمیان رنگو ں کے انتخاب اور اُن کی معنویت نے فلسفیانہ ذہن کو تحرک بخشا ہے، یوگیوں نے قدیم ترین تصوّرات میں رنگوں کی معنوی جہتوں کا بغور مطالعہ کیا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کے جسم کے چکّروں کی نشان دہی کرتے ہوئے انہوں نے ہر چکّر کے رنگ کو بھی دیکھا اور محسوس کیا۔ انسان کے جسم کے ساتھ چکّروں یا مرکزی دائروں کی توانائی نے اپنے اپنے رنگ کااحساس دیا۔ ہر رنگ کی اپنی صورت ہے اور اپنا رنگ ہے۔ ہر چکّر کے باطن میں پُر اسرار منتر کا آہنگ پوشیدہ ہے اور اس آہنگ ہی سے اُس چکر کے رنگ کا احساس ملتا ہے، اس آہنگ کو ’’کنول‘‘ کی صورت محسوس کیا گیا ہے۔ انسان کے جسم میں دھرتی یا زمین کے مرکز کی طرح ایک مرکز ہے جو زرد مربعے کی صورت چار پنکھڑیوں والے خوبصورت سرخ رنگ کے کنول کے درمیان ہے، دوسرا چکّر پیٹ کے درمیان ہے کہ جہاں ’جنس‘ یا ’سیکس‘ کی قوت بیدار اور متحرک ہوتی ہے، یہ پانی کی علامت ہے جو ’سفید‘ چاند کی مانند ہے، یہ آیو’’سرخ پنکھڑیوں، کے درمیان ہے، تیسرا چکّر سُرخ مثلث کی صورت ہے جو آگ کی علامت ہے، بھوک کی جبلّت اور اُس کی آسودگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ یہ سُرخ مثلث دس پنکھڑیوں والے ’’نیلے کنول‘‘ کے اندر ہے ، اس کے اوپر جو چکّر ہے وہ ’دل‘ ہے کہ جہاں نفسی قوّت یا توانائی محبت اور ’ہیومنزم‘ یا انسان اور انسان کے رشتوں کی جانب بیدار رکھتی ہے۔ اس کا رشتہ ہواؤں اور فضاؤں سے ہے، یہ چکّر خود ’نیلے مسدّس، کی صورت ہے جو بارہ‘‘ ’’سرخ پنکھڑیوں‘‘ والے کنول کے اندر ہے، دوسرے دو چکر اعلیٰ ترین سطحوں کی جانب اشارہ کرتے ہیں، ایک چکر حلق میں ہے اور دوسرا ابروؤں یا بھوؤں کے درمیان!روحانی بیداری اور زماں و مکاں کے علامتیں ہیں، دونوں ’سفید‘ روح، ’یا آتما‘ کی خالص تیز روشنی کی مانند! حلق والا چکر، سفید دائرے، کی طرح ہے جو سولہ پنکھڑیوں والے، سفید کنول، کے اوپر ہے، ابرو کے درمیان والا چکر اپنی صورت واضح نہیں کرتا، اس کی اقلیدسی شکل نظر نہیں آتی۔ انسان کی بنیادی طاقت یا اُس کی تمام ’انرجی‘ یا توانائی کا سرچشمہ یہی ہے جو ہزاروں پنکھڑیوں والے کنول کے اندر اور اوپر ہے۔ حیات و کائنات اور تمام اشیاء و عناصر کے تئیں سچی بیداری اسی مقام سے پیدا ہوتی ہے، انسان کے جسم سے باہر پہنچ جاتا ہے۔ اس کے وجود کے جوہر کو حیات و کائنات کی تمام روشنیوں اور ماورائی روشنی یا نور سے قریب کر دیتا ہے اور اس سے آگے بڑھ کر اسے تمام روشنیوں اور نُور کا مرکزی حصہ بنا دیتا ہے۔

چکرو یا مرکزوں کے رنگوں کا احساس اتنا شدید ہوا اور رنگوں کے تعلّق سے ایسی بیداری اور جاگرتی آئی کہ فنونِ لطیفہ بھی بے حد متاثر ہوا۔ ہندوستانی جمالیات میں ایک انقلاب آ گیا۔ احساسِ جمال میں رنگوں کے تعلّق سے ایسی جاگرتی پیدا ہوئی کہ چکّروں کے مختلف رنگوں اور صورتوں کے جلوے فنون میں نظر آنے لگے، رنگوں کا احساس رقص، تعمیر، موسیقی اور مصوّری کو بلند تر منزلوں تک لے گیا، قدیم ہندوستان کے مندروں، استوپوں اور عبادت گاہوں کی تعمیر کا مطالعہ کیا جائے تو محسوس ہو گا کہ انسان کے جسم کے اندر مختلف مرکزوں پر جن رنگوں کو شدّت سے محسوس کیا گیا تھا اُن کے جلوؤں کی نوعیت کیا ہے اور ان رنگوں کے احساس نے فنکاروں کے جمالیاتی شعور کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ قدیم مندروں، استوپو ں اور جین عبادت گاہوں کی تعمیر میں انسان کے جسم کی علامتیں ملنے لگیں۔ نفسی سطح پر جن مرکزوں کو پہچانا گیا تھا وہ تمام مراکز عبادت گاہوں میں شامل ہو گئے۔ انسان کا جسم ’’نمونہ‘‘ بن گیا، عبادت گاہوں اور استوپوں کے حصّے انسانی جسم کے حصّے بن گئے۔ مرکزوں کے رنگ بھی جذب ہو گئے۔!!

قدیم عبادت گاہوں کے نچلے حصّے عام طور پر زرد مربعے، کی صورت ہیں جو زمین کی علامت ہیں اور دھرتی کی گہرائیوں سے رشتے کی خبر دیتے ہیں، اس رشتے کے تئیں بیدار کرتے ہیں۔

اوپر کے حصّے ’’سفید دائرے‘‘ پیش کرتے ہیں جو ’پانی کی علامت ہیں۔

 

 

اُن کے اوپر ’بھورے‘ یا ’نیلے رنگ‘ کے تاج ہیں جو ’ہوا‘ کی علامت ہیں!

چھوٹے کنگرے  (PINNAELE)  ’نیلے‘/ ’سبز‘ ہیں جو ’مکاں‘ کی علامت ہیں!

انسان کی طرح مندر اور استوپ بھی جیسے حیات و کائنات اور تمام اشیاء و عناصر کے تئیں سچّی بیداری حاصل کر کے پرواز کر رہے ہوں اور ماورائی نور سے قریب تر ہوں۔ تمام روشنیوں کا حصّہ بن گئے ہوں!

قدیم عوامی شعور نے طرح طرح سے رنگوں کا احساس بخشا ہے، اپنے جذبوں کے مطابق رنگوں کا انتخاب کیا ہے ’نٹ راج‘ کے رقص کی ۱۰۸ کیفیتوں کو محسوس کیا گیا تو ہر کیفیت کا اُس میں ایک منفرد رنگ نظر آیا اور رقص کی مختلف کیفیتوں کو ان کے رنگوں کے ذریعہ اُجاگر کیا گیا۔ مثلاً:

اسی طرح دیوتاؤں اور دیویوں کو بھی مختلف رنگوں میں محسوس کیا گیا، جذبات کے رنگ ان میں جذب ہو گئے، یا یہ کہیے کہ جذبوں کے رنگ اور رنگوں کے گہرے احساس کے ساتھ ان کے رنگین پیکر اُبھرے۔!

عوامی عبادت میں ابتدا سے رنگوں کی اہمیت رہی، طویل عبادت کے لیے ارتکاز کی ضرورت تھی، مکمل طور پر پوری توجّہ کرنے کی صلاحیت کو پیدا کرنا تھا اس لیے تمام تر توجّہ کو صرف ایک مرکز پر جمع کرنے کے لیے پتّھر رکھے گئے۔ مورتیاں بنائی گئیں اور نفسی کیفیتوں کے ساتھ تشریحی خاکے بنائے گئے جنہیں ہم ’ینتر‘ کہتے ہیں‘ ایسے خاکوں‘ نقشوں اور خطوط اور علامات کے ذریعہ اپنی بہتر قوّت کے ساتھ جذبات کا اظہار کیا گیا اور اپنی آزادی اور تمنّاؤں کی تکمیل کے لیے دعائیں کی گئیں۔ منتر منتخب کیے گئے خاکوں اور نقشوں میں آرزوؤں اور تمنّاؤں کے نقوش اُبھارے گئے۔ خطوط اور علامات کے ذریعہ ان کا اظہار کیا گیا اور جب کچھ وقت اور گزر گیا تو ان میں منتر بھی لکھے گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ینتروں کے اندر منتروں کے لکھنے کی ایک روایت قائم ہو گئی، بنیادی معاملہ یہ تھا کہ ارتکاز کے مرکز اور عابد کے درمیان ایک گہرا باطنی رشتہ قائم ہو جائے نفسی سطح پر یہ محسوس ہو کہ یہ رشتہ قائم ہو گیا ہے اور اس کے لیے ’رنگ‘ سب سے اہم اور معنی خیز ذریعہ بن گئے۔ رنگوں نے جذبوں کی نمائندگی کی اور کچھ اس طور پر کہ محسوس ہوا جیسے یہ رنگ عابد کے جذبوں کے رنگ ہیں مختلف قسم کے رنگ تیّار کیے جاتے، ایک رنگ کو دوسرے رنگ میں شامل کیا جاتا، جذبوں کے مطابق ہی رنگ منتخب کئے جاتے سب سے اہم بات یہ تھی کہ جس احساس یا جذبے سے جو رنگ محسوس ہوتا وہی رنگ استعمال کیا جاتا ساتھ ہی یہ بھی توجّہ طلب بات ہے کہ ایسے رنگوں کو منتخب کیا جاتا جو مخصوص جذبات کو اُبھارنے اور پیش کرنے میں مدد کرتے۔ ’سرخ‘ ابتدا سے بنیادی رنگ بنا رہا ہے۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ اس رنگ سے عابد کا بنیادی جذبہ شدّت سے متحرک ہوتا رہا ہے۔

ابتدائی دور کی سماجی زندگی میں ’مرکز‘ اہم تھا، دیوتا اہم نہ تھے، مرکز ہی عابد کے ارتکاز اور عبادت سے کسی نہ کسی پیکر کو تخیل سے آشنا کرتا تھا، عابد یہ جانتا بھی نہ تھا کہ یہ کس دیوتا یا کس دیوی کا پیکر ہے۔ وہ صرف پیکر کے رنگ کو محسوس کرتا تھا اور عبادت کے بعد اپنے تجربے کو بیان کرتے ہوئے صرف یہ بتا سکتا تھا کہ اُس نے کِس رنگ کے پیکر کو دیکھا اور محسوس کیا ہے اور عبادت کے لمحوں میں اُس پیکر کا عمل کیا تھا۔ تجربوں کے یہی رنگین پیکر رفتہ رفتہ مختلف بڑے دیوتاؤں اور دیویوں کی صورتوں میں ڈھل گئے!

’ینتر‘ نے بعض رنگین پیکروں اور بعض رنگوں کی خصوصیات کو بیان کیا ہے۔ مثلاً دیوتا ’’سفید ‘‘ محسوس ہوں یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ انسان کو زندگی اور موت کے چکّر سے نکالنے کی تلقین کر رہے ہیں یا باہر نکالنا چاہتے ہیں۔

’زرد‘ محسوس ہوں تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ دنیا کی مسرّتیں لٹانا چاہتے ہیں، مادّی زندگی کو تمام خوشیوں اور مسرّتوں سے بھر دینا چاہتے ہیں، غالباً یہی وجہ ہے کہ گنیش اور لکچھمی کے لباس ’زرد‘ ہوتے ہیں۔

’سرخ پیکروں‘ کے ظہور کو جذبوں کے ارتعاش ، عمل، زندگی سے محبت اور انسان دوستی سے وابستہ کیا گیا، یہ کہا گیا ہے کہ جو دیویاں یا جو دیوتا سُرخ پیکروں میں محسوس ہوں اُن کا پیغام صرف یہ ہے کہ تم زندگی کی بے پناہ لذّتوں سے آشنا ہوتے رہو۔ انسان دوستی اور محبت کے جذبے کو ہمیشہ بیدار کھو، اپنے جذبات کے اظہار میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ کرو۔

اگر آپ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں قبائلی اور عوامی دیوتاؤں اور مقدّس پیکروں کا مطالعہ کریں گے تو معلوم ہو گا کہ سب سُرح رنگ کے ہیں، یہ قدیم سُرخ مقدّس پیکر ہیں جو جانے کتنی صدیوں سے سفر کرتے ہوئے آئے ہیں اور اب تو انہیں سرخ لباس بھی پہنا دیا گیا ہے، ان سے ملک کے لوگوں کے بنیادی عوامی رجحان کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔

ابتداء سے قوّتِ برداشت، محبت اور انسان دوستی کی روایات قائم رہی ہیں، انسان کے وجود کا احترام کیا گیا ہے، محبت کے رشتے کو سب سے اہم رشتہ تصوّر کیا گیا ہے، انسان دوستی ابتدا سے بنیادی قدر رہی ہے، قبائلی عوامی سرخ پیکر ایسی تمام قدیم اعلیٰ روایات کے معنی خیز استعارے میں، ان روایات کو ’پنچ راترا‘ (PANCHARATRA) کی روایات سے علیٰحدہ کر کے دیکھنا چاہیے۔ اس طرح ان روایات کو ’بھگوت پور ان سے بھی الگ رکھنا چاہیے‘ تانتروں نے بھی اپنے طور پر رنگوں کو اہمیت دی ہے، اگرچہ ایسی تمام روایات کا گہرا معنوی رشتہ قدیم عوامی رجحان اور شعور سے ہے لیکن نئے تجربے بھی سامنے آئے ہیں۔ ’ینتر‘ نے ’سیاہ‘ رنگ کو جو اہمیت دی ہے۔ ہمیں معلوم ہے، یہ بنیادی رنگ بن گیا، اور کالیؔ اور مہا کالیؔ کے پیکر اسی رنگ میں جلوہ گر ہوئے جو ’تخلیق‘ وقت ، زماں و مکان، موت اور قیامت سب کے معنی خیر استعارے بن گئے۔ یہ پیکر ایسے تاریک ’مکاں‘ تک ذہن کو لے جاتے ہیں جہاں کوئی ’’مستقبل‘‘ نہیں ہے۔ موت کے بعد ایک نا معلوم مکان کا احساس دیتے ہیں۔ ’تانتر‘ کے مطابق چکّروں کا بنیادی مقدّس پیکر ’’ڈاکنی‘‘ (DAKINI) ہے جس کا وجود سُرخ ہے۔!

’بدھ ازم‘ نے بھی رنگوں کو بہت اہمیت دی، بدھ افکار کے مطابق ذہن کا بنیادی رنگ ’زرد‘ ہے۔ مربع (SQUARE) اس کی علامت ہے۔ جب بودھی ستواؤں میں ’عورت‘ کے پیکر شامل ہوئے تو ان کے ساتھ ان کے رنگ بھی آئے۔ مختلف قسم کے رنگوں اور رنگین استعاروں کی ایک دنیا سامنے آ گئی۔ ’تاراؤں‘ (TARAS) کے جانے کتنے رنگ اُبھرے تارا ایک معنی خیز پیکر بن گئی۔ اس کا بنیادی مفہوم یہ ہے ’’وہ عورت جس کی مدد سے وجود کے طوفان سے گزر کر انسان سلامتی کے ساتھ دوسرے کنارے پر پہنچ جائے!‘‘ یعنی جو سلامتی اور رحمت کی علامت، جس کی وجہ سے انسان عرفان اور ’وژن‘ کی اعلیٰ ترین منزل حاصل کر لے۔ بدھ منتروں میں تاراؔ کو عظیم تر منزل کا رنگین پیکر کہا گیا ہے۔ ’بدھ حلقۂ رنگوں کا سر چشمہ ہے، اس سے سرشار ہو کر علم و دانش کے پرچم اُٹھائے جو پیکر متحرّک ہوتے ہیں وہ اپنے علم و دانش کے مطابق بدھ حلقہ کا کوئی رنگ لیے ہوتے ہیں اور اس طرح اس مترنم متحرّک عمل میں مختلف رنگوں کے نقوش جھلملانے لگتے ہیں۔تانتر کا معروف پیکر ڈاکنی (DAKINI)  یہاں کئی رنگوں میں ملتی ہے۔ ہر نسوانی پیکر کے ساتھ ایک ’ڈاکنی‘ ہے۔ علم و دانش کے پرچم اُٹھائے ہوئے ہر نسوانی پیکر کا چہرہ حد درجہ سنجیدہ ہے اور اس کی سنجیدگی کے مفہوم کو صرف اس کے بنیادی رنگ اور اس کے ساتھ ’’متحرّک ‘‘ ڈاکنی سے ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ تمام نسوانی پیکر پُر اسرار ہیں جو بُدھ کے لطیف اور انتہائی باریک حصّے میں رہتے ہیں۔ بُدھ کے مختلف پیکروں سے ان کے رنگ ہم آہنگ ہیں۔ ان کے خاص رنگ یہ ہیں:

’خاکی‘                 ’بادامی‘               ’سانولا‘

’سیاہ‘                  ’گہرا سبز‘             ’سیاہی مائل سُرخ‘

’گندمی‘

تبّت کی بدھ مصوّری کا مطالعہ کیجیے اور پُرانے کپڑوں پر بنے ہوئے نقوش دیکھئے تو یقیناً محسوس ہو گا کہ رنگوں کے معاملے میں بُدھ مصوّر بہت بیدار تھے۔ تھنکوں (THANKAS) (کپڑوں پر بنی ہوئی تصویریں) پر ارتکاز اور عبادت کے لیے نقش اُبھارے جاتے تاکہ ذہن کو ’’خاص مرکز‘‘ حاصل ہوسکے۔ ذہن اور احساس اُسی مرکز سے وابستہ رہے، جو تصویریں اُجاگر ہوتیں اور ان کے لیے ’جن رنگوں کا استعمال کیا جاتا اُن کا گہرا رشتہ تخیّل سے ہوتا۔ روایتی مصوّروں کے عمل سے روشنی حاصل کر کے اپنے تخیل کی مدد سے آج بھی تھنکے تیّار کیے جاتے ہیں۔

’تھنکا‘ (THANKA) کے لغوی معنی ہیں: ’’نگاہ کے ذریعہ آزادی!‘‘

سنسکرت میں ’’درشن مکتی کی اصطلاح اسی مفہوم کی جانب اشارہ کرتی ہے۔ نقوش اور مختلف قسم کے پیکروں اور جذبوں کی ہم آہنگی کے پیشِ نظر رنگوں کا انتخاب اور مناسب انتخاب اور استعمال کا بنیادی مقصد زندگی کی اذیت (سم سار) کے خلاف برگشتگی پیدا کرنا اور سچّی آگاہی اور روشن خیالی کی آرزو (سم سار) کے خلاف برگشتگی پیدا کرنا اور سچّی آگاہی اور روشن خیالی کی آرزو (سم بودھی) ہے، میں نے کی ’تھنکے‘ دیکھے اور ہر تھنکے کے درمیان بُدھ کا پیکر پایا۔

اس مرکزی بُدھ کو ’’ویروچن‘‘ (VAIROCHANA) کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی مجھے معلوم نہیں لیکن اس کا مفہوم ہے ’’وہ جو تمام نام اور تمام اشکال کی داخلی کائنات کا سرچشمہ ہے۔ ‘‘ ویروچن، خلا (VOID) کی بنیادی سچّائی یا ’’بدھ سچّائی‘‘ کی علامت ہے۔ شنیات (SHUNYATA)

’بدھ‘ کا یہ پیکر ’سفید‘ ہے۔ لباس بھی سفید ہے، غالباً اِس لیے کہ یہ بنیادی وحدت کی علامت ہے۔

اِسی خالص سفید بدھ کے مرکز سے چار نگوں کی روشنیاں پھوٹتی ہیں، ’’ویروچن بدھ‘‘ مرکز ہے جس کے چار رنگوں سے دوسرے چار دھیانی بدھ کے پیکر بنتے ہیں جو شمال، جنوب، مغرب اور مشرق کی علامتیں ہیں، ’’اکشو بھئے بُدھ‘‘  (AKSHOBHYA BUDDHA)  کا رنگ نیلا ہے۔ ’’رتن سمبھوبدھ‘‘  (RATAN SAMBHAVA BUDDHA) کا رنگ زرد ہے۔ اکشو بھئے کا تعلّق فضا اور ہوا سے ہے تو ’رتن سمبھو ‘ تمام قیمتی اشیاء کا سرچشمہ ہیں۔ یہ دھرتی سے تعلق رکھتے ہیں ’تیسرے ’’امیتابھ بدھ‘‘ (AMITABH BUDDHA)  ہیں جو نور اور روشنی کا سرچشمہ ہیں۔ ان کا رنگ ’سرخ‘ ہے ۔  اور ’’اموگھا سِدّھی بدھ ‘‘ (AMOGYA SIDDHI BUDDHA) اُس ’پانی‘ کے پُر اسرار مرکز ہیں کہ جس سے دھرتی سر سبز ہوتی ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کا رنگ گہرا سبز ہے۔ ’تبتّی بدھ ینتر میں ’’سرخ ڈاکنی‘‘ ہیں جو راہب کی سفید طاقت کے برعکس نسوانی توانائی کی علامت ہیں۔

’تانتروں‘ کے مطابق بنیادی عبادت سے کئی رنگ وابستہ ہیں۔ مثلاً سرخؔ، سفیدؔ، زردؔ اور نیلے! پھولوں کا انتخاب کرتے ہوئے ان رنگوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔ مختلف قسم کی تصویروں کے حاشیوں کے لیے عموماً یہی رنگ استعمال ہوتے رہے ہیں، پوجا میں پانی کے برتن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اور عموماً پانی سے بھرے ہوئے مٹی کے کٹورے یا برتن ’’دیوتا کی علامت بن جاتے ہیں۔ اسے آم کے پتّوں سے چھپا دیا جاتا ہے اور اُس کے قریب سبز ناریل کھا جاتا ہے۔ جس کی جڑ پر شنگرفی رنگ (VERMILION)  لگانا ضروری تصوّر کیا جاتا ہے۔ انہیں ’دیوتا‘ کے تشریحی خاکے یا نقشے کے پیچھے رکھ دیا جاتا ہے۔ اس یقین کے ساتھ کہ ’’دیوتا‘‘ کا ظہور ہو گا۔

ہندو تانتر نے ’مہاو دیاؤں‘ (MAHAVIDYAS)  کے دس پیکروں کو اہمیت دی ہے جن میں سات، کائنات کی تخلیق کی منزلوں کی علامتیں ہیں اور تین تخریب اور کائنات کو اپنے اندر سمیٹ لینے کی علامتیں! ’کالی‘ وقت کے مرکز کی معنی خیز دیوی ہیں جن کی ظاہری صورتیں جیسی بھی ہوں، مثبت اور منفی خیالات بلند وجد آفریں فطرت سے پہچانی جاتی ہیں، اُن کے چہروں اور پیکروں کو دیکھ کر خوف طاری ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنی فطرت میں زندگی کی مسرّتوں کا سرچشمہ ہیں، وقت کے مرکز پر اُن کے وجود سے کیف پَرور لہریں پھوٹتی رہتی ہیں، ہر لمحہ وجد کی حالت میں وجد آفریں کیفیتیں پیدا کرتی رہتی ہیں۔ ان کا ظہور ڈرامائی طور پر ہوتا ہے کہ ان کے وجود کی وحدت کے اندر ’’کثرت‘‘ کے جلوے ہیں۔ کائنات کے تمام مظاہر اور تمام رنگ اُن کے اندر ہیں۔ اس احساس کے ساتھ وہ دوسری ’مہا ودیا‘ یعنی تازہ بن جاتی ہیں۔ یہ کائنات کی تخلیق کی دوسری منزل ہے۔ یہاں کالیؔ کا رنگ گہرا ’نیلا‘ ہے۔ گہرے نیلے کی تابناکی سے اشیا و عناصر اپنے رنگوں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے ہیں۔ اس منزل پر وہ ’شیو‘ کے مُردہ  جسم پر اپنا بایاں پاؤں رکھے ہوئے ملتی ہیں۔ شیر کی کھال پہنے ہوئے اور سروں کے ہار کے ساتھ اُن کا یہ پیکر بنگال اور اُڑیسہ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے، اپنی تین آنکھوں کے ساتھ بھیانک ہنسی کے تاثرات کو لیے سامنے آتی ہیں، دنیا اور کائنات کی تباہی کے گہرے تاثرات اُبھارتی ہیں۔ تمام اشیاء و عناصر کو راکھ بنا چکی ہیں، لیکن کائنات کے حُسن و جمال کی نئی تخلیق کے امکانات کو بھی لیے ہوئی ہیں (پھولے ہوئے پیٹ کے اندر نئی تخلیقی کا جوہر پوشیدہ ہے) ’وہ چاہیں تو وحدت کے باطن سے کثرت کے جلوے بکھیر دیں۔ پانی کے اندر سے جھانکتا ہوا ’سفید کنول‘ نئی تخلیق کی علامت ہے (کالیؔ اور بدھ اکشوبھیہ کے گہرے رشتے کا بھی احساس ملتا ہے)۔ اس کے بعد کالیؔ، سوداسی ؔ (SODASI) کے پیکر میں نمودار ہوتی ہیں۔ اُبھرتے ہوئے سورج کی طرح اُن کا رنگ ’سرخ ہے‘۔ برہماؔ، وشنوؔ، ردرؔ، اندرؔ اور سداشیو کے مجسّموں کے اوپر نظر آتی ہیں۔ مہا کالیؔ (عظیم وقت) سے ہم آغوش ! انتہائی مسرّت انگیز لمحوں میں، لذّتوں کو حاصل کرتے ہوئے عظیم نفسیاتی خواہش کی تکمیل کرتی نظر آتی ہیں، چوتھی مہاؔ ودیا یعنی بھونیشوریؔ کا روپ اختیار کر کے سورج کی طرح، سنہرے رنگ میں ڈھل جاتی ہیں اور شعاعوں کی مانند ہر جانب بکھر جاتی ہیں۔ سر پر چمکتا ہوا تاج ہوتا ہے اور ہلال (نیا چاند) اُن کا زیور بن جاتا ہے ’بھونیشوری‘ کے چار ہاتھ میں جو مادّی نعمتیں عطا کرتے ہیں۔ چھاتیاں دودھ سے بھری ہوئی ہیں جن سے اشیاء و عناصر کی زندگی قائم ہے۔ کالیؔ کا پانچواں پیکر تین آنکھوں والی بھیروی ؔ (BHAIRVI) کا ہے۔ بنیادی رنگ ’گہرا سُرخ ہے‘ گلے میں ’’سروں‘‘ کا ہار ہے۔ ہاتھ میں مالا اور کتاب ہے۔ بھیروی اپنے وجود کو جانے کتنے متحرّک اشیاء عناصر میں تقسیم کرتی رہتی ہیں۔

چھٹی مہا ودیا ’’چھنّامست‘‘  (CHUNNAMASTA) ہیں ناف کے اندر کھلے ہوئے کنول کے درمیان ، ’سرخ رنگ‘! کھلا ہوا یہ کنول ’سرخ رنگ‘ کی تابندگی کوئے خالص کائناتی زرخیزی، سے پیوست اُوپر اُٹھتا ہے، خالص کائناتی زرخیزی کو ایک نیلے مرد اور ایک عورت کی صورتوں میں پیش کیا گیا ہے، جو کرشنؔ اور رادھاؔ کے رنگین حسّی پیکروں سے قریب تر ہیں ’چھنامست‘ گہرے بھورے نیلے کنول پر بیٹھی ہیں، سروں کا مالا پہنے ۔ ۔  ایک ہاتھ میں سانپ ہے اور دوسرے ہاتھ پر خود اُن کا اپنا سر ہے۔ کٹی ہوئی گردن سے انتہائی شدّت سے خون کا چشمہ پھوٹ پڑا ہے، اس کی تیز تین دھاریں ہیں۔ اک دھار خود اُن کے کٹے ہوئے سر (جو اُن کے ہاتھ میں ہے) کے منہ کے اندر جاری ہے۔ دو دھاریں دائیں بائیں کھڑی دو عریاں دوشیزاؤں کے منہ میں پہنچ رہی ہیں۔ ان دونوں دوشیزاؤں کے ہاتھوں میں کھوپڑیوں کے پیالے اور تلواریں ہیں۔ سیدھے ہاتھ جو دوشیزہ ہے اُس کا رنگ ’’سنہرا‘‘ ہے جسے ’بارنینی‘ (BARNINI) کہتے ہیں۔ بائیں جانب ’ڈاکنی‘ (DAKINI) ہے جس کا رنگ شنگرفی (VERMILION) ہے۔ ’چھنّامست‘ کی یہ تصویر دراصل کائنات کو زندگی عطا کرنے کی ہے۔ تخلیقی عمل کے حِسّی تصوّر کو اُبھارا گیا ہے، ’تما‘ (TAMAS) ’راجا‘ (RAJAS) اور ’ستوا‘  (SATTVAS) اور ’گنّ‘ (GUNAS) اچھا  (ICHCHA) اور ’کریا‘  (KRIYA) سب کے تاثرات موجود ہیں۔ انہیں ’سیاہ ‘’ گہرے نیلے‘’سرخ ‘ ’سفید ‘ اور گہرے زرد رنگوں سے سمجھا یا گیا ہے۔

ساتویں ’مہا ودیا‘ دھوئیں کی مانند ہیں۔ بیوہ ’’دھم وتی‘‘ (DHUMAVATI) ! لمبی ہیں۔ تند خو، خوفناک اور بد مزاج !چہرہ بے رونق ہے لیکن مضطرب نظر آتی ہیں۔ بال اُلجھے ہوئے ہیں۔ چہرے سے دہشت اور وجود سے ٹیڑھے پن کا احساس ملتا ہے۔ چھاتیاں سوکھی اور مرجھائی ہوئی ہیں۔ پوپلی ہیں۔ ناک لمبی ہے۔ کوّے کی رتھ پر چلتی ہیں۔ ان سے زندگی کی آخری سطح کا احساس ملتا ہے۔ وہ سطح کہ جہاں تمنّاؤں کا خون ہوتا ہے۔ بھوک نہیں مٹتی، پیٹ بھر غذا حاصل نہیں ہوتی۔ افراد اپنے پُرانے رشتوں اور ماضی کے تمام سرچشموں کو بھول جاتے ہیں۔ اس حد تک کہ رشتے ختم ہو جاتے ہیں اور عظیم سرمایۂ حیات سے تعلق ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔ انسان اذیّتوں کے عجیب و غریب لمحوں کے تجربوں سے آشنا ہوتا رہتا ہے۔

تیسری تین ’مہا ودیائیں ‘’واپسی‘ کے تسلسل کا شعور دیتی ہیں، ایک ’’باگلا‘‘ (BAGALA) ہیں جو ’زرد رنگ‘ کے ساتھ ظہور پذیر ہوتی ہیں، جواہرات سے سجے سجائے تخت پر بیٹھتی ہیں، زرد رنگ اُمیدوں اور آرزوؤں کا رنگ ہے۔ ’باگلا خوبصورت چمکتے ہوئے زیورات میں چھپی ہوئی ہیں، اُن کے ایک ہاتھ میں مضبوط چھڑی ہے کہ جس سے وہ دشمنوں پر وار کرتی ہیں اور اُن کا دوسرا ہاتھ دشمنوں کی زبان پکڑنے اور کھینچنے کا کا م کرتا ہے۔ دوسری ’ماتنگی (MATANGI) ہیں۔ تاریک سیاہ چہرہ، سرخ آنکھیں، جذباتی ہیجان اور اضطراب ۔اُن کے پیکر کی خصوصیات ہیں آرزوؤں اور خواہشوں کے سرور میں گُم اور اکثر بد مست ہتھنی کی مانند جھومتی ہوئی، وہ اُس منزل یا سطح کی علامت ہیں کہ جہاں منتروں کا جادو ہے۔ ساری دنیا اس سحر کے اندر ہے اور بنیادی آرزو شیو میں جذب ہو جانے کی ہے۔

مکمل وحدت کی خواہش !

اور آخری ’مہاویا‘ ’کملا‘ (KAMALA) ہیں ’کنول کی دیوی‘! یہی شکتی ہیں، خالص شعور (PURE CONSCIOUSNESS) کی علامت! یہ ذات کے عرفان کا استعارہ ہیں۔ سونے کے چار ہاتھی انہیں مقدس پانی سے نہلاتے ہیں۔ چمکتے سونے کا رنگ ہے، ہاتھ میں کنول لیے رہتی ہیں، حیات و کائنات کی جمالیاتی وحدت کا نشان بن کر آتی ہیں۔

تمام رنگ، وہ سفید ہوں یا سر خ، زرد ہوں یا سبز، سب سیاہ میں جذب ہو جاتے ہیں۔ سب کالیؔ، میں داخل ہو کر گُم ہو جاتے ہیں ۔  صرف سیاہ فام کالیؔ سامنے ہوتی ہیں!

عوامی ذہن نے ستاروں اور سیّاروں کو بھی اپنے جذبات کے رنگ عطا کیے ہیں۔ سیاروں اور ستاروں اور عوامی ذہن کے درمیان رنگوں کے خوبصورت رشتے جانے کب سے قائم ہیں۔ ’سورج‘ سرخ رنگ کا سرچشمہ ہے تو چاند سفید رنگ میں ڈھلا ہوا ہے۔ ’مریخ‘ (MARS) گندمی یا سنگترے  (TOWNY) کے رنگ کا ہے تو عطاردؔ (MERCURY) مضمحل زرد سفید! ’زحل‘ کا رنگ سیاہ ہے۔ مشتری (JUPITER) ’زرد‘ ہے اور ’زہرہ‘ (VENUS) سفید! چڑھتے ہوئے چاند (’راہو‘ ، (RAHU) ‘) اور ڈھلتے ہوئے ’چاند‘ (کیتو۔! (KETU))شمال اور شمال مشرق میں جانے کتنے رنگوں کا احساس عطا کرتے ہیں۔

سیّاروں کی عبادت کے لیے جو ’ینتر‘ بنائے گئے، اُن میں عموماً نو مربعے ہوتے تھے۔ یہ ’ینتر‘ سفید باریک چونے سے بنائے جاتے یا پکّے چاولوں سے! ہر مربع ایک سیّارے کے لیے مخصوص ہوتا اور اُس میں سیّارے کا رنگ اُ س مربعے میں ڈالا جاتا۔ مشرق ،مغرب، شمال اور جنوب کے بھی اپنے رنگ ہیں، مشرق کا رنگ زردؔ ہے اور اسی ’زرد‘ کو لئے بہشت کے دیوتا ’اندر‘ اُبھرے ،’اندر‘ زرد رنگ کے اساطیری دیوتا ہیں۔ ’اگنی‘ دیوتا جنوب مشرق کے سرخ رنگ کی علامت ہیں۔ ’راگنی‘ ’آگ‘ کے دیوتا ہیں جو جنوب مشرق کی حفاظت کرتے ہیں۔ جنوب کا بنیادی رنگ ’سیاہ‘ ہے۔ اماوس کی سیاہی کی مانند! تاریک گھُپ اندھیرے میں موت کے دیوتا  ’’یام‘‘  (YAMA)  کا پیکر اُبھرا، سیاہی کی علامت بن کر۔ جنوب مغرب کا رنگ گہرا سبز ہے۔ اِس رنگ نے اساطیر میں ’نیروتی‘ (NIRRUTI) دیوتا کو خلق کیا، مغرب کا بنیادی رنگ ’سفید ‘ ہے۔ ورون (VARUNA) کا وجود سفید ہے۔ وہ پانی کے دیوتا ہیں۔ شمال مشرق کا رنگ نیلا ہے۔ ہواؤں کے دیوتا، وایو، (VAYU)  اسی رنگ سے وجود میں آئے ہیں۔ شمال کا رنگ حد درجہ سنہرا ہے۔ چمکتے ہوئے سونے کی مانند! سنہرے رنگ کے دیوتا ’’کو بیرا‘‘  [1]دیوتاؤں میں شامل (KUBERA) اس کے اساطیری استعارہ اور علامت ہیں۔ شمال مشرق کا رنگ آسمانی ہے۔ یہ ’ای شان ‘ (ISHANA) دیوتا کا رنگ ہے۔ شمال مشرق کا  یہ رنگ دراصل شیو کے وجود کے ایک معنی خیر پہلو کا رنگ ہے کہ جس کی نمائندگی ’ای شان‘ سے ہوتی ہے۔ ہنومانؔ اور گنیشؔ دونوں سرخ رنگ کا جلوہ لیے ہوئے ہیں، شیوؔ (شیو کا مردہ جسم) سفید ہے۔ سفید جسم پر کالیؔ (جو لہو دیتی ہیں تاکہ تخلیق کا سلسلہ جاری ہے) کے ہونٹوں سے لہو کا ایک معمولی سا قطرہ گِر جاتا ہے تو تین رنگوں سرخ، سیاہ اور سفید (راجا، تما اور ستو) کی آمیزش ہوتی ہے اور تخلیق وجود میں آ جاتی ہے!۔  کائنات کے گِرد جو عظیم حلقہ یا دائرہ ہے کہ جس کے اندر شیو کا رقص جاری ہے۔ سرخ رنگ کی شدّت کو نمایاں کرتا ہے!

٭٭

 

 

 

 

رنگوں اور لکیروں سے لکھنے، نقشے تیّار کرنے اور اپنے صحن یا آنگن کو سجانے کی روایات بہت قدیم ہیں۔گاؤں اور چھوٹے قصبوں، اور چھوٹے بڑے شہروں میں عورتوں نے آج بھی ان روایات کو زندہ رکھا ہے۔

آہستہ آہستہ اس کی فلسفیانہ اور مذہبی سطحیں بھی قائم ہوتی گئی ہیں، عوامی ذہن نے مختلف عہد میں اس فن میں نئے تجربے کیے ہیں، رفتہ رفتہ تصویریں بنیں، دیوی دیوتاؤں کے نقوش بھی اُبھرے، ان کی علامتوں کے پیکر سجے، آج جس فن کو ہم ’’رنگولی‘‘ کہتے ہیں بلا شبہ ایک قدیم فن ہے۔ اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں اس کی علاقائی اور دیسی روایتیں موجود ہیں۔ قدیم عقائد اور توہمّات سے اس کا رشتہ بہت گہرا ہے۔ یہ لکیروں اور رنگوں کا فن ہے کہ جس میں عوامی رجحانات کا مطالعہ کرتے ہوئے مختلف عہد کے عقائد اور رسوم اور مختلف علاقوں کے حِسّی اور نفسی تصوّرات کے ساتھ لکیروں اور رنگوں کے تعلّق سے جمالیاتی تجربات کی بھی پہچان ہوتی ہے۔

سنسکرت میں اس قدیم رنگین فن کو ’رنگاولی‘  (RANGAVALLI) کہا گیا ہے۔ یعنی وہ بیل جو رنگوں سے تیّار ہو، رنگوں کی لکیریں بیل کی مانند چڑھتی جائیں اور آہستہ آہستہ کسی دائرے یا حلقے میں پھیل کر ایک یا ایک سے زیادہ تاثر کو اُبھاریں۔ ’رنگولی‘ ہمیشہ حِسّی اور نفسی تاثرات اُبھارتی رہی ہے۔ جب مذہبی اور فلسفیانہ سطحیں قائم ہوتی ہیں۔ تو یہ تاثرات اور گہرے اور معنی خیز بن گئے ہیں۔

ابتدا سے اس فن کا ’’مظاہرہ‘‘ زمین کے ’کینوس‘ پر کیا گیا ہے۔ اس کے لیے صحن یا آنگن یا دروازے کے قریب زمین تیّارکی گئی ہے۔ آج تو مختلف تہوارو اور شادی بیاہ کے موقعوں پر عورتیں ’رنگولی‘ سجاتی ہیں۔ شب عروسی کے کمروں اور رسوئی گھروں کو بھی رنگولی سے آراستہ کیا جاتا ہے۔

اس فن کی ابتدائی صورت نسلی اور قبائلی عقائد اور رسوم کو پیش کرتے ہوئے قبائلی اور نسلی احساسِ جمال کو پیش کرتی رہی ہے۔ کوئی نہ کوئی موضوع ہوتا جسے رنگوں اور لکیروں کی علامتوں میں پیش کیا جاتا۔

وتسائن ؔ(VATSAYAN) نے ’’کام سوتر‘‘ میں جہاں عورتوں کے تعلّق سے چونسٹھ فنون کا ذکر کیا ہے اُن میں ’الکھیام ‘ (ALEKHYAM) کی جانب بھی اشارہ کیا ہے۔ یعنی وہ فن جو رنگوں اور لکیروں کا فن ہو۔ وتسائنؔ نے عورتوں کے چھٹے فن کو ’’رنگولی‘‘ کہا ہے اور یہ بتایا ہے کہ یہ بہت ہی مقدّس فن ہے، رنگولی، لکیروں، خاکوں اور تصویروں کا یہ فن صرف دیوتاؤں کی خوشنودی کے لیے ہے۔ ’کام سوتر‘ کے مصنف نے ایک اور فن کا ذکر کیا ہے کہ جس کا تعلّق رنگوں سے ہے۔ یہ ’منی کرما‘ (MANIKARMA)   کا فن ہے۔ یعنی عورتیں رنگین اور خوبصورت پتھروں کو جمع کریں اور ان سے نقشے اور تصویریں مرتّب کریں۔ پتھروں کی ترتیب سے نقشے اور تصویریں اُبھر آئیں۔ یہ فن آج بھی بعض علاقوں میں زندہ ہے۔ عورتیں پتھروں کو سجاتے ہوئے انہیں رنگ بھی عطا کرتی ہیں۔

یہ بہت قدیم عقیدہ رہا ہے کہ ہر دن کسی نہ کسی سیّارے کی گرفت میں ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں کہ جس پر کسی سیارے یا ستارے کی گرفت نہ ہو۔ سیّارہ یا ستارہ اپنی رحمتیں لیے ہوتا ہے۔ اگر ان کی رحمتوں کو حاصل کرنا ہے تو ذات اور شخصیت اور رحمتوں کے پیشِ نظر رنگوں اور لکیروں سے نقشے تیار کیے جائیں۔ یہ نقشے انسان اور مخصوص سیّارے میں ایک معنوی رشتہ پیدا کر دیتے ہیں اور وہ دن سیّاروں اور انسان کے لیے اپنی رحمتوں کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ اس طرح سیّاروں کی علامتیں خلق ہونے لگیں جو انسان اور کائنات اور مظاہر فطرت کی ’وحدت‘ کا احساس عطا کرنے لگیں۔ ہندوستانی تجربوں اور جمالیات میں ’وحدت‘ اور جمالیاتی وحدت کا تصوّر بہت قدیم ہے۔ اس حسی تصوّر نے صدیوں کے سفر کے بعد مذہبی اور فلسفیانہ سطحوں کو واضح کیا۔ ’آفتاب‘ ہندوستانی ذہن و شعور میں ہمیشہ جذب رہا ہے۔ یہی وجہ کہ اس کے سفر کی علامتیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئیں ۔  ابتداء میں رنگوں اور لکیروں کے اس فن میں خاص پودوں کو بھی شامل کیا جاتا تھا۔ مختلف قبیلوں نے بعض پودوں کو حد درجہ مقدّس جانا تھا، ایسے پودوں کی خاص دیکھ بھال کی جاتی تھی اور ان کی ہئیت ’’تو تم‘‘ (TOTEM) کی ہو گئی تھی۔ رفتہ رفتہ تلسی کے پودوں نے زیادہ اہمیت اختیار کر لی اور تمام دوسرے پودوں پر اسے فوقیت حاصل ہو گئی۔ آج بھی ’رنگولی‘ میں تلسی کے پودوں کو نمایاں جگہ حاصل ہے۔

مہا بھارت میں رنگوں اور لکیروں کے اس فن کا ذکر ملتا ہے۔ کچھ اس طور کہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی روایت پہلے سے قائم تھی۔ گوپیوں سے جب کرشن الگ ہو گئے تو جدائی کے اس غم کو فراموش کرنے کے لیے گوپیوں نے اسی فن کا سہارا لیا اور رنگ اور لکیروں کے اس فن میں گم ہو جانے کی کوشش کی اور جب کرشن کے لوٹنے کی خبر ملی تو اُن کے استقبال کے لیے ایک ’رنگولی‘ سجائی گئی۔ ’چتر ستر ‘ (CITRASUTRA) میں رنگوں اور لکیروںسے کینوس تیّار کرنے کے سلسلے میں جو ہدایتیں ہیں وہ بھی اس فن کی جانب واضح اشارہ کرتی ہیں۔ ’’وشنو دھر مُوتر پُران‘‘ نے ینتر، بھومی چتر، اور ’جنوگرہ (نو سیّارے) کے سلسلے میں ہدایتیں دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ’زمین‘ رنگوں اور لکیروں کے فن کے لیے کتنی اہمیت رکھتی ہے اور اسے کس طرح ،کینوس کی طرح استعمال کرنا چاہیے۔ ’وشنوؔ‘ کو جس طرح کائنات کے اسٹیج پر پہلا اداکار سمجھا جاتا ہے اُسی طرح انہیں پہلا مصوّر بھی کہا جاتا ہے۔ ’رنگولی‘ کے فن میں تلسی یا کسی بھی مقدس پودے کے شامل ہوتے ہی ’وشنو‘ کا ’امیج‘ جذب ہو گیا۔ انہیں تو بعض پودوں میں اس طرح محسوس کیا گیا ہے کہ یہ پودے اُن کے پیکر بن گئے ہیں۔ جس طرح وشنوؔ کو لکشمی عزیز ہیں اُسی طرح عابد کو تلسی یا کوئی اور مقدّس پودا عزیز ہے۔ ’رنگولی‘ کے فن میں وشنوؔ کے ساتھ لکشمی بھی شامل ہو گئیں۔ چوں کہ ابتداء سے عورتوں نے اس فن کو عزیز رکھا ہے اس لیے لکشمی نے زیادہ اہمیت اختیار کر لی۔ یہ دیوی مادّی آسودگی عطا کرتی ہیں۔ دولت اور عزّت اور گھر کی خوش حالی کا سرچشمہ ہیں، لہٰذا ان کے لیے مختلف سماجی ماحول میں مختلف قسم کی ’رنگولی‘ تیّار کرنے کی روایتیں موجود ہیں۔ ہندوستانی جمالیات میں مختلف سماجی زندگی اور طبقاتی ماحول کے پیشِ نظر اس فن کا مطالعہ نہیں ہوا ہے ورنہ قدیم جمالیاتی احساس و شعور کی جانے کتنی جہتوں اور جانے کتنی روایتوں کی پہچان ہو جاتی۔ تصویر نگاری اور مصوّری کے فن کے پس منظر میں عوامی حِسّی تجربوں اور رنگوں اور لکیروں کے نقشوں اور علامتوں کی روایات بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ سب ہندوستان کے کلچر کی گہرائیوں میں پیوست ہیں۔ ان کے مطالعے سے قدیم عقائد اور توہمّات کے ساتھ قدیم احساسِ جمال کی بھی پہچان ہو گی۔ جمالیات کے تعلّق سے بعض رنگین نقشے بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ احساسِ حُسن کی پہچان کے لیے بعض بنیادی خصوصیات بہت اہم بن جاتی ہیں۔ کچھ نقشے سادہ ہوتے ہیں اور اکثر بہت حد تک پیچیدہ ! عورتیں صبح اُٹھ کر اپنے دروازوں پر اپنے شوہر اور بچّوں کی صحت اور خوشیوں کے لیے ’رنگولی‘ سجاتی ہیں۔ دیوی، دیوتا جب صبح سویرے گھر کے اندر قدم رکھیں تو وہ اپنے پیکروں کو پہچان لیں۔ ایسے نقشوں پر قدم رکھ کر اندر آئیں۔ گھر کی عورت کی آرزو جان لیں اور اُسے پوری کریں۔ یہ رنگین لکیریں اور صورتیں بھگوان بن جائیں۔ علامتوں کے وجود میں آتے ہی ان میں جذب ہو جائیں۔ محسوسات کی دنیا اس طرح پھیلی کہ خود یہ رنگین لکیریں اور علامتیں بھگوان بن گئیں۔ کوئی علامت لکشمی بنی تو کوئی وشنو ؔ!!

’رنگولی‘ کے چند عوامی پیکر یہ ہیں:

 

 

 

ہندوستان میں عوامی احساسِ جمال نے صرف مندروں اور بدھ خانقاہوں کو حسن نہیں بخشا بلکہ اپنے گھروں کو بھی سنوارا سجایا اور انہیں بھی اپنے احساسِ جمال کا تقدّس عطا ہندوستان کے ساحلی علاقوں میں یہ روایات ابھی بھی زندہ اور متحرّک ہیں۔ تمل ناڈ میں ’کولمؔ ‘ (KOLAM) ہو یا گجرات میں رنگولی! بنگالؔ اور آسامؔ اَل پنا (ALPANA) ہو یا بہار میں ’آری پنا‘ (ARIPANA) سب ان ہی روایات سے وابستہ ہیں۔ کیرالا (کولم) مہاراشٹرؔ (رنگولی) راجستھانؔ (من ڈنا۔  (MANDANA) ) اور آندھرا پردیش (موگولو (MUGLU) ) میں یہ روایات آج بھی بہت متحرک ہیں۔ علاقائی تجربوں کا اختلاف بھی توجّہ طلب ہے اس لیے کہ یہ سب اس بڑے ملک کے جمالیاتی تجربوں کی خصوصیتوں کو اپنے اپنے انداز سے پیش کرتے ہیں۔ ہر علاقائی جمالیاتی تجربے کے پس منظر میں تمدّنی تہذیبی قدروں کی بنیادی اور امتیازی خصوصیات موجود ہیں جو مختلف مذہبی اور ثقافتی روایات کی خبر دیتی ہیں۔ خاکہ نگاری اور رسومات کی رنگا رنگی کی آمیزش کے جلوے توجّہ طلب ہیں۔ ساحلی علاقوں میں آج بھی جذباتی اظہار کی وسعتوں کے لیے روزانہ یہ عمل جاری ہے خاکوں میں قدیم مذہبی اور تمدّنی علامتیں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دوسری صدی عیسوی میں چولاؔ خاندان میں ’رنگا ولی‘ یا ’کولم‘ کو بہت اہمیت دی گئی۔ راج درباروں سے مندروں تک اور مندروں سے عوام کے گھروں تک ’کولمؔ سجائے جانے لگے۔ انفرادی اور اجتماعی مذہبی اور ثقافتی تجربوں کو پیش کیا جانے لگا۔ اس قدیم رنگین عوامی فن کے پس منظر ’ینتروں‘ اور ’منڈلوں‘ کی روایات ہیں۔ کائنات اور داخلی توانائی کے رشتے نے اِس فن کو بڑی تقویت بخشی ہے۔ رفتہ رفتہ ’یوگ‘ کے اثرات بھی ہونے لگے اور ’کولمؔ‘ ’رنگولی‘ ’’رنگا ولی‘‘ اور ’’موکولو‘‘ وغیرہ میں یوگ کے تعلق سے علامتیں بھی مختلف صورتوں میں اُبھرنے لگیں۔ دیوی دیوتاؤں کے حسِّی پیکروں کی علامتیں بہت اہم بن گئیں۔ آنگن ہو یا پوجا گھر، رسوئی ہو یا تلسی کی عبادت کرنے کی جگہ دیواریں ہوں یا درختوں کے نیچے کی دھرتی ہر جگہ عوامی احساسات اور جذبات کے نقشے اور لکیریں اُبھرنے لگیں۔ اب تو ’رنگولی‘ یا ’کولم‘ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر آ گئی ہے۔ ابتدائی دور میں جب پہلی بار کائنات اور دھرتی اور انسان کے خوبصورت رشتے کی وحدت کا احساس پیدا ہوا ہو گا۔ اُس وقت معلوم نہیں کس قسم کے خوبصورت نقشے اور حسین اقلیدسی صورتیں اُبھری ہوں گی لیکن آج مختلف موسموںاور مختلف واقعات کے پیشِ نظر جو ’کولم‘ یا ’رنگولی‘ سجائی جاتی ہے اُن کا مشاہدہ کرتے ہوئے یہ یقیناً محسوس ہوتا ہے کہ فطرت کی قوتوں کو بیدار کرنے اور اچھے موسموں کے آنے کے وقت ’رنگا ولی‘ سجاتی جاتی ہو گی۔ مثلاً آج بھی بہار کی آمد بہت اہمیت رکھتی ہے اور اس کا استقبال ’رنگولی‘ سے ہوتا ہے۔ اچھی بارش اور اچھی فصل کی آرزو لے کر بھی ’رنگولی‘ بنانے کا رواج موجود ہے۔ ہر واقعے کے لیے اُس کے مطابق مجرّد علامتیں ملتی ہیں۔ شادی بیاہ، بچّوں کی پیدائش اور مہمانوں کے استقبال کے لیے ’رنگولی‘ سجانے کا رواج بہت پُرانا ہے۔ مختلف واقعات کے لیے رنگولی کی تکنیک بھی مختلف ہوتی ہے اور ساتھ ہی ’موتف ‘ (MOTIFS) میں بھی تبدیلی ملتی ہے۔ ’رنگولی‘ یا ’کولم‘ وغیرہ کے اسالیب میں حد درجہ تجریدیت ہے۔ نقطےؔ، لکیریںؔ، مربعےؔ، دائرےؔ اور زاویےؔ اور کنول یا پاؤں کے نشانات، علامتی سواستیکا، چاندؔ، ستارےؔ، سورجؔ سب پُر اسرار سرگوشیاں کرتے ہوئے جمالیاتی انبساط اور جمالیاتی آسودگی عطا کرتے ہیں۔ پتّوں، درختوں، پھولوں، پودوں، پرندوں اور جانوروں کی بھی جانے کتنی علامتیں ملتی ہیں۔ اس خوبصورت رنگین فن میں رنگوں کے عوامی احساس کے ساتھ دو بڑی دیویاں اپنی علامتوں کے ساتھ شامل ہوئیں۔ دولت کی دیوی لکشمیؔ کے پاؤں کے نشانات جلوے بنے۔ دو منسلک زاویوں اور کنول کے چوبیس پتوں سے لکشمیؔ کے مجرد پیکروں کو اُبھارا گیا۔ سرسوتیؔ جو علم کی دیوی ہیں وہ بھی دو منسلک زاویوں لیکن کنول کی سولہ پتوں کے ساتھ اپنی مجرد صورت میں آتی ہیں،کبھی کنول کے پتے نہیں ہوتے بس ایک ’نقطہ‘  ڈال دیا جاتا ہے جو اپنی فطرت میں ایک روشن اور شعاعیں عطا کرنے والا ہمہ گیر دائرہ ہے۔ عظیم دائرے کے ارتقاء اور اس کی وسعتوں کو ایک نقطے سے سمجھا دیا جاتا ہے۔ درگاؔ کے مجرد پیکر اور حسی تصور کو عموماً ’سواستیکا‘ کی علامت میں پیش کیا جاتا رہا ہے، ’سواستیکا‘ خوبصورت اور رنگین لکیروں اور دائروں میں اٹھارہ لفظوں میں ہوتا ہے۔ نو نقطے عمودی (VERTICAL)  ہوتے ہیں اور دوسرے نو اُفقی (HORIZONTAL) ! [ درگا کے نو نام ہیں! ] درگاؔ کے لیے جو ’رنگاولی‘ سجائی جاتی ہے اُسے عام طور پر نو دن رکھا جاتا ہے ۔

’رنگاولی‘ میں شیوؔ کا حسّی پیکر بھی شامل ہوا اور مختلف اقلیدسی صورتیں مختلف رنگوں میں جلوہ گر ہونے لگیں۔ شیوؔ کی علامت کی پہچان مشکل نہیں ہوتی۔ نٹ راج کے رقص کے کئی چکر دائروں میں نظر آتے ہیں، دائروں کے اندر مربعے بھی ہوتے ہیں جو غالباً رقص کی معنویت کی پیچیدگیوں کو سمجھاتے ہیں، عموماً کئی لکیروں کے نشیب و فراز نظر آتے ہیں جو زندگی کے وسیع سمندر کی تیز تر لہروں کو سمجھاتے ہیں۔ ’سوریہ‘ (سورج دیوتا) کو دائروں کے چکر سے سمجھایا گیا ہے۔ علاقائی دیویوں اور دیوتاؤں کے حسّی پیکر بھی اہمیت رکھتے ہیں مثلاً بنگال میں ’منو سا (MANOSA) دیوی کی عبادت ہوتی ہے جو سانپوں اور ناگوں کی دیوی ہیں لہٰذا ناگ پنچمی کے تہوار کو مناتے ہوئے مختلف قسم کی ’رنگولی‘ سچائی جاتی ہے اور ناگ کے پیکروں سے منوساؔ دیوی کی مجرد تصویر اُبھاری جاتی ہے۔ مدھیہ پردیش میں مربعوں کے ذریعہ مقامی دیوی اور مقامی دیوتاؤں کی مجرد تصویریں بنتی ہیں۔ پالانی ؔ (PALANI)  کے ڈھول کے نقش کو مربعوں سے اُبھارا جاتا ہے۔

راجستھانی ’مندانا‘ (MANDANA) میں نیلے رنگ کی شدت ملتی ہے۔ سبز اور سیاہ رنگوں کے درمیان نیلے رنگ کی تیزی جاذبِ نظر بن جاتی ہے۔ تمل ناڈ کے ’’کولم‘‘ میں سرخ رنگ زیادہ اہم ہے۔ کیرل میں پھولوں کو سجا کر مختلف رنگوں کے تئیں بیدار کیا جاتا ہے۔  مدھیہ پردیش میں پھلوں کے رنگوں کو اہمیت دی جاتی ہے اور سبزیوں کے مختلف رنگوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔

مختلف علاقوں کی تصویر کاری کے پس منظر میں ’منڈل‘ ، ’ینتر‘ اور ’رنگاولی‘ کی قدیم روایات نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ قبائلی تصویر نگاری اور جدید عہد تک اس کی روایات کا ابھی بہتر مطالعہ نہیں ہوا ہے ورنہ قبائلی احساس جمال کو اب تک ہندوستانی جمالیات میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہو چکی ہوتی، قبائلی جمالیات نے بھی لکیروں، نقشوں اور رنگوں کے ساتھ اساطیری نقوش کی ایک بڑی انجمن سجائی ہے۔ قدیم قبائلی تصویر نگاری میں مختلف عقائد اور رسومات نے اپنے رنگ بھرے ہیں۔ لوک کہانیاں اپنے پیکروں اور رنگوں کے ساتھ نمایاں ہوئی ہیں۔ تجریدی اور نیم تجریدی رنگین نقوش جلوے بنے ہیں۔ آج بھی مٹی کے گھروں کی دیواروں پر رنگین تصویریں بنائی جاتی ہیں جو قدیم اور قدیم ترین قبائلی جمالیاتی روایات کی خبر دیتی ہیں۔ جھونپڑیوں کی مٹی کچھ دیواریں ’رنگا ولی‘ کی خصوصیات کے ساتھ سجائی جاتی ہیں۔ قبائلی زندگی میں مقامی دیویوں اور دیوتاؤں ، درختوں، پودوں، مکانوں کھیتوں، پرندوں اور جانوروں کے دلچسپ رنگین پیکر ملتے ہیں۔ رنگوں کو تیار کرنے کے اپنے پرانے طریقے ہیں جن میں گوبر کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ قبائلیوں نے اپنے رقص کے مختلف انداز کو ہمیشہ عزیز رکھا ہے اسی طرح اپنی چھوٹی چھوٹی پرانی کہانیوں کو زندہ رکھا ہے۔ دیواری تصویروں میں رقص اور کہانیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ دیوی دیوتاؤں کے جلال و جمال اور عقل مند جانوروں اور پرندوں کے جانے کتنے قصّے رنگین تصویروں میں نمایاں ہوئے ہیں، بعض قصوں اور کہانیوں کی علامتیں وجود میں آ گئی ہیں اور یہ علامتیں ذہن کو پرانی کہانیوں تک لے جاتی ہیں۔ تمدنی اور تہذیبی زندگی کے ارتقاء کے ساتھ دوسرے علاقوں کے قصّے بھی شامل ہوتے گئے ہیں، رامائنؔ، مہا بھارتؔ اور ’پنچ تنتر‘ کے کردار بھی آئے ہیں۔ ’عورت‘ تخلیقی توانائی کا مرکزی پیکر بن گئی ہے، روزانہ زندگی کے واقعات اور حادثات بھی شامل ہوتے رہے ہیں، بعض علاقوں میں مٹی کی دیواروں پر مقامی عظیم ماں بہت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ ’عظیم ماں‘ کا رنگیں پیکر نقش ہو جاتا ہے تب ہی شادی ہوتی ہے۔ اچھی فصل کے لیے بھی ان کی تصویر بنا کر عبادت کی جاتی ہے۔ کھیتوں میں بیج ڈالنے سے قبل ان سے دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ گجراتؔ میں ’’رتھوا قبیلے‘‘ (THE RATHVAS) کے فنکار اسی طرح اپنی تصویر نگاری کی قدیم روایات کو عزیز رکھتے ہیں کہ جس طرح مدھیہ پردیشہ کے بھیلؔ (BHILALAS) قبلے کے فن کار! چھوٹاؔ ناگپور (بہار) کے قبائلی فنکاروں کی بھی اپنی رنگیں تصویر کاری کی روایات ہیں۔‘ ’’رتھوا قبیلے‘‘ کے فن کاروں نے جو تصویریں بنائی ہیں اور اُن میں جو رنگ بھرے ہیں وہ تحرک (MOVEMENT) کو پیش کرتے ہیں، اُن کے دو دیوتا ’’بابو اند‘‘ (BABOIND) اور ’’بابو پھتر BABOPITHRO حد درجہ متحرک حسّی پیکر ہیں۔ جو تصویروں میں قدیم قصّوں کی اساطیری خصوصیتوں کو لیے ہوئے ہیں۔ گھروں کو تصویروں سے سجانے اور انہیں مناسب رنگ دینے کی روایات بہت قدیم ہیں۔ گھروں کی دیواروں پر قدیم کہانیاں اپنے رنگوں کے ساتھ مکمل طور پر نقش ہوتی رہی ہیں، دیواروں کی رنگین تصویریں محض آرائش و زیبائش کے لیے نہیں ہیں بلکہ نسلی اور اجتماعی تجربوں کو بھی لیے ہوئے ہیں، لہراتی ہوئی لکیریں ہوں یا رنگین اقلیدسی نقشے، سب اپنی معنویت کو لیے ہوئے ہیں اور نسلی اور اجتماعی تجربوں کی خبر دیتے ہیں۔

ہندوستانی مصوری پر قبائلی اور علاقائی تصویر کاری کی انگنت جہتیں اثر انداز ہوئی ہیں۔ غالباً اس لیے بھی کہ علاقائی اور قبائلی مصوری اجتماعی شعور اور اپنے کلچر کی پیداوار ہوئی ہیں۔ غالباً اس لیے بھی کہ علاقائی اور قبائلی مصوری اجتماعی شعور اور اپنے کلچر کی پیداوار ہے۔ قبائلی مصوری میں ہندوستان اپنے مختلف رنگوں کے ساتھ ملتا ہے، ’صورت‘ جامد نہیں ہوتی متحرک ہوتی ہے، پیکر اپنے عمل کو نمایاں کرتے ہیں، ابتدائی فکر کی زرخیزی توجہ طلب بن جاتی ہے۔ ’’زمین، عورت، مرد، بچے، جانور، کھیت، کھلیان، کسان اور بادل، زندگی کی تخلیق، ہل بیل، اور زندگی اور موت وغیرہ ہر جگہ بنیادی موضوعات رہے ہیں۔ زندگی کے جانے کتنے مظاہر مختلف لکیروں، نقشوں، پیکروں اور رنگوں میں نمایاں ہوئے ہیں۔ چھوٹا ناگپور کے قبائلی حلقوں میں قدیم

کہانیاں اور لوک کہانیاں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ کہانیاں رقص میں بھی پیش ہوتی ہیں اور تصویروں میں بھی، دیواروں پر مختلف لکیروں اور رنگوں سے تصویریں بنانے کا رواج یہاں بھی بہت قدیم ہے۔ بنگال، بہار، اور اڑیسہ کے ’سنتھال‘ ’بھومج‘ ’منڈا‘ اور ’اڑاؤں‘ قبیلوں کو لکیروں اور رنگوں کی ایک بڑی میراث حاصل ہوئی ہے۔ دیواروں پر تجریدی اور نیم تجریدی اور واضح اور صاف تصویریں بنانے کا رواج آج بھی موجود ہے، رنگوں کے انتخاب میں اجتماعی شعور کی کار فرمائی توجہ طلب ہے۔ اقلیدسی نقوش بھی انہوں نے ماضی سے حاصل کیا ہے جن میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔‘ مچھلیاں اور پھول اور پتّے اقلیدسی نقوش کی بنیاد ہیں، ان کی تصویر نگاری مادی زندگی میں پیوست ہے۔ تخئیلی جانور اور پرندے نہیں ملتے۔‘ وہی جانور اور پرندے نقش ہوتے ہیں جو حقیقی ہیں، جنہیں وہ دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں، مختلف قسم کے سماجی موضوعات توجہ طلب بن جاتے ہیں۔ رقص کی اداؤں اور رقص کے تحرک کی ان گنت تصویریں ملتی ہیں جو اپنے رنگوں کی زرخیزی سے زندگی کی مسرتوں اور لذتوں کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ ’تیر کمان‘ ’دستور‘ ’ہرن‘ ’شیر‘ اور ’دولہا دلہن ‘ وغیرہ بھی ہمیشہ بنیادی موضوعات بنے رہے ہیں۔ دیواری تصویروں کے ساتھ صحن میں بھی رنگین تصویریں، پھولوں اور پتوں کی صورتوں میں اُبھاری جاتی ہیں لیکن پھول اور پتے بہت حد تک تجریدی ہوتے ہیں۔ دائروں ، مربعوں، زاویوں اور لہراتی ہوئی لکیروں میں موضوع پوشیدہ رہتا ہے۔ دائروں کی تعداد اکثر اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ پہلا تاثر یہ ہوتا ہے جیسے ہم کسی پھول کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

چھوٹے قبیلوں اور اُن کی برادری اور خاندان کے مختلف حلقوں کی اپنی اپنی علامتیں ہوتی ہیں اور یہ علامتیں عموماً جنگلوں کی زندگی سے رشتہ رکھتی ہیں۔ درخت پودے، پرندے، جانور، سانپ کچھوے اور بھینس وغیرہ کی علامتیں ’قبائلی علامتوں‘ (CLAN SYMBOLS) کی صورتوں میں ملتی ہیں، اگر کوئی قبیلہ یا کسی قبیلے کی کوئی برادری کسی خاص درخت یا کسی مخصوص جانور کو عزیز رکھتی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا تعلق اُن کی روایات اور اُن کی لوک کہانیوں سے بہت ہی گہرا ہے، بعض درخت اور جانور اتنے عزیز ہیں کہ ’’تیبو‘‘ (TABOOS)  بن گئے ہیں۔ انہیں کاٹنا یا مارنا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ تہواروں پر ان کی رنگین تصویریں ابھاری جاتی ہیں۔ وقت کے ساتھ ان کی علامتی اہمیت کم ہوتی گئی اور ان کی حیثیت ’موتف‘  (MOTIFS) کی رہ گئی ہے۔ قبائلی فنکار آرائش و زیبائش کے لیے ان کے رنگین پیکر ابھارتے ہیں۔ رامائنؔ، مہا بھارتؔ اور پنچ تنترؔ کے کردار بھی ان میں شامل ہو گئے ہیں۔

ہندوستان میں دیواری تصویروں کی جو داستان غاروں سے شروع ہوئی، وہ مختلف قبیلوں کے گھروں کی دیواروں تک آئی ہے اور اس کے بعد، محلوں اور قلعوں کی دیواروں پر رنگین تصویریں ابھری ہیں!

ملک کے بعض علاقوں میں ’سرخ رنگ‘ کے گرد عورتوں کے رقص کی روایت رہی ہے۔ کہا جاتا ہے جب مندروں پر اونچی ذات کے لوگوں کا قبضہ ہو گیا تو کھیتوں اور کھلیانوں کے قریب ہزاروں چوزوں کی قربانی کے بعد اُن کے لہو کے گرد عورتوں نے رقص کرنا شروع کیا، یہ رقص ہی عبادت بن گیا۔ وقت کی تبدیلی نے قربانی کا سلسلہ ختم کر دیا تو سرخ کپڑوں کے گرد رقص شروع ہو گیا۔ ‘ آج بھی جنوبی ہند کے بعض علاقوں میں سرخ کپڑوں کے گرد رقص موجود ہے، بعض تہواروں میں ’دیوی‘ کی خوشنودی کے لیے ایسے رقص کے مناظر ملتے ہیں۔ کیرلؔ کے ایک مشہور تہوار ’کودن گلّر (KUDUNGALLUR) میں عموماً ایسے رقص پیش کیے جاتے ہیں۔ پتّوں (PALM LEAVES)  پر تصویریں بنانے کی روایت بھی بہت پرانی ہے۔ تصویریں ابھارنے کا عمل اتنا مشکل نہ تھا جتنا کہ انہیں مختلف رنگوں سے مزّین کرنے کا عمل مشکل تھا، اُڑیسہ میں اس روایت کی خبر پندرھویں صدی سے ملتی ہے۔ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی اس کی روایت موجود ہے، فنکاروں نے سیاہ حاشیوں کے درمیان متحرک اور غیر متحرک تصویروں میں ایک ساتھ کئی رنگوں کو شامل کیا ہے،’سیاہ‘ سبز، سرخ، زرد اور سفید بنیادی رنگ رہے ہیں۔ پتوں پر جو زائچے (HOROSCOPES) بنائے گئے ہیں اُن میں بھی بعض شوخ رنگوں کا استعمال ملتا ہے۔ منقش تختوں پر بنی ہوئی تصویروں PANALPAINTINGS اور دیواری تصویروں (PATA-CITRA) میں رنگوں کا احساس توجہ طلب ہے۔ مختلف علاقوں کی تصویروں، خاکوں اور رنگوں کے اسالیب مختلف ہیں لیکن مقامی اسلوب اپنی بنیادی خصوصیات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے۔ مثلاً اُڑیسہ میں تصویروں اور رنگوں کا ایک ہی اسلوب ’کینوس‘ میں ابھرتا رہا ہے منقش تختوں اور دیواری تصویروں ’زائچوں‘ لپٹے ہوئے کاغذوں یا طوماروں (SCROLLS) میں جو اسلوب ہے وہی نقلی چہروں یا مصنوعی چہروں (MASKS) زیورات کے صندوقوں اور دیوی دیوتاؤں کے پیکروں میں ملتا ہے۔ مٹھوں اور مندروں کی دیواریں بھی بنیادی اسلوب کو نمایاں کرتی ہیں، لوک کہانیوں کے واقعات اور کردار مختلف رنگوں کے ساتھ نقش ہوتے رہے ہیں۔ مصوّری اور رنگوں کے فن کا رشتہ انتہائی قدیم روایات، مذہبی تصورات اور اسطوری واقعات سے قائم ہے۔ ’اڑیسہ اسٹیٹ میوزیم‘ میں ’گیتا گونبدا‘ (GITA GOVINDA) آمارو  (AMARU)  ’مادھوا‘ (MADHOVA) ’ستاکا‘ (SATAKA)  وغیرہ کے جو منقش رنگین نسخے دیکھے اُن سے تصویروں اور رنگوں کے تعلق سے اپنی قدیم متحرّک روایات کی خبر ملی۔ ’آمارو‘ کے سینکڑوں اشعار کو پتوں پر تصویروں میں نقش کیا گیا ہے۔ مصوّر کی تخلیقی صلاحیتوں کا جس طرح اظہار ہوا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے، فن کار کے تخیل کی شادابی کے رنگین مناظر جذبات اور عمل میں نمایاں ہوئے ہیں۔ ’انتظار‘ ’ہم آغوشی‘ ’شادی سے قبل معاشقہ‘ الوداع کہنے کا لمحہ ‘  ۔ یہ غیر معمولی مناظر ہیں جو متحرک پیکروں اور غیر متحرک صورتوں کے رنگوں کو احساس اور جذبے کی علامتیں بنا دیتے ہیں۔ جے دیوؔ (بارہویں صدی) کی تخلیق ’’گیتا گوندا‘‘ یا ’گیتا گوندم‘ کے منقش نسخوں کے رنگ بھی توجہ طلب ہیں۔ تصویروں اور رنگوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پتّوں پر نقش گری اور رنگ آمیزی کی روایات کتنی قدیم ہوں گی کہ ایسے رنگین پیکر اُبھرے ہیں۔ فنکاروں کی تخلیقی صلاحیتوں اور ان کی تخیل نگاری نے اس فن میں جدّتیں بھی پیدا کی ہیں اور روایات کی نئی تشکیل بھی کی ہے۔ ’گیتا گوبندا‘ کرشن کا نغمہ ہے جس نے اپنی سحر انگیز کیفیتوں سے ہندوستانی فنون کو شدّت سے متاثر کیا ہے۔ اس کا موضوع مختلف علاقوں کے فنکاروں کو بھی عزیز رہا ہے۔ ‘‘ اڑیسہ اسٹیٹ میوزیم‘‘ میں میں نے جو نسخہ دیکھا ، وہ اپنی جمالیاتی خصوصیات کے پیش نظر بہت اہم ہے۔ ایک بڑی بنیادی خصوصیت پیکروں اور رنگوں کا تحرک ہے۔ لکیروں خاکوں، اور رنگوں کی وحدت سے تحرک کی توانائی پیدا ہوئی ہے۔ جنگوں کے مناظر ہوں یا رادھا اور کرشن کے ملاپ کے مناظر، جانوروں، درختوں، پھولوں اور تالاب کی جھیلوں کے پیکر ہوں یا جمنا کے کنارے گائے اور درختوں پر چڑھتے ہوئے بندروں کی تصویریں، تحرک اور تحرک کی توانائی کا جمالیاتی احساس ملنے لگتا ہے۔ تالاب میں کھلتے ہوئے کنول کا جمالیاتی احساس جس طرح پیدا کیا گیا ہے اُس کی مثال آسانی سے نہیں ملے گی، اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فنکاروں اور فطرت کے پیکروں اور رنگوں کا رشتہ کتنا گہرا اور تہِ دار تھا، اس دستاویز میں فطرت کے تعلق سے ’نئی تخلیق‘ کا عمل ہر جگہ توجہ طلب بنتا ہے۔ دو جمالیاتی جہتوں میں عموماً بات کہہ دی گئی ہے، چھوٹے سے کینوس (PALM LEAVES) میں کہانیوں کا منظری بیان ہندوستانی جمالیات کی تاریخ میں ایک امتیازی نشان بن جاتا ہے۔ اگر پتّوں پر لکھی ہوئی نظم نہ پڑھی جائے تو یہ رنگین تصویریں نظم بن جاتی ہیں اور جمالیاتی آسودگی عطا کرنے لگتی ہیں۔ پتّوں پر منقّش تصویریں جہاں متھ، روایت، اور رسم و رواج کے تئیں بیدار کرتی ہیں وہاں اسلوب ، تکنیک، موتف، اور رنگوں کے فنکارانہ انتخاب اور استعمال سے بھی آشنا کرتی ہیں۔

دکنؔ میں بیانیہ مصوّری (NARRATIVE PAINTINGS) کی روایت بہت قدیم ہے، نرمداؔ(NARMADA)  اور کرشنا ؔ (KRISHNA) ندیوں کے کنارے قدیم آبادی نے مصوّری کی جو روایت قائم کی اس کا سفر صدیوں میں جاری رہا ہے۔ قصّوں اور کہانیوں کو مصوّری میں بیان کیا جاتا رہا ہے۔ ابھی حال میں تلنگانہؔ بیانیہ مصوری کے جو نمونے دریافت ہوئے ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہے کہ دکن میں یہ روایات کتنی قدیم رہی ہے۔ رنگوں کا غیر معمولی احساسِ توجہ طلب بن گیا ہے، مقامی صورتیں تیز تر رنگوں کے ساتھ نمایاں ہیں۔ ’قلم کاری‘ اور ’طومار‘ اور ’دیوار‘ کا تعلق بہت پرانا ہے۔ دکن میں طومار (SCROLL)  کو منقش کرنے کا جمالیاتی ذوق رہا ہے۔ سولہویں صدی کی دیواری تصویروں کے پیچھے ان روایات کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ’’روایتی تصویریں اظہار‘‘ کا سلسلہ صدیوں قائم رہا۔ قدیم بُدھ اور جینؔ آرٹ میں اسے بڑی اہمیت حاصل ہوئی ۔ برہمنوں نے بھی اس فن کی ترقی میں بڑا حصہ لیا ہے ’پت چتر‘  (PATA CHITRAS) اور ’یام پت ‘ (YAMA PAT)  وغیرہ اسی فن کے نام رہے ہیں۔ مذہبی اور جمہوری اور سیکولر موضوعات کو منتخب کیا گیا اور انہیں مختلف قصّوں اور کہانیوں میں مختلف پیکروں اور رنگوں سے اجاگر کیا گیا، بہار، راجستھان، گجرات اور بنگال میں یام پت اور پت چتر کی روایات ملتی ہیں۔ اساطیری قصّوں کو تصویروں اور اُن کے رنگوں میں پیش کرنے کی ایک طویل داستان مختلف ادوار میں موجود رہی ہے۔ بیانیہ رنگین تصویریں کپڑوں پر بھی بنائی جانے لگیں۔ بدھ تانتر اور جین تانتر کے موضوعات خاص طور پر نقش ہونے لگے۔ ’زندگی‘ ’چکر‘ حیات و موت‘ ’جنت اور جہنّم‘ ’محنت اور مشقت‘ جدو جہد اور قربانی، اور دوسرے کئی موضوعات طومار اور کپڑوں پر ملتے ہیں۔ ’پرانوں کی کہانیاں بھی مختلف پیکروں اور رنگوں میں اجاگر ہونے لگیں۔ طوماروں اور کپڑوں پر جو رنگین تصویریں بنی ہیں

 

وہ اُفقی (HORIZONTAL) بھی ہیں اور عمودی (VERTICAL) بھی، لیکن عمودی تصویریں زیادہ بنی ہیں۔ عمودی طوماروں میں کہانی اوپر سے نیچے کی جانب آتی ہے اور اپنے مختلف تیز اور شوخ رنگوں سے متاثر کرتی ہے۔ اُفقی طوماروں میں تصویریں عموماً دو حصّوں میں تقسیم ہیں، جہاں قصّہ یا واقعہ رکتا ہے وہاں عموماً کوئی درخت بنا دیا جاتا ہے۔ مختلف علاقوں کے فنکاروں نے اپنی روایات کو منتخب کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ عوامی دلچسپی قائم رہے، واقعات کا انتخاب کرتے ہوئے اپنے قبیلے کے عقائد رسومات اور اپنی ’ذات‘ (CASTE) کی اسطور کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ اپنے دیوتاؤں کے نقش اُن کے مخصوص رنگوں کے ساتھ اُبھارے ہیں۔ طوماروں اور کپڑوں پر سرخ رنگ مرکزی رنگ رہا ہے۔ عموماً پس منظر بھی سرخ رنگ میں ابھرا ہے، ایسی تمام تصویروں کے پیکروں کے آہنگ میں رنگوں نے نمایاں حصّہ لیا ہے۔ رامائنؔ اور مہا بھارت کے واقعات کے شامل ہوتے ہی رنگوں کے تحرک کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔

جس کی کوئی ’صورت ‘ (FORM)  نہیں ہے، عابد اسے اپنے خیال اور تصوّر سے ’صورت‘ دے سکتا ہے، یہ صورت آہستہ آہستہ الوہی خصوصیتوں کے ساتھ ذہن پر نقش ہو جاتی ہے اور عابد اپنے تصور کے مطابق ان کی تصویر بنا دیتا ہے، اس قدیم عقیدے نے ’دھیان‘ (DHYAN)  کو بڑی اہمیت دی اور یہ بتایا کہ ہر شخص کا اپنا تصور اور خیال ہوسکتا ہے لہٰذا ’صورت‘ اُسی خیال کے مطابق جنم لیتی ہے، صورتوں کے اختلاف کی وجہ یہی ہے کہ مختلف دھیانی مختلف اندازے کسی دیوی یا دیوتا کی صورت کے متعلق سوچتے ہیں، ایک شخص اپنے دھیان کے مطابق فارم یا صورت کی تخلیق کرتا ہے، ایک ہی دیوی یا ایک ہی دیوتا کی مختلف صورتیں اسی وجہ سے وجود میں آئیں، اُلوہی خصوصیات کے تعلق سے بھی احساسات مختلف رہے۔‘ ’دھیانی‘ صرف فارم یا صورت ہی خلق نہیں کرتا بلکہ رنگوں کا انتخاب بھی کرتا ہے۔ دیوی دیوتاؤں کے اپنے بنیادی رنگ پیکروں کا احساس دیتے ہیں پہاڑی مصوّری میں ’دیوی‘ کے جانے کتنے رنگ ملتے ہیں اور یہ ’دھیان منتر‘ کا کرشمہ ہے جو ذہن کو کسی خاص رنگ کی جانب لے جاتا ہے اور کبھی عبادت کے بول اور اشلوک سے رنگ پیدا کرتا ہے کبھی آواز سے رنگ خلق کرتا ہے اور کبھی عبارت کے لمحوں کے نغمے کے آہنگ سے رنگ کا شعور عطا کر دیتا ہے، رفتہ رفتہ مختلف دیویوں اور دیوتاؤں کی تخلیق کے لیے مختلف ’دھیان منتر‘ وجود میں آ گئے۔ پہاڑی مصوّری میں ’دیوی‘ یا ’عظیم ماں‘ کے ساتھ رنگ بہت نمایاں ہیں۔ ’دیوی‘ کے عمل میں تصوّر کے مطابق خاکہ ابھرتا ہے اور ان کی شخصیت کے مطابق رنگ جنم لیتا ہے۔ ’عظیم ماں‘ کا رنگ اس دیوی کے رنگ سے مختلف ہے جو صرف کسی کے گھر کا تحفظ کر کے اس گھر کو خوشیاں عطا کرتی ہیں۔ صبح سے شب تک کے رنگ دیوی کے مختلف پیکروں میں شامل ہیں۔ صبح کاذب کا رنگ اپنا جلوہ رکھتا ہے، دیوی اس رنگ میں بھی آتی ہیں۔ جب روشنی پھیلتی ہے اور صبح اور دوپہر کے درمیان کا رنگ ابھرتا ہے تو دیوی کا رنگ ہی دوسرا ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح دیوی دوپہر سہ پہر، شام اور رات کے رنگوں کے ساتھ نظر آتی ہیں۔ مختلف اوقات کی دیویوں کے رنگوں میں تخیل اور تخلیقی تخیل کے کرشمے غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔ ’شکتی‘ تخلیقی توانائی کا رنگ بکھیر دیتی ہے کہ جن سے ’پرش‘ (PURUSH)  اور ’’پراکرتی‘‘  (PRAKRITI) میں زبردست تحرک پیدا ہو جاتا ہے،اسی طرح مہا لکشمیؔ، مہیشوریؔ اور مہا سرسوتیؔ کے اپنے اپنے رنگ ہیں۔ اور ہر رنگ ایک نغمہ ایک کہانی ہے، سحر انگیز فسانہ ہے! ہر دیوی کا اپنا جمال ہے، اپنا جلوہ ہے لکشمیؔ نو جوان ہیں، رخسار حد درجہ پر کشش ہیں، لب سرخ ہیں، ابرو کمان کی مانند ہیں، زیورات پہنے ہوئی ہیں، گول مٹول خوبصورت چہرہ اپنے دلکش بالوں کے ساتھ نظر آتا ہے ، سنہرے رنگ کا پیکر ہیں جو کنول کے خوبصورت تخت پر جلوہ گر ہیں۔ جب دودھ کے سمندر سے باہر آئیں تو سارے دیوتا اُن کے جمال کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے اور لگے بے اختیار رقص کرنے! وہ نہا کر آئیں تو وشنو کے وجود میں جذب ہو گئیں اور اپنے وجود کا رنگ لیے وشنوؔ کے وجود کے رنگوں میں شامل ہو گئیں۔!

وشنوؔ ہر عہد میں، عہد کا رنگ لئے آتے ہیں تو لکشمیؔ بھی اپنے جمال کے ساتھ اُن کے قریب ہوتی ہیں۔ وہ ’ماں‘ بھی ہیں اور عابدہ بھی، محبوب بھی ہیں اور عاشق بھی! اور اس طرح وہ کئی رنگوں کو لئے ہوئی ہیں۔ وہ قربانی، شہرت، عظمت، خوشحالی، سب کی علامت ہیں ۔  پودوں کے اندر بھی رہتی ہیں اور دھرتی کے نیچے بھی، کھیتوں اور جنگلوں میں بھی ہیں اور نیک کردار لوگوں کی فطرت میں بھی، چاول اور گیہوں کے دانوں میں چھپ کر مسرتیں لٹاتی رہتی ہیں، زرخیزی کی علامت ہیں۔ کنول کے خوبصورت تخت پر بیٹھی رہتی ہیں، اُن میں تمام دیویوں کے جلوؤں کے رنگ شامل ہیں، عوامی ذہن نے انہیں غالباً سب سے پہلے کھیتوں میں محسوس کیا تھا، آج بھی یہ عقیدہ ہے کہ وہ اناج کی دیوی ہیں، کھیتوں اور کھلیانوں میں اُن کا رنگ گندمی ہے اور اُن کا نام’ دھنیا مالی‘ (DHANYAMALI) ہے۔ ہندوستان کے گاؤں اور دیہاتوں میں اُن کی عبادت ’دھنیا مالی‘ کی صورت میں ہوتی ہے جو اناج کے وجود اور تخلیق کی ذمہ دار ہیں۔ کھیتوں کے قریب ان کے اپنے مندر ہیں، اناج کی کٹائی کے وقت ان کی عبادت ضروری ہے۔

’دروپدی ماں‘ عموماً محبوب شوہر ارجن کے ساتھ نظر آتی ہیں اور ان کا بنیادی رنگ سُرخ ہے۔

’پاروتی‘ پہاڑ کی بیٹی ہیں لہٰذا اِن کا رشتہ زمین سے ہے، وہ دھرتی، کی علامت ہیں۔ دھرتی کا رنگ اُن کا بنیادی رنگ ہے، عقیدہ یہ ہے کہ سب سے پہلے انہوں نے ہی ریت سے ’لنگم‘ بنا کر عبادت کی تھی اور آسمانوں اور زمین کا رشتہ قائم کر کے کائنات کی وحدت کا احساس دیا تھا۔ وہ پودوں اور پرندوں اور جانوروں کی زندگی کی ذمہ دار ہیں۔ زندگی کی زرخیزی کا انحصار اُن ہی پر ہے وہی ہر شئے میں رنگ بھرتی ہیں۔ ‘ مہشوریؔ کی صورت اختیار کر لیتی ہیں تو ان کا رنگ سرخ ہو جاتا ہے۔

’’امّاوارو‘‘ (AMMAVARU)  دیوی کائنات کے تمام رنگوں کا سر چشمہ ہیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے تین انڈے دئیے تھے، ایک خراب ہو گیا، دوسرے میں ہوا بھر گئی اور تیسرے سے تین دیوتاؤں برہماؔ، وشنوؔ، اور شیوؔ نے جنم لیا۔ برہماؔ کی پرورش ہلدی اور اس کے رس سے کی، وشنوؔ کی پرورش مکھن سے اور شیوؔ کو اپنا دودھ پلایا! تین خوبصورت شہر بسائے جن کے گرد کی دیواریں سونے اور کانسی کے رنگ  (REDISH BROWN)  کی تھیں، شہروں کے سینکڑوں دروازے تھے، ان میں کمار، حجّام اور دھوبی رہتے تھے۔

’’پولرامّا‘‘ (POLERAMMA) کھیتوں کی دیوی ہیں جو آج بھی آندھرا پردیش میں مقبول ہیں۔‘ اناج کو اپنا لہو بخشتی ہیں لہٰذا اُن کا بنیادی رنگ سرخ ہے!

’’سورج‘‘ کا حسّی تصور غیر معمولی رہا ہے، وہ جو دن کا پہلا خوبصورت درخت ہے، الوہیت کا سرچشمہ ہے، ماضی، حال اور مستقبل میں توازن قائم کئے ہوئے ہیں، جو فرد کے وجدان اور تخیل کو متحرک کرتا ہے، جس کی کرنوں اور شعاعوں سے زندگی قائم ہے، جو جسم اور روح کی علامت ہے سات گھوڑوں پر سوار ہے جو ذہانت اور عقل و دانش کا مرکز ہے، اس کی آنکھوں کا رنگ شہد کا رنگ ہے، اس کا چہرہ گہرا سرخ ہے، کائنات کے تمام رنگ اسی کی دین ہیں،‘‘ گیا تری منتر‘‘ سے اس کی خصوصیات روشن ہو جاتی ہیں اور فرد پر رحمتوں کی بارش ہونے لگتی ہے۔

مندروں کی دیواروں کو سجانے اور پیکروں اور رنگوں سے پر کشش بنانے کی قدیم روایت ’قلم کاری‘ KALAMKARI آج بھی زندہ ہے، مچھلی پٹم کی قلم کاری کا اپنا منفرد اسلوب رہا ہے۔ مرتعش رنگوں (VIBRANT COLOURS) کو لئے ہوئے اساطیری اور مذہبی واقعات اور کردار اپنے جلوؤں کو نمایاں کرتے ہیں، فنکاروں نے فطرت کے حسن و جمال اور احساس جمال میں ایک معنی خیز رشتہ قائم کر دیا تھا، اس عوامی فن میں درخت، پودے، پھول، سورج، چاند، بادل وغیرہ بنیادی پیکر بنے رہے ہیں۔ دھرتی کی خوشبو مختلف اساطیری ، روایتی اور مذہبی کرداروں میں پھیلی رہی ہے، سبزیوں سے مختلف قسم کے رنگ بنائے جاتے اور مرتعش سرخ، سیاہ اور سبز رنگوں سے تصویریں کو پر کشش بنانے کی کوشش کی جاتی۔ مچھلیؔ پٹم کی قلم کاری کا اسلوب ’سری کلا ہاستی‘ (SRI KALAHASTI) کی قلم کاری کے اسلوب سے مختلف رہا ہے۔ ’سری کلا ہاستی‘ اسلوب میں علامتوں کی اہمیت زیادہ رہی ہے۔ موضوعات کے انتخاب کے لئے اس اسلوب کے فنکار رزمیہ قصوں اور کہانیوں سے قریب رہے ہیں۔ مقامی رزمیہ قصّوں کے ’موتف‘ کا استعمال زیادہ ملتا ہے۔ اس اسلوب کا تقاضا رہا ہے کہ ’پینل‘ (PANELS) اور ’کینوس‘ پھیلے ہوئے ہوں تاکہ علامتوں کے ذریعہ واقعات کی تفصیل پیش کی جا سکے۔ سری کلا ہاستی‘ کے فنکاروں نے کپڑوں پر اپنے فن کا مظاہرہ زیادہ بہتر کیا ہے اس لئے کہ کپڑے موضوعات اور واقعات کے تعلق سے زیادہ بہتر ’پینل اور ’کینوس‘ ثابت ہوئے ہیں۔ مچھلی پٹم کی قلم کاری میں ساحلی علاقوں کے موضوعات زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ لوک کہانیوں اور ان کے کرداروں کو پیکروں اور رنگوں کے تحرک میں نمایاں کرنے میں مچھلی پٹم کے فنکار پیش پیش رہے ہیں۔ پرندوں کے پیکر مختلف رنگوں میں ملتے ہیں۔ آبی پرندوں کو پیش کرتے ہوئے فنکاروں نے اپنی ذات کا اظہار جس شدّت سے کیا ہے وہ توجہ طلب ہے، پرندے اکثر ذات کے پیکر بن گئے ہیں۔ کپڑوں پر تصویریں بنانے سے قبل کافی محنت درکار تھی، عموماً کپڑوں کو دودھ اور پھٹکری سے دھویا جاتا۔ رنگوں کی تیاری میں بھی بہت محنت کی جاتی، مثلاً سیاہ رنگ کے لئے لوہے پر چڑھے ہوئے زنگ (RUST) اور پھٹکری کی مدد لی جاتی تروپتیؔ، تانجورؔ اور مچھلیؔ پٹم کی قلم کاری کے قدیم نمونے رنگوں کے تئیں عوامی بیداری کا بیّن ثبوت ہیں۔

مدھوؔ بنی اور متھیلا کی قدیم تصویر کاری بھی توجہ طلب ہے۔ یہ بھی عوامی فن ہے۔ اس کی روایات بھی بہت قدیم ہیں، تصویروں میں رنگوں کی وجہ سے توانائی اور تابناکی پیدا ہوئی ہے مدھو بنیؔ آرٹ میں قدیم ترین قصوں اور کہانیوں کے واقعات ملتے ہیں۔ موضوعات علامتوں میں جلوہ گر ہوئے ہیں، اساطیری اور مذہبی واقعات اور کردار اہمیت رکھتے ہیں، ان کی وجہ سے اس فن کا رشتہ قومی تمدّن سے قائم ہو جاتا ہے۔ معمولی قسم کے برش تیار کئے جاتے، اور مٹی کی کچی دیواروں پر تصویریں بنا کر ان میں رنگ بھرے جاتے، عوامی فن کا حقیقت پسندانہ رجحان پیکروں اور اُن کے عمل میں نمایاں ہے، انسان، پیڑ پودے اور جانور، اپنی حقیقی صورتوں میں ملتے ہیں، ’رقص‘ ایک بنیادی موضوع ہے، عوامی ذہن نے جسم کے تحرک کو بڑی اہمیت دی ہے، مختلف قسم کی لکیروں سے تحرک کو پیش کیا گیا ہے۔ عموماً پودے اور درخت بھی رقص کی کیفیت میں نظر آتے ہیں۔ ’کنول‘ منڈل کی صورت میں ملتا ہے جو انسان اور آفتاب دونوں کی علامت بن جاتا ہے۔ کنول کی تصویر میں دو آنکھیں بنا دی جاتی ہیں اور آفتاب اور انسان دونوں کے تاثرات پیدا کر دئیے جاتے ہیں، رنگوں میں سرخ زرد، سیاہ اور سفید بنیادی رنگ ہیں۔ متھیلاؔ کی عوامی تصویر نگاری میں لڑکیوں اور عورتوں کا بہت بڑا حصّہ رہا ہے۔ بچپن سے ہی لڑکیوں کی تربیت میں حصّہ لیا جاتا ہے تاکہ وہ فنکاری کے بہتر نمونے پیش کرسکیں۔’کوہبر‘ (شبِ عروسی کا کمرہ) ایک بنیادی موضوع ہے، پہلی نظر میں اس بات کی پہچان ہو جاتی ہے کہ تانتر کی علامتوں کو اس موضوع کے اظہار کے لیے ضروری سمجھا گیا ہے۔ ’لنگم‘ مرکزی علامت ہے جو ’یونی‘ کے دائرہ حُسن میں جذب ہے۔ ’یونی‘ کے لئے کھلا ہوا کنول عام علامت ہے۔ ’کوہبر‘ کی تصویریں تخلیق، تسلسلِ تخلیق اور حسنِ تخلیق کو پیش کرتی ہیں۔ ایسی دیواری تصویریں اپنی مثال آپ ہیں، ہر گھر کی دیوار زندگی اور تخلیق، حسن اور لذت کے تعلق سے سرگوشیاں کرتی ہے، دنیا کے آرٹ کی تاریخ میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی۔

لڑکیاں ’کوہبر‘ کی جو تصویریں بناتی ہیں انہیں عموماً ان لڑکوں کو پیش کیا جاتا ہے جن سے رشتہ قائم کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ یہ تصویریں دراصل ’شادی‘ کی تجویزیں ہوتی ہیں۔ جب شادی طے ہو جاتی ہے تو ’کوہبر‘ سجایا جاتا ہے۔ ’شبِ عروسی‘ کے لئے جس کمرے کو منتخب کیا جاتا ہے اُسے تصویروں سے نکھار دیا جاتا ہے۔ شیورؔ، پاروتیؔ، رادھاؔ اور کرشنؔ کے علاوہ دیوی دیوتاؤں کے ایسے پیکر بھی ملتے ہیں جو حفاظت اور تحفظ کے احساس کو بڑھاتے ہیں۔‘ شیوؔ اور درگاؔ، مرکزی پیکر ہیں جو مرد اور عورت کے وجود کی وحدت کے تئیں بیدار کرتے ہیں۔ ابدی نسوانی توانائی کے تاثر کو عموماً گھومتے ہوئے چھ زاویوں میں پیش کیا جاتا ہے، کائنات کے ابدی کھیل ’’لیلا‘‘ کے مناظر کو کپڑوں اور دیواروں پر طرح طرح اُبھارا جاتا ہے عوامی ذہن نے اس ’عظیم التباس‘ کے حسن و جمال کو یقیناً ایک اعلیٰ ترین سطح پر محسوس کیا تھا جہاں شیو کی شکتی کی جمالیاتی وحدت عظیم تر وحدت کا نمونہ ہے۔ وقت کے ساتھ علامتوں کی صورتیں بھی تبدیل ہوتی رہی ہیں۔ کرشن بھگتی کی وجہ سے شیوؔ کی جگہ کرشن نے لے لی اور درگا کی جگہ رادھا نے! ’لنگم‘ کرشن کی بنسری میں تبدیل ہو گیا۔

مدھو بنی اور متھیلا کے فنون، بنیادی طور پر کسانوں اور اُن کے گھروں کے فنون رہے ہیں، کسان مرد اور عورتیں اپنی تصویروں کے لئے عام رنگوں کا انتخاب کرتی تھیں۔ سیاہ، سرخ اور زرد رنگوں کے بنانے کے اپنے طریقے تھے، کالک سے ’سیاہ ‘ سرخ مٹی سے سرخ، اور گہرے پیازی پھولوں سے زرد رنگ بناتے ۔  رنگوں کی تیاری میں دودھ کا استعمال کرتے، رفتہ رفتہ مختلف قسم کے پھولوں اور سبزیوں اور نیل (INDIGO) [نیلے رنگ کے لئے ] سنکھیا (ARSENIC) [زرد رنگ کے لئے ] اور صندل لکڑیوں [نارنجی رنگ کے لئے ] سے مدد لی جانے لگی۔ شیوؔ اور کرشنؔ کے لئے نیلے رنگ کو منتخب کیا جاتا ہے۔ کالیؔ کے لئے ’سیاہ‘ شیوؔ سرخ رنگ میں بھی پیش کئے جاتے ہیں۔

عوامی رقص میں رنگوں کی بڑی اہمیت رہی ہے، نقلی چہروں اور مصنوعی صورتوں کے لئے رنگوں کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے۔ ’کتھا کلی‘ میں آج بھی مصنوعی چہروں اور اُن کے رنگوں کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ ’کتھا کلی‘ تمثیل ہے کہ جس کی روایت جانے کب سے قائم ہے۔ رنگ برنگے کپڑوں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور چہروں پر مختلف قسم کے رنگوں کو ابھارا جاتا ہے۔ اس رقص میں ’نِرَت‘ (NRITTA) یعنی ’اظہاری رقص اور ’ناٹیہ‘ (NATYA) یعنی نِرت اور نرتیہ وحدت کے ساتھ ڈرامائی رقص، تینوں، ابھینئے‘‘ (ABHINAYA) کے ذریعہ سامنے آتے ہیں اور ’ابھینئے مختلف قسم کے رنگوں کو لئے واقعات اور تاثرات کے رنگوں کو بکھیرتا رہتا ہے۔ جسم اور چہرے کے معنی خیز اشارے زبان بن جاتے ہیں، رقاص رنگوں کا پیکر ہوتا ہے، ہاتھوں آنکھوں، ابروؤں، ہونٹوں اور پاؤں سے اس کے اشارے رنگوں کی مانند بکھرنے لگتے ہیں ’میک اپ‘ کا خاص خیال رکھا جاتا ہے لہٰذا ان کی مختلف قسمی ہیں۔ ’کٹّی‘ (KATTI) ’منیکو‘ (MINUKKU) ’کاری‘ (KARI)‘ ٹاڈی(TADI)  ’پاچھا‘ (PACHA) وغیرہ۔ ’سبز رنگ‘ الوہیئت کی علامت ہے۔ ’سفید‘ روحانیت کی ، ’سرخ‘ آرزو‘ امید خواہش اور تمنا کی اور ’سیاہ‘ مکروہ خیالات کی! رنگوں کے پیشِ نظر جو ’میک اپ ہوتا ہے اس کی معنویت بھی توجہ طلب ہے۔ مثلاً ’پاچھا‘ (PACHA) میں وہ رنگ شامل ہیں جو شجاعت، جوانمردی اور بہادری کو نمایاں کرتے ہیں اسی طرح ’کٹّی‘ میں وہ رنگ ہیں جو مکروہ کرداروں اور اُن کے ناپاک ارادوں کو پیش کرتے ہیں۔ ’کاری‘ (KARI) مضحکہ خیز پیکروں کے لئے ہیں اور ’منیکو‘ (MINUKKU) با عزت اور پر وقار اشخاص کے لئے۔  ان سے کلاسیکی اور عوامی رقص میں رنگوں کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے!

٭٭٭

 

تشکر:ڈاکٹر شکیل الرحمن  جنہوں نے ان پیج فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

 

 

[1] کو بیرا (KUBERA) ایک انتہائی قدیم ہندوستانی دیوتا ہے جو ’یاکشاؤں‘ (YAKSHAS) کا سر براہ تصوّر کیا گیا ہے۔ زمین کے اندر جو قیمتی دولت ہے اُس کا مالک اور نگہبان ہے۔ وقت کے ساتھ اس کے تصوّر میں تبدیلی آئی ہے، مادّی مسرتوں اور نعمتوں اور دنیا کی دولت کا دیوتا بھی بنا ہے۔ لیکن ’یاکشا‘  (YAKSHAS) کی پر اسرار اور خطرناک فطرت کے ساتھ! ایک روایت یہ ہے کہ ’کوبیراؔ‘ راونؔ کا بھائی ہے جس نے رام چندر جی کی مدد کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ہندو دیوی دیوتاؤں میں شامل کر لیا گیا ہے۔ اس کے پیکر میں جسم بھاری بھرکم ہے، پیٹ باہر نکلا ہوا ہے، پھولا ہوا پیٹ دولت اور پوشیدہ نعمتوں کی علامت ہے۔ عموماً کسی درخت کے نیچے بیٹھا نظر آتا ہے۔ درخت کی جڑوں کے نیچے ہیرے جواہرات اور دوسری قیمتی اشیاء ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ اس طرح بیٹھ کر ان کی نگہبانی کرتا ہے۔ بنیادی طور پر دھرتی کا دیوتا ہے۔ لہٰذا زمین کی زرخیزی سے اس کا گہرا تعلّق ہے۔ ’بُدھ ازم‘ اور ہندو آرٹ نے کوبیرا، کو کائنات کے شمال کا دیوتا بنا دیا۔ بُدھ فن میں اس کے کئی پیکر ملتے ہیں۔ گنیش کے پیکر کی طرح معروف بدھ پیکر ’جام بھالاؔ یا ’جم بھالاؔ ‘ (JAMBHALA) سے بہت قریب محسوس ہوتا ہے۔ بدھ آرٹ نے اس پیکر کو عموماً ہنستے ہوئے دکھایا ہے۔ صورت تبدیل ہوئی ہے لیکن توند موجود ہے۔ یہ مسرّتوں اور خوشیوں کی علامت بن گیا ہے۔ عام اصطلاح میں اسے ’ہنستا ہوا بدھ ‘ (THE LAUGHING BUDDHA) کہتے ہیں۔ چینؔ، جاپان ؔ اور ہندوستانؔ میں اس کے مختلف مجسّمے ملتے ہیں۔                                     (ش۔ر)