FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

محمد حمید شاہد کے افسانے

 

 

 

حصہ دوم

 

محمد حمید شاہد

 

 

 

 

 

جنم جہنم۔۱

 

’’یہ جو نظر ہے نا! منظر چاہتی ہے۔

اور یہ جو منظر ہے نا! اپنے وجود کے اِعتبار کے لیے ناظر چاہتا ہے۔

دیکھنے اور دیکھے جانے کی یہ جو اشتہا ہے نا! یہ فاصلوں کو پاٹتی ہے۔

اور فاصلوں کا وجود جب معدوم ہو جاتا ہے نا! تو جہنم وجود میں آتا ہے۔

اور اس جہنم میں ایذا کوئی اور نہیں دیتا، دیکھنے اور دیکھے جانے کی اشتہا رکھنے والے ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔‘‘

مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ اُسے نہیں دیکھ پا رہا تھا، جو سراسر منظر بنی سامنے تھی۔

اُسے حیرت ہو رہی تھی۔

’’یہ جو حیرت ہوتی ہے نا! یہ ہماری زیست کی محافظ ہوتی ہے۔ اسے نکھارتی ہے، سنوارتی ہے۔ یہ نہ ہو اور بندہ سیدھے سبھاؤ حقیقتوں کا سامنا کر لے، تو حواس کھو بیٹھے۔ گویا حیرت بصارت اور بصیرت کے بیچ وہ خلا ہے، جہاں حقیقت کی تیز رفتاری اپنی سُرعت رہن رکھتی ہے اور چپکے سے شعور کی آغوش میں جا گرتی ہے۔ اور بندے کو یوں لگتا ہے، یہ تو وہی حقیقت ہے جس کا اسے پہلے سے ادراک تھا۔‘‘

اور اُسے یوں لگتا تھا، منظر بن جانے والی عین مین وہی تھی جسے وہ نہ صرف جانتا تھا بل کہ پہلے سے اُس کا عادی بھی تھا۔

’’یہ جو کسی کا عادی ہو جانا ہوتا ہے نا! یہ خود بخود دوسروں کو ناکارہ بنا دیتا ہے۔ جہاں کئی دوسرے ناکارہ ہو جاتے ہیں، بہت سے افادی بھی ہو جاتے ہیں۔ اور وہ جو عادی ہو جاتا ہے نا! وہ عین اسی ایک لمحے میں معذور بھی ہوتا ہے اور قادر بھی۔

قادر ان معنوں میں، کہ صرف ایک کے لیے دوسروں سے دست بردار ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور معذوریوں کہ جس کا وہ عادی ہو جائے وہ نہ رہے تو اسے کچھ سجھائی نہیں دیتا‘‘

اور جس کا وہ عادی تھا وہ وہاں نہیں تھی، مگر اُسے لگ رہا تھا وہ وہیں تھی اُس کے بدن کے اِرد گرد یا باطن میں یا اُس اور یا۔۔۔

مگر منظر بن جانے والی جس کی کبھی عادی ہو گئی تھی وہ اب نہیں تھا

اور جو سامنے تھا وہ زندگی کی لذّت سے لبالب بھرا ہوا تھا۔

اُس نے اُسے دیکھا تھا اور اپنی نارسائیوں کی بابت سوچا تھا تو اُس کے اندر یہ خواہش ٹھاٹھیں مارنے لگی تھی کہ کاش لذّت سے بھرا ہوا یہ پیالہ غٹا غٹ پی لے۔

اور وہ جواب اُس کے اور دیکھ رہا تھا، اُس نے اُس کے پیاسے ہونٹوں کی تحریر کو پڑھ لیا تھا۔

’’یہ جو ہونٹ ہوتے ہیں نا! یہ آنکھیں اور یہ چہرہ بھی۔

یہ اکھروں کی بنا ہی اپنا مُدعا کہہ دینے کی قدرت رکھتے ہیں۔‘‘

اُس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا، مگر وہ جو دیکھ رہا تھا، سب کچھ سمجھ گیا تھا۔

’’ویسے بھی یہ جو زیست ہوتی ہے نا! قدم قدم پر ہدایات مانگتی ہے، مشورے طلب کرتی ہے۔ اور انہی مشوروں اور ہدایات کے گارے پانی سے شعور کی عمارت وجود پاتی ہے، جس میں روزن ہوتے ہیں، کھڑکیاں اور دروازے ہوتے ہیں، جہاں سے ہوائیں گزرتی ہیں۔نئے سورج کی روشنی اندر آتی ہے۔‘‘

اور وہ جو مادر زاد تھی، الف بالکل الف۔اِنہی روزنوں، کھڑکیوں اور دروازوں کو چوپٹ کیے بیٹھی تھی۔

بس یوں سمجھو کہ وہ اس ننھی بچّی کی طرح تھی جس کا باپ تو بچّی کو بڑوں کا ادب سکھاتا ہے اور بڑوں کی بات مان لینے کی تعلیم دیتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اُس پر خوفناک اِختیار حاصل کر لیتا ہے یوں کہ کوئی زور، زبردستی اور تشدّد سے بھی اِس قدر اِختیار حاصل نہ کر پائے۔

اگر وہ بچّی کی طرح تھی جو اِختیار دے چکی تھی تو دوسرا وہ تھا جو خوفناک اختیار حاصل کر چکا تھا۔

اور جسے خوفناک اِختیار حاصل تھا وہ دیکھ رہا تھا۔

مگر جو منظر اس کے سامنے تھا وہ نظر میں نہیں سما رہا تھا۔

اس کے سامنے کیا تھا!

ایک وجود۔

جیتا جاگتا۔

سانسوں کی گرمی سے بھرا ہوا۔

چکنا، چمکتا، رنگ برساتا، خُوشبو بکھیرتا۔

ایسا کہ اس نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔

تصور بھی نہیں کیا تھا۔

مگر اب جو وہ دیکھ رہا تھا تو حواس گم ہو رہے تھے، طلب بے لگام ہو رہی تھی اور ہاتھ بے قابو ہوا چاہتے تھے۔

یہ کیسا اختیار تھا جو اسے بے اختیار کر رہا تھا۔

’’اِختیار اور بے اختیاری کے بیچ کتنا فاصلہ ہو تا ہے۔ہے نا!‘‘

اُس کے ہاتھ اُٹھے، بے صبری سے، مگر وہ رُکا خود بہ خود نہیں، اُس نے جبر کیا اور خود کو روکا، خیال کی روکو تھوڑا سا بہکایا کہ اندر کا ندیدہ پن وہ نہ دیکھ لے، جسے وہ دیکھ رہا تھا۔

بس اِسی ایک ذرا سے جبر سے سارا پانسہ پلٹ گیا۔

اب ناظر تھا مگر منظر بن جانے والی نہ تھی۔

جو نظر میں تھی۔

اُس میں تُندی نہ تھی، ٹھہراؤ تھا۔ جھپاکے نہ تھے، دھیما پن تھا۔ شیرہ ہی شیرہ نہ تھا، قطرہ قطرہ ٹپکتا رس تھا۔

اُس نے نظر بھر کر منظر دیکھا تھا اور نظر میں وہ بھر گئی جو دیکھنے اور دیکھے جانے کے قضیے میں ہی نہ پڑتی تھی۔

اور جب وہ نظر میں بھر گئی، جو وہاں تھی ہی نہیں، تواُس نے دونوں بدنوں کے بیچ کئی سو پھیرے لگائے۔

اور جب وہ بھاگتے بھاگتے تھک گیا اور اپنی ہی خواہش کے قدموں پر گِر پڑا اور تیزی چلتی سانسوں کے بیچ خود کو مصلوب پایا تو اپنے آپ سے مکالمہ کیا۔

یہ پوست کیا ہوتا ہے۔

’’بدن کا جغرافیہ۔‘‘

اور یہ بدن کیا ہوتا ہے ؟

’’روح کا لبادہ۔‘‘

اور یہ روح کیا ہوتی ہے ؟

’’خدا‘‘

اور یہ خدا کون ہے ؟

’’ وہ جو با اختیار ہے۔‘‘

اور جو با اختیار نہیں ہے وہ کیا ہے ؟

’’وہ مخلوق ہے۔‘‘

اور مخلوق کیا ہے ؟

’’ نارسائی۔‘‘

اس نے اپنی مٹھیاں کھول کر دیکھیں، خالی تھیں اور آنکھوں کے بیچ یہاں وہاں کچھ بھی نہ تھا بس نارسائی کی دھُول اُڑتی تھی۔

اور وہ جو سامنے بیٹھی تھی۔

ایسے کہ جیسے وہ تھی۔

اب وہ حیران ہو رہی تھی۔

ابھی لمحہ بھی پہلے اُس نے اُسے دیکھا تھا، جس کے لیے وہ منظر بنی بیٹھی تھی تو اُسے طلب کا سیلاب اُمنڈتا نظر آیا تھا، اِس قدر کہ اس نے اپنے قدموں کو دھرتی سے جدا ہوتے محسوس کیا تھا اور اس سیلاب میں خود کو بہہ جانے پر مجبور پا یا تھا۔

بس پلک جھپکنے کی دیر ہوئی اور سارا نظارہ بدل گیا۔

وہ، جو ناظر تھا، خود بھی بے بس تھا کہ وہ اُسے نظر نہ آ رہی تھی جو منظر بنی ہوئی تھی۔

ایسا اس کے ساتھ پہلے نہ ہوا تھا۔

اگر ہوا تھا بھی تو وہ اِس شدّت سے نہ جان پایا تھا۔

’’یہ جو جان لینا ہوتا ہے نا!ِاس جان لینے سے نہ جان پانے کی اذِیّت قابلِ برداشت ہوتی ہے۔‘‘

مگر واقعہ یہ ہے کہ اس کے مقابل ایک وجود تھا۔

سانس لیتا۔

شعلے برساتا۔

رنگ بکھیرتا۔

خُوشبو میں لپٹا۔

بغیر کسی لبادے کے۔

بغیر کسی آڑ کے۔

بغیر کسی فاصلے کے۔

وہ اسے دیکھ سکتا تھا۔ مو بہ مو۔

وہ اسے چھو سکتا تھا۔ خلیہ بہ خلیہ۔

چاہتا تومسلتا۔ روندتا۔ تھپتھپاتا۔

پہلے پہل ہیجان کی منزل آئی تھی۔ مگر ایک لمحے کے ضبط نے عجب مخمصے میں ڈال دیا

اور۔ بالآخر پانسہ پلٹ گیا۔

شعور پر خفتگی کا مہین پردہ پڑا۔

معروض معدوم ہوا۔

معدوم ادراک پر غالب ٹھہرا۔

اور جب ایسا ہو گیا تو۔

وہ حیرت کی تصویر بن گئی

حیرت کی تصویر بن جانے والی کو پہلے پہل جھجک ہوتی تھی، بعد میں اُس نے اپنی تمام ناآسُودگیوں کو یاد کیا تھا۔

وہ نا آسُودگیاں کہ جن کی چکی میں اُس کی زیست کا دانہ دانہ پستا تھا۔

جب وہ اپنی نا آسُودگی کو یاد کر کے خوب رو چکی تھی تو اس نے ایک وجود دیکھا تھا۔

وہ جو زندگی سے کناروں تک بھرا ہوا تھا۔

جذبوں سے لبالب تھا۔

جس کے لمس میں گرماہٹ تھی۔

جس کی آنکھوں سے نکلتے شعلے اس کے وجود میں اُترتے چلے جاتے تھے۔

اور جو آخر کار اُس پر مکمل اِختیار پا چکا تھا۔

اِتنا اِختیار کہ وہ اُسے اِس حالت میں لے آیا جس حالت میں کبھی اُس شخص کے سامنے جانے پر مجبور تھی جو اُس کی زندگی کا مالک بنا دیا گیا تھا۔

وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس شخص کو اس پر اختیار ہو۔ مگر اسے تھا۔

پہلے پہل وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی، وہ شخص اسے چھوئے کہ جسے با اختیار بنا دیا گیا تھا مگر رفتہ رفتہ اُس کے اعصاب تننے لگتے، بدن تڑخنے لگتا۔ اور وہ باؤلی ہو جاتی۔ چیختی، چلاتی، تن کے کپڑے پھاڑ ڈالتی۔ اور چاہتی کہ وہ اُسے مسلے، کُچلے، روند ڈالے۔۔

مگر وہ پرے بیٹھا اُسے تکتا رہتا اور اپنے ہی ہاتھ مسلتا رہتا تھا۔

اور ایک روز یوں ہوا کہ جب وہ اپنے ہاتھ مسل رہا تھا۔ اور ایک ٹک اُسے دیکھ رہا تھا۔ مر گیا۔

جب وہ مر گیا۔ تو وہ اس کے سامنے اس لباس میں تھی، جس میں وہ تخلیق کی گئی تھی۔

اُس کے مرنے سے کچھ دیر پہلے تک وہ بری طرح چیخ رہی تھی، برس رہی تھی، رو رہی تھی اور باؤلی ہو رہی تھی۔ مگر وہ پلک جھپکے بغیر اُسے دیکھتا رہا۔اور اپنے ہی ہاتھوں کو مسلتا رہا۔ اور۔

اور جب وہ کہ جو چیخ رہی تھی، اس نے دیکھا کہ دیکھنے والے کی پتیاں ٹھہر گئی تھیں اور ایک دوسرے کو مسلنے والے ہاتھ رک گئے تھے تو لفظ اس کے ہونٹوں میں ٹھہر گئے اور سارا شور شرابہ بدن میں ٹھٹھک گیا تھا۔

وہ آگے بڑھی اور اُسے چھوا۔

یہ وہ پہلی بار تھی کہ اپنی خواہش اور اِختیار پر اُس نے اُسے چھوا تھا۔

یخ بستگی اُس کے اندر اُتر گئی۔

اُسے یقین نہیں آ رہا تھا، لہذا تسلی کرنے کے لیے آخری بار چھوا۔

اِس بار ٹھنڈا وجود اس کی روح میں اُتر گیا

اور جب اُس کی تسلی ہو گئی تو اُس کے اندر سے ایک طوفان اُٹھا اور اُمنڈ کر آنکھوں میں برسا۔

اور اس نے ’’نہیں نہیں‘‘ کے لفظ چیخ چیخ کر ادا کیے۔

’’نہیں نہیں‘‘ کی صوت دیواروں سے ٹکراتی ہوئی جب اس کے وجود سے ٹکرائی تو اُسے یوں لگا جیسے اُس کا اپنا وجود معدوم ہو گیا تھا۔

پہلے کوئی تھا۔۔جو اس کا نظارہ کرتا تھا

کھرا، سچا۔

اس کی آنکھوں میں دوغلا پن نہ تھا۔ فریب نہ تھا۔ مکر نہ تھا۔ دھوکا نہ تھا۔

وہ دیکھتا تھا اور اُسے ہی دیکھتا تھا۔

اُس کی آنکھیں اُس کے وجود سے بھر جاتی تھی اور کنارے چھلکنے لگتے تھے۔

اور جب کنارے چھلکنے لگتے تھے۔۔۔ اور۔۔۔ اس کا وجود مزید شرڑ شرڑ اُس کی آنکھوں کے راستے اس کے بدن میں اُترنا چاہتا تھا مگر اس کے وجود کی اُتھلی سطح تانبے کی طرح بج اُٹھتی تھی تو وہ اپنے ہی ہاتھوں کو مسلنے لگتا تھا۔

ایسے میں وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھتا تھا۔

ان کھلی آنکھوں کے بیچ جو عذاب تھے وہ انہیں جانتی تھی مگر اہمیت نہ دیتی تھی کہ اسے وہ اپنی نارسائی کے عذاب سے کم تر درجے کے عذاب لگتے تھے۔

ہاں مگر ایک بات بہت اہم تھی کہ وہ ہاتھ مسلتا تو اسے اپنی ہستی کا یقین ہو جاتا تھا۔

اور جسے اپنی ہستی کا یقین ہو جایا کرتا تھا وہ ایک ہاتھ مسلتے وجود کے معدوم ہونے سے ہی متزلزل ہو گئی۔

پھر جب ہر طرف سے اس کے تکفیر ہونے لگی۔ تو اس نے، کہ جو اتنی صلاحیت رکھتا تھا کہ وہ بغیر کسی جبر کے اُس پر اِختیار حاصل کر لے، اسے ایک عجب مخمصے میں ڈال دیا۔

وہ یوں تھی۔۔۔ جیسے کہ وہ تخلیق ہوئی تھی۔

اور وہ سامنے تھا بالکل یوں کہ وہ اُسے براہ راست دیکھ سکتا تھا۔ چاہتا تو چھو لیتا، اور۔

منظر بن جانے والی کو نہ جانے کیوں یقین تھا کہ ساری نا رسائیاں، نا  آسُودگیاں اور تلخیاں جو اس کے وجود سے آکاس بیل کی طرح لپٹی ہوئی تھی، اس کے دم سے جھڑ جائیں گی۔

اُس نے یقین کی نظر سے اُسے دیکھا۔

اُمید کے پانیوں پر قدم رکھا۔

اور مخمصے میں جا گری۔

وہ مخمصے میں یوں گری کہ اُس نے عین اُس وقت اُس کی آنکھوں میں دیکھ لیا تھا جب وہ وہاں نہ تھی

حالاں کہ وہ اس کے سامنے تھی۔ اور اس طرح تھی، جیسے کہ وہ چاہتا تھا۔

اس نے خود کو جھنجھوڑا اور آخری بار ناظر کی آنکھوں میں جھانکا۔

اسے اپنی ہستی کا یقین چاہیے تھا، مگر۔

’’یہ جو ہستی اور نیستی ہوتی ہے نا!بس اِن کے بیچ بال برابر فاصلہ ہوتا ہے۔

یہ جو نظارہ کرنا ہوتا ہے نا! یہ محض دیکھنا نہیں ہوتا، نظر کے گارے سے دیکھے جانے والے وجود کی عمارت اینٹ اینٹ تعمیر کرنا ہوتی ہے۔ مگر جب ناظر معروض کی بہ جائے معدوم کا اثبات کرنے لگے تو معروض کی ہستی نیستی میں بدل جاتی ہے اور معدوم کی نیستی ہستی میں۔‘‘

اور منظر نے خود کو ناظر کی نظر میں معدوم ہوتے دیکھ لیا تھا۔

گویا اب وہاں اس کی ہستی نیستی کے مترادف تھی۔

اور وہ کہ جس نے اُس کی ہستی کو نیستی میں بدل دیا تھا، اُس کی متخیلہ کوپَر لگ گئے تھے۔

جس نے اُڑان بھری۔یہاں وہاں۔

اُس نے اِس ساری پرواز کو نظر بھر کر دیکھا تو اسے خبر ہوئی، یہ پرواز باہر نہ تھی، بھیتر میں تھی۔

اُس نے وہاں جھانکا، اِدھر اُدھر یادوں کے جالے تھے، رشتوں کا کاٹھ کباڑ تھا، نا آسُودگیوں کی گرد تھی، آنسو تھے اور آہیں تھیں۔

اس نے آنسوؤں کو بہہ جانے دیا، آہوں کو سسکیوں کو چولا پہنایا، پلکوں سے یادوں کی گرد صاف کی، محبت سے رشتوں کا کاٹھ کباڑ درست کیا۔سلیقے سے رکھا۔ مُو در مُو، خلیہ در خلیہ۔

جس کے وجود نے تخلیق کا کرب سہا تھا اور اس کے آنگن کو چہکار سے بھر دیا تھا۔

اور وہ مُدّت مدید سے منظر بننے کے آزار سے پاک تھی۔

اُدھر سامنے وہ تھی، جو منظر بنی بیٹھی تھی اور نظر کی طلب میں مری جاتی تھی، مگر جسے ناظر نے دیکھا وہ، وہ تھی جو دیکھے جانے کی طلب سے غنی تھی۔

عین اسی لمحے منظر بنی بیٹھی مخمصے میں پڑ گئی تھی۔ مخمصے سے نیستی میں جا گری اور پھر کراہ کر اپنے وجود پر نفرت بھیجی، اس شخص کو یاد کیا کہ جس کی آنکھیں اس کے وجود سے بھر جاتی تھیں تو جسم تانبے کی طرح بجنے لگتا تھا۔ اور پھر وہ اپنے ہاتھ مسلتا تھا۔

اور جب وہ اپنے ہاتھ مسلتا تھا تو اپنی ہستی کا یقین ہونے لگتا تھا۔

شکستہ تخیل کی اس پرواز نے اس کے وجود میں تھوڑی سی ہستی ایک مرتبہ پھر بھر دی۔

اس نے اُٹھ کر خود کو سمیٹا، لپیٹا اور نفرت سے اُسے دیکھا جو ناظر تو اُس کا تھا مگر اس کی آنکھ کوئی اور نظارہ سمیٹے ہوے تھی۔ پھر آگے بڑھی منھ میں جمع ہونے والا سارا لعاب اس کے منھ پر تھوک دیا اور کہا۔

’’جہنم اگر کوئی ہے تو وہ محض کسی کی نظر میں سما جانے کی خواہش ہے۔

میں نے تو نا حق اس جہنم کو اپنا مقدّر بنائے رکھا۔‘‘

اس نے قہر بھری ایک اور نظر حیرت در حیرت کے تلے سسکتے وجود پر ڈالی، بڑبڑائی۔

’’عذاب کسی بھی دوسرے وجود کا نام ہے۔

یہ عذاب میرے لیے پہلے وہ تھا اور کچھ لمحے پہلے تک تم تھے۔‘‘

بچا کھچا لعاب ایک مرتبہ پھر اُس نے اپنے منھ میں جمع کیا اور اُس کے چہرے پر ایک اور تہہ چڑھا دی

’’میں اِس جہنم پر لعنت بھیجتی ہوں۔‘‘

پھر اس نے زندگی سے بھر پور قہقہہ لگایا اور زیست کی نئی شاہراہ پر نکل کھڑی ہوئی۔

 

 

ٍ

جنم جہنم۔۔۲

 

وہ جو زیست کی نئی شاہراہ پر نکل کھڑی ہوئی تھی اُس کا دامن گذر چکے لمحوں کے کانٹوں سے اُلجھا ہی رہا۔ اُس نے اپنے تئیں دیکھے جانے کی خواہش کا کانٹا دل سے نکال پھینکا تھا، مگر گزر چکے لمحے اُس کے دل میں ترازو تھے۔

’’یہ جو گزر چکے لمحے ہوتے ہیں نا! یہ دراصل جونکوں کی طرح ہوتے ہیں

لمحے۔ قطرہ قطرہ خُون پینے والے۔ اندر ہی اندر سے چاٹنے والے‘‘

اس کے سامنے زیست کی لمبی شاہراہ تھی۔

اور اِرادہ تھا کہ وہ آگے بڑھتی رہے گی۔

مگر یادیں۔؟

اس نے انہیں پٹخ کر پرے پھینکا اور حتمی فیصلہ دے دیا کہ وہ انہیں قریب بھی نہ پھٹکنے دے گی۔

’’مگر یہ جو یادیں ہوتی ہیں نا! یہ پالتو بلی کی طرح ہوتی ہیں۔

دھتکارو، مارو، نکال دو، پھر پلٹ آتی ہیں۔

اور جب پلٹ آتی ہیں نا!۔ تو یوں سارے میں اتراتی پھرتی ہیں جیسے وہ سرے سے نکالی ہی نہ گئی ہوں۔

یہ جو نکلنا اور نکالنا ہوتا ہے نا! اِن کے بیچ انا کا فاصلہ ہوتا ہے۔

نکلو تو انا انگلی تھامے آگے آگے ہوتی ہے، نکالے جاؤ تو قدموں تلے کچلی جاتی ہے۔‘‘

پہلے پہل وہ اس فیصلے پر پہنچنے میں اُلجھی رہی کہ وہ نکلی تھی یا نکالی گئی تھی؟

اور جب وہ فیصلہ نہ کر پائی تو اس کا دھیان یادوں کی جونکوں کی طرف ہو گیا۔

’’یہ جو دھیان ہوتا ہے نا! گرگٹ کی طرح ہوتا ہے۔

رنگ بدلتا ہوا۔ پل میں ایسا پَل میں ویسا

چکنا یوں کہ قابو میں نہیں آتا۔ پھسل پھِسل جاتا ہے۔‘‘

اب وہ کہ جس کا دھیان قابو میں نہ تھا۔

اور جس کے اندر یادوں کی جونکیں مسلسل مگر قطرہ قطرہ خُون پیتی تھیں۔

اُس کے سامنے زیست کی لمبی شاہراہ تھی۔

اس شاہراہ پر اُسے آگے بڑھنا تھا۔

اس کے زاد سفر میں پہلے پہل اُمید کی چمک تھی، جو راستہ دکھاتی تھی

حوصلہ تھا، جو بڑھاوا دیتا تھا

سپنوں کی خُوشبو تھی، جو اسے مدہوش رکھتی تھی۔

مگر اب کچھ نہ تھا۔

نہ وہ تھا۔

نہ یہ تھا۔

بس تھی تو ایک لمبی شاہراہ تھی جس کے ماتھے پر زیست کی تہمت دھری تھی

بے شمار مگر ندیدی آنکھیں تھیں

لمبے لمبے مگر مکروہ ہاتھ تھے

بھاری، مضبوط اور سفاک قدم تھے

آنکھیں بدن چیرتی تھی، ہاتھ مسلتے تھے اور قدم کچل کچل دیتے۔

اور وہ کہ جسے بہت پہلے یہی کچھ پانے کی حسرت تھی پہلے پہل لذت کے پیالے آبِ حیات سمجھ کر پیتی رہی

پیتی رہی اور جیتی رہی۔

کس قدر سرور تھا، نشہ تھا، مٹھاس تھی۔

’’یہ جو نشہ ہوتا ہے نا!۔اوّل اوّل یہی زندگی کا حاصل ہوتا ہے۔

مگر آخر کار زندگی نفی ہو جاتی ہے اور نشہ ہی نشہ رہ جاتا ہے۔‘‘

جب زندگی منہا ہو گئی

اور لذّت بھی یکسانیت نے نگل لی۔

تو بدن کھوکھلا ہو گیا۔

اور یوں بجنے لگا جیسے پھٹا ہوا ڈھول ہوتا ہے۔

تب اُس نے اِدھر اُدھر دیکھا

اسے کچھ نظر نہ آیا۔

جو نظر آئے تو وہ خواب تھے، جو بے تعبیر تھے۔

’’یہ خواب ہوتے ہیں نا!۔یہ دراصل نا آسُودہ خواہشوں کا عکس ہوتے ہیں۔‘‘

اور یہ اُس کی کیسی نا آسُودہ خواہشیں تھیں، جو وہ سیراب ہو کر بھی پیاسی کی پیاسی تھی

اور اس چشمے کو پلٹ پلٹ کر دیکھتی تھیں جو سراب سے بھرا ہوا تھا

’’یہ جو سراب ہوتا ہے نا!۔یہ حقیقت ہوتی ہے۔

اور یہ جو حقیقت اور سراب کو الگ الگ شے سمجھنا ہوتا ہے نا!یہ محض ہمارے شعور کا التباس ہے۔‘‘

اور جو پیچھے پلٹ پلٹ کر خشک چشمے کو دیکھتی تھی تو اُسے وہ لبالب بھرا ہوا لگتا تھا۔ اور اپنی راہ میں آنے والے اُچھلتے کودتے پانی کو دیکھتی تھی تو وہ صحرا کی اُڑتی دھُول لگتی تھی

وہ سوچتی تھی۔ اصل کیا ہے ؟

اس نے سامنے دُور اُفق میں گم ہوتی شاہراہ کی جانب دیکھا اور سوچا۔ شاید اصل وہیں کہیں ہے۔

مگر جب وہ آگے بڑھی تو اُداسی اُس کے اندر اُتر گئی۔

’’یہ جو اُداسی ہوتی ہے نا!۔ یہ گرد کی طرح ہوتی ہے۔ نہ جھاڑو تو تہ در تہ جمتی چلی جاتی ہے۔

یا پھر اُن سوئیوں کی طرح، جن میں سارا بدن بیندھا ہوتا ہے، یوں کہ بھیگی شام کو سوئیاں چبھوئی گئی ہوں تو رات پڑ جاتی ہے سوئیاں نکال لی جائیں تو انگلیاں لہولہان ہو جاتی ہیں اور نہ نکالی جائیں تو سارا بدن سن ہو جاتا ہے۔‘‘

اس نے پوروں سے اُداسی کی ایک ایک سوئی کو ٹٹولا محض ٹٹولنے ہی سے اُس کی پوریں زخمی ہو گئیں۔

اُس نے سوئیاں بندھے بدن کو سہلایا، خلیہ خلیہ سن ہو رہا تھا

اُس نے ہمت کر کے ایک ایک سوئی نکال پھینکی۔

اور زخمی پوروں سے گرتے قطروں میں اپنے ہونٹوں کے عکس کو تلاش کیا۔

ابھی تک رس بھرے تھے۔

قوسوں کو دیکھا۔ ندرت تھی

بدن ٹٹولا۔ مدھ بھرا تھا۔

بازوؤں کو جانچا۔ وارفتگی تھی۔

جب تک رس رہا ندرت رہی مدھ رہا وارفتگی رہی

وہ، جو بھی آتا سمٹاتی رہی اور آگے ہی آگے بڑھتی رہی۔

آگے۔ آگے۔ مزید آگے

مگر اِس کا انت کیا ہے ؟۔

اُس کے اندر ٹوٹے حوصلے کی صدا تھی

’’کچھ بھی نہیں۔‘‘

’’گویا۔ یہ جو انت ہوتا ہے نا!۔ یہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔

یہ تو فقط سراب ہے، دھوکا ہے‘‘

مگر یہ جو چلنے والے ہوتے ہیں، رُکتے کیوں نہیں ؟

’’رُکیں کیسے۔ کہ ہر انت کا سرا آغاز سے جڑا ہوتا ہے۔

یوں انت تو آغاز ہی کا دوسرا نام ہوا، نا!۔‘‘

اور وہ جو انت چاہتی تھی اسے پتہ ہی نہ چل رہا تھا کہ شروعات کہاں تھیں اور انت کہاں

انت اور آغاز گڈمڈ ہو رہے تھے

اور وہ اپنے ہی محور پر گھومتی جا رہی تھی۔

’’یہ جو اپنے ہی محور پر گھومنا ہوتا ہے نا!۔ اِس سے چلنے اور ساکن ہونے کا فرق مٹ جاتا ہے۔‘‘

اور وہ جو اپنے ہی محور پر چل رہی تھی۔

یا گھوم رہی تھی۔

یا پھر جو ساکت تھی۔

اور اگر وہ ساکت تھی تو دوسرے چل رہے تھے

وہ بھی چل نہ رہے تھے، گھوم رہے تھے

اور جو گھوم رہے تھے، اُسے بھی گھما رہے تھے۔

اور جو گھما رہے تھے، اُس کا ہاتھ تھامتے تھے۔

جب ہاتھ تھام چکتے تھے تو قدم اُس کے اُوپر دھرتے تھے۔

اور جب وہ ہمت کر کے ایک سے ہاتھ چھڑا لیتی تھی تو کوئی دوسرا تھام لیتا تھا

پھر تیسرا۔

وہ سب ایک ایک کر کے بدلتے رہے

ایک جیسے چہرے

ایک جیسی سرگوشیاں

ایک جیسی آوازیں

ایک جیسے بدن۔

ایک جیسی سختی۔

ایک جیسی نرماہٹ۔

اور پھر۔

یہاں وہاں۔ پانی ہی پانی۔

صاف، شفاف، موتیوں کی طرح چمکتا، پھسلتا

یا پھر

بدبو دار، گندا، تعفن پھیلاتا، اچھلتا، کودتا۔

اور ان پانیوں کے بیچ پچھتاوے۔

اور ان پچھتاووں کے بیچ چہروں کا طلوع و غروب

تو کیا زیست کی طویل شاہراہ کا سفر ایسا ہی ہے ؟

اور یہ زیست کیسی ہے جو کچلتی ہی جا رہی ہے ؟

اس نے کچل دینے والی زیست کو دیکھا۔

اور جانا،

’’زیست اور کچھ بھی نہیں، بس لعنت ہی لعنت ہے۔‘‘

 

 

ٍ

جنم جہنم۔۳

 

اور وہ کہ جس کے چہرے پر تھوک کی ایک اور تہہ جم گئی تھی۔

اُس کی سماعتوں سے تھوک کر چلی جانے والی کے قہقہوں کی گونج ابھی تک ٹکرا رہی تھی

وہ اُٹھا۔ بڑبڑایا۔

’’جہنم۔ لعنت‘‘

پھر اپنے وجود پر نظر ڈالی اور لڑکھڑا کر گر گیا۔

اب نگاہ اوپر کی تو نظر میں کوئی بھی نہ تھا، جو سما رہا ہو

وہ خالی پن سے گھبرا اُٹھا

مٹی مٹھیوں میں بھر لی اور ہوا کے رُخ پر اُچھال دی۔۔۔ ساری مٹی ہوا نے واپس اُسی پر بکھیر دی۔

مٹی۔مٹی پر بکھر گئی۔وہ منمنایا۔

’’اگر یہ مٹی ہے اور میں بھی ہوں تو حقیقت کیا ہے۔‘‘

مٹی کا جواب تھا۔

’’شونیتا‘‘۔

شَونیتا اس نے دہرایا

’’مٹی ہمیشہ سچ کہتی ہے۔ یہ جو شونیتا ہے نا!۔ یہ حقیقت کا اصل الاصول ہے۔ منتہائے دانش، کلی حقیقت۔ تتھتا اور آخر کار نروان۔‘‘

تو کیا یہ سب کچھ واہمہ ہے، دھوکہ ہے یہ صوت، یہ نگاہ، یہ جذبوں سے لبالب بھر جانا، یہ قہقہے، یہ آنسوؤں کا امنڈ آنا اور

’’یہ تو نردبان ہے۔‘‘

وہ مباحثے پر اُتر آیا، کہی باتوں کو سوال کی صورت لوٹانے لگا۔ نردبان؟

’’دیکھو جس منزل کے تم متلاشی ہو اُس کا جاپ شونیہ ہے۔‘‘

خاموش ہو جاؤ خود میں اُترو اور اِنسانی بقا کے گہرے رازوں کی کھوج میں نکل جاؤ ورنہ تم اپوہ کے اسیر ہو جاؤ گے۔‘‘

وہ رہ نہ سکا۔ اپوہ؟۔

’’محدود ہوتا ہے۔ اتنا کہ جتنا دوسرے کو رد کرنے سے جگہ بنا پاتا ہے۔‘‘

وہ حیرت سے اسے دیکھتا رہا۔

’’یہ جو میں ہوں نا!۔ یہ میں اس لیے ہوں کہ میں تُو نہیں۔

اور یہ جو تُو ہے نا۔تُو اس لیے ہے کہ تُو میں نہیں۔

جب تجھ سے دوسرے سارے نفی ہو جائیں گے تو فقط تو ہو گا۔ تب آنند کی کھلی بانہیں تمہیں آغوش میں لے لیں گی۔‘‘

آنند؟۔

’’ہاں آنند۔ اور یہ جو آنند ہوتا ہے نا!۔ یہی رس ہے۔ اور یہ جو رس ہوتا ہے نا یہی آنند ہے‘‘

تب اُس نے اس کی بابت سوچا جو رس کی طلب میں زیست کی نئی شاہراہ پر نکل کھڑی ہوئی تھی اور خود کو سوچاکہ آنند پانے کو اُسے دیکھا تھا تو آنکھ میں وہ بھر گئی تھی جو منظر بننے کی خواہش سے وراء الوراء تھی۔

پھر ایک اور نگاہ اپنے وجود پر ڈالی جو رس بھوگ سے بھوگنا چاہتا تھا مگر آنکھوں میں مٹی کی رڑک تھی۔

اُسے یاد آیا۔ کہ وہ جو خودبخود نظر میں بھر گئی تھی پہلے پہل آئی تھی تو مَدن مد تھی۔ جگر جگر کرتی۔ لشکارے مارتی چکا چوند کرتی۔ مگر اب وہ شونیہ ہی شونیہ تھی۔

بیچ کی ساری منزلوں سے وہ بے خبر تھا۔

’’بیچ کی منزلیں جان لو گے نا!۔ تو بھے کا شکار ہو جاؤ گے۔ ان منزلوں سے گزرنے والے تو ان جانے میں گزر جاتے ہیں‘‘

ان جانے میں ؟

’’ہاں ان جانے میں

رتی کے سہارے، ۔۔۔ شوک سہتے ہوئے، ۔۔۔ بغیر کسی کُرودھ کے، ۔۔۔ بغیر کسی بھے کے، ۔۔۔ بغیر کسی جگپسا کے

کہ اس راہ میں وسمے ہی وَسمے ہے۔‘‘

وسمے۔؟

’’ہاں اِستعجاب کے فلک سے تحّیر کا برستا ہوا جَل۔ اور آدمی اس سے بھیگ بھِیگ جاتا ہے تم بھی بھیگ گئے ہونا!‘‘

پھر اس نے دیکھا اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبالب تھیں۔

وہ، وہاں پہنچا جہاں وہ تھی جسے نہ دیکھنے کی خواہش تھی نہ دیکھے جانے کی اشتہا۔

تم اس منزل تک کیسی پہنچ گئیں ؟

تمہارے طفیل۔ تم نے میری تکفیر کی اور میں خود کو بھول گئی۔ جب مجھے اپنی نیستی کا یقین ہو گیا تو میں ان لعنتوں سے چھٹکارا پا گئی جن میں اب تم لتھڑے ہوے ہو۔

اب تم جہاں ہو وہاں کی بابت کچھ بتاؤ؟

دیکھو! میں جب ہوں ہی نہیں تو اپنی بابت کیا بتاؤں ؟

اور یہ جو تم میرے مقابل ہو۔

یہ میں نہیں اس کا پر تو ہے ہاں جو ہے۔مگر نہیں ہے۔

کیا کہتی ہو؟۔ جو ہے۔ مگر نہیں ہے۔ اور یہ جو تم ہو۔ اور یہ جو میں ہوں۔ اور یہ جو زیست کی لمبی شاہراہ ہے۔ اور اس پر بھاگتی قہقہے لگاتی وہ ہے، جو نظر کی طلب میں منظر بن گئی تھی اور یہ جو نظارے ہیں اور یہ جو نظر ہے

وہ ہنسی کچھ بھی نہیں ہے بس لعنت ہی لعنت ہے۔

یہ جنم بھی۔ اور اس کے علائق بھی سب لعنت ہی لعنت ہے

وہ بڑبڑایا۔ لعنت؟

پھر بھاگتا ہوا آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔۔۔ اور تاڑ تاڑ تھپڑ اپنے ہی منھ پر یوں رسید کرنے لگا جیسے جہنم کے بھڑکتے شعلے بجھا رہا ہو۔

پھر چیخا لعنت۔لعنت

تب اس نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ دیئے

اور ہونٹوں سے اس کے زخمی گالوں کو چوما۔

اور پوروں سے اس کے آنسوؤں کو صاف کیا۔

اور اسے دیکھا۔

اور جب اُسے دیکھا، تو وہ اس کی آنکھ میں گر گئی اور ساری کی ساری بھیگ گئی۔

بھیگ گئی اور بہہ گئی۔

بہہ گئی اور ڈوب گئی۔

تب اس کے اندر اسی کی ہستی اُتر آئی۔

وہ مچل اُٹھی اور چیخ کر کہا۔

’’یہ جو لعنت کی کٹاری کی تیز دھار ہے نا!۔ بالآخر یہی تو بندے کا مقدّر ہے۔‘‘

 

 

بَند آنکھوں سے پَرے

 

راحیل کو زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی بے بسی پر ترس آیا۔

کل شام تک وہ اپنی قسمت پر نازاں تھا۔

کون سی نعمت تھی، جو اس کا مقدّر نہ ٹھہری تھی۔

یہ جو تتلی جیسی بچی نایاب اور پھولوں جیسے دو بچے نبیل اور فرخ پھلواڑی میں کھیل رہے ہیں، راحیل ہی کے بچے ہیں۔

کل تک وہ انہیں دیکھتا تھا تو روح میں تازگی پاتا تھا، خُون کی حدت تیز ہو جاتی تھی اور آنکھوں میں محبتا ور وارفتگی کی چمک اُتر آتی تھی۔

کہ کل کا ہر سمے یقین کا سمے تھا۔

مگر اب یقین کے سمے کی ڈوری اس کے ہاتھ سے سرک چکی تھی۔ اسے یوں لگنے لگا، جیسے اس کی روح تشکیک، تذبذب اور بے قراری کی سولی پر لٹکی ہوئی ہو۔

کیا وہ سب لمحے اِلتباس تھے جو اُنہوں نے ایک دوسرے میں گم ہو کر گزارے تھے ؟

اُسے یقین نہیں آ رہا تھا۔۔۔

یقین کے لیے وجہ کی ٹھوس زمین چاہئے جس پر بے دھڑک قدم رکھے جا سکیں۔ وہ تو اندیشوں کے آوارہ بادلوں میں یونہی ڈول رہا تھا۔۔۔ ’’ہاں‘‘ اور ’’نہ‘‘ کی صلیب پر لٹکا، من کے سمندر میں تیر رہا تھا۔۔۔ اور موج در موج اُٹھتی لہریں، جن کا رُخ کبھی باہر کی جانب تھا، بالکل ایسے ہی جیسے چودھویں رات ساری موجیں کناروں کو لپکتی ہیں، وہ آج اس کے باطن میں اندر بہت گہرائی میں گرتی چلی جاتی تھیں۔

وہ سن روم میں بیٹھا تھا۔ یوں جیسے اس کا وجود بالکل خالی ہو چکا ہو۔ ایسے میں اس کی نظریں اوپر اٹھیں اور ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد پھلواڑی کے بیچوں بیچ امریکن گراس سے سجے لان میں کھیلتے اپنے بچوں ج، گئیں۔ فلک کی سمت اُٹھتے سر سبز پہاڑوں پر چھتنار پیڑوں سے بادلوں کے دل کے دل یوں اُٹھ رہے تھے جیسے وہاں جگہ جگہ آگ سلگ رہی ہو اور دھُواں ہی دھُواں اُوپر اُٹھ رہا ہو۔

ایسی ہی ٹھنڈی آگ اسے لگا اس کے اندر بھی بھڑکنے لگی تھی۔

بادل رفتہ رفتہ پھیلتے پھیلتے کاٹیج کے گرداگرد لکڑی سے بنے ہوے جنگلے تک آ پہنچے تھے۔ ہر طرف دھُند ہی دھُند تھی۔ چند لمحے پہلے جو پہاڑ گھنے پیڑوں اور اُمنڈتے بادلوں سے مزین نظر آ رہے تھے، وہ اب اس دھند میں گم ہو گئے تھے۔

یہی وہ موسم تھا، جو ہر سال گرمیوں میں، جب بچوں کوا سکولوں سے چھٹیاں ہوتی تھیں، اُسے یہاں رہنے پر مجبور کرتا تھا۔ آج سے کئی سال پہلے اِسی مہینے اور اِسی تاریخ کو راحیل اور حسینہ اِسی کاٹیج کی پھلواڑی کے بیچوں بیچ، وہاں جہاں نایاب، نبیل اور فرخ کھیل رہے ہیں، ایک دوسرے میں گم تھے۔۔۔ یا پھر شاید راحیل حسینہ میں گم تھا اور حسینہ۔۔۔

تب بھی بادل یونہی پیڑوں کی پھنگیوں سے اُٹھے تھے اور کاٹیج کے جنگلے کو پھلانگنے لگے تھے۔ ان دونوں کو بادلوں کی یہ اٹکھیلیاں اچھی لگ رہی تھیں۔ پھر انہیں یوں محسوس ہوا تھا جیسے وہ بادلوں کی گود میں تھے۔

حسینہ راحیل کے مقابل بیٹھی تھی۔

اور اس کے نیم گھونگھریالے بال اس کے اُبھرے ہوے شانوں کو چھو رہے تھے۔ نگاہیں جھکی ہوئی تھیں اور گال سیب کی مانند سرخ ہو رہے تھے۔ راحیل کھسک کر اُس کے داہنے ہاتھ ہو گیا اور اُس کا سر اپنے زَانُو پر ٹکا لیا۔ حسینہ نے کوئی مزاحمت نہ کی تھی اور خاموشی سے گیلی گھاس پر ٹانگیں پسار کر اپنے پورے چہرے کو راحیل کے سامنے کر دیا تھا۔ اُس کے چھوٹے چھوٹے ہونٹ مسکراہٹ کی پھوار سے گیلے ہو کر پھیل رہے تھے۔ پلکوں کی جھالر تھر تھرا کر اُوپر اُٹھتی اور پھر نیچے گر جاتی۔۔۔

گویا اُ س کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔

اُس کی آنکھیں بند تھیں ؟۔۔۔

اِس خیال کے آتے ہی راحیل کو یوں لگا جیسے ایک کوندا سا لپک کر اُسے بھسم کر گیا ہو۔۔۔

تب بھی اُس کی آنکھیں بند تھیں۔۔۔ ؟

اُن سرشاری کے لمحوں میں، جب کہ شادی کو محض تین روز گزرے تھے۔۔۔ تب بھی۔۔۔ تب بھی۔۔۔؟

اندر سینے میں درد بڑھتا ہی چلا گیا۔

اس نے بچوں کی جانب دیکھا۔ تینوں پہلے کی طرح کھیلنے میں مگن تھے۔۔۔ ایک دوسرے کے ہاتھ تھامے۔۔۔ دائرے میں گھومتے ہوے۔۔۔ ایک دوسرے پر گرتے ہوے۔۔۔ قہقہے لگاتے ہوے۔۔۔ اور چیختے ہوے :

Ring a ring of roses

A pocket full of posies

Tishoo! tishoo!

We all fall down

اور راحیل کا ذِہن Fall Down۔۔۔ Fall Down کی تکرار سے گونج اُٹھا۔

بادل کاٹیج کا جنگلا پھلانگ کر پھلواڑی کے بیچ پہنچ گئے۔ اسے یوں لگ رہا تھا، بچے کبھی گیلی دھند میں گم ہوتے تھے اور کبھی ان بادلوں کی گود سے کود کر سامنے آ جاتے۔ راحیل سَن روم سے باہر آ گیا۔ اس کے بدن کا بہت سا خالی پن وسوسوں سے بھر گیا تھا۔ وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھاتا بچوں تک پہنچا۔ باری باری اپنی نگہ کی لمبی پوروں کے لمس سے اُن کے چہروں کے ایک ایک خط کو ٹٹولا۔ پھر نفی میں دائیں بائیں سر ہلاتا ہوا واپس سَن روم میں پہنچا اور خود کو کرسی پر گرا دیا۔

Fall Down۔۔۔ Fall Down

بچے پہلے کی طرح اپنے کھیل میں مگن رہے۔

حسینہ، اُس کی بیوی یعنی اُس کے بچوں کی ماں، کچن میں اُس کے لیے چائنیز بنانے میں مصروف تھی۔۔۔ وہی حسینہ کہ جس نے راحیل کو کبھی بھی مایوس نہیں کیا تھا۔ اُسے یوں لگتا تھا کہ خلوص کا یہ مجسمہ ہر آن اُس کی دل جوئی میں لگا رہتا تھا۔ بالکل ہمارے ہاں کی روایتی بیویوں کی طرح۔۔۔ راحیل کو اُس پر ناز تھا اور بے انت پیار بھی۔۔۔ اور شاید جس لمحے اس نے اپنے آپ کو پھلواڑی سے واپس آ کر خود کو کرسی پر گرا لیا تھا تب تک اسے پیار تھا۔۔۔ مگر یہ واقعہ بھی اپنی جگہ تھا کہ کل شام سے اس لمحہ تک تشکیک، تذبذب، بے قراری اور بے یقینی کی آری نے اُس کے لیے اور صرف اُسی کے لیے مخصوص راحیل کے باطنی جذبات کو اندر ہی اندر سے کاٹنا شرو ع کر دیا تھا۔

ہاں۔۔۔ کل شام سے۔۔۔ کہ جب جمال، راحیل کو ملا تھا۔

وہی جمال جو کبھی راحیل کا کلاس فیلو تھا۔

اِسم با مسمیٰ۔۔۔ دراز قد، مضبوط بدن، کھلتی رنگت اور سب سے بڑھ کر اُ س کا شیریں لہجہ۔۔۔ شاید یہی وہ خصوصیات تھیں، جن کی وجہ سے وہ پوری یونیورسٹی میں ہر دل عزیز تھا۔۔۔ اور شاید یہی وجہ تھی کہ انگلش لٹریچر کی طالبہ حسینہ اُس پر مر مٹی تھی۔

حسینہ بھی اپنے نام کی طرح حسین تھی۔

نکلتا قد، نیم گھونگھریالے بال، فربہی شانے، بڑی اور بھوری آنکھیں، چھوٹے چھوٹے ہونٹ، صاف شفاف جلد، دودھیا رنگ میں شفق کی سرخی گھلی ہوئی۔ وہ دونوں کب سے ایک دوسرے کی چاہ میں بندھے ہوے تھے ؟ اُن دنوں راحیل کو اِس کا علم نہ تھا۔۔۔ اور شاید اُس کو علم ہوتا بھی نہ، اگر وہ اس روز حسینہ کی سسکیاں نہ سن لیتا۔ ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب میں خوبصورت سے لان کی پرلی طرف دونوں مقابل بیٹھے تھے۔ جمال بے قراری سے اُسے دیکھ رہا تھا۔ اور وہ اپنے گالوں پر ٹھہرے ہوے آنسو اپنی مخروطی اُنگلیوں سے صاف کر رہی تھی۔ راحیل نے تجسس میں اپنی چال مدھم کر لی۔

وہ کپکپائے لفظوں میں کہہ رہی تھی:

’’عورت اپنی زندگی میں صرف ایک ہی مرد کو چاہتی ہے، ہاں صرف ایک مرد کو۔۔۔ میں نے تمہیں چاہا ہے۔۔۔ تمہیں روح تک میں بسایا ہے۔۔۔ تمہارے لیے خواب دیکھے ہیں۔۔۔ تم سے اُمیدیں باندھی ہیں۔۔۔ بس تم ہی میرے مَن کے اندر اُترے ہو۔ تم اور صرف تم میرا پیار ہو۔۔۔ یاد رکھنا۔۔۔ میں تمہیں زندگی بھر نہ بھلا سکوں گی۔‘‘

جمال چُپ چَاپ اُسے دیکھے جا رہا تھا اور حسینہ بھی چند لمحوں کے لیے چُپ کے پانیوں میں اُتر گئی تھی۔۔۔ اور اِسی اثنا میں راحیل کچھ آگے نکل گیا۔

وہ پہلا دن تھا کہ راحیل کو اُن دونوں کی محبت کا علم ہوا تھا۔

اور وہ آخری دن تھا کہ اُس نے جمال کو دیکھا تھا۔

حسینہ بلا کی حسین سہی مگر اُس میں آج کل کی لڑکیوں جیسا چنچل پن نہ تھا۔ کسی نے بھی اس کے کھنکتے قہقہے نہ سنے تھے۔ وہ اکثر حیا کی چادر میں لپٹی لائبریری میں دیکھی جاتی یا پھر گنے چنے سنجیدہ سے دوستوں اور سہیلیوں کے ہمراہ کسی خشک سے موضوع پر محو گفتگو ہوتی۔۔۔ اس کا پسندیدہ موضوع ادب و فلسفہ تھا۔ اِس پر وہ پہروں جمال کے ساتھ گفتگو کرتی۔ یہ ادبی و علمی محافل زیادہ تر ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے خوبصورت لان میں جما کرتی تھیں۔ ان میں راحیل بھی کبھی کبھار شریک ہوا کرتا تھا۔ لیکن اکثر اوقات بحث اِتنی خشک ہوتی کہ وہ جلد اُکتا کر اُٹھ جاتا۔

اُس روز تک، کہ جس روز اُس نے جمال کو آخری بار دیکھا تھا اور حسینہ اپنے دہکتے گالوں سے ڈھلکتے آنسو صاف کرتے، اور عورت کے ایک پیار کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے، جمال کو اپنی محبت کا یقین دلا رہی تھی۔۔۔ ہاں شاید اس روز تک، راحیل کو اس میں کبھی کوئی کشش محسوس نہ ہوئی تھی۔

ایک سنجیدہ سی فلسفی لڑکی، جو خشک موضوعات پر تو پہروں بولتی ہو، مگر دوستوں کو ایک کھنکتا قہقہہ تک نواز نہ سکے۔۔۔ اُس میں بھلا راحیل کو کشش محسوس ہوتی بھی تو کیوں کر؟

مگر اُس لمحے کہ جب اُس کے ہونٹ جمال کی محبت کی نمی سے تر تھے، راحیل کو یوں لگا، جیسے اس کے اندر کہیں نہ کہیں کچھ ہونے لگا تھا۔۔۔

وہ جو محض کتابوں میں غرق رہتی۔۔۔ وہ جو خشک ادبی و فلسفیانہ موضوعات پر پہروں بحث کرتی۔۔۔ اور۔۔۔ وہ کہ جسے کسی نے کھُل کر ہنستے ہوے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ جو بلا کی حسین سہی۔۔۔ مگر جس کا کوئی سکینڈل یونیورسٹی کی فضا میں نہیں گونجا۔۔۔ اُس کے ہونٹ محبت کی پھوار سے تر بھی ہو سکتے تھے !۔۔۔ اُ س کا دل محبت میں بے قرار ہونا بھی جانتا تھا!۔۔۔ یہ اُ س کی شخصیت کا ایسا حسین گوشہ تھا جو راحیل پر پہلی مرتبہ کھُلا تھا۔۔۔ اور کھُلا بھی یوں کہ اُسے اندر سے نہال کر گیا تھا۔

اس کے بعد تو اُس کی نظر میں کوئی بھی جچ نہیں رہا تھا۔ سب فیشن کی شائق، بات بات پر قہقہے لگانے والی، اٹھکیلیاں کرتی، آنکھیں مٹکاتی، جدید تہذیب میں ڈھلی ہوئی، دھلی دھلائی چمکتی لڑکیاں بہت پیچھے رہ گئیں۔

پھر وقت نے کچھ یوں انگڑائی لی کہ اُسے حاصل کرنا راحیل کے لیے کوئی مشکل نہ رہا۔

اُس روز کہ جب پہلی مرتبہ اُس نے جمال کے لیے حسینہ کے ہونٹوں سے محبت کے بھیگے لفظ طلوع ہوتے دیکھے تھے اور کل شام کے اُس سمے تک کہ جب جمال اُسے ایک طویل عرصے بعد ملا تھا، راحیل اور حسینہ کے بیچ جتنے موسم آئے، اُن میں سے ایک پر بھی جمال کا سایہ تک نہ تھا۔

اور اس روز کہ جب وہ راحیل کی دُلہن بن کر اُس کے آنگن میں اُتری تھی، اس روز سے کل شام تک کا ایک ایک لمحہ راحیل کی مٹھّی سے پھسل کر گزرا تھا۔ کل کا سارا دن راحیل نے بچوں کے ساتھ کھیلتے اور حسینہ سے اٹھکیلیاں کرتے ہوے گزار دیا۔ شام ہونے کو آئی تو وہ بے دھیانی میں باہر نکل کھڑا ہوا۔ پیدل چلتا چلتا کارٹ روڈ سے ہوتا ہوا مال تک گیا۔ ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔ پانی سے بوجھل بادل ہوا کے سنگ ڈول رہے تھے اور جی چاہتا تھا، چھوٹے چھوٹے قدموں سے وہ یونہی چلتا رہے۔۔۔ چلتا رہے۔ دفعتاً اُس کی نگہ جمال پر پڑی۔۔۔ ایک لمحے کو وہ اُس نے اس کی جانب لپکنا چاہا مگر دوسری آن اِک دھڑکے نے اُس کے قدم جکڑ لیے۔

وہ چاہتا تھا، پہلو بچا کر نکل جائے۔ مگر وہ ایسا چاہتے ہوے بھی نہ کر سکا۔کہ جمال بہت قریب آ چکا تھا اور اس نے اُسے دیکھ بھی لیا۔ اُس نے مصنوعی گرم جوشی سے اُسے بغل گیر کیا۔۔۔ طویل عرصے تک گم رہنے کا گلہ کیا اور کوئی بہانہ بنا کر کھسک جانے کا ارادہ باندھا۔ مگر جب جمال نے نہایت اپنائیت سے کافی کے کپ پر جا چکے لمحوں کو یاد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو وہ مجبوراً ساتھ ہو لیا تھا۔

اُن کے سامنے کافی کے گرم گرم کپ پڑے تھے جن سے بھاپ اُٹھ رہی تھی اور شیشے کی دیوار کے اُس پار بوندا باندی ہو رہی تھی۔ پانی سے بوجھل بادل اِدھر اُدھر بھٹک رہے تھے۔۔۔ اور راحیل اس کے مقابل بیٹھا اس کے سوالوں کے زدّ پر تھا۔۔۔ وہ کہ جو بالکل نہ بدلا تھا۔۔۔ بس آنکھوں پر نظر کا چشمہ لگ گیا اور کنپٹیوں پر چند بال سفید ہو گئے تھے۔۔۔ پوچھ رہا تھا:

’’شادی کی؟۔ بھابھی کیسی ہے ؟۔۔۔ بچے کتنے ہیں ؟۔۔۔‘‘

راحیل پر یہ سوال بہت گراں گزر رہے تھے۔۔۔ وہ پہلو بچا بچا کر جواب دیتا رہا اور کسی بھی لمحے اُس پر یہ نہ کھُلنے دیا کہ وہی حسینہ جو بہت عرصہ قبل ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے گراؤنڈ میں روتے ہوے اور عورت کے ایک پیار کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے، اسے اپنی محبت کا یقین دلا رہی تھی، وہی۔۔۔ ہاں وہی۔۔۔ حسینہ اب اس کی بیوی تھی۔۔۔ اس کے بچوں کی ماں۔۔۔ اس کے لیے پل پل جینے والی۔۔۔ ہر لمحہ اس کی خُوشنودی کے لیے مصروف۔۔۔ اسے حسینہ پر اعتماد تھا۔۔۔ مگر نہ جانے کیوں، وہ جمال پر یہ سب کچھ ظا ہر نہ ہونے دینا چاہتا تھا۔ تب ہی تو اُس نے موضوع بدلنے کے لیے اپنے سوالات کا رُخ جمال کی جانب کر دیا تھا۔

’’تم۔۔۔ تم ایکا ایکی کیسے غائب ہو گئے تھے ؟۔۔۔ مجھے یاد ہے، میں نے تمہیں آخری بار ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے لان میں دیکھا تھا۔۔۔‘‘

’’میں بزدل تھا‘‘

راحیل چونک پڑا، نگاہیں اُس کے چہرے پر گاڑتے ہوے کہا:

’’بزدل؟‘‘

وہ راحیل کے کندھے سے پرے شیشے کی اُس جانب پانی سے بوجھل آوارہ بادلوں کو دیکھتے ہوے گویا ہوا:

’’بزدل۔۔۔ ہاں بزدل۔۔۔ میں واقعی بہت بزدل تھا‘‘

پھر اُس نے راحیل کو آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے دیکھا اور کہا:

’’میرے دوست‘‘

اس کی آواز، جو کہیں دور سے آ رہی تھی، پھر کہیں گم ہو گئی۔ ہونٹ تھرتھرائے اور لفظ ایک ایک کر کے اس کے ہونٹوں سے یوں پھسلنے لگے کہ بمشکل راحیل تک پہنچ پا رہے تھے :

’’اس روز کہ جب تم نے مجھے آخری مرتبہ دیکھا تھا۔۔۔ اس نے پہلی مرتبہ محبت کے بھیگے لفظ سے اپنے ہونٹوں کو معطر کیا تھا۔

میں حیرت سے اُسے دیکھ رہا تھا۔

خُوشی کا سما ملا تھا تو یوں کہ میرے بدن کا ایک ایک خلیہ دُکھ کی بھٹی میں بھُن رہا تھا۔۔۔

میں اُسے خدا حافظ کہہ دینے پر مجبور تھا۔۔۔ کہ میں بزدل تھا۔ مگر اُس نے سب کچھ سننے کے بعد بھی وہ لفظ کہے تھے، جن کو اُس کے سامنے کہہ دینے کا مجھے کبھی حوصلہ نہ ہوا۔۔۔ اور جن کو سننے کی چاہ میں، مَیں نے طویل اِنتظار کا دُکھ سہا تھا۔۔۔‘‘

راحیل پہلو بدل رہا تھا۔

مگر جمال رندھا جانے والی آواز میں اُسے بتا رہا تھا:

’’جس روز میں نے اُسے آخری بار دیکھا تھا۔ اُس سے ایک رات قبل میرا باپ قتل ہو گیا تھا۔۔۔ اور ابھی میں باپ کی لاش کے حصول کے لیے جائے وقوعہ کی جانب بھاگ رہا تھا کہ میرے چچا نے، میری راہ روک کر، مجھے بتایا تھا، میرے باپ کے قاتل کو لہو میں نہلا دیا گیا ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا، دشمنوں کا شک مجھ پر ہے کہ یہ دوسرا قتل میں نے باپ کا بدلہ لینے کے لیے کیا ہے۔۔۔‘‘

پھر رات ابھی میں نے اپنے باپ کی نعش دفن بھی نہ کی تھی کہ مجھے بتایا گیا، میری جان خطرے میں ہے، ۔۔۔ اور یہ بھی۔۔۔ کہ۔۔۔ میرے خلاف قتل کا مُقدّمہ درج کرانے کے لیے آدمی تھانے کی جانب روانہ ہو چکے ہیں۔ تب جلدی جلدی آخری رسومات ادا کی گئی تھیں، جنازہ پڑھا گیا، قبر تیار ہوئی اور میرے مقتول باپ کو دفن کر دیا گیا۔۔۔ پھر رات کے اندھیرے میں ہی مجھے گاؤں سے باہر لے جایا گیا۔۔۔ تاکہ دشمنوں کی جانب سے ممکنہ کار روائی سے مجھے بچایا جا سکے۔۔۔‘‘

جمال نے درد میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا:

’’میں بہت خوفزدہ تھا۔

مجھے باور کرا دیا گیا تھا کہ اگر میں گرفتار ہو گیا تو سیدھا پھانسی کے تختے تک جا پہنچوں گا۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ اگر دشمنوں کے ہتھے چڑھ گیا تو قتل کر دیا جاؤں گا۔۔۔

خوف نے مجھے بزدل بنا دیا تھا۔

اور۔۔۔ میں نے اسے روتا چھوڑ کر امریکہ بھاگ جانے کا ارادہ باندھ لیا تھا۔۔۔‘‘

جمال بتا رہا تھا:

’’اس روز۔۔۔ کہ جب میں آخری بار حسینہ سے ملا تھا، اُسی روز میرا چچا بھی گاؤں سے آ کر مجھے ملا تھا۔۔۔ اُسی نے میرے فرار کا سارا بندوبست کیا تھا۔ میرا چچا بہت با اثر شخص تھا اور ایسا اِنتظام کرنا اس کے لیے کوئی مشکل کام نہ تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس رات کی آخری فلائٹ میں میرے سیٹ کنفرم ہو چکی تھی۔‘‘

جمال نے راحیل کی جانب دیکھتے ہوے کہا:

’’بہت بعد۔۔۔ ہاں جب وہ سارا وقت گزر چکا تھا جو میری گرفت میں آ سکتا تھا۔۔۔ مجھے ایک با وثوق ذریعے سے معلوم ہوا تھا کہ میرے باپ کا قتل، بدلے میں ایک اور معصوم کا قتل اور دشمنوں کی جانب سے میرے خلاف قتل کا مُقدّمہ، اِس سب کچھ کے پیچھے میرے چچا کا ہاتھ تھا۔ سارا ڈرامہ چچا نے میرے باپ کے دشمنوں سے مِل کر رچایا تھا کہ اسی طرح وہ اس ساری جائیداد پر قابض ہو سکتا تھا جو میرے باپ اور پھر میری وجہ سے تقسیم ہو کر اس کے ہاتھوں سے پھسلتی جا رہی تھی۔‘‘

جمال نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں، ہونٹ دانتوں تلے کاٹے اور لفظ چباتے ہوے راحیل سے کہا:

’’کاش میں موت سے نہ بھاگتا۔۔۔ مارا جاتا یا پھانسی چڑھ جاتا۔۔۔ اس طرح کم از کم نہ ختم ہونے والے مسلسل اذیّت کے عذاب سے تو بچ جاتا‘‘

اس نے اپنی مٹھیاں کھول دیں، کہنیوں کو میز پر ٹکاتے ہوے اپنی کنپٹیوں کے اُن بالوں کو اپنی انگلیوں میں پھنسا لیا، جو اس عرصے میں سفید ہو گئے تھے۔۔۔ پھر کہیں دُور سے آتی ہوئی آواز میں اُسے بتانے لگا:

’’وہ بہت بہادر تھی۔۔۔ وہ کہ جو حیا کا مجسمہ تھی۔۔۔ اور۔۔۔ جس نے شاید پہلی مرتبہ اپنی محبت کا اقرار لفظوں میں کیا تھا۔۔۔ اور جس نے یقیناً خُون کے رشتوں سے باہر مجھ سے پہلی محبت کی تھی۔۔۔ اور سچ کہا تھا کہ میں اسے نہ بھول پاؤں گا۔۔۔‘‘

جمال ایک لمحے کو چپ ہو گیا۔۔۔ ایک گہری سانس لینے کے بعد ٹھنڈی کافی کا آخری گھونٹ بھرا اور دوبارہ جا چکے لمحوں کی وادی میں کھو گیا۔ راحیل کو وہ لفظ بتائے جو اُس نے خود کئی سال پہلے ڈیپارٹمنٹ آف پتھالوجی کے عقب والے خوبصورت لان کے پاس سے گزرتے ہوئے، حسینہ کے بھیگے ہونٹوں سے سنے تھے۔ پھر جمال نے اُسے بتایا تھا کہ حسینہ کیسے رو دی تھی۔ اُس کا خیال تھا:

’’بے شک وہ رو دی تھی، مگر تھی جی دار، کہ موت کی وحشت اس کے لیے کوئی مسئلہ نہ تھا۔ تب ہی تو وہ مجھے کہہ رہی تھی:

’’دیکھو ایک ہی ہلے میں مر جانا اذِیّت ناک نہیں ہوتا۔۔۔ ہاں اندر اور باہر کے جذبوں کی خلیج کے ساتھ زندگی کا جبر سہنا بہت اذِیّت ناک ہوتا ہے۔۔۔‘‘

جمال کہ، جس کا چہرہ پچھتاوے کے درد سے تَن گیا تھا، کہنے لگا:

’’اس لمحے میں اُس کی بات نہ سمجھ سکا تھا۔۔۔ مگر اب جب کہ بیتے ہوے ایک ایک لمحے میں موت کا زہر میرے ایک ایک خلیے میں اُترتا رہا ہے اور میں قسط در قسط موت کی کڑواہٹ چکھنے پر مجبور رہا ہوں۔۔۔ مجھے اس کی بات حرف بہ حرف درست معلوم ہوتی ہے۔۔۔‘‘

اُس نے پہلو بدلتے ہوے اپنی بات آگے بڑھائی:

’’جینفر وہ لڑکی تھی جو شریکِ حیات بن کر میری زندگی میں آئی۔۔۔ خوب صورت اونچے اونچے پلازوں اور عمارتوں والے مین ہنٹن کے ہاورڈ جانس ہوٹل میں وہ مجھ سے ملی تھی۔۔۔ پہلے دوستی ہوئی۔۔۔ پھر جینفر نے خیال ظاہر کیا کہ ہم دونوں بہترین لائف پارٹنر ثابت ہو سکتے تھے۔۔۔ لہٰذا ہماری شادی ہو گئی۔۔۔ اُس میں گرمجوشی کوٹ کوٹ کر بھر ی ہوئی تھی۔۔۔

سنہرے بالوں، سبز آنکھوں اور کچے دودھ جیسی رنگت اور ذائقے والی جینفر نے میری شخصیت کو بڑی حد تک سہارا دیا تھا۔۔۔ اور میں مالی طور پر بھی مستحکم ہوتا چلا گیا۔

میں نے یقین کر لینا چاہا تھا کہ زندگی مجھ پر مہربان تھی۔

مگر میں اندر ہی اندر سے اُس جا چکے لمحے کی گرفت میں تھا کہ جب حسینہ نے مجھے اپنی محبت کا یقین دلایا تھا۔۔۔ اور کہا تھا۔۔۔ کہ میں اسے نہ بھول پاؤں گا۔۔۔ جب بھی آنکھیں جھپکاؤں گا اس کی صورت سامنے پاؤں گا۔‘‘

جمال نے پہلو بدلا، ایک لمبی سانس بھری:

’’آہ!۔۔۔ میرے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا ہے میرے دوست۔۔۔ میں آسُودگی کے اُن دنوں میں بھی اُسے یاد کرتا رہا ہوں۔ خصوصاً وہ لمحے تو میرے لیے بہت اذِیّت ناک بن جاتے، جب بہ ظاہر میں جینفر کو پیار کر رہا ہوتا مگر آنکھیں بوجھل ہوتے ہوتے بند ہو جاتیں۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔ بند آنکھوں میں حسینہ آ سماتی۔۔۔‘‘

اب راحیل پہلو بدل رہا تھا۔۔۔ اندر ہی اندر کھول رہا تھا۔۔۔ چاہتا تھا، موضوع بدل جائے۔۔۔ مگر جمال کی آواز میں وہ درد اور تسلسل تھا کہ وہ اُس کی کہانی کو آخر تک سننا چاہتا تھا۔

جمال کہہ رہا تھا۔

’’پھر یوں ہوا کہ میں اپنی باطنی کیفیات کی وجہ سے چڑچڑا ہوتا چلا گیا۔

باپ کے قتل اور مقدمے میں پھنسائے جانے کا اصل سبب معلوم ہونے کے بعد میرے باطن میں اِنتقام کی ایک آگ بھڑک اُٹھی تھی۔ میرے اندر کا بزدل کہیں لمبی تان کر سو گیا تھا۔ لمحہ لمحہ میرے وجود میں اُترنے والا موت کا زہر میرے باطن میں دفن جذبوں کے لاشوں کے لیے تریاق کا کام کر رہا تھا۔۔۔ اپنا وطن، اپنے دشمن، اپنے لوگ، اپنی نفرتیں، اپنا کلچر، اپنی محبتیں اور سب سے بڑھ کر اپنی حسینہ، سبھی میرے جذبوں میں نئی حیات پا رہے تھے۔

جینفر کے ہاں ماریہ پیدا ہوئی تو اُس وقت تک بہت کچھ موقع بے موقع میرے سینے سے باہر اُبلنا شروع ہو گیا تھا۔‘‘

جمال کہہ رہا تھا:

’’ایک روز، کہ جب ماریہ گھٹنوں کے بل چلنے کے قابل ہو گئی تھی، میں اس کے پاس سے گزرا تو اُس نے اپنے ننھے ہاتھوں سے میری پتلون کے پائنچے کو تھام لیا۔ میں نے جھک کر اُس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی کی، نگہ چہرے پر پڑی تو عجب سی اُلجھن میں گرفتار ہو چکا تھا۔

ماریہ جب سے پیدا ہوئی تھی، روزانہ سینکڑوں مرتبہ میں نے اُسے دیکھا تھا، اُس سے پیار کیا تھا۔ مگر اُس روز کہ جب وہ اپنا وہ کھلونا حاصل کرنا چاہتی تھی جو میز کے اوپر پڑا تھا۔۔۔ اور جس کے لیے اس کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک کر اس کے رخساروں پر ٹھہر گئے تھے۔۔۔ اور اس نے میری مدد حاصل کرنے کے لیے مجھے روکا تھا۔۔۔ اُس روز مجھے یوں لگا تھا، وہ تو  ہُو بہ ہُو حسینہ کی تصویر تھی۔ وہی نیم گھونگھریالے بال، وہی بھوری آنکھیں، چھوٹے چھوٹے ہونٹ، صاف شفاف شفق کے رنگ میں گندھی جلد، اُبھرے اُبھرے گال۔ ستم بالائے ستم یہ کہ گالوں پر دو آنسو بھی ویسے ہی ٹھہر گئے تھے، جیسے اس آخری روز حسینہ کے گالوں پر ٹھہرے تھے، جب اس نے پہلی مرتبہ محبت کے لفظ سے اپنے ہونٹوں کو گیلا کیا تھا۔‘‘

راحیل ہمہ تن گوش تھا مگر اُس کے سینے میں دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ اِتنی زور سے کہ راحیل کو خدشہ تھا، دل کے دھڑکنے کی آواز جمال تک بھی پہنچ رہی ہو گی۔

مگر جمال اس کی کیفیات سے بے نیاز، شیشے کی دیوار سے پرے، ہوا کے جھولے میں ہلکورے کھاتے بادلوں کو دیکھ رہا تھا اور کہہ رہا تھا:

’’پھر حسینہ مجھے بند آنکھوں کے ساتھ ساتھ کھلی آنکھوں سے بھی نظر آنے لگی۔ جینفر مجھ سے دور، بہت دور ہوتی چلی گئی۔ وہ کب آتی، کب جاتی؟۔۔۔ مجھے پروا ہ نہ تھی۔ شروع شروع میں تو وہ جھنجھلا اُٹھتی اور مجھے جھنجھوڑ کر اپنی موجودگی کا احساس دلانے کی کوشش کرتی رہی۔ مگر رفتہ رفتہ اس کا دم گھٹنے لگا۔۔۔ اور جب ماریہ، جو اچھی بھلی تھی، ایک رات چپ چاپ مر گئی تو جینفر مجھ سے یوں جدا ہو گئی، جیسے ہمارا ساتھ کچھ دیر کی مسافرت کا ساتھ تھا۔ اُس کا ٹرمینل آیا اور وہ اُتر گئی تھی۔‘‘

جمال اُٹھ کھڑا ہوا۔ شیشے کی دیوار تک پہنچا، اُس پر جمے پانی کے قطروں کو اپنی انگلیوں سے چھوا، پھر واپس اپنی نشست تک آیا اور بیٹھ گیا۔ کہا:

’’راحیل میرے دوست! زندگی مجھے بس یونہی چھوتی رہی ہے، جیسے باہر بادل شیشے کی دیوار کو چھو رہے ہیں۔ مگر میرے اندر دُکھ قطرہ قطرہ بن کر جم گئے ہیں۔ ماریہ کے مرنے اور جینفر کے بچھڑنے کے بعد سوچا، لمحہ لمحہ قسطوں میں مرنے کی بہ جائے ایک ہی جست میں اذِیّت سے رہائی کی جدوجہد کیوں نہ کروں۔۔۔‘‘

اُس نے راحیل کی طرف دیکھا اور اپنی بات کا تسلسل برقرار رکھا:

’’پھر میں نے خود کو سمیٹنا شروع کر دیا اور یوں واپس پلٹ آیا۔

کل جب ایئرپورٹ پر اُترا تو میں خیال کے کئی الجھاووں میں پھنسا ہوا تھا۔ میرے سامنے سب سے اہم بات چچا سے بھگت چکے عذابوں کا حساب چکانا تھا اور اُس کے لیے میں نے طرح طرح کی منصوبہ بندی کی تھی۔ مگر جونہی ایئر پورٹ پر اترا اور لاؤنج میں پبلک کال آفس پر نگہ پڑی، جی چاہا، حسینہ کے گھر فون کر کے اُس کے بارے میں معلومات حاصل کروں۔‘‘

راحیل بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ اب کے اُسے واقعی ایسے لگا، دل حلق سے باہر آگرے گا۔۔۔ جمال کہہ رہا تھا:

’’میں نے وہیں اپنا وہ سوٹ کیس کھولا، جس میں میرے اندازے کے مطابق میری اس ڈائری کو ہونا چاہئے تھا، جس میں حسینہ نے آخری روز اپنے ہاتھ سے میرے لیے ایک نظم لکھی تھی پھر میری خواہش پر اپنا پتہ اور فون نمبر بھی لکھ دیا تھا۔ یہ ڈائری ہمیشہ میرے پاس رہی تھی۔ ڈائری مجھے مل گئی۔ میں نے فون نمبر ملایا۔ دوسری طرف غالباًاس کی امّی کی ٹھہری ٹھہری آواز تھی۔ میں نے اپنا تعارف یونیورسٹی کے ایک قدیم دوست کی حیثیت سے کرایا اور حسینہ کا حال پوچھا۔ اس کی امی نے بتایا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ آج کل مری میں ہے۔ یہ سنتے ہی مرا دل بوجھل ہو گیا۔ ٹیلی فون کے اس جانب ہیلو ہیلو کی آواز آر ہی تھی۔ مگر میں نے ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ یہ بھی نہ پوچھ سکا تھا کہ وہ کون خُوش نصیب ہے جو اس کا جیون ساتھی بنا؟‘‘

راحیل کا دورانِ خُون معمول پر آنا شروع ہو گیا۔۔۔ جمال نے اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں، کہا:

’’دوست معلوم نہیں، میں کیوں مری آیا ہوں ؟ بے ارادہ اِدھر قدم اُٹھ گئے ہیں۔۔۔ اور اب جب کہ میں تمہارے سامنے بیٹھا ہوں تو میرے اندر یہ خواہش بھی جنم لے رہی ہے۔ کاش جس طرح تم مجھے یونہی سر راہ مل گئے ہو، وہ بھی مل جائے۔۔۔ اور میں اسے بتا سکوں کہ برسوں پہلے اس نے جو کچھ کہا تھا، سچ کہا تھا۔۔۔ پَل پَل اندر اور باہر کی دُوئی کے ساتھ جینا واقعی اذِیّت ناک ہوتا ہے۔

اور اسے بتا سکوں کہ میں نے نہ صرف اُسے بند آنکھوں میں دیکھا ہے بل کہ ہر ہر پل خود پر مسلط ہوتے پایا ہے۔۔۔ کاش اُس سے پوچھ سکوں کہ کیا وہ بھی میری طرح اندر اور باہر کے متصادم جذبوں کی ننگی کٹار پر برہنہ پا چلتی رہی ہے ؟۔۔۔ کیا اُسے بھی اپنے بچوں میں اُس لمحے کی تصویر نظر آتی ہے، جب پہلی مرتبہ اُس کے ہونٹ محبت کے لفظ سے بھیگے تھے کیا اس نے بھی بند آنکھوں کا عذاب جھیلا ہے ؟۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘

جمال بولے جا رہا تھا اور راحیل کے ذِہن میں بھونچال اُٹھ رہے تھے۔ نہ جانے کب اُس نے اپنی گفتگو کا سلسلہ روکا، نہ جانے کب اُس نے اِجازت چاہی اور وہ چل دیا تھا۔

مگر جب وہ کچھ دور جا چکا تو راحیل کو اپنی سرد مہری پر دُکھ ہوا۔ وہ معذرت کے لیے اُس کے تعاقب میں چل پڑا۔ اس نے جمال کو ایک ہوٹل میں داخل ہوتے دیکھ لیا تھا۔ کاؤنٹر سے اس کا کمرا نمبر پوچھا اور اس کے کمرے میں جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھنے لگا۔۔۔ ابھی آخری سیڑھی پر نہ پہنچا تھا کہ اس کے قدموں نے ساتھ دینے سے اِنکار کر دیا اور وہ وہیں سے لوٹ آیا۔

جمال سے ملنے کے بعد سے لے کر اس لمحے تک۔۔۔ کہ جب وہ سن روم میں بیٹھا اُن بادلوں کو دیکھ رہا تھا جو پار درختوں کی پھنگیوں سے اُٹھے تھے اور اس کے آنگن میں آ کر اِدھر اُدھر اُڑ رہے ہیں، تشکیک، تذبذب، بے یقینی اور بے قراری کے کانٹوں کی چبھن بدن کے ایک ایک خلیے پر محسوس کر رہا تھا۔ گئی رات اس نے اپنے سارے وسوسوں کو جَھٹک دیا اور حسینہ کی جانب پہلے کی سی وارفتگی سے بڑھا تھا مگر چند ہی لمحوں کے بعد جب حسینہ کی آنکھیں پیار سے بوجھل ہو کر بند ہونے لگیں تو اسے یوں لگا تھا، جیسے ایک بجلی کا کوندا تھا جو اس پر لپک پڑا تھا۔

اِن بند آنکھوں سے پَرے۔۔۔ نہیں نہیں

وہ اپنا خیال جَھٹک کر اُٹھ بیٹھا۔ دیر تک باہر پھلواڑی میں گھومتا رہا۔ بادلوں کی چند ٹکڑیوں کے سنگ اٹکھیلیاں کرتی چاندنی کو دیکھتا رہا، محسوس کرتا رہا۔

حسینہ بلا شبہ اس اترتی چاندنی کی طرح پاکیزہ تھی۔۔۔ مگر بند آنکھیں۔۔۔ ؟

اُسے اپنا دل ڈوبتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔ پھر حسینہ کی ریاضتیں یاد آئیں جو اُس نے اُس کی خُوشنودی کے لیے ہر آن کی تھیں۔۔۔ خیال آیا، ایسا تو ہر مشرقی بیوی کرتی ہے۔۔۔ مگر دل کے اندر کون ہے ؟

رات یونہی کانٹوں پر لوٹتے ہوے گزر گئی۔۔۔

اور اب جب کہ اس نے بچوں کے چہروں کی لکیروں کو بھی ٹٹول لیا تھا۔۔۔ تو عجب عجب خدشے سر اٹھانے لگے تھے۔ کہیں جمال واقعی حسینہ کے مقابل ہو گیا ہو تو؟۔۔۔

اس کا تصور ہی راحیل کے لیے جان لیوا تھا۔۔۔ وہ دھیرے دھیرے اُٹھا، کپڑے بدلے، بیوی کو کل شام تک واپس لوٹ آنے کا کہا۔۔۔ ارادہ تھا، جمال کے چچا کو ایک اہم اطلاع دینے اس کے گاؤں جائے گا۔۔۔ مگر ابھی ایک قدم دہلیز سے باہر تھا کہ اسے لگا، دوسرا قدم اٹھا نہ پائے گا۔

دہلیز اوپر ہی اوپر اٹھتی چلی جا رہی تھی جو اس کے وجود کو دو لخت کیے دیتی تھی۔

اُس کا سینہ درد سے بھر گیا۔ آنکھیں جل تھل ہو گئیں۔ سر گھومنے لگا اور سارا بدن ڈولنے لگا۔ یوں جیسے وہ بے پتوار کشتی میں سوار منھ زور لہروں کے تھپیڑوں کی زد میں ہو۔ اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں۔ دفعتاً حسینہ کی نگہ راحیل پر پڑی۔ وہ گھبرائی ہوئی اس تک پہنچی۔ کچن سے مرچوں کی دھانس اُٹھ کر نتھنوں میں گھس رہی تھی مگر حسینہ کے ہاتھ پاؤں پھول چکے تھے اور وہ راحیل پر جھکی ہوئی تھی۔ راحیل نے بوجھل آنکھوں کو تھوڑا سا وا کیا۔ گھبرائی ہوئی حسینہ کی آنکھوں میں جھانکا اور دھیرے سے آنکھیں موند لیں۔

باہر پھلواڑی سے بچوں کے چیخنے کی آوازیں اسی طرح آ رہی تھیں۔

Fall Down

Fall Down

حسینہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کے جھولتے بدن کو سہارا دیا جو ڈھیلا پڑنے لگا تھا مگر وہ نیچے۔۔۔ اور نیچے۔۔۔ عین دروازے کے بیچ ڈھلکتا چلا جا رہا تھا۔

 

 

دُکھ کیسے مرتا ہے

 

 

ایمرجنسی وارڈ میں داخل ہوتے ہی نبیل کا دل اُلٹنے لگا، زخموں پر لگائی جانے والی مخصوص دواؤں کی تیز بُو نے سانسوں کی ساری امی جمی اُکھاڑ دی تھی۔

اُسے میڈیکل وارڈ نمبر تین جانا تھا مگر اس ہسپتال میں خرابی یہ تھی کہ اندر داخل ہوتے ہی پہلے ایمرجنسی وارڈ پڑتا تھا، جس میں کو ئی لمحہ شاید ہی خالی گزرتا ہو گا، جب کوئی نیا مریض نہ لایا جاتا ہو گا۔ نبیل نے تو جب بھی دیکھا، کٹے پھٹے، اُکھڑی ہوئی سانسوں والے اور بُری طرح تڑپتے مریضوں کو لائے جاتے دیکھا۔ نرسیں اور ڈاکٹر بھاگ بھاگ کر اُن کی جانیں بچا رہے ہوتے۔ کسی کے زخموں کے راستے بدن سے باہر بہنے والے خُون کو روکا جا رہا ہوتا، کسی کی رگوں میں ٹھہر جانے والے لہو میں چھاتی دبا دبا کر بہاؤ لانے کی کوشش ہو رہی ہوتی اور کوئی خود ہی کھانس کھانس کر پھیپھڑوں میں اکٹھی ہو جا نے والی رت حلق تک منھ کھول کھول کر اُلٹ رہا ہوتا۔ اُس نے ہر بار سوچا ان میں سے کئی بچ جاتے ہوں گے۔۔۔ ضرور بچ جاتے ہوں گے، مگر وہ تو جب بھی داخل ہو رہا ہوتا یا باہر نکلنے کو اُدھر جا تا ایک دو لاشیں اسٹریچر پر دھری ہوتیں اور ان پر بے قابو ہو کر گرتی پڑتی روتی چیختی عورتوں کو ان کے مرد صبر کی تلقین کرتے ہوے الگ کر رہے ہوتے۔

مرنے والوں پر صبر آ ہی جاتا ہو گا۔

نبیل عین اس لمحے میں ایسا نہیں سوچتا تھا جب کہ وہ جگر پھاڑ ڈالنے والی چیخیں اور بین سن رہا ہوتا، بل کہ تب سوچتا جب وہ کارڈیالوجی وارڈ کی طویل راہداری میں پہنچتا۔۔۔ اور اس کا سبب یہ تھا کہ اس نے یہاں سے ایسی ایسی لاشیں لا ئی جاتی دیکھ رکھی تھیں، جن کے ارد گرد چلنے والوں میں سے کوئی بھی چیخ نہیں رہا تھا۔ کوئی دبی دبی سی سسکی۔۔۔ ضبط کرنے کے باوجود نکل آ نے والا آنسو۔۔۔ کچھ بھی تو نہیں۔ سب کے چہرے سفید کفن کی طرح صاف تھے۔۔۔ اور وہ اسٹریچر کے ساتھ ساتھ یوں چل رہے تھے، جیسے اس لاش کے احترام میں خامشی سے چلنے کی وہ برسوں سے مشق کرتے آئے تھے۔۔۔ اور اب موقع آ گیا تھا تو صبر کے آئینے میں بال لا کر وہ ساری ریاضت ضائع کرنا نہیں چاہتے تھے۔ عین اُسی لمحے اُس نے یہ بھی سوچا تھا کہ یہ جو اچانک مصیبت آ جاتی ہے، یہ آدمی کو بو کھلا کر بے صبرا بنا دیتی ہے ورنہ تو صبر آ ہی جایا کرتا ہے۔

ایمرجنسی سے ملحق کارڈیالوجی وارڈ تھا یہاں پہنچ کر اور ایسا سوچ کر اُس کی سانسوں میں توازن آ جاتا۔ نبیل اس وارڈ سے مانوس تھا۔ کئی ہفتے پہلے وہ یہاں تین بار آیا تھا۔ تینوں بار اسے ندرت لائی تھی۔ اُس کے ڈیڈی کو وہم ہو گیا تھا کہ شاید ندرت کی مما کو ہارٹ پرابلم ہو گیا تھا۔ ندرت نے اُسے بتایا تھا کہ ایک دوپہر اُس کی مما کھانا کھا کر حسب معمول گھنٹہ بھر کے لیے لیٹی، اُٹھی، تو چھاتی پر بوجھ تھا۔ ایک گولا سا ناف کے اوپر سے اُٹھتا اور پسلیوں کے اس وسطی احاطے میں، جہاں کہیں دل تھا، معدوم ہو کر ایک چبھن چھوڑ جاتا تھا۔ اُس کے ڈیڈی اُس کی مما کو یہاں لے آئے تھے اور جب تک سارے ٹیسٹ ہو نے کے بعد ڈاکٹروں نے ہر طرح سے تسلی نہیں کرا دی اُسے ہسپتال سے واپس نہیں لے گئے تھے۔

خود نبیل کو دل کی بیماری کا شائبہ تک نہ تھا۔۔۔ اور اُسے یقین تھا کہ اُس جیسا آدمی، جو زندگی کے معاملات کو دل پر انتہائی صبر اور احتیاط سے لیتا ہو، اُسے دل کی بیماری لگنی بھی نہیں چاہیے مگر اس کے باوجود جب اُسے پہلی بار ندرت کی مما کو دیکھنے آنا پڑا تھا تو دل میں اختلاج سا ہونے لگا تھا۔ اس پر اُس نے دوسرے وزٹ تک قابو پانا سیکھ لیا۔ شاید جو اُس نے یوں سیکھا، وہ ضبط تھا۔ صبر کرنا اور ہوتا ہے اور ضبط کرنا اور۔۔۔ اور صبر کا معاملہ تو یہ تھا کہ وہ تو اِسے بہت پہلے کا سیکھ چکا تھا۔

میڈیکل وارڈ آگے تھا۔ دائیں ایک، بائیں دو اور سامنے تین۔ اِسی تیسرے وارڈ کے پرائیویٹ روم نمبر پچیس میں اس کی اپنی ماں پڑی ہوئی تھی۔ ماں بیمار تو کب کی تھی، شاید اب تو اُسے بھولنے لگا تھا کہ وہ کبھی ٹھیک بھی رہی ہو گی۔ اُسے ابا کے مرنے کے بعد دائیں طرف فالج پڑا تھا اور وہ بستر سے جا لگی تھی۔

شروع شروع میں جب پیاس سے اُس کا حلق خشک ہونے لگتا، بھوک سے انتڑیوں میں کُڑوَل پڑتے یا پھر انجانے میں بستر گیلا ہو جاتا، اتنا زیادہ گیلا کہ وہ کمر کاٹنے لگتا، تو وہ اُسے بلانے کی کوشش کرتی تھی۔ ’اُوں آؤں، جیسی آوازیں نکالنے کے لیے اُسے حلق اور چھاتی پر اِتنا بوجھ ڈالنا پڑتا تھا کہ نچلا جبڑا، ایک طرف کو ڈھلک جاتا اور سارا بدن سکڑ کر دہرا ہونے لگتا۔ وہ پہنچ جاتا۔۔۔ پہلے پہلے فوراً۔۔۔ لپک کر، مگر یہ معمول کا حصہ ہو گیا تو لپک جھپک میں وقفے پڑنے لگے۔۔۔ کہ بعد میں اُسے خود کو تیار کرنا پڑتا تھا۔

ایک روز جب اُس کی ماں آواز دینے کے بعد اپنا جبڑا ڈھلکا چکی تھی اور گھُٹنے اُوپر کو کھسا کر اُس نے اپنا بدن بھی دہرا کر لیا تھا کہ کال بیل بجی۔۔۔

’’ٹ۔۔۔ ا ا ا‘‘

یوں جیسے باہر بٹن پر آہستگی سے انگشت رکھ کر فوراً ہٹا لی گئی ہو اور ادھر اندر کال بیل کی آواز ٹوٹ کر گر گئی ہو۔۔۔ پھر خاموشی چھا گئی۔۔۔ طویل خاموشی، اتنی کہ ماں کی آواز اُس میں کہیں ڈوب گئی۔ اُس کا اپنا دل رُک سا گیا، ایک قدرے طویل آواز کے لیے۔

ندرت جب بھی آتی تھی پہلی بار پش بٹن کو ذرا سا چھو کر ہاتھ گرا دیا کرتی تاہم دوسری بار معمول سے کہیں لمبی ’’ٹر رار رارن‘‘ ہوتی۔ اتنی کہ وہ اس آواز کے بند ہونے سے پہلے تک صدر دروازے تک بہ سہولت پہنچ جایا کرتا تھا۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا، اور وہ باہر پہنچ گیا۔ وہ اندر نہیں آئی تھی۔۔۔ اس کے انداز بتا رہے تھے وہ اندر بیٹھ کر باتیں کرنے کو آئی ہی نہیں تھی۔ اُس نے بغیر کچھ کہے گاڑی کی طرف اشارہ کیا۔ ندرت کے لیے اُس کا ارادہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ نبیل خود بھی اُسے سامنے پا کر اپنا ارادہ منہا کر لیا کرتا تھا۔ وہ ہے ہی ایسی، رکھ رکھاؤ اور دبدبے والی۔ اگر وہ صرف غیر معمولی حد تک حسین ہوتی تو شاید ایسی نہ ہوتی۔ معاشی آسودگی اس کے انگ انگ سے اور اُس کی ہر ادا سے بہتی تھی۔۔۔ یوں جیسے کوئی شریر ندی ڈھلوان میں لپکتی ہے۔

ڈھلوان میں نبیل تھا۔۔۔ اور ہر بار وہ بہہ جاتا تھا، بے ارادہ ہی۔

اُس روز جب وہ کئی گھنٹوں کے بعد گھر پلٹا تھا تو اندر داخل ہوتے ہی پیشاب کی سڑاند کے بھبکوں نے اُس کا منھ پھیر کر رکھ دیا۔ اُس کی نظر ماں کی چارپائی کے نیچے پڑی۔ وہاں، جہاں سارا فرش گیلا ہو رہا تھا۔ ڈھلوان چوں کہ دروازے کی سمت تھی لہذا ایک گیلی سی لکیر اُدھر تک بہہ آئی تھی۔ دُکھ اور ندامت ایک ساتھ اُس کے اندر سے پھوٹ پڑا، بے ارادہ ہی۔

آدمی ارادے سے دُکھی کہاں ہوتا اور ارادہ کر کے اپنے دُکھ درد کیسے ٹال سکتا ہے۔

زندگی کی وہ ساری دل کشی جو جذبوں سے کناروں تک بھری ہوئی ایک لڑکی کے سبب کچھ دیر پہلے تک مہک بن کر اس کی سانسوں میں رچی بسی ہوئی تھی، اب وہ کہیں نہیں تھی۔ ماں نے اُسے دیکھ کر منھ دوسری طرف پھیر لیا تھا۔ اُس نے ماں کے اوپر چادر ڈالی اور اپنا منھ بھی دوسری طرف پھیر لیا۔ اب صرف اس کے ہاتھ کام کر رہے تھے اور جب وہ ماں کا بدن پونچھ پانچھ کر اُسے خشک کر چکا تو منھ پھیرے پھیرے اسے دونوں بازوؤں میں اُٹھا کر پاس پڑی دوسری چارپائی پر ڈالا۔ نبیل کو یہ جان کر شدید صدمہ ہوا کہ ماں اپنا وزن بڑی تیزی سے گرا چکی تھی۔

جس انہماک، تردّد، احتیاط اور احترام سے اُس نے ماں کے بدن کو دوسری طرف دیکھتے رہتے ہوے سُکھایا تھا، چادر کی اوٹ تلے اس کا لباس بدلا تھا۔ پیشاب سے سَنے ہوے بستر کو الگ کر کے صاف ستھرا گدا بچھا کر اوپر یوں چادر پھیلائی تھی کہ اس میں ایک شکن بھی باقی نہ رہی تھی اس نے ماں کی پیشانی کی ساری شکنیں معدوم کر دی تھیں اور اُس کی پوری طرح کھلی رہنے اور ہر دم پھڑکنے والی دائیں آنکھ کو آنسوؤں سے بھر دیا تھا۔

ہسپتال کی راہداری میں، کارڈیالوجی وارڈ سے ذرا آگے، جہاں ایک اور راہداری پہلی کو کاٹتی تھی، وہیں، چاروں کونوں پر، دیواروں کے ساتھ لوہے کے بینچ جڑے ہوے تھے۔ وارڈ نمبر تین میں داخل ہونے سے پہلے وہ یہاں کچھ لمحوں کے لیے بیٹھ جایا کرتا تھا۔۔۔ شروع شروع میں نہیں، تب سے کہ جب ماں کو ہسپتال میں داخل ہوے دو مہینے سے بھی زیادہ عرصہ ہو گیا تھا۔ پھر تو اُسے یہاں پہنچ کر جب بھی کوئی بینچ خالی نظر آتا تو ضرور بیٹھتا تھا۔

پہلی بار وہ ندرت کے ساتھ یہاں بیٹھا تھا، مگر جاتے ہوے نہیں، ماں کو کمرا نمبر پچیس میں دیکھ کر آنے کے بعد۔ ندرت کو بہت تشویش تھی کہ پیشنٹ میں سروائیول کے امکانات بہت کم تھے۔ وہ ہسپتال اُس کی ماں کو دیکھنے پھر کبھی نہیں آئی تھی تا ہم اس کے بعد جب بھی اس نے اسے فون کیا وہ ہر بار اُس کی ماں کی بیماری کی طوالت کے خوف سے سہمی ہوئی لگی۔ نبیل کی ماں کی بیماری واقعی طویل ہو گئی تھی۔ شوگر کے سبب بیڈ سولز بھی ٹھیک نہ ہو رہے تھے۔ وہ سانس لیتی تو چھاتی میں سیٹیاں بجتی تھیں۔ کچھ عرصہ تو ڈاکٹروں نے آکسیجن کا ما سک منھ پر چڑھائے رکھا مگر جب ہر سانس پر سارا بدن جَھٹکے کھانے لگا تو انہوں نے نرخرے کے قریب کٹ لگا کر نالی اندر پھیپھڑوں میں گھسیڑ دی۔ کوئی بھی ڈاکٹر یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اُس کی ماں کے پھیپھڑے خود سے سانس لینے کے لیے کب تک قابل ہو پائیں گے۔ کبھی تو وہ بہت امید افزا باتیں کرتے اور کبھی بالکل ہی مایوس کر دیتے تھے۔

ندرت ہسپتال آنے کے اگلے پندرہ دنوں میں ہی اُس سے مایوس ہو چکی تھی۔ اسے مایوس کرنے میں اس کے ڈیڈی اور مما دونوں کا ہاتھ تھا۔ ان کی اپنی فیملی کا ایک اچھا لڑکا کب سے اُن کی نظر میں تھا مگر ان کا بس نہ چل رہا تھا۔ وہ اپنی بیٹی سے بہت محبت کرتے تھے مگر اس پر اپنا کوئی فیصلہ ٹھونسنا نہیں چاہتے تھے۔ تا ہم ہسپتال سے واپسی پر جب ندرت نے اس کی ماں کی کنڈیشن بتائی تھی تو دونوں کو اُسے قائل کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آئی تھی۔ ایک ایسے لڑکے کا انتظار جو اپنی ماں کے ساتھ اس قدر اٹیچڈ تھا کہ فی الحال کچھ اور سوچ ہی نہیں سکتا اس کا کتنا اِنتظار کیا جا سکتا تھا؟

ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ عمر کے اس مرحلے میں تھی کہ اگر وہ سروائیو کر بھی جائے تو بھی اُسے بہت کئیر، سہارے اور مسلسل میڈیکل ایڈ کی ضرورت رہے گی۔ ندرت کے لیے یہ بات بہت مایوس کُن تھی۔ مگر مایوس کرنے والی بڑھیا کا بیٹا بہ ہر حال ڈاکٹروں کی باتوں سے اُمید کے معنی نکال لیا کرتا تھا۔

اگلے پندرہ دن نبیل نے مزید اِنتظار کیا۔ ندرت اُسے ملنے تو نہیں آئی تاہم اس نے ہر روز فون کیا۔ اگر چہ وہ اُس سے صرف اُس کی ماں کی بیماری کی باتیں نہیں کرنا چاہتی تھی مگر وہ کوئی دوسری بات کر سکنے سے پہلے ہی اس قدر نڈھال ہو جاتا تھا کہ وہ کوئی اور بات چھیڑنے کا حوصلہ ہی نہ کر پاتی تھی۔ ایک خوبصورت لڑکی جس کے سامنے زندگی کے راستے پوری طرح کھلے تھے وہ کسی بھی ایک لڑکے سے محبت تو کر سکتی تھی مگر اس لڑکے سے صرف اس کی ماں کی بیماری کی باتوں پر اِکتفا نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ اور نہ ہی وہ کوئی اور بات کرنے کے لیے طویل اِنتظار کر سکتی تھی۔ لہذا بہت تیزی سے دقل کے اندر خُوشبو کی طرح بسی ہوئی محبت کے معدوم ہو نے پر اسے کوئی بہت زیادہ الجھن نہیں ہو رہی تھی۔

اس نے پندرھویں دن ہی اپنے کندھے اُچکا کر جَھٹک دئیے اور سوچا شاید اس کی محبت کی پوریں اس لڑکے کے دل پر بس اِتنے ہی دورانیے کے لیے ٹھہر سکتی تھیں۔ تاہم اگلے دو روز اس نے اسے مسلسل کئی بار کالز کیں۔ وہ اسے موجودہ دباؤ کی صورت حال سے باہر کھینچ لانا چاہتی تھی۔ وہ باہر نہ آ پایا تو وہ اُس سے مکمل طور پر مایوس ہو گئی۔

نبیل ایسا بیٹا نہ تھا جو اپنی ماں سے مایوس ہو جاتا۔ کبھی کبھی تو خود اُسے یوں لگتا جیسے وہ ابھی تک ماں کی کوکھ ہی میں تھا، سنگ تراش عباس شاہ کے اس ہیوج مجسمے کی طرح، جو پتھر سے نہیں تراشا گیا تھا مگر نہ چھوؤ تو سنگ مر مر کا لگتا تھا اور جس کے عین وسط میں ماں کے پیٹ کے اندر گھٹنوں میں سر گھسیڑے ایک بچہ تھا۔

وہ بچہ وہ خود تھا۔

حاملہ ماں کے بلوریں پتھر کے نظر آنے والے مجسمے کو اس نے تجسس سے چھوا، وہ تھرموکول جیسے اتنے ہلکے مٹریل کا بنا ہوا تھا کہ چھو نے پر لرزنے لگا تھا۔

اس کی ماں کا جسم اسی مجسمے کی طرح ہلکا پھلکا ہو گیا تھا مگر چھونے پر لرزتا نہ تھا۔

وہ بے سدھ پڑے وجود کو دیکھتا تو عجب وسوسے اس کے بدن پر تیر جایا کرتے اور اس وجود سے الگ رہنے کا خیال ہی اس کے بدن پر لرزہ طاری کر دیتا تھا۔ تا ہم ہوا یوں کہ دن گزر رہے تھے اور گزرتے دنوں کو کون روک سکتا تھا۔ ندرت جس کے پہلے فون آ جایا کرتے تھے اب نہیں آ رہے تھے۔ دو تین بار اس نے اس سے خود رابطے کی کو شش بھی کی مگر ہر بار اسے بتایا گیا کہ وہ گھر پر نہیں تھی۔ حتی کہ اس کا اپنا فون آ گیا۔ اُس نے اس کی ماں کا حال بھی نہیں پوچھا اور بغیر کسی تمہید کے اپنی منگنی کی خبر دے دی۔ اُسے ندرت کی آواز میں ایک لرزاہٹ سی محسوس ہو ئی مگر فون سنتے ہوے اُس کا صبر اور ضبط کا خوگر دل اس شدت دھڑکا اور اتنی گہرائی میں ڈوبنے لگا تھا کہ لفظ اس کا ساتھ چھوڑ گئے اور وہ کچھ بھی نہ کہہ پایا۔ وہ مایوسی کے پانیوں میں ڈوب رہا تھا مگر اسے یقین کیسے آتا کہ اس کی محبت اس سے بچھڑ گئی تھی، یوں کہ ساری رفاقت خواب سی لگنے لگی تھی۔

تاہم اُس نے خود کو سنبھالا دینا تھا۔۔۔ اور اُس نے خود کو سنبھالا دیا کہ اس کے علاوہ اُس کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ پورے حواس میں تھا جب ڈاکٹر کہہ رہے تھے :

’’ حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا، پیشنٹ کتنے روز تک سٹیبل ہو پائے ‘‘

پھیپھڑوں کو سہولت دینے کے لیے جو نالی ڈالی گئی تھی اُسے نکالا جاتا تو سانسوں کے جَھٹکے پھر سے سارے بدن کو جھنجھوڑنے لگتے۔

اُسے وہیں بینچ پر بیٹھے بیٹھے شاید اُونگھ آ گئی تھی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اُسے وہاں اُونگھتے اُونگھتے کتنا وقت گزر چکا تھا۔ رات ماں کی حالت بہت بگڑ گئی تھی اگرچہ ڈاکٹروں نے آکسیجن کی نالی پھیپھڑوں میں ایک بار پھر گھسیڑ کر فوری ریلیف فراہم کر دیا تھا مگر وہ نالی جو ناک سے معدے تک گھسیڑی گئی تھی ماں کو بہت اُلجھا رہی تھی۔ وہ بار بار نالی کھینچنے کے لیے ہاتھ اوپر لے آتی۔ شاید نالی گزارتے ہوے جلد جہاں اندر کہیں چھِل گئی تھی، وہیں جلن ہو رہی تھی۔ نبیل نے ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کو جا کر بتا یا بھی۔ مگر اس کا کہنا تھا:

’’ معمولی سا ریپچر ہے خود ہی ہیل اپ ہو جائے گا، ذرا دھیان رکھیں کہ پیشنٹ نالی نکال نہ دے۔‘‘

ماں اگر چہ غنودگی میں تھی مگر اس کا ہاتھ بار بار ناک کی طرف کھسکنے لگتا تھا۔ وہ ہاتھ تھام کر رکھتا تو وہی الجھن ماں کے کپکپاتے ہاتھ کے راستے خود اس کے اندر اتر جاتی۔ یہاں تک کہ اس کا دل چاہنے لگا، وہ اس نالی کو خود ہی ماں کی ناک سے کھینچ کر اُلجھن سے نکل آئے۔

وہ رات بھر جبر کرتا رہا اور جاگتا رہا۔ کھڑکی سے ذرا سا صبح نے جھانکا تو وہ اس کے تعاقب میں باہر نکل گیا۔ وہ ادھر اُدھر گھومتا رہا، یوں ہی۔ واپس پلٹا تو اس کے بدن پر عجیب طرح کا خالی پن قابض ہو چکا تھا۔ ہسپتال میں داخل ہوتے ہوے ایمرجنسی میں ہونے والی بھاگ دوڑ کو بھی اس نے خالی خالی نظروں سے دیکھا۔ بین کرتی عورتیں بہت بے ہودہ لگیں۔ اس نے اُلجھتے ہوے سوچا کہ ان کے یوں دہرے ہو ہو کر گرنے سے کیا مردے زندہ ہو جائیں گے ؟۔۔۔ اور ایک تلخ سی ہنسی ہنس دیا۔

اندر سے اُٹھنے والے سوال کا اس کے نزدیک یہ مناسب جواب تھا۔

رونے والیوں میں ایک لڑکی بہت خوب صورت تھی اور مرنے والی ماں جیسی بوڑھی بہت پروقار۔ دونوں کو اُس نے صرف ایک نظر ہی دیکھا اور آگے بڑھ گیا تھا۔

ایمرجینسی سے کارڈیالوجی وارڈ کی راہداری تک وہ ہمیشہ دُکھ کی گرفت میں رہتا تھا مگر اس روز وہ اندر سے بالکل خالی تھا۔ بینچ پر بھی وہ ارادہ کر کے نہیں، یوں ہی بیٹھ گیا تھا اور اِتنی دیر تک اونگھتا رہا کہ وقت کے تیزی سے گزرنے کا اِحساس پوری طرح معدوم ہو گیا۔

وہ ٹھیک سے اندازہ نہ کر پا یا کہ ایک اسٹریچر کے تیزی سے دھکیلے جانے کے باعث اُٹھنے والے شور نے اُسے کتنی دیر بعد بیدار کیا تھا۔ اسٹریچر وارڈ نمبر تین کی راہداری ہی سے لایا جا رہا تھا اُسے غیر معمولی تجسس ہوا کہ وہ اس کا چہرہ دیکھے۔ اس نے اس کا چہرہ دیکھا بھی مگر یہ اس کی ماں کا چہرہ نہیں تھا۔ وہ الٹے قدموں چلتا، بینچ پر ڈھے گیا۔ شاید یہ وہ پہلا روز تھا جب نبیل نے اپنی ماں کی مشکل آسان ہونے کی دعا کی تھی۔

وہ دعائیں کرتا رہا۔ حتی کہ اس کے ہاں اثاثہ سمجھے جانے والے سارے مقدس لفظ معنوں سے خالی ہو گئے۔ یوں، جیسے اسے با ثروت بنانے والے سارے کرنسی نوٹوں کے مارکے اُڑ گئے ہوں۔

زبان کی ڈھیری پر کیڑوں کی طرح کلبلانے اور رینگنے والے یہ لفظ بے دھیانی میں ہونٹوں پر آ کر تیرنے لگتے اور پھر اسی بے خبری میں تالو سے چپک کر بے سدھ ہو جاتے۔ وہ دیکھ رہا تھا مگر مرنے والوں اور ان کے ساتھ زندہ درگور رہنے والوں کے بیچ کو ئی تمیز نہ کر پا رہا تھا۔ لاشیں اس کے سامنے سے گزرتی تھیں۔ وہ ان پر نظر ڈالتا، یہ لاشیں اُسے دُکھ کی بہ جائے تسکین دینے لگی تھیں۔ تسکین نہیں اُس کا سا احساس۔ ملتا جلتا اور الگ سا بھی۔ اور یہی احساس شاید خود اس کے زندہ ہونے کی علامت تھا۔ وہ سوچ سکتا تھا کہ مرنے والوں کی نہیں بل کہ انتظار کھینچنے والوں کی مشکلیں آسان ہو رہی تھیں۔ ایسے میں اسے اپنے اندر سے تعفن اُٹھتا محسوس ہوا۔ اُس نے اپنا سارا بدن ٹٹولنے کے لیے اُدھیڑ ڈالا۔ بہت اندر گھپ اندھیرے میں دو لاشیں پڑی تھی۔ اُس نے صاف پہچان لیا ان میں سے ایک اس کی اپنی محبت تھی اور دوسری کو دیکھے بغیر منھ پھیر لیا اور پورے خلوص سے رونے کی سعی کی مگر تعفن کا ریلا اسے دُکھ سے دور، بہت دور بہائے لیے جاتا تھا۔

 

ٍ

 

 

پارینہ لمحے کا نزول

 

سولہ برس سات ماہ پانچ دن دو گھنٹے  اِکیس منٹ اور تیرہ سیکنڈ ہو چلے تھے  اپنے لیے اُس کے ہونٹوں سے پہلی بار وہ جملہ سنے جو سماعتوں میں جلترنگ بجا گیا تھا مگر دل کے عین بیچ یقین کا شائبہ تک نہ اُتار سکا تھا۔

ایسے جملوں پر فوری یقین کے لیے کچی عمر کی جو نرم گرم زمین چاہیے ہوتی ہے وہ دائرہ در دائرہ گزرتے گھومتے ایک سے یخ بستہ دنوں کی تہ در تہ برف تلے کب کی گَل کر نیچے بہت دُور کھسک چکی تھی ایسے میں وہ جملہ جو سماعت بیچ جلترنگ بجا گیا تھا پکی عمر کی پتھریلی سطح کے کرخت پن سے پھسل کر بدن کی کھنکتی مٹی پر جھنکار چھڑکنے لگا تھا۔ کیوں کہ بدن کی تنی کمانوں کی تانت جو کب کی ڈھیلی پڑنے لگی تھی پھر سے تن گئی تھی۔

یقین نہ تھا ہاں گماں تھا۔ گُماں بھی یوں تھا کہ اِنتظار کی ڈھیلی ڈور کے اُس سرے پر اُوپر کی بے آبرو ہوا میں جھولتی پتنگ ابھی تک بہ ہر حال تھی، اگرچہ نہ ہونے کے برابر تھی کہ ہتھیلی پر کشید لکیروں سے لگی ڈور اُنگلیوں کی پوروں کو تو کاٹتی تھی مگر کوئی بھی تُنکا بے حیثیت ہوا میں ڈولتی پتنگ تک منتقل نہ ہونے دیتی تھی۔

میں اُوپر دیکھتی تھی اور جھولتی پتنگ کے سنگ خود بھی جھول جاتی تھی کہ آنکھ چندھیاتی تھی اور اُوپر سے برستی دھُوپ بارش سارا بدن بھگوتی تھی۔ کچھ خبر نہ تھی کہ ڈور کے اس سرے پر پتنگ بندھی تھی یا اُس سرے پر میں خود۔ ایسے میں یقین دل کے بیچ کیوں کر اُترتا مگر اِنتظار کی ڈور سے لگا اُمید کا مانجھا تھا اور لپٹتی چرخی جو مسلسل لپیٹے جا رہی تھی۔۔۔ تاہم جھول تھا کہ ختم ہونے میں نہ آتا تھا۔ اِنتظار دھاگے کو دھُوپ بارش میں کھنچتے کھنچتے سارا بدن پاؤں کی اس ایڑی جیسا ہو گیا تھا جس کی جلد تڑخ کر منھ کھول دیتی ہے اور تب تک کھولے رکھتی ہے جب تک مرہم اُس کے بیچ نہ اُترے۔

ایسے ہی دنوں میں سے ایک دن تھا جب میرا باپ اپنی حویلی کے طویل آنگن کو پاٹتا بارہ دری طے کرتا گھمن گھیری ڈالتے زینے چڑھتا وہاں آیا جہاں مجھ پر دھُوپ کی عجب بارش برس رہی تھی۔ مجھے حیرت ہو رہی تھی کہ وہ تو پہلے ہی روز سے مجھے بھلائے ہوے تھا، پھر وہ یہاں تک چل کر کیسے آیا۔ مگر جب میں نے اُس کے ہاتھ میں تھمی ہوئی وہ لاٹھی دیکھی جو اس کا سارا وجود سہارے ہوے تھی تو میں نے حیرت کی پھیلی چنی سمیٹ لی کہ اس کی ساری مجبوری سمجھ آنے لگی تھی۔

اس کی پہلی مجبوری یہ تھی کہ پہلی دو میں سے ایک کی کوکھ خالی بھڑولے کی طرح نکلی تھی جب کہ دوسری سے میں برآمد ہوئی تھی حالاں کہ وہ کچھ اور اُمید باندھے بیٹھا تھا۔ پھر اِنتظار کے طویل برآمدے سے گزر کرکئی اور کوکھیں اُس نے قدموں تلے کچل ڈالی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ لڑکھڑا گیا اور اب اِس لڑکھڑاہٹ کے خوف نے وجود کو سہارے کے لیے اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھما دی تھی، جو اس کی دوسری مجبوری تھی۔

یوں تو میرا وجود بھی مجبوری کی بیل بَن کر اُس کے خالی خولی آنگن میں اس کے اندیشوں کی دیوار پر چڑھتا چلا جاتا تھا مگر میرا یہ وجود اُسے تب نظر آیا جب اس کے ہاتھ دوسری مجبوری لگی تھی۔ اُس نے گھوم کر پہلے اپنی حویلی کے طولو عرض کو دیکھا۔

ایسا کرتے ہوے اُس کا ہاتھ اُس کے دل پر تھا۔

پھر اُس نے کلف لگے شملے کو تھام کر بے توقیر ہوا میں ڈولتی پتنگ کو دیکھا اور نفرت سے منھ موڑ کر حد نظر تک پھیلے سرسبز قطعات کو دیکھنے لگا جنہیں دیکھنے سے نظر نہ بھرتی تھی۔ اُس کی نظر ابھی تک نہ بھری تھی مگر اس کے کلف لگے شملے کا بوجھ اس قدر زیادہ ہو گیا تھا کہ اُس کی نگاہ خود بخود اس لاٹھی پر جا پڑی جو کچھ عرصے سے اُس کے بدن کا حصہ بن گئی تھی۔ میں نے اُس لاٹھی کو دیکھا جو میرے باپ کے بدن سے کوئی مَیل نہ کھاتی تھی مگر اُس کے پورے وجود کو سہارے ہوے تھی۔

میرے باپ کے رعشَہ زَدہ ہاتھوں نے میرے ہاتھوں سے ڈور تھام لی اور پتنگ بے توقیر ہوا سے اُتر کر اُس کے قدموں میں لوٹنے لگی، پھر وہیں ڈھیر ہو گئی، اس زمین پر کہ جس پر فقط میرے باپ کا نام لکھا تھا۔ ایسے میں  مَیں نے اُسے دیکھا تھا جو میرے باپ کی لاٹھی بن کر آیا تھا اور اُس کا وہ جملہ سنا تھا جو میرے چٹختے وجود کے بیچ پوری طرح سما گیا تھا۔

یوں نہیں تھا کہ اس کے صدق کی ایسی آنچ مجھ تک نہ پہنچ پائی تھی جو بدن میں یقین اُتارتی۔

اور یہ بھی نہیں تھا کہ میرے دھیان کا دھاگہ سپنوں کی کوئی اور پوشاک بن رہا تھا۔

وہ اپنے پورے مگر کچے بدن کی پوری سچائیوں کے ساتھ میرے مقابل تھا اور میں اپنے سارے مگر کرخت وجود کی مکمل صداقت کے ساتھ اُس کے سامنے تھی۔ تاہم بیچ کے نامعلوم پانیوں میں یقین کی ایسی سنہری مچھلی تھی، جو گرفت میں نہ آتی تھی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ وہ لمحہ میری حیات کے عناصر منتشر ہونے تک میرے پلّو سے بندھا رہے گا اور مجھے اپنے پلّو سے باندھے رکھے گا۔

میں نے جس لمحے کو ایک خاص مُدّت سے ماپ کر نشان زدّ کیا ہے (اس میں آپ اب مزید سترہ سیکنڈ کا اِضافہ کر سکتے ہیں ) میرے بدن کی کھنکتی ٹھیکری کے بیچ یوں جھنکار چھڑکتا رہا ہے کہ مجھے گزری مُدّت کو ماپنے کے لیے اب تک کوئی کلینڈر نہیں دیکھنا پڑا، کلائی پر بندھی گھڑی پر نظر نہیں ڈالنا پڑی۔ نہ اُسے دیکھنا پڑتا ہے اور نہ ہی آئینے میں خود کو ……اندر ہی اندر ٹک ٹک ہوتی رہتی ہے اور وقت ساعت ساعت پہلے سے موجود حاصل جمع کا حصّہ بنتا رہتا ہے۔ یوں کہ جیسے ہر مظہر کی لہر شعور کے پانیوں کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے۔

ایک خاص لمحہ عجب طور پر میرے اندر ٹھہر سا گیا تھا جو اگرچہ ایک ساعت کی کئی ہزارویں تقسیم کی رفتار سے پرے کھسک رہا تھا مگر اپنے حوالے کی ڈور مضبوطی سے لمحہ موجود سے باندھے ہوے تھا۔ بہت پہلے کہ جب مجھے اوپر کی بے توقیر ہوا سے سابقہ نہ پڑا تھا تاہم مہکتے پھولوں کا طواف کرتی تتلیوں کو پوروں سے چھو لینے اور کچے رنگوں کی ملائمت کو اُنگلیوں کے بیچ مسلنے کا عرصہ گزر چکا تھا، تب مجھ پر لفظوں کے گہرے پانیوں میں غوطہ زَن ہونے اور پہروں سانس روک لینے کا خبط سا ہو چلا تھا۔ اُن ہی دنوں میں نے مارکیز کو پڑھا تھا اور وہاں کہ جہاں اُس نے وقت کو ایسے ماپا تھا جیسے بعد ازاں میں ایک خاص لمحے کو ماپتی رہی ہوں تو مجھے حیرت ہوتی تھی۔۔۔ مگر اب مجھے حیرت نہیں ہوتی۔

یہ سارا عمل ابھی چند سکنڈ پہلے تک حیرت کے پانیوں سے پَرے عین یقین کی دھرتی پر یوں ہوتا رہا ہے جیسے سانس لی جاتی ہے  دیکھا جاتا ہے  سونگھا جاتا ہے۔ غیر محسوس طریقے سے  جانے بوجھے بغیر بے خبری میں …. یوں، کہ جیسے میرا بیٹا میری نظر کے سامنے اِتنا بڑا ہو گیا تھا کہ میرے ہی ہونٹوں اور گالوں پر بوسہ دینے سے جھجکنے لگا تھا۔

میں معمول کی طرح آنکھیں بند کیے چہرہ اُس کے سامنے کیے بیٹھی رہی۔ منتظر تھی اور پر یقین بھی کہ ابھی میرے بیٹے کے ہونٹ تتلیوں کی طرح میرے ہونٹوں اور گالوں پر اُتریں گے اور اپنے لمس کی خُوشبو اور نمی کے دھنک رنگوں سے مجھے نہلا ڈالیں گے۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ گذشتہ سارے عرصے میں کرتا آیا تھا اور جس کی سرشاری میں  مَیں اس لمحے کی جھنکار کو بدن ہی کے بیچ سمیٹے ہوے تھی۔

میں منتظر تھی۔۔۔ منتظر رہی۔

اور وہ جھجک کر دور کھڑا سراسیمہ نظروں سے دیکھتا رہا۔

اگرچہ میری آنکھیں بند تھیں مگر مجھے معلوم ہو گیا تھا کہ وہ اُلٹے قدموں دُور ہو رہا تھا۔

مجھے یوں لگا جب وہ دور ہو رہا تھا تو اس کے ننھے منے ہاتھوں میں پارینہ لمحے کے بوکے سے بندھی رسی تھی جو بدن کی چرخی سے گھوم کر سارے درد کا پانی باہر نکال لائی تھی۔

درد کا یہ پانی رُکا کب تھا، اندر ہی اندر رستا رہا تھا مگر اب کے یوں لگا کہ میرے بیٹے کی جھجک نے بوکا بھر کر اس پڑچھے میں ڈال دیا تھا جو سیدھا بدن کے باہر گرتا تھا۔

میں نے آنکھیں پوری طرح کھول کر پَرے کھڑے دیوار سے لگے بیٹے کو دیکھا اور مجھے ایسا محسوس ہونے لگا، جیسے وہ میرا بیٹا نہ تھا وہ تو وہ تھا جس نے کبھی میرے بدن کی کمانوں کی ڈھیلی تانت تن دی تھی۔

میں بھاگ کر وہاں گئی جہاں ایک کونے میں وہ بیٹھتا تھا جس کا عکس میں نے اپنے بیٹے کے چہرے پر دیکھا تھا، وہ وہیں کچھ نہ کچھ پڑھتا رہتا تھا۔ کتابوں کے ڈھیر کے بیچ بیٹھا کچھ لکھتا رہتا۔ اُس کے اِرد گرد کاغذ ہی کاغذ تھے یا پھر بس کتابیں۔ ہاں، ملنے والے آ جاتے (جو اکثر آتے رہتے ) تو وہ ان سے باتیں کرتا رہتا۔ حکمت کی باتیں  دانش بھری باتیں  بڑی بڑی باتیں ….ایسی باتیں کہ جو اس کا قد میری نظر میں اور پستہ کرتی رہتیں۔ تاہم یہی وہ باتیں تھیں جو اُس سے ملنے والے اُسی جیسے لوگوں میں، اس کے لیے عقیدت بڑھاتی رہتی تھیں۔

میں دیکھتی ہوں۔۔۔ مگر۔۔۔ وہ نہیں دیکھتا۔

یک لخت مجھے یوں لگا کہ اُس کا قد بہت بڑا ہو گیا تھا۔ اس قدر بڑا کہ میں ایک چیونٹی جیسی ہو گئی۔ اُس کا وجود پورے گھر میں پھیل گیا اور میں کہیں بھی نہیں تھی۔ حالاں کہ اس سے پہلے میں سارے گھر میں تھی۔ اس سارے گھر میں کہ جس کے باہر اس کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی اور وہ خود کہیں نہیں تھا۔ اس کونے میں، کہ جہاں وہ بیٹھا رہتا، شاید وہاں بھی نہیں تھا۔

اس نے میرے وجود کے اجنبی پن سے گھبرا کر جہاں پناہ لی تھی، وہاں تخلیق کی دیوی اس پر مہربان ہوئی۔۔۔ یوں کہ وہ اپنے اندر اور باہر دونوں سمت پھیلتا چلا گیا۔ جب کہ وہ نہ تو میرے اندر تھا اور نہ ہی میرے باہر۔

نہیں  شاید وہ میرے اندر بھی تھا اور میرے باہر بھی اپنے اس جملے کی طرح جو بہت پہلے میرے بدن کی تنی کمان کی تانت بن گیا تھا۔

بس میں ہی اپنی آنکھیں بند کیے ہوے تھی اندر کی بھی اور باہر کی بھی۔

وہ میرے لیے ناکارہ بے حیثیت وجود کی طرح تھا جو ایک کونے میں پڑا، ایسے لفظ جنم دیتا رہتا تھا جو اسے میری نظر میں معتبر نہ کر سکتے تھے۔

مجھے اس کے لفظوں سے کوئی سروکار نہ تھا۔

مجھے اس سے بھی کوئی سروکار نہ تھا۔

بس اتنا تھا(اور یہ کافی تھا) کہ وہ تھا اور میرے بیٹے کے لیے اس کا نام تھا۔ ایک ایسا نام جو اس گھر کی چاردیواری سے باہر بہت محترم تھا۔ اس کا اپنا وجود میرے لیے بے حیثیت تھا بے مصرف، کاٹھ کباڑ جیسا، جس پر دھول جمتی رہتی ہے۔

وہ پہلے پہل مجھ سے محبت جتلاتا رہا۔ میں اس کی محبت کے دعووں کو قہقہوں میں اڑاتی رہی۔

پھر وہ میرے وجود کے گلیشئر سے لگ کر یخ بستہ ہو گیا۔

اور بیچ میں وہ خاص مُدّت گزر گئی جس میں اب آپ کو مزید اکیس سکنڈ جمع کرنے ہوں گے۔

اِس سارے دورانیے میں ہم دونوں کے بیچ کچھ نہ رہا۔

محبت نہ نفرت

بے حسی نہ گرم جوشی

عزت نہ تحقیر

نہ وہ میرے لیے تھا اور نہ میں اس کے لیے تھی۔

جب کوئی اُس سے ملتا اور میرے لیے تعریف کے کچھ جملے کہہ دیتا تو اُسے خُوش ہونا پڑتا حالاں کہ یہ اس کے لیے نہ تو کوئی خُوشی کی بات ہوتی نہ دُکھ کی خبر۔

جب اُس کا نام اخبارات میں چھپتا اس کی تخلیقات کے ساتھ اس کے اعزاز میں تقاریب ہوتیں یا دوست احباب اس کے بہت اچھا ہونے کی اطلاع دیتے تو میرے چہرے پر خُوشی آ جاتی اطلاع دینے والے کے لیے، حالاں کہ میرے اندر اس کے لیے کوئی جذبہ نہ تھا۔

مگر ابھی ابھی چند لمحے پہلے، مجھے بھاگ کر وہاں آنا پڑا تھا کہ میرا بیٹا جھجک کر پرے کھڑا ہو گیا تھا اور اُلٹے قدموں دور چلا گیا تھا اور اس کے چہرے سے اس کا چہرہ جھلک دینے لگا تھا۔

وہ ایک کتاب پر جھکا ہوا تھا۔۔۔ میں اُس پر جھُک گئی۔

اُس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ اِس حیرت پر اُن سارے لمحوں کے جالے تنے تھے جن میں اب آپ کو مزید اِتنی صدیاں جمع کرنا ہونگی جن کی گنتی میں اب بھول چکی ہوں۔

میں نے آنکھیں بند کر لیں اور پورا وجود اس کے سامنے کر دیا۔ یوں کہ بہت مُدّت پہلے ادا کیا گیا جملہ دوسرے سیارے سے آٹھ ہزار سال کے بعد پہنچنے والے سگنل کی طرح میرے بدن کے فلک کا پارچہ پھاڑتا عین میرے دل کے بیچ اُترا، اور سنگلاخ چٹانوں کو توڑتا اندر کی مہکتی سوندھی مٹی کے قطعے میں بیج کی طرح دفن ہو گیا۔

میں نے آنکھیں بند رکھیں۔۔۔ اس لمس کے اِنتظار میں، جس میں مہک تھی اور اُس نمی کے لیے، جس سے دھنک رنگ پھوٹتے تھے۔

 

 

ٍ

مَلبا سانس لیتا ہے !

 

جب آوی کے پاس فرشتے اترے

ماسٹر فضل جُو ٹھیک ٹھیک آنکنے میں ناکام رہے تھے کہ اُنہوں نے کِتنی دیر تلاوت کی تھی۔ رمضان کے عین آغاز میں ہی وہ تخمینہ لگا چکے تھے کہ روزانہ اِتنا پڑھیں گے تو ستائیسویں کو ختم القرآن کی مطلوبہ تعداد مکمل ہو گی۔ مگر جوں جوں روزے ایک ایک کر کے کم ہو رہے تھے اُن کی تَشویش بڑھتی جا رہی تھی۔جِس قدر اُنہیں پڑھنا چاہیے تھا، وہ پڑھ نہیں پا رہے تھے اور بعض روز تو یوں ہوتا تھا کہ وہ اپنے تئیں رات بھر تلاوت کرتے رہتے تھے مگر جو ورق اُلٹ پلٹ کر دیکھتے تو خود کو کوسنے اور شیطان مَردُود کو پَھٹکار نا شروع کر دیتے کہ آخر تلاوت کرتے کرتے وہ کہاں چلے جاتے تھے۔

تو یوں تھا کہ آج بھی وہ کہیں اور تھے۔

رات تَراوِیح سے لوٹے تو یہی کوئی گھنٹہ پون گھنٹہ ہی کمر سیدھی کر پائے ہوں گے کہ انہیں لگا جیسے کوئی روئی جیسے ملائم ہاتھوں سے اُن کے پاؤں کے تَلوے سہلا رہا ہو۔ اُنہیں مزا آ رہا تھا مکّر مار کر پڑے رہے حتیٰ کہ تراویح میں مُسلسل کھڑے رہنے سے ٹانگوں میں جمع ہو کر جم جانے والا خُون نرم و گداز لمس کی لطیف حرارت سے پھر رواں ہو گیا۔ ایسے میں ہی شاید، دائیں پاؤں کے تلوے کی عین ڈھلوان میں، وہاں جہاں پوست قدرے زیادہ ڈھیلا پڑ جانے کی وجہ سے سہولت سے چٹکی میں آ جاتا ہے، چٹکی میں لا کر مسل دیا گیا۔ چٹکی میں آنے والے پوست سے لگے گوشت نے لمحہ بھر کے اندر اندر ایک میٹھے درد کو پورے بدن میں جھونک دیا۔ وہ ہڑبڑا کر اُٹھے اور ابھی نظر کا چشمہ تلاش نہ کر پائے تھے کہ ایک کھنک سی فضا میں تیر گئی۔ اُن کے سنبھلتے سنبھلتے سارا کمرا گہری خاموشی اور اکیلے پن کے احساس سے گونج رہا تھا۔

کمرے میں مدھم روشنی والا بلب، فینسی شیڈ کے اندر سے اُن کے بستر سے قدرے دور، دبیز قالین پر، ایک دائرے میں روشنی پھینک رہا تھا۔ وہ کچھ بھی سوچے بغیر بٹر بٹر اس دائرے کو بہت دیر تکتے رہے حتی کہ خواب میں بدن کا حصہ ہو جانے والا لطیف احساس خود بخود معدوم ہو گیا۔ اب انہیں اس ماہ مبارکہ کی پاکیزہ ساعتوں کے یوں ہی گزر جانے کا احساس تڑپا رہا تھا لہذا اُٹھے اور سیدھے واش روم میں گھس گئے۔

وضو تازہ کرنے کے بعد وہ تب سے پڑھنے بیٹھے تھے، اور سحری کے لیے جگانے والے سرکاری سائرن کی دوسری لمبی گھوں پر وہ بوکھلا کر سیدھے ہو گئے تھے۔ یہ بوکھلانا اتنا شدید اور غیر متوقع تھا کہ گود میں پڑا ہوا قرآن پھسلنے لگا تھا۔ انہوں نے فوراً اُسے تھام لیا۔ ہڑبڑاہٹ کچھ کم ہوئی تو اس نشانی کو تلاش کیا جہاں سے انہوں نے تلاوت کا آغاز کیا تھا۔ پھر تیز تیز ورق اُلٹتے الٹتے وہاں پہنچے جہاں تک، وہ اپنی دانست میں پڑھ چکے تھے۔

’’ہائیں، بس اتنا ہی‘‘

یہ انہوں نے قدرے اُونچی آواز میں کہا تھا اور ابھی تک فضا میں اُن کی بات ٹھہری ہوئی تھی کہ اُنہوں نے قرآن پاک کو دونوں طرف سے اور وسط میں بار بار بوسے دینے اور دائیں بائیں آنکھوں سے لگانے کے بعد چھاتی سے یوں بھینچ لیا جیسے فضیلت بھینچ لیا کر تی تھی۔

جب اُس کی ڈولی اُٹھی تھی تو فضیلت جان کو سولہواں لگا تھا۔ الہڑ اِتنی کہ ایڑھیاں زمین پر ٹکتی نہ تھیں۔ قد نکلتا ہوا، رنگ کِھلتا ہوا اور آواز یوں کہ آدمی سنے تو مست ہو جائے۔ جب وہ آئی تھی تو اس کا نام فضیلاں تھا اور اسے بہت ساری باتوں کی سمجھ بھی نہ تھی۔ جیجو کمہار کی بے ماں بیٹی، جو باپ کے ساتھ مٹی ڈھوتے، اسے گوندھتے، صحنکیں، گھڑے، بٹھل، چھونیاں، کوزے، چلمیں اور ہویجے چاک پر چڑھاتے اور ان کی صورتیں بناتے ہوے خود ایسی بھولی بھالی صورت میں ڈھل گئی تھی کہ اٹھی نظر ہٹتی نہ تھی۔ جیجو خود بھی اسے دیکھتا تو اس کے پسینے چھوٹ جاتے تھے۔ فضیلاں کے پیدا ہونے اور فضیلاں کی ماں کے مرنے کا واقعہ ایک ساتھ ہوا تھا۔ تب سے اب تک وہ اس کے لیے امتحان تھی۔ اور جب اس کا امتحان اس کی برداشت سے باہر ہو گیا تو خدا نے اس کی مشکل خود ہی آسان کر دی۔

یہ مشکل یوں آسان ہوئی تھی کہ فضل جُو بھی اُس کے گھر کے پھیرے لگانے لگا تھا۔

فضل جُو، جو ابھی خاکوٹ کے پرائمری ا سکول میں ماسٹر نہیں لگا تھا، دوسرے نوجوانوں کی طرح بلا سبب کئی کئی بار مٹی کے تباخ اور صراحیاں خرید چکا تھا۔ وہ اس کے گھر کے چکر کیوں لگا رہا تھا؟ وہ بہت جلد سمجھ گیا تھا اور یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ یہاں سے جو کچھ خرید لے جاتا تھا، گھر نہ لے جاتا تھا۔ اگر لے گیا ہوتا تو پیش امام صاحب، اور بی بی صاحبہ کو ضرور کھٹک جاتا۔ تاہم وہ بے بس تھا اور اِتنا کم حیثیت کہ کوئی خدشہ یا کوئی شکایت منھ پر لانے کا سوچتا بھی تو اس کی کمر کے کپڑے گیلے ہو جاتے تھے۔

واقعات کے اِسی تسلسل میں، جب جیجو مایوسی کی اس انتہا کو پہنچ گیا تھا جس میں خود سے خدشہ ہونے لگتا ہے کہ اس روگ سے تنگ آ کر کہیں اپنی جان کا نقصان ہی نہ کر بیٹھے، ایک ایسا واقعہ ہوا کہ مایوسی اس کے بدن سے خود بخود نچڑ گئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ فضل جُو گاؤں کے دوسرے لونڈوں سے اُلجھ پڑا تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی اور جیجو کی آوی کے چکر لگائے۔ یہ اکیلا تھا اور وہ چار، لہذا انہوں نے فضل جُو کی ہڈیاں کوٹ کر رکھ دی تھیں۔ یہ واقعہ اگرچہ خُوشگوار نہ تھا مگر اس ایک واقعے نے کل تک گاؤں بھرکے دوسرے لونڈوں جیسا نظر آنے والے فضل جُو کو ان سب سے مختلف ہو کر دیا تھا جو اس کی بیٹی فیضلاں پر شرمناک نظریں گاڑنے اورلَپ لَپ رالیں ٹپکانے والے تھے۔

پیش اِمام صاحب جتنی بار مسجد جاتے تھے، فضل جُو لگ بھگ اتنی ہی بار بہانے بہانے سے جیجو کے گھر کے پھیرے لگا آتا۔ فضل جُو کا باپ گاؤں کی مسجد میں پیش امام تھا اور جیجو کمہار ماشکی۔ جیجو مسجد کا پانی تو باقاعدگی سے بھرتا تھا مگر نمازی وہ عید بقر عید والا تھا کہ اس بہانے اسے کپڑوں کا نیا جوڑا پہننے کو مل جاتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ نئے کپڑے جسم پر نماز کے بعد ہی حلال ہوتے اور زیادہ عرصے تک چلتے تھے۔ کپڑوں کے نئے جوڑے میں برکت کی نیت سے وہ مسجد کے اندر جا کر ما تھا ٹیک آتا تھا مگر پوری یکسوئی سے نماز اس لیے نہ پڑھ پاتا کہ رکوع میں جاتے ہوے یا پھر سجدہ کرتے ہوے کپڑوں کا نیا پن اسے اپنی طرف متوجہ رکھتا تھا۔ نماز پڑھنے کے بعد مسجد سے نکلتے ہی اسے فکر لاحق ہو جاتی تھی کہ سجدہ کرتے اور رکوع میں بیٹھتے ہوے اس کے کپڑے گھٹنوں تلے آ کر مسک گئے ہوں گے۔ وہ تسلی کرنے لیے راہ میں کئی بار جھک کر انہیں دیکھتا، ہاتھوں میں تان کر اور پھٹک کر جانچتا۔ ایسا کرنے میں وہ اس قدر مگن ہو جاتا تھا کہ اکثر راہ گیروں سے ٹکرا جاتا تھا۔ ایسے میں اسے تو بہت خجالت کا سامنا کرنا پڑتا تھا جب کوئی بڑی عمر کی خاتون اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کر دیتی تھی۔

گاؤں کی دوسری روایات کی طرح کمہار ہونے کی حیثیت سے ماشکی کا کام بھی اس کے فرائض میں شامل تھا۔ نمازیوں کی خدمت کا جذبہ اس کے اندر شاید اس لیے پیدا نہ ہو سکا تھا کہ مسجد کا حوض بھرتے بھرتے اس کی کمر دوہری ہو گئی تھی۔ جب بھی اس کے کپڑے پھٹتے تھے، یا تو کمر سے پھٹتے، جہاں وہ مشک ٹکایا کرتا تھا یا پھر عین گھٹنوں کے اوپر سے۔ اسے ہر بار شک ہوتا کہ پہلے روز سجدہ کرتے وقت گھٹنوں تلے آ کر کپڑا زمین سے رگڑ کھا کر پتلا ہو گیا ہو گا اور چھاننی بن جانے والا کپڑا تو ایک روز پھٹ ہی جایا کرتا ہے۔ ایسے میں وہ خلوصِ دل سے تمنا کرتا کہ کاش وہ ماشکی نہ ہوتا اور صرف کمہار ہوتا مگر دوسرے ہی لمحے اسے اپنی حماقت پر رونا آ جاتا تھا کہ بھلا کیسے ممکن تھا، ایک آدمی کمہار تو ہو اور ماشکی نہ ہو؟

کمہار ہو کر مسجد کا ماشکی ہونا اسے وراثت میں ملا تھا۔ اس کا باپ، بہت پہلے شدید سردیوں میں، ابھی تاروں کی چمک مدھم نہیں ہوئی تھی اور شیدے بانگی نے فجر کی اذان بھی نہیں دی تھی، پانی بھرکر لاتے ہوے عین مسجد کی پرلی نکڑ کے پاس، ٹھوکر کھا کر منھ کے بل گر گیا۔ یوں کہ، چمڑے کی مَشک کے منھ پر مضبوطی سے جما اُس کا ہاتھ ڈھیلا پڑ گیا، اور گڑگڑ کرتا پانی نکل کر اسے پوری طرح بھگو گیا تھا۔ اُسے گھٹنے پر چوٹ آئی، چوٹ اگر چہ زیادہ نہ تھی مگر کسی پتھر کی نوک پر پڑنے سے گھٹنے میں اتنی فوری اور شدید تکلیف ہوئی تھی کہ اس کی آنکھوں کے آگے تِرمِرے ناچ گئے تھے۔ جب تک اس درد کی شدت مدھم ہوئی، مشک کا یخ پانی اسے پوری طرح بھگو چکا تھا۔ گھر پہنچا تو وہ ٹَھرّوں ٹَھرّوں کر رہا تھا۔ پھر اسے تپ چڑھا اور اس تپ نے اسے اتنی ہی مہلت دی کہ مشک بیٹے کو تھما دیتا۔ بیٹے کی مسیں ابھی پوری طرح بھیگی نہ تھیں کہ بھیگا ہوا باپ ٹھٹھر کر مر گیا۔ اسے مشک سے نفرت ہو گئی۔۔۔ مگر وہ اس نفرت کے ساتھ زندہ رہنے پر مجبور تھا۔

جیجو اپنے مرحوم باپ کی طرح وضو خانے سے ملحق حوض کو پانی سے بھرتا رہتا۔ حوض ہر نماز کے بعد خالی ہو جاتا تھا۔ اسے ان لوگوں پر بہت غصہ آتا جو اس کے گمان میں زیادہ پانی خرچ کرتے تھے۔ ان میں سے جازو جولا ہے، فیقے مستری اور میر شفیع کو وہ مسجد سے واپس آتے ہوے ہر بار اس حال میں دیکھا کرتا کہ ان کی قمیضوں کے دامن، داڑھیاں یا پھر شلواریں گھٹنوں تک تر نظر آتی تھیں۔ سودے لُون کے بارے میں تو گاؤں بھر میں لطیفہ مشہور تھا کہ اسے اپنا ایک ایک عضو بھگونے کے لیے الگ سے بھرا ہوا پانی کا لوٹا چاہیے ہوتا ہے۔

جیجو جب بھی خالی مشکیزہ کندھے پر جما کر سائیں سوجھے کی چِٹّی قبر کے پیچھے سے ہوتا پہاڑی کے مُڈھ سے بَل کھا کر گزرتے پتلا پانی تک پہنچتا تھا تو اس کے پاؤں کے پنجے ڈھلوان میں مسلسل اُترنے کی وجہ سے اوپر اٹھنا بھول چکے ہوتے تھے۔ اسے وہاں سے مشکیزہ بھرنا ہوتا تھا وہاں پتھروں پر آگے ہی آگے چھچھلتی پھسلتی چلے جانے والی اُتھلے پانی والی یہ ندی پیالہ بن کر لمحہ بھر کے لیے پانی ٹھہرا کر آئینہ بنا لیتی تھی۔

وہ مشکیزہ بھر کر اس کا منھ مٹھی میں دبا لیتا اور شیشہ بنے پانی میں خاکوٹ کے مکانوں کے عکس دیکھتا تو اس کا دل بیٹھ جاتا تھا۔ ایسے میں جھک کر کندھے پر مشکیزے کو اٹھانا اور بھی مشکل ہو جاتا۔ تاہم وہ بوجھل دل کے ساتھ اوپر کو چل دیتا تھا۔ مسجد تک پہنچتے پہنچتے اسے سودے لُون سے جازو جولا ہے تک جو بھی یاد آتا اس کی دل ہی دل میں ماں بہن ایک کرتا جاتا۔ تاہم وہ واقعہ جس نے اس کے روّیے کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا، وہ فضل جُو کا گاؤں کے دوسرے لونڈوں سے مار کھانا تھا۔ اب وہ اوپر سے پتلے پانی تک جس طرح بھاگتا ہوا جاتا تھا اور جیسے پانی سے بھرا ہوا مشکیزہ اٹھا کر پنجوں کے بَل اچھلتا کودتا اوپر پہنچتا تھا، اُس پر سائیں سوجھے کی چٹی قبر ہر بار اسے حیرت سے دیکھنے لگتی تھی۔

بُری طرح پِٹ کر زخمی ہونے والے فضل جُو کو جب لوگوں نے اُس کے گھر پہنچایا تو اس کی ماں، جو بچیوں کو قرآن پڑھانے کی نسبت سے گاؤں بھر میں محترم تھیں اور سب انہیں بی بی صاحبہ کہتے تھے، پہلے تو بیٹے کی حالت دیکھ کر چکرا کر گریں، اور جوں ہی ہوش آیا، چھاتی پیٹ پیٹ کر اپنے بچے پر یہ ظلم ڈھانے والوں کو کوسنے لگیں۔ پیش امام صاحب عصر کی نماز کے بعد مسجد گئے تو واپس پلٹنے کی بہ جائے اپنے مُرشد کے ملفوظات کی کتاب پڑھنے کے لیے وہیں حجرے میں بیٹھ گئے تھے، خلاف معمول اپنی بی بی کی کوسنے اٹھاتی آواز سنی تو ہڑبڑا کر حجرے سے باہر نکلے اور مسجد کے دروازے سے ملحق اپنے گھر کے دروازے پر جمع ہجوم کو چیرتے اندر گھس گئے۔ لوگوں نے اتنے قلیل عرصے میں وہ اشارے کر دے دیے تھے جو بیٹے کی حالت دیکھ کر اور بی بی کے بین سن کر انہیں سارا معاملہ سمجھا گئے تھے۔ تاہم اس لمحے جب وہ اپنے گھر کے آنگن میں کھڑے تھے، انہیں نہ تو زخمی بیٹا نظر آ رہا تھا نہ پڑوسنوں کے درمیان کھڑی چھاتی کوٹتی اور گالیاں بکتی بی بی کہ وہ تو اپنی اس نیک نامی اور عزت کو خاک میں ملتا دیکھ رہے تھے جو عمر بھر کی ریاضت کا حاصل تھی۔ انہوں نے چھاتی کو وہاں زور سے دبایا جہاں انہیں بوجھ محسوس ہو رہا تھا، آنکھوں کے آگے اندھیرا سا لہرانے لگا۔ اس خدشے کے باعث کہ کہیں چکرا کر وہ گر ہی نہ جائیں وہیں زمین پر بیٹھ گئے۔ بی بی صاحبہ نے پیش امام کو یوں زمین پر بیٹھتے دیکھا تو ان کی آواز حلقوم ہی میں ڈھے گئی تھی۔

شام کی نماز سے پہلے پہلے وہ ہوش میں آ گئے تھے، مگر ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ مسجد جائیں۔ تاہم انہوں نے یہ نماز قضا نہیں ہونے دی۔ اور جب وہ رو رو کر اپنے ان گنا ہوں کی معافی مانگ رہے تھے جو ان کی یادداشت سے باہر پڑے تھے اور جن کی سزا اُنہیں اِس رُسوائی کی صورت مِل رہی تھی تو آنسوؤں سے اُن کی داڑھی بھیگ گئی تھی۔ وہ بہت دیر بعد مصلے سے اٹھے، زخمی فضل جُو کا ہاتھ تھاما، یوں زور سے جَھٹکا دے کر اُسے چارپائی سے اتار، کہ اگر وہ نہ اُترتا تو ہو سکتا تھا اُس کا بازو ہی کندھے سے اُتر جاتا۔ بی بی صاحبہ نے یہ دیکھا تو بھاگتے ہوے بیچ میں آئیں۔ پیش امام صاحب نے اسے دوسرے ہاتھ سے پرے دھکیل دیا۔ وہ فضل جُو کو گھسیٹتے ہوے باہر نکل گئے۔ گاؤں والے ایک بار پھر بی بی صاحبہ کی چیخیں سُن رہے تھے۔

جیجو کے لیے ان ہونی ہو گئی تھی۔ پیش امام صاحب نے کچھ نام لیے اور انہیں فوراً بلا لانے کو کہا۔ جیجو سب کو بلا لایا حالاں کہ یہ سارے وُہ لوگ تھے، جن کی داڑھیاں، دامن یا گیلی شلواریں ہمیشہ اسے جی ہی جی میں مغلظات بکنے پر مجبور کیا کرتی تھیں۔ مگر جب وہ ان سب کو آوی کے پاس اپنی ٹوٹی ہوئی ان دو چار پائیوں پر بیٹھا دیکھ رہا تھا جن کے علاوہ اس کے گھر بیٹھنے کو کچھ تھا ہی نہیں، تو یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ ان کے چہرے نور دھارے نے اجال رکھے تھے۔ پیش اِمام سمیت یہ سارے لوگ اُسے آسمان سے اُترے ہوے فرشتے لگ رہے تھے۔

 لذت کہاں تھی؟

ماسٹر فضل جُو اب مڑ کر فضیلت کے بارے میں سوچتے تھے تو انہیں یوں لگتا تھا جیسے وہ تو ان کے لیے آسمان سے اُتری تھی، پنکھ لگا کر۔ وہاں جہاں جیجو کی آوی تھی۔ گاؤں کے لڑکوں سے پٹنا، ماں کا چھاتی کوٹ ڈالنا، ابا کا چکرا کر گرنا اور پھر گاؤں والوں کا جیجو چاچے کی آوی پر اکٹھے ہو کر اس کا نکاح کر دینا بس ایک بہانہ اور وسیلہ تھا۔

جب وہ چھاتی سے قرآن لگائے فضیلت کو سوچنے لگتے تو ڈھیروں وقت تیزی سے معدوم ہو جاتا تھا۔ جتنا وقت انہوں نے فضیلت کو سوچتے گزار دیا تھا، اتنا تو وہ ان کے پاس رہی بھی نہیں تھی۔ جس طرح فضیلت کو جنم دیتے ہوے اس کی ماں مر گئی تھی بالکل اسی طرح، اپنی شادی کے لگ بھگ چوتھے سال، جب کہ ابھی وہ محض انیس سال کی تھی، ماسٹر فضل جُو کے بیٹے کو جنم دیتے ہوے وہ خود بھی دم توڑ گئی تھی۔ ان چار برسوں کی رفاقت انہوں نے کھینچ تان کر ساری عمر پر پھیلا لی تھی۔ چپکے سے چلے جانے والی، پنجوں کے بل چل کر آ جاتی تھی اور سارے میں اُجالا پھیل جاتا تھا۔

’’ فضیلت ادھر آؤ تمہیں پڑھنا سکھا دوں‘‘

وہ اُسے پاس بلاتے، قرآنی قاعدہ کھول کر پہلے حرف پر انگلی رکھتے اور اس کی بھولی صورت دیکھ کر ’’ آ‘‘ کی آواز نکالنے کو کہتے۔ وہ کھلکھلا کر ہنس پڑتی۔

یہ کیا پڑھنا ہوا جی، اس طرح تو میں ابا کے کہنے پر شیدو ہاتو کی مرغیاں گھیرا کرتی تھی۔۔۔ آ، آ، آ‘‘

فضیلت اتنے بھولپن سے یہ کہتی تھی کہ فضل جُو کی بھی ہنسی چھوٹ جاتی۔

وہ فوراً ہی مچلنے لگتی کہ اسے اسی طرح پڑھنا سکھایا جائے جس طرح خود لہک لہک کر ماسٹر جی تلاوت کرتے تھے۔ وہ بھاگ کر جاتی اور کارنس سے قرآن پاک اٹھا لاتی۔ محبت سے اس کا غلاف الگ کرتی۔ اسے دائیں اور بائیں آنکھ سے لگا کر چومتی اور دونوں بازوؤں میں یوں بھینچ لیتی تھی جیسے وہ اس کتاب کے ایک ایک لفظ کو اپنے سینے میں اتار لینا چاہتی ہو۔ ماسٹر فضل جُو کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ وہ اپنی بیوی کی اس خواہش کو کس طرح پورا کرے۔ وہ شدید خواہش رکھتے ہوے بھی لفظوں کو پوری صحت کے ساتھ اور صحیح مخرج سے ادا کرنے پر قادر نہ تھی۔ بعض اوقات تو وہ سبق دہرانے میں اتنی شدید غلطیاں کر جاتی تھی کہ وہ’’ نعوذ باللہ، نعوذ با للہ‘‘ کا ورد کرنے لگتے تھے۔ انہیں ساری عمر افسوس رہا تھا کہ وہ اسے نہ تو ڈھنگ سے نماز پڑھنا سکھا پائے تھے نہ قرآن۔ مگر جس طرح وہ سینے سے قرآن لگا کر لہک لہک کر گاتی رہتی تھی اس کی بابت سوچتے تو پورے بدن میں ایک عجب طرح کا کیف اور مستی بھر جاتی تھی:

’’اتُل کھرسی وِچ قرآن

آسوں پاسوں، تو رحمان

لوہے دیاں کنجیاں، تَرامے دے تالے

یا نبی تُساں کرماں والے

کول میرے ہن کوئی نئیں تھوڑ

اللہ والے مینوں تیری لوڑ

یانبی دی چڑھی سواری

چواں گُٹھاں دی خبر داری‘‘

اپنے پاک نبی کی اِس خبرداری میں وہ نہال رہتی تھی۔ تاہم ’’آیت‘‘ اور ’’کرسی‘‘ کے عام سے الفاظ بھی وہ صحیح طور پر ادا کرنے پر قادر نہ تھی۔ ’’آیت‘‘ اور’’ ال‘‘ کو ملا کر پڑھتی تو ’’اتُل‘‘ ہو جاتا اور ’’کرسی‘‘ کی بہ جائے وہ ’’کھرسی‘‘ کہتی تھی۔ ماسٹر صاحب سمجھاتے :

’’کھرسی نہیں کرسی‘‘

اور وہ سوچے سمجھے بغیر اِنتہائی عقیدت اور محبت سے دہراتی:

’’کھرسی نہیں کھرسی‘‘

جتنی بار اس کی تصحیح کی جاتی وہ اتنی بار، ویسے ہی پڑھ دیتی تھی جیساکہ کوئی لفظ شروع سے اس کی زبان پر چڑھا ہوا ہوتا تھا۔ تاہم جب وہ خود تلاوت کرنے لگتے تو اصرار کرتی کہ آواز ذرا بلند رکھی جائے۔ وہ لپٹ لپٹا کر پاس ہی بیٹھ جاتی اور ہر آیت میں حروف کی ادائی کے دوران جس طرح آواز اوپر نیچے ہوتی اس کی سانسیں بھی پھولنا شروع ہو جاتیں۔ حتی کہ وہ ہچکیاں باندھ کر رونے لگتی تھی۔ نماز کے لیے وہ اماں بی بی صاحبہ کی طرح دوپٹہ خوب اچھی طرح لپیٹ لیتی تھی۔ پانچوں وقت مصلے پر ضرور کھڑا ہوتی۔ ماسٹر صاحب یہ سوچ کر کہ وہ نماز میں کیا پڑھتی ہو گی اپنے تئیں بہت شرماتے رہتے مگر نماز میں اس کی حضوری کا عالم دیکھتے تو خود پر شرماتے تھے۔ انہیں بہت جلد اِحساس ہو گیا تھا کہ قرآن پڑھنے کا معاملہ ہو یا نماز روزے کا نا دُرُست ہو کر بھی وہ سب کچھ اتنے یقین، محبت اور اہتمام سے کرتی تھی کہ انہیں اس کے مقابلے میں اپنا ایمان اور علم دونوں ہیچ لگنے لگتے تھے۔ وہ مر گئی تو بھی ماسٹر صاحب اس کے مقابلے میں خود کو کمتر سمجھتے رہے۔ اسے خوابوں میں بلاتے اور اس سے اس خالص پن کا سبق لیتے جو اس کے وجود سے نور بن بن کر چھِن رہا تھا۔

مگر، کچھ دنوں سے یہی نور اُن کی آنکھوں میں چبھتا اور سینے میں چھید کرتا تھا۔ شاید اب ماسٹر فضل جُو کچھ زیادہ ہی زود حِس ہو گئے تھے۔ انہیں فضیلت کا یوں آنا بار بار ستانے کے مترادف دکھنے لگا تھا۔ تاہم اس کاتو وہی معمول تھا جو ہمیشہ سے رہا تھا۔ رات کے کسی پہر چلے آنے والا، پنجوں کے بل۔۔۔ اور چپکے سے وجود میں سرایت کر جانے والا۔۔۔ اس معمول میں کبھی رخنہ نہیں آیا تھا۔ اور شاید اس سے کم پر فضیلت خود بھی راضی نہ تھی۔

ماسٹر صاحب نے خوب اِحتیاط سے ان زیادہ ستائے جانے والے دنوں کا حساب لگایا تو یہ اتنے ہی بنتے تھے جتنے دنوں سے وہ اپنے بیٹے کے ہاں اُٹھ آئے تھے۔ اب پیچھے پلٹ کر دیکھتے تھے تو بیٹے کے ہاں اُٹھ آنا انہیں یوں لگنے لگتا جیسے زندگی یکدم رس سے خالی ہو گئی ہو۔ ایک خوب صورت سنہرے سیب جیسی زندگی، جو ماسٹر صاحب کی دست رس میں تھی، وہ اس پر اپنے دانت گاڑھ سکتے تھے مگر اس میں سے لذّت نکلتی ہی نہ تھی۔ ہر بار منھ پھوگ سے بھر جاتا تھا۔

 زمین کے چلنے سے پہلے

جو زندگی وہ تج کر یہاں آ گئے تھے اُس کے آخری حصے میں ان کی روح کے لیے اگرچہ لذّت کے ہلکورے باقی تھے مگر بدن کے ضعف نے اس میں سو طرح کے رخنے ڈال دیے تھے۔ اُن کی سانسیں نا ہم وار رہتیں اور جوڑوں میں درد بھی وقفے وقفے سے جاگ اُٹھتا تھا۔ ایسے میں ماسٹر فضل جُو نے وہ جو عمر بھرکی ریاضت سے دین اور دنیا میں توازن کا ایک نظام قائم کر لیا تھا، اس میں انہیں سو طرح کی خرابیاں نظر آنے لگتیں۔ ان کی زندگی کرنے کا وتیرہ ان کے بہشتی باپ سے بالکل مختلف تھا۔ گزرے ہوے زمانے کے ایک پیش امام کی دنیا ہو بھی کتنی سکتی تھی۔ ڈیڑھ دوسو گھروں پر مشتمل چھوٹی سی بستی خاکوٹ میں زندگی تھی بھی بہت سادہ اور اکہری مگر پیش امام اس سے بھی دست کش رہے تھے۔ مسجد، اس کا حجرہ یا پھر ایک کمرے اور پسار والا گھر۔ مسجد سلکھنی کے صحن سے گاؤں کے بچوں اور ان کے گھر سے بچیوں کے سبق دہرانے کی آوازیں گونجتی رہتی تھیں۔۔۔ یوں، جیسے سپارے نہ پڑھے جا رہے ہوں، بہتا پانی پتھروں سے پھسلتا، گنگنا کر گزرے چلا جاتا ہو۔

بی بی صاحبہ کی زندگی کی ضروریات تو پیش امام کی ضرورتوں سے بھی کم تھیں۔ چولہا بھی کبھی کبھار ہی جلنے پاتا تھا کہ گاؤں والوں نے اپنے آپ ہی دن باندھ لیے تھے۔ کسی نے دن کے اُجالے میں پیش اِمام اور بی بی صاحبہ کو آپس میں بات کرتے نہ دیکھا تھا۔ حتّی کہ فضل جُو کو بھی ماں باپ کا باہم صلاح کرنا یا کسی بات پر کھُل کر قہقہہ لگانا یاد نہ آتا تھا۔ بعد میں جب بھی انہوں نے اپنے باپ کو ذہن میں لانا چاہا اُن کے دھیان میں مسجد سلکھنی کا، روئی کے گالوں جیسی داڑھی والا پیش اِمام آ جاتا تھا، جس کا سر ہمیشہ کروشیئے والی سفید ٹوپی اور بُمَل بندھے چار خانوں والے رومال سے ڈھکا رہتا تھا۔

پیش امام صاحب گھر میں داخل ہونے کے بعد جوں جوں پسار کی طرف بڑھتے توں توں اُن کی گردن جھکتی چلی جاتی۔ اس اثنا میں اُن کی ماں کا گھونگھٹ بھی نکلنے لگتا تھا۔ وہ اپنی انگلیاں ماتھے کے وسط سے اوپر، وہاں سے چادر کو گرفت میں لے کر لمبا گھونگھٹ نکال دیتی تھیں، جہاں سے چاندی جیسے بالوں کے درمیان، بالکل سیدھ میں مانگ نکلی ہوتی تھی۔ اُن کا گھونگھٹ اِتنا لمبا ہوتا کہ وہ اس لمحے فضل جُو کی ماں یا اس کے باپ کی بیوی نہ رہتی تھی بی بی صاحبہ ہو جاتی تھیں۔ ایسے میں فضل جُو کی سماعتوں میں پسار کے اندر سے پتلے پانی کے بہاؤ کی رچی بسی گنگناہٹ خود سے جاری ہو جاتی تھی۔

فضل جُو میں حوصلہ تھا نہ ہمت کہ وہ پیش امام صاحب جیسی زندگی کو اپنے لیے اختیار کرتے۔ محکمہ تعلیم میں نوکری مل گئی تھی، ہر طرف سے احترام ملا جسے دیکھو، ماسٹر صاحب، ماسٹر صاحب، کہتے تھکتا نہ تھا۔ لوگ سلام کرنے میں پہل کرتے۔ جہاں وہ تھے وہاں ابھی استاد ہونا یا صاحب علم ہونا واقعی لائق تکریم تھا۔ جب ہر طرف سے اتنی عزت ملی تو چھاتی پھولنے اور شملہ تننے لگا۔ تاہم اس سب کو وہ اس کی عطا سمجھتے رہے تھے جس کے لیے اُن کے ابا جی نے دنیا تج دی تھی۔

جب تک وہ اپنی زندگی میں رُجھے رہے، سب کچھ ٹھیک ٹھیک چلتا رہا۔ مگر ریٹائرمنٹ کے بعد، اور اپنی عمر سے مات کھا کر، جب سے وہ بیٹے کے ہاں اُٹھ آئے تھے اُن کے اندر بہت توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔ انہیں جس خدا سے معاملہ رہا تھا وہ اس جدید طرز کے ٹاور کے کسی اور حصے میں ہو تو ہو وہاں نہیں تھا جہاں اُن کا بیٹا اور بہو رہتے تھے۔ شاید یہی سبب ہو گا کہ اپنے کمرے میں انہیں اسے پاس بلانے رابط خاص قائم کرنے اور اس کا ہو جانے میں بہت جتن کرنے پڑتے تھے۔ اگرچہ اس گھر میں اشیاء نے بہت جگہ گھیر رکھی تھی تاہم یہ خلوص سے جتن کرتے تھے تو وہ راہ بناتا چلا آتا تھا۔

اس رات کہ، جس کے معدوم ہو چکنے کے بعد بھونچال کو چپکے سے آ کر سب کچھ تلپٹ کر کے رکھ دینا تھا، عین اسی رات کو فضیلت نے آ کر ماسٹر فضل جُو کو بہت ستایا تھا۔ وہ پڑھتے ہوے بار بار اونگھتے اور اِسی اونگھ جھپکی میں لمبا غوطہ کھا جاتے، یوں جیسے پینگ ہلارے لیتے لیتے ایک لمبی جست لے اور بادلوں میں اتر کر واپس آنا بھول جائے۔ خواب کے اس لمبے ہلارے نے جن بادلوں میں انہیں اتارا تھا، وہاں فضلیت تھی، جو بار بار پوچھے جاتی تھی:

’’ ماسٹر جی تم ان کے لیے کیوں پڑھتے ہو جو خود پڑھ سکتے ہیں، مگر پڑھنا نہیں چاہتے ؟‘‘

ماسٹر جی چپ رہے تو وہ تن کر اُن کے سامنے کھڑی ہو گئی :

’’دیکھیں جی، میں جو ہوں آپ کے سامنے، بالکل کوری، ایک بھی مبارک لفظ ڈھنگ سے نہ پڑھ سکنے والی، لیکن ایک ایک لفظ کے لیے اپنے پورے وجود کو سماعت بنا لینے والی۔۔۔ آپ میرے لیے کیوں نہیں پڑھتے جی؟‘‘

انہیں کوئی جواب نہ سوجھا تو وہ ہڑبڑا کر اُٹھ گئے اور پورے بدن کو جھلا جھلا کر پڑھنے لگتے۔ غالباً وہ تیسرا یا چوتھا جھلارا ہو گا کہ ایک سرگوشی کی سنسناہٹ پورے کمرے میں تھرا گئی:

’ ’ کوئی نہیں سن رہا‘‘

انہوں نے اس آیت پر انگلی رکھی جسے پڑھ رہے تھے اور کمرے میں چاروں طرف دیکھا۔ چپکے چپکے اور ٹھہر ٹھہر کر۔ یوں جیسے انہیں یقین ہو کہ وہاں کوئی تھا مگر اپنی ناراضی ظاہر کرنے کے لیے ان کی نظروں میں آنے سے بچ رہا تھا۔ تھک ہار کران کی نظر یں پاک صحیفے پر سرنگوں اپنی شہادت کی انگلی پر آ کر رک گئیں مگر زبان تالو کے ساتھ چمٹی رہی۔ انہوں نے قرآن پاک کو وہیں سرہانے پر کھلا رکھ دیا اور ٹانگیں سیدھی کر کے پلنگ سے لٹکانا چاہیں۔ ایک آدھ لمحہ اُس اینٹھن کو جَھٹکنے میں لگ گیا جو ایک ہی رخ بیٹھے بیٹھے ان ٹانگوں میں ہونے لگی تھی۔ تاہم جب ٹانگوں پر بوجھ ڈال کر کھڑے ہوئے تو وہ بہت جلد توازن برقرار رکھنے کے قابل ہو چکے تھے۔

انہوں نے کھڑے کھڑے فضا میں متحرک ان مقناطیسی لہروں کو محسوس کیا جو پہلے کبھی بھی محسوس نہیں ہوئی تھیں۔ یہ لہریں اُن کے جسم پر یوں رینگنے لگیں جیسے چیونٹیاں رینگتی ہیں، جس سے ان کے بدن کا رواں رواں کھڑا ہو گیا۔ اُن کے دل پر بھی خُون کا دباؤ بڑھ رہا تھا جس نے انہیں بوکھلا دیا۔ اس بوکھلاہٹ میں ان کے قدم دروازے کی سمت اٹھنے لگے۔ جب وہ دروازے کی طرف جا رہے تھے تو انہیں یوں لگا تھا، جیسے عین ان کے عقب میں فضلیت بھی پنجوں کے بل چلی آتی تھی۔ وہ غصے میں دھونکنی کی طرح چلنے والی اس کی سانسوں کی آنچ بھی اپنی گردن پر محسوس کر رہے تھے :

’’وہاں کوئی نہیں ہے‘‘

اُنہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا وہاں آواز نہیں، ایک سسکاری تھی۔ دل بیٹھنے لگا تو دھیان ہٹانے کے لیے آگے بڑھ کر دروازہ چوپٹ کر دیا۔۔۔

وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔

لاونج کے خالی پن کو چیر کر ان کی نظر یں اپنے بیٹے اور بہو کے بیڈ روم کے بند دروازے پر پڑیں۔ ایک عجب طرح کی بے پرواہی وہاں ٹھہری ہوئی تھی۔

دروازے میں کھڑے کھڑے جب اُن کے سوچنے کے لیے کچھ نہ رہا تو ماسٹر فضل جُو نے گردن موڑ موڑ کر کمرے میں دیکھنا بھی معطل کر دیا تھا۔ وہ جان چکے تھے کہ وہاں اب کسی کی خُوشبو تھی نہ قہقہے، سرگوشیاں تھیں نہ لہجے کی وہ آنچ جو کب سے ان کی محسوسات کا حصہ تھی۔ وہاں فقط برہم اور اجنبی سی مقناطیسی لہریں تھیں۔ تعطل کے اسی عرصے میں انہیں یاد آیا کہ وہ بستر کے سرہانے قرآن کھلا چھوڑ آئے تھے :

’’بیٹا قرآن یوں کھلا نہیں چھوڑتے، شیطان پڑھنے لگتا ہے‘‘

یہ بی بی صاحبہ کی آواز تھی۔ نحیف سی آواز جو انہوں نے مُدّت بعد سنی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ شیطان کے قرآن پڑھ لینے والی بات محض اس لیے کی جاتی تھی کہ بچیاں قرآن پڑھنے کے بعد غلاف میں لپیٹ کر اور کارنس پر رکھ کر جایا کریں۔ تاہم بعد میں انہوں نے اس کا یہ مفہوم خود سے اخذ کر لیا تھا کہ مومنین کے لیے ہدایت بنتی آیات کو شیطان مردود کھلے قرآن سے اُچک کر ان میں سے اپنے مطلب کے معنی نکال کر اِدھر اُدھر پھیلا دیتا ہو گا، تب ہی تو پہلی عمر میں تواتر سے سنے گئے اس جملے کے سچا ہونے کا انہیں یقین سا ہو چلا تھا۔ انجانے خوف کے زیر اثر وہ بھاگتے ہوے اپنے بیڈ تک پہنچے، سرہانے سے قرآن پاک کو اُٹھا کر تَہ کرتے ہوے کئی بار بوسے دیئے۔ اسے آنکھوں سے لگا کر سینے کے ساتھ چمٹایا اور دروازے میں آ کھڑے ہوئے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب زمین اپنے آپ چل پڑی تھی۔

 ملبا درد کی گرہیں کھولتا ہے

کہتے ہیں جب پیش امام صاحب، نے کچی لکیر پار کی تھی تو پیش امام نہیں تھے۔ وہ تو اُدھر پونچھ میں صاحب حیثیت آدمی تھے۔ ماں باپ نے لس جُو نام رکھا اور اِسی نام سے پکارے جاتے تھے۔ ایک بار یوں ہوا کہ وہ حضرت بل کے پاس سے گزرتے ہوے بے ارادہ اندر داخل ہو گئے۔ دل پر ایسا رُعب پڑا کہ کئی گھنٹے باہر نہ آ سکے۔ اِسی بے خودی کے دورانیے میں اُنہیں کچی لکیر پھاند لینے کا حکم ہوا۔ انہوں نے سب کچھ سے ہاتھ جھٹکا، اور ادھر اٹھ آئے تھے۔ کچھ کو یہ کہتے بھی سنا گیا ہے کہ ان کا جوان بھائی مار دیا گیا اور مارنے والے ان کے تعاقب میں تھے لہذا ادھر آنے کا حیلہ انہوں نے اپنی جان اور نسل بچانے کے لیے کیا تھا۔

لس جُو نے جان بچا لی تھی مگر اس کی نسل کے قدموں تلے، اب جو زمین تھی، وہ اپنے آپ چل پڑی تھی۔

جب لس جُو پونچھ سے تتری کوٹ آئے تھے تو ان کا وجود ایک عجب طرح کے شدید اِحساس سے لرزتا رہتا تھا۔ یہاں ادھر کی خبریں آتی رہتی تھیں جو احساس کے عُجب اور شدت میں اضافہ کرتی رہتیں۔ پوری طرح سمجھ میں نہ آنے والا یہ اِحساس انہیں کبھی تو ایک بار پھر کچی لکیر پار کرنے پر اکساتا اور کبھی اس سے دور پٹخ دیتا تھا۔ اس پراسرار اِحساس سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے اپنا گھر کاندھے پر رکھ لیا اور پہاڑوں کے اندر بھٹکنے لگے۔ کبھی گڑمنڈہ، سدھن گلی، کامی منجہ اور حسّہ تو کبھی پرس، بٹل اور چناری حتی کہ وہاں سے خاکوٹ آ گئے جس نے انہیں اپنے اندر بسا لیا تھا۔ پہلی بار تتری میں رہائش اِختیار کرنے کی مناسبت سے وہ ایک عرصہ تک لس جو تتری کہلاتے رہے۔ پھر یوں ہوا کہ مسجد سلکھنی کی پیش امامی ان کی زندگی کا وظیفہ ہو گئی جس نے ان کا اصل نام سب کے ذہنوں سے محو کر دیا تھا۔

جس روز بھونچال آیا تھا، اس روز دن ڈھلے تک سب یہ سمجھ رہے تھے کہ اسلام آباد کے پوش علاقے میں بس ایک ملٹی سٹوری ٹاور گرا تھا۔ وہی، جس کے چھٹے فلور پر ماسٹر فضل جُو شیطان کی نظر کھلے ہوے قرآن پر پڑنے کے خدشے سے اپنے بیڈ تک آئے تھے اور قرآن چھاتی سے چمٹا کر واپس دروازے کی چوکھٹ میں جا کھڑے ہوے تھے۔ عین اس وقت کہ جب بہت سارے کیمروں کو گواہ بنا کر حکومت کا سربراہ اس ٹاور کے ملبے پر چڑھ کر اعلان فرما رہے تھا کہ بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، اس وقت تک کوئی نہیں جانتا تھا کہ ادھر پہاڑوں پر کتنی بڑی قیامت ڈھے چکی تھی۔ وہاں زمین نے کئی پلٹے کھائے اور پہاڑوں نے بھُربھُرا ہو کر خاکو ٹ کو اپنے اندر چھپا لیا تھا۔ مسجد سلکھنی کے میناروں، پیش امام صاحب اور بی بی صاحبہ کی قبروں، جیجو کی اجڑ چکی آوی اور اوپر سے نیچے کو دھیمے سروں میں بہنے والے پتلے پانی، اور اس کے مکینوں کی نا رسائیوں اور معصومیت سمیت سب کچھ خاک کا رزق ہو چکا تھا۔۔۔ کہ اب وہاں کچھ بھی نہ تھا۔

لگ بھگ یہ وہی وقت بنتا ہے، ملبے کے اوپر چڑھ کر تصویریں بنوانے والا، اور وہ بھی یوں جیسے کوئی شو باز شکاری پہلے سے مرے ہوے شیر کو دیکھے اور اس کے بدن پرپاؤں رکھ کر لوگوں کے دلوں پر دھاک بٹھانے کے لیے تصویریں اتروانا شروع کر دے، ۔۔۔ ہاں، عین مین وہی وقت، جب اوپر سے کدال پڑنے، اور لوہا کاٹنے کی آوازیں آنے والے کے پروٹو کول میں کچھ وقت کے لیے معطل ہو گئی تھیں۔ تب سیمنٹ اور سریے کی کئی تہوں تلے ماسٹر فضل جُو کو اپنے زندہ ہونے کا احساس ہوا تھا۔ بہت جلد زندگی کے اِس اِحساس کو ان کی دمچی سے، ٹانگوں، پنڈلیوں اور کمر سے بازوؤں، گردن اور گدی سے اٹھنے والے درد نے پچھاڑ دیا تھا۔ وہ بے بسی اور درد سے جس قدر بلبلا سکتے تھے بلبلائے، روئے اور پھر سسکتے چلے گئے۔ مگر جب اُنہیں اِحساس ہوا کہ اُن کی چیخوں اور رونے دھونے کو سننے والا وہاں کوئی نہیں تھا تو وہ یوں چپ ہو گئے جیسے ازل سے بولنا جانتے ہی نہ تھے۔ تب انہیں اپنا بیٹا اور بہو ایک ساتھ یاد آئے۔ اپنے بہشتی ماں باپ کی طرح انہیں بھی انہوں نے آپس میں کم ہی صلاح کرتے یا کھل کھلا کر ہنستے دیکھا تھا۔ تاہم اس ایک وتیرے کی تاثیر دونوں کے ہاں بالکل مختلف اور متضاد ہو جاتی تھی۔ وہ دونوں، جو اندر تھے ان کی آنکھوں کے سامنے والے دروازے کے پیچھے، یقیناً وہ ایک بیڈ پر ہوں گے مگر وہ اندازہ کر سکتے تھے کہ مصروفیت کی تھکن نے انہیں دونوں کناروں پر ہی گرا دیا ہو گا، یوں کہ وہ پہلو بدل کر قریب بھی نہ ہو پائے ہوں گے۔ اس فاصلے کو انہوں نے ان کے بیڈ روم کے دروازے پر کھدا ہو دیکھ لیا تھا۔ یہ جو آنے ولا وقت اُن کی محسوسات پر دستک دینے لگتا تھا اس سے بچنے کے لیے انہوں نے اندازے لگانا بند کر دیے تھے۔

ابتدا میں جو اندازے لگائے جا رہے تھے وہ سارے ہی غلط ہو چکے تھے۔ تتری کوٹ سے خاکوٹ تک پہاڑوں پر بستیاں لاشوں سے بھری پڑی تھیں اور انہیں بے گور و کفن پڑے اتنا وقت گزر چکا تھا کہ وہ تعفن چھوڑنے لگی تھیں۔ انہیں یا تو دفنانے والا کوئی نہ بچا تھا اور اگر کوئی بچ گیا تھا تو اپنوں کی اتنی لاشیں زمین میں دبا چکا تھا کہ اس کے ہاتھ شل ہو چکے تھے۔ ادھر شہر کے وسط میں ڈھے جانے والے ٹاور سے بھی لاشیں نکالی جا رہی تھیں۔ ملبے میں سے گاہے گاہے زندہ لوگ بھی نکل آتے تھے۔ اور جب ایسا ہوتا تو متحرک اور ساکت تصویریں بنانے والے کیمروں کو اٹھائے میڈیا کے منتظر لوگ بھاگ بھاگ کر اس کی تصویریں اتارنے اور رپورٹیں نشر کرنے میں سبقت لے جانے میں مگن ہو جاتے۔ ایسے میں یوں لگتا تھا جیسے موت کے سناٹے سے زندگی کی ہماہمی نے یک لخت جنم لے لیا ہو۔ تاہم ابھی تک نہ تو ماسٹر فضل جُو کو دریافت کیا جا سکا تھا اور نہ ہی ملبے کے ڈھیر میں دبی ہوئی ایک بیڈ کے دونوں کناروں پر پڑی ان کے بیٹے اور بہو کی لاشوں کو نکالا جا سکا تھا۔

ماسٹر فضل جُو اِس سارے عرصے میں درد سہے چلے جانے کے لائق ہو گئے تھے۔ اسی دوران میں انہیں یہ اِحساس بھی ہوا تھا کہ قرآن پاک اُن کی چھاتی سے لگا ہوا تھا۔ تاریکی کی بے شمار تہوں کے باوجود اُنہوں نے چاہا کہ اُسے کھول کر پڑھیں۔ اپنے بازوؤں پر زور لگا کر ایسا کرنا بھی چاہا مگر بازو جہاں تھے، وہیں جمے رہے۔ ملبے نے چاروں طرف سے اُن کے بازوؤں کو جسم سمیت دبا رکھا تھا، یوں کہ وہ ذرا سی حرکت بھی نہ کر سکتے تھے۔ تب اُنہیں ایک بار پھر ایک نحیف سی آواز سنائی دے گئی تھی، وہی شیطان سے چوکنا کرنے والی ماں کی آواز۔انہوں نے بازوؤں کو کو کھولنے کے جتن ترک کر دیے تھے۔

جب ٹھہرے ہوے وقت اور تاریکی کو کاٹ ڈالنے کا کوئی بھی حیلہ ان کے ہاتھ نہ لگا تو انہوں نے اپنی یادداشت پر زور ڈال کر کچھ آیات تلاوت کرنا چاہیں مگر ہوا یہ کہ وہ سورۃ زلزال کی اِبتدائی آیات کے بعد سورۃ والعصر کی اِنسان کو خسارے میں بتانے والی آیات پڑھ گئے تھے۔ انہوں نے پھر سے درست درست پڑھنا چاہا تو ایسا متشابہ لگا کہ کہیں سے کہیں نکل گئے۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو رہا تھا۔ اس پر وہ اتنا بوکھلائے کہ اُمید کا دامن اُن کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ ایسے میں انہیں اِحساس ہوا کہ وہاں تو سانس لینے کے لیے ہوا ہی نہیں تھی۔

اور جب ماسٹر فضل جُو نے اپنے تئیں ملبے کے اندر پھنسی ہوئی ہوا کو کھینچنے کے لیے آخری حیلہ کیا تو اُن کی پسلیاں چٹخنے لگیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب سیمنٹ اور سریے کی تہیں کاٹ کر فضیلت وہاں پہنچ گئی تھی، سارے غصے کو تھوک کر، اور اُن ساری آوازوں کو ساتھ لے کر، جو ملبے میں دبنے والوں کے دُکھ سے بوجھل ہو گئی تھیں۔ یہ آوازیں گنتی میں نہ آنے والے لوگوں کے سینوں سے اُبل اُبل کر ویسی ہی گنگناہٹ پیدا کر رہی تھیں جیسی ماسٹر فضل جُو کی سماعت میں خاکوٹ کے پتلا پانی نے بسا رکھی تھی۔ تب ماسٹر صاحب کو یوں لگا تھا کہ جیسے ان کے بازو تو ویسے ہی جکڑے ہوے تھے مگر اُن کے حصار میں موجود، ایک مُدّت سے خوابیدہ سارے مبارک اور روشن لفظ، خودبخود ان کی چھاتی کے اندر مقطر ہو رہے تھے۔ فضلیت نے آتے ہی اپنے ہاتھوں کے ملائم لمس سے اُن کے وجود کی ساری گرہوں کو کھولنا اور سارے دردوں کو سمیٹنا شروع کر دیا تھا۔

وہ اپنی ہی دھُن میں مگن رہی، حتی کہ اس کی ریاضت مستجاب ہوئی اور اسے اپنے سنگ آنے والی ساری آوازوں کے ساتھ ان کے وجود کے اندر حلول کر جانے کا اِذن ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی زندگی کی لذّت میں گندھا ہوا تازہ ہوا کا لطیف جھو کا ملبے میں گھس کر ان کے ڈھے جانے والے وجود کے اندر بہت گہرائی میں اتر گیا۔۔۔ اب صرف وہی سانس نہ لیتے تھے، پورا ملبا سانس لیتا تھا۔

ٍ

 

 

تکلے کا گھاؤ

 

کاغذ پر جھُکا قلم کمال محبت سے گزر چکے لمحوں کی خُوشبو کا متن تشکیل دینے لگتا ہے :

’’ابھی سمہ بھر پہلے تک دونوں وہ ساری باتیں کر رہے تھے  جو دنبل بن کر اندر ہی اندر بسیندھتی پھولتی اور گلتی رہیں یا پھر الکن ہو کر تتّے کور نوالے کی طرح حلق میں ٹھہری ہوئی تھیں۔ تتّا کور نوالہ نہ نگلنے جو گا نہ اُگلنے والا۔ جب باتوں کی طویل لانگا ٹیرا لانگ پھلانگ چکی، تو اُنہیں اندازہ ہی نہ ہو پایا تھا کہ کتنی دیر وہ بھُوسہ ملی چکنی مٹّی کے گارے سے لپے ہویے  ویہڑے میں پاس پاس دھری ڈھیلی ادوائنوں والی جھابڑ جھلّی کھاٹوں میں اِدھر اُدھر بیٹھے ایک دوسرے کے ہاتھوں کو تھامے رہے اور خورے کب کیسے اُن کے ہاتھ ایک دوسرے کے بیچ سے آپو آپی پھسل گئے اور کیسے ان دونوں کو جھلنگا کھاٹوں کے جَھول نے سمیٹ لیا۔‘‘

کہانی تخلیقی ترنگ میں رواں رہتی ہے :

’’ ہر کہیں بھاڑ پڑا بھُن رہا تھا کہ سارے میں ٹیکل دھُوپ جانے کس پر اُدھار کھائے بولائے پھرتی تھی۔ ایسے میں گھنّی دھریک کی گوڑھی چھاؤں میں بھی بلا کاسِیک اور اِنتہا کی تپش تھی۔ ستیا نَاسی دھوپ کے خوف سے سارے پکّھی کسی غین غرچّے جھوت جھوڑپ میں ہونک ہو رہے ہوں گے کہ کہیں نظر نہ آتے تھے۔ بس وہ دو نموہے جنّے تھے کہ دھریک تلے اس لُو کی لَپٹ میں بھی بے خبرے پڑے تھے۔ تاہم پیڑ کی پھننگ سے چھچھلتی اِکا دُکا جَھکا جَھک کرنوں سے بچنے کو وہ انٹاچٹ ہو رہے تھے، یوں جیسے ایک دوسرے اور آلے دوالے سے بالکل بے خبرے ہوں۔ اسی بے خبری میں وہ اپنی اپنی حیاتی کی جھلنگ میں جھانکنے لگے تھے اور جوں جوں وہ اس میں جھانکے جاتے تھے توں توں اُلجھتے ہی جاتے تھے کہ موئی حیاتی کا اُلجھیڑا، بھی تو مکڑی کے جالے کی طرح ہوتا ہے، پہلے ایک تابناک لکیر اور پھر اُلجھنیں اور اُلجھنوں ہی کی جھنجھوٹی۔‘‘

یہاں پہنچ کر مجھے اپنا قلم روک دینا پڑا ہے کہ میرا بیٹا عاصم تیزی سے کمرے میں داخل ہو گیا ہے۔ وہ یوں عجلت سے اندر آیا ہے کہ اس کی سانس اور دروازہ ایک سی آواز دینے لگے ہیں۔ جب کبھی میں بے دھیانی میں لگ بھگ اتنی ہی تیزی سے داخل ہونے کو مجبور ہو جاتا ہوں تو میری سانسوں کی بے ہنگم سیٹی اور دروازے کی چرچراہٹ کی بابت وہ انگریزی کی ایک اصطلاح Squeak استعمال کرتا ہے۔ مجھے معلوم ہے یہ لفظ چوہے یا سور کی طرح تیز کٹیلی آواز نکالنے کے لیے مستعمل ہے۔ میں نے اِس لفظ کے اِستعمال پر ایک بار احتجاج بھی کیا تھا مگر وہ اِس کا جواز یہ پیش کرتا ہے کہ میری اس حرکت سے پیدا ہونے والی آواز کی وجہ سے اُس کی Concentrationبری طرح Shatterہو جاتی ہے۔ تاہم چوں کہ وہ میرا بیٹا ہے لہذا میں اُس کے لیے ایسا کوئی بھی لفظ اِستعمال نہیں کر سکتا۔ ویسے بھی کہانی کی گرفت اِتنی مضبوط ہے کہ میں پھر پلٹ کر قلم تھام لیتا ہوں۔ جوں ہی میرا قلم اور دھیان کاغذ پر جھک جاتے ہیں عقب سے آتی بڑبڑاہٹ کھٹاک کی آواز میں معدوم ہو جاتی ہے اور کہانی سناٹے سے نچڑ کر قلم کی نوک پر آ جاتی ہے :

’’پہلے پہل اُنہیں اپنی اپنی ہستی اور اُجڑی حیاتی کے تجربوں کی باتیں پلّو نہ پکڑاتی تھیں۔ پھر سارے راز و نیاز سہج سہج یوں پاس آنے لگے جیسے اُن کے پیروں پر مہندی لگی ہو اور گیلی ہو۔ حتّیٰ کہ وہ دونوں اُس اُلاس کی گرفت میں آ گئے کہ دبی ہوئی راکھ کی چنگاریاں بھی دھونکے جاتے تھے۔ یہ نسیان کے چھپڑ میں وِیلے کی کائی جمے پانی تَلے پڑی باتیں بھی عجیب دھین  دھوکڑ ہوتی ہیں  موٹے تازے سست ایانے اور بے فکرے وجود کی طرح۔ نہ چھپڑو تو مکر مار کر بے سُدھ لاش بنی پڑی رہیں اور جو بھولے سے کسی کانے کھپچ سے ٹھنک دوتو الل بچھڑے کی طرح دھیان کے سارے آنگن میں کُدکُداڑے مارتی بھلی لگتی ہیں۔ مگر جب یہی مچل جاتی ہیں تو اپنے اگٹا پیچی کے کھرّوں تلے لتاڑ کر رکھ دیتی ہیں۔‘‘

ایک بار پھر قلم تھم جاتا ہے کہ اِس بار عاصم باقاعدہ قدموں سے اِحتجاجی آواز نکالتا کمرے کے دروازے پر پہنچ کر پوری قوت سے دروازہ کھولتا ہے، یوں کہ اندر کا سارا سناٹا گھبرا کر باہر نکل جاتا ہے۔ میں پہلے کی طرح اُسے دیکھتا ہوں۔ اب کی بار غُصّے سے اس کے دانت بھنچ گئے ہیں۔

جب کبھی غصے سے میرے دانت آپس میں یوں بھنچ جاتے ہیں تو وہ اس کے لیے ’’Locknut‘‘ کی اِصطلاح اِستعمال کرتا ہے۔ میں جانتا ہوں Locknutایسی ڈھبری کو کہتے ہیں جو خود ڈھیلی نہیں ہو سکتی کہ اُس کے اوپر ایک اور ڈھبری ہوتی ہے جو اُسے قابو کئے رکھتی ہے۔ عاصم کو خبر ہے کہ جب میں اس کیفیت میں ہوتا ہوں تو خود سے نارمل نہیں ہو پاتا۔ لہذا اُسے اپنے تایا کا ذکر چھیڑنا پڑتا ہے کہ میں اپنے بڑے بھائی کی باتوں کی میٹھی لذّت کے پانیوں سے نہا کر تاز ہ دم ہو جاتا ہوں۔ مگر ایک مُدّت سے اس نے اپنے تایا کا نام نہیں لیا۔ اس کی ایک وجہ تو وہ یہ بتاتا ہے کہ وہ Mature ہو گیا اور ایسیStupidityکے لیے اُس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ اور دوسرا یہ کہ اب اُس کی ممی باقاعدہ ایسے تذکروں سے چڑنے لگی ہے۔ جب دھیان کی ڈھبری کسی رہی تو یہ کساؤ رفتہ رفتہ کہانی کی صورت میرے اندر گونجنے لگا اور اب یہ حالت ہے کہ میں مُدّت بعد قلم تھام کر بیٹھ گیا ہوں اور ایک پرانی کہانی اپنی بھرپور بوسیدگی اور تُندی کے ساتھ کاغذ پر اُبلنا شروع ہو گئی ہے۔

میں عاصم کی موجودگی کو نظر انداز کرتے ہوے کہانی کی آواز پر دھیان دینے کو مجبور ہو جاتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے اُس نے طیش میں آ کر اپنا بدن صوفے پر گرا دیا ہے۔ تاہم اُس کی موجودگی کا اِحساس دھیرے دھیرے معدوم ہوتا گیا اور کہانی کے قدیم قدم پھر آگے بڑھنے لگے۔

’’چُر سے ہوئے وجود والے بڑے نے اپنے محبت بھرے ہاتھوں کی اندھی پوروں پر تجسس کی آنکھیں اُگا کر بات شروع کی تو چھوٹے کو اپنا وجود دئیے کی بتّی جیسا لگا۔ بہ ظاہر روشنی دیتا مگر جلتا ہوا راکھ ہوتا ہوا۔ اور جب بڑے نے گلہ کیا تھا کہ وہ اپنی رچنی مہندی والی حیاتی میں اِتنا کیوں رُجھ گیا تھا کہ اُسے اپنے نمانے بڑے بھائی کا دھیان تک نہ آیاتو اُسے بڑا بھائی اپنی دھواں دیتی رجلی خجلی زندگی کی گاڑی سے رہ جانے  حسرت سے دیکھنے اور دھواں پھانکنے والی اُس بے چاری سواری کی طرح لگا جو کھانسے جاتی ہو اور کوسے جاتی ہو۔ لمبی مسافت میں پیچھے رہ جانے والے اپنی ہی چھاتی پر سانسوں کے ہتھوڑے مارنے اور اپنا ہی جی جلانے کے سوا کر بھی کیا سکتے ہیں۔ وقت اپنی ہلگت کے موافق مونچھوں سے چنگاریاں نکالتا گولر کا پیٹ پھڑوانے کو ہڑکائے پھرتا تھا۔ مگر دھریک کے عین تلے بیٹھے دونوں بھائیوں کی پنیائی دیکھتے ہوے مسٹ مار کر بیٹھنے کو مجبور ہو گیا۔ تاہم کب تک۔۔۔ اب کے یوں ہڑک اُٹھی کہ نئے بانکے کی طرح تاڑ کی تلوار اُٹھائے اوچھے وار پر تُل گیا۔‘‘

کہانی ٹھٹھک کر رُک جاتی ہے کہ میرا بیٹا، نہ جانے کب، صوفے سے اُٹھ کر عین میرے پیچھے کھڑا ہو گیا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اب وہیں سے کہانی پر جھکا ہوا ہے۔ وہ چند سطریں پڑھنے کے بعد منھ ہی منھ میں بڑبڑاتا ہے۔ اس بڑبڑاہٹ میں سے جو لفظ مجھ تک پہنچا ہے وہ غالباً Rubbish  یا Mawkish تھا۔ میں جانتا ہوں Mawkishکا مطلب متلی آور بو دار اور کریہہ ہوتا ہے جبکہ Rubbishبکواس بھی ہے اور کاٹھ کباڑ بھی۔ جس طرح کی زندگی مجھ پر مسلط کر دی گئی ہے اُس کے لیے یہ دونوں الفاظ بھی اِستعمال ہوتے تو مجھے کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن میری کہانی کے لیے اِن میں سے کوئی بھی لفظ اِنتہائی نامناسب تھا۔ میرا بیٹا میری طرف دیکھے بغیر سیدھا ہو کر کھڑا ہو جاتا ہے اور پہلو سے ٹیبل کے قریب آ کر اس پر پڑی CD’sکو جان بوجھ کر پٹخنے لگتا ہے۔ حتّیٰ کہ مجھے کہنا پڑتا ہے کہ وہ مزید پندرہ منٹ تک سکون سے بیٹھ جائے۔

اُسے میری بات سن کر تعجب ہوتا ہے اور اُلجھن بھی۔ یہ اس کا اپنا کمرا ہے۔ جس میز پر میں بیٹھتا ہوں اس پر اس کا کمپیوٹر پڑا ہے۔ وہ اس پر اِنٹرنیٹ کے ذریعے وہ نئی نئی سائیٹس دیکھتا ہے اور ان میں کھویا رہتا ہے۔ یہ بجا کہ کبھی یہ میرا کمرا ہوا کرتا تھا۔ میں یہیں کتابوں میں گم رہتا تھا کہانیاں پڑھتا اور کہانیاں لکھتا تھا۔ معنیاتی سلسلے اور جمالیات کا عجب جہان تھا کہ جس میں، مَیں کھویا رہتا تھا۔ میں تخلیقی وفور کے اِس تجربے میں نہال تھا۔۔۔ مگر فوزیہ کا خیال تھا یہی کہانیاں میری راہ کی سب سے بڑی رُکاوٹ تھیں لہذا اُس نے مجھے مجبور کر دیا تھا کہ میں اپنے مطالعے کے کمرے سے ساری کتابیں سمیٹ لوں اور ٹرنکوں میں بند کر دوں یا پھر پرانی کتابوں کی دُکان پر بیچ آؤں۔

بہ ہر حال اب یہ کمرا عاصم کا ہے اور میں اُسے ہی کہہ رہا ہوں کہ وہ مزید پندرہ منٹ سکون سے بیٹھ جائے۔ وہ اس بیڈ پر کہ جس پر اس کے کاسٹیوم سوکس فیشن میگزنیز اور کمپیوٹربُکس کے علاوہ ڈش کے مختلف چینلز سے مسلسل نشر ہونے والے یا پھر کوڈ لگے پروگرامز کے بروشرز پڑے ہیں  ڈھیر ہو جاتا ہے، یوں کہ اُس کے پاؤں نیچے اِدھر اُدھر لڑھک رہے ہوتے ہیں۔ پالش اُڑے موٹے تلووں اور اُٹھی گردن والے فیشن زدہ بوٹوں سے، کہ جنہیں وہ Rock Shoesکہتا ہے، فرش پر پڑی آڈیو اور ویڈیو کیسٹس کو یوں ہی اِدھر اُدھر دھکیلنے لگتا ہے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ نہ پا کر اور اُکتا کر وہ ہاتھ بڑھاتا ہے، بیڈ ہی کے ایک کونے میں پڑی ٹائم پیس کو اُٹھا کر اپنی چھاتی پر رکھ لیتا ہے اور اُسے مسلسل گھورنے لگتا ہے۔

کمرے کے سارے سناٹے میں وقت گزرنے کا اِحساس دھڑکنے لگتا ہے۔

میں اور میری کہانی دونوں اُس کی پرواہ نہیں کرتے۔

وہ میری طرف دیکھتی ہے اور میں کہانی کی طرف اپنے پورے وجود کے ساتھ متوجہ ہو جاتا ہوں :

’’لمحہ لمحہ کر کے آنے والا وقت ارنڈ کی جڑ ہوتا ہے  بالکل بے بھروسہ۔ لیکن وہ نبھڑ وقت آ گیا تھا اور یوں پینترا بدلا تھا کہ چھوٹے پر اگلا وار ہفتے گانٹھنے جیسا تھا۔ پہلے پہل اُسے ہچک سی لگ گئی مگر نگوڑا وِیلا کا ہے کو نچلا ہو بیٹھتا۔ نیم نہ چھوڑے تنائی۔ گات اُبھارے آگے بڑھا اور اپنے کھِیسے سے وُہی تکلا نکالا جو اس کی بیوی اس کے سینے پر لال ٹماٹر ہوتے موتی جھّروں میں چبھّونے کو نکالا کرتی تھی۔ اس تکلے کا وار گہرا تھا بہت ہی گہرا۔‘‘

یہاں پہنچ کر میں گہرا سانس لیتا ہوں اور فتح مندی کے اِحساس کے ساتھ اپنے بیٹے کے کھولتے ہوے وجود کو دیکھتا ہوں۔ مجھے یوں لگتا ہے کہ یہ تو وہی کھولاؤ ہے جو ایک مُدّت سے میرے اندر اُٹھتا رہا۔۔۔ اور اب کہانی کے راستے زائل ہو رہا ہے۔۔۔

ادھر میرے اندر سے یہ کھولاؤ یوں پھوٹ بہا ہے جیسے فصد کا منھ کھل گیا ہو اور اُدھر طرفہ دیکھیے کہ اسی کے باعث میرے بیٹے کے وجود میں فساد مچا ہو ہے۔

بہت پہلے جب میں تواتر سے کہانیاں لکھا کرتا تھا اور میری بیوی کو شکایت تھی کہ کہانیوں کے بوجھ نے میری رفتار مدھم کر دی تھی اتنی مدھم کہ میں اس کی تیز ی سے آگے بڑھتی خواہشات کا ساتھ دینے سے قاصر ہو گیا تھا۔

اُس کا خیال تھا کہ کہانیوں کے اِس بوجھ کا اصل سبب وہ اِحسانات ہیں جو میں اُٹھائے پھرتا ہوں۔ اور اس نے تجویز کیا تھا کہ مجھے اپنے سارے پرانے اِحسانات کا بوجھ اُتار پھینکنا چاہیے۔ خصوصاً بڑے بھائی کے، کہ جس نے میرے طالب علمی کے زمانے میں آدھی زمین اور میری شادی پر باقی بچ رہنے والی آدھی ملکیت بھی رہن رکھ دی تھی۔۔۔ اور اب اپنا بیٹا میرے پاس رہنے اور اپنا مستقبل بنانے کو بھیجنا چاہتا تھا۔

میری بیوی کا خیال تھا مجھے فوراً ایک معقول رقم بھائی جان کو بھیج کر معذرت کر لینی چاہیے۔

یوں تو وہ وقتاً فوقتاً میرے گاؤں کے سب ہی عزیزوں سے معذرت کر چکی تھی تاہم اس معقول رقم کے بندوبست ہونے اور معذرت کر دئیے جانے کے بعد زندگی میں میرے آگے بڑھنے کی رفتار بہت تیز ہو گئی تھی۔۔۔

اِتنی تیز کہ ساری کہانیاں بھی کہیں پیچھے رہ گئی تھیں۔

مگر ریٹائر منٹ کے بعد وہ فاصلہ جو میرے اور میری بیوی کے بیچ تھا اور وہ فاصلہ جو میرے اور میرے بیٹے کے درمیان دیوار کی صورت نہ جانے کب تن کر کھڑا ہو گیا تھا میرے لیے ناقابل برداشت ہوتا چلا گیا۔۔۔

حتّیٰ کہ میں زبردستی اپنے بیٹے کے کمرے میں آ گھسا اور اپنا/اُس کا ٹیبل خالی پا کر کاغذ قلم تھام لیا۔

ایسے میں کہانی پوری شدّت کے ساتھ میرے تڑختے ہوئے وجود سے بہہ نکلی۔

اور اب میرے پاس اُن پندرہ منٹوں میں سے صرف پانچ منٹ باقی ہیں جو میں نے کہانی کی تکمیل کے لیے اپنے بیٹے سے لیے تھے۔

مجھے فوراً کہانی مکمل کرنی ہے کہ لمحے تیزی سے کچرا بن کر ڈسٹ بِن میں گرتے جا رہے ہیں۔

میں سنبھل کر بیٹھ جاتا ہوں اور اب تک لکھا جا چکا آخری جملہ پڑھتا ہوں۔

’’اس کے تکلے کا وار گہرا تھا، بہت ہی گہرا‘‘

اور پھر ذہن پر زور دے کر اگلا جملہ لکھنا چاہتا ہوں کہ دھیان بیڈ کی طرف بھٹک جاتا ہے۔ مجھے تعجب ہوتا ہے کہ وہاں عاصم نہیں ہے۔

ساتھ ہی ساتھ کمرے کے باہر چار قدموں کی آواز سنائی دیتی ہے۔

میں اس چاپ کو پہچانتا ہوں کہ اسی تلے تو میرا دل کُچلا جاتا رہا ہے۔

میں عجلت میں قلم اُٹھاتا ہوں اور لکھتا ہوں :

’’چوڑی چکلی چھاتی پر تکلے کا گھاؤ۔۔۔ ‘‘

جملہ نامکمل رہ جاتا ہے کہ ماں اور بیٹا دونوں تکلے کی سی تیزی کے ساتھ زندگی کے کمرے کے اندر گھس آتے ہیں۔۔۔ یوں کہ کہانی بھی نامکمل رہ جاتی ہے۔

 

 

 

اللہ خیر کرے

 

اُسے دفتر پہنچے یہی کوئی پندرہ بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ ٹیلیفون کی گھنٹی بج اُٹھی۔

محسن کو ایک عرصے کے بعد یاد آیا، دل کی دھڑکن کبھی کبھی سینے سے باہر بھی اُبل پڑتی ہے۔۔۔ دھک، دھک، دھک۔۔۔ یوں، جیسے کوئی زور زور سے میز پر مکے برسا رہا ہو۔

رات بھر کی بے آرامی آنکھوں میں چبھ رہی تھی اور صبح صبح ایک دھڑکا تھا جو لبنیٰ نے ساتھ کر دیا تھا۔

ٹیلیفون کی گھنٹی دوسری بار بجی۔ اُدھر لبنیٰ ہی تھی جو اُسے گھر جلدی پہنچنے کو کہہ رہی تھی۔

جب وہ اپنے میز کی دراز کو تالا لگا رہا تھا تو اِس بات پر بھی پیچو تاب کھا رہا تھا کہ لبنیٰ کو ڈاکٹر ساجدہ پر ہی اعتماد کیوں تھا؟۔۔۔ حالاں کہ وہ جانتا تھا، اِعتماد کیا نہیں جاتا، وہ تو ہو جایا کرتا ہے اور زور آزوری سے اعتماد کہیں ٹکا بھی دیا جائے تو وہ وسوسوں کے سیج پر پہلو ہی بدلتا رہتا ہے۔

مگر ڈاکٹر ساجدہ ہی کیوں ؟

وہ اس اُلجھاوے سے نہ نکلنے پر تُلا بیٹھا تھا۔

تمام لیڈی ڈاکٹرز تو ایک ہی جیسی ہو تی ہیں۔۔۔ اور جو کام ڈاکٹر ساجدہ نے کرنا ہے، وہ کام کوئی اور بھی تو کر سکتی ہے۔

اس نے خود کو وہی دلیل دی، جو صبح لبنیٰ کو دی تھی، اور لبنیٰ خوفزدہ ہو کر اُسے تکنے لگی تھی۔

لبنیٰ رات بھر کراہتی رہی تھی، نہ خود سوئی نہ اسے سونے دیا۔ محسن نے جب ڈاکٹر ساجدہ کی بابت ہسپتال والوں کا کہا لبنیٰ کو سنایا کہ وہ شام چار بجے کے بعد ہی مل سکیں گی تو لبنیٰ نے ترت فیصلہ سنادیا تھا:

’’شام ہی کو ہسپتال چلیں گے‘‘۔۔۔

ہونہہ شام کو؟۔۔۔

وہ بڑبڑایا، بیگ اُٹھایا اور دفتر سے نکل کھڑا ہوا۔

’’اب کیا ہو گا؟‘‘

بے چینی اس کے بدن میں تیرنے لگی۔

گذشتہ سارے عرصے میں ڈاکٹر ساجدہ ہی لبنیٰ کا چیک اپ کرتی آئی تھی۔ سارے ٹسٹ اس کے سامنے ہوے اور اب آخری مرحلہ تھا۔۔۔

اور لبنیٰ کسی اور پر بھروسہ کرنے کو تیار نہ تھی۔

جب وہ گھر میں داخل ہوا تو لبنیٰ بیڈ روم ہی میں تھی۔ محسن پہلی مرتبہ اُسے ایک نئے زاویے سے دیکھ رہا تھا۔

چھوٹے قد اور بے تحاشہ بڑھے ہوے پیٹ نے لبنیٰ کو مضحکہ خیز بنا دیا تھا۔ وہ ایک ہاتھ گھٹنے پر ٹکا کر فرش پر پڑے کُشن کو اُٹھانا چاہتی تھی مگر ہاتھ گھٹنے سے قدرے اوپر ہی ٹکا پائی۔ کراہتے ہوے بس اِتنا جھک سکی کہ محض دو اُنگلیاں کشن کو چھو رہی تھیں۔

محسن آگے بڑھا، لبنیٰ کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر صوفے پر بیٹھنے میں مدد دی، اور خود میز گھسیٹ کر سامنے بیٹھ گیا۔

اب اس کے چہرے پر لبنیٰ کے لیے ہم دردی اور تشویش گتھم گتھا ہو گئے تھے۔

’’تمہیں خود اپنا خیال رکھنا چاہئے‘‘

اس کے لیے صوفے پر جم کر بیٹھنا مشکل ہو رہا تھا۔ محسن اٹھا، فرش پر پڑے کشن کو اٹھایا اور اس کی پشت کے ساتھ ٹکا دیا۔ اگرچہ اب بھی وہ صوفے کے اگلے کنارے پر بیٹھی ہوئی تھی، مگر کمر کشن کے ساتھ ٹیک کر بہتر محسوس کر رہی تھی۔

وہ مسکرا دی۔۔۔

اور محسن کو لگا، یہ مسکراہٹ تو محض اس کے لیے تھی۔ ورنہ وہ اندر سے بہت ڈری ہوئی تھی کہ اسے تو ٹنچر کی بو تک سے بوکھلاہٹ ہونے لگتی تھی۔۔۔

اور اب اسے ہسپتال جانا تھا اور ایک بے بی کو جننا تھا۔ جس کے بارے میں ڈاکٹر ساجدہ کا خیال تھا کہ وہ صحیح رخ پر نہیں تھا۔

اس کا دل بیٹھا جا رہا تھا۔

گذشتہ ایک مہینے سے وہ بہت مشکل میں تھی۔ چلنا چاہتی تو چلنا دوبھر ہو جاتا۔ یوں لگتا، پیٹ کا سارا بوجھ نیچے کی جانب تھا اور کوئی ٹھوس شے تھی جو اندر ہی اندر سے پشت میں گھسی چلی جاتی تھی اور میٹھا سا درد پیدا کر رہی تھی۔ رات لیٹتی تو عین پہلو اور پسلیوں کے نیچے درد کی شکایت کرتی۔

وہ ہسپتال کے کئی چکر لگا آئے تھے اور ہر دفعہ یہ کہہ کر تسلی دے دی گئی۔۔۔ کہ ’’بعض اوقات یوں ہو جاتا ہے۔۔۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں‘‘

لبنیٰ حد درجہ پریشان تھی۔

ان کی شادی کو پونے دو سال گزر چکے تھے۔

اور ان پونے دو سالوں میں لبنیٰ اور محسن ایک دوسرے کے بہت عادی ہو چکے تھے۔ اِس قدر کہ لبنیٰ کی ماں، بیٹی کے میکے نہ آنے پر ناراض ہو گئی تو محسن کو دفتر سے چھٹی لینا پڑی۔۔۔ اور جتنے دن لبنیٰ میکے رہی، محسن بھی رہا۔ اکیلے گھر رہتا تو کیا کرتا؟۔۔۔ دفتر کے لیے تیار کیسے ہوتا، واپس پلٹتا تو راہ کون دیکھ رہا ہوتا؟۔۔۔ کپڑے بدلنے میں مدد کون کرتا ؟۔۔۔ کھانا کون چنتا اور ہنس ہنس کر میٹھی میٹھی باتیں کون کرتا؟ ادھر محسن کو پیچھے رہ جانا عجب لگ رہا تھا تو اُدھر لبنیٰ نے بھی صاف کہہ دیا تھا۔

’’آپ ساتھ چلیں گے، تو چلوں گی۔ ورنہ میں بھی نہیں جا رہی، ابھی فون کیے دیتی ہوں۔‘‘

یوں ایک دوسرے کو دیکھتے، ایک دوسرے کا اِنتظار کرتے، ایک دوسرے کے قہقہوں میں قہقہے ملاتے پونے دو سال گزر گئے۔

بہ ظاہر اِن کی رفاقت مثالی تھی۔ ہموار، مطمئن اور پُر سکون زندگی، گہرے پانیوں کی طرح۔۔۔ لبنیٰ کی جانب سے ایک وارفتگی تھی، جو ٹھہرے پانی میں دھیرا سا اِرتعاش پیدا کرتی تھی۔۔۔ مگر محسن کو یوں لگتا، کچھ ہے، جو نہیں ہے۔۔۔ ایسا، جو دل کو جکڑ لے اُسے مسلے اور مسلتا ہی چلا جائے۔

’’بچہ ہونا چاہئے‘‘

یہ خواہش پہلے لبنیٰ کے من میں جاگی۔ ابھی پہلے سال کی دوسری تہائی بھی پوری طرح نہ گزر پائی تھی کہ اس کی خواہش شدید ہوتی چلی گئی۔ جب پہلا سال ختم ہو رہا تھا اور اس کے سہیلیاں اِشاروں کنائیوں میں اُس سے پوچھتی تھیں :

’’سناؤ لبنیٰ۔۔۔ کوئی نئی خبر؟۔۔۔ کچھ ہے نا؟۔۔۔‘‘

تو اس کا دل بیٹھ بیٹھ جاتا تھا اور وہ سچ مچ رو دیتی تھی۔

دوسرے سال کی پہلی چوتھائی میں ہی خواہش کی شاخ پر اُمید کی کونپل مسکرا دی۔ اب ایک سرشاری تھی جو اُس کے بدن پر دھنک کی طرح برس رہی تھی۔ وہ سوتی تو خوب صورت خواب دیکھتی، بیدار ہوتی تو مزے مزے سے سارے خواب محسن کو سناتی۔۔۔

یوں بعد میں محسن بھی ایک ننھے منے وجود کے اِنتظار کی لذّت محسوس کرنے لگا تھا۔

اور اب لبنیٰ محسن کے سامنے تھی تو اس طرح کہ اُس کا چہرہ پسینے سے شرابور ہو رہا تھا۔ بال جو کبھی نفاست سے کنگھی کیے ہوے کندھوں پر جھولتے رہتے تھے، سختی سے پیچھے کی جانب بندھے ہوے تھے اور یوں لگتا تھا جیسے خُون نچڑے زرد چہرے پر چھائیاں ہی چھائیاں ابھر آئی ہوں۔

محسن جو کچھ دیر پہلے ہم دردی اور تشویش سے گتھم گتھا تھا، اب لبنیٰ کو دیکھ کر عجب سی الجھن محسوس کر رہا تھا۔ اسے خُوشی تھی کہ وہ جلد ہی باپ بننے والا تھا مگر لبنیٰ کا بے ڈھب بدن اور بجھا بجھا چہرہ اس کے اندر حیران کن اُکتاہٹ اُتار رہا تھا۔

لبنیٰ بہت زیادہ خوبصورت کبھی بھی نہ رہی تھی۔ مگر کنوار پنے میں جوانی کا جوبن ایسا مرحلہ ہوتا ہے جب ہر لڑکی حسین لگتی ہے۔اور ایسا مرحلہ لبنیٰ پر بھی آیا تھا۔۔۔ اور عین اس مرحلے میں لبنیٰ محسن کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہو گئی تھی۔

محسن ایسا لا اُبالی بھی نہ تھا کہ جسے دیکھا دل پھینک دیا۔ مگر لبنیٰ میں کچھ نہ کچھ تھا جو اسے لبنیٰ کو زندگی بھر کا ساتھ بنانے پر مجبور کر رہا تھا۔

کرنل فاروق، محسن کے ابا جی کا بہت پہلے ہم جماعت وہم مکتب رہا تھا۔ ان کے گھر کے ساتھ جو حویلی مُدّت سے خالی پڑی رہی تھی، کبھی یہی کرنل صاحب کا آبائی گھر تھا۔ مگر عمر بھر کی مصروفیات نے انہیں پیچھے پلٹنے نہ دیا۔

ریٹائرمنٹ اور عمر کا ڈھلنا دو ایسے عوامل ہوتے ہیں جو اِنسان کے اندر اُتھل پتھل مچا دیتے ہیں۔ کرنل صاحب بھی اس عمل سے گزر رہے تھے۔ کبھی ان کی مونچھوں کے ساتھ ان کی نگاہیں بھی اوپر ہی کو اٹھی ہوئی تھیں، مگر اب وہ نیچے بھی دیکھنے لگے تھے۔۔۔ اور اس دیکھا دیکھی میں، انہیں اپنے آبائی گاؤں کو بھی دیکھنے کا خیال آیا تھا۔

’’کس کے پاس جا کر ٹھہریں۔۔۔ ؟‘‘

محسن کے ابا یاد آئے۔ ایک ہی ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا تھا۔ یہ مسئلہ بھی حل ہو گیا۔ محسن کے ابا نے بچپن کے ہم جماعت کو دیکھا تو بِچھ بِچھ گئے۔

کرنل صاحب کا پورا گھرانہ فوجی کلچر میں رنگا ہوا تھا۔ وہی نشست برخاست، وہی رکھ رکھاؤ، وہی گفتگو میں دلائل کے ساتھ انگریزی لفظوں کا سہارا۔ کرنل صاحب جس قدر اونچے لمبے تھے، ان کی بیگم اسی قدر ٹھگنی۔ جب کرنل صاحب محض کیپٹن تھے تو یہ پستہ قد عورت ایک میجر جرنل کی بیٹی تھی۔ بس یہی خوبی تھی جس نے اس وقت کیپٹن کو اس کا شوہر بنا دیا۔ کہتے ہیں فوج میں سفارش نہیں چلتی مگر بہ ہر حال فوجی بھی اِنسان ہی ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ربط ضبط رکھتے ہیں، سنتے ہیں، محسوس کرتے ہیں اور میجر جرنل کا داماد ہونا بھی ایک ایسی کوالیفیکیشن تھی کہ کیپٹن کے بعد کے کئی مرحلے بڑی خوبی سے طے ہوتے چلے گئے۔ میجر جرنل صاحب یوں تو جلد ریٹائر ہو گئے مگر مردہ ہاتھی سوا لاکھ کا نکلا اور وہ کیپٹن جو، اُن کا داماد تھا، کرنل بن چکنے تک اپنے سر پر انہی کا دست شفقت محسوس کرتا رہا۔

لبنیٰ نہ تو ساری ماں پر گئی تھی نہ باپ پر۔ قد چھوٹا رہ گیا تھا تو بدن کی تراش اور اُبھار جاذبِ نظر تھے، جو چھوٹے قد پر بھی جچ رہے تھے۔ چہرے کے نقوش زیادہ متناسب نہ سہی مگر بُرے نہ لگتے تھے۔۔۔ لیکن اس سب سے بڑھ کر جو چیز لبنیٰ کو خوبصورت کہہ دینے کا باعث بن سکتی تھی وہ اس کی نیلگوں آنکھیں تھیں۔

محسن پہلے فوجی زندگی کے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہوا تھا اور پھر لبنیٰ سے۔

وہ سلجھی ہوئی گفتگو کا فن جانتی تھی اور مختلف موضوعات پر بات کرتے ہوے نظریں اس پر جمائے رکھتی تھی۔

اور غالباً انہی گفتگوؤں کے درمیان ایک لمحہ ایسا آیا تھا، جب محسن نے نیلی آنکھوں کی گرفت اندر بہت اندر محسوس کی تھی اور انہی نیلی آنکھوں میں جذب ہو کر اس نے لبنیٰ کو دیکھا تھا تو وہ پوری کی پوری حسین لگنے لگی تھی۔۔۔

اس قدر حسین کہ اس کے پیچھے زیبو کہیں چھپ گئی تھی۔

زیبو۔۔۔ وہی کہ جس کا بھائی دوبئی گیا ہوا تھا اور اس کی کمائی سے، ان کے ابا نے کرنل کی حویلی خرید لی تھی۔۔۔

زیبو، کہ جس نے محض ابھی میٹرک پاس کیا تھا مگر گاؤں کی مست ہواؤں نے اس کے بدن میں عجب طرح کی مستی بھر دی تھی۔ اِس مستی میں ایک مہک تھی کہ جو اُٹھتی تھی تو اٹھتی ہی چلی جاتی تھی۔۔۔ اس کی ہنسی میں کھنک تھی۔ نگاہیں چمک سے لبالب بھری ہوئی تھیں۔ اور اس کی جلد پیتل کے چمکتے ہوے چھنّے کی طرح چکّنی تھی۔۔۔ یوں لگتا تھا، وہ انگور کے اس دانے کی مانند تھی جو میٹھے رس سے تن گیا ہو۔

جب گھر کی دیواریں تک سانجھی ہوں تو دن میں سامنا ہونے کے بیسیوں مواقع نکل آتے ہیں۔ محسن نے جب بھی اُسے دیکھا، نظر جما کر نہ دیکھ سکا۔ ہر دفعہ مرعوب ہوا۔ اس کے بدن سے اٹھتی مہک نے اسے بے قابو کیا۔ من میں ایک خواہش پیدا ہوتی، کاش وہ اُسے چھو سکے، اس کی تنی ہوئی چکنی جلد کے اندر ٹھاٹھیں مارتے رس کو محسوس کر سکے۔ اسے لگتا اس نے زیبو کو چھو لیا تو اس کی پوروں میں اس کے بدن کا رنگ رس اُتر آئے گا۔ محسن اس کی جانب قدم بڑھاتا تھا تو الٹے پڑتے تھے۔ نظر تھی کہ پھسل پھسل جاتی اور دل اُچھل اُچھل کر حلق سے باہر جھانکنے لگتا۔ جب کہ زیبو اُس سے بے خبر اور بے نیاز ’ماسی، ماسی، کی صدا لگاتی، اپنے مطلب کی بات کہتی، چھلاوے کی طرح غائب ہو جاتی۔ تب محسن کے بدن میں اینٹھن ہونے لگتی۔ پورا آنگن جو کچھ لمحے پہلے جگمگاتا ہوا محسوس ہوتا تھا، بجھ بجھ جاتا اور وہ اِنتہائی خلوص سے حسرت کرنے لگتا۔ کاش یہ آنگن یونہی جَگ مَگ جَگ مَگ کرتا رہتا۔یونہی مہک اٹھتی رہتی۔

مگر لبنیٰ یوں آئی کہ زیبو کو اپنے پیچھے چھپا لیا تھا۔

لبنیٰ کے بدن میں اتنی اہلیت نہ تھی جو وہ زیبو کو اپنے پیچھے چھپا سکتا۔ مگر محسن جو پہلے ہی فوجی زندگی کے رکھ رکھاؤ سے متاثر ہو چکا تھا، باتوں باتوں میں اپنی ساری توجہ نیلگوں آنکھوں پر مرکوز کر بیٹھا تھا۔ اور ان میں جذب ہو کر اُس نے لبنیٰ کو دیکھا تھا تو اسے اس کے پیچھے چھپی زیبو بالکل نظر نہ آئی تھی۔

اور اب جب کہ لبنیٰ محسن کے سامنے صوفے پر بیٹھی تھی تو اس کی آنکھیں بھی بجھی بجھی تھیں اور چہرہ بھی۔۔۔ وہ پوری لبنیٰ کو دیکھ سکتا تھا اور یہی غلطی وہ عین ایسے عالم میں کر بیٹھا تھا جب اسے ایک نئی خُوشی نصیب ہونے والی تھی۔ نہ جانے کیوں، ایک عجب سی مہک کی گھٹا یادوں کی فضا سے اٹھی تھی اور اس پر چھا کر سارا بدن بھگو گئی تھی۔۔۔ اور ایک چمک تھی جو آنکھوں میں سما رہی تھی۔۔۔ اور پوریں تھیں کہ چھو لینے کی خواہش میں بے اختیار اُٹھ رہی تھیں۔ اسی بے اختیاری میں اس نے لبنیٰ کے چہرے کو چھو لیا، جو پسینے میں شرابور ہو رہا تھا۔

عجب طرح کے درد تھے جو لبنیٰ کے بدن سے اُٹھ رہے تھے۔

’’اب ہسپتال میں شرابور ہو رہا تھا۔

عجب طرح کے درد تھے جو لبنیٰ کے بدن سے اُٹھ رہے تھے۔

’’اب ہسپتال چلنا چاہیے‘‘

’’ہاں مگر سنٹرل ہسپتال میں، کہ ڈاکٹر ساجدہ دن کو وہاں ہوتی ہیں۔ میں نے ٹیلیفون پر بات کر لی ہے۔‘‘

اس کے خیال میں وہ اتنا اچھا ہسپتال نہ تھا مگر مجبوری تھی۔ ہسپتال پہنچے چیک اپ کیا گیا۔ پچھلی رپورٹیں دیکھی گئیں جو لبنیٰ ساتھ لائی تھی۔ اور فوراً لیبر روم لے جایا گیا۔

آنے والا ایک ایک لمحہ اس کی بے چینیوں کو بڑھا رہا تھا۔

اچانک اس کی نگاہ سیڑھیوں پر پڑی۔ ڈاکٹر ساجدہ کے پیچھے ایک نرس نمودار ہو رہی تھی۔ اُسے یوں لگا، جیسے سارے میں روشنی پھیل گئی ہو۔۔۔ وہ۔۔۔ وہ تو زیبو تھی۔

اس کے اندر بے چینیوں کی ہیئت یک دم بدل گئی۔

وہ بے اختیار آگے بڑھا۔ اِتنی تیزی سے کہ پونے دو سال کا سارا فاصلہ ایک ہی جست میں پھلانگ گیا۔ مہک بھی اپنا اثر دکھا رہی تھی۔ پوریں چھو لینے کی خواہش میں اُس کی سمت اُٹھنا چاہتی تھیں۔

ڈاکٹر ساجدہ کا سپاٹ چہرہ اُس کی جانب مڑا اور کچھ کہے بنا آگے بڑھ گیا۔

زیبو رُک گئی۔۔۔ اُسے دیکھا۔۔۔ پہچانا۔۔۔ کہا:

’’اوہ محسن صاحب خیریت تو ہے نا؟‘‘

وہ ہڑبڑا گیا۔

اٹھی ہوئی پوریں لیبر روم کی جانب اِشارہ کرتے ہوے کپکپا رہی تھیں۔

زیبو کچھ سمجھتے ہوے کہنے لگی۔

’’اچھا اچھا جو اندر پیشنٹ ہے، وہ آپ کی بیگم ہیں، فکر نہ کریں، اللہ خیر کرے گا‘‘

اور وہ پاس سے گزر گئی۔۔۔

یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہوا۔

روشنی پھیلی،

مہک اٹھی،

پوریں جاگیں

اور۔۔۔ وہ لمحہ گزر گیا۔۔۔

مگر یوں کہ محسن پر قیامت ڈھا گیا تھا۔

’’اللہ خیر کرے گا‘‘

اس کے کانوں میں دعائیہ جملہ گونج رہا تھا۔

اندر بہت ہی اندر، وہاں جہاں کچھ مَسلا گیا تھا، کُچلا گیا تھا، ایک سوئی ہوئی خواہش ڈھٹائی سے بڑبڑائی۔

اندر کی بڑبڑاہٹ کا مفہوم وہ نہ تھا، جو ابھی ابھی فضا میں بکھرا تھا اور کانوں میں گونج رہا تھا۔

’’لَاحَول وَلا قُوۃ‘‘

اُس نے جبر کر کے اندر کی بڑبڑاہٹ کو پرے پٹخ دیا اور اسی تصور کا ہیولا بنانے کی کوشش کی، جس میں لبنیٰ کے پہلو میں ننھا سا وجود کلکاریاں مار رہا تھا۔۔۔ اور جس میں ڈاکٹر ساجدہ کو مسکراتے ہوے اسے مبارک باد دے رہی تھی۔

اُسے ڈاکٹر کی مسکراہٹ زہر لگی۔ تصور بہک گیا تھا اب ڈاکٹر چپ چاپ کچھ کہے بغیر کھسک رہ تھی، وہ جسے دیکھ کر مسکرا دیا تھا۔۔۔

اور وہاں فقط کلکاریاں تھیں۔

’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘

اس نے تصور کی مسکراہٹ نوچنا چاہی۔

بدن میں سراسیمگی اُتری جو بڑبڑاہٹ میں ڈھل گئی۔

پاس کھڑا شخص، جو پہلے بھی چونک کر اسے دیکھ چکا تھا، ایک مرتبہ پھر اسے دیکھنے لگا۔ محسن اگرچہ سامنے دیکھ رہا تھا مگر اُسے محسوس ہوا کہ دیکھنے والے کی نظریں اس کے چہرے کو چھید ڈالیں گی۔

بار بار بدلنے والا پہلو ایک بار پھر بدلا۔۔۔ زور زور سے دہرایا۔

’’اللہ خیر کرے۔۔۔ اللہ خیر کرے۔۔۔‘‘

بدن کے اندر کی بڑبڑاہٹ ہونٹوں سے پھسلنے والے لفظوں سے کٹی ہوئی تھی۔ نہ صرف کٹی ہوئی تھی بل کہ اب تو اندر کھلم کھلا نفی ہو رہی تھی۔

وہ بہ ظاہر ’اللہ خیر کرے، کا ورد کر رہا تھا مگر دراصل وہ اندر کی گونجتی خواہش کے پھن کو ’’خیر‘‘ کے بھاری پتھر سے کچلنا چاہتا تھا۔ لوگ اسے دلاسا دینے کو آگے بڑھنا چاہتے تھے اور اُس نے سمجھا، اس کے اندر کی گونج سن لی گئی تھی۔۔۔ اُسے لگا، چاروں جانب سے نظریں اس کے بدن میں چھپی چور خواہش کو ٹٹول رہی تھیں۔

اس کی سراسیمگی بڑھتی چلی گئی۔ خیر کا بھاری پتھر تھا جو اس نے اٹھا رکھا تھا اور وہ سیڑھیاں تھیں، جن سے ابھی روشنی پھوٹی تھی، مہک اٹھی اور نتیجے میں پوریں جاگ پڑی تھیں۔

وہ درڑ، درڑ سیڑھیاں اُترتا جا رہا تھا کہ پاؤں دوسرے پاؤں سے الجھ گیا اور وہ شڑاپ لڑھکتا نیچے جا پڑا۔

محض چند سیڑھیاں تھیں جن سے وہ پھسلا تھا اور نیچے جا پڑا تھا۔۔۔ مگر اسے لگ رہا تھا۔ وہ نیچے بہت لڑھکتا چلا جا رہا ہے۔

ننھے منے وجود کے میٹھے انتظار کی لذّت کڑواہٹ ہو گئی تھی۔

اور ایک مہک تھی جو کبھی اٹھتی تھی اور کبھی معدوم ہوتی تھی اور روشنی تھی جو کبھی بڑھتی اور کبھی گھٹتی تھی۔۔۔

اور دو چہرے تھے جو ایک ایک کر کے جل بجھ رہے تھے۔۔۔

اور وہ بار بار کہہ رہا تھا۔

’’اللہ خیر کرے۔۔۔ اللہ خیر کرے۔۔۔‘‘

ٍ

 

***

ماخذ:

http://hameedshahid.com

مصنف کی اجازت اور تشکر کے ساتھ

تدوین اور ای بک: اعجاز عبید