FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ہفتہ وار ’’گواہ‘‘ کی فخریہ پیشکش

جہیز کی حرمت پر ایک مدلّل اور جامع تحقیق

فہرست مضامین

مرد بھی بِکتے ہیں۔۔۔ جہیز کے لیے

Dowry ۔۔۔ A form of Male prostitution


علیم خان فلکی

 

 

انتساب

ان سادہ لوحوں کے نام جو یہ کہتے ہیں۔۔۔

* جوڑا جہیز ایک سماجی بُرائی ضرور ہے لیکن حرام نہیں۔

* جہیز کا مطالبہ کرنا یقیناً غلط ہے لیکن لڑکی والے جو بھی ’’خوشی سے‘‘ دیں وہ جائز ہے۔ یہ تو دستور ہے۔

* یہ ہمارے علاقے میں بالکل نہیں ہوتا۔ یہ تو فلاں فلاں شہر کے لوگوں میں زیادہ پایا جاتا ہے۔

* حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو بھی تو جہیز دیا گیا تھا۔

* جہیز دراصل تحفہ ہے اور تحفہ دینا سنّت ہے۔

* شادی کے دن کھانا کھلانا مہمان نوازی ہے اور یہ جائز ہے۔

* مہر فوری ادا کرنا ضروری نہیں۔ بعد میں کبھی بھی دیا جا سکتا ہے۔

* شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔

* جو لینے کی بھول کر چکے وہ ہو چکا۔ اب استغفار کر لینے سے اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا۔

 

اور ان بزدلوں کے نام جو یہ کہتے ہیں۔۔۔

* اس رسم کو مٹانا ناممکن ہے۔

* اگر نہیں لیں گے تو لڑکی والے شک کریں گے۔

* ہم لینا تو نہیں چاہتے تھے لیکن والدین نے ہماری لاعلمی میں لین دین طئے کر لیا۔

* لڑکی والوں نے خود اصرار کیا ورنہ ہم لینے کے قائل ہرگز نہ تھے۔

* اس زمانے میں آپ کی سنتا کون ہے، اس لئے کہہ کر تعلقات خراب کرنے سے فائدہ؟

* یہ کام تو جماعتوں، لیڈروں اور مرشدوں کو کرنا چاہئے، ہم کیا کر سکتے ہیں؟

 

تقریظ

بسم الله الرحمن الرحیم

اسلام دین فطرت ہے ، اس لیے اس نے فطری تقاضوں کے پورا کرنے کو نہ صرف جائز قرار دیا ہے ، بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اس کو آسان بھی بنایا ہے۔ ایسے ہی تقاضوں میں ایک ’نکاح‘ بھی ہے ، نکاح ایک ایسا معاملہ ہے کہ اگر کسی کے پاس ایک پیسہ بھی نہ ہو ، تب بھی وہ نکاح کر سکتا ہے ، البتہ اس پر دو مالی ذمہ داریاں رکھی گئی ہیں :

ایک : مہر جو فرائض نکاح میں ہے ، لیکن اسے باہمی رضا مندی سے مہلت کے ساتھ بھی ادا کیا جا سکتا ہے ،

دوسرے : ولیمہ جو سنت ہے ، اور اسراف و تکلف کے بغیر اپنی حیثیت کے مطابق کیا جا سکتا ہے ، یہاں تک کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تھوڑے سے جو اور چند پیالے دودھ سے ولیمہ کیا ہے ، یہ سہولت اس لیے رکھی گئی ہے کہ حلال کو انجام دینا جتنا آسان ہو گا ، معاشرہ میں حرام کا ارتکاب اتنا دشوار ہو جائے گا اور اگر حلال کو دشوار کر دیا جائے تو حرام اور گناہ لوگوں کے لیے آسان ہو جائے گا۔

چونکہ یہ دونوں ذمہ داریاں مردوں پر رکھی گئی ہیں۔ اس لیے مسلم معاشرہ میں برصغیر کے سوا کہیں یہ تصور نہیں کہ نکاح میں عورت پر کوئی مالی بوجھ ڈالا جائے بلکہ اس کا برعکس پہلو عرب معاشرہ میں ملتا تھا کہ لڑکی اور اس کا ولی ہونے والے شوہر و داماد سے ایک خطیر رقم کا مطالبہ کرتے تھے آج بھی خلیجی ملکوں میں یہ رواج ہے ، اس لیے فقہ کی کتابوں میں اسی رسم کی مذمت ملتی ہے۔

ہندوستان میں ہندو معاشرہ میں قدیم زمانہ سے عورت کو جہیز دینے کا تصور چلا آ رہا ہے ، کیوں کہ ہندو مذہب میں عورت کو اپنے والدین کی جائیداد میں میراث نہیں ملتی۔ جب وہ اپنے سسرال رخصت کی جاتی تو سمجھا جاتا کہ اب اس خاندان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں رہا ، اس لیے کوشش یہ کی جاتی کہ اس کو کچھ دے دلا کر رخصت کر دیا جائے۔ اسلامی شریعت میں مرد و عورت دونوں حقوق کے اعتبار سے مساوی درجہ کے حامل ہیں۔ ماں کو اپنی اولاد کے ترکہ سے ، بیٹی کو اپنے ماں باپ کے ترکہ سے اور بیوی کو شوہر کے ترکہ سے لازماً میراث ملتی ہے اور اس کا تعلق اپنے خاندان سے باقی رہتا ہے ، بد قسمتی سے ہندو سماج سے متاثر ہو کر مسلمانوں نے بھی ایک طرف جہیز کی غلط رسم کو اختیار کر لیا اور دوسری طرف عورتوں کو حقِ میراث سے محروم کرنے لگے۔۔

ان غلط رسوم کے تدارک کے لیے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور مختلف مذہبی و سماجی تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور اس سلسلہ میں مفید لٹریچر بھی شائع ہوتے رہے ہیں ، اللہ تعالی جزائے خیر دے محبی جناب علیم خاں فلکی زیدت حسناتہ کو کہ انہوں نے جہیز اور شادی کے موقع پر انجام دی جانے والی غیر شرعی اور فضول خرچی پر مبنی رسوم کا بڑی تفصیل سے سے جائزہ لیا ہے اور امت کی دکھتی ہوئی رگ پر انگلی رکھنے کی کوشش کی ہے۔ اس موضوع پر جو قلمی کاوشیں ہوئی ہیں ، غالباً یہ ان میں سب سے جامع تحریر ہے اور عام فہم زبان اور سادہ اسلوب میں لکھی گئی ہے تاکہ مولف کا پیغام محبت اور کلمۂ نصح و دعوت ہر طبقہ تک پہنچ سکے اور کم پڑھے لکھے لوگ بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔

کاش ! مصنف کے الفاظ ہمارے سماج میں کانوں اور دلوں کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہو گیا ہے ، اس کو طے کر سکیں۔ ضمیر کو جھنجھوڑ سکیں اور قلب و نظر کے بند دروازوں پر دستک دے سکیں۔ وبالله التوفیق وھوالمستعان۔

خالد سیف اللہ رحمانی

(خادم المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد)

27 / جمادی الثانی 1430ھ

21 / جون 2009ء

 

مسلم سماج کا ایک رِستا ناسور۔ جوڑا جہیز

ہندوستان کا مسلم سماج جن امراض کا شکار ہے ان میں سب سے نمایاں اور شدید مرض غیر اسلامی رسوم و رواج کا غلبہ ہے۔ یہ رسوم و رواج اس حد تک مسلم سماج میں نفوذ پا چکے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی زندگی کا لازم حصہ بن گئے ہیں۔ ان رسوم و رواج نے جہاں اسلام کی سادگی اور ضروری امور میں ممکنہ آسانی کو ختم کر دیا ہے وہیں اسراف و فضول خرچی کا راستہ دکھا کر کئی خاندانوں کو سودی قرض کی لعنت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان رسوم و رواج میں زیادہ شدید وہ ہیں جو ایک مسلم مرد اور ایک مسلم عورت کے درمیان نکاح کے رشتہ سے وابستہ ہو گئے ہیں۔ لڑکی والوں سے رقم کا مطالبہ ، اس پر اصرار اور اس کو نکاح کا لازمی جز سمجھنا ، یہ تمام غیر اسلامی باتیں اس طرح رواج پا چکی ہیں کہ ہر خاندان ، لڑکی اور لڑکی والوں کی دینی حالت و کیفیت ، ان کے اخلاق و اطوار ان کے طور طریق وغیرہ کو نظر انداز کر کے ، اپنے لڑکے کا رشتہ اس لڑکی سے کرنے کے لیے کوشاں رہنا ہے جس کے خاندان والے زیادہ سے زیادہ رقم دے سکیں۔ یہ دکن کے علاقہ میں گھوڑے جوڑے اور شمال میں تلک وغیرہ کے نام سے موسوم ہے اور اگر علیم خان فلکی صاحب نے اس کو نیلام یا آکشن سے تعبیر کر کے اس کو مرد کا بِکنا قرار دیا ہے تو یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے کیوں کہ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ لڑکی والوں سے پیسہ لیے بغیر رشتہ نکاح پاتا ہو۔

نکاح ، مرد و عورت کے فطری جنسی جذبات کی تسکین کا جائز طریقہ ہی نہیں بلکہ عبادت بھی ہے۔ اگر اسلام کے مزاج کو دیکھا جائے تو یہ محسوس ہو گا کہ یہ دین نہیں چاہتا کہ کوئی عورت بے شوہر اور کوئی مرد بے بیوی رہے۔ اس لیے بیواؤں کی شادی کی ہمت افزائی کی گئی۔ اسلام نے اپنے اسی مزاج کی برقراری کے لیے نکاح کو بہت آسان اور سادہ بنایا۔نہ خرچ و اسراف نہ پیچیدہ رسومات۔ لیکن مسلمانوں نے جس کو اسلام نے آسان بنایا تھا غیر اسلامی رسوم اور خرافات کے ذریعہ اس کو مشکل بنادیا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمانوں میں دورِ جاہلیت کے عربوں جیسا طرزِ فکر آ گیا ہے۔ دور جاہلیت میں عرب لڑکی کی پیدائش پر تشویش میں مبتلا اس لیے ہوتے تھے کہ کسی کو اپنا داماد بنانا معیوب جانتے ہیں اور اتنا معیوب سمجھتے تھے کہ بعض اپنی ننھی پیاری بیٹی کو زندہ دفن کر دینے کی غیر انسانی حرکت سے تک چوکتے نہ تھے اور آج لڑکی کی پیدائش ، ماں اور باپ دونوں کے لیے فکر اور تشویش کی بات اس لیے بن جاتی ہے کہ جب یہ بڑی ہو گی ، جوان ہو گی تو اس کی شادی کے لیے کیسے گھوڑے جوڑے کی رقم کا اور لڑکے والوں کے مطالبہ کو پورا کرنے کا انتظام ہو گا۔ کہاں سے جہیز کی سبیل ہو گی۔ گھوڑے جوڑے اور جہیز کی اس لعنت کا نتیجہ ہے کہ لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جوانی کی عمر سے ان بیاہی آگے نکل رہی ہے کیوں کہ ان کے والدین یا سرپرست نہ گھوڑے جوڑے کی رقم فراہم کر سکتے ہیں اور نہ جہیز میں وہ سب دے سکتے ہیں جن کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ صورت حال بڑی تشویشناک ہے اس سے کئی سماجی برائیاں جنم لے سکتی ہیں اور جنسی بے راہ روی کو سماج میں راہ مل سکتی ہے یہ خطرناک صورتحال محض گھوڑے جوڑے اور جہیز کے مطالبات کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور ملک کی تقریباً سبھی مسلم جماعتیں تنظیمیں ، علماء و مشائخین معاشرہ کی اصلاح کی فکر کر رہے ہیں ، اصلاح معاشرہ کی کوششوں میں سب سے پہلے نکاح کی مشکلوں کو دور کرنے پر توجہ دینا ضروری ہے اور اس کے لیے گھوڑے جوڑے اور جہیز کے خلاف ذہن بنانا ضروری ہے۔ جناب علیم خاں فلکی کی زیر نظر تحریر اس سلسلہ کی ایک کوشش ہے۔ اس طرح کی کوششوں کی سخت ضرورت ہے۔ جناب علیم خاں فلکی تحسین اور شکریے کہ مستحق ہیں کہ انہوں نے مسلم سماج کے ایک رستے ہوئے ناسور کی طرف توجہ دلائی اور مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کوششیں ہوں اور تیز تر ہوں تاکہ مسلمانوں میں ایک ایسی ذہنی تبدیلی آئے کہ وہ ہر غیر اسلامی رسم و رواج کو اپنے معاشرہ سے اکھاڑ پھنکنے پر کمربستہ ہو جائیں تو مسلم معاشرہ واقعی اسلامی معاشرہ بن جائے گا۔

اللہ تعالی اس کتاب کے مؤلف کو جزائے خیر عطا فرمائے۔

حیدرآباد

محمد عبدالرحیم قریشی

صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت

اسسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

29/ جمادی الاول 1430 ھ 25/ مئی 2009 ء

 

دل سے جو بات نکلتی ہے

جہیز ایک لعنت ہے ، معاشرہ کا رستا ہوا ناسور ہے ، لڑکی والوں سے گھوڑے جوڑے کی رقم طلب کرنے والے مسلمان نہیں ، لڑکی سے رقم مانگنے والے لڑکے مرد نہیں ، شادی کے دن لڑکی والوں کو ڈنر کی دعوت دینے کے لئے مجبور کرنا جائز نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب سے ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب سے اس قسم کی باتیں سنتے آئے ہیں۔ کبھی اصلاح معاشرہ کی تحریک چلتی ہے اور تلقین کی جاتی ہے کہ اسراف کرنے والوں کی دعوت کا بائیکاٹ کیا جائے۔ مگر بائیکاٹ کون کرے ، وعظ کرنے والے خود ان تقاریب میں سب سے آگے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ تحریکات بہت جلد دم توڑ دیتی ہیں۔ جہیز کے خلاف تحریکات کی ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لڑکی والے بھی ذہنی طور سے جہیز دینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

اگر ایمان داری کے ساتھ جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ اکثر و بیشتر موقعوں پر لڑکو ں کو جہیز دینے کا لالچ لڑکی والے ہی دیتے ہیں۔ کئی ایسے واقعات کے ہم بھی شاہد ہیں کہ اگر کسی کا پیام طئے ہو گیا ، کسی اور نے اس لڑکے کو ایک اچھے اور روشن مستقبل کی لالچ دے کر پہلی منگنی ختم کروا  دی اور خود اپنی لڑکی سے رشتہ طئے کروا دیا۔ گرین کارڈ ، H1 ویزہ ، خلیج میں ملازمت ، ذاتی کاروبار میں مدد، اپنے بزنس میں پارٹنر شپ جیسے آفرس کرتے ہوئے لڑکوں کی بولی لگائی جاتی ہے۔ جو خریدار ہیں وہ دولہے خرید لیتے ہیں اور جن میں اس کی سکت نہیں ہوتی وہ اپنے آپ کو حالات کے حوالے کر دیتے ہیں۔ بعض سودی قرض کے دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔ کوئی اپنے سر کا سایہ بیچ کر اپنی بیٹی یا بہن کے ہاتھ پیلے کرتا ہے۔ جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں لڑکیاں یا تو اپنے باپ کی عمر کے مردوں سے شادی کے لئے مجبور ہو جاتی ہیں یا بے راہ روی کی شکار ہو جاتی ہیں۔ غیر مسلم نوجوانوں کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں یا ان کے استحصال کی شکار ہوتی ہیں۔ عیسائی مشنریز اور ہندوتوا پسند طاقتیں مسلم لڑکیوں کی غربت کا فائدہ اٹھا کر انہیں اپنے دھارے میں بڑی آسانی کے ساتھ شامل کر رہے ہیں۔

جہیز پہلے غریب اور متوسط طبقہ کا مسئلہ تھا مگر آج دولتمند طبقہ بھی اس سے پریشان ہے۔ کیونکہ آج اپنی شان و شوکت کے اظہار کے لئے معاشرہ کے نام نہاد اعلیٰ اور دولتمند طبقات انتہائی اوچھے طریقہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ مضافاتی علاقوں میں بڑے بڑے گارڈنس یا فام ہاؤزس میں شادی اور ولیمہ کی تقاریب کا اہتمام کیا جاتا ہے جن میں شرکت کم از کم ان رشتہ داروں یا دوست احباب کے لئے ایک مسئلہ ہے جن کے پاس آمد و رفت کی سہولت نہیں ہے۔ شادی کی تقاریب کیا ہوتی ہے، فوڈ فیسٹول کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ جس شادی پر جتنا خرچ کیا جاتا ہے اس سے ان کی حیثیت و امارات کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

اس طرح شادی سے پہلے منگنی، مانجھے، سانچق اور شادی کے بعد جمعگیاں اچھے خاصے دولتمند کو بھی مقروض بنا دیتے ہیں۔

علیم خاں فلکی نے ان لعنتوں کے خلاف قلم اٹھایا اور انتہائی جرات ، بیباکی کے ساتھ مسلم معاشرہ کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ ہفتہ وار ’’گواہ‘‘ نے علیم خاں فلکی کے قلمی جہاد میں شریک ہوتے ہوئے تین سال پہلے جہیز کے خلاف ان کی تصنیف ’’مرد بھی جسم بیچتے ہیں جہیز کیلئے‘‘ کو شائع کر کے منظر عام پر لایا۔

اس کتاب نے اللہ کے فضل و کرم سے اپنے قاری کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا مگر چونکہ بیشتر حضرات کو اس کتاب کے صفحات پر اپنا عکس نظر آنے لگا ان میں سے بہت سارے بلبلانے لگے اور کتاب سے زیادہ اس کے عنوان پر مباحث ہونے لگے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے باوجود بھی مرد واقعی جہیز اور رقم کے لئے اپنے جسم کو یا تو بیچتے ہیں یا گروی رکھتے ہیں۔ اعتراضات کا سلسلہ آج تک بھی جاری ہے اور ہم اسے علیم خاں فلکی کی قلمی کاوش کی کامیابی سمجھتے ہیں۔

علیم خاں فلکی مثبت تعمیری اور منفرد سوچ رکھتے ہیں۔ ان کی رگوں میں لہو نہیں ایک لاوا بہتا ہے اور یہی لاوا نوک قلم سے اگلتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قاری کو ان کی تحریر سلگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ان کی دیگر معرکۃ الآراء تحریروں میں۔۔۔

’’این آر آئز کے مسائل، دھوکے باز عاملین، لائف انشورنس اینڈ مسلمس ، تقسیم ہند کا کرب ، زوالِ حیدرآباد کے اثرات ، ازدواجی مسائل اور ان کا حل ،اعضاء کی پیوند کاری شریعت کی روشنی میں، موزوں پر مسح کی علت ، اقبال اور اجتماعیت ، دولتمند طبقے کی جانب سے حج اور عمرہ کو پکنک کے طور پر منانے کی نئی روایت کے خلاف‘‘

علیم خاں فلکی کے مضامین شاہکار ہیں۔ قاری پڑھ کر عش عش تو نہیں کرتے بلبلاتے ضرور ہیں۔

خالصتاً دینی ،اصلاحی اور انتہائی متحرک سوشیل ریفارمر ہونے کے ساتھ ساتھ علیم خاں فلکی ایک جانے پہچانے شاعر اور طنز و مزاح نگار بھی ہیں۔ ان کی قلم کی کاٹ کا اثر بہت دیر تک محسوس ہوتا ہے۔ معمولی الفاظ میں وہ چٹکی لینے کا فن جانتے ہیں۔ اور چٹکی کی خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ اس کا نشان تو نہیں رہتا مگر تکلیف کا احساس دیرپا ہوتا ہے۔

جہیز کے خلاف اپنے قلمی جہاد کا دوسرا ایڈیشن اردو کے ساتھ دیوناگری رسم الخط میں پیش کرتے ہوئے علیم خاں فلکی نے اپنے پیغام کو زیادہ سے زیادہ قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ان کی کوشش قابل قدر و ستائش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں احساس کی دولت اور تاثیر کی نعمت سے نوازا ہے۔ دعا ہے کہ ان کی قلمی تاثیر ہر قاری کو متاثر کرے اور جن سماجی لعنتوں کے خلاف انہوں نے قلمی جہاد کیا ہے وہ ان کی دنیا اور آخرت میں سرخروئی کا ذریعہ بنے۔ آمین۔

سید فاضل حسین پرویز

ایڈیٹر ، گواہ ، حیدرآباد

بتاریخ : 26/ جون 2009ء

 

نقش نظر

موضوع تو وہی پرانا ہے۔لیکن پھر رات کے اندھیرے میں صبح کی بات تاریکی کو ناگوار ہو تو اس کی شکایت کیا، اور اس کی بھی کیا شکایت کہ اندھیروں سے بیزار  لوگوں کو یہی ایک رٹ کیوں رہ گئی کہ ’’سحر، سحر، ارے توبہ، سحر نہیں ہوتی‘‘۔

علیم خان فلکی اندھیرے سے ملول ایسے ہی شخص ہیں۔ اور انہوں نے برسوں محنت کر کے کئی اندھیرے دریافت کئے ہیں جن سے امت مسلمہ نبرد آزما ہے۔

موصوف ویسے تو بزنس مین ہیں مگر عمر گزری ہے ملی اجتماعی کاموں میں۔ساری زندگی کے عملی کام کا ماحصل ان کی سماجی اصلاح کے موضوعات پر تین کتابیں اور کئی مضامین ہیں۔ جس میں میں انہوں فقط زوال کا رونا نہیں رویا، بلکہ اپنے اختصاص علمی کو تاریخ، نفسیات اور عمرانیاتِ اسلامی سے جوڑ کر عملی اقدامات کے راستے دریافت کئے۔ان کی تحقیق کی رو سے یہ خامیاں مسلم معاشرے کے مسلسل انحطاط اور زوال کا باعث ہیں جن کی اصلاح پر مسلم قومیں، معاشرے اور گروہ اقدامی کارروائی کر سکتے ہیں۔مسئلہ ہے کام کیسے اور کہاں سے شروع کریں۔ اس سلسلہ میں مولانا حسین احمد مدنی (رحمۃ اللہ علیہ) سے کچھ رہنمائی ملتی ہے۔

ایک بار مولانا(رحمۃ اللہ علیہ) ٹرین سے سفر کر رہے تھے۔سامنے والی نشست پر ایک بڑے شائستہ اور نستعلیق سوٹ بوٹ صاحب تشریف فرما تھے۔کچھ ابتدائی بات ہوئی مگر سوٹ صاحب کو مولوی صاحب بڑے دقیانوسی اور قوم کی پسماندگی کی دلیل نظر آئے۔چنانچہ بات چیت زیادہ آگے نہ بڑھی۔کچھ دیر بعد سوٹ صاحب کو بیت الخلا کی حاجت ہوئی۔مگر بیت الخلا کا دروازہ کھولتے ہی انہوں نے ناک پر رومال رکھ لیا اور جھٹ سے دروازہ بند کر کے واپس اپنی نشست پر آ بیٹھے۔بیت الخلا میں کسی بے ہودہ شخص نے سارے میں غلاظت پھیلا دی تھی۔واقعی کوئی نفاست پسند شخص وہاں ناک نہیں دے سکتا تھا۔سوٹ صاحب کی ضرورت شدید ہوئی تو وہ پھر اٹھے، مگر دوبارہ اندر جانے کی ہمت نہ کر سکے اور واپس آ گئے۔ایسا تین چار بار ہوا۔ اب مولانا حسین احمد اٹھے۔لوٹا ہاتھ میں لیا اور بلا جھجک بیت الخلا میں داخل ہو کر دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ سوٹ صاحب نے ایک مولوی کی اس بے حسی پر ناک منہ بنایا۔ انہیں یوں بھی کسی مولوی سے تہذیب تمیز کی امید نہیں تھی۔

دس پندرہ منٹ بعد مولانا بیت الخلا سے برآمد ہوئے اور سوٹ صاحب سے کہا:

واقعی اندر بے حد غلاظت تھی اور وہاں جانا آپ کی نفاست پسند طبیعت سے بعید تھا ، مگر آپ کی سخت ضرورت دیکھ میں نہ رہ سکا۔میں نے بیت الخلا کو خوب اچھی طرح دھو دیا ہے۔اب آپ اطمینان سے جا سکتے ہیں۔

تو بات غلاظت کو صاف کرنے کی ہے۔ملت کے چاروں طرف زوال، انحطاط، نکبت، عیاشی،افلاس، زر اندوزی کی غلاظتوں کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ہر شخص تو ناک پر ہاتھ رکھ کر گھر میں جا بیٹھتا ہے۔کوئی توجہ دلائے تو لوگ اس کے سر ہو جاتے ہیں۔ تو زوال و انحطاط کی وہ گندگی صاف کیسے ہو گی۔

’’مرد بھی بکتے ہیں۔۔جہیز کیلئے‘‘ میں علیم خان فلکی نے شہر اسلام کے ان محلوں کی نشان دہی کر دی ہے جہاں کام کر نے کی ضرورت ہے۔ مولانا حسین احمد کا انتقال ہوئے 53 برس گزر گئے کہ انہی کو اس کام پر لگاتے۔اب کرنا ہے تو اپنے سوٹ بوٹ اتار کر یہ کام خود کیجئے ،یا یہ دیکھئے کہ کوئی حسین احمد اس قسم کے کام میں کہیں لگا ہوا ہے۔ورنہ شکایتوں کا دفتر بند کر کے اپنے سوٹ کی کریز درست کرتے رہیئے۔

اتنا بڑا کام ہے کہ نہ تو اس کی تکمیل ایک آدمی کے بس میں ہے نہ ایک تنظیم کے۔۔پھر بعض کام تو ایسے ہیں کہ بظاہر اصلاح کا کوئی امکان دور دور نظر نہیں آتا۔ مثلاً کوئی جان کا نہیں تو عقل کا دشمن ہی ملکوں کی سیاست میں تبدیلی کی بات کرے گا۔ عفریتوں سے کون مقابلہ کرے گا۔پھر ان ہی عفریتوں کے نثری، شعری،تقریری قصیدے پڑھ پڑھ کے تو اپنے دینی ملی کاموں کے لئے فنڈ اور اپنے گھروں کے لئے قالین ملتے ہیں۔ معاش کا اونٹ انفرادی کروٹ ہی سیدھا نہیں بیٹھتا، تو اجتماعی کی بات کیسے کریں۔سماج میں ایک علیم خان فلکی کو تو دس آدمی نہ ملے ایک تنہا حیدرآباد میں جہیز اور جوڑے کی لعنت کے خلاف کام کرنے کے لئے۔مگر پھر علیم خان بھی گھر بیٹھ رہیں تو اگلے سو سال اور اس عذاب کو جھیلنا پڑے گا۔اب کم سے کم چوتھی نسل تو امید کر سکتی ہے کہ یہ وبا اس کے زمانے میں مٹ چکی ہو گی۔

مسائل انبار بر انبار ہیں۔ساری دنیا میں سارے مسلمانوں کے مسائل ایک سے بھی نہیں ہیں۔اس لئے اس سطح پر تو اجتماعی اصلاح کی بات سوچنا ہی غلط ہے۔ہاں بہت چھوٹی سطح پر کا م کا آغاز ممکن ہے۔ علیم خان فلکی نے کتابی سطح پر سوچنے والے دماغ اور مستقبل بیں آنکھ کی ایک مثال تو قائم کر دی۔ اب اس کام کو عمل کی دنیا میں برپا کرنے کا مرحلہ آتا ہے۔اس مرحلہ میں یہ احساس کسی ایک فرد یا جماعت میں ہونا چاہیئے کہ معاشرے کو کسی تبدیلی کی ضرورت ہے۔مسلمانوں کے ایک بڑے طبقہ میں الحمد للہ یہ احساس پایا جاتا ہے۔کہ امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر کچھ تبدیلی درکار ہے۔ مگرہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ کس نوعیت کی تبدیلی درکار ہے اور اس کے لئے کیا کرنا چاہیئے۔ جن افراد کو یہ احساس ہے وہ عموماً اوروں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ تبدیلی لے آئیں، یا پھر کہیں غیب سے کوئی شخص اٹھ کر یہ کام کر ڈالے۔

مَردے از غیب بروں آید و کارے بکند

علیم خان فلکی کی فکر اس سمت میں ایک مثبت رہنمائی کرتی ہے۔ ایک عرصہ سے یہ ان کی زندگی کا مقصد ہے۔اس مسئلہ کو عوام کے سامنے رکھنے کے لئے انہوں نے کم و بیش بیس سال پہلے سیمینارز اور جلسوں کے ذریعے یہ کام شروع کیا تھا۔انہوں نے اس موضوع پر جدہ میں جو پہلے پہل جلسے منعقد کیے ان کو مرحوم مجاہدالاسلام قاسمی (رحمۃ اللہ علیہ) اور ڈاکٹر اسرار احمد صاحبان نے مخاطب فرمایا تھا۔ مجھے بھی اس میں کچھ گفتگو کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔علیم خان فلکی تب سے دن رات اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔انہوں نے بڑی محنت اور جاں فشانی سے قرآن و حدیث کی سندیں، عقلی دلائل، اور معاشرتی روایات کو اس کتاب میں یکجا کر دیا ہے۔یہ کتاب ہم سب کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔

بظاہر تو کام پورا ہو گیا۔لیکن سچ یہ ہے یہ کتاب اصل کام شروع کرنے کا نقارہ ہے۔ نہ محض کتاب لکھنا کوئی مقصد تھا اور نہ بات کہہ دینا خواہ کوئی سنے نہ سنے۔یہ تو ایک اہم معاشرتی معاملہ میں امت کو صحیح اسلامی نہج پر واپس بلانے کی مسلسل کوشش کا ایک حصہ ہے اور ایک امتحان بھی ہے۔سوال یہ ہے کہ قرآن حکیم اور احادیث مبارکہ کی سند کے بعد کیا کوئی دلیل شادی بیاہ کی فضول رسموں، جوڑے جہیز کے ظالمانہ مطالبات کے جرم کے حق میں باقی رہ جاتی ہے؟ اس کے بعد بھی کوئی ان رسومات پر اصرار کرے تو وہ توبہ کب کرے گا؟ اور جب ان دلائل کے بعد جوڑے گھوڑے، تلک جہیز وغیرہ جیسی سماجی لعنتوں کے حق میں کوئی دلیل باقی نہیں تو علیم خان فلکی کی درخواست سن کر بہرا بن جانا تو خود اپنی جان پرہی نہیں پوری قوم پر اور بھی بڑا ظلم ہوا۔ہاں فلاح و فوزان کا حصہ ہو گی جو اس بات سے متفق ہو کر اول تو اپنے گھر میں ایسی رسومات کے خاتمہ کا اعلان کریں، اور پھر معاشرے میں اپنے اپنے طور پر اصلاح کا کام شروع کر دیں۔تو حالات تبدیل ہونے میں کتنی دیر لگے گی۔

امید بلکہ دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ عزیز محترم علیم خان فلکی کی اس کتاب کو بر صغیر کے مسلمانوں میں ایک معاشرتی انقلاب کا ذریعہ بنا دے، ان کی مسلسل کوشش کو بار آور کرے، ہمارے معاشرہ کے بڑوں اور والدین کو تباہ کن برائیوں سے محفوظ رکھے، آمین۔

محمد طارق غازی

آٹوا ، کینڈا

سہ شنبہ 13 رجب 1430 / 7 جولائی 2009ء

 

پیش لفظ

الحمد لله ثم الحمد لله کہ ہفتہ وار ’’گواہ‘‘ کے ایک انٹرویو نے پہلے ایک کتابی شکل اختیار کی اور اس کے بعد کچھ ترامیم اور اضافوں کے ساتھ دوسرا ایڈیشن آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ پہلے ایڈیشن کے ٹائٹل ’’مرد بھی جسم بیچتے ہیں۔۔۔جہیز کیلئے‘‘ پر احباب کا ردِّ عمل بہت سخت رہا۔ اس لیے نہیں کہ ٹائٹل غیر اخلاقی یا فحش تھا اس لئے کہ جہیز اور نقدی لینے کا جو لوگ ارتکاب کر چکے تھے اُنہیں اپنے غیر اخلاقی عمل کا احساس ہوا۔ بجائے اس کے کہ وہ اِس احساس کو احساسِ ندامت اور مہلتِ استغفار میں بدلتے، اُنہوں نے پوری ڈھٹائی کے ساتھ سخت تنقیدی رویّہ اپنایا اور کئی سوالات اُٹھائے جیسے

جوڑا جہیز کے لین دین کو ’’حرام‘‘ کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟

جہیز تو ایک ہدیہ یا تحفہ ہے جو خوشی سے دیا جاتا ہے۔ شریعت اِسے کس طرح حرام قرار دے سکتی ہے؟

شادی کے دن کا کھانا تو مہمان نوازی ہے اِسے کیونکر خلافِ شرع قرار دیا جا سکتا ہے؟

کچھ دوستوں نے اِملا اور کتابت کی غلطیوں کو نشانہ بنایا اور کچھ نے حوالوں کی کمزوریوں کو آڑ بنا کر اصل موضوع سے فرار حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ایسے تمام اعتراضات اور حیلہ بازیوں کی نفسیاتی وجوہات کو باب ’’فرار کے فلسفے‘‘ میں بیان کیا گیا ہے۔ بہرحال میں ان تمام معترضین اور ناقدین کا مشکور ہوں کہ اِن کی وجہ سے مجھے شریعت کے احکام اور انکے Applications کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کا موقع ملا۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہند و پاک کے کئی علماء کرام و مشائخین سے اِس موضوع پر استفادہ کرنے کا بھی۔ الحمد لله تقریباً سبھی علماء و مشائخین نے عہدِ حاضر کے مروّجہ نظامِ جہیز کے حرام ہونے کی تصدیق کی اور نہ صرف یہ بلکہ اس کے خلاف مہم چلانے کے لئے ہمت افزائی بھی فرمائی۔ اسی کے نتیجے میں جدہ میں سوشیل ریفارم سوسائٹی اور ایک ویب سائٹ کا قیام عمل میں آیا۔

اسلام پوری انسانیت کی فلاح کا دین ہے نہ کہ صرف کسی خاص طبقے، علاقے یا زبان کا۔ لیکن آج ہر ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ اسلام کی جو موجودہ شکل ہمارے سامنے ہے کیا حقیقتاً یہ اصل اسلام ہے؟ جن مسائل پر آج سارے مسالک، مذاہب،گروہ اور جماعتیں متحارب At war ہیں کیا ان مسائل کا تعلق پوری انسانیت کی فلاح سے ہے؟

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صرف دو لفظوں میں دین کی تعریف بیان فرمادی کہ ’’الدین معاملہ‘‘ یعنی دین معاملہ داری Dealings کا نام ہے۔

ہر انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ جو کچھ رشتہ، تعلق یا معاملہ ہے اگر وہ دین کے اصولوں اور سیرتِ پاک کے نقشِ قدم پر ہو تو اس سے انسانیت کی فلاح ممکن ہے، ورنہ دین کی جو موجودہ شکل مسلمانوں نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے اس سے پورے عالمِ انسانیت کی فلاح تو درکنار خود مسلمانوں کی فلاح ناممکن ہے۔ جب بھی بات ہیومن رائٹس، ویمنس رائٹس، اقوامِ متحدہ کے چارٹر وغیرہ کی آتی ہے ہر مسلمان دانشور یہی دعویٰ پیش کرتا ہے کہ یہ سب چودہ سو سال سے ہمارے پاس موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج معاملہ داری پامال ہے، انسانیت سسک رہی ہے اور ہم کِن مسائل کو اسلام بنا کر پیش کر رہے ہیں؟

بقول اعتماد صدیقی مرحوم

کیا مرے عہد کا تقاضہ ہے

کیا سدا آ رہی ہے منبر سے

میاں بیوی کے تعلقات اور بالخصوص موقع نکاح، معاملات بین انسانی میں اہمیت کے اعتبار سے سرِ فہرست ہیں۔یہ جب تک سیرت کے تابع نہ ہوں ایک صالح معاشرہ وجود میں نہیں آ سکتا۔ اور جب تک ایک صالح معاشرہ کی تشکیل نہ ہو اُس وقت تک سائینس ، تعلیم، ٹکنالوجی، اکنامکس وغیرہ چاہے جتنی ترقی کر لیں انسانیت کو صحیح فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔

یہ کتاب معاشرے کی اصلاح کی جانب ایک حقیر سی کوشش ہے۔ میں ہر قاری سے ملتمس ہوں کہ بارگاہِ رب العزت میں اس کی قبولیت اور توقیر کے لئے دعا فرمائے۔ بقول طارق غازی صاحب ، اندھیروں کو دریافت کرنا کمال نہیں یہ کام برسوں سے ہمارے دانشور کرتے آ رہے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ روشنی کی ایک کرن دریافت کی جائے چاہے وہ ایک معمولی جگنو کے برابر کیوں نہ ہو۔ قرآن، حدیث اور ائمّہ سلف سے اخذ کردہ کئی حکمتوں کے خزانے اس کتاب میں محفوظ ہیں جو زندہ ضمیروں، بیدار ذہنوں اور اولوالعزم حوصلہ مندوں پر ہی کھل سکتے ہیں۔ معمولی ہوا سے لچک جانے والے ارادے رکھنے والوں کے لئے اس میں شائد مزید اعتراضات ہی ڈھونڈھنے کے بہانے ملیں گے۔

چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ اگر دس فیصد افراد بھی جوڑا جہیز کو مِٹانے کی مہم میں ساتھ ہو جائیں تو ایک عظیم انقلاب برپا ہونے کے لئے منتظر ہے ان شاء اللہ۔

علیم خان فلکی

جدہ(سعودی عرب)

جولائی 2009ء

 

چند ضروری وضاحتیں

# اس کتاب میں جہیز کے لفظ ساتھ لفظ ’’جوڑا‘‘ کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ دکن میں یہ لفظ محاورتاً اُس نقد رقم یا کسی بھی معاملے (Deal) کو کہا جاتا ہے جو دُلہا کو جہیز کے ساتھ دی جاتی ہے۔ یہی چیز پاکستان میں سلامی یا معیاری شادی کہلاتی ہے اور بِہار میں ’’تِلک‘‘ ، کیرالا میں ’’استری دھن‘‘ ، ٹامل ناڈو اور سری لنکا میں ’’ورو دکھشنا‘‘ ، شمالی ہند میں ’’ھُنڈا‘‘ یا ’’ھَنڈا‘‘ اور بنگلہ دیش میں ’’روتک‘‘، مہاراشٹرا میں ’’روکڑا‘‘ کہلاتی ہے۔

# اس کتاب کے پہلے ایڈیشن ’’مر د بھی جسم بیچتے ہیں۔۔۔۔جہیز کے لیے‘‘ میں کتاب کے ٹائٹل ، کتابت اور حوالوں پر قارئین نے جہاں توجہ دِلائی تھی وہیں یہ بھی اعتراض تھا کہ جوڑا جہیز کو مکروہ تو کہا جا سکتا ہے لیکن حرام کیونکر؟ اس لئے اِس بار قرآن ، حدیث اور ائمّہ سلف سے وہ تمام ثبوت پیش کر دیئے گئے ہیں جن کی بنیاد پر اِسے حرام قرار دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی اصرار کرے کہ یہ جائز ہے تو  درخواست ہے کہ وہ ایک بار درج ذیل ابواب کا دوبارہ بغور مطالعہ فرمائیں :

فرار کے فلسفے، رشوت ، سُحت، جوڑا جہیز۔۔۔ ایک مہذّب بھیک ، حلال کمائی اور دعاؤں کی قبولیت کی شرط۔

# دانستہ طور پر اہم نکات کا دوہرانا (Repetition) ناگزیر تھا۔ ایک ہی بات کو الگ الگ پس منظر میں دوہرانے بلکہ تکرار کرنے کا اسلوب ہمیں قرآن سے ملتا ہے جس میں نبیوں کے تذکرے، یہودیوں ،نصرانیوں اور مشرکوں کے قصّے، آخرت ، جنّت اور دوزخ وغیرہ کے مضامین بکثرت دوہرائے گئے ہیں۔ پانی کا قطرہ اگر بار بار پتھر پر ٹپکے تو پتھر میں بھی سوراخ ہو ہی جاتا ہے۔ شاید قرآن بھی آیات کی اس لیے بار بار تکرار کرتا ہے کہ سخت دِلوں اور پتھر ذہنوں میں بھی سوراخ ہو اور بات احساس تک پہنچے۔

# میں طوالت کے لیے معافی کا درخواست گزار ہوں کہ میرے پیشِ نظر وہ قاری زیادہ ہیں جو اشاروں کنایوں میں بات نہیں سمجھتے۔یا سمجھنا نہیں چاہتے۔ ان کی نظر میں جوڑا جہیز ایک برائی ضرور ہے لیکن جو لین دین وہ کر رہے ہیں اس میں کوئی برائی نہیں۔ اس لیے اِس میں ملوّث 90 فیصد لوگ اپنے آپ کو بَری اور مستثنیٰ Exemptedسمجھتے ہیں۔ اس لیے اُن کا گریبان پکڑ کر اُنہیں ہر دلیل کے ساتھ یہ سمجھانا ضروری ہے کہ جناب یہ قرآن، حدیث اور تمام دیگر دلائل صرف آپ سے مخاطب ہیں۔

# جہیز کی حرمت ، شادی کے دن کا کھانا جو لڑکی والوں کی طرف سے کھلایا جائے اس کا اور دیگر رسومات کا ناجائز ہونا اہل سنت الجماعت اور اہل تشیع کے تمام مسالک میں ثابت ہے۔ اس لیے اس کتاب میں تمام مسالک ، مذاہب اور مکاتبِ فکر کے علماء سے استفادہ کیا گیا ہے۔

 

ناشکری ہو گی اگر۔۔۔

ناشکری ہو گی اگر میں ان محسنوں کا شکریہ نہ ادا کروں جن کی ہمت افزائی کے نتیجے میں اس کتاب کو از سرِ نو مزید مستند حوالوں کے ساتھ دوسرے ایڈیشن تک پہنچانے کی ناچیز کو سعادت نصیب ہوئی۔

اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کی اشاعت پر جن کرم فرماؤں نے بے پناہ عزّت افزائی فرمائی اور تحقیق کو جاری رکھنے کا حوصلہ دیا ان میں مولانا رضوان القاسمی (رحمۃ اللہ علیہ) ، جناب رحیم قریشی صاحب صدر مجلس تعمیر ملت و جنرل سکریٹری مسلم پرسنل لا بورڈ، جناب محمد علی شبیر صاحب سابق وزیر اطلاعات حکومت آندھراپردیش، جناب ظفر جاوید صاحب سکریٹری سلطان العلوم ایجوکیشن سوسائٹی، عزت مآب اوصاف سعید صاحب سابق قونصل ہند برائے سعودی عرب، ڈاکٹر مصطفےٰ کمال صاحب ایڈیٹر شگوفہ،جناب خواجہ عارف الدین صاحب ناظمِ منطقہ جماعتِ اسلامی ہند، شاہین نظر صاحب ڈپٹی ایڈیٹر سعودی گزٹ، سراج وہاب صاحب ڈپٹی ایڈیٹر عرب نیوز، جدہ، جناب غلام یزدانی صاحب ایڈوکیٹ، پروفیسر علیم اللہ حالی صاحب ایڈیٹر انتخاب پٹنہ، پروفیسر سلیمان اطہر جاوید صاحب ، ڈاکٹر اوصاف احمد صاحب سابق مشیر اسلامک ڈیویلپمنٹ بنک جدہ، جناب ضیاء الدین نیّر صاحب سکریٹری اقبال اکیڈیمی، جناب انور خانصاحب پرنسپل انوارالعلوم جونیر کالج، انجینئر نعیم بشیر صاحب ، انجینئر سعیدالدین صاحب آئی آر ایف، جناب مظہر التمش صاحب ، جناب محمد قیصر صاحب صدر تنظیم ہم ہندوستانی ، ریاض ، یوسف الدین امجد اسلامک ڈیولپمنٹ بنک جدہ ، نادر خان سرگروہ مکہ المکرمہ ، انور نوری صاحب ایڈیٹر ممبرا سماچار شامل ہیں۔ میں ان تمام کا تہہِ دل سے مشکور ہوں۔خاکِ طیبہ ٹرسٹ جدہ اور اردو اکیڈیمی جدہ نے بھی ہمیشہ ہمت افزائی کی جس کے لیے میں ان کے تمام ارکان کا مشکور ہوں۔۔

میں ان مخلص دوستوں کا بھی بے حد مشکور ہوں جنہوں نے پہلے ایڈیشن میں موجود خامیوں کی اصلاح میں رہنمائی فرمائی۔ ان میں مولانا قاری عباس علی کھوت صاحب مدیر اعلیٰ پروازِ کوکن، جناب احمد یزدانی صاحب، مرزا نواب صاحب ڈپٹی ایڈیٹر سعودی گزٹ، شاعر و صحافی جناب نجیب احمد نجیب صاحب، شاعر و ادیب جناب مہتاب قدر صاحب بانی اردو گلبن ڈاٹ کام، جناب رضاء المرتضیٰ صاحب دمّام،مفید خانصاحب اور جناب محمد محتشم علی بشارت صاحب (SAM کمپیوٹرس) شامل ہیں۔ میں ان تمام کے لیے سراپا سپاس ہوں۔ جناب فاضل حسین پرویز کا میں احسان مند ہوں کہ یہ پوری کتاب کا سہرا انہی کے سر ہے۔ انہی کی تحریک پر ناچیز کا انٹرویو ’’مرد بھی جسم بیچتے ہیں… جہیز کے لیے‘‘ پہلے انہی کی ادارت میں نکلنے والے ہفت روزہ ’’گواہ‘‘ میں شائع ہوا۔ جس کی مقبولیت کی بنا اُسے کتابی شکل دی گئی۔ جس کے لیے پرویز صاحب اور پورے اسٹاف گواہ نے غیر معمولی محنت کی۔ الحمدللہ کتاب پر ہندوستان، پاکستان اور سعودی عرب سے کئی تبصرے وصول ہوئے۔ مختلف زبانوں میں تراجم کے لیے لوگوں نے توجہ دلائی۔ ان شاء اللہ یہ کام بھی بہت جلد پیش کر دیا جائے گا۔

جناب نعیم جاوید صاحب نے اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے قدم بہ قدم اپنی قیمتی رائے سے نوازا۔ میں ان کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے۔

میں تمام قارئین سے دو شخصیتوں کے لیے خصوصی دعا کے لیے درخواست گزار ہوں جنہوں نے مجھے دعوتِ دین اور اقامتِ دین کا صحیح عملی تصوّر دیا اور مجھے لکھنے کا حوصلہ بخشا۔ ان میں ایک میرے والدِ محترم محمد خلیل اللہ خان (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں اور دوسرے میرے استادِ محترم جناب محمد مصلح الدین سعدی (رحمۃ اللہ علیہ) ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو اپنے عرش کی پناہ عطا فرمائے۔آمین۔۔

 

محض ایک سماجی برائی یا حلال و حرام کا مسئلہ؟

اگر دوسری قومیں جہیز کے لین دین کو ایک سماجی برائی Social evil کہتی ہیں تو ٹھیک ہے لیکن ایک مسلمان کے لئے یہ محض ایک سماجی برائی نہیں بلکہ اس سے آگے بہت کچھ ہے۔یہ ایک حلال و حرام کا سنگین مسئلہ ہے۔ اسے سگریٹ یا سینما بینی کے برابر کی ایک برائی قرار دینا ایک نادانی ہے۔ یہ نادانی نا دانستہ نہیں بلکہ دانستہ ہے۔ چونکہ پورا نظام عورتوں کے ہاتھوں چل رہا ہے جس پر مرد کنٹرول نہیں رکھتا جس کی وجہ سے یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے مرد مجبوریوں، مصلحتوں اور مفادات کا شکار رہتے ہیں۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ گھر کے باہر مسجدوں میں غیر اہم فروعی مسائل پر بھی ایک دوسرے کی تکفیر ہی نہیں بلکہ قتال تک کے لئے آمادہ ہو جانے والی قوم کے افراد گھر کے اندر حلال و حرام کے اتنے بڑے مسئلے پر جانتے بوجھتے خاموشی برتتے ہیں؟

اور جہاں عورتیں قصوروار نہیں وہاں مردوں کی انانیت، حرص، سوسائٹی میں جو دوسرے کر رہے ہیں ویسا یا اس سے زیادہ کرنے کی خواہش، تفاخر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شریعت کے احکام کو جانتے بوجھتے اپنی طرف سے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر کے مطمئن ہو جانے کی خود فریبی یہ تمام اسباب اس بڑھتی ہوئی لعنت کے ذمہ دار ہیں۔

کوئی تو ملے جو کہے ہاں میں خود دار نہیں

آج تک بے شمار لوگوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی۔ کوئی ایسا نہ ملا جس نے یہ کہا ہو کہ

’’ہاں ہم نے جہیز کا مطالبہ یا فرمائش کی تھی‘‘۔

جتنے ملے سب شرفاء ملے۔ ہر ایک نے یہی کہا بلکہ فرمایا کہ

’’الحمد لله ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا ، ہمارے ہاں اس چیز کو سخت معیوب سمجھاجاتا ہے‘‘۔

جب دور دور تک کوئی ایسا شخص نہیں جس نے جہیز مانگا ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ معاشرہ کا ہر باپ اور ہر بھائی اپنی بیٹی یا بہن کی شادی کے لیے پریشان ہے ؟

قاضی صاحب اور پنڈت جی میں فرق کیا ہے؟

اب آپ ذرا تحقیق کریں کہ جب سوسائٹی میں ہر شخص جہیز اور بے جا رسومات کا مخالف ہے تو ایک مسلمان کی شادی اور ایک غیر مسلم کی شادی میں فرق کیوں کر ختم ہو گیا ہے ؟ سوائے اس کے کہ اُن کے ہاں پنڈت آ کر کسی کی سمجھ میں نہ آنے والے کچھ اشلوک پڑھتا ہے اور یہاں قاضی صاحب کسی کی سمجھ میں نہ آنے والی کچھ عربی آیتیں پڑھ جاتے ہیں۔ وہاں آگ کے پھیرے ہوتے ہیں اور یہاں کچھ دیر کے لیے سروں پر ٹوپیاں یا دستیاں ڈال کر کچھ افراد دلہا دلہن سے ایجاب و قبول کی رسم پوری کروا کر بغیر وضو کے دعاء و فاتحہ پڑھ کر مصری بادام کے لوٹنے لٹانے کی چھینا جھپٹی پر ’’النکاح من سنتی‘‘ والے ڈرامے کا The End کرتے ہیں۔

پنڈت جی وہاں اپنی دکھشنا لے کر ہاتھ جوڑتے نمسکار کرتے ہوئے رخصت ہو جاتے ہیں اور اِدھر قاضی صاحب اپنی فیس اور Tip وصول کر کے خوشی خوشی آداب بجا لاتے ہوئے نکل جاتے ہیں۔ باقی سب کچھ تو وہی ہوتا ہے یعنی جہیز ، رسمیں ، لڑکی کے سرپرست کے خرچے پر اپنے سارے مہمان باراتیوں کی ضیافت وغیرہ۔ نوٹوں کی گڈیاں تو دونوں طرف شادی سے پہلے ہی وصول کر لی جاتی ہیں۔ جو لوگ ذرا غیرت مند اور خود دار ہوتے ہیں وہ بجائے نقد وصول کرنے کے کچھ اور معاملہ deal طئے کر لیتے ہیں۔

یہ کافری تو نہیں کافری سے کم بھی نہیں

کہ مردِ حق ہو گرفتارِ حاضر و موجود

آئیے ! پھر اسی سوال کی طرف کہ جب نوشہ اور اُن کا سارا گھرانہ ان تمام ہندوانہ رسموں کو نا پسند کرتا ہے تو پھر یہ سب کیونکر ہوا ؟ پوچھئے تو انتہائی شرافت اور فخر سے فرماتے ہیں :

’’ہم نے تو صاف صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں سوائے لڑکی کے اور کچھ نہیں چاہئے۔ جو بھی دینا ہے وہ اپنی بیٹی کو دے دیجئے۔۔۔وہ بھی خوشی سے‘‘۔

دراصل یہی وہ اصل کھیل ہے جسے لوگ شرافت و خود داری کا لبادہ اوڑھ کر تہذیب ، رواج یا سسٹم کے نام پر کھیلتے ہیں۔

میاں بیوی کا رشتہ صرف دو افراد کا میل نہیں بلکہ ایک خاندان اور پورے معاشرے کی بنیاد ہے۔ اگر بنیاد میں غلطی رہ جائے ، چاہے دانستہ ہو یا نا دانستہ، نہ کوئی دیوار سلامت رہتی ہے نہ چھت ، نہ کھڑکی نہ دروازہ۔ تو پھر ایسی عمارت کے انجام کا آپ خود اندازہ کر سکتے ہیں۔ اسی طرح اگر میاں بیوی کا رشتہ غلط بنیادوں پر کھڑا ہو تو خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں تک اس کے غلط اثرات پڑتے ہیں۔ جس بنیاد کو ڈالنے کے لیے لڑکی کے سرپرست کو خوشی سے یا مجبوری و مصلحت کی وجہ سے لڑکے پر خرچ کرنا پڑا ہو۔ اس کے لیے لڑکی کے باپ اور بھائی کو ہو سکتا ہے گھر بیچنا پڑا ہو ، چندہ ، خیرات یا زکوٰۃ مانگنی پڑی ہو۔ ہو سکتا ہے جھوٹ ، رشوت ، چوری اور بے ایمانی کرنی پڑی ہو۔ اب آپ ہی اندازہ لگائیے کہ ایسی غلط کاریوں کے ساتھ قائم ہونے والی بنیاد کیا معاشرے میں ایک پاک خاندان کی مضبوط عمارت کھڑی کر پائے گی ؟ جس طرح جام کے پیڑ سے آم نہیں اُگتے اسی طرح اسلام کو پامال کرنے والے طریقے کی بنیاد پر شروع ہونے والے رشتے نیک اور دیندار نسلیں نہیں پیدا کر سکتے۔ یہ منطق Logic کے خلاف ہے۔

عورت بغاوت پر کیوں اتر آئی ہے؟

کسی بھی دین یا مذہب کے حق ہونے یا نہ ہونے کی دو کسوٹیاں Criteria ہیں ایک تو یہ کہ عقائد ، عبادات یا رسومات کے علاوہ وہ دین انسان کو زندگی گزارنے کا طریقہ System of Life کیا دیتا ہے ؟

دوسرے یہ کہ اس کے ماننے والے اُسے کس طرح پیش کرتے ہیں ؟

یہاں ہماری ناکامی کی اصل وجہ کا پتہ چلتا ہے۔ اگرچہ کہ ہر شخص یہ اعتراف کرتا ہے حتیٰ کہ مخالفینِ اسلام خود تسلیم کرتے ہیں کہ سوائے اسلام کے کوئی اور مذہب ایسا نہیں ہے جو اتنا مکمل اور شاندار نظام حیات System of Life دیتا ہو۔ لیکن اس کے پیش کرنے والوں نے اِسے دنیا کی نظروں میں نہ صرف مشکوک کر دیا بلکہ دور کر دیا۔اسلام کی صحیح تعلیمات جن پر عمل پیرا ہونے سے یہ زمین بھی جنّت نما بن جاتی ہے وہ تعلیمات خود مسلمانوں کی زندگی میں دور دور تک نظر نہیں آتیں۔ہر شخص نماز ، روزے ، داڑھی ، ٹوپی وغیرہ کے بارے میں پوچھئے تو وہ ہر ضروری اور غیر ضروری تفصیل کے ساتھ خوب بحث کر سکتا ہے لیکن اسلام کے معاشی ، سیاسی ، سماجی ، عدل ، یا تعلیمی نظام اور بنکنگ، انشورنس یا ٹریڈنگ کے بارے میں پوچھئے تو وہ سوائے چند مبہم فتوؤں کے کچھ نہیں بتا پائے گا۔

اسی طرح عورتوں کے حقوق کے بارے میں پوچھئے ، سوائے اس کے کہ طلاق کس طرح دی جائے ، کب دی جائے ، عورت کی کون سی غلطی پر اُسے کیا سزا دی جائے ؟ اس کے علاوہ اسے کچھ نہیں معلوم۔ دوسرے الفاظ میں اگر عورت غلطی کرے تو اسلام مرد کو کیا اختیار دیتا ہے وہ یہ تو بہت اچھی طرح جانتا ہے لیکن اگر مرد کمینہ پن کرے تو اسلام عورت کو کیا حق دیتا ہے وہ اس بارے میں کچھ نہیں بتاتا۔

یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان عورتیں بغاوت کر رہی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ٹامل ناڈو میں عورتوں نے اپنی مسجد علٰہدہ بنانے کا اعلان کر دیا اس کے علاوہ بھی کئی مقامات سے خبریں پڑھنے میں آئیں کہ عورتوں نے خود نماز کی امامت، جمعہ کا خطبہ اور قاضی کے فرائض ادا کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کئی عورتیں غیر مسلموں سے شادیاں بھی کر رہی ہیں۔ اس کی مزید تفصیل آگے باب ’’نقصانات‘‘ میں ملاحظہ ہو۔

اور اسی طرح کی بغاوت اور سرکشی کی کئی خبریں دنیا کے دوسرے ممالک سے بھی ملتی رہتی ہیں۔ اس کے اسباب تو کئی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ عورتیں اس نظام کے خلاف اب کھڑی ہو چکی ہیں جو نظام قاضیوں، دارالقضاۃ، مفتیوں اور علماء نے قائم کیا جس میں مرد کی جانب سے طلاق دئیے جانے پر تو فوری سرٹیفکٹ دے دیا جاتا ہے لیکن اگر عورت خلع حاصل کرنا چاہے تو اسے مہینوں اور برسوں لٹکا کر رکھا جاتا ہے۔

عہد نبوی میں حضرت ثابت بن قیس (رضی اللہ عنہ) کی دو بیویوں حبیبہ بنت سہیل (رضی اللہ عنہا) اور جمیلہ (رضی اللہ عنہا) نے جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے خلع کی درخواست کی اور وجوہات بتائیں تو آپ نے انہیں فوری طلاق حاصل کر لینے کی اجازت دے دی۔

لیکن ہمارے عہد میں بے چاریاں دفترقضاء ت یا پھر کورٹ کے چکر لگاتی رہتی ہیں۔مرد نہ مہر ادا کرنے راضی ہوتا ہے اور نہ لیا ہوا جہیز اور جوڑے کی رقم وغیرہ واپس کرنے تیار ہوتا ہے۔ برسوں نہیں صدیوں عورت نے مرد کے ہاتھوں یہ ظلم سہا ہے شائد یہ انہی کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں Anti Dowry Act Section 498A نافذ ہوا۔ اس قانون کا جائز استعمال کم اور ناجائز زیادہ ہوا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہر مرد عورت کے آگے ڈرنے لگا۔

اُدھر پاکستان میں بھی ایک اسلامی مملکت ہونے کے باوجود مرد سے دوسری شادی کی آزادی چھین لی گئی۔مرد شریعت کی آڑ لینا بھول گیا۔ ایسا ہونا بھی چاہئیے تھا کیونکہ انصاف کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ جو فریق منگنی، نکاح کے دن کی دعوت ، جہیز وغیرہ پر خرچ کرے اُسی کی مرضی اور اسی کا فیصلہ چلنا بھی چاہئے۔

پہلا ذمہ دار طبقہ … دین و شریعت کے علمبردار

اس پورے فساد میں اصل قصور دینی امور کے ذمہ داروں اور شریعت کے نام نہاد علمبرداروں کا ہے۔ ہمارے واعظ اور مقرر جس شدت کے ساتھ عقائد ، ایمانیات ، بدعات و شرکیات پر اپنا پورا زورِ بیان صرف کرتے ہیں اس شدت کے ساتھ کبھی جوڑے جہیز کے بارے میں بیان نہیں کرتے۔ مسلکی اختلافات پر فریقین جس طرح ایک دوسرے کے خلاف دندناتے ہوئے جلوسوں اور جلسوں میں مظاہرے کرتے ہیں ، گرجدار شعلہ بیان تقریروں کے ذریعے ایک دوسرے پر کفر ، شرک اور نہ جانے کیا کیا فتوے لگاتے ہیں وہی جوہرِ شعلہ بیانی کبھی جہیز کی لعنتوں کے خلاف نہیں صرف کرتے۔ جن فروعی مسائل پر یہ لوگ زور دیتے ہیں ان موضوعات کا تعلق نہ ایک غریب گھر کی روٹی سے ہے نہ اس کے معاشی مسائل سے، نہ ان موضوعات میں کوئی دعوت، تقویٰ و تزکیہ کا پہلو ہے اور نہ غیر مسلموں کے لیے ان میں کوئی کشش۔ جب کہ جوڑا جہیز کا موضوع ایک ایسا سماجی موضوع ہے جس کا تعلق نہ صرف ہر مسلمان کے معاش ، اخلاق و کردار سے ہے بلکہ کروڑوں غیر مسلمین کے لیے اس میں اسلام کی دعوت پوشیدہ ہے۔جس میں مسلمان اور غیر مسلمین دونوں کی معاشی راحت کا سامان ہے ہمارے مقرر اور واعظ اس موضوع کو چھوتے بھی نہیں۔ اگر کچھ کہتے بھی ہیں تو نہ وہ گرج ہوتی ہے نہ مخالفین پر فائرنگ کا انداز ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ابا جان شریر بچے کو چمکار تے ہوئے کہہ رہے ہوں :

’’بیٹا بُری بات ہے اچھے بچے اس طرح شرارت نہیں کرتے‘‘۔

اور نہ قاضی صاحبان خطبے میں ان چیزوں کی ممانعت کرتے ہیں۔

ہوس بالائے ممبر ہے تجھے رنگیں بیانی کی

نصیحت بھی تری صورت ہے اک افسانہ خوانی کی

اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ وہ خود بھی اور ان کے اہل خاندان اور ان کے ساتھ ساتھ وہ تمام لوگ بھی جن کے چندوں سے مدرسے اور مسجدوں کی انتظامی کمیٹیاں چلتی ہیں اس جرم میں کسی نہ کسی حد تک شریک ہیں۔ ظاہر ہے جب کہنے والے کے ہاتھ خود خون میں رنگے ہوں وہ دوسروں پر انگلی کیسے اٹھا سکتا ہے۔

اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جوڑا جہیز ہی دراصل آج مسلمانوں کی ذلت و رسوائی کا اصل سبب ہے۔اس کی ذمہ داری سب سے پہلے دین کی نمائندگی کرنے والے طبقے پر ہے، اس کے بعد تعلیم یافتہ خوشحال مسلمانوں پر۔

 

فرار کے فلسفے

Philosophy Of Escapism

کوئی تو وجہ ہے کہ ایک طرف شریعت سے لوگوں کی محبت کا یہ عالم ہے کہ فروعی اختلافات پر ایک دوسرے سے نہ صرف بحث ، حجّت و تکرار بلکہ تکفیر اور بائیکاٹ تک کر سکتے ہیں بلکہ اپنی جماعت اور اپنا امام حتیٰ کہ مسجد تک الگ کر ڈالتے ہیں تو دوسری طرف کئی احکام بشمول جوڑا جہیز جن کا تعلق راست حلال و حرام سے ہے۔ جن کے تعلق سے قرآن و حدیث میں واضح احکامات موجود ہیں ان کو فروعی مسائل سے بھی کمتر کا درجہ دے کر فرار اختیار کرتے ہیں۔

ہالینڈ میں کوئی پیغمبرِ اسلام (صلی اللہ علیہ و سلم) کی تصویر بناتا ہے یا کوئی ناول لکھ کر توہینِ رسالت کرتا ہے تو  جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے جہاد کا اعلان کر ڈالتے ہیں تو دوسری طرف خود اپنے گھر میں اپنے عمل سے دانستہ طور پر پیغمبرِ اسلام کی اصل تعلیمات کو روند ڈالتے ہیں۔

ایک طرف اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے فقہی مسائل پر مبنی سوالات و جوابات پڑھیئے تو پتہ چلے گا کہ لوگ کس قدر دین سے محبت کرتے ہیں کہ معمولی سے معمولی بات بھی مفتی یا عالم صاحب سے پوچھے بغیر نہیں کرتے لیکن دوسری طرف وہ احکامات جن کا تعلق مفتی سے کم اور ضمیر سے زیادہ ہے جیسے رشوت، اسراف، جھوٹ، بد دیانتی، خیانت، عہد شکنی وغیرہ۔ ان معاملات میں ایسے ایسے جواز از خود پیدا کر لیتے ہیں کہ مفتی اور عالم بھی ان کا منہ دیکھتے رہ جائیں۔

ایک صاحب جو متشرّع ہیں داڑھی کو قینچی لگانے کے سخت خلاف ہیں صاحبِ جائداد ہیں کسی سے لی ہوئی رقم حسبِ وعدہ ادا کرنا نہیں چاہتے جب انہیں کہا جائے کہ جائداد گروی رکھ کر بنک سے یا کسی سے قرض لے کر اپنا عہد پورا کریں تو کہتے ہیں

’’سود کا کاروبار کرنے والے اللہ سے جنگ کرنے والے ہیں ہم اِس گناہ میں نہیں پڑنا چاہتے‘‘

انہیں نہ یہ فکر ہوتی ہے کہ عہد کی خلاف ورزی کرنے والا ایمان سے خارج ہو جاتا ہے (لا ایمان لہ لمن لا عہد لہ) اور نہ انہیں اس کی پروا ہوتی ہے کہ قرض دینے والا کن مشکلات سے گزر رہا ہے۔

سعودی عرب میں ہم نے دیکھا کہ کئی لوگ جب آفس میں ہوتے ہیں تو اذان کے ساتھ ہی کام چھوڑ کر اُٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ صرف نماز ہی نہیں بلکہ طہارت اور وضو بھی مکمل خشوع و خضوع سے کرتے ہیں۔ لیکن جب گھر پر یا دوستوں کے بیچ ہوتے ہیں تو اُنہیں نہ نماز یاد رہتی ہے نہ وضو۔ کئی حضرات تو رات رات بھر عمرہ ، طواف یا زیارتِ مدینہ میں وقت گزارتے ہیں لیکن فجر سے پہلے آ کر سو جاتے ہیں جبکہ ایک فرض نماز ہزار نفل عبادات پر بھی مقدم ہے۔

ان مثالوں کا حاصل یہ ہے کہ لوگوں کے نزدیک اسلام یا شریعت وہ ہے جو ان کے مزاج اور موڈ کے مطابق ہو۔ جو چیز ان کے مزاج یا سہولت کے خلاف ہوتی ہے اُس کے ثبوت میں یہ کوئی دلیل ماننے تیار نہیں ہوتے۔جہیز کا لین دین اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ کون نہیں جانتا کہ یہ معاشرے کی بدترین برائی ہے لیکن کوئی تو وجہ ہے کہ لوگوں نے اِسے گوارا کر رکھا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں حکمِ شرعی سے فرار کا وہ کیا جواز یا فلسفہ ہے جس کی بنیاد پر لوگوں نے اِس حرام کو حلال کر لیا ہے۔

فرار کے چھ فلسفے بہت معروف ہیں۔

1۔ قرآن و حدیث میں جوڑا یا جہیز کا نام لے کر کہاں منع کیا گیا ہے؟

2۔ جہیزِ فاطمی یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بھی تو حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو جہیز دیا تھا

3۔ ’’خوشی‘‘ سے دینے یا ’’خوشی‘‘ سے دیا ہوا لینے میں برائی کیا ہے؟

4۔ اگر نہ لیں تو لڑکی والے شک میں پڑ جاتے ہیں۔

5۔ کہنے والے کا کس جماعت ، کس عقیدے اور کس سلسلے سے تعلق ہے؟

6۔ یہ تو اکثریت کر رہی ہے۔

 

فرار کا پہلا فلسفہ

قرآن و حدیث میں جوڑا جہیز سے کہاں منع کیا گیا ہے ؟

لوگ اکثر یہ سوال کرتے ہیں کہ قرآن یا حدیث میں جوڑا جہیز وغیرہ کے بارے میں صراحتاً کہاں بیان ہوا ہے؟

جواب یہ ہے کہ نہ صرف قرآن و حدیث بلکہ سیرت رسول (صلی اللہ علیہ و سلم)، سیرت صحابہ اور سیرتِ اسلاف کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف جہیز بلکہ وہ تمام اخراجات جن کا بوجھ لڑکی کے والدین کو اُٹھانا پڑتا ہے وہ ان کے نزدیک حرام تھیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ان تفصیلات میں جائیں پہلے اس بات کی تحقیق کر لیں کہ لوگوں کے ذہن میں اس کے حرام یا ناجائز ہونے کے بارے میں شک کی نفسیات کیا ہے ؟ گویا خون اور سور کے گوشت کی طرح اگر ’جوڑا جہیز‘ کے بارے میں بھی واضح الفاظ میں قرآن میں حکم ہوتا تو وہ فوری مان لیتے اور ہرگز بحث نہ کرتے۔

خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں

ہوئے کس درجہ فقیہانِ حرم بے توفیق

جوڑا جہیز کو حلال کرنے والوں کی نفسیات سمجھنے کے لیے ہمیں یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے اس مزاج کا مطالعہ کرنا ہو گا جس کا قرآن نے تذکرہ کیا ہے۔

یہود و مشرکین کی تاویلیں

یہودیوں کے جرائم Crimes کا قرآن میں جگہ جگہ تذکرہ کیا گیا ہے۔ ان جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب کوئی حکم ان کی مرضی کے خلاف ہوتا تو اس سے فرار حاصل کرنے وہ اُلٹے سوالات کرنا شروع کر دیتے تاکہ کوئی تاویل نکل آئے۔جیسے:

» اللہ تعالیٰ نظر کیوں نہیں آتا ؟

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَۃً // البقرۃ:55

» اللہ کو چاہئے تھا کہ بادلوں کی شکل میں نمودار ہوتا تاکہ سب اُس پر بلا چوں و چرا ایمان لا لیتے۔

هَلْ يَنظُرُونَ إِلاَّ أَن يَأْتِيَهُمُ اللّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ // البقرۃ:210

» اللہ کو چاہئے تھا کہ قوم کے جو اعلیٰ سردار یا اہم افراد ہیں ان میں سے کسی کو نبی یا بادشاہ بنا کر بھیجتا یہ معمولی آدمیوں کو نبی ہم کیسے تسلیم کریں۔ہر قوم نے یہ اعتراض کیا۔ مثال کے طور پر ایک واقعہ پر غور کیجیئے

أَلَمْ تَرَ إِلَى الْمَلإِ مِن بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ // البقرۃ:246-247

» اگر ہم غلط ہوتے ، شرک یا حرام کے مرتکب ہوتے تو اللہ ہم کو مٹا نہ دیتا ؟ اللہ اور اس کے رسول کا صدقہ ہے کہ ہمارا عمل صحیح ہے ورنہ ہم سوسائٹی میں اتنے با عزت نہ ہوتے اور نہ ہمارے کاروبار میں اتنی برکت ہوتی۔ وغیرہ وغیرہ۔

سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ لَوْ شَاء اللّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلاَ آبَاؤُنَا وَلاَ حَرَّمْنَا مِن شَيْءٍ // الأنعام:148

» کیا ہمارے باپ دادا بے علم تھے جو تم ہم کو علم سکھانے آئے ہو۔

قَالُواْ أَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا وَتَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِيَاء فِي الأَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَكُمَا بِمُؤْمِنِين // يونس:78

» جب ان سے کہا جاتا کہ ایمان لاؤ اُس پر جو اللہ نے نازل کی ہے تو کہتے ہم تو اُسی طریقے کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے

وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنزَلَ اللّهُ قَالُواْ بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لاَ يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلاَ يَهْتَدُون // البقرۃ:170

» اور جب کھلے الفاظ میں بصراحت کوئی حکم آ جاتا تو پھر حیلے تراشنے لگتے اور ایسے ایسے سوالات کرتے جن  کا مقصد یہ ہوتا کہ بچنے کا کوئی جواز نکل آئے۔ مثال کے طور پر جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اسی زرد رنگ کی گائے کو ذبح کرنے کا حکم دیا جس کی انہوں نے پرستش شروع کر دی تھی تو موسیٰ (علیہ السلام) سے سوالات کرنے لگے کہا اللہ سے پوچھو کہ اس کا رنگ کیسا ہو، حالت کیسی ہو۔ اس کی مزید تفصیلات کیا ہیں۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَۃً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِين ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (البقرۃ:67-70)

» اسی طرح جب انہیں سنیچر کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کر دیا گیا تو انہوں نے نئی نئی ترکیبیں ڈھونڈیں تاکہ اللہ کا حکم بھی پور ا ہو جائے اور مچھلیاں بھی زیادہ سے زیادہ ہاتھ آئیں۔

واَسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَۃِ الَّتِي ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ // الأعراف:163

یہ وہی چال تھی جو آج جوڑا جہیز لینے والے اور دینے والے دونوں انتہائی معصوم بن کر چلتے ہیں۔

» اور جب موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے کہا کہ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ وادی کے دوسری طرف جو قوم آباد ہے اس سے آگے بڑھ کر جہاد کرو تو کہنے لگے کہ وہ تو بہت طاقتور قوم ہے ہماری اور ان کی طاقت کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اصرار کیا تو کہنے لگے تم اور تمہارا خدا جاؤ اور مِل کر لڑو ہم تو یہیں رہیں گے۔

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ اذْكُرُواْ نِعْمَۃَ اللّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنبِيَاء وَجَعَلَكُم مُّلُوكًا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(المائدۃ:20-24)

» جب مدینے میں دین کی دعوت پھیلنی شروع ہوئی تو یہودی جن کو اہلِ علم کے طور پر عزت کی نظروں سے دیکھا جاتا تھا ان کی وقعت کم ہونے لگی تو انہوں نے اسی طرح کے سوالات معصوم مسلمانوں کو سکھا کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے پاس بھیجنے لگے جیسے روح کیا ہے، تقدیر کیا ہے، اصحابِ کہف اور ذو القرنین کون تھے وغیرہ۔ ان سوالات کا مقصد یہ ہوتا کہ اگر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے جواب نہ دیا تو لوگوں کو یہ تاثر دیا جا سکے کہ محمّد (صلی اللہ علیہ و سلم) ایک اچھے نیک دل اور عبادت گزار انسان ہیں لیکن مذہب ، تاریخ، فلسفہ وغیرہ کے علم سے ناواقف ہیں۔ ورنہ روح، تقدیر وغیرہ جیسے سوالات کے جوابات صریحتاً بیان کر دیتے۔

آج بھی لوگوں نے یہودیوں کی طرح اس تاویل سے اپنے آپ کو مطمئن کر رکھا ہے کہ اگر جوڑا جہیز اور دوسری رسمیں واقعی غلط ہوتیں تو اللہ تعالیٰ قرآن میں یا اللہ کے رسول حدیثوں میں صاف الفاظ میں نام لے کر بیان کر دیتے۔ایسے لوگوں سے اگر یہ سوال کیا  جائے کہ مہر کے بارے میں تو صراحتاً قرآن اور حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے پھر کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کر دیا ہے تو پتہ چلے گا کہ مشکل سے دس فیصد ایسے لوگ ہیں جنہوں نے نقد مہر ادا کیا ہے۔ کئی تو ایسے ہیں جن پر اس حدیث کا اطلاق ہوتا ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کہ جس نے مہر ادا کرنے کا (ٹھوس) ارادہ نہ کیا وہ زانی کی موت مرا۔۔

آج کے خوشحال لوگوں کی تاویلیں

غریب اور متوسط طبقے کے افراد بات تو پھر بھی مان لیتے ہیں لیکن صاحبِ ثروت افراد کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جس کا ذکر قرآن میں یوں آ تا ہے کہ

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لاَ تُفْسِدُواْ فِي الأَرْضِ قَالُواْ إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُون أَلا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَـكِن لاَّ يَشْعُرُون وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُواْ كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُواْ أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاء أَلا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاء وَلَـكِن لاَّ يَعْلَمُون

(البقرۃ:11-13)

ترجمہ : جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد مت پھیلاؤ تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے لوگ ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لاؤ جیسے دوسرے لوگوں نے ایمان لایا ہے تو کہتے ہیں کیا ہم بھی بے وقوفوں کیطرح ایمان لے آئیں؟

بالکل اسی طرح یہ حضرات کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ زکوٰۃ خیرات بھر ادا کرتے رہو۔ نہ علماء کو ناراض کرو نہ جماعتوں کو، ان کی بھی مالی امداد کرتے رہو لیکن جہاں بات بڑی سوسائٹی میں اپنے نام کو باقی رکھنے کی ہو وہاں اللہ یا رسول کی باتیں مناسب نہیں ہوتیں اس لئے وہی عمل کرو جو بڑی سوسائٹی کو پسند ہے۔نہ یہ جہیز کے محتاج ہوتے ہیں نہ دعوت کے۔ پھر بھی جب ان سے اللہ اور اس کے رسول کے طریقے پر چلنے کے لئے کہا جائے تو ان کا رویہ وہی منافقانہ ہوتا ہے جیسے کہہ رہے ہوں میاں کیا ہم معمولی درجے کو لوگ ہیں جو اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی بغیر کسی دھوم دھام کے کر دیں ہم تو صاحبِ عزت لوگ ہیں۔ہم کو سوسائٹی کے تقاضوں کا پتہ ہے۔ آپ چونکہ سوسائٹی سے واقف نہیں اس لئے ایسی بیوقوفی کی باتیں کرتے ہیں۔بخدا یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن پاس خود رسول بھی چل کر آئیں تو یہ ان کی پوری پوری خاطر و مدارت کریں گے اور کچھ اعانت دے کر رخصت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن اپنے شادی بیاہ میں ان کے طریقے پر ہرگز نہیں چلیں گے کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر ہی لیں گے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ایسے مولوی اور ملّا مل بھی جاتے ہیں جو ان کے ہر عمل کو جائز کرنے والی دلیلیں فراہم بھی کر دیتے ہیں۔

وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّۃُ بِالإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَاد // البقرۃ:206

ترجمہ : اور جب اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو غرور اس کو گناہ میں پھنسا دیتا ہے سو ایسے کو جہنم سزاوار ہے جو بہت ہی برا ٹھکانہ ہے۔

یہ آیت ایسے ہی لوگوں کے رویّہ کی نشاندہی کرتی ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ یہ نماز نہیں پڑھتے یا روزوں کا انکار کرتے ہیں۔ ہر وہ عبادت جس میں انہیں مزا آئے جو ان کے موڈ اور سہولت کے مطابق ہو وہ برابر کرتے ہیں۔ ہر سال نفل عمرے ادا کرتے ہیں۔ لیکن جہاں شادی بیاہ کو موقعوں پر ہندو رسموں اور اسراف جیسے حرام سے بچنے کا سوال آئے یہ تاویلیں پیش کرتے ہیں اور اپنے ضمیر کی تسلی کے لیے کچھ خیر خیرات میں اضافہ کر جاتے ہیں۔

قیامت آئے گی تو دیکھا جائے گا

جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے اس کی سوچ بدل جاتی ہے۔ پیسہ جتنا زیادہ ہوتا جاتا ہے آخرت کے بارے میں وہ اتنا ہی جواز تلاش کرنے والا ہوتا جاتا ہے۔ جس طرح شہر کے بڑے لوگوں کی سوسائٹی میں اس کی آؤ بھگت ہوتی جاتی ہے اس کا رویّہ ایسے ہو جاتا ہے جیسے پہلے تو قیامت آئے گی نہیں۔ اور اگر ہو گی بھی تو اللہ اس کو اس سے بھی بڑی عزت سے نوازے گا۔ اس سوچ کا سورہ کہف میں یوں نقشہ کھینچا گیا ہے۔

وَاضْرِبْ لَهُم مَّثَلاً رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لأَحَدِهِمَا جَنَّتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَحَفَفْنَاهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَرْعًا كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ آتَتْ أُكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمْ مِنْهُ شَيْئًا وَفَجَّرْنَا خِلاَلَهُمَا نَهَرًا وَكَانَ لَهُ ثَمَرٌ فَقَالَ لِصَاحِبِهِ وَهُوَ يُحَاوِرُهُ أَنَا أَكْثَرُ مِنكَ مَالاً وَأَعَزُّ نَفَرًا وَدَخَلَ جَنَّتَهُ وَهُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ قَالَ مَا أَظُنُّ أَن تَبِيدَ هَذِهِ أَبَدًا وَمَا أَظُنُّ السَّاعَۃَ قَائِمَۃً وَلَئِن رُّدِدتُّ إِلَى رَبِّي لأَجِدَنَّ خَيْرًا مِّنْهَا مُنقَلَبًا (الكهف:32-36)

ترجمہ : اور ان سے دو شخصوں کا حال بیان کرو جن میں سے ایک کے لیے ہم انگور کے باغ کئے تھے۔ اور ان کے اطراف کھجور کے درخت لگائے تھے۔ اور ان کے درمیان کھیتی پیدا کر دی تھی۔ دونوں باغ (کثرت سے) پھل لاتے۔ اور اس میں کسی طرح کی کمی نہ ہوتی۔ اور دونوں میں ہم نے ایک نہر بھی جاری کر رکھی تھی۔ اور اس کو فائدہ ملتا رہتا۔ ایک دن جب وہ اپنے دوست سے باتیں کر رہا تھا کہنے لگا کہ میں تم سے مال و دولت میں زیادہ ہوں اور جتھے (سوسائٹی) کے لحاظ سے بھی زیادہ عزت والا ہوں۔ اور اپنے آپ پر (ان شیخیوں کے ذریعے) ظلم کرتا ہوا اپنے باغ میں داخل ہوا۔ کہنے لگا کہ میں نہیں سمجھتا کہ یہ باغ کبھی تباہ ہوں گے۔ اور نہ یہ سمجھتا ہوں کہ قیامت برپا ہو گی۔ اور اگر میں رب کی طرف لوٹایا بھی جاؤں تو (وہاں) ضرور اس سے اچھی جگہ پاوں گا۔

یہ تھا فرار کا پہلا فلسفہ کہ لوگ ثبوت میں قرآن اور حدیث میں جوڑا جہیز کے راست الفاظ سننا چاہتے ہیں۔۔

 

دوسرا فلسفہ

جہیز فاطمی

بڑھ کے خیبر سے ہے یہ معرکۂ دین و وطن

اس زمانے میں کوئی حیدر و کرار بھی ہے

نہ صرف علمائے اہل سنت و الجماعت بلکہ شیعہ علماء بھی بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ و سلم) نے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو رخصتی کے وقت جو چار چیزیں دی تھیں وہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) ہی کی زِرہ فروخت کروا کر اسی رقم میں سے مہر اور یہ چیزیں دی تھیں۔اس کی روایت امام احمد، امام حاکم اور نسائی نے کی ہے۔ لیکن جس طرح ایک چور بھوک کو جواز بناتا ہے لڑکی والے سماج کی مجبوری کو جواز بناتے ہیں اور لڑکے والوں کا یہ جواز ہے کہ

’’ہم نے کچھ نہیں مانگا ،ہم نے لڑکی والوں کی مرضی پر چھوڑ دیا تھا  انہوں نے جو کچھ دیا اپنی خوشی سے دیا‘‘۔

یہ سب جہیز فاطمی سے ضمیر کی تسلی کے لیے جواز نکال لیتے ہیں حالانکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی تین اور صاحبزادیاں بھی تھیں کوئی شخص جہیز زینبی یا جہیز ام کلثومی یا جہیز رقیہ کا حوالہ نہیں دیتا۔اور اگر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اُسی نیت سے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو جہیز دیا جس طرح آج ہم دیتے ہیں تو یہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) پر نا انصافی اور غیر مساوات کا ایک الزام ہے نعوذ باللہ۔ کیسے ممکن ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) دوسری بیٹیوں کو کچھ نہ دیتے اور صرف فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو دیتے؟

اگر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے نزدیک بیٹی کو وداع کرنے سے پہلے کچھ دینا یا داماد کا سسر سے کچھ نہ کچھ خوشی سے لینا امت کے حق میں بہتر ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنی ساری بیٹیوں کی رخصتی پر کچھ نہ کچھ ضرور دیتے جب کہ پہلی دو صاحبزادیوں کی شادی کے وقت تو حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) یعنی ان کی والدہ زندہ تھیں اور مالدار بھی تھیں۔حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) کا نکاح حضرت ابو العاص بن ربیع (رضی اللہ عنہ) سے اور حضرت رقیّہ (رضی اللہ عنہا) کا نکاح حضرت عثمان بن عفّان (رضی اللہ عنہ) سے ہوا تھا۔ حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) کو انہوں نے اپنا ہار دے دیا تھا لیکن یہ واقعہ نبوت سے بھی کافی پہلے کا ہے۔ ہو سکتا ہے گھر کی پہلی بیٹی جب وداع ہو رہی ہو ، دلہن کے کپڑوں میں سج رہی ہو ، ایسے وقت میں ماں کی ممتا امڈ آئے اور ماں نے اپنا ہار پہنا دیا ہو لیکن اس کو جہیز سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ ورنہ جہیز ہوتا تو حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) باقی بیٹیوں کو بھی ضرور کچھ نہ کچھ دیتیں۔

جہیز وہ لے جو سسر کا پالا ہوا ہو

اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے جو تکیہ ، چادر ، چکی اور مشک (پانی کی صراحی) یہ چار چیزیں دیں تھیں وہ جہیز ہی تھا تو یہ جہیز آج کے لڑکے والوں کے لیے اور بھی معیوب ہے۔ حضرت علی کو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے گود لیا تھا اور اپنے بیٹے کی طرح پالا تھا کیوں کہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے والد ابوطالب حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے بچپن میں ہی انتقال فرما گئے تھے۔ آپ کے دوسرے بھائی حضرت جعفر بن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کی حضرت عباس بن عبدالمطلب (رضی اللہ عنہ) نے کفالت اپنے ذمے لے لی تھی۔ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا نہ ذاتی گھر تھا نہ کوئی ساز و سامان۔ جب آپ (رضی اللہ عنہ) کے نکاح کی بات آئی تو ایک صحابی حضرت حارث بن نعمان (رضی اللہ عنہ) نے بخوشی اپنی سعادت سمجھتے ہوئے اپنا ایک گھر حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو رہنے کے لیے پیش کر دیا۔۔

جب یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے بھی کفیل تھے تو حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی ضرورتوں کی تکمیل بھی آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کاہی اخلاقی فرض تھا جو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نبھایا۔اگر آپ نے تکیہ، چادر اور صراحی دی ہو گی تو اس لئے دی ہو گی کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اچھی طرح علم تھا کہ یہ حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے ہاں پہلے سے موجود نہیں تھیں۔ اس سے جہیزِ فاطمی کا جواز اِس طرح تو نکل سکتا ہے کہ اگر کوئی داماد یتیم ہو اور اپنے سسر کا پالا پوسا ہو تو  اس کے لئے جائز ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آج ہر وہ دلہا جو لاکھوں کا نقد اور جہیز لے رہا ہے کیا وہ اپنے سسر کا پالکڑا ہے؟۔ کیا وہ یتیم ہے ؟ اگر نہیں تو جہیز فاطمی ان کے لیے جواز نہیں بنتا بلکہ اُن کی خود داری کے خلاف پڑتا ہے۔

حضرت علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی شادی

تقریباً سبھی علماء کرام نے اس واقعہ کی تفصیلات بیان کی ہیں ، کہ جس وقت حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) شادی کی عمر کو پہنچ چکیں ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) اور دوسرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کی نسبت مشورہ کیا اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کو یہ رشتہ پیش کیا۔

علی (رضی اللہ عنہ) نے جب مہر اور دیگر سامان جہیز فراہم کرنے کے لیے اپنی عدم استطاعت بیان کی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے مشورہ دیا کہ اپنی زِرہ بیچ دیں جو کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ہی انہیں تحفے میں دی تھی۔ آپ (رضی اللہ عنہ) زرہ لے کر حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان فرمایا۔

حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ) نے اس زرہ کے چار سو درہم پیش کیے اور جاتے وقت وہ زرہ اپنی طرف سے آپ کو از راہ محبت تحفے میں دے دی۔ مہر اور دیگر سامان کی کل قیمت 480 درہم بنتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے باقی رقم اپنی طرف سے ڈالی۔

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے سامنے بات رکھی آپ (رضی اللہ عنہا) حیا سے سرخ ہو گئیں اور گردن جھکا لی جو کہ آپ کی اپنے والد کے فیصلے پر خوشی سے رضا مندی کی علامت تھی ، پھر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حضرت اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا) کو کچھ درہم دئیے اور فرمایا ’’’جھز‘‘ یعنی تیاری کرو انہوں نے دلہن کو تیار کرنے جو بھی سامان سنگار ہوتا ہے وہ خریدا اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو تیار کیا۔

عصر کی نماز کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے قریب میں رہنے والے چند صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو بلوا لیا اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے نکاح کا اعلان فرمایا اور خطبہ دیا پھر حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) و اُم سلمہ (رضی اللہ عنہا) کو حکم دیا کہ علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے ساتھ ان کے نئے گھر تک جاؤ اور فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کو چھوڑ آؤ۔(ابن ماجہ)۔ بعض روایت میں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے بجائے ام ایمن (رضی اللہ عنہا) کا نام ہے۔ اس موقع پر لڑکیوں نے دف پر گیت بھی گائے ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے منع نہیں کیا۔

کھجور بانٹنا سنت ہے

ابن ماجہ کی رویت ہے کہ اِس نکاح کے موقع پر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کھجور منگوائے اور تقسیم کئے۔ قربان جائیے اس امت کے بھی کہ اس سنت کو بھی آج تک گلے سے لگائے ہوئے ہے۔ آج بھی کسی نکاح کی تقریب کا کھجور کے بغیر انعقاد ناممکن ہے۔ اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ایسی چھوٹی چھوٹی سنّتوں سے بھی اتنی محبت کرنے والی امت منگنی، پاؤں میس، طعام بروزِ نکاح، جہیز، جوڑے کی رقم وغیرہ لیتے وقت یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ یہ چیزیں اپنے محبوب (صلی اللہ علیہ و سلم) کی سنت نہیں بلکہ اس مشرک قوم کی سنّت ہیں جس سے اللہ اور اس کے محبوب (صلی اللہ علیہ و سلم) کی جنگ ہے۔

ہے نا عجیب شادی !

» کتنی عجیب مثالی شادی ہے۔ نہ تو بارات ہے اور نہ ہی باراتی۔ہماری معمولی سے معمولی تقریب میں بھی اس سے کہیں زیادہ افراد جمع ہو جاتے ہیں۔

» صحابہ (رضی اللہ عنہم)نے کیا کیا قربانیاں نہیں دیں ، مکّہ میں اپنے گھر بار اور کاروبار سب کچھ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی خاطر چھوڑ آئے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو چاہئے تھا کہ سب کو دعوت دیتے ایک وقت کا کھانا کھلاتے اور پھر آخری بیٹی کی رخصتی تھی۔ سب کو دعوت نہیں دے سکتے تھے تو کم از کم اتنا تو کر سکتے تھے کہ اہم ترین صحابہ (رضی اللہ عنہم) ہی کو پہلے سے دعوت دے کر بلا لیتے ؟

» یا کم از کم ان سردارانِ قبائل کو ہی بلا لیتے جو مسلمانوں ، مشرکوں اور یہودیوں میں سے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اس طرح تو Status Quo قائم رکھنا چاہئے تھا۔

» بیٹی ایک خالی مکان میں جا رہی تھی۔ داماد کا کوئی ذریعہ روزگار نہیں تھا۔ کم از کم گھر کی دوسری اہم ضروریات کی چیزیں تو دینا ہی چاہئے تھا۔

» حضرت علی (رضی اللہ عنہ) تو کم از کم اپنے دوستوں کو بلاتے ، کچھ تو دکھاتے کہ خوشی کی تقریب کسے کہتے ہیں۔

» کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ سب اس لیے نہیں کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) بہت تنگدست تھے ؟ کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو کوئی قرض دینے والا بھی نہیں تھا ؟ کیا بیٹی کے چچا ، ماموں ، پھوپھا وغیرہ اس قابل نہ تھے کہ آگے بڑھ کر داماد کو کچھ تحفتاً ہی دے دیتے؟

» کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور دوسرے صحابہ کرام (رضی اللہ عنہم) سوسائٹی سے ناواقف تھے ؟ جیسے آج ہم ہیں ہمارے پاس سلیقہ ہے کیا اُس وقت نہیں تھا؟

» آج ہم سوسائٹی ، کلچر اور خاندانی عزت کے نام پر جو کچھ کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ان چیزوں سے منع فرمایا ہے۔ کیا ہم اپنے رویئے سے یہ ثابت نہیں کرتے کہ رسول کلچرڈ نہیں تھے لیکن ہم کلچرڈ ہیں۔ عزت اس طریقے میں نہیں جس طریقے سے رسول نے اپنی بیٹی کو وداع کیا بلکہ عزت اس طریقے میں ہے جس طریقے سے ہم اپنی بیٹیوں کو وداع کرتے ہیں۔ رسول کی سوسائٹی معمولی سوسائٹی تھی ہماری سوسائٹی اعلیٰ سوسائٹی ہے۔علی (رضی اللہ عنہ) ایک گمنام نوجوان تھے جن کو سوسائٹی میں کوئی جانتا نہیں تھا اسی لئے کسی نے ان کی شادی میں نہ شرکت کی اور نہ دعوت کا ماحول بنایا لیکن ہمارا نوشہ ایک ہردلعزیز نوجوان ہے۔ اچھے لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے والا ہے۔ بے شمار اس کے جاننے والے ہیں۔ ان تمام کی شرکت کے بغیر شادی کا تصور بھی ناممکن ہے۔

» کیا آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بیٹی سے محبت نہیں تھی۔

» کیا حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے سر پر بڑی بزرگ خواتین کا سایہ نہیں تھا جو ان کی شادی کا ارمان پورا کرتیں۔

بلا شبہ آپ کہیں گے ایسا نہیں تھا ، لیکن آج کی ہر شادی کی تقریب چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ ایسا ہی تھا۔ بیٹی کی رخصتی کسے کہتے ہیں یہ رسول اللہ کو معلوم نہیں تھا لیکن ہمیں معلوم ہے۔ ہو سکتا ہے علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے کوئی رشتے دار نہ ہوں لیکن ہمارے بیٹے بیٹیوں کے سارے بڑے جب تک موجود ہیں نہ کوئی دلہن خالی ہاتھ جائے گی اور نہ کوئی دلہا خالی ہاتھ جائے گا چاہے اس کے لیئے گھر فروخت یا رہن کرنا پڑے چاہے چندہ مانگنا پڑے یا قرض لینا پڑے۔ ہمارے گھر کی شادی ہے کوئی علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی نہیں جو معمولی طریقے سے ہو گی۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے زیادہ ہمیں معلوم ہے کہ بیٹی کا بھی حق ہوتا ہے۔ بیٹی ایک بوجھ نہیں بلکہ ہماری جان ہے اس کے لیے تو ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اگر لڑکی غریب ہے تو ہمارے پاس اتنا دم ہے کہ دونوں طرف سے کر کے لے جا سکتے ہیں لڑکی لاوارث نہیں ہے جب تک ہمارے بڑے بزرگ زندہ ہیں ان کا ہر ارمان پورا ہونا چاہئے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ سب کیوں نہیں کیا ؟ یہ ہم اگلے صفحات پر غور کریں گے۔۔

» اپنی عزت کا خیال رکھنے والا ہر وہ شخص جو کئی کئی قسم کے گوشت ، بریانی اور میٹھوں کے دستر سجاتا ہے کیا وہ درحقیقت رسول اللہ کا مذاق نہیں اڑا رہا ہے کہ وہ نادار اور مفلس تھے اس لیے انہوں نے جواری کی روٹی اور دودھ کے پیالوں پر ولیمہ کیا لیکن ہم مالدار اور عزت دار لوگ ہیں ؟ عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) اور عبدالرحمان بن عوف (رضی اللہ عنہ) ہو سکتا ہے ہماری طرح امیر رہے ہوں لیکن ان کے کلچر اور ہمارے کلچر میں فرق ہے ؟

» اس حدیث کے پیش نظر کہ :

’جب کسی فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ کا عرش غضب سے ہل جاتا ہے‘ کیا ایسی دعوتیں کھا کر ان کا تذکرہ یا تعریف کرنے والے لوگ فاسقوں کی تعریف کرنے والے نہیں کہلائیں گے جو بین السطور دراصل یہ کہتے ہیں کہ فلاں نے تو رسول اور صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی دعوتوں سے بھی کہیں زیادہ بہتر دعوت کی ؟

» دلہن والوں کی طرف سے بھیجی گئی پھولوں سے سجی کار میں بیٹھ کر آنے والے بے غیرت دلہے کیا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کا مذاق نہیں اڑاتے جن کے لیے نہ گھوڑا بھیجا گیا تھا نہ خچر۔؟

 

تیسرا فلسفہ

خوشی سے دینے اور لینے میں بُرائی کیا ہے ؟

وہ کچھ اور شئے ہے محبت نہیں ہے

سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

فرار کا یہ تیسرا فلسفہ انتہائی موثر اور منطقی Effective & Logical ہوتا ہے۔ جس کے آگے بڑے بڑے متشرع ، باریشBearded دیندار بزرگ بھی ہتھیار ڈال دیتے ہیں۔جواز یہ ہوتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تحفے دینے اور تحفے خوش دلی سے قبول کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔

(تهادوا تحابوا ۔ حدیث)

اس لیے اگر کوئی ماں باپ اپنی بچی کی رخصتی پر تحفتاً کچھ دیتے ہیں تو اس میں برائی کیا ہے ؟ برائی اس وقت ہوتی جب لڑکے والے مانگتے۔ زمانے کے رواج کے مطابق لڑکے کے معیار کو سامنے رکھتے ہوئے لڑکی والے اگر اپنی خوشی سے کچھ دے دیں تو نہ لڑکے والوں کے ضمیر پر بوجھ رہتا ہے نہ گناہ کا احساس۔

کتنا بڑا دھوکہ ہے جو ہم ایک دوسرے کو دے رہے ہیں ؟ ہر شخص جانتا ہے کہ اس دور میں کماتے کماتے آدمی ٹوٹ جاتا ہے۔ایک بیٹی یا بہن کی شادی کر کے کئی سال پیچھے ہو جاتا ہے۔کیا واقعی یہ سب ’خوشی‘ سے ہوتا ہے ؟ ایک بھائی جو اپنے خون پسینے کی کمائی جو کہ اس کے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے کام آسکتی ہے۔ جوڑے ، جہیز ، منگنی ، باراتیوں کی ضیافت وغیرہ میں ہر گز نہ چاہتے ہوئے بھی مجبوراً خرچ کرتا ہے اور پھر سے صفر پر آ جاتا ہے۔ لیکن یہی شخص اپنی باری میں کسی دوسرے باپ یا بھائی کو وہی حالات سے دوچار کرنا اپنا جائز حق سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اُسے بھی ’خوشی‘ سے ہی دیا جا رہا ہے اس طرح معاشرہ کا ہر فرد خود فریبی Self Deception میں مبتلا ہے۔دونوں فریق ایک دوسرے کو ’’خوشی‘‘ سے دینے کے نام پر پوری  دانستگی کے ساتھ ایک دوسرے کو دھوکے میں رکھتے ہیں۔

لطیفہ یہ ہے کہ سارا کاروبار ’’خوشی‘‘ سے دینے لینے کے نام پر ہوتا ہے اس کے باوجود جب دونوں فریق شادی کی بات چیت کے لئے مل بیٹھتے ہیں سامانِ جہیز ، نقد رقم ، باراتیوں کی تعداد وغیرہ پر خوب بحث ہوتی ہے۔لڑکے والے ایک طرف یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بھی دینا ہے اپنی خوشی سے دیجیئے دوسری طرف پلنگ، بستر، زیور وغیرہ کی فہرست پر تکرار بھی کرتے ہیں۔ اور لڑکی والوں کا حال وہی ہوتا ہے جو کسی بچے کے اغوا ہو جانے پر اُس کے ماں باپ کا ہوتا ہے۔ اغوا کنندگان Kidnappers کے ہر مطالبے کو خوشی سے ماننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ یہ اس دور کی مہذب بلیک میلنگ ہے۔ ان ’’خوشی‘‘ سے جو چاہے دیجیئے کہہ کر لینے والوں کو دیکھ کر وہ بے شمار لوگ یاد آتے ہیں جو معاملے کے شروع ہونے سے پہلے تو کہتے ہیں ’’جو چاہے خوشی سے دے دیجیئے‘‘۔ لیکن بعد اپنی اصلیت پر اتر آتے ہیں اور آخر میں دینے والے کی خوشی نہیں چلتی بلکہ لینے والا اپنی خوشی منوا کر رہتا ہے۔

جیسے آپ نے دیکھا ہو گا کہ کسطرح آٹو رکشا والے، اسٹیشن پر سامان اٹھانے والے قُلی، اڈّے کے مزدور ، پیشہ ور عورتیں، رشوت کھانے والے تمام حضرات چاہے وہ پولیس والے ہوں کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والے جہاں آپ کا معاملہ اٹکا ہو۔ یہ تمام لوگ پہلے تو انتہائی خود داری اور خوش اخلاقی سے یہی کہتے ہیں کہ ’’آپس کا معاملہ ہے آپ جو چاہے خوشی سے دے دیجیئے‘‘۔

بعض تو یہ تک کہتے ہیں کہ ’’آپ نہ بھی دیں تو کوئی بات نہیں اللہ کا دیا بہت کچھ ہے‘‘۔ لیکن ایک بار جب ڈیل ہو جائے پھر یہ اپنی حرص اور بے غیرتی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے بالکل نہیں شرماتے۔لڑکے والے بھی بالکل اسی طرح پیش آتے ہیں۔۔

خوشی سے دینے کی شرعی حیثیت آگے باب ’’ہدیہ کب رشوت شمار ہوتا ہے‘‘ میں ملاحظہ فرمایئے۔

 

پانچواں فلسفہ

کہنے والا کس عقیدے ، جماعت یا مسلک سے تعلق رکھتا ہے؟

ایک ایسے دور میں جبکہ عصبیت رگ و پے میں سرایت کر چکی ہے۔ ہر شخص کی ایک دوسرے کے بارے میں رائے قائم کرنے کی کسوٹی اسلام ، مسلمانیت یا انسانیت نہیں بلکہ ملک، زبان، قبیلہ ، کلچر، سلسلہ، جماعت، عقیدہ، مسلک اور ذات ہے، جوڑا جہیز کے مرتکب کسی بھی شخص کو جب بھی حلال و حرام کی طرف توجہ دلائی گئی گویا کسی نے اس کی دم پر پاوں رکھ دیا۔ بجائے اپنا گناہ تسلیم کرنے کے اس نے پلٹ کر کہنے والے کے عقیدے، جماعت ، سلسلے اور مسلک پر سوال کھڑے کرنے شروع کر دیئے۔ گویا تا وقتیکہ ان کے اپنے امیر، مرشد، استاذ یا قائد اِسے حرام قرار نہیں دیں گے وہ کوئی حلال یا حرام ماننے تیار نہیں۔

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

ایسا بھی نہیں ہے کہ ان کے رہنما جن چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں وہ ان سے واقعی رک جاتے ہیں۔ یہ تو ان سے بھی مذاق کرتے ہیں۔ یہ اپنے مفادات کے لئے تو اپنے بھی رہنماؤں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ لیکن پھر بھی ان رہنماؤں سے جڑے رہتے ہیں اور وفاداری کا ثبوت کسی اور طریقے سے دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ عہدِ حاضر میں جماعتوں، سلسلوں اور مدرسوں کی ترجیحات میں عقائد کی جنگ، عبادات و رسومات میں غلو، فروعی فقہی مسائل اور عوامی رابطے تو ضرور ہیں لیکن صحیح اسلام نظام کا قیام ان کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں۔ اگر ہے بھی تو ثانوی ہے۔

کہیں طریقت بے پناہ ہے تو شریعت محدود ہے اور کہیں سارا زور شریعت پر ہے تو طریقت کا مکمل انکار ہے۔

کہیں عمل سے محبت اور علم سے بیر ہے تو کہیں علم ہی علم ہے عمل ندارد۔ کسی نے عقلیت Rationalism کا عَلم اٹھا کر ہر معجزہ اور کرامت سے انکار کر دیا تو کسی نے دین کو دیومالائی خرافات میں ضم کر دیا۔

کسی نے قرآن کی بالا دستی کو قائم کرنے کے لئے حدیث کو غیر ضروری قرار دے دیا تو کسی نے ہر ہر حدیث کو قرآن کا درجہ دے دیا۔

کسی نے احمد ہی کو احد قرار دے دیا تو کسی نے نبی کو عام انسانوں کی طرح صرف ایک بشر کہہ دیا۔

کسی کے نزدیک شفاعت اور وسیلہ کا تصوّر اس قدر طاقتور ہے کہ منکرات سے خبردار کرنے والی ہر حدیث اور ہر آیت ان کے نزدیک ایک بچوں کو ڈرانے والی بات سے زیادہ نہیں اور کسی کے نزدیک عمل کا تصوّر اتنا زیادہ طاقتور ہے کہ اللہ کی کریمی ، رحیمی، شفاعت اور وسیلہ کا کوئی وجود نہیں۔

کہیں تشدّد آمیز جہاد اور قتال کا نعرہ ہے تو کہیں جہاد ممنوع ہے۔

کسی جماعت کا خدا دوسری جماعت کے خدا کو خدا تسلیم کرنے تیار نہیں۔

ہر جماعت کا خدا دوسری جماعت کے ماننے والوں کو واصلِ جہنم کرنے پر تُلا ہوا ہے۔

اس دور کو دورِ غلو کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ہر ہر جماعت ، سلسلے، مسلک اور نظریئے نے چند آیاتِ قرآنی اور چند احادیث کو تھام کر اصل دین کا نام دے دیا ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی علم اور عمل ہے ان کے نزدیک وہ غیر دین ہے۔ کسی مِزاح نگار نے کیا خوب کہا ہے کہ :

’’علماء حق کی تعریف یہ ہے کہ وہ علماء جو ہماری جماعت اور ہمارے عقیدے سے تعلق رکھتے ہوں یا اس کی تائید کرتے ہوں۔ ان سے ہٹ کر جتنے علماء ہیں وہ علماء سوء ہیں۔‘‘

جیسے کہ مرحوم ڈپٹی نذیر احمد مرحوم نے فرمایا کہ :

جتنے نبی آئے وہ اپنے وقت کے سوشیل ریفارمر پہلے تھے۔ اپنے وقت میں جو بھی سوشیل ریفارم کا کام کرے گا وہ دراصل نبیوں ہی کے مشن پر کام کرے گا۔

اس بُرائی کا مٹنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک کہ جماعتوں اور سلسلوں کے ذمہ دار خود اس بُرائی کے خلاف نہ اٹھیں کیونکہ ان کے ماننے والے اس وقت تک کسی چیز کو اہم نہیں سمجھتے جب تک ان کے پیشوا اس چیز کو اہم نہیں سمجھتے۔ وہ کسی ایسے شخص کی بات نہ سننا چاہتے ہیں نہ سمجھنا چاہتے ہیں جو ان کی جماعت اور عقیدے سے تعلق نہیں رکھتا۔

 

چھٹا فلسفہ

اکثریت

عمل سے فرار کا سب سے اطمینان بخش جواز اکثریت کا بہانہ ہے۔

جب سبھی غلط کر رہے ہوں تو انہی میں شامل ہو کر ضمیر کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ صحیح بھی غلط نظر آتا ہے۔ یہ ایک ایسا نفسیاتی مسئلہ Psychological problem ہے کہ آدمی کو اکثریت کے طریقے سے ہٹ کر کرنے میں جھجھک اور خوف آتا ہے۔ وہ اکثریت کے آگے احساسِ کمتریInferiority complex میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس Syndrome سے باہر نکلنے کے لئے آدمی کو بہت بڑے حوصلے کی ضرورت ہے۔ اور اس سے کہیں زیادہ اہم یہ کہ اُسے باہر نکلنے کے لئے خواہش Willingness بھی ہو۔ اُسے یہ شعور بھی ہو کہ وہ ایک غلط کام کر رہا ہے۔

علامہ اقبال نے اِسی کو ’’احساسِ زیاں‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ فرماتے ہیں

وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

جوڑا جہیز کو مٹانے کے لئے سب سے بڑی رکاوٹ یہی اکثریت کا بہانہ ہے۔ لوگ اتنے بزدل ہیں کہ ایک طرف اقرار تو کرتے ہیں کہ یہ غلط ہے اِسے مٹانا چاہئے لیکن جب وقت آتا ہے تو منہ موڑ جاتے ہیں۔ اور ایسا رویّہ اختیار کر لیتے ہیں جیسے کہ بنی اسرائیل نے موسیٰ کے ساتھ کیا کہ

’’تم اور تمہارا خدا مل کر لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں‘‘۔

یہ لگتا ہے یوں کہہ رہے ہوں کہ تم اور تمہارے رسول جا کر علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) جیسی شادی کر لو ہم تو اپنا کلچر نہیں چھوڑ سکتے۔ ورنہ اکثریت ہمارے خلاف ہو جائے گی۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ نے بھی کئی جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو جس نفسیاتی خطرے سے خبردار کیا ہے وہ یہی اکثریت سے مرعوبیت کا خطرہ ہے۔

لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَد // آل عمران:196

مطلب یہ ہے کہ اے پیغمبر، شہر میں یہ جو اعلیٰ شہری کہلاتے ہیں اور ان کی روش انکار کرنے والوں کی روش ہے۔ ان کی چلت پھرت، طور طریق آپ کو کہیں احساسِ کمتری میں نہ ڈال دے یا یہ کہ مرعوب نہ کر دے۔

یہ بڑے لوگ عام لوگوں کے سامنے اپنے گھر کی شادیوں میں ہی نہیں بلکہ زندگی کے کئی دوسرے شعبوں میں بھی ایسا ماڈل پیش کرتے ہیں کہ عام آدمی کے دل میں اُسی کو اپنانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے آدمی اس کو ترقی اور اعلیٰ سوسائٹی کی نشانی سمجھتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو رنجیدہ ہو جاتا ہے۔ اسی چیز سے اللہ تعالیٰ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بھی با خبر کر رہے ہیں کہ

وَلاَ يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّواْ اللّهَ شَيْئاً يُرِيدُ اللّهُ أَلاَّ يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الآخِرَۃِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم // آل عمران:176

ترجمہ :

آپ کو رنجیدہ نہ کر دے ان (اعلیٰ سوسائٹی کے)کفر کرنے والوں کی ترقی جو کفر میں جلدی کرتے ہیں۔ یہ اللہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اللہ چاہتا بھی یہی ہے کہ آخرت میں انہیں کچھ حصہ نہ ملے۔ (جو بھی خوشیاں یہ یہاں منانا چاہتے ہیں منا لیں)۔

جب پیسے کی افراط ہو تو آدمی یہ سمجھتا ہے کہ اس پر اللہ کی خاص رحمت ہے لہذا جو کام بھی وہ کر رہا ہے وہ اللہ ہی کی مرضی سے کر رہا ہے۔ اگر اس کام میں گناہ کا احساس بھی ہو تو وہ اپنی طرف سے خود ہی اللہ کی رحمت کا حقدار بن جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کچھ خیرات و انفاق کر کے بچ کر نکل جائے گا۔ یہی روش پھر اکثریت اپنانے لگتی ہے۔ مینڈھوں اور بکریوں کی طرح ہر شخص ایک دوسرے کی تقلید بلکہ سبقت حاصل کرنے کی کوشش میں لگ جاتا ہے۔۔

اکثریت کبھی انقلاب نہیں لاتی

جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب دوسرے سارے بدل جائیں گے تو ہم بھی بدل جائیں گے وہ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں۔ انقلاب کا راستہ باہر سے اندر نہیں اندر سے باہر جاتا ہے۔ جب تک آپ خود نہیں بدلیں گے کوئی نہیں بدلے گا۔ اب ایسی کوئی آسمانی طاقت نہیں جو ایک آن میں تبدیلی لادے۔ اس تبدیلی کا راستہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے گھر کی شادی مکمل اسلامی شریعت کے مطابق کرے، یہ دیکھ کر اس کے اپنے خاندان والے، دوست احباب اور ان کے ساتھ وہ غیر مسلم جو اس کے ساتھ کام کرتے ہیں یا اس بستی میں رہتے ہیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے کہ اکثریت کے خلاف جانے کی ہمت ایک آدمی میں تو ہے۔ پھر ہر مسلمان اپنی زبان سے بھی جوڑا جہیز کے خلاف اٹھ جائے اور ایسی تمام شادیوں کا بائیکاٹ بھی کرے جہاں یہ حرام جائز کر لیا گیا ہے۔ خود بخود انقلاب کے راستے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اکثریت یقیناً کبھی نہیں بدلے گی لیکن سب سے بڑی کامیابی یہی ہے کہ لوگوں کے دلوں میں کانٹے چبھ جائیں۔ جو لوگ آج جوڑا جہیز لینے پر مصر ہیں کل یہی لوگ اپنی اولاد کی شادی وقت اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہوں گے۔

اکثریت کا سہارا ڈھونڈھنے والے کم از کم اس بات کا اطمینان کر لیں کہ ان کی آخرت کیا اکثریت کا جواز پیش کرنے پر کامیاب ہو جائے گی؟ اگر وہ اس لئے معاف کر دیئے جائیں گے کہ اکثریت بھی وہی کرتی تھی تو پھر ایسی شریعت پر چلنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔

خدا کے پاک بندوں کو حکومت میں غلامی میں

زِرہ کوئی اگر محفوظ رکھتی ہے تو استغنا

 

جوڑا جہیز علماء دین کی نظر میں

1) مولانا ابوالحسن علی ندوی (رحمۃ اللہ علیہ) :

لین دین مطالبہ یا فرمائش کے ذریعہ ہو کہ تلک ، گھوڑے جوڑے یا جہیز کے نام پر۔ اس کو معروف و متداول کی اصطلاح سے تعبیر کر کے جائز کر لیا گیا ہے۔ یہ ایک جھوٹ اور شریعت کی غلط تعبیر ہے جو مالی و اقتصادی منافع کے حصول کی خاطر کی جاتی ہے۔ یہ ہندو معاشرے کی تقلید ہے۔ اگر مقاصدِ شریعت ، اللہ و رسول کے منشا اور اسلام کے نظام عدل کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو یہ خلافِ اسلام ، خلافِ انسانیت اور تمدن و معاشرہ کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہے ، ضرورت ہے کہ ان مقالات کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جائے۔

اصلاح و تربیتی کام کرنے والے علماء ، ائمہ و خطباء اس کو اپنا موضوعِ تقریر و تحریر بنائیں اور مجالس و تقریبات میں اس کو اپنے اپنے انداز میں پیش کریں اور عہد لیں کہ لوگ اس رسمِ قبیح سے نہ صرف خود احتراز کریں گے بلکہ اگر ضرورت ہو تو اس کے خلاف دستخطی مہم اور تحریک چلائیں گے یہاں تک کہ خود لڑکی کے سرپرستوں اور اولیاء کی طرف سے پیش کش ہو تب بھی اس کو قبول نہ کریں گے۔ یہ تحریک مسلم معاشرے کی حفاظت کے لیے وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے اور اس میں کوتاہی و غفلت بڑے خطرات کا پیش خیمہ اور خدا اور رسول کی ناراضگی کا ذریعہ ہے۔

وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِيبَنَّ الَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنكُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب

الأنفال:25

ترجمہ: اور ایسے فتنے سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہی لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گناہگار ہیں اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے۔

5 نومبر 1986 ء یکم ربیع الاول 1407 ھ

پیش لفظ برائے : ’جہیز یا نقد رقم کا مطالبہ شرعی احکام کی روشنی میں‘

مصنف : مولانا محمد برہان الدین سنبھلی

2) مولانا مجاہد الاسلام قاسمی (رحمۃ اللہ علیہ) :

1996ء میں جدہ میں سوشیل ریفارم کمیٹی کی جانب سے انسدادِ جوڑا جہیز کی ایک سہ ماہی مہم چلائی گئی تھی۔ مولانا اُس وقت اتفاقاً جدہ تشریف لائے ہوئے تھے۔ محلہ عزیزہ میں منعقدہ ایک جلسے کو مخاطب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا:

’یہ ایک سوشیل بلیک میل ہے۔ خوشی سے دینا اور قبول کرنا مطالبے یا فرمائش سے حاصل کرنے سے کہیں زیادہ خطرناک کاروبار ہے کیوں کہ اس میں مکر کا پہلو ہے۔ اگر لڑکا لینا نہ بھی چاہے تو لڑکی والے زبردستی اس لیے بھی دیتے ہیں کہ بعد میں لڑکی اور اس کے ماں باپ کو حقیر نہ سمجھا جائے۔ جو لوگ خوشی سے دیتے ہیں وہ نادار اور غریب لڑکیوں کے لیے مشکلات کھڑی کر دیتے ہیں ، میرے نزدیک اصل مجرم خوشی سے دینے والے ہی ہیں‘۔

نومبر 1996ء

3) مفتی خلیل احمد۔ شیخ الجامعہ نظامیہ ، حیدرآباد

آج کل معاشرہ میں جو خرابیاں عام ہو گئی ہیں ان میں گھوڑا جوڑا اور جہیز کا مطالبہ اور شادی بیاہ کے موقع پر بعض بے جا تکلفات بھی ہیں۔ جن کی وجہ سے غریب بلکہ متوسط طبقہ کے لیے مشکلات پیدا ہو گئی ہیں اور وہ لوگ پریشان ہیں۔ ہماری شریعت کی بنیاد عدل و انصاف ، ہمدردی و ایثار پر رکھی گئی ہے۔ اخلاق حسنہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ مروت و مودت معاشرہ کے لیے ضروری ہے اس کے بغیر ربط باہمی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ گھوڑا جوڑا ایک قسم کی رشوت اور ظلم ہے جس کو شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ سوال کرنا مانگنا ذلت ہے جو ناجائز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ خرابی اس پر مسترد رہے کہ اس میں دوسرے کو بے جا طور پر مشقت میں ڈالنا اور پریشان کرنا ہے۔ کیا یہ ساری باتیں درست قرار دی جا سکتی ہیں؟ ہرگز نہیں

جہیز لڑکی کا حق ہے۔ لڑکی والوں کا اختیار ہے۔ اگر وہ چاہیں تو دیں جتنا چاہیں دیں اس میں لڑکے کو یا لڑکے والوں کو مطالبہ کرنے کا حق نہیں۔ لیکن آج کل معاملہ برعکس ہے اس میں مطالبہ کیا جاتا ہے اصرار کیا جاتا ہے اور متعلقین کی خواہشات سنائی جاتی ہیں۔

شریعت میں صرف اس حد تک اجازت ہے کہ لڑکی والے اپنی خوشی سے جو دینا چاہیں دے سکتے ہیں کسی کو مانگنے اور مطالبہ کرنے کا حق نہیں خواہ بالواسطہ ہو یا بلاواسطہ۔ اسی طرح کھانا کھلانے کا مطالبہ بھی غیر شرعی ہے۔

4) مولانا حمید الدین عاقل حسامی بانی و مہتمم دارالعلوم حیدرآباد

مولانا حمید الدین عاقل حسامی، بانی و مہتمم دارالعلوم حیدرآباد نے سال 1424ھ مطابق 2003ء عیدالاضحیٰ کے خطبہ کے موقع پر عیدگاہ میر عالم تالاب، حیدرآباد میں لاکھوں سامعین کے سامنے اس مسئلہ کو تفصیل سے بیان کیا اور صاف لفظوں میں فرمایا کہ جس طرح تم پر سور کا گوشت حرام ہے اسی طرح سمجھ لو کہ جوڑا جہیز بھی حرام ہے۔ اس کے بعد انہوں نے سامعین سے خواہش کی کہ جو اتنی ہمت مردانہ رکھتے ہیں اور جوڑا جہیز نہ لینے کا عزم کرتے ہیں وہ اپنے ہاتھ اٹھائیں۔

سینکڑوں نے ہاتھ اٹھائے۔الحمد لله۔

ایک عالم دین کا یہ جرات مندانہ اور حکیمانہ عمل اس موضوع پر کئی کتابیں لکھنے اور کئی گھنٹے تقریریں کرنے پر بھاری ہے۔ اگر سینکڑوں ہاتھ اٹھانے والوں میں سے دس نوجوان بھی اپنی زندگی میں اس حرام سے بچ گئے اور اپنی نسلوں کو بغیر جوڑا جہیز لئے مکمل حلال کمائی اور حلال بچت کی بنیادوں پر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس عالم دین کی آخرت میں کامیابی کے لیے کافی ہے ان شاء اللہ۔ آج ضرورت ہے کہ ہر عالم دین اس مشن کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے۔

5) مولانا خالد سیف اللہ رحمانی۔ حیدرآباد

روزنامہ منصف میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’آج کل شادی کے موقع پر لڑکی والوں سے لین دین کی جو صورت مروج ہو گئی ہے یہ قطعاً حرام ہے اور اس کا حکم رشوت کا ہے۔ اس کا لینا بھی حرام ہے اور لینے کے بعد اگر مرد کی طرف سے مطالبہ ہو تو واپس کر دینا واجب ہے۔ اور شدید ضرورت کے بغیر (لڑکی والوں کی طرف سے) دینا بھی جائز نہیں۔ فتاوی قاضی خان میں ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنی مطلقہ بیوی سے دوبارہ نکاح کرنے کے لیے یہ شرط رکھے کہ وہ مہر اُسے ہبہ کر دے گی تو یہ شرط باطل ہے اور اگر عورت وہ مالِ مہر ہبہ کر بھی دے تو یہ مال مرد کے لیے جائز نہیں کیوں کہ نکاح میں عورت پر خرچ کی ذمہ داری نہیں ڈالی جا سکتی۔

و في النكاح لايكون العوض علي المرأۃ

’پس یہ جو مطالبہ کر کے لڑکی والوں سے رقم یا سامان وصول کیا جاتا ہے وہ حرام ہے‘۔

بعض لوگ جو ایسے مال نقد سے نیک کاموں جیسے مسجد کے لیے چندہ دیتے ہیں یہ تو گناہ بھی ہے اور خلاف ادب بھی۔ اس لیے اس سے احتراز ر کرنا واجب ہے۔ اگر مسجد کے ذمہ داران اس رقم کو مسجد کے لیے استعمال کریں گے تو مسجد کی بے احترامی کے مرتکب اور سخت گناہ گار ہوں گے‘۔

بتاریخ 2 / جنوری 2003 ء

اندازہ لگائیے ایسی آمدنی جس کا کسی نیک کام پر خرچ کرنا بجائے ثواب کے الٹا عذاب لے آئے اس کے ذریعے آدمی اپنی ضمیر کی تسلی کا سامان تو کر لے گا لیکن اپنے لیے دوزخ کی آگ بھڑکائے گا۔ ایسی آمدنی کس کام کی ؟

6) مولانا محمد برہان الدین سنبھلی (رحمۃ اللہ علیہ)

شیخ الحدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ۔

من السحت مايا خذه الصهر من الختن بسبب بنته بطيب نفسه حتي لوكان بطلبه يرجع الختن ۔

(ردالمختار معروف بہ شامی)

وہ مال سحت (حرام ناپاک خبیث) ہے جو کہ خسر اپنے داماد سے اپنی بیٹی کے نکاح پر (مہر کے علاوہ) حاصل کرتا ہے ، چاہے دینے والے نے خوشی سے دیا ہو۔ چنانچہ چاہے تو داماد اس کو واپس لے سکتا ہے، اگر طلب پر دیا تھا۔

جب داماد سے مہر کے علاوہ کچھ اور وصول کرنا اتنا سخت گناہ ٹھہرا تو داماد کا بجائے دینے کے الٹا خسر سے وصول کرنا اُس سے بھی کہیں زیادہ بڑے درجے کا گناہ ہے جو کہ سحت کی تعریف میں داخل ہے۔ قرآن میں یہودیوں کے جرائم کی جو طویل فہرست ہے اس میں سے ایک سحت بھی ہے۔ یعنی ایسا حرام مال جو دوسروں سے مکرو فریب کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے جیسے۔۔۔

لا يجوز ان تجبر المراۃ علي ان تتجهزاليه بشيي اصلا لامن صداقها ولا من غيره من سائر مالها والصداق كله لها تفعل فيه كله ماشأت

(فتاوی عالمگیری)

عورت کو کچھ جہیز دینے پر مجبور کرنا قطعاً جائز نہیں نہ مہر کی رقم سے اور نہ اس کے کسی دوسرے مال سے۔ پورا مہر اسی کا ہے اور اسے اس پر پورا حق ہے جو چاہے کرے۔

وَتَرَى كَثِيرًا مِّنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَعْمَلُون لَوْلاَ يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَن قَوْلِهِمُ الإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُواْ يَصْنَعُون

المائدۃ:62-63

ترجمہ : آپ دیکھتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ گناہ اور ظلم کے کاموں میں دوڑ دھوپ کرتے پھرتے ہیں اور حرام کے مال کھاتے ہیں بہت بری حرکات ہیں جو یہ کر رہے ہیں کیوں ان کے علماء اور بزرگ ان کے گناہ پر زبان نہیں کھولتے اور حرام کھانے سے نہیں روکتے ؟ یقیناً بہت ہی برا کارنامہ زندگی ہے جو وہ تیار کر رہے ہیں۔

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۔۔۔

المائدۃ:42

یہ لوگ جھوٹ سننے والے اور سحت یعنی حرام مال کھانے والے لوگ ہیں

۔۔۔ وَأَكْلِهِمْ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ ۔۔۔

النساء:161

اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں۔

اس سلسلے میں دو احادیث بھی قابل غور ہیں۔

فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے :

لا يدخل الجنۃ لحم نبت من السحت و كل لحم نبت من السحت كانت النار اولي به (مشكوۃ)

سحت یعنی حرام مال جس نے استعمال کیا ہو اس کے لیے جہنم کی آگ زیادہ مناسب ہے۔

لايدخل الجنۃ جسد غذي بالحرام

حرام غذا سے پلا ہوا جسم جنت میں نہیں جا سکے گا۔

و نیز احادیث سے ثابت ہے کہ جس کمائی میں حرام مال شامل ہو اس میں سے برکت اٹھا لی جاتی ہے ، اس کی نمازیں ، دعائیں ، حج و عمرے بھی قبول نہیں کئے جاتے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ شوہر کی بھیجی ہوئی رقم سے گھریلو سامان خرید کر لڑکی کے ساتھ بھیجنا ’جِہاز‘ کہلاتا ہے۔ غالباً ہندوستان میں جہیز اسی جِہاز کی بگڑی ہوئی شکل ہے بلکہ شکل کے ساتھ یہاں اس کی حقیقت بھی بگاڑ دی گئی ہے۔

فقہ کی کتابوں میں مذکورہ اس قسم کی جزئیات سے موجود ہ جہیز کی جو شکل بنتی ہے وہ حرام ہے۔ اس بارے میں استدلال کرنا اور ڈھٹائی کے ساتھ کسی بھی طرح سے جواز نکالنے کی کوشش کرنا درست نہیں ہے۔ یہ ایک قبیح و شرمناک رسم ہے جو تلک اور دوسرے ناموں سے رائج ہے جس میں واقعتاً شوہر کو خریدا جاتا ہے لیکن یہ انسانیت سوز رسم اکاس بیل کی طرح بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ اس لیے علمائے امت اور مصلحین کی ذمہ داری ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے اپنی تمام کوششیں صرف کر دیں۔ اس سے غفلت برتنا ان کے لیے اب گوارا بلکہ جائز نہیں معلوم ہوتا کیوں کہ پانی اب سر سے اونچا ہوچکا ہے۔ ہزاروں جوان لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہیں اور بعض تو خود کشی تک کر لیتی ہیں اور بعض مرتد بھی ہو جاتی ہیں اور غیر مسلمین سے شادی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ اگر اس طرف فوری توجہ نہ کی گئی تو اس طرح کے واقعات دن بہ دن بڑھتے جائیں گے اور اس کی ذمہ داری سے مسلمان خاص طور پر با اثر لوگ اور اہل علم بچ نہیں سکیں گے۔

(ماخوذ ’نقد یا جہیز کی رقم شرعی احکام کی روشنی میں‘ ، ناشر ڈاکٹر منظور عالم، انسٹی ٹیوٹ آف آبجکٹیو اسٹڈیز ، دہلی۔ 1986ء)۔

7) امارت شرعیہ بہار :

(جہیز کے تعلق سے ایک سوال کے جواب میں)

لعن رسول الله الراشي و المرتشي ومن الرشوه ما اخذه ولي المرأه قبل النكاح اذا كان بالسؤال اوكان اعطاء الزوج بناء علي عدم

(مجموعہ فتاوی عبدالحئی)

اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ اور یہ بھی رشوت ہے کہ عورت کا سرپرست نکاح سے قبل مہر کے علاوہ کچھ اور طلب کرے جس کے نہ دینے کی صورت میں رشتے سے انکار کا خدشہ ہو۔

پوری اسلامی تاریخ میں مرد کا عورت کے سرپرستوں سے لینا کہیں کسی روایت میں نہیں۔ یہ بدرجہ اولی حرام ہے اور علامہ ابن عابدی شامی نے اسے رشوت کے حکم میں داخل کیا ہے جو بدرجہ سحت ہے۔ یعنی ایسی مکروہ چیز جسے ہاتھ لگاتے ہوئے کراہت ہو۔

8) علامہ یوسف القرضاوی۔ مصر

عصر حاضر کے ممتاز عربی عالمِ دین ، جامعہ ازہر، مصر کے فضیلت یافتہ ، دوحہ یونیورسٹی میں برسہا برس سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سعودی ٹی وی پر بھی ایک طویل عرصے تک آپ کا ہفتہ وار دینی دروس و سوالات و جوابات کا سلسلہ رہ چکا ہے۔جوڑے جہیز اور دیگر رسومات کی حرمت کو سمجھنے کے لیے علامہ کی اس تحریر کو پہلے سمجھنا ناگزیر ہے۔

’’فقہاء نے قاعدہ یہ مقرر کیا کہ جو چیز حرام کا باعث بنے وہ بھی حرام ہے۔ مثلاً زنا۔۔۔ اس کی طرف لے جانے والی ہر شئے جیسے گناہ آمیز خلوت Mixed Gathering ، بے جا اختلاط ، Dating ، برہنہ تصاویر ، عریاں لٹریچر ، فحش گانے وغیرہ۔

’گناہگار صرف وہ شخص نہیں ہے جو حرام کا مرتکب ہوا ہے بلکہ اس کام میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو اس میں کسی نہ کسی طرح معاون رہے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نہ صرف شراب پینے والے پر لعنت فرمائی ہے بلکہ اس کو کشید کرنے والے، اُٹھا کر لے جانے والے اور پینے والے ان تمام پر لعنت فرمائی ہے۔ اسی طرح سود کھانے والے ، کھلانے والے ، اس کی دستاویز لکھنے والے اور گواہ بننے والے سب پر لعنت فرمائی ہے اس طرح جو فعلِ حرام میں معاونت کا باعث بنے ، وہ بھی حرام اور جو شخص اس کی معاونت کرے ، وہ بھی حرام کا مرتکب ہے‘‘۔

ماخوذ ’’اسلام میں حلال و حرام‘‘ صفحہ:46 ، ترجمہ شمس پیر زادہ ناشر مکتبہ دارالسلفیہ، دہلی۔

اس فتوے کی روشنی میں جہیز، جوڑا اور تلک جیسی تمام منکرات کو رواج دینے والے آیا وہ لڑکے یا لڑکی کے والدین ہوں یا مشاطہ ہوں یا ایسی شادیوں میں شرکت کر کے ہمت افزائی کرنے والے ہوں تمام لوگ اس حرام رسم کو بڑھاوا دینے کے مجرم اور گناہگار ہیں۔یاد رکھیئے حرام کے لئے حیلے کرنا بھی حرام ہے۔ لوگ مختلف مجبوریوں اور مصلحتوں کی وجہ سے ایسی شادیوں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ مختلف طریقوں سے ہاتھ بھی بٹاتے ہیں۔ جہیز اور دعوت کی تعریف بھی کرتے ہیں۔جب یہ واضح ہے کہ جوڑا جہیز ایک رشوت ہے اور رشوت حرام ہے تو اس کام میں مدد کرنے والے برابر کے شریک ہیں۔ یہ سب ایک کارِ حرام کی ہمت افزائی کرنے کے برابر ہے۔

آگے علامہ یوسف القرضاوی نے تین اہم احادیث نقل کی ہیں۔

» لا تركتبوا ما ارتكب اليهود و تستحلوا محارم الله بادني الحيل

یہودیوں نے جس کا ارتکاب کیا اس کا تم ارتکاب نہ کرو کہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو ادنیٰ حیلوں کے ذریعے حلال کرنے لگو۔ (صفحہ 47)

» ليستحلن طائفۃ من امتي الخمر يسمونها بغير اسمها

میری امت کا ایک گروہ شراب کا نام بدل کر اس کو حلال کر لے گا۔ (صفحہ 47)

» ياتي علي الناس زمان يستحلون الربا باسم الييع

ایک زمانہ آئے گا جب لوگ سود کو بیع کے نام سے حلال کر لیں گے۔ (صفحہ 47)

عہدِ حاضر میں صرف شراب یا سود کا ہی نام نہیں بدلا گیا بلکہ اور بھی کئی منکرات و فاسدات کے نام بدل کر انہیں حلال کر لیا گیا ہے۔ جیسے جوڑا جہیز کو ہدیہ یا تحفہ جو خوشی سے دیا گیا ہو۔

9) مولانا مفتی فضیل الرحمان ہلال عثمانی :

مفتی پنجاب و شیخ الجامعہ دار السلام ، مالیر کوٹلہ و رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

مرد کی طرف سے نکاح میں مہر اور شادی کے بعد ضروری ساز و سامان کا بندوبست شریعت میں لازمی ہے اگر دونوں میں سے کسی طرف سے اس کا مطالبہ ہو یا المعروف (یعنی رواج کے مطابق) لین دین ہو تو یہ شرعاً رشوت ہے جو ہر حال میں ناجائز ہے۔

اخذا هل اخذا هل المرأه شيئا عندالتسليم فللزوج ان يسترده لانه رشوه

(بحرالرائق)

رخصتی کے وقت عورت کے گھر والوں کا کچھ لینا رشوت ہے۔ شوہر کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کو واپس لے۔یہ وضاحت ناگزیر ہے کہ شریعت نے عورت کے گھر والوں کا مرد سے کچھ لینا حرام کیا ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ مرد ، عورت کے گھر والوں سے لے سکتا ہے۔ شریعت کا مقصد نکاح کو آسان اور کم سے کم خرچ کا معاملہ بنانا ہے۔ دیگر فقہی احکامات کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ مہر کے علاوہ کسی بھی فریق کی جانب سے کسی بھی حیلے کے ذریعے لین دین اسی حکم میں داخل ہے۔

(ماخوذ دفعہ 36 ، اسلامی قانون نکاح ، طلاق و وراثت اشاعت 1994ء)

10) مولانا محمد تقی عثمانی ، پاکستان :

اسلام نے نکاح کو اتنا سادہ اور آسان بنا دیا ہے کہ اگر ولی کے علاوہ صرف دو گواہ موجود ہوں ، ایجاب و قبول ہو تو نکاح ہو جاتا ہے نہ عدالت کی ضرورت ہے نہ قاضی یا کسی عالم دین کی موجودگی ضروری ہے ، خطبہ مسنون ہے لیکن نکاح کی صحت خطبہ پر موقوف نہیں ، اس کے بغیر نکاح میں کوئی نقص نہیں آتا البتہ عورت کی عظمت و اکرام کو قائم رکھنے کے لیے مہر ضروری ہے۔ آنحضور (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ولیمہ کی ترغیب دی ہے لیکن حسب استطاعت کی شرط کے ساتھ۔ نہ اس کی مقدار شرط ہے نہ مہمانوں کی تعداد۔ اس کے لیے قرض یا ادھار پیسہ لینا یا لوگوں سے مدد طلب کرنا شرعاً نا پسندیدہ عمل ہے۔

اسلام نے نکاح جیسی اہم ترین تقریب کو اتنا آسان بنا کر امت مسلمہ پر ہی نہیں پوری انسانیت پر ایک احسان عظیم کیا۔ تصور کیجئے اتنے آسان نکاح کا طریقہ اگر کسی معاشرے میں موجود ہو تو کیا زنا باقی رہے گا ؟ لیکن افسوس کہ اس بابرکت معاہدۂ نکاح کو لوگوں نے غیر قوموں کی تقلید کرتے ہوئے اتنا مشکل بنا ڈالا ہے کہ غریب سے غریب بھی لاکھ دو لاکھ کے بغیر اپنی بیٹی کو رخصت نہیں کر سکتا۔ اگر وہ استطاعت رکھتا بھی ہو تو بھی معاشرے کے دیگر متوسط اور غریب افراد کے لیے حلال آمدنی کے ذریعے اتنا خرچ کرنا ممکن نہیں ہوتا مجبوراً حرام ذرائع آمدنی کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اس طرح نکاح کا یہ کارِ خیر کتنے گناہوں اور کتنی غلط کاریوں کا ملغوبہ بن کر رہ جاتا ہے۔ اور جس نکاح کا آغاز ہی گناہ و حرام سے ہو اس میں برکت کہاں سے آئے گی ؟

روزنامہ جنگ کراچی ، 15 / اکٹوبر 1995ء

 

جوڑا جہیز قرآن و حدیث کی روشنی میں

لوگوں کو اعتراض یہی ہے کہ اگر جوڑا جہیز مکروہ، ناجائز یا حرام ہوتا تو قرآن اور حدیث میں واضح الفاظ میں بیان ہوتا۔ اگرچیکہ کئی دوسرے احکام ایسے بھی ہیں جن کا قرآن میں ذکر نہیں ہے لیکن سوادِ اعظم ان کو شریعت کا حکم مانتی ہے جیسے داڑھی، تراویح، نماز کا طریقہ، ولیمہ، ختنہ ، عرس، میلاد، زیارت، چہلم، باسم اللہ ، آمین بالجہر وغیرہ۔ حیرت یہ ہوتی ہے کہ جہاں ان تمام احکامات کے لئے قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس کو بنیاد بنایا جاتا ہے وہیں جوڑا جہیز جیسے معاملات میں انہی چاروں کو بنیاد کیوں نہیں بنایا جاتا، کیوں لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو چاہئے تھا کہ واضح الفاظ میں بیان کرتے؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح انہی چار چیزوں کی بنیاد پر جوڑا جہیز کسطرح حرام قرار پاتے ہیں۔

مال خرچ کرنا مرد کی ذمہ داری ہے

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ ۔۔۔۔

النساء:34

مرد عورتوں پر قواّم ہیں اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔

قواّم کے معنی نگہبان Protector ، ذمہ دار Responsible، انتظام کار Provider or Administrator کے ہیں۔ مرد کو عورتوں پر برتری Superiority اس لیے دی گئی ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے۔ نکاح کے دن سے لے کر اپنے یا عورت کے انتقال تک۔ اصول یہ بنا کہ جو مال خرچ کرتا ہے اسے قوامیت حاصل ہوتی ہے۔ یہ دنیاوی مشاہدہ بھی ہے کہ جو زیادہ مال خرچ کرے وہی پارٹیوں ، انجمنوں ، کمیٹیوں اور کاروبار میں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ مہر اور نان نفقہ و وراثت کے احکامات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت ذاتی طور پر چاہے جتنی مالدار ہو ، مرد تاوقتیکہ کوئی شرعی مجبوری نہ ہو وہ عورت پر مال خرچ کرنے کی ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتا۔

یہودیوں کی چالبازی۔۔۔ مسلمانوں کی حیلہ بازی

جس طرح یہودیوں نے جنہیں سنیچر کے دن مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا تھا ایک ایسی چال چلی کہ اتوار کے دن سنیچر کا نقصان بھی پورا ہو جائے اور اللہ کا حکم بھی بظاہر پورا ہو جائے۔ اسی طرح مسلمانوں نے یہ کیا کہ چونکہ نکاح کے دن سے نان نفقہ کا اطلاق Application شروع ہو جاتا ہے اس لیے نکاح کے دن تلک کی ایسی ایسی رسمیں ایجاد کر لیں جس سے شادی کے اخراجات کا نقصان بھی پورا ہو جائے اور اللہ کا حکم بھی ٹوٹنے نہ پائے۔ اس لیے منگنی ، بارات ، جوڑا جہیز تلک وغیرہ نکاح سے قبل ہی دلہا کے مکان پر پہنچا دئیے جاتے ہیں۔ اس لیے وہ نکاح کے بعد

َبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِم ۔۔۔

کی ذمہ داری شان سے اٹھاتے ہوئے ولیمہ دیتے ہیں۔ لیکن بعض لوگ تو اس میں بھی اپنی تنگ دلی دکھا جاتے ہیں اور لڑکی والوں سے اس کے رشتے داروں کے کھانے کا بل وصول کرتے ہیں۔ اس رسمِ قبیح کو ’چوتھی‘ کہتے ہیں۔

اسلام نے مہر ، نان ، نفقہ اور شادی کے بعد نئی زندگی کی شروعات کے لیے کل ساز و سامان کی ذمہ داری مکمل مرد پر رکھی ہے۔ نکاح پہلے مرد کی ضرورت ہے پھر عورت کی۔ عورت اس کی زندگی میں مہمان بن کر داخل ہوتی ہے اور عورت کے مزاج میں سمجھوتہ یا خود سپردگی Compromise & Surrender ہوتا ہے مرد چاہے اسے کرائے کے مکان میں رکھے یا عالیشان ذاتی بنگلے میں، مٹی کے گھڑے کا پانی پلائے یا فریج کا ، وطن میں رکھے یا بیرونِ ملک لے جائے عورت ہر حال میں اس کا ساتھ دیتی ہے۔ اب ایسے مہمان پر نقدی یا سارا ساز و سامان خود اپنے ساتھ لے آنے کی شرط رکھنا یا رواج عام کے نام پر اس سے ہر چیز لانے کی توقع کرنا قرآن کی اس آیت کو الٹ دینے کے مترادف ہے۔ بجائے مرد کے ، عورت خرچ کر رہی ہے۔ اس لیے قوامیت کا درجہ بجائے مرد کے عورت کو حاصل ہونا چاہئے۔ اسی طرح شریعت قوامیت کے بدلے مرد کو دوسری شادیوں کی بھی اور طلاق کی بھی اجازت دیتی ہے کیوں کہ وہ قوام ہے۔ لیکن اگر مرد قوامیت کی شرط ہی الٹ دے۔ بجائے خود خرچ کرنے کے عورت سے خرچ کروائے تو کیا اسے دوسری شادی اور طلاق کا حق دیا جا سکتا ہے ؟

رکوع ، سجدے اور قعدے کی اپنی اپنی اہمیت ہے اور اپنا اپنا حکم الگ ہے لیکن اگر نماز میں آپ یہ ترتیب الٹ دیں تو کیا نماز قابل قبول ہو گی ؟ نہیں کیوں کہ شریعت نے جو فضیلت کی کسوٹی ، ترتیب یا ترجیحات مقرر کی ہے اُسے بدلا نہیں جا سکتا ورنہ شریعت بدل جاتی ہے۔ اسی طرح شادی پر مرد مال خرچ کرے اور عورت مالدار ہو کہ نہ ہو مرد سے فائدہ اٹھائے۔ یہ ترتیب بھی شریعت نے مقرر کی ہے۔ عورت یا اس کے سرپرستوں کی جانب سے جب مال خر چ کروایا جائے تو یہ ترتیب الٹ جاتی ہے اور مرد قوامون کی شرط کو پامال کر دیتا ہے۔

آگے کے ابواب میں شریعت جوڑا جہیز کو کس طرح حرام قرار دیتی ہے اس کا بیان ملاحظہ فرمایئے۔

 

جوڑا جہیز۔۔۔۔۔۔ ایک رشوت

فقہاء کرام نے جن بنیادوں پر اِسے رشوت قرار دیا ہے ان کو سمجھنے کے لئے پہلے رشوت کیا ہے اِسے سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ حجّت باقی نہ رہے۔

رشوت کی لغوی تعریف

رِشا عربی زبان میں ڈول کی رسّی کو کہتے ہیں۔

(اَرْشَتُ الدّلْوُ : ڈول میں رسّی لگایا)۔

رشوه راء کے زیر اور پیش کے ساتھ بھی بولا جاتا ہے۔ جیسے رَشَاهُ رِشْوَۃََ اس کو رشوت دی۔

اِرْتَشَي مِنْه رِشْوَۃََ جب کوئی کسی سے رشوت لے۔ اس کی جمع رُشََا آتی ہے۔

(تہذیب اللغہ جلد 11، صفحہ 406)۔

رِشْوَۃ کا ہم معنی لفظ بِرْطِيْل ہے۔ (بمعنی رشوت اور) ایک سخت گول لمبا پتھر جو بولنے والے کے منہ میں اس لئے ڈال دیا جاتا ہے تاکہ بات کرنے اور بولنے سے اِسے روکے رکھے۔ اور ضرب المثل کے طور بولا جاتا ہے ’’البراطيل تنصر الاباطيل‘‘ یعنی رشوت باطل کاموں کے لئے ممد و معاون ہوا کرتے ہے۔

رشوت کی اصطلاحی تعریف

عام اصطلاح میں رشوت اُس چیز کو کہتے ہیں جو کسی جائز یا ناجائز منفعت Vested interest حاصل کرنے کے لئے پیش کی جائے اور لینے والا اس کام کے حق یا باطل، جائز یا ناجائز کی پروا کئے بغیر قبول کرے۔ اس میں ہدیہ، تحفہ یا نذرانہ شامل نہیں بشرطیکہ دینے والے اور لینے والے کے درمیان ایک منفعت Benefit کا تبادلہ پیش نظر نہ ہو اور ہدیہ نہ دینے کی صورت میں معاملہ(Deal) خراب ہو سکتا ہو۔ اِس تعریف میں اُجرت Fee شامل نہیں جیسے ملازم، ڈاکٹر، وکیل وغیرہ کو جو ایک جائز خدمت کا اجر وصول کرتا ہے۔ رشوت اس لئے دی جاتی ہے کہ مفاد اور مصلحتوں کی بابت فیصلے میں حق اور انصاف، جائز اور ناجائز سے گریز کیا جائے اور کام اپنے حق میں نکالا جائے۔ رشوت دراصل راشی اور مرتشی کے درمیان ایک جوڑ کا کام دیتی ہے جیسے رسّی ڈول کو پانی بھر کر اوپر لانے کا کام کرتی ہے۔

مرتشی : وہ شخص جو کسی دوسرے سے مال کا تقاضہ کرتا ہے یا اس سے کسی نفع کا حصول چاہتا ہے۔ تاکہ اس کے عوض دینے والے کی کوئی غرض پوری کر دے۔

راشی : وہ شخص جو مال خرچ کرتا ہے یا کسی کام کے بدلے میں نقد کے بجائے کوئی اور طریقے سے مرتشی کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

مندرجہ بالا رشوت کی تعریف کی روشنی میں اگر عہدِ حاضر کی شادیوں کے پورے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ پورا نظام ایک رشوت کے اطراف گھوم رہا ہے۔

مرتشی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو جوڑا یا جہیز مانگتے نہیں لیکن رواج کے مطابق جو مل جائے اس سے انکار نہیں کرتے۔ کہیں کہیں یہ چالاکی بھی شامل ہوتی ہے کہ رشتہ اُسی جگہ بھیجتے ہیں جہاں مانگنے کی ضرورت نہ پڑے۔ دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو راست یا بالراست Directly or indirectly فرمائش یا مطالبہ کر کے جہیز وغیرہ وصول کرتے ہیں۔

اِسی طرح راشی بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو واقعتاً سب کچھ خوشی سے دیتے ہیں چاہے دلہا والے مانگیں یا نہ مانگیں لیکن یہ رواج کو توڑنے کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی رواج کو توڑنے کے بجائے اور مضبوط کرتے ہیں۔ دوسری قسم کے راشی وہ ہیں جو رواج کے مطابق دینے پر مجبور ہیں۔ اگر نہ دیں تو لڑکی زندگی بھر کنواری رہ جائے یا پھر کوئی ایسا رشتہ آئے گا جو کسی طرح بھی لڑکی کے شایانِ شان نہ ہو گا۔

اور اس پورے معاملے کی مشطگی کرنے والے Mediators مختلف لوگ ہوتے ہیں جو اس رشوت کے کاروبار میں برابر کے شریک ہیں۔ لوگ اگر رشوت کے بدترین اثرات کو سمجھیں تو جوڑا جہیز کے جو نقصانات ہیں وہ خو د بخود سمجھ میں آ جائیں گے۔

حلال واضح ہے اور حرام بھی۔ شریعت وہ روشنی ہے جو ہر ایسی تاریکی کو کافور کرتی ہے جس سے بندہ مومن فریب کھا سکتا ہے۔ جس کی آڑ میں مجرم چھپ کر وار کر سکتا ہے۔ اس لئے ہر ایسا وسیلہ اور سہارا بھی حرام ہے جس کے ذریعے حق کے خلاف باطل کو غلبہ مل رہا ہے اور ہر ناجائز فعل اکثریت Majority کے کرنے کی وجہ سے جائز کہا جا رہا ہے۔اور چونکہ رشوت ان وسائل میں سے ایک ہے جس کے سہارے جائز کو معیوب اور ناجائز کو عین جائز کہا جا رہا ہے اس لئے شریعت کی روشنی میں یہ حرام ہے۔ اس سے جتنے گناہ پیدا ہوں گے ان کے ذمّہ دار اس رشوت کو دینے والے، لینے والے اور بیچ کے ایجنٹ اور وہ تمام جو اس نظام کے ساتھ چل کر ہمت افزائی کرتے ہیں۔

رشوت زناکاری سے زیادہ خطرناک

ایک طرف اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کا یہ حکم کہ

’’نکاح کو اتنا آسان کر دو کہ زنا مشکل ہو جائے‘‘۔

دوسری طرف ہندوستان پاکستان میں داماد کو خریدنے والا سسٹم اور عربوں میں عورتوں کو خریدنے والا رواج۔۔۔

نتیجہ؟

نتیجہ اسی حدیث کی روشنی میں یہ ہے کہ زناکاری بڑھتی جا رہی ہے۔ آئیے اس کی وجوہات پر غور کرتے ہیں۔

اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ کسی بھی خلافِ شرع چیز کے حصول کے لئے روپیہ خرچ کرنا شرمناک فعل ہے کیونکہ یہ روپیہ ممنوع اور حرام کام کے لئے خرچ کیا جا رہا ہے۔ اور جو مال اللہ کی سرکشی و نافرمانی پر خرچ کیا جا رہا ہے اور جس مال کے خرچ کرنے سے شریعت کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے ایسے مال کی حرمت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اس کی خرابی زنا کاری سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ کیونکہ رشوت کے ذریعے آدمی غیر کا مال ہڑپ کرنے کا راستہ پا لیتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف دینے والے کو سخت مشکلات پیش آتی ہیں۔ زناکاری میں صرف دو لوگوں کی تسکین ہوتی ہے۔جبکہ جوڑا جہیز کے نظام میں دو خاندانوں کی تسکین ضرور ہوتی ہے لیکن پورا سماج شدید طریقے سے متاثّر ہوتا ہے۔زناکاری ایک ایسا گناہ ہے جو بندے اور اللہ کے درمیان ہے اور اللہ کی کریمی کا محتاج ہے۔ لیکن رشوت ستانی ایک ایسا گناہ ہے جس میں راشی اور مرتشی مل کر پورے سماج میں ایک غلط ماڈل قائم کر کے ہر شخص کو متاثر کر ڈالتے ہیں۔ اس کی وجہ سے حسب نسب میں فرق پڑتا ہے، خاندان مخلوط ہو جاتا ہے۔غرور، تفاخر، دکھاوا اور اسراف جیسے حرام کاموں کا راستہ کھل جاتا ہے۔ ان خرابیوں کے پیشِ نظر فقہا کا یہ کہنا بجا ہے کہ زناکاری سے کہیں زیادہ شدید گناہ رشوت ہے۔

رشوت اللہ کی مدد کیسے روکتی ہے

رشوت سے سنگدلی اور بے رحمی پیدا ہوتی ہے۔ : لوگ اکثر کہتے ہیں کہ اللہ کی مدد اب مسلمانوں پر کیوں نہیں آتی۔ کیسے آئے جبکہ راستہ ہم نے خود روکا ہوا ہے۔ ملاحظہ فرمایئے یہ حدیث :

وللهُ في عون العبد ما كان العبد في عون اخيه

اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مد د کرتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔

(ابو داؤد بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ)۔

جو لڑکوں کے باپ ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ لڑکیوں کے باپ کتنے پریشان اور بے بس ہیں۔ اگر وہ آگے بڑھ کر کہہ دیں کہ چلو ہم لڑکا لڑکی کی شادی علی و فاطمہ رضی اللہ عنہم کے طریقے پر کرتے ہیں تو اس سے بڑی مدد اور کیا ہو سکتی ہے۔ لیکن وہ بے حِس اور بے غیرت ہوتے ہیں۔ انہیں یہ منظور ہے کہ ان کا بھائی بھیک مانگے، دوستوں ، رشتہ داروں سے چندہ مانگے یا جھوٹ بولے اور رشوت لے یا چوری کرے لیکن انہیں یہ منظور نہیں کہ شادی کے ارمانوں میں کسی قسم کی کوئی کمی ہو۔

لڑکوں کے والدین اچھی طرح جانتے ہیں کہ جو کچھ مال لڑکی کے والدین ’’خوشی سے‘‘ خرچ کرنے پر مجبور ہیں وہ مال ان کے بیٹوں کی امانت ہے یا پھر ان کے بڑھاپے کا سہارا ہے۔اور یہ بھی جانتے ہیں کہ اس دور میں کوئی خوشی سے نہیں دے سکتا صرف مجبوری اور بلیک میلنگ کے بنا پر ہی دے سکتا ہے۔

امام بخاری اور امام احمد رحمہم اللہ نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے یومِ نحر خطبے میں یہ ارشاد فرمایا کہ :

فانّ دماء كم و اموالكم عليكم حرام

تمہارا خون اور تمہارے اموال تم پر حرام ہیں۔

حدیث یہ بتاتی ہے کہ ناجائز مال لینا حرام ہے۔ کسی مجبور و مظلوم آدمی سے اس کے سر سے بیٹی کا بوجھ اتارنے کے لئے روپیہ یا کوئی اور چیز لینا بطور رشوت لینا ہے اور ناحق مال لینے کے مترادف ہے۔ اس حدیث کو پڑھنے کے باوجود اگر کوئی یہ ضد کرے کہ جوڑا جہیز حرام نہیں تو سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنی اسرائیل کی روش پر قائم ہے جن کے سامنے واضح آیات آنے کے باوجود کوئی نہ کوئی دلیل تلاش کرتے تھے جس کا تفصیلی ذکر ’’فرار کے فلسفے‘‘ میں کیا گیا ہے۔

شریعت مطہرہ لوگوں کے اموال کی حفاظت کی شدّت سے تاکید کرتی ہے۔ رشوت ستانی کے مختلف طریقے ہیں رشوت صرف وہ نہیں جو کسی عہدے دار کو دی جائے۔ بلکہ ہر وہ طریقہ، حیلہ یا بہانہ ہے جس کی آڑ لے کر آدمی اپنا فائدہ کر لے۔ اس گناہ میں شریک ہونے والے بھی راشی اور مرتشی ہی کی فہرست میں داخل ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ کسی بھی سماج میں رشوت چاہے وہ جوڑا جہیز کے نام پر ہو یا ہدیہ یا تحفے یا کمیشن کے نام پر ہو، ظلم اور فساد کو عام کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مردوں کو محنت سے کما کر شادی کرنے اور گھر بسانے کی فکر ہونے کے بجائے کسی اور کی کمائی پر شادی کرنے ، اپنے دوست احباب اور رشتے داروں کی دعوت کروانے اور گھر بسانے کی کوشش ہوتی ہے۔ خوددار مرد کم ہونے لگتے ہیں اور بے غیرت افراد بڑھنے لگتے ہیں جن کا معصوم بہانہ یہ ہوتا ہے کہ ہم نے کچھ نہیں لیا اگر بڑوں کے درمیان کوئی معاملہ طئے ہوا ہو گا تو ہمیں نہیں معلوم۔ کئی واقعات ایسے بھی ہیں جہاں لڑکے کے والدین سختی سے لڑکی والوں کو یہ بھی تاکید کرتے ہیں کہ اس ضمن میں لڑکے سے کوئی بات نہ کریں وہ تو بے وقوف ہے۔

قرآن و حدیث میں رشوت کا بیان

سورہ نساء میں حکم آیا ہے کہ

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلاَّ أَن تَكُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنكُمْ ۔۔۔۔۔۔

النساء:29

اے ایمان والو ایک دوسرے کے مال باطل طریقے سے مت کھاؤ۔ لین دین ہونا چاہئے آپس کی رضامندی سے۔

سورہ بقرہ آیت 188 میں یہی حکم یوں وارد ہوا ہے۔

وَلاَ تَأْكُلُواْ أَمْوَالَكُم بَيْنَكُم بِالْبَاطِلِ ۔۔۔۔۔۔

ان آیتوں کی رو سے ہر وہ طریقہ جس سے شریعت نے واضح طور پر منع کیا ہے اس سے مال حاصل کرنا حرام ہے۔ جوڑا جہیز بھی اسی میں داخل ہے۔ جب مہر کے علاوہ مرد سے کچھ بھی لینا رشوت ہے تو اُلٹا مرد کا عورت سے مال حاصل کرنا بدرجہ اولیٰ حرام ہے۔ اسی کو قرآن نے ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے کھانا کہا ہے۔لینے والوں کے پاس دلیل نہ قرآن ہے نہ شریعت بلکہ یہ ہے کہ ایسا سب کر رہے ہیں۔مذکورہ آیت میں درج ’’مال کھانے‘‘ سے مراد مال کا ناحق طریقے سے حاصل کرنا، اس پر قبضہ کرنا، اس کو لے کر استعمال میں لانا، کھا لینا یا اپنی شان و عزت بڑھانے کے لئے روا رکھنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے۔ اس آیت کی مزید تفسیر اور وضاحت کے لئے تفسیر ہی کی چند کتابوں سے اقتباسات پیش ہیں :

تفسیر مراغی :

شریعت مال کھانے کے ہر ایسے طریقے کو حرام قرار دیتی ہے جو غیر معتبر ہو۔ اور کسی ناقابلِ لحاظ چیز کے عوض اس کا لین دین ہوا ہو۔

تفسیر المنار:

مال حاصل کرنے کا ایسا طریقہ جس میں دینے والا اگر رضامندی کا جھوٹا مظاہرہ بھی کرے تب بھی اس کا شمار رشوت میں ہو گا۔

تفسیر قرطبی:

ایسا مال جس میں دینے والے کی مرضی شامل نہ رہی ہو یا غیر حقیقی اور غیر مفید جگہ اس کو خرچ کیا جائے۔

تفسیر طبری:

اللہ نے اس کا کھانا مباح قرار نہیں دیا۔

تفہیم القرآن:

مولانا مودودی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں باطل طریقوں سے مراد وہ تمام طریقے جو شرعاً اور اخلاقاً ناجائز ہوں۔ آپس کی رضامندی سے مراد یہ ہے کہ لین دین نہ تو کسی ناجائز دباؤ سے ہو نہ فریب و دغا سے۔ رشوت اور سود میں بظاہر رضامندی ہوتی ہے مگر فی الواقع وہ رضامندی مجبورانہ ہوتی ہے۔

تفسیر بحر محیط:

ابو حیّان نے فرمایا کہ اس کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ کوئی اپنا ہی مال ناجائز طور پر کھائے۔ مثلاً ایسے کاموں میں خرچ کرے جو شرعاً گناہ یا اسرافِ  بے جا ہیں۔ وہ بھی اس آیت کی رو سے ممنوع و ناجائز ہیں۔

(معارف القرآن جلد 2 ، صفحہ 377)

معارف القرآن:

مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ کسی کا مالِ ناحق کھانا حرام ہے لیکن اگر رضامندی کے ساتھ یعنی بیع و شراء یا ملازمت و مزدوری کا معاملہ ہو تو جائز ہے۔ اگر رضامندی درحقیقت مجبوری کی رضامندی ہو تو یہ شرعاً کالعدم ہے۔ جیسے تاجر کا ذخیرہ اندوزی کر کے قیمت بڑھا دینا جسے گاہک رضامندی سے خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔ اسی طرح شوہر ایسی صورتیں پیدا کر دے کہ بیوی اپنا مہر معاف کرنے پر مجبور ہو جائے تو یہ رضامندی در حقیقت رضامندی نہیں۔ یا کوئی آدمی یہ دیکھے کہ میرا جائز کام بغیر رشوت دیے نہیں ہو گا تو رشوت پیش کرنے کی یہ رضامندی بھی رضامندی نہیں، اس لئے شرعاً کالعدم ہے۔

تفسیر احمد رضا خان :

اعلٰیٰحضرت مولانا مولوی مفتی شاہ محمد احمد رضا خان صاحب بریلوی رحمۃ اللہ اپنی تفسیر ’’خزائن العرفان فی تفسیر القرآن‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں کہ باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا ہے۔خواہ وہ لوٹ کر یا چھین کر یا چوری سے یا جوّے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہیں۔ (صفحہ 35)۔

آگے صفحہ 98 پر فرماتے ہیں اس آیت کی رو سے چوری ،خیانت ، غصب ، جوّا، سود جتنے حرام طریقے ہیں سب ناحق ہیں۔

تفسیر ماجدی:

مولانا عبدالماجد دریاآبادی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ بالباطل یعنی غیر مشروع طریقوں پر۔ خیانت اور بد دیانتی کی تمام صورتوں کی بندش اس ایک حکم کے اندر آ گئی۔ کاش اسلام کے ایک اسی قانون پر عمل ہو اور آج دنیا کی کایا پلٹ جائے۔

بیان السبحان:

(از مولانا سید عبد الدائم جلالی رحمۃ اللہ ، رسالہ مولوی 1356ھ ، دہلی)

مولانا فرماتے ہیں کہ پرائے مال میں تصرفِ  ناحق قطعاً حرام ہے۔ چوری، ڈاکہ، غبن، خیانت، فریب، دغا، رشوت، غصب اور دیگر اقسام کے تمام ناجائز ذرائع سے مال حاصل کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ تجارت سے منافع حاصل کرنا جائز ہے۔ تجارت بغیر تراضی طرفین کے نہیں ہوتی۔ کسی کو مجبور کر کے خرید یا فروخت کا اقرار کرنا شرعی تجارت کے لئے کافی نہیں ہوتا۔

تفسیر حقانی :

(از علامہ محمد عبدالحق دہلوی رحمۃ اللہ)

جب عورتوں کے متعلق نکاح کے احکام بیان کئے اور مہر ادا کرنے کی تاکید فرمائی تو اس کے بعد جو کچھ باہمی کج اخلاقی اور جورو خسم کی بدمزگی سے برے نتائج پیدا ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح یوں فرماتا ہے تاکہ باہم اپنے مال دغا فریب کے طور پر نہ کھا جایا کرو، نہ بیوی میاں کے مال میں ایسا کرے نہ میاں بیوی کے مال میں ایسا کرے۔ … یا یوں کہو کہ نکاح میں مال کا صرف تھا اس کے ساتھ اور ناجائز تصرفات کا منع کرنا بھی مناسب ہوا۔ اپنے مالوں کو باطل طور سے نہ کھاو ، اس میں اپنا ذاتی مال بھی آ گیا۔ اس میں اسراف اور طرح طرح کی فضول خرچی کرنا جو عموماً شادی بیاہ میں ہوتی ہے۔ باطل طور سے کھانا ہے جو انجام کار اپنے آپ کو ہلاک کرنا ہے۔

تفسیر کمالین و جلالین :

(از علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ، شرح از مولانا محمد نعیم رحمۃ اللہ، استاذ تفسیر دار العلوم دیوبند)

علامہ سیوطی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ایک دوسرے کا مال ناحق ناروا نہ کھاؤ۔ ہاں اگر کاروبار کے طریقے پر ہو اور خوشدلی کے ساتھ ہو تو تمہارے لئے جائز ہے۔ لاتاکلوا سے مراد چونکہ مال کی بڑی منفعت کھانا پینا ہے اس لئے تخصیص کر دی ورنہ مطلق استعمال اور لینا دینا ممنوع ہے۔

علامہ شیخ احمد بن حجر بوطامی رحمۃ اللہ :

(زواجر، ترجمہ نصیر احمد ملی و مختار احمد ندوی، دارالسلفیہ، بمبئی)

علامہ بوطامی رحمۃ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی انسان سے بلا عوض کوئی چیز لینا باطل کہلاتا ہے۔ اکل بالباطل کی دو قسمیں ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ظلم و تشدّد سے کیا جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کھیل کھیل یا مذاق میں کسی کا مال ہتھیا لیا جائے۔ چنانچہ جوئے بازی اور لہو و لعب میں رقمیں ہتھیا لینا بھی اسی قبیل سے ہے۔

تفسیر ابن کثیر

(از علامہ عمادالدین ابن کثیر علیہ الرحمۃ)

علامہ ابن کثیر علیہ الرحمۃ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت محکم ہے۔ جب یہ آیت اتری تو مسلمانوں نے ایک دوسرے کے گھر کھانا چھوڑ دیا جس پر آیت لیس علی الاعمیٰ اتری۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے کے مال باطل کے ساتھ کھانے سے منع فرما رہا ہے۔ خواہ اس کمائی سے ہو جو شرعاً حرام ہے جیسے سود خوری، قمار بازی۔ اور ایسے ہی ہر طرح کی حیلہ سازی ، گو اسے شرعی صورت جواز کی دے دی ہو۔

کیا اس کے بعد بھی کوئی شک رہ جاتا ہے کہ جوڑا جہیز کے ذریعے وصول ہونے والا مال ایک رشوت ہے اور ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے حاصل کرنے کے مترادف ہے؟

اللہ نے ایک دوسرے کا مال اس لئے کہا ہے تاکہ امت کو وحدت کا احساس دلایا جائے۔ باہمی تعاون اور مشترکہ ذمہ داری کا احساس ہو۔ یہ احساس ہو کہ دوسروں کا مال اتنا ہی اہم اور قابلِ احترام ہے جتنا اپنا مال۔ دوسروں کے مال کی بھی اتنی ہی حفاظت کی ذمہ داری کا احساس ہو جتنا اپنے مال کی۔ اگر دوسرے کے مال پر سماج یا رواج یا عرف کے نام پر شریعت کے حکم کی پروا کئے بغیر وہ دست درازی کرتا ہے تو یہ پوری امت کے مال پر ظلم و زیادتی کرتا ہے۔ امت ایک درخت کی مانند ہے اور ہر مسلمان اس کی ایک ایک ڈال پر بیٹھا ہے۔ اگر ہر شخص دوسری ڈال کو کاٹنے لگے تو اس درخت کا کیا حال ہو گا اس کا اندازہ آج امت ہی کے سیاسی ، اخلاقی اور اقتصادی حالات کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ جس سماج میں لوگ اس طرح ایک دوسرے کا مال آزادانہ اور بے باکانہ کھانے لگیں ، امیر لوگ اپنی مرضی سے غلط طریقوں سے کھلانے لگیں تو اس قوم کے مال کو غیر قومیں اور زیادہ بے دردی سے ہڑپ کر جانے کی درپے ہو جاتی ہیں۔ شائد یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں سے رشوت لینا اکثریتی طبقے کے نزدیک محبوب ہے اسی لئے کبھی نوجوانوں کو گرفتار کر کے، کبھی جہیز اور ہراسانی کے مقدمات میں بُک کر کے پولیس والے، وکیل اور جج جتنا مسلمانوں سے لوٹتے ہیں اتنا کسی اور  قوم سے نہیں لوٹتے۔

بنی اسرائیل کی رشوت خوری اور ہماری جہیز خوری

تفسیرکشاف زمخشری (جلد 1، صفحہ 614) میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے نقل ہے کہ

’’بنی اسرائیل کے حکام کا یہ حال تھا کہ فریقین میں سے کوئی جب ان کے پاس آتا تھا تو رشوت کو اپنی آستین میں رکھ لیتا۔ اور حاکم کی توجہ آستین کی طرف مبذول کرتا۔ پھر اپنی ضرورت کا اظہار کرتا۔ حاکم رشوت پر فریفتہ ہو کر اس کی طرف اس طرح مائل ہوتا کہ اس کی باتیں پوری توجہ سے سنتا اور دوسرے فریق کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ اس طرح یہ حکام رشوت کھاتے اور جھوٹی باتیں سنتے تھے۔‘‘

اسی واقعے کو قرآن نے یوں بیان کیا کہ

سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ أَكَّالُونَ لِلسُّحْتِ ۔۔۔۔۔۔

المائدۃ:42

(اے پیغمبر) یہ لوگ جھوٹی باتیں بنانے کے لئے جاسوسی کرنے والے اور رشوت کا حرام مال کھانے والے ہیں۔

سحت کیا ہے اس کی تفصیل آگے ’’ہدیہ کیا ہے‘‘ کے باب میں آئے گی۔

آستین میں رشوت چھپا کر حاکم کی توجہ مبذول کروانے کی جو شکلیں آج مروّجہ ہیں وہ کسی بھی اخبار کے ’ضرورتِ رشتہ‘ کالم کو دیکھئے کہ لڑکے والوں کی لالچ اور حرص پوری کرنے کے لئے کس طرح لڑکی والوں کو اشتہارات دینے پڑتے ہیں۔

لڑکی برسرِ ملازمت ہے۔

لڑکی کے بھائی باہر سے آئے ہوئے ہیں شادی ایک ماہ میں کر دی جائے گی۔

لڑکی صاحبِ جائیداد ہے۔

لڑکے کے لئے ویزا کا انتظام کر دیا جائے گا۔ یا لڑکے کو کاروبار لگا کر دیا جائے گا۔

شادی معیاری کی جائے گی۔

لڑکی یہ یہ ڈگریاں رکھتی ہے۔

لڑکی اقامہ ہولڈر ہے۔

لڑکی کے پاس گرین کارڈ ہے۔

اور جو رشوت والی آستین لوگ اشتہارات کے ذریعے نہیں دکھا سکتے وہ مشاطہ، پیام گھر یا درمیانی لوگوں کے ذریعے دکھاتے ہیں اور لڑکے والے آپ ہی آپ کھنچے چلے آتے ہیں۔ مثلاً۔۔۔۔۔

لڑکے کی پڑھائی پر دس لاکھ روپے خرچ ہوئے ہیں۔ (مطلب یہ ہے کہ کم سے کم دس لاکھ کا اگر نقصان پورا کر دیا جائے تو لڑکا آپ کا۔)

فلاں گھر کی لڑکی کا رشتہ آیا تھا وہ لوگ یہ یہ اور وہ وہ آفر کر رہے تھے لیکن ہم نے انکار کر دیا کیونکہ ہم لین دین کو غلط سمجھتے ہیں۔ (مطلب یہ کہ جتنا آفر ہمیں دوسروں سے ملا ہے اگر آپ اس سے زیادہ آفر کر سکتے ہیں تو ہم آپ کی لڑکی سے شادی کے لئے تیار ہیں)۔

لڑکا سعودی عرب میں انجینئر ہے اور فیملی ویزا بھی ہے۔ (مطلب یہ ہے کہ لڑکا دلہن کو ساتھ رکھے گا اُسے جہیز کا سامان کم اور نقد زیادہ چاہیے۔)

کوئی لین دین کی شرط نہیں فقط شادی معیاری چاہئے۔ (مطلب یہ کہ جہیز تو معیاری مطلوب ہے ہی جسے کہنے کی حاجت نہیں ، اس کے علاوہ شادی خانہ عالیشان 5-star قسم کا ہونا چاہئے)۔

لڑکے نے بہنوں کی شادی پر اتنے لاکھ خرچ کیے تھے یا لڑکے کے بڑے بھائی کی پچھلے سال شادی ہوئی انہیں اتنے لاکھ نقد، سامان اور کار جہیز میں ملی تھی۔ (مطلب یہ ہے کہ جتنا اس کے بڑے بھائی کی بیوی جہیز میں لائی ہے اگر اس سے زیادہ آپ دے سکتے ہیں تو آپ کی بیٹی کی شان بڑھے گی ورنہ اُسے بڑی بہو کے سامنے احساسِ کمتری رہے گا۔)

جو آستین کی طرف لڑکی والے لڑکے والوں کی توجہ مبذول کراتے ہیں وہ اس طرح سے ہوتے ہیں۔ لڑکی کے لئے اتنے لاکھ کا جہیز تیار ہے۔ بڑی لڑکی کی شادی پر یہ یہ خرچ کیا گیا تھا۔ منجھلی لڑکی کی شادی پر ان کے والد نے فلاں جگہ فلیٹ یا پلاٹ دیا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔

جوڑا جہیز کے کاروبار میں واسطہ بننے والوں کا انجام

جوڑے جہیز کے معاملات طئے کرنے والے، طئے کروانے والے تمام مہربان اس حدیث کا مطالعہ فرمائیں۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے رشوت لینے والے، دینے والے اور واسطہ بننے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اس حدیث کو امام احمد علیہ الرحمۃ اور طبرانی کے علاوہ کئی اور محدثین نے نقل کیا ہے جن کی فہرست طویل ہے۔ اس کے علاوہ یہ احادیث بھی کئی محدّثین نے نقل کی ہیں جن کی فہرست طویل ہے اور جو اکثر پیش بھی کی جاتی ہیں کہ :

الراشي و المرتشي في النار

رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔

لعن الله الراشي والمرتشي

رشوت لینے اور دینے والے پر اللہ نے لعنت فرمائی ہے۔

لعن الله الراشي والمرتشي في الحكم

اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر لعنت فرمائی ہے۔

من اخذ الرشوۃ في الحكم كانت ستراً بينه و بين الجنّۃ

جس نے فیصلہ کے لئے رشوت لی وہ رشوت اس کے اور جنت کے درمیان حائل ہو جائے گی۔

لا يحل مال امري مشهر الا بطيب من نفسه

کسی بھی شخص کا مال سوائے اس کے دل کی خوشی کے حلال نہیں۔

فیصلے میں رشوت کفر ہے اور لوگوں کے درمیان یہ مالِ حرام ہے۔

طبرانی، بروایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، مجمع الزوائد منبع الفوائد ، جلد 4، صفحہ 199

حَکَمْ کے تعلق سے ایک اہم وضاحت

لوگ لفّاظی کے ماہر ہوتے ہیں۔ بقول علامہ اقبال کے : خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔

مذکورہ بالا احادیث میں حاکم یا حَکَمْ کے رشوت لینے کی حرمت آئی ہے۔ یہاں کچھ لوگ فرار کا ایک جواز یہ پیدا کرتے ہیں کہ حاکم یا حَکَمْ تو بادشاہ، گورنر یا قاضی یا جج کو کہتے ہیں لہذا دلہا یا دلہا والے اس حکم کی تعریف میں نہیں آتے۔ یا یہ کہہ کر ایسی احادیث کو فوری رد کرتے ہیں کہ راست جوڑا جہیز کے الفاظ کہہ کر تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کچھ نہیں کہا ہے۔ اس سے راست دلہا یا دلہن والے مخاطب نہیں ہیں۔ یہ خود فریبی اور جواز تراشی ہے۔ یہی وہی بنی اسرائیل کی چال ہے جس کا تفصیلی ذکر باب ’فرار کے فلسفے‘ میں کیا گیا ہے۔ اس سے وہ اپنا مقصد تو نکال سکتے ہیں لیکن شریعت کو دھوکہ نہیں دے سکتے۔حَکَمْ عربی زبان میں کسی بھی قسم کے فیصلے کرنے والے کو کہتے ہیں۔ فٹ بال کے ریفری کو بھی حَکَمْ ہی کہا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جو ٹیچر کئی طلباء کے پرچے جانچتا ہے کسی کو پاس یا فیل کر سکتا ہے وہ بھی حَکَمْ ہے۔ پولیس والا جو دو افراد کی لڑائی کے درمیان سمجھوتہ کرواتا ہے یا کسی ایکسیڈنٹ کی رپورٹ لکھتا ہے وہ بھی حَکَمْ ہے۔ انٹرویو لے کر کسی کو نوکری کے لئے منتخب کرنے والا بھی حَکَم ْ ہے۔ عدالت میں فیصلہ سنانے والا قاضی بھی حَکَمْ کہلاتا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے درمیان اگر بات بڑھ کر طلاق تک جا پہنچے تو دونوں کے درمیان مصالحت یا کونسلنگ کے لئے جو ثالث ہوتا ہے قرآن نے اس کو بھی حَکَم کہا ہے۔

اسی طرح شادی کے رشتوں میں جہاں ایک سے زیادہ رشتے آ جائیں وہاں دلہا یا اس کے والدین یا جو بھی فیصلہ کرنے والے ہیں وہ حَکَمْ کہلائیں گے۔ وہ ایک بھی ہو سکتا ہے یا ایک سے زیادہ بھی ہو سکتے ہیں۔ ان کے پاس جب ایک سے زیادہ رشتے آتے ہیں تو کسی ایک پر ان کو فیصلہ کرنا ہوتا ہے تو ایسے وقت میں اگر وہ جہیز اور مال کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں تو یہ رشوت ہے۔ ایسا بھی ضرور ہوتا ہے کہ ایک سے زیادہ رشتے جب آتے ہیں اور سارے ہی برابری کے ہوتے ہیں یعنی سبھی برابر کا مال اور جہیز لانے والے ہوتے ہیں تب خوبصورتی، دینداری، یا خاندان وغیرہ کو کسوٹی ضرور بنایا جاتا ہے ، لیکن ان چیزوں کی حیثییت ثانوی ہوتی ہے۔ مال اور جہیز ترجیحات Priorities میں پہلے نمبر پر ہی ہوتے ہیں۔

 

کیا جہیز ہدیہ یا تحفہ ہے؟

وہ کچھ اور شئے ہے محبت نہیں ہے

سکھاتی ہے جو غزنوی کو ایازی

کچھ لوگوں کے نزدیک فرار کا ایک فلسفہ یہ ہے کہ جہیز بیٹی کو ہدیہ Gift ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر باپ کو اپنی بیٹی کو کچھ نہ کچھ تحفہ دینے کا حق ہے۔ شریعت اس پر کوئی قدغن نہیں لگا سکتی۔ دینے والے اور لینے والے دونوں اِس جواز کو پیش کر کے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بڑے بڑے علماء اور مصلحین کو خاموش کر دیتے ہیں۔ یہ بھی ایک خود فریبی اور دھوکہ ہے۔ آئیے شریعت کی روشنی میں جائزہ لیتے ہیں کہ یہ ہدیہ ہے یا رشوت۔

شریعت ہو کہ کوئی ملکی قانون، وہ پورے ملک یا پوری امت کے فائدے کے پیشِ نظر بنایا جاتا ہے نہ کہ کسی فرد یا خاندان کے مخصوص حالات کے پیشِ نظر۔ اسی طرح شریعت بھی یہی دیکھتی ہے کہ پوری امّت کی منفعت کس چیز میں ہے۔ اگر چند والدین اپنی بیٹی کو تحفے یا ہدیے میں گھر، زمین یا بہت سی رقم اور مال دے سکتے ہیں تو اس کو اس لئے جائز نہیں کر سکتی کہ یہاں چند والدین کا سوال نہیں بلکہ امّت کے کروڑوں والدین کا سوال ہے۔ لالچی اور بھکاری فطرت کے انسانوں کی ہر سوسائٹی میں کثرت Majority ہوتی ہے۔ جو انہی لڑکیوں کو تلاش کرتی ہے جن کے والدین ایک سے اعلیٰ ایک تحفہ یا ہدیہ دے سکتے ہیں۔ اسی چیز کو کیرالا میں استری دھنم Stree dhanam اور ٹامل ناڈ میں ورودکھشنا Varoo dakshinaبہار میں تلک Tilak اور پاکستان میں سلامی اور حیدرآباد میں جوڑا کہتے ہیں۔

چند ایک والدین جو پوری نیک نیتی کے ساتھ اپنی بیٹی کو ہدیہ یا تحفہ دیتے ہیں وہ پورے سماج کے لئے ایک لالچ اور لوٹ کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اگر آپ کسی مجمع میں کسی ایک غریب کو کچھ خیرات دیتے ہیں تو چند ہی منٹوں میں آپ کے اطراف فقیروں اور لوٹ منگوں کا جمِ غفیر لگ جاتا ہے۔

اسی طرح لڑکے والے بھی ہوتے ہیں۔ خوب ہدیہ دینے کی استطاعت رکھنے والے گھر تو پر ہر کوئی رشتہ بھیجتا ہے لیکن نادار بیٹیوں کے گھر کوئی رشتے نہیں آتے۔ انہیں بھی ہر لڑکی کے باپ سے یہ آس رہتی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو کچھ نہ کچھ تو دے گا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی بیٹی کو کوئی ہدیہ نہ دے تو اس کی بیٹی کا اُٹھنا ناممکن ہو جاتا ہے۔اگر اُٹھ بھی جاتی ہے تو سسرال میں اس کے لیے ذلّتیں منتظر رہتی ہیں۔ لہذا یہ ہدیہ جو شائد چند لڑکیوں کے والدین کے نزدیک واقعی ہدیہ کی حیثیت رکھتا  ہو، پورے معاشرے کے لئے یہ ایک رشوت کا کام کرتا ہے۔ جب یہ عام چلن بن جائے تو کسی باپ کا دیا ہوا ہدیہ پھر لڑکے والوں کی نظر میں ہدیہ شمار نہیں ہوتا بلکہ وہ اِسے اپنا حق سمجھ کر وصول کرتے ہیں۔ یہ پھر ہدیہ باقی نہیں رہتا ، رشوت بن جاتا ہے۔ اس لئے شریعت کی نظر میں ایسا چلن جو دوسروں کے لئے حرام کے راستے کھول دے حرام ہے۔

ہدیہ کی تعریف

ہدیہ کا اصل مادہ ’ھدی‘ ہے۔ یہ لفظ جوڑنے اور ملانے پر بولا جاتا ہے۔ ہدیہ کی جمع ھدایا آتی ہے جبکہ اہلِ مدینہ کی لغت میں اس کی جمع ھداویٰ ہے۔ صحاح میں ہے کہ ہدیہ ھدایا کا واحد ہے۔ مِھدی ٰ اُس تھالی یا طباق کو کہتے ہیں جس میں ہدیہ بھیجا جائے۔

اور عربی میں مِھدآء اس شخص کو کہتے ہیں جو ہدیہ دینے کا عادی ہو۔ اور تھادی ایک دوسرے کو ہدیہ دینے کے عمل کو کہتے ہیں جیسے کہ حدیث میں آتا ہے کہ :

تَهَادَوْاتَحَابُّوا وَ تَصَافَحُوْا يُذْهِبُ الغِلَّ عِنْكُمْ

ایک دوسرے کو ہدیہ دو اور محبت بڑھاؤ اور ایک دوسرے سے مصافحہ کرو اس سے تمہارا حسد اور کینہ جاتا رہے گا۔

(ابن عسا کر بروایت حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ)۔

نیز امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا:

تهادوا ان الهديۃ تذهب وحر الصدر ، ولا تحقرن جارۃ لجارتها ولو بشق فرسن شاۃِِ

ایک دوسرے کو ہدیہ د و، اس سے دل کا کینہ ختم ہو جاتا ہے اور کوئی پڑوسن اپنے پڑوسن کے ہدیہ کو حقیرنہ جانے چاہے وہ ایک بکری کی ایک کُھر کا ہی ہدیہ کیوں نہ ہو۔

(کنزالاعمال جلد 6، صفحہ 55)

ہدیہ کی اصطلاحی تعریف

الشیخ عبداللہ بن عبدالمحسن الطریقی، امام محمد بن سعود اسلامک یونیورسٹی، سعودی عرب کے ایک معروف عالمِ دین ہیں۔ان کے تحقیقی مقالے ’’جرسیمۃ الرشوۃ فی الشریعۃ الاسلامیۃ رشوت۔ شریعتِ اسلامیہ میں ایک عظیم جرم‘‘ پر انہیں ڈاکٹریٹ دی گئی ہے۔ اس کتاب کو اردو میں مولانا نصیر احمد ملی اور مختار احمد ندوی صاحبان نے ترجمہ کیا اور داراسلفیہ ، بمبئی نے شائع کیا۔ الشیخ عبداللہ نے کئی لغات اور علماء اور فقہاء کی تحریروں کی روشنی میں رشوت اور ہدیہ کی جو تعریف بیان کی ہے وہ یہ ہیں۔

ایک یہ ہے کہ

’’کسی شرط کے بغیر ایک دوسرے کو جو مال دیاجاتا ہے اس کو ہدیہ کہتے ہیں‘‘۔

اس تعریف میں ’’کسی شرط کے بغیر‘‘ کے الفاظ قید احترازی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان سے رشوت خارج ہو جاتی ہے۔ نیز ان الفاظ سے بدلہ کا ہدیہ بھی خارج ہو جاتا ہے۔ یہ وہ ہدیہ ہے جس میں اسی جیسا یا اس سے کم یا زیادہ تحفہ لوٹانے کی پیشگی توقع ہوتی ہے۔ ایک اور تعریف یہ کی گئی ہے کہ

’’ایک شخص پہل کر کے ، دوسرے کو اس کی طلب کے بغیر ہدیہ دے۔‘‘

ماخوذ : الصحاح للجوہری، فتاویٰ ہندیہ، کشاف القناع عن متن الاقناع۔

ہدیہ کی ایک تعریف یہ بھی آئی ہے کہ

’’ایسا مال جو ایک شخص دوسرے کو اعانت کی امید یا شرط لگائے بغیر اسے دے۔

الاصول القضائیہ فی المرافعات الشرعیہ قواعہ صفحہ 328۔

ایک اور تعریف یہ کی گئی ہے کہ :

ہدیہ وہ مال ہے جو دلی محبت کے اظہار الفت کے حصول اور ثواب کی غرض سے دیا جائے۔

تعریب السیاسۃ الشرعیہ فی حقوق الراعی و سعادہ الرعیہ ،۔صفحہ 50

جوڑا جہیز کو ہدیہ یا تحفہ سے تعبیر کرنے والے حضرات اس تعریف کو غور سے دوبارہ پڑھیں اور یہ غور فرمائیں کہ ہدیہ کے جائز ہونے میں تین اہم شرطیں ہیں :

ایک تو یہ کہ یہ کسی شرط کے بغیر ہو اور دوسرے یہ کہ یہ کسی طلب کے بغیر ہو اور تیسرے یہ کہ ثواب کی غرض سے ہو۔

جبکہ عہدِ حاضر میں، جہیز کے پیچھے تینوں شرطیں غائب ہیں۔ جوڑا جہیز ایک اجتماعی ضرورت اور طلب بن چکی ہے اگر یہ شرط یا طلب نہ ہوتی تو آج کسی لڑکی کے باپ کو سماج اور بیٹی کے سسرال کے خوف سے کچھ نہ کچھ دینے کا پابند ہونا نہیں پڑتا۔ اور کیا اس لین دین میں ثواب کا نظریہ Conceptہوتا ہے؟ احادیث میں ہدیہ دینے والے اور لینے والے دونوں کو ثواب کا مستحق قرار دیا گیا ہے کیونکہ ہدیہ ایک مستحب ہے۔ لڑکی کا باپ تو ہو سکتا ہے دیتے وقت ثواب کی نیت رکھے لیکن کیا لینے والا واقعی یہ سمجھ کر لیتا ہے کہ وہ ایک ثواب کا کام کر رہا ہے؟ وہ تو اسے اپنا حق سمجھ کر وصول کرتا ہے اور جانتا ہے کہ اگر وہ یہاں نہیں کہیں اور شادی کرتا تب بھی اسے یہ سب کچھ مل کر ہی رہتا بلکہ اس سے زیادہ ملتا۔ جو لوگ حدیث سے تحفے کا جواز لاتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے جہاں تحفوں کے لین دین کا حکم دیا ہے وہیں آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا خود یہ رویّہ تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کسی سے تحفہ قبول کرتے تو اس سے کہیں زیادہ بہترین تحفہ لوٹاتے بھی تھے۔ آج سوال یہ ہے کہ کیا جوڑا جہیز والے لڑکی والوں کو اس سے زیادہ قیمتی تحفہ لوٹاتے ہیں؟۔

ہدیہ کب رشوت شمار ہوتا ہے

تمام علماء کی بحثوں کی روشنی میں یہ ثابت ہے کہ ہدیہ کی حیثیت مستحب کی ہے اس کے واجب نہ ہونے پر اجماع ہے۔ اور ہدیہ کا قبول کرنا بھی اسی مفہوم کی وجہ سے مستحب ہے۔ حدیث شریف میں اسی طرف اشارہ ہے کہ ہدیہ کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں میں محبت عام ہو لیکن ہدیہ کا یہ لین دین اسی شخص کے لئے ہے جس سے دینے والے کی کوئی ذاتی منفعت یا توقع وابستہ نہ ہو۔ اسی لئے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ان صحابہ رضی اللہ عنہم کے رویّئے کو سخت ناپسند فرمایا جو زکوٰۃ کے تحصیل Collection کے لئے جاتے اور کوئی انہیں تحفہ دیتا تو رکھ لیتے۔ حتیٰ کہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو یہاں تک حکم فرما دیا کہ وہ گھر بیٹھ رہیں۔

ایسا شخص جس کا دینے والے سے کوئی مفاد وابستہ ہو اس سے کوئی تحفہ لے تو یہ رشوت کی تعریف میں داخل ہے۔ کیونکہ اُسے وہ کسی مخصوص منصب ہی کی بنا پر تحفہ دے رہا ہے۔ اگر وہ اس منصب پر نہ ہوتا تو دینے والا اسے ہرگز تحفوں سے نہ نوازتا۔ اور جبکہ دینے والا یہ جانتا ہے کہ لینے والا یہ کام بھی ہرگز نہ کرتا اگر اسے تحفے کی آس نہ ہوتی۔ جوڑا جہیز کو تحفہ یا ہدیہ کہہ کر جواز پیدا کرنے والے اس بات کا جواب دیں کہ سوسائٹی میں ایسے کتنے افراد ہیں جن سے اگر یہ کہا جائے کہ لڑکی کا باپ کسی قسم کا کوئی تحفہ یا ہدیہ دینے کا قائل نہیں ہے تو وہ شادی کے لئے تیار ہو جائیں گے؟ کوئی تیار نہیں ہو گا سوائے ایک لاکھ افراد میں پانچ یا دس اصلی محبّانِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کے۔

کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ جس چیز کو ہدیہ یا تحفہ کہہ کر دیا جا رہا ہے یا لیا جا رہا ہے وہ نہ ہدیہ ہے نہ تحفہ بلکہ ایک لازمی رشوت ہے؟

یہ ایک رشوت ہی ہے۔ کیونکہ ہدیہ دینے والا جس کو ہدیہ پیش کرتا ہے اس کے احسان کا طلبگار ہوتا ہے۔ ثواب کی نیت دور دور تک نہیں ہوتی بلکہ لڑکی کے ہاتھ جلد سے جلد پیلے کرنے کا مقصد پوشیدہ رہتا ہے۔ چونکہ خدا کی قربت اور نزدیکی مطلوب نہیں ہوتی اس لئے اس کے اندر کسی خیر کے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دینے والا صرف یہ چاہتا ہے کہ ہدیہ لینے والے کے دل میں اس کی بیٹی کے لئے نرم گوشہ پیدا ہو، زیادہ سے زیادہ پیار اور محبت پیدا ہو، سسرال والے اس کی بیٹی کو کوئی طعنہ نہ دیں۔ آنے جانے والے اور خاندان والے یہ نہ کہیں کہ ’’ہدیہ یا تحفے‘‘ میں کوئی کمی کی ہے۔ اس لئے جب اس مقصد کے تحت ہدیہ یا تحفہ دیا جائے تو وہ ہدیہ کے تعریف سے خارج ہے۔یہ ایک کھلے عام لالچ ہے جو معاشرے میں ہر لڑکے کو دی جاتی ہے۔ اس کو تحفہ یا ہدیہ کہنا نہ صرف خود کو اور زمانے کا دھوکہ دینا ہے بلکہ اللہ اور شریعت کو بھی دھوکہ دینا ہے۔ چونکہ احادیث میں یہ بھی وارد ہے کہ دینے والا بہ شرطِ مجبوری معصوم ہے اس لئے اصل گناہگار لینے والا ہے۔ اس لئے جوڑا جہیز لینے والے اچھی طرح سوچ لیں کہ وہ کس کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ اپنے آپ کو یا اللہ کو؟

شریعت کی نظر میں ہدیہ کا معاملہ انتہائی نازک ہے اور حساس بھی۔ ہر وہ دروازہ جہاں سے رشوت پیدا ہو سکتی ہے اور معاشرے میں نا انصافی، لوٹ مار، غریبوں ، ضرورتمندوں کا استحصال Exploitation اور  ناحق کمائی کے ذریعے اپنا رعب پیدا کرنے کا راستہ کھل سکتا ہے ، شریعت نے بند کر دیئے ہیں۔ اسی لئے ہر اس ذمّہ دار کو بھی تحفے تحائف یا ہدیہ دینے سے سختی سے منع کیا گیا ہے جو سوسائٹی میں کسی نہ کسی منصب یا مقصد کے لئے لوگوں سے وابستہ ہو۔ جیسے قاضی، امام، کسی بھی قسم کا تحصیلدار Collector وغیرہ۔ جو مختلف احادیث اس ضمن میں ہمیں ملتی ہیں وہ یہ ہیں۔۔

ہدیہ احادیث کی روشنی میں

امام (بمعنیٰ والی) کا ہدیہ قبول کرنا حلال نہیں

(ابن عابدی)

امام کو تحفہ دینا خیانت ہے۔

(امام طبرانی بروایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ)

سلطان کو ہدیہ دینا انتہائی قبیح حرام اور خیانت ہے۔

(ابن عساکر ، بروایت حضرت عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ، کنز الاعمال صفحہ 56)

امراء کو ہدیہ دینا خیانت ہے

(ابن جریر رحمۃ اللہ بروایت جابر رضی اللہ ، کنزالاعمال جلد6 صفحہ 358)

الهديه تعور عين الحكيم

تحفے تحائف حکمت والے آدمی کو بھی اندھا بنا دیتے ہیں۔

(ویلمی، مسند فردوس)

اللہ نے اپنے نبیوں پر جو وحی نازل فرمائی ہے اس میں میں نے پڑھا ہے کہ ’’ہدیہ حکمت والوں کی آنکھیں پھوڑ دیتا ہے‘‘

کشاف القناع عن متن الاقناع بروایت حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ ، جلد 6، صفحہ 317

اخذوالامير الهديه سحت و قبول القاضي الرشوۃ كفر

امیر کا ہدیہ لینا حرام (سحت) ہے اور قاضی کا رشوت لینا کفر ہے۔

(امام احمد رحمۃ اللہ، کنزالاعمال جلد۔ 6، صفحہ 56)

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے تمام تحصیلداروں کو یہ فرمان بھیجا کہ :

اياكم والهدايا فانهافي الرشا، يات علي الناس زمان يستحل فيه السحت بالهديه

ہدیہ اور تحفے سے بچو کیونکہ یہ بھی رشوت ہے۔ ایک زمانہ آئے گا جب لوگ سحت کو ہدیہ کہہ کر حلال کر لیں گے۔

(المسئولیہ الجنائیہ فی الفقہ الاسلامی ، صفحہ 76، معین الحکام صفحہ 17، حاشیہ الرہونی جلد 7، صفحہ 317)۔

یہی وجہ ہے کہ جب روم کی شہزادی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اہلیہ کلثوم بنت علی بن ابی طالب (رضی اللہ عنہا) کو تحفہ بھیجا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس تحفے کو قبول کرنے سے سختی سے منع کر دیا۔

(احکام القرآن للجصاص جلد 4، صفحہ 87، المسئولیہ الجنائیہ فی الفقہ الاسلامی)

تفسیر قرطبی (جلد 4، صفحہ 260) نے ان احادیث سے استدلال کیا ہے کہ ہدیہ لینا مالِ غنیمت سے خفیہ طور پر کچھ لینے کے مترادف ہے۔ اور مالِ غنیمت سے خفیہ اور غیر شرعی طور پر لینا بالاتفاق حرام ہے۔ لہذا والی کا ہدیہ لینا بھی حرام ہو گا۔

ہدیہ کے رشوت ہونے کے ضمن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عمل ایک ثبوت ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ گورنروں کے تحفے اول تو قبول نہیں فرماتے، اور اگر قبول بھی فرماتے تو انہیں بیت المال میں داخل کر دیتے۔ کوئی کہتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) بھی تو تحفے قبول فرماتے تھے تو آپ رضی اللہ عنہ کہتے :

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے وقت میں وہ ہدیہ ہوتا تھا لیکن آج یہ رشوت ہے۔

(حاشیہ الرہونی جلد 7، صفحہ 312)۔

اسی حاشیہ میں ایک شاعر کے تین انتہائی حکیمانہ شعر بھی نقل کیئے گئے ہیں جن کا مفہوم ہے کہ

مجھ سے حکمت کی ایک بات سنو : اور اس کو اپنے لئے زادِ راہ بنا لو اور چوں و چرا نہ کرو۔ حاکم کا مال قبول کرنا دین و دنیا کی خرابی کا باعث ہے۔ جب ہدیہ کسی قوم کے گھر آتا ہے تو امانت اس کے روشن دان سے نکل کر اڑ جاتی ہے۔

عون المعبود شرح سنن ابو داؤد (جلد 9، صفحہ 498) میں لکھا ہے کہ

ہدیہ دینے والا جب پہلے سے تحفے تحائف نہیں دیتا تھا بلکہ ابھی ابھی دینا شروع کیا ہے تو لامحالہ اس کی کوئی غرض ضرور ہو گی۔ اور غرض اس کے سوا کیا ہو سکتی ہے کہ وہ کسی مقصد کے لئے اس کی آڑ لینا چاہتا ہے۔ یا کسی لین دین کے ذریعہ وہ کسی چیز پر اپنا حق جتلانا چاہتا ہے۔ اور یہ تمام چیزیں کھلم کھلا حرام ہیں۔

جوڑا جہیز کو تحفہ یا ہدیہ قرار دینے والوں کو شائد مندرجہ ذیل حدیث پر اعتراض ہو۔ پہلے حدیث کا بغور مطالعہ فرمائیے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے قبیلہ بنو اسد کے ایک شخص ابن لُتبیہ عبداللہ کو صدقہ وصول کرنے کے لئے مقرّر فرمایا۔ جب وہ صدقات وصول کر کے لوٹے تو کہنے لگے ’’یہ آپ لوگوں کے لئے ہے اور یہ مجھے بطور ہدیہ دیا گیا ہے‘‘۔ یہ سن کر حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) منبر پر تشریف لائے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا

’’ان تحصیلداروں کو کیا ہو گیا ہے؟ جنہیں ہم وصولیابی کے لئے بھیجتے ہیں جب وہ آتے ہیں تو کہتے ہیں یہ آپ کا ہے اور یہ ہمارا ہے۔ بھلا یہ اپنے ماں باپ کے گھروں میں بیٹھ رہیں اور پھر دیکھیں کہ کیا انہیں کوئی تحفے تحائف لا کر دیتا ہے یا نہیں؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے۔ جو چیز قیامت کے دن یہ لوگ لے کر آئیں گے اسے اپنی گردنوں پر اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اگر وہ اونٹ ہو گا تو بلبلاتا ہو گا۔ گائے ہو گی تو چِلّاتی ہو گی۔ اور بکری ہو گی تو میں میں کرتی ہو گی‘‘۔

اور امام بخاری رحمۃ اللہ آگے فرماتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے دونوں ہاتھ بلند فرمائے یہاں تک کہ آپ کے بغل کی سفیدی صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے دیکھ لی۔ پھر فرمایا

’’سنو : کیا میں نے پہنچا دیا؟‘‘۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے تین بار یہ دوہرایا۔

استدلال :

المغنی والشرح الکبیر(جلد 11، صفحہ 437) نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ ہدیہ دینے والا تحفہ کے وسیلے سے تحفہ لینے والے کو اپنی طرف مائل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے رشوت کی طرح اس سے تحفہ کی وصولیابی بھی جائز نہیں ہو گی۔

اس حدیث اور استدلال کو سامنے رکھ کر اگر جوڑا جہیز کی حقیقت پر غور کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ دلہا اپنی حیثیت میں ایک ایسے حاکم، قاضی یا گورنر کی طرح ہے جس کی ہاں یا نہ پر ایک لڑکی کے مستقبل کا دار و مدار ہے۔ جس طرح ایک حاکم یا قاضی یا تحصیلدار کو تحفہ اُسے خوش کرنے کا کام کرتا ہے اور اس کا دل ہدیہ دینے والے کی طرف راغب کرتا ہے اسی طرح دلہا یا دلہا والوں کو لڑکی سے شادی پر راضی کرنے کے لئے یہ تحفے یا ہدیے کی مقدار اڈوانس میں بتا دی جاتی ہے ، ورنہ لڑکے والے کسی ایسے گھر کا رُخ کرتے ہیں جہاں انہیں بہتر جہیز مل سکتا ہے۔ سب کچھ چونکہ سسٹم یا رواج کے نام پر ہوتا ہے اس لئے لڑکی والے ہر قیمت پر ہدیہ دینے پر مجبور ہیں۔لینے والے کل قیامت میں جب آئیں گے اور دنیا میں جو جو چیزیں ان کے پاس تھیں اپنے سروں پر اٹھا کر لائیں گے تو ہر چیز سے متعلق سوال ہو گا کہ یہ کہاں سے آیا تھا۔ اور یقیناً یہ پلنگ بستر، ٹی وی، فریج، کار، اسکوٹر وغیرہ ہر ہر چیز پکار پکار کر کہے گی کہ یہ رواج کے نام پر لڑکی والوں کو بلیک میل کر کے لیا گیا تھا۔ اگر وہ نہ دیتے تو یہ کسی اور گھر کا دروازہ کھٹکھٹاتے۔ یہ تحفے یا ہدیے دراصل لینے والوں کے احساسات اور جذبات کو مسخر کر لیتے ہیں۔ اور لینے والے کو دینے والے کا تابع بنا دیتے ہیں خواہ وہ باطل پر کیوں نہ ہوں۔ اس طرح جوڑا جہیز کو تحفہ کے نام پر وصول کرنے والے اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں اس طرح کہ ان کے سامنے نہ قرآن کی دلیل کام کرتی ہے نہ حدیث۔ اور اتنے اندھے اور بہرے ہو جاتے ہیں کہ اکثر لڑکے شادی کے بعد اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں سے بھی باغی ہو جاتے ہیں۔ ماں باپ کو جس وقت اولاد کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اکثر لڑکے اپنی بیویوں کے ساتھ کہیں اور جا کر رہنا پسند کرتے ہیں۔ اپنے ماں باپ کو کچھ مدد بھی کرنا چاہیں تو یا تو بیوی سے چھپ کر کرتے ہیں یا پھر بیوی کی رضامندی ڈھونڈھتے ہیں۔

اور کئی وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکے کے والدین جوڑے جہیز کی لالچ میں رشتہ طئے کر دیتے ہیں، بعد میں جب دلہا، دلہن کی صورت دیکھتا ہے تو وہ اس کو نہیں بھاتی، اور وہیں سے ازدواجی تعلقات میں بگاڑ شروع ہو جاتا ہے۔ معاملات خراب ہونے لگتے ہیں اس کے بعد لڑکی والوں کے پاس تین راستے رہ جاتے ہیں۔ یا تو وہ پولیس اور عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں، یا پہلوانوں کا سہارا لیں یا پھر تعویذ پلیتوں کا سہارا لیں۔

ہدیہ یا تحفے کے بھوکے زیادہ تر خوشحال لوگ ہوتے ہیں

غلطی کرتے ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ مال و دولت کی بنیاد پر کوئی آدمی بڑا آدمی کہلاتا ہے۔ آدمی صرف اپنی نیت کی بِنا پر بڑا یا چھوٹا ہوتا ہے۔ چھوٹی نیتوں کے معمولی خاندانوں میں مالی مسائل کا بوجھ ہر دو طرف ہوتا ہے اس لئے وہ جہیز، جوڑا ، ہدیہ یا تحفے کے نام پر لین دین کر کے اپنے خرچ بانٹ لیتے ہیں۔ لیکن وہ لوگ جن کے پاس اچھے گھر اور کاروبار یا اچھی نوکریاں ہیں، جائداد کے کرائے آ رہے ہیں، اولاد ٹھیک ٹھاک کما رہی ہے، ایسے لوگ تو کسی شئے کے محتاج نہیں ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا کہ لین دین صرف چھوٹے لوگوں میں روا ہوتا تو خوشحال لوگ اس سے بے نیاز ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ جس طرح ایک چپراسی یا کانسٹیبل کے مقابلے میں ایک بڑا آفیسر زیادہ بڑی رشوت لیتا ہے، اسی طرح شادیوں میں بڑے لوگ بھی چھوٹی نیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جس طرح بڑی رشوت لینے والے اگرچیکہ پہلے ہی سے مستغنی ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ہوس یہ کہتی ہے کہ ’’جو آتا ہے آنے دو‘‘ ، اسی طرح صاحبِ استطاعت لوگ بھی یہی سوچتے ہیں کہ جو دستورِ زمانہ کے مطابق دیا جا رہا ہے اُسے لینے میں برائی کیا ہے؟

یہ لوگ ان لڑکیوں کے گھر رشتے نہیں بھیجتے جو گھرانے مالی طور پر تو کمزور ہیں لیکن دینی ، علمی، ادبی، سماجی یا کسی اور حیثیت سے شہر میں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں۔ رشتہ بھیجتے وہاں ہیں جہاں سے انہیں پتہ ہوتا ہے کہ پانچ ہزار کے پلنگ کے بجائے پچاس ہزار کا پلنگ تحفے میں آئے گا۔ انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ کون سا باپ دس بیس ہزار کے شادی خانے میں کھانا کھلانے کے بجائے دو لاکھ روپئے کرائے کے شادی خانے میں کھانا کھلائے گا۔ یہ لوگ اگر کسی کم مال والے لیکن عزت دار گھرانے کی لڑکی لانا بھی چاہیں تو ان کے گھر کی عورتیں رکاوٹ ڈال دیتی ہیں اور بے چارے مرد کچھ کر نہیں پاتے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں اب وہ مخلص علماء، ادباء، دانشور، قائدین یا مصلحین کی شدّت سے کمی ہوتی جا رہی ہے جو قوم کی صحیح رہنمائی کر سکیں۔ ہر شخص یہ سوچ کر پریشان ہے کہ اگر وہ اپنا وقت قوم کے لیے دے گا تو ان کی بیٹیوں یا بہنوں کا بیاہنا مشکل ہو جائے گا۔ قوم کے پیٹ بھرے افراد یہ تو نہیں کریں گے کہ ان کی خدمات کے بدلے کم از کم ان کا مالی بوجھ کم کر دیں۔

 

جوڑا جہیز سُحت ہے

سحت کی تعریف

حدیث میں سحت کی تعریف یوں آئی ہے کہ :

كل لحمِِ انبت بالسحت فالنار اوليٰ به ، قيل يا رسول الله وما اسحت؟ قال الرشوۃ في الحكم

جو حصۂ گوشت سحت سے پروان چڑھے دوزخ کی آگ اس کے لئے زیادہ موزوں ہے۔

عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) سحت کیا ہے؟

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا ’’فیصلہ دینے میں رشوت لینا‘‘۔

(ابن جریر ، بروایت حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ)

حضرت ابن مسعود (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا :

السحت ان تطلب لاخيك حاجۃ فتقضي فيهدي اليك هديه فتقبلها منه

سحت یہ ہے کہ تمہارے بھائی کو کوئی حاجت درپیش ہو اور تم اسے پورا کر دو اور پھر وہ تمہیں کوئی ہدیہ دے اور تم اسے قبول کر لو۔

(حاشیہ الرہونی، جلد 7 صفحہ 313، تعریب السیاسہ الشرعیہ فی حقوق الراعی و سعادہ الرعیہ صفحہ 52)۔

اس سے اندازہ لگائیے کہ ایک بیٹی کے باپ کی حاجت پوری کرنے کے لئے جو تحفہ لیا جا رہا ہے کیا وہ سحت کی تعریف میں نہیں آتا؟ اگر نہیں آتا توکوئی ایک مجاہد اٹھے اور جوڑا جہیز پر کم از کم اپنی شادی میں روک لگا کر دکھائے۔

کیا تحفہ یا ہدیہ عین شادی کے موقع پر ہی دینا لازمی ہے؟

ایک اور اہم سوال یہ بھی ہے کہ جس طرح امیر، قاضی یا حاکم یا اہم ذمّہ دار عین کام سے قبل ہی تحفہ یا رشوت لیتا ہے جس کی بنا پر اسے حرام قرار دیا گیا ہے اسی طرح یہ لڑکے والے عین شادی کے موقع پر ہی کیوں تحفہ لیتے ہیں۔ لڑکی کا باپ اپنی بیٹی کو چاہے جس عمر میں تحفہ دے اس کی مرضی ہے۔ وہ تو یوں بھی بچپن سے اسے کئی موقعوں پر تحفے دیتا ہی رہتا ہے۔ شادی کے بعد بھی وہ یقیناً تحفے دے سکتا ہے۔ لیکن شادی کے موقع پر رواج بنا کر اسے تحفہ یا ہدیہ دینے کا پابند کرنا کیا سرکاری افسروں اور قاضی یا جج کی طرح رشوت لینا نہیں ہے؟ لیکن لوگ جانتے ہیں کہ اگر شادی کے موقع پر یہ سب کچھ وصول نہ کیا گیا تو شادی کے بعد پھر ملنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح دوا خانوں میں مریض کے آپریشن تھیٹر میں داخل ہونے سے پہلے ہی رقم ڈپازٹ کروا لی جاتی ہے اسی طرح دلہا والے نکاح کے دن تک وہ سب کچھ وصول کر لیتے ہیں جس کے بارے میں انہیں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ بعد میں نہیں ملے گا۔ جو والدین بعد میں دینے کی آس میں رکھتے ہیں ان کی بیٹیاں جس طرح سسرال میں دن گزارتی ہیں ان لڑکیوں سے پوچھیئے جو اس عذاب سے گزر رہی ہیں۔ انہیں اٹھتے بیٹھتے شوہر، ساس وغیرہ کے طعنے اور دھمکیاں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔

جوع الکلب۔۔ کُتے کی بھوک

اس طرح جوڑا جہیز فی زمانہ ایک رشوت ہے اور رشوت ، سحت ہی کا دوسرا نام ہے جس کے معنے وہ حرام اور خبیث مال ہے جس کو شریعت نے سخت ناپسند کیا لیکن بندے نے نہ صرف پسند کیا بلکہ اسے حاصل کر کے رہا۔ چاہے دینے والے نے دل کی رضامندی کے ساتھ دیا ہو یا نہیں۔ سحت اُس حرام کو بھی کہتے ہیں جس کا ذکر کرنا بھی برا معلوم ہو یا ایسی کمائی جس کا ذکر کرنے سے شرم آئے۔ سحت بہت زیادہ بلکہ بے تحاشہ کھانے پینے کو بھی کہتے ہیں۔

مسحود عربی میں اُس شخص کو کہتے ہیں جس کا معدہ انواع اقسام کے کھانوں کا حریص ہو اور جو آسودہ ہی نہ ہوتا ہو۔

(تاج العروس ، تہذیب اللغہ)۔

قرطبی نے سحت کے ضمن میں لکھا کہ سحت کی اصل کلب الجوع ہے۔ یعنی کُتّے کی سی شدید بھوک۔ جیسے کہا جاتا ہے :

فلان مسحوت المعده اذا كان اكولا لا يلفي ابدا الّا جائعاً

یعنی فلاں بھوکا پیٹ ہے۔ جتنا زیادہ کھاتا ہے اس کا پیٹ نہیں بھرتا۔

رشوت کو سحت کے ساتھ تشبیہاً کہا جاتا ہے گویا رشوت خور رشوت لے کر اتنا حریص ہوتا ہے کہ اس کی بھوک نہیں مٹتی جیسے کھانے کے حریص کی بھی کھانے کے باوجود بھوک نہیں مٹتی۔

(جامع البیان للطبری جلد 6، صفحہ 156 ، الجامع الاحکام القرآن للقرطبی جلد 6 ، صفحہ 182)

تفسیر القاسمی میں ایک انتہائی جامع تعریف کی گئی ہے جو انسانی نفسیات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ لکھتے ہیں :

سحت اس حرام مال کو کہتے ہیں جس میں برکت نہیں ہوتی۔ اس کے لینے والے کے اندر مروّت اور شرافت کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ اس کے حصول میں ننگ اور عار پنہاں ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے لینے والا اس کو چھپائے رکھنا چاہتا ہے۔ رشوت کا بھی یہی حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رشوت حرام ہے۔

(جلد 2، صفحہ 1992)

    عہدِ حاضر میں جماعتوں، سلسلوں اور مدرسوں کی ترجیحات میں عقائد کی جنگ، عبادات و رسومات میں غلو، فروعی فقہی مسائل اور عوامی رابطے تو ضرور ہیں لیکن صحیح اسلام نظام کا قیام ان کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں۔ اگر ہے بھی تو ثانوی ہے۔ کہیں طریقت بے پناہ ہے تو شریعت محدود ہے اور کہیں سارا زور شریعت پر ہے تو طریقت کا مکمل انکار ہے۔ کہیں عمل سے محبت اور علم سے بیر ہے تو کہیں علم ہی علم ہے عمل ندارد۔

 

جہیز کا چلن ہندو تہذیب میں

ہم پوچھتے ہیں عاشقِ مسلم مزاج سے

الفت بتوں سے ہے تو برہمن سے بیر کیا

ہندو معاشرے کے تاریخی مطالعے سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ بھارت میں جہیز کی رسم قدیم زمانے سے موجود ہے اور اس کو مذہبی تحفظ بھی حاصل ہے۔ہندو قوم میں اس رسم کا آغاز ویدک دور سے ہی ہو گیا تھا لیکن پرانوں کے دور میں اس کو بہت فروغ حاصل ہوا۔چنانچہ رامائن،مہابھارت اور بھاگوت پران میں بھگوان اور دیوتا بھی جہیز لیتے اور دیکھے جاتے ہیں۔ان مذہبی کتب میں بھگوان اور دیوی دیوتاؤں کی شادی کے تذکروں کے ساتھ ان میں دئیے گئے اور لئے گئے جہیز کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ ہندوستان میں جہیز ایک رسم ہی نہیں بلکہ مذہبی سنسکار کا درجہ رکھتا ہے۔ ہندوؤں کی تسلیم شدہ رائج مذہبی کتب میں بھگوان اور دیوی دیوتاؤں کی شادی کے موقع پر دئیے گئے جہیز کی تفصیلات اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں۔

تلسی داس جیرام چرت مانس میں ” پاروتی” کے والد نے شیوجی کو غلام لونڈیوں ، گھوڑیوں، رتھ ، ہاتھی ،گایوں،کپڑوں اور ہیروں کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں بیل گاڑیوں میں بھر کر دی تھیں۔ جن میں مختلف قسم کے اناج اور سونے کے برتن بھی شامل تھے۔شیوجی پاروتی کے ساتھ بے پناہ جہیز کا سامان لے کر رخصت ہوئے تھے۔

مہابھارت میں دروپدی جس کی شادی پانچ پانڈوؤں کے ساتھ ہوئی تھی،اس شادی میں دروپد راجا نے اپنی بیٹی دروپدی کے ساتھ اپنے داماد کو بہت سے ہیرے جواہرات اور بے پناہ دولت دی، ساتھ ہی ہیرے جواہرات جڑی بوٹی راسیں لگا کر عمدہ قسم کے گھوڑوں والے رتھ، سو ہاتھی، بہترین پوشاکیں اور زیورات سے لدی لونڈیاں بھی دیں،اس کے علاوہ بھی بے شمار دولت اور جواہرات دئیے گئے راجا دروپد نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ ہر پانڈو کو اتنا ہی جہیز الگ سے دیا۔

مہابھارت میں ہی ارجن کے بیٹے ابھیمینو کی شادی میں راجا دراٹ نے جہیز میں ہوا کی رفتار سے چلنے والے ساٹھ ہزار گھوڑے ، دو سو مست ہاتھی اور بہت سی دولت ہی نہیں دی،بلکہ اس نے اپنی حکومت،فوج اور دولت کے انبار کے ساتھ اپنے آپ کو بھی داماد کے حوالے کر دیا، یعنی خود کو بھی بمعہ راج پاٹ کے جہیز میں دے دیا۔

اسی مہا بھارت میں کرشن جی کی بہن سبھدرا کی شادی اور اس کو دئیے گئے جہیز کا تذکرہ بھی تفصیل کے ساتھ آیا ہے۔کرشن جی نے بھی اپنی بہن کو شادی کے موقع پر سونے سے منڈھے ہوئے ایک ہزار رتھ، دس ہزار گائیں، سونے سے سجی ہوئی ایک ہزار سفید گھوڑیاں، پانچ سو خچر، پانچ سو سدھے ہوئے بیل، سونے کے زیورات سے سجی ایک ہزار لونڈیاں، ایک ہزار گھوڑے اور دس ہزار آدمیوں کے وزن کے برابر سونا جہیز میں دیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی بہن کو مہاوتوں کے ساتھ ایک ہزار ہاتھی بھی دئیے۔جن کی گردنوں میں سونے کی گھنٹیاں لٹکی ہوئی تھیں۔

رام چندر جی اور سیتا جی کی شادی میں دئیے گئے جہیز کی تفصیلات رامائن میں موجود ہیں۔ جو راجا جنک نے اُن کو دیا تھا۔بالمیکی رامائن کے مطابق راجا جنک نے اپنی بیٹی سیتا کی شادی کے شبھ اوسر پر کئی لاکھ گائیں، لاتعداد قالین، کروڑوں ریشمی اور سوتی پوشاکیں، زیورات سے سجے ہوئے بہت سے ہاتھی اور گھوڑے، رتھ اور پیدل فوجی، کئی سو لڑکیاں اور بہترین لونڈی اور غلام نذر کئے۔ان سب کے علاوہ ایک کروڑ سونے اور چاندی کے سکّے موتی اور مونگے بھی جہیز میں دئیے۔ راجا جنک نے جہیز کا یہ سامان چاروں بھائیوں کو الگ الگ نذر کیا، کیونکہ رام چندر جی کے ساتھ ان کے باقی تین بھائیوں کی شادی بھی ایک ہی ساتھ ہوئی تھی۔

شری مد بھاگوت پران

اس مشہور پران میں کرشن جی کی جیونی یعنی ان کی زندگی کی روداد بیان کی گئی ہے۔ ان میں کرشن جی کی شادی کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ اس شادی کے موقع پران کی بیوی کے باپ نے اپنی بیٹی کو زیورات اور شاندار لباس زیب تن کئے ہوئے تین ہزار حسین لونڈیاں، دو ہزار سجی ہوئی گائیں، نو ہزار گائیں، نو ہزار ہاتھی،نو لاکھ رتھ، نو کروڑ گھوڑے اور گھوڑوں سے سو گنے غلام جہیز میں دئیے۔۔

ہندو قوم کے یہ وہ مقدس دھارمک گرنتھ ہیں جن پر ہر ہندو یقین رکھتا ہے اور بہت عقیدت و احترام سے پڑھتا ہے اور سنتا ہے۔اپنے گھروں میں ان کتابوں کی کتھا اور اکھنڈ پاٹھ کرانا ہندو بہت ثواب کا کام اور مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔ہر سال دسہرہ اور دیوالی کے موقعوں پر ان کتابوں کے واقعات کو اسٹیج کر کے دکھایا جاتا ہے،جس میں بھگوانوں اور دیوتاؤں کی زندگی کے مختلف واقعات کے ساتھ شادی اور جہیز کے واقعات بھی سامنے آتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ہندو معاشرے میں جہیز ایک ناگزیر حقیقت ہے،کیونکہ یہ ان بھگوانوں اور دیوی دیوتاؤں کا عمل ہے جن کی ہندو عوام انتہائی عقیدت سے پوجا کرتے ہیں اور ان کی تقلید کو اپنا دھرم اور نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

(ماخوذ : سہ روزہ دعوت دہلی، 16 اپریل ، 2009 ، مصنف ایم شیزی ، بجنور)

امت مسلمہ کی بدقسمتی یہی ہے کہ مشرکانہ دور کی ان رسموں کو سب سے زیادہ ان لوگوں نے پروان چڑھایا ہے جو خاندانِ سادات ہاشمی النسل گھرانوں سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں، اہلِ بیت سے اپنا خاندانی شجرہ نسب جوڑتے ہیں۔ جن کے حلقہ ارادت میں لاکھوں کا مجمع ہوتا ہے۔

ایک مرتبہ حیدرآباد دکن میں واقع مہدی پٹنم کے چوراہے پر ایک مسجد میں جمعہ کا خطبہ سننے کا اتفاق ہوا۔ خطیب صاحب اہلِ بیت کے فضائل بیان فرما رہے تھے۔ انہوں نے اس بیان کو حدیث کہہ کر سنایا کہ

’’دو آنکھیں جو دوزخ کی آگ سے محفوظ کر دی جائیں گی ان میں ایک وہ ہے جو اللہ کے خوف سے روئے دوسری وہ جو فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے لال کے غم میں روئے۔‘‘

اہلِ بیت سے جُڑی ایسی بہت ساری روایات اکثر بیان کی جاتی ہیں جو اہلِ تشیع کی روایات سے ملتی جلتی ہیں۔ ان روایات پر عقیدہ رکھنے والوں کے لئے یہ امتحان کی گھڑی ہے کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی بیٹی کی شادی کو پہلے اپنی بیٹیوں کے لیے نمونہ بنائیں اور فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی بیٹی کی سنّت کے خلاف کرنے والوں کو سید السادات کہلانے والوں کو شرم دلائیں۔

یہ کیسا اسلام ہے کہ فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے لال کے غم میں رونے والے کو تو دوزخ کی آگ سے پناہ دیتا ہے لیکن اپنی بیٹیوں کی شادی میں بجائے فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کی لختِ جگر کی سنت کے، پاروتی، سیتا اور دروپدی کے طریقوں کو محبوب رکھتا ہے۔

ہندو شاستروں میں اسے ’’ورو دکھشنا‘‘ Varu Dakshina کہا گیا ہے یعنی دلہا کو پیش کیا جانے والا نذرانہ۔ لفظ دکھشنا کے اصطلاحی معنوں میں ایک اہم کام کی لازمی اجرت یا ناگزیر رشوت Unavoidable Bribe کے بھی ہوتے ہیں۔

ہندو شاستروں میں ہے کہ اونچی ذات کا مرد نیچی ذات کی عورت سے شادی کر سکتا ہے۔ چار جو اہم ذاتیں ہیں یعنی برہمن ، چھتری ، ویشیا اور شودر ، ان میں ہر ایک کی ہزاروں ذیلی ذاتیں Secondary Castes ہیں جو ایک دوسرے سے اونچی ذات ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔

جیسے برہمنوں میں چترویدی ، ترویدی ، دویدی ، ویدیکا ، لوکیکا وغیرہ۔

چھتریوں میں یا ویش میں کماّ ، ریڈّی ،ِ لنگا ، اولیکا وغیرہ۔

شودروں میں بھی لاکھوں کی تعداد میں ذاتیں ہیں

جو ذات کہیں طاقت سیاست یا پیسے میں بڑھ جاتی ہے وہ چھتریوں اور ویشوں کے رسم و رواج اختیار کر کے نیچی ذات ہونے کا دھبہ مٹا لیتی ہے۔ بے شمار بڑے مندر ایسے ہوتے ہیں جہاں ہر ذات کا آدمی داخل نہیں ہو سکتا حتی کہ مذہبی جلوسوں اور باراتوں کے راستے بھی ذات پات کی بنیاد پر الگ ہوتے ہیں۔ ہر شخص کی پہچان ذات تھی اور آج بھی ذہنوں میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے ہر کمزور ذات یہ چاہتی ہے کہ اس کی لڑکی اس سے اونچی ذات میں جائے بڑے مندر میں اس کا پرویش Access ہو۔ اس لیے وہ بڑی ذات کے لڑکے کو جلد سے جلد اپنی لڑکی کے لیے Reserve کرنا چاہتے ہیں۔

ذات اندر ذات

جن چار ذاتوں کا ذکر کیا گیا ہے، انہیں اندرون ذات ہی شادی کی اجازت ہے، بیرون ذات شادی پر مذہب نکالا Outcast کی سزا دی جاتی ہے۔ ہر ذات کے اندر پھر بے شمار ذیلی ذاتوں میں سے کسی بھی ذات کی لڑکی یا لڑکے سے شادی کی جا سکتی ہے۔ مثلاً ایک برہمن اپنی ہی برہمن ذاتی میں کسی بھی چتر ویدی، ترویدی وغیرہ سے کر سکتا ہے۔ اگر کسی برہمن نے کسی ویش یا چھتری سے شادی کر لی یا کسی ویش یا چھتری نے کسی شودر ذات کے کسی لڑکے یا لڑکے سے شادی کر لی تو اس کو مندر میں داخلے کی اجازت نہیں ملتی۔ اسے کئی مندروں میں جا کر بھگوانوں کی شادیاں کروانے کی رسم ادا کرنے، چڑھاوے چڑھانے اور پنڈتوں کو دان دینے کی سزا متعین کی جاتی ہے۔

شادیاں لڑکا لڑکی جوان ہونے سے پہلے ہی کر دینے کا رواج اسی لیے پڑا کہ لڑکا یا لڑکی کے لیے جوان ہونے کے بعد اگر اپنی ذات یا بہتر ذات کا لڑکا نہ ملے اور لڑکی کی عمر بیس بائیس ہو جائے تو اس کا رشتہ ہونا مشکل ہو جاتا تھا۔ اس لیے اچھے خاندانوں کے لڑکے اپنی قیمت رکھتے تھے جنہیں کم ذات والے زیادہ سے زیادہ ورو دکھشینا دے کر خرید لیتے۔ یہ اونچ نیچ ویش اور چھتری میں سب سے زیادہ تھی کیوں کہ شہروں میں ان کی آبادی زیادہ تھی اور نیچی ذات کی نظریں ان پر زیادہ رہتی تھیں۔ شودر پر یہ دباؤ کم تھا کیوں کہ شاستروں کے مطابق شودروں کے لیے کسی بھی اونچی ذات کی عورت سے شادی کرنا تو درکنار اس کی طرف دیکھنا بھی باعث تعزیر Punishable جرم تھا۔ جیسے :

» اگر شودر اونچی ذات کی عورت کو ہاتھ لگائے تو اسے موت کی سزا دو۔(منو سمرتی)

» نیچی ذات والے مرد کے پاس جانے والی عورت کی بھی یہی سزا ہے۔(منوسمرتی)

» شودر صرف اپنی ذات میں شادی کرے دوسرے ورن (ذات) کی عورت سے شادی کرنے کا اسے حق نہیں (منو سمرتی)

» عورت آزادی کے قابل نہیں یعنی اسے آزاد نہیں چھوڑا جا سکتا۔ منوسمرتی کے الفاظ میں یہ یوں ہے:

(Ne Stree Svatantyam ara hathi)

» جوان بیوہ کسی بھی وقت پھسل سکتی ہے، اس کا ستی کرنا ضروری ہے۔ (جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ رنڈوا یعنی جس کی بیوی مر جائے وہ آسانی سے پھسل سکتا ہے)۔ اسی لئے راجستھان وغیرہ کے علاقوں میں آج تک بھی عورت کو بیوہ ہو جانے پر ستی کر دینے یعنی زندہ جلا دینے کے واقعات ملتے ہیں۔

ویش اور شودر ذات میں جس علاقے میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوتی تھی وہاں Polygamy ہوتی تھی۔ یعنی ایک مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادیاں کرتا تھا۔ اور جہاں مردوں کی تعداد عورتوں سے زیادہ ہوتی تھی وہاں Polyandry ہوتی تھی یعنی ایک عورت ایک سے زیادہ مردوں کے ساتھ بیک وقت رہتی ہے۔ یہ تذکرہ پانڈوؤں کے قصے میں موجود ہے جس میں ایک عورت ایک ساتھ پانچ شوہروں کے ساتھ رہتی تھی۔

لیکن تہذیب Monogomous فطرت کی ہے اس لئے اس کو قائم رکھنے کے لئے جہیز کی رسم ایجاد ہوئی، اور مرد کو ایک عورت کا پابند Committed رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ جہیز دے کر اُسے Reserve محفوظ کر لیا جانے لگا۔

(Sudheer Brodkai, Hindu History)

اس لیے شودروں میں جوڑے جہیز کا رواج کم تھا لیکن آزادی کے بعد ایک طرف ذاتوں کی تقسیم کا زور کم ہوا تو دوسری طرف جوڑا جہیز کی لعنت میں ہر ذات تیزی سے گرفتار ہوئی۔ اب شودروں میں بھی لڑکے کی قابلیت کے مطابق قیمت لگائی جاتی ہے۔ کم سے کم پلنگ ، بستر ، اسکوٹر وغیرہ تو لازمی ہوتا ہے۔ چونکہ ویش کاروبار اور سماجی خدمت پر مامور تھے اس لیے پیسو ں کی ریل پیل ان کے ہاں زیادہ تھی وہ لڑکے کو بک Book کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مال خرچ کرتے تھے ، دوسری ذاتوں کو یہ دیکھ کر منہ میں پانی کیوں نہ آتا۔

مسلمانوں کے منہ میں بھی پانی آیا۔ پہلے پلنگ ، بستر لازمی ہوا پھر رفتہ رفتہ ایک ا یک چیز بڑھتی گئی۔ لوگ ریڈیو، سائیکل وغیرہ بھی مانگنے لگے۔ بڑھتے بڑھے آج عالم یہ ہے کہ لاکھوں کا نقد اور سامان ہونے کے باوجود باراتیوں کو کسی نہ کسی چیز کی کمی کا احساس ہوتا ہے اور وہ دلہے کی ماں بہنوں کے کانوں میں ضرور کچھ نہ کچھ کہہ جاتے ہیں۔۔

جہیز کا رواج بھگوان اِندر نے ڈالا

ہندو دیومالائی قصّوں میں بھگوان اِندر ، جو دوسرے تمام بھگوانوں کا بادشاہ کہلاتا ہے۔ اس نے اس رسم کی ابتدا کی۔ اس نے اپنی بیٹی دیویانی کی شادی پر ہونے والے داماد سکند کو اپنا سب سے قیمتی سفید ہاتھی اور صندل پیسنے کا ایک بیش بہا پتھر جہیز میں دیا۔ ہاتھی سے جدا ہونے کا اِندر کو بہت ملال تھا۔ سکند نے اس ہاتھی کو واپس بھی کرنا چاہا لیکن اِندر نے لینے سے انکار کر دیا۔ بعد میں وہ ہاتھی مرگیا۔ البتہ صندل پیسنے کا پتھر کہا جاتا ہے کہ مدراس شہر سے تقریباً 80 کلومیٹر دور واقع سری بالا سبرامنیم سوامی مندر میں موجود ہے۔اس کے بارے میں مشہور ہے کہ اس سے پیسا ہوا صندل لگانے سے ہر بیماری کا علاج ہوتا ہے اس لئے ہزاروں کی تعداد میں لوگ وہاں آج بھی صندل لگانے جاتے ہیں۔

جس گھر میں ڈولی جائے اس گھر سے ڈولا اٹھے

یہ بھی ہندو شاستروں کی تعلیم ہے کہ عورت کو پہلے دن سے ہی مرد کی مکمل لونڈی بنا دیا جائے۔ تاکہ عورت مرد کے ہر ظلم کو سہنے کی عادی ہو جائے۔ مرد چاہے جو بھی سلوک کرے، عورت مرنے کے بعد ہی وہاں سے نکلے۔ اور اگر مرد مر جائے تو عورت مرد کی عزت کی خاطر ستی ہو جائے۔ اسلام اس کے برخلاف عورت کو یہ بھر پور آزادی دیتا ہے کہ اگر مرد اس پر ظلم کرے تو وہ کسی بھی وقت خلع حاصل کر سکتی ہے۔ اور اپنی زندگی پھر سے کسی اور کو شریکِ حیات بنا کر سنوار سکتی ہے۔ بلکہ اسلامی شریعت میں تو یہاں تک ہے کہ اگر مرد طلاق دینا چاہے تو اُسے وجہ بتانی لازمی ہے لیکن اگر عورت خلع لینا چاہے اور وجہ بتانے سے انکار کرے تو قاضی اُسے وجہ بتانے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ لیکن عورت کو یہ آزادی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک جوڑا جہیز کی لعنت ختم نہیں ہو گی۔ مردوں نے جوڑے جہیز کی شکل میں عورت کو وہ سماجی زنجیریں پہنا دی ہیں کہ وہ آزادی کا مشکل سے ہی سوچ سکتی ہے۔ جہاں کنواری کو ہی بیاہنے کے لئے لاکھوں روپئے درکار ہوں وہاں کسی بیوہ یا مطلقہ کی شادی کا تصوّر بھی ناممکن ہے۔ اس لئے خلع کے حق سے وہ اس لئے دستبردار ہو جاتی ہے کہ پھر سے شادی پر کون اس کے لئے جوڑے جہیز کے اخراجات ادا کرے گا؟

ہَنڈا یا ہُنڈا کیا ہے؟

شمالی ہندوستان میں جوڑا جہیز کو ہَنڈا یا ہُنڈا بھی کہا جاتا ہے۔ ہنڈا ایک گول گھڑے جیسے برتن کو کہتے ہیں۔ ہندوؤں میں زیور اور نقدی ہنڈے میں رکھ کر دی جاتی تھی۔ اس لئے جوڑا جہیز کو ہانڈا، ہنڈا یا ہُنڈا بھی کہا جاتا ہے۔ اب طریقہ بدل چکا ہے۔ ہندوؤں میں شائد ہو تو ہو لیکن مسلمانوں میں اب نقدی جسے جوڑے کی رقم کہتے ہیں ہنڈے کی بجائے مخمل کی خوبصورت تھیلی میں رکھ کر پیش کی جاتی ہے۔

شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے ؟

چونکہ ہندو دھرم کا یہ عقیدہ ہے کہ

’’جس گھر ڈولی جائے وہیں سے ڈولا اُٹھے‘‘

اس لئے وہ شادی کے موقع پر جتنی دھوم دھام کر سکتے ہیں کر لیتے ہیں اس لیے کہ ان کے ہاں یہ مجبوری ہے کہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے۔ ان کے مذہب میں طلاق کی اجازت نہ مرد کو ہے نہ عورت کو۔ بدقسمتی سے مسلمانوں نے بھی یہی چلن اختیار کر لیا ہے۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ایسے موقعوں پر اسراف ہونے کے بہت امکانات ہوتے ہیں اور اسراف حرام ہے۔

جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ

’’شریف غصّے کے وقت اور رذیل خوشی کے وقت آزمایا جاتا ہے۔‘‘

ہندوستانی فلموں اور سیریل کے نتیجے میں ہندوستانی مسلمان تو برباد تھے ہی تھے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہندوستان سے کہیں زیادہ پاکستان میں ان فلموں اور سیریل کا اثر دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسی ایسی رسمیں ایجاد کر لی گئی ہیں کہ انہیں دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ کسی مسلمان کی شادی ہے۔ ان میں اسراف، لہو و لعب، عورتوں اور مردوں کی مخلوط شرکت و بے تکلفی، عورتوں میں مرکز محفل نظر آنے کا جنون، یہ تمام چیزیں نہ صرف حرام ہیں بلکہ حدود  اللہ کو پار کرنے والی ہیں۔ جب ان چیزوں سے انہیں منع کیا جائے تو یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ

’’شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے س لیے جتنی خوشیاں پوری کر سکتے ہیں ، ضرور کریں گے‘‘۔

استغفراللہ۔۔

یہ عقیدہ یا مغالطہ بھی دراصل ہندو دھرم سے ہی مسلمانوں میں آیا ہے۔ چونکہ ہندو دھرم کی مجبوری یہ ہے کہ ان کے شاستروں کے مندرجہ ذیل احکامات پڑھئے ، آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ شادی واقعی ایک بار ہی ہو سکتی ہے ، اگر ناکام ہو جائے تو عورت اور مرد ساری زندگی دھرم اور معاشرے کو کوستے ہوئے گزار دیتے ہیں۔

» عورت کو ایک بار کوئی چھولے پھر وہ کسی کے لیے اتیت (جائز) نہیں سوائے برہمن کے۔ (یعنی وہ صرف برہمن کی دیو داسی یعنی رکھیل یا داشتہ بن کر رہے۔ اس کے لئے شادی حرام ہے)۔ اِسے چاہئے کہ وہ مرد کے ساتھ جل جاوے یا بھگوان کے چرنوں میں دیو داسی بن کر جیون گزار دے۔(شیووید)

» اگر مرد مر جاوے تو اُس کی بیوہ سر منڈھوائے ، رنگین کپڑا اور زیور نہ چھوئے۔ پریوار کے کمروں سے الگ ہٹ کر ایسی جگہ سوئے جو باہر کے دروازے کے قریب ہو۔ (شیووید)

» خوشی کی تقریبات میں اس کا دلہا دلہن کے قریب منڈ لانا برا شگون ہے۔ ایسی عورت کو دور رکھا جائے۔ (شیووید)

» یتیم لڑکی کے سر پر بھی برا شگون ہوتا ہے۔ (شیووید)

» کنیا (لڑکی) کا ایک بار دان ہو جانے کے بعد جس گھر اس کی ڈولی جائے وہیں سے اس کا ڈولا اُٹھے۔ (شیووید)

یعنی مرد چاہے اس کی عمر کا دو گنا یا تین گنا ہو۔ چاہے شرابی ، چور ، بدمعاش ہو ، شراب پی کر اس کو روزانہ مارتا ہو۔ اُس عورت کو اُسی مرد کے ساتھ مرتے دم تک رہنا ہے اور اِسی میں اس کی مکتی یعنی نجات ہے۔ چاہے سسرال والے عورت کو نوکرانی کی مانند رکھیں اور ساس ، سسر ،نندیں مل کر چاہیں جتنا اُس پر ظلم کریں ، تہمتیں لگائیں ، عورت کا یہی فرض ہے کہ اس کو دھرم کا پالن کرتے ہوئے شوہر کو بھگوان سمجھ کر اُسی کے چرنوں میں رہنا اور مر جانا ہے۔

آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ سوامی ویویکا نند جیسا شخص جسے ہندو دھرم کا بہت بڑا مفکر اور مصلح Reformer مانا جاتا ہے ، ساری زندگی بیواؤں کی شادی کا مخالف رہا۔

ویدوں میں لفظ شادی کی جگہ ’کنیا دان‘ یعنی لڑکی کو خیرات کر دینا ہے۔ چونکہ دھرم میں بیٹی کی وراثت نہیں ہوتی اور نہ اُسے اپنے بیٹے یا شوہر سے وراثت ملتی ہے اس لیے اُسے باپ یا سرپرست جتنا ہو سکتا ہے شادی ہی کے موقع پر دے کر رخصت کر دیتے ہیں تاکہ نہ وہ دوبارہ باپ کی کمائی کی حصے دار بنے ، نہ آ کر بھائیوں کی زندگی میں بوجھ بنے۔ اس لیے شیووید کا حکم ہے کہ جہاں اس کی ڈولی جائے وہیں سے اس کا ڈولا یعنی ارتھی اُٹھے۔اور سب سے بڑا ظلم یہ تھا کہ شادی کے لئے عورت کی مرضی پوچھنے کی روایت نہیں تھی۔ ماں باپ اُسے جہاں چاہیں بیاہ دیں اس کو اپنی مرضی بیان کرنے کا حق نہیں تھا۔

مرد کے لیے بھی ایسے ہی احکامات ملتے ہیں حتی کہ خود برہمن بھی اگر ایک عورت کے ہوتے ہوئے دوسری عورت سے شادی کر لے تو دوسری بیوی کو ’رنڈی‘ کہا جاتا ہے۔ اگر اس سے کوئی اولاد جنم لے تو اس کو ناجائز اولاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور قانوناً اس اولاد کا باپ کی وراثت میں کوئی حق نہیں۔ ایسی اولاد اگر برہمن سے ہو جاوے تو اُسے باپ کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہیں ، وہ ہری جن (ہری یعنی بھگوان ، جن یعنی اولاد) یعنی بھگوان کی اولاد ہے ، بھگوان اس کا باپ ہے اور اس کی جائے پناہ مندر ہے۔ وہ مندر کی خدمت کرے اور پجاریوں کی سیوا کرے۔یہی نہیں بلکہ دھرم شکشا (تعلیم)سے دور رہے۔ مورتیوں اور مقدس کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے ، ظلم کی انتہا یہ ہے کہ اُس کی دوستی بھی معیوب ہے۔ وہ شودر کے برابر ہے اور سوائے شودر کے کسی اور ورن کی عورت یا مرد سے اس کو شادی کا حق نہیں۔

1956ء میں ہندو پرسنل لا ایکٹ تبدیل کر دیا گیا اور دھرم کی جو اصلی تعلیمات تھیں وہ ختم کر دی گئیں۔ قانون تو خیر بدلا جا سکتا ہے لیکن صدیوں سے چلی آ رہی تعلیمات ذہنوں سے ختم ہونے میں بھی صدیاں لگتی ہیں۔

آج ہندو ذہن میں جو دھرم کا پالن کرنے والے لوگ ہیں انہیں باتوں کو حق سمجھتے ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہے۔ آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان تعلیمات کے مطابق کیا کسی مرد یا عورت کی دوبارہ شادی ممکن ہے ؟

کیا طلاق یا خلع کا تصور ممکن ہے ؟

مرد تو ہزار بہانے کر کے فرار حاصل کر لیتا ہے اور ادھر اُدھر چونچ مار ہی لیتا ہے لیکن عورت کو اگر اس کا شریک حیات اس کو سکون کی زندگی نہ دے سکے تو وہ ساری عمر ایک عذاب میں گزار تی ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ وہ عورت طلاق یا خلع لے کر یا بیوہ ہو کر آئے تو دوبارہ اس کے بھائی یا باپ اس کی دوسری شادی پر اتنا ہی خرچ دوبارہ کر سکیں ؟

اس لیے وہ ایک ہی بار دل کھول کر خرچ کر دیتے ہیں اور سارے رشتے داروں کو جمع کرڈالتے ہیں۔ بارات یقیناً اُن کے لیے زندگی کے ارمان پورے کرنے کا پہلا اور آخری ذریعہ ہے۔

ہندو دھرم کی یہ تفصیلات یہ واضح کرتی ہیں کہ کس طرح مسلمانوں نے بھی انہی عقائد اور طور طریق کو اپنا لیا ہے۔

 

جہیز۔۔۔۔۔۔ ایک مہذب بھیک

Dowry– A Civilised Begging

مقامِ فقر ہے کتنا بلند شاہی سے

روش کسی کی گدایانہ ہو تو کیا کہئیے

بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے

ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہئیے

حضرت محدث دکن ابوالحسنات حضرت سید عبداللہ شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ‘‘ اہلِ ہند کے لئے اور بالخصوص اہلِ دکن کے لئے محتاجِ تعارف نہیں۔ ان کے فیضانِ علم سے سرفراز ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کی معرکۃ  الآرا تصنیف ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ کے بارے میں بلا شبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح ’’مشکوٰۃ‘‘ شافعی مسلک والوں کے لئے ایک نعمت ہے اسی طرح ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ حنفی حضرات کے لئے ایک نادر اور بہترین تحفہ ہے۔

جامعہ ازہر مصر نے تسلیم کیا کہ مسلکِ حنفیہ پر ’’زجاجۃ المصابیح‘‘ سب سے زیادہ مدلّل اور مفصّل تصنیف ہے۔ اس کا اردو ترجمہ ’’نور المصابیح‘‘ کے عنوان سے شائع ہو چکا ہے۔ اس میں حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ نے مانگنے والوں کے بارے میں جو وعیدیں بیان فرمائی ہیں وہ ہر اس شخص کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کے لیے کافی ہیں جو اس گمان میں ہے کہ جہیز کا مانگنا بھیک مانگنے سے الگ شئے ہے۔

جہیز لینا بھیک مانگنے کے برابر کیسے؟

یقیناً آج ایسے بھی کئی لوگ ہیں جو جہیز مانگتے نہیں یہ طئے سمجھا جاتا ہے کہ پلنگ بستر دعوتِ طعام وغیرہ تو ملنا ہی ملنا ہے۔ کیونکہ آج یہ ایک ایسا رواج بن چکا ہے کہ کوئی بیٹی کا باپ اس رواج کو توڑ نہیں سکتا اور نہ لینے والوں کو کوئی عار یا شرم محسوس ہوتی ہے۔ ظاہر ہے جب ایک حمام یا ایک تالاب میں سب ننگے ہیں تو ایک دوسرے سے شرم کیسی ؟ حتیٰ کہ دیندار گھرانے بھی اس کو ایک ’’معروف‘‘ کے طور پر قبول کر چکے ہیں۔

لیکن یہ یاد رہے کہ شریعتِ اسلامی ہو کہ سیرتِ نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) یا سیرتِ صحابہ یا سیرتِ تابعین و تبع تابعین کسی کتاب میں مرد کو لڑکی والوں کی جانب سے پلنگ بستر یا دعوتِ طعام وغیرہ دئیے جانے کی کوئی روایت نہیں ملتی اور نہ کہیں اجازت ہے۔ جب مسلمان ہندوستان میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ یہاں مرد کی ذات کے بڑے مزے ہیں۔ شادی میں عورت کے ساتھ ساتھ اسے مال و اسباب بھی اتنا مل جاتا ہے جسے کمانے کے لئے اُسے کئی ماہ بلکہ کئی سال کی محنت درکار ہوتی ہے۔ چونکہ انسان فطری طور پر ایک معاشی حیوان ہے اس لیے مسلمانوں کے منہ میں بھی پانی بھر آیا۔ ظاہر ہے کہ جو رواج آج عام ہے وہ اس وقت تو نہیں تھا۔ اس لئے یا تو کسی نے پہلے پہل یہ رشوت مانگ کر اس رواج کی ابتداء کی تھی یا پھر کسی بیٹی کے باپ نے اچھے داماد کو حاصل کرنے کے لئے یہ لالچ دینے کا رواج شروع کیا تھا۔ جب دو چار ایسی مثالیں قائم ہوئی ہوں گی تو پھر رواج بنتا چلا گیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج کے دلہا والوں کو مانگنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ یہ کام ان کے آبا و اجداد کر چکے جس کے طفیل انہیں بغیر سوال کئے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ لہذا بھیک مانگنے اور جہیز لینے میں فرق کہاں رہا۔

صاحبو ! اب آئیے سوال کرنے والوں اور مانگنے والوں کے بارے میں حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی تحریر پڑھیں۔ یہ ان حضرات کے لئے ایک قابلِ غور نکتہ ہے جو جوڑا جہیز کو بُرا تو سمجھتے ہیں لیکن حرام نہیں سمجھتے۔ ان سے کہا جائے تو ہٹ دھرمی سے دلیل مانگتے ہیں۔

حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب کے باب ’’لا تحل لہ المسئلۃ و من تحل لہ‘‘ جلد نمبر 5 صفحہ نمبر 58 تا 65 غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ فرماتے ہیں :

’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بے ضرورت سوال کرنا جائز نہیں اگر ضرورتاً کوئی سوال کرے تو اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان تین شرائط کا لحاظ کرے۔ ایک یہ کہ خود کو ذلیل نہ کرے۔ دوسرے یہ کہ سوال کرنے میں آہ و زاری نہ کرے اور تیسرے یہ کہ جس سے سوا ل کر رہا ہو اس کو ایذا نہ دے۔

ان مذکورہ شرائط کے ساتھ سوال کرنے میں علماء کا اختلاف ہے کہ ایسا سوال کرنا حرام ہے یا کراہیت کے ساتھ حلال ہے (کہ مانگنے والا تینوں باتوں میں سے ایک یا د و کا ہی مرتکب ہو رہا ہو) البتہ تمام علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر مذکورہ شرائط میں سے ایک شرط بھی پوری نہ ہو تو ایسا سوال حرام ہے۔‘‘

(شعبہ اللمحات صفحہ نمبر 12)

اس سے پہلے کہ ہم آگے بڑھیں پہلے مذکورہ اقتباس پر غور کرتے ہیں کہ پیشہ ورانہ بھیک مانگنے اور مہذبانہ جہیز مانگنے میں یہ تین باتیں کتنی مشترک ہیں۔

1)۔خود کو ذلیل کرنا :

بے شمار فقیر ایسے ہوتے ہیں جو محنت کر کے کما کر کھا سکتے ہیں لیکن اس بات کا فائدہ اٹھاتے ہیں کہ رحمدل لوگ کچھ نہ کچھ ضرور دے دیتے ہیں۔ رمضان اور عیدین کے موقعوں پر وہ لوگ بھی جو کچھ نہ کچھ کماتے ہیں لوگوں کے اِس جذبۂ انفاق کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور مختلف بہانوں سے صدقہ ،خیرات اور بھیک لے کر فاضل بچت extra saving حاصل کرنے کی جستجو میں رہتے ہیں۔ بالکل اسی طرح دلہا والے بھی ایک رائج سسٹم کا فائدہ اٹھاتے ہیں جس میں جہیز بھی زمانے کے رواج کے بہانے ’’موقعہ بھی ہے دستور بھی ہے‘‘ کہہ کر حاصل کیا جاتا ہے۔

پہلے یا تو فہرست مانگتے ہیں یا پھر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ کیا کیا ملنے والا ہے۔ فہرست طلب کرنے کے بڑے دلچسپ اور معصوم بہانے تراشتے ہیں۔کہتے ہیں ’’ہمیں کوئی ایسی چیز نہیں چاہئے جو پہلے سے گھر میں موجود ہو۔ دلہا امریکہ یا دبئی واپس چلا جائے گا اور دلہن کو بھی بلا لے گا۔ ان کے جانے کے بعد چیزیں پڑی پڑی خراب ہو جائیں گی اس لئے ہمیں پہلے سے بتا دیجیئے کہ آپ کیا دینے والے ہیں‘‘۔

جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جو چیزیں نہیں چاہیئے ہوتی ہیں ان کے بدلے دوسری کام کی چیزیں یا نقد رقم حاصل کر لیں۔ یہ صاف صاف نہیں کہتے کہ جہیز لینا حرام ہے اس لیے ہم کوئی چیز قبول ہی نہیں کریں گے۔

فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے :

ليس المومن ان يذل نفسه

مومن وہ نہیں جو اپنے آپ کو ذلیل کرے

لیکن لوگ اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ انہیں کسی تنومند جوان کا بھیک مانگنا تو ایک ذلیل کام نظر آتا ہے لیکن جوڑا جہیز یا تلک وغیرہ مانگنا اور اپنے مہمانوں کو کھانا کھلانے کا مطالبہ کرنے میں کہیں بھیک کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ اس طرح کا مانگنا یا سسٹم کے نام پر لینا اپنے آپ کو ذلیل کرنا کیونکر ہے اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے یہاں یہ حدیث کافی ہے جسے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری و مسلم سے نقل کی ہے کہ :

’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ لینے اور سوال سے باز رہنے کا ذکر فرما رہے تھے۔ اسی سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ

’’اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اس لئے کہ اوپر کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ لینے والا ہاتھ ہے‘‘۔

(اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے بھی نقل کیا ہے)۔

2۔ آہ و زاری Lamenting نہ کرے۔

جس طرح بھکاری کئی جھوٹے سچے بہانے بنا کر آہ و زاری کرتا ہے اُسی طرح کئی لڑکوں کے ماں باپ کو ہم نے دیکھا کہ جتنا وہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر خرچ کر چکے ہیں وہ پورے کا پورا بیٹے کی شادی کر کے وصول بھی کرنا چاہتے ہیں۔کئی لڑکے ایسے ہوتے ہیں جو اس لین دین کی رسم کے خلاف ہیں لیکن ان کے ماں باپ اور بزرگ ان کو یہ کہہ کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرڈالتے ہیں کہ ان کے ماں باپ نے کن کن مشکلوں سے انہیں پڑھایا لکھایا ہے وغیرہ۔ یہ تمام آہ و زاری کی صورتیں ہیں۔

3۔ ایذا رسانی Torturing & Harassment

اکثر یہ ہوتا ہے کہ پہلے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اللہ کا دیا سب کچھ ہے ہمیں کسی شئے کی حاجت نہیں وغیرہ وغیرہ۔ لڑکی والے دام میں گرفتار ہو جاتے ہیں اور اپنی استطاعت کے مطابق تیاریاں شروع کر دیتے ہیں۔ عین شادی سے قبل لڑکے والوں کی طرف سے بہانے تراشیاں ہوتی ہیں اور نئی نئی فرمائشیں پیش کر دی جاتی ہیں۔ اگر پوری نہ کی گئیں تو شادی توڑنی پڑتی ہے پھر کسی بھی قیمت پر فرمائش پوری کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا۔ اگر فرمائش پوری نہ کی گئی تو بعد میں لڑکی کو جلا دیئے جانے یا اس پر اثرات کروا دیئے جانے کا خوف ماں باپ کو ڈرانے لگتا ہے۔ اور اس اسٹیج پر وہ شادی توڑ بھی نہیں سکتے ورنہ بدنامی اور رسوائی کا خوف لڑکی کے خودکشی کر لینے کے خوف سے بھی کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ اس لئے لڑکی والے ’’خوشی سے‘‘ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ یہ ایذا رسانی کی صورتیں ہیں۔

حضرت قبلہ عبد اللہ شاہ صاحب (رحمۃ اللہ) نے آگے ایک اہم حدیث نقل فرمائی ہے۔

تین آدمی جن کے لیے سوال کرنا جائز ہے

قبیصہ بن نجارق (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک قرضے کی ادائے گی کی ضمانت اپنے اوپر لی تھی (جو ایک دیت یعنی خون بہا کے سلسلے میں تھی۔ چونکہ مصرفِ زکوٰۃ میں قرض کی ادائی بھی شامل ہے اس لئے) میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ قرض کی ادائے گی کے لئے کچھ مرحمت فرمائیے۔

حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ارشاد فرمایا کچھ دن ٹھہر جاؤ جب تک کہ ہمارے پاس زکوٰۃ کا مال آ جائے اور ہم اس میں سے تم کو دلوا دیں۔

پھر حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ارشاد فرمایا

’’اے قبیصہ (یاد رکھو) سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے جائز ہے۔

(ایک) اس شخص کے لئے جو کسی قرضے کا ضامن ہو تو اس کے لیے اسی حد تک مانگنا جائز ہے کہ اس سے اس قرضے کی ادائے گی ہو جائے۔ (بشرطیکہ وہ اس کی ادائے گی سے قاصر ہو) اور پھر اس کے بعد نہ مانگے۔

(دوسرے) اس شخص کو سوال کرنا جائز ہے جس کا مال و اسباب کسی آفتِ نا گہانی کے تحت تباہ و برباد ہو گیا ہو۔ (جیسے کھیتی گھر دار وغیرہ)۔ تو ایسے شخص کو اس حد تک مانگنا جائز ہے جس سے اس کے کھانے اور کپڑے کی ضرورت پوری ہو جائے یا اس حد تک کہ وہ اپنا کاروبار سدھار لے۔

(تیسرے) اس شخص کو بھی سوال کرنا جائز ہے جو ایسے فقر و فاقہ میں مبتلا ہو گیا ہو کہ جس کی تصدیق ایسے تین سمجھدار آدمی کرتے ہوں جو اس کو جاننے پہچاننے والے ہوں۔ (تو) اس کو اس حد تک مانگنا جائز ہے کہ جس سے اس کی خوراک اور لباس کی ضرورت پوری ہو جائے یا اس حد تک وہ اپنی زندگی کو سنبھال لے سکے۔

اے قبیضتہ ! ان تینوں کے سوا کسی کو سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ (اگر کوئی شخص ان تینوں صورتوں کے سوا سوال کرے گا) تو ایسا سوال اس کے لئے حرام ہو گا۔ اور اس سوال کے ذریعہ وہ حرام مال کھائے گا۔‘‘

اس کی روایت مسلم نے کی ہے۔ اسے ابو داؤد اور نسائی نے بھی نقل کیا ہے۔(صفحہ 59)

جہیز لینا کیا سوال کرنا ہے؟

مانگنے والا گدا ہے صدقہ مانگے یا خراج

کوئی مانے یا نہ مانے میر و سلطاں سب گدا

جن لوگوں کو یہ اعتراض ہو کہ جہیز لینا سوال کرنے یعنی سائل کے مانگنے کے برابر کیسے ہو سکتا ہے۔ و ہ حضرات اس حدیث پر دوبارہ غور فرمائیں اور یہ نوٹ فرمائیں کہ :

حضرت قبیصہ رضی اللہ عنہ کوئی فقیر نہیں بلکہ ایک معزز صحابی ہیں۔ آپ (رضی اللہ عنہ) جس چیز کی درخواست کر رہے ہیں وہ اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے قرض کی ادائی کے سلسلے میں جس کی ذمہ داری آپ (رضی اللہ عنہ) نے اپنے سر لی تھی۔ آپ (رضی اللہ عنہ) کی درخواست کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا یہ فرمانا کہ ’’سوال کرنا صرف تین آدمیوں کے لئے جائز ہے۔۔۔ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ صرف خیرات یا بھیک مانگنے کو ہی سوال کرنا نہیں کہتے اور نہ ہی اپنی ضرورت پوری کرنے کی غرض سے مانگنے کو سوال کرنا کہتے ہیں بلکہ کسی اور کے قرض کی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے مانگنا بھی سوال کرنے کی تعریف میں آتا ہے۔

دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے مانگنے کی اجازت اسی شخص کو دی ہے جو کسی کے قرضے کا ضامن ہو اور وہ بھی اسی حد تک مانگنا جائز ہے جس میں قرض کی ادائے گی مکمل ہو جاتی ہو۔ یا پھر وہ شخص مانگے جو کسی آفتِ نا گہانی کی وجہ سے تباہ و برباد ہو گیا ہو یا پھر وہ شخص جو فقر و فاقہ میں مبتلا ہو گیا ہو۔

ایک اور اہم نکتہ قابلِ غور یہ بھی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ بھی اشارہ فرما دیا کہ اگر ضامن استطاعت رکھتا ہوتو خود ادا کرے نہ کہ دوسروں سے طلب کرے۔ یہ اکثر دیکھنے میں آ تا ہے کہ لوگ خود تو استطاعت رکھتے ہیں۔اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی پر تو لاکھوں خود خرچ کرتے ہیں لیکن اپنے ہی خاندان کے کسی ضرورتمند کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے دوسروں سے زرِ تعاون کی اپیل کرتے ہیں۔

اگر کوئی اپنی لڑکیوں کی شادیاں کر کے قرضوں میں مبتلا ہو گیا ہو یا جو کچھ جمع پونجی تھی وہ ختم کر چکا ہو تو کیا ایسے شخص کا بیٹے کی شادی پر مانگنا جائز ہو سکتا ہے؟

یا وہ شخص جس نے بیٹوں کی تعلیم پر بہت کچھ خرچ کر دیا ہو اب اس کی پابجائی کے لئے لڑکی والوں سے مانگنا چاہتا ہو کیا وہ جائز ہو سکتا ہے؟

یا وہ والدین جو یہ سوچتے ہیں کہ بیٹا پڑھ لکھ کر کمانے کے قابل ہو جانے کے بعد اس کی کمائی تو آنے والی بیوی کھائے گی اِنہیں کیا ملے گا لہذا جو بھی لینا ہے ابھی لے لو۔

کیا یہ جائز ہو سکتا ہے؟ نہیں۔ ہر گز نہیں۔

جیسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حضرت قبضیتہ (رضی اللہ عنہ) سے فرمایا ’’ان تینوں صورتوں کے علاوہ کسی کا سوال کرنا جائز نہیں۔ ایسا سوال حرام ہو گا۔

حضرت قبلہ (رضی اللہ عنہ) آگے ناجائز سوال کی وعید کے باب میں ترمذی کی روایت سے فرماتے ہیں کہ

’’ارشاد فرمایا رسول اکرم (رضی اللہ عنہ) نے غنی کے لیے سوال کرنا جائز نہیں اور نہ اس شخص کے لیے جو تندرست اور طاقتور ہو۔ جو شخص اپنے مال کو بڑھانے کے لئے لوگوں سے سوال کرتا پھرے قیامت کے دن اس کے چہرے پر (وہ مال) زخم کی صورت میں نمو دار ہو گا۔ وہ مال جہنم میں گرم پتھروں کی شکل میں سامنے آئے گا جس کو یہ کھائے گا۔ تو چاہے تو اس کو کم کر لے یا اس کو بڑھا لے‘‘۔

غنی کی عریف نور المصابیح میں یوں کی گئی ہے کہ ایسا شخص جس پر زکوٰۃ واجب ہو۔ یعنی اُس کے پاس اتنا پیسہ یا مال ہو جو زکوٰۃ کے نصاب کے برابرہو۔

اب وہ حضرات خود ہی غور فرما لیں جو پلنگ ، بستر، الماری اور فریج اسکوٹر اور کار وغیرہ خود بھی خرید سکتے ہیں لیکن لڑکی والوں سے لے کر اپنا پیسہ بچا کر اپنا مال بڑھا لیتے ہیں۔ کیا وہ کل قیامت میں ان تمام چیزوں کے داغ اپنے چہروں پر لے کر نہیں آئیں گے ؟

یہ صحیح ہے کہ لڑکے والے ان چیزوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ وہ بھی ولیمہ وغیرہ پر اتنا خرچ کرتے ہیں کہ اس خرچ کے سامنے پلنگ اور بستر جیسی چیزوں کی کوئی حیثیت نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ صحتمند ہیں تندرست ہیں تو یہ ساری چیزیں لیتے کیوں ہیں؟

یہ صحیح ہے کہ انہوں نے مانگا نہیں ہو گا لیکن یہ رواج تو مانگنے سے ہی شروع ہوا تھا۔ اسی رواج کی پابندی کرنا دراصل مانگنے والوں ہی کی صف میں کھڑا ہونا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ مسجد یا درگاہ کے پاس ایک بھکاری مانگ مانگ کر وصول کرتا ہے دوسرا ایک ایسا بھی ہوتا ہے جو ذرا خود دار ہوتا ہے اور خاموش کھڑا رہتا ہے کیونکہ دینے والا جب مانگنے والے کی جھولی میں ڈال دیتا ہے وہیں خاموش بھکاری کو بھی ضرور دیتا ہے۔ بلکہ خاموشی سے مانگنے والے کو بول بول کر مانگنے والے سے زیادہ ملتا ہے۔ مانگ کر لینے والا اور بغیر مانگے لینے والا ’’لینے والوں‘‘ ہی کی صف میں ہیں۔

ایک اور حدیث حضرت قبلہ (رحمۃ اللہ) مسلم سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا ’’جو لوگوں سے اس غرض سے سوال کرتا ہے کہ خوب مالدار بن جائے تو وہ حقیقت میں جہنم کے انگارے مانگتا ہے۔ اب اسے اختیار ہے کہ چاہے وہ اپنے لئے کم جمع کرے یا زیادہ‘‘۔

یہاں جہیز لینے والوں کے بارے میں کھل کر بات سامنے آ رہی ہے۔ کیونکہ عورتیں اس بات کی زیادہ حریص ہوتی ہیں کہ بہو اتنا سامان لائے   جو محلے اور برادری میں کسی اور کے گھر نہ ہو۔ ان کا مال و اسباب بڑھے اور برادری میں شان بڑھے۔ اور کئی لڑکوں کے والدین ایسے ہوتے ہیں جو یہ چاہتے ہیں کہ بہو اتنا کچھ لا لے کہ بیٹا بہو الگ سے اچھی زندگی گزار لیں اور والدین کے مال کو دھکا نہ لگے۔ یہ بھی اپنا مال بڑھانے ہی کی تعریف میں آتا ہے۔ کئی والدین یہ کہتے ہیں کہ وہ تو لین دین کے خلاف ہیں لیکن یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کا بیٹا یا بیٹی دوسروں کو دیکھ کر احساسِ کمتری کا شکار ہو جائیں دوسرے الفاظ میں ’’وہ گوشت کھانے سے پرہیز کرتے ہیں لیکن جو بوٹی خود سے پلیٹ میں آ رہی ہے اُسے آنے دیتے ہیں‘‘۔

آگے حضرت قبلہ (رحمۃ اللہ) ایک متفق الیہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ارشاد فرمایا ’’جو شخص لوگوں سے بغیر استحقاق کے مانگے وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے پر ذرہ برابر بھی گوشت نہ ہو گا‘‘۔

بغیر استحقاق کے مانگنا کیا ہے ؟ ہندو دھرم نے لڑکے والوں کو لڑکی والوں سے مال لینے کا حق دیا ہے۔ کیونکہ شادی کے بعد ان کے ہاں باپ کی وراثت میں بیٹی کا کوئی حق نہیں ہوتا۔ لیکن اسلام نے بجائے لڑکی والوں سے لینے کے الٹا انہیں تحفے تحائف دینے کی ترغیب دی ہے۔کیونکہ وہ اپنے جگر کے ٹکڑے کو جوانی تک پال پوس کر حوالے کرتے ہیں۔ اگر مرد شادی کی رشوت یا بخشش کے طور پر کچھ مانگتا ہے تو دراصل کسی اور کا حق مانگ رہا ہے۔وہ حق لڑکی کے بھائیوں کا ہے یاپھرلڑکی کے والدین کی آخری عمر کا سہارا ہے۔

صحابہ کیا سائل (فقیر) تھے؟ (نعوذ باللہ)

حضرت قبلہ (رحمۃ اللہ) امام احمد (علیہ الرحمۃ) کی حدیث نقل کرتے ہیں کہ ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے مجھے اس بات پر عہد لینے کے لئے بلایا کہ میں لوگوں سے کبھی کسی چیز کے لیئے سوال نہ کروں۔ میں نے اقرار کیا کہ جی ہاں۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ کبھی کسی سے کوئ چیز نہ مانگوں گا‘‘۔ اس پر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ارشاد فرمایا ’’اگر تمہارے ہاتھ سے چابک بھی گر جائے  تو (کسی سے نہ مانگنا)۔ سواری سے اتر کر خود اٹھا لینا‘‘۔

یاد رہے یہ عہد اس صحابی سے لیا جا رہا ہے جن کا مقام عام صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ممتاز تھا۔ یہ وہ واحد صحابی (رضی اللہ عنہ) تھے جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو یا حبیبی کہتے تھے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی سنتوں سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ اگر کسی کے دستر خوان پر ایک کی جگہ دو سالن ہوتے تو اپنا عصا مار کر کٹورا گرا دیتے اور ڈانٹتے کہ تو نے میرے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) کے دستر پر کبھی ایک سے زائد سالن دیکھے ؟۔ یہ وہ خود دار صحابی (رضی اللہ عنہ) ہیں جنہیں آخری ایّام میں جب کہ آپ (رضی اللہ عنہ) سخت بیمار تھے آپ کی کنواری بیٹیوں کے لیئے خلیفۃ المومنین حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے بیت المال سے وظیفہ مقرر کرنے کی پیشکش کی تو یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ’’میرے حبیب (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا تھا کہ جو شخص سورۃ واقعہ پڑھ کر سوئے اللہ تعالی اسے فاقہ سے محفوظ رکھے گا۔ میری بیٹیاں اس پر عمل کرتی ہیں انہیں کسی وظیفہ کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔

ایسے صحابی سے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا عہد لینا کیا معنی رکھتا ہے؟

کیا معاذ اللہ ابو ذر غفاری (رضی اللہ عنہ) کوئی مانگنے والے صحابی تھے؟

ایک عظیم صحابی سے یہ عہد لینا دراصل امت کے ان تمام معزز، اہلِ استطاعت اور غنی افراد کو تنبیہ کرنا تھا کہ دوستی ، مروّت یا سسٹم کے نام پر یا اپنے عہدے اور اختیار کی بنیاد پر کسی سے کوئی بھی شئے مراعتاً  یا رسماً حاصل کرنا سوال کرنے یعنی مانگنے کے برابر ہے حتیٰ کہ اگر گھوڑے پر سوار ہوں اور چابک ہاتھ سے گر جائے تو وہ بھی کسی سے مانگنا نہیں خود اتر کر لے لینا۔ حالانکہ جہاں پیدل یا خچروں پر سفر کرنے والوں کی اکثریت ہو وہاں گھوڑا رکھنا ایسا ہی تھا جیسے عام طور پر بائیک یا ماروتی یا کرولا کار رکھنے والوں کے درمیان ایک نئے ماڈل کی مرسڈیس یا بی ایم ڈبلیو رکھنا۔ ایسے شخص سے لوگ مرعوب ہو کر تو یوں بھی تعظیماً یا اخلاقاً آگے بڑھ کر کچھ نہ کچھ پیش کرتے ہیں۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ایسے ہی لوگوں کو دراصل تنبیہ کی ہے کہ خبر دار اگر کوئی لین دین سسٹم میں بھی داخل ہے تو تم ہرگز نہ لینا۔

اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے

آگے کی اس حکمت سے بھر پور حدیث پر غور کیجیے جو حضرت قبلہ (رحمۃ اللہ) نے بخاری و مسلم سے نقل کی ہے کہ ’’حضرت عبد اللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ لینے اور سوال سے باز رہنے کا ذکر فرما رہے تھے اسی سلسلے میں ارشاد فرمایا کہ

’’اوپر کا ہاتھ نیچے کے ہاتھ سے بہتر ہے اس لیے کہ اوپر کا ہاتھ دینے والا ہاتھ ہے اور نیچے کا ہاتھ لینے والا ہاتھ ہے‘‘۔

(اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی نے بھی نقل کیا ہے)۔

یہ حدیث ان لوگوں کے لئے قابلِ غور ہے جو اتنے غنی ہیں کہ اگر ان کو جہیز نہ بھی ملے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انہیں دینے والے تو محض تعظیماً یا رکھ رکھاؤ کی خاطر دیتے ہیں اور وہ قبول کر لیتے ہیں۔ لیکن لینا بہر حال لینا ہے اور لینے والا ہاتھ نیچے والا ہاتھ یعنی قبول کرنے والا ہاتھ ہے۔ خوشی سے دینا بہر حال دینا ہے اور دینے والا ہاتھ اوپر ہے یعنی احسان کرنے والا ہاتھ ہے۔ اب جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں وہ فیصلہ کر لیں کہ نیچے کے ہاتھ والے بنیں یا اوپر کے۔

اسی سلسلے میں ایک اور عالمِ دین علامہ محمد مبین نعمانی قادری ، مہتمم دار العلوم قادریہ ، چریا کوٹ ، یو پی فرماتے ہیں :

لڑکی کو رخصتی کے وقت کچھ دینا یقیناً امرِ  مستحسن ہے۔ لیکن اب یہ رسمِ بد جبری بن گئی ہے۔ لڑکی کی پیدائش بد بختی تصور کی جانے لگی ہے۔ اگر لڑکی فرمائش کرے تو اس کا حق ہے لیکن لڑکے کے والدین کو یہ حق کہاں سے پہنچتا ہے کہ وہ ’’لڑکی ہی کی خوشیوں کا واسطہ دے کر سوال کریں ؟‘‘ یہ ایک مہذب بھیک ہے جسے رسم و رواج کے نا م پر ہر شریف و رذیل قبول کر رہا ہے۔

اسلام دو ہی صورتوں میں مانگنے کی اجازت دیتا ہے۔ یا تو سائل کا کوئی حق واجب الادا ہو یا پھر سائل تنگ دست Destitute، یا پھر سطح غربت سے نیچے Below the Poverty Line ہو۔ بلا ضرورت مانگنے کو شریعت حرام قرار دیتی ہے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ ہوں۔ آقائے دو عالم (صلی اللہ علیہ و سلم) ایسے مانگنے والوں کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟

’’جس پر فاقہ گزرا اور نہ اتنے بال بچے ہیں جن کو پالنے کی طاقت نہیں اور وہ سوال کا دروازہ کھولے یعنی مانگے اللہ تعالی اس پر فاقہ کا دروازہ کھول دے گا۔ ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہے‘‘۔

(بیہقی)۔

’’صدقے سے سوال کا دروازہ بند ہو جاتا ہے اور سوال سے محتاجی کا دروازہ کھل جاتا ہے‘‘۔

اور فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ’’جو مال بڑھانے کے لئے سوال کرتا ہے وہ اپنے لئے جہنم کی آگ مانگ رہا ہے ، چاہے زیادہ مانگے یا کم‘‘۔

(ابن ماجہ بحوالہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ)

ان احادیث سے واضح ہو جاتا ہے کہ جہیز مانگنا یا دستور کے مطابق لے لینا سوال کرنے یعنی مانگنے ہی کے مماثل ہے جو کہ ایک مہذب بھیک ہے۔

حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جس ہندو دھرم کی اس رسمِ بد کے ہم عادی ہو چکے ہیں وہی قوم آج جہیز اور تلک کے خلاف آواز بلند کر رہی ہے۔ معاشرے کے با اثر Influencial حضرات اور خاص طور پر علماء کرام اور ائمّہ مساجد اور خطیب اگر چاہیں تو آج بھی یہ ہلاکت خیز رسم مسلمانوں کے معاشرے سے ختم ہو سکتی ہے۔

(تحفظ اسلام نمبر صفحہ 341)

بے برکت نکاح

فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے

اعظم النكاح برکه ايسر مئونه

سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو نہایت آسانی اور بغیر تکلف کے انجام پائے۔

اس حدیث پر اگر الٹا عمل کیا جائے اور ایسا نکاح کیا جائے جو خود کے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی مشکل بن جائے تو ایسے نکاح سے برکت اٹھا لی جاتی ہے۔ وہ بزرگ جو اسراف سے بھرپور نکاح کی تقریبات میں شرکت کرتے ہیں ، اور برکت کی دعائیں دے کر جاتے ہیں کاش وہ برکت کے معنی بھی سمجھائیں۔۔

نکاح آسان ہے یا زنا ؟

لوگ سوال کرتے ہیں کہ شادی پر کتنا خرچ ہونا چاہئے ؟ اس کا جواب انتہائی آسان ہے۔ ہر شخص جانتا ہے کہ زنا کس قدر عام ہو چکا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ جیب میں کم سے کم کتنے پیسے ہوں تو زنا ممکن ہے۔ اب ہر شخص خود ہی حساب لگا لے کہ لڑکی والوں سے اُس نے جتنا خرچ کروایا ہے وہ خرچ زیادہ ہے یا زنا کے لیے مطلوبہ رقم۔ حقیقت تو یہ ہے کہ لڑکی والوں سے جتنا خرچ کروایا جاتا ہے اس رقم سے ایک بار نہیں بلکہ سینکڑوں بار زنا کیا جا سکتا ہے۔ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اگر حکم دیا ہے کہ ’نکاح کو اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہو جائے ، اب ہر شخص خود یہ حساب لگا لے کہ اس نے ایک نکاح کے مقابلے میں کتنی مرتبہ کے زنا کو آسان کر دیا۔

 

مردانہ جسم فروشی

وہ فریب خوردہ شاہیں کہ پلا ہو کرگسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہِ رسمِ شاہبازی

ایک پیشہ ور عورت اگر پیسہ وصول کرتی ہے تو اس کے بدلے کچھ دیتی بھی ہے۔ لیکن ایک مرد جب جوڑا جہیز وغیرہ کی صورت میں وصول کرتا ہے تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس کے بدلے کیا دے گا؟ لڑکی کے باپ سے کیا وہ یہ مطالبہ نہیں کر رہا ہے کہ :

» میں آپ کے نواسے نواسی پیدا کروں گا مجھے پلنگ بستر دیجئے۔

» میں آپ کی بیٹی کو کما کر کھلاؤں گا مجھے ویزا یا نقد رقم دیجئے۔

» میں اپنے گھر میں اُسے رہنے کی جگہ دوں گا۔فریج ، ٹی وی ، فرنیچر وغیرہ دیجئے

» میں آپ کی بیٹی کو بِٹھا کر گھماؤں گا گاڑی دیجیے۔

یہ مردانگی کی قیمت کس طرح ہے ؟ اس کا اندازہ تقریباً تیس سال پرانے اس واقعہ سے لگائیے کہ ایک شخص جو رکشا کھینچتا تھا ، اس نے ایک بنڈی پر میوہ فروخت کرنے والے کی لڑکی کے لیے رشتہ بھیجا اور دو ہزار روپئے نقد مانگے۔ ہم نے اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگا :

’’اگر میں ڈاکٹر یا انجینئر ہوتا تو کیا آپ مجھے دو لاکھ نہیں دیتے ؟ اگر وہ مرد ہے تو کیا میں مرد نہیں ہوں ؟‘‘۔

گویا مرد ہونا بھی غلط عورت کے پیشے کی طرح ہے ، عورت کی عمر اور خوبصورتی کے ساتھ ساتھ جس طرح اس کی قیمت بڑھتی ہے اسی طرح مرد کی صلاحیت اور ڈگری کے ساتھ ساتھ اس کی قیمت بڑھتی ہے۔ کسی بھی مشاطہ یا پیام لگانے والے ایجنٹ سے ملئے وہ بلا شرم و جھجک بتا دیتے ہیں کہ کس صلاحیت کے لڑکے کو کتنا آفر مل سکتا ہے ؟

گائے بھینس کے کاروبار میں یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی بیل یا سانڈ خریدنے کا خواہشمند ہے تو اُسے یا تو نقد رقم دینی پڑتی ہے یا پھر ایک گائے یا بھینس کے ساتھ بدل Exchange کرنا پڑتا ہے لیکن گائے کے بدلے بیل یا بھینس کے بدلے سانڈ نہیں لیا جا سکتا بلکہ گائے یا بھینس کے ساتھ ساتھ کچھ نقد رقم بھی دینی پڑتی ہے۔شادیوں کے کاروبار میں بھی یہی ہوتا ہے۔ جب کوئی لڑکی دے کر داماد حاصل کرنا چاہتا ہے تو اُسے لڑکی کے ساتھ بہت ساری نقد رقم اور جہیز بھی دینا پڑتا ہے۔بالفاظِ دیگر اس دور کا مرد بھی سانڈ یا بیل کیطرح کا بکاؤ جانور ہے۔۔

کتنی بے غیرتی اور بے حسی پیدا کرنے والا ہے یہ چلن کہ ایک لڑکی اپنا پیدائشی گھر ، سنسار ، ماں باپ ، بہن بھائی سب کو چھوڑ کر عمر بھر کے لیے آ رہی ہے۔ وہ ایک مہمان ہے بجائے اس کے کہ اس کے لیے گھر سنوارا جائے ، سارا ساز و سامان مہیا کیا جائے ، اسی سے یہ مطالبہ کریں کہ وہ اپنے ساتھ سب کچھ لے کر آئے۔ حتی کہ بستر اور تکیہ بھی ، جب پہلی زچگی ہو تو وہ بھی اپنے ماں باپ کے خرچ پر بچہ جنم دے اور بچے کے ساتھ تحفے بھی لائے۔

نخروں کی حد یہ ہے کہ جب وہ سج دھج کر دلہا بنے تو شیروانی یا سوٹ بھی سسر کے پیسوں کا ہو۔ اور مسجد اور پھر شادی خانے تک پہنچنے کے لیے سُسر اس کے لیے پھولوں سے سجی کار بھی بھیجے۔ یہ تمام نخرے ایک زمانے میں مجرا اور کاروبار کرنے والی حسیناؤں پر سجتے تھے اور راجے مہاراجے اور نواب ان کے نخرے اٹھا کر لطف لیتے تھے۔ لیکن اب وقت کے ساتھ ساتھ تہذیب بدل گئی ہے۔ اب یہ سب نخرے مرد ایک مہذب رواج کے نام پر کرتے ہیں۔ جس طرح پہلے ناچنے والے مردوں کو ہیجڑے یا ڈھویئے کہتے تھے لیکن آج یہ ترقی یافتہ ماڈرن فلم اسٹارز کہلاتے ہیں۔ نئی نسل ان کی دی ہوئی تہذیب کو فخر کے ساتھ اپناتی ہے اسی طرح پہلے جو مردانگی کی شان تھی وہ اب جسم فروشی میں بدل گئی ہے۔ بے غیرتی اور بے حسی جتنی زیادہ دکھائی جائے گی جتنا زیادہ مال سسر سے حاصل کیا جائے گا ، اتنی زیادہ سوسائٹی میں شان بڑھے گی۔بے غیرتی آج مردانگی کہلاتی ہے۔ آج مرد مانگتے نہیں بلکہ جس طرح راجے نواب طوائفوں پر خرچ کر کے خوش ہوتے ہیں آج کے لڑکی والے بھی دامادوں پر خرچ کر کے خوش ہوتے ہیں۔ شائد اسی لئے اگر کسی داماد پر کوئی خرچ نہ کرے تو داماد اور اس کے گھر والے ناراض بھی ہو جاتے ہیں۔

اپنا پسینہ بہاؤ تو پتہ چلے۔۔۔

ہر مرد جانتا ہے کہ محنت اور ایمانداری سے کمانا کتنا مشکل کام ہے۔ کسی اور کا مال اگر اس پر خرچ ہو تو اسے کبھی اس کا اندازہ نہیں ہوتا۔ مولانا یوسف اصلاحی مدیر "ذکریٰ” نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک باپ اپنے جوان بیٹے کو کمانے اور محنت کرنے کی ترغیب دیتے دیتے تھک گیا۔ بیٹا روزانہ دیر تک سوتا ، کھاتا ، پیتا اور دوستوں میں دن گزار دیتا۔ ایک دن باپ نے حکم دے دیا کہ آج کما کر لاؤ ورنہ شام میں گھر میں داخل مت ہونا۔ باپ بہت سخت مزاج تھا بیٹا ڈر گیا سخت پریشان ہوا۔کام کرنے کی عادت تھی نہیں۔کمانے کے لیے کبھی نکلا نہیں تھا۔ اس کی پریشانی دیکھ کر بے چاری ماں کو رحم آ گیا۔ اس نے جو ایک آدھ دینار یا درہم کہیں کپڑوں میں چھپا کر رکھا تھا جیسا کہ عام طور پر عورتیں اس طرح کچھ نہ کچھ بچا کر کہیں چھپا دیتی ہیں تاکہ ضرورت پر کام آئے۔ اس نے بیٹے کو دے دیئے اور کہا کہ باپ سے آنے پر کہہ دینا کہ یہ اس نے کمایا ہے۔

باپ کے آنے پر اس نے وہ درہم باپ کو یہ کہہ کر دے دیا کہ یہ اُس کی دن بھر کی کمائی ہے۔ گھر کے آنگن میں ایک کنواں تھا باپ نے وہ درہم لیا اور کنویں میں پھینک دیا۔ اگلے دن جاتے وقت باپ نے پھر وہی حکم دیا اور بیٹے کی پریشانی دیکھ کر مال نے پھر کہیں جو چھپا کر رکھا تھا وہ درہم دے دیا ، یہ سلسلہ تین چار روز چلا۔ ہر روز باپ درہم لیتا اور کنویں میں پھینک دیتا۔ ایک دن ماں نے لاچاری سے کہا کہ بیٹا ! اب تو جتنے درہم تھے سارے ختم ہو گئے۔ اب میرے پاس کچھ نہیں۔ بیٹے کے پاس گھر سے نکلنے اور کچھ کام کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ وہ بہت ہمت کر کے گھر سے نکلا اور کام تلاش کرنے لگا۔ بازار میں اُسے وزن ڈھونے کے ایک دو کام ملے۔ دن بھر پسینے میں شرابور ہوتا رہا۔ خوب کمر ٹوٹی۔ شام میں مزدوری میں ایک درہم ملا۔ بے حد تھکا ماندہ گھر آیا اور باپ کو وہی درہم پیش کیا کہ ابا جان ! آج محنت کر کے یہ درہم کمایا ہوں۔ باپ نے ہر روز کی طرح درہم لیا اور کنویں میں پھینکنے لگا ، بیٹے نے فوری باپ کا ہاتھ پکڑ لیا اور التجا کی کہ :

’ابا جان  بہت محنت سے کمایا ہوں اسے مت پھینکئے‘۔

ایک مرد ہوتے ہوئے اسے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جیسے اس کے لیے کمانا آسان نہیں ہے اسی طرح جو لڑکی کا باپ یا بھائی ہے اس کے لیے بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ اُن کی بیٹی کی وجہ سے مجبوری ہے لیکن اس مرد کے لیے کسی کی مجبوری کا یوں فائدہ اٹھانا بے غیرتی اور بے حسی نہیں تو اور کیا ہے ؟ کیا آپ محسوس نہیں کرتے کہ آج ہر نوجوان اس بے غیرتی کو ایک دن دھوم سے اپنانے کی خواہش اپنے دل میں ضرور رکھتا ہے ؟یہ بے حِسی کیا بے ضمیری کی علامت نہیں؟

لڑکی کی تعلیم کا خرچ کون ادا کرے؟

ہندوؤں میں یہ رسم اس لئے بڑھی کہ قدیم زمانے میں وہ بنجاروں کی زندگی گزارتے تھے۔ ہر مرد اور ہر عورت کو پیٹ بھرنے اور تن ڈھانکنے کے لیے جنگل اور کھیت میں کام کر کے اپنا اپنا حصہ ادا کرنا ہوتا تھا۔ اور بمشکل تین وقت کا پیٹ بھرتا۔ جب کسی مرد کی شادی ہوتی تو گھر میں ایک فرد کا اضافہ ہو جاتا جس کے لئے سونے، کھانے اور پہننے کے لیئے نئے مسائل پیدا ہو جاتے۔ اس کی پابجائی کے لئے حل یہ تھا آنے والی اپنے حصے کی ہر چیز اپنے ساتھ لالے۔ حالانکہ یہ بھی ظلم تھا کیونکہ جس گھر سے وہ آئی ہو وہاں ایک فرد کی کمی سے محنت کرنے والا ایک ہاتھ کم ہو جاتا ہے۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے کہ اُس گھر کی کمی کو پورا کرنے کے لئے تحفہ دیا جائے۔

عہدِ حاضر میں اکثر لڑکے والے جہیز اور جوڑے کے لئے یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ لڑکے کی تعلیم پر جو خرچ آیا ہے وہ والدین کو واپس ملنا چاہئے۔کیونکہ شادی کے بعد تو لڑکا اپنی کمائی لا کر بیوی کے ہاتھ میں رکھے گا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لڑکے کے والدین نے جو کچھ خرچ کیا وہ تو وصول کر لیتے ہیں لیکن خود لڑکی کی تعلیم اور تربیت پر جو خرچ آیا ہے وہ کون ادا کرے؟

 

النکاح من سنتی کیا ہے

حدیث :

النكاح من سنتي و قال فمن رغب من سنتي فليس مني

متفق الیہ

ترجمہ : ’نکاح میری سنت ہے اور فرمایا کہ جو میری سنت کو نہ اپنائے وہ مجھ سے نہیں‘

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے یہ دو فرمان شادی کے ہر رقعے پر لکھے جاتے ہیں اور ہر تقریبِ نکاح پر قاضی صاحب بآواز بلند پڑھتے بھی ہیں۔ جن کے معنی یہ سمجھے جاتے ہیں کہ نکاح میری سنت ہے اور جو یہ سنت پوری نہ کرے وہ مجھ سے نہیں یعنی وہ مجھ پر نہیں کسی اور پر ایمان لانے والا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے قبل لوگ نکاح نہیں کرتے تھے یا بغیر کسی عقد کے لوگ حرام رشتے قائم کرتے تھے۔ نکاح یا عقد کا طریقہ نبوت سے پہلے بھی تھا اور زمانہ جاہلیت میں بھی۔ لوگ عقد کرتے تھے جس کا طریقہ وہی ہے جو اسلام نے دیا ہے یعنی دو گواہوں کی موجودگی میں مرد یہ کہے کہ میں نے تجھ سے نکاح کیا اور عورت یہ کہے کہ میں نے قبول کیا۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم)کا حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح کا بھی یہی واقعہ ہے جب کہ نہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نبی ہوئے تھے نہ شریعت کا وجود تھا۔

پھر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ کیوں فرمایا کہ نکاح میری سنت ہے جب کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے پہلے سے یہ عمل جاری تھا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے قبل یقیناً نکاح ہوتے تھے لیکن لفظ نکاح پر ’اَل‘ داخل ہونے کے ساتھ ہی نکاح ایک خصوصیت والا نکاح The Nikah ہو گیا اور معنی یہ ہوئے کہ نکاح وہ جو میری سنت ہے۔ یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ نکاح وہی نکاح ہے جس طریقے پر میں نے کیا ہے اور دوسری حدیث حجت کی تکمیل کر دیتی ہے کہ جو میرے طریقے کے مطابق نہ کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔ ظاہر ہے آدمی جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے طریقے کے مطابق نہ کرے گا تو کسی نہ کسی کے طریقے کے مطابق تو کرے گا ہی۔ ہو سکتا ہے وہ ہندوانہ طریقہ ہو عیسائیوں ، یہودیوں یا مجوسیوں کا طریقہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے ان تمام کا مجموعہ Mixture ہو۔

آج شادی جو مشکل ترین بن چکی ہے محض اس حدیث کا مفہوم صحیح نہ سمجھنے کے نتیجے میں ہے۔ اگر واقعی اس کا مطلب یہ ہوتا کہ صرف شادی کی تقریب کا انعقاد کرنا ہی میری سنت ہے تو یہ دین اور شریعت کتنی ادھوری اور مبہم Vague کہلاتی۔ دوسرے مذاہب کی طرح جن میں عبادتوں اور رسموں کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ لیکن آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے زندگی کے ہر ہر عمل کا مکمل نمونہ اپنے عمل کے ذریعے قائم کر دیا ہے۔ شادی تو عورت اور مرد کی زندگی کا سب سے اہم اور یادگار عمل ہے چاہے جس مذہب ملک یا نسل کا آدمی ہو ، شادی تو لازمی ہے پھر کیسے ممکن تھا کہ آپ اسلام کو دوسروں سے ممیّز Distinguished نہ کرتے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے نکاح کئے اور اپنی صاحبزادیوں کے نکاح کیے اور یکساں طریقہ مقرر کیا اور اسی طریقے کو امت کے لیے مقرر کرتے ہوئے فرمایا …

النکاح من سنتی یہ ہے وہ نکاح کا طریقہ جو میری سنت ہے۔ اس سے ہٹ کر جو بھی طریقہ ہو گا اُسے اپنانے والا میری امت سے نہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں اِس حدیث کا انطباق کن کن باتوں پر ہوتا ہے۔

لڑکا لڑکی کا انتخاب

Criteria for Selection

ایک مسلمان ہی کی نہیں بلکہ ہر انسان کی زندگی میں یہ سب سے اہم فیصلہ ہوتا ہے جس کے اثرات برسوں نہیں بلکہ صدیوں تک، اولاد تک ہی نہیں بلکہ نسلوں تلک جاتے ہیں۔ اس میں صرف دو انسانوں کا ملاپ نہیں ہوتابلکہ دو خاندانوں اور دو کلچرزکا ملاپ ہوتا ہے جس میں بے شمار افراد بھی شامل ہوتے ہیں۔ دو انسانوں کا شادی کے ذریعے ملاپ تو ہو جاتا ہے لیکن اس کے بعد ان کے خوش رہنے نہ رہنے کا تعلق پورے معاشرے Society کے چلن سے ہے۔ اتنے اہم فیصلے کے لیے اسلام یہ ہدایت دیتا ہے کہ :

کسی عورت سے نکاح کے لیے چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں۔

(1) مال

(2) خاندان

(3) حسن

(4) دینداری

رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ہدایت یہ ہے کہ آپ دینداری کو پہلے دیکھیں۔ اگر حدیث کے الفاظ کا آج کی اصطلاح میں ترجمہ کیا جائے تو یہ معنی نکلتے ہیں کہ تم ذلیل ہو گے اگر تم نے ترجیح Preference پہلی تین چیزوں کو یعنی مال ، خاندان اور حسن کو دی اور دینداری کو اہمیت نہ دی۔ (ماخوذ بخاری و مسلم)

اسی طرح لڑکے کے انتخاب میں اس حکم کو دیکھئے کہ جب تمہارے پاس ایسے شخص کی طرف سے نکاح کا پیغام آئے جس کی دینداری اور اخلاق کو تم پسند کرتے ہو تو تم اس کو قبول کر لو، اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو زمین میں فساد و فتنہ برپا ہو گا۔ (ماخود ترمذی)

لڑکے میں بھی عام طور پر مال ، ڈگری ، خاندان ، قابلیت اور اخلاق و دینداری دیکھے جاتے ہیں تم اس کے اخلاق و دینداری سے مطمئن ہو تو فوری نکاح کا پیغام قبول کرو ورنہ زمین میں فتنہ و فساد برپا ہو جائے گا۔ فساد کی تعریف یہ ہے کہ زمین پر اللہ کے قانون کے بجائے کسی اور کا قانون چلے۔ اسی سے سارے فتنے پھوٹتے ہیں۔

تو کیا امیر یا خوبصورت لڑکی یا لڑکے سے شادی ہی نہ کریں؟

ان احادیث کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کسی امیر یا خوبصورت یا بڑے خاندان کی لڑکی سے شادی ہی نہ کریں۔ بات ترجیحات یعنی Priorities کی ہے۔ ترجیحات کے تعیّن کا معاملہ راست نیت سے ہے۔ اور نیت کا معاملہ راست اللہ اور بندے کے دل کے درمیان ہے۔ دیندار لڑکے یا لڑکی کو تلاش کر کے لانا جو اتفاق سے امیر، خوبصورت اور صاحبِ خاندان بھی نکل آئے ایک الگ شئے ہے۔ اور اسی طرح ایک امیر، خوبصورت اور بڑے گھر کی لڑکی یا لڑکا تلاش کر کے لانا جو اتفاق سے دیندار بھی نکل آئے بالکل الگ شئے ہے۔ لڑکا یا لڑکی ڈھونڈھنے والوں کی نیت پر منحصر ہے کہ دل میں ترجیحِ اول Priority no۔1 کیا ہے۔

ہر شخص اپنا احتساب کرے کہ اپنی بیوی کے انتخاب کے وقت اس کے دل میں کیا تھا۔ اس کو نیت کہتے ہیں۔ تمام دوسرے اعمال کی طرح نیت بھی نکاح کے شرائط میں سے اہم شرط ہے۔ سنت کی تکمیل سبھی کرتے ہیں لیکن انتخابِ شریکِ حیات کے لیے دل میں کیا امر Factor اہم تھا ؟ یہ سوچنا اصل ہے۔ زبان سے سب یہی کہیں گے کہ ہم نے دینداری دیکھی تھی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہیں کسی نے اپنے ماں باپ اور بہنوں کے انتخاب کو ہی Approval دیا تھا جس میں پہلے ’مال‘ یعنی جوڑا جہیز، ویزا، فلیٹ اور معیاری شادی وغیرہ اہم تھیں یا پھر شہرت یعنی وزیر ، صنعت کار ، لیڈر ، مرشد ، کرکٹر وغیرہ کی بیٹی ہونا اہم تھا یا خوبصورتی میں کسی فلمی ہیروئن جیسی ہونا اہم تھا۔

اگر لڑکا اور لڑکی میں دینداری کسوٹی بنتی تو آج شاید کسی جھوٹے ، رشوت خوروں اور غنڈوں کے گھر رشتہ والا کوئی نہ ہوتا۔ اور لوٹ کی کمائی کھانے والے دوکاندار ، تاجر ، بلڈر ، ڈاکٹر ، انجینئر، وکیل حتی کہ چپراسی کی بھی شادی نہ ہوتی۔پولیس والے سارے کنوارے رہ جاتے اور نہ کسی راشی سرکاری افسر کو کوئی لڑکی دیتا۔

حاصل کلام یہ ہے کہ ’انتخاب Selection‘ کے معیار کو نظر انداز کرنے کے بعد آج جو فتنہ و فساد برپا ہوچکا ہے اور معاشرہ جس طرح اخلاقی تباہیوں کا شکار ہے وہ نظروں کے سامنے ہے۔ ہر شخص خود جانتا ہے کہ وہ کتنا شریف ہے ؟ اس لیے وہ سامنے والوں کی نہ شرافت دیکھتا ہے نہ دینداری۔ جو جھوٹے اور کمائی میں جتنے چالباز ہوں اتنی ہی آسانی سے بڑے سے بڑے گھر کی بیٹی ان کے حصے میں آ جاتی ہے۔ اسی طرح کیسی ہی بد چلن و بد اخلاق لڑکی ہی کیوں نہ ہو جوڑے جہیز کے زور پر قابل سے قابل لڑکا ان کے نصیب میں آ جاتا ہے۔ شریف زادیاں منہ دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ اس لیے نسلوں میں النکاح من سنتی سے غفلت کی وجہ سے کوئی علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) یا حسن (رضی اللہ عنہ) ،حسین (رضی اللہ عنہ) نہیں پیدا ہوتے اور نہ کسی کے دل میں یہ خواہش ہے۔

منگنی

النکاح من سنتی کی یہ دوسری خلاف ورزی کا نام ہے۔ علماء کا اتفاق ہے کہ یہ رسم ایک بدعت ہے ، اس میں اسراف کا پہلو ہے اور اسراف حرام ہے۔

بظاہر منگنی میں کوئی برائی نہیں ہوتی۔ اگر شادی میں کسی وجہ سے تاخیر ہو تو منگنی کر دینے سے لڑکا لڑکی ایک دوسرے سے منسوب ہو جاتے ہیں۔ پھر ان کی نظریں بھٹکتی ہیں نہ کوئی ان پر نگاہِ غلط ڈالتا ہے۔ تصور میں ایک دوسرے کو ایک عرصے تک شریکِ حیات محسوس کرتے ہیں جس سے شادی کے بعد مانوسیت Intimacy اور بڑھتی ہے۔ دونوں طرف کے والدین بھی مطمئن رہتے ہیں۔

اگر یہ رسم اس حد تک ہو کہ دلہن والوں پر مہمان نوازی کا بوجھ ڈالے بغیر دونوں طرف کے گھر والوں کے درمیان محدود ہو تو یہ مباح ہے ، اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اُسے ’منہ میٹھا کرانے‘ کی رسم کہتے ہیں۔ لیکن فی زمانہ اس رسم نے جو شکل اختیار کر لی ہے اس کی وجہ سے امیروں کوتو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن معاشرے کی اکثریت جو کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتی ہے پِس جاتی ہے۔

جوڑے جہیز کے ناقابل برداشت خرچوں میں یہ ایک اور اسراف کا اضافہ ان کی کمر توڑ دیتا ہے۔ منگنی کے ذریعے دلہن والوں کو زبردستی مہمان نوازی، ضیافت اور طعام کی تکلیف دینا دلہے کی طرف سے زیادتی ہے

» رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے گیارہ نکاح کئے لیکن ایک بھی منگنی کی روایت نہیں ملتی۔

» آپ کی چاروں صاحبزادیاں بیاہی گئیں لیکن کسی کی منگنی کے بارے میں ہمیں کسی محدث سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

دارالافتاء جامعہ مظاہر العلوم ، سہارنپور بہ تصدیق مولانا مفتی علی حسن و مولانا مفتی عبدالحبیب کے ایک فتوے کے مطابق ’’منگنی بشمول شادی کی دیگر کئی رسومات کے ، مشرکانہ ہیں اور اہل ہندو Hindus سے لی گئی ہیں ان کا اختیار کرنا سخت گناہ ہے اور ان کا ترک کرنا واجب ہے۔

اگر یوں ہو کہ منگنی خود لڑکے والے اپنے گھر اپنے خرچ پر کریں لڑکی کو بھی وہیں آنے کی دعوت دیں تو پھر دیکھئے لڑکے والے خود ہی یہ کہہ اٹھیں گے کہ یہ رسم فضول ہے اسے سادہ ہونا چاہئے کیوں کہ جب جیب کا مال خرچ ہوتا ہے تو اسراف کی تعریف بھی سمجھ میں آ جاتی ہے۔

عربوں میں یہ لعنت نہیں ہے۔ بالخصوص سعودیوں میں منگنی کے بجائے راست نکاح ہو جاتا ہے۔ لڑکی معہ ولی اور دو گواہوں کے محکمہ شرعی یعنی قاضی کے پاس مقررہ تاریخ پر پہنچ جاتی ہے۔ قاضی حکومت کی طرف سے مقرر ہیں اور قاضی صاحب لڑکی سے راست پوچھ لیتے ہیں کہ :

’کیا یہ شادی تمہاری خوشی سے ہو رہی ہے ؟

’کیا اس مہر پر تم راضی ہو ؟

’مہر نقد حاصل کیا یا نہیں‘

اس کے بعد قاضی مختصر خطبہ پیش کرتے ہیں اس کو خطوبہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد رخصتی تک لڑکی اپنے ماں باپ کے گھر رہتی ہے۔ بعض اوقات رخصتی سال اور دو سال میں بھی ہوتی ہے۔ البتہ اس دوران لڑکا لڑکی کو بات چیت کرنے اور ملنے کی اجازت ہوتی ہے۔ جب رخصتی ہو ، اس دن لڑکے کی طرف سے ولیمہ بڑے پیمانے پر دیا جاتا ہے ، کسی لڑکی والے پر ایک ریال کا بھی خرچ عائد نہیں ہوتا۔۔

بارات اور نکاح کے دن کا کھانا

یہ گولی حلق سے نیچے اتار نا بہت مشکل ہے کہ شادی میں سارے رشتے دار دوست احباب وغیرہ جمع نہ ہوں ، ایسا تو میت میں بھی نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو دلہا یا دلہن کے سرپرست خود بہ نفس نفیس Personally جا کر رقعہ نہ دیں تو لوگ برا مان جاتے ہیں۔ فہرست بار بار چیک کی جاتی ہے کہ کوئی قریبی یا دور کا رشتے دار یا جاننے والا چھوٹ تو نہیں گیا۔ جب سے ویڈیو کی ایجاد ہوئی ہے باراتیوں کے چلن میں تبدیلی آ گئی ہے۔ بناؤ سنگار Beauty Parlour کے کاروبار میں لاکھوں کا منافع بڑھا ہے۔ اگر باراتی اور بالخصوص خواتین زیادہ سے زیادہ نہ ہوں تو شادی کی ویڈیو کسی ویرانے کا عرس لگتی ہے۔

ڈاکٹر اسرار احمد جو پاکستان و ہندوستان میں دروسِ قرآن کے حوالے سے ایک معروف عالم دین ہی نہیں ایک مصلح و مفکر کا درجہ رکھتے ہیں ، فرماتے ہیں کہ قدیم ترین زبانوں میں آج سوائے عربی کے کوئی ایسی زبان نہیں جو کہ زندہ ہو۔۔ ’العربی کالبحر‘ یعنی یہ سمندر کی مانند ہے اس میں تلوار ، اونٹ وغیرہ کے لیے دو دو سو مماثل الفاظ Synonyms ملتے ہیں لیکن پوری عربی زبان میں بارات کا لفظ نہیں ہے اور نہ اس کے مماثل Similar کوئی اور لفظ۔ کیوں کہ عربی روایات میں بارات کا نہ وجود ہے نہ تصور۔ یہ خالصتاً عجمی لفظ ہے اس کا پورا کا پورا تصور بھی عجمی ہے۔۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی (رحمۃ اللہ) فرماتے ہیں کہ ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ مدینہ کی آبادی زیادہ نہ ہوتے ہوئے بھی اور خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے اس بستی میں موجود رہتے ہوئے بھی صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے نکاح کئے اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بلانا ضروری نہ سمجھا۔ یہی اسلامی مزاج ہے اس میں اعلان یا تشہیر کا عنصر ہندوؤں اور مجوسیوں سے داخل ہوا۔ اسلامی طریقۂ اعلان یا آپ جسے موقع خوشی یا تقریب کا درجہ دے سکتے ہیں وہ ہے ولیمہ۔ آدمی اپنی استطاعت کے مطابق ضرور کرے۔

لیکن فی زمانہ بارات اور دوسری فضولیات نے شادی کو اتنا مہنگا معاملہ بنا دیا ہے کہ اگر کسی باپ کے سر پر اس کی بیوہ یا مطلقہ بیٹی کے عقدِ ثانی کی ذمہ داری ہو تو وہ اس خرچ کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک کنواری کی شادی پر جتنا خرچ آتا ہے اس سے کہیں زیادہ بیوہ یا مطلقہ کی شادی پر آتا ہے۔ نتیجتاً عورت ایک جہنم سے نکل کر دوسرے جہنم میں داخل ہوتی ہے کیوں کہ کم قیمت پر اُسے ایسے ہی مرد ملتے ہیں جو عمر میں بہت زیادہ ہوں ، شادی شدہ اور کئی بڑے بڑے بچوں کے باپ ہوں یا پھر معذور ہوں۔

صرف بارات اور باراتیوں کی ضیافت کے بوجھ کو ختم کر دیا جائے تو شادی کا پچیس فیصد خرچ کم ہو سکتا ہے۔ اسی کی وجہ سے حلال کمائی کے ذریعے کنواریوں کا اٹھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ آج مسلمان معاشرے میں مطلقہ Divorcee اور بیوہ Widows عورتوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے لیکن جہیز بارات وغیرہ کی رسموں نے ان کا عقدِ ثانی ناممکن بنا دیا ہے اس کے جتنے غلط اثرات پائے جاتے ہیں ، اُن کا ہر شخص خود مشاہدہ Observation کر رہا ہے۔

حدیث ’’النکاح من سنّتی‘‘ کا اس سے بڑھ کر اور مذاق نہیں اڑایا جا سکتا کہ ہم اپنی بیٹیوں کی شادی پر نکاح کے دن کے کھانے کو لازم کر لیں۔ یہ سب سے بڑا اسراف ہے اور مکمل ہندو رواج سے لیا گیا ایک عمل ہے۔ اگر اس میں کوئی مصلحت، نیکی یا امت کی فلاح ہوتی تو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنی کسی شادی یا اپنی بیٹیوں کی شادی پر ضرور کھانے کا اہتمام کرتے۔

عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی مثالی شادی

حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی شادی کا واقعہ کئی راویوں نے نقل کیا ہے۔ فقہی اصول مرتب کرنے والے فقہاء و علما کے لئے یہ شادی کئی دلائل فرام کرتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) گزر رہے تھے۔ کپڑوں پر زرد رنگ دیکھ کر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پیٹھ پر ہاتھ تھپتھپاتے ہوئے پوچھا ’’کیا بات ہے بہت خوش نظر آ رہے ہو، کیا نکاح کیا ہے؟‘‘۔ عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) نے جواب دیا ’’ہاں یا رسول اللہ، میں نے نکاح کیا ہے‘‘۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس میں برکت کے لئے دعا فرمائی اور فرمایا ’’ولیمہ ضرور کرو چاہے ایک بکری کا کیوں نہ ہو‘‘۔

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) کی گفتگو سے ہمیں صحیح اسلامی رواجِ شادی کا ثبوت مل جاتا ہے۔ اگرچہ کہ صحابی (رضی اللہ عنہ) اُسی محلّے میں رہتے ہیں جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) رہتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) سے آپ (رضی اللہ عنہ) کی دوستی بھی ایک مثالی ہے۔ آپ (رضی اللہ عنہ) نے جتنا انفاق اسلام کی دعوت اور جنگوں پر کیا ہے بہت کم صحابہ (رضی اللہ عنہم) نے کیا ہے۔ اس کے باوجود آپ (رضی اللہ عنہ) کا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو دعوت نہ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام میں بارات، مہمانانِ خصوصی اور تقریب کا کوئی جواز نہیں ہے۔ایک جواز جو پھر بھی نکل سکتا تھا کہ خطبہ نکاح اگر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) پڑھتے تو موقع بابرکت ہو جاتا اس لئے دوسرے کسی صحابی کو نہ سہی ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو تو دعوت دینی ہی چاہئے تھی لیکن عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) نے یہ بھی نہیں کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نکاح کے موقع پر لوگوں کو جمع کرنا اور کھانے وغیرہ کا اہتمام کرنا اسلامی روایت میں شامل ہی نہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) سے پوچھنا کہ کیا نکاح کر لیا ہے اور پھر ولیمے کی ترغیب دینا بھی قابلِ غور ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ نہیں پوچھا کہ ’’ارے  شادی کر لی اور ہمیں دعوت تک نہیں دی‘‘۔نہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے برا مانا نہ شکایت کی۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی دعوت نہ دے تو شکایت یا تقاضے کا رواج بھی قطعی غیر اسلامی ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا فرمانا کہ ’’ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا کیوں نہ ہو‘‘، یہ بھی قابلِ غور ہے۔ عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) ایک امیر صحابی ہیں۔ پیشے سے تاجر ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے یہ نہیں فرمایا کہ ’’اچھا شادی کی دعوت میں نہیں بلایا کوئی بات نہیں اب ولیمہ پر تو بلایئے  ولیمہ تو دھوم سے کیجیے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلائیے ‘‘۔ جہاں کئی محدثین نے اِس واقعہ کو نوٹ کیا وہاں کسی محدّث نے یہ نہیں لکھا کہ پھر عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) نے ولیمہ کیا اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو بھی بلایا۔ اور نہ یہ لکھا کہ اسی گفتگو کے آخر میں عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) نے شادی پر نہ بلانے کی معذرت پیش کی ، شرمندگی کا اظہار کیا یا ولیمہ کا گرمجوشی سے وعدہ کرتے ہوئے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو اڈوانس میں دعوت دی۔ ان تمام باتوں سے پتہ یہ چلتا ہے کہ نہ نکاح پر ہر ایک کو جمع کرنا اسلامی مزاج ہے اور نہ ولیمہ پر۔عبدالرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) نے ولیمہ تو ضرور کیا ہو گا لیکن آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کو نہ بلانا اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ ترجیحات کی بنا پر لِسٹ بنا کر ایک ایک اہم شخص کو جمع کرنا بھی اسلامی مزاج سے مطابقت نہیں رکھتا۔

اس کے علاوہ بھی اور کئی صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی شادیوں کے واقعات ہیں جیسے حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) اور سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) بچپن کے دوست ہیں۔ ایک غزوہ کے موقع پر دونوں قریب کے خیموں میں مقیم ہیں۔ رات خالد بن ولید (رضی اللہ عنہ) کا نکاح ہوتا ہے اور سعد بن ابی وقاص (رضی اللہ عنہ) کو اگلے دن خبر ہوتی ہے۔ نہ کوئی شکایت نہ برا ماننے کا انداز۔ دونوں ویسے ہی ساتھ رہتے ہیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ ایسے کئی واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں نکاح کے دن لوگوں کو جمع کرنا ایک ایک کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر دعوت دینا۔ برکت اور شہرت کے لئے بڑی بڑی شخصیتوں کو مدعو کرنا۔ بڑے بڑے شادی خانے لے کر لاکھوں کا خرچہ کرنا۔ نہ ہو تو قرض، چندہ یا گھر بار رہن کرنا اور اس طرح سے سماج کے غلط رسومات کا ساتھ دینا اور دوسروں کو بھی اس پر چلنے کی ہمت دلانا۔ یہ تمام چیزیں قطعی غیر اسلامی ہیں۔

اللہ کیا صرف ایک کمزوری کو معاف نہیں کر سکتا؟

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں

ایسا نہیں ہے کہ لوگ پوری شریعت کی بیک وقت خلاف ورزی کرتے ہیں۔ وہ حتی الامکان سب باتوں پر عمل کرتے ہیں بس صرف ایک کمزوری ایسی ہوتی ہے جہاں ہر شخص یہ چاہتا ہے کہ اُسے ایک دو چیزوں میں چھوٹ کا حق دے دیا جائے باقی تمام احکام پر وہ عمل کرنے کو تیار رہتا ہے۔ جیسے ایک صاحب فجر کی نماز کے لئے نہیں اٹھ سکتے لیکن باقی باتوں میں بہترین مسلمان ہیں۔ ایک صاحب کے لئے رشوت لینا مجبوری ہے لیکن دوسری طرف وہ خیرات و صدقات خوب کرتے ہیں۔ کوئی صاحب صرف جوڑا یا جہیز کو عورتوں کی مجبوری کی وجہ سے روک نہیں سکتے لیکن دوسری طرف وہ جہاد کے لئے بھی نکل سکتے ہیں۔ ایک صاحب کی خواہش ہے کہ بیٹا یا بیٹی کی شادی پر نکاح کے دن کا کھانا معیاری طریقے سے ہو باقی شادی وہ بغیر جوڑا اور جہیز کے مکمل اسلامی طریقے پر کرنے تیار ہیں۔ اس طرح ہر شخص صرف ایک ایک خلاف ورزی کی اجازت کا جواز نکال لینا چاہتا ہے۔ اسی کی وجہ سے اسلام کا صحیح نظامِ زندگی کہیں بھی نافذ ہونا ناممکن ہے۔ شادی کے دن کا کھانا یعنی Reception بظاہر مہمان نوازی یا میزبانی ہے لیکن حقیقتاً لڑکی کے باپ کو مزید لوٹنے کا ایک بہانہ ہے۔ دلہا بڑی بارات لا کر اپنی شان بڑھاتا ہے اور اِدھر لڑکی کا باپ بھی ساری دنیا کی دعوتیں کھانے کے بعد اپنی باری میں خود لٹنے کا سامان کرتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد فرماتے ہیں کہ ’’’شادی کے موقع پر کھانا کھلانے کے تعلق سے جتنی احادیث اور صحابہ و ائمہ سلف کے واقعات ملتے ہیں وہ سارے کے سارے ولیمے سے تعلق رکھتے ہیں اگر نکاح والے دن کھانا کھلانا کوئی شرعی کام ہوتا تو کوئی تو راوی بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اپنے نکاح کے دن کھانا کھلایا۔ یا حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے نکاح کے موقع پر کھانے کا انتظام فرمایا۔ پورا واقعہ آپ پڑھ چکے ہیں اگر اُمت کی بیٹیوں کے لیے نکاح کے دن کا کھانا بہتر ہوتا تو آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) یا آپ کی طرف سے کوئی صحابی دعوت کا انتظام ضرور کرتے۔ چونکہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا کہ ’سب سے بہتر نکاح وہ ہے جو سب سے آسان اور کم خرچ پر ہو‘۔ اس لیے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اس قسم کی میزبانی نہ اپنے لیے جائز سمجھی نہ اُمت کے لیے۔ اب جو افراد اپنی حیثیت کے مطابق پھر بھی بضد ہیں کہ اس دن کھانا تو ہونا چاہئے وہ اپنے عمل سے یہ ثابت کرتے ہیں کہ (نعوذ بالله) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی مالی حیثیت نہیں تھی ہماری حیثیت ہے ، وہ مہمان نوازی کے آداب سے ناواقف تھے مگر ہم واقف ہیں‘‘۔ اور یہ لوگ امت کے ان لاکھوں افراد کے لئے ایک مصیبت کھڑی کر دیتے ہیں جو استطاعت نہیں رکھتے لیکن اپنی عزت رکھنے کی خاطر ’’خوشی‘‘ سے کھانا کھلانے پر مجبور ہوتے ہیں۔

ضیافتوں کا مقابلہ

حیثیتوں کا یہ مقابلہ انتہائی افسوسناک ہے کہ دلہن والوں اور دلہا والوں میں کون بہتر اور شاندار کھانا کھلاتا ہے۔ شادی کے دن دلہن والے اگر ایک ہزار افراد کو کھانا کھلاتے ہیں تو دلہے والے ولیمہ میں ڈیڑھ ہزار کو بلاتے ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹل والے اور شادی خانوں کے مالک حتیٰ کہ باورچی تک ایک دو شادی میں لاکھوں کے مالک ہو جاتے ہیں لیکن سوسائٹی کی 90 فیصد آبادی جو یہ Afford نہیں کر سکتی ہنس کی چال چلنے کی کوشش میں اپنی چال بھی بھول جاتی ہے اور مجبوراً خون کے آنسو بہاتے ہوئے اس رسم کو پوری کرتی ہے کہ سوسائٹی کا چلن باقی رہے ورنہ سوسائٹی میں ان کی عزت باقی نہیں رہے گی۔ اس کی مزید تفصیلات آگے باب ’’آجکل کی ولیمہ دعوتیں کیا جائز ہیں‘‘ میں ملاحظہ فرمایئے۔

اگر یہ کھانا ختم ہو جائے تو بارات کا تصور خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اور اس طرح سے لاکھوں روپئے کی محنت کی کمائی جو شادی خانے، اسٹیج ، پھول، دلہا کی موٹر ، مٹھائی ، شیروانیاں، نہ صرف دلہن بلکہ ہر بارات میں عورت کے ہر بار نئے کپڑے کیوں کہ وہ ہر دعوت اور ہر ویڈیو میں ایک دو جوڑوں میں ہی نظر آنے کو معیوب سمجھتی ہے اور 50 to 60% عورتوں اور لڑکیوں کا بیوٹی پارلر کا خرچہ وغیرہ ان تمام فضول خرچیوں سے نجات مل جائے گی۔ اندازہ لگائیے کتنے لاکھ روپیے مسلمان صرف بارات میں شرکت اور کھانے پر خرچ کر دیتا ہے اگر مسلمانوں کی کسی ایک شہر میں صرف ایک مہینہ میں ہونے والی شادیوں کے خرچ کا حساب لگایا جائے تو پتہ چلے گا کہ یہ ایک اخبار ’ایک مدرسہ یا کالج یا ایک جماعت و ادارہ کا پورا ایک سال کا خرچ ہے۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ قوم کی ترقی کے لیے لوگوں سے مالی مدد کے لئے کہا جائے تو چہرے سکڑ جاتے ہیں لیکن ایسی فضول رسموں کو پورا کرنے کے لئے قرض بھی مانگنا پڑے تو ضرور مانگ کر پورا کرتے ہیں۔ لوگ گجرات ، لال مسجد اور بابری مسجد کا بدلہ لینے کی باتیں کرتے ہیں لیکن اصل دشمنِ  اسلام اور مخالفِ رسول جو خود ان کے اپنے مزاج میں بیٹھا ہے اس کو ختم کرنا نہیں چاہتے۔

منگنی بارات جہیز ، جوڑا ، تلک شان والے ولیمے وغیرہ اس دور میں مسلمانوں کی منافقت کا کھلا ثبوت ہیں۔ اسے ختم کرنا پہلے لڑکے والوں کی ذمہ داری ہے اور پھر لڑکی والوں کی۔

حرام قرار دیئے جانے کی ایک اور بنیاد۔۔ اسراف

جن علماء کے نزدیک جوڑا جہیز ، منگنی، بارات، شادی کے دن کا کھانا، ولیمے میں ضیافتوں کا مقابلہ حرام ہیں ان کی بنیاد ’’اسراف‘‘ ہے۔ اسراف کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ اِسے قرآن نے حرام قرار دیا ہے۔

۔۔۔۔ وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا

إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُورًا

الإسراء (بني إسرائيل):26-27

ترجمہ : فضول خرچی نہ کرو۔ فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔

اسراف کی تعریف: آسان الفاظ میں اسراف کی تعریف یہ ہے کہ

Before you spend a single penny, think: is it necessary‪?

ایک بھی روپیہ خرچ کرنے سے پہلے اچھی طرح یہ سوچئے کہ کیا یہ ضروری ہے؟

ایک مسلمان کے لئے ضروری یا غیر ضروری کی کسوٹی شریعت ہوتی ہے۔ اگر اس کا دل گواہی دے کہ اس خرچ سے اللہ اور اس کے رسول کی رضا حاصل ہو گی تو وہ ضرور خرچ کرے۔ ورنہ یہی اسراف ہے۔

بوہرہ برادری کا بہترین طرز عمل

بوہرہ کمیونٹی میں ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلامی طرز معاشرت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے ان کے ہاں غلط رسومات پر سخت پابندی ہے۔ ڈاکٹر سیدنا محمد برہان الدین اور ان کے نائب مولانا حسام الدین بذات خود ہر شہر میں ایک ایک ہفتہ قیام کرتے ہیں اور جائزہ لیتے ہیں۔ غریب لڑکیوں کے لیے بیت المال سے اتنی مدد مل جاتی ہے کہ مزید جہیز وغیرہ کے لئے ماں باپ کو پریشانی نہیں ہوتی۔

اُن کے یہاں کھانا نکاح کے دن ہی لڑکے کی طرف سے کھلایا جاتا ہے جسے ولیمہ کہتے ہیں۔ علماء اہل سنت نے بھی اس کی اجازت دی ہے کہ اگر ایجاب و قبول کے بعد مرد ولیمہ دینا چاہے تو شرعاً جائز ہے۔ جو خوشحال لوگ ہیں وہ بھی جہیز وغیرہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ نکاح عام طور پر دن میں ہوتا ہے ظہرانہ Lunch دیا جاتا ہے جو کہ ولیمہ ہوتا ہے اور بعد مغرب رخصتی ہو جاتی ہے۔ دلہا کو نقد رقم دینے کا ان کے ہاں رواج نہیں ہے۔ البتہ فی زمانہ کچھ مثالیں ایسی ضرور ہیں جہاں لڑکوں کو مال یا سامانِ جہیز دیا گیا ہے لیکن اکثریت آسان نکاح اور کم خرچ پر شادی کی پابند ہے۔

چوتھی کا کھانا

بعض مقامات پر ولیمہ میں اگر دلہن والوں کے رشتے دار بھی طعام Dinner میں شریک ہوں تو دلہا والے اس کے پیسے وصول کرتے ہیں۔ دلہن والوں کے اس کھانے میں شرکت کو چوتھی کہا جاتا ہے۔

یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے۔ خود دلہن کے رشتے داروں کا یہ فرض ہے کہ جب تک ولیمہ کی دعوت خود دلہا یا اس کے سرپرست نہ دیں وہ شریک ہی نہ ہوں۔ دلہن کے سرپرستوں کو چاہئے کہ اگر کھلانا اتنا ہی اہم ہے تو کسی اور موقع پر کھلا دیں۔ ظاہر ہے کہ اگر دلہا والوں کے پچاس یا سو آدمی ہوں تو وہ اپنے گھر پر بھی یہ انتظام کر سکتا ہے لیکن دلہن والے بھی شریک ہوں تو بڑی تعداد کے پیش نظر شادی خانہ یا ہال وغیرہ لینا لازمی ہو جاتا ہے جس سے خرچ دوگنا ہو جاتا ہے اور دونوں خاندان زیر بار ہوتے ہیں۔لوگ کیوں غور نہیں کرتے کہ کیا بارات ، کھانا ، جہیز ، چوتھی وغیرہ کی رسمیں کسی شیعہ ، سنی ، بریلوی یا دیوبندی یا اہل حدیث وغیرہ کے مسلک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) یا کسی صحابی کے حوالے سے جائز ہیں ؟ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کسی اُم المومنین یا بیٹی کی چوتھی دی ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) یا کوئی صحابی کسی بارات کے کھانے یا چوتھی کے کھانے میں شریک ہوئے ہیں ؟

 

مہر

حرام نقد حلال اُدھار

مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی اور نہ عورت کے پیار و عصمت کی کوئی قیمت ہو سکتی ہے۔ یہ تو صدیوں سے ظلم اور بے بسی میں جکڑی عورت کو آزادی کا اختیار Freedom of Will عطا کرنے کے لیے اسلام نے عورت کو مہر کا حق دے دیا۔ یہ ایک علامت symbol ہے جس کو قبول کر کے وہ مرد کو اپنانے کا اعلان کرتی ہے۔ اگر وہ اسے قبول نہ ہو تو نہ مرد اس پر زبردستی کر سکتا ہے نہ خود اس کے ماں باپ۔ دراصل مہر عورت کی رضا مندی Consent کا اعلان ہے۔

قرآن مجید میں واضح طور پر جہاں بھی مہر کا حکم آیا ہے ’نقد‘ ادا کرنے کے مفہوم میں آیا ہے۔ فقہاء نے اگرچہ اس کو اُدھار رکھنے کی اجازت دی ہے لیکن قرآن مجید یا سیرت رسول و صحابہ سے ایسا کوئی واقعہ نہیں ملتا کہ مہر کو اُدھار رکھا گیا ہو۔ صحابہ (رضی اللہ عنہم) کی مالی حیثیت کیا تھی یہ تو سبھی جانتے ہیں۔ اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ہر ایک کو حسب استطاعت جتنا نقد ادا کر سکتے ہوں ادا کرنے کا حکم دیا ہے بشرطیکہ وہ عورت کو قبول ہو۔

کسی صحابی (رضی اللہ عنہ) کو زرہ فروخت کرنے کا حکم دیا کسی کے پاس صرف ایک چادر تھی ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے وہی چادر دینے کا حکم دیا۔

کسی کو صرف قرآن مجید کی کچھ آیتیں یاد تھیں ، اس کے علاوہ ان کے پاس کچھ نہیں تھا ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے وہی سورتیں عورت کو یاد دلا دینے کے کام کو مہر کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا۔

حضرت اُم سلیم (رضی اللہ عنہا) کا واقعہ قابل مثال ہے کہ انہوں نے ابوطلحہ (رضی اللہ عنہ) جیسے امیر شخص کے لیے مہر میں صرف کلمہ پڑھنے کی شرط رکھی۔ (اُس وقت تک ابوطلحہ رضی اللہ عنہ اسلام نہیں لائے تھے)۔

شادی کے رقعوں پر النکاح من سنتی لکھوانے والے غور کریں کہ اگر اُدھار رکھنے کا جواز ہوتا تو سیرت رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) و صحابہ (رضی اللہ عنہم) سے ہمیں بے شمار واقعات مل جاتے جو یقیناً بہت غریب تھے لیکن دلوں کے ایسے امیر کہ اگر وہ اُدھار بھی رکھتے تو ان کی طرف سے مہر کے ڈوب جانے کا گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

مہر کے فرض ہونے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ :

الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ // النساء:34

مرد کو عورتوں پر قوام اس لیے بھی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتا ہے اور اس کی ابتداء مہر سے ہوتی ہے۔ جوڑا جہیز لے کر جہاں وہ اس آیت کو اُلٹ دیتا ہے وہیں مہر کو اُدھار کر کے وہ ان تمام آیات کی خلاف ورزی کرتا ہے ، جن کے ذریعے عورت اس پر حلال ہوتی ہے۔

جہیز نقد مہر اُدھار

فقہاء نے مہر کے معاملے میں عرف Prevailing Tradition کی اجازت دی ہے۔ عرف کو جائز قرار دینے کے بعد تو خود جوڑا جہیز کے لیے بھی جائز ہونے کی دلیل نکل آتی ہے اور آج عرف یہ ہے کہ مہر صرف عورت کا نہیں ہوتا مہر عورت کی طرف سے مرد کا بھی ہوتا ہے۔ مرد اپنا مہر پورا پورا نقد لیتا ہے اگر کوئی چیز باقی رہ جائے تو جب تک وصول نہ کر لے کوئی نہ کوئی چال چلتا ہی رہتا ہے اگر وہ معاف کر دینا بھی چاہے تو اس کے گھر والے بہو پر کسی نہ کسی طرح دباؤ ڈالتے رہتے ہیں۔

مہر کے لیے دو لفظ استعمال ہوتے ہیں ، تعجیل یا مہر معجل immediately Payable اور تاجیل یا مہر مؤجل Payable Later۔۔۔ جس میں نہ کوئی ایگریمنٹ ہوتا ہے نہ مدت کا تعین ہوتا ہے نہ یہ طئے ہوتا ہے کہ مرنے سے پہلے دے بھی دیں گے یا بیوہ کو شوہر کی میت پر معاف کر دینا پڑے گا۔

اس طرح آج کا عرف یہ ہوا کہ مرد کا مہر مہرِ معجل اور عورت کا مہر مہرِ مؤجل۔۔۔ جتنے بھی شریف زادوں نے مہر کو موجل Delay کیا ہے اگر لڑکی والے جہیز کو بھی موجل کرتے تو کیا یہ شریف زادے نکاح کرتے ؟

قرآن میں مہر کے بارے میں جو حکم ہے وہ فوری ادا کرنے یعنی مہر معجل کے معنوں میں ہے جیسے :

وَآتُواْ النَّسَاء صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَۃً ۔۔۔ // النساء:4

اور عورتوں کے مہر خوشدلی کے ساتھ دیا کرو۔

وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاء ذَلِكُمْ أَن تَبْتَغُواْ بِأَمْوَالِكُم ۔۔۔ // النساء:24

ان (محرمات) ماسوا جو عورتیں ہیں تمہارے لیے حلال کی گئیں کہ اپنے مالوں کے عوض ان سے طلبِ نکاح کرو۔

فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَۃً ۔۔۔ // النساء:24

پس جو لطف تم نے ان سے اٹھایا ہے اس کے بدلے ان کے مہر ایک فرض کے طور پر ادا کرو۔

فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔ // النساء:25

(اگر آزاد عورت سے نکاح کی استطاعت نہ ہو تو لونڈیوں سے) پس ان سے نکاح کرو لیکن ان کے مالکان کی اجازت کے ساتھ۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر ادا کرو۔

وَكَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَقَدْ أَفْضَى بَعْضُكُمْ إِلَى بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنكُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا // النساء:21

(اگر طلاق ہو جائے تو) اور تم وہ مال کیسے لے سکتے ہو جو دے چکے ہو اور جب کہ تم ایک دوسرے کے پاس آ چکے ہو ہے اور وہ تم سے عہدِ واثق لے چکی ہیں۔

مذکورہ آیات میں کسی مفسّرِ قرآن نے کہیں مہر کو اُدھار رکھنے کی گنجائش نہیں نکالی۔ مہر مقرر ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے اس میں کمی بیشی کی تو اجازت ہے لیکن ادھار کی نہیں۔ جو نقد ادا نہیں کر سکتے انہیں کم خرچ پر لونڈیوں سے نکاح کرنے کی ترغیب دی گئی ورنہ قرآن یہی حکم دیتا کہ آزاد عورت سے ادھار مہر پر نکاح طلب کرو۔ مہر کو نقد ادا کرنے کے حکم کے پیچھے مقصد ہی یہی سمجھ میں آتا ہے کہ عورت کو مردوں کے اُس ظلم سے نجات دلائی جائے جو صدیوں سے چلاآ رہا ہے۔عرب کے مشرک سماج میں اُس وقت بھی عورت کو بیوہ یا مطلقہ ہو جانے پر دوسری شادی کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔ قبیلے کے بڑے سردار اُسے داشتہ بنا کر رکھتے۔ بیوہ کو منحوس تصوّر کیا جاتا۔ نکاح کے لئے اُس کی مرضی دریافت نہیں کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کے ذریعہ عورت کی آزادی کا اعلان کیا اور اُس کی عزّتِ نفس کو بحال کیا۔اس طرح مہر کے پیچھے یہ مقصد پوشیدہ ہے کہ عورت کو مجبوری سے نہیں اپنی خوشی سے قبول کرنے کی آزادی مِلے۔ لیکن ہندوستان کے مشرک سماج میں رہتے ہوئے ہند و پاک کے مسلمانوں نے بھی وہی طریقے اپنائے جو ہندوؤں کے تھے اور عورت کو مجبور کر دیا کہ مہر اُدھار رکھنے پر راضی ہو جائے۔ اور رفتہ رفتہ یہی ’عرف‘ یا ’معروف‘ بنتا چلا گیا۔ اور اس طرح عورت اسلام سے پہلے بھی مرد کے استحصال کا شکار تھی اور آج بھی ہے۔

مہر کا حکم احادیث میں

» مسلم، کتاب اللعان میں ایک واقعہ درج ہے جس میں ایک شوہر نے بیوی پر بے وفائی کا الزام دھرا۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے اُسے الگ ہو جانے کا حکم دیا۔ اس نے اپنا مال جو وہ مہر میں دیا تھا اسے واپس دلوانے کا مطالبہ کیا۔ عبداللہ بن عمر (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے جواب دیا :

’’مہر واپس لینے کا تجھے کوئی حق نہیں تو اس کے پاس جا چکا ہے اس لیے اب وہ مہر تیرا مال نہیں رہا اور اگر تو نے جھوٹا الزام لگایا ہے تو مہر واپس لینے کا حق تجھ سے یوں بھی دور ہو گیا‘‘۔

» جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ یہ مہر دینا نہیں ہے وہ زانی ہے۔

» جو مہر ادا کیے بغیر مر جائے وہ قیامت میں زانیوں کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ (طبرانی)

ان تمام نصوص اور احادیث سے جو باتیں سامنے آتی ہیں وہ یہ ہیں۔

1) یہ کوئی رسمی نمائش Formal or Just Exhibitory شرط نہیں ہے بلکہ ایسی شرط ہے جس کے پورا ہونے پر ہی ایک مرد کے لیے عورت حلال ہوتی ہے۔

2) مہر فوری ادا ہونا واجب ہے اور اگر دونوں کے درمیان کوئی قرار داد ہو کہ کب اور کس طرح ادا ہو گا تو یہ جائز ہے لیکن یہ قرار داد طئے نہ ہو تو یہ فوری واجب الادا یعنی معجل Immediately Payable ہو گا۔ کیوں کہ شارع کے نزدیک اگر وقت اور طریقہ ادائے گی صاف صاف الفاظ میں طئے نہ ہوں تو تعجیل اصل ہو گی اور اس کے بعد اگر ایسا نہ ہو تو عورت کو حق ہے کہ وہ شوہر کو پاس آنے سے روک سکتی ہے۔

(ماخوذ فقہ حنیفہ غایتہ البیان ، شرح العنایہ علی الہدایہ ، اسبیجابی ، رسائل و مسائل مولانا مودودی وغیرہ)۔

بعض علماء نے لکھا ہے کہ اگر مہر فوری ادا نہ کیا گیا ہو اور وقت اور طریقہ ادائے گی کے بارے میں سکوت اختیار کیا گیا ہو تو رواج دیکھا جائے گا

(علامہ ابن ھمام ، فتح القدیر)۔

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ فقہ جس دور میں مرتب ہوئی اور صدیوں سے چلی آ رہی ہے ، وہ دور قطعی الگ تھا مرتب کرنے والے فقہاء جن کا تعلق عرب سے تھا انہوں نے اگر ’رواج‘ کو جائز رکھا تو اس میں یہ بات سمجھنی چاہئے کہ وہ آج کی ہندوستانی پاکستانی سوسائٹی سے قطعی مختلف تھی، وہاں تقویٰ اور اسلامی کردار کے ساتھ ساتھ سرکاری قوانین بھی اسلامی ہی ہوا کرتے تھے۔ فیصلے کے لیے کورٹ نہیں بلکہ قاضی تھے اور محکمہ قضاء ت پورے اختیارات کے ساتھ موجود تھی۔ اگر عورت شوہر کے خلاف کوئی شکایت لے جاتی تو اس کو بغیر کسی وکیل کی مدد کے انصاف ملتا تھا۔

خلع حاصل کرنے کے لئے آج کی طرح قاضی صاحب اس کو ہفتوں اور مہینوں یہ کہہ کر نہیں ٹالتے تھے کہ ’بی بی میں کیا کر سکتا ہوں ، آپ کے شوہر دستخط کرنے کے لئے تیار نہیں‘۔ اور اس کے علاوہ شوہر صاحب اُسے دوسری شادی کر لینے کی دھمکیاں الگ دیتے رہتے۔ اس لیے جن علماء نے ’رواج‘ کو جائز قرار دیا ہے ان پر تنقید کیے بغیر ہم صرف رواج ہی کو اگر اصل بنائیں تو آج مہر کا معجل یعنی فوری ادا کرنا لازمی ہے کیوں کہ یہ عورتوں کے حقوق Women’s Right کے خلاف بات ہے کہ مرد اپنا مہر تو نقد لے لے۔ چاہے اس کے لیے لڑکی کے سرپرست بِک جائیں ، لیکن عورت کا مہر اُدھار رہے اور وہ بھی ایسا ادھار جس کا ملنا یقینی بھی نہیں۔ یہ عورت کے ساتھ سراسر نا انصافی اور عورت کی عزّتِ نفس کی توہین ہے۔ معمولی گائے بھینس بھی خرید کر لائیں اور نقد ادا نہ کریں تو ادائے گی کی قرار داد تو کرنی پڑتی ہے اور قرار داد کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ مردوں نے عورت کو گائے ،بھینس سے بھی کم حیثیت بنا دیا ہے۔

اس سلسلے میں مولانا ابوالا علی مودودی نے ’رسائل و مسائل‘ میں سیر حاصل جواب دیا ہے۔ فرماتے ہیں :

’’قبل اس کے کہ ہم کسی خاص سوسائٹی میں اس قاعدے یعنی ’رواج یا عرف‘ کو جاری کریں ، ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ شریعت نے رواج کو بطور ایک ماخذِ قانون (Source of Law) کے تسلیم نہیں کیا ہے کہ جو کچھ رواج ہو وہی شریعت کے نزدیک حق ہو۔ بلکہ اس کے برعکس وہ غیر متقی سوسائٹی اور اس کے غیر منصفانہ رواجوں کو تسلیم کرتی ہے جو ایک اصلاح شدہ سوسائٹی میں شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کے تحت پیدا ہوئے ہوں۔

لہذا رواج کو بے لکھا معاہدہ مان کر مثل قانون نافذ کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جس سوسائٹی کے رواج کو ہم یہ حیثیت دے رہے ہیں کیا وہ ایک متقی سوسائٹی ہے ؟ اور کیا اس کے رواج شریعت کی روح اور اس کے اصولوں کی پیروی میں پیدا ہوئے ہیں ؟ اگر تحقیق سے اس کا جواب نفی میں ملے تو اس قاعدے کو مثل قانون جاری کرنا عدل نہیں بلکہ قطعاً ایک ظلم ہو گا‘‘۔

اس نقطہ نظر سے جب ہم اپنے ملک کی موجودہ مسلم سوسائٹی کو دیکھتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ تعلقاتِ زن و شوہر کے معاملہ میں اس نے خواہشات نفس کی پیروی اختیار کر کے اس توازن کو بہت بگاڑ دیا ہے جو شریعت نے قائم کیا تھا۔ اور بالعموم اس کا میلان ایسے طریقوں کی طرف ہے جو شریعت کی روح اور اس کے احکام سے صریحاً منحرف ہیں۔ اسی مہر کے معاملہ کو لے لیجئے جس پر ہم یہاں گفتگو کر رہے ہیں۔ اس ملک کے مسلمان بالعموم مہر کو محض ایک رسمی چیز سمجھتے ہیں۔ ان کی نگاہ میں اس کی وہ اہمیت قطعاً نہیں ہے جو قرآن و حدیث میں اس کو دی گئی ہے۔

نکاح کے وقت بالکل ایک نمائشی طور پر مہر کی قرار داد ہو جاتی ہے مگر اس امر کا کوئی تصور ذہنوں میں نہیں ہوتا کہ اس قرار داد کو پورا بھی کرنا ہے۔ بارہا ہم نے مہر کی بات چیت میں اپنے کانوں سے یہ الفاظ سنے ہیں کہ ’میاں کون لیتا ہے کون دیتا ہے‘ گویا یہ فعل محض ضابطہ کی خانہ پُری کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہمارے علم میں 80 فیصدی نکاح ایسے ہوتے ہیں جن میں مہر سرے سے کبھی ادا ہی نہیں کیا جاتا۔

زرِ مہر کی مقدار مقرر کرنے میں اکثر جو چیز لوگوں کے پیش نظر ہوتی ہے وہ صرف یہ کہ اسے طلاق کی روک تھام کا ذریعہ بنایا جائے۔ اس طرح عملاً عورتوں کے ایک شرعی حق کو کالعدم کر دیا گیا ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی کہ جس شریعت کی رو سے یہ لوگ عورتوں کو مردوں پر حلال کرتے ہیں ، وہ مہر کو استحلال فروج کا معاوضہ قرار دیتی ہے اور اگر معاوضہ ادا کرنے کی نیت نہ ہو تو خدا کے نزدیک عورت مرد پر حلال ہی نہیں ہوتی۔

ہمارے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ جس سوسائٹی کا عرف اتنا بگڑ چکا ہو اور جس کے رواج نے شریعت کے احکام اور اس کی روح کے بالکل خلاف صورتیں اختیار کر لی ہوں ، اس کے عرف و رواج کو ازروئے شریعت جائز قرار دینا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے ؟ جن فقہاء کی عبارتیں اعتبارِ عرف کی تائید میں نقل کی جاتی ہیں ، انکے پیشِ نظر نہ یہ بگڑی ہوئی سوسائٹی تھی اور نہ اس کے خلافِ شریعت رواج۔ انہوں نے جو کچھ لکھا تھا وہ ایک اصلاح شدہ سوسائٹی اور اس کے عرف کو پیش نظر رکھ کر لکھا تھا۔ کوئی مفتی مجردان کی عبارتوں کو اچھی طرح سمجھ لے اور یہ تحقیق کر لے کہ جن حالات میں انہوں نے وہ عبارتیں لکھی تھیں ان سے وہ حالات مختلف تو نہیں ہیں جن پر آج انہیں چسپاں کیا جا رہا ہے؟‘‘۔

مقدارِ مہر میں بے اعتدالی کا نتیجہ

مہر کی مقدار میں بے اعتدالی سے سخت منع کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ مہر عورت کی قیمت نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کی رضا مندی کی محض ایک نشانی Symbol ہوتی ہے اس کی مقدار اتنی ہی ہو جتنی کہ ایک آدمی بغیر قرض لیے فوری ادا کر سکے۔ کیوں کہ ایسا تو نہیں ہے کہ عورت کو اس کے بعد مرد سے کچھ بھی ملنے والا نہیں ہے۔

حديث : لا تغلوا فی مهور النساء فتكون عداوۃ (مسند زيد بن علي، احمد)

ترجمہ : عورتوں کے مہر کے معاملے میں غلو نہ کرو کہ عداوت کا سبب بن جائے۔

و نیز حضرت عائشہ صدّیقہ (رضی اللہ عنہا) سے روایت ہے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا:

ان اعظم النساء برکه ايسرهن صداقا (احمد، بيهقي)

سب سے زیادہ برکت والی وہ خاتون ہے جس کا مہر سہل اور آسان ہو۔

اگر عربوں کی سوسائٹی اور ہماری سوسائٹی کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا مہر کے معاملے میں دو انتہائیں Extremes ہیں جن کے بدترین نتائج نمودار ہو رہے ہیں۔

عربوں میں بالخصوص خلیجی ممالک کے امیر ملکوں میں مہر کی رقمیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ مردوں کے لیے زنا آسان ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ امیر عرب زادے جب دوسرے ممالک کو کسی کام سے بھی جاتے ہیں تو لوگ ان پر عیاشی کی نیت سے ہی آنے کا گمان کرتے ہیں۔ روزنامہ اردو نیوز جدہ میں کئی بار یہ خبریں شائع ہوئیں کہ لڑکیوں نے باپ پر مقدمے دائر کر دئیے کیوں کہ زیادہ مہر مانگنے کی وجہ سے وہ عمر سے تجاوز کر رہی ہیں اور کوئی رشتہ نہیں آ رہا ہے

بے شمار شادیاں ناکام ہوتی ہیں بالخصوص سعودی عرب اور کویت میں روزانہ اردو نیوز ہی کے مطابق چار میں ایک شادی طلاق پر ختم ہوتی ہے کیوں کہ جس طرح جوڑے جہیز کی وجہ سے صحیح جوڑ Match نہیں ملتا اسی طرح مہر کی زیادتی کی وجہ سے بھی صحیح جوڑ نہیں ملتا۔ امیر لوگ زیادہ مہر دے کر لڑکی کے باپ کو راضی کر لیتے ہیں لیکن بعد میں عمر کا یا مزاج کا فرق دیوار بن جاتا ہے۔ چونکہ عرب معاشرے میں مطلقہ سے شادی کرنا عام رواج ہے۔ لڑکی کو دوبارہ مہر مل جاتا ہے اس لیے طلاق ایک معمولی بات ہے۔ بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہو گا کہ ایک شوق یا hobby ہے۔

جس طرح انگریزوں میں غیر شادی شدہ ماؤں کی اولادیں عام طور پر پائی جاتی ہیں اسی طرح ان امیر خلیجی ممالک میں بھی ایسے بچے بہت عام ہیں جو ماں باپ میں طلاق کی وجہ سے یا تو دوسری ماں کے ساتھ رہتے ہیں یا دوسرے باپ کے ساتھ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے بچوں کی تربیت نہیں ہو پاتی اور یہ بڑے ہو کر عام طور پر ان تمام منفی اوصاف کے مالک ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ عام امیر عرب شہریوں کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ لوگ قرضے لے کر شادی کرتے ہیں اور پریشان رہتے ہیں۔

وزارتِ انصاف، سعودی عرب کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں روزانہ شادیوں کا اوسط 357 ہے اور روزانہ طلاقوں کا اوسط 78 ہے۔ سال 2008 ء میں کُل شادیاں 1,30,451اور کُل طلاقیں 28,561 رجسٹر ہوئیں۔ جبکہ جن جوڑوں کے درمیان مصالحت کروائی جا سکی ان کی تعداد صرف 1,892 ہے۔

(UNI, Arab News 16۔3۔09)

دوسری انتہا Extreme ہماری سوسائٹی ہے جہاں لڑکی والوں کی کوشش یہ کی ہوتی ہے کہ مہر کم از کم اتنا ہو جتنا جوڑے جہیز پر خرچ ہو رہا ہے۔ لیکن لڑکے والے بھی چالاک ہوتے ہیں جب دینے کی نیت ہی نہ ہو تو چاہے جتنا مہر باندھ لو انہیں کیا فرق پڑتا ہے ؟ لوگوں کو مہر کے معاملے میں سنتِ رسول اور اسلاف کا طریقہ پسند ہے۔ لیکن جوڑا جہیز کے معاملے میں اپنے بزرگوں کا۔ زیادہ مہر باندھنے کے پیچھے لڑکی والوں کی ایک نیت یہ بھی ہوتی ہے کہ جب ادا کرنا لڑکے کی استطاعت میں نہیں ہو گا تو نہ وہ کبھی دوسری شادی کا سوچ سکے گا نہ طلاق دینے کی ہمت کرے گا۔ مہر کی رقم اتنی ہی ہو جو فوری یا قسطوں میں جلد از جلد ادا کی جا سکے۔

مقدارِ مہر

حديث : تزوج ولو بخاتمِِ من حديد

ترجمہ : نکاح کرو خواہ مہر لوہے کا ایک چھلہ ہی کیوں نہ ہو۔

(بخاری و مسلم ،ابو داود، ترمذی، احمد)

حضر ت عمر (رضی اللہ عنہ) زیادہ مہر کے خلاف تھے فرماتے ہیں کہ اے لوگو ! بھاری مہر نہ باندھا کرو اگر یہ عزت و شرف کی چیز ہوتی اور اللہ کے نزدیک یہ تقویٰ کا عمل ہوتا تو سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس پر عمل کرتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بارہ اوقیہ سے زیادہ کسی بیوی یا بیٹی کا مہر مقرر نہیں کیا۔ سوائے اُم حبیبہ کے جسے نجاشی نے طئے کیا تھا۔اور انہوں نے اسے آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی خدمت میں ہدیہ کے طور پر ادا بھی کیا۔ اس کے برخلاف آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حضرت صفیہ (رضی اللہ عنہا) سے ان کی آزادی کو مہر کے طور پر پیش کیا تھا۔

(بخاری بروایت انس رضی اللہ عنہ)

ان تمام احادیث اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے عمل سے یہ حکم ثابت ہوتا ہے کہ مہر کی اتنی زیاد مقدار نہ مقرر کی جائے کہ مرد کی استطاعت سے باہر ہو، یا پھر وہ ادا کرنے کی نیت نہ رکھے۔ حق تو یہ ہے کہ مہر کو حسبِ حیثیت ہونا چاہئے اور اسے نکاح کے بعد فوراً ادا کیا جانا چاہئے۔ لیکن اگر یہ باقی رہا تو وہ ایک قرض رہے گا جس کا ادا کرنا فرض ہو گا جو معاف نہیں کیا جا سکتا۔ ایک حدیث کے مطابق قرض باقی رکھنے والے شہید کی بھی معافی نہیں ہے۔

امہات المومنین اور حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے مہر

حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) : چار سو دینار (1۔7kg) چاندی کے برابر (بتحقیق مولانا شبلی رحمۃ اللہ)

حضرت خدیجہ (رضی اللہ عنہا) : چھ اونٹ یا بیس اونٹ (الرحیق المختوم، مصنف مولانا صفی الرحمان مبارک پوری)

حضرت ام صفیہ (رضی اللہ عنہا) : آزادی (بخاری بروایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ و انس رضی اللہ عنہ)

حضرت ام حبیبہ (رضی اللہ عنہا): چار سو دینار (مولانا عبد الشکور لکھنوی ، ’علم الفقہ‘ ، زندگی نو – جولائی 1994ء)

حضرت ام سلمہ (رضی اللہ عنہا) : دس درہم (عثمان غنی عادل، زندگی نو – جولائی 1994ء)

دیگر ازواج مطہرات بشمول حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) ، حضرت سودہ (رضی اللہ عنہا) ، حضرت حفصہ (رضی اللہ عنہا) ، حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) ،

حضرت بنت خزیمہ (رضی اللہ عنہا) ، حضرت زینب بنت جحش (رضی اللہ عنہا) ، حضرت میمونہ (رضی اللہ عنہا) ، حضرت جویریہ (رضی اللہ عنہا)

: چار سو درہم (1۔4kg چاندی کے برابر) (بتحقیق قاضی اطہر مبارک پوری، زندگی نو – جولائی 1994ء)

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی چاروں صاحبزادیاں : چار سو درہم (عثمان غنی عادل، زندگی نو – جولائی 1994ء)

مولانا شبلی رحمۃ اللہ کی تحقیق کے مطابق حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا مہر چارسو دینار تھا۔زِرہ کی جو قیمت آئی تھی اس سے مہر بھی ادا ہوا تھا اور گھریلو ضرورت کا سامان بھی فراہم ہوا تھا۔ چار سو دینار کے 580 درہم بنتے ہیں جبکہ زِرہ کی قیمت 480 درہم حاصل ہوئی تھی۔ باقی رقم حضرت ابو بکر صدیق (رضی اللہ عنہ) نے پیش کی تھی۔

(بحوالہ ’’المرتضیٰ‘‘ از مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ)۔

اسی لئے اکثر علماء طرفین کا خرچِ نکاح لڑکے کی ذمّہ داری قرار دیتے ہیں۔

(ملاحظہ ہو فتاویٰ ثنائیہ مرتبہ مولانا محمد داود راز دہلوی)

اس سلسلے میں ایک اہم مقالہ غور کرنے والوں کے لئے بڑا اہم ہے۔ اسے جناب عثمان غنی عادل ، ابو ظہبی نے تصنیف کیا اور زندگی نو – جولائی 1994ء میں شائع ہوا۔جس کے چند اہم اقتباسات پیش کئے جا رہے ہیں۔

کیا مہر کو طلاق تک یا انتقال تک اُدھار رکھنا صحیح ہے؟

قرآن حکیم اور معتبر احادیث سے یہ بات ثابت ہے کہ مہر بیوی کا شرعی حق ہے۔ اس کی ادائے گی نکاح کے بعد مرد پر فوری طور پر لازم آتی ہے۔ بلکہ مہر ہی وہ چیز ہے جس کی بنیاد پر ایک مرد کو عورت پر حقوقِ شوہری حاصل ہوتے ہیں۔ شریعتِ اسلامی نے نکاح کی طرح مہر کی ادائے گی کو بھی جائز تعلق اور پاکیزہ رشتے کی بنیاد بنایا ہے۔ مہر ادا نہ کرنے کی نیت رکھنے والوں کو مسند احمد کی ایک حدیث میں زانی کہا گیا ہے۔

مہرِ مؤجّل اور مہرِ معجّل کا مطلب

جہاں تک مہر کی ادائے گی کا سوال ہے اِسے نقد رقم یا مال ہی کی کسی قسم میں سے ہونا چاہئے۔ جیسے سونا چاندی یا کوئی اور زیور وغیرہ۔ البتہ نقد کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں علماء کہتے ہیں کہ کوئی جائداد ، مکان ، دکان، زمین یا ان میں سے کسی کی آمدنی کا کوئی حصّہ بھی مہر میں لکھوایا جا سکتا ہے۔ لیکن ظاہر ہے ضرورت سے زائد جائداد ہر کسی کے پاس نہیں ہوتی۔ چنانچہ حالات بسا اوقات ایسے ہو سکتے ہیں کہ مطلوبہ رقم ایک مرد نقد ادا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہو۔ اس قسم کی صورتِ حال ہی کے پیشِ نظر علماء نے مہر کو مہرِ معجل اور مہرِ موجّل کی دو الگ الگ اصطلاحوں میں بیان کیا ہے۔ مہر معجل وہ ہے جو بعجلت فوری ادا کیا جائے۔ اور مہرِ موجّل وہ مہر ہے جو تاخیر سے ادا کیا جائے۔ یہ دوسری صورت محض ایک رعایت ہے جو لڑکی یا اس کے والدین کی طرف سے دی جاتی ہے۔ گویا یہ ایک ایسا فرض ہے جس کی ادائے گی کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ اس رعایت کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ مہر کی ادائے گی کو اس وقت تک معلّق رکھا جائے جب تک عورت کو طلاق نہ مل جائے یا وہ انتقال نہ کر جائے۔ وفات پا جانے کے بعد مہر کی رقم عورت کے کس کام کی؟ رہا طلاق کے بعد مہر کی ادائے گی کا معاملہ تو اس طرح کی نیت اور ارادہ ہی نکاح کے مقصد کو زائل کر دیتا ہے۔

مہر جب ہتھیار بن جائے

بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ اس معاملے میں دو طرفہ ستم ظریفی کا شکار ہے۔ ایک طرف لڑکی والے لڑکے والوں سے اصرار کر کے زیادہ سے زیادہ مہر باندھنے کی کوشش اس لئے کرتے ہیں تاکہ مرد کبھی کسی حالت میں بھی عورت کو طلاق نہ دے سکے۔ اور اگر دے تو اس کا بھاری بھرکم ’’جرمانہ‘‘ مہر کی صورت میں ادا کرے۔ دوسری طرف لڑکے والے بھی یہ سوچ کر زیادہ مہر باندھنا قبول کر لیتے ہیں کہ لینا دینا کس کو ہے۔ اس بہانے مفت میں مالداری کی نمائش ہو جائے تو کیا برا ہے۔ مہر کے معاملے میں یہ تمام باتیں نیتوں کی خرابی پر دلالت کرتی ہیں۔ جب نکاح کے ابتداء ہی میں نیتوں کی خرابی موجود ہو اور بے اعتمادی اور خوف و خدشات کی پرچھائیاں اپنا سایہ ڈال دیں تو ازدواجی تعلقات میں خیرو برکت کے اجالے کب اور کیسے نمودار ہوں۔ چنانچہ قوتِ برداشت یا اعتماد کی کمی یا ذہن و مزاج کی نا موافقت کی بنا پر ازدواجی تعلقات جب بار بار کشیدگی کی انتہائی حدود پر پہنچ جاتے ہیں تو با عزت طور پر علیٰحدگی صرف اس وجہ سے ممکن نہیں ہوتی کہ طلاق ہونے کی صورت میں مرد کو بڑی رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس بنا پر عورت نہ سکون سے جی سکتی ہے نہ عزت کے ساتھ چھٹکارا حاصل کر کے اپنے لئے دوسرا راستہ اختیار کر سکتی ہے۔ اگرچیکہ قرونِ اولیٰ کیطرح کا وہ مسلم معاشرہ بھی آج موجود نہیں ہے جس میں مطلقہ یا بیوہ عورت سے نکاح کرنا معیوب نہیں بلکہ عین کارِ ثواب سمجھا جاتا تھا۔ تاہم تکلیف دہ ساتھی کی اذیّت سے تنہائی کا دکھ بہتر سمجھ کر ایک عورت یہ فاصلہ بھی طئے نہیں کر سکتی کیونکہ نکاح کے وقت باندھی جانے والی مہر کی یہی بڑی بڑی رقمیں آگے چل کر عورت کے پاوں کی بیڑی بن جاتی ہیں۔ اِلّا یہ کہ عورت چھٹکارا پانے کے لئے مہر کی رقم چھوڑ کر خلع حاصل کر لے یا دونوں خاندانوں کی طرف سے مقرر کردہ ثالث حضرات ، فریقین کے حالات اور مرد کی مالی استطاعت کو دیکھتے ہوئے مہر کی رقم میں مناسب کمی بیشی کر لیں اور اسے فریقین کے لئے قابلِ قبول بنا دیں۔ بدقسمتی سے اپنے حقوق سے واقف رہنے والے اپنے فرائض و حدود سے واقف نہیں ہوتے۔ اِس بنا پر یہ مسئلہ اکثر و بیشتر ضد اور انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔

مہر کی مقدار کیا ہو؟

بعض لوگوں میں مہر کی رقم کو کم سے کم مقرر کرنے کا جو رواج پایا جاتا ہے وہ یقیناً بے بنیاد نہیں ہے۔ اس رواج کی پشت پر بعض علماء کی آراء موجود ہیں۔ جس میں امّ المومنین امّ سلمہ (رضی اللہ عنہا) کے مہر کو بنیاد بنایا گیا ہے جو معتبر روایات کے مطابق دس درہم مقرر ہوا تھا۔ اسی طرح ام المومنین حضرت صفیہ (رضی اللہ عنہا) کا مہر ان کی آزادی کو مقرر کیا گیا تھا جو جنگِ خیبر کے موقع پر قید ہو کر آئی تھیں۔ چونکہ ان کا تعلق یہودی قبیلے کے ایک اعلیٰ خاندان سے تھا اس لئے کسی اور کی غلامی میں دینے کے بجائے انہیں آزاد کر کے حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) نے خود اپنے عقدِ نکاح میں لے لیا تھا۔ چنانچہ حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) کے حسنِ سلوک اور رشتے داری کی اِس نسبت نے یہودیوں کے دل میں ایک نرم گوشہ پیدا کر دیا تھا۔ اور یہی مصلحت اس نکاح میں پوشیدہ بھی تھی۔ مذکورہ بالا دونوں مثالیں مخصوص حالات کے تحت استثنائی نوعیت رکھتی ہیں۔تاہم مہر کی رقم کم سے کم مقرر کرنے کے لئے اگر ان استثنائی واقعات کو بنیاد بنایا جاتا ہے تو دیگر ازواجِ مطہرات (رضی اللہ عنہما) کی مثالوں کو مہر کی بنیاد کیوں نہیں بنایا جا سکتا جن کے مہر چار سو تا پانچ سو درہم مقرر کئے گئے تھے؟

جن لوگوں نے اب تک مہر ادا نہیں کیا وہ کیا کریں ؟

مہر کا تعین مرد کی خاندانی حیثیت ، معاشرتی مرتبہ اور مالی استطاعت کے مطابق ہونا چاہیئے۔ وہیں یہ بات بھی توجہ طلب ہونی چاہئے کہ شادی کے دیگر ضروری اور غیر ضروری اخراجات کے مقابلے میں مہر کی رقم فوری طور پر ادا کرنے کو ترجیح دی جائے۔ کیونکہ کوئی نہیں جانتا کہ کل حالات کیا ہوں گے۔ علاوہ ازیں جن لوگوں کے مہر موجّل باندھے گئے تھے اور رقم کی زیادتی کے سبب وہ اس کی ادائے گی سے قاصر ہیں ایسے تمام لوگوں کو مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ میں نہایت صحیح اور صائب مشورہ دیا ہے کہ ’’وہ اپنی بیویوں کو مہر کی رقم اس حد تک کم کرنے پر راضی کر لیں جسے وہ یکمشت یا قسطوں پر جلد از جلد ادا کر سکتے ہوں‘‘۔

اور نیک بخت بیویوں کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ’’وہ اِس کمی پر راضی ہو جائیں‘‘

خوددار مرد یوں بھی مہر ادا کرتے ہیں۔۔۔ اسلامی تاریخ کا ایک واقعہ

عہدِ اموی میں ایک مقدمہ پیش ہوا۔ عورت نے دعویٰ پیش کیا کہ اس کے شوہر نے اُسے طلاق دی لیکن مہر ادا نہیں کیا۔ جبکہ شوہر کا یہ کہنا تھا کہ اس نے مہر ادا کر دیا ہے۔ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر بضد تھے۔ قاضی نے انتہائی حکمت سے کام لیتے ہوئے عورت کو حکم دیا کہ وہ عدالت میں نقاب اٹھائے اور مرد اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہے کہ اُس نے اِسی عورت کو مہر ادا کیا تھا۔ مرد نے عورت کو نقاب اٹھانے سے روک دیا اور کہا کہ ’’مجھے مہر کی رقم دوبارہ دینا منظور ہے لیکن یہ منظور نہیں کہ میری (سابقہ) بیوی غیروں کے سامنے بے پردہ ہو۔‘‘۔ سبحان اللہ۔ یہ ہے ایک سچے مسلمان کی خود داری اور مردانگی کہ طلاق ہو جانے کے باوجود وہ عورت کی عزت اور حیا کی حفاظت اپنی خود داری کا تقاضہ سمجھ رہا ہے جبکہ آج یہ حال ہے کہ معمولی اختلافات میں ہر دو فریق ایک دوسرے کے خاندان کی عورتوں کی عزت کو پولیس اسٹیشن اور عدالت میں نیلام کر ڈالتے ہیں۔

 

ولیمہ

ولیمہ سنت ہے لیکن۔۔۔

مہر میں بے اعتدالی کی طرح اگر ولیمہ میں بھی بے اعتدالی ہو تو اس کے نقصانات وہی ہوتے ہیں جو جوڑے جہیز اور کثرتِ مہر کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ آج سے پچیس تیس سال قبل تک سعودی عرب میں یہ رواج عام تھا کہ کسی کے ہاں اگر ولیمہ ہوتا تو گلی میں شامیانے لگتے ، دولہے کی طرف سے کوئی شخص تمام پڑوس کے گھروں پر جاتا ،چاہے کوئی ہندی پاکستانی ہو کہ مصری یا سوڈانی ، اُسے زبانی دعوت دیتا کہ آج پڑوس میں فلاں کا ولیمہ ہے شریک ہو جائیے۔ یہ صحیح سنت بھی تھی لیکن افراطِ زر نے اب رسم و رواج بدل دئیے ہیں۔ اب جب تک قیمتی شادی خانے کرائے پر نہ لیے جائیں ، ضرورت سے کہیں زیادہ کھانا بنوا کر آخر میں پھینکا نہ جائے ولیمہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔

مہر کی زیادہ رقمیں یوں بھی مردوں پر کوئی کم بوجھ نہ تھیں جو اب ولیمے کے سسٹم نے مزید ظلم ڈھایا اور ان کی کمر توڑ دی۔ لوگ اعانت ا نفاق بلکہ صدقات مانگ کر مہر اور ولیمے کی رقمیں ادا کرنے پر مجبور ہیں۔ مسجدوں میں باضابطہ اپیل ہوتی ہے ، سرکاری و غیر سرکاری ادارے اس کام کے لیے مختص ہیں جو نوجوانوں کی شادی کے لیے چندے جمع کرتے ہیں اور تقسیم کرتے ہیں جس طرح یہاں جوڑے جہیز نے لڑکی والوں کو بھکاری بنا دیا اسی طرح وہاں مہر اور ولیموں کی زیادتی نے لڑکوں کو بھکاری بنا دیا۔ ایسا انفاق کرتے ہوئے دینے والے کو نیکی یا ثواب کی بھی خوشی نہیں ہوتی کیوں کہ یہ سراسر بدعت ہی نہیں سماج کو اخلاقی طور پر تباہ کرنے والی مدد ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کبھی کسی لڑکی یا لڑکے کی شادی کے لیے چندہ جمع کرنے کی نہ کسی کو ترغیب دی ، نہ صحابہ میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے ، البتہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کسی کو زرہ بیچ کر جہیز اور مہر و ولیمہ کا انتظام کرنے کی ترغیب دی تو کسی کو کلہاڑی فراہم کی کہ جاؤ لکڑی کاٹو اور اپنا گزر بسر کرو

مال مفت دل بے رحم ، جب مفت کا مال ہاتھ آتا ہے تو خرچ بھی ناجائز طریقوں سے ہوتا ہے۔ یہاں لوگ غریب لڑکی کی شادی پر پُر درد اپیل کر کے چندے جمع کرتے ہیں اور ساری فضول رسمیں حتی کہ آتش بازی ، ویڈیو اور فوٹو البم تک بنواتے ہیں وہاں بھی اسی طرح مرد حضرات فلاحی اداروں سے اعانت حاصل کر کے گھر ڈیکوریشن فرنیچر وغیرہ پر دل کھول کر خرچ کر دیتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر تاجر بھی دو ہزار کی چیز کو چار ہزار میں فروخت کرتے ہیں۔

ولیمہ کیا ہے ؟

یہ صرف ایک اعلان ہے کہ فلاں عورت اب فلاں شخص کے نکاح میں ہے ، اس کی اولاد اب فلاں کی وارث ہو گی۔ لیکن ہندو رسموں میں یہ بہت اہم ہے کہ ڈنکا بجے اور لوگ جمع ہوں ، خوب دھوم دھڑاکا ہو کیوں کہ شادی زندگی میں ایک بار ہوتی ہے بار بار نہیں۔ اس لیے جب تک خوب ہنگامہ نہ ہو شادی محسوس ہی نہیں ہوتی۔ ان کے ہاں یہ ایک ارمان ہے اب یہ ارمان پورے عالم اسلام میں در آیا ہے۔ سچ فرمایا حضرت علی (رضی اللہ عنہ) نے کہ شریف کو غصے میں اور رذیل کو خوشی میں پہچانا جاتا ہے ، ایک جائز موقع کو لوگ ناجائز طریقوں پر منانے لگیں تو وہ معاشرہ یقیناً دکھاوے فضول خرچی، فخر و غرور میں مبتلا ہو گا اور اس کا انجام ہو گا مال کی بربادی ، قرضوں کی لعنت، امداد کی طلب اور ایک دوسرے کی تقریبات کو دیکھ کر اس سے زیادہ شاندار کرنے کی آرزوئیں۔گھر اللہ کی رحمت و برکت سے محروم ہو جائیں گے۔ اور ہو بھی یہی رہا ہے ایک طرف شرحِ طلاق بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ دوسری طرف گھریلو تشدّد کے واقعات ہر روز اخبارات کی زینت بنتے چلے جا رہے ہیں۔

’النکاح من سنتی‘ میں ولیمہ کیا ہے ؟

مولانا تقی عثمانی فرماتے ہیں کہ :

ولیمہ فرض یا واجب نہیں حسب استطاعت کرنا مسنون ہے اس کے نہ کرنے سے نکاح میں کوئی حرج نہیں۔ استطاعت نہ ہو تو دوست احباب اپنا اپنا کھانا جمع کر لیں اس کے لیے قرض لینا منع ہے۔ اسی کو ’نکاح‘ کو آسان کرنا کہتے ہیں۔

حدیث : آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے عبدالرحمان بن عوف سے فرمایا کہ :

اولم و لو بشاۃ

ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا کیوں نہ ہو۔(مشکوٰۃ 278)

سب سے بڑا ولیمہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) سے نکاح کے وقت کیا تھا اور وہ ایک بکری کا تھا۔ دوسرے ولیموں میں دو مد جو (ڈیڑھ کلو جوار) کی روایت ملتی ہے۔

حضرت فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کا ولیمہ کھجور ، منقہ اور سادہ پانی پر تھا۔ جس شخص کو ولیمہ اپنی پوزیشن ، شہرت رواج یا یادگار کے طور پر کرنے کی نوبت آئے اور اسراف کی حدوں سے گزرنا پڑے ایسے شخص کو فاسق کہا گیا ہے اور آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فاسق کی دعوت قبول کرنے سے منع کیا ہے۔ (مشکوٰۃ)

حدیث : ’بدترین ولیمہ کا کھانا وہ ہے جس میں مالداروں کو دعوت دی جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے‘۔

آجکل کی ولیمہ دعوتیں کیا جائز ہیں

ایک طرف آقائے نامدار (صلی اللہ علیہ و سلم) کا حکم ہے کہ ولیمہ کی دعوت کو قبول کریں دوسری طرف عہدِ حاضر میں ولیمہ کی دعوتوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ نوّے فیصد دعوتیں غرور، تکبر، تفاخر اور دکھاوے سے بھر پور ہیں۔ ایسی دعوتوں کے تعلق سے فرمانِ رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) یہ ہے کہ :

’’جو شخص شہرت کے واسطے کام کرے گا اللہ اُسے شہرت دے دے گا اور قیامت کے روز رسوا کرے گا‘‘۔

اسی لئے فقہاء نے ایسی دعوتوں میں شرکت سے منع فرمایا ہے جو محض شہرت ، نمود اور تفاخر کے طور پر کی گئی ہوں۔

(رد المختار ، جلد 5 ، صفحہ 245)۔

نیز حدیث میں ان دو لوگوں کی دعوت قبول کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے جو آپس میں مقابلے میں کھلاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے پسِ پردہ رِیا کاری، تکبر اور تفاخر کا جذبہ زیادہ کارفرما ہوتا ہے۔

لڑکے والوں اور لڑکی والوں کے درمیان ایک خاموش مقابلہ رہتا ہے کہ کون کتنے آدمیوں کو کھانا کھلائے گا۔ شہر کے کتنے بڑے لوگ اس میں شریک ہوں گے اور اور کون کتنی ڈِشیں بنوائے گا۔ کہیں چار قسم کی بِریانی ہے تو کہیں پانچ قسم کے گوشت۔ اُدھر عورتوں میں کپڑوں ، زیوروں اور میک اپ کے ایک سے اعلیٰ ایک مظاہرے ہیں۔ مہمانوں کے درمیان تحفوں کے مقابلے ہوتے ہیں۔

لوگ قسمیں کھاتے ہیں کہ ایسی عالیشان دعوتیں کرنے کے پیچھے ان کے دل میں کوئی غرور یا تفاخر کا جذبہ نہیں بلکہ صرف اعلیٰ مہمان نوازی کی خواہش ہے۔ کئی لوگ جواز نکال لاتے ہیں کہ اللہ نے جب مال دیا ہے تو اُسے کھانے کھلانے پر خرچ بھی کرنا چاہئے۔ اللہ نے مہمان نوازی سے منع کہاں کیا ہے وغیرہ۔

یہ جھوٹ کہتے ہیں۔

اگر ولیمہ پر اِس طرح کا خرچ کرنا اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہوتا تو عبد الرحمٰن بن عوف (رضی اللہ عنہ) اور عثمان غنی (رضی اللہ عنہ) سے زیادہ امیر اور کوئی نہیں تھا۔ انہوں نے کیوں ایسی پر تکلف دعوتیں نہیں کیں؟ اگر آج لوگوں کے دل میں تفاخر نہ ہوتا تو وہ معیار شہر کے بڑے لوگوں کی دعوتوں کو نہیں بناتے بلکہ ان صحابہ (رضی اللہ عنہم) کو بناتے۔ مقابلہ دکھاوے کا نہیں سادگی کا کرتے۔ جب ان سے قرآن، حدیث اور سیرتِ صحابہ (رضی اللہ عنہ،) بیان کی جائے تو سِرے سے نظر انداز کرتے ہیں۔ کیونکہ ان لوگوں کے ذہن میں وہ بے شمار دعوتیں ہوتی ہیں جن میں یہ شرکت کر چکے ہیں اور خود گواہ ہیں کہ ان دعوتوں میں اسراف اور غیر ضروری لوازمات کے اور کچھ نہیں لیکن جب ان کی باری آتی ہے تو ان کا سر شرم سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کے آگے نہیں بلکہ ان لوگوں کے سامنے جھک جاتا ہے جنہیں بلا کر اگر اُسی طرح نہ کھلایا جائے جس طرح انہوں نے اِن کو کھلایا ہے۔

یہ معیار جب نو دولتیئے امیروں نے قائم کیا تو متوسط افراد نے قرض لے کر اور غریبوں نے چندہ، خیرات اور زکوٰۃ مانگ کر اس معیار کی تقلید کرنی شروع کی اور اپنی حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرنا شروع کیا۔ وہ کونسی شئے ہے جو انہیں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی پسند و ناپسند معلوم ہونے کے باوجود ہٹ دھرمی، نافرمانی اور آناکانی پر اُکساتی ہے ؟ پتہ چلے گا کہ سوسائٹی میں اپنے مقام کا زعم، مذاق اڑائے جانے کا خوف ، اپنے دریا دل، مہمان نواز یا کلچرڈ امیج قائم کرنے کا جذبہ ، یہی وہ چیزیں ہیں جو ان لوگوں کو اسراف اور دکھاوے پر مجبور کرتی ہیں۔ کئی افراد تو ایسے بھی ہیں جو واقعی ایسی دعوتوں میں سادگی کا معیار قائم کرنا تو چاہتے ہیں لیکن ان میں عورتوں کو سمجھانے کی ہمت نہیں ہوتی۔ ہندوستان اور پاکستان کے معاشرے میں عورت حکمران ہے۔ بالخصوص خوشی کے موقعوں پر سارا نظام عورتوں کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ مرد بھولے پن سے یہ سمجھتا ہے کہ عورت کا محض دل رکھنے کی خاطر مروّت میں اجازت دے رہا ہے جبکہ حقیقت میں عورتوں کے آگے وہ ہتھیار ڈالتا چلا جا رہا ہے۔

مومن کا نفس اس کے قرضے کے بدلے معلق رہتا ہے۔ حتیٰ کہ اس کا قرض ادا کر دیا جائے۔ یعنی جو شخص مقروض ہو کر مرا تو وہ اُس وقت تک معاف نہ کیا جائے گا جب تک اس کا قرض نہ ادا کیا گیا ہو۔ شادی بیاہ کے لئے سودی قرض اس رو سے شرعاً حرام قرار پاتے ہیں۔ جو لوگ قرض لے کر شادیاں اور ولیمے کرتے ہیں وہ خود سوچ لیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔

قاعدہ شرعی یہ ہے کہ جو مباح ذریعہ معصیت اور معیّن جرم بن جائے وہ بھی معصیت اور جرم ہو جاتا ہے۔ پس جو نکاح اور ولیمہ کے احکامات جاننے کے باوجود اس سے روگردانی کرے اور غیر لازم کو لازم کرے اور غلط پر بجائے شرمندہ ہونے کے اصرار کرے وہ حرام کے دروازے نہ صرف خود پر بلکہ اپنے پورے خاندان اور احباب پر کھول رہا ہے۔

مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ نے ’’بہشتی زیور‘‘ میں ان تمام امور پر بہت تفصیل سے روشنی ڈالی اور فرمایا :

’’غیر لازم کو لازم سمجھنا بدعت اور ضلالت ہے لہذا اس کا ترک کرنا واجب ہے‘‘۔

(بہشتی زیور ، حصّہ ششم ، اصلاح الرسوم)۔

ایک تجویز : ولیمہ ڈِنر  شادی کے دن ہی کیوں نہیں دیا جا سکتا؟

شریعت کے ہر حکم کے پیچھے عِلّت دیکھی جاتی ہے۔ ولیمہ کی علت یہ ہے کہ نکاح کا اعلان ہو۔ نکاح کے اگلے روز ولیمہ ہونے میں مصلحت یہ تھی کہ دلہا دلہن کی ملاقات کے بعد جبکہ وہ ایک دوسرے سے مطمئن بھی ہو چکے ہوں، دونوں کے درمیان رشتہ اور تعلق مصدق Confirmed ہو جاتا ہے۔ اسی لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے طریقے کو سامنے رکھتے ہوئے فقہاء بالخصوص امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے ولیمہ شبِ نکاح کے اگلے دن کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر پوری شادی کی کاروائی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اور صحابہ (رضی اللہ عنہم) کے طریقے کے مطابق ہو رہی ہو تو ولیمہ بھی انہی کے طریقے پر ہونے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن اگر لوگ کئی دوسرے امور تو اپنی مرضی یا پھر ہندو اور عیسائی طریقوں کی تقلید میں کریں اور ولیمہ کے لئے فقہی جواز پیش کریں تو یہ زیادتی ہے۔ اگر لوگوں کی ضرورت یہ ہو کہ وہ نکاح کے دن ہی تمام دوستوں اور رشتہ داروں میں اعلان کرنا چاہتے ہوں تو یہ ان کی اپنی پیدا کی ہوئی ضرورت ہے نہ کہ شرعی۔

ا س لئے فریقین کی رضامندی سے بجائے ولیمہ کے دن کے، نکاح کے دن بھی کھانا کھلایا جا سکتا ہے۔ اور یہی طریقہ تمام عرب ممالک میں رائج ہے جہاں کی اکثریت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ، امام مالک رحمۃ اللہ یا امام شافعی رحمۃ اللہ کی تقلید کرتی ہے۔ وہاں نکاح گھروں پر یا شادی خانوں پر نہیں ہوتا بلکہ محکمہ (عدالت) میں ہوتا ہے۔ قاضی چل کر دلہا کے پاس نہیں آتا بلکہ دلہا دلہن کو چل کر اس کے پاس جانا پڑتا ہے۔ دونوں مع ولی اور شاہدوں کے قاضی کے سامنے حاضر ہوتے ہیں، ایجاب و قبول قاضی کے سامنے انجام پاتا ہے، قاضی کی موجودگی میں مہر کی رقم ادا کی جاتی ہے۔ اس پوری کاروائی کو خطوبہ یا  خِطبہ کہتے ہیں۔ اس طرح قانون طور پر دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ پھر وداعی کی تقریب منعقد ہوتی ہے جو ضروری نہیں کہ اُسی دن ہو۔ دونوں فریق اپنی اپنی سہولت سے دن مقرر کرتے ہیں۔ وداعی کے دن ہی تمام مہمانوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے۔ وداعی کے بعد مزید کوئی دعوتِ طعام کا طریقہ عرب ممالک میں نہیں ہے۔ چونکہ وداعی کے دن کا کھانا لڑکے والوں کی طرف سے کھلایا جاتا ہے جس میں لڑکی کے بھی سارے رشتہ دار جمع رہتے ہیں اس لئے اسی کو ولیمہ تصوّر کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک حدیث ملتی ہے کہ ولیمہ نکاح کے تین دن کے اندر کرنا افضل ہے، ایک اور حدیث میں سات دن بھی بیان ہوا ہے۔

(ترمذی، سنن، کتاب النکاح بہ روایت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ)۔

علماء کی رائے اس بارے میں منقسم ہے کہ پہلا دن نکاح کے دن کو ہی گِنا جائے یا شبِ وصال کے بعد کے دن کو۔ جن علماء نے نکاح کے دن کو ہی پہلا دن قرار دیا ہے وہ اس کی تائید میں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کا ام المومنین حضرت ام حبیبہ (رضی اللہ عنہا) سے نکاح پیش کرتے ہیں۔ نجاشی نے اس محفل نکاح کو منعقد کیا تھا۔ اس میں جعفر بن طیار (رضی اللہ عنہ) اور دوسرے صحابہ (رضی اللہ عنہم) موجود تھے۔ اس میں نجاشی نے خطبہ پڑھا اور دوسری طرف سے ان کے وکیل خالد بن سعید (رضی اللہ عنہ) نے خطبہ پڑھا۔ اس کے بعد نجاشی نے تمام حاضرین کی دعوتِ طعام کی۔

اور اس کا یہ قول یوں نقل کیا گیا ہے کہ : ’’تزویج کے بعد کھانا ہوتا ہے‘‘۔

(رحمۃ للعلمین از قاضی محمد سلیمان منصورپوری بحوالہ الاستیعاب لابن عبدالبر۔ زندگی نو ، مارچ 1995)۔

یہ جواز اس لئے بھی قوی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) خود وہاں موجود نہیں تھے۔ اس لئے حضرت ام حبیبہ (رضی اللہ عنہا) سے ان کا وصال ممکن نہیں تھا۔ بعد از وصال آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی طرف سے پھر ولیمہ کی کوئی روایت بھی موجود نہیں ہے۔ اس لئے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ’’ولیمہ کے لئے نکاح شرط ہے وصال شرط نہیں‘‘۔

بہتر تو یہی ہے کہ نکاح مسجد میں ہو، اور بغیر کسی دھوم دھام کے لڑکی کے گھر ہی سے لڑکی کی وداعی ہو۔ لڑکا اگلے دن کھانا کھلائے اور اعلان کرے۔ کھانا کھلانا دراصل اعلان ہی کی صورت ہے۔ لیکن اگر لڑکے والوں کا یا لڑکی والوں کا اصرار ہو کہ اعلان نکاح کے دن ہی کر دیا جائے تو بجائے اس بدعت کے کہ نکاح کے دن لڑکی والوں کے خرچ پر کھانا کھلایا جائے اور اگلے دن لڑکے والوں کے خرچ پر دوبارہ کھلایا جائے۔جو کہ سراسر بدعت اور اسراف ہے اگر لڑکا عربوں کی طرح ولیمہ کرے تو اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں ہے بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ وہ یہ کہ لڑکا ایک ایسی چیز سے بچ جائے گا جو حرام کے ارتکاب کی طرف لے جاتی ہے یعنی اسراف، اکل الاموال بالباطل (لڑکی والوں پر دستورِ زمانہ کے نام پر کھانے کے اخراجات کا بار ڈالنا) ، اور ایک ایسا کام کرنا جو النکاح من سنتی کے طریقے سے خارج ہے۔

آج کی تاریخ میں بڑے شہروں جیسے کراچی یا لکھنو یا حیدرآباد دکن میں ایک کھانے کی دعوت پر کم سے کم چھ سات لاکھ روپئے کا خرچ آتا ہے جو صاحبِ استطاعت لوگوں کے لئے کوئی بار نہیں لیکن متوسط اور غریب طبقے کے لئے یہ ایک مصیبت ہے جس کا اندازہ وہی لگا سکتے ہیں جو اس مشکل سے گزرے ہیں۔ انہیں بھی کم سے کم دو تین لاکھ تو خرچ کرنا ہی پڑتا ہیں۔ وہ اس سے فرار اس لئے بھی نہیں حاصل کر سکتے کہ خوشحال لوگ جو ماڈل پیش کر دیتے ہیں وہی سوسائٹی کا چلن تصور کیا جاتا ہے۔ اگر دوسرے لوگ اس کی تقلید نہ کریں تو لڑکی کو سسرال میں بے عزتی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ صاحبِ استطاعت حضرات کو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کہ شریعت کا حکم ٹوٹتا ہے۔ وہ تو یہ سمجھتے ہیں کہ دو چار عمرہ یا حج کر لینے سے اور کچھ انفاق و خیرات میں اضافہ کر دینے سے ہر گناہ دھُل جائے گا۔ مشکل میں تو وہ لوگ پڑ جاتے ہیں جو زمانے کے دستور کو باقی رکھنے پر مجبور ہوتے ہیں اور بیٹی کی عزت کی خاطر شریعت کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے اوپر ہر مشکل لاد لیتے ہیں۔

متاعِ دین و دانش لٹ گئی اللہ والوں کی

یہ کس کافر ادا کا غمزۂ خونریز ہے ساقی

اس لئے لوگ اگر دو الگ الگ ڈِنر رکھنے کے بجائے ایک ہی دن رکھیں تو غریب امت کے نہ صرف کروڑوں روپئے کی بچت ہو گی بلکہ امت کی اس نادانی کا فائدہ اٹھانے والے شادی خانوں کے مالک اور دوسرے تمام لوازمات مہیا کرنے والے کاروباری دام کم کرنے پر خود بخود مجبور ہو جائیں گے۔

 

جوڑا جہیز کفو کے احکامات کی خلاف ورزی ہے

کفو کے معنی جوڑ، ہمسر یا ہم پلّہ کے ہیں۔ جیسے

قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَد ۔۔۔۔۔۔ لَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَد // الإخلاص:1-4

ترجمہ: اس کا کوئی جوڑ یا ہمسر نہیں۔

اسی سے کفو کے معنی اخذ کیے گئے ہیں۔ شادی کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان جوڑ دیکھا جاتا ہے۔ اسی کو فقہ کی زبان میں کفو یا کفاء ت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

شریعت میں مرد اور عورت کے درمیان کفاء ت یا کفو Equality کی بڑی اہمیت ہے۔ کئی امور میں مرد کے لیے لازمی ہے کہ معیار Status میں وہ عورت سے کچھ بہتر ہو یا کم از کم برابر کا ہو۔

اگر مرد ساز و سامان و نقدی کا انتظام نہیں کر سکتا یا کرنا نہیں چاہتا اور عورت سے ان چیزوں کے لانے کی توقع کرتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ مال یا پیسے میں عورت کا کفو نہیں ہے۔ حدیث کی رو سے یہ نکاح بھی صحیح نہیں ہے ، ابوحنیفہ رحمۃ اللہ ، شافعی رحمۃ اللہ و حنبل رحمۃ اللہ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔

آج میاں بیوی کے درمیان جتنے اختلافات اور جھگڑے ہیں ، کورٹ کیس ہیں ، جس کثرت سے طلاق اور خود کشی اور قتل کے واقعات ہو رہے ہیں ، ان کی اصل وجہ یہی ہے کہ شادی سے پہلے انتخاب Selection کا جو مرحلہ ہوتا ہے جس کا ذکر تفصیلاً آگے آئے گا۔ لوگ اس کو نظر انداز Neglect کر دیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ مرد عورت کا کفو Equal ہے یا نہیں۔ کفو کے احکامات کی روشنی میں اگر عہدِ حاضر میں اس کی تشریح کی جائے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ لڑکے کا حسب نسب یعنی خاندان ، خوشحالی ، تعلیم ، پیشہ ، ماحول اور بے عیبی دیکھنا لازمی ہے ورنہ لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ لوگ لڑکی کو بیاہنے کی جلدی میں جوڑا جہیز وغیرہ دے کر غیر کفو Unequal کے حوالے کر دیتے ہیں۔ لیکن بعد میں جو ذہنی طور پر غیر ہم آہنگی disharmony پیدا ہوتی ہے ، اس کے نتیجے میں ساری عمر ایک دوسرے کو کمتر Inferior سمجھنے، مذاق اڑانے اور لڑنے جھگڑنے میں گزر جاتی ہے۔ بچے ہو جانے کی وجہ سے میاں بیوی ساتھ تو رہتے ہیں لیکن دونوں کے ذہن ایک دوسرے سے ہزاروں میل کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے بیزارگی اور اختلاف کی جھلکیاں کسی نہ کسی موقع پر نظر آ ہی جاتی ہیں۔ اس سے بچوں کا ذہن بھی تباہ ہوتا ہے اور وہ نفسیاتی مریض ہو جاتے ہیں۔

اکثر مائیں اور بہنیں گھر میں چاند سی بہو لانے کے خیال میں بے شمار لڑکیوں کو دیکھ ڈالتی ہیں ان کی عزت نفس Self Respect کو ٹھیس پہنچاتی ہیں ، گھر آ کر لڑکی اور اس کے گھر والوں کا خوب مذاق بھی اڑاتی ہیں اور آخر میں انہیں جب کوئی چاند کا ٹکڑا نہیں ملتا تو جوڑے اور جہیز کی فہرست کے ذریعہ ہر چاند چہرے کے داغوں کو چھپانے کی کوشش کرتی ہیں۔ جب چاند کا ٹکڑا گھر میں آ جاتا ہے تو تھوڑے ہی دنوں میں یہی مائیں بہنیں اس کے خلاف ہو جاتی ہیں ، اس پر الزام دھر دیا جاتا ہے کہ وہ مرد پر اپنا جادو چلا رہی ہے اور اُسے خاندان سے الگ کروا  سے ہر گناہ دُ پڑے اُ پسند آئیں گی۔

لم نہ ہو تو میریہ دستخط دیکھ لیں۔قی کی درخواست ہیا ہے۔ یہ تینوں کتب بھیج رہا ہوں، فائلوں کی رہی ہے۔ اور ادھر بے چارہ مرد سینڈوچ بن جاتا ہے۔ رفتہ رفتہ ، ساس اور نند بھاری پڑتی ہیں اور بہو کو پیس ڈالتی ہیں اور کہیں بہو چالاک نکلتی ہے اور شوہر کو جھکا لیتی ہے اور آخر میں اپنے جہیز میں لائی ہوئی ہر چیز لے کر الگ ہو جاتی ہے۔

ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ اس لیے کہ کفو کے حکم کو نظر انداز کیا گیا تھا۔ لڑکے والوں کا جو بھی معیارِ زندگی Standard of Living تھا اگر لڑکی والوں کو صحیح صحیح بتا دیا جاتا پھر جو بھی لڑکی اس معیارِ زندگی کو قبول کرتی ، وہ بہو بن کر آتی تو ایک احسان مندی کے ساتھ زندگی گزارتی۔ فریج ، ٹی وی ، پلنگ ، بستر ، صوفے نہ بھی ہوتے تو اسی میں وہ بخوشی رہتی۔ لیکن لڑکے والوں نے ایسی چیزوں کی خواہش کی جو خود ان کے لیے خریدنا آسان نہیں تھا اس لیے جو لڑکی یہ چیزیں لے کر آ سکے اُس لڑکی کا انتخاب کیا گیا۔ لہذا لڑکی مال میں لڑکے سے بڑھ گئی اور لڑکا کفو نہیں رہا ، پھر لڑکی کا اپنے لائے ہوئے سامان اور نقدی پر زعم کرنا بالکل فطری Natural عمل ہے جب گھر گرہستی کا سامان وہ خود لے کر آتی ہے تو اسے ساس سسر اور نندوں کے آگے جھکنے پر کیسے مجبور کیا جا سکتا ہے ؟

کچھ لوگ کم علمی کی وجہ سے کفو کے قائل نہیں۔ وہ اسے ہندو دھرم کی طرح کی ذات پات کی تقسیم کے برابر قرار دیتے ہیں۔ یہ نا سمجھی ہے۔ اللہ تعالی نے ہرگز انسانوں کو اونچا یا نیچا پیدا نہیں کیا ہے۔ سارے انسان برابر ہیں۔ ہر کلمہ گو مسلمان چاہے عربی ہو کہ عجمی ، کالا ہو کہ گورا ، کوئی کسی پر برتری Superiority نہیں رکھتا۔ سب ایک دوسرے کے کفو ہیں لیکن کلمہ گو ہونا کفو ہونے کی پہلی شرط ہے۔ شریعت یہ بھی چاہتی ہے کہ انسانوں کے درمیان جو فطری اختلاف Natural Difference ہے جیسے خاندانوں کا ماحول ، علاقوں کا فرق ، زبان کا اختلاف ، مال اور پیسے کی وجہ سے اپنے اپنے معیارِ زندگی کا فرق ، تعلیم کا فرق ، وغیرہ ان کو لازماً پیش نظر رکھا جائے ورنہ ذہنوں میں دوریاں ضرور پیدا ہوتی ہیں۔ کفو میں مال سب سے اہم ہے اگر لڑکی مال میں زیادہ ہو اور جوڑا جہیز لانے کے قابل ہو اور نوکری بھی کرتی ہو تو اس کے دو ہی نتائج نکلتے ہیں یا تو شوہر مکمل فرمانبردار ہو جاتے ہیں ، عورت قواّم بن جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں آیت الٹ جاتی ہے اور النساء قوامون علی الرجال ہو جاتی ہے یا پھر اگر شوہر حساس ہو تو زندگی دوبھر ہو جاتی ہے ، لڑائی جھگڑوں میں اکثر شوہر غصے سے کہتے ہیں ’میں تمہارے مال کا بھوکا نہیں تمہارا پیسہ تمہارے منہ پر مار دوں گا‘۔ ایسی صورتِ حال پیش آنے سے پہلے ہی اگر مرد حضرات اپنی اوقات کے مطابق لڑکی کا انتخاب کریں تو ان کی خود داری کو کبھی ٹھیس پہنچے گی اور نہ کفو کو نظر انداز کرنے کے نقصانات اٹھانے پڑیں گے۔

آج کی شادیوں کی اکثریت بے جوڑ Matchless ہے ہر لڑکا اور لڑکی اپنے اپنے آئیڈیل Ideal پہلے سے ذہن میں رکھتے ہیں۔ لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ انہیں ان کا آئیڈیل مل جائے۔ بالخصوص لڑکیوں کے ساتھ بہت زیادہ نا انصافی ہوتی ہے۔ وہ ماں باپ اور سوسائٹی کا بھرم رکھنے اور بچوں کی خاطر زندگی تو گزار دیتی ہیں لیکن ایک ادھورا پن ہمیشہ دل میں کانٹے کی طرح چبھتا ضرور ہے کیوں کہ جو لڑکا اس لڑکی کے قابل ہوتا ہے اس کی قیمت زیادہ ہوتی ہے۔ لڑکی کے والدین Afford نہیں کر پاتے یا یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکے کے والدین کو اس سے کہیں زیادہ بہتر آفر Offer مل جاتا ہے۔ لڑکے کے والدین کو کم حیثیت کی لڑکی میں کفو کا ضرور خیال آتا ہے لیکن ان کی حیثیت سے زیادہ جوڑا جہیز لانے والی لڑکی میں کہیں کفو کا خیال نہیں آتا۔

نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لڑکی کے والدین کی استطاعت کے مطابق جو لڑکا انہیں ملتا ہے وہ لڑکی کے آئیڈیل کے مطابق نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکا قابل ہوتا ہے ، اس کی قابلیت سے میچ کرنے والی لڑکی کی طرف سے مال نہیں ملتا اور کوئی دوسری خوب جوڑا جہیز لا کر اس کی شریک حیات بن جاتی ہے۔ ایک قابل لڑکی محروم ہو جاتی ہے۔ ایسے میاں بیوی اس ٹرین یا جہاز کے مسافروں کی طرح ہیں جو پاس پاس تو بیٹھے ہیں لیکن ذہن الگ الگ سمتوں میں سفر کر رہے ہوں۔

کفو یا کفاءت کے احکام علماء دین کی نظر میں

مولانا صدر الدین اصلاحی۔۔۔ ماخوذ ’نکاح کے قوانین‘

’’شریعت یہ چاہتی ہے کہ چند خاص امور میں مرد اور عورت کے درمیان جوڑ کا معاملہ Equal Status ہو۔ کسی ایسے معاملے میں بے جوڑ نہ ہوں جو بعد میں ایک دوسرے میں برتری ، مذاق ، تحقیر Insult نفرت یا پھر اونچ نیچ Inferiority of Superiority کا احساس پیدا کرے۔ سماجی و اخلاقی حیثیت میں یہ جوڑ بعد کی زندگی میں بہت اہمیت رکھتا ہے اور بعض اوقات سوہانِ روح Soul Torturing بن جاتا ہے۔

یہ عورت کے ولی کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان چیزوں کو پیش نظر رکھے ورنہ اختلافات کی صورت میں نقصان اٹھانے والی عورت ہوتی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ عورت کے ساتھ ساتھ اس کے متعلقین بھی نقصان اٹھاتے ہیں‘‘۔

شریعت میں کفو کے جو احکامات ہیں وہ یہ ہیں :

۔۔۔ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ ۔۔۔ // الحُجُرات:13

’تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرتا ہو‘

یعنی یہ دیکھا جائے کہ دونوں شریعت پر چلنے والے ہوں۔

حدیث :

جب کوئی شخص تمہارے یہاں رشتہ بھیجے جس کی دینداری اور اخلاق پسندیدہ ہوں تو اس کا رشتہ قبول کر لو۔ اگر ایسا نہ کروگے تو معاشرہ میں فتنہ و فساد برپا ہو جائے گا۔

حدیث :

تنكح المرائۃ لاربع، لمالها ، ولحسبها ، ولجمالها ، ولدينها، فاظفر بذات الدين ۔ (بخاري و مسلم)

عورت میں چار چیزیں دیکھی جاتی ہیں ، نسب ، مال ، حسن اور دیندار ، تم دینداری کو ترجیح (Preference) دینا۔

یعنی خاندانی طور پر تو لڑکا لڑکی بہت دیندار گھرانے سے بھی ہو سکتے ہیں یا پھر خاندان بے دین بھی ہو سکتا ہے ، دیکھا یہ جائے کہ اخلاق اور دینداری میں ذاتی طور پر خود کیسے ہیں ؟ اگر Matching ہیں تو کفو ہیں ورنہ نہیں۔ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ لڑکا آزاد خیال ہے ، دوستوں ، محفلوں میں آزادانہ اختلاط Free Mixing کا قائل ہے لیکن لڑکی دیندار ہے یا کہیں یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی آزادانہ ماحول کی پروردہ ہے لیکن لڑکا شریعت کا احترام کرنے والا ہے تو ایسی شادیاں عموما ًیا تو ٹوٹ جاتی ہیں یا ساری زندگی جھگڑوں کا شکار رہتی ہیں۔

ماں باپ یہ توقع کرتے ہیں کہ شادی کے بعد سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) نے اپنے بیٹے کو طلاق اسی لیے دلوائی تھی کہ لڑکی اخلاق میں کفو نہیں تھی۔ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک تقویٰ اور اخلاق کے بعد یہ چار چیزیں کفو میں داخل ہیں

1) حسب نسب :

(خاندان اور نسل)

جس طرح قریشی عورت غیر قریشی مرد پر درجہ رکھتی ہے سوائے اس کے کہ مرد عالم دین ہو۔ ایک عربی عورت کا عجمی مرد سے رشتہ نبھ نہیں پاتا۔ عربی عورتیں بہت زیادہ Dominating ہوتی ہیں ، جن کو عرب مرد ہی آسانی سے قابو کر سکتے ہیں ، اس کے باوجود سعودی عرب ، کویت وغیرہ میں طلاق کا تناسب Ratio بڑھتا جا رہا ہے۔

حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) جو بعد میں اُم المومنین بنیں ان کا پہلا نکاح حضرت زید بن حارث (رضی اللہ عنہ) سے ہوا تھا وہ ایک یمنی سردارِ قبیلہ کے بیٹے تھے۔ ذہنی طور پر ایک آزاد قریشی النسل کی عورت کا ایک غیر قریشی کو کو قبول کرنا مشکل ہوتا ہے یہ انسانی نفسیات Human Psychology ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے بعد میں خود حضرت زینب (رضی اللہ عنہا) سے نکاح کیا۔

2) پیشہ Profession

یعنی پیشے بہتر یا کم تر، اچھے یا برے ہوتے ہیں۔ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ایک بچے کو اپنی ایک پھوپھی زاد بہن کی کفالت میں دیا اور یہ ہدایت کی کہ اسے تعلیم دینا اور کمتر Inferior پیشے مت سکھانا۔ پیشے سے آدمی کی ذہنیت پر ضرور اثر پڑتا ہے۔اگر نہ بھی پڑے تو یہ نفسیات Psychology ہے کہ ایک دوسرے کی برائیاں خاندان سے منسوب کر دی جاتی ہیں ایک دوسرے پر خاندان کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

3) حریت

یعنی یہ دیکھا جائے کہ لڑکا آزاد ہو غلام نہ ہو۔

4) مال

یہ دیکھا جائے کہ لڑکا کمائی اور خوشحالی میں لڑکی سے بہتر ہو۔

امام شافعی (رحمۃ اللہ علیہ) نے مال کے علاوہ ساری شرطیں باقی رکھیں۔ امام مالک (رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک صرف یہ ہے کہ لڑکا تقویٰ اور اخلاق کے بعد صرف بے عیب ہو یعنی اس میں کوئی ایسا عیب نہ ہو جس کی وجہ سے لڑکی کو اپنے ملنے جلنے والوں میں کسی قسم کی کوئی شرمندگی یا احساس کمتری پیدا نہ ہو۔

اگر کوئی ایسا عیب جو لڑکے یا لڑکی کے علم میں قبل نکاح نہ لایا گیا اور نکاح کے بعد ان پر یہ راز منکشف ہوتو طلاق یا خلع کی دونوں کو اجازت ہے۔

تقویٰ ، دینداری اور اخلاق ہر دور میں لازمی شرائط ہوں گے ، باقی کا انحصار وقت اور حالات پر ہے۔ کسی دور میں پیشہ باعث انا Matter of Ego ہوتا ہے تو کسی دور میں مال ، کسی مقام پر خاندان اہم ہوتا ہے تو کہیں حریت ، عربوں میں پہلے نسب اور خاندان کی بہت اہمیت تھی ، اب پیسے کی ریل پیل اور پٹرو ڈالر کی بہتات Excess نے یہ اہمیت گھٹا دی۔ مہر کی رقم کے مقابلے شروع ہو گئے First come First Go کی بنیاد پر جو یہ رقم ادا کر سکے ، لڑکی اس کے نام کر دی جاتی ہے۔ لیکن یہاں بھی شرط وہی ہے کہ مرد مال میں عورت سے بہتر ہو۔ دیہاتوں میں خاندان اہمیت رکھتے ہیں۔ قصاب خاندان ، قریشی یا انصاری خاندان وغیرہ وغیرہ۔ شہروں میں لوگ تعلیم زیادہ ڈھونڈھتے ہیں تاکہ عورت وقت ضرورت نوکری کر سکے۔ نوکری پیشہ لڑکیوں کی طلب Demand زیادہ ہے۔

کسی دور میں سید زادہ ، شیخ زادہ یا پٹھان ہو نا بہت اہمیت کا حامل تھا لیکن اب تعلیم اور رکھ رکھاؤ نے اس کی جگہ لے لی ہے۔ ایک علاقہ کی عورت دوسری زبان یا علاقے میں بیاہی جائے تو اکثر ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اکثر مرد حضرات عورت کے ’پنجابن ، حیدرآبادن ، بہارن یا بنگالن وغیرہ وغیرہ‘ ہونے کو ایک تضحیک یا طعنے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور عورت اسے گالی کے معنوں میں لیتی ہے۔

مختصر یہ کہ تقویٰ اور اخلاق کے علاوہ جتنی چیزیں ہیں وقت اور رواج کے ساتھ ان کا خیال رکھنا ضروری ہے اگر شریعت ان اجزاء کے متعلق صریح احکامات دے دیتی تو چند چیزیں ہمیشہ کے لیے باعث شرف و عزت بن جاتیں اور چند چیزیں کسی دور میں قابل قدر ہونے کے باوجود بری نظر سے دیکھی جاتیں اور نتیجتاً لوگ شریعت سے بغاوت کرتے۔ اس لیے اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ تقویٰ اور اخلاق کے ساتھ ساتھ مال ، پیشہ ، خاندان ، تعلیم ماحول وغیرہ دیکھنا لازمی ہے۔ یا د رکھئے ہر فرد یا معاشرہ اتنا صالح نہیں ہوتا کہ ہر لڑکا لڑکی تقویٰ اور دینداری سے بھر پور ہوں اس لیے شریعت نے ان دنیاوی معیارات کو بھی اہمیت دی ہے جن کا ازدواجی زندگی پر گہرا اثر پڑتا ہے۔

جوڑا جہیز فی زمانہ کفو کا ہی ایک مسئلہ ہے۔ جو لوگ مطالبے سے یا خوشی سے لینے کے قائل ہیں وہ لڑکی کے کفو نہیں ہیں۔ جو مرد خود پچاس ہزار روپئے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ لاکھ دو لاکھ کا مطالبہ کرتا ہے وہ کفو کیسے ہو سکتا ہے ؟

مفتی پنجاب مولانا فضیل الرحمان ہلال عثمانی

مفتی پنجاب مولانا فضیل الرحمان ہلال عثمان ، رکن پرسنل لا بورڈ اپنی تصنیف ’’اسلامی قانون‘‘ ، دفعہ 79 میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں :

و اذا زوجت المراء ۃ نفسها من غير كفو فللا ولياء ان يفرقوا بينهما (الهدايه الكفايه)

اور اگر کوئی عورت اپنا نکاح غیر کفو میں کر لے تو ولی کو علیحدہ کروانے کا حق ہے۔ (شرعی عدالت میں)

دفعہ : 31 کے تحت مولانا لکھتے ہیں کہ :

’’نکاح کا تعلق صرف دو افراد سے نہیں ، دو گھرانوں اور خاندانوں سے بھی ہے ، اس لیے بوقت نکاح یہ دیکھا جانا چاہئے کہ : دینداری و اخلاق میں برابری ، معاشرتی طور طریق میں برابری ، سماجی عزت و حیثیت میں برابری اور مال میں برابری۔یہ امور کفاء ت ہیں اگر ان میں زیادہ فرق ہوا تو بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے اور نکاح کے مقاصدِ شریعت فوت ہو جاتے ہیں۔ اس کی خلاف ورزی کی صورت میں عورت کے سرپرست کو مداخلت کا حق دیا گیا ہے‘‘۔

عام مشاہدہ یہ ہے کہ کورٹ میں داخل طلاق کی درخواستوں یا محکمہ قضات میں جتنے طلاق یا خلع کی درخواستیں ہیں ، ان میں اکثریت لو میریج کی ہے۔ لڑکی ولی کی مرضی کے بغیر فیصلے کر لیتی ہے اور کفو کے احکامات کو وقتی جذبات کی بھینٹ چڑھا دیتی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ پیام کی شادیوں Arranged Marriages کے مقابلے میں لومیریجس Love Marriages کہیں زیادہ ناکام یا پھر کانٹوں پر ہوتی ہیں۔

دفعہ 17 کے تحت مولانا لکھتے ہیں کہ:

عن جابر بن عبدالله (رضي الله عنه) لا ينكح النساء الاكفاء ولا يزوجوهن الا اولياء ولا مهردون عشره دراهم

(سنن دار قطني و هدايه باب المهر)

جابر بن عبداللہ (رضی اللہ عنہ) روایت کرتے ہیں کہ عورتو ں کا نکاح ان کے کفو میں کیا جائے اور ان کا نکاح ان کے ولی کریں اور مہر دس درہم سے کم نہ ہو۔ (دس درہم 28۔6grams چاندی)۔

مولانا مفتی محمد شفیع (رحمۃ اللہ علیہ) ، مفسر معارف القرآن

مولانا نے اپنی کتاب "جواہر الفقہ” صفحہ 97 پر اجمالاً روشنی ڈالی ہے فرماتے ہیں۔

ثلاثه لا تؤخرها الصلوه اذا اٰنت و الجنازه اذا حضرت والايمه اذا وجدت لها كفوا (ترمذي)

تین کاموں میں دیر نہ کرو۔ ایک نماز۔۔۔ جب وقت ہو جائے ، دوسرے جنازہ۔۔۔ جب تیار ہو جائے ، تیسرے عورت(نکاح کے معاملے میں)۔۔۔ جب اس کا کفو مل جائے۔

ہاں ! عورت اور ولی اگر دونوں رضا مند ہوں تو نکاح جائز ہے گو آئندہ مصالح کے اعتبار سے نا مناسب ہے۔ (الھدایہ)

عورت اور اس کے ولی کی رضا مندی میں دونوں کی نیت بھی دیکھی جائے گی کیوں کہ نیت اصل بنیاد رشتہ ہے۔

صفحہ 74 پر مولانا فرماتے ہیں :

یا تو وہ لوگ ہیں جو اپنا سلسلۂ نسب کسی بزرگ یا صحابی یا بادشاہ وغیرہ سے جوڑ کر تفاخر و تکبر اختیار کر لیتے ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو سرے سے دنیاوی معاملات میں بھی امتیاز کا انکار کر کے اس کا نام مساواتِ اسلام کا نام دیتے ہیں۔ دونوں باتیں نصوص شرعیہ اور احادیث صریحہ کے خلاف ہیں بالخصوص نکاح کے معاملات میں کفاء ت کو نظر انداز کرنا مساوات اسلام کے معنوں کی غلط تعبیر ہے۔کیا یہ اندھیر نگری ہے کہ تہذیبی طور پر ایک مہذب اور غیر مہذب ایک ہو جائیں۔ شریف و رذیل ، حاکم و محکوم ، مجرم و معصوم ، عالم و جاہل سب ایک پلڑے میں تلنے لگیں اور گدھے گھوڑے سب برابر ہو جائیں۔ ایک ہی لاٹھی سے ہانکے جائیں ؟ اس سے نہ صرف دین و مذہب کی بنیادیں اُکھڑتی ہیں بلکہ خود دنیا داری کے بھی لالے پڑ جاتے ہیں اور زندگی وبال ہو جاتی ہے۔

قانونِ کفاء ت دراصل اونچ نیچ کے فرق کو ازدواجی زندگی پر اثر انداز ہونے سے روک دیتا ہے ، فرقِ فطرتِ انسانی مٹ نہیں سکتے امتیازاتِ ذہنی تو ہمیشہ رہیں گے قانونِ کفاء ت ان امتیازات کو ازدواجی زندگی میں کوئی طوفان کھڑا کر دینے سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے۔

نصاب اہل خدمات شرعیہ حیدرآباد دکن :

(یہ نصاب 1948ء تک سلطنتِ آصفیہ، حیدرآباد دکن میں رائج تھا اور تعلیمی نصاب میں داخل تھا)۔

کفو یعنی نسب ، حریت ، اسلام ، دیانت ، مال اور پیشہ میں عورت کے برابر یا اس سے بہتر ہونا ہے۔

نسب عربی ، عجمی۔ معترضین کے لیے قابل غور نکتہ یہ ہے کہ آدمی کا نسب باپ سے ہوتا ہے، ماں سے نہیں جبکہ بچے کی پیدائش میں دونوں برابر کے شریک ہیں۔

عالم دین سب کا کفو ہے حتیٰ کہ قریشی عورت کا بھی۔

حریت : یعنی غلام یا آزاد ہونا۔

اسلام : کم سے کم دو پشتوں سے اسلام میں ہو (البتہ نو مسلم ہونا جہاں عار Objectionable نہ ہو وہاں یہ ضروری نہیں)۔

دیانت : فاسق نیک عورت کا کفو نہیں ہو سکتا۔

مال : جو مہر معجل اور کم از کم ایک ماہ کا نفقہ ادا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ کفو ہو سکتا ہے۔

پیشہ : ایک دوسرے کا پیشہ عار Inferior، Insulting نہ سمجھا جاتا ہو۔ کفائت کا اعتبارصرف مرد سے ہے نہ کہ عورت سے ، یعنی مرد کا عورت کے برابر یا زیادہ ہونا ضروری ہے۔

مولانا ابوالا علی مودودی رحمۃ اللہ :

کفاء ت کے موضوع پر مولانا مودودی رحمۃ اللہ نے اپنی کتاب حقوق الزوجین صفحہ 23 پر اس موضوع کا حق ادا کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں :

’مسلمانوں کے درمیان شریعت یہ چاہتی ہے کہ ازدواجی تعلق ایسے مرد و عورت کے درمیان قائم ہو جن کے درمیان غالب حال Prevailing Circumstances یا Traditions کے لحاظ سے مودت و رحمت Kindness & Love قائم ہو ، جہاں یہ توقع نہ ہو وہاں رشتہ قائم کرنا مکروہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ و سلم) نے نکاح سے پہلے عورت کو دیکھ لینے کا حکم دیا ہے۔

اذا خطب احدكم المراء ۃ فان استطاع ان ينظر الي مايدعوه الي نكاحها فليفعل

جب تم میں سے کوئی شخص کسی عورت کو نکاح کا پیغام دے تو حتی الامکان اسے دیکھ لینا چاہئے کہ آیا اس میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کو عورت سے نکاح کی رغبت دلانے والی ہو اور یہی وجہ ہے کہ شریعت نکاح کے معاملے میں کفاء ت یا ہمسر Equality کو ملحوظ رکھنا پسند کرتی ہے۔ بخلاف اس کے جن کے درمیان یہ مماثلت موجود نہ ہو ، ان کے معاملہ میں زیادہ اندیشہ یہی ہے کہ وہ گھر کی زندگی میں اور اپنے قلبی و روحی تعلق میں ایک دوسرے سے متصل نہ ہو سکیں گے اور اگر شخصاً Personally میاں اور بیوی باہم متصل ہو بھی جائیں تو کم ہی یہ امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں کے خاندان آپس میں مل سکیں۔ شرعِ اسلامی میں مسئلہ کفاءت کی یہی اصل ہے۔

مندرجہ بالا مثالوں سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ صیانتِ اخلاق و عفت کے بعد دوسری چیز جو اسلام کے قانون ازدواج میں مقصدی اہمیت رکھتی ہے وہ زوجین کے درمیان مودت و رحمت ہے۔ جب تک ان کے تعلقات میں اس چیز کے باقی رہنے کی امید ہو ، اسلامی قانون ان کے رشتہ مناکحت کی حفاظت پر اپنی پوری قوت صرف کرتا ہے مگر جب یہ مودت و رحمت باقی نہ رہے اور اس کی جگہ بے دلی ، سرد مہری ، نفرت اور بیزاری پیدا ہو جائے تو قانون کا میلان رشتۂ نکاح کی گرہ کھول دینے کی طرف منعطف ہو جاتا ہے۔ یہ نکتہ بھی اس قابل ہے کہ اس کو ذہن نشین کر لیا جائے کیوں کہ جو لوگ اس کو نظر انداز کر کے قانون اسلام کے اصولوں کو جزئیات پر منطبق کرتے ہیں وہ قدم قدم پر ایسی غلطیاں کر جاتے ہیں جن سے قانون کا اصل مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔

نفسِ مسئلہ کفاءت تو عقل اور نقل دونوں سے ثابت ہے ، تفصیلات سے قطع نظر بجائے خود نکاح میں اُس کے معتبر ہونے پر ائمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔

اس مسئلہ کا ماخذ متعدد احادیث ہیں۔ مثلاً :

لاتنكحوا النساء الا الاكفاء (دارقطني ، بيهقي)

عورتوں کی شادیاں نہ کرو مگر اُن لوگوں کے ساتھ جو کفو ہوں۔

يا علي ثلاث لا توخرها۔ الصلوۃ اذا ات ، والجنازۃ اذا حضرت ، والا يم اذا وجدت كفأ (ترمذي ، حاكم)

اے علی (رضی اللہ عنہ) ! تین کام ہیں جن کو ٹالنا نہ چاہئے ایک نماز ، جب کہ اس کا وقت آ جائے ، دوسرے جنازہ جب کہ تیار ہو جائے ، تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جب کہ اس کے لیے کفو مل جائے۔

تخيروا لنطفكم و انكحوا الاكفاء

اپنی نسل پیدا کرنے کے لیے اچھی عورتیں تلاش کرو اور اپنی عورتوں کے نکاح ایسے لوگوں سے کرو جو ان کے کفو ہوں۔

(یہ حدیث حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) ، انس (رضی اللہ عنہ) ، عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) سے متعدد طریقوں سے مروی ہے)

امام محمد رحمۃ اللہ نے کتاب الآثار میں حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کا یہ قول بھی نقل کیا ہے :

لأ منعن فروج ذوات الاحساب الامن الاكفاء

میں شریف گھرانوں کی عورتوں کے نکاح کفو کے سوا کہیں اور نہ کرنے دوں گا۔

یہ تو ہے اس مسئلے کی نقلی دلیل۔ رہی عقلی دلیل تو عقل کا صریح تقاضا یہ ہے کہ کسی لڑکی کو کسی شخص کے نکاح میں دیتے وقت یہ دیکھا جائے کہ وہ شخص اس کے جوڑ کا ہے یا نہیں ؟ اگر جوڑ کا نہ ہو تو یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ ان دونوں کا نباہ ہو سکے گا۔

نکاح سے مقصود تو عقلاً بھی اور نقلاً بھی یہی ہے کہ زوجین کے درمیان مودت و رحمت ہو اور وہ ایک دوسرے کے پاس سکون حاصل کر سکیں۔ آپ خود سوچ لیں کہ بے جوڑ نکاحوں سے اس مقصود کے حاصل ہونے کی کہاں تک توقع کی جا سکتی ہے ؟ اور کونسا معقول انسان ایسا ہے جو اپنے لڑکے یا لڑکی کا بیاہ کرنے میں جوڑ کا لحاظ نہ کرتا ہو ؟ کیا آپ اسلامی مساوات کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ہر مرد کا ہر عورت سے اور ہر عورت کا ہر مرد سے صرف اس بنا پر نکاح کر دیا جائے کہ دونوں مسلمان ہیں ؟ بلا اس لحاظ کے کہ ان میں کوئی مناسبت پائی جاتی ہے یا نہیں ؟

فقہاء نے اس جوڑ کا مفہوم مشخص Differentiate کرنے کی کوشش کی ہے اور ہر ایک نے اپنے اپنے طریقے پر یہ بتایا ہے کہ لڑکی اور لڑکے کے درمیان کن کن امور میں مماثلت ہونی چاہئے۔ ہم ان تفصیلات میں بعض فقہاء سے اختلاف اور بعض سے اتفاق کر سکتے ہیں۔ مگر فی الجملہ عقل عام یہ تقاضا کرتی ہے کہ زندگی بھر کی شرکت و رفاقت کے لیے جن دو ہستیوں کا ایک دوسرے سے جوڑ ملایا جائے ان کے درمیان اخلاق ، دین ، خاندان ، معاشرتی طور طریق ، معاشرتی عزت و حیثیت ، مالی حالات ، ساری ہی چیزوں کی مماثلت دیکھی جانی چاہئے۔ ان امور میں اگر پوری یکسانیت نہ ہو تو کم از کم اتنا تفاوت بھی نہ ہو کہ زوجین اُس کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رفاقت نہ کر سکیں۔ یہ انسانی معاشرت کا ایک عملی مسئلہ ہے جس میں حکمت عملی کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ آدم کی ساری اولاد کے یکساں ہونے کا نظریہ آپ یہاں چلانا چاہیں گے تو لاکھوں گھر برباد کر دیں گے۔ ہاں ! اگر آپ یہ کہیں کہ محض نسل و نسب کی بنا پر ذات پات اور اونچ نیچ کا تصور ایک جاہلی تصور ہے ، تو اس بات میں یقیناً میں آپ سے اتفاق کروں گا۔ جن لوگوں نے کفاء ت کے فقہی مسئلے کو مسخ کر کے ہندوؤں کی طرح کچھ اونچی اور کچھ نیچی ذاتیں قرار دے رکھی ہیں ، اُن پر مجھے بھی ویسا ہی اعتراض ہے جیسا آپ کو ہے۔

(ترجمان القرآن۔ ستمبر 1952ء و رسائل و مسائل)

کیا غیر کفو سے نکاح جائز ہے

مندرجہ بالا تمام دلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر لڑکا پلنگ ، بستر، گاڑی، گھر اور نقد رقم کا طالب ہو تو وہ اُس لڑکی کے لیے ہرگز کفو نہیں ہے۔ ایسے لڑکے سے نکاح کو شریعت سخت ناپسندیدہ قرار دیتی ہے۔ اس سلسلے میں لڑکی کے ولی کی مجبوری تو سمجھ میں آتی ہے لیکن لڑکوں یا ان کے والدین کی جانب سے جوڑا جہیز مانگ کر یا خوشی سے بغیر مانگے سب کچھ حاصل کرنا دین اور شریعت کے احکام کی کُھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ لوگ کفو نہ ہونے کے باوجود لڑکیوں کے والدین کو بلیک میل کرتے ہیں۔۔

 

جوڑا جہیز اور حلال کمائی کے درمیان تعلق

ایک طرف دشمنوں کے ہاتھوں مسجدیں ڈھا دی جاتی ہیں، عصمتیں لوٹ لی جاتی ہیں اور معصوم نوجوانوں پر گولیاں چلا دی جاتی ہیں ، دین و پیغمبر (صلی اللہ علیہ و سلم) کی توہین کی جاتی ہے تو دوسری طرف خود مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ لوگ مایوس ہو کر پوچھتے ہیں کہ آخر جوشِ خداوندی غضب میں کیوں نہیں آتا جبکہ نہ نمازوں کی کمی ہے نہ حج و عمرہ کی۔ نہ روزے دار کم ہوئے ہیں نہ اصحابِ انفاق۔ پھر بھی رحمتِ خداوندی خاموش کیوں ہے؟ دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟

آئیے ان سوالات کا جواب ان احادیث کی روشنی میں تلاش کریں۔

لا تظلموا فتدعوا فلا يستجاب لكم ، وتستسقوافلا تسقوا و تستنصروا فلا تنصروا

طبرانی بروایت حضرت عبداللہ بن مسعود (رضی اللہ عنہ)

فرمایا رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ’’ظلم مت کرو ، ورنہ (تمہارا یہ حال ہو گا کہ) دعائیں کرو گے لیکن تمہاری دعائیں قبول نہ ہوں گی، بارش کی دعائیں مانگو گے لیکن تم پر بارش نہیں برسے گی۔ مدد مانگو گے لیکن تمہاری مدد نہیں کی جائے گی۔

گزشتہ ابواب ’’رشوت‘‘ ، ’’ھدیہ‘‘ ، اور ’’سحت‘‘ میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ مہر ادا نہ کرنا، جہیز اور نقدی کا لین دین بھی ایک ظلم ہے اور ایک دوسرے کے مال کو باطل طریقے سے کھانے کی تعریف میں داخل ہے۔ یہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کی وجہ سے دعاؤں کا قبول ہونا اور اللہ کی مدد کا آنا ناممکن ہے۔ دعاؤں کی قبولیت کا انحصار حلال کمائی پر ہے۔ سامانِ جہیز کی خریداری کی ذمّہ داری شریعت نے مرد پر لگائی تھی لیکن وہ اِسے لڑکی والوں سے حاصل کر کے بمعہ نقد رقم کے جو کچھ کمائی کرتا ہے وہ کمائی اس کی اپنی کمائی میں جمع ہو کر پوری زندگی کی کمائی اور بچت کو حرام میں تبدیل کر دیتی ہے۔

اس کے بعد جیسے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا :

’’جس شخص کی کمائی حلال نہ ہو اس کی دعائیں زمین سے ایک بالشت اوپر نہیں اُٹھائی جاتیں‘‘۔

پھر کیسے ممکن ہے کہ لوگ نمازوں، روزوں ، زکوٰۃ و خیرات کے ساتھ کئی کئی عمرہ و حج کرنے کے باوجود ان کی دعائیں قبول ہوں؟

یہ حدیث ملاحظہ فرمایئے:

الرجل يطيل السفراء شعت اغبر يمديده الي السماء يا رب يا رب و مطعمه حرام و مشربه حرام و غذي بالحرام فاني يستجاب لها؟

صحیح مسلم

فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کہ

’’ایک شخص طویل سفر کر کے آتا ہے، پراگندہ بال اور غبار آلود ہو کر آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا کر کہتا ہے اے پروردگار، اے پروردگار حالانکہ اس کا کھانا حرام ، اس کا پینا حرام، اس کی ساری غذا حرام، پھر بھلا اس کی دعائیں کیسے قبول ہوں گی؟‘‘۔

ایک ایسی ہی مشابہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک بند ہ ایسا ہوتا ہے جو احرام باندھ کر حج کا قصد کرتا ہے اور لبیک لبیک کہتا ہوا ابھی سواری پر پاوں ہی رکھتا ہے کہ فرشتے جواب دیتے ہیں ’’لییک و سعدیک‘‘، یعنی تیرا آنا مبارک ہو تیرا حج قبول کر لیا گیا‘‘ اور ایک ایسا شخص ہوتا ہے کہ ابھی سواری پر پاوں رکھ کر لبیک کہتا ہی ہے کہ فرشتے کہتے ہیں ’’تیرا حج لوٹا دیا گیا تیری کمائی ، تیرا کھانا اور تیرا کپڑا حرام کمائی کا ہے‘‘۔

جوڑا جہیز لینے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں

جن کے گھر بیٹے ہوتے ہیں وہ تو اپنے بیٹوں کی کمائی پر چار چار عمرے اور حج کرتے ہیں۔ اور جن کے گھر لڑکیاں ہوتی ہیں وہ یہ سب کچھ سوچ بھی نہیں سکتے۔ عمرہ اور حج کرنے والے یہ نہیں سوچتے کہ جوڑے اور جہیز کی آمدنیاں جب ان کی بچتوں میں شامل ہیں اور کئی تو ایسے ہیں جنہوں نے مہر کی رقم بھی آج تک ادا نہیں کی ہے تو تاوقتیکہ وہ اس حرام کو نکال کر اپنی کمائی کو پاک نہ کریں نہ ان کا عمرہ قبول ہونے والا ہے اور نہ حج۔ یہ حدیث ملاحظہ فرمایئے۔

قال انس بن مالك ’’ادع الله ان يجعلني مستجاب الدعوۃ‘‘

فقال ’’يا انس اطب كسبك، تجب دعوتك فانّ الرجل ليرفع اللقمه من الحرام الي فيه فلا يستجاب له دعوۃ اربعين يوماً

ترمذي

حضرت انس بن مالک (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ :

انہوں نے ایک بار حضور (صلی اللہ علیہ و سلم) سے عرض کیا ’’اللہ سے دعا کیجیئے کہ میں مستجاب الدعوات بن جاوں‘‘ (یعنی میں وہ بن جاؤں جس کی دعائیں قبول ہو جاتی ہیں)۔

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے ارشاد فرمایا :

’’انس ! اپنی کمائی حلال رکھو۔ تمہاری دعائیں قبول ہوں گی۔ کیونکہ جب کوئی آدمی حرام کا لقمہ اپنے ہاتھ میں اٹھاتا ہے تواس کی چالیس دن کی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں‘‘۔

صاحبو ، غور کیجیئے۔یہاں تو صرف ایک لقمے کی بات ہو رہی ہے جس کو وجہ سے چالیس دن کی دعائیں قبول نہیں کی جاتیں۔ اگر سارے لقمے ہی ناجائز ذریعے سے حاصل ہوئے ہوں تو؟۔اور یہ بھی غور کرنے کی بات ہے کہ اگر ان چالیس دنوں میں و ہ مر جائے اور ہو سکتا ہے وہ نمازوں ، روزوں اور زکوٰۃ و خیرات کے پہاڑ لے کر قیامت میں حاضر ہو۔ کیا یہ نیکیاں کسی کام آ سکیں گی؟ وہاں وسیلوں اور سفارشوں کی امید پر آنے والے یہ غور کریں کہ شاہِ وسیلہ احمد مجتبیٰ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کیا فرما دیا ہے۔

اسلاف کا حلال کمائی کے بارے میں احتیاط کا عالم

اگر ہم اسلاف کی سیرتوں پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ حلال کمائی کے بارے میں کس قدر احتیاط برتتے تھے۔

حضرت ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں ایک واقعہ تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ کپڑوں کی تجارت کرتے تھے۔ ایک مرتبہ انہیں کہیں کسی کام سے جانا تھا۔ جاتے ہوئے ہوئے انہوں نے اپنے ساجھی سے کہا کہ فلاں تھان میں ایک چیر پڑی ہوئی ہے اگر کوئی اسے خریدے تو پہلے یہ عیب اُسے ضرور بتا دینا۔ جب واپس آئے تو معلوم ہوا کہ وہ تھان فروخت ہو چکی ہے لیکن ساجھی نے بتایا کہ وہ خریدار کو تھان کا عیب بتانا بھول گیا۔ ابو حنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ) نے اس دن کا پورا غلّہ خیرات کر دیا۔ سبحان اللہ۔ یہ تھا ان کی احتیاط کا عالم۔ وہ چاہتے تو صرف اس تھان کی قیمت نکال کر باقی رقم رکھ سکتے تھے۔ لیکن صرف اس خیال سے کہ اس تھان کے روپئے باقی روپیوں میں مل چکے ہیں اس لئے اس دن کے پورے روپیوں کو آپ نے ہاتھ لگانے سے کراہیت برتی۔ اگر وہ صرف تھان کے پیسے خیرات کر دیتے تو یہ فتویٰ ہوتا۔ اور جو کچھ آپ نے کیا وہ تقویٰ تھا۔۔

(اہلِ مناقب، شیخ احمد بن حجر قاضی محکمہ شرعیہ قطر، صفحہ 393)

تقویٰ کا لقویٰ

ہمیں حیرت ان اہلِ تقویٰ پر ہوتی ہے جو بنک اور انشورنس پر ناک بھنوں چڑھاتے ہیں۔ کوئی صاحب فوٹو اسٹوڈیو والوں کے گھر کھانا نہیں کھاتے کہ ان کی آمدنی جائز نہیں۔ اور کوئی صاحب پولیس والوں اور ان سرکاری افسروں کے گھر رشتہ جائز نہیں سمجھتے جہاں اوپر کی آمدنی آتی ہو۔ ایک صاحب نے ایک فتویٰ لا کر دکھایا کہ داڑھی مونڈھنے والے حجّام کی آمدنی بھی ناجائز ہے۔ ایک صاحب تو ایسے ملے جن کے نزدیک اُس گھر کا کھانا بھی جائز نہیں جس گھر میں کمانے والا مرد موجود ہوتے ہوئے عورت نوکری کرتی ہو۔

سچّے مسلمان کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ جس گھر جائے وہاں کھانے پینے سے پیشتر اُس گھر کی آمدنی کے بارے میں ضرور معلومات حاصل کر لے۔ ایسے لوگوں کی واقعی قدر کی جانی چاہئے۔ لیکن جب ہم ایسے پھونک پھونک کر قدم رکھنے والوں کے گھروں کی شادیاں دیکھتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ وہ چاہے معمولی جہیز ہی کیوں نہ ہو لیتے وقت اُن کے ذہن میں یہ سوال کیوں نہیں آتا کہ کیا یہ مال جائز ہے؟ ہو سکتا ہے کئی دوسرے فقہی مسائل کیطرح وہ جوڑا جہیز کو بھی ایک اختلافی مسئلہ ہی سمجھتے ہوں۔ تب بھی یہ تو ثابت ہے کہ یہ مال صد فیصد حلال قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیا وہ حدیث اِنہیں یاد نہیں آتی کہ ایمان کی نشانی یہ ہے کہ جس چیز سے دل میں کھٹکا پیدا ہو اُس چیز سے رُک جانا چاہئے۔ شائد وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جو دوسرے لیتے ہیں وہ سراسر غلط ہے لیکن جو یہ لے رہے ہیں وہ غلط کی تعریف میں نہیں آتا۔ بخدا ہوش و ہوس نے ان کی آنکھوں، کانوں اور سوچوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔ وہ ہر قیمت اپنے کئے پر کوئی نہ کوئی جواز پیدا کر کے فرار حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ ربّ العزّت نے خبردار کیا ہے کہ :

وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلاً // الفرقان:27

ترجمہ: اُس روز ظالم اپنا ہاتھ کاٹے گا (اور افسوس سے) کہے گا کہ کاش میں رسول کے ساتھ (دین کا راستہ) اختیار کرتا۔

 

جہیز جو لوگ لے چکے وہ کیا کریں

کسے نہیں ہے تمنّائے سروری لیکن

خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

اب جو لوگ اس جرم کا ارتکاب کر چکے ہیں وہ کیا کریں ؟

دو ہی راستے ہیں یا تو قرآن و حدیث اور ائمہ سے جتنے احکامات ملتے ہیں ان سب کا انکار کر دیں یا پھر لیا ہوا مال واپس کریں کیوں کہ اگر آپ نے جان بوجھ کر نہیں لیا ہے تو یہ مال آپ کے پاس امانت ہے اور جان بوجھ کر لیا ہے تو یہ رشوت ہے۔ امانت کو واپس نہ کرنا منافقت Hypocrisy کی نشانی ہے اور رشوت کا انجام جہنم کا سب سے نچلا درجہ ہے۔

آئیے دیکھتے ہیں علماء دین کیا فرماتے ہیں :

دارالعلوم دیوبند۔۔۔ مجموعہ فتاویٰ حضرت مولانا مفتی عزیزالرحمان

’مہر لے کر اس میں تصرف مالکانہ Arbitration کرنا دعوت کرنا یا کسی اور چیز پر خرچ کرنا مرد کے لیے درست نہیں اور مہر کے علاوہ بھی کچھ لینا رشوت ہے‘۔

اگر لڑکی کے اولیاء راضی ہیں تو نکاح درست ہے لیکن مرد ہو یا عورت مہر کے علاوہ جو بھی لین دین ہے وہ حرام ہے کیوں کہ یہ رشوت ہے اسے واپس کرنا لازمی ہے۔

(بحوالہ مولانا برہان الدین سنبھلی)۔

مولانا مفتی محمد شفیع (رحمۃ اللہ علیہ)۔۔۔ ’’جواھر الفقہ‘‘ بحوالہ الشامی فی باب المہر

’عورت کے رشتے داروں کا مہر کے علاوہ کچھ اور شئے طلب کرنا جائز نہیں۔ اگر لے لیا ہے تو شوہر کا حق ہے کہ بعد نکاح واپس طلب کرے‘۔

اسی فقہی اصول کے مطابق یہ دلیل از خود ثابت ہے کہ نکاح میں عورت سے کوئی شئے جبراً یا رسماً وصول کرنا مرد کے لئے جائز نہیں اگر لے لیا ہو تو لڑکی یا لڑکی کے ولی کو جائز ہے کہ وہ واپس طلب کرے۔

مولانا محمد برہان الدین سنبھلی (رحمۃ اللہ علیہ) :

اخذ اهل المراء ۃ شياء عند التسلم للزوج ان يسترده لا نه رشوه

رخصتی کے وقت عورت کے گھر والوں نے (مہر کے علاوہ) کچھ لیا تھا تو شوہر کو وہ واپس لینے کا حق ہے کیوں کہ یہ رشوت ہے

(بحوالہ مشہور حنفی فقیہ علامہ زین الدین مصری)

لعن رسول الله (صلي الله عليه و سلم) الراشي و المرتشي و من الرشوه ما اخذه ولي المراه قبل النكاح اذا كان بالسؤال اوكان اعطاء الزوج بناء علي عدم رضا ء علي تقدير عدم

(فتاوی مولانا عبدالحئی)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے رشوت لینے والے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور یہ بھی رشوت ہے کہ عورت کا سرپرست نکاح سے قبل مہر کے علاوہ کچھ لے اور (داماد) اس بنا پر دے کہ اگر وہ نہ دے گا تو رشتے سے انکار کر دیا جائے گا۔

وفي القنيه الرشوه ۔ يجب ردها ولا تملك

فقہ کی معتبر کتاب القنیہ میں درج ہے کہ ’رشوت کا واپس کرنا ضروری ہے کیوں کہ لینے والا اس کا مالک نہیں ہوتا‘۔

رشوت کے معنی حیلہ بازی سے کام نکالنے کے لیے مال یا کسی اور شئے یا فعل کو ذریعہ بنانا ہیں۔ جہاں تک جوڑے جہیز کا تعلق ہے ، اس کی شرعی حیثیت جاننے کے لیے تنہا وہی فقہی نصوص و فتاویٰ کافی ہیں جو بیان ہوئے ہیں۔ صورت مسئلہ یہاں بھی وہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ یہاں مال بجائے مرد سے طلب کرنے کے عورت کے سرپرست سے طلب کیا جاتا ہے۔ مرد سے مہر کے علاوہ طلب کرنے میں شاید کوئی دلیل یا گنجائش نکل آئے لیکن مرد کا الٹا عورت کے ولی سے طلب کرنا قطعی غیر واجبی ہے۔ جب بیوی کو دیا ہوا مہر بھی شوہر کے لیے جائز نہیں تو عورت پر خرچوں کا بار ڈالنا کہاں جائز ہو سکتا ہے۔ اگر اس نے لیا ہے تو الرجال قوامون علی ا لنساء کی خلاف ورزی ہے اور اسے وہ مال واپس کرنا چاہئے۔

کیا کیا واپس کریں ؟

» منگنی ایک قطعی غیر اسلامی رسم ہے جس پر لڑکی کے سرپرست کا جو بھی خرچ ہوا ہو۔

» جوڑے یا تلک کی رقم یا اس کے بدلے جو بھی دیا گیا ہو۔

» جہیز سوائے اس زیور اور کپڑے کے جو لڑکی کے لیے دیا گیا ہو اور اسی کے تنہا استعمال میں بھی ہو۔ جو چیز شوہر اور اس کے تمام گھر والوں کے فائدے کے لئے استعمال ہو رہی ہو وہ مال عورت کا ہے اور مرد کے لئے لازم ہے کہ وہ چیز یا اس کی قیمت واپس کرے۔

» نکاح کے دن باراتیوں کی ضیافت پر بھی جو بھی خرچ کیا گیا ہو جس میں دولہا کی کار ، شادی خانے کا بل ، کھانا ، اسٹیج کی سجاوٹ وغیرہ شامل ہیں۔

کہاں خرچ کریں

اہلِ  ایمان کے لیے اب یہ ایک قرض ہے اور جو قرض لوٹانے کی سچے دل سے نیت کرے اللہ تعالی اس کی ادائے گی کے اسباب خود بخود بناتے ہیں۔ اور اس کے لیے ایسے راستوں سے انتظام فرماتے ہیں کہ وہ خود سمجھ نہیں پاتا۔ اس کے برخلاف جو قرض لوٹائے بغیر اس دنیا سے رخصت ہو جائے ، اس کی نمازِ جنازہ پڑھانے سے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کراہیت برتی ہے۔

اس سوال پر دو طرح کے لوگ ہوں گے ، ایک وہ جو مہر کی طرح ’انشاء اللہ دے دیں گے‘ کا ارادہ کرتے ہیں لیکن فی الحقیقت ادا کرنے کی نیت نہیں رکھتے۔

دوسرے وہ جو واقعی واپس کریں گے ان کے لیے ایک مجبوری یہ ہو گی کہ لڑکی کے سرپرست اُسے واپس لینا گوارا نہیں کریں گے۔

ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں مہر نقد ادا کرنے والے پر یوں بھی شک کیا جاتا ہے کہ پتہ نہیں کیا کرے گا ؟ بھاگ جائے گا کہ چھوڑ دے گا یا دوسری شادی کر لے گا ، اس لیے عورتیں مہر نہ مانگنے میں اپنی سیکوریٹی سمجھتی ہیں۔ اب اگر کوئی شخص جوڑا جہیز واپس کرنے کا ارادہ کرے گا تو ساس سسر ہرگز ہاتھ نہ لگائیں گے۔ اس طرح ایک نیا بہانہ چل پڑے گا۔ جیسا کہ لیتے وقت کہا تھا کہ :

’ہم نے مانگا ہی نہیں تھا انہوں نے خوشی سے دیا ہے‘

اب یہ کہیں گے کہ

’ہم تو واپس کرنا چاہتے تھے لیکن انہوں نے خوشی سے انکار کر دیا‘۔

یہ یقینی بات ہے کہ واپس لینا کوئی گوارہ نہیں کرے گا لیکن پہلے اس حدیث پر غور کیجئے پھر فیصلہ کیجئے۔

حضرت عمر فاروق (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) جب بھی کچھ عطا فرماتے ہیں ، میں کہتا کہ کسی ایسے کو دے دیجئے جو مجھ سے زیادہ حاجت مند ہے ، آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) ارشاد فرماتے اسے لے لو اور اپنا کر کے خیرات کر دو۔ جو مال تمہارے پاس بے طمع without any greed اور بے مانگے Without Asking آ جائے لے لو اور جو نہ آئے اس کے پیچھے اپنی نفس کو نہ ڈالو

(بخاری و مسلم۔ ماخوذ ’’تحفظ اسلام نمبر‘‘ دارالعلوم غوثیہ، کرلا ممبئی ، صفحہ 344 ، مصنف علامہ محمد مبین نعمانی قادری)۔

اگر یہ پیسہ آپ واقعی واپس لینا نہیں چاہتے تو بیٹی داماد ہی کے پاس رہے گا اور اس سے صرف ایک خاندان ہی کا فائدہ ہو گا۔ کتنا اچھا ہو اگر یہ پوری قوم کے کام آئے۔

ان مدّات پر بھی غور فرمائیں

جو لوگ لیا ہوا مال واپس کرنے کا عزم رکھتے ہیں لیکن سسرال والے واپس لینے میں تکلف برتتے ہیں وہ اپنے سسرال والوں کو یہ کہیں کہ وہ یہ مال واپس لے لیں اور ان مدات پر خرچ کر دیں اس میں ہر دو کے لیے آخرت کی فلاح ہے۔

» دینی مدارس کے معیار کو بلند کیاجائے۔

» کالج اور یونیورسٹی کے مستحق طلباء کی مالی مدد۔

» غیر مسلمین جس قدر بڑی تعداد میں اسلام قبول کر رہے ہیں ، ان کی دینی تعلیم و تربیت کا انتظام وقت کی اہم ضرورت ہے۔

» ایک طرف ڈاکٹر ڈاکو بن چکے ہیں ، دوسری طرف کبھی کسی سرکاری ہاسپٹل جا کر دیکھئے لوگ آپریشن تو درکنار معمولی گلوکوز خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے اور اسپرین یا پنیڈال Panadol پر زندہ ہیں ان کی مدد بھی انسانیت کی عظیم خدمت ہے۔

» اردو کو زندہ رکھنے کے لیے آپ جو بھی قدم اٹھائیں مستحسن ہے۔

» ہندوستان میں اسلام کاعلمی ذخیرہ جتنا اردو زبان میں ہے اتنا کسی دوسرے زبان میں نہیں لیکن بد قسمتی سے اردو ز بان بہت تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ اس لٹریچر کو ہندی اور دوسری زبانوں میں منتقل کر دینا ، وقت کی اہم ضرورت ہے ہر شخص ایک ایک کتاب اٹھائے اور مترجمین کو معاوضہ دے کر ترجمہ شائع کروائے تاکہ نئی نسل اسلامی خزانۂ علوم سے محروم نہ رہے۔

» بیروزگاری اور افلاس دور کرنے میں جوڑے جہیز کی واپس کی جانے والی رقمیں بہت بڑا رول ادا کر سکتی ہیں۔ ہر شخص ایک ایک بیروزگار کو منتخب کرے ، اسے بیرون ملک یا اندرون ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں مدد کرے

» ہر جماعت اور ہر انجمن کے مقاصد Aims & Objectives ہیں ، ان کو آگے بڑھانے کے لیے جتنے سرمایے Capital کی ضرورت ہے اگر اس کا آدھا بھی میسر آ جائے تو اُمت مسلمہ آج بھی غالب ہو سکتی ہے۔ آپ کو جو بھی جماعت پسند ہو اپنا مال اس میں دیجیئے۔

» بجائے غریب لڑکیوں کا جہیز خریدنے میں مدد کرنے کے ، ان نوجوانوں کی مدد کریں جو خود جہیز خریدنے اور مہر ادا کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔

» بے شمار نئی نئی کالونیاں ایسی تعمیر ہوتی جا رہی ہیں جن میں دور دور تک نہ کوئی مسجد ہے نہ مدرسہ ، اس لیے نئی نئی بستیوں میں رہنے والے لوگ اکثر نمازوں سے بے بہرہ اور ان کے بچے دین سے دور ہیں۔ جو جو پلاٹ یا گھر آپ کے جوڑے جہیزمیں ملے ہیں ان کو مسجد یا مدرسے میں تبدیل کر دیجئے اس سے بڑی خدمت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔

 

عورت کی اصل دشمن خود عورت

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا

مگر یہ مسئلۂ زن رہا وہیں کا وہیں

اکثر مرد حضرات یہ کہتے ہیں کہ وہ اس چیز کے خلاف ہیں لیکن ماں اور بہنوں کی وجہ سے مجبور ہیں۔

جی ہاں ! یہ صحیح ہے۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عورت ہی دراصل عورت کی دشمن ہے۔ ایک عورت اچھی طرح جانتی ہے کہ خود اس کی شادی پر اس کے گھر کے مالی حالات کس قدر بگڑے ، ماں باپ نے کیا کیا قربانیاں دے کر اس کے لیے پیسہ جمع کیا ؟ وہ پیسہ بچ رہتا تو ماں باپ اور بھائیوں کے کام آتا۔ ماں باپ بڑھاپے میں بہووں کے محتاج نہ ہوتے۔ بھائی کوئی کاروبار کرتے اور نوکریوں کی غلامی سے بچتے۔ بھائیوں نے جو پیسہ محنت سے کمایا اور ان بہنوں کی شادیوں پر خرچ کر دیا وہ اُن کے بچوں کی امانت تھی۔لیکن یہی عورت بجائے اپنے شوہر کے خاندان سے بدلہ لینے کے کسی اور بیٹی کے باپ سے بدلہ لیتی ہے۔

ایک عورت ہونے کے ناطے اُس میں یہ جذبہ پیدا ہونا چاہئے تھا کہ وہ کسی دوسری آنے والی عورت کو مرد کے اس ظلم سے بچائے۔ بجائے اس کے وہ خود آگے بڑھ کر مرد کو ظلم کی ترغیب دیتی ہیں۔ اور کوشش یہ کرتی ہیں کہ اپنی بیٹیوں کی شادی پر جتنا خسارہ ہوا ہے وہ پورا کا پورا بیٹے کی شادی پر وصول ہو جائے۔اگر کوئی چیز جہیز میں کم آ جائے تو طعنوں کا سلسلہ شروع کر دیتی ہیں۔ مٹی کا تیل چھڑک کر جلا کر مارنے والی کوئی اور نہیں یہی عورتیں ہوتی ہیں۔

جیسے جیسے ان کی عمر میں اضافہ ہوتا جاتا ہے ، یہ جوڑے جہیز پر تبصرے کی ماہر Expert Commentator بنتی جاتی ہیں۔ ایمان اور آخرت کے موضوعات سے انہیں اتنی دلچسپی نہیں ہوتی جتنی اس لین دین کے موضوعات سے۔ جس شادی میں جائیں گی ہر چیز کو نوٹ کریں گی پھر ہر ملنے والے کے سامنے کبھی Ball to Ball Commentary کی طرح پیش کریں گی یا پھر Highlights تو ضرور پیش کریں گی۔ یہ معاشرے کے چلتے پھرتے بی بی سی اور سی این این ہیں۔ اگر کسی دلہن کا جہیز ان کی نظر کو نہ بھائے تو اس دلہن کا اور اس دلہن کے گھر والوں کا امیج اتنا بگاڑ دیں گی کہ دولہا دلہن کے دلوں میں بجائے محبت کے پہلے دن سے ہی ایک کانٹا چبھ جائے گا۔ حقیقت میں یہ بزرگ خواتین کا خوف بلکہ دہشت ہے جو لڑکی والوں کو مجبور کرتا ہے کہ اپنی استطاعت سے زیادہ سے زیادہ دیں تاکہ ان عورتوں کی زبان بند رہے۔

Female Dominated Society عورتوں کا محکوم معاشرہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول ہے کہ

’’تیرے لیئے زمین کا پیٹ اس کی پیٹھ سے بہتر ہے اگر تیرے معاملات عورت کے ہاتھ میں رہیں۔‘‘

یعنی ایسے مرد کے لئے زمین کے اوپر چلنے سے بہتر ہے کہ وہ زمین کے اندر دفن ہو جائے۔

کہا تو یہ جاتا ہے کہ ہماری سوسائٹی مردوں کی Male Dominated سوسائٹی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہماری سوسائٹی پر مکمل عورتوں کا غلبہ ہے۔ یہ Female Dominated سوسائٹی ہے۔ گھر کے معاملات عام طور پر عورتوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور مرد صدر جمہوریہ کی طرح ہوتا ہے۔ عربوں ، امریکنوں یا یورپین کی سوسائٹی کو مکمل مردوں کی سوسائٹی male dominated society کہا جا سکتا ہے۔ وہاں عورت مرد سے تعاون نہ کرے تو اس سے فوری الگ ہو جاتے ہیں۔ جس کے نقصانات کا ایک الگ موضوع ہے۔

ہندوستان پاکستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ مرد گاڑی کا ڈرائیور ہے۔ ایسا ڈرائیور جس کے ہاتھ میں صرف اسٹیرنگ ہوتا ہے۔ گیر ، بریک Gears, breaks, accelerator پر عورت اپنا حکم چلاتی ہے۔ سمت Direction بھی وہی بتاتی رہتی ہے۔ بیٹیوں کی پیدائش کے ساتھ ہی شوہر کو پیسہ ، گھر ، فلیٹ وغیرہ جمع کرنے کے کام پر لگا دیتی ہیں۔ فضول رسموں کو پورا کرنے کے لیے شوہر سے بحث و تکرار کرنی پڑے تو ضرور کرتی ہیں اور جیت کر رہتی ہیں۔

دیکھا یہ گیا ہے کہ نماز روزے وغیرہ میں تو عورتیں مردوں سے زیادہ خوفِ خدا رکھتی ہیں لیکن جہاں دین کے اساسی Basic اصول جو عورت کے مزاج سے ٹکراتے ہیں ، انہیں خاطر میں نہیں لاتیں۔ شریعت دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور مرد حضرات منہ لٹکائے رہ جاتے ہیں۔ خوشی کے مواقع ہوں کہ غم کے۔ بچوں کی پیدائش کی تقریبات ہوں کہ انتقال، چہلم ، برسی کے مواقع، دیگر بدعتی تقریبات ہوں کہ تفریحات۔۔۔دیکھا یہ گیا ہے کہ مردوں کو نہ چاہتے ہوئے بھی خرچ کرنا پڑتا ہے صرف اس لئے کہ نظام اور فیصلے عورت کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔

محمد اقبال کیلانی مکتبہ سلفیہ نے ’نکاح کے مسائل‘ میں دو اہم احادیث نقل کی ہیں۔

1) بنی اسرائیل میں سب سے پہلا فتنہ عورت کی وجہ سے پیدا ہوا۔

2) میرے بعد مردوں کے لیے عورت سے بڑا فتنہ کوئی اور نہ ہو گا۔

جوڑے جہیز کی لعنت لڑکے کی ماں بہنوں سے زیادہ خود لڑکی کے ماں اور بہنوں کی پروردہ promoted ہے۔ ہر لڑکے کے گھر والے جہیز کے طالب ہوں ایسا نہیں ہے لیکن سو فیصد بیٹی کی ماؤں میں یا تو خوف ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی کو نشانہ ملامت بنایا جائے گا یا پھر شان اور دکھاوے کا جذبہ ہوتا ہے کہ ان کی بیٹی کا بھرم رہے۔

اس لیے لڑکوں کی مائیں ’جو آ رہا ہے آنے دو‘ کے اصول پر چل کر وصول کرتی ہیں۔ ہر دو طرف کے مرد بیویوں کی مرضی پر خوش رہتے ہیں۔

لڑکیوں کا قتل Foeticide, infanticide

ہر سال لڑکیوں کا پیدائش سے قبل ہی قتل کر دیا جانا ہندوستان میں عام بات ہے۔ دوسری طرف جہیز ہراسانی کے نتیجے میں بہووں کا جلا دیا جانا، یا بہووں کا خودکشی کر لینا، بھاگ کھڑا ہونا یا پھر کورٹ کچہری پر مجبور ہونا یہ بھی عام طور ہونے والے واقعات ہیں۔ اس جرم کے پسِ پردہ وہ ساسیں اور نندیں ہوتی ہیں جو بہو کا جینا حرام کر ڈالتی ہیں۔ یا پھر وہ مائیں خود جو نہیں چاہتیں کہ لڑکیاں پیدا ہوں اور آمدنی پر بوجھ بنیں۔

شہروں میں ایسے بے شمار میٹرنیٹی ہوم ہیں جہاں رات گئے اسقاطِ حمل Abortions کر دیئے جاتے ہیں۔ گاؤں اور دیہاتوں میں ایسے رواج ہیں کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اگرچیکہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و سلم) نے لڑکیوں کی پیدائش اور ان کی پرورش اور تربیت پر دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی کی بشارت دی ہے۔ لیکن مسلمانوں کا معاشرہ کیا آج اس قابل ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی اس خوشخبری کی تعبیر پیش کر سکے؟ کیا کوئی ہندو عورت ایسی ہے جو اپنے پڑوس کی مسلمان عورت کو دیکھ کر یہ کہہ سکے کہ مسلمان لڑکی ماں باپ پر واقعی کوئی بوجھ نہیں ہوتی؟ ایک مسلمان کو اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے ساری عمر اس طرح فکرمند نہیں رہنا پڑتا جس طرح ایک ہندو کو رہنا پڑتا ہے۔حقیقت تو ہے کہ مسلمان عورتیں لڑکیوں کی تربیت اور شادی ہندو سماج سے سیکھ سیکھ کر پور ا کا پورا دوہراتی ہیں، فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ ہندو دلہن پھیرے لے کر رخصت ہوتی ہے اور مسلمان لڑکی کے سر پر قرآن رکھ کر اس کو نیچے سے گزارا جاتا ہے۔

عورت اپنا ماضی کیوں بھول جاتی ہے؟

اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش

مجبور ہیں معذور ہیں مردانِ خردمند

لڑکی دیکھنے جانا عورتوں کا محبوب مشغلہ ہوتا ہے۔ اگر لڑکی پسند نہ آئے تو واپس آ کر اس کا اور اس کے گھر والوں کا یہ جس طرح مذاق اڑاتی ہیں،یہ نہیں سوچتیں کہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کے دل پر کیا گزرے گی جب انہیں ان باتوں کا علم ہو گا۔ لڑکیاں بے چاری بار بار کی اس رو نمائی سے ذلت محسوس کرتی ہیں اور دل ہی دل میں بد دعائیں دیتی ہیں کہ ان لڑکے والوں نے عورت کو ایک بھینس یا گائے کا درجہ دے دیا ہے جسے جو گاہک جب چاہے آئے ، دیکھے اور چلا جائے۔ لیکن۔۔۔ حیرت اُس وقت ہوتی ہے جب یہی لڑکی ایک بہن یا ماں کی حیثیت میں بہو دیکھنے جاتی ہے تو اس کو وہ وقت یاد نہیں رہتا جب دوسرے کبھی اس کا بھی اس کے رنگ ، چال، زبان یا خاندان پر مذاق اڑاتے تھے۔ جو کچھ اس پر گزری تھی وہ بالکل فراموش کر دیتی ہے اور بے حِس ہو جاتی ہے۔واپس آ کر وہ بھی اسی طرح مذاق اڑاتی ہے جیسے کبھی اس کا اڑایا گیا تھا۔ حالانکہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس وقت اسے ذلیل کیا گیا تھا اس وقت یہ عزم کرتی کہ جب اس کی باری آئے گی تو وہ کسی دوسری لڑکی کے ساتھ ایسا نہیں ہونے دے گی۔۔

 

یہ لعنت ہند و پاک کے ہر علاقے میں موجود ہے

بعض لوگ طنزیہ یہ کہتے ہیں کہ یہ لعنت صرف حیدرآباد دکن میں ہے اور بعض کہتے ہیں یہ تو بہار اور یوپی میں ہے۔ کوئی کہتا ہے ہمارے پنجاب میں تو یہ ہوتی ہی نہیں ہے اور کوئی کہتا ہے یہ تو کراچی کے مہاجروں میں ہے۔

تو پھر صحیح کیا ہے ؟

یہ دراصل لوگوں کی غلط فہمی اور اصل مسئلے سے ناواقفیت ہے۔ کم از کم ہندوستان پاکستان اور بنگلہ دیش میں یہ لعنت 95 فیصد لوگوں میں موجود ہے۔ شکلیں بدلی ہوئی ہیں ، کہیں جوڑا ، جہیز، تلک کے نام پر، کہیں معیاری شادی کے نام پر، کہیں خوشی سے جو چاہے دینے کے نام پر ، اور کہیں جہیز نہیں مانگا جاتا لیکن فائیو اسٹار ہوٹل میں فنکشن کی خواہش کی جاتی ہے۔

لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جہیز صرف وہ ہوتا ہے جو لڑکے والوں کی طرف سے مانگنے پر دیا جاتا ہے۔ جو چیز رواج کے مطابق ہر ماں باپ کرنے پر مجبور ہیں لوگ اس کو جہیز ہی نہیں سمجھتے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ان کے علاقے یا ان کی جماعت یا برادری میں جہیز کے لعنت نہیں ہے وہ حضرات یہ بتائیں کہ کیا پلنگ ، بستر، فرنیچر، کچھ ساز و سامان، منگنی یا شادی کے دن مہمانوں کو کھانا وغیرہ، انہیں دینا پڑتا ہے یا نہیں؟ یہی تو وہ چیزیں ہیں جن کو اسلام ختم کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہ ہر گاوں اور ہر دیہات میں پائی جانے والی رسمیں ہیں۔

باہر سے آنے والے Expatriates زیادہ حریص

سعودی عرب، دوبئی وغیرہ سے آنے والے تو یہ حرکتیں کرتے ہی تھے لیکن ہم یہ سمجھتے تھے کہ لوگ امریکہ یا لندن جا کر تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ ہو جاتے ہیں اور جوڑا جہیز جیسی لعنتوں سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ غلط فہمی اس وقت دور ہو جاتی ہے جب ہم گرین کارڈ ہولڈر لڑکے لڑکیوں کے ضرورتِ  رشتہ کے اشتہار دیکھتے ہیں اور جب ان کی شادیوں کے تعلق سے معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہر جاہلانہ بات پر اپنے وطن کو حقارت سے دیکھنے والے یہ خود ساختہ انگریز جو اپنے رویّے میں انتہائی Sophisticated, logical, educated ہوتے ہیں، شادی بیاہ کے معاملے ان کی سوچ وہی کراچی کے لالو کھیت یا حیدرآباد کے پرانے شہر والوں سے مختلف نہیں ہوتی۔ جہیز، جوڑا، وغیرہ کے جائز یا ناجائز ہونے کے معاملے میں ان کا رویّہ وہی ہوتا ہے جو بنی اسرائیل کا تھا یعنی :

’’ہم تو اسی چیز کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا‘‘۔ (سورہ بقرہ)۔

حقیقت تو یہ ہے کہ خلیج ہو کہ امریکہ، انہی باہر والوں نے شادی کے نظام کو تباہ کرنے میں اہم رول ادا کیا ہے۔ ایک طرف یہ اتنے بے نیاز اور خود دار بننے کی ایکٹنگ کرنے لگے گویا انہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اور صرف معیاری شادی، صرف اچھی دعوتِ طعام کی شرط کے ساتھ شادیاں کرنے لگے جبکہ یہ اچھی طرح جانتے تھے منع کرنے کی ایکٹنگ کرنے کے باوجود انہیں بہت کچھ دیا جائے گا۔ اس کے مجرم تنہا لڑکے نہیں ہیں۔ وہ باہر والے بھی جو لڑکیوں کے باپ ہیں وہ بھی کوئی کم مجرم نہیں۔ انہوں نے ضرورت سے زیادہ خرچ کر کے ملک کے اندر رہنے والے لڑکوں اور ان کے گھر والوں کی نیتیں خراب کی ہیں۔ اس لئے اب لڑکے اقامہ ہولڈر اور گرین کارڈ ہولڈر لڑکیوں پر زیادہ ٹوٹ پڑتے ہیں۔

کچّی، میمن، کوکن، مہدوی، ہندستانی، حضرمی، آغاخانی وغیرہ

ایسی کئی برادریاں اور قبائل ہیں جن کے سماجی طور طریقے عام مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ان کے ہاں جوڑے جہیز کی لعنت بالکل نہیں پائی جاتی۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں ان کے ہاں لڑکی والوں کی مرضی پر چھوڑ دیا جاتا ہے وہ جو چاہے خوشی سے دیں۔ یہ جھوٹ اور خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے۔ ’’خوشی سے لینا دینا‘‘ کیا ہے اس کی تفصیلات جو پیش کی جاچکی ہیں ان کی روشنی میں اگر کوئی برادری یہ کہتی ہے کہ جوڑا جہیز دوسرے مسلمانوں میں پایا جاتا ہے لیکن ان کے ہاں نہیں تو یہ فرار کا فلسفہ ہے۔ اس ہٹ دھرمی کا سبب شائد یہ ہے کہ جب تک ان کی اپنی کمیونٹی یا برادری کا اپنا عالم یا لیڈر کھڑا ہو کر یہ نہ کہے کہ یہ جو کچھ ’’خوشی سے‘‘ لینے دینے کا رواج ہے چاہے وہ ایک ہزار روپئے کا مال یا نقد کیوں نہ ہو، حرام ہے، یہ لوگ ہرگز ماننے والے نہیں۔

فطرت افراد سے اغماض تو کر لیتی ہے

کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف

جہیز پاکستان میں

پاکستان میں اس کی بڑھتی ہوئی لعنت کے لئے سینیٹر آسیہ اعظم کا نیشنل اسمبلی سے خطاب غور کرنے کے قابل ہے۔ محترمہ جو عورتوں کی کئی فلاحی تنظیموں سے وابستہ ہیں، کہتی ہیں کہ یہ لعنت کراچی ، لاہور اور میں سب سے زیادہ ہے۔ کراچی میں فلیٹ، سونا اور دوسری چیزیں، لاہور میں نوٹوں کے ہار اور دوسرے علاقوں میں سامانِ ضرورت و بلا ضرورت کی رسمیں ہیں۔ وڈیروں میں عورت پر یہ ظلم ہے کہ اس کو وراثت دینے کی صورت میں جائداد کا بٹوارہ ہو جانے کے خوف سے اس کی شادی قرآن سے کر دی جاتی ہے۔ وہ عمر بھر تنہا گزار دیتی ہے۔ کئی لڑکیوں کی شادی خاندان کے کم سِن لڑکوں سے کر دی جاتی ہے تاکہ وراثت خاندان کے باہر نہ جائے۔

th April, 2003, The Nation, Karachi4

پاکستان میں جہیز، نقدی یا فلیٹ وغیرہ اور اس کے ساتھ ساتھ شادی کے دن کے کھانے کی لعنت اس قدر عروج پر ہے کہ ہندوؤں کی شادی اس کے سامنے ماند پڑ جاتی ہے۔ کوئی پاکستان شائد ہی ایسا ملے جو شادیوں کے بوجھ تلے دبا ہوا نہ ہو اس کے باوجود وہ یہ کہہ کر مذاق اڑاتے ہیں کہ یہ لعنت انڈیا میں ہی ہے۔

بنگلہ دیش، کیرالا وغیرہ میں صورتِ حال یہ ہے کہ ایک معمولی چپراسی کیوں نہ ہو کم سے کم دو لاکھ روپئے نقد اور پور سامانِ جہیز وصول کرتا ہے۔ جتنی محنت سے یہ لوگ کماتے ہیں اپنی پوری کمائی صرف ا ستری دھن اور شادی کے اخراجات پر لٹا دیتے ہیں۔ بنگلہ دیش میں غربت جتنی زیادہ ہے، عورتوں کی کمائی کھانے کا رجحان بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔

 

جوڑا جہیز کے بدترین نقصانات

» نکاح مشکل اور زنا آسان ہو گیا ہے۔ کسی بھی قریبی میٹرنٹی ہوم سے پتہ لگائیے کہ روزانہ کے وضع حمل Abortions کا اوسط کیا ہے ؟

» غریب لڑکیاں فحاشی Prostitution کی طرف بڑھ رہی ہیں اور متوسط گھروں کی لڑکیاں عیاشی کی طرف۔

» خود دار گھرانوں کی لڑکیاں غیر مسلمین کے ہاں شو روم، آفس اور اداروں میں معمولی معمولی کام کرنے پر مجبور ہیں۔

» چند خوشی سے دینے کی استطاعت رکھنے والے حضرات کی وجہ سے پورا ماحول اتنا بگڑ چکا ہے کہ ہر شخص اُس کی نقل کرنے کی جستجو میں چوری ، جھوٹ ، ڈاکہ ، رشوت و بے ایمانی کا مرتکب ہو رہا ہے اب یہ تمام برائیاں مجبوری میں جائز سمجھی جانے لگی ہیں۔

» لڑکیوں کی شادی کیلئے چندہ ، خیرات و زکواۃ مانگنے والوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

» دعاؤں کی قبولیت کا دار و مدار مکمل حلال رزق پر ہے۔ جوڑا جہیز کی زیادتی نے دعاؤں کی قبولیت کا باب بند کر دیا ہے۔

» لڑکیاں سرکش ہوتی جا رہی ہیں کیوں کہ جب وہ اپنا جہیز اور نقدی خود فراہم کر رہی ہیں تو نفسیاتی طور پر خود کو قواّم بھی محسوس کر رہی ہیں ، مرد عورتوں کے آگے جھک رہے ہیں، معاشرہ عورت کے پیچھے جا رہا ہے۔

» جماعتوں میں اب نوجوانوں کی تعداد کم ملتی ہے۔ زیادہ تر لوگ ریٹائرڈ عمروں، ریٹائرڈ ذہنوں کے بوڑھے ملتے ہیں۔ وہ لوگ جو ذہنی اور فکری اثاثہ بن سکتے ہیں اپنی بیٹیوں اور بہنوں کے لئے روپیہ کمانے پر مجبور ہیں۔

 

قاضی صاحبان کا رول

رقابت علم و عرفاں میں غلط بینی ہے منبر کی

کہ وہ حلّاج کی سولی کو سمجھا ہے رقیب اپنا

خطبہ کی اہمیت

قاضی حضرات خود غور فرمائیں کہ ایک مکمل شریعت موجود ہونے کے باوجود عورتوں کو پولیس اور کورٹ کا کیوں سہارا لینا پڑتا ہے۔ آئے دن پرسنل لا سے متعلق کوئی نہ کوئی جھگڑا کھڑا ہوتا رہتا ہے اور اخبارات اس کو کس قدر اچھالتے ہیں یہ بھی سب کے علم میں ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے دور میں خطبہ کو اہمیت دی جاتی تھی۔ عام اوقات میں بھی جب کوئی اہم بات آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کہنی ہوتی تھی آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اٹھتے ، منبر پر تشریف لاتے اور خطبہ دیتے۔ اسلام میں خطبہ کی بڑی اہمیت ہے جیسے جمعہ کی نماز کا خطبہ ، اس کی اہمیت کے پیش نظر چاروں ائمہ کرام کے نزدیک دوران خطبہ نماز ، تلاوت ، سلام کا جواب حتی کہ ذکر بھی منع ہے۔ اسی لیے علماء کی اکثریت نے خطبہ سننے کو واجب کہا ہے۔ اسی طرح خطبہ عیدین بھی ہے یا جب کسی کی تدفین کا موقع ہوتا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) اس وقت بھی خطبہ دیتے۔ ایسے مواقع لوگوں کی تربیت کا بہترین ذریعہ ہیں۔ بدقسمتی سے آج یہ سارے مواقع ناکارہ کر دئیے گئے ہیں۔ ہمارے امام ، خطیب اور قاضی صاحبان کو چاہئے کہ ایسے اہم موقعوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیں اور لوگوں کو حلال و حرام بتائیں۔ ازدواجی زندگی سے متعلق ہر اہم بات جس کا دینی اخلاقی و معاشرتی زندگی پر اثر پڑتا ہو وہ کھول کھول کر پیش کریں۔

مفتی محمد شفیع (رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا کہ :

خطبہ کے مسنون اجزاء حمد و درود ، دعا اور حالات حاضرہ کی روشنی میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہیں۔

(جواہرالفقہ)۔

آخری جز ہمارے قاضی حضرات نے اپنے فرائض سے یوں خارج کر دیا ہے گویا یہ ان کا مسئلہ ہی نہیں۔

کیا یہ عقد ہے ؟

عقد یا نکاح کے معنی ایک قرار داد Agreement کے ہیں۔عقد یا ایگریمنٹ کا واضح اعلان اصل نکاح ہے ، نہ کہ سکہ ’رائج الوقت و سرخ دینار کا رسمی اعلان۔ دراصل اسلام نے اصلاحِ معاشرہ کے لیے جتنے موثر ترین Most Effective طریقے ہمیں دئیے تھے وہ سب ہم نے ناکارہ کر دئیے ہیں۔ انہی میں سے ایک خطبۂ نکاح بھی ہے۔ قاضی حضرات کو شریعت نے ایک استاد ، امام ، مربی اور خطیب کا مقام دیا وہ اس دس پندرہ منٹ کے وقفے کو استعمال کر کے شریعت کے احکامات لوگوں تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھانا ان کی اہم ترین ذمہ داری ہے لیکن اس ذمہ داری سے سبکدوش یہ خود ہوئے ہیں۔ انہیں جلد سے جلد دستخطیں لے کر اپنی فیس وصول کر کے کسی دوسرے نکاح کی تقریب میں بھاگنے کی جلدی ہوتی ہے۔ چونکہ نکاح ناموں کی قانونی اہمیت ہے ، ان قاضیوں کے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں ہے اس لیے قضاء ت کا کام بھی ایک سرکاری کاروبار کا حصہ بن گیا ہے۔ کورٹ میریج اور اس تقریب نکاح میں سوائے اس کے کوئی فرق نہیں رہا کہ کورٹ میں آفیسر عربی میں چند آیات پڑھ کر فاتحہ نہیں کہتا اور گواہ اپنے سروں پر کچھ دیر کے لیے ٹوپیاں یا دستیاں نہیں رکھتے۔

قاضی حضرات جب خطبے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں وہ اُس وقت رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کے جانشین ہوتے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کی ایسے موقع پر اہم ہدایات ایک امانت ہیں جن کو پہنچانا خطیب کی ذمہ داری ہے۔ لوگ سنتے ہیں یا نہیں، عمل کرتے ہیں یا نہیں یہ سوچنا جب نبیوں کا منصب نہیں تو قاضی یا خطیب کا کیسے ہو سکتا ہے۔ ایسے موقع پر قاضی حضرات دو ٹوک الفاظ میں اگر یہ بیان کریں کہ جوڑا جہیز حرام ہے۔ نکاح کے دن کا کھانا کسی طرح جائز نہیں اور دیگر رسمیں جنمیں اسراف، تفاخر اور لہوۂنے دعاولرجال قواموںالخاالحدیث پوشیدہ ہے وہ ساری کی ساری حرام ہیں تو لوگوں کے دلوں میں کانٹے تو چبھ سکتے ہیں۔ سننے والوں میں ایسے چند زندہ ضمیر تو موجود ہوتے ہیں جن پر یہ باتیں اثر کر جاتی ہیں۔

نکاح نامے میں جوڑا جہیز اور مہر مؤجل کا اعلان کیوں نہیں ہوتا؟

شریعت میں ’اصل‘ دیکھی جاتی ہے۔ نکاح کی اصل بھی ایگریمنٹ کا اعلان ہے جس کو آج کے عرف یا رواج کے مطابق ہونا چاہئے۔مہر کی رقم کے اعلان کے ساتھ ساتھ جتنا جہیز، نقدی وغیرہ کا لین دین ہوا ہے اس کا بھی اس عقد میں ذکر ہونا لازمی ہے۔ ورنہ یہ انصاف نہیں ہے کہ مرد جو کچھ دے رہا ہے اس کا تو بھری مجلس میں اعلان ہو اور عورت جو مرد کو دے رہی ہے ، اس کا ذکر تک نہ ہو۔ نکاح نامے میں بھی اس لین دین کی صراحت ہونی چاہئے تاکہ رشتہ نہ نبھنے کی صورت میں عورت کو اس کا پورا پورا مال واپس مل سکے۔ بارات ، کھانا ، شادی خانے کا بل وغیرہ یہ لڑکی کے سرپرست پر نہیں بلکہ لڑکے کے ذمہ ہیں ، اگر اس کی طرف سے لڑکی والے یہ خرچ اٹھاتے ہیں تو یہ ایک قرض ہے جو لڑکے کو کبھی نہ کبھی ادا کرنا ہے ، اس کا بھی نکاح نامہ میں تصریحاً ذکر ہونا چاہئے۔

بالخصوص مہرمؤجل کا بھی عقد نامے میں واضح طور پر یہ اندراج ہوکہ وہ کب اور کیسے دیا جائے گا۔ چونکہ شریعت میں مہر کا مطلب مہر معجّل ہے اس لئے اس کا کتابوں میں تذکرہ نہیں ملتا کہ کب اور کیسے دیا جائے گا۔ لیکن آج چونکہ لوگوں نے شریعت کو اپنی سہولت کے مطابق بدل دیا ہے اس لئے یہ بھی عقد نامے میں واضح ہونا چاہئے کہ مہر کب اور کیسے دیا جائے گا۔

 

جماعتوں کا رول

افراد کی قلت کی سب سے بڑی وجہ۔۔۔ جوڑا جہیز

آج اکثر جماعتیں یہ رونا روتی ہیں کہ قحط الرجال ہے۔ نوجوان نسل دور ہوتی جا رہی ہے۔ جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کی عمریں ساٹھ اور ستّر سے تجاوز کر رہی ہیں۔ افراد کے فقدان کی اہم وجہ جوڑا جہیز کی وہ لعنت ہے جس کی وجہ سے آج ہر شخص اپنا وقت اور توانائیاں کمانے پر لگانے پر مجبور ہے۔ اگر یہ لعنت ختم ہو جائے تو ہزاروں ذہین لوگ ایسے ہیں جو اپنے آپ کو کسی بھی بامقصد جماعت سے جوڑنے کے لئے تیار ہیں۔

اُمت مسلمہ کی فلاح و بہبود ہر جماعت کا اگرچہ مقصدِ اولین Prime Goal ہے لیکن کسی جماعت کے لائحہ عمل Line of Action یا منصوبہ بندی Planning میں یہ شامل نہیں کہ معاشرے کی بدترین برائی یعنی شادی کی کل رسومات جو مسلمان کے کردار ہی نہیں بلکہ وجود کو بھی مٹا رہی ہیں ان کے خلاف جنگ کی جائے۔ بدقسمتی سے جماعتوں میں منصوبہ بندی کا شعبہ ہی نہیں پایا جاتا۔ جلسوں یا خصوصی اجتماعات میں اگر جوڑے جہیز پر کوئی تقریر ہوتی بھی ہے تو محض ورائٹی Variety پیدا کرنے کی خاطر۔ مقرِّر حضرات شعلہ بیانی تو فرماتے ہیں اور پھر تقریر کے بعد ایک فاتح کی طرح اپنے قریبی رفقاء سے پوچھتے بھی ہیں کہ’’تقریر کیسی تھی‘ ؟لیکن ان کے ذہنوں میں اس برائی کو مٹانے کا کوئی سنجیدہ ایجنڈا نہیں ہوتا۔

جماعتیں اپنے نصب العین کو بار بار پڑھیں۔ اصل برائیوں کی تشخیص diagnose کریں۔ مالیات ، سیاسیات ، بیت المال ، وفود ، دعوت نشر و اشاعت وغیرہ شعبوں کی طرح انسداد جوڑا جہیز کا ایک مکمل علیحدہ شعبہ ہو۔ برائیوں کو مٹانے کی یقیناً آپ جستجو کرتے ہیں لیکن ظلم یہ کر جاتے ہیں کہ جوڑا جہیز کو فلم بینی ، ٹی وی ، ڈرامہ ، فحش گانے ، سگریٹ نوشی وغیرہ کے مساوی جان کر اصلاحِ معاشرے کی تحریک میں تھو ک کے حساب سے ساری برائیوں کو ایک ترازو میں تول دیتے ہیں۔ جوڑا جہیز ایک AIDS جیسا خطرناک مرض ہے جب کہ دوسری برائیاں اس کے سامنے زکام بخار سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتیں۔ اس کے لئے ایک مکمل تحریک کی ضرورت ہے جسے جنگی پیمانے پر جب تک نہ چلایا جائے اس کا رکنا ناممکن ہے۔

جماعتیں شہروں سے باہر بھی نکلیں

Sunday Weekly کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف ممبئی شہر میں دو لاکھ سے زیادہ لڑکیاں ایسی ہیں جو بارگرل، کیبرے یا جسم فروشی کا کام کرتی ہیں۔ جن میں کم سے کم ایک لاکھ مسلمان ہیں ، ان میں اکثریت ان لڑکیوں کی ہے جو صرف جوڑا جہیز سے مجبور ہو کر ملک کے مختلف علاقوں سے ممبئی بھاگ آئی ہیں۔

آسام وغیرہ میں تو مسلمان لڑکیاں فروخت کر دی جاتی ہیں

دہلی گجرات وغیرہ میں فرقہ پرست تنظیموں کے تاجر مسلمان لڑکیوں کو گھروں اور دوکانوں پر زیادہ تنخواہ دے کر ملازم رکھتے ہیں اور نہیں اپنے کلچر میں ضم Assimilate کرنے کی منظم Organised چالیں چلتے ہیں۔

جماعتوں کو چاہئے کہ ایسی تمام جگہوں پر اپنے وفود بھیجیں اور گاوں گاوں ، دیہات دیہات ذہن سازی کا کام کریں۔

اگر جماعتیں جوڑے جہیز کے مٹانے کو اپنا نصب العین Main Objective بنا لیں تو بغیر کسی تقریر یا تحریر کے ، بغیر کسی جلسے جلوس کے ، بغیر لاکھوں روپئے خرچ کر کے اجتماعات کرنے کے صرف نکاح کے طریقے کو دیکھ کر نہ صرف غیر مسلم اسلام کی طرف راغب ہوں گے بلکہ مسلمانوں کی اخلاقی اور اقتصادی Economic حالت چند سالوں میں بہتر ہو جائے گی۔

Google search engine پر کبھی دیکھیئے کہ صرف ہندوستان میں کم سے کم ایک لاکھ تنظیمیں اور ویب سائٹس کام کر رہی ہیں ان میں مسلمانوں کی جانب سے بمشکل پچاس سائٹس ہیں۔

آریہ سماج نے 5 روپے میں شادی کے ذریعے نہ صرف ہندوؤں کو بلکہ بے شمار مسلمانوں کو مندر کا راستہ دکھایا ایسے وقت میں مسلمان جن کی شادی میں شرعاً 5 روپے کی بھی ضرورت نہیں غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ یہ جنگ جماعتیں ہی سب سے زیادہ بہتر لڑ سکتی ہیں۔

جتنی مسلمانوں کی جماعتیں ہیں وہ شہروں میں ہی اپنا دائرہ کار رکھتی ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد شہروں سے دور گاوں ، دیہات اور قصبات میں رہتی ہے۔ جماعتوں کا ان مقامات پر یا تو مسلم کش فسادات کے موقع پر یا پھرکسی سیلاب، قحط یا کسی اور آفتِ آسمانی کے موقع پر ہی جانے کا اتفاق ہوتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شہر سے دور رہنے والے مسلمان رفتہ رفتہ اپنے مذہب اور تہذیب سے دور ہو چکے ہیں اور اکثریت میں جذب ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کی زبان، رسم و رواج، عقائد اور تعلیم اسلام سے بہت دور ہو چکی ہے۔ ان کو اگر دوبارہ اسلام کے دائرے میں لایا جا سکتا ہے تو صرف سماجی، تعلیمی اور اخلاقی تحریکوں کے نتیجے میں لایا جا سکتا ہے۔

کونسلنگ کی اہمیت

» اچھے لڑکے اور لڑکیوں کی نسبت طئے کروانا ایک اہم سماجی خدمت ہے۔ اصولاً ایسی خدمت خلق کی تنظیمیں ہونی چاہئیں اور دینی جماعتوں میں بھی اس کا شعبہ ہونا چاہئے ، جس کا تعلق میریج کونسلنگ Marriage Counselling سے ہو ، جو نہ صرف لوگوں کو اچھے لڑکوں یا لڑکیوں کے انتخاب میں مدد کرے بلکہ شادی کے بعد ازدواجی زندگی میں پیدا ہونے والے مسائل کو بھی حل کرنے میں مدد کرے۔

میریج کونسلنگ بے شک ان کاموں میں سے ایک ہے جن پر یہ حدیث کا اطلاق ہو سکتا ہے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے :

جب بندہ دوسروں کی خدمت میں لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے کاموں پر لگ جاتے ہیں

نیز۔۔۔

جب بندہ دوسروں کے لیے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اللہ تعالیٰ وہ دعاء اس کے حق میں پہلے قبول فرماتے ہیں۔

» Anti dowry مقدمات، طلاق اور ہراسانی کی روک تھام کے لئے اور جوڑا جہیز اور دوسری لعنتوں کے بارے میں ذہن سازی کے لئے جمعہ کی خطبے، کالج،یونیورسٹی، دینی مدارس اور مختلف فلاحی تنظیموں کے اسٹیج سے لکچر، سیمینار اور دوسری طرح کے پروگرام کروانا جماعتوں کے لئے آسان ہے۔ اکثر جماعتیں اور انجمنیں جگہ جگہ فری میڈیکل کیمپ اور مختلف اشیا ء کی تقسیم کے پروگرام کرواتی ہیں۔ اگر وہ ذہن سازی کی اس مہم کو بھی فروغ دیں تو اس میں معاشرے کے اصلاح ممکن ہے۔

    سیرت کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) اپنے وقت کے ایک بہترین میریج کونسلر تھے جو شادی سے قبل اور شادی کے بعد کے ازدواجی مسائل حل کرتے تھے۔ اس سنّت کو مدرسوں نے اپنے نصاب سے اور جماعتوں نے اپنے دعوتی ایجنڈے سے خارج کر دیا ہے

 

علماء و مدارس کا رول

عشق کی تیغِ جگر دار اڑا لی کس نے

علم کے ہاتھ میں خالی ہے نیام اے ساقی

علماء کی تاریخی خدمات

ہندوستان میں مسلمانوں کا عہدِ حکومت ختم ہونے کے بعد جب زوال آیا تو یہ مدرسوں ہی کی تحریک تھی جس نے اسلامی تعلیم کو زندہ رکھا ، انیسویں صدی کے درمیان میں لارڈ میکالے Thomas Macaulay (1934) ہندوستان آیا اور پوری ہندوستانی سوسائٹی کا جائزہ لینے کے بعد اس نے جس تعلیمی نظام کی اسکیم پیش کی ، اس کا لب لباب بلکہ خود اسی کا نعرہ یہ تھا کہ

’ایک ایسی نسل تعمیر ہو جو پیدائشی طور پر مسلمان ، فکری طور پر انگریز ہو Muslim by birth and english by thought‘

علماء نے اس خطرے کو بھانپ لیا اور اپنی پالیسی Strategy یہ بنائی کہ :

’ایسی نسل تعمیر ہو جو پیدائشی طور پر ہندوستانی ہو اور فکری طور پر مسلمان Indian by birth muslim by thought ہو‘

اس کے بعد مدارس کے قیام اور مفت دینی تعلیم کا سلسلہ چل پڑا تاکہ بغیر سرکاری مدد کے بچے بچے تک دینی تعلیم پہنچے۔

دارالعلوم دیوبند ، ندوہ ، جامعہ نظامیہ ، حیدرآباد جیسے عظیم مدارس کی شہر شہر بنیادیں پڑیں۔ مولانا رشید احمد گنگوہی ، حمید الدین فراہی ، شبلی نعمانی ، اشرف علی تھانوی ، حسین احمد مدنی ، منت اللہ رحمانی ، مجاہد الاسلام قاسمی ، خواجہ حسن نظامی ، مناظر احسن گیلانی ، سید عبداللہ شاہ ، صدر الدین اصلاحی ، مولانا محمد الیاس ، مولانا ابواللیث ، مولانا محمد زکریا وغیرہ وغیرہ یہ تمام انہیں مدرسوں کی پیداوار ہیں جنہوں نے اسلام کو نازک وقتوں میں سہارا دیا اور آخری سانس تک فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

چرچ اور اسٹیٹ کی تقسیم

لیکن بہر حال اس حقیقت کو تسلیم کرنا ناگزیر ہے کہ مدرسوں کی تحریک 1857ء کے بعد ایک ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے وقتی تحریک تھی۔ یہ امت کے روشن مستقبل کی تعمیر کا دائمی منصوبہ نہیں تھا۔ علمِ دین جس حد تک پڑھایا جاتا تھا وہ زبان ، اسلوب تفسیر ، فقہی اصول و قوانین وغیرہ کی حد تک تو ایک طالب علم کو عالم بنا سکتا تھا۔ لیکن اس میں سیاسی ، سماجی، نفسیاتی ، معاشی، تحریکی اور ادبی خلاؤں کو پر کرنے کی تربیت شامل نہیں تھی۔ یہ خلا بڑھتا گیا اور چند ایک سالوں میں مسلمان قوم ’ہر حکمران اور ہر رائج سرکاری نظام‘ کی مخالف ، یکا و تنہا قوم بن کر ابھرنے لگی۔ دوسری طرف جب دوسری قومیں ہیومن رائٹس، وومنس رائٹس، جمہوریت، سائینس وغیرہ پیش کرتی ہیں تو ہمارے علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ چودہ سو سال پہلے سے ہمارے پاس موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ چودہ سو سال سے ہم نے کیا کیا۔ اگر چودہ سو سال میں ان چیزوں کو ہم دنیا کو متعارف کرواتے تو آج مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی صورتِ حال مختلف ہوتی۔ عالمی انصاف کی عدالت بلجیم میں نہیں سعودی عرب میں ہوتی۔ بنک اور انشورنس کے سب سے بڑے مراکز مسلمان ملکوں میں ہوتے۔ اسلام پر ڈاکٹریٹ کرنے خود عرب مسلمان آکسفورڈ یا کیمبریج نہیں جاتے بلکہ وہاں سے انگریز خود مسلمان ملکوں کا سفر کرتے۔

چونکہ ’دعوتِ دین‘ کا مضمون اور اس کی تربیت شامل نصاب نہیں تھی اور نہ آج ہے۔ اس لیے دین کا قیام اور ایک اسلامی سیاست ، معاشرت اور معیشت کے قیام کا تصور Vision اور اس کی منصوبہ بندی Planning مدرسہ کے نصاب یا اس کے اغراض و مقاصد سے خارج رہی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ’چرچ اور اسٹیٹ Church & State‘ کی مسلمانوں میں بھی تقسیم وجود میں آ گئی۔

دوسری طرف یہ ہوا کہ انگریزی تعلیم جس کے بارے میں ماضی میں ’غیر اسلامی اور کافرانہ‘ تعلیم کا سا رویہ تھا مسلمان تیزی سے اسی طرف بڑھنے لگے وہاں دینی تعلیم کا دور دور تک وجود نہ تھا لیکن روزگار اسی سے جڑا تھا۔یہاں آ کر چرچ اور اسٹیٹ کی تقسیم مکمل ہو گئی۔

مولانا قاسم نانوتوی اور سر سید ایک ہی استاد مولانا مملوک علی کے شاگرد تھے ایک نے قوم کے بچے بچے کو اسلامی تعلیم کے ذریعے مسلمان بنائے رکھنے کا عزم کیا۔ دوسرے نے عصری سیکولر تعلیم کے ذریعے مسلمان بنائے رکھنے کا عزم کیا۔ دیڑھ سو سال کے اس تجربے کے بعد مدرسہ اور سیکولر تعلیم جس مقام پر پہنچے وہ نتائج کے اعتبار سے بالکل ایک ہیں۔ مدرسہ دین کو دنیا میں چلانے سے قاصر ہے اور عصری تعلیم دنیا میں دین برتنے سے نا آشنا ہے۔ امت کی پستی اور زبوں حالی پر دونوں ایک سا تبصرہ کرتے ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ عصری تعلیم والا چندہ دیتا ہے اور مدرسہ والا چندہ لیتا ہے ، اسی لین دین کے ذریعے مدارس ، مختلف ریلیف کے کام ، مسلم پرسنل لا بورڈ اور جماعتیں زندہ ہیں۔

مدرسوں کی مجبوری

ہمارے مدارس اور علماء کی مجبوری بھی پیش نظر رہے۔ آج مدارس کو سب سے زیادہ اعانت Donation دینے والے اور مساجد کی انتظامی کمیٹیوں کے صدر و سکریٹری جو اماموں خطیبوں اور حافظوں کو تنخواہیں ادا کرتے ہیں یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی زندگی میں جوڑا جہیز لینا اور دینا محبوب ہے۔ اگر مدراس اور علماء اسی کے خلاف تحریک اٹھائیں تو اعانتیں اور تنحواہیں بند ہو سکتی ہیں۔ اس لیے علماء عمومی In General تو ان مسائل پر گفتگو کرتے ہیں لیکن ذاتی طور پر ایسے افراد کو جا کر نہیں سمجھا سکتے جو کہ دعوت کا اصل کام ہے بلکہ ان کی شادیوں اور منگنیوں، اور ولیموں میں شوق یا مصلحت کی وجہ سے ضرور شرکت کرتے ہیں اور تعریفی کلمات ادا کرتے ہیں۔

علماء کی ذمہ داری

اگر مدارس سے نکلنے والے علماء و حفاظ و قراء اپنے اور اپنی اولادوں کے لیے ہر قسم کا جوڑا جہیز جو ’خوشی سے دینے‘ کے رواج کے تحت دیا جا رہا ہوا سے حرام تصور کریں اور واپس کر دیں اور ایسی تمام شادیوں کا بائیکاٹ کر دیں تو ایک انقلاب آ سکتا ہے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے بجائے ڈاکٹر یا انجینئر کی خواہش کرنے کے حافظ یا عالم کی خواہش کرنے لگیں گے۔

ایک عام آدمی کی برائیوں پر کسی کی نظر نہیں پڑتی لیکن اہلِ علم کے دامن میں لوگ دور بین و خوردبین Microscope & Binoculars لے کر دھبے ڈھونڈھتے ہیں تاکہ ان کے لیے بھی کوئی جواز نکل آئے۔ جیسے کہ فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے :

’بنی اسرائیل کے علماء لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے۔ جب لوگ ان کی بات نہ مانتے اور اپنی چال پر قائم رہتے تو پھر اہل علم بھی ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے لگتے‘۔

اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور سخت تاکیدی انداز میں فرمایا :

’خبردار تم لوگ ایسا نہ کرنا ، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم دعائیں کرو اور دعائیں رد کر دی جائیں‘۔

    اگر مدارس سے نکلنے والے علماء و حفاظ و قراء اپنے اور اپنی اولادوں کے لیے ہر قسم کا جوڑا جہیز جو ’خوشی سے دینے‘ کے رواج کے تحت دیا جا رہا ہوا سے حرام تصور کریں اور واپس کر دیں اور ایسی تمام شادیوں کا بائیکاٹ کر دیں تو ایک انقلاب آ سکتا ہے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کے لیے بجائے ڈاکٹر یا انجینئر کی خواہش کرنے کے حافظ یا عالم کی خواہش کرنے لگیں گے۔

 

مشائخین کا رول

رہا نہ حلقۂ صوفی میں سوزِ مشتاقی

فسانہ ہائے کرامات رہ گئے ساقی

کرے گی داورِ محشر کو شرمسار اک روز

کتابِ صوفی و ملّا کی سادہ اوراقی

چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر

کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

مشائخین کا تاریخی کردار

اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ سوادِ اعظم کی دینی و روحانی قیادت کس کے ہاتھوں میں ہے اور ذہنوں اور عقیدوں پر آج بھی کس کی حکمرانی ہے؟ تو ہم یہی کہیں گے کہ مشائخین کی۔

اس کی وجہ بھی ہے وہ یہ کہ ہندوستان میں اگر اسلام کسی نے پھیلایا تو وہ تھے معین الدین چشتی (رحمۃ اللہ) ، نظام الدین اولیاء (رحمۃ اللہ) ، فرید الدین بابا شکر گنج (رحمۃ اللہ) وغیرہ۔

مولانا ابوالحسن علی ندوی (رحمۃ اللہ) نے سات جلدوں پر مشتمل ’دعوت و عزیمت‘ میں یہی پیش کیا ہے کہ کس طرح ان صوفیوں نے ہندوستان کے مشرکانہ ماحول میں داخلہ لیا کس طرح حالات کا مقابلہ کیا اور لوگوں کی زندگی سے شرک دور کیا۔ ان کی قربانیوں اور للہیت کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انہیں کرامات سے بھی نوازا۔ انہی میں قطب و ابدال و اولیاء پیدا ہوئے۔

آج بھی لاکھوں بلکہ کروڑوں انسان کرامات کے لیے انہی کی درگاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ بڑی بڑی جماعتیں اور لیڈر اور علماء اتنے افراد اکٹھا نہیں کر سکتے جتنے افراد مشائخین حضرات بغیر کسی اعلان یا تشہیر کے ہر سال عرس کے موقع پر جمع کر لیتے ہیں۔ آج بھی جگہ جگہ غوث اعظم (رحمۃ اللہ) اور دوسرے بزرگان دین کے چلے ، چادریں، گیارہویں کے جھنڈے ، فاتحہ درود ، برُدے شریف اور میلاد النبی کی محفلیں اور جلوس و جلسے اس بات کا ثبوت ہیں کہ روحانی قیادت آج بھی مشائخین کے ہاتھوں میں ہے۔ سادہ لوح عوام کو یہ جس چیز کا حکم دیں ان کے لیے پتھر کی لکیر بن جاتی ہے۔

صوفیائے کرام نے ہندوستان سے ہر مشرکانہ رسم مٹانے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ آج اُن کے جانشینوں سے غریب لڑکیاں اور مجبور ماں باپ فریاد گو ہیں کہ مشرکانہ رسم رواج آج مسلم معاشرے کو دیمک کی طرح کھا رہے ہیں ، مشائخین آگے بڑھیں اور سنت اجمیری نبھائیں۔ اُن بزرگوں نے تو مشرکانہ رسم و رواج کا ہندوستان سے خاتمہ کرنے اور اللہ کے محبوب کی سنّتوں کو اس سرزمین پر قائم کرنے کا بیڑہ اٹھایا تھا لیکن آج وہی مشرکانہ رسم و رواج اور کافرانہ طور طریق مسلمانوں میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک مشرک کو مشرّف بہ اسلام کرنا شائد آسان ہے، لیکن مسلمان کو مسلمان بنانا بہت مشکل ہے۔ آج تمام اولیاء کے خانوادوں، سجّادوں، اور مریدوں کے لئے یہ انتہائی نازک امتحان ہے کہ وہ کسطرح ان بزرگوں، ولیوں، قطب و ابدال کی عظمتوں کو بحال کرتے ہیں اور ان کے مشن کو پھر سے ہندوستان پاکستان میں جاری و ساری کرتے ہیں۔

مشائخین کا سوسائٹی میں مقام

یہ جس تقریب میں شرکت کریں اسے تقدس حاصل ہو جاتا ہے۔ جس تصویر میں نوشہ کے ساتھ کھڑے ہو جائیں وہ تصویر یا ویڈیو نوشہ کے لیے باعثِ فخر، متبرک اور یادگار بن جاتی ہے۔ کاش ایسا ہوتا کہ یہ مشائخین حضرات ہر مرید اور عقیدت مند سے یہ فرما دیتے کہ جوڑا جہیز حرام ہے چاہے خوشی سے دیا گیا ہو یا کہ مطالبے یا فرمائش پر۔یہی تو وہ موقع ہے جب اہلِ بیت پر جان نثار کرنے والوں، سید الہاشمی کے سلسلہ نسب کا فخر کرنے والوں اور عشقِ رسول میں ’’لك مالي فدا لك جاني فدا‘‘ کے سلام پڑھنے والوں کے لئے علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہ) کے خاندان کی روایت کی مکمل حفاظت کرتے ہوئے انہی کے طریقے پر نکاح کی ترغیب دیں تاکہ ان کی نسلوں میں بھی حسن (رضی اللہ عنہ) و حسین (رضی اللہ عنہ) جیسے فرزندانِ توحید پیدا ہوں اور سید خاندان کی سادگی، دینداری اور اہلِ بیت کی صحیح وراثت عمل سے بھی ثابت ہو۔

اگر شانِ رسالت اور شانِ سید الہاشمی نسب کے یہ جانشینی کے دعویدار اگر ایسی تقریبات میں ہرگز شرکت نہ کریں اور نہ ایسے لین دین کرنے والے افراد کو اپنے حلقہ بیعت واردات میں آنے دیں تو نہ صرف یہ کہ چند سالوں میں ایک مشرکانہ رسم کا خاتمہ ہو جائے گا ، بلکہ صوفیائے کرام کے وہ تمام کارنامے جن سے تاریخ روشن ہے لیکن ان کے جانشینوں اور مجاوروں نے ان کارناموں کی تجارت کر کے ان بزرگوں کی کرامات و فیوض پر پردہ ڈال دیا ہے وہ کارنامے پھر سے روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائیں گے۔

آج بدقسمتی سے جوڑا جہیز لینے دینے والا ایک بڑا طبقہ انہی مشائخین اور ان کے ماننے والوں کا ہے۔جیسے کہ ایک عربی مقولہ ہے :

الناس علي ملوكهم

لوگ اپنے بادشاہوں کی پیروی کرتے ہیں۔

چونکہ آج مشائخین روحانی بادشاہ ہیں ، اس لیے عوام کی اکثریت انہی کے کہنے پر چلتی ہے۔ عوام میں جذبہ تحقیق و شوقِ مطالعہ نہیں ہوتا ، عوام کی فطرت یہ ہوتی ہے کہ

اتَّخَذُواْ أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّهِ ۔۔۔۔ // التوبۃ:31

اللہ کو چھوڑ کر یہ لیڈروں اور مرشدوں کو اپنا خدا بنا لیتے ہیں۔

حضرت عدی بن حاتم (رضی اللہ عنہ) نے جو پہلے عیسائی تھے اسی آیت کے ضمن میں یہ سوال کیا کہ :

ہم نے تو کبھی انہیں اپنا خدا نہیں بنایا۔

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پوچھا ’کیا وہ کسی بات کو جائز کہیں تو تم جائز نہیں سمجھتے تھے‘ ؟

حضرت عدی (رضی اللہ عنہ) نے فرمایا : ہاں !

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے پوچھا ’کیا یہی مرشد اور قائد جس چیز کو حرام کہہ دیتے تم اس کو حرام نہیں سمجھتے تھے‘ ؟

حضرت عدی نے فرمایا ’ہاں‘۔

آپ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا : یہی ان کو اللہ کی جگہ اپنا رب بنا لینا ہے۔

(ترمذی)

شیر مردوں سے ہوا پیشہ تحقیق تہی

رہ گئے صوفی و ملا کے غلام اے ساقی

مشائخین حضرات کو بھی اللہ تعالی نے ایک آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ لوگ ان کے پاس جوق در جوق آتے ہیں ، اگر انہیں یہ اسلام کی صحیح دعوت پیش کرنے میں ناکام ہوئے تو نہ صرف اس منصب کی تذلیل ہے اور نہ صرف صوفیائے کرام کی رسوائی ہے بلکہ پوری انسانیت پر ایک ظلم ہے ، اسلام امن کا دین ہے۔ آج ساری دنیا امن اور سکون چاہتی ہے۔ لیکن امن کے پیغامبر مریدوں اور عقیدت مندوں کے ہجوم میں اصل پیغام کو بھول جائیں تو انسانیت کا اس سے بڑا نقصان اور کیا ہو سکتا ہے ؟

دورِ حاضر ہے حقیقت میں وہی دورِ قدیم

اہلِ سجّادہ ہیں یا اہلِ سیاست ہیں امام

آج اتحاد امت کے لیے ساری امت آرزو مند ہے۔ عقائد کے اختلافات ، جماعتوں کے اختلافات اور علماء و لیڈروں کے اختلافات کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کوئی ایسا نکتہ نہیں جس پر اتحاد ہو سکے۔ ان حالات میں اگر کوئی ایک موضوع ایسا ہو سکتا ہے جس پر ہر جماعت ہر مسلک اور ہر گروہ متفق ہو تو سب یک زباں ہو کر کہیں گے کہ جوڑا جہیز کا ہی ایسا موضوع ہے جو Common Agenda بن سکتا ہے۔ سب اقرار کریں گے کہ یہ حرام ہے اس کا خاتمہ ہونا چاہئے۔ اگر صرف جوڑے جہیز کے موضوع پر مشائخین آگے بڑھیں تو سوادِ اعظم کی زبردست طاقت Strength ان کے ساتھ ہے۔ جمہوری نقطہ نظر Democratic Point of View کے مطابق یہی امت کے قائدین بن سکتے ہیں بشرطیکہ وہ اس عظیم سماجی انقلاب کو برپا کرنے کا بیڑہ اٹھائیں۔

 

غریب لڑکیوں کی شادیاں کروانے والی انجمنوں کا رول

یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے

گلیمِ بوذر(رض) و دلقِ اویس(رض) و چادرِ زہرا(رض)

اکثر اخبارات میں یہ خبریں معہ تصاویر نظر سے گذرتی ہیں کہ مختلف تنظیموں کی مدد سے پچیس پچاس جوڑوں کی شادیاں منعقد ہوئیں۔ ہر دلہے کے جہیز میں فلاں فلاں چیز دی گئی۔ تصویر میں دلہوں کے ہجوم کے درمیان منتظمین Organisers اور شہر کی ایک دو اہم شخصیتیں بھی ہوتی ہیں۔

یہ بات قابل تعریف ہے کہ کسی نے تو غریب لڑکیوں کے بارے میں سوچا۔لیکن جہاں تک ان غریب لڑکیوں کی خدمت کے طریقہ کار کا تعلق ہے یہ غلط ہے۔ اسلام جس جوڑے جہیز ہی کے نظام کو حرام قرار دیتا ہے بجائے اُسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے اس کو قائم رکھنے کے لیے چندہ جمع کرنا ، نہ شرعی طور پر مستحسن ہے نہ اخلاقی طور پر۔ چندہ ضرور جمع کیجئے لیکن اس سے علماء اور اچھے مقررین کو بلا کر ان نوجوانوں کی ذہن سازی کیجئے کہ جو جہیز انہیں سسرال کی طرف سے ملے یا انجمنِ خدمت خلق کی طرف سے ملے وہ ان کے لیے جائز نہیں وہ ایک بھیک ہے۔ کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کل ان کی اولاد یہ کہے کہ ہمارا باپ اتنا خود دار نہیں تھا کہ خود اپنی محنت کے بل بوتے پر شادی کر کے ہمیں پیدا کرتا ، اس لیے اس نے ہماری ماں سے شادی کر کے انجمنوں کے چندوں سے جمع کیا ہوا جہیز لیا۔

یہی تو وہ موقع ہے کہ دنیا کو دکھایا جائے اور بالخصوص آریہ سماج جیسی تنظیموں کو جو پانچ روپئے میں مندر میں شادی کروا کر دھرم کا پرچار کر رہی ہیں ، ان کو یہ دکھائیں کہ اسلام میں شادی کا معاملہ غریب کے لئے بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا ایک امیر کیلئے۔ صرف ایک ولی اور دو گواہ کافی ہیں۔ مرد اپنی استطاعت کے مطابق مہر دے اور پہلے ہی اپنی ہونے والی بیوی کو اپنی گھریلو حالت بتا دے پھر وہ اگر راضی ہو تو شادی کرے ورنہ نہیں۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اس کے لیے آپ پلنگ ، الماری ، آٹو یا ٹھیلے کا انتظام کریں تو وہ شادی کریں گے ؟ اگر آپ یہ انتظام نہیں کریں گے تو کیا وہ شادی ہی نہیں کریں گے ؟

امیر خلیجی حکومتیں مردوں کو چندے دے کر ایک غلط رسم کو مٹانے کے بجائے مضبوط کرتی ہیں اور یہاں یہ انجمنیں بھی چندے لے کر عورتوں کو دے کر ایک غلط رسم کو مضبوط کرتی ہیں۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کوئی ایسی انجمن قائم کی تھی؟

اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے کسی موقع پر بدر یا احد کے یتیموں کی شادی کے لیے کوئی انجمن قائم کی ہوتی ، کسی غریب نوجوان کے مہر اور جہیز کے لیے کوئی اپیل کی ہوتی تو آج کوئی جواز ہوتا۔ خدمت خلق اور انفاق فی سبیل اللہ کے یہ نت نئے بدعتی طریقے امت کو بجائے فائدہ دینے کے الٹا نقصان پہنچا رہے ہیں۔

جو نوجوان ایسے کام کے لیے اٹھے ہیں ان کی محنت اور حوصلے اللہ تعالی کا دیا ہوا ایک بہترین انعام ہیں۔ اسی محنت اور حوصلے کو ایک دوسرے مشن کی طرف موڑ دیں یعنی غریب لڑکوں کی ذہن سازی کا کام شروع کر دیں تو امت کے حق میں ایک عظیم خدمت ہو گی۔ سعودیوں میں پہلے ایک بہت اچھا رواج تھا کہ وہ نوجوانوں کو جو استطاعت نہیں رکھتے تھے ان کی پوشیدہ طریقے سے مدد کر کے انہیں مہر اور جہیز اور ولیمے کے لئے رقم دیا کرتے تھے۔ یہی رواج ہندوستان پاکستان میں پھیلانے کی ضرورت ہے کہ بجائے عورت کی مدد کر کے مرد کو بھکاری بنایا جائے، مرد کی مدد کی جائے اور اُسے عورت کے سامنے خود داری سے رہنے کی ترغیب دی جائے۔

 

ایک عام آدمی کا رول

تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری

مری دعا ہے تری آرزو بدل جائے

تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا

عجب نہیں ہے کہ یہ چار سو بدل جائے

کونسی جماعت صحیح ہے؟

آج یقیناً بے شمار جماعتیں ، سلسلے، انجمنیں، تحریکیں، عقائد، مسالک اور مدارس ہیں۔ ہر عالمِ دین اپنے حق ہونے کے دلائل پیش کر رہا ہے اور دوسرے کی تکفیر کر رہا ہے۔ ایک عام مسلمان برسوں سے بلکہ دو ڈھائی سو سال سے اس سوال سے پریشان ہے کہ صحیح کس کو کہے اور غلط کس کو۔ دین پر مر مٹنے کا جذبہ ہر دل میں ہے لیکن وہ یہ فیصلہ نہیں کرپا رہا ہے کہ دین کا کو نسا حکم پہلے ہے کو نسا بعد میں ہے۔ ایسے وقت میں ایک مسلمان کے لئے پہلے یہ فیصلہ کرنا ضروری ہے کہ وہ شریعت کی بالا دستی چاہتا بھی ہے یا نہیں۔

ہندوستان میں اگر مسلمانوں کا غلبہ ممکن ہے تو صرف ایک صورت میں۔ وہ یہ کہ ہندو معاشرے میں اسلام کے صحیح سماجی اور اخلاقی نظام کو پیش کریں۔ لوگ آپ کی نمازوں کو دیکھتے ہیں نہ داڑھی کی سائز کو، نہ آپ کے وظائف ان کے کام آنے والے ہیں نہ تقریریں۔آپ کی جماعت ان کے لئے اہم ہے نہ سلسلہ یا مسلک۔ وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کی سوسائٹی میں لڑکیوں کی پیدائش ایک عذاب ہے یا رحمت۔ اس کی شادی ایک بوجھ ہے یا سچی خوشی ہے۔ اس کے لئے کمانے کے طریقے اخلاقی ہیں یا غیر اخلاقی۔

یہ فیصلہ کرنے کے لئے کہ کیا واقعی آپ شریعت کی بالا دستی چاہتے ہیں ہم آپ کو ایک طریقہ بتانا چاہیں گے۔ یہ وہ طریقہ ہے جس کی مخالفت نہ کوئی جماعت کر سکتی ہے نہ کوئی مدرسہ یا سلسلہ اس پر انگلی اٹھا سکتا ہے۔ اس میں نہ کسی دیوبندی بریلوی کا اختلاف ہے نہ شیعہ سنّی کا۔

وہ طریقہ یہ ہے کہ آپ سوشیل ریفارم سے اپنے کام کا آغاز کریں۔

جوڑا جہیز کے نظام نے نہ صرف سوسائٹی کو بلکہ پورے اسلام کے نام کو برباد کیا ہے۔ اس کو مٹانے کے لیے اٹھنا دورِ حاضر میں مکہ کی زندگی کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) کے مشن کو لے کر اٹھنے کے برابر ہے۔ جب تک آپ کے پاس انسانیت کے درد کا درماں نہ ہو ، لوگ دل سے آپ کونہ اپنا ہمدرد و بہی خواہ تسلیم کریں اور نہ آپ کے دین کو قبول کریں گے۔ اس کام کے لیے آپ کو پہلے ایک اہم فیصلہ کرنا ہو گا۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ آپ کے سامنے دو پارٹیاں ہیں۔ آپ کو کسی ایک کو ووٹ دے کر اُسے اہم اور دوسرے کو غیر اہم قرار دینا ہے۔ یاد رکھئے جس کو آپ ووٹ دیں گے وہ آپ کو بھی عزت دے گا۔ کس کی دی ہوئی عزت آپ کو پیاری ہے یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ یہ ووٹنگ ایک دو بار نہیں، قدم قدم پر ہے۔آپ نے کبھی ایک کو ووٹ دیا اور کبھی دوسرے کو ، تو یہ منافقت ہو گی۔ اس منافقت میں نہ آپ کبھی سربلند ہوں گے نہ آپ کے دین و قوم۔

آپ کس پارٹی کے ساتھ ہیں؟

ذیل میں دس سوال دئے گئے ہیں۔ یوں سمجھ لیجیئے کہ دو پارٹیاں ہیں ایک پارٹی ’’ز‘‘ ہے اور دوسری پارٹی ’’ش‘‘ ہے۔

ہر سوال کے حق میں دو جواب ہیں ایک ’’ز‘‘ کی جانب سے اور دوسرا ’’ش‘‘ کی جانب سے۔

آپ کو کوئی ایک جواب منتخب کرنا ہے۔

آخر میں پتہ چل جائے گا کہ آپ کس پارٹی کے آدمی ہیں۔

جو جواب آپ کو صحیح لگے، اس کو نشان زدکیجئے۔

1          جہیز

            جہیز اگر خوشی سے دیا جائے تو جائز ہے

            خوشی سے دیا جائے یا سوشیل بلیک میل کی وجہ سے ، ہرگز جائز نہیں

2          جوڑا، تلک، استری دھن یا اس کے بدلے کوئی اور Deal

            والدین کی خواہش یا لڑکی والوں کے اصرار پر لینا جائز ہے

            یہ الرجال قوامون۔۔۔ کے خلاف ہے ، لینا ہرگز جائز نہیں

3          نکاح

            نکاح بے شک مسجد میں ہو، وداعی شادی خانے سے ہو یہ دستور ہے

            نکاح مسجد میں ہو، دلہن اس کے گھر سے وداع ہو، یہ سنّت ہے

4          شادی کے دن کا کھانا

            کھانا معیاری ہونا چاہئے تمام دوست و رشتے دار جمع ہونا چاہئے

            لڑکی والوں کے خرچ پر اپنے مہمانوں کو کھلانا بے غیرتی اور ناجائز ہے

5          مہر

            فوری ادا کرنا ضروری نہیں ، بعد میں کبھی ادا کیا جا سکتا ہے

            اِسے فوری ادا کرنا واجب ہے ورنہ زانیوں میں سے اٹھایا جائے گا

6          ولیمہ

            شاندار پیمانے پر ہو، ہر شخص تعریف کرے

            حسبِ استطاعت ہو، انتہائی سادہ ہو چاہے کسی کو پسند نہ آئے

7          تحفے

            تعلقات کی بنیاد پر دینا چاہئے ، اس سے عزت بڑھتی ہے

            دینے وقت صرف اللہ کی رضا دل میں ہو، نہ کہ عزت

8          شرکت

            تعلقات کی بنیاد پر ہر شادی میں شرکت کرنا چاہئے چاہے جیسی ہو

            چاہے تعلقات خراب ہو جائیں اگر شادی میں جوڑا جہیز، کھانا یا اسراف ہو تو ہرگز شرکت نہیں کرنا چاہئے ، مکمل بائیکاٹ ہو

9          جو لے چکے وہ کیا کریں

            اللہ معاف کرنے والا ہے، جو لے چکے اُسے بھول جانا چاہئے

            یہ رشوت تھی جس کا لوٹانا فرض ہے، چاہے وہ واپس نہ لیں ، یہ ناجائز ہے

10       امر بالمعروف نہی عن المنکر

            یہ رسم مٹانا ناممکن ہے، اپنے کام سے کام رکھنا چاہئے ، کہہ کر اپنے تعلقات خراب کرنے نہیں چاہئے

            منکرات سے روکنا فرض ہے چاہے کوئی سنے یا نہ سنے

اگر آپ کے سوالات کے اول جوابات پر صحیح کا نشان ہے، تو اسے ’ز‘ شمار کریں۔ اور اگر دوسرے نمبر کے جواب  پر صحیح کا نشان ہے تو اسے ’ش‘ گنیں۔

’ز‘ پارٹی سے مراد زمانہ ہے

اور

’ش‘ پارٹی سے مراد شریعت ہے۔

آپ اپنے ووٹوں کا Total کیجیئے اور دیکھیئے کہ آپ نے کس کے حق میں زیادہ ووٹ دیئے ہیں؟

اگر آپ کے ووٹ شریعت کے حق میں زیادہ ہیں تو الحمدللہ ، آج سے سچے دل سے عہد کیجئے کہ آپ اپنے ووٹ پر قائم رہیں گے اور منافقت ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔

اور اگر آپ کے زیادہ ووٹ ’’ز‘‘ پارٹی کے لئے ہیں تو درخواست ہے کہ ایک بار پھر پوری کتاب پڑھ کر اس کے خلاف دلائل جمع کیجئے اور مطمئن ہو جائیے کہ جو کچھ آپ کر رہے ہیں وہ اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ و سلم) کی مرضی کے مطابق ہے۔ آپ کو کئی ایسے مولوی اور ملّا مل جائیں گے جو ان تمام واضح احکامات کی خلاف ورزی کے باوجود جنت اور شفاعت اور مغفرت کے طریقے بتا سکتے ہیں۔

 

جوڑا جہیز کے خاتمے سے فائدے

چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعتِ شانِ رَفَعْنَا لکَ ذِکرک دیکھے

» اگر دس فیصد لوگ بھی جوڑا جہیز کا خاتمہ کر کے شادی کو مکمل ’النکاح من سنتی‘ کی بنیاد پر کرنے میں کامیاب ہو گئے تو اس کا سب سے پہلا اثر مسلمان معاشرے ہی پر پڑے گا۔ اور ایک انقلاب آ جائے گا۔

» مسلمانوں ہی کی نہیں ملک کی معاشی حالت بدلے گی۔ دلہن کے بھائی کاروبار کرنے کے قابل ہو جائیں گے جو پیسہ جوڑا جہیز میں ضائع ہونے سے بچ جائے گا اس کو کاروبار میں لگا کر دوسرے اور لوگوں کے روزگار کا بھی ذریعہ بنیں گے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) نے فرمایا ہے کہ رزق کے اللہ تعالیٰ نے دس دروازے رکھے ہیں ، جس میں نو تجارت کرنے والے کے ہیں۔ کسی بھی ملک یا شہر کو دیکھئے وہی گروہ اصل حاکم ہوتا ہے جو تجارت میں آگے ہوتا ہے۔

» جب لوگوں پر کمانے کا بوجھ نہیں ہو گا تو جھوٹ ، رشوت ، دھوکہ ، فریب وغیرہ کی ضرورت نہیں پڑے گی وہ اپنا وقت اچھے کاموں کے لیے نکال سکیں گے۔

» جو نکاح علی (رضی اللہ عنہ) و فاطمہ (رضی اللہ عنہا) کے طریقے پر ہو گا اس سے حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) و حضرت حسین (رضی اللہ عنہ) جیسی اولاد بھی ممکن ہے۔ لیکن جس نکاح کا طریقہ جائز نہ ہو اس نکاح سے ایسی نسل پیدا ہونا ناممکن ہے۔

» اگر کمائی حلال ہو جائے گی تو نکاح میں برکت ہو گی، دعووں کی قبولیت کے باب کھل جائیں گے۔

مرد کی حاکمیت قائم ہو گی

مرد کو اللہ تعالیٰ نے خود قوّامیت بخشی ہے۔ اگر وہ جوڑا جہیز سے بے نیاز ہو جائے گا تو قوّام کہلانے کا اہل بھی ہو گا۔ اور عورتوں میں بھی صبر، شکر ، قناعت اور توکّل پیدا ہو گا۔ لڑکی والوں کے اصرار کرنے کے باوجود جب مرد شریعت کو ترجیح دیتے ہوئے لینے سے سختی سے انکار کرے گا تو دوسری قوموں کے دل میں بھی شریعت کی عزت بڑھے گی۔

میاں بیوی کے اختلافات میں ایک اہم رُخ یہ بھی ہوتا ہے کہ بیوی اپنے لائے ہوئے مال کی وجہ سے حکمرانی جتاتی ہے۔ علیحدگی کی صورت میں مرد کو پورا مال واپس کرنے کا خوف رہتا ہے جس کی وجہ سے دونوں چالیں چلتے ہیں اور ایک دوسرے پر الزامات دھرتے ہیں۔ اگر مرد نے کوئی مال نہ لیا ہو تو نہ اسے واپس کرنے کا خوف ہوتا ہے نہ عورت کے دل میں مال کے ڈوبنے کا خوف۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگی کے ساتھ رہتے ہیں۔

یونیفارم سیول کوڈ غلط کیوں؟

اگر مسلمان جوڑا جہیز کی لعنت کو ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یونیفارم سیول کوڈ کا مطالبہ کرنے والے خود شرمندہ ہوں گے۔ ورنہ ان کا مطالبہ صحیح ہے کہ جب مسلمان اپنی شریعت کے خلاف ہندو ہی کی طرح جوڑا جہیز تِلک اور استری دھن تو وصول کرتا ہے لیکن طلاق کے معاملے میں آ کر شریعت کی آڑ ڈھونڈھتا ہے تو یہ عورت کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس لئے اس کو ہندو ہی کیطرح ایک یونیفارم سیول کوڈ کا پابند کیوں نہیں کرنا چاہئے۔۔

دوسرا بڑا فائدہ یہ ہے کہ جیسا کہ وی ٹی راج شیکھر جو کہ مشہور دلت لیڈر ہیں اپنی کتاب ’’برہمن، مسلم پرسنل لا کا دشمن کیوں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ:

’’جس دن ہندو عورت کو ان حقوق کا پتہ چلے گا جو اسلام نے عورت کو دئیے ہیں تو وہ ایک دن بھی ہندوازم میں باقی نہیں رہے گی‘‘۔

ہزاروں غیر مسلم آج شادی بیاہ اور جہیز کے بوجھ سے خود کشی پر مجبور ہیں ، ان لوگوں کو ایک نئی روشنی مل جائے گی۔

لڑکیوں کی پیدائش کو منحوس تصوّر کرنے والی قوم

لڑکیوں کو پیدائش کو منحوس تصوّر کرنا تاریخ میں نیا نہیں ہے۔ ہر دور میں مشرک قوموں کا یہ چلن رہا ہے، جیسے کہ قرآن یوں بیان کرتا ہے کہ

وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُمْ بِالأُنثَى ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيم يَتَوَارَى مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوءِ مَا بُشِّرَ بِهِ أَيُمْسِكُهُ عَلَى هُونٍ أَمْ يَدُسُّهُ فِي التُّرَابِ أَلاَ سَاء مَا يَحْكُمُون

النحل:58-59

ترجمہ: جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی تو اس کے چہرے پر کلونس چھا جاتی۔ اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا۔ لوگوں سے چھُپتا پھرتا کہ اس بری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے گا۔ سوچتا ہے کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کے ساتھ رہے یا مٹی میں دبا دے۔ دیکھو کیسے برے حکم ہیں جو یہ خدا کے بارے میں لگاتے ہیں۔

آخری بات

مذکورہ آیات یہ بتا رہی ہیں کہ اسلام کی دعوت کے لئے ہندوستان کی سرزمین انتہائی سرسبز ہے۔ ہندو دھرم آج ایک اصلاحی مرحلے Reforming stage میں ہے۔ ایک طرف ہندوتوا طاقتیں نفرت پھیلا رہی ہیں تو دوسری طرف ان کا تعلیم یافتہ طبقہ دھرم کی غیر سائنٹفک خرافات سے بیزار ہے۔ مسلمانوں کو کئی سازشوں کے ذریعے ہندو عوام سے دور کرنے کا واحد مقصد ایک تعلیم یافتہ ہندو کو اسلام کی تعلیمات سے دور رکھنا ہے۔ ایسے وقت میں اگر ایک ایک مسلمان اپنے پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے اور بستی کے دوسرے لوگوں کے سامنے اسلام کا دیا ہوا صحیح اخلاقی نظام پیش کر دے تو وہ کروڑوں مشرکوں کے لئے توحید کا پیغامبر بن سکتا ہے۔ اگر یہ کام مشائخین لے کر اٹھیں تو ہندوستان میں اولیاء اللہ کے کارنامے زندہ ہو جائیں، اگر جماعتیں اس کام کو لے کر اٹھیں تو جمہوری طاقتیں ان کے قدموں میں جھک جائیں۔ قائدین اگر اس کام کو لے کر اٹھیں تو ان کا نام تاریخ میں محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور امام الہند ابو الکلام آزاد کی طرح روشن ہو جائے۔۔

 

جوڑا جہیز اور وراثت کا مسئلہ

ہندو دھرم میں جہاں عورت کا وراثت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا ، جہیز کے ذریعے اس کے ساتھ انصاف کر دیا جاتا ہے۔

اسلام نے عورت کو باپ اور بھائی کی وراثت کا حقدار قرار دیا ہے۔ لیکن جوڑا جہیز کے لزوم compulsion نے لوگوں کو احکامِ وراثت سے منہ موڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اکثر یہ شکایتیں سامنے آتی ہیں کہ عورتوں کو وراثت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ یہ شریعت کی ایک صریح نافرمانی ہے کیونکہ قرآن نے وراثت کے احکامات کے ذریعے مردوں اور عورتوں کے حقوق کے درمیان ایک انصاف قائم کیا تھا جس کو مرد پامال کر رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر لڑکیوں کو جوڑا جہیز دیا جائے تو لڑکوں کے ساتھ انصاف کہاں قائم رہتا ہے؟ ایسے خوشحال گھرانے معاشرے میں پانچ دس فیصد ہی ہوتے ہیں جن کے مال میں لاکھوں کا جہیز دینے کے بعد بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ لیکن %90 تو وہ گھرانے ہوتے ہیں جہاں ایک باپ کو بیٹیوں کا جہیز دینے کے بعد بیٹوں کو دینے کچھ نہیں بچتا۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ ایک باپ جتنا بیٹیوں کے جہیز پر خرچ کرنے پر مجبور ہوتا ہے اس کا آدھا بھی بیٹوں کو نہیں دے سکتا۔ اب یا تو لڑکیوں کو جہیز دینے کے بعد باقی مال بھائیوں کو وراثت میں دے دیا جائے یا پھر جوڑا جہیز کو بند کیا جائے۔ تاکہ بیٹوں اور بیٹیوں کے درمیان برابر کا انصاف ہو۔ ورنہ کسی ایک کے ساتھ تو نا انصافی یقینی ہے۔

جب تک جوڑا جہیز سوسائیٹی سے ختم نہیں ہو گا بھائی اپنی بہنوں کو حقِ وراثت سے محروم کرتے رہیں گے اور بہنیں جوڑا جہیز کی وجہ سے بھائیوں کے حق پر ڈاکہ ڈالتی رہیں گی۔

ہر دو صورتوں میں شریعت کی نافرمانی کی سزا میں فتنہ ، فساد اور نفرتیں پروان چڑھیں گی اور انصاف کے لئے غیر شرعی کورٹ اور وکیلوں کے دروازے کھٹکھٹانا پڑے گا۔

ظاہر ہے جوڑا جہیز ایک غیر اسلامی رسم ہے ، اس کی خاطر وراثت کے نصوصِ قرآنی تو نہیں بدلے جا سکتے۔ لیکن سوال یہ ہنوز باقی ہے کہ پھر لڑکوں کو انصاف کیسے ملے گا؟

یہ مسئلہ ہمارے علماء ، مشائخین ، جماعتوں اور دانشوروں کے لئے فوری توجہ کا طالب ہے۔ ہاں اگر عورت چاہے تو یہ مسئلہ آج ہی ختم ہو سکتا ہے۔ اس کے لئے مردوں کو عورت کی تربیت کی ذمہ داری نبھانی ہو گی۔ جو آج کے مردوں کے لئے ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہے۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے

ماخذ:

http://socioreforms۔com/ur/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید