FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

سمت

 

شمارہ۔ تین۔۔۔۔۔۔ اپریل تا جون 2006ء

 

 

 

 

مجھے کہنا ہے کچھ۔۔۔۔۔۔۔

 

اس نئی آب و تاب کے "سمت” میں خوش آمدید!

مجھے نہایت افسوس ہے کہ احباب کی فرمائش کے باوجود میں اس جریدے کی نستعلیق شکل قائم نہیں رکھ سکا ہوں۔ خبر ملی تھی کہ فروری میں ہی ادارہ مقتدرہ زبانِ اردو پاکستان ایک تیز رفتار فانٹ ریلیز کر رہا ہے لیکن یہ اب تک سامنے نہیں آ سکاہے۔ چناں چہ میں نے ایک فارسی فانٹ کا استعمال کیا ہے۔ یہ فانٹ اگر آپ نے ونڈوز میں اردو کی سپورٹ انسٹال کر لی ہے تو آپ کو دستیاب ہو گا ہی اور  یہ صفحات پڑھ سکیں گے ، اور کچھ حد تک نستعلیق کا لطف اٹھا سکیں گے۔ موجودہ فانٹ میں کاف کی ملحقہ شکل (گول کاف) ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح ‘گاف’ کی بھی۔ امید ہے کہ قارئین اس کو قبول کر لیں گے۔ قارئین (یا ملاقاتی زیادہ بہتر ہو گا انٹر نیٹ پر) کو یہ یقین دلا دوں کہ جیسے ہی یہ فانٹ ریلیز ہو گا، اس کی شکل بدل دی جاۓ گی، نہ صرف اس شمارے کی، بلکہ پچھلے شماروں کی بھی۔ انٹر نیٹ بلکہ کمپیوٹر کا یہی کمال ہے کہ محض کچھ سیٹنگ بدلنے سے سارا روپ بدل جاتا ہے۔ اس سے پہلے ادارہ مرکزِ تحقیقات اردو پاکستان کے جس نفیس نستعلیق فانٹ کا استعمال کیا گیا تھا، وہ نہ صرف سست تھا اور صفحات لوڈ ہونے میں وقت لیتے تھے ، بلکہ اس میں ایک طرف کچھ حروف صارف کے انٹر نیٹ استعمال کرنے والے پروگرام (براؤزر) میں گڑبڑ کرتے تھے جیسے چھوٹی ‘ی’ اور دوسری طرف بہت سے حروف تھے ہی نہیں ، جیسے ‘ۂ’ اور اگر ان پیج کی طرح ‘نالۂ دل’ کو ‘نالۂدل’ لکھا جاتا تو یہ مجھے املا کی غلطی محسوس ہوتی تھی۔ پھر بھی نفیس نستعلیق فانٹ اب بھی دوسری ترجیح میں شامل ہے۔ یعنی اگر آپ نگار فانٹ ڈاؤن لوڈ کریں تو یہ صفحات اسی میں نظر آئیں گے ، اور اگر پہلے ‘نگار’ نہ کر کے نفیس نستعلیق انسٹال کریں تو یہ صفحات نستعلیق میں دکھائی دیں گے۔۔۔جو مزاجِ یار میں آۓ۔ اور اگر کچھ بھی انسٹال نہ کریں ، تو پھر ٹاہوما فانٹ تو تیسرا متبادل ہے ہی، غرض آپ کو پڑھنے میں دقّت تو نہیں ہونی چاہئے۔ کیوں کہ جب یونی کوڈ کنزورٹیم نے یہ حرف مقرّر کر دیا ہے تو بہتر ہے کہ اسی کو استعمال کیا جاۓ۔ اسی شمارے میں میں نے کمپیوٹر پر اردو ٹائپ میں املا کے کچھ سوالات اٹھاۓ ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس سلسلے میں اپنی آراء سے نوازیں گے۔

عید میلاد بھی اسی ماہ اپریل میں ہے اور اس موقعے پر اگر رسول اکرم کو مزید خراجِ عقیدت پیش کیا جاۓ تو بے حد مناسب ہے ویسے سچّے مسلم کو تو چاہئے کہ ہر وقت آں حضرت پر درود و سلام بھیجتا رہے۔

‘گا ہے گا ہے باز خواں۔۔” کے تحت کرشن چندر کی ایک کہانی اور عدم کی ایک غزل شامل کی  جا رہی ہے۔ مجھے اکثر احساس ہوتا ہے کہ کرشن چندر کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ کچھ یہی بات افسانے کے سلسلے میں ہی رام لعل، عوض سعید وغیرہ کے لۓ بھی کہی جا سکتی ہے۔ شاید یہ معاملہ کچھ ایسا رہا کہ "زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا، اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں "۔ اس کے علاوہ اس بار "کتابوں کی باتیں ” کا حصّہ اہم ہے۔ دوسری مشمولات پر بھی آپ کی آراء کا انتظار رہے گا۔

اعجاز عبید

 

 

آغاز

منظوم ترجمہ

نامعلوم

 

(یہ سلیس اور منظوم ترجمہ ایسی کتاب سے اخذ کیا گیا ہے جس پر مصنّف کا نام اور دیگر تفصیلات ندارد ہیں۔ قارئین اگر مترجم سے متعلق معلومات رکھتے ہوں تو اس کی ہمیں اطلاع ضرور دیں۔ بشکریہ ماہنامہ ’اردو چینل‘۔ جلد 3شمارہ 7)

 

سورۂ فلق مکیہ

 

محمد (ص) ! کہہ اماں میں مانگتا ہوں صبح کے رب کی

بدی سے ساری خلقت کی، بدی سے ظلمتِ شب کی

 

اماں ان عورتوں سے جو شرارت کرنے والی ہیں

جو پھونکیں مارتی ہیں گانٹھ پر، جادو جگاتی ہیں

 

اماں میں رکھ، برائی کرنے والوں کی شرارت سے

اماں میں رکھ، حسد سے جلنے والوں کی عداوت سے

 

سورۂ الناس مکّیہ

 

محمد (ص)! کہہ اماں میں مانگتا ہوں ربِّ عالم کی

اماں انساں کے رب کی، شاہ کی، معبودِ اعظم کی

 

اماں شیطان کے شر سے ، جو بھٹکاتا ہے چپکے سے

گرفتارِ بلا کر کے کھسک جاتا ہے چپکے سے

 

جو اک بہتے ہوۓ پانی پہ کائی ڈال دیتا ہے

دلِ انساں میں دَر آ کر، برائی ڈال دیتا ہے

 

جنوں کے بھیس میں یا آدمی کے بھیس میں آۓ

وہی شیطان ہے ، جو بھی بدی کے بھیس میں آۓ

 

 

حمد

مہتاب قدر

 

چراغ شمع دیا سارے نام اس کے ہیں
کہ روشنی کے سبھی اہتمام اس کے ہیں

خیال و فکر و ہنر سب اسی کی ہیں تخلیق
قلم بھی لوح  بھی سب کچھ غلام اس کے ہیں

تمام وسعتیں اس کی،  مری نظر محدود
سمجھ میں آئیں نہ میری جو کام اس کے ہیں

ہماری حمد و ثنا سے بھی بے نیاز ہے وہ
فرشتے مدح سرا صبح و شام اس کے ہیں

وہ پاک ذات کہ جو لا شریک ہے مہتاب
سبھی جہانوں کے سب انتظام اس کے ہیں

 

 

گا ہے گا ہے۔۔۔۔۔

غزل

 

عبد الحمید عدم

 

 

 

ہمیں اتنا نہ خستہ حال رکھو

تم اپنے پاس اپنا مال رکھو

 

ذرا سا لطف بھی ہے کبریائی

ذرا سی پرسشِ احوال رکھو

 

اندھیروں کے مداوے اور بھی ہیں

رخ روشن پہ پردہ ڈال رکھو

 

ستم اور لطف دونوں حادثے ہیں

حسینو! درمیانی چال رکھو

 

ہمیں راحت ملی تو مر گئے ہم

ہمیں اے حادثو پامال رکھو

 

کسی کا دل نہ رنجیدہ ہو تم سے

عدم اندازۂ اعمال رکھو

 

 

ایرانی پلاؤ

 

کرشن چندر

آج رات اپنی تھی، کیونکہ جیب میں پیسے نہیں تھے ، جب جیب میں تھوڑے سے پیسے ہوں رات مجھے اپنی نہیں معلوم ہوتی، اس وقت رات میرین ڈرائیو پر تھرکنے والی گاڑیوں کی معلوم ہوتی ہے ، جگمگاتے ہوئے فلیٹوں کی معلوم ہوتی ہے ، ایمبسڈر کی چھت پر ناچنے والوں کی معلوم ہوتی ہے ، لیکن آج رات بالکل اپنی تھی، آج رات آسمان کے سارے ستارے اپنی تھے اور بمبئی کی ساری سڑکیں اپنی تھیں ، جب جیب میں تھوڑے سے پیسے ہوں تو سارا شہر اپنے اوپر مسلط ہوتا ہوا معلوم ہوتا ہے ، ہر شے گھورتی ہے ڈانٹتی ہے ، اپنے آپ سے دور بیٹھنے پر مجبور کرتی اونی پتلون سے لے کر خوش نما ریڈیو پروگرام تک ہر چیز کہتی ہے ، مجھ سے دور ہو، لیکن جب جیب میں ایک پائی نہ ہو تو سارا شہر اپنا بنا ہوا معلوم ہو تا ہے ، اس کے ہر کھمبے پر گویا لکھا ہوتا تھا تعمیر کیا گیا برائے بشن ایک فاقہ مست صنف، اس دن نہ حوالات کا کارڈ ہوتا ہے نہ گاڑی کی لپٹ میں آ جانے کا، نہ ہوٹل میں کہانے کا، ایک ایسی وسیع بے فکری اور بے کنار فاقہ مستی کا نشہ آور موڈ ہوا ہے ، جو میلوں تک پھیلتا چلا جا رہا ہے ، اس رات میں خود نہیں چلتا ہوں اس رات بمبئی کی سڑکیں مجھے اٹھائے اٹھائے چلتی ہیں اور گلیوں کے موڑ پر اور بازاروں کے ٹکڑ اور بڑی بڑی عمارتوں کے تاریک کونے مجھے خود دعوت دیتے ہیں ادھر آؤ ہمیں بھی دیکھو ہم سے ملو، دوست تم آٹھ سال سے اس شہر میں رہتے ہوں ، لیکن پھر بھی اجنبیوں کی طرح کیوں چل رہے ہو، ادھر آؤ ہم سے ہاتھ ملاؤ۔

 

آج رات اپنی تھی، آج رات کسی کا ڈر نہیں تھا، ڈر اسے ہوتا ہے ، جس کی جیب بھاری ہوتی ہے ، اس خالی جیبوں والے ملک میں بھاری جیب والوں کو ڈر ہونا چاہئیے ، لیکن اپنی پاس کیا تھا جسے کوئی چھین سکتا۔

سنا ہے کہ حکومت نے ایک قانون بن رکھا ہے ،جس کی رو سے رات کو بارہ بجے کے بعد سڑکوں پر گھومنا منع ہے ، کیوں کیا بات ہے ، رات کے بارہ بجے کے بعد بمبئ میں کیا ہوتا جسے وہ مجھ سے چھپانا چاہتے ہیں ، میں تو ضرور دیکھوں گا، چاہے کچھ بھی ہو جائے ، آج رات تو مجھے کسی کا ڈر نہیں ہے ، نہ کسی وزیر کا ، نہ کسی حوالات کا، کچھ بھی ہو جائے آج تو میں ضرور گھوموں گا اور اپنے دوستوں سے ہاتھ ملاؤں گا۔

یہی سوچ کر گیٹ ری کلے مشین کے سامنے کی سڑک سے گزر کر یونیورسٹی گراؤنڈ میں گھس گیا، ارادہ تو یہ تھا کہ میدان کے بیچ سے گزر کر دوسری طرف بڑے تار گھر کے سامنے جا نکلوں گا، اور وہاں سے فلورا فاونٹین چلا جاؤں  گا، مگر میدان سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک کونے مین چند لڑکے دائرہ بنائے بیٹھے ہیں اور تالی بجا بجا کر گا رہے ہیں

تیرا میر پیار ہو گیا۔

تیرا میرا

تیرا میرا

تیرا،میرا، پیار ہو گیا۔

وہ تین لڑکے تالی بجاتے تھے ، ایک لڑکا منہ سے بانسری کی آواز نکالنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک لڑکا سر ہلا تے ہوئے ایک لکڑی کے بکس سے طبلے کے بول نکال رہا تھا، سب خوشی سے جھوم رہے تھے ، اور موٹی پتلی اونچی نیچی آوازوں میں گا رہے تھے ، میں نے قریب جا کر پوچھا

کیو ں بھئی کس سے پیار ہو گیا۔

 

وہ لوگ گانا بند کر کے ایک لمحے کے لئے مجھے دیکھنے میں مصروف ہو گئے ، پتہ نہیں لوگوں کو دیکھنے میں کیسا لگتا ہوں میں ، لیکن اتنا مجھے معلوم ہے کہ ایک لمحے کے لئے دیکھنے کے بعد لوگ بہت جلدی مجھ سے گھل مل جاتے ہیں ، مجھ سے ایسے مانوس ہو جاتے ہیں کہ زندگی بھر کے سارے راز اور اپنی مختصر سی کائنات کی ساری تصویریں اور اپنے دل کے سارے دکھ درد مجھ سے کہنے لگ جاتے ہیں ، میرے چہرے پر کوئی بڑائی نہیں کوئی خاص اجنبیت سی ہے ، کوئی رعب اور دبدبہ نہیں میرے لباس میں بھی کوئی خاص شوکت نہیں ، وہ طعنہ نہیں جو کالی اچکن اور سرخ گلاب کے پھول میں ہوتا ہے ، شارک اسکین کے سوٹ میں ہوتا ہے ، بس پاؤں میں معمولی چپل ہے ، اس کے اوپر لٹھے کا پاجامہ اس کے اوپر لٹھے کی قمیض ہے جو اکثر پیٹھ سے میلی رہتی ہے ،کیونکہ ایک تو مجھے اپنے جھونپڑے میں زمین پر سونے کی عادت ہے ، دوسرے مجھ میں یہ بھی بری عادت ہے ، جہاں بیٹھتا ہوں دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھتا ہوں یہ الگ بات ہے کہ میری زندگی میں میلی دیوار زیادہ آتی ہیں اور اجلی دیواریں بہت کم، قمیض کم بخت کندھوں سے بہت جلد جاتی ہے اور ہاں اکثر آپ کو ٹانکے پھٹے پرانے کپڑے کو جوڑنے کی بار بار کوشش کی جاتی ہے ، کیونکہ ہر آدمی کالی اچکن پر اور سرخ گلاب کا پھول نہیں ٹانک سکتا، اس ٹانکے اور ٹانکے میں اس قدر فرق کیوں ؟ یہ سچ ہے کہ وہ انسان ایک جیسے نہیں ہوتے ایک شکل کے و صورت کے نہیں ہوتے ہیں ، بمبئی میں شب و روز مختلف چہرے ، لیکن یہ کی کیا بات ہے کہ ان سب کے کندھوں پر وہی ٹانکے لگے ہوتے ہیں ، لاکھوں ٹانکے پھٹی ہوئی زندگیوں کے کناروں کو ملانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں ایک نقاد نے میرے افسانے پڑھ کر کہا تھا، کہ مجھے ان میں کسی انسان کا چہرہ نظر نہیں آتا، یہی مجھ میں مصیبت ہے کہ میں اپنے کر داروں کے چہرے بیان نہیں کرستا، ان کے کندھے کے ٹانکے دیکھتا ہوں ، ٹانکے مجھے انسان کا اندرونی چہرہ دکھاتے ہیں اس کی دن رات کی کشمکش اور اس کی شب و روز کی محنت کاسراغ بتاتے ہیں ، جس کے بغیر زندگی کا کوئی ناول اور سماج کا کوئی افسانہ مکمل نہیں ہو سکتا اس لئے اس بات کی مجھے خوشی ہے کہ میرا چہرہ دیکھ کر کوئی مجھے کلرک سمجھتا ہے ، کوئی کباڑیا کوئی کنگھی بیچنے والا یا بال کاٹنے والا آج تک کسی نے مجھے وزیر یا جیب کاٹنے والا نہیں سمجھا، اس بات کی مجھے خوشی ہے کہ ان میں لاکھوں کروڑوں آدمیوں میں سے ایک ہوں جو بہت جلد ایک دوسرے سے بغیر کسی رسمی تعارف کے مانوس ہو جاتے ہیں۔یہاں بھی ایک امتحانی لمحے کی جھجک کے بعد وہ لوگ میری طرف دیکھ کر مسکرائے ، ایک لڑکے نے مجھ سے کہا، آؤ بھائی تم بھی یہاں بیٹھ جاؤ اور اگر گانا چاہتے ہو تو گاؤ۔

اتنا کہہ کر اس نے دبلے پتلے لڑکے نے اپنے سر کے بال جھٹک کے پیچھے کر لئیے اور اپنا لکڑی کے بکس کا طبلہ بجانے لگا، ہم سب لوگ مل کر پھر گانے لگے۔

تیرا میرا

میرا تیرا

پیار ہو گیا

یکایک اس دبلے پتلے لڑکے نے طبلہ بجانا بند کر دیا اور اپنے ایک ساتھی کو جو اپنی گردن دونوں ٹانگوں میں دبائے اکڑوں بیٹھا تھا، ٹہو کا دے کے کہا، ابے مدھو بالا تو کیوں نہیں گاتے۔

مدھو بالا نے اپنا چہرہ ٹانگوں میں بڑی وقت سے نکالا، اس کا چہرہ مدھو بالا ایکٹرس کی طرح حسین نہیں تھا، ٹھوڑی سے لے کر دائیں ہاتھ کی کہنی تک آگ سے جلنے کا ایک بہت بڑا نشان یہاں سے وہاں تک چلا گیا تھا، اس کے چہرے پر کرب کے آثار نمایاں تھے ، اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھوں میں جو اس کے گول چہرے پر دو کالی درزیں معلوم ہوتی تھیں انتہائی پریشانی جھلک رہی تھی، اس نے اپنے ہونٹ سیکڑ کر طبلے والے سے کہا سالے مجھے رہنے دے میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے۔

کیوں درد ہوتا ہے ، سالے تو نے آج پھر ایرانی پلاؤ کھایا ہو گا؟

مدھو بالا نے بڑے دکھ سے سر ہلایا، ہاں وہی کھایا تھا۔

کیوں کھایا تھا سالے

کیا کرتا ، آج صرف تین جوتے بنائے تھے

جو عمر میں ان سب سے بڑا معلوم ہوتا ہے تھا، جس کی ٹھوڑی پر تھوڑی داڑھی اگی تھی اور کنپٹیوں کے بال رخساروں کی طرف بڑھ رہے تھے اپنی ناک کھجاتے ہوئے کہا، اے مدھو بالا، اٹھ میدان میں دوڑ لگا ، چل میں تیرے ساتھ دوڑتا ہوں ، دو چکر لگانے سے پیٹ کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔

نہیں بے رہنے دے

نہیں بے سالے اٹھ، نہیں تو ایک جھانپڑ دوں گا۔

مدھو بالا نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ککو رہنے دو، میں تیری منت کرتا ہوں ، یہ پیٹ کا درد ٹھیک ہو جائے گا۔

اٹھ بے ، کیوں ہماری سنگت خراب کرتا ہے۔

ککو نے ہاتھ بڑھا کر مدھو بالا کو اٹھایا اور وہ دونوں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں چکر لگانے لگے ، پہلے تو تھوڑی دیر تک ان دوڑتے ہوئے لڑکوں کی طرف دیکھتا رہا، پھر جب میرے قریب بیٹھے ہوئے لڑکے نے سر کھجا کے کہا، سالی کیا مصیبت ہے ایرانی پلاؤ، کھاؤ تو مصیبت اور نہ کھاؤ تو مصیبت۔

میں نے کہا بھائی پلاؤ تو بڑے مزے کی چیز ہے ، اسے کھانے سے پیٹ درد کیسے ہو سکتا ہے ؟ میری بات سن کر وہ ہنسے ، ایک لڑکے نے جس کا نام بعد میں مجھے کلدیپ کور معلوم ہوا اور جو اس وقت ایک پٹھی ہوئی پنڈی اور ایک پھٹی نیکر پہنے ہوئے ہے ، مجھ سے ہنس کر کہا، معلوم ہوتا ہے تم نے ایرانی پلاؤ کبھی نہیں کھایا۔

کلدیپ کور نے اپنی بنڈی کے بٹن کھولتے ہوئے مجھے بتایا کہ ایرانی پلاؤ ان لوگوں کی خاص اصطلاح ہے ، اسے ایسے لوگ روز روز نہیں کھاسکتے لیکن جس دن لڑکے نے جوتے بہت کم پالش کئے ہوتے ہیں یا جس دن اس کے پاس بہت کم پیسے ہوتے ہیں اس دن اسے ایرانی پلاؤ ہی کھانا پڑتا ہے اور یہ پلاؤ سامنے کے ایرانی ریستوران سے رات کے بارہ بجے کے بعد ملتا ہے ، جس سب گاہک کھانا کھا کر چلے جاتے ہیں ، دن بھر میں لوگ ڈبل روٹی کے ٹکڑے اپنی پلیٹوں میں چھوڑ جاتے ہیں ، ڈبل روٹی کے ٹکڑے گوشت اور ہڈیاں چچوڑی ہوئی، چاول کے دانے ،آملیٹ کے ریزے ، آلوؤں کے قتلے ، یہ سارا جھوٹا کھانا ایک جگہ جمع کر کے ایک ملغوبہ تیار کر لیا جاتا ہے اور ملغوبہ دو آنے پلیٹ کے حساب سے بکتا ہے ، پیچھے کچن کی دروازے پر اسے ایرانی پلاؤ کہا جاتا ہے ، اسے عام طور پراس علاقے کے غریب لوگ بھی نہیں کھاتے پھر بھی ہر روز دو تین سو پلیٹیں بک جاتی ہیں ، خریداروں میں زیادہ تر جوتے پالش کرنے والے ، فرنیچر ڈھونے والے ، گاہکوں کیلئے ٹیکسی لانے والے ہوتے ہیں یا آس پاس کے بلڈنگوں میں کام کرنے والے مزدور بھی ہوتے ہیں۔

میں نے کلدیپ کور سے پوچھا تمہارا نام کلدیپ کور کیوں ہے ؟ کلدیپ کور نے اپنی بنڈی بالکل اتار دی اور اب وہ بڑے مزے سے لیٹا ہوا ہے اپنا سیاہ پیٹ سہلا رہا تھا، وہ میرا سوال سن کر وہیں گھاس پر لوٹ پوٹ ہو گیا، پھر ہنس چکنے کے بعد اپنے ایک ساتھی سے کہنے لگا

ذرا میرا بکسا لانا۔

ساتھی نے کلدیپ کور کو بکسا دیا، کلدیپ کور نے بکسا کھولا، اس میں پالش کا سامان تھا، پالش کی ڈبیوں پر کلدیپ کور کی تصویر بنی ہوئی تھی، پھر اس نے اپنے ایک ساتھی سے کہا، تو بھی اپنا بکسا کھول اس نے بھی اپنا بکسا کھولا ، اس بکس میں پالش کی جتنی چھوٹی بڑی ڈبیاں تھیں ان پر نرگس کی تصویریں تھیں ، جو رسالوں اور اخباروں کے صفحوں سے کاٹ کر لگائی گئی تھیں۔

کلدیپ کور نے کہا یہ سالا نرگس پالش مارتا ہے ، وہ نمی کا وہ ثریا کا، ہم میں جتنا پالش والا ہے ، کسی نہ کسی فلم ایکٹریس کی تصویریں کاٹ کر اپنے ڈبوں پر لگاتا ہے اس کا پالش مارتا ہے۔

سالا گاہک ان باتوں سے بہت خوش ہوتا ہے ، ام اس سے بولتا ہے ، صاحب کون سا پالش لگاؤں ، نرگس کہ ثریا کہ مدھو بالا؟ پھر جب گاہک جس فلم کی ایکٹریس کو پسند کرتا ہے ، اس کا پالش مانگتا ہے ، ہم اس کو اس لڑکے کے حوالے کر دیتا ہے جو نرگس کا پالش یا نمی کا یا کسی دوسری فلم ایکڑس کا پالش مارتا ہے ، ہم آٹھ لڑکے ہیں ، ادھر سامنے چرچ گیٹ پر سے بس اسٹینڈ کے پیچھے بیٹھتے ہیں ، جس کے پاس جس ایکڑس کا پالش ہے وہ ہی اس کا نام لے گا، اسی سے ہمارا دھندا بہت اچھا چلتا ہے اور کام میں مجا آتا ہے۔

میں نے کہا تم اور بس اسٹینڈ کے نیچے فٹ پاتھ پر ایرانی ریستوران کے سامنے بیٹھے ہوں تو پولیس والا کچھ نہیں کہتا؟

کلدیپ کور اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا، اب سیدھا ہو گیا، اس نے اپنے ہاتھ کے انگوٹھے کو ایک انگلی سے دبا کر اسے یکایک ایک جھٹکے سے یوں نچایا جیسے وہ فضا میں اکنی اچھال رہا ہوں ، بولا وہ سالا کیا کہے گا؟۔

اسے پیسہ دیتا ہے اور یہاں اس میدان میں جو سوتا ہے اس کا بھی پیسہ دیتا ہے ، پیسہ؟ اتنا کہہ کر کلدیپ کور نے پھر انگوٹھے سے ایک خیالی اکنی ہوا میں اچھالی اور فضا میں دیکھنے لگا، اور پھر دونوں ہاتھ کھول کر دیکھا ، مگر دونوں خالی تھے کلدیپ کور بڑی مزے دار اور تلخی سے مسکرادیا، اس نے کچھ نہیں کیا چپ چاپ اوندھا لیٹ گیا۔

نرگس نے مجھ سے پوچھا تم ادھر داور میں پالش مارتے ہو ؟ میں نے تم کو ویزاں ہوٹل کے سامنے دیکھا ہے۔

میں نے کہا، ہاں مجھ کو بھی ایک پالش والا ہی سمجھو۔ ایک طرح سے۔

ایک طرح سے کیا؟ کلدیپ کور اٹھ کر بیٹھ گیا، اس نے میری طرف گھور کر دیکھا، سالہ سیدھے بات کرو نا، تم کیا کام کرتا ہے ؟

اس نے کہا میں بہت خوش ہوا، کوئی اور کہتا تو میں اسے ایک جڑ دیتا، مگر جب اس لڑکے نے مجھے سالا کہا تو میں بہت خوش ہوا کیونکہ سالا گالی کا لفظ نہیں تھا ، برادری کا لفظ تھا، ان لوگوں نے مجھے اپنی برادری میں شامل کر لیا تھا، اس لئے میں نے کہا ، بھائی ایک طرح سے میں بھی پالش والا ہوں ، مگر میں لفظ پالش کرتا ہوں اور کبھی کبھی پرانے میلے چمڑوں کو کھرچ کے دیکھتا ہوں کہ ان کی بوسیدہ تہوں میں کیا ہے۔

نرگس اور نمی ایک دم بول اٹھے ، تو سالہ پھر گڑ بڑ گھوٹالا کرتا ہے ، صاف صاف کیوں نہیں بولتا کیا کام کرتا ہے۔

میں نے کہا۔میرا نام بش ہے ، میں کہانیاں لکھتا ہوں۔

اوہ تو بابو ہے نمی بولا، نمی ایک چھوٹا سا لڑکا تھا ، یہاں دائرے میں جتنے لڑکے تھے ان سب میں سب سے چھوٹا ، مگر اس کی آنکھوں میں ذہانت کی تیز چمک تھی اور چونکہ وہ اخبار بھی بیچتا تھا، اس لئیے اسے مجھ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی، اس نے میرے قریب قریب آ کر کہا ، کون سے اخباروں میں لکھتے ہو؟ پھری ریس ،سنٹل ٹایمس، بمبئے کرانیکل، میں سب اخباروں کو جانتا ہوں۔

وہ بڑھ کر میرے قریب آ گیا۔

میں نے کہا میں شاہراہ میں لکھتا ہوں۔

ساہرہ؟ کون نوز پیپر ہے ؟

دہلی سے نکلتا ہے۔

دلی کے چھاپے خانے سے وہ؟ نمی کی آنکھیں میرے چہرے پر پھیل گئیں۔

اور اب ادب لطیف میں لکھتا ہوں ، میں نے رعب ڈالنے کیلئے کہا۔

کلدیپ کور ہنسنے لگا۔ کیا کہا بدبے خلیف میں لکھتا ہے ،سالے یہ تو کسی انگلش فلم ایکٹریس کا نام معلوم ہوتا ہے ، بدبے خلطیف آہا آہا آہا، ابے نمی تو اپنا نام بدل کر خلطیف رکھ لے ، بڑا اچھا نام مالوم ہو گا،ہاہاہاہا جب سب لڑکے ہنس چکے تو میں نے بڑی سنجیدگی سے کہا، بدبے خلطیف نہیں ، ادب ، ادب لطیف، لاہور سے نکلتا ہے ، بہت اچھا پیپر ہے۔

نرگس نے بے پرواہی سے سر ہلا کے کہا، ہاں سالے ہو گا ادب لطیف ہی ہو گا ہم کو کیا، ہم اس کو بیچ کے ادھر پیسہ تھوڑی کماتے ہیں۔

تقریباً اتنا ہی جتنا تمھیں ملتا ہے ، اکثر کچھ بھی نہیں ملتا جب میں لفظوں پر پالش کر چکتا ہوں تو اخبار والے شکریہ کہہ کر مفت لے جاتے ہیں اور اپنی رسالے یا اخبار کو چمکا لیتے ہیں۔

تو خالی مغز ماری کیوں کرتا ہے۔ہماری طرح پالش کیوں نہیں کرتا، سچ کہتا ہوں تو بھی آجا ہماری برادری میں ، بس تیری ھی کسر تھی، اور تیرا نام ہم بدبے خلطیف  ہی رکھ دیں گے ، لا ہاتھ میں نے کلدیپ کور سے ہاتھ ملایا۔

کلدیپ کور کہنے لگا، مگر چار آنے روز پولیس والے کو دینے پڑیں گے۔

اور اگر کسی روز چار آنے نہ ہوئے تو؟

تو ہم کو مالوم نہیں ، کسی سے مانگ ، چوری کر ڈاکہ ڈال، مگر سنتری کو چار آنے دینے پڑیں گے اور مہینے میں دو دن حوالات میں رہنا پڑے گا۔

ارے وہ کیوں ؟

یہ ہم نہیں جانتے ، سنتری کو ہم ہر روز چار آنے دیتے ہیں ہر ایک پالش والے دیتا ہے ، پھر بھی سنتری ہر مہینے میں دو دفعہ ہم کو پکڑ کے لے جاتا ہے ، ایسا اس کا قاعدہ ہے ، وہ بولتا ہے ، ام کیا کریں۔

میں نے کہا، اچھا دو دن حوالات میں بھی گزار لیں گے۔

اور کلدیپ کور نے کہا ، تم کو مہینے میں ایک بار کورٹ بھی جانا پڑے گا، تمہارا چالان ہو گا، کمیٹی کے آدمی کی طرف سے ، تم کو کورٹ میں بھی جانا پڑے گا دو روپے یا تین روپے وہ بھی تم کو دینا پڑے گا۔

وہ کیوں ؟جب میں چار آنے سنتری کو دیتا ہوں ، پھر ایسا کیوں ہو گا؟

ارے یار سنتری کو بھی تو اپنی کار گزاری دکھانی ہے نہیں ، تو سمجھتا نہیں ہے سالے بدبے خلطیف؟

میں نے آنکھ مار کر کلدیپ کور سے کہا، سالے سمجھتا ہوں ، ہم دونوں ہنسنے لگے ، اتنے میں مدھو بالا اور ککو دونوں میدان کے چکر لگا کر پسینے میں ڈوبے ہوئے واپس آئے۔

مین نے مدھو بالا سے پوچھا، تمہارا پیٹ کا درد غائب ہو گیا۔

مدھو بالا  نے کہا درد تو غائب ہو گیا، مگر اب بھوک بڑے زور سے لگی ہے۔

نرگس نے کہا اور مجھے بھی۔

تو کیا پھر ایرانی پلاؤ آئے گا؟ پھر پیٹ میں درد ہو گا، پھر میدان کے چکر اور پھر بھوک؟ کلدیپ کور نے بڑی تلخی سے کہا۔

نمی نے کہا میں دو پیسے دے سکتا ہوں

میں نے کہا ایک آنہ میری طرف سے

سب سے مل کر چار آنے ہوئے ، نمی کو ایرانی پلاؤ لانے بھیجا گیا کہ سب سے چھوٹا وہی تھا، پھر ایرانی ریستوران کا باورچی اسے پسند بھی کرتا تھا، ممکن ہے نمی کو دیکھ کر چار آنے میں دو پلیٹوں کے بجائے تین پلیٹں یا کم از کم تین پلیٹوں کا مال مل جائے۔

جب نمی چلا گیا تو میں نے پوچھا کیا تم لوگ روز یہیں سوتے ہو؟

مدھو بالا کے سوا سب یہیں سوتے ہیں ، ککو نے کہا، مدھو بالا اپنے گھر میں جاتا ہے ، مگر آج نہیں گیا۔

میں نے مدھو بالا سے پوچھا تمہارا گھر ہے۔

ہاں ، سائیں میں ایک جھونپڑا ہے ، ماں وہاں رہتی ہے۔

اور باپ؟

مدھو بالا نے کہا باپ؟ کا مجھے کیا پتہ؟ ہو گا سالا سامنے والی بلڈنگ کا سیٹھ

یکایک وہ سب چپ ہو گئے ، جیسے کسی نے ان کے چہرے پر چپت مار دی ہو، لڑکے جو بے آسراتھے ، بے گھر تھے ، بے نام تھے ، جنہوں نے اپنی زندگی میں کبھی نہ آنے والی محبت کو فلمی گانوں سے بھرنے کی کوشش کی تھی۔

تیرا میرا پیار ہو گیا، کدھر ہے تیرا پیار؟ اے میرے باپ اے میری ماں اے میرے بھائی تو کون ہے ؟ تو کون تھا؟ کس لئے تو مجھے اس دینا میں لے آیا اور ان سخت بے رحم عمارتوں کے ٹایلس زدہ فٹ پاتھوں پر دھکے کھانے کے لئے چھوڑ دیا گیا، ایک لمحے کے لئے ان لڑکوں کے فق فریادی چہرے کسی نا معلوم ڈر سے خوفزدہ ہو گئے اور بڑی سختی سے انہوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لئیے ، جیسے کہیں سے انہیں آسرانہ ملا، جسیے اس شہر کی ہر بڑی عمارت ہر فٹ پاتھ اور ہر چلنے والے قدم نے انہیں ٹھکرا دیا، اور انہیں مجبور کر دیا کہ وہ رات کی تاریکی میں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ لیں مجھے وہ اس لئیے ہی خوفزدہ اور معصوم معلوم ہو رہے تھے ، جیسے بھولے بھالے بچے کسی نا معلوم بے کنار جنگل میں کھو جائیں ، اسی لئے کبھی کبھی مجھے ایک شہر نہیں معلوم ہوتا ہے ، جس میں معاشرے کے بے نام اولاد سڑکوں کی بھول بھلیوں میں اپنا راستہ ٹٹولتی ہے اور جب راستہ نہیں ملتا تو آنکھیں بند کر کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ جاتی ہے ، پھر میں سوچتا ہوں ایسا نہیں ہے۔

بمبئ ایک جنگل نہیں ہے ، شہر ہے ، لوگ کہتے ہیں ، اس کی ایک میونسپل کارپوریشن ہے ، اس کی ایک حکومت ہے ، ایک نظام ہے ، اس کی گلیاں ہیں ، بازار ہیں ، دکانیں ہیں ، راستے ہیں اور گھر ہیں اور یہ سب ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہوئے ہیں جیسے ایک مذہب اور متمدن شہر میں چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں ، یہ سب میں جانتا ہوں ، اس کے راستے اور گھروں کو پہچانتا ہوں ، ان کی عزت و احترام کرتا ہوں ، لیکن اس عزت اور احترام ، اس محبت کے باوجود میں کیوں دیکھتا ہوں کہ اس بمبئ شہر میں کتنی ھی گلیاں ایسی ہیں جن سے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ، کتنے ہی راستے ایسے ہیں جو کسی منزل کو نہیں جاتے ، کتنے ہی بچے ایسے جن کیلئے کوئی گھر نہیں ہے ، یکایک اس خاموشی کو نمی نے توڑ دیا، وہ بھاگتا ہوا ہمارے پاس آیا، اس کے ہاتھ میں ایرانی پلاؤ کی تین پلیٹیں تھیں ، ان سے گرم گرم سوندھا سوندھا دھواں اٹھ رہا تھا، جس اس نے پلیٹیں لا کر گھاس پر رکھ دیں ، تو ہم نے دیکھا کہ نمی کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔

کیا ہوا؟

کلدیپ کور نے پوچھا؟

نمی نے غضب ناک لہجے میں کہا۔

باورچی نے بڑے زور سے یہاں کاٹ کھایا۔

نمی نے اپنا بایاں رخسار ہماری طرف کر دیا۔

ہم نے دیکھا بائیں رخسار پر بہت بڑا نشان تھا۔

کلدیپ کور نے باورچی کو گالی دیتے ہوئے کہا

حرام زادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مگر اس کے بعد وہ سب لوگ ایرانی پلاؤ پر ٹوٹ پڑے۔


مخصوص: میلاد النبی (ص)

 

نعت

مصحف اقبال توصیفی

 

اونٹنی پر

حلیمہ چلی

تو روشن ہوئی شہرِ مکّہ کی اک ایک گلی

خیاباں خیاباں

کھجوروں کے پیڑوں میں سروِ چراغاں جگاتی ہوئی

ٹوٹ کر گر پڑے سارے بت

سارے لات و منات

سب نے دیکھا

حلیمہ کی چادر سے

عجب نور چھنتا ہوا

اور اس پر لکھا

ایک نامِ جلی

۔۔۔۔۔

ایک نامِ جلی

دشت میں

کوہ پر

اوج میں ، خاک میں

ابر میں ، باد پر

ایک نامِ جلی

محمّد۔۔۔۔

محمّد۔۔۔۔۔۔

محمّد۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔

محمّد کو لے کر

اونٹنی پر

حلیمہ چلی

تو روشن ہوئی شہرِ مکّہ کی اک اک گلی

***

 

 

 

پوری کتاب

یعقوب آسی

 

میں کیا لکھوں جب

خدا نے اس کی ثنا میں پوری کتاب لکھ دی

میں کیا کہوں جب

صفا و مروہ کے سنگ ریزوں میں

آج بھی وہ

شہادتِ اہلِ قریۂ جاں

مچل رہی ہے

میں دیکھتا ہوں

ملائے اعلیٰ کے نور ماتھے پہ

نور کرنوں میں

کلمۂ لا الٰہ الّا

ازل سے اب تک، دمک رہا ہے

میں سن رہا تھا

ابوالبشر نے خدائے ارض و سما سے پوچھا

الٰہِ آخر!یہ کیا لکھا ہے ؟

یہ کون ہستی ہے

جس کا اسمِ مبیں

ترے نام کے تسلسل میں

ضو فشاں ہے

کہا: یہ وہ ہے ، کہ وہ نہ ہوتا، تو تُو نہ ہوتا

یہ تیری عورت

یہ نقرئی جسم حور و غلماں

یہ برگ و بر اور یہ گل یہ خوشبو

یہ نغمۂ عندلیب  رنگیں نوا، یہ چشمے

یہ کچھ نہ ہوتا

فلک نہ ہوتے ، ملک نہ ہوتے

یہ چاند تارے

یہ وسعتِ لامکاں نہ ہوتی

کمال یہ ہے کہ وہ نہ ہوتا

تو

تختِ عرشِ بریں نہ ہوتا

کہیں نہ ہوتا!

وہ حرفِ لولاک کا عظیم المقام وارث

نبئ اکرم، رسولِ آخر زماں ، محمد

سلام اس پر

سلام اس پر

وہ ذات ہے

کہ جلو میں جس کے

لکھوکہا بندگانِ عالی

گروہ اندر گروہ پیغمبرانِ عالی

صفیں بنائے

ہدایتوں کے چراغ تھامے

رواں دواں ہیں

ابوالبشر کو

خدا نے عرشِ بریں سے

فرشِ زمیں پہ بھیجا

مسیحِ عالم کو رفعتِ خلد سے نوازا

بلا شبہ اک مقام ذی احتشام ہے یہ

عطائے ربِ کریم ہے یہ

وہ محترم ہیں

وہ محترم ہیں

مرے نبی کا مقام لیکن

کہوں تو کیسے

کہ شہرِ افلاک

اس کے قدموں کی سیر گہ ہے

یہ واقعہ ہے !!

میں لکھ رہا ہوں

میں سوچتا ہوں

مگر وہ ہستی!

ورائے ادرک دیکھتا ہوں

تو کیا لکھوں جب

خدا نے اس کی ثنا میں

پوری کتاب

لکھ دی

***

 

 

نعت بحضور رسولِ مقبول

معین الدین بشر

 

تڑپ جاتا ہے دل جس دم مدینہ یاد آتا ہے

وہی اک سبز گنبد کا نظارہ یاد آتا ہے

 

وہ مسجد جس کے اندر جلوہ فرما فخرِ عالم ہیں

مجھے فرقت میں اس کا گوشہ گوشہ یاد آتا ہے

 

پڑا ہوں سامنے کعبے کے سجدے میں مگر مجھ کو

وہ محرابِ نبوّت کا مصلیٰ  یاد آتا ہے

 

وہ رونق شہر کی ، وہ زائروں کا رات دن مجمع

دکھا دے پھر الٰہی، وہ زمانہ یاد آتا ہے

 

شرف مرکز رہا کرتی تھی جس کی ذاتِ معصومی

وہ خاصانِ خدا کا مجھ کو حلقا یاد آتا ہے

1938ء

 

 

 

ادب اور نشانیات

 

(پروفیسر) مرزا خلیل احمد بیگ

 

 اردو میں نشانیات (Semiotics) کے موضوع پر بہت کم لکھا گیا ہے۔ اردو کے بعض نقادوں کی تحریروں میں نشانیات کا ذکر ضرور مل جاتا ہے لیکن محض خال خال۔ اردو میں پروفیسر آل احمد سرور غالباً پہلے بزرگ نقاد ہیں جنھوں نے اپنے ایک تنقیدی مضمون میں نشانیات کا ذکر کیا ہے۔(1) جدید نقادوں میں شمس الرحمٰن فاروقی، وزیر آغا، گوپی چند نارنگ، قمر جمیل، محمد علی صدیقی اور نجم اعظمی وغیرہ کی بعض تحریروں میں نشانیات کے حوالے ملتے ہیں۔ ان میں سے ہندوستان میں پروفیسر گوپی چند نارنگ نے اپنی کتاب ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (2) میں اور پاکستان میں قمر جمیل نے اپنے رسالے دریافت میں نشان (Sign) اور نشانیات (Semiotics) سے متعلق معلومات افزا بحثیں اٹھائی ہیں۔ علاوہ ازیں شب خون (الہ آباد) اور صریر (کراچی) جیسے ادبی جرائد میں بھی بیسویں صدی کے آخری دو دہوں کے دوران ساختیات (Structuralism)، مابعد ساختیات (Post -Structuralism) کے ساتھ ساتھ نشانیاتی فکر پر بھی اکثر بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ نشانیات کا ساختیات کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ لہٰذا جن نقادوں نے ساختیاتی نظریے پر غور و فکر سے کام لیا ہے انھوں نے نشان اور نشانیات کے تصورات سے بھی بحث کی ہے ، کیوں کہ ماہرِ ساختیات کے لیے نشانیاتی نظریے سے واقفیت ازبس ضروری ہے۔

اردو میں اگرچہ نشانیات کے حوالے گذشتہ پندرہ بیس برسوں سے وقتاً فوقتاً سامنے آتے رہے ہیں ، تاہم نشانیاتی نظریے پر، بالخصوص ادب اور نشانیات کے رشتے پر اردو میں اب تک کوئی باقاعدہ اور ٹھوس کام نہیں ہوا ہے۔ ان سطور میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ نشانیات کا ایک مختصر ساخاکہ پیش کیا جائے اور ادب کے ساتھ اس کے رشتے پر روشنی ڈالی جائے۔

نشانیات’ انگریزی کے لفظ Semiotics کا ترجمہ ہے۔ اگر اس کی تعریف بیان کی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ نشانات (Signs) کا علم ہے ، یعنی Science of Signs ہے۔ یہ وہ علم ہے جس میں ہر طرح کے نشانات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس علم کوSemiologyبھی کہتے ہیں۔ اردو میں سیمیالوجی کے لیے بھی ‘نشانیات’ کی ہی اصطلاح مستعمل ہے۔

علمِ نشانیات (Semiotics) میں نشانات (Signs) کے استعمال اور اس کے دائرہ عمل سے بحث کی جاتی ہے۔ دراصل ہماری زندگی اور معاشرے نیز ہمارے گردو پیش کی دنیا میں نشانات کا مکمل نظام پایا جاتا ہے جس کا مطالعہ نشانیات کا اصل مقصد ہے۔ نشانات کا استعمال صرف انسانوں تک ہی محدود نہیں ، بلکہ حیوانات کے یہاں بھی اس کے استعمال کی واضح شکلیں ملتی ہیں۔ شہد کی مکھیوں کا رقص کرتے ہوئے یہ بتانا کہ پودوں اور پھولوں کا میٹھا رس جس سے شہد بنتا ہے کہاں دستیاب ہے ، حیوانی نظامِ نشانات (System of Signs) کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس کا مطالعہ نشانیات کا موضوع قرارپاتا ہے۔ بعض دوسری طرح کے نشانات مثلاً جسمانی حرکات، پہننے اوڑھنے کے طریقے اور بعض فنون کے اظہاری طریقے (Expressive Systems) بھی نشانیات کے دائرے میں تے ہیں۔ زبان بھی ایک طرح کا نظامِ نشانات (Sign-System) ہے جو بیحد پیچیدہ اور ہمہ گیر ہے۔ زبان میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود ہیں جواسے دوسرے نظامِ نشانات سے ممیّز کرتی ہیں اور اسے ایک انوکھا اور دلچسپ نظامِ نشانات بناتی ہیں۔

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نشانات کے تمام تر امکانات کا استعمال ترسیلی مقاصد اور اطلاع رسانی (Communication) کے لیے کیا جاتا ہے اور نشانیات کا علم ہمارے لیے ایک ایسا دائرۂ کار فراہم کرتا ہے جسے بروئے عمل لا کر ہم انسانی ذرائع، ترسیل کے تمام پہلوؤں کا پتالگاسکتے ہیں ، خواہ وہ جسمانی حرکات ہوں یا قوتِ سماعت سے محروم لوگوں کے لیے استعمال کی جانے والی نشانات پر مبنی زبان (Sign Language) یا محض تکلمی طریقۂ ترسیل یعنی لسان (Language)۔

نشانیات ایک قدیم علم ہے جس کاسراغ تیسری صدی قبل، مسیح کے دوران یونان کے اسٹوئل فلسفیوں (Stoic Philosophers) کے یہاں ملتا ہے ، لیکن نشانیات کو نشانات کی سائنس (Science of Signs) کے طور پر برتنے کا کام سب سے پہلے سترھویں صدی کے نصفِ آخر میں جان لاک نے انجام دیا۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یورپ اور امریکہ میں جدید نشانیات (Modern Semiotics) کا فروغ ہوتا ہے۔

بیسویں صدی میں سب سے پہلے یورپ میں فرڈی نینڈی سسیور نے جدید نشانیات کو فروغ دیا۔ سسیور کو ‘جدید لسانیات کا باوا آدم’کہا گیا ہے کیوں کہ یہی زمانہ لسانیاتِ جدید(Modern Linguistics) کے فروغ کا بھی ہے جس کا سہرافرڈی نینڈی سسیور کے سرہے۔ زبان سے متعلق سسیور کے نئے نظریات اور چونکا دینے والے افکار سے مغرب میں جدید لسانیات کی بنیاد پڑتی ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نشانیات کا لسانیات کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ فرڈی نینڈی سسیور کی کتابCourse in General Linguistics جو اس کی وفات کے تین سال بعد1916ءمیں شائع ہوئی جدید لسانیات کی کلید کادرجہ رکھتی ہے ، اور یہی کلیدی کتاب جدید نشانیات کا بھی نقطۂ  آغاز تسلیم کی گئی ہے۔(2)

فرڈی نینڈی سسیور سوٹزرلینڈ کے ایک فرانسیسی خانوادے میں 17نومبر 1857ءکو پیدا ہوا۔ اس نے اپنی ابتدائی تعلیم جنیوا میں حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے وہ 1872ءمیں جرمنی گیا جہاں اس نے لپزگ یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ اس زمانے میں یہ دانش گاہ نئے مکتبِ فکر کے نوجوان ماہرینِ لسانیات کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی جنھیں ‘نو قواعد داں ‘ (Neo-Grammarians) کہا جاتا تھا۔ تاریخی لسانیات کے ضمن میں ان نوجوانوں کے افکار و انکشافات چونکادینے والے تھے۔ سسیور ان کے خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ چنانچہ اس نے محض 21 سال کی عمر میں 1878ءمیں ایک کتاب لکھی جس میں ہند یورپی کے مصوتی نظام کے ارتقاء پر بالکل نئے انداز سے روشنی ڈالی گئی تھی۔ اس کتاب کو Memoire کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر استناد کا درجہ رکھتی ہے۔ سسیور سنسکرت زبان سے بھی واقف تھا۔ اس نے ’’سنسکرت میں حالتِ اضافی کا استعمال‘‘ پر تحقیقی مقالہ لکھ کر لپزگ یونیورسٹی (جرمنی) سے 1881ء میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ سسیور Memoire کے علاوہ کوئی اور کتاب نہ لکھ سکا اور 1913ءمیں اس کا انتقال ہو گیا۔

فرڈی نینڈی سسیور کی بے پناہ ذہانت اور لسانی بصیرت کا اندازہ لوگوں کو اس وقت ہوا جب اس کی وفات کے تین سال بعد 1916ءمیں اس کی عہد آفریں کتابCourse in General Linguisticsشائع ہوئی۔ یہ کتاب سسیور کے شاگردوں کے کلاس نوٹس (Class Notes) اور کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں اور پرزوں پر خودسسیو کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریروں کی مد د سے پس از مرگ ترتیب دی گئی ہے۔ یہ کتاب جدید لسانینات یا ساختیات لسانیات (Structural Linguistics) کا اولین نقش ہے۔ اسی کتاب سے مغرب میں لسانیاتِ جدید کا آغاز ہوتا ہے۔ سسیور کے نشانیاتی نظریے کی بنیاد بھی یہی کتاب فراہم کرتی ہے۔

فرڈی نینڈی سسیور نے زبان سے متعلق بہت سے نئے اور انوکھے تصورات پیش کیے جو اس سے قبل کسی نے پیش نہیں کیے تھے۔ اس کے لیے اس نے بعض نئی اصطلاحیں وضع کیں اور بعض پرانی اصطلاحوں کو نئے مفاہیم عطا کیے۔ اس طرح اس نے زبان سے متعلق اپنا ایک منفرد نظریہ پیش کیا جو سسیور کا نظریۂ لسان یا فلسفۂ  لسان کہلایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسیور کا نظریۂ لسان (Theory of Language) اس کے نظریۂ  نشان (Theory of Sign) سے گہرا تعلق رکھتا ہے۔

سسیور زبان کو ایک ‘نام‘ (System) تسلیم کرتا ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس نظام کی بنیاد ‘نشانات‘ (Signs) پر قائم ہے۔ اس لیے زبان کی تعریف اس کے نزدیک ‘نظامِ نشانات’ ہے۔ سسیور کے تصورِ نشان کے مطابق ہر لفظ ایک ‘نشان‘ (Sign) ہے جسے ‘لسانی نشان‘ (Linguistics Sign) بھی کہہ سکتے ہیں۔ ہر نشان میں صوت و معنی کا دوہرا رشتہ پایا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر نشان دو طرفہ یا دو رخا (Dyadic) ہوتا ہے۔ نشان کا ایک رخ تکلم یا اظہار (Expression) ہے جسے صوتی امیج (Sound-Image) کہتے ہیں۔ سسیور اسے Signifier کے نام سے یاد کرتا ہے جس کے لیے اردو میں ‘معنی نما’ کی اصطلاح وضع کی گئی ہے۔ نشان کا دوسرا رخ معنی ہے۔ صوتی امیج کے ذریعے ذہن پر جو تصویر ابھرتی ہے یا جو تصور قائم ہوتا ہے اسے ‘معنی‘ (Meaning) یا ‘تصور معنی’ کا نام دیا گیا ہے۔ سسیور اس کے لیے Signified کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔ صوتی امیج اور معنی یا تصورِ معنی کے باہم اتصال کو سیور ‘نشان‘ (Sign) کہتا ہے دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نشان وہ اجزا پر مشتمل ہوتا ہے : صوتی امیج (Signifier) اور معنی تصورِ معنی (Signified)۔ یہ دونوں اجزا باہم مربوط و متصل ہوتے ہیں۔ نشان کے دونوں رخوں کو یوں ظاہر کیاجاسکتا ہے۔

معنی نما

(Signifier)

نشان (Sign)           =           ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

معنی /تصورِ معنی

(Signified)

 

سسیور کے فلسفۂ لسان سے متعلق یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ سسیور لفظ کو محض نشان تصور کرتا ہے۔ اسے وہ شے تصور نہیں کرتا اور نہ ہی اسے وہ شے کا نام دیتا ہے۔ اس کے نزدیک لفظ یعنی نشان صوت و معنی کا اتصال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سسیور نے لفظ کے اس روایتی تصور کو باطل قرار دے دیا ہے جس کے تحت بقولِ گوپی چند نارنگ ’’زبان لفظوں کے ایسے مجموعے کا نام ہے جس کا بنیادی مقصد اشیاء کو نام دیتا ہے ‘‘۔(4) نشان کی ایک خصوصیت سسیور نے یہ بتائی ہے کہ یہ خود اختیاری (Arbitrary) ہوتا ہے ، یعنی کسی بھی نشان کی صوتی امیج (Signifier) اور اس کے معنی (Signified) کے درمیان رشتہ فطری نہیں ہوتا بلکہ من مانا یا  خود اختیاری ہوتا ہے۔ نشان کی دوسری خصوصیت اس کا خطی (Linear) ہوتا ہے۔ تکلم کے دوران نشانات یکے بعد دیگرے تواتر کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے ہیں اور ایک سلسلہ یا زنجیر بناتے ہیں۔ اسی لیے ان کی تقطیع یا اجزا کاری (Segmentation) کی جاسکتی ہے۔

سسیور نے ‘نشان’ کو ایک عام اصطلاح کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس کے نزدیک الفاظ، مرکبات، فقرے اور جملے سبھی نشانات کا درجہ رکھتے ہیں۔ جنھیں مزید نشانات کے ٹکڑوں میں تقسیم کیاجاسکتا ہے۔ نشان کی دو بنیادی قسمیں بیان کی گئی ہیں ، ‘سادہ نشان‘ (Simple Sign) اور ‘منظمہ‘ (Syntagm)۔ اگر کسی نشان کے مزید ٹکڑے نہ کیے جاسکیں تو وہ سادہ نشان کہلائے گا، اور اگر یہ دویادوسے زیادہ نشانات پر مشتمل ہو تو اسے ‘منظمہ’۔ جملے کی نحوی ترکیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ اور ایک منظمہ دوسرے منظمہ کے ساتھ افقی طور پر (Syntagmatically) مربوط ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان یہی ارتباط نظامِ نشانات (Sign-System) کہلاتا ہے۔ زبان بھی ایک نظامِ نشانات ہے جس میں ہر نشان ایک دوسرے نشان کے ساتھ باہمی رشتے میں پرویا یا  گندھا ہوتا ہے۔ نشانات کے درمیان انھیں رشتوں کی وجہ سے معنی پیدا ہوتے ہیں اور زبان کی افہام و تفہیم ممکن ہوتی ہے ، ورنہ نظام سے ہٹ کر نشان کے کوئی معنی نہیں ہوتے۔ نشانات کے معنی، نشانات کے رشتوں کا وہ نظام طے کرتا ہے جس میں یہ پروئے ہوتے ہیں۔ نشانات اور معنی کے درمیان یہ رشتہ خود اختیاری اور من مانا ہوتا ہے۔

فرڈی نینڈی سسیور کے پیش کردہ تصورِ نشان سے ہم نہ صرف زبان کے نظامِ نشانات کا گہرا مطالعہ کر سکتے ہیں ، بلکہ انسانی زندگی کے نظام اور اس سے تعلق رکھنے والے تمام ترسماجی اور تہذیبی مظاہر کے نظام کو بھی سمجھ سکتے ہیں جس میں ادب بھی شامل ہے۔

(3)

علمِ نشانیات کا ارتقا یورپ کے علاوہ امریکہ میں بھی ہوا۔ فرڈی نینڈی سسیور کے انتقال (1913ء) کے تقریباً 15 سال بعد امریکہ کے ایک دانشور اور فلسفی چارلز سینڈرز پیپرس نے تصورِ نشان کے نظریے پر کام کرنا شروع کیا اور اس علم میں اس نے اتنا کمال حاصل کر لیا کہ نشانیات کے بنیاد گزاروں میں سسیور کے ساتھ پیپرس کا نام بھی لیا جانے لگا۔(5) اس طرح جدید نشانیات کا ارتقا بنیادی طور پر دو مقامات یعنی یورپ اور امریکہ میں ہوا۔ یورپ میں یہ علم Semiology کہلایا، جب کہ امریکہ میں دانشوروں نے اسے Semiotics کہنا پسند کیا۔

سسیور کے علی الرغم جو نشان کو دو رخا(Dyadic) ماننا تھا، پیپرس نے اسے سہ رخا (Triadic) تسلیم کیا ہے۔ پیپرس کے متعین کردہ نشان کے تینوں رخ یا اجزاء یہ ہیں :

         Representament(سسیور کے Signifierسے قریب تر )

         Object (شے )

         Interpretant (سسیور کے Signifiedسے قریب تر)

ان میں سے پہلی اصطلاح Representamer سسیور کے Signifierسے تقریباً ملتی جلتی چیز ہے۔ یہ نشان کا وہ رخ یا عنصر ہے جو نشان کی صوتی نمائندگی کرتا ہے ، جب کہ Objectسے کوئی بھی شے حقیقی یا خیالی مراد لی جاسکتی ہے۔ اسی طرح Interpretant کا مقابلہ موٹے طور پر سسیور کے Signifiedسے کیا جاسکتا ہے۔ اس سے نشان کا تشریحی عنصر یا معنیٰ مراد لے ے جاسکتے ہیں۔ نشان کے یہ تینوں اجزاء ایک دوسرے کے ساتھ گہرا رشتہ رکھتے ہیں۔

پے یرس کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے نشان کی تنوع پذیری کا پتا لگایا ہے اور اس کی اقسام بیان کی ہیں۔ سسیور کے یہاں چیز نہیں پائی جاتی۔ اس نے نشان کی اقسام سے کہیں بحث نہیں کی ہے۔ پییرس اس امر سے بخوبی واقف ہے کہ نشان کس کس طرح سے اپنا ترسیلی فریضہ انجام دے سکتا ہے۔ کسی شے (Object)اور اس شے کی نمائندگی کرنے والے نشان (Representamen)کے درمیان جو رشتہ پایا جاتا ہے اس کی پییرس نے تین قسمیں بیان کی ہیں :

         شبیہ (Icon) : جب کسی شے اور اس (شے ) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان مادی مماثلت یا مشابہت (Physical Resemblance) پائی جاتی ہو، مثلاً کوئی شے اور اس (شے ) کی تصویر یا کوئی جگہ اور اس (جگہ) اور اس(جگہ) کا نقشہ، تو اس نشان (تصویر، نقشہ) کو ‘شبیہ‘ (Icon) کہیں گے اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ‘شبیہی رشتہ‘ (Iconic Relationship) کہیں گے۔

         اشاریہ (Index) : جب کسی شے اور اس (شے ) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان زمانی و مکان یا مادی قربت و نزدیکی (Physical Proximity) پائی جاتی ہو، مثلاً دھواں اور آگ یا گرج اور بجلی، تو اس نشان (دھواں ، گرج) کو ‘اشاریہ‘ (Index) اور دونوں کے درمیان پائے جانے والے رشتے کو ‘اشاریتی رشتہ‘ (Indexical Relationship) کہیں گے۔

         علامت (Symbol): جب کسی شے اور اس (شے ) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان روایت (Convention) کی کارفرمائی ہو، یعنی وہ نشان تہذیبی اور روایتی طور پر سیکھا اور برتا جائے ، مثلاً بازو پر بندھی سیاہ پٹی اور سوگ یا گریہ و ماتم، تو اس نشان (سیاہ پٹی) کو ‘علامت‘ (Symbol)کہیں گے۔

)4)

ادب کا نشانیاتی مطالعہ، ادب کے جمالیاتی، نفسیاتی، اسلوبیاتی، تاریخی وسماجی نیز تاثراتی اور مارکسی مطالعے سے بالکل مختلف ہے۔ اس مطالعے میں ادبی فن پارے کے خارجی موثرات، نیز خارجی عوامل اور عناصر سے بحث نہیں کی جاتی اور نہ ہی مطالعے کا معیار تاثر، حسن اور جمالیاتی کیف ہوتا ہے۔ اس مطالعے میں وجدان، جمالیاتی اقدار اور داخلی کیفیات کو بھی کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ ادیب کی ذہنی کیفیات یا کر داروں کی نفسیاتی الجھنوں سے بھی اس مطالعے کو کوئی سروکار نہیں ہوتا اور نہ ہی اس مطالعے میں اسلوبیاتی خصائص کو نشان زد کیا جاتا ہے۔ اس مطالعۂ ادب میں انسان کے سماجی شعور سے بھی کوئی بحث کی جاتی اور نہ ہی ادب کو تاریخی اور سماجی حالات کا پروردہ سمجھا جاتا ہے۔

ادب کے نشانیاتی مطالعے کی خصوصیات اور طریقۂ کار کا اجمالی جائزہ ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :

         ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ادب کو ایک ایسا ذریعۂ ترسیل (Mode of Communication)تصور کیا جاتا ہے جو نشانات (Signs) پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ نشانات Signifier اور Signified سے مل کر تشکیل پاتے ہیں۔

         اس مطالعے میں ضروری نہیں کہ Signifier یا Representamen کوئی لفظ، فقرہ یا جملہ ہی ہو، بلکہ یہ کوئی متن (Text) یا کلامیہ (Discourse) بھی ہو سکتا ہے جو اپنے لغوی، ظاہری اور ابتدائی معنی سے قطع نظر استعاراتی، علامتی اور ثانوی معنی رکھتا ہے۔ ادب کے نشانیاتی مطالعے میں انتقالِ معنی (Transference of Meaning) کے بے حد امکانات پائے جاتے ہیں۔

         اس مطالعے میں ادبی کلامیہ (Literary Discourse) جو ایک نشان کی حیثیت رکھتا ہے افقی ترتیب (Syntagmatic Order) میں پرویا یا گندھا ہوتا ہے جسے نشانیاتی ترتیب (Semiotic Order) بھی کہتے ہیں۔ درحقیقت نشانات کا انتخاب پہلے عمودی (Paradigmatic) سطح پر ہوتا ہے پھر افقی (Syntagmatio) سطح پر یہ ایک دوسرے کے ساتھ پروئے اور ترتیب دیے جاتے ہیں۔

         اس مطالعے میں کسی شے اور اس (شے ) کی نمائندگی کرنے والے نشان کے درمیان رشتہ علامتی (Symbolic) ہوتا ہے۔

         نشانیاتی مطالعہ ادبی متن یا کلامیہ کے فوق لغوی (Supra-literal) معنی کو برآمد کرتا ہے۔ ادیب بعض اوقات ایسی علامتیں استعمال کرتا ہے جن کی معنیاتی گتھی نشانیاتی مطالعے کے دوران سلجھائی جاتی ہے اور انھیں تعبیر و تشریح کے عمل سے گذارا جاتا ہے۔

         اس مطالعے میں متن کو ایک نشان تسلیم کیا جاتا ہے اور متنیت (Textuality)، بین المتن(Intertex) اور بین المتونیت (Intertextuality) جیسے تصورات سے بحث کی جاتی ہے۔

ادب کے نشانیاتی مطالعے میں ترسیلی امکانات کا بھر پور پتا لگایا جاتا ہے اور اندورنِ متن ایک ایسے جہانِ معنی کی تخلیق کی جاتی ہے جو اس متن کی بالائی معنیاتی پرت سے مختلف ہوتا ہے۔ یہ چیز اسی وقت ممکن ہو سکتی ہے جب ادیب کے علامت سازی کے عمل کو بخوبی سمجھ لیا جائے۔ ادیب بالعموم روایتی علامات استعمال کرتے ہیں ، لیکن بعض ادیبوں کے یہاں کلیتہً ذاتی علامات بھی ملتی ہیں جو ان کے ذاتی اور انفرادی تجربات و مشاہدات کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایسی علامات کا سمجھنا قاری کے لیے قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اسی طرح بعض ادیبوں نے دیومالائی یا اساطیری علامات سے بھی کام لیا ہے اور مذہبی روایات سے بھی ماخوذ علامات استعمال کی ہیں۔

روایتی علامات جنھیں آفاقی (Universal) علامات بھی کہتے ہیں۔ ادیب کے تاریخی اور تہذیبی شعور کا نتیجہ ہوتی ہیں اور ادب و شعر میں ایک زمانے سے استعمال ہوتی چلی آتی ہیں ، مثلاً ہم میں سے غالباً ہر شخص واقف ہو گا کہ ‘سیاہ رنگ’ سوگ اور ماتم کی علامت ہے ، ‘آگ’ تشدد اور قہر کی علامت ہے ، ‘پانی’زندگی کی علامات ہے اور ‘رات’ بدی کی علامت ہے۔ مثلاً پروفیسر شہریار کا یہ شعر دیکھئے :

اب رات کی دیوار کو ڈھانا ہے ضروری

یہ کام مگر مجھ سے اکیلے نہیں ہو گا۔

اس سادہ سے شعر(6) کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ بدی کو دنیا سے ختم کرنا ضروری ہے۔ لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب مل کر اس کام کو انجام دیں۔ نشانیاتی نظریے کے مطابق اس شعر میں ‘رات’ محض ایک نشان (Sign) یا Representamen ہے جس کی حیثیت ایک علامت (Symbol) کی ہے۔ یہ نشان بدی کی نمائندگی کرتا ہے جو ایک شے ہے۔ لہٰذا اس نشان (رات) اور شے (بدی) میں جو رشتہ پایا جاتا ہے اسے علامتی رشتہ (Symbolic Relationship) کہا جائے گا۔ یہ نظریہ پیرس کاہے۔ سسیور کے نشانیاتی نظریے کے مطابق رات کو Signifier (معنی نما) اور بدی کو Signified (تصورِ معنی) قرار دیا جائے گا۔ ہر Signifier اپنا Signified دکھاتا ہے۔ ادب میں Signified کے امکانات کافی وسیع ہوتے ہیں۔

فکشن میں علامت سازی کا عمل کافی وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ فکشن چوں کہ ایک بیانیہ (Narrative) ہے اس لیے ادیب کہانی کو آگے بڑھانے ، اسے ایک نیا موڑ دینے اور انجام تک پہنچانے کے لیے علامتوں کا استعمال کرتا ہے۔ اس طرح فکشن میں علامات کا سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔ پروفیسر ہر جید سنگھ گل (7) نے قرونِ وسطیٰ کے پنجاب کی مشہورِ عام کہانیوں (Folktales)، مثلاً ’’مرزا صاحباں ‘‘، ’’ہیر رانجھا‘‘، ’’سوہنی مہینوال‘‘ وغیرہ کا نشانیاتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کرتے وقت اس امرپرخاص توجہ دی ہے کہ کس طرح علامت سازی کا عمل ان کہانیوں کو اختتام تک پہنچانے میں معاون ہوتا ہے۔ ’’سوہنی مہینوال میں علامتی رنگ کافی چوکھا نظر آتا ہے۔

ایک شہزادہ (مہینوال) ایک کمھار کی بیٹی (سوہنی) دامِ عشق میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ لڑکی (سوہنی) کے والدین اس کی شادی کسی اور سے کر دیتے ہیں۔ لڑکا (مہینوال) اس غم میں پہلے تو چرواہا بن جاتا ہے پھر فقیر کا بھیس بدل لیتا ہے اور اپنا سب کچھ تج کر دریا کی دوسری جانب سکونت اختیار کر لیتا ہے۔ رات کی تاریکی میں لڑکی مٹی کے گھڑے کی مد د سے دریا کو پارکر کے لڑکے سے ملنے آیا کرتی ہے۔لڑکی کی نند کو اس بات کا پتا چل جاتا ہے۔ ایک دن وہ پکے گھڑے کو کچے گھڑے سے بدل دیتی ہے۔ لڑکی اپنی نند کی اس چال سے لاعلم رہتی ہے۔ جب وہ حسبِ معمول دریا میں گھڑے کی مد د سے اترتی ہے۔ تو کچا گھڑا پانی میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ دریا کی تیز و تند لہریں اسے بہا لے جاتی ہیں۔ لڑکی کے چیخنے کی آواز سن کر لڑکا بھی دریا میں کودپڑتا ہے۔ دونوں موت کی آغوش میں پہنچ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک ہو جاتے ہیں۔

یہ ہے اس کہانی کی نشانیاتی ترتیب (Semiotic Order) جو اس کی افقی ترتیب (Syntagmatic Order) بھی ہے۔ نشانیاتی سطح پر یہ کہانی دوانسانوں کے روحانی ملاپ پر ختم ہو جاتی ہے۔ دریا کے ایک طرف شادی، بندھن اور سماجی ضابطے ہیں تو دوسری طرف سچّا پیار۔ دریا کے ایک طرف اگر مگر فریب اور دغا ہے تو دوسری طرف صداقت، ایثار اور ماورائی سکھ۔ دریا ایک ایسی روحانی قوت کا استعارہ ہے جو تمام ارضی اور مادّی حقیقوں کو فنا کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ جو لوگ رات کی پراسترایت اور اس کی تاریکی کا پردہ چاک کر کے اور دریا کی تیز و تند لہروں کے تھپیڑوں کو برداست کر کے دریا کی دوسری جانب پہنچتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں اور سچّا پیار اور ماورائی سکھ پاتی ہیں۔ کہانی کے متن کی افقی ترتیب میں ایک نشان دوسرے نشان کے ساتھ باہم متصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک علامت دوسری علامت کے ساتھ اس طرح مربوط اور جکڑی ہوئی ہے کہ پورا متن ایک علامتی سلسلہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ پوری کہانی میں خارج کی دنیا باطن کی دنیا کی علامت بن گئی ہے۔ اس کہانی کے متن میں افقی ترتیب کے علاوہ عمودی ترتیب (Paradigmatic Order) بھی صاف نظر تی ہے۔ دریا کے دونوں سمت تضاد (Contrast) ہے۔ کچّا گھڑا اور پکا گھڑا بھی دومتضاد علامتیں ہیں۔ ایک طرف رات کی پراسراریت، تاریکی اور دریا کی تیزوتند لہریں ہیں تو دوسری طرف ملاپ کا سکھ۔ اگر شہزادگی ہے تو فقیرانہ زندگی بھی ہے۔ مکروفریب ہے توصداقت، خلوص اور ایثار بھی ہے۔ یہ تمام چیزیں کہانی میں عمودی حیثیت کی حامل ہیں۔ مجموعی طور پر ’’سوہنی مہینوال‘‘ ایک ایسی عوامی کہانی ہے جس میں علامت سازی کا عمل حد درجہ وسیع اور متنوع ہے ، اس لیے اس کا نشانیاتی مطالعہ بیحد دلچسپی کا حامل ہے۔

اردو فکشن میں بھی ایسی بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں کہانی کاتانا بانا علامات کی مد د سے تیارکیا گیا ہے اور جونشانیاتی اہمیت کی حامل ہیں اور جن کا مطالعہ نشانیاتی نقطۂ نظر سے بخوبی کیاجاسکتا ہے۔ ایسی کہانیوں میں ’’سیتا ہرن‘‘ (قرة العین حیدر)، ’’آخری آدمی‘‘ (انتظار حسین) ’’نہ مرنے والا‘‘ (انورسجاد)، ’’لیمپ پوسٹ‘‘ (رشید امجد)، ’’دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ (سریندرپرکاش)، ’’سایہ‘‘ (بلراج کومل)، ’’آخری کمپوزیشن‘‘ (بلراج مینرا)، ’’ایک خوں آشام صبح‘‘ (غیاث احمد گدی)، ’’گاڑی‘‘ (خالدہ اصغر)، ’’زرد کشکول‘‘ (سمیع آہو جہ)، ’’کھنڈر‘‘ (افسرآذر) اور ’’نیا پل‘‘ (اعجاز راہی) خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں۔

 حواشی اور حوالے

 

           دیکھیے آل احمد سرور کا مضمون ’’اردو تنقید: ایک جائزہ‘‘ مشمولہ کچھ خطبے کچھ مقالے (آل احمد سرور)، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، ، 1996ء۔ ص: 20۔

         گوپی چند نارنگ، ساختیات، پس ساختیات اور مشرقی شعریات (دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، (1993ء)

         فرڈی نینڈی سسیور (Ferdinand de Saussure) کی یہ کتاب سب سے پہلے فرانسیسی زبان میں Course de Linguistique General کے نام سے 1916ء میں شائع ہوئی۔ بعد ازاں اس کتاب کا انگریزی زبان میں ترجمہ ویڈبیسکن Wade Baskin) نے Course in General Linguistics کے نام سے کیا جو 1959ء میں نیویارک سے شائع ہوا۔

         گوپی چند نارنگ، محولہ بالا کتاب، ص 46۔

         چارلز سینڈ رز پیپرس Charles Sanders Peirce کے نشانیاتی نظریے کے لیے دیکیے اس کی کتاب Collected Papers، جلد دوم (کیمبرج، میساچوسٹس، ہارورڈ یونیورسٹی پریس، 1931ء)۔

         شہریار، حصّے کی زمین (حصّہ اوّل)، علی گڑھ: ایجوکیشنل بک ہاؤس، 1999ء۔ ص 251۔

         ہرجیت سنگھ گل (Structuralism and Literary Criticism ) نئی دہلی: باہری پبلی کیشنز،1986ء) ص 44 تا49۔ (2001)

 

 

 

مصطفیٰ  کریم سے مکالمہ

منیر الدین احمد

 

مصطفیٰ کریم کا ایک افسانہ میں نے پہلی بار غالباً کینیڈا سے شائع ہونے والے مجلہ اردو انٹر نیشنل میں پڑھا تھا ، جو مجھے بے حد پسند آیا تھا اور میں نے دل میں سوچا تھا کہ ان کی مزید تخلیقات پڑھنی چاہئیں۔ چنانچہ جب بھی مجھے ان کا کوئی افسانہ مل جاتا تھا ، میں اس کو التزام سے پڑھتا تھا۔ مجھے پتہ چلا کہ وہ انگلستان میں مقیم ہیں اور میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ اس سے زیادہ معلومات مجھے میسر نہ تھیں۔ میں نہیں جانتا تھا کہ وہ کہاں کے رہنے والے ہیں اور کب سے یورپ میں رہائش پذیر ہیں۔ البتہ ان کے افسانوں سے میں اندازہ لگا چکا تھا کہ وہ انسانی سائیکی پر گہری نظر رکھتے ہیں اور ادب کے سنجیدہ قاری ہیں۔

 

ایک روز ڈاک میں اپنے نام ان کا خط دیکھ کر میں حیران اور بہت خوش ہوا۔ انہوں نے میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا اور اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ بھیجا تھا۔ یہ پندرہ سولہ سال قبل کی بات ہے۔ اس طرح ہمارے درمیان مراسلت کا سلسلہ قائم ہوا ، جو وقفوں کے ساتھ آج تک جاری ہے۔ ہماری ملاقات اب تک بالمشافہ نہیں ہوئی اور نہ ہی ہم نے کبھی ایک دوسرے کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کی ہے۔ میں یوں بھی لکھے ہوئے کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہوں۔ لکھی ہوئی بات پتھر پر لکیر کے مترادف ہے۔ انسان خطوط کو بار بار پڑھ سکتا ہے اور ان معانی پر غور کر سکتا ہے ، جو بین السطور پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ادیبوں کے خطوط کو اسی وجہ سے اہمیت دی جاتی ہے اور ان کی مد د سے ان کے ادب کو سمجھنے کی کوشش کی جا تی ہے۔

 

مصطفیٰ کریم کے خط اکثر مختصر ہوتے ہیں اور اصل مقصود سے متعلق ہوتے ہیں۔ ان میں کوئی زائد بات نہیں ہوتی۔ ان کی توجہ کا مرکز افسانے کا فن ہے اور ہمارے درمیان اس موضوع پر مکالمہ چل رہا ہے۔ چنانچہ جب میں نے ان کو اپنی کتاب پیٹر بخسل : کہانیاں ، افسانے ، خطبات بوطیقا ) پنجاب بکڈپو۔ لاہور۔1995بھیجی ، تو انہوں نے اپنے خط میں لکھا: میں نے سارے مندرجات پڑھ ڈالے۔ آپ کا تعارفی مضمون بہت اچھا ہے۔ اس سے پیٹر بخسل کے فن کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اس کے افسانے پڑھنے کے بعد یہ ضرور خیال آتا ہے کہ افسانوں میں حقیقت کیا ہے۔ میری حقیر رائے میں ہر افسانے کا کوئی ایک واقعہ یا کر دار اہم ہوتا ہے۔ اس کے گرد مصنف دیگر واقعات یا کر داروں کے تانے بانے بنتا ہے۔ وہ خیالی ہوتے ہیں اور جو خیالی ہونے کے باوجود قاری کو سچ محسوس ہوتا ہے۔ یہ لکھنے کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ زمین گول ہی میں بعض واقعات بالکل ہی ناقابل یقین ہیں۔ افسانے کی توانائیوں میں اختصار بہت اہم ہے اور وہ بخسل کی کہانیوں میں موجود ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر ملک کے افسانے میں اس ملک کی ادبی روایتوں کی وجہ سے ایک مخصوص مزاج ملتا ہے۔ اس کا احساس بھی بخسل کے افسانوں میں ہوتا ہے۔  (17 جولائ 1995)

 

اس موضوع کی طرف مصطفیٰ کریم دوسال کے بعد لکھے جانے والے ایک خط میں لوٹتے ہیں۔

  زمین گول ہے میں اسی سالہ بوڑھا بہت سارے منصوبے محض زمین کی گولائی ثابت کرنے کے لئے بناتا ہے اور آخر میں سامنے کسی کے مکان پر سیڑھی لگا کر چڑھتا اور پھر غائب ہو جاتا ہے۔ اگر یہ تسلیم کر لیں کہ وہ شخص ضعیفی کی وجہ سے سٹھیا گیا ہے ، پھر اس کی ساری کارگذاری درست ہے۔ لیکن ایک عام سنجیدہ اردو ادب کا قاری اس واردات کو قبول نہیں کر سکے ) گا)۔ چونکہ سارے افسانے میں کوئی اور ایسا نکتہ نہیں ہے ، جو اس کی نیم دیوانگی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

 

جولائی 1997میں نے اپنے ایک خط میں پیٹر بخسل کے بارے میں لکھا تھا : پیٹر بخسل کے افسانے ، جن کو وہ بچوں کے لئے افسانے کہتا ہے ، البتہ بچے اس کی نظر میں پانچ سے اسی سال کے ہو سکتے ہیں۔ مجھے اس کہانیوں میں بہت کچھ ملتا ہے۔ ضروری تو نہیں کہ ہر کہانی مقصدی ہو۔ مجھے اس کا کھلنڈرانہ انداز اچھا لگتا ہے۔ 22) جولائی- 1997)

 

اسی نکتے کو میں نے ایک خط میں ذیل کے الفاظ میں پیش کیا : ایک چیز، جس کو اکثر ناقد نظر انداز کرتے ہیں ، مگر جو میرے نزدیک اہم ہے ، وہ یہ ہے کہ ادیب لکھتے ہوئے ایک کھیل کھیل رہا (ہوتا)ہے۔ وہ اپنے کھلنڈرانہ انداز میں بات سے بات نکالتا چلا جاتا ہے۔ اس چیز کو پیٹر بخسل نے خوب سمجھا ہے۔

 

اس کے افسانوں میں یہ کھیل ایک ایسا رخ اختیار کر لیتا ہے کہ کہانی قائم رہتے ہوئے بھی غیر اہم بن جاتی ہے۔میں نے یہ دیکھا ہے کہ جوانی کے دنوں میں مجھے اس کھیل میں زیادہ مزا آتا تھا۔ اب میری تحریر میں یہ عنصر کم ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم میں اس سے بالکل تائب نہیں ہونا چاہتا۔ ہم لکھتے ہیں ، جیسے دوسرے لو گ تاش کھیلتے یا ویڈیو دیکھتے ہیں۔ (24 جون 1998 ء)

 

میری جرمن افسانوں کے انتخاب کی کتاب آدمی جس نے اپنے آپ کو بھلا دیا۔ جرمن کہانیاں سنگ میل پبلشر۔ لاہور۔ 1995ء کے بارے میں مصطفیٰٰٰ کریم نے تحریر کیا: جرمن افسانے کے چند تراجم پڑھ چکا ہوں۔ یہ سب بہت اچھے افسانے ہیں۔ خاص کر ان میں جو تہہ داریاں ہیں وہ خوب ہیں۔ لیکن اردو افسانے کے قاری کا اس وقت جو مزاج ہے مجھے شبہ ہے کہ وہ اس تہہ داری کو محسوس کرے گا۔

 

9 جنوری 1996ء کو اس کتاب کی طرف جناب مصطفیٰٰ کریم اپنے اگلے خط میں لوٹے ، جو کئی ماہ کے وقفے کے بعد میرے نام لکھا گیا۔

 

آپ کے عمدہ جرمن افسانوں کے انتخاب ‘آدمی جس نے اپنے آپ کو بھلا دیا’ ابھی حال میں پڑھا۔ یہ ایک طرح اچھا ہی ہوا۔ چونکہ میں نے جس طرح ابھی اس کا لطف حاصل کیا، وہ پہلے ممکن نہ تھا۔ دو ہفتے قبل روزنامہ گاریجین میں آٹھ جرمن ناولا پر ایک مختصر تبصرہ میں نے پڑھا ، جس میں لکھا تھا کہ جدید ادب کا آغاز ان ناولا کے مصنفوں سے ہوتا ہے۔ کتاب خریدنے کی جد و جہد کی تو علم ہوا کہ اسٹاک ختم ہو چکا ہے۔ ادھر میں خود بھی اپنے افسانوی اسلوب سے غیر مطمئن ہونے لگا ہوں۔ اس لئے اکثر سوچتا رہتا ہوں کہ اپنی تخلیق میں جدت طرازی کس طرح لاؤں ، جو اب میرے لئے آسان نہیں ہے۔ نتیجتاً آپ کا انتخاب کھولا، جس میں سبھی اچھے افسانے ہیں اور بعض تو بہت عمدہ ہیں۔ مبین مرزا نے ان پر جو تبصرہ حالیہ ارتکاز میں کیا ہے ، وہ بھی تشنہ اور جرمن ادب سے ناآشنائی کا اظہار کرتا ہے۔ اس میں ان کا قصور بھی نہیں۔ اردو انحطاط پذیر معاشرے کی زبان ہے اور پاکستان میں شرح تعلیم صرف 20۔25 فیصد ہے۔ اس میں ادب شناسی کو وہ مقبولیت نہیں مل سکی ، جس کی وہ مستحق ہے۔(18 جون 1997ء)

 

جولائی 1997ء والے خط میں جناب مصطفیٰٰ کریم نے یواخیم زائیپل کے افسانے شہر س میں کے بارے میں لکھا ، جو میری کتاب آدمی جس نے اپنے آپ کو بھلا دیا۔جرمن کہانیاں ( سنگ میل پبلیکیشنز۔ لاہور۔ 1995ء میں شامل ہے :

 

شہر س میں افسانے میں غلط فہمی مرکزی خیال ہے اور اس کے گرد  افسانہ بہت کامیابی سے گردش کرتا ہے۔ یہ خیال ضرور آتا ہے کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں کیا کوئی عام انسان اس حد تک ناسمجھ ہو سکتا ہے کہ بجائے س کے وہ ب میں اتر جائے اور اسے اپنی غلطی کا فوراً احساس نہ ہو۔ ظاہر ہے یہ متنازعہ نکتہ ہی (14 جولائی1998ء)

 

میں نے اس کے جواب میں لکھا :

آپ نے یواخیم زائیپل کے افسانے س میں اس خامی کا ذکر کیا ہے کہ کون اس قدر ناسمجھ ہو سکتا ہے کہ بجائے س کے ب میں اتر جائے۔ غالباً   آپ کو غلط اسٹیشن پر اترنے کا اتفاق نہیں ہوا۔ میں اس چیز کو قابل تصور جانتا ہوں ، بلکہ اگر ایسا ممکن نہ بھی ہو ، تو میں انسانی غلط فہمی کو جائز سمجھتا ہوں۔ اس افسانہ میں دراصل تبصرہ کیا گیا ہے انسانوں کے اندر پائی جانے والی کمزوری پر ، جو انہیں غلط فیصلہ کرنے پر اکساتی ہے۔ یہ افسانہ بہت سیاسی ہے اور جرمن قوم کے کر دار پر تبصرہ کے مترادف ہے ، جو اتنی آسانی کے ساتھ غلط قدم اٹھاتی ہی۔ (22 جولائی)

 

اسی کتاب کے افسانوں بھیدی اور تجربہ کے بارے میں مصطفیٰٰ کریم نے لکھا : علامت نگاری اور جدت طرازی کی وجہ سے اکثر مجھے خیال آتا ہے کہ افسانے میں Plausibility ختم ہو جاتی ہے۔ مثلاً آپ کے انتخاب میں افسانہ بھیدی میں قاتل ایک اجنبی پر بھروسہ کر لیتا ہے اور نہ اس  کے سامنے سے فرار ہونے کی کوشش کرتا ہے اور نہ ہی اپنا جرم چھپاتا ہے۔ اسی طرح افسانہ تجربہ میں پیچھے کی جانب بھاگنا بھیPlausible نہیں محسوس ہوتا۔ (۱۸ جون میں نے اس کا جواب دیتے ہوئے لکھا :

 

آپ نے میری کتاب کے افسانوں بھیدی اور تجربہ کے بارہ میں کہا ہے کہ وہ ناقابل یقین لگتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ بھیدی میں مصنف نے صرف اس بات کی طرف اشارہ کر نا چاہا ہے کہ معمولی جرم کرنے والا اپنے بھید کو چھپانا چاہتا ہے اوراس سے بڑا جرم کرنے والا اس بھید کا راز افشا نہ کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ اس چیز کو آپ absurdity بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس نکتہ کی خاطر اس نے یہ کہانی گھڑی ہے۔ میں نے ایک دفعہ اس کی مثال گفتگو میں شوکت صدیقی کے سامنے پیش کی ، تو انہیں یہ بات اچھی لگی تھی۔ انہوں نے اردو ادب میں سے ایک کہانی کا حوالہ بھی دیا تھا۔ تجربہ کے اندر بات دراصل وہ کہی جا رہی ہے ، جس کا سارے افسانے میں ذکر نہیں ہے۔ افسانہ نگار اپنے وقتوں میں ہونے والی تبدیلیوں پر تبصرہ کر رہا ہے۔ اسے پتہ ہے کہ یہ بات ناممکن ہے ، جو وہ بیان کر رہا ہے ، مگر کیا ہمارا واسطہ آئے دن ناممکن چیزوں کے ساتھ نہیں پڑتا۔ (24 جون)

 

ابھی حال میں ہی میں نے اپنے گاوں میں ایک بچی کو اسکول سے گھرواپس جاتے ہوئے دیکھا ، جو پچھلے پاؤں چل رہی تھی۔ اسی حالت میں اس نے سڑک کو عبور کیا اور اپنے گھر تک یوں ہی چلتی رہی۔ کیا یہاں پر تجربہ کی کہانی کا عملی ثبوت نہیں مل جاتا؟

 

افسانے میں Plausibility کا ہونا مصطفیٰٰ کریم کے نزدیک بہت اہم ہے۔ اس چیز کا ذکر ان کے ایک مضمون میں بھی ملتا ہے :

میں نے افسانوں میں Plausibility کو بہت اہمیت دی ہے۔ یہ صرف میری رائے نہیں ، بلکہ اکثر و بیشتر ناول اور افسانوں کے مبصروں کی آراء ہیں۔ منٹو یقیناً بہت بڑے افسانہ نگار تھے۔ پھر بھی ان کے دیگر افسانوں میں بھی اس عنصر کی کمی ہے۔ ممکن ہے اس موقعے پر اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ افسانہ فکشن ہے اور اس میں سچائی یا Plausibility کی تلاش غلط ہے اور اس میں کر داروں کی درست شکل دیکھنی ہے ، تو اخبار یا سوانح عمری پڑھئی۔ (مصطفیٰٰ کریم: افسانہ۔ قدیم؟۔ جدید؟۔ قومی زبان۔ دسمبر 1994 ء ص 27۔28)

 

میں افسانے میں کہانی کو بہت اہم سمجھتا ہوں۔ اس بارے میں میں نے اپنے ایک خط میں لکھا: میرے نزدیک کہانی سب سے اہم ہے۔ اس کے بغیر افسانہ بانجھ رہ جاتا ہے اور پڑھا نہیں جاتا۔ اگرچہ جدیدیوں کا ایک اصول ہے کہ جس قسم کی زندگی پر ہم لکھ رہے ہیں ، وہ بسر نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے اس پر لکھی جانے والی تحریرایسی ہونی چاہیئے کہ پڑھی نہ جا سکی۔(24 جون )

 

ایک اور بات ،جس کی طرف مصطفیٰٰ کریم بار بار لوٹتے ہیں ، یہ ہے کہ مختصر افسانہ ایک یا دو کر داروں کا متحمل ہوتا ہے۔ کر دار اگر اس میں زیادہ ہوں ، پھر ان کے ساتھ طویل افسانے ہی میں انصاف ممکن ہی۔( افسانہ۔ قدیم؟۔جدید؟۔ قومی زبان۔ ص 23)

 

میں ان کی بات کو درست مانتے ہوئے بھی ان سے اختلاف کرتا ہوں ، کیونکہ بعض اوقات یہ چیز ناگزیر بن جاتی ہے۔ میں نے انہیں لکھا تھا:

 

۔۔۔ ایک سے زیادہ کر داروں کے سہارے سے ایک اکائی کا افسانہ لکھنے کا تجربہ بھی میں نے کیا ہے۔ میرے ایک غیر مطبوعہ افسانہ بنت حرام میں احمد ندیم قاسمی یہ دھوکہ کھا گئے کہ میں نے ایک لڑکی کے ذکر سے افسانے کا آغاز کیا تھا اور اب اس سے محبت یا کوئی دوسرا تعلق دکھایا جانا چاہئیے۔ جب کہ میں اس افسانے میں اس لڑکی کے بھائی کو مرکزی کر دار بنا کر پیش کر رہا تھا۔ قاری کو اس بات کا پتہ آخر میں جا کر چلتا ہے۔ (22 جولائی )

 

ارو ادب کے نقادوں کے الٹ ہم دونوں کے درمیان اس بارے میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ بیانیہ افسانے کا نقص نہیں ہے۔اس بارے میں ان کی رائے ملاحظہ ہو: اردو ادب کے سبھی نقاد بیانہ کو مختصر افسانے کا نقص بتاتے ہیں۔ بیانیہ یا narration کم و بیش سبھی افسانوں میں ہوتا ہے۔ اگر بیانیہ میں واقعات نہ ہوں ، تو وہ بے جان ہے۔ (18 جون)

 

میں نے اس بارے میں لکھا : بیانیہ کو افسانے کا نقص قرار دینے والوں کی عقل میں کوئی حرج ہے۔ آغا بابر نے میری کتاب کے پیش لفظ میں کیا خوبصورت بات کی ہے۔ لکھتے ہیں :کہانی کہنے کا بھی سلیقہ اور فن ہوتا ہے۔ جس کا خوبصورت چوکھٹا بیانیہ کی صداقت اور آرائش سے بندھتا ہے۔

 

میرے نزدیک افسانہ پڑھے جانے کے قابل ہونا چاہیئے ، یعنی ایسا ہونا چاہیئے ، جو اپنے آپ کو پڑھوائے۔ کیا وجہ ہے کہ انور سجاد آج کل نہیں لکھ رہے۔ اس لئے کہ کوئی ان کا افسانہ نہیں پڑھ سکتا۔ ( 22 جولائی)

 

اس کے جواب میں مصطفی کریم نے لکھا:  جہاں تک علامت نگاری کا تعلق ہے میں آپ سے اس نکتے پر متفق ہوں کہ علامتی افسانوں سے ان افسانوں کی Readability ختم ہو جاتی ہے۔ گو انور سجاد اپنے علامتی افسانوں کی وجہ سے کافی مشہور ہوئے۔ لیکن ان کے افسانوں کے مجموعے میں سوائے کارڈیئک دمہ کے دوسرے افسانے میں نہیں سمجھ سکا۔ ( 3 اگست )

 

میں نے علامتی افسانے پر اپنے اگلے خط میں یہ تبصرہ کیا: میری نظر میں علامتی افسانہ ختم ہو چکا ہے۔ اس کے اندر اگر توسیع کے امکانات تھے ، تو ان سے فائدہ نہیں اٹھا یا گیا۔ اگر افسانہ پڑھا نہیں جا سکتا یا اس کا مفہوم قاری کے پلے نہیں پڑتا ، تو پھر افسانہ کی جانکاری کیسے ہو۔ (7 اگست)

 

بیانیہ کے حوالے سے مصطفیٰٰ کریم نے میرے ایک افسانے پر یوں تبصرہ کیا : آپ کا افسانہ نقد سودا مجھے پسند آیا۔ چونکہ اس میں دلکش بیانیہ ہے۔ ایسا بیانیہ جس میں مسلسل حرکت یا ایکشن ہو وہی موزوں ہے۔ جہاں کر داروں کا بیانیہ میں تعطل ہوتا ہے ، وہ نقص ہے۔ اسے کسی اردو کے نقاد نے اب تک بیان نہیں کیا ہے۔ میں اس شہر کے ایک رائٹر کلب میں جایا کرتا تھا ، وہاں اس نکتے پر زور دیا گیا تھا۔آپ کی کہانی میں یہودی اور مسلمان عرب کی انتہائی کمزوری کو بغیر کسی اصرار کے نمایاں کر دیا گیا ہے اور شروع سے آخر تک ایک سسپنس سا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک فنی حسن ہے۔ (4 ستمبر)

 

میں نے اپنے کسی خط میں لکھا تھا کہ مجھے بیشتر اردو افسانے پسند نہیں آتے۔ اس لئے انہوں نے اسی خط میں مجھ سے استفسار کیا کہ جب آپ کسی افسانے سے متاثر ہوتے ہیں ، تو اس کے کن پہلوؤں پر آپ کی توجہ مائل ہوتی ہے اور کیوں ؟

 

میں نے اس کے جواب میں لکھا: جہاں تک میں نے غور کیا ہے یہ چیز کسی فارمولے کے بغیر ہے۔ مجھے بعض اوقات افسانے کی زبان اپنی طرف کھینچتی ہے۔ دوسری بار پلاٹ اور کہانی کہنے کا طریق۔ میں ایسے افسانے بالکل نہیں پڑھ سکتا ، جو بور کرنے کے لئے لکھے جاتے ہیں۔ انور سجاد کے بعض افسانے اس تعریف کے تحت آتے ہیں۔ سب سے زیادہ مجھے کہانی میں دلچسپی ہے اور اس امر میں کہ مصنف نے اس کو کس رنگ میں پیش کیا ہے۔ اگر افسانے میں کوئی نکتہ پیدا کیا گیا ہے ، تو پھر میری توجہ ضرور اس طرف جاتی ہے کہ یہ بات کس قدر ہنر مندی سے کہی گئی ہے۔ بعض اوقات لوگ کچھ کہنا چاہتے ہیں ، مگر الفاظ کی بھول بھلیوں میں ایسے گم ہوتے ہیں کہ قاری کے پلے کچھ نہیں پڑتا۔ پھر یہ بات مجھے پسند نہیں ہے کہ تصنع برتا جائے اور جان بوجھ کر پیچیدگیاں پیدا کی جائیں۔ مجھے شوکت صدیقی نے کہا تھا کہ ہمارے ہاں بعض علامت نگار یہ کرتے ہیں کہ کہانی لکھنے کے بعد اس کے بعض ٹکڑے کاٹ دیتے ہیں تا کہ قاری کو محنت کرنی پڑی۔ (8 جنوری )

 

اس سلسے میں مصطفیٰ کریم نے لکھا: آپ نے افسانے کی پسندیدگی کے سلسلے میں جو نکات لکھے ہیں کم و بیش وہی میرے ذہن میں بھی ہیں۔ لیکن میں افسانے میں Plausibility کو بھی کافی اہمیت دیتا ہوں۔ ابھی حال میں مقصود الہیٰ شیخ کا افسانہ میں نے پڑھا۔ اس میں افسانے کی ایک مرکزی کر دار گاؤں میں رہنے والی جا ہل عورت ہے ، جو زنا بالرضا میں ملوث ہوتی ہے۔ اچانک وہ بریڈ فورڈ میں انگریزی کا اخبار پڑھتی پارٹی میں پائی جاتی ہے۔ فنون میں سعید ہمدانی کا افسانہ بھی بہت خراب ہے۔ رفعت مرتضیٰٰ کا افسانہ کافی اچھا تھا۔ لیکن اس میں مرکزی کر دار بچے کا رات کے وقت اور وہ بھی برفباری میں فوجی بیرک میں فوج کے گھوڑوں کے اصطبل میں جا کر گھوڑوں کے درمیان سو جانا مجھے نا اعتبار محسوس ہوا۔ اسی طرح فرحت پروین کے افسانے جنک یارڈ میں پاکستانی امریکن کر دار جس کی پاکستانی بیوی مذہبی بھی ہے۔ ان کا اپنے والدین کو ،جو پہلی بار رہ جانے کے لئے امریکہ پہنچے ہیں ، انہیں بجائے اپنے گھر میں چائے وائے پلانے کے سیدھے اس گھر میں لے جانا ،جسے بیوی نے ان کی رہائش کے لئے خرید لیا ہے ، مجھے بہت contrived اور پاکستانی قاری کو خوش کرنے کے لئے ایک لکھائی محسوس ہوئی۔ (23 جنوری)۔

 

میں نے اس کے جواب میں لکھا: رفعت مرتضیٰ اور فرحت پروین کے افسانوں کے بارے میں میری وہی رائے ہے ، جو آپ نے قائم کی ہے۔ دونوں ناکام افسانے ہیں۔ بہت دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ نے سید احمد سعید ہمدانی کے افسانے کو بہت خراب قرار دیا ہے۔ یہ بات میں نے بہت پہلے ، افسانہ کے چھپنے سے بھی پہلے ، ہمدانی صاحب کو لکھ دی تھی کہ افسانہ میری پسند کی چیز نہیں ہے ، مگر پاکستانی قارئین اس کو سراہیں گے۔ اس پر انہوں نے مجھے احمد ندیم قاسمی کا خط بھیج دیا ، جس میں افسانے کی تعریف کی گئی تھی۔ آپ کو شاید اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں بھی اس افسانے کا کر دار ہوں۔ میرے ذریعہ ہی ہمدانی صاحب کا رابطہ اس محترمہ سے ہوا تھا اور میرے پاس ہی ہمدانی صاحب آئے تھے اور میں ہی انہیں بریمن میں محترمہ سے ملانے کے لئے لے کر گیا تھا۔ پاکستان میں لوگوں کو ایسی چیزیں پسند ہیں ، جن میں واعظ کی طرح انگلی اٹھا کر نصیحت کی جائے۔ ایسے افسانے قدسیہ بانو نے بھی لکھے ہیں۔ میں نے ان سے تو نہیں کہا ، مگر ندیم صاحب سے کہا تھا کہ آپ کیوں ایسے افسانے چھاپ دیتے ہیں۔ قدسیہ بانو کے ایک افسانے میں ایک کر دار دنیا جہان کے گناہوں کا ارتکاب کرنے کے بعد اپنے گھر کے محافظ کی تسبیح اٹھا کر گھر میں لوٹ جاتا ہے اور گویا اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں۔آج ہی ڈان میں محترمہ بینظیر بھٹو اپنے بچوں کے ساتھ اور ایک لمبی تسبیح کو اٹھائے ہوئے دکھائی گئی ہیں۔ یہ لوگ دنیا کی نظروں میں دھول جھونکتے ہیں۔ عرب تو مشغلہ کے طور پر تسبیح کو ہاتھ میں رکھتے ہیں ، جیسے ہمارے ہاں پنجاب میں دیہاتی بٹیرا ہاتھ میں اٹھائے پھرتے تھی۔(27 جنوری )

 

ہم اپنے خطوط میں ایک دوسرے کے ادب پاروں پر تبصرہ کیا کرتے ہیں ، جو عام طور سے ہم تک محدود رہتا ہے ، کیونکہ ہم اپنی آراء کو متعلقہ رسالوں میں چھپنے کے لئے نہیں بھیجتے۔ ہندو پاک میں اپنے حلقہ احباب سے تعلق رکھنے والوں کے حق میں تعریفی خطوط چھپوانے کی بری رسم چل نکلی ہے۔ جس کے سبب غیر جانبدارانہ بات کہنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔ میرے افسانہ رچرڈ رائٹ کے بارے میں مصطفیٰ کریم کا رد عمل ملاحظہ ہو: کچھ دن پہلے شہر زاد کا دوسرا شمارہ میرے پاس آیا ، تو اس میں آپ کا افسانہ رچرڈ رائٹ پڑھا۔ افسانے کا منطقی ارتقاء اور انسانیت کی رمق اور ایک ہلکا سا ابہام ، جو درد مندی کی جانب اشارہ کرتا ہے۔ ان سب نے مجھے متاثر کیا۔ ( ۵ دسمبر )

 

اس سے قبل مصطفیٰ کریم نے میرے افسانے شناخت کے بارے میں لکھا تھا: ستمبر کا شب خون میرے پاس نہیں آیا۔ اکتوبر کا آیا ہے ، جسے میں روانہ کر رہا ہوں۔ آپ کی کہانی رواں اور اس میں ڈبورنک ایک نئی جگہ نئے کر داروں سے ہم آہنگ محسوس ہوتی ہے۔ جہاں میں نے  نشانات لگائے ہیں ، وہاں مجھے واقعات کی صحت یا Plausibility پر ذرا شبہ ہوا۔ بعد میں مجھے وہ درست محسوس ہوئے۔ البتہ میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ شدید بدہضمی کی وجہ سے دونوں کر داروں کو ایک دوسرے کی شناخت کس طرح ہوئی۔ (23 جنوری)

 

اس کے جواب میں میں نے لکھا: آپ نے میرے افسانے شناخت کے بارے میں لکھا ہے کہ شدید بد ہضمی کی وجہ سے دونوں کر داروں کو ایک دوسرے کی شناخت کس طرح ہوئی؟ آپ اس افسانے کو پھر ایک بار پڑھیں۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ فرنسواز اپنا تشخص چھپانا چاہتی ہے۔ مگر جب وہ اپنی خود ساختہ کہانی سناتی ہے ، تو میرے دل میں پہلی بار شبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی کہانی سنا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں اس کا یہ کہنا اہم ہے کہ پل کی عثمانی قوس دراصل رومن قوس کی ترقی یافتہ صورت تھی۔ چونکہ میں جانتا تھا کہ یہ بات وہی کہہ سکتا ہے ، جو آرکیٹکٹ ہو یا کم از کم تعمیری معاملات میں دسترس رکھتا ہو۔ پھر جب ڈوبرونک میں موریس اور میدلین کے ساتھ ملاقات ہوتی ہے اور غذائی زہریت کو فرانسواز میدلین کی شرارت قرار دیتی ہے ، جو موریس کو اپنے قبضہ میں کرنا چاہتی ہے ، تو بات کھل جاتی ہے کہ موریس ہی فراسواز کا خاوند ہے۔ اس طرح گویا فرانسواز کی شناخت کا راز کھل جاتا ہے۔ (27 جنوری )

 

جب نیا ورق ، ممبئی، کے مدیر سجاد رشید نے میرا افسانہ ولی مجھے اس ریمارک کے ساتھ واپس بھیج دیا کہ اس میں مکالمہ نہیں ہے ، تو میں نے اس کے بارے میں مصطفیٰ کریم کی رائے معلوم کرنے کے لئے وہ افسانہ ان کی خدمت میں بھیجا۔ ان کا جواب ملاحظہ ہو:

اس میں حسب ذیل خوبیاں ہیں۔ (1)۔ رضوان کا تعلق ایک ایسے ملک اور معاشرے سے ہے ، جو اردو قاری کے لئے اجنبی ہے۔ اس کے لئے Exotic کا لفظ استعمال کرتے ہیں ، جس کا نعم البدل اردو میں نہیں۔ (2)۔ افسانے میں بلا کی روانی ہے اور تمام اہم اور جزوی واقعات میں بیساختہ پن ہے۔ کہیں شبہ نہیں ہوتا کہ مصنف انہیں زبردستی گھڑ رہا ہے۔ (گو افسانہ لکھنے کے لئے واقعات گھڑنے پڑتے ہیں )۔(3)۔ رضوان کا کر دار عمدہ ہے۔ وہ زلیخا کو جسمانی طور پر حاصل کرنے کے بعد بھی اس کی محبت میں اس حد تک خود کو مبتلا پاتا ہے کہ آخر میں خود کشی کر لیتا ہے۔ (4 ) افسانہ جہاں پر ختم ہوتا ہے وہ انسان کی معصومیت کا المیہ ہے اور ایک بھر پور طنز بھی۔ دونوں نکات فنی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔

 

اب چند سوالات جو تنقید نہیں بلکہ اپنے آپ سے خود کلامی ہے اور جوابات کی تلاش بھی۔

 

(1) افسانے میں تین کر دار ہیں۔ راوی ، رضوان اور زلیخا۔ راوی اور رضوان کی داخلی زندگی کا علم تو ہو جاتا ہے ، لیکن زلیخا کی بابت پتہ نہیں چلتا۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ اگر ہم مکرانیوں کو جانب پاکستانیوں کی بیگانگی اور نسل منافرت زیر نگاہ لائیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے کہ زلیخا ایک حبشی کو اپنی جانب متوجہ پا کر کیا سوچتی ہے ؟ اس کا جواب میں بھی نہیں دے سکتا۔ چونکہ حال میں جدید امریکن افسانوں کا جو انتخاب میں نے پڑھا اس میں بیشتر افسانوں میں کر داروں کی سوچ و فکر سرے سے تھی ہی نہیں۔ تشبیہ اور استعارے بھی نہیں تھے۔ سیدھا سادا بیان تھا۔ وہ بیانیہ نہیں جس میں تعطل ہوتا ہے اور جسے افسانے کا نقص قرار دیتے ہیں۔ (6 جولائی 1998ء)

 

مصطفیٰ کریم نے مجھے اپنا ناول بھیجا ، تو میں نے اس کے بارے میں رائے دیتے ہوئے لکھا: آپ نے اپنا ناول بھیجا ہے ، جس کو میں نے اسی ہفتے میں پڑھ ڈالا تھا۔ مجھے وہ بہت پسند آیا۔ مگر چونکہ مجھے یوں لگا تھا ، جیسے اس کی کہانی میں جھول آ گیا ہو ، اس لئے میں نے سوچا کہ اسے دوسری بار پڑھوں گا۔ یہ دوسری بار آتے نہیں آتی۔ اس دوران میں آپ کا افسانہ شاعر میں پڑھا ، جس میں آپ نے ایک عورت کے جذبات کی خوبصورت تصویر پیش کی ہی۔آپ نے اپنی کہانی میں یہ رخ بھی دکھایا ہے کہ ایشین یا کالے کے ساتھ شادی کا انجام بھی برا نکل سکتا ہے۔ مگر اس سے زیادہ اہم بات تو یہ تھی کہ اس عورت کو اپنی آزادی سے فائدہ اٹھانے کا موقعہ نہیں ملتا۔ آپ کے ناول کو میں نے آج پھر دیکھا ہے۔ میرا سابقہ تاثر درست نہیں تھا۔ (یکم جولائی)

 

مجھے انٹرنیٹ پر ڈان میں چھپنے والی ایک خبر سے پتہ چلا تھا کہ مصطفیٰ کریم ایک تاریخی ناول لکھ رہے ہیں۔میرے اس بارے میں استفسار کے جواب میں انہوں نے لکھا: آپ کی اطلاع درست ہے۔ میں 1857ء بنگال کے انتہائی ہنگامی اور اہم دور پر ناول لکھ رہا ہوں۔ کر داروں میں سراج الدولہ ، ان کے دو اہم افسر ، میر جعفر ، کلائیو، سراج ا الدولہ کی بڑی خالہ گھسیٹی بیگم، اس کی بیوی اور داشتہ ہیں۔ میری کوشش ہے کہ ان کو خوبیوں اور برائیوں کے ساتھ پیش کروں۔ اس دور کی تاریخ پر برٹش لائبریری سے کافی کتابیں مل گئیں۔ ان میں سے واقعات کے علاوہ کر داروں کے مختلف پہلوؤں کے خاکے ذہن میں آئے ہیں۔ ڈھانچہ تیار ہو گیا ہے۔ اب مختلف ابواب کو مکمل شکل دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ناول کے تقاضوں کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے مرشد آباد اور پلاسی کے جنگ کے میدان کو بھی دیکھ آیا ہوں۔ دو دشواریاں ایسی ہیں ، جن کا حل میرے ذہن میں نہیں آتا۔ کتابیں اب نہیں بکتیں۔ ناشر پیسے لے لیں گے۔ اس کے بعد ان کی بلا سے کتاب بکتی ہے یا نہیں۔ نیز وہ خطوط کا جواب نہیں دیتے۔ دوسری دشواری یہ ہے کہ روشن خیالی اور تحمل پاکستان کی اردو دنیا سے رخصت ہو چکا ہے۔ اس لئے میرے ناول میں اگر کسی ہندو کو میں نیک انسان یا دلیر پیش کرتا ہوں یا کوئی ہم جنسی کا پہلو ناول میں ہے تو قارئین اور ناقد انہیں پسند نہیں کریں گے۔ میرے ایک اچھے مذہبی دوست کا اصرار ہے کہ سراج الدولہ کا زوال ہندوؤں کی وجہ سے ہوا۔ یہ نکتہ تاریخ کے اعتبار سے بالکل غلط ہے۔ سراج الدولہ کے نانا علی وردی خان نے اپنے دور حکومت میں بنگال میں گائے کی قربانی بند کر دی تھی۔ اس کے علاوہ اس کے بھتیجے جو مختلف جگہوں یا ریاستوں کے نواب تھے ، وہ ہندوؤں کے ساتھ مل کر ہولی کھیلتے تھے۔ ناول کا کینوس چونکہ وسیع ہوتا ہے ، اس لئے تہذیب کی مختلف جھلکیوں کو پیش کرنا پڑتا ہے۔ اب اگر ڈر ہو کہ قاری کی حسیات مجروح ہوں گی۔ پھر قلم میں رکاوٹ آنے لگتی ہے۔ بہر حال دیکھیں کیا ہوتا ہی۔ ( 21 مارچ )

 

چند ماہ بعد اس ناول کے بارے میں مصطفیٰ کریم نے میری رائے پوچھنے کے لئے مجھے لکھا: مجھے اپنی تخلیق کے سلسلے میں آپ کے آراء کی ضرورت ہے۔ اگر آپ ان کا اظہار بذریعہ خط کر دیں تو مہربانی ہو گی۔ آئندہ کے حالیہ شمارے میں میرے زیر تحریر ناول کا پہلا باب شائع ہوا ہے۔ یہ رسالہ آپ کے پاس غالباً  آتا ہے۔اگر آپ میری تحریر کو پڑھنے کی زحمت گوارا کریں اور پھر مجھے بتائیں کہ اس میں بڑے ناول کی اٹھان ہے یا نہیں ؟ نیز Atmosphere بنانے کے لئے میں نے لباس اور دیگر آرائش کا جو ذکر کیا ہے کیا وہ موزوں محسوس ہوتا ہے ؟ اس کے علاوہ دو ثانوی کر داروں کی جو تفصیل میں نے بیان کی ہے وہ فنی اعتبار سے نقص تو نہیں۔ (31 جولائی)

 

میں نے اس کے جواب میں لکھا: آپ کا 31 جولائی کا خط بہت دنوں سے آیا پڑا ہے میں نے سوچا کہ آپ کے ارشاد کے مطابق آپ کے ناول کا باب طوفان کی آہٹ ایک بار نہیں دو تین بار پڑھوں تاکہ اطمینان سے رائے دے سکوں۔ پہلی بار پڑھا تو مجھے تھوڑی سی الجھن ہوئی ، کیونکہ میں فوری طور پر نہ سمجھ پایا تھا کہ معاملہ کیا تھا۔ یہ بات ناولوں سے مختص ہے اور مجھے پتہ ہے کہ آگے پڑھتے چلے جانا چاہئیے معاملہ خود بخود کھل جائے گا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ باب کو مکمل کرنے سے پہلے میں اصل مسئلہ سمجھ چکا تھا۔ دوسری بار پڑھا تو شروع سے لطف اندوز ہوا۔ جناب کو یہ کیسے خیال آیا کہ اس میں کوئی خامی رہ گئی ہے۔ مجھے اس میں بڑے ناول کے امکانات نظر آتے ہیں۔آپ نے لباس وغیرہ کا ذکر بہت مناسب رنگ میں کیا ہے۔ دونوں ثانوی کر دار بھی کہانی کے اندر فٹ آتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ مجھے اس باب کو پڑھتے ہوئے آپ پر رشک آیا۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا ناول ایک عمدہ تصنیف ثابت ہو گا۔ (10 ستمبر )

 

میری مراسلت چند ایک دوسرے ادیبوں کے ساتھ بھی ہے۔ مگر کسی اور کے ساتھ فنی نکات پر اس طرح کھل کر بات نہیں ہوتی ، جیسی مصطفیٰ کریم کے ساتھ مراسلت میں ہوتی ہے۔ میں اس کو ان کی ذات کا خاص پہلو جانتے ہوئے دل سے شکر گذار ہوں۔

 

 

 

اردو املا کے معیار کی ضرورت

 

اعجاز عبید

 

اب جب کہ اردو کمپیوٹر کی دنیا میں قدم رکھ چکی ہے اور اس کے فروغ کے نۓ دریچے وا ہو چکے ہیں تو اب ہمیں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم کمپیوٹر پر اردو ٹائپ کرنے والوں کی خاطر خواہ رہنمائی کریں اور املا کے کمپیوٹر کے مطابق اصول وضع کریں۔ یہاں میرا اشارہ اردو تحریر ہی کی طرف ہے جو کہ واقعی اردو زبان کے طور پر ہی ہر آپریٹنگ سسٹم پہچان سکتا ہے ، ان پیج قسم کے مخصوص سافٹ وئر کے مخصوص فانٹ میں لکھی ہوئی تحریر نہیں جسے آپ پڑھنے کے لۓ وہی سافٹ وئیر استعمال کریں ورنہ آپ کو اسی سافٹ وئر کے ذریعے ہر صفحے کی ایک تصویر پیش کر دی جاۓ جسے آپ محض پڑھ سکیں ، اور کچھ کام اس سے نہ لے سکیں۔ مزید تفصیل میں "کمپیوٹر اور انٹر نیٹ پر اردو ” کے تحت پچھلے شمارے میں دے چکا ہوں۔

کچھ دن سے میں کئی اردو تحریروں کا مطالعہ کرنے پر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارا مقصد محض یہ ہوتا ہے کہ ہمارا لکھا یا ٹائپ کیا ہوا یا چھپا ہوا لوگ پڑھ سکیں اور سمجھ سکیں۔ لیکن اگر بات املا کی پرکھ کرنے والا سافٹ وئر (سپیل چیکر) بنانے کی ہو تو پھر یہ پروگرام عقل مند قاری کی طرح نہیں پڑھ سکے گا۔ اور بظاہر صحیح نظر آنے والے الفاظ یا الفاظ کے مرکب کو بھی وہ غلط ظاہر کرے گا۔ اعراب کی بات اس وقت نہیں کر رہا ہوں۔ ایسے پروگرام کی لغت میں ہر ممکن لفظ کی صورت میں شامل کرنا ہو گا۔ مثال کے طور پر پچھلے جملے کا ہی لفظ لیں۔ اسے آپ ‘مُرکب’ لکھیں ، یا ‘مرکّب’ یا ‘مُرکّب’ یا محض ‘مرکب’۔ہر صورت صحیح ہے اور لغت میں ہر ممکن صورت دینے کی ضرورت ہو گی۔ لیکن "آ رہا ہے ” تین الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ان کے درمیان میں آپ وقفہ (سپیس) نہ بھی دیں تو یہ "آ رہا ہے ” بھی صحیح پڑھنے میں آۓ گا اور کنھیں دو الفاظ کے بیچ وقفہ دیں (‘آ رہا ہے ‘ یا ‘آ رہا ہے ‘) تو اس صورت میں بھی۔ لیکن درست تو یہی ہے کہ یہ تین الگ الگ الفاظ ہیں اور سپیل چیکر انھیں تین الفاظ کے طور پر تو پہچان لے گا لیکن بغیر وقفہ کے ‘آ رہا’ یا ‘رہا ہے ‘ یا ‘آ رہا ہے ‘ کو ایک ہی لفظ مانے گا تو یہ اس کی لغت میں نہیں ہو گا اور یہ املا کی غلطی دکھاۓ گا۔

سپیل چیکر کے علاوہ یہ مشکل تلاش میں اور بھی زیادہ ہو گی، چاہے وہ انٹر نیٹ پر گوگل پر سررچ ہو یا آپ کے ورڈ ڈاکیومینٹ میں تلاش میں۔ اگر آپ مکمل فائل میں کسی محترمہ کو محترم سمجھ کر مذکر کا صیغہ لکھ گۓ ہیں اور "آۓ ہیں ” کو "آئی ہیں ” میں بدلنا چاہ رہے ہیں تو آپ فائنڈ اینڈ رپلیس میں بغیر وقفہ کے "آّۓہیں ” لکھ دیں گے اور فائل میں "آۓ (وقفہ) ہیں ” ٹائپ کیاہوا ہے تو وہ تبدیل ہونے سے رہ جاۓ گا۔

انٹرنیٹ پر آپ گوگل میں آپ کو غالب کی اس غزل کی تلاش ہے جس میں ہے "آۓ ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالب’۔ اب آپ اس مصرعے کو گوگل کی تلاش پر لگائیں تو یہ اسی وقت وہ غزل ڈھونڈھ سکے گا جب کہ یہ مصرعہ بالکل اسی طرح لکھا ہو گا ورنہ نہیں۔ اگر انٹرنیٹ پر موجود غزل میں ٹائپ بھی اسی طرح کیا گیا ہے کہ "آۓ ہے ” کے درمیان میں وقفہ نہیں ہے اور آپ تلاش میں وقفے کے ساتھ لکھ رہے ہیں تب بھی آپ کو صحیح غزل نہیں مل سکے گی۔ یہی صورت "بے کسیِ” میں بھی آۓ گی۔ اسے "بیکسیِ”، "بے کسیِ (بلا وقفہ)” ، "بیکسئِ” اور "بے کسئِ (معہ وقفہ)”، بے کسئِ (بلا وقفہ)” اور ان سب ممکنات کے علاوہ بغیر اضافت کے بھی لکھ کر تلاش کیا جا سکتا ہے لیکن صحیح نتائج اسی وقت برامد ہوں گے جب کہ ویب سائٹ میں اسی طرح لکھا ہو گا جیسا آپ لکھ کر تلاش کر رہے ہیں۔ اس لۓ میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ایسے اصول بنانا ضروری ہے جس سے ہر قسم کی تلاش صحیح ثابت ہو سکے۔ املا کے ان اصولوں کا معیار مقرر کرنے کی اب ضرورت بڑھتی جا رہی ہے اس لۓ کہ اب اردو تحریر (یونی کوڈ) میں بہت سی ویب سائٹس اپنا مواد دینے لگی ہیں۔

اس قسم کے اور بھی مسائل ذیل میں پیش کر رہا ہوں۔

1۔ اکثر حضرات ٹائپ کرتے وقت دو الفاظ کے درمیان وقفہ اس وقت ضروری نہیں سمجھتے ہیں جب کہ حروف کے الحاق کا مسئلہ نہ ہو۔  الف اور واؤ پر ختم ہونے والے الفاظ کے بعد اگر آپ وقفہ نہ بھی دیں تو بظاہر کوئی فرق محسوس نہیں ہو گاجیسا کہ اوپر واضح کیا گیا ہے لیکن اضافت اور درمیان میں "و” والے مرکبات کا معاملہ مختلف ہے۔ مثلاً گل و نغمہ میں گل اور و کے درمیان وقفہ ضروری ہے (ورنہ یہ گلو لکھنے میں آئے گا) تو یہاں وقفہ دیا جاۓ گا، لیکن ‘و’ اور نغمہ کے بیچ میں وقفے کی ایسی ضرورت پیش نہیں آتی اور لوگ اسے بلا وقفے کے لکھ دیتے ہیں۔ یعنی گل۔ وقفہ۔ ونغمہ۔ اس طرح آپ اردو میں ایک نیا لفظ ایجاد کر دیتے ہیں ‘ونغمہ’۔ ان پیج کی فائلوں کو کنورٹ کرتے وقت مجھے نون غنہ کا بھی ایسا ہی تجربہ ہوا۔ ان پیج میں نون غنہ کے بعد وقفہ نہ بھی دیا جاۓ تو املا صحیح ہوتی ہے۔ لیکن اگر میں ‘یہاں وقفہ’ نہ دوں تو؟ یہاں میں نے یہاں اور وقفہ کے درمیان وقفہ نہیں دیا ہے۔

2۔ یہی حال اضافت کاہے۔ آب ‘دردِدل’ میں ‘دردِ’ اور ‘دل’ کے بیچ میں وقفہ دیں تو یہ ایک لفظ ‘دردِدل’ گننا ہو گا۔ اور ‘درد’ اور ‘دل’ لغت میں ہونے پر بھی آپ کا سپیل چیکر غلطی ظاہر کرے گا۔ اور اگر وقفہ دیا جاۓ تو یہ دو الفاظ شمار ہوں گے۔ ‘دردِ’ اور ‘دل’۔ لغت میں اس طرح ‘درد’ اور ‘دردِ’ دونوں الفاظ دینے ہوں گے۔ یا پھر دردِدل، دردِمحبت، دردِجگر سارے الفاظ کو لغت میں شامل کرنا ہو گا۔

3۔ ‘ۂ’ کی حالت تو بے حد خراب ہے۔ ‘نالۂ دل’ کی جو شکلیں مجھے دیکھنے کو ملی ہیں وہ یہ ہیں : دونوں الفاظ کے درمیان وقفہ یا عدم وقفہ سے قطعِ نظر

نالۂدل

نالۂدل

نالۂ دل

نالہ دل

میں صرف تیسری صورت صحیح سمجھتا ہوں۔ اور اوپر ہمزہ کی جو صورت ہے (مثال نمبر دو میں یہاں )، وہ اردو میں مستعمل نہیں۔ مصری قرآن کی املا میں ہے ، محض الف کے اوپر ہمزہ اردو میں استعمال ہوتی ہے جس کے لۓ پہلے سے ہی ایک کیریکٹر موجود ہے ، یعنی’ أ‘۔  ‘ۂ’ یا’ ‘ کے بارے میں یہ بھی کہ یہ کیریکٹرس ہر فانٹ میں نہیں ہیں۔

4۔  یہ بھی پتہ چلا ہے کہ کچھ لوگ ‘ؤ’ کو ‘ؤ’ لکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ان پیج سے یونی کوڈ میں تبدیل کرنے پر ایسا ہو جاتا ہو، لیکن میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔

5۔ اس کے علاوہ ‘ۓ’ کی بجاۓ محض ‘ے ‘ کا استعمال بھی دیکھنے میں آیا ہے۔جیسے ‘ موۓ آتش دیدہ ہے ‘ کی جگہ ‘ موے آتش دیدہ ہے ‘۔ غالب کے ہی پرانے دواوین میں یہ املا ضرور ہے لیکن یہ آج مستعمل نہیں۔

6۔ کچھ الفاظ ملا کر لکھے جانے والے ہیں۔ اکثر قدیم املا کے مطابق، مثلاً ‘سخت جانیہاے ‘ لکھا جاتا ہے اسی طرح ‘بیدلی’ وغیرہ الفاظ بھی ملا کر لکھے جاتے ہیں ، محض وقفہ ہٹایا جاۓ تو یہ بی دلی بن جاتا ہے۔ اسی طرح’لینگے ‘ یا ‘کیونکر’ ملا کر لکھا جاتا ہے۔ان کو بھی میں الگ الگ دو الفاظ قابلِ ترجیح سمجھتا ہوں۔ یعنی ‘لیں گے ‘ اور ‘کیوں کر’

7۔ اکثر ‘ۓ’ کی بجاۓ محض ‘ے ‘ بھی دیکھا گیا ہے ، جیسے  ‘سخت جانی ہاے ‘۔ اسے بھی ہاۓ لکھنا چاہۓ۔

8۔ ایک اور یہ بھی پتہ چلا کہ کچھ لوگ ‘ؤ’ کو ‘ؤ’ لکھ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ یہ ان پیج سے یونی کوڈ میں تبدیل کرنے پر ایسا ہو جاتا ہو، لیکن میں نے شعر و سخن، مانسہرا (رسالے ) کی ان پیج فائل میں بھی ایسا ہی ٹائپ کیا دیکھا ہے۔ میں اسے غلط سمجھتا ہوں۔

9۔ لام اور الف (لا) کا معاملہ اعراب کے ساتھ مشکل نظر آتا ہے۔ آپ "جلاّد” لکھنا پسند کریں گے یا "جلّاد” ؟ پہلی صورت میں یہاں شدّہ (تشدید) الف کے بعد لگائی گئی ہے اور دوسری صورت میں "لام” کے بعد۔ میں پہلی سورت درست سمجھتا ہوں اس لۓ کہ "لا” اردو کا ایک حرف ہی مانا جاتا ہے۔

10۔ ان کے علاوہ مزید الفاظ کا معیار مقرر کرنے کی ضرورت ہے جیسے :

"لیے ” یا "لۓ” یا لئیے ” (میرا ووٹ "لۓ” کے لۓ)

"آئۓ”، "آئیے "، "آیئے "۔(میری راۓ میں دوسری صورت)

"آئینہ”، آیینہ”، آئنہ” (میرے خیال میں نثر میں "آئینہ”، مگر شاعری میں بحر کی ضرورت کے مطابق۔ جیسے غالب کا مصرعہ”ہوائے سیرِگل، آئینۂ بے مہرئِ قاتل ” میں "آئینہ” درست ہے جب کہ ” پیشِ نظر ہے آئنہ دائم نقاب میں ” میں "آئنہ”۔

11۔فتحتاً یعنی دو زبر کا استعمال عجیب مضحکہ خیز ہے ، کچھ حضرات دو زبر لگاتے ہی نہیں اور ‘فوراً’ کو ‘فورا’ لکھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ کچھ اور کو میں نے الف کے بعد تخاطبی نشان استعمال کرتے ہوۓ دیکھا ہے ، یعنی ‘فورا”‘ جو مختلف فانٹ میں مختلف شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے لۓ یونی کوڈ میں الگ سے حرف ہے اور ہر کی بورڈ میں موجود۔ درست صورت ‘فوراً’ ہے۔

 

صلاۓ عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لۓ۔

 

 

 

یہ کیسی بے وفائی ہے

 

ڈاکٹر بلند اقبال

 

‘ا للہ مارے تمھارے ابا پرائی عورتوں کے بہت شوقین تھے ،جہاں کو ئی لال پیلی چھپن چُھری دیکھی ، چل پڑے پیچھے پیچھے ، پھر نہ گھر کا پتہ نہ باہر کا، میں کہے دے رہی ہوں ذ را نظر دبا کر رکھیو ، یہ مرد ذا ت بڑی بے وفا ہوئے ہے ، شادی کے کچھ سال تو ہر کو ئی دُم دبا کہ چلے ہے پر جہاں دو چار لو نڈے لونڈیاں ہوئے وہی آس پاس کی عورتوں کو دیکھ کہ دُم کھڑی کر لی’۔۔۔

ادھر اماں جی تو جو منہ میں آئے بکے جا رہی تھیں پر عفت بی بی گھٹنوں گھٹنوں شرم سے پانی ہوئے جا رہی تھی ،وہ کبھی دوپٹہ سر پہ پھیلاتی تو کبھی سینے پہ کھینچ لیتی ،جب اور برداشت نہ ہو ا تو گھاگرا سنبھالا ، کھڑاؤں میں پاؤں گُھسایا اور گھسر گھسر کرتی ہوئی رسوئی میں جا کر لکڑی کے تختے پہ گھٹنوں کے بیچ سردے کر بیٹھ گئی ، پر اماں جی بھی کب چُپ ہو کر بیٹھنے والی تھیں۔۔۔

اری نوج ماری شرما کیا رہی ہے ، یہ بات دھیان میں رکھ لے ورنہ پھر بعد میں پچھتاوے گی’۔۔۔

‘ اونہہ اماں جی بھی تو بس، اب جب بیاہ میں صرف چار دن ہی رہ گئے ہیں تو ایسے وقت یہ بک بک جھک جھک، جب دیکھو بس یہی راگ الاپے جا رہی ہیں ، نہ جانے ابا نے اماں جی کو کیسے کیسے دھوکے دیے کہ اُنہیں ساری دنیا کے مرد بس ایک جیسے ہی لگے ہیں ‘۔

عفت نے بے زا رگی سے سوچا۔اونہہ۔۔ اچانک ہی اُسے اپنے ہونے والے میاں کا خیال آ گیا۔۔’ میرے منان ایسے تھوڑی ہونگے جیسے ابا تھے۔ وہ اور مردوں کی طرح ہر طرف آنکھیں مٹکانے وا لے نہیں ہونگے۔وہ تو صرف میرے ہونگے۔صرف میرے ، مجھ سے تھوڑی بے وفائی کریں گے ، وہ تو مجھ سے سچا پیار کریں گے ‘۔۔یہ خیال آتے ہی عفت کو لگا جیسے اُس کے سارے بدن میں بجلیاں سی رینگنے لگی ہوں۔اُس نے جلدی سے دوپٹے کے پلو سے پیشانی اور گردن کا پسینہ صاف کیا اور سامنے چولہے پہ چڑھی دیگچی کے ڈھکن کو سرکا کر بھا پ کو نکلتے دیکھنے لگی۔

اور پھر یہی ہوا ، شادی کی رات منان نے جو اُسے دیکھا تو عفت کو ایسا لگا کہ جیسے اُس کے دہکتے حُسن کو دیکھ اُن کی سٹی ہی گم ہو گئی ہو، ایسے کانپتے ہاتھوں سے اُسے ہاتھ لگایا جیسے وہ موم کی گڑیا ہو، ہاتھ لگے اور پگھل جائے۔ اماں جی کے پیدا کردہ سارے اندیشے بس ہوائی ثابت ہوئے۔ منان تو سر سے پاؤں تک سچے من سے اُسے چاہتے تھے۔ کتنا بڑا تو کاروبار تھا ، دن رات کا دفتری عورتوں میں اُٹھنا بیٹھنا ، مگر مجال ہے جو خاندانی رکھ رکھاؤ میں کو ئی فرق آنے دیں ، پوری متانت سے لوگوں سے ملتے ، کبھی ضرورت سے زیادہ میل جول نہ بڑھاتے ، ہر چیز کا وقت پہ دھیان رکھتے ، خود عفت کا تو چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال کرتے ، کپڑے لتے زیور بس زبان ہلنے کی دیر ہوتی اور انبار لگ جاتا۔ جو دھن برس رہا تھا وہ اُس پر روپ بن کر چمکتا ، بس دلہن ہی بنی رہتی، شادی کو دو سال ہو گئے مگر اولاد اب تک نہ ہوئی تھی پر مجال ہے جو منان شکایت کا کوئی لفظ بھی زبان پہ لائے ہوں ، پورے خاندانی وقار سے رہتے تھے ، نہ تو کبھی پریشانی کا اظہار کرتے ا ور نہ ہی کبھی اپنے روزمرہ کے معمولات میں فرق آنے دیتے ، وہ تو اُس کو اب بھی ایسے ہی چھوتے تھے کہ جیسے وہ پہلے ہی دن کی دلہن ہو، ہاتھ لگے اور میلی ہو جائے۔ اُن کے دن رات ویسے ہی تو تھے جو شادی سے پہلے تھے ، صبح ہوتی اور دفتر چلے جاتے ، شام پانچ بجتے ہی گھڑی کی چڑیا جو پانچ بار کو کو کرتی ٹھیک اُسی وقت منان کی موٹر کی ہارن کی آواز پی پی کرتی گھر میں گُھستی، شام کی چائے وہ بلا ناغہ عفت کے ساتھ پیتے پھر اُن کے بچپن کے دوست شرافت بھا ئی آ جاتے اور دونوں میں کیرم کی بازی لگ جاتی۔

شرافت بھائی ہی تو منان کے اکلوتے دوست تھے ، بچپن کا یارانہ تھا، دونوں میں گاڑھی چھنتی تھی۔ پڑوس میں ہی رہتے تھے ، ماں باپ مر چکے تھے ، منان ایک بار کہہ رہے تھے کبھی نوجوانی میں جو کسی نے دل توڑ دیاتو پھر شادی ہی نہیں کی۔ اُن کے گھر دن رات کا آنا جانا تھا، خود عفت کی زبان شرافت بھائی شرافت بھائی کہتے نہ تھکتی تھی۔ شرافت بھائی بھی نام کی طرح بے انتہا شریف ، منان کے بچپن کے دوست ہونے کے باوجود مجال ہے جو کبھی عفت سے نظر ملا کر بھی بات کی ہو۔ شکل پہ بھول پن برستا تھا ، بس لے دے کر ایک اُن کی گھنی مونچھیں تھیں جو اُن کے چہرے پہ کچھ اجنبی اجنبی سی لگتی تھیں ، جب بھی ہنستے تو کچھ عجیب طرح سے منہ کو سُکیڑتے کہ لگتا جیسے ہونٹ خود مونچھ بن گئے ہو۔ عفت کو اُن کو ہنستا دیکھ کر بڑی ہی اُلجھن ہوتی تھی۔

اُس رات بجلی کڑاکے سے گرج رہی تھی ، منان دفتر سے آئے ، عفت کے ساتھ چائے پی اور پھر شرافت بھائی کے گھر کیرم کی بازی جمانے چلے گئے۔عفت کو نہ جانے کیوں صبح ہی سے عجیب عجیب سے ہول سے اُٹھ رہے تھے ، کئی بار سوچا آج منان کو گھر پہ ہی روک لیں ، بچپن ہی سے اُس کا بجلی کے کڑاکوں سے دل دہلنے لگتا تھا۔ دو سے جب تین گھنٹے ہو گئے تو چھاتا لیا اور شرافت بھائی کے گھر کے لیے نکل کھڑی ہوئی ، گیٹ بجانے سے پہلے ہی کیا دیکھتی ہے کہ محلے کے دو چار بچے ایک دوسرے کے کندھوں پہ چڑھے ، شرافت بھائی کے کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جمی کیرم کی بازی دیکھنے میں مگن تھے ، اُس کو اچانک دیکھا تو ایک دوسرے کے پیچھے کودتے پھلانگتے ہوئے بھاگ گئے۔ اُس نے جو پیروں کے بل کھڑے ہو کر کمرے میں جھانکا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔

شرافت بھائی اور منان کچھ اس طرح سے ایک دوسرے میں مشغول تھے کہ کیا کوئی نو بیاہتا شادی شدہ جوڑا آپس میں مصروف ہو۔۔۔ اُسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان کی ساری ہی گرجتی ہوئی بجلیاں اُس پہ ایک ساتھ گر رہی ہوں اور ہر کڑکڑاہٹ میں اماں جی کی آواز گونج رہی ہو۔۔ ‘یہ مرد ذات بڑی بے وفا ہوئے ہے ‘۔۔

ہائے اماں جی۔۔ مگر یہ کیا۔۔اچانک عفت کے منہ سے نکلا۔۔ یہ کیسی بے وفائی ہے ؟

 

 

 

30 بچوں کی ماں

 

ایم مبین

 

 

گھر سے نکلنے میں صرف 10 منٹ کی تاخیر ہوئی تھی اور سارے معمولات بگڑ گئے تھے۔

اُسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اب وہ پورے ایک گھنٹہ تاخیر سے ڈیوٹی پر پہونچے گی اور اِس ایک گھنٹہ میں کیا کیا فسانے بن گئے ہوں گے ‘ اُسے اِس بات کا اچھی طرح اندازہ تھا۔

سندھیا سے کسی بات کی توقع نہیں تھی کہ وہ کچھ ایسا کرے جس سے کوئی نئی کہانی نہ بن پائے۔

چنٹو نے رو رو کے پورا کمرہ سر پر اُٹھا رکھا ہو گا۔ رونے کی وجہ سے اُس کی آنکھیں سُرخ ہوکر سوج گئی ہوں گی جو شام تک سوجی رہے گی۔

اُس کی آنکھوں کو دیکھتے ہی شوانی اُس پر برس پڑے گی۔

” آج پھر چنٹو کو رُلا دیا ؟ میں تم کو الگ سے پیسے کس بات کے دیتی ہوں ؟ اگر تم چنٹو کے ساتھ بھی عام بچوں کا سا سلوک کرو تو پھر عام بچوں میں اور چنٹو میں فرق کیا ہے ؟ میں تمہاری سسٹر سے شکایت کر دوں گی کہ تم مجھ سے الگ سے پچاس روپے لیتی ہو۔”

دھمکی ایسی تھی کہ جس کے تصور سے ہی وہ کانپ اُٹھتی تھی۔

اگر سسٹر کو پتہ چلا کہ وہ شوانی اور دُوسری عورتوں سے بھی الگ سے پیسہ لیتی ہے تو وہ ایک لمحہ بھی اُسے کیئر ہوم میں رکھنے نہیں دے گی۔

اُس کی نوکری جاتی رہے گی۔ اور نوکری چلی گئی تو ؟

اس تصور سے ہی اُس کے ماتھے پر پسینے کی بوندیں اُبھر آئیں۔ چنٹو کی عادت سی بن گئی تھی کہ وہ جیسے ہی ماں سے بچھڑتا تھا ‘ دہاڑیں مار مار کر رونے لگتا تھا۔ صرف اُسی کی گود میں بہل پاتا تھا۔

آج شوانی اُسے سندھیا کے پاس یہ سوچ کر چھوڑ گئی ہو گی کہ وہ تو تھوڑی دیر میں آ جائے گی اور روتے چنٹو کو بہلا لے گی۔

لیکن بدقسمتی سے وہ آج ایک گھنٹہ لیٹ پہونچ رہی ہے۔

تھوڑی دیر سے آنکھ کھلی جس کی وجہ سے گھر سے نکلنے میں دس منٹ لیٹ ہو گئی تھی جس کی وجہ سے جو بس اُسے ریلوے اسٹیشن تک لے جاتی تھی ‘چھوٹ گئی۔

دُوسری بس آنے میں 15 منٹ لگ گئے۔

اسٹیشن پہونچی تو لوکل چھوٹ گئی تھی۔ دُوسری ٹرین 15۔20منٹ لیٹ آئی جو راستے میں دس منٹ لیٹ ہو گئی۔ پھر ریلوے اسٹیشن سے کیئر ہوم کے لئے بس کا انتظار

ہر جگہ تاخیر تاخیر تاخیر !

اُسے پتا تھا اُس کے دیر سے آنے سے نہ تو سسٹر اُسے کچھ بولے گی اور نہ سندھیا۔

دونوں کو پتا تھا کہ وہ کافی دُور سے آتی ہے۔ سات بجے ہوم پہونچنے کے لئے اُسے رات ساڑھے پانچ بجے گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ اِس کے باوجود وہ کبھی کبھار ہی لیٹ ہوتی تھی۔ اس میں اِس کا عمل دخل نہیں ہوتا تھا۔ لوکل یا بس لیٹ ہونے کی وجہ سے ہی تاخیر سے کیئر ہوم پہونچ پاتی تھی۔

اور پھر دِن بھر 30 بچوں کی ماں بن کر اُن کا خیال رکھتی تھی۔کبھی کبھی تو بچوں میں اِتنی اُلجھ جاتی تھی کہ دوپہر کا کھانا بھی نہیں کھا پاتی تھی۔

روزانہ کا یہ معمول تھا جب بھی وہ دوپہر کا کھانا کھاتی تھی۔ اُس کی گود میں کوئی نہ کوئی روتا ہوا بچہ ضرور ہوتا تھا۔ وہ کھانا بھی کھاتی اور بہلاتی بھی۔

کیئر ہوم میں جتنے بھی گاہک تھے سب اُس سے خوش تھے۔

چھوٹے بچے تو زبان سے اِس کی خدمت کے بارے میں اپنے ماں باپ کو کہہ نہیں پاتے تھے۔ لیکن جب وہ اُسے دیکھ کر ماں کی گود سے اُس کی طرف ہاتھ پھیلا کر مسکراتے ، لپکتے تھے تو ماں باپ اندازہ لگا لیتے تھے وہ اُن کے بچوں کا کتنا خیال رکھتی ہے۔

ہاں بڑے بچے جو بول سکتے تھے وہ ماں باپ سے تعریف کرتے تھے۔

” رادھا آنٹی بہت اچھی ہیں ، ہم سے بہت پیار کرتی ہیں ، ہمارا بہت خیال رکھتی ہے ، ہم سے بڑی اچھی اچھی باتیں کرتی ہیں۔ ”

اِس وجہ سے گاہکوں میں اُس کی امیج بہت اچھی تھی۔

لیکن کبھی کبھی کوئی نہ کوئی ایسی بات ہو جاتی تھی جس کی وجہ سے اُس کی امیج کو دھکّا پہونچنے کا خطرہ پیدا ہو جاتا تھا۔بلکہ اُسے اپنی نوکری بھی خطرے میں محسوس ہوتی تھی۔

اور نوکری خطرے میں پڑنے کے تصور سے ہی وہ کانپ اُٹھتی تھی۔

بوڑھے ماں باپ ، دو جوان بہنیں اور دو نکمّے ، آوارہ بھائیوں کی نگہداشت کا سارا بوجھ اُسی پر تھا۔ سسٹر اُسے تنخواہ کے طور پر 3 ہزار روپے دیتی تھی۔

اُسے اِس بات کا علم تھا کہ وہ اچھی سے اچھی غیر سرکاری نوکری بھی کرتی تو شاید اُسے اِتنی تنخواہ نہیں ملتی۔ اِس کے علاوہ بچوں کے ماں باپ اُسے خوشی سے چالیس پچاس روپے ہر مہینہ دے دیتے تھے۔ یہ سوچ کر کہ اِس لالچ سے شاید وہ اُن کے بچے کا اچھی طرح سے خیال رکھے گی۔

اس نوکری کے چھوٹ جانے کا مطلب تھا پھر سے ایک بار بے کاری کے غار میں بھٹکنا ، ماں باپ کی جھڑکیاں ، بہنوں کے طعنے اور بھائیوں کی گالیاں سننا۔

گھر کے حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ اگر اُسے کسی کے گھر میں برتن مانجھنے کا کام بھی مل جاتا تو وہ بھی کرنے کے لئے تیّار ہو جاتی۔

اس کے مقابلے تو یہ کافی اچھا ، مختلف اور آمدنی والا کام تھا۔

اُسے کیئر ہوم میں 30 بچوں کی دیکھ بھال کرنی پڑتی تھی۔

شہر کی ایک بڑی سی رہائشی کالونی میں سسٹر روزی نے یہ چلڈرن کیئر ہوم جاری کر رکھا تھا۔

اِس کالونی میں زیادہ تر افراد نوکری پیشہ تھے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی تھے کہ دونوں میاں بیوی نوکری کرتے تھے۔ ان کے گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔

بچے دو ماہ سے لے کر دس سال تک تھے۔

اُن بچوں کو وہ کس کے سہارے اکیلے گھر میں چھوڑ کر دُور دراز کے علاقوں میں نوکری کے لئے جائیں ؟

پورے وقت کے لئے وہ نوکرانی نہیں رکھ سکتے تھے۔ کیونکہ ایسے کاموں کے لئے نوکرانیاں اتنی تنخواہ کی مانگ کرتی تھیں جو اُن کی کل تنخواہ کے نصف سے بھی زائد ہوتی تھی۔

ایسے تمام نوکری پیشہ افراد کا وہ واحد سہارا سسٹر روزی کا چلڈرن کیئر ہوم تھا۔

مائیں اپنے بچے ڈیوٹی پر جاتے ہوئے کیئر ہوم میں چھوڑ جاتی تھیں اور شام کو ڈیوٹی سے واپس آتے ہوئے اُنھیں واپس اپنے گھروں کو لے کر جاتی تھیں۔

اِس طرح اس کیئر ہوم میں روزانہ سیکڑوں بچے آتے اور دِن بھر وہاں رُک کر شام کو واپس اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔

ان بچوں کی دیکھ بھال کے لئے سسٹر روزی نے کئی نوکرانیاں رکھی تھیں۔وہ بھی اُن میں سے ایک تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ سندھیا بھی تھی۔ دونوں مل کر 30 بچوں کا خیال رکھتی تھیں۔

سندھیا اور اُس میں زمین آسمان کا فرق تھا۔

وہ ایک گریجویٹ ، سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔

لیکن سندھیا ایک جاہل ، اُجڈ اور گنوارقسم کی عورت تھی۔

وہ سویرے 7 بجے سے رات کے 8۔9 بجے تک ڈیوٹی دینے پر یقین رکھتی تھی، بچوں کا کس طرح خیال رکھا جائے اُس نے سیکھا نہ تھا اور نہ اُس نے سیکھنے کی ضرورت محسوس کی تھی۔

” ارے ! میں اپنے بچوں کا اِس طرح سے خیال نہیں رکھتی ہوں تو کیا اِن لوگوں کا خیال رکھوں۔ اُن کے ماں باپ نے کیا اُنھیں ہمارے لئے جنا۔ پیدا کیا اُنھوں نے اور یہاں ہمارے پاس لاقر چھوڑ گئے۔ ”

” سندھیا تم اس کام کے پیسے بھی تو لیتی ہو ؟ ”

” بی بی میں پیسے ان بچوں پر نظر رکھنے کے لیتی ہوں۔ یہ کمرے کے باہر تو نہیں جارہے ہیں۔ کوئی اُنھیں اغوا کرنے کی کوشش تو نہیں کررہا ہے ؟ رات دِن ان کی خدمت کرنے کے نہیں ؟ ”

سندھیا کی باتوں اور حرکتوں سے اسے اُلجھن ہوتی تھی۔ اسے سندھیا کی نہ تو کوئی بات پسند تھی اور نہ کوئی حرکت۔ کبھی کبھی دِل میں آتا تھا کہ وہ سسٹر سے اس کی شکایت کر دے یا پھر سسٹر سے کہہ کر سندھیا کے بدلے میں کسی اور کو اپنے معاون کے طور پر مانگ لے۔

مگر اس کا انجام کیا ہو گا اُسے اس بات کا اندازہ تھا۔

اور وہ سسٹر سے سندھیا کی شکایت کرتی تو سسٹر اُسے فوراً اُسے اِس کام سے نکال دیتی۔

یا وہ سندھیا کے بدلے میں کسی اور کو مانگ لیتی تو سندھیا جس کسی کے ساتھ رہتی اُ س کی حرکتوں کی وجہ سے وہ سسٹر سے اُس کی شکایت ضرور کرتی اور سسٹر اُسے کام پر سے نکال دیتی۔

اور وہ نہیں چاہتی تھی کہ سندھیا کی نوکری جائے۔

کیونکہ اُسے پتا تھا سندھیا بھی اُسی کی طرح بہت ضرورت مند ہے۔

اِسی نوکری پر اُس کا گھر چلتا تھا۔

اُس کا ایک آوارہ شرابی شوہر تھا جو کام نہیں کرتا تھا لیکن روزانہ شراب پینے کے لئے اُس سے لڑجھگڑ کر پیسے ضرور لے جاتا تھا۔ اُس کے چار بچے تھے۔ سب سے چھوٹا لڑکا 2 سال کا تھا۔وہ اُن سب کو اکیلا اپنے گھر چھوڑ کر آتی تھی۔ ان سب کا خیال اس کی بڑی لڑکی رکھتی تھی۔ جس کی عمر 10 سال کے قریب ہو گی۔

سندھیا کا اس نوکری سے نکال دیا جانا ان سب کے لئے بھکمری کا پیغام لے کر آتا۔ اس لئے وہ سندھیا اور اس کی حرکتوں کو برداشت کئے جا رہی تھی۔

ان کے پاس جو 30 بچے تھے ان میں سے تقریباً دس بچے ایک سال سے بھی کم عمر کے تھے۔چنٹو اور رنیتو صرف دو ماہ کے تھے۔ دس بچے پانچ سال سے کم کے تھے باقی پانچ سال سے بڑے تھے۔

بڑے بچے ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھے۔

جب ان کے ماں باپ اُنھیں چھوڑ کر جاتے تھے تو ان کا اسکول کا بستہ ان کے ساتھ ہوتا تھا۔وہ بچے ایک کونے میں بیٹھ کر پڑھائی کیا کرتے تھے ، جب ان کے اسکول کا وقت ہو جاتا تو وہ دونوں ان بچوں کو یونیفارم پہنا کر تیار کرتیں اور اسکول کی بس یا رکشا تک چھوڑ آتیں۔

ان میں سے کچھ بچے اسکول چھوٹنے کے بعد سیدھے گھر چلے جاتے تھے۔ کیوں کہ تب تک ان کے ماں باپ گھر واپس آ جاتے تھے۔کچھ بچے اسکول سے دوبارہ کیئر ہوم میں آ جاتے تھے۔ کیونکہ ان کے ماں باپ دیر سے گھر آتے تھے۔ اِس لئے وہ ڈیوٹی سے آ کر اُنھیں کیئر ہوم سے لے کر جاتے تھے۔

پانچ سال کے بچے آپس میں یا پھر کمرے میں رکھے کھلونوں سے کھیلا کرتے تھے۔

سب سے بڑا مسئلہ 2 ماہ سے 1 سال کی عمر کے جو بچے تھے ‘ ان کا تھا۔ ایک ایک لمحہ ان کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ اُنھیں وقت پر دُود ھ ، دوائیں یا دُوسری چیزیں دینا۔ پیشاب ، پاخانے کی صورت میں اُن کے کپڑے تبدیل کرنا ، رونے کی صورت میں اُنھیں بہلانا۔

پھر عام طور پر اس عمر کے بچے صرف ماں باپ سے ہی بہلتے ہیں۔ ایک بار اگر رونا شروع کر دیں تو پھر اُنھیں بہلانا بہت مشکل ہوتا ہے۔

بڑے بچوں کو تو مار کے خوف سے چپ کرایا جاسکتا ہے۔

لیکن اِس عمر کے بچوں کے سامنے یہ ہتھیار بھی ناکارہ ثابت ہوتا تھا۔ ایسی بچوں کا وہ ماں بن کر خیال تو رکھ سکتی تھی لیکن ماں نہیں بن سکتی تھی۔ بچے ماں کے لمس سے ہی چپ ہو جاتے ہیں۔ بھلے وہ اُنھیں لاکھ ماں سا لاڈ ، پیار ، دُلار دے لیکن ماں کا لمس کیسے دے سکتی تھی۔جس سے وہ آشنا تھے۔

اُسے پتا تھا اگر اس نے کسی بھی بچے کو سنھالنے میں ذرا بھی لاپرواہی کی تو اِس کی سزا اسے ہی بھگتنی پڑے گی۔

راہیہ کو ہر ایک گھنٹے کے بعد دوا دینی پڑتی تھی۔ اگر اس نے اسے باقاعدگی سے دوا نہیں دی تو وہ بیمار ہو جائے گی۔ راہیہ کی ماں صرف رات بھر اسے سنبھالے گی۔دُوسرے دِن وہ اس کے پاس چھوڑ کر جائے گی اور دُوسرے بچوں کے ساتھ بیمار راہیہ کو اسی کو سنبھالنا پڑے گا۔ گوتم کو ہر ایک گھنٹے پر دُودھ دینا پڑتا تھا۔ اگر اُسے دودھ نہ ملے تو وہ رو رو کر سارا کمرہ سر پر اُٹھا لیتا تھا۔ اور اُسے روتا دیکھ کر دوسرے بچے بھی رونے لگتے تھے۔بچوں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ اگر وہ کسی کو روتا ہوا دیکھتے ہیں تو خود بھی رونا شروع کر دیتے ہیں۔

اِس سے بہتر تھا کہ 15۔20 روتے ہوئے بچوں کو سنبھالنے کے بجائے گوتم نہ روئے اس بات کی ترکیب کی جائے۔

نِکیتا صرف 8 مہینے کی ہے۔اس کا باپ اسے وہاں چھوڑ جاتا ہے۔ اور اسے لینے کے لئے بھی آتا ہے۔اس کی ماں جب وہ 5 مہینے کی تھی تو کسی کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ا ب اس کا باپ ہی ماں بن کر اس کی پرورش کررہا ہے۔

اشونی کی صرف ماں ہے۔اُس کے باپ نے کسی اور کے ساتھ دُوسری شادی کر لی ہے۔ مجبوراً اپنا گھر چلانے کے لئے اس کی ماں کو نوکری کرنی پڑی۔ وہ آٹھ مہینے کاہے۔اس کی ماں اس کے پاس اشونی کو چھوڑ کر نوکری کرنے جاتی ہے۔

جب ماں باپ کیئر ہوم میں بچے چھوڑ کر جاتے ہیں تو ان کے لئے سیکڑوں ہدایتیں دے جاتے ہیں۔

” ہر دو گھنٹے کے بعد دُودھ پلاتی رہنا ، دوا باقاعدگی سے دینا ، اگر پاخانہ یا پیشاب کرے تو فوراً صاف کر دینا ، زیادہ دیر کھلا رہنے سے اُسے سردی ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر نے سختی سے منع کیا ہے تو بچے کو سردی نہیں ہونی چاہیئے۔ اس بار سردی ہوئی تو اسے نمونیہ ہونے کا ڈر ہے۔ دوپہر کو کپڑے بدل کر کاجل پاؤڈر لگا دینا۔ شام کو بچہ اچھی حالت میں ہونا چاہیئے۔ اسے راہل سے دُور رکھنا ، راہل بیمار ہے کہیں اس کی بیماری اسے نہ لگ جائے۔

چھوٹے بچوں کے لئے تو ہدایتیں تھیں۔ بڑے بچوں کے لئے کوئی ہدایتیں نہیں ہوتی تھیں۔ کیونکہ بچے خود ہدایت دیتے تھے۔

” ممی نے کہا ہے۔ 11 بجے دوائی دیجئے گا۔ ”

” ممی نے کہا ہے۔10 بجے وہ چاکلیٹ کھا لینا جو اُنھوں نے دی ہے۔ ”

” ممی نے نہلا کر کپڑے بدلنے کے لئے کہا ہے۔ ”

بچے خود فرمائش کرتے ، ایسے بچوں کی فوراً فرمائش پوری کرنی پڑتی تھی۔ نہ کرنے کی صورت میں وہ باپ سے شکایت کر دیتے ، ماں باپ اُسے باتیں سناتے اور سسٹر روزی کو بھی شکایت کر دیتے اور اسے سسٹر روزی کی بھی باتیں سننی پڑتیں۔ ان تمام خوف اور ڈر سے بے نیاز کوئی تھا تو وہ سندھیا۔

ہر بچے سے وہ پوچھتی۔

” اے آج ٹفن میں کیا لایا رے ؟ ”

اگر بچے کے ٹفن میں کوئی اچھی چیز رہتی تو وہ اسے خود کھا جاتی تھی۔ بچوں کے چاکلیٹ بسکٹ بھی آدھے سے زیادہ خود کھالیتی تھی۔ ذرا ذرا سی بات پر بچوں کو بری طرح مارتی تھی اور اُنھیں دھمکاتی بھی تھی۔ اگر اُنھوں نے اپنے ماں باپ سے شکایت کی تو کل اس سے زیادہ مار پڑے گی۔

اس دھمکی کے بعد بچے شکایت نہیں کرتے تھے۔اگر کسی نے کچھ کہہ دیا اور اسے باتیں سننی پڑتی تھی تو دُوسرے دِن اس بچے کو اس بری طرح مارتی تھی کہ وہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کرتا تھا۔

اُسے یہ سب اچھا نہیں لگتا تھا۔

اُس کی سوچ الگ تھی۔

اُسے ماں باپ کے دِلوں کا پتا تھا۔

ماں باپ اپنے بچوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی کبھی جدا نہیں کرتے تھے۔ اگر وہ جدا کرتے بھی ہیں تو ان کی کوئی نہ کوئی مجبوری ہوتی ہے۔ جو ماں باپ اپنے بچوں کو ان کے پاس چھوڑ جاتے ہیں وہ سب مجبور ہیں۔ پیٹ کی خاطر ، روزی ، روٹی کی خاطر وہ اتنا بڑا پتھر اپنے دِل پر رکھتے ہیں۔

ایسے میں ان ماں باپ کے جذبات سے کیوں کھیلا جائے۔

سسٹر روزی ان بچوں کو سنبھالنے کے اسے پیسے دیتی ہے۔

پھر اپنے کام سے ایمانداری کیوں نہ برتی جائے۔ بے ایمانی برت کر کیا حاصل؟

اُس کی شادی نہیں ہوئی تھی۔

وہ ماں نہیں بنی تھی۔ لیکن ان 30 بچوں کو سنبھالتے ہوئے کب وہ ان 30 بچوں کی ماں بن گئی تھی اسے بھی پتہ نہیں چل سکا تھا۔

 

 

 

 

جزیروں میں بٹے لوگ

 

فیصل عظیم

 

 

ایک جزیرہ تیرے گھر کا

ایک جزیرہ میرے گھر کا

ایک جزیرہ بازاروں کا

ایک جزیرہ وہ ہے جس پر خود کو بیچ کے آ جاتا ہوں

ایک جزیرہ خوشیوں کاہے

ایک جزیرے پر مسجد ہے

ایک پہ رقص اور موسیقی کے ساز سجے ہیں

اور جزیروں کو آپس میں

سڑکیں جوڑ دیا کرتی ہیں

 

اب کے چھٹی کا دن ہو گا

تو ہم پھر اپنی گاڑی میں

اُن سڑکوں پر بہتے ہوں گے

 

 

 

 

فیونرل سروس  Funeral Services

 

فیصل عظیم

 

سنا تم نے ؟

وہاں گھر سے ذرا کچھ دُور

ایسا اِک اِدارہ ہے

جہاں خاصے مناسب دام پر

وہ لوگ

بندوبست سب کرتے ہیں

سبزہ بھی اُگاتے ہیں

وہ خوشبو بھی چھڑکتے ہیں

صفائی روز کرتے ہیں

وہ کتبہ خود لگاتے ہیں

اُسے گرنے نہیں دیتے

جو تم بے نام ہو جاؤ

مناسب دام لے کر

وہ بہت آرام دیتے ہیں

 

 

تہمت اور دعا

عبد السلام عاصم

 

ایک خوش حال نے

ایک بد حال  کو

دیکھ کر یوں کہا

اے خدا شکر ہے

 

ایک بد حال  نے

ایک خوش حال کو

دیکھ کر یوں کہا

اے خدا  رحم  کر

 

الاماں     الحذر

الاماں   الحذر

 

 

 

مرا دشمن نہیں کوئی

 

عبد السلام عاصم

 

مرا دشمن نہیں کوئی

مگر میں خوش نہیں ہوں

مجھے اس بات کا غم بھی نہیں کوئی

کہ میں دشمن نہیں رکھتا

نہ میں خوش ہوں نہ میں غمگیں

تو پھر کیا ہوں

 

میں شاید بے سرا ہوں

شور کے اس کار خانے میں

جہاں کچھ بھی نہیں

بس شر ہی شر ہے

واردات قلب کی اور ذات کی

بے چہرہ ، بے ہنگم حوالوں سی

 

 

 

کچھ ہے

اشوک باچپئی

 

کچھ ہے

جس کا کوئی نام نہیں

جو کسی رنگوں کی فہرست میں شامل نہیں

جسے کسی نے دیکھا نہیں

چھو نہیں پایا کوئی

میں اسے پکارتا ہوں

جیسے میری آواز

اس کا نام ہے

رنگ ہے

منظر ہے

لمس ہے

 

 

اندھیرے کے کنویں سے

 

کائنات قاضی

 

کہتے ہیں اجنمے بچے کی

یاد نہیں آتی

پر میرے اندر تو ہوک کی طرح اٹھتی ہے اکثر

کہتے ہیں

جس کی آنکھ ناک نہیں بنی

وہ یاد کیسے رہے گا؟

کیوں نہیں رہے گا

اس کا لحم شحم یاد ہے مجھے

میرا حصّہ

جس نے مجھے احساس کرایا

کہ میں عورت ہوں

اس کی نہ بن سکنے والی ماں

آنکھوں میں آج بھی ایک سپنا تیرتا ہے

اسے باہوں میں بھرنے کا

ایک سپنا

ایک جان کو ہمیشہ اپنا کہنے کا

بھلے ہی اس کا لمس محسوس نہ کیا ہو میں نے

پر کچھ ہفتے ہی سہی

سنجویا تو تھا

اپنے اندر کہیں

اس نے خود نہ رہتے ہوۓ بھی

مجھے یہ ثبوت دیا

میری تکمیل کا

میری زرخیزی کا

برسوں بعد بھی وہ یاد ہے مجھے

آج بھی وہ دوڑا چلا آتا ہے

اپنی باہیں پسارے

میری یادوں میں

آج بھی اسے کھونے کا دکھ

رِستا رہتا ہے میرے اندر کہیں

کاش یہی دکھ ہوتا اسے بھی

جس کا وہ حصّہ تھا

 

 

غزل

سرور عالم راز سرور

 

کوچہ کوچہ نگر نگر دیکھا

خود میں دیکھا اسے اگر دیکھا

 

قصۂ زیست مختصر دیکھا

جیسے اک خواب رات بھر دیکھا

 

در ہی دیکھا نہ تو نے گھر دیکھا

زندگی! تجھ کو خوب کر دیکھا!

 

کوئی حسرت رہی نہ اس کے بعد

اُس کو حسرت سے اک نظر دیکھا

 

ہم کو دیر و حرم سے کیا نسبت؟

اُس کو دل میں ہی جلوہ گر دیکھا

 

درد میں ، رنج و غم میں ، حرماں میں

آپ کو خوب دربدر دیکھا

 

حال دل اپنا دیدنی کب تھا؟

دیکھتے کیسے ، ہاں مگر دیکھا!

 

سچ کہو بزم شعر میں کوئی

تم نے ‘سرور’ سا بے ہنر دیکھا؟

 

 

غزلیں

 

دلشاد نظمی

 

 

ضرورت کھردرے جسموں کو اتنا دھار کر دے گی

عَلم سر کو ، نہتے ہاتھ کو تلو ا ر کر دے گی

 

تِری مخصوص بیٹھک ، عام سا دربار کر دے گی

نما ئش اِک مہذب گھر کو بھی ، بازار کر دے گی

 

اُ جالا روکنے والی فصیلیں خوش تو ہیں لیکن

دراروں کی حمایت روشنی کو پا ر کر دے گی

 

ہماری بے حسی لپٹی ہے خوابیدہ لحافوں میں

خود اپنی چیخ ہی شاید ہمیں بے دار کر دے گی

 

تِری رحمت پہ اِس درجہ یقیں ہے اے مِرے مو لا

تِری قدرت مِرے رُ و مال کو دستار کر دے گی

 

ذرا نوکِ قلم سے حاشیہ محفوظ رکھ ورنہ

لکیر اپنی روانی میں حدیں سب پا ر کر دے گی

 

فنا ، گہرے سمندر میں ڈبو دے گی جہازوں کو

بقا ، ٹوٹے ہوئے بازو کو بھی پتوا ر کر دے گی

 

کبھی دہلیز کے باہر نہ کر گھر کے مسائل کو

شکن دلشاد چہرے کی ، تجھے اخبار کر دے گی

 

 

 

سورج کی کرنوں سے اغوا ہونے والا کھارا پانی

آ بادی میں گھوم رہا ہے گدلائے بنجارہ پانی

 

آنگن کی سوندھی بیٹھک پر ، دھوپ بدن کو سینک رہی ہے

بل کھائی زلفوں پہ لرزاں ، جھِلمل پارہ پارہ پانی

 

میں نا کہتا تھا کہ ضبط کی خوش فہمی کچھ ٹھیک نہیں ہے

دیکھ ذرا سا بندھ کھُلا اور ، پھیل گیا آوارہ پانی

 

آگ کی لپٹیں ناچ رہی ہیں ، دجلہ والوں کی بستی میں

پیاس کے مارے چیخ رہا ہے روز فرات کا سارا پانی

 

صدیوں سے کیوں ٹھہر گیا ہے اس بستی میں ایک سا موسم

سیپی ، گھونگھے ، ریت ، چٹانیں ، جال لئے مچھوارہ ، پانی

 

موڑ سے پہلے پیچھے مُڑ کر ایک نظر جب میں نے دیکھا

چاند سے چہرے پر پلکوں سے ڈھلکا دُکھ کا مارا پانی

 

چاروں اور گھٹائیں کب سے مُکھ درشائے ٹھہر گئی ہیں

نین گگن کو تاک رہے ہیں۔ بنجر کھیت کا چارہ پانی

 

حمد و ثنا رب العزت کی ناممکن دلشاد ہے گر چہ

سارے پیڑ قلم بن جائیں ، اور سیاہی سارا پانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

مطلع میں نے پچھلے برس ممبئی کے سیلاب زدہ حالات کے  پیش  نظر کہا تھا۔

 

 

 

غزلیں

اعجازعبید

 

 

گہری جھیل میں کوئی دائرہ سا ابھرا ہے

سنگ ریزہ پھر کوئی یاد نے اچھالا ہے

 

شب کی برف باری کی برف اب پگھلتی ہے

جو بدن میں زندہ تھا، وہ پرندہ ٹھٹھرا ہے

 

باغ، پھول، پتّی، کھیت، چاند، آسماں ، تارے

یوں تو کتنے ساتھی ہیں ، دل مگر اکیلا ہے

 

ریت کا ہر اک ذرّہ کس جگہ سمندر ہے

جنگلوں کو کیا معلوم، کتنی دور صحرا ہے

 

پیڑ کا وہ تنہا سا برگِ سبز ٹوٹے گا

جانے والے موسم کا آخری اشارہ ہے

 

 

رات پھر رات ہی، یہ ظلم بھی کر سکتی ہے

ذہن میں خوابوں کی تصویر بکھر سکتی ہے

 

تیز رفتار ہوا آندھی کی صورت کیوں ہے

یہ اگر چاہے تو خاموش گزر سکتی ہے

 

رات کے ہاتھ میں ہیں چاند ستارے پھر بھی

راستہ خوف کے ذرّات سے بھر سکتی ہے

 

جلتی پیشانیوں پر سجدے کے داغ ابھرے ہیں

یہ عبادت ہمیں مایوس بھی کر سکتی ہے

 

رنگ ہوں آنکھوں میں ، سج جاتے ہیں منظر سارے

طبع خوش ہو تو ہر اک چیز سنور سکتی ہے

 

 

غزل

وہاب اعجاز

 

اس نگر کی گلیوں میں زندگی نہیں ہوتی

گھر کے سونے آنگن میں روشنی نہیں ہوتی

 

رت بدل گئی شاید جو ترے حوالے سے

دل کو اب وہ پہلی سی بے کلی نہیں ہوتی

 

تو ملے تو پہروں تک شعر گنگناتے ہیں

تجھ سے دور رہ کر کیوں شاعری نہیں ‌ہوتی

 

یہ مری محبت نے شوخیاں بکھیری‌ ہیں

جو تمہاری آنکھوں ‌میں خامشی نہیں ہوتی

 

ہیں غلام ازل سے ، ہم مصلحت کے ماروں سے

شاہِ وقت کے آگے سرکشی نہیں ‌ہوتی

 

 

غزل

سجّاد انور

 

تمہارے نام ہی میں انتساب لکھوں گا

جب اپنی زندگی پر اک کتاب لکھوں گا

 

گڑی ہوئی ہیں جو صدیوں سے تیرے رستے پر

میں راہ دیکھتی آنکھوں کے خواب لکھوں گا

 

کٹی ہے وصل کی خواہش میں زندگی کیسے

تمہارے ہجر کے سارے عذاب لکھوں گا

 

بہاریں مانگنے آتی ہیں دلکشی تم سے

ترے لبوں کو میں تازہ گلاب لکھوں گا

 

تمہیں تو چاند ستارے بھی جھک کے تکتے ہیں

تمہارے حسن کی سب آب و تاب لکھوں گا

 

یہ میری عزت و شہرت تمھارے  نام سے ہے

یوں اس کتاب کا لب لباب لکھوں گا

 

ملے وہ یا نہ ملے تو تلاش کر سجاد

تری تڑپ کا میں سارا حساب لکھوں گا

 

 

غزل یا ہزل

ڈاکٹر ہیرا اندوری

 

تیز فیشن کی ہے رفتار خدا خیر کرے

نر بھی آتے ہیں نظر نا ر خدا خیر کرے

 

جیب پر تیری حولدار خدا خیر کرے

سرد ہے سٹّے کا بیوپار خدا خیر کرے

 

سرحدوں پر تو عدو کے لۓ فوجیں بھی لگیں

اور گھر میں چلے تلوا ر خدا خیر کرے

 

آنکھ ماری ہے پڑوسن نے مجھے اٹھلا کر

بیوی نے دیکھ لیا، یا ر خدا خیر کرے

 

مجھ سے پوچھو کہ ہیں شیطان سے بڑھ کر وہ لوگ

سب جنھیں سمجھے ہیں اوتار خدا خیر کرے

 

میں نے تو یوں ہی کہا تھا کہ ہوں میں بھی منصور

لوگ لے آۓ سرِدا ر خدا خیر کرے

 

توڑ دیتے ہیں جو خود بحر و وزن کی بندش

فن کے دشمن ہوۓ فنکار خدا خیر کرے

 

 

موگرے ، بیلے اور چنبیلی کے پھولوں کا باغ

 

یوسف ناظم

 

 

فقید المثال تصنیف "تنقید اور اسلوبیاتی تنقید” جس کے مصنف پروفیسر مرزا خلیل احمد بیگ ہیں ، کے تعلق سے ابتدا ہی میں یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ یہ تنقید کے فن سے تقریباً نابلد شخص کا اس پر اظہارِ خیال ہے۔ ایک بھاری بھرکم اور لرزہ بر اندام کر دینے والے موضوع پر اس ضخیم کتاب کے مطالعے پر خاکسار راغب اس لیے ہوا کہ کتاب کے مصنف کا رعب جو کوئی 18، 20 سال پہلے بالمشافہ مجھ پر طاری ہوا تھا وہ نہ صرف اب تک قائم و برقرار ہے ، بلکہ اس میں وقفے وقفے سے اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ مرزا صاحب اپنے پیشے کے وقار اور مرتبے کو استحکام پہنچانے میں کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اور حیرت اس بات پر بھی ہے کہ اتنی مشقت اور دلسوزی کے باوجود ان کی صحت متاثر نہیں ہوتی۔ پروفیسرمسعود حسین خاں نے ، جن کے نام یہ کتاب بجا طور پر معنون ہے ، فاضل مصنف کے بارے میں یہ لکھ کر کہ "بلا شک و شبہ کہاجاسکتا ہے کہ وہ (مرزا صاحب) ہند و پاک کی لسانیاتی دنیا کی واحد علمی شخصیت ہیں جنھوں نے لسانیات کے درسی مدارج باقاعدہ طور پر طے کیے ہیں ، اور اسی کے راستے سے وہ اس علم کے اعلیٰ مناصب تک پہنچے ہیں "، حق بہ حق دار رسید کی شاباشی دی ہے۔ ویسے مرزا خلیل بیگ کے مداحوں میں تو مشفق خواجہ جیسے بلند مرتبہ محقق بھی (ہنسی خوشی) شامل ہیں۔انھوں نے کام ہی ایسے کیے ہیں کہ گوپی چند نارنگ، حامدی کاشمیری، مغنی تبسم، خلیق انجم، نذیر احمد ملک، اشرف رفیع جیسے اہلِ قلم کو صدق دلی کے ساتھ ان کے کارناموں کی داد دینی ہی پڑی۔ خاکسار صرف یہی عرض کر سکتا ہے کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے اپنی تصانیف سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ¿ لسانیات کو وقار بخشنے اور اوجِ کمال پر یا یوں کہیے کہ اس کے قرب و جوار میں پہنچانے میں جس دلجمعی اور مجنونانہ عشق سے کام لیا ہے وہ انہی کا دل جانتا ہے اور خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ مرزا خلیل احمد بیگ نے تحقیق اور تنقید جیسی کھردری صنف کو صنفِ نازک بنا دیا ہے۔ خاکسار کی اس موضوع سے رغبت کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔

زیرِ نظر کتاب ٥١ عنوانات پر مشتمل ہے اور ہر عنوان اس ادبی مملکت کی ایک ریاست ہے۔ پہلے ٣ عنوانات خالص تکنیکی ہیں جیسے "اسلوبیاتی تنقید”، "اسلوبیاتی تنقید: چند بنیادی باتیں ” اور "تنقید کا نیا منظر نامہ”۔ ان تینوں عنوانات کے تحت فاضل مصنف کے عالمانہ مضامین کا میں نے اپنی عافیت کے پیشِ نظر صرف سرسری مطالعہ کیا۔ میں اپنی طالب علمانہ استعداد کے مطابق اس نتیجے پر پہنچا کہ ادب صرف نبض پر ہاتھ رکھ کر اور کانوں پر اسٹیتھسکو پ لگا کر تشخیص اور تشخص کے لیے کافی نہیں ہے ، اس کے لیے سرجری بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر مرزا خلیل بیگ اس لحاظ سے صحیح معنوں میں ڈاکٹر ہیں ، علمی بھی اور طبی بھی۔

دوسرے ٣ عنوانات "مغرب کے چند اسلوبیاتی نظریہ ساز”، "مسعود حسین خاں اور اسلوبیات” اور "گوپی چند نارنگ کا اسلوبیاتی نظریۂ تنقید” خاکسار کو اس کی بساط سے بہت زیادہ یعنی پر تکلف اور مرغن معلوم ہوئے ، لیکن بہر حال اجنبیت کا احساس نہیں ہوا۔ مملکتِ ادب کی سیاحی میں اسی طرح، علم میں نہ سہی، معلومات میں ضرور اضافہ ہوتا ہے۔ چنانچہ خاکسار کو پتا چلا کہ اسلوبیاتی تنقید معروضی، توضیحی اور تجزیاتی تنقید ہے۔یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کا لسانیات سے گہرا رشتہ ہے جو زبان یا زبانوں کے سائنسی مطالعے کا علم ہے۔ مرزا صاحب لسانیات کے استاد ہیں اور اسلوبیات کے ماہر اور اسلوبیاتی دبستانِ تنقید کے بہترین نمائندہ۔

اسلوبیاتی تجزیے کا باب، خاکسار کے مطلب کا باب ثابت ہوا۔ (اس میں سات مضامین ہیں ، یوں سمجھیے میرے سات طبق روشن ہو گئے ):(١) "ابوالکلام کی نثر” جسے پڑھ کر نظمِ حسرت کا مزا جاتا رہے۔ (٢) "نیاز فتح پوری: لسانی مزاج اور تشکیلِ اسلوب”۔ اس کا ایک جملہ ہی قاری کی جان نکال لیتا ہے۔ لکھا ہے : "اُدھر سورج ڈوب رہا تھا اور اِدھر ایک بدرِ کامل طلوع ہو رہا تھا”۔ فاضل مصنف نے اسے "تقابل” اور "اسلوبیاتی تضاد” (Antithesis) کا نام دیا ہے۔ ان کی مرضی میں ہمارا دخل کیا ہے ! (٣) "رشید احمد صدیقی کا طنزیہ و مزاحیہ اسلوب”۔ مرزا خلیل بیگ نے اس عنوان پر کھل کر لکھا ہے اور طنز و مزاح کا فرق بیان کرنے میں رشید صاحب ہی کے حوالے سے اپنا مضمون سجایا ہے۔ خاکسارکی رائے ہے کہ رشید صاحب کو جتنا پڑھیے گا اتنے ہی نئے نئے شگوفے آپ کے ہاتھ آئیں گے۔ مرزا صاحب نے بجا طور پر کہا ہے کہ”طنزو مزاح کی تخلیق میں زبان بہت بڑا رول ادا کرتی ہے۔” ان کے اس خیال سے بھی خاکسار کو اتفاق ہے کہ "رشید احمد صدیقی نے طنزو مزاح کی تخلیق میں زبان کے تمام تر تخلیقی امکانات کا سہارا لیا ہے ، زبان کو ہر نئے انداز سے برتنے کی کوشش کی ہے اور زبان کی صوتی، صرفی، لغوی، نحوی اور معنیاتی سطحوں پر اس کے تخلیقی امکانات کو ڈھونڈ نکالنے کی پوری کوشش کی ہے "۔ (٤) "بیدی کی زبان” جس میں بیدی کی زبان کا تجزیہ فاضل مصنف نے بڑی محنت اور گہرائی سے کیا ہے۔ بیدی کی زبان پر ہمارے اکثر نقادوں کے اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ "بیدی کی زبان کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے وقت یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نہ صرف یہ کہ خود بیدی پنجاب کے رہنے والے تھے بلکہ ان کے افسانوں کے بیشتر کر داروں کا تعلق بھی سرزمینِ پنجاب سے ہے۔۔۔ ظاہر ہے کہ ان کر داروں کی زبان اعلیٰ معیاری اردو یا جسے ہم نستعلیق اردو کہتے ہیں ، نہیں ہو سکتی تھی۔” بیدی کی زبان کے بارے میں مرزا صاحب آگے چل کر لکھتے ہیں کہ "یہ بات نہایت اہم اور لائقِ ستائش ہے کہ بیدی نے اپنی کہانیوں میں زبان کے استعمال میں تصنع یا رکھ رکھاؤ سے کام نہیں لیا ہے۔ جس طرح وہ اپنے کر داروں کو ان کے اصلی اور حقیقی رنگ میں پیش کرتے ہیں اور ان کے جذبات و نفسیات کے بیان میں فطری انداز اختیار کرتے ہیں ، اسی طرح انھوں نے زبان کے استعمال میں بھی حقیقت پسندی سے کام لیا ہے اور کر داروں کی گفتگو، بول چال، طعنہ و تشنع، نیز پیارو محبت اور نفرت و حسد کے جذبات کے اظہار میں انھیں کی زبان سے کام لیا ہے۔” مرزا صاحب کی یہ بات ہمارے نقادوں کے غور کرنے کی ہے۔ (٥) "ذاکر حسین : زبان اور اسلوب”۔ (٦) "اکبر الہٰ آبادی اور لغاتِ مغربی” نہایت دلچسپ اور معلومات بخش مقالہ ہے اور خاکسار کی رائے ہے کہ اکبر الہٰ آبادی اینگلو اردو شاعری کے معمار ہیں۔ اور اس کے بعد اس باب کا آخری مضمون ہے "دکنی اسلوبیات۔” مرزا خلیل احمد بیگ نے جتنا لکھا ہے ، یقیناً اس سے بہت زیادہ پڑھا ہے۔ اپنے وسیع مطالعے کا تجزیہ اور وہ بھی ماہرانہ تجزیہ پیش کرنا، پاپڑ بیلنے سے زیادہ مشکل کام ہے۔ پاپڑ بیلنے میں صرف جسمانی مشقت ہے۔ ذہانت کا اس میں کیا دخل ہے۔ مرزا خلیل احمد بیگ نے پاپڑ نہیں بیلے ہیں ___ موگرے ، بیلے اور چنبیلی کے پھولوں کا باغ سجایا ہے۔

نئے تنقیدی زاویے کے باب میں دو مضامین شامل ہیں ، "ادب اور نشانیات” اور دوسرا "تجزیۂ کلامیہ: مسائل و مباحث۔” اس باب میں فاضل مصنف نے لغوی مسائل پر بحث کی ہے اور ڈسکورس کے لیے کلامیہ کے لفظ کو متبادل کے طور پر پیش کیا ہے جو کم سے کم میرے دل کو لگا۔ نیا لفظ قبول کرنے میں ہم لوگ تکلف اور تامل کا سہارا لیتے ہیں۔ختنے ولیمے کی دعوت میں تھوڑے سے تکلف میں کوئی حرج نہیں لیکن ادب و زبان کے دسترخوان پر ہاتھ روکنا مناسب نہیں ہے۔ الفاظ کی ذخیرہ اندوزی ہر لحاظ سے مستحسن ہے۔

یہ کتاب صرف طالب علموں کے لیے نہیں ہے ، اہلِ علم بلکہ عالموں کے لیے بھی ہے اور فاضل مصنف قابلِ مبارک باد ہیں کہ__ اب کیا کہوں !

میں تو ڈراسہما بیٹھا تھا کہ اس کڑے موضوع پر ایسی کھری کتاب پر کیا لکھوں ، لیکن جی کڑا کر کے کچھ لکھ سکا۔ ابتدا میں کتاب کے مضامین کی فہرست اور پروفیسر مسعود حسین خاں کیصحت افزا تحریر پڑھی تو اندازہ ہوا کہ یہ کتاب میرے لیے بھاری پتھر ثابت ہو گی۔ لیکن پتا چلا کہ کتاب واقعی پُر اثر، وقیع اور عالمانہ ہے اور ادبی تنقید کا ایک نیا اور روشن باب وا کرتی ہے !

 

 

 

کتابوں کی باتیں

 

 

قدرت اﷲ شہاب ‘شہا ب نامہ’

 

وہاب اعجاز

 

شہاب نامہ قدرت اللہ شہاب کی خودنوشت کہانی ہے۔ شہاب نامہ مسلمانان برصغیر کی تحریک آزادی کے پس منظر ، مطالبہ پاکستان، قیام پاکستان اور تاریخ پاکستان کی چشم دید داستان ہے۔ جو حقیقی کر داروں کی زبان سے بیان ہوئی ہے۔ شہاب نامہ دیکھنے میں ضخیم اور پڑھنے میں مختصر کتاب ہے۔ شہاب نامہ امکانی حد تک سچی کتاب ہے۔ قدرت اللہ شہاب نے کتاب کے ابتدائیہ میں لکھا ہے کہ،

’’میں نے حقائق کو انتہائی احتیاط سے ممکنہ حد تک اسی رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے جس رنگ میں وہ مجھے نظر آئے۔‘‘

جو لوگ قدرت اللہ شہاب کو جانتے ہیں ان کو معلوم ہے کہ یہ ایک سادہ اور سچے انسان کے الفاظ ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے اس کتاب میں وہی واقعات لکھے ہیں جو براہ راست ان کے علم اور مشاہدے میں آئے اس لئے واقعاتی طور پر ان کی تاریخی صداقت مسلم ہے۔ اور بغیر تاریخی شواہد یا دستاویزی ثبوت کے ان کی صداقت میں شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔ البتہ حقائق کی تشریح و تفسیر یا ان کے بارے میں زاویہ نظر سے اختلاف ہو سکتا ہے۔عمومی طور پر شہاب نامہ کے چار حصے ہیں ،

1)قدرت اللہ کا بچپن اور تعلیم 2) آئی سی ایس میں داخلہ اور دور ملازمت

3) پاکستان کے بارے میں تاثرات 4) دینی و روحانی تجربات و مشاہدات

ان چاروں حصوں کی اہمیت جداگانہ ہے لیکن ان میں ایک عنصر مشترک ہے اور وہ ہے مصنف کی مسیحائی۔ وہ جس واقعہ کا ذکر کرتے ہیں وہ لفظوں کے سیاہ خانوں سے نکل کر قاری کے سامنے وقوع پذیر ہونا شروع کر دیتا ہے۔ وہ جس کر دار کا نقشہ کھینچتے ہیں وہ ماضی کے سرد خانے سے نکل کر قاری کے ساتھ ہنسنے بولنے لگتا ہے۔

اس کتاب میں ادب نگاری کی شعوری کوشش نظر نہیں آتی۔ بے ہنری کی یہ سادگی خلوص کی مظہر ہے اور فنکاری کی معراج ، یہ تحریر ایمائیت کا اختصار اور رمزیت کی جامعیت لئے ہوئے ہے۔ کتاب کا کے نوس اتنا وسیع ہے کہ اس کی لامحدود تفصیلات اور ان گنت کر داروں کی طرف اجمالی اشارے ہی کئے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ اشارے بھر پور ہیں۔

قدرت اللہ شہاب کا بچپن اور تعلیم:۔

بچپن اور تعلیم کا دور شہاب کی شخصیت کا تشکیلی دور ہے اس لئے مصنف کی شخصیت سے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے علاوہ ان کے ملاقاتیوں کے لئے جداگانہ اہمیت رکھتا ہے۔ لیکن اس ذاتی زاویے کے علاوہ اس کی ایک تاریخی اہمیت بھی ہے۔ اس حصے میں ڈوگرہ دور کی ریاست جموں کشمیر کا معاشرتی اور سیاسی نقشہ زندہ ہو کر سامنے آ جاتا ہے۔ اس باب میں شہاب نے بہت سے زند ہ کر دار تخلیق کئے ہیں جو یقینا اردو ادب کے زندہ کر داروں میں شامل ہیں۔ ان کر داروں میں مولوی صاحب کی بیوی ، چوہدری مہتاب دین ، ملازم کریم بخش شامل ہیں لیکن ان میں سب سے اہم اور بہترین کر دار چندرواتی کاہے۔جوانی کے عشق کی اولے ن ہمسفر چندراوتی کا سراپا یوں لکھتے ہیں۔

’’ چندراوتی واقعی سورن کنیا تھی۔ وہ سپر ڈیشز سمیشر قسم کی لڑکیوں کی طرح حسین تو نہ تھی لیکن اس کے وجود پہ ہر وقت سپیدی سحری کا ہالہ رہتا تھا۔ رنگت میں وہ سونے کی ڈلی تھی۔ اور جلد اس کی باریک مومی کاغذ تھی۔ جس کے آر پار نگاہ جاتی بھی اور نہیں بھی جاتی۔۔۔۔جب وہ پانی پیتی ہے تو وہ اس کے گلے سے گزرتا ہوا ایک ایک گھونٹ دور سے گنا جاسکتا ہے۔‘‘

کتاب کا یہ حصہ مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے زندہ کر داروں سے بھرا پڑا ہے اور ہر باب اپنی جگہ ناول یا ناولٹ ہے۔ اس حصے میں اس دور کی معاشرت زندہ ہو کر سامنے آ جاتی ہے۔

آئی سی ایس اور دور ملازمت:۔

کتاب کا دوسرا حصہ ملازمت سے متعلق ہے۔ اس دور میں وہ بھاگلپور میں اسسٹنٹ کمشنر ، اورنگ آباد اور تملوک میں ایس ڈی او، اور صوبائی سیکرٹریٹ اڑیسہ میں انڈر سیکر ٹری رہے۔ اس دور کی تصویر کشی ، تاثراتی اور تجریدی انداز میں اس چابکدستی سے کی گئی ہے کہ تحریک پاکستان اور مطالبہ پاکستان پس منظر اور جواز ذہنوں پر کم اور دلوں پر زیادہ نقش ہو جاتا ہے۔ شہاب نے اس بارے میں لیکچر بازی نہیں کی بلکہ حالات واقعات کو  زبان دے دی ہے او ر وہ پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی بقا کا پاکستان کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا۔ سرگزشت کا یہ حصہ قیام پاکستان کے ناگزیر ہونے کی دلیل اور دستاویزہے۔ کلکتہ اور بہار میں وسیع پیمانے پر مسلمانوں کی نسل کشی ، کانگرس ہائی کمان کا خفیہ منصوبہ جو شہاب صاحب نے جوش جنوں میں قائد اعظم تک پہنچایا ، یہ سب تحریک پاکستان کا المناک دیباچہ ہے۔

1947ء میں شہاب پاکستان آئے جہاں وہ سیکرٹریٹ میں بھی رہے آزاد کشمیر کی نوزائیدہ حکومت کے سیکرٹری جنرل بھی ، جھنگ کے ڈپٹی کمشنر بھی ، تین سربراہانِ مملکت کے پرسنل سیکرٹری بھی اور ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر بھی۔ یہ حصہ تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس میں قاری پاکستان کے ایک اہم تشکیلی دور میں صاحبان اختیار کل کو حاکموں کی حیثیت سے بھی دیکھتے ہیں اور انسانوں کی حیثیت سے بھی۔ گورنر جنرل غلام محمد، صدر سکندر مرزا اور صدر ایوب کی زندگی کی جھلکیاں شہاب نامہ میں ملتی ہیں و ہ کسی مورخ کی تاریخ میں نہیں ملیں گی۔ ان میں پس پردہ جھانکنے کا لطف آتا ہے۔ اس حصے میں اہم رازوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ کس طرح افسر شاہی کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اقدار میں شامل کیا گیا اور پھر فوج کو اقدار میں آنے کے لئے راہ ہموار کی گئی۔ یہاں صدر ایو ب ،سکندر مرزا ، غلام محمد سب کی محلاتی سازشوں سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔

اختیار اعلیٰ کی راہداریوں کی قربت کے برعکس ڈپٹی کمشنر کی ڈائری ، انتظامیہ کے ضلعی نظام کے ناسوروں کی پردہ در اور عوام الناس کی بے بسی اور پریشانیوں کی آئینہ دار ہے۔ افسوس کی بات ہے یہ ہے کہ جب سے اب تک خرابیوں کی اصلاح کے بجائے ان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔کاش ڈائری کے یہ اوراق ہمارے آئندہ ضلعی حاکموں کے دل میں خوف خدا اور انسانی ہمدردی کا جذبہ پیدا کر سکیں۔

پاکستان کے بارے میں تاثرات:۔

پہلے دو ابواب کے برعکس پاکستان کا مستقبل خارجی واقعات کی داستان نہیں ،بلکہ ایک داخلی رد عمل ہے۔ اس میں شہاب صاحب نے اپنی آرزوؤں کے نقش دکھائے ہیں اور چند سیاسی حقائق کا تجزیہ بھی کیا ہے۔ یہاں وہ اُن اصولوں کی نشاندہی کرتے ہیں جن پر چل کر پاکستان ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ اور مسلم دنیا کی مکمل رہنمائی اور قیادت کر سکتا ہے۔ وہ اس مختصر باب کے خاتمے پر لکھتے ہیں ،

’’ ہمیں حب الوطنی کا جذبہ نہیں بلکہ جنون درکار ہے۔ جذبہ تو محض ایک حنوط شدہ لاش کی مانند دل کے تابوت میں منجمد رہ سکتا ہے۔ جنون ، جوش جہاد اور شوق شہادت سے خون کو گرماتا ہے اسی میں پاکستان کی سلامتی اور مستقبل کا راز پوشیدہ ہے۔‘‘

دینی و روحانی تجربات و مشاہدات (چھوٹا منہ بڑی بات)

کتا ب کا یہ حصہ کافی متنازعہ رہا ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شہاب صاحب کے دوستوں نے لکھ کر اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ یہ اُن کی روحانی زندگی کی داستان ہے۔ ممتاز مفتی ساری عمر اُن کی چوتھی سمت کے متعلق چلاتے رہے۔ اور شہاب صاحب اُس سے مسلسل انکار کرتے رہے لیکن اُنھوں نے اپنے اس آخری باب میں ذکر کیا ہے کہ کس طرح ایک نائنٹی نام کا کر دار ان کو مستقبل کے راز بتاتا تھا اور اُس کو ہدایات دی جاتی تھیں۔ ویسے اگر دیکھا جائے تو ایک مادی سوچ رکھنے والا شخص ان باتوں کو من گھڑت سمجھتا ہے۔ لیکن اس بار ے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’ماننے کے لئے جاننا ضروری نہیں ‘‘ اور ہم تو اس باب کے بارے میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ

ع یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو سوکر

شہاب نامہ اسلوب اور بیان کے لحاظ سے ایک شاہکار ہے اس لئے آئیے شہاب نامے کے فنی خصوصیات کاجائزہ لیتے ہیں ،

اسلوب:۔

نثر اسلوب کا اپنا ایک آہنگ ہوتا ہے جس کے شیڈ ز ہر لکھنے والے کے ہاں مختلف ہوتے ہیں۔ یہی آہنگ عبارت میں سلاست پیدا کرتا ہے۔ بعض لکھنے والوں کے ہاں جملوں کی مصنوعی اور پر تکلف ساخت کی وجہ سے عبارت میں جھٹکے پیدا ہو جاتے ہیں جن پر بعض اوقات جدیدیت کا پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور جس طرح جھوٹ بولنے والے کو زیادہ دیر گفتگو کرنا پڑجائے تو کہیں کہیں اس کے منہ سے سچی اور متضاد باتیں بھی نکل جاتی ہیں ، اسی طرح مصنوعی اسلوب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ جہاں لکھنے والے کو ذرا سی اونگھ آئی اس کا اصلی پن ظاہر ہو گیا اور بلند آہنگ جملوں کے پھسپھسے اور کمزور جملوں کا ٹانکا لگ گیا اور عبارت میں ناہمواری پیدا ہو گئی۔ لیکن قدرت اللہ شہاب کی نثر ایسے فنی نقائض سے بالکل پاک ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نہایت سہولت کے ساتھ اپنا مدعا بیان کیا ہے اور جملوں کی ساخت کو پیچیدہ نہیں ہونے دیا۔مثلاً

’’جمہوریت کا سکہ اسی وقت چلتا ہے جب تک وہ خالص ہو۔ جوں ہی اس میں کھوٹ مل جائے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں رہتی۔‘‘

منفر د طرز تحریر:۔

شہاب نامہ میں نجی، جذباتی ، رومانی ، قلبی ، روحانی ، خاندانی ، معاشرتی ، سیاسی ، تاریخی ، دفتری ، قومی ، ملکی ، بین الاقوامی ، ذہنی ، علمی ادبی اور نظریاتی غرضیکہ ہر قسم کے واقعات بیان ہوئے ہیں۔ پھر معمولی بیروں ، ملازموں اور موچیوں سے لے کر مشاہیر عالم اور مملکتوں کے سربراہان تک کا ذکر ہے ، تاہم یہ قدرت اللہ شہاب کے منفرد طرز تحریر اور دلنشیں انداز بیان کا اعجاز ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے واقعات اور معمولی سطح کے افراد بھی قاری کے دل و دماغ میں سما جاتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر شہاب صاحب کا کمال اور احسان یہ ہے کہ انہوں نے صورتیں صفحہ قرطاس پر یوں منعکس کر دیں ہیں کہ آنے والے زمانے اس سے بہت کچھ اخذ کر سکیں گے۔

’’ صاحب اقتدار اگر اپنی ذات کے گرد خود حفاظتی کا حصار کھینچ کر بیٹھ جائے تو اس کی اختراعی ، اجتہادی اور تجدیدی قوت سلب ہو کر اسے لکیر کا فقیر بنا دیتی ہے۔

خود ستائی سے اجتناب:۔

خود نوشت ایک مشکل صنف ادب ہے کیونکہ اس میں خودستائی کے مواقع جا بجا موجود ہوتے ہیں۔ کسی بھی ایسے واقعے کا بیان جس میں لکھنے والا خود کو ہیرو ثابت کر رہا ہو خواہ کتنا ہی حقیقت پر مبنی کیوں نہ ہو پڑھنے والا شک میں مبتلا ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا چنانچہ ایسے موقعوں پر ایک اچھے ادیب کو خاصی پر لطف احتیاط سے کام لے نا پڑتا ہے۔ مثلاً شہاب صاحب آئی سی ایس کی ٹریننگ کے دوران وہ اپنی گھوڑ سواری کے متعلق نہیں کہتے کہ انہیں اس میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ کہتے ہیں ، یہ سارا گھوڑے کا اپنا کمال تھا۔

گیلپ کی آواز پر میر ا گھوڑا خود بخود سر پٹ بھاگنے لگا۔ راستے میں ایستادہ رکاوٹوں کو بھی خود ہی اپنی ہنر مندی سے پھلانگتا چلا گیا۔ آخر میں جب کرنل صاحب نے فگر آف ایٹ (8) بنانے کا آرڈر دیا تو میرے گھوڑے نے ایسے خوبصورت دائرے کاٹ کر انگریزی آٹھ کا ہندسہ بنایا کہ ممتحن نے مجھے شاباش دے کر اچھے نمبروں سے پاس کر دیا۔‘‘

سادہ زبان:۔

شہاب نامہ کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ جہاں جہاں جذبات نگاری ، واقعہ نگاری اور کر دار نگاری کے مواقع آئے ہیں۔ شہاب صاحب نے ادق ، ثقیل ، غیر فصیح اور اجنبی الفاظ کا سہار نہیں لیا۔ بلکہ مشکل ترین معاملات ، نازک ترین خیالات او ر پیچیدہ ترین مفاہیم کو بھی نہایت سہولت اور آسانی کے ساتھ پورے تاثر میں بھگو کر قلمبند کرتے چلے جاتے ہیں مثلاً

’’ایک روز وہ چھابڑی والے کے پاس تاز ہ گنڈیریاں کٹوانے کھڑی ہوئی تو میرے دل میں آیا۔۔۔ ایک موٹے گنے سے چندرا وتی کو مار مار کر ادھ موا کر دوں اور گنڈیریوں والے کی درانتی سے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنے دانتوں سے کچر کچر چبا ڈالوں۔‘‘

شوخی و ظرافت:۔

شہاب نامہ کے نثر کی ایک اور خوبی شگفتگی ، شوخی اور ظرافت کا برمحل استعمال ہے جس سے تحریر میں لطف دلچسپی اور خوبصورتی پیدا ہو گئی ہے۔ اور اس ہی کی بدولت اتنی ضخیم کتاب ہونے کے باوجود قاری کسی بھی صورت میں اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا اور اُس کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے۔

’’حکیم گوراندتہ دل کا ایک خاص وصف تھا کہ وہ دکان کی کوئی چیز ضائع نہیں ہونے دیتے تھے۔ ایک با ر روغن بادام کے کھلے منہ والی بوتل میں مردہ چھپکلی نظر آئی۔ حکیم صاحب نے چمٹے سے پکڑ کر اسے نکالا اور کچھ دیر تک اسے بو تل کے منہ سے الٹا ٹکائے رکھا تاکہ چھپکلی سے ٹپکتے ہوئے بادام روغن کے زیادہ سے زیادہ قطرے بوتل میں واپس گر جائیں۔‘‘

’’ جا ن نے مجھے شستہ انگریزی میں دو تین گالیاں دیں۔ میں نے اس کی کلائی مروڑ کر پیٹھ پر ایک لات جمائی اور اسے مرغا بننے کا حکم دیا۔ یہ اصطلاح اس کے لئے نئی تھی۔ میں نے خود مرغا بن کر اس کی رہنمائی کی۔‘‘

کر دار نگاری:۔

قدرت اللہ شہاب عام طورپر زندگی میں موجود کر داروں کو پیش کرتے ہیں اور ان کی پیش کش اتنی عمدہ اور مکمل ہوتی ہے کہ ہم ان کر داروں سے مل کر جد ا نہیں ہوتے۔ شہاب نامہ میں اہم شخصیتوں کی اس طرح تصویر کشی کی گئی ہے کہ چھوٹے سے واقعہ یا وقوعہ سے قاری کر دار کے باطن تک جھانک لیتا ہے۔ مثلاً قائد اعظم سے دو مختصر ملاقاتوں کا ذکر ہے۔ ایک بار جب وہ ایک خفیہ دستاویز حاصل کرنے کر کے ان تک پہنچاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ وہ دستاویز نہایت مفید خیال کی جاتی ہے لیکن قائد اعظم کی اصول پرستی اور عظیم شخصیت کی جھلک چند جملوں میں سامنے آ جاتی ہے۔

میں نے فر فر ساری بات کہہ سنائی۔

ویل ویل۔۔۔۔تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔This is breach of trust

غلام محمد ، خواجہ ناظم الدین ، صدر ایوب ، مہاراجہ ہر ی سنگھ اور بہت سی اہم شخصیتوں کا انہوں نے نہایت خوبصورت خاکہ پیش کیا ہے۔

چندراوتی شہاب نامہ کا ایک بے مثال کر دار ہے۔ جس کے اندر محبت کا الاؤ دہک رہا تھا لیکن وہ زبان پر نہ لا سکی اور مر گئی۔ اور اس طرح شہاب صاحب کے اولین افسانے کا عنوان بنی اور جس کا پہلا جملہ یہ تھا۔

’’ جب مجھے چندراوتی سے محبت شروع ہوئی اسے مرے ہوئے تیسرا روز تھا۔‘‘

اس کے علاوہ چند دوسرے کر دار۔ مثلاً ڈپٹی کمشنر کی ڈائری کی بڑھیا جس سے مصنف نے ساری ملازمت کے دوران سولہ آنے کی واحد رشوت قبول کر لی تھی۔ بشیراں طوائف جس نے پیسہ پیسہ جوڑ کر رقم جمع کی تھی اور حج پر جانے کے لئے تڑپ رہی تھی۔ نیپلز کے ہوٹل میں ملنے والی دمشق شام کی دلفریبہ ، اور درجنوں ایسے یادگار کر دار ہیں جنہیں مصنف نے اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ پڑھنے والے کے ذہن میں نقش ہو جاتے ہیں۔

اختصار:۔

اعلیٰ ادبی نثر کی ایک خوبی اس کا ایجاز و اختصار ہے جس کی مثالیں شہاب نامہ میں بکثرت نظر آتی ہیں۔ قدرت اللہ شہاب نے جس طرح کی مصروف ، متنوع بھر پور اور ہنگامہ آرائی کی زندگی بسر کی اور جتنے عرصے پر شہاب نامہ کے واقعات محیط ہیں ، ان کو دیکھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ شہاب صاحب نے تقریباً پچا س برسوں پر پھیلی زندگی کو ہزار گیارہ سو صفحات کی ایک جلد میں کیسے سمو دیا ہے جبکہ وہ اول درجے کے افسانہ نگار تھے اور چاہتے تو محض بملا کماری اور چندراوتی پر ایک ایک ناول لکھ سکتے تھے۔دراصل قدرت اللہ شہاب صاحب نے فیکٹس اور فکشن کو ایک کر دیا ہے۔ یعنی ان کی فکشن کی بنیاد حقائق پر ہے اور وہ حقائق کو فکشن کے فنی اسلوب میں پیش کرتے ہیں۔

مجموعی جائزہ:۔

شہاب نامہ اردو ادب کی ایک ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والی کتاب ہے۔ جس میں فن اور فکر کا حسین امتزاج ملتا ہے۔ اتنی ضخامت کے باوجود یہ واحد کتاب ہے جو کہ طبیعت پر بوجھ نہیں بنتی بلکہ اس کے ہر صفحے میں ہمیں کسی نئی حقیقت کا انکشاف نظر آتا ہے۔ اس کتاب میں ملکی تاریخی سے لے کر روحانیت تک سب کچھ موجود ہے۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے کوئی مورخ نظرانداز نہیں کر سکتا نہ ادب کا طالب علم۔ پاکستان کو جاننے اور سمجھنے کے لئے اس کتاب کا مطالعہ ضروری ہے۔ اب تک اس کتاب کے کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں اور پاکستا ن میں یہ سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب ہے۔ جس کی وجہ شہاب صاحب کا اسلوب اور حقیقت نگاری ہے۔

 

 

 

احتشام اختر کی شعری خدمات۔ ایک (جائز) جائزہ

 

اعجاز عبید

 

عزیز دوست احتشام اختر کے توسط سے ہی انجم آفاق کی یہ کتاب ‘احتشام اختر کی شعری خدمات۔ ایک جائزہ’ نظر نواز ہوئی اور بہت شوق سے کچھ گھنٹوں میں ہی ختم کر دی۔ دلچسپی کی اصل وجہ، جھوٹ کیوں بولوں ،  اس شخصیت سے تعلقِ خاطر ہے جن پر یہ کتاب لکھی گئی ہے۔ لیکن محض موضوع کتاب شخصیت سے یہ دیرینہ  تعلق اس کتاب کی اہمیت کو گھٹاتا نہیں ہے۔ اس کتاب کی اپنی اہمیت یوں بھی کہی جا سکتی ہے کہ احتشام اختر کی پیاری، پیار کرنے والی، اور پیار کۓ جانے والی شخصیت  کے کئی پہلوؤں سے میں بھی اسی کتاب سے واقف ہوا۔ اس لحاظ سے مصنفہ کی یہ پہلی کوشش پوری طرح کامیاب ہے۔

احتشام نے جب یہ اطلاع دی کہ وہ کتاب ڈاک سے بھیج رہے ہیں تو پہلے میں یہی سمجھا کہ ان کا چوتھا مجموعہ کلام چھپ گیا ہے۔ اور اس لۓ میں خوش تھا کہ میری ذاتی لائبریری میں ان کی پہلی کتاب ‘راکھ’ کے بعد کا کوئی مجموعہ میرے پاس نہیں۔  احتشام نے فون پر بھی یہ واضح نہیں کیا تھا کہ وہ کیا کتاب بھجوا رہے ہیں۔لیکن اب یہ کتاب ہاتھ میں آئی تو پہلے تو مایوسی ہوئی  کہ یہ احتشام ‘کی’  نہیں ، احتشام ‘پر’ کتاب ہے۔ پھر مایوسی کی ایک وجہ یہ بھی لگی کہ ایک دم خیال آیا کہ کیا احتشام اختر بھی ان اس بھیڑ میں شامل ہو گئے ہیں جو اپنا نام روشن کرنے کے لۓ دوسروں سے اپنے بارے میں لکھواتے ہیں اور اس کے لۓ دامے درمے سخنے ہر ممکن اور نا ممکن (ہم جیسے لوگوں کے لۓ) تعاون دیتے ہیں۔ اس وقتی دھکے سے سنبھلا تو دیکھا کہ کتاب موڈرن پبلشنگ ہاؤس دہلی نے چھاپی ہے جو ایسا ادارہ ہے جو اچھی معیاری کتابیں شائع کرنے کے لۓ مشہور ہے۔ اور مزید جب یہ علم ہوا کہ یہ اجمیر یونیورسٹی کے اردو میں ایم فل کی ڈگری کی تکمیل کے لۓ لکھے گۓ مقالے کا کتابی روپ ہے تو اس تکلیف دہ احساس کو احساس مسرت نے دور دھکیل دیا۔ اس میں کون شک کر سکتا ہے کہ راجستھان کا جدید ادبی  منظر نامہ مخمور سعیدی، ممتاز راشد، عقیل شاداب اور احتشام اختر کے ذکر کے بغیر نا مکمل ہے۔ مزید یہ کہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لۓ مقامی ادیبوں اور شعراء پر تحقیق کرنے کا ایک خوش آئند  رواج چل نکلا ہے۔ اس لۓ احتشام اختر پر یہ تھیسس اس سلسلے کا ایک نہایت مناسب قدم ہے۔ مزید خوشی یہ ہوئی (ان سے تعلق خاطر کی بنا پر) کہ احتشام اس معاملے میں راجستھان کے دوسرے اہم شعراء سے سبقت لے گۓ۔ یہ کتاب اگر چہ ان کا اپنا ا کارنامہ تو نہیں ہے ، مگر ان کی اس خوش نصیبی پر میں انھیں مبارک باد دیتا ہوں۔ اور جس کا کارنامہ ہے ، یعنی مصنفہ انجم آفاق، ان کو بھی نہ صرف مبارک باد دیتا ہوں کہ انھوں نے احتشام اختر پر یہ تحقیق کی بلکہ اردو ادب کے  تحقیقی اور تنقیدی کارواں میں شامل ہونے پر خوش آمدید کہتا ہوں۔

اس کتاب نے پہلے تو علی گڑھ کی بہت سی یادیں تازہ کر دیں ، وہاں ہم دونوں کے مشترکہ قیام کے دوران ساتھ گزرے لمحے ، ان  کی زبان اور ان کے مستی بھرے لب و لہجے میں سنی غزلیں یاد آ گئیں ؎ ‘میں اگر دشت نہ ہوتا تو سمندر ہوتا’،  ‘میرے ہی بدن کے لۓ تلوار بھی ہو گی’ اور  ‘شوخ گفتار ہوئی چلبلے مکتوب ہوۓ’ والی غزلیں۔ علی گڑھ  کے ذکر نے میری یادوں کا خاکستر بھی کافی کرید دیا۔ مرحوم آل احمدسرور صاحب  مجھ پر بھی کافی زور دیتے رہے کہ میں بی ایس سی کے بعد اردو میں ایم اے کروں لیکن میں نے کافی سوچ بچار کے بعد جیالوجی میں ایم ایس سی کرنے کا ہی فیصلہ کیا۔ لیکن احتشام کو انھوں نے علی گڑھ بلوا کر اگر یہ کہنا  مبالغہ ہو کہ ان کی زندگی سنوار دی، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیرے کو تراش ضرور ملی۔ ان کی شخصیت، ادبی قد و قامت بلکہ ادبی پہچان کے لۓ علی گڑھ کا رول کافی اہم رہا۔ اور یہ احتشام اختر خود مانتے بھی ہیں۔  اس لۓ اس کتاب کا وہ حصہ اور دل چسپی سے پڑھا۔ایک بیانی غلط فہمی کا بھی ازالہ کرتا چلوں۔  ذکر ہے کہ "اعجاز عبید،شہاب عراقی اور مرزا خلیل نے تو بعد میں شعر گوئی ترک کر دی۔۔۔” اس سلسلے میں یہ اضافہ کروں کہ شہاب عراقی تو واقعی تائب ہو گۓ، مرزا خلیل  اب تحقیق  اور لسانیات کے میدان میں سر گرم ہیں اور سر سید  اور لسانیات پر اتھارٹی مانے جاتے ہیں ، اور اپنے بارے میں یہ ‘اپ ڈیٹ’ کہ چھٹتی نہیں ہے مونہہ سے۔۔۔۔اگرچہ چھپنا چھپانا عرصے تک موقوف رہا، پچھلے پانچ چھ سال سے برادرم مصحف اقبال توصیفی کی تحریک پر  ‘سب رس’، شعر و حکمت’  میں ضرور تخلیقات شائع ہوئی ہیں مگر حال کے عرصے میں انٹر نیٹ پر کافی معروف ہوں اور خاص کر اردو کمپیوٹنگ کے سلسلے میں  میرا ذکر ضروری مانا جاتا ہے۔ خیر، اپنی خود سرائی  کا ذکر اس لۓ کرنا پڑا صحیح صورت حال نذر ناظرین کر دوں  تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آۓ۔

کتاب کے پہلے دو سوانحی ابواب نے مجھے بھی کئی نئی معلومات دیں ، ان کے خاندانی پس منظر سے واقف کرایا۔  سچ کہنے کا حق دیں تو کہوں کہ یہ  انجم آفاق کا کارنامہ نہیں ہے۔ یہ ساری معلومات تو انھیں خود احتشام نے ہی بہم کی ہوں گی، صرف انھیں مصنفہ نے اپنی سلیس اور عموماً غلطیوں سے پاک زبان میں الفاظ کی صورت دی ہے۔ آخری باب بھی محض احتشام کی شاعری کا انتخاب ہے۔  انجم کا اصل کارنامہ درمیانی تین باب ہیں ، بالترتیب احتشام کی غزل، نظم اور راجستھان کے ادبی ماحول میں احتشام کے مقام کے بارے میں۔ اور ان ابواب سے ہی انجم آفاق کی تنقیدی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔  کہیں کہیں بات دہرائی گئی ہے اور کہیں کہیں موضوع سے ہٹ کر بات کی گئی ہے اور اس باعث ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ طالب علمانہ کوشش ہے جیسا کہ خود مصنفہ نے اعتراف کیا ہے اور ان کے استاد نے بھی اپنے دیباچے میں نشان دہی کی ہے۔  اس سے قطع نظر انجم کی نگاہ دور جاتی ہے ، اس کے ثبوت بھی ملتے ہیں۔ مثلاً احتشام کی شاعری  میں (ان کی صحبت میں کافی سننے کے با وجود بھی) مجھے ‘طنز کی کاٹ’ کا اب تک قطعی احساس نہیں تھا۔ میرے ان مشاہدات کی بنا پر مجھے یقین ہے کہ انجم آفاق محض راجستھان کے ادبی  پس منظر تک محدود نہ رہیں گی اور عالمی اردو ادب پر اپنی دروں بیں نگاہیں ڈالتی رہیں گی۔ میری تمام تر نیک خواہشات ان کے ساتھ ہیں۔

کتاب کے سر ورق پر احتشام اختر کی وہ تصویر ہے جس میں وہ وزیر اعلیٰ راجستھان سے بسمل سعیدی اوارڈ  حاصل کر رہے ہیں ّاگر چہ اس کے کیپشن میں یہ درج نہیں کہ کیا ایوارڈ دیا جا رہا ہے )، پشت پر بھی تین تصویریں ہیں ، دو میں احتشام مائک ہر دکھائی دیتے ہیں تو تیسری میں اپنی اہلیہ، صاحب زادی اور مصنفہ انجم آفاق کے ساتھ۔  پہلے فلیپ پر مصنفہ کے بارے میں تحریر ہے تو اندرونی کور کے فلیپ پر پبلشر پریم گوپال متل کی راۓ۔ دیباچہ مصنفہ کے استاد اور گائڈ پروفیسر فیروز احمد نے لکھا ہے۔ 144 صفحات کی  اس خوبصورت کتاب کی قیمت ۱۵۰ روپۓ ہے جو مناسب ہے۔ کتاب موڈرن پبلشنگ ہاؤس، ۹، گولا مارکیٹ، دریا گنج ، دہلی 110002سے حاصل کی جا سکتی ہے۔

٭٭٭

 

کاپی لیفٹ، حوالے کے ساتھ نقل کی مکمل اجازت ہے

ای بک: اعجاز عبید