FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

FORMULARY OF

UNANI MEDICINE

 

دستور المرکبات

 

(اصول و قوانین ترکیب ادویہ)

 

اقبال احمد قاسمی

(ایم۔ڈی۔ علم الادویہ، ایم۔ڈی۔ معالجات)

اجمل خان طِبِّیہ کالج، اے۔ایم۔یو۔ علی گڑھ

 

 

 

 

 

 

 

انتساب

 

عالی جناب حکیم عبدالجلیل صاحب بجنوری

(فاضل طِب و جراحت)

 

قرول باغ، طِبِّیہ کالج، نئی دہلی

 

کے نام

 

جن کی طِبّی و معالجاتی خدمات نصف صدی پر محیط ہیں

 

 

 

تمہید

 

ابو الفضائل داؤد ابن البیان الاسرائیلی، متوفیٰ ۱۱۶۱ھ، اپنے زمانے کا ایک مشہور اور ماہر طبیب و معالج تھا جو قاہرہ کے مشہورِ زمانہ اسپتال ’’شفا خانہ الناّصریہ‘‘ میں طبابت کرتا تھا۔ اُس نے اپنے معمولاتِ مطب کو’’ الدستور البیمارستانی فی الادویہ المرکبہ‘‘ کے عنوان سے مرتب کیا تھا جسے قبولِ عام حاصل ہوا اورجوبرسہا برس تک اطِبّاء کا معمول رہا اور اس کے دور کے شفا خانوں میں اس کوسند کا درجہ ملا، اِسی مناسبت سے میں نے اپنی اِس تالیف کو ’’دستور المرکبات‘‘ کا عنوان دیا ہے۔

زیرِ نظر کتاب ’’دستور المرکبات‘‘ یونانی طِب کے انڈر گریجوئٹ اور پوسٹ گریجوئٹ کورسوں کے اُن طلباء کی فرمائش اور نصابی ضرورت کے پیشِ نظر مرتب کی گئی ہے جو ادویہ مرکّبہ کے تفصیلی مطالعہ اور قرابادینی مرکبات پرمبسوط معلومات حاصل کرنے کے خواہاں رہتے ہیں ۔ علم الادویہ کے باب میں گو کہ مرکبات و قرابادین کا ایک وقیع ذخیرہ کتب خانوں میں موجود ہے لیکن اکثر کتبِ مراجع عربی و فارسی زبانوں میں ہونے کی وجہ سے براہِ راست طلباء کے مطالعہ میں نہیں آ پاتیں ۔ایک عرصہ سے اِس بات کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی کہ ادویہ مرکبّہ کے موضوع پر ایک مبسوط کتاب ترتیب دی جائے جو جدید تقاضوں کے مطابق طلباء کے ساتھ ساتھ یونانی ادویہ سے علاج و معالجہ کرنے والے افراد کے لئے بھی مفید ثابت ہو۔قابلِ ذِکر ہے کہ اجمل خان طبیہ کالج میں ۱۹۴۰ ء تک طِب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی تعداد کافی کم تھی۔ بعض جماعتوں میں دس۔پندرہ سے زائد طلباء نہیں ہوتے تھے ۔ البتہ  ۱۹۴۰ء کے بعد طِبیّ تعلیم کا رجحان رفتہ رفتہ بڑھنے لگا اور اساتذہ و طلباء کے اشتراک سے یہاں ایک علمی فضا قائم ہونے لگی۔ اُس دور میں یونانی طِبی مضامین کی تعلیم و تدریس عربی و فارسی کتابوں سے براہِ راست ہوا کرتی تھی ۔ علاوہ ازیں بعض مضامین کو اساتذہ بطورِ امالی طلباء کو لکھوا دیا کرتے تھے ؛علم المرکبات میں امراض کی مناسبت سے نسخوں کی ترتیب و تدوین اور مناسبِ مرض ادویاتی نسخوں کا انضباط قانونِ شیخ، شرح اسباب اور نفیسی وغیرہ کتب کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے  کیا جاتا تھا۔۴۹۔۱۹۴۸ء کے دوران حکیم صوفی احمد علی قادیانی عربی و فارسی طِبّی کتب کی وساطت سے مرکبات کا درس دیتے تھے ۔ شفا الملک حکیم عبد اللّطیف فلسفی علم المرکبات کی تدریس کے دوران اپنے معمولاتِ مطب کے ساتھ ساتھ قرابادینِ قانون، قرابادینِ اعظم ، علاج الامراض اور شرح اسباب وغیرہ کتب کی روشنی میں بھی طلباء کو مستفید کیا کرتے تھے۔راقم الحروف کے اساتذہ میں حکیم عبد القوی صاحب اور حکیم محمد رفیق الدین صاحب کا بھی درس بطور امالی ہی ہوا کرتا تھا۔

بی۔یو۔ایم۔ایس۔ اور ایم۔ڈی۔ (یونانی) کورسوں میں مرکبات کا نصاب جن ادویہ پر محیط ہے،اِس کتاب میں اُنہی ابواب و موضوعات کو ترتیب کے دوران ملحوظ رکھا گیا ہے ۔نیز علمِ مرکبات کے مطالعہ میں معاون ہونے والے دواسازی کے اہم نکات کو بھی حسبِ ضرورت ابواب کتاب میں شامل کر کے طلباء کی معلومات کو وسیع تر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔امید ہے کہ’’ دستورالمرکبات‘‘ ادویۂ  مرکبہ کے نصابی اور خارجی مطالعہ میں کافی معاون ثابت ہوگی اور طلباء و معلِّمین کواِس موضوع سے متعلق وافر مواد فراہم کرے گی۔ اِس کتاب کو مزید مفید بنانے کے لئے اہلِ فن کی وقیع رائے اور بر محل مشوروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

عرصۂ  دراز سے امراض نسواں کے تعلق سے دو قرابادینی مرکبات طلباء کے زیرِ درس چلے آرہے تھے جن میں ایک کا نام ’’دوا جھاڑ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’دواء سمیٹ‘‘تھا۔ راقم الحروف نے اِن دونوں ہندی ناموں کو نیا مترادف عربی نام’ حَمول منقّی رحم‘ (دواء جھاڑ) اور’ حَمول مضیقِّ رحم/مکیّف رحم ‘(دواء سمیٹ) تجویز کرنے کی جسارت کی ہے، اِس یقین پر کہ یہ دونوں نام بہتر فنّی مفہوم ادا کر سکیں گے۔

 

ترکیب ادویہ کی ضرورت اور اُس کے اصول و قوانین

 

ادویۂ  مفردہ کو مرکب کرنے کی ضرورت بالفعل تین اسباب کی بناء پر پیش آتی ہے:

(۱) کسی دوائے مفرد میں ایسی تمام قوتیں نہ پائی جاتی ہوں جن سے مرض کا معالجہ ہو سکے۔  (۲) دوسری صورت میں ترکیبِ ادویہ کی ضرورت تب پیش آتی ہے جب کہ مطلوبہ قوتیں دوائے مفرد میں موجود تو ہیں لیکن اُن سے کم یا زیادہ مقدارِ قوت کی ضرورت ہو۔ (۳) دوائے مفرد میں ایسی قوتیں موجود ہوں جن سے استفادہ مقصود نہیں ہے یا ایسی قوتیں بھی پائی جاتی ہیں جن کی ضرورت بالکل نہیں ہے۔

اِسی طرح مختلف اسباب کے اجتماع کے نتیجہ میں بھی ادویہ کو مرکب کرنے کی ضرورت  پیش آتی ہے ، جس کی مثال وہ امراض ہیں جن کا سبب ایک سے زیادہ اخلاط ہوتے ہیں ۔ اِس بناء پر ضرورت اِس بات کی متقاضی و داعی ہوتی ہے کہ ایسی دواؤں کا مرکب تیار کرایا جائے جو ایک سے زائد اخلاط کا استفراغ کر سکے اور اِزالۂ  مرض ممکن و آسان ہو سکے۔

اِسی طرح عضو کی وضع کو ملحوظ رکھتے ہوئے  بھی ترکیب ادویہ کی ضرورت پیش آتی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ جب یہ اِرادہ ہو کہ جوہرِ قابض کو جسم کی گہرائی تک پہنچایا جائے تو مقامِ مرض کے دور ہونے کی وجہ سے اُس کے ساتھ ایسی دواء ملائی جاتی ہے جو مزاجاً و عملاً لطیف ہوتی ہے تاکہ جوہرِ قابض معاون ہو جائے ، چنانچہ ادویۂ  مثانہ میں ذراریح اور ادویۂ  قلبیہ میں قدرے زعفران ملانا اِس قسم کی مثال ہے ۔ نیز مرہموں میں موم وغیرہ ملانے کا فلسفہ بھی یہی ہے۔

( کتاب الکلیات ابو الولید محمد بن رُشد)

 

 

قرابادین  (PHARMACOPOEIA )

 

تعارف

 

ترکیب ادویہ اور علم المرکبات کے حوالہ سے یونانیوں نے کئی اہم پیش رفت کیں اور اِس موضوع پر ریسرچ و تحقیق کی ایک اساس فراہم ہوگی۔ اِس نقطۂ  نگاہ سے ’’قرابادین‘‘ ’’Grabadiun ‘‘ کی ترتیب و تدوین اُن کا اہم علمی و فنّی کارنامہ ہے۔ اقربادین/قرابادین کا فنّی مفہوم ہے۔ ’’ایک ایسی جامع دستوری کتاب یا دستور جس میں ادویہ مفردہ کو مرکب کرنے کے مختلف اصول و ضوابط سے بحث کی گئی ہو اور اُس کے لئے واضح اصول و قوانین طے کئے گئے ہوں ۔‘‘

یونانیوں نے دواسازی کے تعلق سے اگرچہ بہت سی اشکال ادویہ کی ایجاد کی اور ایک زمانہ تک لوگ اُس سے فیض یاب ہوتے رہے لیکن عرب اطِبّاء نے فنِّ دواسازی اور ترکیب ادویہ کو مزید مستحکم بنایا اور قرابادینوں کی تشکیلِ جدید کی، چنانچہ عربی عہد میں بعض قرابادینوں کو سرکاری حیثیت حاصل ہوئی اور اُس دور کے تمام بیمارستانوں اور سرکاری شفا خانوں میں کسی نہ کسی ’’سرکاری طور پر‘‘ تسلیم شدہ قرابادین کی ہدایات اور اصول کے مطابق ہی مرکبات تیار کئے جاتے رہے۔ قرابادینوں کے ارتقائی مراحل کا جائزہ لینے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے  کہ اِس سلسلہ کی مستند ترین قرابادین یوحنّا بن ماسویہ الماردینی متوفی ۸۵۷ء کی ہے جو نویں صدی عیسوی میں تحریر کی گئی۔ مرکبات کے حوالہ سے تصنیف کئے گئے مختلف قرابادینی ذخیروں اور قرابادینی تالیفات و تصنیفات میں چند وقیع قرابادینیں یہ ہیں : شاپور بن سہل (متوفیٰ ۸۶۹ء) کی ’’کتاب الاقرباذین ‘‘،اسحق بن حنین (متوفیٰ ۹۱۱ء) کی’’ کتاب الاقرباذین‘‘ ابو النّصر عطار اسرائیلی کی تصنیف ، منہاج الدکّان فی ترکیب الاعیان، سہلان ابن کیسان (متوفیٰ ۹۹۰ء) کی’’ کتاب المختصر فی الادویۃ المرکبۃ فی اکثر الامراض‘‘، اِس سلسلہ میں اہم مصادر کی حیثیت رکھتی ہیں ۔اِس موضوع پر تصنیف کی جانے والی کتب میں ترتیب نُسُنح کو کئی اعتبار سے ملحوظ رکھا گیا ہے۔مثلاً امراض و علل کے ناموں اور اُن کے عنوانات کے لحاظ سے، اشکال ادویہ کے لحاظ سے، اعضاء انسانی کے مطابق امراض کی تقسیم کے لحاظ سے وغیرہ۔

چنانچہ مختلف عنوانات کے لحاظ سے جو قرابادینات و مصنَّفات ترتیب دئیے گئے ، اُن میں شامل بعض اہم عربی، فارسی و اُردو قرابادینیں درجِ ذیل ہیں :

 

عربی کتب :

(۱)       ابو بکر محمد بن زکریا رازی کی ’’الحاوی فی الطب‘‘ کی ایک جلد قرابادین پر مشتمل ہے۔

(۲)      نجیب الدین سمر قندی (متوفیٰ ۱۲۲۲ئ) کی’’ کتاب الاقرباذین علی ترتیب العِلل‘‘۔

(۳)     قرابادین قانون: بیاض کبیر، انڈین فارماکوپیاجیسی اہم کتب شامل ہیں اور اِن کو سرکاری درجہ بھی حاصل ہے۔

 

فارسی کتب:

قرابادین کبیر      محمد حسین خان

قرابادین بقائی     حکیم بقا خان

قرابادین ذکائی     حکیم ذکا اللہ خاں

قرابادین شفائی    حکیم شفا خاں

قرابادین اکبری   حکیم اکبر ارزانی

قرابادین اعظم    حکیم محمد اعظم خاں

قرابادین قادری  حکیم محمد اکبر ارزانی

قرابادین احسانی   حکیم احسان اللہ خاں

 

اُردو کتب:

قرابادین نجم الغنی حکیم نجم الغنی

بیاض کبیر

انڈین فارماکوبیا

نیشنل فارمولری CCRUM

قرابادین حاذق   حکیم محمد حسن میرٹھی

قرابادین کوکبی    حکیم نیاز محمد خاں کوکب

قرابادینِ لُطفی      حکیم عبد اللطیف

 

 

 

دواؤں کا قوام اور قوامی ادویہ

 

قوامی ادویہ سے مراد وہ دوائیں ہیں جو شکر، شہد، نبات سفید (مصری) قند سیاہ، راب، شکّر سرخ اور کھانڈ وغیرہ کے قوام میں شامل کر کے تیار کی جاتی ہیں ، مثلاً اطریفلات، جوارِشات، معاجین، لعوقات خمیرہ جات اور مربہ جات وغیرہ۔

 

معیاری قوام

 

معیاری قوام کی پہچان کا دار و مدار مشاہدہ اور تجربہ پر منحصر ہے۔ بعض دواؤں کا قوام نسبتاً گاڑھا /غلیظ اور بعض کا پتلا /رقیق تیار کیا جاتا ہے۔ مختلف ادویہ کے قوام کی خوبی و خامی کا انحصار اُس کی اپنی طبیعت، طریقۂ  تیاری اور کس چیز سے قوام تیار کیا گیا ہے ، اُس پر ہوتا ہے، چنانچہ قوام کی غلظت و رِقّت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے  اُس کو کئی درجات میں تقسیم کیا گیا ہے۔

(۱)       اگر کوئی شربت بنانا ہو تو اُس کا قوام پہلے درجے کا یعنی نسبتاً رقیق تیار کیا جاتا ہے، شربت کے قوام کے پختہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ اس کے ایک یا دو قطرے علاحدہ کر کے انگلی سے اُٹھائے جائیں ۔ اگر اُس میں تار بن جائے تو یہ صحیح قوام ہے ۔ اِس کے علاوہ اِس کا ایک دو قطرہ زمین پر گرانے سے پھیلتا نہیں ہے بلکہ گولائی لئے ہوئے  اُبھرا ہوا نظر آتا ہے، اِس صورتِ حال سے سمجھ لینا چاہیے کہ شربت کا قوام تیار ہو گیا ہے۔ اِس کے بعد برتن کو آگ سے اُتار لینا چاہیے ورنہ آناً فاناً قوام غلیظ ہو سکتا ہے۔

(۲)      معجون کا قوام ایسا ہونا چاہیے جو خشک ادویہ کے ملانے کے بعد نرم حلوے کی مانند ہو جائے۔

 

قوام کی تیاری میں ’’تار‘‘ کا مفہوم

 

قوام تیار کرتے وقت بالخصوص شکر یا قند سیاہ اور کھانڈ وغیرہ سے قوام تیار کرتے وقت ’’تار‘‘ کی کافی اہمیت ہوتی ہے۔ تار کے عنوان سے قوام کی رِقّت و غِلظَت کا تعیّن کیا جاتا ہے   چنانچہ ایک تار ، دو تار اور تین تار وغیرہ کی اصطلاح کا مفہوم یہ ہے کہ ایک تار کا قوام نسبتاً نرم ہوگا ، دو تار کا قوام اُس سے زیادہ گاڑھا ہوگا اور تین تار کا قوام مزید گاڑھا اور سختی کا حامل ہوگا۔ اِس سلسلہ میں دوا ساز کے ہاتھ جس قدر مشّاق ہوں گے ۔ قوام اُسی قدر حسب منشاء تیار ہوگا۔

 

قوام کی تیاری میں درجۂ  حرارت (آنچ) کی اہمیت

 

قوام کی تیاری کے مرحلہ میں آگ معتدل رکھنی چاہیے، خصوصاً ایسے وقت میں آگ کی آنچ کو مزید اعتدال پر لے آئیں ، جب قوام تیاری کے بالکل قریب ہو ، کیونکہ تیز آنچ سے قوام کے جل جانے اور خلاف منشا سخت اور غلیظ ہو جانے کا اندیشہ رہتا ہے ۔ جس وقت قوام تیار ہو جائے اُس وقت خاص احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے، چنانچہ اُس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ اِس سے قوام کے بگڑ جانے (فاسد ہو جانے) کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

 

قوام میں لعابیات کی شمولیت

 

اگر قوام میں بہہ دانہ ، عنّاب اور سپستاں جیسی لعاب دار یا لیس دار ادویہ شامل کرنی ہوں جیسا کہ اکثر لعوقات یا بعض اشربہ میں بھی لیس دار ادویہ شامل ہوتی ہیں تو اُس سے قوام کی تیاری میں مشکل آتی ہے ۔ ایسی صورت میں قوام میں تار بننے کا عمل خاص طور پر دیکھا جاتا ہے اور قوام میں تار بننے کے بعد مزید کچھ دیر تک اُسے پکنے دیا جاتا ہے ، یہاں تک کہ اُس میں چپک پیدا ہو جائے۔ اِس کے برعکس اگر قوام میں شکر یا شہد شامل کرنا ہو تو اِس صورت میں حسبِ ضرورت پانی بھی ملایا جا سکتا ہے۔

 

قوامی مرکبات

 

وہ مرکبات جن کو قوام میں شامل کر کے محفوظ کیا جاتا ہے ، اُن میں خاص خاص مرکبات درج ذیل ہیں ۔ شربت، سکنجبین، لعوق، خمیرہ، معجون ، انوشدارو، جوارِش، اطریفل، لبوب،  مربیّٰ، گلقند وغیرہ۔

 

میٹھی اجناس جن سے قوام تیار کیا جاتا ہے

 

ذیل میں اُن اشیاء و شیرینیوں کا بیان کیا جاتا ہے جن سے مختلف قوام تیار ہوتے ہیں ۔ اِس میں عام طور پر شہد، قند سیاہ، قند سفید، نبات سفید، بورہ، کھانڈ شکرِ سُرخ اور ترنجبین شامل ہیں ۔ قوام کی تیاری میں ایک کلو شکر یا نبات سفید کے قوام میں ایک تا ڈیڑھ گرام 1-1.5gm سوڈیم بینزویٹ (Sodium Benzoate ) شامل کر دیا جائے تو اُس سے قوام کی افادیت اور مدت بقاء مزید بڑھ جاتی ہے۔

 

مختلف قواموں کی تیاری

 

(۱)     شہد کا قوام

شہد کا قوام بنانا ہو تو اُسے چھان لیں تاکہ وہ مکھیوں ، تنکوں اور دیگر آلائشوں سے پاک ہو جائے ۔ اس کے بعد عمل ارغاء کے ذریعہ اِس کا تصفیہ کر لیں یعنی کسی قلعی دار برتن میں ڈال کر آگ پر جوش دیں جب میلے کف (جھاگ) آنے لگیں تو کف گرفتہ کر لیں یعنی جھاگ کو کسی کرچھے کی مدد سے علاحدہ کر لیں اور اُس کے بعد آگ سے اُتار کر دیگر ادویہ شامل کر یں ۔

 

 (۲)   قند سیاہ (گڑ) کا قوام

گڑ کے ٹکڑے کر کے بقدر ضرورت پانی میں ڈال کر آگ پر رکھیں جب وہ اچھی طرح حل ہو جائے تو اُس کو آگ سے اُتار کر چھان لیں اور کچھ دیر کے لئے رکھ چھوڑیں ۔ بعد ازاں اُس کو نتھار لیں ۔ یہاں تک کہ وہ خوب صاف ہو جائے ۔ اگر قند سیاہ کو مزید صاف کرنا مقصود ہو تو اثنائے جوش ، دودھ کا چھینٹا دیتے رہیں ۔ اِس کے بعد اِس کا قوام تیار کریں ۔

 

 (۳)  شکر سُرخ کا قوام

شکر سُرخ کا قوام بھی قندسیاہ کی طرح تیار کیا جاتا ہے۔

 

(۴)   قند سفید کا قوام/شکر یا چینی کا قوام

اگر دانہ دار شکر کا قوام بنانا ہو تو اُس کو بقدرِ ضرورت لے کر پانی کے ہمراہ آگ پر رکھیں اور قوام تیار کریں ۔ قند سفید کو چھاننے کی ضرورت نہیں ۔ اِلّا ماشا اللّٰہ ۔

 

(۵)    مصری (نبات سفید) کا قوام

نبات سفید کو پانی میں حل کر لیں ، اُس کو بھی چھاننے کی ضرورت نہیں ، پھر کسی قلعی دار برتن میں پکائیں جو جھاگ نمودار ہوتا جائے اُس کو کف گرفتہ کرتے رہیں ۔ اگر شربت کا قوام ہے تو کسی قدر رقیق رکھیں اور اگر معجون کا ہے تو نسبتاً غلیظ کر لیں ۔

 

(۶)    کھانڈ کا قوام

کھانڈ سے مراد دیسی شکر ہے جو زیادہ صاف اور دانہ دار نہیں ہوتی، اِس کی رنگت سُرخ زردی مائل ہوتی ہے ، اُس کو پانی میں خوب اچھی طرح حل کر لیں تاکہ تنکوں وغیرہ سے اچھی طرح صاف ہو جائے ، پھر چند منٹ کے لئے اس محلول کو چھوڑ دیں تاکہ اُس کی اندرونی کثافتیں یعنی مِٹی و ریت وغیرہ تہہ نشین ہو جائیں ۔ اِس کے بعد اوپر سے نتھار کر کسی قلعی دار دیگچی میں پکائیں ، اُس میں سے اُٹھنے والے جھاگ کو کف گیر سے علاحدہ کرتے جائیں اور پھر قوام تیار کریں ۔

 

(۷)   بورہ کا قوام

کھانڈ کی مصفّٰی قسم کو بورہ کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی رنگت سفید ہوتی ہے۔ بورہ کو پانی میں حل کر کے چھاننے کی ضرورت نہیں بلکہ قلعی دار برتن میں آگ پر رکھ کر بدستور قوام تیار کریں ۔

(۸)    ترنجبین (شیر خشت) کا قوام

ترنجبین کا قوام بالعموم علاحدہ سے کم ہی تیار کیا جاتا ہے، بیشتر اِسے شکر یا شہد کے ساتھ ملا کر تیار کرتے ہیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ ترنجبین کو پہلے پانی میں حل کریں تاکہ تنکہ مٹی و آلائش صاف و تہہ نشین ہو جائے اِس کے بعد نتھرا ہوا محلول لے کر شہد یا شکر اِس میں شامل کر کے قوام تیار کریں اور مرکب میں ملائیں ۔

 

 

ذخیرۂ  مرکَّبات

 

اثاناسیا

 

وجہ تسمیہ

اثاناسیا یونانی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کے دو معانی بیان کئے جاتے ہیں ۔

(۱)       مرض سے چھٹکارا دِلانے والا (۲) بھیڑئے کا جگر ۔ چونکہ اِس نسخہ میں بھیڑیئے کا جگر اور بکری کا سینگ بطور اجزاء شامل ہیں ۔ اِس لئے اِس کو ’’دواء الذئب و الماعز‘‘ بھی کہتے ہیں ۔اِس کے دو نسخے ہیں : ’’اثاناسیائے کبیر‘‘ اور’’ اثاناسیائے ‘صغیر‘‘۔

 

اثاناسیائے

 

افعال و خواص اور محل استعمال

ضعفِ جگر، ورم جگر اور معدہ و طحال کے امراض کو نافع ہے۔ اسہال بلغمی، سعال مزمن، قے الدم، وجع گردہ و مثانہ، خدر، ربواور بواسیرمیں مفید ہے۔

 

جزء خاص

بھیڑئے کا جگر

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

مرمکی ،زعفران، افیون، جند بید ستر، اجوائن خراسانی،قُسطِ شیریں ، گل غافث، تخم خشخاش، سنبل الطیب، شاخ ماعزسوختہ، بھیڑئے کا خشک شدہ جگر۔ تمام ادویہ کو ہموزن لے کرسب کو باریک پیس کر شراب میں حل کر کے سہ چند شہد کے قوام میں ملائیں اور تیاری کے ۶ ماہ بعد استعمال میں لائیں ۔

مقدار خوراک :  ۲ تا ۳ گرام صبح و شام یا حسبِ ضرورت

 

اثاناسیائے صغیر

 

افعال و خواص اور محل استعمال

اِس کے افعال و خواص اثاناسیائے کبیر جیسے ہیں ۔

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

میعہ سائلہ، زعفران، قسطِ شیریں ، سنبل الطیب، افیون، تج قلمی، اصل السوس مقشر، ہر ایک ۱۰ گرام عصارہ غافث ۲۰ گرام جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند شہد خالص کے قوام میں ملائیں اور مرکب تیار کریں ۔

 

مقدار خوراک

۲تا۳ گرام صبح و شام۔

 

 

 

اثیر (Ether )

 

 تعارف اور وجہ تسمیہ

قدیم یونانی فلاسفہ ابتداء ً اثیر(Ether )کو ایک ایسا مادہ تصوُّر کرتے تھے جو فضائے آسمانی کی خلاؤں میں بھرا ہوا تھا اور برقی مقناطیسی موجوں Electromagnetic Waves کی منتقلی کا ذمّہ دار مانا جاتا تھا۔نیز فضا کے بالائی حصہ یا صاف آسمان کو بھی اثیر کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن طبّی نظریہ کے مطابق اثیر ایسے مادّہ کو کہتے ہیں جو دانتوں کی جڑوں میں ڈالا جائے یا وہ دواء جو حلق یا خلائے دہن میں پھونکی جائے ، اِس کا تعلق وَجورات سے ہے، وِجور حلق میں ڈالی جانے والی دوا کو کہتے ہیں ۔

اطِبّاء نے اثیر کی یہ تعریف کی ہے کہ یہ ایک بے رنگ خوشبو دار سیال ہے جو بطور محلل و مخدّر مستعمل ہے۔

اثیر کا استعمال سب سے پہلے دانتوں کی جڑوں اور خلاؤں cavities میں ڈالنے کے  لئے ہی کیا گیا تھا۔ یہ Oral Route سے استعمال ہونے والی قدیم ترین دواء ہے۔

 

اثیر صغیر

 

افعال و خواص اور محل استعمال:استرخاء لہاۃ میں خاص طور پر مفید ہے۔

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری :صعتر فارسی عاقر قرحا حاشا ہر ایک ۱۰ گرام کشنیز خشک ۲۰ گرام اصل السوس ۵ گرام۔ جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سفوف بنائیں اور حلق میں پھونکیں ۔

 

اثیر الملوک

 

وجہ تسمیہ

چونکہ اِس کو بادشاہوں کے استعمال کے لئے تیار کیا گیا لہذا اِس کا نام اثیر الملوک رکھا گیا۔یا اثیر کے مختلف نسخوں میں یہ سب سے افضل ہے، اِس لئے اِس کو اثیر الملوک کہا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

نافع  وَرم حلق ، وَرم لہاۃ، قلاع، بدبوئے دہن ، محلل، جالی، دافع جراثیم۔

 

جزءِ خاص

حاشا

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

کافور ۲ گرام، دانۂ  اِلائچی ، زعفران ۳۔۳ گرام، طباشیر، مازو سبز، سماق ۶۔۶ گرام، زرِ ورد ۱۰ گرام، نبات سفید، عدس مسلّم، تخم خُرفہ ۱۵۔۱۵ گرام،حاشا ۲۰ گرام۔تمام ادویہ کو کوٹ چھان کر سفوف تیار کریں اور استعمال میں لائیں ۔

مقدار خوراک:  حسبِ ضرورت حلق میں پھونکیں ۔

 

الاحمر

 

وجہ تسمیہ

شنگرف کی شمولیت کی وجہ سے اِس کا رنگ سُرخ ہوتا ہے ، اِس لئے اِس کا نام الاحمر مشہور ہوا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوی باہ، مُزیّد باہ، دافع و نافع ضعف باہ۔

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

شنگرف میٹھا تیلیہ ہر ایک ۱۰۰ گرام ،زمین قند ایک عدد ،روغن قرطم ۵۰۰ ملی لیٹر اُرَد (ماش )۲۰۰ گرام، میٹھا تیلیہ کو پانی میں بھگوئیں ، نرم ہونے پر اُن میں گڑھے کریں اور گڑھوں میں شنگرف رکھ کر اُنہی ٹکڑوں سے بھر دیں جو گڑھا کرتے وقت نکالے گئے تھے۔پھر اُن پر دھاگا لپیٹ دیں ۔ اِس کے بعد زمین قند کا گودا نکال کر اُس میں میٹھا تیلیہ کے ٹکڑے بھر دیں ۔ پھر زمین ق کے کٹے ہوئے  ٹکڑے سے اُس کو بند کریں اور کنارے اچھی طرح ملا کر اوپر سے کپڑا لپیٹ دیں اور پتیلی میں روغنِ قرطم ڈال کر زمین قند کو آگ پر اِتنا پکائیں کہ اُس کے اوپر کا حصہ سُرخ ہو جائے ، پھر آگ سے اُتاریں اور زمین قند سے میٹھا تیلیہ کے ٹکڑے نکال کر اُس کے اندر سے شنگرف کی ڈلیاں نکالیں اورشنگرف کی ڈلیوں کو اِس قدر باریک کھرل کریں کہ ذرّات کی چمک ختم ہو جائے ۔ یہ دوا نہایت درجہ مقوِّی باہ ہے۔ مقدار خوراک :۱۵مِلی گرام، مکھن یا بالائی میں ملا کر کھلائیں ، اور شیر گاؤ پلائیں ۔

 

 

 

اطریفل

 

اطریفل یونانی زبان کے لفظ اطریفال اور طریفلن سے معرب کیا گیا ہے ۔ چونکہ اِس مرکب میں ہلیلہ، بلیلہ اور آملہ جز و لازم کے طور پر شامل ہیں ۔ لہٰذا اِس کو اطریفل کا نام  دیا گیا۔ بعض اطِبَّاء کی رائے ہے کہ اطریفل ہندی زبان کے لفظ ترپھلہ کا معرّب ہے جس سے تین پھل ہلیلہ، بلیلہ اور آملہ مراد ہیں چنانچہ داؤد ضریر انطاکی کے یہاں اِس کی وضاحت بھی ملتی ہے ۔ اُس نے اِس کو ’’اطریفال‘‘ لکھا ہے۔ ہندی کا لفظ تری اور لاطینی و یونانی زبان کا لفظ طری (Tri ) بھی تین کے ہی مفہوم کے حامل ہیں ۔ غالباً اِسی مناسبت سے اِس کو اطریفل کہا گیا ہے۔

اطریفلات کی تیاری کے سلسلہ میں اُنہی اصول و ضوابط پر کاربند رہنا ضروری ہے جو معجون کے سلسلہ میں پیشِ نظر رہتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اِس بات کا خاص طور پر دھیان رکھا جائے کہ ترپھلہ کا سفوف تیار کرنے کے بعد اُس کو روغنِ بادام یا روغنِ کنجد یا روغنِ زرد میں الگ سے چرب کر کے رکھ لیں پھر دیگر اجزاء کا سفوف بنائیں ۔ بعد ازاں مرکب کا قوام تیار کر کے جملہ ادویہ اُس میں شامل کریں ۔ سفوف کے چرب کرنے کا مقصدیہ ہوتا ہے کہ مرکب میں نرمی قائم رہے اور اِس کی افادیت بڑھ جائے اور چونکہ ترپھلہ کم و بیش آنتوں میں مروڑ پیدا کرتا ہے لہذا چرب کرنے سے اس کے مضر و منفی اثرات بھی زائل ہو جاتے ہیں ۔

 

اطریفل کا موجِد

 

اطریفل کا موجِد اندروما خس نامی یونانی طبیب ہے۔ غالباً یہ اندروماخس ثانی ہے اور اِس کوہی اسقلبیوس ثانی (Asculpius II )کہتے ہیں ۔

دیگر مرکبات کی طرح اطریفل کے بھی کئی نسخے ہیں جن کا ذکراِس کتاب  میں آئے گا۔

اطریفلات کی قوتِ تاثیر دو سال تک باقی رہتی ہے البتہ اطریفلات کی مدت استعمال دو ماہ سے زیادہ نہیں ہے۔ نیز اطریفلات کو متواتر نہ کھا کر روک روک کر استعمال میں لانا چاہیے جس سے ضعف معدہ کا اندیشہ باقی نہیں رہتا ہے کیونکہ اطریفلات کا کثرتِ استعمال مُضعِفِ معدہ ہوتا ہے۔

 

اطریفل اُسطوخودوس

 

وجہ تسمیہ

اِس اطریفل کا نام اِس کے جزءِ خاص کی طرف منسوب ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

دماغی امراض خصوصاً دردِ سر اور جملہ امراضِ بلغمی و سوداوی میں مفید ہے۔ دماغ کے تنقیہ کے لئے طِب یونانی کے مخصوص مرکبات میں شمار کی جاتی ہے۔ اِس کا متواتر استعمال بالوں کو سیاہ رکھتا ہے۔

ٍ

جزءِ  خاص

ترپھلا اور اسطوخودوس اِس کا جزءِ خاص ہے۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

پوست ہلیلہ زرد و پوست ہلیلہ کابلی، پوست ہلیلہ سیاہ، پوست بلیلہ آملہ مقشر، اسطوخودوس، برگ سناء مکی، تربد سفید ، بسفائج فُُستقی ،مصطگی، افیتمون کِشمِش، مویز منقّٰی (بعض نسخوں میں گلِ سُرخ کو) ہم وزن لے کر باریک کر لیں اور ہلیلہ جات کو روغنِ بادام شیریں میں چرب کر کے سہ چند شہدِ خالص کے قوام میں ملائیں ۔

 

مقدار خوراک

۵گرام تک ہمراہ عرقِ گاؤزباں ۱۲۵ ملی لیٹر یا ہمراہ آبِ سادہ۔

 

اطریفل زمانی

 

وجہ تسمیہ

اِس کے موجِد حکیم میر محمد مومن حسینی ولد میر محمد زمان عہدِ محمد بن تغلق شاہ (۱۳۳۴ء تا ۱۳۵۴ء )کے طبیب ہیں ،اُنہوں نے اِسے اپنے والد میر محمد زمان کے نام منسوب کیا ہے۔اِس سے مراد میر محمد مومنؔ شاعر نہیں ہیں جیسا کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں ۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مالیخولیا، دردِ سر، خفقان اورقولنج میں مفید ہے۔ مسلسل استعمال دائمی نزلہ کو فائدہ دیتا ہے۔ مالیخو لیاء مراقی کی یہ مخصوص دواء ہے۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

پوست ہلیلہ زرد ،پوست ہلیلہ کابلی ، ہلیلہ سیاہ ، گل بنفشہ سقمونیابریاں ہر ایک ۴۰ گرام تربد مجوف ،کشنیز خشک ہر ایک ۸۰ گرام پوست بلیلہ آملہ مقشر گُلِ سُرخ، گل نیلوفر، طباشیر ہر ایک ۲۰ گرام صندل، سفید کتیرا ہر ایک ۱۰ گرام روغنِ بادامِ شیریں ، 400 ملی لیٹر۔سب دواؤں کو کوٹ چھان کر روغنِ بادام میں چرب کر کے علیحدہ رکھیں اور عنّاب 100  عدد، سپستاں 100 عدد، گل بنفشہ ۳۰ گرام ،کو پانی میں جوش دے کر صاف کریں اور مربیٰ ہلیلہ کا شیرہ ڈیڑھ گنا اور شہد سب دواؤں کے ہم وزن لے کر جوشاندہ میں ملا کر اِتنا پکائیں کہ قوام ایک ہو جائے پھر درجِ بالامسفوف ادویہ اس میں شامل کر کے مرکب تیار کریں ۔

 

مقدار خوراک

۵ گرام تا ۱۰ گرام ۔ اسہال لانے کے لئے ۲۵ گرام تک دے سکتے ہیں ۔

 

اطریفل شاہترہ

 

وجہ تسمیہ

جزء خاص شاہترہ کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

امراض فساد خون، خارِش، آتشک اور دورانِ سر میں مفید ہے۔

 

جزء خاص

شاہترہ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

شاہترہ ۵۰ گرام، پوست ہلیلہ زرد، پوست ہلیلہ کابلی ہر ایک ۴۰ گرام ، آملہ پوست بلیلہ ہر ایک ۲۰ گرام ،برگ سناء مکی ۱۲ گرام ، گل سُرخ ۸ گرام۔جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر مونیر منقی نصف کلو میں پیس کر ملائیں اور مرکب تیار کریں ۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ عرق چوب چینی یا آبِ سادہ۔

 

اطریفل صغیر

 

اطریفل کا یہ ایک مخصوص نسخہ ہے جو کم اجزاء پر مشتمل ہونے کی وجہ سے’’ اطریفل صغیر‘‘ ؎ کے نام سے مشہور ہے ۔

 

افعال و خواص مع محل استعمال

مقوی حافظہ و مقوی دماغ ، دماغی امراض کے علاوہ بواسیر میں بھی مفید ہے۔

 

جزءِ خاص

ہلیلہ جات و آملہ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

پوست ہلیلہ زرد، پوست ہلیلہ کابلی، پوست ہلیلہ سیاہ، پوست بلیلہ، آملہ مقشر ہم وزن ادویہ کو کوٹ چھان کر روغنِ زرد میں چرب کریں اور سہ چند شکر یا شہد کے قوام میں ملا کر اطریفل تیار کریں ۔

 

مقدار خوراک

۱۰ تا ۲۵ گرام ہمراہ آب سادہ بوقت شب۔

 

اطریفل غددی

وجہ تسمیہ

خنازیر (گردن کے بڑھے ہوئے  غدود) کے عارضہ میں استعمال ہونے کی وجہ سے اِس نام سے موسوم کی گئی ہے، یا جزءِ خاص بکری کی گردن کی گلٹیوں کی شمولیت کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

خنازیر کے سلسلہ میں خصوصی اثر کی حامل ہے ۔ منقّی معدہ و فضلات دماغ ہے۔

 

جز ء خاص

بکری کی گرد ن کی گلٹیاں

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

بھیڑ/ بکری کی گردن کی خشک شدہ گلٹیاں ۵۰ گرام، ہلیلہ سیاہ ۱۵۰ گرام، افتیمون وِلائتی ۱۰۰ گرام ،پوست بلیلہ ،آملہ مقشر ،تربد مجوّف ہر ایک ۷۵ گرام بسفائج ، اسطوخودوس ہر ایک ۵ گرام ،سناء مکی ۴۰ گرام ،غاریقون مغربل، زر نباد، شیطرج ہندی، نوشادر،  ہرایک ۳۰ گرام، انیسون، تج قلمی، سنبل الطیب، قرنفل ہیل خرد، جائفل، مصطگی رومی۔  ہر اک ۲۰ گرام۔تمام ادویہ کو کوٹ پیس کر قند سفید ۷۵۰ گرام کے قوام میں شامل کریں اور مرکب بنائیں ۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

اطریفل کشنیزی

 

وجہ تسمیہ

جز ء خاص کشنیز کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

دماغ اور معدہ کا تنقیہ کر کے قوت پہنچاتی ہے ۔ سر، آنکھ اور کان کے اِن امراض میں جو معدہ کے بخارات اور نزلے کے سبب سے عارض ہوتے ہیں ، مفید ہے۔

 

جزء خاص

کشنیز خشک۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

ہلیلہ کابلی ،پوست ہلیلہ زرد، ہلیلہ سیاہ،پوست بَلیلہ آملہ مقشر، کشنیز خشک، ہم وزن ادویہ کو کوٹ چھان کر ہلیلہ جات کو روغنِ بادام میں چرب کریں اور سہ چند شہد کے قوام میں ملا کر مرکب بنائیں اور تیاری کے چالیس یوم کے بعد استعمال کرائیں ۔

 

مقدار خوراک

۱۰تا ۲۵ گرام

ملاحظہ   (۱)  اگر تلئین مقصود ہو تو ترنجین کا اِضافہ کریں ۔

(۲) اطریفل کشنیز کو تیاری کے چالیس روز بعد استعمال کرنا چاہیے۔

 

اطریفل مقل

 

وجہ تسمیہ

جزء خاص مقل کے نام سے موسوم ہے۔

 

استعمالات

دافع قبض ہے۔ بواسیر دموی اوربواسیر بادی میں مفید ہے۔

 

جز ء خاص

ترپھلا اور مقل۔

 

 دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

پوست ہلیلہ زرد، پوست ہلیلہ کابلی، پوست بلیلہ، آملہ مقشر ہر ایک ۳۵ گرام، مقل ۹۵ گرام۔ جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر روغنِ بادام یا روغنِ گاؤ میں چرب کریں اور مقل کو آبِ برگِ گندنا یا آب برگ ککروندہ میں حل کر کے صاف کریں یا روغنِ گاؤ میں مقل کو آگ پر حل کر لیں ۔ پھر جملہ ادویہ کے سہ چند شہد کے قوام میں مرکب تیار کریں ۔

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ عرق بادیان ۱۲۵ ملی لیٹر۔

 

اطریفل ملین

 

وجہ تسمیہ

اپنے فعل مخصوص ’’تلیین‘‘ سے موسوم ہے۔

 

استعمالات

قبض و جع معدہ وامعاء اور صداع میں مفید ہے۔ امراض دماغی میں تلیین شکم کے لئے مستعمل ہے۔

جزءِ خاص

سقمونیا۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

ہلیلہ سیاہ ،پوست ہلیلہ کابلی، بلیلہ، آملہ مقشر، تربد مجوف ہر ایک ۲۰ گرام، بادیان، مصطگی رومی، اسطوخودوس، سقمونیا ،ریوند چینی۔ ہر ایک ۵۰ گرام مصطگی کو علیحدہ سے ہلکے ہاتھوں سے کھرل کر کے باقی دواؤں کو کوٹ چھان کر روغنِ بادام میں چرب کر کے قند سفید ایک کلو کے قوام میں ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

مقدار خوراک

۵ گرام تا ۱۰ گرام ہمراہ آبِ سادہ۔

 

 

 

افلونیا/فلونیا

 

وجہ تسمیہ

رومی زبان کا لفظ ہے۔ اِس کو فلونیا بھی کہتے ہیں۔ یہ حکیم افلُن رومی طرسوسی کے نام سے منسوب ہے۔ اِس حکیم کو فیلن اور افلَن بھی کہا جاتا ہے۔ افلن نامی حکیم نے اِسے اوّلاً ترتیب دیا تھا۔ جو ایک نشہ آور مرکب ہے۔

افلونیا کے متعدد نسخے ہیں۔ مثلاً افلونیائے فارسی، افلونیائے محمودی (تالیف، حکیم  عماد الدین محمود شیرازی )افلونیائے مرد افگن (جو بادشاہ جہانگیر کے دور میں ایجاد ہوا )، افلونیائے احمدی۔

 

افلونیائے رومی

 

استعمالات

نزلہ مزمن، قے الدم ، اسہال دموی اور ہیضہ کو نافع ہے۔ نافع و دافعِ الم ہے۔

 

جزء خاص

افیون

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

فلفل سفید، فلفل دراز،اجوائن خراسانی ہر ایک ۷۵ گرام افیون ۲۷ گرام زعفران ۲۰ گرام، تخم کرفس ،سنبل الطیب ہر ایک ۱۵ گرام، ساذج ہندی، تج قلمی، حب بلساں ، عاقر قرحا، فرفیون ہر ایک ۵ گرام۔جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند شہد کے قوام میں  ملا کر مرکب تیار کریں اور ۶ ماہ بعد استعمال میں لائیں۔

مقدار خوراک

نصف گرام تا ۲ گرام۔

 

اِمروسیا

 

وجہ تسمیہ

یونانی زبان کا لفظ ہے، اِس کے معنی ہیں ایسا معجون جو امراض کبد کے لئے مفید ہو۔ بقراط نے اِسے ایک بادشاہ کے لئے جسے ضعفِ معدہ کی شکایت تھی، تیار کیا تھا لیکن اب اِس کا استعمال کم ہو چکا ہے (بحر الجواھِر)۔

 

افعال و خواص و محل استعمال

جگر طحال ، معدہ اور گردہ کو تقویت دیتا ہے۔ مفتح سدد ہے۔ آغازاستسقاء میں نافع ہے۔ مدرِّ بول اور مخرج سنگِ گردہ و مثانہ افعال کی حامل ہے۔

 

جزءِ خاص

زعفران

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

دوقو ،عود بلسان ،تج قلمی،قردمانا، کالی زیری ، شگوفہ اذخر، تخم کرفس ۴۔ ۴ گرام، فلفل سیاہ ،فلفل سفید ،قسط تلخ، مرمکی، ہر ایک ۲ گرام۔ حب الغار ۱۰ عدد ، وَج ترکی، زعفران، ہر ایک ۸ گرام۔جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند شہد کے قوام میں ملائیں اور محفوظ کر لیں۔ پھر تیاری کے ۶ ماہ بعد استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۳ تا ۵ گرام۔

نوٹ:’’ اِمروسیا ‘‘کی قوت تین سال تک قائم رہتی ہے لیکن اب یہ دواء  متروک الاستعمال ہے۔

 

 

 

انفحہ۔ پنیر مایہ۔ چستہ ٔ چاک

 

تعارف اور طریقۂ  تیاری

 

دودھ پینے والے جانوروں کے معدہ اور آنتوں سے حاصل شدہ منجمد دودھ، جس کو پیدا ہونے کے بعد بچے نے پہلی دفعہ پیا ہو، اُس کو حاصل کر لیا جاتا ہے۔یہی پنیر مایہ ہے۔ اِس کو پنیر مایہ اور انفحہ بھی کہتے ہیں۔ جن جانوروں کے دودھ سے پنیر مایہ حاصل کیا جاتا ہے ، اُن میں سے چند یہ ہیں : بارہ سنگھا، بکری، بھیڑ، بھینس، پاڑہ، خرگوش، ریچھ ، شتر خر مادہ، گورخر، گائے، گھوڑی، نیل گائے اور ہرن وغیرہ۔

اِس کو حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ بچے کی پیدائش کے بعد اُس کی ماں کا پورا دودھ بچے کو پلا دیا جائے۔ دودھ دینے والے جانوروں کے اِس ابتدائی دودھ کو کھیس یا پیوسی بھی کہتے ہیں۔ بچوں کو یہی دودھ پلا کر پھر کم و بیش نصف یا ایک گھنٹہ بعد اُس نو مولود بچے کو ذبح کر کے اُس کی آنتیں اور اُس کا معدہ حاصل کر لیا جاتا ہے۔ یہ آنتیں سایہ میں خشک کر لی جاتی ہیں۔ اِن آنتوں اور معدے کی چنٹوں (Folds ) میں ایک منجمد شئے ملے گی، جو دراصل وہی منجمد دودھ ہے جو سوکھ گیا ہے۔ یہی پنیر مایہ ہے۔مزاج کے لحاظ سے انفحہ و پنیر مایہ کو مرکب انقویٰ سمجھا جاتا ہے۔

 

پنیر مایہ کا مزاج افعال اور دوائی استعمال

مزاج کے لحاظ سے ا نفحہ یا پنیر مایہ کو مرکب القویٰ سمجھا جاتا ہے۔ پنیر مایہ کے افعال و خواص بہت سے پہلوؤں پر حاوی ہیں۔ سرطانی گلٹیوں پر اِس کا لیپ مفید ہے۔ صرع (مرگی)کو نافع ہے اور سرکہ میں گھول کر پینے سے معدہ، پھیپھڑے اور مثانہ کے منجمد خون کو  تحلیل کر دیتا ہے۔ دم رعاف کے لئے مفید ہے اور حابس اسہال ہے۔ مقوی و مفرّح قلب و دماغ، دافع سموم حشرات الارض ، تریاق سموم(Antidote for Snake and Insect bite ) ، دافع دردِ شکم ، آنتوں کے زخم کو دور کرتا ہے۔ سیلان الرَّحم میں بھی مفید ہے۔ منع حمل کرتا ہے اور Contraceptive خصوصیت کا حامل ہے۔ رُعاف میں ناک میں ٹپکایا جاتا ہے۔

 

مضر

مزاج میں چڑچڑا پن پیدا کرتا ہے۔ معدہ کے لئے مضر ہے۔ زرشک اور بہدانہ اِس کا مصلح ہے۔ اِس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔مزاج کے لحاظ سے الفحہ و پنیر مایہ کو مرکب القویٰ سمجھا جاتا ہے۔

 

پنیر مایہ کے خالص ہونے کی علامت

پنیر مایہ کے خالص ہونے کی پہچان یہ ہے کہ اگر اِس کو دوسرے جانور کے پنیر مایہ میں ڈال دیں تو وہ آسانی سے گھل جائے گا۔

طِبّی معالجہ میں پنیر مایہ شتر اعرابی اور انفحۂ  ارنب کا استعمال زیادہ نظر آتا ہے۔ کیونکہ افادیت کے لحاظ سے دوسرے تمام جانوروں کے مقابلے میں اِس کو زیادہ بہتر تصوُّر کیا جاتا ہے۔حالانکہ دوسرے جانوروں کے بچوں کے معدے میں منجمد شدہ ابتدائی دودھ بھی طریقۂ  مذکورہ پر حاصل کر کے بطور دوا استعمال کرنا اطِبّاء کا معمول رہا ہے۔ جتنے قسم کے جانوروں سے پنیر مایہ حاصل کیا جاتا ہے، اُن سب کی افادیت الگ الگ ہے، لیکن بسا اوقات عدم حصول یا عسیر الحصول ہونے کی صورت میں دیگر جانوروں سے حاصل شدہ پنیر مایہ بھی معالجاتی اہمیت اور ایک دوسرے کے بدل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انفحۂ  ارنب کو اطِبّاء سب سے زیادہ صحیح العمل اور قوی التاثیر تصور کرتے ہیں کیونکہ اِس میں حدّت کم ہوتی ہے۔

 

انقردیا

 

وجہ تسمیہ

انقردیا (Anacardium ) رومی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی ’’شبیہ قَلب‘‘  کے ہیں۔ چونکہ بلا در صنوبری یعنی دِل کی شکل کا ہوتا ہے اور وہ اِس کی ترکیب میں داخل ہے، اِس لئے اِس کو انقردیا  کہا گیا ہے۔ متاخرین کی بعض کتابوں میں انقرویا ’’واو‘‘ سے لکھا گیا ہے  جو صحیح نہیں ہے۔اِس مرکب کا موجد بقراط ہے۔ اِس کے دو نسخے ہیں : انقردیا کبیر اورانقردیا  صغیر۔

 

انقردیا کبیر

 

افعال و خواص اور محل استعمال

فالج، لقوہ، استرخاء، خدر صرع، نسیان اور دوسرے بارد امراض میں مستعمل ہے۔ قوتِ باہ کو بڑھاتا ہے اور فعل ہضم کودرست کرتا ہے۔ذہن کو صاف اور قوی کرتا ہے۔محافظ و مقوی حافظہ ہے۔

 

جزء خاص

بلادر (بھلا نواں )۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

عاقر قرحا ،شونیز ،قُسط شیریں ، فلفل سیاہ، فلفل دراز، وَج ترکی ہر ایک ۵۰ گرام ، سدّاب  جنطیانہ رومی ،زراوندمدحرج ، حلتیت خالص، حب الغار جند بیدستر، شیطرج ہندی خردل ہر ایک ۲۵ گرام عسل بلادر ۲۵ گرام۔ جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر روغنِ گاؤ ۱۵ گرام میں چرب کر کے قند سفید ڈیڑھ کلو کے قوام میں ملائیں اور مرکب بنائیں۔ اِس مرکب کو تیاری کے ۶ ماہ بعد استعمال کریں۔

 

مقدار خوراک

۲ تا ۳ گرام ہمراہ آبِ  سادہ صبح نہار منھ۔

 

انقردیا صغیر

 

افعال و خواص اور محل استعمال

اِس کے منافع انقردیا کبیر کی طرح ہیں۔

 

جز ء خاص

بلادر

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

ہلیلہ سیاہ، پوست بلیلہ ، آملہ مقشر ہر ایک ۱۵ گرام سعد کوفی، سنبل  الطیب کندر، وَج ترکی ،فلفل سیاہ، زنجبیل ، عسل بلادر۔ ہر ایک ۸ گرام ادویہ کو کوٹ پیس کر روغنِ گاؤ میں چرب کریں اور ڈھائی سو گرام شکر سفید کا قوام کر کے مرکب تیار کریں۔

نوٹ: اِس کو بھی تیاری کے ۶ ماہ بعد استعمال کرائیں۔

 

مقدار خوراک

۲ تا ۳گرام ہمراہ آبِ سادہ بوقت صبح۔

 

 

انوشدارو

 

وجہ تسمیہ

انوشدارو یا نوشدارو فارسی زبان کا لفظ ہے، جس کا معنی ’’دوائے ہاضم‘‘ ہے۔ یہ معجون کی قسم کا مرکب ہے جس کا  جزءِ خاص آملہ ہے۔اِس کا معنی ’’بے ذائقہ‘‘ بھی بیان کیا گیا ہے۔ بعض محققین نے لکھا ہے کہ لفظ ’’نوش‘‘ ہلیلہ ، بلیلہ ، آملہ ، خبث الحدید اور شہد کے لئے وضع کیا گیا ہے ، چنانچہ اِسی لئے اِس پانچ اجزاء کے مرکب کو ’فنجنوش‘ بھی کہا جاتا ہے۔ چونکہ اِس معجون کا جزءِ  خاص آملہ ہے اِس لئے اِس کا نام انوشدارو رکھا گیا ہے۔

انوشدارو ایک ہندی ترکیب ہے۔ یونانی عہد میں اِس کا استعمال نہیں ملتا ،البتہ عرب اطِبّاء میں سب سے پہلے ابو یوسف اسحٰق بن یعقوب کندی نے اِس کا نسخہ لکھا ہے۔ اِس لئے نوشدارو  کو جوارِش کندی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔

 

انوشدارو کی ترکیبِ تیاری

انوشدارو تازہ اور خشک دونوں طرح کے آملہ سے تیار کیا جاتا ہے۔ اِس کے بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ پختہ و تر و تازہ آملوں کو وزن کر کے پانی میں پکا کر خوب اچھی طرح ملا کر اُس کے تخموں کو علاحدہ کر لیں پھر ایک جھرجھرے کپڑے یا  چھننی سے چھان کر پانی حاصل کر لیں تاکہ ریشہ وغیرہ اَلگ ہو جائے اور آملہ کا پکا ہوا گودا پانی میں آ جائے۔ اِس کے بعد باقی ماندہ تخم  اور ریشوں کو وزن کر لیں جس سے جرم آملہ (گودے) کا اصل وزن معلوم ہو جائے گا۔ اِسی حاصل شدہ وزن کا دو چند یا سہ چند شکر ملا کر قوام تیار کریں اور قوام کے گرم رہتے ہوئے  ہی دیگر ادویہ کا سفوف بھی اِس میں شامل کر دیں اور اچھی طرح ملا دیں۔ مرکب تیار ہو جائے گا۔

لیکن اگر آملہ خشک استعمال کرنا ہو تو اُس کے تخم نکال کر (آملہ کو مُنقی کر کے) وزن کر لیں اور دھو ڈالیں۔ اِس کے بعد شیر گاؤ میں اِس قدر بھگوئیں کہ آملہ دودھ میں غرق ہو جائے۔ پھر کم و بیش چار گھنٹے کے بعد خاطر خواہ مقدار کے پانی میں ڈال کر جوش دیں تاکہ آملہ کا کسیلا پن اور دودھ کی چکنائی دور ہو جائے۔ پھر دوسرے پانی میں جوش دے کر حسبِ دستور شکر ملا کر قوام تیار کریں اور استعمال میں لائیں۔

 

جزءِ خاص

آملہ

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

گلِ سُرخ ۲۰ گرام سعد کوفی ۸ گرام قرنفل، مصطگی رومی، اسارون، سنبل الطیب ہر ایک دس۔دس گرام، دانۂ  اِلائچی خُرد، دانۂ  اِلائچی ھیل کلاں ، زرنب، جاوَتری، جائفل، قرفہ، زعفران ہر ایک ۷ گرام آملہ مقشر نصف کلو قند سفید ساڑھے سات سو گرام پہلے آملہ کو ۲۴ گھنٹے دودھ میں بھگوئیں ، پھر پانی سے دھوکر ایک لیٹر پانی میں جوش دیں۔ جب آملے گل جائیں تو چھننی سے پانی چھان لیں اور اُسی پانی میں قند سفید کا قوام تیار کریں اور دوسری دوائیں کوٹ پیس کر قوام میں ملائیں۔ اِس کی قوت دو سال تک قائم رہتی ہے۔

 

مقدار خوراک

۵ گرام صبح ہمراہ آبِ سادہ/تازہ۔

نوٹ:انوشدارو کو تیاری کے چالیس روز بعد استعمال کریں۔

 

انوشدارو لُولُوی

 

انو شدارو سادہ کے نسخے میں مروارید کہرباء، مونگا یشب اور یاقوت کا اِضافہ کرنے پر اِسے انوشدارو لُولُوی کہا جاتا ہے۔

 

 

 

اِیارہ/اِیارج/اِیارجات

 

وجہ تسمیہ

اِیارج یونانی زبان کے لفظ اِیارہ کا معرب ہے جس کا معنی دوائے اِلٰہی ، دوائے شریف اور مصلح بیان کیا گیا ہے، مگر اکثر محققین کے نزدیک ایارج ، دواء مسہل کو کہتے ہیں کیونکہ ایارج ہی مسہلات میں پہلا مرکب ہے جسے اہلِ یونان نے اسہالِ بلغم اور تنقیہ دماغ کے لئے مرتب کیا تھا۔اسہال و اخراج بلغم میں ایارج تریاقی افادیت رکھتا ہے۔

ایارجات میں ایارجِ فیقرا کے علاوہ ایارج بقراط، ایارج جالینوس ، ایارج لوغاذیہ، ایارج رُوفس اور ایارج ارکاغانیس مشہور ہیں۔

 

ایارج فیقراء

 

وجہ تسمیہ

ایارج کا مخترع بقراط ہے۔ یونانی زبان میں فیقرا کا معنی ’’تلخ نافع‘‘ ہے، چونکہ اصل و عمود اِس نسخے میں صبر یعنی ایلوا ہے اور وہ تلخ ہوتا ہے اِس لئے یہ ایارج ’’فیقرا‘‘ کے نام سے موسوم ہوا۔ بعض ماہرین کے مطابق فیقراء یونانی زبان میں صب رکے معنی میں آتا ہے، چنانچہ اِس نسخے میں جزءِ اعظم کی حیثیت سے صبر کی موجودگی کی وجہ سے اِسے ایارج فیقراء کہا گیا ہے۔ایارجات کی قوت ۲ سال تک باقی رہتی ہے۔ اُس کو تیاری کے ۶ ماہ بعد استعمال کرانے کی سفارِش کی گئی ہے۔

شیخ الرئیس نے اِس کے نسخے میں عود بلسان کا اضافہ کیا ہے۔

ایارج کے نسخہ میں : شحم اِندرائن کو شامل کرنے پر یہ نسخہ مشحم کہلاتا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

منقی دماغ و معدہ ہے۔ دردِ سر کی اکثر قسموں ،فالج، لقوہ، استرخائ، وجع المفاصل اور قولنج میں مفید ہے۔ ایارج اطریفل کے ساتھ دماغ کا اور گلقند کے ساتھ معدہ کا تنقیہ کرتا ہے۔

 

جزء خاص

صبر زرد

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سنبل الطیب ، دار چینی، عود بلسان، حب بلسان، تج قلمی، مصطگی  رومی، اسارون، زعفران ایک ایک حصہ، صبر زرد سب دواؤں کادو چند اور بعض اطِبّاء نے ہم وزن لکھا ہے۔

مُضِر:یہ گردہ کے لئے مُضر ہے، جس کا مصلح عناب ہے۔

 

مقدار خوراک

۵ گرام ہمراہ آبِ گرم / شہد بوقت خواب۔

 

ایارج لوغاذیا

 

وجہ تسمیہ

اِس کی وجہ تسمیہ نامعلوم ہے لیکن بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ لوغاذیا نام کے ایک یونانی طبیب کے نام سے منسوب و موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

صداع، صداع شقیقہ، صداع بیضہ وخودہ، درد گوش، ثقل سماعت، دُوار، فالج، رعشہ، لقوہ، بہق و برص اور جذام وغیرہ میں نافع ہے۔

 

جزء خاص

ایلوا

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

عنصل دشتی مشوّیٰ، غاریقون، سقمونیا، اُشق، اسقوردیون ۱۲۔ ۱۲ گرام ، افتیمون، کماذریوس گیارہ گرام، حاشا،ھو فاریقون ،بادیان رومی، تیزپات فراسیون (کرّاث جبلی) جُعدہ، سلیخہ، فلفل سفید، ،مرمکی، جاؤ شیر، جند بیدستر، سنبل الطیب، فطر اسالِیون، زراوند طویل، افشردۂ  افسنتین، فرفیون، حماما، زنجبیل ہر ایک ۱۵ گرام۔

تمام ادویہ کو کوٹ چھان کر شہد بقدر ضرورت میں گوندھیں ، اِس کے بعد پوری احتیاط سے چھ ماہ کے لئے محفوظ رکھ لیں۔ بعد ازان استعمال میں لائیں۔ ایارہ جات کے استعمال کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اِن کو آبِ افتیمون میں حل کر کے استعمال کرایا جائے (بحر الجواھِر)۔

 

مقدار خوراک

۱۰ تا۱۵گرام۔

 

ایارِج ھو فقر اطیس/ایارج بقراط

 

وجہ تسمیہ

بقراط کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

صداع شر کی معدی میں مفید ہے۔ منقی رطوبات معدہ ہے۔

 

جزءِ خاص

ایلوا

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

جنطیانا، سنبل الطیب، شحم حنظل، زراوند مدحرج،تج قلمی ، دار چینی ۳۔۳ گرام، فطر اسالیون(کرفس جبلی) کماذریوس (ترمُس)، اسطوخودوس، پیپلا مول، مصطگی ۵۔۵ گرام، ایلوا ۵۰ گرام، جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کرسہ چند شہدِ  مصفّٰی میں قوام تیار کریں ، پھر ۶ ماہ بعد استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۱۰ گرام ہمراہ آبِ گرم یا آبِ سا دہ۔

 

 

 

 

باسلیقون

 

وجہ تسمیہ

یونانی زبان میں اِس کا معنی کُحل یا ’’روشنائی‘‘ ہے۔ چونکہ یہ امراض چشم میں بطور  کُحل مستعمل ہے، اِس لئے یہ نام تجویز کیا گیا ہے۔

اِس کے دوسرے معانی ’’جالب النوم‘‘ (نیند لانے والا) بھی بیان کئے گئے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ایک یونانی بادشاہ کا نام ہے جس کے لئے بقراط نے یہ نسخہ ترتیب دیا تھا۔

لیکن اِس سلسلے میں یہ تحقیق زیادہ صحیح ہے کہ یونانی لفظ’ باسلیقون ‘ جس کا مترادف ’’روشنائی‘‘ ہے، مقوی بصر کو کہتے ہیں۔ یہ بقراط سے پہلے کی اختراع ہے۔ اِسے فیثا غورس طبیب نے ارسطیدون (Arestindian )والی صقیلہ کے لئے جسے ضعفِ بصر کی شکایت تھی، تیار کیا تھا اور اِس سے اُس کو شفا حاصل ہوئی تھی۔

باسلیقون کے دو نسخے باسلیقون کبیر اور باسلیقون صغیر کے نام سے رائج ہیں ، اِن کے علاوہ اِس کے فارسی مترادف نام ’’روشنائی‘‘ کے بھی متعدد نسخے قرابادینوں میں ملتے ہیں۔

 

باسلیقون کبیر

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوی بصر ہے۔بیاض مزمن، دمعہ، جرب، سبل، ظفرہ، صلابتِ اجفان میں نافع ہے۔ ابتداء نزول الماء میں مفید ہے۔

 

اجزائے خاص

ا قلیمیائے نقرہ (روپامکھی)۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

اقلیمیائے نقرہ کف دریا ہر ایک ۵۰ گرام صبر سقوطری عصارۂ  مامیثا مِس سوختہ ہر ایک ۲۵ گرام پوست ہلیلہ زرد ۲۰ گرام مامیران، مرمکی ،نوشادر ،زرد چوبہ۔ ہر ایک ۵ ۱گرام ،نمک لاہوری ساذج ہندی ،سفید ۂ  قلعی ،فلفل سیاہ ،فلفل دراز ،سنبل الطیب ، سرمہ اصفہانی ہر ایک ۱۰ گرام ،نمک سانبھر،قرنفل اشنہ۔ ہر ایک ۵ گرام۔تمام ادویہ کو خوب باریک کھرل کر کے ریشمی کپڑے میں چھانیں اور محفوظ رکھ لیں۔

 

ترکیب استعمال

رات کو سوتے وقت سرمہ کی طرح سلائی سے آنکھ میں لگائیں۔

 

باسلیقون صغیر

 

افعال و خواص اور محل استعمال

اِس کے افعال باسلیقون کبیرہی جیسے ہیں۔

 

جزء خاص

اقلیمیائے نقرہ۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

اقلیمیائے نقرہ ۱۵ گرام، مِس سوختہ ۷ گرام سفید ہ قلعی، نمک لاہوری، نوشادر۔ ہر ایک ۳ گرام، فلفل سیاہ، فلفل دراز ہر ایک ڈیڑھ گرام۔تمام ادویہ کو باریک پیس کر ریشمی کپڑے میں چھان کر بطور سرمہ استعمال کریں۔

 

 

 

برشعشا ء

 

وجہ تسمیہ

یہ سُریانی لفظ ہے، جس کا معنی براءالساعۃ : یعنی ایک ساعت میں فائدہ دینے والی یا فوری شفا دینے والی دوا ہے۔قدیم یونانی اطِبَّا کی ایجادات میں سے ایک ہے جس میں جالینوس (Claudius Galen ) نے کچھ تصرفات کئے اور نسخہ کو از سرِ نو مرتب کیا، سریانیوں کے یہاں افلونیاء رومی نام کی دوا کے جس نسخہ میں شیخ الرئیس بو علی سینا نے نئی ترتیب دی ، اِس دواء کو برشعشاء کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ معجون برش کے نام سے بھی مشہور ہے۔داؤد انطاکی کی رائے میں بھی یہ قدیم اطِبّا کی ایجاد ہے جس کے بہت سے نسخے ہیں

۱۔         شیخ الرئیس بو علی سینا کا نسخہ             ۲۔        عمادالدین محمودشیرازی کا نسخہ

۳۔       داؤد انطاکی کا نسخہ             ۴۔        محمود بن الیاس شیرازی کا نسخہ

۵۔       ابنِ جزلہ کا نسخہ               ۶۔        ھبتہ اللہ ابو البرکات کا نسخہ

 

افعال و خواص اور محل استعمال

نزلہ زکام اور امراض دماغی و سوداوی میں مفید ہے، فالج لقوہ، ضعف اعصاب صرع، رعشہ، نسیان، ہذیان، مالیخولیا، سُبات سہری، دوار، طنین، منھ کی بدبو، سعال، کثرتِ لعاب دہن، قولنج، دردِ معدہ و جگر، ضعف جگر، استسقاء اور سرعت انزال میں بھی مستعمل ہے۔ زہروں کے لئے تریاق ہے۔

 

جزء خاص

افیون

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

اِس کے مختلف نسخے ملتے ہیں

قانونِ ابنِ سینا کے نسخہ کے مطابق: فلفل سیاہ، فلفل سفید اجوائن خراسانی ہر ایک ۶۰ گرام ، افیون ۳۰ گرام ،زعفران ۱۵ گرام ،سنبل الطیب ،عاقر قرحا، فرفیون ہر ایک چار گرام سب کو کوٹ پیس کر سہ چند شہد کے قوام میں ملائیں پھر تین مہینہ تک جو میں دفن رکھنے کے بعد ْاستعمال کریں۔ اِسی لئے اِس کو دَواء الشعیر بھی کہتے ہیں۔

 

مقدار خوراک

نصف گرام تا ۲ گرام۔

نوٹ : اُس کی قوت پانچ سال تک قائم رہتی ہے۔

 

بَرود کافوری

 

وجہ تسمیہ

برود کے معنی ٹھنڈک پہونچانے والا یا ٹھنڈی دوا کے ہیں۔ کافور کی شمولیت کی وجہ سے اِس کا نام برود کافوری رکھا گیا۔ سوزشِ چشم میں ٹھنڈک پہونچانے اور بغرض علاج مستعمل ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

آنکھ کی سوزش ، سُرخی اور گرمی کو نافع ہے۔ ٹھنڈک پیدا کرتا ہے۔

 

جزء خاص

کافور

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سنگِ بصری (توتیائے کرمانی) ۶۰ گرام (کچے انگور کے رس (بقدرِ ضرورت) میں تین روز تک بھگو کر خشک کر لیں ، بعد ازاں ) کافور ایک گرام کو خوب باریک سرمہ کی طرح پیسیں اور بوقت ضرورت آنکھ میں لگائیں۔

 

بنادق البذور

 

وجہ تسمیہ

بنادق بندقہ کی جمع ہے ،اِس کے معنی غُلّہ یا گولی کے ہیں ، یعنی وہ موٹی گولیاں جو غُلّہ کے برابر ہوتی ہیں۔ جن کا وزن تقریباً ۴ گرام ہوتا ہے۔ چونکہ اِ س نسخہ کے اجزاء میں بزور (تخم)کثرت سے شامل ہیں ، اِس لئے اِس کو بنادق البذور کا نام دیا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

تخم و بزور نافع سوزش بول، دافع قرحۂ  گردہ و مثانہ، وجع الکلیہ ، دافع احتباس بول و عسر البول۔ دا فع امراض گردہ و مثانہ۔

 

 دیگر اجزاء ا مع طریقۂ  تیاری

مغز تخم خیار ۱۵ گرام مغز تخم خرپزہ ۲۰ گرام مغز تخم کدُو، تخم خطمی، تخم خرفہ، تخم خشخاش سفید، تخم کرفس ، اجوائن خراسانی، مغز بادام، مقشر کتیر انشاستہ ،رب السوس گل ارمنی ہر ایک۵۔ ۵ گرام،جملہ ادویہ کو کوٹ پیس کر لعاب اسپغول میں ریٹھے (فندق)کے برابر گولیاں بنائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

 

 

پادزہر/فادزہر/ تریاق

 

وجہ تسمیہ

تریاق یونانی زبان کے لفظ تریوق سے معرب ہے۔اِس کے معنی حیوان مثلاً سانپ وغیرہ کے کاٹنے کے ہیں (بحر الجواہر)۔ بعض لوگوں نے لکھا ہے کہ یہ نام اُس وقت دیا گیا جب اِس کے نسخہ میں سانپ کا گوشت شامل کیا گیا۔ بعض کتابوں کے مطابق تریاق یونانی زبان میں ’’ادویہ سمّیہ قاتلہ‘‘ کے لئے بھی بولا جاتا ہے لیکن اب یہ ہر قسم کے زہروں کے لئے مفید دواء کے معنی میں استعمال کیا جانے لگا ہے۔

بعض اطِبّاء کا کہنا ہے کہ تریاق فارسی لفظ ’’لفظ تریایوک‘‘سے معرب ہے جو بہ معنی معجونِ دافع زہر ، بہ معنی فادزہر اور بہ معنی افیون آتا ہے۔

دراصل دافع زہر ادویہ کے علاوہ تریاق کا لفظ سریع الاثر مرکبات کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔تریاق کا مخترع اندرو ماخس اَوّل ہے۔ تریاق کے بہت سے نسخے ہیں : مثلاً تریاقِ اربعہ تریاقِ ثمانیہ اور تریاق مثریدیطوس،تریاقِ فاروق۔اِن میں تریاق فاروق کو سب سے زیادہ مؤثر سمجھا گیا ہے۔

 

تریاقِ اربعہ /تریاق صغیر

 

وجہ تسمیہ

چار اجزاء پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اِسے تریاقِ اربعہ کا نام دیا گیا ہے۔ اِس کو تریاقِ صغیر بھی کہتے ہیں۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

سرد زہروں کو اور تمام سرد امراض میں مفید ہے۔ زہریلے جانوروں کے کاٹنے میں بھی مفید ہے۔ صرع، خفقان اور فالج و  قولنج میں نافع ہے، محلل ریاح غلیظہ،مفتح سدد جگر و طحال، محلل اور ام جگر و طحال۔

 

جزء خاص

حب الغار

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

حب الغار، جنطیانا مرمکی، زراوند طویل، ہم وزن لے کر کوٹ چھان کر روغنِ گاؤ میں چرب کر لیں اور سہ چند شہد کے قوام میں ملا کر مرکب بنائیں اورچالیس یوم تک محفوظ مقام پر رکھنے کے بعد استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۱ تا ۵ گرام ہمراہ آبِ نیم گرم۔

نوٹ: اِس کی قوت دو سال تک قائم رہتی ہے۔

اِس کے طویل استعمال سے دردِ سر اور دمہ پیدا ہو جاتا ہے۔ مصلح شیرۂ  تخم خرفہ سیاہ۔

 

تریاق افیون

 

وجہ تسمیہ

لفاح، شوکران اور افیون کی مضرّت و سمیت کو دور کرتا ہے۔ اِسی مناسبت سے اِس کا نام تریاق افیون رکھا گیا۔

 

جزء خاص

جند بیدستر۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

حلتیت ، جند بیدستر، ابہل اور قرنفل، ہم وزن کا باریک سفوف تیار کر کے سہ چند شہد میں گوندھیں اور معجون تیار کریں۔

 

طریقۂ  استعمال

افیون وغیرہ کی سمیت میں ماء العسل، آب شبت اور نمک سے قے کرائیں جس سے غسل معدہ Gastric Lavage ہو جائے گا۔ اِس کے بعد ۱ تا ۳ گرام تریاق ثمانیہ شرابِ کہنہ میں حل کر کے استعمال کرائیں۔ علاوہ ازیں مسخّنات (گرمی پیدا کرنے والی اشیاء و تدابیر) کا استعمال بھی مفید ہوتا ہے۔

 

مقدار خوراک

۱ تا ۳ گرام یا حسبِ ضرورت۔

 

تریاقِ پیچش

 

وجہ تسمیہ

زحیر کی خاص دواء ہے۔ اِس مناسبت سے اِس کو تریاق پیچش کہا گیا۔

 

نفع خاص

نافع و دافع زحیر۔

 

جزء خاص

ہلیلہ زرد

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

پوست ہلیلہ زرد، نانخواہ، زیرہ سفید ہم وزن علیحدہ علیحدہ دیسی گھی میں بریاں کر کے سفوف کریں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۳ گرام صبح و شام ہمراہ آبِ سادہ۔

 

تریاق ثمانیہ

 

وجہ تسمیہ

تریاق اربعہ کے نسخے میں حکیم بلیدوس نے چار مزید ادویہ کا اِضافہ کیا جس کی وجہ سے اِس کا نام’’ تریاق ثمانیہ‘‘ رکھا گیا۔ تریاقِ اربعہ کے مقابلہ میں یہ کثیر افادیت کا حامل ہے۔

 

جزء خاص

حب الغار۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

حب الغار، جنطیانا رومی، مرمکی، قسط تلخ ۲۔۲ گرام، فلفل سفید، تج سیاہ ۱۵گرام، زعفران ، دار چینی ۱۰ گرام، ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند شہد خالص میں قوام تیار کر کے مرکب بنائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ آبِ سادہ۔

 

تریاق نزلہ

 

وجہ تسمیہ

نزلہ حار میں سریع التاثیر ہے اور تریاقی اثر رکھتا ہے۔ اِس بناء پر اِس کو تریاق کہا گیا ہے یعنی نزلہ کی زود اثر دوا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

نزلہ بالخصوص نزلہ مزمن ، کھانسی اور رطوباتِ دماغی کے سیلان میں مفید ہے۔

 

جزء خاص

پوست خشخاش

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

اسطوخودوس ۱۵ گرام گل گاؤ زباں ،حب الآس ،کشنیز خشک ہرایک ۳۰ گرام تخم کاہو۔ ۶ گرام اجوائن خراسانی ، پوست خشخاش ہر ایک ۹۰ گرام، تخم خشخاش سفید ۱۲۰ گرام ، سب دواؤں کو پانی میں جوش دے کر صاف کر کے ایک کلو قند سفید کے قوام میں ملائیں۔ پھر گلِ سُرخ ، کشنیز خشک، ربّ السوس، نشاستہ ،صمغ عربی، کیترا مرمکی ہر ایک ۱۵ گرام پیس کر قوام میں شامل کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ گرام تا ۱۰ گرام۔

 

تریاقِ وبائی

 

یہ ایک قدیم مرکب ہے۔ وبائی احوال و امراض میں کثرت سے مستعمل ہے۔ جالینوس نے بھی اِس نسخہ کی تعریف کی ہے۔

 

وجہ تسمیہ

وباء کے خلاف تریاقی اثر رکھنے کے باعث یہ نام دیا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

وبائی امراض کے زمانے میں بطور حفظ ما تقدم اِس کا استعمال بہت مفید ہے۔ چنانچہ ہیضہ، طاعون اور دیگر وبائی اِمراض میں اِس کے استعمال کی ہدایت کی جاتی ہے اور انسان مرض کے حملہ سے محفوظ رہتا ہے۔ زمانۂ  قدیم سے ہی اِس کا استعمال چلا   آ رہا ہے۔

 

جزء خاص

مرمکی

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

صبر زرد ۲۰ گرام مرمکی ، زعفران ہر ایک ۱۰ گرام کوٹ چھان کر عرقِ گلاب ۱۲۰ ملی لیٹر میں خوب کھرل کر کے بقدرِ نخود گولیاں بنائیں اور صبر کی کڑواہٹ سے بچنے کے لئے اُن پر چاندی کا ورق چڑھا لیں۔

 

مقدار خوراک

۱ تا ۲ گولی صبح و شام ہمراہ عرقِ گلاب۔

 

 

 

 

جوارِش

 

وجہ تسمیہ

جوارِش فارسی لفظ گوارِش کا معرب ہے۔ جوارِشات زیادہ تر ہضمِ طعام کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ اطِبّاء ایران کی ایجادات میں سے ہے۔امراض معدہ کی مخصوص دوا ہے۔

جوارِش معجون کی ایک قسم ہے۔ جوارِش اور معجون میں یہ فرق ہے کہ جوارِش دواء مرکب خوش مزہ کو کہتے ہیں جب کہ معجون کے لئے خوش مزہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

جوارِشات کی تیاری میں اُن تمام اصول و ہدایات پر عمل پیرا ہونا ضروری ہے جو معجون کی تیاری کے سلسلہ میں بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ جوارِشات کا سفوف دیگر تمام معاجین کے مقابلہ میں موٹا اور دُردُرا (coarse ) ہونا چاہیے تاکہ یہ سفوف معدے کی اندرونی سطح میں واقع ہونے والے خمل( Villi) اور پیچوں (folds) میں کچھ دیر تک ٹھہر کر ہضم غذا میں مدد دے سکے اور دیگر امور میں معدہ کی مدد کر سکے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اِس کے سفوف کا دُردُرا ہونا ضروری نہیں ہے۔

 

جوارِش آملہ

 

وجہ تسمیہ

اپنے

 

جزءِ خاص آملہ کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

ضعف معدہ میں مفید ہے۔جگر ، قلب اور دماغ کو قوت بخشتی ہے۔ تبخیر اور صفراوی دستوں کو فائدہ دیتی ہے۔

 

جزء خاص

آملہ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

آملہ سو گرام چوبیس گھنٹے تک دودھ میں بھگوئیں۔ پھر آملہ کو پانی سے دھو کر دوسرے پانی میں جوش دیں۔ بعد میں مل چھان کر ایک کلو شکر کے قوام میں ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

جوارِش آملہ  بہ نسخۂ  دیگر: آملہ خشک ۶۰ گرام ،پوست ترنج ،صندل سفید ، ہر ایک ۱۵ گرام ، پوست بیرون پستہ، دانہ، ہیل خرد ہر ایک ۱۰ گرام۔ آملوں کو ۲۴ گھنٹے دودھ میں بھگوئیں۔ پھر پانی سے دھوکر دوسرے پانی میں جوش دیں اور مل چھان کر دوسری ادویہ کے سفوف کے ساتھ قند سفید دو کلو کے قوام میں ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِش انارین

 

وجہ تسمیہ

دونوں قسموں کے انار( ترش و شیریں ) کی شمولیت کی وجہ سے اِس کو ’’جوارِش انارین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

معدہ اور جگر کی تقویت کے لئے خاص ہے۔ مشہتی طعام ہے۔ اسہال میں مفید ہے۔ خون کے سُرخ ذرّات میں اِضافہ کرتا ہے۔

 

اجزاء خاص

انارین

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

آبِ انار شیریں ، آبِ انار ترش، آبِ لیموں کاغذی ہر ایک ۱۷۵ ملی لیٹر شربت حب الاس ۱۵۰ ملی لیٹر آبِ پودینہ سبز، شیرۂ  مربیٰ آملہ، شربت لیموں ہر ایک ۷۵ ملی لیٹر، عرقِ گلاب ۴۰ ملی لیٹرمصطگی، دانہ ہیل خرد، زہر مہرہ ہر ایک ۵ گرام زرِوَرد، وَج ترکی، جائفل، عود شیریں ،طباشیر ہر ایک ۲ گرام۔جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر درجِ بالا آبیات مین قند سفید ۷۵۰ گرام کا قوام کر کے مرکب بنائیں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدارِ خوراک

۵تا ۱۰ گرام، بعد غذائیں۔

 

جوارِش بِسباسہ

 

وجہ تسمیہ

اپنے جزء خاص جاوتری سے منسوب ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

برودت معدہ اور بد ہضمی کو رفع کرتی ہے۔ ریاحی درد وں میں مفید ہے۔ کھانے کے بعد اِس کا استعمال ہضم طعام میں مدد دیتا ہے۔ ریاح کی پیدائش اور کلانی شکم (پیٹ بڑھنے )کو روکتی ہے۔نافع بواسیر، دافع ریاح غلیظہ ہے۔

جزء خاص

بسباسہ (جاوتری)

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

بسباسہ، تج قلمی، ہیل خرد، زنجبیل ، فلفل دراز، دار چینی، اسارون ہر ایک ۱۰۔۱۰ گرام قرنفل ۲۰ گرام فلفل سیاہ ۲۵ گرام، ہیل کلاں ۵۰ گرام۔ تمام ادویہ کو کوٹ پیس کر قندِ سفید ۵۰ گرام کے قوام میں ملائیں اور مرکب بنائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام

 

جوارِشِ تفَّا ح

 

وجہ تسمیہ

تفّاح (سیب)

 

جزءِ خاص ہونے کی وجہ سے اِس نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوی معدہ و احشاء ، مقوی قلب و دماغ، مقوی ہضمَ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سیبِ اصفہانی ۵۰۰ گرام چھیل کر اُن کے تخم نکال لیں ، پھر شرابِ ریحانی بقدرِ ضرورت میں جوش دیں ، حتّیٰ کہ وہ گل جائیں۔ بعد ازاں اِس کو چھان کر قند سفید ۲۵۰ گرام، شہدِ مصفّیٰ ۲۵۰ گرام کا قوام تیار کریں۔ قوام تیار ہونے پر زعفران ۲ گرام، فلفل دراز، فلفل سیاہ، لونگ ۹۔۹ گرام ،زنجبیل ۱۵ گرام، اگر ۱۰ گرام کو کوٹ چھان کر اِس قوام میں گوندھیں۔ اُس کے بعد مرکب کو کسی برتن میں محفوظ رکھیں۔

 

مقدارِ خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔بعد غذائیں ہمراہ آبِ سادہ یا مناسب بدرقہ۔

 

جوارِش تمرہندی

 

وجہ تسمیہ

جزء خاص تمر ہندی کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

صفراوی دست، قے اور متلی میں مفید ہے، جگر، معدہ اور دِل کو قوت دیتی ہے۔ مشتہی طعام اور ہاضم ہے۔

 

جزء خاص

تمر ہندی (اِملی)

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

تمر ہندی ۵ گرام، گلِ سُرخ، کشنیز خشک ہر ایک ۱۰ گرام مصطگی، دانہ اِلائچی خرد، زرشک ،طباشیر ساذج ہندی، پوست ترنج، برگِ پودینہ ،صندلِ مسحوق (گلاب میں گھسا ہوا) ہر ایک ۵ گرام مربیٰ آملہ ایک عدد،انار شیریں ایک عدد۔ اِن میں سے جو دوائیں پیسنے کے قابل ہیں۔ اُنہیں پیس کر تمر ہندی کو عرقِ گلاب میں بھگو کر اُس کا زُلال انار کے نچوڑے ہوئے  پانی میں ملائیں ، پھر سہ چند قند سفید کے قوام میں مرکب تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِشِ جالینوس

 

وجہ تسمیہ

اپنے موجد کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

اِمراضِ معدہ میں خاص تاثیر رکھتی ہے، وجع معدہ، سوء ہضم، ریاح، بواسیر، تبخیر، دردِ سر بشر کتِ معدہ اوربدبوئے دہن میں نافع ہے۔ بلغمی کھانسی، نقرس، کثرتِ بول ضعف مثانہ، ضعف باہ، اسہال اور زحیر کو فائدہ دیتی ہے۔ اِس کا مسلسل استعمال تمام اعضاء کو قوت دیتا ہے ، بالوں کی سیاہی قائم رکھتا ہے اور بلغمی اِمراض سے محفوظ رکھتا ہے۔

 

جزءِ خاص

زعفران و مصطگی

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سنبل الطیب، دانہ اِلائچی خرد، تج قلمی ،دار چینی، خولنجان، قرنفل،  سعد کوفی، زنجبیل، فلفل سیاہ، دار فلفل، قسط شیریں ، عود بلسان اسارون، حب الاس، چرائتہ شیریں ، زعفران ہر ایک ۷ گرام، مصطگی ۲۱ گرام۔ مصطگی اور چرائتہ کو باہم ملا کر ہلکے ہاتھ سے پیسیں ، پھر دوسری دوائیں پیس کر دو چند شہد کے قوام میں ملائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِش زرعونی سادہ

 

وجہ تسمیہ

زرع تخم کے معنی میں آتا ہے، چونکہ یہ جوارِش تخموں پر مشتمل ہے، اِس لئے اِسے ’’جوارِش زرعونی ‘‘کے نام سے موسوم کیا گیا۔

بعض اطِبّا نے زرعونی کو زرغون لکھا ہے جو زرگون کا معرب ہے۔ چونکہ اِس معجون کا رنگ سونے کے رنگ جیسا ہوتا ہے اِس بناء پر یہ نام رکھا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

تقویت گردہ کی خاص دوا ہے۔ پیشاب کی زیادتی کو روکتی ہے۔ مؤلّدِ منی ہے۔ مقوِّی جگر، دماغ اور معدہ ہے۔ تخمہ اور بد ہضمی میں مفید ہے۔ جوارِش زرعونی استعمال کرتے وقت بطور بدرقہ عرق گذر، عرق  بادیان، عرق گلاب اور عرقِ گاؤ زباں کو تجویز کیا جاتا ہے۔

 

جزء خاص

زعفران

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

تخم گزر، تخم اسپست، تخم کرفس، تخم خرپزہ، تخم خیارین، نانخواہ، بادیان، قرنفل ،پوست بیخ کرفس، فلفل سیاہ ہر ایک ۲۵ گرام عاقر قرحا، دار چینی ، زعفران ، مصطگی، عود خام، جاوتری ہر ایک ۱۰ گرام جملہ ادویہ کو کوٹ پیس کر سہ چند شہد کے قوام میں مرکب کریں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِش زرعونی عنبری بہ نسخۂ  کلاں

 

وجہ تسمیہ

عنبر کی شمولیت کی وجہ سے ’’جوارِش زرعونی عنبری‘‘اِس کا نام دیا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

گردہ و مثانہ کو قوت دیتی ہے اور کمر اور ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرتی ہے۔ پیشاب کی زیادتی میں مفید ہے۔ مادّہ تولید کو بڑھاتی اور جگر، دماغ اور معدہ کو تقویت دیتی ہے۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

ثعلب مصری،، مغزسر کنجشک، قضیب گاؤ، خارخسک، خرما، چرائتہ شیریں ہر ایک ۱۰ گرام ،تخم کرفس ، تخم گذر، تخم شلجم، تخم شبت، تخم خرپزہ، تخم خیارین، حب القلقل،  حب الزلم ،نانخواہ، بادیان ،مغز چلغوزہ، نارجیل، بیخ کرفس ہر ایک ۲۵ گرام ،عنبرا شہب ۵ گرام ، مشک خالص ۲ گرام، قرنفل جاوتری جائفل، فلفل سیاہ، عاقر قرحا، کبابہ خنداں ، زنجبیل،گُلِ سُرخ، تج قلمی، فلفل دراز، تخم اسپست، تخم جرجیر، تخم پیاز، تخم گندنا، حب الرَّ شاد،تخم انجزہ ہر ایک ۱۰ گرام، زعفرانِ کندر، مصطگی ، عود ہر ایک ۱۵ گرام، بہمن سُرخ، بہمن سفید، بوزیدان، شقاقلم، اندر جو شیریں ہر ایک ۲۰ گرام کو ٹ پیس کر قند سفید ۷۵۰ گرام شہد خالص سوا کلو کے قوام میں ملائیں۔ مشک عنبر اور زعفران کو عرق کیوڑہ میں حل کر کے علیحدہ سے شامل کریں۔

 

مقدار خوراک

۳ تا ۵ گرام۔

 

جوارِش زنجبیل

 

وجہ تسمیہ

 

جزءِ خاص زنجبیل کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

معدہ اور دماغ کے بلغمی اَمراض، تخمہ، ہیضہ اور اسہال میں مفید ہے۔ مقوی معدہ ہے۔

 

جزء خاص

زنجبیل

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

جائفل، قرنفل، دار چینی ہر ایک دس گرام ، صمغ عربی، اِلائچی خرد ہر ایک ۲۰ گرام، زنجبیل ۵۰ گرام نشاستہ ۱۰۰ گرام ، زعفران ۳ گرام، ادویہ کو کوٹ چھان کر قند سفید دو چند کے قوام میں شامل کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ عرق بادیان ۷۵ ملی لیٹر یا عرقِ گلاب ۳۰ ملی لیٹر۔

 

جوارِش سفر جلی

 

وجہ تسمیہ

سفر جل( بہی)کے نام سے موسوم ہے۔ قابض اور ٍمسہل اجزاء پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اِس کے دو نسخے ہیں : ایک جوارِش سفر جلی قابض۔ دوسری جوارِش سفر جلی مسہل۔

 

جوارِش سفر جلی قابض

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوی معدہ، حابس اسہال و قے، مشہتی طعام۔

 

جزء خاص

بہی (سفر جل)

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

مصفّیٰ و منقیٰ بہی ۵۰۰ گرام سرکہ خالص ساڑھے سات سو ملی لیٹر میں جوش دیں ، نرم ہو جانے پر نیچے اُتار کر پیسیں۔ اور قند سفید ۵۰۰ گرام کے قوام میں مرکب تیار کریں۔ قوام درست ہونے پر آگ سے اُتاریں اور زنجبیل ،فلفل سیاہ، فلفل دراز ہر ایک ۱۵۔ ۱۵ گرام تخم کرفس ، اجوائن دیسی، زعفران ہر ایک ۸ گرام خوب باریک پیس کر قوام میں شامل کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ عرق بادیان یا ہمراہ آبِ سادہ۔

 

جوارِش سفر جلی مسہل

 

افعال و خواص اور محل استعمال

فضلاتِ بطن کو خارج کرتی ہے۔قولنج اور نفخ شکم کو دور کرتی ہے۔ مقوی معدہ اور ہاضمِ طعام ہے۔

 

جزء خاص

بہی اور سقمونیا

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

بہی (مصفیٰ و منقیٰ) ۵۰۰ گرام سرکہ خالص ۷۵۰ لیٹر میں جوش دیں۔ نرم ہونے پر نیچے اُتار کر پیسیں اور قند سفید ۵۰۰ گرام کا قوام تیار کر کے زنجبیل فلفل دراز اِلائچی خرد و کلاں ، دارچینی زعفران ہر ایک ۸ گرام مصطگی ۵ گرام سقمونیا ۳۰ گرام تربد ، مجوف ۷۵ گرام پیس کر ملائیں۔

 

مقدارِ خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ آبِ سادہ یا مناسب عرق۔

 

جوارِشِ شاہی

 

وجہ تسمیہ

مفرحات کی شمولیت اورنسخہ کی لطافت کی وجہ سے ’جوارِش شاہی‘ کا نام دیا گیا۔ بعض قرابادینوں میں جوارِشِ شاہی کا نسخہ جوارِش شہنشاہی عنبری کے نام سے بھی مذکور ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مالیخولیا، خفقان، تبخیر اور قبض میں مفید ہے ،مقویٔ قلب اور اعضائے رئیسہ ہے۔

 

جزء خاص

مربیٰ جات

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

زرشک ۱۰۰ گرام، مربیٰ آملہ، ہلیلہ ہر ایک ۱۰۰ گرام، عرق گلاب ، عرق بید مشک، شربت انار شیریں ، شربت انار ترش ہر ایک ۱۰۰ ملی لیٹر، قند سفید ۷۵ گرام، مذکور ہ مربّوں اور زرشک کو عرقیات میں پیس کر قوام تیار کریں اور جوارِش بنائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِش شہر یاراں

 

وجہ تسمیہ

لفظ شہر یار بادشاہ کے لئے یا اعلیٰ حکام کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔یہ مرکب اِسی طرح کے صاحبِ منصب لوگوں کے لئے ترتیب دیا گیا تھا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

نفیس مسہل ہے۔ قولنج اور قبض کودور کرتی ہے۔ جگر و معدہ کی برودت کو زائل کرتی ہے۔

 

جزء خاص

سقمونیا

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سقمونیا مشوّیٰ ۱۵ گرام ، قرنفل، دارچینی، تج قلمی، سنبل الطیب، جائفل، اِلائچی خرد ، مصطگی رومی، عود بلسان، زعفران ہر ایک ۲۰ گرام، تربد مجوف، حب النیل ہر ایک ۴۰ گرام۔تمام ادویہ کو کوٹ پیس کر زعفران اور مصطگی کو علیحدہ علیحدہ حل کر کے شکر سفید دو چند کے قوام میں ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِش طباشیر

 

وجہ تسمیہ

طباشیر کی شمولیت کی وجہ سے یہ نام دیا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوی معدہ ہے۔ صعود ابخرات کو روکتی ہے۔ نافع دورانِ سر، دافع قے ،دافع غشیان،نافع اسہالِ صفراوی۔

 

جزء خاص

طباشیر کبود

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

گل سُرخ، آملہ مقشر، طباشیر کبود، صندل سفید، کشنیز خشک ہر ایک ۳۵ گرام ، حب الآس، پوست ترنج، پوست سماق، مصطگی رومی ہر ایک ۲۰ گرام، کافور خالص ۵ گرام۔جملہ ادویہ کو باریک کر کے شہدِ خالص سہ چند ادویہ کے قوام میں ملائیں اور جوارِش تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارِشِ عُودْ (تُرش)

 

وجہ تسمیہ

جزءِ خاص عودْ کے نام پر موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

جوع البقر کو نافع ہے۔ معدہ اور جگر کی رطوبات کی تنظیم کرتی ہے اور نفخ معدہ کو ختم کرتی ہے۔ معدہ کی چاروں قوتو ں : قوتِ جاذبہ، قوتِ ماسکہ، قوت ہاضمہ اور قوت دافعہ  کو تقویت دیتی ہے۔ برودت معدہ کو زائل کر کے بھوک لگاتی ہے۔ صفراء کی زیادتی اور منھ کی تلخی کو دور کرتی ہے۔ نافع عام ہے۔

 

جزء خاص

عود ہندی۔

 

دیگر اجزا مع طریقۂ  تیاری

اِس کے متعدد نسخے پائے جاتے ہیں۔ سنبل الطیب، ہیل خرد ، زعفران ، قرنفل ،پوست، ترنج، دارچینی، بادرنجبویہ، مصطگی رومی، طباشیر ہر ایک ۵ گرام، عود ہندی ۳۵ گرام آب سیب ترش ۲۲۵ ملی لیٹر ،عرقِ گلاب ۲۷۵ ملی لیٹر آب لیموں کاغذی ۴۰۰ ملی لیٹر۔ سب دواؤں کو کوٹ چھان کر مذکورہ بالا آبیات میں قند سفید ۳۰۰ گرام اور شہدِ خالص ۳۰۰ گرام کا قوام کر کے ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۷ گرام

 

 

جوارِش عُودْ (شیریٖں )

 

وجہ تسمیہ

اپنے جزءِ خاص  عود کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

معدہ کو قوت دیتی ہے اور رطوبتِ  معدی کو دفع کرتی ہے۔ ہاضم اور مشہتی طعام ہے۔

 

جزء خاص

عود ہندی

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

دانہ ہیل خرد ، دانہ ہیل کلاں ، دار چینی ، زنجبیل، دار فلفل، زعفران ہر ایک ۵۔۵ گرام عود، قرنفل ہر ایک ۱۰ گرام۔ جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند شہد خالص کے قوام میں پہلے بورۂ  اَرمنی ڈال کر حل کریں۔ پھر دوسری دوائیں ملا کر قوام تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا۱۰ گرام۔

 

جوارِش فلافلی

 

وجہ تسمیہ

فلفل سیاہ ، فلفل دراز اور فلفلِ سفید کی شمولیت کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

محلِّل و کاسر ریاحِ غلیظہ، دافع و نافع وجع المعدہ، دافع حمیٰ ربع۔نافع سوء ہضم۔

 

جزء خاص

فلفل دراز

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

فلفل سیاہ و سفید و دراز، ہر ایک ۱۰۰۔۱۰۰ گرام، عود بلساں ۵۰ گرام، تخم کرفس، تج قلمی، زنجبیل شامی، اسارون ہر ایک ۱۰۔۱۰ گرام۔

جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند قند سفید کے قوام میں مرکب تیار کریں اور استعمال میں لائیں۔

مقدارِ خوراک

۳ تا ۵ گرام ہمراہ عرقِ کمون یا عرقِ صعتر۔

 

جوارشِ فواکہ

 

وجہ تسمیہ

پھلوں اور میوہ جات کے فلاحہ (گودا) سے بنائے جانے کی وجہ سے اِس کا نام جوارِشِ فواکہ تجویز کیا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقویٔ اعضائے رئیسہ، دافع خفقان و مالنخولیا، مقوی و مصلح معدہ، دافع اسہالِ صفراوی، دافع قے و غثیان۔

 

جزء خاص

فواکہ  (میوہ جات)

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

آبِ انارین،آبِ بہی، آبِ ناشپاتی، آبِ انناس، آبِ پودینہ ہر ایک ۵۰ ملی لیٹر، عرقِ گلاب، عرقِ کیوڑہ ہر ایک ۱۲۵ ملی لیٹر۔ اِس میں قندِ سفید ۲ کلو کا قوام تیار کر کے بعد ازاں اسارون، سنبل الطیب، مصطگی، برگِ گلاب، زرنب، کپور کچری، پوست ترنج، پوستِ پستہ،بادرنجبویہ، ہر ایک ۵۔۵ گرام مشک و عنبر ۲۔۲ گرام پیس کر قوام میں ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

 

مقدارِ خوراک

۵ تا ۷ گرام ہمراہ آبِ سادہ۔

 

جوارشِ کمونی

 

وجہ تسمیہ

زیرہ کی شمولیت کی وجہ سے یہ نام رکھا گیا ہے۔

 

افعال خواص اور محل استعمالات

مقوی معدہ، دافع ریاح و نفخ شکم/ و، مجفف رطوباتِ معدہ۔

 

جزء خاص

کمونی سیاہ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

زیرہ سیاہ مدبّر ۱۰۰ گرام، زنجبیل ۲۰ گرام، فلفل سیاہ ، برگ سدّاب، بورۂ  ارمنی سب ۱۰۔۱۰ گرام۔ ادویہ کو بارک کوٹ پیس کر سہ چند شہدِ خالص کے قوام میں مرکب تیار کریں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۱۰ گرام۔

 

جوارشِ کمونی کبیر

 

وجہ تسمیہ

جوارِش کمونی کے نسخے میں مزید ادویہ کے اِضافہ کی وجہ سے اِس نام سے موسوم کیا گیا۔ یہ نسخہ جوارِش کمونی کے مقابلے میں زیادہ مؤثر و مفید ہے۔

 

افعال خواص اور محل استعمالات

نافع برودتِ معدہ ، دافع فواق و نفخِ معدہ، دافع امتلاء معدہ، نافع شہوتِ کلبی، دافع قولنجِ ریحی و قیلۂ  ریحی، دافعِ حمیٰ بلغمی و سوداوی، حمہ بلغمی و سوداوی۔

 

جزءِ خاص

زیرہ سیاہ مدبّر۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

زیرۂ  سیاہ مدبّر بریاں ۳۵۰ گرام، فلفل سیاہ ۳۵ گرام ، زنجبیل ۵۰ گرام، برگِ سدّاب، تج قلمی، دار چینی، قرفہ، حب بلساں ، مصطگی رومی، سنبل الطیب، ۷۔۷ گرام،بورۂ  ارمنی ۱۷ گرام۔ جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر سہ چند شہدِ خالص کے قوام میں پہلے بورۂ  ارمنی ڈال کر حل کریں ، پھر دیگر ادویہ ملائیں اور مرکب تیار کریں۔

 

 مقدارِ خوراک

۵ تا ۱۰ گرام ہمراہ عرقِ زیرہ یا عرقِ صعتر۔

 

جوارِش مصطگی

 

وجہ تسمیہ

مصطگی اِس کا جزء خاص ہے ، اِسی لئے یہ مصطگی کے نام سے موسوم ہے۔

 

استعمالات

آلات ہضم کی برودت کو ختم کرتی ہے ، معدہ جگر اور امعاء کو تقویت دیتی ہے اور اسہال میں مفید ہے۔بطور خاص نظریات معدی کے افرازات کی تعدیل و تنظیم کرتی ہے۔ ہارمون کے فساد سے پیدا ہونے والے اَمراض میں مفید ہے۔

 

جزءِ خاص

مصطگی۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

مصطگی رومی ۲۵ گرام پیس کر شکر سفید ایک کلو اور عرقِ گلاب ۷۵ ملی لیٹر کے قوام میں ملائیں اور جوارِش تیار کریں۔

 

مقدار خوراک

۵ سے ۱۰ گرام۔

نوٹ:  قوام تیار کرنے سے پہلے برتن میں روغنِ بادام شیریں یا کنجد سفید لگا لیں اور مصطگی کے سفوف کو قوام ٹھنڈا ہونے پر شامل کریں۔

 

 

 

جواہر مہرہ

 

وجہ تسمیہ

مہرہ بتی کو کہتے ہیں اور چونکہ مختلف جواہرات کو محلول کر کے بتی کے مانند بنا لیا جاتا ہے   لہٰذا اِس کو جواہر مہرہ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

جواہر مہرہ حرکاتِ قلب کی بے نظمی اور قلب کے ضعف کو دور کرنے کی بے مثل دواء ہے۔ علاوہ ازیں مفرّح و مقوِّی اعضاءِ رئیسہ اور جسم کے عام ضعف کو دور کرتا ہے۔ صرع اور اختلاج کے دوروں میں مفید ہے۔

 

جزءِ خاص

جواہرات

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

یاقوت رمانی ،یشب سبز، فیروزہ نیشاپوری،عقیق یمنی ،زمرد پکھراج، مروارید ناسفتہ، زہر مہرہ خطائی طباشیر کبود، بُسد احمر کہربائے شمعی، شاخِ مرجان، لاجورد مغسول، سندروس، ہر ایک ۱۰ گرام۔ ورقِ طِلاء ،ورق نقرہ ۵۔ ۵ گرام عرقِ کیوڑہ، عرقِ بید مشک حسب ضرورت لے کر اُس میں پندرہ روز کھرل کریں اور بتی کی شکل کا بنا کر محفوظ کر لیں۔

 

مقدار خوراک

۵۰ تا ۷۵ ملی گرام ہمراہ دواء المسک معتدل جواہر والی۔

 

جوہر سین

 

وجہ تسمیہ

جوہر سین ، سم الفار (سنکھیا) کے جوہر کو کہتے ہیں۔ سم الفار کا پہلا حرف ’’س‘‘ ہے اِس لحاظ سے اِس کے نام پر اِس کو ’’جوہر سین‘‘ کہا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوِّی باہ، مقوِّی اعضائے رئیسہ ، نافع امراض باردہ و بلغمیہ۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سم الفار ۲۰ گرام کو شراب برانڈی میں خوب کھرل کریں۔ خشک ہونے پر مٹی کے ایک کوزہ میں رکھ کر دوسرا کوزہ اُس کے اوپر ڈھک دیں اور گل حکمت کر کے ہلکی آنچ پر جوہر نکالیں ، بالائی کوزہ پر کپڑا بھگو کر رکھیں اور خشک ہونے پر بدلتے رہیں تاکہ اوپری کوزہ میں جوہر منجمد ہو تا جائے۔ جوہر نکل آنے کے بعد آگ سے علاحدہ کر کے خوب سرد ہو جانے پر کوزہ کو کھولیں اور جس قدر جوہر جمع ہو گیا ہو اُسے چھُڑا کر محفوظ کر لیں۔

سم الفار کے بخارات آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

 

مقدار خوراک

۳۰ تا ۶۰ ملی گرام ، ہمراہ مکھن و بالائی۔

 

جوہر منقیٰ

 

وجہ تسمیہ

جوہر رس کپور کا یہ دوسرا نام ہے، چونکہ اِس جوہر کو منقٰی میں رکھ کراستعمال کیا (نِگلا ) جاتا ہے ، اِس لئے اِس کو جوہر منقٰی بھی کہتے ہیں۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

آتشک، سوزاک ، وجع المفاحل اور نِقرس میں مفیدومستعمل ہے۔

 

جزءِ خاص

رس کپور

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

رس کپور، دارِشکنہ/دارِچکنہ، سم الفار ہر ایک دَس دَس گرام شراب برانڈی ۵۰ ملی لیٹر میں خوب کھرل کریں۔ خشک ہونے پر مٹی کے ایک کوزہ میں رکھ کر دوسرا کوزہ اوپر سے بند کر کے گلِ حکمت کریں اور ہلکی آنچ پر رکھ کر چار گھنٹے تک بطریق مذکور جوہر اُڑائیں۔ اِس کے بعد کوزے کو ٹھنڈا کر لیں۔ سرد ہونے پر چہرہ کو بچا کر کوزہ کھولیں اور جوہر کو احتیاط سے چھڑا لیں اور محفوظ کر لیں۔

 

مقدار خوراک

۳۰ ملی گرام، گولی بنا کر مویز منقّٰی میں رکھ کر بغیر چبائے ہوئے  نگل لیں۔

نوٹ: اگر دانتوں اور مسوڑوں کو لگ گیا تو ورم آ جائے گا اور دانت کمزور ہو جائیں گے۔

 

 

 

حبوب (گولیاں )

 

عربی لفظ’’ حب‘‘ کے معنی دانہ کے ہیں۔ لیکن یہاں دواؤں کی وہ شکل مراد ہے جس میں کئی ادویہ کے سفوف کو کسی سیال میں گوندھ کر گولی کی شکل کا بنا لیا گیا ہو۔ یہ حکمائے قدیم کی ایجادات میں سے ہے۔ اکثر اطِبّا کا خیال ہے کہ بقراط اِس کا موجد و مخترع ہے۔علم و المرکبات میں کہیں ایک ہی دوا کے سفوف کو اور کبھی کئی ا دویہ کے سفوف کو ملا کر گولیاں بنائی جاتی ہیں ،حبوب کے استعمال کا تعلق کسی خاص نظام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ یہ متنوَّع امراض میں استعمال کرائی جاتی ہیں ، ضرورت اور مواقع استعمال کے تحت گولیوں کا حجم چھوٹا بڑا بھی ہوتا ہے ، مثلاً بقدر نخود،بقدرِمسور،بقدرِ کرسنہ،بقدرِ ماش وغیرہ۔

 

حب احمر

 

وجہ تسمیہ

حب احمر کا ایک جزء شنگرف ہے جس کی وجہ سے اِس کی رنگت سُرخ ہو جاتی ہے اِسی مناسبت سے اِس کا نام حب احمر رکھا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

مقوی باہ،مزیّدباہ،پیرانہ سالی میں اِس کا استعمال خاص طور پر مفید بتایا جاتا ہے۔

 

جزءِ خاص

سم الفار

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سم الفار، ہڑتال طبقی، شنگرف ۱۵ گرام، لیمونِ کاغذی، آبِ ادرک تازہ ۱۲۵ ملی لیٹر میں اچھی طرح کھرل کر کے مونگ کے برابر گولیاں بنائیں۔

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍ

مضر  اثرات

اِس سے بھوک میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اِس نسخہ میں اگر گندھکِ اَملسارمدبرّ ۱۵ گرام کا اِضافہ کر لیں تو بھوک کی کمی اور قبض کی شکایت نہیں رہتی۔

 

مقدار خوراک

ایک تا ۲ گولی ، ہمراہ شیر گاؤ۔

 

حب اَذاراقی

 

وجہ تسمیہ

اَذاراقی اس مرکب کاجزوِ خاص ہونے کی وجہ سے اِس نام سے موسوم ہے۔

استعمالات

عصبی دردوں میں مفید ہے۔ وجع المفاصل، نقرس اور تمام اوجاعِ بدن کو فائدہ دیتی ہے۔ عصبی امراض مثلاً فالج، لقوہ، استرخاء ، ضعفِ اعصاب میں بھی سُودمند ہے۔

 

جزءِ خاص

اذاراقی

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

دارچینی ،جائفل ، جاوتری، عود صلیب، قرنفل ہر ایک ۱۰ گرام کچلہ مدبَّر ۲۰ گرام۔ جملہ ادویہ کوپیس چھان کر عرق نانخواہ یا عرق پان میں خوب کھرل کریں اور چنے کے برابر گولیاں بنائیں۔

 

مقدار خوراک

ایک سے دو گولی ہمراہ آبِ تازہ۔

 

حب اِیارج

 

وجہ تسمیہ

اِس مرکب کے نسخہ میں ایارج فیقراء شامل ہونے کی وجہ سے اِسے حب ایارج کا نام دیا گیا۔ تفصیل کے لئے دیکھئے ایارہ/ایارجات۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

سر اور بدن کے بلغمی مادوں کا تنقیہ کرتی ہے۔ صرع، سکتہ اور دردِ سرکی اکثر قسموں میں مفید ہے۔

 

جز ء خاص

ایارج فیقراء

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

ایارج فیقراء ۴ گرام تربد(چرب شدہ) ۲ گرام، حب النیل، اسارون ، غاریقون ہر ایک ۲ گرام ،نمک ،ہندی، شحم حنظل ہر ایک ڈیڑھ گرام کتیرا ایک گرام۔تمام ادویہ کو کوٹ چھان کر عرق بادیان میں مونگ کے برابر گولیاں بنائیں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

۵ تا ۷ گرام رات کے آخری پہر میں کھائیں اور صبح کو مُنضِج ومُسہِلْ کا کوئی حسبِ حال نسخہ استعمال کریں اور اِس کے ساتھ ہی تبرید کا نسخہ بھی لیں۔

 

حب بخار

 

وجہ تسمیہ

دافع حمیٰ افعال کی بناء پر حب بخار کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

حمیٰ ، ملیریا اور موسمی بخاروں میں مفید ہے۔

 

جزءِ خاص

کرنجوہ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

مغز کرنجوہ ۶۰ گرام فلفل سیاہ ۱۵ گرام دونوں دواؤں کو پیس کر لعاب صمغ عربی میں چنے کے برابر گولیاں بنائیں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

دو گولی صبح دو پہر شام۔

 

حبِّ بخاربہنسخۂ  دیگر:بچھناک، شنگرف، فلفل سیاہ، سہاگہ ہر ایک ۵ گرام عرق لیموں کاغذی میں خوب پیس کر مونگ کے برابر گولیاں بنائیں اور ایک گولی دِن میں دو بار پانی کے ہمراہ کھائیں۔

 

حب پان

 

وجہ تسمیہ

عرقِ پان میں کھرل کئے جانے کی وجہ سے اِس کو حبِّ پان کے نام سے موسوم کیا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

آتشک میں خاص طور پر مفید ہے۔

 

جزء خاص

سم الفار۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

سم الفار ،طباشیر ،کا ت سفید ہر ایک تین تین گرام۔ جملہ ادویہ کو باریک پیس کر عرقِ پان میں خوب کھرل کریں اور بقدرِ مونگ گولیاں بنا لیں۔

 

مقدار خوراک

ایک گولی صبح ہمراہ مکھن استعمال کرائیں۔

نوٹ : اِس دوا کے استعمال کے دوران گھی، مکھن اور روغنی اشیاء زیادہ کھائیں۔

 

حب پپیتہ

 

وجہ تسمیہ

اپنے جزء خاص کے نام سے موسوم ہے۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

معدہ کی تقویت اور ہضم کی اصلاح کرتی ہے۔ تخمہ اور ہیضہ میں مفید ہے۔ ہیضہ کے زمانے میں اِس کا استعمال وبائی اثرات سے محفوظ رکھتا ہے۔اس کا استعمال بطور علاج و حفظِ ماتقدّم بھی کیا جاتا ہے۔

 

جزءِ خاص

پپیتہ وِلایتی

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

پپیتہ وِلایتی ۱۰ گرام زنجبیل ، فلفل سیاہ، پودینہ خشک، گل مدار ، نمک لاہوری، نمک سیاہ ہر ایک ۲۰ گرام جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر عرق لیموں میں چنے کے برابر گولیاں بنائیں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

ایک گولی بعد طعام ہمراہ آبِ سادہ۔

 

حب پچلونہ

 

وجہ تسمیہ

ہندی لفظ ہے۔ پچ کا معنی ہضم ہونا اور لونا بہ معنی نمک، یعنی نمک ہاضم کی مناسبت سے یہ نام دیا گیا۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

بدہضمی ،قِلّتِ اِشتہا، کثرتِ ریاح ، ضعف معدہ اور فواق میں نفع بخش ہے۔

 

جزءِ خاص

نمکیات اور نانخواہ

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

نمک سیاہ، نمک سانبھر، نمک سیندھا ہر ایک ۵ گرام ،پودینہ، زرنباد ہر ایک ۲۵ گرام پوست ہلیلہ زرد ، پوست بلیلہ ، آملہ مقشر، فلفل سیاہ، فلفل دراز، زیرہ سیاہ، زیرہ سفید، زنجبیل، وَج ترکی ہر ایک ۳۵ گرام ،کشنیز خشک ۱۰۰ گرام ،نانخواہ ، بادیان ہرا یک ۲۰۰ گرام۔ ادویہ کو کوٹ چھان کر عرقِ لیموں میں تر کر کے دھوپ میں رکھیں۔ خمیر پیدا ہو کر خشک ہو جائے تو پھر اِسی طرح عرق آملہ سبز میں خشک کریں۔ اِس کے بعد آبِ لیموں ملا کر جنگلی بیر کے برابر گولیاں بنائیں۔

 

مقدار خوراک

دو۔دو گولیاں ہمراہ آبِ سادہ بعد غذائیں۔

 

حب پیچش

 

وجہ تسمیہ

زحیر مزمن میں استعمال ہونے کے باعث اِس نام سے یہ حبوب مشہور ہیں۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

پیچش ، درد اور مروڑ کو تسکین دیتی ہیں اور خون بند کرتی ہیں۔ زحیر سدی میں روغن بیدانجیر کے ساتھ اِن کو تجویز کیا جا تا ہے۔

 

جزءِ خاص

 

افیون

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

ماز و، مائیں خرد، ہر ایک ۱۰ گرام صمغ عربی ۴ گرام افیون ۲ گرام۔ جملہ ادویہ کو کوٹ چھان کر فلفل سیاہ کے برابر گولیاں بنائیں اور استعمال میں لائیں۔

 

مقدار خوراک

بڑوں کو ۲ عدد اور بچوں کو ایک عدد ہمراہ آبِ سادہ۔

 

حب تپ بلغمی

 

وجہ تسمیہ

یہ حبوب بلغمی بخاروں میں استعمال ہونے کی وجہ سے ’’حب تپ بلغمی ‘‘کے نام سے موسوم ہیں۔

 

افعال و خواص اور محل استعمال

بلغمی بخاروں میں نفع بخش ہے۔

 

جزءِ خاص

مغز کرنجوہ۔

 

دیگر اجزاء مع طریقۂ  تیاری

مغز کرنجوہ ، فلفل دراز ہر ایک ۲۰ گرام ،زیرہ سفید برگ ببول ہر ایک ۱۰ گرام۔ادویہ کو کوٹ چھان کر پانی میں چنے کے برابر گولیاں بنائیں۔

 

مقدار خوراک

ایک ایک گولی : صبح  ٭ دوپہر٭  شام