FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

پَلیتہ

 

حصہ سوم

ناول

 

 

پیغام آفاقی

 

 

حصہ اول یہاں دیکھیں

حصہ دوّم یہاں دیکھیں

 

 

 

آج وائپر جزیرہ میں  روزانہ ایک کشتی صبح جاتی ہے۔ اور شام ادھر سے  لگ کر آتی ہے  وہاں  ایک پھانسی کا کھنڈر ہے ، عمارت ایسی ہے  مقدس جسے  گا ہوں  کی ہوتی ہے، دوسرے  مکان جو تب جیل کے  عملے  کے  تھے، اب وہاں  صرف بنیاد کی اینٹیں او ر دیواریں  ہیں، ایک دیوار ایک پیپل کے  بڑے  پیڑ میں  ہلکی سی اٹکی ہے۔ اور ایک لوہے  کا پھاٹک بھی اسی میں  پھنسا ہوا ہے ، وہ مری طرف کی عمارت جو شاید سپاہیوں  کے  رہنے  کے  لیے  تھی، اس میں  ایک دو مزدور مویشیوں  کے  ساتھ رہتے  ہیں۔ اس سے  آگے  اب بھی وہ سنتری کا پہرہ گاہ ہے او ر اس سے  آگے  جیل کے  مکان کے  کھنڈر ہیں او ر نوکروں  کی مارکوں  کے  ٹوٹے  پھوٹے  کھنڈر ہیں۔ اس سے  آگے  اس اجڑے  ہوئے  جزیرے  میں  ایک تالاب ہے  جس کی سیڑھیاں  اب بھی کسی زمانے  کے  جیلروں او ر ان کے  احباب کے  لیے  غسل اور تفریح طبع کے  زمانے  کی یاد دلاتی ہیں۔ تمام ہرے  بھرے  جنگل ہیں، گاڑیاں  ہیں، سڑکیں  ہیں۔ نہر ہے۔ کنارے  گارڈ روم ہے  جو شاید تھانہ بھی تھا۔ اس کے  اردگرد جٹّی کی دیواریں  ہیں او ر بس، نہ کوئی قبر ہے۔ نہ مزار ہے ! پھانسی کے  گھر میں  پھانسی دے  کر لاشیں  ایک طویل سرنگ کے  ذریعہ سمندر میں  ڈال دی جاتی تھیں  جہاں  وہ سڑ جاتی تھیں او ر چھلیاں  ان کو  کھا جاتی تھیں۔ اگر دھوپ جلانا چاہیں، اگر دھوپ جلانا چاہیں، اگر چراغ روشن کرنا چاہیں۔

آپ اگر ان تمام لوگوں  کے  لیے  فاتحہ پڑھنا چاہیں، تو اسی پھانسی گھر پہ پڑھنا پڑے  گا۔ جہاں  شہید اور قاتل ایک ساتھ مرے  ہیں ،جہاں  ہندو اور مسلمان ایک ساتھ دفن ہیں، جہاں  کے  دار و رسن پہ لوگوں  کو اس لیے  لٹکا دیا گیا کہ انہوں  نے  ظلم کے  خلاف احتجاج کیا، جنھوں  نے  جسم کی موت اور اذیت اور رسوائی قبول کی لیکن اپنی انا کو رسوا نہیں  ہونے  دیا اور ان لوگوں  کی بھی روحیں  وہاں  سے  فنا ہوئیں ا ور لاشیں  سمندر سے  مل گئیں  جنھوں  نے  مظالم کے  سامنے  ہتھیار ڈال دیے، اور معافیاں  مانگنے  کی کوشش کی اور ان عورتوں  کی بھی لاشیں  ہیں  جنھیں  رسوا کیا گیا۔ جن کی عصمت دری کی گئی، اور جن کو کئی کئی مردوں  کے  ساتھ ننگے  سونا پڑا، یہ تمام لوگ ایک ساتھ ملے  ہوئے  ہیں  یہ تمام خون، یہ تمام لاشیں،ایک ساتھ دفن ہیں ،یہ ایک مقبرہ ہے  ایک ایسا مقبرہ جو تمام مقبروں  سے  مختلف ہے  لیکن آج یہاں  وہ لوگ جاتے  ہیں  جن کے  خاندان کا کوئی بزرگ یہاں  آ کر مارا گیا اور وہ لوگ جاتے  ہیں جو ایک پھانسی گھر اور پرانے  جیل کو دیکھنے  کی تمنا لے  کر انڈمان کی سیر کو آتے  ہیں  لیکن اس جیل کے  ریکارڈ بھی جو سیلولر جیل پورٹ بلیر میں  رکھے  ہوئے  تھے، جاپانیوں  نے  تباہ کر دئے،اور آج وہ ایک ویران، گمنام، جزیرہ ہے  جسے  لوگ پھانسی گھر سمجھ کر، جہاں  قاتلوں او ر ڈاکوؤں  کو اذیتیں  دی جاتیں، نفرت کی نگاہ سے  دیکھنے  میں  فاتحہ پڑھنے  کوئی نہیں  جاتا پھول چڑھانے  کوئی نہیں  جاتا اس لیے  کہ کوئی نہیں  جانتا کہ وہاں  کیا ہوا تھا، اس لیے  کہ جب وہ سب کچھ ہوا تھا وہ ہندوستان کے  آباد شہروں او ر گاؤں  سے  اس قدر دور اس گمنام جزیرے  میں  ہوا تھا جہاں  پرندہ بھی پر نہیں  مار سکتا تھا اور جو گواہ تھے،اور جن آنکھوں  نے  سارے  عذاب دیکھے  تھے۔ اور جن کا نوں  نے  سارے  رسوائی کے  جملے  سنے  تھے او ر جن زبانوں  نے  احتجاج کے  جملے  بلند کیے  تھے  وہ سارے  کے  سارے  لوگ دفن ہو گئے، مٹ گئے ، اس قبرستان، اس مرگھٹ کی طرف جا کے  دفن ہو گئے  جہاں  اب موت کا سناٹا ہے   جہاں  کوئی چراغ نہیں  ملتا۔

سنتے  ہیں  جزیرہ وائپر کا ایک قیدی ایک گیت گایا کرتا تھا۔ ایک سپاہی کو اس کی آواز بہت پسند تھی لہذا اس کو بھی وہ گیت یا درہ گیا۔ اور اس کے  بچوں  نے  اس سے  وہ گیت سن لیا ان کو یاد ہو گیا وہ بچہ ایک دن سمندر کے  کنارے

بیٹھا گا رہا تھا۔

اے  سمندر کی لہروں !

تم تو بڑے  بڑے  جہازوں  کو لے  جاتے  ہو۔

میں  ایک خشک پتے  پر

یہ خط لکھ کر تمھیں  دیتا ہوں۔

تم اسے  کسی برہا گانے  والے  تک پہنچا دینا

یا میری کہانی

بستیوں  میں  لو اور کش کی کہانی سنانے  والے  کو سنا دینا اور یہ بتا دینا، کہ میں  سولی پہ جاتے  وقت اتنا کہہ گیا تھا۔ ہمیں  یہاں  سزا نہیں  دی جا رہی ہے۔

’اے  تیز ہواؤ‘

اے  ناریل کے  درختو!

میں  یہ بتانا چاہتا ہوں  کہ

’’ یہ قید نہیں، بیکار ہے ، اور ہم قیدی سے  مزدور بنا دئے  گئے  ہیں۔ ‘‘

پھر جیسے  پورا منظر بہت گہری آواز میں  کچھ کہہ رہا تھا۔

کھیل کا میدان ہے

کھیلو گے  تم گھر جاؤ گے

تم کو کیا معلوم کہ

اس ریت پہ کیا گزرے  ہے

اس گھاس پہ کیا گزری ہے

تم کو کیا معلوم ہے

کہ کتنے  پتھر ٹوٹے

کتنی آگ نکلی

کتنے  طوفاں  اٹھے

کتنے  ابر برسے

تب کہیں  ان پتھروں  پہ گھاس ابھری

کھیل کا میدان ہے

دور سے  تم نے  بھی دیکھا ہے  یہ نظارہ

کہ کتنی کشتیاں  ڈوبیں

اور کتنے  لوگ چلاتے  ہوئے

لہروں  کے  نیچے  دب گئے

پروہ کیا کہتے  ہوئے

ڈوبے  تھے، یہ لہروں  سے  پوچھو

تم کیا معلوم

بچے  ہوا بھی تم

کھیل کا میدان ہے  یہ

کھیلو گے  پتھر گھر جاؤ گے

تم کو کیا معلوم

کیسے  ؟

اور کیوں

کچھ لوگ

مر جاتے  تھے

ان پھندوں  پہ جا کر

دل کے  بھاری پتھروں  میں

ان کہی باتیں  دبائے

دوریوں  کی دھند میں

جاتے  ہوئے

ہنستے  ہوئے،روتے  ہوئے

یاد کرتے  کرتے  تم کو

اور یہ ارماں  لیے

کہ ایک دن سمجھے  گا ان کی بات کوئی

بات وہ جو وہ کسی سے  کہہ نہ پائے

اور کوئی سن نہ پایا

تم نے  گیتوں  میں  سنا ہو گا

کتابوں  میں  پڑھا ہو گا

ڈرامے  تم نے  کر کے  خود دکھائے

ہوں  گے  لوگوں  کو

مگر اسٹیج کیا ہے

کھیل کا میدان ہے

کھیلو گے، پھر گھر جاؤ گے

تم کو کیا معلوم ہے

اس ریت پہ کیا گزری ہے

اس گھاس پہ کیا گزری ہے

تم گھروندوں  پر گھروندے

گھر پہ گھر

سڑکوں  پہ سڑکیں

سب بناتے  جا رہے  ہو

کارنامے  اپنے  ان آزاد

ہاتھوں  کے

دکھاتے  جا رہے  ہو

مسکراتے  جا رہے  ہو

تم کو کیا معلوم ہے  اس

ریت پر کیا گزر ہے

اس گھاس پہ کیا

گزری ہے

آنے  جانے  والوں  کا ایک سلسلہ چلتا رہا ہے

اور یہیں  کا ہو کے  رہ جانے  کا،مر جانے  کا

مٹ جانے  کا بھی ایک سلسلہ چلتا رہا ہے۔

مجھ کو کیا معلوم لیکن

ایک دن وائپر ؂۱کے  اوپر ایک لوہے  کا زنگ آلود ٹکڑا

کہہ رہا تھا

’دیکھنے  کی چیز ہے  یہ،دیکھنے  آئے  ہو تم،

دیکھو گے  پھر گھر جاؤ گے،

تم کو کیا معلوم کہ اس ریت پر کیا گزری ہے

اس گھاس پر کیا گزری ہے

وہ جو آئے  تھے  پکڑ کر نیند سے،گلیوں  سے،

سڑکوں  سے،اُٹھا کر چائے  خانوں  سے

بہت پہلے  یہاں

یہ جزیرہ کہہ رہا تھا

’ ان کی خونی داستان‘

وائپر اور سیلولر جیلوں  کی دیواریں  تو چپ تھیں

وہ در و دیوار لیکن شہر کے

انسانوں  کی آواز میں کہنے  لگے

’تم ہمیں  مجرم کہو،قاتل کہو،

پر یاد رکھو،تم کو کیا معلوم کہ اس ریت پہ کیا گزری ہے

اس گھاس پہ کیا گزری ہے

لوٹ جاؤ

دیر سے  آئے  ہو تم

 

اسے  یہ محسوس کر کے  تکلیف بھی ہو رہی تھی، اور اپنے  آپ پر غصہ بھی آ رہا تھا  ،آخر میں نے  اب تک تاریخ کو اپنی نظروں  سے  دیکھنے  کی کوشش کیوں  نہیں  کی،جو چیزیں مجھے  متاثر کر سکتی تھیں  انھیں  جاننے  کی کوشش میں  نے  کیوں  نہیں  کی، یہ تو ہر شخص کے  لیے  ضروری ہے  کہ اپنی تاریخ کو اپنا ذاتی معاملہ سمجھ کر اس پر دھیان دے۔ حتی کہ اپنے  خاندان، اپنے  گاؤں، اپنی قوم اور اپنے  ملک کی تاریخ کی اپنے  طور پر جانچ کرے۔ اور ان مورخوں  کی باتوں  کو صداقت نہ سمجھ لے  جنھوں  نے  تاریخ نویسی پر قبضہ کر رکھا ہے  کیونکہ مورخ بھی انسان ہوتے  ہیں او ر وہ تاریخ کو وہاں  سے  دیکھتے  ہیں  جہاں  وہ خود ہوتے  ہیں۔ جس طرح آزادی کی جدوجہد کرنے  والوں او ر انگریزی حکومت کے  عتاب کا شکار ہونے  والوں  کو انگریزی حکومت نے  گمنامی وادی میں  جان بوجھ کر پھینکا اس سے  کچھ کم ان مورخوں  نے  بھی نہیں  کیا جو ہندوستان کی تاریخ وقت اور جغرافیہ اسی نقشے  کو دیکھ کر لکھ رہے  تھے  جو انگریز ہندوستان کی زمین پر ٹکا گیے  تھے او ر جن سے  ہندوستانی آزاد حکومت نے  کتب خانے، قوانین اور مدرس تو لیے  ہی تھے  وہ لوگ بھی جمہوریت کی راہ سے  اقتدار کی بلندیوں  پر پہنچے  ہوتے  تھے۔ جن کے  باب داداؤں  نے  کبھی کالا پانی جانے  والوں  کی زندگی اور دولت کی قیمت پر انگریزوں  سے  انعام کے  طور پر زمینداریاں  راجواڑے او ر بڑی بڑی تجارتیں  حاصل کی تھیں۔

اس تاریخ کو نہ جاننے  کا انجام یہ بھی تو ہو سکتا ہے  کہ ہم کسی دن اپنے  قلم اور اپنی زبان سے  اس نظام کی تعریف کر رہے  ہوں  جس نظام نے  کالا پانی جیسا دوزخ پیدا کیا تھا۔ اس نے  طے  کر لیا کہ وہ جب واپس جائے  گا تو اس دنیا کا جس میں  وہ رہتا ہے ،  زمین سے  لے  کر آسمان تک سب کو کھنگال کر اس مقدمے  کا حساب صاف کرے  گا۔ آخر جانوروں او ر انسان میں  یہی تو فرق تھا کہ جانور اپنی آنکھوں  سامنے  نظر آنے  والی ہریالی کو دیکھتا ہے  لیکن ان چیزوں  پر نظر رکھتا ہے  جو اس سامنے  نہیں  ہوتیں۔ لیکن جن کی اس کو جانکاری ہوتی ہے  یا ہونی چاہیے۔ کوتاہ نظر اور دور اندیش لوگوں  میں  یہی تو فرق ہے  کہ کوتاہ نظر صرف آس پاس کی چیزوں  کو دیکھتا ہے  لیکن دور اندیش انسان اپنے  ماحول کے  ہر اس چیز کی خبر رکھتا ہے  جو کسی بھی شکل میں ، کسی بھی وقت، کسی بھی وجہ سے  نمودار ہو سکتا ہے۔

اگر ہندوستانیوں  نے  یورپ میں  ہو رہی تبدیلیوں  کی خبر رکھی ہوتی اور ان سے  ابھر نے  والے  امکانات کو دور اندیشی سے  سمجھا ہوتا، اگر وہاں  کے  لوگوں  کے  سیاسی کردار کو سمجھا ہوتا ان کی اخلاقیات کو سمجھا ہوتا تو ان کے  غلام بننے  سے  بچ سکتے  تھے۔ اور آج تو پوری دنیا ایک ہو چکی ہے، آج تو دنیا کی ہر قوم کے  کردار،مزاج اور انداز فکر کے  بارے  میں  جاننا ضروری ہے او ر کسی کو جاننے  کے  لیے  اس کو اس کے  ماضی کے  آئینے  میں  دیکھنے  سے  بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

اور خود اس کا اپنا سماج اور اپنا ملک۔ لوگوں  کو شکایت رہتی ہے  کہ سیاست داں  ان کو دھوکا دیتے  ہیں ، لیکن یہ بات کیوں  عام طور سے  کہی جاتی ہے  کہ عوام کی یاد داشت بہت چھوٹی ہوتی ہے۔ لوگ اپنے  سماج اور ملک کی سیاسی تاریخ کو کیوں  نہیں  یاد رکھتے  ہیں  ؟ اسے  محسوس ہوا کہ کہ لوگوں  کی یہ کوتاہ نظری اچھے  سیاست دانوں  کی ہمت شکنی کرتی ہے۔ لوگوں  میں  دوست دشمن کی پہچان ختم ہو گئی ہے۔

ہمارے  ذہن میں  سیاسی پارٹیوں او ر سیاسی افراد کی کوئی تاریخ نہیں  ہوتی۔ ہم اتنی بھی زحمت نہیں  کرتے  کہ ان کے  اعمال کا سنجیدہ تجزیہ کریں۔

ورنہ اگر ہم نے  ملک کی سیاست میں  ہو رہی تبدیلیوں  کی خبر رکھی ہوتی اور ان سے  ابھر نے  والے  امکانات کو دور اندیشی سے  سمجھا ہوتا، اگر اپنے  ملک اور اس کے  سیاست دانوں  کے  سیاسی کردار کو سمجھا ہوتا، ان کی اخلاقیات کو سمجھا ہوتا تو اپنے  ملک کے  لوگوں  کو بے  بس ولاچار ہونے  سے  بچا سکتے  تھے۔ اور آج تو پوری دنیا ایک ہو چکی ہے، آج تو صرف اپنے  ملک کو ہی کیا، دنیا کی ہر قوم کے  کردار،مزاج اور انداز فکر کے  بارے  میں  جاننا ضروری ہے او ر کسی کو جاننے  کے  لیے  اس کو اس کے  ماضی کے  آئینے  میں  دیکھنے  سے  بہتر طریقہ اور کیا ہو سکتا ہے۔

ادھر خالد جس سمندر کے  ساحل پر کھڑا تھا اس کا طوفان خود اس کے  گھر پر دستک دے  رہا تھا۔

oo

 

 

 

خالد کے  ذہن میں  بے  پناہ تناؤ کی وجہ سے  دھماکے  ہو رہے  تھے۔ کیونکہ وہ جس دنیا میں  رہ رہا تھا وہ دنیا اس سے  کچھ کم نہیں  بلکہ زیادہ ہی تھی۔ کچھ بھی تبدیل نہیں  ہوا تھا۔ کالا پانی میں  جس چیز نے  اپنا سر دکھایا تھا اس نے  پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں  لاکھوں  کی جان لی۔ جس جنگ کی تصویریں  اخباروں  میں  پیش کی گئیں  انہیں  تصویروں  کے  چمڑے  کے  نیچے  کالا پانی والی ذہنیت موجود تھی۔ لیکن ایسے  اندھیروں  میں  داخل ہونے  سے  میڈیا بھی گھبراتی ہے۔ فرض صرف اتنا ہی تھا کہ اس جنگ میں  کوئی مخصوص گروہ نہیں  بلکہ ہر شخص یا تو ڈاکٹر والکر بنا ہوا تڑپ رہا تھا یا شیر علی بن گیا تھا۔ اپنے  ذہن میں  روشنی کی طرح داخل ہوتے  ہوئے  اس عرفان سے  اس کا ذہن سکون محسوس کرنے  لگا تھا اور اسے  محسوس ہوا کہ یہاں  کی تنہائی میں  وہ اصل مسئلے  کی وسعتوں  کا وہ مکمل طور پر انکشاف کر سکتا ہے۔ اس نے  یہاں  ہوٹل میں  چند روز اور رکنے  کا فیصلہ کر لیا۔ اس نو ہوٹل کے  عملے  کو بھی ہدایت دے  دی کہ چائے او ر کھانے  کے  سوا کسے او ر وجہ سے  اس کو ڈسٹرب نہ کیا جائے۔ اس کے  لئے  اب کالا پانی تاریخ کے  ایک کونے  میں  سمٹا ہوا واقعہ نہیں  رہ گیا بلکہ پوری دنیا کا آئینہ بن گیا تھا۔

.اس دنیا کو ایک پنجرہ بنا دیا گیا ہے۔

ادھر خالد سمندر کی مزید گہرائیوں  میں  اتر رہا تھا۔ ہوٹل کے  لان میں  چائے  پیتے  ہوئے او ر انڈمان کی پہاڑیوں  پر نظر ٹکائے

وہ سوچ رہا تھا۔

لارڈ میو کو کسی معمولی انسان نے  قتل نہیں  کیا تھا۔

لارڈ میو کو انسانیت کی سیاہ کی ہوئی روح نے  ایک انسان کے  ذریعہ ڈنک مارا تھا۔

خالد سہیل کے  ذہن میں  نیویارک کے  دو ٹاور ایک چمک کی طرح آئے۔

ممکن ہے  کہ یہ مسلمانوں  کو بدنام کرنے  کی کوئی سازش نہ ہو،

ممکن ہے  یہ بھی تاریخی دھماکوں  کی اسی سیریز کا ایک حصہ ہو،

اسے  بابری مسجد کی یاد آئی،

اسے  افغانستان کے  مہاتما بدھ کے  بت کی یاد آئی،

اس نے  گاندھی کے  قاتل کو یاد کیا،

یہ لوگ ہمیشہ صرف بہکے  ہوئے  لوگ نہیں  ہوتے ، انسانیت کی روح اپنی پالیسی بناتی ہے، معصوم لوگ معصوم لوگوں  کا قتل کرتے  ہیں، کیونکہ دنیا میں  اس سے  زیادہ گھناؤنا کوئی منظر نہیں  ہو سکتا کہ ایک آمر کو لوگ معصوم سمجھیں۔ جب انسان یہ دیکھتا ہے  کہ کسی سے  اس کی روح دھوکے  سے  چھین لی گئی ہے او ر وہ بنا روح کے  جی رہا ہے  تو دیکھنے  والے  کے  دل میں  سمندری لہروں  کی طرح غصہ پیدا ہوتا ہے۔ گاندھی جیسے  لوگوں  کو ناکام نہیں  ہونا چاہئے۔ جب وہ ناکام ہوتے  ہیں  تو قتل کیے  جاتے  ہیں۔ ان کے  اوپر یہ الزام ہوتا ہے  کہ انہوں  نے  وہ ذمہ داریاں  اٹھائیں  جنہیں  نبھانے  کی ان کے  اندر صلاحیت نہیں  تھی۔ یہ بات سچ تھی کہ وہ ہندوستان کو تقسیم ہونے  سے  روک نہیں  سکے۔ اس کے  نتیجے  میں  لاکھوں  انسانوں  کی موت بھی ہوئی اور کروڑوں  انسانوں  کے  مابین تقسیم وطن کو لے کر نفرت بھی بڑھی۔ اس نفرت کی آگ کی لپٹوں  نے  برِصغیر کو دھواں  دھواں  کر دیا ہے۔ زمین پر جنت کہلانے  والا خطہ دوزخ بن گیا ہے۔ سیاستداں ،فلسفی، مفکر، سائنسداں، سرکاریں، مذاہب، انقلابات، یہ سب لامحدود امکانات کے  خواب پیدا کرتے  ہیں۔ لیکن عموماً وہ اپنے  دعو وں  کو کر دکھانے  میں  بری طرح ناکام ہوتے  ہیں۔ وہ ایسی تہذیبیں  پیدا کرتے  ہیں  جن میں  وائپر آئی لینڈ جیسے  پھوڑے  موجود ہوتے  ہیں  بلکہ پوری تہذیب میں  وہ زہر بھرا رہتا ہے  جو اس لیڈر سے  ہو کر نکلتا ہے۔ لیکن تاریخ ان سب کی نگرانی کرتی ہے۔ خصوصاً ان افراد کی جو اس کی نمائندگی کا حق ادا کرتے  ہیں۔ اکثر یوں  ہوتا ہے  کہ صاحب اقتدار لوگ تاریخ کے  اس عمل کی ، ان واقعات کی، ان کی اصل معنویت سے  کتراتے  ہوئے  تشریح کرتے  ہیں۔ تاریخ کی گاڑی کے  بریک کو اہل اقتدار راستے  کا روڑا سمجھ کر اس کے  اوپر سے  گزر جاتے  ہیں۔ تاریخ اپنی مزاحمت جاری رکھتی ہے او ر اس طرح واقعات مزید ہوتے  ہیں۔ دنیا میں  کوئی طاقت نہیں  جو سچ کے  پنکھ کو کتر سکے۔ سچائی اکثر طاقت کے  زور کے  ساتھ نمودار ہوتی ہے۔ یہ دہشت پیدا کرتی ہے۔ اسے  روکا نہیں  جا سکتا۔ یہ اعلیٰ ترین قوت ہے۔ یہ معصوموں او ر مجرموں  میں  فرق نہیں  کرتی،تبھی تو یہاں  اتنے  معصوم آتے  ہیں۔

جیسے  اس کا پردادا میری علی آیا، وہ لوگ جو خود سوچتے  ہیں  کہ وہ حق پر ہیں  یا وہ لوگ جن کے  بارے  میں  پوری دنیا سمجھتی ہے  کہ وہ حق پر ہیں۔ وہ لوگ پوری طرح حق بجانب نہیں  ہوتے۔ کسی کو بھی سو فیصد صحیح کہنا اپنے  کو اندھا اور اپنے  کانوں  کو بہرہ کرنے  کے  برابر ہے۔ انسانوں  کو چاہئے  کہ تاریخ کے  ذریعہ زندگی جو پیغام دے  رہی ہو اسے  خاکساری سے  سنیں او ر سمجھیں  تبھی یہ حادثات رک سکتے  ہیں۔ انسان کے  خیالات کا چاہے  وہ بہت طاقتور لوگوں  کے  ہو ں یا انتہائی کمزور لوگوں  کے  احترام ہونا چاہیے۔

خالد مسلسل اس تاریخی سانحے  کی گہرائی اور تفصیلات میں  اترتا گیا۔ اس نے  برطانوی پارلیمنٹ کی تقریروں  میں  اس واقعے  کا حوالہ اور ذکر پایا۔ ان تقریروں  میں  اس واقعہ کو بنیادی طور پر عدم تحفظ کی مثال کہا گیا۔ یعنی یہ کیسے  ممکن ہوا کہ وائسرائے  جنگلوں  سے  گزر رہا ہے او ر راستے  کے  ارد گرد کی جگہوں  کی اچھی طرح تلاشی نہیں  لی گئی ہو۔ اگر تلاش لی گئی ہوتی اور راستے  میں  محافظ تعینات کئے  گئے  ہوتے  تو ایسا ہرگز نہیں  ہوتا۔ یہی نہیں، اگر وائسرائے  کے  ساتھ ان کے  ذاتی محافظ دستے  کے  لوگ اس بات کے  لیے  ذہنی طور پر مستعدی سے  تیار ہو کر چلتے  کہ اگر کسی نے  ان پر حملہ کیا تو فوراً دفاع میں  ان کے  سامنے  آ جائیں  گے۔ حملہ آور سے  ٹکرائیں  گے، اسے  روکیں  گے، خود زخمی ہوں  گے  لیکن ان کو زخمی نہیں  ہونے  دیں  گے۔ لیکن کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ وہاں  یہ سب کچھ ہوا تھا لیکن جنگل میں  تلاشی لینے  والے  کے  ذہن پر حملہ آور کی بھی تو نگاہ تھی۔

جو محافظ دستے  کے  ساتھ چل رہے  تھے  وہ بھی انسان تھے۔ جب لارڈ میو ان اونچائیوں  سے  نیچے  کے  مناظر کی جادوئی خوبصورتی سے  لطف اندوز ہو رہے  تھے  اسی لمحہ وہ جادوئی خوبصورتی ان کے  محافظوں  کے  دل و دماغ اور نظر پر بھی تو اثرانداز ہو رہی تھی۔ اور وہ بھی اس حسن میں  کھو گئے  ہیں۔ پارلیمنٹ میں  بیٹھ کر شاید وہاں  کے  مقررین یہ اندازہ ہی نہیں  لگا سکتے  تھے  کہ یہ جگہ کتنی خوبصورت تھی، ان کے  لیے  تو یہ محض ایک مجرم بستی اور فوجی پڑاؤ کی جگہ تھی۔

مزید براسی کچھ لوگوں  نے  یہ کہا تھا کہ یہ ان لوگوں  کے  غم و غصّہ کا نتیجہ تھا جنہیں  ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں  ناکامی کا منھ دیکھنا پڑا تھا۔ اور انہوں  نے  یہ سازش رچی تھی۔ اس واقعہ کو محض سیاسی نقطہ نظر سے  دیکھا گیا۔

جن لوگوں  نے  شیر علی کے  ذہن کا تجزیہ کر کے  نتیجہ تک پہنچنے  کی کوشش کی ان کا خیال تھا کہ چونکہ اس کو افغانستان کے  مقامی قانون سے  انحراف کر کے  سزا دی گئی تھی اس لیے  اس کے  اندر یہ تکلیف پل رہی تھی کہ اسے  یہاں  بے  قصور بھیجا گیا ہے۔ اور اس نے  انتقاماً یہ قتل کیا تھا۔ کچھ لوگوں نے  شیر علی کو یہ کہتے  ہوئے  ایک وحشی شخص بتایا کہ اس نے  ایک ایسے  انسان کا قتل کیا تھا جو خود وہاں  ان کے  لیے  ایک اسپتال بنوانے  گیا تھا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ پھر وہ اسپتال وہاں  بنا کیوں  نہیں۔ کسی جذبہ انتقام کے  تحت یہ کام روک دیا گیا۔

جس بات کو سب نظرانداز کر رہے  تھے  کہ لارڈ میو کو قتل کر کے  شیر علی نے  خود اپنا بھی قتل کیا تھا۔

خالد سہیل یہ سوچتا رہا کہ شیر علی نے  خود اپنا قتل کیوں  کیا۔ یعنی اس نے  وہ عمل کیوں  کیا جس کے  متعلق یہ یقینی طور پر ایسا معلوم تھا کہ اس کا قتل ہو جائے  گا۔ وہ حاصل کیا کرنا چاہتا تھا۔ یہ وہ سوال تھا جس پر ڈیڑھ سو سال سے  روشنی نہیں  ڈالی گئی تھی۔ اور اب بھی یہ سوال کسی حقیر کیڑے  کی طرف لاپروا ہی اور بے  حسی کے  ملبے  میں  دبا ہوا تھا۔

اس کے  پردادا سے  لے  کر کتنے او ر سوالات تھا جو جواب چاہتے  تھے۔ یہ حق تاریخ نویسوں  کو کس نے  دیا کہ وہ حکمرانوں  کی زندگی کو عام آدمی کی زندگی پر فوقیت دیں۔ یہ حق دیا تھا کہ خود عام آدمی کے  اس رویے  نے  کہ وہ کمزور انسانوں  کی باتوں  کو جھٹلاتا ہے۔

کیا شیر علی جو پیام دینا چاہتا تھا وہ پیام پچھلے  ڈیڑھ سو سال کے  بعد بھی وہاں  پہنچا جہاں  اسے  پہنچنا چاہئے  تھا۔ یا ابھی بھی اس کے  راستے  میں  بہت ساری رکاوٹیں  کھڑی ہیں۔

وہ پھانسی گھر جس میں  شیر علی کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا وہ آج بھی اس ویران جنگل میں  نیک روحوں  کی یادگار کے  طور پر کھڑا تھا۔

ایک سوال خالد سہیل کے  ذہن سے  گزرا۔

کیا شیر علی ایک دہشت گرد تھا۔

شیر علی کو دہشت گرد قرار دینے  کی وجہ سوا اس کے او ر کچھ سمجھ میں  نہیں  آ رہی تھی کہ اس نے  جس انسان کی جان لی تھی وہ ہندوستان کا وائسرائے  تھا اور یہ وجہ کسی کو دہشت گرد قرار دینے  کے  لیے  قطعی کافی نہیں  تھی۔

اور آخری سوال جو اس کے  ذہن میں  گونج رہا تھا وہ یہ تھا کہ کیا شیر علی ایک مجرم تھا۔ اور اگر وہ مجرم نہیں  تھا تو کیا برطانوی سرکار مجرم نہیں  تھی جس نے  اس کو پھانسی کی سزا دی۔ آخر انصاف ہے  کیا۔ اور انصاف کی تعریف کون طے  کرتا ہے۔ عوام یا حکومتیں۔ شاید تاریخ خود وائپر آئی لینڈ کو فراموش کر کے  اس ذمہ داری اور اس سوال سے  کترا گئی تھی۔

خالد سہیل اندر سے  بے  چین ہوا تھا۔ اسی کسک کی وجہ سے  تو وہ وہاں  آیا تھا۔ یہی درد تو اس کے  اندر پل رہا تھا کہ حکومتوں  کے  کلچر نے  جب ایسے  ایسے  بدنام زمانہ کارنامے  کیے  ہیں  تو پھر ان کے  لیے  احترام کیوں ؟ ان پر اعتبار کیوں ؟

خالد سہیل اس جگہ جانا چاہتا تھا جہاں  شیر علی کو پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ جیل گھر کی وہ مخصوص جگہ وہ کمرہ، اس کی دیواریں، وہ جگہ جہاں  اسے  کھڑا کیا گیا، وہ گڈھا جس میں  وہ لٹکا اور عین اپنی جان کھوئی۔ وہ اس جگہ کھڑا ہو کر آخری سانس لی تھی۔ ضرور وہ کچھ کہنا چاہتا ہو گا۔ اس وقت اور شاید خالد وہاں  کھڑے  ہو کر شیر علی کے  ذہن میں  گھس کر ان باتوں  کو سن سکے۔ وہ وہاں  کے  در و دیوار پر نظریں  ڈال کراس تنہائی کو محسوس کرنا چاہتا تھا جیسے  شیر علی نے  محسوس کیا تھا۔ اس سچائی کو محسوس کرنا چاہتا تھا جسے  شیر علی کے  بعد پھر کسی نے  نہیں  دیکھا۔

تب اسے  تاریخ کے  عظیم کوڑے  دان پر شک ہوا۔ کہیں  ایسا تو نہیں  تھا کہ لارڈ میو کے  قتل کے  پیچھے  کسی ایسے  شخص کا ہاتھ تو نہیں  تھا جسے  خود لارڈ میو اپنی زندگی میں  پہچان نہیں  سکا۔ جی ہاں، خالد سہیل نے  سوچا، تاریخ بار بار سازش کرتی ہے۔ زمین کے  طاقتور ترین افراد کو ختم کرنے  کی تاریخ ان لوگوں  سے  حسد کرتی ہے  جو زمین پر بے  حد طاقتور ہو جاتے  ہیں او ر یہ گمان پیدا کرتے  ہیں  کہ وہ تاریخ پر حاوی ہو گئے  ہیں۔

خالد نے  ان لوگوں  کی فہرست میں  اپنے  پردادا کا نام بھی دیکھ ہی لیاجن کو پھانسی کی سزا ہوئی تھی۔ وجہ نہیں  معلوم ہو سکی۔ کچھ نہ کچھ وجہ بتا کر ہی ان کی عمر قید کی سزا کو پھانسی کی سزا میں  تبدیل کیا گیا ہو گا۔ شاید واحد وجہ یہ رہی ہو کہ وہ یہاں  کی اذیت کو برداشت نہیں  کر پاتے  ہوں  گے او ر لارڈ میو یا کسی اور وائسرائے  کی حکمرانی کے  تحت ان کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ تو یہ تھا لارڈ میو، اسے  محسوس ہوا کہ جیسے  شیر علی نے  اس کے  دادا کا انتقام لیا۔

انتقام لیا ہو یا نہ لیا ہو لیکن خالد سہیل کو اپنے  اندر تکلیف کی ایک چنگاری بجھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ خالد سہیل نے  محسوس کیا جیسے  ہو پھانسی گھر ایک بھوت گھر بن گیا ہو اور اس کی دیواروں  کے  پیچھے  معصوموں  کا بے  رحمانہ قتل ہو رہا ہو۔ اسے  لگا جیسے  اسے  اپنی پوری بلند آزاد میں  چلا کر ساری دنیا سے  کہنا چاہئے  کہ جیلوں  کے  پردوں  کے  پیچھے  ایک خوبصورت درندہ رہتا ہے  جو مردانہ ہے او ر عورت بھی۔ جس کی آنکھیں  خونخوار و خوفناک ہیں  لیکن جو حسین ترین لباس اور زیورات سے  ملبوس ہو کر سہانی آوازوں  سے  بھرپور رقص کرتا ہے او ر اپنی خوش الحانی میں  انصاف اور حق اور انسانی فلاح و بہبود اور جمہوری حقوق کے  نغمے  گا کر سب کو مسحور رکھتا ہے۔

وہ اس درندے  کی شناخت کی کوشش کرنے  لگا۔ یہ وہی درندہ تھا جس نے  لارڈ میو کو بھی مروا دیا۔ اقتدار کے  نقشہ میں  چور، جھوم رہا تھا۔ لوگوں  کو آوازیں  سنائی دے  رہی تھیں  لیکن انہیں  چلمن کو کھسکا کر اندر دیکھنے  کی اجازت نہ تھی۔

تو یہ تھا وہ سب کچھ جو شیر علی نے  اپنے  آخری لمحے  میں  دیکھا تھا۔

اور وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ لارڈ میو ایک معصوم آدمی تھا لیکن اس کو تاریخ نے  بے  دردی سے  مارا، اس کی خوبصورت نوجوان بیوی کو جو شام کے  کھلے  آسمان تلے  سمندر میں  لنگر انداز جہاز کے  ڈیک پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی اس کو بیوہ کر دیا۔ شیر علی سبزی کے  لیے  سمندر کے  کنارے  جتنا رویا تھا، لارڈ میو کی بیوہ اس سے  بھی زیادہ تڑپ تڑپ کر روئی تھی۔

یہ خطرناک جہاز لارڈ میو کو بھی وہیں  لے  کر آ چکا تھا جہاں  اب سے  پہلے  سیکڑوں  قیدیوں  کو لایا تھا۔ یہ معمولی کالا پانی کہلانے  والا سانپ آج اژدہا بن گیا تھا۔ لارڈ میو کو وہاں  نہیں  جانا چاہئے  تھا لیکن اسے  کوئی کھینچ کر لے  گیا۔

خالد سہیل کو محسوس ہوا کہ خود بھی کوئی چیز یہاں  کھینچ کر لائی تھی۔ میں  اس کشش کی جڑ تک نہیں  پہنچ پایا۔

تاریخ کی کتنی ہی بڑی شخصیتیں  کھینچ کھینچ کر اسی طرح موت کی وادی میں لائی گئی ہیں۔ نیپولین، کنیڈی، بھٹو، صدام حسین۔۔۔۔۔۔  ایک لمحہ آتا ہے  جب انسان کو سوچنا چاہئے  کہ کہیں  تاریخ اس کے  خلاف سازش تو نہیں  کر رہی ہے۔

تاریخ کی ان بڑی شخصیتوں  کے  قاتل ہمیشہ خود تاریخ کی پیداوار رہے  ہیں او ر ان میں  کسی نے  بھی عدالتوں  میں  اپنی دفاع کرنے  کی کبھی کوشش نہیں  کی۔ انہوں  نے  ہمیشہ شیر علی کی طرح خاموشی سے  اپنے  عمل کا اعتراف کیا لیکن کبھی اس کو جرم تسلیم نہیں  کیا۔ ہمیشہ انہوں  نے  اپنے  عمل کو حق بہ جانب کہا، ان کی کبھی نہیں  سنی گئی ورنہ وہ یہ بتاتے  کہ وہ مجرم نہیں  تھے  بلکہ تاریخ کی بندوق سے  داغی ہوئی گولی تھے۔

ہمیشہ ہی یہ گولی ایک حادثہ کی طرح معلوم ہوتی ہے  جب کہ کبھی حادثہ نہیں  ہوتا۔ ایسے  کسی بھی قاتل کو ان کی قومیں  اکسا کر نہیں  بھیجتیں۔ وہ اپنے  اندر سے  پیدا ہوتے  ہیں۔

پھانسی کے  پھندے  کو دیکھتے  ہوئے  خالد سہیل کا ذہن شیر علی کی پر مرکوز ہو گیا۔

اسے  شیر علی کا اس طرح پھانسی کے  پھندوں  پر چڑھ جانا برا لگا۔ لارڈ میو کے  بعد سیکڑوں  لارڈ میو پیدا ہو جاتے  لیکن شیر علی جیسے  لوگ تو بہت کم پیدا ہوتے  ہیں۔ وہ تو انسانیت کے  لیے  بہت بڑی دولت تھا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو شاید اپنی قوم کی روح عظیم بلندیوں  پر پہنچا سکتا تھا کہ ایسے  لوگ کتنا پیدا ہوتے  ہیں  جو سماج اور انسانیت کے  مفاد کے  لیے  اپنی پوری ذات کو مع اپنی خواہشوں  کے، آرزوؤں او ر تمناؤں  کے  مٹا لیں۔ وہ ایثار کے  کس مقام پر پہنچ گیا تھا جس مقام پر پہنچتے  ہوئے  انسان کی تو سماج کو بہت۔ ضرورت تھی۔ اسے  جذبات کس گرفت میں  آنے  کی بجائے  اپنے  کو بچانا چاہیے  تھا، اپنے  کو ذرائع نہیں  ہونے  دینا چاہیے  تھا، لارڈ میو کیا تھا اس کے  مرنے  پر تو برطانوی حکومت کی کو بھی وائسرائے  بنا سکتی تھی۔ وائسرائے  بننے  کے  لائق انسانوں  سے  تو سماج بھرا پڑا تھا لیکن اس کے  جسے  لوگ کہاں  آسانی سے  پیدا ہوتے  ہیں۔ اسے  زندگی کی مزید بلندیوں  کی طرف سفر کرنا چاہیے  تھا۔ اگر وہ زندہ رہتا تو شاید کوئی اور ہی انقلاب پیدا ہوتا۔ عظیم انسانوں  کے  اپنی قدر و قیمت کو محسوس نہیں  کرنے  کی اپنی حفاظت نہیں  کرنے  سے  ایسی غلطی ہو جاتی ہے  جس سے  ان کا تو کوئی نقصان نہیں  ہوتا لیکن انسانیت کا بھاری نقصان ہو جاتا ہے۔

شیر علی کی لاش دیر تک پھانسی کے  پھندے  پر لٹکتی رہی اور وہ افسوس کرتا رہا پھر پھر رفتہ رفتہ اس کے  ذہن میں  ایک خیال ابھرا۔ لوگ اس کے  بارے  میں  کتنی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ بظاہر طور پر سماجی طورپر ایک کمزور انسان تھا، خالد نے  سوچ وہ بظاہر جتنا کمزور انسان تھا اتنا کمزور انسان کیسے  بحیرے ۂ ہند کے  علاقے  کے  سب سے  طاقتور انسان کا قتل کر سکتا تھا۔ اگر وہ اتنا ہی کمزور ہوتا جو اس کا تصور ہی وہاں  تک نہیں  پہنچ سکتا تھا کہ وہ اس آدمی کا قتل کرے  جو بحیریۂ ہند کے  سب سے  بڑے  علاقے  کا نہ صرف مالک تھا بلکہ اس کی حفاظت میں  اس ملک کی پوری حکومت کھڑی تھی۔ اصل چیز تو اس کی وہ روح تھی جو احساس کی وہ روح تھی جو احساس کمتری کے  دبیز پردوں  کو چیرتی پھاڑتی اس مقام تک پہنچ گئی تھی جہاں  پہنچ کر اسے  احساس کمتری کے  دبیز پردوں  لارڈ میو سے  بھی بڑا ایک ایسا شخص جس لارڈ میو کی زندگی کو ایسے  ختم کر سکتا تھا جسے  ایک شیر ایک بکری کو ختم کرتا ہے، ا س طبقے  کے  سربراہ کو جس طبقے  میں  جلیل القدر ملک کو سرنگوں  کر دیا تھا۔ ایسے  انسان بہت کم پیدا ہوتے  ہیں۔ ایسے  انسانوں  کو زندہ رہنا چاہیے۔ ایسے  انسان تو تاریخ کی جہاز پر مستول کی طرح  ہوتے  ہیں  ورنہ کو ئی تنہا انسان وائسرائے  لارڈ میو کو کیسے  مار سکتا تھا۔ وہ ضرور کسی کے  کندھے  پر سوار تھا۔ وہ ایک عظیم انسان تھا  ایک ایسا انسان جو اپنے  چہرے  پر منجمد دار کو دیکھ سکتا تھا اپنے  مقبوضہ جسم کی حیثیت کو پہچان سکتا تھا۔ اپنی روح اور اپنے  جسم میں  فرق کر سکتا تھا۔ اپنے  ہی نہیں، ہندی کی روح اور اس کے  جسم میں  فرق کر سکتا تھا اس میں  تمیز کی صلاحیت موجود تھی تو انسان کی شخصیت اور ذات کے  اتنے  گہرے  عرفان والے  انسان کو تو اپنے  اس عرفان کو پیغمبرانہ شان کے  ساتھ انسانی تہذیب کی جھولی میں  ڈالنا چاہیے  تھا جہاں  یہ عرفان کوہ نور کی طرح چمکتے  ہوئے  انسانی عظمت کا درس دیتا رہتا۔ لارڈ میو کو مار کر تو وہ قاتل بن گیا شیر علی بھی تو انسان ہی تھا شاید وہ کسی کمزور لمحے  میں  اپنے  جذبات کے  ہاتھوں  میں  بے  بس ہو گیا۔

’’اگر وہ اپنے  نفس پر قابو پا لیتا۔ ‘‘

خالد کو یاد آیا وہ اپنے  گھر میں  بزرگوں  سے  نفس پر قابو رکھنے  کی باتیں  سنتا آیا تھا۔ اسے  وہ شعر بھی یاد آیا جو اکثر موقعوں  پر اس کے  والد اپنے  دوستوں  کے  بیچ یا گھر والوں  کو سناتے  تھے :

نہنگ و اژدہا  و شیرِ نر مار ا تو کیا  مارا

بڑے  موذی کو مارا نفس عمارہ کو گر مارا

بلندیوں  کے  اس سفر میں  شیر علی سے  چوک سرزد ہو گئی۔ روحانی مقامات کا سفر اتنا مشکل تھا خالد نے  سوچا۔ اسی لیے  تو روحانی تربیت میں  غصہ، نفرت لالچ، غرور، خوف، بے  صبری جیسی انسان کو مٹھی میں  موجود کمزوریوں  کو جڑ سے  ختم کرنے  کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسے  غالبؔ کا شعر یاد آیا جو اس زمانے  میں  بھی دہلی باہر نکل کر دور دراز علاقوں  میں  پہنچ گیا تھا:

یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالبؔ

تجھے  ہم ولی سمجھتے  جو نہ بادہ خوار ہوتا

شیطان زندگی ہر لمحے  میں  انتہائی مستعدی سے  لگا رہتا ہے او ر کبھی اپنے  حصول میں  چوکتا نہیں۔ سنہری کے  درد نے  شیر علی کو جو لازوال مشعل نور دیا تھا، شیطان نے  اسے  ا چک لیا لیکن بلندیوں  کے  اس لق و دق صحرا میں  انسان ہوتا بھی تو کتنا تنہا ہے۔ کوئی نہیں  ہوتا جو ہاتھ پکڑ کے  سنبھال لے  ایک ہلکی سی پلک جھپکی اور صحرا ایک شکاری باز کی طرح انسان کو ا چک لیتا ہے۔ ان للّٰہ و ان الیہ راجعون خالد زیر لب بڑبڑایا اور خیالات کے  اس تسلسل سے  باہر آ گیا اس کے  غور فکر کا سلسلہ پھر سے  تاریخ کے  تناظر میں  چلنے  لگا۔ شیر علی کی ایسی ہستی کے  کندھے  پر سوار ہو چکا تھا جو وائسرائے  جیسے  طاقت ور کو ایک انسان سمجھتی تھی۔

شیر علی نے  کسی حفاظتی انتظام کو توڑنے  کی سازش نہیں  کی تھی۔ اس کو اس کام میں  کسی کا تعاون حاصل نہیں  تھا۔ اس کے  باوجود اس نے  لارڈ میو کو ایسے  مار دیا جیسے  وہ قصائی کے  سامنے  دم ہلاتا بکرا ہو۔ آہستہ آہستہ خالد سہیل کے  ذہن میں  کسی چشمے  کی طرح ایک جواب ابلنے  لگا جیسے  کوئی الہام ہو رہا ہے۔

وہ سبھی افراد جو چلمن کے  پیچھے  سے  احکامات جاری کرتے  ہیں  وہ اپنے  آپ کو یہ یقین بھی چلانے  لگتے  ہیں کہ وہ لوگ جن کے  خلاف وہ کار روائی کر رہا ہے  ان کو وہ دکھائی نہیں  دے  رہا ہے۔ وہ سمجھتے  ہیں  کہ ان لوگوں  کے  علاوہ کوئی ان کے  دوغلے  کردار کو نہیں  پہچانتا جن لوگوں  کے  اوپر وہ اپنی نیت کا پردے  کے  پیچھے  اظہار کرتے  ہیں۔ وہ سمجھتے  ہیں  کہ وہ تاثر دینا چاہتے  ہیں  وہ حقیقت کی طرح ٹھوس ہے۔ وہ اس بے  خبری کی دنیا میں  رہنے  لگتے  ہیں  کہ دنیا میں  کہیں  کوئی ایسی دیوار نہیں، کہیں  ایسا مادہ نہیں  جس سے  ایسی دیوار بن سکے  جو کسی سچائی کو پھیلنے  سے  روک سکے او ر انسانی دماغ میں  یہ صلاحیت موجود ہے  کہ وہ بھیس بدل بدل کر آگے  بڑھتی سچائی سے  مراسلے  لے  لیتا ہے  کہ انسان چیزوں  کی حرکت، ان کی سمتوں ، حالات کے  دباؤ اور تبدیلیوں  کے  ممکنہ اثرات سے  اس سچائی کو اخذ کر لیتا ہے، زندگی ایک ایسے  سمندر کی طرح ہے  جس میں  گزرتی ہوئی مچھلی اپنے  چال سے  پیدا ہونے  والی لہروں  کو قید کر ہی نہیں  سکتا۔ کبریں  اگر دفتروں  سے  نہیں،دماغوں  سے  باہر اچھل جاتی ہیں، دماغوں  سے  نہیں  تو تیوروں  سے، تیوروں  سے  نہیں  تو حرکتوں  سے، حرکتوں  سے  نہیں  تو بے  حرکتی اور خاموشی سے۔ خبریں  ہر دیوار کو پار کر جاتی ہیں۔ جب ثبوت کو بند کر دیا ہے  تو سچائی بغیر ثبوت کے  اپنی منزل تک پہنچ جاتی ہے۔ انسانی دماغ کے  لیے  سارے  الفاظ،پوری کائنات، پوری تاریخ، سب کے  سب برہنہ ہیں۔ یہ تاریخ سب کے  لیے  برہنہ ہیں۔ یہ تاریخ نویسوں  کا محتاج نہیں۔ یہ غیر تحریر شدہ تواریخ کو پڑھ لیتا ہے۔ یہ بچے  کی طرح بغیر تجزیہ کے  جان لیتا ہے  کہ کون دوست ہے او ر کون دشمن۔ اگر اسے  کوئی دھوکا دے  سکتا ہے  تو یہ صلاحیت صرف فطرت کے  اندر ہے۔ وہی اس کی آنکھوں  کو اندر سے  سلا دیتی ہے۔ وہی اس کی جگا دیتی ہے۔ یہ ڈانٹتی چلاتی ماں  کو پکارتا ہے او ر مسکراتے  دشمن سے  بچتا ہے۔ طبقۂ اشرافیہ لوگوں  کے  لبھانے  کے  فن میں  مہارت حاصل کرتی ہے،وہ انہیں  خوش کرنے، دوست جیسا سلوک کرنے، اور ان سے  شفقت کا اظہار کرنے  کی کوشش کرتی ہے  لیکن اندر سے  خوفزدہ انسان اس کو پہچانتا ہے  ان کی منافقت گہرے  شکوک پیدا کرتی ہے۔ منافقت کا فن قابل اعتبار نہیں۔ ابتدا میں  یہ دوسروں  کو دھوکا دیتی ہے۔ انتہا پر پہنچ کر یہ خود اپنے  آپ کو دھوکا دیتی ہے۔ یہ آدمی کے  اندر غفلت پیدا کرتی ہے۔ اس کے  اندر جھوٹی خود اعتمادی پیدا کر کے  اس کے  تمام دفاعی دیواروں  کو رفتہ رفتہ مسمار کر دیتی ہے۔ رفتہ رفتہ خطرناک قسم کی خوش فہمیاں  اس کے  اندر جراثیم کی طرح داخل ہو کر اس کے  وجود کا حصہ بن جاتی ہیں۔

لارڈ میو نے  غالباً یہ سوچا تھا کہ جو اسپتال وہ اس لیے  بنوا رہا ہے  کہ انگریز سپاہیوں  کی موت نہ ہو، چونکہ اس سے  قیدیوں  کو بھی فائدہ پہنچے  اس لیے  وہ اس بہانے  قیدیوں  سے  جھوٹی ہمدردی کا اظہار کر کے  اس سے  دوہرا فائدہ اٹھا لے۔ اس نے  سوچا تھا کہ شاید دکھوں  میں  گردن تک ڈوبے  لوگ اس کے  اس ارادے  کی ان الفاظ میں  خبر سن کر اس کو مسیحا سمجھ بیٹھیں  گے۔ اس کو شاید اس کا یقین ہو گیا تھا، اور پھر اسے  یقین ہو گیا کہ وہ ایک ہیرو کی طرح ان وادیوں  میں  بے  فکری سے  گھوم پھر سکتا ہے۔ وہ یہ نہیں  سمجھ پایا کہ جس طرح وہ جھوٹ کو سچ بنا سکتا ہے  اسی طرح وہاں  کے  قیدی سچ کے  اندر سے  جھوٹ کو اخذ کر سکتے  ہیں۔ لارڈ میو کی ناکامی کا خطرناک لمحہ وہ تھا جب اس کو یہ غلط فہمی ہوئی کہ سچ مچ انگریز نسل ہندوستانیوں  سے  ذہین تر ہے، وہ یہ نہیں  سمجھ پاتا کہ سیاسی، معاشی، اور سماجی برتری، برتر ذہن کا ثبوت نہیں  ہیں۔ لارڈ میو اسی وقت ناکام ہو گیا تھا جب انگریزوں  نے  انگریزی قانون کا اطلاق افغانی قبائلیوں  پر کیا تھا۔ فوجی طاقت سے  کامیاب ہونے  والے  لوگ یہ بھول جاتے  ہیں  کہ فوجی اور سیاسی طاقت تاریخ کی بہت ساری طاقتوں  میں  سے  صرف ایک طاقت ہے  جن سے  تاریخ دنیا کو چلاتی ہے۔ لارڈ میو کو پورے  برصغیر کے  انتظام کی ذمہ داری دے  دی گئی تھی لیکن وہ ان حقائق سے  واقف نہیں  تھا جن کی بنیاد پر ملک اور قومیں  تاریخ کی وادیوں  میں  جیتے  ہیں۔ وہ یہ سمجھ نہیں  پایا کہ دنیا کی ذلیل ترین شے  وہ حکومت ہے  جو پردۂ راز کے  پیچھے  اپنے  ہی عوام کے  مفاد کے  ساتھ دشمنی کا سلوک کرتی ہے  جب کہ عوام حکومت کو اپنے  معاملات کو صیغہ راز میں  رکھنے  کا حق اس لیے  دیتے  ہیں  کہ وہ ان کے  حقوق کی بہتر طور پر حفاظت کر سکے۔ یہ وہ سمجھ نہیں  سکا کہ یہ غداری ہے۔ دھوکے  بازی ہے۔ زیادہ تر ایسی حکومتیں  سمجھ نہیں  پاتیں  کہ جب وہ اپنے  اصلی آقاؤں  کے  سامنے  چلمن کے  پیچھے  پالتو کتوں  کی طرح رقص کر رہی ہوتی ہیں  تو ان کے  پائل اور دیگر زیورات کی آوازیں  باہر تک پہنچتی ہیں او ر خصوصاً اس وقت صاف صاف سنائی دیتی ہیں  جب فضا پر امن ہو۔ بات بالکل صاف تھی۔ کیسے  یہ ممکن تھا کہ ایک حکومت جو ایک اسپتال کی ضرورت کو محسوس کر سکتی تھی وہ ان قیدیوں  کی دردناک زندگی کو، ان کی پریشانیوں  کو ان کے  جسم و روح کی حالت کو نہیں  سمجھ سکتی تھی جن کو اس حکومت نے  خود اس آگ میں  جھونکا ہو۔ اور ان کو اپنی زندگی کو بہتر بنانے  کی خود آزادی نہ ہو۔ یہ منافقت تو اتنی واضح تھی کہ انڈمان نکوبار کے  چٹانوں  پر لکھی ہوئی تھی اور سمندر کی لہروں  کی طرف سے  گونج کے  ساتھ سنائی دیتی تھی۔

وہ سوچ رہا تھا، ’تاریخ الفاظ پیدا کرتی ہے او ر ان کی قدر بھی کرتی ہے۔ الفاظ کو زندہ حقیقت کے  طور پر دیکھنا چاہئے۔ مجرم بستیاں، دہشت گرد، جمہوریت، امن، جنگ، تحفظ جیسے  الفاظ کو تاریخ جنم دیتی ہے  تاکہ یہ الفاظ کچھ خاص معنوں  کو کوزے  کی طرح اپنے  اندر بھر کر تاریخ کے  سفر میں  انسانوں  کے  ساتھ ساتھ چلیں۔ ان الفاظ کو احتیاط اور ایمانداری سے  استعمال کرنا انسانوں  کی ذمہ داری ہے، جب ان الفاظ کو زندہ جسم میں  ڈالا جاتا ہے  تو یہ اپنے  اصلی معنی میں  کام کرتے  ہیں او ر ان لوگوں کو تباہ کر دیتے  ہیں  جو ان کا استحصال کرتے  ہیں۔ یہ الفاظ ایماندار اور کمزور لوگوں  کے  دلوں  پر بارش کے  قطرے  کی طرح گرتے  ہیں او ر انتہائی طاقتور، بے  ایمان اشخاص پر شہاب ثاقب کی طرح مار کرتے  ہیں۔

دنیا میں  امن کی فضا قائل کرنے  کے  لیے  دانشوروں  کو ایسے  شیروں  کو پالتو بنانے  کی خواہش سے  باز آنا چاہئے۔ شری عشر۔۔۔  رہتا ہے او ر شیر علی ہمیشہ شیر علی ہوتا ہے، چاہے  اس کو کوئی لاکھ مجرم کہے، ظالم کہے  یا پاگل کہے، یا پاگل قرار دیتا رہے۔

oo

 

 

 

 

اب وہ باہر آ چکا تھا۔ وائیر آئی لینڈ کے  پھانسی گھر کے  سامنے  ان کھنڈروں  کے  پاس کھڑے  ہو کر جہاں  جیلر کے  بنگلے  میں  سنہری کا قتل ہوا تھا۔ اپنے  چاروں  طرف کی پہاڑیوں  پر نظر ڈالتے  ہوئے  اسے  پرانے  وقتوں  کے  وہ قیدی یاد آئے  جنہوں  نے  یہیں  اپنی زندگی ختم کی تھی۔ انہی میں  اس کا پردادا میر علی بھی تھا اور اب وہ یہاں  کھڑا تھا۔ وہ یہاں  کھڑا ہو کر حکومتوں  کو زمانوں  کے  درمیان سے  گزرتا ہوا صاف صاف دیکھ سکتا تھا۔ اس کے  لیے  وائر آئی لینڈ ایک ایسا مینارِ نور تھا جو اپنے  سینے  میں  ہزاروں  خطرات خاموشی سے  چھپائے  کھڑا تھا اور جہاں  آ کر بڑے  بڑے  جہاز چٹانوں  سے  ٹکرا کر ایسے  پاش پاش ہو جاتے  تھے  جیسے  کسی چھپے  ہوئے  شکاری نے  اچانک کسی معصوم پرندہ کو گولی مار دی ہو۔

وہ مزید سوچنے  لگا۔

تو پھر وہ کون سی چیز تھی جو ان جہازوں  کو ادھر آنے  پر مجبو ر کرتی تھی۔

سوچتے  سوچتے  اس کی نظر پھانسی گھر پر جا کر ٹک گئی۔ جو اتنا مضبوط بنایا گیا تھا کہ ان تمام کھنڈروں  میں  صرف یہی زمانے  کے  تھپیڑوں  سے  بے  پروا، صحیح سالم کھڑا تھا۔

oo

 

 

12

 

جب جہاز آسمان کی بلندی پر پہنچا اور پھر ایک سرعت کے  ساتھ آگے  اپنی منزل کی طرف بڑھنے  لگا تو اسے  محسوس ہوا کہ وہ  ۱۹ویں  صدی سے  ۲۱ ویں  صدی کے  پہلے  پہر میں  جا رہا ہے۔ سال دس سال رہنے  دور ہے  سب کے  لمحے  موجود کا حصہ تھے، اس نے  محسوس کیا، تین دنوں  پہلے  کا کوئی واقعہ تین سال پہلے  کا، تین سال پہلے  کا یا تین سو سال پہلے  کا کوئی واقعہ۔ کوئی واقعہ کتنا پہلے  ہوا محسوس ہوتا ہے  اس کا انحصار اس پر ہے  کہ کوئی اس واقعہ سے  کتنا تعلق محسوس کرتا ہے۔ اور یہ واقعہ کتنا تازہ اور موزوں  ہے۔ اور یہ ذہن کی الماریوں  میں  بھیجنے  کے  لائق ہے۔ اس کے  لیے  اس لیے  کالا پانی کا تاریخی واقعہ ایک ایک درخشاں  سورج کی طرح تھا جو آسمان سے  جھول رہا تھا اور اس کی کرنیں  ڈیڑھ سو سال کو پار کرتی ہوئی انسانی تقدیر کے  تمام رنگوں  میں  برستی ہوئی سیدھے  موجودہ وقت کے  دھارے  اوپر اس طرح گر رہی تھی کہ موجودہ عہد کی ساری کاٹ دار دھاریں  اپنی حقیقت کے  ساتھ روشن ہو رہی تھیں۔ ا س کے  ذہن کے  نیچے  موجود اخبار اور ٹی وی چینل فلمیں او ر ڈرامے  ہر ایک شہر پر ایک گھر ہر ایک گاؤں  اب بھی ایک بہت بڑے  روزمرہ کی واقعات کے  نمائش کی طرح گزر رہی تھیں۔ جلیاں  والا باغ کے  خون کے  چھنٹے  ابھی بھی تازہ تھے۔ تقسیم ملک کی ہلاکتوں  کا خون اب بھی کہہ رہا تھا اور جہیز کے  لیے  جلائی گئی عورتوں  کی راکھ اس میں  شامل ہو کر بہہ رہی تھی، جس طرح کسی نشتر کے  چھوتے  ہی کسی زخم کے  اندر سے  خون اور مواد بہنا شروع ہو جاتا ہے  اسی طرح بے  شمار دہشت ناک واقعات اپنے  بھر پور رنگوں  کے  ساتھ خون کو منجمد کر دینے   والے  رنگوں او ر شکلوں  میں  مل کر باہر آ گئے  تھے۔ یہ تصویر سمندروں  کی طرح وسیع اور چاروں  طرف تھی۔ ایک ایسا سمندر جو ارتقاء اور نشو نما کی بلند و بانگ سرنگوں  کو چاروں  طرف سے  گھیرے  ہوئی تھی۔ لیکن گنگا کے  کسی عظیم سیلاب کی طرح پانی میں  ڈوبی ہوئی تھی۔ لوگ زندگی تمنا کے  ساتھ چیخ چلا رہے  تھے۔ یہ ایک بہت ہی تکلیف دے او ر وسیع منظر تھا۔ اس نے  اس منظر سے  باہر آنے  کے  لیے  آنکھیں  بند کر لیں۔

اڑتا ہی تو نہیں  رہے  گا۔ آخر کار اس زمین پر اترے  گا جس سے  یہ اڑا تھا۔

ٹھیک ہے  لیکن میں  نے  جو کچھ دیکھا ہے  اسے  میں  کبھی نہیں  بھول پاؤں گا اور یہ شعور میری آنکھیں  کھولے  گا۔ اور میں  اپنے  لوگوں سے  کہوں  گا کہ وہ کسی ایسی دنیا کی تعمیر ہرگز نہ ہونے  دیں۔ جہاز اب دہلی ایرپورٹ پر اتر رہا تھا۔

oo

 

 

 

 

دلی ایرپورٹ پر اترنے  کے  بعد اس نے  دلی کو دیکھا۔ اسے  یہاں  کے  ٹوائلٹ میں  اپنا لکھا ہوا جملہ یاد آیا۔ لیکن وہ بالکل سرد تھا۔ اس کے  دل پر تو ہزاروں  من بھاری خاموشی تھی۔ دوسرے  دن وہ ٹرین سے  گھر پہنچ گیا۔

باہر برآمدے  سے  منسلک کونے  والے  روم میں  اس کے  بزرگ والد تسبیح پر ورد کر رہے  تھے۔ وہ ان کے  پاس گیا۔ سلام کر کے  واپس آیا۔ گھر کے  اندر گیا۔

تھوڑی دیر میں  سب نے  اسے  گھیر لیا۔ امی، پھوپھی، بہن، چھوٹے  بھائی، بھابھی۔ اتنے  میں  والد صاحب بھی ہاتھ میں  تسبیح لئے  آتے  دکھے۔ انہیں  دیکھ کر سب ایک طرف ہو گئے۔ آ کر سامنے  کرسی پر بیٹھ گئے  او ر تسبیح ذرا دھیمی ہو گئی۔

والد نے  ہی سوال کیا، بابو کچھ دادا کا پتہ چلا۔ کتنے  دن وہاں  رہے ، کب مرے۔ ان کی قبر کہاں  ہے۔

خالد سہیل کے  ذہن میں  ہزاروں  میل دور سمندروں  کے  درمیان گھرے  جزائر میں  سمندر کے  کنارے  لاشوں  کو کھینچتے  ہوئے  گدھ چونچ میں  گوشت کے  ٹکڑے  لے  کر اڑتے  تھے۔

سمندر کے  کنارے  پتھروں  سے  بھرا جزیروں  کا بے  رحم کنارہ، دھوپ میں  جلتے  جسموں  پر چمڑہ بھیجنے  کے  لیے  گلے  میں  پھانسی کے  پھندوں  کی آ کری آوازیں  کٹ کٹ اور لاشوں  کو اسی سے  کھینچنے  والوں  پر مزید انگریزی کوڑوں  کی سٹ سٹ کی آواز اور قیدیوں  کی بے  زبانی ! وہ کیا بیان کرے  کیسے  بیان کرے۔ اس کا دل۔۔۔  گیا۔

ماں  نے  کہا، وہاں  کام کراتے  تھے  نا۔ کیسے  کام کرتے  ہوں  گے  وہ۔ کبھی زندگی میں  ٹانگی سے  جلا ون تک نہیں  کاٹا انہوں  نے۔ مٹی اور لکڑی کٹواتے  ہوں  گے۔ مکان بنواتے  ہوں  گے۔ اماں  دوسروں  کی طرف دیکھ دیکھ کر کہہ رہی تھیں۔

والد بے  حد انہماک سے، تسبیح روکے، آنکھیں  خالد پر مرکوز کیے  انتہائی اشتیاق سے  سننا چاہتے  تھے۔ خالد سہیل نے  نظر اٹھا کر ان کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں  میں  جھلکتے  اشتیاق کو دیکھا۔ وہ تو صرف سننا چاہتے  ہیں  کہ میں  ان کو بتاؤ ں  کہ میر علی کی زندگی کے  بارے  میں  کیا کچھ معلوم ہو سکا۔ ان کی قبر کا پتہ لگا کہ نہیں۔ اگر پتہ لگا تو وہ شاید لکھیں  گے  کہ مجھے  ایک بار وہاں  لے  چلو۔ خاموشی سے  ان کو دیکھتا رہا۔ اور چپ رہا۔ جب باپ کی نظروں  میں  مایوسی جھلکنے  لگی اور تسبیح کی رفتار بڑھ گئی تو خالد کی آنکھوں  سے  آنسو  کے  دو موٹے  قطرے  اس کے  رخسار پر ڈھلک آئے۔ سب کی نظریں  اس کے  چہرے  گڑی ہوئی تھیں۔ اور بھیگی آنکھوں  کے  پیچھے  اس کے  ذہین کے  اندر انڈمان کے  سمندروں  میں  تیرتی ہوئی لاشیں او ر اوپر منڈلاتے  گدھ دکھائی دیتے  رہے۔

خالد سہیل نے  نظر اٹھا کر ان کو دیکھا۔ ان کی آنکھوں  میں  جھلکتے  اشتیاق کو دیکھا۔ وہ تو صرف سننا چاہتے  ہیں  کہ میں  ان کو بتاؤ ں  کہ میر علی کی زندگی کے  بارے  میں  کیا کچھ معلوم ہو سکا۔ ان کی قبر کاپتہ لگا کہ نہیں۔ اگرپتہ لگا تو وہ شاید لکھیں  گے  کہ مجھے  ایک بار وہاں  لے  چلو- اور چپ رہا۔ خاموشی سے  ان کو دیکھتا رہا۔

 

میر علی سے  جڑا ہوا پرانا گھاؤ بھی اپنی پوری لگن کے  ساتھ تازہ ہو گیا تھا۔ اور ان پر ٹوٹی ہوئی ہیبت کا خیال تازہ ہو کر اپنے  سے  جڑے  ہوئے  تکالیف دہ سوالوں  کو چھڑنے  لگا تھا۔ کالا پانی میں  جانے  کے  بعد ان پر کیا گزرا، انھوں  نے  کس حال میں  اپنی زندگی کاٹی،وہ یہاں  کے  بارے  میں  کیا کیا سوچتے  تھے ،کیا کیا تمنا رکھتے  تھے ، وہیں  آباد ہو کر مطمئن ہو گئے  تھے  یا گھر واپس آنا چاہتے  تھے  تمناؤں  کے  خون میں  سنے  ہوئے  سوالات گھر کے  درو دیوار پر چھینٹے  بکھرنے  لگے۔

اس نے  گھر والوں  کو کالا پانی کی جو کہانی سنائی تھی اس نے  گھر میں  کئی دنوں  تک ماتم کا ماحول بنائے  رکھا۔ لیکن ابھی لوگ اس گہری تکلیف کے  صدمے  سے  باہر نکل بھی نہ پائے  تھے  کہ گویا یاد دہانی کے  طور پر اسی بیچ عدالت سے  ایک نوٹس آ ہی گیا۔ نوٹس کے  مطابق کچھ انجان لوگوں  نے  دعوی کیا تھا کہ وہ میر علی کی ان تین بیٹوں  کی اولاد میں  جو کالا پانی میں  ان کی دوسری بیوی سے  پیدا ہوئے  تھے او ر اس بنا پر انہوں  نے  میر علی کی جائداد میں  بٹوارے  کا مقدمہ دائر کیا تھا۔ یہ مقدمہ ان کے  خاندانی دشمنوں  کے  ایک رشتے  دار نے  مختار نامے  کی بنیاد پر عدالت میں  دائر کیا تھا۔

oo

 

 

 

 

اس سے  پہلے  تو خالد اور اس کے  گھر والے  کالا پانی کے  بارے  میں  برائے  نام ہی کچھ جانتے  تھے۔ لیکن اب کالا پانی ان کی زندگی کا ایک ایسا جیتا جاگتا سرو کار بن گیا جس سے  ان کا پورا وجود جڑا ہوا تھا۔ معاملے  کی نزاکت نے  ان کو شدت سے  جھنجھوڑ کر انھیں  احساس دلایا کہ انہوں  نے  اپنے  خاندان کی تاریخ کو اس قدر بھلا کیسے  دیا تھا کہ وہ محض ایک کہانی اور ایک جذباتی چیز بن کر رہ گئی تھی۔ ان کی زندگی کے  معاملے ، مقدمے او ر تاریخ اس طرح ایک دوسرے  سے  منسلک تھے  اس کا انکشاف ان پر ایسے  ہوا کہ سارا حال دور بھاگنے  لگا اور ماضی میں  دھیرے  دھیرے  نیچے  اتر کر اپنے  کو ان کی روز مرہ کی سوچ اور گفتگو کا مرکز بنا لیا۔

اس کے  ساتھ ہی ان خاندانی دشمنوں  کے  چہرے  کا گھناؤنا پن پوری شدت سے  ان کے  سامنے  ابھرنے  لگا کہ۔ پہلے  تو انہوں  نے  انتہائی مکاری اور عیاری سے  میر علی کے  اوپر ایک جھوٹا مقدمہ چلوا کر ان کو کالا پانی بھجوایا اور اب انہی بنیادوں  پر انہوں  نے  ان کی جائداد پر دعوی ٹھونک دیا۔

وراثت کا تاریخ سے  گہرا تعلق ہوتا ہے او ر جو لوگ اپنی تاریخ نہیں  جانتے  ان کے  لیے  مقدموں  کا لڑنا مشکل ہو جاتا ہے  اس واقعے  کے  بعد اس نے  دھیرے  دھیرے  سب کچھ بتانا شروع کیا۔

اس کے  بعد کئی دنوں  تک دنیا کو حکومتوں، جنگوں او ر قوانین کو اپنے  والد کے  کہ گئے  جملے  کی روشنی میں  پڑھتی ہوئے  یہ تجزیہ کرتا رہا کہ یہ بات کہاں  کہاں  کس حد تک صحیح تھی اور جہاں  جہاں  یہ بات صحیح تھی وہاں  کی عوام اس بارے  میں  با شعور تھے  یا نہیں۔ تجارت اور تلوار کی جوڑی اسے  تاریخ کی  آماجگاہ میں  کئی جگہ چمکتی ہوئی دکھی۔ اور اس کے  ساتھ ہی پشت در پشت جاری عیاری اور مکاری کی لکیریں  صاف صاف بچھی ہوئی دکھنے  لگیں۔

ایسا لگنے  لگا کہ یہ سازش اس کے  پردادا کے  وقت سے   ہی مسلسل جاری رہی اور اندر ہی اندر یہ سب کچھ کرنے  کی تیاری چلتی رہی  جس کا انہیں  کبھی احساس ہی نہیں  ہوا او ر ان کے  ذہن کا کوئی نہ کوئی گوشہ جسے  جاگتے  رہنا چاہئے  تھا گہری نیند سوتا رہا۔

اہم بات یہ تھی کہ مقدمے  پر توجہ دی جائے۔

oo

 

 

 

 

ابھی وہ کچہری جا کر کچھ کرنے  کی سوچ ہی رہی تھے  کہ او ر تیار ہو کر ناشتے  پر بیٹھے   ہوئے   پہلا لقمہ اٹھانے  ہی والے  تھے  کہ خادمہ نے  آ کر بتایا کہ باہر کوئی آیا ہے او ر بت پچھلے  دن کی طرح وہ بھی بتا رہا ہے  کہ وہ کچہری سے  آیا ہے او ر ان کو پوچھ رہا ہے او ر اس کے  ہاتھ میں  ایک بڑا سا لفافہ ہے۔ ان کو گہری تشویش ہوئی اور وہ اٹھنے  لگے۔ بیگم نے  ان سے   اطمینان سے  پہلے  ناشتہ کر لینے  کے  لئے  تسلی کے  لئے  کہا  لیکن ان کے  ذہن میں  اتنے  اندیکھے  اندیشے  پیدا ہو گئے  کہ وہ اٹھ کھڑے  ہوئے۔

عدالت کے  ہرکارہ نے   ان سے  رسید لے  کر با ضابطہ ایک لفافہ دیا۔ سمن کے  بعد عدالت کا یہ دوسرا مراسلہ تھا۔ اس مراسلہ کے  مطابق ان کی تمام خاندانی زمینوں  کی فروخت پر روک لگائی گئی تھی اور انہیں  کسی ریسیور کے  حوالے  کرنے  کی تجویز تھی۔ اسی دن شام کو وہ اپنے  خاندانی وکیل کے  پاس پہنچے۔

oo

 

 

 

وکیل نے  بتایا کہ اس میں  پہلے  ان کے  پاس جو نوٹس آ چکا تھا اس کا اطمینان بخش جواب جانا چاہئے  تھا۔

’لیکن یہ تو سراسر بنائی ہوئی کہانی ہے۔ اور میں  نے  اپنے  بیٹے  کو اس کے  بارے  میں  دریافت کرنے  کے  لئے  بھیجا تھا۔ اور پھر عدالت نے  کوئی نوٹس نہیں  بھیجا  تھا۔ ‘

انہوں  نے  عدالت میں  کہا ہی کہ آپ فوری طور پر زمینیں  بیچنے  کی تیاری کر چکے  ہیں  اس لئے  عدالت نے  احتیاطاً یہ آرڈر کیا ہے  لیکن اب جب تک اس مقدمے  کا فیصلہ نہیں  ہو جائے  گا تب تک آپ نہ اپنی کوئی زمین بیچ سکتے  ہیں او ر نہ اسے  گروی رکھ سکتے  ہیں  نہ اسے  اپنے  نام پر منتقل کرا سکتے  ہیں۔ بلکہ انہوں  نے  عدالت سے  یہ درخواست بھی کی ہے  کہ پوری جائداد کا انتظام وقتی طور پر کسی تیسرے  آدمی کے  ہاتھ میں  دے  دیا جائے۔

تو کیا عدالت ایسا حکم دی سکتی ہے  ؟

دینا تو نہیں  چاہئے  لیکن عدالت کو ایسا کرنے  کا اختیار تو ہے۔

اس کا مطلب یہ ہو بھی سکتا ہے۔

یہ کھیل ہے  تو بہت خطرناک اور آجکل عدالتوں  میں  کچھ بھی ممکن ہے۔

لفظ آجکل پر والد کے  ہونٹوں  پر ایک تلخ مسکراہٹ آ گئی۔

وکیل نے  ان کے  چہرے  کو دیکھا۔

انہوں  نے  وکیل کے  لفظ کو دہرایا۔

’آجکل‘۔

عدالت میں  بڑے  بڑے  گھپلے  تو ہمیشہ سے  ہی ہوتے  آئے  ہیں  لیکن آجکل یہ بیماری کچھ اتنی بڑھ گئی ہی کہ سچ پوچھئے  تو اب وکالت کرنے  کو جی نہیں  چاہتا۔ ہم مقدمہ کی تیاری چاہے  جتنی بھی اچھی کر لیں ‘ ہمیں  نتیجہ کا بھروسہ نہیں  ہوتا۔ ہوتا وہی ہے  جو پہلے  سے  طے  ہوتا ہے۔

اب کرنا کیا ہے۔

’جواب دیں  گے۔ ‘ ایک وقفے  کے  بعد اپنی طرف دیکھتے  ہوئے  والد سے  نظریں  ملیں  تو اس نے  آگے  کہا۔

’ ہوشیار رہنا  ہو گا۔ ‘

کاغذات وکیل کے  پاس ہی چھوڑ کر خالد اور اس کے  والد لوٹ گئے۔ والد  نے   خالد کو حکیم کے  یہاں  سے  اپنی دوائیاں  بنوا کر لیتے  آنے  کی ہدایت دیتے  ہوئے  خود ایک رکشے  پر بیٹھ کر گھر کی طرف چل پڑے۔

وہ رکشے  میں  واپس آ رہے  تھے۔ بستی میں  داخل ہونے  سے  پہلے  ہی دشمنوں  کا مکان پڑتا تھا۔ اتفاق سے  وہ لوگ باہر ہی دروازے  پر کھڑے  تھے۔ ان کو دیکھا تو آپس میں  زور سے  مسکرائے۔

والد ان کو کاٹنے  والی نگاہوں  سے  گھورنے  لگے۔ رکشہ آگے  بڑھ گیا تو وہ لوگ نظروں  سے  ا و جھل ہو گئے  لیکن ان کی مسکراہٹ بچھو کی طرح ان کو ڈنک مارنے  لگی۔

کافی گہری سوچ میں  ڈوبے  واپس گھر  کے  لئے  رکشے  پر بیٹھتے  ہوئے  لوٹ آئے۔

ٍَّؓ خالد سہیل کے  والد جب گھر پہنچے  تو ہر چیز کی شکل بدلی ہوئی تھی۔ وہ مکان جسے  وہ بچپن سے  اپنا سمجھ رہے  تھے  وہ اجنبی سا لگنے  لگا۔ بیگم ان کی تکان دور کرنے  کیلئے  شربت بنا کر پلاتی رہیں  لیکن انکی تکان بڑھتی ہی جا رہی تھی۔

ہوشیار رہنا ہو گا۔

گھر میں  پہنچے  تو ان کی طبیعت بہت بوجھل تھی۔ اور وہ آرام کرنے  کے  بجائے  بے  معنی ہی گھر میں ادھر ادھر چلتے  پھرتے  رہے۔

بڑے  والے  دالان میں  ان کی نظر اپنے  دادا کے  اسلحوں  پر پڑی۔

سب بیکار ہیں۔

اس جنگ کے  لئے  نئے  اسلحے  چاہئے۔ ہوشیار رہنے  کا مطلب وہ سمجھ گئے  تھے  لیکن پریشانی کی بات یہ تھی کہ ان کے  مخالفین کے  پاس پیسے  بہت تھے اور  وہ پرانی رقابت اور دشمنی کا بدلہ صرف گاؤں  میں  فوقیت حاصل کر کے  ہی نہیں  لینا چاہتے  تھے  بلکہ ان کی نظر جائداد پر تھی۔ ان کے  اندر کوئی ایسی بھوک تھی جس کی کوئی انتہا نہیں  تھی۔ انہی باتوں  کو لے کر اس زمانے  میں  بھی ٹکراؤ ہوئے  تھے۔ انہوں  نے  پیسے  کا استعمال کیا تھا۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو عدالت سے  یہ آرڈر ہی نہیں  آتا۔ لیکن جب یہ ہوا ہے  تو اب اسے  دیکھنا ہی پڑے  گا۔ ان کی تسبیح کی رفتار سُست ہو گئی۔ خالد کا کوئی خط نہیں  آیا تھا۔ یہاں  کا ٹاور خراب ہونے  کی وجہ سے  موبائل سے  بات نہیں  ہوپا رہی تھی۔ میر علی کی زندگی کے  حالات کا ریکارڈ لانا اب بہت ضروری  ہو گیا تھا کیونکہ ان لوگوں نے  فرضی کاغذات داخل کر دئے  تھے او ر وہ بھی ایسے  جن کی تصدیق ممکن ہی نہیں  تھی اور ان کے  صحیح غلط ثابت ہونے  کا سارا انحصار زبانی گوا ہوں او ر عدالت کی مرضی کے  اوپر تھا۔ وہ کوئی بہت بڑی اور کسی ماہر وکیل کے  مشورے  سے  گڑھی گئی سازش تھی جو میر علی کے  مقدمے  والی سازش سے  کسی اعتبار سے  کم تیاری کے  ساتھ نہیں  ہوئی تھی۔ اب دشمن پیچھے  سے  نہیں  سامنے  سے او ر نوٹس دیکر حملہ کر رہا تھا اور قانون کا مافیائی استعمال کرنے  کا اعلان کر چکا تھا اور اس کے  لبوں  پر مسکراہٹ تھی۔ وہ خالد کو بتانا چاہتے  تھے  کہ ریکارڈ لانا کتنا ضروری ہو گیا تھا بلکہ اب ان کو اس کا بھی بھروسہ نہیں  تھا کہ ریکارڈ سے  بھی کچھ ہو گا کیونکہ لڑائی دشمنوں  کی طرف سے  ریکارڈ سے  بھی آگے  کسی اور چیز کی بنیاد پر لڑی جا رہی تھی اور ان کی اپنی کامیابی کا یقین اس پر قائم تھا۔۔

والد کو لگا جیسے  ان کا پورا گھر کسی سنامی کے  جھٹکے  محسوس کر رہا ہے۔

oo

 

 

 

 

خالد کچہری سے  نکل کر بازار میں  آیا۔ دکانوں او ر عمارتوں  پر ایک سرسری نظر ڈالتے  ہوئے  اس کا دماغ ان کے  اوپر ہی اوپر گردش کرتا رہا۔ اپنی زندگی کی حقیقت سے  بے  خبر لوگ کس طرح رواں  دواں  زندگی گزار رہے  تھے۔ کسی کو خبر نہیں  تھی کہ وہ ایک خوفناک پنجرے  میں  زندگی گزار رہے  تھے۔ ان پرندوں  کی طرح جو صرف پھنسنے  کا احساس ہونے  کے  بعد پھڑپھڑاتے  ہیں۔ اسے  گھر کے  لئے  تھوڑی سی خریداری کرنی تھی۔ وہ بازار کے  اندر داخل ہو گیا۔ وہی سامانوں  کی نمائش،وہی مول تول،وہی سیدھے  سادے  لوگ، کیڑوں  کی طرح زندگی گزارتے  ہوئے۔ کسی چیز سے  ٹکرانے  پر آمادہ نہیں۔ وہ وہاں  سے  نکلا۔ بس اسٹینڈ کچھ دور تھا۔ رات ہو چکی تھی۔ وہ ایک چائے  خانہ میں  بیٹھ کر چائے  پینے  لگا۔ خریداری اور پیدل چلنے  کے  باوجود اس کا ذہن شہر کے  اوپر ہی چکر لگاتا رہا۔ نہ جانے  کیوں  چائے  خانے  سے  بس اسٹینڈ کی طرف جاتے  ہوئے  وہ ایک جگہ کھڑا ہو کر شہر کے  اوپر آسمان کو دیکھنے  لگا۔ اور وہاں  کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ کافی عرصہ بعد اس کا ذہن شاعری پر مائل ہو رہا تھا۔ اس کی نظریں  شہر کی روشنیوں  پر گڑی ہوئی تھیں۔ پھر جیسے  پورا منظر اس کے  ذہن میں اٹک سا گیا۔

تمام رات کسی دیونی کے  سائے  میں

تمام شہر خموشی کی نیند سوتا ہے

تمام رات لہو کے  چراغ جلتے  ہیں

تمام نور اندھیروں  کی نذر ہوتا ہے

یہ اشعار لکھنے  کے  بعد اس کی طبیعت ہلکی ہو گئی۔

بس میں  بیٹھا تو اسے  پھر وکیل کی بات یاد آنے  لگی۔

کتنا ہوشیار۔

اس کے  ذہن میں  یہ سوال کچہری سے  یہاں  تک راستے  بھر گونجتا رہا او ر ان کو اپنے  آبا و اجداد کے  دنوں  کی یاد دلاتا رہا۔

 

رات میں  اس نے  اپنے  والد سے  اس موضوع پر دیر تک بات کی۔

 

خالد نے  معاملے  کو سلجھانے  کی آخری کوشش کی۔ وہ بستی کے  کچھ لوگوں  کو لے کر دشمن کے  گھر پہنچا۔  گاؤں  کے  تمام لوگ خالد کی شخصیت کی عزت کرتے  تھے۔ کچھ دیر کی گفتگو کے  بعد انہوں  نے  کہا۔

’ہم یہ مقدمہ واپس لیتے  ہیں۔ ہم جانتے  ہیں  کہ اس مقدمہ میں  سچائی نہیں  ہے۔ لیکن ہم تمہارے  باپ کو بتانا چاہتے  تھے  کہ وہ کس دنیا میں  رہ رہے  ہیں۔ ‘

دشمنوں  نے  بھی خالد کا احترام کیا لیکن اپنے  ڈنک کا پورا زہر اس کے  دل میں  اتار ہی دیا۔

’ہم آپ سے  صلح کی درخواست لے کر آئے  ہیں ، آپ سے  تربیت لینے  نہیں  آئے  ہیں۔ ‘

اچانک ماحول بہت گمبھیر ہو گیا۔

دشمنوں  کے  اس جملے  نے  خالد کے  لئے  انڈمان کے  مقدمے  کو اب خالد کا وہ مقدمہ بنا دیا جس میں  اس کا پورا جینیس  بھنور میں  گھرے  جہاز کی طرح پھنس گیا۔

چاروں  طرف سمندروں  کا ا تھاہ پانی اور ان کی فلک بوس موجیں  اس کو دعوتِ سفر دے  رہی تھیں۔

مقدمہ ختم نہیں  ہوا تھا۔ دشمنِ عظیم اس کے  سامنے  ننگا کھڑا تھا۔ اور مقدمہ پوری کائنات میں  پھیل گیا تھا۔

oo

 

 

 

گاؤں  کے  دشمنوں  نے  بہت بڑا طنز کیا تھا لیکن انہوں  نے  صحیح کہا تھا کہ اس کے  والد دنیا کو نہیں  سمجھتے او ر  اس نے  خاموشی سے  اپنے  باپ کی اس کمی کا اعتراف کر لیا تھا۔ اسی کمی کی بنیاد پر ان لوگوں  نے  گویا اپنا مقدمہ واپس لینے  کا آفر دیا تھا۔ خالد کے  دل کو یہ بات کچوکے  لگانے  لگی کہ اس کے  خاندان کو وہ لوگ قابلِ رحم سمجھ رہے  تھے۔ یہ اس کے  لئے  ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ شریف لوگوں  کو ظالموں  کے  رحم کی ضرورت کیوں  پڑتی ہے ؟  ان شریف لوگوں  کی کمزوری کی رگ میں  کون سا خون دوڑتا ہے  ؟

یہ سوال اس کے  ذہن میں  گہرائی سے  چبھ گیا۔

اور پھر اس میں  درد ہونے  لگا۔

درد بڑھتا گیا۔

ان شریف لوگوں  کی کمزوری کی رگ میں  کون سا خون دوڑتا ہے  ؟ کیا انہیں  مسلسل رحم وکرم کا زہر پینے  کی کہیں  سے  لت لگ جاتی ہے  ؟

یہ زہر ان کے  وجود کو اور کہاں  کہاں  خراب کرتا ہے ؟

کہیں  چین کے  افیمچیوں  کی طرح صدیوں  صدیوں  کی اس زہر نوشی نے  ہی تو عام انسانوں  کو اتنا ناکارہ نہیں  بنا دیا ہے  کہ وہ  غلامانہ ذہنیت کو اپنے  دردِ زندگی کا اکسیر سمجھنے  لگا ہے او ر اس کے  زخموں  کو زہریلے  کیڑوں  نے  اپنا مسکن بنا لیا ہے۔

اب وہ اپنے  دل میں  اس بات کا کھلا اعتراف کرنا چاہتا تھا کہ دشمن دراصل اس کے  خندان کا مذاق نہیں  اڑانا چاہتے  تھے  بلکہ وہ  وہ ایک سچائی کی طرف پر زور طریقے  سے  اشارہ کر کے  خود ا س کے  خاندان کی کمی کو اس پر واضح کر کے  اپنی صفائی دی رہے  تھے  تاکہ انہوں  نے  جو کچھ کیا تھا اس کے  لئے  وہ انہیں  موردِ الزام نہیں  ٹھہرائے۔ وہ دل میں  کہیں  اس کی بیحد قدر کرتے  تھے او ر اس لئے  انہوں  نے  اس کے  جاتے  ہی معاملے  کو رفع دفع کر  دینے  کا آفر دیا تھا لیکن تکلیف دہ چیز ان کی آنکھوں  میں  چمکتا ہوا وہ غرور تھا جس کی بنیاد مکاری پر قائم ان کا احساسِ برتری تھا اور ان کی یہی چیز اس کے  لئے  حتمی و ختمی طور پر ناقابلِ قبول تھی۔

اسے  یاد آیا کہ وہ جزائر انڈمان صرف اپنے  دادا کی زندگی کے  حالات اور ان کی شادی اور اولاد کے  بارے  میں  پتہ لگانے  کے  لئے  نہیں  گیا تھا بلکہ وہ تو اپنی صحافتی زندگی کا ایک ایسا مقدمہ لڑنا چاہتا تھا جس سے  اس کی زندگی کی پوری معنویت وابستہ تھی، ایک ایسا مقدمہ جو اسے  تاریخ انسانی میں  امر کر دے۔ اسے  بس اب اس مقدمہ کی عمیق گہرائیوں  میں  اتر کر پوری  دنیا کے  سامنے  اس مقدمہ کو جیتنا تھا۔ اسے  محسوس ہوا کہ وہ  ا نسان سب سے  بڑا خوش قسمت ہوتا ہے   جسے  وہ کرنے  کا موقع مل جائے   جو اس کا دل چاہتا ہو کہ دل کی مراد پوری ہونے  میں  ہی انسان کی سب سے  بڑی خوشی پنہاں  ہوتی ہے۔ اور اس نے  اپنے  لئے  اس عظیم خوشی کا راستہ ڈھونڈ لیا تھا۔ ’یہ مقدمہ کوئی معمولی مقدمہ نہیں  تھا۔ ‘ اس نے  سوچا۔ اس مقدمے  کا مقابلہ ان بڑے  بڑے  سائنسدانوں او ر ریفارمرس اور یہاں  تک کے  پیغمبروں او ر اوتاروں  کے  مقدموں  سے  کیا جا سکتا تھا جنہوں  نے  تاریخ  میں  انسانی فلاح و بہبود کے  کارنامے  انجام دئے  کہ اس مقدمہ کا تعلق ایک ایسے  مسئلے  سے  تھا جو پوری نسلِ انسانی کی ایک  بڑی آبادی کے  سر پر تاریخ کی عمیق گہرائیوں  سے  ہی مسلسل آسیب بن کر چھایا ہوا تھا۔

انڈمان کے  سفر نے  اس کو بیحد سنجیدہ بنا دیا تھا اور وہ  اب اس سنجیدگی سے  باہر آنا بھی نہیں  چاہتا تھا اور شاید کوشش بھی کرتا تو نہیں  آ پاتا کہ اس کا دل اور اس کا  دماغ  دونوں  ہی  اندر سے  پگھل کر دائمی طور پر کسی اور شکل میں  ڈھل کر منجمد ہو چکے  تھے او ر انسان فنا تو ہو سکتا ہے  لیکن اپنے  علم کو نہیں  مٹا سکتا کہ علم وہ نقش  بناتا ہے  جو  دائمی اور انمٹ ہے او ر علم وہی ہے  جس سے  آزادی اور فرار ممکن نہیں  او ر باطل اور علم میں  یہی فرق ہے۔ علم کی روشنی نے  خالد کا  مکمل طور پر شکار کر لیا تھا۔

مسئلہ، خاندان، افراد اور ان کی جائداد کو بچانے  کا نہیں  تھا۔ مسئلہ معصوم انسانوں  کو ڈسنے  والے  سانپ کو اس کی گردن سے  پکڑنا اور اس کے  پیچھے  کے  ماسٹر مائنڈ کے  چہرے  پر پنجہ گڑا دینے  کا تھا۔

اس پریشانی اور تناؤ کے  عالم میں  بھی اسے  کبیر داس کی بات یاد آئی کہ پڑوس میں  دشمن رکھو‘ وہ تمہاری کمیوں  کی نشان دہی کرتا رہے  گا۔

’ بڑے  انسان وہ ہوتے  ہیں  جو  پریشان کرنے  والی باتوں  میں  بھی علم کا پہلو نکالتے  ہیں۔ ‘

اس نے  سوچا۔

بلکہ پریشانیوں  میں  قدر کا پہلو یہی ہے  کہ  وہ دکھوں  کی چھڑی سے  انسان کو اندھیروں  میں  چلنے  میں  مدد کرتی ہیں او ر بڑی اور پنہاں  بیماریوں  کی جانکاری دیتی ہیں کہ اگر دکھ نہ ہوں  تو آدمی مکمل طور پر بیمار ہونے  کے  باوجود اسی غفلت میں  جیتا رہے  گا کہ وہ مکمل طور پر صحت مند ہے۔

oo

 

 

 

 

اسی بیچ ایک اور واقعہ ہو گیا۔ دلی میں  ہر طرف سے  مایوس ہونے  کے  بعد اس نے  دلی سے  واپس جانے  سے  پہلے  ملک کی سب سے  بڑی نوکری کے  مقابلے  کا امتحان دے  ڈالا تھا۔ وہاں  سے  آنے  کے  بعد ہی وہ جزائر انڈمان کے  سفر پر نکلا تھا۔ انہیں  دنوں  میں  اس امتحان کے  نتیجے  بھی آ گئے   لیکن اس کا انتخاب نہیں  ہوا۔ وہ فورا دلی پہنچا۔ وہاں  اس کی ملاقات اپنی دوچار دوستوں  سے  ہوئی۔

وہ اپنے  آپ سے  اچھی طرح واقف تھا۔ دوستوں  کی مشورے  سے  اس نے  امتحان لینے  والے  ادارے  کو چیلنج کیا کہ کسی بھی کامیاب امیدوار ساتھ کسی بھی موضوع پر اسے  دوبارہ امتحان میں  بٹھا کر دیکھ لیا جائے۔ اس نے  مانگ کی کہ امتحان کے  نمبر ظاہر کئے  جائیں۔ جب اس کی بات نہیں  مانی گئی تو وہ عدالت میں  گیا۔ پہلے  تو عدالت میں  امتحان لینے  والے  ادارے  کی طرف سے  اس طرح آنا کانی ہوئی جیسے  بحیثیت ایک شہری کے  کسی امیدوار کو یہ جاننے  کا اختیار ہی نہ ہو کہ اس کے  ملک کی اعلی ترین نوکریوں  کے  لئے  انتخاب صحیح طریقے  سے  ہو رہا ہے  یا نہیں  لیکن جب عدالت کے  حکم سے  نمبر دکھانا پڑا تو اس کے  ابتدائی نمبر ان سے  زیادہ نکلے  جو کامیاب ہوئے  تھے۔ خالد اور اس کے  دوستوں  میں  اس کامیابی پر خوشی کی ایک لہر سے  دوڑ گئی لیکن یہ کیفیت دیر تک قائم نہیں  رہ سکی۔

اب یہ کہا گیا کہ ادارے  کو امتحان میں  ملے  ہوئے  نمبروں  کو کم بیش کرنے  کا اختیار ہے۔ اور یہ ضروری نہیں  کہ انتخابی نتیجہ سوالوں  کے  صحیح جواب کی بنیاد پر ہو۔ یعنی عوام کا یہ عام خیال کہ یہ انتخابات امیدواروں  کی ذہنی صلاحیتوں  کی بنیاد پر خود بخود طے  ہوتے  ہیں  ایک خیالِ خام تھا۔

اس بات پر اسے  حیرت نہیں  ہوئی کیونکہ وہ بہت کچھ جان گیا تھا  لیکن  وہ خفیہ چہروں  کو یہاں  بھی ٹٹول کر دیکھنا چاہتا تھا۔۔

جب خالد نے  پوچھا کہ ایسا کن بنیادوں  پر کیا جاتا ہے  تو جواب ملا کہ انتخاب کے  لئے  جو معیار بنائے  گئے  ہیں  وہ اس ادارے  کی خالص ذہنی اثاثہ  ہیں۔

اس پر اسے  زندگی میں  پہلی بار غصہ آ گیا تھا۔

’یہ کیا ہے  ؟‘ اس نے  جھنجلا کر کہا تھا ’ یہ کیسی جمہوریت  ہے  جس میں  ملک کا ذہنی اثاثہ عوام کی نہیں  بلکہ کسی اور کی ملکیت ہے  او ر وہ جو کوئی اور ہے  وہی اس نظام کی تعمیر کرتا ہے۔ ‘

اور وہ عدالت میں  بلا وجہ شور مچانے  کی لئے  توہینِ عدالت کے  جرم میں  جیل جاتے  جاتے  بال بال بچا تھا۔

اسے  اپنی ناکامی پر اپنی تذلیل کا بھی احساس ہوا۔ اسے  محسوس ہوا کہ و ہ جمہوری جمہوری قدروں  کو اپنے  سینے  سے  لگائے  ہونے  کے  باوجود اپنے  جمہوری معاشرے  کا ہی ایک دھتکارا ہوا کتا بنا دیا گیا تھا جبکہ بظاہر جمہوریت اپنی جگہ اپنے  تینوں  ستونوں  پر پورے  جاہ و جلال کے  ساتھ کھڑی دکھائی دے  رہی تھی۔ اپنے  ارد گرد کے  اسی منظر کو دیکھ کر اسے  پہلی بار اس حقیقت کا  بھی ہلکا پھلکا عرفان ہوا تھا کہ جمہوریت راستہ ہے  منزل نہیں او ر اسے  اپنی منزل تک پہنچنے  کے  لئے  خوفناک پہاڑیوں او ر درندوں  کے  درمیان سے  ہو کر لڑتے  ہوئے  گزرنا ہے۔

ایک رات سوچتے  سوچتے  اس کے  اوپر منکشف ہوا  کہ اسے  اپنے  حاکموں  کے  انتخاب کا حق ضرور تھا، اسے  اپنے  خیالات کے  اظہار کی آزادی بھی حاصل تھی، لیکن وہ آزاد نہیں  تھا۔ اس کی زندگی ان حاکموں  کے  تابع تھی جن کا وہ انتخاب کرتا تھا۔ وہ جس سول سوسائٹی کی بات کرتا تھا وہ محض اس کے  ذہن میں  بسا ہوا ایک خوشنما اور خود ساختہ خواب تھا جو بیشمار تلواروں  کی نوکوں  کے  بیچ گھرا ہوا تھا اور جمہوریت میں  اس خواب کے  لئے  کوئی جگہ نہیں  تھی۔

دنیا کو وہ جس طرح اب دیکھ رہا تھا اس تجربے  میں  وہ تنہا تھا۔ اس تجربے  کے  اظہار میں  الفاظ تک اس کا ساتھ نہیں  دے  رہے  تھے۔ وہ اپنے  اس تجربے  کو ایک جنگلی زخمی پرندے  کی طرح تنہا ڈھوتا رہا۔

oo

 

 

 

ایک شام رات  کے  دھندلکے  کے  پھیلنے  کے  وقت خالد بھی اپنے  دروازے  پر والد کے  پاس ہی ایک آرام کرسی پر دراز تھا۔ وہ کافی دیر سے  خاموش تھا۔ اچانک اس کے  ذہن میں  ایک بات آئی اور اس کا جی چاہا کہ وہ جو کچھ سوچ رہا تھا  اس میں  وہ اپنے  والد کو شامل کرے۔

’ابا جان۔ میرا ذہن کہ رہا ہے  کہ ہمارے  مقدمے  اب تجارت کا حصہ بن چکے  ہیں۔  اگر ایسا نہیں  ہے  تو مقدموں  کے  غلط فیصلے  کیسے  ہو جاتے  ہیں۔ اور یہ تاجر کوئی اور نہیں  بلکہ یہ وہی ہیں جو مقدموں  کے  فیصلے  کرتے  ہیں او ر شیر علی نے  صحیح کہا تھا اور اگر وہ آج کے  ہندوستان کا شہری ہوتا تو یقیناً وہی کرتا جو اس نے  کہا تھا کیوں  کہ اس نے  جدید حکومتوں  کا اصلی روپ دیکھ لیا تھا۔ اس نے  لارڈ میو، وائسرائے، کو یہی پیغام دینے  کے  لیے  تو مارا تھا کہ ظالم حکومت کو مٹانے  کے  لیے  اپنی جان بھی دینی پڑے  تو دو۔ فرق صرف اتنا تھا کہ وہ غلام تھا اور اس کام کے  لیے  اسے  اپنی جان دینی پڑی۔ لیکن اس کے  ذہن میں  آزادی کا خواب روشن تھا۔ وہی نجات کا راستہ تھا اور آج بھی وہی نجات کا کارگر راستہ ہے  جو شیر علی نے  سوچا تھا اور کہا تھا۔ بس اتنی سی بات کا فرق ہے  کہ اب ہم لوگ غلام نہیں ہیں،اور ہماری اور ہماری  نجات کے  بیچ سمندروں او ر پہاڑوں  کی دوریاں او ر جیل کی اینٹ اور پتھر کی دیواریں  نہیں  ہیں  بلکہ ایوان حکومت اور عوام کے  درمیان ایک چلمن جیسی دیوار ہے۔ سرکار چلمن کے  پیچھے  برہنہ کھڑی ہے۔ ‘

اس کے  والد دھیان سے  اس کی باتیں  سنتے  رہے۔ ان کے  اوپر گہری سنجیدگی چھا گئی تھی۔ جب خالد سہل ایک ایک باتیں  بتا چکا تو بزرگ باپ کی آنکھوں  میں  جھانکا۔ اتنی دیر تک وہ صرف خالد کی گفتگو کو صرف آگے  بڑھنے  کے  لیے  ہوں  ہاں  کرتے  رہے  لیکن جب پوری بات سن چکے  تو ایک بار اپنا جھکا ہوا سر اُٹھایا اور پھر اسے  نیچے  جھکانے  کے  بعد انہوں  نے  ایک سوال کیا۔  پہلی بار ان کا ایک سوال جو میر علی کے  بارے  میں  نہیں  تھا۔ یہ سوال شیر علی کے  بارے  میں  تھا۔

’’ شیر علی نے  اپنے  آخری بیان میں  کیا کہا تھا۔ ‘‘

’’اگر میں  برطانیہ کا شہری ہوتا تو میں  اس کو ایک ایسے  خنجر سے  مارتا کہ کا ایک قطرہ نہیں  ٹپکتا لیکن میں  برطانیہ کا شہری نہیں  برطانیہ کا غلام تھا۔ ‘‘

یہ سنتے  ہوئے  عبدالرحمان بن خدا بخش بن میر علی کی روشن آنکھیں  اپنے  پورے  جلال کے  ساتھ خالد سہل کے  چہرے  کو تک رہی تھیں۔

اناللہ وانا الیہ راجعون۔  اللہ شیر علی کی روح کو فردوس بریں  میں  رکھے۔ آمین۔ آمین کہنے  کے  بعد انہوں  نے   تسبیح کو چوم لیا تھا۔۔

تب خالد سہل کو خیال آیا کہ یہ جملے  سنتے  ہوئے  ان کی انگلیوں  کی حرکت  کچھ دیر کے  لئے  رک گئی تھی۔ خالد سہل نے  ان کی نظروں  کی تاب نہ لا کر اپنی نظریں  جھکا لیں۔

اسے  محسوس ہوا کہ شیر علی ہی اس کے  سامنے  بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے  کانوں  میں  مسلسل ان کی آواز داخل ہوتی رہی۔

’ اگر ہم نے  یہ بات نہیں  سمجھی تو بار بار میر علی کی طرح مقدموں  میں  پھنستے  رہیں  گے ، بار بار وہ مقدمے  ہاریں گے۔ ہماری سزا ختم نہیں  ہو گی، صرف کالا پانی میں  بدلتی رہے  گی۔ اور بار بار سمندروں  کی انجان جگہوں  میں  انوکھے  انوکھے  جیل بنتے  رہیں  گے او ر میر علی کی قبر مچھلیوں  کے  پیٹ میں  بنتی رہے  گی۔ ‘

پھر انہوں  نے  گھوم کر خالد طرف دیکھتے  ہوئے  کہا۔

’تمہاری والدہ نے  کہا ہے  کہ  میں  ان کے  زیورات فروخت کر کے  تمہیں  دے  دوں۔ تم زندگی میں  آگے  بڑھو۔  اس مقدمے  کو میں  دیکھ لوں  گا۔

’ابا جان، مجھے  تو اب آپ اس بڑے  دشمن سے  بر سرِ پیکار ہونے  کیلئے  چھوڑ دیں   جو اس کے  پیچھے  ہے۔ ‘

والد نے  سر جھکا  کر کچھ سوچا۔ پھر نظریں  اٹھاتے  ہوئے  بولے۔

’میری اور تمہاری  والدہ کی یہ خواہش تھی کہ تم زندگی میں  ایک کامیاب انسان بنو اور ہمارے  خاندان کا نام  اس طرح روشن کرو کہ ایک بار پھر ہمارا خاندان اس علاقے  میں  سرخ روئی حاصل کرے۔ ‘

’ابا جا ن، میں  جو کام کر رہا ہوں   وہ اتنا اہم ہے  کہ اس سے  ایک دن آپ کا یہ گھر پوری دنیا کے  نقشے  پر پہچانا جائے  گا۔ اور آپ کا نام میرے  ساتھ انسانیت کی تاریخ میں  لکھا  جائے  گا۔ میں  اس سلسلے  میں  کسی بھی حد تک جانے  کو تیار ہوں۔ اور ابا جان  میرا مقصد ویب سائٹ نہیں  تھا۔ ویب سائٹ ہو نہ ہو، کوئی کیریر ہو نہ ہو، میرے  لئے  تو میری زندگی ہی  اپنے  آپ میں  ایک مقصد ہے۔ اور جب ایک ایسا کام میرے  سامنے   ایک اتنا اہم کام ہے   تو نہ صرف یہ کہ میں  اسے  کرنا چا ہوں  گا بلکہ اسی کے  لئے  جینا مرنا چا ہوں  گا۔ اس سے  مجھے  جو اطمینان ملے  گا  وہی میری زندگی کا حاصل ہو گا۔ اب جان، اس کام سے  میری جو وابستگی ہو چکی ہے  وہ میرے  لئے  ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ ‘

’ایمان۔ ‘   عبدالرحمان بن خدا بخش بن میر علی اندر سے  ہل گئے۔ ایک مکمل خاموشی نے  انہیں  آسمان کے  بادلوں  کی طرح ڈھک لیا۔

دونوں  ہی چند لمحے  خاموش رہے۔ پھر والد نے  ہی خاموشی توڑی۔

’لیکن بیٹا یہ عالمی اور تاریخی پیمانے  کا ایک بہت مشکل کام ہے۔ تمہارے  جیسا ایک انسان ا س کو مکمل کرنے  کا خواب بھی کیسے  دیکھ سکتا ہے  ؟ تمہیں  ایسا فیصلہ کرنے  سے  پہلے  بہت غور کر لینا چاہئے۔ یہ بہت بڑے  انسانوں  کا کام ہے۔ ‘

’ابا جان، بڑے  انسان بڑے  پیدا نہیں  ہوتے  ہیں۔ یہ آپ بھی جانتے  ہیں  کہ بڑے  انسان بڑے  مقاصد سے  پیدا ہوتے  ہیں او ر میرے  سامنے  ایک عظیم مقصد موجود ہے۔ بڑے  انسان بڑی ایجادوں او ر بڑے  مجاہدوں  سے  پیدا ہوتے  ہیں او ر ایجادیں  او ر مجاہدے  ضرورتوں  کی اولاد ہوتی ہیں او ر یہاں  ضرورت بھی موجود ہے۔ عظیم انسان  ایسے  لوگوں  کے  اندر سے  پیدا ہوتے  ہیں  جن میں  کسی بھی حد تک سوچنے  کی، اس سوچ کے  نتیجوں  پر غور کرنے  کی، اپنے  اخذ کئے  ہوئے  نتیجوں  کا اظہار کرنے  کی اور  ان پر عمل پیرا ہونے  کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اور اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے  کہ کیا  وہ مقصد ایسے  فرد کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے  تو اس کا معنی یہ ہے  کہ وہ شخص اس کام کو کرنے  کیلئے  پیدا ہوا ہے او ر یہ سب میرے  ساتھ ہو رہا ہے۔ اس لئے  میں  اپنی زندگی کو اسی مقصد کے  لئے  صرف کرنا چاہتا ہوں۔ ‘

اس کے  والد بالکل خاموش ہو گئے۔ کچھ لمحوں  کے  بعد  انہوں  نے  کہا۔

’بیٹا، مجھے  یہ سب کچھ سمجھانے  کی ضرورت نہیں  ہے۔ جب تم نے  فیصلہ کر ہی لیا ہے   تو تم وہی کرو جو تمہارا دماغ کہتا ہے۔  ہاں، جب تم نے  یہ فیصلہ کر ہی لیا ہے   تو میری کچھ باتوں  کو ذہن نشیں  کر لینا کیونکہ یہ میری اپنی زندگی بھر کی سوچ کا نچوڑ ہے۔ سب سے  ضروری بات یہ ہے  کہ سوچو اور تلاش کرو کہ ان تمام باتوں  کے  پیچھے  کون ہے۔ جس دن وہ دکھائی دے  جائے  گا اس دن یہ کالا سحر ٹوٹ جائے  گا۔ اور جب کھلے  میدان میں  لڑائی ہو گی تو انشاء اللہ تمہاری جیت ہو گی۔ بس یوں  سمجھو کہ شاہانہ شان و شوکت والا ایک محل نما قلعہ ہے  جس میں  ہم احتراماً نہیں  جھانکتے  لیکن جیسے  ہی اس کے  دروازوں او ر کھڑکیوں  کے  چلمن ہٹاؤ گے  سارا منظر سامنے  آ جائے  گا۔ ‘  یہ کہتے  ہوئے  وہ اٹھے او ر ہاتھ میں  دوبارہ پھر سے  چلتی ہوئی تسبیح کے  ساتھ اپنے  کمرے  کی طرف چلے  گئے۔

اس بات کو اس نے  اپنے  سوچنے  کے  عمل کا کھونٹا بنا لینے  کا فیصلہ کر لیا۔

وہ سوچے  گا۔

کولہو کے  بیل کی طرح سوچے  گا۔

اسے  ہنسی آ گئی۔

یہ اس کی زندگی کی آخری ہنسی تھی۔

 

وہ سوچنے  میں  مستقل مزاجی سے  لگ گیا۔ سوچنا بھی جنگ کی طرح ایک کام ہوتا ہے  یہ ا سے  اب محسوس ہوا تھا۔ سوچنے  میں  صحت بھی خراب ہوتی ہے ، مایوسی بھی ہوتی ہے ، ڈر بھی لگتا ہے او ر جان بھی جاتی ہے  یہ اسے  بہت بعد میں  معلوم ہوا تھا۔

وہ  سوچنے  لگا۔

سوچنے  لگا۔

سوچنے  لگا۔

اسے  محسوس ہوا کہ دراصل وہ آج کے  اس کالا پانی کا جبر جھیلتا ہوا شیر علی ہے  جس میں   نہ کوئی دائمی پھانسی گھر ہے  نہ جیل کی دیواریں  ہیں  نہ قید و بند ہیں  نہ پابندیاں لیکن جس  کا ڈھانچہ بھی موجود ہے او ر وہ کچھ اس طرح نہ دکھائی دینے  والا ہے  کہ پوری طرح سب کو گھیرے  ہوا ہے او ر اس میں  یہ سب کچھ موجود ہے  لیکن نظروں  سے  اس طرح پرے  ہے  کہ گرفت میں  نہیں  آتا۔

تبھی تو ہم چاہتے  ہوئے  بھی اپنی پسند کی، اپنی خیر خواہ اور ایماندار سرکار نہیں  لا پاتے او ر سرکاریں  جو بنتی ہیں  وہ اس معاشی نظام کے  ہاتھوں  کی کٹھ پتلیاں  بنی رہتی ہیں  جو پوری دنیا کو اپنی نظر سے  دیکھتی ہیں او ر ان کو نہ ہماری زندگی کے  ارتقاء کو متاثر کرنے  والی مہنگائی کو کم کرنے  میں  کوئی دلچسپی ہے  نہ ہماری اولادوں  کے  صحیح طور پر پھلنے  پھولنے  سے  مطلب ہے او ر وہ ہمیں  صرف اپنے  کاروباری مفاد کی روشنی میں  دیکھتے  ہیں او ر لارڈ میو کی طرح تجارتی چاپلوسی سے  بات کرتے  ہیں۔

اسے  جب دکھنے  لگا کہ یہ سب کچھ کالا پانی کی طرح ہے  تو وہ کانپ اٹھا کیونکہ اسے  دکھائی دینے  لگا کہ کس طرح سیاسی لوگ جب الیکشن میں ہوتے  ہیں  تو ہمارے  خوابوں  کو فٹ بال بنا کر گیم کی طرح کھیلتے  ہیں او ر جوئے  کی طرح کھیلے  جانے  والے  اس گیم میں  ہار جیت کو پورے  احترام سے  مان لیتے  ہیں او ر سختی سے  اس کے  پابند رہتے  ہیں او ر ہم سمجھتے  ہیں  کہ یہ جمہوریت کا گیم کھیل رہے  ہیں۔

اب اسے  سیاسی لوگوں او ر جواریوں  میں  صاف صاف فرق دکھنے  لگا تو یہ بھی دکھنے  لگا کہ اس میں  داؤ پر کون سا مال لگا ہوتا ہے او ر اس کے  بعد تو سب کچھ کھل گیا کیونکہ پھر اس کے  ذہن میں  ایک تصویر بنی کہ جوا گھر بڑی بڑی کاروباری ہستیوں  کی آمدنی کا ذریعہ ہوتے  ہیں او ر پھر یہ خیال اس کے  ذہن میں  گردش کرنے  لگا کہ عموماً جو لوگ جوا گھروں  میں  اپنی پونجی لگاتے  ہیں  وہ افیم اور جسم فروشی کے  عالمی کاروبار کرنے  والے  ہوتے  ہیں۔

اور یہ لوگ لارڈ میو کی طرح کام بہت صفائی سے  کرنا چاہتے  ہیں  لیکن ڈاکٹر والکر بھی انہی کے  نامزد کئے  ہوئے  ہوتے  ہیں او ر یہ یا تو ڈاکٹر والکر کو ہٹاتے  نہیں یا ہٹاتے  بھی ہیں  تو صرف جرمن فلسفی’’ میک ویلی‘‘ کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ میں  دئے  گئے  اصول کو پابندی سے  عمل کرنے  کے  لئے  کہ ’ حکمرانوں  کو چاہئے  کہ اپنی نمائندوں  کے  ذریعے  ہی وہ تمام کام کریں  جن میں جور و ظلم کی ضرورت ناگزیر ہو اور جب عوام شکایت کرنے  لگیں  تو اس کا اپنے  پر بھروسہ قائم رکھنے  کے  لئے او ر ان کو مطمئن کرنے  کے  لئے  نہ صرف اس نمائندے  کو تبدیل کر دیں  بلکہ اسے  معزول کر دیں ، اس پر مقدمہ چلا کر اسے  ضرور سزا دیں  حتی کہ مناسب سمجھیں  تو قتل کروا دیں او ر یہ نہ دیکھیں  کہ اس شخص نے  انہیں  کے  اشارے  پر سب کچھ کیا تھا اور انتہائی وفاداری کے  ساتھ کیا تھا کیونکہ حکمرانی کہ فن کا یہ اہم ترین سبق ہے  کہ حکمرانی کرنی ہے  تو کسی کے  تئیں  وفادار نہ ہوں  چاہے ،وہ کتنا بھی معتمدِ خاص کیوں  نہ رہا ہو۔

 

وہ مزید سوچتا رہا اور اس ڈھانچے  کا ایک ایک اندیکھا پہلو اس کے  ذہن میں  ابھرتا رہا۔ دھیرے  دھیرے  وہ سب کچھ کھل گیا اور مزید کھلتا چلا گیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتاتا چلا گیا کہ ذہن پر کتنے  پردے  فطری طور پر پڑے  ہوئے  رہتے  ہیں  جنہیں  آدمی کو چاہئے  کہ اٹھائے  یا پھر ڈالے  گئے  ہوتے  ہیں او ر یہ جو ڈالے  گئے  ہوتے  ہیں  یہ پرندوں  کو پھانسنے  والے   ہتھکنڈوں کی طرح ڈالے  جاتے  ہیں  جو صرف تب استعمال ہوتے  ہیں  جب پرندہ اڑان بھرنے  کی کوشش کرتا ہے۔

اپنے  چاروں  طرف دکھائی دینے  والی حقیقت کو باہر سے  دھند کی طرح لپیٹے  ہوئی یہ دنیا اب دکھائی دینے  والی حقیقت سے  زیادہ اہم بنتی چلی گئی۔

لیکن اب جو تشویش اس کے  دل میں  جنم لینے  لگی وہ خاصی تکلیف دہ تھی کہ وہ اس حقیقت کو لوگوں  کو دکھائے  گا کیسے۔

مجاور نے  سمجھاتے  ہوئے  کہا۔

’وہ نہیں  جانتا تھا کہ معاملہ صرف یقین کا نہیں  نیت کا بھی ہوتا ہے۔ دکھا ان کو سکتے  ہو جو دیکھنا چاہتے  ہوں  لیکن جو اتنا ڈرتے  ہوں  کہ دیکھنا ہی نہیں  چاہتے  ہوں  ان کی بات بالکل الگ ہوتی ہے۔ ‘

 

اب وہ ایک سمندری سطح کی طرح ایسی دنیاؤں  میں  داخل ہونے  لگا تھا جہاں  اس کی موجودہ دنیا چھوٹنے  لگی تھی اور دھیرے  دھیرے  دور ہوتی گئی اور جو کچھ ابھر رہا تھا وہ اپنے  آپ میں  ایک مکمل ماحول کے  ساتھ دکھتا تھا جیسے  اخبار پڑھتے  وقت واقعات کی ایک اپنی دنیا خود بخود ذہن کے  اندر وجود میں  آ جاتی  ہے  یا کوئی جادوئی کہانی پڑھتے  وقت اس کی دنیا پیدا ہو جاتی ہے۔

وہ خیالات کے  جن سمندروں  سے  گزر رہا تھا اس میں  دنیا کے  حقیقی واقعات اور کردار ابھر ابھر کر سامنے  آتے  چلے  جا رہے  تھے۔

اور یہ سب کچھ اخبار کی خبروں  سے  بہت زیادہ گہرا اور تھا اور جادوئی کہانیوں  کی طرح بھی نہیں  تھا کیونکہ اس سفر میں  دکھائی دے  جانے  والی چیزوں  سے  چھٹکارہ بھی ممکن نہیں  تھا۔ یہ تو اپنے  ہی گھر کے  اندھیروں  میں  ممکنہ ڈاکوؤں او ر غاصبوں  کو ڈھونڈنے  کے  لئے  چراغ جلانے  جیسا تھا۔

’’  یہ کتنا مشکل کام تھا وہ سوچ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا،، نوٹس پیچھے  چھپے  ہوئے  اقرار اور پیچیدگیاں  گویا یہ در اور کروڑوں  ٹن مادہ اور رکاوٹوں  کے  پیچھے  تھے او ر بیک وقت یہ ایک ایسے  سانپ کی طرح تھا جو اسے  کانٹے  والا تھا۔ وہ اس کے  نشانے  پر تھا۔

اسے  ان رکاوٹوں  کو اور ان غلافوں  کو ہٹانا پڑے  گا یہ مشکل کام اس بات کا تقاضا کر رہا تھا کہ اسے  یہ سب کچھ جو دکھائی دینے  والی حقیقت کے  پیچھے  تنہا تھا ہٹانا اور کھولنا پڑے  گا جو حقیقت سامنے او ر چاروں  طرف دکھائی دے  رہی تھیں  ان میں  کی منطق کے  بجائے  افرا تفری تھی۔ اور یہ افرا تفری خطرناک تھی صرف وہی نہیں بلکہ عام پر لوگ اس بات سے  واقف تھے  کہ اس افرا تفری میں کوئی کسی مثبت نظام میں  تحفظ کی تعمیر کو نا ممکن کر دیا ہے۔ ایک ایسا نظام جو گہرائیوں سے  سانپوں  کے  نمودار ہونے ، کاٹنے او ر غائب ہونے  سے  روک سکے۔

اس صورت حال کی وجہ سے  لوگ مسلسل خطرے او ر بے  چینی کے  عالم میں  جی رہے  تھے ، ہنسنا،بولنا،قہقہہ لگانا بہت کم ہو گیا تھا۔ لوگ تناؤ سے  بھرے  ہوئے  دکھائی دیتے  تھے ، پریشان اور سنجیدہ۔ خوش دل اور من موجی ہونا فیشن سے  باہر ہو گیا تھا۔ عزتِ نفس خود اعتمادی اور برائی مذاق کا موضوع بن گئے  تھے  جہاں  تک اس کا تعلق تھا سانپ کا آنا یقینی تھا۔ وہ  صرف اپنے  دانتوں او ر زہر کو اس قابل بنا رہا تھا کہ بھر پور طور سے  کاٹ سکے او ر اپنے  اوپر ہوئے  کسی جملے  کو کامیابی کے  ساتھ ناکام کر سکے  یہ صورت حال بالکل ایسی تھی جیسے  موت سر کے  بالکل قریب لٹک رہی ہو۔

اس نے  پوری تاریخ کے  تئیں ایک گہری مایوسی محسوس کی کیوں  کہ انسانی تاریخ کے  لمبے  سفر کے  بعد بھی بڑے  بڑے  دانشوروں او ر مفکروں  کے  دیئے  ہوئے  خیالات اور روشنی کے  باوجود بھی انسان ایک عام انسان ابھی بھی محفوظ نہیں  کیوں  ان کی ساری کوششیں  ایک عام انسان کو تحفظ دینے  میں  ناکام ہو گئیں۔

کیوں  ایک معصوم اور ایماندار آدمی یا اس کا کنبہ محفوظ نہیں  رہ سکتے۔ کیوں  یہ ضروری ہے  کہ سانپ آئے  اور کاٹے۔

اس سانپ کا پس منظر کیا ہے  ؟ اس کے  پیچھے  کام کرنے  والا دماغ کہاں  ہے  ؟ اس دماغ کے  اندر کیا اجزائے  ترکیبی ہیں۔ یہ ضرور ایک بڑا دماغ ہو گا۔ عام آدمی کے  دماغ سے  بڑا۔ کسی ماسٹر مائنڈ کی طرح۔

 

جسے  چھپنے ، حاوی رہنے  انتظام کرنے  کے  فن پر مہارت ہے۔ اور جو سچائی، خود، قربانی،تحمل جیسی لافانی تہذیبی قوتوں  کو دبا کر رکھنے  میں  کامیاب ہے۔

اس خیال نے  ہی اس کے  سامنے  ایک بہت وسیع و عریض درندہ کھڑا کر دیا۔

یہ صرف چلمن کو اٹھانے  کا سوال نہیں  ہے۔ چلمن کو اٹھا نے  کے  بعد سانپ کا سامنا بھی کرنا ہے۔ اس عظیم درندے  کی آنکھوں  میں  آنکھیں  ڈال کر لیکن کوئی دوسرا چارہ نہیں  تھا اور خالد سہل خوف زدہ ہونے  والا انسان بھی نہیں  تھا۔ مشکل اس درندے  کے  آمنے  سامنے  آنے او ر اس سے  لڑنے  میں  نہیں  تھی اصل مشکل تو اس بھاری چلمن کو اٹھانے  میں  تھی جو نہ صرف غیر شفاف تھا بلکہ بہت بھاری تھا،اس نے  سانپ کو صرف اپنی تہوں  سے  نہیں  بلکہ اپنے  وزن سے او ر موٹاپے  سے  بھی چھپا رکھا تھا۔

اسے  ہٹانے  کے  لئے  ایک بہت ہی مضبوط ،نئے او ر جرات مند دماغ کی ضرورت تھی جو تجسس،مسلسل کوشش تجزیاتی او ر درکار وقت سے  لیس ہوں۔

خالد نے  محسوس کیا کہ اس کے  پاس یہ سب کچھ تھا۔

اس طرح اب یہ مہم اس کی زندگی کی تمام حرکتوں او ر کوششوں  کا مرکزی نقطہ بن گیا۔

ہر دوسری چیز ثانوی بن گئی۔

وہ اب ایک ایسا کام کرنے  جا رہا تھا جو صرف اس کا ذاتی سروکار نہیں  تھا۔ بلکہ دنیا کے  ہر شخص کا سروکار تھا۔ لیکن اسی طرح تو دنیا کے  تمام سائنسدانوں ، مفکروں ، انقلابیوں ، ریفارمرس نے  بھی اپنی زندگی گزاری تھی جن کے  مسئلے  ان کے  لئے  اہم ترین چیلنج تھے  ہی لیکن اس کے  ساتھ ان مسئلوں  کا تعلق دنیا کے  ہر انسان سے  تھا۔ اور کیوں  نہ ہو عوام کی مشکلات کی ذمے  داریاں  تو ان لوگوں  پر ہوتی ہی ہیں  جو ایسی ذہنی اور جسمانی صلاحیت کے  ساتھ پیدا ہوتے  ہیں  کہ وہ ان مسئلوں  کا حل تلاش کر سکیں او ر عوام ان سے  توقع بھی رکھتے  ہیں او ر جب عوام کسی سے  اس کی صلاحیت کے  مطابق توقع رکھتی ہے  تو یہ فرد کا سماجی فرض بنتا جاتا ہے۔ خالد نے  محسوس کیا کہ اسے  اس مہم کو پوری طاقت سے  شروع کرنا ہو گا اور نتیجے  تک پہنچنا ہو گا۔ ایک سائنسداں  کی طرح جس کا ذہن سنجیدگی سے  کسی چیلنج کرتے  ہوئے  سوال کو لے  کر آگے  بڑھنا ہے  اس نے  اس کام پر اپنے  کو مرکوز کرنے  کا فیصلہ کر لیا۔

سانپ تھا۔ سانپ کے  پیچھے  ماسٹر مائنڈ تھا۔ اس کے او ر سانپ کے  بیچ میں  کروڑوں  ٹن کا بھاری پردہ تھا جو اس سانپ کی ڈھال بھی تھا اور اس پردے  میں  سوراخ تھے  جس سے  ہو کر سانپ کو آنا تھا۔

لیکن وہ کون تھے  جو سانپ کی مدد کو آ سکتے  تھے۔ کوئی ایسا بھاری بھرکم سرکار میں  اثر رکھنے  والا سیاسی شخص کوئی عیار آدمی جس نے  سرکار کے  اندر چپکے  سے  آنے  جانے  کا راستہ بنا لیا ہو، کچھ ایسے  جرائم پیشہ اور سازشی لوگ جو سیاست دانوں  کو سرکار میں او ر سرکاری ملازمین کو اپنی من مانی جگہوں  پر پہنچے  کا ٹھیکا لیتے  ہوں او ر ان رائے  دہندگان کو دھوکے  میں  رکھتے  ہیں  جو ان پر مکمل بھروسہ کرتے  ہیں  کوئی جج جو عدلیہ کے  وقار کی پرواہ کئے  بنا بچ بچا کر ان سازشوں  میں  شامل ہو جاتا ہو اور کوئی ایسا طرز فکر جو اس طرح کی زندگی کا بہترین فلسفہ سمجھتا ہو۔ سوچنے  کے  لئے  بڑی گنجائش تھیں۔

oo

 

 

 

اسے  قدرت کی طرف سے   ایک سوچنے  والا اور تخلیقی ذہن ملا تھا۔ اسے  ادب اور انسانیات میں  خصوصی دلچسپی تھی۔ لڑکپن میں  ا سنے  کچھ کچھ شاعری بھی کی تھی۔ جس سے  اس کے  مزاج کا پتہ چلتا تھا۔

وہ اپنے  گاؤں او ر یہاں  کے  حالات کو کبھی نہیں  بھولا۔ اس موضوع پر بھی اس نے  ایک نظم لکھی تھی اور ملک کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال کی ایک معنی خیز تصویر کھینچی تھی۔ یہ نظم اس کے  کمرے  کی دیوار پر کچھ یوں  لٹکی ہوئی تھی۔

وحشی

میں  انقلاب کی نہیں  انقلاب سے  واپسی کی بات کر رہا ہوں

میں  ان کے  اٹھے  ہوئے  ہاتھوں

اور دھنسے  ہوئے  پیٹ کی طرف اشارہ نہیں  کرتا،

میرے  نزدیک، ان کے  میلے  دانت

اور بڑھے  ہوئے  ناخن

زیادہ اہم بنتے  جا رہے  ہیں

 

اسے  خود بھی نہیں  معلوم تھا کہ اسے  کیا ہو رہا تھا لیکن اتنا واضح تھا کہ اس کے  ذہن کو کسی آسیب نے  مضبوطی سے  اپنی گرفت میں  لے  لیا تھا۔ کب دن نکلتا  تھا اور کب رات ہوتی تھی یہ باتیں  دھندلی پڑتی چلی گئیں۔ کئی دنوں  تک وہ صرف انہی باتوں  سی متعلق سوچتا رہا۔

ایک دن وہ اپنی ایک ایسی پرانی نظم اپنے  لبوں  سے  دہرا رہا تھا جسے  اس نے  بالکل شروع میں  لکھا تھا اور جسے  اس نے  اپنی ذاتی قسم کی تحریر قرار دیا تھا او ر اسے  کہیں  چھپنے  کے  لئے  نہیں  بھیجا تھا کیونکہ اس کی شروع کی لائنیں  گنجلک سی تھیں  حالانکہ یہ سطریں  اسے  بہت پسند تھیں۔ وہ اپنے گھر سے  ملحق باغ میں  ایک کونے  میں  کھڑا تھا اور الفاظ اپنے  پورے  درد کے  ساتھ اس کے  لبوں  پر دل آویز ترنم  کے  ساتھ جیسے  خود بخود چلے  آ رہے  تھے۔

 

تمنا اگر ہے  تو میں  کیا کروں

جہاں  بے  جگر ہے  تو میں  کیا کروں

چلے  جا رہے  ہو بیاباں کی سمت

یہ شب بے  سحر کہے   تو میں  کیا کروں

تفکر میں  ڈوبے   درختوں  کے   بیچ

تری  رہگزر ہے   تومیں  کیا کروں

 

چند روز تک کبھی گھر کے  اندر اور کبھی باہر بیٹھے  بیٹھے  اسی مسئلے  پر سوچتا رہا۔ بچپن سے  ہی اسے  انسانی دکھوں  کو  لے  کر غم تھا۔

سفید و سیاہ کھچڑی بالوں  والے  مجاور نما مجذوب نے  کہا۔ سامنے  کے  جنگل میں ایک  تازہ قبر دکھائی دے  رہی تھی۔ اور اس کے  پیچھے  وہ پرانا کمرہ نما مچان تھا  جہاں  ا سکی موت ہوئی تھی۔ اس قبر کے  ادھر ادھر بہت سے  لوگ دکھ رہے  تھے  جن کے  اوپر  ابھی تک اس جگہ کی پراسراریت کی وجہ سے  سکتہ طاری تھا۔

’ اس کی یہ جنگ تبھی شروع ہو گئی تھی جب وہ ابھی چھوٹا سا بچہ تھا۔ ‘

اس کے  بچپن کی بات ہے۔ شہر سے  کچھ افسر پولس کے  ساتھ بستی میں  آئے  تھے۔  اس گاؤں  کے  مرکزی محلہ میں  واقع پرانے  پیپل کے  پیڑ کے  نیچے  لگ بھگ پوری بستی جمع ہو گئی تھی۔ خالد وہیں  کچھ دوری پر دوسرے  بچوں  کے  ساتھ گلی ڈنڈا کھیل رہا تھا۔ پولس کو دیکھ کر وہ بھی کھیل بند کر کے  وہاں  آ گیا۔   افسر وہاں  بیٹھے  ہوئے  تھے او ر چوکیدار بستی کے  لوگوں  کو ناموں  کی بتائی گئی فہرست کے  مطابق بلاتا جا رہا تھا۔ اس نے  دیکھا کہ بستی کے او ر لوگوں  کے  علاوہ اس کے  دادا  شیخ خدا بخش بن میر علی بھی وہاں   آ گئے  تھے۔ باقی سارے  لوگ زمین پر بیٹھے  ہوئے  تھے او ر وہ کھڑے  تھے  کیونکہ وہاں  کوئی کرسی خالی نہیں  تھی۔ لوگوں  کی نظریں  انہیں  پر جمی ہوئی تھیں۔

ان کو دیکھ کر ایس۔ ڈی۔ او۔ نے  پوچھا ’آئیے ،مولوی صاحب،ہم لوگ سرکار کی طرف سے  گیہوں  خریدنے  آئے  ہیں۔‘

دراصل اس کا مطلب بالکل سستے  داموں  پر گیہوں   سرکار کو دینا تھا۔

شیخ نے  سر نیچے  کر کے   کچھ سوچنے  لگے۔ خالد ان کے  پریشان چہرے  کو غور سے  دیکھ رہا تھا۔ انہوں  نے  کچھ سوچنے  کے  بعد کہا۔ ا ’ہمارے  پاس اپنی ضرورت سے  زیادہ گیہوں  تو نہیں  ہے  لیکن پھر بھی ہم آپ کے  حکم کی تعمیل  ضرور کریں  گے۔ ‘

’ٹھیک ہے۔ آپ پچاس کوینٹل گیہوں  دے  دیں۔ ‘

شیخ نے  متحیر ہو کر ان کو دیکھا۔

’اتنا گیہوں  تو کل ملا کر ہمارے  یہاں  پیدا بھی نہیں  ہوا ہو گا۔ ‘

’تو آپ ہی بتائیں  کتنا دیں  گے۔ ‘

’سچ تو یہ ہے  کہ ہمارے  لئے  کچھ بھی دینا مشکل ہے۔ پھر بھی چونکہ آپ نے  کہا ہے  اس لئے  ہم دو کوینٹل دے  دیں  گے۔ ‘

’دو کوینٹل ؟ ‘ افسر نے  جیسے  ان کا مذاق اڑایا ’دس کوینٹل۔ ‘

شیخ اس افسر کو دیکھنے  لگے۔

’ سوچئے  نہیں، اب آپ جائیں او ر گیہوں  ہمارے  عملہ کے  حوالے  کریں۔ آپ کو سرکار پیسہ دے  رہی ہے۔ ‘

لوگوں  میں  چہ میگوئیاں  ہونے  لگیں۔ شیخ کی طرف سے  اس حکم کو ماننے  کا مطلب تھا کہ اب دوسرا کوئی تو اعتراض کرنے  کی ہمت ہی نہیں  کر سکتا تھا۔

مجھے  یاد ہے  کہ خالد اپنے  دادا کے  ٹھیک پیچھے  کھڑا تھا۔ اس کے  دادا نے  بڑے  احساسِ مجبوری کے  ساتھ اپنے  مزدوروں  سے  کہا کہ وہ جائیں او ر گھر سے  گیہوں  کی بوریاں  لے کر آئیں۔

خالد اپنے  دادا کے  دکھ کو بری طرح محسوس کر رہا تھا۔

اپنے  گھر سے  گیہوں  نکلواتے  وقت دراصل ان کی آنکھیں  نم ہو گئی تھیں  جسے  خالد نے  دیکھ لیا تھا۔

اپنے  دادا کی آنکھوں  کے  ان آنسو وں  کا اس دن اس کے  اوپر اتنا اثر پڑا کہ اس نے  اس دن سوچ لیا کہ وہ زندگی میں  کبھی آنکھوں  میں  آنسو نہیں  آنے  دیگا۔ اور اسے  اس کے  بعد کسی نے  روتے  ہوئے  نہیں  دیکھا۔

جب اس کے  دادا گیہوں  کی بوریاں  سرکاری کارندوں  کو دیکر وہاں لوٹے  اس وقت وہ افسر دوسرے  کسانوں  کو ڈانٹ رہا تھا۔ خالد کی نظریں  اس افسر کے  چہرے  پر گڑ گئیں۔ وہ محض چودہ سال کا ایک بے  ضر ر سا لڑکا تھا۔ اچانک وہ پیچھے  سے  نکل کر افسر کے  سامنے  آ گیا۔ ایک سپاہی نے  ذرا نیچی آواز میں  اسے  قریب آنے  سے  منع کیا لیکن خالد رکا نہیں او ر افسر کے  بالکل قریب سامنے  جا کر کھڑا ہو گیا۔ اب وہ کھڑا ہو کر افسر کے  نظریں  اٹھانے  کا انتظار کر رہا تھا۔ ایک دو سپاہی اسے  پیچھے  کھینچنے  کے  لئے  آگے  بڑھے۔ اسی بیچ افسر نے  نظریں  اوپر کیں  تو خالد کو دیکھا۔

’کیا ہے  ؟‘ افسر نے  سخت لہجے  میں  اس سے  کہا۔

’ ہمیں  اس گیہوں  کی ضرورت ہے۔ اسے  آپ کیوں  لے  جا رہے  ہیں ؟ ‘

اس سوال میں  ایک عجیب طاقت تھی کیونکہ خالد کے  جملوں  میں  گیہوں دینے  سے  انکار نہیں  تھا۔ بلکہ اس نے  ایک سوال کیا تھا جو قابلِ غور  سوال تھا۔ اس میں  کوئے  گزارش بھی نہیں  تھی۔ یہ ایک خالص سوال تھا۔

وہ دراصل نئے  ہندوستان کا ایک بچہ تھا۔

’تم کون ہو ؟‘ افسر نے  سوال کیا۔

شیخ نے  آگے  بڑھ کر کہا ’یہ میرا پوتا ہے۔ ‘

’آپ اسے  ہٹائیے۔ ‘

شیخ آگے  بڑھے ، بچے  کا بازو پکڑا اور اسے  پیچھے  کی طرف کھینچا۔ انہیں  ڈر تھا کہ کہیں  یہ لوگ اس کے  بچے  پر حملہ نہ کر دیں۔ لیکن خالد کسی الگ ہی دھات کا بنا ہوا تھا۔

 

مجھے  یاد ہے  جب  شیخ  اسے  پیچھے  کھینچ  رہے  تھے   اسی بیچ  اس نے  پوری  قوت سے  چلا کر افسر سے  کہا تھا۔

’آپ ایسا نہیں  کر سکتے۔ ‘

افسر نے  گویا اس کی گستاخی پر اسے  گھور کر دیکھا۔

’آپ زبردستی ہمارا گیہوں  چھین رہے  ہیں ؟مجھے  بڑا ہونے  دیجئے۔ میں  آپ کو سزا دونگا۔ ‘

افسر اس کے  ان جملوں  پر بھونچکا رہ گیا تھا۔ اگر انگریزوں  کا زمانہ ہوتا تو یہ بچہ باغی کہلاتا لیکن آزاد ہندوستان کے  اس بچے  کو کیا کہیں  گے، میری سمجھ میں  یہ بات آج تک نہیں  آ سکی۔

جیلانی کی پیشانی سکڑ گئی تھی۔

مجاور نے  جیلانی کے  چہرے  پر ایک نظر ڈالی اور پھر اوروں  کی طرف دیکھ کر کہنے  لگا۔

خالد نے  افسر کی آنکھوں  میں  دیکھا او ر پھر اپنے  دادا کی طرف مڑگیا تھا۔

افسر ابھی خالد کو حیرت سے  دیکھ ہی رہا تھا کہ کھڑے  کسانوں  میں  سے  بہت سے  لوگوں  نے  تالیاں  بجادیں۔

تب سے  وہ پورے  گاؤں  کا دلارا بچہ بن گیا تھا۔  لوگ اس واقعے  کو ہمیشہ یاد کرتے  تھے او ر اب یہ واقعہ روشنی کی ایک تیز کرن کی طرح  ذہن کے  اندھیروں  کو چیرتا ہے۔

مجاور کی آنکھیں سامنے  کے  درخت پر جیسے  ٹک کر اٹک گئی ہوں او ر زبان پر تالا لگ گیا ہو، وہ خاموش  ہو گیا تھا، پھر بولا۔

’وہ مرگیا۔ ‘

اس کی نظریں  اسی طرح ٹنگی رہیں۔

’ سزا دینا ابھی باقی ہے۔ لیکن فیصلہ ہونا چاہئے او ر سزا ملنی چاہئے او ر خالد کی موت کو ہم اس سزا کے  راستے  کی رکاوٹ نہیں  بننے  دیں  گے۔ خالد کے  منھ سے  نکلا ہوا ہر ایک جملہ اس کی موت کے  بعد اب ہمارے  لئے  فیصلے  کی اہمیت رکھتا ہے  جن کو ہم بغیر غور کئے  ہوئے  نہ تبدیل کریں  گے  نہ اس کے  اطلاق کو ملتوی کریں  گے۔

اس کی نظریں  پیڑ سے  اتر کر سامنے  واپس آ گئیں۔

وہ پیدائشی طور پر ہی ایک خوفناک پلیتہ تھا۔ مرنے  سے  پہلے  اس نے  اپنی انگلی گھسیٹ کر آگ پیدا کی تھی۔

شاید وہ اپنے  ساتھ ساتھ لوگوں  سے  بھی بہت امیدیں  رکھتا تھا کہ لوگ اس کا ساتھ دیں  گے۔ پتہ نہیں  اس بچے  کے  اوپر کیا مصیبت آ گئی کہ اسے  ان لوگوں  پر بھی بھروسہ نہیں  رہ گیا جنہوں  نے  اس کے  بچپن میں  اس کے  لئے  تالیاں  بجائی تھیں  ورنہ ہم تو اس کے  ساتھ تھے۔

وہ ایسا ہی پیدا ہوا تھا۔ اور عمر کی اس منزل پر خاص طور سے  اسکے  ذہن میں   لاعلاج مسائل کینسر کی شکل میں   ایک گچھے  کی طرح ابھرنے  لگے  جن کو سلجھانے  کی اس نے  بہت کوشش کی  لیکن یہ مسائل اتنے  سخت تھے   کہ انہوں  نے  اس کا پورا خون پیکر اس کو کھوکھلا کر دی۔ وہ فکر و تخیل کی تیز تلوار  سے  ان کو کاٹتا رہا  لیکن وہ بڑھتے  رہے۔ اور آخر میں  ان کے  درد کی تاب نہ لا کر اس نے  دم توڑ دیا۔  اس  کی موت کا واقعہ  اسی المیہ کی طرف اشارہ کرتا ہے۔  ایک ایسے  دیوانے  کی طرح جو اپنے  بال نوچنے  لگتا ہے  او ر کپڑے  پھاڑنے  لگتا ہے   لیکن اپنی دیوانگی سے  نجات  حاصل کرنا نہیں  چاہتا، خالد کے  اندر خود ہی اس دیوانگی سے  رشتہ توڑنے  کی خواہش نہیں  تھی۔ وہ جسمانی طور پر نحیف ہوتا جا رہا تھا لیکن روحانی سطح پر ہار ماننے  والا نہیں  تھا۔ اس کی تحریریں  اس کے  دل و دماغ میں   بتدریج اٹھنے  والی موجوں   کی مکمل تصویر پیش کرتی ہیں۔ انہیں  تحریروں  میں  ہمیں  دکھائی دیتا ہے   کہ وہ کس طرح اپنے  خیالوں  کی بھاری زنجیروں  میں  بندھا ہوا  ہماری زندگی کی عظیم ترین  مشکلات سے  برسرِ پیکار  رہا اور اس ذہنی سفر میں   وہ کن کن منزلوں  سے  گزرا۔ ان تحریروں سے  یہ اندازہ بھی ہوتا ہے   کہ وہ جاگتے  میں  بھی اپنے  چاروں  طرف  عجیب و غریب چہرے  دیکھتا تھا۔ اس نے  ان چہروں او ر ان کی آوازوں او ر ان کے  اعمال کا جو بیان اپنی ڈائری میں  لکھا ہے  ان کو پڑھنے کے  بعد مومن اور غالب  کے  دو شعر میرے  ذہن می بسے  رہے۔ کبھی مومن کا شعر یاد آتا۔

تم مرے  پاس ہوتے  ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں  ہوتا

کبھی غالب کا  یہ شعر میری شعر فہمی کی تربیت کرنے  لگتا۔

ہے   آدمی  بذاتِ خو د  اک محشرِ خیال

ہم انجمن سمجھتے  ہیں  خلوت ہی کیوں  نہ ہو

میں  ان شعروں  کو خیال محض کے  طور پر ہی لیتا تھا لیکن اب میری سمجھ میں  آیا تھا کہ بڑے  شعرا کی شاعرانہ گفتگو کو بھی ٹھوس حقیقت کے  طور پر ہی دیکھنا چاہئے  کہ ان کے  شاعرانہ اظہار کو خیالِ محض سمجھنا خود ہمارا خیالِ محض ہو سکتا ہے۔ خالد کے  اندر یہی چیز غیر معمولی حد تک بڑھ گئی تھی اور اسے  سچ مچ سب کچھ  حقیقی دنیا کی طرح دکھنے  لگا تھا۔ وہ خیالون کی دنیا کا تو شہزادہ تھا  لیکن اس کی موت اس کے  اندر موجود  ایک خاص قسم کی نا پختگی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے او ر یہ تھی اس کے  اندر موجود معصومیت۔ وہ ایک اعلی درجے  کا مفکر تھا  لیکن ادنی درجے  کا بھی لڑاکو نہیں  تھا اور اپنی اس کمزوری سے  وہ واقف نہیں  تھا۔

بہت سے  لوگ پیدائشی طور پر ہی ایسے  ہوتے  ہیں۔ قدرت انہیں  اسی ذمہ داری کے  لئے  پیدا کرتی ہے۔ جس طرح کچھ خاص لوگ اچھا گاتے  ہیں۔کچھ پہلوان ہوتے  ہیں۔ کچھ اداکار ہوتے  ہیں۔ اسی طرح کچھ خاص لوگ انسانیت کی لڑائی لڑنے او ر انسانیت کے  لئے  قربانیاں  دینے  کے  لئے  پیدا ہوتے  ہیں۔

اس نے  خود اپنی ڈائری میں لکھا ہے :

’شاید میں  بھی اسی کے  لئے  پیدا ہوا ہوں۔ اس زمانے  میں  کسی کو یقین نہیں  آ سکتا کہ یہ ممکن ہے  لیکن میں  اپنے  بارے  میں  جانتا ہوں  کہ جب میں  رات کی تنہائی میں  ہوتا ہوں  تو میرے  ساتھ کیا ہوتا ہے۔ میری نظمیں  کسی کو یہ دکھانے  کے  لئے  نہیں  لکھی گئی تھیں  کہ میرے  اندر شاعربننے  کی صلاحیت ہے۔ یہ نظمیں اس درد سے  راحت کے  لئے  لکھی گئی تھیں  جو میرے  دل میں  عود کر آتا تھا۔ اور آج پھر ایسا ہی ہو رہا ہے۔

آج کائنات کتنی بے  نقاب ہو کر میرے  سامنے  ابھر رہی ہے ، جیسے  وہ چیزیں  سامنے  آنا چاہتی ہوں  جنہیں  میں  نے  نہیں  دیکھا ہے۔ ‘

آج اسے  ہر چیز پہلے  سے  زیادہ صاف نظر آ رہی تھی۔

وہ کائنات کی اس نوازش پر بہت خوش تھا۔

کائنات اپنی پوری بیکرانی کے  ساتھ رفتہ رفتہ اس کے  دل و دماغ میں  سما رہی تھی۔ ایک بہت بڑا کھلا ہوا منظر تھا جس سے  وہ اسیر ہو رہا تھا۔ عموماً وہ کبھی کبھی صرف راتوں  میں  ہی ایسا محسوس کرتا تھا لیکن آج کا دن کچھ مختلف تھا۔ اور ان راتوں  سے  کہیں  زیادہ روشن تھا۔

 

غور و فکر کے  عمل کا سفر کچھ دور تک طے  کرنے  کے  بعد اب خالد نے  اپنی کتاب شروع کر دی تھی۔

 

اسے  ہندوستان کے  وہ کسان، انڈمان کے  قبائلی، اور معاشرے  کے  وہ دبے  کچلے  لوگ یاد آ گئے  جن کے  پاؤں  کے  نیچے  سے  کبھی نہ کبھی زمین چھین لی گئی تھی۔ جن کے  نہ اپنے  گھر تھے  نہ زمینیں  تھیں اور وہ دراصل زندگی کے  ایک کونے  میں  محدود کر دئے  گئے  تھے۔ اسے  وہ فارم ہاؤس، وہ بڑی بڑی کمپنیاں  یاد آ گئیں جن کی پوری دنیا چہار دیواریوں  میں  محفوظ تھی اور جہاں  ارد گرد کے  کسانوں  کی زمینیں  نوٹس دیکر خالی کرالی جاتی تھیں۔

ان کی یہ پشتینی زمینیں  ان کے  اپنے  لئے ، اپنے  نقطہ نظر سے  کتنی ضروری اور اہم تھیں  اس کی کوئی سنوائی نہیں  تھی۔ ایسے  لوگوں  پر کتنی بار لاٹیاں او ر گولیاں  چلی تھیں  یہ بھی اسے  یاد آنے  لگا۔

وہ آسیب نما طاقت جو یہ سب کچھ کرتی ہے  اس آسیب کے  خوابوں  کے  مطابق  صرف لوگ ہی بے  زمین نہیں  کئے  جاتے  بلکہ ملک تک تقسیم ہو جاتے  ہیں۔

لاکھوں  کروڑوں  لوگوں  کو اپنی مرضی کے  خلاف ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ پوری دنیا کی عام آبادی آج بھی  بھیڑ بکریوں  بلکہ ان قبائلیوں  کی طرح ہانکی جاتی ہے۔

ان سرکش قبائلیوں  کے  چہروں  کے  ساتھ اسے  نہ جانے  کیوں  فلسطینی بھی یاد آئے ، اور جرمنی سے  نکالے  جانے  والے  یہودی بھی یاد آئے۔

یہ حکومتیں  اگر عام انسانوں  سے  الگ کوئی چیز نہیں  ہیں  تو پھر کیوں  یہ حکومتیں  زمینوں  کو اپنی اور آبادیوں  کو غیر سمجھتی ہیں۔ وہ محسوس کروا دیتی ہیں  کہ وہ زمینوں  کی محتاج ہیں ، آبادیوں  کی جانوں  کی محتاج نہیں  کہ آبادیاں  تو مرغی کے  بچوں  کی طرح پیدا کروائی جا سکتی ہیں۔ امپورٹ کی جا سکتی ہیں ، ایکسپورٹ کی جا سکتی ہیں۔ اور اس کے  ساتھ ہی اسے  پوری زمین پر پھیلے  ہوئے  جسم فروشی کے  کاروبار کی یاد آ گئی، جنگ عظیم میں  جھونکے  گئے  نوجوانوں  کی یاد آ گئی۔

ایک بار حکومتوں  کو  انسانیت کا اسیر بنانا کتنا ضروری ہے۔

اس نے  سوچا۔

یہی تو اس نے  چند برسوں  پہلے  اس عالمی کانفرنس میں  کہا تھا۔

سوال یہ ہے  کہ وہ اصل طاقت کون سی ہے  جو حکومت کے  وجود کے  پیچھے  ہے  او ر اس کے  ارادے او ر مقاصد کیا عوام کے  ارادوں او ر مقاصد سے  مختلف ہیں  ؟ یقیناً ہیں۔

اور وہ طاقت اپنے  مقاصد کو بہر صورت پورا کرتی ہے  چاہے  وہ شہنشاہیت کے  ذریعے  ہو، آمریت کے  ذریعے  ہو یا جمہوریت کے  ذریعے  ہو۔ اور جیسے  ہی ان میں  سے  کوئی بھی نظام اس کے  مقاصد کو پورا کرتے  رہنے  میں  ناکام ہونے  لگتا ہے ، وہ اس نظام کو ہی جڑ سے  اکھاڑ پھینکتی ہے ، اور شہنشاہیت سے  جمہوریت، جمہوریت سے  آمریت، آمریت سے  بادشاہت یا پھر جمہوریت کا کرسیوں  کے  دائرے  والا کھیل اس طاقت کا وہ ازلی کھیل ہے  جو انسانی روح اور زندگی کاآج بھی سب سے  بڑا چیلنج ہے۔ حکومتوں  کی یہ مختلف شکلیں  Rulers اور Ruledکے  بنیادی نظام کی گھومنے  والی چکیاں  ہیں۔

پوری انسانیت کے  سر پر ظلم، رسوائی، تناؤ اور دہشت کا یہ وہ آسیب ہے  جس سے  نجات کے  لئے  ہونے  والی جنگ ابھی باقی ہے  لیکن یہ جنگ تلوار سے  نہیں  تخلیقی قوت سے  ہی جیتی جا سکتی ہے  کیونکہ اس کے  لئے  مزید ذہنی انقلاب کی ضرورت ہے۔

لیکن اسے  لڑنا اور جیتنا ضروری بھی ہے او ر ممکن بھی کہ جس طرح انسان نے  پچھلی صدیوں  میں  بیماریوں ، قحط، غربت ، بارش، طوفان، سیلاب، اور جنگلی درندوں  کے  خلاف سائنسی اور معاشی لڑائی لڑی ہے  اسی طرح اس لڑائی میں  بھی کامیابی ممکن ہے  لیکن یہ یقیناً ان لڑائیوں  سے  زیادہ گمبھیر لڑائی ہے  کیونکہ وہ لڑائیاں  تو قدرت کی ان بے  جان قوتوں  کے  خلاف تھیں  جن میں  صرف طبیعاتی طاقت تھی، دماغ نہیں  تھا لیکن اس آسیب کی تخلیق انسانی دماغوں  سے  ہوئی ہے۔

اس لئے  یہ لڑائی صرف عام آدمی کے  ذہنی فروغ سے  جیتی جا سکتی ہے۔ جب ہر عام آدمی کا دماغ بصیرت اور شعور کے  اعتبار سے  اپنی بلوغت اور ارتقا ء کے  اس جسامت کو پہنچے  گا جو اس کے  نشو نما کی فطری منزل ہے ، جہاں  وہ کسی اور کے  دماغ سے  سوچنا بند کر دے  گا اور فطرت کی گود میں  پیدا ہوئے  ایک ایسے  انسان کی طرح سوچے  گا جو اپنے  طور پر سیدھے  کائنات سے  اپنا رشتہ قائم کرتا ہے  تبھی اس دنیا میں  سوچوں  کا ایک ایسا توازن پیدا ہو گا جو سول سوسائٹی کو اس کا جائز مقام دے  سکے  گا۔

ہمیں  جمہوریت سے  بھی آگے  بڑھ کر ایک مضبوط سول سوسائٹی کی تعمیر کرنی ہو گی۔ اس کے  لئے  ہمیں  سول سوسائٹی کو حاکم و محکوم والے  نظام سے  چھٹکارہ دلانا ہو گا۔ اور اس میں  سائنسدانوں  کی طرح بڑے  تخلیقی ذہنوں  کا رول ہو گا۔ انہیں  نئے  محاذ کھولنے  ہونگے۔ انہیں قبول کرنا ہو گا کی قدرت نے  انہیں  وہ طاقتیں  دی ہیں جن سے  وہ انسانی زندگی کے  کارواں  کے  لئے  مینارہ نور بن سکیں۔ یہ لوگ دنیا کو دانشوری کا ایک نیا معنی دیں  گے۔ کوتاہ اندیشی اور لالچ میں  ملوث دانشوری سے  آزاد، ممتاز تر اور ہمتِ مرداں  کے  ساتھ بڑی ذمہ داریاں  اٹھانے  والی دانشوری۔

لیکن یہ تخلیقی ذہن کون ہیں۔

ان کی پہچان کیا ہے  ؟

اس نے  بہت غور کیا اور پھر اس کی سمجھ میں  آیا کہ تخلیقی ذہن کی ایک پہچان ہے او ر ان کو ہم ان کی تحریروں  سے  پہچان سکتے  ہیں  کہ تخلیقی ذہن کے  معنی ہیں  وہ ذہن جو جراتِ تخیل، جراتِ  فکر اور  جراتِ اظہار کی بے  انتہا قوتوں  سے  لیس ہوں۔ ایسے  ذہن جن کو کوئی عقیدہ پابند نہ بنا سکے ، کوئی وسعت ڈرا نہ سکے او ر کوئی مصلحت متزلزل نہ کر سکے  کہ انسانی ذہن تخیل کی آنچ پر چڑھ کر ہی پلاؤ کی طرح خوشبو دیتا ہے۔ لیکن بقول اقبال کے

براہیمی   نظر   پیدا  مگر  مشکل  سے   ہوتی  ہے

ہوس چھپ چھپ کے  سینوں  میں  بنا لیتی ہے  تصویریں

تو ہمیں  انسانی ذہنوں  کی تاریخ پر بھی نظر ڈالنی ہو گی کہ سیاست میں  براھیم جیسے  تیور والے  رہنما ابھرے  تو ضرور لیکن وہ کس کس طرح ہوس کا شکار ہوئے۔ اور ہوس نے  کس کس طرح ان کو اپنا غلام بنایا۔

والد ٹھیک ہی کہتے  تھے

بڑے  موذی کو مارا نفس امارہ کو گر مارا

کہیں  یہ دراصل نفسِ انسانی میں  مقیم شیطان ہی تو نہیں ہے  جو ہمارے  اوپر حکومت کر رہا ہے  ؟

اسے  اپنی نظم شیطان یاد آ گئی۔

چھوٹے  چھوٹے  ذہنوں  والے  مغرور لوگ حکومت،میڈیا،بزنس میں  چھائے  ہوئے ،یہ دراصل دور اندیشی سے  گھبراتے  ہیں او ر اپنی کوتاہ اندیشی کو چھپانے  کے  لئے  اپنی پوزیشن اور اپنی تحریر کا استعمال کرتے  ہیں۔ اور یہی لوگ اس آسیب کے  سپاہی بھی ہیں۔ یہ اپنے  کو انتہائی حقیقت پسند سمجھتے  ہوئے  ہیجڑوں  کی طرح ان دانشوروں او ر تخلیق کاروں  کی باتوں  کو نظر انداز کرتے  ہیں  جو انسانیت کا راگ الاپتے  ہیں  جیسے  انسانیت اور خاص طور سے  طبقہ اشرافیہ کو پسند نہ آنے  والی باتیں  بذاتِ خود کوتاہ نظری کی پیداوار ہوں۔ لیکن پھر اسے  خود لکھنا چاہئے۔

 

مجاور نے  خالد کے   اس ذہنی میدانِ رزم کی تصویر کھینچی جس میں  فکر کے  ہتھیاروں  سے  لڑتے  ہوئے  خالد کی موت پر ہوئی تھی خالد  کی اس ذہنی لڑائے  کے  حوالے  سے  اس نے  کہا۔  ،میدانِ جنگ میں  تو بالکل آخر میں  لڑائی ہوتی ہے۔ اصل لڑائی میدانِ جنگ میں  نہیں  بلکہ ان کارخانوں  میں  ہوتی ہے  جس میں  فیصلہ کن اسلحے  تیار ہوتے  ہیں او ر اس میں  کارآمد ہتھیار بنانے  کے  دھن میں  لگا ہوا سائنسداں  اپنی کاوشوں  میں  لگا ہوا ایسا محسوس کرتا ہے  جیسے  وہ خود ہی میدانِ جنگ میں  ہو اور جنگ کے  نتائج کا دار و مدار اس کی کوششوں  پر ہو۔   انتہائی توجہ اور وسعتِ نظری سے  دشمن کے  ہر ایک ہتھیار اور حربے  کی کاٹ  اس حد تک پیدا کرنا کہ فتح کے  پورے  امکانات روشن ہو جائیں  انکا جنگی فریضہ ہوتا ہے۔ اور یہ دراصل خالد کی طرف سے  جنگ چھیڑنے  سے  پہلے  کی جنگ کی تیاری تھی۔ خالد کو جنگ کے  شعلوں او ر دھوئیں  سے  گزرنے  سے  پہلے  خو د  اپنے  ذہن کے  اندر ان شعلوں او ر دھوئیں  سے  گزرنا تھا۔

فکر کی ناکامی کے  ہر اندیشے  پر اسے  اپنے  جسم و جان پر چوٹ سی لگتی محسوس ہوتی تھی یہاں  تک کہ اسے  اپنے  پورے  جسم و جان میں  کمزوری محسوس ہونے  لگتی اور سوچ کی ہر کامیابی پر وہ تازہ دم ہو اٹھتا تھا۔ اسے  وہاں  سے  نکلنا تھا اور ساری دنیا سے  لڑنا تھا لیکن وہ نکلنے  سے  پہلے  اپنے  ذہن اور اپنی میز پر اس جنگ کو جیت لینا چاہتا تھا۔

سپہ سالار میدان جنگ میں  لڑتے  ہیں۔ سرجن آپریشن تھیٹر میں۔ سائنسداں  لیب میں۔ اور مفکر اپنی فکر گاہوں میں اپنی جان کی بازی لگا دیتے  ہیں۔ ان سب کی کامیابی اور ناکامی بلکہ ان کی ذات  کے  وجود و  فنا کا فیصلہ انہیں  جگہوں  پر ہوتا ہے۔ خالد سہیل جس محاذ پر بر سرِ پیکار تھا وہ  ایک طرف اس کے  معاشرے  کے  لوگوں  کے  ذہنوں  پر کچھ طاقتوں  کی منظم چڑھائیوں ، قبضوں او ر مفتوح کو رام کر کے  غلام بنانے  کی کاروائی تھی تو دوسری طرف خالد کی جانب سے  ان طاقتوں  کے  خلاف جنگ آزادی چھیڑنے  کا عمل تھا۔ دنیا کے  انسانوں  کو منظم طریقے  سے  بڑے  پیمانے  پر صرف فکر کی رسی سے  ہی باندھا اور دائمی طور پر غلام بنایا جا سکتا ہے او ر اس کاروائی میں  نہ صرف ذہنوں  میں  خیالات ڈالے  جاتے  ہیں  بلکہ ذہنوں  کی از سرِ نو ایسی آرائش کی جاتی ہے  کہ وہ قابض قوتوں  کے  طرزِ عمل میں  بندھ جائیں۔ ایک ایسے  ماحول میں  تبدیلی اور آزادی کے  نقیب کے  سامنے  جو چیلنج ہوتا ہے  اس کو خالد کے  ذہن کے  اس اندرونی کشمکش، بے  چینی اور گھن گرج  میں  دیکھا جا سکتا ہے  جس سے  وہ  اپنی خلوت نشینی کے  دنوں  میں  گزر رہا تھا۔ خیالات کی بے  ترتیب یورش، جھٹکوں  کے  ساتھ اس کے  سامنے  ابھرنے  والے  سوالوں  کے  نوکیلے  پتھر، وہ گویا اپنے  ہی آپریشن تھیٹر میں  اپنا ہی پیٹ چاک کر چکا تھا۔ اور وہاں  اس کا ہاتھ بٹانے  والا دوسرا کوئی نہیں  تھا۔

لیکن وہ محسوس کرتا تھا کہ وہ مکمل طور پر تنہا بھی نہیں  تھا۔ اس کی پشت پر پیچھے  کالا پانی کے  قیدیوں  کی روحیں  مشعلوں  کی قطار لئے  اس کے  ساتھ آگے  بڑھ رہی تھیں او ر کالا پانی کوئلے  سے  ایک چمکتے  ہوئے  ہیرے  میں  تبدیل ہو چکا تھا۔

خالد نے  اپنی ڈائری میں  پہلا جملہ لکھا تھا

’میں  دنیا سے  کچھ کہنا چاہتا ہوں۔ ‘

پھر اس نے  سوچا وہ کہاں  سے  شروع کرے۔

پھر اسے  خیال آیا۔

وہ صرف لکھے  نہیں۔

کہے  بھی۔

اعلان کرے۔

یہ سوچتے  ہوئے  وہ اس دن کمرے  سے  باہر آ گیا تھا اور وہ اس وقت اپنے  گھر کے  سامنے  بالکل تنہا تھا۔

وہ ذہنی طور پر مکمل کائنات اور زندگی کو سامنے  رکھ کر سوچنے  کا عادی تو بچپن سے  ہی تھا، شیر علی کے  واقعے  نے   اس کو اس دنیا کی بڑی طاقتوں   کے  سامنے  عملی طور پر ابھر کر فیصلہ کن مقابلہ کرنا سکھا دیا تھا۔

بلند و بالا درختوں  کے  بیچ تیز رفتار بادلوں  سے  جزوی طور پر ڈھکے  ہوئے  کھلے  آسمان میں  جھانکتا ہوا جو کبھی بھی پورے  منظر کو تاریک کر دیتا تھا۔

وہ پورے  ملک اور پورے  برصغیر ہمالہ سے  بحرۂ ہند تک اور بحرۂ عرب سے  خلیج بنگال تک۔۔۔۔۔۔۔ تمام علاقے  کا پورا اٹلس اپنے  وسیع جغرافیے او ر آبادی کے  ساتھ اور میدانوں، دریاؤں،پہاڑوں ، ریگستانوں، ہنگاموں  بھرے  شہروں  کے  ساتھ جن میں  عظیم معاشی معاملات پر عمل درآمد ہو رہے  تھے او ر جو ٹرانسپورٹ کی حرکتوں، ٹرکوں، بسوں، ٹرینوں، جہازوں او ر پانی کے  جہازوں  سے  لے کر سیاسی، تمدنی، سماجی اور معاشی تحریکات میں  ہزاروں  لوگوں  کو لپیٹے  ہوئے  تھے او ر ان گاؤں  کو جو کسی صاف رات کے  آسمان میں  ستاروں  کی طرح چمک رہے  تھے ، اسے  یہ سب کچھ دن میں  دکھائی دینے  والے  خواب کی طرح لگ رہے  تھے۔

اچانک اسے  ایک انسان آسمان سے  لٹکا ہوا دکھائی دیا۔

اب مجاور کی زبان سے  کہانی یوں  باہر پھیل گئی جیسے  انار جل ا تھا ہو۔

ایک لٹکا ہوا انسان   !

بادلوں  کے  بیچ۔

خالد اپنے  اعصاب کی جڑوں  تک سناٹے  میں  آ گیا تھا اور اس کا ذہن چاروں  طرف سے  ایک دہشت ناک اور دھماکہ خیز سماں  کی لرزش سے  تلملا اٹھا۔

وہ یہ کیا دیکھ رہا تھا۔

یہ وہ صدیوں  سے  بے  بسی اور بے  وقعتی کے  آسمان سے  لٹکے  ہوئے  انسان کا ڈھانچہ تھا۔

وہ جو کچھ دیکھ رہا تھا اس پر یقین نہیں  کیا جا سکتا تھا۔ لیکن پورا منظر اس پر طاری تھا۔ اور پھر رفتہ رفتہ اس محویت کے  عالم میں  اس پر ایک نظم نازل ہونے  لگی جسے  اس نے  اپنی آواز میں  جیسے  پڑھنا شروع کر دیا ہو۔ وہ پاگلوں، دیوانوں  کی طرح بولنے  لگا اور اس کی نظروں  میں  انسانی تاریخ کے  سارے  سوچنے  والے  دماغ آندھیوں  کی طرح گونجنے  لگے۔

وہ بے  چین ہو اٹھا۔

’’یہ سارے  دماغ نا کام رہے  ہیں۔ ‘‘

یہ آواز گویا اس کی روح سے  اٹھی اور آتش فشاں  کی طرح ایک نظم اس کے  اندر سے  ابھرتی چلی گئی۔ اب وہ اس نظم کو قدرے  اونچی آواز میں  گنگنانے  لگا تھا۔

بام گردوں  پہ لٹکا ہوا انساں  کب سے

بادلوں  میں  کبھی چھپتا نظر آتا ہے  کبھی

اس پر حال سا طاری ہونے  لگا اور وہ بے  چینی میں  جیسے  ہلتے  ڈولتے  رقص کرنے  لگا ہو۔

جتنے  بہکے  ہوئے  بھٹکے  ہوئے  دانشور ہیں

مڑکے  دیکھیں  تو انہیں  کوئی صدا دیتا ہے

وہ انتہائی بے  تکلفی سے  اونچی آواز میں  گھر کے  سامنے  کے  اس منظر میں  گانے  لگا تھا جیسے  ہر جھجھک کو توڑ کر دنیا سے  ہم کلام ہونا چاہتا ہو اور اسے  اس بات کی کوئی پروا نہ ہو کہ دائیں  بائیں  سے  اسے  کوئی اس حالت میں  دیکھے  گا تو اسے  دیوانہ سمجھے  گا۔ اس کے  قدم لان میں  گویا بھٹک رہے  تھے او ر وہ تلملا رہا تھا۔

بام گردوں  پہ یہ لٹکا ہوا انساں  کب سے

بادلوں  میں  کبھی ڈھکتا نظر آتا ہے  کبھی

چاند سورج سبھی پہلو سے  گزر جاتے  ہیں

تکتی رہتی ہیں  نجومی کا نگاہیں  ہر سو

کشتیاں  کتنی اڑی جاتی ہیں  سیاروں  کی

مشرق و مغرب عالم میں  سیاحت کے  ہجوم

بجلیاں  دوڑتی ہیں  کاہکشاؤں  کی طرف

دوربینوں  میں  نظر آتے  ہیں  کھل کر تارے

ہو ازل یا کہ ابد کھلتے  ہیں  سارے  اسرار

ایک ہی شے  ہے  جو نظروں  سے  پھسل جاتی ہے

بام گردوں  پہ یہ لٹکا ہوا انساں

آس پاس کچھ بچے، عورتیں اور ایک آدھ آدمی دور کھڑے  اسے  دیکھنے  بھی لگے  تھے او ر اس کی آواز کو حیرت کے  ساتھ سن بھی رہے  تھے  لیکن وہ ایسے  گائے  جا رہا تھا جیسے  میوزک کے  کسی دھن کا ریاض کر رہا ہو یا کسی مشاعرے  میں  نظم پڑھ رہا ہو۔

بام گردوں  پہ یہ لٹکا ہوا انساں  کب سے

بادلوں  میں  کبھی ڈھکتا نظر آتا ہے  کبھی

اس کی آواز اور اونچی ہو گئی جیسے  وہ چیخ رہا ہو۔

اس کی چیخوں  سے  پرندوں  کی بھی نیندیں  ہیں  حرام

جابہ جا مچتا ہے  انسانوں  میں اس سے  کہرام

اب وہ گویا دیکھنے  والوں  کو بھی مخاطب کر رہا تھا۔

ہاتھ اٹھتے  ہیں  دعاؤں  کے  لیے  سوئے  فلک

ہوتے  رہتے  ہیں  علاقے  نئے  پھر خون آشام

چھینٹوں  سے  خون کے  موسم نئے  آ جاتے  ہیں

سب درو بست کے  آداب بدل جاتے  ہیں

کبھی جنگل تو کبھی صحرا لرز جاتے  ہیں

ان دھماکوں  سے  جو دھرتی پہ کیے  جاتے  ہیں

اب وہ اپنی پوری بھرپور چیخ کے  ساتھ گا رہا تھا:

یہ شکاری ہیں  چلاتے  ہیں  دھڑا دھڑ گولی

شیر گرتے  ہیں  بیابان تڑپ جاتے  ہیں

اپنے  کھیتوں  کی تباہی پہ یہ روتا انسان

اب وہ چاروں  طرف ہاتھ پھیلائے  گھوم رہا تھا۔

شاہ را ہوں  پہ ہر اک گام پہ لٹکا انسان

تیز طوفانی ہواؤں  میں  یہ بھٹکا انسان

چھٹپٹاتا ہوا منجدھار میں  لٹکا انسان

زندگی نے  اسے  بیگانہ کیا ہے  ایسے

دولتِ دنیا میں  اس کا نہیں  کچھ بھی جیسے

اپنے  قدیم خاندانی کوٹھی کے  صحن سے  آگے  لان میں  کسی دیوانے  کی طرح اپنے   بغیر استری کیے  ہوئے  کرتے او ر پائجامے  میں  وہ کسی اور ہی دنیا میں  کھو چکا تھا۔

چند لمحوں  بعد اسے  محسوس ہوا کہ وہ کسی خواب جیسی صورت حال میں  گرفتار تھا اور اب وہ رفتہ رفتہ اپنے  ذہن کو نارمل حالت میں  لانے  کی کوشش کرنے  لگا اور پھر جا کر ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔ دیکھنے  والے  بھی اس کی دیوانگی کے  اس منظر کے  ختم ہونے  پر واپس لوٹ گئے۔ سبھی جانتے  تھے  کہ وہ شاعر تھا اور سوچا کہ آج وہ بہت موڈ میں  ہے۔ اس کے  درد کی طوفانی شدت کا اندازہ کسی کو نہیں  ہوا کیونکہ اس عہد کے  بیشتر لوگ شاعری کو ہلکی پھلکی چیز سمجھتے  تھے۔

 

چند روز بعد وہ محسوس کرنے  لگا کہ  اس کی سوچ کی لغت ، نحو اور گرامر بھی بدلتے  جا رہے  تھے  وہ تیزی کے  ساتھ اپنی رضامندی سے  اپنی زبان کو بھی اپنے  نئے  ذہنی ماحول کے  مطابق بدلتا جا رہا تھا۔

اس نے  اس تبدیلی کو صاف صاف محسوس کیا کہ اس کی سوچ نے  جو، لہجہ، زبان اور طرز بیان اختیار کیا ہے  ہ اس بصیرت کے  تابع ہے  جو اس پر نازل ہو رہی تھی۔

اس نے  اس بات کو خصوصی طور پر اس وقت محسوس کیا جب ان نئے  خیالات کو لکھنے  بیٹھا جو اس کے  اندر سے  چشمے  کی طرح پھوٹ رہے  تھے۔ اس وقت جب اس کی نظریں  دنیا کو اس دروازے  سے  دیکھ رہی تھیں۔

پوری دنیا خصوصاً پورا برّ صغیر اس کے  سامنے  ایک پرزم سابن گیا تھا۔ جس میں  سو سال کی اونچائی تھی اور جس کی چوٹی پر کالاپانی واقع تھا۔ اور تب اس نے  محسوس کیا کہ یہی کالا پانی نیچے  آگے  جا کر پورے  بر صغیر پر اور اس کے  آگے  گلوب کی مختلف سمندروں  میں  پھیل گیا ہے۔

یہی نہیں  بلکہ زمانہ حال کے  بے  شمار واقعات یعنی وہ جہاں  سے  دیکھ رہا تھا وہاں  سے  مستقبل کی طرف ڈیڑھ سو سال آگے  جہاں  دنیا پہنچی ہوئی تھی وہاں  کے  واقعات کو سمجھنے  میں  اسے  ایسے  ہی آسانی کا احساس ہو رہا تھا جیسے  کسی مسافر کے  سفر کو پیچھے  بیٹھا کوئی شخص دوربین سے  مسلسل دیکھ رہا ہو اور اس کی پیچھے  کی تمام حرکتوں او ر تیاریوں  کے  حوالے  سے  اس کے  بارے  میں  اچھی طرح جان رہا ہو۔

اس میں ’ ہو سکتا ہے ‘ جیسا کوئی سوال نہیں  تھا۔

جو کچھ تھا صاف تھا۔

اس کے  حقیقی ہونے  کے  یقین نے  اس کے  ذہن میں  خیالات کی ایسی اچھال پیدا کی جیسے  ایک سو ڈگری درجہ حرارت پر پہنچتے  ہی پانی ابلنے  لگتا ہے۔ خیالات اس کے  ذہن کی رگوں  سے  اس کی طرف بہنے  لگے او ر اس کا قلم کاغذ پر ایسے  دوڑنے  لگا جیسے  ٹیپ ریکاڈر کا ہیڈ آوازیں  تخلیق نہیں  کرتا بلکہ ان کو صرف ریکارڈ کرتا ہے۔

’’ یہ دنیا جس میں  میں  رہتا ہوں  اس دنیا سے  قطعی الگ نہیں  ہے  جو کالا پانی میں  موجود تھی۔ یہ اسی کا تسلسل ہے  اسی کی توسیع ہے۔ غیر ذمے  دارانہ حکومت کا جو بیج کالا پانی میں  بویا گیا تھا وہی اب ایک درخت بن گیا ہے، اور بڑا ہونے  کے  بعد بے  شرم و بے  حیا بھی ہو گیا ہے  جس نے  رول آف پاور کے  فلسفے  کا لحاف بھی اوڑھ رکھا تھا۔ جس میں  رول اور سیاسی اقتدار کی حکومت، معاشی طاقت کی حکومت، کلچرل قوتوں  کی حکومت اور بھیڑ کی قوت کی حکومت سبھی دنیا کی حتمی و ختمی حقیقت ہونے  کا دعویٰ کر رہے  تھے۔

ایک تازہ پر شکوہ انداز بیان اس کی تحریروں  کے  ذریعے  دنیا کے  سامنے  وارد ہو رہا تھا اور وہ اس کی گونج اور لہروں  کو اپنے  تخیل میں  محسوس کر رہا تھا۔

وہ لکھ رہا تھا کہ…

’’ انسان کھلے  آسمان میں  صدیوں  سے  لٹک رہا ہے۔ ایسے  جیسے  تاریخ کے  پنجرے  میں  کوئی طوطا بند ہو۔

اس کے  غموں  کی سرحدیں  ابھی بھی حدّ نظر سے  کہیں  آگے  ہیں۔ اس کی صورت حال اور اس کی آزادی کا مسئلہ تمام سوچنے  والے  دماغوں او ر حساس دلوں  کے  لیے  ایک چیلینج بتا ہوا ہے۔ دنیا کے  بڑے  بڑے  جینیس اس منظر کے  سامنے  اپنا سر ٹیک چکے  ہیں  لیکن کچھ ہے  جو ابھی تک کھلا نہیں  ہے۔

یہ بصیرت اور زیادہ الفاظ میں  ابھر کر اس وقت تب آنے  لگی جب اس کی نظروں  کے  سامنے  انسانیت اپنی پوری بدحالی کے  ساتھ سسکتی دکھائی دی۔ بے  آواز درد اور بے  چینی، جسے  مسلسل دھوکے ، بے  رحمی اور مقدر نے  ، اختیارات نے  ایسا بنا دیا تھا کہ ان کے  پاس صرف ایک دبی ہوئی رگ رہ گئی اور یہ رگ تھی نجات کے  خ۔ وش نما خواب کی۔

اس نے  اسے  ایک نام دیا۔

’’ ایک عالمی خواب ‘‘

پھر اس نے  تفصیل لکھی۔

’’ انسانیت کا ایک عالمی خواب مسلسل دھوکے  کا شکار ہو رہا ہے۔ پورے  عالم میں  ہر جگہ گذشتہ کئی صدیوں  میں  لوگوں  سے  استحصال سے  آزادی کا با وقار وعدہ کیا گیا۔ لیکن ہر آنے  والے  نظام میں  ان کے  ساتھ دھوکہ ہوا چاہے  وہ بادشاہت رہی ہو جمہوریت رہی ہو یا آمریت۔ اور ایسا ہر زمانے  میں او ر ہر ملک میں  ہوا۔ استحصال کرنے  والوں او ر انسانوں  پر من مانی حکومت کرنے  والوں  کی حکومت کرنے  والوں  کی حکومت کی چھتری نما قید میں  پوری دنیا آج بھی اپنے  کو بے  بس محسوس کرتی ہے۔ کوئی ہے  جو اپنے  کو ان انسانوں  کا آقا سمجھتا ہے او ر اپنی آقائیت کو بزورِ طاقت عام انسانو ں پر قائم رکھتا ہے او ر وہی اس مافیا طرز فکر کا سرچشمہ ہے  جو مذہب سیاست معاشیات اور خاندان ہر جگہ موجود اور مسلط ہے۔ حکمرانی کی ہی خواہش ہر طرح کی انانیت کا بھی سر چشمہ ہے -‘‘

خالد کے  ذہن پر چھایا ہوا دباؤ بہت ہی سنگین تھا۔ جو اس کی اور اس کے  عہد کی لوگوں  کی زندگی میں  چاروں  طرف پھیلا ہوا تھا۔ یہ دباؤ رفتہ رفتہ اسے  ایک سائنسداں  کی طرح مسلسل آگے  سوچنے  جانے  پر مجبور کر رہا تھا اور یہیں  سے  زندگی کی سطح پر موجود پیچیدگیاں او ر دھند ٹوٹ ٹوٹ کر صاف ہو رہے  تھے۔

 

دنیا پہلے  سے  ہی بے  حد بے  چین تھی۔ اب اس بصیر ت کے بعد اسے  محسوس ہوا کہ وہ جس حقیقت کو دیکھ رہا تھا اسے  وہ لوگوں  کے  نظروں  پر پڑے  ہوئے  پردوں  کو ہٹا کر صاف صاف دکھائے  گا کہ ان حقیقتوں نے  بہت ہی پر اسرار انداز میں معاشرے  کو دھوکے  میں رکھا۔

گہری ذہنی مشقت نے  خالد سہیل کی سانسیں  بھی تیز اور گہری کر دی تھیں۔

اب اس کے  سامنے  تصویریں اور بھی صاف ہوکے  آ رہی تھیں۔ اس کا ذہن ایک جہت سے  اپنے  معاشرے  کے  مکمل وجود کے  ایک جہت سے  دوسرے  جہت کی طرف لگاتار سفر کر رہا تھا۔ اور اس میں  اپنی زندگی کے  سالہا سال کے  مشاہدات و تجربات اس کی مدد کر رہے  تھے۔ تکلیف وہ تجربات کی چھوٹی چھوٹی تفصیل چیختے  ہوئے  جانداروں  کی طرح ابھرنے  لگیں۔ اور اسے  یہ منظر بہت دل چسپ لگا کہ ان سب کے  پیچھے  ایک ذہنی ترتیب جو پوری سوسائٹی کو پسِ منظر عطا کر رہی تھی اور جس میں  طرح طرح کے  کردار اور ادارے  اور ان کے  حرکتیں  تھیں۔ ایک داد چہرے  کی طرح ابھرنے  لگا۔ اس وقت وہ ٹھیک ویسا ہی محسوس کر رہا تھا جیسا شیر علی نے  محسوس کیا تھا۔ داد کی طرح کوئی چیز پورے  سماج پر چھائی ہوئی تھی جس سے  لوگوں کا بگڑا ہوا خون مواد کی شکل میں  ان روحوں  سے  نکل کر بہہ رہا تھا۔ اسے  اطمینان ہوا کہ وہ چیز جو اب تک مرئی تھی اور ٹیس بن کر ابھرتی رہی تھی اس کی شناخت ہونے  لگی تھی۔

یہ منظر بہت ہی دہشت ناک تھا کہ لوگوں  کی زندگیاں  ایسے  فلسفوں  کے  دبیز کمبلوں  میں  لپٹی ہوئی تھیں  جو کمبل  Parasitesکی طرح تھے او ر جن کا علاج لا ممکن نظر آتا تھا۔ اس نے  ان تمام باتوں  کو قلم بند کرنا شروع کر دیا جو اس کے  ذہن میں  ابھر رہی تھیں۔ کالا پانی سے  یہاں  تک جو باتیں  اس پر واضح ہوئی تھیں  انھوں  نے  اس کے  اعصاب کو اتنا متاثر کیا تھا کہ چلمنوں  کا وجود خالد کے  لیے  صدمے  میں  ڈالنے  والا سراب بن گیا تھا۔

تین چار دنوں  تک وہ اپنے  کمرے  میں  ہی رہا۔ باہر کہیں  نہیں  گیا۔ کوئی اخبار نہیں  پڑھا۔ کسی سے  نہیں  ملا۔

اس کی حالت لگاتار بدلتی گئی۔ پہلے  وہ کسی کسی وقت کھانا نہیں  کھاتا تھا لیکن بعد میں  اکثر ایک ایک دن،دو دو  دن تک اس کا کھانا چھوٹ جاتا تھا۔ جب کوئی اس کے  پاس جا کر ادھر ادھر کی باتیں  کرتا یا سمجھانے  کی کوشش کرتا تو وہ غصہ میں  آنے  لگتا۔ دنوں  دن وہ دبلا ہونے  لگا۔ کپڑے  نہیں  بدلتا تھا۔ نہانا بھی بند ہو گیا تھا۔ اس کے  کپڑے  میلے او ر بدبو دار ہونے  لگے  تھے۔ اس کے  گال پچک گئے  تھے۔ اس کی آنکھیں  اندر دھنسنے  لگی تھیں۔ وہ کہتا تھا کہ وہ کچھ لکھ رہا تھا اور ان سب باتوں  کی فکر کرنے  سے  یا کپڑے  وغیرہ تبدیل کرنے  سے  اس کے  ذہن کی یکسوئی ٹوٹ جاتی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ لوگ اسے  سمجھ نہیں  سکتے او ر صرف باتیں  کرنے  سے  کوئی نتیجہ برآمد نہیں  ہو سکتا کیونکہ وہ جو کچھ کہنا چاہتا ہے  اسے  سمجھانے  کے  لئے  مکمل تصویر کی ضرورت ہے۔ اور وہ ابھی اس تصویر کی جستجو میں ہے۔

اس کے  بعد صرف ایک چھوٹی سی بچی کو وہاں  چائے  یا کھانا وغیرہ لے  کر جانے  کی اجازت تھی۔ لیکن جب وہ کھانا لے  کر جاتی تھی تو اسے  بھی بھوک نہ ہونے  کی وجہ سے  وہ کنارے  رکھ دیتا تھا۔ یا اندر الماری میں  ڈال دیتا تھا کہ کسی کی نظر نہ پڑے او ر کوئی تنگ نہ کرے۔

شروع میں  جب وہ انڈمان نکوبار جا رہا تھا تو کلکتے  تک بڑے  شوق سے  بھرپور ناشتہ لیتا رہا۔ یہ اس ہوٹل والے  نے  بتایا تھا جہاں  وہ ٹھہرا تھا۔ اور بہت ہی تر و تازہ دکھتا تھا لیکن پورٹ بلیر پہنچنے  کے  بعد اس کی خوراک میں  کمی واقع ہونا شروع ہو گئے۔

 

اس کے  ذہن کی کھڑکیاں  ان دھماکوں کے  ساتھ یکے  بعد دیگرے  کھلتی گئیں۔ وہ ان دھماکوں  کے  بعد نازل ہونے  والے  خیالات کو مناسب عنوان دیتا ہوا لگاتار لکھتا چلا گیا۔

تین چار دنوں  تک وہ اپنے  کمرے  میں  ہی رہا۔ باہر کہیں  نہیں  گیا۔ کوئی اخبار نہیں  پڑھا۔ کسی سے  نہیں  ملا۔ اس کے  ذہن کی کھڑکیاں  ان دھماکوں  کے  ساتھ یکے  بعد دیگرے  کھلتی گئیں۔ وہ ان دھماکوں  کے  بعد نازل ہونے  والے  خیالات کو مناسب عنوان دیتا ہوا لگاتار لکھتا چلا گیا۔

اب وہ زمین کی موجودہ دنیا کے  قریب تر آتا جا رہا تھا۔ نظامِ دنیا اسے  زیادہ صاف صاف دکھائی دینے  لگا تھا۔ کچھ ایسا جیسا اس نو سوچا ہی نہیں  تھا۔

اس نے  محسوس کیا، مجھے  یقیناً نہیں  معلوم کہ ہم کس طرح کے  سماج میں  رہتے  ہیں۔ میں  نے  دنیا کو جس طرح دیکھا ہے  اس میں  یقیناً کچھ نہ کچھ کھوٹ ہے۔ مشرق وسطیٰ میں  جنگ ختم ہوئی اور صدام حسین پر مقدمہ چلا۔

اس غریب نے  تو بش کے  ایک کتے  کو بھی قتل نہیں  کیا۔ پھر بھی اس پر ایٹمی اور کیمیائی بم بنانے  کے  اندیشے  کے  نام پر حملہ ہوا۔ وہ قید میں  ہے۔

کیا یہ واقعی تعجب کی بات نہیں  کہ CIAکو یہ معلوم نہیں  تھا کہ بغداد میں  کوئی بم نہیں  بن رہا تھا۔ صرف شک نے  عراق کے  حملے  کو ضروری بنا دیا۔ اور اس کے  بعد وہی ہوا جو ہونا تھا۔ اسے  پھانسی ہونی تھی۔ ہوئی۔

میر علی کی کہانی یا میر علی کی اولاد کے  نام پر اٹھائی جانے  والی کہانی ایک دائمی پلاٹ کے  طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ پلاٹ ہر جگہ ہوتا ہے۔

چاہے  اجودھیا ہویا گودھرا۔

کچھ ایسے  ذہن ہوتے  ہیں  جن میں  یہ پلاٹ پورے  شد و مد کے  ساتھ ابھرتے  ہیں او ر الگ الگ ذہنوں  میں  الگ الگ طرح کے  پلاٹ ابھرتے  ہیں  جیسے  آم کی بہت سی قسمیں  ہوتی ہیں۔ کھٹے  سے  لے  کر میٹھے  تک۔ چھوٹے  سے  بڑے  تک۔ ہرے  سے  پیلے  تک۔ لیکن یہ زرخیزی بھی کچھ خاص موسموں  میں  بڑھ جاتی ہے او ر کچھ ایسا ہی موسم زمین پر آیا ہوا ہے۔ سرکاری طاقتوں  کو ایسے  پلاٹوں کو بڑھاوا دینا اسی پلاٹ کا اظہار ہے۔ آبادی کے  ایک بہت بڑے  طبقے  کو مکمل طور پر مجبور اور بے  بس تماشائی بنا دینا۔ شہریوں  کو وفادار بھیڑ بکری بنا دینا۔ لڑاؤ اور حکومت کرو خریدو اور حکومت کرو کو عام چلن بنا دینا۔ لوگوں کی ہمت شکنی ،  احتجاج کرنے  والوں  کی مسلسل دھلائی، اور ان کا منہ بند کرنا ، ایماندار ملازموں  کو مظلومیت کا نمونہ بنا دینا۔ یہ سب اسی ڈرامے  کے  ابواب ہیں۔

اس تخلیقی توانائی کو پیدا کرنے  کے  لیے  جو عوام کو اس لائق بنا دے  کہ وہ ڈاکٹر والکر پر چاروں  طرف سے  بھرپور وار کر سکیں او ر تاریخ کے  سب چیلنجنگ معاشرتی قوت اور ارتقاء پر قابو پا سکیں۔ ایک جہد مسلسل کی ضرورت ہو گی۔

ڈاکٹر والکر جو ایک چھوٹے  سے  جیلر سے  پیپل کے  پیڑکی طرح بڑا ہو کر پورے  سماج کو ایک جیل میں  تبدیل کر چکا ہے۔ کوئی جگہ ہے  جہاں  سے  اس چھوٹے  پودے  کو ایک بے  جا اور بے  شرم قد و قامت والے  درخت بننے  کے  عمل میں  خوراک مہیا کرتی ہے۔ کھاد کی طرح کوئی چیز ہے  جو چاروں  طرف موجود ہے او ر لوگوں  کے  ذہنوں  میں  گھستی جا رہی ہے او ر لوگ اسے  کوکا اور کوکٹل کی طرح پیتے  جا رہے  ہیں  یعنی کوئی ایسا مشروب ہے  جسے  پینے  کے  بعد عام آدمی بھی کسی تناؤ سے  نجات حاصل کرتا ہوا محسوس کرنے  لگتا ہے او ر وہ ڈاکٹر والکر نام کے  مے  خانے  کا اسیر ہو جاتا ہے۔ وہ ایک ایسے  کلچر کا اسیر ہو جاتا ہے۔ جس میں  انسانوں  کا خون سگریٹ اور الکوہل سے  زیادہ طرف انگیز ہے۔ یہ مشروب پی کر لوگ چاروں  طرف ایک دو پیگ اور کی تلاش میں  رہتے  ہیں  تاکہ ان کے  چہرے  کی حیا مکمل طور پر ختم ہو جائے۔

ڈیڑھ سو سال پرانی یہ مشروب کئی گنا زیادہ لذیذ اور تاثیر کن ہو گیا ہے۔ اس لیے  کسی بھی ایسے  تاجر، سیاست داں، مجرم یا دانشور سے  جو طاقت شہرت اور دولت کے  گلیاروں  میں  پہنچ چکا ہے  یہ امید کرنا کہ وہ اپنے  نشے  سے  باہر آئے  گا یہ فضول خیال ہے۔ لوگ ایماندار نہیں  ہیں  پہلے  وہ منافق تھے  تو اب بے  حیا اور بے  شرم ہیں۔ جب تک وہ چیز چھپتی ہے  تب تک وہ منافق رہتے  ہیں  لیکن جیسے  ہی ان کا پردہ اٹھتا ہے  وہ پوری بے  حیائی، جرأت اور طاقت کے  ساتھ خنجروں  سے  بات کرتے  ہیں۔

اس ڈاکٹر والکر کو للکارنے  کے  لیے  شیر علی جیسے  لوگوں  کے  ایک پورے  قبیلے  کی ضرورت ہو گی۔ جو صرف لارڈ میو پر نہیں  ‘ ڈاکٹر والکر پر حملہ کرے۔

لیکن اس میں  شیر علی کی بینائی اور تحمل بھی چاہئے۔

کچھ نئے  سوالات ابھرنے  لگے۔

ہندوستان فکشن اور ادب نے  کہاں  تک سماج کے  اس نئے  کردار کی گہرائیوں  کو دریافت کیا؟

کیوں  انتہائی مہذب لوگ بھی بے  ایمانی اور تشدد کو فطری قرار دینے  کے  لیے  مضحکہ خیز حد تک دوسرے  ملکوں  کے  ایسے  واقعات کی مثالیں  دینے  لگتے  ہیں  ؟کیا یہ بالکل ویسے  ہی نہیں  ہے  جیسے  ایک ڈاکو اپنی دفع میں  دوسرے  ڈاکوؤں  کی مثال دے  ؟

ٹیبل پر رکھا ہوا کاغذ ختم ہو گیا تھا تو اس نے  کچھ اور ایسے  ردی کاغذ نکالے  جن پر ایک طرف کچھ بیکار چیزیں  لکھی ہوئی تھیں۔

طاقتور لوگ انسان کشی کے  صحرا میں  پہنچ چکے  ہیں۔

نوکروں  کے  تئیں  بے  رحمی،

بیویوں  کے  ساتھ بے  اعتنائی اور تشدد،

فرقہ پرستی،

گینگ وار،

کرپشن اور عصمت دری،

نوٹس کے  پیچھے  کا چہرہ اسے  دکھائی دینے  لگا۔

تو یہ ساری سوچ اس شخص کے  بارے  میں  ہے  جو پردوں  کے  پیچھے  بیٹھا عدالتی فیصلے  لکھتا ہے او ر اس کا اطلاق کرتا ہے۔ لیکن وہ انصاف دینے  کی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں  کرتا۔ انصاف لینے  کی ذمہ داری وہ ان لوگوں  پر عائد کرتا ہے  جن کے  خلاف مقدمے  درج ہوتے  ہیں او ر یہ فیصلہ کرنے  والا کردار یقیناً انصاف پسند اور عادل حکومتوں  کی طرح نہیں  ہے  جن پر خفیہ انداز میں  ظالمانہ فیصلے  صادر کرنے  کا الزام عائد نہیں  ہوتا تھا۔ کیونکہ ان حکومتوں  کو اس دھوکہ دھڑی اور چشم پوشی کی ضرورت نہیں  تھی۔ تاریخ نویس ان کرداروں  کے  ان پہلوؤں  پر خاموش رہے  ہیں  کیوں ؟

اس لیے  کہ حکومتیں  ان تاریخ نویسوں  کی سرپرستی کرتی تھیں او ر یہ بھی چاہتی تھیں  کہ یہ منصف معاملات کی سنگینی پر پڑے  ہوئے  پردوں  کو چھیڑے  نہیں۔

ممکن ہے  یہی رویہ بہت سی میں  ماضی میں  بھی رہا ہو۔ تعجب کی بات ہے  کہ تاریخ کے  کسی بھی دور میں  تاریخ نویسوں  نے  عدالتوں  میں  معصوموں  کے  ساتھ کھیلے  جانے  والے  گھناؤنے  کھیلوں  کو کبھی بے  نقاب نہیں  کیا۔ میر علی کے  طبقے  کے  لوگوں  کو اپنی تاریخ خود ہی لکھنی چاہیے او ر حکومتوں  کے  مکّارانہ کردار کو واضح کر کے  دیکھنا چاہیے۔ یہ کام اس طبقے  کی سلامتی کے  لیے  کتنا ضروری ہے  اس کو بیان کرنا مشکل ہے۔

تاریخ اپنی خاموشی کے  اندر کس قدر بے  ایمان ہے ؟

صرف تاریخ ہی نہیں  سیاسیات، مذہبی علوم کا خزانہ، ادب بھی اس پہلو پر خاموش رہے  ہیں۔

کسی نے  بھی حکومتوں  کے  کردار کو اپنا نشانہ نہیں  بنایا اور حکومتیں  ہمیشہ سے  بچتی چلی آئی ہیں۔

یہ انسانی علوم کا تاریک ترین پہلو ہے او ر اس پہلو کو بہت ہی مستعدی کے  ساتھ صیغۂ راز میں  رکھا گیا ہے  یا اسے  نظرانداز کیا گیا ہے۔

اگر میر علی کو معاشرے  کے  اس تاریک پہلو کی موجودگی کا علم اور اندازہ ہوتا تو وہ کتے  والے  مقدمے  کی سزا سے  بچ سکتے  تھے۔

لیکن ان کے  ذہن میں  تو وہی انصاف پسند حکومتوں او ر عدلیہ تھے  جن کی تصویر ہمارے  عظیم ادب میں  پیش کیا گیا تھا اور اسی لیے  وہ اپنے  قاتلوں  میں  بھی انصاف پسند عدلیہ اور حکومت دیکھتے  تھے۔

مجھے  اپنے  والد سے  کہنا چاہیے  کہ وہ محتاط رہیں او ر وہ کم از کم اپنی زندگی کے  اس مقام پر اپنے  ذہن کی کھڑکیاں  کھول لیں  کیونکہ حکومتوں  کی سوچ کا موازنہ مافیا طرز عمل سے  کیا جا سکتا ہے  بلکہ ان کی سوچ کو مافیا طرز فکر بھی کہا بھی جا سکتا ہے۔ ‘

خالد نے  محسوس کیا کہ اسے  اس انداز فکر کی شناخت پر قدرت حاصل ہو رہی ہے  جو لوگوں  کی زندگیوں  میں  داخل ہو کر ہر طرح سے  پریشان کر رہا ہے۔

ہاں  یہ مافیا ہی ہے۔

اسے  محسوس ہوا جیسے  اس نے  کوئی نئی بات دریافت کر لی۔

یہ مافیا ہے۔ اس نے  اپنے  آپ سے  کہا۔

رفتہ رفتہ وہ ان باتوں  کو الفاظ دینے  میں  کامیاب ہونے  لگا تھا جو ابھی تک بے  نام تھیں۔ یعنی وہ باتیں  جو لوگوں  کے  دماغوں  کو متاثر کر رہی تھیں او ر ان کی روحوں  میں  وحشت پیدا کر رہی تھیں، یہ انسانوں  کا یہ کردار بے  رحمی نہیں  تھی، بے  دردی نہیں  تھی۔ یہ اس سے  بہت آگے  کی کوئی چیز تھی۔ یہ کاروبار تھی۔ خنجر سے  چمڑہ اتار کر کمائی کرنے  والا اور دولت بٹورنے  کی لذت اٹھانے  والا کاروبار۔

اب اس عظیم الجثہ، دیو قامت، غیر انسانی، آسیب کے  باریک پر کھلنے  لگے  تھے۔ اب معاشرے  کی اس شکل کو اپنے  اندر ایک نظام تحفظ لیے  اس کے  ذہن میں  موجود تھی۔ پرخچے  اڑ چکے  تھے۔ اور وہ ٹوٹے  ہوئے  شیشے  کے  برتن کی طرح چاروں  طرف اپنے  کانٹے  دار دھاروں  کے  ساتھ بکھر چکا تھا۔ اب اگر ویسا معاشرہ چاہیے  تو اس کے  لیے  ان ٹکڑوں  کو از سرنو پگھلانے او ر اسے  ایک نئے  سانچے  میں  ڈھالنے  کی ضرورت آن پڑی تھی۔ اس ڈھانچے  کے  ابتدائی خطوط کسی پینٹنگ کے  ابتدائی خطوط کی طرح اس کے  ذہن کے  کینوس پر ابھرنے  بھی لگے  تھے۔

مافیا کی دہشت وہاں  بھی رواں  دواں  ہے  جہاں  کسی اسلحے  کا استعمال نہیں  ہوتا لیکن جہاں  یہ ایک روحانی اور ذہنی مشین بن کر انسانوں  کا خوں  ریز استحصال کرتی ہے او ر مخالفتوں  کا مختلف حربوں  کے  ذریعے  خاتمہ کرتی ہے۔ یہاں  ان کا طریقۂ کار مختلف ہے۔ یہاں جو ہتھیار استعمال ہوتے  ہیں  وہ بہت پختہ اور اعلیٰ درجے  کے  اسٹیل سے  بنے  ہوئے او ر ان کی ایک لمبی فہرست ہے۔

منافقت، مکاری و عیاری،بے  حسی، فریب، جھوٹ کی تشہیر، پر فریب چہروں  کی تشکیل، مخالف چہروں  کی تحلیل، اچھے  مقاصد کے  نام پر بنائے  گئے  قوانین، کمزوروں، مجبوروں،ماتحتوں، عقیدت مندوں او ر شاگردوں  کا استحصال، پردے، پہرے  دار، راز داری،سنسر اور لذت آقائیت سے  بھرے  قوت و حکمرانی کے  پیالۂ جاں  فزا۔

یہاں  ڈاکٹر والکر کی کار روائی نہیں  تھی، نہ ہی لارڈ میو تن وہی سے  اپنا کام کر رہا تھا۔ یہاں  روئے  زمین کی بہترین جمہوریت کا دعویٰ کرنے  والوں  کی ہم سری کرنے  والی جمہوریت تھی اور کہیں  اس سے  بھی زیادہ ترقی یافتہ شکل میں۔ یہ ہے  وہ جمہوریت جس میں  شکار کرنے  کی تمنا اپنے  پورے  جوش و خروش کے  ساتھ ہر دل و دماغ میں  رواں  دواں  ہے۔ دنیا کے  کسی بھی خلاف تشدد کے  استعمال فطری سمجھا جاتا ہے او ر اس فلسفے  کے  راستے  میں  آنے  والے  کسی بھی مزاحمتی عمل کے  خلاف یہ پورے  غیظ غضب کے  ساتھ تلوار بن کر نازل ہوتی ہے۔ صرف میرے  اپنے  معاشرے  میں  ہی یہ بات نہیں  ہے  کہ بلکہ پوری نسل انسانی ایک غلط وادی میں  اس نئے  طرز زندگی کی راہ پر گامزن ہو گئی ہے۔ انسانوں  کی ایک آبادی پر ایک ایٹم بم گرانے  کو کافی نہیں  جانا گیا اور اپنی برتری کے  پیغام کو اور اپنی روح فرسا طاقت کی موجودگی کے  ثبوت کو پوری گہرائی سے  پوری انسانیت کی روح میں  کھلنے  کے  لیے  دوسرے  ایٹم بم کا استعمال کیا گیا۔ اور ایک ایسی کہانی لکھی گئی جس کے  پلاٹ میں  انسان ایسے  پھنسا ہوا ہے  جیسے  شیر کی نظروں  میں  آنے  کے  بعد ہرن۔

اس کے  سینے  میں  ایک درد سا محسوس ہوا۔ وہ پچھلے  زمانوں  پر غور کرنے  لگا۔ پچھلی صدیوں  میں  صرف سائنس اور ٹیکنالوجی کے  میدانوں  میں  ترقی نہیں  ہوئی تھی ایک نئی سیاسی سوچ بھی اس کے  پیچھے  پیچھے  جنم لیا تھا اور اس کے  ساتھ پورے  روئے  زمین پر پھیل گئی تھی۔ اس سیاسی سوچ نے  اپنی درندگی کو چھپانے  کے  لیے  سائنس اور ٹیکنالوجی کو نقاب اور ڈھال کے  طور پر استعمال کیا اور اپنے  خونی پنجوں  کے  کارناموں  کو انہی کے  متھّے  منڈھ دیا۔ یہ نئی سیاست جو تجارت کے  ساتھ قدم ملا کر فوجی مارچ کر رہی تھی اس قدر جارحانہ تھی کہ تمام انسانی قدروں  کو تہہ و بالا کرنے  پر یہ آمادہ تھی۔ دنیا کے  کئی ملکوں  میں  جمہوریت جمہوری کردار پر نہیں  تلواروں  کی مصالحت کے  اوپر قائم ہوئی۔ ایسے  ملکوں  کی جمہوریت کو فرانسیسی انقلاب کی روشنی میں  دیکھنا یا فرانسیسی انقلاب کو آفتاب انسانیت سمجھنا عقل کی آنکھوں  پر پردہ ڈالنے  جیسا ہے۔ یہاں  جمہوریت پیدا ہوئی لیکن وہ انسانی قدروں  سے  خالی کسی دھات سے  بنی ہوئی چمکتے  دمکتے  بت کی طرح تھی تبھی تو آج بھی لوگوں  کو ان ممالک کے  چہرے  میں  جمہوریت سے  زیادہ استبداد دکھائی دیتا ہے۔ اسے  اچانک خیال آیا کہ اتنی دور دراز کی باتیں  کیوں  سوچنے  لگا۔

جب مغربی کمپنیاں  ہندوستان کی گلی گلی میں  گھوم رہی ہیں او ر چینی سامان گھر گھر میں آندھی میں  اڑتے  ذروں  کی طرح داخل ہو رہے  ہیں  تو اس آندھی سے  بے  خبر کیسے  رہا جا سکتا ہے۔

ان تمام چیزوں  پر حکومت کر کون رہا ہے ؟

اگر یہ جمہوریت نہیں  تب پھر کون ہے ؟

کوئی بادشاہ؟

نہیں، کوئی آمر؟

نہیں  یہ کوئی اور ہے۔

خالد کو اپنے  ذہن پر زور ڈالنا پڑا اور تب اس نے  محسوس کیا کہ یہ ڈاکٹر والکر ہے۔

ڈاکٹر والکر کمزوروں، مجبوروں، بے  کاروں او ر نادانوں  کے  استحصال اور موت میں  یقین رکھتا ہے  تو کیا ڈاکٹر والکر کو ایک نوکر شاہی مافیا کا حصہ کہا جا سکتا ہے ؟

ڈاکٹر والکر کے  حوض والی شراب اور بھی شکلوں  میں  بہہ رہی تھی۔

اس کے  پینے  والوں  میں  فرقہ پرست تھے  جو دوسرے  فرقوں  کو دبانا اور کچلنا چاہتے  تھے۔

نسل پرست تھے  جنہیں  زمین پر دوسری نسل کی عزت و آبرو قبول نہیں  تھی

اور ان سب سے  بلند و بالا مقام پر بیٹھے  ہوئے  وہ خفیہ مہذب اور دانش مند شرابی تھے  جنہیں  فلسفی مافیا کہا جا سکتا تھا۔ ان کا ایک خیال تھا کہ فلسفوں  کا مقام انسانی قدروں او ر خواہشوں  سے  بلند تر ہے او ر ان دونوں  میں  حاکم و محکوم کا رشتہ ہے۔

مافیا طرز فکر نے  تو بارش کی طرح ہر ایک کو ڈبو دیا ہے۔

ایسے  لوگ بڑی تاریخی سواریوں  پر بیٹھے  دندناتے  پھرتے  ہیں  جن کے  پیچھے  جھومتی جھامتی بھیڑ پاگل فوجوں  کی طرح اپنے  راستے  میں آئی ہر چیز کو مسمار کرتی چلی جاتی ہے۔

دوسری طرف ایسے  بیکار اور غریب انسانوں  کی بھیڑ بھی ہے  جو خود تبدیل ہونے  پر آمادہ نہیں او ر دوسرے  پنپتے  ہوئے  لوگوں  کا بھی سر قلم کرنے  کو تیار رہتی ہے۔

لیکن ان سب میں  کسی انوکھے  جانور کی طرح وہ کردار ہیں  جو عزت و غیرت کے  نام پر اپنی مرضی سے  شادی کرنے  والی لڑکیوں  کو قتل کر دیتے  ہیں۔ جیسے  وہ ان کی زندگی اور موت کے  مالک ہیں۔

اس گھنگھور اندھیرے  سے  نکلنے  کا اسے  ایک ہی طریقہ دکھائی دے  رہا تھا، اپنی ذہنی طاقت کو مکمل طور پر ایک ہتھیار بن کر لڑنا کہ یہی وہ طاقت تھی جو ایک آزاد ہتھیار کی طرح چل سکتی تھی اور یہی وہ ہتھیار تھا جسے  مافیا کا آسیب پوری انسانیت پر حکومت کرنے  کے  لیے  استعمال کر رہا تھا۔

انسانی زندگی اور مافیا کے  درمیان کی لڑائی درحقیقت دانشوری کی سب سے  بڑی اور آخری شکل تھی۔

مافیا اپنی طرف سے  اپنے  اعمال کو ایک روشن وجود کے  طور پر منوانے  کے  لیے  تصورات،اندھی عقیدت اور تخیلی دنیا کی مخلوقات کا استعمال کر رہا تھا۔

وہ اپنی سوچ کو دیوی دیوتاؤں کے  قصوں کے  کیپسل میں  ڈال کر بیچتا تھا۔

الہام، اوتار، تاریخ، قوم، سیاست، معاشیات اور معاشرت یہ سب اس کے  ہاتھ کا کھلونا بن گئے  تھے۔

ان کھلونوں  سے  ہتھیار کا کام لیتے  ہوئے  صرف عوام کو ہی نہیں  حاکموں او ر حکومتوں  کو بھی اپنے  ان دانشورانہ شکنجوں  میں دبوچ رکھا تھا۔

یہ مہم بہت مشکل تھا۔ لیکن اس نے  اپنے  پیروں  میں  ایک حرکت، ایک جھرجھری محسوس کی کہ وہ اٹھ کھڑا ہو اور اس کا مقابلہ کرے او ر اس پورے  لشکر سے  ہا تھا پائی کرے۔

ایک لمحے  کے  اندر وہ سارے  چہرے  جو بہت بڑے  بڑے  تھے ،  اس کی نظر میں  بونے  ہو گئے۔ ملکوں  کے  صدر، وزرائے  اعظم، پارلیمنٹ، عدالتیں، یونیورسٹی، بڑی بڑی کمپنیاں  ایسے  کردار بن گئے  جن کی چھان بین کرنا اور جن پر فیصلے  صادر کرنا ضروری ہو گیا۔

سوسائٹی، ملک، مذہب ان سب کی سچائی فوائد، اعتبار اور نئے  سرے  سے  ان کی قدر و قیمت کو آنکنا خالد کے  لیے  زندگی کا ضروری کام بن گیا۔

وہ ایک انسان تھا۔ آج، آج ہی، اس نے، پہلی بار یہ محسوس کیا کہ ایک تنہا انسان بھی کتنا اہم ہے۔ اس نے  آج یہ محسوس کیا کہ انسان اپنے  آپ میں  بغیر کسی کی مدد کے  کتنا عظیم ہے۔ شاید انسان کے  اپنے  بارے  میں  اس جانکاری کی کمی ہی تمام دنیا کے  انسانوں  کے  دکھوں  کو سب سے  بنیادی وجہ تھی۔ ایک انسان کی حیثیت سے، اسے  آج یہ معلوم ہوا کہ ہر چیز دنیا کی ہر شے  کے  بارے  میں  اپنی رائے  قائم کرنا ہر انسان کا فرض تھا بلکہ ہر انسان کا اس پر قادر ہونا ضروری بھی تھا۔ انسان کے  لیے  ہر چیز کے  بارے  میں  اپنی رائے  رکھنا چاہے  وہ بڑی سے  بڑی ہو یا چھوٹی سے  چھوٹی چاہے  کوئی عام سی چیز ہو یا دنیا کی مقدس ترین چیز، جگہ، شخصیت یا کتاب۔

یہاں  آتے  آتے  خالد کے  لیے  دنیا کا چہرہ اور اس کی ہر چیز کے  ساتھ اس کا رشتہ مختلف ہو چکا تھا۔

 

جب وہ اپنے  کمرے  میں  داخل ہوا تھا اس لمحے  سے  اب تک کے  درمیان وہ کتنا لمبا سفر طے  کر چکا تھا اس کا خیال اس کے  اندر زلزلہ پیدا کر رہا تھا۔

اس سے  قبل ہمیشہ اس نے  یہی جانا تھا کہ مافیا ایک بہت لمبے  چوڑے او ر بے  پناہ طاقتوں سے  لیس گروہ کو کہاجا سکتا ہے  لیکن وہ یہ نہیں  جانتا تھا کہ ایک انسان کے  اندر سمندروں  کے  پانیوں  سے  بھی زیادہ ایسی طاقت موجود ہے  جو پوری دنیا پر چھائے  ہوئے   مافیا کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے  جانے  کی قوت اور جرأت رکھتی ہے۔

چیختے  چنگھاڑتے  خیالات اب اس کے  ذہن میں  رواں دواں  تھے۔

مجھے  لوگوں  کو اپنی سوچ میں  شریک کرنا چاہیے۔ خیالات کی جنگ کا یہی طریقۂ کار ہے۔ جب تک کسی تنہا انسان کے  خیال میں  دوسرے  لوگ شامل نہیں  ہوتے  یہ خیالات عملی طاقت سے  خالی رہتے  ہیں۔

خیالات کو عام کرنا کسی ایجاد کو دنیا کے  سامنے  لانے  جیسا ہے۔

ملک آزاد ہوتے  ہیں او ر ہوئے  ہیں  لیکن پرانے  قانون دبے  پاؤں  اپنی تمام کرنہوں  کے  ساتھ آگے  بڑھتے  ہیں۔

کوئی بھی جمہوریت حاکم اور محکوم کے  رشتے  کو ختم نہیں  کرتی۔ کتنی عجیب بات ہے  کہ ہم جن لوگوں  کے  ہاتھ میں  اپنی پوری زندگی کے  فیصلے  لینے  کا مختار نامہ ووٹ کی شکل میں  دے  دیتے  ہیں  وہی ہمیں  چلمن سے  آگے  بڑھنے  کی اجازت نہیں  دیتے۔

کیا یہ تاریخ کا آٹھواں او ر سب سے  بڑا عجوبہ نہیں  ہے۔

تم اپنے  حاکموں  کو بدل تو سکتے  ہو لیکن حاکم و محکوم کے  رشتوں  سے  نجات نہیں  پا سکتے او ر تم میں  سے  جو بھی حاکم بنے  گا وہ سب سے  پہلے  مافیا کے  ابدی چشمے  سے  سرخ مشروب پی کر بکری سے  شیر بنے  گا اور پھر تمہارا ہی خون پئے  گا۔

ہمارا غلامانہ ذہن آزادی سے  گھبراتا ہے، بیابانوں او ر کھلے  آسمانوں  کی وسعت ہمیں  ڈراتی ہے۔

اسے  جلیاں  والا باغ کی یاد آئی۔

کس بات نے  جنرل ڈائر کر نہتے  عوام پر گولی چلانے  پر آمادہ کیا۔

اس خود مختاری نے  جو اس عہد کے  حکومت کے  پاس تھی۔ اگر جنرل ڈائر کے  ذہن میں  یہ بات صاف ہوتی کہ اگر وہ نہتے  عوام پر اپنے  اسلحوں  کا استعمال اس طرح کرے  گا جیسے  وہ انسانوں  پر گولی نہیں  برسا رہا ہو بلکہ پتھر توڑ رہا ہو، تو اس کے  ساتھ وہی ہو گا جو بے  رحم مجرم کے  ساتھ ہوتا ہے  تو پھر جنرل ڈائر کو محسوس ہوتا کہ اسے  عوام کے  ساتھ کیسا سلوک کرنا چاہیے۔ لیکن جنرل ڈائر بیسویں  صدی کا ڈاکٹر والکر تھا۔ جو کچھ ڈاکٹر والکر نے  کالا پانی کے  گوشۂ عافیت میں  کیا تھا وہ اب پھیل کر بے  حیائی کے  ساتھ ایک بڑھتے  ہوئے  مرض کی طرح پورے  ملک میں  رواں  دواں  تھی اور اس کے  پیچھے  حاکم و محکوم کا ایک ازلی رشتہ تھا۔

 

سوچتے  سوچتے  کمرے  میں  بیٹھے  ہوئے  اس کے  سامنے  جیسے  مختلف قسم کے  کردار اس کے  روبرو ابھرنے  لگے۔ جیسے  کسی سنیما حال میں  خیال کردار سچے  دکھنے  لگتے  ہیں۔

یہ سب اس کے  مخالف تھے۔

اس کے  خلاف نہ صرف کچھ حکمرانوں  کے  چہرے  ابھرنے  لگے  بلکہ کچھ چہرے  کارپوریٹ کی وادیوں  میں او ر کچھ ان کے  پیچھے  دھوتی اور تلک میں  ابھرے او ر بہت سارے  تجارتی گھرانے  ،نجی بینک اور منڈی ایک آواز ہو کر بے  چین لوگوں  کی طرح چلانے  لگے۔

’یہ بات نہیں  ہے، اگر سماج میں  امن نہیں  ہو، اگر لوگوں  کو درست رکھنے  والے  ڈنڈے  نہ ہوں، اگر کنٹرول نہ ہو تو لوگ ہمارے  ساتھ براہ راست مسئلے  کھڑے  کریں گے۔ مسئلوں  کا حل عدالتوں  میں  ہونا چاہیے او ر اگر لوگ مطمئن نہ ہوں  تو ان مسئلوں  کو قانون میں  تبدیلی لا کر حل کرنا چاہیے۔ ‘

وہ آپس میں  باتیں  کرنے  لگے۔

’ اس سے  ہمیں  اپنے  معاملات میں  جو گاڑ کرنے  کے  لیے  وقت اور موقعہ ملتا ہے، ہم وکیلوں  کے  دستوں  پر پیسے  خرچ کر سکتے  ہیں  ان سیاست دانوں  کے  ذریعہ جن کو ہم چندے  دیتے  ہیں  ہم اپنے  پسند کے  قوانین بنوا سکتے  ہیں۔ جو لوگ براہ راست ہمارے  خلاف اٹھیں  انہیں  پولس کے  ذریعہ دبانا ضروری ہے۔ امن قائم رہنا چاہیے۔ ‘

خالد کو کالا پانی کے  زمانے  کے  برطانوی پارلیمنٹ کے  ممبران کے  چہرے  یاد آئے  ایک تلخی کے  ساتھ وہ مسکرایا۔

یہ چہرے  شور مچاکر غائب نہیں  ہوئے  بلکہ انہیں  خالد کے  خطرناک خیالات میں  گہری دلچسپی پیدا ہو گئی تھی اور وہ تجسس اور اندیشے  بھری نگاہوں  سے  اسے  دیکھتے  رہے۔ ان کی نظریں  اس کے  اس قلم پر ٹکی رہیں  جس سے  یہ سب کچھ لکھا جا رہا تھا۔

وہ لکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔

’’محکوم بننا ضروری نہیں  ہے  محکوم بن کر محفوظ رہنے  کا خیال کاہلی اور الجھاوے  کی مٹی پر نشو و نما پاتا ہے۔ ‘‘

ان چہروں  کے  پیچھے  بھی لاکھوں  انسان دکھائی دے  رہے  تھے۔ یہ وہ لوگ تھے  جن کی زندگیوں  کے  درد کو محسوس کر کے  وہ شاعری کرتا آیا تھا اور جن کے  لیے  وہ اکثر تنہائی میں  رویا اور چیخا تھا۔ یہ لوگ بھی اس کے  خیالات سے  بے  چینی محسوس کر رہے  تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے  ان کی زندگی کی کوئی بہت بڑی چیز داؤ پر لگی ہو۔ وہ لوگ بھی خالد کے  ان خیالات پر دور سے  ہی اعتراض کر رہے  تھے  جن خیالات کا مقصد ان کے  اندر خود اعتمادی اور خود مختاری پیدا کرنا تھا۔

پیچھے  کھڑی بھیڑ میں  سے  ایک آواز آ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔  ’کیا ہر شخص ملک کی حکومت چلا سکتا ہے، کیا تم سوچتے  ہو کہ حکومت کو چلانا کوئی آسان کام ہے۔ نہیں  خالد، تم مخلص ہو سکتے  ہو، ممکن ہے  تم ہمارے  لیے  سوچتے  ہو لیکن ایسے  خیالات؟ حکومت کرنا ایک بہت مشکل فن ہے۔ ‘

ان میں  سے  ایک جو اپنے  کو دوسروں  سے  زیادہ ذہین ظاہر کر رہا تھا کچھ آگے  بڑھ کر بولا۔۔۔۔۔۔۔ ’’کوئی بھی ملک ترقی کب کرتا ہے  جب اسے  کوئی اہل حکمراں  ملتا ہے۔ حکمراں  کو صرف اپنے  ملک کے  اندرونی معاملات کو نہیں  دیکھنا ہوتا۔ اسے  بیرونی معاملات کو بھی حل کرنا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی معاملات کو۔ ‘‘

خالد کا جواب بھی احتجاجاً اونچی آواز میں  ابھرا۔۔۔۔۔۔۔

’’شہری کو اس بات کو سمجھنا چاہیے او ر ایک بدلے  ہوئے  معاشرے  کی تعمیر کے  لیے  اٹھ کھڑے  ہونا چاہیے۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں  حاکم اور محکوم کی دوری ناپید ہو جائے۔ ‘‘

خالد کی آواز سے  بھی اونچی ایک آواز بھیڑ کی طرف سے  آئی۔۔۔۔۔۔۔

’’کیا کبھی کوئی معاشرہ ایسا رہا ہے  جس میں  کوئی حکمراں  نہیں  رہا ہو؟‘‘

’’اگر ہر شخص بادشاہ ہو جائے  تو کام کون کرے  گا۔ مجھے  تمہاری نامعقول بات پر تعجب ہے۔ ‘‘

قہقہوں  کی آواز افق تک گونج گئی۔

خالد کے  لیے  یہ بڑا چیلنج تھا۔

’’دیکھو کون تمہیں  رد کر رہا ہے ؟ وہی جنہیں  تم قومی بنانا چاہتے  ہو۔ خود وہ لوگ طاقتور ہونے  کی ذمہ داری سے  ڈرتے  ہیں۔ ‘‘

خالد اندر سے  بہت مضبوط ہو چکا تھا۔ خود مختار شہری کو وجود میں  آنا ہو گا۔ سب سے  پہلے  کسی مفکر کے  ذہن میں۔

لیکن دوسرا سوال ہے  کہ مفکر کون ہے ؟ اور موجودہ صورت حال میں  فکر کا معنی کیا ہے۔

لوگ کچھ دلچسپی اور دھیان سے  اسے  سننے  لگے  جیسے  وہ کوئی نئی اور دلچسپ بات کر رہا ہو۔

’’سوچنے  والے  لوگ۔ ممکن ہے  کچھ لوگ ان کے  بارے  میں  سوچیں، ممکن ہے  اس میں  نجات کا کوئی راستہ ہو۔ ‘‘

اس کے  مطالعہ گاہ کی دیواریں  غائب ہو چکی تھیں او ر چاروں  طرف سمندر کی طرح اسے  وہ لوگ دکھائی دے  رہے  تھے  جنہیں  وہ بچپن سے  دیکھتا آیا تھا۔

’مفکر کون ہے ؟‘

’ عام طور سے  لوگ اپنے  فرقے او ر اس کے  سیاسی مفاد کے  حوالے  سے  سوچتے  ہیں  لیکن ایک مصنف کی آواز خالق کائنات کی آواز ہوتی ہے۔ اس کی روح عالم گیر سروکار رکھتی ہے۔ وہ کسی انسان کو اجنبی یا غیر نہیں  مانتا اسے  ایسا ہونا چاہیے  کہ دنیا کا کوئی بھی شخص اسے  دوسروں  کا مصنف نہ سمجھے۔ ‘

’’یہ تو بڑی اور عمدہ باتیں  کر رہا ہے، اچھے  خیالات، انصاف پسندی کی باتیں۔ صحیح باتیں  کہہ رہا ہے۔ ‘‘

لوگوں  میں  آپس میں  چہ میگوئیاں  ہونے  لگیں۔

سوال یہ ہے  کہ سوچ کیا ہے ؟

سوچ تہذیب کا ایک عمل ہے او ر تہذیب کے  اعصاب کا مرکزی نقطہ ہے۔ تہذیب کے  خواب اس کی تمنائیں او ر بصیرتیں  اس کی سمتوں  کو متعین کرتی ہیں۔ تازہ سوچ کسی قوم کی پوری  موجودہ سوچ کو تولتی اور روشن کرتی ہے۔ یہ کسی تہذیب کی تخلیقیت اور اس کی قانون سازی، حکمت عملی اور عدلیہ کو بصیرت دیتی ہے۔ اور جب کبھی یہ روشنی لینا بند کر دیتی ہے  یا متروک ہو جاتی ہے  تو کسی ملک کے  سارے  اعضاء بے  سمتی کا شکار ہو جاتے  ہیں او ر ایک کہرام کا عالم پیدا ہوتا ہے  جیسا کہ ہمارے  آج کے  معاشرے  میں  ہو گیا ہے۔

اور اگلا سوال ہے  کہ مفکر کون ہے ؟

مفکر ایک ایسا شخص کو کہہ سکتے  ہیں  جو اپنے  جسمانی اور جذباتی دائروں  سے  باہر نکل کر عالمی سروکار کو اپنی روح سے  جوڑ لیتا ہے۔ ایک عام آدمی جانور اور انسان کا مرکب ہوتا ہے  وہ جانوروں  کی طرح لالچ سے  متاثر ہوتا ہے او ر ہری گھاس کی طرف کھینچتا ہے۔ اس کے  اعمال انتقام، موقعہ پرستی، تشدد اور عدم تحفظ کی قوتوں  سے  طے  ہوتے  ہیں۔ اس کے  برعکس ایک مفکر انتقام کے  جذبے  سے  نہیں  بلکہ امن کے  تقاضوں  سے  متاثر ہوتا ہے۔ موقعہ پرستی سے  نہیں  بلکہ تہذیب کے  بنیادی تقاضوں  سے  متاثر ہوتا ہے۔ وہ جانوروں  کی طرح صرف ہری گھاس تک نہیں  دیکھتا بلکہ نظروں  سے  بعید تر دنیا کو بھی سامنے  رکھتا ہے۔ وہ دور اندیش ہوتا ہے او ر چیزوں  کا جائزہ بہتر تناظر میں  لے  سکتا ہے۔

ایک تاجر مفکر نہیں  ہوتا۔

ایک عیارانہ مسکراہٹ تجارتی گھرانوں  کے  چہروں  پر ابھری جو ابھی تک اسے  دیکھے  جا رہے  تھے۔

’’یہ تو بہت دلچسپ بات کر رہا ہے۔ یہ یونیورسٹیوں  کے  دانشوروں  جیسا لگتا ہے  بے  وقوف بنا پیسے  کے  بھلا سوچ کی کیا اہمیت۔ ایک نے  کہا۔۔۔۔۔۔۔

دوسرے  نے  قہقہہ لگایا۔

’’مفکر؟ مفکر ہوتے  ہیں او ر یہ وہی تو ہوتے  ہیں  جنہیں  ہم تنخواہ دے  کر کام لیتے  ہیں، جن سے  ہم دس روپے  کا کام لیتے  ہیں  تو ایک روپے  دیتے  ہیں  بے  چارے  مفکر، وہ جائیں  بھی تو کہاں  جائیں۔ ان کے  پاس پیسہ تو ہوتا نہیں۔ ‘‘

اب خالد کہہ رہا تھا۔

’’تاجر فائدوں  کا شکار کرنے  والا ایک موقعہ پرست ہوتا ہے۔ ‘‘

تاجروں  کی طرف سے  احتجاج میں  ابروئیں  تنی ہی تھیں  کہ خالد کا اگلا جملہ سنائی دیا۔۔۔۔۔۔۔

’’وہ ایک ایسے  جانور کی طرح ہوتا ہے  جس کے  خیالات کی رہنمائی ہری گھاس سے  ہوتی ہے۔ سیاستداں  بھی اپنے  مخصوص لوگوں  کے  لیے  سوچتے  ہیں۔

وہ سیاستداں  جو تاجروں  کے  ایجنٹ ہوتے  ہیں  مفکر نہیں  ہوتے۔ مفکر سب کے  لیے  سوچتے  ہیں، غیر مفکر صرف اپنے  لیے  سوچتے  ہیں  یا پھر اپنے  گروہ کے  لیے  اس لیے  غیر مفکر عام آدمی کے  فلاح کے  بارے  میں  سوچ ہی نہیں  سکتے۔

کچھ ایسے  بھی مفکر ہوتے  ہیں  جو خیالوں  کی تجارت کرتے  ہیں۔

اگر کسی وزیر اعظم کے  چہرے  کو دیکھ کر کسی ایک بھی فرد کے  ذہن میں  یہ خیال آئے  کہ وہ وزیر اعظم کچھ خاص لوگوں  کے  بارے  میں  سوچتا ہے او ر اپنے  دل کے  نہاں  خانے  میں  دوسرے  لوگوں  کے  مفاد کا دشمن ہے  تو پھر ایسا وزیر اعظم مفکر نہیں۔

ایک سچا مفکر چاہے  وہ مذہبی آدمی ہو یا سیاسی یا فلسفی ایک ایسے  سائنسداں  کی طرح ہوتا ہے  جو مکمل انسانیت اور عالمی معاشرے  کے  بارے  میں  سوچتا ہے او ر ایسے  ہی شخص کو معاشرے او ر ملک کا رہبر ہونا چاہیے  لیکن ایک جمہوری نظام میں  ایسا شخص تب تک ابھر ہی نہیں  سکتا جب تک ملک کے  ہر شہری کے  اندر ایک سچے  مفکر کی خوبیاں  پیدا نہ ہو جائیں۔

لیکن یہی آدمی تو منظر میں  نہیں  ہے۔

ہم اپنے  معاشرے  کے  کرداروں  کا مطالعہ اپنی کہانیوں  کے  ذریعے  کرتے  ہیں۔ ہمارے  سارے  فکشن کی سوچ کا اصل مرکز کہاں ہے۔ یہ کرداروں  کی بات کرتا ہے۔ یہ کردار سوچتے  کس طرح ہیں او ر ان کے  درمیان کس طرح زندگی کے  رزمیے  سے  یہ اہم ترین آدمی غائب ہے۔ ہم ایک آبادی ہیں او ر جب آبادی ایک ساتھ رہتی ہے  تو ملک وجود میں  آتا ہے۔ ملک وجود میں  آتا ہے  تب شہری وجود میں  آتا ہے۔ جب شہری وجود میں  آئے  گا تب اس شہری کا ایک کردار بھی ہو گا۔  اس شہری کی متوقع تعریف کیا ہو سکتی ہے۔

یہ شہری فرقہ پرست نہیں  ہو سکتا کیونکہ ایک جمہوری ملک فرقہ پرست نہیں  ہو سکتا۔

یہ شہری بزدل نہیں  ہو سکتا کیونکہ کوئی ملک بزدل نہیں  ہو سکتا۔

یہ شہری جعلساز نہیں ہو سکتا کیونکہ ملک جعلساز ملک جعلساز ملک کے  طور پر نہیں  جانا جا سکتا۔

یہ شہری خود غرض نہیں  ہو سکتا کیونکہ ملک اپنے  شہریوں  کے  تئیں  خود غرض نہیں  ہو سکتا۔

یہ شہری کاہل نہیں  ہو سکتا کیونکہ ملک کاہل ہو کر باقی نہیں  رہ سکتا۔

یہ شہری بے  ایمان نہیں  ہو سکتا کیونکہ ملک کرپٹ نہیں  ہو سکتا۔ اور ان تمام باتوں  میں  سب سے  اہم بات یہ ہے  کہ یہ شہری خود مختار ہو گا کیونکہ ملک خود مختار ہوتا ہے او ر خود مختار شہری ہی ایک خود مختار ملک کو جنم دے  سکتا ہے۔ صرف صحت مند شہری ہی ایک صحت مند ملک قائم کر سکتے  ہیں۔ صرف مکمل آزادی کا احساس رکھنے  والے  افراد ہی ایک آزاد ملک کو وجود میں  لا سکتے  ہیں۔ ایک خود مختار ملک کی تعمیر خود مختار شہریوں  کے  اکٹھا ہونے  سے  ہوتی ہے  نہ کہ شہریوں  کی خود مختاری کو سلب کرنے  سے۔ کسی ایک بھی شہری کی خود مختاری کو ختم کرنا خود ملک کی خود مختاری کو ختم کرنے  کے  برابر ہے او ر خود مختار ہوتا ہے  ملک لیکن حکومت خود مختار نہیں  ہو سکتی کیونکہ وہ شہریوں  کی کارندہ ہے۔ یہ صرف شہریوں کی خود مختاریوں  کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نہیں  ہو سکتا کہ کچھ لوگ سرکار کے  اندر ایک بند کمرہ بنا لیں او ر اس کے  اندر اپنی خود مختاری کا اعلان کر کے  تمام شہریوں  کے  مالک و مختار بن جائیں۔ ملک کی مشینری کا نظم ایسا ہونا چاہیے  جو شہریوں  کی مکمل خود مختاری کی گارنٹی دے  نہ کہ وہ ایسے  قوانین اور ضابطے  بنائے  کہ وہ شہریوں  کی خود مختاری کی طرف سے  بے  نیاز ہو جائے۔

اور ملک کے  ان خود مختار شہریوں  کو چاہیے  کہ وہ کسی ایسی تجارت یا معاشرت کو تعاون نہ دیں  جو انسان کش خصوصیات رکھتی ہو۔

سوچتے  سوچتے  خالد سہیل جہاں  پہنچ گیا تھا وہاں  سے  دیکھنے  پر معاشرے  میں  ہونے  والی بہت سی باتیں  معاشرے  میں  بڑے  بڑے  سوال کھڑے  کر رہی تھیں۔

ابھی چند روز پہلے  اخبار میں  جو خبر آئی تھی وہ اس کی نظروں  کے  سامنے  سے  گھوم گئی۔

سپریم کورٹ میں  ایک مقدمے  کی سماعت ہوئی تھی جس میں  دلّی میں  سرکاری زمینوں  پر رنگ روڈ کے  کنارے  جھگیوں  میں  رہنے  والے  لوگوں  کو ہٹانے  کا مسئلہ سامنے  آیا تھا۔ یہ لوگ یہاں  پندرہ برسوں  سے  رہ رہے  تھے۔ ان کے  وکیل نے  کہا کہ مئی کے  مہینے  کی جلتی ہوئی دھوپ میں  ان کے  پاس سر چھپانے  کے  لیے  کہیں  کوئی سایہ نہیں  تھا۔ اس لیے  ان کو کچھ مدد ملنی چاہیے۔ انصاف کرنے  کی اہم ترین ذمے  داری سونپے  گئے  اس سب سے  اونچے  ادارے  نے  اس کی درخواست کو سختی کے  ساتھ مسترد کر دیا۔ اس ادارے  نے  یہ نہیں  پوچھا کہ انہیں  کن لوگوں  نے  یہاں  آنے  کے  لیے  کہا تھا۔ کیونکہ جواب صرف یہ تھا کہ معاشی اور سیاسی عمل نے  انہیں  اپنے  گھروں  سے  نکال کر اس بڑھتے  ہوئے  جانور جسے  شہر کے  پیٹ میں  لا پٹکا تھا۔ اس لیے  اس ادارے  نے  ان لوگوں  سے  کہا کہ ’’کسی نے  تم کو دلّی آنے  کے  لیے  مجبور نہیں  کیا تھا۔ ‘‘

یہ کون کہہ رہا تھا؟

کوئی تھا جو دعویٰ کر رہا تھا کہ دلّی، دلّی سرکار اور دلّی کے  لوگوں  کی ہے او ر کوئی اس بات سے  انکار بھی کر رہا تھا کہ پورے  ملک پر حکومت کرنے  والی دلّی ملک کی آبادی کو بھوک مری کے  دہانے  پر لانے  کے  لیے  ذمے  دار نہیں  ہے۔

اور کوئی یہ بھی کہہ رہا تھا کہ انصاف کے  اس ادارے  میں  رحم و کرم کے  جذبے  کی قیمت دھول مٹی سے  زیادہ نہیں۔

تو پھر دکھوں  کی آواز کون سے  ادارے  میں  سنی جائے  گی۔

یہی ادارہ تو ہے  جسے  شاعروں او ر ادیبوں  کا ذہن کہا جاتا ہے۔ عدالتوں، قانون ساز اسمبلیوں او ر سرکاروں  کے  کام انسانی آوازوں  میں  شامل درد کی چیخ کو نہیں  سن سکتے  صرف ایک تخلیق کار ایسے  دکھی لوگوں  سے  اس زبان میں  بات نہیں  کرے  گا کہ کس نے  انہیں  دلّی جیسے  شہر میں  آنے  پر مجبور کیا۔ تخلیق کار دکھی انسانوں  کے  مقدمے  کو تہذیب کی عدالت میں  لڑتا ہے۔

یہ ہمارے  مسئلوں  پر بات کر رہا ہے۔

کروڑوں  لوگوں  کی نگاہیں  خالد پر جم گئیں۔

اگر ہم انسانی زندگی کو دو سطحوں  میں  تقسیم کریں  تو اوپری سطح خیالات، معاشرت، اخلاقیات، عقائد اور جذبات کی دنیا ہو گی۔ اور نچلی سطح وہ ہو گی جہاں  سرکاری قوانین اور عدلیہ کام کرتی ہیں۔ اور انسان صرف قانون کی سطح پر سرکاروں  کی گرفت میں  ہے  لیکن انسان خیالات کی سطح پر آزاد ہے۔ ایک تخلیق کار اوپری سطح کی کچھ ذہنی اور جذباتی دنیا کا مخلوق ہوتا ہے۔ وہ ملک کا نہیں  تہذیب کا معمار ہوتا ہے۔ وہ ان انسانوں  کی تخلیق کرتا ہے  جو نچلی سطح میں  جا کر دنیا کے  کاروبار کو چلاتے  ہیں۔ تبدیلی سوچ کی اس اوپری سطح سے  آئے  گی۔ خالد کے  چاروں  طرف پھیلے  ہوئے  کروڑوں  لوگوں  کے  سروں  کے  اوپر آسمان میں  جیسے  بجلی سی کڑکی۔ تاریخ میں  چمکتے  کئی بادل نظروں  میں  آ گئے۔

چانکیہ۔۔۔۔۔۔۔ !

ہاں۔

مفکر، حکمرانوں  سے  بڑے  ہوتے  ہیں۔

اور یہ سارے  لوگ جو بڑے  ہو کر حکومت پارلیمنٹ، عدلیہ، پریس، مذہب، میڈیا، تجارت اور صنعت کو چلاتے  ہیں۔ یہ ابتدائی دنوں  میں  اپنے  اسکولوں  میں  سیکھتے  ہیں  کہ دنیا کیسی ہے۔ وہیں  سیکھتے  ہیں  کہ کیسے  سوچنا چاہیے۔ معاشرے  کے  تخلیق کار لکھتے  ہیں او ر اسکولوں  کے  اساتذہ ان کی تحریروں  کو بچوں  کو پڑھاتے  ہیں۔ یہ بچے  جب بڑے  ہو جائیں او ر خود سے  پڑھنے  کے  لائق ہو جائیں  تو انہیں  چاہیے  کہ وہ اپنے  عہد کے  تخلیق کاروں  کو پڑھیں او ر ان کی تحریروں  کے  آئینے  میں  اپنے  چاروں  طرف کی دنیا کو دیکھیں او ر سمجھیں۔

پھر غلطی کہاں  ہوتی ہے ؟

اور خود، ہمارا معاشرہ جو ادب پیدا کر رہا ہے  وہ کیسا ہے او ر کہیں  ادب کی بارے  میں  ہمارا جو تصور ہے  اسی میں  تو خطرناک گراوٹ نہیں  آ گئی ہے۔ ادب کیا ہے۔ ہر وہ لفظ جو سوچنے  کے  بعد اور اپنے  ضمیر سے  تصدیق حاصل کرنے  کے  بعد لکھا جائے  ادب ہے۔

اس کا ذہن بے  ترتیب طریقے  سے  آگے  بڑھ رہا تھا۔

کیا سوچنے  کا طریقہ کسی واضح تصویر تک پہنچ سکتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہے۔ کوئی بھی مربوط سوچ اپنے  انجام تک پہنچتے  پہنچتے  سیلابی دریاؤں  کی طرح بے  ترتیب انداز میں  بڑھنے  والی تحریک میں  تبدیل ہو جاتی ہے۔ اس لیے  انسانی ذہن کی تکمیل اسی میں  ہے  کہ وہ اپنے  آپ کو ربط کے  ڈھانچوں  سے  آزاد بھی رکھے او ر توازن کے  ساتھ غیر متوازن رہنے  کو بھی اپنا وطیرہ بنائے۔

’’دنیا، میرے  اوپر تیوری مت چڑھاؤ ، مجھے  اپنی وسعتوں او ر بے  ترتیبی سے  مت ڈراؤ ، میرا وجود اور میرا ذہن تمہیں  جاننے  کی اور سمجھنے  کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ ‘‘ وہ کچھ اس طرح بڑبڑایا جیسے  وہ کسی سے  کہہ رہا ہو۔ حالانکہ بنیاد ی طور پر وہ خود ہی اپنے  جملے  کو سن کر اسے  مضبوطی سے  اپنی بصیرت کا حصہ بنانا چاہتا تھا۔

لوگ اپنی ہتھیلی میں  اپنی تھوڑیوں  کو ٹیکے  ہوئے  اب اسے  بہت غور سے  سن رہے  تھے۔

’جن لوگوں  میں  دیکھنے  کی جرأت، سوچنے  کی جرأت، جاننے  کی جرأت اور جرأت تخیل بے  پناہ طور پر موجود نہیں  ہوتی ان کا غلامی کی زد میں آنا اور رہنا ان کی تقدیر ہے۔ کیا ہم یہ دیکھے  بغیر کہ ہمارے  معاشرے او ر دنیا میں  کیا ہو رہا ہے او ر اس کو دیکھنے  کے  لیے  صرف اخباروں  ٹی وی اسکرین میں  اپنے  ذہن کو مقید کر کے  محفوظ رہ سکتے  ہیں۔ یہ ضروری ہے  کہ ہم اخباروں او ر ٹی وی کے  پردوں  کے  پیچھے  خود جھانکیں  کہ کروڑوں  لوگوں  کی زندگیوں  میں  جو کچھ ہو رہا ہے۔ ان لوگوں  کے  ساتھ جن کے  کلوز اپ مصلحتوں  کے  تحت ٹی وی کے  پردوں  پر نہیں  لائے  جاتے ، انہیں  ہم نہیں  دیکھ پاتے، نہیں  جان پاتے، میڈیا کے  لوگ تربیت یافتہ پولس کے  لوگوں  کی طرح صرف اپنے  مالکوں  کے  احکامات کے  تحت کام کرتے  ہیں او ر جس طرح پولیس اپنے  حاکموں  کے  اشاروں  پر احتجاج میں  اٹھے  لوگوں  کے  سینوں  پر گولیاں  چلاتی ہے او ر نہیں  سوچتی کہ وہ کیا کر رہی ہے  ٹھیک اسی طرح میڈیا سچائیوں  کو اپنے  مالکوں  کے  حکم پر دکھاتی یا پوشیدہ رکھتی ہے۔ ان کے  پاس تخیل ہے  ضرور لیکن انہوں  نے  اپنے  تخیل کو کہیں  بیچ دیا ہے، کہیں  گروی رکھ دیا ہے۔ ان کے  ذہن اور تخیل کسی عمارت کی اینٹ کی طرح،کسی درخت کے  ریشوں  کی طرح، کسی جسم کے  پٹھوں  کی طرح کسی نہ کسی مفاد پرست نظام کے  اندر قید ہو گئے  ہیں۔ ان کا کوئی آزاد وجود نہیں۔ آزادی تخیل کی شاہراہ پر گامزن ہونا چاہتی ہے۔ وہ آزادی جو بندوق کی نالی سے  پیدا ہوتی ہے او ر تشدد کی شکل میں  پرورش پاتی ہے۔ وہ آخرکار ناکام ہوتی ہے  اس لیے  کہ اسے  تخیل کی جولانیوں  کا قطعی علم نہیں  ہوتا۔ میڈیا کی طرح ہی شاعر اور ادیب جن میں  دیکھنے، سوچنے، جاننے او ر خیال کرنے  کی جرأت نہیں  ہوتی وہ سچے  ادیب نہیں  بلکہ ادب کے  نام پر غلامی کے  پرچار کرنے  والے  ہوتے  ہیں۔

انسانی زندگی اس کی خوشیاں، اس کی آزادی، اس کی فلاح ہی سچے  ادیبوں  کا واحد سروکار ہے۔ سماجیات اور میڈیا، سماجی ڈھانچوں  کا معائنہ تو کر سکتے  ہیں  لیکن انسان کی روح میں  برپا قیامت کی تصویریں  صرف جذبۂ رحم اور درد کی نگاہوں  سے  دیکھی جا سکتی ہے۔

اس نے  اب لکھنے  کے  بجائے  اپنے  سیل فون کو آواز ریکارڈ کرنے  کے  موڈ میں  ڈال کر سامنے  رکھ دیا اور ان چہروں  سے  اپنی بات کہتا رہا جو اسے  غور سے  سن رہے  تھے۔

’’کتابیں  اسی طرح کام کرتی ہیں۔ جب کتابیں  مقبول ہوتی ہیں  تو انہیں  دنیا پڑھتی ہے۔ کتابیں  لکھنے  والوں  سے  پڑھنے  والوں  کے  ذہنوں  کی طرف بادلوں او ر تیز ہواؤں  کی طرح، دریاؤں او ر طوفانوں  کی طرح سفر کرتی ہیں او ر ایٹم بم کی طرح پھٹتی ہیں او ر طلوع آفتاب کی طرح دنیا کو روشن کرتی ہیں۔ ‘‘

میں  پوری دنیا کو تبدیل کرنے  کی بات کر رہا ہوں۔ میں  دنیا کے  موسم کو بدلنے  کی بات کر رہا ہوں۔ اس دنیا میں  دو قطب ہیں۔ تاریکی کو مکمل طور پر ختم کرنا ناممکن ہو سکتا ہے  لیکن انسانی قدروں  کے  روشن میناروں  کو بجھنا نہیں  چاہئے  ان کو مسلسل روشن رکھنا ادب کا فریضہ ہے۔ تاریخی روشنی سے  خوف زدہ ہو یہ بات تو سمجھ میں  آتی ہے  لیکن روشنی تاریکی سے  گھبرا جائے  یہ بات فہم انسانی سے  بعید ہے۔

یہ تاریکیاں  ہمارے  موجودہ ادب کی نس نس میں  داخل ہو چکی ہیں او ر ہمارے  ذہنوں  کو آلودہ کر چکی ہیں۔

لوگ سر جھکائے  بہت سنجیدگی سے  غور کر رہے  ہیں۔

انسان کے  اندر عظمتِ انسانی کا قتل ہو رہا ہے۔ مقابلے  Survival of the fittest, Killing instinct اور Superman کے  تصورات انسان کو بے  رحم درندہ بناتے  جا رہے  ہیں۔

آپ کو معلوم ہے  یہ حملہ کہاں  سے  ہو رہا ہے ؟

آج کی بڑی میڈیا اپنے  قارئین کے  ذہن کو ۸۵فیصد عوام کی زندگیوں  سے  دور رکھتی ہے او ر سو فیصد انسانوں  کے  دلوں  میں  اٹھنے  والے  درد کو نظرانداز کرتی ہے او ر درد کے  احساس سے  ٹوٹتے  ہوئے  دل و دماغوں او ر جسموں  کو Glamour اور Sexکا مشروب پلا کر انہیں  مستی کے  عالم میں  رکھتی ہے۔ تاکہ تاریکی میں  کام کر رہے  قزاقوں  پر ان کی نظر نہ پڑے۔ جب بھی کوئی اندوہناک واقعہ ہوتا ہے  میڈیا اس کے  درد کو بھی فوراً Cola اور Pepsiمیں  تبدیل کر کے  بیچ دیتی ہے۔

بڑی میڈیا کا نشانہ طاقتور گراہک ہے۔ یہ اسی کے  لیے  کھانا پروستی ہے۔ killing instinct    اور  Competitionوالے  اس گراہک کا دل سوکھی لکڑی کی طرح خشک ہوتا ہے۔ اپنے  دل کی اس خشکی کو مٹانے  کے  لیے  وہ درد بھرے  مناظر کو دیکھنا چاہتا ہے۔ بڑے  اخباروں  میں  ہر دو روپے  کے  اخبار پر اشتہار دینے  والوں  کے  29روپے  لگے  ہوتے  ہیں۔ اس میں  صرف وہی باتیں او ر اسی انداز میں  جاتی ہیں  جو طاقتور گراہک پسند کرتے  ہیں او ر طاقتور گراہکوں، اندوہناک حادثوں  کی آگ سے  ہاتھ تاپنا تو پسند ہے  لیکن ان حادثوں  کے  پیچھے  کیونکہ اکثر وہ خود ہوتے  ہیں  اس لیے  ان کے  پیچھے  کی تفصیلات میں  انہیں  کوئی دلچسپی نہیں۔ اس طرح سچائیاں  عوام تک صرف کہانیوں  سے  پہنچ سکتی ہیں  اخباروں  سے  نہیں۔

رفتہ رفتہ اس کے  چاروں  طرف کا منظر بدلتے  بدلتے  کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ اسے  محسوس ہو گیا کہ وہ کالا پانی کے  انڈمان میں  بیٹھا ہوا ہے او ر وہیں  سے  آج کی دنیا کو دیکھ رہا ہے۔

اسے  لگا کہ وہ کسی پہاڑ کی چوٹی سے  انتہائی بلند اور پر جوش آواز میں  بول رہا ہے او ر آوازیں  نیچے  آ کر لوگوں  تک پہنچ رہی ہیں۔

وہ کہہ رہا تھا۔

’’پرانے  عہد کی حکمرانی ختم ہو چکی اب یہاں  کوئی حکمرانی نہیں۔

اب یہاں  بغیر کسی ذمے  داری کے  اختیارات کا عہد قائم ہو چکا ہے۔

اور وہ لوگ جن کے  پاس کوئی اختیار نہیں  ان کا شیر علی کی طرح کوئی وجود نہیں  وہ صرف سرکاری اور نجی اداروں  کے  ہاتھ میں  کہیں  کسی کی حکمرانی ہی ہے۔

لوگ اسی لیے  حکمرانی سے  تنگ آ گئے  ہیں۔

لوگوں  کو حکمرانی کے  نام پر اختیارات کے  استعمال نے  اتنا ناکام اور مایوس کیا ہے  کہ حکومتوں  میں  ان کا یقین ختم ہو چکا ہے۔ جو لوگ اب بھی تحفظ کے  لیے  حکومت کی تلاش کر رہے  ہیں  وہ دراصل احمقوں  کی دنیا میں  جی رہے  ہیں۔

مرد، عورت،جوان، بوڑھے، بچے، لڑکیاں، والدین سب ایسی تنہائی میں  جھونک دیے  گئے  ہیں  جہاں  انہیں  ازخود اس زندگی اور دنیا کا ماضی تلاش کرنا ہے او ر یہ بھی جاننا ہے  کہ کہیں  کسی حکومت کا وجود نہیں۔

معاشرے، ملک، اخلاقیات کی حکومت غائب ہو چکی ہے۔

ہمارا وزن تمہارے  اختیارات سے  آنکا جاتا ہے۔ تمہارے  حقوق سے  نہیں۔

اگر تم مکمل تحفظ چاہتے  ہو تو تمہیں  اس کے  لیے  اپنی سمجھ خود پیدا کرنی ہو گی۔

شیر علی کا زمانہ گزر گیا۔

دنیا نے  شیر علی سے  کم اور لارڈ میو سے  زیادہ سیکھا ہے۔

کامیابی تو آخر کار لارڈ میو کو ملی تھی شیر علی کو نہیں۔

شیر علی تاریخ میں  شہید کا درجہ دیے  جانے  کے  لیے  اچھا ہے۔

شہادت کو خود ماضی کی چیز بن چکی ہے۔

بڑھتے  وقت کے  ساتھ صرف ڈاکٹر والکر کے  قبیلے  کی توسیع ہوئی ہے او ر وہی داد بن کر پورے  زمانے  کے  چہرے  پر چھا گیا ہے۔

اس داد نے  پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں  کروڑوں  لوگوں  کو مارا۔

یہ داد ایٹم بم کا پھوڑا بن کر پھٹا۔

کوئی اس کا علاج نہیں  کر پایا۔

اب یہ پورے  گلوب پر چھایا ہوا ہے۔

قلیل اور کمزور لوگوں  کی تہذیبیں  اس داد آلود تہذیب میں  جگہ پانے  کے  لیے  خودکشی کر کے  دوبارہ پیدا ہو رہی ہیں۔

شیر علی نے  صرف مکاری کے  چہرے  کی ایک جھلک دیکھی تھی لیکن دنیا اب اس کے  اوپر سے  پردے  کو پوری طرح کھینچ چکی ہے او ر اسے  اقتدار کے  قلعہ نما محل کا اندرونی حصہ صاف صاف دکھائی دے  رہا ہے۔

کسی سے  کچھ بھی چھپا ہوا نہیں  ہے۔

یہ ایک بالکل کھلی ہوئی اور شفاف دنیا ہے۔

سارے  جادو ٹوٹ چکے  ہیں۔

تاریخ کے  سارے  کردار ننگے  ہو چکے  ہیں۔

عظیم نصب العین اپنی چمک کھو چکے  ہیں  کیونکہ ان کے  معجزے، کرامات، جادو اور شمع ہدایت کا راز فاش ہو چکا ہے۔

اب انسان کو جو کچھ چاہیے  اس کے  آس پاس چاہیے۔

عظمتیں  زمیں  بوس ہو چکی ہیں  کیونکہ آزمائشوں  کے  دور میں  انہوں  نے  اپنا اعتبار کھو دیا۔

برطانوی جمہوریت کی عظمت جزائر انڈمان کے  کالا پانی اور زندگی کے  دوسرے  جزیروں  میں  منہ کے  بل گر گئی تھی۔

بڑی سے  بڑی سیاسی شخصیتوں  کے  وعدوں  کو اشتہاری کاغذوں  سے  زیادہ کوئی اہمیت نہیں  دی جاتی۔

کردار نام کی چیز کا کوئی خریدار نہیں۔

انسان آج سب سے  زیادہ ناقابل اعتبار مخلوق کے  طور پر ابھرا ہے، بالکل ویسا ہی جیسا میکیاویلی نے  بادشاہ کو بتایا تھا۔ اب اس کی کتاب صرف بادشاہ کی تربیت تک محدود نہیں  اسے  پوری دنیا اتنی گہرائی سے  پڑھ اور سمجھ چکی ہے  جتنا بادشاہ نے  بھی نہیں  سمجھا ہو گا۔ بادشاہت کے  یہ گُر سوائے  ان کے  تمام دوسرے  لوگ سمجھ چکے  ہیں  جو اب بھی اپنے  اوپر حکمرانی کے  لیے  کسی بادشاہ کو ضروری سمجھتے  ہیں۔

دنیا رفتہ رفتہ انسانی معاشرے  میں  امن و امان کے  نئے  امکانات کی تلاش کرتی جا رہی ہے۔

اب اسے  کسی فلسفی کی ضرورت نہیں۔

انسانی معاشرے  میں  اب امن تبھی قائم ہو گا جب اس کا ہر فرد اس کی تمنا کرے  گا۔ لیکن ابھی امن کا وقت آیا ہی نہیں۔

یہ جنگ کا وقت ہے۔

ہر فرد ہر دوسرے  فرد کے  خلاف بر سرِ پیکار ہے او ر ہر چیز پر حملہ آور ہے  کہ اس میں  سے  بھی وہ اپنا حصہ حاصل کرے۔

اور ہر فرد کو ہر شیر علی سے  اپنے  کو محفوظ بھی رکھنا ہے  شیر علی ایک مسلسل موجود رہنے  والا جراثیم ہے۔

ہر شخص جو بہادر لیکن کمزور ہے  وہ اس میدان جنگ میں  ایک خطرہ ہے۔ وہ شیر علی کی طرح اچانک پھوٹ پڑتا ہے۔ ہر چند کہ وہ صرف ایک صدا بہ صحرا بن کر رہ جاتا ہے۔

oo

 

 

 

 

 

وہ اپنے  کمرے  سے  باہر کھلی ہوا میں  آیا اور آنگن میں  دور تک نکل آیا۔ اس کی سوچ رک گئی تھی اور اس کا ذہن آرام کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔

اس کی نظریں  اب کسی درخت،کسی چڑیا یا زندگی کی کسی اور چیز پر ٹکنا چاہتی تھیں۔

اس نے  19ویں  صدی کی بلندیوں  سے  برطانوی سامراج کو یوروپ کے  ایک جزیرے  سے  ابھر کر پوری دنیا پر پھیلتے  ہوئے  دیکھا۔ تاجروں  کا ایک دستہ ہندوستان کے  ساحل پر پہنچ رہا تھا۔ ٹیم کے  رہنما کے  ہاتھ میں  ہندوستان کا نقشہ تھا اور اس کی نظروں  میں  ملک کا کھلے  ہوئے  ساحل، ریگستان، شہر، ہمالہ پہاڑ اور اس کی چٹان۔۔۔۔ اس نقشے  کو اپنے  ذہن میں  بسائے  ہوئے  وہ ایک خادم کی طرح مغل شہنشاہ کے  دربار میں  پہنچا۔ ایک معمولی خادم کے  بھیس میں  جس کا اعلانیہ مقصد مغل شہنشاہ کی خدمت تھی، وہ ہندوستان کے  دل و دماغ میں  گھسنے  کی شاہراہ کو غلامی کی زنجیروں  میں  جکڑ لیا۔ دستے  جاپان پہنچ کر اس کی جدید کاری میں  لگ گئے، ترکی کی عظیم حکومت میں  کیڑے  کی طرح گھسے، تاریخ کے  تناظر میں  یہ انتہائی قابل دید منظر تھا۔ ان دستوں  کے  لیے  دنیا کے  لوگ اختیار میں  لینے او ر استحصال کرنے  کی چیز تھے۔ ان کے  ہاتھوں  میں  سائنسی اور تکنیکی مشین تھی اور ان کا مکار ذہن میکیا دیلی کے  فلسفے  سے  روشن تھا اور اس کے  ساتھ ہی جنم لے  رہی تھی ایک نئی تہذیب جو پوری دنیا میں  پھیل رہی تھی اور دوسرے  لوگوں  سے  اپنی تہذیب کی برتری کو منوا رہی تھی۔ کامیابی کا فلسفہ ان کی اجارہ داری بن گئی تھی۔ وہ زمانے  گزر چکے  تھے  جب حکومتیں  اپنے  عوام کی زندگی کی فکر کرتی تھیں او ر اس کو اپنی ذمے  داری سمجھتی تھیں  یہ وہ جمہوریت تھی جس میں  ڈوبتے  ابھرتے  حاکموں  کا کوئی چہرہ نہ تھا۔ کوئی بھی حاکم کسی بھی طرح کی ذمے  داری کا کمبل اوڑھنے  کے  لیے  تیار نہیں  تھا۔

یہ سیاست نہیں  سیاسی چونچلوں  کا دور آ گیا تھا اور اس کے  اندر سے  پنپنے  والی تھی ایک  Micro Democracy۔

پھر اس نے  کہا

’ لٹکے  ہوئے  آدمی کا زمانہ آخرکار قریب آ گیا ہے۔ ‘

 

اس نے  اپنی جگہ پر جا کر آسمان کو دیکھا جہاں  سے  اس نے  ایک سائے  کو آسمان سے  لٹکتے  دیکھا تھا لٹکا ہوا آدمی اب وہاں  نہیں  تھا۔ بادل کے  ٹکڑے  بھی جا چکے  تھے۔

آسمان صاف ہو چکا تھا۔

oo

 

 

 

 

اس کا ذہن مزید اپنی راہ پر چلتا رہا۔

وہ کوئی دیو پیکر انسان نہیں  تھا۔ وہ ایک معمولی انسان تھا جو ایک بیکراں  ریگستان میں  جا رہا تھا اور گویا اس ریگستان کے  ایک چھوٹے  سے  حصے  کو بھی ٹھیک سے  دیکھنے  سے  پہلے  ہی اس نے  اپنی رائے  بنانی شروع کر دی تھی۔

لیکن وہ سفر کرے  گا۔

اس کو سمجھنے  میں  چند دن لگ سکتے  ہیں، مہینوں  لگ سکتے  ہیں، سال دو سال،پانچ سال، دس سال، بیس سال، تیس سال، بلکہ ساٹھ سال بھی لگ سکتے  ہیں۔

اور اسے  اس کو سمجھ جا نا چاہیے۔

اور اپنے  کو ان تمام آلوں  سے  مسلح کر کے  اس لائق بنانا چاہیے  کہ انسانی سماج کو ابد سے  بیماریوں  کی طرح بار بار پکڑنے  والے  مافیا کے  خلاف ایک سائنس داں کی طرح جنگ کا آغاز کر سکے۔

وہ جتنا ہی زیادہ سمجھے  گا اسی قدر زیادہ کامیابی سے  اسے  اپنے  مہم میں  کامیابی ملے  گی کہ اس کی بصیرت واعمال میں  ایک خود کا رشتہ تھا۔ مجھے  صراطِ مستقیم پر بڑھتے  جانا ہے۔

لیکن صراطِ مستقیم ہے  کیا؟ اس نے  سوچا۔

کالا پانی اور ڈاکٹر والکر سے  نجات۔

لیکن اس کو کرنا کیسے  ہے۔

شیر علی کی طرح۔

نہیں۔

اس کے  ذہن میں  ایک خیال آیا۔

یہ خیال کروڑوں  اربوں  ڈالر سے  زیادہ قیمتی تھا۔

’’ اپنے  تمام الفاظ اور خیالات کو واپس اپنے  اندر بھیجو، اور اس پر مسلسل غور کرو اور ان کی چھان بین کرو۔ حتیٰ کہ یہ الفاظ اور خیالات لفظ اور خیال نہ رہ جائیں  بلکہ تمھارے  وجود کا حصہ بن جائیں۔ سادھنا اور تسبیحہ و وظیفہ اسی طرح تو کام کرتا ہے۔ ‘‘

اس نے  پھر محسوس کیا کہ وہ اپنے  خیالات کے  بارے  میں حد سے  زائد خود اعتمادی کا شکار ہو گیا تھا۔ اور ان میں  قبل از وقت خطرناک حد تک کھو گیا تھا اور یہ انسانوں  کے  بار بار ناکام ہونے  کی بڑی وجہ ہوتی ہے۔

اور الفاظ اور خیالات کے  بارے  میں  ا س کا سارا جوش ختم ہو گیا لیکن وہ اب اپنے  آپ میں  کچے  لوہے  سے  اسٹیل میں  تبدیل ہو گیا تھا۔

oo

 

 

 

وہ نزدیک کے  ایک چٹان نما پتھر کے  ٹکڑے  پر جسے  اس کے  اجداد نے  کہیں  سے  لا کر لان میں  نصب کروایا تھا،  جا کر بیٹھ گیا اور اپنی ٹھوڑی اپنی ہتھیلی میں  لے  کر بیٹھا رہا۔

’’  صحافی دماغ ان لوگوں  کے  فکر و خیالات پر مرکوز ہونے  کو فوقیت دیتے  ہیں  جو ارباب حل و عقد ہیں۔ اور ان کی پالیسیوں پر نظر ڈالتے  ہیں۔ لیکن یہ صحافی دماغ یہ دیکھے  میں  کام ہو جاتے  ہیں  کہ یہ نمایاں  ہونے  والی ساری تبدیلیاں  دراصل پستیوں  کی بنیاد پر کھڑی ہیں او ر بلندیوں  سے  یہ نمایاں  ہونے  والی ساری تبدیلیاں  دراصل پستیوں  میں  موجود لوگوں  کے  لو دل و دماغ سے  ہی جنم لیتی ہیں۔ لیکن یہ تبدیلیاں  جن کی لہریں  ان پستیوں  سے  ابھرتی ہیں میڈیا کی رپورٹوں  سے  باہر اس لیے  رہ جاتی ہیں  کہ یہ علاقہ تخلیق کاروں  کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے  تو یہ کہا جاتا تخلیق کار معاشرے  میں تغیر اور انقلاب برپا کرتا ہے  جبکہ صحافیوں  کے  بارے  میں  ایسا نہیں  کہا جاتا۔ سیاست، کلچر، تعلیم، تحقیق، مارکیٹگ اور مانگ۔۔۔ ہر جگہ تغیرات اسی میں  جنم لیتے  ہیں۔ عوام حکومت نہیں  کرتی لیکن وہ حاکموں  کو پیدا کرتے  ہیں  عوام تجارتی منڈیوں  کو خود نہیں چلاتے  لیکن وہ ان منڈیو ں  کو جنم دیتے  ہیں۔ لوگوں  کے  دلوں  سے  اٹھی ہوئی آوازیں  کبھی بھی خاموش نہیں  ہوتیں، وہ پانی کی طرح مقدار اور رفتار میں  بڑھوتری کرتی ہیں او ر سیلاب کے  پانی کی طرح جمع ہو کر بے  چین لہروں  کی طرح جب ایک ہو جاتی ہیں  تو جوالا مکھیوں  کی طرح غیر منطقی طاقتوں  کے  ساتھ پھٹتی ہیں او ر دنیا کی شکل کو تبدیل کرتی ہیں۔ جب یہ ہوتا ہے  تو نئی دنیا میں  وجود میں  آتی ہیں  جو نئی حکومتوں، نئی کمپنیوں او ر نئے  حاکموں  کو جنم دیتی ہیں۔ اسے  محسوس ہوا جیسے  اسے  ان تمام تخلیق کاروں  کو ازہر پڑھنا چاہیے  جنھیں  وہ پہلے  پڑھ چکا ہے، اسے  اپنے  عہد کے  تمام تخلیق کاروں  کو از سرِ نو پڑھنا چاہیے  ان کو بھی جو سنجیدہ تخلیق کار ہیں او ر ان کو بھی جو مقبول عام اور مشہور ہیں۔ اور ان کو بھی جنھیں  بہت کم لوگ جانتے  ہیں او ر ان کو بھی جو بدنام ہیں۔ ان کو بھی جنھیں  اکادمیوں  سرکاروں  یا عوام نے  بھی براہ راست یا بالواسطہ سزائیں  دیں۔ اور ان کو بھی جو ڈرامہ نگار ہیں  فلم ساز ہیں، شاعر ہیں  یا گیت کار ہیں۔ کیونکہ ان تخلیق کاروں  کا عظیم تخلیق کا سرمایہ۔ ایمانداری اور بے  ایمانی اور غلط یا صحیح مشاہدوں  کی شکل میں  پستی کی اس دنیا کا خاموش آئینہ ہے  جو حقائق و مشاہدے  اور سماج کی عکاسی کرتا ہے۔ اس کے  ذہن میں  یہ بات صاف ہوئی کہ ادب الہامی کتابوں  کی طرح آسمان سے  نہیں  اترتا اور سائنسی سوچ اور ایجادات کی طرح شاہ را ہوں  پر نہیں  چلتا بلکہ یہ سماج کے  بہ ظاہر خاموش سمندر کے  نیچے  زیر زمین لاوا کی طرح ابلتا رہتا ہے او ر اس حقیقی طاقت کو جمع کر کے  آناً فاناً کسی ایسی شکل میں  نمودار ہوتا ہے  کہ پورے  معاشرے  کو اس کی ٹھائیں  ٹھائیں، دھائیں  دھائیں  کی آواز سنائی دینے  لگتی ہے۔ ان زمینوں  میں  بھی شگاف پڑ جاتا ہے  جن پر دریا بہتے  ہیں۔ ان زمینوں  میں  ہی تغیر بر پا ہونے  لگتی ہے  جن پر عظیم الشان عمارتیں  کھڑی ہوتی ہیں۔ اور یہ سب ہوتا ہے  چھوٹے  چھوٹے  دلوں  کی دھڑکنوں  کو مطمئن کرنے  کے  لیے  یہ انسانی دماغوں  کے  اعصاب کی ہی تعمیر نو کرنے  لگتا ہے۔ کبھی کبھی یہ تبدیلی بہت فعال ہونے  کے  باوجود بڑے  بڑے  مفکرین، میڈیا اور سیاسی تجزیہ کاروں  کی نظروں  سے  اوجھل ہو جاتی ہے۔ صرف اس لیے  کہ بڑھتے  ہوئے  پانی کی طرح ان کی اس وقت تک کوئی نیوز ویلو نہیں  ہوتی جب تک وہ تاریخ کی اہم ترین خبریں  نہیں  بن جاتیں۔ اور کاروباری میڈیا کو ایسی بارش میں  کوئی دل چسپی نہیں  ہوتی جس کی خبر بازار میں  نہیں  بکتی۔ یہ تبدیلیاں  دھماکہ خیز صورت حال میں  پہنچنے  کے  بعد شیر علی کی خبر کی طرح نمودار ہوتی ہیں۔

اسی لئے  سیکڑوں  لوگوں  کودی گئی پھانسی میڈیا کے  لیے  ایک خبر بنتی ہے  لیکن ان پھانسیوں  کا جو زہر یلا اثر شیر علی جیسے  لوگوں  کی روح کے  اوپر ہوتا ہے  اس کی خبر اخباروں  میں  نہیں  چھپتی نہ مخبر اپنے  حاکموں  کو اس سے  مطلع کرتے  ہیں او ر سرکاریں  صرف اخبار پڑھتی ہیں  ادب کو نہیں پڑھتیں  اسی لیے  وہ سمجھ نہیں  پاتیں  کہ کیوں  مینارے  گرتے  ہیں۔ کیوں  مسجد مسمار ہوتی ہے۔ کیوں  ملک کا بٹوارہ ہوتا ہے۔ میڈیا کی طرح سیاست بھی یک ایسی تجارت  ہے  جو صرف ہنگامی معاملات کے  لین دین کو سمجھتی ہے۔ حتیٰ کہ سول سروسز میں  بھی زیادہ سوالات حالاتِ حاضرہ پر ہی کئے  جاتے  ہیں۔ وہ امیدوار جو حالاتِ حاضرہ پر نظر رکھتے  ہیں  انھیں  سمجھتے  ہیں او ر یاد رکھتے  ہیں  انھیں  ان امیدواروں  کے  مقابلہ زیادہ ذہین سمجھا جاتا ہے  جو لوگوں  کی ذہنی حالت اور سکتے  خوابوں  کی روشن بصیرت رکھتے  ہیں او ر انھیں بے  عمل اور فلسفی قرار دے  کر سرکاریں  چلا نے  کے  بجائے  انقلاب لانے  کے  لیے  لمبے  سفر پر بھیج دیا جاتا ہے۔

خالد سہیل کو سوچ کی اس منزل پر پہنچنے  کے  بعد محسوس ہوا کہ اس کی بے  چینی ختم ہو رہی اور اس کے  خیالات نئے  تناظر میں  منجمد ہو رہے  تھے۔

اسے  محسوس ہوا کہ دھماکے  دھیرے  دھیرے  مندمل ہو رہے  تھے او ر مندمل ہوتے  ہوتے  خاموش ہو گئے او ر ایک نیا منجمد منظر ابھرنے  لگا۔ اب ایک ایسی تصویر ابھر رہی تھی جس میں  معصومیت اور لاعلمی کی ناپختگی کا کوئی رنگ نہیں  تھا۔ یہ پختہ دنیا تھی، صاف روشن اور لافانی طاقتوں  سے  بھری ہوئی جس کی اپنی غنائیت تھی جو صاف سنائی دے  رہی تھی۔ اس میں  جنگی دھن کے  اوصاف تھے۔ جو روح کو آواز دے  رہی تھی کہ وہ باہر آئے  اور دنیا کا سامنا کرے۔

چلمن ایک ایسی تیز ہوا کے  جھونکوں  سے  بار بار اٹھنے  لگا تھا جو چاروں  طرف پاگلوں  کی طرح دوڑ رہی تھی۔ وہ کبھی دور چلی جاتی اور کبھی قریب آ کر اسے  ساڑی کی طرح اٹھا دیتی تھی۔ کسی مجرمانہ ذہنیت والی فاحشہ کی ٹانگوں  کو اس حد تک اٹھاتی ہوئی جو اس حقیقت کو عیاں  کرنے  لگی تھی کہ یہاں  تو کچھ اور ہی تھا جو فطری نہیں  تھا لیکن پھر بھی پیدا ہو گیا تھا۔

oo

 

 

یہ ہیجڑہ تھا۔ قانون نہیں  تھا۔ اس نے  سوچا اور اس کے  پریشان دل کو اطمینان حاصل ہوا۔ ا س دل کو جواب تک اتنے  دکھوں  سے  گزرا تھا کہ انتہائی کمزور ہو گیا تھا۔ اس آدمی کی طرح جو کئی دنوں  سے  بخار میں  جل رہا ہو۔

اس کی سمجھ میں  بہت کچھ آنے  لگا تھا۔ ساری سرکاریں، ساری کمپنیوں او ر تجارتی منڈیوں  کی پالیسیاں  سارے  جرم اور ساری مہذب نما جارحیت۔۔۔ ان سب کا بنیادی ڈھانچہ ایسا ہوتا ہے  جو عوام کی ذہنیت سے او ر جذبات سے  تال میل کھائے۔ ایک تنہا انسان کا اپنا کروموژوم اپنے  میں  اتنا ہمہ گیر اور عظیم ہوتا ہے  کہ اگر اس کو کسی بے  حد طاقت و ر خورد بین سے  بڑا کر کے  دیکھا جائے  تو یہ صاف صاف دکھائی دے  گا کہ کس طرح تمام حکومتوں، اداروں، تجارتوں، صاحب اقتدار لوگوں، سیاسی پارٹیوں، تحریکوں، قوانین، تجارت اور مارکٹنگ پالیسی کی بنیادیں  اس پر قائم ہیں  بلکہ باہر کی پوری دنیا اسی کروموژم سے  نکلے  ہوئے  دھاگوں  کے  آگے  بڑھ کر بنے  ہوئے  ستونوں  پر قائم ہے۔ یہ بنیاد اور جڑ ہے  بنیادی پاور ہاؤس ہے۔ ساری طاقتوں او ر تجارتوں  کا۔ سرکاریں،تجارت اور جراثیم ہمارے  ہی خارجی وجود ہیں  جو ہمارے  داخلی وجود کے  باہری حصے  ہیں۔

او ر انسان کے  اندرون سے  اس کے  بیرونی ذات کی چوٹیوں  تک سفر میں  مینارۂ نور کا کام کرتا ہے  ’شہری کا تصور معیار،  اور چیلنج یہ ہے  کہ اپنے  اعمال کی لگام اپنے  ہاتھ میں  رکھی جائے او ر جب تک اپنے  آپ کا مطالعہ یعنی اپنے  اندرون سے  بیرون تک کے  پوری کائنات کا مطلع اس حد تک نہ ہو جائے  کہ اس پر مکمل عبور حاصل ہو جائے  کہ یہ دکھ صرف علاج سے  ٹھیک ہوں  گے  صحت کی خواہش رکھنے  سے  نہیں۔ کوئی بھی باہر سے  ہماری تقدیر کو نہیں  بدل سکتا لیکن دنیا ہمارے  مطابق بدلنے  کو تیار ہے۔ اس لئے  اپنی صورت حال کے  لئے  اپنے  کسی رہنما کو قصوروار مت گردنو۔ اگر وہ قصوروار ہے  تو اسے  رہنما بناتے  ہی کیوں۔ ان کو رہنما بنانے  کی حقیقت کی جڑ بھی تمہارے  اندر ہے۔ اس کو روشن کرنا تمھارا اپنا کام ہے۔ تم باہر کے  انسانو ں  کا قتل کر کے  کبھی بھی اپنی اس بیماری سے  نجات نہیں  پا سکو گے  تھیں  اپنا علاج خود کرنا ہے۔

شیر علی،یہ ہمارے  اپنے  جسم کی ساخت ہے  جو جسم اور چہرے  پر موجود داغ کو برقرار رکھتی ہے  اسے  خوراک دیتی ہے۔ تم نے  لارڈ میو کو بلا ضرورت قتل کیا۔

خالد کی نظر پھانسی پر لٹکے  ہوئے  شیر علی پر چلی گئی۔

oo

(جاری)