FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

جمالِ محسنِ انسانیتﷺ نعت کے آئینے میں

گوہر ملسیانی

 

مفکرین اور حکمائے عالم نے اپنے اپنے نقطۂ  نظر سے حسن و جمال کی تشریح و تفسیر اور تفصیل و تعلیم پر اپنے وسیع الفکری اور کثیر الجہتی تصورات اہلِ نظر کے سامنے رکھے ہیں۔ سقراط نے حکمتِ انسانیت میں حسن و جمال کے تصور کی وابستگی پائی ہے، افلاطون نے اپنی مثالی جمہوریت کے خدوخال میں حسن و جمال کو تلاش کیا ہے، جب کہ ارسطو نے اپنی بوطیقا میں انسان کے تصورات و تخیلات کی تطہیر (Catharsis) کو حسن و جمال کا حصہ قرار دیا ہے۔ یونانی فکر کے سوتوں سے جمالیات کی بات مغربی افکار کی وادی میں پہنچی تو کلاسیکیت (Classicism) اور رومانیت (Romanticism) کے عَلَم برداروں نے جمالیات کو معروضی (Objective) اور موضوعی (Subjective) زاویوں میں جھانک کر دیکھا۔ ان مشاہدات میں پوپ (Pope) ، ملٹن (Milton) ، سپنسر (Spensir) اور شیکسپیئر (Shakespeare) وغیرہ نے زیادہ تر حسن و جمال کو موضوعی کیفیات میں پنہاں پایا جب کہ کالرج (Coleridge) ، ورڈز ورتھ (Wordsworth) ، شیلے (Shelley) ، کیٹس (Keats) اور لانگ فیلو (Longfellow) وغیرہ نے معروضی انداز سے حسن و جمال کی تصویر کشی کی، یوں انھوں نے حسن کو فطرتِ کائنات میں جاری و ساری دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مغرب کے مزاج کا رجحان خارجیت یا معروضیت (Objectivity) کی جانب ہے۔ اگر قدیم یونانی فکر سے شروع کر کے قدیم مغربی فکر میں جھانکا جائے تو ہمیں حسن و جمال انسان کی داخلی حسّیات میں نمودار ہوتا ملتا ہے مگر مغربِ جدید جسے رومانوی عہد (Romanic Era) کہتے ہیں اس میں ہمیں داخلیت یا موضوعیت میں تصورِ جمال بہت کم کم اور ثانوی حیثیت میں ملتا ہے جب کہ معروضی یا خارجی حسن جمالِ فطرت کے اظہار کے تناظر میں نمایاں ملتی ہے۔

فطرت کے متعلق یعنی (Nature) کے بارے میں ان شعرائے کرام کا ایک مخصوص اندازِ فکر و نظر ہے۔ مثلاً ورڈز ورتھ فطرت کی ہر شکل میں مشاہدۂ  حسن کرتا ہے۔ اس کی جملہ منظومات لیوسی، پریلیوڈ (Prelude) ، ٹنٹرن ایبے (Tentern Abey) وغیرہ جمالِ فطرت کی شاہ کار نظمیں ہیں۔ اس کی ان نظموں میں اگرچہ جمال، فطرت کے مناظر سے پھوٹتا ہے اور خود شاعر بھی اس حسن کی تلاش میں سرگرداں اور اس کا بھوکا اور پیاسا ملتا ہے مگر اس نے روحانی دنیا میں بھی ایک انقلاب برپا کر دیا ہے۔ اس کے تصورات میں جمال و جلال کا ایک حسین امتزاج ہے۔ شاعر سبزہ زاروں، کوہ ساروں، جنگلوں اور وادیوں میں حسنِ فطرت کی تلاش میں دیوانہ وار دوڑتا ملتا ہے۔ وہ آسمان کی وسعتوں میں تیرتے بادلوں، بید کے درخت کی نرم و نازک شاخوں، آدھی رات کے تاروں، گھنگور گھٹاؤں اور ندیوں کی مترنم آوازوں میں جمالِ فطرت کی رعنائی سے مدہوش و مسحور ہو جاتا ہے وہ اسی حسنِ فطرت کے بارے میں پکار اُٹھتا ہے:

Whose dwelling is the light of setting sun,

And the round ocean, and the living air, And the blue sky, and in the mind of man.

جو غروب آفتاب کی روشنی میں، وسیع و عریض سمندر میں، مسلسل حرکت کرنے والی ہوا میں، نیلے آسمان میں اور قلب انسانی میں جلوہ گر ہے۔ ٭۱

یہی تو حسن و جمالِ فطرت ہے۔ کیا اس میں شاعر کی معروضی کیفیت چمکتی دمکتی نہیں ہے؟ اس میں وہ خاص جمال ہے جو خالقِ کائنات نے اس کرۂ  ارض اور اس کائنات کی ہر شے کو عطا کیا ہے، وہ کائنات میں پھیلے ہوئے مناظر یا انسان کی شکل و صورت یا انسان کی دِلی کیفیات سے منصہ شہود پر آتا ہے۔

مغرب کی رومانوی تحریک کے ایک اور جواں مرگ شاعر کے تخیل کی پرواز میں دیکھیے وہ تو اس سے بھی ایک قدم آگے چلا گیا ہے۔ وہ فطرت کی رعنائی کا شیدائی ضرور ہے مگر پیکرِ فطرت کے حسن و جمال کو صداقت کا شاہ کار قرار دیتا ہے۔ وہ تو اس کائنات میں حسن ہی کو صداقت قرار دیتا ہے اور حسن ہی صداقت کا سرچشمہ ہے۔

Beauty is truth, truth is beauty, that is all, All ye know the earth, and all ye need to know.

(حسن و جمال ہی صداقت ہے، صداقت ہی جمال ہے، قصہ مختصر، اس کرۂ  ارض پر تم سب اسی کو جانتے ہو اور تم سب کو یہی معلوم ہونا چاہیے۔) ٭۲

مغربی مفکرین نے حیات و کائنات کے حسن کو اپنے قلب و وجدان کے راستے سے پایا ہے اور اس حسنِ فطرت میں جلوۂ  قادرِ مطلق دیکھا ہے۔ مَیں یہاں وحدت الوجود یا وحدت الشہود کے مباحث میں الجھنا نہیں چاہتا۔ یہ تو صرف مغربی مفکرین کے تصورات کا مختصر سا جائزہ ہے جس میں حسن و جمال کی رعنائی کے مختلف رنگ بلکہ مختلف رنگوں میں حسن و جمال کی چمک دمک کو دیکھا گیا ہے۔ وہ حسن و جمال کو کسی تخلیق میں پنہاں دیکھتے ہیں اور اپنے خیالات و تصورات کو اپنے حسین اسلوب، استعارات و تشبیہات، رموز و کنایات بلکہ فصاحت و بلاغت میں تراکیب و الفاظ کے ذریعے اس حسن و جمال کا اظہار کرتے ہیں۔ یوں جمالیات کے دونوں رُخ نمودار ہو جاتے ہیں ایک وہ جمال جو اُس شے میں دیکھتے ہیں اور دوسرا وہ جمال جو اُن کے اسلوب سے نمایاں ہوتا ہے۔ ان کی تخلیقی قوت کے اظہار میں اگر ایک قرینہ، ایک سلیقہ اور ایک اندازِ حسن ملتا ہے تو حسنِ فطرت سے جذباتی لگاؤ بھی ملتا ہے۔ یہ دونوں فن اور منظر مل کر ایک نئے جمال کو سامنے لاتے ہیں۔ یہی خطوط مستقبل میں اظہارِ جمال کے رہنما اُصول بنتے ہیں۔

مفکرینِ جمالیات کے نقطۂ  نظر کے مطابق بقولِ حسن محمود جعفری دراصل جمالیات فلسفہ ہی کا ایک شعبہ ہے، وہ کہتے ہیں:

جمال یعنی حسن کی نوعیت، ماہیت اور حقیقت کو فکری سطح پر جاننے کی کوشش و جستجو کا نام جمالیات ہے۔ ٭۳

حسن محمود جعفری صاحب نے اس کی وضاحت کے لیے ایک طویل اقتباس لوڈونگ وٹگن اسٹائن (Ludwing Wettgenstein) کا دیا ہے، اس کی چند سطور کا ترجمہ یہاں شامل کیا جاتا ہے جو آج کے موضوع کے لیے اہم ہے:

جمالیات کے علم کو تین مختلف نقطہ ہائے نظر سے بیان کیا جا سکتا ہے جو دراصل تین مختلف نوعیت کے سوالات کی بنیاد پر قائم ہوتے ہیں:

(۱) ان جمالیاتی تصورات کا مطالعہ جو اپنی اصل میں جمالیات میں استعمال ہونے والی زبان کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

(۲) ان ذہنی حالتوں، رویوں اور احساسات و جذبات کا مطالعہ جو جمالیاتی تجربہ کے ردِّ عمل میں پیدا ہوتے ہیں۔

(۳) ان اشیا کا براہِ راست مطالعہ جو جمالیات کے تحت زیرِ غور آتی ہیں کہ آخر ان میں کیا خواص ہیں جو ان اشیا کو جمالیات کا موضوع بناتے ہیں۔ ٭۴

اس اقتباس میں پہلے اور تیسرے نقاط میں زیادہ تر جمالِ مصطفیٰﷺ کو زیرِ بحث لانے کی سعی کی جائے گی جو آج کے مضمون کی مناسبت سے نعتیہ شاعری میں تلاش کیے جا سکتے ہیں مگر یہ کچھ دیر بعد میں احاطۂ  تحریر میں آئیں گے۔

اسلامی نظریات و تصورات کے حوالے سے دیکھا جائے تو حسن و جمال کو خود خالقِ کائنات نے پسند فرمایا ہے۔ اس کی شہادت ہمیں دنیا کے سب سے زیادہ صادق بندے، اللہ کے بعد سب سے زیادہ حسین و جمیل، انسان اور آخری رسولﷺ جو کمالات و جمالیات کے حوالے سے سب سے افضل ہے کہ ارشادِ گرامی سے ملتی ہے:

’’اللّٰہ جمیل ویحب الجمال‘‘

(پروردگارِ عالم خود جمیل ہے اور جمال سے محبت کرتا ہے)

علامہ اقبال نے نورِ خدا سے لے کر جمالِ مصطفیٰﷺ کے حوالے سے اس حسن کو انسان اور اس کے تعمیر کر دہ اور تخلیق کر دہ فنونِ لطیفہ میں پایا وہ اسی جلال و جمال کے امتیاز کو یوں بیان کرتے ہیں:

تیرا جلال و جمال، مردِ خدا کی دلیل

وہ بھی جلیل و جمیل تو بھی جلیل و جمیل

(بالِ جبریل نظم مسجدِ قرطبہ)

ہم بات کر رہے تھے سرورِ ازلی، قرآنِ حکیم میں اللہ کے نور (جمال) کی جس کی گواہی صادق و مصدوق ﷺ سے ملی ہے۔ قرآن کریم میں کئی آیات خالقِ کائنات کے نور کی وضاحت کرتی ہیں گویا وہ جمال جو ازل سے ابد تک ساری کائنات پر محیط ہو گا اس نور کی شان صحیفۂ  ربانی میں یوں بیان کی گئی ہے:

اللّٰہ نور السمٰوٰت والارضط مثل نورہ کمشکوٰۃ فیھا مصباحط المصباح فی زجاجۃط الزجاجۃ کانھا کوکب دری یوقد من شجرۃ مبٰرکۃ زیتونۃ لا شرقیۃ ولا غربیۃلا یکاد زیتھا یضیٓء ولو تمسسہ نارط نور علی نور یھدی اللّٰہ لنورہ من یشائط و یضرب اللّٰہ الامثال للناسط واللّٰہ بکل شیء علیمo (النور: ۳۵)

اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا۔ اس کے نور کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طاق ہو جس میں ایک چراغ ہو۔ یہ چراغ ایک فانوس میں ہو اور یہ فانوس ایسا ہو جیسے ایک ستارہ موتی کی طرح چمکتا ہوا جو زیتون کے مبارک درخت کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، جو نہ شرقی ہے نہ غربی قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے خواہ اسے آگ نہ چھوئے۔ نور پر نور۔ اللہ اپنے نور کی جسے چاہے رہنمائی عطا فرمائے۔ یہ مثالیں اللہ تعالیٰ لوگوں کے لیے بیان کرتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔

’’یہ آیۂ  نور، جس کی تفسیر و ترجمہ امام غزالیؒ سے عبداللہ یوسف علی تک نہایت حسن و خوبی کے ساتھ کیا ہے، رفیع الشان لفظی و معنوی لطافتوں کا مرقع ہے۔ جناب اسلم انصاری نے ’’حدیثِ نور‘‘ کے عنوان سے اسے نظم کیا ہے، جیسا کہ وہ خود بھی کہتے ہیں، کلامِ الٰہی کے حوالے سے یہ انسانی کاوش سعیِ ناتمام ہے۔ ٭۵ (الف)

جناب اسلم انصاری کی یہ آیۂ  نور کی کاوش حسبِ ذیل ہے:

اس جلوہ گاہ میں ہے اسی ایک کا ظہور

اللہ آسمان کا ہے اور زمیں کا نور

اس کی مثال کہ ہے جیسے ایک طاق

روشن ہے اس میں ایک چراغ ابد رواق

خود وہ چراغ جیسے قندیل میں نہاں

قندیل اک ستارہ موتی سا ضوفشاں

روغن سے ایک نخلِ مبارک سے یہ جلے

ایسا نہیں کہ آگ کے جلنے سے جل اُٹھے

زیتون ہے وہ نخلِ مقدس حقیقتاً

روشن ہے جس سے محفلِ آفاق دائماً

مشرق کا ہے وہ نخل نہ مغرب سے انتساب

بے نسبتِ جہات ہے سب اس کی آب و تاب

بے لمسِ نار جلنے کو تیار ہے وہ تیل

خود اپنے آپ ہی سے ضیا بار ہے وہ تیل

ہے روشنی پہ روشنی اور نور پہ ہے نور

اس کی حقیقتوں کو کہاں پا سکے شعور

ایسے ہی وہ دکھاتا ہے اس نور سے خدا

وہ جس کو چاہتا ہے دکھاتا ہے رہنما

یہ سب مثالیں لاتا ہے وہ بہرِ خاص و عام

عالم ہر ایک چیز کا ہے وہ علی الدوام

(اسلم انصاری)

خالقِ کائنات کے نور کی تجلّیات ہمیں شعرائے کرام کے حمدیہ کلام میں چمکتی دمکتی ملتی ہیں۔ پھر اہلِ سخن نے اس نور السمٰوات والارض کی لامحدود وسعتوں میں غوطہ زن ہوتے ہوئے اپنی ادبی علامات، تمثیلات، تشبیہات، استعارات اور رمز و کنایہ سے کائناتِ سخن کو حسن و جمالِ ہنر اور افکارِ لعل و گہر سے مالامال کیا ہے۔

یہی نور ہمیں قرآنِ حکیم کی ان آیات میں ملتا ہے جن میں اللہ کی وحدانیت کا تذکرہ ہے یا وہ آیات جن میں اللہ تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ کو بیان کیا گیا ہے۔ سورۃ الحشر کی آیات نمبر۲۳ تا ۲۴ پر غور فرمائیے:

وہ اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ غائب و حاضر کا علم رکھتا ہے۔ وہی بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہےo وہ اللہ ہی ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بادشاہِ حقیقی، نہایت مقدس، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، سب پر غالب، اپنا حکم بزور نافذ کرنے والا، سب سے بڑا ہو کر رہنے والا، پاک ہے اللہ اس شرک سے جو یہ کرتے ہیں o وہ اللہ ہی ہے تخلیق کا منصوبہ بنانے والا پھر نافذ کرنے والا، صورت گری کرنے والا، اسی کے لیے ہیں سب بہترین اور حسن و جمال کے حامل نام۔ اس کی تسبیح کر رہی ہے ہر وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے اور وہ زبردست اور بڑی حکمت والا ہے۔

(سورۃ الحشر)

حسن و جمال کے وہ تمام انداز ان آیات کے ایک ایک لفظ میں مضمر ہیں جن کا حامل خدائے ارض و سماوات ہے۔ اسی جمال کی صفات ہمیں دنیا کی جملہ چیزوں میں ملتی ہیں۔ وہ انسان ہو یا حیوان، نباتات ہوں یا جمادات، مائعات ہوں یا باد و بخارات، ہر شے میں اسی کا رنگ چمکتا ہے۔ اسی لیے تو کہہ دیا ہے:

صبغۃ اللّٰہ ومن احسن من اللّٰہ صبغۃ۔            (سورۃ البقرۃ: ۱۳۸)

(کہہ دو کہ ہم نے) خدا کا رنگ (اختیار کر لیا ہے) اور اللہ سے بہتر رنگ کس کا ہو سکتا ہے۔

گویا خالقِ مطلق کا حسن و جمال ہی سب سے افضل ہے اور اس کے بعد دنیا کی ہر چیز سے بہتر جمال رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ و سلم کا ہے۔ خود رسولِ اکرمﷺ نے فرما دیا ہے:

اتقوا فراس ۃ المؤمن فانہ ینظر بنور اللّٰہ۔         (ابنِ کثیر)

مومن کی فراست سے ڈرو اس لیے کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔

’’اللہ کے نور کے ہزاروں مظاہر ہیں۔ جدھر نظر اُٹھا کر دیکھیں اس کے جلووں کی بہار ہے۔ اس کے نور و جمال سے یہ عالم لبریز ہے۔ اس دنیا میں رسولِ اکرمﷺ سب سے زیادہ با جمال ہیں۔ حضرت ابنِ مسعودؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’الٰہی جس طرح تو نے میری تخلیق کو خوب صورت بنایا ہے، اسی طرح میرے اخلاق کو اچھا اور حسین بنا دے۔ ‘‘(رواہ احمد) ٭۵(ب) عام طور پر کہا جاتا ہے کہ یہ دُعا رسولِ اکرمﷺ عموماً آئینہ دیکھنے کے موقع پر کیا کرتے تھے۔ آپ تو اس کائنات میں اپنی تخلیق کے لحاظ سے سب سے زیادہ افضل ہیں۔ آپ کے جمال کے متعلق قرآن حکیم میں سراجاً منیراً کہا گیا ہے۔ یہ بھی اللہ کے نور کا ظہور ہے۔ حضرت حسانؓ بن ثابت کے یہ دو اشعار جو سراجِ سالکاں، شمع راہِ عالماں، نجم الہدیٰ کی مدحت میں کہے گئے ہیں اسی جمال کی ترجمانی کرتے ہیں:

واحسن منک لم ترقط عینی

واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مبرّائً من کل عیب

کانک قد خلقت کما تشاء

میری آنکھ نے آپ سے زیادہ حسین و جمیل کسی کو نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ اکمل کسی ماں نے نہیں جنا۔ آپ ہر عیب اور نقص سے پاک و مبرا پیدا کیے گئے، گویا خالق نے آپ کو آپ کی مرضی کے مطابق بنایا۔

اللہ تعالیٰ کے حسن و جمال کو انبیائے کرام نے ہر دور کے انسانوں کے سامنے رکھا۔ توحید کا نور ہو یا خلّاقی کا، حسنِ انسانیت کو انھی انبیا و رُسل کی رہنمائی سے میسر آیا۔ پھر اہلِ ایمان نے اسی نور سے اپنی زندگیوں کو روشن کیا۔ اہلِ علم نبیِ آخرالزماں ﷺ کی تعلیمات سے خود چمکتے رہے اور دنیا کے دلوں کو چمکاتے رہے۔ دُعائے جمیلہ کا تذکرہ قربِ الٰہی کے حصول کے لیے بزرگانِ دین، اولیائے کرام اور صوفیائے عظام نے بہت سی کتب میں بیان کیا ہے۔ اس دُعا کا آغاز ہی یوں ہوتا ہے: ’’یا جمیل و یااللہ‘‘۔ گویا اللہ کے حضور پیش ہونے والا انسان سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ربّ کائنات سب سے زیادہ حسن و جمال کا مالک و مصدر ہے۔

اسی جمال کے نظارے علامہ اقبال جیسے مفکر شاعر نے کائنات کے مظاہر میں دیکھے ہیں، جو جمالِ فکر انھوں نے اللہ تعالیٰ کی کتابِ مبین اور ارشاداتِ نبوی سے پایا ہے، اس کو اپنے کلام میں احسن طریقے سے پیش کر دیا ہے۔ ان کی منظومات جو ان کی اوائل عمر میں تخلیق ہوئیں رومانوی رنگ سے مزین ہیں، انھوں نے اس عمر میں حسن و جمالِ فطرت کے نغمے گائے۔ بانگِ درا میں ’’ہمالہ‘‘ سے ’’تنہائی‘‘ تک ان کا پورا کلام رعنائیِ فطرت سے منور ہے بلکہ بعض انگریزی نظموں کے آزاد ترجمے بھی اپنے اندر یہی حسن و جمال کی صنّاعی رکھتے ہیں۔ حسن کی صداقت کا اظہار ان کے پورے اُردو کلام میں رِم جھم رِم جھم کرتا ہے۔ مظاہرِ کائنات کے جلووں کی رنگینی اُنھوں نے قرآنِ حکیم کی آیات سے پائی ہے۔ بالِ جبریل کی نظم ذوق و شوق کی تنظیم کاری کی اساس نفسیاتی اُصول کے تابع ہے۔ مگر اس نظم کی ابتدا نہایت ہی رنگین اور فرحت بخش صبح کی منظر کشی سے ہوتی ہے اور شاعر کا دل مسرت و شادمانی سے معمور ہے۔ ٭۶ اس کی دیگر وجوہات بھی ہو سکتی ہیں لیکن میرے خیال میں اقبال حسنِ فطرت کو اس ماحول میں بکھرے دیکھتا ہے اور یہ نورِ خداوندی کے جلووں کی بوقلمونی ہے:

قلب و نظر کی زندگی، دشت میں صبح کا سماں

چشمۂ  آفتاب سے نور کی ندیاں رواں

حسنِ ازل کی ہے نمود، چاک ہے پردۂ  وجود

دل کے لیے ہزار سود، ایک نگاہ کا زیاں

حسنِ فطرت کی کتنی مکمل تصویر ہے۔ کیا اقبال کے اس تصورِ حسن و جمال میں کسی نقاش کا موقلم کوئی اضافہ کر سکتا ہے؟ پھر دوسرے شعر میں ایسا لمحہ مقید کر دیا ہے کہ اس پر عرفان کی ایک نظر ڈالی جائے تو خالقِ کائنات کے نور کے ہزارہا مشاہدات اپنی گرفت میں لے لیں گے۔ اسی طرح ’’مسجدِ قرطبہ‘‘  کا یہ شعر بھی حسنِ مطلق کی نمود کا درخشاں تصور اپنے اندر سموئے ہوئے ہے:

وادیِ کہسار میں غرقِ شفق ہے سحاب

لعلِ بدخشاں کے ڈھیر چھوڑ گیا آفتاب

یہ کائناتی حسن و جمال تو ہمیں قرآن کریم کی آیات میں بکھرا ہوا ملتا ہے اور جب ہم اقبالؔ کے آہنگ اور اسلوبِ نگارش پر عمیق نگاہ دوڑاتے ہیں تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ قرآن کا اثر ہے۔ اگر میں یہ کہوں تو اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہو گا کہ اقبالؔ حسنِ مطلق کا جویا ہے وہ اسے مظاہر فطرت میں بھی پاتا ہے اور تخلیقِ آدم میں بھی، گویا اقبالؔ قرآنی آہنگ سے گہرا تعلق رکھتے ہیں اور اس میں خدائے لم یزل کی رضا کا اظہار پاتے ہیں۔

یہی حسن و جمال اقبالؔ کو بے قرار کر دیتا ہے پھر وہ دیوانہ وار سرزمینِ حجاز کی جانب اسی جمال کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ا سی کے توسط سے وہ سالارِ حجاز کا جمال پانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ جمالِ مصطفیٰﷺ ان کی آرزوؤں کا مرکز بن جاتا ہے۔ ان کے نزدیک مدینہ منورہ وہ آشیانہ ہے جس میں طائرِ رُوح کو سکون و آرام ملتا ہے۔ ان کے لبوں پر ایسے نغمے تڑپنے لگتے ہیں جن میں عشقِ مصطفیٰﷺ کا نور جلوہ افروز ہوتا ہے۔ ان کے خیالات میں صاحبِ لوح و قلم، تاجدارِ مدینہ، سیّد ابرارﷺ کے حسن و جمال کی ضیائیں دمکتے لگتی ہیں۔ مدحت کے گلزارِ صداقت کے تر و تازہ گلاب نکہتیں بکھیرنے لگتے ہیں۔ ان کے ذہن و دل میں روحانی نور و سرور ضو فشاں ہو جاتا ہے۔ وہ دشتِ کاظمہ کے چمکتے ذرّوں اور گلشنِ طیبہ کے چٹکتے غنچوں سے ہم کلام ہو جاتے ہیں۔ ’’بالِ جبریل‘‘ کی نظم ’’ساقی نامہ‘‘ کی بہاریہ منظر کشی، صبحِ کاظمہ کی یاد تازہ کر دیتی ہے:

ہوا خیمہ زن کاروانِ بہار

ارم بن گیا دامنِ کہسار

گل و نرگس و سوسن و نسترن

شہید ازل لالہ خونیں کفن

جہاں چھپ گیا پردۂ  رنگ میں

لہو کی ہے گردش رگِ سنگ میں

فضا نیلی نیلی ہوا میں سرور

ٹھہرتے نہیں آشیاں میں طیور

یہ فصلِ بہار کی رعنائی اور دل کشی حسنِ ازل ہی کا تو پَرتو ہے۔ ان اشعار میں پنہاں حسن و جمال فطرت کی آغوش میں رنگِ نور دکھاتا ہے۔ اقبالؔ کے ہاں یہ حسن و جمال خدائے لم یزل کی ایک اور تخلیق میں بھی نمودار ہوتا ہے۔ وہ تخلیق اس کائنات کی سب سے عظیم شخصیت ہے جس کے لیے یہ سارا جہان تخلیق کیا گیا ہے۔ جس کے حسن و جمال کو خود خالقِ مطلق بھی افضل و اعلیٰ قرار دیتا ہے۔ اسی حسن کو سراجاً منیراً کے لقب سے نوازتا ہے۔ اسی کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ کرتا ہے۔ قرآن میں ورفعنا لک ذکرک بھی تو اسی جمال کو ظاہر کرتا ہے اور اسی جمال پر خود خالقِ کائنات اور اس کے نورانی فرشتے صلوٰۃ و سلام بھیجتے ہیں، اسی جمال کے لیے اہلِ ایمان کو حکم ہوتا ہے کہ صلّوا علیہ وسلّموا تسلیماً۔ گویا ہر مدحت، ہر ثنا اور ہر طرح کی فضیلت اسی جمال کے لیے ہے، جو خدا کے بعد دنیا کی سب سے عظیم ہستی ہے۔ شاہ عبدالعزیز کا یہ مصرع حسن و جمالِ مصطفیٰﷺ کا کس قدر پُر مغز اور پُر معنی اظہار ہے:

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

علامہ اقبالؔ جمالِ محسنِ انسانیتﷺ کے شیدائی ہیں۔ یہ نور انھیں عشقِ رسولِ کریمﷺ میں ملتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ’’ذاتِ محمدﷺ کائناتِ ہستی کا مقصد و مدّعا اور لُبِ لباب ہے۔ حسنِ ازل انسانی صورت میں ہی ذاتِ اقدس میں جلوہ گر ہوا ہے۔ جس طرح عالمِ مادی کو آفتاب سے روشنی حاصل ہوتی ہے اسی طرح عالمِ معانی کو سراجِ منیر اور آفتابِ عالم تاب کی ضیا پاشیاں منور کرتی ہیں۔ پوری کائنات اسی طرح اس جوہرِ اصلی کے گرد گھومتی ہے جس طرح ذوق و شوق عشق (جمال) کے مرکزی موضوع کے گرد گھومتی ہے۔

ہر کجا بینی جہانِ رنگ و بو

آں کہ ازخاکش بروید آرزو

یاز نورِ مصطفی او را بہاست

یا ہنوز اندر تلاشِ مصطفی است

(جاوید نامہ، ص۱۲۸)

نوشتۂ  تقدیر ہو یا صحیفۂ  ربّانی، محمدﷺ کا نقش ہر گہرائی پر ثبت ہے۔ تقدیر کی منصوبہ بندیوں اور صحائفِ ربانی کی تلقینوں کا ماحصل انسان کی عملی دنیا میں محمد عربی ﷺ کا پاکیزہ وجود ہے کہ کان خلقہ القرآن:

لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

                                                                 (ذوق و شوق) ٭۷

اقبالؔ کا تصورِ عشق بھی اپنے اندر نورو جمال رکھتا ہے جس کے توسط سے وہ اپنے قلب و ذہن کو منور کرتے ہیں اور اسی کے ذریعے وہ خاصۂ  خاصانِ حق، مدرسِ انوارِ کل کی ذات میں

بے پناہ جمال و جلال پاتے ہیں۔ وہ پکار اُٹھتے ہیں کہ عشق تمام مصطفی ہے اور اس نور کی ابتدا بھی عجیب ہے۔ میر تقی میرؔ نے بھی یہی کہا: ’’عشق بن یہ ادب نہیں آتا۔ ‘‘٭۸

علامہ اقبالؔ کے کلام کا حسن بھی تیرہ و تار اسالیب میں رخشندہ و تابندہ ہے۔ ان کے جمالِ اسلوب کی مختلف رعنائیوں، خیالات کی جدید پنہائیوں اور تصورات کی بے پناہ گہرائیوں میں غنائی عنصر کے ساتھ ساتھ مقصدیت کا حسن بھی ملتا ہے۔ کلام کی پختگی، حکمت کی شادابی اور رمز و کنایہ کی دل کشی نے اس حسن و جمال کے اظہار میں تجسس و جستجو کا رنگ بھر دیا ہے۔ ان نعتیہ اشعار کے تہ در تہ خیالات کے جمال پر غور کیجیے، مقصدیت کی حقیقت واضح ہو جائے گی۔

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفی سے مجھے

کہ عالمِ بشیریت کی  زد میں ہے گردوں ٭۹

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ٭ ۱۰

یہ رنگِ جمال یکسر مختلف ہے۔ اس میں رحمت عالم کے جمالِ سیرت کی روشنی چمکتی ہے۔ مگر اقبال جمالِ مصطفیﷺ کی اُس پرتو کو بھی پیش کرتے ہیں جس میں قرآن نے آپ کے حسن کی ایک خاص نہج بیان کی ہے۔ وہ منہاج اللہ تعالیٰ کی نورانی شان کے ساتھ جمال و عظمتِ تاجدارِ ملکِ ہدایت ہے جس کا کچھ ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ علامہ اقبالؔ کے اس شعر میں اس حسن و جمال کی شان دیکھیے:

چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے

رفعتِ شانِ رفعنا لک ذکرک دیکھے ٭۱۱

اقبالؔ کی بعض ابتدائی غزلوں میں بھی اسی انداز کے جمالیاتی اشارے ملتے ہیں مگر ان میں روایتی نعت کا رنگ نہیں ہے یہ چند اشعار حسن و جمالِ ماہِ فروزاں، نورِ دیدۂ مشتاقاں قابلِ ذکر ہیں:

سراپا حسن بن جاتا ہے جس کے حسن کا عاشق

بتا دے اے حسیں ایسا بھی ہے کوئی حسینوں میں

پھڑک اُٹھا کوئی تیری ادائے ماعرفنا پر

ترا رتبہ رہا بڑھ چڑھ کے سب ناز آفرینوں میں ٭۱۲

علامہ اقبالؔ نے جمالیاتِ سرورِ کائناتﷺ کے مختلف رنگ اپنے انداز میں فارسی اشعار میں بھی پیش کیے ہیں۔ ان کا یہ اسلوب نعت کی روایت سے ہٹ کر ہے مگر نعت کی انقلابی خصوصیت میں جمالِ احمد مجتبیٰﷺ کے غنچے چٹکتے ملتے ہیں۔ مثنوی اسرار و رموز میں ’’عرضِ حال بحضور رحمت للعالمین ﷺ‘‘ کے ابتدائی اشعار جب کہ مثنوی پس چہ باید کر دے کی نظم ’’در حضور رسالت مآبﷺ‘‘ کا آغاز بھی حسن و جمال کی ایک نئی کیفیت سے منور ہے۔ یہی نہیں جب اقبالؔ نے ’’پیامِ مشرق‘‘ جرمن کے مشہور حکیم گوئٹے (پ: ۲۸ اگست ۱۷۴۹ء م: ۲۲ مارچ ۱۸۳۲ء) کی تصنیف ’’مغربی دیوان‘‘ کے جواب میں مرتب کی تو گوئٹے کی مشہور نظم ’’نغمۂ  محمد‘‘ کا آزاد ترجمہ ’’جوئے آب‘‘ کے نام سے کیا۔ دراصل ’’جوئے آب‘‘ کنایہ ہے ذاتِ محمدی ﷺ کے لیے گوئٹے کہتا ہے کہ:

محمد عربیﷺ کا وجود جو کہکشاں کی مانند درخشاں ہے، اس کائنات کے حق میں بارانِ رحمت ہے۔ کیوں کہ اس کی بدولت یہ کائنات سرسبز و درخشاں ہو گئی۔ ذاتِ محمدیﷺ میں جلوہ گر ہونے سے پہلے آغوشِ حق میں محوِ خواب تھی لیکن آپ چوں کہ سراپا رحمت ہیں، اس لیے آپ کی شانِ رحمت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ دنیا میں تشریف لائے، آپ کے وجود کی برکت سے مردے (سنگریزے) زندہ (نغمہ سرا) ہو گئے۔ آپ کی تعلیم (ذات) آئینہ کی طرح شفاف اور پاکیزہ ہے۔ ٭۱۳

یہ ساری نظم رموز و کنایات سے لبریز ہے۔ جمالِ محسنِ انسانیتﷺ کے مختلف رنگوں کی کہکشاں سجائی گئی ہے۔ پھر علامہ اقبالؔ نے اس جوئے آب کی رخشندگی کے مختلف روپ گہوارۂ  سحاب، چشمِ شوق، آغوشِ کوہ سار، بحرِ بے کراں، درخود بیگانہ، صد جوئے دشت، دریائے پُر خروش، تنگنائے کوہ و دمن وغیرہ کنایوں سے دکھائے ہیں جن میں ذاتِ محمدیﷺ کے حسن و جمال کی بوقلمونی قلب و نظر کو مسحور کرتی ہے۔ اسی نظم کا دلکش آزاد ترجمہ ’’پاکیزہ چشمہ‘‘ کے عنوان سے معروف شاعر و محقق جناب ڈاکٹر شان الحق حقی نے کیا ہے۔ اس کا تفصیلی مطالعہ ’’اُردو نعت اور جدید اسالیب از عزیز احسن‘‘ کے صفحات ۳۶ تا ۴۱ کیا جا سکتا ہے۔

جمالِ رسالتِ مآبﷺ کے تذکار سیرت کی کتابوں میں گہر ہائے گراں مایہ بن کر چمکتے اور پھولوں کی طرح مہکتے ملتے ہیں۔ خصوصاً حضورﷺ کی ولادتِ با سعادت کے حالات کی تحریری کاوشوں میں جب آفتابِ نو بہار کی طلعتِ طلوع کا ذکر آتا ہے تو انوارِ محمدیﷺ کی ضیائیں مشرق و مغرب کو منور کرتی ہیں۔ تجلیاتِ نبوت کی ضو فشانی سے قبل جمالِ مصطفیﷺ کی ایک پوری تاریخ مضمر ہے۔ حضورِ اکرم ﷺ کے خاندانی حسن و جمال کا ایک گلستان ہے جو رنگارنگ پھولوں کی رعنائی سے چمکتا دمکتا ہے۔ یہ سلسلۂ  نسب، بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق، توحیدِ خداوندی کے عَلم بردار پیغمبرِ اسلام حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے منسلک ہے، جنھوں نے شمس و قمر کی ضیاؤں کو تاریکی کی چادر میں گم ہوتے دیکھ کر اُس کے خالق کو اپنا خدا تسلیم کیا اور ارض و سماوات میں اس کے جلال و جمال سے متاثر ہو کر وحدانیت کا نغمہ الاپا۔ یہی خلیلِ ربانی، خواجۂ  دوسرا، مخزنِ اسرارِ ربانی کے جدِّ امجد ہیں۔ جن کے جمالِ فکر نے ربِّ کائنات سے استدعا کی۔

ربنا وابعث فیھم رسولاً منھم یتلوا علیھم ایٰٰتک ویعلمھم الکتاب والحکمۃ ویزکّیھمط انک انت العزیز الحکیمo

اے ہمارے رب! اور مبعوث فرما ان میں ایک رسول ان ہی میں سے جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں اور دلوں کو پاک کرے۔ بے شک تو ہر چیز پر غالب اور حکمت والا ہے۔                                                       (البقرۃ: ۱۲۹)

یہ دُعائے خلیل ؑ مستجاب ہوئی، حفیظ تائب جمالِ دُعا کا نقشہ کھینچتے ہیں:

آیا خدا کو رحم زمانے کے حال پر

انسانیت کے دیدۂ تر کی سنی گئی

آخر ہوئی قبول ابراہیم کی دُعا

ملت کے زخم ہائے جگر کی سنی گئی ٭۱۴

حضرت ابراہیم علیہ السلام سے یہ نورِ نبوت اُن کے فرزندِ ارجمند حضرت اسمٰعیل ذبیح اللہ علیہ السلام کو منتقل ہوا۔ پھر رحمتِ عالمﷺ کے خاندان کو سرفراز کرتا ہوا آخر ختم الرّسل، ہادیِ کل صلی اللہ علیہ و سلم کی ذاتِ بابرکات میں نمودار ہوا۔ حضورﷺ کے پر دادا حضرت ہاشم اپنے جمالِ منصب حاجیوں کی میزبانی کی وجہ سے باوقار ہوئے، پھر حضرت عبدالمطلب کو یہی جمالِ منصب ملا تو سردارِ مکّہ کہلائے۔ آپ بے حد خوب صورت اور عظیم شخصیت تھے۔ جود و سخاوت کا فراواں جمال پایا تھا لہٰذا فیاض کہلائے۔ ہاتھی والوں کا واقعہ بھی ان کی زندگی میں پیش آیا جو سرورِ کونینﷺ کی پیدائش سے ۵۰۔ ۵۵ دن پہلے پیش آیا۔ ٭۱۵

جمال کا یہ سلسلہ رواں دواں رہا یہاں تک کہ یہ حسن و جمالِ سیرت آپ کے والدِ محترم حضرت عبداللہ پر سایہ فگن ہوا، حضرت عبداللہ، عبدالمطلب کے با جمال و با کمال فرزندِ ارجمند تھے۔ سب سے زیادہ خوب صورت، پاک دامن اور چہیتے بیٹے تھے، سیرت و صورت منزّہ و مطہر۔ مگر یہ حسنِ مہر و ماہ شباب ہی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہو گیا۔

آخر وہ وقتِ سعید بھی آ پہنچا جب پیغمبر آخرالزماں، سیّد المرسلین، رحمۃ للعالمینﷺ کا مکہ میں ظہور ہوا۔ آپ کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ کی گود میں جمالِ احمدﷺ ضو فشاں ہوا۔ حضرت آمنہ آپ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا کرتی تھیں کہ ایک نور کا سیلاب اُن کے اندر سے نکلا ہے جس نے ہر چیز کو منور کر دیا ہے، یہاں تک کہ شام کے محلّات بھی روشن ہو گئے۔ یہی تو جمالِ کریم و مکرم، عظیم و معظم، محلل و محرم، علیہم و معلم صلی اللہ علیہ و سلم ہے، جس کا منتظر سارا جہاں تھا۔

تقدیرِ بشر منتظرِ ختم رُسل تھی

ہر دور میں آئی خبر احمد مختار

                        (حفیظ تائب)

خاندان کی خواتین حضرت آمنہ کی خبرگیری کے لیے آئیں تو یوں محسوس کرتیں کہ آمنہ نور میں نہائی بیٹھی ہیں۔ ولادت کی بھیگتی شب پُر نور تھی، صبح صادق کا ستارہ چمک اُٹھا، غنچے چٹکنے لگے، کوہسار و میدان مہکنے لگے، خوش نوا پرندے چہکنے لگے، بادِ  سحر گاہی اٹکھیلیاں کرنے لگی، شبنم کے موتی دمکنے لگے، نکہتِ عنبر پھیلنے لگی، سارا عالم بقعۂ  نور بن گیا۔ یوں محسوس ہونے لگا سچ مچ جنت الفردوس سرزمینِ بطحا پر اُتر آئی ہے۔ بلکہ روایات بتاتی ہیں قصرِ کسریٰ کے چودہ کنگرے زمین بوس ہو گئے۔ آتشِ کدۂ فارس بجھ گیا۔ کریم و اکرم نے جمالِ سیّد کونینﷺ کو عرب و عجم میں پھیلا دیا ہے:

آؤ افلاک سے انوار کی بارش دیکھو

آؤ دیکھو کرمِ ربّ جلیل و اکرم

کنگرہ ریز تزلزل سے ہے قصرِ کسریٰ

ہوش گم کر دہ تحیر سے ہیں شاہانِ عجم

(اسد شاہ جہان پوری)

مستوں مکے میں قائم ہو گئے جب دینِ بیضا کے

گرے غش کھا کے چودہ کنگرے ایوانِ کسریٰ کے

سرِ فاراں پہ لہرانے لگا جب نور کا جھنڈا

ہوا اک آہ بھر کر فارس کا آتش کدہ ٹھنڈا

(حفیظ جالندھری)

درودِ جمالِ مصطفیٰﷺ دشتِ عرب کے ذرّوں کو جگمگانے لگا، جنت کو شرمانے لگا، شمس و قمر کو چندھیانے لگا۔ نغمۂ  توحیدِ الٰہی سنانے لگا، کفر و شرک ڈگمگانے لگا، صداقت کا اُجالا مسکرانے لگا، صبحِ سعادت کا میخانہ جامِ وحدت لنڈھانے لگا اور صحنِ گلستانِ مکہ مسرتوں کی بارش سے نہانے لگا۔

ہوا جلوہ گر آفتابِ رسالت، زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

مٹی دہر سے کفر و باطل کی ظلمت، زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

بہشت بریں کے کھلے باب سارے فلک سے ملائک سلامی کو اُترے

ہوئی سرورِ انبیا کی ولادت، زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

اُجالا صداقت، محبت، وفا کا، کراں تا کراں ساری دنیا میں پھیلا

ہوئی جب نمودار صبحِ سعادت، زمیں جگمگائی فلک جگمگایا

(حفیظ تائب)

جمالِ رحمت عالمﷺ کی تابانیاں دارِ عبداللہ میں چراغاں کرنے لگیں، قلب و آغوشِ آمنہ کو فروزاں کرنے لگیں۔ حضرت آمنہ فرماتی ہیں ’’اس وقت میں نے ایک عظیم نور دیکھا جو پھیلتا ہی جا رہا ہے‘‘ یہی تو جمالِ خیر الوریٰﷺ ہے جو جہانِ ویراں کو گلزار بنانے والا ہے، عروسِ گیتی کو مینائیں دینے والا ہے:

آیا ہے وفا کی خوش بو سے سینوں کو بسا دینے والا

آیا ہے جہانِ ویراں کو گلزار بنا دینے والا

آیا ہے نگارِ ہستی کی زلفیں سلجھا دینے والا

آیا ہے عروسِ گیتی کے چہرے کو ضیا دینے والا

 (حفیظ تائب)

 باغِ عالم میں نئی چھب سے بہار آئی ہے

ہر چمن مرکزِ رنگینی و رعنائی ہے

رحمتِ حق کی دو عالم پہ گھٹا چھائی ہے

عرش سے مژدۂ نو بادِ صبا لائی ہے

صبحِ میلادِ نبی کی ہے خوشی گلشن میں

خلد بر کف ہے نسیمِ سحری گلشن میں

 (ضیاء القادری بدایونی)

حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا:

اللہ نے ساری مخلوق کو پیدا کیا، ان میں سب سے بہتر مجھے بنایا، اس کے بعد قبائل کو چنا اور اُن میں سے بہتر قبیلہ سے مجھے بنایا، پھر گھروں کو چنا اور سب سے بہتر میرا گھرانہ بنایا، جان لو! کہ اپنی ذات اور شخصیت کے اعتبار سے بھی اور گھر کے اعتبار سے بھی میں لوگوں میں سب سے بہتر ہوں۔ ٭۱۶

یہی وہ ایک ابتدائی تصدیقِ جمالِ ہادیِ برحق ہے، قرطبی کتاب الصلوٰۃ میں کہتے ہیں:

نبی علیہ السلام کا حسنِ سراپا ہم پر ظاہر نہیں کیا گیا، اگر آپ کا حسنِ سراپا پورے طور پر ظاہر کر دیا جاتا تو آنکھیں اس کے دیدار سے عاجز و درماندہ ہو جاتیں۔ ٭۱۷

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا نے اس ظہورِ جمالِ محمدی کی اطلاع عبدالمطلب کو پہنچائی تو وہ شاداں و فرحاں تشریف لائے۔ مظہرِ لطف و عطا، کانِ حیا، نجم الہدیٰ کو اُٹھا کر خانۂ  کعبہ میں لے آئے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دُعا کی، جمالِ نومولود پر نگاہ پڑی، پکار اُٹھے محمد، حسین و جمیل اور معانی سے لبریز اسمِ گرامی رکھا۔ ’’ساری دنیا میں آپ کی تعریف کی جائے گی‘‘ یہ جمالِ مصطفیٰ کا خانۂ  کعبہ میں پہلا داخلہ تھا، اسی نسبت سے یہ گھر توحید کا مرکز بنے گا، نورِ ربّ کائنات کی تجلیات یہاں سے سارے عالم میں پھیلیں گی اور جمالِ محرمِ کبریائے ربّ ودود بھی اخلاقِ انسانیت کو جگمگائے گا۔ اسی کی کاوشوں سے حرمِ کعبہ تجلی گاہِ خالقِ کون و مکاں بن جائے گا اور باطل کی آلائشوں اور کفر و شرک کی ظلمتوں سے پاک ہو جائے گا اور جمالِ سیرتِ اقدس سارے جن و انس کو منزل دکھائے گا۔

وہ آئینہ دکھایا جس نے عکس روئے جاناں کو

نمایاں کر دیا جس نے فروغِ حسنِ پنہاں کو

چراغاں کر دیا جس نے تجلی گاہِ امکاں کو

عطا کی دولتِ نظارہ جس نے دیدۂ  جاں کو

وہ جلوہ اب جمالِ احمدی میں بے نقاب آیا

(اقبال سہیل)

ناگاہ تیرگی کی ردا چاک ہو گئی

پیشِ نگاہ مطلع، انوار آ گیا

اسلوب زندگی کا ہوا دلکش و حسیں

امن و سلامتی کا علم دار آ گیا

پا کر خدا سے رحمتِ دارین کا لقب

سارے جہاں کا مونس و غم خوار آ گیا

 (حفیظ تائب)

دستورِ عرب کے مطابق یہ درّ یتیم قبیلہ سعد بن بکر میں آغوشِ حلیمہ میں نور و جمال بن کر چمکنے لگا۔ قحط زدہ علاقے میں برکات کا ابرِ کرم برسنے لگا۔ دودھ کی نہریں بہنے لگیں، سرسبز و شاداب فصلیں لہلہانے لگیں۔ پھر قادرِ مطلق نے جمالِ محمدﷺ کو جاوداں ضو فشانی عطا کرنے کے لیے بروایت انس بن مالکؓ حضرت جبریل علیہ السلام کو آپ کا سینۂ  مبارک چاک کر کے شیطانی حصہ نکالنے اور دل کو آبِ زمزم سے دھو کر مصفّا کرنے کا حکم دیا۔ یوں یہ جمالِ جمیل الشیم، شفیع الامم، گنجِ نعمﷺ ہر لمحے، ہر عہد اور ہر زمانے کے لیے شمس الضحیٰ، بدر الدجیٰ بنا دیا گیا:

وسعت میں دشت کی لگا پلنے وہ شیر خوار

حسن و جمال و نور پر ہوتے تھے سب نثار

شیما کے ساتھ کھیلتا گھر میں تھا ہونہار

ریوڑ چرانے کھیتوں میں جاتا تھا ذی وقار

محنت بنی تھی آپ کی سرمایۂ  حیات

پائی تھیں رہنمائی کی ساری حسیں صفات

حکمِ خدائے خالقِ ارض و سما ملا

سینے کو چاک کرنے تھا جبریلؑ آ گیا

زمزم سے دھو کے سینے میں دل کو تھا پھر رکھا

اس فعل سے حلیمہ کا دل تھا دہل گیا

اس واقعہ نے کر دیا ششدر حلیمہ کو

پہنچی وہ لے کے بطحا میں نورِ جمیلہ کو

 (گوہر ملسیانی)

حارث کے گھر میں پہنچے، شیما کے ساتھ کھیلے

دل کش بنے تھے اس دم دیہات کے نظارے

جو بنو سعد کے ریوڑ کا محافظ تھا کبھی

وہ دو عالم کا نگہبان ہے سبحان اللہ

(حفیظ تائب)

شجرِ سایہ دار کی شاخیں چاروں جانب پھیلنے لگیں، دھوپ کی شدّت، سورج کی تمازت نے جب صحرائے عرب میں آتشِ شرک کو تیز کر دیا تو لطفِ خدائے غفور جوش میں آیا۔ محسنِ انسانیتﷺ نے نبوت کے فرائض کی انجام دہی سے قبل بھی میدانِ عمل میں اپنے جمالِ حق و صداقت اور عدل و مساوات سے، گھومتے ہوئے عداوت کے بگولوں اور تیرہ و تاریک لمحوں کو روشن کر دیا۔ جنگِ فجار ہو یا حلف الفضول، بیت اللہ کی تعمیر ہو یا حجرِ اسود کی تنصیب کا جھگڑا، ہر مقام پر بڑھتی ہوئی تاریکیوں کو اپنے جمالِ فہم و فراست سے کافور کی طرح اُڑا دیا۔ عقل و خرد کے خصائص پر نازاں ابو اُمیہ جیسا عمر رسیدہ شخص بھی جس قولِ فیصل کا داعی بنا، اس قرعۂ  خیال کا نتیجہ بھی جمالِ صادق و امین کے حق میں نکلا۔ نورِ سحر ابھی فاران کی چوٹیوں پر پھیلا نہیں تھا کہ جمالِ سراجاً منیراﷺ سر اُٹھائی ہوئی دیوارِ کعبہ پر دمکنے لگا۔ کعبہ میں داخلہ ہونے والا سب سے پہلا شخص جامع الصفات، سرورِ کائناتﷺ تھا۔ اس جمالِ عرب و عجم کو دیکھ کر قریش پکار اُٹھے:

’’ھذا الامین رضیناہ، ھذا محمداً‘‘

یہ محمد ہیں جو کہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں۔

میانوں سے نکلی ہوئی تلواریں تھم گئیں اور شور مچاتے ہوئے سردارانِ قریش خاموش ہو گئے، جمالِ عادلِ انور ماحول کو تابانی عطا کر گیا۔

سب جابر، بے ڈھب لوگوں نے تسلیم کیا ثالث ان کو

جو نور کے تڑکے آئے تھے، اک صادق، عادل کعبہ میں

٭

حجرِ اسود کے نصب کرنے کا جو اقدام تھا

دشمنانِ حق نے بھی دیکھا بصیرت کا سفر

(گوہر ملسیانی)

اسی میں تو جمالِ تہذیب ہے، جوانی کے عالم میں یہ جمالِ پاکیزہ صرف اور صرف سیّد عرب و عجم کی حیاتِ طیبہ میں ملتا ہے۔ پروفیسر محمد اقبال جاوید کے ان الفاظ میں جمالِ شبابِ شہ کارِ کمالِ قدرت حسن کے تمام درخشاں زاویے لیے ملتا ہے:

حضورﷺ میں کس ادا کی کمی تھی۔ آپ سے زیادہ حسین کسی آنکھ نے نہ دیکھا تھا۔ آپ حسنِ صورت کے اعتبار سے احسن اور اجمل تھے۔ یوں لگتا تھا کہ آپ اپنی مرضی کے مطابق دنیا میں آئے ہیں۔ اس ظاہری کمال جمال کے ساتھ آپ سیرت کے لحاظ سے بھی بے مثال تھے۔ آپ ہر عیب سے مبرّا تھے کہ آپ کے ہر قدم، ہر فعل اور ہر قول کی نگران وہ آنکھ تھی جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ، نتیجہ معلوم کہ جذبات کا بہکنا تو کجا، آپ کے حاشیۂ  خیال کو کوئی ہلکی سی آلودگی بھی مس نہ کر سکی۔ اسی لیے عرب کے اس حسین و جمیل اور جسیم و قوی نوجوان پر بھی جوانی آئی مگر ایک لمحے کے لیے بھی حکایت، شکایت نہیں بنی۔ اُن کی جوانی تو بہار کا ایک مشک بار جھونکا تھا کہ مہک بکھیرتا چلا گیا۔ ایک شانِ بے نیازی کے ساتھ اور عرب کی لغویات و خرافات منہ دیکھتی رہ گئیں۔ یوں اسی پاک باز نوجوان کی محتاط جوانی ایک ضرب المثل بن گئی۔       ٭۱۸

خلقت مبرأً من کل عیب

کانک قد خلقت کما تشاء

اور مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی نے اس حسنِ جوانی کو یوں بیان کیا ہے:

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری

حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

اللہ رے تیرے جسمِ منور کی تابشیں

اے جانِ جاں، میں جانِ تجلّا کہوں تجھے

(اعلیٰ حضرت احمد رضا خاں بریلوی)

پھول، کلیوں سے معطر ہے جوانی آپ کی

رحمت و خیرِ دو عالم ہے کہانی آپ کی

(گوہر ملسیانی)

جہالت کے تند و تیز بگولے گھومنے لگے، انسانیت کراہنے لگی، نسوانیت چیخنے لگی اور تاریکی دنیائے شرافت کو ڈھانپنے لگی۔ جمالِ محسنِ انسانیتﷺ کو عام کرنے کا وقت قریب آنے لگا تو خالقِ ارض و سماوات نے مرکزِ دائرۂ ِ زمین و آسماں مکہ مکرمہ کی غارِ حرا کو منور کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ غارِ حرا کی تنہائی میں بندۂ  رفیع الشان غور و فکر میں مصروف اور دیدارِ بیت اللہ سے معمور رہنے لگا۔ آخر ایک رات یہی غارِ حرا جگمگا اُٹھی، روح الامین فرمانِ خالقِ کائنات، پہلی وحی، پہلی ہدایت لے کر حاضر ہوئے اور محمد و احمدﷺ کو مژدہ سنایا: اے محمد! آپ کو جمالِ نبوت سے سرفراز فرما دیا گیا ہے، پڑھو! اقرأ باسم ربک الذی خلقo یہ سورۃ العلق کی پہلی پانچ آیات ہیں جن سے وحی کا آغاز ہوا اور یہی نورِ نبوت جبلِ نور سے ساری کائنات کو منور کرنے کا وسیلہ بنا۔

شبستانِ حرا کیوں کر نہ بنتا مرکزِ عرفان

کہ ہے پہلے پہل نورِ نبوت دیکھنے والا

٭

   اس عابدِ حرا کی ترتیل و خامشی پر

قرباں ہیں سب ترنم، صدقے ہیں سب تکلم

٭

سمٹا ہوا تھا غارِ حرا میں جو نورِ پاک

روشن اسی سے دہر کراں تا کراں ہوا

(حفیظ تائب)

  شبِ دیجور میں غارِ حرا جس سے منور تھی

درخشاں ہو گئی اس نور سے پھر زندگی اپنی

٭

   جب تارِ نفس نے گھیرا تھا، اس دنیا کے ہر قریہ کو

بکھری تھیں رسالت کی کرنیں پھر غارِ حرا سے دنیا میں

(گوہر ملسیانی)

تنہا اُسے دیکھا ہے اے غارِ حرا تو نے

پایا ہے اُسے تو نے اے کوہِ صفا تنہا

(انجم رومانی)

غارِ حرا کو نور ملا جس کے یمن سے

آئینہ دارِ آیۂ  اقراء تمھیں تو ہو

(بشیر صدیقی)

وہ آفتابِ حرم، نازنینِ کنج حرا

وہ دل کا نور، وہ ارباب درد کا مقصود

(اصغر گونڈوی)

   سلام اے جلوۂ  بدر الدجیٰ تیرے تخیل سے

شبِ غارِ حرا کی ظلمتیں رہتی ہیں نورانی

(نثار بارہ بنکوی)

شمس الضحیٰ ہوا کبھی بدر الدجیٰ ہوا

غارِ حرا میں بیٹھنے والا کہیں جسے

(اصغر سودائی)

دیکھ کر غارِ حرا سوچتا ہوں

کتنی بھرپور تھی خلوت ان کی

(احمد ندیم قاسمی)

   صدائے لا الہ سے گونج اُٹھیں وادیاں یکسر

حرا سے نغمۂ  توحید جب گاتا ہوا نکلا

(قاضی عبدالرحمن)

غارِ حرا کی خلوت نشینی عطائے نورِ نبوت سے منور ہے۔ شعرائے کرام کے ہاں جبلِ نور میں آپ کے جمال کی درخشانی نعت کو ایک دل کش موضوع سے نوازتی ہے۔ یہاں آپ وقفے وقفے سے سات سال تشریف لاتے رہے اور آخر ۱۷ رمضان المبارک ۴۱ میلاد بروز دو شنبہ مطابق ۶ اگست ۶۱۰ء میں آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی  ٭۱۹ اور غارِ حرا چمک اُٹھی، یہی جمالِ نبوت پھر دنیا بھر میں نور پھیلانے لگا:

وہ شمع جو کبھی غارِ حرا میں روشن تھی

وہ شمع وسعت کون و مکاں میں روشن ہے

(غنی دہلوی)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

رسول اللہﷺ پر وحی کا آغاز نیند میں اچھے خواب سے ہوا، آپ جو خواب دیکھتے وہ سفیدۂ  صبح کی طرح نمودار ہوتا، پھر آپ کو تنہائی پسند آنے لگی، چناں چہ آپ غارِ حرا میں خلوت اختیار فرماتے اور کئی کئی رات گھر آئے بغیر عبادت کرتے، اور اس عرصہ کے لیے توشہ بھی لے جاتے۔ پھر حضرت خدیجہؓ کے پاس واپس آتے اور اسی جیسی مدت کے لیے پھر توشہ لے جاتے۔ ٭۲۰

اللہ تعالیٰ نے انسانیت کو راہِ ہدایت دکھانے کے لیے شب چراغِ رہ نورداں کو نورِ قرآن سے منور کرنا شروع کیا اور یہ جمالِ نبوت اہلِ خانہ اور قرابت داروں کو ضیائیں عطا کرتا ہوا، حکمِ ربانی کے مطابق کھلم کھلا کلمۂ  حق بلند کرتا ہوا نورِ وحدت سے دنیا کو روشن کرنے لگا۔ چناں چہ محسنِ انسانیتﷺ ایک روز صفا پہاڑی پر تشریف لے گئے اور سب سے اونچے پتھر پر چڑھ کر صدا لگائی: ’’یا صَبَاحاہ! ہائے صبح‘‘ یہ کلمہ بڑے حادثہ کے وقوع پذیر ہونے کا مظہر ہے۔ سب لوگ دوڑتے آئے تو آپ نے فرمایا:

یہ بتاؤ اگر میں کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے وادی میں ایک گھڑ سوار فوج تم پر حملہ آور ہونا چاہتی ہے تو کیا تم مجھے سچا مانو گے؟

     سب پکار اُٹھے:

ہاں ہاں ہم نے ہمیشہ آپ کو سچّا پایا ہے۔

آپ نے انھیں بتایا کہ اللہ نے مجھے سخت عذاب سے پہلے تمھیں ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے تو لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا سچے دل سے اقرار کرو تو دنیا میں اور آخرت میں فلاح پاؤ گے۔

یہ وہ جمالِ مصطفیٰﷺ کی پہلی کرن ہے جس نے دنیا کو چونکا دیا۔

صباحا! کی صدا گونجی تو دیکھا اہلِ مکہ نے

سرِ کوہِ صفا اک نور کا ہالہ چمکتا ہے

٭

دے رہی تھی وہ پیامِ سرمدی ہر شخص کو

گونجتی تھی جو صفا پر جانفزا دل کش صدا

(گوہر ملسیانی)

    سرِ صفا کی تجلیوں سے چمک اُٹھا ریگزارِ بطحا

تمام دور و  درازِ عالم، تمام قرب و جوارِ بطحا

(حفیظ تائب)

مہِ صفا ہو سرِ خواب جلوہ گر اے کاش!

ہو نور نور مرا قریۂ ِ نظر اے کاش!

(حفیظ تائب)

کوہِ صفا آئینہ ہے جس کا، مخزنِ قرآں سینہ ہے جس کا

دوش پہ جس کے بارِ دو عالم، صلی اللہ علیہ و سلم

(نظیر لدھیانوی)

صفا کی روشن بلندیوں سے

مرے نبی کی ندائے باطل گداز ابھری

قریش کو آپ نے پکارا

وہ آ گئے تو ہوا یہ ارشاد

اگر میں کہہ دوں

کہ ایک لشکر پہاڑ کے اس طرف کھڑا ہے

تو کیا مری بات مان لو گے؟

وہاں کئی اہلِ علم و اربابِ سیف ہوں گے

کئی کمیت شناس و دانائے کیف ہوں گے

ہنر ورانِ گمان و ایہام ہوں گے ان میں

رہینِ تشکیک و ریب بھی عام ہوں گے ان میں

کئی مفکر کئی مبلغ

کئی سیاست کے عبقری بھی

کئی قیادت کے شستری بھی

محققین و فلاسفر بھی

یلانِ بحث و مناظرہ بھی

مگر کسی میں نہ تھی یہ جرأت

کہ وہ محمد کے قول کو معتبر نہ سمجھے

… … … … …

میں کہہ رہا ہوں

سوائے اللہ کے نہیں ہے الٰہ کوئی!

(جعفر بلوچ)

دعوتِ حق کا یہ سلسلہ شروع ہوا تو جمالِ مہر و جلالت و مہر صداقت کو گھنگور گھٹاؤں میں چھپانے اور تشدد و جبر سے ڈرانے کے حربے بھی آزمائے جانے لگے مگر حسنِ تبلیغ نکھرتا گیا، جلوۂ  توحید بکھرتا گیا۔ حاجیوں کے آنے والے قافلوں میں، ٹھہرنے کے مقامات میں، بازاروں میں، میلوں میں گنج مواعظ، شاہد و صادق، توحید و الوہیت کا مبلغ، اپنوں اور پرایوں کی سختیاں سہتا، تلخ و ناگوار باتیں سنتا، نورِ وحدت پھیلاتا چلا گیا۔ اہلِ دل حسنِ تدبر، جمالِ تفکر اور ضیائے تصور، بدرِ منور اور روحِ مصور پر تصدق ہوتے رہے۔ وادیِ فاراں اور بلدِ بطحا میں جب نورِ توحید کی اشاعت مشکل ہو گئی تو انیسِ بیکساں، ہادیِ جہاں، اُمیدِ نااُمیداں اس وادی سرسبز و شاداب جو دو پہاڑوں کے درمیان لہلہاتی تھی جو مکہ سے ۴۰ میل کے فاصلے پر کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی لات کی پجاری تھی، طائف میں پہنچے، حضرت زید بن حارثہؓ جو آپ کے آزاد کر دہ غلام اور جاں نثار و ہمدم تھے، آپ کے ساتھ تھے۔ خیالِ سرورِ کائنات ﷺ تھا کہ آپ کا جمالِ دعوت کسی نہ کسی سردار کے دل کو منور کر دے گا اور اس کی حمایتِ کارِ نبوت میں آسانی پیدا کرے گی۔ مگر کسی نے شاہِ رسولاں ﷺ کی بات نہ مانی بلکہ در پے آزار ہوئے، پتھروں کی بارش، اوباش لڑکوں کی بدزبانی، کیا کچھ نہ ہوا۔ آپ چوٹی سے پاؤں تک لہو میں نہا گئے۔ حضرت زیدص آپ کے لیے ڈھال بن جاتے، اُن کا بھی سر پھٹ گیا۔ رحمت عالمﷺ زخموں سے نڈھال عتبہ بئربیعہ کے باغ پہنچے۔ اس کا غلام عداس انگور لایا اور کلمۂ  بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم سُن کر دولتِ اسلام سے مالامال ہو گیا۔ آپ نے وہاں دُعا مانگی تھی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں نے رسول اللہﷺ سے پوچھا کہ اُحد سے بھی زیادہ سخت کوئی دن آپ پر گزرا ہے؟ تو حضور اکرمﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ سخت دن وہ تھا جب میں طائف میں اسلام کی دعوت دینے پہنچا تو مجھے لہولہان کر دیا گیا۔ میں ایک طرف چل پڑا، مقام قرن الثعلب پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ابرِ سیاہ چھا جاتا ہے اور جبریل کی آواز گونجتی ہے: ’’اے محمد! اللہ نے سب کچھ سُن لیا ہے۔ اس وقت پہاڑوں کا فرشتہ حاضر ہے۔ آپ جو چاہیں اسے حکم فرمائیں۔ ‘‘

فرشتہ حاضر ہوا اور کہا ’’اگر آپ حکم فرمائیں تو میں اہلِ طائف کو ان کے دونوں طرف اونچے کھڑے ہوئے پہاڑوں میں کچل ڈالوں ‘‘مگر آپ رحمت للعالمین تھے۔

آپ نے فرمایا: ’’نہیں مجھے اُمید ہے اُن کی پشت سے اللہ تعالیٰ ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اللہ کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کے ساتھ شریک نہیں کریں گے۔ ‘‘٭۲۱

یہی تو جمالِ رحمت ہے جو چاروں طرف چمکتا رہا، مشکلات میں دمکتا رہا۔

شجر ہائے اصنافِ سخن کی نرم و نازک کونپلوں اور ہری بھری شاخساروں پر گل ہائے رنگا رنگ مہکتے ہیں۔ جن میں صنفِ نعت گلِ سر سبد کی حیثیت رکھتی ہے، اس کی نکہت قلب و جاں معطر کرتی ہے۔ شعرائے نعت کے کلام میں جمالِ رحمت کی بوقلمونی اور طائف جیسے لہو رنگ واقعات کی ضو فشانی صنفِ نعت کو توقیر و وقار، حسن و معیار اور سخن زرنگار سے مرصع کرتی ہے۔ یہ ذکرِ جمال و نور ماضی میں خاص طور پر اور عصرِ حاضر میں عام طور پر شوکتِ شعر ہی نہیں، شوکتِ ایمان بھی عطا کرتا ہے۔ روحِ ارض و سماوات، مخزنِ کائناتﷺ کے نورانی حالات، مشکلات سے لبریز واقعات اور درخشاں صفات و برکات، صنفِ نعت کو تابانی اور فکر و خیالات کو جولائی سے نوازتے ہیں اور شعرائے کرام کو موضوعاتِ پُر جمال کی جانب مائل کرتے ہیں۔ ان کے گلہائے اظہار میں نور و جمال ہے اور یوں سمجھیے کہ ہر گلِ را رنگ و بوئے دیگر است:

طائف کی مسافت ہو کہ ہجرت کا سماں ہو

ہمت کا سبق ہر سفرِ  احمدِ مختار

(حفیظ تائب)

اے طائف و بطحا کے دل افروز اجالے

اے ماہِ منیٰ، مہرِ صفا، احمد مختار

(سیماب اکبر آبادی)

طائف کا سفر ہو کہ مدینے کی ہو ہجرت

منہاجِ عمل آپ ہیں معراجِ یقیں آپ

(عبدالکریم ثمر)

زندگی میری ہے طائف کے سفر کا پر تو

میں نے پائی ہے ستم سہنے کی عادت تجھ سے

(عارف عبدالمتین)

عزیمت کا چمکتا نور میری چشم تر میں ہے

رہِ طائف کا روزِ خونچکاں میری نظر میں ہے

٭

مکہ کی گھاٹیوں میں طائف کی وادیوں میں

صبر و رضا کے مظہر حالات کے نظارے

پتھروں کی تیز بارش میں رسولِ ہاشمی

حادثہ طائف کا بھی تاریخ میں دل گیر ہے

٭

مکہ کے سرداروں، اہلِ طائف نے

کیسے کیسے ظلم نبی پر ڈھائے ہیں

(گوہر ملسیانی)

سلام اُس پر کہ جس کا ذکر ہے سارے صحائف میں

سلام اُس پر ہوا مجروح جو بازارِ طائف میں

(ماہر القادری)

کہیں تو زندگی پیرا بہ اندازِ لب عیسیٰ ؑ

کہیں توخطبہ فرما، اوج طائف پر کلیمانہ

(سیماب اکبر آبادی)

پھر بھی اعدا کے لیے لب سے دعا ہی نکلی

میرے سرکار نے طائف میں جو کھائے پتھر

(راجا رشید محمود)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت نے ظلم و ستم کا جو نقشہ پیش کیا ہے، اُسی میں درد و کرب نے آخری نقطہ کو چھو لیا ہے۔ اس کے بعد جمالِ کامیابی، نورِ مشیتِ ایزدی سے چمکتا دمکتا نکلتا ہے کہ منصب و مرتبۂ  خاتم پیغمبراں، خیرخواہِ دشمنان بارگاہِ الٰہی میں انتہائی حد تک بلند ہو جاتا ہے۔ بشارت کے پھول کھل جاتے ہیں، قرآن اس جمالِ عظمت کو یوں بیان کرتا ہے:

اُن کو کٹھنائی اور مصیبت نے آ لیا اور وہ خوب جھڑجھڑا گئے۔ یہاں تک کہ رسولﷺ اور اُن کے ساتھ ایمان لانے والے لوگ پکار اُٹھے کہ کب آئے گی اللہ کی مدد (اسی مرحلے میں پہنچ کر ان کو بشارت دی جاتی ہے کہ) سنو! اللہ کی مدد قریب ہے۔                          (سورۃ البقرۃ: ۲۱۴)

جمالِ شہنشاہِ زمنﷺ کو مدحت نگاروں نے نور سیرتِ سیّد الابرارﷺ کے مختلف مراحل سے کشید کیا ہے، یہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔ شعب ابی طالب کے کٹھن لمحے ابھی جاری تھے مگر مصدرِ حسنِ کمالات اپنے مشن پر علی الاعلان کاربند تھے۔ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ منیٰ میں تشریف فرما تھے۔ چاند کی چودھویں رات تھی، چاند ابھی طلوع ہوا تھا۔ آپ نے اپنی انگلی سے اُس کی طرف اشارہ کیا کہ وہ یکایک پھٹا اور اُس کے دو ٹکڑے ہو گئے، ایک ٹکڑا سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ یہ حالت بس ایک لحظہ کے لیے رہی اور پھر دونوں ٹکڑے آپس میں جڑ گئے۔ اس معجزے کو کفار نے جادو قرار دیا۔ قرآنِ حکیم نے اس واقعہ کا یوں ذکر کیا ہے:

قیامت کی گھڑی قریب آ گئی، اور چاند پھٹ گیا (مگر ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ) یہ خواہ کوئی نشانی دیکھ لیں، منہ موڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ تو چلتا ہوا جادو ہے۔                                                      (سورۃ القمر: ۲۷۱)

نعت کائنات ایسے کئی واقعات سے ضو فشاں اور بوئے جاں ساز مہکتی ہے۔ جمالیات کی یہ کہکشاں آج بھی شعرائے کرام کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جمالِ مصطفیٰ کے یہ نگینے نعتیہ کلام میں ضیا بار ہیں۔ ہر شاعر نے جمالِ صورتِ سرکارِ مدینہ، شہریارِ تجمل سے اپنے کلام کو منور کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گلستانِ نعت حسن و جمالِ رحمت عالم سے رنگین و پُر بہار ہے۔ یہی تو وہ نور ہے جس سے ہر وادی، ہر قریہ اور ہر کوہسار دمکتا ہے۔ آج بھی انسان اس نور، اس جمال سے زندگی کو جگمگاتا ہے۔ سیرتِ مرجع خاص و عام دنیوی اور اُخروی زندگی کی فلاح و کامیابی کی ضامن ہے۔ اس جمال سے دل کے شگوفے چمکتے اور کھلتے ہیں۔ یہی حسن جب کسی فنکار کے فکر و خیال کو جلا بخشتا ہے تو وہ اپنے جذبات کو عشق و شیفتگی سے مملو کر کے شعر کی صورت میں پیش کرتا ہے تو عقیدت کے یہ پھول ہر انسان کی زندگی کا سرمایہ بن جاتے ہیں۔

جس کی انگلی سے ہوا شق القمر

یار تھے اس کے ابوبکرؓ و عمرؓ

(نساخ عظیم آبادی)

زلفوں سے تری چینِ جبیں کا ہے اشارہ

ہو معجزۂ  شقِ قمر آئی ہے اب رات

(مرزا عزیز لکھنوی)

نبوت اوپر اس کے ربّ الجلیل

قمر کے کیا شق کوں روشن دلیل

(نوازش علی شیدا)

سلام اُس پر کہ جس نے چاند کو دو ٹکڑے فرمایا

سلام اُس پر کہ جس کے حکم سے سورج پلٹ آیا

(ماہر القادری)

   ہاں تو وہی رات ہے جس میں خدا سے ملا

صاحب شق القمر، شافع یوم النشور

(روش صدیقی)

انگلی کے اک اشارے سے شق القمر کیا

کتنا ہے اختیار فلک پر رسول کا

(دلو رام کوثری)

 جن کا ادنیٰ معجزہ شق القمر کا واقعہ

کہکشاں جن کا ہے خطِ رہ گزر، پیدا ہوئے

(ذوقی مظفر نگری)

شق القمر فلک پر دکھا کر جناب نے

بدلی ہے ممکنات سے صورت محال کی

(حکیم خادم علی)

ہے کون، وجہِ شقِ قمر جس کی ذات ہے

ظلمات میں پیامِ سحر کس کا نام ہے

(راجا رشید محمود)

نشاں ہے آپ کی انگشت کے اشارے کا

وہ ایک داغ جو قلبِ قمر میں رہتا ہے

(راجا رشید محمود)

واقعہ طائف کے بعد ہجرت سے قبل جمالِ مصطفیٰﷺ کو عروج تک پہنچایا گیا۔ ایک اور ممتاز واقعہ رونما ہوا۔ جس میں رحمتِ عالمﷺ کو شانِ کمال سے نوازا گیا۔ یہی وہ واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر مکہ بھر میں ہنگامہ برپا ہوا۔ معراج کے تمام مشاہدات جو جمالِ سرورِ کونین سے منور ہیں۔ بیت المقدس اور راستے کی علامتیں جو ساقیِ کوثر نے بتائیں، اُن کی بعد میں تصدیق ہو گئی۔ سورۂ  بنی اسرائیل کا آغاز ہی واقعہ اسرا کے تذکرے سے ہوا۔ ان نکاتِ وحی کا جمال جانِ جہاں، ہادیِ زماں کی سعیِ پیہم سے سیلاب کی طرح اُمنڈتا ملتا ہے۔ یہ وہ وقت ہے جس میں طائف گھٹاؤں میں چھپ گیا اور یثرب جمالِ فخر جہاں سے روشن ہو گیا۔ شعرائے کرام نے جمالِ معراج کو اپنے اپنے انداز میں نعت میں سمویا ہے۔ علامہ اقبالؔ نے اپنے فلسفۂ  خودی کے حوالے سے معراجِ مصطفیٰﷺ کو جمال کی معراج کہا کہ ایک باجمال انسان نے آسمانوں کی سیر کی اور یہ انسانیت کی معراج ہے۔

سبق ملا ہے یہ معراجِ مصطفیٰ سے مجھے

کہ عالمِ بشریت کی زد میں ہے گردوں

(علامہ اقبال)

اسی جمالِ معراج کا اظہار ہمیں گلشنِ نعت میں مختلف رنگوں میں ملتا ہے۔ متقدمین کے ساتھ ساتھ عصرِ حاضر میں بھی مدحت میں اسلوبِ اظہار کی بوقلمونی ملتی ہے۔

وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے

نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے

(احمد رضا خاں بریلوی)

 شہنشاہِ سریرِ قاب قوسین احمدِ مرسل

شبِ اسریٰ میں جس کا فرشِ رہ تھا کاخِ کیوانی

(اقبال سہیل)

معبود نے عابد کو بلایا شبِ معراج

کھلنے کو ہیں اسرارِ رفَعنا شبِ معراج

(قمر یزدانی)

جس کا مشتاق ہے خود عرشِ بریں آج کی رات

اُمِ ہانی کے ہے گھر میں وہ مکیں آج کی رات

آنکھ میں عرضِ تمنا کی جھلک، لب پہ درود

آئے اس شان سے جبریلِ امیں آج کی رات

(ماہر القادری)

جلوہ افروز ہے اک ماہِ مبیں آج کی رات

نور ہی نور ہے تا حدِّ یقیں آج کی رات

حرمِ ناز میں پہنچے شہ دیں آج کی رات

حرمِ ناز ہے کچھ اور حسیں آج کی رات

(مظہر الدین)

وفورِ نور سے چہرے ستاروں کے چمک اُٹھے

مہ و پرویں کو تھا مدت سے جس کا انتظار آیا

(ضیا محمد ضیا)

اے صلِ علیٰ صاحبِ معراج کی سیرت

جو بات ہے اسلام کے سانچے میں ڈھلی ہے

(کوثر نیازی)

شبِ معراج چڑھ کر عرش پر دَم میں اُتر آیا

بیاں اس قلزمِ معنی کی ہو کیا جزر اور مد کا

(کرامت علی شہیدی)

نہ حرف و صوت میں وسعت نہ کام و لب میں سکت

حقیقتِ شبِ معراج کے بیاں کے لیے

ارادہ عرش پہ اک آن میں پہنچنے کا

کیا تھا عزم، اولوالعزم نے کہاں کے لیے

(الطاف حسین حالی)

جمالِ مصطفیﷺ بہارِ جاوداں کی طرح قریہ قریہ، وادی وادی، گلشن گلشن اپنی ضیائیں بکھیرتا رہا ہے۔ نعتیہ شاعری کے آغاز سے لے کر آج تک بلکہ روزِ محشر تک یہ حسنِ اشرف الانبیا مختلف اسالیب میں صفحۂ  قرطاس پر چمکتا رہے گا اور چمکتا رہا ہے۔ یہ فکر و شعور، محفل محفل سخن کے ہر زاویے میں تاباں رہے گا، نعت کے فن کاروں، شعری ہنر کے راز داروں، تصورات و خیالات کے شہریاروں اور جمالِ نعت کے زر نگاروں کو بدر الدجیٰ، شمس الضحیٰ اور امینِ جلوۂ  دوسرا کی رعنائیوں سے نوازتا رہے گا۔ سخن کی قلم رو میں اب نعت کا سکہ چلتا ہے اور عالمی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ سخن کی دارالضرب میں مدحت کے سکے ڈھلتے رہیں۔ اب سخن کی ٹکسال میں اگر کوئی سکّہ تشکیل پائے گا تو وہ صرف نعت کا سکّہ ہو گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے:

’’ان الدین عند اللّٰہ الاسلام‘‘ (آلِ عمران: ۱۹)

بلاشبہ اگر دین ہے تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے۔

اور اس دین کی تکمیل سیّد الابرار، احمد مختار، حبیبِ غفار، رسولِ ربّ ستار پر ہو چکی ہے۔ اس دین کی رہنمائی کے لیے کتابِ ہدیٰ اور سُنّتِ شافعِ یومِ جزا کو قیامت تک کے لیے محفوظ کر دیا ہے۔ یہی سُنتِ سرورِ عالمﷺ، جمالِ سیرتِ اقدس، جمالِ عملِ محسنِ انسانیتﷺ اور نورِ ہدایاتِ رحمت عالمﷺ کا مرقع ہے، جسے وحیِ الٰہی کے ذریعے سنوارا گیا۔ حقیقتاً یہ وحیِ غیر متلو (حدیث) ہے جو وحیِ متلو قرآنِ حکیم کی طرح ضو فشاں اور محفوظ و سلامت رہے گی۔ اس کی طرف اشارہ قرآنِ کریم میں اس طرح کیا گیا ہے:

وما ینطق عن الھویٰ o ان ہو الا وحی یوحیٰo    (النجم: ۳۔ ۴)

اور وہ اپنی خواہشِ نفس سے نہیں بولتا بلکہ یہ وحی ہے جو ان کی طرف کی جارہی ہے۔

وہ بے اہمال اسرارِ حقیقت کھولنے والا

خدا کے لفظ انسانی زباں میں بولنے والا

(سیماب اکبر آبادی)

اس وحیِ غیر متلو کی جانب غالبؔ نے فارسی زبان میں یوں بیان کیا ہے:

حق جلوہ گر،ز طرزِ بیانِ محمد است

آرے کلامِ حق، بزبانِ محمد است

 (غالب)

شعرائے کرام کی نعتیہ تخلیقات و نگارشات میں ہمیں ایسے مضامین و موضوعات ملتے ہیں، روایت کی پاسداری میں زیادہ تر تجلیاتِ شمائل و صورت ملتے ہیں اور پھر خیالات کی رو جمالِ سیرت، حسنِ اخلاق اور دیگر موضوعات کی جانب بہنے لگتی ہے۔ آج کی صحبت میں ہم شمائل و صورت کے جمالیاتی پہلو کو نعتیہ کلام کے شاداب گلشن میں دیکھیں گے اور کچھ چمنستانِ نعت میں جمالِ سیرت کے حسین و جمیل رنگ سے قلب و نظر کو منور کرنے کی سعی کریں گے۔

جہاں تک محسنِ انسانیتﷺ کے حسنِ صورت کی ہمہ گیری اور جمالیات کی پُر تاثیری کا معاملہ ہے ہمیں کتبِ سیرت و شمائل میں گلہائے تفصیل چمکتے دمکتے اور مہکتے ملتے ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے اپنی بصارت و بصیرت، حسنِ سیرت اور جمالِ شمائل سے مختلف انداز میں اپنے آپ کو منور کیا ہے۔ ذرا سفرِ ہجرت میں جمالِ مصطفیٰﷺ کا اسلوب دیکھیے کہ ظالم و جابر قریش گھر کو گھیرے بیٹھے ہیں، حضرت علیؓ آپ کے بستر پر سبز خضری چادر اوڑھے سوئے ہوئے ہیں، سرورِ کونینﷺ باہر تشریف لائے اور دشمنوں کے سروں پر مٹی ڈالتے نکلے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر پہنچے اور ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے یمن کا رُخ کیا اور فجر کی پو پھٹنے سے پہلے غارِ ثور میں جا پہنچے اور تین راتیں وہاں گزاریں۔

جب ثور کے اندر پہنچے ہیں، بو بکر بھی ہیں ہمراہ ان کے

کچھ درد میں ڈوبے لمحے ہیں، کچھ حسنِ وفا کی باتیں ہیں

 (گوہر ملسیانی)

تین دن رات رہے ثور کے غاروں میں نہاں

 تھا جہاں عقرب و افعی کی حکومت کا اثر

بیم جاں، خوفِ خدا، ترکِ غذا، سختیِ راہ

ان مصائب میں ہوئی اب شبِ ہجرت کی سحر

(شبلی نعمانی)

اے ثور کی راتوں کی ضیا احمدِ مختار

اے صبحِ درخشانِ حرا، احمد مختار

(سیماب اکبر آبادی)

 یار ہی نے ساتھ حضرت کا دیا مشکل کے وقت

غار میں ہمراہ جز صدیقِ اکبر کون تھا

(تسلیم لکھنوی)

عیر سے ثور تک نور ہی نور تھا

وادیِ نور جس سے عبارت ہوئی

٭

رفیقِ ثور کو پاکر پریشاں

پئے تسکین کوئی گویا ہوا ہے

(حفیظ تائب)

روشن ہوئی ہے مہرِ رسالت سے غارِ ثور

مذکور ہے یہ مرحلہ سیرت کے باب میں

(گوہر ملسیانی)

  مابین عیر و ثور ہیں جتنے نشانِ خیر

تقدیر میں ہوں اُن کی زیارات اے خدا

(حفیظ تائب)

ذکرِ جمیل کی تابانی تشدد کے لمحات سے گزرتی ہوئی جمالِ انقلاب بن جاتی ہے۔ قافلۂ  حق و صداقت، توحید و رسالت کا مرقع اور صبر و قناعت کا سرچشمہ جادۂ  ہجرت پر رواں دواں، ذرّاتِ سنگ، ریگ و خشت اور بادِ سموم کے تھپیڑوں سے نبرد آزما ہوتا ہوا قدم قدم پر اعدا سے الجھتا ہے مگر نصرتِ ایزدی لمحہ بہ لمحہ، لحظہ بہ لحظہ دامنِ لطف و کرم میں چھپاتی ہر تلخ و ترش ساعت سے بچاتی رہنمائی کرتی ہے اور جمالِ مصطفیٰ نکھرتا جاتا ہے۔ سحر کی صباحت، دن کی تمازت اور رات کی نظافت حسنِ آفتابِ چرخِ ہدایت، وجہِ وجیہہ خلقت، شہ کارِ کمالِ قدرت، پیغمبرِ دینِ فطرتﷺ کو لازوال و بے مثال بناتی چلی جاتی ہے۔

وہ پیغمبرِ انقلاب، امین الفقر فخری اور نورِ ہدایت کا داعی کٹھن منازل طے کرتا ہوا دار الہجرت کی سمت بڑھتا جا رہا ہے۔ قدید کا علاقہ ہے اور یہاں ایک چھوٹی سی بستی میں قبیلہ خزاعہ کے لوگ آباد ہیں۔ آفتابِ عارفاں، سراجِ سالکاں، انیس خستگاں راستے کے ساتھ خیمہ نما مکاں کے سامنے پہنچے۔ یہ اُمّ معبد کا خیمہ تھا۔ پختہ عمر، با وقار و با عفت خاتون اس گھر میں موجود تھیں جو اِس راستے پر چلنے والوں کو خوش آمدید کہتیں اور اُن کی پیاس بجھایا کرتیں، کھانا کھلایا کرتیں۔ وہ اب تنہا گھر میں تھیں، اُن کا شوہر بکریاں لے کر باہر گیا ہوا تھا۔ گھر کا ماحول خستہ سا تھا، خشک سالی اور قحط کا سماں تھا۔

محسنِ انسانیتﷺ اُس خیمے کے قریب سے گزرے تو قافلہ نور کے ایک رکن نے دریافت کیا: ’’کیا تمھارے پاس کچھ کھانے پینے کے لیے ہے؟‘‘اُم معبد نے کہا اس وقت تو گھر میں کچھ نہیں ہے۔ رحمت للعالمینﷺ کی نظر اچانک کونے میں کھڑی ایک دبلی پتلی بکری پر پڑی۔ کم زور ہونے کی وجہ سے اُمّ معبد کا شوہر اُسے ریوڑ کے ساتھ نہ لے کر گیا تھا۔ حضورﷺ نے فرمایا: ’’یہ بکری کیسی ہے؟ کیا یہ دودھ دیتی ہے؟‘‘اُمّ معبد نے کہا کہ یہ کمزور سی بکری جو ریوڑ کے ساتھ نہ جا سکی، کیا دودھ دے گی؟ کانِ سخاوت، گنجِ سعادتﷺ نے فرمایا: ’’اگر تم اجازت دو تو میں اس کا دودھ دوہ لوں؟‘‘

’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! اگر آپ چاہیں تو ضرور دوہ لیں ‘‘وہ بکری لائی گئی اور پھر رحمتِ خالقِ کائنات اس طرح کھل کر برسی کہ سب نہال و خوش و خرم ہو گئے۔ سب نے سیر ہو کر دودھ پیا بلکہ ابو معبد کے لیے بھی کوزہ بھر کر رکھ دیا گیا۔ قافلۂ  نور روانہ ہو گیا، ابو معبد آئے تو گھر کو بوئے غیر سے مہکتا پاکر اُمّ معبد سے گویا ہوئے۔ یہ بادِ بہاری کدھر سے آئی ہے جس نے اس خیمہ کو عطر کا پھویا بنا دیا ہے۔ کچھ کہو یہ نکہتِ گل ہائے تازہ کہاں سے آ  رہی ہے، یہ ضیائے دل رُبا کیسی پھیل رہی ہے‘‘ اس پر اُمّ معبد نے جو نورِ عیونِ اخیار صلی اللہ علیہ و سلم کے حسن و جمال کا نقشہ کھینچا ہے وہ سونے کے پانی سے لکھنے کی تمنا رکھتا ہے:

پاکیزہ رَو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، نہ توند نکلی ہوئی، نہ چندیا کے بال گرے ہوئے، زیبا، صاحبِ جمال، آنکھیں سیاہ و فراخ، بال لمبے اور گھنے، آواز میں بھاری پن، بلند گردن، روشن مردمک، سرمگیں چشم، باریک و پیوستہ ابرو، سیاہ گھنگھریالے بال، خاموش، وقار کے ساتھ گویا دل بستگی لیے ہوئے، دور سے دیکھنے میں ریبندہ و دل فریب، قریب سے نہایت شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے معرّا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی، میانہ قد کوتاہی سے حقیر نظر نہیں آتے۔ نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی۔ ریبندہ نہال کی تازہ شاخ، ریبندہ منظر، والا قدر، رفیق ایسے کہ ہر وقت اس کے گرد و پیش رہتے ہیں۔ جب وہ کچھ کہتا ہے تو چپ چاپ سنتے ہیں۔ حکم دیتا ہے تو تعمیل کے لیے جھپٹتے ہیں۔ مخدوم، مطاع، نہ کوتاہ سخن، نہ ترش رو نہ فضول گو۔   ٭۲۲

آیا جو شوہرِ امّ معبد تھکا ہوا

برتن میں دودھ دیکھ کے حیران رہ گیا

بڑھیا نے پھر سنایا اُسے سارا ماجرا

کرنے لگی بیاں وہ سراپا رسول کا

وصفِ نبی کا ایک نیا باب کھل گیا

سارا غبار شرک و معاصی کا دھُل گیا

پاکیزہ رو، کشادہ جبیں، صاحبِ جمال

ٹھہرے نگاہ چہرۂ  انور پہ کیا مجال

پیوستہ وہ بھنویں، وہ گھنیرے سیاہ بال

انداز پُر شکوہ، تو آواز پُر جلال

گفتار دل پذیر، خموشی میں اک وقار

الفاظ جیسے سلکِ گہر ہائے آبدار

جنت نظر وہ قامتِ موزوں و دل نشیں

عالم شکار وہ نگہِ چشمِ سرمگیں

اک شاہکارِ خلق، پسندیدہ خو، متیں

خود اعتماد و سیّد و مخدوم و پُر یقیں

یوں اپنے ساتھیوں میں نمایاں فلک مآب

ہو جس طرح ستاروں کے جھرمٹ میں ماہتاب

(محشر رسول نگری)

حسنِ دل کش کا بیاں ہے اور اک صحرا نشیں

اُمِ معبد کی زباں پر ہیں شمائل آپ کے

٭

تذکرہ ہر بزم میں ہے اس کا روز و شب یہاں

اُمِ معبد نے کہی جو نعتِ شاہِ انس و جاں

(گوہر ملسیانی)

تکے جاتی ہے اس کو اُمِ معبد

جو مہتاب اس کے گھر اُترا ہوا ہے

حفیظ تائب

  اُمِّ معبد کا بیاں تو پُر کشش تصویر ہے

ہر صفت ہے استعارہ ہے، پھیلتی تنویر ہے

(گوہر ملسیانی)

شام کو اس کا شوہر جوں ہی پلٹا گھر

ظرف میں کافی دودھ اس کو آیا نظر

پوچھا بیوی سے اے زوجۂ خوش عناں

شِیر آیا کہاں سے ہے یہ بے گماں

اُمِّ معبد نے سب کچھ بتایا اُسے

جو ہوا ماجرا تھا سنایا اُسے

اس پہ بولا وہ خوش بخت مجھ کو بتا

آنے والے کا حلیۂ  اقدس تھا کیا

دوستو پھر جو مہمانِ ذیشان کا

اس کو حلیہ اقدس بتایا گیا

بولا ہاں یہ وہی قرشی سردار ہیں

مردو زن جس سے کرتے سبھی پیار ہیں

(علامہ جاوید القادری)

اُمِ معبد کے واقعہ اور نمودِ سراپائے میرِ کارواں، سرچشمۂ  جاوداں، سرورِ کون و مکاں پر گلہائے عقیدت نچھاور کرنا مدحت نگاروں کا وسیلۂ  اظہار کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ بھی توفیقِ خداوندی ہے مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ یہ نذرانۂ  محبت توشۂ  آخرت بن جائے تو زندگی بار آور ہو جاتی ہے۔ الطاف قریشی کی ایک آزاد نظم ’’وہ شخص آج اِدھر سے جو ہو کے گزرا ہے‘‘، اپنے اندر بدرالدجیٰ، نورالہدیٰ، مرکزِ انوارِ خداﷺ کی وہ تمام صفات و شمائل کی تجلیات رکھتی ہیں جو اُمِ معبد نے بیان کی ہے۔ یہاں چند چنیدہ مصرعے درج کرتا ہوں:

وفورِ نور سے معمور چہرۂ  انور

کھلا کھلا سا

درخشندہ تر

بہت روشن

… …

نہ جسم بھاری تھا اُس کا

نہ تھا بدن کم زور

وہ خوبرو تھا

خوش اندام تھا

جمیل تھا وہ

… …

گھنی گھنی سی تھی داڑھی

دراز گردن تھی

خموشیوں میں بھی اس کی وقارِ گویائی

جو بولتا

تو صدا گرد و پیش چھا جاتی

وہ گفتگو تھی کہ موتی تھے جو نکلتے تھے

… …

نہ کم سخن تھا نہ بسیار بولنے والا

… …                                           (الطاف قریشی)

گلستانِ نعت میں یہ انوارِ سراپائے حضور، جمالِ محبوبِ ربّ غفور، مہرِ چرخ غیور و صبور نگاہوں میں بساتے، دلوں میں سموتے، شعرائے نعت سیرت کے انوار اور قرآنِ حکیم کی تجلیات سے اپنے کلام میں کہکشائیں سجاتے اور حسنِ صورت کی ارغوانی ہوائیں مہکاتے ہر دور میں دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بلیغ اور خوب صورت اشعار رحمت للعالمینﷺ کی حیاتِ طیبہ کے انوار اور حسنِ صورت کی تجلیات کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح سجاتے ہیں کہ نورِ فکر تصدق ہوتا جاتا ہے۔

اس کائناتِ انسانیت کے محسنِ اعظمﷺ مکّہ کے شدید طوفانوں سے ٹکراتے رہے مگر حسنِ دعوت و پیغام میں ثابت قدمی سے آگے بڑھتے رہے۔ اپنے رفقا کی فکری، ذہنی اور روحانی تربیت میں بھی مصروف رہے۔ اب یہ افراد کی تیاری اور اپنے اختتام کو پہنچ رہا تھا اور مدینہ میں اجتماعی نظام کی تشکیل کے دور کا آغاز ہونے والا تھا۔

جمالِ مصطفیٰﷺ کا سفر اپنی منزل مدینہ منورہ کی حدود میں روشنی پھیلا رہا تھا۔ قبا کی بستی چمک اُٹھی۔ مرد و زن نورانی جھلک دیکھنے کے متمنی، جمالِ صاحب المعراج کے دیدار کے پیاسے اور سرورِ کائناتﷺ کی ایک جھلک دیکھنے کے مشتاق تھے۔ بنی نجّار کی بچیاں جو استقبالیہ اشعار گا رہی تھیں وہ مدحتِ گل کدۂ  فردوس، تاجدارِ ملک ہدایت میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان اشعار میں ماہتاب کی ٹھنڈی ٹھنڈی کرنیں اور خلقِ عظیم کی دل کشا کلیاں چٹکتی ہیں:

طلع البدر علینا

من ثنیات الوداع

وجب الشکر علینا

ما دعا للّٰہ داع

ایھا المبعوث فینا

جنت بالامر المطاع

ہم پر وداعی ٹیلوں کے پیچھے سے چاند طلوع ہو گیا۔ اللہ کے لیے پکارنے والے کی دعوت پر ہمارے لیے شکر ادا کرنا ضروری ہے۔ اے ہمارے پیغمبر تو واقعی قابلِ اطاعت پیغام لایا ہے۔ ٭۲۳

بیمِ جاں، خوفِ خدا، ترکِ غذا، سختی راہ

ان مصائب میں ہوئی اب شبِ ہجرت کی سحر

ہاں مدینے میں ہوا غُل کہ رسول آتے ہیں

راہ میں آنکھ بچھانے لگے اربابِ نظر

لڑکیاں گانے لگیں شوق میں آ کر اشعار

نغمہ ہائے طلع البدر سے گونج اُٹھے گھر

ماں کی آغوش میں بچے بھی مچل جانے لگے

نازنینانِ حرم بھی نکل آئیں باہر

(شبلی نعمانی)

سنگ ریزوں سے گزرتا، سخت گرمی جھیلتا

جا رہا ہے جو مدینے کاروانِ پُر کشش

(گوہر ملسیانی)

اس منزل پر پہنچ کر نعت کے سخنور کی کیفیات ساون کے بادلوں کی طرح اپنی رم جھم میں سرور اور سحر و فسوں پاتی ہیں۔ جذبے کی سچائی اور اظہار کی مساعی خلوص و صداقت سے لبریز ہو جاتی ہے۔ نعت کے اشعار میں معانی و مفاہیم اور اسلوب میں نکہتِ شمیم کا نیا رنگ و آہنگ ہویدا ہو جاتا ہے۔ شعر و سخن کے پہلے ادوار میں عارضِ گلگونہ اور شمائلِ گنجینہ کے مضامین روایت کا حصہ بن کر عصرِ حاضر تک پھیلتے چلے آتے ہیں۔ معدنِ لطفِ عجم اور مخزنِ خلقِ عظیم سے محبت جزوِ ایمان ہے اور اس کے مختلف پہلو ہیں۔ شعرائے نعت اپنے اپنے خیالات کی ترجمانی کے لیے اپنی اپنی تخلیقی سچائی کے اظہار کے لیے اپنا پسندیدہ پہلو منتخب کرتے ہیں۔ شمائل کی جمالیاتی کیفیات کا انتخاب جن شعرا نے کیا، انھوں نے احادیث (وحیِ غیر متلو) سے استفادہ کیا اور اپنے جذبات کو صوری محاسنِ رسولِ کریمﷺ سے لبریز کیا اور پھر جمالِ ٰﷺ کی قندیلیں جلائیں۔ روایاتِ حسن و جمال کی بوقلمونی سے اہلِ فکر و سخن نے اپنے کلام کو جلا بخشی ہے۔ روایت ہے کہ ’’حضرت براء بن عازبؓ سے کسی نے پوچھا، کیا نبی علیہ السلام کا چہرہ چمک دمک میں تلوار کی طرح تھا؟ تو حضرت براءؓ نے کہا: نہیں۔ آپ کا چہرۂ  مبارک تو چاند کی طرح حسین تھا۔ آپ کا رنگ کھلا ہوا تھا، نہ گندم گوں تھا اور نہ سیاہی کی طرف مائل، بلکہ انتہائی ملیح اور پُر کشش تھا۔ ‘‘٭۲۴

قرآنِ حکیم میں بھی ربِّ کائنات نے آپ کو روشن چراغ کہا گیا ہے۔

’’وداعیاً الی اللّٰہ باذنہٖ وسراجاً منیراً‘‘                       (احزاب: ۴۶)

اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والے ہیں اور آپ ایک روشن چراغ ہیں۔

رحمتِ عالمﷺ کے عمِّ محترم حضرت ابوطالب نے آپ کی تعریف میں یہ شعر کہا ہے:

وابیض یستسقیٰ الغمام بوجہہ

شمال الیتامیٰ عصمۃ للدرامل

                                 (ابوطالب)

آپ کا چہرہ ایسا روشن اور تاباں ہے کہ تشنہ لب اس سے سیرابی حاصل کرتے ہیں، جو یتیموں کا سہارا اور بیواؤں کی پناہ گاہ ہے۔

اُمّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جمالِ سرورِ کونین کو یوں بیان کیا ہے:

متی یبدء فی الدّاجی البھیم جبینہ

یلح مثل مصباح الدجیٰ المتوقد

                             (حضرت عائشہ)

اندھیری رات میں ان کی پیشانی نظر آتی تھی تو اس طرح چمکتی تھی جیسے روشن چراغ۔

حضرت علیؓ نے بھی جمالِ ماہِ فروزاں ﷺ کا نقشہ یوں کھینچا ہے:

والبدر یقصر نورہ

اذ مستبان ظھورہ

  (حضرت علی)

اور چودھویں رات کا چاند اپنے نور میں کمی کرتا ہے جب آں حضرت کا نور ظہور فرماتا ہے۔

حضرت زین العابدینؓ نے رُخِ انور کو یوں بیان فرمایا ہے:

من وجہہ شمس الضحیٰ من خدہ بدر الدجیٰ

من ذاتہ نورالہدی من کفہ بحر الھمم

 (زین العابدین)

جن کا چہرۂ  انور مہرِ نیم روز ہے اور جن کے رخسارِ تاباں ماہِ کامل، جن کی ذات نورِ ہدایت ہے، جن کی ہتھیلی سخاوت میں دریا۔  (مخزنِ نعت)

اُردو زبان کے شعرائے کرام نے بھی جمالِ رُخِ گنجِ سعادتﷺ کو دل کش انداز میں اشعار کی زینت بتایا ہے جو قلب و نظر کو مسحور و شاد کام کرتے ہیں:

رخِ خیر البشر تو پھر رخِ خیر البشر ٹھہرا

ان آنکھوں سے درِ خیرالبشر دیکھا نہیں جاتا

(احسان دانش)

ہے تصورِ رخِ مصطفی لیے یادِ گیسوئے مشک سا

وہی مشغلہ دمِ صبح ہے وہی تذکرہ سرِ شام ہے

(وحشت کلکتوی)

اے خاورِ حجاز کے رخشندہ آفتاب

صبحِ ازل ہے تیری تجلی سے فیض یاب

(ظفر علی خاں)

نسبتِ رخِ اقدس کو مہ و مہر سے صادق

اے توبہ! کہاں مہر، کہاں ماہ، کہاں آپ

(آغا صادق)

تیرے انوار کی ہلکی سی جھلک ہے ان میں

دیکھتا رہتا ہوں میں شمس و قمر کی صورت

(حافظ لدھیانوی)

  تشبیہ کے لیے ہیں یہ خورشید و ماہتاب

حاجت ہی ورنہ کیا تھی رُخِ مصطفی کے بعد

(فنا نظامی)

اے ترے رُخ سے حسن کے اسرار آشکار

تیری جبیں جمالِ الٰہی سے تابدار

(نظیر لدھیانوی)

آئینۂ  جمالِ رخ اوّلیں ہو تم

نورِ خدا ہو زینتِ عرشِ بریں ہو تم

(سیّد الظفر سلطان پوری)

شمس و قمر کا نور تو، برقِ جمالِ طور تو

حسنِ پری و حور تو، ثانی ترا ممکن نہیں

(دانا اکبر آبادی)

پھیلی ہے شش جہت رخِ انور کی روشنی

نکھرا ہے کائنات کا ان ہی سے بانکپن

(سعید سہروردی)

تاباں رُخِ حضور سے خورشید کی ضیا

محرابِ ماہ آپ کے ابرو کے خم سے ہے

(نصرت نوشاہی)

ہر دَم رخِ حسیں پہ طلوعِ مہ و نجوم

خلدِ نگاہ، دیدۂ  بینا، کہیں جسے

(اصغر سودائی)

اے صلِّ علیٰ شانِ دلآرائے محمد

ہے صورت قرآں رخِ زیبائے محمد

(ارشددہلوی)

ضیائے رُخ سے رخِ آفتاب روشن ہے

ہے ماہتاب میں اُن کا جمال کیا کہنا

٭

  پَرتو تیرے جمال کا ہر ایک گل میں ہے

جلوے سے تیرے رخ کے ہے رعنائیِ چمن

(قمر یزدانی)

حسن و جمالِ مصطفیٰ میں رطب اللسان شعرائے کرام نے ایسے ایسے گل ہائے نور بکھیرے ہیں کہ قاری یا سامع اُن سے اکتسابِ نور کرتا ہے اور ایسی رعنائی پاتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو جگمگاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ نعت کے ایوانوں میں جمالِ حضور پُر نورﷺ کی صوری ضیائیں اور سراپائے سلطانِ معظم کی نئی نئی جہتیں اور اسلوب کی دل کش فضائیں ترتیب پاتی ہیں۔ جمالِ مصطفیﷺ کا ایک نیا دبستان کھل جاتا ہے، پھر ایسے نغمے گونجتے ہیں جس میں مہرِ ہدایت کی شعاعیں بقعۂ  نور بن جاتی ہیں، عظمت سے لبریز یہ خیالات ہر دل کی چاہت بن جاتے ہیں۔ یہی وہ نقوشِ نور ہیں جن میں تصوراتی اور فکری کاوشیں جگمگ جگمگ کرتی ہیں:

  اللہ رے تیرے جسمِ منور کی تابشیں

اے جانِ جاں، میں جانِ تجلّا کہوں تجھے

(احمد رضا خاں بریلوی)

  روشنی دنیا کو دی جس مہرِ عالم تاب نے

زنگ فطرت دھو دیا، جس نور کے سیلاب نے

(آغا حشر کاشمیری)

  یہ جلوۂ حق سبحان اللہ، یہ نورِ ہدایت کیا کہنا

جبریل بھی ہیں شیدا اُن کے، یہ شانِ نبوت کیا کہنا

(اکبر الٰہ آبادی)

تفسیر مصحفِ رُخِ پُر نور والضحیٰ

واللیل شرحِ گیسوئے خم دارِ مصطفیٰ

(بیدم شاہ وارثی)

ہر صبح ہے نورِ رُخِ زیبائے محمد

ہر شام ہے گیسوئے دل آرائے محمد

(احسان دانش)

سورج نے ضیا اُس چشم سے لی

اُس نطق سے غنچے پھول بنے

اُٹھا تو ستارے فرش پہ کیے

بیٹھا تو زمیں کو عرش کیا

(آغا شورش کاشمیری)

تری نظر سے ملی روشنی نگاہوں کو

دلوں کو سوزِ تب و تابِ جاودانہ ملا

(حفیظ ہوشیارپوری)

شمائلِ آفتاب نوبہارِ سیّد ابرارﷺ کی تجلیات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے توسط سے محدثین کی کتب میں ضیا بار ملتی ہیں۔ روایات میں جمالِ روح روانِ عالمﷺ کے گہر ہائے گراں مایہ اپنی تابانی میں بے مثال ہیں۔ ایک روایت ہے کہ صادق و امین کا رنگ سفید تھا، گویا آپ کا جسمِ مبارک چاندی سے ڈھالا گیا تھا۔ سر کے بال گھنگریالے تھے، میانہ قد تھا، آپ کا رنگ سفید سرخی مائل تھا۔ آنکھیں سرمگیں تھیں، پلکیں گھنی اور لمبی، گردن سب لوگوں سے زیادہ حسین اور خوب صورت تھی۔ جب گردن مبارک پر سورج کی شعاعیں پڑتیں تو ایسا محسوس ہوتا گویا چاندی کی صراحی ہے جس پر سونے کا پانی کیا گیا ہے۔ ہونٹ باریک انتہائی خوب صورت، سینہ فراخ، شیشے کی طرح ہموار اور برابر، اور چاند کی طرح روشن اور خوب صورت، پیٹ پر سلوٹ تھی، جو چادر سے ڈھکی رہتی تھی، ناک اُبھری ہوئی، رُخسار بھرے ہوئے، ریش مبارک گھنی، روئے انور پر پسینہ موتیوں کی طرح چمکتا، سر مبارک کے بال گھنے اور خوب صورت، نہ بالکل لٹکے ہوتے اور نہ زیادہ گھنگریالے نہ زیادہ لمبے اور نہ چھوٹے، کانوں کی لَو سے زیادہ لمبے مگر مونڈھوں سے کچھ کم تھے۔ ٭۲۵

جب دوش پہ گیسو کھلتے ہیں

واللیل کی شرحیں ہوتی ہیں

لولاک لما کے ڈھانچے میں

اک نورِ مجسم ڈھل کے رہا

(آغا شورش کاشمیری)

ہر موجِ ہوا زلفِ پریشانِ محمد

ہے نورِ سحر صورتِ خندانِ محمد

(اصغر گونڈوی)

نظارہ فروزی کی عجب شان ہے پیدا

یہ شکل و شمائل، یہ عبائیں یہ قبائیں

(حسرت موہانی)

پسینے میں اُن کے نہا آئی ہے

چرا لائی ہے اُن کی زلفوں کی خوش بو

جو مل جائے مجھ کو تو تیرے قدم

میں نسیمِ بہارِ ارم چوم لوں گا

(بیدل جبل پوری)

مہکے دل و دماغ جو آئی کسی کی یاد

گیسو و پیرہن کی مہک میں بسی ہوئی

(عزم صدیقی)

مبارک سر کو سودا زلفِ شہ کا

مبارک دل کو ارمانِ محمد

(ریاض الحسن نیّر)

زلف کی شب والیل سراپا، رخ کی سحر والشمس کا جلوہ

روحِ منزّہ نفسِ مکرم صلی اللہ علیہ و سلم

(ظفر زیدی)

میں ہوں ہر دو عالم سے آزاد نشترؔ

گرفتارِ زلفِ رسولِ خدا ہوں

(عبد الرب نشتر)

ہے شام اگر گیسوئے احمد کی سیاہی

تو نورِ خدا صبحِ دل آرائے مدینہ

(حسرت موہانی)

گیسو تھے واللیل مفسر واللیل اذا سجیٰ

رخ سے عیاں تھے معنیِ والشمس والضحیٰ

(میر انیس)

واللیل تیرے گیسوئے مشکیں کی ہے ثنا

والشمس ہے تیرے رُخِ پُر نور کی قسم

(بہادر شاہ ظفر)

ہے سورۂ  والشمس اگر روئے محمد

واللیل کی تفسیر ہوئی موئے محمد

جب روئے محمد کی نظر آئی تجلی

سمجھا میں شبِ قدر ہے گیسوئے محمد

(شہیدی بریلوی)

جمالِ لولوئے بحرِ سخاوت و عطاﷺ کی ضیائیں جہاں عشق و محبت کی رنگینیاں رکھتی ہیں وہاں جذبۂ  ایمان کی تڑپ بھی رکھتی ہیں۔ کون سا دل ہے جو ظلمتِ دہر میں روشنی کا طلب گار نہیں؟ کون سی نظر ہے جو جمالِ اشکِ عقیدت کی تمنائی نہیں۔ یہ وہ کیفِ حبِّ سرورِ دنیا و دیں ہے جو متاعِ شوق بھی ہے اور نورِ مشعل غارِ حرا بھی ہے، جب نعت صداقت کا ترو تازہ گلاب بن کر نکہتیں بکھیرتی ہے تو دلوں کو عجز و نیاز سے معمور کرتی ہے اور تقدیسِ رسالت کا در باز کرتی ہے۔ پھر حسن و جمال سراپائے تاجدارِ رسولانِ شمعِ فروزاں، رحمت یزداں ﷺ کے نرم و نازک غنچے چٹکنے لگتے ہیں۔ بوئے بدن مہکنے لگتی ہے، ضیائے لب و دندان چمکنے لگتی ہے، صدائے لحنِ شیریں تڑپنے لگتی ہے۔ حضرت انس بن مالکؓ کی روایت کے مطابق آپ کا پسینہ جب چہرۂ  منور پر آتا تو موتیوں کی طرح محسوس ہوتا اور اس کی خوش بو مشک اور اذفر سے بھی زیادہ ہوتی۔ امّ سلیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب زلفِ معنبر، روحِ مصور، بدرِ منور میرے گھر تشریف لاتے تو میں اُن کے قیلولہ کرنے کے لیے فرش پر چمڑے کی چادر بچھا دیتی جو پسینہ چمڑے پر گرتا اُسے ایک برتن میں جمع کر لیتی اور پھر اُسے خوش بو کے طور پر استعمال کرتی۔

حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں خدا نے جتنے نبی بھیجے ہیں سب خوب صورت اور وجیہ تھے اور اُن کی آواز بھی دل کش تھی۔ سرورِ کائناتﷺ شکل و شباہت کے اعتبار سے بھی اور آواز کے اعتبار سے بھی سب سے زیادہ خوب صورت اور دل کش تھے۔ حضرت عامر بن سعد بن ابی وقاصؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے نبی علیہ السلام کو دیکھا آپ غزوۂ  خندق کے موقع پر ہنسے تو آپ کے دندانِ مبارک نظر آنے لگے۔ اسی طرح روایات میں آتا ہے کہ آپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے قطرے موتیوں کی طرح عارضِ گل گوں پر گرتے تھے۔ شعرائے مدحت کے ہاں یہ شمائلِ پُر نور اور سراپائے جمیل جذبِ دروں لیے، نورِ عشق و جنوں لیے ضیا بار ملتے ہیں۔ ان ضیاؤں میں اسرار و رموز بھی ہیں اور حسن و جمالِ حجاز بھی ہیں، عشوہ و ادائے دلبری بھی ہے اور موضوعاتِ سیرتِ پاک باز بھی ہیں۔ جمالِ صورت کی یہ کرنیں اپنے اندر ٹھنڈک بھی رکھتی ہیں اور گرمیِ عشق و مستی بھی۔ قدیم و جدید ہر دور میں نعت کی زمین ان گلہائے رنگ رنگ سے چمکتی، مہکتی رہی ہے۔        ٭۲۶ حشمت یوسفی نے ’’سراپا‘‘ کے عنوان سے جو نعت کہی ہے اُسے راجا رشید محمود نے اپنی کتاب ’’نعت کائنات‘‘ میں شامل کیا ہے۔ بے حد وقیع اور دل کش ہے، چند اشعار دیکھیے:

وہ شکلِ جمیل اور وہ نوری خد و خال

اللہ رے موزونیتِ حسن و جمال

یہ سنبل پیچاں، یہ گلاب و گوہر

ہرگز نہیں زلف و لب و دنداں کی مثال

وہ آنکھیں اگر چشمِ تصور دیکھے

جولاں ہمارے دشتِ تخیل کا غزال

پیچیدہ وہ زلفوں میں رموز و اسرار

تفصیل سے پہلے ہوا افشا اجمال

یہ بارگہ سرورِ کونین ہے حشمتؔ

ہے ساکت و صامت یہاں ہر فضل و کمال

 (حشمت یوسفی)

سورج نے ضیا اُس چشم سے لی، اُس نطق سے غنچے پھول بنے

اُٹھا تو ستارے فرش پہ تھے، بیٹھا تو زمیں کو عرش کیا

 (شورش کاشمیری)

بچھاتے چشم و دل تھے راستوں پر اُن کے شیدائی

مدینے کی زمیں کو یاد ہے اب تک خرام اُن کا

(حکیم ردولوی)

رکھتے ہیں اُٹھا کر قدم پاک جہاں آپ

ہوتا ہے وہیں چشمۂ صد فیض رواں آپ

ہوتا ہے جدھر چشمِ توجہ کا اشارہ

رخ اپنا بدلتی ہے زمیں آپ زماں آپ

(آغا صادق)

تیرا شہود باعثِ تکوینِ کائنات

تیرا وجود جوہر ارضِ تجلیات

(حکیم احمد شجاع ساحر)

مشامِ ذہن معطر ہے جس کی خوش بو سے

لطافتوں کی وہ گلزار ہے حضور کی ذات

(سحر رومانی)

اے وہ کہ تجھ سے دیدۂ  انجم فروغ گیر

اے تیری ذات باعثِ تکوینِ روزگار

(اقبال)

بغیر عشقِ محمد کسی سے کھل نہ سکے

رموزِ ذات کہ ہیں گیسوئے دوتا کی طرح

(سراج الدین ظفر)

دُر افشاں دُر افشاں گل افشاں گل افشاں

سحابِ بہاراں ردائے محمد

(اثر صہبائی)

 رخِ خیر البشر تو پھر رخِ خیر البشر ٹھہرا

ان آنکھوں سے درِ خیرالبشر دیکھا نہیں جاتا

(احسان دانش)

تیرے قدم سے خاکِ عرب غیرتِ چمن

لب تیرے گل فروش، تری زلف مشک بار

(نظیر لدھیانوی)

   یکایک کس کی بوئے پیرہن سے دل مہک اُٹھے

خدا جانے نسیمِ صبح آئی ہے کدھر ہو کر

(کوثر قریشی)

چہرہ منور، زلفِ معنبر، نطقِ مؤثر، عرقِ معطر

چشمِ محمد اللہ اللہ، صلی اللہ علیہ و سلم

(علم الدین راشد)

حضرت علیؓ کا یہ شعر حسنِ بلاغت، نورِ فصاحت سے لبریز ہے۔ سراپائے تاجدارِ غنا، جلوۂ حق نما، سیّد الانبیاﷺ میں آنکھوں کا جمالِ دل رُبا و فسوں گر شان و شوکت میں بے مثال، چمک دمک میں پُر جلال اور حسن و زیبائش میں با کمال ہے، پھر سہل ممتنع میں لاجواب ہے:

عیناہ صیاد قلوبنا

اللحظ صار طلوبنا

 (حضرت علی)

آپ کی دونوں آنکھوں نے ہمارے دلوں کو شکار کر لیا، ہمارا مقصد صرف آپ کو گوشۂ چشم سے دیکھنا ہے۔                     ٭۲۷

شعرائے اُردو بھی حسن و جمالِ نجم الہدیٰ کے تمنائی ہیں، اُن کے ہاں بھی نورِ  مصطفیﷺ سے لبریز قیمتی موتی ضو فشاں ملتے ہیں:

بس اک نگاہِ تبسم نواز مل جائے

تمام عمر میں ڈھلتا رہا ہوں آہوں میں

(شرقی بن شائق)

یاد تیرے لبِ لعلیں کی مکیں ہے دل میں

اب کوئی اور تمنّا ہی نہیں ہے دل میں

(کیپٹن منظور حسن)

  شیریں تری گفتار ہے، رشکِ قمر رفتار ہے

دل کش ترا کردار ہے، اے بے مثال و بہتریں

(دانا اکبر آبادی)

صبحوں کو ملے ہیں لب و رخسار کے پرتو

راتوں کو ترے گیسوئے خمدار ملے ہیں

(ساحر صدیقی)

  روح روانِ عالمیں وقت کے سانس کی امیں

زلف تری، تری جبیں، شام و سحر کی آبرو

(عزیز حاصل پوری)

تیری خاکِ پا مری آنکھوں کا نور

تیری آنکھوں کی حیا میرا وضو

(جمال سویدا)

ہر دل کی تسلی بھی ہے ہر غم کی دوا بھی

کیا چیز ہے مولا تری خاکِ کفِ پا بھی

(منور بدایونی)

   حضور! آپ کے ہونٹوں کی ایک جنبش سے

ملی ہے خاک کے ذرّوں کو تابِ گویائی

(عبدالمنان شاہد)

انوار نظر آتے ہیں نقشِ کفِ پا کے

محبوب کا ہر کوچہ مجھے رشکِ ارم ہے

(شرقی جالندھری)

فکر و نظر کی باریکیاں، عقیدت آفرینی کی نیرنگیاں اور آرزوؤں کی نورانی چاہتیں جب حدیثِ دل بن جائیں تو نعت گو حسن و جمالِ صاحبِ صدق و وفا کی ایسی قندیلیں روشن کرتے ہیں جن میں تجلیاتِ رسالت کی شعاعیں خلدِ بریں کے گل خنداں بن جاتے ہیں۔ شعری کائنات میں تذکارِ جمیل کی کرنیں ماہ تابِ فلک کو بھی شرماتی ہیں۔ جمال آفرینی دلوں کی تمنا، چشم ہائے عشّاق کی بینائی اور نطق و دہن کی گویائی میں ڈھل جاتی ہے، مدحت نگاروں کے خیالات چراغِ عرفان بن جاتے ہیں۔ نور و ضیا کے جھرنے پھوٹتے ہیں، جن کی چمک دمک سے گلہائے فکر منور ہو جاتے ہیں، اسالیب پُر بہار، مضامین زرنگار اور مدحت کے اشعار لہلہاتے سبزہ زار بن جاتے ہیں۔ سوز و سازِ آرزو دہکتے ہیں اور دل تمنائے ارضِ مدینہ اور ریاض الجنۃ میں تڑپنے لگتے ہیں۔ ان سب خواہشات کی منزل، جمالِ سرورِ کون و مکانﷺ بن جاتا ہے، جو بے نظیر بھی ہے اور اس کائنات کا جوہر و گوہر بھی ہے:

تم کائناتِ حسن ہو، تم حسنِ کائنات

جس کی نہیں نظیر وہ تنہا تمھی تو ہو

(محمد خاں کلیم)

جس نے رخِ حیات کے تیور جگا دیے

وہ نور سے گندھا ہوا غازہ تمھی تو ہو

(سرور سنبھلی)

خوش بو سے جس کی گلشنِ ہستی مہک اُٹھا

دشتِ عرب کے وہ گلِ خنداں تمھی تو ہو

(خلوت)

اس مہر سے روشن ہوئے آفاق دلوں کے

وہ مہر کہ ہے پیکرِ انوارِ الٰہی

(مرزا محمد منور)

محمد مصطفیٰ آئینۂ  انوارِ یزدانی

محمد مصطفیٰ دیباچۂ آیاتِ قرآنی

(علیم محشر چھتاری)

    چمکی تھی کبھی جو ترے نقش کفِ پا سے

اب تک وہ زمیں چاند ستاروں کی زمیں ہے

(صوفی غلام مصطفیٰ تبسم)

ذرّے خورشید و ماہتاب بنے

تیری نظروں میں جب قبول ہوئے

(عزم صدیقی)

   جب چراغِ بزم عرفاں آپ نے روشن کیا

صورتِ پروانہ لاکھوں دیدہ ور پیدا ہوئے

(ذوقی مظفر نگری)

طلوعِ مہرِ رسالت، وداعِ ظلمتِ شب

مرے رسول کی بعثت ہے صبحِ نو کی نمود

٭

یوں ذہن میں جمالِ رسالت سما گیا

میرا جہانِ فکر و نظر جگمگا گیا

(حفیظ تائب)

یہی تو جمالِ رسالت مآبﷺ ہے جس کی ضیائیں جن و بشر، کوہ و دمن، طائرانِ گلشنِ ہستی، سیارگانِ آسمانِ نیلی خام اور رہروانِ دشتِ کاظمہ کو جگمگاتی ہیں۔ بعثت کے لمحے ہوں یا صداقت و امانت کے مرحلے، ظلمات کے ڈیرے ہوں یا ظلم و ستم کے دائرے اور گھیرے، راہِ حیات کی رکاوٹیں ہوں یا پھیلتے ہوئے اندھیروں کی سرسراہٹیں سب مقامات پر تجلیاتِ مہرِ نبوت کی تابانیاں اثرانداز ہوتی رہی ہیں۔ جمالِ صورت و سیرتِ مصطفیﷺ کی اثر آفرینی اور روشنی کی شعاعیں رہِ حیاتِ انس و جاں کو منور کرتی رہی ہیں۔ یہی تو آفتابِ لا  یزالی کا نور ہے جو قیامت تک فکر و نظر کو ایسی ضیائیں عطا کرتا رہے گا جو محبت و عقیدت ہی نہیں، پیروانِ صاحبِ مہرِ ہدایت کو جلا بھی بخشتا رہے گا۔ شعرائے قدیم ہوں یا جدید سب نے اپنے اپنے کیسۂ  فکر کو حسبِ توفیق سلطانِ معظم، روح روانِ عالم سے لبریز کیا ہے اور اُسے اپنے جذبات کی آنچ، وارداتِ قلبی کا سوز اور تخلیق کی ضیا بنا کر پیش کیا ہے۔ ان کے اشعار میں جمال کے مختلف رنگ، اظہار کے مختلف ڈھنگ اور دل ربا لہجۂ  چنگ فصیح البیانی کے جملہ تقاضے تکمیل کے مراحل طے کرتے نظر آتے ہیں جو ہر قلبِ مضطر کی تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ آپ کا جمالِ جہاں آرا عرفان کو منور کرتا اور دل و جاں کو جلوہ ہائے پُر نور سے جگمگاتا جاتا ہے۔ ان جلووں میں مضامین کا تنوع اور شعریت کا حسن بھی قابلِ ستائش ہے:

فضا میں چاروں طرف روشنی سی پھیلی ہے

شبِ سیاہ میں ضو بار ہے حضور کی ذات

(سحر رومانی)

تیرے انوار کی ہلکی سی جھلک ہے ان میں

دیکھتا رہتا ہوں میں شمس و قمر کی صورت

(حافظ لدھیانوی)

جدھر آنکھ اُٹھاؤ تجلی تجلی

بہشتِ سکوں ہے ضیائے محمد

(اثر صہبائی)

  چھائی ہوئی تھیں ہر طرف کفر کی ظلمتیں کلیم

اُن کے جمال کی کرن دے گئی صبح کا پیام

(کلیم عثمانی)

وہ ممکناتِ جلال و جمال کے پیکر

وہ اعتدال کے سانچے میں عظمتِ آدم

(انور مسعود)

آؤ کہ ذکرِ حسن شہِ بحر و بر کریں

جلوے بکھیر دیں، شبِ غم کی سحر کریں

جو حسن میرے پیش نظر ہے اگر اسے

جلوے بھی دیکھ لیں تو طوافِ نظر کریں

(حافظ مظہر الدین)

ان کی محفل تجلی کی روشن سحر

ان کی محفل سے باہر دھواں ہی دھواں

(ماہر القادری)

پرتو ترے جمال کا ہر ایک گل میں ہے

جلوے سے تیرے رخ کے ہے رعنائی چمن

(قمر یزدانی)

جلوہ تمھارا غازۂ رخسارِ کائنات

افسانۂ  حیات کا عنواں تمھی تو ہو

(نشتر جالندھری)

  اے کہ ترا جمال ہے شمس و قمر کی آبرو

تجھ سے ہے دل کی روشنی، تجھ سے نظر کی آبرو

(عزیز حاصل پوری)

آپ کے حسن کا بیاں میری بساط میں کہاں

جلوہ بہ جلوہ، رخ بہ رخ، نکتہ بہ نکتہ، ہو بہ ہو

آپ کی سیرتِ جمیل، خلقِ خدا کی ہے دلیل

صفحہ بہ صفحہ، سر بہ سر، شیوہ بہ شیوہ، مو بہ مو

(خالد بزمی)

 وہ اجمل دھوم ہے جس کے جمالِ کیف ساماں کی

تجمل جس کا ہے کونین کا طغرائے پیشانی

(علیم محشر چھتاری)

دو عالم جن کے جلووں کی ضیا پاشی سے روشن ہیں

انھیں شمس الضحیٰ، بدرالدجیٰ کہیے، بجا کہیے

٭

نبی کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

انھی کے نقشِ پا سے گنبد بے در چمکتا ہے

(حفیظ تائب)

جمالِ مصطفیﷺ کی ہمہ گیریت کی مثال تاریخِ شعر و سخن میں ناپید ہے۔ تہذیبِ اسلامی کے عہد کا آغاز ہوا تو تاریخ نے حسن و جمالِ سیّدِ ابرار، احمد مختار، محبوبِ غفار کی وہ بہار دیکھی جس میں گلستانِ انسانیت کی تابانیاں پھیلنے لگیں اور دشتِ تہذیب کی وسعتیں مہرِ نبوت کی جلوہ سامانیوں سے جگمگانے لگیں۔ مدحت کا سلسلہ نت نئی چاندنی سے دمکتا اور بوئے گلہائے رنگا رنگ سے مہکتا رہا۔ تاریخِ سخن کا دھارا کبھی آہستہ اور کبھی تیز محسنِ انسانیت ﷺ کے نورِ افکار سے بہاؤ پاتا رہا۔ اگرچہ کبھی کبھی شعری کائنات میں صداقتیں دھندلا جاتی رہیں مگر حقیقتیں پھر اُجاگر ہو جاتی رہیں۔ اہلِ علم و سخن کا یہ کارواں رواں دواں رہا۔ کبھی جمالِ صورتِ احمد مجتبیٰﷺ نے شعر کی تاریکیوں کو بھگا دیا اور نورِ ہدایت نے اپنا غلبہ جما لیا اور کبھی جب سرخ آندھیاں چلنے لگیں، شرک کے بگولے گھومنے لگے اور سیاہی پھیلنے لگی تو جمالِ سیرتِ اشرف و اکمل، احسن و اجمل پھر چھانے لگا۔ یہ دور اپنی رعنائیاں لیے آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ گزشتہ صدی کے نصف آخر سے آج تک جمالِ صورت و سیرت رحمت للعالمینﷺ نعت کو اصنافِ سخن میں اوجِ کمال تک پہنچانے لگا۔ آج جدھر بھی نگاہ اُٹھا کر دیکھیے، قریہ قریہ، گلشن گلشن اور محفل محفل جمالِ چشمۂ  عرفاں، انیسِ دل فگاراں سے مدحت کے سریلے اور پُر مغز نغمے گونجتے ملتے ہیں۔ پھر شعرائے کرام نے اس صنف کو حسنِ فن اور نورِ ہنر سے بامِ عروج تک پہنچا دیا ہے۔ صنفِ سخن کی ہر ادا نعت کے خمیر میں رچ بس گئی ہے اور شعرائے کرام نے بلاغت و فصاحت کے دریا بہا دیے ہیں۔ نئی نئی تشبیہات، نرالے استعارات، انتخاب الفاظ کی عظمت، تراکیب کی شوکت اور مضامین و موضوعات کی رفعت، صاحبِ رفعنا لک ذکرک کے چمنستانِ حشمت کی ترجمانی کا حق ادا کرنے میں بے مثال و بے بدل ہیں۔ مدحت نگاروں نے جمال و طلعت، حسن و حکمت اور شان و ثروتِ مبدائے  کائناتﷺ کو دلکش زمینوں، پُر کشش بحروں اور غزل، نظم، رباعی، قصیدہ، قطعہ اور مثنوی وغیرہ میں اسی بلیغ انداز میں پیش کیا ہے کہ اصنافِ سخن اس صنفِ نعت سے مالامال ہو گئی ہیں۔ نعتیہ کلام کی بوقلمونی ہر اہلِ علم کو دعوتِ نظارہ اور رغبتِ دوبارہ و سہ بارہ دیتی ہے۔ حسنِ ادا کی دل کشی، مضامینِ نو کی چاندنی اور صباحت و ملائمتِ خیال کی چاشنی اپنے اندر جمالِ رحمت عالم، نورِ مجسم اور خلقِ معظم کی نکہتیں رکھتی ہے، اب نعت عروسِ رحمت، کلیدِ جنت اور نورِ قندیل صورت بن گئی ہے۔ اس میں کیف و سرور بھی ہے اور سیرت و صورتِ رسول کا نور بھی ہے۔ شاعر زندگی کی پرکشش بہاریں چمنِ مدینہ اور حسنِ شاہِ مدینہ میں بھی پاتا ہے اور حیات آرا ضیائے مہر عالم تابﷺ کے پھول مہکاتا ہے، جمالِ سیّد لولاکﷺ سے دلوں کو چمکاتا ہے:

وہ جس سے کائناتِ بشر کا ہے اعتبار

میرے حضور کا نظر افزا جمال ہے

تیرہ شبی میں میرے قدم ڈولتے نہیں

تائب نظر میں وہ سحر آسا جمال ہے

٭

نبی کے حسن سے ہستی کا ہر منظر چمکتا ہے

اُنھی کے نقشِ پا سے گنبدِ بے در چمکتا ہے

اُجالا پھیل جاتا ہے مری سوچوں کے غاروں میں

دیارِ خواب میں جب آپ کا پیکر چمکتا ہے

(حفیظ تائب)

اس طرح پہنچی ہے مجھ تک اُن کے گھرکی روشنی

دیکھتے ہیں لوگ آ کر میرے گھر کی روشنی

(سیّد عاصم گیلانی)

جلنے لگے ہیں میری نوا میں چراغ سے

جب سے لبوں پہ اسمِ گرامی نبی کا ہے

(صبیح رحمانی)

جس کو سورج نے بھی دیکھا تو بہت شرمایا

افقِ مشرقِ آدم پہ وہ خورشید آیا

(محسن احسان)

کھلتے ہیں صحن جاں میں عجب چاندنی سے پھول

سنتا ہوں جب کبھی میں حکایت حضور کی

(پروفیسر افضل علوی)

نام اُن کا جہاں بھی لیا جائے گا

ذکر اُن کا جہاں بھی کیا جائے گا

نور ہی نور سینوں میں بھر جائے گا

ساری محفل میں جلوے لپک جائیں گے

(اقبال عظیم)

  رُخِ پُر نور پہ کچھ اور بھی انوار آئے ہیں

لے کے قرآں جو حرا سے مری سرکار آئے ہیں

(سیّد امین گیلانی)

دل کو دیدِ رخِ مصطفی چاہیے

آئینے کے لیے آئینہ چاہیے

(بسمل آغائی)

جس کا تبسم شبنم شبنم

جس کا تکلّم چیت کا موسم

جس کی لطافت ریشم ریشم

جس کی ملاحت حسنِ مجسم

بوئے گلاب و نکہتِ یاسم

صلی اللہ علیہ و سلم

(تحسین فراقی)

محمد وہ جمالِ اوّلیں وہ پیکرِ نوری

محمد کاشفِ سرّ ظہور و رمزِ مستوری

(حفیظ جالندھری)

نعت کا عہد بہ عہد جائزہ لینا تو ہمارے موضوع میں شامل نہیں لیکن علامہ اقبال اور ان کے بعد نعت حسن و جمال کا مرقع بن گئی ہے۔ عجمی اور عربی ضیائیں اپنے امتزاج میں ایک ایسا جمال رکھتی ہیں، جو اشعارِ مدحت کو زندہ و تابندہ رکھتا ہے۔ شعرائے نعت کے ہاں زورِ بیان، تبحرِ علمی اور وابستگی و شیفتگی اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ نعت کے کینوس پر ایک گلستاں کھل گیا ہے۔ فنی تجربات اور موضوعات کی فراوانی میں نور و جمالِ نبیِ آخر الزماں ﷺ چمکتا دمکتا بصیرت و بصارت کو اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ اس جمالیاتی تجزیے نے ذوقِ جمال کو مہمیز کیا ہے۔ شاعرِ مدحت کے سامنے ایسا ممدوح موجود ہے، جسے خالقِ کائنات نے جمال کی معراج عطا کی ہے۔ وہ ذاتِ با برکاتﷺ محبوبِ ربِّ کائنات ہے اور محبوبِ کائنات بھی ہے۔ آپ کے حسن و جمال میں ایسی جاذبیت اور دل کشی ہے کہ خیالات کی رسائی اور تصورات کی پہنچ اس کا بمشکل ساتھ دیتی ہے۔ شاعر کا شعورِ حسن اور حسنِ جمال اس کو صفحۂ  قرطاس پر لانے کے لیے مجبور کرتا ہے، چناں چہ حسن و جمال تو اس کے سامنے موجود ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ پُر کشش اور پُر نور ہے مگر اس کے اظہار و بیان کے لیے وہ لوازم، وہ جمالِ الفاظ، وہ شکوۂ  اسلوب درکار ہے جو ممدوح کے حسن و جمال کے شایانِ شان ہو۔ اُردو نعت کے اس ترقی یافتہ دور میں شعرائے کرام کی مساعی قابلِ داد ہے اور یہ جمالِ صورت و سیرت کی تصویر کشی مسلسل ارتقا پذیر ہے۔ نت نئی جہات سامنے آ رہی ہیں۔ لطیف اندازِ بیان، متنوع ہیئت اور خاص طور پر محسنِ انسانیتﷺ کے جمالی پہلو سے حقیقت کی آگاہی قابلِ قدر ہے۔ اب تو نعتیہ کلام فکری جمال، صوری حسن اور والہانہ شیفتگی کا نیا طرزِ احساس، اجتماعی شعور اور تازہ لہجے لیے ہوئے ہے جس میں ابلاغ کی چاشنی بھی ہے اور تفہیم کی چاندنی بھی۔ یوں صنفِ نعت میرے خیال میں ادبِ عالیہ میں شمار کی جانے کے لائق ہے۔ جمالِ بیان و اسلوب اور حسنِ اظہار کی چمکتی دمکتی کہکشاں دیکھیے، جس میں نورِ سرورِ دو عالمﷺ بھی ہے اور حسنِ ادا و بیان بھی ہے:

لوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب

گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب

عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ

ذرّۂ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتاب

شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود

فقرِ جنید و با یزید تیرا جمال بے نقاب

٭

(علامہ اقبال)

نثارِ دیدہ و دل، عشقِ مصطفیٰ کی قسم

کہ یہ جنوں بھی بڑی چیز ہے خدا کی قسم

زمیں کا عجز انھیں کے قدوم کا صدقہ

فلک کے چہرۂ  پُر نور و پُر ضیا کی قسم

(آغا شورش کاشمیری)

وہ حسنِ بے مثال ہے، وہ عشقِ لازوال ہے

جمال ہی جمال ہے، جلال ہی جلال ہے

(عارف سیالکوٹی)

خورشید کس کے نور سے ضو بار ہو گیا

کس کا جمال شاملِ ماہِ تمام ہے

(محمد سبطین شاہ جہانی)

جلوۂ  احمد سے دنیا ضو فشاں کر دی گئی

یہ امانت پھر سپردِ خاک داں کر دی گئی

(سیماب اکبر آبادی)

 ارض و سما بنے ہیں اسی نور کے طفیل

تارے چمک رہے ہیں اسی نور کے طفیل

 گلشن ہرے بھرے ہیں اسی نور کے طفیل

دونوں جہاں سجے ہیں اسی نور کے طفیل

اس نور کا ازل سے ابد تک ہے سلسلہ

یہ نور وہ ہے جس کا طرف دار ہے خدا

 (فدا خالدی دہلوی)

اے صاحبِ لولاک لما، غایت تخلیق

ہے صبحِ ازل تیری تجلی سے ضیا بار

اور شامِ ابد ہے ترے انوار سے روشن

واللیل ہیں گیسو ترے، والشمس ہیں رخسار

(منظور الحق مخدوم)

 ہے وجہِ کن فیکوں اس کا پیکرِ نوریں

کہ ذرّے ذرّے میں اس کا ہی نور ہے موجود

(حافظ لدھیانوی)

محمد کا ہے وہ مقام اللہ اللہ

خدا بھیجتا ہے سلام اللہ اللہ

محمد کی یہ شانِ رفعت تو دیکھو

کہ ہے چرخ بھی زیرِ گام اللہ اللہ

محمد، محمد، محمد، محمد

ہے سب کی زباں پر یہ نام اللہ اللہ

(فیاض ٹانڈوی)

معراجِ عشق، اوجِ تمنا، فروغِ حسن

خالق کو جس پہ ناز ہے وہ مہ جبیں ہو تم

(سعید الظفر سلطان پوری)

تیری آواز تھی روشنی کا سفر

برف پگھلی تو سورج چمکنے لگا

(جاذب قریشی)

اُتاری روح کی بستی میں جلووں کی دھنک اُس نے

شکستِ شب پہ ہو جیسے سحر آہستہ آہستہ

(سیّد صبیح رحمانی)

شاہِ کونین کی ضو باریوں سیرت دیکھی

دشمنِ جاں پہ بھی سرکار کی رحمت دیکھی

(محمد اکرم رضا)

حسن اور سادگی کے سب جوہر

ہوئے یکجا رسولِ رحمت میں

(حفیظ تائب)

میں کہ آنسو ہوں مگر خاک کا رزق

کاش معراجِ نظر تک پہنچوں

ایک پتھر ہی سہی میرا وجود

پھر بھی اس آئینہ گر تک پہنچوں

نبی نے زندگی کی تیرہ شب کو دی ہے تابانی

وہی مہتاب ہے جو روح کے اندر چمکتا ہے

(حفیظ تائب)

بدن میں چاند کی تشکیل کر رہا ہوں میں

درود روح میں تحلیل کر رہا ہوں میں

(اشفاق انجم)

پروانہ جو بھی شمعِ رسالت سے دور ہے

منزل سے دور نورِ ہدایت سے دور ہے

(شوکت عابد)

میں ترے حسنِ جہاں گیر کی مظہر نعتیں

بزم انوار میں خود تجھ کو سناتا آقا

(محمد اکرم رضا)

جب یثرب کی قسمت سنور گئی، آفتاب رسالت کی ضیائیں چاروں طرف پھیلنے لگیں تو یثرب، مدینۃ النبی بن گیا۔ ہر دل فرطِ مسرت اور شوقِ دیدار سے باغ باغ ہو گیا۔ ہر آنکھ جمالِ مصطفیٰ سے مستنیر ہونے لگی۔ چاندنی کا وجود، لب ہائے خنداں کا درود اور تمناؤں کا نغمۂ  سرود ہر دل کو موہ لینے لگا۔ مدینہ ۂ  نور بن گیا۔ وقت گزرتا رہا ہے۔ جمالِ رسولﷺ دلوں کو جگمگانے لگا۔ مسجدِ نبوی مرجعِ خلائق بن گئی اور پھر رحمت عالمﷺکی رحلت کے بعد روضۂ  اقدس، گنبدِ خضرا قلب و نظر کی چاہت بن گئے۔ ہر دل مدینہ منورہ کا تمنائی بن گیا۔ ہر روح انوارِ مدینہ پانے کے لیے بے قرار ہو گئی۔ اب جمالِ نورِ نگاہِ شہود کے ساتھ حسنِ گلشن طیبہ بھی دلوں کی دھڑکن بن گیا۔ نعت میں اس نئے موضوع کی ضیاؤں نے بھی قلب و نظر کو مسحور کرنا شروع کر دیا۔ مدینہ کی کشش، روضہ ریاض الجنہ کی تڑپ اور گنبدِ خضرا کی تمنا شعرائے نعت کا محبوب موضوع اور مرغوب مضمون بن گیا۔ حسنِ مدینہ بھی جمالِ مصطفیٰﷺ کی نسبت سے نعت کا مسکراتا گلشن بن گیا، گنبدِ خضرا دلوں کا شوق اور نگاہوں کا نور بن گیا۔ نعتِ کائنات حسن و جمالِ مدینہ کے ضو فشاں مناظر سے مزین ہو گئی۔ یوں کہہ سکتے ہیں کہ چمنستانِ مدینہ سدا بہار پھولوں سے مہکنے لگا۔ ان اشعار میں اسی تصور کی ضیائیں اشعار میں چمکتی دمکتی ملتی ہیں:

دلوں کا شوق روحوں کا تقاضا گنبدِ خضرا

زمانے کی نگاہوں کا اُجالا گنبدِ خضرا

شفائے خاطرِ اُمت، ہوائے کوچۂ  حضرت

نگاہوں کی اداسی کا مداوا گنبدِ خضرا

یوں دور ہوں تائبؔ میں حریمِ نبوی سے

صحرا میں ہوں جس طرح کوئی شاخِ بریدہ

(حفیظ تائب)

پاکیزگیِ دل ہے تمنائے مدینہ

بالیدگیِ عقل ہے سودائے مدینہ

جب سے کہ محمد نے بنایا اسے مسکن

نکھرا ہوا ہے چہرۂ  زیبائے مدینہ

(اختر علی تلہری)

 اے ارضِ مدینہ کاش آنکھوں میں تجھے رکھوں

جنت ہے تو جنت ہے سرکارِ دو عالم کی

(زائر حرم حمید صدیقی)

جڑے ہوئے ہیں جو دل میں مِرے نگینے سے

یہ داغِ ہجر میں لایا ہوں جو مدینے سے

(اصطفا لکھنوی)

سامنے جس کی نگاہوں کے مدینہ آیا

لطف کے ساتھ اسے مرنا اُسے جینا آیا

(نوح ناروی)

تنویر سے معمور ہے ہر ذرّۂ یثرب

دیکھو تو سہی رونقِ صحرائے مدینہ

(دل شاہ جہان پوری)

 مَیں جو طیبہ کے تصور میں رہا کرتا ہوں

رشک کرتے ہیں مرے حال پہ جنت والے

(جلیل مانک پوری)

مر جاؤں مدینے میں، مدینے میں لحد ہو

لے جاؤں لحد میں، میں تمنائے مدینہ

(سائل دہلوی)

کچھ اشک ندامت کے آنکھوں سے گرے اور پھر

مت پوچھیے کیا پایا، اس بار مدینے میں

(ذکیہ غزل)

ہجومِ عاشقاں ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں

بڑا دل کش سماں ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں

اِدھر ہے روضۂ  جنت اُدھر ہے دل کشا جالی

زمیں بھی آسماں ہے گنبدِ خضرا کے سائے میں

(نور محمد جرالی)

وہی آنکھوں کے آگے گنبدِ خضرا کا منظر ہے

مَیں اک قطرہ ہوں لیکن مہرباں مجھ پر سمندر ہے

(سحر انصاری)

ظہور کرتی ہے جس دم سحر مدینے میں

اذانیں دیتے ہیں دیوار و در مدینے میں

گلی گلی میں وہ سیلابِ نور ہو جیسے

اُتر کے آ گئے شمس و قمر مدینے میں

حریم پاک کی تا صبح پاسبانی کو

فرشتے جاگتے ہیں رات بھر مدینے میں

(اقبال عظیم)

ہجر شہِ طیبہ میں رونا بھی چھپانا بھی

خوش باش زمانے کو خوش خوش نظر آنا بھی

طیبہ کا ہر اک باسی دل والا نظر آیا

موالی بھی حوالی بھی فرزانہ دوانا بھی

(احسان اکبر)

شبِ تاریک نہ دیکھی نہ سُنی طیبہ میں

نور ہی نور ہے ماحولِ دیارِ طیبہ

(کوثر علی)

جمالِ مصطفیﷺ اک بحرِ بے کراں ہے، اس میں گہر ہائے ضیا بار کی فراوانی اور لولوئے والا کی تابانی اپنے اندر انوارِ جاودانی رکھتے ہیں۔ میں نے اپنی بساط کے مطابق چند ضیا بار نگینے اور ضو فشاں آبگینے منتخب کر کے اس مقالے کو ضیائے تحریر سے جگمگانے کی کوشش کی ہے۔ تجلیاتِ نبوت کا یہ دائرہ پھیلتا جاتا ہے اور قوتِ قلم لاجواب ہو جاتی ہے۔ آخر میں دُعا کے ساتھ اس کو پایۂ  تکمیل تک پہنچانے کی سعی کرتا ہوں۔

اے خدائے ارض و سماوات، یہ بندۂ  ناچیز تیرے محبوب رسول حضرت محمدﷺ کا ایک اُمتی ہے، جسے تو نے بدرالدجیٰ، آفتابِ ہدیٰ کی مدحت سرائی اور جمالِ مصطفائیﷺ کا شیدائی بنایا ہے۔ اس کی اِس کاوش کو قبولیت عطا کرتے ہوئے گدایانِ محمدﷺ کا غلام شمار فرما۔ آمین ثم آمین۔

حوالہ و حواشی

٭۱۔      سرورِ سحر آفریں۔ص ۷۶، ۱۔ الف۔ نوائے وقت ملتان صفحۂ  ادب

٭۲۔     Eight Poets                ٭۳۔ نعت رنگ ۲۰ص ۴۱

٭۴۔     ایضاً       ص ۴۳               ٭۵۔ بلوغ الحرامج دوم ص ۹۶۵

٭۶۔     سرورِ سحر آفریں،ص ۱۶۲      ٭۷۔ ایضاً،ص ۱۵۸

٭۸۔     خیرالبشر کے حضور، ص۲۴    ٭۹۔ بالِ جبریل، ص۲۳

٭۱۰۔    جواب شکوہ                      ٭۱۱۔ ایضاً

٭۱۲۔    بانگِ درا،ص ۸۶                ٭۱۳۔ شرح پیامِ مشرق،ص ۳۶۶

٭۱۴۔    کلیاتِ حفیظ تائب، ص۱۸۳    ٭۱۵۔ تجلیاتِ نبوت، ص۱۷

٭۱۶۔    شمائلِ رسول، ص۱۸                        ٭۱۷۔ ایضاً ص۲۳

٭۱۸۔    السیرۃ العالمی، ص۲۷۶         ٭۱۹۔ نعت رنگ ۶، ص۶۵

٭۲۰۔   تجلیاتِ نبوت، ص۲۷          ٭۲۱۔ محسنِ انسانیت، ص۱۹۷

٭۲۲۔   رحمت للعالمین ج اوّل، ص۸۳           ٭۲۳۔ نقوشِ رسول نمبر، ص۱۳۵

٭۲۴۔   شمائلِ رسول، ص۳۰           ٭۲۵۔ ایضاً، ص۳۵

٭۲۶۔   ایضاً، ص۳۸ تا ۴۱   ٭۲۷۔ مخرنِ نعت، ص۱۶۸

٭٭٭