FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ہجوم گریزاں میں

 

 

 

 

علی  سردار جعفری

 

جمع و ترتیب اور دیوناگری سے اردو روپ: اعجاز عبید

 

 

 

 

 

 

 

 

 

نظم

 

 

پھر وہی مانگے ہوئے لمحے، وہی جام شراب

پھر وہی تاریک راتوں میں خیال ماہتاب

پھر وہی تاروں کی پیشانی پہ رنگ لازوال

پھر وہی بھولی ہوئی باتوں کا دھندلا سا خیال

پھر وہ آنکھیں بھیگی بھیگی دامن شب میں اداس

پھر وہ امیدوں کے مدفن زندگی کے آس پاس

پھر وہی فردا کی باتیں پھر وہی میٹھے سراب

پھر وہی بیدار آنکھیں پھر وہی بیدار خواب

پھر وہی وارفتگی تنہائی افسانوں کا کھیل

پھر وہی رخسار وہ آغوش وہ زلف سیاہ

پھر وہی شہر تمنا پھر وہی تاریک راہ

زندگی کی بے بسی اف وقت کے تاریک جال

درد بھی چھننے لگا امید بھی چھننے لگی

مجھ سے میری آرزوئے  دید بھی چھننے لگی

پھر وہی تاریک ماضی پھر وہی بے کیف حال

پھر وہی بیسوز لمحے پھر وہی جام شراب

پھر وہی تاریک راتوں میں خیال ماہتاب

٭٭٭

 

 

 

آنسو بھی نہیں

 

 

تم سے بے رنگیِ ہستی کا گلا کرنا تھا

دل پہ انبار ہے خوں گشتہ تمناؤں کا

آج ٹوٹے ہوئے تاروں کا خیال آیا ہے

ایک میلہ ہے پریشان سی امیدوں کا

چند پژمردہ بہاروں کا خیال آیا ہے

پاؤں تھک تھک کے رہ جاتے ہیں مایوسی میں

پر محن راہ گزاروں کا خیال آیا ہے

ساقی و بادہ نہیں جام و لب جو بھی نہیں

تم سے کہنا تھا کہ اب آنکھ میں آنسو بھی نہیں

٭٭٭

 

 

نظم

 

دبی ہوئی ہے میرے لبوں میں کہیں پہ وہ آہ بھی جو اب تک

نہ شعلہ بن کے بھڑک سکی ہے نہ اشکِ بے سود بن کے نکلی

گھٹی ہوئی ہے نفس کی حد میں جلا دیا جو جلا سکی ہے

نہ شمع بن کر پگھل سکی ہے نہ آج تک دودھ بن کے نکلی

دیا ہے بیشک مری نظر کو وہ ایک پرتو جو درد بخشے

نہ مجھ پر غالب ہی آ سکی ہے نہ میرا مسجود بن کے نکلی

٭٭٭

 

 

 

ہجوم گریزاں میں

 

 

دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو

شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر

کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں

کسی ایک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر

جہاں ہجوم گریزاں میں تم نظر آ جاؤ

اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہے

٭٭٭

 

لمحۂ گریزاں

 

تمہارے لہجے میں جو گرمیِ حلاوت ہے

اسے بھلا سا کوئی نام دو وفا کی جگہ

غنیم نور کا حملہ کہو اندھیروں پر

دیارِ درد میں آمد کہو مسیحا کی

رواں دواں ہوئے خوشبو کے قافلے ہر سو

خلائے صبح میں گونجی سحر کی شہنائی

یہ ایک کہرا سا، یہ دھند سی جو چھائی ہے

اس التہاب میں، اس سرمگیں اجالے میں

سوا تمہارے مجھے کچھ نظر نہیں آتا

حیات نام ہے یادوں کا تلخ اور شیریں

بھلا کسی نے کبھی رگ و بو کو پکڑا ہے

شفق کو قید میں رکھا صبا کو بند کیا

ہر ایک لمحہ گریزاں ہے جیسے دشمن ہے

نہ تم ملو گی نہ میں، ہم بھی دونوں لمحے ہیں               ٭٭٭

 

 

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے

 

 

 

شام ہوتی ہے سحر ہوتی ہے، یہ وقت رواں

جو کبھی سر پہ مرے سنگ گراں بن کے گرا

راہ میں آیا کبھی میری ہمالہ بن کر

جو کبھی عقدہ بنا ایسا کہ حل ہی نہ ہوا

اشک بن کر مری آنکھوں سے کبھی ٹپکا ہے

جو کبھی خون جگر بن کے مژہ  پر آیا

آج بے واسطہ یوں گزرا چلا جاتا ہے

جیسے میں کشمکش زیست میں شامل ہی نہیں

٭٭٭

 

 

آؤ کہ جشن مرگِ محبت منائیں ہم

 

 

 

 

آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم

آتی نہیں کہیں سے دل زندہ کی صدا

سونے پڑے ہیں کوچہ و بازار عشق کے

ہے شمعِ انجمن کا نیا حسن جاں گداز

شائد نہیں رہے وہ پتنگوں کے ولولے

تازہ نہ رکھ سکے گی روایات دشت و در

وہ فتنہ سر گئے جنہیں کانٹے عزیز تھے

اب کچھ نہیں تو نیند سے آنکھیں جلائیں ہم

آؤ کہ جشن مرگ محبت منائیں ہم

 

سوچا نہ تھا کہ آئے گا یہ دن بھی پھر کبھی

اک بار ہم ملے ہیں ذرا مسکرا تو لیں

کیا جانے اب نہ الفت دیرینہ یاد آئے

اس حسن اختیار پہ آنکھیں جھکا تو لیں

برسا لبوں سے پھول تیری عمر ہو دراز

سنبھلے ہوئے تو ہیں۔ پہ ذرا ڈگمگا تو لیں

٭٭٭

 

 

 

 

میں اور میری تنہائی

 

 

آوارہ ہیں گلیوں میں میں اور مری تنہائی

جائیں تو کہاں جائیں ہر موڑ پہ رسوائی

یہ پھول سے چہرے ہیں ہنستے ہوئے گلدستے

کوئی بھی نہیں اپنا بیگانے ہیں سب رستے

راہیں ہیں تماشائی راہی بھی تماشائی

میں اور مری تنہائی

 

ارمان سلگتے ہیں سینے میں چتا جیسے

قاتل نظر آتی ہے دنیا کی ہوا جیسے

روتی ہے مرے دل پر بجتی ہوئی شہنائی

میں اور مری تنہائی

 

آکاش کے ماتھے پر تاروں کا چراغاں ہے

پہلو میں مگر میرے زخموں کا گلستاں ہے

آنکھوں سے لہو ٹپکا دامن میں بہار آئی

میں اور مری تنہائی

 

ہر رنگ میں یہ دنیا سو رنگ دکھاتی ہے

روکر کبھی ہنستی ہے ہنس کر کبھی گاتی ہے

یہ پیار کی باہیں ہیں یا موت کی انگڑائی

میں اور میری تنہائی

٭٭٭

 

 

 

ہم بھی شرابی، تم بھی شرابی

چھلکے گلابی، چھلکے گلابی

تقدیر دل کہ خانہ خرابی

جب تک ہے جینا خوش ہو کے جی لیں

جب تک ہے پینا جی بھر کے پی لیں

حرس نہ کوئی رہ جائے باقی

کل سب کے دامن میں، تم ہو گے نہ ہم ہوں گے

بس ریت کے سینے پر کچھ نقش قدم ہوں  گے

بس رات بھر کے مہمان ہم ہیں

زلفوں میں شب کے تھوڑے سے کم ہیں

باقی رہے گا ساغر نہ ساقی

٭٭٭

 

 

 

بعد مدت انہیں دیکھ کر یوں لگا جیسے بیتاب دل کو قرار آ گیا

آرزو کے کنول مسکرانے لگے  جیسے گلشن میں جشنِ بہار آ گیا

 

تشنہ نظریں ملی شوخ نظروں سے جب، مے برسنے لگی جام بھرنے لگے

ساقیا آج تیری ضرورت نہیں بن پیے بن پلائے خمار آ گیا

 

رات سونے لگی صبح ہونے لگی شمع بجھنے لگی دل مچلنے لگے

وقت کی روشنی میں نہائی ہوئی زندگی پہ عجب س نکھار آ گیا

٭٭٭

 

 

 

میں جہاں تم کو بلاتا ہوں وہاں تک آؤ

میری نظروں سے گزر کر دل و جاں تک آؤ

 

پھر یہ دیکھو کہ زمانے کی ہوا ہے کیسی

ساتھ میرے مرے فردوس جواں تک آؤ

 

تیغ کی طرح چلو چھوڑ کے آغوش نیام

تیر کی طرح سے آغوش کماں تک آؤ

 

پھول کے گرد فرو باغ میں مانند نسیم

مثل پروانہ کسی شمعِ تپاں تک آؤ

 

لو وہ صدیوں کے جہنم کی حدیں ختم ہوئی

اب ہے فردوس ہی فردوس جہاں تک آؤ

 

چھوڑ کر وہم و گماں حسن یقیں تک پہنچو

پر یقیں سے بھی کبھی وہم و گماں تک آؤ

٭٭٭

 

 

 

ایک دن ایسا آئے گا

 

 

پھر ایک دن ایسا آئے گا

آنکھوں کے دئیے بجھ جائیں گے

ہاتھوں کے کنول کمہلائیں گے

اور برگ زباں سے نطق و صدا

کی ہر تتلی اڑ جائے گی

اک کالے سمندر کی تہہ میں

کلیوں کی طرح سے کھلتی ہوئی

پھولوں کی طرح سے ہنستی ہوئی

ساری شکلیں کھو جائیں گی

 

خوں کی گردش دل کی دھڑکن

سب رنگینیاں سو جائیں گی

اور نیلی فضا کی مخمل پر

ہنستی ہوئی ہیرے کی یہ کنی

یہ میری جنت میری زمیں

اس کی صبحیں اس کی شامیں

بے جانے ہوئے بے سمجھے ہوئے

اک مشت غبار انساں پر

شبنم کی طرح رو جائیں گی

ہر چیز بھلا دی جائے گی

یادوں کے حسیں بت خانے سے

ہر چیز اٹھا دی جائے گی

پھر کوئی نہیں یہ پوچھے گا

اب صدر کہاں ہے محفل میں

لیکن میں یہاں پھر آؤں گا

بچوں کے دہن سے بولوں گا

چڑیوں کی زباں سے گاؤں گا

جب بیج ہنسیں گے دھرتی میں

اور کونپلیں اپنی انگلی سے

مٹی کی تہوں کو چھیڑیں گی

میں پتی پتی کلی کلی

اپنی آنکھیں پھر کھولوں گا

سر سبز ہتھیلی پر لے کر

شبنم کے قطرے تولوں گا

میں رنگ حنا آہنگ غزل

انداز سخن بن جاؤں گا

رخسار عروسِ نو کی طرح

ہر آنچل سے چھن جاؤں گا

جاڑوں کی ہوائیں دامن میں

جب فصل خزاں کو لائیں گی

رہ رو کے جواں قدموں کے تلے

سوکھے ہوئے پتوں سے میرے

ہنسنے کی صدائیں آئیں گی

دھرتی کی سنہری سب ندیاں

آکاش کی نیلی سب جھیلیں

ہستی سے مری بھر جائیں گی

اور سارا زمانہ دیکھے گا

ہر قصہ مرا افسانہ ہے

ہر عاشق ہے سردار یہاں

ہر معشوقہ سلطانہ ہے

میں ایک گریزاں لمحہ ہوں

ایام کے افسوں خانے میں

میں ایک تڑپتا قطرہ ہوں

مصروف سفر جو رہتا ہے

ماضی کی صراحی کے دل سے

مستقبل کے پیمانے میں

میں سوتا ہوں اور جاگتا ہوں

اور جاگ کے پھر سو جاتا ہوں

صدیوں کا پرانا کھیل ہوں میں

میں مر کے امر ہو جاتا ہوں

٭٭٭

 

جھلک

 

 

صرف لہرا کے رہ گیا آنچل

رنگ بن کر بکھر گیا کوئی

 

گردش خوں رگوں میں تیز ہوئی

دل کو چھوکر گزر گیا کوئی

 

پھول سے کھل گئے تصور میں

دامن شوق بھر گیا کوئی

٭٭٭

 

 

 

 

 

 

 

ایک درد جو کہ دل سے جگر تک رواں ہے آج

پگھلا ہوا رگوں میں اک آتش فشاں ہے آج

 

لب سی دئیے ہیں تا نہ شکایت کرے کوئی

لیکن ہر ایک زخم کے منہ میں زبان ہے آج

 

تاریکیوں نے گھیر لیا ہے حیات کو

لیکن کسی کا روئے حسیں درمیاں ہے آج

 

جینے کا وقت ہے یہی مرنے کا وقت ہے

دل اپنی زندگی سے بہت شادماں ہے آج

 

ہو جاتا ہوں شہید ہر اہل وفا کے ساتھ

ہر داستان شوق میری داستاں ہے آج

 

آئے ہیں کس نشاط سے ہم قتل گاہ میں

زخموں سے دل ہے چور نظر گل فشاں ہے آج

 

زندانیوں نے توڑ دیا ظلم کا غرور

وہ دبدبہ وہ رعبِ حکومت کہاں ہے آج

٭٭٭

 

 

ابھی اور تیز کر لے سر خنجر ادا کو

مرے خوں کی ہے ضرورت تری شوخی حنا کو

 

تجھے کس نظر سے دیکھے یہ نگاہِ درد آگیں

جو دعائیں دے رہی ہے تری چشم بےوفا کو

 

کہیں رہ گئی  ہے شائد ترے دل کی دھڑکنوں میں

کبھی سن سکے تو سن لے میری خوں شدہ نوا کو

 

کوئی بولتا نہیں ہے میں پکارتا رہا ہوں

کبھی بت کدے میں بت کو کبھی کعبے میں خدا کو

٭٭٭

 

 

 

 

 

کام اب کوئی نہ آئے گا بس اک دل کے سوا

راستے بند ہیں سب کوچۂ قاتل کے سوا

 

باعث رشک ہے تنہا رویِ رہروِ  شوق

ہم سفر کوئی نہیں دوریِ منزل کے سوا

 

ہم نے دنیا کی ہر اک شے سے اٹھایا دل کو

لیکن اک شوخ کہ ہنگامۂ محفل کے سوا

 

تیغ منصف ہو جہاں دار و رسن ہوں شاہد

بے گنہ کون ہے اس شہر میں قاتل کے سوا

 

جانے کس رنگ سے آئی ہے گلستاں میں بہار

کوئی نغمہ ہی نہیں شور سلاسل کے سوا

٭٭٭

تب اور اب

 

 

 

میری وادی میں وہ اک دن یوں ہی آ نکلی تھی

رنگ اور نور کا بہتا ہوا دھارا بن کر

 

محفل شوق میں اک دھوم مچا دی اس نے

خلوت دل میں میں رہی انجمن آرا بن کر

 

شعلۂ عشق سر عرش کو جب چھونے لگا

اڑ گئی وہ میرے سینے سے شرارہ بن کر

 

اور اب میرے تصور کا افق روشن ہے

وہ چمکتی ہے جہاں غم کا ستارہ بن کر

٭٭٭

 

 

 

 

 

تو مجھے اتنے پیار سے مت دیکھ

 

 

تو مجھے اتنے پیار سے مت دیکھ

تیری پلکوں کے نرم سایہ میں

دھوپ بھی چاندنی سی لگتی ہے

اور مجھے کتنی دور جانا ہے

ریت میں گرم پاؤں کے چھالے

یوں دہکتے ہیں جیسے انگارے

پیار کی یہ نظر رہے نہ رہے

تیرے دل کو خبر رہے نہ رہے

تو مجھے اتنے پیار سے مت دیکھ

٭٭٭

 

 

ننھا

 

 

ماں ہے ریشم کے کارخانے میں

باپ مصروف سوتی مل میں ہے

کوکھ سے ماں کی جب سے نکلا ہے

بچہ کھولی کے کالے دل میں ہے

جب یہاں سے نکل کے جائے گا

کارخانوں کے کام آئے گا

اپنے مجبور پیٹ کی خاطر

بھوک سرمایے کی بڑھائے گا

ہاتھ سونے کے پھول اگلیں گے

جسم چاندی کا دھن لٹائے گا

کھڑکیاں ہوں گی بینک کی روشن

خون اس کا دیئے جلائے گا

یہ جو ننھا ہے بھولا بھالا ہے

خونیں سرمایے کا نوالہ ہے

پوچھتی ہے یہ اس کی خاموشی

٭٭٭

 

ماخذ: دیوناگری کی سائٹ

سمئے سری جن

اردو  ٹرانسلٹریشن اس سائٹ کے توسط سے

http://uh.learnpunjabi.org/default.aspx

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید