FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

الفاروق

فہرست مضامین

حصہ دوم

علامہ شبلی نعمانی

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

فتوحات پر ایک اجمالی نظر

پہلے حصے میں تم فتوحات کی تفصیل پڑھ آئے ہو۔ اس سے تمہارے دل پر اس عہد کے مسلمانوں کے جوش، ہمت، عزم و استقلال کا قوی اثر پیدا ہوا ہو گا۔ لیکن اسلاف کی داستان سننے میں تم نے اس کی پروا نہ کی ہو گی کہ واقعات کو فلسفہ تاریخی کی نگاہ سے دیکھا جائے۔

لیکن ایک نکتہ سنج مؤرخ کے دل میں فوراً یہ سوالات پیدا ہوں گے کہ چند صحرا نشینوں نے کیونکر فارس و روم کا دفتر الٹ دیا! کیا یہ تاریخ عالم کا کوئی مستثنیٰ واقعہ ہے ؟ آخر اس کے اسباب کیا تھے۔ کیا ان واقعات کو سکندر و چنگیز کی فتوحات سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی؟ جو کچھ ہوا اس میں فرمانروائے خلافت کا کتنا حصہ تھا؟ ہم اس موقع پر انہی سوالات کا جواب دینا چاہتے ہیں۔ لیکن اجمال کے ساتھ پہلے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ فتوحات فاروقی کی وسعت اور اس کے حدود اربعہ کیا تھے۔

فتوحات فاروقی کی وسعت

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقبوضہ ممالک کا کل رقبہ 2251030/میل مربع یعنی مکہ سے شمال کی جانب 1036/ مشرق کی جانب 1087/ جنوب کی جانب 483/ میل تھا۔ مغرب کی جانب چونکہ صرف جدہ تک حد حکومت تھی اس لیے وہ قابل ذکر نہیں۔

اس میں شام، مصر، عراق، جزیرہ، خوزستان، عراق، عجم، آرمینیہ، آذر بائیجان، فارس، کرمان، خراسان اور مکران جس میں بلوچستان کا حصہ آ جاتا ہے۔ شامل تھا، ایشیائے کوچک پر جس کو اہل عرب روم کہتے ہیں 20 ہجری میں حملہ ہوا تھا لیکن وہ فتوحات کی فہرست میں شمار ہونے کے قابل نہیں۔ یہ تمام فتوحات خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات ہیں۔ اور اس کی تمام مدت دس برس سے کچھ ہی زیادہ ہے۔

فتح کے اسباب یورپین مؤرخوں کی رائے کے موافق

پہلے سوال کا جواب یورپین مؤرخوں نے یہ دیا ہے کہ اس وقت فارس و روم دونوں سلطنتیں اوج اقبال سے گر چکی تھیں۔ فارس میں خسرو پرویز کے بعد نظام سلطنت بالکل درہم برہم ہو گیا تھا۔ کیونکہ کوئی لائق شخص جو حکومت کو سنبھال سکتا موجود نہ تھا۔ دربار کے عمائدین و ارکان میں سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔ اور انہی سازشوں کی بدولت تخت نشینوں میں ادل بدل ہوتا رہتا تھا۔ چنانچہ تین چار برس کے عرصے میں ہی عنان حکومت چھ سات فرمانرواؤں کے ہاتھ میں آئی اور نکل گئی۔ ایک اور وجہ یہ ہوئی کہ نوشیرواں سے کچھ پہلے مزوکیہ فرقہ کا بہت زور ہو گیا تھا۔ جو الحاد و زندقہ کی طرف مائل تھا۔ نوشیرواں نے گو تلوار کے ذریعے سے اس مذہب کو دبا دیا تھا۔ لیکن بالکل مٹا نہ سکا۔ اسلام کا قدم جب فارس میں پہنچا تو اس فرقے کے لوگوں نے مسلمانوں کو اس حیثیت سے اپنا پشت پناہ سمجھا کہ وہ کسی کے مذہب و عقائد سے تعرض نہیں کرتے تھے۔ عیسائیوں میں نسٹورین فرقہ جس کو اور کسی حکومت میں پناہ نہیں ملتی تھی وہ اسلام کے سایہ میں آ کر مخالفوں کے ظلم سے بچ گیا۔ اس طرح مسلمانوں کو دو بڑے فرقوں کی ہمدردی اور اعانت مفت میں ہاتھ آ گئی۔ روم کی سلطنت خود کمزور ہو چکی تھی۔ اس کے ساتھ عیسائیت کے باہمی اختلافات ان دونوں زوروں پر تھے۔ اور چونکہ اس وقت تک مذہب کو نظام حکومت میں دخل تھا اس لیے اس اختلاف کا اثر مذہبی خیالات تک محدود نہ تھا بلکہ اس کی وجہ سے خود سلطنت کمزور ہوتی جاتی تھی۔

 

یورپین مؤرخین کی رائے کی غلطی

یہ جواب گو واقعیت سے بالکل خالی نہیں، لیکن جس قدر واقعیت ہے اس سے زیادہ طرز استدلال کی ملمع سازی ہے۔ جو یورپ کا خاص انداز ہے۔ بے شبہ اس وقت فارس و روم کی سلطنتیں اپنے عروج پر نہیں رہی تھیں، لیکن اس کا صرف اس قدر نتیجہ ہو سکتا تھا کہ وہ پر زور قوی سلطنت کا مقابلہ نہ کر سکتیں نہ یہ کہ عرب جیسی بے سر و سامان قوم سے ٹکرا کر پرزے پرزے ہو جاتیں۔ روم و فارس گو کسی حالت میں تھے تاہم فنون جنگ میں ماہر تھے۔ یونان میں خاص قواعد حرب پر جو کتابیں لکھی گئی تھیں اور جو اب تک موجود ہیں رومیوں میں ایک مدت تک ان کا عملی رواج رہا۔ اس کے ساتھ رسد کی فراوانی، سر و سامان کی بہتات، آلات جنگ کے تنوع فوجوں کی کثرت میں کمی نہیں آئی تھی۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک پر چڑھ کر جانا نہ تھا بلکہ اپنے ملک میں اپنے قلعوں میں اپنے مورچوں میں رہ کر اپنے ملک کی حفاظت کرنی تھی، مسلمانوں کے حملے سے ذرا ہی پہلے خسرو پرویز کے عہد میں جو ایران کی شان و شوکت کی عین شباب تھا۔ قیصر روم نے ایران پر حملہ کیا اور ہر قدم پر فتوحات حاصل کرتا ہوا اصفہان تک پہنچ گیا۔ شام کے صوبے جو ایرانیوں نے چھین لیے تھے واپس لے لیے اور نئے سرے سے نظم و نسق قائم کیا۔

ایران میں خسرو پرویز تک تو عموماً مسلم ہے کہ سلطنت کو نہایت جاہ جلال تھا۔ خسرو پرویز کی وفات سے اسلامی حملے تک صرف تین چار برس کی مدت ہے۔ اتنے تھوڑے عرصے میں ایسی قوم اور قدیم سلطنت کہاں تک کمزور ہو سکتی تھی۔ البتہ تخت نشینوں کی ادل بدل سے نظام میں فرق آ گیا تھا۔ لیکن چونکہ سلطنت کے اجزاء یعنی خزانہ، فوج اور محاصل میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ اس لیے جب یزد گرد تخت نشین ہوا اور درباریوں نے اصلاح کی طرف توجہ کی تو فوراً نئے سرے سے وہی ٹھاٹھ قائم ہو گئے۔ مزوکیہ فرقہ گو ایران میں موجود تھا۔ لیکن ہم کو تمام تاریخ میں ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت یا ان سے کسی قسم کی مدد ملنے کا حال معلوم نہیں ہوتا۔ اسی طرح فرقہ نسٹورین کی کوئی اعانت کی کوئی اعانت ہم کو معلوم نہیں۔ عیسائیت کے اختلاف مذہب کا اثر بھی کسی واقعہ پر خود یورپین مؤرخوں نے کہیں نہیں بتایا۔

اب عرب کی حالت دیکھو! تمام فوجیں جو مصر و ایران و روم کی جنگ میں مصروف تھیں ان کی مجموعی تعداد کبھی ایک لاکھ تک بھی نہ پہنچی۔ فنون جنگ سے واقفیت کا یہ حال تھا کہ یرموک پہلا معرکہ ہے جس میں عرب میں تعبیہ کے طرز پر صف آرائی کی۔ خود، زرہ، چلتہ، جوشن، بکتر، چار آئینہ، آہنی دستانے ، جہلم موزے جو ہر ایرانی سپاہی کا لازمی ملبوس جنگ تھا۔ (بن قتیبہ نے اخبار الطوال میں لکھا ہے۔ یہ چیزیں ہر سپاہی کو استعمال کرنی پڑتی تھیں۔ ) اس میں سے عربوں کے پاس صرف زرہ تھی اور وہ بھی اکثر چمڑے کی ہوتی تھی۔ رکاب لوہے کی بجائے لکڑی کی ہوتی تھی۔ آلات جنگ میں گرز و کمند سے عرب بالکل آشنا نہ تھے۔ تیر تھے لیکن ایسے چھوٹے اور کم حیثیت کہ قادسیہ کے معرکے میں ایرانیوں نے جب پہلے پہل ان کو دیکھا تو سمجھا کہ تکلے ہیں۔

فتوحات کے اصلی اسباب

ہمارے نزدیک اس سوال کا اصلی جواب صرف اس قدر ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی بدولت جو جوش، عزم، استقلال، بلند حوصلگی، دلیری پیدا ہو گئی تھی اور جس کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور زیادہ قوی اور تیز کر دیا تھا۔ روم اور فارس کی سلطنتیں عین عروج کے زمانے بھی اس کی ٹکر نہیں اٹھا سکتی تھیں۔ البتہ اس کے ساتھ اور چیزیں بھی مل گئی تھیں۔ جنہوں نے فتوحات میں نہیں بلکہ قیام حکومت میں مدد دی۔ اس میں سب سے مقدم چیز مسلمانوں کی راست بازی اور دیانت داری تھی۔ جو ملک فتح ہوتا تھا وہاں کے لوگ مسلمانوں کی راست بازی کے اس قدر گرویدہ ہو جاتے تھے کہ باوجود اختلاف مذہب کے ان کی سلطنت کا زوال نہیں چاہتے تھے۔ یرموک کے معرکہ میں مسلمان جب شام کے اضلاع سے نکلے تو تمام عیسائی رعایا نے پکارا کہ ” خدا تم کو پھر اس ملک میں لائے۔ ” اور یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا کہ ” ہمارے جیتے جی قیصر اب یہاں نہیں آ سکتا۔ "

رومیوں کی حکومت جو شام و مصر میں تھی وہ بالکل جابرانہ تھی۔ اس لیے رومیوں نے جو مقابلہ کیا وہ سلطنت اور فوج کے زور سے کیا۔ رعایا ان کے ساتھ نہ تھی۔ مسلمانوں نے جب سلطنت کا زور توڑا تو آگے مطلع صاف تھا۔ یعنی رعایا کی طرف سے کسی قسم کی مزاحمت نہ ہوئی، البتہ ایران کی حالت اس سے مختلف تھی۔ وہاں سلطنت کے نیچے بہت سے بڑے بڑے رئیس تھے جو بڑے بڑے اضلاع اور صوبوں کے مالک تھے۔ وہ سلطنت کے لیے نہیں بلکہ خود اپنی ذاتی حکومت کے لیے لڑتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پائے تخت کے فتح کر لینے پر بھی فارس میں ہر قدم پر مسلمانوں کو مزاحمتیں پیش آئیں لیکن عام رعایا وہاں بھی مسلمانوں کی گرویدہ ہوتی جاتی تھی۔ اور اس لیے فتح کے بعد بقائے حکومت میں ان سے بہت مدد ملتی تھی۔

ایک اور بڑا سبب یہ تھا کہ مسلمانوں کا اول حملہ شام و عراق پر ہوا۔ اور دونوں مقامات میں کثرت سے عرب آباد تھے۔ شام میں دمشق کا حاکم غسانی خاندان کا تھا جو برائے نام قیصر کا محکوم تھا۔ عراق میں نخمی خاندان والے دراصل ملک کے مالک تھے۔ گو کسریٰ کو خراج کے طور پر کچھ دیتے تھے ، ان عربوں نے اگرچہ اس وجہ سے کہ عیسائی ہو گئے تھے۔ اول اول مسلمانوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن قومی اتحاد کا جذبہ رائیگاں نہیں جا سکتا تھا۔ عراق کے بڑے بڑے رئیس بہت جلد مسلمان ہو گئے اور مسلمان ہو جانے پر وہ مسلمانوں کے دست و بازو بن گئے۔ (آگے چل کر ایک موقع پر ہم نے ان کے نام بھی تفصیل سے لکھے ہیں)۔ شام میں بھی آخر عربوں نے اسلام قبول کر لیا اور رومیوں کی حکومت سے آزاد ہو گئے۔ سکندر اور چنگیز وغیرہ کا نام لینا یہاں بالکل بے موقع ہے ، بے شبہ ان دونوں نے بڑی بڑی فتوحات حاصل کیں۔ لیکن کیونکر؟ قہر، ظلم اور قتل عام کی بدولت چنگیز کا حال توسب کو معلوم ہے۔

سکندر وغیرہ کی فتوحات

سکندر کی یہ کیفیت ہے کہ جب اس نے شام کی طرف شہر صور کو فتح کیا تو چونکہ وہاں کے لوگ دیر تک جم کر لڑے تھے اس لیے قتل عام کا حکم دیا اور ایک ہزار شہریوں کے سر شہر پناہ کی دیوار پر لٹکا دیئے۔ اس کے ساتھ 30 ہزار باشندوں کو لونڈی غلام بنا کر بیچ ڈالا۔ جو لوگ قدیم باشندے اور آزادی پسند تھے۔ ان میں ایک شخص کو بھی زندہ نہ چھوڑا۔ اسی طرح فارس میں اصطخر کو فتح کیا تو تمام مردوں کو قتل کر دیا۔ اسی طرح کی اور بھی بے رحمیاں اس کے کارناموں میں مذکور ہیں۔ عام طور پر مشہور ہے کہ ظلم اور ستم سے سلطنت برباد ہو جاتی ہے۔ یہ اس لحاظ سے صحیح ہے کہ ظلم کی بقا نہیں۔ چنانچہ سکندر اور چنگیز کی سلطنتیں بھی دیرپا نہ ہوئیں لیکن فوری فتوحات کے لیے اسی قسم کی سفاکیاں کارگر ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی وجہ سے ملک کا ملک مرعوب ہو جاتا ہے۔ اور چونکہ رعایا کا بڑا گروہ ہلاک ہو جاتا ہے ، اس لیے بغاوت و فساد کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ چنگیز، بخت نصر، تیمور، نادر شاہ جتنے بڑے بڑے فاتح گزرے ہیں سب کے سب سفاک بھی تھے۔

لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فتوحات میں کبھی سر مو قانون و انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ آدمیوں کا قتل عام ایک طرف، درختوں کے کاٹنے تک کی اجازت نہ تھی۔ بچوں اور بوڑھوں سے بالکل تعرض نہیں کیا جا سکتا تھا۔ بجز عین معرکہ کارزار کے کوئی شخص قتل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دشمن سے کسی موقع پر بدعہدی یا فریب دہی نہیں کی جا سکتی تھی۔ افسروں کو تاکیدی احکام دیئے جاتے تھے۔

فان قاتلو کم فلا تغدروا ولا تمثلوا ولا تقتلوا ولیداً (کتاب الخراج صفحہ 130)

"یعنی دشمن تم سے لڑائی کریں تو تم ان سے فریب نہ کرو۔ کسی کی ناک کان نہ کاٹو۔ کسے بچے کو قتل نہ کرو۔ "

جو لوگ مطیع ہو جاتے تھے ان سے دوبارہ اقرار لے کر درگزر کی جاتی تھی، یہاں تک کہ جب عربسوس والے تین تین دفعہ متواتر اقرار کر کے پھر گئے ، تو صرف اس قدر کیا کہ ان کو وہاں سے جلا وطن کر دیا لیکن اس کے ساتھ ان کی کل جائیداد مقبوضہ کی قیمت ادا کر دی۔ خیبر کے یہودیوں کو سازش اور بغاوت کے جرم میں نکالا تو ان کی مقبوضہ ارضیات کا معاوضہ دے دیا اور اضلاع کے حکام کو احکام بھیج دیئے کہ جدھر سے ان لوگوں کا گزر ہو ان کو ہر طرح کی اعانت دی جائے۔ اور جب کسی شہر میں قیام پذیر ہوں تو ایک سال تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔

جو لوگ فتوحات فاروقی کی حیرت انگیزی کا جواب دیتے ہیں کہ دنیا میں اور بھی ایسے فاتح گزرے ہیں، ان کو یہ دکھانا چاہیے کہ اس احتیاط، اس قید، اس پابندی، اس درگزر کے ساتھ دنیا میں کس حکمران نے ایک چپہ بھر زمین بھی فتح کی ہے۔

اس کے علاوہ سکندر اور چنگیز وغیرہ خود ہر موقع اور ہر جنگ میں شریک رہتے تھے اور خود سپہ سالار بن کر فوج کو لڑاتے تھے۔ اس کی وجہ سے علاوہ اس کے کہ فوج کو ایک ماہر سپہ سالار ہاتھ آتا تھا۔ فوج کے دل قوی رہتے تھے۔ اور ان میں بالطبع اپنے آقا پر فدا ہو جانے کا جوش پیدا ہوتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام مدت خلافت میں ایک دفعہ بھی کسی جنگ میں شریک نہیں ہوئے۔ فوجیں ہر جگہ کام کر رہی تھی۔ البتہ ان کی باگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ میں رہتی تھی۔ ایک اور صریحی فرق یہ ہے کہ سکندر وغیرہ کی فتوحات گزرنے والے بادل کی طرح تھیں۔ ایک دفعہ زور سے آیا اور نکل گیا۔ ان لوگوں نے جو ممالک فتح کئے وہاں کوئی نظم حکومت نہیں قائم کیا۔ اس کے برخلاف فتوحات فاروقی میں یہ استواری تھی کہ جو ممالک اس وقت فتح ہوئے تیرہ سو برس گزرنے پر آج بھی اسلام کے قبضے میں ہیں اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں ہر قسم کے ملکی انتظامات وہاں قائم ہو گئے تھے۔

فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اختصاص

آخری سوال کا جواب عام رائے کے موافق یہ ہے کہ فتوحات میں خلیفۂ وقت کی چنداں تحقیق نہ تھی۔ اس وقت کے جوش اور عزم کی جو حالت تھی وہ خود تمام فتوحات کی کفیل تھی۔ لیکن ہمارے نزدیک یہ صحیح نہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی تو آخر وہی مسلمان تھے۔ لیکن کیا نتیجہ ہوا؟ جوش اور اثر بے شبہ برقی قوتیں ہیں۔ لیکن یہ قوتیں اسی وقت کام دے سکتی ہیں جب کام لینے والا بھی اسی زور و قوت کا ہو۔ قیاس اور استدلال کی ضرورت نہیں۔ واقعات خود اس کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ فتوحات کے تفصیلی حالات پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام فوج پتلی کی طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اشاروں پر حرکت کرتی تھی۔ اور فوج کا جو نظم و نسق تھا وہ خاص ان کی سیاست و تدبیر کی بدولت تھا۔ اسی کتاب میں آگے چل کر جب تم مفصل طور پر پڑھو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کی ترتیب، فوجی مشقیں، بارکوں کی تعمیر، گھوڑوں کی پرداخت، قلعوں کی حفاظت، جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے حملوں کا تعین، فوج کی نقل و حرکت، پرچہ نویسی کا انتظام، افسران فوجی کا انتخاب، قلعہ شکن آلات کا استعمال، یہ اور اس قسم کے امور کے متعلق کیا کیا انتظام خود ایجاد کئے۔ اور ان کو کس عجیب و غریب زور و قوت کے ساتھ قائم رکھا تو تم خود فیصلہ کر لو گے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر یہ کل مطلق کام نہیں دے سکتی تھی۔

عراق کی فتوحات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے درحقیقت خود سپہ سالاری کا کام کیا تھا۔ فوج جب مدینہ سے روانہ ہوئی تو ایک ایک منزل بلکہ راستہ تک خود متعین کر دیا تھا اور اس کے موافق تحریری احکام بھیجتے رہتے تھے۔ فوج قادسیہ کے قریب پہنچی تو موقع کا نقشہ منگوا بھیجا اور اس کے لحاظ سے فوج کی ترتیب اور صف آرائی سے متعلق ہدائتیں بھجیں۔ جس قدر افسر جن جن کاموں پر مامور ہوتے تھے ، ان کے خاص حکم کے موافق مامور ہوتے تھے۔

تاریخ طبری میں عراق کے واقعات کو تفصیل سے دیکھو تو صاف نظر آتا ہے کہ ایک بڑا سپہ سالار دور سے تمام فوجوں کو لڑا رہا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کے اشاروں پر ہوتا ہے۔ ان تمام لڑائیوں میں جو دس برس کی مدت میں پیش آئیں، سب سے زیادہ خطرناک دو موقعے تھے۔ ایک نہاوند کا معرکہ جب ایرانیوں نے فارس کے صوبہ جات میں ہر جگہ نقیب دوڑا کر تمام ملک میں آگ لگا دی تھی۔ اور لاکھوں فوج مہیا کر کے مسلمانوں کی طرف بڑھے تھے۔ دوسرے جب قیصر روم نے جزیرہ والوں کی اعانت سے دوبارہ حمص پر چڑھائی کی تھی۔ ان دونوں معرکوں میں صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حسن تدبیر تھی، جس نے ایک طرف ایک اٹھتے ہوئے طوفان کو دبا دیا۔ اور دوسری طرف ایک کوہ گراں کے پرخچے اڑا دیئے۔ چنانچہ ہم ان واقعات کی تفصیل پہلے حصے میں لکھ آئے ہیں۔

ان واقعات کی تفصیل کے بعد یہ دعویٰ صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ جب سے دنیا کی تاریخ معلوم ہے آج تک کوئی شخص فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے برابر فاتح اور کشور کشا نہیں گزرا جو فتوحات اور عدل دونوں کا جامع ہو۔

نظام حکومت

اسلام میں خلافت یا حکومت کی بنیاد اگرچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں پڑی۔ لیکن حکومت کا دور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو سالہ خلافت میں اگرچہ بڑی بڑی مہمات کا فیصلہ وا۔ یعنی عرب کے مرتدوں کا خاتمہ ہو گیا۔ اور بیرونی فتوحات شروع ہوئیں۔ تاہم حکومت کا کوئی خاص نظام نہیں قائم ہوا۔ اور نہ اتنا مختصر زمانہ اس کے لیے کافی ہو سکتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک طرف تو فتوحات کو وسعت دی کہ قیصر و کسریٰ کی وسیع سلطنتیں ٹوٹ کر عرم میں مل گئیں۔ دوسری طرف حکومت و سلطنت کا نظام قائم کیا اور اس کو اس قدر ترقی دی کہ ان کی وفات تک حکومت کے جس قدر مختلف شعبے ہیں سب وجود میں آ چکے تھے۔

لیکن قبل اس کے کہ ہم حکومت کے قواعد و آئین کی تفصیل بتائیں، پہلے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اس حکومت کی ترکیب اور ساخت کیا تھی؟ یعنی شخصی تھی یا جمہوری؟ اگرچہ اس وقت عرب کا تمدن جس حد تک پہنچا تھا، اس کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر جمہوری یا شخصی دونوں میں سے کسی ایک کا بھی اطلاق نہیں ہو سکتا تھا لیکن ایسے موقع پر صرف اس ایک بات کا پتہ لگانا کافی ہے کہ حکومت کا جو انداز تھا وہ جمہوریت سے ملتا تھا یا شخصیت سے ملتا تھا۔ یعنی سلطنت کا میلان ذاتی اختیار پر تھا یا عام رائے پر۔

جمہوری اور شخصی سلطنت کا موازنہ

جمہوری اور شخصی طریق حکومت میں جو چیز سب سے بڑھ کر مابہ الامتیاز ہے ، وہ عوام کی مداخلت اور عدم مداخلت ہے یعنی حکومت میں جس قدر رعایا کو دخل دینے کا زیادہ حق حاصل ہو گا اسی قدر اس میں جمہوریت کا عنصر زیادہ ہو گا۔ یہاں تک کہ سلطنت جمہوری کی آخری حد یہ ہے کہ مسند نشین حکومت کے ذاتی اختیارات بالکل فنا ہو جائیں اور وہ جماعت کا صرف ایک ممبر رہ جائے پر خلاف اس کے شخصی سلطنت میں تمام دار و مدار صرف ایک شخص پر ہوتا ہے۔ اس بناء پر شخصی سلطنت سے خواہ مخواہ نتائج ذیل پیدا ہوتے ہیں۔

1 – بجائے اس کے کہ ملک کے تمام قابل اشخاص کی قابلیتیں کام میں آئیں۔ صرف چند ارکان سلطنت کی عقل و تدبیر پر کام چلتا ہے۔

2 – چونکہ بجز چند عہدیداروں کے اور لوگوں کو ملکی انتظامات سے کچھ سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے قوم کے اکثر افراد سے انتظامی قوت اور قابلیت رفتہ رفتہ معدوم ہونے لگتی ہے۔

۳ –       مختلف فرقوں اور جماعتوں کے خاص خاص حقوق کی اچھی طرح حفاظت نہیں ہوتی۔ کیونکہ جن لوگوں کو ان حقوق سے غرض ہے ان کو انتظام سلطنت میں دخل نہیں ہوتا اور جن لوگوں کو دخل ہوتا ہے ان کو غیروں کے حقوق سے اس قدر ہمدردی نہیں ہو سکتی جتنی کہ خود ارباب حقوق کو ہو سکتی ہے۔ چونکہ بجز چند ارکان سلطنت کے کوئی شخص ملکی اور قومی کاموں میں دخل دینے کا مجاز نہیں ہوتا۔ اس لیے قوم میں ذاتی اغراض کے سوا قومی کارناموں کا مذاق معدوم ہو جاتا ہے۔ یہ نتائج شخصی سلطنت کے لوازم ہیں۔ اور کبھی اس سے جدا نہیں ہو سکتے۔ بر خلاف اس کے جمہوری سلطنت میں اس کے برعکس نتائج ہوں گے۔ اس بناء پر جس سلطنت کی نسبت جمہوری یا شخصی حکومت کا حیثیت سے بحث ہو، اس کی نوعیت کا اندازہ نتائج سے بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ جمہوریت کا طریق عرب کا فطری مذاق تھا اور اس لیے عرب میں جو حکومت قائم ہوتی وہ خواہ مخواہ جمہوری ہوتی۔ عرب میں مدت سے تین وسیع حکومتیں تھیں لخمی، حمیری، غسانی لیکن یہ سب شخصی تھیں۔ قبائل کے سردار جمہوری اصولوں پر انتخاب کئے جاتے تھے ، لیکن ان کو کسی قسم کی ملکی حکومت حاصل نہ تھی بلکہ ان کی حیثیت سپہ سالاروں یا قاضیوں کی ہوتی تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت نے بھی اس بحث کا کچھ فیصلہ نہیں کیا۔ گو ان کا انتخاب کثرت رائے پر ہوا تھا۔ لیکن وہ ایک فوری کاروائی تھی چنانچہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :

” فلا یغتون امر ان یقول انما کانت بیعۃ ابی بکر فلتۃ و تمت الا و انھا قد کانت کذالک لکن اللہ و فی شرھا۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گرد و پیش جو سلطنتیں تھیں وہ بھی جمہوری نہ تھیں۔ ایران میں تو سرے سے کبھی یہ مذاق ہی نہیں پیدا ہوا۔ روم البتہ کسی زمانے میں اس شرف سے ممتاز ہوا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے سے پہلے وہاں شخصی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں تو وہ بالکل ایک جابرانہ خود مختار سلطنت رہ گئی تھی۔ غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بغیر کسی مثال اور نمونے کے جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی اور اگرچہ وقت کے اقتضاء سے اس کے تمام اصول و فروع مرتب نہ ہو سکے تاہم جو چیزیں حکومت جمہوری کی روح ہیں سب وجود میں آ گئیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں مجلس شوریٰ (کونسل)

اس میں سب کا اصل الاصول مجلس شوریٰ کا انعقاد تھا۔ یعنی جب کوئی انتظام کا مسئلہ پیش آتا تھا تو ہمیشہ ارباب شوریٰ کی مجلس منعقد ہوتی تھی۔ اور کوئی امر بغیر مشورہ اور کثرت رائے کے عمل میں نہیں آ سکتا تھا۔ تمام جماعت اسلام میں اس وقت دو گروہ تھے جو کل قوم کے پیشوا تھے اور جن کو تمام عرب نے گویا اپنا قائم مقام تسلیم کر لیا تھا۔ یعنی مہاجرین و انصار۔

 

مجلس شوریٰ کے ارکان اور اس کے انعقاد کا طریقہ

مجلس شوریٰ میں ہمیشہ لازمی طور پر ان دونوں گروہ کے ارکان شریک ہوتے تھے۔ انصار بھی دو قبیلوں میں منقسم تھے۔ اوس و خزرج۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں کا مجلس شوریٰ میں شریک ہونا ضروری تھا۔ مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کے نام اگرچہ ہم نہیں بتا سکتے ، تاہم اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت عبد الرحمٰن بن عوف، حضرت معاذ بن جبل، ابی بن کعب اور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہم شامل تھے۔ (کنز العمال حوالہ طبقات ابن سعد جلد 3 صفحہ 134 مطبوعہ حیدر آباد)۔ مجلس کے انعقاد کا یہ طریقہ تھا کہ پہلے ایک منادی اعلان کرتا تھا کہ الصلوٰۃ جامعہ یعنی سب لوگ نماز کے لیے جمع ہو جائیں۔ جب لوگ جمع ہو جاتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجد نبوی میں جا کر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ نماز کے بعد منبر پر چڑھ کر خطبہ دیتے تھے اور بحث طلب امر پیش کیا جاتا تھا۔ (تاریخ طری صفحہ 2574)۔

مجلس شوریٰ کے جلسے

معمولی اور روزمرہ کے کاروبار میں اس مجلس کے فیصلے کافی سمجھے جاتے تھے لیکن جب کوئی امر اہم پیش آتا تھا تو مہاجرین اور انصار کا اجلاس عام ہوتا تھا اور سب کے اتفاق سے وہ امر طے پایا جاتا تھا۔ مثلاً عراق و شام کے فتح ہونے پر جب بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات فوج کی جاگیر میں دے دیئے جائیں تو بہت بڑی مجلس منعقد ہوئی۔ جس میں تمام قدمائے مہاجرین اور انصار میں سے عام لوگوں کے علاوہ دس بڑے سردار جو تمام قوم میں ممتاز تھے اور جن میں پانچ شخص قبیلہ اوس اور پانچ قبیلہ خزرج کے تھے ، شریک ہوئے۔ کئی دن تک مجلس کے جلسے رہے اور نہایت آزادی و بیباکی سے لوگوں نے تقریریں کیں۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تقریر (تمام تفصیل کتاب الخراج قاضی ابو یوسف صفحہ 14 تا 15 میں ہے۔ ) کی اس کے جستہ جستہ فقرے ہم اس لحاظ سے نقل کرتے ہیں کہ اس سے منصب خلافت کی حقیقت اور خلیفہ وقت کے اختیارات کا اندازہ ہوتا ہے۔

” الی لم از عجکم الا لان نشر کوافی امانتی فیما حملت من امور کم فانی واحد کا حد کم۔ ولست اریدان یتبعوا اھذا الذی ہوای۔ "

21 ہجری میں جب نہاوند کا سخت معرکہ پیش آیا اور عجمیوں نے اس سر و سامان سے تیاری کی کہ لوگوں کے نزدیک خود خلیفہ وقت کا اس مہم پر جانا ضروری ٹھہرا تو بہت بڑی مجلس شوریٰ منعقد ہوئی۔ حضرت عثمان، طلحہ بن عبید اللہ، زبیر بن العوام، عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ نے باری باری کھڑے ہو کر تقریریں کیں۔ اور کہا کہ آپ کا خود موقع جنگ پر جانا مناسب نہیں۔ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہوئے اور ان لوگوں کی تائید میں تقریر کی۔ غرض کثرت رائے سے یہی فیصلہ ہوا کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ موقع جنگ پر نہ جائیں۔ اسی طرح فوج کی تنخواہ، دفتر کی ترتیب، عمال کا تقرر، غیر قوموں کی تجارت کی آزادی اور ان پر محصول کی تشخیص۔ اسی قسم کے بہت سے معاملات ہیں جن کی نسبت تاریخوں میں بہ تصریح مذکور ہے کہ مجلس شوریٰ میں پیش ہو کر طے پائے۔ ان امور کے پیش ہوتے وقت ارکان مجلس نے جو تقریریں کیں وہ بھی تاریخوں میں مذکور ہیں۔

مجلس شوریٰ کا انعقاد اور اہل الرائے کی مشورت استحسان و تبرع کے طور پر نہ تھی، بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف موقعوں پر صاف صاف فرمایا تھا کہ مشورے کے بغیر خلافت سرے سے جائز ہی نہیں، ان کے خاص الفاظ یہ ہیں :

” لا خلافۃ الا عن مشورۃ ” (کنز العمال بحوالہ مصنف بن ابی شیبہ جلد 3 صفحہ 139)۔

ایک اور مجلس

مجلس شوریٰ کا اجلاس اکثر خاص خاص ضرورتوں کے پیش آنے کے وقت ہوتا تھا۔ لیکن اس کے علاوہ ایک اور مجلس تھی جہاں روزانہ انتظامات اور ضروریات پر گفتگو ہوتی تھی۔ یہ مجلس ہمیشہ مسجد نبوی میں منعقد ہوتی تھی۔ اور صرف مہاجرین صحابہ اس میں شریک ہوتے تھے۔ صوبجات اور اضلاع کی روزانہ خبریں جو دربار خلافت میں پہنچتی تھیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو اس مجلس میں بیان کرتے تھے اور کوئی بحث طلب امر ہوتا تھا تو اس میں لوگوں سے استصواب کیا جاتا تھا۔ مجوسیوں پر جزیہ مقرر کرنے کا مسئلہ اول اسی مجلس میں پیش ہوا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے اس مجلس کا حال ایک ضمنی تذکرے میں ان الفاظ میں لکھا ہے :

"للمھا جرین مجلس فی المسجد فکان عمر تجلس معھم فیہ و یحدثھم عما ینتبی الیہ من امر من امر الافاق فقال یوما ما ادری کیف اصنع بالمجوس۔ "

عام رعایا کی مداخلت

مجلس شوریٰ کے ارکان کے علاوہ عام رعایا کو انتظامی امور میں مداخلت حاصل تھی۔ صوبجات اور اضلاع کے حاکم رعایا کی مرضی سے مقرر کئے جاتے تھے۔ بلکہ بعض اوقات بالکل انتخاب کا طریقہ عمل میں آیا تھا۔ کوفہ، بصرہ اور شام میں جب عمال خراج مقرر کئے جانے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں صوبوں میں احکام بھیجے کہ وہاں کے لوگ اپنی اپنی پسند سے ایک ایک شخص کا انتخاب کر کے بھیجیں جو ان کے نزدیک تمام لوگوں سے زیادہ دیانتدار اور قابل ہوں۔ چنانچہ کوفہ سے عثمان بن فرقد، بصرہ سے حجاج بن اعلاط، شام سے معن بن یزید کو لوگوں نے منتخب کر کے بھیجا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں لوگوں کو ان مقامات کا حاکم مقرر کیا۔ قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ صاحب نے اس واقعہ کو جن الفاظ میں بیان کیا ہے یہ ہیں :

"کتب عمر بن الخطاب الی اھل الکوفۃ یبعثون الیہ رجلاً من اخبرھم و اصلحھم و الی احل البصرۃ کذالک و الی اھل الشام کذالک قال فبعث الیہ اھل الکوفہ عثمان بن فرقد و بعث الیہ اھل الشام معن بن یزید و بعث الیہ اھل البصرۃ الحجاج بن علاط کلھم مسلمون قال فاستعمل کل واحد منھم علی خراج ارضہ” (کتاب الخراج صفحہ 64)۔

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بڑے رتبے کے صحابی اور نوشیروانی تخت کے فاتح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا۔ لیکن جب لوگوں نے ان کی شکایت کی تو معزول کر دیا۔

حکومت جمہوری کا ایک بہت بڑا اصول یہ ہے کہ ہر شخص کو اپنے حقوق اور اغراض کی حفاظت کا پورا اختیار اور موقع دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت میں ہر شخص کو نہایت آزادی کے ساتھ یہ موقع حاصل تھا اور لوگ اعلانیہ اپنے حقوق کا اظہار کرتے تھے۔ اضلاع سے قریباً ہر سال سفارتیں آتی تھیں جن کو وفد کہتے تھے۔ اس سفارت کا صرف یہ مقصد ہوتا تھا کہ دربار خلافت کو ہر قسم کے حالات اور شکایات سے مطلع کیا جائے اور داد رسی چاہی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود بار بار مختلف موقعوں پر اس حق کا اعلان کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ خاص اس کے لیے مجمع عام میں خطبہ پڑھا۔ فرمانوں میں تصریح کی اور ایک دفعہ تمام عمالان سلطنت کو حج کے مجمع عام میں طلب کر کے اس کا اعلان کیا۔ چنانچہ اس کی پوری تفصیل عمالوں کے بیان میں آئے گی۔

خلیفہ کا عام حقوق میں سب کے ساتھ مساوی ہونا

حکومت جمہوری کا اصل زیور یہ ہے کہ بادشاہ ہر قسم کے حقوق میں عام آدمیوں کے ساتھ برابری رکھتا ہو۔ یعنی کسی قانون کے اثر سے مستثنیٰ نہ ہو۔ ملک کی آمدنی میں سے ضروریات زندگی سے زیادہ نہ لے سکے۔ عام معاشرت میں اس کی حاکمانہ حیثیت کا کچھ لحاظ نہ کیا جائے۔ اس کے اختیارات محدود ہوں، ہر شخص کو اس پر تنقید کا حق حاصل ہو۔ یہ تمام امور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں اس درجے تک پہنچے تھے کہ اس سے زیادہ ممکن نہ تھے اور جو کچھ ہوا تھا خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق عمل کی بدولت ہوا تھا۔ انہوں نے متعدد موقعوں پر ظاہر کر دیا تھا کہ حکومت کے لحاظ سے ان کی کیا حیثیت ہے۔ اور ان کے کیا اختیارات ہیں۔ ایک موقع پر انہوں نے اس کے متعلق جو تقریر کی اس کے بعض فقرے اس موقع پر لکھنے کے قابل ہیں :

انما انا ومالکم کولی الیتیم ان استفنیت استعررت وان افتقرت اکلت بالمعروف لکم علی ایھا الناس خصال فخذونی بھالکم علی ان لا اجتبی شیئا من خراجکم ولا مما افاء اللہ علیکم الا من وجھہ ولکم علی اذا وقع فی یدی ان لا یخرج منی الا فی حقہ ولکم علی ان ازیدفی عطیاتکم و اسد ثغور کم ولکم علی ان لا القیکم فی المھالک۔ (کتاب الخراج صفحہ 60)۔

"مجھ کو تمہارے مال (یعنی بیت المال) میں اس قدر حق ہے جتنا یتیم کے مربی کو یتیم کے مال میں۔ اگر میں دولت مند ہوں گا تو کچھ نہ لوں گا اور ضرورت پڑے گی تو دستور کے موافق کھانے کے لیے لوں گا۔ صاحبو! میرے اوپر تم لوگوں کے متعدد حقوق ہیں، جس کا تم کو مجھ سے مواخذہ کرنا چاہیے۔ ایک یہ کہ ملک کا خراج اور مال غنیمت بیجا طور سے نہ جمع کیا جائے ، ایک یہ کہ جب میرے ہاتھ میں خراج اور غنیمت آئے تو بیجا طور سے صفر نہ ہونے پائے۔ ایک یہ کہ میں تمہارے روزینے بڑھا دوں اور تمہاری سرحدوں کو محفوظ رکھوں، ایک یہ کہ تم کو خطروں میں نہ ڈالوں۔ "

ایک موقع پر ایک شخص نے کئی بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب کر کے کہا کہ اتق اللہ یا عمر یعنی ” اے عمر خدا سے ڈر۔ ” حاضرین میں سے ایک شخص نے اس کو روکا اور کہا کہ بس بہت ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” نہیں کہنے دو، اگر یہ لوگ نہ کہیں تو یہ بے مصرف ہیں، اور ہم لوگ نہ مانیں تو ہم (کتاب الخراج صفحہ 7)۔ ” ان باتوں کا یہ اثر تھا کہ خلافت اور حکومت کے اختیارات اور حدود تمام لوگوں پر ظاہر ہو گئے تھے۔ اور شخصی شوکت اور اقتدار کا تصور دلوں سے جاتا رہا تھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رومیوں کی سفارشات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے متعلق جو تقریر کی تھی وہ درحقیقت حکومت جمہوری کی اصل تصویر ہے اور حکومت جمہوری کی حقیقت آج بھی اس سے واضح تر اور صحیح تر نہیں بیان کی جا سکتی۔

نوعیت حکومت بتانے کے بعد ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نظام حکومت کی طرف متوجہ ہوتے ہیں

حکومت کے نظم و نسق میں جو چیز سب سے مقدم ہے وہ یہ ہے کہ انتظام کے تمام مختلف صیغے ایک دوسرے سے ممتاز اور الگ الگ ہوں اور یہی ترقی و تمدن کی سب سے بڑی دلیل ہے جس طرح تمدن کی ابتدائی حالت میں مکانات کی یہ قطع ہوتی ہے کہ ایک ہی ہجرہ (کمرہ) تمام ضرورتوں کے لیے کافی ہوتا ہے پھر جس قدر تمدن بڑھتا جاتا ہے کھانے ، سونے ، ملاقات کرنے ، لکھنے پڑھنے اور دیگر ضروریات کے لیے جدا جدا کمرے بنتے جاتے ہیں۔ یہی حالت بالکل سلطنت کی ہوتی ہے۔ ابتدائے تمدن میں انتظامات کے تمام صیغے ملے جلے رہتے ہیں۔ جو شخص صوبہ کا گورنر ہوتا ہے وہی لڑائی کے وقت سپہ سالار بن جاتا ہے۔ مقدمات کے اتفصال (فیصلہ) کے وقت وہی قاضی کا کام دیتا ہے۔ جرائم کی تعزیر میں وہی پولیس کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس قدر تمدن ترقی کرتا جاتا ہے۔ الگ الگ صیغے قائم ہوتے جاتے ہیں۔ اور ہر صیغے کا الگ افسر ہوتا ہے۔ انگریزی حکومت کو 100 برس ہوئے لیکن جوڈیشنل اور ایگزیکٹیو اختیارات اب تک ملے جلے ہیں۔ یعنی حاکم ضلع مال گزاری بھی وصول کرتا ہے اور مقدمات بھی فیصل کرتا ہے اور غیر آئینی اضلاع میں تو بہت زیادہ خلط مبحث ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عجیب و غریب کارناموں میں ایک یہ بھی ہے کہ باوجود اس کے کہ اس وقت کا تمدن نہایت ابتدائی حالت میں تھا۔ اور سلسلہ حکومت کے آغاز کو صرف چند برس گزرے تھے۔ تاہم انہوں نے بہت سے شعبے جو مخلوط تھے الگ کر کے جداگانہ محکمے قائم کئے۔ چنانچہ ان تمام شعبوں کو ہم تفصیل سے لکھتے ہیں۔

ملک کی تقسیم صوبجات اور اضلاع و عہدیداران ملکی

نظام حکومت کا ابتدائی سلسلہ جس پر تمام انتظامات متفرع ہوتے ہیں، ملک کا مختلف حصوں میں تقسیم ہوتا ہے۔ جن کو صوبہ، ضلع اور پرگنہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اسلام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اس کی ابتدا کی اور اس زمانے کے موافق نہایت موزونی اور تناسب سے اس کے حدود قائم کئے۔ تمام مؤرخین نے اس کی تصریح کی ہے کہ انہوں نے ممالک مقبوضہ کو 8 صوبوں میں تقسیم کیا۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقرر کردہ صوبے

مکہ، مدینہ، شام، جزیرہ، بصرہ، کوفہ، مصر، فلسطین۔ مؤرخ یعقوبی نے 8 کے بجائے 7 صوبے لکھے ہیں اور لکھا ہے کہ یہ انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 20 ہجری میں کیا تھا۔ مؤرخین کا یہ بیان اگرچہ درحقیقت صحیح ہے ، لیکن اس میں ایک اجمال ہے۔ جس کی تفصیل بتا دینی ضروری ہے۔ فاروقی فتوحات کو جو وسعت حاصل تھی اس کے لحاظ سے صرف یہ 80 صوبے کافی نہیں ہو سکتے تھے۔ فارس، خوزستان، کرمان وغیرہ بھی آخر صوبے ہی کی حیثیت رکھتے تھے۔

اصل یہ ہے کہ جو ممالک فتح ہوئے ان کی جو تقسیم پہلے سے تھی اور جو مقامات صوبے یا ضلعے تھے اکثر جگہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی طرح رہنے دیئے۔ اس لیے مؤرخین نے ان کا نام نہیں لیا۔ البتہ جو صوبے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم کئے ان کا ذکر ضرور تھا اور وہ یہی 8 تھے لیکن یہ امر بھی بلحاظ اغلب صحیح ہے ورنہ تاریخی تصریحات سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پچھلی تقسیم ملکی میں بھی تصرفات کئے تھے۔ فلسطین ایک صوبہ شمار کیا جاتا تھا۔ اور اس میں 10 ضلعے شامل تھے۔ 15 ہجری میں جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود فلسطین جا کر معاہدہ امن لکھا تو اس صوبے کے دو حصے کر دیئے۔ ایک کا صدر مقام ایلیا اور دوسرے کا رملہ قرار دیا۔ اور علقمہ بن حکیم و علقمہ بن مخبرز کو الگ الگ دونوں صوبوں میں متعین کیا۔ (2403 تا 240 اصل عبارت یہ ہے ” فصارت فلسطین نصفین نصف مع اھل ایلیا او نصف مع اھل رملۃ و ھم عشر کورد فلسطین تعدل الشام کلھا فرق فلسطین علی رجلین فنزل کل واحد عنھا فی عمد”)۔ صر کی نسبت ہم کو معلوم نہیں کہ فتح سے پہلے اس کی کیا حالت تھی لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو دو صوبوں میں تقسیم کیا۔ بالائی حصہ جس کو عربی میں صعید کہتے ہیں اور جس میں 28 ضلعے شامل تھے۔ ایک الگ صوبہ قرار دے کر عبد اللہ بن سعد ابھی سرح کو وہاں کا حاکم مقرر کیا۔ اور نشیبی حصہ میں 15 ضلعے شامل تھے۔ اس پر ایک دوسرا افسر تعینات کیا۔ عمرو بن العاص بطور گورنر جنرل کے تھے۔

 

نوشیروانی عہد کے صوبے

فارس وغیرہ میں چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تقریباً تمام نوشیروانی انتظامات بحال رہنے دیئے تھے ، اس لیے صرف یہ بتا دینا کافی ہے کہ نوشیروان کے عہد میں یہ ممالک کتنے حصوں میں منقسم تھے۔

مؤرخ یعقوبی (تاریخ یعقوبی صفحہ 201، 202 جلد اول) نے لکھا ہے کہ نوشیروان کی سلطنت عراق کے علاوہ تین بڑے بڑے صوبوں میں منقسم تھی۔

خراسان : اس میں مفصلہ ذیل اضلاع شامل تھے۔

نیشا پور، ہرات، مرو، مرورود، فاریاب، طالقان، بلخ، بخارا، بادغیس، باورد، غرشتان، طوس، سرخس، جرجان۔

آذربائیجان : اس میں مفصلہ ذیل اضلاع شامل تھے۔

تبرستان، رے ، قزوین، زنجان، قم، اصفہان، ہمدان، نہاوند، دینور، حلوان، ماسفدان، فہرجان، قذق، شہزور، سامغان، آذر سبحان۔

فارس : اس میں مفصلہ ذیل اضلاع شامل تھے ؛

اصطخر، شیراز، نوبند جان، ضور، گاذرون، فسادارا بجرو، ارد شیر، خرہ، سابور، اہواز، جند سابور، سوس، نہر تیری، منادر، تستر، ایذج، رام ہرمز۔

صوبوں کے افسر

صوبوں میں مفصلہ ذیل بڑے بڑے عہدہ دار رہتے تھے۔ والی یعنی حاکم صوبہ، کاتب یعنی میر منشی، کاتب دیوان یعنی دفتر فوج کا میر منشی، صاحب الخراج یعنی کلکٹر صاحب، احداث یعنی افسر پولیس، صاحب بیت المال یعنی افسر خزانہ، قاضی یعنی صدر الصدور و منصف۔ چنانچہ کوفہ میں عمار بن یاسر والی، عثمان بن حنیف کلکٹر، عبد اللہ بن مسعود افسر خزانہ، شریح قاضی، عبد اللہ بن خلف الخزاعی کاتب دیوان تھے۔ (طبری 2657 و ابن خلکان صفحہ 253)۔ ہر صوبے میں ایک فوجی افسر بھی ہوتا تھا لیکن اکثر حالتوں میں صوبے کا عامل ہی اس خدمت پر مامور ہوتا تھا۔ پولیس کا محکمہ بھی جہاں تک ہم کو معلوم ہے ہر جگہ الگ نہ تھا۔ اکثر کلکٹر یا عامل اس خدمت کو بھی انجام دیتا تھا۔ مثلاً عمار بن یاسر جس وقت کوفے کے حاکم تھے پولیس کا محکمہ بھی انہی کے سپرد تھا۔ بحرین میں قدامتہ بن مظعون صاحب الخراج تھے اور پولیس افسر کا کام بھی کرتے تھے۔ والی کا اسٹاف وسیع اور مستقل اسٹاف ہوتا تھا اور اس کے ممبر خود دربار خلافت کی طرف سے مامور ہوتے تھے۔ عمار کو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تو دس معزز آدمی ان کے اسٹاف میں دیئے۔ جن میں ایک قزط خزرجی بھی تھے (اسد الغابہ تذکرہ قزط)۔

میر منشی قابل تقریر اور تحریر میں یکتا ہوتا تھا۔ ابو موسیٰ اشعری جو بصرہ کے گورنر تھے ان کا میر منشی زیاد بن سمیہ تھا۔ جس کی فصاحت و بلاغت پر خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حیران رہ گئے تھے۔ اور عمرو بن العاص کہا کرتے تھے کہ اگر یہ نوجوان قریش کی نسل سے ہوتا تو تمام عرب اس کے علم کے نیچے آ جاتا۔

اضلاع میں بھی عامل، افسر خزانہ اور قاضی وغیرہ ہوتے تھے۔ اور یہ سب گورنر کے ماتحت اور اس کے زیر حکومت کام کرتے تھے۔ پرگنوں میں غالباً صرف تحصیلدار رہتے تھے۔ اور اس کے ساتھ اس کا عملہ ہوتا تھا۔

صوبجات اور اضلاع کی تقسیم کے بعد سب سے مقدم جو چیز تھی ملکی عہدیداران کا انتخاب اور ان کی کاروائی کا دستور العمل بنانا تھا۔ کوئی فرمانروا کتنا ہی بیدار مغز اور کوئی قانون کتنا ہی مکمل ہو۔ لیکن جب تک حکومت کے اعضاء و جوارح یعنی عہدیداران ملکی قابل، لائق، راستباز اور متدوین نہ ہوں اور ان سے نہایت بیدار مغزی کے ساتھ کام نہ لیا جائے۔ ملک کو کبھی ترقی نہیں ہو سکتی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس باب میں جس نکتہ رسی اور تدبیر و سیاست سے کام لیا، انصاف یہ ہے کہ تاریخ عالم کے ہزاروں ورق الٹ کر بھی اس کی نظیر نہیں ملتی۔

ضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جوہر شناسی

اس مرحلے میں اس بات سے بڑی مدد ملی کہ ان کی طبیعت شروع سے ہی جوہر شناس واقع ہوئی تھی۔ یعنی جس شخص میں جس قسم کی قابلیت ہوتی تھی وہ اس کی تہہ کو پہنچ جاتے تھے۔ اس کے ساتھ انہوں نے ملک کے قابل آدمیوں سے واقفیت بہم پہنچائی تھی۔ یہی بات تھی کہ انہوں نے جس شخص کو جو کام دیا اس کے انجام دینے کے لیے اس سے بڑھ کر آدمی نہیں مل سکتا تھا۔ عرب میں چار شخص تھے ، جن کو وہاۃ العرب کہا جاتا تھا۔ یعنی جو فن سیاست و تدبیر میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ (استیعاب قاضی ابن عبد البر و طری صفحہ 2617) زیاد بن سمیعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیاد کے سوا تینوں کو بڑے بڑے ملکی عہدے دیئے اور چونکہ یہ لوگ صاحب ادعا بھی تھے۔ اس لیے اس طرح ان پر قابو رکھا کہ کبھی کسی قسم کی خود سری نہ کرنے پائے۔ زیاد ان کے زمانے میں شانزدہ سالہ نوجوان تھا۔ اس لیے اس کو کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا لیکن اس کی قابلیت اور استعداد کی بناء پر ابو موسیٰ اشعری کو لکھا کہ کاروبار حکومت میں اس کو مشیر کار بنائیں۔ فن حرب میں عمرو معدی کرب اور طلیحہ بن خالد نہایت ممتاز تھے۔ لیکن تدبیر و سیاست میں ان کو دخل نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان دونوں کو نعمان بن مقرن کی ماتحتی میں عراق کی فتوحات پر مامور کیا۔ لیکن نعمان کو لکھ بھیجا کہ ان کو کسی صیغے کی افسری نہ دینا۔ کیونکہ ہر شخص اپنا فن خوب جانتا ہے۔ (استیعاب قاضی ابن عبد البر و طری صفحہ 2617)۔ عبد اللہ بن ارقم ایک معزز صحابی تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے کہیں سے ایک جواب طلب تحریر آئی۔ آپ نے فرمایا اس کا جواب کون لکھے گا؟ عبد اللہ بن ارقم نے عرض کی کہ ” میں ” یہ کہہ کر خود اپنی طبیعت سے جواب لکھ کر لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے سنا تو نہایت پسند فرمایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے۔ ان کی اس قابلیت پر ان کا خاص خیال ہوا۔ اور جیسا کہ ابن الاثیر وغیرہ نے لکھا ہے یہ اثر ان کے دل میں ہمیشہ قائم رہا۔ یہاں تک کہ جب خلیفہ ہوئے تو ان کو میر منشی مقرر کیا۔

نہاوند کی عظیم الشان مہم کے لیے جب مجلس شوریٰ کا عام اجلاس ہوا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رائے طلب کی کہ اس مہم پر کون بھیجا جائے ؟ تو تمام مجمع نے باتفاق کہا کہ آپ کو جو واقفیت ہے اور آپ نے ایک ایک کی قابلیت کا جس طرح اندازہ کیا ہے کسی نے نہیں کیا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ نعمان بن مقرن کا نام لیا اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ” یہ انتخاب بالکل بجا ہے۔ ” عمار بن یاسر بڑے رتبے کے صحابی تھے۔ اور زہد و تقویٰ میں بے نظیر تھے۔ لیکن سیاست و تدبیر سے آشنا نہ تھے۔ قبولیت عام اور بعض مصلحتوں کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا۔ لیکن چند روز کے بعد جب ان سے کام چل نہ سکا تو معزول کر دیا اور ان کے طرفداروں کو دکھا دیا کہ وہ اس کام کے لیے موزوں نہ تھے۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں۔ جن کا استقصاء نہیں کیا جا سکتا۔ کسی شخص کو شوق ہو تو رجال کی کتابوں سے عرب کے تمام لائق آدمیوں کا پتہ لگائے اور پھر دیکھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان پرزوں کو حکومت کی کل میں کیسے مناسب موقعوں پر لگایا تھا۔ تاہم اتنا بڑا کام صرف ایک شخص کی ذمہ داری پر چھوڑا نہیں جا سکتا تھا۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس شوریٰ منعقد کی اور صحابہ سے خطاب کر کے کہا کہ ” اگر لوگ میری مدد نہ کریں گے تو کون کرے گا۔ (کتاب الخراج صفحہ 165۔ اصل عبارت یہ ہے ” ان عمر بن الخطاب دعا اصحاب رسول اللہ فقال اذا لم تعینونی فمن یعسینی الخ۔ ) حضرت ابو ہریرہ نے کہا کہ "ہم آپ کو مدد دیں گے۔ ” لیکن اس وقت ملکی انتظام میں حصہ لینا زہد اور تقدس کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ” اے عمر تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کو دنیا میں آلودہ کرتے ہو۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” میں ان بزرگوں سے مدد نہ لوں تو کس سے لوں۔ ” ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” اگر ایسا ہی ہے تو تنخواہیں بیش مقرر کرو کہ لوگ خیانت کی طرف مائل نہ ہونے پائیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 64)۔ غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کی رائے و مشورت سے نہایت دیانتدار اور قابل لوگ انتخاب کئے اور ان کو ملکی خدمتیں شپرد کیں۔

عہدیداروں کے مقرر کرنے کے لیے مجلس شوریٰ

اہم خدمات کے لیے مجلس شوریٰ کے عام اجلاس میں انتخاب ہوتا تھا اور جو شخص تمام ارکان مجلس کی طرف سے انتخاب کیا جاتا تھا۔ وہ اس خدمت پر مامور ہوتا تھا۔ چنانچہ عثمان بن حنیف کا تقرر اسی طریقے سے ہوا تھا۔ بعض اوقات صوبے یا ضلعے کے لوگوں کو حکم بھیجتے تھے کہ جو شخص تمام لوگوں سے زیادہ قابل ہو اس کا انتخاب کر کے بھیجو۔ چنانچہ انہی منتخب لوگوں کو وہاں کا عامل مقرر کرتے تھے۔ عثمان بن فرقد، معن بن یزید، حجاج بن علاط اسی قاعدے کے موافق کئے گئے تھے۔ ہم اس کی تفصیل اوپر لکھ آئے ہیں۔

تنخواہ کا معاملہ

ایک دقت یہ تھی کہ لوگ کسی خدمت کے معاوضے میں تنخواہ لینا پسند نہیں کرتے تھے اور اس کو زہد و تقویٰ کے خلاف سمجھتے تھے۔ بعینہ اسی طرح جس طرح آج کل کے مقدس واعظوں کو اگر کہا جائے کہ وہ باقاعدہ اپنی خدمتوں کو انجام دیں اور مشاہرہ لیں۔ تو ان کو نہایت ناگوار ہو گا۔ لیکن نذر و نیاز کے نام سے جو رقمیں ملتی ہیں اس سے ان کو احتراز نہیں ہوتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی بہت سے لوگ اسی غلطی میں مبتلا تھے۔ لیکن یہ امر تمدن اور اصول انتظام کے خلاف تھا۔ اس لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی کوشش سے اس غلطی کو رفع کیا اور تنخواہیں مقرر کیں۔ ایک موقع پر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مشہور صحابی اور سپہ سالار تھے حق الخدمت لینے سے انکار کیا۔ (طبری صفحہ 2747 اسد الغابہ (تذکرہ حذیفہ بن الیمان) سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔ کان عمر اذا استعمل عاملا کتب عھدۃ قد بعثت فلانا وامرتہ بکذا فلما قدم المدائین استقبلہ الدھاتین)۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑی مشکل سے ان کو راضی کیا۔ حکیم بن حزام نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بار بار اصرار پر بھی کبھی وظیفہ یا روزینہ لینا گوارہ نہ کیا۔ (کنز العمال جلد 3 صفحہ 322)۔

عاملوں کے فرامین میں ان کے فرائض کی تفصیل

جو شخص عامل مقرر کیا جاتا تھا۔ اس کو ایک فرمان عطا ہوتا تھا۔ جس میں اس کی تقرری اور اختیارات اور فرائض کا ذکر ہوتا تھا۔ (یہ حوالہ کٹا ہوا ہے )۔ اس کے ساتھ بہت سے مہاجرین اور انصار کی گواہی ثبت ہوتی تھی، عامل جس مقام پر جاتا تھا تمام لوگوں کو جمع کر کے یہ فرمان پڑھتا تھا۔ جس کی وجہ سے لوگ اس کے اختیارات اور فرائض سے واقف ہو جاتے تھے اور جب وہ ان اختیارات کی حد سے آگے قدم رکھتا تھا تو لوگوں کو اس پر گرفت کا موقع ملتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات کا سخت اہتمام تھا کہ عاملوں کے جو فرائض ہیں ایک ایک آدمی ان سے واقف ہو جائے۔ چنانچہ بارہا مختلف مقامات اور مختلف موقعوں پر اس کے متعلق خطبے دیئے۔ ایک خطبے میں جو مجمع عام میں دیا تھا۔ عاملوں کو خطاب کر کے یہ الفاظ فرمائے۔

الا والی لم ابعثکم امراء ولا جبارین ولکن بعثتکم ائمۃ الھدیٰ یھتدی بکم فادوا علی المسلمین حقوقھم ولا تضربو فتذلوھم ولا تحمدوھم فتفتنو ھم ولا تغلقو الا بواب دونھم فیا کل قویھم ضگیفھم ولا تستاثروا علیھم فتظلموھم۔

” یاد رکھو کہ میں نے تم لوگوں کو امیر اور سخت گیر مقرر کر کے نہیں بھیجا ہے بلکہ امام بنا کر بھیجا ہے کہ لوگ تمہاری تقلید کریں۔ تم لوگ مسلمانوں کے حقوق ادا کرو، ان کو زد و کوب نہ کرو، کہ وہ ذلیل ہوں۔ ان کی بیجا تعریف نہ کرو کہ غلطی میں پڑیں۔ ان کے لیے اپنے دروازے بند نہ رکھو کہ زبردست کمزوروں کو کھا جائیں۔ ان سے کسی بات میں اپنے آپ کو ترجیح نہ دو کہ یہ ان پر ظلم کرنا ہے۔ "

جب کوئی شخص کہیں کا عامل مقرر کیا جاتا تھا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کے ایک بڑے گروہ کے سامنے اس کو فرمان تقرری عنایت کرتے تھے اور ان صحابہ کو گواہ مقرر کرتے تھے جس سے (کتاب الخراج صفحہ 62 میں ہے۔ کان عمر اذا استعمل رجلا اشھد علیہ رھطا من الانصار) یہ مقصد تھا کہ جو شخص مقرر کیا جاتا تھا، اس کی لیاقت اور فرائض کا اعلان ہو جائے۔

عاملوں سے جن باتوں کا عہد لیا جاتا تھا

ہر عامل سے عہد لیا جاتا تھا کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہو گا۔ باریک کپڑے نہ پہنے گا۔ چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا۔ دروازے پر دربان نہ رکھے گا۔ اہل حاجت کے لیے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا۔ (کتاب الخراج صفحہ 66)۔ یہ شرطیں اکثر پروانہ تقرری میں درج کی جاتی تھیں۔ ان کو مجمع عام میں پڑھ کر سنایا جاتا تھا۔

عاملوں کے مال و اسباب کی فہرست

جس وقت کوئی عامل مقرر ہوتا تھا اس کے پاس جس قدر مال اور اسباب ہوتا تھا۔ اس کی مفصل فہرست تیار کرا کر محفوظ رکھی جاتی تھی اور اگر عامل کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہوتی تھی تو اس سے مواخذہ کیا جاتا تھا۔ (فتوح البلدان صفحہ 219 میں ہے کان عمر الخطاب یکتب اموال اعمالہ اذا ولاھم لم یقاسمھم ما د علی ذلک)۔ ایک دفعہ اکثر عمال اس بلا میں مبتلا ہوئے۔ خالد بن صعق نے اشعار کے ذریعے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کی موجودات کا جائزہ لے کر آدھا آدھا مال ہٹا لیا اور بیت المال میں داخل کر دیا۔ اشعار میں سے چند شعر یہ ہیں :

ابلغ امیر المومنین رسالۃ
فانت امین اللہ فی المال والامر
فلا تدعن اھل الرساتیق والقری
یسیعون مال اللہ فی الادم الوفر

فارسل الی الحجاج فاعرف حسابہ
و ارسل الی جزو ارسل الی بشر
ولا تنسین النافعین کلیھما
ولا ابن غلاب من سراۃ بنی نصر
وما عاصم منھا لصفر عیابہ
و ذاک الذی فی السرق مولی بن بدر
و شیلا فسل المال وابن معرش
فقد کان فی اھل الرساتیق ذاذکر
نوؤب امذا ابوا و فغزوا غزوا
فانی لھم وفر ولسانا اولیٰ وفر
اذا التاجر ال داری جاء بقارۃ
من المسک راحت فی صفارقھم تجری

زمانہ حج میں تمام عالموں کی طلبی

تمام عمال کو حکم تھا کہ ہر سال حج کے زمانے میں حاضر ہوں۔ حج کی تقریب سے پہلے تمام اطراف کے لوگ موجود ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کھڑے ہو کر باعلان کہتے تھے کہ جس کسی کو کسی عامل سے کچھ شکایت ہو تو پیش کرے۔ (تاریخ طبری صفحہ 2680 میں ہے و کان من سنہ عمر و سیرتہ یا خذ عمالہ بموافاۃ الحج فی کل سنۃ للہ ولحجرھم یدنک عن الرعیۃ ولیکون لشکاۃ الرعیۃ وقنا و غایۃ ینھز نھا فیہ الیہ 12)۔ چنانچہ ذرا ذرا سے شکایتیں پیش ہوتی تھیں اور تحقیقات ہو کر ان کا تدارک کیا جاتا تھا۔ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت بڑا مجمع کر کے خطبہ دیا اور کہا کہ صاحبو، اعمال جو مقرر کر کے بھیجے جاتے ہیں اس لیے نہیں بھیجے جاتے کہ طمانچے ماریں یا تمہارا مال چھین لیں بلکہ میں ان کو اس لیے بھیجتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریقہ سکھائیں۔ سو اگر کسی عامل نے اس کے خلاف کیا تو مجھ سے بیان کرو تا میں اس کا انتقام لوں۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مصر کے گورنر تھے اٹھ کر کہا کہ ” اگر کوئی عامل ادب دینے کے لیے کسی کو مارے گا تب بھی آپ اس کو سزا دیں گے ؟” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ضرور میں سزا دوں گا، کیونکہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے۔ خبردار! مسلمانوں کہ نہ مارا کرو ورنہ وہ ذلیل ہو جائیں گے۔ ان کے حقوق تلف نہ کرو۔ ورنہ کفران نعمت پر مجبور ہوں گے۔

ایک دفعہ حسب معمول تمام عمال حاضر تھے۔ ایک شخص اٹھا اور کہا کہ ” آپ کے عامل نے مجھ کو بے قصور سو کوڑے مارے ہیں۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مستغیث کو حکم دیا کہ وہیں مجمع عام میں عامل کو سو کوڑے لگائے۔ عمرو بن العاص نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ امر عمال پر گراں ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ میں ملزم سے انتقام نہ لوں۔ ” عمرو بن العاص نے منت کر کے مستغیث کو اس شرط پر راضی کیا کہ ایک ایک تازیانے کے عوض میں دو دو اشرفیاں لے کر اپنے حق سے باز آئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 66)

عاملوں کی تحقیقات

وقتاً فوقتاً عمال کی جو شکایتیں پیش ہوتی تھیں۔ ان کی تحقیقات کے لیے ایک خاص عہدہ قائم کیا۔ جس پر محمد بن مسلمہ انصاری مامور تھے۔ یہ بزرگ اکابر صحابہ میں سے تھے۔ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمرکاب رہے تھے۔ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ایک مہم پر تشریف لے گئے تو ان کو مدینہ میں اپنا نائب مقرر کرتے گئے۔ ان وجوہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایسے بڑے کام کے لیے انہی کو انتخاب کیا۔ جب کسی عامل کی شکایت آتی تھی تو یہ تحقیقات پر مامور ہوتے تھے۔ (اسد الغابہ تذکرہ محمد بن مسلمہ میں ہے ” و ھو کان صاحب المعال ایام عمر کان عمر اذا شکی الیہ عامل ارسل محمداً لکشف الحال و ھو لذی ارسلہ عمر الی عمالہ لیا خذشطر اموالھم” طبری نے مختلف مقامات میں تصریخ کی ہے کہ محمد بن مسلمہ عمال کی تحقیقات پر مامور تھے۔ ) اور موقع پر جا کر مجامع عامہ میں لوگوں کا اظہار لیتے تھے۔ 21 ہجری میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے قادسیہ کی مہم سر کی تھی اور کوفہ کے گورنر تھے ان کی نسبت لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر شکایت کی یہ وہ وقت تھا کہ ایرانیوں نے بڑے زور شور سے لڑائی کی تیاریاں کی تھیں اور لاکھ ڈیڑھ لاکھ فوج لے کر نہاوند کے قریب آ پہنچے تھے ، مسلمانوں کو سخت تردد تھا۔ اور ان کے مقابلے کے لیے کوفہ سے فوجیں روانہ ہو رہی تھیں۔ عین اسی حالت میں یہ لوگ پہنچے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگرچہ یہ نہایت تنگ اور پرخطر وقت ہے ، تاہم یہ تردد مجھ کو سعد بن ابی وقاص کی تحقیقات سے نہیں روک سکتا۔ اسی وقت محمد بن مسلمہ کو کوفہ روانہ کیا۔ انہوں نے کوفہ کی ایک ایک مسجد میں جا کر لوگوں کے اظہار لیے اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ساتھ لے کر مدینہ میں آئے۔ یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود ان کا اظہار لیا۔ (یہ پوری تفصیل تاریخ طبری صفحہ 2606 تا 2608 میں ہے۔ صحیح بخاری میں بھی اس واقعے کا اشارہ ہے۔ دیکھو کتاب مذکورہ اول صفحہ 104 مطبوعہ میرٹھ)۔

 

کمیشن

بعض اوقات کمیشن کے طور پر چند آدمی تحقیقات کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ چنانچہ اس قسم کے متعدد واقعات تاریخوں میں مذکور ہیں۔ بعض اوقات ابتداً عامل کو مدینہ بلا کر براہ راست تحقیقات کرتے تھے۔ اور اکثر یہ اس وقت ہوتا تھا جب کہ عامل صوبہ کا حاکم یا معزز افسر ہوتا تھا۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بصرہ کے گورنر تھے ، ان کی نسبت جب شکایت گزری تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مستغیث کا بیان خود اپنے ہاتھ سے قلمبند کیا۔ اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنے حضور میں بلوا کر تحقیقات کیں۔ الزامات یہ تھے :

1 – ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسیران جنگ میں سے 60 رئیس زادے چھانٹ کر اپنے لیے رکھے ہیں۔

2 – ان کی ایک لونڈی ہے جس کو دونوں وقت نہایت عمدہ غذا بہم پہنچائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کی غذا ایک عام مسلمان کو میسر نہیں آ سکتی۔

3 – کاروبار حکومت زیاد بن سمیعہ کو سپرد کر رکھا ہے اور وہی سیاہ و سفید کا مالک ہے۔

تحقیقات سے پہلا الزام غلط ثابت ہوا۔ تیسرے الزام کا ابو موسیٰ نے یہ جواب دیا کہ زیاد سیاست و تدبیر کا آدمی ہے۔ اس لیے میں نے اس کو اپنا مشیر بنا رکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیاد کو طلب کیا اور امتحان لیا تو حقیقت میں قابل آدمی تھا۔ اس لیے خود بصرہ کے حکام کو ہدایت کی کہ زیاد کو مشیر کار بنائیں۔ دوسرا الزام پیش ہوا تو ابو موسیٰ کچھ جواب نہ دے سکے۔ چنانچہ لونڈی ان سے چھین لی گئی۔ (طبری صفحہ 2710 تا 2712)۔

عاملوں کی خطاؤں پر سخت گرفت کی جاتی تھی۔ خصوصاً ان باتوں پر جن سے ترفع اور امتیاز یا نمود و فخر ثابت ہوتا تھا۔ سخت مواخذہ کیا جاتا تھا۔ جس عامل کی نسبت ثابت ہوتا تھا کہ بیمار کی عیادت نہیں کرتا یا کمزور اس کے دربار میں بار نہیں پاتا تو فوراً موقوف کر دیا جاتا تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 66)۔

ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بازار میں پھر رہے تھے۔ ایک طرف سے آواز آئی کہ ” عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کیا عاملوں کے لیے چند قواعد کے مقرر کرنے سے تم عذاب الٰہی سے بچ جاؤ گے۔ تم کو یہ خبر ہے کہ عیاض بن غنم جو مصر کا عامل ہے باریک کپڑے پہنتا ہے۔ اور اس کے دروازے پر دربان مقرر ہے۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محمد بن مسلمہ کو بلایا اور کہا کہ عیاض کو جس حالت میں پاؤ ساتھ لے آؤ۔ محمد بن مسلمہ نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو واقعی دروازے پر دربان تھا۔ اور عیاض باریک کپڑے کا کرتہ پہنے بیٹھے تھے۔ اسی ہیئت اور لباس میں ساتھ لے کر مدینہ آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کرتہ اتروا کر کمل کا کرتہ پہنایا۔ اور بکریوں کا ایک گلہ منگوا کر حکم دیا کہ ” جنگل میں لے جا کر چراؤ” عیاض کو انکار کی تو مجال نہ تھی۔ مگر بار بار کہتے تھے کہ اس سے مر جانا بہتر ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا "تجھ کو اس سے عار کیوں ہے۔ تیرے باپ کا نام غنم اسی وجہ سے پڑا تھا کہ وہ بکریاں چراتا تھا”۔ غرض عیاض نے دل سے توبہ کی اور جب تک زندہ رہے اپنے فرائض نہایت خوبی سے انجام دیتے رہے۔ (کتاب الخراج صفحہ 66)۔

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوفہ میں اپنے لیے محل بنوایا تھا۔ جس میں ڈیوڑھی بھی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خیال سے کہ اس سے اہل حاجت کو رکاؤ ہو گا۔ محمد بن مسلمہ کو مامور کیا کہ جا کر ڈیوڑھی میں آگ لگا دیں۔ چنانچہ اس حکم کی پوری تعمیل ہوئی اور سعد بن ابی وقاص چپکے دیکھتے گئے۔

اس قسم کی باتیں اگرچہ بظاہر قابل اعتراض ہیں۔ کیونکہ لوگوں کے طرز معاشرت و ذاتی افعال سے تعرض کرنا اصول آزادی کے خلاف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام ملک میں مساوات اور جمہوریت کی جو روح پھونکنی چاہتے تھے ، وہ بغیر اس کے ممکن نہ تھی کہ وہ خود اور ان کے دست و بازو یعنی ارکان سلطنت اس رنگ میں ڈوبے نظر آئیں۔ عام آدمیوں کو اختیار ہے کہ جو چاہیں کریں۔ ان کے افعال کا اثر بھی انہیں تک محدود رہے گا۔ لیکن جو لوگ سلطنت کے ارکان ہیں ان کے طرز معاشرت کا ممتاز ہونا لوگوں کے دلوں میں اپنی حقارت کا خیال پیدا کرتا ہے اور رفتہ رفتہ اس قسم کی باتوں سے سلطنت شخصی کی وہ تمام خصوصیتیں پیدا ہو جاتی ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ ایک شخص آقا اور باقی تمام لوگ غلام ہیں۔ اس کے علاوہ جو شخص عرب کی فطرت سے واقف ہے ، وہ باآسانی سمجھ سکتا ہے کہ اس قسم کی باتیں پولیٹیکل مصالح سے خالی نہ تھیں۔ مساوات اور عدم ترجیح جس کو آج کل اصطلاح میں سوشلزم کہتے ہیں، عرب کا اصلی مذاق ہے اور عرب میں جو سلطنت اس اصول پر قائم ہو گی وہ یقیناً بہ نسبت اور ہر قسم کی سلطنت کے زیادہ کامیاب ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ احکام زیادہ تر عرب کی آبادیوں میں محدود تھے۔ ورنہ امیر معاویہ، شام میں بڑے سرو سامان سے رہتے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے کچھ تعرض نہیں کرتے تھے۔ شام کے سفر میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے خدم و حشم کو دیکھ کر اس قدر کہا کہ "اکسرانیہ؟” یعنی یہ نوشیروانی جاہ و جلال کیسا؟ مگر جب انہوں نے جواب دیا کہ کہاں رومیوں سے سابقہ رہتا ہے ، اور ان کی نظر میں بغیر اس کے سلطنت کا رعب و داب نہیں قائم رہ سکتا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر تعرض نہیں کیا۔

حضرت عمر نے عمال کی دیانت اور راستبازی کے قائم رکھنے کے لیے نہایت عمدہ اصول یہ اختیار کیا تھا کہ تنخواہیں بیش مقرر کی تھیں۔ یورپ نے مدتوں کے تجربے کے بعد یہ اصول سیکھا ہے۔ اور ایشیائی سلطنتیں تو اب تک اس راز کو نہیں سمجھیں، جس کی وجہ سے رشوت اور غبن ایشیائی سلطنتوں کا خاصہ ہو گیا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اگرچہ معاشرت نہایت ارزاں اور روپیہ گراں تھا، تاہم تنخواہیں علیٰ قدر مراتب عموماً بیش قرار تھیں۔ صوبہ داروں کی تنخواہ پانچ پانچ ہزار تک ہوتی تھی اور غنیمت کی تقسیم سے جو ملتا تھا وہ الگ۔ چنانچہ امیر معاویہ کی تنخواہ ہزار دینار ماہوار یعنی پانچ ہزار روپے تھی۔ (استیعاب قاضی ابن عبد البر اور ازالۃ الخفاء جلد دوم صفحہ 17)۔

اب ہم عمالان فاروقی کی ایک اجمالی فہرست درج کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکومت کی کل میں کس قسم کے پرزے استعمال کئے تھے :

نام

مقام ماموریت

عہدہ

کیفیت

ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

شام

والی

مشہور صحابی اور عشرہ مبشرہ میں داخل ہیں

یزید بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

شام

والی

تمام بنو امیہ میں ان سے بڑھ کر کوئی شخص نہ تھا

امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

شام

والی

 سیاست و تدبیر میں مشہور ہیں

عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مصر

والی

مصر انہی نے فتح کیا

سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ

کوفہ

والی

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ماموں تھے

عتبہ بن غزوان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بصرہ

والی

مہاجرین میں سے ہیں، بصرہ انہی نے آباد کرایا

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بصرہ

والی

مشہور جلیل القدر صحابی ہیں

عتاب بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مکہ معظمہ

والی

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو مکہ معظمہ کا عامل مقرر کیا تھا

نافع بن عبد الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مکہ معظمہ

والی

فضلائے صحابہ میں سے ہیں

خالد بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مکہ معظمہ

والی

ابو جہل کے بھتیجے اور معزز شخص تھے

عثمان بن ابی العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ

طائف

والی

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد جب ارتداد پھیلا تو طائف کے لوگوں کو انہی نے تھاما تھا

یعلی بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یمن

والی

صحابہ میں سے تھے اور فیاضی میں شہرت عام رکھتے تھے

علاء بن الحضرمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

یمن

والی

بڑے صاحب اثر تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو یمن کا عامل مقرر کیا تھا

نعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ

مدائن

صاحب الخراج

عثمان بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اضلاع فرات

کمشنر بندوبست

حساب کتاب اور پیمائش کے کام میں نہایت ماہر تھے

عیاض بن غنم رضی اللہ تعالیٰ عنہ

جزیرہ

والی

جزیرہ انہی نے فتح کیا تھا

عمر بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حمص

والی

مشہور صحابی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے رازدار تھے

نافع بن عبد الحارث رضی اللہ تعالیٰ عنہ

بڑے خاندان کے آدمی تھے

خالد بن حرث دہمانی

اصفہان

افسر خزانہ

سمرۃ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ

سوق الاہواز

اکابر صحابہ میں ہیں۔

نعمان بن عبدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

میسان

صحابہ میں سے اول انہی کو وراثت کا مال ملا

غرجہ بن ہرشمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ

موصل

کمشنر مالگزاری

موصل میں انہی نے فوجی چھاؤنی بنوائی

صیغہ محاصل

خراج

خراج کا طریقہ عرب میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایجاد کیا

خراج کا نظم و نسق عرب کی تاریخ تمدن میں ایک نیا اضافہ تھا۔ اسلام سے پہلے اگرچہ عرب کے مختلف خاندان تاج و تخت کے مالک ہوئے جنہوں نے سلطنت کے تمام کاروبار قائم کر دیئے تھے۔ لیکن محاصل کا باقاعدہ انتظام بالکل موجود نہ تھا۔ اسلام کے آغاز میں اس قدر ہوا کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں نے درخواست کی کہ زراعت کا کام ہم اچھا جانتے ہیں اس لیے زمین ہمارے ہی قبضے میں چھوڑ دی جائے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی درخواست منظور کر لی اور بٹائی پر معاملہ ہو گیا۔ اس کے سوا جن مقامات کے باشندے سب مسلمان ہو گئے تھے ، ان کی زمین پر عشر مقرر کر دیا۔ جو ایک قسم کی زکوٰۃ تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں عراق کے کچھ حصے فتح ہوئے ، لیکن خراج وغیرہ کا کچھ انتظام نہ ہوا۔ بلکہ سرسری طور پر کچھ رقم مقرر کر دی گئی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب مہمات کی طرف سے فی الجملہ اطمینان ہوا یعنی 16 ہجری میں ادھر عراق عرب پر پورا قبضہ ہو گیا اور اس طرف یرموک کی فتح نے رومیوں کی قوت کا استیصال کر دیا، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خراج کے نظم و نسق کی طرف توجہ کی۔ اس مرحلے میں پہلی یہ مشکل پیش آئی کہ امرائے فوج نے اصرار کیا کہ تمام مفتوحہ مقامات صلہ فتح کے طور پر ان کی جاگیر میں عنایت کئے جائیں۔ اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دے دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق کی فتح کے ساتھ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو وہاں کی مردم شماری کے لیے حکم دیا تھا۔ سعد نے نہایت جانچ کے ساتھ مردم شماری کا کاغذ مرتب کر کے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا گیا۔ تو ایک ایک مسلمان کے حصے تین تین آدمی پڑتے تھے۔ اسی وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ رائے قائم ہو چکی تھی کہ زمین باشندوں کے قبضہ میں رہنے دی جائے۔ اور ان کو ہر طرح پر آزاد چھوڑ دیا جائے (طبری صفحہ 467 و فتوح البلدان صفحہ 266 کتاب الخراج صفحہ 21)۔ لیکن اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قدر رد و کد کی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دق ہو کر فرمایا ” اللھم کفنی بلالا ” یعنی ” اے خدا مجھ کو بلال سے نجات دے۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر ممالک مفتوح فوج کو تقسیم کر دیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی حفاظت، ملک کے امن و امان قائم رکھنے کے مصارف کہاں سے آئیں گے۔ عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے تھے کہ جن کی تلواروں نے ملک کو فتح کیا ہے انہی کو قبضے کا بھی حق ہے۔ آئندہ نسلیں مفت کیونکر پا سکتی ہیں۔ چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت کا جمہوری طریقہ تھا۔ یعنی جو فیصلہ ہوتا تھا کثرت رائے پر ہوتا تھا، اس لیے عام اجلاس ہوا۔ جس میں تمام قدماء مہاجرین و انصار میں سے پانچ اور قبیلہ اوس اور قبیلہ خزرج کے سردار، وکیل کے طور پر شریک ہوئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 14)۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ تاہم کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔ کئی دن تک یہ مرحلہ درپیش رہا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا استدلال

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دفعتہً قرآن مجید کی ایک آیت یاد آئی جو بحث کے لیے نص قاطع تھی یعنی للفقرآء المھاجرین الذین اخرجوا من دیارھم و امولھم الخ اس آیت کے آخر میں فقرے والذین جاء امن بعدھم سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ استدلال کیا کہ فتوحات میں آئندہ نسلوں کا بھی حق ہے لیکن اگر فاتحین کو تقسیم کر دیا جائے تو آنے والی نسلوں کے لیے کچھ باقی نہیں رہتا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کھڑے ہو کر نہایت پرزور تقریر کی اور اس آیت کو استدلال میں پیش کیا۔ تمام لوگ بول اٹھے کہ ” بے شبہ آپ کی رائے بالکل صحیح ہے۔ ” اس استدلال کی بناء پر یہ اصول قائم ہو گیا کہ جو ممالک فتح کئے جائیں وہ فوج کی ملک نہیں ہیں بلکہ حکومت کی ملک قرار پائیں گے اور پچھلے قابضین کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کے قرار پانے کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ممالک مفتوحہ کے بندوبست پر توجہ کی۔

عراق کا بندوبست

عراق چونکہ عرب سے نہایت قریب اور عربوں کے آباد ہو جانے کی وجہ سے عرب کا ایک صوبہ بن گیا تھا۔ بندوبست کا طریقہ سب سے پہلے وہیں سے شروع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک اصول یہ بھی تھا کہ ہر ایک ملک کے انتظام میں وہاں کے قدیم رسم و رواج سے واقفیت حاصل کرتے تھے اور اکثر حالتوں میں کسی قدر اصلاح کے ساتھ قدیم انتظامات کو بحال رکھتے تھے۔ عراق میں اس وقت مال گزاری کا جو طریقہ جاری تھا یہ تھا یہ ہر ایک قسم کی مزروعہ زمین پر ایک خاص شرح کے لگان مقرر تھے۔ جو تین قسطوں میں ادا کئے جاتے تھے۔ یہ طریقہ سب سے پہلے کے قباد نے قائم کیا تھا۔ اور نوشیروان نے اس کی تکمیل کی تھی۔ نوشیروان تک تعین لگان میں یہ اصول ملحوظ رہتا تھا کہ اصل پیداوار کے نصف سے زیادہ نہ ہونے پائے۔ لیکن خسرو پرویز نے اس پر اضافہ کیا۔ اور یزدگرد کے زمانے میں اور بھی تبدیلیاں ہوئیں۔ (کتاب الاوائل ذکر اول من غیر سنۃ ساسان و ذکر اول من وضع الخراج)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مزید تحقیقات کے لحاظ سے پیمائش کا حکم دیا۔ اس کام کے لیے چونکہ دیانت کے ساتھ مساحتہ سے واقف ہونا ضروری تھا۔ اور عرب میں اس قسم کے فنون اس وقت رائج نہ تھے اس لیے فی الجملہ دقت پیش آئی۔ آخر دو شخص انتخاب کئے گئے۔ عثمان بن حنیف اور حذیفہ بن الیمان۔

افسران کا بندوبست

یہ دونوں بزرگ اکابر صحابہ میں سے تھے۔ اور عراق میں زیادہ تر رہنے سے اس قسم کے کاموں سے واقف ہو گئے تھے۔ خصوصاً عثمان بن حنیف کو اس فن میں پوری مہارت حاصل تھی۔ قاضی ابو یوسف صاحب نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ انہوں نے اس تحقیق اور صحت کے ساتھ پیمائش کی جس طرح قیمتی کپڑا ناپا جاتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیمائش کا پیمانہ خود اپنے دست مبارک سے تیار کر کے دیا۔ کئی مہینے تک بڑے اہتمام اور جانچ کے ساتھ پیمائش کا کام جاری رہا۔

عراق کا کل رقبہ

کل رقبہ طول میں 375 میل اور عرض میں 240 یعنی کل 3000 میل مکسر ٹھہرا۔ اور پہاڑ اور صحرا اور نہروں کو چھوڑ کر قابل زراعت زمیں تین کروڑ ساتھ لاکھ جریب ٹھہری۔

(1) خاندان شاہی کی جاگیر

(2) آتش کدوں کے اوقاف

(3) لا وارث

(4) مفروروں اور

(5) باغیوں کی جائیداد

(6) وہ زمینیں جو سڑکوں کی تیاری اور درستی اور ڈاک کے مصارف کے لیے مخصوس تھیں

(7) دریا برد

(8) جنگل اور تمام زمینوں کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خالصہ قرار دے کر ان کی آمدنی جس کی تعداد سالانہ ستر لاکھ (7000000) تھی رفاہ عام کے کاموں کے لیے مخصوص کر دی۔ کبھی کبھی کسی شخص کو اسلامی کوششوں کے صلے میں جاگیر عطا کی جاتی تھی تو انہی زمینوں سے کی جاتی تھی۔ لیکن یہ جاگیریں کسی حال میں خراج یا عشر سے مستثنیٰ نہیں ہوتی تھیں۔ باقی تمام زمین قدیم قبضہ داروں کو دے دی گئی۔ اور حسب ذیل لگان مقرر کیا گیا۔

لگان کی شرح

گیہوں    فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ    دو درہم سال

جو         فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ    ایک درہم سال

نیشکر      فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ    چھ درہم سال

روئی      فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ    پانچ درہم سال

انگور      فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ    دس درہم سال

نخلستان   فی جریب یعنی پون بیگھ پختہ    دس درہم سال

بعض بعض جگہ زمین کی پیداوار کے اعتبار سے اس شرح میں تفاوت بھی ہوا۔ یعنی گیہوں پر فی جریب 4 درہم اور جو پر 2 درہم مقرر ہوئے۔

عراق کا خراج

افتادہ زمین پر بشرطیکہ قابل زراعت ہو، دو جریب پر ایک درہم مقرر ہوا۔ اس طرح کل عراق کا خراج 8 کروڑ ساٹھ لاکھ درہم ٹھہرا۔ چونکہ پیمائش کے مہتمم مختلف لیاقت کے تھے ، اس لیے تشخیص جمع میں بھی فرق رہا۔ تاہم جہاں جس قدر جمع مقرر کی گئی اس سے زیادہ مالکان اراضی کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ذمی رعایا کا اس قدر خیال تھا کہ دونوں افسروں کو بلا کر کہا کہ تم نے تشخیص جمع میں سختی تو نہیں کی؟ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ نہیں۔ بلکہ ابھی اس قدر اور گنجائش ہے۔ (کتاب الخراج صفحہ)۔

زمیندار اور تعلقہ دار

جو لوگ قدیم سے زمیندار اور تعلقہ دار تھے اور جن کو ایرانی زبان میں مرزبان اور دہقان کہتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی حالت اسی طرح قائم رہنے دی اور ان کے جو اختیارات اور حقوق تھے سب بحال رکھے۔ جس خوبی سے بندوبست کیا گیا تھا اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ لگان کی شرحیں نوشیروان کی مقرر کردہ شرحوں سے زائد تھیں، تاہم نہایت کثرت سے افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں اور دفعۂ  زراعت کی پیداوار میں ترقی ہو گئی۔

پیداوار اور آمدنی میں ترقی

چنانچہ بندوبست کے دوسرے ہی سال خراج کی مقدار آٹھ کروڑ سے دس کروڑ بیس ہزار درہم تک پہنچ گئی۔ سالہائے ما بعد میں اور بھی اضافہ ہوتا گیا۔ اس پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ احتیاط تھی۔

ہر سال مال گزاری کی نسبت رعایا کی اظہار لیا جانا

کہ ہر سال جب عراق کا خراج آتا تھا تو دس ثقہ اور معتمد اشخاص کوفہ سے اور اسی قدر بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو چار دفعہ شرعی قسم دلاتے تھے کہ یہ مال گزاری کسی ذمی یا مسلمان پر ظلم کر کے تو نہیں لی گئی ہے۔ (کتاب الخراج صفحہ 165، اصل عبارت یہ ہے : ان عمر ابن الخطاب کان من یحی العراق کل سنۃ مائۃ الف الف اوقیہ ثم یخرج الیہ عشرۃ من اھل الکوفۃ و عشرۃ من اھل البصرۃ یشھدون اربع شھادات باللہ انہ من طیب مافیہ طلم مسلم و لا معاھد 12)”

یہ عجیب بات ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ نہایت نرمی سے خراج مقرر کیا تھا لیکن جس قدر مال گزاری ان کے عہد میں وصول ہوئی زمانہ مابعد میں کبھی وصول نہیں ہوئی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جس قدر خراج وصول ہوا زمانہ بعد میں کبھی نہیں ہوا

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ حجاج پر خدا لعنت کرے کمبخت کو نہ دین کی لیاقت تھی نہ دنیا کی۔ عمر بن الخطاب نے عراق کی مال گزاری 10 کروڑ 28 لاکھ درہم وصول کی، زیاد نے 10 کروڑ 15 لاکھ اور حجاج نے باوجود جبر و ظلم کے صرف 2 کروڑ 8 لاکھ وصول کئے۔ (معجم البلدان ذکر سواد)۔ مامون الرشید کا زمانہ عدل و انصاف کے لیے مشہور ہے لیکن اس کے عہد میں بھی عراق کے خراج کی تعداد 5 کروڑ 48 لاکھ درہم سے کبھی نہیں بڑھی۔

جہاں تک ہم کو معلوم ہے عراق کے سوا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی صوبے کی پیمائش نہیں کرائی۔ بلکہ جہاں جس قسم کا بندوبست تھا اور بندوبست کے جو کاغذات پہلے سے تیار تھے ان کو اسی طرح قائم رکھا۔ یہاں تک کہ دفتر کی زبان تک نہیں بدلی، یعنی جس طرح اسلام سے پہلے عراق و ایران کا دفتر فارسی میں، شام کا رومی میں، مصر کا قبطی میں تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی اسی طرح رہا۔ خراج کے محکمے میں جس طرح قدیم سے پارسی یونانی اور قطبی ملازم تھے بدستور بحال رہے۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قدیم طریقہ انتظام میں جہاں کچھ غلطی دیکھی اس کی اصلاح کر دی، چنانچہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

مصر میں فرعون کے زمانے میں جو بندوبست ہوا تھا۔ ٹالومیز (بطالمہ) نے بھی قائم رکھا۔ اور رومن ایمپائر میں بھی وہی جاری رہا۔ فرعون نے تمام اراضی کی پیمائش کرائی تھی اور تشخیص جمع اور طریقہ ادا کے مقدم اصول یہ قرار دیئے تھے :

مصر میں فرعون کے زمانے کے قواعد مال گزاری

1 – خراج نقد اور اصل پیداوار دونوں طریقوں سے وصول کیا جائے۔

2 – چند سالوں کی پیداوار کا اوسط نکال کر اس کے لحاظ سے جمع تشخیص کی جائے۔

3 – بندوبست چار سالہ ہو۔

پروفیسر Frvan Bergho نے ایک کتاب فرنچ زبان میں مسلمانوں کے قانون مال گزاری پر لکھی ہے۔ یہ حالات میں نے اسی کتاب سے لیے ہیں۔ آگے چل کر بھی اس کتاب کے حوالے آئیں گے۔ اس کتاب کا پورا نام یہ ہے :

(LAPROPRIE TE TERRITORIAL ETU’ IMPORT FONCIER SONSLES PREMIERS CALIFES

رومیوں کا اضافہ

رومیوں نے اپنے عہد حکومت میں اور تمام قاعدے بحال رکھے لیکن یہ نیا دستور مقرر کیا کہ ہر سال خراج کے علاوہ مصر سے غلہ کی ایک مقدار کثیر پائے تخت قسطنطنیہ کو روانہ کی جاتی تھی اور سلطنت کے ہر صوبے میں فوج کی رسد کے لیے یہیں سے غلہ جاتا تھا۔ جو خراج میں محسوب نہین ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دونوں جابرانہ قاعدے موقوف کر دیئے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قدیم طریقے کی اصلاح کی

یورپ کے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی یہ رسم جاری رہی۔ چنانچہ قحط کے سال مصر سے مدینہ منورہ کو جو غلہ بھیجا گیا، اسی اصول کے موافق بھیجا گیا۔ لیکن یہ ان کی سخت غلطی اور قیاس بازی ہے۔ بے شبہ عام القحط میں مصر سے غلہ آیا اور پھر یہ ایک رسم قائم ہو کر مدتوں تک جاری رہی۔ لیکن یہ وہی غلہ تھا جو خراج سے وصول ہوتا تھا۔ کوئی نیا خراج یا ٹیکس نہ تھا۔ چنانچہ علامہ بلاذری نے فتوح البلدان میں صاف صاف تصریح کر دی ہے۔ اس بات کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ جب خراج میں صرف نقدی کا طریقہ رہ گیا تو حرمین کے لیے جو غلہ بھیجا جاتا تھا خرید کر بھیجا جاتا تھا۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد حکومت کی نسبت علامہ مقریزی نے صاف اس کی تصریح کی ہے۔ (فتوح البلدان صفحہ 316)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر صوبہ میں فوج کی رسد کے لیے غلے کھیتوں کا بھی انتظام کیا تھا۔ لیکن یہ وہی خراج کا غلہ تھا۔

مصر میں وصول مال گزاری کا طریقہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مال گزاری کے وصول کا طریقہ بھی نہایت نرم کر دیا اور اس لحاظ سے ملک کے دونوں قدیم قاعدوں میں ترمیم کر دی۔ مصر ایک ایسا ملک ہے جس کی پیداوار کا دار و مدار دریائے نیل کی طغیانی پر ہے۔ اور چونکہ اس کی طغیانی کے مدارج میں نہایت تفاوت ہوتا رہتا تھا۔ اس لیے پیداوار کا کوئی خاص اندازہ نہیں ہو سکتا تھا۔ چند سالوں کے اوسط کا حساب اس لیے مفید نہیں تھا کہ جاہل کاشتکار اپنے مصارف کی تقسیم ایسے باقاعدہ طریقے سے نہیں کر سکتے کہ خشک سالی میں اوسط کے حساب سے ان کا کام چل سکے۔

بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مال گزاری کے وصول کا طریقہ یہ تھا کہ جب مال گزاری کی قسطیں کھلتی تھیں تو تمام پرگنہ جات سے رئیس اور زمیندار اور عراف طلب کئے جاتے تھے اور وہ پیداوار حال کے لحاظ سے کل ملک کے خراج کا ایک تخمینہ پیش کرتے تھے۔ اس کے بعد اسی طرح ہر ہر ضلع اور ہر ہر پرگنے کا تخمینہ مرتب کیا جاتا تھا، جس میں مقامی زمیندار اور مکھیا شریک ہوتے تھے۔ یہ تخمینی رقم ان لوگوں کے مشورے سے ہر ہر گاؤں پر پھیلا دی جاتی تھی۔ پیداوار جو ہوتی تھی اس میں سے اول گرجاؤں اور عمالوں کے مصارف اور مسلمانوں کی مہمانی کا خرچ نکال لیا جاتا تھا۔ باقی جو بچتا تھا اس میں سے جمع مشخصہ ادا کی جاتی تھی ہر گاؤں پر جمع تشخیص ہوتی تھی۔ پڑتے سے اس کا ایک حصہ گاؤں کے پیشہ وروں سے بھی وصول کیا جاتا تھا (مقریزی نے یہ پوری تفصیل نقل کی ہے۔ دیکھو کتاب مذکور صفحہ 77 علامہ بشاری کی کتاب جغرافیہ صفحہ 212 سے بھی اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ )

اس طریقہ میں اگرچہ بڑی زحمت تھی اور گویا ہر سال نیا بندوبست کرنا پڑتا تھا۔ لیکن مصر کے حالات کے لحاظ سے عدل اور انصاف کا یہی مقتضی تھا۔ اور مصر میں یہ تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ ایک مدت سے معمول بھی تھا۔ لگان کی شرح فی جریب ایک دینار اور تین ارب غلہ قرار دی گئی اور یہ معاہدہ لکھ دیا گیا کہ اس مقدار پر کبھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔

مصر کا کل خراج

اس عدل و انصاف کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی تعداد ایک کروڑ بیس لاکھ دینار تھی۔ جس کے تقریباً پانچ کروڑ چھ لاکھ روپے ہوتے ہیں۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ یہ صرف جزیے کی رقم تھی۔ خراج اس کے علاوہ تھا۔ ابو حرقل بغدادی نے بھی اپنے جغرافیے میں قاضی ابو حازم کا جو قول نقل کیا ہے وہ اسی کے مطابق ہے۔ لیکن میرے نزدیک دونوں نے غلطی کی ہے۔ خود علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ جب عمرو بن العاص نے پہلے سال ایک کروڑ دینار وصول کئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باز پرس کی۔ یہ مسلم ہے کہ مقوقس کے عہد میں جزیے کا دستور نہ تھا۔ اس لیے عمرو بن العاص کی یہ رقم اگر جزیہ تھی تو مقوقس کی رقم سے اس کا مقابلہ کرنا بالکل بے معنی تھا۔ اس کے علاوہ تمام مؤرخین نے اور خود مقریزی نے جہاں خراج کی حیثیت سے اسلام کے ماقبل اور مابعد زمانوں کا مقابلہ کیا ہے ، اسی تعداد کا نام لیا ہے۔ بہر حال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں خراج کی مقدار جہاں تک پہنچی زمانہ بعد میں کبھی اس حد تک نہیں پہنچی۔ بنو امیہ اور بنو العباس کے زمانے میں تیس لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہیں ہوا۔

مصر کا خراج بنو امیہ اور عباسیہ کے زمانے میں

ہشام بن عبد الملک نے جب بڑے اہتمام سے تمام ملک کی پیمائش کرائی جو تین کروڑ فدان ٹھہری تو 30 لاکھ سے چالیس لاکھ ہو گئے۔ البتہ حضرت عثمان کے زمانے میں عبد اللہ بن سعد گورنر مصر نے ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار وصول کئے تھے لیکن جب حضرت عثمان نے فخریہ عمرو بن العاص سے کہا کہ اب تو اونٹنی نے زیادہ دودھ دیا ہے (دیکھو مقریزی صفحہ 18 جلد اول)۔ تو عمرو بن العاص نے آزادانہ کہا کہ ” ہاں لیکن بچہ بھوکا رہا۔ ” امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ ہر قسم کی دنیاوی ترقی میں یادگار ہے۔ ان کے عہد میں مصر کے خراج کی تعداد 90 لاکھ دینار تھی۔ فاطمئین (معجم البلدان ذکر مصر۔ مقریزی جلد اول صفحہ 74 تا 75) کے عہد میں خلیفہ المعز بدین اللہ کے گورنر نے باوجود یہ کہ لگان کی شرح دوگنی کر دی، تاہم 32 لاکھ دینار سے زیادہ وصول نہ ہوئے۔ (کتاب الخراج صفحہ 28 ابن حوقل ذکر مصر)۔

شام

شام میں اسلام کے عہد تک وہ قانون جاری تھا جو ایک یونانی بادشاہ نے اپنے تمام ممالک مقبوضہ میں قائم کیا تھا۔ اس نے پیداوار کے اختلافات کے لحاظ سے زمین کے مختلف مدارج قرار دیئے تھے۔ اور ہر قسم کی زمین پر جداگانہ شرح کے لگان مقرر کئے تھے۔ یہ قانون چھٹی صدی عیسوی کے آغاز میں یونانی زبان سے شامی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ اور اسلام کی فتوحات تک وہی ان تمام ممالک میں جاری تھا۔ (دیکھو پروفیسر برخیم فرانسیسی کی کتاب مسلمانوں کے قانون مال گزاری پر)۔ قرائن اور قیاسات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصر کی طرح یہاں بھی وہی قدیم قانون جاری رہنے دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں شام سے جو خراج وصول ہوتا تھا اس کی کل تعداد ایک کروڑ چالیس لاکھ دینار یعنی 5 کروڑ 80 لاکھ روپے تھی۔

عراق، مصر، شام کے سوا اور ممالک مفتوحہ یعنی فارس، کرمان، آرمینیہ وغیرہ کے بندوبست اور تشخیص خراج کے حالات ہم بہت کم معلوم کر سکے۔ مؤرخین ان ملکوں کے حالات فتح میں صرف اس قدر لکھتے ہیں کہ وہاں کے لوگوں پر جزیہ اور زمین پر خراج مقرر کیا گیا۔ کہیں کہیں کسی خاص رقم پر معاہدہ ہو گیا ہے تو اس کی تعداد لکھ دی ہے۔ باقی اور قسم کی تفصیل کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔ اور چونکہ اس قسم کی جزئی تفصیلوں سے کچھ بڑے نتائج متعلق نہیں اس لیے ہم بھی اس کی چنداں پرواہ نہیں کرتے۔

قانون مال گزاری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اصلاحات

البتہ ایک محقق کی نگاہ اس بات پر پڑتی ہے کہ اس صیغے میں فتوحات فاروقی کی خاص ایجادات اور اصلاحیں کیا ہیں اور ہم اسی خاص پہلو پر نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ سب سے بڑا انقلاب جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صیغے میں کیا اور جس کی وجہ سے رعایا کی بہبودی اور خوشحالی دفعتہً نہایت ترقی کر گئی، یہ تھی کہ زمین داری اور ملکیت زمین کا قدیم جابرانہ قانون مٹا دیا۔ رومیوں نے جب شام اور مصر پر قبضہ کیا تو تمام ارضیات اصلی باشندوں سے چھین کر کچھ افسران فوج اور کچھ اراکین دربار کو دے دیں کچھ شاہی جاگیریں قرار پائیں۔ کچھ کلیسا اور چرچ پر وقف کر دیں۔ اصل باشندوں کے ہاتھ میں ایک چپہ زمین بھی نہیں رہی۔ وہ صرف کاشتکاری کا حق رکھتے تھے۔ اور اگر مالک زمین ان کی کاشتکاری کی زمین کو کسی کے ہاتھ منتقل کرتا تھا تو زمین کے ساتھ کاشتکار بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اخیر میں باشندوں کو بھی کچھ زمین داریاں ملنے لگیں۔ لیکن زمین داری کی حفاظت اور اس سے متمتع ہونے کے لیے رومی زمینداروں سے اعانت لینی پڑتی تھی۔ اس بہانے سے زمیندار خود زمین پر متصرف ہو جاتے تھے۔ اور وہ غریب کاشتکار کا کاشتکار ہی رہتا تھا۔ یہ طریقہ کچھ رومی سلطنت کے ساتھ مخصوص نہ تھا۔ بلکہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے تمام دنیا میں قریب قریب یہی طریقہ جاری تھا کہ زمین کا بہت بڑا حصہ افسران فوج یا ارکان دولت کی جاگیر میں دے دیا جاتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملک پر قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس ظالمانہ قانون کو مٹا دیا۔ رومی تو اکثر ملک کے مفتوح ہوتے ہی نکل گئے۔ اور جو رہ گئے ان کے قبضے سے بھی زمین نکال لی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام اراضیات کو جو شاہی جاگیریں تھیں یا جن پر رومی افسر قابض تھے ، باشندگان ملک کے حوالے کر دیا۔ اور بجائے اس کے کہ وہ مسلمان افسروں یا فوجی سرداروں کو عنایت کی جاتیں، قاعدہ بنا دیا کہ مسلمان کسی حالت میں ان زمینوں پر قابض نہیں ہو سکتے۔ یعنی مالکان اراضی کو قیمت دے کر خریدنا چاہیں تو خرید بھی نہیں سکتے۔ یہ قاعدہ ایک مدت تک جاری رہا۔ چنانچہ لیث بن سعد نے مصر میں کچھ زمین مول لی تھی تو بڑے بڑے  پیشوایان مذہب مثلاً امام مالک، نافع بن یزید بن البیعہ نے ان پر سخت اعتراض کیا۔ (مقریزی صفحہ 215)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اہل عرب کو جو ان ممالک میں پھیل گئے تھے زراعت کی ممانعت کر دی۔ چنانچہ تمام فوجی افسروں کے نام احکام بھیج دیئے کہ لوگوں کے روزینے مقرر کر دیئے گئے ہیں۔ اس لیے کوئی شخص زراعت نہ کرنے پائے۔ یہ حکم اس قدر سختی سے دیا گیا کہ شریک عطفی ایک شخص نے مصر میں زراعت خرید کر لی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو بلا کر سخت مواخذہ کیا اور فرمایا کہ تجھ کو ایسی سزا دوں گا کہ اوروں کو عبرت ہو۔ (حسن المحاضرہ صفحہ 93)۔

ان قاعدوں سے ایک طرف تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عدل و انصاف کا نمونہ قائم کیا۔ جس کی نظیر دنیا میں کہیں موجود نہ تھی۔ کیونکہ کسی فاتح قوم نے مفتوحین کے ساتھ کبھی ایسی رعایت نہیں برتی تھی۔ دوسری طرف زراعت اور آبادی کو اس سے نہایت ترقی ہوئی۔ اس لیے کہ اصلی باشندے جو مدت سے ان کاموں میں مہارت رکھتے تھے عرب کے خانہ بدوش بدوان کی برابری نہیں کر سکتے تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس تدبیر نے فتوحات کی وسعت میں بڑا کام دیا۔ فرانس کے ایک نہایت لائق مصنف نے لکھا ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ اسلام کی فتوحات میں خراج اور مال گزاری کے معاملہ کو بہت دخل ہے۔ رومن سلطنت میں باشندگان ملک کو جو سخت خراج ادا کرنا پڑتا تھا۔ اس نے مسلمانوں کی فتوحات کو نہایت تیزی سے بڑھایا۔ مسلمانوں کے حملوں کا جو مقابلہ کیا گیا وہ اہل ملک کی طرف سے نہ تھا بلکہ حکومت کی طرف سے تھا۔ مصر میں خود قبطی کاشتکاروں نے یونانیوں کے برخلاف مسلمانوں کو مدد دی، دمشق اور حمص میں عیسائی باشندوں نے ہرقل کو فوج کے مقابلے میں شہر پناہ کے دروازے بند کر دیئے اور مسلمانوں سے کہہ دیا کہ ہم تمہارے حکومت کو بمقابلہ بے رحم رومیوں کے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں۔

یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غیر قوموں کے ساتھ انصاف کرنے میں اپنی قوم کی حق تلفی کی یعنی ان کو زراعت اور فلاحت سے روک دیا۔ درحقیقت اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی انجام بینی کا ثبوت ملتا ہے۔ عرب کے اصلی جوہر دلیری، بہادری، جفاکشی، ہمت، عزم اسی وقت تک قائم رہے جب تک وہ کاشتکاری اور زمین داری سے الگ رہے۔ جس دن انہوں نے زمین کو ہاتھ لگایا، اسی دن یہ تمام اوصاف بھی ان سے رخصت ہو گئے۔

 

بندوبست مال گزاری میں ذمیوں سے رائے لینا

اس معاملے میں ایک اور نہایت منصافانہ اصول جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برتا یہ تھا کہ بندوبست اور اس کے متعلق تمام امور میں ذمی رعایا سے جو پارسی یا عیسائی تھی ہمیشہ رائے طلب کرتے تھے۔ اور ان کی معروضات پر لحاظ فرماتے تھے۔ عراق کا جب بندوبست کرنا چاہا تو پہلے عمال کو لکھا کہ عراق کے دو رئیسوں کو ہمارے پاس بھیجو جن کے مترجم بھی ہوں (کتاب الخراج صفحہ 31)۔ پیمائش کا کام ہو چکا تو پھر دس دس بڑے بڑے زمیندار عراق سے بلوائے اور ان کے اظہار لیے (کتاب الخراج صفحہ 5)۔

اسی طرح مصر کے انتظام کے وقت وہاں کے گورنر کو لکھا کہ مقوقس سے (جو پہلے مصر کا حاکم تھا) خراج کے معاملے میں رائے لو۔ اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو ایک واقف کار قبطی کو مدینے میں طلب کیا اور اس کا اظہار لیا۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 74 تا 75)۔ یہ طریقہ جس طرح عدل و انصاف کا نہایت اعلیٰ نمونہ تھا، اسی طرح انتظام کی حیثیت سے بھی مفید تھا۔

ان باتوں کے ساتھ ان اصلاحات کو بھی شامل کرنا چاہیے جن کا بیان ہم بندوبست کے شروع میں کر آئے ہیں۔

ترقی زراعت

بندوبست کے ساتھ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمین کی آبادی اور زراعت کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ عام حکم دے دیا کہ تمام ملک میں جہاں جہاں افتادہ زمینیں ہیں جو شخص ان کو آباد کرے گا اس کی ملک ہو جائیں گی۔ لیکن اگر کوئی شخص اس قسم کی زمین کو آباد کرنے کی غرض سے اپنے قبضے میں لائے اور تین برس کے اندر آباد نہ کرے تو زمین اس کے قبضے سے نکل جائے گی۔ اس طریقے سے افتادہ زمینیں نہایت جلد آباد ہو گئیں۔ حملے کے وقت جہاں جہاں کی رعایا گھر چھوڑ کر نکل گئی تھی ان کے لیے اشتہار دے دیا کہ واپس آ جائے اور اپنی زمینوں پر قابض ہو جائے۔ زراعت کی حفاظت اور ترقی کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے ان سے آکر شکایت کی کہ شام میں میری کچھ زراعت تھی۔ اپ کی فوج ادھر سے گزری اور اس کو برباد کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت اس کو دس ہزار درہم معاوضے میں دلوائے۔ (کتاب الاخراج صفحہ 6۔ تمام ممالک مفتوحہ میں نہریں جاری کیں اور بند باندھے۔

محکمہ آبپاشی

تالاب تیار کرانے ، پانی کی تقسیم کرنے کے دہانے بنانے ، نہروں کے شعبے نکالنے اور اس قسم کے کاموں کا ایک بڑا محکمہ قائم کیا۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ خاص مصر میں ایک لاکھ بیس ہزار مزدور روزانہ سال بھر اس کام میں لگے رہتے تھے اور یہ تمام مصارف بیت المال سے ادا کئے جاتے تھے۔ (مقریزی صفحہ 76 جلد اول)۔ خوزستان اور اہواز کے اضلاع میں جزر بن معاویہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اجازت سے بہت سے نہریں کھدوائیں۔ جن کی وجہ سے بہت سی افتادہ زمینیں آباد ہو گئیں۔ اسی طرح اور سینکڑوں نہریں تیار ہوئیں۔ جس کا پتہ جستہ جستہ تاریخوں میں ملتا ہے۔

خراجی اور عشری

نوعیت قبضہ کے لحاظ سے زمین کی ایک اور تقسیم۔ یعنی خراجی اور عشری۔ خراجی کا بیان اوپر گزر چکا ہے۔ عشری اس زمین کا نام تھا جو مسلمانوں کے قبضے میں ہوتی تھی۔ اور جس کے اقسام حسب ذیل تھے :

1 – عرب کی زمین جس کے قابضین اوائل اسلام میں مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً مدینہ منورہ وغیرہ۔

2 – جو زمین کسی ذمی کے قبضے سے نکل کر مسلمانوں کے قبضے میں آتی تھی، مثلاً لاوارث مر گیا، یا مفرور ہو گیا، یا بغاوت کی یا استغفیٰ دے دیا۔

3 – جو افتادہ زمین کسی حیثیت سے کسی کی ملک نہیں ہوتی تھی۔ اور اس کو کوئی مسلمان آباد کر لیتا تھا۔

ان اقسام کی تمام زمینیں عشری کہلاتی تھیں اور چونکہ مسلمانوں سے جو کچھ لیا جاتا تھا وہ زکوٰۃ کی مد میں داخل تھا، اس لیے ان زمینوں پر بجائے خراج کے زکوٰۃ مقرر تھی جس کی مقدار اصل پیداوار کا دسواں حصہ ہوتا تھا۔ یہ شرح خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مقرر فرمائی تھی۔ اور وہی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی قائم رہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا کیا کہ ایران وغیرہ کی جو زمینیں مسلمانوں کے قبضے میں آئیں اگر وہ ذمیوں کی قدیم نہروں یا کنوؤں سے سیراب ہوتی تھیں تو ان پر خراج مقرر کیا۔ چنانچہ اس قسم کی زمینیں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ و خباب وغیرہ کے قبضے میں تھیں اور ان سے خراج لیا جاتا تھا۔ اور اگر خود مسلمان نئی نہر یا کنواں کھود کر اس کی آبپاشی کرتے تھے تو اس پر رعایتہً عشرہ مقرر کیا جاتا تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 35 تا 37)۔

مسلمانوں کے ساتھ عشر کے تخصیص اگرچہ بظاہر ایک قسم کی ناانصافی یا قومی ترجیح معلوم ہوتی ہے لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اولاً تو مسلمانوں کو بمقابلہ ذمیوں کے بہت سی زائد رقمیں ادا کرنی پڑتی تھیں مثلاً مویشی پر زکوٰۃ، گھوڑوں پر زکوٰۃ، روپے پر زکوٰۃ۔ حالانکہ ذمی ان تمام محصولات سے بالکل مستثنیٰ تھے۔ اس بناء پر خاص زمین کے معاملے میں جو نہایت اقل قلیل مسلمانوں کے قبضے میں آئی تھی اس قسم کی رعایت بالکل مقتضائے انصاف تھی۔ دوسرے یہ کہ عشر ایک ایسی رقم تھی جو کسی حالت میں کم یا معاف نہیں ہو سکتی تھی۔ یہاں تک کہ خود خلیفہ یا بادشاہ معاف کرنا چاہے تو معاف نہیں کر سکتا تھا۔ بخلاف اس کے خراج میں تخفیف اور معافی دونوں جائز تھی۔ اور وقتاً فوقتاً اس پر عمل درآمد بھی ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ خراج سال میں صرف ایک دفعہ لیا جاتا تھا۔ بخلاف اس کے عشر کا یہ حال تھا کہ سال میں جتنی فصلیں ہوتی تھیں سب کی پیداوار سے الگ الگ وصول کیا جاتا تھا۔

اور قسم کی آمدنیاں

خراج و عشر کے سوا آمدنی کے جو اور اقسام تھے ، وہ حسب ذیل تھے :

زکوٰۃ، عشور، جزیہ، مال غنیمت کا خمس، زکوٰۃ مسلمانوں کے ساتھ مخصوص تھیں اور مسلمانوں کی کسی قسم کی جائیداد یا آمدنی اس سے مستؑنی نہ تھی۔ یہاں تک کہ بھیڑ، بکری، اونٹ سبھی پر زکوٰۃ تھی۔ زکوٰۃ کے متعلق تمام احکام خود جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں مرتب ہو چکے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جو اضافہ ہوا یہ تھا کہ تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر ہوئی۔

گھوڑوں پر زکوٰۃ

آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گھوڑوں کو زکوٰۃ سے مستثنیٰ فرمایا تھا لیکن اس سے عیاذا باللہ یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مخالفت کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو الفاظ فرمائے تھے اس سے بظاہر سواری کے گھوڑے مفہوم ہوتے ہیں۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس مفہوم کو قائم رکھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وقت میں تجارت کے گھوڑے وجود نہیں رکھتے تھے۔ اس لیے ان کے زکوٰۃ سے مستثنیٰ ہونے کی کوئی وجہ نہیں تھیں۔ بہر حال زکوٰۃ کی مد میں یہ ایک نئی آمدنی تھی۔ اور اول اول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں شروع ہوئی۔

 

عشور

عشور خاص بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایجاد ہ۔ جس کی ابتداء یوں ہوئی کہ مسلمان جو غیر ملکوں میں تجارت کے لیے جاتے تھے ان سے وہاں کے دستور کے مطابق مال تجارت پر دس فیصد ٹیکس لیا جاتا تھا۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس واقعہ کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ ان ملکوں کے تاجروں کو جو ہمارے ملک میں آئیں ان سے بھی اسی قدر محصول لیا جائے۔ عیسائیوں نے جو اس وقت تک اسلام کے محکوم نہیں ہوئے تھے خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تحریری درخواست بھیجی کہ ہم کو عشر ادا کرنے کی شرط پر عرب میں تجارت کرنے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منظور کیا۔ اور پھر ذمیوں اور مسلمانوں پر بھی یہ قاعدہ جاری کر دیا گیا۔ البتہ تعداد میں تفاوت رہا۔ یعنی حربیوں سے دس فیصد، ذمیوں سے پانچ فیصد، مسلمانوں سے اڑھائی فیصد لیا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام ممالک مفتوحہ میں یہ قاعدہ جاری کر کے ایک خاص محکمہ قائم کر دیا۔ جس سے بہت بڑی آمدنی ہو گئی۔ یہ محصول خاص تجارت کے مال پر لیا جاتا تھا۔ جس کی درآمد برآمد کی میعاد سال بھر تھی۔ یعنی تاجر ایک سال جہاں جہاں چاہے مال لے جائے ، اس سے دوبارہ محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ یہ بھی قاعدہ تھا کہ دو سو درہم سے کم قیمت کے مال پر کچھ نہیں لیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محصلوں کو یہ بھی تاکید کر دی تھی کہ کھلی ہوئی چیزوں سے عشر لیا جائے۔ یعنی کسی کے اسباب کی تلاشی نہ لی جائے۔ جزیہ کے متعلق پوری تفصیل آگے آئے گی۔

 

صیغہ عدالت

محکمہ قضاء

یہ صیغہ بھی اسلام میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت وجود میں آیا۔ ترقی تمدن کا پہلا دیباچہ یہ ہے کہ صیغہ عدالت، انتظامی صیغے سے علیحدہ قائم کیا جائے۔ دنیا میں جہاں جہاں حکومت و سلطنت کے سلسلے قائم ہوئے۔ مدتوں کے بعد ان دونوں صیغوں میں تفریق ہوئی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلافت کے چند ہی روز بعد اس صیغے کو الگ کر دیا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک خود خلیفہ وقت اور افسران ملکی قضاء کا کام بھی کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابتداء میں یہ رواج قائم رکھا۔ اور ایسا کرنا ضروری تھا۔ حکومت کا نظم و نسق جب تک کامل نہیں ہو لیتا، ہر صیغے کا اجراء رعب و داب کا محتاج رہتا ہے اس لیے فصل قضایا کا کام وہ شخص انجام نہیں دے سکتا جس کو فصل قضایا کے سوا اور کوئی اختیار نہ ہو۔ یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو موسیٰ شعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ جو شخص با اثر اور صاحب عظمت نہ ہو قاضی نہ مقرر کیا جائے (اخبار القضاء لمحمد بن خلف ابو کیع) بلکہ اسی بناء پر عبد اللہ بند مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قضایا سے روک دیا تھا۔

لیکن جب انتظام کا سکہ اچھی طرح جم گیا۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضاء کا صیغہ بالکل الگ کر دیا۔ اور تمام اضلاع میں عدالتیں قائم کیں۔ اور قاضی مقرر کئے اس کے ساتھ قضاء کے اصول و آئین پر ایک فرمان بھیجا جو ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنر کوفہ کے نام تھا۔ اور جس میں صیغہ عدالت کے تمام اصولی احکام درج تھے۔ ہم اس کو بعینہ اس مقام نقل کرتے ہیں۔ (اس فرمان کو علامہ ابو اسحقٰ شیرازی نے طبقات فقہاء میں اور علامہ بیہقی و موردی و جاحظ و ابن عبد رجہ اور بہت سے محدثین اور مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ ) رومن ایمپائر کے دوازدہ (451ء قبل مسیح رومن ایمپائر نے یونان میں سفراء بھیجے کہ وہاں قانون کی تعلیم حاصل کر کے آئیں اور سلطنت کے لیے ایک مستقل قانون بنائیں۔ یہ سفراء یونان گئے اور وہاں سے واپس آ کر ایک دستور العمل تیار کیا۔ جس میں بارہ امور انتظامی پر بارہ بارہ قاعدے تھے۔ یہ تمام قواعد سیسہ کی تختی پر کندہ کئے گئے اور مدت تک رومن ایمپائر کا وہی قانون رہا۔ اس میں صیغہ قضاء کے متعلق جو احکام تھے وہ حسب ذیل ہیں :

1 – جب تم عدالت میں طلب کئے جاؤ تو فوراً فریق مقدمہ کے ساتھ حاضر ہو۔

2 – اگر مدعا علیہ انکار کرے تو تم گواہ پیش کرو تا کہ وہ جبراً حاضر کیا جاوے۔

3 – مدعا علیہ بھاگنا چاہے تو تم اس کو پکڑ سکتے ہو۔

4 – مدعا علیہ بیمار یا بوڑھا ہو تو تم اس کو سواری دو، ورنہ اس پر حاضری کے لیے جبر نہیں کیا جا سکتا۔

5 – مدعا علیہ ضامن پیش کرے تو تم اس کو چھوڑ دو۔

6 – دولت مند کا ضامن دولت مند ہونا چاہیے۔

7 – جج کو فریقین کے اتفاق سے فیصلہ کرنا چاہیے۔

8 – جج صبح سے دوپہر تک مقدمہ سنے گا۔

9 – فیصلہ دوپہر کے بعد فریقین کی حاضری میں ہو گا۔

10 – مغرب کے بعد عدالت بند رہے گی۔

11 – فریقین اگر ثالث پیش کرنا چاہیں تو ان کو ضامن دینا چاہیے۔

12 – جو شخص گواہ پیش نہیں کر سکتا، مدعا علیہ کے دروازے پر اپنے دعوے کو پکار کر کہے۔

یہ قوانین ہیں جن کو یاد کر کے یورپ رومن ایمپائر پر ناز کرتا ہے۔ )

قواعد جو رومیوں کے بڑے مفاخر خیال کئے جاتے ہیں۔ اور جن کی نسبت سیسر روم کا مشہور لکچرار لکھتا ہے کہ یہ قوانین تمام فلاسفروں کی تصنیفات سے بڑھ کر ہیں وہ بھی ہمارے سامنے ہیں۔

ان دونوں کا موازنہ کر کے ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ دونوں میں سے تمدن کے وسیع اصول کا کس میں زیادہ پتہ لگتا ہے۔

قواعد عدالت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریر

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان بعسبار تھا ذیل میں درج ہے۔

اما بعد فان القضاء فریضۃ محکمۃ و سنۃ متبعۃ سو بین الناس فی وجھک و مجلسک و عدلک حتی لابیاس الضعیف من عدلک ولا یطمع الشریف فی جنیک الگینۃ علی من ادعی و الیمین علی من انکر و الصلح جایز الا صلح احل حراما او حرم حلا لا یمنعک قضاء قضیتہ بالا مس فراجعت فیہ نفسک ان ترجع الی الحق الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک ممالم یبلغک فی الکتاب والسنہ و اعرف الا مثال و الا شباہ ثم قس الامور عند ذلک و اجعل لمن الدعی بینۃ امدا ینتھی الیہ فان احضرینہ اخذت لہ بحقہ و الا وجھت القضاء علیہ والمسلمون عدول بعضھم علی بعض الا مجلوداً فی حد مجربا فی شھادۃ الزوراو طنینا فی ولاء او وراثۃ۔

” خدا کی تعریف کے بعد قضا ایک ضروری فرض ہے۔ لوگوں کو اپنے حضور میں اپنی مجلس میں اپنے انصاف میں برابر رکھو تا کہ کمزور انصاف سے مایوس نہ ہو۔ اور زور دار کو تمہاری رو رعایت کی امید نہ پیدا ہو۔ جو شخص دعویٰ کرے اس پر بار ثبوت ہے اور جو شخص منکر ہو اس پر قسم۔ صلح جائز ہے۔ بشرطیکہ اس سے حرام حلال اور حلال حرام نہ ہو۔ کل اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا تو آج غور کے بعد اس سے رجوع کر سکتے ہو جس مسئلہ میں شبہہ ہو اور قرآن و حدیث میں اس کا ذکر نہ تو اس پر غور کرو اور پھر غور کرو اور اس کی مثالوں اور نظیروں پر خیال کرو پھر قیاس لگاؤ جو شخص ثبوت پیش کرنا چاہے اس کے لیے ایک میعاد مقرر کرو۔ اگر وہ ثبوت دے تو اس کا حق دلاؤ ورنہ مقدمہ خارج۔ مسلمان۔ ثقہ ہیں باستثنائے ان اشخاص کے جن کو حد کی سزا میں درے لگائے گئے ہوں یا جنہوں نے جھوٹی گواہی دے ہو یا ولا اور وراثت میں مشکوک ہوں۔ "

اس فرمان میں قضا کے متعلق جو قانونی احکام مذکور ہیں حسب ذیل ہیں :

1 – قاضی کو عادلانہ حیثیت سے تمام لوگوں کے ساتھ یکساں برتاؤ کرنا چاہیے۔

2 – بار ثبوت عموماً مدعی پر ہے۔

3 – مدعا علیہ اگر کسی قسم کا ثبوت یا شہادت نہیں رکھتا تو اس سے قسم لی جائے گی۔

4 – فریقین ہر حالت میں صلح کر سکتے ہیں۔ لیکن جو امر خلاف قانون ہے اس میں صلح نہیں ہو سکتی۔

5 – قاضی خود اپنی مرضی سے مقدمہ کے فیصل کرنے کے بعد اس پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔

6 – مقدمہ کی پیشی کی ایک تاریخ معین ہونی چاہیے۔

7 – تاریخ پر اگر مدعا علیہ نہ حاضر ہو تو مقدمہ یکطرفہ فیصل کیا جائے گا۔

8 – ہر مسلمان قابل ادائے شہادت ہے۔ لیکن جو سزا یافتہ ہو یا جس کا جھوٹی گواہی دینا ثابت ہو وہ قابل شہادت نہیں۔

صیغہ قضاء کی عمدگی فصل خصومات میں پورا عدل و انصاف ان باتوں پر موقوف ہے۔

1 – عمدہ اور مکمل قانون جس کے مطابق فیصلے عمل میں آئیں۔

2 – قابل اور متدین حکام کا انتخاب

3 – وہ اصول اور آئین جن کی وجہ سے حکام رشوت اور دیگر ناجائز وسائل کے سبب سے فصل خصومات میں رو رعایت نہ کرنے پائیں۔

4 – آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا مقدمات کے انفصال میں حرج نہ ہونے پائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام امور کا اس خوبی سے انتظام کیا کہ اس سے بڑھ کر نہیں ہو سکتا۔ قانون بنانے کی تو کوئی ضرورت نہ تھی۔ اسلام کا اصلی قانون قرآن مجید موجود تھا۔ البتہ چونکہ اس میں جزئیات کا احاطہ نہیں، اس لیے حدیث و اجماع و قیاس سے مدد لینے کی ضرورت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قضاۃ کو خاص طور پر اس کی ہدایت لکھی۔ قاضی شریح کو ایک فرمان میں لکھا کہ مقدمات میں اول قرآن مجید کے مطابق فیصلہ کرو۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ تو حدیث، اور حدیث نہ ہو تو اجماع (کثرت رائے ) کے مطابق اور کہیں پتہ نہ لگے تو خود اجتہاد کرو۔ (کنز العمال صفحہ 174 جلد 3 مسند داری میں بھی یہ فرمان تھوڑے اختلاف کے ساتھ مذکور ہے چنانچہ اس کی اصلی عبارت یہ ہے :

عن شریع ان عمر ابن الخطاب کتب الیہ ان جائک شی فی کتاب اللہ فاقض بہ فان جائک ما لیس فی کتاب اللہ فانظر سنۃ رسول اللہ فاقض بھا فان جائک ما لیس فی کتاب اللہ ولم یکن فی سنۃ رسول اللہ ولم یتکلم فیہ احد قبلک فاختری الا مرین شئت ان شئت ان تجتھدبرایک ثم تقدم و ان شئت تتاخرفنا خر ولا اری التاخر الا خیرالک۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ ہمیشہ وقتاً فوقتاً حکام عدالت کو مشکل اور مبہم مسائل کے متعلق فتاوے لکھ لکھ کر بھیجتے رہتے تھے۔ آج اگر ان کو ترتیب دیا جائے تو ایک مختصر مجموعہ قانون بن سکتا ہے۔ لیکن ہم اس موقع پر ان کا استقصا نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی چاہے تو کنز العمال اور ازالۃ الخفاء وغیرہ سے اس کی تصدیق کر سکتا ہے۔ اخبار القضاۃ میں بھی متعدد فتاوے مذکور ہیں۔

قضاۃ کا انتخاب

قضاۃ کے انتخاب میں جو احتیاط اور نکتہ سنجی کی گئی اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جو لوگ انتخاب کئے گئے وہ اس حیثیت سے تمام عرب میں منتخب تھے۔ پائے تخت یعنی مدینہ منورہ کے قاضی زید بن ثابت (اخبار القضاہ میں ہے ان عمر استعمل زید اعلی القضاء و فرض لہ رزقا۔ ) تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں کاتب وحی تھے۔ وہ سریانی اور عبرانی زبان کے بھی ماہر تھے اور علوم فقیہیہ میں سے فرائض کے فن میں تمام عرب میں ان کا جواب نہ تھا۔ کعب بن سور الازدی جو بصرہ کے قاضی تھے ، بہت بڑے معاملہ فہم اور نکتہ شناس تھے۔ امام ابن سیرین نے ان کے بہت سے فیصلے اور احکام نقل کیے ہیں (دیکھو اسد الغاتبہ فی احوال الصحابہ، و استیعاب قاضی ابن عبد البر تذکرہ کعب بن سور الازدی)۔ فلسطین کے قاضی عبادہ بن الصامت تھے جو منجملہ ان پانچ شخصوں کے ہیں۔ جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں تمام قرآن مجید حفظ کیا تھا اور اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کو اہل صفہ کی تعلیم سپرد کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کا اس قدر احترام کرتے تھے کہ جب امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ساتھ ایک موقعہ پر اختلاف کیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی سے الگ کر دیا۔ (استیعاب قاضی ابن عبد البر)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے احکام عدالت

کوفہ کے قاضی قاضی عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ جن کا فضل و کمال محتاج بیان نہیں۔ فقہ حنفی کے مورث اول ہیں۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد 19 ہجری میں قاضی شریح مقرر ہوئے۔ وہ اگرچہ صحابہ میں سے نہ تھے۔ لیکن اس قدر ذہین اور معاملہ فہم تھے کہ عرب میں ان کا جواب نہ تھا۔ چنانچہ ان کا نام آج تک مثال کے طور پر لیا جاتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو اقصی العرب کہا کرتے تھے۔ ان بزرگوں کے سوا جمیل بن معمر الجمحی، ابو مریم الحنفی، سلمان ربیعہ الباہلی، عبد الرحمٰن بن ربیعہ، ابو قرۃ الکندی، عمران بن الحصین جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے قضاۃ ہیں ان کی عظمت و جلالت شان رجال کی کتابوں سے معلوم ہو سکتی ہے۔

قضاۃ کا امتحان کے بعد مقرر ہونا

قاضی، اگرچہ حاکم صوبہ یا حکم ضلع کا ماتحت ہوتا تھا۔ اور لوگوں کو قضاۃ کے تقرر کا پورا اختیار حاصل تھا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ احتیاط کے لحاظ سے اکثر خود لوگوں کو انتخاب کر کے بھیجتے تھے۔ انتخاب کے لیے اگرچہ خود امیدواروں کی شہرت کافی تھی، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے ، بلکہ اکثر امتحان اور ذاتی تجربہ کے بعد لوگوں کو انتخاب کرتے تھے۔

قاضی شریح کی تقرری کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص سے پسند کی شرط پر ایک گھوڑا خریدا اور امتحان کے لیے ایک سوار کو دیا۔ گھوڑا سواری میں چوٹ کھا کر داغی ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو واپس کرنا چاہا۔ گھوڑے کے مالک نے انکار کیا۔ اس پر نزاع ہوئی اور شریح ثالث مقرر کئے گئے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ گھوڑے کے مالک سے اجازت لے کر سواری کی گئی تھی تو گھوڑا واپس کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ حق یہی ہے۔ کوفہ کا قاضی مقرر کر دیا۔ (کتاب الاوائل الباب السابع ذکر القضاۃ)۔ کعب بن سور الازدی کے ساتھ اسی قسم کا واقعہ گزرا۔ ناجائز وسائل آمدنی کے روکنے کے لیے بہت سی بندشیں کیں۔

رشوت سے محفوظ رکھنے کے وسائل

1 – تنخواہیں بیش بیش قرار مقرر کیں کہ بالائی رقم کی ضرورت نہ ہو۔ مثلاً سلمان ربیعہ اور قاضی شریح کی تنخواہ پانچ پانچ سو درہم ماہوار تھی (فتح القدیر حاژیہ ہدایہ جلد 3 صفحہ 247)۔ اور یہ تنخواہ اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے بالکل کافی تھی۔

2 – قاعدہ مقرر کیا کہ جو شخص دولت مند اور معزز نہ ہو قاضی مقرر نہ ہونے پائے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ گورنر کوفہ کو جو فرمان لکھا اس میں قاعدے کی وجہ یہ کہ دولت مند رشوت کی طرف راغب نہ ہو گا۔ اور معزز آدمی پر فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب و داب کا اثر نہ ہو گا۔ (اخبار القضاۃ لمحمد بن خلف الوکیع)

ان باتوں کے ساتھ ساتھ کسی قاضی کو تجارت اور خرید و فروخت کرنے کی اجازت نہ تھی۔ اور یہ وہ اصول ہے جو مدتوں کے تجربے کے بعد ترقی یافتہ ممالک میں اختیار کیا گیا ہے۔

انصاف میں مساوات

عدالت و انصاف کا ایک بڑا لازمہ عام مساوات کا لحاظ ہے۔ یعنی دیوان عدالت میں شاہ و گدا، امیر و غریب، شریف و رذیل سب ہم مرتبہ سمجھے جائیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کا اس قدر اہتمام تھا کہ اس کے تجربے اور امتحان کے لیے متعدد دفعہ خود عدالت میں فریق مقدمہ بن کر گئے۔ ایک دفعہ ان میں اور ابی ابن کعب میں کچھ نزاع تھی۔ ابی نے زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ دائر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدعا علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے ، زید نے تعظیم دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تمہارا پہلا ظلم ہے۔ یہ کہہ کر ابی کے برابر بیٹھ گئے۔ ابی نے قاعدے کے موافق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قسم لینی چاہی۔ لیکن زید نے ان کے رتبے کا پاس کر کے ابی سے درخواست کی امیر المومنین کو قسم سے معاف رکھو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طرف داری پر نہایت رنجیدہ ہوئے۔ زید کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ” جب تک تمہارے نزدیک ایک عام آدمی اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر نہ ہوں تم منصب قضاء کے قابل نہیں سمجھے جا سکتے۔ "

قضاۃ اور ان کی کاروائیوں کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قسم کے اصول اختیار کئے اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ ان کے عہد خلافت میں بلکہ بنو امیہ کے دور تک عموماً قضاۃ ظلم و ناانصافی کے الزام سے پاک رہے۔ علامہ ابو ہلال عسکری نے کتاب الاوائل میں لکھا ہے کہ اسلام میں سب سے پہلے جس قاضی نے خلاف انصاف عمل کیا وہ بلال بن ابی برد تھے۔ (یہ بنو امیہ کے زمانے میں تھے )۔

آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کا کافی ہونا

آبادی کے لحاظ سے قضاۃ کی تعداد کافی تھی کیونکہ کوئی ضلع قاضی سے خالی نہیں تھی۔ اور چونکہ غیر مذہب والوں کو اجازت تھی کہ آپس کے مقدمات بطور خود فیصل کر لیا کریں۔ اس لیے اسلامی عدالتوں میں ان کے مقدمات کم آتے تھے۔ اور اس بناء پر ہر ٖضلع میں ایک قاضی کا ہونا بہر حال کافی تھا۔

ماہرین فن کی شہادت

صیغہ قضاء اور خصوصاً اصول شہادت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو نادر باتیں ایجاد کیں اور جن کا بیان ان کے اجتہادات کے ذکر میں آئے گا ان میں ایک ماہر فن کی شہادت تھی۔ یعنی جو امر کسی خاص فن سے تعلق رکھتا تھا اس فن کے ماہر کا اظہار لیا جاتا تھا۔ مثلاً حطیہ نے زبر قان بن بذر کی ہجو میں ایک شعر کہا تھا جس سے صاف طور پر ہجو نہیں ظاہر ہوتی تھی۔ زبرقان نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں مقدمہ رجوع کیا۔ یہ شعر و شاعری کا معاملہ تھا۔ اور شاعرانہ اصطلاحیں اور طرز ادا عام بول چال سے الگ ہوتی

ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حسان بن ثابت کو جو بڑے شاعر تھے بلا کر پوچھا اور ان کی رائے کی مطابق فیصلہ کیا۔ اسی طرح اشتباہ نسب کی صورت میں حلیہ شناسوں کے اظہار لیے۔ چنانچہ کنز العمال باب القذف میں اس قسم کے بہت سے مقدمات مذکور ہیں۔

فصل خصومات کے متعلق اگرچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سے آئین و اصول مقرر کئے لیکن یہ سب وہیں تک تھا جہاں تک انصاف کی ارزانی اور آسانی میں کوئی خلل نہیں پڑ سکتا تھا۔ ورنہ سب سے مقدم ان کو جس چیز کا لحاظ تھا وہ انصاف کا ارزاں اور آسان ہونا تھا۔ آج کل مہذب ملکوں نے انصاف اور داد رسی کو ایسی قیود میں جکڑ دیا کہ داد خواہوں کو دعویٰ سے باز آنا اس کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصول اور آئین اس قدر سہل اور آسان تھے کہ انصاف کے حاصل کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہو سکتی تھی۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خاص اس بات کا ہمیشہ لحاظ رہتا تھا۔

 

عدالت کا مکان

یہی مصلحت تھی کہ عدالت کے لیے خاص عمارتیں نہیں بنوائیں بلکہ مسجدوں پر اکتفا کیا۔ کیونکہ مسجد کے مفہوم میں جو تعمیر اور اجازت عام تھی وہ اور کسی عمارت میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی۔ مقدمات کے رجوع کرنے میں کوئی صرف برداشت کرنا نہیں پڑتا تھا۔ عدالت کے دروازے پر کسی قسم کی روک ٹوک نہ تھی۔ تمام قضاۃ کو تاکید تھی کہ جب کوئی غریب اور مبتذل شخص مقدمہ کا فریق بن کر آئے تو اس سے نرمی اور کشادہ روئی سے پیش آئیں تا کہ اظہار مدعا میں اس پر مطلق خوف کا اثر نہ ہو۔

 

محکمہ افتاء

عدالت کے متعلق یہ ایک نہایت ضروری صیغہ ہے جو آغاز اسلام میں قائم ہوا اور جس کی مثال اسلام کے سوا اور کہیں پائی نہیں جاتی۔ قانون کے جو مقدم اصول ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے کہ ہر شخص کی نسبت یہ فرض کرنا چاہیے کہ قانون سے واقف ہے۔ یعنی مثلاً اگر کوئی شخص کوئی جرم کرے تو اس کا یہ عذر کام نہیں آ سکتا کہ وہ اس فعل کا جرم ہونا نہیں جانتا تھا۔ یہ قاعدہ تمام دنیا میں مسلم ہے اور حال کے ترقی یافتہ ملکوں نے اس پر زور دیا ہے۔ بے شبہ قاعدہ صحیح ہے لیکن تعجب یہ ہے کہ اور قوموں نے اس کے لیے کسی قسم کی تدبیر اختیار نہیں کی۔ یورپ میں تعلیم اس قدر عام ہو چکی ہے لیکن اس درجے کو نہیں پہنچ سکی۔ اور نہ پہنچ سکتی ہے کہ ہر شخص قانون دان بن جائے۔ کوئی جاہل شخص قانون کا کوئی مسئلہ جاننا چاہے تو اس کے لیے کوئی تدبیر نہیں۔ لیکن اسلام میں اس کا ایک خاص محکمہ تھا۔ جس کا نام افتاء تھا۔ اس کا یہ طریقہ تھا کہ نہایت لائق قانون دان یعنی فقہاء ہر جگہ موجود رہتے تھے اور جو شخص کوئی مسئلہ دریافت کرنا چاہتا تھا ان سے دریافت کر سکتا تھا۔ اور اس لیے کوئی شخص یہ عذر نہیں کر سکتا تھا کہ وہ قانون کے مسئلے سے ناواقف تھا۔ یہ طریقہ آغاز اسلام میں خود بخود پیدا ہوا۔ اور اب تک قائم ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں جس پابندی کے ساتھ اس پر عمل رہا۔ زمانہ مابعد بلکہ ان سے پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی نہیں رہا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کے مفتی

اس طریقے کے لیے سب سے ضروری امر یہ ہے کہ عام اجازت نہ ہو بلکہ خاص خاص قابل لوگ افتاء کے لیے نامزد کر دیئے جائیں تا کہ ہر کس و ناکس غلط مسائل کی ترویج نہ کر سکے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس تشخیص کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ جن لوگوں کو انہوں نے افتاء کی اجازت دی مثلاً حضرت علی، حضرت عثمان، معاذ بن جبل، عبد الرحمٰن بن عوف، ابی بن کعب، زید بن ثابت، ابو ہریرہ اور ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ وغیرہ ان کے سوا اور لوگ فتویٰ دینے کے مجاز نہ تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب (کتاب مذکور صفحہ 130) ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں کہ ” سابق وعظ و فتویٰ موقوف بود، بر رائے خلیفہ و عظمی گفتند و فتویٰ دادند۔ "

تاریخوں میں ان کی بہت سے مثالیں موجود ہیں کہ جن لوگوں کو فتویٰ کی اجازت نہ تھی انہوں نے فتوے دیئے ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ انکو منع کر دیا۔ چنانچہ ایک دفعہ عبد اللہ بن مسعود کے ساتھ بھی یہ واقعہ گزرا (مسند داری و ازالۃ الخفاء صفحہ 130)۔ بلکہ ان کو یہاں تک احتیاط تھی کہ مقرر شدہ مفتیوں کی بھی جانچ کرتے رہتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بارہا پوچھا کہ تم نے اس مسئلے میں کیا فتویٰ دیا؟ اور جب انہوں نے اپنا جواب بیان کیا تو فرمایا کہ اگر تم اس مسئلے کا اور کچھ جواب دیتے تو آئندہ تم کبھی فتوے کے مجاز نہ ہوتے۔

دوسرا امر جو اس طریقے کے لیے ضروری ہے یہ ہے کہ مفتیوں کے نام کا اعلان کر دیا جائے اس وقت گزٹ اور اخبار تو نہ تھے۔ لیکن مجالس عامہ میں جن سے بڑھ کر اعلان عام کو کوئی ذریعہ نہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بارہا اس کا اعلان کیا۔ شام کے سفر میں بمقام جابیہ بے شمار آدمیوں کے سامنے جو مشہور خطبہ پڑھا اس میں یہ الفاظ بھی فرمائے :

من اراد القرآن فلیات ابیا و من ارادان یسال الفرائض فلیات زیداً ومن ارادان یسال عن الفقہ فلیات معاذاً۔

"یعنی جو شخص قرآن سیکھنا چاہے تو ابی بن کعب کے پاس اور فرائض کے متعلق کچھ پوچھنا چاہے تو زید کے پاس اور فقہ کے متعلق پوچھنا چاہے تو معاذ کے پاس جائے۔ "

فوج داری اور پولیس

جہاں تک ہم تحقیق کر سکے مقدمات فوج داری کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی جدا محکمہ قائم نہیں کیا۔ بعض قسم کے مقدمات مثلاً زنا اور سرقہ، قضاۃ کے ہاں فیصل ہوتے تھے اور ابتدائی قسم کی تمام کاروائیاں پولیس سے متعلق تھیں۔ پولیس کا صیغہ مستقل طور پر قائم ہو گیا تھا اور اس وقت اس کا نام احداث تھا۔ چنانچہ افسران پولیس کو صاحب الاحداث کہتے تھے۔ بحرین پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ قدامہ بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا۔

قدامہ کو تحصیل مال گزاری کی خدمت دی۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تصریح کے ساتھ پولیس کے اختیارات دیئے۔ احتساب کے متعلق جو کام ہیں۔ مثلاً دوکاندار ترازو میں دھوکہ نہ دینے پائیں۔ کوئی شخص سڑک پر مکان نہ بنائے۔ جانوروں پر زیادہ بوجھ نہ لادا جائے۔ شراب علانیہ بکنے نہ پائے وغیرہ ان تمام امور کا کافی انتظام تھا۔ اور اس کے لیے ہر جگہ اہل کار افسر مقرر تھے۔ لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ احتساب کا مستقل صیغہ قائم ہو گیا تھا۔ یا یہ خدمتیں بھی صاحب الاحداث سے متعلق تھیں۔ کنزالعمال میں جہاں ابن سعد کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بازار کی نگرانی کے لیے عبد اللہ بن عتبہ کو مقرر کیا تھا۔ وہاں لکھا ہے کہ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جیل خانہ کی ایجاد کا فعل عہدہ احتساب کا ماخذ ہے۔ "

جیل خانہ کی ایجاد

اس صیغے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیل خانے بنوائے ورنہ ان سے پہلے عرب میں جیل خانے کا نام و نشان نہ تھا اور یہی وجہ تھی کہ سزائیں سخت دی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اول مکہ معظمہ میں صفوان بن امیہ کا مکان چار ہزار درہم پر خریدا اور اس کو جیل خانہ بنایا (مقریزی جلد دوم صفحہ 187) اور اضلاع میں بھی جیل خانے بنوائے۔ علامہ بلاذری کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ کوفہ کا جیل خانہ نرسل سے (فتوح البدان صفحہ 463) بنا تھا۔ اس وقت تک صرف مجرم قید خانے میں رکھے جاتے تھے۔ اور جیل خانے میں بھجواتے تھے۔

جیل خانہ تعمیر ہونے کے بعد بعض سزاؤں میں تبدیلی ہوئی۔ مثلاً ابو محجن ثقفی بار بار شراب پینے کے جرم میں ماخوذ ہوئے تو اخیر دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو حد کی بجائے قید کی سزا دی۔

جلا وطنی کی سزا

جلا وطنی کی سزر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایجاد ہے۔ چنانچہ ابو محجن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سزا بھی دی تھی۔ اور ایک جزیرہ میں بھیج دیا تھا (اسد الغلبہ ذکر ابو محجن ثقفی)۔

 

بیت المال (یا) خزانہ

بیت المال پہلے نہ تھا

یہ صیغہ بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات سے وجود میں آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں سب سے اخیر جو رقم وصول ہوئی وہ بحرین کا خراج تھا۔ جس کی تعداد آٹھ لاکھ درہم تھی لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کل رقم ایک ہی جلسہ میں تقسیم کر دی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنی خلافت میں کوئی خزانہ نہیں قائم کیا بلکہ جو کچھ غنیمت کا مال آیا، اسی وقت لوگوں میں بانٹ دیا۔ چنانچہ پہلے سال دس دس درہم اور دوسرے سال بیس بیس درہم ایک ایک شخص کے حصے میں آئے۔ یہ کتاب الاوائل اور ابن سعد کی روایت ہے۔ ابن سعد کی ایک دوسرے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مکان بیت المال کے لیے خاص کر لیا تھا۔ وہ ہمیشہ بند پڑا رہتا تھا۔ کیونکہ جو کچھ آتا تھا اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا تھا اور اس کی نوبت ہی نہیں پہنچتی تھی کہ خزانے میں کچھ داخل کیا جائے۔ وفات کے وقت بیت المال کا جائزہ لیا گیا تو صرف ایک درہم نکلا۔

تقریباً 15 ہجری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بحرین کا عامل مقرر کیا۔ وہ سال تمام ہونے پر پانچ لاکھ کی رقم اپنے ساتھ لائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجلس شوریٰ کا اجلاس عام کر کے کہا کہ ایک رقم کثیر بحرین سے آئی ہے۔ آپ لوگوں کی کیا مرضی ہے ؟

 

بیت المال کس سنہ میں قائم ہوا؟

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رائے دی کو جو رقم آئے وہ سال کے سال تقسیم کر دی جائے اور خزانے میں جمع نہ رکھی جائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف رائے دی۔ ولید بن ہشام نے کہا میں نے سلاطین شام کے ہاں دیکھا ہے کہ خزانہ اور دفتر کا جدا جدا محکمہ قائم ہے۔

آج کل کا زمانہ ہوتا تو غیر مذہب والوں کے نام سے اجتناب کیا جاتا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رائے کو پسند کیا۔ اور بیت المال کی بنیاد ڈالی۔ سب سے پہلے دارالخلافہ یعنی مدینہ منورہ میں بہت بڑا خزانہ قائم کیا۔ اور چونکہ اسی کی نگرانی اور حساب کتاب کے لیے نہایت قابل اور دیانتدار آدمی کی ضرورت تھی۔

بیت المال کے افسر

عبد اللہ ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی تھے اور لکھنے پڑھنے میں کمال رکھتے تھے ، خزانہ کا افسر مقرر کیا۔ اس کے ساتھ اور لائق لوگ ان کے ماتحت مقرر کئے جن میں عبد الرحمنٰ بن عبید القاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معیقب بھی تھے۔ (کتب رجال میں معیقب دیکھو)۔ معیقب کو یہ شرف حاصل تھا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے انگشتری بردار تھے اور اس وجہ سے ان کی دیانت داری اور امانت ہر طرح پر قطعی اور مسلم الثبوت تھی۔

دارالخلافہ کے علاوہ تمام صوبجات اور صدر مقامات میں بیت المال قائم کئے۔ اور اگرچہ وہاں کے اعلیٰ حکام کو ان کے متعلق ہر قسم کے اختیارات حاصل تھے۔ لیکن بیت المال کا محکمہ بالکل الگ ہوتا تھا اور اس کے افسر جداگانہ ہوتے تھے۔ مثلاً اصفہان میں خالد بن حرث رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور کوفہ میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاص خزانے کے افسر تھے۔

بیت المال کی عمارتیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ تعمیر کے باب میں نہایت کفایت شعاری کرتے تھے لیکن بیت المال کی عمارتیں مستحکم اور شاندار بنوائیں۔ کوفہ میں بیت المال کے لیے اول ایک محل تعمیر ہوا جس کو روزابہ ایک مشہور مجوسی معمار نے بنایا تھا اور جس کا مصالحہ خسروان فارس کی عمارت سے آیا تھا۔ لیکن جب اس میں نقب کے ذریعے چوری ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ مسجد کی عمارت بیت المال سے ملا دی جائے۔ کیونکہ مسجد نمازیوں کے وجہ سے ہمیشہ آباد رہتی ہے اور ہر وقت لوگوں کا مجمع رہے گا۔ چنانچہ سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے روزابہ نے بیت المال کی عمارت کو اس قدر وسیع کیا کہ مسجد سے مل گئی اور اس طرح چوری وغیرہ کی طرف سے اطمینان ہو گیا۔ (یہ تمام تفصیل تاریخ طبری ذکر آبادی کوفہ میں ہے )۔

معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ مابعد میں زیادہ احتیاط کے لحاظ سے خزانے پر سپاہیوں کا پہرہ بھی رہنے لگا تھا۔ بلاذری نے لکھا ہے کہ جب طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باغی ہو کر بصرہ آئے اور خزانہ پر قبضہ کرنا چاہا تو سیاحہ کے 40 سپاہی خزانہ کے پہرے پر متعین تھے۔ اور انہوں نے طلحہ و زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ارادے کی مزاحمت کی۔ سیاحہ کی نسبت اسی مؤرخ نے تصریح کی ہے کہ وہ سندھ سے گرفتار ہو کر آئے تھے اور ایرانیوں کے فوج میں داخل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جب ایران فتح ہوا تو یہ قوم مسلمان ہو گئی اور ابو موسیٰ نے ان کو بصرہ میں آباد کرایا۔ (فتوح البلدان از صفحہ 373 تا 376)۔

صوبجات اور اضلاع میں جو خزانے تھے ان کا یہ انتظام تھا کہ جس قدر رقم وہاں کے ہر قسم کے مصارف کے لیے ضروری ہوتی تھی رکھ لی جاتی تھی۔ باقی سال کے ختم ہونے کے بعد صدر خزانہ یعنی مدینہ منورہ کے بیت المال میں بھیج دی جاتی تھی۔ اس کے متعلق عمال کے نام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تاکیدی احکام آتے رہتے تھے۔ (عمرو بن العاص گورنر مصر کو جو فرمان لکھا گیا تھا اس میں یہ الفاظ تھے ” فاذا حصل الیک و جمعۃ اخرجت عطاء المسلمین وما یحتاج الیہ مما لا بدمنہ ثم انظر فیما فضل بعد ذلک فاحملہ الی۔ ” کنز العمال بحوالہ ابن سعد جلد 3 صفحہ 63)۔ یہ دریافت کرنا مشکل ہے کہ ہر جگہ کے خزانے میں کس قدر رقم محفوظ رہتی تھی۔

جو رقم دارالخلافہ کے خزانے میں رہتی تھی

مؤرخ یعقوبی کی تصریح سے اس قدر معلوم ہے کہ دارالخلافہ کے خزانے سے خاص دارالخلافہ کے باشندوں کو جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے ، اس کی تعداد تین کروڑ سالانہ تھی۔

بیت المال کے حفاظت اور نگرانی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو اہتمام تھا، اس کے متعلق تاریخوں میں بہت سے دلچسپ واقعات ہیں جن کی تفصیل ہم نظر انداز کرتے ہیں۔

پبلک ورک یا نظارت نافعہ

یہ صیغہ مستقل حیثیت سے زمانہ حال کی ایجاد ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عربی زبان میں اس کے لیے کوئی اصطلاحی لفظ نہیں۔ مصر و شام میں اس کا ترجمہ نظارات نافعہ کیا گیا ہے۔ اس صیغے میں مفصلہ ذیل چیزیں داخل ہیں۔ سرکاری عمارتیں، نہریں، سڑکیں، پل، شفا خانے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس کے لیے کوئی مستقل صیغہ نہیں قائم ہوا تھا۔ لیکن شفا خانوں کے سوا اس صیغے کے متعلق اور جتنی چیزیں ہیں سب موجود تھیں اور نہایت منظم اور وسیع طور پر تھیں۔

زراعت کی ترقی کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر نہریں تیار کرائیں ان کا مختصر حال ہم صیغہ محاصل کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔ یہاں ان نہروں کا ذکر کرتے ہیں جو زراعت کے صیغہ سے مخصوص نہ تھیں۔

 

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو نہریں تیار کرائیں

نہر ابی موسیٰ

نہر ابی موسیٰ، یہ نہر 9 میل لمبی تھی۔ جس کی تیاری کی تاریخ یہ ہے کہ ایک دفعہ بصرہ کے لوگ ڈپوٹیشن کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معمول کے موافق ایک ایک سے حالات پوچھے۔ ان میں حنیف بن قیس بھی تھے۔ انہوں نے نہایت پر اثر تقریر کی جو کتابوں میں باالفاظھا منقول ہے۔ اس بات کی شکایت کی کہ بصرہ بالکل شورستان ہے اور پانی چھ میل سے لانا پڑتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت ابو موسیٰ کے نام اس مضمون کا تحریری حکم بھیجا کہ بصرہ کے لوگوں کے لیے نہر کھدوائی جائے۔ چنانچہ دجلہ سے 9 میل لمبی نہر کاٹ کر بصرہ میں لائی گئی جس کے ذریعہ سے گھر گھر پانی کی افراط ہو گئی۔

نہر معقل

نہر معقل، یہ ایک مشہور نہر ہے جس کی نسبت عربی میں یہ مثل مشہور ہے اذا جاء نھر اللہ بطل نھر معقل، یہ نہر دجلہ سے کاٹ کر لائی گئی تھی اور چونکہ اس کی تیاری کا اہتمام معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سپرد کیا گیا تھا جو ایک مقتدر صحابی تھے ، اس لیے انہی کے نام سے مشہور ہو گئی۔

 

نہر سعد

نہر سعد، اس نہر کے لیے انبار والوں نے پہلے شہنشاہ فارس سے درخواست کی تھی۔ اسلام کا زمانہ آیا تو ان لوگوں نے سعد وقاص (گورنر کوفہ) سے خواہش ظاہر کی۔ سعد نے سعد بن عمر کو مامور کیا۔ انہوں نے بڑے اہتمام سے کام کرایا۔ لیکن کچھ دور پہنچ کر پہاڑ بیچ میں آ گیا اور وہیں چھوڑ دی گئی۔ پھر حجاج نے اپنے زمانے میں پہاڑ کاٹ کر بقیہ کام پورا کیا۔ تاہم نہر سعد ہی کے نام سے مشہور ہوئی۔

نہر امیر المومنین

سب سے بڑی اور فائدہ رساں نہر جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص حکم سے بنی وہ نہر تھی جو نہر امیر المومنین کے نام سے مشہور ہے اور جس کے ذریعے سے دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملا دیا گیا تھا۔ اس میں مختصر تاریخ یہ ہے کہ 18 ہجری میں جب تمام عرب میں قحط پڑا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام اضلاع کے حکام کو لکھا کہ ہر جگہ کثرت کے ساتھ غلہ اور اناج روانہ کیا جائے۔ اگرچہ اس حکم کی فوراً تعمیل ہوئی۔ لیکن شام اور مصر سے جو خشکی کو جو راستہ تھا بہت دور دراز تھا۔ اس لیے غلہ کے بھیجنے میں پھر بھی دیر لگی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان وقتوں پر خیال کر کے عمرو بن العاص (گورنر مصر) کو لکھا کہ مصر کے باشندوں کی ایک جماعت ساتھ لے کر دارالخلافہ حاضر ہو۔ جب وہ آئے تو فرمایا کہ دریائے نیل کو اگر سمندر سے ملا دیا جائے تو عرب کو قحط گرانی کا کبھی اندیشہ نہیں ہو گا۔ ورنہ خشکی کی راہ غلہ کا آنا وقت سے خالی نہیں۔ عمرو نے واپس جا کر کام شروع کر دیا اور فسطات سے (جو قاہرہ سے دس بارہ میل ہے ) بحر قلزم تک نہر تیار کرائی۔ اس ذریعہ سے جہاز دریائے نیل سے چل کر قلزم میں آتے تھے۔ اور یہاں سے جدہ پہنچ کر لنگر کرتے جو مدینہ منورہ کی بندرگاہ تھی۔ یہ نہر تقریباً 96 میل لمبی تھی اور تعجب یہ ہے کہ چھ مہینے میں تیار ہو گئی۔ چنانچہ پہلے ہی سال 20 بڑے بڑے جہاز جن میں ساٹھ ہزار اردب غلہ بھرا ہوا تھا، اس نہر کے ذریعے سے مدینہ منورہ کی بندرگاہ میں آئے۔ یہ نہر مدتوں تک جاری رہی اور اس کے ذریعے سے مصر کی تجارت کو نہایت ترقی ہوئی۔ عمر بن عبد العزیز کے عمالوں نے بے پروائی کی اور وہ جا بجا سے اٹ گئی۔ یہاں تک کہ مقام ذنب المساح تک آ کر بالکل بند ہو گئی۔ 105 ہجری میں منصور عباسی نے ایک ذاتی مصلحت سے اس کو بند کر دیا۔ لیکن بعد کو پھر جاری ہو گئی اور مدتوں جاری رہی۔ (یہ تفصیل حسن المحاضرہ سیوطی صفحہ 93 تا 94 مقریزی جلد اول صفحہ 71 و جلد دوم صفحہ 139 تا 144 میں ہے )۔

ایک اور عجیب و غریب بات یہ کہ عمرو بن العاص نے بحر روم و بحر قلزم کو براہ راست ملا دینے کا ارادہ کیا تھا۔ چنانچہ اس کے لیے موقع اور جگہ کی تجویز بھی کر لی تھی۔ اور چاہا تھا کہ فرما کے پاس سے جہاں سے بحر روم اور بحر قلزم میں صرف 70 میل کا فاصلہ رہ جاتا ہے ، نہر نکال کر دونوں دریاؤں کو ملا دیا جائے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ان کے ارادے سے اطلاع ہوئی تو نا رضا مندی ظاہر کی۔ اور لکھ بھیجا کہ اگر ایسا ہوا تو یونانی جہازوں میں آ کر حاجیوں کو اڑا لے جائیں گے۔ (تقویم البلدان ابو الفدار صفحہ 106)۔ اگر عمرو بن العاص کو اجازت ملی ہوتی تو نہر سویز کی ایجاد کا فخر درحقیقت عرب کے حصے میں آتا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو عمارتیں تیار کرائیں

عمارات جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تیار کرائیں، تین قسم کی تھیں :

1 – مذہبی : جیسے مساجد وغیرہ، ان کا بیان تفصیل کے ساتھ مذہبی صیغے میں آئے گا۔ یہاں اس قدر کہنا کافی ہے کہ بقول صاحب روضۃ الاحباب چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔

2 – فوجی : جیسے قلعے ، چھاؤنیاں، بارکیں، ان کا بیان فوجی انتظامات میں آئے گا۔

3 – ملکی : مثلاً دارالامارۃ وغیرہ، اس قسم کی عمارتوں کے تفصیلی حالات معلوم نہیں۔ لیکن ان کی اقسام کی تفصیل حسبِ ذیل ہے :

1 – دارالامارۃ : یعنی صوبجات اور اضلاع کے حکام جہاں قیام رکھتے تھے اور جہاں ان کا دفتر رہتا تھا۔ کوفہ و بصرہ کے دارالامارۃ کا حال طبری و بلاذری نے کسی قدر تفصیل سے لکھا ہے۔

2 – دفتر : دیوان یعنی جہاں دفتر کے کاغذات رہتے تھے۔ فوج کا دفتر بھی اسی مکان میں رہتا تھا۔

3 – خزانہ : بیت المال – یعنی خزانے کا مکان – یہ عمارت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھی۔ کوفہ کے بیت المال کا ذکر بیت المال کے حال میں گزر چکا ہے۔

4 – قید خانے : مدینہ منورہ کے قید خانے کا حال صیغہ پولیس کے بیان میں گزر چکا ہے۔ بصرہ میں جو قید خانہ تھا وہ دارالامارۃ کی عمارت میں شامل تھا۔ (فتوح البلدان صفحہ 347)۔

5 – مہمان خانے : مہمان خانے ، یہ مکانات اس لیے تعمیر کئے گئے تھے کہ باہر والے جو دو چار روز کے لیے شہر میں آ جاتے تھے وہ ان مکانات میں ٹھہرائے جاتے تھے۔ کوفہ میں جو مہمان خانہ بنا اس کی نسبت علامہ بلاذری نے لکھا ہے امر ان یتخذلمن یرد من الافاق دارا فکانوا ینزلونھا (فتوح البلدان صفحہ 278)۔ مدینہ منورہ کا مہمان خانہ 17 ہجری میں تعمیر ہوا۔ چنانچہ ابن حیان نے کتاب الثقاۃ میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

اس موقع پر یہ بتانا ضروری ہے کہ عمارتوں کی نسبت یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ بڑی شان و شوکت کی ہوتی تھیں۔ اسلام فضول تکلفات کی اجازت نہیں دیتا۔ زمانہ بعد میں جو کچھ ہوا ہوا لیکن اس وقت تک اسلام بالکل اپنی سادہ اور اصلی صورت میں تھا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہایت اہتمام تھا کہ یہ سادگی جانے نہ پائے۔ اس کے علاوہ اس وقت تک بیت المال پر حاکم وقت کو آزادانہ اختیارات حاصل نہ تھے۔ بیت المال تمام قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا۔ اور لوگ اس کا اصلی مصرف یہ سمجھتے تھے کہ چونا پتھر کی بجائے زیادہ تر آدمیوں کے کام آئے۔ یہ خیال مدتوں تک رہا۔ اور اسی کا اثر تھا کہ جب ولید بن عبد الملک نے دمشق کی جامع مسجد پر ایک رقم کثیر صرف کر دی تو عام ناراضگی پھیل گئی۔ اور لوگوں نے علانیہ کہا کہ بیت المال کے روپیہ کا یہ مصرف نہیں ہے۔ بہرحال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو عمارتیں بنیں وہ عموماً اینٹ اور گارے کی تھیں۔ بصرہ کا ایوان حکومت بھی اسی حیثیت کا تھا۔ (فتح البلدان صفحہ 347)۔ البتہ فوجی عمارتیں نہایت مضبوط اور مستحکم ہوتی تھیں۔

سڑکوں اور پلوں کا انتظام

سڑکوں اور پلوں کا انتظام اگرچہ نہایت عمدہ تھا لیکن براہ راست حکومت کے اہتمام میں نہیں تھا۔ مفتوحہ قوموں سے جو معاہدہ ہوتا تھا اس میں یہ شرط بھی ہوتی تھی کہ وہ سڑک اور پل وغیرہ اپنے اہتمام اور اپنے صرف سے بنوائے گی۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام فتح کیا تو شرائط میں یہ امر بھی داخل تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 80 میں ہے۔ و علی ان علیھم ارشاد الضال و بناء القناطر علی الانھار من اموالھم۔ تاریخ طبری واقعات 16 ہجری صفحہ 240 میں سڑک اور پل دونوں کا ذکر ہے )۔

مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک چوکیاں اور سرائیں

مکہ معظمہ اگرچہ مدتوں سے قبلہ گاہ خلائق تھا لیکن اس کے راستے بالکل ویران اور بے آب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ 17 ہجری میں جب مکہ معظمہ گئے تو ان کی اجازت سے مدینہ سے لے کر مکہ معظمہ تک ہر منزل پر چوکیاں، سرائیں اور چشمے تیار ہوئے۔ شاہ ولی اللہ صاحب ازالۃ اخفاء میں لکھتے ہیں کہ ” ازاں جملہ آنکہ سالے بقصد عمرہ بہ مکہ مكرمہ توجہ فرمود نزدیک مراجعت امر فومود تادر منازلے کہ مابین حرمین واقع اند سا یہ ہاد پناہ ہا ساز ندوہر چاہے کہ اپنا شتہ شدہ باشد آں راپاک کنند و صاف نمایندو در منازل کم آب چاہ ہا راکندہ تابر حجاج باستراحت تمام قطع مراحل میسر شود۔ "

 

شہروں کا آباد کرنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو جو شہر آباد ہوئے وہ جن جن ضرورتوں سے آباد ہوئے اور جو جو خصوصیتیں ان میں پیدا کی گئیں ان کے لحاظ سے ہر شہر تاریخ اسلام کا ایک صفحہ کہا جا سکتا ہے۔ ان میں بصرہ کوفہ ایک مدت تک اسلامی آثار کے منظر رہے۔ عربی نحو کی بنیاد یہیں پڑہی۔ نحو کے اصلی دارالعلوم یہی دو شہر تھے۔ حنفی فقہ جو آج تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے اس کا سنگ بنیاد کوفہ میں ہی رکھا گیا۔ ان اسباب سے ان شہروں کی بنیاد اور آبادی کا حال تفصیل سے لکھنا ناموزوں نہ ہو گا۔

اس کتاب کے پہلے حصے میں ہم لکھ آئے ہیں کہ فارس اور ہند کے بحری حملوں سے مطمئن رہنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 14 ہجری میں عتبہ بن غزوان کو متعین کیا کہ بندرگاہ ایلہ کے قریب جہاں بحر فارس خلیج کے ذریعے سے ہندوستان و فارس کے جہاز لنگر کرتے تھے ، ایک شہر بسائیں زمین کا موقع اور منظر خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا تھا، عتبہ آٹھ سو آدمیوں کے ساتھ روانہ ہوئے اور خربیہ میں آئے۔

 

بصرہ

جہاں بصرہ آباد ہے یہاں کف دست میدان پڑا ہوا تھا اور چونکہ زمین کنکریلی تھی اور آس پاس پانی اور چارہ کا سامان نہ تھا۔ عرب کے مذاق کے بالکل موافق تھی۔ غرض عتبہ نے بنیاد کی داغ بیل ڈالی اور مختلف قبائل کے لیے الگ الگ احاطہ کھینچ کر گھاس اور پھونس کے مختصر مکانات بنوائے۔ عاصم بن ولف کو مقرر کیا کہ جہاں جہاں جس قبیلے کو اتارنا مناسب ہو اتاریں۔ خاص سرکاری عمارتیں جو تعمیر ہوئیں ان میں سے مسجد جامع اور ایوان حکومت جس کے ساتھ دفتر اور قید خانے کی عمارت بھی شامل تھی، زیادہ ممتاز تھا۔ 17 ہجری میں آگ لگی اور بہت سے مکانات جل گئے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو اس وقت کوفہ کے گورنر تھے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس سفارت بھیجی اور اجازت طلب کی کہ پختہ عمارتیں بنائی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منظور کیا۔ لیکن تاکید کی کہ کوئی شخص ایک مکان تین کمروں شے زیادہ نہ بنائے۔ (بصرہ کی وجہ تسمیہ عموماً اہل لغت یہ لکھتے ہیں کہ بصرہ عربی میں نرم پتھریلی زمین کو کہتے ہیں اور یہاں کی زمین اسی قسم کی تھی لیکن منجم البلدان میں ایک مجوسی فاضل کا جو قول نقل کیا ہے وہ زیادہ قرین قیاس ہے۔ اس کے نزدیک اصل میں یہ لفظ بس رہا تھا جس کے معنی فارس میں بہت سے راستوں کے ہیں۔ چونکہ یہاں سے بہت سی راہیں ہر طرف کو جاتی تھیں۔ اس لیے اہل عجم اس کو اس نام سے موسوم کرتے تھے۔ اس کی تصدیق زیادہ تر اس سے ہوتی ہے کہ آس پاس شاہان عرب نے جو عمارتیں تیار کرائی تھیں۔ اس کے نام بھی دراصل فارسی رکھے۔ مثلاً خورنق جو دراصل خود نگاہ ہے اور سدیر جو دراصل سہ در ہے۔ )۔ بصرہ تک نہر کاٹ کر لائی جائے۔ چنانچہ اس کا حال کسی قدر تفصیل کے ساتھ پبلک ورک کے بیان میں گزر چکا۔ بصرہ کی آبادی نہایت جلد ترقی کر گئی۔ یہاں تک کہ زیاد بن ابی سفیان کے زمان حکومت میں صرف ان لوگوں کی تعداد جن کے نام فوجی رجسٹر میں درج تھے۔ 80 ہزار اور ان کی آل اولاد ایک لاکھ 20 ہزار تھی۔

یہاں کی خاک کو علم و فضل سے جو مناسب تھی۔ اس کا اندازہ اس سے کرنا چاہیے کہ علوم عربیت کی بنیاد یہیں پڑی۔ دنیا میں سب سے پہلی کتاب جو عربی علم لغت میں لکھی گئی یہیں لکھی گئی جس کا نام کتاب العین ہے اور جو خلیل بصری کی تصنیف ہے۔ عربی علم عروض اور موسیقی کی بھی یہیں سے ابتداء ہوئی۔ علم نحو کا سب سے پہلا مصنف سیبویہ یہیں کا تعلیم یافتہ تھا۔ائمہ مجتہدین میں سے حسن بصری یہیں کی خاک سے پیدا ہوئے۔

کوفہ

دوسرا شہر جو بصرہ سے زیادہ مشہور ہوا کوفہ تھا۔ مدائن وغیرہ جب فتح ہو چکے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خط لکھا کہ یہاں رہ کر اہل عرب کا رنگ روپ بالکل بدل گیا۔ ایسی جگہ تلاش کرنا چاہیے جو بری و بحری دونوں حیثیت رکھتی ہو۔ چنانچہ سلمان و حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے جو خالص اسی قسم کے کاموں پر مامور تھے۔ کوفہ کی زمین انتخاب کی۔ یہاں کی زمین ریتلی اور کنکریلی تھی اور اسی وجہ سے اس کا نام کوفہ رکھا گیا۔ اسلام سے پہلے نعمان بن منذر کا خاندان جو عراق عرب کا فرمانروا تھا۔ ان کا پائے تخت یہی مقام تھا اور ان کی مشہور عمارتیں خورنق اور سدیر وغیرہ اسی کے آس پاس واقع تھیں۔ منظر نہایت خوشنما اور دریائے فرات سے صرف ڈیڑھ دو میل کا فاصلہ تھا۔ اہل عرب اس مقام کو حد العذار یعنی عارض محبوب کہتے تھے کیونکہ وہ مختلف عمدہ قسم کے عربی پھولوں مثلاً اقحوان، شقایق، فیصوم، خزامی کا چمن زار تھا۔ غرض 17 ہجری میں اس کی بنیاد شروع ہوئی اور جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تصریح کے ساتھ لکھا تھا۔ 40 ہزار آدمیوں کی آبادی کے قابل مکانات بنائے گئے۔ ہیاج بن بالک کے اہتمام سے عرب کے جدا جدا قبیلے محلوں میں آباد ہوئے شہر کی وضع اور ساخت کے متعلق خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تحریری حکم ایا تھا کہ شارع ہائے عام 40، 40 ہاتھ اور اس سے گھٹ کر 30۔ 30 ہاتھ اور 20۔ 20 ہاتھ چوڑی رکھی جائیں اور گلیاں 7۔ 7 ہاتھ چوڑی ہوں۔ جامع مسجد کی عمارت جو ایک مربع بلند چبوترہ دے کر بنائی گئی اس قدر وسیع تھی، اس میں 40 ہزار آدمی آ سکتے تھے۔ اس کے ہر چہار طرف دور دور تک زمین کھلی چھوڑ دی گئی تھی۔

عمارتیں اول گھاس پھونس کی بنیں لیکن جب آگ لگنے کا واقعہ پیش آیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اجازت دی اور اینٹ گارے کی عمارتیں تیار ہوئیں اور جامع مسجد کے آگے ایک وسیع سائبان بنا دیا گیا جو دو سو ہاتھ لمبا تھا۔ اور سنگ رخام کے ستونوں پر قائم کیا گیا تھا۔ جو نوشیروانی عمارت سے نکال کر لائے گئے تھے۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ باوجود اس کے کہ دراصل نوشیروانی عمارت کا کوئی وارث نہ تھا۔ اور اصول سلطنت کے لحاظ سے اگر کوئی وارث ہو سکتا تھا تو خلیفہ وقت ہوتا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ عدل و انصاف تھا کہ مجوسی رعایا کو ان ستونوں کی قیمت ادا کی تئی۔ یعنی ان کی تخمینی جو قیمت ٹھہری وہ ان کے جزیہ میں مجرا کی گئی۔ مسجد سے دو سو ہاتھ کے فاصلے پر ایوان حکومت تعمیر ہوا۔ جس میں بیت المال یعنی خزانے کا مکان شامل تھا۔ ایک مہمان خانہ بھی تعمیر کیا گیا۔ جس میں باہر کے آئے ہوئے مسافر قیام کرتے تھے اور ان کو بیت المال سے کھانا ملتا تھا۔

چند روز کے بعد بیت المال میں چوری ہو گئی۔ اور چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہر ہر جزئی واقعہ کی خبر پہنچتی تھی، انہوں نے سعد کو لکھا کہ ایوان حکومت مسجد سے ملا دیا جائے چنانچہ روزبہ نامی ایک پارسی معمار نے جو مشہور استاد تھا، اور تعمیرات کے کام پر مامور تھا، نہایت خوبی اور موزونی سے ایوان حکومت کی عمارت کر بڑھا کر مسجد سے ملا دیا۔ سعد نے روزبہ کو معہ اور کاریگروں کے اس صلے میں دربار خلافت روانہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی بڑی قدردانی کی اور ہمیشہ کے لیے روزینہ مقرر کر دیا۔ جامع مسجد کے سوا ہر ہر قبیلے کے لیے جدا جدا مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ جو قبیلے آباد کئے گئے ان میں یمن کے بارہ ہزار اور نزار کے آٹھ ہزار آدمی تھے۔ اور قبائل جو آباد کئے گئے ، ان کے نام حسبِ ذیل ہیں۔ سلیم، ثقیف، ہمدان بجیلہ، نیم اللات، تغلب، بنو اسد، نحع و کندۃ، ازومزینہ، تمیم و محارب، اسد و عامر، بجالہ، جدیلہ و اخلاط جہینہ، مذحج، ہوازن وغیرہ وغیرہ۔

یہ شہر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس عظمت و شان کو پہنچا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو راس الاسلام کے نام سے موسوم فرماتے تھے۔ اور درحقیقت وہ عرب کی طاقت کا اصلی مرکز بن گیا۔ زمانہ ما بعد میں اس کی آبادی برابر ترقی کرتی گئی۔ لیکن یہ خصوصیت قائم رہی کہ آباد ہونے والے عموماً عرب کی نسل سے ہوتے تھے۔ 64 ہجری میں مردم شماری ہوئی تو 50 ہزار گھر خاص قبیلہ بیعہ، مضر کے اور 24 ہزار قبائل کے تھے اور اہل یمن کے 6 ہزار گھر ان کے علاوہ تھے۔

زمانہ ما بعد کی تغیرات اور ترقیوں نے اگرچہ قدیم آثار کو قائم نہیں رکھا تھا۔ تاہم یہ کچھ کم تعجب کی بات نہیں کہ بعض بعض عمارات کے نشانات زمانہ دراز تک قائم رہے۔ ابن بطوطہ جس نے آٹھویں صدی میں اس مقدس مقام کو دیکھا تھا اپنے سفر نامہ میں لکھتا ہے کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو ایوان حکومت بنایا تھا اس کی بنیاد اب تک قائم ہے۔

اس شہر کی علمی حیثیت یہ ہے کہ فن نحو کی ابتدا یہیں ہوئیں۔ یعنی ابو الا سود وائلی نے اول اول نحو کے قوائد یہیں بیٹھ کر منضبط کئے۔ فقہ حنفی کی بنیاد یہیں پڑی۔ امام ابو حنیفہ صاحب رحمۃ اللہ نے قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ وغیرہ کی شرکت سے فقہ کی جو مجلس قائم کی وہ یہیں قائم کی۔ حدیث اور علوم عربیت کے بڑے بڑے ائمہ فن جو یہاں پیدا ہوئے ان میں ابراہیم نخعی، حماد، امام ابو حنیفہ، شعبی یادگار زمانہ تھے۔ (کوفہ و بصرہ کے حالات طبری، بلاذری اور معجم البلدان نے لئے گئے )۔

فسطاط

عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اسکندریہ فتح کر لیا تو یونانی جو کثرت سے وہاں آباد تھے عموماً شہر چھوڑ کر نکل گئے۔ ان مکانات کو خالی دیکھ کر عمرو بن العاص نے ارادہ کیا کہ اس کو مستقر حکومت بنائیں۔ چنانچہ دربار خلافت سے اجازت طلب کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ دریا کے حائل ہونے سے بہت ڈرتے تھے۔ بصرہ کوفہ کی آبادی کے وقت افسروں کو لکھا کہ شہر جہاں بسایا جائے وہاں سے مدینہ تک دریا راہ میں نہ آئے۔ چونکہ اسکندریہ کی راہ میں دریائے نیل پڑتا تھا اس لیے اس کو مستقر ریاست بنانا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ پسند نہ کیا۔ عمرو بن العاص اسکندریہ سے چل کر قصر الشمع میں آئے۔ یہاں ان کا وہ خیمہ اب تک اسی حالت سے کھڑا تھا جس کو وہ اسکندریہ کے حملے کے وقت خالی چھوڑ گئے تھے۔ چنانچہ اسی خیمے میں اترے اور وہیں نئی آبادی کی بنیاد ڈالی۔ ہر ہر قبیلے کے لیے الگ الگ احاطے کھینچے اور معاویہ بن خدیج، شریک بن شہمی، عمرو بن مخرم، حویل بن ناشرہ کو متعین کیا کہ جس قبیلے کو جہاں مناسب سمجھیں آباد کریں۔ جس قدر محلے اس وقت تھے اور جو قبائل ان میں آباد ہوئے ان کے نام علامہ مقریزی نے تفصیل سے لکھے ہیں۔ جامع مسجد خاص اہتمام سے بنی۔ عام روایت ہے کہ 80 صحابہ نے جمع ہو کر قبلہ کی سمت متعین کی۔ ان صحابہ میں زبیر، مقداد، عبادہ، ابو دردا رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور بڑے بڑے اکابر صحابہ شریک تھے۔ یہ مسجد 50 گز لمبی اور 30 گز چوڑی تھی۔ تین طرف دروازے تھے جن میں ایک دارالحکومت کے مقابل تھا۔ اور عمارتوں میں سات گز کا فاصلہ تھا۔

عمرو بن العاص نے ایک مکان خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لیے تعمیر کرایا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ بھیجا یہ میرے کس کام کا ہے تو وہاں بازار آباد کرایا گیا۔ چونکہ اس شہر کی آبادی خیمہ گاہ سے شروع ہوئی تھی اس لیے اس کا نام فسطاط پڑا جس کے معنی عربی میں خیمہ کے ہیں۔ آبادی کا سن 21 ہجری ہے۔

فسطاط کی وسعت آبادی

فسطاط نے نہایت جلد ترقی کی۔ اور اسکندریہ کی بجائے مصر کا صدر مقام بن گیا۔ امیر معاویہ کے زمانے میں 40 ہزار عرب کے نام دفتر میں قلمبند تھے۔ مؤرخ قضائی کا بیان ہے کہ ایک زمانہ میں یہاں 360 مسجدیں، 8 ہزار سڑکیں، 170 حمام تھے۔ اس کی وسعت اور ہر قسم کے سر و سامان کی کثرت کو مقریزی نے کئی صفحہ میں تفصیل سے لکھا ہے۔ مدت تک یہ شہر سلاطین مصر کا پائے تکت اور تمدن و ترقی کا مرکز رہا۔ علامہ بشاری جس نے چوتھی صدی میں دنیا کا سفت کیا اس شہر کی نسبت اپنے جغرافیہ میں لکھا ہے۔ فاسخ بغداد مفخر الاسلام خزانۃ المغرب لیس فی الاسلام اکبر مجالس من جامعہ ولا احسن تجملا من اھلہ ولا اکثر مراکب من ساحلہ یعنی ” یہ شیر بغداد کا ناسخ مغرب کا خزانہ اور اسلام کا فخر ہے۔ تمام عالم اسلام میں یہاں سے زیادہ کسی جامع مسجد میں علمی مجلسیں نہیں ہوتیں نہ یہاں سے زیادہ کسی شہر کے ساحل پر جہازات لنگر ڈالتے ہیں۔ "

موصل

موصل یہ مقام اسلام سے پہلے بھی موجود تھا۔ لیکن اس وقت اس کی حالت یہ تھی کہ ایک قلعہ اور اس کے پاس عیسائیوں کے چند معبد تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں شہر کی حیثیت سے آباد ہوا۔ ہرثمہ بن عرفجہ نے اس کی بنیاد رکھی اور قبائل عرب کے متعدد محلے آباد کئے۔ اک خاص جامع مسجد بھی تعمیر کرائی۔ (فتوح البلدان صفحہ 331 تا 332)۔ ملکی حیثیت سے یہ شہر ایک خاص حیثیت رکھتا ہے یعنی اس کے ذریعے مشرق اور مغرب کا ڈانڈا ملتا ہے اور شاید اسی مناسبت سے اس کا نام موصل رکھا گیا۔ یاقوت حموی نے لکھا ہے کہ یہ مشہور ہے کہ دنیا کے بڑے شہر تین ہیں۔ نیشاپور جو مشرق کا دروازہ ہے اور دمشق جو مغرب کا دروازہ ہے اور موصل جو مشرق و مغرب کی گزرگاہ ہے یعنی آدمی کسی طرف جانا چاہے تو اس کو یہاں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس شہر نے بھی رفتہ رفتہ نہایت ترقی کی۔ چنانچہ اس کی وسعت اور عظمت کے حالات معجم البلدان اور جغرافیہ بشاری وغیرہ میں تفصیل سے ملتے ہیں۔

جیزہ

یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے جو دریائے نیل کے غربی جانب فسطاط کے مقابل واقع ہے۔ عمرو بن العاص اسکندریہ کی فتح کے بعد فسطاط آئے۔ تو اس غرض کے لیے رومی دریا کی طرف نہ چڑھ آئیں، تھوڑی سی فوج اس مقام پر متعین کر دی جس میں حمیر اور ازد و ہمدان کے قبیلے کے لوگ تھے۔ فسطاط کی آبادی کے بعد عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان لوگوں کو بلا لینا چاہا لیکن ان کو دریا کا منظر ایسا پسند آیا کہ وہ یہاں سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے اور حجت یہ پیش کی کہ ہم جہاد کے لیے یہاں آئے تھے اور ایسے عمدہ مقصد کو چھوڑ کر اور کہیں نہیں جا سکتے۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے حالات کی اطلاع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی۔ وہ اگرچہ دریا کے نام سے گھبراتے تھے لیکن مصلحت دیکھ کر اجازت دی اور ساتھ ہی یہ حکم بھیجا کہ ان کی حفاظت کے لیے ایک قلعہ تعمیر کیا جائے۔ چنانچہ 21 ہجری میں قلعہ کی بنیاد پڑی اور 22 ہجری میں بن کر تیار ہوا۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جب قلعہ بننا شروع ہوا تو قبیلہ ہمدان نے کہا کہ ” ہم نامردوں کی طرح قلعہ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتے۔ ہمارا قلعہ ہماری تلوار ہے۔ ” چنانچہ یہ قبیلہ اور ان کے ساتھ بعض اور قبیلوں نے قلعہ سے باہر کھلے میدان میں ڈیرے ڈال لئے اور ہمیشہ وہیں رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی برکت سے یہ چھوٹا سا مقام بھی علمی حیثیت سے خالی نہیں رہا۔ چنانچہ بڑے بڑے محدث یہاں پیدا ہوئے۔ ان میں بعض کے نام معجم البلدان میں مذکور ہیں۔ (جیزہ کے متعلق مقریزی نے نہایت تفصیل سے کام لیا ہے۔ )

 

صیغہ فوج

اسلام سے پہلے دنیا میں اگرچہ بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتیں گزر چکی ہیں۔ جن کی بقیہ یادگاریں خود اسلام کے عہد میں بھی موجود تھیں۔ فوجی سسٹم جہاں جہاں تھا غیر منظم اور اصول سیاست کے خلاف تھا۔ روم کبیر میں جس کی سلطنت کسی زمانے میں تمام دنیا پر چھا گئی تھی، فوج کے انتظام کا یہ طریقہ تھا۔

فوجی نظام رومن ایمپائر میں

کہ ملک میں جو لوگ نام و نمود کے ہوتے تھے اور سپہ گری سپہ سالاری کا جوہر رکھتے تھے۔ ان کو بڑی بڑی جاگیریں دی جاتی تھیں اور یہ عہد لیا جاتا تھا کہ جنگی مہمات کے وقت اس قدر فوج لے کر حاضر ہوں گے۔ یہ لوگ تمام ملک میں پھیلے ہوئے تھے اور خاص خاص تعداد کی فوجیں رکھتے تھے لین ان فوجوں کا تعلق براہ راست سلطنت سے نہیں ہوتا تھا۔ اور اس وجہ سے اگرچہ کبھی علم بغاوت بلند کر دیتے تھے تو ان کی فوج ان کے ساتھ ہو کر خود سلطنت کا مقابلہ کرتی تھی۔ اس طریقہ کا نام فیوڈل سسٹم تھا اور یہ فوجی افسر بیرونی کہلاتے تھے۔ اس طریقے نے یہ وسعت حاصل کی کہ بیرونی لوگ بھی اپنے نیچے اسی قسم کے جاگیردار اور علاقہ دار رکھتے تھے اور سلسہ بسلسلہ بہت سے طبقے قائم ہو گئے تھے۔

فوجی نظام فارس میں

ایران میں بھی قریب قریب یہی دستور تھا۔ فارسی میں جن کو مرزبان اور دہقان کہتے ہیں وہ اسی قسم کے جاگیردار اور زمیندار تھے۔ اس طریقے نے روم کی سلطنت کو دراصل برباد کر دیا تھا۔ آج عام طور پر مسلم کہ یہ نہایت برا طریقہ تھا۔

فوجی نظام فرانس میں

فرانس میں 511 عیسوی تک فوج کی تنخواہ یا روزینہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ فتح کی لوٹ میں جو مل جاتا تھا وہی قرعہ ڈال کر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ اس زمانے کے بعد کچھ ترقی ہوئی تو وہی روم کا فیوڈل سسٹم قائم ہو گیا۔ چنانچہ اسلام کے بعد 741 عیسوی تک یہی طریقہ جاری رہا۔

عرب میں شاہان یمن وغیرہ کے ہاں فوج کا کوئی منظم بندوبست نہیں تھا۔ اسلام کے آغاز تک اس کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں صرف اس قدر ہوا کہ خلافت کے پہلے سال غنیمت سے جس قدر بچا وہ سب لوگوں کو دس دس روپے کے حساب سے تقسیم کر دیا گیا۔ دوسرے سال آمدنی زیادہ ہوئی تو یہ تعداد دس سے بیس تک پہنچ گئی۔ لیکن نہ فوج کی کچھ تنخواہ مقرر ہوئی، نہ اہل فوج کا کوئی رجسٹر بنا، نہ کوئی محکمہ جنگ قائم ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اوائل خلافت تک بھی یہی حال رہا۔ لیکن 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صیغے کو اس قدر منظم اور باقاعدہ کر دیا کہ اس وقت کے لحاظ سے تعجب ہوتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فوجی نظام

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے توجہ کرنے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں۔ عام روایت میں یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بحرین کے حاکم مقرر کئے گئے تھے۔ پانچ لاکھ درہم لے کر مدینہ ائے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی اطلاع دی۔ پانچ لاکھ کی رقم اس وقت اس قدر عجوبہ چیز تھی کی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خیر ہے ! کہتے کیا ہو؟ انہوں نے پھر پانچ لاکھ کہا۔ حضرت عرم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تم کو گنتی بھی آتی ہے ؟ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ہاں، یہ کہہ کر پانچ دفعہ لاکھ لاکھ کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یقین آیا تو مجلس شوریٰ منعقد کی اور رائے پوچھی کہ اس قدر زر کثیر کیونکر صرف کیا جائے ؟ حضرت علی، حضرت عثمان اور دیگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے مختلف تجویزیں پیش کیں۔ ولید بن ہشام نے کہا کہ میں نے شام کے والیان ملک کو دیکھا ہے کہ ان کے ہاں فوج کا دفتر اور رجسٹر مرتب رہتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ رائے پسند آئی اور فوج کی اسم نویسی اور ترتیب دفتر کا خیال پیدا ہوا۔ (مقریزی صفحہ 92 اور فتوح البلدان صفحہ 449)۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رائے دہندہ نے سلاطین عجم کا حوالہ دیا اور یہی روایت قرین قیاس ہے کیونکہ جب دفتر مرتب ہوا تو اس کا نام دیوان رکھا گیا۔ اور یہ فارسی لفظ ہے دبستان، دبیر، دفتر، دیوان سب ایک مادہ کے لفظ ہیں جن کا مشترک مادہ ” دب” ایک پہلوی لفظ ہے جس کے معنی نگاہ رکھنے کے ہیں۔

تمام ملک کا فوج بنانا

بہرحال 15 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کا ایک مستقل محکمہ قائم کرنا چاہا۔ اس باب میں ان کی سب سے زیادہ قابل لحاظ جو تجویز تھی وہ تمام ملک کا فوج بنانا تھا، انہوں نے اس مسئلے کو کہ ہر مسلمان فوجِ اسلام کا ایک سپاہی ہے۔ باقاعدہ طور سے عمل میں لانا چاہا۔ لیکن چونکہ ابتداء میں ایسی تعلیم نہ تھی۔ اول قریش اور انصار سے شروع کیا۔ مدینہ منورہ میں اس وقت تین شخص بہت بڑے نساب اور حساب کتاب کے فن میں استاد تھے۔ مخرمہ بن نوفل، جبیر بن مطعم، عقیل بن ابی طالب علم الانساب عرب کا موروثی فن تھا اور خاص کر یہ تینوں بزرگ اس فن کے لحاظ سے تمام عرب میں ممتاز تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو بلا کر یہ خدمت سپرد کی کہ تمام قریش اور انصار کا ایک دفتر تیار کریں جس میں ہر ایک کا نام و نسب مفصلاً درج ہو ان لوگوں نے ایک نقشہ بنا کر پیش کیا۔ جس میں سب سے پہلے بنو ہاشم پھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندان پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبیلہ تھا۔ یہ ترتیب ان لوگوں نے خلافت و حکومت کے لحاظ سے قرار دی تھی۔ لیکن اگر وہ قائم رہتی تو خلافت خود غرضی کا آلہ کار بن جاتی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ” یوں نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت داروں سے شروع کرو۔ اور درجہ بدرجہ لوگ جس قدر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دور ہوتے گئے ہیں۔ اسی ترتیب سے ان کا نام آخر میں لکھتے جاؤ۔ یہاں تک کہ جب میرے قبیلے تک نوبت آئے تو میرا نام بھی لکھو۔ "

اس موقع پر یاد رکھنا چاہیے کہ خلفائے اربعہ میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نسب سب سے اخیر میں جا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ملتا ہے ، غرض اس ہدایت کے موافق رجسٹر تیار ہوا۔ اور حسب ذیل تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ (تنخواہوں کی تفصیل میں مختلف روایتیں ہیں۔ میں نے کتاب الخراج صفحہ 24 و مقریزی جلد اول صفحہ 92 و بلاذری صفحہ 248 و یعقوبی صفحہ 1175 و طبری صفحہ 2411 کے بیانات کو حتی الامکان مطابق کر کے لکھا ہے )۔

جو لوگ جنگ بدر میں شریک تھے۔       5 ہزار درہم

مہاجرین حبش اور شرکائے جنگ احد۔    4 ہزار درہم

فتح مکہ سے پہلے جن لوگوں نے ہجرت کی۔            ۳ ہزار درہم

جو لوگ فتح مکہ میں ایمان لائے۔           2 ہزار درہم

جو لوگ جنگ قادسیہ اور یرموک میں شریک تھے۔            2 ہزار درہم

اہل یمن 4 سو درہم

قادسیہ اور یرموک کے بعد کے مجاہدین  3 سو درہم

بلا امتیار مراتب      2 سو درہم

جن لوگوں کے نام درج دفتر ہوئے ان کی بیوی اور بچوں کی تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ چنانچہ مہاجرین اور انصار کی بیویوں کی تنخواہ 200 سے 400 درہم تک اور اہل بدر کی اولاد ذکور کی دو ہزار درہم مقرر ہوئی۔ اس موقع پر یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جن لوگوں کی جو تنخواہ مقرر ہوئی ان کے غلاموں کی بھی وہی تنخواہ مقرر ہوئی۔ اور اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ اسلام کے نزدیک غلاموں کا کیا درجہ تھا۔

جس قدر آدمی درج رجسٹر ہوئے (اس موقع پر ایک امر نہایت توجہ کے قابل ہے وہ یہ ہے کہ بہت سے ظاہر بینوں کا خیال ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام عرب کی جو تنخواہیں مقرر کیں اس کو فوجی صیغے سے چنداں تعلق نہیں بلکہ یہ رفاہ عام کی غرض سے تھا لیکن یہ نہایت غلط خیال ہے۔ اولاً جہاں مؤرخوں نے اس واقعہ کا شان نزول بیان کیا ہے لکھا ہے کہ ولید بن ہشام نے حضرت عمر سے کہا کہ قد ذھبت الشام فرائیت ملوکھا تدو نوادیواناً و جندوا جنداً فدون دیوانا و جند جندا فاخذ بقولہ۔ یعنی میں نے شام کے بادشاہوں کو دیکھا کہ وہ دفتر اور فوج رکھتے ہیں آپ بھی دفتر بنائے اور فوج مرتب کیجئے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ولید کے قول پر عمل کیا۔

دوسرے یہ کہ جن لوگوں سے جنگی خدمت نہیں لی جاتی تھی اور قدیم جنگی خدمتوں کا استحقاق بھی نہیں رکھتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی تنخواہ نہیں مقرر کرتے تھے اسی بناء پر مکہ کے لوگوں کو تنخواہ نہیں ملتی تھی۔ فتوح البلدان میں ہے ان عمر کان لایعطی اھل مکۃ عطاء ولا یضرب علیھم بعث فتوح صفحہ 458۔ یہی وجہ تھی کہ جب صحرا نشین بدوؤں نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تنخواہ کی تقرری کی درخواست کی تو انہوں نے فرمایا کہ جب تک آبادی میں رہنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہ ہو جائیں۔ صحرا نشینوں کا روزینہ نہیں مقرر ہو سکتا۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ اول اول فوج کے رجسٹر میں اور بھی بہت سی قسم کے لوگ شامل تھے مثلاً جو لوگ قرآن مجید حفظ کر لیتے تھے یا کسی فن میں صاحبِ کمال تھے۔ لیکن استقراء سے معلوم ہوتا ہے کہ رفتہ رفتہ یہ غلط مبحث جو بضرورت اختیار کیا گیا تھا مٹتا گیا چنانچہ اس مضمون میں آگے اس کی بحث آتی ہے۔ ) اگرچہ سب درحقیقت فوج کی حیثیت رکھتے تھے۔ لیکن ان کی دو قسمیں قرار دی گئیں۔

(1) جو ہر وقت جنگی مہمات میں مصروف رہتے تھے گویا یہ فوج نظام یعنی باقاعدہ فوج تھی۔

(2) جو معمولاً اپنے گھروں میں رہتے تھے۔ لیکن ضرورت کے وقت طلب کئے جا سکتے تھے۔ ان کو عربی میں مطوعۃ کہتے ہیں اور آج کل کی اصلاح میں اس قسم کی فوج کو والنٹیر کہا جاتا ہے۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ آج کل والنٹیر تنخواہ نہیں پاتے۔

فوجی نظم و نسق کا یہ پہلا دیباچہ تھا اور اس وجہ سے اس میں بعض بے ترتیبیاں بھی تھیں۔ سب سے بڑا خلط مبحث یہ تھا کہ تنخواہوں کے ساتھ پولٹیکل تنخواہیں بھی شامل تھیں اور ان دونوں کا ایک ہی رجسٹر تھا۔ لیکن رفتہ رفتہ یعنی 21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صیغے کو اس قدر مرتب اور منظم کر دیا کہ غالباً اس عہد تک کہیں اور کبھی نہیں ہوا تھا۔ چنانچہ ہم ایک ایک جزئی انتظام کو اس موقع پر نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں جس سے معلوم ہو گا کہ عرب کے ابتدائے تمدن میں انتظامات فوجی کی اس قدر شاخیں قائم کرنی اور ایک ایک شاخ کا اس حد تک مرتب اور باقاعدہ کرنا اسی شخص کا کام تھا جو فاروق اعظم کا لقب رکھتا تھا۔

اس صیغے میں سب سے مقدم اور اصولی انتظام، ملک کا جنگی حیثیت سے مختلف حصوں میں تقسیم کرنا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ 20 ہجری میں ملکی حیثیت سے ملک کی دو تقسیمیں کیں۔ ملکی اور فوجی، ملکی کا حال دیوانی انتظامات کے ذکر میں گزر چکا ہے۔

فوجی صدر مقامات

فوجی حیثیت سے چند بڑے برے فوجی مراکز قرار دیئے جن کا نام جند رکھا (جند کی تحقیقات کے لئے دیکھو فتوح البلدان صفحہ 32۔ مؤرخ یعقوبی نے واقعات 20ھ میں لکھا ہے کہ اس سال حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوجی صدر مقامات قائم کئے۔ لیکن مؤرخ مذکور نے صرف فلسطین، جزیرہ، موصل اور قفسرین کا نام لکھا ہے۔ یہ صریح غلطی ہے )۔ اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ ان کی تفصیل یہ ہے۔ کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، مصر، دمشق، حمص، اردن، فلسطین۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں فتوحات کی حد اگرچہ بلوچستان کے ڈانڈے سے مل گئی تھی۔ لیکن جو ممالک آئینی ممالک کہے جا سکتے تھے۔ وہ صرف عراق، مصر، جزیرہ اور شام تھے۔ چنانچہ اسی اصول پر فوجی صدر مقامات بھی انہی ممالک میں قائم کئے گئے۔ موصل جزیرہ کا صدر مقام تھا۔ شام کی وسعت کے لحاظ سے وہاں متعدد صدر مقام قائم کرنے ضروری تھے اس لئے دمشق، فلسطین، حمص، اردن چار صدر مقام قرار دیئے۔ فسطاط کی وجہ سے جو اب قاہرہ سے بدل گیا ہے۔ تمام مصر پر اثر پڑتا تھا۔ بصرہ، کوفہ، یہ دو شہر فارس اور خوزستان اور تمام مشرق کی فتوحات کے دروازے تھے۔ ان صدر مقامات میں جو انتظامات فوج کے لئے تھے وہ حسب ذیل تھے۔

فوجی بارکیں

فوجوں کے رہنے کے لیے بارکیں تھیں۔ کوفہ، بصرہ، فسطاط، یہ تینوں شہر تو دراصل فوج کے قیام اور بود و باش کے لئے ہی آباد کئے گئے تھے۔ موصل میں عجمیوں کے زمانے کا ایک قلعہ چند گرجے اور معمولی مکانات تھے۔ ہرثمہ بن عرفجہ ازدی (گورنر موصل) نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہدایت کے بموجب داغ بیل ڈال کر اس کو شہر کی صورت میں آباد کیا۔ اور عرب کے مختلف قبیلوں کے لیے جدا جدا محلے بسائے۔

گھوڑوں کی پرداخت

ہر جگہ بڑے اصطبل خانے تھے جن میں چار چار ہزار گھوڑے ہر وقت ساز و سامان کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ صرف اس غرض سے مہیا رکھتے جاتے تھے کہ دفعتہً ضرورت پیش آ جائے تو 32 ہزار سواروں کا رسالہ تیار ہو جائے۔ (تاریخ طبری صفحہ 2504 میں ہے کان لعمر اربعۃ الاف فرس عدۃ لکون ان کان یشتیھا فی قبلۃ قصر الکوفتہ و بالبصرہ نحو منھا قیم علیھا جزین معاویہ و فی کل مصر من الامصار الثمانیۃ علی قدر ھافان نابتھم فائبۃ رکب قوم و تقدموا الی ان یستعد الناس)۔ 17 ہجری میں جزیرہ والوں نے دفعتاً بغاوت کر دی تو یہی تدبیر کلید ظفر ٹھہری۔ ان گھوڑوں کی پرداخت اور ترتیب میں نہایت اہتمام کیا جاتا تھا۔ مدینہ منورہ کا انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود اپنے اہتمام میں رکھا تھا۔ شہر سے چار منزل پر ایک چراگاہیں تیار کرائی تھی (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گھوڑوں اور اونٹوں کی پرورش اور پرداخت کے لئے عرب میں متعدد چراگاہیں تیار کرائیں تھیں۔ سب سے بڑی چراگاہ ربذہ میں تھی جو مدینہ منورہ سے چار منزل کے فاصلے پر جندے کے ضلع میں واقع ہے۔ یہ چراگاہ دس میل لمبی اور اسی قدر چوڑی تھی اور دوسری مقام ضریہ میں تھی جو مکہ معظمہ سے سات منزل پر ہے۔ اس کی وسعت ہر طرف سے چھ چھ میل تھی۔ اس میں تقریباً چالیس ہزار اونٹ پرورش پاتے۔ ان چراگاہوں کو پوری تفصیل خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مطبوعہ مصر صفحہ 255 تا 256 میں ہے۔ ) اور خود اپنے غلام کو جس کا نام ہنی تھا اس کی حفاظت اور نگرانی کے لئے مقرر کیا تھا۔ ان گھوڑوں کی رانوں پر داغ کے ذریعے سے یہ الفاظ لکھتے جاتے تھے۔ جیش فی سبیل اللہ (کنز العمال جلد 2 صفحہ 326)۔ کوفہ میں اس کا اہتمام سلمان بن ربیعہ الباہلی سے متعلق تھا جو گھوڑوں کی شناخت اور پرداخت میں کمال رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ ان کے نام میں یہ خصوصیت داخل ہو گئی تھی اور سلمان الخیل نام سے پکارے جاتے تھے۔ جاڑوں میں یہ گھوڑے اصطبل خانے میں رکھے جاتے تھے۔ چنانچہ چوتھی صدی تک یہ جگہ آری کے نام سے مشہور تھی جس کے معنی اصطبل خانے کے ہیں اور اسی لحاظ سے عجمی اس کو آخور شاہ کہتے تھے۔ بہار میں یہ گھوڑے ساحل فرات پر عاقوں کے قریب شاداب چراگاہوں میں چرائے جاتے۔ سلمان ہمیشہ گھوڑوں کی ترتیب میں نہایت کوشش کرتے تھے اور ہمیشہ سال میں ایک دفعہ گھوڑ دوڑ بھی کراتے تھے۔

خاص کر عمدہ عمدہ نسل کے گھوڑوں کو انہوں نے نہایت ترقی دی۔ اس سے پہلے اہل عرب، نسل میں ماں کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ سب سے پہلے سلمان نے یہ امتیاز قائم کیا۔ چنانچہ جس گھوڑے کی مان عربی نہیں ہوتی تھی دوغلا قرار دے کر تقسیم غنیمت میں سوار کو حصہ سے محروم کر دیتے تھے (کتب رجال میں سلمان بن ربیعہ کا تذکرہ دیکھو)۔

بصرہ کا اہتمام جزر بن معاویہ سے متعلق تھا جو صوبہ اہواز کے گورنر رہ چکے تھے۔

فوج کا دفتر

فوج کے متعلق ہر قسم کے کاغذات اور دفتر انہی مقامات میں رہتا تھا۔

رسد کا غلہ

رسد کے لئے جو غلہ اور اجناس مہیا کی جاتی تھیں وہ انہی مقامات میں رکھی جاتی تھیں۔ اور یہیں سے اور مقامات کو بھیجی جاتی تھیں۔

فوجی چھاؤنیاں

ان صدر مقامات کے علاوہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے بڑے شہروں اور مناسب مقامات میں نہایت کثرت سے فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور عرب کو تمام ممالک مفتوحہ میں پھیلا دیا۔ اگرچہ یہ ان کا عام اصول تھا کہ جو شہر فتح ہوتا تھا اسی وقت ایک مناسب تعداد کی فوج وہاں متعین کر دی جاتی تھی جو وہاں سے ٹلتی نہ تھی۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام فتح کیا تو ہر ہر ضلع میں ایک عامل مقرر کیا جس کے ساتھ ایک معتدبہ فوج رہتی تھی لیکن امن و امان قائم ہونے پر بھی کوئی بڑا ضلع یا شہر ایسا نہ تھا جہاں فوجی سلسلہ قائم نہیں کیا گیا۔

17 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام کا سفر کیا تو ان مقامات میں جہاں ملک کی سرحد دشمن ملک سے ملتی تھی، یعنی دلوک فج، رعیان، قورس، تیزین، انطاکیہ وغیرہ (عربی میں ان کو فروج یا ثغور کہتے ہیں) ایک ایک شہر کا دورہ کیا اور ہر قسم کا فوجی نظم و نسق اور مناسب انتظامات کئے جو مقامات دریا کے کنارے پر واقع تھے وہ بلادسا حلیہ کہلاتے تھے۔ یعنی عسقلان، یا قاقیساریہ، ارسوف عکا، صور، بیروت، طرطوس، صعیدا، ایاس لاذقیہ، چونکہ رومیوں کی بحری طاقت کی زد پر تھے اس لئے ان کا مستقل جداگانہ انتظام کیا اور اس کا افسر کل عبد اللہ بن قیس کو مقرر کیا۔ بالس چونکہ غربی فرات کے ساحل پر تھا اور عراق سے ہمسر حد تھا، وہاں فوجی انتظام کے ساتھ اس قدر اضافہ کیا کہ شامی عرب جو اسلام قبول کر چکے تھے آباد کئے۔

(فتوح البلدان صفحہ 150 میں ہے ورتب ابو عبیدہ ببالس جماعۃ من المقاتلۃ و اسکنھا قوما من العرب الذین کانوا بالشام فاسلموا بعد قدوم المسلمین الشام)۔

19 ہجری میں جب یزید بن ابی سفیان کا انتقال ہوا تو ان کے بھائی معاویہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دی کہ سواحل شام پر زیادہ تیاری کی ضرورت ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وقت حکم بھیجا کہ تمام قلعوں کی نئے سرے سے مرمت کرائی جائے اور ان میں فوجیں مرتب کی جائیں۔ اس کے ساتھ تمام دریائی منظر گاہوں پر پہرہ والے تعینات کئے جائیں اور آگ روشن رہنے کا انتظام کیا جائے۔ (فتوح البلدان صفحہ 128 میں ہے۔ ان معاویۃ کتب الی عمر بن الخطاب بعد موت اخیہ یزید الحلل السواحل فکتب الیہ فی مرمۃ حصونھا اور ترتیب المقاتلۃ فیھا و اقامۃ الحوس علی مناظرھا و اتخاذ المواقید لھا)۔

اسکندریہ میں یہ انتظام تھا کہ عمرو بن العاص کی افسری میں جس قدر فوجیں تھیں اس کی ایک چوتھائی اسکندریہ کے لئے مخصوص تھی۔ ایک چوتھائی ساحل کے مقامات میں رہتی تھی۔ باقی آدھی فوج خود عمرو بن العاص کے ساتھ فسطاط میں اقامت رکھتی تھی۔ یہ فوجیں بڑے بڑے وسیع ایوانوں میں رہتی تھیں اور ہر ایوان میں ان کے ساتھ ایک عریف رہتا تھا جو ان کے قبیلہ کا سردار ہوتا تھا اور جس کی معرفت ان کو تنخواہیں تقسیم ہوتی تھیں۔ ایوانوں کے آگے صحن کے طور پر وسیع افتادہ زمین ہوتی تھی۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 167 میں ہے و کان لکل عریف قصر ینزل بمن معہ من اصحابہ اتخذوافیہ اخایذ)۔

16 ہجری میں جب ہرقل نے دریا کی راہ سے مصر پر حملہ کرنا چاہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام سواحل پر فوجی چھاؤنیاں قائم کر دیں۔ یہاں تک کہ عمرو بن العاص کی ماتحتی میں جس قدر فوج تھی اس کی ایک چوتھائی انہی مقامات کے لیے مخصوص کر دی۔ (تاریخ طبری صفحہ 2523۔ اصل عبارت یہ ہے۔ قسم عمر الا رزاق و سمی الشواتی والصنوالف و سدفروج الشام و سالحھا و اخذو ربھا و سمی ذلک فی کل کورۃ و استعمل عبد اللہ بن قیس علی السواحل من کل کورۃ۔ ) عراق میں بصرہ کوفہ اگرچہ محفوظ مقامات تھے چنانچہ خاص کوفہ میں چالیس ہزار سپاہی ہمیشہ رہتے تھے اور انتظام یہ تھا کہ ان میں سے 10 ہزار بیرونی مہمات میں مصروف رکھے جائیں۔ (تاریخ طبری صفحہ 2805 میں ہے و کان بالکوفۃ اذ ذاک اربعون الف مقاتل و کان یغز و ھذین الثفرین (ای الری واذر بیجان) ھم عشرۃ الاف فی کل سنہ فکان الرجل یصیبہ فی کل الربع سنین غزوۃ)۔ تاہم ان اضلاع میں عجمیوں کی جو فوجی چھاؤنیاں پہلے سے موجود تھیں، از سر نو تعمیر کر کے فوجی قوت سے مضبوط کر دی گئیں۔ خربیہ اور زابوقہ میں سات چھوٹی چھوٹی چھاؤنیاں تھیں وہ سب نئے سرے سے تعمیر کر دی گئیں۔ (فتوح البلدان صفحہ 350)۔ صوبہ خوزستان میں نہایت کثرت سے فوجی چھاؤنیاں قائم کی گئیں۔ چنانچہ نہر تیری، مناذر، سوق الاہواز، سرق، ہرمزان، سوس، بنیان، جندی، سابور، مہر، جانقدق یہ تمام فوجوں سے معمور ہو گئے (طبری صفحہ 2650)۔ رے اور آذر بائیجان کی چھاؤنیوں میں ہمیشہ 10 ہزار فوجیں موجود رہتی تھیں۔

اسی طرح اور سینکڑوں چھاؤنیاں جا بجا قائم کی گئیں جن کی تفصیل کی چنداں ضرورت نہیں۔ البتہ اس موقع پر بات لحاظ کے قابل ہے کہ اس سلسلے کو اس قدر وسعت کیوں دی گئی تھی۔ اور فوجی مقامات کے انتخاب میں کیا اصول ملحوظ تھے ؟ اصل یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی فوجی قوت نے اگرچہ بہت زور اور وسعت حاصل کر لی تھی لیکن بحری طاقت کا کچھ سامان نہ تھا، ادھر یونانی مدت سے اس فن میں مشاق ہوتے آتے تھے۔ اس وجہ سے شام، مصر میں اگرچہ کسی اندرونی بغاوت کا کچھ اندیشہ نہ تھا۔ کیونکہ اہل ملک باوجود اختلاف مذہب کے مسلمانوں کو عیسائیوں سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ لیکن رومیوں کے بحری حملوں کا ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ایشیائے کوچک ابھی تک رومیوں کے قبضے میں تھا اور وہاں ان کی قوت کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا تھا۔ ان وجوہ سے ضرورتی تھا کہ سرحدی مقامات اور بندرگاہوں کو نہایت مستحکم رکھا جائے۔

 

فوجی چھاؤنیاں کس اصول پر قائم تھیں؟

یہی وجہ تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس قدر فوجی چھاؤنیاں قائم کیں انہیں مقامات میں کیں جو ساحل پر واقع تھے یا ایشیائے کوچک کے ناکے پر تھے۔ عراق کی حالت اس سے مختلف تھی کیونکہ وہاں سلطنت کے سوا ملک کے بڑے بڑے رئیس جو مرزبان کہلاتے تھے اپنی بقائے ریاست کے لئے لڑتے رہتے تھے اور دب کر مطیع بھی ہو جاتے تھے لیکن ان کی اطاعت پر اطمینان نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے ان ممالک میں ہر جگہ فوجی سلسلہ کا قائم رکھنا ضروری تھا کہ مدعیان ریاست بغاوت کا خواب نہ دیکھنے پائیں۔

فوجی دفتر کی وسعت

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سلسلے کے ساتھ انتظامات کے اور صیغوں پر بھی توجہ کی اور ایک ایک صیغے کو اس قدر منظم کر دیا کہ اس وقت کے تمدن کے لحاظ سے ایک معجزہ سا معلوم ہوتا ہے۔ فوجوں کی بھرتی کا دفتر جس کی ابتداء مہاجرین اور انصار سے ہوئی تھی وسیع ہوتے ہوتے قریباً تمام عرب کو محیط ہو گیا۔ مدینہ سے عسفان تک جو مکہ معظمہ سے دو منزل ادھر ہے ، جس قدر قبائل آباد تھے ایک ایک کی مردم شماری ہو کر رجسٹر بنے۔ بحرین جو عرب کا انتہائی صوبہ ہے بلکہ عرب کے جغرافیہ نویس اس کو عراق کے اضلاع میں شمار کرتے ہیں، وہاں کے تمام قبائل کا دفتر تیار کیا گیا۔ کوفہ، بصرہ، موصل، فسطاط، جیزہ وغیرہ میں جس قدر عرب آباد ہو گئے تھے سب کے رجسٹر مرتب ہوئے۔ اس بے شمار گروہ کی علیٰ قدر مراتب تنخواہیں مقرر کی گئیں۔ اور اگرچہ ان سب کا مجموعی شمار تاریخوں سے معلوم نہیں ہوتا، تاہم قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ کم سے کم آٹھ دس لاکھ ہتھیار بند آدمی تھے۔

ہر سال 30 ہزار نئی فوج تیار ہوتی تھی

ابن سعد کی روایت ہے کہ ہر سال 30 ہزار نئی فوج فتوحات پر بھیجی جاتی تھی۔ کوفہ کی نسبت علامہ طبری نے تصریح کی ہے کہ وہاں ایک لاکھ آدمی لڑنے کے قابل بسائے گئے جن میں سے 40 ہزار باقاعدہ فوجی تھے یعنی ان کو باری باری سے ہمیشہ رے اور آذر بائیجان کی مہمات میں حاضر رہنا ضروری تھا۔

یہی نظام تھا جس کی بدولت ایک مدت تک تمام دنیا پر عرب کا رعب و داب قائم رہا۔ اور فتوحات کا سیلاب برابر بڑھتا گیا۔ جس قدر اس نظام میں کمی ہوتی گئی عرب کی طاقت میں ضعف آتا گیا۔ سب سے پہلے امیر معاویہ نے اس میں تبدیلی کی یعنی شیرخوار بچوں کی تنخواہ بند کر دی۔ عبد المالک بن مروان نے اور بھی اس کو گھٹایا اور معتصم باللہ نے سرے سے فوجی دفتر میں سے عرب کے نام نکال دیئے اور اسی دن درحقیقت حکومت بھی عرب کے ہاتھ سے نکل گئی۔

یہ ایک اتفاقیہ جملہ بیچ میں آ گیا تھا۔ ہم پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فوجی نظام کی طرف واپس آتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوجی دفتر کو یہاں تک وسعت دی کہ اہل عجم بھی اس میں داخل کئے گئے۔

فوج میں عجمی رومی ہندوستانی اور یہودی داخل تھے

یزدگرد شاہنشاہ فارس نے ویلم کی قوم سے ایک منتخب دستہ تیار کیا تھا جس کی تعداد چار ہزار تھی اور جند شاہنشاہ یعنی فوج خاصہ کہلاتا تھا۔ یہ فوج قادسیہ میں کئی معرکوں کے بعد ایرانیوں سے علیحدہ ہو کر اسلام کے حلقے میں آ گئی۔ سعد ابن ابی وقاص گورنر کوفہ نے ان کو فوج میں داخل کر لیا اور کوجہ میں آباد کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کر دیں (فتوح البلدان صفحہ 280)۔ چنانچہ اسلامی فتوحات میں ان کا نام بھی جا بجا تاریخوں میں آتا ہے۔ یزدگرد کی فوج ہراول کا سردار ایک بڑا نامی افسر تھا جو سیاہ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔

17 ہجری میں یزدگرد اصفہان کو روانہ ہوا تو سپاہ کو تین سو سواروں کے ساتھ جن میں ستر بڑے نامی پہلوان تھے ، اصطخر کی طرف بھیجا کہ ہر شہر سے چند بہادر منتخب کر کے ایک دستہ تیار کرے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب 20 ہجری میں سوس کا محاصرہ کیا تو یزدگرد نے سپاہ کو حکم دیا کہ اس چیدہ رسالے کے ساتھ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقابلے کو جائے۔ سوس کی فتح کے بعد سپاہ نے مع تمام سرداروں کے ابو موسیٰ سے چند شرائط کے ساتھ امن کی درخواست کی۔ ابو موسیٰ گو ان شرائط پر راضی نہ تھے لیکن کیفیت واقعہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ بھیجا کہ تمام شرائط منظور کر لئے جائیں۔ چنانچہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ سب کے سب بصرہ میں آباد کئے گئے اور فوجی دفتر میں نام لکھا کر ان کی تنخواہیں مقرر ہو گئیں۔ ان میں سے چھ افسروں کے جن کے نام یہ تھے ، سیاہ، خسرو، شہریار، شیرویہ، افرودین کی ڈھائی ڈھائی ہزار اور سو بہادروں کی دو ہزار تنخواہ مقرر ہوئی۔ تستر کے معرکے میں سیاہ ہی کی تدبیر سے فتح حاصل ہوئی۔ (طبری واقعات 17 ہجری ذکر فتح سوس و فتوح البلدان از صفحہ 272 تا 275)۔

باذان، نوشیروان کی طرف سے یمن کا گورنر تھا۔ اس کی رکاب میں جو ایرانی فوج تھی، ان میں سے اکثر مسلمان ہو گئے۔ ان کا نام بھی دفتر میں لکھا گیا۔ تعجب یہ ہے کہ فاروقی لشکر ہندوستان کے بہادروں سے بھی خالی نہ تھا۔ سندھ کے جاٹ جن کو اہل عرب زط کہتے تھے ، یزدگرد کے لشکر میں شامل تھے۔ سوس کے معرکے کے بعد وہ اسلام کے حلقہ بگوش ہوئے اور فوج میں بھرتی ہو کر بصرہ میں آباد کئے گئے (فتوح البلدان صفحہ 275)۔

یونانی اور رومی بہادر بھی فوج میں شامل تھے چنانچہ فتح مصر میں ان میں سے پانچ سو آدمی شریک جنگ تھے اور جب عمرو بن العاص نے فسطاط آباد کیا تو یہ جداگانہ محلے میں آباد کئے گئے۔ یہودیوں سے بھی یہ سلسلہ خالی نہ تھا، چنانچہ مصر کی فتح میں ان میں سے ایک ہزار آدمی اسلامی فوج میں شریک تھے (مقریزی صفحہ 298 میں ان سب کے حالات کسی قدر تفصیل سے لکھے ہیں)۔

غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صیغۂ  جنگ کو جو وسعت دی تھی اس کے لئے کسی قوم اور کسی ملک کی تخصیص نہ تھی۔ یہاں تک کہ مذہب و ملت کی بھی کچھ قید نہ تھی۔ والنٹیر فوج میں تو ہزاروں مجوسی شامل تھے جن کو مسلمانوں کے برابر مشاہرے ملتے تھے۔ فوجی نظام میں بھی مجوسیوں کا پتہ ملتا ہے۔ چنانچہ اس کی تفصیل غیر قوموں کے حقوق کے ذکر میں آئے گی۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صیغۂ  جنگ کی یہ وسعت جس میں تمام قوموں کو داخل کیا گیا تھا، صرف اسلام کی ایک فیاضی تھی۔ ورنہ فتوحات ملکی کے لئے عرب کو اپنی تلوار کے سوا اور کسی کا کبھی ممنون ہونا نہیں پڑا۔ البتہ اس سے بھی انکار نہیں ہو سکتا کہ جس قوموں سے مقابہ تھا انہی کے ہم قوموں کو ان سے لڑانا فن جنگ کا بڑا اصول تھا۔

کہ خرگوش ہر مز زرا بے شگفت

سگ آں ولایت تواند گرفت

جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں کہ ابتدائے انتظام میں فوجی صیغہ صاف صاف جداگانہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ یعنی جو لوگ اور حیثیت سے تنخواہیں پاتے تھے ، ان کے نام بھی فوجی رجسٹر میں درج تھے اور اس وقت یہی مصلحت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اب یہ پردہ بھی اٹھا دینا چاہا۔ شروع شروع میں تنخواہ کی کمی بیشی میں قرآن خوانی کے وصف کا بھی لحاظ ہوتا تھا لیکن چونکہ اس کو فوجی امور سے کچھ تعلق نہ تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو صیغۂ  تعلیم کر کے اس دفتر سے الگ کر دیا۔ چنانچہ سعد بن ابی وقاص کو یہ الفاظ لکھ بھیجے ” لا لفظ علی القراں احداً۔

تنخواہوں میں ترقی

اس کے بعد تنخواہوں کی ترقی کی طرف توجہ کی۔ چونکہ وہ فوج کو زراعت، تجارت اور اس قسم کے تمام اشغال سے بزور باز رکھتے تھے ، اس لئے ضروری تھا کہ ان کی تمام ضروریات کی کفالت کی جائے۔ اس لحاظ سے تنخواہوں میں کافی اضافہ کیا۔ ادنیٰ سے ادنیٰ شرح جو 200 سالانہ تھی 300 کر دی۔ افسروں کی تنخواہ سات ہزار سے لے کر دس ہزار تک بڑھا دی۔ بچوں کی تنخواہ دودھ چھوڑنے کے بعد سے مقرر ہوتی تھی۔ اب حکم دے دیا کہ پیدا ہونے کے دن سے مقرر کر دی جائے۔

رسد کا انتظام

رسد کا بندوبست پہلے صرف اس قدر تھا کہ فوجیں مثلاً قادسیہ میں پہنچیں تو آس پاس کے دیہات پر حملہ کر کے جنس اور غلہ لوٹ لائیں۔ البتہ گوشت کا بندوبست دارالخلافہ سے تھا۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ سے بھیجا کرتے تھے (فتوح البلدان صفحہ 256، اصل عبارت یہ ہے فاذا احتا جوا الی العلف والطعام اخرجوا۔ حلولاً فی البر فاغارت علی اسفل الفرات و کان عمر یبعث الیھم من المدینہ الغنم والجرز)۔ پھر یہ انتظام ہوا کہ مفتوح قوموں سے جزیہ کے ساتھ فی کس 25 اثار غلہ لیا جاتا تھا۔ مصر میں غلہ کے ساتھ روغن زیتون، شہد اور سرکہ بھی وصول کیا جاتا تھا جو سپاہیوں کے سالن کا کام دیتا تھا۔ جزیرہ میں بھی یہی انتظام تھا۔ لیکن اس میں رعایا کو زحمت ہوتی تھی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آخر اس کے بجائے نقدی مقرر کر دی (فتوح البلدان صفحہ 178 – 216)۔ جس کو رعایا نے نہایت خوشی سے قبول کیا۔

رسد کا مستقل محکمہ

رفتہ رفتہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسد کا ایک مستقل محکمہ قائم کیا جس کا نام اہراء تھا (تاریخ طبری صفحہ 265۔ اہرا کے معنی اور مفہوم کے لئے دیکھو لسان العرب اور فتوح البلدان صفحہ 20۔ چنانچہ شام میں عمر بن عتبہ اس محکمے کے افسر مقرر ہوئے۔ اہراء ہری کی جمع ہے۔ ہری ایک یونانی لفظ ہے۔ جس کے معنی گودام کے ہیں۔ چونکہ رسد کے یکجا جمع ہونے اور وہاں سے تقسیم ہونے کا یہ طریقہ یونانیوں سے لیا گیا تھا اس لئے نام میں بھی وہی یونانی لفظ قائم رہا۔ تمام جنس اور غلہ ایک وسیع گودام میں جمع ہوتا تھا۔ اور مہینے کی پہلی تاریخ فی سپاہی 1 من اثار کے حساب سے تقسیم ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ فی کس 2 اثار روغن زیتون اور 2 اثار سرکہ بھی ملتا تھا۔ اس کے بعد اور بھی ترقی ہوئی یعنی خشک اجناس کی بجائے پکا پکایا کھانا ملتا تھا۔

خوراک، کپڑا اور بھتہ

چنانچہ مؤرخ یعقوبی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفر کے ذکر میں اس کی تصریح کی ہے۔ تنخواہ اور خوراک کے علاوہ کپڑا بھی دربار خلافت سے ملتا تھا۔ جس کی تفصیل وردی کے باب میں آئے گی۔ ان تمام باتوں کے ساتھ بھتہ بھی مقرر تھا جس کو عربی میں مغوتہ کہتے ہیں۔ سواری کا گھوڑا سواروں کو اپنے اہتمام سے تیار کرنا ہوتا تھا۔ لیکن جو شخص کم سرمایہ ہوتا تھا اور اس کی تنخواہ بھی ناکافی ہوتی تھی۔ اس کو حکومت کی طرف سے گھوڑا ملتا تھا۔ چنانچہ خاص اس غرض کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حکم سے خود دارالخلافہ میں چار ہزار گھوڑے ہر وقت موجود رہتے تھے۔ (کتاب الخراج صفحہ 27۔ اصل عبار ہے کان لعمر بن الخطاب اربعۃ الاف فرس فاذا کان فی عطاء الرجل خفۃ او کان محتاجا اعطاہ الفرس)۔

تنخواہ کی تقسیم کا طریقہ

بھتہ و تنخواہ وغیرہ کی تقسیم کے اوقات مختلف تھے۔ شروع محرم میں تنخواہ، فصل بہار میں بھتہ اور فصل کے کٹنے کے وقت خاص خاص جاگیروں کی آمدنی تقسیم ہوتی تھی۔ (طبری صفحہ 6486۔ اصل عبارت یہ ہے وامر لھم بمعادلھم فی الربیع من کل سنۃ و باعطیاتھم فی المحرم من کل سنۃ و بفتیھم عند طلوع الشعری فی کل سنۃ و ذلک عند ادراک الفلات)۔ تنخواہ کی تقسیم کی یہ طریقہ تھا کہ ہر قبیلے کے ساتھ ایک عریف یعنی مقدم یا رئیس ہوتا تھا۔ فوجی افسر جو کم سے کم 10 – 10 سپاہیوں پر افسر ہوتے تھے اور جو امراء الاعشار کہلاتے تھے ، تنخواہ دی جاتی تھی۔ وہ عریف کے حوالے کرتے تھے اور عریف اپنے قبیلہ کے سپاہیوں کے حوالے کرتے تھے۔ ایک ایک عریف سے متعلق ایک ایک لاکھ درہم کی تقسیم تھی۔ چنانچہ کوفہ، بصرہ میں سو عریف تھے۔ جن کے ذریعے سے ایک کروڑ کی رقم تقسیم ہوتی تھی۔ اس انتظام میں نہایت احتیاط اور خبر گیری سے کام لیا جاتا تھا۔ عراق میں امراء اعشار نے تنخواہوں کی تقسیم میں بے اعتدالی کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرب کے بڑے بڑے نساب اور اہل الرائے مثلاً سعید بن عمران، مشعلہ بن نعیم وغیرہ کو بلا کر اس کی جانچ پر مقرر کیا۔ چنانچہ ان لوگوں نے دوبارہ نہایت تحقیق اور صحت کے ساتھ لوگوں کے عہدے اور روزینے مقرر کئے اور دس دس کے بجائے سات سات سپاہی پر ایک ایک افسر مقرر کیا۔ (یہ واقعات نہایت تفصیل کے ساتھ طبری صفحہ 2495 تا 2496 و مقریزی صفحہ 93 میں ہیں)۔ عریف کا تقرر بھی فاروقی ایجادات سے تھا جس کی تقلید مدتوں تک کی گئی۔ کنز العمال باب الجہاد میں علامہ بیہقی کی روایت ہے۔

تنخواہوں کی ترقی

تنخواہوں میں قدامت اور کارکردگی کے لحاظ سے وقتاً فوقتاً اضافہ ہوتا رہتا تھا۔ قادسیہ میں زہرہ، عصمتہ، جنتی وغیرہ نے بڑے بڑے مردانہ کام کئے تھے اس لئے ان کی تنخواہیں دو، دو ہزار سے ڈھائی ڈھائی ہزار ہو گئیں۔ مقررہ رقموں كے علاوہ غنیمت سے وقتاً فوقتاً جو ہاتھ آتا تھا اور علیٰ قدر مراتب فوج پر تقسیم ہوتا تھا۔ اس کی کچھ انتہا نہ تھی۔ چنانچہ جلولا میں نو نو ہزار، نہاوند چھ چھ ہزار درہم ایک ایک سوار کے حصے میں آئے تھے۔

صحت اور تندرستی قائم رکھنے کے لئے حسب ذیل قاعدے مقرر تھے۔

اختلاف موسم کے لحاظ سے فوج کی تقسیم

جاڑے اور گرمی کے لحاظ سے لڑائی کی جہتیں متعین کر دی تھیں، یعنی جو سرد ملک تھے ان پر گرمیوں میں اور گرم ملکوں پر جاڑوں میں فوجیں بھیجی جاتی تھیں اس تقسیم کا نام شاتیہ اور صافیہ رکھا اور یہی اصطلاح آج تک قائم ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے مؤرخین مغربی مہمات اور فتوحات کو صرف صوائف کے لفظ سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 17 ہجری میں کیا تھا۔ علامہ طبری لکھتے ہیں۔ و سمی الشبواتی والصوائف و سمی ذلک فی کل کورۃ۔

بہار کے زمانے میں فوجوں کا قیام

فسل بہار میں فوجیں ان مقامات پر بھیج دی جاتی تھیں جہاں کی آب و ہوا عمدہ اور سبزہ و مرغزار ہوتا تھا۔ یہ قاعدہ اول اول 17 ہجری میں جاری کیا گیا۔ جبکہ مدائن کی فتح کے بعد وہاں کی خراب آب و ہوا نے فوج کی تندرستی کو نقصان پہنچایا تھا۔ چنانچہ عتبہ بن غزوان کو لکھا کہ ہمیشہ جب بہار کا موسم آئے تو فوجیں شاداب اور سرسبز مقامات میں چلی جائیں۔ (تاریخ طبری صفحہ 2486 میں ہے و کتب عمر الی سعد بن مالک و الی عتبہ بن غزوان یتربھا بالناس فی کل حین ربیع فی اطیب ارلھم)۔ عمرو بن العاص گورنر مصر، موسم بہار کے آنے کے ساتھ ہی فوج کو باہر بھیج دیتے تھے اور حکم دیتے تھے کہ سیر و شکار میں بسر کریں اور گھوڑوں کو چرا کر فربہ بنا کر لائیں۔

آب و ہوا کا لحاظ

بارکوں کی تعمیر اور چھاؤنیوں کے بنانے میں ہمیشہ عمدہ آب و ہوا کا لحاظ کیا جاتا تھا اور مکانات کے آگے کھلے ہوئے خوش فضا صحن چھوڑے جاتے تھے۔ فوجوں کے لئے جو شہر آباد کئے گئے مثلاً کوفہ، بصرہ، فسطاط وغیرہ ان میں صحت کے لحاظ سے سڑکیں اور کوچے اور گلیاں نہایت وسیع ہوتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس میں اس قدر اہتمام تھا کہ مساحت اور وسعت کی تعیین بھی خود لکھ کر بھیجی تھی۔ چنانچہ اس کی تفصیل ان شہروں کے ذکر میں گزر چکی۔

کوچ کی حالت میں فوج کے آرام کا دن

فوج جب کوچ پر ہوتی تھی تو حکم تھا کہ ہمیشہ جمعہ کے دن مقام کرے اور ایک شب و روز قیام رکھے تاکہ لوگ دم لیں اور ہتھیاروں اور کپڑوں کو درست کر لیں۔ یہ بھی تاکید تھی کہ ہر روز اسی قدر مسافت طے جس سے تھکنے نہ پائیں اور پڑاؤ وہیں کیا جائے جہاں ہر قسم کی ضروریات مہیا ہوں۔ چنانچہ سعد بن وقاص کو جو فرمان فوجی ہدایتوں کے متعلق لکھا، اس میں اور اہم باتوں کے ساتھ ان تمام جزئیات کی تفصیل بھی لکھی۔ (عقد الفرید جلد اول صفحہ 49 میں یہ فرمان بعینہ منقول ہے )۔

رخصت کے قاعدے

رخصت کا بھی باقاعدہ انتظام تھا۔ جو فوجیں دور دراز مقامات پر مامور تھیں ان کو سال میں ایک دفعہ ورنہ دو دفعہ رخصت ملتی۔ بلکہ ایک موقع پر جب انہوں نے ایک عورت کو اپنے شوہر کی جدائی میں دردناک اشعار پڑھتے سنا تو افسروں کو احکام بھیج دیئے کہ کوئی شخص چار مہینے سے زیادہ باہر رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔

لیکن یہ تمام آسانیاں اسی حد تک تھیں جہاں تک ضرورت کا تقاضا تھا۔ ورنہ آرام طلبی، کاہلی، عیش پرستی سے بچنے کے لئے سخت بندشیں تھیں۔ نہایت تاکید تھی کہ اہل فوج رکاب کے سہارے سے سوار نہ ہوں، نرم کپڑے نہ پہنیں، دھوپ کھانا نہ چھوڑیں، حماموں میں نہ نہائیں۔

فوج کا لباس

تاریخوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کے لئے کوئی خاص لباس جس کو وردی کہتے ہیں قرار دیا تھا۔ فوج کے نام اس کے جو احکام منقول ہیں ان میں صرف اس قدر ہے کہ لوگ عجمی لباس نہ پہنیں لیکن معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کی تعمیل پر چنداں زور نہیں دیا گیا کیونکہ 21 ہجری میں جب مصر پر ذمیوں پر جزیہ مقرر ہوا، فوج کے کپڑے بھی اس میں شامل تھے۔ اور وہ یہ تھے اون کا جبہ، لمبی ٹوپی یا عمامہ، پاجامہ (فتوح البلدان صفحہ 315) موزہ، حالانکہ اول اول پاجامہ اور موزہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتصریح منع کیا تھا۔

فوج میں خزانچی و محاسب و مترجم

فوج کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور بہت سی ایجاد ہیں جن کا عرب میں کبھی وجود نہ ملا تھا۔ مثلاً ہر فوج کے ساتھ ایک افسر خزانہ، ایک محاسب، ایک قاضی اور متعدد مترجم ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ متعدد طبیب اور جراح ہوتے تھے۔ چنانچہ جنگ قادسیہ میں عبد الرحمٰن بن ربیعہ قاضی، زیاد بن ابی سفیان محاسب، ہلال ہجری مترجم تھے۔ (طبری واقعات 14 ہجری صفحہ 226)۔ فوج میں محکمہ عدالت سررشتہ حساب و مترجمی اور ڈاکٹری کی ابتداء بھی اسی زمانے سے ہے۔

فن جنگ میں ترقی

فوجی قواعد کی نسبت ہم کو صرف اس قدر معلوم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوجی افسروں کو جو احکام بھیجتے تھے ان میں چار چیزوں کے سیکھنے کی تاکید ہوتی تھی، تیرنا، گھوڑے دوڑانا، تیر لگانا، ننگے پاؤں چلنا۔ اس کے سوا ہم کو معلوم نہیں کہ فوج کو اور کسی قسم کی قواعد بھی سکھائی جاتی تھی۔ تاہم اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں سابق کی نسبت فن جنگ نے بہت ترقی کی۔

عرب میں جنگ کا پہلا طریقہ یہ تھا کہ دونوں طرف کے غول بے ترتیب کھڑے ہو جاتے تھے۔ پھر دونوں طرف سے ایک ایک سپاہی نکل کر لڑتا تھا۔ اور باقی تمام فوج چپ کھڑی رہتی تھی۔ اخیر میں عام حملہ ہوتا تھا۔ اسلام کے آغاز میں صف بندی کا طریقہ جاری ہوا تھا۔ اور فوج کے مختلف حصے قرار پائے مثلاً میمنہ، میسرہ، وغیرہ لیکن ہر حصہ بطور خود لڑتا تھا۔ یعنی تمام فوج کسی ایک سپہ سالار کے نیچے رہ کر نہیں لڑتی تھی۔ سب سے پہلے 15 ہجری میں یرموک کے معرکہ میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت تعبیہ کی طرز پر جنگ ہوئی (علامہ ابن خلدون نے مقدمہ تاریخ میں فصل فی الحروب کے عنوان سے عرب اور فارس و روم کے طریقہ جنگ پر ایک مضمون لکھا ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ تعبیہ کا طریقہ اول اول مروان بن الحکم نے قائم کیا۔ لیکن یہ غلط ہے۔ طبری اور دیگر مؤرخین نے بتصریح لکھا ہے کہ یرموک کے معرکہ میں اول اول خالد نے تعبیہ کی طرز پر صف آرائی کی تھی)۔ یعنی کل فوج جس کی تعداد چالیس ہزار کے قریب تھی، 36 صفوں میں تقسیم ہو کر حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ماتحتی میں کام کرتی تھی اور وہ تمام فوج کو تنہا لڑاتے تھے۔

فوج کے مختلف حصے

  قلب     سپہ سالار اسی حصے میں رہتا تھا۔

مقدمہ    قلب کے آگے کچھ فاصلے پر ہوتا تھا۔

میمنہ      قلب کے دائیں ہاتھ پر رہتا تھا۔

میسرہ     بائیں ہاتھ پر۔

ساقہ      سب کے پیچھے۔

طلیعہ      گشت کی فوج جو دشمن کی فوجوں کی دیکھ بھال رکھتی تھی۔

روء        جو ساقہ کے پیچھے رہتی تھی تا کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کر سکے۔

رائد       جو فوج کے چارہ اور پانی تلاش کرتی تھی۔

رکبان    شتر سوار۔

فرسان   گھوڑا سوار۔

راجل     پیادہ۔

رماۃ       تیر انداز۔

ہر سپاہی کو جو ضروری چیزیں ساتھ رکھنی پڑتی تھیں

ہر سپاہی کو جنگ کی ضرورت کی تمام چیزیں اپنے ساتھ رکھنی پڑتی تھیں۔ فتوح البلدان میں لکھا ہے کہ کثیر بن شہاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایک فوجی افسر تھے ) کی فوج کا ہر سپاہی اشیائے ذیل ضرور اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ سوئیاں، سوا، ڈورا، قینچی، سوتالی، توبڑا، چھلنی (فتوح البلدان صفحہ 18)۔

قلعہ شکن آلات

قلعوں پر حملہ کرنے کے لیے منجیق کا استعمال اگرچہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں شروع ہو چکا تھا، چنانچہ سب سے پہلے 8 ہجری میں طائف کے محاصرے میں اس سے کام لیا گیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس کو بہت ترقی ہوئی اور بڑے بڑے قلعے اس کے ذریعہ سے فتح ہوئے۔ مثلاً 16 ہجری میں بہرہ شہر کے محاصرے میں 20 منجیقیں استعمال کی گئیں۔ محاصرے کے لئے ایک اور آلہ تھا جس کو دبابہ کہتے تھے۔ یہ ایک لکڑی کا برج ہوتا تھا جس میں اوپر تلے کئی درجے ہوتے تھے اور نیچے پہیئے لگے ہوتے تھے۔ سنگ اندازوں اور نقب زنوں اور تیر اندازوں کو اس کے اندر بٹھا دیا جاتا تھا اور اس کو ریلتے ہوئے آگے بڑھاتے چلتے تھے۔ اس طرح قلعہ کی جڑ میں پہنچ جاتے تھے اور قلعہ کی دیواروں کو آلات کے ذریعے سے توڑ دیتے تھے۔ بہرہ شہر کے محاصرہ میں یہ آلہ بھی استعمال کیا گیا تھا۔

سفر مینا

راستہ صاف کرنا، سڑک بنانا، پل باندھنا، یعنی جو کام آج کل سفر مینا کی فوج سے لیا جاتا ہے اس کا انتظام بھی نہایت معقول تھا اور یہ کام خاص کر مفتوحہ قوموں سے لیا جاتا تھا۔ عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب فسطاط فتح کیا تو مقوقس والی مصر نے یہ شرط منظور کی کہ فوج اسلام جدھر کا رخ کرتے گی سفر مینا کی خدمت مصری انجام دیں گے۔ ( مقریزی صفحہ 163 میں ہے۔ فخرج عمر بالمسلمین و خرج معہ جماعۃ من رؤساء القبط و قد اصلحوا لھم الطریق و اقاموا الھم الجسور والا سواق)۔ چنانچہ عمرو بن العاص جب رومیوں کے مقابلہ کے لئے اسکندریہ کی طرف بڑھے تو خود مصری منزل بمنزل پل باندھتے ، سڑک بناتے اور بازار لگاتے تھے۔ علامہ مقریزی نے لکھا ہے کہ چونکہ مسلمانوں کے سلوک نے تمام ملک کو گرویدہ کر لیا تھا، اس واسطے قبطی خود بڑی خوشی سے ان خدمتوں کو انجام دیتے تھے۔

خبر رسانی اور جاسوسی

جاسوسی اور خبر رسانی کا انتظام نہایت خوبی سے کیا گیا تھا اور اس کے لئے قدرتی سامان ہاتھ آ گئے تھے۔ شام و عراق میں کثرت سے عرب آباد تھے اور ان میں سے ایک گروہ کثیر نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ یہ لوگ چونکہ مدت سے ان ممالک میں رہتے تھے۔ اس لئے کوئی واقعہ ان سے چھپ نہیں سکتا تھا۔ ان لوگوں کو اجازت دی کہ اپنا اسلام لوگوں پر ظاہر نہ کریں اور چونکہ یہ لوگ ظاہر وضع قطع سے پارسائی یا عیسائی معلوم ہوتے تھے اس لئے دشمن کی فوجوں میں جہاں چاہتے تھے چلے جاتے تھے۔ یرموک، قادسیہ، تکریت میں انہی جاسوسوں کی بدولت بڑے بڑے کام نکلے۔ (تاریخ شام الماذری صفحہ 154، طبری 2349 و 2475۔ ازی کی عبارت یہ ہے لما نزلت الروم منزلھم الذی نزلوابہ وسسنا الیھم رجالاً من اھل البلد کانو انصاری و حسن اسلامھم و امرنھم ان یدخلوا عسکرھم و یکتموا اسلامھم و یاگوا باخبارھم)۔

شام میں ہر شہر کے رئیسوں نے خود اپنی طرف سے اور اپنی خوشی سے جاسوس لگا رکھے تھے جو قیصر کی فوجی تیاریاں اور نقل و حرکت کی خبریں پہنچاتے تھے۔ قاضی ابو یوسف صاحب کتاب الخراج میں لکھتے ہیں۔ (کتاب مذکور صفحہ 80)۔

فلمارای اھل الذمۃ وفاء المسلمین لھم و حسن السیرۃ فیھم صاروا اشدآء علی عدو المسلمین و عوناً للمسلمین علی اعد آنھم فبعث اھل کل مدینۃ ممن جری الصلح بینھم و بین المسلمین رجالاً من قبلھم یتجسسون الاخبار عن الروم عن ملکھم وما یریدون ان یضووا۔

خبر رسانی اور جاسوسی

اردن اور فلسطین کے اضلاع میں یہودیوں کا ایک فرقہ رہتا تھا جو سامرہ کہلاتا تھا۔ یہ لوگ جاسوسی اور خبررسانی کے کام کے لئے مقرر کئے گئے اور اس کے صلے میں ان کی مقبوضہ زمینیں ان کو معافی میں دے گئیں (فتوح البلدان صفحہ 158)۔ اسی طرح جزاجمہ کو قوم اس خدمت پر مامور ہوئی کہ ان کو بھی خراج معاف کر دیا گیا۔ فوجی انتظام کے سلسلے میں جو چیز سب سے بڑھ کر حیرت انگیز ہے یہ ہے کہ باوجودیکہ اس قدر بے شمار فوجیں تھیں اور مختلف ملک، مختلف قبائل، مختلف طبائع کے لوگ اس سلسلے میں داخل تھے۔ اس کے ساتھ وہ نہایت دور دراز مقامات تک پھیلی ہوتی تھیں۔ جہاں سے دارالخلافہ تک سینکڑوں ہزاروں کوس کا فاصلہ تھا۔ تاہم تمام فوج اس طرح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضہ قدرت میں تھیں کہ گویا وہ خود ہر جگہ فوج کے ساتھ موجود ہیں۔

پرچہ نویسوں کا انتظام

اس کا عام سبب تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سطوط اور ان کا رعب و داب تھا۔ لیکن ایک بڑا سبب یہ تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر فوج کے ساتھ پرچہ نویس لگا رکھے تھے اور فوج کی ایک ایک بات کی انکو خبر پہنچتی رہتی تھی۔ علامہ طبری ایک ضمنی موقع پر لکھتے ہیں کہ :

و کانت تکون لعمرا لعیون فی جیش فکتب الی بما کان فی فلک الغزاۃ و بلغہ الذی قال عتبۃ۔ (طبری صفحہ 2308)۔

ایک اور موقع پر لکھتے ہیں۔

و کان عمر لا یخفیٰ علیہ شئی فی عملہ۔ (طبری صفحہ 2308)۔

اس انتظام سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ کام لیتے تھے کہ جہاں فوج میں کسی شخص سے کسی قسم کی بے اعتدالی ہو جاتی تھی۔ ایران کی فتوحات میں عمرو معدی کرب نے ایک دفعہ اپنے افسر کی شان میں گستاخانہ کلمہ کہہ دیا تھا۔ فوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کو خبر ہوئی اور اسی وقت انہوں نے عمرو معدی کرب کو تحریر کے ذریعے سے ایسی چشم نمائی کی کہ پھر ان کو کبھی ایسی جرات نہیں ہوئی۔ اس قسم کی سینکڑوں مثالیں ہیں جن جا استقصاء نہیں ہو سکتا۔

 

صیغہ تعلیم

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ تعلیم کو نہایت ترقی دی تھی۔ تمام ممالک مفتوحہ میں ابتدائی مکاتب قائم کئے تھے جن میں قرآن مجید، اخلاقی اشعار اور امثال عرب کی تعلیم ہوتی تھی۔ بڑے بڑے علمائے صحابہ اضلاع میں حدیث و فقہ کی تعلیم کے لئے مامور کئے تھے۔ مدرسین اور معلمین کی تنخواہیں بھی مقرر کی تھیں۔ لیکن چونکہ تعلیم زیادہ تر مذہبی تھی، اس لئے اس کا ذکر تفصیل کے ساتھ صیغہ مذہبی کے بیان میں آئے گا۔

صیغہ مذہبی

خلیفہ کی حیثیت سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو اصلی کام تھا وہ مذہب کی تعلیم و تلقین تھی اور در حقیقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کارناموں کا طغرا یہی ہے۔ لیکن مذہب کی روحانی تعلیم، یعنی توجہ الی اللہ، استغراق فی العبادۃ صفائے قلب، قطع علائق خضوع و خشوع یہ چیزیں کسی محسوس اور مادی رشتہ انتظام کے تحت میں نہیں آ سکتیں۔ اس لئے نظام حکومت کی تفصیل میں ہم اس کا ذکر نہیں کر سکتے۔ اس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذاتی حالات میں آئے گا۔ البتہ اشاعت اسلام، تعلیم قرآن و حدیث، احکام مذہبی کا اجراء اس قسم کے کام انتظام کے تحت میں آ سکتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے متعلق جو کچھ کیا اس کی تفصیل ہم اس موقع پر لکھتے ہیں۔

 

اشاعت اسلام کا طریقہ

اس صیغے کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا۔ اشاعت اسلام کے یہ معنی نہیں کہ لوگوں کو تلوار کے زور سے مسلمان بنایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس طریقے کے بالکل خلاف تھے اور جو شخص قرآن مجید کی اس آیت پر لا اکراہ فی الدین (یہ روایت طبقات ابن سعد میں موجود ہے جو نہایت معتبر کتا ہے۔ دیکھو کنز العمال جلد پنجم صفحہ 49 مطبوعہ حیدر آباد دکن) بلا تاویل عمل کرنا چاہتا ہے وہ ضرور اس کے خلاف ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر یعنی جب ان کا غلام باوجود ہدایت و ترغیب کے اسلام نہ لایا تو فرمایا کہ لا اکراہ فی الدین۔

اشاعت اسلام کے یہ معنی ہیں کہ تمام دنیا کو اسلام کی دعوت دی جائے اور لوگوں کو اسلام کے اصول اور مسائل سمجھا کر اسلام کی طرف راغب کیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس ملک پر فوجیں بھیجتے تھے تاکید کرتے تھے کہ پہلے ان لوگوں کو اسلام کی ترغیب دلائی جائے اور اسلام کے اصول و عقائد سمجھائے جائیں۔ چنانچہ فاتح ایران سعد بن وقاص کو جا خط لکھا اس میں یہ الفاظ تھے۔ وقد کنت امرتک ان تدعوا من لقیتہ الی الاسلام قبل القتال۔ قاضی ابو یوست صاحب نے لکھا ہے کہ "حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ جب ان کے پاس کوئی فوج مہیا ہوتی تو ان پر ایسا افسر مقرر کرتے تھے جو صاحب علم اور صاحب فقہ ہوتا۔ ” یہ ظاہر ہے کہ فوجی افسروں کے لئے علم و فقہ کی ضرورت اسی تبلیغ اسلام کی ضرورت سے تھی۔ شام و عراق کی فتوحات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ ایرانیوں اور عیسائیوں کے پاس جو اسلامی سفارتیں گئیں انہوں نے کس خوبی اور صفائی سے اسلام کے اصول و عقائد ان کے سامنے بیان کئے۔

اشاعت اسلام کی بڑی تدبیر یہ ہے کہ غیر قوموں کو اسلام کا جو نمونہ دکھلایا جائے وہ ایسا ہو کہ خود بخود لوگوں کے دل اسلام کی طرف کھینچ آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں نہایت کثرت سے اسلام پھیلا اور اس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ انہوں نے اپنی تربیت اور ارشاد سے تمام مسلمانوں کو اسلام کا اصلی نمونہ بنا دیا تھا۔ اسلامی فوجیں جس ملک میں جاتی تھیں۔ لوگوں کو خواہ مخواہ ان کے دیکھنے کا شوق پیدا ہوتا تھا۔ کیونکہ چند بادیہ نشینوں کا دنیا کی تسخیر کو اٹھنا حیرت اور استعجاب سے خالی نہ تھا۔ اس طرح جب لوگوں کو ان سے ملنے جلنے کا اتفاق ہوتا تھا تو ایک ایک مسلمان سچائی اور سادگی اور پاکیزگی جوش اور اخلاص کی تصویر نظر آتا تھا۔ یہ چیزیں خود بخود لوگوں کے دل کو کھینچتی تھیں اور اسلام ان کے دل میں گھر کر جاتا تھا۔ شام کے واقعات میں تم نے پڑھا ہو گا کہ رومیوں کا سفیر جارج ابو عبیدہ کی فوج میں جا کر کس اثر سے متاثر ہوا۔ اور کس طرح دفعتہً قوم اور خاندان سے الگ ہو کر مسلمان ہو گیا۔ شطا جو مصر کی حکومت کا بہت بڑا رئیس تھا، مسلمانوں کے حالات ہی سن کر اسلام کا گرویدہ ہو گیا۔ اور آخر دو ہزار آدمیوں کے ساتھ مسلمان ہو گیا۔ (تاریخ مقریزی صفحہ 226 میں ہے۔ فخرج شطا فی الفین من اصحابہ ولحق بالمسلمین و قد کان قبل ذلک یحب الخیر و یمیل الی ما یسمعہ من سیرۃ اھل الاسلام)۔

اسلامی فتوحات کی بوالعجبی نے بھی اس خیال کو قوت دی، یہ واقعہ کہ چند صحرا نشینوں کے آگے بڑی بڑی قدیم اور پر زور قوموں کا قدم اکھڑتا جاتا ہے۔ خوش اعتقاد قوموں کے دل میں خود بخود خیال پیدا کرتا تھا کہ اس گروہ کے ساتھ تائید آسمانی شامل ہے۔ یزدگرد شہنشاہ فارس نے جب خاقان چین کے پاس استمداد کی غرض سے سفارت بھیجی تو خاقان نے اسلامی فوج کے حالات دریافت کئے اور حالات سن کر یہ کہا کہ ” ایسی قوم سے مقابلہ کرنا بے فائدہ ہے۔

اشاعت اسلام کے اسباب

فارس کے معرکہ میں جب پارسیوں کا ایک مشہور بہادر بھاگ نکلا اور سردار فوج نے اس کو گرفتار کر کے بھاگنے کی سزا دینی چاہی تو اس نے ایک بڑی پتھر کو تیر سے توڑ کر کہا کہ یہ ” تیر بھی جس لوگوں پر اثر نہیں کرتے خدا ان کے ساتھ ہے۔ اور ان سے لڑنا بیکار ہے (طبری واقعات جنگ فارس)۔ ابو رجاء فارسی کے دادا کا بیان ہے کہ قادسیہ کی لڑائی میں میں حاضر تھا اور اس وقت تک میں مجوسی تھا۔ عرب نے جب تیر اندازی شروع کی تو ہم نے تیروں کو دیکھ کر کہا کہ ” تکلے ہیں۔ ” لیکن ان ہی تکلوں نے ہماری سلطنت برباد کر دی۔ ” مصر پر جب حملہ ہوا تو اسکندریہ کے بشپ نے قبطیوں کو لکھا کہ ” رومیوں کی سلطنت ختم ہو چکی ہے۔ اب تم مسلمانوں سے مل جاؤ۔ ” (مقریزی جلد اول صفحہ 280)۔

ان باتوں کے ساتھ کچھ اور اسباب بھی اسلام کے پھیلنے کا سبب ہوئے۔ عرب کے قبائل جو عراق اور شام میں آباد تھے اور عیسائی ہو گئے تھے فطرۃً جس قدر ان کا میلان ایک نبی عربی کی طرف ہو سکتا تھا غیر قوم کی طرف نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ جس قدر زمانہ گزرتا گیا وہ اسلام کے حلقے میں آتے گئے۔ یہی بات ہے کہ اس عہد کے نومسلم جس قدر عرب تھے اور قومیں نہ تھیں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ بعض بڑے بڑے پیشوائے مذہبی مسلمان ہو گئے تھے۔ مثلاً دمشق جب فتح ہوا تو وہاں کا بشپ جس کا نام اردکون تھا حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لایا (معجم البلدان ذکر قطرۃ سنان)۔ ایک پیشوائے مذہب کے مسلمان ہونے سے اس کے پیروؤں کو خواہ مخواہ اسلام کی طرف رغبت ہوئی ہو گی۔

ان مختلف اسباب سے نہایت کثرت کے ساتھ لوگ ایمان لائے۔ افسوس ہے کہ ہمارے مؤرخین نے کسی موقع پر اس واقعہ کو مستقل عنوان سے نہیں لکھا۔ اس کی وجہ سے ہم تعداد کا اندازہ نہیں بتا سکتے۔ تاہم ضمنی تذکروں سے کسی قدر پتہ لگ سکتا ہے چنانچہ ہم ان کو اس موقع پر بیان کرتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو لوگ اسلام لائے

16 ہجری کے اخیر میں جب جلولا فتح ہوا تو بڑے بڑے رؤسا اور نواب اپنی خوشی سے مسلمان ہو گئے۔ ان میں سے جو زیادہ صاحب اختیار اور نامور تھے ، ان کے یہ نام ہیں : جمیل بن بصبیری، بسطام بن نرسی، رفیل (فتوح البلدان صفحہ 665)، فیروز، ان رئیسوں کے مسلمان ہو جانے سے ان کی رعایا میں خود بخود اسلام کو شیوع ہوا۔

قادسیہ کے معرکے کے بعد چار ہزار ویلم کی فوج جو خسرو پرویز کی تربیت یافتہ تھی اور امپیریل گارڈ (شاہی رسالہ) کہلاتی تھی، کل کی کل مسلمان ہو گئی (فتوح البلدان صفحہ 280)۔

یزدگرد کے مقدمۃ الجیش کا افسر ایک مشہور بہادر تھا جس کا نام سیاہ تھا۔ یزدگرد جب اصفہان کو روانہ ہوا تو اس نے سیاہ کو بلا کر تین سو بڑے بڑے رئیس اور پہلوان ساتھ کئے اور اصطخر کو روانہ کیا۔ یہ بھی حکم دیا کہ راہ میں ہر شہر سے عمدہ سپاہی انتخاب کر کے ساتھ لیتا جائے۔ اسلامی فوجیں جب تستر پہنچیں تو سیاہ اپنے سرداروں کے ساتھ ان اطراف میں مقیم تھا۔ ایک دن اس نے تمام ہمراہیوں کو جمع کر کے کہا کہ ہم لوگ جو پہلے کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ (عرب) ہمارے ملک پر غالب آ جائیں گے۔ اس کی روز بروز تصدیق ہوتی جاتی ہے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ ہم لوگ اسلام قبول کر لیں۔ چنانچہ اسی وقت سب کے سب مسلمان ہو گئے۔ یہ لوگ اسادرۃ کہلاتے تھے۔ کوفہ میں ان کے نام سے نہر اسادرہ مشہور ہے۔ ان کے اسلام لانے پر سیابجہ، زط، اندغار بھی مسلمان ہو گئے۔ تینوں قومیں اصل میں سندھ کی رہنے والی تھیں۔ جو خسروپرویز کے عہد میں گرفتار ہو کر آئی تھیں۔ اور فوج میں داخل کی گئی تھیں۔

مصر میں اسلام کثرت سے پھیلا۔ عمرو بن العاص نے جب مصر کے بعض قصبات کے لوگوں کو اس بنا پر کہ وہ مسلمانوں سے لڑتے تھے ، گرفتار کر کے لونڈی غلام بنایا۔ اور وہ فروخت ہو کر تمام عرب میں پھیل گئے۔ تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بری قدغن کے ساتھ ہر جگہ سے انکو واپس لے کر مصر بھیج دیا اور لکھ بھیجا کہ ان کو اختیار ہے خواہ اسلام لائیں، خواہ اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ چنانچہ ان میں سے قصبہ بلھیب کے رہنے والے کل کے کل اپنی خواہش سے مسلمان ہو گئے۔ دمیاط کی فتح کے بعد جب اسلامی فوجیں آگے بڑھیں تو بقارہ اور ورادۃ سے لیکر عسقلان تک جو شام میں داخل ہے ، ہر جگہ اسلام پھیل گیا۔ (مقریزی صفحہ 184 میں ہے ) ولما فتح المسلمون الفرس بعد ما افتحوا دمیاط و تنیس ساروا الی بقارۃ فاسلم من بھاو ساروا منھا الی الوردۃ فدخل اھلھا فی الاسلام و صاحولھا الی عسقلان)۔

شطا مصر کا ایک مشہور شہر ہے جہاں کے کپڑے مشہور ہیں۔ یہاں کا رئیس مسلمانوں کے حالات سن کر پہلے ہی اسلام کی طرف مائل تھا۔ چنانچہ جب اسلامی فوجیں دمیاط میں پہنچیں تو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ شطا سے نکل کر مسلمانوں سے آ ملا۔ اور مسلمان ہو گیا۔ (مقریزی جلد اول)۔

فسطاط جس کو عمرو بن العاص نے آباد کیا تھا اور جس کی جگہ اب قاہرہ دارالسلطنت ہے یہاں تین بڑے بڑے محلے تھے جہاں زیادہ تر نومسلم آباد کرائے گئے۔ ایک محلہ بنو نبہ کے نام سے آباد تھا جو ایک یونانی خاندان تھا، مسلمان ہو گیا تھا۔ اور مصر کے معرکے میں اس خاندان کے سو آدمی اسلامی فوج کے ساتھ شامل تھے۔

دوسرا محلہ بنو الارزق کے نام پر تھا یہ بھی ایک یونانی خاندان تھا اور اس قدر کثیر النسل تھا کہ مصر کی جنگ میں اس خاندان کے 400 بہادر شریک تھے۔

تیسرا محلہ ربیل کے نام سے آباد تھا۔ یہ لوگ پہلے یرموک و قیساریہ میں سکونت رکھتے تھے۔ پھر مسلمان ہو کر عمرو بن العاص کے ساتھ مصر چلے آئے تھے۔ یہ ایک بہت بڑا یہودی خاندان تھا۔ مصر کی فتح میں ہزار آدمی اس خاندان کے شامل تھے۔ (اس کے متعلق پوری تفصیل مقریزی صفحہ 298 جلد اول میں ہے )۔

فسطاط میں ایک اور محلہ تھا جہاں صرف نو مسلم مجوسی آباد کرائے گئے تھے۔ چنانچہ یہ محلہ انہی کے نام پر پارسیوں کا محلہ کہلاتا تھا۔ یہ لوگ اصل میں باذان کی فوج کے آدمی تھے جو نوشیرواں کی طرف سے یمن کا عامل تھا جب اسلام کا قدم شام میں پہنچا تو یہ لوگ مسلمان ہو گئے اور عمرو بن العاص کے ساتھ مصر ائے۔ اسی طرح اور جستہ جستہ مقامات سے پتہ چلتا ہے کہ ہر جگہ کثرت سے اسلام پھیل گیا تھا۔ مؤرخ بلاذری نے بالس کے ذکر میں لکھا ہے کہ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہاں وہ عرب آباد کرائے جو شام میں سکونت رکھتے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ (بلاذری صفحہ 150)۔ مؤرخ ازدی جنگ یرموک کے حالات میں لکھتا ہے کہ جب رومیوں کی فوجیں یرموک میں اتریں تو وہ لوگ جاسوس بنا کر بھیجے جاتے تھے جو وہیں کے رہنے والے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے۔ ان لوگوں کو تاکید تھی کہ اپنا اسلام ظاہر نہ کریں تا کہ رومی ان سے بدگمان نہ ہونے پائیں۔ مؤرخ نے سن 14 ہجری کے واقعات میں لکھا ہے کہ اس لڑائی میں بہت سے اہل عجم نے مسلمانوں کو مدد دی جن میں سے کچھ لڑائی سے پہلے ہی مسلمان ہو گئے تھے اور کچھ لڑائی کے بعد اسلام لائے۔ ان واقعات سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مبارک عہد میں اسلام کثرت سے پھیلا اور تلوار سے نہیں بلکہ اپنے فیض و برکت سے پھیلا۔ اشاعت اسلام کے بعد اصول مذہب، اعمال مذہبی کی ترویج یعنی جن چیزوں پر اسلام کا دارومدار ہے ان کا محفوظ رکھنا اور ان کی اشاعت اور ترویج کرنا۔ اس سلسلے میں سب سے مقدم قرآن مجید کی حفاظت اور اس کی تعلیم و ترویج تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق جو کوششیں کیں ان کی نسبت شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت صحیح لکھا کہ ” امروز ہر کہ قرآن میخواند از طوائف مسلمین، منت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ در گردن اوست۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کی جمع و ترتیب میں جو کوششیں کیں

یہ مسلم ہے کہ اسلام کی اصل قرآن مجید ہے اور اس سے انکار بھی نہیں ہو سکتا کہ قرآن مجید کا جمع کرنا، ترتیب دینا، صحیح نسخہ لکھوا کر محفوظ کرنا، تمام ممالک میں اس کا رواج دینا، جو کچھ ہوا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہتمام اور توجہ سے ہوا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد تک قرآن مجید مرتب نہیں ہوا تھا۔ متفرق اجزاء متعدد صحابہ کے پاس تھے وہ بھی کچھ ہڈیوں پر، کچھ کھجور کے پتوں پر، کچھ پتھر کی تختیوں پر لکھا ہوا اور لوگوں کو پورا حفظ یاد بھی نہ تھا۔ کسی کو کوئی سورت یاد تھی کسی کو کوئی۔ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں جب مسیلمہ کذاب سے لڑائی ہوئی تو سینکڑوں صحابہ شہید ہوئے جن میں بہت سے حفاظِ قرآن بھی تھے۔ لڑائی کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جا کر کہا کہ اگر اسی طرح حفاظِ قرآن اٹھتے گئے تو قرآن جاتا رہے گا۔ اس لئے ابھی سے اس کی جمع و ترتیب کی فکر کرنی چاہیے۔

حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو کام رسول اللہ نے نہیں کیا تو میں کیوں کروں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بار بار اس کی مصلحت اور ضرورت بیان کی۔ یہاں تک کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی رائے سے متفق ہو گے۔ صحابہ میں سے وحی لکھنے کا کام سب سے زیادہ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔ چنانچہ وہ طلب کئے گئے اور اس خدمت پر مامور ہوئے کہ جہاں جہاں سے قرآن کی سورتیں یا آیتیں ہاتھ آئیں یکجا کی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع عام میں اعلان کیا کہ جس نے قرآن کا کوئی حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سیکھا ہو میرے پاس لے کر آئے۔ اس بات کا التزام کیا گیا کہ جو شخص کوئی آیت پیش کرتا تھا اس پر دو شخصوں کی شہادت لی جاتی تھی کہ ہم نے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں قلمبند کرتے دیکھا تھا۔ غرض اس طرح جب تمام سورتیں جمع ہو گئیں تو چند آدمی مامور ہوئے کہ ان کی نگرانی میں پورا قرآن ایک مجموعہ کی صورت میں لکھا جائے۔

سعید بن العاص بتاتے جاتے تھے اور زید بن ثابت لکھتے جاتے تھے مگر ان لوگوں کو حکم تھا کہ کسی لفظ کے تلفظ و لہجہ میں اختلاف پیدا ہو تو قبیلہ مضر کے لہجہ کے مطابق لکھا جائے کیونکہ قرآن مجید، مضر ہی کی خاص زبان میں اترا ہے۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 279 اور نقان 12)،

قرآن مجید کی حفاظت اور صحتِ الفاظ و اعراب کی تدبیریں

اس وقت قرآن مجید کی حفاظت اور صحت کے لیے چند امور نہایت ضروری تھے۔ اول یہ کہ نہایت وسعت کے ساتھ اس کی تعلیم شروع کی جائے اور سینکڑوں ہزاروں آدمی حافظ قرآن بنا دیئے جائیں تا کہ تحریف و تغیر کا احتمال نہ رہے۔ دوسرے یہ کہ اعراب اور الفاظ کی صحت نہایت اہتمام کیساتھ محفوظ رکھی جائے۔ تیسرے یہ کہ قرآن مجید کی بہت سی نقلیں ہو کر ملک میں شائع کی جائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تینوں امور کو اس کمال کے ساتھ انجام دیا کہ اس سے بڑھ کر ممکن نہ تھا۔

قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام

تمام ممالک مفتوحہ میں ہر جگہ قرآن مجید کا درس جاری کیا۔ اور معلم و قاری مقرر کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اولیات میں شمار کیا جاتا ہے کہ انہوں نے معلموں کی تنخواہیں مقرر کیں۔ (سیرۃ العمر لابن الجوزی میں ہے ان عمر بن الخطاب و عثمان بن العفان کان یرزقان المودین والائمہ والمعلمین)۔ تنخواہیں اس وقت کے حالات کے لحاظ سے کم نہ تھیں۔

مکاتب قرآن

مثلاً خاص مدینہ منورہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لئے جو مکتب تھے ان کے معلموں کی تنخواہیں پندرہ پندرہ درہم ماہوار تھیں۔

بدوؤں کو جبری تعلیم

خانہ بدوش بدوؤں کے لیے قرآن مجید کی تعلیم جبری طور پر لازم کی۔ چنانچہ ایک شخص کو جس کا نام ابو سفیان تھا، چند آدمیوں کے ساتھ مامور کیا کہ قبائل میں پھر پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآن مجید کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اس کو سزا دے۔ (آغاتی جزو 16 صفحہ 58۔ اصابہ فی احوال الصحابہ میں بھی یہ واقعہ منقول ہے )۔

کتاب کی تعلیم

مکاتب میں لکھنا بھی سکھایا جاتا تھا۔ عام تور پر تمام اضلاع میں احکام بھیج دیئے تھے کہ بچوں کو شہسواری اور کتابت کی تعلیم دی جائے۔ ابو عامر جو رواۃ حدیث میں ہیں، ان کی زبان روایت ہے کہ میں بچپن میں گرفتار ہو کر مدینہ میں آیا۔ یہاں مجھ کو مکتب میں بٹھایا گیا۔ معلم مجھ سے جب میم لکھواتا تھا اور میں اچھی طرح نہیں لکھ سکتا تھا تو کہتا تھا گول لکھو جس طرح گائے کی آنکھیں ہوتی ہیں۔ (معجم البلدان لغت حاضر، منجم میں اس روایت کو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کی نسبت لکھا لیکن خود صاحب معجم نے اس پر اعتراض کیا ہے کہ اس وقت تک یہ مقامات فتح نہیں ہوئے تھے )۔

قراء صحابہ کا تعلیم قرآن کے لئے دور دراز مقامات پر بھیجنا

صحابہ میں سے 5 بزرگ تھے جنہوں نے قرآن مجید کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہی کے زمانے میں پورا حفظ کر لیا تھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ ان میں خاص کر ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سید القراء تھے اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس باب میں ان کی مدح کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سب کو بلا کر کہا کہ شام کے مسلمانوں کو ضرورت ہے کہ آپ لوگ جا کر قرآن کی تعلیم دیجیئے۔ ابو ایوب ضعیف اور ابی بن کعب بیمار تھے اس لئے نہ جا سکے۔ باقی تین صاحبوں نے خوشی سے منظور کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہدایت کی کہ حمص کو جائیں۔ وہاں کچھ دنوں قیام کر کے جب تعلیم پھیل جائے تو ایک شخص کو وہیں چھوڑ دیں، باقی دو صحابیوں میں سے ایک دمشق اور ایک صاحب فلسطین جائیں۔ چنانچہ یہ سب لوگ پہلے حمص گئے۔ وہاں جب اچھی طرح بندوبست ہو گیا تو عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہیں قیام کیا۔ اور ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ دمشق اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فلسطین کو روانہ ہوئے۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے طاعون عمواس میں وفات پائی۔ (یہ تمام تفصیل کنز العمال جلد اول صفحہ 281 میں ہے اور اصل روایت طبقات ابن سعد کی ہے )۔ لیکن ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت تک زندہ اور دمشق میں مقیم رہے۔

تعلیم قرآن کا طریقہ

ابو درداء کی تعلیم کا طریقہ جیسا کہ علامہ ذہبی نے طبقات القراء میں لکھا ہے ، یہ تھا کہ صبح کی نماز پڑھ کر جامع مسجد میں بیٹھ جاتے تھے۔ گرد قرآن پڑھنے والوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ دس آدمیوں کی الگ الگ جماعت کر دیتے تھے اور ہر جماعت پر ایک قاری کو مقرر کرتے تھے۔ کہ ان کو قرآن پڑھائے۔ خود ٹہلتے جاتے تھے اور پڑھنے والوں پر کان لگائے رہتے تھے۔ جب کوئی طالب علم پورا قرآن یاد کر لیتا تھا تو ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اس کو اپنی شاگردی میں لے لیتے تھے۔

دمشق کی مسجد میں طلبہ قرآن کی تعداد

ایک دن ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شمار کرایا تو سولہ سو طالب علم ان کے حلقہ درس میں موجود تھے۔

اشاعت قرآن کے وسائل

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کی زیادہ اشاعت کے لئے ان تدبیروں کے ساتھ اور بہت سے وسائل اختیار کئے۔ ضروری سورتوں یعنی بقرہ، نساء، مائدہ اور نور کی نسبت یہ حکم دیا کہ سب لوگ اس قدر قرآن ضرور سیکھیں کیونکہ ان میں احکام و فرائض مذکور ہیں (کنز العمال جلد اول صفحہ 224)۔ عمال کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ قرآن سیکھیں ان کی تنخواہیں مقرر کر دی جائیں۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 217)۔ (بعد میں جب ضرورت نہ رہی تھی تو یہ حکم منسوغ کر دیا)۔ اہل فوج کو جو ضروری ہدایتیں لکھ کر بھیجا کرتے تھے ان میں یہ بھی ہوتا تھا کہ قرآن مجید پڑھنا سیکھیں۔ وقتاً فوقتاً قرآن خوانوں کا رجسٹر منگواتے رہتے تھے۔ ان تدبیروں کا یہ نتیجہ ہوا کہ بیشمار آدمی پڑھ گئے۔

حافظوں کی تعداد

ناظرہ خوانوں کا شمار تو نہ تھا۔ لیکن حافظوں کی تعداد سینکڑوں ہزاروں تک پہنچ گئی۔ فوجی افسروں کو جب اس مضمون کا خط لکھا کہ حفاظان قرآن کو میرے پاس بھیج دو تا کہ میں ان کو قرآن کی تعلیم کے لیے جا بجا بھیجو، تو سعد وقاص نے جواب میں لکھا کہ صرف میری فوج میں تین سو حفاظ موجود ہیں۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 28)

صحت اعراب کی تدبیریں

تیسرا امر یعنی صحتِ اعراب و صحت تلفظ، اس کے لیے بھی نہایت اہتمام کیا۔ اور درحقیقت یہ سب سے مقدم تھا۔ قرآن مجید جب مرتب و مدون ہوا تھا تو اعراب کے ساتھ نہیں ہوا تھا۔ اس لئے قرآن مجید کا شائع ہونا کچھ زیادہ مفید نہ تھا۔ اگر صحت اعراب و تلفظ کا اہتمام نہ کیا جاتا تو اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے لئے مختلف تدبیریں اختیار کیں۔ سب سے اول یہ کہ ہر جگہ تاکیدی احکام بھیجے کہ قرآن مجید کے ساتھ صحت الفاظ و صحت اعراب کی بھی تعلیم دی جائے۔ ان کے خاص الفاظ حسب روایت ابن الابناری یہ ہیں ” تعلموا اعراب القران کما تعلمون حفظہ” اور مسند دارمی میں یہ الفاظ ہیں ” تعلمون الفرائض واللحن والسنن کما تعلمون القرآن”۔

ادب اور عربیت کی تعلیم

دوسرے یہ کہ قرآن کی تعلیم کے ساتھ ادب اور عربیت کی تعلیم بھی لازمی کر دی تا کہ خود لوگ اعراب کی صحت و غلطی کی تمیز کر سکیں۔ تیسرے یہ حکم دیا کہ کوئی شخص جو لغت کا عالم نہ ہو قرآن نہ پڑھانے پائے۔ (کنز العمال جلد اول صفحہ 28۔ قرآن مجید کے بعد حدیث کا درجہ آتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ حدیث کی ترویج میں نہایت کوشش کی۔ لیکن احتیاط کو ملحوظ رکھا اور یہ ان کی دقیقہ سنجی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ وہ بجز مخصوص صحابہ کے عام لوگوں کو روایت حدیث کی اجازت نہیں دیتے تھے۔

حدیث کی تعلیم

شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں، ” چنانچہ فاروق اعظم رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ رابا جمعے بکوفہ فرستادو معقل بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عبد اللہ بن مغفل و عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، رلبہ بصرہ و عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ – رابشام و بہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ از حدیث ایشان تجاوز نہ کند” (ازالۃ الخفاء صفحہ 6 – موطا امام محمد صفحہ 227)۔ حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے روایت حدیث کے متعلق جو اصول قائم کئے تھے وہ ان کی نکتہ سنجی کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ ان کے ذاتی حالات میں ان کے فضل و کمال کا جہاں ذکر آئے گا ہم اس کے متعلق نہایت تفصیل سے کام لیں گے۔

فقہ

حدیث کے بعد فقہ کا رتبہ ہے اور چونکہ مسائل فقہیہ سے ہر شخص کو ہر روز کام پڑتا ہے ، اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اس قدر اشاعت دی کہ آج باوجود بہت سے نئے وسائل پیدا ہو جانے کے یہ نشر و اشاعت ممکن نہیں۔ مسائل فقہیہ کی ترویج کے لیے یہ تدبیریں اختیار کیں۔

 

مسائل فقہ کی اشاعت

جہاں تک وقت و فرصت مساعدت کر سکتی تھی خود بالمشافہ احکام مذہبی کی تعلیم کرتے تھے۔ جمعہ کے دن جو خطبہ پڑھتے تھے اس میں تمام ضروری احکام اور مسائل بیان کرتے تھے۔ حج کے خطبے میں حج کے مناسک اور احکام بیان فرماتے تھے۔ موطاء امام محمد میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرفات میں خطبہ پڑھا اور حج کے تمام مسائل تعلیم کئے۔ اسی طرح شام و بیت المقدس وغیرہ کے سفر میں وقتاً فوقتاً جو مشہور اور پر اثر خطبے پڑھے ان میں اسلام کے تمام مہمات اصول اور ارکان بیان کئے اور چونکہ ان موقعوں پر بے انتہا مجمع ہوتا تھا اس لئے ان مسائل کا اس قدر اعلان ہو جاتا تھا کہ کسی اور تدبیر سے ممکن نہ تھا۔ دمشق میں بمقام جلبیہ جو مشہور خطبہ پڑھا، فقہا نے اس کو بہت سے مسائل فقہیہ کے حوالے سے جا بجا نقل کیا ہے۔

وقتاً فوقتاً عمال اور افسروں کو مذہبی احکام اور مسائل لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔ مثلاً نماز پنجگانہ کے اوقات کے متعلق جس کے تعین میں مجتہدین آج تک مختلف ہیں۔ تمام عمال کو ایک مفصل ہدایت نامہ بھیجا۔ امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب مؤطا میں بعینہ اس کی عبارت نقل کی ہے۔ اسی مسئلہ کے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو تحریر بھیجی اس کو بھی امام مالک نے بالفاظہا نقل کیا ہے۔ وہ نمازوں کے جمع کرنے کی نسبت تمام ممالک مفتوحہ میں تحریری اطلاع بھیجی کہ جائز ہے (موطا امام محمد صفحہ 129)۔

سن 14 ہجری میں جب نماز تراویح جماعت کے ساتھ قائم کی، تمام اضلاع کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ اس کے مطابق عمل کیا جائے۔ زکوٰۃ کے متعلق تمام احکام مفصل لکھ کر ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر افسران ملک کے پاس بھیجے۔ اس تحریر کا عنوان جیسا شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل کیا ہے یہ تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ ھذا کتاب الصدقہ الغ قضا اور شہادت کے متعلق ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو تحریر بھیجی تھی اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ مہمات مسائل کے علاوہ فقہ کے مسائل جزیہ بھی عمال کو لکھ لکھ کر بھیجا کرتے تھے۔

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دفعہ ایک خط لکھا کہ میں نے سنا ہے کہ مسلمان عورتیں حماموں میں جا کر عیسائی عورتوں کے سامنے بے پردہ نہاتی ہیں۔ لیکن مسلمان عورت کو کسی غیر مذہب والی عورت کے سامنے بے پردہ ہونا جائز نہیں۔ روزہ کے متعلق تمام عمال کو تحریری حکم بھیجا کہ لا تکونوا من المسرفین لفطر کم۔ زید وہب کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان ہم لوگوں کے پاس آیا کہ ان المراۃ لا تصوم تطوعا الا باذن زوجھا۔ ابو وائل کی روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم لوگوں کو لکھا کہ ان لا ھلۃ بعضھا اکبر من بعض۔ اسی طرح کی اور بہت سے بے شمار مثالیں ہیں۔

مسائل فقہیہ میں اجماع

یہ بات بھی لحاظ کے قابل ہے کہ جو فقہی احکام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرامین کے ذریعہ شائع کرتے تھے ، چونکہ شاہی دستور العمل کی حیثیت رکھتے تھے ، اس لئے یہ احتیاط ہمیشہ ملحوظ رہتی تھی کہ وہ مسائل اجماعی اور متفق علیہ ہوں۔ چنانچہ بہت سے مسائل جن میں صحابہ کا اختلاف تھا ان کو مجمع صحابہ میں پیش کر کے پہلے طے کرا لیا۔ مثلاً چور کی سزا جس کی نسبت قاضی ابو یوسف کتاب الخراج میں لکھتے ہیں۔ ان عمر استشار فی السارق فاجمعوا الخ (کتاب مذکور صفحہ 106)، غسل جنابت کی نسبت جب اختلاف ہوا تو تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کیا اور یہ مسئلہ پیش کر کے سب سے رائے طلب کی۔ لوگوں نے مختلف رائے دیں۔ اس وقت فرمایا انتم اصحاب بدر وقدا خلفتم فمن بعد کم اشد اختلافاً۔ یعنی جب آپ لوگ اصحاب بدر میں ہو کر آپس میں مختلف الرائے ہیں تو آئندہ آنے والی نسلوں میں اور سخت اختلاف ہو گا۔ چنانچہ ازواج مطہرات سے یہ مسئلہ دریافت کیا گیا۔ اور ان کی رائے قطعی پا کر شائع کی گئی۔ (ازالۃ الخفاء صفحہ 88)۔

جنازہ کی تکبیر میں نہایت اختلاف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کو جمع کیا اور متفق بات طے ہو گئی یعنی چار تکبیر پر اتفاق ہو گیا۔

مسائل فقہیہ میں اجماع

اضلاع کے عمال اور افسر جو مقرر کرتے تھے ان کی یہ حیثیت بھی ملحوظ رکھتے تھے کہ عالم اور فقہیہ ہوں، چنانچہ بہت سے مختلف موقعوں پر اس کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

ایک دفعہ مجمع عام میں خطبہ دیا، جس میں یہ الفاظ تھے۔ الی اشھد کم علی امر الا مصار الی لم ابعثھم الا لیفقھوا الناس فی دینھم یعنی تم لوگوں کو گواہ کرتا ہوں کہ میں نے افسروں کو اس لیے بھیجا ہے کہ لوگوں کو مسائل اور احکام بتائیں، یہ التزام ملکی افسروں تک محدود نہ تھا بلکہ فوجی افسروں میں بھی اس کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ قاضی ابو یوسف لکھتے ہیں ان عمر بن الخطاب کان اذا جعمع الیہ جیش من اھل الایمان بعث علیھم رجلاً من اھل الفقہ والعلم۔ (کتاب الخراج صفحہ 67)۔ یہی نکتہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد کے فوجی اور ملکی افسروں میں ہم حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ کا نام پاتے ہیں جو ملکی اور فوجی قابلیت کے ساتھ علم و فضل میں بھی ممتاز تھے۔ اور حدیث و فقہ میں اکثر ان کا نام آتا ہے۔ تمام ممالک محروسہ میں فقہا اور معلم متعین کئے کہ لوگوں کو مذہبی احکام کی تعلیم دیں، مؤرخین نے اگرچہ اس امر کو کسی خاص عنوان کے تحت نہیں لکھا اور اس وجہ سے ان معلموں کی صحیح تعداد معلوم نہیں ہو سکتی۔

فقہ کی تعلم کا انتظام

تاہم جستہ جستہ تصریحات سے اندازہ ہو سکتا ہے ہر شہر میں متعدد فقہاٗ اس کام پر مامور تھے۔ مثلاً عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں صاحب اسد الغابہ نے لکھا ہے کہ ” یہ منجملہ ان دس بزرگوں کے ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ بھیجا تھا کہ فقہ کی تعلیم دیں۔ (اصل عبارت یہ ہے کان احد العشرۃ الذین بعثھم عمر الی البصرۃ یفقھون الناس 14)۔ عمران بن الحصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بہت بڑے رتبہ کے صحابی تھے ، ان کی نسبت علامہ ذہبی طبقات الحفاظ میں لکھتے ہیں۔

و کان ممن بعثھم عمر بن الخطاب الی احل البصرۃ لیفقھھم یعنی ان لوگوں میں ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بصرہ میں فقہ کی تعلیم کے لیے شام بھیجا تھا۔ عبد الرحمنٰ بن غنم رضی اللہ تعالیٰ کے حال میں "طبقات الحفاظ” میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو تعلیم فقہ کے لیے شام بھیجا تھا اور صاحب اسد الغابہ نے انہی کے حالات میں لکھا ہے "یہی وہ شخص ہیں کہ جنہوں نے شام میں تابعین کو فقہ سکھائی۔ عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں لکھا ہے کہ جب شام فتح ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اور معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو درداء کو شام میں بھیجا تا کہ لوگوں کو قرآن پڑھائیں اور فقہ سکھائیں۔ جلال الدین سیوطی نے حسن المحاضرہ فی اخبار المصر والقاہرہ میں حسان بن ابی جبلۃ کی نسبت لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو مصر میں فقہ کی تعلیم پر مامور کیا تھا۔ ان فقہا کے درس کا طریقہ یہ تھا کہ مساجد کے صحن میں ایک طرف بیٹھ جاتے تھے۔ اور شائقین نہایت کثرت سے ان کے گرد حلقے کی صورت میں جمع ہو کر فقہی مسائل پوچھتے جاتے تھے۔ اور وہ جواب دیتے جاتے تھے۔ ابو مسلم خولانی کا بیان ہے کہ میں حمص کی مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ 30 بڑے بڑے صحابہ وہاں تشریف رکھتے تھے۔ اور مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ لیکن جب ان کو کسی مسئلہ میں شک پڑتا تو ایک نوجوان شخص کی طرف رجوع کرتے تھے۔ میں نے لوگوں سے اس نوجوان کا نام پوچھا تو پتہ چلا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ لیث بن سعد کا بیان ہے کہ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسجد میں آتے تھے تو ان کے ساتھ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوتا تھا جیسے بادشاہ کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ سب لوگ ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔ (تذکرہ الحفاظ ترجمتہ معاذ بن جبل 12)۔

فقہا کی تنخواہیں

ابن جوزی کی تصریح سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان فقہاء کی تنخواہیں بھی مقرر کی تھیں۔ اور درحقیقت تعلیم کا مرتب اور منظم سلسلہ بغیر اس کے قائم نہیں ہو سکتا تھا۔

معلمین فقہ کی رفعت شان

یہ بات خاص طور پر ذکر کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن لوگوں کو تعلیم فقہ کے لیے انتخاب کیا تھا، مثلاً معاذ بن جبل، ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبادہ بن الصامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد الرحمنٰ بن غنم، عمران بن حصین اور عبد اللہ بن مغفل تمام جماعت اسلام میں منتخب تھے۔ اس کی تصدیق کے لئے اسد الغابہ اور اصابہ وغیرہ میں ان لوگوں کے حالات دیکھنے چاہییں۔ (تذکرۃ الحفاظ کراچی درداء)۔

ہر شخص فقہ کی تعلیم کا مجاز نہ تھا

ایک بات اور بھی لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کی بڑی احتیاط کی کہ ہر شخص فقہ کے مسائل بیان کرنے کا مجاز نہ ہو۔ مسائل بھی خاص کر وہ تعلیم دیئے جاتے تھے جن پر صحابہ کا اتفاق رائے ہو چکا تھا۔ یا جو مجمع صحابہ میں پیش ہو کر طے کر لئے جاتے تھے۔ چنانچہ اس کی پوری تفصیل شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت خوبی سے لکھی ہے۔ ہم اس کے جستہ جستہ فقرے جو ہمارے بحث سے متعلق ہیں، اس مقام پر نقل کرتے ہیں۔

معہذ ابعد عزم خلفہ بر چیزے مجال مخالفت نبود، در جمیع ایں امور شذرد نزر نمیر قنذ و بدون استطلاع رائے خلیفہ کارے را مصمم نمی ساختند لہذا دریں عصر اختلاف مذہب و تشت آر واقع نشد، ہمہ بریک مذہب متفق، بریک راہ مجتمع۔ چوں ایام خلافت خاصہ بالکلیہ متفرض شد و خلافت عامہ ظہور نمود علماء در ہر بلدے مشغول بافادہ شدند۔ ابن عباس در مکہ فتوی می و ہدو عائشہ صدیقہ و عبد اللہ بن عمر در مدینہ حدیث را روایت می نمائند و ابو ہریرہ او قات خود رابر اکشار، روایت حدیث مصروف مے سازو۔ بالجملہ دریں ایام اختلاف فتاوی پیدا شد یکے را بر رائے دیگر اطلاع نہ اگر اطلاع شدہ مذاکرہ واقع نہ واگر مذاکرہ بمیان آمد ازا ملت شبہ و خروج از مضیق اختلاف بفضائے اتفاق میسر نہ، اگر تتبع کنی روایت علمائے صحابہ کہ پیش از انقراض خلافت خاصہ از عالم گزشتہ اند بغایت کم یابی۔ و جمعے کہ اور ایام خلافت زندہ اند ہرچہ روایت کردہ اند۔ بعد ایام خلافت خاصہ رویت کردہ اند ہر چند جمیع صحابہ عدول اند و روایت ایشاں مقبول و عمل بموجب آنچہ بروایت صدق ایشان ثابت شود لازم امادرمیان آنچہ حدیث و فقہ ودرزمن فاروق اعظم بوود آنچہ بعد وے حادث شدہ فرق مابین السموت والارض ست۔ (ازالۃ الخفاء جلد دوم صفحہ 140)۔

عملی انتظام

یہ تمام امور جن کا اوپر ذکر ہوا علمی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ عملی صیغے پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت توجہ کی۔ اور ہر قسم کے ضروری انتظامات قائم کئے۔

اماموں اور مؤذنوں کا تقرر

ہر شہر و قصبہ میں امام و مؤذن مقرر کئے اور بیت المال سے ان کی تنخواہیں مقرر کیں۔ علامہ ابن الجوزی سیرۃ العمر میں لکھتے ہیں۔ ان عمر بن الخطاب و عثمان بن عفان کان یرزقان المؤزنین والائمہ۔ موطا امام محمد سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد نبوی میں صفوں کے درست کرنے کے لیے خاص اشخاص مقرر تھے۔ (موطا امام محمد صفحہ 286)۔ حج کے زمانے میں اس کام پر لوگ مامور ہوتے تھے کہ حاجیوں کو مقام منی میں پہنچا کر آئیں۔ (موطا امام مالک صفحہ 140)۔ یہ اس غرض سے کہ اکثر لوگ ناواقفیت سے عقبہ کے اسی طرف ٹھہر جاتے تھے حالانکہ وہاں ٹھہرنا مناسک حج میں محسوب نہ تھا۔

حاجیوں کی قافلہ سالاری

چونکہ عہد خلافت میں متصل 10 حج کئے اس لئے امیر حجاج ہمیشہ خود ہوتے تھے اور حجاج کی خبر گیری کی خدمت خود انجام دیتے تھے۔

مساجد کی تعمیر

تمام ممالک مفتوحہ میں نہایت کثرت سے مسجدیں تعمیر کرائیں۔ (موطا امام محمد صفحہ 229)۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو کوفہ کے حاکم تھے ، لکھا کہ بصرہ میں ایک جامع مسجد اور ہر قبیلہ کے لیے الگ الگ مسجدیں تعمیر کی جائیں۔ سعد وقاص اور عمر بن العاص کو بھی اسی قسم کے احکام بھیجے۔ شام کے تمام عمال کو لکھا کہ ہر شہر میں ایک ایک مسجد تعمیر کی جائے۔ چنانچہ یہ مسجدیں آج بھی جوامع عمری کے نام سے مشہور ہیں۔ گو ان کی اصلی عمارت اب باقی نہیں رہی۔ ایک جامع عمری میں، جو بیروت میں واقع ہے ، راقم کو بھی نماز ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ محدث جمال الدین نے روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں چار ہزار مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ یہ خاص تعداد گو قطعی نہ ہو لیکن کچھ شبہ نہیں کہ مساجد فاروقی کا شمار ہزاروں سے کم نہ تھا۔

حرم محترم کی وسعت

حرم محترم کی عمارت کو وسعت دی اور اس کی زیب و زینت پر توجہ کی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ اسلام کو جو روز افزوں وسعت ہوتی جاتی تھی۔ اس کے لحاظ سے حرم محترم کی عمارت کافی نہ تھی۔ اس لئے سنہ 17 ہجری میں گرد و پیش کے مکانات مول لے کر ڈھا دیئے اور ان کی زمین حرم کے صحن میں شامل کر دی۔ اس زمانے تک حرم کے گرد کوئی دیوار نہ تھی اور اس لئے اس کی حد عام مکانات سے ممتاز نہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احاطہ کی دیوار کھنچوائی اور اس سے یہ کام بھی لیا کہ اس پر رات کو چراغ جلائے جاتے تھے۔ (موطا امام محمد صفحہ 229)۔ کعبہ پر غلاف اگرچہ ہمیشہ سے چڑھایا جاتا تھا۔ چنانچہ جاہلیت میں بھی فطع کا غلاف چڑھاتے تھے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قباطی کا بنوایا جو نہایت عمدہ قسم کا کپڑا ہوتا ہے۔ (الاحکام السلطانیہ للماوردی 154 فتوح البلدان صفحہ 26)۔ اور مصر میں بنایا جاتا ہے ، حرم کی حدود سے (جو کسی طرف سے تین میں اور کسی طرف سے 7 میل اور 9 میل ہیں) چونکہ بہت سے شرعی احکام متعلق ہیں چنانچہ اسی غرض سے ہر طرف پتھر کھڑے کر دیے گئے تھے جو انصاف حرم کہلاتے تھے۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سن 17 ہجری میں نہایت اہتمام اور احتیاط سے اس کی تجدید کی۔ صحابہ میں جو لوگ حدود حرم کے پورے واقف کار تھے یعنی مخزمہ بن نوفل، ازہر بن عبد عوف، جویطیب بن عبد العزی، سعید بن یربوع کو اس کام پر مامور کیا اور نہایت جانچ کے ساتھ پتھر نصب کئے گئے۔

مسجد نبوی کی وسعت اور مرمت

مسجد نبوی کو بھی نہایت وسعت اور رونق دی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں جو عمارت تیار ہوئی تھی وہ اس عہد کے لئے کافی تھی۔ لیکن مدینہ کی آبادی روز بروز ترقی کرتی جاتی تھی۔ اور اس وجہ سے نمازیوں کی تعداد بڑھتی جاتی تھی۔ سنہ 17 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو وسیع کرنا چاہا۔ گرد و پیش کے تمام مکانات قیمت دے کر خرید لئے۔ لیکن حضرت عباس نے اپنے مکان کے بیچنے سے انکار کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کافی معاوضہ دیتے تھے۔ اور حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے۔ آخر مقدمہ ابی بن کعب کے پاس گیا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جبراً خریدنے کا کوئی حق نہیں۔ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اب میں بلا قیمت عامہ مسلمین کے لئے دے دیتا ہوں۔ غرض ازواج مطہرات کے مکانات کو چھوڑ کر باقی جس قدر عمارتیں تھیں گرا کر مسجد کو وسعت دی گئی۔ پہلے طول 100 گز تھا، انہوں نے 140 گز کر دیا۔ اسی طرح عرض میں جس قدر ستون وغیرہ لکڑی کے تھے اسی طرح رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد کی تجدید کے ساتھ ایک گوشہ میں ایک چبوترہ بھی بنوایا۔ اور لوگوں سے کہا کہ جس کو بات چیت کرنی ہو یا شعر پڑھنا ہو اس کے لیے یہ جگہ ہے۔ (خلاصۃ الوفا باخبار دارالمصطفیٰ مطبوعہ مصر صفحہ 132، صفحہ 133)۔

مسجد میں فرش اور روشنی کا انتظام

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے مسجد میں روشنی کا کچھ سامان نہیں تھا۔ اس کی ابتداء بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں ہوئی۔ یعنی ان کی اجازت سے تمیم داری نے مسجد میں چراغ جلائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسجد میں خوشبو اور بخور کا انتظام بھی کیا جس کی ابتداء یوں ہوئی کہ ایک دفعہ مال غنیمت میں عود کا ایک بنڈل آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسلمانوں کو تقسیم کرنا چاہا۔ لیکن وہ کافی نہ تھا۔ حکم دیا کہ مسجد میں صرف کیا جائے کہ تمام مسلمانوں کے کام آئے۔ چنانچہ مؤذن کے حوالہ کیا۔ وہ ہمیشہ جمعہ کے دن انگیٹھی میں جلا کر نمازیوں کے سامنے پھرتا تھا۔ اور ان کے کپڑے بساتا تھا۔ (خلاصۃ الوفا صفحہ 174)۔ فرش کا انتظام بھی اول حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی کیا۔ لیکن یہ کوئی پر تکلف قالین اور شطرنجی دری کا فرش نہ تھا بلکہ اسلام کی سادگی یہاں بھی قائم تھی یعنی چٹائی کا فرش تھا جس سے مقصود یہ تھا کہ نمازیوں کے کپڑے گرد و خاک میں آلودہ نہ ہوں۔

 

متفرق انتظامات

حکومت کے متعلق بڑے بڑے انتظامی صیغوں کا حال اوپر گزر چکا ہے لیکن ان کے علاوہ اور بہت سے جزئیات ہیں جن کے لئے جدا جدا عنوان قائم نہیں کئے جا سکتے تھے۔ اس لئے ان کو یکجا لکھنا زیادہ موزوں ہو گا۔ ان میں سے ایک دفتر اور کاغذات کی ترتیب اور اس کی ضرورت سے سن اور سال قائم کرنا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے ان چیزوں کا وجود نہ تھا۔ عام واقعات کے یاد رکھنے کے لئے جاہلیت میں بعض واقعات سے سنہ کا حساب کرتے تھے۔ مثلاً ایک زمانے تک کعب بن لوی کی وفات سے سال کا شمار ہوتا تھا۔ پھر عام الفیل قائم ہوا۔ یعنی سال ابراہۃ الاشرم نے کعبہ پر حملہ کیا تھا پھر عام الفجار اور اس کے بعد اور مختلف سنہ قائم ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مستقل سنہ (سنہ ہجری) قائم کیا جو آج تک جاری ہے۔

سنہ ہجری مقرر کرنا

اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ سنہ 21 ہجری میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے ایک چک پیش ہوئی، صرف شعبان کا لفظ لکھا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ کیونکر معلوم ہو گزشتہ شعبان کا مہینہ مراد ہے یا موجودہ۔ اسی وقت مجلس شوریٰ منعقد کی۔ تمام بڑے بڑے صحابہ جمع ہوئے اور یہ مسئلہ پیش کیا گیا، اکثر نے رائے دی کہ فارسیوں کی تقلید کی جائے۔ چنانچہ ہرمزان جو خورستان کا بادشاہ تھا اور اسلام لا کر مدینہ منورہ میں مقیم تھا طلب کیا گیا۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں جو حساب ہے وہ اس کو ماہ روز کہتے ہیں۔ اور اس میں تاریخ اور مہینہ دونوں کا ذکر ہوتا ہے۔ اس کے بعد یہ بحث پیدا ہوئی کہ سنہ کی ابتداء کب سے قرار دی جائے۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجرت نبوی کی رائے دی اور اسی پر سب کا اتفاق ہو گیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ربیع الاول میں ہجرت فرمائی تھی۔ یعنی سال میں دو مہینے آٹھ دن گزر چکے تھے اس لحاظ سے ربیع الاول سے آغاز ہونا چاہیے تھا۔ لیکن چونکہ عرب میں سال محرم سے شروع ہوتا ہے اس لیے دو مہینے آٹھ دن پیچھے ہٹ کر سال شروع سے سنہ قائم کیا۔ (مقریرزی جلد اول صفحہ 284)۔

عرب میں اگرچہ قدیم سے لکھنے پڑھنے کا فی الجملہ رواج تھا۔ چنانچہ جب اسلام کا زمانہ آیا تو صرف ایک قریش قبیلہ میں 17 شخص لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ لیکن حساب کتاب سے عموماً لوگ بے بہرہ تھے۔ یہاں تک کہ جب سنہ 14 ہجری میں اپلہ فتح ہوا تو تمام فوج میں ایک شخص نہ تھا جسے حساب کتاب آتا ہو اور جو مال غنیمت کو قاعدے سے تقسیم کر سکتا۔ مجبوراً لوگوں نے ایک چودہ سالہ لڑکے یعنی زیاد بن ابی سفیان کی طرف رجوع کیا۔ اور اس صلے میں اس کی تنخواہ دو درہم یومیہ مقرر کی۔ یا تو یہ حالت تھی یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بدولت نہایت خوبی سے ہر قسم کے مفصل کاغذات اور نقشے تیار ہوئے۔

مختلف قسم کے رجسٹر

سب سے مشکل اور پر پیچ روزینہ داروں کا حساب تھا۔ جو اہل عطا کہلاتے تھے اور جن میں ہر قسم کی فوجیں بھی شامل تھیں۔ ان کی تعداد لاکھوں سے متجاوز تھی۔ اور مختلف گروہوں کو مختلف حیثیتوں سے تنخواہ ملتی تھی۔ مثلاً بہادری کے لحاظ سے ، شرافت کے لحاظ سے ، پچھلی کار گزاریوں کے لحاظ سے ، اس کے ساتھ قبائل کی تفریق بھی ملحوظ تھی۔ یعنی ہر ہر قبیلہ کا جدا جدا رجسٹر تھا۔ اور ان میں بھی مختلف وجوہ کے لحاظ سے ترتیب قائم رکھی جاتی تھی۔ اس صیغے کے حساب و کتاب کی درستی کے لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بڑے بڑے قابل لوگوں کو مامور کیا۔ مثلاً دارالخلافہ میں عقیل بن ابی طالب، مخزمہ بن نوفل، جبیر بن مطعم کو، بصرہ میں مغیرہ بن شعبہ کو، کوفہ میں عبد اللہ بن خلف کو۔

 

دفتر خراج

تمام دفتر جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں، فارسی، شامی اور قبطی، زبان میں رہا کیونکہ عرب میں اس فن کو اس قدر ترقی نہیں ہوئی تھی کہ یہ دفتر عربی زبان میں منتقل ہو سکتا۔

بیت المال کے کاغذات کا حساب

بیت المال کا حساب نہایت صحت سے مرتب رہتا تھا۔ زکوٰۃ اور صدقہ میں جو مویشی آتے تھے بیت المال سے متعلق تھے۔ چنانچہ ان کے رجسٹر تک نہایت تفصیل سے مرتب ہوتے تھے۔ جانوروں کا حلیہ رنگ اور عمر تک لکھی جاتی تھی۔ اور بعض وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے۔ (طبری صفحہ 2736)۔

مصارف جنگ کے کاغذات

مصارف جنگ اور مال غنیمت کا حساب ہمیشہ افسروں سے طلب کیا جاتا تھا۔ چنانچہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی اسی بناء پر ہوئی تھی کہ وہ کاغذات حساب کے بھیجنے کی ذمہ داری نہیں قبول کرتے تھے (الاصابہ فی احوال الصحابہ تذکرہ خالد بن ولید)۔ جلولا کی فتح جو سنہ 16 ہجری میں واقع ہوئی تھی۔ زیاد بن ابی سفیان حساب کے کاغذات لے کر مدینہ آئے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملاحظہ کرایا تھا۔

مردم شماری کے کاغذات

زکوٰۃ اور جزیہ کی تشخیص کی ضرورت سے ہر مقام کی مردم شماری کرائی گئی تھی۔ اور اس کے کاغذات نہایت اہتمام سے محفوظ رکھے گئے تھے۔ چنانچہ مصر و عراق کی مردم شماری کا حال مقریزی اور طبری نے تفصیل سے لکھا ہے۔ خاص خاص صفتوں کے لحاظ سے بھی نقشے تیار کرائے گئے تھے۔ مثلاً سعد وقاص کو حکم بھیجا کہ جس قدر آدمی قرآن پڑھ سکتے ہیں ان کی فہرست تیار کی جائے۔ شاعروں کی فہرست بھی طلب کی گئی تھی۔ چنانچہ اس کا ذکر کسی اور موقع پر آئے گا۔

مفتوح ممالک کی قوموں یا اور لوگوں سے جس قدر تحریری معاہدے ہوتے تھے وہ نہایت حفاظت سے ایک صندوق میں رکھے جاتے تھے۔ جو خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہتمام میں رہتا تھا۔ (طبری صفحہ 2465)۔

کاغذات حساب لکھنے کا طریقہ

اس موقع پر یہ بتا دینا بھی ضروری ہے کہ اس وقت تک حساب کتاب کے لکھنے کا طریقہ یہ تھا کہ مستطیل کاغذ پر لکھتے اور اس کو لپیٹ کر رکھتے تھے۔ بعینہ اس طرح جس طرح ہمارے ملک میں مہاجنوں کی بہیاں ہوتی ہیں۔ کتاب اور رجسٹر کا طریقہ خلفہ سفاح کے زمانے میں اس کے وزیر خالد برمکی نے ایجاد کیا۔

سکہ

سکہ کی نسبت اگرچہ عام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عرب میں سب سے پہلے جس نے سکہ جاری کیا وہ عبد الملک بن مروان ہے۔ لیکن علامہ مقریزی کی تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کے موجد بھی عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی ہیں۔ چنانچہ اس موقع پر ہم علامہ موصوف کی عبارت کا لفظی ترجمہ کرتے ہیں۔

جب امیر المومنین خلیفہ ہوئے اور خدا نے ان کے ہاتھ پر مصر و شام و عراق فتح کیا تو انہوں نے سکہ کے معاملہ میں کچھ دخل نہ دیا۔ بلکہ پرانے سکہ کو جو جاری تھا بحال رہنے دیا۔ سنہ 18 ہجری میں جب مختلف مقامات سے سفارتیں آئیں تو بصرہ سے بھی سفراء آئے جن میں اختف بن قیس بھی شامل تھے۔ اختف نے باشندگان بصرہ کی ضروریات اور حاجتیں بیان کیں۔

حضر ت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی درخواست پر معقل بن یسار کو بھیجا۔ جنہوں نے بصرہ میں ایک نہر تیار کرائی جس کا نام نہر معقل ہے اور جس کی نسبت یہ فقرہ مشہور ہے۔

اذا جاء نھر اللہ بطل نھر معقل۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی زمانے میں یہ انتظام کیا کہ ہر شخص کے لئے ایک جریب غلہ اور دو درہم ماہوار مقرر کئے۔ اسی زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے سکہ کے درہم جاری کئے۔ جو نوشیروانی سکہ کے مشابہ تھے۔ البتہ اتنا فرق تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سکوں پر الحمد للہ اور بعض سکوں پر محمد رسول اللہ اور بعض پر لا الہ الا اللہ وحدہ لکھا ہوتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اخیر زمانے میں دس درہم مجموعی رقم کا وزن چھ مثقال کے برابر ہوتا تھا۔ (دیکھو کتاب النقود الاسلامیہ المقریزی مطبوعہ مطبع جوائب سنہ 1298 ہجری صفحہ 574)۔

یہ مقریزی کی خاص روایت ہے لیکن اس قدر عموماً مسلم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سکہ میں ترمیم و اصلاحکی۔ علامہ ماوردی نے الاحکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ ایران میں تین قسم کے درہم تھے۔ بغلی آٹھ دانگ کا، طبری چار دانگ کا، مغربی تین دانگ کا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ بغلی چونکہ زیادہ چلتے ہیں اس لئے دونوں کو ملا کر ان کا نصف اسلامی درہم قرار دیا جائے۔ چنانچہ اسلامی درہم چھ دانگ کا قرار پایا۔ (الاحکام السلطانیہ للحادردی صفحہ 167)۔

 

ذمی رعایا کے حقوق

(ذمی سے وہ قومیں مراد ہیں جو مسلمان نہ تھیں لیکن ممالک اسلام میں سکونت رکھتی تھیں)

پارسیوں اور عیسائیوں کا برتاؤ غیر قوموں کے ساتھ

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمی رعایا کو جو حقوق دیئے تھے اس کا مقابلہ اگر اس زمانے کی دوسرے سلطنتوں سے کیا جائے تو کسی طرح کا تناسب نہ ہو گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمسایہ میں جو سلطنتیں تھیں وہ روم و فارس تھیں۔ ان دونوں سلطنتوں میں غیر قوموں کے حقوق غلاموں سے بھی بدتر تھے۔ شام کے عیسائی باوجودیکہ رومیوں کے ہم مذہب تھے۔ تاہم ان کو اپنی مقبوضہ زمینوں پر کسی قسم کا مالکانہ حق حاصل نہیں تھا بلکہ وہ خود تھی ایک قسم کی جائیداد خیال کئے جاتے تھے۔ چنانچہ زمین کے انتقال کے ساتھ وہ بھی منتقل ہو جاتے تھے۔ اور مالک سابق کو ان پر جو مالکانہ اختیارات حاصل تھے وہی قابض حال کو حاصل ہو جاتے تھے۔ یہودیوں کا حال اور بھی بدتر تھا بلکہ اس قابل نہ تھا کہ کسی حیثیت سے ان پر رعایا کا اطلاق ہو سکتا۔ کیونکہ رعایا آخر کار کچھ نہ کچھ حق رکھتی ہے۔ اور وہ حق کے نام سے بھی محروم تھے۔ فارو میں جو عیسائی تھے انکی حالت اور بھی زیادہ رحم کے قابل تھی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب ان ممالک کو زیر نگیں کیا تو دفعتہً وہ حالت بدل گئی۔ جو حقوق ان کو دیئے گئے ، ان کے لحاظ سے گویا وہ رعایا نہیں رہے بلکہ اس قسم کا تعلق رہ گیا جیسا کہ دو برابر کے معاہدہ کرنے والوں میں ہوتا ہے۔ مختلف ممالک کی فتح کے وقت جو معاہدے لکھے گئے ہم ان کو اس مقام پر بعینہ نقل کرتے ہیں جس سے اس دعویٰ کی تصدیق ہو گی۔ اور ساتھ ہی اس بات کے موازنہ کا موقع ملے گا کہ یورپ نے اس قسم کے حقوق کبھی غیر قوم کو نہیں دیئے ہیں۔

یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تاریخوں میں جو معاہدے منقول ہیں ان میں بعض مفصل باقی مجمعل ہیں۔ کیونکہ مفصل شرائط کا بار بار اعادہ کرنا تطویل عمل کا باعث تھا۔ اس لیے اکثر معاہدوں میں کسی مفصل معاہدے کا حوالہ دیا گیا ہے۔ بیت المقدس کا معاہدہ جو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی میں اور ان کے الفاظ میں لکھا گیا حسب ذیل ہے۔

بیت المقدس کا معاہدہ

ھذا ما اعطیٰ عبد اللہ عمر امیر المومنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانالانفسھم واموالھم ولکنائسھم وصلبانھم وسقیمھا بریھا وسائر ملتھاانہ لایسکن کنائسھم ولاتھدم ولاینقض منھا ولا من حیز ھاولا من صلبھم ولا کن شئی من اموالھم ولا یکرھون علی دینھم ولا یضارا حد من الیھود و علی اھل ایلیاء ان یعطوا الجزیۃ کما یعطی اھل المدائن و علیھم ان یخرجوا منھا الروم واللصوص فمن خرج منھم فھوا من علی نفسہ ومالہ حتی یبلغوا ما منھم ومن اقام منھم فھوا من و علیہ مثل اھلا ایلیاء من الجزیۃ و من احب من اھل ایلیاء ان یسیر بنفسہ ومالہ مع الروم و یخلی بیعھم و صلبھم فانھم آمنون علی انفسھم و علی بینعھم و صلبھم حتی یبلغوا ما منھم و علی مافی ھذا الکتاب عدھ اللہ و ذمۃ رسولہ و ذمۃ الخلفاء و ذمۃ الکومنین اذا اعطو الذی علیھم من الجزیۃ شھد علی ذلک خالد بن الولید و عمر بن العاص و عبد الرحمان بن عوف و معاویۃ ابی سفیان و کتب و حضر سنہ 15 ہجری۔

(دیکھو تاریخ ابو جعفر جریر طبری – فتح بیت المقدس 12)۔

"یہ وہ امان ہے جو خدا کے غلام امیر المومنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجا، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح پر کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کا جائے گی۔ نہ وہ ڈھائے جائیں گے نہ ان کو اور نہ ان کے احاطہ کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔ نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پر جبر نہ کیا جائے گا۔ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ایلیاء میں ان کے ساتھ یہودی نہ رہنے پائیں گے۔ ایلیاء والوں پر یہ فرض ہے کہ اور شہروں کی طرح جزیہ دیں گے اور یونانیوں اور چوروں کو نکال دیں۔ ان یونانیوں میں سے جو شہر سے نکلے گا اس کی جان اور مال کو امن ہے تا آ کہ وہ اپنی جائے پناہ میں پہنچ جائے اور جو ایلیاء ہی میں رہنا اختیار کرے اس کو بھی امن ہے اور اس کو جزیہ دینا ہو گا اور ایلیاء والوں میں سے جو شخص اپنی جان اور مال لے کو یونانیوں کے ساتھ چلا جانا چاہے تو ان کو اور ان کے گرجاؤں کو اور صلیبوں کو امن ہے یہاں تک کہ وہ اپنی جائے پناہ تک پہنچ جائیں اور جو کچھ اس تحریر میں ہے اس پر خدا کا رسول خدا کے خلیفہ کا اور مسلمانوں کا ذمہ ہے۔ بشرطیکہ یہ لوگ جزئیہ مقررہ ادا کرتے رہیں۔ اس تحریر پر گواہ ہیں خالد بن الولید اور عمرو العاص اور عبد الرحمنٰ بن عوف اور معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور یہ 15 ہجری میں لکھا گیا۔ "

اس فرمان میں صاف تصریح ہے کہ عیسائیوں کے جان، مال اور مذہب ہر طرح سے محفوظ رہے گا اور یہ ظاہر ہے کہ کسی قوم کو جس قدر حقوق حاصل ہو سکتے ہیں انہی تین چیزوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گرجے اور چرچ کی نسبت یہ تفصیل ہے کہ نہ تو وہ توڑے جائیں گے نہ ان کی عمارت کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا جائے گا نہ ان کے احاطوں میں دست اندازی کی جائے گی۔ مذہبی آزادی کی نسبت دوبارہ تصریح ہے کہ لایکرھون علی دینھم عیسائیوں کے خیال میں چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے صلیب دے کر قتل کیا تھا اور یہ واقعہ خاص بیت المقدس میں پیش آیا تھا۔ اس لیے ان کی خاطر سے یہ شرط منظور کی کہ یہودی بیت المقدس میں نہ رہیں گے۔ یونانی باوجود اس کے کہ مسلمانوں سے لڑتے تھے اور درحقیقت وہی مسلمانوں کے اصلی عدو تھے۔ تاہم ان کے لیے یہ رعایتیں ملحوظ رکھیں کہ بیت المقدس میں رہنا چاہیں تو رہ سکتے ہیں۔ اور نکل جانا چاہیں تو نکل کر جا سکتے ہیں۔ دونوں حالتوں میں ان کو امن حاصل ہو گا۔ اور ان کے گرجاؤں اور معبدوں سے کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ سب سے بڑھ کر بیت المقدس کے عیسائی اگر یہ چاہیں گے کہ وطن سے نکل کر رومیوں سے جا ملیں تو اس پھر بھی کچھ تعرض نہ کیا جائے گا۔ بلکہ ان کے گرجے وغیرہ جو بیت المقدس میں ہیں محفوظ رہیں گے۔ کیا کوئی قوم مفتوحہ ملک کے ساتھ اس سے بڑھ کر منصفانہ برتاؤ کر سکتی ہے ؟ سب سے مقدم امر یہ ہے کہ ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان و مال کے برابر قرار دیا گیا۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذمی کو قتل کر ڈالتا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فوراً اس کے بدلے مسلمان کو قتل کرا دیتے تھے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے کہ قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرۃ کے ایک عیسائی کو مار ڈالا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ بھیجا کہ قاتل، مقتول کے وارثوں کو دیا جائے۔ چنانچہ وہ شخص مقتول کے وارث کو جس کا نام حنین تھا، حوالہ کیا گیا۔ او ر اس نے اس کو قتل کر ڈالا۔ (الدرایہ فی تخریج الہدایہ مطبوعہ دہلی صفحہ 360)۔ مال اور جائیداد کے متعلق کی حفاظت اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتی ہے کہ جس قدر زمینیں ان کے قبضے میں تھیں اسی حیثیت سے بحال رکھیں۔ جس حیثیت سے فتح سے پہلے ان کے قبضے میں تھیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ان زمینوں کا خریدنا بھی ناجائز قرار دیا گیا۔ چنانچہ اس بحث کو ہم تفصیل کے ساتھ محاصل ملکی کے بیان میں لکھ آئے ہیں۔

بندوبست مال گزاری میں ذمیوں کا خیال

مال گزاری میں جو مشخص کی گئی وہ نہایت نرم اور ہلکی پھلکی تھی۔ اس پر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ خیال ہوا کہ کہیں ان پر سختی تو نہیں کی گئی۔ چنانچہ مرتے مرتے بھی یہ خیال نہ گیا۔ ہر سال یہ معمول تھا کہ جب عراق کا خراج آتا تو دس شخص کوفہ اور دس شخص بصرہ سے طلب کئے جاتے تھے۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے چار دفعہ بتاکید قسم لیتے تھے کہ مال گزاری کے وصول کرنے کچھ سختی تو نہیں کی گئی ہے (کتاب الخراج)۔ وفات سے دو تین دن پہلے کا واقعہ ہے کہ افسران بندوبست کو بلایا اور تشخیص جمع کے متعلق ان سے گفتگو کی۔ اور بار بار پوچھتے رہے کہ جمع سخت تو نہیں مقرر کی گئی۔ (کتاب الخراج صفحہ 21 میں ہے قال شھدت عمر بن الخطاب قبل ان یصاب بثلاث اربع واقفاً علی حذیفۃ بن الیمان عثمان بن حنیف و ھو یقول لھما العلکما حملتما الارض ملا تطیق)۔

ذمیوں سے ملکی انتظامات میں مشورہ

ایک بڑا حق جو رعایا کو حاصل ہو سکتا ہے یہ ہے کہ انتظامات ملکی میں ان کو حصہ دیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ ان انتظامات میں جن کا تعلق ذمیوں سے ہوتا ذمیوں کے مشورے کے بغیر کام نہیں کرتے تھے ، عراق کا بندوبست جب پیش آیا تو عجمی رئیسوں کو مدینہ میں بلا کر مال گزاری کے حالات دریافت کئے۔ مصر میں جو انتظام کیا اس میں مقوقس سے اکثر رائے لی۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 74)۔

جان و مال و جائیداد کے متعلق جو حقوق ذمیوں کو دیئے گئے تھے وہ صرف زبانی نہ تھے بلکہ نہایت مضبوطی کے ساتھ ان کی پابندی کی جاتی تھی۔ شام کے ایک کاشتکار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے 10 ہزار درہم اس کو معاوضہ دلوایا۔ (کتاب الراج صفحہ 68)۔ اضلاع کے حکام کو تاکیدی فرمان بھیجتے تھے کہ ذمیوں پر کسی طرح کی زیادتی نہ ہونے پائے۔ خود بالمشافہ لوگوں کو اس کی تاکید کرتے رہتے تھے۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج باب الجزیہ میں ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب شام سے واپس آ رہے تھے تو چند آدمیوں کو دیکھا کہ دھوپ میں کھڑے ہیں اور ان کے سر پر تیل ڈالا جا رہا ہے۔ لوگوں سے پوچھا کہ کیا ماجرا ہے ؟ معلوم ہوا کہ ان لوگوں نے جزیہ نہیں ادا کیا اس لیے ان کو سزا دی جاتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ دریافت کیا کہ آخر ان کا کیا عذر ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ ” نا داری ” فرمایا کہ چھوڑ دو، اور ان کو تکلیف نہ دو۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے لا تعذبوا الناس فان الذین یعذوبون الناس فی الدین یعذبھم اللہ یوم القیامۃ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہے کہ ” لوگوں کو تکلیف نہ دو، جو لوگ دنیا میں لوگوں کو عذاب پہنچاتے ہیں خدا قیامت میں ان کو عذاب پہنچائے گا۔ "

ذمیوں کی شرائط کا ایفاء

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شام کی فتح کے بعد جو فرمان لکھا اس میں یہ الفاظ تھے۔

وامنع الکسلمین من ظلمھم ولا ضراربھم و اکل اموالھم بحلھا و وف لھم بشرطھم الذی شرطت لھم فی جمیع ما اعطیتھم (کتاب الخراجک صفحہ 82)۔

"مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں، نہ ان کا مال بے وجہ کھانے پائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وفات سے قبل خلیفہ ہونے والے خلیفہ کے لیے ایک مفصل وصیت فرمائی تھی۔ اس وصیت نامہ کو امام بخاری، ابوگر، بیہقی، جاحظ اور بہت سے مؤرخین نے نقل کیا ہے۔ اس کا اخیر فقرہ یہ ہے۔

و اوصیہ بذمۃ اللہ و ذمۃ رسولہ ان یوفی لھم بعھدھم و ان یقاتل من ورائھم و ان لا یکفوا فوق طاقتھم۔ (صحیح بخاری صفحہ 187 مطبوعہ میرٹھ)۔

"یعنی میں ان لوگوں کے حق میں وصیت کرتا ہوں جن کو خدا اور رسول کا ذمہ دیا گیا ہے (یعنی ذمی) کہ ان سے جو عہد ہے وہ پورا کیا جائے اور ان کی حمایت میں لڑا جائے اور ان کو ان کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے۔ "

اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتے وقت بھی ذمیوں کو نہ بھولے۔

غرفہ ایک صحابی تھے ، ان کے سامنے ایک عیسائی نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو گالی دی۔ غرفہ نے اس کے منہ تھپڑ کھینچ مارا۔ عیسائی نے عمرو بن العاص کے پاس جا کر شکایت کی۔ انہوں نے غرفہ کو بلا بھیجا اور باز پرس کی۔ غرفہ نے واقعہ بیان کیا۔ عمرو بن العاص نے کہ ذمیوں سے امن کا معاہدہ ہو چکا ہے۔ غرفہ نے کہا، نعوذ باللہ ان کو یہ اجازت ہر گز نہیں دی گئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اعلانیہ گالیاں دیں۔ ان سے یہ معاہدہ ہوا ہے کہ اپنے گرجاؤں میں جو کچھ چاہیں کریں اور اگر ان پر کوئی دشمن چڑھ آئے تو ہم ان کی طرف سے سینہ سپر ہو کر لڑیں اور ان کوئی ایسا بار نہ ڈالا جائے جس کے وہ متحمل نہ ہوں۔ عمرو بن العاص نے کہا ہاں یہ سچ ہے (اسد الغابہ تذکرہ غرفہ)۔ اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ذمیوں کے حفظ حقوق کا کس قدر خیال رکھا جاتا ہے۔

 

مذہبی امور میں آزادی

مذہبی امور میں ذمیوں کو پوری آزادی تھی۔ وہ ہر قسم کی رسوم مذہبی ادا کرتے تھے۔ علانیہ ناقوس بجاتے تھے۔ صلیب نکالتے تھے۔ ہر قسم کے میلے ٹھیلے کرتے تھے۔ ان کے پیش وایان مذہبی کو جو مذہبی اختیارات حاصل تھے بالکل برقرار رکھے گئے تھے۔ مصر میں اسکندریہ کا پیٹر یارک بنیامین تیرہ برس تک رومیوں کے ڈر سے ادھر ادھر مارا مارا پھرا۔ عمرو بن العاص نے جب مصر فتح کیا، تو سنہ 20 ہجری میں اس کو تحریری امان لکھ کر بھیجی۔ وہ نہایت ممنون ہو کر آیا۔ اور پیٹر یارک کی کرسی دوبارہ اس کو نصیب ہوئی۔ چنانچہ علامہ مقریزی نے اپنی کتاب (جلد اول صفحہ 492) میں واقعہ کی پوری تفصیل لکھی ہے۔ معاہدات میں اور امور کے ساتھ مذہبی آزادی کا بھی حق التزام کے ساتھ درج کیا جاتا تھا۔ چنانچہ بعض معاہدات کے اصلی الفاظ ہم اس موقع پر نقل کرتے ہیں۔ حذیفہ بن الیمان نے ماہ دینار والوں کو جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ الفاظ تھے۔

لا یغیرون عن ملۃ و لا یحال بینھم و بین شرائعھم۔ (طبری صفحہ 2633)۔

"ان کا مذہب نہ بدلا جائے گا اور ان کے مذہبی امور میں کچھ دست اندازی نہ کی جائے گی۔ "

جرجان کی فتح کے وقت یہ معاہدہ لکھا گیا۔

لھم الامان علی انفسھم و اموالھم و ملکھم و شرائعھم ولا تغیر شئی من ذلگ۔ (طبری صفحہ 2658)۔

” ان کے جان و مال اور مذہب و شریعت کو امن ہے اور اس میں سے کسی شے میں تغیر نہ کیا جائے گا۔ "

آذر بائیجان کے معاہدہ میں یہ تصریح تھی۔

الامان علی انفسھم و اموالھم و شرائعھم۔ (طبری صفحہ 2662)۔

"جان مال، مذہب اور شریعت کو امان ہے۔ "

موقان کے معاہدہ میں یہ الفاظ تھے۔

الامان علی اموالھم و انفسھم و ملتھم و شرآئعھم۔

"جان، مال، مذہب اور شریعت کو امان ہے۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کے اشاعت کی اگرچہ نہایت کوشش کرتے تھے اور منصب خلافت کے لحاظ سے ان کا یہ فرض بھی تھا لیکن وہیں تک جہاں تک وعظ اور پند کے ذریعے سے ممکن تھا ورنہ یہ خیال وہ ہمیشہ ظاہر کر دیا کرتے تھے کہ مذہب کے قبول کرنے پر کوئی شخص مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ استق ان کا ایک عیسائی غلام تھا، اس کو ہمیشہ اسلام قبول کرنے کی ترغیب دلاتے تھے۔ لیکن جب اس نے انکار کیا تو فرمایا لا اکراہ فی الدین یعنی مذہب میں زبردستی نہیں ہے۔ (کنز العمال بحوالہ طبقات ابن شعد جلد پنجم صفحہ 249)۔

 

مسلمانوں اور ذمیوں کی ہمسری

حقیقت یہ ہے کہ واقعات سے جو نتیجہ استنباط کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ملکی حقوق کے لحاظ سے ذمیوں اور مسلمانوں میں کوئی تمیز نہیں رکھی تھی۔ کوئی مسلمان اگر ذمی کو قتل کرتا تو بے دریغ اس کے قصاص میں قتل کر دیا جاتا تھا۔

مسلمان اگر کسی ذمی سے سخت کلامی کرتے تھے تو پاداش کے مستحق ہوتے تھے۔ ذمیوں سے جزیہ اور عشور کے سوا کسی قسم کا محصول نہیں لیا جاتا تھا۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں سے زکوٰۃ وصول کی جاتی تھی۔ جس کی مقدار دونوں سے زیادہ تھی۔ اس کے سوا عشور مسلمانوں سے بھی وصول کیا جاتا۔ البتہ اس کی شرح بمقابلہ ذمیوں کے کم تھی۔ بیت المال سے والنٹیروں کو گھر بیٹھے جو تنخواہ ملتی تھی ذمی اس میں بھی برابر کے شریک تھے۔ سب سے بڑھ کر یہ (اور درحقیقت صرف اسی ایک مثال سے اس بحث کا فیصلہ ہو سکتا ہے ) کہ یہ جو قاعدہ تھا کہ جو مسلمان اپاہج اور ضعیف ہو جاتا تھا اور محنت و مزدوری سے معاش پیدا نہیں کر سکتا تھا، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر ہو جاتا تھا۔ اسی قسم کی بلکہ اس سے زیادہ فیاضانہ رعایت ذمیوں کے ساتھ بھی تھی۔ اول اول یہ قاعدہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مقرر ہوا۔ چنانچہ خالد بن الولید نے جبرہ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا، اس میں یہ الفاظ تھے۔

وجعلت لھم ایما شیخ ضعف عن العمل او اصابہ افۃ من الافات او کان غنیا فافتقر و صار اھل دینہ یتصدقون علیہ و طرحت جزیتہ و عیل من بیت مال المسلمین و عیالہ مااقامو ابدار امجرۃ و دار الاسلام ولو ذھبوا فلیس علی المسلمین النفقۃ علی عیالھم (کتاب الخراج صفحہ 85)۔

"اور میں نے ان کو یہ حق دیا کہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہو جائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولت مند تھا پھر غریب ہو گیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگیں تو اس کا جزیہ موقوف کر دیا جائے گا۔ اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے نفقہ دیا جائے گا جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میں رہے لیکن اگر وہ غیر ملک میں چلا جائے تو مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہو گا۔ "

یہ قاعدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں بھی قائم رہا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس قرآن مجید کی آیت سے مستند کر دیا یعنی بیت المال کے داروغہ کو لکھ بھیجا کہ قرآن مجید کی آیت ” انما الصدقات للفقرء والمسکین” (صدقہ اور خیرات فقیروں اور مسکینوں کے لیے ہے ) اس میں فقراء کے لفظ سے مسلمان اور مسکین کے لفظ سے اہل کتاب یہودی اور عیسائی مراد ہیں۔ اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پیر کہن سال کو بھیک مانگتے دیکھا۔ پوچھا کہ کیوں بھیک مانگتا ہے ؟

اس نے کہا ” مجھ پر جزیہ لگایا گیا ہے اور مجھ کو ادا کرنے کا مقدور نہیں۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کو گھر پر لائے اور کچھ دے کر بیت المال کے داروغہ کو کہلا بھیجا کہ اس قسم کے معذوروں کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کر دیا جائے۔ اسی واقعہ میں آیت مذکورہ بالا کا حوالہ دیا۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ” واللہ یہ انصاف کی بات نہیں کہ ان لوگوں کی جوانی سے ہم متمتع ہوں اور بڑھاپے میں ان کو نکال دیں۔ ” (کتاب الخراج صفحہ 72)۔

 

ذمیوں کی عزت کا خیال

ذمیوں کی عزت و آبرو کا اسی قدر استحفاظ تھا جس قدر مسلمان کی عزت و ناموس کی، ان کی نسبت کسی قسم کی تحقیر کا لفظ استعمال کرنا نہایت ناپسندیدہ خیال کیا جاتا تھا۔ عمیر بن سعد جو حمص کے حاکم تھے اور زہد و تقدس و ترک دنیا میں تمام عہدہ داران خلافت میں کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ ایک دفعہ ان کے منہ سے ایک ذمی کی شان میں یہ لفظ نکل گیا۔ اخزاک اللہ یعنی خدا تجھ کو رسوا کرے۔ اس پر ان کو اس قدر ندامت اور تاسف ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر نوکری سے استعفیٰ دے دیا اور کہا کہ اس نوکری کی بدولت مجھ سے یہ حرکت صادر ہوئی۔ (دیکھو ازالۃ الخفاٗ صفحہ 203)۔

سازش اور بغاوت کی حالت میں ذمیوں کے ساتھ سلوک

ایک خاص بات جو سب سے بڑھ کر لحاظ کے قابل ہے یہ ہے کہ ذمیوں نے اگر کبھی سازش یا بغاوت کی تب بھی ان کے ساتھ مراعات کو ملحوظ رکھا گیا۔ آج کل حکومتوں کو تہذیب و ترقی کا دعوی ہے۔ رعایا کے ساتھ ان کی تمام عنایت اسی وقت تک ہے جب تک ان کی طرف سے کوئی پولیٹیکل شبہ پیدا نہ ہو۔ ورنہ دفعتاً وہ تمام مہربانی غضب اور قہر میں بدل جاتی ہے اور ایسا خونخوار اور پُرغیظ انتقام لیا جاتا ہے کہ وحشی قومیں بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں کر سکتیں۔ برخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قدم کسی حالت میں جادہ انصاف سے ذرا نہیں ہٹا۔ شام کی آخری سرحد پر ایک شہر تھا جس کا نام عربسوس تھا اور جس کی سرحد ایشیائے کوچک سے ملی ہوئی تھی۔ شام جب فتح ہوا تو یہ شہر بھی فتح ہوا اور صلح کا معاہدہ ہو گیا۔ لیکن یہاں کے لوگ درپردہ رومیوں سے سازش رکھتے تھے اور ادھر کی خبریں ان کو پہنچاتے رہتے تھے۔ عمیر بن سعد وہاں کے حاکم نے حضرت عمر کو اس کی اطلاع دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی اس کمینہ حرکت کا جو انتقام لیا وہ یہ تھا کہ عمیر بن سعد کو لکھا کہ جس قدر ان کی جائیداد، زمین، مویشی اور اسباب ہے سب شمار کر کے ایک ایک چیز کی دوچند قیمت دے دو۔ اور ان سے کہو اور کہیں چلے جاؤ۔ اگر اس پر راضی نہ ہوں تو ان کو ایک برس کی مہلت دو۔ اور اس کے بعد جلاوطن کر دو۔ چنانچہ جب وہ اپنی شرارت سے باز نہ آنے تو اس حکم کی تعمیل کی گئی۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 157)۔ کیا آج کل کوئی قوم اس درگزر اور عفو و مسامحت کی کوئی نظیر دکھلا سکتی ہے ؟ ذمیوں کے ساتھ جو لطف و مراعات کی گئی تھی اس کا ایک بڑا ثبوت یہ ہے کہ ذمیوں نے ہر موقع پر اپنی ہم مذہب سلطنتوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ ذمی ہی تھے جو مسلمانوں کے لیے رسد بہم پہنچاتے تھے۔ لشکر گاہ میں مینا بازار لگاتے تھے۔ اپنے اہتمام اور صرف سے سڑک اور پل تیار کراتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے لئے جاسوسی اور خبر رسانی کرتے تھے یعنی دشمنوں کے ہر قسم کے راز مسلمانوں سے آ کر کہتے تھے۔ حالانکہ یہ دشمن انہی کے ہم مذہب عیسائی یا پارسی تھے۔ ذمیوں کو مسلمانوں کے حسن سلوک کے وجہ سے جو اخلاص پیدا ہو گیا تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ جنگ یرموک کے پیش آنے کے وقت جب مسلمان شہر حمص سے نکلے تو یہودیوں نے توریت ہاتھ میں لے کر کہا، کہ جب تک ہم زندہ ہیں کبھی رومی یہاں نہ آنے پائیں گے۔ عیسائیوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ ” خدا کی قسم تم رومیوں کی نسبت کہیں بڑھ کر ہم کو محبوب ہو۔ "

اخیر میں ہم کو ان واقعات کی حقیقت بھی بتانا ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگوں کو یہ غلط خیال پیدا ہوا ہے یا ہو سکتا ہے کہ حضرت عمر نے یا خود اسلام نے ذمیوں کے ساتھ غیر منصفانہ سلوک کئے۔

مخالف کی طرف سے اعتراض کی تقریر

اس مسئلے کو مخالف اس طرح بیان کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمیوں کے حق میں یہ حکم دیا کہ وضع اور لباس وغیرہ میں کسی طرح مسلمانوں کی تشبہ نہ کرنے پائیں۔ کمر میں زنار باندھیں۔ لمبی لمبی ٹوپیاں پہنیں۔ گھوڑوں پر کاٹھی نہ کسیں۔ نئی عبادت گاہیں نہ بنائیں، شراب اور سور نہ بیچیں، ناقوس نہ بجائیں۔ صلیب نہ نکالیں۔ بنو تغلب کو یہ بھی حکم تھا کہ اپنی اولاد کو اصطباغ نہ دینے پائیں۔ اس سب باتوں پر یہ مستزاد کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرب کی وسیع آبادی میں ایک یہودی یا عیسائی کو نہ رہنے دیا اور بڑے بڑے قدیم خاندان جو سینکڑوں برس سے عرب میں آباد تھے ، جلا وطن کر دیئے۔ بے شبہ یہ اعتراضات نہایت توجہ کے حامل ہیں اور ہم ان کے جواب دینے میں کسی قدر تفصیل سے کام لیں گے۔ کیونکہ ایک زمانہ دراز کے تعصب اور تقلید نے واقعیت کے چہرے پر بہت سے پردے ڈال دیئے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسلمانوں کو غیر قوموں کی مشابہت اور غیر قوموں کو مسلمانوں کی مشابہت سے روکتے تھے۔ لیکن اس سے فقط قومی خصوصیتوں کو قائم رکھنا مقصود تھا۔ لباس کی بحث میں تحقیق طلب امر یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذمیوں کو جس لباس کی پابندی کی تاکید کی تھی وہی لباس ذمیوں کا قدیم لباس تھا یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کوئی نیا لباس بطور علامت تحقیر کے تجویز کیا تھا۔ جس شخص نے عجم کی تاریخ پڑھی ہے وہ یقیناً جان سکتا ہے کہ جس لباس کا یہاں ذکر ہے وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معاہدہ کنز العمال وغیرہ میں نقل کیا گیا ہے۔ اگرچہ راویوں نے اس کو بہت کچھ کم و بیش کر دیا ہے۔ تاہم جہاں ذمیوں کی طرف سے یہ اقرار مذکور ہے کہ ہم فلاں فلاں لباس نہ پہنیں گے ، وہاں یہ الفاظ بھی ہیں ” و ان نلزم زینا حیث ما کنا (کنز العمال جلد 2 صفحہ 302) یعنی ہم وہی لباس پہنیں گے جو ہمیشہ سے پہنتے آئے ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ جس لباس کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا وہ عجم کا قدیم لباس تھا۔

زنار جس کا ذکر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان میں ہے اس کی نسبت ہمارے فقہاء نے اکثر غلطیاں کی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ وہ انگلی برابر موٹا ایک قسم کا جنیو ہوتا تھا اور اس سے ذمیوں کی تحقیر مقصود تھی لیکن یہ سخت غلطی ہے۔ زنار کے معنی پیٹی کے ہیں۔ اور عرب میں یہ لفظ آج کل بھی اس معنی میں مستعمل ہے۔ پیٹی کو عربی میں منطقہ بھی کہتے ہیں۔ اور اس لحاظ سے زنار اور منطقہ مترادف الفاظ ہیں۔ ان دونوں الفاظ کا مترادف ہونا کتب حدیث سے ثابت ہے۔

کنز العمال میں بیہقی وغیرہ سے روایت منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سردارن فوج کو یہ تحریر حکم بھیجا و تلزموھم المناطق یعنی الزنانیز اسی زنار کو کستچ بھی کہتے ہیں۔ چنانچہ جامع صغیرہ وغیرہ میں بجائے زنار کے کستچ ہی لکھا ہے اور غالب خیال یہ ہے کہ یہ لفظ عجمی ہے۔ بہر حال اہل عجم قدیم سے کمر پر پیٹی لگاتے تھے۔ علامہ مسعودی نے کتاب التنبیہ والاشراف میں لکھا ہے کہ عجم کی اس قدیم عادت کی وجہ میں نے کتاب مروج الذہب میں لکھی ہے۔ ایک قطعی دلیل اس بات کی ہے کہ یہ لباس ذمیوں کا قدیم لباس تھا۔ خلفہ منصور نے اپنے دربار کے لیے جو لباس قرار دیا تھا وہ قریب قریب یہی لباس تھا۔ لمبی ٹوپیاں جو نرسل کی ہوتی تھیں۔ وہی عجم کی ٹوپیاں تھیں۔ جس کا نمونہ پارسیوں کے سروں پر آج بھی موجود ہے۔ اس درباری لباس میں پیٹی بھی داخل تھی۔ اور یہ وہی زنار یا منطقہ یا کستچ ہے جو عجم کی قدیم وضع تھی۔ منصور کے اس مجوزہ لباس کی نسبت تمام مؤرخین عرب نے تصریح کی ہے کہ یہ عجم کی تقلید تھی۔ اب ہر شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جس لباس کی نسبت تمام مؤرخین نے تصریح کی ہے وہ اگر کوئی جدید لباس تھا، اور ان کی تحقیر کے لیے ایجاد کیا گیا تھا تو خلیفہ منصور اس کو اپنا اور اپنے درباریوں کا لباس کیونکر قرار دے سکتا تھا۔

 

صلیب اور ناقوس کی بحث

ذمیوں کو نئی عبادت گاہیں بنانے اور شراب بیچنے ، صلیب نکالنے ، ناقوس پھونکنے ، اصطباغ دینے سے روکنا بے شبہ مذہبی دست اندازی ہے لیکن میں بیباکانہ اس راز کی پردہ دری کرتا ہوں کہ یہ احکام جن قیدوں کے ساتھ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاری کئے تھے وہ بالکل مناسب تھے لیکن زمانہ ما بعد کے مؤرخوں نے اس قیدوں کا ذکر چھوڑ دیا۔ اس وجہ سے تمام دنیا میں ایک عالمگیر غلط فہمی پھیل گئی۔

صلیب کی نسبت معاہدے میں جو الفاظ تھے اس میں یہ قید تھی۔

ولا یرفعوا فی نادی اھل الاسلام صلیباً (کتاب الخراج صفحہ 80)۔

"یعنی مسلمانوں کی مجلس میں صلیب نہ نکالیں۔ "

ناقوس کی نسبت یہ تصریح تھی یضربوا نواقیسھم فی ایۃ ساعۃ شائووا من الیل او نھار الا فی اوقات الصلوۃ (کتاب الخراج صفحہ 84)۔

 یعنی ذمی رات دن میں جس وقت چاہیں ناقوس بجائے ، بجز نماز کے اوقات کے۔ سور کی نسبت یہ الفاظ تھے۔

ولا یخرجوا خنزیرا من منازلھم الہ افنیۃ المسلمین یعنی ذمی سور کو مسلمان کے احاطے میں نہ لے جائیں۔

ان تصریحات کے بعد کس کو شبہ رہ سکتا ہے کہ صلیب نکالنا یا ناقوس بجانا عموماً منع نہ تھا۔ بلکہ خاص حالات میں ممانعت تھی اور ان خاص حالات میں آج بھی ایسی ممانعت خلاف انصاف نہیں کہی جا سکتی۔ سب سے زیادہ قابل لحاظ امر بنی تغلب کے عیسائیوں کی اولاد کا اصطباغ دینا تھا اور یہ گویا اس بات کی حفاظت ہے کہ آئندہ وہ کوئی اور مذہب قبول نہ کرنے پائے بے شبہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عام طور پر اس رسم کو روکنے کا کچھ حق نہ تھا۔ لیکن اس زمانے میں ایک نیا سوال پیدا ہوتا تھا۔ یعنی یہ کہ اگر عیسائی خاندان میں سے کوئی شخص مسلمان ہو جائے اور نابالغ اولاد چھوڑ کر مرے تو اس کی اولاد کس مذہب پر پرورش پائے گی؟ یعنی وہ مسلمان سمجھی جائے گی یا ان کے خاندان والوں کو جو عیسائی مذہب رکھتے ہیں یہ حق حاصل ہو گا۔ کہ اس کو اصطباغ دے کر عیسائی بنا لیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس صورت خاص کے لیے یہ قرار دیا کہ خاندان والے اس کو اصطباغ نہ دیں اور عیسائی نہ بنائیں اور یہ حکم بالکل قرین انصاف ہے۔ کیونکہ جب اس کا باپ مسلمان ہو گیا تو اس کی نابالغ اولاد بھی بظاہر مسلمان قرار پائے گی۔

علامہ طبری نے جہاں بنو تغلب کے واقعہ کا ذکر کیا ہے ، شرائط صلح میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔ علی ان لا ینصروا ولیداً ممن اسلم آباء ھم (طبری صفحہ 2423) یعنی بنو تغلب کو اختیار نہ ہو گا کہ جن کے باپ مسلمان ہو چکے ہیں اس کو عیسائی بنا سکیں۔ ایک اور موقع پر یہ الفاظ ہیں۔ ان لا ینصروا اولادھم اذا اسلم ابائھم (طبری صفحہ 35)۔ یہاں شاید یہ اعتراض ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک فرضی صورت قائم کر کے معاہدہ کو سخت کیوں کیا۔ لیکن جواب یہ ہے یہ فرضی صورت نہ تھی بلکہ بنو تغلب میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے تھے ، اس لیے ان کی خاص حالت کے لحاظ سے اس صورت کا ذکر ضروری تھا۔ بلکہ علامہ طبری نے صاف تصریح کی ہے کہ تغلب میں سے جو لوگ اسلام لا چکے تھے خود انہوں نے معاہدہ کے لیے یہ شرائط پیش کی تھیں۔

اب ہر شخص انصاف کر سکتا ہے کہ امن عام میں خلل نہ واقع ہونے کے لیے عیسائیوں کو اگرچہ یہ حکم دیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی مجلس میں صلیب اور سور نہ لائیں۔ خاص نماز کے وقت ناقوس نہ بجائیں، نو مسلم کی اولاد کو اصطباغ نہ دیں تو کیا کوئی شخص اس کو تعصب مذہبی سے تعبیر کر سکتا ہے۔ لیکن افسوس اور سخت افسوس یہ ہے کہ ہمارے پچھلے مؤرخوں نے ان احکام کی قیدوں اور خصوصیتوں کو اڑا دیا۔ بلکہ قدماء میں بھی یہ لوگ تعصب آمیز طبیعت رکھتے تھے۔ روایت میں ان خصوصیتوں کو چھوڑ جاتے تھے ، یہ غلطیاں اگرچہ نہایت سخت نتائج پیدا کرتیں تھیں، لیکن چونکہ ظاہر میں خفیف تھیں۔ ابن الاثیر وغیرہ نے اس کو کچھ خیال نہیں کیا۔ رفتہ رفتہ یہ غلطیاں اس قدر پھیل گئیں کہ عربی زبان میں لکھی گئی تاریخ سرتاپا اس سے معمور ہو گئی۔ فقہاء چونکہ تاریخ سے بہت کم واقفیت رکھتے تھے ، انہوں نے بے تکلف انہی روایتوں کو قبول کر لیا اور ان پر فقہ کے مسائل تفریع کر لیے۔

عیسائیوں کے جلا وطن کرنے کا معاملہ

عیسائیوں اور یہودیوں کے جلا وطن کرنے کے معاملے میں حقیقت یہ ہے کہ یہودی کسی زمانہ میں مسلمانوں کی طرف سے صاف نہیں ہوئے۔ خیبر جب فتح ہوا، ان سے کہہ دیا گیا کہ جس وقت مناسب ہو گا تم کو یہاں سے نکال دیا جائے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ان کی شرارتیں زیادہ ظاہر ہوئیں۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک دفعہ بالا خانہ سے دھکیل دیا۔ جس سے ان کے ہاتھ میں زخم آیا۔ مجبوراً حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عام مجمع میں کھڑے ہو کر ان کی شرارتیں بیان کیں۔ اور پھر ان کو عرب سے نکال دیا۔ چنانچہ صحیح بخاری، کتاب الشروط میں یہ واقعہ کسی قدر تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔

نجران کے عیسائی یمن اور اس کے اطراف میں رہتے تھے۔ اور ان سے کچھ تعرض نہیں کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے چپکے چپکے جنگی تیاریاں شروع کیں۔ اور بہت سے گھوڑے اور ہتھیار مہیا کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اس وقت ان کو حکم دیا کہ یمن چھوڑ کر عراق چلے جائیں۔ (کتاب الخراج صفحہ 42)۔

غرض یہ امر تمام شہادتوں سے قطعاً ثابت ہے کہ عیسائی اور یہودی پولیٹیکل ضرورتوں کی وجہ سے جلاوطن کئے گئے اور اس وجہ سے یہ امر کسی طرح اعتراض کے قابل نہیں ہو سکتا۔ البتہ لحاظ کے قابل یہ بات ہے کہ اس حالت میں بھی کس قسم کی رعایت ان کے ساتھ ملحوظ رکھی گئی۔ فدک کے یہودی جب نکالے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک واقف کار شخص کو بھیجا کہ ان کی زمین اور باغوں کے قیمت کا تخمینہ کرے۔ چنانچہ متعینہ قیمت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال سے ان کو دلوا دی۔ اسی طرح حجاز کے یہودیوں کو بھی ان کی زمین کی قیمت دلا دی۔ (فتوح البلدان صفحہ 29)۔

نجران کے عیسائیوں کو جب عرب کی آبادی سے نکال کر شام و عراق میں آباد کیا تو ان کے ساتھ نہایت فیاضانہ رعایتیں کیں۔ ان کو امن کا جو پروانہ دی اس میں یہ شرطیں لکھیں۔

1 – عراق یا شام جہاں بھی یہ لوگ جائیں وہاں کے افسر ان کی آبادی اور زراعت کے لیے ان کو زمین دیں۔

2 – جس مسلمان کے پاس یہ کوئی فریاد لے کر جائیں وہ ان کی مدد کرے۔ 24 مہینے تک ان سے مطلقاً جزیہ نہ لیا جائے۔

اس معاہدے پر احتیاط اور تاکید کے لحاظ سے بڑے بڑے صحابہ کے دستخط ثبت کرائے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف صاحب نے کتاب الخراج میں اس معاہدے کو بالفاظہا نقل کیا ہے۔ (کتاب مذکور صفحہ 41)۔

ایک ایسی قوم جس کی نسبت بغاوت اور سازش کے ثبوت موجود ہوں، اس کے ساتھ اس سے بڑھ کر اور کیا رعایت کی جا سکتی ہے۔ اب صرف جزیہ کا معاملہ رہ جاتا ہے۔ ہن نے اس بحث پر اگرچہ ایک مستقل رسالہ لکھا ہے اور وہ تینوں زبانوں (اردو، عربی، انگریزی) میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے تاہم مختصر طور پر یہاں بھی لکھنا ضروری ہے۔

جزیہ کی بحث

جزیہ کا موضوع اور مقصد، اگرچہ شروع اسلام ہی میں ظاہر کر دیا گیا تھا کہ وہ حفاظت کا معاوضہ ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں یہ مسئلہ ایسا صاف ہو گیا ہے کہ احتمال کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ اولاً تو انہوں نے نوشیروان کی طرح جزیہ کی مختلف شرحیں قائم کیں اور اس طریقہ سے گویا صاف بتا دیا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں بلکہ وہی نوشیروانی محصول ہے۔ اس کے علاوہ موقع بہ موقع عملی طور پر اس بات کو ظاہر کیا کہ وہ صرف حفاظت کا معاوضہ ہے۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں تم پڑھ آئے ہو کہ جب یرموک کے پرخطر معرکہ کے پیش آنے کی وجہ سے اسلامی فوجیں شام کے مغربی حصوں سے ہٹ آئیں۔ اور ان کو یقین ہو گیا کہ جن شہروں سے وہ جزیہ وصول کر چکے تھے یعنی حمص و دمشق وغیرہ، وہاں کے باشندوں کی حفاظت کا اب وہ ذمہ نہیں اٹھا سکتے تو جزیہ سے جس قدر رقم وصول ہوئی تھی سب واپس کر دی اور صاف کہہ دیا کہ اس وقت ہم تمہارے جان و مال کی حفاظت کے ذمہ دار نہیں ہو سکتے۔ اس لیے جزیہ لینے کا بھی ہم کو کوئی حق نہیں ہے۔ اس سے بھی زیادہ قطعی شہادت یہ ہے کہ جن لوگوں سے کبھی کسی قسم کی فوجی خدمت لی گئی ان کو باوجود ان کے مذہب پر قائم رہنے کے جزیہ معاف کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود سنہ 17 ہجری میں عراق کے افسروں کو لکھ بھیجا کہ۔

یستعینوا بمن احتاجوا الیہ من الا ساورۃ و یرفعوا عنھم الجزاء (طبری صفحہ 2497)۔

"یعنی فوجی سواروں میں سے جس سے مدد لینے کی ضرورت ہو اس سے مدد لے لو اور ان کا جزیہ چھوڑ دو۔ "

یہاں تک کہ اگر کسی قوم نے صرف ایک دفعہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شرکت کی تو اس سال کا جزیہ اس کے لیے معاف کر دیا گیا۔ 22 ہجری میں جب آذربائیجان فتح ہوا تو اہل شہر کو یہ فرمان لکھ دیا گیا۔

و من حشر منھم فی سنۃ وضع عنہ جزاء تلک السنۃ

"یعنی جو لوگ کسی سال فوج کے ساتھ کام دیں گے ، اس سال کا جزیہ ان سے نہیں لیا جائے گا۔ "

اسی سال آرمینیہ کے رئیس شہزبزاز سے جو معاہدہ ہوا اس میں یہ الفاظ تھے :

و علی اھل آرمینیۃ ان ینفروا لکل غارۃ و ینفذو الکل امر ناب اولم ینب راہ الو الی صلاحا علی ان توضع الجزاء (طبری صفحہ 265)۔

اسی سنہ میں جرجان فتح ہوا اور فرمان میں یہ عبارت لکھی گئی :

ان لکم الذمۃ و علینا المنعۃ علی ان علیکم من الجزاء فی کل سنۃ علی قدر طاقتکم ومن استعنا بہ منکم فلہ جزاۂ  فی معونۃ عوضا عن جزاۂ  (ایضاً)۔

"یعنی ہم پر تمہاری حفاظت ہے اس شرط پر کہ ہر سال بقدر طاقت جزیہ ادا کرنا ہو گا۔ اور اگر تم سے اعانت لیں گے تو اس اعانت کے بدلہ جزیہ معاف ہو جائے گا۔ "

غرض حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال سے معاہدوں سے ، طرز عمل سے روز روشن کی طرح ظاہر ہو گیا ہے کہ جزیہ کا موضوع کیا تھا اور وہ کسی غرض سے مقرر کیا تھا۔

جزیہ کا صرف فوجی مصارف پر محدود تھا۔ یعنی اس رقم سے صرف اہل فوج کے لیے خوراک لباس اور دیگر ضروریات مہیا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں جہاں جزیہ مقرر کیا اس کے ساتھ جنس اور غلبہ بھی شامل کیا۔ مصر میں فی کس جزیہ کی تعداد دراصل چار دینار تھی۔ لیکن دو نقد اور باقی کے عوض گیہوں، روغن، زیتون، شہد، سرکہ لیا جاتا تھا۔ اور یہی اہل فوج کی خوراک تھی۔ البتہ آگے چل کر جب رسد کا انتظام مستقل طور پر ہو گیا تو کل جزیہ کی مقدار نقد کر دی گئی اور جنس کی بجائے چار دینار لیے جانے لگے۔ (فتوح البلدان صفحہ 216)۔

غلامی کا رواج کم کرنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اگرچہ غلامی کو معدوم نہیں کیا اور شاید اگر کرنا بھی چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اس میں شبہ نہیں کہ انہوں نے مختلف طریقوں سے اس کے رواج کو کم کر دیا۔ اور جس قدر قائم رکھا اس خوبی سے رکھا کہ غلامی غلامی نہیں بلکہ برادری اور ہمسری رہ گئی۔ عرب میں تو انہوں نے سرے سے اس کا استیصال کر دیا۔ اور اس میں ان کو اس قدر اہتمام تھا کہ عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے ساتھ ہی پہلا کام جو کیا وہ یہ تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں قبائل مرتدہ میں جو لوگ لونڈی اور غلام بنائے گئے تھے سب آزاد کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی یہ اصول قائم کر دیا کہ اہل عرب کبھی کسی کے غلام نہیں ہو سکتے۔ ان کا یہ قول منقول ہے : لایشترق عربی”۔

عرب کا غلام نہ ہو سکنا

یعنی عرب کا کوئی آدمی غلام نہیں ہو سکتا (کنز العمال میں امام شافعی کی روایت سے یہ قول منقول ہے۔ دیکھو کتاب مذکور صفحہ 312، جلد دوم)۔ اگرچہ بہت سے مجتہدین اور ائمہ فن نے ان کے اس اصول کو تسلیم نہیں کیا۔ امام احمد حنبل کا قول ہے لا اذھب الی قول عمر لیس علی عربی ملک یعنی میں عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ رائے نہیں مانتا کہ اہل عرب غلام نہیں ہو سکتے لیکن یہ موقع اس مسئلہ پر بحث کرنے کا نہیں۔ یہاں صرف یہ بیان کرنا ہے کہ عرب کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فیصلہ یہ تھا (منتقی الاخبار لابن تیمیہ)۔

غیر قوموں کی نسبت وہ کوئی قاعدہ عام نہیں قائم کر سکے۔ جب کوئی ملک فتح ہوتا تھا تو اہل فوج ہمیشہ اصرار کرتے تھے کہ ملک کے ساتھ تمام رعایا ان کی غلامی میں دے دی جائے۔ ملک کی تقسیم میں تو جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قرآن مجید کے استدلال سے لوگوں کی زبان بندی کی لیکن غلامی کے لیے کوئی ایسا استدلال موجود نہ تھا۔ اس لیے وہ تمام اہل فوج کے خلاف نہیں کر سکتے تھے۔ تاہم اتنا کیا کہ عملاً غلامی کو نہایت کم کر دیا۔ جس قدر ممالک ان کے زمانے میں فتح ہوئے ان کی وسعت کئی ہزار میل تھی جس میں کروڑوں آدمی بستے تھے ، لیکن غلامی کا جہاں جہاں پتہ چلتا تھا وہ نہایت محدود اور گنتی کے ہیں جو بجائے خود مستقل مملکتیں ہیں۔ باوجود فوج کے اصرار کے ایک شخص بھی غلام نہیں بنایا گیا۔ یہاں تک کہ جب مصر کے بعض دیہات کے آدمی جو مسلمانوں سے لڑے تھے غلام بنا کر عرب میں بھیج دیئے گئے ، تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب کو جا بجا سے جمع کر کے مصر واپس بھیج دیا کہ ان کو غلام بنانا جائز نہ تھا۔ چنانچہ مؤرخ مقریزی نے ان دیہات کے نام اور اس واقعہ کو تفصیل سے لکھا ہے۔ شام کے شہروں میں بصریٰ، محل، طبریہ، دمشق، حمص، حمدان، عسقلان، انطاکیہ وغیرہ جہاں عیسائی بڑے زور و شور سے لڑے ، غلامی کا بہت کم پتہ چلتا ہے۔ شاید شام میں صرف قیساریہ ایک جگہ ہے جہاں اسیران جنگ غلام بنائے گئے۔ فارس، خورستان، کرمان، جزیرہ وغیرہ میں کود معاہدہ صلح میں یہ الفاظ لکھ دیئے گے تھے کہ لوگوں کے جان و مال سے تعرض نہ ہو گا۔ صامغان، جندی، سابور، شیراز وغیرہ میں اس سے زیادہ صاف الفاظ تھے کہ لا یس بوا یعنی وہ لوگ گرفتار ہو کر لونڈی غلام نہ بنائے جائیں گے۔

مناذر میں باوجود اس کے کہ فوج نے اسیران جنگ کو غلام بنا کر ان پر قبضہ کر لیا تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم پہنچا کہ ان کو چھوڑ دو۔ اور خراج و جزیہ مقرر کر دو۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حکم بھیجا کہ کوئی کاشتکار یا پیشہ ور غلام نہ بنایا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اور طریقہ سے بھی اس رواج کو گھٹیا۔ یعنی یہ قاعدہ بنا دیا کہ جس لونڈی سے اولاد ہو جائے وہ خریدی اور بیچی نہیں جا سکتی جس کا حاصل یہ ہے کہ وہ لونڈی نہیں رہتی۔ یہ قاعدہ خاص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایجاد ہے۔ ان سے پہلے اس قسم کی لونڈیوں کی برابر خرید و فروخت ہوتی تھی۔ چنانچہ مؤرخین نے محدثین نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اولیات لکھے ہیں، اس قاعدے کو بھی لکھا ہے۔ غلاموں کی آزادی کا ایک اور طریقہ تھا۔ جس کو مکاتبہ کہتے ہیں یعنی غلام ایک معاہدہ لکھ دے کہ میں اتنی مدت میں اس قدر رقم ادا کروں گا۔ جب وہ زر معینہ ادا کر دیتا ہے تو وہ بالکل آزاد ہو جاتا ہے۔ یہ قاعدہ خود قرآن میں موجود ہے۔ فکاتبوھم ان علمتم فیھم خیراً لیکن فقہاء اس حکم کو وجوبی نہیں قرار دیتے۔ یعنی آقا کو اختیار ہے کہ معاہدے کو قبول کرے یا نہ کرے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو وجوبی قرار دی۔ صحیح بخاری کتاب المکاتب میں ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام سیرین نے مکاتبت کی درخواست کی۔ انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا۔ سیرین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس حاضر ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو درے لگائے۔ اور مذکورہ بالا آیت سند میں پیش کی۔ آخر انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مجبوراً ماننا پڑا۔

عام طور پر یہ مشہور ہے کہ جب فارس فتح ہوا تو یزد گرد شہنشاہ فارس کی بیٹیاں گرفتار ہو کر مدینہ میں آئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عام لونڈیوں کی طرح بازار میں ان کے بیچنے کا حکم دیا لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا کہ خاندان شاہی کے ساتھ ایسا سلوک جائز نہیں۔ ان لڑکیوں کی قیمت کا اندازہ کرایا جائے۔ پھر یہ لڑکیاں کسی کے اہتمام اور سپردگی میں دی جائیں، اور اس سے ان کی قیمت اعلیٰ سے اعلیٰ شرح پر لی جائے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود ان کو اپنے اہتمام میں لیا اور ایک امین کو، ایک محمد بن ابی بکر کو، ایک عبد اللہ بند عمر رضی اللہ تعالیٰ کو عنایت کی۔ ربیع الابرار میں اس کو لکھا اور ابن خلقان نے امام زین العابدین کے حال میں یہ روایت اس کے حوالہ سے نقل کر دی لیکن یہ محض غلط ہے۔ اولاً توز مخشری کے سوا طبری ابن الاثیر، یعقوبی، بلاذری، ابن قتیبہ وغیرہ کسی نے اس واقعہ کو نہیں لکھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں یزدگر اور خاندان شاہی پر مسلمانوں کو مطلق قابو نہیں ہوا۔ مدائن کے معرکے میں یزدگرد مع تمام اہل و عیال کے دارالسلطنت سے نکلا اور حلوان پہنچا۔ جب مسلمان حلوان پر بڑھے تو اصفہان بھاگ گیا اور پھر کرمان وغیرہ میں پھرتا رہا۔ مرو میں پہنچ کر سنہ 30 ہجری میں جو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے مارا گیا۔ اس کی آل اولاد اگر گرفتار ہوئے ہوں گے تو اسی وقت گرفتار ہوئے ہوں گے۔ مجھ کو شبہ ہے کہ زمخشری کو یہ بھی معلوم تھا یا نہیں کہ یزدگرد کا قتل کس عہد میں ہوا۔

اس کے علاوہ جس وقت کا یہ واقعہ بیان کیا جاتا ہے اس وقت حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر 12 برس تھی۔ کیونکہ جناب ممدوح ہجرت کے پانچویں سال کے بعد پیدا ہوئے اور فارس سنہ 17 ہجری میں فتح ہوا۔ اس لیے یہ امر بھی کسی قدر مستبعد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی نابالغی میں ان پر اس قسم کی عنایت کی ہو گی۔

اس کے علاوہ ایک شہنشاہ کی اولاد کی قیمت نہایت گراں قرار پائی ہو گی اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت زاہدانہ اور فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے ، غرضیکہ کسی حیثیت سے اس واقعہ کی صحت کا گمان تک نہیں ہو سکتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ میں اس قسم کا واقعہ جو مسلم طور پر ثابت ہے اس میں وہی برتاؤ کیا گیا۔ جو تہذیب و انسانیت کا مقتضا تھا اور جو آج بھی تمام مہذب ملکوں میں جار ہے۔ عمرو بن العاص نے جب مصر پر چڑھائی کی تو اول بلیس پر حملہ ہوا۔ سخت لڑائی کے بعد مسلمانوں کو فتح ہوئی اور تین ہزار عیسائی گرفتار ہوئے۔ اتفاق سے مقوقس بادشاہ مصر کی بیٹی جس کا نام ارمانوسہ تھا یہیں مقیم تھی، وہ بھی گرفتار ہوئی۔

شاہی خاندان کے اسیران جنگ کے ساتھ برتاؤ

عمرو بن العاص نے اس کو نہایت عزت و احترام سے مقوقس کے پاس بھیج دیا اور مزید احتیاط کے لیے اپنے ایک سردار کو جس کا نام قیس بن ابی تھا ساتھ کر دیا کہ حفاظت کے ساتھ پہنچا ائے۔ (مقریزی جلد اول صفحہ 184)۔

عام غلاموں کے ساتھ مراعات

یہ تو وہ کارنامے تھے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلامی کو روکنے کے لیے کئے لیکن جو لوگ غلام بنائے گئے تھے ان کے حق میں وہ مراعاتیں قائم کیں کہ غلامی ہمسری کے درجے تک پہنچ گئی۔ فوجی انتظامات کے بیان میں تم نے پڑھا ہو گا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بدر وغیرہ کے مجاہدین کی جب تنخواہیں مقرر کیں تو ان کے غلاموں کی بھی انہی کے برابر تنخواہ مقرر کی۔ بعد کی تمام کاروائیوں میں بھی انہوں نے یہ اصول ملحوظ رکھا۔ اضلاع کے جو عمال تھے ان کی نسبت وہ اور باتوں کے ساتھ ہمیشہ یہ بھی دریافت کرتے رہتے تھے کہ غلاموں کے ساتھ ان کا برتاؤ کیسا ہے۔ چنانچہ اگر یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ غلاموں کی عیادت کو نہیں جاتے تو صرف اسی جرم پر ان کو معزول و موقوف کر دیتے تھے۔ (طبری صفحہ 2775)۔

اکثر غلاموں کو بلا کر ساتھ کھانا کھلایا کرتے تھے اور حاضرین کو سنا کر کہتے تھے کہ خدا ان لوگوں پر لعنت کرے جن کو غلاموں کے ساتھ کھانے سے عار ہے۔ سرداران فوج کو لکھ بھیجا کہ تمہارا کوئی غلام کسی قوم کو امان دے تو وہ امان تمام مسلمانوں کی طرف سے سمجھی جائے گی۔ اور فوج کو اس کا پابند ہونا ہو گا۔ چنانچہ ایک سردار کو یہ الفاظ لکھے۔ ان عبد المسلمین من المسلمین و ذمتہ من ذمتھم یجوز امانہ۔ (کتاب الخراج صفحہ 126)۔

غلاموں کو اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جانا

غلاموں کے لیے بڑی تکلیف کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے عزیز و اقارب سے جدا کر دیئے جاتے تھے۔ بیٹا باپ سے چھٹ جاتا تھا۔ بیٹی ماں سے بچھڑ جاتی تھی۔ آج جو لوگ غلامی کی برائیوں پر مضامین لکھتے ہیں وہ اسی واقعہ کو درد انگیز صورت میں دکھاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ کوئی غلام اپنے عزیز و اقارب سے جدا نہ کیا جائے ، یعنی یہ نہیں ہو سکتا تھا کہ بیٹا کسی کے ہاتھ آئے اور باپ کسی اور کی غلامی میں رہے۔ باپ، بیٹے ، بھائی، بہن، ماں، بیٹیاں بکتی تھیں تو ساتھ بکتی تھیں اور جن کی غلامی میں رہتی تھیں ساتھ رہتی تھیں۔ اس باب میں ان کے جو احکام ہیں ان کو کنز العمال میں مستدرک حاکم بیہقی مصنف بن ابی شیبہ وغیرہ کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے :

لا یفوق بین اخوین اذا یبعا لا یفرق ابین الام و ولدھا لا یفرق بین السبایا و اولادھن۔

” یعنی جب دو بھائی بیچے جائیں تو ایک دوسرے سے جدا نہ بیچا جائے یعنی بچہ ماں سے الگ نہ کیا جائے یعنی لونڈی غلام جو گرفتار ہو کر آئیں تو بچے ماں سے علیحدہ نہ کئے جائیں۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس باب میں تمام مہاجرین اور انصار کو جمع کر کے قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کیا ” و تقطعوا ارحامکم” اور کہا کہ اس سے بڑھ کر قطع رحم کیا ہو سکتا ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ حاکم اور بیہقی نے نقل کیا ہے۔ (کنزالعمال جلد 2 صفحہ 622)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسمط ابن اسود ایک افسر کو شام کی مہمات پر بھیجا اور ان کے بیٹے شرجیل کو کوفہ میں کسی کام پر مامور کیا تو انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی کہ آپ جب غلام کو اپنے عزیزوں سے جدا نہیں ہونے دیتے تو مجھ کو کیوں بیٹے سے دور پھینک دیا؟ (فتوح البلدان صفحہ 138)۔

غلاموں میں اہل کمال

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلاموں کا جو رتبہ قائم کیا اور عرب کو جو نمونے دکھلائے اس کا یہ اثر ہوا کہ غلاموں کے گروہ میں بڑے بڑے صاحب کمال لوگ پیدا ہوئے جن کی تمام ملک عزت و توقیر کرتا تھا۔ عکرمہ جو ائمہ حدیث میں شمار کئے جاتے تھے اور جن کو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فتویٰ کی اجازت دی تھی۔ نافع جو امام مالک کے استاد تھے اور جن کی روایت کے سلسلے کو محدثین سلسلۃ الذہب یعنی سونے کی زنجیر سے تعبیر کرتے ہیں، یہ دونوں بزرگ غلام تھے اور اسی عہد کی تربیت یافتہ تھے۔

علامہ ابن خلکان نے حضرت امام زین العابدین کے حال میں لکھا ہے کہ مدینہ منورہ میں لوگ کنیزوں اور کنیز زادیوں کو حقیر سمجھتے تھے لیکن جب قاسم (حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے ) اور سالم (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتے ) اور امام زین العابدین سن رشد کو پہنچے اور علم و فضل میں تمام مدینہ والوں سے بڑھ گئے تو خیالات بدل گئے اور لونڈی غلاموں کی قدر بڑھ گئی، لیکن ہمارے نزدیک اس قبول اور عزت کا اصل سبب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کا طریق عمل تھا۔ بے شبہ قاسم و سالم (امام زین العابدین کا نام اس سلسلے میں لینا بے ادبی خیال کرتا ہوں) کے فضل و کمال نے اس مسئلے پر اثر کیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امہات اولاد کا وہ رتبہ قائم نہ کیا ہوتا تو ان بزرگوں کو فضل و کمال حاصل کرنے کا موقع کیونکر ہاتھ آتا۔

ان سب باتوں کے ساتھ اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ کوئی نیا مسئلہ ایجاد کیا تھا اور نہ خدانخواستہ ان کو یہ حق تھا۔ غلامی کا گھٹانا اور غلاموں کے ساتھ مساویانہ برتاؤ کرنا خود پیغمبر اسلام کا مقصد تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کیا وہ اسی مقصد کی تعمیل تھی۔ امام بخاری نے کتاب المنفرد میں غلاموں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے جو افعال اور اقوال لکھے ہیں ان سے اس دعویٰ کی کافی تصدیق ہوتی ہے۔

 

سیاست و تدبیر، عدل و انصاف

عام سلاطین اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طریق سیاست میں فرق

خلافت فاروقی بسیط عالم میں کہاں سے کہاں تک پھیلی ہے اور کس قدر مختلف ملک، مختلف مذاہب، مختلف قومیں، اس کے دائرے میں داخل ہیں۔ لیکن اس سرے سے اس سرے تک ہر طرف امن و امان اور سکون و اطمینان چھایا ہوا ہے۔ دنیا میں اور بھی ایسے صاحب جاہ جلال سربراہان حکومت گزرے ہیں جن کی حکومت میں کوئی شخص سر نہیں اتھا سکتا تھا۔ لیکن ان کو یہ بات اس سیاست کی بدولت حاصل ہوتی تھی جس کے اصول یہ تھے کہ بغاوت کے ذرا سے احتمال پر دفعتاً انصاف کا قانون بالکل الٹ دیا جائے۔ ایک شخص کے جرم میں تمام خاندان پکڑا جائے۔ واقعات کے ثبوت میں یقین کے بجائے صرف قیاس سے کام لیا جائے وحشیانہ سزائیں دی جائیں، آبادیاں جلا کر برباد کر دی جائیں۔ یہ اصول قدیم زمانے تک محدود نہ تھے۔ اب بھی یورپ کو باوجود اس تمدن و تہذیب کے انہی قاعدوں سے کام لینا پڑتا ہے۔

لیکن خلافت فاروقی میں کبھی بال برابر انصاف سے تجاوز نہیں ہو سکتا تھا۔ عمر بوس والوں نے بار بار عہد شکنی کی، تو ان کو جلا وطن کیا۔ لیکن اس طرح کہ ان کے جائیداد، مال و اسباب کے مفصل فہرست تیار کرا کے ایک ایک چیز کی دوگنی قیمت ادا کر دی۔ نجران کے عیسائیوں نے خود مختاری اور سرکشی کی تیاریاں کیں اور 40 ہزار آدمی بہم پہنچائے تو ان کو عرب سے نکال کر دوسرے ممالک میں آباد کرایا۔ مگر اس رعایت کے ساتھ کہ ان کی جائیداد وغیرہ کی قیمت دے دی۔

اور عاملوں کو لکھ بھیجا کہ راہ میں جدھر سے ان کا گزر ہو ان کے آرام کے سامان بہم پہنچائے جائیں اور جب یہ کہیں مستقل قیام کر لیں تو چوبیس مہینے تک ان سے جزیہ نہ لیا جائے۔ (ان تمام واقعات کو ہم ذمیوں کے حقوق میں اوپر لکھ آئے ہیں اور وہاں کتابوں کا حوالہ بھی دیا ہے )۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مشکلات

شاید تم کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایسی رعایا ہاتھ آئی تھی جس میں زیادہ تر اطاعت و انقیاد کا مادہ تھا اور لئے ان کو جابرانہ سیاست کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سچ پوچھو تو درحقیقت دونوں طرح کی مشکلات کا سامنا تھا۔ غیر قومیں جو حلقہ اطاعت میں آئی تھیں، پارسی یا عیسائی تھیں جو مدت تک شاہنشاہی کے لقب سے ممتاز رہی تھیں۔ اس لئے ان کو رعیت بننا مشکل سے گوارہ ہو سکتا تھا۔ اندرونی حالت یہ تھی کہ عرب میں بہت سے صاحب ادعا موجود تھے۔ جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مثلاً ایک مؤلفۃ القلوب کا گروہ تھا۔ جن کا قول تھا کہ خلافت بنو ہاشم یا بنو امیہ کا حق ہے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی میں سے نہیں۔ عمرو بن العاص جو مصر کے گورنر تھے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو خراج کے معاملے میں تنگ پکڑا تو انہوں نے نہایت حسرت سے کہا کہ خدا کی قدرت ہے ! جاہلیت میں میرا باپ جب کمخواب کی قبا زیب تن کرتا تھا تو خطاب (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے والد) سر پر لکڑی کا گٹھا لادے پھرتے تھے۔ آج اسی خطاب کا بیٹا مجھ پر حکومت جتا رہا ہے۔ بنو ہاشم ہمیشہ استعجاب کی نگاہ سے دیکھتے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے تیمی اور عدوی خلافت پر کیونکر قبضہ کر بیٹھے ہیں اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے کا علانیہ نقض خلافت کے مشورے ہوتے رہے۔ چنانچہ شاہ ولی اللہ صاحب ازالۃ الخفاء میں لکھتے ہیں کہ "زبیر و جمعے از بنو ہاشم درخانہ حضرت فاطمہ جمع شدہ درباب نقض خلافت مشور ہا بکاری بروند۔ ” (ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 29)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سطوت نے بنو ہاشم کے ادعا کو اگرچہ دبا دیا لیکن بالکل مٹ کیونکر سکتا تھا، اس کے علاوہ عرب کا فطری مذاق آزادی اور خود سری تھا اور یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی فرمانروا کی حکومت کے نیچے نہیں آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر امر معاویہ کی طرح اس آزادی اور خود سری کو مٹا کر حکومت کا رعب و داب قائم رکھتے تو چنداں قابل تعجب نہ تھا لیکن وہ عرب کے اس جوہر کو کسی طرح مٹانا نہیں چاہتے تھے بلکہ اور چمکاتے تھے۔ بارہا مجامع عام میں لوگ ان پر نہایت آزادانہ بلکہ گستاخانہ نکتہ تنقید کرتے تھے اور وہ گوارا کرتے تھے۔ شام کے سفر میں جب انہوں نے مجمع عام میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی کی وجہ اور اپنی برات بیان کی تو ایک شخص نے  وہیں اٹھ کر کہا (اسد الغابہ تذکرہ احمد بن حفص الحرومی)

واللہ ما عدلت یا عمر! لقد نزعت عاملاً استعملہ رسول اللہ و غمدت سیفاسلہ رسول اللہ ولقد قطعت الرحم و حسدت ابن العم۔

یعنی ” اے عمر! خدا کی قسم تو نے انصاف نہیں کیا۔ تو نے رسول اللہ کے عامل کو موقوف کر دیا۔ تو نے رسول کی کھینچی ہوئی تلوار کو نیام میں ڈال دیا۔ تو نے قطع رحم کیا، تو نے اپنے چچیرے بھائی سے حسد کیا۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ سب سن کر کہا کہ تم کو اپنے بھائی کی حمایت میں غصہ آ گیا۔ ان حالات کے ساتھ یہ رعب و دات کہ حضرت خالد کو عین اس وقت جب تمام عراق و شام میں لوگ ان کا کلمہ پڑھنے لگے تھے ، معزول کر دیا تو کسی نے دم نہ مارا اور خود حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی قسم کا خیال دل میں نہ لا سکے۔ امیر معاویہ اور عمرو بن العاص کی شان و شوکت محتاج بیان نہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے ان کو لرزہ آتا تھا۔ عمرو بن العاص کے بیٹھے عبد اللہ نے ایک شخص کو بے وجہ مارا پیٹا تھا۔ عمرو بن العاص کے سامنے ان کو اسی مضروب کے ہاتھ سے کوڑے لگوائے اور باپ بیٹے دونوں عبرت کا تماشا دیکھا کئے۔ سعد وقاص فاتح ایران کو معمولی شکایت پر جواب دہی میں طلب کیا تو ان کے بے عذر حاضر ہونا پڑا۔

ان واقعات سے ہر شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سیاست و تدبیر کے فن میں جو کمال حاصل تھا۔ کسی مدبر اور فرمانروا کے حالات میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ ان کی حکومت کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی۔ آئین حکومت میں شاہ و گدا، شریف و رذیل، عزیز و بیگانہ سب کا ایک رتبہ تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکومت کی خصوصیتیں

جبلہ بن الایہم غسانی، شام کا مشہور رئیس بلکہ بادشاہ تھا اور مسلمان ہو گیا۔ کعبہ کے طواف میں اس کی چادر کا گوشہ ایک شخص کے پاؤں کے نیچے آ گیا۔ جبلہ نے اس کے منہ پر تھپڑ کھینچ مارا۔ اس نے بھی برابر جواب دیا۔ جبلہ غصے سے بے تاب ہو گیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی شکایت سن کر کہا ” تم نے جو کچھ کیا اس کی سزا پائی” اس کو سخت حیرت ہوئی اور کہا کہ "ہم اس رتبہ کے لوگ ہیں کہ کوئی ہمارے آگے گستاخی سے پیش ہو تو قتل کا مستحق ہوتا ہے۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا "جاہلیت میں ایسا ہی تھا لیکن اسلام نے پست و بلند کو ایک کر دیا” اگر اسلام ایسا مذہب ہے جس میں شریف و رذیل کی کچھ تمیز نہیں، تو میں اسلام سے باز آتا ہوں۔ غرض وہ چھپ کر قسطنطنیہ چلا گیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی خاطر سے قانون انصاف کو بدلنا گوارا نہیں کیا۔

ایک دفعہ ملک کے عہدیداروں کو حج کے زمانے میں طلب کیا، اور مجمع عام میں کھڑے ہو کر کہا کہ جس کو ان لوگوں سے شکایت ہو پیش کرے۔ اس مجمع میں عمرو بن العاص گورنر مصر اور بڑے بڑے مرتبہ کے حکام اور عمال موجود تھے۔ ایک شخص نے اٹھ کر کہا کہ فلاں عامل نے بے وجہ مجھ کو سو درے مارے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اٹھ اور اپنا بدلہ لے۔ عمرو بن العاص نے کہا امیر المومنین اس طریق عمل سے تمام عمال بے دل ہو جائیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” تاہم ایسا ضرور ہو گا” یہ کہہ کر پھر مستغیث کی طرف متوجہ ہوئے کہ ” اپنا کام کر "۔ آخر عمرو بن العاص نے مستغیث کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ دو سو دینار لے لے اور اپنے دعویٰ سے باز آ جائے۔

ایک دفعہ سرداران قریش ان سے ملاقات کو آئے۔ اتفاق سے ان لوگوں سے پہلے صہیب، بلال، عمار وغیرہ بھی ملاقات کے منتظر تھے۔ جن میں اکثر آزاد شدہ غلام تھے اور دنیاوی حیثیت سے معمولی درجہ کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اول انہی لوگوں کو بلایا اور سرداران قریش باہر بیٹھے رہے۔ ابو سفیان جو زمانہ جاہلیت میں تمام قریش کے سردار تھے۔ ان کو یہ امر سخت ناگوار گزرا اور ساتھیوں سے خطاب کر کے کہا کہ ” کیا خدا کی قدرت ہے۔ غلاموں کو دربار میں جانے کی اجازت ملتی ہے اور ہم لوگ باہر بیٹھے انتظار کر رہے ہیں۔ ابو سفیان کی یہ حسرت اگرچہ ان کے اقران کے مذاق کے مناسب تھی تاہم ان میں کچھ حق شناس بھی تھے۔ ایک نے کہا ” بھائیو سچ یہ ہے کہ ہم کو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نہیں بلکہ اپنی شکایت کرنی چاہیے۔ اسلام نے سب کو ایک آواز سے بلایا۔ لیکن جو اپنی شامت سے پیچھے پہنچے وہ آج بھی پیچھے رہنے کے مستحق ہیں (کتاب الخراج صفحہ 66)۔

قادسیہ کے بعد جب تمام قبائل عرب اور صحابہ کی تنخواہیں مقرر کیں تو بڑے رشک و منافرت کا موقع پیش آیا۔ سرداران قریش اور معزز قبائل کے لوگ جو ہر موقع پر امتیاز کے خوگر تھے بڑے دعوے کے ساتھ منتظر رہے کہ تنخواہ کے تقرر میں حفظ مراتب کا خیال کیا جائے گا اور فہرست میں ان کے نام سب سے پہلے نظر آئیں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے تمام خیالات غلط کر دیئے۔ انہوں نے دولت و جاہ، زور قوت، ناموری و شہرت، اعزاز و امتیاز کی تمام خصوصیتوں کو مٹا کر صرف اسلامی خصوصیت قائم کی اور اسی اعتبار سے تنخواہ کم و بیش مقرر کیں۔ جو لوگ اول اسلام لائے تھے یا جہاد میں کارہائے نمایاں کئے تھے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ خصوصیت رکھتے تھے ان کو غیروں پر ترجیح دی جو ان خصوصیتوں میں برابر درجے پر تھے۔ ان کی تنخواہیں برابر مقرر کیں۔ یہاں تک کہ غلام اور آقا میں کچھ فرق نہ رکھا۔ حالانکہ عرب میں غلام سے بڑھ کر کوئی گروہ خوار و ذلیل نہ تھا۔ اسی موقع پر اسامہ بن زید کی تنخواہ جب اپنے بیٹے سے زیادہ مقرر کی تو انہوں نے عذر کیا کہ واللہ کسی موقع پر مجھ آگے نہیں رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ہاں! لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسامہ کو تجھ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے۔

اہل عرب کا شعار تھا کہ لڑائیوں میں فخریہ اپنے اپنے قبیلہ کی جے پکارا کرتے تھے۔ اس فخر کو مٹانے کے لئے تمام فوجی افسروں کو لکھ بھیجا کہ جو لوگ ایسا کریں ان کو سخت سزا دی جائے ” ایک دفعہ ایک شخص نے جو ضبہ کے قبیلہ سے تھا لڑائی میں یا آل ضبہ کا نعرہ لگایا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خبر ہوئی تو سال بھر کے لئے اس کی تنخواہ بند کر دی۔ اس قسم کے اور بہت سے واقعات تاریخوں میں ملتے ہیں (فتوح البلدان صفحہ 456)۔

اصول مساوات

اسی اصول مساوات کی بنا پر وہ کسی شخص کے لئے کسی قسم کا امتیاز پسند نہیں کرتے تھے۔ عمرو بن العاص نے مصر کی جامع مسجد میں منبر بنایا تو لکھ بھیجا کہ کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اور مسلمان نیچے بیٹھے ہوں اور تم اوپر بیٹھو۔ ” عمال کو ہمیشہ تاکیدی احکام بھیجتے رہتے تھے کہ کسی طرح کا امتیاز اور نمود اختیار نہ کریں۔

ایک دفعہ ابی بن کعب سے کچھ نزاع ہوئی۔ زید بن ثابت کے ہاں مقدمہ پیش ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس گئے تو انہوں نے تعظیم کے لئے جگہ خالی کر دی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ یہ پہلی ناانصافی ہے جو تم نے اس مقدمہ میں کی۔ ” یہ کہہ کر اپنے فریق کے برابر بیٹھ گئے۔ یہی بھید تھا کہ طرز معاشرت نہایت سادہ اور غریبانہ رکھی تھی۔ سفر و حضر میں جلوت و خلوت میں مکان اور بازار میں کوئی شخص ان کو کسی علامت شے پہچان نہیں سکتا تھا کہ یہ خلیفہ وقت ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے ایلچی مسجد نبوی میں آ کر ڈھونڈتے رہے کہ شاہنشاہ اسلام کہاں ہیں۔ حالانکہ شاہنشاہ وہیں پیوند لگے کپڑے پہنے کسی ایک گوشہ میں بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے عمال ان کو اسی برابر کے القاب سے خط لکھتے جس طرح وہ عمال کو لکھا کرتے تھے۔

اس اصول انصاف سے اگرچہ کچھ خاص آدمی جن کے ادعائے شان کو صدمہ پہنچتا تھا۔ دل میں مکدر ہوتے تھے۔ لیکن چونکہ یہ عرب کا اصلی مذاق تھا۔ اس لئے عام ملک پر اس کا نہایت عمدہ اثر ہوا اور تھوڑے ہی دنوں میں تمام عرب گرویدہ ہو گیا۔ خواص میں بھی جو حق شناس تھے وہ روز بروز معترف ہوتے گئے اور جو بالکل خود پرست تھے وہ بھی میلان عام کے مقابلے میں اپنی خود رائی کے اظہار کی جرات نہ کر سکے۔

اس اصول کے عمل میں لانے سے بہت بڑا فائدہ یہ ہوا کہ قبائل عرب میں جو انہی بے ہودہ مفاخر کی بناء پر آپس میں لڑتے رہتے تھے اور جس کی وجہ سے عرب کا سارا خطہ ایک میدان کارزار بن گیا تھا، ان کی باہمی رقابت اور مفاخرت کا زور بالکل گھٹ گیا۔

امیر المومنین کا لقب کیوں اختیار کیا

اس موقع پر یہ بتا دینا ضروری ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اصول مساوات کے ساتھ اپنے لئے امیر المومنین کا پرفخر لقب کیوں ایجاد کیا۔ اصل یہ ہے کہ اس زمانے تک یہ لقب کوئی فخر کی بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بلکہ اس سے صرف عہدہ اور خدمت کا اظہار ہوتا تھا۔ افسران فوج عموماً امیر کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ کفار عرب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو امیر مکہ کہا کرتے تھے۔ سعد بن وقاص کو عراق میں لوگوں نے امیر المومنین کہنا شروع کر دیا تھا (مقدمہ ابن خلدون فصل فی اللقب بامیر المومنین)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لقب کا خیال تک نہ تھا۔ اس کی ابتدا یوں ہوئی کہ ایک دفعہ لبید بن ربیعہ اور عدی بن حاتم مدینہ میں آئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونا چاہا۔ قاعدہ کے موافق اطلاع کرائی اور چونکہ کوفہ میں رہ کر امیر المومنین کا لفظ ان کی زبان پر چڑھا ہوا تھا، اطلاع کرتے وقت یہ کہا کہ امیر المومنین کو ہمارے آنے کی اطلاع کر دو۔ عمرو بن العاص نے اطلاع کی اور یہی خطاب استعمال کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خطاب کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے کیفیت واقعہ بیان کی۔ اس لقب کو پسند کیا اور اسی تاریخ سے اس کو شہرت عام ہو گئی ("ادب المفرد” امام بخاری مطبوعہ آرہ صفحہ 184 ) اس موقعہ پر ممکن ہے کہ ایک کوتاہ نظر کو یہ خیال ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت سے اگر کسی قسم کا جاہ و اعزاز مقصود نہ تھا تو انہوں نے خلافت اختیار کیوں کی؟ بے غرضی کا یہ اقتضا تھا کہ وہ اس خوان نعمت کو ہاتھ ہی نہ لگاتے لیکن یہ خیال محض عامیانہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شبہ خلافت سے ہاتھ اٹھاتے لیکن دوسرا کون تھا جو اس کو سنبھال لیتا؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قطعی طور سے جانتے تھے کہ یہ بار گراں ان کے سوا کسی سے اٹھ نہیں سکتا! کیا ایسے وقت میں ان کی راست بازی کا یہ تقاضا تھا کہ وہ دیدہ دانستہ لوگوں کی بد گمانیوں کے خیال سے خلافت سے دستبردار ہو جاتے اگر وہ ایسا کرتے تو خدا کو کیا جواب دیتے ؟ انہوں نے اسی دن خطبہ میں کہہ دیا تھا کہ۔

لو لا رجائی ان اکون خیر کم لکم و اقوا کم علیکم و اشد کم اطلاعاً بماینوب من مھم امر کم ماتولیت ذلک منکم۔

یعنی ” اگر مجھ کو یہ امید نہ ہوتی کہ میں تم لوگوں کے لئے سب سے زیادہ کارآمد سب سے زیادہ قومی اور مہمات امور کے لئے سب سے زیادہ قوی بازو ہوں تو میں اس منصب کو قبول نہ کرتا۔ "

اس سے زیادہ صاف وہ الفاظ ہیں جو امام محمد نے مؤطا میں روایت کئے ہیں۔

او علمت ان احداً اقوی علیٰ ھذا الا مرمنی لکان ان اقدم فیضرب عنقی اھون علی۔ (کتاب مذکور مطبوعہ مصطفائی صفحہ 164)۔

یعنی ” اگر میں جانتا کہ کوئی شخص اس کام (خلافت) کے لئے مجھ سے زیادہ قوت رکھتا ہے تو خلافت قبول کرنے کی بہ نسبت میرے نزدیک زیادہ آسان تھا کہ میری گردن مار دی جائے۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ان الفاظ پر غور کرو اور دیکھو کہ اس کا ایک حرف بھی صحت اور واقعیت سے ہٹا ہوا ہے ؟

 

سیاست

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیاست کے اصول سے خوب واقف تھے۔ اور یہ وہ خصوصیت ہے جس میں وہ دیگر تمام صحابہ سے علانیہ ممتاز ہیں۔ جو ممالک دائرہ خلافت میں داخل تھے ان کی تین قسمیں تھیں۔ عرب، ایران، شام و مصر۔ اس لئے ہر ایک کی حالت کے مناسب الگ الگ تدبیریں اختیار کیں۔ عراق و ایران میں چونکہ مدت سے مرزبان اور دہقان چلے آتے تھے اور اسلام کی فتح کے بعد بھی ان کا زور اور اقتدار قائم تھا۔ اس لئے ان کی پولٹیکل تنخواہیں مقرر کر دیں جس سے وہ بالکل رام ہو گئے۔ چنانچہ رؤسائے عراق میں ابن التخیر جان بسطام بن رنسی، رفیل، خالد، جمیل کے معقول روزینے مقرر کر دیئے۔ شام اور مصر میں رومیوں نے اصلی باشندوں کو صاحب جائیداد نہیں چھوڑا تھا۔ اس لئے ان کی طرف سے چنداں اندیشہ نہ تھا۔ وہ رومی حکومت کی بجائے ایک عادل اور منصف گورنمنٹ چاہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کے ساتھ مراعاتیں کیں کہ انہوں نے بارہا کہا کہ ہم کو مسلمان رومیوں کی بہ نسبت زیادہ محبوب ہیں۔ غیر قوموں کے ساتھ اگرچہ ان کا برتاؤ عموماً نہایت فیاضانہ تھا۔ چنانچہ اس کی بحث ذمیوں کے حقوق میں گزر چکی ہے۔ لیکن زیادہ تفحص سے معلوم ہوتا ہے کہ شام و مصر کی رعایا پر خاص توجہ مبذول تھی۔

مصر میں مقوقس مصر کا باشندہ اور رومیوں کی طرف سے نائب حکومت تھا۔ اس کے ساتھ شروع سے ایسے برتاؤ کئے کہ وہ ناخریدہ بن غلام بن گیا اور اس کی وجہ سے تمام مصر رعایا دل سے حلقہ بگوش اطاعت ہو گئی، ان باتوں پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ جنگی مقامات پر عرب کے خاندان آباد کرا دیئے اور فوجی چھاؤنیاں قائم کر دیں جن کی وجہ سے سینکڑوں میل تک اثر پہنچا اور کسی بغاوت کی جرات نہیں ہو سکتی تھی۔ کوفہ و بصرہ جو عرب کی طاقت کا مرکز بن گیا تھا، خاص اسی غرض سے آباد کرایا گیا تھا۔ شام اور مصر میں تمام سواحل پر فوجی چھاؤنیاں اسی ضرورت سے قائم کی گئی تھیں۔

خاس عرب میں ان کو مختلف پولٹیکل تدبیروں سے کام لینا پڑا۔ یہودیوں اور عیسائیوں کو جزیرہ عرب سے بالکل نکال دیا۔ بڑے بڑے ملکی افسروں کو ہمیشہ بدلتے رہتے تھے۔ چنانچہ عمرو بن العاص کے سوا کوئی ایسا گورنر مقرر نہیں ہوا جو مختلف صوبہ جات میں بدلتا نہ رہا ہو۔ ملکی افسروں میں سے جس کی نسبت زیادہ زور پا جانے کا خیال ہوتا تھا، اس کو علیحدہ کر دیتے تھے۔ جو لوگ زیادہ صاحب اثر تھے ان کو اکثر دارالخلافہ سے باہر نہیں جانے دیتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ ان لوگوں نے جہاد پر جانے کی اجازت طلب کی تو فرمایا کہ ” آپ لوگ دولت بہت جمع کر چکے ہیں، پھر فرمایا لا تخرجو افسللوا یمیناً و شمالاً (تاریخ یعقوبی صفحہ 181)۔

ایک دفعہ عبد الرحمٰن بن عوف نے پوچھا کہ ” آپ ہم لوگوں کو باہر جانے سے کیوں روکتے ہیں” فرمایا کہ اس کا جواب نہ دینا جواب دینے سے بہتر ہے (تاریخ یعقوبی صفحہ 181)۔ اپنے قبیلے کے لوگوں کو کبھی ملکہ عہدے نہیں دیئے۔ صرف نعمام بن عدی کو ضلع کا حاکم مقرر کیا تھا پھر ایک معقول وجہ سے موقوف کر دیا۔ بنو ہاشم کو بھی ملکی عہدنے نہیں دیئے اور اس میں زیادہ تر یہی مصلحت ملحوظ تھی۔

اس وقت تمام عرب میں تین شخص موجود تھے جو مشہور مدبر اور صاحب ادعا تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، چونکہ مہمات ملکی کے انجام دینے کے لئے ان لوگوں سے بڑھ کر تمام عرب میں کوئی شخص ہاتھ نہیں آ سکتا تھا۔ اس لئے سب کو بڑے بڑے عہدے دیئے ، لیکن ہمیشہ اس بات کا خیال رکھتے تھے اور ایسی تدبیر کرتے کہ وہ قابو سے باہر نہ ہونے پائیں۔ ان کی وفات کے بعد کوئی ایسا شخص نہ رہا جو کو دبا سکتا چنانچہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں جو ہنگامے برپا ہوئے وہ سب انہیں لوگوں کی بدولت تھے۔

سیاست اور پالیٹکس حکومت اور سلطنت کا لازمہ ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس باب میں تمام دنیا پر جو امتیاز حاصل ہے وہ یہ ہے کہ اور بادشاہوں نے پالیٹکس کی ضرورت سے جو جو کام کیے ان کا نام واقعی خدع، مکر، فریب، ظاہر داری اور نفاق تھا۔ بادشاہوں پر موقوف نہیں بڑے بڑے رفارمر اس شائبہ سے خالی نہیں ہوتے تھے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کسی کاروائی پر فریب اور حکمت عملی کا نقاب نہیں ہوتا تھا۔ وہ جو کچھ کرتے تھے علانیہ کرتے تھے۔ اور لوگوں کو صاف صاف اس کی مصلحت سے واقف کر دیتے تھے۔ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معزول کیا تو تمام اضلاع میں فرمان بھیج دیا کہ ؛

انی لم اعزل خالد اعن سخطۃ ولا خیانۃ ولکن الناس فتنوابہ فخفت ان یو کلوا الیہ۔

یعنی ” میں نے خالد کو ناراضی یا خیانت کے جرم میں نہیں موقوف کیا بلکہ اس وجہ سے کہ لوگ ان کی طرف زیادہ مائل ہوتے تھے تھے اس لئے میں ڈرا کہ ان پر بھروسہ نہ کر لیں۔ "

مثنیٰ کی معزولی کے وقت بھی ایسے ہی خیالات ظاہر کئے اور فرمایا :

لم اعزلھما عن ربیۃ ولکن الناس عظمو ھمافخشیت ان یو کلوا الیھما۔ (طبری صفحہ 2538)۔

بنو ہاشم کو جس وجہ سے ملکی خدمتیں نہیں دیں، حضرت عبد اللہ بن عباس سے صاف اس کی وجہ بیان کر دی۔ چنانچہ ایک دوسرے موقع پر اس کی تفصیل ائے گی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حسن کی سیاست کا ایک بڑا کارنامہ اور ان کی کامیابی کا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ انہوں نے حکومت و انتظام کی کل میں نہایت موزوں پرزے استعمال کئے تھے۔

 

عہدہ داران سلطنت کا عمدہ انتخاب

یہ بات عموماً مسلم ہے کہ جوہر شناسی کی صفت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سب سے بڑھ کر تھی۔ اس کے ذریعہ سے انہوں نے تمام عزت کے قابل آدمیوں اور ان کی مختلف قابلیتوں سے واقفیت پیدا کی تھی اور انہی قابلیتوں کے لحاظ سے ان کو مناسب عہدے دیئے تھے۔ سیاست و انتظام کے فن میں تمام عرب میں چار شخص اپنی نظیر نہیں رکھتے تھے۔ امیر معاویہ، عمرو بن العاص، مغیرہ بن شعبہ، زیاد بن سمیہ۔ چنانچہ ان سب کو بڑی بڑی ملکی خدمتیں سپرد کیں اور درحقیقت ان لوگوں کے سوا شام و کوفہ و مصر پر اور کوئی شخص قابو نہیں رکھ سکتا تھا۔

جنگی مہمات کے لئے عیاض بن غنم، سعد وقاص، خالد، نعمان بن مقرن وغیرہ کو انتخاب کیا۔ عمرو معدی کرب اور طلحہ بن خالد اگرچہ پہلوانی اور سپہ گری میں اپنا جواب نہیں رکھتے تھے لیکن فوج کو لڑا نہیں سکتے تھے۔ اس لئے ان دونوں کی نسبت حکم دے دیا کہ ان کو کسی حصہ فوج کی افسری نہ دی جائے۔ ۔ زید بن ثابت و عبد اللہ بن ارقم انشاء و تحریر میں مستثنیٰ تھے۔ ان کو میر منشی مقرر کیا۔ قاضی شریح، کعب بن سور، سلمان بن ربیعہ، عبد اللہ بن مسعود فصل قضایا میں ممتاز تھے۔ ان کو قضا کی خدمت دی۔ غرض یہ کہ جس کو جس کام پر مقرر کیا وہ گویا اسی کے لئے پیدا ہوا تھا۔ اس امر کا اعتراف دیگر قوموں کے مؤرخوں نے بھی کیا ہے۔ ایک مشہور عیسائی مؤرخ لکھتا ہے کہ ” عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کے سرداروں اور گورنروں کا انتخاب بلا رد و رعایت کیا اور مغیرہ و عمار کو چھوڑ کر باقی سب کا تقرر نہایت مناسب اور موزوں ہوا۔ "

بے لاگ عدل و انصاف

سب سے بڑی چیز جس نے ان کی حکومت کو مقبول عام بنایا اور جس کی وجہ سے اہل عرب ان کے سخت احکام کو بھی گوارا کر لیتے تھے ، یہ تھی کہ ان کا عدل و انصاف ہمیشہ بے لاگ رہا۔ جس میں دوست دشمن کی کچھ تمیز نہ تھی۔ ممکن تھا کہ لوگ اس بات سے ناراض ہوتے کہ وہ جرائم کی پاداش میں کسی کی عظمت و شان کا مطلق پاس نہیں کرتے لیکن جب وہ دیکھتے تھے کہ خاص اپنی آل و اولاد اور عزیز و اقارب کے ساتھ بھی ان کا یہی برتاؤ ہے تو لوگوں کو صبر آ جاتا تھا۔

ان کے بیٹھے ابو شحمہ نے جب شراب پی تو خود اپنے ہاتھ سے اسے 80/ کوڑے مارے اور اسی صدمہ سے وہ بیچارے قضا کر گئے۔ (ابو شحمہ کے قصے میں واعظوں نے بڑی رنگ آمیزیاں کی ہیں۔ لیکن اس قدر صحیح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو شرعی سزا دی اور اسی صدمہ سے انہوں نے انتقال کیا۔ (دیکھو معارف قتیبہ ذکر اولاد عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ)۔ قدامۃ بن مظعون جو ان کے سالے اور بڑے رتبے کے صحابی تھے۔ جب اسی جرم میں ماخوذ ہوئے تو علانیہ ان کو 80/ درے لگوائے۔

قدیم سلطنتوں کے حالات و انتظامات سے واقفیت

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیاست کا ایک بڑا اصول یہ تھا کہ قدیم سلطنتوں اور حکمرانوں کے قواعد اور انتظامات سے واقفیت پیدا کرتے تھے اور ان میں جو چیزیں پسند کے قابل ہوتی تھیں، اس کو اختیار کرتے تھے۔ خراج عشور، دفتر رسد، کاغذات، حساب ان تمام انتظامات میں انہوں نے ایران اور شام کے قدیم قواعد پر عمل کیا۔ البتہ جہاں کوئی نقص پایا اس کی اصلاح کر دی۔ عراق کے بندوبست کا جب ارادہ کیا تو حذیفہ اور عثمان بن حنیف کے نام حکم بھیجا کہ عراق کے دو بڑے زمینداروں کو میرے پاس بھیج دو۔ چنانچہ یہ زمیندار مع مترجم کے ان کے پاس آئے اور انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ سلاطین عجم کے ہاں مال گزاری کی تشخیص کا کیا طریقہ تھا۔ (کتاب الخراج صفحہ 21)۔ جزیہ حالانکہ بظاہر مذہبی لگاؤ رکھتا تھا۔ تاہم اس کی تشخیص میں وہی اصول ملحوظ رکھے جو نوشیرواں نے اپنی حکومت میں قائم کئے تھے۔ علامہ ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے جہاں نوشیرواں کے انتظامات اور بالخصوص جزیہ کا ذکر کیا ہے وہاں لکھا ہے کہ

و ھی الوضائع التی اقتدیٰ بھا عمر بن الخطاب حین افتتح بلا دالفرس۔

” یعنی یہ وہی قاعدے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب فارس کا ملک فتح کیا تو ان کی اقتداء کی۔ "

اس سے زیادہ صاف اور مصرح، علامہ ابن مسکویہ نے اس مضمون کو لکھا ہے ، علامہ موصوف نے جو حکیم اور فلسفی اور شیخ بو علی سینا کے معاصر و ہم پایہ تھے تاریخ میں ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام ” تجار الامم ہے (تاریخ طبری صفحہ 122) (یہ کتاب قسطنسنیہ کے کتب خانہ مسجد اما صوفیا میں موجود ہے اور میں نے اسی نسخہ سے نقل کیا ہے )۔ اس میں جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے انتظامات ملکی کا ذکر کیا، لکھا ہے کہ :

و کان عمر یکثر الخلوۃ بقوم من الفرس یقرئون علیہ سیاسات الملوک ولا سیما ملوک العجم الفضلا ولا سیما النوشروان و انۃ کان معجا بھا کثیر الاقتدا بھا۔

” یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فارس کے چند آدمیوں کو صحبت خاص میں رکھتے تھے ، یہ لوگ ان کو بادشاہوں کے آئین حکومت پڑھ کر سنایا کرتے تھے۔ خصوصاً شاہان عجم اور ان میں بھی خاص کر نوشیروان کے اس لئے کہ ان کو نوشیروان کے آئین بہت پسند تھے اور وہ ان کی بہت پیروی کرتے تھے۔ "

علامہ موصوف کے بیان کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے کہ عموماً مؤرخوں نے لکھا ہے کہ جب فارس کا رئیس ہرمزان اسلام لایا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے خاص درباریوں میں داخل کر لیا اور انتظامات ملکی کے متعلق اس سے اکثر مشورہ لیتے رہتے تھے۔

واقفیت حالات کے لئے پرچہ نویس اور واقعہ نگار

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی کوشش اس بات پر مبذول رہتی تھی کہ ملک کا کوئی واقعہ ان سے مخفی نہ رہنے پائے۔ انہوں نے انتظامات ملکی کے ہر صیغہ میں پرچہ نویس اور واقعہ نگار مقرر کر رکھے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک کا ایک ایک جزئی واقعہ ان تک پہنچتا تھا۔ امام طبری لکھتے ہیں۔

و کان عمر لا یخفی علیہ شی فی عملہ کتب الیہ من العراق بخروج من خرج و من الشام بجایزۃ من اجیز فیھا۔

"یعنی عمر پر کوئی بات مخفی نہیں رہتی تھی۔ عراق میں جن لوگوں نے خروج کیا اور شام میں جن لوگوں کو انعام دیئے گئے سب تحریری اطلاعیں ان کو پہنچیں۔ "

عراق کے ایک معرکہ میں سردار لشکر نے عمرو معدی کرب کو دوسرا حصہ نہیں دیا۔ عمرو معدی کرب نے وجہ پوچھی۔ انہوں نے کہا کہ تمہارا گھوڑا دوغلا ہے اس لئے اس کا حصہ کم ہو گیا۔ معد کرب کو اپنی پہلوانی کا غرور تھا۔ بولے کہ ہاں، دوغلا ہی دوغلے کو پہچان بھی سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوراً خبر ہوئی۔ عمرو معدی کرب کو سخت تنبیہ کی جس کی وجہ سے ان کو آئندہ پھر ایسی گستاخی کی جرات نہیں ہوئی۔ نعمان بن عدی میسان کے حاکم تھے۔ دولت و نعمت کے مزے میں پڑ کر انہوں نے اپنی بی بی کو ایک خط لکھا جس میں یہ شعر بھی تھا۔

لعل امیر المومنین یسوؤہ تنادمنا الجوسق المتھدم

"غالباً امیر المومنین کو خبر پہنچے گی تو وہ برا مانیں گے کہ ہم لوگ محلوں میں رندانہ صحبتیں رکھتے ہیں۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوراً خبر ہوئی اور ان کو معزول کر کے لکھا کہ ہاں مجھ کو تمہاری یہ حرکت ناگوار گزری۔ (اسد البالغہ ذکر نعمام بن عدی)۔

صحابہ میں حزیفہ بن الیمان ایک بزرگ تھے جس کو اکثر مخفی باتوں کا پتہ لگ جاتا تھا۔ عہد نبوت میں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے محرم راز تھے اور اسی وجہ سے صاحب السر کہلاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دن ان سے پوچھا کہ منافقین کو جو گروہ ہے ان میں سے کوئی شخص میرے عمالوں اور عہدہ داروں میں بھی ہے ، انہوں نے کہا، ہاں ایک شخص ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نام پوچھا لیکن انہوں نے راز داری کے لحاظ سے نام نہیں بتایا۔ حذیفہ کا بیان ہے کہ اس واقع کے بعد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کو معزول کر دیا۔ جس سے میں نے قیاس کیا کہ انہوں نے خود پتہ لگا لیا۔ (اسد الغابہ ذکر حذیفہ بن الیمان)۔ اسی تفحص اور بیدار مغزی کا اثر تھا کہ تمام افسر اور عمال ان کے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے تھے۔ علامہ طبری لکھتے ہیں۔

و کانو کاید عون شیئا ولا یاتونہ الاوامر وہ ففہ (طبری صفحہ 2487)۔

"یعنی لوگ کوئی کام ان سے بغیر دریافت کئے نہیں کرتے تھے۔ "

 

بیت المال کا خیال

بیت المال یعنی خزانہ کا بہت خیال رکھتے اور کسی قسم کی رقم کو اس کے احاطے سے باہر نہیں سمجھتے۔ خانہ کعبہ میں مدت کا چڑھاوا جمع تھا۔ اس کی نسبت فرمایا کہ

لقد ھممت ان الاادع فیھا صفراء ولا بیضاء الاقسمتہ (صحیح بخاری باب کسوۃ الکعبہ)

یعنی ” میں نے ارادہ کیا ہے کہ جو کچھ اس میں سونا چاندی ہے سب لوگوں کو تقسیم کر دوں۔ "

ایک دفعہ غنیمت کا مال آیا۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ مطہرہ) کو خبر ہوئی۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئیں اور کہا امیر المومنین! اس میں سے میرا حق مجھ کو عنایت کیجئے۔ کیونکہ میں ذوالقربی میں سے ہوں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ” جان پدر! تیرا حق میرے خاص مال میں سے ہے لیکن یہ غنیمت کا مال ہے۔ تو نے اپنے باپ کو دھوکہ دینا چاہا۔ وہ بیچاری خفیف ہو کر اٹھ گئیں۔ (مسند امام احمد حنبل)۔

شام کی فتح کے بعد قیصر روم سے دوستانہ مراسم ہو گئے تھے اور خط و کتابت رہتی تھی۔ ایک دفعہ ام کلثوم (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ) نے قیصر کی حرم کے پاس تحفہ کے طور پر عطر کی چند شیشیاں بھیجیں۔ اس نے اس کے جواب میں شیشیوں کو جواہرات سے بھر کر بھیجا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ حال معلوم ہوا تو فرمایا کہ گو عطر تمہارا تھا لیکن قاصد جو لے گیا تھا وہ سرکاری تھا اور اس کے مصارف عام آمدنی میں سے ادا کئے گئے۔ غرض وہ جواہرات لے کر بیت المال میں داخل کر دیئے گئے اور ان کو کچھ معاوضہ دے دیا گیا۔

ایک دفعہ بیمار پڑ گئے۔ لوگوں نے علاج میں شہد تجویز کیا۔ بیت المال میں شہد موجود تھا لیکن بلا اجازت نہیں لے سکتے تھے۔ مسجد نبوی میں جا کر لوگوں سے کہا کہ اگر اجازت دیں تو بیت المال سے تھوڑا سے شہد لے لوں (کنز العمال جلد 6، صفحہ 354)۔ اس کاروائی کا مطلب اجازت کے سوا یہ ظاہر کرنا تھا کہ خزانہ عامہ پر خلیفہ وقت کو اتنا اختیار بھی نہیں۔

خلافت سے پہلے وہ تجارت کے ذریعے سے گزر بسر کرتے تھے۔ خلافت کے مہمات میں یہ شغل قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ صحابہ کو جمع کر کے اپنی ضروریات بیان کیں اور کہا کہ بیت المال سے میں کس قدر اپنے مصارف کے لئے لے سکتا ہوں۔ لوگوں نے مختلف رائے دیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ” صرف معمولی درجہ کی خوراک اور لباس” چنانچہ ان کے اور ان کی بیوی بچوں کے لئے بیت المال سے کھانا اور کپڑا مقرر ہو گیا (تاریخ طبری واقعات 15ھ)۔ فوجی روزینہ داروں میں جب بدریین (وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شریک تھے ) کے لئے تنخواہیں مقرر ہوئیں۔ تو اور لوگوں کے ساتھ پانچ ہزار درہم سالانہ ان کے بھی مقرر ہو گئے۔ کروڑوں روپے کی آمدنی میں فاروق اعظم کو سال بھر میں جو ملتا تھا اس کی یہ تعداد تھی۔

ان کی معاشرت کے حالات میں آگے چل کر تم پڑھو گے کہ وہ اکثر پھٹے پرانے کپڑے پہنتے تھے۔ زمین پر سو رہتے تھے۔ مہینوں گیہوں کا آٹا گھر میں نہیں پکتا تھا۔ اس کی وجہ کچھ رہبانیت اور جوگی پن نہ تھا۔ بلکہ درحقیقت اس سے زیادہ ان کو ملک کی آمدنی میں سے نصیب نہیں ہوتا تھا۔ کبھی کبھی اتفاقیہ کوئی بڑی رقم آ جاتی تھی تو وہ بے دریغ خرچ بھی کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت اُم کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب نکاح کیا تو ان کے شرف اور خاندان نبوت کے تعلق کی وجہ سے 40 ہزار درہم مہر باندھا اور اسی وقت ادا بھی کر دیا۔

بنو ہاشم كو جو ملكی عہدے نہیں دیئے اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ ان کو خوف تھا کہ بنو ہاشم چونکہ خمس میں اپنا حصہ ایک شرعی حق سمجھتے ہیں اس لئے دولت مند ہونے کے باوجود خمس میں سے اپنا حصہ لیں گے۔ حالانکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک خمس کے مصارف امام وقت کی رائے پر منحصر ہیں۔ چنانچہ اس کی مفصل بحث آگے آئے گی۔ انہوں نے بنو ہاشم کی نسبت اپنی اس بدگمانی کا اظہار بھی کر دیا تھا۔ خمس کا عامل جب مر گیا تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کرنا چاہا لیکن ان کی طرف سے مطمئن نہ تھے۔ اس لئے بلا کر ان سے کہا کہ فی نفسی منک شئی میرے دل میں تمہاری طرف سے ذرا کھٹکا ہے۔ انہوں نے پوچھا کیوں؟ فرمایا

انی خشیت علیک ان تاتی علی الفی الذی ھوات (کتاب الخراج ابو یوسف صفحہ 64 تا 65)۔

یعنی ” مجھے ڈر ہے کہ تم محاصل ملکی پر تصرف نہ کرو۔ "

یہ صرف سوء ظن نہ تھا بلکہ وقوع میں بھی آیا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عبد اللہ کو عامل مقرر کیا تو انہوں نے بیت المال میں سے بہت سی رقم لے لی اور جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باز پرس کی تو لکھ بھیجا کہ ابھی میں نے اپنا پورا حق نہیں لیا۔

یاد رکھنا چاہیے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیت المال کے بارے میں جو کفایت شعاری برتی وہ خلافت فاروقی کی کامیابی کا بہت بڑا سبب تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت میں لوگوں نے جو شورشیں کیں، اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوئی کہ جنا موصوف نے بیت المال کے متعلق فیاضانہ برتاؤ کیا۔ یعنی اپنے عزیز و اقارب کو ذوالقربی کی بناء پر رقمیں عطا کیں۔

ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کو بے انتہا کام درپیش رہتے تھے۔ دارالخلافہ سے سینکڑوں ہزاروں میل تک فوجیں پھیلی ہوئی تھیں۔ جن کی ایک ایک حرکت ان کے اشاروں پر موقوف تھی۔ انتظامات حکومت کی مختلف شاخوں کا ذکر تم اوپر پڑھ آئے ہو۔ فقہ کی ترتیب اور افتاء جو ایک مستقل اور بہت بڑا کام تھا، پھر اپنے ذاتی اشغال جدا تھے۔ تاہم ہم کام وقت پر انجام پاتا تھا اور کسی کام میں کبھی حرج نہیں ہوتا تھا۔ نہاوند کا سخت معرکہ جس میں تمام ایران امنڈ آیا تھا درپیش تھا کہ عین اسی زمانے میں سعد وقاص گورنر کوفہ کی شکایت گزری۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ اگرچہ بہت تنگ وقت ہے تاہم سعد کی تحقیقات نہیں رک سکتی۔ چنانچہ کوفہ سے فوجوں کی روانگی کا انتظام بھی ہوتا رہا اور ساتھ ہی بڑی کدو کاوش سے سعد کی تحقیقات بھی ہوئی۔ جزیرہ والوں نے قیصر سے مل کر جب شام پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس سرعت سے تمام اضلاع سے فوجیں بھیجیں کہ جزیرہ کے تمام ناکے روک دیئے اور اہل جزیرہ قیصر تک پہنچ بھی نہ سکے۔ زیاد بن جدیر، دو ملکی تحصیل پر مامور تھے۔ انہوں نے ایک عیسائی کے گھوڑے کی قیمت بیس ہزار قرار دے کر محصول طلب کیا۔ اس نے کہا کہ گھوڑا آپ رکھ لیجیئے اور 19 ہزار مجھ کو حوالہ کیجئے۔ دوبارہ عیسائی ان کی سرحد سے گزرا تو اس سے پھر محصول مانگا۔ وہ مکہ معظمہ پہنچا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صرف اس قدر کہا کہ تم مطمئن رہو۔ عیسائی زیاد بن جدیر کے پاس واپس آیا اور اور دل میں ارادہ کر چکا تھا کہ ایک ہزار اور دے کر گھوڑے کو واپس لے۔ یہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرمان پہلے پہنچ چکا تھا کہ سال بھر میں دو دفعہ ایک چیز کا محصول نہیں لیا جا سکتا۔

ایک اور عیسائی کو اسی قسم کا واقعہ پیش آیا۔ وہ عین اس وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا جب وہ حرم میں خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اسی حالت میں اس نے شکایت کی۔ فرمایا دوبارہ محصول نہیں لیا جا سکتا۔ (یہ دونوں روایتیں کتاب الخراج صفحہ 78-79 میں ہیں)۔ عیسائی چند روز مکہ میں مقیم رہا۔ ایک دن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس پہنچا اور کہا کہ ” میں وہی نصرانی ہوں جس نے محصول کے متعلق شکایت کی تھی۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں حنیقی (مسلمان) ہوں جس نے تمہارا کام انجام دیا۔ عیسائی نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے ہی دن زیاد کو حکم بھیج چکے تھے۔

اس بات کا بہت سخت اہتمام کیا کہ ممالک محروسہ میں سے کوئی شخص فقر و فاقہ میں مبتلا نہ ہونے پائے۔ عام حکم تھا اور اس کی ہمیشہ تعمیل ہوتی تھی کہ ملک میں جس قدر اپاہج، از کار رفتہ اور مفلوج وغیرہ ہوں سب کی تنخواہیں بیت المال سے مقرر کر دی جائیں۔ لاکھوں سے متجاوز آدمی فوجی دفتر میں داخل تھے جن کو گھر بیٹھے خوراک ملتی تھی۔ اول یہ انتظام کیا گیا تو حکم دیا کہ ایک جریب (قریباً پچیس سیر کا ہوتا ہے ) آٹا پکایا جائے۔ پک کر تیار ہوا تو 30 آدمیوں کو بلا کر کھلایا گیا۔ شام کو پھر اسی قدر آٹا پکوایا اور اسی قدر آدمیوں کو کھلایا۔ دونوں وقت کے لئے یہ مقدار کافی ٹھہری تو فرمایا کہ ایک مہینے بھر کی خوراک دو جریب آٹا کافی ہے۔ پھر حکم دیا کہ ہر شخص کے لئے اس قدر آٹا مقرر کر دیا جائے۔ اعلان عام کے لئے ممبر پر چڑھے اور پیمانہ ہاتھ میں لے کر کہا کہ میں نے تم لوگوں کے لئے اس قدر خوراک مقرر کر دی ہے۔ جو شخص اس کو گھٹائے گا اس سے خدا سمجھے گا۔

ایک روایت میں ہے کہ پیمانہ ہاتھ میں لے کر یہ الفاظ فرمائے۔

انی قد فرضت لکل نفس مسلمۃ فی شھر مدی حنطتہ و قسطی خل

یعنی ” میں نے ہر مسلمان کے لئے فی ماہ دو مد گیہوں اور دو قسط سرکہ مقرر کیا ہے۔ "

غربا اور مساکین کے روزینے

اس پر ایک شخص نے کہا کہ کیا غلام کے لئے بھی، فرمایا ” ہاں غلام کے لئے بھی” (یہ پوری تفصیل فتوح البلدان صفحہ 460 میں ہے اور تمام تاریخوں میں بھی ذرا ذرا اسے اختلاف کے ساتھ یہ روزیت مذکور ہے )۔ غربا اور مساکین کے لئے بلا تخصیص مذہب حکم تھا کہ بیت المال سے ان کے روزینے مقرر کر دیئے جائیں۔ چنانچہ جیسا ہم اوپر ذمیوں کے حقوق میں لکھ آئے ہیں۔ بیت المال کے عامل کو لکھ بھیجا کہ خدا کے اس قول سے کہ انما الصدقات للفقرآو والمساکین فقراء سے مسلمان اور مساکین سے اہل کتاب مراد ہیں۔

مہمان خانے

اکثر شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔ جہاں مسافروں کو بیت المال کی طرف سے کھانا ملتا تھا۔ چنانچہ کوفہ کے مہمان خانے کا ذکر ہم کوفہ کی آبادی کے ذکر میں لکھ آئے ہیں۔ مدینہ منورہ میں جو لنگر خانہ تھا اکثر وہاں خود جا کر اپنے اہتمام سے کھانا کھلواتے تھے۔

لا وارث بچے

اولاد لقطہ یعنی گمنام بچے جن کو مائیں شاہراہ وغیرہ پر ڈال جاتی تھیں، ان کے لئے سن 18 ہجری میں یہ انتظام کیا کہ جہاں اس قسم کا کوئی بچہ ملے اس کے دودھ پلانے ا ور دیگر مصارف کا انتظام بیت المال سے کیا جائے۔ (بلاذری صفحہ 452 و یعقوبی جلد 7 صفحہ 71)۔ چنانچہ ان مصارف کے لئے اول سو درہم سالانہ مقرر ہوتے تھے پھر سال بہ سال ترقی ہو جاتی تھی۔

یتیموں کی خبر گیری

یتیموں کی پرورش اگر ان کی جائیداد ہوتی تھی تو اس کی حفاظت کا نہایت اہتمام کرتے تھے اور اکثر تجارت کے ذریعے اسے ترقی دیتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ حکم بن ابی العاص سے کہا کہ میرے پاس یتیموں کا جو مال جمع ہے وہ زکوٰۃ نکالنے کی وجہ سے گھٹتا جا رہا ہے۔ تم اس کو تجارت میں لگاؤ اور جو نفع ہو واپس کر دو۔ چنانچہ دس ہزار کی رقم حوالہ کی اور وہ بڑھتے بڑھتے لاکھ تک پہنچ گئی۔

قحط کا انتظام

18 ہجری میں جب عرب میں قحط پڑا تو عجب سرگرمی ظاہر کی۔ اول بیت المال کا تمام نقد و غلہ صرف کیا۔ پھر تمام صوبوں کے افسروں کو لکھا کہ ہر جگہ سے غلہ روانہ کیا جائے۔ چنانچہ حضرت ابو عبیدہ نے چار ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے بھیجے۔ عمرو بن العاص نے بحر قلزم کی راہ سے بیس جہاز روانہ کئے جن میں ایک ایک میں تین تین ہزار اردب غلہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان جہازوں کے ملاحظہ کے لئے خود بندرگاہ تک گئے۔ جس کا نام جار تھا، اور مدینہ منورہ سے تین منزل ہے۔ بندرگاہ میں دو بڑے بڑے مکان بنوائے اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ قحط زدوں کا نقشہ بنائیں۔ چنانچہ بقید نام اور مقدار غلہ رجسٹر تیار ہوا۔ ہر شخص کو چک تقسیم کی گئی۔ جس کے مطابق اس کو روزانہ غلہ ملتا تھا۔ چک پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مہر ثبت ہوتی تھی۔ (یہ تفصیل یعقوبی صفحہ 77 میں ہے۔ اخیر کے فقرے یہ ہیں لم امر زید بن ثابت ان یکتب الناس علی منازلھم و امر ان یکتب مکا کامن قواطیس لم یختم اسا فلھا فکان اول من صبک و ختم اسفل الصکاک۔ اردب کم و بیش 2 من کا ہوتا ہے )۔ اس کے علاوہ ہر روز 120/اونٹ خود اپنے اہتمام سے ذبح کراتے تھے اور قحط زدوں کو کھانا پکوا کر کھلاتے تھے۔ اس موقع پر یہ بات خاص طور پر جتا دینے کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ ملک کی پرورش اور پرداخت کا اتنا کچھ اہتمام تھا لیکن ان کی فیاضی ایشیائی قسم کی فیاضی نہ تھی جس کا نتیجہ کاہلی اور مفت خوری کا رواج دنیا میں ہوتا ہے۔

رفاہ عام کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نکتہ سنجی

ایشائی سلاطین و امراء کی فیاضیوں کا ذکر عموماً بڑے ذوق و شوق سے کیا جاتا ہے۔ لیکن لوگ اس بات کا خیال نہیں کرتے کہ اس سے جہاں ایک بادشاہ کی مدح نکلتی ہے دوسری طرف قوم کا درویزہ گر ہونا اور انعام و بخشش پر لو لگائے بیٹھے رہنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ یہی ایشائی فیاضیاں تھیں جس نے آج ہماری قوم میں لاکھوں آدمی ایسے پیدا کر دیئے ہیں جو خود ہاتھ پاؤں ہلانا نہیں چاہتے اور نذر و نیاز وغیرہ پر اوقات بسر کرتے ہیں۔

لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس سے بے خبر نہ تھے۔ وہ اس بات کی سخت کوشش کرتے تھے کہ لوگوں میں کاہلی اور مفت خوری کا مادہ نہ پیدا ہونے پائے۔ جن لوگوں کی تنخواہیں اور خوراک مقرر کی تھیں، وہ صرف وہ لوگ تھے جن سے کبھی نہ کبھی فوجی خدمت کو توقع ہو سکتی تھی۔ یا جنہوں نے پہلے کوئی نمایاں خدمت کی ہوئی تھی اور وہ ضعیف اور بیماری کی وجہ سے خود کسب معاش نہیں کر سکتے تھے۔ اس اقسام کے علاوہ وہ کبھی اور قسم کی فیاضی کو روا نہیں رکھ سکتے تھے۔

محدث ابن جوزی نے سیرۃ العمرین میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ ایک سائل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دیکھا تو اس کی جھولی آٹے سے بھری ہوئی تھی۔ چھین کر اونٹوں کے آگے ڈال دی اور فرمایا کہ اب جو مانگنا ہے مانگ۔ علامہ ماروردی نے احکام السلطانیہ میں لکھا ہے کہ محتسب کا فرض ہے کہ ایسے لوگوں کو جو کھانے کمانے کے قابل ہوں اور باوجود اس کے صدقہ اور خیرات لیتے ہوں تنبیہہ و تادیب کرے۔ اس کے بعد علامہ موصوف نے اس کی سند میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس فعل سے استدلال کیا ہے اور لکھا ہے کہ وقد فعل عمر مثل ذلک بقوم من اھل الصدقۃ۔ (الاحکام السلطانیہ مطبوعہ مصر صفحہ 235)۔

معمول تھا کہ جب کسی شخص کو ظاہر میں خوشحال دیکھتے تو دریافت فرماتے کہ یہ کوئی پیشہ بھی کرتا ہے ! اور جب لوگ کہتے کہ نہیں، تو فرماتے کہ یہ شخص میری آنکھ سے گر گیا۔ ان کا مقولہ تھا کہ مکسبہ فیھا دنائۃ خیر من مسالۃ الناس یعنی ذلیل پیشہ بھی لوگوں سے سوال کرنے کے بہ نسبت اچھا ہے۔ مفت خوری کا موقع تو زیادہ تر علماء و صوفیا کو ملتا ہے۔ ان کے زمانے تک صوفیہ تو پیدا نہیں ہوئے تھے لیکن علماء کو انہوں نے اعلانیہ مخاطب کر کے کہا لا تکونو عبیالاً علی المسلمین یعنی مسلمانوں پر اپنا بار نہ ڈالو۔ (سیرۃ العمرین لا بن الجوزی)۔

 

جزئیات پر توجہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخی زندگی میں ایک عجیب بات یہ ہے کہ اگرچہ ان کو ہمیشہ بڑے اہم امور سے سابقہ رہتا تھا۔ تاہم نہایت چھوٹے چھوٹے کام بھی وہ خود انجام دے لیتے تھے اور اس کے لئے ان کو وقت اور فرصت کی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ ان میں ایسے کام بھی ہوتے تھے جن کا اختیار کرنا بظاہر شان خلافت کے خلاف تھا۔ لیکن ان کو کسی کام سے عار نہ تھا۔

روزینہ داروں کے جو روزینے مقرر تھے اکثر خود جا کر تقسیم کرتے تھے۔ قدید اور عسفان مدینہ سے کئی منزل کے فاسلے پر دو قصبے ہیں، جہاں قبیلہ خزاعہ کے لوگ آباد تھے۔ ان دونوں مقاموں میں خود تشریف لے جاتے تھے۔ روزینہ داروں کا دفتر ہاتھ میں ہوتا تھا۔ ان کو دیکھ کر چھوٹے بڑے سب کے سب گھروں سے نکل آتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اپنے ہاتھ سے تقسیم کرتے جاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ دارالصدقہ میں جاتے اور ایک ایک اونٹ کے پاس کھڑے ہو کر ان کے دانت گنتے اور ان کا حلیہ قلمبند کرتے۔

محب طبری نے ابو حذیفہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کا معمول تھا کہ مجاہدین کے گھروں پر جاتے اور عورتوں سے کہتے کہ تم کو کچھ بازار سے منگوانا ہو تو میں لا دوں۔ وہ لونڈیاں ساتھ کر دیتیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود چیزیں خریدتے اور ان کے حوالہ کرتے۔ مقام جنگ سے قاصد آتا اور اہل فوج کے خطور لاتا تو خود ان کے گھروں پر پہنچا آتے تھے اور کہتے کہ فلاں تاریخ تک قاصد واپس جائے گا۔ جواب لکھوا رکھو کہ اس وقت تک روانہ ہو جائے۔ کاغذ، قلم اور دوات خود مہیا کر دیتے ارو جس گھر میں کوئی حرف شناس نہ ہوتا خود چوکھٹ کے پاس بیٹھ جاتے اور گھر والے جو لکھواتے لکھتے جاتے۔

رعایا کی شکایتوں سے واقفیت کے وسائل

ان کی سب سے زیادہ توجہ اس بات پر مبذول رہتی تھی کہ رعایا کی کوئی شکایت ان تک پہنچنے سے نہ رہ جائے۔ یہ معمول رکھا کہ ہر نماز کے بعد صحن مسند میں بیٹھ جاتے اور جس کو جو ان سے کہنا سننا ہوتا کہتا۔ کوئی نہ ہوتا تو تھوڑی دیر انتظار کر کے اٹھ جاتے۔ راتوں کو دورہ کیا کرتے۔ سفر میں راہ چلتوں سے حالات پوچھتے۔ بیرونی اضلاع سے جو سرکاری قاصد آتے ان سے ہر قسم کی پرشس خود کرتے۔

سفارت

ایک عمدہ طریقہ دریافت حالات کا یہ تھا کہ تمام اضلاع سے ہر سال سفارتیں آتیں اور وہ ان مقامات کے متعلق ہر قسم کی ضروری باتیں پیش کرتے۔ اس سفارت کو وفد کہتے تھے اور یہ عرب کا قدیم دستور تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے زمانے میں اس سے وہ کام لیا جو آج کل جمہوری سلطنتوں میں رعایا کے قائم مقام ممبر انجام دیتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں مختلف اضلاع سے جو سفارتیں آئیں اور جس طرح انہوں نے اپنی مقامی ضرورتیں پیش کیں۔ اس کا حال عقد الفرید وغیرہ میں بتفصیل ملتا ہے۔

شام کا سفر اور رعایا کی خبر گیری

ان تمام باتوں پر بھی ان کو تسلی نہ ہوئی تھی۔ فرماتے کہ عمال رعایا کی پرواہ نہیں کرتے اور ہر شخص مجھ تک پہنچ نہیں سکتا۔ اس بناء پر ارادہ کیا تھا کہ شام، جزیرہ، کوفہ اور بصرہ کا دورہ کریں اور ہر جگہ دو دو مہینے ٹھہریں۔ لیکن موت نے فرصت نہ دی۔ تاہم اخیر دفعہ جب شام کا سفر کیا تو ایک ایک ضلع میں ٹھہر کر لوگوں کی شکایتیں سنیں اور داد رسی کی۔ اس سفر میں ایک پر عبرت واقعہ پیش آیا۔ دارالخلافہ کو واپس آ رہے تھے کہ راہ میں ایک خیمہ دیکھا۔ سواری سے اتر کر خیمہ کے قریب گئے۔ ایک بڑھیا عورت نظر آئی۔ اس سے پوچھا عمر کا کچھ حال معلوم ہوا؟

اس نے کہا ہاں شام سے روانہ ہو چکا لیکن خدا اس کو غارت کرے۔ آج تک مجھ کو اس کے ہاں سے ایک حبہ بھی نہیں ملا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، اتنی دور کا حال عمر کو کیونکر معلوم ہو سکتا ہے۔

بولی کہ ” اس کو رعایا کا حال معلوم نہیں تو خلافت کیوں کرتا ہے ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت رقت ہوئی اور بے اختیار رو پڑے۔ ہم اس موقع پر متعدد حکایتیں نقل کرتے ہیں جس سے اندازہ ہو گا کہ رعایا کے آرام و آسائش اور خبر گیری میں ان کو کس قدر سرگرمی اور ہمدردی تھی۔

ایک دفعہ ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا اور شہر کے باہر اترا۔ اس کی خبر گیری اور حفاظت کے لئے خود تشریف لے گئے۔ پہرہ دیتے پھرتے تھے کہ ایک طرف سے رونے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے ، دیکھا تو ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رہ رہا تھا۔ ماں کو تاکید کی کہ بچے کو بہلائے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر ادھر سے گزر ہوا تو بچے جو روتا پایا۔ غیظ میں آ کر فرمایا کہ تو بڑی بے رحم ماں ہے۔

اس نے کہا کہ تم کو اصل حقیقت معلوم نہیں، خواہ مخواہ مجھ کو دق کرتے ہو۔ بات یہ ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا ہے کہ بچے جب تک ماں کا دودھ نہ چھوڑیں، بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور یہ اس وجہ سے روتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمر! تو نے کتنے بچوں کا خون کیا ہو گا۔ اسی دن سے منادی کرا دی کہ بچے جس دن سے پیدا ہوں اسی تاریخ سے ان کے روزینے مقرر کر دیئے جائیں گے۔ اسلم (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا غلام) کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو گشت کے لئے نکلے۔ مدینہ سے تین میل پر صرار نامی ایک مقام ہے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ایک عورت کچھ پکا رہی ہے اور دو تین بچے رو رہے ہیں۔ پاس جا کر حقیقت حال دریافت کی۔ اس نے کہا کہ کئی وقتوں سے بچوں کو کھانا نہیں ملا۔ ان کے بہلانے کے لئے خالی ہانڈی میں پانی ڈال کر چڑھا دی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی وقت اٹھے۔ مدینہ میں آ کر بیت المال سے آٹا، گوشت، گھی اور کھجوریں لیں اور اسلم سے کہا کہ میرے پیٹھ پر رکھ دو۔ اسلم نے کہا کہ میں لئے چلتا ہوں۔ فرمایا ہاں! لیکن قیامت کے روز میرا بار تم نہیں اٹھاؤ گے۔ غرض سب چیزیں خود اٹھا کر لائے اور عورت کے آگے رکھ دیں۔ ان نے آٹا گوندھا، ہانڈی چڑھائی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود چولہا پھونکتے جاتے تھے۔ کھانا تیار ہوا تو بچوں نے خوب سیر ہو کر کھایا اور اچھلنے کودنے لگے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں کو دیکھتے تھے اور خوش ہوتے تھے۔ عورت نے کہا، خدا تم کو جزائے خیر دے۔ سچ یہ ہے کہ امیر المومنین ہونے کے قابل تم ہو نہ کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک بدو اپنے خیمہ سے باہر زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ پاس جا کر بیٹھے اور ادھر ادھر کی باتیں شروع کیں۔ دفعتہً خیمہ سے رونے کی آواز آئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ کون روتا ہے ؟ اس نے کہا کہ میری بیوی درد زہ میں مبتلا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر پر آئے اور ام کلثوم (حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں) کو ساتھ لیا۔ بدو سے اجازت لے کر ام کلثوم کو خیمہ میں بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد بچہ پیدا ہوا۔ ام کلثوم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو پکارا کہ امیر المومنین اپنے دوست کو مبارکباد دیجیئے۔ امیر المومنین کا لفظ سن کر بدو چونک پڑا اور مؤدب ہو کر بیٹھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ نہیں کچھ خیال نہ کرو۔ کل میرے پاس آنا میں اس بچہ کی تنخواہ مقرر کر دوں گا۔

عبد الرحمٰن بن عوف کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو میرے مکان پر آئے۔ میں نے کہا آپ نے کیوں تکلیف کی۔ مجھ کو بلا لیا ہوتا۔ فرمایا کہ ابھی مجھے معلوم ہوا ہے کہ شہر سے باہر ایک قافلہ اترا ہے۔ لوگ تھکے ماندے ہوں گے۔ آؤ ہم تم چل کر پہرہ دیں۔ چنانچہ دونوں اصحاب گئے اور رات بھر پہرہ دیتے رہے۔

جس سال عرب میں قحط پڑا، ان کی عجیب حالت ہوئی۔ جب تک قحط رہا، گوشت، گھی، مچھلی، غرض کوئی لذیذ چیا نہ کھائی۔ نہایت خضوع سے دعائیں مانگتے تھے کہ ” اے خدا! محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کو میری شامت اعمال سے تباہ نہ کرنا۔ ” اسلم، ان کے غلام، کا بیان ہے کہ قحط کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو فکر و تردد رہتا تھا اور اس سے قیاس کیا جاتا تھا کہ اگر قحط رفع نہ ہوا تو وہ اسی غم میں تباہ ہو جائیں گے (یہ تمام روایتیں کنز العمال جلد 6 صفحہ 343 میں مستند حوالوں سے منقول ہیں)۔ قحط کا جو انتظام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا اس کو ہم اوپر لکھ آئے ہیں۔

ایک دفعہ ایک بدو ان کے پاس آیا، اور یہ اشعار پڑھے :

یا عمر الخیر خیر الجنۃ اکس
بناتی و امھنہ اقسم باللہ لتفعلنہ

"اے عمر! لطف اگر ہے تو جنت کا ہے۔ میری لڑکیوں کو کپڑے پہنا۔ خدا کی قسم تجھ کو یہ کرنا ہو گا۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اور میں تمہارا کہنا نہ کروں تو کیا ہو گا۔ بدو نے کہا

تکون عن حالی لتسئلنہ والواقف المسئول یبھتنہ اما الی نار و اما جنۃ

"تجھ سے قیامت کے روز میری نسبت سوال ہو گا اور تو ہکا بکا رہ جائے گا۔ پھر یا دوزخ کی طرف یا بہشت کی طرف جانا ہو گا۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر روئے کہ داڑھی تر ہو گئی۔ غلام سے کہا کہ میرا یہ کرتا اس کو دے۔ اس وقت اس کے سوا اور کوئی چیز میرے پاس نہیں۔ (سیرۃ العمرین و ازالۃ اخفاء)۔

ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے کہ ایک عورت اپنے بالا خانے پر بیٹھی یہ اشعار گا رہی تھی۔

تطاول ھذا الیل وازور جانبہ
و لیس الی جنبی خلیل الاعبہ

"رات کالی ہے اور لمبی ہوتی جا رہی ہے اور میرے پہلو میں میرا دوست نہیں، جس سے خوش فعلی کروں۔ "

اس عورت کا شوہر جہاد پر گیا ہوا تھا اور وہ اس کے فراق میں یہ درد انگیز اشعار پڑھ رہی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سخت قلق ہوا اور کہا کہ میں زنان عرب پر بڑا ظلم کیا ہے۔ حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس آئے اور پوچھا کہ عورت کتنے دن مرد کے بغیر بسر کر سکتی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ چار مہینے۔ صبح ہوتے ہی ہر جگہ حکم بھیج دیا کہ کوئی سپاہی چار مہینے سے زیادہ باہر نہ رہنے پائے۔

سعید بن یربوع ایک صحابی تھے جن کی آنکھیں جاتی رہی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے کہا کہ آپ جمعہ میں کیوں نہیں آتے۔ انہوں نے کہا کہ میرے پاس آدمی نہیں کہ مجھ کو راستہ بتائے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک آدمی مقرر کیا جو ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ (اسد الغلبہ تذکرہ سعد بن یربوع)۔

ایک دفعہ لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے۔ ایک شخص کو دیکھا بائیں ہاتھ سے کھا رہا ہے۔ پاس جا کر کہا کہ دہنے ہاتھ سے کھاؤ۔ اس نے کہا جنگ موتہ میں میرا دایاں ہاتھ جاتا رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رقت ہوئی۔ اس کے برابر بیٹھ گئے اور رو رو کر کہنے لگے کہ افسوس تم کو وضو کون کراتا ہو گا۔ سر کون دھوتا ہو گا؟ کپڑے کون پہناتا ہو گا؟ پھر ایک نوکر مقرر کر دیا اور اس کے لئے تمام ضروری چیزیں خود مہیا کر دیں۔

امامت اور اجتہاد

امامت کا منصب، در حقیقت نبوت کا ایک شعبہ ہے اور امام کی فطرت قریب قریب پیغمبر کی فطرت کی طرح ہوتی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں ” واز میان امت جمعے ہستند کہ جوہر نفس ایشاں قریب جوہر انبیاء مخلوق شدہ و ایں جماعہ داراصل فطرت خلفائے انبیاء اند درامت۔ (ازالۃ الخفاء جلد اول صفحہ 90)۔

مذہبی عقائد اور احکام اگرچہ بظاہر سادہ اور صاف ہیں کیونکہ صانع عالم کا اعتقاد اس کی صفات کمال کا اعتراف، سزا و جزا کا یقین، زہد و عبادت، محاسن اخلاق یہی چیزیں تمام مذاہب کے اصل الاصول اور احکام ہیں اور یہ سب بظاہر سادہ اور صاف باتیں ہیں۔ لیکن ان کے مسائل میں اشتباہ اور ابہام اس قدر ہے کہ اگر نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی سے کام نہ کیا جائے تو ان کی حقیقت بالکل بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ یہ مسائل قریباً تمام مذاہب میں مشترک تھے۔ تاہم کم و بیش سب میں غلطیاں واقع ہوئیں۔ اسلام انہی غلطیوں کو مٹانے کے لئے آیا اور تاکید کے ساتھ ان پر توجہ دلائی۔ لیکن چونکہ عام طبائع نکتہ سنج نہیں ہوتیں۔ اس لئے ہر زمانے میں اکثر لوگ اصل حقیقت سے دور ہو جاتے ہیں اور اسی لئے ائمہ اور مجددین کی ضرورت باقی رہی کہ ان اسرار پر پردہ نہ پڑ جائے۔ مثلاً اسلام نے شرک کو کس قدر زور و شور سے مٹایا۔ لیکن غور سے دیکھو تو قبروں اور مزاروں کے ساتھ عوام تو ایک طرف بعض خواص کو جو طرز عمل ہے اس میں اب بھی کس قدر شرک کا مخفی اثر موجود ہے۔ گو استفادہ عن القبور اور حصول برکت کے خوشنما الفاظ نے ان پر پردہ ڈال رکھا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان نازک اور مشتبہ مسائل میں جس طرح اصل حقیقت کو سمجھا اور جس جرات و دلیری سے اس کو لوگوں کے سامنے ظاہر کیا۔ اس کی نظیر صحابہ کے زمانے میں بہت کم ملتی ہے۔

مسئلہ قضا و قدر

الٰہیات کا ایک بڑا نازک مسئلہ قضا و قدر کا مسئلہ ہے۔ جس میں عموماً بڑے بڑے ائمہ مذہب کو غلطیاں واقع ہوئیں۔ یہاں تک کہ اکابر صحابہ میں سے بھی بعض کو اشتباہ ہوا۔ طاعون عمواس کے زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب شام کا سفر کیا تو مقام سرغ میں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہاں وبا کی نہایت شدت ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے واپسی کا ارادہ کیا۔ حضرت ابو عبیدہ نے اس خیال سے کہ جو ہوتا ہے قضائے الٰہی سے ہوتا ہے نہایت طیش میں آ کر کہا کہ افرارا من قدر اللہ یعنی قضا الٰہی ہی بھاگتے ہو؟

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس نازک مسئلے کو ان مختصر اور بلیغ الفاظ میں حل فرمایا۔ (یہ واقعہ مفصل طور پر صحیح مسلم باب الطاعون میں مذکور ہے )

نعم نفر من قدر اللہ الی قدر اللہ

یعنی ” ہاں ہم خدا کے حکم سے خدا کے حکم کی طرف بھاگتے ہیں۔ "

اسلام کا اصول شعائر اللہ کی تعظیم ہے۔ اسی بناء پر کعبہ اور حجر اسود وغیرہ کے احترام کا حکم ہے لیکن اس کی صورت صنم پرستی سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب میں اسی طرح کے اصولوں سے رفتہ رفتہ صنم پرستی قائم ہو گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف موقعوں پر لوگوں کو اس غلط فہمی میں پڑنے سے بار رکھنے کے لیے فرمایا :

انی اعلم انک حجر و انک لا تضر ولا تنفع

"میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے نہ فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ "

تعظیم شعائر اللہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول مذاق عام سے جس قدر الگ تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ بہت سے محدثین نے جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے وہاں یہ روایت بھی اضافہ کی ہے کہ اسی وقت حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو ٹوکا اور ثابت کیا کہ حجر اسود فائدہ اور نقصان دونوں پہنچا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ قیامت میں لوگوں کی نسبت شہادت دے گا۔ لیکن یہ اضافہ محض غلط اور بناوٹ ہے۔ چنانچہ ناقدین فن نے اس کی تصریح کی ہے۔

ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک درخت کے نیچے لوگوں سے جہاد پر بیعت لی تھی۔ اس بناء پر یہ درخت متبرک سمجھا جانے لگا اور لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر اس کو جڑ سے کٹوا دیا۔ (ازالۃ الخفاء حصہ دوم صفحہ 91- علامہ زرقانی نے شرح مواہب لدنیہ میں بیعت رضوان کے واقعہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ ابن سعد نے طبقات میں اس واقعہ کو قلمبند صحیح روایت کیا ہے )۔ ایک دفعہ سفر حج سے واپس آ رہے تھے۔ راستے میں ایک مسجد تھی جس میں ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز پڑھی تھی۔ اس خیال سے لوگ اس طرف دوڑے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اہل کتاب انہی باتوں کی بدولت تباہ ہوئے کہ انہوں نے پیغمبروں کی یادگاروں کو عبادت گاہ بنا لیا تھا۔ (ازالۃ الخفاء حصہ دوئم صفحہ 91)۔

نبی کے اقوال و افعال کہاں تک منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں

نبوت کی حقیقت کی نسبت عموماً لوگ غلطی کرتے آئے ہیں اور اسلام کے زمانے میں بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوا۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ نبی کا ہر قول و فعل خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ بعض حضرات نے ذرا ہمت سے کام لے کر صرف معاشرت کی باتوں مو مستثنیٰ کیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نبی جو حکم منصب نبوت کے تحت نبی کی حیثیت سے دیتا ہے وہ بے شبہ خدا کر طرف سے ہوتا ہے۔ باقی امور وقت اور ضرورت کے لحاظ سے ہوتے ہیں تشریعی اور مذہبی نہیں ہوتے۔ اس مسئلے کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بالکل صاف اور واضح کر دیا۔ خراج کی تشخیص، جزیہ کا تعین، ام ولد کی خرید و فروخت (یہ مسئلہ کہ بیع ام ولد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بند کی یا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ، صحیح یہ ہے کہ منع حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کی اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کی تشہیر فرمائی۔ محمد عبد اللہ غفرلہ مفتی خیر المدارس ملتان) وغیرہ وغیرہ مسائل کے متعلق امام شافعی نے اپنی کتابوں میں نہایت ادعا کے ساتھ احادیث سے استدلال کیا ہے اور ان مسائل میں جہاں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا طریق عمل مختلف ہے بڑی دلیری سے ان پر قدح کی ہے لیکن امام شافعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ نکتہ نظر انداز کر دیا ہے کہ یہ امور منصب نبوت سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے ان مسائل میں خود شارع علیہ السلام کی طرف سے ہر شخص کو اجتہاد کی اجازت ہے۔ چنانچہ اس بحث کی تفصیل آگے آتی ہے۔ شریعت کے احکام کے متعلق بہت بڑا اصول جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قائم کیا۔ یہ تھا کہ شریعت کے تمام احکام مصالح عقلی پر مبنی ہیں۔

مذہبی احکام کے متعلق شروع سے دو خیال چلے آتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں عقل کا دخل نہیں، دوسرا کہ کہ اس کے تمام احکام اصول عقلی پر مبنی ہیں۔ یہی دوسرا خیال علم اسرار الدین کی بنیاد ہے۔ یہ علم اگرچہ اب مستقل فن بن گیا ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب کی مشہور کتاب ہے )حجتہ اللہ البالغہ) خاص اسی فن میں ہے۔ تاہم ہر زمانے میں بہت کم لوگ اس اصول کو تسلیم کرتے تھے۔ جس کی بڑی وجہ یہی تھی کہ دقیق فن عام طبائع کی دسترس سے باہر تھا اور کچھ یہ کہ مذہبی محویت اور دلدادگی کی بظاہر شان ہی یہ ہے کہ ہر بات بغیر چوں چرا کے مان لی جائے اور رائے و عقل سے کچھ دخل نہ دیا جائے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے علم اسرار الدین کی بنیاد ڈالی

لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی دوسرے اصول کے قائل تھے اور وہ سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم اسرار الدین کی بنیاد ڈالی۔ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حجتہ اللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس علم سے بحث کی اور اس کے وجوہ ظاہر کئے (حجتہ اللہ البالغہ صفحہ 6)۔

شاہ صاحب نے جن لوگوں کا نام لیا، ان میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت 13 برس کی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس سِن (عمر) جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کے وقت دس گیارہ برس سے زیادہ نہ تھا۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس سِن (عمر) آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ہجرت کے وقت 11 برس کا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے وقت کل 18 برس کی تھیں، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سب بزرگ اس علم کے ترقی دینے والے ہوں گے۔ لیکن اولیت کا منصب عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کو حاصل ہوا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسائل شریعت کی نسبت ہمیشہ مصالح اور وجوہ پر زیادہ غور کرتے تھے۔ اور اگر ان کے خیال میں کوئی مسئلہ خلاف عقل ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کر لیتے تھے۔ سفر میں جو قصر نماز کا حکم دیا گیا تھا وہ اس بناء پر تھا کہ ابتدائے اسلام میں راستے محفوظ نہ تھے اور کافروں کی طرف سے ہمیشہ خوف کا سامنا رہتا تھا۔ چنانچہ قرآن مجید میں خود ارشاد ہوتا ہے لیس علیكم جناح ان تقصر وا من الصلوۃ ان خفتم ان یفتنكم الذین كفروا لیكن جب راستے مامون ہو گئے تب بھی قصر کا حکم باتی رہا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس پر استعجاب ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا کہ اب سفر میں قصر کیوں کیا جاتا ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ یہ خدا کا انعام ہے (صحیح مسلم احادیث نماز سفر)۔

حج کے ارکان میں رمل ایک رکن ہے طواف کرتے وقت تین دوڑوں میں آہستہ آہستہ دوڑتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی ابتداء یوں ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب مدینہ سے مکہ تشریف لائے تو کافروں نے مشہور کیا کہ مسلمان ایسے نحیف اور کمزور ہو گئے کہ کعبہ کا طواف بھی نہیں کر سکتے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سن کر رمل کا حکم دیا (صحیح مسلم)۔

اس کے بعد یہ فعل معمول بہ ہو گیا چنانچہ ائمہ اربعہ اس کو حج کی ایک ضروری سنت سمجھتے ہیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صاف کہا مالنا و للرمل انما کنار اینا بہ المشرکین و قد اھلکھم اللہ (صحیح بخاری باب الرمل) یعنی اب ہم کو رمل سے کیا غرض! اس سے مشرکوں کو رعب دلانا مقصود تھا سو ان کو خدا نے ہلاک کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے حجتہ اللہ البالغہ میں لکھا ہے رمل کے ترک کا ارادہ بھی لیا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی یادگار سمجھ کر رہنے دیا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص تربیت یافتہ تھے ، ان سے جب کہا گیا کہ لوگ رمل کو سنت سمجھتے ہیں کہا غلط سمجھتے ہیں (ازالۃ الخفاء صفحہ 165 حصہ دوئم)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ کے مسائل اس کثرت سے بیان کئے ہیں کہ ایک مستقل رسالہ تیار ہو سکتا ہے۔ ان تمام مسائل میں یہ خصوصیت صاف نظر آتی ہے کہ یہ مصالح عقلی کے موافق ہیں۔ اس سے بداہتہً ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس علم (اسرار الدین) کے بہت بڑے استاد اور ماہر تھے۔

 

اخلاق اسلامی کا محفوظ رکھنا اور ترقی دینا

منصب امامت کے لحاظ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سب سے بڑا کارنامہ جو تھا وہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا کو جس قسم کے برگزیدہ اور پاکیزہ اخلاق کی تعلیم دی تھی اور جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کا اصلی مقصد تھا جیسا کہ خود ارشاد فرمایا۔

لا تمم مکارم الاخلاق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیض سے قوم میں وہ اخلاق محفوظ رہے اور نئی قومیں جو اسلام میں داخل ہوتی گئیں اسی اثر سے متاثر ہوتی گئیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود اسلامی اخلاق کی مجسم تصویر تھے۔ ان کا خلوص انقطاع الی اللہ لذائذ دنیا سے اجتناب حفظ لسان، حق پرستی، راست گوئی یہ اوصاف خود بخود لوگوں کے دلوں میں اثر کر جاتے تھے اور ہر شخص جو ان کی صحبت میں رہتا تھا، کم و بیش اس قالب میں ڈھل جاتا تھا۔ مسور بن مخرمہ کا بیان ہے کہ ہم اس غرض سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ رہتے تھے کہ پرہیز گاری اور تقویٰ سیکھ جائیں۔ مؤرخ مسعودی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنی کے حالات اس جملے سے شروع کئے ہیں کہ ان میں جو اوصاف تھے وہ ان کے تمام افسروں اور عہدہ داروں میں پھیل گئے تھے۔ پھر نمونے کے طور پر حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، سعید بن عامر وغیرہ کے نام اور ان کے اوصاف لکھے ہیں۔

 

فخر و غرور کا استیصال

عرب میں جو اخلاق ذمیمہ، جاہلیت کی یادگار رہ گئے تھے وہ نسب کا فخر و غرور عام لوگوں کی تحقیر، ہجو و بد گوئی، عشق و ہوا پرستی، بادہ نوشی اور مے پرستی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام بیہودہ اخلاق کا استیصال کر دیا۔ جو چیزیں فخر و غرور کی علامت تھیں، بالکل مٹا دیں۔ لڑائیوں میں قبائل اپنے قبیلوں کی جے پکارتے تھے ، اس کو حکماً بند کر دیا۔ آقا اور نوکر کی جو تمیز تھی بالکل اٹھا دی۔ ایک دفعہ صفوان بن امیہ نے جب بہت سے معزز لوگوں کے ساتھ ان کی دعوت کی اور نوکروں کو کھانے پر نہیں بٹھایا تو نہایت برافروختہ ہو کر کہا کہ ” خدا ان سے سمجھے جو نوکروں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ "

ایک دفعہ بہت سے لوگ ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو بڑے رتبے کے صحابی تھے ملنے گئے۔ جب وہ مجلس سے اٹھے اور تعظیم کے لئے لوگ ان کے ساتھ ساتھ چلے ، اتفاق سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ادھر آ نکلے۔ یہ حالت دیکھ کر ابی کے ایک کوڑا لگایا۔ ان کو تعجب ہوا اور کہا خیر ہے ! یہ آپ کیا کرتے ہیں؟ فرمایا او ماتری فتنۃ للمتبوع مذلۃً للگابع (اسد الغابہ ترجمہ زبر قان) یعنی تم نہیں جانتے یہ امر متبوع کے لئے فتنہ اور تابع کے لئے ذلت ہے۔

ہجو کی ممانعت

ہجو و بد گوئی کا ذریعہ شعر و شاعری کا فن تھا۔ شعراء جا بجا لوگوں کی ہجو لکھتے تھے اور چونکہ عرب میں شعر کو رواج عام حاصل تھا، اس لئے یہ ہجویں نہایت جلد مشتہر ہو جاتی تھیں اور ان سے سینکڑوں مفاسد پیدا ہوتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور اس کے لئے سزا مقرر کی۔ چنانچہ یہ امر بھی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ حطیہ اس زمانے کا مشہور شاعر تھا اور سودا کی طرح فن ہجو گوئی میں کمال رکھتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو طلب کر کے ایک تہہ خانے میں قید کیا اور اس شرط پر چھوڑا کہ پھر کبھی کسی کی ہجو نہیں لکھے گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں قریش نے جب تدبیروں سے عاجز ہو کر مسلمانوں کی اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شان میں ہجویں کہنی شروع کیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے حسان کو ترکی بترکی جواب دینے کی اجازت دی تھی۔ یہ اشعار قریش کے اسلام لانے کے بعد بھی متداول تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں حکم دیا کہ وہ نہ پڑھے جائیں کیونکہ ان سے پرانی رنجشیں تازہ ہوتی ہیں۔ (آغاز ندہ تذکرہ حسان بن ثابت 12)۔

ہوس پرستی کی روک تھام

عشق و ہوس پرستی کا بھی بڑا ذریعہ یہی شعر و شاعری تھا۔ شعراء زیادہ تر رندانہ اور اوباشانہ اشعار لکھتے تھے اور ان میں اپنے معشوقوں کے نام تصریح کے ساتھ لیتے تھے۔ مذاق عام ہونے کی وجہ سے یہ اشعار بچہ بچہ کی زبان پر چڑھ جاتے تھے اور اس کی وجہ سے رندی و آوارگی ان کے خمیر میں داخل ہو جاتی تھی۔

شاعری کی اصلاح

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قطعی حکم دیا کہ شعراء عورتوں کی نسبت عشقیہ اشعار نہ لکھنے پائیں۔ چنانچہ صاحب اسد الغابہ نے حمید بن ثور کے تذکرے میں اس واقعہ کو ان الفاظ میں لکھا ہے تقدم عمر بن الخطاب الی الشعراء ان لا یتشبب احد با مراۃ الا جلدہَ

شراب خوری

شراب پینے کی جو سزا پہلے سے مقرر تھی اس کو زیادہ سخت کر دیا۔ یعنی پہلے 40 درے مارے جاتے تھے۔ انہوں نے 40 سے 80 درے کر دیئے۔ ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ باوجود اس کے کہ اس زمانے میں دولت کی کثرت اور فتوحات کی وسعت کی وجہ سے عیش و عشرت کے لئے بے انتہا سامان مہیا ہو گئے تھے۔ تاہم لوگ عیس و عشرت میں مبتلا نہ ہونے پائے اور جس پاک اور مقدس زندگی کی بنیاد شارع علیہ السلام نے ڈالی تھی وہ اسی استواری کے ساتھ قائم رہی۔

آزادی اور حق گوئی قائم رکھنا

اخلاق کی پختگی اور استواری کا اصلی سر چشمہ آزادی اور خود داری ہے۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر بہت توجہ کی اور یہ وہ خصوصیت ہے جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ کے سوا اور خلفا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ بنو امیہ تو شروع ہی سے آزادی کے دشمن نکلے۔ یہاں تک کہ عبد الملک نے قطع حکم دے دیا کہ کوئی شخص اس کے احکام پر زبان نہ کھولنے پائے۔ حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے البتہ آزادی سے تعرض نہیں کیا۔ لیکن اس کے خطرات کی روک تھام نہ کر سکے جس کی بدولت حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت تک نوبت پہنچی اور جناب امیر کو جمل و صفین کے معرکے پیش آئے۔ برخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نہایت اعلیٰ درجہ کی آزادی قائم رکھنے کے باوجود حکومت کے جبروت میں ذرا کمی نہ آنے دی۔

مختلف موقعوں پر تحریر و تقریر سے جتا دیا کہ ہر شخص ماں کے پیٹ سے آزاد پیدا ہوا ہے اور ادنیٰ سے ادنیٰ آدمی بھی کسی کے آگے ذلیل ہو کر نہیں رہ سکتا۔ عمرو بن العاص کے معزز فرزند نے جب ایک قبطی کو بے وجہ مارا تو خود اسی کے ہاتھ سے مجمع عام میں سزا دلوائی اور عمرو بن العاص اور ان کے بیٹے کی طرف مخاطب ہو کر یہ الفاظ کہے۔

منذکم تعبد تم الناس و قد ولدتھم امھاتھم احرارا۔

"یعنی تم لوگوں نے آدمیوں کو غلام کب سے بنا لیا۔ ان کی ماؤں نے تو ان کو آزاد جنا تھا۔ "

عرب میں جو لوگ ان کو معزز ہوتے تھے وہ اپنے قبیلہ کے سید یعنی آقا کہلاتے تھے اور ان سے کم رتبہ کے لوگ ان الفاظ سے مخاطب کرتے تھے۔ جعلنی اللہ فدائک بابی و امی۔ یعنی خدا مجھ کر آپ پر قربان کر دے۔ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔

چونکہ ان الفاظ سے غلامی اور محکومی کی بو آتی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف موقعوں پر ان کی نسبت ناراضگی ظاہر کی۔ ایک شخص نے خود ان کی شان میں کہا تھا کہ جعلنی فداءک تو فرمایا کہ ان یھینک اللہ یعنی اگر تو ایسا کرے گا تو خدا تجھ کو ذلیل کرے گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طریق عمل نے لوگوں کو جس قدر آزادی اور صاف گوئی پر دلیر کر دیا تھا اس کا صحیح اندازہ ذیل کے واقعات سے ہو گا۔

ایک دفعہ انہوں نے منبر پر چڑھ کر کہا۔ صاحبو! اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں تو تم لوگ کیا کرو گے۔ ایک شخص کھڑا ہو گیا اور تلوار میان سے کھینچ کر بولا کہ ” تمہارا سر اڑا دیں گے ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آزمانے کو ڈانٹ کر کہا "کیا میری شان میں تو یہ الفاظ کہتا ہے ؟ اس نے کہا کہ ہاں تمہاری شان میں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” الحمد للہ قوم میں ایسے لوگ موجود ہیں کہ میں کج ہوں گا تو سیدھا کر دیں گے۔ "

عراق کی فتح کے بعد اکثر بزرگوں نے عیسائی عورتوں سے شادیاں کر لی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حذیفہ بن الیمان کو لکھا کہ میں اس کو ناپسند کرتا ہوں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ حکم آپ کی ذاتی رائے ہے یا شرعی حکم ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھا کہ میری ذاتی رائے ہے۔ حذیفہ نے لکھ بھیجا کہ آپ کی ذاتی رائے کی پابندی ہم لوگوں پر ضروری نہیں۔ چنانچہ باوجود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ممانعت کے کثرت سے لوگوں نے شادیاں کیں۔ مؤرخ یعقوبی نے لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام عمالوں کا مال و اسباب نیلام کر کے آدھا مال بیت المال میں داخل کر دیا تو ایک عامل نے جس کا نام ابو بکرہ تھا صاف کہا کہ اگر یہ مال خدا کا تھا تو کل بیت المال میں داخل کرنا چاہیے تھا اور ہمارا تھا تو اس سے تم کو لینے کا کیا حق تھا؟

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تقلید اور ان کی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ہوا کہ جماعت اسلامی کا ہر ممبر پاکیزہ نفسی، نیک خوئی، حلم و تواضع، جرأت مندی و آزادی، حق پرستی و بے نیازی کی تصویر بن گیا۔ تاریخ کے مرقع میں اس وقت کی مجالس اور محافل کا نقشہ دیکھو تو ہر شخص کے حلیہ میں یہ خط و خال صاف نظر آتے ہیں۔

 

اجتہاد کی حیثیت محدث و فقیہ ہونا

 اجتہاد سے منصب حدیث و فقہ

حدیث و فقہ کا فن درحقیقت تمام تر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم میں اور لوگ بھی محدث اور فقیہ تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد 20 سے متجاوز بیان کی گئی ہے۔ لیکن فن کی ابتداء حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہوئی اور فن کے اصول و قواعد اول انہوں نے ہی قائم کئے۔

احادیث کا تفحص

حدیث کے متعلق پہلا کام جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا وہ یہ تھا کہ روایتوں کی تفحص و تلاش پر توجہ کی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں احادیث کے اسقصاء کا خیال نہیں کیا گیا تھا۔ جس کو کوئی مسئلہ پیش آتا تھا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کر لیتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ کسی صحابی کو فقہ کے تمام ابواب کے متعلق حدیثیں محفوظ نہ تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں زیادہ ضرورتیں پیش آئیں۔ اس لئے مختلف صحابہ سے استفسار کرنے کی ضرورت پیش آئی اور احادیث کے استقراء کا راستہ نکلا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں زیادہ کثرت سے واقعات پیش آئے کیونکہ فتوحات کی وسعت اور نو مسلمون کی کثرت نے سینکڑوں نئے مسائل پیدا کر دیئے تھے۔ اس لحاظ سے انہوں نے احادیث کی زیادہ تفتیش کی تا کہ مسائل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال کے موافق طے کئے جائیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جب کوئی نئی صورت پیش آتی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجمع عام میں جس میں اکثر صحابہ موجود ہوتے تھے پکار کر کہتے کہ اس مسئلے کے متعلق کسی کو کوئی حدیث معلوم ہے ؟ تکبیر جنازہ، غسل جنابت، جزیہ مجوس اور اس قسم کے بہت سے مسائل ہیں جن کی نسبت کتب احادیث میں نہایت تفصیل مذکور ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع صحابہ سے استفسار کر کے احادیث نبوی کا پتہ لگایا۔

حدیث کی اشاعت

چونکہ حدیث جس قدر زیادہ شائع و مشتہر کی جائے اسی قدر اس کو قوت حاصل ہوتی ہے اور پچھلوں کے لئے قابل استناد قرار پاتی ہے۔ اس لئے اس کی نشر و اشاعت کی بہت سی تدبیریں اختیار کیں۔

۱ – احادیث نبوی کو بالفاظہا نقل کر کے اضلاع کے حکام کے پاس بھیجتے تھے جس سے ان کی عام اشاعت ہو جاتی تھی۔ یہ حدیثیں اکثر مسائل اور احکام کے متعلق ہوتی تھیں۔

2 – صحابہ میں جو لوگ فن حدیث کے ارکان تھے۔ ان کو مختلف ممالک میں حدیث کی تعلیم کے لئے بھیجا۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں چنانچہ فاروق اعظم عبد اللہ بن مسعود رلبا جمعے بکوفہ فرستاد، معقل بن یسار و عبد اللہ بن معقل و عمران بن حصین رابہ بصرہ، عبادہ بن صامت و ابو دردا را شام معاویہ بن ابی سفیان کہ امیر شام بود قدغن بلیغ نوشت کہ از حدیث ایشان تجاوز نکند (ازالۃ اخفاء صفحہ 6 حصہ دوم)۔

ایک دقیق نکتہ

اس موقع پر ایک دقیق نکتہ خیال رکھنے کے قابل ہے۔ وہ یہ ہے کہ عام خیال یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کی اشاعت میں بہت کچھ اہتمام کیا لیکن خود بہت کم حدیثیں روایت کیں۔ چنانچہ کل وہ مرفوع احادیث۔ ۔ ۔ ۔ جو ان سے بروایت صحیح مروی ہین ستر سے زیادہ نہیں۔ یہ خیال بظاہر صحیح ہے۔ لیکن واقع میں یہاں ایک غلط فہمی ہے۔ محدثین کے نزدیک یہ اصول مسلم ہے کہ صحابی جب کوئی ایسا مسئلہ بیان کرے جس میں رائے اور اجتہاد کو دخل نہیں تو گو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نہ لے لیکن مطلب یہی ہو گا کہ اس نے رسول اللہ سے سنا ہے اور واقع میں یہ اصول بالکل عقل کے مطابق ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مثلاً تمام ممالک میں لگھ بھیجا کہ زکوٰۃ فلاں فلاں چیزوں پر فرض ہے اور اس حساب سے فرض ہے۔ تو اس احتمال کا محل نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود شارع ہیں اور اپنی طرف سے احکام صادر کرتے ہیں۔ لامحالہ اس کے یہی معنی ہوں گے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زکوٰۃ کے متعلق احکام صادر فرمائے تھے ، زیادہ سے زیادہ اس احتمال کا موقع باقی رہتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث کا مطلب صحیح نہیں سمجھا اور اس لئے ممکن کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس مقدار کی تعداد کو فرض نہ کیا ہو بلکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو اپنی فہم کے مطابق فرض سمجھا ہے لیکن یہ احتمال خود ان احادیث میں بھی قائم رہتا ہے جن میں صحابی نے علانیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام لیا ہو۔

اس اصول کی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبوں میں، تحریری ہدایتوں میں، فرامین میں، نماز، روزہ، زکوٰۃ وغیرہ کے متعلق جو اصولی مسائل بیان کئے وہ درحقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے احکام ہیں۔ گو انہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا نام نہ لیا ہو۔

شاہ ولی اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں ہفتم آنکہ مضمون احادیث در خطب خود ارشاد فرمایند تا اصل احادیث بآں موقوف خلیفہ قوت یا بدینکہ بغور سخن نمیر سند در ہندانکہ در متفق علیہ از حضرت صدیق صحیح شد مگر شش حدیث و از فاروق اعظم بہ صحت نرسید مگر قریب ہفتا و حدیث ایں رانمی فمہند و نمی دانند کہ حضرت فاروق تمام علم حدیث را اجمالاً تقویت داوہ اعلان نمودہ۔

احادیث میں فرق مراتب

حدیث کے حقحص و جستجو اور اشاعت و ترویج کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کیا اگرچہ وہ خود مہتم بالشان کام تھا۔ لیکن اس باب میں ان کی فضیلت کا اصلی کارنامہ ایک اور چیز ہے جو انہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ احادیث کی طرف اس وقت جو میلان عام تھا وہ خود بخود احادیث کی اشاعت کا بڑا سبب تھا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں جو نکتہ سنجیاں کیں اور فرق مراتب پیدا کیا اس پر کسی کی نگاہ نہیں پڑی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے اس پر توجہ دی کہ احادیث میں زیادہ قابل اعتناء کسی قسم کی حدیثیں ہیں؟ کیونکہ گو، رسول اللہ کا ہر قول و فعل عقیدت کیشوں کے لئے گنجینہ مراد ہے ، لیکن یہ ظاہر ہے کہ ایک دوسرے پر فضیلت ہے۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تمام تر توجہ ان احادیث کی روایت اور اشاعت پر مبذول کی جن سے عبادت یا اخلاق کے مسائل مستنبط ہوتے تھے جو حدیثیں ان مضامین سے الگ تھیں ان کی روایت کے ساتھ چنداں اعتناء نہیں کیا۔ اس میں ایک بڑا نکتہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وہ اقوال و افعال جو منصب رسالت سے تعلق رکھتے ہیں اور جو بشری حیثیت سے متعلق ہیں باہم مختلط نہ ہونے پائیں۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں ” باستقراء تمام معلوم شد کہ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نظر دقیق و تفریق میان احادیث کہ بہ تبلیغ شرائع و تکمیل افراد بشر تعلق دارد، از غیر آں مصروف می ساخت، لہٰذا احادیث شمائل آنحضرت صلعم و احادیث سنن زوائد در لباس و عادات کمتر روایت می کرد بدووجہ یکے آنکہ اینھااز علوم تکلیفیہ و تشریعیہ نیستِ از سنن زوائد بہ سنن ہدیٰ مشتبہ گرود۔ ” (ازالۃ اخفاء حصہ دوم صفحہ 141)۔

سب سے بڑا کام جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس فن کے متعلق کیا، وہ حدیثوں کے تحقیق و تنقید اور فن جرح و تعدیل کا ایجاد کرنا تھا۔

 

روایت کی چھان بین

آج کل بلکہ مدت مدید سے یہ حالت ہے کہ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کر دی جاتی ہے گو صحیح نہ ہو اس کو فوراً رواج اور قبول عام حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی بناء پر یہودیوں کی تمام مزخرفات احادیث نبوی کے مجموعہ میں شامل ہو گئیں۔ محدثین نے اتنا کیا کہ جرح و تعدیل کے روک ٹوک کے ذریعے سے روک دیا۔ لیکن جب کسی راوی کی تعدیل ان کے نزدیک ثابت ہو جاتی تھی تو پھر اس پر ان کی زیادہ توجہ نہیں ہوتی تھی۔ اس کے ساتھ قرون اول کی نسبت انہوں نے یہ عام کلیہ قائم کر لیا تھا کہ کسی روایت میں ضعف کا احتمال نہیں ہو سکتا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس نکتہ سے واقف تھے کہ جو چیزیں خصائص بشری ہیں ان سے کوئی زمانہ مستثنیٰ نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے وہ احادیث کی چھان بین میں تمام وہی احتمالات ملحوظ رکھتے تھے جو محدثین نے زمانہ مابعد میں پیدا کئے۔

ایک دفعہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملنے آئے اور تین دفعہ استیذان کے طور پر کہا، کہ ” السلام علیکم ابو موسیٰ حاضر ہے۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت کسی کام میں مصروف تھے اس لئے متوجہ نہ ہو سکے۔ کام سے فارغ ہو چکے تو فرمایا کہ ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہاں ہیں؟ وہ آئے تو تو پوچھا کہ تم کیوں واپس گئے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا ہے کہ تین دفعہ اذن مانگو۔ اگر پھر بھی اجازت نہ ملے تو واپس چلے جاؤ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اس روایت کا ثبوت دو۔ ورنہ میں تم کو سزا دوں گا۔

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابہ کے پاس گئے اور حقیقت بیان کی۔ چنانچہ ابو سعید نے آ کر شہادت دی کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ حدیث سنی ہے۔ حضرت ابی ابن کعب نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ! تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کو عذاب دینا چاہتے ہو؟ فرمایا کہ میں نے ایک روایت سنی اور تصدیق کرنی چاہی۔ (یہ واقعہ تفصیل کے ساتھ متعدد طریق سے صحیح مسلم باب الاستیذان میں مذکور ہے )۔ فقہ کا ایک مختلف فیہ مسئلہ ہے کہ جس عورت کو طلاق بائن دی جائے اس کو عدت کے زمانے تک نان و نفقہ ملنا چاہیے یا نہیں؟

قرآن مجید میں ہے کہ اسکنوھن مین حیث سکنتم جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مکان ملنا چاہیے اور مکان کے ساتھ نفقہ خود ایک لازمی چیز ہے۔ فاطمہ بنت قیس ایک صحابیہ تھی۔ ان کو ان کے شوہر نے طلاق بائن دی۔ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس گئیں کہ مجھ کو نان نفقہ کا حق ہے یا نہیں، ان کا بیان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ” نہیں ” فاطمہ نے یہ روایت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے بیان کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ لانترک کتاب اللہ بقول امراۃ لاندری لعلھا حفظت اونسیت یعنی ہم قرآن کو ایک عورت کے کہنے سے نہیں چھوڑ سکتے۔ معلوم نہیں اس کو حدیث یاد رہی یا نہیں۔

سقط کا مسئلہ پیش آیا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ کیا۔ مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے متعلق ایک حدیث روایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اگر تم سچے ہو تو اور کوئی گواہ لاؤ۔ چنانچہ جب محمد بن مسلمہ نے تصدیق کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ نے تسلیم کیا۔ اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقدمہ میں جب ایک حدیث پیش کی گئی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تائیدی شہادت طلب کی اور جب بہت سے لوگوں نے شہادت دی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ گو مجھ کو تمہاری طرف سے بدگمانی نہ تھی۔ لیکن میں نے حدیث کی نسبت اپنا اطمینان کرنا چاہا۔ (یہ دونوں روایتیں تذکرہ الحفاظ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں مذکور ہیں)۔


کثرت روایت سے روکنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چونکہ اس بات کا یقین ہو گیا تھا کہ روایت میں خواہ مخواہ کمی بیشی ہو جاتی ہے۔ اس لئے روایت کے بارے میں سخت احتیاط شروع کی۔ اس کے متعلق انہوں نے جو بندشیں کیں آج کل لوگوں کو ان پر مشکل سے یقین آ سکتا ہے۔ اس لئے میں اس موقع پر خود کچھ نہ لکھوں گا۔ بلکہ بڑے بڑے محدثین نے جو لکھا ہے اس کو نقل کر کے لفظی ترجمہ کر دوں گا۔ علامہ ذہبی نے جس سے بڑھ کر ان کے بعد کوئی محدث نہیں گزرا اور جو حافظ اب حجر و سخاوی وغیرہ کے شیخ الشیوخ ہیں۔ تذکرۃ الحفاظ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات میں لکھتے ہیں۔

وقد کان عمر من وجلہ ان یخطی الصاھب علی رسول اللہ یامرھم ان یقلوا الروایۃ عن بیھم الثلا یتشاغل بالاحادیث عن حفظ القرآن عن قرظۃ بن کعب قال لما سیرنا عمر الی العراق۔ مشی معنا عمرو قال اتدرون لما شیعتکم قالو انعم مکرمۃ لنا۔ قال ومع ذالک و انکم تاتون احل قریۃ لھم دوی بالقرآن کدوی النحل فلا تصدوھم بالاحادیث فتشغلوھم جردوا القرآن و اقلو الروایۃ عن رسول اللہ و انا شریککم فلما قدم قرظۃ قالوا حدثنا فقال نہانا عمر عن ابی سلمۃ عن ابی ھریرۃ قلت لہ کنت تحدث فی زمان عمر ھکذا فقال لو کنت احدث فی زمان عمر مثل مااحدثکم فضربنی بمخفقۃ ان عمر جس ثلثۃ ابن مسعود و ابا لدرداء ابا مسعود الانصاری رقال قد اکثرتم الحدیث عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔

یعنی  حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس ڈر سے کہ صحابہ کرام روایت کرنے میں غلطی نہ کریں صحابہ کر حکم دیتے تھے کہ رسول اللہ سے کم روایت کریں تا کہ لوگ حدیث میں مشغول ہو کر قرآن کے یاد کرنے سے غافل نہ ہو جائیں۔ قرظہ بن کعب سے روایت ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم کو عراق پر روانہ کیا تو خود مشایعت کو نکلے اور کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ میں کیوں تمہارے ساتھ ساتھ آیا ہوں؟ لوگوں نے کہا ہماری عزت بڑھانے کو، فرمایا کہ ہاں لیکن اس کے ساتھ یہ غرض بھی ہے کہ تم لوگ ایسے مقام میں جاتے ہو جہاں کے لوگوں کی آواز شہد کی مکھیوں کی طرح قرآن پڑھنے میں گونجتی رہتی ہے تو ان کو حدیثوں میں نہ پھنسا لینا۔ قرآن میں آمیزش نہ کرو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے کم روایت کرو اور میں تمہارا شریک ہوں۔ پس جب قرظہ وہاں پہنچے تو لوگوں نے کہا کہ حدیث بیان کیجیئے۔ انہوں نے کہا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہم کو منع کیا ہے۔ ابو سلمہ کہتے ہیں کہ ہم نے ابو ہریرہ سے پوچھا کہ آپ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بھی اسی طرح حدیثیں روایت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں ایسا کرتا تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ کو درے سے مارتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو محبوس کیا اور کہا کہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت حدیثیں روایت کرنی شروع کر دی ہیں۔

مسند دارمی میں قرظہ بن کعب کی روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ مطلب تھا کہ غزوات کے متعلق کم روایت کی جائے۔ اس سے فرائض اور سنن مقصود نہیں۔

شاہ ولی اللہ صاحب دارمی کے قول کو نقل کر کے لکھتے ہیں، میرے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے شمائل اور عادات کی حدیثیں مراد ہیں۔ کیونکہ ان سے کوئی غرض شرعی متعلق نہیں یا وہ حدیثیں مقصود ہیں جن کے حفظ اور ضبط میں کافی اہتمام نہیں کیا گیا (ازالۃ اخفاء صفحہ 141 حصہ دوم)۔

ہمارے نزدیک ان تاویلات کی ضرورت نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد خود انہی کی تصریح سے معلوم ہو سکتا ہے۔ مؤرخ بلاذری نے جو محدث بھی ہیں، انساب الاشراف میں روایت کی ہے کہ لوگوں نے ان سے کوئی مسئلہ پوچھا تو فرمایا۔

لو لا انی اکرہ ان ازید فی الحدیث او انقص لحدثتکم بہ۔

یعنی ” اگر مجھے ڈر نہ ہوتا کہ حدیث کی روایت کرنے میں مجھ سے کچھ کمی بیشی ہو جائے گی تو میں حدیث بیان کرتا۔ "

مؤرخ مذکور نے اس روایت کو بسند متصل روایت کیا ہے اور رواۃ یہ ہیں۔ محمد بن سعد، عبد الحمید بن عبد الرحمٰن الحمافی، نعمان بن ثابت (ابو حنیفہ)، موسی بن طلحہ، ابو الحوتکیہ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی نسبت جو ڈر تھا وہی اوروں کی نسبت بھی ہونا چاہیے تھا۔ اس خیال کی تصدیق اس سے اور زیادہ ہوتی ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو مقامات علمی میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تربیت یافتہ خاص تھے ان کی نسبت محدثین نے لکھا ہے کہ۔

یشدد فی الرویۃ و یزجر تلامذتہ عن التھاون فی ضبط الالفاظ (تذکرہ الحفاظ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود)

یعنی "وہ روایت میں سختی کرتے تھے اور اپنے شاگردوں کو ڈانٹتے رہتے تھے کہ الفاظ حدیث کے محفوظ رکھنے میں بے پرواہی نہ کریں۔ "

محدثین نے بھی لکھا ہے کہ وہ کم حدیثیں روایت کرتے تھے یہاں تک کہ سال سال بھر قال رسول نہیں کہتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روایت کے بارے میں جو احتیاط تھی اگرچہ ان سے پہلے بھی اکابر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو تھی۔ علامہ ذہبی نے تذکرہ الحفاظ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حال میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے جس نے احادیث کے باب میں احتیاط کی وہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ علامہ موصوف نے حاکم سے یہ بھی روایت کیا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 500/ حدیثیں قلمبند کی تھیں۔ لیکن پھر ان کو آگ میں جلا دیا اور کہا کہ ممکن ہے کہ میں نے ایک شخص کو ثقہ سمجھ کر اس کے ذریعہ سے روایت کی ہو اور وہ درحقیقت ثقہ نہ ہو، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احتیاط اور دیگر صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کی احتیاط میں فرق تھا اور صحابہ صرف راوی کے ثقہ اور عدم ثقہ ہونے کا لحاظ رکھتے تھے کہ راوی نے واقعہ کی پوری حقیقت سمجھی یا نہیں۔ حضرت عائشہ نے اسی بناء پر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اکثر مواخذات کئے ورنہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ثقہ ہونے میں ان کو بھی کلام نہ تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روک ٹوک اور ضبط و احتیاط سے اگرچہ یہ نتیجہ ضروری ہوا کہ حدیثیں کم روایت کی گئیں۔ لیکن وہ ہر قسم کے احتمالات سے بے داغ تھیں۔ ان کے بعد اگرچہ احادیث کو بہت وسعت ہو گئی لیکن وہ اعتماد اور قوت کا وہ پایہ نہ رہا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے نہایت سچ لکھا ہے کہ ” ہر چند جمع صحابہ عدول اندو روایت ہمہ مقبول، عمل بموجب آنچہ بروایت صدوق ازایشاں ثابت شود، لازم، اما درمیان آنچہ از حدیث و فقہ درز من فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بود، آنچہ بعد وے حدث شدہ فرق مابین السموت والارض است۔ ” (ازالۃ الخفاء صفحہ 141)۔

صحابہ میں جو لوگ کم روایت کرتے تھے

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے احادیث کے متعلق احتیاط و تشدد کا جو خیال پیدا کیا وہ اگرچہ رواج عام نہ پا سکا۔ لیکن محققین صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں یہ خیال بے اثر نہ رہا۔ عبد اللہ بن مسعود کی نسبت عام شہرت ہے اور مسند داری وغیرہ میں جا بجا تصریح ہے کہ احادیث کی روایت کے وقت ان کے چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا اور جب آنحضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ بیان کرتے تھے تو کہتے جاتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ لفظ فرمایا یا شاید اس کے مشابہ یا ان کے قریب یا اس کی مثل، ابو درداء اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بہت بڑے صحابی تھے ، ان کا بھی یہی حال تھا۔ امام شعبی کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ سال بھر رہا۔ اس مدت میں ان سے صرف ایک حدیث سنی۔ ثابت بن قطبہ الانصاری کی رویت ہے کہ عبد اللہ بن رضی اللہ تعالیٰ عنہ مہینہ بھر میں دو تین حدیث روایت کرتے تھے۔ سائب بن یزید رحمۃ اللہ علی کا قول ہے کہ میں سعد وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مکہ سے مدینہ تک گیا اور آیا، لیکن انہوں نے اس مدت میں ایک حدیث بھی روایت نہیں کی۔ چنانچہ یہ تمام واقعات اور روایتیں صحیح دارمی میں بسند متصل منقول ہیں۔ (مسند داری مطبوعہ مطیع نظامی کانپور صفحہ 45 تا 4۔

سند اور روایت کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو مقدم اصول قائم کئے ان کو اجمالاً بیان کیا جاتا ہے :

1 – روایت کا باللفظ ہونا ضروری ہے۔

2 – خبر واحد میں تائیدی شہادت کی حاجت ہے جس کو محدثین کی اصطلاح میں تابع اور شاہد کہتے ہیں۔

3 – محض راسی کا ثقہ ہونا روایت کے لئے کافی نہیں۔

4 – خبر واحد ہمیشہ قابل حجت نہیں ہوتی۔

5 – روایت کے اعتبار میں موقع اور محل کی خصوصیت کا لحاظ شرط ہے۔

علم فقہ

فقہ کا فن تمام تر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ساختہ و پرداختہ ہے۔ اس فن کے متعلق ان کی قابلیت اور افضلیت کا تمام صحابہ کو اعتراف تھا۔ مسند دارمی میں ہے کہ حذیفہ بن الیمان نے کہا کہ فتویٰ دینا اس شخص کا کام ہے جو امام ہو یا قرآن کے ناسخ و منسوخ جانتا ہو۔

لوگوں نے پوچھا کہ ایسا کون شخص ہے۔ حذیفہ نے کہا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ اگر تمام عرب کا علم ایک پلہ میں رکھا جائے اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا علم دوسرے پلہ میں تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا پلہ بھاری رہے گا۔ (استیعاب قاضی بن عبد البر و ازالۃ الخفاء صفحہ 185 حصہ دوم)۔ علامہ ابو اسحٰق شیرازی نے جو مدرسہ نظامیہ کے مدرس اعظم تھے فقہا کے حالات میں ایک کتاب لکھی ہے اس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تذکرے میں صحابہ و تابعین کے اس قسم کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں اور آخر میں لکھا ہے :

ولو لا خوف الاطالۃ لذکرت من فقھہ مایتحیر فیہ کل فاضل

یعنی ” اگر طوالت کا خوف نہ ہوتا تو میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتوے اور ان میں جو فقہ کے اصول پائے جاتے ہیں اس قدر لکھتا ہے کہ بڑے بڑے عالم و فاضل حیران رہ جاتے۔ "

فقہ کے تمام سلسلوں کے مرجع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں

علامہ موصوف نے جس چیز کو قلم انداز کیا ہے ہم اس کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ آگے چل کر لکھیں گے لیکن یہ بتانا ضروری ہے کہ فقہ کے جس قدر سلسلے آج اسلام میں قائم ہیں سب کا مرجع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات بابرکات ہے۔ بلاد اسلام میں جو مقامات فقہ کے مرکز مانے جاتے ہیں۔ وہ یہ ہیں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ، بصرہ، کوفہ اور شام۔ اس انتساب کی وجہ یہ ہے کہ فقہ کے بڑے بڑے شیوخ اور بانی فن انہی مقامات کے رہنے والے تھے۔ مثلاً مکہ معظمہ کے شیخ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے۔ مدینہ منورہ کے زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کوفہ کے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ و ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، شام کے ابو درداء و معاذ بن جبل، ان میں (حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا) اکثر بزرگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ ایک ساعت بیٹھنا میں سال بھر کی عبادت سے بہتر جانتا ہوں۔ (استیعاب قاضی بن عبد الطر و ازالۃ اخفاء صفحہ 319 حصہ اول)۔

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گویا اپنے دامن تربیت میں پالا تھا۔ یہاں تک کہ لوگوں کو اس پر رشک ہوتا تھا۔ صحیح بخاری میں خود حضرت عبد اللہ بند عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھایا کرتے تھے۔ اس پر بعض بزرگوں نے کہا کہ آپ اس نو عمر کو ہمارے ساتھ کیوں شریک کرتے ہیں اور ہمارے لڑکوں کو جو ان کے ہمسر ہیں کیوں یہ موقع نہیں دیتے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” یہ وہ شخص ہے جس کی قابلیت تم کو بھی معلوم ہے۔ "

محدث ابن عبد البر نے استیعات میں لکھا ہے کان عمر یحب ابن عباس و یقربہ ” یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں کوئی مسئلہ پیش ہوتا ، عبد اللہ بن عباس اس کا جواب دینا چاہتے لیکن کم سنی کی وجہ سے جھجکتے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے علم سن (عمر) کی کمی اور زیادتی پر موقوف نہیں۔ کوئی شخص اگر عبد اللہ بن عباس کے مجتہدات کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسائل سے ملائے تو صاف نظر آئے گا کہ دونوں میں استاد اور شاگرد کا تناسب ہے۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند ہی تھے۔ زید بن ثابت برسوں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحبت میں تحریر کا کام کرتے رہے تھے۔ امام شعبی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن مسعود اور زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم باہم ایک دوسرے سے استفادہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے ان کے مسائل باہم ملتے جلتے ہیں۔ (فتح المغیث صفحہ 371)۔

صحابہ میں چھ شخص فقہ کے امام تھے

محدثین کا عام بیا ن ہے کہ رسول اللہ کے اصحاب میں یہ چھ اشخاص تھے جن پر علم فقہ کا مدار تھا۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ امام محمد رحمۃ اللہ نے کتاب الآثار میں ایک روایت نقل کی ہے۔ سنۃ من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ و سلم یتذا کرون الفقہ بینھم علی ابن ابی طالب و ابی و ابو موسیٰ علیٰحدہ و عمر و زید ابن مسعود علیٰحدہ یعنی اصحاب رسول میں چھ شخص تھے جو باہم مسائل فقہیہ میں بحث و مذاکرہ کرتے تھے۔ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابی اور ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ایک ساتھ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ساتھ، صفوان ابن سلیم کا قول ہے لم یکن یفتی فی زمن النبی صلی اللہ علیہ و سلم گیر عمر و علی و معاذ ابی موسیٰ (تذکرہتہ الحفاظ علامہ ذہبی ذکر ابی موسیٰ اشعری) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں صرف چار شخص فتویٰ دیتے تھے۔ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ امام شعبی کا مقولہ ہے کان العلم یوخذ عن ستۃ من الصحابتہ (فتح المغیث صفحہ 381) یعنی علم چھ صحابہ سے سیکھا جاتا تھا۔

اگرچہ یہ تحدید بظاہر مستبعد معلوم ہوتی ہے ، کیونکہ ہزاروں صحابہ میں صرف 4 یا 6 مفتیوں کی تعداد خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جن میں حدیث صحیح، صاف اور مصرح موجود ہے اور کوئی حدیث اس کے معارض بھی نہیں۔ ان مسائل کے لئے فقط احادیث کا جاننا کافی ہے۔ اس کے برخلاف بہت سے مسائل ایسے ہیں جن کی نسبت حدیث میں کوئی حکم بتصریح موجود نہیں بلکہ قواعد استنباط کے ذریعے سے حکم مستخرج ہوتا ہے یا حکم کی تصریح ہے لیکن اور حدیثیں اس کی معارض ہیں۔ ایسی صورتوں میں اجتہاد اور استنباط کی ضرورت پڑتی ہے اور فقہ دراصل اسی کا نام ہے۔ صحابہ میں ایسے بہت سے بزرگ تھے جو پہلی قسم کے مسائل کے متعلق فتویٰ دیتے اور مفتی کہلاتے تھے۔ چنانچہ ان کی تعداد 20 تک پہنچتی ہے۔ لیکن دوسری قسم کے مسائل کا فیصلہ کرنا انہی لوگوں کا کام تھا جو فن کے بانی اور امام تھے اور اس درجہ کے لوگ وہی چھ بزرگ تھے جن کا اوپر ذکر گزرا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب چار صاحبوں یعنی عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابن عباس کا نام لکھ کر لکھتے ہیں۔

و اما غیر ھٰولآء الاربعۃ فکانو یرون دلالۃً ولکن ما کان یمیزون الرکن الشرط من الاداب والسنن ولم یکن لھم قول عند تعارض الاخبار و تقابل الدلائل الاقلیلاً کابن عمر و عائشۃ و زید بن ثابت (حجتہ اللہ البالغہ صفحہ 7)۔

یعنی ” ان چاروں کے سوا باقی جو لوگ تھے وہ مطالب سمجھتے تھے۔ لیکن آداب و سنن اور ارکان و شرائط میں امتیاز و تفریق نہیں کرتے تھے اور جہاں حدیثیں متعارض ہوتیں تھیں اور دلائل میں تقابل ہوتا تھا وہاں وہ بجز بعض موقعوں کے دخل نہیں دیتے تھے۔ مثلاً ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ "

بہر حال مجتہدین صحابہ 6 سے زیادہ نہ تھے۔ ان کی کیفیت یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہم صحبت اکثر وہ لوگ تھے جو فن حدیث و روایت میں بلند پایہ نہ تھے۔ صحیح مسلم کے مقدمہ میں ہے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھیوں کے سوا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جن لوگوں نے روایتیں کیں، ان پر اعتبار کیا جاتا تھا۔ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تعلیم روایت کے لئے شام بھیجا تھا لیکن ان کا 18 ہجری میں انتقال ہو گیا۔ اس لئے جیسا کہ شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے ، حدیث او چنداں باقی نماند۔ (ازالۃ اخفاء صفحہ 81 حصہ دوم)۔

عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خاص شاگردوں میں تھے۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر تحریر کے ذریعے سے حدیث و فقہ کے مسائل تعلیم کرتے رہتے تھے۔ زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دراصل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقلد تھے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں، و زید بن ثابت نیز در اکثر متبع او ست۔ ان واقعات سے معلوم ہو گا کہ صحابہ میں جن جن لوگوں کی فقہ کی رواج ہو، وہ سب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مسائل فقہیہ میں جس قدر فکر اور خوض کیا تھا۔ صحابہ میں سے کسی نے نہیں کیا تھا۔ انہوں نے آغاز اسلام ہی سے فقہ کو مطمع نظر بنا لیا تھا۔ قرآن مجید میں جو مسائل فقہ مذکور ہیں ان میں جب ابہام ہوتا تھا تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کر لیتے تھے اور جب تک پوری تسلی نہیں ہوتی تھی بس نہیں کرتے تھے۔ یہ بات اور اصحاب کو حاصل نہ تھی کیونکہ ان کے برابر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کہنے سننے کی جرات نہیں رکھتا تھا۔ کلالہ کے مسئلہ کو جو ایک دقیق اور نہایت مختلف فیہ مسئلہ ہے انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے اس قدر بار بار دریافت کیا کہ آپ دق آ گئے اور فرمایا کہ سورہ نساء کی آخری آیت تیرے لئے کافی ہو سکتی ہے۔ (مسند امام احمد بن حنبل)۔

مشکل مسائل قلمبند کرنا

جو مسائل زیادہ مشکل ہوتے ان کو یادداشت کے طور پر لکھ لیتے اور ہمیشہ ان پر غور کیا کرتے۔ وقتاً فوقتاً ان کے متعلق جو رائے قائم ہوتی اس کو قلمبند اور زیادہ غور و فکر سے اس میں محو و اثبات کیا کرتے۔ پھوپھی کی میراث کی نسبت جو یادداشت لکھی تھی اور آخر میں اس کو محو کر دیا اس کا حال امام محمد نے مؤطا میں لکھا ہے (مؤطا امام محمد صفحہ 314)۔ قسطلانی نے شرح بخاری میں معتمد حوالہ سے نقل کیا ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سو مختلف رائے قائم کیں۔

دقیق مسائل میں وقتاً فوقتاً خوض کرتے رہنا

بعض مسائل کے متعلق ان کو مرتے دم تک کاوش رہی اور کوئی قطعی رائے نہ قائم کر سکے۔ مسند دارمی میں ہے کہ دادا کی میراث کے متعلق انہوں نے ایک تحریر لکھی تھی۔ لیکن مرنے سے قبل اس کو منگوا کر مٹا دیا اور کہا کہ آپ لوگ خود اس کا فیصلہ کیجیئے گا۔ اسی کتاب میں یہ روایت بھی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زخمی ہوئے تو صحابہ کو بلا کر کہا کہ میں نے دادا کی میراث کے متعلق رائے قائم کی تھی۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو اس کو قبول کریں۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ آپ کی رائے ہم قبول کر لیں تب بھی بہتر ہے لیکن ابو بکر کی رائے مانیں تو وہ بڑے صائب الرائے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ کاش رسول اللہ تین مسئلوں کے متعلق کوئی تحریر قلمبند فرما جاتے۔ کلالہ، دادا کی میراث، ربط کی بعض اقسام مسائل فقہیہ کے متعلق ان کو جو کد و کاوش رہتی تھی اس کا اندازہ کرنے کے لئے ذیل کی مثالیں کافی ہوں گی۔

ورثا کے بیان میں خدا نے ایک قسم کے وارث کا کلالہ سے تعبیر کیا ہے لیکن چونکہ قرآن مجید میں اس کی تعریف مفصل مذکور نہیں اس لئے صحابہ میں اختلاف تھا کلالہ میں کون کوں ورثا میں داخل ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے چند بار دریافت کیا، اس پر تسلی نہیں ہوئی تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو ایک یادداشت لکھ کر دی کہ رسول اللہ سے دریافت کرنا پھر اپنی خلافت کے زمانے میں تمام صحابہ کو جمع کر کے اس مسئلہ کو پیش کیا۔ لیکن ان تمام باتوں پر بھی ان کو کافی تسلی نہیں ہوئی اور فرمایا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اگر تین چیزوں کی حقیقت بتا جاتے تو مجھ کو دنیا اور مافیہا سے زیادہ عزیز ہوتی۔ خلافت، کلالہ، ربط، چنانچہ ان تمام واقعات کو محدث عماد الدین ابن کثیر نے صحیح حدیثوں کے حوالے سے اپنی تفسیر قرآن میں نقل کیا ہے۔

فتوحات کی وسعت کی وجہ سے نئے نئے مسئلوں کا پیدا ہونا

چونکہ ان کے زمانے میں فتوحات نہایت تیزی سے بڑھتی جاتی تھیں اور تمدن روز بروز ترقی کرتا جاتا تھا۔ اس لئے نہایت کثرت سے معاملات کی نئی نئی شکلیں پیش آتی جاتی تھیں۔ اگرچہ ہر جگہ قاضی اور مفتی مقرر تھے اور یہ لوگ اکثر اکابر صحابہ میں سے تھے تاہم بہت سے مسائل میں وہ لوگ عاجز آتے اور بارگاہ خلافت کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ اس بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بہت سے پیچیدہ اور غیر منصوص مسائل پر غور و فکر کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ ان کے فتوے جو نہایت کثرت سے تمام کتابوں میں منقول ہیں زیادہ تر انہی مسائل کے متعلق ہیں جو ممالک مختلفہ سے ان کے پاس جواب کے ل ئے آئے۔ چنانچہ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں فتووں کے ساتھ فتویٰ پوچھنے والوں کے نام بھی موجود ہیں۔

لوگوں کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے استفسار کرنا

مثلاً عبد اللہ بن مسعود، عمار بن یاسر، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بن جرح، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ وغیرہ۔

صحابہ کے مشورہ سے مسائل طے کرنا

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگرچہ خوب بہت بڑے فقیہ تھے۔ ان کی رائے بھی فتویٰ کے لئے کافی ہو سکتی تھی۔ تاہم احتیاط کے لئے وہ اکثر مسائل کو عموماً صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس میں پیش کرتے تھے اور ان پر نہایت آزادی اور نکتہ سنجی کے ساتھ بحثیں ہوتی تھیں۔ علامہ بلاذری نے کتاب الاشراف میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی ایسے مسئلہ کو جو ان سے پہلے طے نہیں ہوا تھا، بغیر صحابہ کے مشورہ کے فیصلہ نہیں کیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب حجتہ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں۔

کان من سیرۃ عمر انہ کان یشاور الصحابۃ و یناظر ھم حتی تنکشف الغمۃ و یاتیہ الثلج فصار غالب قضایاہ و فتاواہ متبعۃً مشارق الارض و مغاربھا۔

"حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عادت تھی کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مشورہ اور مناظرہ کرتے تھے یہاں تک کہ پردہ اٹھ جاتا تھا اور یقین آ جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فتووں کی تمام مشرق و مغرب میں پیروی کی گئی ہے۔ "

مسائل اجماعیہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن مسائل کو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مجمع میں پیش کر کے طے کیا ان کی تعداد کچھ کم نہیں۔ اور کتب احادیث و آثار میں ان کی پوری تفصیل ملتی ہے۔ مثلاً بیہقی نے روایت نقل کی ہے کہ غسل جنابت کی ایک صورت خاص میں (بیہقی نے اس کی تصریح کی ہے ) صحابہ میں اختلاف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ مہاجرین اور انصار جمع کئے جائیں۔ چنانچہ متفقہ مجلس میں وہ مسئلہ پیش ہوا۔ تمام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے ایک رائے پر اتفاق کیا۔ لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مخالف رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ جب آپ لوگ اصحاب بدر ہو کر مختلف الرائے ہیں تو آگے چل کر کیا حال ہو گا؟ غرض ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن کے فیصلے پر معاملہ اٹھا رکھا گیا اور انہوں نے جو فیصلہ کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کو نافذ و جاری کر دیا۔ اسی طرح جنازے کی تکبیر کی نسبت صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں بہت اختلاف تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی مجلس منعقد کی جس میں یہ فیصلہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اخیر معمول کا پتہ لگایا جائے۔ چنانچہ دریافت ہوا کہ جنازہ کی اخیر نماز جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے پڑھی اس میں چار تکبیر کہی تھیں۔ اسی طرح بہت سے مسائل ہیں لیکن یہ تفصیل کا محل نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسائل فقہیہ کی تعداد

فقہ کے جس قدر مسائل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بروایت صحیحہ منقول ہیں ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے۔ ان میں سے تقریباً ہزار مسئلے ایسے ہیں جو فقہ کے مقدم اور اہم مسائل ہیں اور ان تمام مسائل میں ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں ” وہم چنیں مجتہدین در رؤس مسائل فقہ تابع مذہب فاروق اعظم انداویں قریب ہزار مسئلہ باشد تخمناً” (ازالۃ الخفاء حصہ دوئم 84)۔ مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ میں منقول ہیں اور شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی مدد سے فقہ فاروقی پر مشتمل رسالہ لکھ کر ازالۃ الخفاء میں شامل کر دیا ہے۔

اصول فقہ

یہ تمام بحث تدوین مسائل کی حیثیت سے تھی لیکن فن فقہ کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اصلی کارنامہ اور چیز ہے۔ انہوں نے صرف یہ نہیں کیا کہ جزئیات کی تدوین کی بلکہ مسائل کی تفریع و استنباط کے اصول اور ضوابط بھی وضع کیے۔ جن کو آج کل اصول فقہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو اقوال و افعال منقول ہیں وہ کلیتہً مسائل کا ماخذ ہو سکتے ہیں۔ یا ان میں کوئی تفریق ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس بحث پر حجتہ اللہ البالغہ میں ایک نہایت مفید مضمون لکھا ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے جو افعال و اقوال مروی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو منصب نبوت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی نسبت خدا کا شکر ہے کہ ما اتکم الرسول فخذوہ ومانھکم عنہ فانتھوا۔ یعنی پیغمبر تم کو جو دے وہ لو۔ اور جس چیز سے روکے اس سے باز رہو۔ دوسری وہ جن کو منصب رسالت سے تعلق نہیں۔ چنانچہ ان کے متعلق خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔

انما انا بشرا اذا امرتکم بشی من دینکم فخذوہ بہ و اذا امرتکم بشی من رائی فانما انا بشر۔

یعنی ” میں آدمی ہوں، اس لئے جب میں دین کی بابت کچھ حکم کروں تو اس کو لو۔ اور جب اپنی رائے سے كچھ کہوں تو میں ایک آدمی ہوں۔

اس کے بعد شاہ ولی اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے طب کے متعلق جو کچھ ارشاد فرمایا، یا جو افعال آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عادۃً صادر ہوئے نہ عبارۃً یا اتفاقاً واقع ہوئے ، نہ قصداً یا جو باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے مزعومات عرب کے موافق اختیار کیں۔ مثلاً لشکر کشی اور اس قسم کے بہت سے احکام، یہ سب دوسری قسم میں داخل ہیں۔ (حجتہ اللہ البالغہ صفحہ 133)۔

شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے احادیث کے مراتب میں جو فرق بتایا اور جس سے کوئی صاحب نظر انکار نہیں کر سکتا اس تفریق مراتب کے موجد دراصل حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ کتب سیرت اور احادیث میں تم نے پڑھا ہو گا کہ بہت سے ایسے موقع پیش آئے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کوئی کام کرنا چاہا یا کوئی بات ارشاد فرمائی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے خلاف رائے ظاہر کی۔ مثلاً صحیح بخاری میں ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے عبد اللہ بن ابی کے جنازے پر نماز پڑھنی چاہی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، آپ منافق کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں۔

قیدیان بدر کے معاملے میں ان کی رائے بالکل آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تجویز سے الگ تھی۔ صلح حدیبیہ میں انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اس طرح دب کر کیوں صلح کی جائے۔ ان تمام مثالوں سے تم خود اندازہ کر سکتے ہو کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام باتوں کو منصب نبوت سے الگ سمجھتے تھے ورنہ اگر باوجود اس امر کے کہ وہ باتیں منصب رسالت سے تعلق رکھتی تھیں ان میں دخل دیتے تو بزرگ ماننا تو درکنار ہم ان کو اسلام کے دائرے سے بھی باہر سمجھتے۔ اسی فرق مراتب کے اصول پر بہت سی باتوں میں جو مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں اپنی رایوں پر عمل کیا۔ مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک امہات اولاد یعنی وہ لونڈیاں جن سے اولاد پیدا ہو جائے برابر خریدی اور بیچی جاتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو بالکل روک دیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جنگ تبوک میں جزیہ کی تعداد فی کس ایک دینار مقرر کی تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مختلف شرحیں مقرر کیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد میں شراب کی کوئی خاص حد مقرر نہ تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی کوڑے مقرر کئے۔ یہ ظاہر ہے کہ ان معاملات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال و افعال اگر تشریعی حیثیت سے ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کیا مجال تھی کہ ان میں کمی بیشی کر سکتے۔ اور خدا نخواستہ وہ کرنا چاہتے۔ تو صحابہ کا گروہ ایک لحظہ کے لئے بھی ان کا مسند خلافت پر بیٹھنا کب گوارا کر سکتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امتیاز مراتب کی جرات اس وجہ سے ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے متعدد احکام میں جب انہوں نے دخل دیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر ناپسندیدگی نہیں ظاہر کی۔ بلکہ متعدد معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کی تائید کی۔ قیدیان بدر، حجاب ازواج مطہرات، نماز بر جنازہ منافق، ان تمام معاملات میں وحی جو آئی اس تفریق اور امتیاز کی وجہ سے فقہ کے مسائل پر بہت اثر پڑا۔ کیونکہ جن چیزوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ارشادات منصب رسالت کی حیثیت سے نہ تھے ان میں اس بات کا موقع باقی رہا۔ کہ زمانے اور حالات موجودہ کے لحاظ سے نئے قوانین وضع کئے جائیں۔ چنانچہ اس معاملات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زمانے اور حالات کی ضرورتوں سے بہت سے نئے نئے قاعدے وضع کئے جو آج حنفی فقہ میں بکثرت موجود ہیں، برخلاف اس کے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کو یہاں تک کد ہے کہ ترتیب فوج تعین شعار تشخیص محاصل وغیرہ کے متعلق بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال کو تشریعی قرار دیتے ہیں اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افعال کی نسبت لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے کسی کے قول و فعل کی کچھ اصل نہیں۔

خبر آحاد کے قابل ۔۔۔ ہونے کی بحث

اس بحث کے بعد دوسرا مرحلہ خبر آحاد (یعنی وہ حدیث جس کا راوی ایک سے زیادہ نہ ہو۔ اصول حدیث کی رو سے جس حدیث کے راوی ایک سے زیادہ ہوں لیکن شہرت یا تواتر کی حد سے کم ہوں وہ بھی خبر آحاد میں داخل ہے۔ لیکن یہ بعد کی اصطلاح ہے۔ حضرت عمر کے زمانے تک ایک کا وجود نہ تھا۔ ) کی حیثیت حجت کا تھا۔ بہت سے اکابر اس قسم کی حدیثوں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان سے قرآن مجید کی منصوصات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ یعنی قرآن مجید کا کوئی حکم عام ہو تو خبر آحاد سے اس کی تخصیص ہو سکتی ہے بلکہ اس کے ذریعے سے قرآن مجید کا حکم بھی منسوخ ہو سکتا ہے۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مذہب ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک خبر آحاد ہر موقع پر قابل حجت نہیں ہو سکتی۔ اسی بناء پر اذن ملاقات، اسقاط، جنین، خری داری عباس بن عبد المطلب، تیمم جنابت کے مسئلوں میں انہوں نے عباس ابن عبد المطلب عمار بن یاسر، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ، مغیرہ بن شعبہ، ابی بن کعب کی روایتوں کو اس وقت تک قابل حجت نہیں قرار دیا جب تک اور تائیدی شہادتیں نہیں گزریں۔ چنانچہ تذکرہ الحطاظ میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے۔ اسی بناء پر خبر آحاد سے قرآن مجید کی تنسیخ یا تخصیص کو جائز نہیں قرار دیتے تھے۔ فاطمہ بنت قیس نے جب زن مطلقہ کی سکونت اور نفقہ کے متعلق اپنی روایت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی حدیث بیان کی تو چونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک وہ حکم، قرآن مجید کی نص کی مخالف تھا، فرمایا کہ ایک عورت کی روایت سے قرآن مجید کا حکم نہیں بدل سکتا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ہم خیالوں کا یہ استدلال ہے کہ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بہت سے واقعات میں اخبار آحاد کو قبول کیا لیکن امام صاحب نے یہ خیال نہ کیا کہ اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اصول میں فرق نہیں آتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ مذہب ہے کہ ہر خبر آحاد قابل احتجاج نہیں، نہ یہ کہ کوئی خبر آحاد قابل احتجاج نہیں۔ ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے وہ ظاہر ہے بہت سے مسائل ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں تنہا ایک شخص کی شہادت کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ روزمرہ کے کاموں میں ہر شخص اسی پر عمل کرتا ہے۔ لیکن بعض اوقات ایسے اہم اور نازک مسائل ہوتے ہیں کہ جن کی نسبت ایک دو اشخاص کی شہادت کافی نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ احتمال رہتا ہے کہ انہوں نے الفاظ روایت، یا واقعہ کی کیفیت سمجھنے میں غلطی کی ہو۔ غرض ہر واقعہ اور ہر راوی کی حالت اور حیثیت مختلف ہوتی ہے اور اس وجہ سے کوئی عام قاعدہ قرار نہیں پا سکتا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے شبہ بہت سے موقعوں پر اخبار آحاد سے استدلال کیا۔ لیکن متعدد موقعوں پر اس کے خلاف بھی کیا۔ اس طریقہ عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اخبار آحاد میں خصوصیت حالات کو ملحوظ رکھتے تھے۔ اخبار آحاد کے متعلق فقہاء و محدثین میں سخت اختلاف آراء ہے۔ اور بڑی بڑی طویل بحثیں پیدا ہو گئی ہیں۔ لیکن جہاں تک ہم نے ان تمام بحثوں کو دیکھا ہے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مذہب میں جو نکتہ سنجی اور دقیقہ رسی پائی جاتی ہے اس کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ لیکن اس موقع پر یہ تنبیہ کر دینی ضروری ہے کہ اخبار آحاد کے قبول کرنے یا نہ کرنے میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جو اصول تھا اس کی بناء صرف تحقیق حق تھی۔ اس شمانے کے آزاد خیال کی طرح نفس کی پیروی مقصود نہ تھی کہ جس حدیث کو چاہا صحیح مان لیا۔ اور جس کو چاہا غلط کہہ دیا۔

کار کاں کار اقیاس از خود مگیر

گرچہ مانند در نو شیتن شیر و شیر

قیاس

فقہ کی توسیع اور تمام ضرورت کے لئے اس کا کافی ہونا قیاس پر موقوف ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ قرآن مجید اور احادیث میں تمام چیزیں مذکور نہیں ہیں اس لئے ضروری ہے کہ ان جزئیات کے فیصلہ کرنے کے لئے قیاس شرعی سے کام لیا جائے۔ اسی ضرورت سے ائمہ اربعہ یعنی امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سب قیاس کے قائل ہوئے ہیں۔ اور ان کے مسائل کا ایک بڑا ماخذ قیاس ہے۔ لیکن قیاس کی بنیاد جس نے ڈالی وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔

عام لوگوں کا خیال ہے کہ قیاس کے موجد معاذ بن جبل ہیں، ان لوگوں کا استدلال یہ کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا تو ان سے استفسار فرمایا کہ کوئی مسئلہ پیش آئے گا تو کیا کرو گے ، انہوں نے کہا کہ قرآن مجید سے جواب دوں گا۔ اور اگر قرآن و حدیث میں وہ صورت مذکورہ نہ ہوئی تو اجتہاد کروں گا۔ (یہ حدیث مسند دارمی مطبوعہ نظامی صفحہ ۴۳ میں مذکور ہے )۔

لیکن اس سے یہ استدلال نہیں ہو سکتا کہ ان کی مراد قیاس سے بھی۔ اجتہاد قیاس پر منحصر نہیں۔ ابن حزم، داؤد ظاہری وغیرہ سرے سے قیاس کے قائل نہ تھے۔ حالانکہ اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے اور مسائل شرعیہ میں اجتہاد کرتے تھے۔ مسند دارمی میں بہ سند مذکور ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا معمول تھا کہ جب کوئی مسئلہ درپیش آتا تو قرآن مجید کی طرف رجوع کرتے۔ قرآن میں وہ صورت مذکور نہ ہوتی تو حدیث سے جواب دیتے۔ حدیث بھی نہ ہوتی تو اکابر صحابہ کو جمع کرتے اور ان کے اتفاق رائے سے جو امر قرار پاتا اس کے مطابق فیصلہ کرتے۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے تک مسائل کے جواب میں قرآن مجید، حدیث اور اجماع سے کام لیا جاتا تھا۔ قیاس کا وجود نہ تھا۔ (مسند عارمی صفحہ 32)

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو موسیٰ اشعری کو قضاء کے متعلق جو تحریر بھیجی، اس میں قیاس کی صاف ہدایت کی۔ چنانچہ اس کے یہ الفاظ ہیں۔

الفھم الفھم فیما یختلج فی صدرک ممالم یبلغک فی الکتاب والسنۃ و اعرف الامثال والا شباہ ثم قس الامور عند ذلک۔

(یہ روایت دار قطنی میں مذکور ہے۔ دیکھو ازالۃ اخفاء صفحہ 84)۔

"جو چیز تم کو قرآن و حدیث میں نہ ملے اور تم کو اس کی نسبت شبہ ہو اس پر غور کرو اور خوب غور کرو۔ اس کے ہم صورت اور ہم شکل واقعات کو دریافت کرو پھر ان سے قیاس کرو۔ "

اصول فقہ کی کتابوں میں قیاس کی یہ تعریف لکھی ہے۔

تعدیۃ الحکم من الاصل الی الفرع لعلۃ متحدۃ۔

اس کے حکم کو فروغ تک پہنچانا کسی ایسی علت کی وجہ سے جو دونوں میں مشترک ہو مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گیہوں، جوار وغیرہ کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو برابر پہ دو۔ برابر سے زیادہ لو گے تو سود ہو جائے گا۔ اس مسئلہ میں قیاس اس طرح جاری ہو گا۔ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے گو چند خاص اشیاء کے نام لئے ، لیکن یہ حکم ان تمام اشیاء میں جاری ہو گا جو مقدار اور نوعیت رکھتے ہیں۔ مثلاً اگر کوئی شخص کسی کو سیر بھر چونہ دے اور اس سے اسی قسم کا چونہ سوا سیر لے یا عمدہ قسم کا لے تو سود ہو جائے گا۔

اصوسیین کے نزدیک قیاس کے لئے مقدم دو شرطیں ہیں۔

1 – جو مسئلہ قیاس سے ثابت کیا جائے وہ منصوص نہ ہو۔ یعنی اس کے بارے میں کوئی خاص حکم موجود نہ ہو۔

2 – مقیس اور مقیس علیہ میں علت مشترک ہو۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تحریر میں ان دونوں شرطوں کی طرف اشارہ بلکہ تصریح موجود ہے۔

پہلی شرط کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ ممالم یبلغک فی الکتاب

دوسری شرط کو ان الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ واعرف الامثال والاشباہ ثم قس الامور۔

ان مہمات اصول کے سوا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے استنباط احکام اور تفریح مسائل کے اور بہت سے قاعدے مقرر کئے جو آج ہمارے علم اصول فقہ کی بنیاد ہیں۔ لیکن ان کی تفصیل سے پہلے ایک نکتہ سمجھ لینا چاہیے۔

استنباط احکام کے اصول

یہ امر مسلم ہے کہ امام ابو حنیفہ و امام مالک وغیرہ مسائل فقہیہ میں نہایت مختلف الرائے ہیں۔ اس اختلاف رائے کی وجہ کہیں کہیں تو یہ ہے کہ بعض مسائل میں ایک صاحب کو حدیث ملی اور دوسرے کو نہیں، لیکن عموماً اختلاف کا یہ سبب ہے کہ ان صاحبوں کے اصول استنباط و اجتہاد مختلف تھے۔ چنانچہ اصول فقہ کی کتابوں میں ان مختلف فیہ اصولوں کو بتفصیل لکھا گیا ہے اس سے یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ ان ائمہ نے وہ اصول بیان کیئے تھے۔ امام شافعی نے بے شبہ ایک رسالہ لکھا ہے جس میں اپنے چند اصول منضبط کئے ہیں۔ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک وغیرہ سے ایک قائد بھی صراحتہً منقول نہیں۔ بلکہ ان بزرگوں نے مسائل کو جس طرح استنباط کیا یا مسائل کے متعلق جو تقریر کی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کا استنباط خواہ مخواہ ان اصول کے بناء پر ہے۔ مثلاً ایک امام نے قرآن کی اس آیت سے و اذا قریء القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا سے استدلال کیا کہ مقتدی کو امام کے پیچھے قرأت فاتحہ نہ کرنا چاہیے۔ کسی نے ان سے کہا کہ یہ آیت تو خطبہ کے بارے میں اتری تھی، انہوں نے کہا کہ آیت کسی بارے میں اتری ہو لیکن حکم عام ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہ اس اصول کے قائل تھے۔ العبرۃ لعموم اللفظ لا لخصوص السبب یعنی سبب کا خاص ہونا حکم کی تعمیم پر کچھ اثر نہیں کرتا۔

اصول فقہ میں امام ابو حنیفہ وغیرہ کے جو اصول مذکور ہیں، وہ اسی قسم کی صورتوں سے مستنبط کئے گئے ہیں، ورنہ ان بزرگوں سے صراحتہً یہ قاعدے کہیں منقول نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت ہمارا یہ دعویٰ کہ انہوں نے استنباط مسائل کے اصول قائم کئے۔ اسی بناء پر ہے ، اکثر مسائل جو انہوں نے طے کئے۔ صحابہ کے مجمع میں بحث و مناظرہ کے بعد طے کئے ، ان موقعوں پر انہوں نے جو تقریریں کیں، ان کے استقصاء سے بہت سے اصول قائم ہوتے ہیں۔ اکثر مسائل میں متناقض روایتیں یا ماخذ استدلال موجود ہوتے تھے اس لئے ان کو فیصلہ کرنا پڑتا تھا۔ کہ دونوں میں سے کس کو ترجیح دی جائے۔ کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے ، کس کو ناسخ ٹھہرایا جائے ، کس کو منسوخ، کس کو عام ٹھہرایا جائے ، کس کو خاص، کس کو موقت مانا جائے ، کس کو موبد، اس طرح نسخ، تخصیص، تطبیق وغیرہ کے متعلق بہت سے اصول قائم ہو گئے۔ مثلاً ایک شخص نے ان سے کہا کہ میرے غلام کے ہاتھ کاٹنے کا حکم کیجئے کیونکہ اس نے میری بیوی کا آئینہ چرایا ہے جس کی قیمت 60 درہم تھی۔ فرمایا کہ تمہارا غلام تھا اور تمہاری چیز چرائی۔ اس پر ہاتھ نہیں کاٹا جا سکتا۔ (مؤطا امام مالک)۔

ایسی اور بہت سے مثالیں ہیں۔ کوئی شخص چاہے تو ان سے اصول فقہ کے بہت سے کلیات منضبط کر سکتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسائل فقہیہ کی تعداد

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فقہ کے جو مسائل بیان کئے ان میں اکثر ایسے ہیں جن میں اور صحابہ نے بھی ان کے ساتھ اتفاق کیا اور ائمہ مجتہدین نے ان کی تقلید کی۔ شاہ ولی اللہ صاحب اپنے استقراء سے اس قسم کے مسائل کی تعداد کم و بیش ایک ہزار بتاتے ہیں لیکن بہت سے ایسے مسائل بھی ہیں جن میں دیگر صحابہ نے اختلاف کیا اور وہی حق پر ہیں مثلاً تیمم، جنابت، تمتع، حج، طلقات ثلث وغیرہ میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اجتہاد سے دیگر صحابہ کا اجتہاد زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے لیکن اکثر مسائل اور خصوصاً ان مسائل سے جو معرکۃ الآراء رہے ہیں اور جن کو تمدن اور امور ملکی میں دخل ہے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کمال اجتہاد کا اندازہ ہوتا ہے۔

ان میں سے بعض مسائل کا ذکر ہم اس موقع پر کرتے ہیں۔

خمس کا مسئلہ

ایک بڑا معرکۃ الآراء مسئلہ خمس کا ہے۔ قرآن مجید میں ایک آیت ہے۔

 واعلموا انما غنمتم من شئی فان اللہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ ولیتمی والمسکین وابن السبیل۔

” جو کچھ تم کو جہاد کی لوٹ میں ہاتھ آئے ، اس کا پانچواں حصہ خدا کے لئے ہے اور پیغمبر کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے اور یتیموں کے لئے اور غریبوں کے لئے اور مسافروں کے لئے ہے۔ "

اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ خمس میں رسول اللہ کے رشتہ داروں کا بھی حصہ ہے چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس کی یہی رائے تھی اور حضرت علی نے اگرچہ مصلحتہً بنو ہاشم کو خمس میں سے حصہ نہیں دیا لیکن رائے ان کی بھی یہی تھی کہ بنو ہاشم واقعی حقدار ہیں۔ (کتاب الخراج صفحہ ۱۱، روایت محمد ابن اسحاق)۔

یہ صرف حضرت علی و عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی رائے نہ تھی بلکہ تمام اہل بیت کا اس مسئلہ پر اتفاق تھا۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام شافعی اسی کے قائل تھے ا ور انہوں نے اپنی کتابوں میں بڑے زور شور کے ساتھ اس پر استدلال کیا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت لوگوں کا بیان ہے کہ وہ قرابت داران پیغمبر کو مطلقاً خمس کا حقدار نہیں سمجھتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اہل بیت کو کبھی خمس میں سے حصہ نہیں دیا۔ ائمہ مجتہدین میں سے امام ابو حنیفہ بھی ذوی القربی کے خمس کے قائل نہ تھے۔ ان کی رائے تھی کہ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آنحضرت کا حصہ جاتا رہا اسی طرح آنحضرت کے قرابت داروں کا حصہ بھی جاتا رہا۔

اب ہم کو غور کے ساتھ دیکھنا چاہیے کہ قرآن مجید سے کیا حکم نکلتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا طریق عمل کیا تھا۔ قرآن مجید کی عبارت سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ مجموعی طور پر پانچ گروہ خمس کے مصرف ہیں۔ لیکن اس سے یہ نہیں ثابت ہوتا کہ فرداً فرداً ہر گروہ میں تقسیم کرنا فرض ہے۔ قرآن مجید میں جہاں زکوٰۃ کے مصارف بیان کئے ہیں وہاں بھی بعینہ اسی قسم کے الفاظ ہیں۔

انما الصدقت للفقرآء والمسکین ولعاملین علیھا والمؤلفۃ قلوبھم و فی الرقاب والغارمین و فی سبیل اللہ وابن السبیل۔

اس میں زکوٰۃ کے مصارف آٹھ گروہ قرار دیئے ہیں۔ فقیر، مسکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے مؤلفتہ القلوب، قیدی، قرضدار، مجاہدین، مسافر، ان میں سے جس کو زکوٰۃ دی جائے ادا ہو جائے گی۔ یہ ضروری نہیں کہ خواہ مخواہ آٹھ گروہ پیدا کئے جائیں۔ آٹھوں گروہ موجود بھی ہوں تب بھی یہ لحاظ کیا جائے گا کہ کون سے فریق اس وقت زیادہ مدد کا محتاج ہے۔ کون کم اور کون بالکل نہیں۔ یہ التزام مالا یلزم صرف امام شافعی نے اختراع کیا ہے کہ آٹھ برابر حصے کئے جائیں۔ اور آٹھوں گروہ کو ضرورت بے ضرورت کم بیش تقسیم کیا جائے۔ اسی طرح خمس کے مصارف جو خدا نے بتائے ہیں اس سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ خمس ان لوگوں کے سوا اور کسی کو نہ دیا جائے۔ یہ نہیں کہ خواہ مخواہ اس کے پانچ برابر حصے کئے جائیں۔ اور پانچوں فریقوں کو برابر دیا جائے۔ اب دیکھو رسول اللہ کا طریقہ عمل کیا تھا؟ احادیث و روایات کے استقراء سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ یہ ہے۔

۱ – ذوی القربی میں سے آپ صرف بنو ہاشم و بنو مطلب کو حصہ دیتے تھے۔ بنو نوفل اور بنو عبد شمس حالانکہ ذوی القربی میں داخل تھے ، لیکن آپ نے ان کو باوجود طلب کرنے کے بھی کچھ نہیں دیا۔ چنانچہ اس واقعہ کو علامہ ابن قیم نے زاد المعاد میں کتب حدیث سے بتفصیل نقل کیا ہے۔ (زاد المعاد جلد دوم صفحہ ۱۶۱)

۲ – بنو ہاشم و بنو عبد المطلب کو جو حصہ دیتے تھے وہ سب کو مساویانہ نہیں دیتے تھے۔ علامہ ابن القیم نے زاد المعاد میں لکھا ہے۔

ولکن لم یکن یقسمہ بینھم علی السواء بین الغنیائھم و فقرائھم ولا کان یقسمہ قسمۃ المیراث بل کان یصرفہ فیھم بحسب المصلحۃ والحاجۃ فیزوج منھم اغربھم و یقضی منہ عن غار مھم و یعطی منہ فقیرھم کفایۃ۔ (زاد المعاد جلد ثانی صفحہ 142)۔

"لیکن دولت مندوں اور غریبوں کو برابر نہیں تقسیم کرتے تھے۔ نہ میراث کے قاعدے سے تقسیم کرتے تھے۔ بلکہ مصلحت اور ضرورت کے موافق عطا فرماتے تھے۔ یعنی کنواری کی شادی کرتے تھے ، مقروضوں کا قرض ادا فرماتے تھے ، غریبوں کو بقدر حاجت دیتے تھے۔ "

ان واقعات سے اولاً یہ ثابت ہوا کہ ذوی القربی کے لفظ میں تعمیم نہیں ہے ورنہ بنو نوفل اور بنو عبد الشمس کو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم حصہ دیتے۔ کیونکہ وہ لوگ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے قرابت دار تھے۔ دوسرے یہ کہ بنو ہاشم اور بن عبد المطلب کے تمام افراد کو مساوی طور سے حصہ نہیں ملتا تھا۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جہاں تک صحیح روایتوں سے ثابت کیا ہے بنو ہاشم اور بنو مطلب کا حق بحال رکھا۔ وہ دو باتوں میں اس نے مخالف تھے ایک یہ کہ وہ مصلحت اور ضرورت کے لحاظ سے کم و بیش تقسیم کرنا خلیفہ وقت کا حق سمجھتے تھے۔ برخلاف اس کے عبد اللہ بن عباس وغیرہ کا یہ دعویٰ تھا کہ پانچواں حصہ پورے کا پورا خاص ذوی القربی کا حق ہے اور کسی کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا حق حاصل نہیں۔ قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ صاحب نے کتاب الخراج میں نسائی نے اپنی صحیح میں عبد اللہ بن عباس کو قول نقل کیا ہے۔

عرض علینا عمر بن الخطاب ان نزوج من الخمس ایمنا و نقضی منہ عن مغر منا فابینا الا ان یسلمہ لنا و ابی فلک علینا۔ (کتاب الخراج صفحہ 11)۔

"عمر بن الخطاب نے یہ بات ہم لوگوں کے سامنے پیش کی تھی کہ ہم لوگ خمس کے مال سے اپنی بیواؤں کے نکاح اور مقروضوں کے ادائے قرض کے مصارف لے لیا کریں لیکن ہم بجز اس کے تسلیم نہیں کرتے تھے کہ سب ہمارے ہاتھ دے دیا جائے۔ عمر نے اس کو منظور نہ کیا۔ "

اور روایتیں بھی اسی کے موافق ہیں صرف کلبی کی ایک روایت ہے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ذوی القربی کا حق ساقط کر دیا۔ کلبی نہایت ضعیف الروایۃ ہے۔ اس لئے اس کی روایت کا اعتبار نہیں ہو سکتا۔

قرآن مجید کے فحویٰ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے طریق عمل کو منطبق کر کے دیکھو تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کچھ کیا وہ بالکل قرآن و حدیث کے مطابق تھا۔ امام شافعی رحمۃ اللہ وغیرہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکتے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم ہمیشہ پورا پانچواں حصہ دیتے تھے ، قرآن مجید سے یہ تعین و تجدید بالکل ثابت نہیں ہو سکتی۔ باقی رہا ذوی القربی کا غیر معین حق تو اس سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہرگز انکار نہ تھا۔ اب اصول عقلی کے لحاظ سے اس مسئلہ کو دیکھو یعنی خمس میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور آنحضرت کے قرابت داروں کا حصہ قرار پانا کس اصول کی بناء پر تھا۔ یہ ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم تبلیغ احکام اور مہمات رسالت کے انجام دینے کی وجہ سے معاش کی تدبیر میں مشغول نہیں ہو سکتے تھے۔ اس لئے ضرور تھا کہ ملک کی آمدنی میں سے کوئی حصہ آپ کے لئے مخصوص کر دیا جائے اس وقت مال غنیمت ” فے ” و ” انفال ” بس یہی آمدنیاں تھیں۔ چنانچہ ان سب میں سے خدا نے آپ کا حصہ مقرر کیا تھا۔ جس کا ذکر قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے بادشاہ کے ذاتی مصارف کے لئے خالصہ مقرر کر دیا جاتا ہے۔ ذوی القربی کا حق اس لئے قرار دیا گیا تھا کہ ان لوگوں نے ابتدائے اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ کا ساتھ دیا تھا۔ چنانچہ کفار مکہ نے زیادہ مجبور کیا تو تمام بنو ہاشم نے جس میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو اس وقت تک اسلام نہیں لائے تھے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دیا۔ اور جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مکہ سے نکل کر ایک پہاڑ کے درے میں پناہ گزین ہوئے تو سب بنی ہاشم بھی ساتھ گئے۔

اس بناء پر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ذوی القربی کے لئے جو کچھ مقرر تھا، وقتی ضرورت اور مصلحت کے لحاظ سے تھا۔ لیکن یہ قرار دینا کہ قیامت تک آپ کے قرابت داروں کے لئے پانچواں حصہ مقرر کر دیا گیا۔ اور گو ان کی نسل میں کسی قدر ترقی ہوئی ہو اور گو وہ کتنے ہی دولت مند اور غنی ہو جائیں یہ رقم ہمیشہ ملتی رہے گی۔ یہ ایسا قاعدہ ہے جو اصول تمدن کے بالکل خلاف ہے اور کون یقین کر سکتا ہے کہ ایک سچا بانی شریعت یہ قاعدہ بنائے گا کہ اس کی تمام اولاد کے لئے قیامت تک ایک معین رقم ملتی رہے۔ اگر کوئی بانی شریعت ایسا کرے تو اس میں اور خود غرض برہمنوں میں کیا فرق ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عبد اللہ بن عبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خمس کے مدعی تھے ان کا بھی یہ مقصد ہرگز نہیں ہو سکتا تھا کہ یہ حق قیامت تک کے لئے ہے بلکہ جو لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے کے باقی رہ گئے تھے انہی کی نسبت ان کو ایسا دعویٰ ہو گا۔

فے کا مسئلہ

ایک اور مہتم بالشان مسئلہ فئی کا ہے یعنی وہ زمین یا جائیداد جس کو مسلمانوں نے فتح کیا ہو۔ یہ مسئلہ اس قدر معرکۃ الآراٗ ہے کہ صحابہ کے عہد سے آج تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوا۔ باغ فدک کی عظیم الشان بحث بھی اسی مسئلے کی ایک فرع ہے۔

بڑا خلط مبحث اس میں اس وجہ سے ہوا کہ فے کے قریب المعنی اور جو الفاظ تھے یعنی نفل، غنیمت، سلب ان میں لوگ تفرقہ نہ کر سکے۔ ہم اس بحث کو نہایت تفصیل سے لکھتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام سے پہلے عرب میں دستور تھا کہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا، تمام لڑنے والوں کو برابر تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ سردار کو البتہ سب سے زیادہ چوتھا حصہ ملتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم مبعوث ہوئے تو ابتداء میں جس طرح اور بہت سی قدیم رسمیں قائم رہیں، یہ قاعدہ بھی کسی قدر تغیر صورت کے ساتھ قائم رہا۔ چنانچہ لڑائی کی فتح میں جو کچھ آتا تھا، غازیوں پر تقسیم ہو جاتا تھا۔ چونکہ قدیم سے یہی طریقہ جاری تھا۔ اور جناب رسول اللہ کے عہد میں بھی قائم رہا۔ اس لئے لوگوں کو خیال ہو گیا کہ مال غنیمت غازیوں کا ذاتی حق ہے اور وہ اس کے پانے کا ہر حالت میں دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ اس پر جھگڑا اٹھ کھڑا ہوا۔ جنگ بدر میں جب فتح حاصل ہو چکی ہے۔ تو کچھ لوگ کفار کا تعاقب کرتے ہوئے دور تک چلے گئے۔ کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر رہے۔ تعاقب کرنے والے واپس آئے تو انہوں نے دعویٰ کیا کہ غنیمت ہمارا حق ہے کیونکہ ہم دشمن سے لڑ کر لائے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے محافظ تھے۔ اس لئے ہم زیادہ حقدار ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

یسئلونک عن الانفال قل الانفال للہ ولرسول۔

"تجھ سے لوگ مال غنیمت کی نسبت پوچھتے ہیں تو کہہ دو کہ وہ خدا اور رسول کی ملک ہے۔ "

اس آیت نے اس اصول کو مٹا دیا کہ تمام مال غنیمت لڑنے والوں کا حق ہے اور افسر کو اس میں کسی قسم کے تصرف کا اختیار نہیں لیکن اس آیت میں غنیمت کے مسارف نہیں بیان کئے گئے پھر یہ آیت اتری۔

:واعلموا انما غنمتم من شئی فان للہ خمسہ و للرسول ولذی القربیٰ والیتمی والمسکین وابن السبیل۔ , آیت:

"جان لو کہ کوئی چیز جو غنیمت میں ہاتھ آئے اس کا پانچواں حصہ خدا کے لئے اور پیغمبر کے لئے اور رشتہ داروں کے لئے اور یتیموں کے لئے اور مسکینوں کے لئے اور مسافروں کے لئے ہے۔ "

اس آیت سے یہ قاعدہ معلوم ہوا کہ مال غنیمت کے پانچ حصے کئے جائیں، چار حصے مجاہدین کو تقسیم کئے جائیں۔ اور پانچویں حصے کے پھر پانچ حصے ہو کر آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور ذوی القربی اور مساکین وغیرہ کے مصارف میں آئیں لیکن یہ تمام احکام نقد و اسباب سے متعلق تھے۔ زمین اور جائیداد کے لئے کوئی قاعدہ نہیں قرار پایا تھا۔ غزوہ بنی نضیر میں جو 5 ہجری میں واقع ہوا۔ سورۂ حشر کی یہ آیت اتری۔

:ما افاٗ اللہ علی رسولہ من اھل القری فللہ و للرسول ولذی القربی والیتمی والمسکین وابن السبیل الیٰ قولہ للفقرآء المھاجرین الزین اخر جو امن دیارھم الی قولہ والزین جاؤا من بعدھم۔ , آیت:

"یعنی جو زمین یا جائیداد ہاتھ آئے وہ خدا اور پیغمبر اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور فقراء مہاجرین اور ان سب لوگوں کی ہے جو آئندہ دنیا میں آئیں۔ "

اس سے یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جو زمین فتح ہو وہ تقسیم نہیں کی جائے گی بلکہ بطور وقف کے محفوظ رہے گی اور اس کے منافع سے تمام موجودہ اور آئندہ مسلمان متمتع ہوں۔ یہ ہے حقیقت نفل غنیمت اور فے کی۔

ان احکام میں لوگوں کو چند مغالطے پیش آئے۔ سب سے پہلے یہ کہ لوگوں نے غنیمت اور فے کو ایک سمجھا، ائمہ مجتہدین میں سے امام شافعی رحمۃ اللہ کی بھی یہی رائے ہے اور ان کے مذہب کے موافق زمین مفتوحہ اسی وقت مجاہدین کو تقسیم کر دینی چاہیے۔ شام و عراق جب فتح ہوئے تو لوگوں نے اسی بناء پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی کہ ممالک مفتوحہ تقسیم کر دیئے جائیں۔ چنانچہ عبد الرحمٰن بن عوف، زبیر بن العوام، بلا ل بن رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے سخت اصرار کیا۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ مانے۔ اس پر (جیسا کہ ہم صیغہ محاصل میں لکھ ائے ہیں) بہت بڑا مجمع ہوا اور کئی دن تک بحثیں ہوتی رہیں۔ آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آیت مذکورہ بالا سے استدلال کیا اور آیت کے یہ الفاظ الذین جاء و امن بعد ھم پڑھ کر فرمایا کہ :

فکانت ھذہ عامۃ لمن جاٗ من بعدھم فقد صار ھذا الفئی بین ھؤلاء جمیعاً فکیف نقسمہ لھؤلاء و ندع من یخلف بعدھم۔

(کتاب الخراج صفحہ ۱۵۔ اس معرکہ کا پورا حال کتاب الخراج کے صفحہ ۱۴-۱۵ میں مذکرہ ہے )۔

"تو یہ تمام آئندہ آنے والوں کے لئے ہے اور اس بناء پر یہ تمام لوگوں کا حق ٹھہرے پھر یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ میں موجودہ لوگوں کو تقسیم کر دوں۔ اور ان لوگوں کو محروم کر دوں جو آئندہ پیدا ہوں گے۔ "

امام شافعی رحمۃ اللہ اور ان کے ہم خیال کا بڑا استدلال یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کی زمین کو مجاہدین پر تقسیم کر دیا تھا۔ لیکن وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ خیبر کے بعد اور مقامات بھی تو فتح ہوئے ، یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے انتقال سے پہلے تمام عرب پر قبضہ ہو چکا تھا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے کہیں چپہ بھر بھی زمین تقسیم کی؟

فدک کا مسئلہ

اسی سلسلے میں باغ فدک کا معاملہ بھی ہے جو مدت تک معرکۃ الآراء رہا ہے۔ ایک فرقہ کا خیال ہے کہ باغ خالص آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جائیداد تھی۔ کیونکہ اس پر چڑھائی نہیں ہوئی تھی، بلکہ وہاں کے لوگوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سپرد کر دیا تھا اور اس وجہ سے وہ اس آیت کے تحت داخل ہے۔

وما افآء اللہ علی رسولہ منھم فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ، علی من یشاء واللہ علی کل شئی قدیر۔

یعنی ” جو کچھ خدا نے اپنے پیغمبر کو ان لوگوں سے دلوایا تو تم لوگ اس پر اونٹ یا گھوڑے دوڑا کر نہیں گئے تھے۔ لیکن خدا اپنے پیغمبر کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ "

اور جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مملوکہ خاص ٹھہری تو اس میں وراثت کا عام قاعدہ جو قرآن مجید میں مذکور ہے جاری ہو گا۔ اور آنحضرت کے ورثہ اس کے مستحق ہوں گے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے باوجود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے طلب و تقاضا کے آل نبی کو اس سے محروم رکھا۔

یہ بحث اگرچہ طرفین کی طبع آزمائیوں میں بہت بڑھ گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بات نہایت مختصر تھی اور اب جبکہ سیاست مدن کے اصول زیادہ صاف اور عام فہم ہو گئے ہیں، یہ مسئلہ اس قابل بھی نہیں رہا کہ بحث کے دائرہ میں لایا جائے۔ اصل یہ ہے کہ نبی یا امام، یا بادشاہ کے قبضے میں جو مال یا جائیداد ہوتی ہے اس کی دو قسمیں ہیں۔ ایک مملوکہ خاص جس کے حاصل ہونے میں نبوت اور امامت و بادشاہت کے منصب کو کچھ دخل نہیں ہوتا۔ مثلاً حضرت داؤد علیہ السلام زرہ بنا کر معاش حاصل کرتے تھے یا عالمگیر قرآن لکھ کر بسر کرتا تھا۔ یہ آمدنی ان کی ذاتی آمدنی تھی۔ اور اس پر ہر طرح کا ان کو اختیار تھا۔ دوسری مملوکہ حکومت مثلاً داؤد علیہ السلام کے مقبوضہ ممالک جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے قبضے میں آئے۔

اس دوسری قسم میں وراثت نہیں جاری ہوتی۔ جو شخص پیغمبری یا امامت یا بادشاہت کی حیثیت سے جانشین ہوتا ہے وہی اس کا مالک ہوتا ہے ، یہ مسئلہ آج کل کے مذاق کے موافق بالکل ایک بدیہی بات ہے۔ مثلاً سلطان عبد الحمید خان کے بعد ان کے ممالک مقبوضہ یا ان کی جاگیر خالصۃً ان کے بیٹے بھائی، ماں، بہن وغیرہ میں تقسیم نہیں ہو گی بلکہ جو تخت نشین ہو گا اس پر قابض ہو گا۔ مذہبی حیثیت سے بھی مسلمانوں کے ہر فرقہ میں یہ قاعدہ ہمیشہ مسلم رہا۔ مثلاً جو لوگ فدک کو درجہ بدرجہ ائمہ اثنا عشر کا حق سمجھتے ہیں وہ بھی اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری کرتے۔ مثلاً حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے میں اس کے مالک ہوئے تو یہ ہوا کہ ان کی وفات کے بعد وراثت کا قاعدہ جاری ہوتا اور حسین و عباس و محمد بن حنیفیہ و زینت کو جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وارث تھے اس کا کچھ کچھ حصہ اس کے پڑتہ سے ملتا۔ بلکہ صرف حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قبضہ میں آیا کیونکہ امامت کی حیثیت سے وہی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جانشین تھے۔

غرض یہ عام اور مسلم قاعدہ ہے کہ جو جائیداد نبوت یا امامت یا بادشاہت کے منصب سے حاصل ہوتی ہے ، وہ مملوکہ خاص نہیں ہوتی۔ اب صرف یہ دیکھنا ہے کہ باغ فدک کیونکر حاصل ہوا تھا۔ اس کی کیفیت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم جب خیبر کی فتح سے پھرے ، تو محیصہ بن مسعود انصاری کو فدک والوں کے پاس تبلیغ اسلام کے لئے بھیجا، فدک یہودیوں کے قبضہ میں تھا اور ان کا سردار یوشع بن نون ایک یہودی تھا۔ یہودیوں نے صلح کا پیغام بھیجا اور معاوضہ صلح میں آدھی زمین دینی منظور کی (فتوح البلدان۔ بلاذری، ذکر فدک)۔ اس وقت سے یہ باغ اسلام کے قبضہ میں آیا۔

اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ ایسی جائیداد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مملوکہ خاص کیونکر ہو سکتی ہے۔ فدک کی ملکیت خاص کا دعویٰ اس بناء پر کیا جاتا ہے کہ وہ فوج کے ذریعے فتح نہیں ہوا۔ بلکہ اس آیت کے مصداق ہے فما او جفتم علیہ من خیل ولا رکاب لیکن کیا جو ممالک صلح کے ذریعے سے قبضے میں آتے ہیں اور امام یا بادشاہ کی ملکیت خاص قرار پاتے ہیں؟ عرب کے اور مقامات بھی اس طرح قبضہ میں آئے کہ ان پر چڑھائی نہیں کرنی پڑی۔ کیا ان کو کسی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ملکیت سمجھا؟ البتہ یہ امر غور طلب ہے کہ جب اور مقامات مفتوحہ کی نسبت کسی نے اس قسم کا خیال نہیں کیا تو فدک میں کیا خصوصیت تھی جس کی وجہ سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ اس کی حقیقت یہ ہے کہ مفتوحہ زمینیں علانیہ وقف عام رہیں، لیکن فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے مصارف کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ اس سے اس خیال کا موقع ملا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جائیداد خاص ہے۔ اس خیال کی تائید اس سے ہوئی کہ فدک پر لشکر کشی نہیں ہوئی تھی۔ اس لئے اس پر لوگوں کو کسی قسم کا حق حاصل نہیں تھا۔ لیکن یہ خیال دراصل صحیح نہیں۔ فدک کو بے شبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ذاتی مصارف کے لیے خاص کر لیا تھا۔ لیکن کیونکر؟ اس کے متعلق تفصیلی روایتیں موجود ہیں۔

فکان نصف فدک خالصاً لرسول اللہ و کان یصرف مایاتیۃ منھا الی ابناء السبیل۔ (فتوح البلدان بلاذری صفحہ 29)

یعنی ” آدھا فدک خاص رسول اللہ کا تھا۔ آنحضرت اس میں سے مسافروں پر صرف کرتے تھے۔ "

ایک اور روایت میں ہے۔

ان فدک کانت للنبی صلی اللہ علیہ و سلم فکان ینفق منھا و یاکل و یعود علیٰ فقرآء بنی ھاشم و یزوج ایمھم۔ (فتوح البلدان صفحہ 31)۔

یعنی "فدک آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا تھا۔ آپ اس میں سے خرچ کرتے تھے اور فقرائے بنی ہاشم کو دیتے تھے۔ اور ان کی بیواؤں کی شادی کرتے تھے۔ "

بخاری وغیرہ میں تصریح مذکور ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سال بھر کا اپنا خرچ اس میں سے لیتے تھے۔ باقی عام مسلمین کے مصالح میں دیتے تھے۔

ان روایتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فدک کا مملوکہ نبوت ہونا ایسا ہی تھا جیسا کہ سلاطین کے لئے کوئی جائیداد خالص کر دی جاتی ہے۔ اس بناء پر باوجود مخصوص ہونے کے وقف کی حیثیت اس سے زائل نہیں ہوتی۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ان اصولوں سے واقف تھے ؟ اور اسی بناء پر انہوں نے فدک میں وراثت نہیں جاری کی یا نکات بعد الوقوع ہیں؟

عراق و شام کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کے مجمع میں تقریر کی تھی۔ اس میں قرآن مجید کی اس آیت سے ما افآء اللہ علیٰ رسولہ من اھل القریٰ فللہ الخ سے استدلال کر کے صاف کہہ دیا تھا کہ مقامات مفتوحہ کسی خاص شخص کی ملک نہیں ہیں، بلکہ عام ہیں چنانچہ فے کے ذکر میں یہ بحث گزر چکی ہے ، البتہ یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ اس آیت سے پہلے جو آیت ہے ، اس سے فدک وغیرہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خاص جائیداد ہونا ثابت ہوتا ہے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے یہی معنی قرار دیتے تھے۔ آیت یہ ہے۔

:وما افآء اللہ علیٰ رسولہ منھم فما او جفتم من خیل ولا رکاب و ککن اللہ یسلط رسلہ علیٰ من یشاء۔ , آیت:

"اور جو ان لوگوں سے (یعنی یہود بنی نضیر سے ) خدا نے اپنے پیغمبر کو دلوایا تو تم لوگ اس پر چڑھ کر نہیں گئے تھے بلکہ خدا اپنے پیغمبروں کو جس پر چاہتا ہے مسلط کر دیتا ہے۔ "

چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کو پڑھ کر کہا تھا کہ فکانت خالصہ لرسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور یہ واقعہ صحیح بخاری، باب الخمس اور باب المغازی اور باب المیراث میں بتفصیل مذکور ہے۔

اس میں شبہ نہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آیت کی بناء پر فدک وغیرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خالصہ سمجھتے تھے لیکن اس قسم کا خالصہ جو ذاتی ملکیت نہیں ہوتا جس طرح سلاطین کے مصارف کے لئے کوئی زمین خاص کر دی جاتی ہے کہ اس میں میراث کا عام قاعدہ نہیں جاری ہوتا بلکہ جو شخص جانشین سلطنت ہوتا ہے ، تنہا وہی اس سے متمتع ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس خیال کا قطعی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے جب آیت مذکورہ بالا کی بناء پر فدک کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا خالصہ کہا تو ساتھ ہی یہ الفاظ فرمائے جیسا کہ صحیح بخاری باب الخمس و باب المغاذی وغیرہ میں مذکور ہے۔

فکان رسول اللہ ینفق علیٰ اھلہ نفقۃ سنتھم من ھذہ المال ثم یاخذ مابقی فیجعلہ کجعل مال اللہ فعمل رسول اللہ بذلک حیاتہ چم توفی اللہ نبیہ صلی اللہ علیہ و سلم فقال ابو بکر انا ولی رسول اللہ فقبضھا ابو بکر فعمل فیھا بما عمل رسول اللہ ثم توفی اللہ ابابکر فکنت انا ولی ابی بکر فقبضتھا سنتین من امارتی اعمل فیھا ما عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم و بما عمل فیھا ابو بکر۔

"آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اس میں سے سال بھر کا خرچ لیتے تھے۔ باقی کو خدا کے مال کے طور پر خرچ کرتے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے زندگی بھر اسی پر عمل فرمایا۔ پھر وفات پائی تو ابو بکر نے کہا کہ میں ان کا جانشین ہوں۔ پس اس پر قبضہ کیا اور اسی طرح کاروائی کی جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کرتے تھے۔ پھر انہوں نے وفات پائی تو میں ابو بکر کا جانشین ہوا پس میں نے اس پر دو برس قبضہ رکھا اور وہی کاروائی کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور ابو بکر کرتے تھے۔ "

اس تقریر سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ باوجود اس کے کہ فدک وغیرہ کو خالصہ سمجھتے تھے تاہم آنحضرت کی ذاتی جائیداد نہیں سمجھتے تھے (جس میں وراثت جاری ہو) اور اس وجہ سے اس کے قبضہ کا مستحق صرف اس کو قرار دیتے تھے۔ جو رسول اللہ کا جانشین ہو۔ چنانچہ حضرت ابو بکر اور خود اپنے قبضہ کی یہی وجہ بتائی۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ تقریر اس وقت فرمائی تھی جب حضرت عباس اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان کے پاس فدک کے دعویدار ہو کر آئے تھے اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ اس میں وراثت کا قاعدہ نہیں جاری ہو سکتا۔

حاصل یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک فدک وغیرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے خالصہ بھی تھے اور وقف بھی تھے۔ چنانچہ عراق کی فتح کے وقت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی آیت کو جس سے آنحضرت کا خالصہ ہونا پایا جاتا ہے ، پڑھ کر یہ الفاظ کہے فھذہ عامۃ فی القربی کلھا یعنی جو حکم اس آیت میں ہے وہ انہی مواضع (فدک وغیرہ) پر محدود نہیں بلکہ تمام آبادیوں کو شامل ہے۔

اصل یہ ہے کہ فدک کا ذو جہتیں ہونا ہی تمام غلط فہمی کی اصل وجہ تھا۔ چنانچہ حافظ بن القیم نے زاد المعاد میں نہایت لطیف پیرایہ میں اس بات کو ادا کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

فھوملک یخالف حکم غیرہ من المالکین و ھذا النوع من الاھوال ھو القسم الذی وقع بعدہ فیہ من النزاع ما وقع الی الیوم ولولا اشکال امرہ علیھم لما طلبت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میراثھا من ترکتہ و ظنت انہ یورث عنہ ما کان مالکالہ کسائر المالکین و خفی علیھا رضی اللہ عنھا حقیقۃ الملک لیس مما یورث عنہ۔ (زاد المعاد صفحہ 143 جلد دوم)۔

ان واقعات سے تم اندازہ کر سکتے ہو کہ ان مسائل کو جو ابتداء سے آج تک معرکہ آراء رہے ہیں۔ اور جن میں بڑے بڑے اکابر صحابہ کو اشتباہ ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کس خوبی سے طے کیا کہ ایک طرف قرآن و حدیث کا صحیح محل وہی ہو سکتا ہے اور دوسری طرف اصول سلطنت و نظام تمدن سے بھی بالکل مطابقت رکھتا ہے۔

 

ذاتی حالات اور اخلاق و عادات

عرب میں روحانی تربیت کا آغاز اگرچہ اسلام سے ہوا لیکن اسلام سے پہلے بھی اہل عرب میں بہت سے ایسے اوصاف پائے جاتے تھے جو تمغائے شرافت تھے اور جن پر ہر قوم ہر زمانہ میں ناز کر سکتی ہے۔ یہ اوصاف اگرچہ کم و بیش تمام قوم میں پائے جاتے تھے لیکن بعض بعض اشخاص زیادہ ممتاز ہوتے تھے۔ اور یہی لوگ قوم سے ریاست و حکومت کا منصب حاصل کرتے تھے۔ ان اوصاف میں فصاحت و بلاغت تقریر، شاعری، نسابی، سپہ گری، بہادری آزادی مقدم چیزیں تھیں اور ریاست و افسری میں ان ہی اوصاف کا لحاظ کیا جاتا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قدرت نے ان سب میں سے کافی حصہ دیا تھا۔

تقریر کا ملکہ خداداد تھا اور عکاظ کے معرکوں نے اس کو اور زیادہ جلا دے دی تھی۔ یہی قابلیت تھی جس کی وجہ سے قریش نے ان کو سفارت کا منصب دیا تھا جو ان لوگوں کے لئے مخصوص تھا جو سب سے زیادہ زبان آور ہوتے تھے۔ ان کے معمولی جملوں میں آرٹیری کا اثر اور بر محفل فقرے جو ان کے منہ سے نکل جاتے تھے ان میں بلاغت کی روح پائی جاتی تھی۔ عمرو بن معدی کرب کو جب پہلے پہل دیکھا تو چونکہ وہ غیر معمولی تن و توش کے آدمی تھے اس لئے متحیر ہو کر کہا ” اللہ اس کا اور ہمارا خالق ایک ہی ہے۔ ” مطلب یہ کہ ہمارے جسم میں اور اس کے جسم میں اس قدر تفاوت ہے کہ دونوں ایک کاریگر کے کام نہیں معلوم ہوتے۔

وباء کے واقعہ میں ابو عبیدہ نے ان پر اعتراض کیا آپ قضائے الٰہی سے بھاگتے ہیں تو کس قدر بلیغ لفظوں میں جواب دیا کہ "ہاں قضائے الٰہی کی طرف بھاگتا ہوں۔ "

قوت تقریر

مختلف وقتوں میں جو خطبے انہوں نے دیئے وہ آج بھی موجود ہیں۔ ان سے ان کے زور تقریر برجستگی کلام کا اندازہ ہو سکتا ہے۔

خطبے

مسند خلافت پر بیٹھنے کے ساتھ جو خطبہ دیا اس کے ابتدائی فقرے یہ تھے۔

اللھم انی غلیظ فلینی اللھم انی ضعیف فقونی الا و ان العرب
جمل انف و قد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ۔

"اے خدا! میں سخت ہوں مجھ کو نرم کر۔ میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے (قوم سے خطاب کر کے ) ہاں! عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دی گئی ہے لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔ "

خلافت کے دوسرے تیسرے دن جب انہوں نے عراق پر لشکر کشی کرنے کے لئے لوگوں کو جمع کیا تو لوگ ایران کے نام سے جی چراتے تھے۔ خصوصاً اس وجہ سے کہ حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہاں سے بلا لئے گئے تھے۔ اس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور تقریر کا یہ اثر تھا کہ مثنیٰ شیبانی ایک مشہور بہادر بے اختیار اٹھ کھڑا ہوا۔ اور پھر تمام مجمع میں آگ لگ گئی۔ دمشق کے سفر میں جابیہ میں ہر قوم اور ہر ملت کے آدمی جمع تھے۔ عیسائیوں کا لارڈ بشپ تک شریک تھا۔ اس کے ساتھ مختلف مذاہب اور مختلف قوم کے آدمی شریک تھے۔ اور مختلف مضامین اور مختلف مطالب کا ادا کرنا مسلمانوں کو اخلاق کی تعلیم دینی تھی۔ غیر قوموں کو اسلام کی حقیقت اور اسلام کی جنگ و صلح کے اغراض بتانے تھے۔ فوج کے سامنے خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی معزولی کا عذر کرنا تھا۔ ان تمام مطالب کو اس خوبی سے ادا کیا کہ مدت تک ان کی تقریر کے جستہ جستہ فقرے لوگوں کی زبان پر رہے۔ فقہاء نے اس سے فقہی مسائل استنباط کئے۔ اہل ادب نے قواعد فصاحت و بلاغت کی مثالیں پیدا کیں۔ تصوف و اخلاق کے مضامین لکھنے والوں نے اپنا کام کیا۔

23 ہجری میں جب حج کیا اور یہ ان کا اخیر حج تھا تو ایک شخص نے کسی سے تذکرہ کیا کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مر جائیں گے تو میں طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام منا میں تشریف رکھتے تھے اور وہیں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس واقعہ کی خبر ہوئی تو برافروختہ ہو کر فرمایا کہ آج رات میں اسی مضمون پر خطبہ دوں گا۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی امیر المومنین حج کے مجمع میں ہر قسم کے برے بھلے لوگ جمع ہوتے ہیں۔ اگر آپ نے یہ تقریر کی تو اکثر لوگ صحیح پیرایہ میں نہ سمجھیں گے۔ اور نہ ادا کر سکیں گے۔ مدینہ چل کر خواص کے مجمع میں تقریر کیجیئے گا۔ وہ لوگ ہر بات کا پہلو سمجھتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ رائے تسلیم کی۔ آخر ذولحجہ میں مدینہ ائے۔ جمعہ کے دن لوگ بڑے شوق و انتظار سے مسجد میں پہلے آ آ کر جمع ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ زیادہ مشتاق تھے۔ اس لئے منبر کے قریب جا کر بیٹھے اور سعید بن زید سے مخاطب ہو کر کہا کہ آج عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایسی تقریر کریں گے کہ کبھی نہیں کی تھی۔ سعید نے تعجب سے کہا کہ ایسی نئی بات کیا ہو سکتی ہے جو انہوں نے پہلے نہیں کہی؟ غرض اذان ہو چکی تھی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دیا۔ یہ پورا واقعہ اور پورا خطبہ صحیح بخاری میں مذکور ہے (صحیح بخاری جلد دوم مطبوعہ احمدی میرٹھ صفحہ ۱۰۰۹)۔ اس میں سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ، انصار کے خیالات، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جواب، بیعت کی کیفیت، خلافت کو حقیقت کو اس خوبی اور عمدگی سے ادا کیا کہ اس سے بڑھ کر کرنا ممکن نہ تھا۔ اس تقریر کو پڑھ کر بالکل ذہن نشین ہو جاتا ہے کہ اس وقت جو کچھ ہوا وہی ہونا چاہیے تھا اور وہی ہو سکتا تھا۔

جن مجمعوں میں غیر قومیں بھی شریک ہوتی تھیں ان میں ان کے خطبہ کا ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہوتا جاتا تھا۔ چنانچہ دمشق میں بمقام جابیہ جو خطبہ دیا مترجم ساتھ کے ساتھ اس کا ترجمہ بھی کرتا جاتا تھا۔

اگرچہ اکثر برمحل اور برجستہ خطبہ دیتے تھے۔ لیکن معرکے کے جو خطبے ہوتے تھے ، ان میں تیار ہو کر جاتے تھے۔ سقیفہ بنی ساعدہ کے واقعہ میں خود ان کا بیان ہے کہ میں خوب تیار ہو کر گیا تھا۔

حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلیفہ ہوئے اور خطبہ دینے کے لئے منبر پر چڑھے تو دفعتاً رک گئے اور زبان نے یاری نہ دی۔ اس وقت یہ عذر کیا گیا کہ "ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم خطبہ کے لئے تیار ہو کر آتے تھے اور آئندہ سے میں بھی ایسا ہی کروں گا۔

نکاح کا خطبہ اچھا نہیں دے سکتے تھے

وہ اگرچہ ہر قسم کے مضامین پر خطبہ دے سکتے تھے ، لیکن ان کا خود بیان ہے کہ "نکاح کا خطبہ مجھ سے بن نہیں آتا۔ ” عبد اللہ بن المقفع جو دولت عباسیہ کا مشہور ادیب اور فاضل تھا اس سے لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس معذوری کی وجہ پوچھی۔ اس نے کہا کہ نکاح کا خطبہ میں حاضرین میں سے ہر شخص برابری کا درجہ رکھتا ہے۔ خطیب کی کوئی ممتاز حیثیت نہیں ہوتی بخلاف اس کے عام خطبوں میں خطیب جب منبر پر چڑھتا ہے تو عام آدمی اس کو محکوم معلوم ہوتے ہیں اور اس وجہ سے خود بخود اس کی تقریر میں بلندی اور زور آ جاتا ہے۔ لیکن ہمارے نزدیک اس کی وجہ یہ ہے کہ نکاح میں موضوع سخن تنگ اور محدود ہوتا ہے اور ہر بار وہی ایک طرح کی معمولی باتیں کہنی پڑتی ہیں۔

پولیٹیکل خطبے

یہ بات لحاظ کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پہلے جن مضامین پر لوگ خطبے دیتے تھے ان میں پند و موعظت، فخر و ادعاء قدرتی واقعات کا بیان، رنج و خوشی کا اظہار ہوتا تھا۔ ملکی پر پیچ معاملات خطبے میں ادا نہیں ہو سکتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے پولیٹیکل خطبے دیئے۔ اس کے ساتھ وہ خطبوں میں اس طریقے سے گفتگو کر سکتے تھے کہ ظاہر میں معمولی باتیں ہوتی تھیں لیکن اس سے بہت سے پہلو نکلتے تھے۔

خطبے کے لئے جو باتیں درکار ہیں

خطبہ کے لئے ملکہ تقریر کے علاوہ اور ضروری باتیں جو درکار ہیں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں سب موجود تھیں۔ آواز بلند اور رعب دار تھی، قد اتنا بلند تھا کہ زمین پر کھڑے ہوتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کہ منبر پر کھڑے ہیں۔ اس موقع پر ہم مناسب سمجھتے ہیں کہ ان کے بعض خطبے نقل کر دیئے جائیں۔ ایک موقع پر عمال کو مخاطب کر کے جو خطبہ دیا، اس کے الفاظ یہ ہیں۔

انی لا اجد ھذا المال یصلحہ الا خلال ثلث ان یوخذ بالحق و یعطی بالحق و یمنع من الباطل ولست ادع احدا یظلم احدا حتی اضع خدہ علی الارض واضع قدمی علی خدہ الاخر حتی یذعن للحق یایھا الناس ان اللہ عظم حقہ فوق حق خلقہ فقال فیما عظیم من حقہ ولا یامر کم ان تتخذوا الملائکۃ والنبیین ارباباً الا و انی لم ابعثکم امراء ولا جبارین ولکن بعثتکم ایمۃ الھدیٰ یھتدیٰ بکم ولا تغلقوا الابواب دونھم فیا کل قویھم ضعیفھم۔ (کتاب الخراج صفحہ 47)۔

ایک اور خطبے کے چند جملے یہ ہیں۔

فانتھم مستخلفون فی الارض قاھرون لا ھلھا۔ قد نصر اللہ دینکم فلا تصبح امۃ مخالفۃ لدینکم الا امتان۔ امۃ مستبعدۃ للاسلام و اھلہ یتجرؤن لکم۔ علیھم المؤنۃ ولکم المنفعۃ و امۃ ینتظرون وقائع اللہ و سطواتۃ فی کل یوم و لیلۃ قد ملاً اللہ قلوبھم رعباً۔ قدمتھم جنود اللہ و نزلت بساحتھم مع رفاھۃ العیش و استقاضۃ المال و تتابع اللبعوث و سد الشغور۔ الغ (ازالۃ الاخفاء ماخذ از طبری)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خطبوں کا خاتمہ ہمیشہ ان فقروں پر ہوتا تھا۔

اللھم لا تدعنی فی عمرۃ ولا تاخذنی علی غرۃ ولا تجعلنی مع الغفلین۔ (عقد الفرید خطبات عمر)۔

قوت تحریر

قوت تحریر کے ساتھ تحریر میں بھی ان کو کمال تھا۔ ان کے فرامین خطوط، دستور العمل، توقیعات، ہر قسم کی تحریریں آج بھی موجود ہیں جو جس مضمون پر ہے اس باب میں بے نظیر ہے۔ چنانچہ ہم بعض تحریریں نقل کرتے ہیں۔

ابو موسیٰ اشعری کے نام

اما بعد فان للناس نفرۃ عن سلطانھم فاعوذ باللہ ان تد رکنی و ایاک عمیاء مجھولۃ و ضغائن مجھولۃ و اھواء متبعۃ کن من مال اللہ علی حذر و خوف الفساق و اجعلھم یداً یداً و رجلاً رجلاً و انا کانت بین القوم ثائرۃ یالفلان فانما تلک نجوی الشیطان فاضربھم بالسیف حتی یفیؤ الی امر اللہ و یکون دعوتھم الی الا سلام۔

ایک اور تحریر ابو موسیٰ کے نام

اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لاتؤخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک تدارکت علیکم الا عمال فلھم تدروا ایھا تاخذون فاضعتم۔

عمرو بن العاص کو جب مصر کا گورنر مقرر کر کے بھیجا تو انہوں نے خراج کے بھیجنے میں دیر کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تاکید لکھی، عمرو بن العاص نے بھی نہایت آزادی اور دلیری سے جواب دیا۔ یہ تحریریں مقریزی نے تاریخ مصر میں بعینہ نقل کی ہیں، ان کے لکھنے سے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زور قلم اندازہ ہوتا ہے۔ بعض فقرے ایسے ہیں۔

وقد علمت انہ لم یمنعک من فلک الا ان عمالک عمال السوء اتخذوک کھفاً و عندی باذن اللہ دواء فیہ شفاء انی عجبت من کثرۃ کتبی الیک فی ابطانک بالخراج و کتابک الی بثنیات الطرق عما اسئلک فیہ۔ فلا تجزع ابا عبد اللہ ان یوخذ منک الحق و تعطاہ فان النہر یخرج الدر۔

مذاق شاعری

شعری و شاعری کی نسبت اگرچہ ان کی شہرت عام طور پر کم ہے اس میں شبہ نہیں کہ شعر بہت کم کہتے تھے۔ لیکن شعر شاعری کا مذاق ایسا عمدہ رکھتے تھے کہ ان کی تاریخ زندگی میں یہ واقعہ متروک نہیں ہو سکتا، عرب کے اکثر مشہور شعراء کا کلام کثرت سے یاد تھا اور تمام شعراء کے کلام پر ان کی خاص خاص رائیں تھیں۔ اہل ادب کو عموماً تسلیم ہے کہ ان کے زمانے میں ان سے بڑھ کر کوئی شخص شعر کا پرکھنے والا نہ تھا۔ علامہ ابن رشیق القیروانی کتاب العمدہ میں جس کا قلمی نسخہ میرے پاس موجود ہے لکھتے ہیں۔

و کان من انقد اھل زمانہ للشعر وانقدھم فیہ معرفۃ۔

یعنی ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے۔ "

جاحظ نے کتاب ” البیان والتبیین ” میں لکھا ہے۔

کان عمر بن الخطاب اعلم الناس بالشعر۔ (کتاب البیان والنبیین مطبوعہ مصر 97)

یعنی "عمر بن خطاب اپنے زمانے میں سب سے بڑھ کر شعر کے شناسا تھے۔ "

نجاشی ایک شاعر تھا جس نے تمیم بن مقبل کے خاندان کی ہجو کہی تھی۔ ان لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کی شکایت کی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خسان بن ثابت کو جو مشہور شاعر تھے حکم قرار دیا اور جو فیصلہ انہوں نے کیا اسی کو نافذ کیا۔ اس واقعہ سے چونکہ اس غلط فہمی کا احتمال تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود شعر فہم نہ تھے۔ اس لئے اہل ادب نے جہاں اس واقعہ کو لکھا ہے تو ساتھ یہ بھی لکھا کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت عملی تھی۔ وہ بدزبان شعرا کے بیچ میں نہیں پڑنا چاہتے تھے۔ ورنہ شعر کے دقائق ان سے کون بڑھ کر سمجھ سکتا تھا۔ (دیکھو کتاب ” البیان والتبیین” گگجاحظ صفحہ 97 – کتاب العمدہ باب تعرض الشعراء)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ زہیر کو اشعر الشعراء کہتے تھے

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ تمام مشہور شعراء کے کلام پر عبور تھا۔ لیکن تین شاعروں کو انہوں نے سب میں سے انتخاب کیا تھا۔ امراء القیس، زہیر، نابغتہ ان سب میں وہ زہیر کا کلام سب سے زیادہ پسند کرتے تھے۔ اور اس کو اشعرا الشعراء کہتے تھے۔ اہل عرب اور علمائے ادب کے نزدیک اب تک یہ مسئلہ طے نہیں ہوا کہ عرب کا سب سے بڑا شاعر کون تھا؟ لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ افضلیت انہیں تینوں میں محدود ہے۔ حضرت

عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک زہیر کو سب پر ترجیح تھی۔ جریر بھی اسی کا قائل تھا۔ ایک دفعہ ایک غزوہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن عباس سے کہا کہ اشعر الشعراء کے اشعار پڑھو۔ عبد اللہ بن عباس نے کہا وہ کون؟ فرمایا! زہیر۔ انہوں نے ترجیح کی وجہ پوچھی، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے جواب میں جو الفاظ فرمائے وہ یہ تھے۔

زہیر کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ریمارک

لا نہ لا یتبع حشوی الکلام ولا یعاظل من المنطق ولا یقول الا ما یعرف ولا یمدح الرجل الا بما یکون فیہ۔

"وہ (زہیر) نامانوس الفاظ کی تلاش میں نہیں رہتا۔ اس کے کلام میں پیچیدگی نہیں ہوتی اور اسی مضمون کو باندھتا ہے جس سے واقف ہے۔ جب کسی کی مدح کرتا ہے تو انہی اوصاف کا ذکر کرتا ہے جو واقعی اس میں ہوتے ہیں۔ "

پھر سند کے طور پر یہ اشعار پڑھے۔

اذا ابتدرت قیس بن غیلان غایۃ
من المجد من یسبق الیھا یسود
ولو کان حمد یخلد الناس لم تمت
ولکن حمد الناس لیس مخلد

ناقدین فن نے زہیر کا تمام کلام پرھ کر جو خصوصیتیں اس میں بتائی ہیں وہ یہ ہیں کہ اس کا کلام صاف ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ جاہلیت کا شاعر ہے اس کی زبان ایسی شستہ ہے کہ اسلامی شاعر معلوم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وہ بیجا مبالغہ نہیں کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان تمام خصوصیتوں کو نہایت مختصر لفظوں میں ادا کر دیا۔

زہیر کا ممدوح، ہرم بن سنان عرب کا ایک رئیس تھا۔ اتفاق یہ کہ زہیر اور ہرم دونوں کی اولاد نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ پایا۔ اور ان کے دربار میں حاضر ہوئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہرم کے فرزند سے کہا کہ اپنے مدح میں زہیر کا کچھ کلام پڑھو۔ اس نے ارشاد کی تعمیل کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے خاندان کی شان میں زہیر خوگ کہتا تھا۔ اس نے کہا کہ ہم صلہ بھی خوب دیتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا لیکن تم نے جو دیا فنا ہو گیا۔ اور اس کا دیا ہوا آج بھی باقی ہے۔ زہیر کے بیٹے سے کہا کہ ہرم نے تمہارے باپ کو جو خلعت دیئے تھے کیا ہوئے۔ اس نے کہا بوسیدہ ہو گئے۔ فرمایا لیکن تمہارے باپ نے ہرم کو جو خلعت عطا کئے تھے زمانہ اس کو بوسیدہ نہ کر سکا۔

 

نابغہ کی تعریف

زہیر کے بعد نابغہ کے معترف تھے اور اس کے اکثر اشعار ان کو یاد تھے۔ امام شعبی رحمۃ اللہ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ سب سے بڑھ کر شاعر کون ہے ؟ لوگوں نے کہا کہ آپ سے زیادہ کون جانتا ہے ، فرمایا کہ یہ شعر کس کا ہے ؟

الا سلیمان اذا قال الا لہ لہ
قم فی البریتغا حدرھا عن الفتد

لوگوں نے کہا کہ نابغہ کا! پھر پوچھا یہ شعر کس کا ہے ؟

اتیتک عاریا خلقا ثیابی
علی خوف تظن ہی الظنونا

لوگوں نے کہا نابغہ کا۔ پھر پوچھا یہ شعر کس کا ہے ؟

حلفت فلم اترک لنفسک ریبۃ
ولیس وراء اللہ للمرء مذھب

لوگوں نے کہا نابغہ کا۔ فرمایا کہ یہ شخص اشعر العرب ہے۔ (آغا فی تذکرۃ نابغہ 12)۔

امراء القیس کی نسبت ان کی رائے

بایں ہمہ وہ امراء القیس کی استادی اور ایجاد مضامین کے منکر نہ تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شعراء کی نسبت ان کی رائے پوچھی تو امراء القیس کی نسبت یہ الفاظ فرمائے۔

سابقھم خسف لھم عین الشعر وافتقر عن معان عوراصح بصر۔

"وہ سب سے آگے ہے اسی نے شعر کے چشمے سے پانی نکالا۔ اسی نے اندھے مضامین کو بینا کر دیا۔ "

اخیر فقرہ اس لحاظ سے ہے کہ امراء القیس یمنی تھا اور اہل یمن فصاحت و بلاغت میں کم درجہ پر مانے جاتے تھے۔ چنانچہ علامہ ابن رشیق نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کا یہی مطلب بیان کیا ہے۔ (کتاب العمدہ باب المشاہیر من الشعراء)۔

شعر کا ذوق

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذوق سخن کا یہ حال تھا کہ اچھا شعر سنتے تو بار بار مزے لے لے کر پرھتے تھے۔ ایک دفعہ زہیر کے اشعار سن رہے تھے۔ یہ شعر آیا۔

وان الحق مقطعہ ثلاث
یمین او نفار او جلا‘

تو حسن تقسیم پر بہت محظوظ ہوئے اور دیر تک بار بار اس شعر کو پڑھا کئے۔ ایک دفعہ عبدۃ ابن الطیب کالامیہ کا قصیدہ سن رہے تھے ، اس شعر کو سن کر پھڑک اٹھے۔

والمرء ساع لا مر لیس یدرکہ
والعیش شخ و اشفاق و تامیل

اور دوسرا مصرع بار بار پڑھتے رہے۔ اسی طرح ابو قیس بن الاصلت کا قصیدہ سنا تو بعض اشعار کو دیر تک دہرایا کئے۔ (یہ تمام روایتیں جاحظ نے کتاب ” البیان والتبیین” صفحہ 97 – 98 میں نقل کی ہیں)۔

حفظ اشعار

اگرچہ ان کو مہمات خلافت کی وجہ سے ان اشغال میں مصروف ہونے کا موقع نہیں مل سکتا تھا۔ تاہم چونکہ طبعی ذوق رکھتے تھے۔ سینکڑوں ہزاروں شعر یاد تھے۔ علمائے ادب کا بیان ہے کہ ان کے حفظ کا یہ حال تھا کہ جب کوئی معاملہ فیصل کرتے تو ضرور کوئی شعر پڑھتے تھے۔

جس قسم کے وہ اشعار پسند کرتے تھے وہ صرف وہ تھے جن میں خود داری، آزادی، شرافت، نفس، حمیت اور عبرت کے مضامین ہوتے تھے۔ اسی بناء پر امرائے فوج اور عمال اضلاع کو حکم بھیج دیا تھا کہ لوگوں کا اشعار یاد کرنے کی تاکید کی جائے۔ چنانچہ ابو موسیٰ اشعری کو یہ فرمان بھیجا۔

مر من قبلک بتعلم الشعر فانہ یدل علی معالی الاخلاق و صواب الرای و معرفۃ الانساب۔

"لوگوں کو اشعار یاد کرنے کا حکم دو کیونکہ وہ اخلاق کی بلند باتیں اور صحیح رائے اور انساب کی طرف راستہ دکھاتے ہیں۔ "

تمام اضلاع میں جو حکم بھیجا تھا اس کے یہ الفاظ تھے۔

علموا اولادکم العوم والفروسیہ و رووھم ماسار من المثل و حسن من الشعر۔ (ازالۃ الخفاء صفحہ 193)۔

"اپنی اولاد کو تیرنا اور شہسواری سکھاؤ، اور ضرب المثلیں اور اچھے اشعار یاد کراؤ۔ "

اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شاعری کے بہت سے عیوب مٹا دیئے۔ اس وقت تمام عرب میں یہ طریقہ جاری تھا کہ شعراء شریف عورتوں کا نام علانیہ اشعار میں لاتے تھے۔ اور ان سے اپنا عشق جتاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس رسم کو مٹا دیا اور اس کی سخت سزا مقرر کی۔ اسی طرح ہجو گوئی کو ایک جرم قرار دیا اور حطیہ کو جو مشہور ہجو گو تھا اس جرم میں قید کر دیا۔

لطیفہ

بنو العجلان، ایک نہایت معزز قبیلہ تھا۔ ایک شاعر نے ان کی ہجو لکھی، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے آ کر شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ وہ اشعار کیا ہے ؟ انہوں نے یہ شعر پڑھا۔

اذا اللہ عادی اھل لوم ورقۃ
فعادی بنی العجلان رھط بن مقبل

"خدا اگر کمینہ آدمیوں کو دشمن رکھتا ہے تو قبیلہ عجلان کو بھی دشمن رکھے۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ تو ہجو نہیں بلکہ بدعا ہے کہ خدا اس کو قبول نہ کرے۔ انہوں نے دوسرا شعر پڑھا۔

قبیلتھم لایغد رون بذمۃ
ولا یظلمون الناس حبۃ خردل

"یہ قبیلہ کسی سے بد عہدی نہیں کرتا، اور نہ کسی پر رائی برابر ظلم کرتا ہے۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ کاش میرا تمام خاندان ایسا ہی ہوتا۔

حالانکہ شاعر نے اس لحاظ سے کہا تھا کہ عرب میں یہ باتیں کمزوری کی علامت سمجھی جاتی تھیں۔

ولا یردون الماء الا عشیۃ
اذا صدر الورا دعن کل منھل

"یہ لوگ چشمے یا کنوئیں پر صرف رات کے وقت جاتے ہیں۔ جب اور لوگ واپس آ چکتے ہیں۔ "

یہ بات بھی شاعر نے اس لحاظ سے کہی تھی کہ اہل عرب کے نزدیک بے کس اور کمزور لوگ ایسا کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ سن کر کہا کہ بھیڑ سے بچنا تو اچھی بات ہے۔ انہوں نے آخر میں یہ شعر پڑھا۔

وما سمی العجلان الا لقولھم
خذا القعب احلب ایھا العبدوا عجل

"اس کا نام عجلان اس لئے پڑا کہ لوگ اس سے کہتے تھے کہ ابے او غلام پیالہ لے اور جلدی سے دودھ لا۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا۔ سید القوم خادمھم۔

 

علم الانساب

علم الانساب یعنی قبائل کا نام و نسب یاد رکھنا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خانہ زاد علم تھا۔ یعنی کئی پشتوں سے چلا آتا تھا، ان کے باپ خطاب مشہور نساب تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس فن کی معلومات کے متعلق اکثر ان کا حوالہ دیا کرتے تھے۔ خطاب کے باپ نضیل بھی اس فن میں شہرت رکھتے تھے۔ چنانچہ ان واقعات کو ہم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی حالات میں لکھ آئے ہیں۔

لکھنا پڑھنا بھی جیسا کہ ہم آغاز کتاب میں لکھ آئے ہیں، اسلام سے پہلے سیکھ لیا تھا۔

عبرانی زبان سے واقفیت

قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر انہوں نے عبرانی زبان بھی سیکھ لی تھی۔ روایات سے ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت تک توریت کا ترجمہ عربی زبان میں نہیں ہوا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں جب توریت کا کچھ کام پڑتا تھا تو عبرانی نسخہ ہی کی طرف رجوع کرنا پڑتا تھا۔ اور چونکہ مسلمان عمرانی نہیں جانتے تھے اس لئے یہود پڑھ کر سناتے اور عربی میں ترجمہ کرتے جاتے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ۔

کان اھل الکتاب یقرؤن التوراۃ بالعبرانیۃ و یفسرونھا بالعربیۃ لا ھل الاسلام۔

"یعنی اہل کتاب توریت کو عبرانی زبان میں پڑھتے تھے اور مسلمانوں کے لئے عربی میں اس کا ترجمہ کرتے جاتے تھے۔ "

مسند دارمی میں روایت ہے کہ ” ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ توریت کا ایک نسخہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس لے گئے اور اس کو پڑھنا شروع کیا۔ وہ پڑھتے جاتے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ متغیر ہوتا جاتا تھا۔ (مسند دارمی مطبوعہ کانپور صفحہ ۶۲) اس سے قیاس ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبرانی زبان اس قدر سیکھ گئے تھے کہ توریت کو خود پڑھ سکتے تھے۔

یہ امر بھی صحیح روایتوں سے ثابت ہے کہ یہودیوں کے ہاں جس دن توریت کا درس ہوا کرتا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اکثر شریک ہوتے تھے۔ ان کا خود کا بیان ہے کہ میں یہودیوں کے درس کے دن ان کے ہاں جایا کرتا تھا۔ چنانچہ یہودی کہا کرتے تھے کہ تمہارے ہم مذہبوں میں سے ہم تم کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ کیونکہ تم ہمارے پاس آتے جاتے ہو۔ (کنز العمال بروایت بیہقی وغیرہ جلد اول صفحہ 233)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نقادی اور نکتہ سنجی نے یہاں بھی کام دیا۔ یعنی جس قدر وہ یہودیوں کی کتابوں سے واقف ہوتے گئے۔ اسی قدر ان کے بیہودہ افسانوں اور قصوں سے نفرت ہوتی گئی۔ نہایت کثرت سے روایتیں موجود ہیں کہ شام و عراق وغیرہ میں مسلمانوں کو یہودیوں کی تصنیفات ہاتھ آئیں تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لوگوں کو نہایت سختی سے ان کو پڑھنے سے روکا۔

ذہانت و طباعی

ان کی ذہانت و طباعی کا صحیح اندازہ اگرچہ ان کے فقہی اجتہادات سے ہو سکتا ہے جس کا ذکر علمی کمالات میں اوپر گزر چکا ہے۔ لیکن ان کی معمولی بات بھی ذہانت و طباعی سے خالی نہیں۔ چنانچہ ہم دو تین مثالیں نمونہ کے طور پر لکھتے ہیں۔

عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جب انہوں نے کوفہ کا حاکم مقرر کیا تو برس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ لوگوں نے دربار خلافت میں شکایت پیش کی کہ وہ رعب و داب اور سیاست کے آدمی نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو واپس بلا لیا اور کہا کہ میں خود بھی اس بات کو جانتا تھا۔ لیکن میں نے خیال کیا کہ شاید اللہ تعالیٰ آپ کو اس آیت کا مصداق بنائے (تاریخ طبری واقعہ عزل عمار بن یاسر)۔

و نریدان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض و نجعلھم ائمۃ و نجعلھم الوارثین۔

"ہم چاہتے ہیں کہ ان لوگوں پر جو کمزور ہیں احسان کریں اور ان کو امام اور زمین کا وارث بنائیں۔ "

ایک دفعہ ایک شخص کو دعا مانگتے سنا کہ ” خدایا! مجھ کو فتنوں سے بچانا۔ ” فرمایا کہ تم یہ چاہتے ہو کہ خدا تم کو آل اولاد نہ دے (ازالۃ اخفاء صفحہ 205) (قرآن مجید میں خدا نے آل و اولاد کو فتنہ کہا ہے )۔

انما اموالکم و اولاد کم فتنۃ۔

ایک دفعہ ایک شخص نے پوچھا کہ دریا کے سفر میں قصر ہے یا نہیں؟ اس کی غرض یہ تھی کہ دریا کا سفر شرعاً سفر ہے یا نہیں؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیوں نہیں، خدا خود فرماتا ہے۔

ھو الذی یسیر کم فی البر والبحر۔

"وہ (خدا) وہ ہے جو تم کو خشکی اور تری کی سیر کراتا ہے۔ "

حکیمانہ مقولے

ان کے حکیمانہ مقولے اکثر ادب کی کتابوں میں اور خصوصاً مجمع الامثال میدانی کے خاتمہ میں کثرت سے نقل کئے ہیں۔ نمونے کے طور پر بعض مقولے یہاں درج کئے جاتے ہیں۔

من کتم سرہ کان الخیار فی یدہ۔

” جو شخص راز چھپاتا ہے وہ اپنا اختیار اپنے ہاتھ میں رکھتا ہے۔ "

اتقوا من تبغضہ قلوبکم اعقل الناس اعذرھم للناس۔

"جس سے تم کو نفرت ہو اس سے ڈرتے رہو۔ سب سے زیادہ عاقل وہ شخص ہے جو اپنے افعال کی اچھی تاویل کر سکتا ہو۔ "

لاتوخر عمل یومک الی غدک۔

"آج کا کام کل پر اٹھا نہ رکھو۔ "

ابت الدراھم الا ان یخرج اعناقھا۔

"روپے سر اونچا کئے بٖغیر نہیں رہتے۔ "

ما ادبر شیئ فاقبل۔

"جو چیز پیچھے ہٹی پھر آگے نہیں بڑھتی۔ "

من لم یعرف الشر یقع فیہ۔

"جو شخص برائی سے واقف نہیں وہ برائی میں مبتلا ہو گا۔ "

ما ساءلنی رجل الاتبین لی ما فی عقلہ۔

"جب کوئی شخص مجھ سے سوال کرتا ہے تو مجھ کو اس کی عقل کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ "

واعظ سے خطاب کر کے

لا یلھک الناس عن نفسک اقل من الدنیا تعش صرا ترک الخطیئۃ اسھل من التوبۃ۔

"لوگوں کو فکر میں تم اپنے تیئں بھول نہ جاؤ۔ دنیا تھوڑی سی لو تو آزادانہ بسر کروگے۔ توبہ کی تکلیف سے گناہ کا چھوڑ دینا زیادہ آسان ہے۔ "

لی علی کل خائن امینان الماء والطین۔

"ہر بدیانت پر میرے دو داروغے متعین ہیں آب و گل۔ "

لو ان الصبر والشکر بعیران ما بالیت علی ایھما رکبت۔

"اگر صبر و شکر دو سواریاں ہوتیں تو میں اس کی نہ پرواہ کرتا کہ دونوں میں سے کس پر سوار ہوں۔ "

رحم اللہ امراً اھدی الیٰ عیوبی۔

"خدا اس شخص کا بھلا کرے جو میرے عیب میرے پاس تحفے میں بھیجتا ہے (یعنی مجھ پر میرے عیب ظاہر کرتا ہے۔ "

صائب الرائے ہونا

رائے نہایت صائب ہوتی تھی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عمر کسی معاملے میں کہتے تھے کہ میرا اس کی نسبت یہ خیال ہے تو ہمیشہ وہی پیش آتا تھا۔ جو ان کا گمان ہوتا تھا۔ (صحیح بخاری باب اسلام عمر)۔

اس سے زیادہ اصابت رائے کی کیا دلیل ہو گی۔ کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں۔ ا ور آج تک قائم ہیں۔

اذان کا طریقہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے سے قائم ہوا

نماز کے اعلان کے لئے جب ایک معین طریقہ کی تجویز پیش ہوئی تو لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں۔ کسی نے ناقوس کا نام لیا۔ کسی نے ترہی کی رائے دی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ ایک آدمی کیوں نہ مقرر کیا جائے ، جو نماز کی منادی کیا کرے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اسی وقت بلال کو حکم دیا کہ اذان دیں۔ چنانچہ یہ پہلا دن تھا کہ اذان کی طریقہ قائم ہوا اور درحقیقت ایک مذہبی فرض کے لئے اس سے زیادہ کوئی طریقہ مؤسر اور موزن نہیں ہو سکتا تھا۔

اسیران بدر

اسیران بدر کے معاملے میں جب اختلاف ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو رائے دی وحی اسی کے موافق آئی۔

ازواج مطہرات کا پردہ

آنحضرت کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنھن پہلے پردہ نہیں کرتی تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس پر بارہا خیال ہوا۔ اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم وحی کا انتظار فرماتے تھے۔ چنانچہ خاص پردہ کی آیت نازل ہوئی جس کو آیت حجاب کہتے ہیں۔

منافقوں پر نماز جنازہ

عبد اللہ بن ابی جو منافقوں کا سردار تھا۔ جب مرا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خلق نبوی کی بناء پر اس کے جنازہ کی نماز پڑھنی چاہی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شدت سے منع کیا کہ آپ منافق کے جنازے پر نماز پڑھتے ہیں۔ اس پر یہ آیت اتری ” ولا تصل علی احد منھم” یہ تمام واقعات صحیح بخاری وغیرہ میں مذکور ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے صائب کا نتیجہ تھا کہ قرآن مجید مدون مرتب ہوا، ورنہ حضرت ابو بکر اور زید بن ثابت (کاتب وحی) دونوں صاحبوں نے پہلے اس تجویز کی مخالفت کی تھی۔

تمام مذہبی اور ملکی اہم مسائل میں جہاں جہاں صحابہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اختلاف ہوا (باستثنائے بعض) عموماً عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائیں صائب نکلیں، ممالک مفتوحہ کے متعلق اکثر صحابہ متفق الرائے تھے کہ فوج کو تقسیم کر دیئے جائیں۔ ایک حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس رائے کے خلاف تھے اور اگر لوگوں نے ان کی رائے کو نہ مانا ہوتا تو اسلامی مملکت آج کاشت کاری کے اعتبار سے بدتر ہو گئی ہوتی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دونوں فتوحات کی آمدنی میں ہر شخص کا برابر حصہ لگاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حقوق اور کارگزاری کے فرق مراتب کے لحاظ سے مختلف شرحیں قرار دیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امہات اولاد کی خرید و فروخت کو جائز رکھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مخالفت کی۔ ان تمام واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کو جو ترجیح ہے وہ محتاج دلیل نہیں

قابلیت خلافت کی نسبت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے

خلافت کے متعلق جب بحث پیدا ہوئی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بعد کون اس بار گراں کو اٹھا سکتا ہے ؟ تو چھ صاحبوں کے نام لئے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر ایک سے متعلق خاص خاص رائیں دیں اور وہ سب صحیح نکلیں۔

نکتہ سنجی اور غور رسی

وہ ہر کام میں غور و فکر کو عمل میں لاتے تھے اور ظاہری باتوں پر بھروسہ نہیں کرتے تھے۔ ان کا قول تھا کہ :

لا یعجبنکم من الرجال طنطنۃ

"یعنی کسی کی شہرت کا آوازہ سن کر دھوکے میں نہ آؤ۔ "

اکثر کہا کرتے تھے :

لا تنظروا الیٰ صلوٰۃ امر اولا صیامہ ولکن انظروا الیٰ عقلہ و صدقہ۔

"یعنی آدمی کی نماز، روزہ پر نہ جاؤ بلکہ اس کی سچائی اور عقل کو دیکھو۔ "

ایک دفعہ ایک شخص نے ان کے سامنے کسی کی تعریف کی، فرمایا کہ تم سے بھی معاملہ پڑا ہے ؟ اس نے کہا نہیں، پوچھا، کبھی سفر میں ساتھ ہوا ہے۔ اس نے کہا نہیں، فرمایا کہ تو تم وہ بات کہتے ہو جو جانتے نہیں (یہ قول ازالۃ اخفاء حصہ دوم صفحہ 197 میں نقل کیا ہے )۔ احادیث کے باب میں بڑی غلطی جو لوگوں سے ہوئی یہی تھی کہ اکثر محدثین جس کو زاہد و پارسا دیکھتے تھے ثقہ سمجھ کر اس سے روایت شروع کر دیتے تھے۔ عبد الکریم بن ابی المخارق جو ایک ضعیف الروایہ شخص تھا اس سے امام مالک نے روایت کی۔ لوگوں نے تعجب سے پوچھا کہ آپ ایسے شخص سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا۔

غرنی بکثرۃ جلوسہ فی المسجد (فتح المغیث صفحہ 13)۔

"یعنی اس بات نے مجھ کو دھوکہ دیا کہ وہ کثرت سے مسجد میں بیٹھا کرتا تھا۔ "

 

مذہبی زندگی

دن کو مہمات خلافت کی وجہ سے کم فرصت ملتی تھی اس لیے عبادت کا وقت رات کو مقرر تھا۔ معمول تھا کہ رات کو نفلیں پڑھتے تھے۔ جب صبح ہونے کو آتی تو گھر والوں کو جگاتے اور یہ آیت پڑھتے ” وامر اھلک بالصلوۃ” (مؤطا امام ملک)۔ فجر کی نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے۔ لیکن زیادہ سے زیادہ 120 آیتیں پڑھتے تھے۔ عبد اللہ بن عامر کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ ان کے پیچھے فجر کی نماز پڑھی تو انہوں نے سورۃ یوسف اور سورۃ حج پڑھی تھی۔ سورۃ یونس، کہف اور سورۃ ہود کا پڑھنا بھی ان سے مروی ہے۔

نماز

نماز جماعت کے ساتھ پسند کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں اس کو تمام رات عبادت پر ترجیح دیتا ہوں۔ کوئی ضروری کام آ پڑتا اور وقت کی تاخیر کا خوف نہ ہوتا تو پہلے اس کو انجام دیتے۔ ایک دفعہ اقامت ہو چکی تھی اور صفیں درست ہو چکی تھیں۔ ایک شخص صف سے نکل کر ان کی طرف بڑھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور دیر تک اس سے باتیں کرتے رہے۔ فرمایا کرتے تھے : کھانے سے فارغ ہو کر نماز پڑھو۔ بعض اوقات جہاد وغیرہ کے اہتمام میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ نماز میں بھی وہی خیال بندھا رہتا تھا۔ خود ان کا قول ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور فوجیں تیار کرتا ہوں۔

ایک اور روایت میں ہے کہ میں نے نماز میں بحرین کے جزیرہ کا حساب کیا۔ ایک دفعہ نماز پڑھ رہے تھے کہ آیت ” فلیعبدوا رب ھذا البیت” آئی تو کعبہ کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ کیا۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس روایت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ نماز میں اس قدر اشارہ کرنا جائز ہے (ازالۃ الخفاء بحوالہ مصنف ابن ابی شیبہ صفحہ ۹۳)۔ بعض اوقات جمعہ کا خطبہ پڑھتے پڑھتے کسی سے مخاطب ہو جاتے۔ مؤطا امام مالک میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جمعہ میں دیر ہو گئی اور مسجد میں اس وقت پہنچے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ شروع کر دیا تھا۔ عین خطبہ کی حالت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا اور کہا یہ کیا وقت ہے ؟ انہوں نے کہا میں بازار سے آ رہا تھا کہ اذان سنی فوراً وضو کر کے حاضر ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا وضو پر کیوں اکتفا کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم غسل کا حکم دیا کرتے تھے۔

ابو بکر بن شیبہ نے روایت کیا ہے کہ مرنے سے دو برس پہلے متصل روزے رکھنے شروع کئے تھے۔ اور انہی کی یہ روایت بھی کہ ایک شخص کی نسبت سنا کہ وہ صائم الدہر ہے تو اس کے مارنے کے لئے درہ اٹھایا (ازالۃ الخفاء صفحہ 102)۔

حج ہر سال کرتے تھے اور خود امیر قافلہ ہوتے تھے

قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا۔ صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ کیوں ابو موسیٰ! تم اس پر راضی ہو کہ ہم لوگ جو اسلام لائے اور ہجرت کی اور رسول اللہ کی خدمت میں ہر گھڑی موجود رہے۔ ان تمام باتوں کا صلہ ہم کو یہ ملے کہ برابر سرابر پر چھوٹ جائیں، نہ ہم کو ثواب ملے نہ عذاب، ابو موسیٰ نے کہا نہیں ہم تو اس پر ہرگز راضی نہیں۔ ہم نے بہت سی نیکیاں کی ہیں اور ہم کو بہت کچھ امید ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے کہ میں تو صرف اسی قدر چاہتا ہوں کہ ہم بے مواخذہ چھوٹ جائیں۔ ” مرنے کے وقت یہ شعر پڑھتے تھے۔

ظلوم لنفسی غیر انی مسلم
اصلی الصلوٰۃ کلھا و اصوم

بے تعصبی

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مذہب کی مجسم تصویر تھے لیکن زاہد متقشف نہ تھے۔ ہمارے علماء عیسائیوں کا برتن وغیرہ استعمال کرنا تقدس کے خلاف سمجھتے ہیں۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نسبت امام بخاری رحمۃ اللہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے ایک روایت نقل کی ہے۔ توضاً من ماء جئی بہ عند نصرانیۃ (ازالۃ الخفاء صفحہ 88 جلد دوم)۔ بغوی کی روایت اس سے زیادہ صاف ہے۔ توضاً عمر من ماء فی جر نصرانیۃ (ازالۃ الخفاء صفحہ 13۔ یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عیسائی عورت کے گھڑے کے پانی سے وضو کیا۔ بغوی نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ عیسائی جو پنیر بناتے ہیں اس کو کھاؤ (ازالۃ الخفاء صفحہ 13۔ عیسائیوں وغیرہ کا کھانا آج مکروہ اور ممنوع بتایا جاتا ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے معاہدات میں یہ قاعدہ داخل کر دیا تھا کہ جب کسی مسلمان کا گزر ہو تو عیسائی اس کو تین دن مہمان رکھیں۔ آج غیر قوموں سے عداوت اور ضد رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ مرتے مرتے بھی عیسائی اور یہودی رعایا کو نہ بھولے۔ چنانچہ ان کی نسبت رحم اور ہمدردی کی جو وصیت کی وہ صحیح بخاری و کتاب الخراج وغیرہ میں مذکور ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحب نے اس امر کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے محاسن و فضائل میں شمار کیا ہے کہ وہ اہل ذمہ (عیسائی اور یہودی جو مسلمانوں کے ملک میں رہتے تھے ) کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کرتے تھے۔ چنانچہ شاہ صاحب کے خالص الفاظ یہ ہیں ” و ازاں جملہ آنکہ باحسان اہل ذمہ تاکید فرمود۔ ” (ازالۃ الخفاء صفحہ 73 جلد دوم)۔

محب طبری وغیرہ نے روایت کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے افسروں کو عیسائیوں کو ملازم رکھنے سے بھی منع کرتے تھے۔ افسوس ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی ان روایتوں کو قبول کیا ہے۔ لیکن جس شخص نے محب طبری کی کتاب (ریاض النضرۃ) دیکھی ہے وہ پہلی نظر میں سمجھ سکتا ہے کہ ان روایتوں کا کیا پایہ ہے۔ ان بزرگوں کو بھی یہ خبر نہیں کہ عراق، مصر، شام کا دفتر مال گزاری جس قدر تھا سریانی و قبطی وغیرہ زبانوں میں تھا۔ اور اس وجہ سے دفتر مال گزاری کے تمام عمال مجوسی یا عیسائی تھے۔ ملازمت اور خدمت ایک طرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تو فن فرائض کی ترتیب اور درستی کے لئے بھی ایک رومی عیسائی کو مدینہ منورہ میں طلب کیا تھا، چنانچہ علامہ بلاذری نے اس واقعہ کو کتاب الاشراف میں بتصریح لکھا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں۔

ابعث الینا برومی یقیم لنا حساب فرائضنا۔

"ہمارے پاس ایک رومی کو بھیج دو جو فرائض کے حساب کو درست کر دے۔ "

آج غیر مذہب کا کوئی شخص مکہ معظمہ نہیں جا سکتا اور یہ ایک شرعی مسئلہ خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں غیر مذہب والے بے تکلف مکہ معظمہ جاتے تھے۔ اور جب تک چاہتے تھے مقیم رہتے تھے۔ چنانچہ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں متعدد واقعات نقل کئے ہیں (کتاب الخراج صفحہ ۷۸ – ۷۰)۔ آجکل یورپ والے جو اسلام پر تنگ دلی اور وہم پرستی کا الزام لگاتے ہیں۔ اسلام کی صحیح تصویر خلفائے راشدین کے حالات کے آئینہ میں نظر آ سکتی ہے۔

علمی صحبتیں

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مجلس میں اکثر علمی مسائل پر گفتگو ہوا کرتی۔ ایک دن صحابہ بدر (وہ صحابہ جو جنگ بدر میں رسول اللہ کے شریک تھے ) مجلس میں جمع تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجمع صحابہ کی طرف خطاب کر کے کہا، اذا جآء نصر اللہ والفتح سے کیا مراد ہے ؟ بعضوں نے کہا کہ خدا نے حکم دیا ہے کہ جب فتح حاصل ہو تو ہم خدا کا شکر بجا لائیں۔ بعض بالکل چپ رہے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف دیکھا، انہوں نے کہا ” اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے ، یعنی اے محمد! جب فتح و نصرت آ چکی تو یہ تیرے دنیا سے اٹھنے کی علامت ہے اس لئے تو خدا کی حمد کر اور گناہ کی معافی مانگ، بے شک خدا بڑا قبول کرنے والا ہے۔ ” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا جو تم نے کہا یہی میرا خیال ہے (صحیح بخاری مطبوعہ صفحہ 451)۔

ایک اور دن صحابہ کا مجمع تھا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس آیت کے معنی پوچھے ” ایود احد کم ان تکون لہ جنۃ ” لوگوں نے کہا کہ خدا زیادہ جانتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس لاحاصل جواب پر غصہ آیا۔ اور کہا کہ نہیں معلوم ہے تو صاف کہنا چاہیے کہ معلوم نہیں ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ آیت کے صحیح معنی جانتے تھے۔ لیکن کم عمری کی وجہ سے جھجکتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ صاحبزادے ! اپنے آپ کو حقیر نہ سمجھو، جو تمہارے خیال میں ہو بیان کرو۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا خدا نے ایک کام کرنے والے شخص کی تمثیل دی ہے۔ چونکہ جواب ناتمام تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر قناعت نہ کی لیکن عبد اللہ بن عباس اس سے زیادہ نہ بتا سکتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یہ اس آدمی کی تمثیل ہے جس کو خدا نے دولت و نعمت دی کہ خدا کی بندگی بجا لائے۔ اس نے نافرمانی کی تو اس کے اعمال بھی برباد کر دیئے۔

ایک دفعہ مہاجرین صحابہ میں سے ایک صاحب نے شراب پی اور اس جرم میں ماخوذ ہو کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے آئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سزا دینی چاہی۔ انہوں نے کہا کہ قرآن کی اس آیت سے ثابت ہے کہ ہم لوگ اس گناہ کی سزا کے مستوجب نہیں ہو سکتے۔ پھر یہ آیت لیس علی الذین امنو و عملوا الصلحت جناح طیما طعموا "یعنی جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور اچھے کام کئے انہوں نے جو کچھ کھایا پیا ان پر الزام نہیں۔ ” استدلال میں پیش کر کے کہا کہ ” میں بدر، خندق، حدیبیہ اور دیگر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہا ہوں اس لئے میں ان لوگوں میں داخل ہوں جنہوں نے اچھے کام کئے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صحابہ کی طرف دیکھا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے کہ یہ معافی پچھلے زمانہ کے متعلق ہے یعنی جن لوگوں نے شراب کی حرمت نازل ہونے سے پہلے شراب پی، ان کے اور اعمال اگر صالح ہیں تو ان پر کچھ الزام نہیں۔ اس کے بعد یہ آیت پڑھی۔ جس میں شراب کی ممانعت کا صریح حکم ہے (ازالۃ الخفاء بحوالہ روایت حاکم صفحہ 213)۔

یا یھا الذین امنو انما الخمرو المیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔

ارباب صحبت

جن لوگوں سے صحبت رکھتے تھے وہ عموماً اہل علم و فضل ہوتے تھے۔ اور اس میں وہ نوعمر اور معمروں کی تمیز نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری میں ہے (صحیح بخاری جلد دوم صفحہ 449 بغوی نے زہری سے روایت کی ہے کہ کان مجلس عمر منقافی القراء ، ازالۃ الخفاء صفحہ 119)۔

و کان القرآء اصحاب مجالس عمر و مشاورتہ کھولاً کانو شباناً۔

” یعنی حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل مجلس اور اہل مشورت علماء تھے خواہ بوڑھے ہوں یا جوان۔ "

فقہ کا بہت بڑا حصہ جو منقح ہوا اور فقہ عمری کہلاتا ہے ، انہی مجلسوں کی بدولت ہوا۔ اس مجلس کے بڑے بڑے ارکان ابی ابن کعب، زید بن ثابت، عبد اللہ بن مسعود، عبد اللہ بن عباس، عبد الرحمٰن بن عوف، حر بن قیس رضی اللہ تعالیٰ عنہم تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام لوگوں کو علمی فضیلت کی وجہ سے نہایت عزیز رکھتے تھے۔ معمول تھا کہ جب مجلس میں بیٹھتے تو امتیاز مراتب کے لحاظ سے لوگوں کو باریابی کی اجازت دیتے یعنی پہلے قدمائے صحابہ آتے پھر ان سے قریب والے و علی ھذا لیکن کبھی کبھی یہ ترتیب توڑ دی جاتی اور یہ امر خاص ان لوگوں کے لئے ہوتا جو علم کی فضیلت میں ممتاز ہوتے تھے۔ چنانچہ (فتح الباری شرح بخاری – تفسیر اذا جاء نصر اللہ) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قدمائے صحابہ کے ساتھ شامل کر دیا تھا۔ تاہم یہ حکم دیا کہ سوال و جواب میں اور بزرگوں کی ہمسری نہ کریں۔ یعنی جو کچھ کہنا ہو سب کے بعد کہیں۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جو لوگ عمر میں کم تھے مسائل کے متعلق رائے دینے میں جھجکتے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو ہمت دلاتے اور فرماتے کہ علم سن (عمر) کی کمی یا زیادتی پر نہیں ہے (از ازالۃ الخفاء بحوالہ بغوی صفحہ 119)۔ عبد اللہ بن عباس اس وقت بالکل نوجوان تھے۔ ان کی شرکت پر بعض اکابر صحابہ نے شکایت کی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی خصوصیت کی وجہ بتائی۔ اور ایک علمی مسئلہ پیش کیا جس کا جواب بجز عبد اللہ بن عباس کے اور کسی شخص نے صحیح نہیں دیا۔ عبد اللہ بن مسعود کی بھی قدر کرتے تھے۔ 21 ہجری میں جب ان کو کوفہ کا مفتی اور افسر خزانہ مقرر کر کے بھیجا تو اہل کوفہ کو لکھا کہ ” میں ان کو معلم اور وزیر مقرر کر کے بھیجتا ہوں اور میں نے تم لوگوں کو اپنے آپ پر ترجیح دی ہے کہ ان کو اپنے پاس سے جدا کرتا ہوں۔ ” بارہا ایسا ہوا کہ جب کسی مسئلہ کو عبد اللہ بن مسعود نے حل کیا تو ان کی شان میں فرمایا۔

کلیف ملئی علماً۔

” یعنی ایک ظرف ہے جو علم سے بھرا ہوا ہے۔ "

اگرچہ فصل و کمال کے لحاظ سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی ان کا ہمسر نہ تھا۔ تاہم وہ اہل کمال کے ساتھ اس طرح پیش آتے تھے جس طرح خود بزرگ کے ساتھ پیش آتے تھے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ اخفاء میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابی ابن کعب کی نہایت تعظیم کرتے تھے اور ان سے ڈرتے تھے۔ ابی نے جب انتقال کیا تو فرمایا کہ آج مسلمانوں کا سردار اٹھ گیا۔ زید بن ثابت کو اکثر اپنی غیر حاضری میں اپنا جانشین مقرر کرتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو کچھ نہ کچھ جاگیر کے طور پر ان کو عطا کرتے تھے (سیر العمر بن لابن الجوزی)۔ اسی طرح ابو عبیدہ، سلمان فارسی، عمیر، سعد، ابو موسیٰ اشعری، سالم، ابو دردا، عمران بن حصین وغیرہ کی نہایت عزت کرتے تھے۔ بہت سے صحابہ تھے جن کے روزینے فقط اس بناء پر مقرر کئے تھے کہ وہ فضل و کمال میں ممتاز ہیں۔ ابوذر غفاری جنگ بدر میں شریک نہ تھے لیکن ان کا روزینہ اصحاب بدر کے برابر مقرر کیا تھا۔ اسی بناء پر کہ وہ فضل و کمال میں اور لوگوں سے کم نہیں۔

 

اہل کمال کی قدردانی

ان کی قدردانی کسی خاص گروہ تک محدود نہ تھی۔ کسی شخص میں کسی قسم کا جوہر ہوتا تھا تو اس کے ساتھ خاص مراعات کرتے تھے۔ عمیر بن وہب الجملی کا وظیفہ 200 دینار سالانہ اس بناء پر مقرر کیا کہ وہ پُر خطر معرکوں میں ثابت قدم رہتے ہیں (فتوح البلدان صفحہ 452)۔ خارجہ بن حذافہ اور عثمان بن ابی العاص کے وظیفے اس بناء پر مقرر کئے کہ خارجہ بہادر اور عثمان نہایت فیاض تھے (کنز العمال جلد دوم صفحہ 310)۔

لطیفہ

ایک دفعہ مغیرہ بن شعبہ کو حکم بھیجا کہ کوفہ میں جس قدر شعراء ہیں ان کے وہ اشعار جو انہوں نے زمانہ اسلام میں کہے ہیں لکھوا کر بھیجو۔ مغیرہ نے پہلے اغلب عجلی کو بلوایا۔ اور شعر پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے یہ شعر پڑھا۔

لقد طلبت ھنیاً موجوداً
ار جزاً تریدام قصیداً

"تم نے بہت آسان چیز کی فرمائش کی ہے ، بولو قصیدہ چاہتے ہو یا رجز؟”

پھر لبید کو بلا کر یہ حکم سنایا۔ وہ سورۃ بقرہ لکھ کر لائے کہ خدا نے شعر کے بدلے مجھ کو یہ عنایت کیا ہے۔ مغیرہ نے یہ پوری کیفیت حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھ کر بھیجی۔ وہاں سے جواب آیا کہ ” اغلب کے روزینے میں سے گھٹا کر لبید کے روزینے میں پانسو کا اضافہ کر دو” اغلب نے حضرت عمر کی خدمت میں عرض کیا کہ بجا آوری حکم کا یہ صلہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لبید کے اضافہ کے ساتھ اس کی تنخواہ بھی بحال رہنے دی۔ اس زمانے میں جس قدر اہل کمال تھے مثلاً شعراء، خطباء، نساب، بہادر سب ان کے دربار میں آئے اور ان کی قدردانی سے مشکور ہوئے۔ اس زمانہ کا سب سے بڑا شاعر متمم بن نویرہ تھا جس کے بھائی کو ابو بکر صدیق کے زمانے میں حضرت خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غلطی سے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعہ نے اس کو اس قدر صدمہ پہنچایا کہ ہمیشہ رویا کرتا اور مرثیے کہا کرتا۔ جس طرف نکل جاتا، زن و مرد اس کے گرد جمع ہو جاتے اور اس سے مرثیے پڑھوا کر سنتے۔ مرثیے پڑھنے کے ساتھ خود روتا جاتا تھا اور سب کو رولاتا جاتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مرثیہ پڑھنے کی فرمائش کی۔ اس نے چند اشعار پڑھے۔ اخیر کے شعر یہ تھے۔

و کنا کندماء جذیمۃ حقبۃ
من الدھر حتی قبل لن یتصدعا
فلما تفرقنا کانی وما لکاً
لطول اجتماع لم نبت لیلۃ معا

"ایک مدت تک ہم دونوں جذیمہ (ایک بادشاہ کا نام ہے ) کے ندیم مو کے مثل رہے ، یہاں تک کہ لوگوں نے کہا اب یہ جدا نہ ہوں گے ، پھر جب ہم دونوں جدا ہو گئے تو گویا ایک رات بھی ہم دونوں نے ساتھ بسر نہیں کی تھی۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے متمم سے خطاب کر کے کہا کہ اگر مجھ کو ایسا مرثیہ کہنا آتا تو میں اپنے بھائی زید کا مرثیہ کہتا۔ اس نے کہا امیر المومنین! اگر میرا بھائی آپ کے بھائی کی طرح (یعنی شہید ہو کر) مارا جاتا تو میں ہر گز اس کا ماتم نہ کرتا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے کہ ” متمم نے جیسی میری تعزیت کی کسی نے نہیں کی۔ "

اسی زمانے میں ایک اور بڑی مرثیہ گو شاعرہ خنسا تھی۔ اس کا دیوان آج بھی موجود ہے جس میں مرثیوں کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ علمائے ادب کا اتفاق ہے کہ مرثیہ کے فن میں آج تک خنساء کا مثل نہیں پیدا ہوا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو کعبہ میں روتے اور چیختے دیکھا۔ پاس جا کر تعزیت کی۔ اور جب اس کے چار بیٹے جنگ قادسیہ میں شہید ہوئے تو چاروں کی تنخواہیں اس کے نام جاری کر دیں۔

پہلوانی اور بہادری میں دو شخص طلیحہ بن خالد اور عمرو معدی کرب تمام عرب میں ممتاز تھے۔ اور ہزار ہزار سوار کے برابر مانے جاتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کو اپنے دربار میں بار دیا۔ اور قادسیہ کے معرکے میں جب ان کو بھیجا تو سعد بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لکھا کہ میں دو ہزار سوار تمہارے مدد کو بھیجتا ہوں۔ عمرو معدی کرب پہلوانی کے ساتھ ساتھ خطیب اور شاعر بھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے فنون حرب کے متعلق گفتگو کیا کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جلسہ میں قبائل عرب اور اسلحہ جنگ کی نسبت جو سوالات کئے اور عمرو معدی کرنے ایک ایک کی نسبت جن مختصر اور بلیغ فقروں میں جواب دیئے اس کو اہل عرب نے عموماً اور مسعودی نے مروج الذہب میں بتفصیل لکھا ہے۔ چنانچہ نیزہ کی نسبت پوچھا تو کہا۔

اخوک و ربما خانک

"یعنی تیرا بھائی ہے لیکن کبھی کبھی دغا دے جاتا ہے۔ "

پھر تیروں کی نسبت پوچھا تو کہا۔

برد المنایا خطی و تصیب

"یعنی موت کے قاصد ہیں کبھی منزل تک پہنچتے ہیں اور کبھی بہک جاتے ہیں۔ "

ڈھال کی نسبت کہا۔

علیہ تدور الدوائر

اسی طرح ایک ایک ہتھیار کی نسبت عجب عجب بلیغ فقرے استعمال کئے جس کی تفصیل کا یہ محل نہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طریق عمل نے عرب کے تمام قابل آدمیوں کو دربار خلافت میں جمع کر دیا۔ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی قابلیتوں سے بڑے بڑے کام لئے۔

متعلقین جناب رسول اللہ کا پاس و لحاظ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے تعلق کا نہایت پاس کرتے تھے۔ جب صحابہ وغیرہ کے روزینے مقرر کرنے چاہے تو عبد الرحمٰن بن عوف وغیرہ کی رائے تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقدم رکھے جائیں لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار کیا اور کہا کہ ترتیب مدارج میں سب مقدم آنحضرت کے تعلقات کے قرب و بعد کا لحاظ ہے۔ چنانچہ سب سے پہلے قبیلہ بنو ہاشم سے شروع کیا۔ اور اس میں بھی حضرت عباس و حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ناموں سے ابتداء کی۔ بنو ہاشم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے نسبت میں قریب بنو امیہ تھے۔ پھر بنو عبد الشمس، بنو نوفل، پھر عبد الغریٰ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبیلہ بنو عدی پانچویں درجے میں پڑتا ہے۔ چنانچہ اسی ترتیب سے سب کے نام لکھے گئے۔ تنخواہوں کی مقدار میں بھی اسی کا لحاظ رکھا۔ سب سے زیادہ تنخواہیں جن لوگوں کی تھیں وہ اصحاب بدر تھے۔ حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اگرچہ اس گروہ میں نہ تھے۔ لیکن ان کی تنخواہیں اسی حساب سے مقرر کیں، رسول اللہ کی ازواج مطہرات کی تنخواہیں بارہ بارہ ہزار مقرر کیں۔ اور یہ سب سے بڑی مقدار تھی۔ اسامہ بن زید کی تنخواہ جب اپنے فرزند عبد اللہ سے زیادہ مقرر کی تو عبد اللہ نے عذر کیا۔ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اسامہ کو تجھ سے اور اسامہ کے باپ کو تیرے باپ سے زیادہ عزیز رکھتے تھے (تمام تفصیل کتاب الخراج صفحہ 24 – 25 میں ہے )۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ حضرت ابو بکر کی ابتدائے خلافت میں (جیسا کہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں) کسی قدر شکر رنجی رہی جس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چھ مہینے تک حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت پر بیعت نہیں کی۔ چنانچہ صحیح بخاری باب غزوہ خیبر میں ہے کہ چھ مہینے کے بعد یعنی جب فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا انتقال ہو گیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مصالحت اور بیعت کی غرض سے بلانا چاہا۔ لیکن یہ کہلا بھیجا کہ آپ تنہا آئیں۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی موجودگی پسند نہیں کرتے تھے (بخاری کے اصلی الفاظ یہ ہیں کہ کراھیۃً لمحجر عمر)۔

لیکن رفتہ رفتہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلافت کا ملال جاتا رہا تو بالکل صفائی ہو گئی۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بڑی بری مہمات میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مشورہ کے بغیر کام نہیں کرتے تھے۔ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورے دیتے تھے۔ نہاوند کے معرکے میں ان کو سپہ سالار بھی بنانا چاہا لیکن انہوں نے منظور نہیں کیا۔ بیت المقدس گئے تو کاروبار خلافت انہی کے ہاتھ میں دے کر گئے۔ اتحاد و یگانگت کا اخیر مرتبہ یہ تھا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جو فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے تھیں ان کے عقد میں دے دیا۔ چنانچہ اس کی تفصیل آگے آتی ہے۔

اخلاق، عادات، تواضع و سادگی

ان کے اخلاق و عادات کے بیان میں مؤرخین نے تواضع اور سادگی کا مستقل عنوان قائم کیا ہے اور درحقیقت ان کی عظمت و شان کے تاج پر سادگی کا طرہ نہایت خوشنما معلوم ہوتا ہے۔ ان کی زندگی کی تصویر کا ایک رخ یہ ہے کہ روم و شام پر فوجیں بھیج رہے ہیں۔ قیصر و کسریٰ کے سفیروں سے معاملہ پیش ہے۔ خالد و امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے باز پرس ہے ، سعد بن ابی وقاص، ابو موسیٰ اشعری، عمرو بن العاص کے نام احکام لکھے جا رہے ہیں۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ بدن پر بارہ پیوند لگا کرتہ ہے۔ سر پر پھٹا سا عمامہ ہے۔ پاؤں میں پھٹی جوتیاں ہیں پھر اس حالت میں یا تو کاندھے پر مشک لئے جا رہے ہیں کہ بیوہ عورتوں کے گھر پانی پہنچا دیں۔ یا مسجد کے کسی گوشے میں فرش خاک پر لیٹے ہیں۔ اس لئے کہ کام کرتے کرتے تھک گئے ہیں اور نیند کی جھپکی سی آ گئی ہے (کتاب مذکورہ صفحہ 387 باب الزہد)۔

بارہا مکہ سے مدینہ تک سفر کیا، لیکن خیمہ یا شامیانہ کبھی ساتھ نہیں رہا۔ جہاں ٹھہرے کسی درخت پر چادر ڈال دیا اور اسی کے سائے میں پڑ رہے۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ ان کی روزانہ خانگی خرچ دو درہم تھا جس کے کم بیش ۱۰ آنے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ احتف بن قیس رؤسائے عرب کے ساتھ ان سے ملنے کو گئے۔ دیکھا تو دامن چڑھائے ادھر ادھر دوڑتے پھرتے ہیں۔ احتف کو دیکھا کر کہا ” آؤ تم بھی میرا ساتھ دو۔ بیت المال کا ایک اونٹ بھاگ گیا ہے۔ تم جانتے ہو ایک اونٹ میں کتنے غریبوں کا حق شامل ہے۔ ” ایک شخص نے کہا کہ امیر المومنین آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، کسی غلام کو حکم دیجیئے وہ ڈھونڈ لائے گا۔ فرمایا ای عبدا عبد منی "یعنی مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہو سکتا ہے۔ "

مؤطا امام محمد میں روایت ہے کہ جب شام کا سفر کیا تو شہر کے قریب پہنچ کر قضائے حاجت کے لئے سواری سے اترے۔ اسلم ان کا غلام بھی ساتھ تھا۔ فارغ ہو کر آئے تو (بھول کر یا کسی مصلحت سے ) اسلم کے اونٹ پر سوار ہو گئے۔ ادھر اہل شام بھی استقبال کو آ رہے تھے۔ جو آتا پہلے اسلم کی طرف متوجہ ہوتا تھا۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف اشارہ کرتا تھا۔ لوگوں کو تعجب ہوتا تھا اور آپس میں حیرت سے سرگوشیاں کرتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان کی نگاہیں عجمی شان و شوکت ڈھونڈ رہی ہیں (وہ یہاں کہاں)۔

ایک خطبہ میں کہا کہ ” صاحبو! ایک زمانے میں میں اس قدر نادار تھا کہ لوگوں کو پانی بھر کر لا دیا کرتا تھا۔ اس کے صلے میں وہ مجھ کو چھوہارے دیتے تھے۔ وہی کھا کر بسر کرتا تھا۔ ” یہ کہہ کر منبر سے اتر آئے۔ لوگوں کو تعجب ہوا کہ یہ منبر پر کہنے کی کیا بات تھی۔ فرمایا کہ میری طبیعت میں ذرا سا غرور آ گیا تھا یہ اس کی دوا تھی۔

23 ہجری میں سفر حج کیا اور یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کی سطوت و جبروت کا آفتاب نصف النہار پر آ گیا تھا۔ سعید بن المسیب جو ایک مشہور تابعی گزرے ہیں وہ بھی اس سفر میں شریک تھے۔ ان کا بیان ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب البطح میں پہنچے تو سنگریزے سمیٹ کر اس پر کپڑا ڈال دیا اور اسی کو تکیہ بنا کر فرش خاک پر لیٹ گئے۔ پھر آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا اے خدا! میری عمر اب زیادہ ہو گئی ہے۔ اب قویٰ کمزور ہو گئے۔ اب مجھ کو دنیا سے اٹھا لے (مؤطا امام محمد صفحہ 304)۔

زندہ دلی

اگرچہ خلافت کے افکار نے ان کو خشک مزاج بنا دیا تھا۔ لیکن یہ ان کی طبع حالت نہ تھی کبھی کبھی موقع ملتا تو زندہ دلی کے اشغال سے جی بہلاتے تھے۔ ایک دفعہ حضرت عبد اللہ بن عباس سے رات بھر اشعار پڑھوایا کئے۔ "جب صبح ہونے لگی تو کہا کہ اب قرآن پڑھو۔ ” محدث ابن الجوزی نے سیرۃ العمرین میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ رات کو گشت کر رہے تھے۔ ایک طرف سے گانے کی آواز آئی۔ ادھر متوجہ ہوئے اور دیر تک کھڑے سنتے رہے۔ ایک دفعہ سفر حج میں حضرت عثمان، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم وغیرہ ساتھ تھے۔ عبد اللہ بن زبیر اپنے ہم سنوں کے ساتھ چہل کرتے تھے۔ اور حظل کے دانے اچھالتے چلتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف اس قدر فرماتے تھے کہ دیکھو اونٹ بھڑکنے نہ پائیں۔ لوگوں نے رباح سے حدی گانے کی فرمائش کی۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خیال سے رکے۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ ناراضی نہ ظاہر کی تو رباح نے گانا شروع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی سنتے رہے۔ جب صبح ہو چلی تو فرمایا کہ ” بس اب خدا کے ذکر کا وقت ہے (ازالۃ الخفاء صفحہ 204)۔ ایک دفعہ حج میں ایک سوار گاتا جا رہا تھا۔ لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ آپ اس کو منع نہیں کرتے۔ فرمایا کہ گانا شتر سواروں کا زاد راہ ہے (ازالۃ الخفاء صفحہ 19۔ خوات بن جبیر کا بیان ہے کہ ایک دفعہ سفر میں، میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا۔ ابو عبیدہ اور عبد الرحمٰن بن عوف بھی ہمرکاب تھے۔ لوگوں نے مجھ سے فرمائش کی کہ ضرار کے اشعار گا، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بہتر یہ ہے کہ اپنے اشعار گائیں چنانچہ میں نے گانا شروع کیا اور ساری رات گاتا رہا (ازالۃ الخفاء صفحہ 19

مزاج کی سختی

مزاج قدرتی طور پر نہایت تند، تیز اور زود مشتعل واقع ہوا تھا۔ جاہلیت کے زمانے میں تو وہ قہر مجسم تھے۔ لیکن اسلام کے بعد بھی مدتوں تک اس کا اثر نہیں گیا۔

غزوہ بدر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ مجھ کو معلوم ہے کافروں نے بنو ہاشم کو مجبور کر کے اپنے ساتھ لیا ورنہ وہ خود کبھی نہ آتے۔ اس لئے اگر ابو الخبری یا عباس وغیرہ کہیں نظر آئیں تو ان کو قتل نہ کرنا۔ ابو حذیفہ بول اٹھے کہ ہم اپنے باپ، بیٹے ، بھائی سے درگزر نہیں کرتے تو بنو ہاشم میں کیا خصوصیت ہے۔ واللہ اگر عباس مجھ کو ہاتھ آئیں گے تو میں ان کو تلوار کا مزہ چکھاؤں گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی یہ گستاخی ناگوار گزری۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مخاطب ہو کر فرمایا ابو حفص (حضرت عمر کی کنیت تھی) دیکھتے ہو، عم رسول کا چہرہ تلوار کے قابل ہے ؟ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے آپے سے باہر ہو گئے۔ اور کہا کہ ” اجازت دیجئے کہ میں اس کا سر اڑا دوں۔ ” ابو حذیفہ بڑے رتبہ کے صحابی تھے ، اور یہ جملہ اتفاقیہ ان کی زبان سے نکل گیا تھا۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے کچھ مؤاخذہ نہیں کیا۔

حاطب بن ابی بلتعہ ایک معزز صحابی تھے۔ اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ ایک ضرورت سے کفار مکہ سے خفیہ خط و کتابت کی۔ یہ راز کھل گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ برافروختہ ہو کر آنحضرت کے پاس پہنچے کہ یہ کافر ہو گیا ہے۔ مجھ کو اجازت دیجئے کہ اس کو قتل کر دوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ابن الخطاب تجھ کو معلوم نہیں۔ خدا نے اہل بدر سے کہہ دیا ہے کہ تم جو چاہو کرو۔ میں سب معاف کر دوں گا۔ ذوالخویصرہ ایک شخص نے ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے گستاخانہ کہا ” عدل اختیار کر” حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ غصے سے بیتاب ہو گئے۔ اور چاہا کہ اس کو قتل کر دیں۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے منع کیا۔

ان واقعات سے تم کو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ کس طرح ہر موقع پر ان کی تلوار نیام سے نکلی پڑتی تھی اور کافر تو کافر خود مسلمان کے ساتھ ان کا کیا سلوک تھا۔ لیکن السلام کی برکت اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی احتیاط اور خلافت کی مہمات نے ان کو رفتہ رفتہ نرم اور حلیم بنا دیا۔ یہاں تک کہ خلافت کے زمانے میں وہ کافروں تک کے ساتھ جس رحمدلی اور لطف کا برتاؤ کرتے تھے آج مسلمانوں سے مسلمان نہیں کرتے۔

آل اولاد کے ساتھ محبت

ان کی خانگی زندگی کے حالات کم معلوم ہیں۔ قرائن سے اس قدر ثابت ہے کہ وہ ازواج و اولاد کے بہت دلدادہ نہ تھے۔ اور خصوصاً ازواج کے ساتھ ان کو بالکل شغف نہ تھا۔ جس کی وجہ زیادہ یہ تھی کہ وہ عورتوں کی جس قدر عزت کرنی چاہیے تھی نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری باب اللباس میں خود ان کا قول مذکور ہے کہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں عورتوں کو بالکل ہیج سمجھتے تھے۔ جب قرآن نازل ہوا اور اس میں عورتوں کا ذکر آیا تو ہم سمجھے کہ وہ بھی کوئی چیز ہیں۔ تاہم ہم ان کو معاملات میں بالکل دخل نہیں دینے دیتے تھے۔ اسی روایت میں ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے اپنی بیوی کو سخت سست کہا۔ انہوں نے بھی برابر کا جواب دیا۔ اس پر کہا اب تمہارا یہ رتبہ پہنچا۔ وہ بولیں کہ تمہاری بیٹی بھی رسول اللہ سے دوبدو ایسی باتیں کرتی ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ کی ایک بیوی جمیلہ تھیں۔ ان کے بطن سے عاصم پیدا ہوئے۔ عاصم ابھی صغیرہ سن ہی تھے کہ حضرت عمر نے کسی وجہ سے ان کو طلاق دے دی۔ یہ حضرت ابو بکر کا زمانہ تھا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبا سے جہاں پہلے رہا کرتے تھے اٹھ کر مدینہ میں آ گئے۔ ایک دن اتفاق سے قباء کی طرف جا نکلے۔ عاصم بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو پکڑ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا۔ اور ساتھ لے جانا چاہا۔ عاصم کی ماں کو خبر ہوئی۔ وہ آن کر مزاحم ہوئیں کہ میرا لڑکا ہے۔ میں اپنے پاس رکھوں گی۔ جھگڑے نے طول کھینچا اور وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں فریادی بن کر آئیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف فیصلہ کیا اور اس لئے وہ مجبور ہو گئے۔ یہ واقعہ مؤطا امام مالک وغیرہ میں مذکور ہے۔ ان واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کے ساتھ ان کا سلوک محبت اور رحم کے اس پایہ کا نہ تھا جیسا کہ اور بزرگوں کا تھا۔ اولاد و اہل خاندان سے بھی ان کو غیر معمولی محبت نہ تھی۔ البتہ زید سے جو حقیقی بھائی تھے نہایت الفت تھی۔ چنانچہ جب وہ یمامہ کی لڑائی میں شہید ہوئے تو بہت روئے اور سخت قلق ہوا۔ فرمایا کرتے تھے کہ جب یمامہ کی طرف سے ہوا چلتی ہے تو مجھ کو زید کی خوشبو آتی ہے۔ عرب کا مشہور مرثیہ گو شاعر متمم بن نویرہ جب ان کی خدمت میں آتا تو فرمائش کرتے کہ زید کا مرثیہ کہو۔ مجھے کو تمہارے جیسا کہنا آتا تو میں خود کہتا۔

مسکن

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جیسا کہ ہم پہلے حصے میں لکھ ائے ہیں، مکہ سے ہجرت کی تو عوالی میں مقیم ہوئے جو مدینہ سے دو تین میل ہے۔ لیکن خلافت کے بعد غالباً وہاں کی سکونت بالکل چھوڑ دی اور شہر میں آ کر رہے۔ یہاں جس مکان میں وہ رہتے تھے وہ مسجد نبوی سے متصل باب السلام اور باب الرحمۃ کے درمیان میں واقع تھا۔ چونکہ مرنے کے وقت وصیت کی تھی کہ مکان بیچ کر ان کا قرض ادا کیا جائے۔ چنانچہ امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو خریدا اور قیمت سے قرض ادا کیا گیا۔ اس لئے یہ مکان مدت تک داراقضاء کے نام سے مشہور رہا (دیکھو خلاصۃ الوفا فی اخبار دار المصطفیٰ مطبوعہ مصر صفحہ 29 اور حاشیہ مؤطا امام محمد صفحہ 272)۔

وسائل معاش تجارت

معاش کا اصلی ذریعہ تجارت تھا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں ہے کہ حدیث استیذان کی لا علمی کا انہوں نے یہی عذر کیا کہ میں خرید و فروخت میں مشغول ہونے کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں کم حاضر ہوتا تھا۔ لیکن اور فتوحات بھی کبھی کبھی حاصل ہو جاتی تھیں۔ قاضی ابو یوسف نے کتاب الخراج میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ پہنچ کر ابو بکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو جاگیریں عطا کیں۔ خیبر جب فتح ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام صحابہ کو جو معرکہ میں شریک تھے تقسیم کر دیا۔

جاگیر

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حصے میں جو زمین آئی اس کا نام شمغ تھا اور وہ نہایت سیر حاصل زمین تھی۔ مؤرخ بلاذری نے لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کے تمام حصہ داروں کے نام ایک کتاب میں قلم بند کرائے تھے۔ یہود بنی حارثہ سے بھی ان کو ایک زمین ہاتھ آئی۔ اور اس کا نام بھی شمغ تھا۔ لیکن انہوں نے یہ دونوں زمینیں خدا کی راہ پر وقف کر دیں (خلاصۃ الوفاء لفظ شمغ)۔ خیبر کی زمین کے وقف کا واقعہ صحیح بخاری باب شروط فی الوقف میں مذکور ہے۔ وقف میں جو شرطیں کیں یہ تھیں۔ یہ زمین نہ بیچی جائے گی نہ ہبہ کی جائے گی۔ نہ وراثت میں منتقل ہو گی۔ جو کچھ اس سے حاصل ہو گا وہ فقراء ذوالقربی،۔ ۔ ۔ لام، مسافر اور مہمان کا حق ہے۔

مشاہرہ

خلافت کے چند برس بعد انہوں نے صحابہ کی خدمت میں مصارف ضروری کے لئے درخواست کی۔ اس پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رائے کے موافق اس قدر تنخواہ مقرر ہو گئی جو معمولی خوراک اور لباس کے لئے کافی ہو۔ ۱۵ ہجری میں جب تمام لوگوں کے روزینے مقرر ہوئے تو اور اکابر صحابہ کے ساتھ ان کے بھی پانچ ہزار درہم سالانہ مقرر ہو گئے۔

 

زراعت

معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر اول اول زراعت بھی کی تھی۔ لیکن اس طرح کہ کھیت بٹائی پر دے دیتے تھے۔ تخم خود مہیا کرتے تھے۔ اور کبھی شریک کے ذمے ہوتا تھا چنانچہ صحیح بخاری باب المزرعۃ میں یہ قواعہ بتصریح موجود ہے

غذا

غذا نہایت سادہ تھی، معمولاً روٹی اور روغن زیتون دسترخوان پر ہوتا تھا۔ روٹی اکثر گیہوں کی ہوتی تھی۔ لیکن آٹا اکثر چھانا نہیں جاتا تھا۔ عام القحط میں جو کا التزام کر لیا تھا۔ کبھی کبھی متعدد چیزیں دسترخوان پر ہوتی تھیں۔ گوشت، روغن زیتون، دودھ، ترکاری، سرکہ، مہمان یا سفراء آتے تھے تو کھانے کی ان کو تکلیف ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ایسی سادہ اور معمولی غذا کے عادی نہیں ہوتے تھے۔

لباس

لباس بھی معمولی ہوتا تھا۔ اکثر صرف قمیص پہنتے تھے۔ برنس ایک قسم کی ٹوپی تھی۔ جو عیسائی درویش اوڑھا کرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں بھی اس کا رواج ہو گیا تھا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی استعمال کرتے تھے۔ جوتی عربی وضع کی ہوتی جس میں تسمہ لگا ہوتا تھا۔

سادگی اور بے تکلفی

نہایت بے تکلفی اور سادگی سے رہتے تھے۔ کپڑوں میں اکثر پیوند ہوتا تھا۔ ایک دفعہ دیر تک گھر میں رہے۔ باہر آئے تو لوگ انتظار کر رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ پہننے کو کپڑے نہ تھے۔ اس لئے انہیں کپڑوں کو دھو کر سوکھنے ڈال دیا تھا۔ خشک ہو گئے تو وہی پہن کر باہر نکلے۔

لیکن ان تمام باتوں سے یہ نہیں خیال کرنا چاہیے کہ رہبانیت کو پسند کرتے تھے۔ اس باب میں ان کی رائے کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص جس کو انہوں نے یمن کا عامل مقرر کیا تھا۔ اس صورت سے ان سے ملنے کو آیا کہ لباس فاخرہ زیب تن تھا۔ اور بالوں میں خوب تیل پڑا ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت ناراض ہوئے اور وہ کپڑے اتروا کر موٹا کپڑا پہنایا۔ دوسری دفعہ آیا تو پریشان ہوا۔ اور پھٹے پرانے کپڑے پہن کر آیا۔ فرمایا کہ یہ بھی مقصود نہیں۔ آدمی کو نہ پراگندہ حال ہو کر رہنا چاہیے۔ نہ کہ پٹیاں جمانی چاہییں۔ حاصل یہ کہ نہ بیہودہ تکلفات اور آرائش کو پسند کرتے تھے ، نہ راہبانہ زندگی کو اچھا سمجھتے تھے۔

حلیہ

حلیہ یہ تھا کہ رنگ گندم گوں، قد نہایت لمبا، یہاں تک کہ سینکڑوں، ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں کھڑے ہوتے تو ان کا قد سب سے نمایاں ہوتا تھا۔ رخسارے کم گوشت، گھنی داڑھی، مونچھیں بڑی بڑی، سر کے بال سامنے سے اڑ گئے تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہر صیغہ میں جو جو نئی باتیں ایجاد کیں ان کو مؤرخین نے یکجا کر کے لکھا ہے اور ان کو اولیات سے تعبیر کرتے ہیں (اس میں سے اکثر اولیات کتاب الاوائل لابی ہلال العسکری اور تاریخ طبری میں یکجا مذکور ہیں۔ باقی جستہ جستہ موقعوں سے یکجا کی گئی ہیں)۔ چنانچہ ہم ان کے حالات کو انہی اولیات کی تفصیل پر ختم کرتے ہیں کہ اول بآخر  نسبتے دارد۔

1 – بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا۔

2 – عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کیے۔

3 – تاریخ اور سنہ ہجری کو رواج دیا جو آج تک جاری ہے۔

4 – امیر المومنین کا لقب اختیار کیا۔

5 – فوجی دفتر ترتیب دیا۔

6 – والنٹیروں کی تنخواہیں مقرر کیں۔

7 – دفتر مال قائم کیا۔

8 – زمینوں کی پیمائش جاری کی۔

9 – مردم شماری کرائی۔

10 – نہریں کھدوائیں۔

11 – شہر آباد کرائے یعنی کوفہ، بصرہ، جیزہ، فسطاط، موصل۔

12 – ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا۔

13 – عشور یعنی دہ یکی مقرر کی۔ اس کی تفصیل صیغہ محاصل میں گزر چکی ہے۔

14 – دریا کی پیداوار مثلاً عنبر وغیرہ پر محصول لگایا اور محصل مقرر کئے۔

15 – حربی تاجروں کو ملک میں آنے اور تجارت کرنے کی اجازت دی۔

16 – جیل خانہ قائم کیا۔

17 – درہ کا استعمال کیا۔

18 – راتوں کو گشت کر کے رعایا کے دریافت حال کا طریقہ نکالا۔

19 – پولیس کا محکمہ قائم کیا۔

20 – جا بجا فوجی چھاؤنیاں قائم کیں۔

21 – گھوڑوں کی نسل میں اصیل اور مجنس کی تمیز قائم کی جو اس وقت تک عرب میں نہ تھی۔

22 – پرچہ نویس مقرر کئے۔

23 – مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لئے مکانات بنوائے۔

24 – راہ پر پڑے ہوئے بچوں کی پرورش اور پرداخت کے لئے روزینے مقرر کئے۔

25 – مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے۔

26 – یہ قاعدہ قرار دیا کہ اہل عرب (گو کافر ہوں) غلام نہیں بنائے جا سکتے۔

27 – مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کئے۔

28 – مکاتب قائم کئے۔

29 – حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اصرار کے ساتھ قرآن مجید کی ترتیب پر آمادہ کیا اور اپنے اہتمام سے اس کام کو پورا کیا۔

30 – قیاس کا اصول قائم کیا۔

32 – فرائض میں عول کا مسئلہ ایجاد کیا۔

33 – فجر کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کا اضافہ کیا۔ چنانچہ مؤطا امام مالک میں اس کی تفصیل مذکور ہے۔

34 – نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔

35 – تین طلاقوں کو جو ایک ساتھ دی جائیں طلاق بائن قرار دیا۔

36 – شراب کی حد کے لئے اسی کوڑے مقرر کئے۔

37 – تجارت کے گھوڑوں پر زکوٰۃ مقرر کی۔

38 – بنو ثعلب کے عیسائیوں پر بجائے جزیہ کے زکوٰۃ مقرر کی۔

39–  وقف کا طریقہ ایجاد کیا۔

40 – نماز جنازہ میں چار تکبیروں پر تمام لوگوں کا اجماع کرا دیا۔

41 – مساجد میں وعظ کا طریقہ قائم کیا۔ ان کی اجازت سے تمیم دارمی نے وعظ کہا اور یہ اسلام میں پہلا وعظ تھا۔

42 – اماموں اور مؤذنوں کی تنخواہیں مقرر کیں۔

43 – مساجد میں راتوں کو روشنی کا انتظام کیا۔

44 – ہجو کہنے پر تعزیر کی سزا قائم کی۔

45 – غزلیہ اشعار میں عورتوں کے نام لینے سے منع کیا۔ حالانکہ یہ طریقہ عرب میں مدتوں سے جاری تھا۔

ان کے سوا اور بہت سی باتیں ان کی اولیات میں شامل ہیں جن کو ہم طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔

 

ازواج و اولاد

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاہلیت و اسلام میں متعدد نکاح کئے۔ پہلا نکاح عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہن زینب کے ساتھ ہوا۔ عثمان بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ سابقین صحابہ میں تھے ، یعنی اسلام لانے والوں میں ان کا چودھواں نمبر تھا۔ 2 ہجری میں وفات پائی اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کی وفات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ ان کی لاش کو بوسے دیتے تھے۔ اور بے اختیار روتے تھے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے بھائی قدامہ بھی اکابر صحابہ میں سے تھے۔ زینب مسلمان ہو کر مکہ معظمہ میں مریں۔ حضرت عبد اللہ اور حضرت حفصہ ان ہی کے بطن سے ہیں۔

دوسری بیوی قریبہ بنت ابی لیتہ المخزومی تھیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ محترمہ حضرت سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن تھیں۔ چونکہ یہ اسلام نہیں لائی تھیں، اور مشرک عورت سے نکاح جائز نہیں۔ اس لئے صلح حدیبیہ کے بعد 6 ہجری میں ان کو طلاق دے دی۔

تیسری بیوی ملیکۃ بنت جرول الخزاعی تھیں، ان کو ام کلثوم بھی کہتے ہیں۔ یہ بھی اسلام نہیں لائیں اور اس وجہ سے 6 ہجری میں ان کو بھی طلاق دے دی۔ عبد اللہ ان ہی کے بطن سے ہیں۔

زینب اور قریبۃ قریش کے خاندان سے اور ملیکہ خزاعہ کے قبیلہ سے تھیں۔ مدینہ میں آ کر انصار میں قرابت پیدا کی۔ یعنی 7 ہجری میں عاصم بن ثابت بن ابی الافلح جو ایک معزز انصاری تھے اور غزوہ بدر میں شریک رہے تھے ، ان کی بیٹی جمیلہ سے نکاح کیا۔ جمیلہ کا نام پہلے عاصیہ تھا۔ جب وہ اسلام لائیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے بدل کر جمیلہ نام رکھا۔ لیکن ان کو بھی کسی وجہ سے طلاق دے دی۔

حضرت ام کلثوم سے نکاح کرنا

اخیر عمر میں ان کو خیال ہوا کہ خاندان نبوت سے تعلق پیدا کریں۔ جو مزید شرف اور برکت کا سبب تھا۔ چنانچہ جناب امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حضرت کلثوم کے لئے درخواست کی۔ جناب ممدوح نے پہلے ام کلثوم کی صغر سنی کے سبب سے انکار کیا۔ لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیادہ تمنا ظاہر کی اور کہا کہ اس سے مجھ کو حصول شرف مقصود ہے تو جناب امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منظور فرمایا اور 17 ہجری میں 40 ہزار مہر پر نکاح ہوا۔ (حضرت ام کلثوم بنت فاطمہ کی تزویج کا واقعہ تمام معتمد مؤرخوں نے بتفصیل لکھا ہے۔ طبری نے تاریخ کبیر میں، ابن حبان نے کتاب الثقاۃ میں، ابن قتیبہ نے معارف میں، ابن اثیر نے کامل میں تصریح کے ساتھ لکھا ہے کہ ام کلثوم بنت فاطمہ زہرا حضرت عمر کی زوجہ تھیں۔ ایک دوسری ام کلثوم بھی ان کی زوجہ تھیں، لیکن ان دونوں میں مؤرخوں نے صاف تفریق کی ہے۔ علامہ طبری و ابن حبان و ابن قتیبہ کی تصریحات خود میری نظر سے گزری ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر تاریخی واقعات کے لئے اور کیا سند ہو سکتی ہے۔ وہ خاص عبارتیں اس موقع پر نقل کی جاتی ہیں۔ ثقات بن حبان ذکر خلافۃ عمر واقعات 17 ہجری میں ہے۔ ثم تزوج عمر ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب و ھی من فاطمۃ و دخل بھا فی شھر ذی القعدۃ۔ معارف بن قتیبہ ذکر اولاد عمر میں ہے و فاطمۃ و زید و امھما ام کلثوم بنت علی ابن ابی طالب من فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم۔ اسد الغابہ فی احوال الصحابہ لا بن الاثیر میں جہاں حضرت ام کلثوم کا حال لکھا ہے تفصیل کے ساتھ ان کی تزویج کا واقعہ نقل کیا ہے۔ اسی طرح طبری نے بھی جا بجا تصریح کی ہے کہ ہم طوالت کے خوف سے قلم انداز کرتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ صحیح بخاری میں ایک ضمنی موقع پر حضرت ام کلثوم کا ذکر آ گیا ہے جس کا واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ عورتوں کو چادریں تقسیم کیں۔ ایک بچ رہی۔ اس کی نسبت ان کو تردد تھا کہ کس کو دی جائے۔ ایک شخص نے ان سے مخاطب ہو کر کہا یا امیر المومنین اعط ھذا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم التی عندک یریدون ام کلثوم (صحیح بخاری باب الجہاد مطبوعہ میرٹھ صفحہ 403)۔ اس میں صاف تصریح ہے کہ ام کلثوم جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ تھیں خاندان نبوت سے تھیں)۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اور بیویاں بھی تھیں۔ یعنی ام حلیم بنت الحارث بن ہشام المخزومی، فکیھتہ یمنیہ عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل، عاتکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی چچیری بہن تھیں۔ ان کا نکاح پہلے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرزند عبد اللہ سے ہوا تھا۔ اور چونکہ نہایت خوبصورت تھیں۔ عبد اللہ ان کو بہت چاہتے تھے۔ عبد اللہ غزوہ طائف میں شہید ہو گئے۔ عاتکہ نے نہایت درد انگیز مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے۔

فالیت لا تنفک عینی حزینۃ
علیک ولا ینفک جلدی اغبرا

” میں نے قسم کھائی ہے کہ میری آنکھ ہمیشہ تیرے اوپر غمگین رہے گی اور بدن خاک آلود رہے گا۔ "

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 12 ہجری میں ان سے نکاح کیا۔ دعوت ولیمہ میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی شریک تھے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد کثرت سے ہوئی جن میں سے حضرت حفصہ اس لئے زیادہ ممتاز ہیں کہ وہ ازواج مطہرات میں داخل ہیں۔ ان کا نکاح پہلے خنیس بن حزافہ کے ساتھ ہوا تھا جو مہاجرین صحابہ میں سے تھے۔ خنیس جب غزوہ احد میں شہید ہوئے تو وہ ۳ ہجری میں جناب رسول اللہ کے عقد میں آئیں۔ ان سے بہت سی حدیثیں مروی ہیں اور بہت سے صحابہ نے ان سے یہ حدیثیں روایت کی ہیں۔ 45 ہجری میں 63 برس کی عمر پا کر انتقال کیا۔

اولاد ذکور

اولاد ذکور کے یہ نام ہیں۔ عبد اللہ، عبید اللہ، عاصم، ابو شحمہ عبد الرحمٰن، زید، مجیر رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ ان میں سے تین سابق الذکر زیادہ نامور ہیں۔

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ

حضرت عبد اللہ فقہ و حدیث کے بڑی رکن مانے جاتے ہیں۔ بخاری و مسلم میں ان کے مسائل اور روایتیں کثرت سے مذکور ہیں۔ وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ مکہ میں اسلام لائے اور اکثر غزوات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمرکاب رہے۔ علامہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں اور ابن خلکان نے دفیات الاعیان میں ان کا حال تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے ان کے علم و فضل اور زہد و تقدس کا اندازہ ہو سکتا ہے۔ علم و فضل کے علاوہ حق گوئی میں نہایت بیباک تھے۔ ایک دفعہ حجاج بن یوسف کعبہ میں خطبہ پڑھ رہا تھا۔ عین اسی حالت میں انہوں نے کھڑے ہو کر کہا کہ ” یہ خدا کا دشمن ہے کیونکہ اس نے خدا کے دوستوں کو قتل کیا ہے۔ ” چنانچہ اس کے انتقام میں حجاج نے ایک آدمی کو متعین کیا جس نے ان کو مسموم آلہ سے زخمی کیا۔ اور اسی زخم سے بیمار ہو کر وفات پائی۔ علامہ ذہبی نے لکھا ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا معاملہ حکم کے ہاتھ میں دے دیا تو لوگوں نے حضرت عبد اللہ سے آ کر کہا کہ تمام مسلمان آپ کی خلافت پر راضی ہیں۔ آپ آمادہ ہو جایئے تو ہم لوگ آپ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں۔ انہوں نے انکار کیا۔ اور کہا کہ میں مسلمانوں کے خون سے خلافت کو خریدنا نہیں چاہتا۔

سالم بن عبد اللہ

حضرت عبد اللہ کے بیٹے سالم فقہائے سبعہ یعنی مدینہ منورہ کے ان سات فقہاء میں سے محسوب ہوتے ہیں۔ جن پر حدیث و فقہ کا مدار تھا۔ اور جن کے فتوے کے بغیر کوئی قاضی فیصلہ کرنے کا مجاز نہ تھا۔ سالم کے علاوہ باقی چھ فقہاء کے نام یہ ہیں۔ خارجہ بن زید، عروہ بن الزبیر، سلیمان بن یسار، عبید اللہ بن عبد اللہ، سعید بن المسیب، قاسم بن محمد۔

یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ تمام محدثین کے نزدیک حدیث کے دو سلسلے سب سے زیادہ مستند ہیں، اور محدثین اس سلسلے کو ” زنجیر زر ” کہتے ہیں۔ یعنی اول وہ حدیث جس کی روایت کے سلسلے میں امام مالک، نافع، عبد اللہ بن عمر ہوں اور دوسری وہ حدیث جس کے سلسلے میں زہری، سالم اور عبد اللہ بن عمر واقع ہوں۔ امام مالک اور زہری کے سوا باقی تمام لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے گھرانے کے ہیں۔ عبد اللہ اور ان کے بیٹے سالم اور نافع حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے غلام تھے۔

عبید اللہ

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دوسرے بیٹے عبید اللہ شجاعت اور پہلوانی میں مشہور تھے۔

عاصم

تیسرے بیٹے عاصم نہایت پاکیزہ نفس اور عالم و فاضل تھے۔ ۷ ہجری میں جب انہوں نے انتقال کیا تو حضرت عبد اللہ بن عمر نے ان کا مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے۔

فلیت المنایا کن خلفن عاصماً
فعشنا جمیعاً او ذھبن بنا معاً

"کاش موت عاصم کو چھوڑ جاتی تا کہ ہم سب ساتھ رہتے یا لے جاتی تو سب کو لے جاتی۔ "

عاصم نہایت بلند قامت اور جسیم تھے اور عمدہ شعر کہتے تھے۔ چنانچہ اہل ادب کا قول ہے کہ شاعر کو کچھ نہ کچھ وہ الفاظ بھی لانے پڑتے ہیں جو مقصود نہیں ہوتے۔ لیکن عاصم اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حضرت عمر بن عبد العزیز ان ہی کے نواسے تھے۔ ابن قتیبہ نے کتاب المعارف میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پوتوں، پڑپوتوں اور نواسوں کا حال بھی لکھا ہے۔ لیکن ہم اختصار کے لحاظ سے قلم انداز کرتے ہیں۔

خاتمہ

لیس من اللہ بمستکر
ان یجمع العالم فی واحد

"خدا کی قدرت سے یہ کیا بعید ہے کہ تمام عالم کو ایک فرد میں جمع کر دے۔

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح اور حالات تفصیل کے ساتھ اور اس صحت کے ساتھ لکھے جا چکے ہیں جو تاریخی تصنیف کی صحت کی اخیر حد ہے۔ دنیا میں اور جس قدر بڑے بڑے نامور گزرے ہیں ان کی مفصل سوانح عمریاں پہلے سے موجود ہیں۔ یہ دونوں چیزیں اب تمہارے سامنے ہیں اور تم کو اس بات کے فیصلہ کرنے کا موقع ہے کہ تمام دنیا میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کوئی ہم پایہ گزرا ہے یا نہیں؟

قانون فطرت کے نکتہ شناس جانتے ہیں کہ فضائل انسانی کی مختلف انواع ہیں۔ اور ہر فضیلت کا جدا راستہ ہے۔ ممکن ہے بلکہ کثیر الوقوع ہے کہ ایک شخص فضیلت کے لحاظ سے تمام دنیا میں اپنا جواب نہیں رکھتا تھا۔ لیکن اور فضائل سے اس کو بہت کم حصہ ملا تھا۔ سکندر سب سے بڑا فاتح تھا۔ لیکن حکیم نہ تھا۔ ارسطو حکیم تھا لیکن کشور کشا نہ تھا۔ بڑے بڑے کمالات تو ایک طرف چھوٹی چھوٹی فضیلتیں بھی کسی ایک شخص میں مشکل سے جمع ہوتی ہیں۔ بہت سے نامور گزرے ہیں جو بہادر تھے مگر پاکیزہ اخلاق نہ تھے۔ بہت سے پاکیزہ اخلاق تھے ، لیکن صاحب تدبیر نہ تھے۔ بہت سے دونوں کے جامع تھے لیکن علم و فضل سے بے بہرہ تھے۔

اب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حالات اور مختلف حیثیتوں پر نظر ڈالو تو صاف نظر آئے گا وہ سکندر بھی تھے اور ارسطو بھی۔ ۔ ۔ ۔ مسیح بھی تھے سلیمان بھی تھے اور نوشیرواں بھی امام ابو حنیفہ بھی تھے اور ابراہیم ادہم بھی۔

سب سے پہلے حکمرانی اور کشور کشائی کی حیثیت کو لو۔ دنیا میں جس قدر حکمران گزرے ہیں ہر ایک کی حکومت کی تہہ میں کوئی مشہور مدبر یا سپہ سالار مخفی تھا۔ یہاں تک کہ اگر اتفاق سے وہ مدبر یا سپہ سالار نہ رہا تو دفعتہً فتوحات بھی رک گئیں یا نظام حکومت کا ڈھانچہ ہی بکھر گیا۔

سکندر ہر موقع پر ارسطو کی ہدایتوں کا سہارا لے کر چلتا تھا۔ اکبر کے پردے میں ابو الفضل اور ٹوڈر مل کام کرتے تھے۔ عباسیہ کی عظمت و شان برامکہ کے دم سے تھی۔ لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو صرف اپنے دست و بازو کا بل تھا۔ خالد کی عجیب غریب معرکہ آرائیوں کو دیکھ کر لوگوں کو خیال پیدا ہو گیا کہ فتح و ظفر کی کلید انہی کے ہاتھ میں ہے لیکن جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو معزول کر دیا تو کسی کو احساس تک نہ ہوا کہ کل میں سے کون سا پرزہ نکل گیا ہے۔ سعد بن وقاص فاتح ایران کی نسبت بھی لوگوں کو ایسا وہم ہو چلا تھا۔ وہ بھی الگ کر دیئے گئے۔ اور کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگی۔ یہ سچ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خود سارا کام نہیں کرتے تھے اور نہ کر سکتے تھے لیکن جن لوگوں سے کام لیتے تھے ان میں سے کسی کے پابند نہ تھے۔ وہ حکومت کی کل کو اس طرح چلاتے تھے کہ جس پرزے کو جہاں سے چاہا نکال لیا۔ اور جہا ں چاہا لگا دیا۔ مصلحت ہوئی تو کسی پرزے کو سرے سے نکال دیا۔ اور ضرورت ہوئی تو نئے پرزے تیار کر لئے۔

دنیا میں کوئی حکمران ایسا نہیں گزرا جس کو ملکی ضرورتوں کی وجہ سے عدل و انصاف کے حد سے تجاور نہ کرنا پڑا ہو۔ نوشیرواں کو زمانہ عدل و انصاف کا پیغمبر تسلیم کرتا ہے لیکن اس کا دامن بھی اس سے پاک نہیں۔ بخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تمام واقعات کو چھان ڈالو اس قسم کی ایک نظیر بھی نہیں مل سکتی۔

دنیا کے اور مشہور سلاطین جن ممالک میں پیدا ہوئے۔ وہاں مدت سے حکومت کے قواعد اور آئین قائم تھے۔ اور اس لئے ان سلاطین کو کوئی نئی بنیاد نہیں قائم کرنی پڑتی تھی۔ قدیم انتظامات یا خود کافی ہوتے تھے یا کچھ اضافہ کر کے کام چلا لیا جاتا تھا۔ بخلاف اس کے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جس خاک سے پیدا ہوئے وہ ان چیزوں کے نام سے بھی ناآشنا تھی۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے 40 برس تک حکومت و سلطنت کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا اور آغاز شباب تو اونٹوں کے چرانے میں گزرا تھا۔ ان حالات کے ساتھ ایک وسیع مملکت قائم کرنا اور ہر قسم کے ملکی انتظامات مثلاً تقسیم صوبجات و اضلاع کا انتظام محاصل صیغہ عدالت، فوج داری اور پولیس، پبلک ورکس، تعلیمات، صیغہ فوج کو اس قدر ترقی دینا اور ان کے اصول اور ضابطے مقرر کرنا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کس کا کام ہو سکتا ہے۔

تمام دنیا کے تاریخ میں کوئی ایسا حکمران دکھا سکتے ہو؟ جس کی معاشرت یہ ہی کہ قمیض میں دس دس پیوند لگے ہوں۔ کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھر کر آتا ہو۔ فرش خاک پر پڑ کر سو رہتا ہو۔ بازاروں میں ناپ تول کی دیکھ بھال کرتا پھرتا ہو۔ ہر جگہ جریدہ و تنہا چلا جاتا ہو۔ اونٹوں کے بدن پر اپنے ہاتھ سے تیل ملتا ہو۔ جس کا دربار، نقیب و چاؤش، حشم و خدم کے نام سے آشنا نہ ہو۔ اور پھر یہ رعب و داب ہو کہ عرب و عجم اس کے نام سے لرزتے ہوں اور جس طرف رخ کرتا ہو زمین دھل جاتی ہو۔ سکندر و تیمور تیس تیس ہزار فوج رکاب میں لے کر نکلتے تھے۔ جب ان کا رعب قائم ہوتا تھا۔ عمر فاروق کے سفر شام میں سواری کے اونٹ کے سوا کچھ ساتھ نہ تھا۔ لیکن چاروں طرف غل پڑا ہوا تھا کہ مرکز عالم جنبش میں آ گیا ہے۔

اب علمی حیثیت پر نظر ڈالو۔ صحابہ میں سے جن لوگوں نے خاص اس کام کو لیا تھا اور رات دن اسی شغل میں بسر کرتے تھے۔ مثلاً عبد اللہ بن عباس، زید بن ثابت، ابو ہریرہ، عبد اللہ بن عمر، عبد اللہ بند مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور ان کے مسائل اور اجتہادات کا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسائل اور اجتہاد سے موازنہ کرو۔ صاف مجتہد و مقلد کا فرق نظر آئے گا۔ زمانہ مابعد میں اسلامی علوم نے بے انتہا ترقی کی اور بڑے بڑے مجتہدین اور ائمہ فن پیدا ہوئے۔ مثلاً امام ابو حنیفہ، شافعی، بخاری، غزالی رازی۔ لیکن انصاف سے دیکھو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس باب میں جو کچھ ارشاد فرمایا اس پر کچھ اضافہ نہ ہو سکا۔ مسئلہ قضا و قدر، تعظیم شعائر اللہ، حیثیت نبوت، احکام شریعت کا عقلی و نقلی ہونا، احادیث کا درجہ اعتبار، خبر آحاد کی قابلیت احتجاج، احکام خمس و غنیمت، یہ مسائل شروع اسلام سے آج تک معرکہ آراء رہے ہیں۔ اور ائمہ فن نے ان کے متعلق ذہانت اور طباعی کا کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا ہے۔ لیکن انصاف کی نگاہ سے دیکھو۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان مسائل کو جس طرح حل کیا تھا۔ تحقیق کا ایک قدم بھی اس سے آگے بڑھ سکا؟ تمام ائمہ فن نے ان کی پیروی کی یا انحراف کیا تو اعلانیہ غلطی کی۔

اخلاق کے لحاظ سے دیکھو تو انبیاء کے بعد اور کون شخص ان کا ہم پایہ مل سکتا ہے ؟ زہد و قناعت، تواضع و انکساری، خاکساری و سادگی، راستی و حق پرستی، صبر و رضا، شکر و توکل یہ اوصاف ان میں جس کمال کے ساتھ پائے تھے کیا لقمان، ابراہیم بن ادہم، ابو بکر شبلی، معروف کرخی میں اس سے بڑھ کر پائے جا سکتے ہیں؟

شاہ ولی اللہ صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس خصوصیت (یعنی جامعیت کمالات) کو نہایت خوبی سے بیان کیا ہے اور ہم اسی پر اپنی کتاب کو ختم کرتے ہیں۔ وہ تحریر فرماتے ہیں۔

سینہ فاروق اعظم را بمنزلہ خانہ تصور کن کہ درہائے مختلف دارد، در ہر ورے صاحب کمالے نشستہ دریک در مثلاً سکندر ذوالقرنین بآں ہمہ سلیقہ ملک گیری و جہاں ستانی و جمع جیوش و برہم زدن اعداء و در دریگر نوشیروانے بآں ہمہ رفق و لین و رعیت پروری و داد گستری (اگرچہ ذکر نوشیرواں در مبحث فضائل حضرت فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سوء ادب است) و در در دیگر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ یا امام مالک رحمۃ اللہ بآں ہمہ قیام بہ علم فتویٰ و احکام و در در دیگر مرشدے مثل سید عبد القادر جیلانی یا خواجہ بہاؤ الدین و در در دیگر محدثے بروزن ابو ہریرہ ابن عمر د و در در دیگرے حکیمے مانند مولانا جلال الدین رومی یا شیخ فرید الدین عطارد مرد ماں گردا گرد ایں خانہ ایستادہ اند۔ وہر محتاجے حاجت خودرا از صاحب فن درخواست می نمایدد و کامیاب می گردو۔

شبلی نعمانی

مقام کشمیر

5 جولائی 1898 عیسوی

ختم شد

***

ٹائپنگ: محمد شمشاد خاں

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید