FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

 

خُوشبو کا سفر

 

 

 

طارق محمود مرزا

 

 

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

والد صاحب مرحوم

کے نام

جنہوں نے میرے ہاتھ میں قلم پکڑایا

 

 

 

 

 

کل کے اندیشوں سے اپنے دِل کو آزُردہ نہ کر

دیکھ یہ ہنستا ہوا موسم، یہ خُوشبو کا سفر

فرازؔ

 

 

 

’’خوشبو کا سفر‘‘ ضخیم بھی ہے، پُر اثر بھی ہے، مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی!

اسلامی معاشرے میں سیر و سیاحت کو ہمیشہ اہمیت حاصل رہی ہے۔ علمِ جغرافیہ سے گہری وابستگی اور فنِ جہاز رانی پر کامل دسترس نے فرمانِ الٰہی ’’سِیرو فِی الارض‘‘ پر عمل پیرا ہونے میں مسلمانوں کی پوری اعانت کی ہے۔ سفر کو وسیلۂ ظفر بنانے والے مسلم سیاح کچھ سیکھنے اور کچھ سکھانے کا جذبۂ فراواں لے کر دنیا کے دور دراز گوشوں تک پہنچتے رہے۔ ہر خطۂ زمیں کا سفر ہی انہیں مرغوبِ خاطر نہ تھا، وہاں کی تہذیب و تمدن کا غائر مطالعہ بھی اُن کے پیشِ نظر رہتا تھا۔ یہی نہیں، معاشرت و معیشت کے رنگارنگ پہلوؤں پر مبنی ایسا سفر نامہ وہ لکھ گئے جس نے اس صنف کو ابد الآباد تک کے لئے زندگیِ جاوداں عطا کر دی۔ ایسے سفر نامے لکھنے والوں میں المسعودی، ابو زید سیرانی، البیرونی، ابنِ بطوطہ اور ناصر الدین شاہ قاچار کے نام خاصے نمایاں ہیں۔ خواہ عربی ہو یا فارسی، ان زبانوں میں سفر ناموں کا ایک ایسا سلسلہ دراز ملے گا جو مسلمانوں کے شوق و جذبے کی جیتی جاگتی تصویر ہے اور ماہ و سال کی دبیز گرد بھی اس کی تابناکی کو ماند نہیں کر سکی ہے۔ اُردو زبان میں ’’سفر نامہ‘‘ کی صنف اپنی پوری تابانی کے ساتھ جلوہ گر رہی ہے۔ اس کی جڑیں ماضی بعید میں دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یوسف خان کمبل پوش، سرسید احمد خان، خواجہ حسن نظامی اور مولانا شبلی نعمانی نے اپنے اپنے وقت میں سفری روداد لکھ کر اس فن کو آگے بڑھایا ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس صنف کو پروان چڑھانے میں اُردو کے کئی ادیب پیش پیش رہے ہیں۔

آج اس صنفِ ادب کے افق پر ایک اور ستارہ اُبھرا ہے۔ میری مراد طارق محمود مرزا سے ہے جو ’’خوشبو کا سفر‘‘ لے کر رودادِ سفر سنانے آئے ہیں۔ گوجر خان کے اس سپوت نے آسٹریلیا کے وسیع و عریض بر اعظم میں اپنی افسانی نگاری، کالم نویسی، صحافتی فنکاری سے اردو زبان کا پھریرا تو لہرا ہی دیا تھا، اب دیگر مغربی ملکوں کی خاک چھان کر ایسا سفر نامہ پاکستان کی قومی زبان کی جھولی میں ڈال دیا ہے جو ضخیم بھی ہے، پُر اثر بھی ہے، مبسوط بھی ہے اور پُر بہار بھی!

کچھ سفر محض اس غرض سے کئے جاتے ہیں:

’’ٹک دیکھ لیا، دل شاد کیا، خوش وقت ہوئے اور چل نکلے‘‘

لیکن طارق صاحب کا سفر ’’چیزے دیگر است‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ ان کا تحریر کردہ ’’خوشبو کا سفر‘‘ ایسی تحریر کا درجہ رکھتا ہے جو مختلف ملکوں کے سیاسی حالات، طرزِ جہاں بانی، لوگوں کے رہن سہن، تہذیب و تمدن اور نظریاتِ زندگی کا ٹھوس ثبوت فراہم کرتی ہے۔ اس سفر نامے نے ہر خطے کے باسیوں کا خط و خال اور نگ و روپ اُجال دیا ہے۔ طارق صاحب نے وہاں کے رہنے والوں کے من میں جھانک شعور کی رو ’’خوئے حوا‘‘ کے جلترنگ کو بھی ’’گننے‘‘ کی کوشش کی ہے۔ قدِ آدم شیشوں میں سجی سجائی اور ’’قدرتی لباس‘‘ میں ملبوس جیتی جاگتی حسیناؤں کے انگ انگ کو دستِ نگاہ سے مَس بھی کیا ہے۔ مگر قابل تعریف ہیں کہ اُردو کے صوفی منش شاعر خواجہ میر دردؔ کے مشہورِ زمانہ شعر کو اپنے اوپر ’’لاگو‘‘ ہی نہ ہونے دیا

اتنی نہ بڑھا پاکیِ داماں کی حکایت

دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ

ان کا دامن بھی سلامت رہا، بندِ قبا بھی بند کا بند رہا اور یہ حضرت تمام جل پریوں کے رنگا رنگ سائے سے خود کو بچاتے ہوئے سڈنی پہنچ گئے اور ہمارے ہاتھوں میں ایسا ضخیم سفر نامہ پکڑا گئے جو ایک تہذیب کا اُجالا بھی ہے اور ایک تہذیب کا زخم بھی!

پروفیسر ڈاکٹر محمود الرحمن

علامہ اقبال یونیورسٹی، اسلام آباد

۷ اپریل ۲۰۰۸ء

 

 

 

 

یہ سفر بذاتِ خود ایک حسین گلدستہ کہا جا سکتا ہے

 

یہ طارق مرزا صاحب کا سفر نامہ ہے۔ مرزا صاحب کی شخصیت علمی اور ادبی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ سڈنی کی معروف ادبی شخصیت ہیں۔ ان کے افسانے، کہانیاں اور کالم مختلف اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ اردو سوسائٹی آف آسٹریلیا (سڈنی) کے سرگرم رکن بھی ہیں۔ آپ نے یہ سفر ایک ٹورسٹ گروپ کے ساتھ کیا تھا جس میں مختلف مزاج، مذہب اور ملکوں کے سیاح شامل تھے۔ اس طرح یہ سفر بذاتِ خود ایک حسین گلدستہ کہا جا سکتا ہے۔ عام طور پر سفر ناموں میں مناظر اور اپنے سفر کا حالات کو بیان کیا جاتا ہے لیکن اس کتاب کے مصنف کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے صرف منظر نامہ ہی بیان نہیں کیا بلکہ معاشی، معاشرتی، سیاسی، سماجی، ادبی، ثقافتی، ہر موضوع پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ جس میں علم اور حقیقت دونوں موجود ہیں۔ اس طرح قاری بے شمار معلومات کے ساتھ، انسانی زندگی کی محرومیاں، پردیس کے دکھ، اپنوں کی بے وفائی، ہمت اور محنت کی داستانیں، نارسائی، جذبے، کوشش و جد و جہد، بیرونِ ملک پاکستانیوں کی تگ و دو کی اصلی اور سچی تصویر پیش کی ہے کہ قاری تحریر کے ساتھ بہتا چلا جاتا ہے اور خود کو اس سفر میں ان کا ہم سفر سمجھ لیتا ہے۔ زبان خوبصورت، محاوروں کا بر موقع استعمال اور آسان فہم ہے۔ بوجھل اور ثقیل الفاظ بہت کم ہیں۔ دوستوں کی بے تکلفی، اعتبار، انتظار اور دوستی ایک جوئے بے کنار کی طرح اپنے مہمان کو دامنِ الفت میں سمیٹ لیتی ہے۔ پردیس میں رہنے والے جب کسی پاکستانی کو ملتے ہیں تو کس طرح چشم و دل فرشِ راہ کرتے ہیں اس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ مرزا صاحب نے اس جذبے کی بے مثال عکاسی کی ہے۔ یہ پردیسی اپنے وطن اور پیاروں کی جدائی کا بوجھ بھی اٹھاتے ہیں۔ اس معاشرے کی قدروں کا بھرم بھی رکھتے ہیں اور زرِ مبادلہ کما کر اپنے وطن بھی ارسال کرتے ہیں۔ مصروف زندگی اور نو سے پانچ بجے تک کام کی درست تصویر کشی کی ہے۔ مثلاً ’’میں سوچ رہا تھا کہ چاچا محمد علی اور ان جیسے دوسرے بزرگوں کا بڑھاپے میں ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے ان کے سامنے زندگی کا کوئی نصب العین باقی نہیں رہ جاتا، وہ زندگی برائے زندگی گزارتے ہیں۔ جنہوں نے ساری زندگی جسمانی اور دماغی محنت کی ہوتی ہے۔ اچانک ایک دن انہیں سب ذمہ داریوں، خود مختاریوں اور قوتِ فیصلہ سے محروم ہو کر ایک کونے میں بیٹھنا پڑتا ہے تو زندگی کا ہر رنگ ان کے لئے پھیکا پڑ جاتا ہے اور زندگی ان کے لئے صرف شب و روز کا تسلسل بن کر رہ جاتی ہے۔ جس زندگی کا کوئی واضح مقصد نہ ہو اس میں اور موت کے درمیان فرق نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے‘‘

اس میں مصنف نے زندگی کی ایک بڑی زخمی حقیقت بیان کر دی ہے یہ صرف بیرونِ ملک ہی نہیں بلکہ پاکستان میں بھی یہی ہوتا ہے۔ یہ شعور پہ ایک دستک ہے کہ ان لوگوں کی بھی ایک تنظیم ہونی چاہیے اور ان کو معاشرے کا فعال حصہ بنایا جائے تاکہ ان کی محرومی کا ازالہ ہو سکے۔ کیونکہ آج جو لوگ جوان ہیں اور ادھیڑ عمر ہیں وہ بھی رفتہ رفتہ عمر کے اسی حصے میں داخل ہونے والے ہیں۔ یہ زندگی کا تسلسل ہے جو جاری رہتا ہے۔ اس لئے جیسے ان کے یہاں کلب ہوتے ہیں اور مختلف مشاغل مہیا کئے جاتے ہیں اور رضاکارانہ کاموں میں یہ لوگ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے معاشرے میں بھی انہیں زندگی کے دھارے میں شامل رکھنا چاہیے۔

یورپ کی تہذیب کا ذکر نہ کرتے تو یہ سفر نامہ ادھورا رہتا۔ بقول علامہ اقبالؔ

ان کی تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی

جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا

جولی اور مولی دو نوجوان لڑکیوں کا ذکر پڑھ کر اُردو داں قاری سوچتا ہے کہ اس ماحول میں پل کر ہماری نوجوان نسل کیسے بچ پائے گی۔ اخلاق اور کردار قوموں کی زندگی میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ بحیثیت مجموعی طارق مرزا کی کتاب ہاتھ میں لے کر پڑھے بغیر چھوڑی نہیں جا سکتی۔ یہ صرف یورپ کی سیر ہی نہیں معلومات کا خزانہ، تہذیبِ مغرب کی ایک جھلک اور نوحہ بھی ہے۔ اس کی چمک دمک کے پردے میں کیسے ناسور ہیں۔

مرزا صاحب مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے سڈنی کی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر اردو قارئین کو اس کتاب کا خوبصورت تحفہ دیا۔

لداخ کے دور دراز سے آنے والا گل خان جو اب ہالینڈ میں ایک بہت بڑا تاجر ہے کا ذکر ہمارا سر فخر سے بلند کر دیتا ہے۔ افضل خان کی کہانی ہر پاکستانی کو پڑھنی چاہیے۔ کیوپڈ کے تیر سے زخمی ہونے والوں کو عشق نے کہاں سے اٹھایا اور کہاں لے گیا۔ زندگی کے یہ سارے دھنک رنگ اس کتاب میں پھیلے ہوئے ہیں جو خوشبو کی طرح آپ کی روح کو معطر کر دیتے ہیں۔

یہ ایسی کتاب ہے کہ جسے بار بار پڑھا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جو یورپ کی سیر کو جانا چاہتے ہیں اگر یہ معلومات آپ کے ہمراہ ہوں گی تو آپ ان جگہوں کو یاد رکھیں گے۔ کیونکہ دیارِ غیر میں حلال فوڈ تلاش کرنا خاصا مسئلہ ہوتا ہے اگر یہ کتاب آپ کے ساتھ ہو گی تو یہ تسکینِ مطالعہ کے علاوہ گائیڈ کا کام بھی کرے گی۔

ڈاکٹر شگفتہ نقوی، ملبورن آسٹریلیا

 

 

 

 

خوشبو کا سفر رُکتا نہیں

 

میں نے خوشبو کا سفر تفصیل سے اور دلچسپی سے پڑھی ہے۔ خوشبو کا سفر رکتا نہیں، ہوائیں اس کو لے کر پھرتی ہیں اور فضائیں اسے اپنے گلے لگاتی ہیں۔ مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ بڑے عرصے بعد ایک ایسا سفر نامہ پڑھنے کا موقع ملا جسے گھر بیٹھے نہیں لکھا گیا بلکہ انتہائی دلچسپ سفر کے بعد تحریر کیا گیا۔ ویسے بھی یہ کتاب اپنے آپ کو پڑھواتی ہے اس میں اتنی سلاست ہے، اتنی روانی ہے، اتنی دلچسپی ہے، اتنی ندرت ہے، اتنی قدرت بیان ہے، اتنی حیرتیں ہیں۔ فی الواقعہ کتاب تحریر اور واقعات کے لحاظ سے دلچسپ اور بھرپور ہے۔ سفر زندگی کا حصہ ہے۔ انسان کا پہلا سفر تو وہ ہے جس کے بارے میں علامہ اقبالؔ نے کہا تھا

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں

کار جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

حضرت ابراہیم کو سفر کے نتیجے میں پیغمبری ملی، موسی علیہ السلام کا نیل کی موجوں پر سفر، نبی کریمﷺ کا شام اور ہجرت کا سفر اور آپﷺ کا وہ سفر جس کے بارے میں اقبالؔ نے کیا تھا۔

سبق ملا ہے یہ معراج مصطفیﷺ سے مجھے

کہ عالم بشریت کی زد میں گردوں

سفر ہر کوئی کرتا ہے لیکن سفر نامہ کوئی کوئی لکھتا ہے۔ یہ آسان کام نہیں ہے فی الحقیقت یہ ساری اصناف سخن میں سب سے مشکل کام ہے۔ طارق مرزا نے مشکل کام کس آسانی سے کر دکھایا۔ ’خوشبو کے سفر، میں افسانہ بھی ہے، ڈرامہ بھی ہے، مکالمہ، شاعری، منظر نگاری، خاکہ نگاری بھی ہے۔ نثر شاعرانہ ہے، منظر نگاری اتنی دلکش ہے کہ موصوف کا سراپا نظروں کے سامنے آ جاتا ہے اور پھر مصنف خود کو اس منظر سے اتنی خوبصورتی سے الگ کرتا ہے کہ ایک دلچسپ سین بیان کرتے کرتے ٹرین درمیان سے گزار دیتا ہے۔

خوشبو کا سفر میں مغرب کا کرب بیان کیا ہے جو اوپر سے خوشحال اور خوش دکھائی دیتا ہے لیکن اندر سے جھانک کر دیکھا جائے تو اس میں ہر سو خار چبھے نظر آتے ہیں لیکن بد قسمتی دیکھئے کہ وہ اپنی خار زرہ تہذیب ہمارے اوپر مسلط کی جا رہی ہے۔ ثقافتی دہشت گردی ملاحظہ فرمایئے کہ تہذیب مشرق کی خوبصورت روایات کو پامال کر کے ویلنٹائن ڈے، نیو ائر، لو میرج، شادی کے بغیر بے رکاوٹ میل جول، شراب و شراب سے آلودہ مخلوط پارٹیاں، ڈش، انٹرنیٹ، سیٹلائٹ اور ٹی وی کے ذریعے ہماری تہذیب اور دین پر نقب لگائی جا رہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ بقول اقبالؔ

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا

سنا ہے میں نے قدسیوں سے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا

ہماری قوم کب ہوشیار ہو گی؟ یہ سوال ہے خوشبو کے سفر کا!

میں مبارک باد دیتا ہوں طارق محمود مرزا کو ان کی بہترین تصنیف پر اور دعا کرتا ہوں کہ خوشبو کے سفر کی شہرت ہر جگہ سنائی دے۔

 

ڈاکٹر فرید احمد پراچہ

صدر حلقہ علم و ادب پاکستان

 

 

 

 

پیش لفظ

 

اس ہزاروی کے شروع میں میں سیاحت کی غرض سے یورپ کے سفر پر گیا۔ دورانِ سفر کچھ ایسے دلچسپ تجربات پیش آئے کہ میرے دل میں اس سفر کے واقعات کو قلمبند کرنے کی خواہش اُبھری۔ اسی خواہش کے زیرِ اثر سفر کے دوران میں یہ واقعات اور تجربات نوٹ کرتا رہا۔ مصروفیت کی وجہ سے دو تین سال تک میں اس خواہش کو عملی جامہ نہ پہنا سکا۔ اس تاخیر کی ایک وجہ اور بھی تھی۔ وہ وجہ میرے اندر اُٹھنے والا یہ سوال تھا کہ کیا یہ کتاب قابلِ اشاعت ہو گی یا نہیں۔ اِس دوران آسٹریلیا اور پاکستان کے اخبارات و رسائل میں میری دوسری کئی تحریریں مسلسل چھپتی رہیں۔ ان تحریروں کو پڑھ کر مختلف لوگوں کا مختلف ردِ عمل سامنے آتا رہا۔ ان میں کچھ تو عام قاری تھے اور کچھ اہلِ قلم بھی تھے۔ ان اہلِ قلم میں بھارت سے تعلق رکھنے والے آسٹریلیا کے جانے مانے اُردو ادیب اور شاعر اوم کرشن راحتؔ بھی شامل تھے۔ میرا ایک مضمون ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ پڑھ کر انہوں نے از راہِ شفقت مجھے خط لکھا۔ جس میں انہوں نے مجھے حکم دیا کہ آ کر اُن سے ملوں۔ اُن کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے میری تحریر کی خوبیوں اور خامیوں پر روشنی ڈالی۔ اس کے ساتھ ہی فرمایا کہ ان خامیوں کے باوجود یہ ایک بہت اچھی ادبی تحریر ہے، اِس سلسلے کو جاری رکھو۔ ان کا یہ فرمان میرے لئے سند سے کم نہ تھا۔ ان کے علاوہ اُردو سوسائٹی آف آسٹریلیا کے دوسرے دوستوں نے بھی حوصلہ افزائی کی۔ ان میں سے اکثر صاحبِ کتاب اور بہت اچھے لکھاری ہیں۔ ان احباب کی حوصلہ افزائی سے میرے اندر حوصلہ بڑھتا رہا اور میں ادب کی مختلف صنفوں میں طبع آزمائی کرتا رہا۔ اس دوران میری تحریریں آسٹریلیا، پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسالوں میں چھپتی رہیں۔

2001 میں میں نے آسٹریلیا کے سب سے بڑے اُردو اخبار پندرہ روزہ اوورسیز کی ادارت سنبھالی۔ یہ پندرہ روزہ میگزین نما اخبار تھا۔ اس میں حالاتِ حاضرہ کے ساتھ ساتھ ادبی تحریروں کی بھی گنجائش تھی۔ اس میں آسٹریلیا بھر کے بہترین اُردو قلمکار حصہ لیتے تھے۔ یوں تو اوورسیز میں میری مختلف نوع کی بے شمار تحریریں شائع ہوئیں۔ لیکن میرے دو مستقل سلسلے بہت مقبول ہوئے۔ ان میں سے ایک میرے کالموں پر مشتمل مستقل سلسلہ ’صدائے جرس، تھا۔ جس میں مختلف موضوعات پر میں نے بہت سارے کالم لکھے۔ ان میں سے زیادہ تر ادبی مضامین تھے۔ ’’یہ نہ تھی ہماری قسمت‘‘ بھی اُنہی میں سے ایک تھا۔ جسے پڑھ کر اوم کرشن راحتؔ صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔

دوسرا سلسلہ یہی سفر نامہ تھا جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ اُسے میں نے اوورسیز میں قسط وار لکھنا شروع کیا۔ اوورسیز بڑی تعداد میں چھپتا تھا اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ہر شہر میں پہنچتا تھا۔ اس سفر نامے کو قارئین نے بہت زیادہ پسند کیا۔ اس میں ہر طبقۂ فکر کے خواتین و حضرات شامل تھے۔ ایک قسط اخبار کے آدھے صفحے کے برابر ہوتی تھی۔ اِس طرح دو سال میں کتاب کا صرف تہائی حصہ مکمل ہوا۔ اِس حساب سے کتاب مکمل کرنے لئے مزید چار سال درکار تھے۔

2003 میں، میں نے نیا کاروبار شروع کیا۔ اس کی مصروفیات کی وجہ سے نہ صرف میں نے ’ اوورسیز، کی ادارت چھوڑ دی بلکہ لکھنے لکھانے کا سلسلہ بالکل موقوف ہو گیا۔ اگلے تین سال دو اور دو چار جیسے حسابی فارمولوں کے علاوہ کچھ بھی نہ لکھ سکا۔ 2006 میں جب ذرا فرصت ملی تو ایک دفعہ پھر قلم ہاتھ میں تھاما۔ قلم تو پکڑ لیا لیکن اتنے عرصے سے ٹوٹا ہوا سلسلہ جوڑنا آسان نہ تھا۔ اُدھر کاروباری اور صحافتی مصروفیات اب بھی کم نہیں تھیں۔ کیونکہ اب کاروبار کے ساتھ ساتھ میں آسٹریلیا میں اُردو کی سب سے بڑی ویب سائیٹ بھی چلا رہا تھا۔ ویب سائیٹ کو مسلسل اپ ڈیٹ کرنے کا کام بھی بہت وقت مانگتا ہے۔ خوش قسمتی سے ان دونوں مصروفیات کے باوجود آخر کار میں کتاب مکمل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔

اس کی کتابت کرانے، کمپیوٹر پر خود ہی اس کی تصحیح کرنے، کچھ اہلِ نظر احباب کو دکھانے اور دوبارہ تصحیح کرنے میں سال ڈیڑھ سال مزید لگ گیا۔ اس طرح کتاب کے آغاز سے اختتام تک بقول شخصے پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا تھا۔ دُنیا کے حالات بدل چکے تھے۔ سفر کے بہت سے واقعات یاد رہنے کے باوجود ان کی جزئیات فراموش ہو گئی تھیں۔ وہ تو شکر ہے کہ اہم واقعات میں پہلے ہی اپنی ڈائری میں درج کر چکا تھا۔ ورنہ یادداشت کے سہارے کتاب مکمل نہیں ہو سکتی تھی۔ میں بھی اپنی عمر کے تیسرے عشرے سے چوتھے میں داخل ہو چکا تھا۔ بقول میرے دوست جاوید کے سفر میں کی گئی ’خراب حرکتوں، کا ذکر اب مجھے زیب نہیں دیتا۔ دوسرے دوست مولوی صدیق نے فتویٰ دیا۔ اس وقت کیا، کسی بھی وقت ایسی حرکتیں جائز نہیں ہیں۔ مزید غضب یہ کر رہے ہو کہ اپنی ان حرکتوں کا تحریری اعتراف بھی کر رہے ہو۔ گویا ان کا زیادہ اعتراض ارتکاب پر نہیں اعتراف پر تھا۔

اُدھر بزرگ دوست اوم کرشن راحتؔ اور دوسرے شعراء اور ادیب دوستوں کی رائے تھی کہ یہ سب ادب کا حصہ ہے۔ پھر بھی محترم بھائی عارف صادقؔ اور محترمہ ڈاکٹر کوثر جمال صاحبہ کی سفارش پر میں نے بہت سے واقعات حذف کر دئیے۔ ان واقعات کے حذف یا ترمیم کے بعد میرے حساب سے اب یہ معصوم سی درسی کتاب بن گئی ہے۔ امید ہے قاری اسے اپنا اخلاق سدھارنے کے لئے بھی استعمال کر سکیں گے۔

کتاب میں درج تمام واقعات اصلی مگر چند کرداروں اور مقامات کے نام فرضی ہیں۔ اس کی وجہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔

آخر میں ان احباب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جن کے تعاون سے اس کتاب کی اشاعت ممکن ہو سکی۔ دیارِ غیر کے باسیوں کے لئے کتاب تحریر کرنا جتنا مشکل ہے، اسے شائع کرانا اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔ وطن سے دُور رہ کر فون اور ای میل کے ذریعے کتابت سے لے کر اشاعت تک تمام مرحلے طے کرنا آسان نہیں ہے۔ اس مشکل کو آسان کرنے کے لئے جن احباب نے میرے ساتھ پورا پورا تعاون کیا۔ ان میں اُردو سوسائیٹی آف آسٹریلیا کے صدر ڈاکٹر شبیر حیدر، جنرل سیکرٹری عارف صادقؔ، جناب اوم کرشن راحتؔ، محترمہ ڈاکٹر کوثر جمال، میرے بڑے بھائی لیفٹیننٹ کمانڈر طالب حسین مرزا، میرے چھوٹے بھائی خالد محمود مرزا، دوست پبلی کیشنز کے محترم اختر اور آصف صاحب شامل ہیں۔ کتاب کو حتمی شکل دینے سے پہلے یہ اُردو سوسائیٹی آف آسٹریلیا کی کئی تنقیدی نشستوں میں موضوعِ بحث رہی۔ اس سے بھی مجھے کتاب کی نوک پلک سنوارنے میں مدد ملی۔ اس لئے سوسائٹی کے تمام احباب کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ان تمام احباب کے تعاون کے بغیر اس کتاب کی اشاعت ممکن نہیں تھی۔

اس سلسلے میں سب سے آخری لیکن سب سے اہم نام میرے والد صاحب مرحوم کا ہے۔ اس وقت میں صرف تیرہ برس کا تھا جب وہ ہم سے جدا ہو گئے تھے۔ وہ خود تو پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن علم اور اہلِ علم کی جو قدر و منزلت ان کے دل میں تھی۔ صرف اِس کے نتیجے میں ہی آج یہ کتاب منظرِ عام پر آئی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میرے ہاتھ میں یہ کتاب دیکھ کر دُور آسمانوں میں ان کی رُوح مسکرا رہی ہو گی۔

طارق محمود مرزا۔ سڈنی۔ انیس فروری ۲۰۰۸

 

 

پاکستان

 

میرا ننھیال اور دُدھیال بلکہ میکہ اور سسرال سبھی کچھ پاکستان میں تھا

 

آسٹریلیا کا برطانیہ سے ننھیال اور دُدھیال والا رشتہ ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں بچوں کو چھٹیاں گزارنے کے لئے ننھیال یا دُدھیال بھیجا جاتا ہے۔ اس طرح آسٹریلین اور برطانوی نوجوان لڑکے لڑکیاں بالغ ہوتے ہی ایک دوسرے کے ملکوں کا رخ کرتے ہیں۔ آسٹریلیا سے یورپ جانے والے چند ماہ یا سال دوسال گزار کر واپس آ جاتے ہیں۔ بعض دورانِ سفر ہی اچھی سی جاب یا اچھی سی شریکِ حیات ڈھونڈ لیتے ہیں اور وہیں رہ جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح برطانوی نوجوان بھی ہر سال لاکھوں کی تعداد میں آسٹریلیا آتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو آسٹریلیا کے موسم، یہاں کے خوبصورت ساحل یا کوئی خوبصورت ساحر یا ساحرہ یہاں رہنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ سڈنی کے ساحلی علاقے بونڈائی، کوجی، رینڈوک اور ماروبرا میں بڑی تعداد میں ایسے ہی برطانوی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں رہتے ہیں۔ اس طرح ننھیال اور دُدھیال کا یہ چکر چلتا رہتا ہے۔

میرے آسٹریلین دوست یورپ کی سیر کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ انہیں دیکھتے اور سنتے ہوئے میرا جی بھی یورپ کی سیر کو چرا یا۔ یورپ ’’بلکہ ولایت‘‘ کا ذکر تو میں بچپن سے سنتا آ رہا ہوں کیونکہ میرے آبائی علاقے کے بہت سے لوگ برطانیہ میں رہائش پذیر ہیں۔ ایک وقت تھا کہ یہ ذکر کوہ قاف کی پریوں کی کہانیوں کی طرح افسانوی اور رُومان سے بھرپور لگتا تھا۔ اب اس عمر میں ایسا تو محسوس نہیں ہوتا لیکن پھر بھی اس دیس کا جو تصور ذہن میں تھا وہ کچھ کم دلکش نہ تھا۔ میں نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ یہ خواہش غالبؔ والی خواہش بن جائے، اسے تکمیل کا جامہ پہنا دینا چاہیے۔ آسٹریلین اور برطانوی شہریوں کے مقابلے میں میرا ننھیال اور دُدھیال بلکہ میکہ اور سسرال سبھی کچھ پاکستان میں تھا۔ لہذا میرے اس سفرِ یورپ کا آغاز اور اختتام پاکستان میں ہی ہوا۔

یورپ جانے کے لئے میں نے جولائی کے مہینے کا انتخاب کیا۔ کیونکہ وہاں کے روتے بسورتے موسم میں جولائی قدرے بہتر ہوتا ہے۔ ایک تو یہ گرمیوں کا موسم ہوتا ہے (یورپ کی سردیوں سے اللہ امان دے) دوسرا یہ کہ دن لمبے ہوتے ہیں۔ بارشیں بھی دوسرے مہینوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہیں۔ میرا پروگرام یہ تھا کہ پہلے سڈنی سے پاکستان جاؤں گا اور وہاں سے یورپ۔ یورپ سے واپسی پر بھی پاکستان سے ہو کر آسٹریلیا لوٹنا تھا۔

9 جولائی 2000 کی خنک اور سنہری دھوپ والی سہ پہر میں نے سڈنی کو الوداع کہا۔ آسٹریلین ائیر لائن کانٹس کی فلائٹ سہ پہر ساڑھے تین بجے سڈنی سے سنگاپور کیلئے روانہ ہوئی۔ جہاز میں خوب گہماگہمی تھی۔ زیادہ تر آسٹریلین اور یورپی مسافر تھے۔ یعنی ننھیال یا دُدھیال آ اور جا رہے تھے۔

جہاز فضا میں بلند ہوتے ہی حسین چہرے اور روشن مسکراہٹ والی ایئر ہوسٹس مشروبات کی ٹرالی لے کر حاضر ہو گئی۔ ٹرالی رنگا رنگ شرابوں سے مرصع تھی۔ شرابوں کے خوبصورت رنگ، مسافروں کی رغبت، خصوصاً ساقی کی دلآویز مسکراہٹ سے یہ حرام نہیں لگ رہی تھیں۔ اگر غالبؔ اس ماحول میں ہوتے، تو شراب نہ سہی، ساقی کا ہی بھرم رکھ لیتے۔ پھر ساغر و مینا کی موجودگی، ساقی کی دلکشی اور ماحول کی رنگینی ایک خوبصورت غزل کو جنم دے دیتی۔ میں چونکہ غالب تھا نہ قاضی اس لئے فانٹا پر گزارا کیا۔ میں نے سوچا ذائقہ جیسا بھی سہی رنگ تو پرکشش ہے۔

کھانے کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ میرے دوست ٹریول ایجنٹ نے میرے لئے مسلم فوڈ کا آرڈر نہیں لکھوایا تھا۔ شاید اسے میری مسلمانیت پر شبہ تھا۔ ناچار کچی پکی سبزیوں پر گزارا کرنا پڑا۔ اگرچہ یہ ایئر لائن والوں کی غلطی نہیں تھی اس کے باوجود وہ بار بار مختلف پھل اور سبزیاں لا لا کر میرے آگے رکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ بار بار معذرت بھی کر رہے تھے۔ اُس دن اپنے ٹریول ایجنٹ دوست کی مہربانی سے میں نے سبزیاں کھا کر اور فانٹا پی کر اس طرح ڈکار لئے جس طرح ہمارے دیہاتی بھائی مکئی کی روٹی ساگ اور لسی کا لنچ کر کے لیتے ہیں۔

سنگاپور کے وقت کے مطابق ہم رات نو بجے وہاں لینڈ کر گئے۔ میری اگلی فلائٹ پی آئی اے کی تھی جو صبح سات بجے روانہ ہونا تھی۔ اب مسئلہ یہ درپیش تھا کہ درمیان والے دس گھنٹے کہاں اور کیسے گزارے جائیں۔ جس طرح دو گھروں کا مہمان بھوکا رہتا ہے، اس طرح دو ایئر لائنوں کا مسافر ہونے کی وجہ سے مجھے سنگاپور میں ہوٹل کی سہولت نہیں دی گئی تھی۔ کانٹس والوں نے سنگاپور میں فارغ کر دیا تھا، جب کہ پی آئی اے کی میزبانی کا شرف اگلی صبح حاصل ہونا تھا۔ درمیان کے دس گھنٹے ’’اپنی مرضی‘‘ سے گزارنے کے لئے دونوں نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ میں مخمصے میں پڑ گیا کہ یہ دس گھنٹے کہاں اور کیسے گزاروں۔ رات ہونے کی وجہ سے ائیر پورٹ سے باہر جانے کا بھی کوئی فائدہ نہ تھا۔ ٹرانزٹ وغیرہ لینے میں ہی کافی وقت ضائع ہو جاتا۔ چند گھنٹوں اور رات کے اندھیرے میں سنگا پور کی سیر کیا ہو پاتی۔ میرا سامان بدستور ایئر لائنوں کے حوالے تھا۔ صرف ایک بیگ میرے پاس تھا۔ اس کے ساتھ یہ رات میں نے ایئرپورٹ پر ہی گزارنے کا فیصلہ کیا۔

سنگاپور ایئرپورٹ بھی ایک چھوٹے سے خوبصورت شہر کی مانند ہے۔ اس کا شمار دنیا کے چند حسین ترین ایئر پورٹوں میں کیا جاتا ہے۔ اس میں رنگارنگ دکانیں، ڈیوٹی فری شاپس، کیفے، ریسٹورنٹ، بار، سموکنگ روم (سگریٹ پینے والے کمرے)، آرام کرنے والے لاؤنجز اور وہ سب کچھ ہے جس کی آپ تمنا کریں اور جیب اجازت دے۔ جگہ جگہ معلومات اور مدد کے لئے کاؤنٹر بنے ہوئے ہیں۔ رات کے وقت وہاں عملہ نہیں ہوتا لیکن ہدایات درج ہوتی ہیں۔ ان پر عمل کرتے ہوئے فون اٹھائیں تو دوسری طرف کوئی نہ کوئی معلومات فراہم کرنے والی خاتون موجود ہوتی ہے۔ لہذا اتنا بڑا اور مصروف ایئرپورٹ ہونے کے باوجود وہاں بھٹک جانے کا خدشہ نہیں ہے۔

کانٹس کی میزبانی اور ٹریول ایجنٹ کی مہربانی سے سبزیاں اور پھل کھا کھا کر میرا پیٹ بھرا ہوا تھا لہذا سنگاپور میں میں نے ایک کافی پر اکتفا کیا جو چار امریکن ڈالر میں ملی۔ میں نے حساب لگایا تو یہ رقم 240 پاکستانی روپوں کے برابر تھی۔ یعنی ایک ایک گھونٹ تیس روپے سے کم کا نہ تھا۔ ستم یہ کہ کافی انتہائی بد ذائقہ تھی۔ شاید اس کیفے کا مالک پہلے کراچی کینٹ اسٹیشن میں اسٹال لگاتا تھا۔ جیسے تیسے کر کے آدھا کپ پیا۔ ہر گھونٹ کے ساتھ خیال آتا تھا کہ اتنے روپوں میں کراچی کے بندو خان میں ڈنر کیا جا سکتا تھا یا لاہور میں پھجے کے پائے کا لنچ ہو سکتا تھا۔ ائرپورٹ پر آوارہ گردی کرتے ہوئے بہت سے حسین چہروں اور کئی ناگفتنی مناظر کا سامنا ہوا۔ چونکہ اس طرح کے مناظر سڈنی میں اکثر نظر آتے ہیں اس لئے میرے لئے زیادہ قابلِ توجہ نہ تھے۔

کافی دیر تک ائر پورٹ کی آوارہ گردی کرنے کے بعد بارہ بجے آرام کی طلب محسوس ہوئی۔ سنگاپور ائرپورٹ پر ریسٹ لاؤنجز بنے ہوئے ہیں جہاں آرام دہ بینچ ہیں۔ وہاں روشنی بھی مدھم ہوتی ہے اور شور و غل بھی نہیں ہوتا۔ کئی اور مسافر وہاں پہلے سے محو استراحت تھے۔ میں نے بھی ایک بینچ کا انتخاب کیا۔ تولئے کا سرہانہ بنا کر دراز ہو گیا۔ نرم بستر کا عادی بدن اتنی جلدی اس بنچ پر سونے کے لئے تیار نہ تھا لہذا اسے تھپک تھپک کر منانا پڑا۔ اگلے تین چار گھنٹے اسی طرح کچھ سوتے کچھ جاگتے گزرے۔

آنکھ کھلی تو گھڑی پر نظر دوڑائی۔ سوا چھ بج چکے تھے جب کہ سات بجے میری فلائٹ تھی۔ ابھی بورڈنگ کارڈ بھی لینا تھا۔ وقت بہت ہی کم تھا۔ مجھ سے ایک اور غلطی بھی ہوئی تھی۔ رات میں نے یہ معلوم نہیں کیا تھا کہ میری فلائٹ کس ٹرمینل سے جا رہی ہے۔ اس وقت سوچا تھا ابھی بہت وقت ہے صبح معلوم کر لوں گا۔ ٹی وی اسکرین پر نظر دوڑائی تو علم ہوا کہ میری فلائٹ دوسرے ٹرمینل سے جائے گی جو خاصے فاصلے پر ہے۔ میں نے سوچا یہ فلائٹ تو گئی۔

سنگاپور ایئرپورٹ پر ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمینل پر جانے کے لئے ایسکالیٹر (ESCALATOR) بنے ہوئے ہیں۔ ایک ختم ہو تو دوسرے پر سوار ہو جائیں۔ میں ان پر کھڑا ہونے کی بجائے سرعت سے چلنے بلکہ دوڑنے لگا۔ پھر بھی پندرہ منٹ لگ گئے۔ پی آئی اے کا کاؤنٹر ڈھونڈ کر وہاں پہنچا تو فلائٹ میں صرف بیس منٹ باقی تھے۔ امید تو نہیں تھی لیکن انہوں نے بلا تردد بورڈنگ کارڈ دے دیا۔ میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ اُس دن مجھے پی آئی اے کی اس ’’خوبی‘‘ کا احساس ہوا کہ ان کی فلائٹس اکثر لیٹ ہوتی ہیں جس کا میری طرح سوتے رہنے والوں کو کبھی کبھار فائدہ پہنچ جاتا ہے۔

 

ساون کی گھن گرج نے اکیس توپوں کی سلامی دی

 

ایک عرصہ وطن سے دور رہنے کے بعد وطن واپسی دل میں ایک ایسی مسرت اور جوش پیدا کر دیتی ہے جو دیارِ غیر میں بسنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ پی آئی اے کے جہاز میں سوار ہوتے ہی وطن کی خوشبو محسوس ہونے لگتی ہے۔ جوں جوں وطن کی سرزمین قریب آتی جاتی ہے توں توں آتشِ شوق بڑھتی جاتی ہے۔ میرے ٹکٹ پر درج تھا کہ یہ فلائٹ ایک گھنٹہ بنکاک میں رُکے گی۔ لیکن یہ قیام دو گھنٹے کا ثابت ہوا۔ شاید وہاں بھی کچھ مسافر سوتے رہ گئے تھے۔ اس دوران پی آئی اے کے میزبان مسافروں کو ناشتہ ہی کراتے رہے۔ پہلے سنگاپور سے سوار ہونے والوں کو ناشتہ دیا، پھر بنکاک سے جہاز اڑتے ہی دوبارہ ناشتے کا دور چلا۔ شاید انہیں معلوم ہو گیا تھا کہ میں نے پچھلی رات سبزیوں پر گزارا کیا تھا۔

میرے برابر والی سیٹ پر سنگا پور کا ایک بزنس مین سفر کر رہا تھا۔ اسے جب معلوم ہوا کہ یہ جہاز پہلے اسلام آباد جائے گا اور پھر کراچی تو وہ سخت ناخوش ہوا۔ کیونکہ اس کے ٹکٹ پر واضح تحریر تھا کہ یہ فلائٹ بنکاک سے براہِ راست کراچی جائے گی۔ اسلام آباد کے راستے جانے سے اس کے چار مزید گھنٹے جہاز میں گزرنے تھے۔ ویسے بھی اس فلائٹ پر غیر ملکی مسافروں کی تفریح اور سہولت کے لئے کچھ زیادہ لوازمات نہیں تھے۔ بنتِ انگور کا تو خیر تصور ہی نہیں، کھانے، موسیقی اور خصوصاًّ میزبانوں کا طریقۂ خدمت خالصتاً پاکستانی تھا۔ جسے صرف پاکستانی ہی برداشت کر سکتے ہیں۔ تمام فضائی میزبان اُدھیڑ عمر مرد تھے۔ ان کے چہرے مسکراہٹ سے عاری بلکہ جھنجھلاہٹ سے بھرپور دکھائی دیتے تھے۔ اُن سے کچھ طلب کرتے ہوئے ڈر لگتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے ہمارے طیارے نے اسلام آباد کی سرزمین کو چھوا تو مجھے ایسے لگا کہ ماں کی گود میں پہنچ گیا ہوں۔ زمین پر قدم رکھا تو اسے چومنے کو دل چاہا۔ سانس لیا تو خوشبوئے وطن سے مشامِ جاں معطر ہو گیا۔ قدم آگے بڑھایا تو وطن کی ہواؤں نے جیسے گلے لگا لیا۔ ائرپورٹ پر نظر دوڑائی تو میرے ہموطن اپنے اپنے کاموں میں مصروف دکھائی دیے۔ ایسے لگا کہ یہ سب میرے ہی گھر کے فرد ہیں۔ جی چاہتا تھا کہ جا کر ایک ایک سے گلے ملوں۔ وہ سب مصروف تھے۔ انہیں احساس بھی نہیں ہوا کہ ان کے خاندان کا ایک بچھڑا ہوا فرد واپس آ یا ہے۔ لیکن موسم کو میری آمد کی خبر ہو چکی تھی۔

سامان حاصل کرنے اور کسٹم اور امیگریشن کے مراحل طے کر کے ائرپورٹ کی عمارت سے باہر نکلا تو کئی عزیز و اقارب استقبال کے لئے موجود تھے۔ برآمدے میں آئے تو ساون کی گھن گرج نے اکیس توپوں کی سلامی دی۔ پارکنگ لاٹ کی طرف بڑھے تو بارش کے نرم نرم قطرے گرنا شروع ہوئے۔ مجھے لگا جیسے پھولوں کی پتیاں نچھاور کر کے میرا استقبال کیا جا رہا ہو۔

بارانِ رحمت کا یہ سلسلہ میرے سات روزہ قیامِ پاکستان کے دوران وقفے وقفے سے جاری رہا۔ یہ اچھا ہی ہوا۔ کیونکہ میں سڈنی میں سردی عروج پر چھوڑ کر آیا تھا اور پاکستان میں جولائی کی جھلسا دینے والی گرمی زوروں پر تھی۔ بارش سے گرمی کا یہ زور قدرے کم ہو جاتا تھا۔ ویسے بھی پاکستان کی بارش مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہاں کم کم ہوتی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی مٹی سے ایک مسحور کن خوشبو اٹھتی ہے جو آسٹریلیا میں ندارد ہے۔ آسٹریلیا میں بارش صرف عام سی بارش ہوتی ہے۔ اس میں وہ رُومان نہیں، جو پاکستان کی بارشوں میں ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں بارش کے دوران بلکہ صرف بادل بھی چھائے ہوئے ہوں تو لوگ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، خراب موسم کا گلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ دھوپ نکلی ہو تو بہت خوش ہوتے ہیں چاہے گرمی سے جان نکلی جا رہی ہو۔

اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں کی شاعری میں ساون کی رم جھم، موسم سرما کی جھڑی اور گرم دن کی شام اچانک آنے والی بارش کا تذکرہ پہلی محبت کی طرح کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بارش کے چند اور فائدے بھی ہیں۔ سب سے زیادہ فائدہ تو سرکاری ملازموں کو ہوتا ہے جو صبح بستر میں لیٹے لیٹے چہرے سے کمبل ہٹا کر باہر دیکھتے ہیں۔ اگر انہیں آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی نظر آ جائے تو کمبل دوبارہ اوڑھ لیتے ہیں اور دفتر سے چھٹی کر لیتے ہیں۔ دوسرا فائدہ بچوں کو ہوتا ہے جو بارش کے کئی دن بعد تک گلی کے گڑھوں میں جمع پانی میں نہاتے رہتے ہیں۔ یہ مزے آسٹریلیا میں کہاں ملیں گے جہاں بارش رکنے کے پانچ منٹ بعد اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کہ پانچ منٹ پہلے یہاں بارش ہوئی تھی۔

ایک گاڑی کے تنگ دامن میں ہم سب نہیں سما سکتے تھے۔ لہذا کار کے ساتھ ساتھ ایک ویگن کرائے پر حاصل کی گئی۔ میں نے کار کی بجائے ویگن میں سب کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دی۔ ہم اسلام آباد سے اپنے گاؤں گوجر خان کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں دو جگہ پولیس والوں نے ویگن روکی۔ ڈرائیور نے انہیں نذرانہ دیا اور پولیس نے سفر جاری رکھنے کا پروانہ دیا۔ بصورت دیگر گاڑی کے کاغذات کو غلط ثابت کر دیا جاتا یا ڈرائیور کے لائسنس میں کیڑے نکال کر پریشان کیا جا سکتا تھا۔ پاکستان میں اس طرح کی پریشانیوں کا ایک ہی علاج ہے، اور وہ ہے بابائے قائد کی تصویر۔ لہذا ہمارے ڈرائیور نے بھی وہی کیا اور ہمیں بخیر و خوبی گھر پہنچا دیا۔

گاؤں سے ہمارا رابطہ بس اب اتنا ہی رہ گیا ہے کہ کبھی کبھار بچپن کی یاد تازہ کرنے کے لئے وہاں چلے جاتے ہیں۔ میں تو دیارِ غیر کی خاک چھانتا رہتا ہوں۔ میرے بھائی بھی بڑے شہروں کی نذر ہو گئے ہیں۔ گاؤں میں ہمارا گھر مکینوں کو ترستا رہتا ہے۔ اس دفعہ کافی عرصے کے بعد گاؤں جانا ہوا تو بہت اچھا لگا۔ بچپن کے دوستوں اور گاؤں کے لوگوں سے ملاقات ہوئی۔ میرے بھائی نے میرے آنے کی خوشی میں پورے گاؤں کی دعوت کر دی تھی۔ خوب رونق اور تفریح رہی۔ ایک دوست نے کہا ’’یہاں تو ولیمے والا سماں نظر آ رہا ہے‘‘

میں نے جواب دیا ’’ہاں! لیکن ایک فرق ہے۔ ولیمے والے دن دولہا کی آنکھوں میں شبِ وصل کا خمار نظر آتا ہے جبکہ میرا چہرہ مچھروں کا شکار نظر آتا ہے‘‘

یہ بات تھی بھی درست۔ ان سات دنوں میں بجلی بے وفا محبوبہ کی طرح صرف ایک جھلک دکھا کر غیر معینہ مدت کے لئے غائب ہو جاتی تھی۔ دن دستی پنکھا جھلتے اور رات مچھروں کی بھنبھناہٹ سنتے گزر جاتی۔ اسی آنکھ مچولی میں یہ سات دن گزر گئے۔ ۱۶ جولائی کی صبح میری مانچسٹر کی فلائٹ تھی۔ گاؤں کے ایک بزرگ نے پوچھا ’’پتر ولائت کسی کام سے جا رہے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’نہیں چاچا! گھومنے کے لئے جا رہا ہوں‘‘

انہوں نے کچھ کہا تو نہیں لیکن میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہ اس کا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ فضول میں پیسہ ضائع کر رہا ہے۔ پاکستان میں سیرو سیاحت کے بارے میں عام لوگوں کے جو خیالات ہیں اس کے پیشِ نظر اس بزرگ کا ایسی نظروں سے دیکھنا اچنبھے کی بات نہیں تھی۔ بہرحال اس بزرگ کی نظروں کو نظرانداز کر کے ۱۶ جولائی کی صبح پانچ بجے میں ایک لمبے سفر کے ارادے سے گھر سے نکل پڑا۔

 

پچاس روپے میں ایک فوٹو کاپی

 

اس دن اسلام آباد ایئرپورٹ کا بین الاقوامی لاؤنج کسی دیہاتی میلے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ہال میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ نہ قطار تھی اور نہ ہی ایئرپورٹ کے عملے کا کوئی شخص مدد کے لئے موجود تھا۔ جس کا جتنا بس چل رہا تھا زور آزمائی کر کے آگے سرک رہا تھا۔

الوداعی ملاقات کے بعد سات بجے میں ٹرالی لے کر لاؤنج میں داخل ہوا۔ چیونٹی کی رفتار سے سرکتے سرکتے کاؤنٹر تک پہنچا تو ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹہ کھڑے رہنے سے ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ انتظار کی اکتاہٹ الگ تھی۔ در اصل صبح کے اس وقت کئی بین الاقوامی پروازیں یکے بعد دیگرے روانہ ہونے والی تھیں۔ اس لئے اس قدر رش تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پی آئی اے کے عملے کی شفٹ تبدیل ہو رہی تھی اور وہ اس میں بہت وقت ضائع کر رہے تھے۔ مسافر انتظار میں کھڑے تھے اور وہ موسم کا حال، فوجی حکومت کی کارکردگی، مہنگائی سے لے کر رات کو کیا کھایا تھا، سبھی موضوعات پر تبادلہ خیال کر رہے تھے۔

لاؤنج میں موجود مسافروں کی اکثریت برطانیہ کے لئے محوِ سفر پر تھی۔ ان میں سے اکثر چھٹیوں پر پاکستان آئے تھے اور اب واپسی کے لئے گامزن تھے۔ جب کہ کچھ بزرگ خواتین و حضرات اپنے بچوں کے پاس پہلی مرتبہ ’’ولایت‘‘ جا رہے تھے۔ میرپور (آزاد کشمیر) کی بولی کی بازگشت ہر جانب سنائی دے رہی تھی۔ لگتا ہی نہیں تھا کہ میں کسی بین الاقوامی ایئرپورٹ پر کھڑا ہوں۔ بلکہ کسی دیہاتی میلے کا سا سماں تھا۔ کئی حضرات پگڑیاں اور تہہ بند پہنے ہوئے تھے اور درجنوں خواتین سرتا پا برقعے میں ملبوس تھیں۔ ایک دو حضرات نے ہاتھوں میں حقے بھی اٹھا رکھے تھے۔ آموں کی پیٹیاں تو تقریباً سبھی کے پاس تھیں۔

ساڑھے آٹھ بجے میں کاؤنٹر تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس وقت فلائٹ میں صرف آدھ گھنٹہ باقی رہ گیا تھا۔ ابھی امیگریشن اور کسٹم وغیرہ کے مراحل باقی تھے۔ پی آئی اے کے کاؤنٹر پر موجود خاتون لباس اور فیشن کی شوخی میں نئی نویلی دلہنوں سے بھی دو ہاتھ آگے تھی۔ وہاں تک تو سب اچھا تھا لیکن جب اس نے اپنے سرخ یاقوتی لب وا کئے تو اس کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ بقول ابرار الحق ’’پچھوں اوہ وی ملتان دی سی‘‘۔ اس نے میرا آسٹریلین پاسپورٹ ہاتھ میں لے کر کہا ’’اس کی فوٹو کاپی کہاں ہے؟‘‘

میں نے کہا ’’میرے پاس پاسپورٹ کی فوٹو کاپی تو نہیں ہے۔ ویسے اس کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟‘‘

وہ انتہائی رُوکھے لہجے میں بولیں ’’یہ فوٹو کاپی ہمیں ریکارڈ کے لئے درکار ہوتی ہے‘‘

’’اگر ایسی بات ہے تو پاسپورٹ آپ کے ہاتھ میں ہے فوٹو کاپی بنا لیں‘‘

کہنے لگیں ’’ہمارے پاس فوٹو سٹیٹ مشین نہیں ہے۔ آپ کو کاپی بنوا کر لانی پڑے گی۔‘‘

میں نے حیرانگی سے کہا ’’آپ کیا چاہتی ہیں؟ کیا میں دوبارہ باہر جا کر آپ کے لئے فوٹو کاپی بنوا کر لاؤں؟ جب کہ پہلے ہی ڈیڑھ گھنٹہ کھڑا رہنے کے بعد کاؤنٹر تک پہنچا ہوں‘‘

کہنے لگیں ’’اس کی ضرورت نہیں۔ اسی لاؤنج کے دوسری طرف فوٹو اسٹیٹ مشین والی شاپ ہے۔ آپ وہاں سے فوٹو کاپی بنوا کر لے آئیں‘‘

’’اور میرا سامان؟‘‘

’’سامان یہیں رہنے دیں‘‘

میں فوٹو کاپی بنانے والی اس شاپ میں گیا۔ پاسپورٹ ان کو دیا اور ایک فوٹو کاپی بنانے کے لئے کہا۔ وہ صاحب کہنے لگے ’’آپ کو دو فوٹو کاپیاں درکار ہوں گی۔ ایک پی آئی اے والوں کے لئے اور دوسری امیگریشن کے لئے‘‘

اس سے پہلے میں متعدد بار بین الاقوامی سفر کر چکا تھا۔ یہ پاسپورٹ کی کاپی والامسئلہ کبھی درپیش نہیں آیا تھا۔ میں نے سوچا پاکستان میں آئے دن قواعد و ضوابط تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہو گی۔ بہرحال میں نے دو فوٹو کاپیاں بنوائیں۔ جب معاوضے کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا ’’سو روپے‘‘

میں سمجھا کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ دو فوٹو کاپیوں کا معاوضہ سو روپے تو نہیں ہو سکتا۔ میں نے دوبارہ دریافت کیا ’’کیا کہا آپ نے؟‘‘

جواب آیا ’’پچاس روپے فی کاپی کے حساب سے آپ سو روپے دے دیں‘‘

میں نے سخت حیران ہو کر کہا ’’فوٹو کاپی تو پچاس پیسے میں ہوتی ہے۔ یہ پچاس روپے کس بات کے؟‘‘

وہ صاحب بولے ’’ایئرپورٹ کے باہر پچاس پیسے میں ہوتی ہے۔ یہاں یہی ریٹ ہے کیونکہ اس دکان کا کرایہ بہت زیادہ ہے‘‘

عرض کیا ’’بھائی جہاں کرایہ زیادہ ہوتا ہے وہاں گاہک بھی زیادہ ہوتے ہیں یا یہ کرایہ آپ صرف چند لوگوں سے ہی پورا کرتے ہیں‘‘

میری بحث کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ان صاحب نے بتایا کہ وہ پچاس روپے سے کم نہیں لیتے۔ مجبوراً سو روپے میں دو کاپیاں بنوا کر دوبارہ کاؤنٹر تک پہنچا۔ بورڈنگ کارڈ لیا۔ امیگریشن کے مرحلے سے گزرا۔ وہاں کسی نے بھی فوٹو کاپی نہیں مانگی۔ اس طرح اس فوٹو کاپی والے نے نہ صرف انتہائی مہنگے داموں فوٹو کاپی بنائی بلکہ چکمہ دے کر دوسری کاپی کے پیسے بھی ہتھیا لئے۔ اِسے کہتے ہیں چُپڑیاں نالے دو دو۔ ( گھی والی روٹی اور وہ بھی دو دو)

ویٹنگ لاؤنج میں پہنچا تو فلائٹ کا وقت ہو چکا تھا لیکن مسافروں کو جہاز میں پہچانے کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا۔ میں اس وقفے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیوٹی فری شاپ میں چلا گیا جو پان سگریٹ کے کھوکھے سے بڑی نہیں تھی۔ وہاں سے میں نے گولڈ لیف کے دو کارٹن خریدے۔ در اصل وہیں ائر پورٹ پر لوگوں کو آموں کی پیٹیاں اٹھائے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ میرا دوست آصف کریم گولڈ لیف کا بہت شوقین ہوا کرتا تھا۔ آصف کریم اور میں اسلام آباد میں ایک ہی ادارے میں تدریس کا فریضہ انجام دیتے تھے۔ فارغ وقت میں چائے پیتے، سگریٹ کے کش لگاتے اور گپیں ہانکتے تھے۔ وہیں ہماری دوستی کا پودا پروان چڑھنا شروع ہو، جو اب پھل پھول کر تناور درخت بن چکا ہے۔ کچھ عرصے بعد آصف شادی کر کے انگلینڈ جا کر سسرال کو پیارا ہو گیا اور میں آسٹریلیا چلا آیا۔ اب چھ سال کے عرصے کے بعد ہماری ملاقات برطانیہ میں ہونے والی تھی۔ یورپ کے ٹور پر روانہ ہونے سے پہلے تین دن میں یارک شائر میں واقع آصف کے گھر قیام کر رہا تھا۔

ڈیوٹی فری شاپ والے نے سگریٹوں کی جو قیمت بتائی اس میں اور مارکیٹ ریٹ میں کوئی فرق نہیں تھا۔ جب کہ ڈیوٹی کے بغیر یہ قیمت مارکیٹ سے ساٹھ ستر فیصد کم ہونی چاہیے تھی۔ میرے استفسار پر ان صاحب نے کہا ’’در اصل ہمارے ہاں اصلی سگریٹ ہوتے ہیں جب کہ مارکیٹ میں دو نمبر مال ملتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کراچی سے لے کر پشاور تک ہر جگہ نقلی سگریٹ بکتے ہیں اور اصلی سگریٹ لینے کے لئے کسی ملک کا ویزہ لینا پڑتا ہے۔‘‘

 

تمہی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

 

اس کے فوراً بعد جہاز میں سوار ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ فلائٹ ایک گھنٹے کی تاخیر سے نو کی بجائے دس بجے روانہ ہوئی۔ جہاز کے اندر بھی وہی دیہاتی ماحول تھا۔ ہر طرف آموں کی پیٹیاں، تہہ بند، ٹوپی والے برقعے اور پوٹھوہاری زبان کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ میری بائیں جانب کھڑکی والی سیٹ پر ایک بوڑھی دیہاتی خاتون براجمان تھیں۔ ان کی دلیری ملاحظہ فرمائیے۔ پہلی دفعہ گاؤں سے نکلی تھیں اور اکیلی ’’ولایت‘‘ جا رہی تھیں۔ ان کا بیٹا مانچسٹر ایئرپورٹ پر انہیں لینے آ رہا تھا۔ جب کھانے کا وقت آیا تو انہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کریں۔ حتیٰ کہ کھانے کی ٹرے پر سے پیپر اتارنا بھی انہیں کارِ دارد نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے امداد طلب نظروں سے میری طرف دیکھا۔ ٹرے بھی انہوں نے گود میں رکھی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں ٹیبل کھول کر دیا۔ ٹرے پر سے ایلومونیم فائل ہٹایا اور انہیں بتایا کہ یہ کون سی ڈش ہے۔ دبی زبان میں بولیں ’’بھلا ہوئی پترا‘‘ ( خدا تمھارا بھلا کرے بیٹا)

میرے دائیں طرف کھڑکی والی سیٹ پر جو صاحب بیٹھے تھے، شلوار قمیض میں ملبوس تھے اور سر پر بڑا سا پوٹھوہاری رومال باندھا ہوا تھا۔ ان کی عمر پینتالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ شروع میں کچھ جھجک رہے تھے۔ شاید سوچ رہے ہوں کہ جینز اور ٹی شرٹ میں ملبوس یہ کلین شیو ’’بابو‘‘ نہ جانے کس مزاج کا ہو۔ لیکن جب میں نے انہیں انہی کی زبان میں مخاطب کیا تو ان کے چہرے پر خوشگوار حیرت ابھر آئی۔ وہ گوجر خان کے قریب ایک گاؤں سے تعلق رکھتے تھے۔ اتفاق سے اس گاؤں میں میرے بھی کچھ عزیز رہتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ بہت خوش ہوئے۔ اب جو انہوں نے بولنا شروع کیا تو دور دور تک کہیں وقفہ نہیں تھا۔ حسن اختر نامی یہ صاحب مسلسل بولنے کے عادی تھے۔ وہ بات کسی ایک موضوع پر شروع کرتے اور کہاں سے کہاں پہنچ جاتے۔ لیکن ایک بات کی تکرار وہ بار بار پر کر رہے تھے کہ وہ پہلے ہانگ کانگ میں تھے اور وہاں ان کا اپنا بزنس تھا۔ وہ برطانیہ اس لئے جا بسے تھے کہ وہاں کام کئے بغیر سوشل سیکورٹی پر رہیں گے۔ لیکن گھر والوں کی مقدمہ بازی کی وجہ سے انہیں چھپ چھپا کر کچھ نہ کچھ کام کرنا پڑتا تھا۔

در اصل اس گاؤں کے کافی لوگ یورپ میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کے جو لواحقین گاؤں میں باقی رہ گئے ہیں۔ ان پر باہر کے پونڈوں اور ڈالروں کا نہایت منفی اثر ہوا ہے۔ دشمنیاں عام ہیں، کئی قتل ہو چکے ہیں اور درجنوں مقدمے عدالتوں میں دائر ہیں۔ حسن اختر بھی اسی سلسلے میں پاکستان آئے تھے۔ ان کا بھائی ایک جھگڑے میں زخمی ہو گیا تھا۔ حسن اختر برطانیہ میں جو بچاتے تھے وہ گھر والے مقدموں کی نذر کر دیتے تھے۔

حسن اختر بولتے ہوئے کبھی تو ایسے مبلغ نظر آتے جسے آخرت کی فکر ستا رہی ہو۔ دوسرے ہی لمحے وہ یورپ کی رنگینوں کی باتیں مزے لے لے کرسنانا شروع کر دیتے۔ ان کا کہنا تھا کہ یورپ میں آنے کا فائدہ ہی کیا جب اپنی بیوی ساتھ ہو۔ یہاں ہر طرف حسینوں اور مہ جبینوں کی بہار ہے۔ یہاں آ کر بھی اس ماحول سے فیضیاب نہ ہوں تو وطن سے اتنی دور آنے کی ضرورت کیا ہے۔

حسن اختر کی انہی باتوں میں وقت گزرنے کا احساس بھی نہیں ہوا اور ہم برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں لینڈ کرنے لگے۔ آٹھ گھنٹے کی یہ فلائٹ آسٹریلین پاکستانیوں کے لئے کچھ بھی نہیں تھی۔ کیونکہ ہمیں تو بیس بیس گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے تب جا کے منزل آتی ہے۔ میرے ذہن سے وہ رُعب جاتا رہا جو برطانیہ میں بسنے والے ہم پر ڈالا کرتے تھے کہ برطانیہ بہت ہی دور ہے۔

 

 

 

یارک شائر (برطانیہ)

 

برطانیہ میں دامادوں اور سسرال کے درمیان اکثر ٹھنی رہتی ہے

 

کسی بھی شہر میں لینڈ کرنے سے پہلے طیارہ جب فضا سے زمین کے قریب ہوتا ہے اس وقت اوپر سے جو منظر دکھائی دیتا ہے وہ ہمیشہ سے میرے لئے بہت پرکشش ہوتا ہے۔ مانچسٹر بھی اوپر سے انتہائی دلکش، خوبصورت اور صاف ستھرا شہر نظر آ رہا تھا۔ یہ سڈنی کی طرح اونچا، نیچا اور ڈھلوان زمین پر بسا ہوا ہے۔ ڈھلوانوں پر بنے ہوئے سرخ ٹائلوں والے اور سرسبز درختوں میں گھرے مکانات، چمکتی ہوئی کشادہ سڑکیں اور قطاروں میں سفر کرتی ہوئی رواں دواں کاریں ایک انتہائی دلکش منظر پیش کر رہی تھیں۔

مانچسٹر ائر پورٹ پر بھی ویسی ہی گہما گہمی تھی جیسی مَیں اسلام آباد میں دیکھ اور بھگت کر آیا تھا۔ اس وقت شاید ایک سے زیادہ پروازیں پاکستان سے آئی تھیں اس لئے ائیر پورٹ پر ہر طرف پاکستانی ہی نظر آ رہے تھے۔ کچھ تو پاکستان سے آئے تھے۔ زیادہ تعداد استقبال کرنے والوں کی تھی۔ جہاز سے اترتے ہی لوگ بھاگم بھاگ جا کر قطار میں کھڑے ہو گئے۔ یہ وہی لوگ تھے جو اسلام آباد میں تھے تو قطار بندی سے بے نیاز تھے۔ لیکن یہاں اترتے ہی ایسے منظم انداز میں قطار میں کھڑے ہوئے تھے جیسے گھر سے سکول میں آ گئے ہوں۔ سچ ہے جیسا دیس ویسا بھیس۔

مَیں حسبِ معمول سُست روی سے چلتا اور لوگوں کی بھاگ دوڑ سے محفوظ ہوتا ہوا قطار کے آخر میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ قطار شیطان کی آنت کی طرح طویل تھی۔ لیکن امیگریشن کے عملے نے جلد ہی دوسرے کاؤنٹروں پر بھی سٹاف بٹھا دیا اور ایک کے بجائے تین قطاریں بن گئیں۔ برطانوی امیگریشن پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر بال کی کھال نکال رہے تھے۔ نئے آنے والوں کو الگ بٹھایا جا رہا تھا تاکہ ان کا تفصیلی انٹرویو کیا جا سکے۔ اُردو مترجم کا بھی بندوبست تھا۔ میرے آسٹریلین پاسپورٹ پر انہوں نے بلا تردد مہر لگا کر پروانہ راہداری عطا کر دیا۔

یہ بھی دلچسب بات ہے کہ آسٹریلیا سے روانہ ہوتے وقت میرا پاکستان سمیت سات ممالک میں جانے کا ارادہ تھا۔ لیکن اتفاق دیکھئے کہ سڈنی سے روانگی سے قبل صرف ایک ملک کا ویزا لینا پڑا اور وہ میری جنم بھومی یعنی پاکستان تھا۔ یورپ میں آسٹریلین پاسپورٹ کو نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ برطانیہ اور فرانس کی انٹری کے وقت پاسپورٹ پر مہر لگتی ہے۔ جبکہ یورپ کے دیگر ممالک تو یہ تردد بھی نہیں کرتے اور صرف پاسپورٹ دیکھنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔

سامان کی ٹرالی لے کر باہر نکلا تو مَیں نے متلاشی نظروں سے انتظار میں کھڑے افراد میں اپنے دوست آصف کو دیکھنے کی کوشش کی لیکن وہ کہیں نظر نہیں آیا۔ مجھے شدت سے سگریٹ کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے سوچا باہر چل کر ایک سگریٹ پی لوں۔ اتنی دیر تک آصف نظر نہیں آیا تو اس کے موبائل پر فون کروں گا۔ مجھے یقین تھا کہ وہ وہیں کہیں موجود ہو گا۔ گیٹ سے نکلا تو آصف اندر داخل ہو رہا تھا۔ اتفاق سے پہلے مَیں نے اُسے پہچانا۔ حالانکہ پچھلے چھ برسوں میں ہم دونوں کے چہروں پر تبدیلی آ چکی تھی۔ میرے چہرے سے مونچھیں غائب ہو چکی تھیں۔ جبکہ آصف پاکستان میں ہوتا تھا تو کلین شیو تھا۔ لیکن برطانیہ میں جا کر اس نے مونچھیں بڑھا لی تھیں۔ شاید انگریزوں پر رُعب ڈالنے کے لئے۔

ہم چھ برس کے بچھڑے ہوئے تھے۔ گلے مل کر ساری کسریں پوری کرنے کی کوشش کی۔ مَیں نے کہا اب بس بھی کرو کہیں گورے ہمیں ’’گے‘‘ نہ سمجھنے لگیں۔ خیر اس ائیر پورٹ پر تو ایسے مناظر عام تھے۔ لیکن یورپ اور آسٹریلیا میں مرد مردوں کے گلے لگتے کہیں نظر نہیں آتے۔ البتہ جنسِ مخالف کے درمیان یہ عمل جا بجا نظر آتا ہے۔ ان ممالک میں مرد اگر مرد سے گلے مل رہا ہو تو ان کے تعلقات آپس میں وہی ہوتے ہیں جو پاکستان میں میاں بیوی کے درمیان ہوتے ہیں۔ سڈنی میں آکسفورڈ سڑیٹ اور اس کا ملحقہ علاقہ ایسے ہی مردوں اور عورتوں کے لئے مشہور ہے۔ اس علاقے میں مردوں کے علاوہ بڑی تعداد میں ہم جنس پرست عورتیں بھی رہتی ہیں۔ ان کے اپنے کلب ہیں۔ سال میں ایک دفعہ سڈنی میں ان کا بہت بڑا اجتماع ہوتا ہے جہاں دنیا بھر کے گے اور لزبین جمع ہوتے ہیں۔ وہ سڈنی کی مصروف سڑکوں پر پریڈ بھی کرتے ہیں جسے دور دراز سے لوگ دیکھنے آتے ہیں۔

آصف کے ساتھ اس کا ایک دوست چوہدری ارشد بھی تھا جو بعد میں میرا بھی بہت اچھا دوست بن گیا۔ چوہدری دلچسپ آدمی تھا۔ وہ دو سال پہلے برطانیہ میں بسنے والی اپنی کزن سے شادی کر کے وہاں پہنچا تھا۔ یعنی دامادوں کے اس طبقے سے اس کا تعلق تھا جو آج کل برطانیہ کی پاکستانی کمیونٹی میں ایک الگ طبقے کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ در اصل پچیس تیس سال پہلے آنے والے پاکستانیوں کے بچے جوان ہو چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مسائل کا ایک ریلا بھی در آیا ہے۔ ظاہر ہے یہ مسائل اس نئی نسل کو پاکستانی کلچر پر کاربند رکھنے کی کوششوں سے متعلق ہیں۔ یورپ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں پلنے والی یہ نسل ان پابندیوں کو اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ اس طرح والدین اور بچوں کے درمیان ایک کشمکش سی رہتی ہے۔ اگر والدین بچوں کی شادیاں پاکستان میں کر بھی دیں تو مسائل ختم نہیں ہوتے بلکہ ان کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے۔

وہاں والدین کی حتی الوسع یہ کوشش ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی شادیاں پاکستان میں اپنے بھانجوں، بھانجیوں، اور بھتیجے، بھتیجیوں سے کی جائیں۔ جو لڑکیاں پاکستان سے بیاہ کر برطانیہ لائی جا رہی ہیں وہ تو پاکستانی معاشرے کی پروردہ ہوتی ہیں۔ یعنی باپوں، بھائیوں اور خاوندوں سے ڈری سہمی اللہ میاں کی گائے کی طرح ہوتی ہیں۔ جس کھونٹے سے باندھ دو بندھ جاتی ہیں۔ جس کے ساتھ وداع کر دو اس کے ساتھ ساری زندگی گزار لیتی ہیں۔ وہ پاکستان میں بے زبان ہوتی ہیں تو برطانیہ جیسے دور دراز ملک میں جا کر اپنے خاوند اور ساس سسر کے ساتھ کوئی مسئلہ کھڑا کرنے کوشش کیسے کریں گی۔ البتہ لڑکوں کا مسئلہ الگ ہے۔ چاہے وہ پاکستان میں کسی پس ماندہ گاؤں سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتے ہوں کسی حد تک اپنا حق جانتے ہیں۔ ٹی وی، اخبارات اور رسائل نے انہیں دنیا بھرکی معلومات فراہم کی ہوتی ہیں۔ من مانی کرنا وہ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ پاکستان جیسے مردوں کے معاشرے میں ان کے بولنے پر اور حق طلبی پر بھی کوئی خاص پابندی بھی نہیں ہے۔ برطانیہ پہنچ کر بھی وہ باہر کی دنیا سے جلد آشنا ہو جاتے ہیں۔ برطانیہ میں دامادوں کے اس طبقے اور ان کے سسرال کے درمیان اکثر ٹھنی رہتی ہے۔ برطانوی قانون بیرون ملک کی گئی شادیوں کو اکثر شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ آسٹریلیا کی طرح وہاں بھی شروع کے دو سال کے اندر اگر برطانوی شہریت کا حامل لڑکا یا لڑکی شادی کا بندھن توڑ دے تو بیرون ملک سے آنے والے اس کے شریک حیات کو برطانیہ سے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ یہ قانون اکثر دامادوں کے خلاف ہتھیار بلکہ ’نکیل، کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ان دو سالوں میں اکثر داماد سر جھکا کر وقت گزارتے ہیں۔ دامادوں کے اس طبقے سے گاہے گائے صدائے احتجاج بلند ہوتی رہتی ہے۔ دوسری طرف ان کے ساس سسر کو بھی ان سے کئی شکایتیں ہوتی ہیں۔

برطانیہ میں پرائیویٹ ریڈیو کا ایک چینل چوبیس گھنٹے اُردو پروگرام پیش کرتا ہے۔ مجھے اس چینل پر ایک دن دامادوں اور سسرالی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک نہایت ہی دلچسپ مباحثہ سننے کا موقعہ ملا۔ جس سے دونوں طبقوں کے مسائل، شکایات اور خیالات کا علم ہوا۔ وہ وقت دور نہیں جب آسٹریلیا کی پاکستانی کمیونٹی میں بھی ایسے ہی مسائل زیر بحث ہوں گے۔ کیونکہ اسی اور نوے کی دہائی میں نقل مکانی کرنے والے پاکستانیوں کے بچے اب شادیوں کی عمروں تک پہنچ چکے ہیں۔

 

چوہدری ارشد نے اپنی آدھی تنخواہ لٹا دی

 

اگلی صبح ناشتے کے بعد مَیں آصف کے ساتھ اس کی فیکٹری گیا۔ آصف کی بیڈ ہیڈز (Bed Heads) بنانے کی فیکٹری تھی۔ اس فیکٹری کے کارکنان کی کل تعداد دو تھی۔ یعنی آصف اور اس کا دوست چوہدری ارشد! اس طرح یہ دو افراد مالک، ملازم، ڈیلیوری پرسن، ڈیزائنر، کلینر اور ڈرائیور کا کام خود ہی کرتے تھے۔ آصف نے کچھ عرصہ پہلے یہ کام شروع کیا تھا جو آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کر رہا تھا۔ مَیں دوپہر تک وہاں رہا۔ اس دوران بیڈ ہیڈز کی ڈیلیوری کے لئے آصف کے ساتھ باہر بھی گیا۔ جہاں بھی گیا پاکستانیوں سے واسطہ پڑا۔ خود اس فیکٹری کے ارد گرد کے تمام کاروبار پاکستانیوں کے ہی تھے۔ ان میں سے کئی شلوار قمیض میں ملبوس کام کرتے دکھائی دئیے۔ ایک طرف ویلڈنگ شاپ تھی جسے جہلم کے خادم حسین چلا رہے تھے۔ دوسری طرف موٹر ورکشاپ تھی جس کے مالک لاہور کے خواجہ کریم صاحب تھے۔

عام دکانوں اور کاروباری مراکز پر انگریزی کے ساتھ ساتھ اُردو کے سائن بورڈ بھی موجود تھے۔ حتیٰ کے پبلک سکولوں پر بھی اُردو کے سائن بورڈ موجود تھے۔ کئی بورڈوں پر تحریر تھا کہ یہاں بچوں کے لئے دینی اور قرآن کی تعلیم کا بھی بندوبست ہے۔ Dewsberry کا یہ چھوٹا سا شہر بریڈفورڈ، لیڈز اور ہیڈرزفیلڈ کے درمیان واقع ہے۔ ان تینوں شہروں سے اس کا فاصلہ دس بارہ میل سے زیادہ نہیں ہے۔ اس لئے لوگ آسانی سے ان میں سے کسی بھی شہر میں کام کر کے شام کو گھر واپس آ سکتے ہیں۔ اس علاقے میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ مانچسٹر جو برطانیہ کا دوسرا بڑا شہر ہے وہ بھی چند گھنٹوں کی ڈرائیو پر ہے۔

آسٹریلیا سے جانے والوں کے لئے یورپ میں مختلف شہروں کے درمیان یہ فاصلے نہ ہونے کے برابر محسوس ہوتے ہیں۔ کیونکہ سڈنی سے برسبین اور ملبورن کا فاصلہ ایک ہزار کلو میٹر سے کم نہیں ہے۔ ایڈیلیڈ اور ہوبارٹ کا اس سے دوگنا فاصلہ ہے۔ جبکہ پرتھ کے لئے پانچ گھنٹے کا فضائی سفر کرنا پڑتا ہے۔ اس کے مقابلے میں وہ برطانیہ، جس کی سلطنت میں کسی دور میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا اب سکڑ کر چند گھنٹوں کی مسافت تک محدود ہو گیا ہے۔

اس دوران میری ملاقات کئی انگریزوں سے ہوئی۔ ان کا ظاہری اخلاق متاثر کن تھا۔ لیکن کچھ کا تعصب باہر آنے میں دیر نہ لگی۔ ایک انگریز کے شو روم میں مَیں اور آصف بیڈ ہیڈ کی ڈیلیوری کے لئے گئے۔ جب آصف نے اسے میرے بارے میں بتایا کہ مَیں سڈنی میں رہتا ہوں تو وہ رشک بھری آواز میں بولا ’’تم کتنے خوش قسمت ہو۔ مَیں ساری زندگی آسٹریلیا جانے اور اس کے دلکش بیچوں پرنہانے کے خواب دیکھتا رہا لیکن ابھی تک اس کی تعبیر نہیں ملی‘‘

مَیں نے کہا ’’میرا معاملہ اس کے برعکس ہے‘‘

اس نے کہا ’’وہ کیسے؟‘‘

مَیں نے جواب دیا ’’خواب دیکھنے کے لئے سونا ضروری ہے۔ جبکہ مَیں جب بھی کسی آسٹریلین بیچ پر جاتا ہوں تو رات کو نیند ہی نہیں آتی۔ ویسے بھی ہم پاکستانی پانی کو دور دور سے دیکھتے ہیں تاہم پانی کے باہر موجود مخلوق کو زیادہ شوق سے دیکھتے ہیں‘‘۔

وہ بہت ہنسا اور کہنے لگا ’’آصف تمہارا دوست بہت زندہ دل ہے۔ اس کا Sense of humour (حسِ مزاح) خالصتاً آسٹریلین ہے‘‘

مَیں نے کہا ’’ہاں! آسٹریلین کے Sense of humour میں تو کوئی شک نہیں۔ یہ ان کا Sense of humour ہی تو ہے کہ انہوں نے اکیسویں صدی میں بھی ملکہ برطانیہ کے زیر نگیں رہنا پسند کیا‘‘

انہی دنوں آسٹریلیا میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے آسٹریلین عوام نے جمہوریہ بننے کے بجائے ملکہ برطانیہ کی علامتی بادشاہت کے زیرِ نگیں رہنے کا انتخاب کیا تھا۔ میں نے یہ بات اسی تناظر میں کی تھی۔ انگریزوں کے لئے ان کا شاہی خاندان انتہائی عزت کا حامل اور ان کی روایتوں کا آمین ہے۔ جمہوری ملک ہونے کے باوجود وہ بادشاہ یا ملکہ سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ شاہی خاندان ان کی زندگیوں میں اس طرح رچا بسا ہے کہ وہ اٹھتے بیٹھتے ان کا ذکر کرتے نہیں تھکتے۔ ملکہ یا شاہی خاندان کے افراد کا ذکر ہو تو ان کی آنکھیں محبت سے چمک اٹھتی ہیں۔ وہ ملکہ یا بادشاہ کے خلاف کچھ سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ میری بات سن کر وہ انگریز بھی چونکا اور پینترا بدلتے ہوئے بولا ’’لگتا ہے دیگر پاکستانیوں کی طرح آپ کو بھی انگریزوں کی روایات زیادہ پسند نہیں ہیں، حالانکہ ایشین ممالک میں جمہوریت سے زیادہ آمریت کو پسند کیا جاتا ہے‘‘

یہ اس انگریز بہادر کا براہِ راست پاکستان کے سیاسی حالات پر طنز تھا۔ (ان دنوں جنرل مشرف اقتدار پر قابض تھا) مَیں نے اگر ان کی روایتی کمزوری کو نشانہ بنایا تھا تو اس نے پاکستان کے سیاسی حالات کو ذہن میں رکھ کر مجھے رگیدنے کی کوشش کی تھی۔ مَیں نے کہا ’’آپ نے تھوڑی دیر پہلے مجھے آسٹریلین کہہ کر میرے Sense of humour کی تعریف کی تھی اور اب میرے پاکستانی پسِ منظر پر طبع آزمائی فرما رہے ہیں۔ جہاں تک آمریت کو پسند کرنے کا تعلق ہے۔ جس وقت دنیا میں جمہوریت پروان چڑھ رہی تھی اس وقت ہم غیروں کی آمریت کے شکنجے میں کسے ہوئے تھے۔ انہوں نے جس وقت ہمارا ملک چھوڑا، اس وقت ہم معاشی، سماجی اور سیاسی طور پر مکمل غلام تھے۔ اتنے گہرے زخم اتنی جلدی مندمل نہیں ہوتے۔ لیکن ہمیں زخم لگانے والے یاد ہیں‘‘

آصف نے ہماری گفتگو کو تلخی کی جانب بڑھتے ہوئے دیکھ کر مداخلت کی اور ہم وہاں سے واپس چل دئیے۔ اس وقت تک مجھ پر اس انگریز کے ظاہری اخلاق کی قلعی کھل چکی تھی۔ ان کے تعصب کا تعفن نمایاں ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ بعد میں آصف نے بتایا کہ یہاں برطانیہ میں گوروں اور پاکستانیوں کے درمیان ایک کشمکش اور سرد جنگ کی سی کیفیت ہے۔ متعصب گورے اپنا روایتی احساس برتری چھپا نہیں سکتے اور پاکستانیوں کو چاہے وہ تین نسلوں سے یہاں رہ رہے ہوں اپنے برابر نہیں سمجھتے۔ جہاں موقع ملتا ہے وار کرنے میں دیر نہیں کرتے۔ دوسری طرف پاکستانی اپنی محنت اور قابلیت سے معاشی طور پر کافی مضبوط ہو چکے ہیں۔ آئین اور قانون ان کا ساتھ دیتا ہے اور وہ اپنے حقوق سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں۔ متعصب انگریزوں کو پاکستانیوں کی اعلیٰ تعلیم، اچھی نوکریاں اور ان کے کاروبار ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں اچھے لوگ بھی ہیں۔ دوسرا یہ کہ قانون کی حکمرانی ہے اس لئے کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔

دوپہر کا کھانا ہم نے گھر پر کھایا۔ اس کے بعد ہم تینوں یعنی مَیں، آصف اور چوہدری ارشد بلیک پول کے لئے روانہ ہو گئے۔ بلیک پول برطانیہ کا ساحلی شہر ہے۔ یہ Dewsberry سے تقریباً اڑھائی گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے۔ جس میں زیادہ تو موٹر وے ہے، جس کی سپیڈ اسی (۸۰) میل (کلو میٹر نہیں) فی گھنٹہ ہے۔ راستے کے مناظر بہت دلکش اور حسین تھے۔ سر سبز و شاداب میدان، ہرے بھرے درخت، لہلہاتی فصلیں اور جا بجا رنگ برنگے پھولوں کے کھیت آنکھوں میں ٹھنڈک پیدا کر رہے تھے۔ اس دن موسم بھی اچھا تھا۔ نرم اور رُوپہلی دھوپ ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔ اگرچہ ہوا میں خنکی تھی لیکن دھوپ کی وجہ سے سردی نہیں تھی۔ اردگرد کے نظاروں سے لطف اندوز ہوتے اور چوہدری ارشد کی خوش گپیاں سنتے سنتے ہم بلیک پول پہنچ گئے۔

یہ شہر ساحل سمندر پر واقع ہے۔ یہاں بیچ پر سمندر کا پانی گدلا بلکہ کالا اور بدبو دار ہے۔ لہذا نہانے کے لائق نہیں ہے۔ بس ساحل پر کھڑے ہو کر سمندر کا نظارہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ سمندر کے کنارے ایک پُر رونق سڑک واقع ہے۔ اس سڑک پر سینکڑوں کے حساب سے ہوٹل بنے ہوئے ہیں۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بے شمار سیاح آ کر ٹھہرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دکانیں بھی زیادہ تر اسی نوع کی ہیں کہ صرف سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتی ہیں۔ مثلاً نوادرات، مصنوعی زیورات، ٹی شرٹیں، نقشہ جات اور سیاحوں کے لئے معلوماتی مواد وغیرہ وغیرہ۔ دکانیں خوب سجی ہوئی اور دیدہ زیب ہیں۔ لیکن اس پورے بازار میں ایک چیز جو عام نظر آئی وہ مصنوعی جنسی اعضاء تھے۔ وہ دکانوں پر اس طرح سجے تھے جیسے پھلوں کی دکان پر سیب اور کیلے سجے ہوتے ہیں۔ چوہدری ارشد ہر دکان کے آگے کھڑا ٹک ٹک دیکھتا رہ جاتا۔ ہمیں واپس جا کر اسے پکڑ کر آگے لانا پڑ رہا تھا۔

پورے علاقے میں سیاحوں کی بہتات تھی۔ چوہدری ارشد ہر منٹ کے بعد کسی نہ کسی حسینہ سے ٹکرا رہا تھا۔ اس کے فوراً بعد وہ معافی مانگ لیتا بلکہ اس کے ساتھ ہی چل پڑتا۔ ایک دو سے اس نے جھڑکیں بھی سنیں۔ لیکن وہ مرد میدان اپنے مشن سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھا۔ ہمیں بار بار دھکیل کر اسے آگے بڑھانا پڑ رہا تھا۔

اس سڑک کے آخر میں گولڈ کوسٹ آسٹریلیا کی طرز کا برطانیہ کا مشہور ونڈر لینڈ ہے۔ جہاں بڑی بڑی اور بہت زیادہ تعداد میں رائڈز (جھولے)، اِن ڈور کار ریس، کشتی رانی اور دوسری بے شمار تفریحی کھیل تماشے موجود ہیں۔ اس ونڈر لینڈ سے پوری طرح لطف اندوز ہونے کے لئے ایک پورا دن یا اس سے بھی زیادہ وقت درکار ہے۔ یہ جگہ بچوں کے لئے زیادہ موزوں ہے۔ مجھے ان میں زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ پھر بھی ہم دو تین رائڈز پر گئے۔ ان میں سے کچھ تو اتنی خطرناک محسوس ہوتی ہیں کہ کمزور دل لوگوں کو وہاں جانے سے روک دیا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک رائڈ پر جانے کے لئے جب ہم ٹکٹ لینے لگے تو چوہدری ارشد نے کہا ’’تم لوگ جاؤ! مَیں یہیں ٹھہروں گا‘‘

آصف نے گھور کر اسے دیکھا اور کہا ’’کیوں! تمہیں کیا تکلیف ہے؟‘‘

چوہدری کہنے لگا ’’مجھے ڈر لگتا ہے۔ مَیں یہیں تمہارا انتظار کروں گا‘‘

آصف نے کہا ’’اگر یہاں سے ہلے تو مَیں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا‘‘

چوہدری نے وعدہ کیا کہ وہ ہمیں وہیں ملے گا۔

وہ دونوں دوست تھے لیکن آصف کا رول بڑے بھائیوں والا زیادہ تھا۔ ہم آدھ گھنٹے بعد واپس آئے تو چوہدری ارشد کا دور دور تک کوئی پتا نہ تھا۔ ہم تقریباً پندرہ بیس منٹ اس کا وہیں انتظار کرتے رہے لیکن چوہدری ارشد ایسے غائب تھا جیسے گدھے کے سر سے سینگ! آصف اسے برُا بھلا کہہ رہا تھا ’’وہ ضرور کسی لڑکی کے پیچھے چلا گیا ہے۔ نہ جانے کتنی دور گیا ہے اور پتا نہیں کب واپس آئے گا؟‘‘

مَیں نے اسے تسلی دی ’’فکر نہ کرو۔ ادھر ہی ہو گا جلد آ جائے گا‘‘

ہم اِدھر اُدھر گھومنے لگے۔ ہماری نظریں کسی اور تماشے سے زیادہ چوہدری ارشد کی متلاشی تھیں۔ گھومتے گھومتے کافی وقت گزر گیا۔ تھکن سے ٹانگیں شل ہو چکی تھیں۔ بھوک بھی ستا رہی تھی۔ چوہدری ارشد کے بغیر ہم کھانا نہیں کھانا چاہتے تھے۔ مگر جب ڈیڑھ گھنٹہ گزر جانے کے باوجود وہ واپس نہ آیا تو ہم ایک فش اینڈ چپس شاپ میں چلے گئے۔ کھانا لے کر پھر ہم اسی جگہ واپس آ گئے جہاں چوہدری کے واپس آنے کی توقع تھی۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں ہم اسے چھوڑ کر رائڈ پر گئے تھے۔

کافی دیر بعد وہ منہ لٹکائے واپس آتا دکھائی دیا۔ وہ چھ بجے ہم سے الگ ہوا تھا اور اب آٹھ بج رہے تھے۔ آصف تو اسے دیکھتے ہی برس پڑا۔ مَیں نے بڑی مشکل سے اسے ٹھنڈا کیا اور چوہدری ارشد سے پوچھا کہ وہ کہاں چلا گیا تھا؟ اس نے بڑی معصومیت سے بتایا ’’آپ لوگوں کے چلے جانے کے بعد میں بنچ پر بیٹھ کر سگریٹ پینے لگا۔ اتنے میں ایک گوری آئی۔ اس نے مجھ سے سگریٹ طلب کی۔ مَیں نے اسے سگریٹ دی تو وہ وہیں میرے پاس بیٹھ گئی۔ اس نے پوچھا کہ تمھارے ساتھ کوئی اورہے یا اکیلے ہو؟ میرے منہ سے ’’غلطی سے ‘‘نکل گیا ’’مَیں تو اس دنیا میں بالکل اکیلا ہوں میرے ساتھ کون ہو گا؟‘‘

فلمیں دیکھ دیکھ کر تھوڑی سی اداکاری بھی آ گئی ہے۔ مَیں نے اداکار محمد علی کی نقل کرتے ہوئے چند آنسو بھی بہا دیئے۔ میری اس اداکاری کا جو اثر ہوا وہ میری توقع سے بھی زیادہ تھا۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے میرے آنسو صاف کئے۔ مَیں نے اسے ڈرنک آفر کی تو وہ کہنے لگی کہ اس کے ڈنر کا ٹائم ہو گیا ہے۔ دو ڈرنکس اور ڈنر کرانے میں دو گھنٹے اور پچاس پونڈ صرف ہو گئے‘‘

مَیں نے پوچھا ’’اس کے بعد کیا ہوا؟‘‘

’’ڈرنک پینے اور کھانا کھانے کے بعد اس نے مجھ سے دس پونڈ لے کر پوکر مشین میں ہارے اور مزید طلب کئے۔ جب مَیں نے اسے بتایا میرے پاس مزید رقم نہیں ہے تو اچانک اسے خیال آیا کہ گھر میں اس کا خاوند اس کا انتظار کر رہا ہے۔

مَیں نے کہا ’’تم نے پہلے نہیں بتایا کہ تم شادی شدہ ہو‘‘

کہنے لگی ’’پہلے تم نے پوچھا ہی نہیں!‘‘

اور پھر وہ چلی گئی!‘‘

آصف چوہدری کی باتیں سنتے ہوئے دانت پیس رہا تھا۔ جب چوہدری نے بات ختم کی تو اس نے کہا ’’تمہیں پتا ہے کہ ساٹھ پونڈ تمہاری تنخواہ کا نصف ہوتے ہیں جو تم نے ایک آوارہ عورت پر مفت میں لٹا دئے‘‘

اس وقت تک چوہدری بھی خاصا پشیمان ہو چکا تھا۔ مَیں نے اسے تسلی دی اور کہا ’’ایسا تو ہوتا ہے ایسے کاموں میں! لیکن کسی بھی تجربے سے جو سبق حاصل ہوتا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے‘‘

تھوڑی دیر بعد ہم واپسی کے سفر پر گامزن تھے۔ اس وقت تک سب کا موڈ بحال ہو چکا تھا۔ چوہدری پھر چہک رہا تھا۔ راستے میں ایک موٹر وے سے آصف مطلوبہ ایگزٹ نہ لے سکا۔ واپس آنے کے لئے اگلا ایگزٹ تیس میل کے بعد تھا۔ اس طرح ذرا سی غلطی سے سفر میں ساٹھ میل کا اضافہ ہو گیا۔ راستے میں آصف کی فرمائش پر چوہدری ارشد نے ہمیں بہت سے پوٹھو ہاری شعر سنائے۔ اس نے مجھ سے بھی فرمائش کی، تو مَیں نے کہا ’’پوٹھو ہار کی مردم خیز زمین اور اس کے سوندھی سوندھی خوشبو سے مجھے بھی بہت پیار ہے۔ اس مٹی میں ہی میری نمو ہوئی ہے اور یہی مٹی میرا مدفن بنے گی۔ لیکن اتفاق سے پوٹھوہاری شعروں کا کبھی شوق نہیں رہا! کبھی کبھار سن ضرور لیتا ہوں، ہاں مَیں آپ کو غالبؔ، فیضؔ، فرازؔ، ناصرؔ کاظمی، اور پروینؔ شاکر کا کلام ضرور سنا سکتا ہوں‘‘

پھر راستے بھر یہی سلسلہ جاری رہا۔ چوہدری ارشد پوٹھوہاری شعر سناتا رہا۔ مجھے اُردو کے جو شعر یاد تھے ان سے جواب دیتا رہا اور آصف فلمی گانوں سے ہمارا ساتھ دیتا رہا۔ گھر پہنچتے پہنچتے رات کے بارہ بج گئے۔

 

کراچی کا ستر سالہ سنیاسی باوا لندن میں

 

مَیں نے آسٹریلیا سے روانگی سے قبل ہی یورپ میں اپنے قیام کا بندوبست کر لیا تھا۔ برطانیہ کے علاوہ دوسرے یورپی ممالک کا سفر میں ایک گروپ کے ہمراہ کر رہا تھا۔ ٹریفالگر نامی اس مشہور ٹریولنگ کمپنی نے آرام دہ کوچ، ڈرائیور، گائیڈ اور ہوٹلنگ کا پورا بندوبست کیا ہوا تھا۔ حتیٰ کہ مشہور اور قابلِ دید مقامات پر جانے کے لئے ٹکٹ بھی خریدے ہوئے تھے۔

جہاں تک برطانیہ میں قیام کا تعلق ہے اس کا ایک حصہ تو یارک شائر کے قیام پر مشتمل تھا۔ وہاں مَیں اپنے دوست آصف کی وجہ سے ہی گیا تھا اور اسی کے پاس ٹھہرنا تھا۔ دوسرے حصے میں چار دن کیلئے لندن کی سیاحت شامل تھی۔ مَیں نے وہاں قبل از وقت ہو ٹل بک نہیں کروایا تھا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مَیں آصف کو بھی وہاں لے کر جانا چاہتا تھا۔ حالانکہ اس نے کاروباری مصروفیات کی وجہ سے وہاں جانے سے معذرت کر لی تھی۔ لیکن مَیں پھر بھی توقع کر رہا تھا کہ یارک شائر جا کر اسے ساتھ چلنے پر قائل کر لوں گا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ لندن میں میرا ایک اور قریبی دوست علی بھی رہتا تھا۔ مَیں نے سوچا کہ اس کے ذریعے قیام کا بندوبست ہو جائے گا۔

لیکن وہاں جا کر اپنی آنکھوں سے آصف کی مصروفیات دیکھیں تو یقین آ گیا کہ اس کا نکلنا واقعی مشکل ہے۔ یارک شائر سے ہی مَیں نے علی کو فون کیا۔ علی میرا بچپن کا دوست ہے۔ ربع صدی پر محیط اس دوستی میں دونوں کے خاندان بھی پوری طرح شامل ہو چکے ہیں۔ جس دن مَیں گوجر خان سے مانچسٹر کے لئے روانہ ہو رہا تھا علی کی دادی اور اس کا چچا اگلے دن سے ہی ہمارے گھر آئے ہوئے تھے۔ میری روانگی کے وقت بھی وہ وہیں تھے۔

میرا فون علی کی ساس نے اٹھایا جو اس کی چچی بھی ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ علی کام پر گیا ہوا ہے۔ مَیں نے ان سے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ علی کو میرا یہ فون نمبر دے دیں اور بتا دیں کہ مَیں یارک شائر میں ہوں اور عنقریب لندن آنے والا ہوں اور یہ کہ علی اس نمبر پر فون کر کے مجھ سے بات کرے۔ علی کا اس رات فون نہیں آیا۔ دوسرے دن صبح مَیں نے دوبارہ فون کیا اس بار علی سے بات ہو گئی۔ اس نے خوشی اور محبت کا اظہار کیا اور کہنے لگا کہ لندن آؤ تو ملاقات ضرور کرنا۔ مَیں نے کہا ’’بھائی! مَیں کل صبح لندن آنے والا ہوں۔ ٹور پر روانہ ہونے سے پہلے یہ چار دن لندن رک کر اس کی سیر کرنا چاہتا ہوں‘‘

علی نے پوچھا ’’لندن میں کہاں ٹھہرو گے؟‘‘

مَیں حیران ہوا کہ علی جیسے دوست نے یہ سوال پوچھا ہے۔ بہرحال مَیں نے کہا ’’ابھی مَیں نے ہوٹل بک نہیں کرایا۔ آج دن میں کروا لوں گا اور پھر وہاں جا کر تمہیں اطلاع دوں گا‘‘

مَیں اور آصف ایک ٹریول ایجنسی میں گئے اور لندن کے علاقے بیز واٹر(Bays (Water میں واقع ایک ہوٹل میں کمرہ بک کروا لیا۔ مَیں نے آصف کو علی کے عجیب رویے کے بارے میں بتایا۔ اس نے پوچھا ’’کیا وہ سسرال میں تو نہیں رہتا؟‘‘

مَیں نے کہا ’’ہاں! وہ شروع سے انہی کے ساتھ رہ رہا ہے‘‘

آصف بولا ’’پھر وہ مجبور ہے۔ وہ خود مہمانوں کی طرح رہ رہا ہو گا کسی دوسرے کو مہمان کیا بنائے گا‘‘

لیکن یہ عذر میرے لئے قابلِ قبول نہیں تھا۔ مَیں پچیس سال پہ محیط علی سے دوستی پر غور کر رہا تھا تو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یورپ کے اس سرد موسم میں کسی انسان کے جذبات بھی اتنی جلدی سرد ہو سکتے ہیں۔ اگر علی مجھے اعتماد میں لے کر کوئی مجبوری بتاتا تو مَیں ذرا بھی برا نہیں مناتا۔ لیکن اس کا رویہ اور الفاظ برف میں لپٹے محسوس ہوئے تھے۔ یہ پاکستانیوں والا مزاج بالکل نہیں تھا۔ وہ چند سالوں میں انگریزوں سے زیادہ انگریز بن گیا تھا۔ مَیں نے لندن میں علی سے نہ ملنے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی بقول اس کے ویک اینڈ کے علاوہ اسے سانس لینے کی فرصت نہیں ہوتی۔ جبکہ مَیں یہاں لمبی لمبی بلکہ ٹھنڈی سانسیں لینے کیلئے آیا تھا۔ لمبی سانسیں پارکوں کے پر فضا مقامات پر اور ٹھنڈی سانسیں مصروف بیچوں پر!

یورپ جا کر اور وہاں کے لوگوں سے مل کر مَیں نے اندازہ لگایا کہ یورپ کی زندگی آسٹریلیا سے کہیں زیادہ تیز اور مصروف ہے۔ یہ تیزی اور مصروفیت پاکستان کی نسبت تو بہت ہی زیادہ ہے۔ بلکہ پاکستان میں تو یہ مصروفیت خال خال ہی دکھائی دیتی ہے۔ آسٹریلیا میں بھی ڈالر کمانے کی دوڑ لگ چکی ہے۔ لیکن لوگ پھر بھی دوستوں، رشتہ داروں اور دوسری تقریبات کے لئے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ اس طرح پاکستان سے آنے والوں کو بھی مجموعی نہ سہی تو انفرادی طور پر ضروری مدد فراہم کرتے رہتے ہیں۔ سڈنی کے ایک سابقہ قونصلیٹ جنرل کے مطابق یہاں کے لوگ ہر وقت دعوتیں دینے اور کھانے کے موڈ میں رہتے ہیں۔

یورپ اور خصوصاً امریکہ میں زندگی کا بہاؤ تیز اور اس کے مطالبے زیادہ ہیں۔

ڈالروں اور پونڈوں کی اس دوڑ میں مصروف لوگوں کو بعض اوقات یہ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے اس دوڑ میں اپنے پیاروں اور چاہنے والوں کو کہیں کھو دیا ہے۔ جب انہیں احساس ہوتا ہے اس وقت بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ وہ سب کچھ ہونے کے باوجود تہی دامن نہ سہی تو تہی دل ضرور ہو چکے ہوتے ہیں۔ کچھ پاتے ہیں تو بہت کچھ کھو بھی دیتے ہیں۔ شاید زندگی اسی پانے اور کھونے کا نام ہے۔

اس دن میرا لنچ آصف کے بھائی کے گھر تھا۔ وہ کافی عرصہ سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔ ان کا اپنا بزنس اور اپنا گھر ہے۔ ماشاء اللہ خوشحال گھرانا ہے۔ وہاں سے نکل کر ہم بریڈ فورڈ جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے کہ اچانک آصف کا ایک دوست ساجد آن پہنچا۔ ساجد کے والدین بہت عرصہ پہلے برطانیہ آئے تھے۔ ساجد یہیں پلا بڑھا تھا اور انگریزوں ہی کی طرح انگریزی بولتا تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج بقیہ میزبانی کا فریضہ وہ انجام دے گا۔ اس نے ہمیں اپنی نئی مرسیڈیز میں بٹھایا اور تھوڑی دیر بعد جیسے ہم ہوا میں تیرتے ہوئے بریڈ فورڈ کی طرف رواں دواں تھے۔ گاڑی تو بہت اچھی تھی ہی! ساجد ڈرائیور بھی کمال کا تھا۔ جب آصف نے اسے آہستہ چلانے کا کہا تو بولا ’’فکر نہ کرو! اس علاقے کی پولیس مجھے ٹکٹ نہیں دے سکتی۔ سبھی میرے ریسٹورانٹ پر آ کر کھانا کھاتے ہیں‘‘ گویا پاکستانیوں نے یہاں کی پولیس کو بھی’ کانا، کر لیا تھا۔

تھوڑی دیر میں ہم برطانیہ کے منی پاکستان بریڈ فورڈ میں موجود تھے۔ بریڈ فورڈ اتنا بڑا شہر نہیں ہے، نہ ہی اس میں کوئی قابلِ ذکر تاریخی مقامات اور عمارتیں ہیں۔ لیکن اس میں برطانیہ کی تاریخی عمارتیں، سڑکیں اور پرانے طرز تعمیر کی حامل شاہکار بے شمار عمارتیں ہیں۔ گرد و نواح میں سیکڑوں صنعتی یونٹ ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کے بے شمار تارکین وطن پاکستانیوں نے اس علاقے کو اپنا مسکن بنایا۔ آصف اور ساجد مجھے بریڈ فورڈ کے سب سے بڑے شاپنگ سنٹر میں لے گئے جو تین منزلہ تھا۔ مجھے شاپنگ سینٹر سے دلچسپی نہیں تھی۔ ویسے بھی ان کی نظر میں یہ بہت بڑا تھا۔ جبکہ سڈنی میں میرے علاقے میں واقع ’’ویسٹ فیلڈ پیراماٹا‘‘ جو بارہ منزلوں پر مشتمل ہے کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہ تھا۔

ہم بریڈ فورڈ کے مختلف علاقے کی سڑکوں اور گلیوں میں گھومتے رہے۔ بے شمار پاکستانی خواتین و حضرات چلتے پھرتے نظر آ رہے تھے۔ ان میں سے اکثر پاکستان کے قومی لباس (شلوار قمیض) میں اور کچھ پنجاب کی سوہنی دھرتی کے روایتی لباس یعنی کرتے اور تہہ بند میں تھے۔ کئی مقامات پرایسے ہی لباس میں ملبوس متعدد بزرگ حضرات فرنٹ یارڈ پر چارپائیاں ڈال کر بیٹھے نظر آئے۔ انہوں نے اپنے آگے حقے رکھے ہوئے تھے اور گاؤں کی چوپال کی طرح گپ شپ میں مصروف تھے۔ آصف نے بتایا کہ پاکستان کا حقہ اور تمباکو وہاں با آسانی دستیاب ہے۔ بلکہ پاکستان کی بنی ہوئی مٹھائیاں، پاکستانی آم اور دیگر پھل بھی دکانوں سے مل جاتے ہیں۔ آسٹریلیا کی نسبت پاکستان سے فاصلہ بہت کم ہونے کی وجہ سے انہیں پاکستان سے رسل و رسائل کی زیادہ سہولتیں میسر ہیں۔

اگرچہ لندن سے جنگ اخبار روزانہ چھپتا ہے جو پورے برطانیہ بلکہ یورپ کے دوسرے شہروں میں بھی جاتا ہے، اس کے باوجود دیگر پاکستانی اخبارات بھی آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جنگ کے ذکر سے مجھے یاد آیا کہ جنگ لندن کے چند روزہ مطالعے سے مجھے علم ہوا کہ پاکستانیوں کے مختلف گروپوں اور کچھ خاندانوں میں دشمنیوں کا سلسلہ وہاں بھی چل رہا ہے۔ اگرچہ برطانیہ میں قانون کی سختی ان کی سدِ راہ ہے۔ لیکن پھر بھی انہیں جہاں موقع ملتا ہے ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔ چند قتل بھی ہو چکے ہیں۔ مار پیٹ کا سلسلہ تو اکثر چلتا رہتا ہے۔ گویا پاکستان میں شروع کی ہوئی دشمنیوں کی آگ لندن کی یخ ہواؤں میں بھی سرد نہ ہو سکی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی پاکستانی جو آپس کے جھگڑوں میں مصروف رہتے ہیں اگر ان کے کسی اہل وطن پر کوئی غیر حملہ کرے تو برداشت نہیں کر پاتے۔ میرے برطانیہ پہنچنے سے چند دن پہلے ایک ایسے ہی جھگڑے میں جو پاکستانیوں اور جمیکا کے کالوں کے درمیان ہوا تھا، ایک کالا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔

جنگ لندن میں چند اور دلچسپ چیزیں بھی نظر آئیں، مثلاً کراچی کا ستر سالہ سنیاسی باوا یہاں بھی موجود تھا۔ پچیس سال قبل جب میں پہلی مرتبہ کراچی گیا تو اس ستر سالہ سنیاسی باوے کے اشتہار کراچی کی دیواروں پر نظر آئے۔ میں گیارہ سال تک وہاں رہا۔ اس دوران اس باوے کا اشتہار مختلف علاقے کی دیواروں پر ہمیشہ دکھائی دیتا رہا۔ گیارہ سال میں یہ بابا ستر سال سے ذرا بھی آگے نہیں بڑھا۔ اس کے مزید دس سال بعد جب مَیں پھر کراچی گیا تو وہ تب بھی سترسال کا ہی تھا۔ یہ ’’باوا‘‘ تمام لاعلاج امراض مثلاً مردانہ کمزوری، زنانہ اور مردانہ خفیہ امراض، بواسیر، دائمی زکام اور بوڑھوں کو جوان کرنے تک ہر نا ممکن کو ممکن کر سکتا ہے۔ گویا دنیا بھر کے ڈاکٹر اور سائنسدان کروڑوں ڈالر خرچ کر کے جن بیماریوں کا علاج دریافت نہیں کر سکے یہ باوا ان سب امراض کو چٹکی بجاتے ٹھیک کر سکتا تھا۔ یہی ستر سالہ سنیاسی ’’باوا‘‘ اس وقت یورپ کے لوگوں کو اپنے تیر بہدف نسخوں سے مستفید کرنے کے لئے لندن پہنچا ہوا تھا۔

جنگ لندن میں اس کے علاوہ ایک عامل بابا کا اشتہار بھی روزانہ اخبار کی زینت بن رہا تھا۔ یہ بابا بھی نا ممکن کو ممکن کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ مثلاً محبت میں ناکامی، کاروبار میں ناکامی، بے روزگاری، شوہر کے بے التفاتی، بیوی کی بے وفائی، ساس کو قابو کرنا، بہو کو نکیل ڈالنا، باس کا دل موم کرنا اور اولاد کا نہ ہونا، ان سب مسائل کو یہ بابا راتوں رات حل کر سکتا تھا۔

کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جہالت ہے اس لئے ایسے فراڈیوں کو گل کھلانے کا موقع مل جاتا ہے۔ لیکن لندن جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ لوگ اپنی فنکاری سے بھولے بھالے لوگوں کو زیر دام لا رہے ہیں۔ گویا ہماری روایتی تو ہم پرستی کہیں بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتی۔ اس صورتِ حال پر ایک مصرعہ علامہ اقبال سے معذرت کے ساتھ عرض کروں گا!

لندن میں بھی نہ چھوٹے مجھ سے آدابِ توہم پرستی

بریڈ فورڈ میں ایک بہت ہی مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ ممتاز محل ہے۔ یہ وہاں کے ایک بہت بڑے کاروباری پاکستانی کی ملکیت ہے۔ ان حضرت کے کئی اسٹور اور دوسری کمرشل عمارتیں بھی ہیں۔ ساجد ہمیں ڈنر کے لئے وہاں لے گیا۔ حالانکہ اس کا اپنا بھی ریسٹورانٹ ہے۔ (اکثر ریسٹورانٹ کے مالک اپنے ریسٹورانٹ میں کھانا نہیں کھاتے، نہ جانے کیوں؟) ممتاز محل ریسٹورانٹ کا ہال محل کی طرح ہی خوبصورت اور وسیع تھا۔ اس کا عملہ تھری پیس سوٹ میں ملبوس اور نہایت چاک و چو بند تھا۔ ہال میں مدھم روشنیاں، آرام دہ خنکی اور مدھر سی موسیقی کی تانیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ جب کھانا آیا تو اس کا ذائقہ لا جواب تھا۔ ہر ڈش اور ہر نان کسی فن کار طباق کے فن کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بھوک زیادہ نہ ہونے کے باوجود ہم نے مختلف ڈشوں اور ان کی روایتی لسی سے پورا پورا انصاف کیا۔ اس ریسٹورانٹ کا بنا ہوا پیک کھانا برطانیہ کے بڑے بڑے سٹوروں میں بھی دستیاب ہے۔

وہاں سے نکل کر ہم Dewsberry میں واقع ایک میوزیم میں گئے۔ اس چھوٹے سے میوزیم کے گرد و نواح میں خوبصورت اور گھنا باغ ہے۔ ساجد نے ہنستے ہوئے بتایا کہ یہ محبت زدہ جوڑوں کے لئے منفرد جگہ ہے۔ اس میوزیم کا ایک حصہ بر صغیر پاک و ہند کے مناظر پر مشتمل تصاویر کے لئے مخصوص تھا۔ داتا دربار لاہور کا ایک خوبصورت منظر آنکھوں کو تراوت بخش رہا تھا۔ شاہی مسجد کی شاندار پینٹنگ ایک دیوار پر آویزاں تھی۔ سکھوں کا گردوارہ اور گنگا میں اشنان کرتے ہوئے ہندوؤں کا ایک منظر بھی نہایت خوبصورتی اور مشاقی سے کینوس پر منتقل کیا گیا تھا۔ گھر واپس آتے آتے رات کے دس بج گئے۔ دوسرے دن میں لندن کے لئے روانہ ہو رہا تھا۔

 

جب اشیاء کے نرخ بتاتی تو چڑیل لگتی تھی

 

۱۸ جولائی کی صبح ہم ابھی ناشتے میں مصروف تھے کہ ساجد اپنی مرسڈیز کے ساتھ آ پہنچا۔ ناشتے کے فوراً بعد وہ ہمیں لے کر لیڈز کی طرف روانہ ہو گیا۔ لیڈز بھی بریڈ فورڈ کی طرح بیس پچیس منٹ کی مسافت پر تھا۔ میں نے لیڈز اوول دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیڈز کا اوول بھی سڈنی کرکٹ گراؤنڈ کی طرح سرسبز اور خوبصورت ہے۔ اس وقت دو کاؤنٹیز میں میچ جاری تھا۔ گراؤنڈ میں تماشائیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ تاہم جو تماشائی میدان میں موجود تھے وہ دلکش سہانے موسم اور اُجلی دھوپ سے پوری طرح لطف اندوز ہو رہے تھے۔ یورپ اور آسٹریلیا میں لوگ کھیلوں سے بھر پور انداز میں لطف اٹھاتے ہیں۔ وہ ٹولیوں کی شکل میں میدانوں میں جاتے ہیں۔ ٹھنڈے اور گرم مشروبات کا دور چلتا رہتا ہے۔ ہنسی مذاق اور ہلکی پھلکی نعرے بازی بھی جاری رہتی ہے۔ ان کی ٹیم ہارے یا جیتے وہ دونوں صورتوں میں کھیل انجوائے کرتے ہیں۔ اکثر لوگ اپنی ٹیم کے یونیفارم کے رنگ کے کپڑے پہن کر آتے ہیں اور اپنے پسندیدہ کلب کے جھنڈے اٹھائے ہوتے ہیں۔ کھانے پینے، ہنسی مذاق اور اچھے کھیل سے تماشائی دن کے ہر لمحے کو بھرپور اور یادگار انداز میں مناتے ہیں۔

لیڈز میں آصف کے کچھ دوست رہتے تھے۔ ہمارا لنچ اس دن اُن کے ہاں تھا۔ ہم اس اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو یوں محسوس ہوا کہ خطّہ پوٹھوہار میں ہونے والی کسی گانے کی محفل میں پہنچ گئے ہوں۔ اس فلیٹ میں چار لڑکے رہتے تھے۔ ان میں سے دو اپنے سسرال والوں سے ناراض ہو کر وہاں آئے تھے اور دو طالبعلم تھے۔ چاروں کا تعلق گوجرخان سے تھا۔ ہم جب وہاں پہنچے تو کل چھ افراد وہاں موجود تھے۔ ایک نے ڈھولک پکڑی ہوئی تھی۔ دوسرے کے ہاتھ میں ستار (گٹار) تھی اور تیسرے نے تانبے کا ایک تھال اُلٹا رکھا ہوا تھا۔ باقی تینوں تالیوں اور نعروں سے ان کا ساتھ دے رہے تھے۔ پوٹھوہاری شعر خوانوں کا اندازِ گائیکی منفرد اور طرز جُدا ہے۔ شروع میں یہ انداز عجیب محسوس ہوتا ہے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کی ردم اور تال اور گائیکی کا انداز اچھا لگنے لگتا ہے۔ مجھے اگرچہ اس طرح کے گانوں کا زیادہ شوق نہیں ہے پھر بھی گاہے گاہے سُن کر لطف اندوز ہوتا ہوں۔

ان تمام دوستوں نے ہمارا والہانہ استقبال کیا۔ گانے کی محفل جاری رہی۔ ساتھ ساتھ کھانے کا دور چلتا رہا۔ جو شوقین تھے ان کے لئے ناؤ نوش کا بھی بندوبست تھا۔ یورپین زندگی میں اس طرح کی چیزیں اکثر دیکھنے میں آتی رہتی ہیں۔ کھانے کے بعد تمام دوست دو گاڑیوں میں مجھے اسٹیشن چھوڑنے کے لئے گئے۔ اچھا خاصا جلوس کا ماحول بن گیا۔ میرا سامان پہلے ہی میرے ساتھ تھا۔ انہوں نے Hudersfield) (کے اسٹیشن سے مجھے لندن کی ٹرین پر بٹھایا۔ وہاں ساجد نے میری ایک نہ چلنے دی اور ٹکٹ کے پیسے زبردستی اداکئے۔ ۶۵ پو نڈ کی رقم کم نہ تھی۔ خصوصاً اس صورت میں کہ ساجد سے میری ملاقات صرف ایک دن قبل ہی ہوئی تھی۔ ان دو دنوں میں اس نے مجھے اپنے خلوص، محبت، بے تکلفی اور دریا دلی سے بے حد متاثر کیا تھا۔ آصف اور دوسرے تمام دوستوں نے بہت محبّت اور خلوص سے الوداعی معانقہ کیا اور میں ٹرین میں سوار ہو گیا۔

یورپ میں یہ میرا پہلا ٹرین کا سفر تھا۔ ان کا کرایہ آسٹریلیا کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ مثلاً Huddersfield سے لندن کا یہ سفر صرف ۳ گھنٹے کا ہے۔ جبکہ ۶۵ پونڈ آسٹریلیا کے تقریباً دو سو ڈالر کے برابر ہیں۔ آسٹریلیا میں دو سو ڈالر میں اس سے چار گنا سفر کیا جا سکتا ہے۔ تاہم یہ ٹرین انتہائی آرام دہ، صاف ستھری اور جدید ترین سہولتوں سے آراستہ تھی۔ ٹرین کے اندر کا ماحول بالکل بین الاقوامی پرواز کی مانند تھا۔ ویسے ہی آرام دہ سیٹیں، صاف ستھرے ٹوائلٹ اور با اخلاق عملہ! جہاز کی طرح ٹرین کے میزبان ٹرالی میں تمام مشروبات، چائے، کافی اور اسنیکس وغیرہ سرو کر رہے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ ان میں کوئی چیز مُفت نہیں تھی۔ قیمت ادا کر کے کچھ بھی خرید سکتے ہیں۔ ائرہوسٹس کی طرح ٹرین کی میزبان بھی نوجوان، دلکش اور خوش اخلاق تھی۔ وہ چہرے پر ایک خوبصورت مسکراہٹ سجائے ہوئی تھی۔ لیکن جب ڈرنک یا کافی کی قیمت بتاتی تھی تو بالکل چڑیل لگتی تھی۔

شمالی برطانیہ کا یہ دیہی علاقہ جہاں سے ہماری ٹرین گزر رہی تھی، انتہائی خوبصورت ہے۔ سر سبز و شاداب فارم دونوں جانب اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ کھیتوں میں کام کرتے ہوئے کسان مرد اور عورتیں، رنگا رنگ فصلیں، اونچے نیچے پہاڑی علاقے، بل کھاتی وادیاں، غرضیکہ قدرت کی صنّاعی کے نمونے جا بجا بکھرے تھے۔ ٹرین کے اندر کا ماحول بھی کافی رنگین تھا۔ کئی دلکش چہرے اٹھکیلیاں کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ میں جس سیٹ پر کھڑ کی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس پر تین افراد کی گنجائش تھی۔ لیکن وہاں میرے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ البتہ میرے بالکل سامنے ایک انگریز بیٹھا ہوا تھا۔ وہ کبھی تو کتاب پڑھتا اور کبھی باہر کے نظارے دیکھنے لگتا۔

پہلے ایک گھنٹے میں ہمارے درمیان کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ میں جانتا تھا کہ انگریز پہل کرنا پسند نہیں کرتے۔ لیکن اگر دوسرا ان کو مخاطب کر لے تو پھر ریڈیو کی طرح بجنے لگتے ہیں۔ بالکل یہی ہوا۔ میں نے اس سے ان مناظر کی خوبصورتی کی بات کی تو اس کا بٹن آن ہو گیا۔ اس نے بتایا کہ وہ لندن میں کام کرتا ہے اور Hudersfield میں اس کا آبائی گھر ہے۔ لہذا وہ پانچ دن لندن میں رہتا ہے اور دو دن یہاں اپنی فیملی کے ساتھ گزارتا ہے۔

وہ ویک اینڈ گزار کر واپس لندن جا رہا تھا۔ اس نے بتایا ’’میں اپنے بچّوں کو لندن کے شور و غُل اور کثافت زدہ ماحول سے دور یہاں دیہات میں پروان چڑھانا چاہتا ہوں۔ اس کی وجہ سے مجھے پانچ دن فیملی سے دور رہنا پڑتا ہے اور ہر ہفتے یہ مہنگا سفر بھی کرنا پڑتا ہے۔ بچوں کی صحت مند ماحول میں نشو و نما کیلئے یہ قربانی دینی پڑ رہی ہے۔‘‘

میں سوچ رہا تھا کہ پاکستان میں لوگ گاؤں چھوڑ کر شہروں میں اس لئے جا بستے ہیں کہ وہاں بچوں کی بہتر پرورش اور تعلیم و تربّیت ہو گی۔ اب آہستہ آہستہ دیہات خالی ہو رہے ہیں اور شہر آبادی کے بوجھ سے دبے جا رہے ہیں۔ حالانکہ لندن کے مقابلے میں کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی جیسے شہر انتہائی کثافت زدہ اور شور و غُل سے بھر پور ہیں لیکن ہم پھر بھی وہیں رہنا پسند کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تو روزگار، بچوں کی تعلیم اور علاج معالجے کی بہتر سہولتوں کی وجہ سے شہروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ کچھ لوگ شوقیہ اور بلا ضرورت بھی شہروں میں ٹکے رہتے ہیں۔ جو چار جماعتیں پڑھ جاتا ہے اسے گاؤں کی زندگی زہر لگنے لگتی ہے۔ کچھ تو صرف بیگمات کی فرمائش پر ہی شہروں کے ڈربوں میں بند رہ کر زندگی گزار دیتے ہیں جہاں نہ تازہ ہوا ہے اور نہ خالص خوراک، صرف نمائشی چکا چوند ہے۔

بہرحال یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات ہو رہی تھی، اس انگریز بہادر کی جو مجھ سے پوچھ رہا تھا کہ مَیں کہاں سے آیا ہوں۔ مَیں نے اسے بتایا ’’بنیادی طور پر میرا تعلق پاکستان سے ہے لیکن مَیں آسٹریلیا میں رہتا ہوں۔ اب یورپ کی سیر کے لئے نکلا ہوں‘‘

وہ انگریز جس کا نام مارک تھا، کہنے لگا ’’اوہ! آسٹریلیا! بہت خوبصورت ملک ہے۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ اتنی اچھی جگہ رہتے ہو۔ مَیں طالبعلمی کے زمانے میں ایک دفعہ وہاں گیا تو میرا دل واپس آنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ کبھی کبھی مَیں سوچتا ہوں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اگر ممکن ہوا تو آسٹریلیا میں جا بسوں گا اور بقیہ زندگی وہیں گزاروں گا‘‘

یہ پہلی اور آخری دفعہ نہیں تھا کہ کسی یورپین نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا۔ اس دورہ یورپ کے دوران میری بے شمار یورپین، امریکن اور ساؤتھ افریکن باشندوں سے ملاقات رہی۔ ان میں سے درجنوں نے آسٹریلیا میں رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ بعض نے کوششیں بھی کیں لیکن انہیں مستقل سکونت کا ویزہ نہ مل سکا۔ ویسے بھی آسٹریلیا میں سب سے زیادہ تارکینِ وطن یورپ خصوصاً برطانیہ سے متعلق ہی ہیں۔

مارک نے بتایا کہ اس نے ماہر تعلیم کی حیثیت سے دوسال بنگلہ دیش میں بھی گزارے ہیں۔ اس دوران اس کو دلچسپ تجربات ہوئے۔ اس کے بعد مارک سے کھلی گپ شپ شروع ہوتی رہی۔ ایک مرحلے پر وہ کہنے لگا ’’میرے خیال میں اگر بھارت پاکستان اور بنگلہ دیش اکھٹے ہوتے تو وہ زیادہ مضبوط اور خوشحال ملک ہوتا‘‘

مَیں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ’’میرے خیال میں رقبہ یا آبادی زیادہ ہونے سے کسی ملک کی مضبوطی یا اس کے باشندوں کی خوشحالی مشروط نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو سابقہ سویت یونین اب سمٹ کر روس نہ بن گیا ہوتا‘‘

مارک کہنے لگا ’’وہ تو درست ہے لیکن بھارت تو پھر بھی بڑا ملک ہے لیکن پاکستان اور بنگلہ دیش نے الگ ہو کر غلطی کی ہے۔ آخر کل تک یہ ایک ہی ملک تھا۔ ایک ہی جیسے لوگ وہاں رہتے ہیں۔ آج سب اکھٹے کیوں نہیں رہ سکتے‘‘

مَیں نے کہا ’’یہاں پر میں ایک غلط فہمی دور کرنا چاہتا ہوں کہ پورے بر صغیر میں ایک ہی جیسے لوگ رہتے ہیں۔ صرف ایک رنگ ہونے سے وہ ایک جیسے نہیں ہیں۔ بر صغیر میں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں۔ مختلف مذاہب ہیں۔ رسم و رواج اور تہذیب و ثقافت میں بھی ایک دوسرے سے الگ اور جدا ہیں۔ جہاں تک آپ کا یہ خیال ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش بھارت کے ساتھ رہتے تو بہتر تھا، وہ بھی درست نہیں ہے۔ کیوں کہ بھارت میں صرف ہندو ہی خوشحال اور آزاد زندگی گزار سکتے تھے۔ بھارت میں آج اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے وہ میرے اس دعوے کا بین ثبوت ہے‘‘

مارک نے کہا ’’یہ اس خطے کی بد قسمتی ہے کہ وہاں مذہبی انتہا پسندی بہت زیادہ ہے۔ میرے خیال میں پاکستان اور بھارت میں اختلافات انہی انتہا پسندوں کی وجہ سے ہیں۔ اگر مذہب کا اتنا عمل دخل نہ ہوتا تو یہ تین نہیں ایک ملک ہوتا اور شاید سپر پاور ہوتا‘‘

مَیں نے کہا ’’معاف کرنا! اس معاملے میں آپ کو مکمل علم نہیں ہے۔ پاکستان مذہب کی بنیاد پر وجود ضرور آیا تھا لیکن یہ ہندوؤں کے خلاف اعلان جنگ نہیں تھا۔ یہ بات بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ اس خطے کے مسلمان ایک آزاد اور خود مختار مملکت چاہتے تھے۔ جہاں وہ آزادانہ اپنی مذہبی اور ثقافتی روایات پر عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن تقسیمِ ہند کے عمل کو غیر منصفانہ بنا کر پاکستان اور ہندوستان میں اختلافات کے جو بیج بوئے گئے ہم آج تک اس وقت کی بوئی ہوئی زہریلی فصل کاٹ رہے ہیں۔ جہاں تک بنگلہ دیش کا تعلق ہے۔ بنگالی مذہب نہیں، زبان کی بنیاد پر ہم سے الگ ہوئے تھے۔ لہذا یہ کہنا کہ برصغیر کی تقسیم صرف مذہب کی بنیاد پر ہوئی ہے، درست نہیں ہے۔ ویسے بھی پاکستان اب ایک اٹل حقیقت ہے۔ یہ بحث اب فضول ہے‘‘

مارک بولا ’’مَیں یہ بات تو تسلیم کرتا ہوں کہ برطانیہ نے ہندوستان بہت عجلت میں چھوڑا اور بہت سے مسائل ادھورے رہ گئے، جو بعد میں زیادہ گمبھیر ہوتے گئے۔ لیکن ہندوستان اور پاکستان نے خود بھی تو ان مسائل کو سنجیدگی سے حل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی۔ یورپ نے اپنے کئی دیرینہ مسائل آسانی سے حل کر لئے ہیں۔ آخر وہاں ایسا کیوں نہیں ہوتا؟‘‘

مَیں نے کہا ’’وہ اس لئے کہ ہندوستان اور پاکستان کے مسائل حل کروانے کے بجائے انہیں مزید پیچیدہ کر دیا جاتا ہے۔ مثلاً کشمیر پر اقوام متحدہ کی ریفرنڈم والی قرار داد موجود ہے۔ لیکن سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اور دوسرے با اثر ممالک اس قرار داد پر عمل کرانے کی بجائے اس معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی پر گامزن ہو گئے۔ اب وہ واضح طور پر بھارت کی طرف داری کرنے لگے ہیں۔ اس طرح ان ممالک کا نہ صرف کروڑوں ڈالر کا اسلحہ اور ہتھیار فروخت ہو رہے ہیں بلکہ انہیں نمبرداری دکھانے کا زیادہ موقع مل رہا ہے۔ جہاں تک یورپ کا تعلق ہے۔ یورپی ممالک نے اپنے اختلافات کم کئے ہیں، ختم نہیں ہوئے۔ یورپ کے ممالک جو سائز میں اتنے ہیں کہ ایک دن میں چھ ممالک میں بذریعہ کار گھوما جا سکتا ہے۔ ایک کلچر، ایک مذہب، ایک لباس اور اب ایک کرنسی رکھتے ہوئے، ایک ملک کیوں نہیں بن جاتے؟ ہندوؤں اور مسلمانوں میں تو کوئی قدر مشترک ہے ہی نہیں۔ پھر وہ اتنی آسانی سے کیسے اکھٹے بیٹھ سکتے ہیں‘‘

مارک ہنستے ہوئے کہنے لگا ’’آپ کی دلیلیں دل کو لگتی ہیں۔ مَیں استادوں کا استاد ہوں اور خود کو بر صغیر کے معاملات کا ماہر سمجھنے لگا تھا۔ لیکن آج پتہ چلا ہے کہ کوئی میرا بھی استاد موجود ہے۔ مجھے آپ سے مل کر اور بات کر کے حقیقی خوشی محسوس ہو رہی ہے‘‘

مَیں نے کہا ’’مجھے بھی یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آپ برصغیر کے معاملات میں اتنی دلچسپی لیتے ہیں۔ جہاں تک استادی کا تعلق ہے، میں بھی استاد رہ چکا ہوں۔ لیکن صرف اپنے شاگردوں کا۔ یہ آپ کی عظمت ہے کہ مجھے استاد کہہ رہے ہیں‘‘

انہی باتوں میں ہماری ٹرین لندن میں داخل ہو گئی۔ مارک اپنا فون نمبر دے کر میرے سے پہلے اسٹیشن پر اُتر گیا۔

 

لندن

 

رات دن میں کیسے بدل گئی

 

ٹرین لندن میں داخل ہوئی تو میں اس کے نظاروں میں منہمک ہو گیا۔ میں نے لندن کا ذکر بہت سنا اور پڑھا تھا۔ اسی لئے یورپ کے اس شہرِ بے مثال کو دیکھنے کا بے حد اشتیاق تھا۔ لندن تاریخی اور سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل شہر ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں بیٹھ کر انگریزوں نے سیاسی جوڑ توڑ، سازشوں، ریشہ دوانیوں اور جنگوں کے ذریعے آدھی دنیا کو اپنا زیرِ نگیں کیا۔ یہاں وہ بادشاہ حکمران ہوا کرتا تھا جس کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ آج جو اہمیت اکلوتی سپرپاور امریکہ کو حاصل ہے، ایک دور میں اس سے کہیں زیادہ اہمیت برطانیہ کو حاصل تھی۔ امریکہ آج کل پوری دنیا میں اپنی من پسند حکومتیں قائم کرنے کے جنون میں مبتلا ہے۔ اس کے برعکس انگریز اپنے مفتوحہ علاقوں پر خود حکومت کرتے تھے اور ڈنکے کی چوٹ پر ان ممالک کی دولت سمیٹ کر لندن پہنچاتے تھے۔ میں نے خود لندن میوزیم میں یہ تحریر پڑھی ہے کہ ایک وقت ایسا آیا کہ برطانیہ میں ذرائع آمدنی انتہائی محدود تھے۔ اس وقت ان کی معیشت کا سارا دار و مدار ہندوستان سے آنے والی دولت پر تھا۔ لندن میں زیادہ تر شاندار اور پر شکوہ عمارات اسی دور کی نشانیاں ہیں۔ وہ عمارات آج بھی قائم ہیں۔ انگریز ان کی پائیداری، قدامت اور تاریخی حیثیت پر فخر کرتے ہیں۔ لیکن وہ یہ نہیں مانتے کہ ان عمارتوں کی بنیادوں میں ان کی کتنی ہی نو آبادیوں کے عوام کے منہ سے چھینے گئے نوالوں کا رنگ بھی شامل ہے۔

لندن میں زیادہ تر عمارتیں پرانے دور کی ہی ہیں۔ جدید عمارات خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ لندن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا پسندیدہ شہر تھا۔ انہوں نے یہاں رہ کر اپنے آباء و اجداد اور اپنی قوم کا نام روشن کیا۔ یہاں سے حاصل گئی تعلیم کو انہوں نے پوری قوم کی آزادی کے لئے استعمال کیا۔ انہوں نے انگریزوں کا انہی کی زبان میں مقابلہ کر کے اور ایک طویل قانونی اور سیاسی جنگ کے بعد برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لئے الگ ملک حاصل کیا۔ جہاں آج ہم آ زادی کی سانس لے رہے ہیں۔ دوسری طرف ہمارے سیاستدانوں، بیورو کریٹس اور ملک کو لوٹنے والوں کا ٹھکانہ بھی یہی شہر ہے۔ یہاں بیٹھ کر وہ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے اور حکومتوں کو گرانے کے لئے جوڑ توڑ کرتے رہتے ہیں۔ گویا یہ شہر اب بھی سازشوں کا مرکز ہے۔ لیکن اب ہمارے ’’اپنے‘‘ ان سازشوں میں پیش پیش ہیں۔

میں انہی سوچوں میں غلطاں اوراس کے نظاروں میں سرگرداں تھا کہ ٹرین کنگز کراس) ((Kings Cross اسٹیشن پر پہنچ گئی، جہاں میں نے اُترنا تھا۔ سٹیشن کیا ہے، یہ پورا شہر ہے۔ بہت بڑا، انتہائی مصروف۔ اس کے بے شمار پلیٹ فارم ہیں۔ میں نے جدھر نظر دوڑائی لوگوں کا اژدہام نظر آیا۔ ہر فرد جلدی میں نظر آ رہا تھا۔ سامان کے لئے ٹرالی موجود تھی۔ مدد کے لئے عملہ حاضر تھا۔ معلومات کے لئے نقشے دستیاب تھے۔ غرضیکہ مسافروں کی مدد کا پورا بندوبست تھا۔ میں نے یہاں سے لوکل ٹرین پکڑنی تھی۔ سامان ٹرالی پر رکھا اور مددگار عملے کی رہنمائی کے مطابق مطلوبہ پلیٹ فارم پر پہنچ گیا۔ چند منٹ بعد ٹرین آئی تو اس میں سوار ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں بیز واٹر (BAYS WATER ) سٹیشن پر اُتر رہا تھا۔ سامان لے کر باہر سڑک پر پہنچا تو اسے انتہائی مصروف پایا۔ اگرچہ اس وقت رات کے نو بج چکے تھے لیکن ابھی تک سورج روشن تھا اور دن کی سی گہما گہمی تھی۔

میں ٹیکسی کے انتظار میں تھا۔ لیکن جو بھی ٹیکسی نظر آتی اس میں پہلے سے مسافر موجود ہوتا۔ میں نے سڈنی میں بہت سے انگریزوں سے سنا تھا کہ لندن کی ٹیکسی سروس بہت اچھی ہے۔ ڈرائیور نہایت خوش اخلاق، مہذب اور سڑکوں سے بخوبی واقف ہوتے ہیں اور وہ مسافروں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ لیکن میرا تجربہ اس کے برعکس ثابت ہوا۔

ایک خالی ٹیکسی نظر آئی تو میں نے اسے ہاتھ دیا۔ وہ رک گیا۔ میں نے جب اسے اپنی منزل بتائی تو وہ کچھ کہے بنا ٹیکسی بھگا کر چلا گیا۔ دوسری ٹیکسی روکی۔ اسے بتایا کہ میں اس ہوٹل میں جانا چاہتا ہوں۔ اس نے بھی سوری (sorry) کہہ کر ٹیکسی آگے بڑھا دی۔ در اصل میرا ہوٹل وہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا اور ٹیکسی ڈرائیور لمبے فیئر کے چکر میں تھے۔ اصولاً اور قانوناً وہ انکار نہیں کر سکتے تھے لیکن اصول اور قانون مکمل طور پر دنیا میں کہیں بھی رائج نہیں ہیں۔ یہ صرف کتابوں میں ملتے ہیں۔

اس صورت حال پر میں نے وہی کیا، جو کرنا چاہیئے۔ میں نے تیسری ٹیکسی روکی۔ سامان اس کے اندر رکھا۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھنے کے بعد ادھیڑ عمر انگریز ڈرائیور کو بتایا کہ اس ہوٹل لے چلو۔ ڈرائیور نے ایسے منہ بنایا جیسے کڑوی دوا نگل لی ہو، تاہم کچھ کہے بغیر چل پڑا۔ کیونکہ اب وہ منع نہیں کر سکتا تھا۔

تھوڑی ہی دیر میں ہم ہوٹل کے سامنے موجود تھے۔ اس وقت میٹر پر پانچ پونڈ بنے تھے۔ لیکن ڈرائیور کے ایک دو بٹن دبانے کے بعد جو ٹوٹل بنا وہ آٹھ پونڈ تھا۔ میں نے جب اس اضافے کا سبب جاننا چاہا تو ڈرائیور کہنے لگا ’’در اصل میں نے اس میں رات کے ریٹ کا اضافہ کیا ہے‘‘

میں نے پوچھا ’’یہ رات کا ریٹ کس وقت شروع ہوتا ہے اور اس کی شرح کیا ہے؟‘‘

کہنے لگا ’’یہ آٹھ بجے شروع ہوتا ہے اور یہ عام کرائے سے پچاس فیصد زیادہ ہوتا ہے‘‘

میں سمجھ گیا کہ ڈرائیور میرے رنگ کی وجہ سے مجھے پاکستان یا ہندوستان سے نیا آنے والا مرغا سمجھ کر ذبح کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ میں نے کہا ’’ٹھیک ہے میں تمہیں آٹھ پونڈ دیتا ہوں۔ تم مجھے اس کی رسید دے دو۔ اس پر تمہاری ٹیکسی کا نمبر، تمہارا شناختی نمبر، موجودہ وقت، اصل کرایہ الگ اور رات کا ریٹ الگ درج ہو‘‘

ڈرائیور نے چونک کر مجھے دیکھا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ اس نے غلط جگہ ہاتھ ڈال دیا ہے۔ اس نے فوراً پینترا بدلا اور چہرے پر مسکراہٹ لاتے ہوئے (جو سارے راستے نظر نہیں آئی تھی) بولا ’’نائٹ ریٹ کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ آپ صرف نارمل ریٹ جو پانچ پونڈ ہیں وہ دے دیں‘‘

میں نے کہا ’’کیوں کیا ہو گیا؟ رات دن میں کیسے بدل گئی؟ میں نے تو وہ فون نمبر بھی نوٹ کر لیا ہے جہاں شکایت درج کی جاتی ہے‘‘

اب تو وہ خاصا پریشان ہو گیا۔ لندن میں ہر سال بے شمار سیاح جاتے ہیں۔ وہاں ٹیکسی ڈرائیوروں کے لئے خاصے سخت ضوابط موجود ہیں اور ایسی شکایات کا سختی سے نوٹس لیا جاتا ہے۔ لندن کے ٹیکسی ڈرائیور بہت پیسہ بناتے ہیں۔ ان کا لائسنس سونے کی کان کی طرح ہے۔ اگر ایسی شکایات ملتی رہیں تو یہ لائسنس منسوخ ہو سکتا ہے۔ یہ لائسنس طویل ٹریننگ اور بہت تگ و دو کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ اس ڈرائیور کی پریشانی کی وجہ بھی یہی تھی۔ اب اس نے باقاعدہ معذرت کی کہ اس سے غلطی ہو گئی تھی اور آئندہ ایسا نہیں کرے گا۔ میں نے کہا ’’یہ بات یاد رکھنا کہ اٹیچی کیس اٹھائے ہوئے ہر ایشیائی گاؤں سے اٹھ کر نہیں آ رہا ہوتا۔ دنیا کے سامنے تو تم انگریز اپنی اصول پرستی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہو۔ یہی ہے تمہاری اصول پرستی اور ایمانداری؟‘‘

اس نے پھر سوری کہا۔ میں نے اسے پانچ پونڈ تھمائے اور سامان لے کر ٹیکسی سے نکل آیا۔ میں نے جب اپنا ہوٹل باہر سے دیکھا تو قدرے مایوسی ہوئی۔ وہ ایک تین منزلہ چھوٹا سا اور عام سا ہوٹل تھا۔ حالانکہ میں یہاں ایک رات کا جو کرایہ ادا کر رہا تھا اس میں آسٹریلیا میں فائیو سٹار ہوٹل میں کمرہ مل سکتا تھا۔ لیکن یہ لندن تھا۔ یہاں ہر شے ہی مہنگی تھی۔ خصوصاً یہ علاقہ شہر کا مرکزی علاقہ ہونے کے باعث زیادہ ہی گراں تھا۔ کاؤنٹر پر میں نے اپنا نام بتایا تو انہوں نے میری بکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے میرے کوائف درج کئے۔ استقبالیہ کلرک چابی لے کر اور میرا سامان اٹھا کر مجھے میرے کمرے میں چھوڑ گیا۔ غالباً اس وقت اس ہوٹل میں کل سٹاف یہی اکلوتا فرد تھا جو بیک وقت کلرک، سیکورٹی گارڈ اور پورٹر کا کام کر رہا تھا۔ کمرہ چھوٹا سا لیکن صاف ستھرا تھا۔ اس میں تمام بنیادی سہولتیں موجود تھیں۔ مثلاً اٹیچ باتھ روم، ٹی وی، بجلی کی کیتلی، استری بمع ٹیبل، رائٹنگ ٹیبل، وارڈ روب وغیرہ وغیرہ۔ گو یا ہوٹل چھوٹا سہی، بنیادی اور اہم سہولتیں انہوں نے مہیا کر رکھی تھیں۔ مجھے بھی یہی چاہئے تھا۔ ورنہ کئی بڑے ہوٹلوں میں اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق تکلف زیادہ اور سہولتیں کم ہوتی ہیں۔

میں نے تھوڑی دیر آرام کیا۔ پھر نہا دھو کر کپڑے بدلے اور کسی حلال ریسٹورنٹ کی تلاش میں باہر نکل آیا۔ استقبالیہ کلرک نے میری مدد کی۔ اس نے بتایا کہ وہاں سے پانچ سات منٹ کے فاصلے پر ایک سٹریٹ ہے جہاں ہر طرح کے ریسٹورنٹ موجود ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں میں اس سٹریٹ کی آوارہ گردی کر رہا تھا۔ اس وقت رات کے ساڑھے دس بجے تھے۔ سورج غروب ہو چکا تھا۔ اس سڑک پر رنگی برنگی دکانیں، ٹریول ایجنسیاں، کرنسی تبدیل کرنے والے دفاتر اور درجنوں ریستوران تھے۔ بے شمار مرد اور عورتیں اِدھر اُدھر آ جا رہے تھے۔ میں گھومتا گھماتا ایک ریسٹورنٹ کے سامنے پہنچا۔ یہ عربی ریسٹورنٹ تھا اور اس پر حلال کھانوں کا سائن واضح نظر آ رہا تھا۔ میں نے سوچا پاکستانی ریسٹورنٹ ملے یا نہ ملے، رات بہت ہو گئی، کیوں نہ اسی ہوٹل میں کھانا کھا لیا جائے۔

کھانا اچھا تھا لیکن مرچ مسالے کم تھے اور ٹماٹروں کی کھٹاس زیادہ۔ کھانے کے بعد میں آدھے گھنٹے تک اس پر رونق سٹریٹ اور اردگرد کے علاقے میں گھومتا رہا۔ اس کے بعد ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ ایک قدرے سنساں موڑ پر ایک انگریز لڑکی اچانک میرے سامنے آ گئی۔

 

والدین دفتر کے باس نہیں ہوتے

 

بڑی بڑی نیلی آنکھوں والی اس لڑکی کی عمر تقریباً بیس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ وہ نیچے دیکھ کر چل رہی تھی۔ میں اس سے سے ٹکراتے ٹکراتے بچا۔ اس لڑکی نے فوراً سوری کہا۔ پریشانی اس کے چہرے پر تحریر تھی۔ میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں‘‘

چلنے لگا تو اس نے ایک سگریٹ طلب کی۔ میں نے اسے سگریٹ دی۔ کہنے لگی ’’تم بہت اچھے ہو۔ یہیں رہتے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’آسٹریلیا سے تمہارے ملک کی سیاحت کے لئے آج ہی یہاں پہنچا ہوں‘‘

کہنے لگی ’’آسٹریلیا بہت خوب صورت ملک ہے۔ تم یہاں کتنے عرصے کے لئے آئے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’چند دن لندن ٹھہروں گا۔ اس کے بعد یورپ کے چند اور شہروں میں جا رہا ہوں۔ واپسی پر پھر لندن سے ہوتا ہوا آسٹریلیا واپس جاؤں گا‘‘

لڑکی نے اپنی بڑی اور نیلی نیلی آنکھیں اشتیاق سے میرے چہرے پر گاڑ دیں اور بولی ’’بہت خوب! میں یورپ میں پیدا ہوئی ہوں۔ حالانکہ یہاں فاصلے بھی زیادہ نہیں لیکن پھر بھی میں نے بہت کم یورپ دیکھا ہے۔ میرے حالات ہی ایسے رہے۔ تم بہت خوش قسمت ہو جو اتنے دُور رہنے کے باوجود بھی یہاں کی سیر کا تمہیں موقع مل رہا ہے۔ ویسے تمہیں اگر جلدی نہ ہو تو یہاں قریب کسی ہوٹل میں تھوڑی دیر کے لئے بیٹھیں؟‘‘

میں اس لڑکی کو ابھی تک پوری طرح سمجھ نہیں سکا تھا۔ وہ کوئی فراڈ بھی ہو سکتی تھی۔ لیکن سیاحت نام ہی اسی چیز کا ہے۔ اس میں ہر طرح کے حالات اور ہر طرح کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میں نے حامی بھری تو وہ مجھے لے کر نزدیکی ہوٹل کے بار میں پہنچ گئی۔ کاؤنٹر پر جا کر اس نے پوچھا ’’کیا پیو گے؟ اسکاچ یا بیئر!‘‘

میں نے کہا ’’میں شراب نہیں پیتا! کوک لے لوں گا‘‘

اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔ میں نے مشروبات کی قیمت ادا کی۔ اس نے اسکاچ لی۔ میں نے کوک کا گلاس اٹھایا اور ہم ایک ٹیبل آ کر پر بیٹھ گئے۔

میں اپنے سامنے بیٹھی اس لڑکی کی حرکات و سکنات کا بغور مشاہدہ کر رہا تھا۔ اس نے اپنا نام روزی بتایا تھا۔ روزی کبھی تو ہنسنے لگتی۔ ا گلے ہی لمحے اس کی آنکھیں اشک آلود نظر آتیں، آواز گلو گیر ہو جاتی۔ کبھی وہ اپنے ہونٹ کاٹنے لگتی اور کبھی ناخنوں پر طبع آزمائی شروع کر دیتی۔ اس کی گفتگو بھی تسلسل سے عاری تھی۔ موسم کی بات ہو رہی ہوتی تو وہ مہنگائی کا رونا رونے لگتی۔ اچانک ہی اپنی حکومت کو برا بھلا کہنے لگتی۔ میں مسلسل اس کی اضطرابی کیفیت کا مشاہدہ کر رہا تھا۔ اب مجھے کوئی شک نہیں رہا تھا کہ وہ سخت پریشان تھی۔ یہ پریشانی اس کے خوبصورت اور ملیح چہرے پر روزِ روشن کی طرح تحریر تھی۔ لیکن میں نے اسے کریدنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک تو یہ میری فطرت ہے کہ میں دوسروں کے ذاتی معاملات کی ٹوہ میں نہیں رہتا۔ دوسرا یہ کہ انگریزوں کی اس عادت کا بھی مجھے بخوبی علم ہے کہ شروع میں وہ کھلتے نہیں نہ ہی براہ راست ذاتی نوعیت کے سوالات کو اچھی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں بھی اِدھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔ اس دوران اس کا ڈرنک ختم ہو گیا۔ اب اصولاً اگلا ڈرنک اسے خریدنا چاہیئے تھا۔ لیکن میں دیکھ رہا تھا کہ وہ خالی جام کو ہاتھوں میں لئے گھماتی رہی، لیکن اٹھنے کی کوشش نہیں کی۔

میں جا کر اس کے لئے دوسرا ڈرنک لے آیا۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور اس کے ساتھ ہی لاوا ابل پڑا۔ وہ اَشک جو بہت دیر سے اس کی خوبصورت آنکھوں میں جمع ہو رہے تھے ساون بھادوں کی بارش کی طرح برسنے لگے۔ اس نے سوری کہہ کر اپنا سر میز پر ٹکا دیا۔ اس کا جسم ہولے ہولے لرز رہا تھا۔ آنسو اس کے رخساروں پر سے پھسل کر میز کو گیلا کر رہے تھے۔ کافی دیر تک وہ اسی کیفیت میں رہی۔ اس دوران میں نے مداخلت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ خاموشی سے کوک کی چسکیاں لیتا رہا۔

تقریباًدس منٹ تک یہی کیفیت رہی۔ جب میں نے محسوس کیا کہ اس کے اندر کا غبار اچھی طرح آنسوؤں کے راستے نکل گیا ہے تو میں نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے اپنا آپ سنبھالنے کے لئے کہا۔ اس نے سر اٹھایا اورہاتھوں سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ اس کی نیلی آنکھوں میں سرخی سی بھر گئی تھی۔ چہرہ بھی متورم نظر آ رہا تھا۔ میں نے اسے رو مال دیا اور ایک سگریٹ سلگا کر اسے پکڑائی۔ اس نے تشکر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور بولی ’’سوری میں اپنے اوپر قابو نہیں رکھ سکی‘‘

میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں، کبھی کبھی ایسا ہو جاتا ہے‘‘

روزی بولی ’’تم بھی کہو گے کہ یہ کیسی لڑکی ہے۔ کبھی سگریٹ مانگتی ہے، مفت کی شراب پیتی ہے اور اچانک رونے لگتی ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ کے انگریز دانشور اور مشہور ڈرامہ نگار شیکسپیئر نے کہا تھا کہ زندگی ایک طویل دورانیے کا کھیل ہے۔ جہاں ہر روز نت نئے کرداروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ تو میں اور تم بھی اسی ڈرامے کے کردار ہیں۔ اس میں عجیب بات تو کوئی نہیں‘‘

روزی کہنے لگی ’’تھوڑی دیر پہلے تک میں خود کو بالکل تنہا اور بے آسرا محسوس کر رہی تھی، لیکن اب ایسے لگتا ہے کہ مجھے سہارا مل گیا ہے‘‘

میں نے سر اٹھا کر چھت کی طرف دیکھا اور سوچا کہ یہ انگریز بھی کیسی قوم ہے۔ ایک طرف تو ان کی منصوبہ بندی اور پلاننگ صدیوں پر محیط ہوتی ہے اور دوسری طرف چند چند منٹ پہلے ملنے والے کو سہارا سمجھنے لگتے ہیں۔ روزی اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولی ’’وقت کتنی تیزی سے بدلتا ہے۔ یہ شہر جہاں میں پیدا ہوئی، جہاں آج صبح تک میرا اپنا گھر تھا، میرے والدین یہاں رہتے ہیں، آج اسی شہر میں میرا کوئی ٹھکانا نہیں۔ میرے پاس سر چھپانے کی جگہ تک نہیں‘‘

میں نے کہا ’’اچانک ایسا کیا ہو گیا کہ تم گھر سے بے گھر ہو گئیں؟‘‘

روزی نے کہا ’’میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں۔ دوسرے والدین کی طرح میرے والدین نے بھی میری تعلیم و تربیت اور پرورش ناز و نعم سے کی۔ لیکن میں ان کی توقعات پر پورا نہ اتر سکی۔ گرتے پڑتے ایچ ایس سی تو میں نے کر لی لیکن نہ تو آگے پڑھ سکی اور نہ ہی کسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مجھے عام سی جاب کرنا پڑی۔ پھر بھی میرا گزارا آسانی سے ہونے لگا۔ اصل مسئلہ اس وقت شروع ہوا، جب میری ملاقات جے سے ہوئی۔ جے سے پہلے میرے کئی لڑکوں سے تعلقات رہے۔ لیکن ان تعلقات میں زیادہ سنجیدگی نہ تھی۔ جے کے معاملے میں نہ صرف میں پوری طرح سنجیدہ تھی بلکہ اس کی دیوانی ہو گئی۔ حالانکہ جے کسی لحاظ سے اچھا شریکِ حیات نہیں تھا۔ وہ منشیات کا عادی تھا۔ کام دھندہ وہ نہیں کرتا۔ اس کی دوستیاں بھی اپنے جیسوں سے تھیں۔ جے کے متعلق جب میرے والدین کو علم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھایا کہ اس سے تعلقات بڑھانا غلط ہے۔ لیکن میں جے کی محبت میں اتنا آگے بڑھ چکی تھی کہ میں نے اپنے والدین کی ایک نہ سنی اور جے سے شادی کر لی۔

شادی کے بعد میں جے کے ساتھ رہنے لگی۔ جے ایک کمرے کے تنگ سے فلیٹ میں رہتا تھا۔ جہاں جے کے دوسرے دوست بھی آتے تھے۔ ان میں لڑکیاں بھی شامل تھیں۔ وہ گھنٹوں بیٹھے رہتے۔ مختلف منشیات سے نشہ کرتے اور فریج میں جو کچھ ہوتا، چٹ کر جاتے۔ میں نے صبح اٹھ کر کام پر جانا ہوتا تھا۔ لیکن ان کی وجہ سے رات بھر سو نہ سکتی۔ صبح یا تو کام پر لیٹ پہنچتی یا نیند کی حالت میں ہوتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چند ہفتوں کے بعد مجھے اس نوکری سے جواب مل گیا۔

خوش قسمتی سے تیسرے روز مجھے نئی ملازمت مل گئی۔ یہ جاب دوپہر کے بعد شروع ہوتی تھی اور رات دس بجے ختم ہوتی تھی۔ میں پھر کام پر جانے لگی۔ جو کچھ کماتی، جے اور اس کے دوست نشے میں اڑا دیتے۔ گھر کے اخراجات کے علاوہ مکان کا کرایہ، بجلی، گیس اور فون کے بل بھی مجھے دینا پڑتے تھے۔ میں نے یہ توقع اور امید لے کر جے سے شادی کی تھی کہ اپنی محبت سے اسے سدھار لوں گی اور اسے راہ راست پر لے آؤں گی۔ وہ توقع پوری ہوتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ میری امیدوں کا دیا بجھتا نظر آ رہا تھا۔

جے نے نہ سدھرنا تھا نہ سدھرا۔ بلکہ اس کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔ گھر کے اخراجات اور بل کے علاوہ جے کے نشے کے لئے بھی رقم مجھے ہی فراہم کرنا پڑتی تھی۔ جو ظاہر ہے میری تنخواہ سے پوری نہیں ہو سکتی تھی۔ میں نے اپنے والدین سے مدد کے لئے کہا۔ شروع میں انہوں نے کچھ مدد کی بھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے سمجھاتے بھی تھے کہ جے سے پیچھا چھڑا لوں۔ لیکن میرے دل سے جے کی محبت کم نہ ہو سکی۔ میں روشن سحر کی امید میں لمبی تاریک رات کا سفر کرتی رہی۔ نتیجے میں میرے والدین مجھ سے ناراض ہو گئے۔ انہوں نے مجھے میرے حال پر چھوڑ دیا۔ ان پریشانیوں کی وجہ سے میں توجہ سے اپنا کام بھی نہیں کر پاتی تھی۔ اس تیز رفتار شہر میں سست چال چلنے والے شخص کو جلد ہی لوگ پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ میری کمپنی کو بھی بہتر شخص مل گیا۔ آج انہوں نے مجھے ملازمت سے الگ کر دیا۔

میں جب یہ خبر لے کر گھر پہنچی تو جے نے بجائے مجھ سے ہمدردی کرنے کے مجھے گھر سے نکال دیا۔ اسے نشے کے لئے رقم کی فوری ضرورت تھی جو اب میں اسے فراہم نہیں کر سکتی تھی۔ میں اس کی محبت میں سر تا پا غرق تھی اور اسے مجھ سے نہیں اپنے نشے سے پیار تھا، جو میری کمائی سے اسے حاصل ہوتا تھا۔ آج جب اسے نشہ نہیں ملا تو اس نے مجھ سے سارے بندھن توڑ دیئے۔ اب میرے پاس کوئی راستہ نہیں ہے۔ والدین کو میں پہلے ہی ناراض کر چکی ہوں۔ میری جاب ختم ہو گئی ہے۔ میرے پاس کوئی گھر ہے نہ ٹھکانہ۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس پوری دنیا میں میں اکیلی ہوں۔ اس بھری دنیا میں میرا اپنا کوئی نہیں ہے۔ میرا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ اس دنیا کو میری کوئی ضرورت نہیں ہے‘‘

روزی کی داستان ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ اس معاشرے کی عبرت ناک کہانی ہے جسے آزاد، جمہوری، محفوظ اور مثالی کہا جاتا ہے۔ پروپیگنڈے کے زور پر مغربی تہذیب و تمدن کو بہترین طرزِ حیات کہا جاتا ہے۔ لیکن اندر جا کر دیکھیں تو وہاں انسان کتنا اکیلا، کتنا دکھی اور کتنا بے بس ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں یہاں آزادی ہے۔ لیکن یہ آزادی کس کام کی جب آپ کے دکھوں کو بانٹنے والا کوئی نہ ہو۔

روزی نے میز پر رکھے سگریٹ کے پیکٹ سے سگریٹ نکال کر سلگائی۔ اس کی حسین آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی تھیں۔ لیکن اب وہ پہلے کی طرح بے قرار نظر نہیں آ رہی تھی۔ اب وہ قدرے بہتر نظر آ رہی تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ اس کے اندر کا غبار نکل چکا تھا۔ اچانک وہ اٹھ کھڑی ہوئی ’’طارق! تمہارا بہت شکریہ! تم نے مجھے سہارا دیا۔ اب میں چلتی ہوں‘‘

میں نے پوچھا ’’تم کہاں جاؤ گی؟‘‘

کہنے لگی ’’یہ تو مجھے خود بھی معلوم نہیں‘‘

میں نے کہا ’’میں تمہاری کوئی مدد کر سکتا ہوں؟‘‘

میرے ذہن میں تھا کہ جس طرح اس کے پاس سگریٹ اور ڈرنک کے پیسے تک نہیں ہیں۔ اس کی جیب خالی ہو گی۔ تھوڑی بہت رقم سے اسے کچھ نہ کچھ مدد مل سکتی تھی۔ لیکن روزی نے کچھ اور سمجھا اور بولی ’’میری تم سے آج ہی ملاقات ہوئی ہے۔ تم اچھے شخص دکھائی دیتے ہو۔ اگر آج کی رات مجھے اپنے کمرے میں پناہ دے دو تو کل میں کوئی بندوبست کر لوں گی‘‘

میرا اس جانب دھیان نہیں تھا۔ میں نے سنبھلتے ہوئے اسے بیٹھنے کے لئے کہا۔ جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے کہا ’’دیکھو روزی مجھے غلط نہ سمجھنا! میں حقیقتاً تمہاری مدد کرنا چاہتا ہوں۔ لیکن تم جانتی ہو میں اکیلا ہوں۔ ہوٹل میں ٹھہرا ہوں۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا مناسب نہیں ہے۔ لیکن اس مسئلے کا کوئی اور حل نکالا جا سکتا ہے‘‘

روزی نے پھر مجھے انہی عجیب نظروں سے دیکھا جیسے اس نے میرے شراب پینے سے انکار پر دیکھا تھا۔ کہنے لگی ’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہمارا ایک کمرے میں رہنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً اس صورت میں جب تم مجھے جانتے تک نہیں‘‘

میں نے کہا ’’روزی تم غلط سمجھ رہی ہو۔ کسی شخص کو جاننے کے لئے مجھے زیادہ وقت درکار نہیں ہوتا۔ مجھے تم پر اور تمہاری کہانی پر مکمل یقین ہے۔ کمرے میں نہ ٹھہرانے کی وجہ یہ نہیں ہے۔ یہ ہم دونوں کے لئے مناسب نہیں ہے‘‘

روزی میری بات سمجھ کر بولی ’’مجھے معاف کر دینا۔ میں لندن میں بے شمار پاکستانیوں سے ملی ہوں۔ میں نے تمہارے کلچر کے بارے میں بہت کچھ سنا اور پڑھا بھی ہے۔ لیکن اس کی زندہ مثال آج پہلی دفعہ دیکھی ہے۔ یہاں عورت کو صرف ایک ہی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ جوان ہوتے ہی میں نے مردوں کی وہی ایک نظر دیکھی ہے۔ آج پہلی دفعہ کسی مرد کی آنکھوں میں عورت کا احترام نظر آیا۔ میں فوری طور پر تمہاری بات کو سمجھ نہ سکی۔ مجھے معاف کر دینا۔ میں کتنی بے وقوف ہوں‘‘

اس کے ساتھ ہی اس نے دوبارہ رونا شروع کر دیا۔ اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا۔ میں تھکا ہوا تھا اور ہوٹل جا کر سونا چاہتا تھا لیکن روزی کو اس طرح فٹ پاتھ پر چھوڑ کر جانے پر میرا ضمیر مطمئن نہیں تھا۔ میں نے کہا ’’روزی رونے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ زندگی میں ایسے بے شمار اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ انہیں ہمت سے برداشت کرنا پڑتا ہے اور حوصلے اور سمجھداری سے ہر مسئلے کو سلجھانا پڑتا ہے۔ تمہارے سلسلے میں دو تین حل ہیں۔ پہلا حل تو یہ ہے کہ تم پولیس سے مدد حاصل کرو۔ ان کے توسط سے گورنمنٹ کے بے یار و مددگار لوگوں کی مدد کرنے والے ادارے میں وقتی پناہ حاصل کرو۔ دوسرا حل یہ ہے کہ میں کچھ رقم تمہیں دے سکتا ہوں۔ اس سے ایک دو دنوں کے لئے کہیں رہنے کا بندوبست کر لو۔ اس وقت تک کوئی نہ کئی راہ نکل ہی آئے گی۔ تیسرا اور سب سے مناسب حل یہ ہے کہ تم اپنے والدین سے رابطہ کرو۔ والدین آخر والدین ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو کبھی دُکھی اور بے بس نہیں دیکھ سکتے۔ انہوں نے غصے میں تم سے قطع تعلق کر لیا ہو گا۔ لیکن اب اگر انہیں تمہاری اس مصیبت کا علم ہو گا تو مجھے پوری امید ہے کہ وہ ضرور تمہاری مدد کریں گے‘‘

’’لیکن انہوں نے صاف کہا ہوا ہے کہ وہ آئندہ میری کوئی مدد نہیں کریں گے‘‘ روزی بولی

میں نے کہا ’’انہوں نے یہ اس وقت کہا ہو گا جب تم جے کے سلسلے میں ان کی بات نہیں مان رہی تھیں۔ وہ تمہاری بہتری کے لئے ایسا کہہ رہے تھے۔ اب جبکہ جے سے تمہارا تعلق ختم ہو چکا ہے تو انہیں یقیناً اطمینان ہو گا اور وہ اپنا فیصلہ بدل کر ضرور تمہاری مدد کریں گے۔ اگر وہ غصہ بھی دکھائیں تو تم برداشت کر لو۔ آخر ان کا تمہارے اوپر حق بھی تو ہے۔ تم یہ سکہ پکڑو اور ابھی انہیں فون کرو‘‘

روزی نے مجھے اُمید بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا ’’کیا وہ میری بات مان جائیں گے اور مجھے اپنے گھر میں آنے دیں گے؟‘‘

میں نے کہا ’’ضرور مانیں گے۔ والدین، والدین ہوتے ہیں۔ وہ دفاتر کے باس نہیں ہوتے کہ ایک دفعہ نوکری سے نکال دیں تو پھر دوبارہ نہیں رکھتے۔ خونی رشتے اور پیار کے بندھن بہت مضبوط ہوتے ہیں‘‘

روزی نے وہیں کونے میں موجود پبلک فون سے والدین کو فون کیا۔ انہیں ساری کہانی سنائی۔ شروع میں اس کے ڈیڈ نے اُسے برا بھلا کہا لیکن بعد میں نرم ہوتا چلا گیا۔ کافی دیر کی بات چیت کے بعد روزی کے باپ نے پوچھا ’’تم اس وقت کہاں ہو؟‘‘

روزی نے اس ہوٹل کا پتہ سمجھایا تو اس کے باپ نے کہا ’’وہیں ٹھہرو! میں اور تمہاری ماں تمہیں لینے کے لئے آ رہے ہیں‘‘

میں پاس کھڑا ساری گفتگو سن رہا تھا۔ فون بند کر کے روزی پلٹی اور اچانک میرے گلے لگ گئی ’’طارق تمہارا شکریہ! میرے والدین نے مجھے معاف کر دیا ہے اور وہ مجھے لینے آ رہے ہیں‘‘

میں نے اسے الگ کیا۔ ہم دوبارہ میز پر بیٹھ کر روزی کے والدین کا انتظار کرنے لگے۔ روزی کہنے لگی ’’میں اس ملک میں پیدا ہوئی ہوں۔ لیکن آج جب یہ مصیبت اچانک میرے سر پر پڑی تو مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کہاں جاؤں اور کس سے مدد طلب کروں۔ حالانکہ ان حالات میں سرکاری اور رفاہی ادارے جو کردار ادا کرتے ہیں، ان کا مجھے بھی علم تھا۔ لیکن میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ میں والدین سے اس لئے رابطہ نہیں کر رہی تھی کہ وہ مجھے ہر گز پناہ نہیں دیں گے۔ لیکن تم نے جس انداز میں مجھے حوصلہ دیا اور درست راستہ دکھایا اس سے لگتا ہے کہ تمہیں یہاں کے حالات اور اداروں سے بخوبی آگاہی ہے۔ خصوصاً جس یقین سے تم نے مجھے والدین سے رابطہ کرنے کے لئے کہا، رشتوں کے بارے میں وہ یقین اور اعتماد کم از کم میرے اندر نہیں ہے‘‘

میں نے کہا ’’آسٹریلیا میں بھی تقریباً یہی کلچر ہے اور تقریباً ایسے ہی ادارے ہیں۔ یہ میرے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جہاں تک والدین پر یقین اور اعتماد کی بات ہے، یہ جذبہ اور سوچ خالصتاً مشرقی ہے۔ ہمارے ہاں خونی رشتوں کی محبت، بزرگوں کا احترام، اولاد سے پیار، باہمی اعتماد اور یقین کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ یہ یقین اور یہ سوچ مرتے دم تک ہمارے ساتھ رہتی ہے‘‘

روزی نے کہا ’’کاش میں بھی کسی ایسے ہی معاشرے میں پیدا ہوتی، جہاں والدین سر پر چھتری کی طرح سایہ فگن رہتے ہیں۔ جہاں جے اور اس کے دوست نہیں ہوتے اور کوئی روزی ان کے رحم و کرم پر نہیں ہوتی اور جہاں مرد عورت کو ہڑپ کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار خونخوار بھیڑیئے نہیں ہوتے۔ بلکہ خواتین کا احترام کرنے والے لوگ بھی ہوتے ہیں‘‘

انہی باتوں میں روزی کے ماں اور باپ وہاں پہنچ گئے۔ اس کی ماں تو فوراً روزی سے لپٹ گئی۔ باپ ایک طرف کھڑا انتظار کرتا رہا۔ روزی ماں سے الگ ہو کر باپ کی طرف بڑھی تو اس نے بھی گلے لگا لیا۔ روزی پھر رونے لگی۔ اس کے باپ نے اس کے آنسو پونچھے اور چلنے کے لئے کہا۔ روزی ان سے الگ ہوئی اور مجھے لے جا کر اپنے والدین سے میرا تعارف کرایا۔ دونوں نے میرے ساتھ ہاتھ ملایا اور میرا شکریہ ادا کیا۔ روزی نے مجھ سے پوچھا ’’پھر کب ملو گے؟‘‘

میں نے کہا ’’ایک مسافر سے مل کر کیا کرو گی؟‘‘

روزی میرا ہاتھ تھام کر بولی ’’کل میں تمھارے ہوٹل آؤں گی‘‘

مجھے خدا حافظ کہہ کر وہ تینوں گاڑی میں بیٹھے اور چلے گئے۔ میں بھی بھیگی اور خنک رات میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا ہوٹل کی طرف چل پڑا۔

 

لندن کے ٹرین اسٹیشن پر بم

 

اگلی صبح تیار ہو کر میں ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں پہنچا تو اس چھوٹے سے ہال میں دس بارہ لوگ ناشتے میں مصروف تھے۔ میں نے بھی اس ہوٹل کی خورد و نوش کی صرف ایک وقت کی سروس سے پورا پورا انصاف کیا۔ ناشتے کے بعد میں نے کاؤنٹر سٹاف سے دریافت کیا ’’کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھنا ہو تو کیا طریقہ اختیار کرنا چاہیئے‘‘

کاؤنٹر پر کھڑی خاتون کی جوانی کا جوبن ماضی کی دھُند میں دھندلا چکا تھا۔ لیکن اس نے اپنے لباس بلکہ بے لباسی سے اسے واپس لانے کی ناکام کوشش کی ہوئی تھی۔ لباس ایسا تھا کہ چھپا کم اور کھلا زیادہ تھا۔ میرے سوال کے جواب میں پہلے مسکرائی، پھر کھلکھلائی، پھر بولی ’’مجھے ساتھ لے چلو! پورا لندن دکھا دوں گی‘‘

میں نے اسے جو جواب دیا اس کا فارسی میں ترجمہ چشمِ ما روشن دلِ ما شاد، اُردو میں سر آنکھوں پر اور پنجابی میں ست بسم اللہ تھا لیکن میں دل میں سوچ رہا تھا کہ تمہارے ساتھ رہ کر تو صرف آثارِ قدیمہ ہی دیکھ سکتا ہوں۔ جبکہ میں قدیم کو دور سے اور جدید کو نزدیک سے دیکھنے کا قائل ہوں۔ بہرحال اس خاتون نے مختلف طریقے بتائے جن سے لندن کی کوچہ نوردی کی جا سکتی تھی۔ اس میں سب سے مناسب طریقہ ٹور بس تھی۔ لندن میں ٹور بس کی چار کمپنیاں ہیں۔ ہر کمپنی کی درجنوں ٹور بسیں ہیں۔ ان میں سے کسی کمپنی کا دن بھر کا ٹکٹ خرید لیں۔ جہاں دل چاہے اُتر جائیں۔ جو دیکھنا ہو دیکھیں۔ واپس اسی سٹاپ پر جائیں۔ اس کمپنی کی اگلی بس میں سوار ہو جائیں اور آگے روانہ ہو جائیں۔ یہ بسیں اس مخصوص روٹ پر سارا دن محوِ گردش رہتی ہیں۔ ان ڈبل ڈیکر (دو منزلہ) بسوں کی چھت یعنی دوسری منزل پر بھی سیٹیں ہیں۔ ٹور گائیڈ رننگ کمنٹری کرتا رہتا ہے۔ (آج کل سڈنی میں بھی سیاحوں کے لئے ایسی بسیں چلنا شروع ہو گئی ہیں) آپ اس بس کے عملے سے مشہور مقامات میں داخلے کے لئے ٹکٹ بھی خرید سکتے ہیں۔ بس کے پندرہ پونڈ کے اس ٹکٹ میں دریائے ٹیمز کی پینتالیس منٹ کی کشتی کی سیر بھی شامل ہے۔

میں نے یہ آئیڈیا پسند کیا۔ ہوٹل سے تھوڑے ہی فاصلے پر بڑی سڑک تھی۔ وہاں جا کر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد ان بس کمپنیوں میں سے ایک کمپنی بگ بس (Big Bus) کی بس آتی دکھائی دی۔ میرے اشارے پر بس رک گئی۔ میں نے پندرہ پونڈ کا ٹکٹ لیا اور بس میں سوار ہو گیا۔

اس دن موسم صاف تھا۔ سنہری دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ میں بس کی دوسری منزل پر جا کر بیٹھ گیا۔ آدھی سے زیادہ سیٹیں خالی تھیں۔ بس لندن کے مرکزی حصے کی طرف رواں تھی۔ West Minister Abbey کے پاس جا کر میں بس سے اتر گیا۔ سامنے ہی ویسٹ منسٹر ایبے کی شاندار بلڈنگ ایستادہ تھی۔ یہ عمارت لندن کی مشہور اور تاریخی عمارتوں میں سے ایک ہے۔ یہ چرچ گیارھویں صدی میں بنا تھا۔ تیرھویں صدی اور پھر سولہویں صدی میں موجودہ عمارت وجود میں آئی۔ 1066ء سے تاج برطانیہ کی رسمِ تاج پوشی اس عمارت میں ہو رہی ہے۔ یہ چرچ معمول کی عبادت کے علاوہ شاہی خاندان اور دوسری اہم شخصیات کا قبرستان بھی ہے۔ شاہی خاندان کی شادیاں بھی اسی چرچ میں انجام پاتی ہیں۔ موجودہ ملکہ الزبتھ نے آج سے چون سال پہلے دو جون 1953 ء میں اسی عمارت میں تاج پہنا تھا۔ (اس دن کی یاد میں 2 جون 2003 اس عمارت میں ایک شاندار تقریب بھی منعقد ہوئی تھی)

لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی کی گواہ بھی یہی عمارت ہے۔ اور اسی عمارت کے سائے تلے لیڈی ڈیانا کی آخری رسومات بھی انجام پائیں۔ گویا اس عمارت کی دیواریں تاجِ برطانیہ کے عروج و زوال اور خوشیوں اور غموں کی گواہ ہیں۔ عمارت کے آگے سیاحوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ کیمروں کے فلیش چمک رہے تھے۔ لوگ مختلف پوز بنا بنا کر عمارت کے پس منظر میں اپنے اپنے فوٹو بنوا رہے تھے۔ میں نے بھی ایک خاتون کو اپنا کیمرہ تھمایا۔ اس نے بخوشی میری فوٹو اتار دی۔

اس پورے سفر میں میرا یہی طریقہ رہا۔ جہاں کہیں فوٹو بنانا مقصود ہوتا تھا کسی کے ہاتھ میں کیمرہ تھما دیتا اور فوٹو بنوا لیتا۔ وہ الگ بات ہے کہ کئی لوگوں نے میرا سر اُڑا دیا اور کسی نے صرف آدھا چہرہ دکھایا۔ (شاید انہیں میری شکل پسند نہیں آئی تھی) لیکن ایسا بار بار نہیں ہوا۔ زیادہ تر فوٹو بہت اچھے آئے۔ باہر سے یہ عمارت جتنی شاندار ہے اندر سے بھی اتنی ہی خوبصورت ہے۔ میں تھوڑی دیر تک اس کے مختلف حصوں میں گھوم کر باہر نکل آیا۔

ویسٹ منسٹر ایبے کے سامنے ہی برطانوی پارلیمنٹ کی تاریخی عمارت ہے۔ سامنے سے اس کا نظارہ کر کے، بگ بن اور سرونسٹن چرچل کے مجسمے پر نظر ڈالتے ہوئے میں پارلیمنٹ روڈ کی طرف چل پڑا۔ اس روڈ پر برطانیہ کی تمام اہم وزارتوں کے دفاتر ہیں۔ آرمی ہیڈ کوارٹر بھی یہیں واقع ہے۔ ڈاؤننگ سٹریٹ بھی پارلیمنٹ سٹریٹ سے نکلتی ہے۔ میں گھومتا گھماتا ڈاؤننگ سنٹر کے سامنے پہنچ گیا۔ یہ برطانوی وزیر اعظم کا آفس ہے۔ میرے سامنے ہی وزیر اعظم ٹونی بلیئر عمارت سے نکل کر اپنی کار میں بیٹھا اور مختصر سے سکواڈ کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ 10 ڈاؤننگ سنٹر بھی عام سرکاری عمارتوں میں سے ایک نظر آ رہی تھی۔ نہ پولیس کا جمگھٹا اور نہ سیکورٹی گارڈز کی بہتات۔

اس دن موسم آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ صبح دھوپ نکلی ہوئی تھی۔ بعد میں اچانک ہی بادل چھا گئے اور بوندا باندی شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد پھر دھوپ نکل آئی۔ میں اس وقت تک کافی پیدل چل چکا تھا اور تھک گیا تھا۔ ایک فش اینڈ چپس شاپ سے میں نے کھانا لیا اور وہیں ڈاؤننگ سنٹر کے سامنے ایک پارک میں بیٹھ کر کھایا۔ کھانے کے بعد گرما گرم کافی نے جسم میں حرارت سی دوڑا دی۔ میں واپس اسی روڈ پر آیا جہاں بس سے اترا تھا۔ تھوڑے سے انتظار کے بعد بِگ بس کمپنی کی بس آ گئی۔ ویسٹ منسٹر برج کے پاس میں پھر بس سے اتر گیا۔

دریائے ٹیمز پر واقع اس پل کے پاس ہی سائیکل کے پہیے کی شکل کی ایک دیو قامت رائڈ (ride) ہے۔ یہ پہیہ ایک بلند مینار پر بنایا گیا ہے۔ پہیہ اتنا بڑا ہے کہ اس میں 30 کیبن بنے ہیں۔ ہر کیبن میں پندرہ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ جب لوگ اس میں بیٹھ جاتے ہیں تو یہ پہیہ گھومنا شروع ہو جاتا ہے۔ انتہائی بلندی پر ہونے کی وجہ سے حد نظر تک لندن کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔ پہیہ سست رفتاری سے گھومتا رہتا ہے۔ حتیٰ کہ تیس منٹ میں ایک چکر مکمل ہوتا ہے۔ اس پہیے کو Millennium London Eye کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اس ہزاروی کے شروع یعنی 2000ء میں بنا تھا۔ میں اُسی سال وہاں گیا تھا۔ نیا ہونے کی وجہ سے ان دنوں اس دیو قامت پہیے پر سوار ہونے والوں کا بہت رش تھا۔

لندن ویسے بھی سیاحوں کا شہر ہے۔ دنیا کے کسی اور شہر میں اتنے سیاح نہیں جاتے ہوں گے جتنے ہر سال لندن جاتے ہیں۔ لندن کو یورپ کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ دنیا بھر کے سیاح جب یورپ کی سیر کے لئے نکلتے ہیں تو زیادہ تر اس کا آغاز لندن سے ہی کرتے ہیں۔ اس لئے لندن میں سیاحت سے متعلق ادارے خوب پیسہ کماتے ہیں۔ مثلاً ہوٹل۔ ریسٹورنٹ، ٹور بسیں، ٹیکسیاں اور ٹور گائیڈ ہمیشہ مصروف رہتے ہیں۔

بات ہو رہی تھی میلینئم آئی کی! اس دیو قامت پہیے پر سوار ہونے کے لئے نہ صرف غیر ملکی سیاح ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑے تھے بلکہ مقامی انگریز بھی بڑی تعداد میں اس حیرت انگیز تجربے سیمحفوظ ہونے کے لئے وہاں آئے ہوئے تھے۔ میں بھی ٹکٹ لینے کے لئے قطار میں کھڑا ہو گیا۔ قطار شیطان کی آنت کی طرح طویل تھی۔ قطار میں کھڑے تقریباً بیس منٹ ہوئے تھے۔ لگتا تھا کہ مزید اتنا وقت انتظار کرنا پڑے گا۔ اچانک بارش شروع ہو گئی۔ تھوڑی دیر پہلے تک موسم بالکل صاف تھا۔ اسی وجہ سے صبح ہوٹل سے نکلتے وقت میں نے چھتری ساتھ نہیں لی تھی۔ تھوڑی دیر تک تو بارش کے باوجود قطار میں جما کھڑا رہا۔ جب باقاعدہ بھیگنا شروع ہوا تو کسمسایا۔ جب پانی کیمرے اور دیگر چیزوں کو بھگونے لگا تو میں قطار سے نکل آیا۔ سامنے ہی ایک شاپ تھی۔ وہاں چھتری لینے کے لئے پھر قطار بنانا پڑی۔ ان کی چھتریاں گرم پکوڑوں کی طرح بک رہی تھیں۔ چھتری لے کر باہر نکلا تو بارش رک چکی تھی۔ دو منٹ بعد باقاعدہ دھوپ نکل آئی۔ چھتری کھولنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی۔

دوبارہ قطار میں کھڑا ہوا۔ تقریباً چالیس منٹ کے بعد میں اس دیو قامت رائڈ پر سوار ہو رہا تھا۔ جب یہ پہیہ گھومنا شروع ہوا تو ہم آہستہ آہستہ بلند سے بلند ہوتے چلے گئے۔ جتنا بلند ہوتے جاتے اتنا ہی آنکھوں کے لئے نظارہ بڑھتا جاتا۔ حتیٰ کہ جب ہمارا کیبن چوٹی پر پہنچا تو ایسا لگتا تھا کہ ہم آسمان کو چھو رہے ہیں۔ جہاں تک نظر جاتی تھی لندن اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ آنکھوں اور پھر دماغ کے کینوس پر منتقل ہو رہا تھا۔ دریائے ٹیمز سانپ کی طرح بل کھاتا لندن کے بیچوں بیچ اپنا راستہ بناتا رواں دواں نظر آ رہا تھا۔ وہاں سے بکنگھم پیلس، ویسٹ منسٹر ابے، لنڈن برج، ٹاور آف لندن، پارلیمنٹ ہاؤس، ریجنٹ پارک صاف نظر آ رہے تھے۔ یہ نظارہ اتنا دلکش تھا کہ آنکھیں جھپکنے کو دل نہیں چاہتا تھا۔ میں نے وہاں سے کئی فوٹو اتارے۔ لیکن یہ فوٹو آنکھوں کے نظارے کے آگے ہیچ ہیں۔ آدھ گھنٹے بعد جب ہم نیچے اترے تو ایسے لگا جیسے کوئی خواب دیکھا تھا۔ دلکش اور دلنشین خواب۔

میں دوبارہ روڈ پر آ کر بس کا انتظار کرنے لگا۔ اس بار بس نے بہت دیر لگائی۔ تقریباً پون گھنٹہ انتظار کے بعد اس کی شکل دکھائی دی۔ میں نے جب تاخیر کا گلہ کیا تو انہوں نے معافی مانگی اور بتایا کہ آئی آر اے کی طرف سے ایک ٹرین اسٹیشن پر بم رکھے جانے کی اطلاع ملی ہے۔ اس کی وجہ سے ٹرینیں رک گئی ہیں۔ ٹرینیں رکنے کی وجہ سے سڑکیں بہت زیادہ مصروف ہو گئی ہیں۔ اسی وجہ سے ہم تاخیر کا شکار ہوئے۔

واقعی اگلے چند کلو میٹر ہم نے چیونٹی کی رفتار سے طے کئے۔ بس کمپنی نے مسافروں سے معذرت کی کہ ٹریفک کے اس مسئلے کی وجہ سے وہ طے شدہ روٹ پر ہمیں بر وقت نہیں پہنچا سکتے۔ لہذا اِسی ٹکٹ میں ہم ان کی بسوں میں کل پانچ گھنٹے مزید سفر کر سکتے ہیں۔ اس دوران ہم لندن برج سے ہوتے ہوئے بش ہاؤس کے سامنے سے گزرے۔ بُش ہاؤس بی بی سی کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ سالہا سال سے اس عمارت سے وہ خبریں اور تبصرے پڑھے جا رہے ہیں جو تقریباً دنیا کے ہر گوشے میں سنے جاتے ہیں۔ خبر جن کے حق میں ہوتی ہے وہ اسے سچ اور جن کے خلاف ہوتی ہے وہ اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہیں۔ میں بھی بچپن سے ریڈیو پر بُش ہاؤس کا ذکر سنتا آ رہا تھا۔ آج اس سالخوردہ عمارت کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ایسے لگا کہ ایک دیرینہ خواہش پوری ہو گئی ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا کہ اگر وقت ملا تو یہ سٹوڈیوز اندر سے دیکھنے بھی جاؤں گا۔

ہمارا گائیڈ مختلف سڑکوں اور مختلف عمارتوں کے بارے میں بتاتا جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ لطیفے بھی سنا رہا تھا۔ لیکن میں ان ہزاروں سال پرانی عمارتوں کی تاریخی حیثیت اور ان عمارتوں کے مکینوں کے کے اس کردار پر غور کر رہا تھا جس کے اثرات آدھی دنیا پر پڑے۔ ان میں زیادہ تر عمارتیں اس وقت بنی تھیں جب انگریز تقریباً آدھی دنیا پر حکومت کر رہے تھے۔ گویا اس آدھی دنیا کی بیشتر آمدنی یہاں صرف ہو رہی تھی۔ اب جبکہ برطانیہ سمٹ کر ایک چھوٹا سا ملک رہ گیا ہے وہ دولت اب بھی ان کے کام آ رہی ہے۔ ان عمارتوں، سڑکوں، ریل، عجائب گھروں، پُلوں اور بندرگاہوں کی شکل میں۔

واٹر لو سٹیشن کے پاس سے دریائے ٹیمز کی کشتی کی سیر شروع ہوئی۔ پینتالیس منٹ کے اس cruise میں کشتی اس بل کھاتے دریا میں لندن کے بیچوں بیچ رواں دواں ہو گئی۔ ہر مسافر کے پاس ایک ہیڈ فون تھا۔ جس میں مختلف زبانوں کا انتخاب کیا جا سکتا تھا۔ آپ اپنی پسند کی زبان کو منتخب کریں اور رننگ کمنٹری سنتے رہیں۔ لیکن ان میں اُردو شامل نہیں تھی۔ معلوم نہیں اس کی کیا وجہ تھی۔ شاید پاکستانی سیاح زیادہ تعداد میں وہاں نہیں جاتے یا پھر پاکستانی دوسرے بہت سے ممالک کے سیاحوں کی نسبت بہتر انگریزی بول اور سمجھ سکتے ہیں۔ اس لئے اُردو کو شامل کرنے کی انہیں ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس کمنٹری میں دریا کے دونوں طرف مشہور و معروف مقامات کے بارے میں بتایا جا رہا تھا۔ دریا کی اس سیر کا بہت لطف آیا۔ ویسے بھی صبح سے پیدل چل چل کر میں تھک چکا تھا۔ کشتی میں بیٹھ کر آنکھوں کو نظارہ اور کانوں کو معلومات کا خزانہ مل رہا تھا۔ پون گھنٹہ گزرنے کا پتہ بھی نہیں چلا اور ہم واپس وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے۔

کشتی سے اتر کر میں تھوڑی دیر تک ملحقہ بازار میں گھومتا رہا۔ پھر واپس بس سٹاپ پر آیا۔ کافی دیر تک بس کا انتظار کیا لیکن بس کا دور دور تک نام و نشان تک نہ تھا۔ وہیں ایک نوٹس بورڈ پر اس بس کمپنی کا ٹائم ٹیبل چسپاں نظر آیا۔ میں نے اس پر نظر دوڑائی تو علم ہوا کہ آخری بس سوا چھ بجے تھی۔ جبکہ اس وقت پونے سات بجے تھے۔ گویا بس کمپنی کی آج کی سروس ختم ہو چکی تھی۔

میں واٹر لو (Waterloo) ٹرین سٹیشن چلا گیا۔ اوپر سے یہ ایک چھوٹا سا سٹیشن لگا۔ لیکن جب اس زمین دوز سٹیشن میں نیچے جا کر لفٹ سے باہر نکلا تو محسوس ہوا کہ نیچے تو ایک دنیا آباد ہے۔ کئی پلیٹ فارم، ٹکٹ گھر، دکانیں، اور بے شمار لوگ ادھر ادھر آ جا رہے تھے۔ میں لندن میں پہلی دفعہ ٹیوب استعمال کر رہا تھا۔ کاؤنٹر سے ٹکٹ کے ساتھ مزید معلومات اور معلوماتی برو شر حاصل کئے۔ یہ چھوٹا سا چارٹ لندن ٹیوب استعمال کرنے والوں کے لئے اپنے اندر پوری معلومات رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے بغیر کسی رہنمائی کے مطلوبہ ٹرین، اس کا روٹ اور پلیٹ فارم آسانی سے ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ چند منٹوں بعد ہی میں اپنی مطلوبہ ٹرین میں تھا اور پندرہ منٹ کے بعد بیز واٹر (Bays water) سٹیشن پر اُتر رہا تھا۔ ٹرین کا یہ سفر اتنا آسان اور تیز رفتار تھا کہ اگلے چند دن لندن میں رہتے ہوئے میں نے ٹیوب ہی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ بگ بس کا آدھے دن کا ٹکٹ بھی میں نے انہیں بخش دیا، آج کی خدمت کی ٹپ کے طور پر۔

 

انگریز اور کڑاہی گوشت

 

ہوٹل پہنچ کر میں نے تھوڑی دیر آرام کیا۔ اس کے بعد اٹھ کر گرم پانی سے شاور کیا تو دن بھر کی تھکن دور ہو گئی۔ کھانے کی تلاش میں کمرِ ہمت باندھ کر ایک بار پھر ہوٹل سے نکل پڑا۔ اسی لبنانی ریسٹورنٹ کی طرف چلا جا رہا تھا کہ دو پاکستانی حضرات اُردو میں باتیں کرتے ہوئے میرے پاس سے گزرے۔ میں نے انہیں روک کر کسی پاکستانی ریسٹورنٹ کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں نے جو پتا سمجھایا اس کے مطابق وہ ریسٹورنٹ زیادہ دور نہیں تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد میں ’’کراچی ریسٹورنٹ‘‘ میں داخل ہو رہا تھا۔ کافی بڑا اور خوبصورتی سے آراستہ ریسٹورنٹ تھا۔ زیادہ تر میزیں بھری ہوئی تھیں۔ مزے کی بات یہ تھی کہ وہاں پاکستانیوں سے زیادہ انگریز تھے۔ اس وقت میں انگشتِ بدنداں رہ گیا جب میں نے ان انگریزوں کو کڑاہی گوشت، بریانی، پائے، نہاری اور دیگر چٹ پٹے کھانے اس طرح کھاتے دیکھا جیسے ہمارے لاہوری بٹ یا کراچی کے حضرات کھاتے ہیں۔ اس سے پہلے گوروں کو اس رغبت سے پاکستانی کھانے کھاتے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ مزید حیرانی کی بات یہ تھی کہ ان میں سے زیادہ تر چھری کانٹے کے تکلف کے بغیر ہاتھوں سے کھا رہے تھے۔ جب میں نے اپنا کھانا چکھا تو محسوس ہوا کہ اس میں مرچیں اور مسالے بھرپور بلکہ کراچی کے ریستورانوں کی طرح کچھ زیادہ ہی تھے۔ لیکن وہ گورے جس طرح ذوق و شوق سے کھا رہے تھے، اس سے لگتا تھا کہ وہ مدتوں سے ایسے کھانوں کے عادی ہیں۔ بعد میں مجھے علم ہوا کہ جس طرح آسٹریلین تھائی اور ترکش کھانوں کو پسند کرتے ہیں اسی طرح انگریز پاکستانی کھانوں کے عادی ہوتے جا رہے ہیں۔ گویا چٹپٹے پاکستانی کھانوں نے گوروں کو فتح کر لیا تھا۔ ہو سکتا ہے لسی اور ساگ کا ڈنر کر کے مصطفی قریشی کی طرح ڈراؤنے ڈکار بھی لیتے ہوں۔ پاکستانی کھانوں کی اس مقبولیت کی وجہ سے برطانیہ کے ہر علاقے میں پاکستانی ریستورانوں کا ایک جال سا بچھا ہوا ہے۔

کھانے کے بعد باہر نکلا تو رات کی سیاہی روشنی کو نگل چکی تھی۔ ہوا میں قدرے خنکی ہونے کے باوجود موسم خوشگوار تھا۔ آدھ گھنٹے کی چہل قدمی کے بعد میرے قدم ہوٹل کی طرف بڑھنا شروع ہو گئے۔ ایک فون بوتھ کے پاس کھڑی انگریز عورت جس کے ہاتھوں میں سلگتا سگریٹ تھا، اچانک ہی میرے بالکل سامنے آ گئی۔ اس کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہو گی۔ اپنے حلئے اور چال ڈھال سے وہ ایک پیشہ ور خرانٹ عورت معلوم ہوتی تھی۔ سگریٹ کا دھُواں میری طرف اچھالتے ہوئے بولی ’’ڈارلنگ کیا تم میرے ساتھ کچھ خوشگوار وقت گزارنا پسند کرو گے؟‘‘

خباثت اور کراہت اس کے میک اپ زدہ چہرے سے برس رہی تھی۔ اس کی مسکراہٹ مصنوعی اور انداز میں انتہائی سستا پن تھا۔ اس کے لباس کا اوپری حصہ اتنا کھلا تھا کہ کچھ چھپا نہ تھا۔ بات کرتے ہوئے وہ مزید آگے جھکی تاکہ اگر کچھ نظارہ باقی ہو تو وہ بھی دکھا سکے۔ میں نے اپنی ناپسندیدگی چھپاتے ہوئے کہا ’’اس کے لئے مجھے کتنی قیمت ادا کرنا ہو گی؟‘‘

وہ اپنی پوری کاروباری صلاحیت استعمال کرتے ہوئے آگے بڑھ کر تقریباً میرے ساتھ لگ کر بولی ’’کچھ زیادہ نہیں! بس تیس پونڈ فی گھنٹہ! اگر تم اپنے ساتھ لے کر جاؤ تو ریٹ اور کم ہو جائے گا؟‘‘

میں نے پیچھے ہٹ کر اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ بڑھایا اور کہا ’’شکریہ! مجھے یہ سودا منظور نہیں‘‘

میں چلنے لگا تو وہ پھر میرے ساتھ آ لگی ’’اگر تم نے مجھے پسند نہیں کیا تو میرے ساتھ چلو۔ وہاں اور لیڈیز بھی ہیں۔ جس میں یورپین، ایشین اور امریکن ہر قسم کی لیڈیز شامل ہیں‘‘

میں نے چلتے ہوئے کہا ’’تم غلط دروازہ کھٹکھٹا رہی ہو۔ اپنے یہ ہتھیار سنبھال کر رکھو اور کسی اور پر آزمانا! شب بخیر‘‘

اس نے غصے سے پاؤں پٹخا اور پھر جا کر اسی فون بوتھ کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ میں چلتے ہوئے اس کے استعمال کردہ لفظ ’’لیڈیز‘‘ پر غور کر رہا تھا۔ میں نے جب بچپن میں انگریزی سیکھنی شروع کی تو استاد نے لفظ لیڈی کا مطلب ’’شریف عورت‘‘ بتایا تھا۔ لیکن پہلے آسٹریلیا اور اب انگریزوں کے ملک میں آ کر کتابی انگریزی غلط ثابت ہو رہی تھی یا پھر یہاں ایسی عورتوں کو شریف عورتیں ہی سمجھا جاتا ہے۔ کیونکہ شرافت کا جو پیمانہ مشرق نے مقرر کر رکھا ہے مغرب اس میں کہیں فٹ نہیں بیٹھتا۔ جس طرح آزادی کا جو پیمانہ مغرب نے مقرر کر رکھا ہے مشرق کبھی بھی اس سطح پر جانا پسند نہیں کرے گا۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب۔ ایک میں دن ہوتا ہے تو دوسرے میں رات اور رات اور دن کبھی اکھٹے نہیں ہو سکتے۔

میں ہوٹل پہنچا تو دو پیغام میرے منتظر تھے۔ استقبالیہ کلرک نے ایک چٹ میری طرف بڑھائی۔ اس پر روزی کا نام اور فون نمبر لکھا تھا۔ کلرک نے معذرت کرتے ہوئے بتایا ’’اس خاتون کا صبح سے تین مرتبہ فون آ چکا ہے۔ ایک دفعہ صبح جب آپ ہوٹل سے نکل چکے تھے اور دو مرتبہ شام کو جب آپ کھانے کے لئے نکلے ہوئے تھے‘‘

دوسرا نام پڑھ کر میں چونکا۔ اس پر علی کا نام اور فون نمبر تھا۔ جی ہاں، وہی علی جو میرے بچپن کا دوست تھا اور جس نے خلافِ توقع رکھائی کا مظاہرہ کیا تھا۔ کلرک نے بتایا کہ یہ صاحب فوراً مجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے کمرے میں جا کر علی کا نمبر ملایا تو اس نے فوراً ہی فون اٹھا لیا۔ ایسے لگتا تھا کہ وہ فون سے لگا بیٹھا ہے۔ علیک سلیک کے بعد میں نے پوچھا ’’سناؤ کیسے میری یاد آ گئی اور میرا فون نمبر تمھیں کہاں سے ملا؟‘‘

علی نے کہا ’’تمہارا شکوہ بجا ہے۔ لیکن فون پر بات کرنے کی بجائے میں تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ یہ بتاؤ ابھی آ جاؤں تو کیسا رہے گا؟ یا تم سونا چاہتے ہو؟‘‘

میں نے کہا ’’میں نے کون سا صبح سویرے آفس جانا ہے۔ آنا چاہتے ہو تو آ جاؤ‘‘

اس نے کہا ’’میں آدھے گھنٹے میں پہنچ رہا ہوں‘‘

اور پھر فون بند کر دیا۔

اس کے بعد میں نے روزی کا نمبر ملایا۔ اس نے بھی فوراً فون اٹھایا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا تو کہنے لگی ’’میں نے تمہاری آواز پہچان لی ہے۔ میں نے آج تین مرتبہ تمہارے ہوٹل فون کیا، لیکن تم سے بات نہ ہو سکی‘‘

میں نے کہا ’’ہاں مجھے پتا چلا ہے۔ تم بتاؤ خیریت سے ہو اور کہاں ہو؟‘‘

روزی بولی ’’میں بالکل خیریت سے ہوں اور اپنے والدین کے ہاں ہوں۔ رات کو تمہارا فون نمبر نہ لے سکی۔ شکر ہے تمھارے ہوٹل کا نام یاد رہ گیا۔ صبح اٹھ کر ڈائریکٹری ہیلپ والوں سے فون نمبر لیا۔ لیکن جس وقت میں نے فون کیا تم ہوٹل سے روانہ ہو چکے تھے۔ یہ بتاؤ میں تم سے کب مل سکتی ہوں؟‘‘

’’میں دو دن مزید لندن میں ہوں۔ اس کے بعد اگلے سفر پر نکل پڑوں گا۔ اس سے پہلے جب دل چاہے مل سکتی ہو۔ میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر ہاتھ نہ آ سکوں‘‘

روزی نے کہا ’’اگر ابھی آ جاؤں تو؟‘‘

’’ابھی اس وقت تو بہت رات ہو چکی ہے۔ کل صبح یا شام کو مل لو۔ کیونکہ کل دن میں لندن کے کچھ اور قابل دید مقامات دیکھنا چاہتا ہوں‘‘

روزی نے کہا ’’اگر تم برا نہ مانو تو میں صبح آ جاتی ہوں۔ میں تمہیں لندن کی سیر کرواؤں گی۔ ویسے بھی میں فارغ ہوں‘‘

میں نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور پھر حامی بھر لی۔ روزی نے صبح آٹھ بجے پہنچنے کا وعدہ کیا اور میں نے فون بند کر دیا۔ میں نے روزی کی پیشکش اس لئے قبول کر لی کہ مقامی گائیڈ کی مدد سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لندن دیکھ سکتا تھا۔ گائیڈ بھی فری اور اوپر سے حسین، ایسے میں کون کافر انکار کر سکتا ہے۔

اتنی دیر میں کوئی میرا دروازہ کھٹکھٹانے لگا۔ میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا۔ علی تھا۔ دونوں دوست جذباتی انداز میں ملے۔ اس کے بعد گلوں، باتوں اور یادوں کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا۔ علی نے اپنے سابقہ رویے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اس نے بتایا ’’میں انتہائی مجبور ہوں۔ میں جس شوق اور ولولے سے برطانیہ آیا تھا وہ سرد پڑ چکا ہے۔ میرے شوق پر اوس سسرال اور خصوصاً میری بیوی کی وجہ سے پڑی ہے۔ میری بیوی انتہائی خود سر اور بد دماغ ہے۔ وہ اپنے آپ کو آسمانی مخلوق اور مجھے ایک حقیر کیڑا سمجھتی ہے۔ اس نے روزِ اول سے مجھے شوہر کا وہ مقام اور مرتبہ نہیں دیا جو ہمارے معاشرے کی خواتین دیتی ہیں۔ اس نے یہ شادی والدین کے مجبور کرنے پر کر تو لی ہے لیکن ہمارے درمیان ذہنی ہم آہنگی کا مکمل فقدان ہے۔ ہماری سوچوں میں وہی دُوری ہے جو مشرق اور مغرب کے درمیان ہے۔ میری بیوی کی پرورش خالصتاً مغربی انداز میں ہوئی ہے۔ اس میں مسلمانیت یا پاکستانیت برائے نام ہے۔ بلکہ وہ پاکستان کے نام سے الرجک ہے۔ دوسری طرف میرا چچا اور چچی بھی اپنے وعدوں کے برعکس آنکھیں بدل چکے ہیں۔ اس گھر میں میری حیثیت ایک نوکر سے زیادہ نہیں۔ یہ سب کچھ میں اس لئے برداشت کر رہا ہوں کہ مجھے اپنے گھر اور والدین کے حالات کا بھی بخوبی علم ہے۔ بڑا بیٹا ہونے کی وجہ سے میرے اوپر جو ذمہ داریاں ہیں، میں اس سے بھی آگاہ ہوں۔ مجھ سے چھوٹی تین بہنیں ہیں جو یکے بعد دیگر شادی کے قابل ہو رہی ہیں۔ میری بیوی نے مجھ سے علیحدگی اختیار کر لی تو مجھے ہمیشہ کے لئے برطانیہ چھوڑنا پڑے گا جو میرے اور میرے والدین کے لئے جگ ہنسائی کا باعث بنے گا۔ انہی باتوں کی وجہ سے ان نامساعد حالات میں بھی میں اس گھر میں پڑا ہوں۔ حالانکہ میں شروع دن سے کما بھی رہا ہوں۔ جو کچھ کماتا ہوں وہ چچا کے گھر ہی خرچ کرنا پڑتا ہے۔ بڑی مشکل سے اپنا جیب خرچ اور تھوڑی سی رقم بچاتا ہوں جو ہر ماہ پاکستان بھیجتا ہوں۔ لندن میں رہتے ہوئے میں نے نہ تو یہ شہر دیکھا ہے اور نہ ہی گھومنے پھرنے کے لئے میرے پاس وقت اور سرمایہ ہے‘‘

علی کی دُکھ بھری داستان ختم ہوئی تو میری آنکھیں آبدیدہ ہو چکی تھیں۔ وہ گلو گیر لہجے میں اپنی مجبوری اور اپنے رویئے پر شرمندگی کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے اٹھ کر اسے گلے لگا لیا اور کہا ’’علی میں تمہارے رویئے سے غلط فہمی کا شکار ہو گیا تھا۔ اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ تم یہ بتاؤ کہ ایسا کب تک چلتا رہے گا۔ کیا ساری زندگی اِسی آگ میں جلتے رہو گے یا بہتری کی کوئی امید ہے؟‘‘

علی نے مایوسی سے بتایا ’’برطانوی قانون کے مطابق چار سال تک میں مکمل طور پر اپنی بیوی کے رحم و کرم پر ہوں۔ وہ کسی وقت بھی مجھے برطانیہ بدر کروا سکتی ہے۔ اگر چار سال کی یہ قیدِ مشقت کاٹ لی تواس کے بعد مجھے یہاں کی بلا مشروط شہریت مل جائے گی۔ اس کے بعد بھی اگر میری بیوی اور سسرال کا رویہ یہی رہا تو میں ان سے جان چھڑوا سکتا ہوں۔ لیکن یار کبھی کبھی مجھے اپنے چچا اور چچی پر بھی بہت ترس آتا ہے۔ خدا جانے انہوں نے کتنی منتیں کر کے میری بیوی کو اس شادی کے لئے منایا ہے۔ ان کا صرف یہ قصور ہے کہ انہوں نے بیٹی کی تربیت مکمل مغربی انداز میں کی ہے۔ اب وہ بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ بہرحال میری کوشش آخر وقت تک نباہ کی ہو گی‘‘

علی سے باتیں کرتے کرتے تین بج گئے۔ اس دوران ہم نے دو دفعہ چائے پی۔ میں نے علی سے کہا کہ وہ وہیں لیٹ جائے۔ اس نے کہا ’’توبہ کرو! پچھلے دو سال میں پہلی دفعہ اتنی رات تک گھر سے باہر رہا ہوں۔ حالانکہ چچا، چچی اور میری بیوی کو تمہارے بارے میں علم ہے۔ لیکن پوری رات باہر گزارنے کا میں پھر بھی رسک نہیں لے سکتا۔ اس لئے اب چلتا ہوں‘‘

میں نے پوچھا ’’پھر کب ملو گے؟‘‘

علی نے کہا ’’اوہ! میں تو بھول ہی گیا تھا۔ صبح تو میں کام پر جاؤں گا۔ کل شام کو میں یہیں آ جاؤں گا۔ پھر اکٹھے کسی ریسٹورنٹ میں جا کر ڈنر کریں گے۔ یار برا نہیں منانا! میں تمہیں گھر نہیں لے کر جا سکتا۔ اسی وجہ سے بیوی کے ساتھ میری لڑائی بھی ہوئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ میں تمہیں یارک شائر فون نہیں کر سکا۔ ہاں تمہارا فون نمبر میں نے یارک شائر والے تمہارے دوست آصف سے لیا تھا‘‘

میں نے کہا ’’کوئی بات نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ تمہارے ساتھ ملاقات تو ہوئی۔ کل شام آٹھ بجے میں تمہارا انتظار کروں گا‘‘

اس کے بعد علی وہاں سے رخصت ہو گیا اور میں لمبی تان کر سو گیا۔

 

بُری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے!

 

ابھی میں ناشتے سے فارغ ہوا ہی تھا کہ روزی آن پہنچی۔ اس دن وہ کافی نکھری نکھری لگ رہی تھی۔ جینز اور ٹی شرٹ میں اس کے سڈول جسم کے پیچ و خم نظروں میں کھب رہے تھے۔ آج اس کی آنکھوں میں ستارے سے چمک رہے تھے۔ ہلکے سے میک اپ نے اس کے حسین چہرے کو مزید تاباں کر دیا تھا۔ میں ابھی ناشتے کی میز پر ہی تھا۔ اسے دیکھ کر کھڑا ہو گیا۔ روزی آئی تو اس نے آؤ دیکھا نہ تاؤ، سیدھی آ کر میرے گلے لگ گئی۔ میں اِس اُفتاد سے گھبرا سا گیا۔ اسے نرمی سے الگ کیا اور سامنے والی کرسی پر بٹھایا۔ اس چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں اس وقت ہوٹل کے زیادہ تر مہمان موجود تھے۔ وہ ہماری جانب دُزدیدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر سے میری علیک سلیک ہو چکی تھی۔ وہ جانتے تھے کہ میں آسٹریلیا سے آیا ہوں اور اکیلا ہوں۔ اچانک ایک نوجوان اور حسین لڑکی کی آمد اور اس کا یہ انداز انہیں چونکا گیا۔ پھر یورپ کے مروجہ انداز میں انہوں نے کندھے جھٹکے اور اپنے ناشتے میں مصروف ہو گئے۔ میرے پوچھنے پر روزی نے بتایا کہ وہ ناشتے سے فارغ ہو کر آئی ہے۔ تاہم اس نے کافی پینے کی حامی بھری۔ کافی کے دوران میں روزی کو غور سے دیکھتا رہا۔ وہ اچانک ہنس پڑی۔ پھلجڑیاں سی پھوٹیں ’’ایسے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘

’’خدا کی قدرت! وہ کتنے رنگ بدلتا ہے۔ پرسوں رات والی روزی اور اس روزی میں کتنا فرق نمایاں ہے۔ آج تمہارا روپ ہی ’’وکھرا‘‘ نظر آ رہا ہے۔‘‘

روزی شرمائی تو اس کے گالوں کے سیب مزید سرخ ہو گئے۔ کہنے لگی ’’تم درست کہہ رہے ہو۔ وہ روزی اور تھی اور یہ اور ہے۔ اس دن تو میں اس دنیا اور اپنی زندگی سبھی سے بے زار تھی۔ لیکن آج میں محسوس کر رہی ہوں کہ دنیا اتنی بدصورت بھی نہیں جتنی مجھے نظر آ رہی تھی۔ شاید میں نے اپنے اردگرد جو دنیا بسا لی تھی وہی بدصورت تھی۔ میں کنوئیں کے مینڈک کی طرح اسے ہی کل کائنات سمجھتی رہی۔ جبکہ اصل دنیا بہت وسیع اور بہت خوبصورت ہے‘‘

اس نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’طارق! میں تمہاری مشکور ہوں۔ اس رات جب میرا دل مایوس اور میرا دماغ ماؤف ہو چکا تھا۔ میں دل و دماغ اور رات کے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی تو تم نے مجھے سہارا دیا۔ اگر تم اس دن نہ ملتے تو نہ جانے کیا ہوتا۔ میں تو اپنی زندگی سے ہی بے زار تھی‘‘

میں نے کہا ’’روزی! ہم دوست ہیں اور دوستوں میں شکریے وغیرہ کا تکلف نہیں ہوتا۔‘‘

وہ ایک دفعہ پھر جلترنگ کی طرف ہنسی۔ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور بولی ’’او کے دوست!‘‘

میں بھی ہنسا اور بولا ’’آج دوست کے ساتھ ساتھ تم میری گائیڈ بھی ہو۔ بتاؤ آج مجھے کیا دکھا رہی ہو؟‘‘

پروگرام یہ بنا کہ سب سے پہلے کنسنگٹن پیلس دیکھنے چلتے ہیں جو وہاں سے بہت زیادہ دُور نہیں تھا۔

تھوڑی دیر بعد ہم لندن کے مشہور کنسنگٹن گارڈن کے درختوں کے جھنڈ کے بیچوں بیچ پیدل چلے جا رہے تھے۔ اچانک ہی کنسنگٹن پیلس کی شاندار عمارت ہمارے سامنے آ گئی۔ سرسبز درختوں میں گھرے اس محل کو دور سے دیکھنا محال ہے کیونکہ وہ پورا علاقہ درختوں سے اٹا ہوا ہے۔ عمارت زیادہ اونچی بھی نہیں ہے۔ صدیوں تک یہ محل برطانیہ کے شاہی خاندان کا مسکن رہا تھا۔ بکنگھم پیلس بننے کے بعد بادشاہ یا ملکہ تو وہاں جا بسے۔ لیکن کنسنگٹن پیلس میں اب بھی شاہی خاندان کے کئی لوگ رہتے ہیں۔ لیڈی ڈیانا پرنس چارلس سے علیحدگی کے بعد اس محل میں منتقل ہو گئی تھی۔ وفات کے وقت بھی وہ یہیں رہتی تھی۔ گویا اب یہ شاہی خاندان کا دوسرا گھر ہے۔ جس حصے میں یہ لوگ رہتے ہیں اسے چھوڑ کر بقیہ عوام کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ اس کے لئے ٹکٹ خریدنا پڑتا ہے۔ گویا شاہی خاندان نے محل کو کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے۔

ٹکٹ خرید کر جوں ہی ہم اندر داخل ہوئے اس تاریخی محل کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ باہر سے سادہ سی نظر آنے والی یہ عمارت اندر سے انتہائی دیدہ زیب اور خوبصورتی سے آراستہ ہے۔ اس کی راہداریاں گزرے ہوئے بادشاہوں اور ملکاؤں کی تصاویر اور پینٹنگز سے سجی ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں موبائل فون کی شکل کا ایک آلہ دے دیا گیا۔ اس کو آن کر کے ہم کوئی سی زبان منتخب کر سکتے تھے۔ ہر کمرے کے باہر نمبر پلیٹ چسپاں تھی۔ آلے پر وہ نمبر پنچ کریں تو وہ اس کمرے کا تمام تاریخ جغرافیہ آپ کو بتا دیتا تھا۔ وہ بھی آپ کی اپنی زبان میں۔ گویا یہ ایک مشینی گائیڈ تھا۔ اس طرح جس کمرے میں جائیں آلے پر وہ نمبر پنچ کرتے جائیں اور اس کی رننگ کمنٹری سنتے جائیں۔

اس محل کا ہر کمرہ نہایت تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کسی میں کوئی مشہور بادشاہ پیدا ہوا ہے اور کسی میں ملکہ نے آنکھ کھولی ہے۔ موجودہ ملکہ الزبتھ بھی اسی محل میں پیدا ہوئی تھی اور اس کا بچپن یہیں گزرا تھا۔ ماضی کے ان مشہور بادشاہوں سے متعلق تاریخی اشیاء بھی ان کمروں میں موجود ہیں۔ ان کے تاج، تخت، مرصع شاہی کرسیاں، میز، فانوس، ہاتھ سے جھلنے والے پنکھے، بچوں کے پنگھوڑے، پرانے دور کی لالٹین، قلم، دوات، تلواریں، رائفلیں، زرہ بند اور بادشاہوں کے شکار کئے ہوئے درندوں کے سر بھی ان کمروں میں محفوظ ہیں۔ گویا برطانیہ کے شاہی خاندان کا صدیوں پرانا تاریخی ورثہ اس محل میں موجود ہے۔ 1760ء تک یہ محل شاہی خاندان کا مسکن رہا تھا۔ اس کے بعد بھی اس کی اہمیت جوں کی توں قائم ہے۔ انگریز اور دنیا بھر کے سیاح ذوق و شوق سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ انگریزوں کی شاہی خاندان سے محبت اور روایت پسندی یہاں نظر آتی ہے۔ انہوں نے اگر عمارت کی مرمت بھی کی ہے تو اس کا پرانا انداز بلکہ قدیم پتھر بھی جوں کے توں رکھے ہیں۔

میں اس محل کے مختلف کمروں کے سحر میں یوں کھویا کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا۔ جس کمرے میں جاتا اس کی تاریخ اور تاریخی نوادرات میں اس طرح کھو جاتا کہ اردگرد کے ماحول، اپنے ساتھی بلکہ اپنے آپ کو بھی بھول سا جاتا۔ اچانک کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چونکا دیا۔ میں جیسے کسی خواب سے جاگ اٹھا۔ دیکھا تو روزی تھی۔ کہنے لگی ’’کچھ دیکھنا باقی ہے یا چلیں؟‘‘

وہ میرا ہاتھ پکڑ کر محل کی اس جادو نگری سے باہر لے آئی۔ میں جیسے ماضی کے اس سنہرے خواب کے طلسم سے باہر نکل آیا۔ گھڑی دیکھی تو احساس ہوا کہ چار گھنٹے تک میں ان تاریخی بھول بھلیوں میں گم رہا تھا۔ کنسنگٹن پیلس سے نکل کر ہم سیدھے بکنگھم پیلس پہنچے۔ میں نے روزی سے ہنستے ہوئے کہا ’’تم اپنے شاہی محل دکھا کر مجھے مرعوب تو نہیں کرنا چاہ رہیں؟‘‘

روزی نے کہا ’’بالکل نہیں! لیکن لندن میں آ کر اگر کوئی سیاح یہ دو محل نہیں دیکھتا تو اس کی سیر مکمل نہیں ہوتی۔ جہاں تک مرعوب ہونے کا تعلق ہے، ہم انگریز اپنے شاہی خاندان سے محبت ضرور کرتے ہیں لیکن ان سے مرعوب ہر گز نہیں۔ کیونکہ اکیسویں صدی میں بھی اگر ہم نے بادشاہت کو قائم رکھا ہوا ہے تو یہ برطانوی عوام کی مہربانی ہے۔ شاہی خاندان کا رعب، دبدبہ اور حکومتی جاہ و جلال تاریخ کی کتابوں اور عجائب گھروں تک محدود رہ گیا ہے۔ شاہی خاندان اب اپنے پر شکوہ ماضی کی ایک علامت کے طور پر باقی ہے۔‘‘

بکنگھم پیلس کی شاندار اور با رُعب عمارت ہمارے سامنے جلوہ گر تھی۔ مسلح شاہی محافظ اپنی شاندار شاہی وردیوں کے ساتھ صدر دروازے پر مجسموں کی طرح ایستادہ تھے۔ بکنگھم پیلس 1837 ء سے برطانیہ کے شاہی خاندان کی سرکاری رہائش گاہ، بادشاہ یا ملکہ کا دفتر اور بادشاہت کا مرکز ہے۔ ملکہ برطانیہ یہیں مقیم ہے۔ تمام اہم شاہی تقریبات یہیں منعقد ہوتی ہیں۔ محل کے باہر گارڈ کی تبدیلی کا منظر دیکھنے کے لئے سیاحوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی گارڈز کی تبدیلی عمل پذیر ہوئی۔ نئے گارڈز پوری سج دھج اور بینڈز کے ساتھ مارچ کرتے ہوئے برآمد ہوئے۔ انتہائی منظم انداز میں انہوں نے اپنی جگہیں سنبھالیں اور پرانے گارڈز اسی نظم و ضبط سے رخصت ہوئے۔ گارڈز کی تبدیلی کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔

بکنگھم پیلس کا ایک حصہ گرمیوں کے دنوں میں عوام کے لئے کھول دیا جاتا ہے۔ ہم بھی ٹکٹ لے کر محل کے اندر داخل ہو گئے۔ اندر کا منظر کنگنسٹن پیلس سے ملتا جلتا تھا۔ تاہم بکنگھم پیلس کی عمارت قدرے جدید اور زیادہ آراستہ ہے۔ ملکہ کا سرکاری دفتر، شاہی عملے کے دفاتر اور شاہی خاندان کے استعمال شدہ کمروں کی سیر کرتے ہوئے میں ایک بار پھر اسی طلسمی دنیا میں کھو گیا۔ وہاں ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت پینٹنگز آویزاں تھیں۔ شاہی فرنیچر، بیڈز، کرسیاں، صوفے، پردے، وارڈ روب، منقش ٹائلیں، دیدہ زیب آرٹ پیس، مرصع لائٹس، اور کھڑکیوں پر سجے ہوئے رنگا رنگ پھول دماغ کو کسی اور جہاں میں لے گئے۔ ایک ایک کرسی کسی ماہر کاریگر کے فن کا نادر نمونہ تھی۔ اس میں جڑے ہوئے موتی، نقش و نگار اور اس کی تراش خراش دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کسے دیکھوں، کسے اپنی آنکھوں میں سمیٹوں اور کسے دماغ کے کینوس پر محفوظ کروں۔ میں ایک ایک کمرے، ایک ایک چیز اور ایک ایک تصویر میں کھو جاتا۔ ایسے لگتا تھا کہ میں اسی منظر کا حصہ ہوں یا تاریخ کے اس دور میں پہنچ گیا ہوں جب یہ سب چیزیں زیرِ استعمال تھیں۔

نہ جانے کتنا وقت، کتنا عرصہ یا کتنی عمر وہیں بیت گئی۔ پھر کسی نے مجھے بیدار کر دیا۔ مجھے خوابوں کی دنیا سے حقیقت کی دنیا میں لے آیا۔ یہ شاہی گارڈ تھا جو بہت نرم انداز میں بتا رہا تھا کہ سیاحوں کے لئے مختص وقت ختم ہونے کو ہے۔ میں اسے خالی خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا ’’اگر آپ کو باہر کا راستہ نہیں معلوم ہو تو میں مدد کر سکتا ہوں۔‘‘

میں نے سر ہلا دیا۔ وہ نہ جانے کیا باتیں کرتا ہوا میرے ساتھ چل دیا۔ جب باہر پہنچا تو سورج کی روشنی میری آنکھوں کو چندھیانے لگی۔ آج کے سورج کی روشنی مجھے کل کی چاندنی کے سحر سے باہر لے آئی۔ روزی آگے بڑھی اور بولی ’’تم کہاں کھو گئے تھے۔ میں ہر جگہ تمہیں تلاش کرتی رہی۔ اب باہر آ کر بہت دیر سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔‘‘

میں نے کہا ’’میں یہیں تھا یا شاید کہیں اور تھا۔ اب آ گیا ہوں، چلیں؟‘‘

اس نے عجیب نظروں سے دیکھا۔ جیسے کہہ رہی ہو ’’پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘

ٹیوب پکڑ کر ہم سٹی سنٹر جا پہنچے۔ ٹریفالگر سکوائر لندن کا مشہور و معروف مقام ہے۔ جہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ وہاں دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح گلے میں کیمرے لٹکائے ادھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ خوبصورت چہروں کی بہار آئی ہوئی تھی۔ بے فکرے اور نئے جہانوں کی کھوج میں نکلے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی ٹولیاں ہر سو قہقہوں کے رنگ بکھیر رہیں تھیں۔ موسم ابر آلود لیکن خوشگوار تھا۔

ٹریفالگر اسکوائر میں کبوتروں کی بہتات ہے۔ جھنڈ کے جھنڈ کبوتر میدان میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ کبوتر انسانوں سے بالکل نہیں ڈرتے بلکہ ان کے ہاتھوں اور کندھے پر آ بیٹھتے ہیں۔ میں نے باجرے کے دانوں کا ایک لفافہ خریدا۔ اپنے سامنے دانے بکھیرے تو درجنوں کبوتر میرے اردگرد جمع ہو گئے۔ کوئی میرے ہاتھ پر تھا تو کوئی سر پر بیٹھا تھا۔ روزی نے کیمرہ لے کر چند تصاویر بنائیں۔ تصویر کے ذکر پر یاد آیا، ایزل اور کینوس لے کر کئی فنکار وہاں براجمان تھے۔ اگر کوئی شخص اپنی پینٹنگ بنوانا چاہے تو یہ فنکار تھوڑی دیر میں بنا کر اس کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مجھے بھی کئی ایک نے آفر کی۔ لیکن میں نے اس میں دلچسپی نہیں لی۔ مجھے اپنی تصویر سے زیادہ ارد گرد کی دنیا سے دلچسپی تھی۔ دریائے ٹیمز کے کنارے ٹہلتے اور لندن کی حشر سامانیوں کا نظارہ کرتے ہوئے شام ہو گئی۔ آٹھ بجے علی مجھ سے ملنے ہوٹل آ رہا تھا۔ اس لئے میں نے واپس چلنے کا عندیہ ظاہر کیا۔ روزی نے پوچھا ’’آج کا دن کیسا گزرا۔ کیا تم نے انجوائے کیا؟‘‘

میں نے کہا ’’دن گزر گیا! انجوائے کا تو مجھے معلوم نہیں۔ لیکن یہ یادگار دن تھا۔ اتنے تاریخی مقامات اور وہ بھی ایک حسین ساتھی کے ساتھ! پھر شاید ایسا دن نہ آئے‘‘

وہ بولی ’’کیوں نہیں! میں کل پھر تمہیں لندن گھماؤں گی۔ جب تک تم یہاں ہو میں تمہارے ساتھ رہوں گی۔ ہاں اگر تم مجھ سے اکتا گئے ہو تو وہ الگ بات ہے۔‘‘

وہ شوخ نظروں کا رنگ بکھیر رہی تھی۔

’’میں نے غالبؔ، فیضؔ اور فرازؔ کو پڑھا ہے۔ ان کی شاعری کا دیوانہ ہوں۔ تم بھی فرازؔ کی غزل سے کم نہیں ہو۔ تمہاری سنگت سے انکار کر کے میں اپنی ادب پرستی کی توہین نہیں کر سکتا۔‘‘

روزی مسکرائی، کلیاں چٹکیں، پھول مسکائے ’’مجھے نہیں معلوم تم کن کا نام لے رہے ہو اور کیا کہہ رہے ہو۔‘‘

میں نے کہا ’’غالبؔ، فیضؔ اور فرازؔ کو نہیں جانتی تو شیکسپئرؔ، ملٹنؔ، ورڈس ورتھؔ اور شیلےؔ کو تو جانتی ہو۔ میرے لئے تم ان کی دِلربا شاعری سے کم نہیں ہو اور میں شاعری کا دلدادہ ہوں‘‘جیسے شیکسپئر نے لکھا ہے۔

So long as men can breathe, or eyes can see

and this gives life to thee, So long lives this

میں نے کالج کے زمانے میں رٹی ہوئی شکسپئیر کی چند نظموں کا بر وقت استعمال کیا۔ وہ ہنسی ’’اوہ! میں سمجھی! کیا تم مجھے بے وقوف تو نہیں بنا رہے؟‘‘

’’میری یہ جر ات! یہ تمہارا شہر، تمہارا ملک ہے۔ میں بے چارہ پردیسی تمہیں کیا بے وقوف بناؤں گا۔ میں تو خود تمہارے رحم و کرم پر ہوں۔‘‘

روزی کی مسکراہٹ مزید گہری ہو گئی۔ ’’تعریف کا شکریہ! اور اب یہ شاعری بند کر کے مجھے بتاؤ کہ تمہارا کیا پروگرام ہے۔ کیا میں تمہارے ساتھ ہوٹل چلوں؟‘‘

میں نے کہا ’’جو مزاجِ یار میں آئے۔‘‘

وہ بولی ’’اچھا! پھر یہ تو یہ سہی! میں کل صبح تمہیں گھمانے لے جا رہی ہوں۔ کیوں نہ رات تمہارے ہوٹل میں رہ جاؤں۔ اس طرح آنے جانے کی دقت سے بچ جاؤں گی۔‘‘شرارت اس کی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔

میں نے کہا ’’بُری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘

’کیا میں تمہیں بچی نظر آ رہی ہوں؟‘‘

’’ہاں! کبھی کبھی بچی ہی نظر آتی ہو۔‘‘

اب اس نے کہا ’’بری بات! اچھے بچے ایسی باتیں نہیں کرتے۔‘‘

میں نے کہا ’’اچھا بڑی بی! تم اب گھر جاؤ۔ میرا دوست انتظار کر رہا ہو گا۔ صبح ملاقات ہو گی‘‘

کچھ بحث و تمحیص کے بعد ہم نزدیکی ٹرین سٹیشن گئے۔ ٹکٹ خرید کر روزی نے مجھے ٹرین میں بٹھایا اور خود اپنی ٹرین کے لئے دوسرے پلیٹ فارم کی طرف چلی گئی۔ میں جو گائیڈ کی مدد کا عادی ہوتا جا رہا تھا جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ میرا سٹیشن پیچھے رہ گیا اور میں ٹرین میں بیٹھا رہ گیا۔ ٹرین چلی تو باہر لکھے ہوئے سٹیشن کے نام پر میری نظر پڑی۔ اگلے سٹیشن پر اُترا۔ ٹکٹ اینڈ اسسٹنٹس Ticket and Assistance کے کاؤنٹر پر گیا تو انہوں نے واپسی کے لئے پلیٹ فارم اور ٹرین کا وقت بتایا۔ تھوڑی دیر بعد ہی میں اپنے نزدیکی ٹرین سٹیشن Queensway)) کی عمارت سے نکل کر ہوٹل کی طرف رواں دواں تھا۔ Queensway اور Bayswater دونوں اسٹیشن میرے ہوٹل کے قریب تھے۔

 

لندن کا بازارِ حسن

 

اس رات علی سے دل کھول کر باتیں ہوئیں۔ طالب علمی کے دور کے قصے دہرائے گئے۔ اس دور کی اپنی شرارتوں کا ذکر ہوا۔ پرانے ہم جماعتوں اور اساتذہ کو یاد کیا۔ ان حماقتوں کو یاد کیا جن کے بارے میں یقین نہیں آتا کہ وہ سب ہم سے سرزد ہوئی تھیں۔ بچپن اور لڑکپن کے ہم جماعت اور جگری دوست جو بچھڑے تو بہت سوں کی صورت اب تک دکھائی نہیں دی۔ ایک دوسرے کو نہ بھولنے کے دعوے اور قسمیں ریت کی دیوار یں ثابت ہوئیں۔ ہم زندگی کی بھیڑ میں ایسے گم ہو گئے کہ دوست تو درکنار، اپنا وہ معصومیت بھرا روپ بھی ذہن سے محو ہوتا چلا گیا۔ زمانے کی سرد اور گرم ہواؤں نے ہماری معصومیت، محبت، دوستیاں اور نہ جانے کیا کچھ چھین لیا تھا۔ ہم اندر اور باہر ہر طرف سے بدل چکے تھے۔ معصومیت کی جگہ منافقت، سچ کی جگہ مصلحت، دوستی کی جگہ مطلب پرستی، خوابوں کی جگہ تلخ حقیقتوں اور قہقہوں کی جگہ آہوں اور سسکیوں نے لے لی تھی۔ جن دوستوں کے بارے میں اس وقت یوں محسوس ہوتا تھا کہ ہم کبھی الگ رہ ہی نہیں سکتے۔ آج ان کے بارے میں علم بھی نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ وقت اور حالات کے تھپیڑوں نے کسی کو کہاں پھینکا اور کسی کو کہاں۔

ریسٹورنٹ میں بیٹھے بیٹھے بہت دیر گزر گئی۔ علی نے کہا ’’اب بند کرو یادوں کی یہ پٹاری چلو تمہیں لندن کی نائٹ لائف دکھاتا ہوں۔‘‘

میں اگرچہ تھکا ہوا تھا لیکن ایک تو علی کا ساتھ غنیمت تھا۔ دوسرا یہ کہ لندن میں نے صرف دن میں ہی دیکھا تھا۔ اس کی راتوں کی چکا چوند سے ابھی تک محروم تھا۔ اس لئے میں علی کے ساتھ نکل پڑا۔ اس وقت رات کے بارہ بجے تھے۔ لیکن لندن کی سڑکیں دن کے بارہ بجے سے مختلف نہ تھیں۔ ٹریفک ویسے ہی رواں دواں تھی۔ فٹ پاتھوں پر ویسے ہی لوگوں کا کھوا چھل رہا تھا۔ ریسٹورنٹ اور کلب بھرے ہوئے تھے۔ غرض یہ کہ خوب گہما گہمی تھی۔ روشنیوں اور رنگوں کا ایک سیلاب تھا۔ جوں جوں ہماری گاڑی شہر کے مرکزی حصے کی طرف بڑھ رہی تھی ٹریفک کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ علی پارکنگ کی جگہ ڈھونڈنے لگا جو کافی تلاش کے بعد ملی۔

گاڑی پارک کر کے اس سٹریٹ پر چند ہی قدم چلے تھے کہ مجھے احساس ہو گیا کہ یہ ’’سرخ روشنی‘ ‘والا علاقہ ہے۔ علی نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ یہ سوہو (soho) ہے۔ لندن کا مشہور و معروف بازار جہاں جسم بکتے ہیں، حسن کا سودا ہوتا ہے۔ ہر رنگ و نسل کے شوقین خریدار ہوتے ہیں اور یورپ کے کونے کونے سے آ ئی ہوئی بکاؤ عورتیں اس بازار میں جسم کی دکان سجا کر بیٹھتی ہیں۔ بر صغیر میں اس بازار کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہاں راتیں جاگتی ہیں اور دن سوتے ہیں۔ لیکن آسٹریلیا اور یورپ میں ایسے بازاروں میں دن بھی جاگتے ہیں اور راتیں بھی۔ ہاں شفٹیں بدلتی رہتی ہیں۔

سوہو کے اس علاقے میں سٹرپ کلبوں کا ایک جال سا بچھا ہے۔ ہر گلی، ہر کونے میں کلب کے ایجنٹ گاہکوں کو لبھا اور پھسلا کر اندر لے جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ بکاؤ عورتیں قدم قدم پر قدم روک رہی تھیں۔ ان کی جسمانی حرکتیں، لباس اور سستا انداز ان پر برائے فروخت کے سائن کی طرح سجا ہوا تھا۔ لباس کے نام پر بے لباسی تھی۔ ان کی حرکتیں اتنی سستی تھیں کہ دل میں کراہت کا جذبہ ابھرتا تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ کسی قصاب مارکیٹ میں موجود ہوں۔ ہم ان سے بچتے بچاتے اور دلالوں سے جان چھڑاتے آگے بڑھتے رہے۔ سٹرپ کلبوں کے یہ ایجنٹ قدم قدم پر راستہ روک کر کھڑے ہو جاتے، بازو تھام لیتے اور درجنوں حسینوں کی حشر سامانیوں کی تفصیل بیان کرتے۔ ایسے ہی ایک دلال پر مجھے شبہ گزرا کہ یہ پاکستانی ہے۔ میں نے اس سے دریافت کیا تو اس نے اثبات میں جواب دیا ’’ہاں جی میں پاکستانی ہوں۔ دیکھیں نا جی! روزی روزگار کے چکر میں کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔‘‘

میں نے کہاں ’’ہاں بھئی ولایتیا بننا اتنا آسان نہیں ہے۔ ویسے بھی جب سوٹ پہن کر واپس جاؤ گے تو کسی کو اس بات کا علم کیسے ہو گا کہ یہ سوٹ کہاں سے اور کس کاروبار سے بنا ہے‘‘

اس نے میرے طنز کو سمجھے بغیر کہا ’’آپ درست کہتے ہو۔ لوگ تو چھوڑیں میرے اپنے گھر والے بھی نہیں جانتے کہ میں یہاں یہ کام کرتا ہوں۔ ویسے بھی میں یہاں اکیلا پاکستانی نہیں ہوں، بہت سے اور بھی ہیں۔ بلکہ اندر جو لڑکیاں کام کر رہی ہیں ان میں بھی چند پاکستانی ہیں‘‘

میں نے علی سے کہا ’’بھئی تم لوگوں نے تو بہت ترقی کر لی ہے‘‘

علی نے کہا ’’فکر نہ کرو۔ ابھی وہاں تمہاری پہلی نسل ہے۔ دوسری اور تیسری نسل تک تم لوگ بھی ترقی کے ان زینوں پر قدم رکھ چکے ہو گے‘‘

میں نے کہا ’’درست کہتے ہو! لیکن اس کا انحصار اس امر پر بھی ہے کہ ہم خود پر اور اپنی آنے والی نسل پر اپنی تہذیب و ثقافت کا کتنا گہرا رنگ چھوڑتے ہیں جو وقت کی دھوپ اور حالات کی بارش میں قائم و دائم رہ سکے‘‘

علی نے کہا ’’یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی۔ تم یہ بتاؤ کسی کلب کے اندر چلو گے یا یوں ہی ونڈو شاپنگ کر کے واپس چلے جاؤ گے؟‘‘

’’بھئی میرا ا دل تو ویسے ہی بھر چکا ہے۔ بہتر ہے واپس چلیں۔ ویسے بھی ایسی جگہوں میں پاکستان سے نئے آنے والوں کو دلچسپی ہو سکتی ہے۔ آسٹریلیا میں اتنا عرصہ گزارنے کے بعد مجھے ان میں کشش نظر نہیں آتی بلکہ کراہت محسوس ہوتی ہے‘‘

ہم واپس ہوٹل پہنچ گئے۔ اس وقت صبح کے ساڑھے تین بجے تھے۔ تھکن سے میرے قدم اٹھ نہیں رہے تھے۔ پپوٹے کچھ نیند اور کچھ لندن کے حشر سامان نظاروں سے جل سے رہے تھے۔ علی کو خدا حافظ کہہ کر کمرے میں پہنچا اور بے سدھ ہو کر بستر پر گر پڑا۔

 

کُڑیتے ولایتی پر بندہ دیسی ای ایہہ

 

میں روزی کے ساتھ برطانیہ کے مشہور و معروف عجائب گھر میوزم آف لندن کے صدر دروازے پر کھڑا تھا۔ حسبِ معمول سیاحوں کی قطار ٹکٹ خریدنے کے لئے موجود تھی۔ روزی صبح وقت پر ہوٹل پہنچ گئی تھی۔ میں نے بھی نیند کی کمی کی پرواہ نہیں کی اور فوراً تیار ہو گیا۔ ٹکٹ خرید کر ہم عجائب گھر میں داخل ہوئے تو جیسے ایک انوکھی دنیا میں داخل ہو گئے۔ میوزیم آف لندن میں نوادرات اور انواع و اقسام کی تاریخی اشیاء کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ اسے اچھی طرح دیکھنے کے لئے کئی دن درکار ہیں۔ صدیوں پرانے لباس، کپڑوں کے نمونے، کھلونے، زمانۂ قدیم کے گھر، تیرہ ہزار سے زائد سجاوٹ کی اشیاء، قدیم برتن، مختلف دھاتوں سے بنے صدیوں پرانے اوزار، زیورات، فرنیچر سب اس میوزیم کا حصہ ہیں۔ فنِ مصوری کے نئے اور پرانے آرٹ کے شہہ پارے ہزاروں کی تعداد میں ہیں۔ پندرہ ہزار سے زائد واٹر کلر پینٹنگز، سینکڑوں آئل پینٹنگز اور لندن کی تاریخ سے متعلق ہزاروں تصاویر ہیں۔ علاوہ ازیں ہزاروں کی تعداد میں گھریلو تاریخی اشیاء، تعمیری اوزار، صدیوں پرانی گاڑیاں، سکے اور طباعت کا ابتدائی دور کا مواد بھی اس میوزیم میں محفوظ ہے۔ یوں لگتا تھا اس میوزیم میں برطانیہ کی صدیوں پرانی تاریخ محفوظ ہے۔ خصوصاً لندن کی تاریخ سال بہ سال اشیاء اور تحریری شکل میں موجود ہے۔ قبل مسیح سے لے کر جب لندن پر رومنوں کی حکمرانی تھی کے دور سے لے کر موجودہ لندن کا مرحلہ وار سفر اور اس شہرِ بے مثال کا عروج و زوال اس عجائب گھر میں دیکھا اور پڑھا جا سکتا ہے۔

1907 ء میں بننے والی پہلی فورڈ کار اس میوزیم میں ہے۔ کار سے پہلے نقل و حرکت کے لئے جو سواریاں استعمال ہوتی تھیں، وہ مختلف شکل کی بگھیوں کی صورت میں اپنی اصلی حالت میں میوزیم میں موجود ہیں۔ لندن اور برطانیہ کی تاریخ میں ایک جگہ واضح درج تھا کہ امریکہ اور دوسری کالونیاں چھن جانے کے بعد کافی عرصے تک برطانیہ کی معیشت کا دار و مدار ہندوستان سے حاصل ہونے والی دولت پر رہا۔ یہیں سے اندازہ ہوتا ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان پر کیوں قبضہ کیا تھا۔ وہ اس کی دولت کو اس کے عوام پر خرچ کرنے کی بجائے سمندر پار منتقل کرتے رہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے عوام آج بھی غربت کے اس چکر سے نہیں نکل پائے۔ انگریز اپنی معیشت کو مضبوط کر کے خود تو پاؤں پر کھڑا ہو گیا۔ جاتے جاتے سونے کی اس چڑیا کے پر بھی نوچ کر لے گیا۔ یہ پر کٹی چڑیا آج تک پھڑ پھڑا رہی ہے۔

اس میوزیم کے مختلف شعبوں میں فن، تاریخ، نوادرات، فن تعمیر، ہوزری، ٹیکسٹائل، دستکاری، مصوری، تصویر کشی، کاریگری، جدید و قدیم مصنوعات اور سائنسی ترقی سے متعلق ایک خزانہ موجود ہے۔ ہم نے لنچ بھی میوزیم کی کینٹین میں کیا۔ روزی نے یہ میوزیم صرف ایک مرتبہ اور وہ بھی بہت عرصہ قبل دیکھا تھا۔ اس لئے وہ بھی میوزیم کے ایک ایک گوشے اور ایک ایک فن پارے میں بھرپور دلچسپی لے رہی تھی۔ صبح سے دوپہر اور دوپہر سے شام ہو گئی لیکن تاریخی اور فنی جادو نگری سے نکلنے کو ہمارا دل نہیں چاہ رہا تھا۔ ایک دن قبل میں سوچ رہا تھامیرے پاس وقت کم ہے اس لئے اس عجائب گھر کو دیکھنے نہ جاؤں۔ روزی کی سفارش پر میں یہاں چلا آیا تھا۔ میوزیم کی سیر کے بعد احساس ہو رہا تھا کہ اگر یہاں نہ آتا تو نہ لندن کی سیر مکمل ہوتی اور نہ ہی تاریخ کا یہ علم حاصل ہو پاتا۔ یوں تو لندن میں درجنوں عجائب گھر ہیں لیکن اپنی نوعیت اور مختلف النوع اشیاء کی کثیر تعداد کی وجہ سے یہ سب سے نمایاں میوزیم ہے۔ میوزیم کی سیر کے بعد اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ انگریزوں نے اپنی ثقافتی، سائنسی اور فنی تاریخ کو محفوظ کرنے کے لئے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ انہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ان عجائب گھروں کی صورت میں ایک بیش بہا تاریخی خزانہ چھوڑا ہے۔

تقریباً چھ گھنٹے کھڑے یا چلتے رہنے سے ٹانگیں تھکن سے شل ہو چکی تھیں۔ ہم نے دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھ کر کافی پی۔ اس دوران روزی مجھ سے کبھی آسٹریلیا اور کبھی پاکستان کے بارے میں مختلف سوال کرتی رہی۔ اسے پاکستان کے کلچر سے لگاؤ سا ہو گیا تھا۔ خصوصاً باہمی محبتوں اور خاندانی بندھنوں کی خوبصورتی کی معترف تھی۔ دوسری طرف روزی کو آسٹریلیا کے خوبصورت ساحلوں اورسہانے موسم میں بھی دلچسپی تھی۔ اسے لندن کا روتا بسورتا موسم زیادہ پسند نہیں تھا۔ سرما کی طویل اور سرد راتیں اور مختصر اور گیلے دن اسے بالکل نہیں بھاتے تھے۔ تاہم اسے انگریزوں کی تاریخی فتوحات اور روایتی طرز زندگی پر بھی فخر تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ انگریز سب سے الگ اور منفرد قوم ہے۔

میں روزی سے باتوں میں منہمک تھا کہ سنائی دیا ’’کڑیتے ولایتی پر بندہ دیسی ای ایہہ‘‘

میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا تو دو ایشیائی نوجوانوں کی نظروں کو نگراں پایا۔ ان کے ہاتھوں میں کوک کے ڈبے اور لباس ملگجے سے تھے۔ میرے یوں دیکھنے پر وہ کچھ جھینپ سے گئے۔ میں روزی سے معذرت کر کے اٹھا اور ان نوجوانوں کے سامنے جا کر السلام علیکم کہا۔ انہوں نے جواباً ’’وعلیکم السلام‘‘ کہا۔ وہ کچھ سہمے سہمے سے لگ رہے تھے۔ میں نے اپنا نام بتایا تو وہ ’’جی‘‘ کہہ کر رہ گئے۔ میں نے کہا ’’بھئی اپنا تعارف تو کروائیں‘‘

ایک بولا ’’میرا نام شکیل ہے اور یہ جاوید ہے‘‘

میں نے کہا ’’بہت خوب! اگر زحمت نہ ہو تو یہاں اس بنچ پر آ جاؤ کچھ گپ شپ ہی ہو جائے‘‘

میں نے روزی سے ان کا تعارف کروایا۔ روزی نے خوش دلی سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ انہوں نے ڈرتے ڈرتے ہاتھ ملایا اور ہمارے سامنے والے بنچ پر بیٹھ گئے۔ روزی کہنے لگی ’’میں ان کے لئے کافی لے کر آتی ہوں‘‘

میں نے کہا ’’میں نے اپنا نام تو بتا دیا ہے۔ میں آسٹریلیا سے یورپ کی سیر کے لئے آیا ہوں۔ پاکستان میں میرا تعلق راولپنڈی سے ہے۔ اب آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں گے‘‘

شکیل کہنے لگا ’’ہمارا تعلق جہلم سے ہے۔ چند ماہ قبل برطانیہ آئے ہیں اور مسلسل دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں‘‘

’’مسئلہ کیا ہے؟‘‘

جاوید نے کہا ’’سر ہم دونوں ہی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ دونوں ہم جماعت اور بچپن کے دوست ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد آگے نہ پڑھ سکے۔ پاکستان میں حصولِ روزگار کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔ دو سال تک بے روز گار پھرتے رہے۔ پھر جہلم کے ہی ایک مائے گریشن ایجنٹ نے دو لاکھ روپوں کے عوض ہمیں برطانیہ بھجوانے کا وعدہ کر لیا۔ یہ رقم ہم نے کیسے حاصل کی یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ یوں سمجھیں کہ اپنے اپنے خاندان کا کل اثاثہ ہم نے برطانیہ پہنچنے کے لئے داؤ پر لگا دیا۔ ترکی تک تو ہم ہوائی جہاز پر آئے۔ وہاں سے سڑک کے راستے مختلف ملکوں میں سفر کرتے چھپتے چھپاتے چوروں کی طرح برطانیہ میں داخل ہوئے۔ یہ سفر انتہائی دشوار گزار تھا۔ کبھی ہمیں بھیڑ بکریوں کے ساتھ ٹرک میں سفر کرنا پڑا اور کبھی سبزیوں اور پھلوں کی بوریوں میں چھپ کر بارہ بارہ گھنٹے گزارنے پڑے۔ بھوک پیاس اور جسمانی تھکاوٹ کی انتہا سے کئی ہفتے گزرنے کے بعد برطانیہ کی سرحد غیر قانونی طریقے سے پار کی۔ یہاں پہچانے کے بعد ہمارے ایجنٹ نے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ہم مانچسٹر، لیڈز، برمنگھم اور اب لندن میں چھپتے پھر رہے ہیں۔ نہ کوئی روزگار ملتا ہے اور نہ رہنے کے لئے ٹھکانہ ہے۔ اگر کوئی وقتی روزگار ملتا بھی ہے تو وہ ہمیں غیر قانونی سمجھ کر نہایت قلیل معاوضہ دیتے ہیں۔ امیگریشن والے آئے دن چھاپے مارتے رہتے ہیں۔ دو جگہوں سے ان چھاپوں کی وجہ سے ہمیں اپنی تنخواہ چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔

دوسرے شہروں میں جب کوئی بندوبست نہ ہوا تو ہم لندن چلے آئے کہ یہ بہت بڑا شہر ہے۔ شاید یہاں کوئی روزگار یا رہنے کے لئے ٹھکانہ مل جائے۔ لیکن یہ شہر تو ان سے بھی زیادہ ستم گر نکلا۔ یہاں نہ کوئی سستا مکان کرائے کے لئے ملتا ہے اور نہ مناسب روزگار۔ ایک دو جگہ جز وقتی مزدوری ملتی ہے۔ کبھی دیہاڑی لگ جاتی ہے اور کبھی نہیں۔ اب تک جو کچھ کمایا ہے اس سے بمشکل دو وقت پیٹ کا ایندھن بھر سکے ہیں۔ نہ تو ہمارے پاس زر ضمانت کی رقم ہے کہ ہم کوئی مکان کرائے پر لے سکیں اور نہ ہی ایسے کاغذات ہیں جنہیں دکھا کر مکان یا روزگار کا بندوبست ہو سکے۔‘‘

میں نے پوچھا ’’پھر آپ لوگ رہتے کہاں ہیں؟‘‘

جاوید بولا ’’ایک اسلامک سنٹر والوں نے چند دنوں کے لئے پناہ دی تھی۔ اب تو وہ بھی آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ لیکن ہمارے پاس کوئی بندوبست ہی نہیں تو جائیں کہاں!‘‘

میں نے کہا ’’آپ لوگوں کا کوئی واقف کار نہیں ہے یہاں؟ کوئی دوست کوئی رشتہ دار؟‘‘

شکیل کہنے لگا ’’دوست اور رشتہ دار تو کوئی نہیں! ہاں ہمارے علاقے کے دو بندے یہاں انگلینڈ میں عرصے سے رہ رہے ہیں۔ ایک بریڈ فورڈ میں ہے، ایک یہاں لندن میں ہے۔ بریڈ فورڈ میں ہم اسی کی وجہ سے گئے تھے۔ اس نے ہمیں سو پونڈ دے کر معذرت کر لی کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا۔ یہاں لندن والے نے ملنا ہی گوارا نہیں کیا۔ ہم اس کا فون نمبر لائے تھے پاکستان سے۔ یہاں سے ہم نے اسے فون کیا تو کہنے لگا ’’میں نہ تمہیں اور نہ ہی تمہارے گھر والوں کو جانتا ہوں۔ ویسے بھی میں بہت مصروف شخص ہوں۔ آپ لوگ اس طرح غیر قانونی طریقے سے یہاں آئے ہی کیوں۔ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ کل کلاں آپ لوگ پکڑے گئے تو میں بھی لپیٹ میں آ جاؤں گا کہ غیر قانونی لوگوں کی مدد کرتا ہوں۔ اس لئے مجھے تو معاف ہی رکھیں۔ حالانکہ یہ آدمی جب آج سے پندرہ سال پہلے یہاں آیا تھا تو میرے والد نے اس کی مدد کی تھی۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ ہمارے گھر والوں کو جانتا ہی نہیں‘‘

اس دوران روزی کافی لے آئی تھی۔ وہ چپ چاپ بیٹھ کر ہمیں باتیں کرتے دیکھتی رہی۔ میں نے شکیل اور جاوید سے پوچھا ’’تو آپ لوگوں نے کیا سوچا ہے؟ کیا ایسے ہی یہاں چھپتے چھپاتے رہو گے یا پھر واپس پاکستان چلے جاؤ گے؟‘‘

جاوید نے کہا ’’پاکستان جانے کا تو سوال ہی نہیں۔ ہم جن سے رقم لے کر یہاں آئے ہیں انہیں کیا جواب دیں گے۔ پھر ہمارے گھر والے، ماں باپ اور بہن بھائی بے شمار امیدیں لے کر بیٹھے ہیں۔ ہم ان کا کس منہ سے سامنا کریں گے؟‘‘

باتوں باتوں میں شب کی سیاہی لندن کے اوپر سایہ فگن ہو گئی۔ میں نے روزی سے کہا ’’آج تم ہمارے ساتھ ڈنر کیوں نہیں کرتیں۔‘‘

روزی ہنس کر بولی ’’میں نے کب انکار کیا ہے۔ وہ تو تم ہی ہو جسے رات کے اندھیرے میں مجھ سے ڈر لگنے لگتا ہے اور دامن چھڑا کر دور بھاگنے کی سوچنے لگتے ہو‘‘

’’اچھا آج نہیں بھاگتا! لیکن ڈنر کی شرط یہ ہے کہ تمہیں پاکستانی کھانا کھانا پڑے گا‘‘

روزی نے کہا ’’اس کی تم فکر نہ کرو۔ ہم لندن والے اپنے کھانے تو تقریباً بھول ہی چکے ہیں۔ کیونکہ پاکستانی، انڈین، ترکش اور لبنانی کھانوں کے عادی ہو گئے ہیں۔ مجھے ویسے بھی انڈین اور پاکستانی کھانے بہت پسند ہیں‘‘

میں نے ہنستے ہوئے کہا ’’صرف پاکستانی کھانے ہی پسند ہیں یا پاکستان کے لوگ بھی؟‘‘

روزی نے ترچھی نظر سے میری طرف دیکھا اور بولی ’’پسند تو لوگ بھی ہیں لیکن رسائی صرف کھانوں تک ہے‘‘

’’اس وقت تمہارے سامنے ہم تین پاکستانی ہیں۔ اور ہمارے اوپر ’’خطرہ 11000 وولٹ‘‘ کا سائن بھی نہیں لگا ہوا‘‘

روزی بولی ’’سائن تو ہے لیکن نظر نہیں آتا‘‘

میں نے کہا ’’میں دیکھوں گا کہ یہ سائن کہاں ہے اور اسے کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ اس وقت تو تم ہمیں کسی قریبی پاکستانی ریسٹورنٹ میں لے چلو‘‘

شکیل اور جاوید نے بہت معذرت کی لیکن ہم نے انہیں ساتھ لے لیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد ہم ’’لاہوری ریسٹورنٹ‘‘ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ کافی مصروف ریسٹورنٹ تھا۔ اس کے اندر بیٹھ کر محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ ہم لندن میں ہیں۔ دیواروں پر پاکستان کے حسین مناظر کی تصاویر آویزاں تھیں۔ پاکستانی موسیقی کی مدھر تانیں دھیمی آواز میں بکھر رہی تھیں۔ مختلف میزوں پر پاکستانی فیملیاں گپ شپ میں مصروف تھیں۔ دروازے پر جو دربان کھڑا تھا اس نے شلوار قمیض کے ساتھ سر پر کلا باندھا ہوا تھا اور اس کے پاؤں میں کھسا تھا۔

غرضیکہ یہ ریسٹورنٹ مکمل طور پر لاہوری رنگ میں رنگا ہوا تھا۔ شکیل اور جاوید کچھ ہراساں سے نظر آ رہے تھے۔ میں نے کہا ’’زندگی کا جو لمحہ بھی مسرتوں کی نوید لے کر آئے اس کا شایانِ شان استقبال کرنا چاہیئے کہ ایسے لمحات زندگی میں خال خال آتے ہیں۔ میں بھی یہاں پر دیسی ہوں۔ پرسوں اگلی مسافتوں پر روانہ ہو جاؤں گا۔ کیوں نہ ان لمحات کو یادگار طریقے سے گزارا جائے کہ آنے والے وقت میں یہ ہم سب کے لئے ایک سہانی یاد بن جائیں۔ کل کیا ہو گا! یہ کون جانتا ہے۔ لیکن اس فکر میں آج کیوں کھویا جائے‘‘

شکیل اور جاوید پر میری باتوں کا خوش گوار اثر ہوا۔ وہ یاسیت کے خول سے نکلے تو معلوم ہوا کہ خاصے زندہ دل نوجوان ہیں۔ انہوں نے کئی اچھے لطیفوں اور اپنی زندگی کے دلچسپ واقعات سے محفل میں جان ڈال دی۔ شکیل کہنے لگا ’’ہمیں برطانیہ کی جو کشش یہاں کھینچ کر لائی تھی وہ معاشی ضرورت کے علاوہ یہاں کی آزادی، حسین چہرے، دلکش بدن اور ان تک رسائی کی امیدیں بھی تھیں۔ پاکستان میں تو سر اٹھا کر کسی کو دیکھا نہیں کہ بدنامی کا ٹھپہ لگ جاتا ہے۔ کسی کو نظر بھر کر دیکھ لو تو وہ ماں بہن کو یاد کرانے لگتی ہے۔ کسی سے بات کرنے کی کوشش کرو تو جوتا دکھانے لگتی ہے اور اگر کسی کو ہاتھ لگا دو تو باپ اور بھائیوں کو بلانے لگتی ہے۔ پھرسمجھو خیر نہیں۔ بات خون خرابے تک جا پہنچتی ہے۔ ایسی دشمنیاں خاندانوں کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہیں۔ ہم سوچتے تھے کہ برطانیہ پہنچیں گے تو پھر ہم ہوں گے اور حسینائیں ہوں گی۔ نہ ماں بہن کا طعنہ ہو گا، نہ کوئی جوتا دکھائے گا اور نہ باپ اور بھائی کا ڈر ہو گا۔ بلکہ ہر دن عید ہو گی اور ہر رات شب برات۔ لیکن یہاں آ کر محسوس ہوا کہ ہنوز دلی دُور است۔ یہاں حسینائیں باپ اور بھائی کو تو نہیں بلاتیں لیکن جوتے کا استعمال یہ بھی بے دریغ کرتی ہیں۔ اگر ضرورت پڑے تو باپ اور بھائی کی جگہ پولیس بلانے میں دیر نہیں کرتیں۔ یہاں آ کر یہ بھی احساس ہوا کہ یہاں صنفِ نازک اتنی نازک بھی نہیں ہے۔ وہ نہ صرف اپنا دفاع بخوبی کر سکتی ہیں بلکہ ضرورت پڑے تو ہم جیسوں کو دن میں تارے دکھا سکتی ہیں۔ ایک تو ان کا قد و قامت ہمارے ہاں کی خواتین سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اوپر سے جمنازیم میں گھنٹوں کسرت کر کے انہوں نے خود کو اتنا مضبوط بنایا ہوتا ہے کہ ان کے بازو میرے جیسے مرد کی ٹانگوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ شرمانا اور لجانا تو انہوں نے سیکھا ہی نہیں۔ مردوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایسے بات کرتی ہیں کہ انہیں ہی اپنی آنکھیں جھکانی پڑتی ہیں۔ اوپر سے قانون بھی انہی کی سنتا ہے۔ کسی عورت سے مذاق بھی کر لو تو جنسی ہراسانی کا کیس بن جاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ عورتیں خود جنسی مسائل پر مردوں سے ایسے بات کرتی ہیں جسے موسم کا حال سنا رہی ہوں‘‘

میں نے جاوید سے کہا ’’آپ نے تھوڑے عرصے میں اس موضوع پر کافی ریسرچ کر ڈالی ہے۔ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ہیں۔ لیکن یورپی زندگی میں عورت مسئلہ نہیں ہے۔ بشرطیکہ آپ کے پاس وقت اور وسائل ہوں۔ ویسے یہ شوق بھی شروع شروع کا ہے۔ بعد میں سب نارمل لگنے لگتا ہے۔ معاشیات کے اصولِ طلب اور رسد کی طرح جہاں کسی شے کی فراوانی ہو اس کی طلب گھٹ جاتی ہے‘‘

جاوید کہنے لگا ’’وقت کا تو ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، البتہ وسائل عنقا ہیں۔ تاہم وصل کے وسائل نہ ہونے کے باوجود یہاں کے نظارے ہی اتنے ہوش ربا ہیں کہ بعض اوقات انسان آنکھیں جھپکنا بھول جاتا ہے‘‘

شکیل بولا ’’یہ صحیح کہہ رہا ہے کیونکہ یہ جس گوری کو بھی اسکرٹ یا نیکر میں دیکھتا ہے دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔ خیالوں ہی خیالوں میں نہ جانے کن جہانوں کی سیر پر چلا جاتا ہے۔ مجھے جھنجوڑ جھنجوڑ کر اسے عالمِ مد ہوشی سے واپس لانا پڑتا ہے۔ بس اور ٹرین میں بیٹھتا ہے تو خالی سیٹوں کو چھوڑ کر کسی گوری کے ساتھ لگ کر بیٹھتا ہے۔ بعض اوقات وہ خشمگیں نظروں سے دیکھ کر رہ جاتی ہیں۔ کئی دفعہ اٹھ کر دوسری سیٹ پر بیٹھ جاتی ہیں۔ کبھی کوئی اس سے دوچار باتیں کر لیتی ہیں تو اس کا وہ دن اچھا گزر جاتا ہے۔‘‘

جاوید نے گھور کر اسے دیکھا اور بولا ’’تم اپنے بارے میں کیوں نہیں بتاتے! بازو پر گھڑی باندھی ہوئی ہے لیکن جگہ جگہ گوریوں کو روک کر وقت پوچھنے لگ جاتے ہو۔ جانا کہیں ہوتا نہیں، خواہ مخواہ بس اور ٹرین کے روٹ نمبر دریافت کرنے لگتے ہو۔‘‘

شکیل بولا ’’وہ تو میں انگریزی بولنے کی مشق کے لئے ایسا کرتا ہوں۔‘‘

جاوید بولا ’’تو کیا انگریزی صرف عورتوں سے ہی سیکھی جا سکتی ہے؟ مردوں سے کیوں نہیں بات کرتے۔ کیا ان کی انگریزی کمزور ہے؟‘‘

’’تمہیں پتہ ہونا چاہیئے کہ عورتیں اچھی استاد ہوتی ہیں‘‘

’’تو کیا ان سب عورتوں کو استانی سمجھ کر بات کرتے ہو؟ تمہیں پتہ ہے استاد اوراستانی کا کیا رتبہ ہوتا ہے۔ استاد روحانی باپ ہوتا ہے اور استانی روحانی ماں‘‘

شکیل بولا ’’وہ پاکستان میں ہوتا ہے، یہاں نہیں۔ یہاں اصل باپ کی کوئی نہیں پرواہ کرتا۔ استادوں کو یہ رتبہ کون دیتا ہے۔ ویسے تم اتنی باتیں کر رہے ہو۔ جب غیر عورتوں کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہو تو تمہاری مشرقی شرم و حیا کہاں چلی جاتی ہے؟‘‘

جاوید نے ہنستے ہوئے کہا ’’چلی نہیں جاتی پاکستان میں چھوڑ کر آ گیا ہوں۔ اگر اسے بھی ساتھ لانا تھا تو پھر یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اتنا لمبا سفر کر کے اور اتنی تکلیفیں کاٹ کر یہاں آئے ہیں تو اتنا تو ہمارا حق بنتا ہے کہ یہاں کی خوشبوؤں اور رنگوں میں سے کچھ حصہ چرا سکیں‘‘

میں نے ان دونوں کی دلچسپ بحث سے محفوظ ہوتے ہوئے کہا ’’بھئی تم دونوں کی جوڑی بہت خوب ہے۔ دونوں کے مزاج بھی رنگین ہیں اور مشن بھی ایک ہی ہے۔ جس طرح تم ایک دوسرے کا سہارا بنے ہوئے ہو اس سے مشکلات کا احساس کم ہوتا ہے اور دل کا بوجھ بھی ہلکا ہوتا رہتا ہے۔ میری دعا ہے کہ تم دونوں کی زندگی اسی طرح ہنستے کھیلتے گزرے اور وہ سب کچھ حاصل کر سکو جس کے لئے سرگرداں ہو‘‘

روزی خاموشی سے ہماری پنجابی میں گفتگو سن رہی تھی۔ ظاہر ہے اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ میں خاموش ہوا تو کہنے لگی ’’لگتا ہے کہ کافی خوشگوار باتیں ہو رہی ہیں۔ کاش کہ میں سمجھ سکتی‘‘

میں نے جاوید اور شکیل کی گفتگو کا خلاصہ اُسے سنایا تو وہ بھی بہت ہنسی اور بولی ’’ایسا میرے ساتھ کئی بار ہوا ہے۔ کئی ایشیائی نوجوان روک کر مجھ سے وقت دریافت کرتے ہیں یا بسوں اور ٹرینوں کا روٹ دریافت کرتے ہیں۔ حالانکہ واضح محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نہ تو وقت کے علم سے دلچسپی ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں جانا ہوتا ہے۔ ان کی اصل دلچسپی ان کی آنکھوں میں تحریر ہوتی ہے۔ کسی بھی عورت کے لئے مرد کی آنکھیں پڑھنا مشکل نہیں ہوتا۔ لیکن میں ایک بات میں ضرور کہوں گی کہ یہ زیادہ تر وہ نوجوان ہوتے ہیں جو نئے نئے یورپ میں وارد ہوتے ہیں۔ وہ بے ضرر بلکہ معصوم ہوتے ہیں۔ چند باتیں کر کے یا کسی خاتون کے قریب بیٹھ کر خوش ہو لیتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں مقامی غنڈے عورت کو لولی پاپ سمجھ کر ہڑپ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں کا قانون عورت کے حقوق کی سختی سے حفاظت کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو عورتوں کا اس معاشرے میں جینا محال ہو جائے‘‘

جاوید نے مجھ سے پوچھا ’’آپ آسٹریلیا سے آئے ہیں۔ کیا یہ خاتون بھی وہی سے ہیں؟‘‘

میں نے کہا ’’نہیں بھئی! روزی اسی شہر لندن کی پیداوار ہے‘‘

شکیل بولا ’’تو آپ ایک دوسرے کو کب سے جانتے ہیں؟‘‘

’’ہماری ملاقات چند دن پہلے ہوئی ہے‘‘

جاوید نے ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’سر یہ آپ کی گرل فرینڈ ہے‘‘

میں نے کہا ’’یوں تو یہ گرل بھی ہے اور فرینڈ بھی! لیکن ان معنوں میں نہیں جس میں آپ سمجھ رہے ہیں‘‘

جاوید نے استفسار جاری رکھا ’’کیا مطلب؟‘‘

میں نے کہا ’’جاوید کچھ رشتے بے نام بھی ہوتے ہیں اور اسی میں ان کی خوبصورتی ہوتی ہے۔ اچھا اب رات بہت ہو گئی ہے۔ آپ لوگوں کا کیا پروگرام ہے؟‘‘

شکیل بولا ’’اب ہم بھی اپنے ٹھکانے کی طرف جائیں گے۔ ویسے یہ شام آپ کی وجہ سے بہت اچھی گزری۔ ہم آپ کا کیسے شکریہ ادا کریں؟‘‘

میں نے کہا ’’یہ کیا بات ہوئی۔ جس طرح تم لوگ اس شام سے لطف اندوز ہوئے ہو۔ میرا بھی آپ لوگوں کی وجہ سے دل لگا رہا۔ اس لئے حساب برابر۔ میں یہاں نہیں رہتا اور عنقریب یہاں سے روانہ ہو جاؤں گا۔ اب شاید ہی ہماری ملاقات ہو۔ لیکن میری دعائیں آپ لوگوں کے ساتھ ہیں۔ خدا آپ کو اپنے مقاصد میں کامیاب کرے‘‘

شکیل اور جاوید نے معانقہ کیا تو ان کی آواز گلو گیر اور آنکھیں نم تھیں۔ میں اور روزی بھی بوجھل دِل کے ساتھ ان سے جدا ہوئے۔

 

ہم دونوں کا گزارا کیسے ہو گا

 

ان دونوں کے جانے کے بعد میں نے روزی سے پوچھا ’’اب کیا پروگرام ہے۔ گھر چلیں؟

روزی نے کہا ’’کیوں؟ کیا نیند ستا رہی ہے؟‘‘

’’نیند بے چاری مجھے کیا ستائے گی۔ میں نیند کو ستانے والوں میں سے ہوں۔ اسے اتنا بھگاتا ہوں کہ اب تو ڈر ڈر کر بلکہ پوچھ پوچھ کر آتی ہے‘‘

’’تو چلو کہیں چل کر بیٹھتے ہیں‘‘

میں بیٹھنے کا مطلب جانتا تھا۔ مجھے اس میں دلچسپی نہیں تھی۔ لیکن اپنی ہم نشین کا دل توڑنا بھی گوارا نہ تھا۔ لہذا تھوڑی دیر کے بعد ہم ایک پب میں بیٹھے ہوئے تھے۔ روزی اسکاچ اور میں کوک سے شغل کر رہا تھا۔ پرانی طرز کا پب تھا۔ چند اونچی میزیں اور اسی سائز کے سٹول موجود تھے۔ لیکن زیادہ تر لوگ اِدھر اُدھر کھڑے پی رہے تھے اور گپ شپ میں مصروف تھے۔ ایسے ہی چند اونچے سٹول کاؤنٹر کے ساتھ بھی موجود تھے۔ وہاں بھی کچھ لوگ مسلسل کھڑے تھے۔ پورے پب میں کرسی کوئی نہیں تھی۔ ایک طرف پرانے طرز کی لکڑیوں کی بڑی سی انگیٹھی تھی۔ جس میں جلتی لکڑیاں سرخ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہی تھیں۔

پب کے ایک کونے میں دو پوکر مشینیں ایستادہ تھیں۔ ان کے پاس بھی کرسی نہیں تھی۔ مے خواروں میں سے کوئی اس مشین تک جاتا، چند سکے ڈالتا، ایک دو ہاتھ مارتا اور پھر ہاتھ جھاڑ کر واپس اپنے ساتھیوں میں شامل ہو جاتا۔ اس کے مقابلے میں مجھے آسٹریلین پب اور ہوٹل بالکل مختلف محسوس ہوئے جن میں آرام دہ کرسیاں بلکہ صوفے، بڑی بڑی میزیں، ائر کنڈیشنڈ ہال، سنوکر ٹیبل اور درجنوں کے حساب سے پوکر مشینیں موجود ہوتی ہیں۔ آسٹریلین جواریوں کا سکوں سے کچھ نہیں بنتا۔ وہ مشین کے سامنے آرام دہ کرسی پر بیٹھتے ہیں۔ مشین کے ایک طرف بیئر کا گلاس اور دوسری طرف سگریٹوں سے بھری ایش ٹرے ہوتی ہے۔ وہ نوٹوں پہ نوٹ اس مشین کے پیٹ میں اتارتے جاتے ہیں، بیئر کی چسکیاں لیتے ہیں، سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتے ہیں اور مشینوں کو لاتیں مارتے ہیں۔ جب سارے کریڈٹ اور جیب سے نوٹ ختم ہو جاتے ہیں تو کونے میں موجود اے ٹی ایم سے مزید رقم نکال کر پھر میدانِ کارزار میں آ موجود ہوتے ہیں۔ چہرہ مسلسل ناکامی سے دھواں دھواں ہو رہا ہوتا ہے۔ سگریٹ کی راکھ کپڑوں پر گر رہی ہوتی ہے۔ آنکھیں مشین پر جمی ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ پب کا سٹاف انہیں پب بند ہونے کے وقت کے بارے میں بتاتا ہے۔ بشرطیکہ وہ پب بند ہونے والا ہو۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے تک ایسے ہوٹل اور پب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے۔ لیکن اب نیوساؤتھ ویلز کی حکومت نے قانون بنایا ہے کہ ان ہوٹلوں کو کم از کم چار گھنٹے کے لئے بند کرنا پڑے گا۔ تاکہ جواریوں کو یاد دلایا جا سکے کہ ان کا کوئی گھر بھی ہے۔ جتنا جوا ء آسٹریلیا میں ہوتا ہے شاید ہی دنیا میں کسی اور ملک میں ہوتا ہو۔ کئی لوگ اس لت میں گھر بار برباد کر دیتے ہیں۔ نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میاں بیوی میں طلاق کی نوبت آ جاتی ہے اور لکھ پتی فٹ پاتھ پر آ جاتے ہیں۔ یہ بیماری آسٹریلیا میں اتنی عام ہے کہ شاید ہی کوئی گھر اس سے محفوظ ہو۔ خصوصاً مشرقی ایشیاء کے ممالک سے آنے والے باشندے مثلاً چینی، تائیوانی، فلپائنی، انڈونیشین اس لت میں بری طرح مبتلا ہیں۔ خود آسٹریلین بھی بڑی تعداد میں اس مرض کے مریض ہیں۔ اتنے لوگوں کی زندگی، گھر بار اور خاندانوں کی تباہی کے باوجود حکومت جوئے کو روکنے کے حق میں نہیں ہے۔ کیونکہ اسے اس مد میں بہت زیادہ آمدنی ہوتی ہے۔ کیسینو اور ہوٹل جوئے کی کمائی کا ایک بڑا حصہ حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔

اس تقابلی جائزے کا مقصد یہ ہے کہ آسٹریلیا کے مقابلے میں برطانیہ کے عام ہوٹلوں اور پبوں میں جوا ء اس تعداد میں نہیں ہوتا۔ انگریز اب بھی صدیوں پرانی روایت کے مطابق کھڑے ہو کر یا لمبی ٹانگوں والے سٹولوں پر بیٹھ کر پیتے ہیں۔ آسٹریلیا میں بیئر زیادہ مقبول ہے جبکہ برطانیہ میں اس کے مقابلے میں وائن زیادہ پی جاتی ہے۔ انگریز نشے میں ہونے کے باوجود بغیر تعارف کے کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ ایک دفعہ بولنا شروع کر دیں تو انہیں روکنا کارِ دار ہوتا ہے جبکہ آسٹریلین بہت جلد بے تکلف ہو جاتے ہیں۔

اس دوران روزی مسلسل مے نوشی میں مشغول تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کی زبان بھی مشین کی طرح چل رہی تھی۔ جوں جوں اس کی رگوں میں الکوحل کی مقدار بڑھ رہی تھی توں توں اس کی زبان میں روانی پیدا ہو رہی تھی۔ آنکھوں میں سرخی بڑھ رہی تھی اور گالوں کی حدت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ اس کا سٹول کھسک کھسک کر مزید میرے قریب ہو رہا تھا۔ حتیٰ کہ اس کا سر میرے شانے سے آ ٹکا۔ میں نے سہارا دے کر اسے اس کی سیٹ پر سیدھا کیا اور پوچھا ’’کیا خیال ہے! اب گھر چلیں؟‘‘

روزی نے عادی شرابیوں کی طرح سر اٹھایا۔ میری آنکھوں میں جھانکا، مسکراہٹ کا تیر پھینکا اور میرے کانوں میں گنگنائی ’’جہاں تمہارا دِل چاہے لے چلو‘‘

میں سہارا دے کر روزی کو باہر فٹ پاتھ پر لے آیا۔ اس سے دریافت کیا کہ نزدیکی سٹیشن کون سا ہے۔ روزی نے سٹیشن کا نام بتایا تو میں نے کہا ’’یہاں سے سٹیشن تک ٹیکسی لے لیتے ہیں۔ تمہارا گھر سٹیشن سے کتنے فاصلے پر ہے؟‘‘

روزی بولی ’’میرا گھر بھی وہی ہے، جہاں تم جاؤ گے۔ کیونکہ آج میں اپنے گھر نہیں جاؤں گی‘‘

میں نے گھبرا کر کہا ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے‘‘

’’کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہم نے سولہ گھنٹے اکھٹے گزار لئے ہیں۔ اب صبح ہونے میں دیر ہی کتنی ہے۔ باقی چند گھنٹے بھی اکھٹے گزار لیں گے تو قیامت نہیں آئے گی‘‘

’’مگر روزی یہ مناسب نہیں ہے‘‘

روزی بولی ’’اور میرا اس وقت اس حال میں اکیلے گھر جانا مناسب ہے کیا؟‘‘

میں پریشان ہو گیا۔ تھوڑی دیر سوچ کر میں نے کہا ’’میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ کر آؤں گا‘‘

روزی اس کے لئے تیار نہیں تھی۔ بڑی مشکل سے میں نے اُس سے اس کے گھر کا پتہ اگلوایا۔ روزی کو اُس کے گھر چھوڑ کر اسی ٹیکسی سے میں ہوٹل واپس آ گیا۔ آنے اور جانے میں ایک گھنٹہ صرف ہو گیا۔ روزی کے ’’بیٹھنے‘‘ کے چکر میں میرے پینتیس پونڈ اُٹھ گئے تھے۔ ہوٹل پہنچتے پہنچتے صبح کے تین بج گئے۔

اُس کی سنہری زلفیں میرے چہرے کو چھُو رہی تھیں

میں میٹھی نیند کی رنگین وادیوں کی سیر کر رہا تھا۔ ایسے محسوس ہوا کہ بارش کے نرم قطرے مجھے گدگدا رہے ہیں۔ ایک بھینی سی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرائی اور دل و دماغ پر نشے کی طرح چھا گئی۔ پھر کسی کی دلنشین ہنسی کی مدھر موسیقی میرے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ ایسا لگا کہ میں پریوں کے دیس میں پہنچ گیا ہوں۔ وہ مجھے گھیرے ہوئے ہیں۔ ان کی زلفیں مجھ پر سایہ فگن ہیں اور ان کی مدھر ہنسی میرے دل و دماغ میں نشہ سا انڈیل رہی ہے۔ میں نے دھِیرے دھِیرے نیند بھری آنکھیں وا کیں تو روزی کو اپنے اُوپر جھکے پایا۔ اس کی سنہری زلفیں میرے چہرے کو چھو رہی تھیں اور ان کی خوشبو مشام جان کو معطر کئے دے رہی تھی۔ روزی نے ہنستے ہوئے کہا ’’اٹھ جاؤ مسافر! دن کے دس بج چکے ہیں‘‘

میرا بدن تھکاوٹ اور نیند کی کمی سے ٹوٹ رہا تھا۔ لیکن یہ اگلے سفر پر روانہ ہونے سے پیشتر لندن میں میرا آخری دن تھا جسے میں سو کر گزارنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس لئے دھِیرے دھِیرے آنکھیں کھولیں تو دیکھا کہ روزی نے میرے لئے کافی بنائی ہوئی تھی اور خود بھی پی رہی تھی۔ بلیک کافی کا سنہری سیال معدے میں اُترا تو نیند کوسوں دور جا چکی تھی۔ دماغ نے کام کرنا شروع کیا تو میں حیران ہوا کہ روزی کمرے میں کیسے داخل ہوئی۔ جب یہی سوال میں نے اس سے کیا تو وہ کھلکھلائی ’’میں نے اس کمرے کی اضافی چابی بنوا لی ہے۔ اب تم مجھے یہاں آنے سے نہیں روک سکتے‘‘

’’روزی مذاق نہیں کرو! سچ بتاؤ، تم اندر کیسے داخل ہوئیں؟ کہیں میں دروازہ لاک کرنا تو نہیں بھول گیا تھا‘‘

’’نشے میں تو میں تھی اور دروازہ تم نے کھلا چھوڑا ہوا تھا۔ میں نے کھٹکھٹانے کے لئے ہاتھ اٹھایا تو محسوس ہوا کہ دروازہ لاک نہیں ہے۔ مسافر ہوش کے ناخن لیا کرو۔ کہیں پردیس میں سب کچھ گنوا نہیں دینا‘‘

اپنی لاپرواہی پر مجھے بہت غصہ آیا۔ روزی درست کہہ رہی تھی۔ اگر پردیس میں پاسپورٹ، نقدی، بنک کے کارڈز اور دیگر اہم اشیاء کھو گئیں تو ناقابلِ بیان پریشانی ہو سکتی ہے۔ میں نے دل ہی دل میں آئندہ محتاط رہنے کا عزم کیا۔

اس وقت ہوٹل کا ریسٹورنٹ بند ہو چکا تھا۔ ان کا ناشتے کا وقت ساڑھے نو بجے تک تھا۔ باہر جا کر ایک کیفے سے میں نے ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔ روزی گھر سے ناشتہ کر کے آئی تھی۔ اس نے کافی کے ایک کپ پر اکتفا کیا۔ ناشتے کے دوران بلکہ اس پورے دن روزی یا میں نے گزری رات کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم کافی پیتے ہوئے روزی نے ہولے سے کہا ’’طارق تمھارا بہت بہت شکریہ‘‘

میں نے حیرانی سے کہا ’’شکریہ! مگر کس بات کا؟‘‘

’’کل رات کا‘‘ روزی نے آنکھیں جھکا کر کہا

میں اس موضوع کو چھیڑنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لئے اٹھتے ہوئے روزی سے کہا ’’یہ شکریے اور سوری کا گردان پھر کسی وقت کر لیں گے۔ یہ بتاؤ اِس وقت اِس پردیسی کو کہاں لے کر جا رہی ہو؟‘‘

اس کے تھوڑی دیر بعد ہم ٹرین میں بیٹھے ہوئے تھے۔ چند منٹوں بعد ہی ٹاور برج سٹیشن پہنچ گئے۔ سٹیشن سے باہر نکلے تو سامنے ٹاور برج تھا جو دریائے ٹیمز کے اوپر واقع ہے۔ صدیوں پرانے اس تاریخی برج سے گزر کر اور دریائے ٹیمز کا نظارہ کرتے ہوئے ہم ٹاور آف لندن کے صدر دروازے کے سامنے جا نکلے۔ اس انتہائی تاریخی عمارت کی سیر کے بغیر لندن کی سیاحت مکمل نہیں ہوتی۔ نو سو سال سے اس عمارت نے برطانیہ کی شاہی تاریخ کے اہم واقعات اور شخصیات کے عروج و زوال کو اپنی اندھی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ عمارت صدیوں سے شاہی محل، قلعہ، جیل، عقوبت خانہ اور شاہی خاندان کے نہایت بیش قیمت زیورات اور نوادرات کی نمائش گاہ بنی ہوئی ہے۔ اگرچہ شاہی خاندان پہلے کنسنگٹن پیلس اور اب بکنگھم پیلس میں مقیم ہے لیکن ٹاور آف لندن کی تاریخی اہمیت جوں کی توں ہے۔ انتہائی مشہور اور تاریخی قیدی اس قلعے میں مقید رہے۔ مثلاً ولیم ہشتم کی دو بیویوں کے سر اس قلعے میں جسم سے جدا کئے گئے تھے۔ قلعے کا ہر حصہ اور ہر کمرہ اپنی جگہ پر جداگانہ تاریخی حیثیت کا حامل ہے۔

تاریخی کہانیاں اور ان کی نشانیاں یہاں ہر سو بکھری ہیں۔ بادشاہوں اور ملکات کے علاوہ مشہور مجرموں کی کہانیاں بھی ٹاور آف لندن سے وابستہ ہیں۔ یہ کہانیاں معلوم نہیں مبنی بر حقیقت ہیں یا محض افسانہ مگر سیاح کو کسی انوکھی دنیا میں پہنچا ضرور دیتی ہیں۔ اس عمارت کے ایک حصے میں شاہی خاندان کے تاج اور دوسرے قیمتی زیورات بھی نمائش کے لئے موجود ہیں۔ مختلف ادوار کے بادشاہوں کے تاج آج بھی پوری سج دھج کے ساتھ یہاں رونق افروز ہیں۔ شاہی تخت، بادشاہوں اور ملکات کے شاہی ملبوسات، بادشاہ یا ملکہ کی عصا (جس میں قیمتی ہیرے جڑے ہیں) اور شاہی پلنگ جو تقریباً ایک چھوٹے کمرے کے برابر اور سجاوٹ میں بے نظیر ہیں، اس ٹاور میں نمائش کے لئے رکھے ہوئی ہیں۔ برطانیہ کا شاہی تاج جس طرح وقت کے ساتھ تبدیلی کے مراحل سے گزرتا رہا اور اس کی بناوٹ و سجاوٹ میں مختلف بادشاہوں کے ادوار میں جو تبدیلیاں آتی رہیں وہ سب یہاں دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں مشہورِ زمانہ کوہ نور ہیرے کے علاوہ دوسرے کئی نایاب ہیرے اور دیگر بیش قیمتی پتھر بھی سیاحوں کی آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لئے یہاں رکھے ہوئے ہیں۔

ٹاور آف لندن بادشاہ ولیم نے 1080ء میں تعمیر کروا یا تھا۔ یہ مدتوں تک شاہی اسلحہ خانہ بھی رہا ہے اور اب بھی زمانۂ قدیم کے اسلحہ جات اس کے عجائب گھر میں نمائش کے لئے موجود ہیں۔ جس میں ایک ہزار سال پہلے استعمال ہونے والی پتھر پھینکنے والی توپیں اور گھوڑے والی بندوقیں بھی شامل ہیں۔ یہاں لکڑی سے تراشے گئے قدرتی سائز کے شیر اور گھوڑے بھی موجود ہیں۔ ان کی تراش خراش نہایت مہارت سے کی گئی ہے۔ لگتا ہے کہ ابھی ان میں جان پڑ جائے گی اور وہ دوڑنے لگیں گے۔

گھنٹوں تک اس عمارت کے مختلف حصے اور ان میں موجود تاریخی فن پارے دیکھنے کے باوجود جی چاہتا تھا کہ ان تاریخی نوادرات کو آنکھوں میں سمیٹ لیں یا دماغ کے نہاں خانوں میں محفوظ کر لیں کہ جب دل چاہے تو بند آنکھوں سے انہیں بار بار دیکھ لیں۔ اس طرح کے تاریخی مقامات اور تاریخی اشیاء میں میری گہری محویت کی وجہ یہ ہے کہ میں ان چیزوں کو ان کی موجودہ شکل و شباہت میں دیکھنے کی بجائے خود کو اس زمانے میں پہنچا ہوا محسوس کرتا ہوں جب یہ سب اشیاء مستعمل تھیں۔ جب ان تختوں پر اُس وقت کے بادشاہ شان و شوکتسے بیٹھتے تھے۔ یہ ہیروں والی خوبصورت عصا ان کے ہاتھ میں ہوتی تھی۔ ان قید خانوں میں بادشاہ یا ملکہ کے خلاف آواز اٹھانے والے دیواروں کے ساتھ زنجیروں سے بندھے ہوتے تھے۔ جلاد تلوار لے کر ان کے سر قلم کرنے کے لئے ان کے سروں پرِ موت بن کر منڈلا رہا ہوتا تھا۔ ان جہازی سائز کے پلنگوں پر وہ بادشاہ سوتے تھے جن کی حکومت آدھی دنیا پر ہوتی تھی اور پوری دنیا کے وسائل جن کی دسترس میں تھے۔

ان تصورات کے ساتھ ایسی جگہوں کی سیر انسان کو انوکھے جہاں میں پہنچا دیتی ہے۔ جہاں وہ خود کو ماضی کا حصہ سمجھنے لگتا ہے۔ ادب کے ساتھ ساتھ تاریخ بھی میرا پسندیدہ مضمون ہے۔ ان بادشاہوں اور ملکاؤں کے بارے میں میں نے بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ آج ان کی زندہ نشانیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں تو جیسے وہ زمانہ پوری آب و تاب کے ساتھ ذہن میں روشن ہو گیا۔ اس روشنی میں اس زمانے کی زندگی ایک فلم کی مانند ذہن کی سکرین پر چلتی محسوس ہو رہی تھی۔

ٹاور آف لندن سے نکلے تو شام کے چار بجے تھے۔ اس دن صبح سے کئی مرتبہ بارش کا سلسلہ شروع ہوا۔ پھر دھوپ نکلی۔ تھوڑی دیر بعد پھر بارش شروع ہو گئی۔ اس طرح بادل اور سورج میں آنکھ مچولی کا یہ سلسلہ سارا دن جاری رہا۔ کل کی بھی تھکاوٹ تھی۔ اوپر سے چار گھنٹے ٹاور آف لندن میں کھڑے یا چلتے ہوئے گزرے تھے۔ میرا جسم دہائیاں دے رہا تھا کہ اسے آرام کی سخت ضرورت ہے۔

ہم نے نزدیکی میکڈونلڈ سے کھانا کھایا اور ٹاور برج کے سائے تلے دریائے ٹیمز کے کنارے بیٹھ کر کافی کی چسکیاں لینے لگے۔ روزی حسب معمول چہک رہی تھی۔ لیکن آج اس کی باتوں میں شوخی کے ساتھ ساتھ اُداسی کا عنصر بھی شامل تھا۔ اسے علم تھا کہ اگلی صبح میں لندن سے روانہ ہو رہا ہوں۔ مجھے بھی ایسے محسوس ہونے لگا تھا کہ ہم مدتوں سے اکھٹے ہیں۔ مجھے روزی کی عادت سی ہو گئی تھی۔ حالانکہ یہ سفر میں نے اکیلے ہی کرنا تھا۔ لیکن نہ جانے کیوں میرا اِس حقیقت سے آنکھیں چرانے کو دل چاہ رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ اچھے دوست کی معیت میں سیر کا مزہ دو بالا ہو جاتا ہے اور روزی ایک بہت اچھی دوست ثابت ہوئی تھی۔ شاید اس کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ جب وہ رخصت ہونے لگی تو اس کی آنکھیں نم اور آواز گلو گیر تھی۔ ہر ملن کے پیچھے جدائی بھی چھپی ہوتی ہے اور آج وہ لمحہ آ گیا تھا۔ خاصے جذباتی انداز میں ملنے کے بعد روزی نے مجھے ٹرین میں سوارکرایا۔ ٹرین نظروں سے اوجھل ہونے تک وہ دوڑتی رہی ہاتھ ہلاتی رہی اور اشکوں کے موتی گراتی رہی۔ جب وہ کھلی آنکھوں سے غائب ہوئی تو میں نے آنکھیں بند کر لیں حتیٰ کہ میرا مطلوبہ اسٹیشن آنے کا اعلان ہو گیا۔ روزی ہمیشہ میرے نہاں خانۂ دل میں ایک پر خلوص دوست کی حیثیت سے موجود رہے گی۔

ٹرین سے اتر کر ابھی میں ہوٹل سے چند بلاک کے فاصلے پر تھا کہ ایک سوٹڈ بوٹڈ شخص نے میرا راستہ روک لیا۔ میں نے کہا ’’جی فرمایئے‘‘

وہ کہنے لگا ’’میرا تعلق اٹلی سے ہے اور میرا جیکٹوں کا کاروبار ہے۔ میں اٹلی کی بنی ہوئی جیکٹس لندن لا کر فروخت کرتا ہوں۔ اس دفعہ جو جیکٹیں میں یہاں لایا تھا وہ ساری بک چکی ہیں۔ صرف چند دانے باقی ہیں۔ میں انہیں اونے پونے نرخوں پر فروخت کر کے جلد از جلد اٹلی واپس جانا چاہتا ہوں۔ اگر آپ خریدنا چاہیں تو میں اصل سے آدھی قیمت پر آپ کو فروخت کر سکتا ہوں۔ میری گاڑی یہیں کھڑی ہے۔ آیئے آپ کو دکھاتا ہوں۔‘‘

یہ پہلا موقع نہیں تھا کہ مجھے ان اٹالین بیوپاریوں بلکہ نو سر بازوں سے واسطہ پڑا ہو۔ بالکل اسی انداز اور اسی کہانی کے ساتھ سڈنی میں بھی دو مرتبہ اس گینگ سے واسطہ پڑ چکا تھا۔ لگتا تھا کہ یہ بین الاقوامی گینگ ہے جو ایک ہی کہانی سے مسافروں اور اجنبیوں کی جیبیں خالی کراتے ہیں۔ ایک تو وہ کہانی ایسی لے کر آتے ہیں کہ مخاطب خواہ مخواہ دلچسپی لینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ قیمت اس انداز میں اچانک کم کر دیتے ہیں کہ فریقِ مخالف کے ساتھ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والا معاملہ درپیش ہوتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہمارے کچھ پٹھان حضرات قالین اور کمبل کاندھے پر لاد کر بیچتے نظر آتے ہیں۔ ان سے کسی قالین کی قیمت دریافت کریں تو وہ دو ہزار روپے بتائے گا۔ اگر اسے کہا جائے پانچ سو روپے لو گے تو بولتا ہے ’ خوچہ دیو ٗ۔ قیمت لگانے والا ظاہر ہے خریدنے کی نیت سے اتنی کم قیمت نہیں لگاتا۔ لیکن چونکہ اصل قیمت اس سے بھی کم ہوتی ہے اس لئے خان صاحب اصرار کرنے لگتے ہیں ’’خو چہ نکالو پیسہ‘‘

اب یا تو بادل نخواستہ اسے خریدیں یا خفت کا سامنا کریں۔ یہی حال ان اٹالین بیوپاریوں کا ہے۔ لہذا میں نے جیکٹیں دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور اس سے معذرت کر کے ہوٹل کی طرف چل پڑا۔ وہ صاحب کافی دور تک میرے ساتھ چلتے رہے اور اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دیتے رہے۔ پھر مایوس ہو کر واپس چلے گئے۔

ہوٹل پہنچ کر تھوڑی دیر آرام کیا۔ پھر شاور کر کے اور لباس بدل کر میں اس عربی ریسٹورنٹ میں ڈنر کے لئے چلا گیا۔ اس دن میری فرمائش پر انہوں نے میرے کھانے میں ٹماٹروں کی کھٹاس کم رکھی اور مرچیں قدرے تیز رکھیں۔ جس سے کھانا خاصا ذائقے دار ہو گیا۔ کھانے کے بعد وقت ضائع کئے بغیر میں ہوٹل واپس آ گیا۔ صبح ساڑھے چھ بجے ہماری ٹور بس روانہ ہو رہی تھی۔ میں نے سامان پیک کیا۔ کمرے کے ٹی وی میں الارم سسٹم موجود تھا۔ پانچ بجے کا الارم لگا دیا۔ پھر استقبالیہ پر فون کر کے احتیاطاً انہیں بھی پانچ بجے جگانے کے لئے کہہ دیا۔ یورپ سے واپسی پر میرا اسی ہوٹل میں مزید ایک رات کا قیام تھا۔ اس کی بکنگ بھی میں نے ابھی سے کروا دی۔ ہوٹل والوں سے ہی کہہ کر صبح چھ بجے کے لئے ٹیکسی بھی بک کروا دی۔

استقبالیہ کلرک نے بکنگ کے لئے میرا نام دریافت کیا۔ میں نے نام بتایا تو پوچھنے لگا آپ کا تعلق کہاں سے ہے۔ مجھے بھی اندازہ ہو گیا کہ وہ کیوں پوچھ رہا ہے۔ میں نے اس کی توقع کے مطابق پاکستان بتایا تو بہت خوش ہوا۔ اس کا نام نعیم احمد تھا اور اس کا تعلق پاکستان کے صوبہ سرحد سے تھا جہاں اس کا بھائی صوبائی اسمبلی کا رکن تھا۔ نعیم لندن میں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور فالتو وقت میں کام کر کے کچھ رقم بھی کما لیتا تھا۔ رکنِ اسمبلی کے بھائی کا اس طرح ہوٹل میں کام کرنا مجھے عجیب سا لگا۔ شاید صوبہ سرحد کی ممبری میں اتنا پیسہ بنانے کا موقع نہ ملتا ہو جتنا پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں کے ممبران کو ملتا ہے۔ پاکستان کی اسمبلیوں کے ارکان جب یورپ، امریکہ یا آسٹریلیا کے دورے پر جاتے ہیں تو پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ انہیں گلچھرے اڑاتے دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ کسی ملک کا بادشاہ یا شہزادہ یہاں آیا ہوا ہے۔ میرے ایک دوست کا دوست جو قومی اسمبلی کا ممبر تھا سڈنی آیا تو مجھے اس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ اس ممبر نے اپنے چار ہفتے کے قیام میں وہ عیاشیاں کیں کہ الامان۔ اس دوران وہ پیسہ ایسے پانی کی طرح بہا رہا تھا کہ سعودی شاہی خاندان کے شہزادے بھی اس کے آگے پانی بھرتے نظر آتے۔ میں اس ’’پاکستانی شہزادے‘‘ کے یہاں قیام کے قصے سناتا ہوں تو لوگوں کو یقین نہیں آتا۔ قوم کا درد سینے میں سجائے وہ اسمبلی کا ممبر چند دنوں میں کروڑوں روپے لٹا کر واپس گیا۔

اگلی صبح پانچ بجے گرم بستر چھوڑ کر اٹھنا پڑا۔ تیار ہو کر اور ہوٹل کا بل ادا کر کے باہر نکلا تو چھے بجنے میں دس منٹ باقی تھے۔ پانچ منٹ کے بعد ٹیکسی آن پہنچی۔ لندن میں دو قسم کی ٹیکسیاں چلتی ہیں۔ ایک تو اصلی ٹیکسی ہوتی ہے۔ جو خاص طور پر اس مقصد کے لئے تیار کی گئی ہے۔ مینڈک کی شکل کی اس ٹیکسی پر ٹیکسی کا سائن اور مخصوص رنگ ہوتا ہے۔ اس کی اگلی اور پچھلی سیٹوں کے درمیان پلاسٹک کی سکرین لگی ہوتی ہے۔ یہ ڈرائیور کی حفاظت کی غرض سے ہوتی ہے۔ سکرین کے ایک حصے میں ایک چھوٹی سی کھڑکی سی بنی ہوتی ہے جہاں سے ڈرائیور کرایہ لیتا ہے۔ یہ ٹیکسی میٹر کے حساب سے کرایہ چارج کرتی ہے۔

ٹیکسی کی دوسری قسم جو لندن میں رائج ہے وہ پرائیویٹ اور عام کار کی شکل میں ہے۔ اس قسم کی ٹیکسی صرف فون کے ذریعے بک کی جاتی ہے۔ یہ ٹیکسی قانوناً سٹریٹ سے مسافر اٹھانے کی اہل نہیں۔ ان کا کرایہ میلوں کے حساب سے ہوتا ہے اور پہلے طے کر لیا جاتا ہے۔ میرے لئے آنے والی ٹیکسی بھی اسی قسم کی تھی اور اس کا کرایہ دس پونڈ طے تھا۔ تھوڑی دیر میں ہی اس ایرانی ٹیکسی ڈرائیور نے مجھے ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی کے آفس میں پہنچا دیا۔

 

 

 

 

ٹریفالگر

 

ایک دفعہ مل لو میری شرافت کا یقین آ جائے گا

 

ٹریفالگر کے بارے میں سڈنی میں میرے ٹریول ایجنٹ نے ابتدائی معلومات دی تھیں۔ اسی ایجنٹ نے مجھے اس کمپنی کی ایک معلوماتی کتاب بھی دی جس میں یورپ کی سیر کے لئے اس کمپنی کے مختلف پیکجز کی تفصیلات درج تھیں۔ یورپ میں ایسی کئی بڑی کمپنیاں سیاحوں کی سروس کے لئے دستیاب ہیں جن کے توسط سے آپ اپنی سہولت، اپنے بجٹ اور دستیاب وقت کے مطابق سیر کا مکمل پروگرام بنا سکتے ہیں۔ یہ سیر دنوں سے لے کر مہینوں تک مختلف دورانیے کی ہو سکتی ہے۔ اس کے رُوٹ اور ذرائع سفر بھی مختلف ہو سکتے ہیں۔ ان کمپنیوں کی اپنی ٹورسٹ کوچز، ڈرائیورز اور گائیڈز ہوتے ہیں۔ وہ سیاحوں کی دلچسپی کے مطابق پیکج بناتے ہیں۔ انہیں اپنی کوچز میں طے شدہ روٹ پر ہر جگہ پہچانے، ہوٹلوں کا بندوبست کرنے، قابل دید مقامات کے ٹکٹ مہیا کرنے، سفری اور مقامی گائیڈ فراہم کرنے کے علاوہ کئی دیگر سہولتیں مہیا کرتے ہیں۔ اس طرح سیاح کم سے کم وقت اور بغیر کسی تکلیف اور تردد کے زیادہ سے زیادہ اہم جگہوں کی سیر کر سکتے ہیں۔ ایک ماہر گائیڈ قدم قدم پر رہنمائی اور اہم مقامات کی تفصیل بتانے کے لئے ہمہ وقت دستیاب ہوتا ہے (یا ہوتی ہے)۔

ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی اپنی نوعیت کی منفرد اور بڑی کمپنی ہے۔ اس کا دائرہ بہت وسیع، پیکج بے شمار اور عملہ لاتعداد ہے۔ اگر آپ یورپ کی سیر کر رہے ہوں تو ٹریفالگر کی کوچز آپ کو جگہ جگہ نظر آئیں گی۔ اس کا مرکزی دفتر لندن میں ہے۔ لیکن یورپ بھرمیں اس کے دفاتر کا جال بچھا ہوا ہے۔ بہت پرانی، تجربہ کار اور منظم ٹورسٹ کمپنی ہے۔ وہ سیاحوں کو ہرسہولت فراہم کرتے ہیں جس کا وعدہ کرتے ہیں۔ بلکہ بعض سہولتیں پیکج سے ہٹ کر اضافی بھی ہوتی ہیں۔

مجھے اس کمپنی کا پیکیج پسند آیا۔ میں نے اپنے مطلوبہ پیکج کی بذریعہ انٹرنیٹ بکنگ کرائی۔ بعد میں ان کے سڈنی آفس سے بذریعہ فون بھی رابطہ رہا جس سے مزید اہم معلومات ملتی رہیں۔ اس پیکج کے مطابق اگر سیاح فردِ واحد ہو تو ہوٹل کا الگ کمرہ لینے کی صورت میں اس کے چارجز بڑھ جاتے ہیں۔ لیکن اگر کسی دوسرے سیاح کے ساتھ ایک کمرے میں رہنا پسندکر لے تو اخراجات لامحالہ کم ہو جاتے ہیں۔ میں بھی اس سفر میں اکیلا تھا۔ اپنے کسی ہمسفر کے ساتھ رہنے میں مجھے کوئی عار نہیں تھا۔ اس طرح اخراجات بھی کم ہو جاتے اور روم میٹ کے ساتھ گپ شپ میں وقت بھی اچھا گزرتا۔ سوچا خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو۔ لیکن ایک خدشہ بہرحال ضرور تھا کہ کسی ’فرزانے‘ سے نہ پالا پڑ جائے۔ بہرحال انٹرنیٹ پر جب بکنگ کروائی تو میں نے انہیں اپنے لئے مخلوط رہائش کا اختیار دے دیا۔

تھوڑے دنوں بعد سڈنی آفس سے فون آ گیا کہ آپ کے مطلوبہ پیکج کی بکنگ ہو گئی ہے۔ صرف ایک مسئلہ باقی ہے۔ میں نے پوچھا ’’وہ کیا؟‘‘

ایک لڑکی نے اپنی کھنکناتی ہوئی آواز میں بتایا ’’ٹریفالگر کا ہوٹلنگ کا طریقہ یہ ہے کہ اگر سنگل مرد ہو تو اسے دوسرے سنگل مرد کے ساتھ ٹھہرایا جاتا ہے اور اگر عورت اکیلی ہو تو اسے کسی عورت کے ساتھ ٹھہرایا جاتا ہے‘‘

میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا ’’میں آپ کا دائرہ اختیار بڑھا دیتا ہوں۔ وہ یہ کہ میرے معاملے میں آپ کو آزادی ہے کہ آپ کسی بھی فرد کے ساتھ مجھے ایڈجسٹ کر سکتے ہیں چاہے وہ مرد ہو یا عورت۔ کم از کم مجھے کوئی اعتراض نہیں‘‘

وہ لڑکی ہنسی تو فون سے موسیقی سے اُبلی۔ ہنستے ہوئے بولی ’’آپ کو تو نہیں لیکن جنسِ مخالف کی اس فرد کو اعتراض ہو سکتا ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ ایسا کریں! اس کا فون نمبر مجھے دے دیں۔ ہو سکتا ہے سفر پر جانے سے پہلے وہ اپنا اعتراض واپس لے لے‘‘

کہنے لگی ’’آپ بہت پر اعتماد ہیں‘‘

’’اس لئے کہ میں شریف آدمی ہوں‘‘

بولی ’’لگتا تو نہیں۔ آپ کہتے ہیں تو مان لیتی ہوں‘‘

میں نے کہا ’’تم تو سڈنی میں رہتی ہو۔ مل لو یقین آ جائے گا‘‘

وہ ہنستے ہوئے بولی ’’ہوشیار بھی ہیں۔ ملنے کی خوبصورت راہ نکالی ہے۔ ویسے میں شادی شدہ ہوں اس لئے مجھ سے مل کر آپ کو مایوسی ہی ہو گی‘‘

میں نے کہا ’’میں نے اپنی شرافت کا یقین دلانا تھا۔ اس کے لئے آپ کا غیر شادی شدہ ہونا ضروری نہیں ہے۔ بہرحال جب میں سفر سے واپس آؤں گا تو آپ کو یقین آ جائے گا۔ کیونکہ ظاہر ہے آپ کو شکایت نہیں ملے گی‘‘

’’آپ بہت دلچسپ آدمی ہیں۔ بہرحال میں آپ کو بتانا چاہ رہی تھی کہ آپ کے گروپ میں کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو اکیلا بھی ہو اور کسی دوسرے کے ساتھ رہنا چاہتا ہو۔ آپ اکیلے ہیں جنہوں نے یہ اختیار دیا ہے۔ اب ایسی صورت میں آپ کو پورے کمرے کے حساب سے اضافی رقم ادا کرنا ہو گی‘‘

میں نے کہا ’’دیکھیں ٹریفالگر بہت بڑی ٹورسٹ کمپنی ہے۔ اس میں بکنگ کرانے اور پیکج کا انتخاب کرنے سے پہلے میں نے اپنے بجٹ کو ملحوظ رکھا تھا۔ اب اگر میرے اختیار دیئے جانے کے باوجود آپ لوگ پورے گروپ میں میرے ساتھ کمرہ شیئر کرنے والا نہیں ڈھونڈ سکتے تو یہ میرا نہیں آپ کا مسئلہ ہے۔ کیونکہ یہ بندوبست کرنا آپ کا کام ہے۔ میں طے شدہ رقم سے زائد ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں‘‘

وہ لڑکی کچھ سوچنے کے بعد بولی ’’میں ہیڈ آفس میں اپنے انچارج سے بات کر کے آپ کو دوبارہ فون کرتی ہوں‘‘

تھوڑی دیر بعد ہی اس کا فون آ گیا۔ کہنے لگی ’’مبارک ہو! آپ کی بکنگ برقرار ہے۔ آپ کو کمرہ بھی الگ ملے گا اور اضافی اخراجات بھی نہیں ہوں گے۔ حالانکہ آپ کے گروپ میں چند اور اکیلے افراد ہیں۔ وہ آپ سے سات سو ڈالر زائد ادا کر رہے ہیں لیکن سہولتیں بالکل برابر ہیں۔ آپ برائے مہربانی اپنے ہم سفر ساتھیوں کو ہماری اس رعایت کے بارے میں نہ بتایئے گا کیونکہ یہ خصوصی رعایت ہے‘‘

میں نے کہا ’’آپ بے فکر ہو جائیں۔ لیکن میری شرافت کے بارے میں جب بھی جاننا چاہیں میں کہیں اور کسی وقت بھی مل سکتا ہوں‘‘

اس نے ہنستے ہوئے آفر کا شکریہ ادا کیا اور پھر رسمی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔

جب ہم وہاں پہنچے تو دیکھا کہ ٹریفالگر ٹورسٹ کمپنی کے دفتر میں بہت سے سیاح جمع ہیں۔ اس وقت تک مجھے علم نہیں تھا کہ ان میں سے کون ہمارے گروپ میں شامل ہے اور کون کسی دوسری راہ کا مسافر ہے۔ استقبالیہ کاؤنٹر پر دو لڑکیاں اور ایک مرد سیاحوں کی مدد کے لئے موجود تھے۔ میں نے انہیں اپنا نام بتایا تو انہوں نے میری بکنگ کی تصدیق کرتے ہوئے ایک فارم بھرنے کے لئے دیا۔ میں نے ان کی مطلوبہ معلومات لکھ دیں جو زیادہ تر میرے بارے میں ہی تھیں۔ مثلاً نام، پتہ، فون نمبر، لندن میں رہائش کا پتہ، پاسپورٹ، ویزہ اور دیگر ایسی ہی بنیادی معلومات تھیں جو انہیں ریکارڈ کے لئے درکار تھیں۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ کھانے کے بارے میں کوئی خصوصی ہدایت ہے تو درج کر دیں۔ میں نے مسلم فوڈ (حلال) لکھ دیا۔ لیکن اس کی وضاحت ٹریفالگر والوں نے شروع میں کر دی تھی کہ وہ سفر میں حلال کھانوں کا بندوبست شاید نہ کر سکیں۔ تاہم ویجیٹرین فوڈ (سبزیوں پر مشتمل کھانا) اور دیگر کھانوں میں اپنی پسند کی کوئی بھی چیز لے سکتے ہیں مثلاً مچھلی اور انڈے وغیرہ۔

آسٹریلیا میں رہتے ہوئے حلال کھانوں کی عدم دستیابی کی صورت میں متبادل کھانوں کا ہمیں بخوبی علم ہے۔ غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں اور وہاں جانے والے مسلمانوں کے لئے حلال کھانوں کا حصول بہت بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں یہ مسائل ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ کیونکہ مسلمانوں کے لئے جس جانور کا نام لینا باعثِ کراہت ہے وہ یہاں لوگوں کی مرغوب غذا ہے۔ نہ صرف یہ کہ عام کھانوں میں خنزیر کا گوشت وافر مقدار میں استعمال ہوتا ہے بلکہ اس کی چربی اور کھال بھی بہت سی اشیاء میں استعمال کی جاتی ہے۔ اسی لئے مسلمان ہر چیز خریدنے سے پہلے اس کے INGREDIENTS ضرور پڑھتے ہیں۔ مثلاً کوکنگ آئل کو صرف پکانے کا عام تیل سمجھ کر خریدا اور استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ اس میں استعمال ہونے والے مختلف اجزاء دیکھے جاتے ہیں۔ اگر اس میں جانوروں کی چربی استعمال کی گئی ہے تو مسلمان وہ آئل نہیں خریدتے۔ اس طرح صابن، شیونگ کریم، ٹوتھ پیسٹ اور دوسری سینکڑوں اشیاء ایسی ہیں جن میں سور کی چربی، گوشت، کھال یا الکوحل شامل ہوتی ہے۔ آسٹریلیا میں مسلمانوں کے ادارے ایفک نے ایک ایسی لسٹ بنائی ہے جو مارکیٹ میں موجود مختلف اشیاء کے بارے میں یہ بتا دیتی ہے کہ اس میں کونسی حلال ہے اور کون سی حرام۔

مسلم خواتین و حضرات شاپنگ کرتے ہوئے یہ لسٹ اپنے ساتھ رکھتے ہیں۔ کوئی بھی نئی چیز خریدتے وقت اس لسٹ سے اس کے بارے میں تسلی کر لیتے ہیں۔ غیر مسلم ممالک میں رہنے والوں کو جہاں بہت سے مسائل پیش آتے ہیں، اس میں یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے۔ پاکستان میں رہتے ہوئے ان مسائل کا ادراک ہوتا ہے اور نہ ہی اس نعمت کا احساس ہوتا ہے کہ کہیں سے کچھ بھی خرید کر کھا پی سکتے ہیں۔ وہاں پورا ماحول اسلامی ہے۔ کسی بھی دکان سے جو دل چاہے خرید سکتے ہیں۔ تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہاں ہم کسی پارٹی میں جا کر خود کو اکیلا اور تنہا محسوس نہیں کرتے۔

یہاں آسٹریلیا میں ہم جب مقامی لوگوں کی پارٹیوں میں جاتے ہیں تو کوک کا گلاس پکڑ کر الگ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہاں پر پارٹی کا آغاز اور اختتام شراب سے ہوتا ہے۔ بیچ میں بھی حلال گوشت تو درکنار خنزیر کی ڈشیں سجی ہوتی ہیں۔ ایسی صورت میں مسلمان پہلے تو ایسی پارٹیوں میں جانے سے کتراتے ہیں اور اگر کسی مجبوری کے تحت جانا پڑ ہی جائے تو بھوکے گھر واپس آ جاتے ہیں۔ اس وقت اس ماحول میں اجنبیت اور اکیلے پن کا انہیں جو احساس ہوتا ہے وہ وطن عزیز میں رہنے والوں کو نہیں ہو سکتا۔

ایک اور مسئلہ جو درپیش آ رہا ہے وہ یہ ہے کہ کئی لوگ خود یا ان کی اولاد ان پابندیوں سے آہستہ آہستہ آزاد ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً شراب تو بہت سوں کے منہ لگی ہوئی ہے کیونکہ یہاں یہ عام ہے۔ بغیر کسی تردد کے اور ارزاں نرخوں پر دستیاب ہے۔ ماحول بھی اس کے لئے موافق ہوتا ہے۔ شراب کے علاوہ جھٹکے یا مشینوں کے ذبح کردہ جانوروں کا گوشت بھی کافی مسلمان کھاتے نظر آتے ہیں۔ کئی ایک سے میں نے سوال کیا ’’یہ گوشت آپ کیوں کھا رہے ہیں یہ حلال نہیں ہے‘‘

ان میں سے کچھ کو تو پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ حلال ہے یا حرام۔ کچھ یہ کہتے ہیں کہ یہ مرغی، بکری یا گائے کا گوشت ہے جو مسلمانوں کے لئے حلال کی گئی ہیں‘‘

’’لیکن یہ جانور اسلامی طریقے سے ذبح نہیں کئے گئے۔ اس صورت میں یہ کیسے حلال ہو سکتے ہیں؟‘‘

کئی ایک ہنس کر ٹال دیتے ہیں۔ ایک دوست کہتا ہے۔ میں کھانے سے پہلے تکبیر پڑھ لیتا ہوں۔ اس طرح یہ حلال ہو جاتا ہے۔ حلال حرام کی تمیز اور تقویٰ کا صحیح امتحان ان ملکوں میں ہوتا ہے۔ ورنہ پاکستان میں میرا ایک دوست کہنے لگا ’’مجھے شراب کا شوق ہے۔ لیکن کیا کروں یہاں ملتی ہی نہیں‘‘

میں نے کہا ’’اچھا ہے نہیں ملتی ورنہ روز گناہ گار ہوتے‘‘

بولا ’’’خیالوں میں روز پی لیتا ہوں۔ عملاً اس لئے نہیں پیتا کہ ملتی نہیں۔ جس دن مل گئی ذرا دیر نہیں لگاؤں گا۔ اگر خدا نیتوں کا حال جانتا ہے تو پھر میں پہلے ہی گناہگار ہوں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کچھ کر کے گناہ گار ہوتا۔ اس گناہِ بے لذت کا کیا فائدہ‘‘

میرے اس دوست کو اس کی خراب نیت کا گناہ تو ضرور ہو گا۔ لیکن شاید اتنا نہ ہو جتنا مٹکوں کے حساب سے روزانہ پینے والوں کو ہوتا ہے۔ اصل امتحان تو یہی ہے کہ یہ بآسانی دستیاب ہو اور پھر اس سے اجتناب کیا جائے۔

ٹریفالگر والوں کو جو ہدایت میں نے لکھوائی تھی اس کا ا ثر ضرور ہوا۔ ایک تو یہ کہ کہیں بھی میرے کھانے میں گوشت نظر نہیں آیا۔ دوسرا یہ کہ میرے لئے سی فوڈ، سبزیوں اور انڈوں پر مشتمل کھانے کی ہدایت میرے جانے سے پہلے مطوبہ ہوٹل یا ریسٹورنٹ کو پہنچا دی جاتی تھی۔ ہر جگہ نئے سرے سے مغز ماری کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔

ٹریفالگر نے مسافروں کے لئے ایک سوٹ کیس اور ایک ہینڈ بیگ ساتھ رکھنے کی اجازت دی تھی۔ میں نے یہ ہدایت پڑھی ہی نہیں۔ میرے پاس سامانِ سفر زیادہ تھا۔ ایک سوٹ کیس، ایک سوٹ کیس جتنا ہی بڑا بیگ اور ایک درمیانے سائز کا ہینڈ بیگ۔ اس طرح ایک آئٹم زائد ہو گیا۔ لیکن بھلا ہو ان کا، کسینے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سارا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ الگ بات ہے کہ تمام سفر میں اس زائد سامان کی وجہ سے مجھے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ جس شہر میں پہنچتے تھے یہ تمام سامان بس سے نکال کر ہوٹل کے کمرے میں پہنچوانا پڑتا تھا اور پھر اگلے دن کمرے سے واپس بس تک پہچانا پڑتا تھا۔

در اصل یورپ سے واپسی پر میں اگرچہ دوبارہ پاکستان جا رہا تھا لیکن صرف کراچی۔ کیونکہ پنجاب میں اپنی فیملی سے مل کر آ گیا تھا۔ اس طرح پنجاب سے ملنے والے اور آسٹریلیا سے کراچی والوں کے لئے رکھے گئے تحائف پورے سفر میں مجھے گھسیٹنے پڑے۔ جو کسر باقی رہ گئی تھی وہ یارک شائر میں میرے دوست آصف کریم اور اس کی بیگم نے پوری کر دی۔ پورے گروپ میں، میں اکیلا پاکستانی تھا اور سب سے زیادہ سامان بھی میرے پاس تھا۔ اس طرح میں نے اپنی پاکستانیوں والی وہ روایت قائم رکھی جس کے مطابق ہمارے بس سٹاپ، ٹرین سٹیشن اور ائر پورٹ سامان سے اٹے نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرینوں میں سفر کرنے والے ایک ایک مسافر کے پاس اتنا سامان ہوتا ہے جو یورپ میں سفر کرنے والے پورے کمپارٹمنٹ کے مسافروں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یورپین، امریکن اور آسٹریلین دورانِ سفر اپنے پاس کم سے کم سامان رکھنے کے قائل ہیں۔ ویسے بھی ان کی کون سی خالائیں، بھابھیاں، چچیاں اور پھوپھیاں ان کے تحفوں کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔ یہ لوگ رشتہ داروں کا روگ پالتے ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ کرسمس پر ایک کارڈ ارسال کر دیتے ہیں۔ اللہ اللہ خیر سلا۔

کئی لوگوں کے والدین کسی دوسرے شہر سے انہیں ملنے آتے ہیں تو اپنے خرچ پر سفر کرتے ہیں۔ اپنی جیب سے ادائیگی کر کے ہوٹل میں کمرہ لیتے ہیں۔ اپنی گِرہ سے ٹیکسی کا کرایہ ادا کر کے اس ریسٹورنٹ میں جاتے ہیں جہاں بیٹا یا بیٹی ایک وقت کا کھانا کھلا کر اپنا حقِ اولاد ادا کرتے ہیں۔ کھانا کھا کر بیٹا اپنے گھر اور بوڑھے ماں باپ واپس ہوٹل میں چلے جاتے ہیں۔ وہ بہت ہی خوش قسمت والدین ہوتے ہیں جن کا بیٹا یا بیٹی انہیں ایک وقت کا کھانا گھر بلا کر کھلاتے ہیں۔ لیکن رات رکنے کی اجازت انہیں پھر بھی نہیں ہوتی۔ رہنا انہیں ہوٹل میں ہی پڑتا ہے۔

 

میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں

 

سامان بس میں رکھوانے کے بعد ہم اس میں سوار ہوئے تو ایسے لگا کہ ہوائی جہاز کی بزنس کلاس میں داخل ہو گئے ہوں۔ اسی طرح کی کھلی کھلی اور آرام دہ سیٹیں، دبیز پردے، ہیڈ فون اور سٹیریو کی تاریں، چھوٹی سی کھلنے اور بند ہونے والی میزیں اور مکمل ایئر کنڈیشنڈ۔ میں سیٹ پر بیٹھا تو اس میں دھنس سا گیا۔ اتنی نرم اور آرام دہ تھی۔ اس عظیم الجثہ کوچ میں باون سیاحوں کا گروپ سفر کر رہا تھا۔ جنہوں نے اگلے دو ہفتے اکھٹے گزارنے تھے۔ اُدھیڑ عمر اور قدرے بوڑھے لوگ زیادہ تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے تشنہ خوابوں کی تکمیل کے لئے نکلتے ہیں۔ جوانی میں غم روزگار میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ گھومنے پھرنے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا۔ اپنی اور اولاد کی زندگی بنانے میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں۔ اُس وقت ان ذمہ داریوں کی وجہ سے سیر و تفریح کے لئے وقت اور پیسہ نہیں نکال پاتے۔ لیکن ان کے دِلوں میں خواہشیں اور تمنائیں کلبلاتی رہتی ہیں۔ اکثر کی تمنائیں حسرت بن کر رہ جاتی ہیں۔ لیکن کچھ بڑھاپے میں عمر بھر پروان چڑھنے والی ان خواہشوں اور خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو ریٹائرمنٹ تک زندہ بھی رہتے ہیں اور جسمانی اور مالی طور پر ان خواہشوں کو عملی جامہ پہنانے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔ اس وقت تک یہ روزگار کے علاوہ اولاد کی ذمہ داریوں سے بھی آزاد ہو چکے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ اولاد ان کے لئے پرائی ہو چکی ہوتی ہے۔ کئی کی تواتنی پرائی ہو جاتی ہے کہ انہیں ایسی اولاد کے لئے ترکہ چھوڑنا بھی گوارا نہیں ہوتا۔ بلکہ وہ اس نالائق اور ناخلف اولاد سے اپنی جمع پونجی بچانے کے لئے پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں۔ تاکہ وہ ساری زندگی کا جمع کردہ سرمایہ اپنے آپ پر خرچ کر کے مریں۔ اس نا خلف اولاد کے کام نہ آئے جو اُن کے نہیں رہتے۔ بعض پچھتاتے ہیں کہ انہوں نے ایسی نالائق اولاد پیدا ہی کیوں کی تھی۔

ہمارے گروپ میں ان بوڑھوں کے علاوہ جوان میاں بیوی اور بچے بھی تھے۔ ان میں دو خاندان امریکہ سے آئے تھے لیکن وہ بنیادی طور پر انڈین تھے۔ ان میں ایک سرجن ڈاکٹر تھا اور دوسرا کیلیفورنیا میں سیون الیون سٹور کا مالک تھا۔ ایک جاپانی جوڑا بھی تھا جو غلطی سے اس گروپ میں شامل ہو گیا۔ غلطی سے اس لئے کہ لڑکے کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ جبکہ ہماری گائیڈ انگریزی میں رننگ کمنٹری کرتی رہتی تھی۔ لڑکی لندن میں انگریزی سیکھنے کا کورس کرنے آئی ہوئی تھی۔ اس کی انگریزی واجبی سی تھی۔ جبکہ اس کا بوائے فرینڈ ٹوکیو سے خصوصی طور پر محبوبہ سے ملنے آیا تھا۔ اس خوشی میں لڑکی اسے لے کر یورپ کی سیر پر نکلی ہوئی تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ وہ کسی جاپانی گروپ میں شامل ہوتی جس کا گائیڈ اور معلوماتی لٹریچر جاپانی زبان میں ہوتا ہے۔ اس سے ان کو آسانی رہتی۔ وہ غلطی سے ہمارے گروپ میں آ تو گئے لیکن سارے سفر میں ہم سب سے الگ الگ رہے۔ ہمیں دیکھ کر زیادہ سے زیادہ مسکرا دیتے تھے یا ہیلو کہہ دیتے تھے۔ اس سے زیادہ بولنا ان کے بس میں نہیں تھا۔

اس کی کسر وہ آپس میں ہی بول کر پوری کر لیتے تھے۔ بلکہ بولنے سے زیادہ عملی طور پر ایک دوسرے میں مصروف رہتے تھے۔ ہر وقت آپس میں چپکے رہتے۔ جسم کے ساتھ جسم، ہونٹوں کے ساتھ ہونٹ اور گالوں کے ساتھ گال چسپاں رہتے۔ دن کا کوئی لمحہ کم ہی ایسا ہو گا جب وہ ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہوں۔ ان کے ہاتھ، ہونٹ اور جسم جیسے ایک دوسرے سے جڑ گئے تھے۔ سارا دن ان کی یہ حالت رہتی تھی۔ رات کو جب وہ کمرے میں بند ہوتے تھے تو خدا جانے نوبت کہاں تک پہنچتی ہو گی۔ بالغوں کے لئے یہ تصور اتنا محال بھی نہیں۔

لڑکے کا نام جانجی تھا اور لڑکی مشی کہلاتی تھی۔ بھرے بھرے ہونٹوں اور بولتی آنکھوں والی اس لڑکی کی آنکھیں ہر وقت مستی سی لٹاتی رہتی تھیں۔ کبھی کبھار جب وہ اپنے محبوب کے سراپے سے نظریں ہٹا کر کسی اور کی طرف دیکھتی تھی تو ایسے لگتا تھا کہ اپنے محبوب پر فخر کا اظہار کر رہی ہو۔ اس کی مسکراتی آنکھیں اور دہکتے ہوئے گال اپنے محبوب سے پیار کی حدت کو نمایاں کرتے رہتے تھے۔ جانجی اور مشی آپس میں اس قدر مصروف رہتے تھے کہ انہیں چلتی بس کے باہر خوبصورت سے خوبصورت نظاروں سے بھی کم ہی دلچسپی ہوتی تھی۔ بس کبھی کبھار ایک لمحے کے لئے ایک دوسرے سے نظریں ہٹا کر کہیں اور دیکھ لیتے تھے۔ ورنہ ان دونوں کے لئے سارے نظارے، ساری خوبصورتیاں اور دنیا بھر کا حسن ایک دوسرے کی آنکھوں میں ہی پوشیدہ تھا۔ ان دونوں کی والہانہ محبت اور وارفتگی کو دیکھ کر بے اختیار خواجہ فریدؔ کا یہ کلام ذہن میں آتا تھا۔

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈی روح وی توں

میڈا قلب وی توں جند جان وی توں

ایسا لگتا ہی نہیں تھا کہ جانجی اور مشی یورپ کے خوبصورت نظاروں کو دیکھنے نکلے ہوں۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ ان رنگین اور دلکش نظاروں کو اپنی محبت کا گواہ بنا رہے ہوں۔ اور کہہ رہے ہوں کہ مانا تم خوبصورت ہو، حسین ہو، مگر اتنے نہیں، جتنا میرا محبوب ہے۔ حسن دیکھنا ہے تو ہماری آنکھوں سے دیکھو۔ پھر شاید تم خود پر ناز کرنا بھول جاؤ اور جان جاؤ کہ حسن کی حقیقت کیا ہے۔

ہمارے گروپ میں شامل زیادہ تر سیاحوں کا تعلق آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ اور امریکہ سے تھا۔ ان ممالک کے علاوہ صرف مشی اور جانجی کا تعلق جاپان سے تھا۔ ایک سیاح لڑکی جولی کا تعلق لندن (برطانیہ سے) تھا۔ جولی بھی در اصل آسٹریلین ہی تھی لیکن پچھلے چند برسوں سے برطانیہ میں رہائش پذیر تھی۔ ان برسوں میں جولی دوستیاں اور پیسہ بنانے میں اتنی مصروف رہی کہ لندن سے باہر کا یورپ نہ دیکھ سکی۔ اب وہ ہمارے ہمراہ یورپ کی سیر کے لئے نکلی ہوئی تھی۔ جولی کا جمیکن بوائے فرینڈ اپنی کاروباری مصروفیات کی وجہ سے اس کے ساتھ نہ تھا۔

جان کا تعلق بھی سڈنی سے تھا۔ گول گول چہرے، سڈول جسم اور سنہری مائل رنگت والے جان کی عمر چالیس کے لگ بھگ ہو گی۔ کافی ہنس مکھ اور باتونی شخص تھا۔ لیکن اس کی ہنسی کے پیچھے آہیں اور دلچسپ باتوں کے پیچھے کراہیں چھپی ہوئی ہیں۔ اس کا ذکر آگے آئے گا۔

جان کے علاوہ ایک اور تنہا فرد جو ہمارا شریکِ سفر تھا، اس کا نام ڈیوڈ تھا۔ ڈیوڈ جنوبی افریقہ سے آیا تھا۔ اس کی عمر پچپن سے کم نہ ہو گی۔ لیکن اس کی صحت کافی اچھی تھی دراز قد، سفید مونچھیں، اور ہمہ وقت مسکراتی آنکھیں۔ مجموعی طور پر اس کی شخصیت کافی جاذب نظر تھی۔ ڈیوڈ بظاہرسب سے گھل مل کر رہنے والا خوش اخلاق شخص تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ اس کے اندر کے جو ہر کھلے تو اس کے دل میں چھپے نسلی تعصب کو باہر آنے میں دیر نہ لگی۔ ڈیوڈ بھی گوری رنگت کی بناء پر خود کو دوسروں سے برتر سمجھتا تھا۔ وہ دوسری رنگت کے لوگوں کو حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ ڈیوڈ کے اندر کا یہ نسلی تفاخر اور دوسروں کے لئے احساس حقارت آہستہ آہستہ ہی ہم پر ظاہر ہوا۔ ورنہ بظاہر وہ ایک ہنس مکھ اور خوش اخلاق بوڑھا تھا۔ ڈیوڈ کو جنوبی افریقہ میں کالوں کے حق میں برپا ہونے والی انقلابی تبدیلیوں پر قلق تھا۔ بلکہ اس نے عملاً اس ناراضگی کا ثبوت اس طرح دیا کہ جونہی جنوبی افریقہ میں نیلسن منڈیلا کی حکومت بنی ڈیوڈ نے احتجاجاً اپنی سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیوڈ کے پاس اتنی جمع پونچی تھی کہ وہ اپنی بقیہ زندگی نہ صرف عیش و آرام سے گزار سکتا تھا بلکہ اس نے یورپ کے اس دورے کے لئے بھی رقم نکال لی تھی۔ ڈیوڈ نے مجھے بتایا ’’ایک تو یہ کہ میں نے زندگی کا زیادہ حصہ اکیلے گزارا ہے۔ ظاہر ہے اکیلے کا خرچ بھی کم تھا۔ اس طرح میری تنخواہ کا ایک معقول حصہ بچتا رہا۔ دوسرا یہ کہ یہ بچت میں منافع بخش سرمایہ کاری میں لگاتا رہا اور تیسرا یہ کہ میرا خاندانی اثاثہ بھی اکلوتا وارث ہونے کی وجہ سے صرف میرے حصے میں آیا۔ اس لئے اب میرے اوپر کوئی معاشی دباؤ نہیں‘‘

’’گویا تم فارغ البال ہو۔ شاید اسی وجہ سے خوشحال ہو۔ لیکن تم بقیہ زندگی بھی اسی انداز میں گزارنا پسند کرو گے؟‘‘ایک دن میں نے اس سے پوچھا

ڈیوڈ نے کہا ’’کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں‘‘

میں نے کہا ’’دیکھو! اس وقت تم صحت مند ہو۔ اپنی دیکھ بھال کر سکتے ہو۔ جہاں چاہو، گھوم پھر کر وقت گزار سکتے ہو۔ بلکہ تم نے سمندر پار کا یہ طویل سفر بھی کر ڈالا۔ لیکن وقت اور عمر کے ساتھ انسان کا جسم اور دماغ اتنا صحت مند نہیں رہتا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب اسے کسی کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی تنہائیوں کا رفیق ہو۔ جس کے ساتھ انسان اپنے دکھ درد کا اظہار کر سکتا ہو اور جو زندگی کے کٹھن سفر میں قدم سے قدم ملا کر چل سکتا ہو۔ ایک ساتھی کے قدم ڈگمگائیں تو دوسرا بڑھ کر اسے سہارا دے سکتا ہو۔ انسان جب ضعیف، تنہا اور لاغر ہوتا ہے تو اسے کسی ہمدم اور رفیق کی ضرورت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ کیا تم نے کبھی اس وقت کے بارے میں سوچا ہے؟‘‘

ڈیوڈ میری طویل بات کو بہت غور سے سنتا رہا۔ میری بات کے دوران ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدلنا شروع ہو گئے۔ اس کا مسکراتا چہرہ پہلے سنجیدہ پھر مغموم اور پھر رنجیدہ ہوتا چلا گیا۔ حتیٰ کہ اس کی آنکھوں میں نمی اترنا شروع ہو گئی۔ اس کی مسکراتی آنکھوں میں چھپے غم کے گوہر پانی بن کر اس کے پلکوں پر رقص کرنے لگے۔ اس نے ٹشو پیپر سے اپنی آنکھیں صاف کیں۔ مجھے اپنی باتوں کے اس رد عمل کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ اس کے آنسوؤں نے مجھے بدحواس سا کر دیا۔ میں نے ڈیوڈ سے کہا ’’سوری! مجھے علم نہیں تھا کہ میری باتوں سے تم یوں غم زدہ ہو جاؤ گے۔ مجھے بہت افسوس ہے‘‘

ڈیوڈ بولا ’’طارق! تم نے کوئی غلط بات نہیں کی۔ لیکن تمہاری باتوں سے میرے اندر کے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔ تم نے نادانستگی میں میری دُکھتی رگ پہ ہاتھ رکھ دیا ہے‘‘

میں نے کہا ’’میں تو تمہیں فارغ البال اور خوش باش انسان سمجھتا تھا۔ ایک ایسا انسان جو اپنی تنہا زندگی سے خوب لطف اندوز ہو رہا ہو اور جسے کوئی پچھتاوا یا دکھ نہ ہو۔ لیکن شاید میں غلط تھا۔ انسان کے اندر کی دنیا اتنی وسیع اور عمیق ہے کہ اندازے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں۔ خصوصاً تمہارے جیسے بظاہر خوش باش اور شگفتہ باتیں کرنے والے شخص کے اندر جھانکنا تو بہت ہی مشکل ہے۔ لیکن انسان آخر انسان ہے۔ کسی نہ کسی وقت اپنے دکھ اور غم کو ظاہر کر ہی دیتا ہے‘‘

’’مجھے غم تو کوئی نہیں لیکن تنہائی بہت محسوس کرتا ہوں‘‘ اس بدلے ہوئے ڈیوڈ نے بھرائے ہوئے لہجے میں کہا

میں نے کہا ’’کیا تمہیں یقین ہے کہ تمہیں کوئی غم نہیں۔ تمہارے اندر سے آنسوؤں کا جو لاوا اُبلا ہے وہ تو کوئی اور ہی کہانی سنا رہا ہے‘‘

ڈیوڈ نے سوچتی ہوئی نظروں سے مجھے دیکھا اور کہنے لگا ’’مجھے تم پر حیرت ہو رہی ہے۔ تم دوسروں کی آنکھوں میں چھپی کہانیاں اتنی آسانی سے پڑھ لیتے ہو۔ میرے درجنوں دوست ہیں، جن کے ساتھ میری اکثر محفل بھی رہتی ہے۔ لیکن ان میں سے کسی نے آج تک نہ مجھے سمجھا ہے نہ میرے درد کو جانا ہے۔ لیکن تم براہ راست وہاں پہنچ گئے ہو جہاں آج تک کوئی نہیں پہنچ سکا‘‘

’’ڈیوڈ آج کل کے تیز رفتار زمانے میں کسی کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ دوسروں کے دل میں چھپے کرب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ اور تمہارے اس مغربی معاشرے میں لوگ دانستہ بھی ان خار دار راہوں سے بچ کر گزرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک زندگی صرف مسکراتے پھولوں کا نام ہے۔ وہ ان گلوں میں پوشیدہ نوکیلے کانٹوں سے صرفِ نظر کر لیتے ہیں تاکہ اس کا ذرا سا بھی منفی اثر ان کی خوشگوار زندگیوں پر نہ پڑے‘‘

’’تم صحیح کہہ رہے ہو۔ ہمارے یہاں ہر کسی کو بس یہی فکر ہوتی ہے کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ خوشگوار گزرے۔ بس آج کا دن اچھا گزر جائے۔ ہماری زندگیوں پر اپنے یا دوسروں کے غم کا سایہ نہ پڑے۔ زندگی کی ہموار راہوں پر کوئی کٹھن موڑ آئے تو یہ ہماری برداشت سے باہر ہوتا ہے۔ پھر کسی دوسرے انسان کا دکھ اور غم ہم کیسے سن اور محسوس کر سکتے ہیں۔ یہ شاید ہماری منفی سوچ کا ایک پہلو ہے‘‘

’’ہاں یہ اس مادی اور نفسانفسی پر مشتمل دور کا ایک ضرر رساں پہلو ہے‘‘ میں نے اس کی تائید کی۔

ڈیوڈ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’طارق مجھے نہیں معلوم کہ تم اس سوسائٹی کو کتنا جانتے ہو۔ لیکن آج میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ہمارے دِلوں سے محبت اور ہمدردی کا جذبہ اُڑ چکا ہے۔ ہمارے رشتے ناتے اور دنیاوی بندھن مفاد کی ڈور سے بندھے ہیں۔ شادیاں بھی جسمانی ضروریات کا کاروبار ہیں۔ بچے بے دلی سے پیدا کئے جاتے ہیں اور بے پرواہی سے پروان چڑھائے جاتے ہیں۔ مرد عورت کا رشتہ ایک دوسرے کی طلب اور ضرورت تک محدود ہو گیا ہے۔ جہاں جسمانی طلب پوری نہ ہو رہی ہو یا اس کی ضرورت نہ ہو وہاں رشتے ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جاتے ہیں۔ محبتوں کے دعوے کھوکھلے ہیں۔ اگر ایک بھی فریق اس رشتے سے فرار چاہتا ہو تو پھر کوئی رکاوٹ اس کے آڑے نہیں آتی۔ پھر یہ رشتہ صبح کے چمکتے سورج کے سامنے شبنم کے ننھے قطروں کی طرح بخارات بن کر تحلیل ہو جاتا ہے‘‘

ڈیوڈ کے اندر کا غبار زہریلے لفظوں کی شکل میں برآمد ہونا شروع ہو گیا تھا۔ میں نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا ’’ڈیوڈ مجھے اپنے بارے میں بتاؤ۔ تم نے شادی کی ہی نہیں یا نبھ نہیں سکی۔ یا تمہارے اکیلے پن کی کوئی اور وجہ ہے؟‘‘

ڈیوڈ کچھ دیر سر جھکائے سوچتا رہا اور پھر گویا ہوا ’’میں بھی معاشرے کی اس نفسا نفسی، خود غرضی اور بے وفائی کا شکار ہوا ہوں۔ میں بھی شروع لا اُبالی تھا۔ نوجوانی کے دور میں میرے مختلف عورتوں سے تعلقات رہے۔ اس میں کچھ مہینوں اور کچھ سالوں تک جاری رہے۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے صحیح معنوں میں ایک عورت سے محبت ہو گئی۔ اس وقت میری عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ جولیٹ میری زندگی میں ایک خوشگوار جھونکا بن کر آئی اور میرے ہوش و حواس پر چھا گئی۔ اس وقت میرا کاروبار بھی اپنے عروج پر تھا۔ ہم نے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا کام کیا۔ کاروبار سے چند ہفتوں کی چھٹی لی اور ہنی مون منانے یورپ چلے گئے۔ واپس آ کر میں اپنے کاروبار میں مصروف ہو گیا اور جولیٹ جو شادی سے پہلے جاب کرتی تھی اب گھر کی زیبائش و آرائش میں مصروف رہنے لگی۔ میری کاروباری مصروفیات بڑھنے لگیں۔ گھر کے اخراجات بھی کافی بڑھ چکے تھے۔ بہرحال میں دن رات پیسہ بنانے کے چکر میں مصروف ہو گیا۔ رات گئے گھر آتا تو جولیٹ میرا انتظار کر رہی ہوتی۔ البتہ ویک اینڈ ہم شاندار انداز میں گزارتے تھے۔ سال میں ایک مرتبہ چھٹیاں گزارنے بھی کہیں نہ کہیں ضرور جاتے تھے۔ میری زندگی کا محور جولیٹ اور میرا کاروبار تھا۔ اسی طرح تین برس سرعت سے گزر گئے۔ پھر ایک دن اس خاموشی میں پوشیدہ طوفان میری زندگی کو درہم برہم کرنے کے لئے سامنے آ ہی گیا۔ مجھے جولیٹ کی بے وفائی کا علم ہو گیا۔ بلکہ میں نے اسے رنگے ہاتھوں کسی کے ساتھ پکڑ لیا۔ جولیٹ نے کسی شرمندگی، پچھتاوے یا ندامت کا احساس کئے بغیر ڈھٹائی کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اسے سمجھانے بجھانے کی بہت کوشش کی۔ لیکن اس پر تازہ عشق کا بھوت اس شدت سے سوار تھا کہ اس نے میری کسی بات پر کان نہ دھرے۔ ناچار مجھے اسے طلاق دینا پڑی۔

میرے دل کی دنیا تو اس نے برباد کر ہی دی تھی۔ میرے گھر اور کاروبار سے بھی جاتے جاتے آدھا حصہ لے گئی۔ کچھ اس کی وجہ سے اور کچھ میری بے توجہی کی وجہ سے کاروبار کی ناؤ ڈوبتی چلی گئی۔ بالآخر یہ بالکل ٹھپ ہو گیا۔ کچھ عرصہ تو میں ادھر ادھر ہاتھ پیر مارتا رہا۔ بالآخر ایک سرکاری ادارے میں ملازمت مل گئی۔ جہاں اگلے بیس سال میں نے کام کیا۔ جولیٹ کی بے وفائی نے میری زندگی کی ہر صبح، ہر شام اور ہر شب میرے دل پر چرکے لگائے۔ پندرہ سال تک میں نے کسی عورت کو اپنی زندگی میں نہ آنے دیا۔ پھر میری ملاقات الزبتھ سے ہو گئی۔ آہستہ آہستہ ہمارے تعلقات پروان چڑھتے رہے جو بالآخر شادی پر منتج ہوئے۔ یہ شادی جوانی کے دیوانے جذبوں سے خالی تھی۔ اول تو ہم دونوں ہی شاید اپنی محبتوں کو کہیں اور لٹا چکے تھے۔ دوسرا یہ کہ اب ہمارے بڑھاپے کا زمانہ شروع ہو چکا تھا۔ میری سوچ تو یہی تھی کہ ایک دوسرے کے سہارے زندگی کا آخری حصہ خوشی خوشی گزار لیں گے۔ میری جوانی کا جوہر اگلے تین برسوں میں آہستہ آہستہ معدوم ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی الزبتھ کی محبت کا دیا بھی بجھتا چلا گیا۔

پھر ایک دن الزبتھ بھی مجھے چھوڑ کر مجھ سے کم عمر والے شخص کے ساتھ چلی گئی۔ جاتے جاتے وفا، چاہت اور عورت پر اعتبار کے بچے کھچے میرے ایمان کو بھی لے گئی۔ وہ دن اور آج کا دن میں نے کسی عورت کی طرف ہاتھ بڑھایا اور نہ کسی کا بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور نہ آئندہ ایسا کوئی ارادہ ہے‘‘

ڈیوڈ کی کہانی ختم ہوئی تو میں سوچ رہا تھا کہ یہ صرف ایک ڈیوڈ کی کہانی تو نہیں۔ طلاق تو اس معاشرے میں اب بچوں کا کھیل بن کر رہ گیا ہے۔ آسٹریلیا میں اتنے سالوں کے قیام کے دوران میں نے بے شمار رشتے ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھے ہیں۔ بعض اوقات وجہ اتنی معمولی ہوتی ہے کہ یقین نہیں آتا۔ مثلاً ایک صاحب نے دُکھ بھرے لہجے میں مجھے بتایا کہ اس کی بیوی پانچ سال کی رفاقت کے بعد اچانک چھوڑ کر چلی گئی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ ان صاحب نے بیگم کے کام سے گھر پہنچنے سے پہلے کھانا تیار نہیں کیا تھا۔ اس بات پر تو تو میں میں شروع ہوئی۔ دوسرے دن ان دونوں کے درمیان ہر تعلق ختم ہو چکا تھا۔ ایک محترمہ نے بتایا کہ دس سالہ ازدواجی زندگی گزارنے کے بعد اس کی خاوند سے اچانک علیحدگی ہو گئی۔ وجہ صرف اتنی تھی کہ میاں کی تنخواہ بڑھ گئی۔ اسی حساب سے ان کا لائف سٹائل بھی تبدیل ہو گیا۔ یورپی معاشرے کی روایت کی رو سے بیوی گھر کے اخراجات، بلوں اور چھٹیوں وغیرہ میں پچاس فیصد شامل کرتی ہے تو ان کی ازدواجی زندگی کی گاڑی چلتی ہے۔ لیکن یہ محترمہ خاوند کے مقابلے میں کم آمدنی رکھتی تھیں۔ مساوی حصہ ادا کرنے سے قاصر تھیں۔ لہذا میاں نے اس کم آمدنی والی بیوی سے علیحدگی اختیار کر کے کسی برابر کی حیثیت والی سے بیاہ رچا لیا۔ بچوں کو اپنے حصے کا ماہانہ خرچ ادا کرنے کے وعدے کے ساتھ ان کی ماں کے ساتھ روانہ کر دیا گیا۔

اب ساری زندگی بچے باپ کے سائے سے محروم رہیں گے۔ کچھ عرصے کے بعد بچوں کی ماں بھی نئی شادی کر کے نئے خاوند کے ساتھ زندگی کے مزے لوٹنے لگے گی۔ جہاں تک بچوں کا تعلق ہے اس معاشرے میں بہت بڑی تعداد میں بچے باپ کے بغیر اور ایک کثیر تعداد ماں اور باپ دونوں کے بغیر پروان چڑھتی ہے۔ یہ بچے بڑے ہو کر جب والدین بنتے ہیں تو وہی سلوک اپنی اولاد کے ساتھ روا رکھتے ہیں۔ اس طرح یہ سلسلہ نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ والدین اور اولاد کی باہمی محبت اور احترام کا جذبہ مفقود ہے۔ بچے ہوش سنبھالتے ہی باپ کو اولڈ مین کہہ کر مضحکہ اڑاتے ہیں۔ کسی باپ کی یہاں یہ مجال نہیں کہ اولاد کو زبردستی غلط کام سے روک سکے۔ وہ سکول نہ جائیں، نشہ کریں، بدتمیزی کریں یا والدین کی حکم عدولی کریں، والدین ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ حتیٰ کہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں اکثر لڑکے لڑکیاں والدین کو خدا حافظ کہہ کر اپنی الگ دنیا بسا لیتے ہیں۔ وہ والدین بہت ہی خوش قسمت ہوں گے جن کی اولاد گاہے بگاہے انہیں ملنے آتی ہو یا فون پر رابطہ رکھتی ہو۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ بہت سے لڑکے لڑکیاں جب والدین سے الگ ہوتے ہیں تو پھر دوبارہ رابطہ نہیں کرتے۔ والدین بھی اس معاشرے کے پروردہ ہوتے ہیں۔ وہ بھی زیادہ پرواہ نہیں کرتے۔ بعض اوقات اگلی پوری زندگی اولاد ان کو اپنی شکل بھی نہیں دکھاتی۔

مرنے کے بعد سرکاری ادارے لے جا کر دفنا دیتے ہیں۔ نہ اولاد میت کو کندھا دیتی ہے اور نہ قبر پر جا کر اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتی ہے۔ سڈنی میں میرے گھر سے ملحق ہی ہاؤسنگ کمیشن (غریبوں کے لئے حکومت کی طرف سے فراہم کردہ رہائش) کی بلڈنگ ہے۔ اس میں ایک ایک بیڈ روم والے چار اپارٹمنٹ ہیں۔ ہر اپارٹمنٹ ایک سنگل فرد کو الاٹ ہے۔ یہ چاروں ریٹائرڈ بوڑھے ہیں جو زندگی کا آخری حصہ حکومت کی فراہم کردہ رہائش گاہ میں حکومت کی پنشن سے گزار رہے ہیں۔ ان میں سے تین بوڑھوں کی اولاد ہے۔ ایک کی بیوی بھی ہے۔ آج تک میں نے کسی کے لڑکے یا لڑکی کو یہاں آ کر بوڑھے باپ سے ملاقات کرتے نہیں دیکھا۔ ان میں ایک بوڑھا پچھلے سال سرکاری ہسپتال میں کسمپرسی کی حالت میں چل بسا۔ مرنے سے ایک روز قبل میں اسے ملنے ہسپتال گیا۔ میں نے اس سے پوچھا ’’لز تمہاری حالت اچھی نہیں ہے۔ اگر تم کہو تو تمہاری بیوی اور بچوں کو اطلاع دے دوں؟‘‘

لز جو ہسپتال میں کسی اپنے کی دیکھ بھال سے مکمل طور پر محروم تھا فوراً بولا ’’بالکل نہیں! بالکل نہیں بلانا۔ میں سکون سے مرنا چاہتا ہوں‘‘

دوسرے دن ہسپتال والوں نے فون کر کے اطلاع دی کہ اسی رات کو وہ ’’سکون سے‘‘ مر گیا۔

انہی بوڑھوں بروس بھی شامل ہے۔ اس کی بیوی تو کافی عرصہ پہلے مر گئی تھی۔ لیکن اس کا ایک جوان بیٹا اور ایک جوان بیٹی ہے۔ پچھلیدس سالوں سے ان دونوں میں سے ایک بھی اسے دیکھنے نہیں آیا۔ پچھلے سال اس کی بیٹی نے فون کیا کہ وہ میلبورن سے نیوزی لینڈ جاتے ہوئے سڈنی ائر پورٹ پر دو گھنٹے رکے گی۔ اس رات بروس خوشی سے سو نہ سکا۔ صبح سویرے تیار ہو کروہ ائر پورٹ پہنچ گیا۔ حالانکہ اس کی بیٹی بارہ بجے پہنچنے والی تھی۔ اس کی بیٹی پہنچی اور دونوں باپ بیٹی نے سات سال کے بعد ایک گھنٹہ اکھٹے گزارا۔ پچھلے ایک سال سے بروس بیٹی سے اس ملاقات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے۔ اسے بیٹے کی شکل بھی بھول چکی ہے۔ بروس کو اس بات کا علم نہیں ہے کہ آئندہ اس کی بیٹی یا بیٹے سے ملاقات ہو سکے گی یا نہیں۔

یورپ، امریکہ اور آسٹریلیا کے باسیوں کے لئے ڈیوڈ کی کہانی کوئی نئی کہانی نہیں۔ یہاں ہر محلے، ہر گلی، ہر کوچے میں ایسے کئی ڈیوڈ ملیں گے۔ اس کے باوجود نہ جانے کیوں ایسی کہانی ہمیشہ مجھے بے چین سی کر دیتی ہے۔ میں اسے ضرورت سے زیادہ اہمیت دینے لگتا ہوں۔ یہی ہوا کہ میرے سفر کے ان ساتھیوں کے دلوں میں چھپی کہانیاں سامنے آئیں تو ان میں سے بعض میرے دل و دماغ پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئیں۔ ان میں سے کچھ اس سفر نامے کے ذریعے آپ تک پہنچا رہا ہوں۔ شاید ان کہانیوں سے میرے سفر نامے کی اصل رواداد کی روانی متاثر ہو رہی ہو لیکن اپنے اردگرد کے زندہ کرداروں کے اندر کی دلچسب دنیا کو نظر انداز کر کے صرف خستہ عمارتوں اور بوسیدہ دیواروں کو موضوع بنانا مجھے گوارا نہیں۔ کیونکہ انسان کے اندر جو دنیا آباد ہے وہ ان تاریخی عمارتوں اور فطری نظاروں سے کہیں زیادہ دلچسپی کی حامل ہے۔ انسانوں کے اندر جھانکنا اور ان کے اندر کی کہانیوں کو پڑھنا اور پھر خدا اگر ہمت دے تو انہیں دوسروں کے لئے پیش کرنا ایک مشکل مگر دلچسپ کام ہے۔ انسانوں کی آپ بیتیاں افسانوی داستانوں سے بھی زیادہ دلچسپ اور پراثر ہوتی ہیں۔ کیونکہ ان میں جذبوں کی حدت اور رشتوں کی مہک شامل ہوتی ہے۔ سفر کے ساتھ ساتھ اپنے ہم سفر چند مزید دلچسپ کرداروں کی کہانیاں سامنے آتی رہیں گی۔

 

آیا اکیلا ہوں واپسی کا علم نہیں

 

کاغذی کار روائی مکمل کرنے، سامان بس میں لدوانے اور مسافروں کے بیٹھ جانے کے بعد بس لندن کی پر پیچ گلیوں اور مصروف شاہراہوں سے گزرتی ہوئی ان دیکھی منزلوں کی جانب ہزاروں میل لمبے سفر کے لئے روانہ ہو گیا۔ لندن اتنا بڑا شہر ہے کہ چند دنوں بلکہ چند ہفتوں میں بھی اس کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔ لندن کے اکثر باسی بھی پورے لندن سے واقف نہیں۔ جو لوگ شمال میں رہتے ہیں اور سٹی سنٹر میں جاب کرتے ہیں تو ان کا دائرہ سفر وہی رہتا ہے۔ وہ جنوب سے نابلد ہی رہتے ہیں۔ اس طرح جنوب والے شمالی لندن کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے۔ ان کی دلچسپی کی ہر چیز ان کے اپنے علاقے میں دستیاب ہو تو انہیں لندن کے دوسرے حصوں میں جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی۔ میں لندن کے ایسے درجنوں باسیوں سے ملا ہوا ہوں جنہوں نے ساری زندگی کسی مخصوص علاقے اور اس کے اِردگرد گزار دی۔ وہ شہر کے دوسرے حصوں سے اتنے ہی ناواقف ہیں جتنا ہم دوسرے ملکوں سے جانے والے سیاح ہوتے ہیں۔ لندن کی جن علاقوں سے ہم گزرتے ہماری گائیڈ مختصراً اس کے بارے میں بتاتی جا رہی تھی۔

ڈیڑھ گھنٹے میں ہماری بس لندن کے مصروف حصے سے نکل کر کھیتوں، چراگاہوں اور سرسبز فارموں کے ساتھ ساتھ کشادہ شاہراہ پر تیز رفتاری سے دوڑنے لگی۔ ہمارے اِردگرد کا منظر خاصا خوبصورت تھا۔ برطانیہ کا یہ علاقہ کہیں تو ہموار فارموں پر مشتمل ہے جہاں مختلف سرسبز فصلیں اپنی بہار دکھا رہی تھیں اور کہیں ہمارے خطہ پوٹھوہار کی طرح اونچا نیچا اور ڈھلوانی علاقہ شروع ہو جاتا تھا۔ لیکن ایک قدر ہر دو علاقوں میں مشترک تھی۔ وہ تھا درخت اورسبزہ۔ کوئی جگہ سبزے اور پھولوں سے خالی نہیں تھی۔ عام درخت، پھل دار درخت، پھولوں بھرے پودوں کے فارم، صحت مند مویشیوں کے فارم اور صحت مند گوروں کی جفا کشی کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے تھے۔ لندن جیسے مصروف شہر سے نکل کر برطانیہ کا یہ دیہی علاقہ جو قدرتی حسن سے مالامال تھا دل و دماغ کو فرحت اور تازگی کا احساس بخش رہا تھا۔

لندن سے روانہ ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہماری گائیڈ نے ایک چھوٹا سا مائیکرو فون لیا اور مسافروں سے اپنا اور ڈرائیور کا تعارف کروایا۔ یہ گائیڈ جو دراز قد، بھرے بھرے جسم، ملیح چہرے اور بڑی بڑی آنکھوں کی وجہ سے جنسِ مخالف کے لئے اپنے اندر بہت کشش رکھتی تھی کا نام مولی تھا اور اس کا تعلق ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم سے تھا۔ مولی کی عمر تیس کے لگ بھگ تھی۔ ڈچ ہونے کے باوجود اس کی انگریزی بہت اچھی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے اپنی تعلیم لندن میں حاصل کی تھی۔ انگریزی اور ڈچ کے علاوہ وہ جرمن اور سوئس زبان بھی روانی سے بول لیتی تھی۔ فرانسیسی بھی اچھی خاصی جانتی تھی۔ مولی کا جنرل نالج عموماً اور تاریخ کا علم خصوصاً بہت اچھا تھا۔ جب وہ کسی علاقے کی تاریخ بیان کرتی تو گائیڈ کی بجائے تاریخ کی پروفیسر معلوم ہوتی تھی۔ وہ پروفیسروں کی طرح خشک علم ہی نہیں جھاڑتی تھی بلکہ اس کی باتوں میں مزاح کی پھلجڑیاں حاضرین کو مسکرانے پر مجبور کرتی رہتی تھیں۔ جہاں ضرورت ہوتی وہاں وہ مزاحیہ فن کاروں کی طرح لطیفے سنانے لگتی تھی۔ مولی کی باتوں اور لطیفوں میں ہلکا پن اور فحش پن نہیں تھا۔ ورنہ پیرس اور ایمسٹرڈم میں مقامی گائیڈوں کی گفتگو کا بڑا حصہ فحش لطیفوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

تھوڑی دیر بعد ہی مولی اپنے بے تکلفانہ انداز سے سیاحوں میں گھل مل گئی۔ ٹریفالگر کمپنی کی طرف سے مولی کے علاوہ اس بس کا ڈرائیور فشر اگلے دو ہفتے کے لئے ہمارے ہمراہ تھا۔ فشر کا تعلق جرمنی سے تھا۔ اس کی انگریزی بس واجبی سی تھی۔ ویسے بھی کم گو اور کام سے کام رکھنے والا تھا۔ تاہم ڈرائیور بہت اچھا تھا۔ اس پورے سفر میں اس کی ڈرائیونگ سے کسی سیاح کو کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ہاں اس کی خاموشی بلکہ سرد مہری سے بعض مسافر جھنجھلا سے جاتے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کا مزاج سمجھ آتا تو لوگوں کا گلہ جاتا رہتا۔ آغاز کے برعکس اختتامِ سفر پر مسافر فشر سے خوش نظر آئے اور اس کا شکریہ بمع لفافہ ادا کیا۔

مولی نے کوچ کی ہر مسافر فیملی کو سفر کے بارے میں کچھ معلوماتی بروشر اور ایک بڑا سا نقشہ دیا جس میں سفر کا رُوٹ دکھایا گیا تھا۔ اس سے مسافروں کو اپنے رُوٹ اور اس میں آنے والے مقامات کا پہلے سے اچھی طرح علم ہو جاتا۔ میں امریکہ سے آئی ہوئی انڈین فیملی کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مولی نے مجھے وہ معلوماتی بروشر نہیں دیئے۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ میں اسی فیملی کا حصہ ہوں۔ جب میں نے اسے بلا کر بروشرز اور نقشہ مانگا تو اس نے فوراً ہی نکال کر دے دیئے اور معذرت کرتے ہوئے کہا ’’سوری میں سمجھی آپ اکھٹے ہیں‘‘

اس کا اشارہ میری اگلی سیٹ پر بیٹھی ہوئی انڈین فیملی کی طرف تھا۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا ’’یوں تو ہم سب اکھٹے ہیں لیکن گھر سے میں اکیلا ہی آیا ہوں۔ ہاں واپسی کا علم نہیں۔ شاید صورتِ حال بدل جائے‘‘

مولی نے آنکھیں گھماتے ہوئے کہا ’’اچھا آپ کے ساتھ کوئی نہیں ہے؟‘‘

میں نے مسکراتے ہوئے مولی کو سرتاپا دیکھا اور کہا ’’مجھے بتایا گیا تھا کہ ہمارے ساتھ ایک حسین اور ہنس مکھ گائیڈ ہو گی۔ جس کے ہوتے ہوئے آپ خود کو اکیلا نہیں محسوس کریں گے۔ مجھے کیا علم تھا کہ وہ حسین اور ہنس مکھ گائیڈ ہی مجھے اکیلا ہونے کا احساس دلائے گی‘‘

مولی قدرے شرمائی پھر مسکرائی ’’تعریف کا شکریہ! میرا یہ مقصد نہیں تھا۔ ہاں میرے ہوتے ہوئے اس بس میں آپ کو تنہائی کا احساس ہر گز نہیں ہو گا‘‘

وہ بہت زیرک تھی۔ اس نے بہت لطیف پیرائے میں اپنی اور میری حدود کو واضح کر دیا تھا کہ وہ ہمارے سفر کی گائیڈ تھی اور بس۔ ’’لیکن مولی ہم جب تک لندن واپس نہیں آ جاتے ہم حالتِ سفر میں ہوں گے۔ اگر بس میں نہیں ہوں گے تو بھی مسافر ہی ہوں گے۔ ویسے بھی اکیلے پن کا احساس انسان کو زیادہ تر تنہائی میں ہی ہوتا ہے۔ وہاں میرا کون رفیق ہو گا‘‘ میں بھی اسی سوسائٹی میں رہتا تھا۔ کب چوکنے والا تھا۔

مولی سے جب کوئی جواب نہیں بن پڑا تو مسکراتے ہوئے بولی ’’آپ باتیں اچھی کر لیتے ہیں۔ میں ذرا دوسرے مسافروں کو یہ نقشے وغیرہ دے دوں پھر بات ہو گی‘‘

میں نے کہا ’’ضرور! لیکن ٹریفالگر کی ڈیل کے مطابق ہماری تنہائی کا خاص خیال رکھیئے گا‘‘

وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔

لندن سے دو گھنٹے کے سفر کے بعد ہماری کوچ Dover Heights کی پہاڑیوں سے گزر کر ڈوور پورٹ پر جا پہنچی۔ یہاں سے ہمیں بس سمیت بحری جہاز پر سوار ہونا تھا۔ اس سے پہلے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ نے ہمارے پاسپورٹوں اور ویزوں کو اچھی طرح جانچا پرکھا اور پھر آگے بڑھنے دیا۔ بچپن میں دیوؤں اور اژدہوں کی کہانیوں میں ہم سنتے تھے کہ وہ پورے پورے شہر کو کسطرح نگل لیتے تھے۔ بالکل اسی طرح ہمارے سامنے کھڑے اس دیو ہیکل جہاز کیپیٹ میں بڑی بڑی بسیں، درجنوں کاریں، ٹرک اور ہزاروں افراد اس طرح گم ہوتے جا رہے تھے کہ نئے دور کے اس دیو کو کہانی کے دیوؤں پر برتری حاصل تھی۔ ہماری کوچ بھی اس جہاز کے پیٹ میں سما گئی تو تمام مسافر بس سے نکل کر جہاز میں پھیل گئے۔ ہماری کوچ کے علاوہ ایسی درجنوں اور کوچیں اور ہزاروں مسافر جہاز میں بھرے تھے۔ یہ ناشتے کا وقت تھا۔ اس لئے زیادہ تر مسافر ناشتہ کرنے ریسٹورنٹ جا پہنچے۔ کچھ مسافروں کو ناشتے سے زیادہ ڈیوٹی فری شاپ کی سستی شراب سے دلچسپی تھی۔ لہذا وہ سیدھے بار پر جا کر ناؤ نوش میں مصروف ہو گئے۔ شاید ان کا ناشتہ، لنچ اور ڈنر یہی تھا۔ کچھ جہاز میں واقع جوا خانے میں جا گھسے اور پوکر مشینوں سے الجھنے لگے۔ جہاز پر سوئمنگ پول، بلیئرڈ کے میز اور ٹیبل ٹینس کی سہولت بھی موجود تھی۔ میں ناشتہ کر چکا تھا۔ تاہم قطار میں لگ کر کافی خریدی اور ٹہلتا ٹہلتا جہاز کے عرشے کی طرف نکل گیا۔

دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح جہاز کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے تھے۔ تاہم سفید فام لوگوں کی اکثریت تھی۔ کہیں کہیں کالے افریقن اور کہیں میری طرح گندمی رنگت والے ایشیائی بھی تھے۔ اس پورے سفر میں جس میں مختلف مقامات پر ہماری مڈ بھیڑ مختلف سیاحتی گروپوں سے رہی مجھے ایک بھی پاکستانی سیاح نہیں ملا۔ ہاں چند ایک مقامات پر بھارتی سیاح ضرور ملے۔ ان میں سے بھی اکثر بھارت کے صوبے گجرات سے تعلق رکھتے تھے۔ شاید بھارت کے دوسرے صوبوں کے لوگ بھی پاکستانیوں کی طرح سیر و سیاحت کو فضول تصور کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کی سیاحت سے عدم دلچسپی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یہاں سڈنی میں میرے درجنوں دوست ایسے ہیں جو پندرہ بیس سال سے یہاں رہ رہے ہیں۔ انہوں نے سڈنی سے باہر کے آسٹریلیا کی جھلک تک نہیں دیکھی۔ ہم میں سے بہت کم ملبورن، برسبین، ایڈیلیڈ یا ہوبارٹ گئے ہیں۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں کہ انہوں نے نیوکاسل اور وولنگ کانگ تک جانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ اسی طرح جب میں یارک شائر میں تھا تو میرے میزبان آصف کریم سمیت کئی پاکستانیوں نے لندن نہیں دیکھا تھا۔ حالانکہ برطانیہ چھوٹا سا ملک ہے اور اسے دیکھنے کے لئے زیادہ وقت اور سرمایہ درکار نہیں ہے۔ وقت اور سرمائے کی بہت سے پاکستانیوں کے پاس کو ئی کمی بھی نہیں۔ لیکن ان کے شوق ذرا وکھرے، قسم کے ہوتے ہیں۔ سیر و سیاحت ان کی نظر میں گوروں کے چونچلے ہیں۔ میرے ایک دوست کے بقول اس سے تو بہتر ہے کہ میں پاکستان میں اپنے گھر میں ایک اور کمرہ بنوا لوں۔ خیر یہ اپنی اپنی پسند کی بات ہے۔

اس جہاز میں کرنسی تبدیل کرنے کا کاؤنٹر بھی موجود تھا۔ میں نے وہاں جا کر کچھ آسٹریلین ڈالرز کو فرانسیسی کرنسی میں تبدیل کروایا۔ ان کرنسی تبدیل کرنے والوں کا کمیشن اچھا خاصا ہوتا ہے۔ اس وقت تک یورپ میں یورو رائج نہیں ہوا تھا۔ اس لئے ہر ملک میں جا کر وہاں کی کرنسی خریدنا پڑتی تھی۔ پھر دوبارہ کمیشن ادا کر کے دوسرے ملک کی کرنسی لینا پڑتی تھی۔ اس طرح اگر سو آسٹریلین ڈالر کو پہلے برطانوی، پھر فرانسیسی، پھر جرمن، پھر سوئس، پھر ڈچ، پھر بلجیم اور پھر آسٹریلین کرنسی میں تبدیل کروائیں تو کمیشن ادا کرتے کرتے آپ کے ہاتھ میں صرف پچاس ڈالر آئیں گے۔ اس طرح صرف کمیشن ادا کرتے کرتے آپ کی جیب ہلکی ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس تجربے سے میں نے یہی سیکھا کہ جس ملک میں جائیں وہاں اتنی ہی کرنسی تبدیل کروائیں جتنی ضرورت ہو۔

آج کل تو کریڈٹ کارڈ اور اے ٹی ایم نے مشکل کافی آسان کر دی ہے۔ میں نے بھی متعدد ملکوں میں جہاں ضرورت پڑی کریڈٹ کارڈ استعمال کیا۔ اس کے علاوہ ہر ملک میں حسبِ ضرورت اے ٹی ایم سے آسانی سے کیش نکلوایا جا سکتا ہے۔ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی نے جو آسانیاں پیدا کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ جہاں بھی ہوں اے ٹی ایم کے ذریعے دنیا کے دوسرے سرے پر موجود ملک کے اکاؤنٹ میں جمع شدہ اپنی رقم نکلوا سکتے ہیں۔ لہذا میں نے آسٹریلیا میں اپنے اکاؤنٹ سے برطانیہ، جرمنی، فرانس ہر جگہ رقم نکلوائی۔ اتنا ضرور ہے کہ جس ملک میں ہوں اے ٹی ایم سے اس ملک کی کرنسی نکلتی ہے۔ صارف کو کرنسی تبدیل کرنے کی فیس پھر بھی ادا کرنا پڑتی ہے۔ جو آپ کا بنک آپ سے چارج کر لیتا ہے۔ بہرحال یہ سہولت اپنی جگہ کارآمد ہے۔ کریڈٹ اور کی کارڈ کی شکل میں دو پلاسٹک کارڈ لے کر آپ دنیا کے سفر پر نکل سکتے ہیں۔ دنیا کا ہر شاپنگ سنٹر اور ہر بینک ان دو کارڈز کو خوش آمدید کہتا ہے۔ کریڈٹ کارڈ کو تو کھل جا سم سم والی ماسٹر کی کہا جا سکتا ہے۔

ستر منٹ کا یہ بحری سفر زیادہ تر مسافروں نے کھاتے پیتے، کھیلتے اور گھومتے گھماتے گزارا۔ اس دوران ہم انگلش چینل کراس کر کے فرانس کی پورٹ کالس Calais جا پہنچے۔ اہلِ فرانس اس چینل کو فرنچ چینل کہتے ہیں۔ انگریزوں اور فرانسیسیوں کا یہ تنازعہ کبھی ختم نہیں ہو گا۔ ہمیں اس پہ ہلکان ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ کالس کے ساحل کے ساتھ جہاز لگا تو مسافر سیڑھیاں اتر کر اپنے اپنے مطلوبہ ڈیک پر جانے لگے جہاں ان کی بسیں یا کاریں موجود تھیں۔ میں ڈھونڈتا ڈھونڈتا اپنی بس تک پہنچا تو میرے علاوہ تمام مسافر بس میں موجود تھے۔ اس وقت تک جہاز کنارے لگ چکا تھا اور بسیں سٹارٹ ہو رہی تھیں۔ مجھے بس ڈھونڈنے میں کچھ دیر اس لئے لگ گئی کہ میں نے اُترتے وقت یہ نوٹ نہیں کیا تھا کہ ہماری بس کس فلور پر پارک ہے۔ اس لئے ڈھونڈتا ہوا ایک فلور سے دوسرے اور پھر تیسرے پر پہنچا تو کچھ دیر لگ گئی۔ پہلا دن ہونے کی وجہ سے اپنی بس اور ہم سفروں کے چہرے بھی زیادہ شناسا نہیں ہوئے تھے۔

میرے پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ہماری کوچ بھی قطار میں لگ کر اژدھے کے پیٹ سے رینگ رینگ کر باہر نکلنے لگی۔ باہر نکلے تو فرنچ امیگریشن نے پاسپورٹوں کے بال کی کھال اتارنا شروع کر دی۔ (حالانکہ پاسپورٹ پر بال ہوتے ہیں نہ کھال)۔ غنیمت تھا کہ آسٹریلین، امریکن، نیوزی لینڈ، ساؤتھ امریکن یا یورپین پاسپورٹوں کو دیکھ کر وہ ویزہ لگانے میں تامل سے کام نہیں لیتے تھے۔ خدا جانے پاکستانی، بھارتی یا دوسرے ایشیائی ممالک کے پاسپورٹوں پر ان کی کارروائی کتنی مشکل اور پیچیدہ ہوتی ہو گی۔ کیونکہ اس فرنچ چینل کو غیر قانونی طریقے سے عبور کرنے کے چکر میں کئی ایشیائی نوجوان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ وہ ٹرکوں کے اندر جہاں پھل اور سبزیاں لدی ہوتی ہیں، چھپ کر سرحد پار کرتے ہیں۔ تنگ جگہ میں سانس بند ہونے کے باعث کتنے ہی لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ میرے لندن کے قیام کے دوران ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ چھ نوجوان اپنی جان ہار بیٹھے تھے۔ وہاں کے اخبارات اور ٹیلی ویژن پر وہ خبر کافی نمایاں انداز میں آئی تھی۔ اسی لئے مجھے ابھی تک یاد ہے۔

انسانی سمگلنگ کا دھندہ صدیوں سے چل رہا ہے۔ مستقبل میں بھی اس کے ختم ہونے کے امکانات نہیں ہیں۔ غیر قانونی طریقے سے نقل مکانی کرنے والوں کا یہ جوا بعض اوقات کامیاب ہو جاتا ہے اور کبھی انہیں ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔ دنیا کے ایک حصے میں انتہائی غربت و افلاس اور دوسرے حصے میں دولت خوشحال زندگی اور آزادی کی چکا چوند ان واقعات کے ظہور پذیر ہونے کا سبب بنتی رہیں گی۔

٭٭٭

 

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل