فہرست مضامین
- شعلۂ صدا
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- طلسمِ گنبدِ بے در کسی پہ وا نہ ہوا
- کسے خبر جب میں شہرِ جاں سے گزر رہا تھا
- محل میں کون سرِ شام آ کر ایسے پتھر مارتا ہے
- افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں
- خبر ملی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مجھے
- وہ رت جگا تھا کہ افسونِ خواب طاری تھا
- آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
- صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں
- کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا
- بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایا دیکھ کر
- جمع ہیں سارے مسافر ناخدائے دل کے پاس
- جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت
- میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
- ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں
- خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا
- زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
- تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
- رخصتِ رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
- کلیوں کا تبسم ہو، کہ تم ہو، کہ صبا ہو
- منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے
- اور کچھ تیرے تصور کے سوا کام نہیں
- آباد اگر نجد کا ویرانہ نہیں ہے
- شباب آیا، کسی بُت پر فدا ہونے کا وقت آیا
شعلۂ صدا
اخترؔ ہوشیار پوری
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
طلسمِ گنبدِ بے در کسی پہ وا نہ ہوا
شرر تو لپکا مگر شعلۂ صدا نہ ہوا
ہمیں زمانے نے کیا کیا نہ آئینے دکھلائے
مگر وہ عکس جو آئینہ آشنا نہ ہوا
بیاضِ جاں میں سبھی شعر خوب صورت تھے
کسی بھی مصرعِ رنگیں کا حاشیہ نہ ہوا
نہ جانے لوگ ٹھہرتے ہیں وقتِ شام کہاں
ہمیں تو گھر میں بھی رکنے کا حوصلہ نہ ہوا
وہ شہر آج بھی میرے لہو میں شامل ہے
وہ جس سے ترکِ تعلق کو اک زمانہ ہوا
یہی نہیں کہ سرِ شب قیامتیں ٹوٹیں
سحر کے وقت بھی ان بستیوں میں کیا نہ ہوا
میں دشتِ جاں میں بھٹک کر ٹھہر گیا اختؔر
پھر اس کے بعد مِرا کوئی راستہ نہ ہوا
٭٭٭
کسے خبر جب میں شہرِ جاں سے گزر رہا تھا
زمیں تھی پہلو میں سورج اک کوس پر رہا تھا
ہوا میں خوشبوئیں میری پہچان بن گئی تھیں
میں اپنی مٹی سے پھول بن کر ابھر رہا تھا
وہ کیسی چھت تھی جو مجھ کو آواز دے رہی تھی
وہ کیا نگر تھا، جہاں میں چپ چاپ اتر رہا تھا
میں دیکھتا تھا کہ انگلیوں میں دِیئے کی لو ہے
میں جاگتا تھا کہ رنگ خوابوں میں بھر رہا تھا
یہ بات الگ ہے کہ میں نے جھانکا نہیں گلی میں
یہ سچ ہے، کوئی صدائیں دیتا گزر رہا تھا
یہ چند بے حرف و صوت خاکے مِرا اثاثہ
میں جن کو غزلوں کا نام دے کر سنور رہا تھا
زمانہ شبنم کے بھیس میں آیا اور دعا دی
میں زرد رت میں جب اپنی بانہوں میں مر رہا تھا
عجیب سرگوشیوں کا عالم تھا انجمن میں
میں سن رہا تھا، زمانہ تنقید کر رہا تھا
مجھے کسی سے نقب زنی کا خطر نہیں تھا
میں اختؔر اپنے ہی جسد خاکی سے ڈر رہا تھا
٭٭٭
محل میں کون سرِ شام آ کر ایسے پتھر مارتا ہے
روز اک تازہ کانچ کا برتن ہاتھ سے گِر کر ٹوٹتا ہے
مکڑی نے دروازے پہ جالے دور تلک بُن رکھے ہیں
پھر بھی کوئی گزرے دنوں کی اوٹ سے اندر جھانکتا ہے
شور سا اٹھتا رہتا ہے دیواریں بولتی رہتی ہیں
شام ابھی تک آ نہیں پاتی کوئ کھلونے توڑتا ہے
اول شب کی لوری بھی کب کام کسی کے آتی ہے
دل وہ بچہ اپنی صدا پر کچی نیند سے جاگتا ہے
اندر باہر کی آوازیں اک نقطے پر سمٹی ہیں
ہوتا ہے گلیوں میں واویلا میرا لہو جب بولتا ہے
میری سانسوں کی لرزش منظر کا حصہ بنتی ہے
دیکھتا ہوں میں کھڑکی سے جب شاخ پہ پتہ کانپتا ہے
میرے سرہانے کوئ بیٹھا ڈھارس دیتا رہتا ہے
نبض پہ ہاتھ بھی رکھتا ہے ٹوٹے دھاگے بھی جوڑتا ہے
بادل اٹھے یا کہ نہ اٹھے بارش بھی ہو یا کہ نہ ہو
میں جب بھیگنے لگتا ہوں وہ سر پر چھتری تانتا ہے
وقت گزر نے کے ہم راہ بہت کچھ سیکھا اختؔر نے
ننگے بدن کو کرنوں کے پیراہن سے اب ڈھانپتا ہے
٭٭٭
افق افق نئے سورج نکلتے رہتے ہیں
دیئے جلیں نہ جلیں، داغ جلتے رہتے ہیں
مِری گلی کے مکیں یہ مِرے رفیقِ سفر
یہ لوگ وہ ہیں جو چہرے بدلتے رہتے ہیں
زمانے کو تو ہمیشہ سفر میں رہنا ہے
جو قافلے نہ چلے، رستے چلتے رہتے ہیں
ہزار سنگ گراں ہو، ہزار جبر زماں
مگر حیات کے چشمے ابلتے رہے ہیں
یہ اور بات کہ ہم میں ہی صبر و ضبط نہیں
یہ اور بات کہ لمحات ٹلتے رہتے ہیں
یہ وقت شام ہے یا رب! دل و نظر کی ہو خیر
کہ اس سمے میں تو سائے بھی ڈھلتے رہتے ہیں
کبھی وہ دن تھے زمانے سے آشنائی تھی
اور آئینے سے اب اخترؔ بہلتے رہتے ہیں
٭٭٭
خبر ملی ہے غمِ گردشِ جہاں سے مجھے
کہ دیکھتا ہے کوئ چشمِ مہرباں سے مجھے
تِرا خیال تھا، تیری نظر کے ساتھ گیا
زمانہ ڈھونڈ کے لائے گا اب کہاں سے مجھے
کہیں یہ تم تو نہیں، میری آرزو تو نہیں
بلا رہا ہے کوئ بامِ کہکشاں سے مجھے
شجر کہاں تھے صلیبیں گڑی تھیں گام بہ گام
رہِ طلب میں گزرنا پڑا کہاں سے مجھے
جہاں نِگاہ کو یارائے دَم زدن نہ ہوا
پیام آتے نہیں کیا اس آستاں سے مجھے
میں اجنبی تھا،۔ یہاں کون آشنا تھا مِرا
زمانہ جان گیا تیری داستاں سے مجھے
متاعِ زِیست تھے جو خواب، اخترؔ آج بھی ہیں
کبھی گِلہ نہ ہوا عمرِ رائے گاں سے مجھے
٭٭٭
وہ رت جگا تھا کہ افسونِ خواب طاری تھا
دِیئے کی لَو پہ ستاروں کا رقص جاری تھا
میں اس کو دیکھتا تھا دم بخود تھا حیراں تھا
کسے خبر وہ کڑا وقت کتنا بھاری تھا
گزرتے وقت نے کیا کیا نہ چارہ سازی کی
وگرنہ زخم جو اس نے دیا تھا، کاری تھا
دیارِ جاں میں بڑی دیر میں یہ بات کھلی
مِرا وجود ہی خود ننگِ دوست داری تھا
کسے بتاؤں میں اپنی نوا کا رمز اخترؔ؟؟
کہ حرف جو نہیں اترے میں ان کا قاری تھا
٭٭٭
آندھی میں چراغ جل رہے ہیں
کیا لوگ ہوا میں پل رہے ہیں
اے جلتی رُتو! گواہ رہنا
ہم ننگے پاؤں چل رہے ہیں
کہساروں پہ برف جب سے پگھلی
دریا تیور بدل رہے ہیں
مٹی میں ابھی نمی بہت ہے
پیمانے ہنوز ڈھل رہے ہیں
کہہ دے کوئی جا کے طائروں سے
چیونٹی کے بھی پر نکل رہے ہیں
کچھ اب کے ہے دھوپ میں بھی تیزی
کچھ ہم بھی شرر اگل رہے ہیں
پانی پہ ذرا سنبھل کے چلنا
ہستی کے قدم پھسل رہے ہیں
کہہ دے یہ کوئی مسافروں سے
شام آئی ہے سائے ڈھل رہے ہیں
گردش میں نہیں زمیں ہی اخترؔ
ہم بھی دبے پاؤں چل رہے ہیں
٭٭٭
صاف ظاہر ہے نگاہوں سے کہ ہم مرتے ہیں
منہ سے کہتے ہوئے یہ بات مگر ڈرتے ہیں
ایک تصویرِ محبت ہے جوانی گویا
جس میں رنگوں کے عوض خونِ جگر بھرتے ہیں
عشرتِ رفتہ نے جا کر نہ کِیا یاد ہمیں
عشرتِ رفتہ کو ہم یاد کِیا کرتے ہیں
آسماں سے کبھی دیکھی نہ گئی اپنی خوشی
اب یہ حالات ہیں کہ ہم ہنستے ہوئے ڈرتے ہیں
شعر کہتے ہو بہت خوب تم اخترؔ، لیکن
اچھے شاعر یہ سنا ہے کہ جواں مرتے ہیں
٭٭٭
کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ میں کس نگر کا تھا
جلتا ہوا چراغ مِری رہ گزر کا تھا
ہم جب سفر پہ نکلے تھے تاروں کی چھانو تھی
پھر اپنے ہم رکاب اجالا سحر کا تھا
ساحل کی گیلی ریت نے بخشا تھا پیرہن
جیسے سمندروں کا سفر چشمِ تر کا تھا
چہرے پہ اڑتی گرد تھی بالوں میں راکھ تھی
شاید وہ ہم سفر مِرے اجڑے نگر کا تھا
کیا چیختی ہواؤں سے احوال پوچھتا
سایہ ہی یادگار مِرے ہم سفر کا تھا
یکسانیت تھی کتنی ہمارے وجود میں
اپنا جو حال تھا وہی عالم بھنور کا تھا
وہ کون تھا جو لے کے مجھے گھر سے چل پڑا
صورت خضر کی تھی نہ وہ چہرہ خضر کا تھا
دہلیز پار کر نہ سکے اور لوٹ آئے
شاید مسافروں کو خطر بام و در کا تھا
کچے مکان جتنے تھے بارش میں بہہ گئے
ورنہ جو میرا دکھ تھا وہ دکھ عمر بھر کا تھا
میں اس گلی میں کیسے گزرتا جھکا کے سر
آخر کو یہ معاملہ بھی سنگ و سر کا تھا
لوگوں نے خود ہی کاٹ دیئے راستوں کے پیڑ
اخترؔ بدلتی رُت میں یہ حاصل نظر کا تھا
٭٭٭
بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایا دیکھ کر
لوگ بھی کترائے کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر
ریت کی دیوار میں شامل ہے خونِ زیست بھی
اے ہواؤ! سوچ کر،۔ اے موجِ دریا! دیکھ کر
اپنے ہاتھوں اپنی آنکھیں بند کرنی پڑ گئیں
نگہتِ گُل کے جلو میں گَردِ صحرا دیکھ کر
میرے چہرے پر خراشیں ہیں لکیریں ہاتھ کی
میری قسمت پڑھنے والے میرا چہرا دیکھ کر
٭٭٭
جمع ہیں سارے مسافر ناخدائے دل کے پاس
کشتیِ ہستی نظر آتی ہے اب ساحل کے پاس
سارباں کس جستجو میں ہے، یہاں مجنوں کہاں
اب بگولا بھی نہ پھٹکے گا تِرے محمل کے پاس
ابتدائے عشق،۔۔ یعنی ایک مہلک حادثہ
آ گئی ہستی یکایک موت کی منزل کے پاس
نعمتوں کو دیکھتا ہے، اور ہنس دیتا ہے دل
محوِ حیرت ہوں کہ آخر کیا ہے مِرے دل کے پاس
یہ تِرے دستِ کرم کو کھینچ لے گا ایک دن
اے خدا! رہنے نہ دے یہ دستِ دعا سائل کے پاس
٭٭٭
جو مجھ کو دیکھ کے کل رات رو پڑا تھا بہت
وہ میرا کچھ بھی نہ تھا، پھر بھی آشنا تھا بہت
میں اب بھی رات گئے اس کی گونج سنتا ہوں
وہ حرف کم تھا، بہت کم، مگر صدا تھا بہت
زمیں کے سینے میں سورج کہاں سے اترے ہیں
فلک پہ دور کوئی بیٹھا سوچتا تھا بہت
مجھے جو دیکھا تو کاغذ کو پرزے پرزے کیا
وہ اپنی شکل کے خاکے بنا رہا تھا بہت
میں اپنے ہاتھ سے نکلا تو پھر کہیں نہ ملا
زمانہ میرے تعاقب میں بھی گیا تھا بہت
شکست و ریخت بدن کی اب اپنے بس میں نہیں
اسے بتاؤں کہ وہ رمز آشنا تھا بہت
بساط اس نے الٹ دی نہ جانے سوچ کے کیا
ابھی تو لوگوں میں جینے کا حوصلہ تھا بہت
عجب شریکِ سفر تھا کہ جب پڑاؤ کیا
وہ میرے پاس نہ ٹھہرا مگر رکا تھا بہت
سحر کے چاک گریباں کو دیکھنے کے لیے
وہ شخص صبح تلک شب کو جاگتا تھا بہت
وہ کم سخن تھا مگر ایسا کم سخن بھی نہ تھا
کہ سچ ہی بولتا تھا جب بھی بولتا تھا بہت
ہوا کے لمس سے چہرے پہ پھول کھلتے تھے
وہ چاندنی سا بدن موجۂ صبا تھا بہت
پسِ دریچہ دو آنکھیں چمکتی رہتی تھیں
کہ اس کو نیند میں چلنے کا عارضہ تھا بہت
کہانیوں کی فضا بھی اسے تھی راس اخترؔ
حقیقتوں سے بھی عہدہ بر آ ہوا تھا بہت
٭٭٭
میرے لہو میں اس نے نیا رنگ بھر دیا
سورج کی روشنی نے بڑا کام کر دیا
ہاتھوں پہ میرے اپنے لہو کا نشان تھا
لوگوں نے اس کے قتل کا الزام دھر دیا
گندم کا بیج پانی کی چھاگل اور اک چراغ
جب میں چلا تو اس نے یہ زاد سفر دیا
جاگا تو ماہتاب کی کنجی سرہانے تھی
میں خواب میں تھا جب مجھے روشن نگر دیا
اس کو تو اس شہر نے کچھ بھی دیا نہیں
اور اس نے پھر بھی شہر کو تحفے میں سر دیا
میرا بدن تو ردِ عمل میں خموش تھا
میری زباں نے ذائقۂ خشک و تر دیا
وہ حرف آشنا ہے مجھے یہ گماں نہ تھا
اس نے تو سب کو نقش بہ دیوار کر دیا
یوں بھی تو اس نے حوصلہ افزائی کی مِری
حرفِ سخن کے ساتھ ہی زخمِ ہنر دیا
اخترؔ یہی نہیں کہ مجھے بال و پر ملے
اس نے تو عمر بھر مجھے احساسِ پر دیا
٭٭٭
ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں
مگر جب راستوں میں چاند ابھرا چل پڑے ہیں
زمانہ اپنی عریانی پہ خوں روئے گا کب تک
ہمیں دیکھو کہ اپنے آپ کو اوڑھے ہوئے ہیں
مِرا بستر کسی فٹ پاتھ پر جا کر لگا دو
مِرے بچے ابھی سے مجھ سے ترکہ مانگتے ہیں
بلند آواز دے کر دیکھ لو کوئی تو ہو گا
جو گلیاں سو گئی ہیں تو پرندے جاگتے ہیں
کوئی تفصیل ہم سے پوچھنا ہو پوچھ لیجے
کہ ہم بھی آئینے کے سامنے برسوں رہے ہیں
ابھی اے داستاں گو! داستاں کہتا چلا جا
ابھی ہم جاگتے ہیں جنبشِ لب دیکھتے ہیں
ہوا اپنے ہی جھونکوں کا تعاقب کر رہی ہے
کہ اڑتے پتے پھر آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں
ہمیں بھی اس کہانی کا کوئی کردار سمجھو
کہ جس میں لب پہ مہریں ہیں دریچے بولتے ہیں
ادھر سے پانیوں کا ریلا کب کا جا چکا ہے
مگر بچے درختوں سے ابھی چمٹے ہوئے ہیں
مجھے تو چلتے رہنا ہے کسی جانب بھی جاؤں
کہ اخترؔ میرے قدموں میں ابھی تک راستے ہیں
٭٭٭
خواہشیں اتنی بڑھیں انسان آدھا رہ گیا
خواب جو دیکھا نہیں وہ ابھی ادھورا رہ گیا
میں تو اس کے ساتھ ہی گھر سے نکل کر آ گیا
اور پیچھے ایک دستک،۔ ایک سایہ رہ گیا
اس کو تو پیراہنوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی
دکھ تو یہ ہے رفتہ رفتہ میں بھی ننگا رہ گیا
رنگ تصویروں کا اترا تو کہیں ٹھہرا نہیں
اب کے وہ بارش ہوئی ہر نقش پھِیکا رہ گیا
عمر بھر منظر نگاری خون میں اتری رہی
پھر بھی آنکھوں کے مقابل ایک دریا رہ گیا
رونقیں جتنی تھیں دہلیزوں سے باہر آ گئیں
شام ہی سے گھر کا دروازہ کھلا کیا رہ گیا
اب کے شہرِ زندگی میں سانحہ ایسا ہوا
میں صدا دیتا اسے وہ مجھ کو تکتا رہ گیا
تتلیوں کے پر کتابوں میں کہیں گم ہو گئے
مٹھیوں کے آئینے میں ایک چہرہ رہ گیا
ریل کی گاڑی چلی تو اک مسافر نے کہا
دیکھنا وہ کوئی اسٹیشن پہ بیٹھا رہ گیا
لوگ اپنی کرچیاں چن چن کے آگے بڑھ گئے
میں مگر سامان اکٹھا کرتا تنہا رہ گیا
آج تک موجِ ہوا تو لَوٹ کر آئی نہیں
کیا کسی اجڑے نگر میں دِیپ جلتا رہ گیا
انگلیوں کے نقش گلدانوں پہ آتے ہیں نظر
آؤ دیکھیں اپنے اندر اور کیا کیا رہ گیا
دھوپ کی گرمی سے اینٹیں پک گئیں پھل پک گئے
اک ہمارا جسم تھا اخترؔ جو کچا رہ گیا
٭٭٭
زمین پر ہی رہے آسماں کے ہوتے ہوئے
کہیں نہ گھر سے گئے کارواں کے ہوتے ہوئے
میں کس کا نام نہ لوں اور نام لوں کس کا
ہزاروں پھول کھلے تھے خزاں کے ہوتے ہوئے
بدن کہ جیسے ہواؤں کی زد میں کوئی چراغ
یہ اپنا حال تھا اک مہرباں کے ہوتے ہوئے
ہمیں خبر ہے کوئی ہم سفر نہ تھا، پھر بھی
یقیں کی منزلیں طے کیں گماں کے ہوتے ہوئے
وہ بے نیاز ہیں ہم مستقل کہیں نہ رکے
کسی کے نقشِ قدم آستاں کے ہوتے ہوئے
ہر ایک رختِ سفر کو اٹھائے پھِرتا تھا
کوئی مکیں نہ کہیں تھا مکاں کے ہوتے ہوئے
یہ سانحہ بھی مِرے آنسوؤں پہ گزرا ہے
نگاہ بولتی تھی ترجماں کے ہوتے ہوئے
ہدایتوں کا ہے محتاج نامہ بر کی طرح
فقیہِ شہر طلسمِ بیاں کے ہوتے ہوئے
عجیب نور سے رشتہ تھا نور کا اخترؔ
کئی چراغ جلے کہکشاں کے ہوتے ہوئے
٭٭٭
تھی تتلیوں کے تعاقب میں زندگی میری
وہ شہر کیا ہُوا جس کی تھی ہر گلی میری
میں اپنی ذات کی تشریح کرتا پھرتا تھا
نہ جانے پھر کہاں آواز کھو گئی میری
یہ سرگزشتِ زمانہ، یہ داستانِ حیات
ادھوری بات میں بھی رہ گئی کمی میری
ہوائے کوہِ ندا اک ذرا ٹھہر کہ ابھی
زمانہ غور سے سنتا ہے ان کہی میری
میں اتنے زور سے چیخا چٹخ گیا ہے بدن
پھر اس کے بعد کسی نے نہیں سنی میری
کسے خبر کہ گہر کیسے ہاتھ آتے ہیں
سمندروں سے بھی گہری ہے خامشی میری
کوئی تو آئے مِرے پاس دو گھڑی بیٹھے
کہ کر گئی مجھے تنہا خود آگہی میری
کبھی کبھی تو زمانہ رہا نگاہوں میں
کبھی کبھی نظر آئی نہ شکل بھی میری
مجھے خبر ہے کہاں ہوں میں کون ہوں اخترؔ
کہ میرے نام سے صورت گَری ہوئی میری
٭٭٭
رخصتِ رقص بھی ہے پاؤں میں زنجیر بھی ہے
سرِ منزل مگر اِک بولتی تصویر بھی ہے
میرے شانوں پر فرشتوں کا بھی ہے بارِ گراں
اور میرے سامنے اِک ملبے کی تعمیر بھی ہے
زائچہ اپنا جو دیکھا تو سر یاد آیا
جیسے ان ہاتھوں پہ کندہ کوئی تقدیر بھی ہے
خواہشیں خون میں اتری ہیں صحیفوں کی طرح
ان کتابوں میں تِرے ہاتھ کی تحریر بھی ہے
جس سے مِلنا تھا مقدر وہ دوبارہ نہ مِلا
اور امکاں نہ تھا جس کا وہ عناں گیر بھی ہے
سرِ دیوار نوِشتے بھی کئی دیکھتا ہوں
پسِ دیوار مگر حسرتِ تعمیر بھی ہے
میں یہ سمجھتا تھا سلگتا ہوں فقط میں ہی یہاں
اب جو دیکھا تو یہ احساس ہمہ گیر بھی ہے
یوں نہ دیکھو کہ زمانہ متوجہ ہو جائے
کہ اس اندازِ نظر میں مِری تشہیر بھی ہے
میں نے جو خواب ابھی دیکھا نہیں ہے اخترؔ
میرا ہر خواب اسی خواب کی تعبیر بھی ہے
٭٭٭
کلیوں کا تبسم ہو، کہ تم ہو، کہ صبا ہو
اس رات کے سناٹے میں، کوئی تو صدا ہو
یوں جسم مہکتا ہے ہوائے گلِ تر سے
جیسے کوئی پہلو سے، ابھی اٹھ کے گیا ہو
دنیا ہمہ تن گوش ہے، آہستہ سے بولو
کچھ اور قریب آؤ، کوئی سن نہ رہا ہو
یہ رنگ، یہ اندازِ نوازش تو وہی ہے
شاید کہ کہیں پہلے بھی، تو مجھ سے مِلا ہو
یوں رات کو ہوتا ہے، گماں دل کی صدا پر
جیسے کوئی دیوار سے، سر پھوڑ رہا ہو
دنیا کو خبر کیا ہے، مِرے ذوقِ نظر کی
تم میرے لیے رنگ ہو، خوشبو ہو، ضیا ہو
یوں تیری نگاہوں میں، اثر ڈھونڈ رہا ہوں
جیسے کہ تجھے دل کے، دھڑکنے کا پتا ہو
اس درجہ محبت میں، تغافل نہیں اچھا
ہم بھی جو کبھی تم سے، گریزاں ہوں تو کیا ہو
ہم خاک کے ذروں میں ہیں اخترؔ بھی، گُہر بھی
تم بامِ فلک سے، کبھی اترو تو پتا ہو
٭٭٭
منزلوں کے فاصلے در و دیوار میں رہ گئے
کیا سفر تھا میرے سارے خواب گھر میں رہ گئے
اب کوئی تصویر بھی اپنی جگہ قائم نہیں
اب ہوا کے رنگ ہی میری نظر میں رہ گئے
جتنے منظر تھے میرے ہمراہ گھر تک آئے
اور پس منظر سواد رہگزر میں رہ گئے
اپنے قدموں کے نشاں بھی بند کمروں میں رہے
طاقچوں پر دِیئے خالی نگر میں رہ گئے
کر گئی نام سے غافل ہمیں اپنی شناخت
صرف آوازوں کے سائے ہی خبر میں رہ گئے
ناخداؤں نے پلٹ کر جانے کیوں دیکھا نہیں
کشتیوں کے تو کئی تختے بھنور میں رہ گئے
کیسی کیسی آہٹیں الفاظ کا پیکر بنیں
کیسے کیسے عکس میری چشمِ تر میں رہ گئے
ہاتھ کی ساری لکیریں پاؤں کے تلوؤں میں تھیں
اور میرے ہمسفر گردِ سفر میں رہ گئے
کیا ہجومِ رنگ اخترؔ کیا فروغِ بُوئے گُل
موسموں کے ذائقے بوڑھے شجر میں رہ گئے
٭٭٭
اور کچھ تیرے تصور کے سوا کام نہیں
میں سمجھتا ہوں کہ اب عشق مِرا خام نہیں
یوں ہوس کار زمانے میں بہت ہیں، لیکن
اصل میں عشق جسے کہتے ہیں وہ عام نہیں
تجھ کو دیکھا نہ تھا جب تک یہ مِرا حال نہ تھا
عشق پیغام ہے تیرا، مِرا پیغام نہیں
سجدہ کیا چیز ہے، کیا شے ہے دعاؤں کا اثر
مِری تخیّل میں گنجائشِ اوہام نہیں
تُو ہی چاہے تو بدل دے مِری ہستی کا نظام
ورنہ اس صبحِ محبت کی کوئی شام نہیں
اب مجھے آٹھ پہر رہتا ہے تیرا ہی خیال
تجھ سے کچھ کام نہیں، تجھ سے تو کچھ کام نہیں
میری نظروں میں تِری بزم وفا ہے اے دوست
مجھ کو زنہارِ غمِ گردشِ ایام نہیں
کون سی رات ستاروں میں نہیں ذکر تِرا
کون سے دن مِرے ہونٹوں پہ تِرا نام نہیں
اخترؔ اس چیز کو کہتے ہیں مقدر کا لکھا
ان کے پہلو میں بھی حاصل مجھے آرام نہیں
٭٭٭
آباد اگر نجد کا ویرانہ نہیں ہے
مجنوں کو بُلا لاؤ، وہ دیوانہ نہیں ہے
ہے شمعِ وفا محفلِ الفت میں ضیا ریز
اس شمع پہ لیکن کوئی پروانہ نہیں ہے
یہ عقل کی باتوں میں تو آئے گا نہ ہرگز
عاشق ترا ہشیار ہے، دیوانہ نہیں ہے
ساقی تری محفل ہے مئے ناب میں غرقاب
اور میرے لئے، ایک بھی پیمانہ نہیں ہے
کافر بھی، مسلمان بھی، شیدا ہے بُتوں پر
وہ کون سا دل ہے جو صنم خانہ نہیں ہے
دو اشک ہی نکلے تھے کہ اس شوخ نے ٹوکا
حضرت! یہ مرا گھر ہے، عزا خانہ نہیں ہے
مجھ کو نظر آتا ہے یہ عالم ہمہ تن نور
اِک ذرہ یہاں حُسن سے بیگانہ نہیں ہے
ہوتا ہے اس آغاز کا انجام بہت نیک
جو کعبہ نہ بن جائے وہ بُت خانہ نہیں ہے
ہر رنگِ تغزّل مرا معمول ہے اخترؔ
کم ظرف مرے شعر کا پیمانہ نہیں ہے
٭٭٭
شباب آیا، کسی بُت پر فدا ہونے کا وقت آیا
مری دنیا میں بندے کے خدا ہونے کا وقت آیا
تکلم کی خموشی کہہ رہی ہے حرفِ مطلب سے
کہ، اشک آمیز نظروں سے ادا ہونے کا وقت آیا
اسے دیکھا تو زاہد نے کہا، ایمان کی یہ ہے
کہ، اب انسان کو سجدہ روا ہونے کا وقت آیا
خدا جانے یہ ہے اوجِ یقیں یا پستیِ ہمت
خدا سے کہہ رہا ہوں، ناخدا ہونے کا وقت آیا
ہمیں بھی آ پڑا ہے دوستوں سے کام کچھ، یعنی
ہمارے دوستوں کے بے وفا ہونے کا وقت آیا
نویدِ سربلندی دی منجم نے تو میں سمجھا
سگانِ دِہر کے آگے دِوتا ہونے کا وقت آیا
٭٭٭
ماخذ:
http: //xericarien.blogspot.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید