فہرست مضامین
- کلامِ عبد الوہاب یکرو
- عبد الوہاب یکرو
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- تیرا ہی میں گدا ہوں میرا تو شاہ بس ہے
- اگر نہیں قصد اے ظالم مرے دل کے ستانے کا
- تجھ قد کی ادا سرو گلستاں سیں کہوں گا
- سنایا یار نیں آ کر دو تارہ
- عشق ہے عشق پاک بازی کا
- کب کرے قصد یار آون کا
- گل کو شرمندہ کر اے شوخ گلستان میں آ
- مرا دل مبتلا ہے جھانولی کا
- مست انکھیاں کا دیکھ دنبالہ
- اس طرح رخ پھیرتے ہو سنتے ہی بوسے کی بات
- شراب لعل لب دلبراں ہے مجھ کوں مباح
- کیونکے کرے نہ شہر کو رو رو اجاڑ چشم
- جب کریں مجھ ترے کا خیال انکھیاں
- خوش قداں جب خرام کرتے ہیں
- گداز آتش غم سیں ہوئی ہیں باؤلی انکھیاں
- لوگ ہر چند پند کرتے ہیں
- مجھ سیں اور دل ربا سیں ہے ان بن
- اگر وہ گل بدن دریا نہانے بے حجاب آوے
- جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
- عبد الوہاب یکرو
کلامِ عبد الوہاب یکرو
عبد الوہاب یکرو
جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید
تیرا ہی میں گدا ہوں میرا تو شاہ بس ہے
مجھ شب کی روشنی کوں تجھ رخ کا ماہ بس ہے
سرمہ سے گرد مژگاں صف باندھ کے بٹھی ہیں
شاہ نین کوں تیری یو قبلہ گاہ بس ہے
دل کی شکستگی سوں پایا ہوں بادشاہی
کرنے کوں سروری کے ایسی کلاہ بس ہے
محشر کے خور کی تپ سیں کچھ ڈر نہیں ہمن کوں
زلف سیہ کا سایہ دل کی پناہ بس ہے
دو جا نہیں ہے جگ میں موجود جز خدا کے
اس بات کی شہادت اک لا الہ بس ہے
یکروؔ ہوا ہے پانی سن آبروؔ کا مصرع
”رکھنے کو یوسفاں کے اک دل کی چاہ بس ہے ”
٭٭٭
اگر نہیں قصد اے ظالم مرے دل کے ستانے کا
سبب کیا ہے تجھے مجھ سے نمانے سے بہانے کا
ہوئی مدت نہیں طاقت مرے دل کوں جدائی کی
کرم کر آ سجن یا فکر کر میرے بلانے کا
شہ خوباں مرے گھر رات کو آیا ہے اے مطرب
مرا دل شاد ہے گا راگ اے مطرب شہانے کا
نہ ہووے کیوں کے گردوں پے صدا دل کی بلند ایتی
ہماری آہ ہے ڈنکا دمامے کے بجانے کا
جبھی ہو وصل ہانسی سیں حصار پیرہن تب
ترا یکروؔ سنامی ہے نہیں ہرگز سمانے کا
٭٭٭
تجھ قد کی ادا سرو گلستاں سیں کہوں گا
جادوئے نین نرگس بستاں سیں کہوں گا
دیکھا ہوں ترے لب پہ میں مسی کی دھڑی کوں
ظلمات پے جا چشمۂ حیواں سیں کہوں گا
مجھ دل کی لگن تجھ سیں ہے اے خوبیِ محفل
پروانہ نمن شمع شبستاں سیں کہوں گا
پیدا کیا تجھ شوق میں دل وسعت مشرب
یوں حالت دل کوہ و بیاباں سیں کہوں گا
دیکھا ہوں تجھے خواب منیں اے پری پیکر
اس خواب کے تئیں جا کے سلیماں سیں کہوں گا
خنجر سیں نین کے دل یکروؔ ہوا زخمی
اب دل کی تپش خاک شہیداں سیں کہوں گا
٭٭٭
سنایا یار نیں آ کر دو تارہ
بلندی پے چڑھا میرا ستارہ
مزیداری ہے ساری ہند کے بیچ
نہ کر عزم سمرقند و بخارا
رہا ہے عشق بازی بیچ وہ چست
بتاں کن نقد دل کوں جن نیں ہارا
رہے گا جان جیتا کیوں کے یکروؔ
نگہ کا تیر تجھ انکھیاں نیں مارا
٭٭٭
عشق ہے عشق پاک بازی کا
گو کہ ہو عالم مجازی کا
عشق کا طفل گر زمیں اوپر
کھیل سیکھا ہے خاک بازی کا
دل کو مژگاں نیں لے کے پنجے میں
کام کیتا ہے شاہبازی کا
کیمیا سیم تن سیں ملتا ہے
یہی ہے فن سیم سازی کا
فضل احمد سیں شعر یکروؔ کا
راہ ہے پردۂ حجازی کا
٭٭٭
کب کرے قصد یار آون کا
دل ویران کے بساون کا
رام معشوق اگر ہووے عاشق
توڑ دے سر رقیب راون کا
جھاڑ مت جاں تجھے خدا کی سوں
دل مرا ہے غبار دامن کا
جب پھڑکتا ہے بیجلی جیوں دل
جھڑ لگاتی ہے نین ساون کا
بید مجنوں کہو گے یکروؔ کوں
خوب لیلیٰ ستی ہے بامن کا
٭٭٭
گل کو شرمندہ کر اے شوخ گلستان میں آ
لب سیں غنچے کا جگر خوں کرو مسکیان میں آ
وہی اک جلوہ نما جگ میں ہے دوجا کوئی نہیں
دیکھ واجب کوں سدا مجمع امکان میں آ
زندگی مجھ دل مردہ کی توہیں ہے مت جا
دل سے گر خوش نہیں اے شوخ مری جان میں آ
گل دل غنچہ نمن تنگ ہو رنگ و بو سیں
جب کرے یاد ترے لب کے تئیں دھیان میں آ
گر تو مشتاق ہے دلبر سفر دریا کا
آ کے کر موج مرے دیدۂ گریان میں آ
مت ملا کر تو رقیباں سیں سبھی پاجی ہیں
دیکھ کر قدر آپس کا اے صنم شان میں آ
یوں مرا دل ترے کوچے کا بلا گرداں ہے
جیوں کبوتر اڑے ہے چھتری کے گردان میں آ
گر کرو قتل مرے دل کوں تغافل سیں جان
پھر کے دعویٰ نہ کروں حشر کے میدان میں آ
دل یکروؔ ہے ترا پاے بندھیا کاکل کا
یاد رکھ اس کوں سدا مت کبھو نسیان میں آ
٭٭٭
مرا دل مبتلا ہے جھانولی کا
تری انکھیاں سلونی سانولی کا
گیا تن سوکھ انکھیاں تر ہیں غم سیں
ہوا ہوں شاہ خشکی و تری کا
جبھی تو پان کھا کر مسکرایا
تبھی دل کھل گیا گل کی کلی کا
کہتا ہوں وصف دنداں و مسی کے
مزا لیتا ہوں اب تل چاولی کا
نہیں ہے ریختے کے بحر کا پار
سمجھ مت شعر اس کوں پارسی کا
جو رو پاؤ تو دل میرا دکھاؤ
سنا ہے شوخ خواہاں آرسی کا
مجھے کہتے ہیں یکروؔ سب محباں
کہ بندہ جاں سیں ہوں حضرت علیؔ کا
٭٭٭
مست انکھیاں کا دیکھ دنبالہ
دل مرا ہو گیا ہے متوالا
لب ترے لعل ہیں بدخشاں کے
دانت تیرے ہیں لولو اے لالہ
دیکھ گلشن میں آتشیں رخسار
داغ ہو جل گیا گل لالہ
اشک دریا نمن نین سیں چلیں
جب کروں درد دل ستی نالہ
بر میں یکروؔ کے کیوں نہ آیا ہائے
دے گیا مجھ کوں سرو قد بالا
٭٭٭
اس طرح رخ پھیرتے ہو سنتے ہی بوسے کی بات
شاہ معشوقاں کے آگے کیا ہے یہ ایتی بساط
کیوں نہ دوڑے تب دوانا ہو کے مجنوں دشت کوں
جب لکھی ہو عاشقاں کی شاخ آہو پے برات
جھلجھلاتی ہے مہیں جامے سیں تیرے تن کی جوت
ماہ کا خرمن ہے اے خورشید رو تیرا یوگات
سو گرہ تھی دل میں میرے خوشۂ انگور جوں
ایک پیالے سیں کیا ساقی نیں حل مشکلات
کچھ کہو یکروؔ پیا در سیں ترے ٹلتا نہیں
بوجھتا ہے ایک یہ گھر جانتا نہیں پانچ سات
٭٭٭
شراب لعل لب دلبراں ہے مجھ کوں مباح
اب عیش و عشرت دونوں جہاں ہے مجھ کوں مباح
یہی ہے فرق ہم اور تم منیں سن اے زاہد
وہاں جو تجھ کو ملے گا یہاں مجھ کوں مباح
جنہوں کے تیر مژہ دل کوں پھوڑ چلتے ہیں
وہ شوخ دلبر ابرو کماں ہے مجھ کوں مباح
شراب و شاہد و خلوت سیاہ مستی ہوش
اسی جہان منیں بیگماں ہے مجھ کو مباح
خراب دختر رز کے ہوئے ہیں سب یکروؔ
عجب کہ شیخ کہے ہے کہاں ہے مجھ کوں مباح
٭٭٭
کیونکے کرے نہ شہر کو رو رو اجاڑ چشم
طوفان ہے پہاڑ کوں ڈالی اکھاڑ چشم
ندی کنار روکھ کا ہو ہے نہ باس راست
رو کرے بہائے اشک سیں مژگاں کے جھاڑ چشم
عاشق کا جان کیونکے بچے گا کہ آج دل
خوں ہو تری نگاہ سیں نکسے ہے پھاڑ چشم
وہ خوش نگاہ دل میں لگا کے گیا ہے آگ
آنجھو ہوئے ہیں دانۂ بریان بھاڑ چشم
تجھ تیغ ابرواں کے مقابل ہوئی تھی آج
دل چاک ہو رہا ہے ہمارا دراڑ چشم
یکروؔ کا کچھ گناہ نہیں سرو قد جان
چھٹ اس کہ دیکھتا ہے تری تاڑ تاڑ چشم
٭٭٭
جب کریں مجھ ترے کا خیال انکھیاں
اشک سیں تر کریں رو مال انکھیاں
چھوڑ خوباں کا دیکھنا اے دل
لاگ جاویں گی آج کال انکھیاں
آج تجھ پر نثار کرنے کوں
اشک موتی ہوئے ہیں تھال انکھیاں
دل پھڑکتا ہے بیجلی کی جوں
ہوئی ہیں آج برشکال انکھیاں
جب چلاوے صنم نگہ کی تیغ
یکروؔ تب توں کر اپنی ڈھال انکھیاں
٭٭٭
خوش قداں جب خرام کرتے ہیں
فتنہ برپا تمام کرتے ہیں
مے کشاں جا کے مے کدے کے بیچ
سیر بیت الحرام کرتے ہیں
تجھ نگہ کی شراب ساتھ جگر
گزک عاشق مدام کرتے ہیں
مرغ دل کو دکھا کے دانۂ خال
دلبراں زلف دام کرتے ہیں
جو ہیں تجھ دید کے گرسنۂ چشم
کب وے ذوق طعام کرتے ہیں
جو کہ پیتے ہیں خون دل جوں مے
چشم اپنے کوں جام کرتے ہیں
کب ملے گا وو جان اب یکروؔ
دل پے غم اژدحام کرتے ہیں
٭٭٭
گداز آتش غم سیں ہوئی ہیں باؤلی انکھیاں
انجھو کے بھانت پانی ہو کے ماٹی میں رلی انکھیاں
کریں گی قتل دل کوں آج تیغ ابرواں سیتی
نپٹ خونیں ہیں ظالم ہم نیں تیری اٹکلی انکھیاں
پئے دفع گزند ذو الفقار ابرو ترے مکھ پر
مژہ کوں کر زباں کرتی ہیں دم ناد علی انکھیاں
اگر دیکھیں بہار حسن کھل گل کے نمن پھولیں
رہیں ہیں مند جدّائی یہ خزاں سیں جوں کلی انکھیاں
نہیں درکار کچھ اے خوش نگہ سرمے کا دنبالہ
مرا دل قتل کرنے کوں یو بس ہیں اٹکلی انکھیاں
گیا ہے ماہ رو جب سیں جدا ہو آب حیواں جوں
جَسے ماہی جدا جل سیں تپیں یوں تلملی انکھیاں
نہ ہووے درد سر یکروؔ کوں پیدا گرمیِ غم سوں
اگر دیکھیں پیا کے مکھ کا رنگ صندلی انکھیاں
٭٭٭
لوگ ہر چند پند کرتے ہیں
عاشقاں کب پسند کرتے ہیں
جامہ زیباں دکھا کے قد اپنا
دل عشاق بند کرتے ہیں
نگہ گرم سیں سدا عاشق
آتش دل بلند کرتے ہیں
شوخ چشماں لے جانے کوں دل کے
خم ابرو کمند کرتے ہیں
جو کہ تجھ لعل لب کے طالب ہیں
قند کوں کب پسند کرتے ہیں
گر نہیں مسخرہ رقیب اس کوں
لوگ کویں ریش خند کرتے ہیں
جو کہ چلتے ہیں عشق کی رہ میں
دل کوں یکروؔ سمند کرتے ہیں
٭٭٭
مجھ سیں اور دل ربا سیں ہے ان بن
کیا کروں فن کچھ آوتی نہیں بن
کچھ نہیں آتی سرو قد سیں بن
پھرتا ہوں گرد باد جیوں بن بن
زلف تیری سیاہ ناگن ہے
چھین لیتی ہے ہر کسی کا من
درس سیں علم کے ہے دل بیزار
خوب رویاں کا خوب ہے درشن
مجھ کوں واعظ نکو نصیحت کر
یار جس سیں ملے بتاؤ فن
یک سو یکروؔ کا ہاتھ پہنچتا نہیں
کیونکے پکڑے گا یار کا دامن
٭٭٭
اگر وہ گل بدن دریا نہانے بے حجاب آوے
تعجب نہیں کہ سب پانی ستی بوئے گلاب آوے
جدھاں دیکھوں بہاراں میں نشاط بلبل و قمری
مجھے اس وقت بے شک یاد ایام شباب آوے
مرا افسانہ و افسوں ترے کن سبز کیونکے ہو
سیہ مژگاں تمہاری دیکھ کے سبزے کوں خواب آوے
مری انکھیاں پھڑکتی ہیں یقیں ہے دل منیں یاراں
کہ نامے کوں پیارے کے کبوتر لے شتاب آوے
سیہ مستاں کے آگے سیں نکلنا ہے نپٹ مشکل
اگر ہشیار تجھ انکھیاں کے تئیں دیکھے خراب آوے
درنگ اک دم نہیں لازم جدائی سیں پھڑکتا ہے
کہو جا کر خوش ابرو کوں کہ یکروؔ کن شتاب آوے
٭٭٭
ماخذ: ریختہ داٹ آرگ
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید