FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

فہرست مضامین

تفسیر فوائد القرآن

عبد القیوم مہاجر مدنی

جمع و ترتیب: محمد عظیم الدین، اعجاز عبید

سات جلدوں میں

ڈاؤن لوڈ کریں

جلد ۱
 
جلد ۲
جلد ۳
جلد ۴
جلد ۵
جلد ۶
جلد ۷

۱۔ سورۃ الفاتحہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

فضائل

اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم

میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی۔۔۔ شیطان مردود سے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فاذا قرأت القراٰن فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم (پ ۴ع ۱۹)

جب تم قرآن کی تلاوت کرو تو اللہ سے پناہ مانگو شیطان مردود کے شر سے

فائدہ: قرأت قرآن سے پہلے تعوذ پڑھنا باجماع امت سنت ہے۔ خواہ تلاوت نماز کے اندر ہو یا خارج۔ (شرح منیہ) تعوذ پڑھنا تلاوت قرآن کے ساتھ مخصوص ہے۔ علاوہ تلاوت کے دوسرے کاموں کے شروع میں صرف بسم اللہ پڑھی جائے۔ تعوذ مسنون نہیں (عالمگیری)۔ جب قرآن شریف کی تلاوت کی جائے اس وقت اعوذ باللہ اور بسم اللہ دونوں پڑھنی چاہئیں درمیان تلاوت کے جب ایک سورت ختم ہو کر دوسری شروع ہو تو سورة برأت کے علاوہ ہر سورت کے شروع میں مکرر پڑھی جائے۔ اعوذ باللہ نہیں اور سورة برأت (پ ۲) اگر درمیان تلاوت میں آ جائے تو اس کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھے اور اگر قرآن کی تلاوت سورة برأت ہی سے شروع کر رہا ہے تو اس کے شروع میں اعوذ باللہ اور بسم اللہ پڑھنا چاہئے (عالمگیری)

نکتہ: علامہ سید سلیمان ندوی (رح) نے ایک عجیب نکتہ بیان فرمایا۔ ” کیونکہ حاصل تعوذ کا یہ ہے کہ اے اللہ مجھ میں تو اتنی طاقت نہیں کہ اپنے کس بل سے شیطان کا مقابلہ کروں اور اس پر غالب رہ سکوں، اس لئے میں اپنی قوت کی نفی کر کے بس آپ کی ذات عزیز کا سہارا لیتا ہوں۔ اب آپ ہی کی مدد میری قوت بازو ہے اور آپ ہی کی حفاظت کا یقین میری ڈھال۔

فضائل و خواص بسم اللہ الرحمن الرحیم

شروع اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں۔

بسم اللہ کے فوائد اور خصوصیات

۱۔ حضرت عثمان ابن عاصؓ  حضور سے نقل فرماتے ہیں کہ (بدن کے ) جس حصہ میں درد ہو، اس جگہ ہاتھ رکھ کر تین بار بسم اللہ پڑھو اور سات بار یہ دعا پڑھو: ” اَعُوذ باللہ وقدرتہ من شر ما اجد واحاذرُ”۔

انہوں نے اس پر عمل کیا تو بدن کا وہ درد ہمیشہ کے لئے زائل ہو گیا۔ حضرت علیؓ  اور حضرت عثمانؓ  نے فرمایا کہ بسم اللہ ہر بیماری سے شفا دلانے والی ہے اور ہر درد کا علاج ہے۔

۲۔ حضرت علیؓ  فرماتے ہیں کہ بسم اللہ ہر مشکل کو آسان کرنے والی ہے اور ہر رنج و غم کو دور کرتی ہے اور دلوں کو خوش کرنے والی ہے۔ آپؓ  ایک شخص کو بسم اللہ لکھتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ اسے عمدہ اور خوشخط سے لکھو اس نے بسم اللہ کو عمدہ طریقہ سے لکھا تو اس کی بخشش ہو گئی۔

۳۔ جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو بارہ ہزار مرتبہ اس طرح پڑھے کہ ہزار پورا کرنے کے بعد کم از کم ایک مرتبہ درود شریف پڑھے اور اپنے مقصد کے لئے دعا مانگے۔ پھر ایک ہزار مرتبہ پڑھ کر مقصد کے لئے دعا مانگے اسی طرح بارہ ہزار پورا کر دے تو انشاء اللہ ہر مشکل آسان اور ہر حاجت پوری ہو گی۔

۴۔ بسم اللہ کے حروف عدد ۷۸۶      ہیں۔ جو شخص اس عدد کے موافق سات روز تک متواتر بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرے اور اپنے مقصد کے لئے دعا کرے، انشاء اللہ مقصد پورا ہو گا۔

۵۔ جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ۶۰۰    مرتبہ لکھ کر اپنے پاس رکھے تو لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت و عزت ہو گی۔ کوئی اس سے بدسلوکی نہ کر سکے گا۔

۶۔ جو شخص محرم کی پہلی تاریخ کو ایک سو تیرہ مرتبہ پوری بسم اللہ الرحمن الرحیم کاغذ پر لکھ کر اپنے پاس رکھے گا ہر طرح کی آفات و مصائب سے محفوظ رہے گا، مجرب ہے۔

۷۔ سونے سے پہلے اکیس مرتبہ پڑھے تو چوری اور شیطانی اثرات سے اور اچانک موت سے محفوظ رہے ۱۲، ایک روایت میں ہے کہ سونے سے قبل اپنے بستر کو کپڑے سے تین بار بسم اللہ پڑھتے ہوئے جھاڑ لے۔

۸۔ کسی غالب کے سامنے پچاس مرتبہ پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کو مغلوب کر کے اس کو غالب کر دیں گے۔

۹۔ ۷۸۶    مرتبہ پانی پر دم کر کے طلوع آفتاب کے وقت پئے تو ذہن کھل جائے اور حافظہ قوی ہو جائے۔

۱۰۔ ۷۸۶                                           مرتبہ پانی پر دم کر کے جس کو پلائے اس کو گہری محبت ہو جائے۔ (ناجائز کاموں میں استعمال کرے گا تو وبال کا خطرہ ہے )

۱۱۔ جس عورت کے بچے زندہ نہ رہتے ہوں، بسم اللہ الرحمن الرحیم کو ۶۱۱                                           مرتبہ لکھ کر تعویذ بنا کر اپنے پاس رکھے تو بچے محفوظ رہیں گے۔ مجرب ہے۔

۱۲۔ دس مرتبہ کاغذ پر لکھ کر کھیت میں دفن کر دے تو کھیتی تمام آفات سے محفوظ رہے اور اس میں برکت ہو۔

۱۳۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم کسی کاغذ پر ۵۰۰                                           مرتبہ لکھے اور اس پر ۱۵۰                                                مرتبہ پڑھے پھر اس تعویذ کو اپنے پاس رکھے تو حکام مہربان ہو جائیں اور ظالم کے شر سے محفوظ رہے۔

۱۴۔ اکیس مرتبہ درد والے کے گلے یا سر میں یا سر پر باندھ دیں تو درد جاتا رہے۔

خاصیت: قیصر روم نے حضرت عمرؓ  کی خدمت میں شکایت درد سر کی عرض کی۔ آپ نے ایک ٹوپی سلوا کر بھیجی جب تک وہ ٹوپی سر پر رہتی درد کو سکون رہتا اور جب اس کو اتارتا پھر درد ہونے لگتا اس کو تعجب ہوا اور کھول کر اس ٹوپی کو دیکھا تو اس میں فقط بسم اللہ لکھی تھی۔

تعارف سورة فاتحہ

نہ صرف قرآن کریم کی موجودہ ترتیب میں سب سے پہلی سورت ہے، بلکہ یہ پہلی وہ سورت ہے جو مکمل طور پر نازل ہوئی۔ اس سے پہلے کوئی سورت نہیں نازل ہوئی تھی۔ بلکہ بعض سورتوں کی کچھ آیتیں آئی تھیں۔ اس سورت کو قرآن کریم کے شروع میں رکھنے کا منشاء بظاہر یہ ہے کہ جو شخص قرآن کریم سے ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہو، اسے سب سے پہلے اپنے خالق و مالک کی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا شکر ادا کرنا چاہئے اور ایک حق کے طلب گار کی طرح اسی سے ہدایت مانگنی چاہئے۔ چنانچہ اس میں بندوں کو وہ دعا سکھائی گئی ہے جو ایک طالب حق کو اللہ سے مانگنی چاہئے، یعنی سیدھے راستے کی دعا۔ اس طرح اس سورت میں صراط مستقیم یا سیدھے راستے کی جو دعا مانگی گئی ہے، پورا قرآن اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھا راستہ کیا ہے ؟ (توضیح القرآن)

فضائل سورة فاتحہ

ہر بیماری سے شفاء: عبد الملک بن عمیرؓ  حضور اکرم کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ سورت فاتحہ میں ہر بیماری سے شفاء ہے۔

خاتمہ میں بعض ایسی سورتوں کے فضائل ہیں جو پڑھنے میں بہت مختصر لیکن فضائل میں بہت بڑھی ہوئی ہیں اسی طرح دو ایک ایسے خاص امر ہیں جن پر تنبیہ قرآن پڑھنے والے کے لئے ضروری ہے۔

سب سے افضل سورت:  فاتحہ کے فضائل بہت سی روایات میں وارد ہوئے ہیں ایک حدیث میں آیا ہے کہ ایک صحابیؓ  نماز پڑھتے تھے۔ حضور نے ان کو بلایا وہ نماز کی وجہ سے جواب نہ دے سکے۔ جب فارغ ہو کر حاضر ہوئے تو حضور نے فرمایا کہ میرے پکارنے پر جواب کیوں نہیں دیا۔ انہوں نے نماز کا عذر کیا۔ حضور نے فرمایا کہ قرآن شریف کی آیت میں نہیں پڑھا ؟

یا ایھا الذین اٰمنوا استجیبوا للہ وللرسول اذا دعا کم (اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی پکار کا جواب دو جب بھی وہ تم کو بلاویں ) پھر حضور نے ارشاد فرمایا کہ تجھے قرآن شریف کی سب سے بڑی سورت یعنی افضل سورت بتلاؤں گا پھر حضور نے ارشاد فرمایا کہ وہ الحمد کی سات آیتیں ہیں۔ یہ سبع مثانی ہیں۔

پورے قرآن کا خلاصہ : بعض صوفیاء سے منقول ہے کہ جو کچھ پہلی کتابوں میں تھا وہ سب کلام پاک میں آ گیا اور جو کلام پاک میں ہے وہ سب سورة فاتحہ میں آ گیا اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ بسم اللہ میں آ گیا اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ اس کہب میں آ گیا۔ اس کی شرح بتلاتے ہیں کہب کے معنی اس جگہ ملانے کے ہیں اور مقصود سب چیز سے بندہ کا اللہ جل شانہ کے ساتھ ملا دینا ہے بعض نے اس کے آگے اضافہ کیا ہے کہب میں جو کچھ ہے وہ اس کے نقطہ میں آ گیا یعنی وحدانیت نقطہ اصطلاح میں کہتے ہیں اس چیز کو جس کی تقسیم نہ ہو سکتی ہو بعض مشائخ سے منقول ہے کہ ایاک نعبد وایاک نستعین میں تمام مقاصد دنیوی اور دینی آ گئے۔

بے مثال سورة : ایک دوسری روایت میں حضور کا ارشاد وارد ہے کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے کہ اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی۔ نہ تورات میں، نہ انجیل میں، نہ زبور میں، نہ بقیہ قرآن پاک میں۔

سورة فاتحہ کا عمل

مشائخ نے لکھا ہے کہ اگر سورة فاتحہ کو ایمان و یقین کے ساتھ پڑھے تو ہر بیماری سے شفا ہوتی ہے دینی ہو یا دنیوی، ظاہری ہو یا باطنی، لکھ کر لٹکانا اور چاٹنا بھی امراض کے لیے نافع ہے۔ صحاح کی کتابوں میں وارد ہے کہ صحابہؓ  نے سانپ بچھو کے کاٹے ہوؤں پر اور مرگی والوں پر اور دیوانوں پر سورة فاتحہ پڑھ کر دم کیا اور حضور نے اس کو جائز بھی رکھا۔ نیز ایک روایت میں آیا ہے کہ سائب بن یزیدؓ  پر حضور نے اس سورت کا دم فرمایا اور یہ سورت پڑھ کر لعاب دہن درد کی جگہ لگایا۔ اور ایک روایت میں آیا ہے کہ جو شخص سونے کا ارادہ سے لیٹے اور سورة فاتحہ اور قل ہو اللہ احد پڑھ کر اپنے اوپر دم کرے موت کے سوا ہر بلا سے امن پاوے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ سورة فاتحہ ثواب میں دو تہائی قرآن کے برابر ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ عرش کے خاص خزانہ سے مجھ کو چار چیزیں ملی ہیں کہ اور کوئی چیز اس خزانہ سے کسی کو نہیں ملی۔

۱۔ سورة فاتحہ۔ ۲۔ آیۃ الکرسی۔ ۳۔ بقرہ کی آخری آیات۔ ۴۔ سورة کوثر۔

ایک روایت میں آیا ہے کہ حسن بصری حضور سے نقل کرتے ہیں کہ جس نے سورة فاتحہ کو پڑھا اس نے گویا تورات، انجیل، زبور اور قرآن شریف کو پڑھا۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ ابلیس کو اپنے اوپر نوحہ اور زاری اور سر پر خاک ڈالنے کی چار مرتبہ نوبت آئی۔ اول جبکہ اس پر لعنت ہوئی، دوسرے جبکہ اس کو آسمان سے زمین پر ڈالا گیا۔ تیسرے جبکہ حضور اکرم کو نبوت ملی، چوتھے جبکہ سورت فاتحہ نازل ہوئی۔ شعبی سے روایت ہے کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور درد گردہ کی شکایت کی۔ شعبی نے کہا اساس القرآن پڑھ کر درد کی جگہ دم کرو۔ اس نے پوچھا اساس القرآن کیا ہے۔ شعبی نے کہا سورة فاتحہ۔ مشائخ کے اعمال مجرب میں لکھا ہے کہ سورة فاتحہ اسم اعظم ہے ہر مطلب کے لئے پڑھنی چاہیے اور اس کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ صبح کی سنت اور فرض کے درمیان بسم اللہ الرحمن الرحیم کے میم کے ساتھ الحمد للہ کا لام ملا کر اکتالیس بار چالیس دن تک پڑھے جو مطلب ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ حاصل ہو گا اور اگر کسی مریض یا جادو کئے ہوئے کے لئے ضرورت ہو تو پانی پر دم کر کے اس کو پلاوے۔ دوسرے یہ کہ نوچندیا توار کو صبح کی سنت اور فرض کے درمیان بلا قید میم ملانے کے ستر بار پڑھے اور اس کے بعد ہر روز اسی وقت پڑھے اور دس دس بار کم کرتا جائے یہاں تک کہ ہفتہ ختم ہو جائے۔ اول مہینے میں اگر مطلب پورا ہو جائے فبہا ورنہ دوسرے تیسرے مہینے میں اسی طرح کرے نیز اس سورت کا چینی کے برتن پر گلاب اور مشک و زعفران سے لکھ کر اور دھو کر پلانا چالیس روز تک امراض مزمنہ (پرانی بیماریوں ) کے لئے مجرب ہے۔ نیز دانتوں کے درد اور سر کے درد، پیٹ کے درد کے لئے سات بار پڑھ کر دم کرنا مجرب ہے۔

سورۃ فاتحہ کے خواص

سورۂ فاتحہ: درمیان سنت و فرض فجر کے اکتالیس بار پڑھ کر آنکھ پر دم کرنے سے درد جاتا رہتا ہے اور دوسرے امراض کے لئے بھی مفید و مجرب ہے اور بڑی شرط یہ ہے کہ عام و مریض دونوں خوش اعتقاد ہوں۔

اپنے رو مال کے لئے وغیرہ کے کونے پر سورة فاتحہ اور سورة اخلاص اور سورة التین اور قل یایھا الکافرون ہر سورة تین تین بار اور سورة طارق ایک بار اور سورة الضحیٰ تین بار پڑھ کر اس میں گرہ لگائیں۔ انشاء اللہ جور نہ جانے پائے گا۔

اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ (۲) الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (۳) مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ (۴) إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ (۵) اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ (۶) صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ (۷)

شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں۔ سب تعریفیں اللہ ہی کے لائق ہیں جو مربی ہیں ہر ہر عالم کے جو بڑے مہربان نہایت رحم والے ہیں جو مالک ہیں روز جزا کے۔ ہم سب آپ کی ہی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے درخواست اعانت کی کرتے ہیں بتلا دیجئے ہم سب کو راستہ سیدھا، راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے نہ راستہ ان لوگوں کا جن پر آپ کا غضب کیا گیا اور ان لوگوں کا جو راستہ سے گم ہو گئے۔

جس کو بخار آتا ہو تھوڑی روئی لے کر گیارہ بار درود شریف پڑھے۔ پھر سات بار الحمد شریف پڑھ کر روئی پر دم کر کے دائیں کان میں رکھے اور روئی کا دوسرا ٹکڑا لے کر اس پر پانچ بار الحمد شریف پڑھے اور گیارہ بار درود شریف پڑھ کر روئی پر دم کر کے بائیں کان میں رکھ لے۔ دوسرے روز اسی وقت جس وقت روئی کان میں رکھی تھی دائیں کان کی روئی بائیں کان میں رکھ لے اور بائیں کان کی روئی دائیں کان میں رکھ لے۔ انشاء اللہ تعالیٰ بخار جاتا رہے گا۔ (اعمال قرآنی)

(الحمد ہر مرض کی شفاء ہے اس کے فضائل بیشمار ہیں اس کا ثواب قرآن کے دو تہائی ثواب کے مساوی ہے ) (میرٹھی)

خواص

۱۔ جو شخص ایمان و اخلاصسے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھا کرے گا تو اس کے انیس حرفوں کی بدولت وہ شخص دوزخ کے انیسوں فرشتوں کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور بسم اللہ میں چار کلمے ہیں ان چار کلموں کی برکت سے اس کے چاروں طرح کے گناہ یعنی رات کے دن کے چھپے ظاہر سب معاف ہو جائیں گے۔ ۱۲ حاشیہ (تفسیر میرٹھی)

دن رات میں ۱۴۴                                     ۰ منٹ میں آپ سورة فاتحہ ۶ مرتبہ آسانی سے پڑھ سکتے ہیں۔ سورة فاتحہ میں ۱۲۲                     حروف ہیں ہر حرف پر دس نیکیوں کا وعدہ ہے۔

سورۃ الفاتحہ: سورة فاتحہ ایک سو گیارہ بار پڑھ کر پیٹی ہتھکڑی پر دم کرنے سے قیدی جلدی رہائی پائے۔ آخر شب میں اکتالیس بار پڑھنے سے بے مشقت روزی ملے۔ درمیان سنت و فرض فجر کے اکتالیس بار پڑھ کر آنکھ پر دم کرنے سے درد جاتا رہتا ہے اور دوسرے امراض کے لئے بھی مفید و مجرب ہے اور بڑی شرط یہ ہے کہ عامل و مریض دونوں خوش اعتقاد ہوں۔ ایک سو گیارہ بار پڑھ کر بیڑی ہتھکڑی پر دم کرنے سے قیدی جلد رہائی پائے۔ آخر شب میں اکتالیس بار پڑھنے سے بے مشقت روزی ملے۔

۰۰۲                     ہر تعریف اللہ ہی کو (زیبا ہے ) جو تمام جہان کا پروردگار !

دو نوروں کی بشارت:  حضور ایک مرتبہ تشریف فرما تھے۔ آپ نے فرمایا کہ آسمان کا ایک دروازہ آج کھلا ہے جو آج سے پہلے کبھی نہیں کھلا تھا۔ پھر اس میں سے ایک فرشتہ نازل ہوا۔ جو آج سے پہلے کبھی نازل نہیں ہوا تھا۔ پھر اس فرشتہ نے عرض کیا کہ دو نوروں کی بشارت لیجئے جو آپ سے قبل کسی کو نہیں دیئے گئے۔ ایک سورة فاتحہ دوسرا خاتمہ سورة بقرہ، یعنی سورة بقرہ کا آخری رکوع۔ ان کو نور اس لئے فرمایا کہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والے کے آگے آگے چلیں گے۔ یہ پورے قرآن کا خلاصہ ہے (مسلم)

خلاصہ سورة فاتحہ: اس میں توحید، قیامت، رسولوں کی رسالت، شہداء و صالحین، مجاہدین و علماء کا بیان ہے آخری آیت میں مردود لوگوں کا ذکر ہے۔

۰۰۳                     نہایت مہربان بڑا رحم والا

۰۰۴                      مالک ہے روز جزا (یعنی قیامت) کا !

۰۰۵                      خداوند ! تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں

۰۰۶                      دکھا ہم کو سیدھا راستہ !

۰۰۷                      ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے فضل فرمایا ہے نہ ان کا جن پر غصہ ہوا ہے اور نہ بہکنے والوں کا

٭٭٭

۲۔ سورۃ البقرہ

تعارف سورة البقرہ

یہ قرآن کریم کی سب سے لمبی سورت ہے، اس کی آیات ۶۷ تا ۷۳ میں اس گائے کا واقعہ مذکور ہے جسے ذبح کرنے کا حکم بنی اسرائیل کو دیا گیا تھا، اس لئے اس سورت کا نام سورة بقرہ ہے، کیونکہ بقرہ عربی میں گائے کو کہتے ہیں۔ سورت کا آغاز اسلام کے بنیادی عقائد یعنی توحید، رسالت اور آخرت کے بیان سے ہوا ہے، اسی ضمن میں انسانوں کی تین قسمیں، یعنی مؤمن، کافر اور منافق بیان کی گئی ہیں۔ پھر حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے، تاکہ انسان کو اپنی پیدائش کا مقصد معلوم ہو۔ اس کے بعد آیات کے ایک طویل سلسلے میں بنیادی طور پر خطاب یہودیوں سے ہے جو بڑی تعداد میں مدینہ منورہ کے آس پاس آباد تھے۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے جو نعمتیں نازل فرمائیں، اور جس طرح انہوں نے ناشکری اور نافرمانی سے کام لیا اس کا مفصل بیان ہے۔ پہلے پارے کے تقریباً آخر میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ ہے، اس لئے کہ انہیں نہ صرف یہودی اور عیسائی بلکہ عرب کے بت پرست بھی اپنے پیشوا مانتے تھے۔ ان سب کو یاد دلایا گیا ہے کہ وہ خالص توحید کے قائل تھے اور انہوں نے کبھی کسی قسم کے شرک کو گوارا نہیں کیا۔ اسی ضمن میں بیت اللہ کی تعمیر اور اسے قبلہ بنانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے۔ دوسرے پارے کے شروع میں اس کے مفصل احکام بیان کرنے کے بعد اس سورت میں مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے متعلق بہت سے احکام بیان فرمائے گئے ہیں جن میں عبادات سے لے کر معاشرت، خاندانی امور اور حکمرانی سے متعلق بہت سے مسائل داخل ہیں۔ (توضیح القرآن)

سورۃ البقرۃ: جس گھر میں اس سورة کا کچھ حصہ پڑھا جائے شیطان وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔

فضیلت سورة بقرہ

صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے وہاں شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابن مسعودؓ  سے روایت ہے کہ جس گھر میں سورة بقرہ پڑھی جائے اس گھر سے شیطان گوز مارتا ہوا بھاگ جاتا ہے۔ ہر چیز کی اونچائی (چوٹی) ہوتی ہے اور قرآن کی اونچائی سورة بقرہ ہے۔ ہر چیز کا لباب (خلاصہ) ہوتا ہے اور قرآن کا لباب مفصل کی سورتیں ہیں۔ مسند احمد میں ہے قرآن پڑھا کرو یہ اپنے پڑھنے والوں کی قیامت کے دن شفاعت کرے گا۔ دو نورانی سورتوں بقرہ اور آل عمران کو پڑھتے رہا کرو۔ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی کہ گویا دو سائبان ہیں۔ یا دو ابر ہیں۔ یا پر کھولے پرندوں کی دو جماعتیں ہیں۔ اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے خدا تعالیٰ سے سفارش کریں گی (مسند دارمی)

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

۰۰۱                      الم

۰۰۲                      یہ وہ کتاب ہے جس میں کچھ شک نہیں ! رہنما ہے پرہیزگاروں کے واسطے

۰۰۳                      جو ایمان لاتے ہیں غیب پر اور درست رکھتے ہیں نماز کو ! اور اس میں سے کہ جو ہم نے انہیں دیا ہے خرچ بھی کرتے ہیں

۰۰۴                      اور جو ایمان لاتے ہیں اس کتاب پر جو تجھ پر اتری ! اور ان پر جو تجھ سے پہلے اتریں ! اور وہ آخرت کا بھی یقین رکھتے ہیں

۰۰۵                      یہی لوگ اپنے پروردگار کے راستے پر ہیں اور یہی مرادیں پانے والے ہیں

۰۰۶                      بیشک جو لوگ منکر ہوئے ان پر یکساں ہے خواہ تو ان کو ڈرائے یا نہ ڈرائے ! وہ تو ایمان لائیں گے نہیں

۰۰۷                      اللہ نے مہر لگا دی ف ۱ ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر ! اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے اور ان کے لئے بڑا عذاب ہے

(ف ۱: تمام افعال کا خدا تعالیٰ پیدا کرنے والا ہے جب بندہ کوئی اچھا یا برا کام کرنا چاہتا ہے تو حق تعالیٰ اس کام کو پورا کر دیتے ہیں۔ اس لئے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا بیان فرمایا ہے کہ جب انہوں نے اپنی استعداد اور قابلیت کو برباد کرنے کا قصد کر لیا ہم نے بھی بد استعدادی کی کیفیت ان کے قلوب وغیرہا میں پیدا کر دی، بند لگانے سے اسی بداستعدادی کا پیدا کرنا مراد ہے۔ سو یہاں بھی ان کا یہ فعل اور قصد اس ختم کا سبب ہوا، ختم الٰہی بداستعدادی کا سبب نہیں ہواپس ان کی معذوری کی کوئی وجہ نہیں۔ )

خلاصہ رکوع ۱

پرہیزگار لوگوں کے اوصاف اور قرآن مجید سے نفع اندوز ہونے کی شرائط کا بیان ہے پھر کافروں کے بارے میں تین وضاحتیں کی گئی ہیں۔

۰۰۸                      اور بعض لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور روز آخرت پر حالانکہ وہ ایمان نہیں لائے

۰۰۹                      دغا بازی کرتے ہیں اللہ سے اور ان لوگوں سے جو ایمان لا چکے !ف ۲ اور (واقع میں کسی کو دغا نہیں دیتے ) مگر اپنے آپ کو ! اور نہیں سمجھتے

(ف ۲: یہ آیت عبداللہ بن ابی بن سلول اور معتب بن قشیر اور جد بن قیس اور ان کے رفقاء کے بارے میں نازل ہوئی ہے جن میں اکثر تو یہودی تھے اور بعض منافق (از تفسیر مظہری)

۰۱۰                      ان کے دلوں میں بیماری تھی ف ۳ پھر بڑھا دی اللہ نے ان کی بیماری اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے

(ف ۳: مرض میں ان کی بد اعتقادی وحسد اور ہر وقت کا اندیشہ وغیرہ سب آ گیا چونکہ اسلام کو روز افزوں ترقی تھی اس لئے لوگوں کے دلوں میں ساتھ ساتھ یہ امراض ترقی پاتے جاتے تھے۔ )

۰۱۱                       اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ فساد نہ پھیلاؤ زمین میں (تو) کہتے ہیں کہ ہمارا کام تو سنوار ہے

۰۱۲                       سنو ! بیشک یہی لوگ فسادی ہیں، لیکن نہیں سمجھتےف ۱

(ف ۱: یعنی بظاہر تو وہ اللہ اور مسلمانوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں کیونکہ اس دھوکے کا انجام خود ان کے حق میں برا ہو گا، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے وہ کفر کے دنیاوی انجام سے بچ جائے حالانکہ آخرت میں ان کو جو عذاب ہو گا وہ دنیا کے عذاب سے زیادہ سنگین ہے۔ (توضیح القرآن)

۰۱۳                       اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آؤ جس طرح سب لوگ ایمان لے آئے ہیں (تو) کہتے ہیں کہ کیا ہم بھی ایمان لے آئیں جس طرح بیوقوف ایمان لے آئے ہیں سنو ! بیشک یہی بیوقوف ہیں ! لیکن نہیں جانتے

۰۱۴                       اور جب ملتے ہیں مسلمانوں سے (تو) کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب اکیلے جاتے ہیں اپنے شیطانوں کے پاسف ۲ تو کہتے ہیں کہ بلاشبہ ہم تمہارے ساتھ ہیں !ف ۳ ہم تو ہنسی کرتے ہیں

(ف ۲: اپنے شیطانوں سے مراد وہ سردار ہیں جو ان منافقین کی سازشون میں ان کے سربراہ اور رہنما کی حیثیت رکھتے تھے (توضیح القرآن)

(ف ۳: یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ حق تعالیٰ نے ان کا یہ قول کہ ہم ایمان لے آئے پہلے بھی نقل فرمایا ہے اور یہاں پھر نقل فرمایا تو تکرار لازم آتا ہے۔ بات یہ ہے کہ تکرار تو اسے کہتے ہیں جہاں اعادہ میں کوئی نئی غرض یا نیا فائدہ نہ ہوسویہاں ایسا نہیں پہلے صرف ان کا عقیدہ بیان کرنا مقصود تھا کہ وہ حقیقت میں بے ایمان ہیں گو زبان سے دعویٰ ایمان کا کرتے ہیں اور یہاں ان کا برتاؤ جو مسلمانوں کے ساتھ اور اپنی جماعت کے ساتھ تھا بیان کرنا مقصود ہے اور تمام قرآن میں جہاں تکرار معلوم ہوتا ہے وہ ان ضرور نیا فائدہ یا نئی غرض ہوتی ہے صرف ظاہر میں تکرار ہوتا ہے۔ ورنہ حقیقت میں کوئی تکرار نہیں۔

۰۱۵                       اللہ ہنسی کرتا ہے ان کے ساتھ اور ان کو ڈھیل دیتا ہے کہ اپنی سرکشی میں بہکے پھریں

۰۱۶                       یہی ہیں جنہوں نے خرید لی گمراہی ! ہدایت کے بدلے سو نہ نافع ہوئی ان کی سوداگری اور نہ انہوں نے راہ پائی

۰۱۷                       ان کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ سلگائی ! پھر جب اس نے روشن کر دیا اردگرد کو (تو) لے گیا اللہ ان کے نور کو اور ان کو چھوڑ دیا اندھیروں میں کہ کچھ نہیں سوجھتا

۰۱۸                       بہرے گونگے اندھے ہیں کہ پھر نہیں سکتےف ۱

(ف ۱: تو جس طرح یہ شخص اور اس کے ہمراہی روشنی کے بعد اندھیرے میں رہ گئے اسی طرح منافقین حق واضح ہونے کے بعد اندھیرے میں جا پھنسے اور جس طرح اندھیرے میں آگ جانے والوں کی آنکھیں اور زبان و کان سب بے کار ہو جائے اسی طرح گمراہی میں پھنس کر منافقین کی یہ حالت ہو گئی کہ حق سے بہت دور ہو گئے ان کے کان حق بات کے سننے کے قابل نہ رہے زبان حق بات کہنے کے لائق نہ رہی اور آنکھیں حق دیکھنے کے کام کی نہ رہیں سو اب ان کے حق کی طرف رجوع ہونے کی کیا امید ہے۔ )

۰۱۹                       یا (ان کا حال) آسمانی بارش جیسا ہے کہ جس میں اندھیرے اور گرج اور بجلی ہے ! انگلیاں کئے لیتے ہیں اپنے کانوں میں کڑک کے مارے موت کے ڈر سے اور اللہ گھیرے ہوئے ہے منکروں کو !ف ۲

(ف ۲: یعنی جب قرآن کریم اور فسق پر عذاب کی وعیدیں سناتا ہے تو یہ اپنے کان بند کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم عذاب سے محفوظ ہو جائے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام کافروں کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور وہ اس سے بچ کر نہیں جا سکتے (توضیح القرآن)

۰۲۰                      قریب ہے کہ بجلی اچک لے جائے ان کی آنکھیں ! جب چمکتی ہے ان پر (تو) اس میں چل لیتے ہیں اور جب اندھیرا چھا جاتا ہے (تو) کھڑے ہو جاتے ہیں ! اور اگر اللہ چاہے تولے جائے ان کے کان آنکھیں بیشک اللہ تو ہر چیز پر قادر ہے ف ۳

(ف ۳: سو جس طرح یہ لوگ طوفان باراں میں کبھی چلنے سے رک جاتے ہیں کبھی موقع پا کر آگے چلنے لگتے ہیں اسی طرح یہ متردد منافقین کبھی نور اسلام کی جھلک دیکھ کر ادھر کو بڑھتے ہیں اور کبھی خود غرضی کی ظلمت میں پڑ کر حق سے رک جاتے ہیں۔

خلاصہ رکوع ۲

منافقین کا تفصیلی تذکرہ اور ان کی بیماریوں اور مختلف قسموں کا بیان ہے۔

۰۲۱                        لوگو عبادت کرو اپنے رب کی جس نے پیدا کیا تم کو اور ان کو جو تم سے پہلے ہو گزرے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ

۰۲۲                       جس نے بنا دیا تمہارے لئے زمین کا بچھونا اور آسمان کی چھت اور اتارا آسمان سے پانی پھر نکالے اس سے میوے رزق تمہارا ! تو نہ کرو اللہ کا ہم پلہ (کسی کو) اور تم جانتے بوجھتے ہو

۰۲۳                       اور اگر تم شک میں ہو اس کتاب سے جو اتاری ہے اپنے بندے پر تو لے آؤ ایک سورت اس جیسی اور بلا لو اپنے حمایتیوں کو اللہ کے سوا اگر تم سچے ہو

۰۲۴                       پھر اگر ایسا نہ کر سکو اور ہرگز کر ہی نہ سکو گے تو ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی (کافر) اور پھر (بت) ہیں تیار ہے کافروں کے لئے ف ۱

( ف ۱: ایک پتھر کا رونا: ایک بزرگ کسی راستے پر جا رہے تھے انہوں نے ایک پتھر کو روتے ہوئے دیکھا۔ انہوں نے پتھر سے پوچھا تم کیوں رو رہے ہو ؟ وہ کہنے لگا میں نے کسی قاری صاحب کو پڑھتے ہوئے سنا ہے ” وقودھا الناس والحجارۃ ” کہ انسان اور پتھر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ جب سے میں نے سنا ہے میں رو رہا ہوں کہ کیا پتہ کہ مجھے بھی جہنم کا ایندھن بنا کر جلا دیا جائے۔ ان بزرگ کو اس پر بڑا ترس آیا۔ چنانچہ انہوں نے کھڑے ہو کر دعا مانگی: اے اللہ ! اس پتھر کو جہنم کا ایندھن نہ بنانا۔ جہنم کی آگ سے آپ اسے معاف اور بری فرما دینا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرما لی۔ وہ بزرگ آگے چلے گئے۔ کچھ دنوں کے بعد واپس اسی راستے پر گزرنے لگے تو دیکھا کہ وہ پتھر پھر رو رہا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے پتھر سے ہم کلام ہوئے تو پھر پتھر سے پوچھا کہ اب کیوں رو رہا ہے ؟ تو پتھر نے جواب دیا کہ ” ذلک بکاء الخوف ” اے اللہ کے بندے ! جب آپ پہلے آئے تھے تو اس وقت کا رونا تو خوف کا رونا تھا۔ ” وھذا بکاء الشکر والسرور ” اور اب میں شکر اور سرور کی وجہ سے رو رہا ہوں کہ میرے پروردگار نے مجھ پر جہنم کی آگ سے معافی عطا فرما دی ہے۔ جیسے بچے کا رزلٹ اچھا نکلے تو خوشی کی وجہ سے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں اسی طرح اللہ کے نیک بندوں کو جب اس کی معرفت ملتی ہے، جب سینوں میں نور آتا ہے، سکینہ نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت نازل ہوتی ہے تو اللہ کے کامل بندے پھر اللہ کے شکر سے رویا کرتے ہیں۔ )

۰۲۵                       اور (اے محمد) خوشی سنا ان کو جو ایمان لا چکے اور نیک عمل کئے کہ بیشک ان کے واسطے باغ ہیں ف ۱ بہتی ہیں ان کے نیچے نہریں ! جب ان کو دیا جائے گا اس میں کا کوئی پھل کھانے کو کہیں گے یہ تو وہی ہے جو ہم کو ملا تھا پہلے اور وہ دیئے جاویں گے ایک ہی طرح کے پھل ف ۲ اور ان کے لئے وہاں بیبیاں صاف ستھری ہوں گی اور وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے

( ف ۱: جنت تیار کی جا چکی ہے: حافظ ابن قیم (رح) حادی الارواح الی بلاد الافراح میں فرماتے ہیں جنت تیار کی جا چکی ہے مگر اس میں کچھ خالی میدان ہیں جن میں بندوں کے اعمال صالحہ سے باغات اور محل تیار ہوتے ہیں مثلاً حدیث میں ہے کہ جو شخص اللہ کے لئے مسجد بنا کر اس کے لئے جنت میں ایک محل تیار ہو جاتا ہے۔ یا جو شخص ایک مرتبہ سبحان اللہ ایک مرتبہ الحمد للہ ایک مرتبہ اللہ اکبر یا ایک مرتبہ لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگ جاتا ہے۔ (معارف کا ندھلوی)

( ف ۲: یہ جو فرمایا کہ ان کو ملتا جلتا پھل ملے گا سو اکثر لطف کے واسطے ایسا ہو گا کہ دونوں باغ کے پھلوں کی صورت ایک سی ہو گی۔ جس سے وہ یوں سمجھیں گے کہ یہ پہلی ہی قسم کا پھل ہے مگر کھانے میں مزا دوسرا ہو گا۔ جس سے مزا اور لطف بڑھ جائے گا۔

۰۲۶                       اللہ کچھ شرماتا نہیں کہ بیان کرے کوئی مثال ایک مچھر کی یا اس سے بھی بڑھ کر ف ۳ تو جو لوگ کہ ایمان لا چکے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ مثال ٹھیک ہے ان کے اللہ کی کہی ہوئی اور جو کافر ہیں سو کہتے ہیں کیا غرض تھی اللہ کو اس مثال سے ؟ اللہ گمراہ کرتا ہے ایسی مثال سے بہتیروں کو اور ہدایت دیتا ہے بہتیروں کو اور گمراہ کرتا ہے انہیں کو جو بدکار ہیں

( ف ۳: وجہ اس کی ظاہر ہے کیونکہ مثال کو مناسبت اس چیز سے ہونا چاہئے جس کی وہ مثال ہے نہ کہ مثال دینے والے سے، سو قرآن شریف میں جہاں مکھی مکڑی کا ذکر آیا وہاں بت پرستی کا لچر ہونا اور بتوں کا عاجز و کمزور ہونا بیان کیا گیا ہے سو اس کی مثال میں حقیر و ضعیف چیزوں کا لانا مناسب ہو گیا ہاتھی و اونٹ کا لانا زیبا ہو گا جس کو ذرا بھی عقل ہو گی اس کے نزدیک یہ بات بدیہی ہے۔ کیونکہ بے حکمی کی نحوست سے حق طلبی کی عادت نہیں رہتی۔ )

۰۲۷                       جو توڑتے ہیں اللہ کا قرار اس کے پکا کئے پیچھے ف ۱ اور کاٹتے ہیں جس کے جوڑنے کا اللہ نے حکم فرمایا ف ۲ اور فساد پھیلاتے ہیں ملک میں یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں

( ف ۱: اس عہد کا ذکر قرآن مجید میں دوسری جگہ آیا ہے کہ آدم (علیہ السلام) کی پشت سے سب کو نکال کر فہم و گویائی عطا کر کے ان سے توحید کا اقرار لیا۔ )

( ف ۲: اس میں تمام تعلقات شرعیہ داخل ہو گئے خواہ خدا اور بندہ کے درمیان ہوں یا باہم اقارب میں یا عام اہل اسلام بنی آدم یا انبیاء (علیہم السلام) سے ہوں۔ )

۰۲۸                       تم کس طرح انکار کر سکتے ہو، اللہ کا، حالانکہ تم بے جان تھے پھر اسی نے تم کو جلایا پھر وہی تم کو مارے گا پھر وہی تم کو جلاوے گا پھر تم اسی کی جانب لوٹائے ( ف ۳) جاؤ گے

( ف ۳: منکر رسالت منکر خدا ہے:

مسئلہ: جو شخص رسول کریم کی رسالت کا منکر ہو یا قرآن کے کلام الٰہی ہونے کا منکر ہو وہ اگرچہ بظاہر خدا کی عظمت و وجود کا انکار نہ کرے۔ مگر اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ منکرین خدا ہی کی فرست میں شمار ہوتا ہے۔ (معارف القرآن)

۰۲۹                       وہی ہے جس نے بنایا تمہارے لئے جو کچھ زمین میں ہے سب کچھ ! پھر مستوی ہوا آسمان کی جانب تو بنا دیئے سات آسمان ہموار ! اور وہ ہر چیز سے واقف ہے

خلاصہ رکوع ۳

توحید کی دعوت عام اور اس کے دلائل معجزہ قرآن مومنین کے لئے جنت کی خوشخبری منکرین کے اعتراضات اور ان کے جوابات نزول قرآن کا منکر پر اثر اور منکرین کی صفات جیسے امور ذکر کئے گئے آخر میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کی یاد دہانی کرا کر دعوت فکر دی گئی ہے۔

۰۳۰                      اور (اے محمد یاد کر) جب کہا تیرے پروردگار نے فرشتوں سے کہ میں بنانے والا ہوں زمین میں ایک نائب فرشتے بولے کہ کیا تو نائب بناتا ہے اس میں ایسے شخص کو جو اس میں فساد پھیلائے اور خون بہائے اور ہم تو تیری خوبیاں پڑھتے اور تیری پاک ذات یاد کرتے ہیں اللہ نے فرمایا کہ میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ف ۱

( ف ۱: آنحضرت کی نبوت: حدیث شریف میں ہے ” کنت نبیا واٰدم بین الروح والجسد "۔ یعنی رسول اللہ فرماتے ہیں کہ میں اس حالت میں نبی تھا کہ جب حضرت آدم روح اور جسم کے درمیان تھے اس حدیث کو طبرانی نے ابن عباسؓ  سے اور ابو نعیم نے حلیہ میں اور ابن سعد نے ابوا الجدعاء سے روایت کیا ہے اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کو جو علوم اور کمال نبوۃ حضور کو عطا فرمانا منظور تھے اور وہ تجلیات ذاتیہ جو انبیاء کے ساتھ مخصوص ہیں سب کی سب اسی وقت عطا فرما دی تھیں جبکہ حضرت آدم مابین روح و جسد تھے یعنی روح جسد کے ساتھ مرکب ہو چکی تھی کیونکہ جو تجلیات خاصہ ہیں وہ اس جسد خاکی کے ساتھ مشروط تھیں تو جب حضرت آدم کا جسد بن گیا اور ان کی ذریت کی روحیں ان کی پشت میں جاگزیں ہو گئیں تو وہ سب تجلیات ذاتیہ کے قبول کرنے کا لائق ہو گئے۔

۰۳۱                       اور اللہ نے بتا دیئے آدم کو چیزوں کے نام سارے پھر سامنے کیا ان چیزوں کو فرشتوں کے پھر فرمایا کہ بتاؤ مجھ کو ان چیزوں کے نام اگر تم سچے ہو

۰۳۲                       وہ بولے کہ ہے تو پاک ذات ہے ! ہم کو کچھ معلوم نہیں جتنا تو نے سکھایا ! بے شک تو ہی اصل دانا حکمت والا ہے !

۰۳۳                       فرمایا کہ اے آدم تو بتا دے ان کو ان چیزوں کے نام ! سو جب ان کو بتا دیئے آدم نے ان چیزوں کے نام تو اللہ نے فرمایا ! کیوں میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ میں جانتا ہوں ؛ چھپی چیزیں آسمانوں کی اور مجھ کو معلوم ہے جو تم ظاہر کرتے اور جو چھپاتے ہو

۰۳۴                       اور جب ہم نے کہا فرشتوں سے کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب نے سجدہ کیا مگر شیطان نے نہ مانا اور تکبر کیا اور بن گیا انکار کرنے والوں میں سے ف ۲

( ف ۲: ابلیس کے کفر کا سبب:

مسئلہ: ابلیس کا کفر محض عملی نافرمانی کا نتیجہ نہیں کیونکہ کسی فرض کو عملاً ترک کر دینا اصول شریعت میں فسق و گناہ ہے کفر نہیں، ابلیس کے کفر کا اصل سبب حکم ربانی سے معارضہ اور مقابلہ کرنا ہے۔ کہ آپ نے جس کو سجدہ کرنے کا حکم مجھے دیا ہے وہ اس قابل نہیں کہ میں اس کو سجدہ کروں، یہ معارضہ بلاشبہ کفر ہے۔ سجدہ تعظیمی اسلام میں ممنوع ہے امام جصاص نے احکام القرآن میں فرمایا ہے کہ انبیاء سابقین کی شریعت میں بڑوں کی تعظیم اور تحیہ کے لئے سجدہ مباح تھا۔ شریعت محمدیہ میں منسوخ ہو گیا اور بڑوں کی تعظیم کے لئے صرف سلام، مصافحہ کی اجازت دی گئی، رکوع سجدہ اور بہیئت نماز ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے کو ناجائز قرار دیا گیا۔ (معارف القرآن)

۰۳۵                       اور ہم نے کہا کہ اے آدم ! رہ تو اور تیری بیوی جنت میں ف ۱ اور کھاؤ اس میں سے با فراغت جہاں چاہو اور پاس ف ۲ نہ پھٹکو اس درخت کے کہ گنہگار ہو جاؤ گے ف ۳

( ف ۱: یعنی حوا جن کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے آدم (علیہ السلام) کی پسلی سے کوئی مادہ لے کر بنا دیا تھا۔ )

( ف ۲: خدا جانے وہ کیا درخت تھا مگر اس کے کھانے سے منع فرما دیا اور آقا کو اختیار ہے کہ اپنی چیزوں میں سے غلام کو جس چیز کے چاہے برتنے کی اجازت دے جس کی چاہے اجازت نہ دے۔ )

( ف ۳: بیوی کی سکونت شوہر کے تابع ہے۔

مسئلہ: ” اسکن انت وزوجک الجنۃ ” اس آیت میں دو مسئلوں کی طرف اشارہ ہے اول یہ کہ بیوی کے لئے رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ ہے۔ دوسرے یہ کہ سکونت میں بیوی شوہر کے تابع ہے جس مکان میں شوہر رہے اس میں اس کو رہنا چاہئے۔ (معارف القرآن)

۰۳۶                       پھر ڈگایا ان کو شیطان نے وہاں سے پس نکلوا دیا دونوں کو اس آرام میں سے کہ جس میں تھے اور ہم نے حکم دیا کہ سب اتر جاؤ ! تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہارے واسطے زمین میں ٹھکانا اور کام چلاؤ سامان ایک مدت تک ہے ف ۴

( ف ۴: یعنی وہاں بھی جا کر دوام نہ ملے گا۔ بعد چندے وہ گھر بھی چھوڑنا پڑے گا۔ آدم (علیہ السلام) نے یہ خطاب و عتاب کب سنے تھے۔ نہ ایسے سنگ دل تھے کہ سہار کر جاتے۔ بے چین ہو گئے اور فوراً ہی معافی کی التجا کرنے لگے۔ )

۰۳۷                       پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے اللہ سے چند الفاظ پھر اللہ متوجہ ہوا آدم پر ف ۵ بیشک وہی معاف کرنے والا مہربان ہے۔

( ف ۵: سو وہ بھی توبہ میں آدم (علیہ السلام) کے ساتھ شریک ہیں۔ مگر چونکہ ان کے روئے زمین پر آنے میں اور بھی ہزاروں حکمتیں اور مصلحتیں مضمر تھیں۔ چنانچہ پیدا کرنے سے پہلے ہی انی جاعل فی الارض الخ فرمایا گیا تھا اس لئے معافی کے بعد وہ حکم ہبوط منسوخ نہیں ہوا البتہ طرز اس کا بدل گیا کہ وہ پہلا حکم طرز حاکمانہ پر تھا اور دوسرا حکم حکیمانہ طرز پر ہوا۔ )

۰۳۸                       ہم نے حکم دیا کہ اتر جاؤ یہاں سے سب کے سب پھر اگر تمہارے پاس آئے میری طرف سے کوئی ہدایت تو جو چلیں گے میری ہدایت پر نہ ان کو کچھ ڈر ہو گا اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے !

۰۳۹                       اور جو نافرمانی کریں گے ہماری آیتوں کی وہی دوزٖخی ہوں گے ! وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

خلاصہ رکوع ۴

حضرت آدم و حوا (علیہما السلام) کے واقعہ کا بیان ہوا جس میں شیطان کے کرتوتوں کا بھی ذکر ہے۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی۔

۰۴۰                      اے اولاد اسرائیل یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا ف ۱ اور پورا کرو میرا قرار تو میں پورا کروں تمہارا قرار اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو

( ف ۱: تاکہ ایمان لا کر اس نعمت کا حق ادا کرنا آسان ہو جائے آگے اس یاد کرنے کی مراد بتلاتے ہیں۔ )

۰۴۱                       اور مان لو (قرآن) جو میں نے اتارا ہے جو سچ بتاتا ہے اس کتاب (توریت) کو ف ۲ جو تمہارے پاس ہے اور نہ بنو اس کے پہلے منکر اور نہ لو میری آیتوں کے عوض مول تھوڑا سا ! اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو

( ف ۲: یعنی قرآن مجید پر ایمان لاؤ اور تم کو اس سے وحشت نہ ہونا چاہئے کیونکہ وہ تو توریت کے کتاب الٰہی ہونے کی تصدیق کرتا ہے ہاں جس قدر اس میں تحریف ہو گئی ہے وہ خود توریت اور انجیل ہونے ہی سے خارج ہے۔ )

۰۴۲                       اور نہ ملاؤ سچ میں جھوٹ اور نہ چھپاؤ حق بات جان بوجھ کر ف ۳

( ف ۳: مسئلہ: حق بات کو چھپانا یا اس میں خلط ملط کرنا حرام ہے۔ آیت ” ولا تلبسوا الحق بالباطل الخ ” سے ثابت ہوا کہ حق بات کو غلط با توں کے ساتھ گڈ مڈ کر کے اس طرح پیش کرنا جس سے مخاطب مغالطہ میں پڑ ج                                          ائے جائز نہیں۔ اسی طرح کسی خوف یا طمع کی وجہ سے حق بات کا چھپانا بھی حرام ہے۔ (معارف القرآن)

۰۴۳                       اور قائم کرو نماز اور دیتے رہو زکوٰۃ اور جھکو جھکنے والوں کے ہمراہ

۰۴۴                       کیا تم حکم کرتے ہو لوگوں کو نیک کام کا اور بھولتے ہو اپنے آپ کو ! حالانکہ پڑھتے ہو کتاب (الٰہی) کیا تم سمجھتے نہیں

۰۴۵                       اور سہارا پکڑو صبر کا اور نماز کا ف ۴ اور بیشک نماز شاق ہے مگر ان لوگوں پر (نہیں ) جن کے دل پگھلے ہوئے ہیں

( ف ۴: اس لئے کہ صبر سے حب مال گھٹ جائے گی اور نماز سے حب جاہ گھٹ جائے گی۔ چونکہ نماز کی قیود بہت ہی گراں گزرتی ہیں اس لئے اس کی دشواری کا علاج بتلاتے ہیں۔ )

۰۴۶                       جن کو خیال ہے کہ ضرور وہ اپنے پروردگار سے ملنے والے اور بلاشبہ اس کی جانب لوٹنے والے ہیں

خلاصہ رکوع ۵

یہودیوں کے کرتوت ذکر کئے گئے کہ کس طرح ہماری نعمتوں اور کرم فرمائیوں کے باوجود انہوں نے گمراہی سے ہی اپنی محبت کو قائم رکھا۔ نتیجہ یہ کہ ایسے لوگ بے کار ہو گئے اور مردود کر دیئے گئے اور دین حق کی علمبرداری کے لئے نئی امت کی ضرورت کا بیان کیا گیا۔ احکام شرعیہ میں تبدیلی دو طرح کی ہوئی ہے۔ ایک تو یہ کہ اس کو ظاہر ہی نہ ہونے دیا جائے یہ کتمان ہے اور اگر چھپائے نہ چھپ سکے تو اس میں خلط ملط کر دیا یہ لبس ہے حق تعالیٰ نے دونوں سے منع فرما دیا۔ نماز سے حب جاہ کم ہوتی ہے۔ زکوٰۃ سے حب مال گھٹتی ہے تواضع سے باطنی امراض میں کمی آتی ہے۔ آخر میں بتلایا گیا کہ بے عمل کا واعظ بننا جائز ہے۔ لیکن واعظ کے بے عمل نہیں ہونا چاہئے۔

۰۴۷                       اے بنی اسرائیل یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا اور اس بات کو کہ میں نے فضیلت دی تم کو دنیا جہان کے لوگوں پر !

۰۴۸                       اور ڈرو اس دن سے کہ نہ کام آئے گا کوئی نفس کسی نفس کے کچھ بھی ! اور نہ قبول ہو گی اس کی جانب سے کوئی سفارش ف ۱ اور نہ لیا جائے گا اس سے کوئی بدل اور نہ ان کو کچھ مدد پہونچے گی ف ۲

( ف ۱: یہ بھی ترجمہ ہو سکتا ہے کہ میں نے تم کو ایک بڑے حصہ زمین پر فوقیت دی تھی مثلاً اس زمانہ کے لوگوں پر اور زیادہ حصہ ان انعاموں کا مخاطبین کے باپ دادا پر ہوا ہے لیکن باپ کے ساتھ جو احسان کیا جائے ایک گونہ انتفاع اس سے اولاد کو ضرور ہوتا ہے چنانچہ مشاہدہ ہے اگلی آیت میں اطاعت نہ کرنے پر دھمکی ہے جب خود اس شخص میں ایمان نہ ہو جس کی سفارش کرتا ہے۔ )

( ف ۲: اور بدوں ایمان کے سفارش قبول نہ ہونے کی صورت دوسری آیات سے یہ معلوم ہوئی کہ کوئی ان کی سفارش ہی نہ کرے گا جو قبول ہو، غرض کہ دنیا میں جتنے طریقے مدد کے ہو سکتے ہیں بدوں ایمان کے وہاں کچھ نہ ہو گا۔ اب یہاں سے دور تک ان خاص برتاؤں کا ذکر چلا ہے۔

۰۴۹                       اور (یاد کرو) جب ہم نے تم کو چھڑایا فرعون کے لوگوں سے وہ تم کو پہنچاتے تھے بڑی تکلیف ! کہ ذبح کرتے تھے تمہارے بیٹوں کو اور جیتا رکھتے تھے تمہاری بیٹیوں کو اور اس میں بڑی آزمائش تھی تمہارے اللہ کی طرف سے

۰۵۰                      اور (یاد کرو) جب ہم نے پھاڑ دیا تمہارے لئے دریا کو پھر بچا دیا تمہیں اور ڈبو دیا فرعون کے لوگوں کو اور تم دیکھ رہے تھے۔

۰۵۱                       اور جب ہم نے وعدہ کیا موسیٰ سے چالیس رات کا ف ۱ پھر تم نے بنا لیا بچھڑا اس کے پیچھے اور تم ظلم کر رہے تھے

( ف ۱: یعنی توریت دینے کے لئے پہلے تیس رات کا وعدہ ہوا تھا۔ پھر دس رات کا اضافہ ہو کر چالیس راتیں پوری ہو گئیں کیونکہ موسیٰ نے مسواک کر کے بوئے دہن زائل کر دی تھی۔ )

۰۵۲                       پھر ہم نے درگذر کیا تم سے اس پر بھی کہ شاید تم احسان مانو ف ۲

( ف ۲: اس توقع کا یہ مطلب نہیں کہ نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کو شک تھا بلکہ مطلب یہ ہے کہ معاف کرینا ایسی چیز ہے جس سے ہر دیکھنے والے کو توقع شکر گزاری کا احتمال ہو سکتا ہے۔ )

۰۵۳                       اور (یاد کرو) جب ہم نے عطا فرمائی موسیٰ کو کتاب اور قانون فیسل تاکہ تم ہدایت پاؤ ف ۳

( ف ۳: فیصلہ کی چیز یا تو احکام شرعیہ کو کہا جن سے تمام عقلی و اعتقادی اختلافات کا فیصلہ ہو جاتا ہے یا معجزوں کو جن سے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ہوتا ہے۔ یا خود توریت ہی کو فرمایا کہ اس میں کتاب ہونے کی صفت بھی ہے اور فیصلہ ہونے کی صفت بھی۔ )

۰۵۴                       اور (یاد کرو) جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے کہ بھائیو ! بیشک تم نے اپنے اوپر ظلم کیا اس بچھڑے کے بنا لینے کی وجہ سے سو توبہ کرو اپنے خالق کی جانب اور ہلاک کر ڈالو اپنی جانیں ! ف ۵ یہی بہتر ہے تمہارے حق میں تمہارے خالق کے نزدیک ! پھر اللہ متوجہ ہوا تم پر ! بیشک وہی توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے

( ف ۵: خلاصہ آیات:

خلاصہ یہ کہ ان آیات میں حق تعالیٰ نے یہود کو ان کی قوم بنی اسرائیل پر کیا ہو ایک احسان اور جتلایا کہ تمہاری قوم نے ایک بچھڑے کی پرستش شروع کر دی تھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اس جرم سے بھی درگزر کیا اور مقصود اس سے وہی تبلیغ اسلام ہے تاکہ یہود مدینہ اللہ تعالیٰ کے احسانات و انعامات اپنی قوم پر سن کر اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری اختیار کر لیں اور اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نبی آخرالزماں پر ایمان لا کر اسلام قبول کر لیں۔ )

۰۵۵                       اور (یاد کرو) جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز تیرا یقین نہ کریں گے جب تک کہ نہ دیکھ لیں اللہ کو سامنے ! پھر تمہیں پکڑ لیا بجلی نے اور تم دیکھتے تھے۔

۰۵۶                       پھر ہم نے تم کو اٹھا کھڑا کیا تمہارے مرے پیچھے تاکہ تم احسان مانو

۰۵۷                       اور ہم نے تم پر سایہ کیا ابر کا اور اتاری تم پر من اور سلویٰ (اور کہہ دیا کہ) کھاؤ ستھری چیزیں جو ہم نے تم کو دیں ! اور ان لوگوں نے ہمارا کچھ نقصان نہیں کیا و لیکن آپ اپنا ہی نقصان کرتے رہے ف ۱

( ف ۱: یہ دونوں قصے وادی تیہ میں ہوئے وہ ایک کھلا میدان تھا نہ عمارت نہ مکان بنی اسرائیل نے دھوپ کی شکایت کی تو ایک باریک سفید ابر کا سایہ کر دیا گیا بھوک کی شکایت کی تو خدا نے درختوں پر ترنجبین جو کہ ایک شیریں لطیف غذا ہے بکثرت پیدا کر دی یہ اس کو جمع کر لیتے تھے اور بٹیریں خود ان کے پاس آ جاتیں بھاگتی نہ تھیں یہ دونوں باتیں چونکہ خلاف عادت تھیں اس لئے خزانہ غیب سے قرار دی گئیں اور خلاف حکم خداوندی محض حرص کی وجہ سے وہ لوگ آئندہ کے واسطے گوشت جمع کرنے لگے تو گوشت سڑنے لگا اب تک کبھی ایسا نہ ہوا تھا اسی کو فرمایا کہ اپنا ہی نقصان کرتے تھے وادی تیہ میں یہ لوگ چالیس سال تک رہے وجہ یہ ہوئی کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے غرق ہونے کے بعد حکم ہوا کہ اپنے اصلی وطن ملک شام پر قبضہ کرو اور عمالقہ سے جو اس وقت شام پر قابض تھے جہاد کرو یہ لوگ مصر سے بارادہ جہاد چلے مگر اس میدان میں پہنچ کر صاف انکار کر دیا اور ہمت ہار بیٹھے کیونکہ عمالقہ کے زور و قوت کی باتیں کچھ تحقیق ہوئی تھیں اللہ تعالیٰ نے یہ سزا دی کہ چالیس سال تک اسی میدان میں پریشان و سرگرداں پھرتے رہے گھر بھی پہنچنا نصیب نہ ہوا ۱۲۔ )

۰۵۸                       اور جب ہم نے کہا کہ آ جاؤ اس گاؤں میں ! پس کھاؤ اس میں سے جہاں چاہو با فراغت ! اور گھسو دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے اور حطۃ کہتے جاؤ تو ہم بخش دیں گے تمہارے قصور اور زیادہ دیں گے نیک بندوں کو !

۰۵۹                       تو بدل ڈالی شریر لوگوں نے دوسری بات اس کے خلاف جو ان سے کہہ دی گئی تھی تو ہم نے اتارا ان پر جنہوں نے شرارت کی ! عذاب آسمان سے اس وجہ سے کہ خلاف حکم کرتے تھے !

خلاصہ رکوع ۶

یہود پر انعامات الٰہیہ کا تفصیلی ذکر ہے اور اسلام سے قبل تمام اقوام عالم پر ان کی فضیلت کا بیان ہے۔ بنی اسرائیل کا بچھڑے کو معبود بنانے کے باوجود ان کی توبہ قبول ہونے کا ذکر کیا گیا بنی اسرائیل کے ستر آدمیوں کا مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونا بادلوں کا سایہ اور من وسلویٰ کا ذکر ہے آخر میں بنی اسرائیل کی سرکشی کا ایک واقعہ ہے۔

۰۶۰                      اور (یاد کرو) جب موسیٰ نے پانی مانگا اپنی قوم کے لئے تو ہم نے کہا کہ مار اپنی لاٹھی پتھر پر ! ف ۱ سو بہہ نکلے اس سے بارہ چشمے ! ف ۲ پہچان لیا ہر قوم نے اپنا اپنا گھاٹ کھاؤ اور پیو اللہ کی روزی ! اور نہ پھرو زمین میں فساد پھیلاتے !

( ف ۱: موسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کی دعائیں: موسیٰ (علیہ السلام) کی یہ دعا استسقاء خاص اپنی قوم کے لئے تھی اس لئے صرف پتھر سے پانی جاری کیا گیا۔ بخلاف نبی اکرم اور دیگر حضرات انبیاء کرام کے کہ انہوں نے خاص اپنی قوم کے لئے استسقاء کی دعا نہیں بلکہ تمام جہان کے لئے پانی مانگا اس لئے آسمان سے پانی برسایا گیا اور اس باران رحمت سے مؤمن اور کافر دوست اور دشمن سب ہی منتفع ہوئے۔ )

( ف ۲: حضور کا معجزہ بخاری شریف کی ایک روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  بیان کرتے ہیں کہ ہم تو معجزات کو برکت سمجھتے تھے اور تم ان کو خوف کی چیز سمجھتے ہو۔ ہم ایک سفر میں رسول اللہ کے ساتھ تھے۔ پانی کی کمی ہو گئی۔ آپ نے فرمایا تلاش کرو کسی کے پاس کچھ پانی بچا ہو تو لے آؤ۔ صحابہ ایک برتن لے آئے جس میں ذرا سا پانی تھا آپ نے برتن میں اپنا دست مبارک ڈالا اور فرمایا چلو اور وضو کا پانی اور خدا کی برکت لو۔ میں نے بچشم خود دیکھا کہ آپ کی انگلیوں سے پانی چشمہ کی طرح پھوٹ رہا ہے اور آپ کے عہد مبارک میں ایسا بھی ہوتا تھا کہ ہم کھانا کھایا کرتے تھے اور کھانے کی تسبیح اپنے کانوں سے سنا کرتے تھے۔ (درس مسند احمد)

۰۶۱                       اور جب تم نے کہا کہ اے موسیٰ ہم ہرگز نہ رہیں گے ایک کھانے پر پس تو دعا کر ہمارے لئے اپنے رب سے کہ نکال دے ہمارے واسطے جو اگتا ہے زمین سے یعنی ساگ اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز ! موسیٰ نے کہا کہ کیا تم چاہتے ہو وہ چیز جو ادنیٰ ہے اس کے بدلہ میں جو بہتر ہے ! (اچھا) اتر پڑو کسی شہر میں تو تم کو ملے گا جو کچھ مانگتے ہو ! اور لیس دی گئی ان پر ذلت اور محتاجی اور وہ آ گئے اللہ کے غصہ میں ! یہ اس لئے کہ وہ انکار کرتے تھے اللہ کی آیتوں کا اور خون کرتے تھے نبیوں کا ناحق ! یہ اس وجہ سے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے بڑھے جاتے تھے۔

خلاصہ رکوع ۷

بنی اسرائیل کے لئے پتھروں سے چشموں کا پھوٹنا، بنی اسرائیل کی مغضوبیت اور اس کے اسباب کا ذکر ہے۔

۰۶۲                       جو لوگ مسلمان بنے اور جو یہودی ہوئے اور عیسائی اور بے دین (ان میں سے ) جو لوگ ایمان لائے اللہ اور روز آخرت پر اور نیک کام کرتے رہے تو ان کے لئے ان کا ثواب ہے ان کے پروردگار کے پاس اور ان کے نہ کچھ ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے ف ۱

( ف ۱: بلاغت کلام حضرت تھانوی نے لکھا ہے کہ اس سے کلام میں ایک خاص بلاغت اور ایک خاص وقعت پیدا ہو گئی ہے اور اس کی ایسی مثال ہے کہ کوئی حاکم یا بادشاہ کسی ایسے ہی موقع پر یوں کہے کہ ہمارا قانون عام ہے خواہ کوئی موافق ہو یا مخالف جو شخص اطاعت کرے گا مورد عنایت ہو گا۔ اب ظاہر ہے کہ موافق تو اطاعت کر ہی رہا ہے سنانا ہے اصل میں مخالف کو لیکن اس نکتہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری جو مواقین پر عنایت ہے سو اس کی علت ان سے کوئی ذای خصوصیت نہیں بلکہ ان کی صفت موافقت اور اطاعت مدار ہے ہماری عنایت کا، سو مخالف بھی اگر اختیار کرے وہ بھی اس موافق کے برابر ہو جاوے گا۔ اس لئے مخالف کے ساتھ موافق کو بھی ذکر کر دیا گیا (درس مسند احمد)

۰۶۳                       اور (یاد کرو) جب لیا ہم نے تم سے قرار اور اٹھا لیا تمہارے اوپر پہاڑ پکڑو جو ہم نے تم کو دیا مضبوطی سے اور یاد رکھو جو کچھ اس میں ہے تاکہ تم بچ جاؤ ف ۲

( ف ۲: اس پر یہ شبہ نہ ہو کہ دین میں تو زبردستی نہیں یہاں اکراہ کیسے کیا گیا جواب نہایت واضح ہے کہ دین میں اکراہ نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ عام کفار پر ابتداء قبول دین کے لئے اکراہ نہ کریں گے کہ یا ایمان لاؤ ورنہ مار ڈالیں گے اور یہاں تو یہ لوگ پہلے بخوشی ایمان لا چکے تھے ایسے شخص کو بجا آوری ایمان پر ضرور مجبور کیا جائے گا۔ جس کی نفی پر کوئی دلیل عقلی یا نقلی قائم نہیں اور جہاد جو ہماری شریعت میں رکھا گیا ہے اس سے مقصود قبول اسلام پر مجبور کرنا نہیں ہے کیونکہ جہاد میں ایک جزو جزیہ کا بھی جس کے قبول کرنے سے جہاد رک جاتا ہے بلکہ مقصود اطاعت قانون عدل شرعی ہے جو مومنین و کفار سب کے حق میں عام ہے۔ )

۰۶۴                       پھر تم نے روگردانی کی اس کے بعد ! تو اگر نہ ہوتا فضل اللہ کا تم پر اور اس کی مہربانی تو بیشک تم خراب ہوتے ف ۱

( ف ۱: لہذا نبی آخر الزماں کی متابعت کی سعادت حاصل کرو اور اگر تم اس نبی آخر الزماں پر ایمان نہ لائے اور کفر پر مر گئے تو پھر اس خسران اور نقصان کی تلافی کا کوئی امکان نہیں رہے گا۔ توریت میں جو تم سے نبی آخر الزماں پر ایمان لانے کا عہد لیا جا چکا ہے اس کو پورا کرو ورنہ تم بھی عہد شکنی کرنے والوں میں شامل سمجھے جاؤ گے اور عہد شکنی کی سزا کے مستحق ہو گے۔ (معارف کا ندھلوی) یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ اے بنی اسرائیل اگر محمد کے وجود باجود کا فضل تم پر نہ ہوتا تو تم پر ضرور عذاب الٰہی نازل ہوتا کیونکہ حق تعالیٰ نے حضور سرور عالم کو رحمت للعٰلمین بنایا ہے اس لئے حضور کے وجود سرابجود سے عذاب مؤخر کر دیا گیا اور دھنس جانے اور صورتیں بدل جانے کا عذاب اٹھا لیا گیا۔ (تفسیر مظہری)

۰۶۵                       اور تم جان چکے ہو جنہوں نے تم میں سے زیادتی کی ہفتہ کے دن میں تو ہم نے ان کو کہا کہ بن جاؤ بندر دھتکارے ہوئے

۰۶۶                       پس ہم نے بنایا اس واقعہ کو عبرت ان کے لئے جو روبرو تھے اور جو پیچھے آنے والے تھے اور نصیحت (بنایا) پرہیزگاروں کے واسطے ف ۲

( ف ۲: یہ واقعہ بنی اسرائیل کا داود (علیہ السلام) کے زمانہ میں ہوا یہ لوگ سمندر کے کنارہ پر آباد تھے اور مچھلی کے شکار کے شوقین تھے ہفتہ کا دن معظم اور عبادت کے لئے مخصوص تھا اس دن شکار سے منع کیا گیا مگر یہ لوگ باز نہ آئے اس لئے حق تعالیٰ نے ان کو مسخ کر دیا اور تین دن پیچھے سب مر گئے اور اس مسخ میں استحالہ کی کوئی بات نہیں جب فلاسفہ جدید بندر کا ترقی کے آدمی بن جانا ممکن کہتے ہیں تو آدمی کا تنزل کر کے بندر بن جانا کیوں محال ہو گا۔ )

۰۶۷                       اور (یاد کرو) جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم سے ! اللہ تم کو حکم فرماتا ہے کہ حلال کرو ایک گائے ! وہ بولے کہ کیا تو ہم سے ٹھٹھا کرتا ہے ! موسیٰ نے کہا ! پناہ اللہ کی اس سے کہ میں نادان بن جاؤں

۰۶۸                       وہ بولے کہ پوچھ ہمارے لئے اپنے پروردگار سے ! بیان فرماوے ہم کو وہ گائے کیسی ہے موسیٰ نے کہا ! اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ ایک گائے ہے نہ بوڑھی اور نہ بن بیاہی (بچھیا) ان دونوں میں بیچ کی راس ! اب کرو جو تم کو حکم دیا گیا ہے۔

۰۶۹                       کہنے لگے دریافت کر اپنے پروردگار سے ! بیان کر دے ہم کو کہ اس کا رنگ کیا ہے ؟ موسیٰ نے کہا ! وہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے زرد ! خوب گہرا ہے اس کار نگ ! بھلی لگتی ہے دیکھنے والوں کو

۰۷۰                      وہ بولے کہ پکار ہماری وجہ سے اپنے پروردگار کو ! بیان کر دے ہمارے لئے کہ وہ کس قسم میں ہے ! ف ۱ گایوں میں تو ہمیشہ پڑ گیا ! اور ہم خدا نے چاہا تو راہ پالیں گے

( ف ۱: یہودیوں کی حماقت جب ان لوگوں نے جانا کہ گائے ذبح کرنا اب ہم پر اللہ کی طرف سے آ ہی پڑا اور پہلے سے گائے کے ذبح کرنے اور اپنے مقصود کے حصول میں بعد سمجھے تھے اس لئے یہ خیال ہوا کہ جس گائے کے ذبح کرنے کا حکم ہوا ہے وہ کوئی بڑی عجیب گائے ہو گی اس لئے اس کی صفات کے طالب ہوئے اور یہ ان کی بڑی حماقت تھی رسول اللہ فرماتے ہیں کہ اگر یہ لوگ کوئی سی گائے لے کر ذبح کر دیتے تو کافی تھی لیکن انہوں نے آپ تنگی کی اللہ تعالیٰ نے بھی ان پر تنگی و تشدد فرما دیا۔ )

۰۷۱                       موسیٰ نے کہا ! اللہ فرماتا ہے کہ وہ ایک گائے ہے نہ تو محنت والی اور نہ جوتے زمین میں نہ پانی دیتی ہو کھیتی کو ! صحیح سالم ! کوئی داغ میں نہیں ! وہ بولے تو اب لایا ٹھیک پتہ ! سو انہوں نے ذبح کیا اور لگتے نہ تھے کہ کریں گے۔

خلاصہ رکوع ۸

نجات کے لئے ایمان و عمل صالح کو مدار قرار دیا گیا کہ تمام آیات انبیاء فرشتوں اور آسمانی کتب پر ایمان لانا بھی ضروری ہے یہودیوں سے تسلیم احکام، ہفتہ کے دن کی خلاف ورزی کرنے والوں کا انجام کا ذکر کیا گیا پھر بنی اسرائیل کے مقتول کی تحقیق اور خدا پرستی و ماں کی فرمانبرداری پر انعام ذکر کیا گیا۔

۰۷۲                       اور جب تم نے مار ڈالا تھا ایک شخص کو پھر لگے ایک دوسرے پر دھرنے اور اللہ کو اس کا فاش کرنا تھا جو تم چھپاتے تھے !

۰۷۳                       تو ہم نے کہا کہ اس مردے کو مارو گائے کے ٹکڑے سے ! اسی طرح اللہ مردے جلاتا اور تم کو اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھ جاؤ

۰۷۴                       پھر سخت ہو گئے تمہارے دل اس کے بعد ف ۱ سو وہ پتھر کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ سخت ! اور بھی ہیں کہ ان سے پھوٹ بہتی ہیں نہریں اور بعض ایسے بھی ہیں کہ پھٹ جاتے ہیں اور نکل آتا ہے ان سے پانی ! اور بعض ایسے بعض پتھر تو ایسے بھی ہیں جو گر پڑتے ہیں اللہ کے ڈر سے ! اور اللہ اس سے بیخبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو !

( ف ۱: دل کی سختی کے اسباب:

تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ کے ذکر کے سوا زیادہ باتیں نہ کیا کرو ایسے کلام کی کثرت دل کو سخت کر دیتی ہے اور سخت دل والا خدا سے بہت دور ہو جاتا ہے۔ امام ترمذی نے بھی اس حدیث کو بیان فرمایا ہے اس کے ایک طریقہ کو غریب کہا ہے۔ بزار میں حضرت انسؓ  سے مرفوعاً روایت ہے کہ چار چیزیں بدبختی اور شقاوت کی ہیں خوف خدا سے آنکھوں سے آنسو نہ بہنا، دل کا سخت ہو جانا، امیدوں کا بڑھ جانا، لالچی بن جانا۔ (تفسیر ابن کثیر)

عابدوں کے دل:

بعض قلوب ایسے ہیں کہ اللہ کی عظمت اور جلال کے سامنے پست ہیں۔ تکبر اور غرور سے پاک ہیں کبھی اس کے حکم کے خلاف سر نہیں اٹھاتے۔ یہ عباد اور زہاد کی شان ہے۔ مگر ان کافروں کے دل پتھر سے بھی زائد سخت ہو گئے ہیں کہ غرور اور تکبر عناد اور سرکشی سے کبھی حق کے سامنے جھکتے بھی نہیں اللہ کی ہدایت کو قبول کرنا تو درکنار اس کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ اس مقام پر بھی بنی اسرائیل کی جس قساوت کا ذکر ہے وہ بھی اسی سبب یعنی کثرت کلام کی وجہ سے ہے کہ جب گائے کے ذبح کا حکم ہوا تو معاندانہ سوالات کا ایک سلسلہ شروع کر دیا ان بے ہودہ سوالات کا یہ نتیجہ نکلا کہ دل پتھر سے بھی زائد سخت ہو گئے۔ )

۰۷۵                       (مسلمانو) کیا تم توقع رکھتے ہو کہ (یہود) مان لیں گے تمہاری بات ! حالانکہ ان ہی میں ایسے لوگ بھی تھے جو سنتے تھے اللہ کا کلام پھر اس کو بدل ڈالتے تھے سمجھے پیچھے اور وہ جانتے تھے

۰۷۶                       اور جب ملتے ہیں مسلمانوں سے تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہوئے اور جب تنہا ہوتے ہیں ایک دوسرے کے پاس تو کہے دیتے ہو مسلمانوں سے جو اللہ نے ظاہر کیا تم پر تاکہ تم سے جھگڑیں اس کے ذریعہ سے تمہارے پروردگار کے آگے ! کیا تم کو عقل نہیں

(ف: یہودیوں کی ایک دوسرے کو ملامت: یہود میں جو لوگ منافق تھے وہ بطور خوشامد اپنی کتاب میں سے پیغمبر آخر الزمان کی باتیں مسلمانوں سے بیان کرتے دوسرے لوگ ان میں سے ان کو اس بات پر ملامت کرتے کہ اپنی کتاب کی سند ان کے ہاتھ میں کیوں دیتے ہو کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمان تمہارے پروردگار کے آگے تمہاری خبر دی ہوئی با توں سے تم الزام قائم کریں گے کہ پیغمبر آخر الزماں کو سچ جان کر بھی ایمان نہ لائے اور تم کو لاجواب ہونا پڑے گا۔ (تفسیر عثمانی)

۰۷۷                       کیا یہ لوگ اتنا بھی نہیں جانتے کہ اللہ کو معلوم ہے جو کچھ یہ چھپاتے اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں

۰۷۸                       اور بعض ان میں ان پڑھ ہیں کہ خبر نہیں رکھتے کتاب کی سوائے باندھی ہوئی آرزؤں کے اور ان کا خیال ہی خیال ہے

۰۷۹                       تو وائے ان پر جو لکھتے ہیں کتاب اپنے ہاتھوں سے پھر کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں سے ہے تاکہ لیویں اس کے ذریعہ سے تھوڑے سے دام ! ف ۲ پس وائے ان پر ان کے ہاتھوں کے لکھے سے اور وائے ان پر ایسی کمائی سے

( ف ۲: آنحضرت کے حلیہ مبارک میں تحریف: توریت میں جو صفت لکھی تھی اسے متغیر کر دیا۔ چنانچہ توریت میں جناب سرور کائنات فخر عالم رسول مقبول کا حلیہ یہ لکھا تھا۔ خوبصورت، اچھے بالوں والے، سرمگیں چشم، متوسط قد والے، اس کی جگہ ان ظالموں نے یہ لکھ دیا۔ لمبے قد والے، نیلگوں چشم، چھدرے بالوں والے۔ جب عام لوگوں نے ان نام نہاد علماء سے پوچھا کہ نبی آخر الزماں کا توریت میں کیا حلیہ لکھا ہے تو انہوں نے یہی متغیر شدہ الفاظ پڑھ دیئے۔ ان سب نے دیکھا کہ محمد ان سب احوال سے جدا ہیں اس لئے تکذیب کرنے لگے۔ )

۰۸۰                      اور کہتے ہیں کہ ہم کو آگ چھوئے گی بھی نہیں مگر گنتی کے چند روز ! ( اے محمد) کہہ دے کیا لیا ہے تم نے اللہ سے کوئی قرار ہرگز خلاف نہ کرے گا اللہ اپنے قرار کے یا جوڑتے ہو اللہ پر جو نہیں جانتے ! ف ۱

ف ۱: حاصل دعوی یہود کا یہ تھا کہ چونکہ دین موسوی ان کے زعم میں منسوخ نہیں اس لئے وہ مومن ہیں اور مومن اگر دوزخ میں کسی وجہ سے ڈالے جائیں گے تو صرف چند روز کے لئے ڈالے جائیں گے اور چونکہ اس دعویٰ کی بنیاد ہی غلط ہے کیونکہ شریعت موسویہ منسوخ ہو چکی ہے اس لئے انکار نبوت مسیحیہ و محمدیہ سے وہ کافر ہو گئے اور کفار کے لئے بعد چندے نجات ہو جانا کسی کتاب سماوی میں نہیں جس کو حق تعالیٰ نے عہد سے تعبیر فرمایا پس ثابت ہوا کہ دعوی بے دلیل بلکہ خلاف دلیل ہے۔ )

۰۸۱                       سچ تو یہ ہے ف ۲ کہ جس نے کی برائی اور گھیر لیا اس کو اس کے گناہ نے تو وہی لوگ دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

ف ۲: سبب نزول:

حضرت ابن عباسؓ  فرماتے ہیں یہودی لوگ کہا کرتے تھے کہ دنیا کی کل مدت سات ہزار سال ہے۔ ہر سال کے بدلے ایک دن ہمیں عذاب ہو گا تو صرف سات دن ہمیں جہنم میں رہنا پڑے گا۔ اس قول کی تردید میں یہ آیتیں نازل ہوئیں۔ )

۰۸۲                       اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کئے وہ جنتی ہیں وہ اسی میں ہمیشہ رہیں گے

خلاصہ رکوع ۹

گزشتہ مقتول کے واقعہ کا نتیجہ یہ ہے کہ کس طرح مقتول زندہ ہوا۔ پھر بنی اسرائیل کی سنگدلی کو مثال سے سمجھایا گیا۔ یہود کے مختلف گروہ جیسے احبارو رہبان، منافقین، ان پڑھ عوام، خائن علماء، آرزو پرست لوگوں کی بد اعمالیوں کو مفصل ذکر کیا گیا۔ آخر میں ایمان و عمل صالح پر جنت کی بشارت دی گئی۔

۰۸۳                       اور (یاد کرو) جب ہم نے بنی اسرائیل سے قرار لیا کہ نہ عبادت کرنا اللہ کے سوا کسی کی ! اور ماں باپ کے ساتھ سلوک کرنا اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ ! اور کہیو لوگوں سے نیک بات ! اور درست کیجیو نماز اور دیجیو زکوٰۃ ! پھر تم سب پھر گئے سوائے تھوڑے سے آدمیوں کے اور ہو ہی تم لوگ پھرنے والے !

۰۸۴                       اور (یاد کرو) جب ہم نے تم سے قرار لیا کہ خون نہ بہانا آپس میں اور نہ جلا وطن کرنا اپنوں کو اپنے وطن سے ! پھر تم نے اقرار کیا اور تم گواہ ہو

۰۸۵                       پھر وہی تم ہو کہ خون کرتے ہو آپس میں اور نکال دیتے ہو اپنے ایک فرقے کو ان کے وطن سے ! ایک دوسرے کی مدد کرتے ہو ان کے مقابلہ میں گناہ اور ظلم سے ! اور اگر وہی لوگ آئیں تمہارے پاس قید ہو کر تو عوض دے کر ان کو چھڑا لیتے ہو حالانکہ حرام کر دیا گیا تھا تم پر ان کا نکالنا ہی ! ف ۱ تو کیا مانتے ہو کتاب کی بعض بات کو اور نہیں مانتے بعض ! پس کچھ سزا نہیں اس کی جو کوئی تم میں یہ کام کرتا ہے مگر رسوائی دنیا کی زندگی میں ! اور قیامت کے دن پہنچا دیئے جاویں سخت سے سخت عذاب میں ! اور اللہ بیخبر نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو ف ۱

ف ۱: مدینہ میں عرب کی دو قومیں رہتی تھیں۔ اوس و خزرج اور گرد و نواح میں یہود کی دو قومیں بستی تھیں بنی قریظہ اور بنی نضیر۔ بنی قریظہ کی اوس سے دوستی تھی اور بنی نضیر خزرج کے یار تھے اور اوس و خزرج میں باہم عداوت تھی جب بھی اوس و خزرج میں باہم قتل و قتال ہوتا تو بنی قریظہ اوس کی طرف ہوتے اور بنی نضیر خزرج کی حمایت کرتے تو جہاں اوس و خزرج مارے جاتے اور خانماں آوارہ ہو جاتے ان کے دوستوں کو بھی یہ مصیبت پیش آتی۔ بنی قریظہ بنی نضیر کے ہاتھوں قتل و برباد ہوتے اور وہ ان کے ہاتھوں البتہ اگر یہودیوں میں سے کوئی کسی کے ہاتھ میں قید ہو جاتا تو ہر ایک فریق اپنے دوستوں کو مال سے راضی کر کے اس کو رہا کرا دیتا اور جو کوئی پوچھتا تو کہتے کہ ہم پر اس کا رہا کرا دینا واجب ہے اور جو کوئی اعتراض کرتا کہ پھر ان کے قتل و اخراج میں کیوں معین ہوتے ہو تو کہتے کیا کریں اپنے دوستوں کا ساتھ نہ دینے سے عار آتی ہے حق تعالیٰ نے اسی کی شکایت فرمائی ہے کہ تم کو تین حکم دیئے گئے تھے ایک قتل نہ کرنا دوسرا اخراج نہ کرنا تیسرا قیدی کو رہا کرا دینا تم نے حکم اول و دوم کو تو ضائع کر دیا اور صرف تیسرے کا اہتمام کیا گناہ اور ظلم دو لفظ لانے میں اشارہ ہو سکتا ہے کہ اس میں دو حق ضائع ہوئے ایک حق اللہ کہ حکم الٰہی کی تعمیل نہ کی دوسرے حق العباد کہ مخلوق کو بلاوجہ آزارپ ہنچایا۔ )

ف ۱: اس جگہ بعض احکام پر عمل نہ کرنے کو کفر سے تعبیر کیا گیا ہے حالانکہ جب تک حرام کو حرام سمجھے اس کے ارتکاب سے آدمی کافر نہیں ہوتا تو وجہ اس کی یہ ہے کہ جو گناہ بہت شدید ہوتے ہیں شرعی محاورہ میں دھمکی کے لئے ان پر کفر کا اطلاق کر دیا جاتا ہے جیسے ہمارے محاورے میں کہہ دیتے ہیں کہ تو بالکل چمار ہے حالانکہ مخاطب یقیناً چمار نہیں مقصود اس کام سے نفرت دلانا ہوتا ہے یہی معنی ہیں اسی حدیث کے جیسے ” من ترک الصلوۃ متعمدا فقد کفر ” اور اس جگہ دو سزاؤں کا ذکر ہے ایک دنیوی سو اس کا ظہور اس طرح ہوا کہ رسول اللہﷺ  ہی کے زمانہ میں بنی قریظہ بوجہ نقض معاہدہ کے قتل و قید کئے گئے اور بنی نضیر ملک شام کی طرف جلاوطن کئے گئے۔

۰۸۶                       یہی لوگ ہیں جنہوں نے مول لی ہے دنیا کی زندگانی آخرت کے بدلے ! سو نہ ہلکا ہو گا ان سے عذاب اور نہ ان کو مدد پہنچے گی

خلاصہ رکوع ۱۰

موسیٰ (علیہ السلام) کی وساطت سے یہود سے لئے گئے عہد اور بنی اسرائیل کی عہد شکنی کا بیان ہے پھر ان کی مزید عہد شکنیوں کا ذکر کیا گیا اور ان کی بد اعمالیوں کی وجہ بیان کی گئی۔

۰۸۷                       اور دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے در پے بھیجے اس کے پیچھے رسول اور دیئے ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ کو کھلے معجزے اور قوت دی اس کو روح پاک (جبریل) سے تو کیا کبھی لایا تمہارے پاس کوئی رسول وہ حکم کہ نہ پسند کیا تمہارے جی نے ! تم تکبر کرنے لگے ! پھر ایک جماعت کو تم نے جھٹلایا اور ایک جماعت کو قتل کرنے لگے

۰۸۸                       اور کہتے ہیں کہ ہمارے دل غلافوں میں ہیں ! (نہیں ) بلکہ پھٹکار دیا ان کو اللہ نے ان کے کفر کی وجہ سے سو بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں ف ۲

ف ۲: اور تھوڑا سا ایمان مقبول نہیں پس وہ کافر ہی ٹھہرے اور اس تھوڑے ایمان کو لغت کے اعتبار سے ایمان کہہ دیا کہ لغت میں ذرا سی تصدیق کو بھی ایمان کہہ سکتے ہیں ورنہ شرعی ایمان یہ ہے کہ جملہ احکام کا یقین کیا جائے ایک حکم کا انکار بھی ہو تو وہ ایمان نہیں کفر ہے تو یہ لوگ گو خدا کے قائل تھے اور قیامت کے قائل تھے اور اسی کو تھوڑا سا ایمان کہا گیا ہے مگر نبوت محمدیہ اور قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کے منکر تھے اس لئے پورا ایمان نہیں تھا بلکہ شرعاً وہ لوگ کافر تھے۔

۰۸۹                       اور جب پہنچی ان کے پاس اللہ کی طرف سے کتاب جو سچ بتاتی ہے اس کتاب کو جو ان کے پاس ہے اور یہ لوگ پہلے سے فتح بھی مانگا کرتے تھے کافروں پر ! سو جب آ پہنچا ان کے پاس جس کو جان پہچان رکھا تھا (تو) انکار کر دیا اس کا پس اللہ کی پھٹکار انکار کرنے والوں پر ف ۱ !

ف ۱: جو جان بوجھ کر محض تعصب کے سبب انکار کریں اور یہ شبہ نہ کیا جائے کہ جب وہ قرآن کو اور رسول کو برحق جانتے تھے تو ان کو مومن کہنا چاہئے پھر کافر کیسے کہا گیا جواب یہ ہے کہ جس طرح حق کو باطل جاننا کفر ہے ویسے ہی باوجود حق جاننے کے انکار کرنا بھی کفر ہے، دوسرے ان کا یہ علم اضطراری تھا جس سے ان کا دل کراہت بھی کرتا تھا اس کا نام ایمان نہیں ایمان یہ ہے کہ باختیار خود بخوشی تصدیق کر کے تسلیم کیا جائے اور قرآن کو مصدق تورات اس لئے فرمایا کہ تورات میں جو پیشین گوئیاں بعثت محمدیہ اور نزول قرآن کے متعلق تھیں نزول قرآن سے ان کا سچا ہونا ظاہر ہو گیا پس تورات کا ماننے والا قرآن و صاحب قرآن کی تکذیب کر ہی نہیں سکتا۔ )

۰۹۰                      برا مول ہے جس کے بدلے کر دیا انہوں نے اپنی جانوں کو کہ انکار کرنے لگے اس (کلام) کا جو اتارا اللہ نے اس حسد میں کہ اتارے اللہ (وحی) اپنے فضل سے اپنے بندوں میں سے جس پر چاہے سو کمایا انہوں نے غصہ پر غصہ ! اور کافروں کے لئے ذلت کا عذاب ہے ف ۲

ف ۲: اور عذاب میں ذلت کی قید سے کفار ہی کے ساتھ یہ عذاب خاص ہو گیا کیونکہ مومن گناہ گار کو جو عذاب ہو گا وہ محض گناہوں سے پاک صاف کرنے کے لئے ہو گا ذلت مقصود نہ ہو گی۔

۰۹۱                       اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آؤ اس کلام پر جو اللہ نے نازل فرمایا تو کہتے ہیں کہ ہم تو ایمان لاویں گے اسی پر جو اترا ہے ہم پر اور کفر کرتے ہیں اس کے ماسوا کا ! حالانکہ وہ سچا ہے ! تصدیق بھی کرتا ہے اس (کتاب کی) جو ان کے پاس ہے ! (اے محمد) کہہ دے کہ پھر کیوں قتل کرتے رہے ف ۳ اللہ کے نبیوں کو پہلے سے اگر تم مسلمان تھے

ف ۳: تم نے انبیاء کو کیوں قتل کیا ؟ ان سے کہہ دو کہ ” اگر تم توریت پر ایمان رکھتے ہو تو پھر تم نے انبیاء کو کیوں قتل کیا ؟ کیونکہ توریت میں یہ حکم ہے کہ ” جو نبی توریت کو سچا کہنے والا آئے اس کی نصرت کرنا اور اس پر ضرور ایمان لانا ” اور قتل بھی ان انبیاء کو کیا جو پہلے گزر چکے ہیں (جیسے حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ ) جو احکام توریت پر عمل کرتے تھے اور اسی کی ترویج کے لئے مبعوث ہوئے تھے ان کے مصدق توریت ہونے میں تو بیوقوف کو بھی تامل نہیں ہو سکتا (یہ بات لفظ قبل سے مفہوم ہوئی) (تفسیر عثمانی)

۰۹۲                       اور آ چکا تمہارے پاس موسیٰ کھلی نشانیاں لے کر ! پھر بنا لیا تم نے بچھڑا اس کے پیچھے اور تم ظلم کرتے تھے ف ۱

ف ۱: بینات سے مراد وہ دلیلیں ہیں جو نزول تورات سے پہلے موسیٰ (علیہ السلام) کے صدق پر قائم ہو چکی تھیں، جیسے عصا، ید بیضا اور فلق البحر وغیرہ، اور گو یہ قصہ گو سالہ پرستی کا پہلے بھی آ چکا ہے مگر وہاں ان کے معاملات قبیحہ کا بتلانا مقصود تھا اور یہاں ان کے دعوی ایمان کی تکذیب مقصود ہے۔ فائدہ بدل جانے سے تکرار نہ رہا حاصل کلام یہ ہے کہ تم ایمان کے مدعی ہو مگر یہ فعل تو صریح شرک تھا جس سے موسیٰ کی اور اللہ تعالیٰ کی تکذیب صراحۃً لازم آئی اور گو سالہ پرستی وغیرہ کا خطاب یہود ان زمانہ نبوی سے یا اس لیے ہے کہ وہ ان کے حامی تھے یا یہ مطلب ہے کہ جب تمہارے سلف ایسے تھے تو تم سے کفر بمحمدﷺ  چنداں عجیب

۰۹۳                       اور ہم نے تم سے قرار لیا اور اونچا اٹھایا تمہارے اوپر طور کو پکڑو جو کچھ دیا ہے ہم نے تم کو مضبوطی سے اور سنو ! تو بولے کہ سنا اور مانا نہیں ! اور رچ گیا تھا ان کے دلوں میں بچھڑا ان کے کفر کے باعث (اے محمد) کہہ دے کہ بہت برا سکھاتا ہے تم کو تمہارا ایمان اگر تم ایمان والے ہو

۰۹۴                       کہہ دے کہ اگر تمہارے ہی واسطے عاقبت کا گھر اللہ کے ہاں خاص ہے دوسروں کے لئے نہیں تو آرزو کرو مرنے کی اگر تم سچے ہو ف ۲

ف ۲: موت کی دعا کا طریقہ:

حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا مصیبت کے سبب کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے اگر اس تمنا کرنے کو جی چاہتا ہے اور بغیر تمنا کے رہ ہی نہیں سکتا تو اس قدر کہہ دے کہ اے اللہ جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہو تو مجھے زندہ رکھ اور جب میرا مرنا بہتر ہو تو موت دے۔ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے اور انہیں سے ایک روایت میں ہے کہ جب کوئی تم میں سے مرتا ہے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے اور عمر خیر ہی کو بڑھاتی ہے (یعنی عمر بری چیز نہیں کچھ نہ کچھ اس میں مومن خیر ہی کرے گا۔

موت کی تمنا نہ کرو:

ابو ہریرہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ کوئی تم میں سے موت کی ہرگز تمنا نہ کرے کیونکہ یہ شخص یا تو نیک کار ہو گا تو شاید نیکی زیادہ کرے اور یا بدکار ہے تو ممکن ہے کہ بدی سے باز آ جاوے اس حدیث کو بخاری نے روایت کیا ہے۔

۰۹۵                       اور کبھی ہرگز آرزو نہ کریں گے موت کی بوجہ ان (گناہوں ) کے جو ان کے ہاتھ آگے پہنچ چکے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے گنہگاروں کو۔

۰۹۶                       اور (اے محمد) البتہ تو پائے گا ان کو سب لوگوں سے زیادہ حریص جینے کا ! اور ان لوگوں سے زیادہ جو مشک ہیں ! ان میں سے ہر ایک چاہتا ہے کہ کاش جیتا رہے ہزار برس ! اور نہیں اس کو نجات دینے والا عذاب سے اس قدر جینا ! اور اللہ دیکھتا ہے جو وہ کرتے ہیں

خلاصہ رکوع ۱۱

یہود کی رہنمائی کے لئے ہزاروں انبیاء (علیہم السلام) کی بعثت اور اس کے رد عمل میں یہود کی انتہائی سنگدلی کو ذکر کیا گیا پھر بتایا گیا کہ حضورﷺ  سے دشمنی کر کے یہود دگنے غضب خداوندی کے مستحق ہو گئے۔ یہود کے دعوائے ایمان کی حقیقت اور ان کے کفر کو دلائل سے ثابت ہو گیا جنت کس کے لئے ہے اس کی وضاحت فرمائی گئی۔

۰۹۷                       (اے محمد) کہہ دے کہ جو کوئی دشمن ہو جبریل کا (ہوا کرے ) اس نے تو اتارا ہے یہ کلام تیرے دل پر اللہ کے حکم سے جو سچ بتاتا ہے اس کلام کو جو اس سے پہلے ہے اور ہدایت اور خوشخبری ہے ایمان والوں کے لئے

۰۹۸                       جو دشمن ہے اللہ کا اور اس کے فرشتوں کا اور رسولوں کا اور جبریل اور میکائیل کا تو اللہ دشمن ہے کافروں کا

۰۹۹                       اور (اے محمد) ہم نے اتاریں تیری طرف کھلی نشانیاں ! اور نہ انکار کریں گے ان کا مگر وہی جو نافرمان ہیں ف ۱

ف ۱: سبب نزول آیت ۹۹:

ابن ابی حاتم نے ابن عباسؓ  سے روایت کیا ہے کہ جناب رسول اللہﷺ  نے مالک بن حنیف یہودی سے ذکر فرمایا کہ دین محمدی کے بارے میں تم سے عہد و پیمان لیا گیا ہے کہ جب وہ دین ظاہر ہو اس کا اتباع کرنا، مالک نے سن کر کہا کہ قسم اللہ کی ہم سے ہرگز اس قسم کا عہد نہیں لیا گیا۔ اس کی تکذیب میں اللہ تعالیٰ نے ذیل کی آیت کریمہ نازل فرمائی ” او کلما عہدوا عہدا ” (کیا جب کبھی کوئی عہد کرتے ہیں ) (تفسیر مظہری)

بعض یہود نے حضورﷺ  سے کہا تھا کہ آپ پر کوئی ایسی واضح دلیل نازل نہ ہوئی جس کو ہم بھی جانتے اس کے جواب میں فرمایا جاتا ہے کہ وہ تو ایک دلیل کو کہتے ہیں ہم نے آپ کے پاس دلائل واضح نازل کئے ہیں جن کو وہ بھی خوب جانتے پہچانتے ہیں یہ انکار محض عدول حکم کی عادت کی وجہ سے ہے۔ )

۱۰۰                      کیا یہ لوگ جب کبھی باندھیں گے کوئی قرار تو پھینک دے گا اس کو کوئی نہ کوئی فریق ان کا ! بلکہ ان میں سے بہت تو ایمان ہی نہیں رکھتے

۱۰۱                       اور جب آیا ان کے پاس اللہ کی طرف سے رسول کہ سچا بتاتا ہے اس کتاب کو جو ان کے پاس ہے پھینک دیا ایک گروہ نے ان لوگوں میں سے جو کتاب دیئے گئے ہیں اللہ کی کتاب کو پیٹھ کے پیچھے گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں ف ۱

ف ۱: سبب نزول آیت ۱۰۰           ابن عباسؓ  سے مروی ہے کہ ابن صوریا یہودی نے ایک مرتبہ آنحضرتﷺ  سے کہا کہ تم اپنی نبوت و رسالت کی کوئی ایسی نشانی نہیں لاتے جسے ہم بھی پہچانیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ جن اور انس چرند اور پرند سب ان کے زیر حکم تھے اس لئے شیاطین اور جنات اور آدمی سب ملے جلے رہتے تھے۔ شیطانوں نے آدمیوں کو جادو سکھا رکھا تھا اور معاذ اللہ یہ سلیمان (علیہ السلام) نے کبھی کسی قسم کا کفر نہیں کیا نہ عملی اور نہ اعتقادی اور نہ قبل النبوۃ اور نہ بعد النبوۃ اس لئے کہ وہ تو اللہ کے پیغمبر تھے کفر کے مٹانے کے لئے مبعوث ہوئے تھے۔ سحر کو سلیمان (علیہ السلام) کی طرف نسبت کرنا سراسر افتراء ہے۔ اس زمانہ میں ناول اور با تصویر رسالے جو تخریب اخلاق میں جادو کا اثر رکھتے ہیں۔ (معارف القرآن)

۱۰۲                       اور پیچھے پڑ گئے اس علم کے کہ جو پڑھتے تھے شیطان سلطنت سلیمان میں ! اور سلیمان نے کفر نہیں کیا لیکن شیطانوں نے کفر کیا کہ سکھاتے تھے لوگوں کو جادو اور اس علم کے (پیچھے پڑ گئے ) جو اترا بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اور یہ دونوں فرشتے نہ سکھاتے تھے کسی کو جب تک کہ یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو آزمانے کو ہیں سو تو کافر مت ہو ! پھر سیکھتے ان سے وہ باتیں کہ جدائی ڈال دیں ان کی وجہ سے میاں بی بی میں ! اور وہ نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے اس سے کسی کو بغیر حکم اللہ کے اور سیکھتے وہ چیز جو ان کو نقصان پہنچاوے اور نہ نفع دے اور بیشک جان چکے تھے کہ جس نے خریدا اس کو آخرت میں اس کا کچھ بھی حصہ نہیں اور بہت بڑا مول ہے کہ جس پر انہوں نے اپنی جانوں کو بیچا ! کاش ان کو سمجھ ہوتی ف ۱

ف ۱: شیطان کا بڑا کارنامہ:

صحیح مسلم میں حدیث ہے رسول اللہﷺ  فرماتے ہیں شیطان اپنا عرش پانی پر رکھتا ہے پھر اپنے لشکروں کو بہکانے کے واسطے بھیجتا ہے سب سے زیادہ مرتبہ والا اس کے نزدیک وہ ہے جو فتنے میں سب سے زیادہ بڑھا ہوا ہو یہ جب واپس آتے ہیں تو اپنے بدترین کاموں کا ذکر کرتے ہیں کوئی کہتا ہے کہ میں نے فلاں کو اس طرح بے راہ کر دیا کوئی کہتا ہے میں نے فلاں شخص سے یہ گناہ کرایا شیطان ان سے کہتا ہے کچھ نہیں معمولی کام ہے یہاں تک کہ ایک آ کر کہتا ہے کہ میں نے فلاں شخص کے اور اس کی بیوی کے درمیان جھگڑا ڈال دیا یہاں تک کہ جدائی ہو گئی شیطان اسے گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے ہاں تو نے بڑا کام کیا اسے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے اور اس کا مرتبہ بڑھا دیتا ہے۔

۱۰۳                       اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیزگار بنتے تو ثواب اللہ کے یہاں سے بہتر ملتا اے کاش وہ سمجھتے ۔

خلاصہ رکوع ۱۲

یہود کی جبرئیل (علیہ السلام) سے دشمنی اور اس کی وجہ کو ذکر کیا گیا اس ضمن میں نزول قرآن کا طریقہ بتایا گیا یہود نے کس طرح خود تورات کو پس پشت ڈال دیا۔ کتاب اللہ کو چھوڑ کر جادو کی پیروی میں لگ گئے۔

۱۰۴                       ایمان والو ! نہ کہا کرو تم ” راعنا ” بلکہ کہا کرو ” انظرنا ” اور سنا کرو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے ف ۲

ف ۲: یہودیوں کی بد نیتی:

یہودی آ کر آپﷺ  کی مجلس میں بیٹھتے اور حضرت کی باتیں سنتے بعضی بات جو اچھی طرح نہ سنتے اس کو مکرر تحقیق کرنا چاہتے کہتے ” راعنا ” (یعنی ہماری طرف متوجہ ہو اور ہماری رعایت کرو) یہ کلمہ ان سے سن کر کبھی مسلمان بھی کہہ دیتے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا کہ یہ لفظ نہ کہو اگر کہنا ہو تو انظرنا کہو (اس کے معنی بھی یہی ہیں ) اور ابتداء ہی سے متوجہ ہو کر سنتے رہو تو مکرر پوچھنا ہی نہ پڑے، یہود اس لفظ کو بدنیتی اور فریب سے کہتے تھے اس لفظ کو زبان دبا کر کہتے تو ” راعینا ” ہو جاتا (یعنی ہمارا چرواہا) اور یہود کی زبان میں راعنا احمق کو بھی کہتے ہیں۔ (تفسیر مظہری)

۱۰۵                       وہ لوگ خوش نہیں ہیں جو کافر ہیں کتاب والوں اور مشرکوں میں اس بات سے کہ اترے تم پر بھلائی تمہارے پروردگار کی طرف سے اور اللہ اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتا ہے جس کو چاہتا ہے ! اور اللہ بڑی مہر والا ہے

۱۰۶                       جو منسوخ کر دیتے ہیں ہم کوئی آیت یا بھلا دیتے ہیں تو نازل کر دیتے ہیں اس سے بہتر یا اس جیسی ! کیا تجھے کہ معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے

۱۰۷                       کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ اللہ ہی کی ہے بادشاہت آسمان اور زمین کی ! اور تمہارے لئے کوئی نہیں اللہ کے سوائے حامی اور نہ کوئی مددگار ف ۱

( ف ۱: پس جب وہ دوست ہیں تو احکام میں مصلحت کی ضرور رعایت کریں گے اور جب مددگار ہیں تو ان احکام پر عمل کرنے کے وقت مخالفین کی مزاحمت سے بھی ضرور محفوظ رکھیں گے ہاں اگر اس ضرر سے بڑھ کر کوئی نفع اخروی ملنے والا ہو تو ظاہراً مخالف کا مسلط ہو جانا اور بات ہے۔

فائدہ: حکم ثانی کے لئے عقلاً یہ امور ضروری ہیں: ۱۔ اس کا موافق مصلحت ہونا، ۲۔ حاکم کا قادر ہونا، ۳۔ حاکم کا محکومین کے لئے خیر خواہ ہونا، ۴۔ اور کوئی ان میں سے مزاحمت کرے تو ان کی امداد کرنا حق تعالیٰ نے اس جگہ اس سب شرطوں کو بیان فرما دیا۔

فائدہ: قانون کا بدلنا کبھی اس لئے ہوتا ہے کہ بانی قانون سے فروگزاشت ہو گئی تھی یہ تو احکام الٰہیہ میں محال ہے اس وجہ سے ہوتا ہے کہ محکومین کی حالت بدلنے سے مصلحت بدل گئی جیسے مریض کی حالت بدلنے پر نسخہ بدلا جاتا ہے ایسا نسخ واقع ہے اور اس میں کوئی اشکال نہیں۔ )

۱۰۸                       کیا تم یہ چاہتے ہو کہ سوال کرو اپنے رسول سے جیسے سوال ہو چکے ہیں موسیٰ سے پہلے اور جو ایمان کے بدلے میں کفر لے بیشک وہ بھٹک گیا سیدھے راستہ سے ف ۲

ف ۲: رافع بن حریملہ اور وہب بن زید نے کہا تھا کہ اے محمد ! کوئی آسمانی کتاب ہم پر نازل کیجئے جسے ہم پڑھیں اور ہمارے شہروں میں دریا جاری کر دیں تو ہم آپ کو مان لیں اس پر یہ آیت اتری۔ (تفسیر ابن کثیر)

۱۰۹                       چاہتے ہیں بہت سے اہل کتاب کہ تم کو پھیر کر مسلمان ہوئے پیچھے کافر بنا دیں ! دلی حسد کی وجہ سے اس کے بعد کہ ظاہر ہو چکا ان پر حق ! سو تم درگزر کرو اور خیال میں نہ لاؤ جب تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم ! بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

۱۱۰                       اور درست رکھو نماز کو اور دیتے رہو زکوٰۃ ! اور جو کچھ آگے بھیج دو گے اپنے لئے بھلائی (تو) وہ پاؤ گے اللہ کے پاس ! بیشک اللہ جو کچھ تم کرتے ہو دیکھ رہا ہے

۱۱۱                        اور کہتے ہیں کہ ہرگز نہ جاویں گے جنت میں مگر جو یہودی یا عیسائی ہوں گے ! یہ ان کی (من مانی) آرزوئیں ہیں ! کہہ دے کہ پیش کرو اپنی دلیل اگر تم سچے ہو

۱۱۲                        بات تو یہ ہے کہ جس نے جھکا دیا اپنا منہ اللہ کے سامنے اور وہ نیکوکار بھی ہے تو اس کے لئے اس کا ثواب اس کے پروردگار کے ہاں ہے ! اور نہ کچھ ان پر ڈر ہے اور نہ کبھی غمگین ہوں گے ف ۱

( ف ۱: ایک بار کچھ یہود کچھ نصرانی جمع ہو کر کچھ مذہبی مباحثہ کرنے لگے یہود نصاریٰ کے دین کو اصل سے باطل بتلاتے تھے اور نبوت عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے نصاریٰ بھی تعصب میں آ کر یہود کے دین کو بے اصل و باطل کہنے لگے اور موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت و توراۃ کے کتاب اللہ ہونے کا انکار کرنے لگے اللہ تعالیٰ اس قصہ کو نقل فرما کر رد کرتے ہیں۔ )

خلاصہ رکوع ۱۳

یہود مدینہ کی ایک شرارت سے متعلق مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا۔ امت محمدیہ کی خصوصیت کہ قرآن کریم براہ راست انہیں مخاطب کر رہا ہے یہود کا مسلمانوں سے حسد اور اس کی وجہ ذکر فرمائی گئی۔ قرآن کریم پر یہود کا اعتراض اور اس کا جواب فرمایا گیا۔ آگے کثرت سوال سے ممانعت کی گئی یہود کی طرف سے مسلمانوں کو برگشتہ کرنے کی ناکام کوشش کو ذکر کیا گیا۔ دشمنان دین کے حملوں سے تحفظ کے لئے نماز اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو معمول بنانے کا حکم دیا گیا آگے یہود و  نصاریٰ کے مستحق جنت ہونے کے دعوی کی تردید کی گئی۔

۱۱۳                        اور یہود تو کہتے ہیں کہ نہیں نصاریٰ کسی راہ پر اور عیسائی کہتے ہیں کہ نہیں یہودی کسی راہ پر حالانکہ وہ سب پڑھتے ہیں (کتاب الٰہی) اس طرح کہتے چلے آئے ہیں وہ لوگ کہ جن کے پاس علم نہیں ان ہی جیسی باتیں ! سو اللہ فیصلہ کر دے گا ان میں قیامت کے روز جس میں کہ یہ جھگڑتے ہیں ف ۱

( ف ۱: سبب نزول:

نجران کے نصاریٰ آئے تو علمائے یہود بھی ان کو سن کر آ گئے اور دونوں فریق آپس میں منازعت کرنے لگے رافع بن حریملہ یہودی نصاریٰ سے کہتا تھا کہ تم کسی راہ پر نہیں اور عیسیٰ (علیہ السلام) اور انجیل کا انکار کرنا تھا اور نجران کا ایک شخص یہود کہتا تھا کہ تم کسی راہ پر نہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور تورات کی تکذیب کرنا تھا حق تعالیٰ نے اس پر یہ آیت کریمہ ارشاد فرمائی۔ )

۱۱۴                        اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو منع کرے اللہ کی مسجدوں میں کہ لیا جائے اس کا نام ! اور کوشش کرے ان کے اجاڑنے میں ! ف ۲ یہ لوگ اس لائق نہیں کہ گھسنے پائیں مسجدوں میں مگر ڈرتے ڈرتے ! ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب !

( ف ۲: شان نزول:

اس کے شان نزول نصاریٰ ہیں کہ انہوں نے یہود سے مقاتلہ کر کے توریت کو جلایا اور بیت المقدس کو خراب کیا یا مشرکین مکہ کہ انہوں نے مسلمانوں کو محض تعصب و عناد سے حدیبیہ میں مسجد حرام (بیت اللہ) میں جانے سے روکا۔ باقی جو شخص کسی مسجد کو ویران یا خراب کرے وہ اس حکم میں داخل ہے۔ (تفسیر عثمانی)

مشرکین کا حضورﷺ  اور صحابہ کو عمرہ طواف سے روکنا:

معالم التنزیل میں حضرت عطا اور عبدالرحمن بن زید سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ کے بارے میں نازل ہوئی ہجرت کے چھٹے سال رسول اللہﷺ  اپنے صحابہؓ  کے ساتھ عمرہ کرنے کے لئے تشریف لے گئے تو مکہ والوں نے آپ کو مقام حدیبیہ میں روک دیا اور عمرہ کے لئے مسجد حرام تک نہ پہنچنے دیا، مساجد کی آبادی یہ ہے کہ ان میں وہ کام ہوتے رہیں جن کاموں کے لئے وہ بنائی گئی ہیں نماز، تلاوت، ذکر، اعتکاف وغیرہ اور مسجد حرام کے آباد کرنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اس میں طواف کیا جائے جو شخص ان کاموں سے روکے گا وہ ان کی ویرانی کی کوشش کرنے والا ہے۔ )

۱۱۵                        اور اللہ ہی کا ہے پورب اور پچھم سو جس طرف تم منہ کرو ادھر ہی اللہ کا سامنا ہے ! بیشک اللہ بڑی گنجائش والا خبردار ہے

۱۱۶                        اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ! وہ تو پاک ہے بلکہ اسی کا ہے جو کچھ آسمان اور زمین میں ہے سب اسی کے تابعدار ہیں

۱۱۷                        موجد ہے آسمان اور زمین کا ! اور جب ارادہ کرتے ہیں کسی کام کا تو بس اس کو فرما دیتا ہے کہ ہو سو وہ ہو جاتا ہے۔

۱۱۸                        اور کہتے ہیں وہ لوگ جو نہیں جانتے کہ کیوں نہیں باتیں کرتا ہم سے اللہ یا کیوں نہیں آتی ہمارے پاس کوئی نشانی ! اسی طرح کہہ چکے ہیں وہ لوگ جو ان سے پہلے ہو گزرے ہیں انہیں جیسی باتیں ! ملے جلے ہیں ان سب کے دل ! بیشک ہم بیان کر چکے نشانیاں ان لوگوں کے لئے جو یقین کرتے ہیں

۱۱۹                        ہم نے تجھ کو بھیجا ہے حق کلام دے کر خوشی سنانے والا ڈرانے والا اور تجھ سے پوچھ نہ ہو گی دوزخ والوں کی ف ۱

ف ۱۔ آیت ۱۹: ربط:

یہاں تک یہود کی چالیس قباحتیں جن میں سے بعض میں نصاریٰ بھی شریک تھے بیان فرمائی گئیں آگے یہ بتلانا منظور ہے کہ ایسے ہٹ دھرم لوگوں سے امید ایمان نہ رکھنا چاہئے گویا یہ مضمون تمام ماسبق کا نتیجہ ہے جس سے ان کے قبائح مذکورہ کے اور تاکید ہو گئی اور اس میں رسول اللہ کے فکر و غم کا ازالہ بھی ہے کہ جو لوگ ایسے کج طبع ہیں ان کی کجی بہت کم جاتی ہے لہذا آپ ان کے عام طور پر ایمان لانے سے نا امید ہے جایئے اور کلفت کو دل سے دور کیجئے آپ کے اتباع کی ان کو تو کیا توفیق ہوتی وہ تو یہاں تک بلند پروازی کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ کو اپنی راہ پر چلانے کی فکر محال میں ہیں اور جناب رسول اللہ اول اول بعض جائز امور میں اہل کتاب کی موافقت بغرض ملاطفت و تالیف قلوب کے کر لیا کرتے تھے اس میں اس پر بھی دلالت ہے کہ آپ اس قصہ کو جانے دیجئے تاہم اس سے جو آپ کی غرض ہے کہ کچھ نرم ہو کر اسلام لے آویں وہ بخیر ہے۔ )

۱۲۰                       اور ہرگز خوش نہ ہوں گے تجھ سے یہودی اور نہ عیسائی تاوقتیکہ نہ اختیار کرے ان کا دین ! کہہ دے کہ اللہ ہی کی ہدایت ہدایت ہے اور اگر تو چلا ان کی خواہشوں پر اس کے بعد کہ آ چکا تیرے پاس علم تو تیرا کوئی نہیں اللہ کے ہاتھ سے حمایت کرنے والا اور نہ مددگار ! ف ۱

( ف ۱: اور یہ محال ہے پس ان کا راضی ہونا بھی محال ہے اور یہ محال اس لئے ہے کہ اس سے ایک دوسرا محال لازم آتا ہے وہ یہ کہ نعوذ باللہ اگر آپ ان کے پیرو ہو جائیں تو جسے وہ اپنا مذہب کہتے ہیں وہ کچھ تو منسوخ ہو جانے سے اور کچھ تحریف سے محض اب چند خیالات کا مجموعہ ہو گیا ہے اور اتباع بھی ایسی حالت میں کہ آپ کے پاس علم وحی آ چکا ہے توبہ توبہ۔ آپ کا نتیجہ قہر میں گرفتار ہونا لازم آئے گا اور یہ لازم محال ہے کیونکہ خدا کا ہمیشہ آپ سے راضی رہنا دلائل قطعیہ سے ثابت ہے پس آپ کا اتباع کرنا ان کے مذہب کا بھی محال ہے اور بدوں اتباع کے ان کا راضی ہونا غیر ممکن تو ایسی بات سے دل کو خالی کر لینا چاہئے۔

۱۲۱                        وہ لوگ کہ جن کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کو پڑھتے رہتے ہیں جو اس کے پڑھنے کا حق ہے وہی اس پر ایمان لا تے ہیں ! اور جو اس کا انکار کرتے ہیں وہی اس پر نقصان پانے والے ہیں

خلاصہ رکوع ۱۴

یہود و نصاریٰ کا ایک دوسرے کو ناحق کہنے پر خدائی فیصلہ ذکر فرمایا گیا پھر مشرکین کے دوائے حق پرستی کی تردید فرمائی گئی پھر یہود و نصاریٰ اور مشرکین کے ایک غلط عقیدہ (کہ اللہ اولاد رکھتا ہے ) کی دلائل سے تردید ذکر کی گئی۔ آگے رسالت کے بارے میں کفار کے شبہات کا ازالہ کیا گیا اور حضور کو تسلی فرمائی گئی یہود و نصاریٰ کی ہٹ دھرمی اور ان میں سے حق پرست لوگوں کا ذکر کیا گیا۔)

۱۲۲                        اے نبی اسرائیل یاد کرو میرا احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ میں نے فضیلت دی تم کو سارے جہان پر

۱۲۳                        اور ڈرو اس دن سے کہ نہ کام آوے کوئی شخص کسی کے کچھ ! اور نہ قبول کیا جاوے اس کی طرف سے کوئی معاوضہ اور نہ کام آوے اس کے کوئی سفارش اور نہ ان کی مدد کی جاوے

۱۲۴                        اور (یاد کرو) جب آزمایا ابراہیم کو اس کے پروردگار نے جن با توں میں سو اس نے پورا کر دکھایا ان کو اللہ نے فرمایا کہ میں بنانے والا ہوں تجھ کو لوگوں کا پیشوا ! ابراہیم نے کہا ! اور میری اولاد میں سے ! فرمایا کہ نہیں پہنچے گا میرا قرار ظالموں کو

۱۲۵                        اور (یاد کرو) جب ٹھہرایا ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے اجتماع کی جگہ اور امن کا مقام ! اور بنا لو ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کی جگہ ! اور ہم نے کہہ دیا ابراہیم اور اسماعیل سے کہ پاک صاف رکھو میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور مجاہدوں اور رکوع سجدہ کرنے والوں کے لئے ف ۱

ف ۱: شان نزول آیت ۱۲۵:

واتخذوا من مقام ابراہیم مصلیٰ۔ حضرت جابرؓ  کی لمبی حدیث میں ہے کہ جب نبی نے طواف کر لیا تو حضرت عمرؓ  نے مقام ابراہیم کی طرف اشارہ کر کے کہا کیا یہی ہمارے باپ ابراہیم کا مقام ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں۔ کہا پھر ہم اس سے قبلہ کیوں نہ بنا لیں ؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضرت فاروقؓ  کے سوال پر تھوڑی دیر گزری تھی جو یہ حکم نازل ہوا ایک اور حدیث میں ہے کہ فتح مکہ والے دن مقام ابراہیم کے پتھر کی طرف اشارہ کر کے حضرت عمرؓ  نے پوچھا یہی ہے جسے قبلہ بنانے کا ہمیں حکم ہوا ہے ؟ آپ نے فرمایا ہاں یہی ہے۔

طواف کے بعد دو رکعتیں واجب ہیں اور سنت ہے کہ مقام ابراہیم کے پیچھے ادا کی جائیں لیکن اگر کسی وجہ سے وہاں ادا نہ کر سکا تو پھر حرم میں یا حرم سے باہر جہاں کہیں ممکن ہو ادا کرنے سے واجب ادا ہو جائے گا۔ (معارف القرآن)

۱۲۶                        اور (یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا کہ خداوند بنا اس شہر کو امن کا شہر اور عطا فرما اس میں رہنے والوں کو پھل ! ان لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لاویں اللہ اور روز آخرت پر ! اللہ نے فرمایا اور جو کفر کریں ان کو بھی فائدہ اٹھانے دوں گا تھوڑے دنوں پھر اس کو مجبور کروں گا عذاب دوزخ کی جانب ! اور وہ برا ٹھکانا ہے۔

۱۲۷                        اور (وہ وقت یاد کرو) جب اٹھا رہے تھے ابراہیم بنیادیں خانہ کعبہ کی اور اسماعیل (دونوں باپ بیٹے دعا کرتے جاتے تھے ) ف ۱ اے ہمارے پروردگار ہم سے قبول فرما ! بیشک تو ہی سننے والا جاننے والا ہے

ف ۱: بیت اللہ جسے کعبہ بھی کہتے ہیں در حقیقت حضرت آدم (علیہ السلام) کے وقت سے تعمیر چلا آتا ہے، لیکن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دور میں وہ حوادث روزگار سے منہدم ہو چکا تھا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اسے از سرنو انہی بنیادوں پر تعمیر کرنے کا حکم ہوا تھا جو پہلے سے موجود تھیں، اور اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی آپ کو بتا دی تھیں۔ اسی لئے قرآن کریم نے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ وہ بیت اللہ تعمیر کر رہے تھے، بلکہ یہ فرمایا ہے کہ وہ اس کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ )

۱۲۸                        اور اے ہمارے پروردگار ہم کو بنا اپنا فرمانبردار اور ہماری نسل میں بھی ایک گروہ حکم بردار (پیدا کر) اور ہم کو بتا ہماری عبادت کے طریقے اور ہم کو معاف کر ! بیشک تو ہی معاف فرمانے والا مہربان ہے !

۱۲۹                        اور اے ہمارے پروردگار بھیج ان میں ایک پیغمبر ان ہی میں کا کہ پڑھے ان پر تیری آیتیں اور ان کو سکھا دے کتاب اور علم اور پاک و صاف بنا دے ان کو ! بیشک تو ہی زبردست صاحب تدبیر ہے ف ۲

خلاصہ رکوع ۱۵

بنی اسرائیل کو انعامات الٰہیہ کی دوبارہ یاد دہانی، اہل ایمان کے لئے شفاعت کا ثبوت، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا تذکرہ اور اس کے مقاصد۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش، خانہ کعبہ کی فضیلت، مقام ابراہیم، خانہ کعبہ کی پاکی کا حکم، مکۃ المکرمہ کے لئے ابراہیم کی دعائیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کی عام رزاقیت کو ذکر کیا گیا۔ پھر تعمیر کعبہ جیسے عمل کی قبولیت کے لئے ابراہیمی دعائیں ذکر فرمائی گئیں۔ )

۱۳۰                       اور نہیں پھرتا ابراہیم کے طریقے سے مگر وہی شخص جس نے بیوقوف بنایا اپنے آپ کو ! اور بیشک ہم نے اس کا انتخاب کیا ہے دنیا میں ! اور آخرت میں نیکوں میں ہے

ف ۲: شان نزول آیت ۱۳۰:

ابن عساکر نے کہا ہے کہ عبداللہ بن سلامؓ  نے سلمہ اور مہاجر اپنے بھتیجوں سے کہا تم مسلمان ہو جاؤ۔ تم خوب جانتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا ہے کہ میں اسماعیل (علیہ السلام) کی اولاد سے ایک نبی پیدا کروں گا اور نام پاک ان کا احمد ہو گا جو ان پر ایمان لائے گا وہ ہدایت پاوے گا اور جو ایمان نہ لاوے گا وہ ملعون ہو گا سلمہ تو چچا کی یہ نصیحت سن کر مسلمان ہو گیا اور مہاجر نے صاف انکار کر دیا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

۱۳۱                        جب اس سے کہا اس کے اللہ نے کہ حکم بردار بن جا ! ابراہیم نے کہا کہ میں فرمانبردار ہوا تمام جہان کے پروردگار کا

۱۳۲                        اور اسی کی وصیت کر گیا ابراہیم اپنے بیٹوں کو اور یعقوب بھی کہ اے بیٹو اللہ نے چن لیا ہے تم کو دین سو تم ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان ف ۱

( ف ۱: نکتہ:

یعنی جب فرمایا ابراہیم سے ان کے رب نے کہ اطاعت اختیار کرو تو انہوں نے عرض کیا کہ میں نے اطاعت اختیار کی رب العالمین کی اس طرز بیان میں یہ بات بھی قابل نظر ہے کہ اللہ جل شانہ کے خطاب اسلم کا جواب بظاہر خطاب ہی کے انداز میں یہ ہونا چاہئے کہ اسلمت لک یعنی میں نے آپ کی اطاعت اختیار کر لی مگر حضرت خلیل (علیہ السلام) نے اس طرز خطاب کو چھوڑ کر یوں عرض کیا کہ: قال اسلمت لرب العٰلمین یعنی میں نے پروردگار عالم کی اطاعت اختیار کر لی ایک تو اس میں رعایت ادب کے ساتھ اور حق جل و علا شانہ کی حمد و ثناء شامل ہو گئی جس کا مقام تھا دوسری اس کا اظہار ہو گیا کہ میں نے جو طاعت اختیار کی وہ کسی پر احسان نہیں کیا بلکہ میرے لئے اس کا کرنا ہی ناگزیر تھا کیونکہ وہ رب العالمین یعنی سارے جہان کا پروردگار ہے۔ )

۱۳۳                        (لوگو) کیا تم موجود تھے جب سامنے آ گئی یعقوب کے موت ! جب کہا اس نے اپنے بیٹوں سے کہ تم کس چیز کی عبادت کرو گے میرے بعد ؟ وہ بولے کہ ہم عبادت کریں گے تمہارے معبود کی اور تمہارے باب دادا ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق کے معبود خدائے واحد کی ! اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔  ف ۲

( ف ۲: یہ شبہ نہ کیا جاوے کہ اس طرح اسلام رسول اللہ سے شروع ہوا ہے اور آپ ان حضرات سے بہت پیچھے ہیں پھر ان کا ملت اسلام پر ہونا کیسے ثابت ہو سکتا ہے جواب یہ ہے کہ اسلام کے معنی اطاعت حق کے ہیں اس سے تمام انبیاء کا ملت اسلام پر ہونا ثابت ہے بخلاف یہودیت یا نصرانیت کے کہ وہ خاص مذہب تورات یا مذہب انجیل کا نام ہے خوب سمجھ لو پس جو انبیاء پہلے نزول تورات و انجیل سے گزر چکے ہیں وہ یہودی یا نصرانی کیونکر ہو سکتے ہیں۔ )

۱۳۴                        وہ ایک جماعت تھی کہ گزر گئی ! ان کا تھا جو وہ کما گئے اور تمہارا ہے جو تم کماؤ ! اور تم سے اس کی پوچھ نہ ہو گی جو وہ کیا کرتے تھے

۱۳۵                        اور کہتے ہیں کہ ہو جاؤ یہودی یا عیسائی تو راہ راست پر آؤ ! کہہ دے کہ نہیں بلکہ (ہم اختیار کریں گے ) ابراہیم کا طریقہ ! جو ایک کے ہو رہے تھے اور نہ تھے مشرکین میں ف ۱

( ف ۱: شان نزول:

عبداللہ بن صوریا اعور نے رسول اللہ سے کہا تھا کہ ہدایت پر ہم ہیں تم ہماری مانو تو ہم ہیں بھی ہدایت ملے گی نصرانیوں نے بھی یہی کہا تھا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ )

ملت ابراہیم: یعنی کہہ دو اے محمد ! کہ تمہارا کہنا ہرگز منظور نہیں بلکہ ہم موافق ہیں ملت ابراہیم (علیہ السلام) کے جو سب برے مذہبوں سے علیحدہ ہے نہیں تھا وہ شرک کرنے والوں میں اشارہ ہے کہ تم دونوں فریق شرک میں مبتلا ہو بلکہ مشرکین عرب بھی مذہب ابراہیمی کے مدعی تھے مگر وہ بھی مشرک تھے تو اس میں ان پر بھی رد ہو گیا اب ان فرقوں میں بروئے انصاف کوئی بھی ملت ابراہیمی پر نہ رہا صرف اہل اسلام ملت ابراہیمی میں رہے۔ (تفسیر عثمانی)

۱۳۶                        (مسلمانو) کہہ دو کہ ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس پر جو ہم پر اترا اور جو اترا ابراہیم پر اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور اولاد یعقوب پر اور جو ملا موسیٰ اور عیسیٰ کو اور جو ملا اور نبیوں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ! ہم جدائی نہیں سمجھتے ان میں سے ایک میں بھی ! اور ہم اسی کے فرماں بردار ہیں۔

۱۳۷                        سو اگر ایمان لاویں وہ جس طرح تم ایمان لائے ہو تو بیشک ہدایت پائیں ! اور اگر انحراف کریں تو بس وہی ضد پر ہیں ! سو کافی ہے تمہاری طرف سے ان کو اللہ ! اور وہ سننے والا واقف کار ہے

۱۳۸                        (لے لیا ہم نے ) رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے ! اور ہم اسی کی عبادت کرتے ہیں ف ۲

( ف ۲: شان نزول آیت ۱۳۸:

ابن عباسؓ  نے فرمایا ہے کہ نصاریٰ کے ہاں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا اور اس پر سات روز گزر جاتے تو وہ اسے ایک پانی میں جسے معمودیہ کے نام سے موسوم کرتے غوطہ دیتے اور یہ خیال کرتے کہ اس سے یہ پاک ہو گیا اور سب آلائشیں دور ہو گئیں اور یہ فعل بجائے ختنہ کے کرتے جب اسے غوطہ دے دیتے تو کہتے کہ اب یہ سچا نصرانی ہو گیا اس پر حق تعالیٰ نے آیت کریم: صبغۃ اللہ ومن احسن من اللہ صبغۃ نازل فرمائی۔ (تفسیر مظہری) خاصیت: آیت ۱۳۷                   پارہ کے آخر میں دیکھیں۔

۱۳۹                        کہہ دے کہ کیا تم جھگڑا کرتے ہو ہم سے اللہ کے بارے میں حالانکہ وہی ہے ہمارا پروردگار اور تمہارا پروردگار ! اور ہمارے واسطے ہیں ہمارے اعمال اور تمہارے لئے ہیں تمہارے اعمال اور ہم خالص اسی کو مانتے ہیں ف ۱

( ف ۱: ہم خالص اللہ کے لئے اعمال کرتے ہیں:

یعنی اللہ تعالیٰ کی نسبت تمہارا نزاع کرنا اور تمہارا یہ سمجھنا کہ اس کی عنایت و رحمت کا ہمارے سوا کوئی مستحق نہیں لغو بات ہے وہ جیسا تمہارا رب ہے ہمارا بھی رب ہے اور ہم جو کچھ اعمال کرتے ہیں خالص اسی کے لئے کرتے ہیں تمہاری طرح زعم آباء و اجداد اور تعصب و نفسانیت سے نہیں کرتے پھر کیا وجہ کہ ہمارے اعمال وہ مقبول نہ فرمائے اور تمہارے اعمال مقبول ہوں (تفسیر مظہری)

پس جب یہ حضرات یہود و نصاریٰ نہ تھے سو تم دین میں ان کے موافق کب ہوئے پھر تمہارا حق پر ہونا بھی ثابت نہ ہوا اور اپنے کو مخلص کہنے سے دعویٰ کمال مقصود نہیں بلکہ مناظرہ مذہبی میں اپنے طریقہ دین کا اظہار منظور ہے جو ضروری امر ہے۔

۱۴۰                       کیا تم کہتے ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا نصرانی تھے ؟ (اے محمد) کہہ دے کہ کیا تم زیادہ جاننے والے ہو یا للہ ؟ اور اس سے زیادہ ظالم کون جس نے چھپائی گواہی جو اس کے پاس اللہ کی طرف سے تھی ! اور اللہ بیخبر نہیں ہے اس سے جو تم کر رہے ہو

۱۴۱                        وہ ایک جماعت تھی کہ گزر گئی ! ان کے لئے تھا جو وہ کما گئے اور تمہارا ہے جو تم کماؤ ! اور نہ پوچھے جاؤ گے تم ان کاموں سے جو وہ کرتے تھے۔

خلاصہ رکوع ۱۶

ملت ابراہیمی کی فضیلت اور اس کا بنیادی اصول ذکر کیا گیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد کو وصیت ذکر کی گئی پھر یہود کے دعویٰ کی تردید، آباء پر فخر کی تردید، یہود و نصاریٰ کی ہٹ دھرمی کا جواب، ملت ابراہیمی پر ایمان کی تفصیل کو بیان کرنے کے بعد بتایا گیا کہ صدیوں سے نمٹنے کے لئے اللہ تعالیٰ کافی ہیں۔ عیسائیوں کی ایک رسم کی حقیقت اور تردید ذکر کی گئی۔ آخر میں یہود و نصاریٰ کے بے دلیل جھگڑوں کی تردید فرمائی گئی کہ وہ حق چھپا کر کس طرح اپنے آباء سے کٹ گئے۔ )
۱۴۲                        اب کہیں گے بیوقوف لوگ ان (مسلمانوں ) کو کس بات نے پھیر دیا ان کے اس قبلہ سے جس پر کہ یہ تھے (اے محمد) کہہ دے کہ خدا ہی کا ہے پورب اور پچھم ! چلاتا ہے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ پر ! ف ۱

( ف ۱: نماز میں بیت اللہ کی سمت کا استقبال:

بلاد بعیدہ کے رہنے والوں کے لئے یہ ضروری نہیں کہ عین بیت اللہ کی محاذات پائی جائے بلکہ سمت بیت اللہ کی طرف رخ کر لینا کافی ہے۔ ہاں جو شخص مسجد حرام میں موجود ہے یا کسی قریبی پہاڑ پر بیت اللہ کو دیکھ رہا ہے۔ اس کے لئے خاص بیت اللہ ہی کی طرف رخ کرنا ضروری ہے۔ اگر بیت اللہ کی کوئی چیز بھی اس کے محاذات میں نہ آئی تو اس کی نماز نہیں ہوئی۔ (معارف القرآن)

۱۴۳                        اور (اے امت محمدیہ) اسی طرح ہم نے تم کو بنایا ہے امت معتدل تاکہ بنو تم گواہ لوگوں پر اور بنے رسول تم پر گواہ ! اور (اے محمد) نہیں بنایا تھا ہم نے وہ قبلہ جس پر کہ تو پہلے تھا مگر اس واسطے کہ ہم معلوم کر لیں ان لوگوں کو جو پیروی کریں رسول کی (الگ) ان لوگوں سے کہ پھر جاویں الٹے پاؤں ! بیشک یہ شاق گزرا ہے مگر (نہ) ان پر جن کو اللہ نے ہدایت دی ہے ! اور اللہ ایسا نہیں کہ ضائع کر دے تمہارے ایمان ! بیشک اللہ لوگوں پر بڑی شفقت رکھنے والا مہربان ہے ف ۲

( ف ۲: آیت ۱۴۳:

جس اعتقاد کو اس جگہ صراط مستقیم کہا گیا ہے در حقیقت سلامتی اور امن اسی راستہ میں ہے آج کل اکثر نوخیز طبائع نے اس صراط مستقیم کو چھوڑ دیا ہے اور احکام کی علل تفتیش کرنے میں لگ گئے ہیں جن میں بعض کی غرض تو نعوذ باللہ احکام شرعیہ کی توہین یا تکذیب اور اس پر اعتراض کرنا ہوتا ہے اور بعض کو اس بہانہ سے عمل کرنے سے جان چرانا مقصود ہوتی ہے اور بعض کی گو غرض فاسد نہیں ہوتی لیکن فہم عالی اور دقیق نہ ہونے سے نتیجہ اس کا اکثر بد دینی اور بد اعتقادی ہے۔

۱۴۴                        ہم دیکھ رہے ہیں تیرے منہ کا آسمان کی طرف پھر جانا پس البتہ ہم پھیر دیں گے تجھ کو اس قبلہ کی طرف جس کو تو چاہتا ہے۔  ف ۱ لے اب پھیر لے اپنا منہ مسجد حرام (یعنی خانہ کعبہ) کی جانب ! اور مسلمانو تم جہاں کہیں ہوا کرو تو کر لیا کرو اپنے منہ اسی کی طرف ! اور بیشک وہ لوگ جن کو کتاب دی گئی ہے بخوبی جانتے ہیں کہ یہ برحق ہے ان کے پروردگار کی طرف سے اور اللہ بیخبر نہیں ہے ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں ف ۲

( ف ۱: تبدیلی قبلہ کے لئے آنحضرت کا انتظار:

چونکہ آپ کا اصلی قبلہ اور آپ کے کمالات کے مناسب خانہ کعبہ تھا اور سب قبلوں سے افضل اور حضرت ابراہیم کا بھی قبلہ وہی تھا ادھر یہود طعن کرتے تھے کہ یہ نبی شریعت میں ہمارے مخالف اور ملت ابراہیمی کے موافق ہو کر ہمارا قبلہ کیوں اختیار کرتے ہیں۔ ان وجوہ سے جس زمانہ میں آپ بیت المقدس کی طرف نماز پڑھتے تھے تو دل یہی چاہتا تھا کہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم آ جائے اور اس شوق میں آسمان کی طرف منہ اٹھا کر ہر طرف کو دیکھتے تھے کہ شاید فرشتہ حکم لاتا ہو۔ اس پر یہ آیت اتری اور استقبال کعبہ کا حکم آ گیا۔ (تفسیر عثمانی)

( ف ۲: آیت ۱۴۴                              : حاصل حکمت کا یہ ہوا کہ ہم کو آپ کی خوشی منظور تھی اور آپ کی خوشی کعبہ کے قبلہ مقرر ہونے میں دیکھی اس لئے اسی کو قبلہ مقرر کر دیا رہا یہ کہ آپ کی خوشی اس میں کیوں تھی وجہ اس کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی علامات نبوت میں ایک علامت یہ بھی تھی کہ آپ کا قبلہ کعبہ ہو گا اللہ تعالیٰ نے آپ کے نورانی قلب میں اسی کی خواہش پیدا کر دی۔ )

۱۴۵                        اور اگر تو لے بھی آئے ان کے پاس جن کو کتاب ملی ہے تمام دلیلیں (تب بھی تو) وہ پیروی نہ کریں گے تیرے قبلہ کی ! اور نہ تو ہی پیروی کرنے والا ہے ان کے قبلہ کی ! اور نہ ان میں سے ایک پیروی کرنے والا ہے دوسرے کے قبلہ کی اور اگر تو چلا ان کی خواہشوں پر اس کے بعد کہ آ چکا تیرے پاس علم تو بیشک تو بھی ایسی حالت میں نافرمانوں سے ہو گا۔  ف ۳

( ف ۳: بلیغ دھمکی:

رسول اللہ کو باوجود حبیب ہونے کے یہ خطاب فرمایا تو اس سے اوروں کو نہایت بلیغ دھمکی ہو گئ جیسے کوئی حاکم اپنی رعایا کے سنانے کے لئے کسی اپنے مطبع و فرمانبردار سے کہے کہ دیکھو اگر تم بھی ایسا کرو گے تو سزا پاؤ گے۔ (تفسیر مظہری)

۱۴۶                        وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی ہے (محمد) کو پہچانتے ہیں اپنے بیٹوں کو اور کچھ لوگ ان میں سے ایسے ہیں کہ چھپاتے ہیں حق بات حالانکہ وہ جانتے ہیں۔

۱۴۷                        حق وہی ہے جو تیرے پروردگار کی طرف سے ہے سو تو نہ ہو جائیو شک کرنے والوں میں ف ۱

( ف ۱: رسول اللہ کے پہچاننے کو جو اولاد کے پہچاننے سے تشبیہ دی ہے اس کا مطلب بیان ہو چکا کہ مراد صورت کا پہچاننا ہے تو اب وہ شبہ جاتا رہا کہ بیٹا کا اپنا ہونا تو بعض دفعہ مشتبہ ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں بیوی کی خیانت کا احتمال ہو سکتا ہے تو یہ تشبیہ پوری نہ ہوئی جواب یہ ہے کہ تشبیہ میں بیٹے کا بیٹے ہونا ملحوظ نہیں بلکہ بیٹے کی صورت ملحوظ ہے سو چونکہ بیٹا گود میں پرورش پاتا ہے ہر وقت آدمی اس کو دیکھتا رہتا ہے اس کی صورت میں عادۃً شبہ نہیں ہوتا اس لئے بیٹوں کی معرفت سے تشبیہ نہیں دی کیونکہ عرفاً بیٹا زیادہ پیارا ہوتا ہے باپ اس کو اپنے ساتھ زیادہ رکھتا ہے اور اسی وجہ سے یہ نہیں فرمایا کہ جیسے اپنے آپ کو جانتے ہیں کیونکہ انسان پر ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ اس میں اپنی ذات کی معرفت حاصل نہیں ہوتی جیسے بالکل بے ہوشی کا زمانہ بخلاف اپنے بیٹے کے کہ وہاں یہ نوبت نہیں آتی۔ )

خلاصہ رکوع ۱۷

تحویل کعبہ پر یہود کا اعتراض ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی پیش گوئی، اعتراضات کے جوابات ذکر کئے گئے۔ پھر امت محمدیہ کی خصوصیت کے ساتھ تحویل کعبہ کی حکمت ذکر کی گئی۔ یہود کی وسوسہ اندازی اور اہل کتاب کو تنبیہ فرمائی گئی قبلہ کے بارے میں یہود کی ضد اور عناد کو ذکر کیا گیا۔

۱۴۸                        اور ہر ایک کے لئے سمت ہے جدھر کو وہ منہ کرتا ہے سو تم دوڑو نیکیوں کی طرف ! تم جہاں کہیں ہو گے (وہیں سے ) کر لاوے گا تم کو اللہ اکٹھا ! بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

۱۴۹                        اور (اے محمد) جہاں کہیں سے تو نکلے کر لے اپنا منہ مسجد حرام کی جانب ! اور یہی حق ہے تیرے پروردگار کی طرف سے اور اللہ بیخبر نہیں ہے (ان کاموں سے ) جو تم کرتے ہو !

۱۵۰                       اور اے محمد جہاں کہیں بھی تو نکلے کر لے اپنا منہ مسجد حرام کی طرف ! اور (اے مسلمانو) تم بھی جہاں کہیں ہوا کرو کر لیا کرو اپنے منہ اسی کی طرف تاکہ نہ رہے لوگوں کا تم پر کوئی الزام سوائے ان لوگوں کے جو ظالم ہیں ان میں سو تم ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو ! تاکہ پورا کروں میں تم پر اپنا فضل اور تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔

۱۵۱                        جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں کا جو پڑھتا ہے تم پر ہماری آیتیں اور تم کو پاک صاف بناتا ہے اور تم کو سکھاتا ہے کتاب اور علم اور بتلاتا ہے تم کو وہ باتیں جو تم جانتے نہ تھے۔

۱۵۲                        تو تم یاد رکھو مجھ کو میں یاد رکھوں تم کو اور میرا احسان مانو اور ناشکری نہ کرو ف ۱

( ف ۱: دو انمول نعمتیں:

حضرت مالک بن دینار فرماتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے حضرت محمد کی امت کو دو ایسی نعمتیں عطا فرمائی ہیں جو جبرئیل و میکائیل کو بھی عطا نہیں ہوئیں۔ ایک نعمت اس امت کو یہ ملی کہ رب العالمین نے فرمایا: ” فاذکرونی الخ تم مجھے یاد کرتے رہو، میں تمہیں یاد کرتا رہوں گا، دوسرا رب العالمین نے ارشاد فرمایا ادعونی الخ ” تم مجھ سے مانگتے رہو میں قبول کرتا رہوں گا۔ اب یہ اعزازو انعام کسی دوسرے نبی کی امت کو عطا نہیں ہوا جو حضرت نبی کریم کے طفیل اس امت کو ملا ہے۔ )

خلاصہ رکوع ۱۸

مسلمانوں کو حقیقت پسندی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا دوبارہ بیت اللہ کے قبلہ ہونے کی تعلیم و تاکید فرمائی گئی اور تحویل کعبہ کی ایک اور حکمت کو ذکر کیا گیا۔ پھر حضور کی بعثت اور اس کے مقاصد بیان کئے گئے۔ مسلمانوں کو ذکر و شکر کا حکم دیا گیا۔

۱۵۳                        اے ایمان والو مدد لو صبر اور نماز سے ! بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

۱۵۴                        اور نہ کہو جو لوگ مارے جاویں اللہ کے راستہ میں (وہ) مردے ہیں ! نہیں بلکہ وہ زندہ ہیں۔  ف ۲ لیکن تم سمجھ نہیں سکتے

( ف ۲: ایسے مقتول کو شہید کہتے ہیں اور اس کی نسبت گو یہ کہنا کہ وہ مرگیا جائز ہے لیکن اس کی موت کو دوسرے مردوں کی طرح سمجھنا منع ہے وجہ اس کی یہ ہے کہ بعض مرنے کی اگرچہ عالم برزخ میں ہر شخص کی روح کو حیات حاصل ہوتی ہے اور اسی سے جزاء و سزا کا ادراک ہوتا ہے لیکن شہید کو اس حیات میں دوسروں سے گونہ امتیاز ہے وہ یہ کہ اس کی حیات دوسروں کی حیات سے زیادہ قوی ہوتی ہے حتی کہ اس کا اثر روح سے متجاوز ہو کر بدن پر ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا بدن باوجودیکہ مجموعہ گوشت و پوست کا ہے خاک سے متاثر نہیں ہوتا اور مثل زندوں کے صحیح وسالم رہتا ہے چنانچہ احادیث و مشاہدات اس پر گواہ ہیں اور اگر کسی نے شہید کی لاش کو خاک خوردہ پایا ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ ممکن ہے کہ اس کی نیت خالص نہ ہو جس پر شہادت کا مدار ہے کیونکہ صرف قتل ہونے کا نام شہادت نہیں ہے اور یہی حیات ہے جس میں انبیاء شہداء سے بھی زیادہ امتیاز اور قوت رکھتے ہیں کہ باوجود سلامتی جسم کے بعض احکام میں وہ مثل زندہ کے ہیں مثلاً بعد موت ظاہری کے ان کی ازواج کا نکاح کسی سے درست نہیں ہوتا اور بعض احادیث سے معلوم ہوا ہے کہ بعض اولیاء و صالحین بھی اس فضیلت میں شہدا کے شریک ہیں سو مجاہدۂ نفس میں مرنے کو بھی معنیِ شہادت میں داخل سمجھیں گے اور چونکہ عالم برزخ کا ادراک ظاہری حواس سے نہیں ہوتا اس لئے لا تشعرون فرمایا گیا۔ )

۱۵۵                        اور البتہ ہم تم کو آزماویں گے تھوڑے سے ڈر اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور (اے محمد) خوشخبری سنا ان صبر کرنے والوں کو۔

۱۵۶                        کہ جب ان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو بول اٹھتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں

۱۵۷                        یہی ہیں جن پر رحمتیں ہیں ان کے پروردگار کی طرف سے اور یہی لوگ ہدایت پر ہیں

۱۵۸                        بیشک کوہ صفا اور کوہ مروہ اللہ کی آداب گاہوں میں سے ہیں ! ف ۱ پس جو حج کرے خانہ کعبہ کا یا عمرہ کرے تو اس پر کچھ گناہ نہیں کہ طواف کر لے ان دونوں پہاڑیوں کا بھی ! اور جو شوق سے کرے کوئی نیکی تو بیشک اللہ قدردن واقف کار ہے

( ف ۱: صفا اور مروہ پر سنت عمل: سنت یہ ہے کہ جب صفا پر ٹھیرے تو تین مرتبہ تکبیر کہہ کر پڑھے ” لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد و ہو علی کل شئ قدیر ” اور پھر دعا مانگے اسی طرح تین مرتبہ کر اور ایسا ہی مردہ پر بھی کرے اور جب صفا سے اترنے لگے تو دوڑے نہیں بلکہ اپنی چل چلے جب بطن وادی میں پہنچے تو دوڑے جب اس سے نکل کر مروہ پر چڑھے تو پھر دوڑنا موقوف کر دے اور اپنی چال چلے۔ صحیحین میں جابرؓ  سے ایسا ہی مروی ہے۔ (تفسیر مظہری)

۱۵۹                        بیشک جو لوگ چھپاتے ہیں جو کچھ ہم نے اتارے کھلے کھلے حکم اور ہدایت کی باتیں اس کے بعد کہ ہم ان کو بیان کر چکے لوگوں کے لئے کتاب میں ! یہی لوگ ہیں جن پر لعنت کرتا ہے اللہ اور لعنت کرتے ہیں سب لعنت کرنے والے

۱۶۰                       مگر جن لوگوں نے توبہ کر لی اور اصلاح کی اور صاف صاف بیان کر دیا تو یہ لوگ ہیں کہ جن کی میں توبہ قبول کروں گا اور میں تو توبہ کا بڑا قبول کرنے والا مہربان ہوں۔  ف ۱

( ف ۱: حق چھپانے والوں پر لعنت:

لعنت کرنے والے یعنی جن و انس و ملائکہ بلکہ اور سب حیوانات کیونکہ ان کی حق پوشی کے وبال میں جب عالم کے اندر قحط، وبا اور طرح طرح کی بلائیں پھیلتی ہیں تو حیوانات بلکہ جمادات تک کو تکلیف ہوتی ہے اور سب ان پر لعنت کرتے ہیں۔ ( تفسیر عثمانی)

۱۶۱                        بیشک جنہوں نے کفر کیا اور مر گئے کافر ہی ! یہی لوگ ہیں جن پر پھٹکار ہے اللہ کی اور فرشتوں کی اور سب آدمیوں کی !

۱۶۲                        ہمیشہ رہیں گے اسی میں ! نہ ہلکا ہو گا ان سے عذاب اور نہ ان کو مہلت ملے گی

۱۶۳                        اور تمہارا معبود خدائے واحد ہے کوئی معبود نہیں اس کے سوا وہ بڑا مہربان رحم والا ہے ف ۲

( ف ۲: معبود فقط ایک ذات ہے:

یعنی معبود حقیقی تم سب کا ایک ہی ہے، اس میں تعدد کا احتمال بھی نہیں۔ سو اب جس نے اس کی نافرمانی کی بالکل مردود اور غارت ہوا۔ دوسرا معبود ہوتا تو ممکن تھا کہ اس سے نفع کی توقع باندھی جاتی۔ یہ آقائی اور بادشاہی یا استادی اور پیری نہیں کہ ایک جگہ موافقت نہ آتی تو دوسری جگہ چلے گئے۔ یہ تو معبودی اور خدائی ہے، نہ اس کے سوا کسی کو معبود بنا سکتے ہو اور نہ کسی سے اس کے علاوہ خیر کی توقع کر سکتے ہو۔ جب یہ آیت ” الھکم الہ واحد ” نازل ہوئی تو کفار مکہ نے تعجب کیا کہ تمام عالم کا معبود اور سب کا کام بنانے والا ایک کیسے ہو سکتا ہے اور اس کی دلیل کیا ہے۔ اس پر آیت ” ان فی خلق السموت الخ ” نازل ہوئی اور اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کی نشانیاں بیان فرمائیں۔ (تفسیر عثمانی)

خلاصہ رکوع ۱۹

ذکر و شکر حاصل کرنے کا نسخہ، شہید کا مقام و خصوصیات صبر و امتحان کے مواقع اور صابرین کی نشانی ذکر کر کے صبر والوں کا انعام ذکر کیا گیا۔ حضرت ہاجرہ کے صبر کی یادگار صفا و مروہ کا ذکر فرمایا گیا پھر اہل کتاب کی حق پوشی اور اس کی سزا سنائی گئی۔ آخر میں توبہ کی دعوت اور اس کی سزا سنائی گئی۔

۱۶۴                        بیشک آسمان و زمین کے پیدا کرنے میں ! اور رات اور دن کی ادل بدل میں ! اور جہازوں میں جو چلتے ہیں سمندر میں وہ چیزیں لے کر جو نفع دیتی ہیں لوگوں کو ! اور پانی میں جو اتارتا ہے اللہ نے آسمان سے پھر زندہ کر دیا اس سے زمین کو اس کے مر گئے پیچھے اور پھیلا دیئے اس میں ہر قسم کے جانور ! اور ہواؤں کے پھیرنے میں ! اور بادل میں جو گھرا ہوا ہے آسمان و زمین کے درمیان (ان سب میں ) دلیلیں ان لوگوں کے واسطے جو عقل رکھتے ہیں۔  ف ۱

( ف ۱: کائنات میں عظیم دلائل ہیں:

یعنی آسمان کے اس قدر وسیع اور اونچا اور بے ستون پیدا کرنے میں اور زمین کے اتنی وسیع اور مضبوط پیدا کرنے اور اس کے پانی پر پھیلانے میں اور رات اور دن کے بدلتے رہنے اور ان کے گھٹانے اور بڑھانے میں اور کشتیوں کے دریا میں چلنے اور آسمان سے پانی برسانے اور اس سے زمین کو سرسبز و ترو تازہ کرنے میں اور جملہ حیوانات میں اس سے توالد وتناسل نشو و نما ہونے میں اور جہات مختلفہ سے ہواؤں کے چلانے میں اور بادلوں کو آسمان اور زمین میں معلق کرنے میں دلائل عظیمہ اور کثیرہ ہیں۔ حق تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی قدرت اور حکمت اور رحمت پر ان کے لئے جو صاحب عقل اور فکر ہیں۔ (تفسیر عثمانی)

پانی کے ذخائر:

قدرت نے پانی کو اہل زمین انسان اور جانوروں کے لئے کہیں کھلے طور پر تالابوں اور حوضوں میں جمع کر دیا، کہیں پہاڑوں کی زمین کے اندر اتار دیا اور پھر ایک غیر محسوس پائپ لائن ساری زمین میں بچھا دی۔ ہر شخص جہان چاہے کھود کر پانی نکال لیتا ہے اور اسی پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بحر منجمد بنا کر برف کی صورت میں پہاڑوں کے اوپر لاد دیا، جو سڑنے اور خراب ہونے سے بھی محفوظ ہے، اور آہستہ آہستہ پگھل کر زمین کے اندر قدرتی پائپ لائن کے ذریعہ پورے عالم میں پہنچا ہے۔ (معارف مفتی اعظم)

۱۶۵                        اور بعض لوگ ہیں کہ بناتے ہیں اللہ کے سوائے شریک کہ محبت رکھتے ہیں ان سے جیسے اللہ کی محبت ہے ! اور جو لوگ ایمان والے ہیں ان کو اس سے زیادہ اللہ کی محبت ہے ! اور اگر کوئی دیکھے ان لوگوں کو جو ظالم ہیں جب کہ وہ دیکھیں گے عذاب کو (تو بڑے خوف کا وقت دیکھے ) اس لئے کہ ہر طرح کی قوت اللہ ہی کو ہے اور بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

۱۶۶                        جب الگ ہو جائیں وہ گروہ کہ جن کی پیروی کی گئی تھی ان چیلوں سے کہ جنہوں نے پیروی کی تھی اور دیکھیں عذاب اور ٹوٹ جاویں ان کے سب تعلقات۔

۱۶۷                        اور کہیں چیلے جنہوں نے اتباع کیا تھا کہ اے کاش ہم کو ایک بار لوٹ جانا ملے تو الگ ہو جاویں ہم بھی ان سے جیسے کہ یہ الگ ہو گئے ہم سے ! اسی طرح ان کو دکھلاوے گا اللہ ان کے عمل ان کے افسوس دلانے کو۔ اور وہ کبھی نہ نکلیں گے دوزخ سے

خلاصہ رکوع ۲۰

توحید خداوندی کے آٹھ دلائل ذکر کئے گئے۔ پھر مشرکین کی غیر اللہ سے محبت و عقیدت کا انجام اور قیامت کی ہولناکی کی منظر کشی فرمائی گئی اور مشرکین کی آخرت میں ناکام حسرت کا ذکر کیا گیا۔

۱۶۸                        لوگو ! کھاؤ ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال ستھرا اور نہ چلو شیطان کے قدموں پر ! بیشک وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے۔  ف ۱

( ف ۱: غیر اللہ کے نام پر دینے کی ممانعت:

مسئلہ: سانڈ وغیرہ جو بتوں کے نام پر چھوڑ دیئے جاتے ہیں یا کوئی اور جانور مرغا، بکرا وغیرہ کسی بزرگ یا اور کسی غیر اللہ کے نامزد کر دیا جاتا ہے۔ غیر اللہ کے تقرب کے لئے جانوروں کو چھوڑ دینا اور اس عمل کو موجب برکت و تقرب سمجھنا اور ان جانوروں کو اپنے اوپر حرام کر لینے کا معاہدہ کر لینا اس کو دائمی سمجھنا یہ سب افعال ناجائز اور ان کا کرنا گناہ ہے۔ )

۱۶۹                        بس وہ تو تم کو حکم کرے گا برائی اور بے حیائی کا۔ اور اس بات کا کہ بہتان باندھو اللہ پر جو تم نہیں جانتے۔  ف ۲

( ف ۲: شیطان کا نظام کار روائی:

جابرؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا کہ ابلیس علیہ اللعنۃ اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے پھر اپنے لشکر کے لوگوں کو بہکانے کے لئے بھیجتا ہے۔ اس کے یہاں ادنیٰ ادنیٰ مرتبہ کے شیطان بھی عالم میں بڑے بڑے فتنے پھیلا دیتے ہیں۔ چنانچہ جب وہ بہکا کر آتے ہیں تو ہر ایک اپنی اپنی کارگزاری بیان کرتا ہے۔ ایک کہتا ہے کہ میں نے آج فلاں برا کام کرا دیا۔ ابلیس کہتا ہے کہ تو نے کچھ نہیں کیا۔ پھر ایک اور آتا ہے وہ کہتا ہے میں نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ ایک شخص اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دی۔ ابلیس سن کر خوب خوش ہوتا ہے اور اس کو مقرب بناتا ہے اور کہتا ہے تو نے خوب کام کیا۔ اس حدیث کو مسلم نے روایت کیا ہے۔ )

۱۷۰                       اور جب کہا جاتا ہے ان سے کہ چلو اس پر جو اللہ نے اتارا ہے تو کہتے ہیں کہ (نہیں ) بلکہ ہم چلیں گے اس پر جس پر ہم نے پایا ہے اپنے باپ دادا کو ! بھلا ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ سمجھتے ہوں اور نہ راہ راست پر چلتے ہوں (تب بھی اس طریقہ پر چلیں گے )

۱۷۱                        اور مثال ان لوگوں کی کہ کافر ہیں اس شخص کی ہی ہے جو چلا چلا کر پکار رہا ہے ایک چیز کو جو کچھ نہیں سنتی سوائے پکارنے اور چلانے کے بہرے گونگے اندھے ہیں سو وہ کچھ نہیں سمجھتے۔

۱۷۲                        اے ایمان والو کھاؤ پاک اور ستھری چیزیں جو ہم نے تم کو دی ہیں اور اللہ کا شکر کرو اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو

۱۷۳                        بس اس نے تو حرام کیا ہے تم پر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس پر نام پکارا جائے اللہ کے غیر کا ف ۱ پھر جو کوئی ناچار ہو جائے کہ نہ عدول حکمی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا ! تو اس پر کچھ گناہ نہیں ! بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ف ۲

( ف ۱: مسئلہ:

جس جانور کو غیر اللہ کے نامزد اس نیت سے کر دیا ہو کہ وہ ہم سے خوش ہوں گے اور ہماری کار روائی کر دیں جیسا کہ اس نیت سے بکرا مرغا وغیرہ نامزد کرنے کی عام جاہلوں میں رسم ہے وہ حرام ہو جاتا ہے اگرچہ ذبح کے وقت اللہ تعالیٰ کا ہی نام لیا جائے البتہ اگر اس طرح نامزد کرنے کے بعد اس نیت سے توبہ کر لے پھر وہ حلال ہو جاتا ہے۔

مسئلہ: جس طرح خون کا کھانا پینا حرام ہے۔ اسی طرح اس کا خارجی استعمال بھی حرام ہے اور جس طرح تمام نجاسات کی خریدو فروخت بھی حرام ہے اور اس سے حاصل کی ہوئی آمدنی بھی حرام ہے۔ کیونکہ الفاظ قرآنی میں مطلقاً دم کو حرام فرمایا ہے جس میں اس کے استعمال کی تمام صورتیں شامل ہیں۔ اس سے عام حالات میں انتقال خون ناجائز معلوم ہوتا ہے۔ البتہ دو علاج کے طور پر اضطراری حالت میں کسی انسان کا خون دوسرے میں منتقل کرنا اس نص قرآنی کی رو سے جائز ہے جس میں مضطر کے لئے مردار کھا کر جان بچانے کی اجازت صراحۃً مذکور ہے اور اضطراری حالت کا مطلب یہ ہے کہ مریض کی جان کا خطرہ ہو اور کوئی دوسری دوا اس کی جان بچانے کے لئے مؤثر نہ ہو یا موجود نہ ہو اور خون دینے سے اس کی جان بچنے کا ظن غالب ہو اور جب یہ حالت نہ ہو تو اس وقت محض ایک دوا کے طور پر خون دینے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ (معارف القرآن)

( ف ۲: انگریزی دواؤں کے احکام:

مسئلہ: وہ تمام انگریزی دوائیں جو یورپ وغیرہ سے آتی ہیں جن میں شراب وغیرہ نجس اشیاء کا ہونا معلوم اور یقینی ہو اس کا استعمال اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ اس دوا کے استعمال سے شفاء ہو جانا عادۃً یقینی ہو اور کوئی حلال دوا اس کا بدل نہ ہو سکے اور جن دواؤں میں حرام و نجس اجزا کا وجود مشکوک ہے ان کے استعمال میں اور زیادہ گنجائش ہے اور احتیاط بہرحال احتیاط ہے۔ خصوصاً ً ً جبکہ اور کوئی شدید ضرورت بھی نہ ہو۔ (معارف القرآن)

۱۷۴                        جو لوگ چھپاتے ہیں وہ آیتیں کہ اتاریں اللہ نے کتاب میں اور لیتے ہیں اس کے بدلے تھوڑا سا مول ! یہ لوگ نہیں کھاتے مگر پیٹ بھر کر آگے ! اور بات بھی نہ کرے گا ان سے اللہ قیامت کے دن اور نہ ان کو پاک کرے گا ! اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے

۱۷۵                        یہی ہیں جنہوں نے خرید لیا گمراہی کو ہدایت کے بدلے اور قہر کو مہر کے بدلے ! سو کس قدر سہار ہے ان کو آگ کی۔

۱۷۶                        یہ اس لئے کہ اللہ ہی نے اتاری کتاب سچی ! اور جنہوں نے اختلاف کیا کتاب میں بیشک وہ پرلے درجہ کی مخالفت میں ہیں۔

خلاصہ رکوع ۲۱

حلال و طیب رزق کے استعمال کا حکم کیا گیا۔ شیطان کا کام کہ وہ کس طرح برائی پر آمادہ کرتا ہے۔ ذکر کیا گیا مشرکین کے باطل عقائد (کہ وہ اپنے آباء کی بے بنیاد تقلید کرتے تھے ) کی تردید فرمائی گئی۔ منکرین حق کی حالت کو ایک مثال سے سمجھایا گیا۔ دوبارہ رزق حلال پر زور دیا گیا اور حرام اشیاء کی نشاندہی فرمائی گئی۔ حالت مجبوری کو مستثنی قرار دیا گیا۔ آخر میں یہودی علماء کی حرام خوری اور اس پر سزائیں ذکر فرمائی گئی۔ یہود کی بے جا جرات پر فرد جرم عائد کیا گیا۔

۱۷۷                        نیکی یہی نہیں کہ تم اپنے منہ کر لیا کرو مشرق یا مغرب کی طرف بلکہ نیکی ان کی ہے جو ایمان لائے اللہ اور روز آخرت اور فرشتوں اور کتابوں اور پیغمبروں پر اور دیا مال باوجود اس کی محبت کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو اور گردنوں کے چھڑانے میں اور درست کرتے رہے نماز اور دیتے رہے زکوٰۃ اور پورا کرتے رہے اپنا قرار جب کوئی قول کیا ! اور صبر کرتے رہے تنگی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت ! یہی لوگ سچے ہیں اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں ! ف ۱

( ف ۱: زکوٰۃ کے علاوہ دیگر مالی فرائض:

مسئلہ: مالی فرض صرف زکوٰۃ سے پورا نہیں ہوتا۔ زکوٰۃ کے علاوہ بھی بہت جگہ مال خرچ کرنا فرض و واجب ہوتا ہے (جصاص قرطبی) جیسے رشتہ داروں پر خرچ کرنا کہ جب وہ کمانے سے معذور ہوں تو نفقہ ادا کرنا واجب ہوتا ہے۔ کوئی مسکین غریب مر رہا ہے اور آپ اپنی زکوٰۃ ادا کر چکے ہیں۔ مگر اس وقت مال کرچ کر کے اس کی جان بچانا واجب ہے اسی طرح ضرورت کی جگہ مسجد بنانا یا دینی تعلیم کے لئے مدارس و مکاتب بنانا یہ سب فرائض مالی میں داخل ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ زکوٰۃ کا ایک خاص قانون ہے اس کے مطابق ہر حال میں زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے اور یہ دوسرے مصارف ضرورت و حاجت پر موقوف ہیں جہاں جہاں ضرورت ہو خرچ کرنا فرض ہو جائے گا جہاں نہ ہو فرض نہیں ہو گا۔ (معارف القرآن)

۱۷۸                        اے ایمان والو ! تم پر لازم کیا جاتا ہے برابری کرنا مارے جانے والوں میں ! آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ! پھر جس کو معاف ہو جاوے اس کے بھائی کی جانب سے کچھ تو چلنا چاہئے دستور کے مطابق اور اس کو دے دینا چاہئے خوش معاملگی سے ! یہ آسانی ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے اور مہربانی ! پھر جو زیادتی کرے اس کے بعد اس کے لئے دردناک عذاب ہے ف ۲

( ف ۲: فائدہ: اس مقام کے متعلق چند ضروری مسائل ہیں۔ مسئلہ: قتل عمد یہ ہے کہ ارادہ کر کے کسی کو آہنی ہتھیار یا کسی دھاری دار چیز سے قتل کیا جائے قصاص اسی قتل کے جرم میں خاص ہے۔ مسئلہ: ایسے قتل میں جیسے آزاد آدمی کے عوض میں عورت ماری جاتی ہے اسی طرح مرد بھی عورت کے مقابلہ میں قتل کیا جاتا ہے۔

مسئلہ: اگر قتل عمد میں قاتل کو پوری معافی دے دی جائے مثلاً مقتول کے وارث اس کے دو بیٹے تھے دونوں نے اپنا حق معاف کر دیا تو قاتل پر کوئی مطالبہ نہیں رہا دیت دلائی جاوے گی دیت یعنی خون بہا شرع میں یہ ہے کہ سو اونٹ یا ہزار دینار یا دس ہزار درہم ایک دینار دس درہم کا ہوتا ہے اور درہم کی مقدار سکہ مروجہ حال سے سوا چار آنہ اور ساڑھے چار آنہ کے درمیان ہے اور اونٹوں کی عمریں وغیرہ کتب فقہ میں مفصلاً مذکور ہیں۔ )

۱۷۹                        اور تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے اے عقلمندو ! تاکہ تم باز آ جاؤ !

۱۸۰                       تم پر لازم کیا جاتا ہے جب سامنے آ موجود ہو تم میں سے کسی کے موت اگر چھوڑے کچھ مال ! یہ کہ وصیت کرے ماں اور باپ اور رشتہ داروں کے لئے دستور کے مطابق یہ ضروری ہے پرہیزگاروں پر۔  ف ۱

( ف ۱: حضرت عائشہؓ  کا ایک آدمی کو مشورہ:

حضرت عائشہؓ  سے روایت ہے کہ ایک شخص نے وصیت کرنے کا ارادہ کیا میں نے اس سے پوچھا کہ تیرے پاس کس قدر مال ہے اس نے کہا کہ تین ہزار درہم ہیں پھر میں نے پوچھا کہ تیرا کنبہ کتنا ہے اس نے کہا کہ چار آدمی ہیں حضرت عائشہ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ” ان ترک خیرا ” فرمایا ہے اور یہ مال تھوڑا ہے اس کو تو اپنے عیال کے لئے چھوڑ دے۔ )

۱۸۱                        پھر جو کوئی وصیت کو بدل سکے اس کے بعد کہ سن چکا ہے تو بس اس کا گناہ ان ہی لوگوں پر ہے جو اس کو بدلیں۔ بیشک اللہ سننے والا واقف کار ہے

۱۸۲                        پھر جس نے اندیشہ کیا وصیت کرنے والے کی جانب سے طرف داری کا یا گناہ کا پس صلح کرا دی آپس میں تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔ بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

خلاصہ رکوع ۲۲

نیکی کا جامع تصور پیش کر کے یہود کی خام خیالی کو واضح کیا گیا۔ ایمان کی تفصیل ذکر فرمائی گئی اور حقوق العباد حقوق اللہ اور اعلیٰ اخلاقی صفات ذکر فرمائی گئی۔ قصاص اور دیت اور وصیت کے احکام بیان فرمائے گئے۔ آخر میں وصیت میں تبدیلی کے بارے میں وضاحت فرمائی گئی۔

۱۸۳                        اے ایمان والو ! فرض کر دیئے گئے تم پر روزے جس طرح فرض تھے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے تاکہ پرہیزگار بن جاؤ

۱۸۴                        چند روز ہیں گنتی کے ! پھر جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو ضروری ہے گنتی دوسرے دنوں سے۔ اور ان لوگوں پر جن کو طاقت ہے فدیہ ہے (یعنی) ایک محتاج کو کھانا کھلانا ! ف ۱ پھر جو اپنی خوشی سے نیکی کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور یہ صورت کہ تم روزہ رکھو تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم سمجھو ف ۲

( ف ۱: روزہ کا ابتدائی حکم:

مطلب یہ ہے کہ جو لوگ روزہ رکھنے کی تو طاقت رکھتے ہیں مگر ابتدا میں چونکہ روزہ کی بالکل عادت نہ تھی اس لئے ایک ماہ کامل پے درپے روزے رکھنا ان کو نہایت شاق تھا تو ان کے لئے یہ سہولت فرما دی گئی تھی کہ اگرچہ تم کو کوئی عذر مثل مرض یا سفر کے پیش نہ ہو مگر صرف عادت نہ ہونے کے سبب روزہ تم کو دشوار ہو تو اب تم کو اختیار ہے چاہو روزہ رکھو چاہو روزہ کا بدلا دو ایک روزہ کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤ کیونکہ جب اس نے ایک دن کا کھانا دوسرے کو دے دیا تو گویا اپنے نفس کو ایک روزے کے کھانے سے روک لیا اور فی الجملہ روزہ کی مشابہت ہو گئی پھر جب وہ لوگ روزہ کے عادی ہو گئے تو یہ اجازت باقی نہ رہی جس کا بیان اس سے اگلی آیت میں آتا ہے۔ )

( ف ۲: پہلی امتوں میں سے نصاریٰ پر روزہ فرض ہونے کا بیان ایک حدیث میں اس طرح آیا ہے کہ نصاریٰ پر فقط ماہ رمضان کا روزہ فرض ہوا تھا ان کا کوئی بادشاہ بیمار ہوا تو اس کی قوم نے نذر مانی کہ اگر بادشاہ کو شفا ہو جائے تو ہم دس روزے اور اضافہ کر دیں گے پھر اور کوئی بادشاہ بیمار ہوا اس نے تجویز کیا کہ پچاس میں تین ہی کی کسر رہ گئی ہے لاؤ تین اور بڑھا لیں اور سب روزے ایام ربیع میں رکھ لیا کریں گے اور لعلکم تتقون میں روزہ کی حکمت کا ایک بیان ہے مگر حکمت کا اسی میں انحصار نہیں ہو گیا خدا جانے اور کیا کیا حکمتیں ہوں گی پس کسی کو یہ کہنے کی گنجائش نہیں کہ جب روزہ کا مقصد معلوم ہو گیا تو یہ مقصود اگر دوسرے طریقہ سے حاصل ہو جائے تو روزے کی یا رمضان کی قید کی کیا ضرورت ؟ جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ روزہ میں کچھ خاص حکمتیں اور ثمرات ایسے ہوں کہ وہ بدوں ان خاص قیود شرعیہ کے حاصل نہ ہو سکیں اور سب سے بڑھ کر رضائے الٰہی ہے وہ تو حکم کی بجا آوری ہی سے حاصل ہو سکے گی اس کے بدوں نہیں ہو سکتی اور یہاں چند مسائل ہیں جو بیان القرآن یا کتب فقہ میں دیکھنے چاہئیں۔ )

۱۸۵                        رمضان کا مہینہ ایسا ہے جس میں قرآن نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت و امتیاز (حق و باطل) کے صاف صاف حکم ہیں پھر جو شخص تم میں سے یہ مہینہ پائے تو ضرور اس کے روزے رکھے ! اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو لازم ہے گنتی دوسرے دنوں سے ! اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی کرنی اور نہیں چاہتا سختی کرنی ! اور تاکہ تم گنتی پوری کرو اور بڑائی کرو اللہ کی اس بت پر کہ تم کو سیدھی راہ دکھائی اور تاکہ تم احسان مانو !

۱۸۶                        اور (اے محمد) جب پوچھیں تجھ سے میرے بندے میری بابت (تو کہہ دے کہ) میں پاس ہی ہوں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی دعا کو جب مجھ سے دعا کرتا ہے تو چاہئے کہ وہ بھی میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لاویں تاکہ وہ سیدھا راستہ پائیں

۱۸۷                        جائز کر دیا گیا تمہارے لئے روزوں کی را توں میں پاس جانا اپنی بیبیوں کے ! وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس اللہ نے معلوم کیا کہ تم چوری سے اپنے نقصان کرتے تھے تو اس نے معاف کیا تم کو اور درگزر کی تم سے تو اب ہم بستر ہولیا کرو ان عورتوں سے اور چاہوں جو اللہ نے لکھ دیا تمہارے لئے ف ۱ اور کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ صاف نظر آنے لگے تمہیں صبح کی سفید دھاری کالی دھاری سے پھر پورا کرو روزہ رات تک اور نہ ہم بستر ہونا ان سے درآنحالیکہ تم اعتکاف میں بیٹھے ہو مسجدوں میں یہ اللہ کی حدیں ہیں تو ان کے نزدیک بھی نہ جاؤ۔ اسی طرح صاف صاف بیان کرتا ہے اللہ اپنی نشانیاں لوگوں کے لئے تاکہ وہ پرہیزگار بنیں ف ۱

( ف ۱: اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ عزل (وقت انزال ذکر کو فرج سے باہر کرنا تاکہ منی فرج کے اندر نہ نکلے ) مکروہ ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جماع بچہ پیدا ہونے کی جگہ ہی میں مناح ہے۔ امام احمد اور ابو داؤد اور حاکم نے عبدالرحمن بن ابی لیلی سے انہوں نے معاذ بن جبلؓ  سے روایت کی ہے کہ ابتداء اسلام میں لوگ اول شب میں سونے تک کھاتے پیتے تھے، عورتوں سے جماع کرتے تھے اور سونے کے بعد پھر صبح تک سب چیزوں سے باز رہتے تھے۔ ایک مرتبہ ایسا قصہ ہوا کہ ایک شخص انصاری حرمہ نام نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر بغیر کچھ کھائے پیئے سوئے رہے۔ صبح کو یہ حالت ہوئی کہ بھوک پیاس کی بہت شدت تھی اور ایک مرتبہ عمرؓ  کی بھی یہ کیفیت ہوئی کہ بعد سونے کے بی بی سے صحبت کر بیٹھے۔ یہ قصہ جناب رسول اللہ سے عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت آیت ” احل لکم الخ ” نازل فرمائی۔ (تفسیر مظہری)

( ف ۱: شروع اسلام میں یہ حکم تھا کہ رات کو ایک دفعہ نیند آ جانے سے آنکھ کھلنے کے بعد کھانا پینا بی بی کے پاس جانا حرام ہو جاتا تھا بعض صحابہ سے غلبہ میں اس حکم کی خلاف ورزی ہو گئی انہوں نے نادم ہو کر حضور سے اس کی اطلاع کی ان کی ندامت و توبہ پر اللہ تعالیٰ نے رحمت فرمائی اور اس حکم کو منسوخ فرما دیا۔ )

۱۸۸                        اور نہ کھاؤ اپنے مال آپس میں ناحق ! اور نہ پہنچاؤ ان کو حاکموں تک تاکہ کھا جاؤ تھوڑا سا لوگوں کے مال سے ظلماً اور تم جانے بوجھے ہو۔

خلاصہ رکوع ۲۳

روزہ کی فرضیت۔ مریض ومسافر کے لئے رعایت ذکر فرمائی گئی۔ ماہ رمضان کی فضیلت۔ دین میں آسانی، قرب خداوندی اور اجابت دعا کو ذکر فرمایا گیا۔ روزہ کے بارے میں مباشرت کھانے، پینے کے احکام ذکر کئے گئے۔ حرام کھانے اور جھوٹے مقدمات بنانے سے ممانعت فرمائی گئی۔

۱۸۹                        تجھ سے پوچھتے ہیں چاند کا نکلنا ! کہہ دے کہ وہ وقت ٹھہرے ہیں لوگوں کے لئے اور حج کے واسطے ف ۲ اور نیکی یہ نہیں ہے کہ تم آؤ گھروں میں ان کے پچھواڑے کی طرف سے بلکہ نیکی اس کی ہے جو پرہیزگاری کرے اور آؤ گھروں میں ان کے دروازوں کی طرف سے اور ڈرو اللہ سے تاکہ تم اپنی مراد کو پہنچو۔

( ف ۲: مسئلہ: چونکہ مدارا حکام شرعیہ کا اکثر حساب قمری پر ہے اس لئے اس کا محفوظ و منضبط رکھنا یقیناً فرض علی الکفایہ ہے اور سہل طریقہ انضباط کا یہ ہے کہ روز مرہ اسی کا استعمال رکھا جائے کیونکہ ظاہر ہے کہ فرض کفایہ عبادت ہے اور عبادت کی حفاظت کا طریقہ بھی یقیناً ایک درجہ میں عبادت ہے پس حساب قمری کا استعمال اس درجہ میں شرعاً مطلوب ضرور ہے پس ہرچند کہ روز مرہ کی خط و کتابت وغیرہ میں کسی حساب کا استعمال شرعاً ناجائز نہیں مگر مسلمان کی شان سے بہت بعید ہے کہ مطلوب شرعی کو چھوڑ کر ایک ایسی چیز کو اختیار کرے جو کسی درجہ میں اس کے مزاحم ہو خصوصاً ً ً اس طور پر کہ مطلوب شرعی سے کوئی خاص تعلق اور دلچسپی بھی نہ رہے اور غیر مطلوب کو راجح قرار دینے لگے نیز بوجہ صحابہ وسلف صالحین کی وضع کے خلاف ہونے کے شمسی حساب کا اس قدر استعمال ناجائز نہیں تو خلاف اولیٰ ضرور ہے۔ )

۱۹۰                       اور لڑو اللہ کی راہ میں ان سے جو تم سے لڑیں اور زیادتی نہ کرو ! بیشک اللہ ناپسند کرتا ہے زیادتی کرنے والوں کو ف ۱

( ف ۱: یہ آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب مکہ کے مشرکین نے آنحضرت اور آپ کے صحابہ کو صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ ادا کرنے سے روک دیا تھا۔ اور یہ معاہدہ کیا تھا کہ وہ اگلے سال آ کر عمرہ کریں گے۔ جب اگلے سال عمرے کا ارادہ کیا گیا تو کچھ صحابہ کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں مشرکین مکہ عہد شکنی کر کے ہم سے لڑائی شروع نہ کر دیں۔ اگر ایسا ہوا تو مسلمانوں کو یہ مشکل پیش آئے گی کہ حدود حرم میں اور خاص طور پر ذیقعدہ کے مہینے میں جنگ ناجائز ہے۔ ان آیات نے وضاحت فرمائی کہ اپنی طرف سے تو جنگ نہ کی جائے البتہ اگر کفار معاہدہ توڑ کر خود جنگ شروع کر دیں تو ایسی صورت میں مسلمانوں کے لئے جنگ جائز ہے اور اگر وہ حدود حرم اور محترم مہینے کی حرمت کا لحاظ کئے بغیر حملہ آور ہو جائیں تو مسلمانوں کے لئے بھی ان کی زیادتی کا بدلہ دینا درست ہے (توضیح القرآن)

۱۹۱                        اور مار ڈالو ان کو جہاں کہیں پاؤ اور نکال دو ان کو جہاں سے انہوں نے تم کو نکالا ہے ! اور فساد قتل سے بڑھ کر ہے۔ اور نہ لڑو ان سے مسجد الحرام کے پاس جب تک کہ نہ لڑیں وہ تم سے تو قتل کر انہیں ! یہی سزا ہے کافروں کی۔

۱۹۲                        پھر اگر وہ باز آ جاویں تو بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ف ۲

( ف ۲: یعنی اگر قتال شروع ہونے کے بعد بھی وہ اسلام قبول کر لیں تو ان کا اسلام بے قدر نہ سمجھا جائے گا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کے گزشتہ کفر کو معاف فرما کر علاوہ مغفرت کے قسم قسم کی نعمتیں عطا فرمائیں گے اور اگر وہ لوگ اسلام نہ لاویں تو اگرچہ دوسرے کفار سے جزیہ لینے کے اقرار پر قتال سے دست کش ہونے کا حکم ہے مگر یہ کفار چونکہ اہل عرب ہیں ان کے لئے قانون جزیہ نہیں بلکہ اسلام ہے یا قتل۔ )

۱۹۳                        اور لڑو ان سے یہاں تک کہ نہ باقی رہے فساد اور رہ جاوے طریقہ ایک اللہ کا ! پھر اگر وہ باز آ جاویں تو کسی پر زیادتی نہیں ظالموں کے سوائے۔

۱۹۴                        حرمت کا مہینہ بدلے میں ہے حرمت کے مہینے کے اور حرمت کی چیزوں میں ادلے کا بدلہ ہے ! تو جو زیادتی کرے تم پر تو تم زیادتی کرو اس پر اسی قدر کہ اس نے تم پر زیادتی کی ہے ! اور ڈرو اللہ سے اور جانے رہو کہ اللہ ڈرنے والوں ہی کے ساتھ ہے ! ف ۱

( ف ۱: مسئلہ: جن کفار سے معاہدہ ہو ان سے ابتداءً قتال شروع کرنا ناجائز ہے البتہ اگر معاہدہ رکھنا مصلحت نہ ہو تو صاف اطلاع کر دی جائے کہ ہم وہ معاہدہ باقی نہیں رکھتے یا وہ خود معاہدہ توڑ دیں ان دونوں صورتوں میں ابتداءً قتال کرنا درست ہے۔ چنانچہ جن لوگوں کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئی ہیں جب انہوں نے نقض عہد کیا تو ان سے یہاں تک قتل و قتال ہوا کہ مکہ فتح ہو کردار الاسلام بن گیا اور اگر معاہدہ نہ ہو تو ابتداءً قتال کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ شرائط جواز موجود ہوں۔

مسئلہ: جزیرہ عرب کے اندر جس میں حرم بھی آ گیا کفار کو وطن بنانے کی اجازت نہیں اور اگر بزور رہنا چاہیں تو حرم سے باہر تو قتال سے بھی دفع کر دینا جائز ہے اور حرم کے اندر پہلے قتال نہ کریں گے بلکہ ان کو دوسری طرح تنگ کیا جائے جس سے کہ خود چھوڑ دیں اور اگر کسی طرح نہ چھوڑیں اور دفع کرنے سے آمادہ قتال ہوں اس وقت قتال جائز ہے اور یہی حکم ہے قتل کر کے حرم میں گھس جانے والے کا اور اس آیت میں جو نقض عہد نہ کرنے کی صورت میں ان سے تعرض نہ کرنے کا حکم مفہوم ہوتا ہے تو اس وقت تک جزیرہ عرب میں کفار کے بنے کی ممانعت نہ ہوئی تھی پھر آخر میں یہ حکم مقرر ہو گیا۔

مسئلہ: جمہور آئمہ دین کا اجماع ہے کہ اشہر حرم میں قتل و قتال جائز ہے اور جن آیات سے ممانعت معلوم ہوتی ہے وہ منسوخ ہیں لیکن افضل اب بھی یہی ہے کہ اشہر حرم میں ابتدا بالقتال نہ کی جائے۔ مسئلہ: کفار عرب اگر اسلام نہ لاویں تو ان کو صرف قتل کا قانون ہے اگر جزیہ دینا چاہیں تو نہ لیا جائے گا)

۱۹۵                        اور خرچ کرو اللہ کی راہ میں اور نہ ڈالو (اپنے آپ کو) اپنے ہاتھوں ہلاکت میں اور نیکی کرو بیشک اللہ محبت کرتا ہے نیک لوگوں سے۔

۱۹۶                        اور پورا کرو حج اور عمرہ اللہ کے واسطے ! پھر اگر تم روک لئے جاؤ تو جو کچھ ہو قربانی (بھیجو) اور نہ منڈواؤ اپنے سر جب تک نہ پہنچ جاوے قربانی اپنے ٹھکانے ! پھر جو تم میں بیمار ہو اور اس کو تکلیف ہو سر کی طرف سے۔ تو اس پر بدلہ لازم ہے روزے یا خیرات یا قربانی ! پھر جب تمہاری خاطر جمع ہو جاوے تو جو شخص نفع اٹھانا چاہے عمرے کو حج سے ملا کر تو جو کچھ میسر آئے قربانی کرے ! اور جس کو نہ میسر ہو تو (رکھے ) تین روزے زمانے حج میں اور سات جب تم لوٹو ! یہ پورے دس ہوئے ! یہ اس کے لیے ہے جس کے گھر والے مسجد الحرام کے پاس ہوں ! اور ڈرو اللہ سے اور جانے رہو کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔ ! ف ۱

( ف ۱: مسئلہ: جس شخص کے پاس مکہ پہنچنے کا سامان اور استطاعت ہو اس پر تو حج ابتداً ہی فرض ہے اور جس کو استطاعت نہ ہو اور وہ شروع کر دے یعنی احرام باندھ لے اس پر حج کا پورا کرنا فرض ہو جاتا ہے اور عمرہ فرض و واجب نہیں بلکہ سنت مؤکدہ ہے البتہ شروع کرنے سے اس کا بھی پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے اور حج و عمرہ و احرام کا طریقہ کتب فقہ میں مذکور ہے۔

مسئلہ: عورت کو سر منڈانا حرام ہے وہ صرف ایک ایک انگل بال کاٹ ڈالے۔

مسئلہ: اگر حج و عمرہ کسی عذر سے پورا نہ کر سکے مثلاً راہ میں بدامنی ہو گئی یا بیماری نے مجبور کر دیا ایسے شخص کو چاہیے کہ کسی معتبر آدمی سے کہہ دے کہ فلاں تاریخ حد حرم میں پہنچ کر میری طرف سے ایک جانور جو بکری سے کم نہیں ہو سکتا ذبح کر دے اور قرآن و تمتع میں (جن کا ذکر ابھی آتا ہے ) دو بکریاں ذبح کرنے کے لئے رکھنا چاہیے جب وہ تاریخ آ جائے گو وہ ایام قربانی سے پہلے ہی ہو اور گمان غالب ہو جائے کہ اب جانور ذبح ہو گیا ہو گا تو سر منڈا دے اس سے احرام کھل جائے گا پھر اس حج یا عمرہ کی آئندہ قضا لازم ہو گی اور ذبح کے لئے حد حرم معین ہے اور روزہ و صدقہ جہاں چاہے ادا کر دے اور ایک مسکین کو ایک ہی حصہ دینا چاہیے اگر دو حصے ایک آدمی کو دے دے تو ایک ہی شمار ہو گا۔

خلاصہ رکوع ۲۴

چاند کے گھٹنے بڑھنے کی حکمتیں:

دور جاہلیت کی ایک رسم کی اصلاح: مسلمانوں کی ایک دفاعی الجھن کو حل فرمایا گیا۔ کفار سے بدلہ لینے کی قانونی حدود۔ حرم میں قتال کی حرمت بیان فرمائی گئی۔ مال خرچ کرنے کا حکم اور خود کو ہلاکت میں نہ ڈالنے کا حکم دیا گیا۔ سفر حج و عمرہ اور اس کے ضروری مسائل ذکر فرمائے گئے۔

۱۹۷                        اور حج کے چند مہینے معلوم ہیں پس جس نے لازم کر لیا ان میں حج تو نہ عورت کے پاس جانا ہے اور نہ جھگڑا ایام حج میں اور جو کچھ تم کرو گے نیکی اس کو اللہ جان لے گا ! اور زاد راہ لیا کرو بیشک بہتر زاد راہ پرہیزگاری ہے ! اور مجھ سے ڈرتے رہو اے عقل مندو۔  ف ۱

( ف ۱: مسئلہ: افعال حج احرام سے شروع ہوتے ہیں اور شوال کے مہینہ سے احرام باندھ لینا بلا کراہت جائز ہے اس سے پہلے مکروہ ہے اس لئے شوال سے حج کے مہینے شروع سمجھے گئے اور فرائض جس میں سب سے اخیر طواف زیارت ہے وہ دسویں تاریخ ذی الحجہ کو ہوتا ہے۔ اس لیے اس تاریخ کو ختم حج قرار دیا گیا ہے اگرچہ بعض واجبات بعد میں بھی ادا ہوتے ہیں۔

مسئلہ: فحش بات دو طرح کی ہے ایک وہ جو پہلے ہی سے حرام ہے وہ حج کی حالت میں اور بھی زیادہ حرام ہو گی دوسرے وہ جو پہلے سے حلال تھی جیسے اپنی بیوی سے بے حیائی اور بے حجابی کی باتیں کرنا حج میں یہ بھی درست نہیں۔ اسی طرح بے حکمی دو طرح کی ہے وہ جو پہلے سے بھی حرام ہے جیسے تمام گناہ یہ حج کی حالت میں زیادہ حرام ہے دوسرے وہ امور جو خاص حج کی وجہ سے حرام ہو گئے جیسے خوشبو لگانا بال کٹانا وغیرہ یہ حج میں ناجائز ہوتے ہیں اسی طرح رفیقوں سے لڑنا جھگڑنا یوں بھی برا ہے مگر حالت حج میں اور زیادہ برا ہے۔

مسئلہ: بے خرچ کئے ہوئے حج کو جانا ایسے شخص کو درست نہیں جس کے نفس میں قوت توکل نہ ہو اور اس کو غالب گمان ہو کہ میں شکایت و بے صبری میں مبتلا ہو جاؤں گا اور سوال کر کے لوگوں کو پریشان کروں گا۔ )

۱۹۸                        تم پر کچھ گناہ نہیں کہ چاہو فضل اپنے پروردگار کا۔ پھر جب تم لوٹو میدان عرفات سے تو یاد کرو اللہ کو مشعر الحرام کے پاس اور یاد کرو اسے جس طرح اس نے تم کو بتایا ہے اور بیشک تم تھے اس سے پہلے گمراہوں میں !

۱۹۹                        پھر تم بھی چلو جہاں سے چلیں دوسرے لوگ اور گناہ بخشواؤ اللہ سے ! بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۰۰                      پھر جب تم پورے کر چکو اپنے حج کے ارکان تو یاد کرو اللہ کو جس طرح یاد کرتے تھے اپنے باپ داداؤں کو بلکہ اس سے بھی یاد بڑھ کر ہو پھر بعض آدمی تو کہتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار دے دے ہم کو دنیا ہی میں ! اور نہیں ان کا آخرت میں کوئی حصہ۔

۲۰۱                       اور کوئی ان میں کہتا ہے کہ اے ہمارے پروردگار دے ہم کو دنیا میں بھلائی اور آخرت میں بھی بھلائی اور ہم کو بچا لے دوزخ کے عذاب سے ! ف ۱

( ف ۱: حضورؐ کی دعا:

حضرت انسؓ  سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ اکثر یہ آیت یعنی ” ربنا اٰتنا فی الدنیا الخ ” (بطور دعا) تلاوت فرمایا کرتے تھے اور عبداللہ بن سائبؓ  فرماتے ہیں کہ میں نے جناب رسول اللہ کو دیکھا کہ آپ رکن بنی جمح اور رکن اسود کے درمیان ربنا اٰتنا فی الدنیا الآیہ پڑھتے تھے۔ اس حدیث کو ابو داؤد اور نسائی اور ابن حبان اور حاکم اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اور ابو حسن بن الضحاک نے روایت کیا ہے کہ حضرت انسؓ  فرماتے تھے کہ جناب رسول اللہ اگر سو مرتبہ بھی دعا فرماتے تھے تو ” ربنا اٰتنا فی الدنیا الخ ” ہی سے دعا شروع فرماتے اور اسی پر ختم فرماتے تو ان دونوں میں سے ایک یہی دعا ہوتی تھی۔ (تفسیر مظہری)

۲۰۲                       یہی ہیں جن کے لئے حصہ ہے ان کے کئے کا اور اللہ جلد حساب لینے والا ہے

۲۰۳                       اور یاد کرتے رہو اللہ کو گنتی کے چند دنوں میں۔ پھر جو جلدی چلا گیا دو ہی دن میں تو اس پر کچھ گناہ نہیں اور جو ٹھہرا رہا اس پر بھی کچھ گناہ نہیں ف ۲ (یہ) ان کے لئے ہے جو پرہیزگاری کریں اور ڈرتے رہو اللہ سے اور جانے رہو کہ تم اسی کے پاس جمع ہوؤ گے

( ف ۲: منی میں تین دن گزارنا سنت ہے۔ اس دوران جمود پر کنکریاں مارنا واجب ہے۔ البتہ ۱۲ تاریخ تک رکنا ضروری نہیں اور اگر کوئی رکنا چاہے تو ۱۳ تاریخ کو بھی رمی کر کے واپس جا سکتا ہے۔

۲۰۴                       اور (اے محمد) بعض آدمی ایسا ہے کہ تجھ کو پسند آتی ہے اس کی بات دنیا کی زندگی میں اور وہ گواہ پکڑتا ہے اللہ کو اس بات پر جو اس کے دل میں ہے حالانکہ وہ سخت جھگڑالو ہے

۲۰۵                       اور جب لوٹ کر جائے تو دوڑتا پھرے ملک میں تاکہ فساد پھیلائے اس میں اور تباہ کرے کھیتی کو اور نسل کو ف ۳ اور اللہ پسند نہیں کرتا فساد کو۔

( ف ۳: بعض روایات میں ہے کہ اخنس بن شریق نامی ایک شخص مدینہ منورہ آیا تھا اور اس نے آنحضرت کے پاس آ کر بڑی چکنی چپڑی باتیں کیں اور اللہ کو گواہ بنا کر اپنے ایمان کا اظہار کیا۔ لیکن جب واپس گیا تو راستے میں مسلمانوں کی کھیتیاں جلا دیں ان کے مویشیوں کو ذبح کر ڈالا۔ یہ آیات اس پس منظر میں نازل ہوئی تھیں۔ البتہ یہ ہر قسم کے منافقوں پر پوری اترتی ہیں۔ )

۲۰۶                       اور جب اس سے کہا جاوے کہ ڈر اللہ سے تو آمادہ کرتا ہے اس کو غرور گناہ پر ! بس کافی ہے اس کو دوزخ اور وہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے۔  ف ۱

( ف ۱: ہارون رشید کا واقعہ:

ہارون رشید کا واقعہ ہے کہ ایک یہودی ایک سال تک اپنی ضرورت لے کر ہارون رشید کے دروازہ پر حاضر ہوتا رہا حاجت پوری نہ ہوئی۔ ایک دن ہارون رشید محل سے برآمد ہوئے کہیں جا رہے تھے کہ یہودی سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور یہ کہا ” اتق اللہ یا امیر المومنین ” اے امیر المومنین اللہ سے ڈرو۔ ہارون رشید یہ سنتے ہی فوراً سواری سے اتر پڑے اور وہیں زمین پر سجدہ کیا۔ سجدہ سے سر اٹھانے کے بعد حکم دیا کہ اس یہودی کی حاجت پوری کی جائے۔ چنانچہ اسی وقت اس کی حاجت پوری کر دی گئی۔ جب محل واپس ہوئے تو کسی نے کہا اے امیر المومنین آپ ایک یہودی کے کہنے سے فوراً زمین پر اتر پڑے۔ فرمایا کہ یہودی کے کہنے کی وجہ سے نہیں اترا بلکہ حق تعالیٰ شانہ کا یہ ارشاد یاد آیا ” واذا قیل لہ اتق اللہ اخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ جھنم ولبئس المہاد ” اس لئے سواری سے اترا اور سجدہ کیا (تفسیر قرطبیج ۳ص ۱۹)

۲۰۷                       اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو دے دیتے ہیں اپنی جان اللہ کی رضا جوئی میں ! اور اللہ بڑی شفقت رکھتا ہے بندوں پر۔

۲۰۸                       اے ایمان والو داخل ہو اسلام میں پورے پورے اور نہ چلو شیطان کے قدموں پر ! بیشک وہ تمہارا ظاہر دشمن ہے

۲۰۹                       پھر اگر تم بچلے اس کے بعد کہ آ چکیں تمہارے پاس نشانیاں تو جان رکھو کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے۔

۲۱۰                       کیا وہ اس کے منتظر ہیں کہ آ جاوے ان پر اللہ ابر کے سائبانوں میں اور فرشتے اور طے ہو جاوے معاملہ اور اللہ ہی کی طرف سب لوٹتے ہیں ف ۱

( ف ۱: آیت کی تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ بدعت پر کس قدر ملامت اور کس درجہ مذمت و رد ان کا فرمایا گیا ہے اور حدیثوں میں اس سے زیادہ صاف الفاظ میں سخت سخت وعیدیں آئی ہیں اور واقع میں اگر غور سے کام لیا جائے تو بدعت ایسی ہی مذموم ہونا چاہئے کیونکہ خلاصہ بدعت کی حقیقت کا غیر شریعت کو شریعت بنانا ہے اور شریعت من جانب اللہ ہوتی ہے تو یہ شخص ایسی بات کو جو اللہ کی طرف سے نہیں ہے اپنے اعتقاد میں منجانب اللہ سمجھتا اور دعویٰ میں منجانب اللہ بتلاتا ہے جس کا حاصل خدا پر جھوٹ اور بہتان لگانا اور ایک گونہ ثبوت کا دعویٰ ہے سو اس کے مذموم اور عظیم ہونے میں کیا شبہ ہو سکتا ہے یہ خرابی تو حقیقت کے لحاظ سے ہے ظاہری اعتبار سے بھی آثار کے خرابی یہ ہے کہ بدعت سے توبہ بہت کم نصیب ہوتی ہے کیونکہ جب وہ اس کو مستحب سمجھ رہا ہے تو توبہ کیوں کرے گا۔ اگر اللہ تعالیٰ اپنے طفیل سے اس عمل سے ہی نجات بخش دیں تو اور بات ہے کہ توبہ نصیب ہو جائے افسوس ہے جہلائے صوفیا اس بلا بدعت میں بکثرت مبتلا ہیں بہت سے ان میں عابد زاہد تارک دنیا بھی ہیں مگر برکات سنت سے محروم ہیں۔ )

خلاصہ رکوع ۲۵

حجاج کو شرعی آداب ذکر فرمائے گئے۔ سفر حج کے متعلق ہدایات، منافقت کا انجام اور اس کے بالمقابل اہل ایمان کا ذکر خیر فرمایا گیا۔ کمال اسلام اپنانے کی ضرورت اور احکام الٰہی سے روگردانی کی سزا ذکر فرمائی گئی۔

۲۱۱                        (اے محمد) پوچھ بنی اسرائیل سے کہ کتنی کچھ دیں ہم نے ان کو کھلی نشانیاں ! اور جو بدل ڈالے اللہ کی نعمت اس کے بعد کہ پہنچ چکی ہو اس کو تو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے

۲۱۲                        عمدہ کر دکھائی گئی کافروں کے لئے دنیا کی زندگی اور وہ ہنسی کرتے ہیں مسلمانوں سے ! اور جو لوگ پرہیزگار ہیں وہ ان کے اوپر ہوں گے قیامت کے دن ! اور اللہ روزی دیتا ہے جس کو چاہتا ہے بیشمار

۲۱۳                        پہلے تھے تمام لوگ ایک جماعت ! پھر بھیج دیئے اللہ نے پیغمبر خوشی سنانے والے اور ڈرانے والے ! اور اتاریں ان کے ساتھ سچی کتابیں تاکہ اللہ فیصلہ کرے لوگوں میں جس بات میں جھگڑا کریں اور نہ جھگڑا ڈالا کتاب میں مگر ان ہی لوگوں نے جن کو وہ ملی تھی اس کے بعد کہ آ چکیں ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں ! یہ آپس کی ضد سے ! سو ہدایت دی اللہ نے ایمان والوں کو اس سچی بات میں جس میں وہ جھگڑتے تھے اپنے حکم سے ! اور اللہ ہدایت کرتا ہے جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی !

۲۱۴                        کیا تم خیال کرتے ہو کہ چلے جاؤ گے جنت میں حالانکہ تم کو پیش نہیں آئی ان جیسی حالت جو تم سے پہلے ہو گزرے اور پہنچیں ان کو سختیاں اور تکلیفیں اور جھڑ جھڑائے گئے یہاں تک کہ کہہ اٹھا پیغمبر اور ایمان والے جو اس کے ساتھ کہ کب آوے گی مدد اللہ کی ؟ سنو اللہ کی مدد قریب ہے ف ۱

( ف ۱: انبیاء اور مومنین کا اس طرح کہنا نعوذ باللہ شک کی وجہ سے نہ تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ ان کو امداد اور غلبہ کا وقت معین طور پر نہ بتلایا گیا تھا اس ابہام کی وجہ سے مخالفین کی زیادتیاں دن بدن دیکھ کر ان کو جلدی ہی امداد کا انتظار ہوتا تھا جب انتظار سے تھک جاتے تو اس طرح عرض معروض کرنے لگتے کہ یا اللہ وہ امداد کب ہو گی اس سے ان کا مقصود الحاح و زاری کے ساتھ دعا کرنا تھا اور الحاح خلاف رضا تسلیم نہیں بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا میں الحاح کرنا حق تعالیٰ کو پسند ہے تو الحاح عین رضا ہے البتہ رضا کے خلاف وہ دعا ہے جس کے قبول نہ ہونے سے دعا کرنے والا ناراض ہو سو معاذ اللہ انبیاء اور مومنین کاملین میں نہ اس کا ثبوت ہے نہ احتمال اور یہ جو فرمایا ہے کہ کیا جنت میں بے مشقت چلے جاؤ گے اس پر یہ شبہ نہ کیا جائے کہ بعض گنہگار تو محض فضل سے جنت میں داخل ہو جائیں گے ان پر کوئی مشقت نہ ہو گی جواب یہ ہے کہ ان کو بھی تھوڑی بہت تو مشقت کرنا پڑی جو ادنیٰ درجہ کی ہے مشقت کے درجات مختلف ہیں جس کا درجہ ادنیٰ نفس و شیطان سے مقابلہ اور مخالفین دین کی مخالفت کر کے اپنے عقائد کا درست کرنا ہے اور یہ ہر مومن کو حاصل ہے آگے اوسط و اعلیٰ درجات ہیں اسی طرح جنت کے بھی مختلف مراتب ہیں جس درجہ کی مشقت ہو گی اسی درجہ کا دخول جنت ہو گا البتہ صحابہ چونکہ درجات عالیہ کے طالب تھے اور ہر مسلمان کو ایسا ہی ہونا چاہئے اس لئے ان درجات کے لئے بڑی بڑی مصیبتیں جھیلنے کو شرط کہا گیا۔ )

۲۱۵                        (اے محمد) تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا چیز خرچ کریں ؟ کہہ دے کہ جو کچھ تم مال خرچ کرو (وہ ہونا چاہئے ) ماں باپ اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے۔ اور تم جو کچھ بھلائی کرو گے اللہ اس کو خوب جانتا ہے ف ۱۔

( ف ۱: اہل و عیال اور قرض خواہ کو تنگی میں نہ ڈالو:

جو مال اپنی ضروریات سے زائد ہو وہی خرچ کیا جائے۔ اپنے اہل و عیال کو تنگی میں ڈال کر اور ان کے حقوق کو تلف کر کے خرچ کرنا ثواب نہیں۔ اسی طرح جس کے ذمہ کسی کا قرض ہے، قرض خواہ کو ادا نہ کرے اور نفلی صدقات وغیرہ میں اڑائے یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں۔ (معارف مفتی اعظم)

۲۱۶                        فرض کر دیا گیا تم پر جہاد اور وہ تم کو ناگوار ہے ! اور عجب نہیں کہ تم ناگوار سمجھو ایک چیز کو اور وہ تمہارے لئے بہتر ہو اور عجب نہیں کہ تم پسند کرو ایک چیز کو اور وہ تمہارے حق میں بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے

خلاصہ رکوع ۲۶

گمراہی کے خریدار یہود کا تذکرہ اور دنیا کی محبت کس طرح گمراہی کا سبب بنتی ہے۔ دین توحید کی تاریخ بتائی گئی کہ کس طرح ابتداء تاریخ سے حق و باطل کی کشمکش جاری ہے۔ مومنین و منکرین کے لحاظ سے انسانیت کی تقسیم اور ہدایت صرف اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ملتی ہے۔ نصرت خداوندی کے سلسلہ میں مومنین کو تسلی دی گئی۔ صدقات نافلہ اور ان کے مصارف بیان فرمائے گئے۔ قتال کی فرضیت کے ضمن میں بتایا گیا کہ حکم الٰہی کے مقابلہ میں طبعی پسند و ناپسند کی کوئی حیثیت نہیں۔ )

۲۱۷                        (اے محمد) تجھ سے پوچھتے ہیں حرمت کے مہینوں کی بابت یعنی اس میں لڑائی کرنی ! کہہ دے کہ ان میں لڑنا بڑا گناہ ہے اور روکنا اللہ کی راہ سے اور اس کو نہ ماننا اور مسجد حرام سے (روکنا) اور اس کے لوگوں کو وہاں سے نکال دینا اللہ کے نزدیک اس سے بڑھ کر ہے ! اور فساد مار ڈالنے سے بھی زیادہ ہے اور وہ (کافر) رہیں گے یہاں تک کہ تم کو لوٹا دیں تمہارے دین سے اگر مقدور پاویں ! اور جو پھرے گا تم میں اپنے دین سے پھر مر جاوے ایسی حالت میں کہ وہ کافر ہو تو ایسے لوگ ہیں کہ اکارت ہو گئے ان کے عمل دنیا اور آخرت میں اور وہ دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ف ۱

( ف ۱: دنیا میں اعمال کا ضائع کرنا یہ ہے کہ اس کی بیبی نکاح سے نکل جاتی ہے اور اگر کوئی اس کا مسلمان عزیز مرے تو مرتد کو میراث کا حصہ نہیں ملتا وغیرہ وغیرہ اور آخرت میں یہ ہے کہ عبادات کا ثواب نہیں ملتا اور ابد الاباد کے لئے دوزخ میں داخل ہوتا ہے۔ )

۲۱۸                        جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے ہجرت کی اور جہاد کیا اللہ کی راہ میں یہی لوگ آس رکھتے ہیں اللہ کی مہر کی ! اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

۲۱۹                        (اے محمد) تجھ سے پوچھتے ہیں شراب اور جوئے کی بابت ! کہہ دے کہ ان دونوں میں گناہ بڑا ہے اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں ! اور ان دونوں کا گناہ بڑا ہے ان کے نفع سے ف ۲۔ اور تجھ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں ! کہہ دے جو بچے ! اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے اللہ تم سے حکم ! تاکہ تم فکر کرو

( ف ۲: شراب سے عقل جاتی رہتی ہے اور وہی سب گناہوں سے روکتی ہے قمار سے مال کی حرص بڑھتی ہے اور حرص سے چوری وغیرہ کی عادت پیدا ہو جاتی ہے۔ تو اس آیت سے ان دونوں کی حرمت فی نفسہ کا بیان کرنا مقصود نہیں تھا بلکہ بعض عوارض کی وجہ سے ان کو چھوڑنے کا مشورہ دیا تھا کہ ان میں نفع اتنا نہیں ہے جتنا نقصان ہو جاتا ہے۔ شراب کا نفع نشہ لذت اور قمار کا نفع تحصیل مال ہے مگر یہ نفع فوری ہے اور اپنے ہی آپ کو ہوتا ہے اور ضرر دیرپا ہے اور دوسروں تک پہنچتا ہے یہی وجہ تھی کہ اس آیت کو سن کر بعض نے تو فوراً دونوں کو ترک کر دیا اور بعضوں نے کہا کہ جب حرام نہیں تو ان مفاسد کا ہم کچھ انتظام کر کے نفع حاصل کرنے کو استعمال کر سکتے ہیں۔ اگر یہ عنوان آیت بیان حرمت کے لئے ہوتا تو اہل لسان بکثرت اتنی بڑی غلطی میں نہ پڑتے پھر اس آیت کے بعد کسی صحابی نے شراب پی کر نماز پڑھی اور غلط پڑھی تو نماز کے اوقات میں پینا بالکل ممنوع ہو گیا پھر بعد چندے مطلقاً حرام کر دی گئی اور یہی آخری حکم ہے جس نے پہلے احکام کو منسوخ کر دیا۔ )

۲۲۰                       دنیا اور آخرت کے بارے میں اور تجھ سے پوچھتے ہیں یتیموں کی بابت ! کہہ دے ان کے لئے بہتری کا کام کرنا بہتر ہے اور اگر تم ان سے مل جل کر رہو تو تمہارے بھائی ہیں ! اور اللہ جانتا ہے بگاڑنے والے اور سنوارنے والے کو ! اور اگر اللہ چاہتا تو تم کو مشکل میں ڈال دیتا ! بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے

۲۲۱                        اور نہ نکاح کرو مشرک عورتوں سے جب تک کہ وہ ایمان نہ لے آویں ! اور بیشک مسلمان غلام بہتر ہے شرک کرنے والے سے اگرچہ وہ تم کو بھلا لگے ! وہ تو بلاتے ہیں دوزخ کی طرف ف ۱ ! اور اللہ بلاتا ہے جنت اور بخشش کی جانب اپنے حکم سے۔ اور کھول کر بیان فرماتا ہے اپنے احکام لوگوں کے لئے تاکہ وہ ہوشیار ہو جاویں۔

( ف ۱: عبداللہ بن رواحہؓ  کا واقعہ ابن عباسؓ  سے روایت کی ہے کہ عبداللہ بن رواحہ کی ایک بدصورت لونڈی تھی۔ ایک دن عبداللہ نے اس پر خفا ہو کر اس کے طمانچہ مار دیا (لیکن) پھر گھبرائے اور آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ قصہ حضور سے عرض کیا۔ آپ نے پوچھا کہ عبداللہ ! اس کی حالت کیا ہے ؟ عرض کیا وہ کلمہ پڑھتی ہے ” اشھد ان لا الہ الا اللہ وانک رسول اللہ ” اور رمضان شریف کے روزے رکھتی ہے، اچھی طرح وضو کرتی ہے، نماز پڑھتی ہے۔ حضرت نے فرمایا پھر وہ تو مومنہ ہے۔ عبداللہ بولے یارسول اللہ ! قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے۔ میں اسے آزاد کر کے اس سے اپنا نکاح کر لوں گا۔ چنانچہ ایسا ہی کیا۔ بعض مسلمانوں نے ان کو طعنہ دیا اور کہا کہ کیا لونڈی سے شادی کرتے ہو اور ایک حرہ مشرکہ عورت ان کو دکھلائی (کہ اس سے شادی کر لو) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بطور قیاس کے اس آیت سے یہ نکلتا ہے کہ خوش اخلاق نیک بخت عورت اگرچہ کنگال، بدصورت ہو نکاح کرنے میں اس عورت سے بہتر ہے جو بدکار بد اخلاق ہو اگرچہ یہ دولت مند خوبصورت ہو۔ )

خلاصہ رکوع ۲۷

کفار کی ایک نکتہ چینی کا جواب:

قتال کے بارے میں ایک وضاحت فرمائی گئی پھر مرتد کی سزا ذکر کی گئی۔ جہاد و ہجرت کا اجر ذکر کیا گیا۔ شراب جوئے کی حرمت کے تدریجی اقدام فرمائے گئے۔ نفلی صدقات کی حدود ذکر فرمائی گئی۔ یتیم کی کفالت اور اس کے مال میں احتیاط کا حکم دیا گیا۔ مشرک مرد و عورت سے نکاح کی ممانعت اور اس کی علت بیان کی گئی۔

۲۲۲                        اور تجھ سے پوچھتے ہیں حیض کا حکم ! ف ۱ کہہ دے کہ وہ گندگی ہے سو تم الگ رہو عورتوں سے حیض کے وقت اور ان کے پاس نہ جاؤ جب تک کہ پاک نہ ہولیں ! پھر جب وہ نہا دھو لیں تو آؤ ان کے پاس جدھر سے تم کو حکم دیا ہے اللہ نے ! بیشک اللہ دوستی رکھتا ہے صاف رہنے والوں سے

( ف ۱: حائضہ بیوی کے ساتھ کھانا پینا جائز ہے:

حضرت عائشہؓ  سے منقول ہے کہ میں نبی کریم کا سر دھویا کرتی۔ آپ میری گود میں ٹیک لگا کر لیٹ کر قرآن شریف کی تلاوت فرماتے حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی۔ میں ہڈی چوستی تھی اور آپ بھی اسی ہڈی کو وہیں منہ لگا کر چوستے تھے میں پانی پیتی تھی پھر گلاس آپ کو دیتی، آپ بھی وہیں منہ لگا کر اسی گلاس سے وہی پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی تھی۔ (تفسیر ابن کثیر)

۲۲۳                        تمہاری بیبیاں تمہاری کھیتیاں ہیں تو آؤ اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو ف ۲ اور (اے محمد) خوشخبری سنا دے ایمان والوں کو

( ف ۲ شان نزول:

آپ سے پوچھا گیا تو اس پر یہ آیت اتری، یعنی اس سے مقصود اصلی صرف نسل کا باقی رکھنا اور اولاد کا پیدا ہونا ہے۔ سو تم کو اختیار ہے آگے سے یا کروٹ سے یا پشت سے پڑ کر یا بیٹھ کر جس طرح چاہو مجامعت کرو، مگر یہ ضرور ہے کہ تخم ریزی اسی خاص موقع میں ہو جہاں پیداواری کی امید ہو، یعنی مجامعت خاص فرج میں ہو۔ لواطت ہرگز ہرگز نہ ہو۔ یہود کا خیال غلط ہے کہ اس سے بچہ احول (بھینگا) پیدا ہوتا ہے۔ (تفسیر عثمانی)

۲۲۴                        اور لوگو نہ بنا لو اللہ کو مانع اپنی قسموں کے باعث کہ نہ سلوک کرو اور نہ پرہیزگار بنو اور نہ ملاپ کراؤ آدمیوں میں ! اور اللہ سنتا جانتا ہے

۲۲۵                        نہیں پکڑ کرے گا تم سے اللہ تمہاری قسموں میں بلا ارادہ قسم پر ! ف ۱ لیکن پکڑ کرے گا ان قسموں پر جن کا ارادہ کیا تمہارے دلوں نے اور اللہ بخشنے والا بردبار ہے

( ف ۱: لغو قسم کے دو معنی ہیں ایک یہ کہ کبھی گزری ہوئی بات پر جھوٹی قسم بلا قصد نکل گئی یا نکلی تو ارادہ سے مگر وہ اس کو اپنے گمان میں سچی سمجھتا ہے یا آئندہ کے متعلق اس طرح قسم نکل گئی کہ کہنا کچھ چاہتا ہے اور بے ارادہ منہ سے قسم ہی نکل گئی اس میں گناہ نہیں ہوتا اس واسطے اس کو لغو کہتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں جس قسم پر گناہ اور مواخذہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے یہ وہ قسم ہے جو قصداً جھوٹی سمجھ کر جان بوجھ کر کھائی ہو اس کو غموس کہتے ہیں اس میں گناہ سخت ہوتا ہے مگر امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس میں کفارہ نہیں آتا اور پہلی ” صورت میں جس کو لغو کہا جاتا ہے نہ گناہ ہے نہ کفارہ اس آیت میں ان ہی دونوں کا ذکر ہے اور دوسرے معنی لغو کے یہ ہیں کہ جس میں کفارہ نہ ہو اس معنی کے اعتبار سے لغو میں غموس بھی داخل ہے کیونکہ اس میں بھی کفارہ نہیں گو گناہ ہے اور اس کے مقابلہ میں وہ قسم ہے جس میں کفارہ آتا ہے جس کو منعقدہ کہتے ہیں اس کی حقیقت یہ ہے کہ آئندہ کے متعلق قصد کر کے یوں قسم کھائی کہ میں فلاں کام کروں گا یا نہ کروں گا اس میں قسم توڑنے سے کفارہ لازم آتا ہے اس کا بیان سورة مائدہ میں آئے گا۔ )

۲۲۶                        ان لوگوں کے لئے جو قسم کھا لیں اپنی عورتوں سے علیحدہ رہنے کی چار مہینہ کی مہلت ہے ! پھر اگر رجوع کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے

۲۲۷                        اور اگر ٹھان لیں طلاق کی تو اللہ سننے والا واقف کار ہے۔  ف ۲

( ف ۲: مسئلہ:

اگر کوئی قسم کھائے کہ اپنی بی بی سے صحبت نہ کروں گا اس کی چار صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی مدت معین نہ کرے، دوم یہ کہ چار ماہ کی مدت کی قید لگا دے، تیسرے یہ کہ چار ماہ سے زیادہ مدت کی قید لگا دے، چوتھی یہ کہ چار ماہ سے کم مدت کا نام لے پہلی اور دوسری اور تیسری صورت کو شریعت میں ایلاء کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہے کہ اگر چند ماہ کے اندر اپنی قسم توڑ ڈالی اور بیوی کے پاس چلا گیا تو قسم کا کفارہ دے اور نکاح باقی ہے اور اگر چار ماہ گزر گئے اور قسم نہ توڑی تو اس عورت پر طلاق بائن پڑ گئی یعنی بلا نکاح رجوع نہیں ہو سکتا البتہ اگر دونوں رضامندی سے پھر نکاح کر لیں تو درست ہے اور حلالہ کی ضرورت نہ ہو گی اور چوتھی صورت ایلاء نہیں اگر قسم توڑی کفارہ لازم ہو گا اور قسم پوری کر دی جب بھی نکاح باقی ہے۔ )

۲۲۸                        اور وہ عورتیں کہ جن کو طلاق دی گئی ہو روکے رکھیں اپنے آپ کو تین حیض ! اور ان کو جائز نہیں کہ چھپا رکھیں اس کو جو اللہ نے پیدا کیا ان کے پیٹ میں اگر وہ ایمان رکھتی ہیں اللہ اور روز آخرت پر ! اور ان کے شوہر زیادہ حق دار ہیں ان کے لوٹا لینے کے اس مدت میں اگر چاہیں اچھی طرح رکھنا ! عورتوں کا بھی حق ہے جیسا کہ (مردوں کا) حق ہے دستور کے مطابق اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت ہے ف ۱ اور اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے !

( ف ۱: خطبہ حجۃ الوداع میں بیان کئے گئے عورتوں کے حقوق:

صحیح مسلم میں حضرت جابرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے حجۃ الوداع کے اپنے خطبہ میں فرمایا: لوگو ! عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ تم نے اللہ کی امانت سے انہیں لے لیا ہے اور اللہ کے کلمہ سے ان کی شرمگاہوں کو اپنے لئے حلال کیا ہے۔ عورتوں پر تمہارا یہ حق ہے کہ وہ تمہارے فرش پر کسی ایسے کو نہ آنے دیں جس سے تم ناراض ہو۔ اگر وہ ایسا کریں تو انہیں مارو لیکن ایسی مار نہ ہو کہ ظاہر ہو۔ ان کا تم پر یہ حق ہے کہ انہیں اپنی بساط کے مطابق کھلاؤ پلاؤ پہناؤ اڑھاؤ۔ ایک شخص نے حضور سے دریافت کیا کہ ہماری عورتوں کے ہم پر کیا حق ہیں ؟ آپ نے فرمایا جب تم کھاؤ تو اسے بھی کھلاؤ جب تم پہنو تو اسے بھی پہناؤ، اس کے منہ پر نہ مارو اسے گالیاں نہ دو اس سے روٹھ کر اور کہیں نہ بھیج دو، ہاں گھر میں ہی رکھو، اسی آیت کو پڑھ کر حضرت ابن عباسؓ  فرمایا کرتے تھے کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے میں بھی اپنی زینت کروں جس طرح وہ مجھے خوش کرنے کے لئے اپنا بناؤ سنگھار کرتی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

خلاصہ رکوع ۲۸

عورتوں کے خاص احکام حیض اور جماع کے بارے میں احکام دیئے گئے۔ اللہ کے نام کی حرمت اور معتبر و غیر معتبر قسم کو ذکر کیا گیا۔ عورتوں سے ایلاء اور طلاق کا قانون ذکر فرمایا گیا۔ مطلقہ کی عدت اور طلاق کے مسائل ذکر فرمائے گئے۔

۲۲۹                        طلاق دو ہی مرتبہ ہے پھر یا تو روک رکھنا ہے دستور کے موافق یا رخصت کر دینا ہے سلوک کر کے ! اور تم کو ناجائز ہے کہ تم لے لو اس مال میں سے جو تم نے ان کو دیا ہے کچھ بھی ! مگر اس وقت کہ دونوں خوف کریں اس امر کا کہ نہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کا حکم ! پس اگر تم کو خوف ہے کہ نہ قائم رکھ سکیں گے وہ دونوں اللہ کے حکم کو تو کچھ گناہ نہیں ان پر اس صورت میں کہ بدلا دے دے عورت ! یہ اللہ کی حدیں ہیں سو ان سے آگے نہ بڑھو اور جو آگے بڑھیں گے اللہ کی حدوں سے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔

۲۳۰                       پھر اگر عورت کو طلاق دے دے تو اس کے بعد وہ عورت اس کو حلال نہیں جب تک کہ وہ نکاح نہ کرے دوسرے شوہر سے پھر اگر (دوسرا شوہر) اس کو طلاق دے دے تو دونوں پر کچھ گناہ نہیں کہ پھر مل جاویں اگر خیال کریں کہ قائم رکھ سکیں گے اللہ کے احکام ! ف ۱ اور یہ اللہ کے احکام ہیں جن کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے ان لوگوں کے لئے جو سمجھتے ہیں

( ف ۱: اس آیت نے ایک ہدایت تو یہ دی ہے کہ اگر طلاق دینی ہی پڑ ج                                          ائے تو زیادہ سے زیادہ دو طلاقیں دینی چاہئیں، کیونکہ اس طرح میاں بیوی کے درمیان تعلقات بحال ہونے کا امکان رہتا ہے۔ چنانچہ عدت کے دوران شوہر کو طلاق سے رجوع کرنے کا حق رہتا ہے اور عدت کے بعد دونوں کی باہمی رضامندی سے نیا نکاح نئے مہر کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے، تین طلاقوں کے بعد دونوں راستے بند ہو جاتے ہیں اور تعلقات کی بحالی کا کوئی طریقہ باقی نہیں رہتا۔ دوسری ہدایت یہ دی گئی ہے کہ شوہر طلاق سے رجوع کا فیصلہ کرے یا علیحدگی کا، دونوں صورتوں میں معاملات خوش اسلوبی سے طے کرنے چاہئیں۔ عام حالات میں شوہر کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ طلاق کے بدلے مہر واپس کرنے یا معاف کرنے کا مطالبہ کرے۔ ہاں اگر طلاق کا مطالبہ عورت کی طرف سے ہو اور شوہر کی کسی زیادتی کے بغیر ہو، مثلاً بیوی شوہر کو پسند نہ کرتی ہو اور اس بناء پر دونوں کو یہ اندیشہ ہو کہ وہ خوشگواری کے ساتھ نکاح کے حقوق ادا نہ کر سکیں گے تو اس صورت میں یہ جائز قرار دے دیا گیا ہے کہ عورت مالی معاوضے کے طور پر مہر یا اس کا کچھ حصہ واپس کر دے یا اگر اس وقت تک وصول نہ کیا ہو تو معاف کر دے۔)

۲۳۱                        اور جب طلاق دے دی تم نے عورتوں کو پھر وہ پہنچ گئیں اپنی عدت تک تو روک رکھو ان کے دستور کے مطابق یا ان کو رخصت کرو اچھی طرح ! اور نہ روکے رہو ان کو ستانے کے لئے کہ زیادتی کرنے لگو ف ۲ اور جو ایسا کرے گا تو بیشک اس نے اپنے اوپر ظلم کیا ! اور نہ بناؤ اللہ کے احکام کو ہنسی ! اور یاد کرو اللہ کا احسان جو تم پر ہے اور جو اتاری اس نے تم پر کتاب اور کام کی باتیں کہ تم کو نصیحت کرتا ہے ان سے ! اور ڈرو اللہ سے اور جانے رہو کہ اللہ ہر چیز کو جانتا ہے ! ف ۱

( ف ۲: جاہلیت میں ایک ظالمانہ طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی بیویوں کو طلاق دیتے اور جب عدت گزرنے کے قریب ہوتی تو رجوع کر لیتے، تاکہ وہ دوسرا نکاح نہ کر سکے پھر اس کے حقوق ادا کرنے کے بجائے کچھ عرصہ کے بعد پھر طلاق دیتے اور عدت گزرنے سے پہلے پھر رجوع کر لیتے اور اس طرح وہ غریب بیچ میں لٹکی رہتی، نہ کسی اور سے نکاح کر سکتی اور نہ شوہر سے اپنے حقوق حاصل کر سکتی۔ یہ آیت اس ظالمانہ طریقے کو حرام قرار دے رہی ہے۔ )

( ف ۱: مسئلہ:

ہزل اور خطا میں فرق ہے۔ ہزل تو یہ ہے کہ بات ارادہ اور قصد سے کی جائے لیکن ہنسی کرنا مقصود ہو اس کے موثر ہونے کا قصد نہ ہو سو طلاق اور چند معاملات ایسے ہیں کہ وہ اس صورت میں کلام کرتے ہی فوراً واقع ہو جاتے ہیں اور خطا کی صورت یہ ہے کہ کہنا کچھ اور تھا زبان بچل گئی اور منہ سے لفظ طلاق نکل گیا فتح القدیر میں لکھا ہے کہ اس میں عنداللہ طلاق نہ ہو گی ۱۲)

خلاصہ رکوع ۲۹

طلاق و رجوع کے ضروری مسائل اور خلع کی وضاحت۔ تین طلاق دینے کا نتیجہ عائلی قوانین اور طلاق کے بارے میں تین خصوصی حکم دیئے گئے۔

۲۳۲                        اور جب تم طلاق دے دو اپنی بیبیوں کو پھر پہنچ جاویں وہ اپنی عدت کو تو نہ روکو انہیں اس سے کہ وہ نکاح کر لیں اپنے شوہروں سے جب وہ راضی ہو جاویں آپس میں جائز طور پر ! یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں ایمان رکھتا ہے اللہ اور روز آخرت پر ! یہ تمہارے واسطے بڑی پاکیزگی اور بڑی صفائی کی بات ہے ! اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔  ف ۲

( ف ۲: بعض جگہ تو خود شوہر ہی طلاق دینے کے بعد جب وہ کہیں دوسری جگہ نکاح کرنا چاہتی تو اپنی ذلت سمجھ کر نکاح نہ کرنے دیتا اور بعض جگہ عورت کے دوسرے عزیز و اقارب اپنی کسی دنیوی غرض سے ان کو نکاح نہ کرنے دیتے اور ایک جگہ ایسا ہوا کہ عورت مطلقہ اور اس کا پہلا شوہر دونوں نکاح کرنے پر پھر رضامند ہو گئے تھے مگر عورت کے بھائی نے غصہ میں آ کر روکا تھا اس آیت میں سب صورتیں داخل ہیں اور ہر صورت میں روکنا ممنوع ہے اور یہ جو فرمایا کہ اس میں پاکی اور صفائی ہے تو اس کی عام وجہ تو یہ ہے کہ احکام الٰہی کا ماننا ہمیشہ سبب ہوتا ہے گناہوں سے پاک صاف رہنے کا اور خاص وجہ یہ ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ عورت و مرد باہم دگر ایک دوسرے کی طرف راغب ہوں پاکی اور صفائی اسی میں ہے کہ نکاح سے نہ روکا جائے ورنہ خرابی اور فتنہ اور آلودگی کا اندیشہ ہے البتہ اگر بے قاعدہ نکاح ہو اس سے روکنا نکاح سے روکنا نہیں کیونکہ وہ نکاح ہی کہاں ہوا جب بے قاعدہ ہے۔ )

۲۳۳                        اور مائیں دودھ پلائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس جو کوئی چاہے کہ پوری کرے دودھ کی مدت ! اور (باپ) پر کہ جس کا وہ بچہ ہے ان (دودھ پلائیوں ) کا کھانا اور کپڑا ہے دستور کے مطابق ! نہ تکلیف دی جاوے کسی کو مگر اس کی گنجائش کے موافق ! نہ نقصان دیا جاوے ماں کو اس کے بچہ کی وجہ سے اور نہ باپ کو کہ جس کا وہ بچہ ہے اس کے بچہ کے باعث ! اور وارث پر بھی ایسا ہی لازم ہے پھر اگر وہ دونوں چاہیں دودھ چھڑانا اپنی مرضی اور صلاح سے تو ان پر کچھ گناہ نہیں۔ اور اگر تم چاہو کہ (کسی دایہ سے ) دودھ پلواؤ اپنی اولاد کو تو تم پر کچھ گناہ نہیں جب کہ حوالے کر دو جو تم نے دینا کیا تھا دستور کے موافق ! اور ڈرو اللہ سے اور جانے رہو کہ اللہ جو کچھ تم کرتے ہو دیکھ رہا ہے۔

۲۳۴                        اور جو لوگ کہ مر جاویں تم میں اور چھوڑ جاویں بیبیاں (تو) وہ بیبیاں روکے رہیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس دن ! پھر جب پہنچ چکیں اپنی عدت کو تو تم پر کچھ گناہ نہیں جو وہ کریں اپنے حق میں جائز طور پر ! اللہ اس سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے ف ۱

( ف ۱: جس کا خاوند مر جائے اس کو عدت کے اندر خوشبو لگانا، سنگھار کرنا، سرمہ اور تیل بلا ضرورت مرض کے لگانا، مہندی لگانا، رنگین کپڑے پہننا درست نہیں اور دوسرے نکاح کی صاف بات چیت کرنا بھی عدت کے اندر درست نہیں اور رات کو دوسرے گھر میں رہنا بھی درست نہیں اور یہی حکم ہے اس عورت کا جس پر طلاق بائن پڑی ہو جس میں رجعت درست نہیں مگر اس کو شوہر کے گھر سے نکلنا بھی درست نہیں سخت مجبوری ہو تو خیر۔

مسئلہ: اگر خاوند کی وفات چاند رات کو ہوئی ہے تب تو یہ عدت چاند کے حساب سے پوری کی جائے گی ہر مہینہ چاہے انتیس کا ہو یا تیس کا اور اگر چاند رات کے بعد وفات ہوئی ہے تو ایک سو بیس دن پورے کئے جائیں گے ہر مہینہ تیس دن کا لیا جائے گا اس مسئلہ سے بہت لوگ غافل ہیں اور جس وقت وفات ہوئی تھی جب وہی یہ مدت گزر کر آئے گا تب عدت ختم ہو گی۔ )

۲۳۵                        اور تم پر کچھ گناہ نہیں جو پردے میں کہیں پیغام نکاح ان عورتوں سے یا چھپائے رکھو اپنے دلوں میں ! جانتا ہے اللہ کہ تم ان کا دھیان کرو گے لیکن ان سے وعدہ نہ کر رکھو چپکے چپکے مگر یہی کہ کہہ دو ایک بات جائز طور پر ! اور نہ باندھو نکاح کی گرہ جب تک کہ نہ پہنچ جاوے میعاد مقرر اپنے اختتام پر ! اور جانے رہو کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تو اس سے ڈرتے رہو۔ اور جانے رہو کہ اللہ بخشنے والا بردبار ہے ف ۱

( ف ۱: یہاں عدت کے اندر چار فعل مذکور ہیں۔ دو زبان کے اور دو دل کے اور ہر ایک حکم جدا ہے اول زبان سے صراحۃً پیغام نکاح دینا یہ حرام ہے لا تواعدوھن میں اس کا ذکر ہے دوم زبان سے اشارۃً کہنا یہ جائز ہے لاجناح علیکم اور قولا معروفاً میں اس کا ذکر ہے سوم دل سے یہ ارادہ کرنا کہ ابھی یعنی عدت کے اندر نکاح کر لیں گے یہ بھی حرام ہے کیونکہ عدت کے اندر نکاح کرنا حرام ہے اور حرام کا ارادہ بھی حرام ہے۔ لا تعزموا میں اس کا ذکر ہے۔ چہارم دل سے یہ ارادہ کرنا کہ عدت کے بعد نکاح کریں گے یہ جائز ہے اکننتم فی انفسکم میں اس کا ذکر ہے صحبت و خلوت سے پہلے طلاق کی دو صورتیں ہیں یا تو نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا یا ہوا ہے پہلی صورت کا حکم اول بیان ہوتا ہے۔ )

خلاصہ رکوع ۳۰

عورت کے ذاتی حقوق کا تحفظ اور اس بارے میں نصائح ذکر فرمائی گئیں۔ نو مولود بچے کی پرورش کے بارے میں دستور العمل بیان کیا گیا۔ بیوہ عورت کی عدت اور دوران عدت پیغام نکاح سے متعلق ہدایات دی گئیں۔ آخر میں نافرمانی سے بچنے کا نسخہ ذکر فرمایا گیا۔

۲۳۶                        تم پر کچھ گناہ نہیں اگر طلاق دے دو عورتوں کو جب تک کہ ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا یا نہ ٹھہرایا ہو ان کے لئے مہر۔ اور ان کے ساتھ سلوک کر دو مقدور والے پر اس کے موافق ہے اور بے مقدور پر اس کے موافق ! سلوک ہو دستور کے مطابق ! یہ لازم ہے نیک لوگوں پر ف ۱

( ف ۱: اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا جائے نکاح ہو جاتا ہے۔

مسئلہ: اگر ایسی عورت کو قبل صحبت اور خلوت صحیحہ کے طلاق دے دی تو کچھ مہر دینا نہیں پڑتا بلکہ ایک جوڑا تین کپڑوں کا جس میں ایک کرتا ہو ایک سر بند اور ایک اتنی بڑی چادر جس میں سر سے پاؤں تک لپٹ سکے واجب ہوتا ہے اور صحیح قول یہ ہے کہ اس جوڑا میں مرد کی حیثیت معتبر ہے اور ایسی عورت کے لئے یہ جوڑا قائم مقام مہر کے ہے۔

مسئلہ: یہ جوڑا پانچ درہم سے کم قیمت کا نہ ہو۔ اور اس عورت کے خاندانی مہر کے نصف سے زیادہ نہ ہو۔ )

۲۳۷                        اور اگر تم نے ان کو طلاق دی اس سے پہلے کہ ان کو ہاتھ لگاؤ اور تم ٹھہر اچکے تھے ان کے لئے مہر تو (لازم ہے ) آدھا اس مقدار کا جو ٹھہرائی تھی مگر یہ کہ چھوڑ بیٹھیں عورتیں یا چھوڑ بیٹھے وہ مرد کہ جن کے ہاتھ میں عقد نکاح ہے ! اور یہ بات کہ تم چھوڑ دو زیادہ قریب ہے پرہیز گاری کے ! اور نہ بھولو آپس میں احسان کرنا ! بیشک اللہ جو کچھ تم کرتے ہو دیکھ رہا ہے ف ۲

( ف ۲: مسئلہ جس عورت کا مہر نکاح کے وقت مقرر کیا ہوا ہو اور اس کو قبل صحبت و خلوت صحیحہ کے طلاق دے دی ہو تو مقرر کئے ہوئے مہر کا آدھا مرد کے ذمہ واجب ہو گا البتہ اگر عورت معاف کر دے یا مرد پورا مہر دے دے تو اختیاری بات ہے۔

مسئلہ: کسی کے ساتھ رعایت سلوک و احسان کرنا یا اپنا حق مہر معاف کر دینا بہت اچھا ہے اور اس کا موجب ثواب ہونا ظاہر اور معلوم ہے لیکن کسی خاص وجہ سے کبھی معاف نہ کرنا اور رعایت نہ کرنا بہتر ہوتا ہے۔ مثلاً یہ کہ رعایت کرنے والا یا مہر معاف کرنے والی خود مفلس ہے اور معاف کرنے والے کو تنگدستی پر صبر نہ ہو سکے گا اور خود کسی معصیت سوال وغیرہ میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ ہے ایسی صورت میں رعایت کرنا اور معاف کرنا جائز نہیں عورتیں خصوصاً ً ً اس مسئلہ سے بہت غافل ہیں ہر حالت میں مہر معاف کر دینے ہی کو ثواب سمجھتی ہیں کسی شے کا فی نفسہ اچھا ہونا اور کسی عارض کی وجہ سے اچھا نہ رہنا اس میں کچھ تعارض نہیں۔ )

۲۳۸                        تقید رکھو تمام نمازوں کا اور درمیانی نماز کا ! اور کھڑے رہو اللہ کے آگے مؤدب

۲۳۹                        پھر اگر تم خوف زدہ ہو تو (پڑھ لو) پیدل یا سوار ! پھر جب مطمئن ہو جاؤ تو یاد کرو اللہ کو جس طرح تم کو سکھایا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔

۲۴۰                       اور جو لوگ تم میں مر جاویں اور چھوڑ جاویں بیبیاں (تو ان کو چاہیے کہ وہ) وصیت کر مریں اپنی بیبیوں کے لئے سلوک کرنے کی ایک سال تک بلا نکالنے کے ! پھر اگر وہ خود نکل جاویں تو تم پر کچھ گناہ نہیں جو کچھ وہ کریں اپنے حق میں جائز طور پر ! اللہ زبردست حکمت والا ہے

۲۴۱                        اور طلاق پانے والی عورتوں کے لئے سلوک ہے دستور کے مطابق ! یہ حق ہے پرہیزگاروں پر۔

۲۴۲                        اسی طرح کھول کر سناتا ہے اللہ تمہارے لئے اپنے احکام تاکہ تم سمجھو ! ف ۱

( ف ۱: مطلقات کی چار قسمیں ہیں ایک وہ جس کو قبل دخول کے طلاق دی گئی ہو اور مہر مقرر نہ ہو اس کو جوڑا دینا واجب ہے دوسرے وہ جس کو طلاق قبل دخول کے دی گئی ہو اور مہر مقرر ہو اس کو آدھا مہر دینا واجب ہے ان دونوں کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ تیسرے وہ جس کو دخول کے بعد طلاق دی گئی ہو اور مہر مقرر ہو اس کو پورا مہر جو مقرر ہے دینا واجب ہے چوتھی وہ جس کو دخول کے بعد طلاق دی گئی ہو اور مہر مقرر نہ ہو اس کو خاندانی مہر پورا دینا واجب ہے۔ )

خلاصہ رکوع ۳۱

مطلقہ خاتون کے لئے مہر کا قانون دیا گیا اور عورتوں کے بارے میں احسان و مروت کی تعلیم دی گئی۔ حقوق اللہ میں سے نماز کی پابندی کرنے کی تاکید۔ حالت جنگ میں نماز کا حکم دیا گیا۔ بیوہ کی عدت اور نان نفقہ کے بارے میں ہدایت دی گئیں۔ آخر میں ایسی عورت کا حق ذکر کیا گیا جو رخصتی کے بعد مطلقہ ہو گئی ہو۔

۲۴۳                        کیا تم نے نظر نہیں کی ان کے حال پر جو نکلے اپنے گھروں سے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر کے مارے۔ پھر کہا ان کو اللہ نے کہ مر جاؤ پھر ان کو جلا اٹھایا ! بیشک اللہ بڑا مہربان ہے لوگوں پر لیکن اکثر آدمی شکر نہیں کرتے ف ۲

( ف ۲: موت اور مسئلہ تقدیر:

مسئلہ: اگر کوئی شخص موت سے فرار کے لئے نہیں بلکہ اپنی کسی ضرورت سے دوسری جگہ چلا جائے تو وہ اس ممانعت میں داخل نہیں۔ اسی طرح اگر کسی شخص کا عقیدہ اپنی جگہ پختہ ہو کہ یہاں سے دوسری جگہ چلا جانا مجھے موت سے نجات نہیں دے سکتا اگر میرا وقت آ گیا ہے تو جہاں جاؤں گا موت لازمی ہے اور وقت نہیں آیا تو یہاں رہنے سے بھی موت نہیں آئے گی۔ یہ عقیدہ پختہ رکھتے ہوئے محض آب و ہوا کی تبدیلی کے لئے یہاں سے چلا جائے تو وہ بھی ممانعت سے مستثنی ہے۔ اسی طرح کوئی کسی ضرورت سے اس جگہ میں داخل ہو جہاں وبا پھیلی ہوئی ہے اور عقیدہ اس کا پختہ ہو کہ یہاں آنے سے موت نہیں آئے گی اور اللہ کی مشیت کے تابع ہے تو ایسی حالت میں اس کے لئے جانا بھی جائز ہو گا۔ بخوف موت جہاد سے بھاگنا حرام ہے۔ (معارف القرآن)

۲۴۴                        اور لڑو اللہ کی راہ میں اور جانے رہو کہ اللہ سنتا اور جانتا ہے۔

۲۴۵                        کون ایسا ہے جو اللہ کو قرض دے اچھا قرض کہ بڑھا دے گا اس کے قرض کو اس کے لئے کئی گنا ! اور اللہ ہی تنگ دست کرتا ہے اور کشائش دیتا ہے ! اور تم اسی کی طرف لوٹو گے۔  ف ۱

( ف ۱: بخیل اور سخی کی مثال:

ابوہریرہؓ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا بخیل اور سخی کی مثال ان دو آدمیوں جیسی ہے جو لوہے کے دو کرتے پہنے ہوئے ہوں اور ان کے ہاتھ ان کی چھاتیوں سے لگے ہوئے ہوں پس جب سخی خیرات کرنی چاہتا ہے تو اس کا ہاتھ کھل جاتا ہے اور جب بخیل خیرات کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا ہاتھ وہیں چپکا رہتا ہے اور (اس جبہ کا) ہر حلقہ اپنی جگہ پر ویسا ہی رہتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ ایک حدیث میں ابو ہریرہ سے مرفوعاً آیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یا ابن آدم ! یعنی اے اولاد آدم میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہیں دیا وہ عرض کرے گا کہ اے پروردگار میں تجھے کھانا کس طرح دے سکتا تھا تو تو رب العالمین ہے۔ سب جہان والوں کا پرورش کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ فلاں میرے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا۔ اسے تو نے کھانا نہیں دیا کیا تو نہ جانتا تھا کہ اگر تو اسے دے دیتا تو اسے اب میرے پاس ضرور پاتا، یہ حدیث مسلم نے روایت کی ہے۔ )

۲۴۶                        کیا نظر نہیں کی تم نے بنی اسرائیل کی ایک جماعت کے حال پر موسیٰ کے بعد ! جب انہوں نے کہا اپنے نبی سے کہ مقرر کر دو ہمارے لئے ایک بادشاہ کہ ہم لڑیں اللہ کی راہ میں نبی نے کہا ! کیا عجب ہے کہ اگر فرض ہو جاوے تم پر جہاد تو تم نہ لڑو ! وہ بولے کہ ہمارے لئے کیا عذر ہے کہ ہم نہ لڑیں اللہ کی راہ میں حالانکہ ہم نکالے جا چکے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے بال بچوں سے ! پھر جب فرض ہو گیا ان پر جہاد (تو) روگرداں ہو گئے سوائے ان میں سے چند آدمیوں کے ! اور اللہ جانتا ہے گنہگاروں کو

۲۴۷                        اور کہا ان سے ان کے پیغمبر نے کہ اللہ نے مقرر کیا ہے تمہارے لئے طالوت کو بادشاہ ! بولے کہ کیوں کر ہو سکتی ہے اس کو حکومت ہمارے اوپر حالانکہ ہم حکومت کے زیادہ حق دار ہیں اسے اور وہ تو نہیں دیا گیا فارغ البالی سے ! نبی نے کہا کہ اللہ نے اس کو پسند فرمایا تم پر اور فراخی دی اس کو علم اور جسم میں ! اور اللہ دیتا ہے اپنا ملک جس کو چاہتا ہے ! اور اللہ فراخی والا واقف کا رہے۔

۲۴۸                        اور کہا ان سے ان کے نبی نے کہ اس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ آوے گا تمہارے پاس ایک صندوق جس میں دل جمعی ہے تمہارے پروردگار کی طرف سے اور کچھ بچی چیزیں ہیں جو چھوڑ گئی اولاد موسیٰ اور ہارون کی اٹھائے ہوں گے اس کو فرشتے ! بیشک اس میں تمہارے لئے پوری نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو ف ۱

( ف ۱: اس صندوق میں تبرکات تھے جالوت جب بنی اسرائیل پر غالب آیا تھا تو یہ صندوق بھی لے گیا تھا جب اللہ تعالیٰ کو اس کا پہچانا منظور ہوا تو یہ سامان کیا کہ جہاں اس صندوق کو رکھتے وہیں سخت سخت بلائیں نازل ہوئیں آخر ان لوگوں نے ایک گاڑی پر اس کو لاد کر بیلوں کو ہانک دیا فرشتے ان کو ہانکتے ہوئے یہاں پہنچا گئے جس سے بنی اسرائیل کو بڑی خوشی ہوئی اور طالوت بادشاہ مسلم ہو گئے۔ )

خلاصہ رکوع ۳۲

بنی اسرائیل کی ایک جماعت کا ذکر۔ فی سبیل اللہ مال خرچ کرنے کا حکم اور اس کی فضیلت ذکر کی گئی۔ جہاد کی ترغیب کے لئے بنی اسرائیل کا ایک واقعہ ذکر کیا گیا۔ طالوت کی تقرری اور فضیلت کا معیار واضح کیا گیا اور ان کی سچائی کی معجزانہ دلیل دی گئی۔

۲۴۹                        پھر جب روانہ ہوا طالوت فوجوں سمیت ! طالوت نے کہا کہ اللہ تم کو آزمائے گا ایک نہر سے ! جو پئے گا اس کا پانی وہ میرا نہیں ہے ! اور جس نے اس کو نہ چکھا تو وہ میرا ہے مگر جو بھر لے ایک چلو اپنے ہاتھ سے ! پس سب نے پی لیا اس کا پانی سوائے ان میں سے چند آدمیوں کے ! پھر جب پار ہو گے نہر کے طالوت اور ایمان والے جو ان ساتھ رہ گےس تھے تو کہنے لگے کہ ہم میں تو آج طاقت نہیں ہے جالوت اور اس کے لشکر کے مقابلہ کی ! بول اٹھے وہ لوگ جن کو یقین تھا کہ اللہ سے ملنے والے ہیں کہ اکثر تھوڑی سی جماعت غالب آ گئ ہے بڑی جماعت پر اللہ کے حکم سے ! اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے

۲۵۰                       اور جب وہ نکلے جالوت اور اس کے لشکر سے لڑنے کو تو کہا کہ اے ہمارے پروردگار انڈیل دے ہم پر صبر اور جمائے رکھ ہمارے پاؤں اور مدد فرما ہماری کافر قوم کے مقابلہ میں۔

۲۵۱                        پھر انھوں نے ان کو شکست دیدی اللہ کے حکم سے اور مارڈلاداؤد نے جالوت کو ف ۱ اور دیدی اس کو اللہ نے سلطنت اور تدبیر اور سکھا دیا اس کو جو چاہا ف ۲۔ اور اگر نہ ہو دفع کرنا اللہ کا لوگوں کو بعض کو بعض کے ذریعہ سے تو تباہ ہو جاوے ملک لیکن اللہ بڑا مہربان ہے دنیا کے لوگوں پر۔

( ف ۱: جالوت کا قتل: جب سامنے ہوئے جالوت کے یعنی وہی تین سوتیرہ آدمی اور انہی تین سوتیرہ میں حضرت داؤد کے والد اور ان کے چھ بھائی اور خود حضرت داؤد بھی تھے حضرت داؤد کو راہ میں تین پتھر ملے اور بولے کہ اٹھا لے ہم کو ہم جالوت کو قتل کریں گے جب مقابلہ ہوا جالوت خود باہر نکلا اور کہا میں اکیلا تم سب کو کافی ہوں میرے سامنے آتے جاؤ حضرت اشموئل نے حضرت داؤد کے باپ کو بلایا کہ اپنے بیٹے کو مجھ کو دکھلا اس نے چھ بیٹے دکھائے جو قد آور تھے حضرت داؤد کو نہیں دکھایا ان کا قد چھوٹا تھا اور بکریاں چراتے تھے پیغمبر نے ان کو بلوایا اور پوچھا کہ تو جالوت کو مار دے گا انہوں نے کہا ماروں گا۔ پھر جالوت کے سامنے گئے۔ اور نہیں تین پتھروں کو فلاخن میں رکھ کرمارا جالوت کا صرف ما تھا کھلا۔ )

( ف ۲: حضرت داؤد علیہ السلام کا ہنر: وعلمہ ممایشاء (اور جو چاہا اسے سکھادیا) اللہ نے داؤد علیہ السلام کو زبور عنایت کی تھی اور زرہیں بنانا سکھایا تھا اور لوہے کو آپ کے واسطے نرم (مثل موم کے ) کر دیا تھا پس آپ اپنے ہاتھ ہی کے کام کی مزدوری میں سے کھایا کرتے تھے مقدام بن معدی کرب کہتے ہیں رسول اللہﷺ  نے فرمایا کہ اس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں ہے جو اپنے ہاتھوں سے کر کے کھائے۔ اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ پرندوں کی بولی اور چیونٹی وغیرہ کی زبان سکھلادی تھی اور اعلیٰ درجہ کی خوش آوازی عطا کی تھی بعض کہتے ہیں کہ جب آپ زبور پڑھا کرتے تھے تو جنگلی جانور آپ کے قریب آ جاتے تھے اور لوگ انہیں ہاتھوں سے پکڑ لیتے تھے اور پرندے آپ پر سایہ کر لیتے تھے اور چلتا پانی ٹھیر جاتا اور ہوا رک جاتی تھی رسول اللہﷺ  نے ابو موسی اشعری سے فرمایا کہ اے ابو موسیٰ تمہیں آل داؤد کی خوش آوازیوں میں سے ایک خوش آوازی عطا ہوئی ہے یہ روایت متفق علیہ ہے۔ )

۲۵۲                        (اے محمد) یہ اللہ کی آیتیں ہیں جو ہم تجھ پر پڑھتے ہیں واقعی طور پر اور بیشک تو پیغمبروں میں سے ہے۔

۲۵۳                        یہ تمام پیغمبر ہیں کہ برتری دی ہم نے ان میں ایک دوسرے پر ! ان میں بعض ایسے ہیں کہ ان سے اللہ نے کلام کیا اور بلند کئے بعض کے درجے اور ہم نے دئیے مریم کے بیٹے (یعنی عیسی) کو معجزے اور ہم نے قوت دی اس کو روح القدس سے ! ف ۱ اور اگر اللہ چاہتا تو باہم نہ لڑتے وہ لوگ جو ان کے پیچھے ہوئے اس کے بعد کہ آ چکیں ان کے پاس نشانیاں لیکن انہوں نے اختلاف کیا تو ان میں سے کوئی تو ایمان لے آیا اور کسی نے کفر کیا اور اگر اللہ چاہتا تو وہ باہم نہ لڑتے لیکن اللہ کرتا ہے جو چاہتا ہے۔

(۱: تمام انبیاء پر حضورﷺ  کی فضیلت ثابت ہے: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے طور پر کلام کیا اور حضور سرورکائنات فخر موجودات (علیہ التحیۃ والسلام) سے شب معراج میں جبکہ بقدر دو کمانوں کے یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا تھا اس وقت اللہ نے اپنے بندہ کو وحی سے سرفراز فرمایا ان دونوں حالتوں اور اور کلاموں میں عظیم الشان تفاوت فرمایا: ورفع بعضہم علی درجٰت رسولوں کو انبیاء پر فضیلت عطا کی گئی تھی پھر اولوالعزم رسولوں کو دوسرے رسولوں پر بھی بہت رفعت حاصل تھی لیکن تمام رسولوں اور نبیوں پر برتری صرف رسول اللہﷺ  کو حاصل ہوئی تھی۔ اس قول کا ثبوت احادیث سے ہوتا ہے اور اسی اجماع امت ہے۔ )

خلاصہ رکوع ۳۳

بنی اسرائیل کا امتحان اور اس کی حکمت بیان کی گئی۔ طالوت کی فوج کو کامیابی کے لئے دعا سکھائی گئی۔ طالوت کی فتح اور جالوت کے قتل کی تفصیلات ذکر فرمائی گئیں۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوت اور سلطنت سے سرفراز فرمانا ذکر کیا گیا۔ آخر میں جہاد کی حکمت اور حضورﷺ  کی نبوت کو ثابت فرمایا گیا۔

۲۵۴                        اے ایمان والو خرچ کر لو اس مال سے جو ہم نے تم کو دیا ہے اس سے پہلے کہ آ جاوے وہ دن جس میں نہ (خرید) فروخت ہو گی اور نہ آشنائی اور نہ سفارش ! اور جو لوگ کفر کرتے ہیں وہی گنہگار ہیں

۲۵۵                        اللہ وہ ذات ہے کہ نہیں کوئی معبود اس کے سوا وہ ہمیشہ زندہ (اور) سب کا تھامنے ولا ہے اس کو نہیں آتی اونگھ اور نہ نیند ! اٰسی کا ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے ایسا کون ہے جو سفارش کرے اس کی جناب میں بغیر اس کی اجازت کے ! وہ جانتا ہے جو کچھ خلق کے روبرو ہے اور جو ان کے پیچھے ہے ! وہ نہیں احاطہ کر سکتے اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا مگر جتنا وہ چاہے ! گھیرے ہوئے ہے اس کی کرسی تمام آسمانوں اور زمین کو ! اور نہیں گراں گزرتی اس کو ان کی حفاظت اور عالیشان عظمت والا ہے ! ف ۱

( ف ۱: قرآن کی سب سے عظیم آیت امام بخاری نے ابن الاسقع البکری سے روایت کیا ہے کہ نبی کریمﷺ  ان کے پاس مہاجرین کے پاس تشریف لائے تو ایک شخص نے پوچھا قرآن میں کون سی آیت عظیم ہے۔ بنی کریمﷺ  نے فرمایا آیت الکرسی (طبرانی)

حضرت ابی بن کعب کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ  نے فرمایا ابو المنذر اللہ تعالیٰ کی کتاب کی سب سے زیادہ عظمت والی آیت کون سی ہے ؟ میں نے عرض کیا ” اللہ لا الاہ الا ھوالحی القیوم ” حضورﷺ  نے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا تجھ کو علم مبارک ہو، پھر فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس آیت کی ایک زبان اور دو لب ہیں، پایہ عرش کے پاس فرشتہ اللہ کی پاکی بیان کرتا ہے۔ (مسلم)

ولادت کی آسانی: جب حضرت فاطمہؓ  کے بچہ جننے کا وقت آیا تو حضورﷺ  نے ام سلمہ اور زینب بنت جحشؓ  عنہما کو حکم فرمایا کہ وہ دونوں ان کے پاس بیٹھ کر آیۃ الکرسی اور ان ربکم اللہ والی آیت پڑھیں اور معوذتین کے ذریعہ ان پر دم کریں۔ (ابن السنی از فاطمہ) (خاصیت: آیت ۲۵۵ پارہ کے آخر میں دیکھیں۔ )

۲۵۶                        کچھ زبردستی نہیں دین کے بارے میں ! بیشک الگ ظاہر ہو چکی ہدایت گمراہی سے تو جو مانے بتوں کو اور ایمان لاوے اللہ پر تو بیشک اس نے پکڑ لی مضبوط رسی جو ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سنتا جانتا ہے

۲۵۷                        اللہ ان کا حامی ہے جو ایمان لائے ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے اجالے کی جانب ! اور جو لوگ کافر ہیں ان کے رفیق شیطان ہیں جو ان کو نکالتے ہیں اجالے سے اندھیروں کی جانب یہی لوگ دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے

خلاصہ رکوع ۳۴

اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور علم و قدرت کو بیان فرمایا گیا کہ کس طرح نظام عالم کو اسی کی ذات واحد چلا رہی ہے۔ آگے دین متین کی وضاحت کے سلسلہ میں فرمایا کہ اسلام قبول کرنے میں آزادی نہیں۔ حق و باطل میں واضح امتیاز فرما دیا گیا اور کفرو ایمان کے نتائج بھی بتا دئیے گئے۔

۲۵۸                        (اے محمد) کیا تو نے اس کے حال پر نظر نہیں کی جس نے جھگڑا کیا ابراہیم سے اس کے پروردگار کے بارے میں اس وجہ سے کہ دے دی تھی اس کو اللہ نے سلطنت جب ابراہیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو جلاتا اور مارتا ہے ! وہ بولا کہ میں بھی جلاتا اور مارتا ہوں ! ابراہیم نے کہا کہ اللہ تو سورج کو نکالتا ہے پورب سے پس تو اس کو نکال دے پچھم سے ! تب تو بھونچکا رہ گیا وہ کافر ! اور اللہ نہیں ہدایت دیتا نا انصاف لوگوں ف ۱

( ف ۱: ایمان کے نور اور کفر کی ظلمت کی مثال: پہلی آیت میں اہل ایمان واہل کفر اور ان کے نور ہدایت اور ظلمت کفر کا ذکر تھا اب ان کی تائید میں چند نظائر بیان فرماتے ہیں۔ نظیر اول میں نمرود بادشاہ کا ذکر ہے وہ اپنے آپ کو سلطنت کے غرور سے سجدہ کرواتا تھا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے سامنے آئے تو سجدہ نہ کیا نمرود نے دریافت کیا تو فرمایا کہ میں اپنے رب کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کرتا اس نے کہا رب تو میں ہوں انہوں نے جواب دیا کہ میں حاکم کو رب نہیں کہتا رب وہ ہے جو جلاتا ہے اور مارتا ہے۔ نمرود نے دو قیدی منگا کر بے قصور مار ڈالے اور قصور وار کو چھوڑ دیا اور کہا کہ دیکھا میں جس کو چاہوں مارتا ہوں جسے چاہوں نہیں مارتا اس پر حضرت ابراہیم نے ئ آفتاب کی دلیل پیش فرما کر اس مغرور احمق کو لاجواب کی اور اس کی ہدایت نہ ہوئی یعنی لا جواب ہو کر بھی ارشاد ابراہیم (علیہ السلام) پر ایمان نہ لایا حالانکہ جیسا جواب ہو پہلے ارشاد کا دیا تھا ویسا جواب دینے کی یہاں گنجائش تھی۔ (تفسیرعثمانی) حضرت ایوب بن خالد فرماتے ہیں کہ اہل ہوا یا اہل فتنہ کھڑے کئے جا ہیں گے ؛ جس کی چاہت صرف ایمان ہی کی ہو وہ تو روشن صاف اور نورانی ہو گا۔ اور جس کی خواہش کفر کی ہو وہ سیاہ اور اندھیریوں والا ہو گا۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت فرمائی۔ )

۲۵۹                        یا کیا نظر نہ کی تو نے اس حال پر جو گزرا ایک قصبہ پر اور ڈھیا ہوا پڑا تھا اپنی چھتوں پر ! ف ۱ کہنے لگا کہ کس طرح زندہ کرے گا اس کو اللہ اس کے مرے پیچھے ؟ تو اس شخص کو مردہ رکھا اللہ نے سو برس پھر اس کہ جلا اٹھایا ! پوچھا تو کتنی دیر رہا اس نے جواب دیا کہ رہا ہوں گا ایک دن یا ایک دن سے کم ! فرمایا بلکہ رہا تو سو برس اب دیکھ اپنے کھانے اور پینے کہ سڑا تک نہیں اور دیکھ اپنے گدھے کہ ! اور تاکہ ہم بنائیں تجھ کو لوگوں کے لئے اور دیکھ ہڈیوں کی جانب کہ کیوں کر ہم ان کا ڈھانچہ بناتے ہیں پھر ان کو پہنائے دیتے ہیں گوشت ! پھر جب اس کو کھل گیا تو بولو کہ میں خوب جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے

( ف ۱: آیت نمبر ۲۵۹ اور ۲۶۰ میں اللہ تعالیٰ نے دو ایسے واقعے ذکر فرمائے ہیں جن میں اس نے اپنے دو خاص بندوں کو اس دنیا ہی میں مردوں کو زندہ کرنے کا مشاہدہ کرایا۔ پہلے واقعے میں ایک ایسی بستی کا ذکر ہے جو مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ اس کے تمام باشندے مر کھپ چکے تھے اور مکانات چھتوں سمیت گر کر مٹی میں مل گئے تھے۔ ایک صاحب کا وہاں گزر ہوا تو انہوں نے دل میں سوچا کہ اللہ تعالیٰ اس ساری بستی کو کس طرح زندہ کرے گا۔ بظاہر اس سوچ کا منشاء خدانخواستہ کوئی شک کرتا نہیں تھا، بلکہ حیرت کا اظہار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی قدرت کا مشاہدہ اس طرح اس طرح کرایا جس کا آیت میں ذکر ہے۔ یہ صاحب کون تھے ؟ اور یہ بستی کون سی تھی ؟ یہ بات قرآن کریم نے نہیں بتائی، اور کوئی مستند روایت بھی ایسی نہیں بتائی، اور کوئی مستندروایت بھی ایسی نہیں ہے جس کے ذریعے یقینی طور پر ان باتوں کا تعین کیا جا سکے۔ بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہ بستی بیت المقدس تھی اور یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب بخت نصر نے اس پر حملہ کر کے اسے تباہ کر ڈالا تھا اور یہ صاحب حضرت عزیر یا حضرت ارمیا علیہ السلام تھے۔ لیکن نہ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے، نہ اس کھوج میں پڑنے کی ضرورت ہے۔ قرآن کریم کا مقصد اس کے بغیر بھی واضح ہے۔ البتہ یہ بات تقریباً یقینی معلوم ہوتی ہے کہ یہ صاحب کوئی نبی تھے۔ کیونکہ اول تو اس آیت میں صراحت ہے کہ للہ تعالیٰ ان سے ہم کلام ہوئے نیز اس طرح کے واقعات انبیائے کرام ہی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ (توضیح القرآن)

۲۶۰                       اور (یاد کرو) جب کہا ابراہیم نے کہ میرے پروردگار مجھ کہ دکھا دے تو کیونکر زندہ کرے گا مردوں کو ؟ فرمایا کہ کیا تجھ کو یقین نہیں ؟ عرض کیا کیوں نہیں لیکن اس واسطے کہ تسکین ہو جاوے میرے دل کو ! فرمایا تو لے لے چار پرند ف ۱ اور جمع کر ان اپنے پاس پھر ڈال دے ہر پہاڑی پر ان کا ایک ایک ٹکڑا پھر آواز دے ان کو کہ چلے آویں گے تیرے پاس دوڑتے ہوئے۔ اور جانے رہ کہ اللہ زبردست حکمت والا ہے

( ف ۱: چار پرندے لینے کی حکمت: عطاء خراسانی کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجی کہ سبزبطخ، کالا کوا، سفید کبوتر اور سرخ مرغ لے لے۔ میں کہتا ہوں، چار پرندے لینے کا حکم شاید اس وجہ سے دیا کہ انسان اور دوسرے تمام حیوان چار اخلاط سے بنے ہیں اور چار اخلاط چار عناصر سے پیدا ہوتے ہیں سرخ مرغ خون کی تعبیر ہے اور سفید کبوت بلغم کی اور سیاہ کوا سوداء کو بتا رہا ہے اور سبز بطخ صفراء کو۔ ان جانوروں کو مرے پیچھے زندہ کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ انسانی اجزاء بھی مرنے کے بعد زندہ کئے جا سکتے ہیں۔ )

خلاصہ رکوع ۳۵

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے نمرود کا ناحق جھگڑا اور نمرود کی کج فہمی اور مناظرہ میں ناکامی ذکر کی گئی۔ یروشلم کی تباہی و ویرانی پر حضرت عزیر کا تعجب اور اس کے ازالہ کے لئے حضرت عزیر کو سو سال بعد زندہ کیا گیا تاکہ احیائے موتی کا یقین پیدا ہو جائے۔ آخر میں بعد الموت کے مشاہدہ کے لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ذکر کی گئی اور پھر مشاہدہ کی صورت ذکر کی گئی جس میں معجزات کے منکرین کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

۲۶۱                        ان لوگوں کی مثال جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کے راستہ میں اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیں اٰگیں کہ ہر بال میں سو سو دانے ہیں ! اور اللہ بڑھاتا ہے جس کے لئے چاہتا اور اللہ گنجائش والا واقف کار ہے

۲۶۲                        جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں پھر خرچ کئے پیچھے نہیں جتاتے احسان اور نہ جتاتے ہیں ان کے لئے ان کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے۔

۲۶۳                        کلام معقول اور درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے بعد میں ستانا ہو ! اور اللہ بے پرواہ بڑے تحمل والا ہے ف ۱

( ف ۱: صدقات و خیرات کی شرطیں جس طرح نماز کے لئے دو قسم کی شرائط ہیں۔ ایک شرط صحت، جیسے وضو اور طہارت اور دوسری شرط بقاء جی سے نماز میں کسی سے باتیں نہ کرنا اور کھانے پینے سے پرہیز کرنا۔ پس اگر وضو ہی نہ کرے تو سرے ہی سے نماز صحیح نہ ہو گی اور اگر وضو اور طہارت کے بعد نماز شروع کی، مگر ایک رکعت یا دو رکعت کے بعد نماز میں کھانا اور پینا اور بولنا شروع کر دیا تو اس کی نماز باقی نہ رہے گی۔ اسی طرح صدقات اور خیرات کے لئے بھی دو قسم کی شرطیں ہیں، ایک شرط صحت اور دوسری شرط بقاء اخلاص شرط صحت ہے۔ بغیر اخلاص کے صدقہ صحیح ہی نہیں ہوتا۔ لہذا جو صدقہ ریاء اور نفاق کے ساتھ دیا جائے وہ شریعت میں معتبر نہیں۔ اور من اور اذای سے پرہیز شرط بقاء ہے یعنی صدقہ اور خیرات اس وقت تک محفوظ اور باقی رہیں گے جب تک صدقہ دینے کے بعد نہ تو احسان جتایا جائے اور نہ مسائل کو کسی قسم کی ایذاء پہنچائی جائے۔ اگر صدقہ دینے کے بعد احسان جتایایاستایا تو وہ صدقہ ضائع اور باطل ہو جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہ دونوں چیزیں صدقہ اور خیرات کے مفسدات میں سے ہیں، جیسے کھانے اور پینے سے نماز باطل ہو جاتی ہے اسی طرح من اور اذیٰ سے صدقہ باطل ہو جاتا ہے۔ (معارف کاندھلوی)

۲۶۴                        اے ایمان والو ! اکارت نہ کرو اپنی خیرات احسان جتا کر اور یہ دے کر اس شخص کی طرح جو خرچ کرتا ہے اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کو اور نہیں ایمان لاتا اللہ اور روز آخرت پر اس کی خیرات کی مثال ایسی چٹان کی سی ہے جس پر مٹی پڑی ہے پھر برسا اس پر زور کا مینہ تو اس نے اس کو سپاٹ کر چھوڑا نہ ہاتھ لگے ان کے کچھ اس میں سے جو انہوں نے کمایا ! اور اللہ نہیں ہدایت کرتا ان لوگوں کو جو کفر کرتے ہیں۔

۲۶۵                        اور ان کی مثال جو خرچ کرتے ہیں اپنے مال کی رضا جوئی میں اور اپنی نیت ثابت رکھ کر ایک باغ جیسی ہے جو اونچے پر (واقع) ہو کہ اس پر پڑا زور کا مینہ تو وہ لایا پھل دو چند ! اور اگر نہ اس پر پڑا زور کا مینہ تو پھوار ہی (کافی ہو گئی) اور اللہ وہ کام جو تم کرتے ہو دیکھ رہا ہے

۲۶۶                        کیا پسند کرتا ہے تم میں کوئی اس بات کو کہ ہو اس کا ایک باغ کھجوروں اور انگوروں کا کہ بہتی ہوں اس کے نیچے نہریں ! اس کو وہاں ہر قسم کے پھل میسر ہوں اور آ پہونچے اس کو بڑھاپا اور اس کے بال بچے نا تواں ہوں۔ پھر آ پڑے باغ پر ایک بگولہ جس میں آگ تھی اور وہ جل بھن گیا ! اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے اللہ تم سے اپنے احکام تاکہ تم غور کرو ف ۱

( ف ۱: روح المعانی میں حضرت ابن عباسؓ  سے ایک بات اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے جس کو حضرت عمرؓ  نے بھی پسند فرمایا کہ یہ آیت تمام طاعات کو عام ہے کہ جس طاعت کے بعد آدمی گناہوں میں منہمک ہو جائے تو وہ طاعت خراب ہو جائے گی اس کی تحقیق جیسا کہ اوپر اجمالاً بیان کیا گیا ہے کہ طاعات میں کچھ شرطیں انوار و برکات باقی رہنے کے لئے بی ہوا کرتی ہیں وہ شرط یہ ہے کہ طاعت کے بعد عموماً سب گناہوں سے پرہیز رکھے کیونکہ جب طاعت کے بعد معاصی میں مشغول و منہمک ہوتا ہے تو ان کے انوار و برکات سلب ہو جاتے ہیں جس کا اثر دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ قلب میں جو حلاوت طاعت سے پیدا ہوئی تھی وہ زائل ہو جاتی ہے اور ایک طاعت سے جو دوسری طاعات کا سلسلہ چلا کرتا ہے اور ویسے ہی سامان جمع ہونے لگتے ہیں جس کا نام توفیق ہے وہ توفیق بند ہو جاتی ہے بلکہ طاعات معمولہ میں بھی سستی اور کمی ہونے لگتی ہے اور جو ثمرات آخرت میں ان فوت شدہ اعمال پر ملتے وہاں اس سے محروم رہے گا یہ اثر عالم آخرت میں ہو گا غرض اس نور و برکت کے سلب ہونے کو بھی کہیں آیات و احادیث میں حبط وغیرہ سے تعبیر فرمایا گیا ہے مگر اس سے مراد حبط بمعنی مشہور نہیں کہ خود اس طاعت کا بھی ثواب نہ ملے اور وہ بالکل اکارت ہو جائے۔

خلاصہ رکوع ۳۶

راہ خدا میں خرچ والوں کی فضیلت کو گندم کے دانہ سے تشبیہ دے کر واضح کیا گیا۔ انفاق کرچ کرنے کے سلسلہ احسان جتانے اور ایذا دینے سے ممانعت کا حکم دیا گیا کہ اس طرح دینے سے نہ دینا بہتر ہے کہ احسان جتانے سے ثواب ضائع ہو جاتا ہے۔ آگے پر خلوص صدقہ پر نے والے اگر کا ذکر فرمایا اور ایک باغ کی مثال دی کہ خلوص کے بغیر دیا جانے والا صدقہ ایسا ہے جیسے بہترین باغ کو آگ کا بگولہ خاکستر کر دے۔

۲۶۷                        اے ایمان والوں خرچ کرو اس میں سے ستھری چیزیں جو تم نے کمائی ہوں اور اس میں سے جو ہم نے اگائی ہوں تمہارے واسطے زمین سے ! اور ارادہ کرنا ناپاک کا کہ اس میں سے خرچ کرنے لگو حالانکہ تم اس کو خود نہ لو مگر یہ کہ اس میں چشم پوشی کر جاؤ ! اور جان لو کہ اللہ بے پرواہ (اور) تعریف کے لائق ہے۔

۲۶۸                        شیطان تم کو ڈراتا ہے تنگدستی سے اور تم کو حکم کرتا بے حیائی کا ! ف ۱ اور اللہ تم سے وعدہ فرماتا ہے اپنی بخشش اور برکت کا ! اور اللہ گنجائش والا واقف کار ہے

( ف ۱: شیطان غربت کی دھمکی دیتا ہے: جب کسی کے دل میں خیال آئے کہ اگر خیرات کروں گا تومفلس رہ جاؤں گا اور حق تعالیٰ کی تاکید سن کر بھی یہی ہمت ہو اور دل چاہے کہ اپنا مال خرچ نہ کرے اور وعدہ الٰہی سے اعراض کر کے وعدہ شیطانی پر طبیعت کو میلان اور اعتماد ہو تو اس کو یقین کر لینا چاہئے کہ یہ مضمون شیطان کی طرف سے ہے۔ یہ نہ کہے کہ شیطان کی تو ہم نے کبھی صورت بھی نہیں دیکھی حکم کرنا تو درکنار رہا اور اگر یہ خیال آوے کہ صدقہ خیرات سے گناہ بخشے جائیں گے اور مال میں بھی ترقی اور برکت ہو گی تو جان لیوے کہ یہ مضمون اللہ کی طرف سے آیا ہے اور خدا کا شکر کرے اور اللہ کے خزانہ میں کمی نہیں سب کے ظاہر و باطن نیت عمل کو خوب جانتا ہے۔ (تفسیر عثمانی)

۲۶۹                        وہی سمجھ دیتا ہے جس کو چاہتا ہے۔ اور جس کو سمجھ مل گئ تو بیشک اس کو بڑی خوبی اور نصیحت نہیں مانتے مگر سمجھ دار۔

۲۷۰                       اور جو کچھ تم خرچ کرو گے خیرات اور مانو گے کوئی منت تو بیشک اللہ اس سے ہے ! اور نہ گنہگاروں کا کوئی مددگار

۲۷۱                        اگر تم ظاہر میں خیرات دو تو کیا اچھی بات ہے اور اگر اسکوچھپاؤ اور دو حاجت مندوں کو تو یہ تمہارے گناہ ! اور اللہ ان کاموں سے جو تم کرتے ہو خبردار ہے ف ۱

( ف ۱: امام حسن بصری کا قول ہے کہ یہ آیت فرض اور نفل سب صدقات کو شامل ہے اور سب میں اخفاء ہی افضل ہے اس میں دینی و دنیاوی سب طرح کے منافع ہیں۔ )

۲۷۲                        تیرے ذمہ نہیں ہے ان لوگوں کا راہ پر لانا لیکن اللہ راہ پر لاتا ہے جسے چاہے ! اور جو کچھ تم خرچ کرو گے مال سو اپنے لئے اور نہ خرچ کرو مگر اللہ کی رضا جوئی میں ! اور جو کچھ خرچ کرو گے مال تم تک پورا پہنچا دیا جاوے گا۔ اور تمہارا حق نہ مارا جاوے گا ف ۲

( ف ۲: سبب نزول: جب آپﷺ  نے صحابہ کو مسلمانوں کے سوا اوروں پر صدقہ کرنے سے روکا اور اس میں یہ مصلحت تھی کہ مال ہی کی غرض سے دین حق کی طرف راغب ہوں۔ آگے یہ فرمایا کہ ثواب جب ہی تک ملے گا کہ اللہ تعالیٰ کی خوشی مطلوب ہو گی تو یہ آیت نازل ہوئی اور اس میں عام حکم آ گیا کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جس کو مال دو گے تم کو اس کا ثواب دیا جائے گا مسلم غیرمسلم کسی کی تخصیص یعنی جس پر صدقہ کرو اس میں مسلم کی تخصیص نہیں البتہ صدقہ میں یہ ضرور ہے کہ محض لوجہ اللہ ہو۔ (تفسیر عثمانی)

۲۷۳                        (خیرات دیا کرو) ان مفلسوں کو جو گھرے ہوئے ہیں اللہ کی راہ میں ف ۳ کہ نہیں چل پھر سکتے ملک میں سمجھے ان کو انجان آدمی مال دار ان کی بے سوالی کی وجہ سے تو ان کو انجان آدمی مال دار ان کی بے سوالی کی وجہ سے تو ان کو پہچان جاوے گا ان کی صورت سے ! وہ نہیں مانگتے لوگوں سے لگ لپٹ کر ! اور جو کچھ تم خرچ کرو گے کام کی چیز تو اللہ اس کو جانتا ہے

( ف ۳: لوہے سے بھی سخت چیز: مسنداحمد کی حدیث میں ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تو ہلنے لگی اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پیدا کر کے انہیں گاڑ دیاجس سے زمین کا ہلنا موقوف ہو گیا۔ فرشتوں کو پہاڑوں کی ایسی سنگین پیدائش پر تعجب ہوا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ باری تعالیٰ کیا تیری مخلوق میں پہاڑ سے زیادہ سخت بھی کوئی چیز ہے ؟ فرمایا ہاں لوہا، پھر اس سے سخت آگ، اور اس سے سخت ہوا، دریافت کیا اس بھی زیادہ سخت فرمایا ابن آدم جو اس طرح صدقہ کرتا ہے کہ بائیں ہاتھ کو دائیں ہاتھ کے کرچ کی خبر نہیں ہوتی۔ )

خلاصہ رکوع ۳۷

راہ خدا میں عمدہ مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی اور بتایا گیا کہ اس خرچ کرنے میں تمہارا ہی فائدہ ہے اس لئے کہ خدا کی ذات غنی و حمید ہے۔ چونکہ خرچ کرنے میں شیطانی وساوس اور بخل مانع تھے اس لئے آگے شیطان کی راہ چلنے سے روک دیا گیا۔ پھر دین کی فہم و حکمت کی نعمت کو ذکر کیا گیا کہ یہ بڑی دولت ہے۔ مزید صدقات کے بارے میں تنبیہات فرمائی گئیں آگے صدقہ و خیرات کے چند مستحق مصارف ذکر فرمائے گئے۔

۲۷۴                        جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال رات اور دن چھپے اور ظاہر تو ان کے لئے ان کا ثواب ان کے پروردگار کے ہاں ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے اور نہ رنجیدہ ہوں گے ف ۱

( ف ۱: اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب موقع ہو اسی وقت خرچ کرنا چاہئے اس سے یہ سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ پوشیدہ خرچ کرنا اسی وقت افضل ہے جبکہ ظاہر کر کے دینے کی ضرورت نہ ہو اور اگر مثلاً مجمع عام میں ایک شخص کا بھوک سے دم نکلا جاتا ہے اور ہم اس کو نفع پہنچا سکتے ہیں تو اب وہاں یہ انتظار کرنا کہ جب سارے ہٹ جائیں اس وقت اس کی خبرگیری کریں گے اسی مثل کا مصداق ہو گا کہ تاتریاق ازعراق آوردہ شود مارگزیدہ مردہ شود اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ان پر کوئی خطرہ واقع ہونے والا نہیں اس سے یہ شبہ جاتارہا کہ قیامت کے روز تو خاص بندے بھی بڑے خوف وخطر میں مشغول ہوں گے جواب یہ ہوا کہ گو خود ان کو خطرہ ہومگرجس امر کا خطرہ ہے وہ ان کو پیش نہ آئے گا۔ )

۲۷۵                        جو لوگ کھاتے ہیں سودوہ نہ کھڑے ہو سکیں گے مگر جس طرح وہ شخص کھڑا ہوتا ہے جس کے حواس کھو دیئے ہوں شیطان نے اپنی جھپٹ سے ! یہ اس وجہ سے ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ سوداگری بھی تو سود ہی جیسی ہے۔ حالانکہ جائز کیا اللہ نے سوداگری کو اور حرام کیا سود کو ! تو جس شخص کے پاس پہنچ چکی نصیحت اس کے پروردگار کی طرف سے اور وہ باز آ گیا تو اسی کا ہے جو لے چکا ! اور اس کا معاملہ اللہ کے حوالہ ہے اور جس نے پھر سودلیا تو وہ لوگ دوزخی ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

۲۷۶                        اللہ گھٹاتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات اور اللہ نا خوش ہے ہر کافر گناہ گار سے ف ۱

( ف ۱: یعنی جو لوگ صرف سود لیتے ہیں اور اس کو حلال نہیں کہتے وہ دوزخ میں سزابھگتنے کو جائیں گے کیونکہ ان کا یہ فعل گناہ کبیرہ ہے اور جو لوگ اس کو حلال کہتے ہیں وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے کیونکہ ان کا یہ قول کفر ہے۔ )

۲۷۷                        جو ایمان لائے اور عمل نیک کئے اور قائم کی نماز اور دی زکوٰۃ ان کے لئے ان کا ثواب پروردگار کے ہاں ہے اور نہ ان کو کچھ ڈر ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

۲۷۸                        ایمان والو ڈرو اللہ سے اور چھوڑ دو گیا سود اگر تم مسلمان ہو

۲۷۹                        اور اگر ایسا نہ کرو تو خبردار ہو جاؤ اللہ اور اس کے رسول سے لڑنے کو ! اور اگر تم توبہ کرتے ہو اصل رقم تمہاری ! نہ تم کسی کا نقصان کرو اور نقصان کرے ف ۲ !

( ف ۲: سب سے پہلے سایہ الٰہی میں آنے والا: حضرت ابو ہریرہؓ  نے کہا تھا میں شہادت دیتا ہوں کہ رسول اللہﷺ  فرما رہے تھے قیامت کے دن جس شخص پر سب سے پہلے اللہ کا سایہ ہو گا وہ شخص وہ ہو گا جس نے کسی تنگ دست کو ادائے قرض کی مہلت اس وقت تک دی ہو جب تک اس کو میسر آئے یا اپنا مطالبہ بالکل معاف کر دیا ہو اور کہہ دیا ہو کہ میں اپنے حق سے اللہ واسطے تجھے سبکدوش کرتا ہوں اور معافی کے بعد قرض کی تحریر جلادی ہو۔ (رواہ الطبرانی)

آیت میں جو جہاد کے لئے فرمایا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ اگر سود کو حلال سمجھ کر نہ چھوڑے تو وہ کافر ہے جیسے کفار کے ساتھ جہاد ہوتا ہے اسی طرح اس شخص پر ہو گا اور اگر سود کو حرام سمجھے مگر لینے سے باز نہ آوے تو اس پر جبر کیا جاوے گا مگر جبر دو چار پر تو چل سکتا ہے اگر وہ جبر کو نہ مانے بلکہ جماعت بندی کر کے مقابلہ سے پیش آوے تو ان پر بھی جہاد ہوا کیونکہ یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ اگر مسلمان کسی خاص حکم شرعی کے چھوڑنے پر اتفاق کر لیں تو خواہ وہ سنت ہی کیوں نہ ہو ان پر امام کو جہاد کرنا چاہئے۔

۲۸۰                       اور اگر کوئی تنگدست ہو تو مہلت دینی چاہیے فراخی تک۔ اور یہ سلوک کہ (قرضہ کا روپیہ بھی) معاف کر دو تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھو۔

۲۸۱                        اور ڈرو اس دن سے جس میں تم لوٹائے جاؤ گے اللہ کی طرف پھر پورا ملے گا ہر شخص کو جو اس نے کمایا اور ان پر ظلم نہ کیا جاوے گا۔

خلاصہ رکوع ۳۸

راہ خدا میں خفیہ و اعلانیہ خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی۔ سود کی قباحت اور روز قیامت سودخور کی کیا حالت ہو گی اور روز قیامت سودخور کی کیا حالت ہو گی، اس کی منظر کشی کی گئی ہے۔ آگے سود سے توبہ کرنے والوں کے بارے میں فرمایا گیا کہ ان کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے۔ لیکن سود کی حرمت معلوم ہونے کے باوجود اس کے کھانے والوں کو جہنم کی وعیدسنائی گئی۔ سود کے مقابل صدقہ کی فضیلت بیان فرمائی گئی۔ آگے اہل ایمان جو اعمال صالحہ بجا لاتے ہوں انہیں پرامن اور بے خوف زندگی کی بشارت دی گئی۔ پھر دوبارہ سودنہ چھوڑنے پر وعید فرمائی گئی۔ آخر تنگ دست مقروض سے نرمی کرنے کا حکم دیا گیا اور روز محشر کی تیاری کرنے کا حکم دیا گیا۔

۲۸۲                        ایمان والو جب تم لین دین کیا کرو قرض کا ایک میعاد مقرر تک تو اس کو لکھ لیا کرو۔ اور چاہیئے کہ لکھ دیوے تمہارے درمیان کوئی لکھنے والا انصاف سے ! اور نہ انکار کرے لکھنے والا اس بات سے کہ لکھ دے جس طرح اللہ نے سکھایا تو اس کو چاہیے کہ لکھ دے اور لکھواتا جاوے وہ شخص جس کا حق ہے اور اللہ سے ڈرے جو اس کا پروردگار ہے اور کانٹ چھانٹ کرے اس میں کچھ پھر اگر وہ شخص جس پر حق ہے کمزور یا کم عقل ہو ف ۱ خود نہ لکھوا سکتا ہو تو لکھواتا جاوے اس کا مختار انصاف سے ف ۱، اور کر لیا کرو دو گواہ مردوں میں سے ! پھر اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جن کو گواہوں میں سے تم پسند کرو اس وجہ سے کہ بھول جاوے ان میں کوئی تو یاد دلاوے گی ایک عورت دوسری کو اور نہ انکار کریں گواہ جب بلائے ! اس میں کاہلی نہ کرو کہ اس کو لکھ لیا کرو چھوٹا ہو معاملہ یا بڑا میعاد تک ! یہ نہایت منصفانہ کار روائی ہے اللہ کے نزدیک اور بہت درست ہے گواہی کے لئے لگتا ہے کہ تم کو شبہ نہ پڑے مگر یہ صورت کہ ہو سودا دم نقد جس کا تم لین دین کرتے ہو آپس میں سے تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اس نہ لکھو ! اور گواہ تو کر ہی لیا کرو جب تم سودا کرو ! اور نہ نقصان پہنچایا جاوے لکھنے والا اور نہ گواہ ! اور اگر ایسا کرو تو یہ تمہارے لئے گناہ کی بات ہے۔ اور ڈرتے رہو اللہ سے اور اللہ تم کو سکھاتا ہے ! اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے ف ۱

( ف ۱: سفیھا اور ضعیفا: خفیف العقل سے مراد وہ ہے جس کی عقل خراب ہو خواہ مجنون ہو یا بھولا بیوقوف اور ضعیف البدن سے مراد نا بالغ یا بوڑھا ہے پس نابالغ اور مجنون و بیوقوف کی بیع و شراء و اقرار تو شرعاً ناقابل اعتبار ہے ان کے معاملات اس قسم کے بدون ولی شرعی کی اجازت کے درست نہیں ہو سکتے ولی یا تو خود معاملے کرے اور ان کے مال میں سے دام وغیرہ دے دے اور اگر یہ کود معاملہ کریں تو اگر ولی مطلع ہو کر کہہ دے کہ میں اس معاملہ کو جائز رکھتا ہوں تب درست ہو گا اور ایسا ولی جس کو ان کے مال میں تصرف کا حق حاصل ہو باپ ہے یا جس کو باپ نے وصیت کی اور دادایاجس کو دادا نے وصیت کی یا حاکم شرعی اور بوڑھا اگر بدحواس ہو جائے تب تو اس کا بھی یہی حکم ہے ورنہ وہ خود معاملہ کر سکتا ہے۔ اور اگر اپنے آرام کے لئے کسی کو مختار کار کر دے یہ بھی جائز ہے اس کو وکیل کہتے ہیں۔ )

( ف ۱: آیۃ الدین: یہ آیت قرآن کریم کی تمام آیتوں سے بڑی ہے۔ حضرت سعید بن مسیب فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ قرآن کی سب سے نئی آیت عرش کے ساتھ یہی آیت الدین ہے۔ یہ آیت جب نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ  نے فرمایا سب سے پہلے انکار کرنے والے حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم کو پیدا کیا ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور قیامت تک کی تمام ان کی اولاد نکالی۔ آپ نے اپنی اولاد کو دیکھا ایک شخص کو خوب تر و تازہ اور نورانی دیکھ کر پوچھا کہ خدایا ان کا نام کیا ہے ؟ جناب باری تعالیٰ نے فرمایا یہ تمہارے لڑکے داؤد ہیں۔ پوچھا خدایا ! ان کی عمر کیا ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال کہا خدایا اس کی عمر کچھ اور بڑھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ہاں اگر تم اپنی عمر میں سے کچھ دینا چاہو تو دے دو کہا خدایا میری عمر میں سے چالیس سال اسے دیئے جائیں، چنانچہ دے دیئے گئے۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اصل عمر ایک ہزار سال کی تھی، اس لین دین کو لکھا گیا اور فرشتوں کو اس پر گواہ کیا گیا۔ حضرت آدم (علیہ السلام) کی موت جب آئی تو کہنے لگے خدایا میری عمر میں سے تو ابھی چالیس سال باقی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ تم نے اپنے لڑکے (حضرت) داؤد کو دے دیئے ہیں۔ تو حضرت آدم (علیہ السلام) نے انکار کیا، جس پر وہ لکھا ہوا دکھایا گیا اور فرشتوں کی گواہی گزری۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر پھر اللہ تعالیٰ نے ایک ہزار کی پوری کی اور حضرت داؤد کی ایک سو سال کی (مسنداحمد) لیکن یہ حدیث بہت ہی غریب ہے۔ (تفسیرابن کثیر)

( ف ۱: قرض اور ادھار کے احکام: مسئلہ: ادھار کے معاملات کی دستاویز لکھنی چاہئے تاکہ بھول چوک یا انکار کے وقت کام آئے نیز ادھار کا معاملہ جب کیا جائے تو اس کی میعاد ضرور مقرر کی جائے۔ غیر معین مدت کے لئے ادھار لینا دینا جائز نہیں کیونکہ اس سے جھگڑے فساد کا دروازہ کھلتا ہے۔ اسی وجہ سے فقہاء نے فرمایا کہ میعاد بھی ایسی مقرر ہونا چاہئے جس میں کوئی ابہام نہ ہو، مہینہ اور تاریخ کے ساتھ متعین کی جائے کوئی مبہم میعاد نہ رکھیں جیسے کھیتی کٹنے کے وقت، کیونکہ وہ موسم کے اختلاف سے آگے پیچھے ہو سکتا ہے۔ (معارف القرآن)

گواہی دینے سے بلا عذر شرعی انکار کرنا گناہ ہے: مسئلہ: جب ان کو کسی معاملہ میں گواہ بنانے کے لئے بلایا جائے تو وہ آنے سے انکار نہ کریں۔ کیونکہ شہادت ہی احیائے حق کا ذریعہ اور جھگڑے چکانے کا طریقہ ہے۔ اس لئے اس کو اہم قومی خدمت سمجھ کر تکلیف برداشت کریں۔

۲۸۳                        اور تم سفر میں ہو اور نہ پاؤ لکھنے والا تو گرد با قبضہ (ہونی چاہیے ) ! پس اگر اعتبار کرے تم میں ایک دوسرے پرتو اس کو ادا کر دینا چاہیے جس پر اعتبار کیا گیا ہے دوسرے کی امانت اور ڈرے اللہ سے جو اس کا رب ہے اور تم نہ چھپاؤ گواہی ! اور جو اس کو چھپائے گا تو بیشک اس کا دل گنہگار ہے ! اور اللہ جو کچھ تم کرتے ہو سب جانتا ہے۔

خلاصہ رکوع ۳۹

آپس کے معاملات اور معاشرت اور لین دین کے بارے میں احکامات سے نوازا گیا اور تحریری دستاویز لکھ رکھنے اور گواہ بنانے کا حکم دیا گیا۔ اس ضمن میں گواہ کو بھی ہدایت کی گئی کہ وہ گواہی سے انکار نہ کرے۔ دوران سفرمعاملہ کرنے اور رہن کے بارے میں ہدایات دی گئیں اور آخر میں گواہی چھپانے اور جھوٹی گواہی دینے سے ممانعت کی گئی۔

۲۸۴                        اللہ ہی کا ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ یا اس کو چھپاؤاس کا تم سے حساب لے گا۔ اللہ۔ پھر بخشے گا جسے چاہے اور عذاب دے گا جسے چاہے ! اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے

۲۸۵                        مان لیا پیغمبر نے جو کچھ اس پر اترا اس کے پروردگار کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی ! سب کے سب ایمان لے آئے اللہ اور اس کی کتابوں اور اس کے پیغمبروں پر کہ ہم جدا نہیں سمجھتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں اور بول اٹھے کہ ہم نے سنا اور مان لیا ! تیری بخشش (چاہتے ہیں ) اے ہمارے پروردگار اور تیری ہی طرف لوٹنا ہے ف ۱

( ف ۱: شان نزول: پہلی آیت سے معلوم ہوا کہ دل کے خیالات پر بھی حساب اور گرفت ہے تو اس پر حضرات صحابہ گھبرائے اور ڈرے اور ان کو اتنا صدمہ ہوا کہ کسی آیت پر نہ ہوا تھا آپ سے شکایت کی تو آپ نے فرمایا وقالواسمعنا و اطعنا یعنی اشکال نظر آئے یا وقت مگر حق تعالیٰ کے ارشاد کی تعلیم میں ادنیٰ توتف بھی مت کرو اور سینہ ٹھوک کر سمعنا و اطعنا عرض کر دو آپﷺ  کے ارشاد کی تعمیل کی تو انشراح کے ساتھ یہ کلمات زبان پر بے ساختہ جاری ہو گئے مطلب ان کا یہ ہے کہ ہم ایمان لائے اور اللہ کے حکم کی اطاعت کی یعنی اپنی دقت اور خلجان سب کو چھوڑ کر ارشاد کی تعمیل میں مستعدی اور آمادگی ظاہر کی حق تعالیٰ کو یہ بات پسند آئی تب یہ دونوں آیتیں اتری اول یعنی اٰمن الرسول الخ اس میں رسول کریمﷺ  اور ان کے بعد صحابہ کہ جن کو اشکال مذکور پیش آیا تھا ان کے ایمان کی حق سبحانہ نے تفصیل کے ساتھ مدح فرمائی جس سے ان کے دلوں میں اطمینان ترقی پاوے اور خلجان سابق زائل ہو اس کے بعد دوسری آیت لایکلف اللہ نفسا الخ میں فرما دیا کہ مقدور سے باہر کسی کو تکلیف نہیں دی جاتی اب اگر کوئی دل میں گناہ کا خیال اور خطرہ پائے اور اس پر عمل نہ کرے تو کچھ گناہ نہیں اور بھول چوک بھی معاف ہے غرض صاف فرما دیا کہ جن با توں سے بچتا طاقت سے باہر ہے جیسے برے کام کا خیال و خطرہ یا بھول چوک ان پر مواخذہ نہیں ہاں جو باتیں بندہ کے ارادے اور اختیار میں ہیں ان پر مواخذہ ہو گا اب آیت سابقہ کو سن کر جو صدمہ ہوا تھا اس کے معنی بھی اسی پچھلے قاعدہ کے موافق لینے چاہئیں چنانچہ ایسا ہی ہوا اور خلجان مذکور کا اب ایساقلع قمع ہو گیا کہ سبحان اللہ فائدہ جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے یعنی یہود اور انصاری کی طرح نہیں کہ کسی پیغمبر کو مانا اور کسی پیغمبر کو نہ مانا۔ (تفسیر عثمانی)

۲۸۶                        اللہ تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر اس کی طاقت کے موافق ! اسی کو ملتا ہے جو اس نے کمایا اور اسی پر پڑتا ہے جو اس نے کیا ! اے ہمارے پروردگار نہ پکڑ ہم کہ اگر ہم بھول جا ہیں یا چوک جا ہیں اور اے ہمارے پروردگار نہ رکھ ہم پر بھاری بوجھ جیسا کہ تو نے رکھا تھا ان پر جو ہم سے پہلے تھے ! اور اے پروردگار ہم سے نہ اٹھوا اتنا بوجھ جس کی ہم میں سکت نہیں اور در گزر فرما ہم سے اور بخش دے ہمیں اور رحم فرما ہم پر ! تو ہی ہمارا حامی ہے تو ہماری مدد کر ان لوگوں کے مقابلہ میں جو کافر ہیں

خلاصہ رکوع ۴۰

قدرت خداوندی زمین و آسمان کو محیط ہے۔ اس لئے انسان کا کوئی معاملہ اللہ سے پوشیدہ نہیں کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ آگے ایمان کے اجزاء، ایمان باللہ، فرشتوں، آسمانی کتب پر ایمان رکھنے کا فرمایا گیا کہ یہ عقیدہ سابقہ انبیاء (علیہم السلام) کے ایمان کا حصہ ہے اور اہل ایمان کا شیوہ ہے کہ وہ ہر حکم خداوندی کو بسروچشم قبول کر لیتے ہیں۔ آخر میں فرمایا گیا کہ آدمی اسی کا مکلف ہے جو اس کے اختیار میں ہے۔ اہل ایمان کو ایک جامع دعا تعلیم فرمائی گئی جس میں دنیا و آخرت کی خیر و برکات جمع کر دی گئی ہیں۔

نسیان کا علاج: جس نے سوتے وقت بقرہ کی درج ذیل دس آیتیں پڑھنے کا معمول بنا لیا وہ قرآن کبھی نہیں بھولے گا۔ شروع والی چار آیتیں۔ آیۃ الکرسی اور اس کے بعد والی دو آیتیں، اور بقرہ کی آخر والی تین آیتیں۔ (دارمی)

دو شفاء بخش آیتیں: دو آیتیں قرآن کا مخصوص حصہ ہیں جو شفاء بخشنے والی ہیں اور منجملہ ان چیزوں کے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ محبوب رکھتے ہیں۔ اور وہ سورة بقرہ کی آخر والی دو آیتیں ہیں۔ (دیلمی بروایت ابی ہریرہؓ )

٭٭٭

ماخذ اور تشکر: مکتبہ جبرئیل،

http://www.elmedeen.com/

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

مکمل کتاب ڈاؤن لوڈ کریں