فہرست مضامین
- چہرۂ ہستی
- انتساب
- خدا سے باتیں
- نعت
- دعا
- میرا کلام
- ہم اور ہمارے مخالف
- قطعہ
- دعوتِ جہاد
- نئی تہذیب کے بیٹے
- رازِ عظمت
- قطعہ
- حسنِ اخلاق
- اسبابِ ہلاکت
- لاالٰہ اِلاا ﷲ
- قطعہ
- فقر
- اقبال کے نام
- قطعہ
- علمائے دین کی خدمت میں
- فی البدیہہ
- پیش گوئی
- اعتراف
- قطعہ
- اے ساحلِ سنگھڑ
- ایک انجام رسیدہ ظالم کے نام
- زندگی
- الوداع میرے سکول
- قطعہ
- ایک خاوند ستائی
- بستر
- ہماری محبت
- ناقابلِ فہم
- آہنگِ خلوص
- قطعہ
- آہٹ
- قطعہ
- حالِ دل
- آج کوئی تبسم کناں نہیں آیا
- قطعہ
- حسنِ طلب
- کیفیتِ یاس
- قطعہ
- غمِ ہجر
- تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
- پچھتاوا
- الوداع
- قطعہ
- گیت
- ماہیے
- غزلیں
- قطعہ
- جب سے میری انجمن سے وہ گلِ کم سِن گیا
- مِری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
- مرض بڑھ نہ جائے شفا چاہتا ہوں
- یاس و غم کے مہیب سائے ہیں
- نہ بجھ اے شمع کھو جائے گی یہ تابندگی تیری
- وہ زاہدوں کے پاس ہے نہ واعظوں کے پاس
- ہواؤں میں تِرے نغمے سنائی دیتے ہیں
- کاش دو دن میری قسمت میں سویرا ہوتا
- دل میں جوں جوں عکس اس کا مستقل ہوتا گیا
- اس جہاں میں اے مِرے پیارے تِرا ثانی کہاں
- خوش آئی ہے مجھے کچھ یوں رہِ دیوانگی یارو
- کس قدر دلکش ہے یہ سرو و سمن کا اجتماع
- مجھ سے ناراض و خفا ہو کے نہ جاؤ ناحق
- دلِ خاموش تپِ ہجر میں جل جاتا ہے
- الفت و مہر ہے اپنوں میں نہ بیگانوں میں
- اے دوست جس کی ذرہ بھر پروا نہیں تجھے
- چلو یارو صراطِ عشق پر آہستہ آہستہ
- دور ہو لعنتِ افلاس تو کچھ بات بنے
- نہ مائل کر سکا حسنِ بتانِ آزری یارب
- ہم کیا بتائیں دہر میں کیا کیا کیا کئے
- چَو گرد اہلِ حسن کے یوں بوالہوس ملے
- دلِ ناداں فغان و نالہ و فریاد رہنے دے
- جاں بخش ہونٹ، عنبریں گیسو لئے ہوئے
- قافیہ تنگ مِرا رنج و الم کرتے ہیں
چہرۂ ہستی
ظہور احمد فاتح
انتساب
باوا آدم کی بائیں پسلی سے تخلیق پانے والی
اماں حوا کے نام
جو
زوجۂ پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ
نسائی فطرت کی اولین امین تھیں
خدا سے باتیں
میں نہ مشرک کہ بنا کر تیری پوجوں مورت
نہ میں نادان کہ چاہوں گا مجازی صورت
میں نہ ہندو کہ کسی کو کہوں اوتار ترا
نہ میں کافر ہوں کہ کرتا پھروں انکار ترا
میں نہ عیسائی کروں تین میں تقسیم تجھے
نہ میں یونانی کہ صدہا کروں تسلیم تجھے
میں نہ اولاد کسی کو تیری گردانوں گا
نہ تِرا روپ بدلنا ہی بجا مانوں گا
میں نہ راہب ہوں کہ صحراؤں میں پاؤں تجھ کو
نہ میں صوفی ہوں کہ حجرے میں بلاؤں تجھ کو
میرا ایماں ہے کہ تو ایک ہے میرے مولا
جو تری مانے وہی نیک ہے میرے مولا
دہر میں ثانی ترا کوئی نہیں ہو سکتا
تو ہی مالک ہے جہاں کا اے خدائے یکتا
اے کہ لاریب ہے تو خالقِ دنیا تو ہے
عالم الغیب ہے تو رازقِ دنیا تو ہے
یہ زمیں تیری ہے خوش رنگ نظارے تیرے
شمس و افلاک ترے چاند ستارے تیرے
تیرے دیدار کی گو تاب نہیں ہے یارب
پھر بھی ملنے کا ترے مجھ کو یقیں ہے یارب
کر دعا اپنے کرم سے میری منظور خدا
ہو مرا قلب ترے عشق سے معمور خدا
نعت
وہ شہرِ نبی یارب اک بار نظر آئے
وہ گنبدِ خضرا کا مینار نظر آئے
دربارِ نبوت میں جو خاک بسر پہنچے
وہ لوگ زمانے کے سردار نظر آئے
وہ حسن کہ آنحضرت محبوبِ خدا ٹھہرے
وہ رعب کہ لرزیدہ کہسار نظر آئے
وہ رحم دلی ان کی ہر وقت دعائیں دِیں
مائل بہ جفا جبکہ کفار نظر آئے
جو حبِ محمد میں تا حدِ جنوں پہنچے
دیکھا تو وہ دیوانے ہُشیار نظر آئے
جو لوگ ہوئے شامل حضرت کے غلاموں میں
در اصل وہی بندے احرار نظر آئے
دنیا کو نہ ہوتی تھی اپنی بھی خبر پہلے
جب ان سے ملِیں آنکھیں اَسرار نظر آئے
ان کے لبِ اقدس سے اک حرفِ دعا نکلا
انعام کے ہر جانب انبار نظر آئے
الطافِ پیمبر سے دم بھر میں ہوئے اچھے
وہ دل کہ گناہوں سے بیمار نظر آئے
ہر سمت زمانے میں اسلام کی ضَو پھیلی
ہر سمت رسالت کے انوار نظر آئے
جو لوگ ہوئے وارث ایمان کی دولت کے
دنیا کے خزانوں سے بیزار نظر آئے
بے رنگ نظر آئے سب رند زمانے کے
جب جامِ نبوت کے میَ خوار نظر آئے
یارب کبھی فاتح کو دیدارِ محمد ہو
پھر جامِ شہادت سے سرشار نظر آئے
دعا
یارب تِری لِقا کی سعادت نصیب ہو
کہتا ہے دل کہ جامِ شہادت نصیب ہو
کرتا رہوں ادا تیرے بندوں کے میں حقوق
یارب مجھے خلوصِ عبادت نصیب ہو
تا عمر میں اطاعتِ خیرالوریٰ کروں
اِس دل کو اُس کی حب و ارادت نصیب ہو
اب تک جو اس مریض کی پرسش نہ کر سکے
سکرات میں تو ان کی عیادت نصیب ہو
ہونے لگا ہے دہر میں ہر سو فروغِ نو
مہدی کی جلد اس کو ولادت نصیب ہو
جذبہ ہو جس کے قلب میں احیائے دین کا
ملت کو ایک ایسی قیادت نصیب ہو
میرا کلام
تیرا پرتو اے سراپا ناز ہے میرا کلام
تیرے حسنِ گرم کا اعجاز ہے میرا کلام
اس کا ہر شعرِ حسیں ہے آئینۂ حق نما
زندگانی کا حریمِ راز ہے میرا کلام
جس کے ہر اک تار میں مضمر ہے سحرِ سامری
وہ سُریلا اور دلکش ساز ہے میرا کلام
کیوں نہ ہو اے ہم نشیں ہر قلب پر اس کا اثر
قلب سے نکلی ہوئی آواز ہے میرا کلام
ہے یہ میری عقل و درک و فہم کا آئینہ دار
میرے ما فی القلب کا غماز ہے میرا کلام
گمرہوں کا رہنما ہے ظالموں کا محتسب
غم زدوں کا مونس و دمساز ہے میرا کلام
ہر جگہ چرچے ہیں اس کی رفعتِ تخئیل کے
مثلِ شاہینِ بلند پرواز ہے میرا کلام
ہر سخن فہم و سخن ور کو ہے اس کا اعتراف
رشکِ شعرِ شاعرِ شیراز ہے میرا کلام
مجھ کو اب حاجت نہیں فاتح کسی اعزاز کی
میری ہستی کے لئے اعزاز ہے میرا کلام
ہم اور ہمارے مخالف
اپنی خواہش ہے کہ ہو نورِ ہدایت کو فروغ
ان کی منشا ہے کہ ہو طوفانِ ظلمت کو فروغ
ہم مسلماں ہیں ہمارا ایک ہی معبود ہے
اپنی کوشش ہے کہ ہو آئینِ وحدت کو فروغ
وہ حلیفِ اہرمن ہیں شرک ہے ان کا طریق
ان کی سازش ہے کہ ہو میلانِ دولت کو فروغ
ہم جہاں میں چاہتے ہیں امن و انصاف و سکوں
ہم ہیں سر گرمِِ عمل کہ ہو شریعت کو فروغ
وہ تشدد اور بد امنی کے خواہش مند ہیں
ان کے دم سے ہے فساد و جبر و نخوت کو فروغ
ہم اخوت کا، رواداری کا دیتے ہیں پیام
ہے ہماری آرزو کہ ہو محبت کو فروغ
وہ عناد و بغض و خود غرضی کے خوگر ہیں سدا
ان کی مرضی ہے کہ ہو تحقیر ونفرت کو فروغ
اپنی خواہش ہے کہ احسان و مروت عام ہو
دہر میں ہو احترامِ آدمیت کو فروغ
وہ لٹیرے ہیں فریب و مکر اُن کا کیش ہے
ان کی ضد ہے کہ ہو ظلم و بربریت کو فروغ
ہم سدا کوشاں ہیں اصلاح و ترقی کے لئے
اپنی خواہش ہے کہ ہو حق و صداقت کو فروغ
وہ بپا کرتے ہیں تخریب و تباہی دہر میں
ان کی کوشش ہے کہ ہو کفر و جہالت کو فروغ
قطعہ
کہوں جو بات حق تو ہم نشیں تائید لازم ہے
اگر اس میں ہو کچھ خامی تو پھر تنقید لازم ہے
یہ بہتر ہے کہ کچھ کہنے سے پہلے سوچ لے انساں
کہ قولِ بے محل کا شکوہ وتر دید لازم ہے
دعوتِ جہاد
اے مسلمانو! اُٹھو اب ہوش میں آؤ ذرا
حالِ ناگفتہ پہ اپنے غور فرماؤ ذرا
کس لئے صہبائے غفلت کے نشے میں چوُر ہو
نیند کے ماتو اٹھو کیوں نیند میں مخمور ہو؟
کچھ خبر بھی ہے تمہارے ساتھ کیا ہونے کو ہے
آہ نادانو !تمہارا دین تک کھونے کو ہے
کس کا لیتے ہو سہارا کچھ خبر بھی ہے تمہیں ؟
کون ہے دشمن تمہارا کچھ خبر بھی ہے تمہیں ؟
وہ عدو جو چوستا ہے خون ہر انسان کا
اشتراکی اشتمالی رنگ جس کے دام کا
وہ عدو جو ابتدا سے دشمنِ اسلام ہے
جس کا ہر انسان کو کافر بنانا کام ہے
کُوٹ کر جس میں بھرا ہے جذبۂ مکر و فریب
دامِ قاتل میں رکھا ہے دانۂ صد دیدہ زیب
جس عدو نے حق پرستوں کی اڑائیں دھجیاں
جس نے خونِ ابنِ آدم کی بہائیں ندیاں
مسجدیں مسمار کر ڈالی ہیں جس نے بے شمار
ملتِ اسلامیہ میں جس نے ڈالا انتشار
جس نے کر دیں نذرِ آتش بستیوں کی بستیاں
دل جلا دیتی ہیں جس کے ظلم کی سرمستیاں
آچکا ہے وہ عدو میدان میں للکار کر
چند غداروں کو شامل کر کے نعرہ مار کر
اب جہادِ فی سبیل اللہ کا وقت آگیا
اجتہادِ فی سبیل اللہ کا وقت آگیا
اور کیا اب دیکھنا ہے اے مسلمانو اُٹھو
ہاں اٹھو اے مشعلِ وحدت کے پروانو اُٹھو
اُٹھو اور اس کو بتا دو کون ہیں اسلامیان
جن کے نعروں سے لرزتے ہیں زمین و آسمان
اب بھی اُن کے دست و بازو میں وہ باقی زور ہے
نعرۂ اللہ اکبر کا ابھی تک شور ہے
اٹھو اور کر دو صفایا دشمنِ عیار کا
زورِ بازو توڑ دو اس قومِ ناہنجار کا
نئی تہذیب کے بیٹے
نئی تہذیب کے بیٹوں کو دیکھو تو گماں ہو گا
کہ جیسے لارڈ ہوں نواب ہوں یا وائسرائے ہوں
یہی محسوس ہو گا دیکھ کر نک ٹائیاں ان کی
کہ جیسے جانور رسیاں تڑا کر بھاگ آئے ہوں
تمہیں بے ساختہ انجن کی چمنی یاد آئے گی
انہیں دیکھو کہ اپنے منہ میں سگریٹ جب دبائے ہوں
صفایا یوں کئے پھرتے ہیں اپنی داڑھی مونچھوں کا
کہ جیسے محترم بارہ برس کے ینگ بوائے ہوں
انہیں دیکھو اگر چشمہ لگائے تو گماں ہو گا
کہ جیسے خوفِ غمازی سے آنکھوں کو چھپائے ہوں
تمہیں احساس ہو گا دیکھ کر ٹیڈی لباس ان کے
کہ جیسے خاص اعضاء کی نمائش کو بنائے ہوں
تصنع سے تکلف سے سدا یہ کام لیتے ہیں
کہ جیسے دل خلوص و مہر سے محروم پائے ہوں
رازِ عظمت
دنیا میں جو مضبوط ہے وہ اہلِ شرَف ہے
سالم ہے تو ہے جام جو ٹوٹے تو خزَف ہے
انمول ہے گوہر ہے اگر اس کے جلومیں
محروم ہے گوہر سے تو بے مایہ صدف ہے
وہ صاحبِ اخلاق بھی تھے اہلِ ہنر بھی
یہ راز ہے جو باعثِ تکریمِ سلَف ہے
مطلوب جو عزت ہو تو پیدا کرو طاقت
یارو یہ وہ نسخہ ہے کہ ناوک بہدف ہے
کہتے ہیں اسے لوگ بڑے فخر سے فاتح
جو غالب و ہُشیار ہے شمشیر بکف ہے
قطعہ
کیا زمانہ ہے کیا ہوائیں ہیں
کیسی کیسی یہاں صدائیں ہیں
خیر انسانیت کی ہو یارب!
حال پتلا ہے بس دعائیں ہیں
حسنِ اخلاق
(ماخوذ از پند نامہ شیخ فرید الدین عطار)
عظمتِ اخلاق میں مضمر ہے قوموں کا کمال
صاحبِ خُلقِ حسیں ہے صاحبِ حسن و جمال
خُلقِ حَسنہ در حقیقت نام ہے ایمان کا
یعنی بد اخلاق انساں یار ہے شیطان کا
آدمی کو چاہیے خُلق و حیا پیدا کرے
علم و حلم و زُہد و احسان و وفا پیدا کرے
نورِ علم و صحبتِ عالم ہے اخلاقی عیار
کسبِ علم و قدرِ اہلِ علم ہو تیرا شعار
روشنی ہرسو ہو تیرے خُلق کے فیضان سے
رہ جہاں میں حلم و امن و الفت و احسان سے
موج زن ہو تیرے دل میں جذبۂ شرم و حیا
خود کو اخلاص و شرافت کا حسیں پیکر بنا
الفت و رغبت سے رہ احباب میں شِیر و شکر
ہاں !یہ اچھا ہے اگر دشمن سے ہو تجھ کو حذر
ہو ترا لہجہ دمِ گفتار نرم و دلنشیں
رس بھری باتوں سے کوئی چیز بھی میٹھی نہیں
ہو ترا کردار ایسا دیدہ زیب و دلنواز
خود پہ نادم اور تیرے معترف ہوں کینہ ساز
اسبابِ ہلاکت
(ماخوذ از پند نامہ شیخ فرید الدین عطار)
چار چیزوں پر ہی منتج ہے تباہی کی اساس
ان کو اپنائے تو ہوتا ہے بشر ذلت شناس
ان میں پہلی شئے ہے راہ و رسمِ اہلِ اقتدار
مت کرو ان کے مزاج و عقل و دل پر اعتبار
کیا خبر ہو جائے کب چیں بر جبیں ان کا جلال
یوں نہ ہو پھر پھونک ڈالے ان کا قہر و اشتعال
صحبتِ شاہاں میں ہو جاتا ہے انساں بے ضمیر
اور ہو جاتا ہے دامِ خود نمائی میں اسیر
اس میں رہتا ہی نہیں اخلاص و ایمان و عمل
یعنی مر جاتا ہے انساں ایک مرگِ بے اجل
دوسری ہے چیز ان میں صحبتِ بد دوستو
جس قدر بھی ہوسکے نیکوں کے تم ساتھی بنو
سہل ہے یہ جاننا کوئی ہے کیسا آدمی
جیسا ہو گا حلقۂ احباب، ویسا آدمی
سیکھتا ہے دوستوں سے آدمی یوں رنگ ڈھنگ
جیسے خربوزے سے خربوزہ پکڑ لیتا ہے رنگ
تم نہ کر لینا بر صحبت میں خود کو مبتلا
صحبتِ بد سے تو یارو، آدمی تنہا بھلا
تیسری ہے چیز ان میں عورتوں سے التفات
اس سے ہوتا ہے سدا انساں شکارِ حادثات
صحبتِ زن صورتِ آتش بنا دیتی ہے راکھ
زن مُریدوں کی کبھی رہتی نہیں دنیا میں ساکھ
قربِ عورت سے ہوا کرتی ہے پیدا بزدلی
اور ہوتی ہے نمایاں بے حیائی کاہلی
اس لئے تم بچ کے رہنا عورتوں کے دام سے
خود کو آلودہ نہ کرنا زہر کے اس جام سے
چوتھی شئے ہے رغبتِ دنیا اے میرے ہم نشیں
سانپ کی صورت ہے مہلک، دیکھنے میں ہے حسیں
کھولتی ہے منہ بظاہر مسکرانے کیلئے
دوڑتی ہے پھر یہ دنیا کاٹ کھانے کیلئے
اصل میں ہے جان لیوا اس کی ہر دلکش ادا
اس فریب و مکر کی پتلی سے تم بچنا سدا
اِس کے مکر و زور کو جو بھی سمجھ سکتا نہیں
اس کا دامن یوں الجھتا ہے سلجھ سکتا نہیں
محو ہو جاتے ہیں ناداں لوگ اس میں ا س طرح
ڈوب جائے کوئی بحرِ بے کراں میں جس طرح
جن کی امیدیں رہیں وابستہ اس دنیا کے ساتھ
ایک دن سب کچھ لٹا کر ملتے رہ جائیں گے ہاتھ
لاالٰہ اِلاا ﷲ
(ماخوذ از پس چہ با ید کرد اے اقوامِ شَرق۔ اقبال)
لا میں اور اِلا میں پوشیدہ ہے تقدیرِ جہاں
لا ہے عرفانِ خودی، اِلا ہے تسخیرِ جہاں
قوم ہو یا فردِ واحد، لا جلال اِلا جمال
لا ہے آزادی تو اِلا رفعت و اوجِ کمال
لا سناتا ہے حدیثِ قبلِ آغازِ حیات
موجزن ہے کلمۂ اِلا میں آوازِ حیات
لا نے جب مانگی دماغِ ابنِ آزر سے دلیل
کر دیا اِلا نے تب اللہ کا اس کو خلیل
عقلِ انساں جب سمجھ لیتی ہے رمزِ لاالٰہ
ڈھونڈتی ہے نورِ اِلَّا اللہ پھر اس کی نگاہ
لا کے دم سے اک جہانِ تازہ پاتا ہے نمود
اور بھر دیتا ہے اس میں روح اِلا کا سرود
لا کے آگے سحرِ غیر اللہ بے بس بے اثر
اِلا کے آگے سمندر زیرپا، ٹکڑے قمر
جذبۂ لا جب دلِ انساں میں ہو جاتا ہے عام
برسرِ پیکار ہو جاتا ہے آقا سے غلام
لا ہے اعلانِ بغاوت، لا ہے ضربِ پے بہ پے
لا تو بجلی کی کڑک ہے، لا نہیں آوازِ نَے
حد سے جب لا بڑھنے لگتا ہے برنگِ اشتعال
تب سکھاتا ہے اسے اِلا ادائے اعتدال
اس لئے لازم ہے لا کے ساتھ اِلا کا یقیں
یعنی ہوں اک ساتھ دونوں خانۂ دل کے مکیں
لا واِلا جب بھی ہو جاتے ہیں باہم دست گیر
ٹوٹ گرتے ہیں زمانے بھر کے سب اصنامِ پیر
جب عرب والوں نے پایا لا و اِلا کا مقام
خود بھی بدلے اور بدلا دہر کا ناقص نظام
توڑ ڈالے ضربِ لا سے عُزیٰ و لات و منات
نورِ اِلا کی بدولت کر دئیے روشن جہات
جوشِ لا میں ہر قبائے کہنہ کر دی چاک چاک
تخت و تاجِ قیصر و کسریٰ کئے پیوندِ خاک
آتشِ لا میں جلا ڈالا خس و خاشاک کو
وہ بلندی پائی ششدر کر دیا افلاک کو
دشت ان کی برق و باراں سے پریشاں ہو گئے
بحر اُن کے زورِ طوفاں سے پریشاں ہو گئے
گرمیِ لاسے کیا برپا جہاں میں انقلاب
سوزِ اِلا سے پڑھائی زیست کی اُم الکتاب
خُلق و ایمان و محبت کا عَلم اونچا کیا
امن و انصاف و صداقت کا عَلم اونچا کیا
لوحِ دل سے نقشِ غیر اللہ مٹ کے رہ گیا
بندِ باطل سیلِ حق کی زد میں آ کر بہہ گیا
لا کا دم خم اب بھی آزادی طلب قوموں میں ہے
اب بھی اس کی حکمرانی سینکڑوں رنگوں میں ہے
اب بھی لا کی سرزنش سے ملّتیں بیدار ہیں
حاکم و محکوم باہم برسرِپیکار ہیں
رونما ہیں لا کے باعث انقلاباتِ عظیم
گِر رہے ہیں ریزہ ریزہ ہو کے اصنامِ قدیم
مٹتا جاتا ہے نظامِ کہنہ کا فاسد وجود
ہونے ہی والی ہے جہاں میں صبحِ روشن کی نمود
شرط یہ ہے بادِ لا دے مرکبِ اِلا کا ساتھ
یعنی دونوں گامزن ہوں ڈال کر ہاتھوں میں ہاتھ
اتحادِ لا و اِلا میں ہے قوموں کی حیات
یہ نہ ہوں تو ان کی ہستی بے حقیقت بے ثبات
منتظر ہے تیری اے حجرہ نشیں پھر رزم گاہ
سُوئے ہر فرعون لے چل پھر نشانِ لااِلٰہ
عرصۂ پیکار میں پھر خنجرِ لا کر بلند
درسِ اِلا سے زمانے بھر کو کر دے بہرہ مند
اے امینِ لا و اِلا تو ہے میرِ کائنات
تابعِ فرماں ہے تیرا یہ جہانِ شش جہات
قطعہ
صبح آتی ہے شام آتی ہے
شب بصد اہتمام آتی ہے
کٹ ہی جاتی ہے عمر ایسے میں
چیز کیا ہے جو کام آتی ہے؟
فقر
(ماخوذ از پس چہ باید کرد اے اقوامِ شَرق۔ اقبال )
فقر کیا ہے؟آ بتاؤں میں تجھے اے ہم نشیں
اک دلِ بیدار و زندہ اک نگاہِ راہ بیں
فقر اپنی ذات اپنے کام کی پہچان ہے
کلمۂ توحید کے پیغام کی پہچان ہے
فقر اک نانِ جویں ہے فتحِ خیبر کی نقیب
ایک ہیں اس کی نظر میں شاہ و زر دار و غریب
فقر ذوق و شوق ہے اور فقر تسلیم و رضا
ہم کو سونپی ہے خدا نے یہ متاعِ مصطفٰے
فہمِ رضواں سے ہیں باہر اس کے اَسرار و رموز
اس کے آگے منکشف ہیں دہر کے خفیہ کنوز
فقر اپنا لے، کرے گا فقر بالا تر تجھے
تو ہے شیشہ تو بنا ڈالے گا یہ گوہر تجھے
فقر ہے منشائے قدرت شرحِ قرآنِ حکیم
فقر ہے میراثِ ایوب و براہیم و کلیم
فقر درویشی بھی ہے گنجِ گراں مایہ بھی ہے
جستجو کی دھوپ بھی تسکین کا سایہ بھی ہے
حسبِ عادت کھولتا ہے یہ اگرچہ کم زباں
پھر بھی ہے اس کے سخن میں گرمیِ بزمِ جہاں
اس میں یہ طاقت ہے بے پر بھی اُڑا سکتا ہے یہ
مچھروں کو ہمسرِ شاہیں بنا سکتا ہے یہ
حشمتِ سلطاں سے بڑھ کر عظمتِ مردِ فقیر
سرنگوں اس بوریے کے سامنے تخت و سریر
اپنا مسکن دشت و صحرا کو بنا سکتا ہے یہ
فاختاؤں کو عقابوں سے لڑا سکتا ہے یہ
بخش دیتا ہے دلوں کو قوتِ و جذب و سلوک
سامنے شاہوں کے دیتا ہے اذانِ لاملوک
ٹوٹتا ہے اس کی ضربت سے طلسمِ جبر و قہر
گونجتے ہیں نعرۂ لا سے در و دیوارِ شہر
گرمیِ ایمان کو کچھ اور کر دیتا ہے تیز
یہ وہ خرمن ہے کہ بجلی جس سے کرتی ہے گریز
ایک بھی درویش جب تک قوم میں موجود ہو
غیر ممکن ہے وہ ملت نیست و نابود ہو
آبرو اپنی اسی کے صبر و استغنا میں ہے
سوزِ دل اپنا اسی کے شوقِ بے پروا میں ہے
پائے گا سرِ دو عالم منکشف سینے میں تو
دیکھ خود کو فقر کے شفاف آیئنے میں تو
حکمتِ دیں ہے ادائے دلنوازی فقر کی
قوتِ دیں ہے ادائے بے نیازی فقر کی
جب بھی ہوتا ہے دلِ مومن فقیری کا امیں
وہ یہ کہتا ہے، مِری مسجد ہے یہ ساری زمیں
آہ!کیا نقشہ دکھایا چرخِ کج رفتار نے
بندۂ مومن کی مسجد چھین لی اغیار نے
مردِ مومن! اٹھ، مجاہد بن، قدم آگے بڑھا
اپنی اس مسجد کو پھر اپنی عمل داری میں لا
ترکِ دنیا کا حقیقی راز ہو تجھ پر عیاں
ترکِ لذاتِ جہاں با وصفِ تعمیرِ جہاں
حق ہے تیرا مرکبِ دنیا پہ، تو ہے شہسوار
یہ جہانِ آب و گِل ہو تیرے زیرِ اختیار
تو کہ شاہیں ہے نہیں اڑتا سرِ افلاک کیوں ؟
مرغکِ کم پر ہے تیرے سامنے بے باک کیوں ؟
کیوں کنام اپنے میں تو بیٹھا ہے زار و سرنگوں ؟
دیکھ تیری منتظر ہے یہ فضائے نیلگوں
فقرِ قرآں اصل میں ہے احتسابِ ہست و بود
یہ رباب و عیش و مستی ہے نہ یہ رقص و سرود
فقر دیتا ہے بشر کو درسِ تسخیرِ جہات
بندۂ مومن ہے اس کے فیض سے مولا صفات
فقر کافر کی نظر میں خلوت و عزلت میں ہے
اور مومن کی نظر میں رفعت و عظمت میں ہے
زیست کافر کی نظر میں ہے سکونِ غار و کوہ
اور مومن کی نگاہوں میں ہے مرگِ با شکوہ
خود فراموشی ہے کافر کے گماں میں آگہی
خود شناسی ہے مسلماں کی زباں میں آگہی
قلبِ کافر تیرہ و غارت گرِ پاسِ خودی
قلبِ مومن جلوہ گاہِ گنجِ الماسِ خودی
فقر زیرِ آسماں ہوتا ہے جب بھی جلوہ گر
ماند پڑجاتے ہیں اس کے سامنے شمس و قمر
فقر کیا ہے؟ فقر ہے ہنگامۂ بدر و حُنین
فقر کیا ہے؟ فقر ہے عنوانِ رودادِ حُسین
جلوہ پیرا فقر ہو جب تک نہ تا حدِ کمال
پیدا ہو سکتا نہیں ہرگز مسلمانی جلال
حیف مجھ پر!حیف تجھ! پر اے مری ملت کے مرد
پڑ گیا ہے اب ہمارا آفتابِ فقر سرد
دل کو غیر اللہ سے آزاد کر لے اے جواں !
پھر نہیں تیرے لئے دشوار تسخیرِ جہاں
ہے تِرا یہ جینا ذلت غیرتِ دیں کے بغیر
زیست تیری موت سے بدتر ہے تمکیں کے بغیر
دینِ فطرت کے تقاضوں کے مطابق خود کو ڈھال
نورِ حق سے اپنے اندر پیدا کر حسن و جلال
سنتِ سرکارِ دو عالم پہ کر ہر دم عمل
دہر کے فرسودہ و ناقص اصولوں کو بدل
آہ! اُس ملت کی کھیتی کس قدر ویران ہے
جس میں سب کچھ ہے مگر درویش کا فقدان ہے
پیدا کر سکتی نہیں جو قوم درویش و فقیر
بانجھ ہے!اُس میں جنم لیں جتنے سلطان و امیر
داستاں اس قوم کی مت پوچھ مجھ سے ہم نشیں
میں سنانا بھی اگر چاہوں سنا سکتا نہیں
اک گرہ سی ڈال دی ہے حلق میں جذبات نے
دل کو بسمل کر دیا ہے تلخیِ حالات نے
کھو چکا ہے آہ! مسلم اپنا ایمان و یقیں
عمر گزری ایک بھی مردِ خدا دیکھا نہیں
وائے نادانی کہ اپنی قوم سے بد ظن ہے آج
کارواں کیونکر بچے ہر رہنما رہ زن ہے آج
تین صدیوں سے یہی حالِ زبوں ملت کا ہے
جینا بھی ذلت کا ہے اور مرنا بھی ذلت کا ہے
جس کو دیکھو، پست فکر و بے ضمیر و کور ذوق
عقل محرومِ تدبر اور دل محرومِ شوق
جب سے منفی سوچ کا عادی ہوا اس کا دماغ
ریزہ ریزہ ہو گیا خود اعتمادی کا ایاغ
اپنی قدر و منزلت سے ہے یہ جب تک بے خبر
اس کا دل بے آرزو ہے اس کی آنکھیں بے بصر
کر نہیں سکتا کبھی برپا جہاں میں انقلاب
مرتکز خود پر نہ ہو جب تک نگاہِ انتخاب
صحبتِ اہلِ نظر جب تک نہ آئے اس کو راس
یوں رہے گا خستہ و افسردہ و حق ناشناس
راہ سے بھٹکا ہوا، مولا کا دھتکارا ہوا
کاہلی و غفلت و افلاس کا مارا ہوا
مال و زر کی ہو فراوانی تو ہو سلطاں قریب
جلوہ گر ہو نورِ ایمانی تو ہو شیطاں قریب
رہنما اس قوم کے ہیں غیر کے ذہنی غلام
گو سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو اعلیٰ مقام
وہ یہ کہتے ہیں سیاست اور شئے ہے دین اور
دینِ حق سے اچھے لگتے ہیں انھیں آئین اور
طاعتِ اغیار کا چڑھتا ہے کچھ ایسا خمار
زہر کو امرت غضب کو رحم کرتے ہیں شمار
جب کسی ملت کا ہوتا ہے یہ اندازِ خیال
قعرِ بربادی سے اس کا بچ نکلنا ہے محال
اے تغافل پیشہ و کوتاہ بین و بے نوا
دیکھ خود سے عصرِ حاضر کا سلوکِ ناروا
آج اپنی ذات اپنے دیں سے بیگانہ ہے تو
ہو کے شاہیں سیرتِ شاہیں سے بیگانہ ہے تو
تیرا سینہ آج سوزِ فقر سے محروم ہے
یعنی آئینہ ہے تو لیکن جِلا معدوم ہے
تو نے پہچانا نہیں اس تیرہ باطن دور کو
مہربانی تو سمجھ بیٹھا ہے اس کے جور کو
کر گیا کنگال اس کا ایک ہی داؤ تجھے
اک سے بڑھ کر دوسرا اس نے دیا گھاؤ تجھے
نابلد ہے فقر سے جس وقت تک تیرا دماغ
دل میں زندہ آرزو کے جل نہیں سکتے چراغ
اپنی حالت پر نظر کر اس قدر غافل نہ ہو
ماسوا سے دل اٹھا خود سے مگر بے دل نہ ہو
تو رہے گا تابکے زندانیِ وہم و ہراس
اپنی عظمت کو سمجھ اے غافل و خود ناشناس
ایک وسعت اور گہرائی نظر میں پیدا کر
پھر مقام اپنا جہانِ خشک و تر میں پیدا کر
اس چمن میں ہیں بہت سے آسماں آسا شجر
سب سے اونچی شاخ پر تو آشیاں تعمیر کر
اے کہ تو شاہین ہے یہ کرگسی انداز چھوڑ
زاغِ تن آسان کی سی پستیِ پرواز چھوڑ
پہلے خوب اچھی طرح تو تیز کر شمشیر کو
فیصلے کی ذمہ داری سونپ پھر تقدیر کو
تیرے اندر موجزن ہے ایک سَیلِ بے پناہ
کوہ بھی ہیں جس کی طغیانی کے آگے مثلِ کاہ
پیش قدمی اور تلاطم سیل کی تمکین ہے
موت کا پیغام اس کی کاوشِ تسکین ہے
میں نہ مُلا ہوں نہ میں کوئی فقیہِ نکتہ ور
اور نہ میں ہوں فقر و درویشی سے اتنا باخبر
میں تو اپنے دین میں ہوں تیز بین و سست گام
میرا پختہ خام ہے اور میری کوشش ناتمام
سینکڑوں عیبوں پہ بھاری ہے مِرا یہ اک ثواب
کہ مجھے بخشا گیا ہے خاطرِ پُر اضطراب
بہرہ ور ہو میرے سوزِ قلب سے اے ہم صفیر
پھر نہ شاید مل سکے مجھ سا تجھے مردِ فقیر
اقبال کے نام
آہ! اے اقبال تو تھا دیدۂ بینائے قوم
زندگی بھر تجھ کو تڑپاتے رہے غم ہائے قوم
ریزہ ریزہ ہو چکا تھا جب کہ پندارِ خودی
منکشف تو نے کئے ملت پہ اسرارِ خودی
اپنی قدروں اپنے دیں سے جبکہ بیگانہ تھی قوم
یورپی تہذیب کی مشعل کا پروانہ تھی قوم
تو نے اس کو اپنے مذہب کی طرف راغب کیا
درسِ آزادی دیا یک جان دو قالب کیا
رنگ لا کر ہی رہی تعلیمِ بیداری تِری
کتنے شعلے کر گئی ایجاد چنگاری تِری
قطعہ
جب دیکھتا ہوں دہر کے حالاتِ الم ناک
دل میرا تڑپ اٹھتا ہے ہو جاتا ہے غم ناک
افلاس کے منحوس بھنور ظلم کے سائے
یہ دیکھ کے آنکھیں میری ہو جاتی ہیں نم ناک
علمائے دین کی خدمت میں
اے دینِ وحدت کے پاسبانو! اے قومِ مسلم کے رہنماؤ!
اے وارث الانبیا بزرگو! اے مذہبِ حق کے پیشواؤ!
بڑے ادب سے میں آپ سے چاہتا ہوں اس بات کی اجازت
نہاں ہے جو آپ کی نظر سے بیاں کروں میں وہ اک حقیقت
میں مانتا ہوں کہ آپ حضرات نیک بھی ہیں عظیم بھی ہیں
بزرگ بھی ہیں حکیم بھی ہیں فقیہ بھی ہیں فہیم بھی ہیں
میں جانتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اپنے مذہب سے ہے محبت
مجھے یقیں ہے کہ آپ سب چاہتے ہیں اسلام کی حکومت
مگر میں حیران ہوں کہ مابین آپ کے انتشار کیوں ہے
فقط فروعات کی بنا پر دلوں میں اتنا غبار کیوں ہے
جناب یہ کیوں نہیں سمجھتے نفاق ہے باعثِ ضعیفی
اگر سمجھتے بھی ہیں تو فرمائیں کیسی ہے یہ ستم ظریفی؟
سنو سنو! وقت کہہ رہا ہے سنوسنو! وقت کہہ رہا ہے
کہ اہلِ اسلام کے اعلیٰ الرغم خونِ اسلام بہہ رہا ہے
سنو سنو! لوگ کہہ رہے ہیں کہ عالموں میں نہیں سلیقہ
انھیں تو آتا ہے صرف آپس میں بحث و تکرار کا طریقہ
سنو سنو! کہہ رہا ہے قرآن ایک ہو جاؤ حق پرستو
سنو کہ اللہ کا ہے فرمان ایک ہو جاؤ حق پرستو
اٹھاؤ سب لوگ ایک پرچم اگر ہے اسلام سے محبت
بڑھو سدا ایک ہو کے باہم اگر ہے اسلام سے محبت
سنو اگر آپ نے نہ چھوڑی یہ فرقہ بندی یہ کینہ سازی
نہ اس جہاں میں نہ حشر کے روز پائیں گے آپ سرفرازی
اگر ہوئے آپ سب اکٹھے تو پاؤں چومے کی کامیابی
شکست کھائے گا آپ لوگوں سے ہر دغا باز انقلابی
فی البدیہہ
سن لے میری بات اے میرے رفیقِ بذلہ سنج
ہرگز ایسی بات مت کر جس سے ہو اوروں کو رنج
پیش گوئی
اقتدارِ ظلم کی ہو گی تباہی ایک دن
ہو گی آئینِ خدا کی بادشاہی ایک دن
عام ہو گی نورِ حق کی ضَو فشانی ہر طرف
دور ہو گی رُوئے ہستی کی سیاہی ایک دن
ختم ہو گا ظلم و افلاس و جہالت کا فسوں
ہو گا جنت یہ جہانِ مرغ و ماہی ایک دن
جس کے باعث قلب میں رہتا نہیں خوفِ خدا
خاک میں مل جائے گی وہ کج کلاہی ایک دن
آخرت کو آدمی سمجھے گا دنیا سے عزیز
ٹوٹ جائے گا طلسمِ کم نگاہی ایک دن
عالمِ درماندگی میں آج بھی ہے جو رواں
پہنچ جائے گا سرِ منزل وہ راہی ایک دن
دیکھنا یہ امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا
ہو گا ہر دل میں مذاقِ خیر خواہی ایک دن
یہ جہاں بن جائے گا گہوارۂ امن و سکوں
پوری ہو گی قلبِ شاعر کی گواہی ایک دن
اعتراف
ترک کر کے خود ستائی، چھوڑ کر لاف و گزاف
اس حقیقت کا ہمیں کرنا پڑے گا اعتراف
قوم ہے اس وقت سے راہِ تنزل پر رواں
ہو گیا ہے جب سے اُس کا فعل ایماں کے خلاف
ہو گئی ہے آہ! میری قوم پستی کا شکار
کر رہی ہے جب سے اپنے دینِ حق سے انحراف
اٹھ گیا ہے جب سے اس کا اپنے مذہب سے یقیں
روز بڑھتا جا رہا ہے انتشار و اختلاف
اب خدا کا خوف باقی ہے نہ آہنگِ جہاد
اب نہ شوقِ سجدہ ریزی ہے نہ رسمِ اعتکاف
اشتیاقِ حجِ کعبہ ہے کہاں اب قوم میں
اب تو عیاشی کے مرکز ہیں اِسے جائے طواف
امتِ مرسل کو یا رب پھر ہدایت سے نواز
اور اس کی غلطیاں کوتاہیاں کر دے معاف
قطعہ
کیا خوب تِرے حکم کی تعمیل ہوئی
تبلیغ کی اس دور میں تکمیل ہوئی
کافر کو مسلمان بنا جب نہ سکے
پھر کفر کے فتوے میں ہی تعجیل ہوئی
اے ساحلِ سنگھڑ
اے ساحلِ سنگھڑ میں بتاؤں تیری کیا شان
تو ٹیلوں کا ہے شاہ تِرا شاہ سیلمان
ہے ریگ تِری جان تو جنڈیاں ہیں تِری آن
رہ سکتا نہیں کوئی تیرے حسن سے انجان
جو بھی تجھے دیکھے گا تِرا ہو گا ثنا خوان
اے ساحلِ سنگھڑ تجھے وہ دن بھی ہیں کیا یاد؟
جبکہ تیری اس ارض پہ اک بستی تھی آباد
کچھ لوگ تھے خوش تجھ پہ تو کچھ رہتے تھے ناشاد
دنیا کے تبدل نے انھیں کر دیا برباد
مشہور ہے تاریخ میں پچپن کا وہ طوفان
طوفانِ بلا تھا وہ کوئی دیو کہ جن زاد
جس نے تجھے کر ڈالا عمارات سے آزاد
شیریں ہی رہی تجھ پہ کوئی اور نہ فرہاد
مقتل ہی رہا کوئی نہ مقتول نہ جلاد
تو آنکھ جھپکتے ہی بنا رشکِ بیابان
کیا ہو گئے اب ماضی میں کیا تھے تیرے حالات؟
کیا چھوڑ گئیں اپنے نشاں تیری عمارات؟
حیراں ہوئے تبدیلیِ دنیا پہ سماوات
پھر ریت کے ٹیلوں سے نکل آئے نباتات
انساں نے کسی حال نہ چھوڑا تجھے ویران
بخشی تجھے ہر حال میں انسان نے رونق
بخشی تجھے ہر ایک کے مہمان نے رونق
بخشی تجھے ہر محفلِ یاران نے رونق
انساں ہی نہیں بخشی ہے حیوان نے رونق
ایفا کئے ہر اک نے وفا کرنے کے پیمان
وہ رات ہو دن ہو وہ سحر دم ہو کہ ہو شام
جب دیکھنا چاہے کوئی درشن ہیں تِرے عام
ہر شخص کو ملتا ہے تِری گود میں آرام
ملنا ہو جو یاروں کو تو لیتے ہیں ترا نام
جب بھی کبھی جی چاہے ترا ملنا ہے آسان
یہ دیکھ تِری ارض پہ کیسی ہوئی صحبت
بڑھتی ہے ملنساری سے یاروں میں محبت
لبریز ہوا جاتا ہے پیمانۂ الفت
کرتے ہیں تِری سیر وہ ہوں مرد کہ عورت
تو میری نگاہوں میں تو ہے وادیِ کاغان
کچھ فاصلے پر چند خواتین ہیں جاتی
گستاخ ہوا آئی نقاب ان کے اڑاتی
وہ ایک حسینہ کہ ستم دل پہ ہے ڈھاتی
جھٹ چہرہ دکھاتی ہے تو جھٹ برقع گراتی
کس شان سے چلتی ہے وہ غارت گرِ ایمان
وہ ایک جواں کیسے ترنم سے ہے گاتا
اک بانکا جواں جانبِ دیہات ہے جاتا
اک ریت پہ لیٹا ہے تو اک غل ہے مچاتا
وہ ایک جواں یار کی پھبتی ہے اڑاتا
اک تکتا ہے مشرق کو بصد حسرت و ارمان
اے ٹیلے تِری ارض پہ میلا سا لگا ہے
معلوم نہیں بات ہے کیا راز یہ کیا ہے
اک بیٹھا ہے آرام سے اک بھاگ رہا ہے
نظارہ کریں تیرا مزہ اس میں سوا ہے
آتا ہے تِری دید کی خاطر یہ تِرا خان
وہ رود کا پانی ہے بڑے زور سے آیا
بچوں نے ہے غل فرطِ مسرت سے مچایا
لو دوڑ کے اک شخص نے ہے غوطہ لگایا
کس شوق سے دہقان کا فرزند نہایا
وہ پاؤں جو پھسلا تو گرا اونٹ سے سامان
یک لخت چڑھا جاتا ہے وہ رود کا پانی
وہ دیکھو بڑھی جاتی ہے پانی کی روانی
وہ ایک جواں ڈوبا، لٹی ایک جوانی
وہ بوڑھا جو ڈوبا تو چھٹی دنیائے فانی
اک ڈوبتے بچے کو بچا لایا ہے مستان
کچھ لکڑیاں پانی سے پکڑ لاتے ہیں لڑکے
کچھ موج کے ہمراہ بہے جاتے ہیں لڑکے
کچھ کھیلتے ہیں کودتے ہیں گاتے ہیں لڑکے
کچھ کشتیاں کاغذ کی بھی تیراتے ہیں لڑکے
کچھ لڑکے کنارے پہ نظر آتے ہیں حیران
اے ٹیلے نہ گل تجھ پہ ہیں موجود نہ شمشاد
ویراں ہے اگرچہ تو مگر لگتا ہے آباد
کچھ غم نہیں موجود نہیں مانی و بہزاد
ہے تجھ پہ مگر نظم سرا فاتحِ نقاد
ہیں نظم کے سانچے میں مناظر کے پرستان
ایک انجام رسیدہ ظالم کے نام
تو نے سوچا تھا کہ ظلمت کو بقا حاصل ہے
تو سیہ رات کو محرومِ سحر سمجھا تھا
تو نے سوچا تھا کہ ہے ظلم کا مٹنا مشکل
کتنا نادان تھا تو خود کو اَمر سمجھا تھا
تو نے سوچا تھا کہ حق چھین کے انسانوں کے
نشۂ عیش میں مخمور رہوں گا ہر دم
لوٹ کے اہلِ زمانہ سے مسرت اُن کی
تو نے سوچا تھا کہ مسرور رہوں گا ہر دم
تو نے سوچا تھا یونہی قتل کئے جاؤں گا
دہر میں جو کوئی خوددار نظر آئے گا
تو نے سوچا تھا کہ چیخوں کا اثر نہ ہو گا
تو یہ سمجھا تھا لہو رنگ نہیں لائے گا
تو نے قدرت کے اصولوں کا اڑایا تھا مذاق
تو یہ سمجھا تھا کہ ہے تیرے ہی بس میں سب کچھ
تو نے یوں قدرتِ یزداں کو بھُلا چھوڑا تھا
تو یہ سمجھا تھا کہ ہے دستِ ہوس میں سب کچھ
تو نے سوچا تھا کوئی روکنے والا ہی نہیں
دہر میں یونہی سدا ظلم کئے جاؤں گا
تو نے محفوظ سمجھ رکھا تھا خود کو ناداں
تو نے سوچا تھا کہ ہاں یونہی جئے جاؤں گا
موت کی تلخی تجھے آج بتا ہی دے گی
ظلم کیا چیز ہے؟ ظالم کی حقیقت کیا ہے؟
آج ہو جائے گی ہر شئے کی وضاحت تجھ پر
اب تو سمجھے گا کہ انجامِ ذلالت کیا ہے؟
ظلم رہ سکتا نہیں دہر میں ہرگز باقی
ظلم، فانی ہے یہ اک روز فنا ہوتا ہے
کٹ کے گر جاتے ہیں اک روز جفا کے جولاں
ہر جفا کار کا انجام برا ہوتا ہے
ساری دنیا کا ہے اک عادل و قادر حاکم
ظلم سے ظالم و جابر سے اسے نفرت ہے
وہی مظلوم کی فریاد سنا کرتا ہے
ظلم کو مار مٹانے کی اسے عادت ہے
وہ مرا سکتا ہے نمرود کو اک مچھر سے
وہ ابابیل سے ہاتھی بھی مرا سکتا ہے
اس کی جباری و قہاری سے ڈرنا اچھا
وہ تو چڑیوں کو عقابوں سے لڑا سکتا ہے
جلد یا دیر سے ایسی تو کوئی بات نہیں
مل کے رہتی ہے سزا دہر میں ہر ظالم کو
ہے قسم عادل و قاہر کی زمانے والے
مبتلا دیکھتے ہیں قہر میں ہر ظالم کو
دیکھ اے ظالم و بد کار! یہ ذلت اپنی
درسِ عبرت تو زمانے کو دئیے جاتا ہے
آج شاداں ہیں تِری موت پہ اہلِ دنیا
جو کمایا تھا یہاں ، آج لئے جاتا ہے
زندگی
دفترِ ہستی میں اک بے حد حسیں تصویر ہے
جس کی پیشانی پہ لفظِ زندگی تحریر ہے
زندگی اک راز ہے ایسا کہ کھل سکتا نہیں
زندگی خود اپنی اک آسان سی تفسیر ہے
زیست کے بارے میں اکثر سوچتا رہتا ہوں میں
زندگی کس واسطے انساں کی دامن گیر ہے
زندگی اک دو رخی تصویر کی آئینہ دار
زندگی تحسین ہے اور زندگی تحقیر ہے
زندگی پیغامِ غم ہے، زندگی شادی کا نام
زندگی انعام ہے اور زندگی تعزیر ہے
زندگی قدرت کی صناعی کی تابندہ مثال
زندگی اک خواب ہے جس کی نہاں تعبیر ہے
زندگی اک امتحاں ہے واسطے انسان کے
زندگی زہرِ ہلاہل درمیانِ شیر ہے
دو مخالف راستوں پر گامزن ہے زندگی
ان میں پہلا ارتقاء ہے دوسرا تدمیر ہے
زندگی بارِ گراں ہے زندگی پُر کیف ہے
شاد ہے، غمگین ہے، تخریب ہے، تعمیر ہے
زندگی دار المحن ہے زندگی تفریح گاہ
زندگی واحد شرابِ مختلف تاثیر ہے
الوداع میرے سکول
اے مِرے اسکول میری درس گاہِ ذی وقار
تیری یاد یں ہیں حسیں اور تیرے احساں بے شمار
کر رہا ہے مدتوں سے تو اشاعت علم کی
دے رہا ہے علم کے پیاسوں کو دولت علم کی
تیری ان فیاضیوں کا میں بہت ممنون ہوں
حق تو یہ ہے تیرے احسانات کا مرہون ہوں
میں رہا گل کی طرح تیرے چمن میں اے سکول
میں نے تجھ سے ہی کیا ہے علم و دانش کا حصول
ایچ نما صورت تِری جب بھی مجھے یاد آئے گی
تجھ میں جو دن ہیں گزارے ان کی یاد آ جائے گی
یاد آئے گا مجھے اسٹاف تیرا بار بار
تیرا گلشن اور یہ تیری فضائے خوشگوار
ہوسٹل یہ ہال یہ مسجد یہ تیری ورکشاپ
جب بھی یادآئیں گے بیٹھوں گا تِرے نغمے الاپ
جانِ فاتح آج کہنا پڑ رہا ہے الوداع!
سر پہ آخر وقتِ رخصت آ گیا ہے الوداع!!
قطعہ
جہانِ رنگ و بو میں کتنے سامانِ مسرت ہیں
مگر ان کی مِرے دل میں پذیرائی نہیں ہوتی
میں حیراں ہوں کہ دنیائے جہاں دیدہ میں رہ کر بھی
کسی بھی راز سے میری شناسائی نہیں ہوتی
ایک خاوند ستائی
(خدا کے حضور میں ، خود کشی سے پہلے)
یہ تِری دنیا ہے یا یہ کارگاہِ درد ہے
ہر طرف چھائی ہوئی ظلم و ستم کی گرد ہے
جذبۂ جور و جفا ہے اس قدر کیوں مشتعل
جذبۂ مہر و محبت اس قدر کیوں سرد ہے
کیوں غضب کی آگ میں انساں کی آنکھیں سرخ ہیں
کیوں جفا کے خوف سے انساں کا چہرہ زرد ہے
نرم دل کمزور عورت پر ستم ڈھاتا ہے کیوں
اے مِرے اللہ! اتنا سنگدل کیوں مرد ہے
کیوں بسا رکھا ہے تو نے آج تک مولا اِسے
تیرا نافرمان جس دنیا کا ہر اک فرد ہے
خوفِ گستاخی سے میں کچھ اور کہہ سکتی نہیں
ایسی دنیا میں تِری میں زندہ رہ سکتی نہیں
جان میں جب تک سکت تھی میں نے سب کچھ سہہ لیا
اب زیادہ ظلم و درد و رنج سہہ سکتی نہیں
بستر
مِرا بستر مِرے خوابوں کی پرُاسرار دنیا ہے
بہت پرکیف دنیا ہے بڑی دل دار دنیا ہے
کسی کے جسم کی نرمی ہے نرمی میرے بستر کی
کسی کے سانس کی گرمی ہے گرمی میرے بستر کی
میں دن بھر کی تگ و دو کا تھکا ہارا جو آتا ہوں
تو اس میں لیٹ جاتا ہوں بہت آرام پاتا ہوں
کبھی دل کو پریشانی کا ہالہ گھیر لیتا ہے
تو میرا جاں فزا بستر مجھے تسکین دیتا ہے
مجھے بستر میں اپنے ایسی میٹھی نیند آتی ہے
دلِ پُر درد کو دنیا کی کلفت بھول جاتی ہے
مِری وہ خواہشیں جو وقتِ بیداری ستاتی ہیں
مِرے خوابوں کی اِس فردوس میں تسکین پاتی ہیں
کبھی میں سوچتا ہوں گر نہ ہوتا یہ مِرا بستر
تو پا سکتا یہ آرام و سکون و کیف میں کیونکر؟
مگر پھر عقل اُن کے حال پر بھی غور کرتی ہے
وہ بے چارے کہ جن کی رات بے بستر گزرتی ہے
دعا آتی ہے لب پر ہر بشر کے پاس بستر ہو
خداوندا! یہ آرام و سکوں سب کو میسر ہو
ہماری محبت
ستاروں کی لو سے منور زمیں ہے
ستاروں سے بڑھ کر ہماری محبت
بہاروں کے دم سے یہ دنیا حسیں ہے
بہاروں سے بڑھ کر ہماری محبت
ہواؤں کی نرمی سے ہلچل ہے دل میں
ہواؤں سے بڑھ کر ہماری محبت
نواؤں کی گرمی سے ہلچل ہے دل میں
نواؤں سے بڑھ کر ہماری محبت
دلوں کیلئے لازمی ہے مسرت
مسرت سے بڑھ کر ہماری محبت
مبرا ہے انکار سے جو صداقت
صداقت سے بڑھ کر ہماری محبت
حقائق اگر تلخ بھی ہوں بجا ہیں
حقائق سے بڑھ کر ہماری محبت
خلائق جو ہر وقت ہیں جا بجا ہیں
خلائق سے بڑھ کر ہماری محبت
گلابوں کی دنیا معطر حسیں ہے
گلابوں سے بڑھ کر ہماری محبت
سحابوں کی رم جھم بہت دلنشیں ہے
سحابوں سے بڑھ کر ہماری محبت
چراغوں کو ہے ظلمتوں سے کدورت
چراغوں سے بڑھ کر ہماری محبت
ایاغوں میں ہے کیف و تسکین و راحت
ایاغوں سے بڑھ کر ہماری محبت
جہاں میں ہیں جتنے بھی اونچے کہستاں
کہستاں سے بڑھ کر ہماری محبت
مہکتے ہیں دنیا میں جتنے خیاباں
خیاباں سے بڑھ کر ہماری محبت
زمانے میں جتنے بھی پھیلے ہیں ساگر
ہے ساگر سے بڑھ کر ہماری محبت
جہاں میں ہیں جتنے بھی گہرے سمندر
سمندر سے بڑھ کر ہماری محبت
سناتے ہیں جیون کا مژدہ کنارے
کناروں سے بڑھ کر ہماری محبت
اگرچہ بہشتِ نظر ہیں نظارے
نظاروں سے بڑھ کر ہماری محبت
خزانوں میں جتنے بھرے ہیں جواہر
جواہر سے بڑھ کر ہماری محبت
جہانوں میں جتنے بڑے ہیں ذخائر
ذخائر سے بڑھ کر ہماری محبت
ناقابلِ فہم
کبھی ہے مجھ کو تِرے لطف و کرم کی خواہش
ہے کبھی جدتِ اندازِ ستم کی خواہش
کبھی ہے تیرے نہ آنے کی شکایت مجھ کو
ہے کبھی تیری جدائی کے الم کی خواہش
جانتا ہوں میں کبھی ناز تِری غفلت کو
اور کبھی تجھ سے ہے اک جذبِ اتم کی خواہش
دل اگر چہ میرا صد چاک ہے میرے پیارے
پھر بھی ہے اس کو تِری تیغِ دودم کی خواہش
کار فرما ہے کبھی عشقِ خدا کا جذبہ
ہے کبھی دل میں مِرے وصلِ صنم کی خواہش
آہ! ناقابلِ تفہیم ہے دل کی حالت
ہے مسرت کی تمنا کبھی غم کی خواہش
میں کبھی عالمِ رنگیں کا ہوں شائق فاتح
ہے کبھی دل میں مِرے راہِ عدم کی خواہش
آہنگِ خلوص
دیکھ لے اے پیکرِ حسن و ادا میرا خلوص
دے رہا ہے دعوتِ مہر و وفا میرا خلوص
اب تو کہہ لیتے ہو تم اس کو تصنع جانِ من
دیکھ لینا یاد آئے گا سدا میرا خلوص
کثرتِ درد و الم سے حال پتلا ہے مِرا
پر نہیں شاکی تمھارے جور کا میرا خلوص
نرم کر دے گا یہ جس دن تیرے قلبِ سخت کو
میں یہ سمجھوں گا کہ ہے معجز نما میرا خلوص
ہاں پلائے جا مسلسل جام پر جامِ وصال
ملتجی ہے تجھ سے میرے ساقیا میرا خلوص
باوجودِ بے رخی ہوتا نہیں چیں بر جبیں
ہم نشیں ہے کتنا رفعت آشنا میرا خلوص
آہ! فاتح ایک مدت سے ہے میرے واسطے
وجہِ رنج و درد و کرب و ابتلا میرا خلوص
قطعہ
چین ہے نہ سکون باقی ہے
جاں میں جاں ہے نہ خون باقی ہے
درد و غم کا فسون باقی ہے
موت کا اک شگون باقی ہے
آہٹ
مِرے کانوں کے پردے گدگداتی ہے کوئی آہٹ
دلِ حساس کی گھنٹی بجاتی ہے کوئی آہٹ
خدا جانے یہ کوئی واہمہ ہے یا حقیقت ہے
کہ مجھ کو رات بھر آ کر جگاتی ہے کوئی آہٹ
نظر آتا نہیں حدِ نظر تک گامزن کوئی
نجانے کیوں مجھے پیہم ستاتی ہے کوئی آہٹ
مجھے لگتا ہے کوئی چھپ رہا ہے میرے پہلو میں
مِرے کانوں میں آہستہ سی آتی ہے کوئی آہٹ
ہوا جاتا تھا دل مایوس کچھ کچھ ان کی آمد سے
مگر تھوڑی سی اب ڈھارس بندھاتی ہے کوئی آہٹ
قطعہ
اب بھی موجود ہے الفت کا تقدس دل میں
کوئے محبوب مجھے قبلہ نما ہے اب بھی
خواہشِ وصل مجھے رکھتی ہے اب بھی بے چین
سایۂ زلف مجھے ظلِ ہما ہے اب بھی
حالِ دل
مشتعل ہے میرے دل میں تیری الفت رات دن
ہے تِری یادوں سے میرے دل کی زینت رات دن
جس طرح رہتے ہیں پیارے رات دن دریا رواں
موجزن ہے دل میں یوں تیری محبت رات دن
جب سے تو بچھڑا ہے مجھ سے اے مرے جانِ وفا!
اس گھڑی سے ہوں اسیرِ رنج و کلفت رات دن
جانِ من! تجھ کو جدائی کا الم ہو یا نہ ہو
مجھ کو تڑپاتا ہے پیہم دردِ فرقت رات دن
تو مِرے پہلو میں جب تھا رحمتِ رب عام تھی
اب تو ہے چاروں طرف رقصاں نحوست رات دن
تیرے معمولات میں کوئی تغیر ہو نہ ہو
غیر ہوتی جا رہی ہے میری حالت رات دن
کیا حسیں ایام تھے جب دل کو تھی راحت نصیب
آہ! اب ناساز رہتی ہے طبیعت رات دن
اشک برساتا ہوں پیارے یاد کر کر کے تجھے
ہو گئی ہے اشک ریزی میری عادت رات دن
ختم ہونے کو نہیں آتا غموں کا سلسلہ
ہو گیا ہوں آہ! محرومِ مسرت رات دن
حشر ہوتا ہے بپا دل پر مِرے صبح و مسا
میرے سرپر سے گزرتی ہے قیامت رات دن
دے رہی ہے داد مجھ کو روحِ قیس و کوہ کن
یوں اٹھاتا ہوں مشقت پر مشقت رات دن
اس قدر مجبور ہوں کچھ اور کہہ سکتا نہیں
زیرِ لب کرتا ہوں قسمت کی شکایت رات دن
سامنے یوں تو گزرتی ہیں ہزاروں صورتیں
پر سمائی ہے نظر میں ایک صورت رات دن
دل ہے وہ وحشی کہ سہہ سکتا نہیں غفلت ذرا
اس کی خواہش ہے رہے چشمِ عنایت رات دن
جانِ من! اے کاش تم ہر دم رہو پیشِ نظر
اور ہو فاتح تمھارے پیشِ خدمت رات دن
آج کوئی تبسم کناں نہیں آیا
وہ رشکِ حورِ جناں مہرباں نہیں آیا
بُرے نصیب وہ آرامِ جاں نہیں آیا
میں انجمن میں بھی خود کو اکیلا پاتا ہوں
وہ جانِ بزم، وہ جانِ جہاں نہیں آیا
یہ بزم ہائے مجھے لگ رہی ہے ویراں سی
کہ آج بزم کا روحِ رواں نہیں آیا
اسی لئے تو طبیعت اداس ہے میری
وہ شوخ و شنگ شہِ مہوشاں نہیں آیا
تڑپ رہا ہوں میں اس کے فراق میں کب سے
مسیحا بن کے وہ رشکِ بتاں نہیں آیا
مِری نظر ہے زمانے سے منتظر جس کی
نجانے کیوں وہ حسیں میہماں نہیں آیا
ہر ایک سمت غموں کے مہیب سائے ہیں
کہ آج کوئی تبسم کناں نہیں آیا
کسی کا پیار مجھے آج کھینچ لایا ہے
قسم ہے پہلے کبھی میں یہاں نہیں آیا
جو میرے قلب میں داغوں کے گل کھلاتا ہے
وہ دل کا غنچہ دہن باغباں نہیں آیا
جو دل کی دنیا میں ہر آن جلوہ پیرا ہے
جہانِ قلب کا وہ پاسباں نہیں آیا
ابھی امیدِ وصالِ حبیب ہے فاتح
ابھی بہار ہے عہدِ خزاں نہیں آیا
قطعہ
نہ چُھوٹی عمر بھر جو لعنتِ آوارگی ہم سے
چھڑانا چاہتے ہیں شیخ جی یک بارگی ہم سے
ہماری تو یہ حالت ہے اگر بیمار پڑ جائیں
گلے مل مل کے روتا ہے غمِ بیچارگی ہم سے
حسنِ طلب
یہ آنکھیں بلوریں یہ چہرہ کتابی
یہ لب پتلے پتلے، گلابی گلابی
یہ بل کھاتی زلفیں یہ افشاں شہابی
یہ ڈھلکا ہوا تیرا آنچل سحابی
بپا حشر کرتی ہیں دنیائے دل پر
یہ چالیں غزالی یہ گھاتیں عقابی
ستم ہے غضب ہے یہ پردہ نشینی
ہے عیدِ نظارہ تِری بے حجابی
پلائی ہے جب سے نگاہوں سے تو نے
زمانہ سمجھتا ہے مجھ کو شرابی
سمجھتا ہوں تیری مقدس نشانی
یہ بیتابیِ دل یہ خانہ خرابی
یہی ایک خواہش مچلتی ہے دل میں
عطا ہو سدا عزتِ باریابی
کیفیتِ یاس
مجھے شدت سے ہوتا یہ گماں ہے
نہ دل باقی ہے سینے میں نہ جاں ہے
میں اک تاریک دنیا میں ہوں محصور
نہ تارہ ہے جہاں نہ کہکشاں ہے
یہ دنیا ظلم کی اتنی بڑی ہے
نہ جس کا ہے افق نہ آسماں ہے
یہاں ملتی نہیں ڈھونڈے سے منزل
نہ رستہ ہے نہ کانٹوں سے اماں ہے
نہ پوچھو آہ ! مجھ سے حال اِس کا
یہ آلام و مصائب کا جہاں ہے
ہے اس میں ڈوبتوں کا بچنا مشکل
یہ اک بحرِ عمیق و بے کراں ہے
یہاں فاتح مِرا جینا ہے دوبھر
بہرسُو شورش و آہ و فغاں ہے
قطعہ
چارہ گر بھی فریب دیتے ہیں
درسِ صبر و شکیب دیتے ہیں
مسکراہٹ مجھے نہیں زیبا
اشک ہی مجھ کو زیب دیتے ہیں
غمِ ہجر
کر رہا ہوں رات دن میں آہ کس کی جستجو
کس کی یادیں پی گئیں میرے کلیجے کا لہو
کس کی فرقت میں مسلسل رات دن روتا ہوں میں
اپنے اشکوں ہی سے ہو جاتا ہے اب میرا وضو
کون اپنے یار سے ناراض ہو کے چل دیا
رک گئی کس کے نہ آنے سے صبائے مشک بو
کر رہا ہوں رات دن صبح و مسا کس کو تلاش
پھر رہا ہوں حالتِ دیوانگی میں چارسو
تھا مِرا دلدار جس نے مجھ کو تنہا کر دیا
وہ مِری جانِ تمنا میری جانِ آرزو
چل دیا ناراض ہو کے مجھ سے اک مدت ہوئی
وہ مِرے دل کا سہارا وہ حسین و خوب رو
اس کے رنجِ ہجر میں ایسا ہوا بے حال میں
کچھ نظر آتا نہیں مجھ کو جہانِ رنگ و بو
باوجودِ سعیِ پیہم وہ مجھے ملتا نہیں
پھر رہا ہوں اس کو پانے کیلئے میں کو بہ کو
کاش یاد آتا اسے فاتح وہ پیمانِ وفا
وہ ملاقاتیں وہ باتیں پیار کی وہ گفتگو
تجھے یاد ہو کہ نہ یاد ہو
میں جس سے تجھ کو تکتا تھا وہ روزن یاد ہے مجھ کو
تو جس کی اوٹ لیتی تھی وہ چلمن یاد ہے مجھ کو
تِری ظالم جوانی نے تجھے کتنا بدل ڈالا
تِرا معصوم سا بھولا سا بچپن یاد ہے مجھ کو
ابھی تک یاد ہے تیرا گلے میں ڈالنا بانہیں
ابھی تک چوڑیوں کی وہ چھنا چھن یاد ہے مجھ کو
تجھے بھی یاد ہو گا یا نہ ہو گا میں نہیں کہتا
جہاں ہم کھیلا کرتے تھے وہ آنگن یاد ہے مجھ کو
وہ سنِ لاشعوری میں جہاں سے بے خبر ہو کر
مِرا دلہا تِرا بن جانا دلہن یاد ہے مجھ کو
ہمارے پیار کی سرگوشیاں محفوظ ہیں جس میں
وہ جنت رنگ و نگہت بیز گلشن یاد ہے مجھ کو
وہ میرا چھیڑ دینا پیار کے دلچسپ افسانے
وہ تیرا گوش بن جانا ہمہ تن یاد ہے مجھ کو
محبت کرنے والوں نے جسے آباد کرنا تھا
ابھی تک وہ خیالی سا نشیمن یاد ہے مجھ کو
تجھے بھی یاد ہونا چاہیے اے بھولنے والے!
وفا کرنے کا جو پیمانِ احسن یاد ہے مجھ کو
پچھتاوا
کیا خبر تھی کہ تِری بزم سے جانا ہو گا
ہجر کا زہر بھی اک دن مجھے کھانا ہو گا
میں تصور بھی نہ کر سکتا تھا اک دن مجھ کو
حالِ دل رو کے زمانے کو سنانا ہو گا
میں نے سوچا بھی نہ تھا موت کے ارماں ہوں گے
زندگی میں کبھی اس موڑ پہ آنا ہو گا
میں تھا لا علم کہ یوں آتشِ ہجراں میں کبھی
دلِ مجبور کو ہر وقت جلانا ہو گا
کیسے میں جانتا اے دوست! بچھڑ کر تجھ سے
رات دن شام و سحر اشک بہانا ہو گا
نہ تھا معلوم کہ شدت سے تڑپ جاؤں گا
دل کے جذبے کو کبھی ایسے دبانا ہو گا
یہ گماں تک بھی نہ ہوتا تھا کہ اک دن فاتح
اپنی ناکامی پہ دنیا کو ہنسانا ہو گا
الوداع
اے مِری الفت کے مظہر الوداع
الوداع اے شوخ پیکر الوداع
اے مِری آنکھوں کی ٹھنڈک الوداع
الوداع اے رُوئے انور الوداع
الوداع اے رشکِ یوسف الوداع
حسن کے انمول گوہر الوداع
دائمی غم مجھ کو مل جانے کو ہے
اے مسرت کے پیمبر الوداع
جا رہا ہوں عرض کرتا الوداع
اے جفا کار و ستم گر الوداع
اے مِرے رنگین لمحو الوداع
اے مِری رخصت کے منظر الوداع
آج فاتح جانبِ صحرا چلا
الوداع اے ارضِ اخضر الوداع
قطعہ
ایک افسانہ بھول جاتا ہے
ایک افسانہ یاد آتا ہے
دردِ پیہم ہزار ہیں فاتح
ایک جاتا ہے ایک کھاتا ہے
گیت
اے کاش کسی دن مل جائے ساجن کا ملن سنجوگ ہمیں
وہ نادم ہو بے مہری پر اور کرنے لگے احساسِ وفا
پھر یاد اسے ہم آنے لگیں پھر ہونے لگے اسے پاسِ وفا
وہ خود ہی مداوا آن کرے جو بخش گیا تھا روگ ہمیں
کوئی تو بتا دے کاش اسے ہم اس کے ہجر میں جلتے ہیں
ہر وقت کسی جھرنے کی طرح اکھیوں سے نیر ابلتے ہیں
سب سکھیاں ہم سے روٹھ گئیں اور دیتے ہیں طعنے لوگ ہمیں
اندازہ کسے ہو اس ظالم دنیا میں غمِ تنہائی کا
ہونٹوں پہ تھرکتے ہیں نغمے پر دل میں ہے درد جدائی کا
ہر غم ہے اُسی کا بخشا ہوا اپنا تو نہیں کچھ سوگ ہمیں
ماہیے
کوک آتی ہے کوئل کی
ناراض نہ ہو جانا
گر ہم بھی کہیں دل کی
تنہائی کا عالم ہے
پھر یاد تِری آئی
پھر آنکھ مِری نم ہے
پھر چاندنی رات آئی
پھر بزم سجی دل کی
پھر غم کی برات آئی
بیٹھا تو ہوں محفل میں
ہر شے سے ہوں بیگانہ
اک یاد لئے دل میں
غزلیں
بد قسمت ہے وہ دل جس میں جلوہ فرما سانچ نہیں
سانچ نہیں جس دل میں اس میں نیک اور بد کی جانچ نہیں
دکھ میں کیوں نہ آہیں نکلیں رنج میں کیوں نہ آنسو چھلکیں
دل ہے کوئی سنگ نہیں ہے آنکھ ہے کوئی کانچ نہیں
زخم ہمارے گن کر پیارے کیوں تکلیف اٹھاتے ہو
ایک نہیں دوتین نہیں ہیں چار نہیں یہ پانچ نہیں
دل والے تو پیار کا ساگر تیر کے پار کیا کرتے ہیں
اس دریا میں کوئی کشتی کوئی موٹر لانچ نہیں
دیکھا تو سچ بولنے والے دار کا جھولا جھول رہے تھے
سنتے تو آئے تھے فاتح سانچ کو کوئی آنچ نہیں
قطعہ
تِرا غازہ ان پہ ہے پاسباں
تِرے گال چھونا محال ہے
تِرے ہونٹ چوسوں میں کس طرح
تیری لپ سٹک کا خیال ہے
جب سے میری انجمن سے وہ گلِ کم سِن گیا
آہ ! دل سے مایۂ صبر و سکینت چھن گیا
آنکھ بھی جھپکی نہ تھی کہ ہجر کی شب آ گئی
اف خدایا کتنی جلدی وصل کا یہ دن گیا
اشک برساتی ملی ہر قطرۂ شبنم کی آنکھ
باغ میں جب اے مِرے محبوب میں تجھ بن گیا
وائے محرومی! کہ تو بھی آج بیگانہ بنا
غیر ممکن جو نظر آتا تھا ہو ممکن گیا
جان اپنی ہو گئی بے جاں کمالِ درد سے
پر نہ سر سے سایۂ ہجرِ سیہ باطن گیا
خودبخود ہی ٹوٹ کر گر جائیں گے سارے صنم
جب صنم خانے میں ہم سا بندۂ مومن گیا
سوگواری کی فضا دیوار و در پر ہے محیط
انجمن سے آہ! جب سے فاتحِ محسن گیا
مِری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
وفا تجھ سے اے بے وفا چاہتا ہوں
کرم تیرا اے تیغ زن چاہتا ہوں
عطا تیری اے خود ستا چاہتا ہوں
ابھی وقت باقی ہے تدبیر کر لے
کہ دیوانہ تیرا بنا چاہتا ہوں
مِرے یار اک بار تو ہو بھی جاؤ
کہ بچنا ہے مشکل مَرا چاہتا ہوں
تِرا ہجر نارِ جہنم سے ظالم
تِرا وصل اے دل ربا چاہتا ہوں
ہمیشہ تِری ان اداؤں کو پیارے
نگاہوں میں جلوہ نما چاہتا ہوں
مِرا خونِ دل اپنے ہاتھوں پہ مل لے
کہ میں ان پہ رنگِ حنا چاہتا ہوں
کرے آ کے فاتح جو دکھ میرے ہلکے
کوئی ایسا غم آشنا چاہتا ہوں
مرض بڑھ نہ جائے شفا چاہتا ہوں
دلِ مضطرب کی دوا چاہتا ہوں
مِرے دل پہ ہے یاس کی رات چھائی
یہاں آس کی کچھ ضیا چاہتا ہوں
کبھی انتہائے مسرت کی خواہش
کبھی رنج کی انتہا چاہتا ہوں
برستے رہیں اس پہ نظروں کے پیکاں
کہ دل اپنا کرنا فدا چاہتا ہوں
مجھے اہلِ دنیا برا کہہ رہے ہیں
کہ دشمن کا اپنے بھلا چاہتا ہوں
مِرا یار ہر دم مِرا ہم نفس ہو
فقط اس قدر اے خدا چاہتا ہوں
یہی آرزو ہے نہ جائیں وہ فاتح
اُنہیں روبرو رونما چاہتا ہوں
یاس و غم کے مہیب سائے ہیں
دل پہ جو صبح و شام چھائے ہیں
خود ستاؤ! ستاؤ تم نہ ہمیں
ہم پریشاں ہیں جگ ستائے ہیں
اتنے غیروں سے دکھ نہیں پائے
جتنے اپنوں سے درد پائے ہیں
ہم کسی کو فریب دے نہ سکے
خود ہمیشہ فریب کھائے ہیں
سیم و زر سے تو ہاتھ ہیں خالی
درد فاتح بہت کمائے ہیں
زخمِ دل جو تمھیں دکھائے ہیں
کچھ تو اپنے ہیں کچھ پرائے ہیں
باقی سب کچھ لٹا چکے ہیں ہم
چند آنسو ہیں جو بچائے ہیں
سازِ دل اس کا توڑ ڈالا گیا
جس نے الفت کے گیت گائے ہیں
برق ہو گی نہ کار گر اِن پر
ہم نے جو آشیاں بنائے ہیں
جو سدا ضو فشاں رہیں فاتح
ہم نے ایسے دیئے جلائے ہیں
نہ بجھ اے شمع کھو جائے گی یہ تابندگی تیری
تِرے پیہم جلے جانے میں ہے پائندگی تیری
کھِلا جاتا ہے تو اے غنچۂ گل کس تغافل سے
تجھے معلوم بھی ہے چار دن ہے زندگی تیری
وصالِ یار بھی تجھ کو میسر ہو چکا اب تو
دلِ وحشی مگر جاتی نہیں جوئندگی تیری
تجھے میں وعدہ شکنی پر ملامت تو کروں ظالم
نہ دیکھی جائے گی مجھ سے مگر شرمندگی تیری
سخن دانِ جہاں حیران و ششدر رہ گئے فاتح
سپہرِ شعر پر یوں چھا گئی رخشندگی تیری
وہ زاہدوں کے پاس ہے نہ واعظوں کے پاس
ملتا ہے کچھ خلوص بھی تو مے کشوں کے پاس
درماں کرے گا درد کا وہ یارِ دل شناس
میری دوائے دل نہیں چارہ گروں کے پاس
رہتے ہیں دور دور ہی طالب سرور کے
آتا ہے درد مند کوئی غم زدوں کے پاس
تم دے سکو تو آسرا کافی ہے یہ ہمیں
آ بیٹھا کیجئے ذرا بے آسروں کے پاس
اک دل ہے اور وہ بھی ہے زخموں سے چور چور
رکھا ہے اور کیا بھلا ہم بے کسوں کے پاس
تم دو گے داد پھر میرے صبر و شکیب کی
رہنا پڑے اگر تمھیں بھی ناصحوں کے پاس
رنج و سرور یہ تو ہیں باتیں نصیب کی
کچھ دشمنوں کے پاس ہے نہ دوستوں کے پاس
پاؤں فگار پیرہن ٹکڑے بدن پہ دھول
ہیں کیسی کیسی ندرتیں اہلِ جنوں کے پاس
فاتح نہ ہوں گے آسماں پہ اس قدر نجوم
ہوتے ہیں جتنے درد و غم ہم عاشقوں کے پاس
ہواؤں میں تِرے نغمے سنائی دیتے ہیں
خلاؤں میں تِرے جلوے دکھائی دیتے ہیں
علاج تلخیِ ہجراں کا جس سے ممکن ہو
طبیب ایسی بھی کوئی دوائی دیتے ہیں
نہ فصلِ گل ہے نہ جوشِ جنوں نہ اُن کا پتہ
رہا ہے کیا جو ہمیں اب رہائی دیتے ہیں
نہ جانے کیوں ہے فلک اس قدر جفاپرور
نئے ستم اسے ہر دم سجھائی دیتے ہیں
کبھی تو ہو گی نگاہِ کرم ادھر فاتح
خدا کی شام و سحر ہم دُہائی دیتے ہیں
کاش دو دن میری قسمت میں سویرا ہوتا
ختم کچھ تو یہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہوتا
سوچتا ہوں کہ شرافت نے مجھے مارا ہے
کوئی ڈاکو کوئی بے رحم لٹیرا ہوتا
پھرتا بے خوف و خطر سانپ بغل میں دابے
کوئی جوگی کوئی مشاق سپیرا ہوتا
شہر کی شورش و ہنگامہ سے گھبراتا ہے دل
کسی خاموش سی وادی میں بسیرا ہوتا
اپنا کہہ سکتا کسی کو تو زمانے بھر میں
اس بھری دنیا میں یا رب کوئی میرا ہوتا
لب پہ آتی ہے دعا تیرا مقدس آنچل
دل کی افواجِ تمنا کا پھُریرا ہوتا
میں تو بد نام ہوا خیر کوئی بات نہیں
کاش بدنام یہاں نام نہ تیرا ہوتا
ذہن میں آیا تصور شبِ تنہائی کا
تو نے زلفوں کو نہ چہرے پہ بکھیرا ہوتا
قلبِ فاتح کی ہمیشہ سے یہی خواہش ہے
سایۂ ابرِ وفا اور گھنیرا ہوتا
دل میں جوں جوں عکس اس کا مستقل ہوتا گیا
عشق و الفت کا شرارہ مشتعل ہوتا گیا
رفتہ رفتہ مجھ کو اس کی یاد تڑپانے لگی
دل پریشان و ملول و مضمحل ہوتا گیا
جیسے جیسے میں نے چھیڑا قصۂ دردِ فراق
سنگدل اپنے کئے پر منفعل ہوتا گیا
اس کی اک نظرِ کرم کی دیر تھی جب ہو گئی
ہوتے ہوتے زخمِ دل بھی مندمل ہوتا گیا
اصل میں فاتح جوانی بیتنے کے ساتھ ساتھ
یہ مزاجِ تند خو بھی معتدل ہوتا گیا
اس جہاں میں اے مِرے پیارے تِرا ثانی کہاں
چاند سورج میں تِرے چہرے کی تابانی کہاں
اب یہ حالت ہے کہ خودکو بھی بھلا بیٹھا ہوں میں
مجھ کو لائی تیری الفت کی فراوانی کہاں
اب تو ہوتی ہیں ملاقاتیں بڑی مدت کے بعد
اب شرابِ وصل میں پہلی سی ارزانی کہاں
ہو چکا ہے آہ! وقفِ بے قراری رات دن
چین پاتا ہے تِری الفت کا زندانی کہاں
ہے مجھے ہر آن تیری ہی تلاش و جستجو
تو ملے گی اے مِرے دل کی حسیں رانی کہاں
ہر قدم پر پیش آتی ہیں یہاں دشواریاں
اے مِرے پیارے رہِ الفت میں آسانی کہاں
اب کہاں پہلا سا جذب و شوق باقی تجھ میں ہے
اب مِرے بحرِ تمنا میں وہ طغیانی کہاں
حاشیہ آرائیاں اس کو طوالت دے گئیں
ورنہ میری داستاں تھی اتنی طولانی کہاں
تو مِری دانست میں ہے فاتحِ شہرِ سخن
ہے مقابل تیرا اے تلمیذِ رحمانی کہاں
خوش آئی ہے مجھے کچھ یوں رہِ دیوانگی یارو
کہ مجھ سے چھٹ گیا ہے مسلکِ فرزانگی یارو
نہ دامان و گریباں چاک ہے نہ سربخوں میں ہوں
کہ ذی صبر و تحمل ہے مِری دیوانگی یارو
جہاں سے مجھ کو بھی ہونا پڑا ہے آہ! بیگانہ
جہاں کی دیکھ کر بے مہری و بے گانگی یارو
زمانے میں بہرسو عام شہرت ہو گئی میری
جنوں میں ایسا نکھرا جوہرِ دیوانگی یارو
اگرچہ طائرِ آزاد کی مانند ہے فاتح
رلاتی ہے اسے پھر بھی کبھی بے خانگی یارو
کس قدر دلکش ہے یہ سرو و سمن کا اجتماع
طائرانِ خوش نما و خوش دہن کا اجتماع
دے رہا ہے دعوتِ احساس و نظارہ مجھے
لالہ و نرگس، گلاب و نسترن کا اجتماع
پیش کرتے ہیں طیورِ خوش نوا اپنا کلام
منعقد ہے شاعرانِ خوش سخن کا اجتماع
سن رہے ہیں مجھ سے وہ تعریف حسنِ یار کی
ہے مِرے چاروں طرف اہلِ چمن کا اجتماع
دیکھئے ہوتی ہے کس کی کامیابی کس کی ہار
ایک میں ہوں اور ہے رنج و محن کا اجتماع
میں جو سرگرمِ عمل ہوں زورِ باطل کے خلاف
ہے مِرا دشمن سگانِ اہرمن کا اجتماع
کثرتِ اعدا کی فاتح کچھ نہیں پروا مجھے
کیا کرے گا باز کا زاغ و زغن کا اجتماع
مجھ سے ناراض و خفا ہو کے نہ جاؤ ناحق
مجھ پریشاں کا دکھی دل نہ دکھاؤ ناحق
میں ہی کافی ہوں تمھیں ، ماہ لقا ! اوروں کو
ہدفِ ناوکِ مژگاں نہ بناؤ ناحق
وہ جو مخلص ہے، فدائی ہے وفا پیشہ ہے
بے وفا بن کے اسے تم نہ ستاؤ ناحق
دیکھو تبدیل کرو سخت رویہ اپنا
اپنے عاشق پہ نہ یوں رعب جماؤ ناحق
میں کہ طالب ہوں مئے وصل کا تم سے پیارے
تم مجھے زہرِ جدائی نہ پلاؤ ناحق
ہو سکے تم سے اگر پیار سے دیکھو پیارے
اپنے مجذوب کو آنکھیں نہ دکھاؤ ناحق
دشمن و دوست سبھی کہتے ہیں فاتح مجھ کو
تم نہ مفتوح مجھے کہہ کے بلاؤ ناحق
دلِ خاموش تپِ ہجر میں جل جاتا ہے
تو دھواں آہ کی صورت میں نکل جاتا ہے
صید مقتل کی طرف دیکھئے کس مستی میں
کوئی سر کے تو کوئی پیٹ کے بل جاتا ہے
کس طرح کیجئے ظالم سے جفا کا شکوہ
لب جو ہلتے ہیں تو وہ شوخ مچل جاتا ہے
ظلم سہہ سہہ کے ہوا ہوں میں جفا نوش ایسا
کہ ستم ہی سے مِرا حال سنبھل جاتا ہے
عزم و ایمان و عمل سے ہو مسلح انساں
کوئی طوفانِ بلاخیز ہو، ٹل جاتا ہے
سخت مشکل ہے سلامت روی واللہ باللہ
اک نہ اک موڑ پہ انسان پھسل جاتا ہے
پھر بھی آتی ہے اسے چھیڑ کے لذت فاتح
گو سدا رنگِ رخِ شوخ بدل جاتا ہے
الفت و مہر ہے اپنوں میں نہ بیگانوں میں
کچھ سکوں ملتا ہے شہروں میں ، نہ ویرانوں میں
آج تک مل نہ سکا تھا جو گلستانوں میں
ہم نے پایا ہے وہ آرام بیابانوں میں
باقی ہر چیز ہے موجود نمائش کیلئے
آدمیت ہی کا فقدان ہے انسانوں میں
اب نہ وہ جرأتِ رندانہ ہے ان میں نہ خلوص
یوں تو ملتے ہیں بہت رند قدح خانوں میں
ٹمٹماتا ہے یہاں یوں میری ہستی کا چراغ
خستہ جاں جیسے پڑا ہو کوئی بے جانوں میں
دل کہ مشتاق شناور تھا یمِ الفت کا
گھر چکا ہے اب اسی بحر کے طوفانوں میں
آمدِ یار ہے یا آمدِ فصلِ گل ہے
ایک ہلچل سی بپا ہے میرے ارمانوں میں
حریت جوشِ جنوں اور بڑھا دیتی ہے
جائے آرام ہے اپنے لئے زندانوں میں
عقل والوں کو خوش آتا نہیں فاتح لیکن
دیکھا جاتا ہے بڑی قدر سے دیوانوں میں
اے دوست جس کی ذرہ بھر پروا نہیں تجھے
وہ شخص آج روز تک بھولا نہیں تجھے
اس کے نفس نفس میں ہے تیری حسین یاد
بھولے سے یاد جو کبھی آتا نہیں تجھے
ہر چند کہ فریب ہی کھائے ہیں بار بار
مجھ سادہ لوح نے ابھی جانچا نہیں تجھے
ہر زخم قلبِ زار کا جھٹلائے گا مجھے
میں کیوں کہوں کہ عادتِ ایذا نہیں تجھے
یہ تو روش ہے سارے زمانے کی آج کل
الزامِ بے وفائی میں دیتا نہیں تجھے
یوں تو بہت ہیں چاہنے والے تِرے مگر
میری طرح کسی نے بھی چاہا نہیں تجھے
کس نے تِری نگاہ کو ساغر بنا دیا
میں نے اگر نکھار یہ بخشا نہیں تجھے
اُڑ کر نشیبِ ارض سے اوجِ سپہر تک
میں نے یہاں وہاں کہاں ڈھونڈا نہیں تجھے
بدنام کر کے رکھ دیا اس نامراد نے
شکوہ ہمارے عشق سے بے جا نہیں تجھے
تشبیہ جس نے دی تجھے پھولوں سے چاند سے
اس ناشناس نے ابھی سمجھا نہیں تجھے
دنیا کو جانتے ہیں جو ویراں اے گل بدن!
شاید انھوں نے جلوہ گر دیکھا نہیں تجھے
اے دل کسی کے پیار کا مطلق نہ بن امین
صبر و شکیب کا اگر یارا نہیں تجھے
عشق و وفا کا نام کیوں لیتا ہے تو یہاں
فاتح اگر جنوں نہیں سودا نہیں تجھے
چلو یارو صراطِ عشق پر آہستہ آہستہ
کہ طے ہوتا ہے یہ مشکل سفر آہستہ آہستہ
حضورِ حسن میں تیزی نہیں چلتی نہیں چلتی
پیام ان کو سنانا نامہ بر آہستہ آہستہ
انھیں بوچھاڑ سے نفرت ہے رم جھم ان کو بھاتی ہے
بہا آنسو مگر اے چشمِ تر آہستہ آہستہ
نہ ہو تو اس قدر مایوس اے میرے دلِ ناداں
مِرے حالات جائیں گے سنور آہستہ آہستہ
مجھے بخشا ہے جو غم آپ نے اس غم کی برکت سے
ہوئے جاتے ہیں سب غم بے اثر آہستہ آہستہ
یقینا گوشِ دل سے آپ نے بھی سن لیا ہو گا
پکارا جب کسی نے رات بھر آہستہ آہستہ
شرابِ وصل سے مجھ کو نہ رکھ محروم اے ساقی!
بڑھا جاتا ہے میرا دردِ سر آہستہ آہستہ
فقط میں خوگرِ جور و جفا ہی رہ گیا باقی
چھُٹے سب سے تِرے دیوار و در آہستہ آہستہ
یہ مر مر کر مِرا جینا یہ جی جی کر مِرا مرنا
ہوا جاتا ہوں یونہی میں اَمر آہستہ آہستہ
تِرے ناراض ہو جانے کا ڈر جب سے مسلط ہے
ہوئے اس دل سے رخصت سارے ڈر آہستہ آہستہ
کسی آزاد کو یکسر جکڑ لینا نہیں اچھا
اگر پابند کرنا ہے تو کر آہستہ آہستہ
کوئی شاداں کوئی گریاں کوئی حیراں نہ ہو جائے
مجھے بے شک برُا کہئے مگر آہستہ آہستہ
اسیرِ حلقۂ گیسو ہوئے ہیں جب سے ہم فاتح
ملی ہے خاک میں سب کرّو فر آہستہ آہستہ
دور ہو لعنتِ افلاس تو کچھ بات بنے
ہاتھ آئے زر و الماس تو کچھ بات بنے
یونہی ملتے نہیں نادار کو سیمیں پیکر
ہو زر و سیم اگر پاس تو کچھ بات بنے
اس کے باوصف کہ محرومی و ناکامی ہے
دل میں موجود رہے آس تو کچھ بات بنے
خوفِ رسوائی بھی ہے خدشۂ تنہائی بھی
دور ہوں دل سے یہ وسواس تو کچھ بات بنے
ہجر کے رنگ میں جو یار نے بخشا ہے مجھے
دل کو آ جائے وہ غم راس تو کچھ بات بنے
کیا گزرتی ہے جدائی میں دلِ عاشق پر
اُس کو ہو جائے یہ احساس تو کچھ بات بنے
شمعِ امید فروزاں رہے دل میں فاتح
ختم ہو سلسلۂ یاس تو کچھ بات بنے
نہ مائل کر سکا حسنِ بتانِ آزری یارب
مِرا دل لے گیا تیرا کمالِ بت گری یارب
جسے تو نے عطا کی ہے ادائے دلبری یارب
اسے اے کاش دی ہوتی نہ اتنی خود سری یارب
بتا اپنا بنائیں کس طرح ہم اُس جفا جو کو
اگر ہے واجبِ تعزیر سحرِ سامری یارب
دلِ بے تاب کو یا تو سکون و کیف مل جائے
ملے یا پھر مِرے خوابوں کی وہ نیلم پری یارب
تِری رحمت کو اب کے جوش کیوں آتا نہیں آخر
بتا کیا دیکھی جاتی ہے ہماری لاغری یارب
تِرے درویش بندوں کو جہاں ادنیٰ سمجھتا ہے
یہاں تو مال و دولت ہے عیارِ برتری یارب
فرشتے دنگ ہوں گے صوفیا کو رشک آئے گا
جبینِ سجدہ سا ہم نے زمیں پر جب دھری یارب
دلِ فاتح سے جو شاخِ تمنا پھوٹ نکلی تھی
خزاں مرنے کو ہے لیکن ابھی ہے وہ ہری یارب
ہم کیا بتائیں دہر میں کیا کیا کیا کئے
بس دل کا اک نگاہ سے سودا کیا کئے
کس منہ سے ہم بتائیں ، وہ ناراض ہو گیا
جس بے وفا کی عمر بھر پوجا کیا کئے
وہ شخص ایک عہد بھی ایفا نہ کر سکا
ہر عہد جس سے ہم سدا ایفا کیا کئے
اک سمت ہم تھے نقشِ کفِ پا بنے رہے
اک سمت وہ تھے حشر سا برپا کیا کئے
رکھ لینا اس پہ پنبہ و مرہم تو درکنار
وہ زخمِ دل کو اور بھی گہرا کیا کئے
ایسوں پہ کس طرح کریں ہم اعتبار دوست!
جو لوگ اپنے آپ سے دھوکا کیا کئے
میں نے جنھیں بھی راز داں اپنا سمجھ لیا
وہ میرے راز ہر جگہ افشا کیا کئے
بھولے سے بھی نہ لی میرے احباب نے خبر
اغیار میرے قتل کا چرچا کیا کئے
مجبور کر سکے نہ مجھے ترکِ عشق پر
دنیا کے لوگ جس قدر رسوا کیا کئے
ہم نے تِرے خیال میں خود کو بھلا دیا
تیرے لئے ہی منتِ اعدا کیا کئے
اک ہم ہی تیری بزم میں محروم رہ گئے
سب لوگ نوش ساغرِ صہبا کیا کئے
ہم پاگلوں کی کاوشِ بے کار دیکھنا
پانی کو اور آگ کو یکجا کیا کئے
فاتح سخن کے خوش نما سانچے میں ڈھال کر
ہم علم کے حسیں گہر پیدا کیا کئے
صبا جتنی چلے پھولوں کی نکہت کم نہیں ہوتی
کبھی لمبی ملاقاتوں سے الفت کم نہیں ہوتی
کوئی نیک و شریف انساں کو کتنا ہی برا کہہ لے
مگر اس نیک بندے کی شرافت کم نہیں ہوتی
قلم ہو کر کسی عابد کا سر نیزے پہ چڑھ جائے
مگر اس نیک بندے کی عبادت کم نہیں ہوتی
مقابل میں بہادر ایک کے جتنے بھی ہوں دشمن
مگر اس مردِ آہن کی شجاعت کم نہیں ہوتی
ہزاروں زخم آجائیں رضائے یار میں چل کر
پرُاستقلال عاشق میں محبت کم نہیں ہوتی
تجھے جتنے بھی کتے دور سے بھونکا کریں فاتح
نہ کر کچھ فکر اس سے تیری عزت کم نہیں ہوتی
چَو گرد اہلِ حسن کے یوں بوالہوس ملے
رس چوسنے کو باغ میں جیسے مگس ملے
یہ حسنِ دل نواز یہ اندازِ جاں گداز
یا رب ملے تو ایسا ہی اک ہم نفس ملے
دیکھا کئے تمام شب پھولوں کے خواب ہم
کھولی جو آنکھ چاروں طرف خار و خس ملے
گاتے ہیں گیت سب تیرے انصاف و عدل کے
کچھ اجر و داد ہم کو بھی اے داد رس ملے
وہ بھی تفکرات و مصائب میں کٹ گئے
دو چار جو شباب کے ہم کو برس ملے
فاتح سنا ہے باغ میں جشنِ بہار ہے
اے کاش کچھ فراغتِ قیدِ قفس ملے
دلِ ناداں فغان و نالہ و فریاد رہنے دے
یہ دنیا ہے یہاں شوقِ حصولِ داد رہنے دے
ضروری تو نہیں سب ایک جیسے ہوں زمانے میں
اُنھیں آباد رہنے دے مجھے برباد رہنے دے
عدم کی فکر کر ہر دم وہی تیرا ٹھکانہ ہے
ارے ناداں ، یہ اُنسِ عالمِ ایجاد رہنے دے
غضب کا لطف دیتی ہے خلش اس کی چبھن اس کی
خدارا میرے دل میں تیر اے جلاد رہنے دے
حصول و حفظِ آزادی کے قابل مَیں نہیں جب تک
مجھے اس وقت تک پابند اے صیاد رہنے دے
نہ کر کوشش مجھے تو شاد کرنے کی مِرے ہمدم
کہ میں ناشاد اچھا ہوں مجھے ناشاد رہنے دے
جہاں میں اے فلک تقسیم کر دے راحتیں ساری
مِری خاطر زمانے بھر کی ہر افتاد رہنے دے
اگر تو سیکھنا چاہے ہنر تصویر سازی کا
تو مجھ سے سیکھ طرزِ مانی و بہزاد رہنے دے
سنا اے داستاں گو! داستانِ حضرتِ فاتح
حدیثِ عشقِ قیس و وامق و فرہاد رہنے دے
جاں بخش ہونٹ، عنبریں گیسو لئے ہوئے
آ دوست! میرے درد کی دارو لئے ہوئے
ظلمت میں گھر چکا ہوں میں آ دیکھ تو سہی
روشن جبین و دیدۂ آہو لئے ہوئے
میں بے قرار ہوں تیرے ملنے کو اے حبیب!
آ جا! ہلالِ عید سا ابرو لئے ہوئے
ہے جن کا لمس راحتِ جاں میرے واسطے
آ جا وہ نرم گرم سے بازو لئے ہوئے
ٹوٹے طلسم درد کا جس کے کمال سے
آ جا، وہ اپنے حسن کا جادو لئے ہوئے
آ! اس پہ محوِ خواب ہو تیرا سرِ جمال
بیٹھا ہوں کتنی دیر سے زانو لئے ہوئے
یادوں کو تیری اور بھی بھڑکا گئی شمیم
آئی جو تیرے جسم کی خوشبو لئے ہوئے
ہائے غمِ فراق بھی کتنا شدید ہے
بیٹھا ہوں کب سے آنکھ میں آنسو لئے ہوئے
دل کے شدید درد نے پاگل بنا دیا
پھرتا ہوں روز ہاتھ میں پہلو لئے ہوئے
سودائے دل کا قدر داں ملتا نہیں کہیں
گھوما کیا ہوں میں اسے ہر سو لئے ہوئے
فاتح سخن کے ملک میں کرتا ہوا جہاد
بڑھتا رہوں گا پرچمِ اُردو لئے ہوئے
قافیہ تنگ مِرا رنج و الم کرتے ہیں
آہ! پھر نالے میرا ناک میں دم کرتے ہیں
میں اٹھا سکتا ہوں اے دوست کہاں تک ان کو
آپ مجھ پر جو مسلسل یہ ستم کرتے ہیں
تم بھی کیا ہم کو کبھی یاد کیا کرتے ہو
ہر شب و روز تمھیں یاد جو ہم کرتے ہیں
تیرے جلوؤں کی نمائش کے نظارے کیلئے
دل کے آئینے کو ہم ساغرِ جم کرتے ہیں
تو گنہگار سمجھتا ہے ہمیں تو ہم بھی
سرِتسلیم تِرے سامنے خم کرتے ہیں
گو سمجھتے ہیں کہ تو ہم سے ہے ناخوش لیکن
پھر بھی ہم تجھ سے تمنائے کرم کرتے ہیں
پھول داغوں کے ہیں نہریں ہیں جہاں اشکوں کی
ہم بھی تعمیر نیا ایک ارم کرتے ہیں
کتنے نادان ہیں ہنس ہنس کے اڑا دیتے ہیں
ہم جو رندوں میں کبھی ذکرِ عدم کرتے ہیں
دشمنی ہم سے روا رکھتے ہیں دنیا والے
ہم حق و عدل کا اونچا جو علَم کرتے ہیں
ہر ریاکار کو سردار بنا لیتے ہیں
ہر وفادار کا سر لوگ قلم کرتے ہیں
اس میں ہو جاتا ہے کچھ اور اضافہ یارو
ہم اگر تلخیِ ایام کو کم کرتے ہیں
زندگی بھر تو جہاں والے جفاکار رہے
اب سنا ہے میرے مرنے کا وہ غم کرتے ہیں
لوگ دل تھام کے کہتے ہیں بتا دیں فاتح
شعر کیوں درد بھرے آپ رقم کرتے ہیں
٭٭٭
تشکر: جلیل حیدر لاشاری جن کے توسط سے فائل فراہم ہوئی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید