FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

موتبر کی باڑی

اسد محمد خاں

 

باڑھ آتی تو سمندر کا پانی سَلایہ گاؤں کے ٹخنوں تک آ جاتا۔ گھونگھے، سیپیاں، آبی گھاسوں کے اُلجھے ہوے لچّھے، بے گنتی کیکڑے، پچاسوں قسم کے جیو جانور اور مچھلیاں۔۔  اَور بھی بڑے کام کی چیزیں جوار میں چلی آتیں۔ پھر بھاٹے کے ساتھ ہی چُننے والوں کے مزے آ جاتے __ یعنی اگر چُننے والے کہیں ہوتے تو ان کے مزے آ جاتے۔

            سمندر ان سب کام کی چیزوں کو سلایہ گاؤں کے پیروں میں ڈال کے ہٹ جاتا۔ پھر جو کچھ بھی جس کو بھلا لگتا، اُٹھا لیتا۔۔  مگر وہی بات ہے کہ کوئی ہوتا تب نا۔ سلایہ میں تو بہت ہی کم آدمی تھے اور انھیں سمندر کی لائی ہوئی چیزوں کی زیادہ پروا بھی نہیں تھی۔

            ہاں آبی پرندوں کو تھی۔ آبی پرندے سلایہ میں گھر والوں کی طرح آتے جاتے رہتے۔ جوار کے وقت اگر وہ کہیں دور ہوتے تو پانی کے اُترتے ہی چیختے، کلکاریاں مارتے، سیٹیاں بجاتے سلایہ گاؤں میں آ جاتے۔ اور صرف یہیں کیوں؟ دور دور تک، میلوں تک، رن کے پورے پھیلاؤ میں سَنسَناتی پھرتیں یہ سِی گلز اور مٹّی پانی کی سب چڑیاں۔ دوسرے ملک کی سرحدوں میں گھس جاتیں، پھر اِدھر آ جاتیں، پھر اُدھر چلی جاتیں۔

            تو پرندے برابر آتے جاتے رہتے تھے۔ انھیں روکنا نہ اِس طرف کے رینجروں، تپک برداروں کے بس میں تھا، نہ اُس طرف والوں کے۔

            پرندوں کے ساتھ یہی رہتا ہے۔

            اور آدمی کا یہ ہے کہ وہ پرندہ نہیں ہوتا۔

            پانی کے اندر اور پانی کے باہر چوکیاں بنائے بیٹھوں ہؤوں کے، اور طرح طرح کی ایمفیبئین گاڑیوں، اسپیڈ بوٹوں میں بیٹھے ہؤوں کے، نہ تو بس میں تھا چڑیوں کو روکنا اور نہ انھیں  کوئی ضرورت تھی کہ وہ روکتے۔

            اور ضرورت کا یہ ہے کہ آدمی سے آدمی تک ضرورتیں بدلتی رہتی ہیں۔

            اِدھر کے رینجروں، تپک برداروں کو اُدھر والوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، سوا اس کے کہ وہ اپنی دوربینوں سے اندھیرے میں یا پانی کی چمک میں دوسری گاڑیوں کو جاتے آتے دیکھتے تو فائر کھول دیتے۔ پھر اُدھر سے جواب آتا اور یہ جواب کا جواب دیتے رہتے۔۔  جب تک جی کرتا۔ کبھی بھی، دن میں، رات میں، جوار میں، اُتار میں یہ سب ہوتا تھا، ہوتا رہتا تھا۔ ہاں کبھی جو اسمگلر بیچ میں پڑتے تو کچھ طے جیسا ہو جاتا اور اِدھر اُدھر کے فائدے کی کوئی بات چل نکلتی اور دھیرج سے سوچ بچار کر کے وہ لوگ اسمگلروں کو آنے جانے دیتے اور اِدھر اُدھر دونوں طرف کے مزے آ جاتے۔ مگر یہ سب بہت ہوشیاری سے کیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی ایسا بالکل بھی نہ ہو پاتا۔ اس میں سلایہ گاؤں والوں کا زپٹادہ کچھ بیچ نہیں تھا۔ ان کے ہاتھ میں کچھ تھا ہی نہیں۔ مطلب رینجروں، تپک برداروں، معتبروں، پولیس والوں کے چاہے سے جتنا انھیں ملنا ہوتا مل جاتا ورنہ وہ سب تو یہ گاؤں چھوڑ کے برسوں پہلے نکل گئے ہوتے۔ کاہے کو پڑے رہتے یہاں؟ گھونگھوں، سیپیوں، آبی گھاسوں، فضول مچھلیوں اور جیو جانوروں پر ہمیشہ کون گزارا کر سکتا ہے؟

            اس بات سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ سلایہ کوئی اسمگلروں کا گاؤں تھا۔ نہ۔ یہ سبھی کا تھا۔

            ٹیلر ماشٹر کا بھی۔

            دراصل ٹیلر ماشٹر  سلایہ کے پہلے معتبروں میں سے تھا۔ اُس نے دوسری جنگ عظیم میں انگریزوں سے فوجی وردیوں کے بہت بڑے بڑے ٹھیکے لیے تھے اور سلایہ میں (خبر نہیں یہیں کیوں) لاکھوں روپے کے خرچ سے سرخ گرینائٹ کی بڑی شان دار حویلی بنوائی تھی جو باڑی کہلاتی تھی۔ ٹیلر ماشٹر کا نام جب علاقے کے معبتروں کی فہرست میں ٹانک لیا گیا اور باڑی میں رینجر اور پولیس کے افسر آ آ کے ٹھہرنے اور مرغ کٹوا کٹوا کے کھانے لگے تو اندازے سے کہیں زیادہ  مالدار ٹیلر ماشٹروں کی اس حویلی کو پولیس والوں نے معتبر (یا موتبر) کی باڑی کہنا اور لکھنا  شروع کر دیا۔

            اصل ٹیلر ماشٹر انگریزوں کے چلے جانے سے پہلے ہی مر گیا تھا۔ اس کا بیٹا کسی بڑے جنگی شہر میں اب سلے سلائے کپڑوں کا کارخانہ کھولے بیٹھا تھا، اور کیوں کہ وہ بھی بہت بوڑھا ہو گیا تھا اس لیے اس نے اپنے دو بیٹوں کو بھی سلایہ سے بلا لیا تھا اور آرام سے کارخانہ چلا رہا تھا۔ افریقہ میں کسی جگہ اس کا تیسرا بیٹا موجود تھا جو کارخانے کا مال اَور بھی دور دور بھیجتا تھا۔ سلایہ گاؤں کی اس سنگین تین منزلہ باڑی کو کارخانے والے ماشٹر کا بھانجا چلا رہا تھا۔ بھانجے نے مشہور کر رکھا تھا کہ وہ (جنگ عظیم دوم والے) اصل ماشٹر کا پوتا ہے، حالاں کہ وہ صرف اس کا نواسہ تھا۔ سلایہ سے بڈھے ماشٹر اور اس کے بیٹوں کے دور دور رہنے کی وجہ سے اسی بھانجے ماشٹر کو "موتبر” لکھا اور پکارا جاتا تھا۔ رینجروں، تپک برداروں، پولیس والوں کے سب اُجلے گندے کام یہی کرتا کرواتا تھا۔ وہ حویلی کی تیسری منزل سے بھی اوپر لک آؤٹ کی طرح بنے ایک کمرے میں رہتا تھا۔ شاید اسے وہاں سے سمندر کا پانی چڑھتا اُترتا دکھائی دے جاتا ہو گا۔

            گندھی کے بیٹے اور اس کی معشوقہ آلی کو سلایہ گاؤں کی طرف چوری چھپے آتے ہوے سب سے پہلے اسی نے دیکھا تھا۔

            لیکن گندھی کے بیٹے اور اُس کی معشوقہ کے بارے میں تو ابھی آپ کچھ نہیں جانتے۔

            بتاتا ہوں۔

            گندھی کا بیٹا دکان دار تھا، کوئی راج پوت، بامن نہیں تھا، مگر اپنے حسابوں اس نے بڑا دلیری کا کام کیا تھا، یعنی لڑکی کو بھگا لایا تھا، اس لیے جب سلایہ میں اسے دھر لیا گیا تو اس نے  پریٹنڈ کیا کہ وہ کھتری ہے اور اس کا نام ساون سنگھ راٹھوڑ ہے (جو اس کا اصل نام نہیں تھا)۔

            جہاں سے وہ بھاگ کے آیا تھا وہاں وہ عطر کی دکان پر بیٹھتا تھا۔ دکان اس کے باپ کی تھی۔ اور یہ لڑکی آلی دکان کے سامنے والے چوبارے پر وقت بےوقت ٹنگی رہتی تھی، جبھی گندھی کے لڑکے کو اسے بھگا لے جانے کا خیال آیا۔ اس نے ا پنے باپ کی تجوری سے حاصل کیے گئے سونے کے بسکٹ کمر سے باندھے اور لڑکی کو، جو لال دوشالہ اوڑھے تھی، ساتھ لے کے شہر سے منھ اندھیرے نکلنے والی بس میں سوار ہو گیا اور پھرتا پھراتا سلایہ آ گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ دونوں یہاں سے، کچھ دے دلا کے، نگر چلے جائیں گے جو اس کے خیال میں سرحد پار کوئی محفوظ جگہ ہے جہاں لوگ بال وِدھوا سے شادی کرنے کا برا نہیں مناتے، اس لیے کہ وہ دوسرا ہی کوئی ملک ہے۔

            جب رینجروں، تپک برداروں، پولیسیوں، مخبروں نے انھیں ترکیب سے گھیر لیا اور لڑکے سے اس کا نام پوچھا تو اس نے کہہ دیا کہ ساون سنگھ راٹھوڑ میرا نام ہے اور میں بی اے، ایلایل بی کیا ہوا وکیل ہوں اور یہ لڑکی (جس کے ساتھ وہ برابر سوتا ہوا آ رہا تھا) میری عورت  ہے۔

            سلایہ کے موتبر، اُس جھوٹے پوتے / نواسے / بھانجے، کو لڑکے کی باتیں سن کے اور لڑکی کا لال دوشالہ دیکھ کے بہت مزہ آیا۔ اس نے رینجروں، پولیس والوں سے کہہ کے اپنی (موتبر والی) باڑی میں دونوں کو بند کرا لیا اس لیے کہ یہاں تھانہ حوالات جیسا تو کچھ تھا نہیں۔ اور علاقے کے ڈی ایس پی کو، جس کا وہ خاص آدمی بنا ہوا تھا، اس نے وائرلیس دلوا دیا کہ دو سی گلز ایسے ایسے پکڑی گئی ہیں۔ ایک نَر ہے اور ایک مادہ۔ آپ آ جاؤ۔ سلایہ میں موجود ڈی ایس پی کے ایک اَور خاص آدمی تین فیتوں والے ہیڈکانسٹبل نے لڑکے کا بیان لے کر باڑی کے کسی باہری اندھیرے کمرے میں ان دونوں سی گلز کو ہنکا کے دروازے پہ ایک کلو کا تالا ڈال دیا۔ پھر وہ کرسی کھینچ کے موتبر کی پّرانی شاٹ گن سنبھالے پہرہ دینے لگا۔

            باڑی کے کمرے میں بند کر دیے جانے کے بعد لڑکی بہت دیر تک پچھتاتی اور روتی رہی۔ لڑکے نے اسے دلاسا دیا اور دلاسا دیتے ہوے وہ اس کے ساتھ سویا بھی۔ لڑکی نے رونا بند کر دیا اور وقتی طور پر اسے حوصلہ ہوا اور اس کا خوف جیسے دور ہو گیا۔

            رات میں لڑکے کو (جس نے زیادہ کچھ سوچے بنا اپنا نام ساون سنگھ راٹھوڑ اور پتا راٹھوڑ کوٹ، گڑھ کلاں، اور اپنا پیشہ وکالت بتا دیا تھا) ٹکڑوں ٹکڑوں میں نیند آئی اور اسے کچھ ڈر بھی لگا مگر کیوں کہ اس کے پاس کچھ کیش اور وہ سونے کے بسکٹ تھے اس لیے زیادہ تر اسے حوصلہ رہا۔ پھر یہ بھی تھا کہ بھگائی ہوئی لڑکی ساتھ تھی، اس کا مورال بھی ہائی رکھنا تھا، اس لیے گندھی کے لڑکے نے ہمت باندھے رکھی۔ رات میں نیند اُچٹ اُچٹ جاتی تو اسے خیال ہوتا کہ لڑکی کو جگا لے، اس سے باتیں ہی کرے۔ مگر وہ جانتا تھا کہ وہ دونوں صرف باتیں نہیں کریں گے، انھیں اَور بھی مصروفیت لگ جائے گی۔ اسے باہر اتنے قریب بیٹھے ہیڈ کانسٹبل کی جھجھک تھی جو ان کی ذرا سی بھی آہٹ سن کے کھانسنے لگتا تھا۔

            رات میں ایک بار لڑکے نے یہ بھی سوچا کہ یہ لڑکی کیوں کہ بال ودھوا ہے، اس کی شادی وغیرہ یہاں نہیں ہو پائے گی، تو ممکن ہے مجھے انسانی ہمدردی میں اسے بھگا لے جانے کا خیال آیا ہو، جو اس صورت میں ہرگز کوئی بُری بات نہیں ہے۔

            پھر اس نے سوچا بُرا یا بھلا جیسا بھی ہے، اب تو جو ہونا تھا ہو چکا۔

            ابھی اندھیرا ہی تھا جو ہیڈ کانسٹبل نے بھاری دروازے پر پڑا وزنی تالا کھولا اور کمرے کے اندھیرے میں پکار پکار کے انھیں پوری طرح سے بیدار کر دیا۔ "بکیل صااحب! راٹھوڑ جی۔۔  اے ٹھاکر! بکیل صااحب!”

            لڑکا تو یہی سمجھا کہ کہیں کسی وکیل صاحب راٹھوڑ جی ٹھاکر کو بلایا جا رہا ہے اور اس پکار سے اسے کوئی سروکار نہیں، مگر پھر یاد آیا اور وہ جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔ وکیل ساون سنگھ راٹھوڑ، گڑھ کلاں کا ٹھاکر بچّہ کہیں آس پاس میں، اس پورے گاؤں سلایہ میں کوئی نہیں تھا۔ یہ سب خود وہی ہے اور اسے ہیڈ کانسٹبل پکارتا ہے۔

            "کہو دیوان جی! بولو؟” بستر سے اٹھ کے آنکھیں مَلتا وہ دروازے میں جا کھڑا ہوا۔

            ہیڈ کانسٹبل دو نالی شاٹ گن اٹھائے بالکل سامنے کھڑا تھا۔ اس کی سرکاری قمیص وردی کی پتلون سے نکلی ہوئی تھی اور چہرے پر نیند پوری نہ کر پانے کی جھونجھل تھی۔

            لڑکے کو دیکھ کے وہ بولا، "جنگل جانے کا ہے؟”

            لڑکا کچھ نہ سمجھا۔ صورت تکنے لگا۔ ہیڈ کانسٹبل نے پھر اپنی بھرّائی ہوئی آواز میں پوچھا، "ارے کا جنگل نئیں جانا؟” تب لڑکے کی سمجھ میں آیا کہ وہ ٹوائلٹ جانے کا پوچھ رہا ہے۔ اس نے دھیرے سے کہا، "اِدھر باڑی میں ہی کوئی بندوبست ہو جاتا تو اچھا تھا۔”

            پولیس والا بولا، "ہاں ہاں۔ باڑی ماں ہی سبئی کچھ ہے۔۔  یا ہی پوچھتے ہیں تمار۔ جانا ہو تو ایس طرحے، اُس باجو لِکل جاؤ۔۔  سدّھے۔”

            جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا لڑکا اُدھر چل پڑا۔

            پولیس والا کھلے دروازے کی طرف پشت کر کے شاٹ گن کو لاٹھی کی طرح ٹیک اپنی ڈیوٹی بجانے لگا۔

            لڑکا "جنگل” ہو آیا تو دیکھا ہیڈ کانسٹبل شاٹ گن گود میں رکھے دروازے سے دور کرسی پر بیٹھا چائے پیتا ہے اور ان کے قید خانے کے دروازے پر میلہ سا لگا ہے۔ دو تین بچے اور تین جوان عورتیں یا لڑکیاں کھلکھلاتی، شور مچاتی کچر کچر باتیں کر رہی ہیں۔

            لڑکے نے یہ بھی دیکھا کہ لڑکی آلی اس کی طرف متوجہ ہے اور مسکرا رہی ہے __ مطلب ان کے لیے اسیری میں دن کی شروعات بری نہیں ہوئی تھی۔

            ہیڈ کانسٹبل نے وضاحت کی۔ بولا، "یہ سبئی باڑی کی عورتیں ہیں۔ بائی کا سنا۔ اپنی جِمّےداری پہ بائی کو بھیتر باڑی ماں لئی گئیں۔ آؤ نا۔ یہ کرسی کھینچ لو۔۔  چا پی لو تم بھی۔”

            پولیس والے سے اتنی اونچی آواز میں اپنا ذکر سن کے تین میں سے دو عورتیں انھیں دیکھنے لگیں۔ ان میں سے وہ جس کے گال پہ چھوٹا سا تِل تھا، لڑکے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھتی تھی اور ایک بار پینترے سے مسکرائی بھی تھی۔ پینترا بہت واضح تھا۔

            باپ رے باپ۔ یہ سویرے ہی سویرے کیا شروع ہو گیا؟ لڑکے نے گدگدی کے ساتھ سوچا۔ مگر اس نے خود ہی آنکھیں چرا لیں اور مجرموں کی طرح اپنی آلی کی طرف دیکھا۔

            آلی اَور مسکرانے لگی۔ گندھی کے لڑکے نے چائے پینی شروع کر دی۔

            یہ عورتیں ہی پولیس والے کے لیے اور اس کے لیے چائے لے کر آئی تھیں اور اب اجازت ملنے کا انتظار کر رہی تھیں۔اجازت اس بات کی کہ اگر”ٹھاکر صاحب” کہیں تو بائی  "ٹھکرائن”کو عورتیں اندر لے جائیں۔ "اب کی کچھ کھلائی پلائی دیں۔”

            نقلی ٹھاکر صاحب کے لیے اندر کمرے میں ناشتہ رکھ دیا گیا تھا۔ اس نے سوچا چائے ختم کر لوں، پھر آرام سے اندر جا کے ناشتہ کروں گا۔

            جنگ عظیم والے ماشٹر کے گھر کی عورتیں __ شاید اس کی پوتیاں، پڑ پوتیاں، پُت بہویں__ اتنی تمیزدار تو ضرور تھیں کہ ان چھوٹی چھوٹی مگر اہم باتوں کا خیال رکھ سکیں۔

            لڑکے کے ہاں کہنے پر وہ اپنے ہنستے کھلکھلاتے مختصر جلوس میں لڑکی آلی کو پھر اندر لے گئیں۔

            ہیڈ کانسٹبل اپنا ناشتہ لے کر بیٹھ گیا۔ گندھی کا لڑکا کمرے میں آ گیا۔

            ناشتے سے بھی باڑی والوں کی خوش حالی، تمیزداری کا اندازہ ہوتا تھا۔

            لڑکا بعد میں اندر ہی لیٹ گیا اور اپنی حالت پر غور کرنے لگا۔ مگر ہیڈ کانسٹبل کرسی کھینچ کے دروازے کے عین سامنے آ بیٹھا تھا اور اپنے پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اچھے برے پوائنٹس پر کھلے دل سے بک بک کر رہا تھا۔ کہنے لگا کہ اِدھر کا ڈی ایس پی اچھا آدمی ہے۔ وہ ہے تو موسلمان، پر خوش مزاج بہت ہے اور چھوٹے بڑے عہدے کا، اونچ نیچ کا بھید بھاؤ نہیں رکھتا۔ سبھی سے مزے سے ہنستے ہنساتے بات کرتا ہے۔ یہ ساری باتیں اپنی جگہ مگر بھیّا! جب کھوپڑی گھوم جائے ڈی ایس پی صاحب کی تو اچھے اچھے اے ایس آئی لوگ تک کی ایسی تیسی کر دیتا ہے۔ اور بھیّا! ایک  اے ایسآئی کو تو "سُپھری صاب” نے بید سے مار بھی لگا دی تھی۔ باپ رے باپ!

            "سپھری صاب” عجیب سا نام تھا مگر علاقے کا ڈی ایس پی وہی تھا۔ لڑکے نے سوچا یہ "سپھری” کہیں سپرنٹنڈنٹ کی بگڑی ہوئی شکل نہ ہو۔

            سپھری صاب، مسلمان، خوش مزاج اور موڈی۔۔  شاید غصّہ ور۔ اور طے شدہ طور پر رشوت خور۔ اس لیے کہ جو پولیس والا رشوت نہیں لے گا وہ بدتمیز تو ضرور ہو گا۔ خوش مزاج ہرگز نہیں ہو سکتا۔ یعنی اپنے دیانت دار، لاکھوں میں ایک ہونے پر اِترائے گا ضرور اور اسی لیے دوسروں کا جینا ضرور دوبھر کرے گا۔

            ہیڈ کانسٹبل نے بتایا کہ میسیج آیا تھا، کہیں شام تک سپھری صاب پولیس کی نفری لے کے پہنچے گا۔ لڑکے نے حیرت ظاہر کی اور کہا کہ اتنی چھوٹی سی بات پر ڈی ایس پی عہدے کا افسر تو نہیں آتا اور تم کہہ رہے ہو ادھر ڈی ایس پی آئے گا۔

            ہیڈ کانسٹبل نے ایک آنکھ دبائی۔ "سلایہ میں تو سپھری صاب جروری آئیں گا۔” ویسے ہی چوکی معائنے کو مہینا میں دو دفعے آتا ہے۔ پھر یہ تو اس کی پسند کا کیس ہے۔ "کچھ نئیں کچھ نئیں تو اِدھر دو رات جروری رکیں گا۔”

            لڑکے نے پوچھا، "پر دیوان جی! کیس کیا ہے کچھ پتا تو چلے۔ آکھر کون جلم کیا ہم پتی پتنی نے؟”

            وہ بولا، "کیس تو سپھری صاب ہی بتائیں گا کی کیا ہے۔ ہم تو اِتّا جانتے ہیں کہ سلایہ باڈر کا گاؤں ہے اور تم دوئی کا ایسا ہے کہ پتی پتنی نئیں لگتے۔”

            لڑکا بُرا مان گیا۔ "واہ! یہ کھُوب بولے کی پتی پتنی نئیں لگتے۔ پتی پتنی لگنے کو کا تمھار آگے ناچ کے دکھائیں۔۔  کی، وہ سب کریں؟ آں؟۔۔  اچرج کی بات ہے دیوان جی!”

            پولیس والے نے بے نیازی سے کہا، "ہاں۔۔  ہوئے گی۔”

            "ہئو۔ اور یہ کا بول رئے تھے کی ادھر دو رات رکے گا تمھار صاحب؟ ایسی کون بات ہے؟”

            پولیس والے نے گول مول جواب دیا، "ہو سکتا ہے تمھار  باسطے رکے۔۔  ہو سکتا ہے کسی اَور کارن رکے۔”

            "اَور کارن کیا ہوئے گا؟”

            ہیڈ نے آنکھ دبائی اور ہنسا، "سمزا کرو ٹھاکر! اپنا سپھری صاب دل فینک آدمی ہے۔ کا کھبر اِدھر سلایہ ماں کئونوں کھینچ کھینچ کے بلاتا ہوئے اسے۔ ہاں؟ ہاہاہا۔”

            پولیس والا، اور وہ بھی ہیڈ کانسٹبل درجے کا، ملزموں سے زیادہ بےتکلف نہیں ہوتا، شاید اُس وقت تک بےتکلف نہیں ہوتا جب تک کچھ ملنے ملانے کی امید نہ ہو۔ اس ہیڈ کانسٹبل نے جو اپنے باس کے قصے سنانے شروع کیے تو گندھی کے لڑکے نے سوچا، کہیں ایسا تو نہیں کہ اس نے سویرے سویرے لائن ملانی شروع کر دی ہو۔

            ٹھیک ہے اسے اپنی اور لڑکی کی جان چھڑانے کے لیے رشوت خور پولیس والوں کی ضرورت تھی۔ تو بس، رشوت کے سلسلے میں حوصلہ افزائی کرتے ہوے اس نے باتوں کا رخ سپھری صاب کی پیسے بٹورنے کی خداداد صلاحیت کی طرف موڑ دیا۔

            ہیڈ بولا، "باپ رے باپ! سپھری صاب جیسا پھکیت تو ادھر سبرے باڈر ایریے ماں دوسرا کوئی ہے ہی نہیں۔” پھر اس نے بڑی بڑی رقموں کے درجنوں کیس گنا دیے جو سپھری صاب کامیابی سے کر گزرے تھے۔ رقمیں ہیڈ کانسٹبل کے حساب سے، بلکہ اس کے سپھری صاب کے حساب سے بھی، بڑی ہوں گی مگر موجودہ حالات میں گندھی کے لڑکے کو مونگ پھلی کے دانوں جیسی دکھائی دیں۔ تاہم ہیڈ صاحب کی تسلی کے لیے اس نے رقمیں سن سن کے "باپ رے باپ!” اور "ارے مار دیا!” اور "اوہو ہوہو!” کہنا شروع کر دیا۔ پہلی بار اسے اطمینان ہوا کہ صورتِ حال ہرگز اس کے قابو سے باہر نہیں ہے۔ اس کے بسکٹ ضرور اپنا جادو دکھائیں گے  اور چند گھنٹوں میں دونوں صاف نکل جائیں گے۔

            آدمی کے ساتھ یہ سب اگر نہ ہو تو ایسے ہی دہل دہل کے وہ مر جائے۔

            لڑکی آلی باڑی میں گئی تو جیسے وہیں کی ہو رہی۔ پولیس والوں کو ملزمہ کے اندر مفقود الخبر ہو جانے پر کوئی تشویش نہیں تھی۔ انھیں معلوم تھا کہ موتبر کی باڑی کا ایک ہی دروازہ ہے جس کے سامنے چارپائی ڈالے اَور دو پولیس والے بیٹھے ہیں۔ ملزمہ چڑیا تو ہے نہیں جو باڑی کے آنگن سے پر مارتی اُڑ جائے گی۔ اس کا عاشق یہ ملزم چھیلا تو یہاں بیٹھا ہی ہے ہیڈ صاحب کے سامنے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

            دوپہر کا کھانا بھی اندر سے آ گیا۔ وہی مسکرانے والی قیامت لڑکی رخسار پر تل دھرے، نوکرانی کے ہاتھوں پہ تھال اٹھوائے، پہلے ہیڈ صاحب کے پاس پہنچی، ایک نظر کمرے کی نیم روشن فضا پر ڈالتی تیزی سے گھوم کے چلی گئی۔ پھر لوٹی تو نوکرانی کے ہاتھ سے لڑکے کا تھال لیے کمرے میں آ گئی۔ دھیرے سے، جیسے نوکرانی کو بھی نہ سنانا چاہ رہی ہو، بولی، "ٹھاکر صاب! کہو تو کوٹھڑی ماں دیوا جلوائی دیں؟” لڑکے کی آنکھیں روشن ہو گئیں۔

            خواہ مخواہ آواز اونچی کر کے اس نے کہا، "نہیں نہیں، ٹھیک ہے۔ چراگ دیوا رہنے دو۔ سب نجر آ رہا ہے۔”

            تل والی اسی طرح دھیمی رازدارانہ آواز میں ہنسی۔ بولی، "اچھا بتاؤ تو اِی کتنی اُنگل یاں ہیں؟”

            اس نے انگلیاں لفظ کو ٹکڑے کر کے ادا کیا تھا اور وہ شرارت سے آنکھوں میں آنکھیں ڈالے مسکرا رہی تھی۔ نیا پینترا یہ تھا کہ انگلیاں دِکھانے کو اس نے ہاتھ تک نہیں اٹھایا تھا۔

            ساتھ آئی نوکرانی کمرے کی چوکھٹ پہ ان کی طرف پشت کیے بیٹھی تھی۔ ہیڈ کانسٹبل اپنا تھال اٹھا کے چلا گیا تھا اور اُدھر ماتحتوں کے پاس بیٹھ کے روٹی کھانے لگا تھا۔۔  اور لڑکے کے ساتھ بھاگی ہوئی لڑکی ابھی اندر باڑی میں تھی۔ مطلب، سب ٹھیک ٹھاک تھا۔

            گندھی کے لڑکے نے دل ہی دل میں جیسے بانہیں لہرا کر خوشی کا بے آواز نعرہ سر کیا اور بہت دھیمی آواز میں پوچھا، "نام۔۔  کا ہے تمھار؟”

            لڑکے کو گپ چپ کے کھیل میں شامل ہوتے دیکھ کے وہ تِل والی کھُل کے ہنسی۔ اس ہنسی کی آواز بہ مشکل دہلیز پار کر سکی ہو گی۔ "نام ہے جی نیلما۔”

            "نیل ما!” لڑکے نے نام کو مزےدار میٹھی گولی کی طرح منھ میں پھِرایا۔ کھیل کو اَور آگے بڑھایا۔ پوچھا، "نیلما! تم ہمار عورت کو کاں گائب کر دیا؟”

            وہ میز پر تھالیاں، کٹورے جماتی جا رہی تھی، ہاتھ روکے، نظر اٹھائے بغیر بہت دانش مندی سے کہنے لگی، "ٹھاکر کی جنانی گائب نئیں ہوتی۔۔  حاجر رہتی ہے۔۔  چنتا مت کرو ٹھاکر!”

            "چنتا کئیسے نہیں کریں۔۔  اُسے سَبیرے سے نہیں دیکھا۔”

            اس نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا، بولی، "اِدھر سینے ماں تَص بِیر تو بنی ہو گی ٹھکرائن کی۔۔  ابھی او ہی کا دھیان کر لو۔۔  لو، روٹی جیم لو۔”

            لڑکے کی چھاتی میں جیسے نقّارے پر چوب پڑی۔ مگر نیلما سر پہ پلّو لیے کھڑی ہو گئی تھی۔

            وہ جانے کو ہوئی، اور اب وہ مسکرا نہیں رہی تھی۔

            ایسے مزے کی بات کہہ کے اس کا سنجیدہ ہو جانا بھی کھیل کا حصہ تھا۔ اس وقت مسکرا کے، فقرے لگا کے، اُلجھا کے، وہ بس چلی جانا چاہتی تھی تاکہ "ٹھاکر” اس کے دھیان میں۔۔  اسی کے دھیان میں رہے اور نہ دکھائی دینے والے جال میں اچھی طرح لپٹ جائے۔ پھر دوبارہ جب وہ، تِل والی، آئے تو یہاں اسے ایک بےبس بندھا ہوا ٹھاکر ملے __ پوری طرح شکار کیا ہوا۔

            مگر گندھی کا لڑکا یہ کھیل اِس طرح نہیں کھیلنا چاہتا تھا۔

            بھُک مَرے، ندیدے مرد کی طرح ہاتھ مَلتے ہوے اس نے تھالیوں، کٹوریوں پہ آنکھیں گڑا دیں۔ "اوہو ہوہو! بڑی کوئی مجے مجے کی ہانڈیاں بنوا لیں بھئی۔ کھُش بُو ایسی چل رئی ہے تو سواد بھی گجب کا ہوئے گا۔ مجے آ گئے ٹھاکر کے۔۔  لے ری نیلما کماری! ماہتاری کو اپنی بولنا کی ٹھاکر تمھار مجوان بڑا ہی کھُش ہے۔ وا وا وا!”

            وہ اس انداز کو سمجھنے کی کوشش میں پہلے کچھ دیر گپ چپ کھڑی رہی، پھر کھلکھلا کے ہنس پڑی۔ حسبِ معمول آواز اس کی کمرے کی دہلیز سے نہ نکل پائی ہو گی۔ "لے بھلا۔۔  کماری کون بات کی؟۔۔  ٹھاکر جی کی سنو! ماہتاری ہمری اِدھر کاں بیٹھی ہیں۔۔  ارے اِی باڑی ہمرا میکا نئیں، سسرال ہے۔”

            لڑکا حیرت سے بولا، ” ہاہ! بہو ہو تم باڑی کی؟۔۔  سچ بولوں، دیکھے سے تو نئیں لگتیں۔”

            یہ بہت پرانا، بڑا آزمودہ پینترا تھا۔ کسی شادی شدہ عورت سے یہ کہہ دینا کہ وہ لڑکی لگتی ہے، بہت آسان فریب کاری اور بڑی زود اثر خوشامد ہے۔

            لڑکا جو بھی کرنے جا رہا تھا __ اور معلوم نہیں کیا کرنے جا رہا تھا __ اس میں بہرصورت اس قید خانے کے آس پاس اپنے ہم نوا، ہمدرد پیدا کرنا ضروری تھا۔ اگر صرف چاپلوسی کی رشوت سے یہ عورت بھی مددگاروں کی جماعت میں شامل کر لی جائے تو کیا بُرا ہے۔

            وہ ہوا سے جھکائے گئے پھول کی طرح آگے آئی اور اس بار بھی دھیرے، بہت ہی دھیرے سے بولی، "دیکھے سے بھلے ہی ناں لگیں ٹھاکر جی!۔۔  پر اصل ماں تو ہم باڑی کی بہو ہیں نا۔۔  بڑی بہو۔”

            "ہم نئیں مانتے۔۔  اوں ہنک! بہو بھلے ہی ہو گی، پر بڑی بہو کون بات کی؟۔۔  اتّی جرا سی بڑی بہو؟”

            وہ  اور آگے جھک آئی۔ اس کی سانس مُلیٹھی کی میٹھی تازہ خوشبو میں بسی ہوئی لڑکے کے چہرے سے ٹکرائی اور لوٹ گئی۔ اس کے نرم کلیوں جیسے گلابی نتھنوں نے شاید خود اپنی ہی سانس کی سُگندھ واپس لی تھی __ تازہ ملیٹھی کی سگندھ __ اور وہ اس بات پہ ہولے سے مسکرائی بھی تھی۔

            لڑکے نے گہری سانس بھری۔ اس کے لیے یہ سب بہت زیادہ تھا۔

            اس نے ابھی کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ وہ جانتا تھا یہ نیلما بڑی بہو اُس وقت تک یہاں رہ سکتی ہے جب تک روٹی نہیں توڑ لیتا وہ۔ ایک بار کھانا شروع ہو گیا تو عورت کو جانا ہو گا۔ طریقہ یہی ہے۔ کوئی بھی عورت بس اپنے گھر کے مرد کے آگے رک سکتی ہے۔۔  پنکھا جھلنے کو۔ اس کے سوا، مرد عورت کوئی بھی کھانا کھاتا ہو، آداب یہی ہیں کہ سامنے سے ہٹ جاتے ہیں۔

            گندھی کے لڑکے نے سوچ لیا کہ بہت دیر تک کھانا شروع نہیں کرے گا۔ باڑی کی اس عورت کو سمجھنا، ہمدرد بنانا ضروری تھا۔ اس وقت پولیس والا بھی پیٹ پوجا میں لگا ہے۔ تو پھر صحیح ہے۔

            "اِتی جرا سی بڑی بہو؟” کے جواب میں اپنا چہرہ لڑکے کے قریب کیے تِل والی نے انکار میں سر ہلایا۔ "ناں جی۔ اب اتے جرا سے بھی نئیں ہیں۔ کنور صاب! تم گلط بات کاہے بولتے ہو؟ ہمار کھش کرنے کو؟”

            لڑکے نے ہاں میں سر ہلایا۔ "کیوں نئیں۔ تمھار کھش کرنے کو تو ہم جَون کسم کہو اٹھائی لیں۔ جھوٹھی سچی۔ جو بولو تو جہر کھائی لیں۔۔  بولو گردن کٹائی دیں تمھار  کھش کرنے کو۔”

            اس کی اداکاری کامیاب جا رہی تھی۔ باڑی کی عورت کو  جیسے سن کے ہی نشہ ہو گیا تھا۔

            مگر وہ کچی بچی بچونگڑی بھی نہیں تھی۔ ہولے سے ٹھٹّھا مار کے بولی، "یا ہی سب آلی ٹھکرائن کو سنائے کے رِجھا لیا ہوئے گا۔ ہاں؟ بڑے کھلاڑی دکھائی پڑتے ہو کنور جی!”

            گندھی کا لڑکا ایک دم سیریس ہو گیا۔ "بھگوان کی لِیلا ہے نیلما کماری، کی کھبر  نئیں مایا جال ہے، جو آلی ٹھکرائن میں ہمار کو مانو اَردھ چندرما دکھائی دیا تھا۔۔  آدھا چاند۔ سو ہم چل پڑے مالک کا نام لے کے۔”

            بڑی بہو نیلما کی سانسیں اب ہموار نہیں رہی تھیں۔ اس نے اَور بھی آہستہ سے پوچھا، "اور ہمار ماں؟۔۔  ہمار ماں کا دیکھا ٹھاکر تُو نے؟”

            "تیرے میں ست پورنما ہے۔۔  سَوں بھگوان کی! پورا جگر جگر کرتا چاند ہے تیرے میں۔۔  جوٹھ بولوں تو دونوں ای آنکھیں چلی جائیں۔”

            پریشان ہو کے وہ ایک دم بول پڑی، ” دَھت! ایسا نئیں بولو ٹھاکر مہودئے! ایسا نئیں بولو، نئیں ہم تو کہیں کے ناں رہ جان گے۔۔  ہاآں۔ ایسا مَتی بول رے۔” آخری ٹکڑا اس نے جیسے بڑی بےبسی میں کہا تھا۔

            لڑکے نے کہا، "ہم تو اَور بھی کچھ بولنے کو بیٹھے ہیں۔ تم سننے والی جم کے سنو تب نا۔۔  پون جھکولے سی آئی ہو۔۔  چلی جاؤ گی۔” اس نے دہلیز پر بیٹھی نوکرانی کی طرف اشارہ کیا۔ "پھر کھبر ہے کب آتی ہو کی نئیں آتیں۔ اور جو آتی ہو تو کیا کھبر ایسی ایسی اور دوئی چار جنانیاں ساتھ لے ای آؤ۔۔  کی کوئی بات ہی ناں کرنی ملے۔”

            وہ ہنس پڑی، یعنی بہت دھیمی آواز میں۔ اور بولی، "ایسی کون بات کرنی ہے ہمار سے؟ ہاں رے کنورجی؟ اور اِی بےچاری ناین؟۔۔  کا کر لے گی بےچاری؟۔۔  کوئی روکتی ہے بات کرنے کو؟۔۔  ارے ای تو بہری ہے، نپٹ بہری۔ سن ہی نہ پائے گی، بھلے کو جتّی باتیں مٹھارو۔”

            "تو پھر سن نیلما کماری! سانجھ پڑے سے پہلے تیرے سے بات ہونی چیّے۔۔  گھنی لمبی بات۔۔  اور جبی ہمری ٹھکرائن نئیں ہووے اس وکھت۔۔  اور ای وردی والا ناں ہوئے تب بات ہونی چیّے۔۔ ․․ لَم بی۔ ہاں۔”

            "بردی والے اب ناں جائیں۔۔  انھوں نے جانا ہے تو پھر تمھار کو، ٹھکرائن کو لئی کے جانا ہے۔۔  اور جبی چلے ای جاؤ گے تو ٹھاکرجی، پھر کیسی بات؟ کاں کی بات؟۔۔  سَبرا  کِصّہ ہی کھتم۔۔  ہاآ ہہہ!” اس نے ٹھنڈی سانس بھری، سر جھکا لیا جیسے اس خیال ہی سے اداس ہو گئی ہے کہ ٹھاکر غریب چلا جائے گا۔

            سچ بات ہے، گندھی کے لڑکے نے سوچا۔ اگر یہ اداکاری ہے تو بڑی بہو نیلماجی کماری کی اداکاری مجھ سے کہیں اچھی جا رہی ہے۔

            مگر سب سے ضروری بات یہ جاننا تھا کہ بڑی بہو کا آدمی، یعنی باڑی کا بڑا بیٹا یا پوتا، جو بھی ہے، وہ یہاں باڑی میں تو ہو گا ہی۔ وہ سسرا کب سامنے آئے گا؟ وہ اگر اس وقت تاڑی مہوا لگا کے سویا پڑا ہے تو، پہر دن گئے سہی، اپنی کوٹھریا سے نکل کے تو آئے گا۔ پھر یہ سرگوشیاں کرتی نیلما بہو جہاں کی تہاں رہ جائے گی۔ یہ رازدارانہ پینترے، یہ کھِلواڑ، ہنسی ٹھٹّھا، سب دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ لائن کٹ جائے گی اپنی۔ تو اس لیے لڑکے نے جیسے گھبرا کے پوچھا، ” تمھار آدمی؟۔۔  سویا پڑا ہے کا؟”

            تل والی نے ٹھنڈی سانس بھری۔ "کا کھبر، سویا ہے کی جاگتا ہے۔ اور جو سویا ہے تو اِکلّا سویا ہے کی ساتھ ماں تکیہ پر کوئی بال چھِٹکائے لیٹی سانسیں بھرتی ہے، ڈائن۔”

            "ارے باپ رے باپ! ای کا بولتی نیلما کماری؟ جرا پھر سے تو بول۔ اِدھر باڑی میں تمھار کوئی سوتن چنڈالنی ہے کہ تمھار آدمی کے برابر لیٹی گھمر گھمر سانس بھرتی ہے؟۔۔ ․․ ہاہ! رام رام کرو۔ ای کس ڈھنگ کی بات بولی؟۔۔  پھر سے تو بولو۔”

            وہ بےاختیار ہنس پڑی اور اب کے مزے میں، گویا بے سوچے سمجھے، لڑکے کے ہاتھ پر ہاتھ مارا۔ ہاتھ پھاہے سا نرم اور جیسے بخار میں بھُن رہا تھا۔ کاجل بھری آنکھیں گلابی ہوئی جاتی تھیں۔ چمک کے بولی، "اِدھر کی بات ناں کرو۔ باڑی ماں ہمار چھاتی پر کون سوتن چنڈالنی لئی کے بیٹھے گا؟ ٹانگ پر ٹانگ رکھ کے چیر نئیں ڈالیں گے سسری کو۔” پھر وہ اداس ہو گئی۔ گندھی کے لڑکے کے شانے کو چھوا۔ پھر اس کی انگلیاں قمیص کے کالر پر آ گئیں۔ انگوٹھا اور شہادت کی انگلی گدی کے بالوں پر جا ٹکے تھے اور۔۔  لڑکے کو وہم سا ہوا کہ وہ شاید اس کے بالوں کو سہلاتی یا سنوارتی تھی۔ اس نے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اور چچ چچ کہتے ہوے اس کا غصہ ٹھنڈا کرنا چاہا۔ لڑکے کا خیال تھا کہ وہ اپنے آدمی کی دوسری عورت، اُس سوکن، کے ذکر سے برہم ہو گئی ہے اور اسے چھُو کر منا لینا چاہیے۔ مگر وہ راز داری سے ہنس پڑی۔ "ارے باڑی ماں کدھر بیٹھا ہے ہمار آدمی۔۔  اُو سہر ماں ہے سہر ماں۔ پشچم کی اور اُدھر بڑا جنگی سہر ہے نئیں، ادھر کارکھانہ ہے ہمار آدمی کا۔ کپڑا سینے کا۔ جبر جنگی کارکھانہ۔ اُدھری رہتا بستا ہے ٹےلر  ماشٹر، ہمار آدمی۔ سال پیچھے ایک مہینا کو آتا ہے ہمار کلیجا ٹھنڈا کرنے کو۔۔  ڈاڑی جار!”

            عورت نے یہ سب بہت جھُلس کے کہا تھا، خاص طور پر کلیجا اور ٹھنڈا کے لفظ۔ اور آخر میں اس نے اپنی کوئی گالی "ڈاڑی جار” بھی ڈال دی تھی، جس کا مطلب کیا خبر نوچی ہوئی ڈاڑھی والا تھا یا صفاچٹ ڈاڑھی والا، یا کچھ اور۔ جو بھی ہو، عورت کو غصہ بہت تھا۔

            گندھی کے لڑکے نے ذرا گردن جھکائی اور تسلّی کے لیے اس کی سہاگ چوڑیوں کو اپنے بند ہونٹوں سے چھو لیا۔

            اُسی وقت دروازے کی طرف سے ہیڈ کانسٹبل کی آواز آئی، "ہے بائی! ای تھالی بھانڈا لے ای لو۔”

            دَھت تیری پولیس والے کی! لڑکے نے دل میں کہا اور سامنے رکھی تھالی میں ہاتھ پہنچا کر روٹی توڑ لی۔

            اور اب بڑی بہو نیلما کماری نے پہلی بار خاصی اونچی آواز میں اسے مشورہ دیا۔ "کوئی چیز کی جرورت ہوئے تو بتائی دینا ٹھاکر!” اور مُلیٹھی کی میٹھی سگندھ لیے وہ کمرے سے چلی گئی۔ دہلیز پر بیٹھی ناین ہیڈ صاحب منحوس کے ہاتھ سے تھالی برتن لے کر مالکن کے پیچھے پیچھے چل پڑی تھی۔

            "ٹھاکر جی” کھانا کھا کے فارغ ہوے تو اندر باڑی سے آلی ٹھکرائن آ گئی۔ وہ آئی تو لڑکے نے دروازہ بند کر لیا۔ لڑکی جھپٹ کے پلنگ کے پاس آ بیٹھی اور سہیلیوں آلیوں کی طرح سے سر جوڑ کے دونوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی رپورٹ دی۔

            پہلے تو لڑکی آلی نے شرارت سے گندھی کے لڑکے کو پیٹ میں کہنی مار کے جتایا کہ ہاں رے، تجھے نین لڑانے، راج دھاری، ہنسی ٹھٹھول کرنے کو گورے گال کے کالے تِل والی ماشُوک مل گئی ہے۔ "تیرے تو ٹھاکر، آ گئے ہیں مجے!”

            لڑکے نے کہا، "تُو کیوں جلتی ہے! تُو بھی نین لڑانے کو ڈھونڈ ڈھانڈ لے کوئی ٹھاکر چھیلا۔”

            پھر دونوں میں ہلکی جھک جھک ہوئی۔ ذرا سی دیر میں کسی نے کسی کو منا لیا اور لڑکے نے اپنی حکمت عملی بتائی کہ تِل والی کے ساتھ کیا، کیوں اور کس طرح کوئی کھیل کھیلا جا سکتا ہے تاکہ دونوں کی گردن اِدھر سے چھوٹ جائے۔

            لڑکی آلی کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس نے لڑکے کو تِل والی کے بارے میں اَور بتایا۔

            بڑی بہو نیلما سے متعلق اس کی معلومات بہت کچھ مکمل تھی۔ ایسی باتیں جو صرف عورتوں کے مشاہدے میں آ سکتی تھیں، لڑکی آلی نے دیکھی، سنی اور سمجھی تھیں۔

            ویسے تو نیلما بڑی خوش مزاج اور سب کا خیال کرنے والی عورت دکھائی پڑتی تھی، لیکن موتبر کی باڑی میں اگر کسی سے ڈرا، خوف کھایا جاتا تھا تو وہ یہی نیلما بڑی بہو تھی۔ اصل ماشٹر، جس نے باڑی تعمیر کرائی تھی، نیلما کا دادا سسر تھا۔ ماشٹر کا ایک ہی بیٹا تھا جو اب بہت بوڑھا ہو چکا تھا مگر ریڈی میڈ کا کارخانہ ابھی تک وہی سنبھالے ہوے تھا۔ اس کے تین بیٹے تھے۔ تینوں کو اس نے خاندانی کاروبار میں لگا دیا تھا۔ یہ خاندانی کاروبار اس کے جادوگر ہاتھوں میں پھل پھول رہا تھا۔ کارخانے کا تیار کیا مال اندرون اور بیرون ملک بھیجا جاتا تھا۔ ویسے تو بڑے میاں کی مدد اس کا بڑا بیٹا، یعنی نیلما کا آدمی، اور سب سے چھوٹا بیٹا کرتا تھا مگر حقیقت میں لڑکوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ سال میں گیارہ مہینے وہ گِدھ باپ کی عقابی نظروں تلے رہتے تھے اور جیسا جیسا وہ کہتا جاتا تھا کرتے جاتے تھے۔ بڑے والے کو سڑی گرمیوں میں اور چھوٹے بیٹے کو کڑکڑاتے جاڑوں میں بڑے میاں ایک ایک مہینے کے لیے سلایہ گاؤں بھیجتے تھے۔ اس کے سوا دونوں ہل نہیں سکتے تھے۔ یا پھر موت میّت میں گھر آنے کو ملتا تھا۔ ویسے موت میّت کی اس خاندان میں کوئی زیادہ چرچا نہیں تھی۔ خود بڑے میاں آٹھ برس پہلے پندرہ روز کے لیے گاؤں آئے تھے جب ان کی گھر والی فوت ہوئی تھی۔ سب کو پتا تھا کہ گھر والی ایک ہی تھی، وہ اب نہیں آئیں گے۔ بڈھے ماشٹر کا تیسرا بیٹا نائروبی، ایفریکا، میں خاندانی ایکسپورٹ امپورٹ کا کام دیکھتا تھا اس نے وہاں ایک رنگی ہوئی عورت گھر ڈال لی تھی۔ چھوٹی بڑی دونوں بہوئیں اور بڈھے کی ایک بیوہ بہن، اس کے بچّے بچونگڑے اور نوکر، خانہ زاد __ باڑی کی کل آبادی یہ تھی۔ نیلما کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ چھوٹی بہو کے دو بچّے تھے۔ بڑا لڑکا تھا اور چھوٹی لڑکی۔ یہ چھوٹی بہو بالکل چپ رہنے، یا بہت کم بولنے والی دبّو، جل ککڑی قسم کی عورت تھی۔ موسی تک سے خار کھاتی تھی، پر کہتی کچھ نہیں تھی۔ اس بیوہ موسی کو بڑے میاں نے یہاں سب کی نگرانی دیکھ ریکھ کے لیے ذمےدار بزرگ بنا کے چھوڑا تھا، مگر نیلما بڑی بہو نے پہلے چند مہینوں میں بڑھیا کو قابو کر کے بھیگی بلّی بنا دیا تھا اور جبھی سے پندرہ اٹھارہ انسانوں کے اس آسودہ حال گھر پر اس کا بلا شراکت راج چل رہا تھا۔ وہ نوجوان جو خود کو ماشٹر کا پوتا کہہ کے متعارف کراتا تھا، فی الاصل موسی کا بیٹا، یعنی نواسہ تھا۔ اسے نشے کی لت تھی اور کہا جاتا تھا کہ نشے کی یہ لت اسے رخسار کے تِل والی نیلما کماری نے لگائی تھی۔ لڑکی آلی کو یہ نہ معلوم ہو سکا کہ کن حالات میں یہ لت موسی کے اس موتبر بیٹے کو لگی یا لگائی گئی۔ باڑی میں گزارنے کے لیے چند گھنٹوں میں لڑکی آلی نے یہ ضرور دیکھ لیا تھا کہ نیلما اگر کسی سے مکمل حقارت کا برتاؤ کرتی ہے تو اسی موتبر سے۔ نیلما کی آواز سن کے وہ بھی بات کرنا روک دیتا اور اوٹ میں ہو جاتا تھا۔ باڑی کے اندر صرف نیلما بڑی بہو کا حکم چلتا تھا اور اگرچہ کہا جاتا ہے کہ وہ زیادہ کچھ چڑچڑاتی غصہ نہیں کرتی، لیکن مشہور تھا کہ جب بڑی بہو غصّے میں ہو تو باڑی والوں کے لیے سامنے سے ہٹ جانا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اُس وقت نیلما کا سامنا کرنے سے تو بہتر ہے کہ آدمی زخمی شیرنی کے آگے جا کھڑا ہو __ وہاں پھر عافیت ہوتی ہو گی۔

            آلی کی فراہم کردہ معلومات کے بل پر پورے یقین سے یہ کہا جا سکتا تھا کہ جعلی ٹھاکر ساون سنگھ راٹھوڑ وکیل (وغیرہ) نے بالکل ٹھیک کمپا مارا ہے۔ پھر بھی اندر جال میں کون ہے اور جال سے باہر کون، یہ ابھی دیکھنا باقی تھا۔

            لڑکے نے لڑکی کو بتا دیا کہ نیلما کماری سہ پہر میں کسی وقت اس سے ملنے آئے گی، کیوں کہ پولیس والا سپھری صاب اور اس کی نفری شام تک سلایہ پہنچ رہی ہے۔ اور یہ کہ جب نیلما آئے تو آلی ٹھکرائن کو بے خبر سوتا بن جانا چاہیے، اس لیے کہ لڑکے اور بڑی بہو کی اس ڈھلتی دوپہری کی ملاقات پر بہت سی چیزوں کا دارومدار ہے۔ وہ پوچھنے لگی، کیسی چیزیں؟ تو لڑکے نے کہا، ابھی کیا پتا! لڑکی کہنے لگی، ٹھیک ہے۔ پھر مسکرا کے بولی کہ جو بھی کرے ٹھیک سے کرنا۔ ٹھاکر ٹھکرائن کی جان اسی میں ہے۔ لڑکا بولا کہ چنتا مت کر، تو نے دیکھا ہی کیا ہے۔ ہم شیرنی عورتوں کو کیسے قابو کرتے ہیں تجھے کچھ پتا ہی نہیں ہے۔

            تو لڑکا لڑکی دونوں سو گئے۔ نہ معلوم کس طرح، کس وقت، آلکس بھری سہ پہر میں جب عادتاً خوب پیٹ بھر کے لوگ سو جاتے ہیں اور جانور تک کاہلی، بےکاری میں پڑے رہتے ہیں، لڑکے کی گردن پر رینگتا ہوا کوئی کیڑا کان میں داخل ہونے لگا تو وہ ہڑبڑا کے اٹھ گیا۔ دن کے مصروف گھنٹوں میں پہنے گئے کپڑوں کے باسی عطر اور پسینا مِلی خوشبو کے ساتھ اور مُلیٹھی کے میٹھے تَرل جھونکے کے ساتھ اُس پر جھکے ہوے سائے نے بالکل کان سے منھ بھِڑا کے کہا، "ہم ہیں رے۔۔  نیلما۔” وہ تنکا اس کے موتی دانتوں میں دبا تھا جسے گردن اور کان پہ پھِرا کے اُس نے لڑکے کو اٹھا دیا تھا۔

            وعدے کے مطابق وہ آ گئی تھی اور آتے ہوے رس بھری کے پکے پھل اٹھا لائی تھی تاکہ آنے کا جواز بن جائے۔ اس نے چالاکی سے چمکتی اپنی آنکھوں کو آلی کے رخ گھمایا جو لڑکے کی طرف پشت کیے بہ ظاہر سو رہی تھی، اور سر سے اشارہ کیا کہ سب ٹھیک ہے۔ پھر وہ لڑکے کے تکیے سے ٹیک لگا کے نیم دراز ہو گئی اور اس کے کان کے پاس منھ لے جا کر بولی، "ہاں جی ٹھاکر! ابی ہمار سے بولو کا بولنے کو ہے۔”

            گندھی کے بیٹے نے ڈرے ہوے شوہر کی کامیاب اداکاری کی۔ اشاروں اشاروں میں اسے سمجھایا کہ یہاں آلی کے اتنے پاس بیٹھ کے کیسے کچھ کہا سنا جا سکتا ہے، چل باہر چل۔۔  کسی اور جگہ۔ اس نے انگوٹھا دکھایا اور سرگوشی کی، "اَور جگے کوئی نئیں رے ٹھاکر! لے دے کے اے ہی تیرا، تیری عورت کا بچھونا ہے۔ اِدھری بات کر لے، جیسی جو کرنی ہو۔” اور وہ ہونٹوں کو دانتوں سے دبا کر اپنی ہنسی روکتی تھی اور اُس وقت لڑکے کا خیال تھا کہ اس کے کنے سے مست مادہ کی خوشبو اٹھتی ہے۔

            لرزتے ہوے اس نے کان کے پاس منھ لے جا کے کہا، "ناں باؤلی! اِدھر نئیں۔ آلی اٹھ بیٹھی تو سبرائی کچھ گڑبڑی ہو جائے گا۔”

            اسے پریشان دیکھ کر وہ منھ پر ہاتھ رکھ کے خوب ہنسی۔ پھر بڑھ کے اپنا پنجہ اس کے پنجے میں پھنسا لیا جیسے جتا رہی ہو کہ تو اب میرے قابو میں ہے۔ پھر اسے لے کے وہ بستر سے اٹھی اور بے آواز دروازہ کھولتی دالان کی روشنی میں آ گئی۔

            ہیڈ کانسٹبل گود میں شاٹ گن رکھے، ٹانگیں پھیلائے، منھ کھولے بیٹھا ہی بیٹھا سو رہا تھا جیسے کئی راتوں کا جاگا ہوا ہو۔

            وہ لڑکے کو باڑی میں لیے جا رہی تھی __ پہلے سے اس نے کوئی جگہ سوچ رکھی ہو گی۔ حیرت اور خوف کی جو اداکاری لڑکے کو کرنی تھی وہ کرتا رہا۔ ڈیوڑھی سے گزر کے دونوں ایک بڑے کمرے کے سامنے رکے جس کے رنگین شیشوں والے دریچوں کو دیکھ کے لڑکا سمجھ گیا کہ یہ باڑی کی بیٹھک یا دیوان خانہ ہے۔ بیٹھک میں سستے __ عالمی جنگ کے زمانے میں سستے __ فانوس، اور شیشے کی دیوار گیر پر ہانڈیاں لگی تھیں۔ اس نے سوچا کہ کبھی اچھے دنوں میں وہ یہاں آیا ہوتا تو اس بیٹھک میں گدّوں پر، گاؤت کیوں سے ٹیک لگا کے آلی ٹھکرائن سے دھیمے دھیمے باتیں کرتے اور چہُلیں کرتے پوری پوری دوپہریں کاٹ دیتا، پچاس ساٹھ ستّر برس پیچھے کی سُگندھ لیے یہ ڈھنڈار دیوان خانہ اسے اتنا اچھا لگا تھا۔

            بیٹھک سے ملا ہوا گنجینہ یا گنجی خانہ تھا جسے وہ کنجی کھانہ کہہ رہی تھی۔ لڑکا سمجھ گیا یہ باڑی کا بھنڈار یا اسٹور ہو گا۔

            گندھی کے لڑکے کے پنجے میں پنجہ پھنسائے وہ جھپاک سے کنجی خانے میں تَیر گئی۔ کنجی خانہ ان کے قید خانے سے بھی زیادہ تاریک تھا۔ تِل والی تو خیر اس کا چپّہ چپّہ جانتی ہو گی، لڑکا چیزوں سے اور اس رازدارانہ کھلکھلاتی عورت سے ہر قدم پر باربار ٹکرا رہا تھا۔ بہت کھٹرپٹر ہو رہی تھی۔ اس نے سرگوشی کی، "سور نئیں کرو ٹھاکر! بروبر میں موسی کی کوٹھریا ہے۔ وہ نئیں سوتی دن ماں۔ لے میرے سنگ سنگ لگا لگا چلا آ، تجھے دیوان سنگھاسن تک پہونچائے دوں گی۔” پھر اس نے جیسے شانے سے جھولتے ہوے اس کی رہ نمائی شروع کر دی۔ اُس کے بکھرے بال، جو اس نے لڑکے کے جیب و گریباں پر ڈھیر کر دیے تھے، جیسے پختہ آملے سے لَدے ہوے کنج تھے، ہزار برس پرانے سنگھار لگن کی مست کن خوشبو سے بوجھل۔ لڑکے نے دل میں کہا، "یہ سب ترکیبیں تجھے تیری محرومی نے سکھا دی ہیں بی بی!”

            اسی طرح جھولتی لڑکھڑاتی، اس کے ہاتھ اور بازو اور شانے اپنی گرفت میں لیے، آخر وہ اس فرنیچر پیس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی جسے اس نے دیوان سنگھاسن کہا تھا۔ یہ دوسری عالمی جنگ سے کبھی پہلے دیسی راجوں نوابوں کے محل دو محلوں میں شوق سے رکھی جاتی لَو سیٹ یا دو کو بٹھانے لائق چھوٹا سوفا تھا۔ لڑکے نے سو برس پرانے مخمل کی مہک کا احساس کیا، اس پر ہاتھ پھیر کے دیکھا۔ اس نے پھر سوچا کہ کبھی اچھے دنوں میں اس کی ٹھکرائن اور وہ۔۔

            نیلما اسے لے کر لو سیٹ پر بیٹھ گئی۔ "ہاں رے ٹھاکر جی! ابھی بولو کا بولنے کو ہے؟” اس نے گمبھیرتا سے بات کہی تھی۔ لڑکا جان گیا کہ ابھی اس نے کھیل تماشا روک دیا ہے۔ کام کی بات ہونی چاہیے۔ سو کنجی خانے کے اندھیرے میں لڑکے نے بتایا کہ وہ دونوں کون ہیں، کہاں سے آئے ہیں، کہاں جاتے تھے۔ پہلے تو وہ سنتی رہی، پھر اس نے لڑکے کے گال پہ چٹکی بھری۔ "سبئی مالُم ہے میرے کو۔۔  آگے بول۔” آگے اس نے کہنا شروع کیا کہ بے قصور ہیں ہم۔۔  دور ادھر نگر میں گھر بسانے نکلے تھے۔ ادھر کا موتبر خبر نہیں کیوں دشمنی پر تلا ہوا ہے۔۔  ہم نے کسی کا کیا بگاڑا ہے۔۔  کہ بڑی بہو نے اپنی کہنی سے اس کی پسلیوں میں کچوکا دیا۔ "یہ سب کاہے بولتا ہے۔ ٹھکرائن کی تیری جگے ہم ہوتے تو موتبر مونڈی کاٹے ڈاڑی جار کے ڈنڈا پیرا دیتے، حرامی کے۔” پھر اس نے اس منصوبے کی تفصیل بتانی شروع کی کہ وہ کہاں، کس طرح اور کب ڈنڈا پیراتی تو لڑکے نے اس کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا۔

            نیلما ہنسنے لگی۔ پھر سنجیدہ ہو گئی اور بولی، "تجھے، ٹھاکر، ٹھکرائن سے گھنا پیار، آشکی ہے نا؟ ہاں؟ بتا رے سَکھا! ہَے نئیں؟” لڑکے نے کہا کہ ہُوں، ہے۔ تو بولی، "ایسےئی ہونا چیّے عورت مرَد کے بیچ۔”

            یہ بات اس نے بڑے یقین سے اور بہت اداسی میں کہی تھی۔

            پھر اس نے اسے تسلّی دی۔ کہنے لگی، "توں چھوٹ جائیں گا، تیری آلی چھوٹ جائیں گی۔ پھکر نئیں کر۔”

            لڑکے نے فریاد کی، "سن تو، اے نیلما! کوئی بھی چیج کا ٹھیک نئیں۔ ہم کو ابئی نکال دے چار چھ گھنٹا میں۔۔  جندگی بھر تیرا آدر کریں گے۔۔  گلام بن جائیں گے۔”

            وہ ہنسی، "پر میرے کو گلام نئیں چیّے۔”

            "پھر؟”

            اسی سرگوشی میں بولی، "دوس چیّے، دوس۔۔  سکھا۔ توں دوس بنے گا ٹھاکر؟ جندگی بھر کا سَکھا، دوس، آشِک؟”

            لڑکے نے سوچا مناسب بکواس کرنے کا صحیح وقت یہی ہے۔ مستی کی اداکاری میں بولا، "آشک تو آج بھی  ہیں ہم تیرے۔ جندگی داؤں پہ لگائی دیں گے۔۔  اور بول؟”

            بےچاری عورت! لڑکے کے شانے پر سر رکھ کے اس نے سسکیاں لیں اور بے اختیاری میں ہنسی بھی۔ لڑکا ڈرا کہ یہ اونچی آوازیں کوئی سن نہ لے۔ اس نے عورت کے منھ پر ہاتھ رکھ دیا، سرگوشی کی، "اری چپ! موسی سنتی ہو گی۔” تس پہ ہنستے ہوے اُس نے گندھی کے لڑکے کی ہتھیلی چوم لی اور موسی کے لیے وہ کچھ کہا جسے بھلے لوگوں کے آگے دُہرایا نہیں جا سکتا۔ لڑکا اُس کے ساتھ ساتھ ہنسنے لگا۔

            وہ دونوں تھوڑی دیر اَور رُکے کنجی خانے میں۔ پھر کیوں کہ باہر سے ہیڈ کانسٹبل کے خوخیانے کی آوازیں آنی شروع ہو گئی تھیں، کوئی گڑبڑ تھی، تو لڑکے نے پریشانی ظاہر کی۔ وہ بولی کہ اسے، ڈاڑی جار کو، بکنے دو۔ سُپھری اس کا باپ آنے والا ہو گا تو اسے یہ ہڑبڑی ہے۔ سپھری کا سن کے لڑکے نے ڈر جانے کی اداکاری کی۔ بڑی بہو نے تسلّی دی اور نکل جانے کی جن مختلف ترکیبوں پر بات کر رہی تھی ان کے علاوہ کہنے لگی کہ ایک یہ سپھری بھی اُس کی "جان پچان” کا ہے جو تم لوگ کے کام آ سکتا ہے۔

            اس "جان پچان” کا مطلب لڑکے کی سمجھ میں آتا جا رہا تھا۔ اس نے چھیڑنے کو کہہ دیا کہ کیا وہ بھی "دوس” ہے تیرا؟ تو بپھر گئی۔ پولیس والے کو گالی دے کے سخت غصے میں بولی، "وہ سؤر سری سا کون کسی کا دوس ہوئیں گا رے! بس ایک ہی دھیان ماں رہتا ہے کوکری کا پِلّا۔”

            پھر اس کا غصہ دھیما ہوا تو کہنے لگی کہ سپھری صاب سے اس نے کوئی چھوٹے موٹے کام تو کرائے ہیں۔ پیسا لے کے اور جان پہچان میں ضرور وہ کچھ کر دے گا نہیں تو نیلما تیری تو ہے ہی سہی۔ بولی، "ٹھاکر! تو چِنتا نئیں کر جرا بھی۔۔  ہم جِندہ ہیں نا ابھی۔” اور وہ کنجی خانے سے اُسے نکال خود باڑی میں تحلیل ہو گئی۔

            لڑکا، یہ ظاہر کرتے ہوے کہ جیسے غسل خانے کی طرف اپنی ضرورت سے گیا تھا، واپس کمرے میں آ گیا۔

            لڑکی آلی جاگ رہی تھی۔ اُسے اس نے بتایا کہ نیلما سے امیدیں باندھی جا سکتی ہیں۔ آلی کو سپھری صاب کا زیادہ کچھ پتا نہیں تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ یہ پولیس افسر کس ڈھب کا ہے اور نیلما اس سے ان کا کام کرا لے گی تو کہنے لگی، "چل رے تیری اِجّت کھراب نئیں ہوئے گی، صئی کی صئی رہ جائے گی۔ بڑی بہو نے جو بھی اپنا شونق پورا کرنا ہے اُس کا جے اُس کا پولیس والا سُپھری آجوباجو بیٹھا ہے۔” لڑکی کو پریشانی میں بھی فقرے بازی سوجھی تھی۔ یہ اچھی بات تھی۔ لڑکا کیوں پیچھے رہتا، بولا، "اری پولیس والا ناں بھی ہوتا تو ہم پریمی ہیں تیرے۔ تیری کھاتر نیلما بڑی بہو سے ناں نئیں کریں گے۔ اِجّت، جان سبئی کھراب کرا لیں گے۔ دیکھنا، لٹائی دیں گے سب۔” لڑکی دیر تک "بڑا ہشیار ہے توں! بڑا ہشیار ہے!” کہتی رہی اور ہنستی رہی۔

            دونوں کو اطمینان ہو گیا تھا کہ ان کی رہائی میں اب کوئی اڑچن نہیں۔ اسی لیے خوش تھے۔ گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے میں سپھری صاب ایک جیپ، ایک ٹرک، ایک اردلی اور چھ کانسٹبلوں کے ساتھ شور شرابا کرتا آن وارد ہوا۔ اسے دیکھ کے کسی پرانے دھاکڑ زمین دار، شکاری مجرے باز کا خیال آتا تھا۔

            جیپ سے اترتے ہی اس نے باڑی کے موتبر، اُس پھوپھی زاد کو آواز دی۔ "اماں کہاں ہو بھئی ماسٹر؟”

            ہیڈکانسٹبل اور اس کے ماتحتوں نے مستعدی سے گارڈ سلامی دی تو سپھری صاب نے "ہیلو ہائی!” کے انداز میں ہاتھ لہراتے ہوے ہنس کے ہیڈ سے کہا، "کیوں بیٹے ڈھیں ڈَس! تو نے سالے، پھر سی گلز پکڑ لیں؟۔۔  ہہہ ہا۔۔  بڑا شوق ہے بے شکار کا؟ ہُوں؟” ہیڈ صاحب نے ہاتھ باندھ کے کھیسیں نکال دیں۔ باس کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی برابر کا حوالدار ساتھیوں پہ فقرے مارتا گزر رہا ہو۔

            سپھری صاب کچھ نہیں تو پچاس باون برس کا ہو گا۔ منھ میں اُس کے نقلی دانتوں کی قیمتی پلیٹیں لگی تھیں اور بال اچھے خضاب سے رنگے ہوے تھے۔ آنکھوں کے نیچے پرانے شرابیوں والی گلابی تھیلیاں بن گئی تھیں۔ لگتا تھا اس کا بدن بےدردی سے استعمال کیے جانے پر اب گھلنے سا لگا ہے۔ ویسے وہ ہر طرح خوش مزاج دکھائی پڑتا تھا۔ خیال ہوتا تھا کہ دم درُود ہو نہ ہو، اپنی چٹک مٹک سے سپھری صاب ساری کمیاں پوری کر لیتا ہو گا۔

            جتنی دیر میں موتبر بھاگا بھاگا آتا اور ہاتھ پاؤں جوڑ کے سلامی گزارتا اور اردلی اپنے صاحب کا سامان باڑی میں کہیں منتقل کرتا، سپھری صاحب اپنی وردی کی پتلون پر چاندی کی مُوٹھ والا بید مارتا "ملزم معائنے” کو ٹہلتا ہوا قیدیوں والے کمرے کی طرف چلا گیا اور "اچھا اچھا” کہتا، ان کا سلام لیتا، نظروں ہی نظروں میں ملزمہ کو پڑتالنے لگا۔ لڑکی آلی نے لمبا سا گھونگھٹ کھینچ لیا تھا، اس لیے سپھری کو پڑتالنے میں کوئی زیادہ کامیابی نہیں ہوئی تو وہ لڑکے کی طرف متوجہ ہوا، "ہاں بھئی، تمھارا بیان ہے کہ تم اس کے شوہر ہو؟ ہاں؟ ٹھاکر ساون صاحب وکیل!”

            لڑکے نے کہا، "ہاں سر! آپ کا داس۔ ساون سنگھ راٹھوڑ، وکیل۔”

            "اُوں؟ گویا مسئلہ ہی کوئی نہیں؟ اَیں؟ وکیل ہو؟ تو بیٹے وکیل! دیوانی کیس لیتے ہو یا فوجداری؟”

            لڑکا ہنسا، "سر! آدمی چھوٹا ہوں پر گوتر جنگی ہے۔ راٹھوڑوں کا تو کھیل ہی فوجداری کا ہے۔ آپ جانو، دیوانی کِصّوں میں ٹائم کھراب ہوتا ہے۔ ہم راٹھوڑ بے صبرے، بےچین لوگ ہیں۔ کھان صاحبوں کی طرح۔ دیوانی کیسوں میں مجا نہیں آتا۔”

            سپھری صاب جماہی لیتے ہوے بولا، "سچ کہتے ہو وکیل!۔۔  اچھا۔۔  بات ہو گی۔ ویسے۔۔  اِدھر کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟”

            لڑکے نے ہنستے ہوے ہاتھ جوڑ دیے۔ "فائیو اشٹار ہوٹل کے مجے آ رہے ہیں سر!”

            سپھری صاب بھی ہنسا، "یار تو آدمی بال برابر ہے مگر لگتا ہے پھکیت! ہاہاہا۔” اور اپنی پتلون کو بید سے مارتا ہوا وہ اندر چلا گیا۔

            رات کا کھانا وقت سے پہلے مل گیا۔ کھانا دینے نیلما نہیں آئی۔ لڑکی آلی کو ایک بار باڑی میں جانا ملا۔ واپس آ کے اس نے لڑکے کو بتایا کہ نیلما کے سوا سب نظر آ رہے ہیں۔ وہ باڑی میں اندر باہر کہیں مصروف ہو گی۔ چھوٹی بہو سے پوچھا تھا تو اس نے جھُلسن میں بس اتنا کہا کہ "سپھری صاب سے پوچھو کہاں ہے نیلما۔۔  ہم سے کا پوچھتی ہو؟”

            لڑکا آلی سے بولا کہ ہاں وہ مصروف ہو گی، سپھری سے ہمارے لیے بات کرتی ہو گی۔ سنّاٹے میں بیٹھی سوچتی ہوئی لڑکی آلی کے چہرے پر ایک لہر سی آ گئی۔ لڑکے سے مسکرا کے بولی، "ہاں رے، صئی ہے نا۔۔  اچھی طرح بات کر لے سُپھری سے، کوئی کسر بٹّہ نئیں چھوڑے۔ نئیں تو ہم دوئی نے رُل جانا ہے۔”

            دونوں پھر امید کی خوش مزاجی میں ہنسنے لگے۔

            رات میں اکیلے لڑکے کی طلبی ہوئی۔ باڑی کی ڈھنڈار بیٹھک میں چنی ہوئی آستینوں والے ململ کے کرتے اور چوڑی دار پے جامے پر مخمل کی مَسٹرڈ کلر نیم آستین پہنے سپھری صاب بوتل شیشوں سے کھیل رہا تھا۔ اس نے سیدھے ہاتھ کی کلائی سے مولسری کے پھولوں کا دوہرا کنٹھا لپیٹ رکھا تھا جسے وہ کبھی کبھی بےخیالی میں پھرانے لگتا۔

            گندھی کے لڑکے نے پہنچتے ہی بندگی گزاری۔ "آداب عرض ہے سر، سُپھری صاحب!”

            سپھری نے کنٹھے والا ہاتھ ہوا میں لہرایا، "اَمے ٹھاکر! یہ کیا طوُطیوں کی طرح سُپھری صاحب سُپھری صاحب بکے جا رہے ہو؟ میاں نام ہمارا نعمت الله خاں شُکری ہے۔ عوام الناس سالے شُکری کو سُپھری کہتے ہیں۔ آپ تو مت کہو بیٹے! پڑھے لکھے آدمی ہو۔۔  پیگ بناؤں تمھارے لیے؟”

            لڑکے نے کہا، "سر کسم کھائی ہے، جب تک اہلیہ کی، میری گلو کھلاصی نہیں ہو گی، شراب نہیں چکّھوں گا۔”

            وہ سرسری سا ہاتھ لہرا کے بولا، "ہو جائے گی، ہو جائے گی گلو خلاصی۔ ایسی کیا قباحت ہے۔”

            اس کے بعد ایک ڈیڑھ منٹ میں وہ سیدھی سادی کاروباری گفتگو پر آ گیا۔

            نعمت الله خاں شکری اپنے ہیڈ کانسٹبل کی ابتدائی رپورٹ پر کام کر کے چلا تھا۔ چھوٹتے ہی بولا کہ دوارکا کے تیرتھ کو جیپ نمبری اتنے اتنے میں آپ اپنی اہلیہ کے ساتھ جا رہے تھے کہ گاڑی خراب ہو گئی۔ آپ پیدل سلایہ کی طرف چل پڑے۔ لڑکے نے "ہاں” میں سر ہلایا۔ پوچھنے لگا، "جیپ ابھی تک وہیں کھڑی ہو گی؟ ہاں وکیل؟”

            لڑکے نے کہا کہ ہاں جی، تو بولا، "رکیے رکیے۔۔  پہلے سن تو لیجیے۔ جو جگہ آپ نے جیپ خراب ہونے کی بیان کی ہے بھیّا! وہاں کچھ نہیں ہے۔۔  ٹائروں کے نشانات تک نہیں ہیں۔ میں خود ہو کر کے آیا ہوں۔۔  سمجھے بیٹے؟”

            لڑکے نے ہنس کے آزمائشی بے خوفی سے کہا، "سر! آپ لوگ صئی جگہ نہیں جا پائے ہوں گے۔ میرے ساتھ چلو۔”

            وہ بھی ہنسا۔ "چلیں گے پیارے! ضرور چلیں گے۔ پہلے ایک اَور بات صاف ہو جائے۔”

            "کیا؟”

            "گڑھ کلاں میں اپنا ایک شاگرد ہے، سب انسپکٹر ہاڑا۔۔  جُگل سنگھ سمیردیو ہاڑا۔۔  بڑا ہونہار بچہ ہے۔ اس نے کل سارا دن وہ جگہ راٹھوڑ کوٹ، گڑھ کلاں میں تلاش کی ہو گی۔ ٹیلی فون پر تو راٹھوڑ کوٹ کا نام سن کے ہنس رہا تھا۔ کہتا تھا شکری سر! یہاں ڈھائی تین مہینے میں کوٹ نہیں کھڑے ہو جاتے۔۔  سائنس کا زمانہ ہے۔ ویسے اگر کوئی ارب پتی سوچ لے تو گڑھی کوٹ بنوا بھی سکتا ہے۔۔  مگر پھر بھی کوٹ کا حصار، گڑھی، نِواس بنتے بنتے تین چار برس تو لگتے ہی ہوں گے۔ سمجھے بھیّا؟ اپنا یہ ایس آئی ڈھائی تین مہینے کے لیے باہر ٹریننگ کو گیا تھا۔ اب آیا ہے تو کہتا ہے، سر! یہ نیا کوٹ تلاش کروں گا۔ اگر اس نام کا کوئی قلعہ، گڑھی، حصار، گھر، محلّہ کچھ بھی بن گیا ہو گا تو ضرور عرض کروں گا۔ میرا خیال ہے بیٹے! دو تین روز میں وہ یہاں بھیجے گا کسی کو یا ہاڑا خود ہی آ جائے گا۔۔  تو یہ ہے۔”

            لڑکا اپنے پیسے اور تِل والی کی دی ہوئی تسلّی میں تھوڑا دلیر ہو رہا تھا۔ بولا، "آپ کو سر! میرے بیان پر شک ہے؟”

            شکری ہنسا۔ "لاحول ولا قوة! ارے بیٹے! شک کس گنہگار کو ہو گا۔ میں تو ٹھاکر، پورے یقین سے کہہ رہا ہوں کہ آپ نے ہمارے ہیڈ صاحب کو اور معتبر کو بیان نہیں لکھوایا، جھک ماری ہے، اور جناب بکواس کی ہے اعلیٰ درجے کی! ہہہ ہاہاہا۔۔  تو یہ ہے۔”

            لڑکا اس کی ہنسی میں شامل ہو گیا۔ یہ بات شکری کو پسند آئی۔ ہاتھ پر ہاتھ مار کے بولا، "بناؤں ایک چھوٹا پیگ؟ ارے کون دیکھتا ہے یار! تیری ٹھکرائن تو اب تک سو بھی گئی ہو گی؟ ہاں؟” مگر اس کی آنکھوں میں کِینے کی چمک تھی۔

            تو اب ایک خوف نے لڑکے دل میں جگہ بنانی شروع کر دی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوے شراب سے انکار کر دیا۔

            شکری نے تلے ہوے باداموں سے مُونہامنھ بھری بلّور کی طشتری اس کی طرف سرکائی۔ "لو، بادام کھاؤ، ساون سنگھ ٹھاکر! بادام دماغ کے لیے بہت مفید ہوتے ہیں۔” پھر اس نے بادام کا ایک اَور فائدہ بتایا، مگر وہ محض بدمعاشی کی ذیل میں آتا تھا اور لچر پن سے بتایا گیا تھا۔

            لڑکے نے تھوک نگل کے خود کو ذرا سنبھلا ہوا، قابو پایا ہوا ظاہر کیا، پھر چمکتے لہجے میں کہا، "سر! یہ جو دو چھوٹے پوائنٹ آپ نے نکالے ہیں، اصل میں اپنے کو جیادہ کوئی امپارٹینٹ نہیں لگ رہے۔ ہم دونوں ہی سر، دنیا دار پُرش ہیں۔ میرا اپنا چھوٹا سا پھیلاوا ہے جسے سنبھالتا سنبھالتا اِدھر تک لے آیا ہوں۔ بڑے لوگ ہو، آپ کا اپنا سٹ اپ ہے۔ تو اب سمجھ میں یہ آرا ہے سر! کی ایسا کچھ آگے بھی چلے کی ہم بھی کھش کھش ادھر سے چل پڑیں، آپ بھی پرسنّ ہو کے اس چھوٹے آدمی کی دوستی، جان نثاری کو دو اچھے شبد بولتے نکل لو ادھر سے۔۔  تو یہ ہے سر!”

            شکری ہنس پڑا۔ "بیٹے، رشوت کی آفر کر رہے ہو؟”

            لڑکا اس کی صورت تکنے لگا۔

            شکری بولا، "ٹھاکر! بھئی یار مسئلہ ہی کوئی نہیں۔ نعمت الله خاں صاحب شکری کے لیے الله تبارک تعالیٰ نے بڑی نعمتیں اُتاری ہیں۔ آہا ہاہا! ہم تو ٹھاکر بیٹے، شکری ہیں ہی اس لیے کہ نعمتوں کا شکر کرتے ہیں۔” اسے ہچکی آئی تو لمحے بھر کو رکا، پھر کہنے لگا، "بات اپنی کہہ دینے میں کوئی باک نہیں ہونا چاہیے۔۔  ویسے یہ باک کیا ہوتا ہے؟۔۔  یاک تو ایک چوپایہ ہے اپنے برفانی علاقوں کا، جس کے سارے بدن پر موئے زیر شکم جیسے یہ بڑے بڑے بال ہوتے ہیں۔۔  تو خیر۔۔  مختصر یہ کہ رشوت وغیرہ میاں وکیل، ہم نہیں لیتے۔ ایسے گدھے پن کی آفر وکیل، تم پھر کبھی مت کرنا، ورنہ ہم ٹنڈی کسوا دیں گے قسم ایمان کی!۔۔  آپ نے دیکھا ہو گا، وہ جو ہمارا ڈَھیں ڈَس حوالدار ہے وہ سالا ٹنڈی کسنے میں ماہر ہے۔ ایک دم حرام الدہر ایکسپرٹ ہے۔ اب آپ جاؤ، پچ! شاباش، ٹھکرائن کے پاس جاؤ، لیٹو، بیٹھو، ہم بستری کرو، گپ مارو۔۔  چڑھ جاؤ سالو سُولی پر، رام بھلی کرے گا۔”

            یہ سب کہہ کے شکری نے آہستگی سے گلاس میز پر رکھا اور کشن کھینچ کر سوفے پر دراز ہو گیا۔ لگتا تھا گرتے ہی سو گیا ہے۔

            آگے اُس سے بات نہیں کی جا سکتی تھی۔ لڑکا خوف زدہ، دھیرے سے اُٹھا اور کمرے کی طرف چل پڑا۔ جو کہتے ہیں نا کہ ایک ایک پاؤں من من بھر کا ہو رہا تھا تو وہ کیفیت تھی۔ اس لوفر پولیس افسر کی الٹاپلٹیوں نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ ایک امید اس بدنصیب شُکری سُپھری کے رشوت خور ہونے سے پیدا ہوئی تھی تو وہ اس ملاقات کے ساتھ ختم ہو گئی۔ خدا معلوم یہ سالا اب کس چکّر میں ہے؟ کیا چاہتا ہے؟

            بہت مایوسی میں اور پراگندہ ذہن کے ساتھ گندھی کا لڑکا اندھیرے کے مختصر ٹکڑے سے روشنی اور پولیس گارڈ کے سامنے آنے والا تھا کہ جہازی گملے کی اوٹ سے ایک سایہ جھپٹ کے نکلا اور کمر میں ہاتھ ڈال کے اس نے لڑکے کو دوبارہ اندھیرے میں کھینچ لیا۔ اس کے چہرے سے اپنا مُشکی تِل والا رخسار بھڑا دیا۔ "اُدھر کو نہیں، اِدھر آ ٹھاکر! جاتا کدھر ہے دوس؟” اس کی سانس میں تیز ملیٹھی کی مہک تھی۔ لڑکے نے جھنجھلا کے دھیرے سے پوچھا، "تو بھی کچھ پی پا کے تو نہیں آئی؟”

            بولی، "ہاں رے! تیرے پریم کا پیالہ پیا ہے۔۔  اس کر کے دان دَکشنا دینے آئی ہوں۔ اپنے سر کی دَکشنا۔۔  وہ بولتے ہیں نا۔۔  پریم پیالہ جو پیے سِیس دَکشنا دے۔”

            لڑکے نے کہا، "شعر کوِتا چھوڑ، میرے سے سیدھی بات کر۔ وہ تیرے سپھری صاب نے کھوپڑی پھرا دی ہے میری۔۔  ٹیڑھی ٹیڑھی باتیں کر رہا تھا سَوری کا۔”

            "سن رئی تھی رے۔ تو پروا نئیں کر۔ لمبی رکم کھیچنے کو یا ہی سب ناٹک کرتا ہے بانَر کی اولاد۔ چنتا نئیں کر۔ ابھی صبے سے پہلے پہلے۔۔  رات ماں… سبئی ٹھیک کر لوں گی۔ ایک دم پکّا۔ یہ بتا کوئی پئیسے کا سادَھن کر سکتا ہے توں؟۔۔  ایک ئی دو روج ماں؟”

            لڑکے نے کہا، "بول کتنا پئیسا؟” وہ پھر پُر امید ہو چلا۔ "بتائی دے۔ کل سانجھ پڑنے سے پہلے سب ہوئی جائے گا۔”

            عورت اس سے سٹ کے کھڑی تھی۔ سینے سے سر ٹکا کے لمحے بھر کو ساکت ہوئی، جیسے گہری سوچ میں ہو، پھر دھیرے سے بولی، "بہت میں بہت دوئی لاکھ کر لے۔”

            اب کے لڑکے نے سوچ کی حالت بنائی، دھیرے دھیرے کچھ ہُوں ہاں کیا، پھر کہنے لگا، "نگد کا نئیں بول سکتا، پر کوئی دو لاکھ کا آسرا ہوئی جائے گا۔ یہ سمج کی سانجھ پڑنے سے پہلے اِدھر باڑی میں ہی بندوبست کر دے گا کوئی۔”

            وہ حیران ہوئی۔ "اِدھر کیسے؟”

            لڑکا ہلکی ہنسی کے ساتھ بولا، "بس ہَے کوئی۔”

            "پر کیسا؟ کون؟۔۔  کوئی تیرا جان پچان کا ہے؟”

            "ہاں۔ تُو ہے نا۔”

            "مجاک نئیں کر۔۔  صئی بات بول۔”

            لڑکے نے سوچا بتا دینا ہی اچھا ہے۔ بولا، "دو لاکھ کا سونا ٹکیا اپنے کنے ہے۔۔  اِتّائی ہے بس۔”

            وہ خوش ہو گئی۔ "چل ٹھیک ہے۔۔  پر اُسے سُپھری کو بولنا کچھ نئیں۔” پھر سوچ میں بھی پڑ گئی۔ سر ہلا کے بولی، "بنا لوں گی کچھ۔۔  کر لوں گی کوئی الٹ پھیر۔ رات ماں ہی سؤر کے جنے کو دو لاکھ پر پکّا کروں گی۔” اور اس نے لڑکے کے رخساروں، ہونٹوں، گردن پر انگلیاں دوڑائیں جیسے نابینا لوگ چہرہ پہچاننے کو کرتے ہیں۔ پھر وہ اس سے الگ ہو گئی اور جیسے دھکّا دے کے اسے روشنی کی طرف ہنکا دیا۔ سرگوشی میں کہا، "جا۔ ابھی سو جا۔” اور خود اندھیرے میں گھُل گئی۔

            وہ کمرے میں آیا تو لڑکی آلی جاگتی اور انتظار کرتی تھی۔ پوچھنے لگی کیا ہوا؟ لڑکے نے بہت چمک دار لہجے میں بڑی اُمنگ سے خبر دی کہ سب ہو گیا ہے۔ لیکن وہ سمجھ رہی تھی کہ ہمّت دلاتا ہے، ہوا ہوایا کچھ نہیں۔ شاید کوئی اُلجھن پڑ گئی ہے جو لڑکا اسے بتائے گا نہیں۔

            یہ رات لڑکی آلی نے تکلیف میں گزاری۔ گندھی کا لڑکا بھی کچھ سو لیا ہو گا۔

            اگلی صبح بھی ان کے لیے منھ اندھیرے شروع ہوئی۔

            لڑکی آلی اندر سے لوٹی تو اس کے ماتھے پہ بل تھے۔ ناشتہ چائے لانے والی عورتیں چلی گئیں تو کمرے کا دروازہ آدھا بند کر کے لڑکی سرک آئی اور لڑکے سے کہنے لگی، "وہ پولیسیا سُپھری بیٹھک میں سویا پڑا تھا۔ بڑی بہو مجھے دیکھ کے بیٹھک سے نکلی۔ اندر آ گئی، آنگن کی طرف کو چلی، بس منٹ بھر رکی۔ ایک باری مجھ سے بولی، ٹھاکر کو بول دینا اِدھر سلایہ گاؤں کا جو بھی آدمی جو چیج بھی پہنچائے کھاموسی سے لئی لینا، سمبال لینا۔ مَنعے نئیں کرنا۔”

            لڑکے کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ کون آدمی ہے؟ کیا پہنچائے گا؟ مگر اس نے ہاں میں سر ہلا دیا۔ یہ ظاہر کیا جیسے اسے سب معلوم ہے۔

            باڑی کے لیے یہ دن دیر سے شروع ہونا تھا، کیوں کہ پولیس والے کو دیر سے اُٹھنا تھا۔

            کوئی نو، ساڑھے نو بجے ہیڈ کانسٹبل لڑکے کے پاس مستعدی سے آیا۔ بولا، "ٹھاکر! تمھار  ملاکات آئی ہے۔” لڑکے نے سوچا اچھا، وہ آدمی آ گیا۔ ہیڈ کانسٹبل کے ساتھ تیز قدموں سے باہر آیا۔ ایک ہَولُو شکل کا آدمی موتبر سے کھڑا باتیں کر رہا تھا۔ وہ اس جعلی ٹھاکر کو دیکھ کے آگے بڑھا، اوور ایکٹنگ میں اس کے پاؤں چھوئے۔ پھر اسٹینڈ پر کھڑی اپنی بائیسکل کے کیرئیر میں پھنسے دو پکے انناس نکال کے اس کی طرف بڑھا دیے۔ لڑکے کے انناس سنبھالتے ہی سلایہ کے ہولو آدمی نے ہاتھ جوڑ سلام کیا اور موتبر اور کانسٹبلوں سے رخصت ہوتا، بائیسکل چلاتا، وہ باڑی کے صدر دروازے سے نکل گیا۔ ہیڈ نے گندھی کے لڑکے سے کہا، "بس جی، اِتّا ہی آڈر ملا تھا۔” مطلب، اب آ جاؤ اپنے قید کے کمرے میں۔

            لڑکے نے انناس آلی کے حوالے کر دیے۔ عام سے پھل تھے۔ وہ انھیں الٹ پلٹ کے دیکھتی رہی۔ پھر سونگھنے لگی۔ پھر کچھ نہ سمجھ میں آیا تو نوکرانی سے ہنسیا منگا کے اس نے ایک پھل کاٹا۔ دونوں نے کھایا۔ اس کے رس اور گودے اور مزے کی تعریف کی۔ ابھی تک لڑکے کی سمجھ میں تو کچھ آیا نہیں تھا۔ دوپہر کے کھانے کے وقت تک دونوں میں سے کوئی نہ سمجھ پایا۔ اس کے بعد منٹ بھر کے لیے بہت ہڑبڑی میں جھپٹتی، گہرے گہرے سانس لیتی، بڑی بہو نیلما آئی۔ لڑکے کے سامنے پکی رس بھریوں کی تھالی رکھتی ہوئی سرگوشی میں بولی، "دوئی لاکھ تیار کر لے۔۔  سُپھری اَبی تیرے کو بلائیں گا۔”

            تھوڑی دیر بعد لڑکے کو بیٹھک میں بلا لیا گیا۔

            نعمت الله خاں شکری پتلون ٹی شرٹ پہنے، خوب نہایا دھویا، بالوں کو برِل کریم سے سیٹ کیے، کلون لگائے، سامنے رکھی بلّور کی تھالی میں بھدّے پن سے انگلیاں پہنچاتے ہوے رس بھریاں اٹھا اٹھا کے منھ میں اُچھال رہا تھا۔ اس دکھاوے کی شگفتگی اور نمائشی لا ابالی پن کے باوجود رات کی جگار، مے نوشی اور بے اعتدالی کا پیلا رنگ اس کے گورے چٹے زمیندار چہرے پر خوب کھِنڈا ہوا تھا۔ آنکھیں بھی سرخ ہو رہی تھیں۔ آواز معمول سے زیادہ بھاری تھی اور چیزوں پر اس کا ہاتھ اوچھا پڑ رہا تھا۔

            لڑکے سے کہنے لگا، "رس بھری کھاؤ۔۔  اس موسم میں مقوّی کا حکم رکھتی ہے رس بھری۔ کیا کوئی حکیم سالا ماء اللحم۔۔  اور وہ کیا چونچلے ہوتے ہیں سلاجیت ولاجیت کے وہ سب۔۔  کیا تیار کرے گا۔۔  آج کل اِن دنوں میں رس بھری ایک دم بس مغلّظ ہے سالی۔”

            گندھی کے لڑکے نے شکریہ ادا کرنے کو ہاتھ جوڑ دیے اور رس بھری کے دو دانے سلام کر کے اٹھا لیے۔

            شکری بولا، "بس، دو؟” پھر ٹھٹّھا مار کے ہنسا۔ "چلو، رات ہم نے دو پہ ہاں کر دی تھی معشوق سے۔ تو دو ہی پہ معاملہ ختم کرو ٹھاکر ساون سنگھ جی۔۔  نکالو، کہاں ہے؟۔۔  کیا ہے؟”

            وہ اس طرح ایک دم جست کر کے اپنے مطلب کے موضوع پر آ جاتا تھا کہ حیرت ہوتی تھی۔ خیر، لڑکے نے جیب سے سونے کی ٹکیاں نکالیں اور دونوں ہاتھوں پہ رکھ کر پیش کر دیں۔ ان کی مالیت آٹھ نو ہزار روپے زیادہ ہی تھی۔ شکری انھیں ہاتھ میں لیتے، اُچھالتے، میز پر بجاتے، کیرم کی گوٹوں کی طرح کھیلتے ہوے پہلے ہنسا، پھر انھیں کاروباری انداز میں سمیٹ کر اٹھا۔ پتلون کی جیب میں ڈال کے دھپ سے بیٹھ گیا اور دوبارہ رس بھریوں کا کھیل کرنے لگا۔

            گندھی کا لڑکا خاموش بیٹھا اس کی صورت تک رہا تھا۔

            پولیس والا ایک دم بولا، "لڑکے! تمھارے بارے میں کچھ نہیں معلوم مجھے۔ اور جب مجھے لاعلم رکھا جاتا ہے تو میں اس کے الگ پیسے چارج کرتا ہوں۔ ہاں۔۔  جب خود لاعلم رہنا چاہتا ہوں تو الگ سے پیسے نہیں لگاتا۔ بالکل نہیں۔۔  مروّت بھی آخر کوئی چیز ہے۔ یہ دو لاکھ مروّت کا ریٹ ہے۔ اگر نیلما جانی نہیں ہوتی بیچ میں تو پورے چار لیتا۔ اس لیے کہ مجھے تو کچھ بھی نہیں معلوم، کہاں سے آئے ہو، کہاں جاتے ہو، کون ہو؟ مگر مجھے پروا نہیں ہے۔ زبان دے دی۔ نہیں دی ہوتی تو پورے چار لیتا، ایک پیسا کم نہیں۔۔  کس لیے کہ بھئی اس چار میں سے ایک تو عطا اور بخشش میں نکل جاتا۔ اب اس دو میں سے پچاس ہزار کا دان پُن کروں گا۔ یہ بھی نہ دوں تو کوئی سالا کیا کر لے گا؟۔۔  یہ سب اُلو کی دُم، محکمہ جاتی خچر اور بکریاں وغیرہ پان پان سَو کی اسامی ہیں۔۔  خوش ہو کے، دُم ہلا کے لیں گے۔ کیوں کہ میں انھیں ان کی اوقات سے زیادہ، ڈبل دوں گا۔۔  گویا ہزار ہزار۔ حوالدار ڈَھیں ڈَس سالے کو دو ہزار۔ اور جو وہ میرا بچہ ایس آئی ہاڑا آ رہا ہے اسے بیس ہزار۔ ہہہ ہاہاہا۔۔  ابھی وہ ٹریننگ کو گیا تھا تو سنا ہے ایک مسلمان داشتہ ساتھ لے آیا ہے۔۔  رکھیلوں، بندوڑ والیوں پر بڑا خرچ کرتے ہیں یہ جذباتی ٹائپ کے لونڈے۔ اتنا سمجھاتا ہوں کہ بیٹے! مفت میں قیام وطعام کا اصول اپنانا چاہیے۔ مطلب سب بھوجن وغیرہ اور وہ سب اگر مفت میں نہیں کیا تو پھر کیا خاک پولیس افسری کی۔”

            وہ اَور بھی ڈینگیں ہانکتا، مگر گندھی کے لڑکے نے ہاتھ جوڑ کے عرض کی، "سر! جہاں اتنی کرپا کی ہے وہاں یہ بھی پھَرما دو کہ اب ہم پتی پتنی کے بارے میں کیا حکم ہے؟”

            ہنس کے بولا، "بیٹے ساون سنگھ۔۔  اور وہ کیا؟۔۔  ہاں، راٹھوڑ! ہمارا تمھارا معاملہ اب چُکتا سمجھو۔ تم اب صرف باڑی کے، مطلب ہمارے معشوق کے، مہمان ہو۔ جب وہ اجازت دے، نکل جانا جدھر مرضی ہو۔ اور اپنے معاملے کا یہ ہے کہ تم نے مال دے دیا، یہ سمجھو ہم نے گارد ہٹا لی۔”

            لڑکا گھگھیایا۔ "وہ تو ٹھیک ہے سر! ایک دم درست۔ پر مہمانی مجوانی کا بھی آپ ہی حکم کرو گے۔۔  اِدھر باڑی والوں سے۔۔  اور ایک بات عرج کروں۔ سرکاری باتوں میں بولنے جوگا تو نہیں ہے یہ کھاکسار، پر اتنا جرور ہے کہ نفری کو گھنٹا ایک کے لیے باڑی سے ہٹا لو گے سر، تو ڈیپارٹمنٹ کی شرما حجوری بھی بنی رہے گی۔۔  ہم دوئی نکل جان گے باڑی سے۔”

            کہنے لگا، "صائب مشورہ ہے۔ ایک بندے کو باہر کسی کام سے بھیجا ہے۔ وہ آ لے تو ہٹاتا ہوں سب سالوں کو۔ پھر تم اور تمھاری وہ۔۔  ٹھکرائن۔۔  نیلما کو بتا کے نکل جانا۔۔  ویسے نام کیا ہے بائی کا؟”

            اَور کچھ دیر اس کی بک بک جاری رہی۔ اس اثنا میں باڑی کا موتبر، پھوپھی زاد، چاندی کے چمچماتے کٹوروں میں خوب کڑھے، گلابی ہو چکے دودھ میں بادام پستے مغز گھونٹ پیس کے لے آیا، اور بتانے لگا کہ اس میں کیا کیا ہے۔ شکری نے لڑکے کو اشارہ کیا کہ لو۔

            لڑکے نے ہاتھ جوڑ کے پوچھ لیا، "سر! اس میں بھانگ تو نہیں ہو گی؟”

            تو پولیس والا بے اختیار ہنس پڑا۔ بولا، "ٹھاکر! ہم آپ کو بھانگ کیوں پلانے لگے؟ آپ کو سفر درپیش ہے بیٹے! بھانگ پییں تو یہ سالے باڑی والے پییں۔ سورگیہ ماسٹر کا یہ پوتا پیے، جو سالا اصل میں نواسہ ہے لیکن خود کو پوتا مشہور کیے ہوے ہے۔۔  کیوں بے؟۔۔  یہ کیا بدمعاشی ہے؟”

            پھوپی زاد نے ہاتھ جوڑ کے کھیسیں نکال دیں۔ اور اس وقت خبر نہیں دونوں کے بیچ کیا سگنل اِدھر سے اُدھر ہوا کہ شکری کھڑا ہو گیا، اس نے اپنی پشت پر ہاتھ پہنچایا، پتلون کی پچھلی جیب سے چھوٹا سا پستول نکالا اور لڑکے کی طرف سادھ لیا۔ بولا، "ٹھاکر بیٹے! ضابطے کی ایک چھوٹی سی کارروائی رہتی ہے۔ آپ کی جامہ تلاشی لینی ہے۔ یہ سالا پوتا دروازہ بند کر دے گا۔ آپ بے فکر ہو کے ننگا جھاڑا دے دو۔۔  چلو۔۔  شابش! دیر نہیں کرو۔ دروازے بند ہیں سب۔ آپ کی بےعزّتی ہونے کا بھی کوئی احتمال نہیں اور سردی بھی نہیں لگے گی۔۔  ہاں، چلو۔۔  سویٹر، قمیص، بنیان، پتلون، چڈّی، سب گِرا دو بیٹے فرش پر۔۔  کم آن!”

            اب تو سب کھیل ہی ختم ہو گیا تھا۔

            گندھی کے لڑکے نے بہت بےبسی اور مُردنی سے شکری کی طرف دیکھا۔ دل میں کہا، "حرام جادہ ہے۔”

            شکری ہنسا۔ بولا، "ہماری نیلما جانی نے کہا تھا کہ کہیں سے تمھارے پاس دو لاکھ آ جائیں گے۔۔  شام سے پہلے۔ ہم نے سوچا، بھئی کہاں سے آئیں گے؟ دور دور تک تمھارے کسی والی وارث سالے کا پتا نہیں ہے۔ ہائیں؟ بھئی کون لائے گا۔ ہمیں فکر ہو گئی۔ پھر ہمیں بتائے بغیر ہماری نیلما جانی نے سالے حوالدار ڈَھیں ڈَس سے ایک ذرا سی فےوَر کی درخواست کر دی۔۔  کہ بھئی ٹھاکر کی ملاقات آئے گی تم ملنے دینا۔ وہ ایک حرامی۔ اس نے اس معتبر سالے کو میرے پاس بھیج دیا کہ سر، ایسا ایسا ہے۔ میں نے کہا آنے دو، ملنے دو، لانے دو، کیا لا رہا ہے۔۔  جو بھی لائے بسم الله۔ پھر اس بھان کے کا سراغ اٹھاؤ۔ معلوم کرو کون ہے۔ اگر مال لاتا ہے تو مال بھی کھا لو۔۔  بندہ بھی گھیر لاؤ۔ ہاہاہا! تو بھئی مختصر یہ کہ تم دونوں مرد عورت اُدھر انناس کھا رہے تھے، اِدھر وہ بائیسکل والا جو انناس لایا تھا سالا جوتے کھا رہا تھا۔ جب اُس گھونچوُ کی کھوپڑی نرم ہوئی اور ناک کے رستے کچھ خون بہا تو وہ بولا۔۔  اور اونچے سُر میں بولا۔ معلوم ہوا انناس اصلی تھے۔۔  مطلب سونا وونا نہیں بھرا تھا اُن میں۔ ہماری جانم نے تمھاری بات بنائے رکھنے کو اس گدھے کے ہاتھ بھیجے تھے وہ۔ اچھا؟ ہم نے سوچا، بھئی انناس میں مال نہیں آیا، پھر کہاں سے آیا؟۔۔  سیدھی سی بات ہے۔ مال تو تمام عرصے اپنے ٹھاکر ساون سنگھ مہودئے کی باڈی سے بندھا رہا تھا۔۔  اور بندھا ہے۔۔  یعنی کیا خبر اب بھی بندھا ہو۔ تو بیٹے اب چڈّی بنیان رہ گئے ہیں جھانکنے کو۔۔  آ جاؤ اِدھر کھلّے میں۔۔  ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔”

            لڑکا کیا کرتا اور کیا کہتا، خاموشی سے سویٹر اتارنے لگا۔ اس نے پتلون کی بیلٹ ڈھیلی کی، کھینچی۔

            شکری زیادہ دیر چپ رہنے والا کب تھا۔ کہنے لگا، "ایک بات بتاؤ یار! اتنا سونا وونا کہاں لے جا رہے تھے؟۔۔  سمجھ رہے ہو؟ اب تو تفتیش کا رخ ہی بدل گیا ہے، یعنی اب یہ معلوم کیا جائے گا کہ مال کہیں اُدھر تو نہیں جا رہا؟۔۔  دوسری طرف؟۔۔  تسلّی سے ننگے ہو لو، پھر دیکھتے ہیں۔”

            گندھی کے لڑکے کو سب سونا۔۔  اور شاید لڑکی بھی جاتی دکھائی دی۔۔  اور لے جانے والا کون؟ یہ مَرا، نِچڑا پولیسیا سالا۔

            اسی وقت پھوپی زاد کے ہاتھ سے چمچا یا کچھ اَور بہت آواز سے گرا۔ شکری چمک گیا۔ اس کے ہتھیار کا رخ اک ذرا دیوار کی طرف ہوا تھا کہ لڑکے نے مایوسی میں بیلٹ کھینچ کے بھاری بکّل پولیسیے کے ہاتھ پہ دے مارا۔ پستول چھُوٹ گرا۔ وہ گالی بکتے ہوے اٹھانے کو جھکتا تھا کہ مہاگنی کے بھاری اسکرین کے پیچھے سے کوئی اُچھل کے اُس پر آیا۔ لڑکے نے اُس عورت نیلما کے شوخ رنگ کے لباس کی جھلک اور ایک دھاردار ہتھیار کی چمک دیکھی اور یہ دیکھا کہ کس تیزی سے گرے ہوے آدمی پر سوار عورت کے دونوں ہاتھوں نے اپنا اپنا بھیانک لکشن پورا کیا ہے۔ اُلٹے ہاتھ نے گرے ہوے کا دہانہ جکڑ لیا اور سیدھے نے ہتھیار کا پھل اس کے گلے پر ایک کان سے دوسرے کان تک چلا دیا۔ بس خرخراہٹ سنائی دی۔ بڑی بہو نیلما تڑپتے ہوے اُلٹے آدمی کی گدّی پر گھٹنا جما کے بیٹھ گئی اور فوّاروں، تلّاریوں میں اس کی جان نکالنے کا جتن کرنے لگی۔

            لمحےبھر کو لڑکے کی اُس کی نظر ملی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ نیند میں ہے یا کوئی ایسی سحر زدگی ہے کہ نہ وہ اسے پہچان پا رہی ہے نہ خود کو پہچنوا سکتی ہے۔

            لڑکے کے لیے وقت بےحد سست رفتار ہو گیا۔

            باڑی کے پھوپی زاد کے لیے تو وقت کی رفتار جیسے ختم ہو گئی۔ وہ کھڑے کھڑے کانپنے لگا، اس کا پیشاب خطا ہو گیا۔ مگر وہ اپنی بے خبری میں شکری کا تڑپنا دیکھ رہا تھا۔۔  دیکھے جا رہا تھا۔

            اچانک لڑکے کو نیلما کی آواز سنائی دی۔ "اسے نا مردے کو اِدھر لے آ ٹھاکر! اِدھر لے آ”۔ لڑکے نے سن لیا تھا۔ وہ بڑھا۔

            موتبر پھوپی زاد کے پیر اب تک فرش نے پکڑ رکھے تھے۔ اس نے بھی عورت کی آواز سنی۔ بھاگنے کے لیے اس نے دروازے کے رخ سلو موشن میں چلنا شروع کیا۔ گندھی کے لڑکے نے پیشاب، پسینے اور جاں کاہ دہشت میں آب آب ہوتے اس جیلی آدمی کو گردن سے پکڑا اور باڑی کی عورت کے حوالے کر دیا۔ عورت نے پھوپی زاد کو ہتھیار دکھا، ٹھنڈے ہوتے شکری پر گرا لیا۔ پھر وہ خود اٹھی اور لاتیں مار مار کے اُس آدھے مُردے موتبر کو پولیس والے کے اب تک ٹھنڈے ہو گئے جسد پر اٹھاتی گراتی رہی۔ فرش پر پھیلا ہوا اور مُردے کے جسم سے رستا ہوا لہو موتبر کے ہاتھوں پر، اور چہرے اور لباس پر چھَپ گیا تھا۔ وہ اپنے مختل حواسوں کے ساتھ خوف زدگی میں اِدھراُدھر دیکھتا خود بھی بھیانک نظر آنے لگا۔ باڑی کی بڑی بہو نے اس کا کالر چھوڑ دیا اور نِنداسی آواز میں بولی، "سپھری کے پاس سے اپنا سونا نکال لے ٹھاکر! اس کی جیب ماں گڈّی کی چابی ہے۔۔  نکال لے میری جان! ٹھکرائن کو اپنی لے کے آ رے جلدی۔ دیری نئیں کر۔ جانے کا ٹیم کمتی ہے!”

            کچھ سنا، کچھ نہیں سنا، لڑکا بیٹھک کا دروازہ کھول کے نکل گیا۔ آلی کو بیٹھک تک لانا ہے۔ اس نے سوچا شاید یہ آخری آزمائش ہے۔ وہاں حوالدار موجود ہے اور باقی نفری بھی۔ ان تک شکری کے مرنے کی آوازیں تو نہیں پہنچی ہوں گی۔ اس نے خود کو تسلّی دی۔ "نہیں جی نہیں۔” باہر ہیڈ کانسٹبل اسے دیکھتا تھا۔ لڑکا کھسیائی ہوئی مسکراہٹ چہرے پہ جمائے چلتا رہا۔ پہنچ گیا۔ سرسری سا ایک بار پولیس والوں کو دیکھ کے وہ لڑکی سے کہنے لگا۔ "لے ری تیرا نمبر آ گیا۔ ڈی ایس پی صاحب یاد کر رہے ہیں۔” لڑکی آلی نے اس کے چہرے کی اُڑی ہوئی رنگت دیکھی، کچھ نہیں سمجھی، اس کے پیچھے پیچھے چل پڑی۔

            بیٹھک کے قریب پہنچتے ہوے لڑکے نے پھنسی ہوئی آواز میں کہا، "تیار ہو جا آلی! سُپھری نمٹ گیا ہے۔” لڑکی اب بھی نہیں سمجھی۔ دونوں بیٹھک میں داخل ہو گئے۔ اور وہاں لڑکی آلی نے خون دیکھا اور حلق کٹے آدمی کو فرش پر پڑا دیکھا۔ اسے موتبر کا چہرہ، کپڑے، ہاتھ پاؤں سب لہو میں سَنے ہوے دکھائی دیے اور لڑکے کے سنبھالتے سنبھالتے بھی اُس نے چیخوں پر چیخیں مارنی شروع کر دیں۔ موتبر جو اَب تک سکتے کی حالت میں کھڑا تھا، ایک دم گلا پھاڑ کے چیخنے لگا، "بچاؤ، بچاؤ! سپھری صاب کتل ہوئی گیا۔۔  کتل ہوئی گیا سپھری۔۔  بچاؤ رے بچاؤ۔”

            باڑی کی عورت جیسے اب نیند سے جاگتی جا رہی تھی۔ گندھی کے لڑکے کو دیکھ پکار کے بولی، "نکل جا رے ٹھاکر! باڑی کی کھڑکی سے کوُد کے نکل جا میری جان!”

            مگر باہر سے دوڑے آتے پولیس والے بیٹھک میں بھرتے جا رہے تھے۔ لڑکے نے حوالدار کے ہاتھ میں دو نالی شاٹ گن دیکھی۔

            ستّر طرح کی آوازوں کے اوپر سے باڑی کی عورت نے پھر چیخ کے کہا، "نکل جا رے دوس! نکل جا میری جان!”

            "کتیا سالی!” لڑکے نے دل ہی دل میں گالی دی۔ "مروا دیا میرے کو۔۔  سالی کتیا نے مروا دیا میرے کو۔”

            لڑکی آلی بھی برابر چیخیں مار رہی تھی۔ لڑکے نے پھر دل ہی دل میں گالی دی۔ "دَھت تیری تو!۔۔  دھت تیری ایسی کی تیسی!”

            باڑھ کا پانی سلایہ گاؤں کے ٹخنوں سے اوپر تک چڑھ آیا تھا۔

            سب چیزیں، سب لوگ ڈوبتے جا رہے تھے۔

٭٭٭

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید