ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف فائل
ورڈ فائل
ٹیکسٹ فائل
ای پب فائل
کنڈل فائل
…. مکمل کتاب پڑھیں
فہرست مضامین
مجو بھیا
قاضی عبد الستار
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
پنڈت آنند سہائے تعلقدار ککراواں کے مرتے ہی شیخ سرور علی نے مختاری کے چونچلوں کو سلام کیا اور کمر کھول دی۔ رئیس پنڈت درگا سہائے نے جھوٹ موٹ کی بھی کی لیکن شیخ جی (وہ ککراواں میں اسی نام سے بجتے تھے) اپنے ٹانگن پر سوار ہو کر مان پور آ ہی گئے۔ شروع شروع میں شیخ کو مان پور میں ایسا لگا جیسے صبح سورج کی مشعل لیے شام کو ڈھونڈھا کرتی ہے اور شام اپنی آرتی میں ستارے جلائے صبح کی راہ تکا کرتی ہے۔ مگر چیت کے آتے آتے انہوں نے کاشتکاروں سے اپنی سیر نکالی اور چار جوڑ بیل خرید کر کھیتی شروع کر دی۔
پہلا پانی پڑتے ہی بستی سے ملے ہوئے پاسی سکھیے کے پلاٹ پر کنواں کھود کر قلعی باغ کی طرح بھی ڈال دی۔ لیکن وقت اب بھی کاٹے نہ کٹتا۔ آخرکار انہوں نے اپنی شیخی کو طاق پر رکھ اور بستی کے بڑے بوڑھوں میں اٹھنے بیٹھنے لگے۔ کسی کو تعویذ لکھ دیتے، کسی کو سرمے منجن کا نسخہ بتاتے، کسی کے پھوڑے پھنسی میں اپنے ہاتھ سے پولٹس باندھتے، کسی کا خط لکھتے، کسی کا مقدمہ لڑتے۔ غرض پانچ چھ ہزار کی بستی وہ بھی مسلمان بستی، ان کا وقت پر لگا کر اڑنے لگا۔
شبرات کا چاند دیکھ کر وہ اپنی بیٹھک میں تخت پر بیٹھے حقہ پی رہے تھے کہ چھوٹے خاں اور گاؤں کے چودھری میر بخش دوچار بڑے بوڑھوں کے ساتھ آ گئے۔ شیخ نے ان کو پلنگوں پر بٹھایا، اور منظور کو آواز دی۔ وہ سیاہ لنگوٹ باندھے موٹے موٹے ہاتھ پیروں پر تازی تازی مٹی ملے دندناتا ہوا آیا اور بھونچکوں کی طرح کھڑا ہو گیا۔ شیخ نے بیٹے کا جو یہ حلیہ دیکھا تو حقہ کی چلم کی طرح جل گئے۔ کڑک کر پوچھا،
’’یہ کیا؟‘‘
منظور نے منمنا کر جواب دیا کہ مدّی چچا سے کشتی لڑ رہا تھا۔ مدّی جو بڑے بڑے پہلوانوں سے لنگوٹ چھین چکا ہے؟ شیخ معلوم نہیں کیا کیا سوچ ڈالتے کہ چھوٹے خاں نے چونکا دیا۔
’’شیخ جی۔۔۔! بستی میں ساری برادریوں کے چودھریوں نے ایک بات طے کی ہے۔۔۔‘‘
’’میں بغیر سنے مانے لیتا ہوں۔۔۔‘‘ شیخ بولے۔
’’ماننے کی بات نہیں کرنے کی ہے۔۔۔‘‘
’’معلوم بھی تو ہو۔۔۔‘‘
’’بات یہ ہے کہ ہماری مسجد ہے بہت چھوٹی اور بستی کے نمازی تو آپ جانتے ہی ہیں پانچ چھ ہزار کی بستی کے نمازی ہیں۔۔۔ سمائیں تو کہاں سمائیں۔ جہاں تک پیسے کا معاملہ ہے تو روپیہ گھر بھی لے لو تو بوری بھر جائے گی۔۔۔ ہاں زمین کی بات ٹیڑھی ہے۔ آپ نے بتیس برس پنڈتوں کی خدمت کی ان سے کہیے کہ مسجد کے سامنے والی ٹکڑی دے دیں۔ رہی نذر نذرانے کی بات تو دس بیس باڑھ لے لیں۔‘‘
چھوٹے خاں نے تو ایک سانس میں سب کچھ اگل دیا، لیکن شیخ سر جھکائے بیٹھے رہے۔ منظور چلم بھر کر لایا۔ حقے پر رکھ دی، گٹا دبا کر مہنال باپ کے لبوں تک پہنچائی۔ تھوڑی دیر تک نگاہ کے اٹھنے کا انتظار کیا، پھر شیخ کو مراقبے میں سوتا پا کر دبے پاؤں چلا گیا۔ چودھری قاسم نے سینے پر پھیلی ہوئی داڑھی پر ہاتھ پھیرا، کھنکار کر تھوکا پھر بہت چبلا چبلا کر گویا ہوئے، ’’اس شتم کی بھی کوئی انتہا ہے کہ ہندوؤں کی دش بکھریاں ہیں اور مین سوالے مسلمانوں کی ہمار ڈیڑھ ہمار لکھ مال ہیں اور ایک مسجد وہ بھی۔۔۔ ڈیڑھ ہاتھ کی۔‘‘ انہوں نے اپنے لمبے چوڑے بالشت سے پلنگ کی پٹی ناپ کر بتائی۔ اب میر بخش کے لیے بولنا ضروری تھا کیونکہ قاسم سے وہ کم کیسے رہتے۔
’’مان پور کے ککراواں والوں کو بھی لگان کے لیے تکاجا نہیں کرنا پڑا۔ نجر نجرانا تک ہم پنچ گھر بیٹھے دے آتے ہیں۔ تمری چار پیسے کی پٹی دیر سے پہنچے یا سویرے لیکن اِن کے پندرہ آنے کی کوڑی کوڑی چکا کر روٹی چھوئی ہے۔‘‘
تھوڑی دیر کے بعد شیخ نے گردن اٹھائی، بے نور آنکھوں سے سب کے چہروں پر لکھی ہوئی ایک سی عبارت پڑھی اور مری مری آواز میں بولے، ’’کل صبح ککراواں جاؤں گا۔‘‘
صبح جب شیخ قرآن مجید کی تلاوت کر کے اٹھے تو منظور کی چارپائی خالی تھی۔ ورنہ وہ الٹی سیدھی ٹکریں مار کر بڑی دیر تک اینڈتا رہتا تھا۔ رجب کی ماں سے پوچھا، اس نے تازی روٹی میں گود گود کر گھی بھرتے ہوئے جواب دیا کہ بھیا بڑی دیر سے باہر گئے ہیں۔ شیخ باہر آئے تو ٹانگن غائب تھا۔ کوٹھری کھولی تو ساز رکھا تھا۔ ہاں لگام غائب تھی۔ شیخ دھک سے رہ گئے۔ صحن میں ٹہلتے رہے اور سورہ یٰسین پڑھتے رہے۔ شیخ ٹانگن کی شرارت جانتے تھے۔ ادھر سوار کی پٹری پگڑی ادھر اس نے پھینکا۔ شیخ جن کی سواری کی جوار میں دھوم تھی ان تک کو یہ ٹانگن پٹخنیاں کھلا چکا تھا۔ اس کی اسی ادا پر تو شیخ ریجھے ہوئے تھے۔ ورنہ انھوں نے کبھی ایک جانور پر دو برس سواری نہیں کی۔
وہ سوچتے سوچتے باہر نکل آئے۔ آج انھوں نے اپنے آپ کو آمادہ کر لیا تھا کہ منظور کی پٹائی کر ڈالیں۔ ماں کی موت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ لونڈے کو دلار میں چوپٹ کر لیا جائے۔ وہ اپنے غصے کو ابھار ہی رہے تھے کہ ٹاپوں کی آواز آئی۔ منظور ماہر شہسوار کی طرح گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر تصویر بنا بیٹھا تھا۔ ٹانگن دھول کی طرح ان کے پاس سے گزر گیا۔ وہ کوٹھری میں پہنچے۔ ٹانگن پسینے میں شرابور بھینسے کی طرح ہانپ رہا تھا۔ وہ پاؤں پٹختے اندر پہنچے۔ منظور رجب کی ماں کے کولہے سے کولہا جوڑے گھی میں ڈوبی روٹیاں کھا رہا تھا۔ انہوں نے اسے چیخ کر پکارا اور صحن میں پڑی ہوئی چوکی پر بیٹھنے کا حکم دیا۔ اس نے کرتے کے دامن سے اپنا منہ پوچھا اور آ کر بے نیازی سے بیٹھ گیا۔
’’اٹھائیسواں پارہ سناؤ۔‘‘
شیخ کی دھاڑ سن کر منظور نے نگاہ اٹھا کر ان کو دیکھا جیسے کہہ رہا ہو، بس ریکارڈ بجنے لگا۔ شیخ نے زیر زبرکی غلطی کا بہانہ ڈھونڈھنے کی بڑی کوشش کی۔ لیکن کچھ بس نہ چلا۔ پارہ ختم کر کے منظور اٹھا اور دو دھار سے دو کٹورے دودھ نکال کر پانی کی طرح چڑھا گیا۔ شیخ اس کے بدن کی حیرت انگیز اٹھان دیکھتے رہے اور اپنا غصہ بلاتے رہے، مگر وہ کسی طرح آہی نہ چکتا تھا۔ مجبوراً باہر چلے گئے۔ اب دھوپ تیز ہونے لگی تھی اور لو چلنے لگی تھی۔ کھلیان میں تھوڑا گیہوں پڑا تھا، شیخ اٹھوانے چلے گئے۔ گیہوں تو پڑا رہا البتہ شیخ اٹھوا کر لائے گئے، لو کے ایک ہی تھپیڑے میں جل کر سیاہ ہو گئے۔
*
شیخ کے جنازے پر سارا مان پور رویا تھا۔ منظور تو اکلوتا بیٹا تھا۔ لیکن اسی کے ساتھ منظور کو اس خوشی کا بھی انکشاف ہوا تھا کہ اب وہ ساری رات مدی چچا کے ساتھ کشتی لڑ سکتا ہے اور سارا دن ٹانگن پر سواری کر سکتا ہے۔ مڈل اسکول کا بھاری بستہ جو منظور کی بیل کی سی گردن پر گاڑی کے جوئے کی طرح رکھا تھا، پرانے سامان کی کوٹھری میں دفن ہو گیا۔ چھوٹے چھوٹے گھنگھروؤں کی ہمیل ٹانگن کی گردن میں گنگنانے لگی۔ لگام میں ریشم کی ڈوریاں چمک اٹھیں۔ اکھاڑے کو وسیع کر کے اس کی مٹی کو ملائم کیا گیا اور مدی چچا سے منظور کے دو دو گھنٹے داؤں ہونے لگے۔ ٹانگن پہ دس دس میل کے چکر لگنے لگے۔ مان پور کے اُتر اور پچھم میں دور دور تک پاسیوں کے گاؤں تھے جو سب آپس میں عزیز دار ہونے کے باوجود لڑتے رہتے تھے۔ ان لڑائیوں کا سبب شکایت سے زیادہ قوت کا اظہار تھا۔ تاہم یہ وقت پڑنے پر غیر پاسی کے مقابلے میں ایک ہو جاتے تھے۔ ان میں سب سے مضبوط سب سے اہم اور سب سے وسیع گھرانا راجپورہ کے راج دین کا تھا۔ جس کے درجنوں بھائی دس بیٹے اور اتنی ہی بیٹیاں تھیں۔ ان سب کی شادی بیا ہوں نے دور دور تک اس کا اثر پھیلا دیا تھا۔
راج دین ککراواں کا نوکر تھا لیکن جب شیخ کھر بیٹھے تو شیخ کی جائداد کا منتظم ہو گیا۔ راج دین کا چھوٹا لڑکا رام دین منظور کا ہمجولی تھا اور منظور کو ’’منجور‘‘ بھیا کے بجائے ’’مجو بھیا‘‘ کہتا تھا۔ منجور بھیا کا یہ مخفف رام دین نے اپنی آسانی کے لیے کیا تھا جو دھیرے دھیرے مان پور کی زبان پر چڑھ گیا۔ شیخ کے مرنے کے بعد راج دین نے جائداد کے چھوٹے موٹے کام رام دین کے سپرد کر دیے۔ اس کا بہت بڑا سبب منظور کی شخصیت کی دل کشی تھی۔ جس نے رام دین کے علاوہ جوار کے بہت سے مطمئن گھرانوں کے نوخیز لڑکوں کو فتح کر کے اپنی رکاب میں شامل کر لیا تھا، مان پور، سیتا پور، ہردوئی کے سرحد پر تھا اور تین تھانوں میں تقسیم تھا۔ اس نزاکت سے فائدہ اٹھا کر جرم کے جائے وقوع میں ذرا سی تبدیلی کر کے ہر تھانیدار اپنا بار ہلکا کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پولیس والوں کی زبان میں مان پور بنجر بھی تھا۔ روایت تھی کہ فلاں کے باپ نے ڈھمکے کے دادا سے دو روپے قرض لے کر پولس کو کسی زمانے میں رشوت دی تھی۔
مان پور کی مفلسی کے علاوہ ایک وجہ اور بھی تھی جس کی بنا پر پولیس یہاں کے واقعات میں دلچسپی بہت کم لیتی تھی۔ مان پور کے دو تھانے ککراواں کے تعلقے میں تھے۔ اور ککراواں کے مختار عالم شیخ منظور علی کا وطن مان پور تھا۔ شیخ کی مراعات نے پولیس کو اخلاقی طور پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ مان پور کی طرف سے آنکھیں بند کر لے۔ ان حالات نے مان پور کی نفسیات بگاڑ دی تھی۔ جس لڑکے کے ہاتھ پیر سلوتر ہوتے وہ کسی نہ کسی استاد کا شاگرد ہو کر بدن بناتا۔ کسی نہ کسی اکھاڑے میں شامل ہو کر بانا گھماتا۔ گلے میں کالا تاگا اور ڈنڈ پر لال تعویذ باندھ کر سات ہاتھ کی لمبی لاٹھی بغل میں دباتا اور بے پئے جھوم جھوم کر مٹر گشتیاں کرتا۔ جب تک باپ چچا روٹی دے پاتے دیتے۔ پھر وہ دو دو تین تین ضلعوں سے بھاگے ہوئے بدمعاشوں سے یارانہ بڑھاتا، کبھی ضرورتاً کبھی تفریحاً ڈکیتی تک میں شامل ہو جاتا۔ جب معاملہ شیخ کے ہاتھ سے نکل جاتا تو صافے میں کمر بندھوا کر جیل چلا جاتا۔ چھوٹ کر آتا تو ’’سسرال‘‘ کے قصے سناتا اور دل کو دہلا دینے والے قہقہے لگاتا۔
یہ سب دیکھتے ہی دیکھتے شیخ کے بال سفید ہوئے تھے۔ اسی لیے جس دن منظور نے استاد منے کے اکھاڑے میں لکڑی سیکھنے کی اجازت مانگی۔ اس دن شیخ نے پہلی بار دلار سے منظور کو ڈانٹا۔ قرآن مجید کا سبق لمبا کر دیا۔ آموختہ دوبارہ سنا۔ مڈل اسکول کے ہیڈ ماسٹر منشی لال بخش کو سختی کرنے کی تاکید کی۔ اس فضا میں منظور کا بدن ککڑی کی بیل کی طری پھیلتا گیا۔ اس کی چٹھیا چیونٹیوں کے دل کی طرح بڑھتی گئی۔ منظور کے بجائے مجو بھیا کے نام سے وہ مشہور ہوتا گیا اور نومولود باغ اور کھیتوں کی آپ ہی آپ نگرانی ہوتی رہی۔
*
دھنوت کا زمانہ تھا، گیہوں بونے کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ ستاروں کی چھاؤں میں کھڑے ہوئے مجو بھیا بیلوں کو بچھڑے کے آٹے کی لوئیاں کھلا رہے تھے اور چکی پر گاتی ہوئی پسنہاریوں کے گیت سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ ہروا ہے نے ٹانگن کی بیماری کی خبر دی۔ مجو بھیا کی چٹھیا خبر سنتے ہی دوڑ پڑی، چار چار کوس کے دھاوے مارے۔ جوار بھر کے سیانوں کی بھیڑ لگا دی۔ مگر ٹانگن مرگیا۔ یاروں نے تالاب کے کنارے گڑھا کھود کر اس کی لاش دبا دی۔ چھوٹے خاں کے بیٹے فجو خاں نے ہانک لگائی۔
’’فکر نہ کرو مجو بھیا اگلے سال اللہ نے چاہا تو اس کا عرس کریں گے۔‘‘
مگر فجو خاں کی اس آواز پر کسی نے کان نہ دھرا۔ مجو بھیا کو سوگوار دیکھ کر کبڑیوں کے چودھری کا بیٹا بکس اپنا لنگوٹ باندھتا ہوا آیا اور مجو بھیا کے چوڑے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، ’’تم گھوڑا پسند کر لو بھیا۔‘‘
’’ہاں اور تم گھر کے آنگن سے مٹھور کھود کر روپیہ گن دینا۔۔۔ کیوں نا۔۔۔؟‘‘
’’اور جو مٹھور ہی کھود دیں مجو بھیا تو۔۔۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے اس کو اکھاڑے کی منڈیر پر اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’مسجد کے پاس جو دس بیگھے کا کھیت ہے۔‘‘
’’اس میں کوئیاں کھود کو آلو بوائے دو۔۔۔ فصل ہے ابھی۔‘‘
’’اول تو کنواں کھودنے میں روکڑ لگتی ہے۔۔۔ پھر بیا بسارہ؟‘‘
’’کیا یار مجو بھیا باتیں کرتے ہو۔۔۔ ہم پنچ جیسے مٹی کے مادھو ہیں۔‘‘
اور سارا اکھاڑا اپنے اپنے یاروں کو پکارتا ہوا کھیت میں اتر پڑا۔ مگدر ہلانے اور ڈنٹریں لگانے کے بجائے سب کے سب پھاوڑے اور کدال لے کر جٹ گئے۔ شام ہوتے ہوتے پانی نکال لیا۔ دوسرے دن درجنوں بیریاں کھود کر روندھ دیا۔ تیسرے دن کیاریاں پڑنے لگیں۔ بکس کے باپ نے کہا بھی کہ دس بیگھے آلو سنبھالنا تماشہ نہیں ہے، لیکن لونڈوں نے ایک نہ سنی۔ آلو کا کھیت مجو بھیا کی بیٹھک بن گیا۔ جو آتا چلم کا ایک دَم لگاتا یا ایک بیڑی سلگاتا اور سو پچاس ڈول پانی کھینچ کر کھیت میں بہا دیتا۔ بسوئے دو بسوئے کی نکائی کر دیتا۔ بکس کا باپ بفاتی جس نے فنِ کاشتکاری کے سائے میں آنکھ کھولی تھی اور داڑھی سفید کی تھی۔ اس کھیت کا نگہبان تھا۔ وہ بوڑھے فنکار کی طرح نکتے نکالتا اور مان پور کی ساری جوان اور قوی ہیکل آبادی اپنا پسینہ بہاتی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پھاگن کا مہینہ آ گیا۔ دن سونے کی طرح چمک رہا تھا۔ کھیت کے سرہانے کھڑے ہو کر مجو بھیا نے دو سیر جلیبیوں پر نذر کر دی۔ اور یاروں نے دو دو جلیبیاں منہ میں رکھ کر کھرپیاں سنبھال لیں۔ اور پاؤ پاؤ بھر کا آلو کھودنے لگے۔ مجو بھیا سڑک کے کنارے والی منڈیر پر کھٹیا ڈالے بیٹھے تھے۔ خیالوں کی چاندی کا خیمہ کھڑا کر رہے تھے کہ ککراواں کے مختار عام ہاتھی ایسے مشکی گھوڑے کی لگام کھینچ کر کھڑے ہو گئے۔ مجو بھیا نے دعا سلام کا بہانہ بنا کر ان کو گھوڑا دیکھنے کے لیے اتار لیا۔ بکس نے کھرپی کھٹیا پر رکھ کر گھوڑے کو گھورا۔
’’مکھتار صاحب کتنے میں خریدا۔‘‘
’’کیا؟‘‘ مختار عام نے لونڈے کو گھور کر دیکھا۔
’’گھوڑا۔۔۔‘‘
’’گودی بھر کے لگا ہے بچو۔۔۔‘‘
’’مگر گن تو لیا ہو گا۔۔۔‘‘
’’ہاں چھ سو کاہے۔۔۔‘‘ اور بکس کو اس طرح دیکھا گویا کہہ رہے ہوں کہ سن لیا۔
’’بس۔ بڑے سستے ہوتے ہیں گھوڑے اپن نے تو جانا تھا کہ ہجار دو ہجار کا ہو گا۔‘‘
’’تو باندھ لو دو چار۔‘‘
’’رسید لکھو گے۔۔۔ منگاؤں کاگذ۔‘‘
’’اچھا بچو۔۔۔ منگاؤ۔۔۔ تم بھی کیا یاد کرو گے۔۔۔ مگر سوا چھ سو لوں گا۔‘‘
’’ہم تو مختار صاحب ساڑھے چھ سو تک دے مرتے۔۔۔ مگر اب تو تم بات ہی ہار گئے۔‘‘
بکس تیر کی طرح گھر گیا۔ ماں کے ازار بند سے کنجی کھولی، وہ ہاں ہاں کرتی رہی۔ اور اس نے کوٹھری سے بانس کی پٹاری نکال کر آلو کی گاڑیوں والا روپیہ گننا شروع کر دیا۔ پھر چھوٹے خاں کو ساتھ لے کر پہنچا اور بات کی بات میں پہاڑ ایسا گھوڑا کھینچ کر سنسان کوٹھری میں پہنچا دیا۔ جس کے دونوں طرف دروازوں کے بجائے ٹٹیاں لگی تھیں۔ مجو بھیا کو اس وقت ہوش آیا جب گھوڑے اور بیسارے کا چکتا ادا کر کے کوئی دو ہزار روپیہ ان کے باپ کی صندوقچی میں چھنچھنا رہا تھا۔ وہ باہری کمرے کے تخت کی کثیف جاجم پر بیٹھے تھے۔ کونے پر رکھی ہوئی لالٹین کی زرد روشنی میں ان کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ دو ہزار روپے کا ڈھیر نور کے پتلے کی طرح ان کی قلب ماہیت کر رہا تھا۔ انہوں نے ایک سچے مرید کی طرح اس کے ارشادات کو اپنی دل کے گرہ میں باندھ لیا تھا۔
صبح ہوتے ہی بجائے اکھاڑے پر جانے کے انہوں نے اپنے باپ کے وقت کے پھوس ہروا ہے طلب کیے۔ ان کو ٹھنڈی آواز میں جواب دیا۔ اپنے مشیروں سے مشورہ کر کے لمبے چوڑے ہاتھ پیر والے دس نوکر بھرتی کیے۔ ان کو سفید قمیصیں، نیچی دھوتیاں، لال انگوچھے اور چمرودھے جوتے پہنائے اور شام کو بکس سے ترکاریاں بونے کے فن پر تبادلہ خیالات کیا۔ چھوٹے خاں نے سمجھایا کہ نوکر ایک گاؤں کے ہوتے تو اچھا تھا۔ پھر اس کا بھی خیال رکھنا تھا کہ نوکر غریب گھروں کے ہوں تاکہ داب سہہ سکیں۔ لیکن مجو بھیا نے اپنی فہرست پر نظر ثانی نہ کی اور جوار کے اہم ترین، گاؤوں کے اہم ترین گھرانوں کے نوجوان اور سرکش پاسی چماروں کا دستہ برقرار رہا۔ مجو بھیا ان کے ساتھ ڈنڈیں لگاتے بھگوئے ہوئے چنے کھاتے۔ ان کے غموں میں آنسو بہاتے، ان کی خوشیوں میں قہقہے لگاتے۔
دن گزر رہے تھے۔ کھیت چاندی اگلنے لگے۔ دو دروازوں کی مختصر سی کوٹھری وسیع ہو کر اصطبل بن گئی اور اس میں تین رنگوں کے گھوڑے ہنہنانے لگے۔ نوکروں کی تعداد دوگنی ہو گئی۔ شیخ منصور علی کے آبائی مکان کی مشرقی دیوار ڈھا دی گئی۔ اور کٹہل کے باغ کی دانتی تک سارا رقبہ گھیر لیا گیا۔ اس میں چھے کمرے بنے، دالان کھڑے ہوئے، پھر سارا مردانہ سفید قلعی کے براق کپڑے پہن کر اترانے لگا۔ کوٹھیوں اور کمروں میں بھرا ہوا مردہ فرنیچر رام لکھن بڑھئی کے علاج میں دے دیا گیا، جس نے سیروں اسپرٹ اور چپرہ پلا کر اسے زندہ کر دیا اور مان پور کا سب سے بڑا مکان دور سے نظر آنے لگا۔
الوداع کے دن حافظ چھنگا نے بڑی کوشش کی لیکن جمعہ پڑھانے کے لیے مسجد تک نہ آ سکے۔ چودھری منیر بخش نے چھوٹے خاں کے کان میں گھن سے کچھ کہا اور اٹھ کر آگے کے رو میں بیٹھے ہوئے مجو بھیا کو ان کے کرتے کی چنی ہوئی آستین پکڑ کر اٹھا لیا اور منبر پر کھڑا کر دیا۔ مجّا نے لپک کر اپنے بوڑھے ہاتھوں سے اپنی پگڑی اتاری اور مجو بھیا کے کامدار پلے پر لپیٹ دی۔ مجو بھیا نے طاق پر رکھی ہوئی کتاب اٹھا لی اور ٹھنڈی آواز میں خطبہ شروع کر دیا۔ گویا شیخ کو آموختہ سنا رہے ہوں۔ پھر مان پور کی کچی عید گاہ کے صحن میں ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بغیر داڑھی کے نوجوان مجو بھیا کی امامت میں صف آرا ہو گیا۔ چھوٹے خاں نے جب گرج کر تکبیر کہی تو ان کے داہنے ہاتھ پر بیٹھے ہوئے حافظ چھنگا کی بیمار آنکھیں چھلک پڑیں۔
مجو بھیا نے مان پور اور اس کے جوار کے مسلمانوں کا احترام کیا اور نوجوان درگا سہائے کو چکمہ دے کر مسجد کے سامنے کی ساری زمین اپنی نجی ضرورت کے لیے خرید لی۔ رجسٹری ہوتے ہی اپنی جیب سے مسجد میں پیوند کاری کی طرح ڈال دی۔ درگا سہائے نے یہ خبر سنی تو آگ ہو گئے۔ پچاس آدمیوں کو چاروں بندوقیں دے کر مان پور چڑھ آئے۔ مجو بھیا کو سن گن مل چکی تھی۔ ایک ہی للکار میں سارا جوان مان پور ڈھاٹے باندھ کر کیل کانٹے سے لیس ہو کر دوڑ پڑا اور مجو بھیا کے دوارے ان گنت رانوں کی مچھلیاں اور گرم نگاہوں کی بجلیاں تڑپنے لگیں۔ بوڑھے بوڑھے آدمی چپ سادھے بے قرار قدموں سے ادھر ادھر ٹہلتے رہے۔ ککراواں راج کے سامنے پہلی بار مان پور نے سر اٹھایا تھا۔ تجربے کار ہندوؤں نے بستی کے ڈانٹرے پر نیم دائرہ بنا کر ہاتھی کو روک لیا۔ بل کھاتے درگا سہائے کو رتی رتی حال بتا کر قانونی اونچ نیچ سمجھائی۔ ان کی چھاتی کے شعلے تو کم ہو گئے لیکن آگ لگی رہی۔
شیخ مسرور علی مختار عام کے مرنے کے بعد پہلی بار درگا سہائے مان پور آئے تھے۔ بڑی ہچر مچر کے بعد ہاتھی مجو بھیا کے چبوترے پر لگا دیا گیا۔ سپاہیوں کی باہوں پر رکھی ہوئی سیڑھی کے سبک ڈنڈوں پر پاؤں رکھ کر درگا سہائے اتر آئے۔ مجو بھیا نے سلام کر کے ہاتھ ملایا۔ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے دالان میں آئے۔ ان کو آرام کرسی پر بٹھا کر نئے سیٹ میں برف کا شربت پلوایا۔ لکھنؤ کے خریدی ہوئی نئی سٹک کی مہنال پیش کی۔ آم کے بور، کٹہل کی فصل اور گیہوں کے بھاؤ پر باتیں کیں۔ ہاتھی پر چڑھتے ہوئے درگا سہائے نے مجمع کے چہرے پر سرکشی کی ایک سی عبارت پڑھ لی۔ اور متردد ہو کر چاروں بندوقوں کو عقب میں لیے ہوئے چلے گئے۔ جب سڑک کی موڑ کے اندھیارے میں ہاتھی کھو گیا تب مان پور کے بوڑھے چہروں پر بحالی آئی۔ اور جوانوں کے سینے اور پھول گئے۔ دھیرے دھیرے بستی کے چوپالوں کی عدالتیں مجو بھیا کے دالانوں میں ضم ہو گئیں۔ یہاں پٹواری کے کاغذات سے لے کر دیور بھاوجوں کے تعلقات تک درست ہونے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے مان پور کے بنیوں کی بھینسوں کے تھن سوکھنے لگے۔ دس دس روپے پر دس دس دن میں دو دو روپے سود ادا کرنے والے گودی بھر بھر کر روپیہ لے جاتے اور کوڑی کوڑی پھوڑ کر ادا کرتے۔ مگر مجو بھیا کی تیوری پر بل نہ آتا۔ بہتوں نے تو مار بھی لیا۔ لیکن کچہری عدالت کا تو کیا ذکر مجو بھیا نے منہ سے کچی بات بھی نہ کہی۔ مان پور ان کو دل سے زیادہ نگاہ کا سچا سمجھتا تھا۔ گھر میں جب بیسارہ بنایا جاتا اور عورتوں کے ریوڑ لق و دق آنگن میں چھٹا بچھیوں کی طرح کلیلیں کرتے تو وہ کمرے میں لیٹے کڑیاں گنا کرتے، سنسناتی دوپہروں میں جب ڈھور ڈنگر تک اپنے تھانوں پر یا درختوں کے سایوں میں جگالی بھول کر آنکھیں میچ لیتے تو ان کے ہاہا ہوہو کرتے مکان میں رجب کی اماں کی سبک سجل پوتیاں نواسیاں لچھے توڑے نچایا کرتیں۔
پاس پڑوس کی۔۔۔ آنکی بانکی ترچھی مانگی بیاہی عورتیں کھلے ڈھکے سے بے نیاز مجو بھیا کو دودھ پیتا سمجھ کر ٹھٹھے لگایا کرتیں۔ چھیڑ چھاڑ کر کے وہ دھماچوکڑی مچاتیں کہ رجب کی اماں گالیوں کا آموختہ سنانے بیٹھ جاتیں۔ مگر مجو بھیا مورتی کی طرح بیٹھے رہتے۔ جوان جہان مجو بھیا آنگن میں دھمر دھمر کرتے آتے تب بھی ان کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ عورتیں اپنے جونک ایسے بچوں کو دودھ پلایا کرتیں۔ گھٹنوں کی اندھوریوں پر ٹھنڈے ٹھنڈے پنڈول کا برادہ چھڑکتی رہتیں۔ کوئی بڑا لحاظ کرتی تو پاس پڑا ہوا موٹا موٹا دوپٹہ اٹھا کر مٹیوں سے گوندھے ہوئے سر پر ڈال لیتی۔ بہت سی تو اس کی بھی زحمت نہ کرتیں۔
کالے خاں کی گوری دلہن موٹی موٹی لال لال برتوں پر لگانے کے لیے آنبا ہلدی لینے آئی، رجب کی اماں ابھی ڈبے ٹٹول رہی تھیں کہ بھیا آ گئے۔ وہ اٹھی اور راستہ روک کر کندھوں تک اپنی کرتی اُلٹ دی اور برتیں دکھلا دیں۔ بھیا کنواریوں کی طرح آنکھیں جھلائے کھڑے اس کی شکایت سنتے رہے اور چلے گئے۔ سڑک کے کنارے جوان عورتوں کو گھاس چھیلتے دیکھ کر وہ سایہ چھوڑ دیتے اور چلچلاتی دھوپ میں بھنتے چلے آتے۔ اپنے باغ میں عورتوں کو اٹکھیلیاں کرتے دیکھ کر دور ہی سے واپس چلے آتے۔ یہ سب کچھ تھا مگر حاجی میٹھے کی دولہن للّی کو دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکن بگڑ جاتی۔ ہاتھ پیر سنسنانے لگتا اور وہ اس جادو کو اپنے سر سے اتار پھینکنے کے لیے لنگوٹ باندھ کر پانچ سو ڈنڈیں نکال دیتے۔ گھوڑا کھینچ کر دس پانچ میل کا چکر لگا ڈالتے پھر بھی چین نہ آتا تو چار چھ بالٹیاں سر پر انڈیل لیتے۔
حاجی میٹھے گھوڑے بیل کے تو حکیم تھے ہی، حج کے بعد معلوم نہیں کس سادھو نے کون سی بوٹی بتا دی کہ وہ برص کا علاج بھی کرنے لگے۔ پہل پہل تو لوگوں نے ٹھٹھول جانا لیکن منا دھوبی کے بھلے چنگے ہوتے ہی قادر نے آنکھیں جھپکائیں اور ایک دن مسجد سے نکلتے ہی حاجی کو پکڑ لیا۔ اٹھارہ بیس سال کی جوان جہان للّی نے اپنا پیٹ اور کمر کھول کر دکھا دیا۔ دھبے دیکھ کر جواب میں حاجی نے قادر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔
’’چالیس دن لگیں گے۔‘‘
اور قادر کی آنکھوں میں تشکر مسکرانے لگا۔ ابھی بیس بائیس دن بھی نہ گزرے تھے کہ للّی کے گال کا داغ بجھنے لگا۔ چیت کی تپتی دوپہر تھی۔ للّی کھانا کھا کر کوٹھری میں گئی کہ لیپ لگا کر لیٹ رہے۔ مگر ٹین کا ڈبہ خالی پڑا تھا۔ باہر آئی تو باپ خراٹے لے رہا تھا۔ ماں پڑوس میں گئی تھی۔ مجبوراً ڈبہ پکڑے پکڑے حاجی کے گھر چلی گئی۔ بروٹھے میں پیڑھی پر حاجی بیٹھے حقہ پی رہے تھے۔ چار خانے کے تہبند سے نکلی ہوئی بانس کی پنڈلیوں پر چیوٹیوں کی طرح کالے کالے بال لسے ہوئے تھے۔ کالی داڑھی سینے کی ہڈیوں پر چھائی ہوئی تھی۔ حقہ پینے میں ان کا پیٹ کمہار کی دھونکی کو منہ چڑا رہا تھا۔ املی کے بیجوں جیسی آنکھیں اٹھا کر انہوں نے للی کو دیکھا۔ بائیں گال کو غور سے دیکھا، لیکن دھبہ نظر نہ آیا۔ سرخ گالوں پر لانبی لانبی پلکوں کے پیچھے چپتی ہوئی بغیر کاجل کی کالی کالی آنکھیں دیکھ کر وہ سنسنا گئے۔ حاجی کی نظر جھک گئی، لیکن پھر اٹھ کر للی کے کولہوں پر پھنسی ہوئی کرتی سے لٹک گئی۔ حاجی میٹھے کے وجود کے اندر چھپا ہوا مرد آج کلثوم کی موت کے بعد پہلی بار ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا تھا۔ حاجی نے خشک ہوتے ہوئے گلے کو دھوئیں سے ایک بار تر کر کے حقہ ہٹا دیا۔
’’وہاں تروا ہے میں دوا کا مروا دھرا ہے۔‘‘ حاجی نے آہستہ سے کہا اور کالے لہنگے کی گوٹ سے بیزار سفید پنڈلیوں کا رقص دیکھنے لگے۔
’’ملا ناہیں۔‘‘
’’ناہیں۔‘‘
حاجی اپنے مرتعش وجود کو گھسیٹتے ہوئے تروا ہے کے پیچھے والے کمرے میں گھس گئے۔ مروا اٹھا کر لڑکھڑاتی ہوئی آواز میں بولے۔
’’لے۔‘‘
زندگی میں پہلی بار للی کو انجانا میٹھا میٹھا خوف محسوس ہوا لیکن وہ چلی گئی۔ جیسے وہ مرچوں سے لال آلو کھانے کے لیے چونے سے کٹا منھ کھول رہی ہو۔ حاجی نے کالی کالی دوا سے بھری ہوئی انگلی اس کے بائیں گال کے پھول پر لگا دی۔ لگاتے رہے۔ وہ کھڑی رہی جیسے نٹ رسی پر کھڑا ہوا۔ پھر حاجی نے اس کی کرتی کا دامن بائیں ہاتھ کی چٹکی سے پکڑ لیا۔ اور للی کو ایسا لگا جیسے لال لال سلاخیں اس کی کمر سے چھو گئی ہوں۔ وہ چلاوے کی طرح تڑپ کر کونے میں کھڑی ہو گئی۔
’’دوا ڈبے میں دھر دیو۔‘‘
’’للّی۔‘‘
حاجی کی آواز کے ارتعاش نے خود ان کو چونکا دیا۔ للّی نے وحشی آنکھیں اٹھا کر ان کو دیکھا۔
’’تمہاری چھوٹی بہن کی گود میں چار لڑکے ہیں۔۔۔ اور تمہارے ابھی ہاتھ تک پیلے نہیں ہوئے۔۔۔ تم بڑی پیاری ہو۔۔۔ لیکن کون باپ اپنے آٹھ برس کے بیٹے سے تم کو بیاہے گا۔۔۔ تم کو جو ملے گا۔۔۔ دوہجا ہو گا۔۔۔ تو بوڑھا میں بھی نہیں ہوں للّی۔۔۔ پھر کوڑھ کی دوا۔۔۔ چالیس دن کی نہیں ہوتی۔۔۔ چالیس برس کی بھی نہیں ہوتی۔۔۔ عمر بھر کی ہوتی ہے۔۔۔ عمر بھر کی۔۔۔ مان پور میں کون مائی کا لال ہے جو عمر بھر کا پھوڑا اپنے ہاتھ سے اپنے کلیجے پر باندھ لے گا۔۔۔ میرے لڑکے ہیں نہ بالے۔۔۔ نہ گوشت روٹی جڑتی ہے۔۔۔ اور نہ چبینا چباتا ہوں۔ بولو للّی۔ بولو ہے نا؟‘‘
حاجی بڑھتے ہوئے چلے گئے۔ دوا والی انگلی تہبند میں پونچھ لی۔ پھر للّی نے محسوس کیا کہ حاجی کی داڑھی کے کالے کالے بال اس کے گریبان میں گڑ رہے تھے۔
پھر ایک جمعہ کو قادر نے للّی کو پانچ کپڑے اور سات برتن دے کر حاجی میٹھے کے ساتھ رخصت کر دیا۔ شادی کے بعد للّی جو باہر نکلی تو مان پور چونک پڑا۔ لوہے کی بالٹی پر سونے کی قلعی ہو گئی تھی۔ سارنگی کے تاروں کی طرح کسا ہوا انگ انگ بجنے لگا تھا۔ جریٹھی لوکیوں کا جھوا سر پر رکھ کر جب وہ شرماتی ہوئی بازار میں پہنچی تو دور دور تک دلوں نے دھڑکنا چھوڑ دیا۔ بکس کو یقین نہ آتا کہ یہ قادر پھوپھا کی وہی لونڈیا للّی ہے جس کے ہاتھ کی چلم پیتے ابکائی آتی تھی۔ للّی کے مہندی لگے ہاتھ اس وقت تک ناچتے رہے جب تک جھوا دیکھنے والوں کی چھاتیوں کی طرح خالی نہ ہو گیا۔ حاجی میٹھے چونک پڑے۔ ایک دن للّی نے حاجی کے سر سے جھوّا اتروایا۔ اس میں سے مارکین کا ٹکڑا گر پڑا۔
’’یو کاہے حاجی۔‘‘
’’تیری شلوار کے لیے لایا ہوں۔۔۔ لہنگا کرتی بڑا ننگا پہناوا ہے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
للّی نے کپڑا اٹھایا اور پاؤں پٹختی ہوئی گئی۔ کپڑا چولہے میں جھونک دیا۔
’’میاں جی۔۔۔ میں بیاہ کے آئی ہوں نہ پتریاں ہوں نہ لونڈی۔‘‘
حاجی اپنی چیاں سی آنکھیں جھپکاتے رہے۔ اس دن کے بعد حاجی نے للّی سے کبھی نہ پوچھا کہ کل تو نے فجو خاں کے گھونسہ کیوں مارا تھا۔ یا بکس کے ساتھ تروا ہے میں بیٹھی دو گھنٹے تک کیا باتیں جٹیلتی رہی۔ حاجی بازار اور نماز کے علاوہ کسی بات کو اپنی توجہ کا مرکز نہ سمجھتے تھے۔
یوں تو سارا جوان مان پور ندیدے لڑکوں کی طرح اس کے بدن کو گھورا کرتا لیکن تراب کی آنکھیں جب اس کی کرتی کے فراز پر پڑتیں تو اس کی جان میں بھنگرے لگ جاتے۔ معلوم نہیں کیوں للّی کو اس کی ننگی نظریں کوئی ذلیل منصوبہ بنتی ہوئی نظر آتیں۔ اس تصور کے آتے ہی اس کی فطری شعلہ مزاجی پر تیل کی دھار گر پڑتی۔ اور وہ حاجی کی کسی بات کسی حرکت کو بہانا بنا کر ان کے ایسے ایسے بکھان کرتی کہ وہ بیچارے کھونٹی سے تسبیح اٹھا کر مسجد چلے جاتے، یا کھرپی لے کر اپنے کھیت میں جا بیٹھتے۔ مگر اس کی آگ نہ بجھتی اور وہ دوپٹے کی بے نیازی سے بے نیاز پاؤں پٹختی ہوئی تائیں تائیں مجو بھیا کے پاس پہنچ جاتی۔ مجو بھیا چاہے ڈنڈیں لگا رہے ہوں، چاہے کھانا کھا رہے ہوں، چاہے بیا بسارنے کا مسئلہ لیے بیٹھے ہوں، چاہے لگام ہاتھ میں لے کر رکاب میں پاؤں ڈال چکے ہوں۔ للّی کو دیکھ کر بد مزاج ماں کے سعید بچے کی طرح کھڑے رہتے۔ اس کی ہر بات کی تائید کرتے اور نظریں جھکائے جھکائے۔۔۔ حاجی میٹھے کو ڈانٹنے کا وعدہ کر لیتے۔ اور اپنی ضدی نگاہوں کو ہاتھ پکڑ پکڑ کر للّی کی کرتی سے جھانکتی ہوئی کمر سے کھینچ لاتے۔
بقر عید کا مہینہ ڈوب رہا تھا۔ پہلے پانی کا دن تھا۔ حاجی میٹھے خربوزوں کا جھوّا اٹھوا کر جمعہ کی وجہ سے جلدی چلے گئے۔ للّی کیان کے جھالے میں باہوں کے خنجر دھو رہی تھی۔ آستینوں کے نیام الٹے پڑے تھے۔ کانوں میں جھولتے ہوئے بڑے بڑے جھمکے برا کر اب وہ منہ دھونے لگی تھی کہ اس کی منارکہ مرغیاں زور زور سے کڑکڑانے لگیں۔ وہ چونک پڑی کہ کہیں منگلو۔۔۔ کی بچھیاں تو نہیں گھس آئی ہیں۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو دروازے کے پٹ کھلے تھے اس کی دہلیز پر کتا لیٹا ہوا تھا۔ آنگن میں بورے پر پھیلے ہوئے لال لال مرچے چمک رہے تھے۔ اس کے چبوترے کے برابر منگلو قصائی کے دروازے کے اوٹے پر تراب بیٹھا ہوا تھا۔ للّی نے اسے دیکھتا پا کر آنکھیں جھکا لیں اور ہاتھ سست پڑ گئے۔ لانبا آدمی اوٹے پر بیٹھا ہوا تھا مگر معلوم ہوتا تھا جیسے کھڑا ہو۔ دھنّی ایسے ہاتھ پاؤں، دیوار کی طرح چوڑا چکلا تراب سڑک پر راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا تو للّی کو گردن اٹھا کر اسے غصیلی نگاہوں سے دیکھنا پڑتا۔
تراب کو وہ کنوارپن میں بھی دیکھ چکی تھی۔ محرم میں بانا گھماتے ہوئے، ہولی میں نقل بناتے ہوئے، عید گاہ کے کنویں پر وضو بناتے ہوئے، لیکن اب تو ایسے دیکھتے ہی للّی کا خون کھولنے لگتا۔ اس کو معلوم تھا کہ یہ وہی تراب ہے جسے بھیکم پور کے گدی گدیوں کی ناک کہتے ہیں، جس کے ہاتھ پیروں کی باڑھ دیکھ کر گدیوں نے ایک بھینس وقف کر دی تھی کہ تراب دودھ پئے اور محنت لگائے۔ یہ وہی تراب تھا جس نے دن دھاڑے بھکا پاسی کی دولہن اٹھا کر اپنے گھر میں ڈال لی تھی۔ اور میلوں تک پھیلے ہوئے پاسیوں کے گاؤں ٹکر ٹکر دیکھا کیے تھے۔ یہ وہی تراب تھا جس نے منگلو ایسے سرکش کی چاند ایسی دولہن پر چھاپا مار لیا تھا۔ کہنے کو تو منگلو اب بھی کہتا تھا کہ تراب سے اس کی بیوی کی نہیں، اس کی خود کی یاری ہے، لیکن مان پور والے جانتے تھے کہ تراب چندہ کے ساتھ کوٹھری کے دروازے بند کر کے نماز نہیں پڑھتا ہے۔
للّی بیٹھی ہوئی نہ جانے کب تک یہی الم غلم سوچا کرتی کہ چھروں کی طرح بڑے بڑے بوند پڑنے لگے۔ اس نے گردن اٹھا کر بھونرا ایسا سیاہ بادل دیکھا اور نتھنی میں پھنسی ہوئی بالوں کی لٹ درست کرتی ہوئی کھڑی ہو گئی۔ پھر اپنے نئے لہنگے اور رنگی ہوئی کرتی کے خیال سے خربوزوں کا جھوا اٹھا کر سر پر رکھ لیا اور دھچکتی ہوئی چلتی۔ دوچار ہی قدم گئی تھی کہ حاجی کے چادرے پر نظر پڑی۔ مجبوراً رک گئی۔ چادرے کا اڑوا بنا کر سر پر رکھا اور جھونک دے کر جھوے کو اس پر دھر لیا۔ دو خربوزے گر بھی پڑے مگر وہ بھیگتی ہوئی اور بھاگتی ہوئی چلی ہی گئی۔ بوجھ کی وجہ سے کھیت کی خندق پار کرنا مشکل تھا، اس لیے چکر کاٹ کر وہ منگلو کے دروازے سے نکلی۔ تراب کی بھوری آنکھیں اپنی کرتی پر جمی دیکھ کر اس نے دوپٹہ درست کرنے کی کوشش کی لیکن بھیگی ہوئی زمین پر بھاری جھوے کو ایک ہاتھ سے سنبھالنے کی ہمت نہ ہوئی۔
’’خربوزے بکاؤ ہیں؟‘‘
جیسے شیرے کے ڈھول پختہ سڑک پر لڑھک رہے ہوں۔ وہ بغیر جواب دیے تیز تیز قدموں سے نکلی جا رہی تھی کہ ایک فقرہ جوتے کی طرح اس کے منہ پر اور پڑا۔
’’اور یہ کرتی والے۔‘‘
وہ جھنجھنا اٹھی۔ اس کا جی چاہا کہ جھوا پھینک کر اس مرھے کا منہ نوچ لے۔ لیکن کسی نے اس کے جھمکے کے پاس منہ لا کر آہستہ سے کہا کہ للّی یہ نہ فجو خاں ہے نہ بکس۔۔۔ یہ تراب ہے تراب۔ اس نے زندگی میں پہلی بار یہ گندا فقرہ سنا تھا۔ حاجی میٹھے حاجی تو تھے ہی لیکن وہ مان پور کی سب سے بڑی برادری کے چودھری کے بھائی بھی تھے۔ سب جانتے تھے کہ وہ موقعہ بے موقعہ بگڑ کر حاجی کو بیسارے کی کوٹھری میں بند بھی کر دیتی لیکن کسی کی کیا مجال کہ وہ حاجی سے اس تضحیک آمیز موضوع پر گفتگو کرتا یا للّی سے اشارتاً کنایتاً بھی ذکر کرتا۔ اس فضا میں پلی ہوئی للّی تراب کے فقروں کو جھیل نہیں پائی۔ جب پہلی بار اس نے تراب کی جلتی ہوئی نظریں اپنے بدن کے نازک خطوط پر محسوس کی تھیں۔ تبھی اس نے باتوں باتوں میں بکس سے ذکر کیا تھا۔ لیکن بکس کو چپ سی لگ گئی تھی۔ اسے حیرت بھی ہوئی تھی کہ بکس مان پور کا سب سے بہیڑا اور لڑاکا جوان جس کے بدن میں آگ بھری ہے، جس کا غصہ برساتی نالے کی طرح چڑھا رہتا وہ ایسی بات پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے کیسے بیٹھا رہا۔ وہ سوچتی اور چولہے پر چڑھی ہوئی ہانڈی کی طرح کھولتی رہی۔ ایک بار اس کی نظر چھینکے پر دھری روٹی کی طرف اٹھ بھی گئی لیکن آج بھوک کہاں تھی۔ وہ چار پائی توڑتی رہی۔ حاجی نماز پڑھ کر آئے اور جھوا ترازو لے کر بازار کو چلے بھی گئے۔ مگر وہ چار پائی توڑتی رہی۔
’’حاجی چچا۔۔۔ ہوت۔‘‘
للّی دلارے پاسی کی آواز سن کر بجلی کی طرح اٹھی، ہاتھ چارپائی کے مچوے پر جھولتے ہوئے دوپٹے پر خود بخود پڑ گیا۔ لیکن اس نے اسے چھوکر چھوڑ دیا۔ اور بڑے لاڈ سے بولی۔
’’کون دلارے۔‘‘
’’ہاں چچی۔۔۔‘‘
’’چلے آؤ۔‘‘
رام دین دلارے کا چھوٹا بھائی مجو بھیا کا نوکر تھا۔ اور مجو بھیا للّی کا کچھ ایسا احترام کرتے کہ دلارے بھی رام دین کی طرح للّی کے چمچماتے منہ پر آنکھیں نہ گاڑ پاتا۔ ویسے دل اس کا بھی للّی کو دیکھ کر دھڑک اٹھتا تھا۔ آج للّی کی آواز میں گڑ کی مٹھاس پا کر وہ بھونچکا ہو گیا۔ پھر اپنی گولے دار لاٹھی دروازے کے کواڑ سے ٹکا کر مٹیالے ہوتے بھیگے آنگن پر ہولے ہولے دھرتا ہوا چھپر کے نیچے کھڑا ہو گیا۔
’’تم تو ایسا منہ لٹکائے کھڑے ہو جیسے دولہن بھکا کی نائیں تمری اٹھائے لی گئی۔‘‘
دلارے نے چھاتی کھجلا کر آنکھیں جھکا لیں۔
’’چچی تم سے یہ امید ناہیں رہے۔۔۔ مل اب تم ہوں جوتے مارے لگیو۔‘‘
’’جب تک تراب جیت ہیں جب تک جوتے مارے والی بات ہے یا۔۔۔ کے دلارے اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر کہہ دیو۔۔۔ کہ نائیں ہے۔‘‘
’’ہے۔۔۔ چچی۔۔۔ گلے گلے پانی مان ہے۔‘‘
’’کیسے آئے ہو؟‘‘
’’آئین کا۔۔۔ تنی ادرک چہی ہے۔۔۔ ہے؟‘‘
’’ہاں ہے کاہے نائیں۔‘‘
اور کونے میں دھری ناند کی بھیگی بالو میں ہاتھ ڈال کر ادرک کی گانٹھیں نکال لیں۔ اور دلارے کے حوالے کر کے چارپائی پر بیٹھ گئی۔ دلارے جس کی نگاہوں کی گرفت اس کے بدن پر سخت ہو گئی تھی ادرک پکڑ کر چونک پڑا۔ للّی نے بالو سے بھرے ہوئے ہاتھ اپنے داہنے گھٹنے پر باندھ لیے۔
’’دلارے اب کہ جمنی نائیں کھیلیو۔‘‘
’’جتنی کھاؤ۔۔۔ منَن جمنی ہیں۔‘‘
’’تو کھیلیو۔۔۔ اچھا کہاں کی کھیلیو؟‘‘
’’تم چچی جہاں کی بتاؤ۔۔۔ وہاں کی اَن دی جائیں۔‘‘
دلارے مزے میں آ گیا تھا۔ للّی کے مسکراتے ہونٹ اور بولتی ہوئی آنکھیں دیکھ کر مجو بھیا کا سایہ اس کے سر سے غائب ہو گیا اور اس نے ہاتھ بڑھا کر اور ضرورت سے زیادہ جھک کر للّی کے لہنگے پر بالو کی انگلیاں جھاڑ دیں۔ للّی کے گھٹنے پر ہاتھ پڑتے ہی دلارے کی ریڑھ کی ہڈی پر کسی نے برف کی استری کر دی۔ اور پسینے میں ڈوبی ہوئی للّی کی خوشبو اس کی ناک میں آئی۔
’’مکھن والے درخت کی جمنی لاؤ دلارے تو ہم جانیں کہ چچی کا بھتیجہ بڑا مرد ہے۔‘‘ دلارے نے سیدھے ہو کر چچی کی کرتی سے جھانکتی ہوئی کمر کی دھار دیکھی اور ہاتھ کے گوپھے میں ادرک کی گانٹھیں سنبھالیں۔
’’لائب۔۔۔ چچی لائب۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مرا۔ ابھی وہ آدھے آنگن ہی میں تھا کہ للّی نے کہا، ’’کہیں تراب تمریو دولہن نہ اٹھا لے جائے۔‘‘ دلارے نے گھوم کر للّی کو دیکھا، ایک منٹ کے لیے ٹھٹکا اور دھمر دھمر پاؤں رکھتا چلا گیا۔
مان پور میں داخل ہونے والی سڑک کے دونوں طرف ایک قطار میں سب سے پہلے قصائیوں کے مکانات تھے۔ جہاں سے گزرتے ہوئے ادھوں کے بیل دندک اٹھتے تھے۔ آخری مکان منگلو کا تھا۔ منگلو اور حاجی میٹھے کے مکان کی دیوار مشترکہ تھی۔ اس دیوار میں دروازہ بھی مشترکہ تھا۔ جسے للّی عموماً بند رکھتی۔ لیکن منگلو کی بیوی چندہ یوں تو سارے مان پور کی سڑکیں کچی کرتی تھی۔ لیکن للّی کے پاس جانے کے لیے وہ ہمیشہ دروازہ کھلواتی تھی۔ منگلو اور حاجی میٹھے کے مکان کے سامنے کچھیانے کے کھیت تھے۔ ان کھیتوں نے ہی تراب اور چندہ کی محبت کو جنم دیا تھا اور ان کا راز بھی فاش کیا تھا۔ تراب رات کے اندھیرے میں انھیں کھیتوں کو روندتا ہوا چندہ کی چاندنی لوٹنے جایا کرتا تھا۔ صبح جب حاجی میٹھے پھوٹی ہوئی لوکیوں کو دیکھتے تو نوکر پر بخار اتارتے۔ نوکر نے بڑے جتن سے تراب کو پکڑا۔ لیکن تراب کو ہاتھ لگانا تو درکنار الاہنا دینا بھی مصیبت بن سکتا تھا۔ نوکر بے چارہ چپ رہا اور اس کے ساتھ ساتھ حاجی بھی چپ ہو رہے۔ مگر قصائیوں کے ساتھ ساتھ کبڑیے بھی تراب کے وجود کی دکھن محسوس کرنے لگے تھے۔
آج صبح پٹیا پانی برسا تھا۔ للّی کا سارا چھپر تالاب بن گیا تھا۔ پانی تھم چکا تھا لیکن وہ کونڈا لیے پانی الچ رہی تھی کہ چندہ نے دروازہ بھڑبھڑایا۔ وہ بربراتی ہوئی گئی اور دروازہ کھول دیا اور مڑ گئی۔ بیچ آنگن میں اسے چھن چھن کی آواز سنائی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک ہاتھ سے چندہ نے اپنی شلوار کے پائنچے پنڈلیوں تک اٹھائے ہوئے تھے جس پر کڑھے ہوئے ہرے ہرے پھول اس کی گندی پنڈلیوں پر بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ پھر اس کی نظر اس کی نئی جھانجھوں پر پڑی، اب تو وہ ٹھٹھک گئی۔ چندہ اپنے بھاری بدن کو سنبھالے ہوئے بڑے ٹھسے سے اس کے برابر آ گئی۔ اور للّی نے اپنے دل میں کہا، ’’تو تراب نے جھانجھیں بنوا ہی دیں بے چاری کو۔‘‘
’’چندری میکے سے آئی ہے۔‘‘ للّی نے اس کی لہریا چندری دیکھ کر کہا۔
’’اور ناہیں تو منگلو بنوائے دیہیں۔‘‘
’’ای رو مال میں کاہے؟‘‘
’’پھلیندے۔‘‘
اور چندہ نے رو مال کھول کر ڈلیا میں الٹ دیا۔ للّی نے کونڈا رکھ کر، کھڑی ہوئی چارپائی بچھا دی۔ چندہ نے کاجل لگی آنکھیں مٹکا کر اسے دیکھا اور بیٹھ گئی۔
’’پھلیندے تو مکھن والے پیڑ کے ہوت ہیں۔۔۔ ای تو سب جمنی ہیں۔۔۔ جے پور کے پاسی خوب بیچت ہیں۔۔۔ تمرے لیے تو تراب لائے ہویہیں۔ ہم ہوں منگاوا ہے اب کی۔‘‘
’’میرے لیے کاہے لاتے۔۔۔ لاتے تو منگلو کے لیے لاتے۔۔۔ پھر تراب کوئی جمیندار ہیں۔۔۔ او پیڑ تو مجو بھیا کے اے پسین کاہے۔‘‘
’’ہویہیں بھیا۔۔۔ وہ ہم کا کا کرے کا۔۔۔ ہم کا تو مول کی کھائے کاہے۔‘‘
للّی نے مسکرا کر جمنی کی ڈلیا اٹھا کر کھٹیا پر رکھ دی۔ اور اپنے ہونٹوں پر مغرور مسکراہٹ کی سرخی لگا لی۔ چندہ بڑی بے چینی سے سورج ڈوبنے کا انتظار کرتی رہی۔ مغرب کی اذان ہوتے ہی اس نے منگلو کو کھلا کر اپنا پاپ کاٹ لیا۔ پھر منگلو کا پلنگ اٹھا کر چبوترے پر ڈال آئی۔ منگلو چھپر کے نیچے بیٹھا ہوا اسے دیکھتا رہا، اور کلی کرتا رہا۔ جب دری تکیہ رکھ کر کوٹھری میں پھر گئی تو منگلو بلی کی طرح دبے پاؤں دروازے تک رینگ گیا۔ چندہ کونئے آئینے میں اپنا منہ دیکھتے پا کر وہ بے قرار ہو گیا۔ اور بھیڑیے کی طرح جھپٹ کر اس نے پیچھے سے اس کی چٹیا پکڑ لی اور دھم دھم دو گدے اس کی پیٹھ پر جھاڑ دیے۔ پھر اس کو ماں بہن کی گالیاں دیتا ہوا باہر چلا گیا۔ چندہ تھوری دیر تک دونوں ہاتھ پیٹھ پر رکھے ہوئے چھلکتی ہوئی آنکھوں سے خلا کو گھورتی رہی، پھر چھن چھن کرتی ہوئی نکلی اور باہری دروازے میں کنڈی لگا کر اپنے پلنگ پر پڑ رہی۔ ابھی عشاء کی نماز نہیں ہوئی تھی لیکن انتظار کرتے کرتے چندہ کی جان پر آ بنی تھی۔ خدا خدا کر کے دھماکا ہوا اور آدمی بھر اونچی دیوار پھاند کر تراب آ ہی گیا۔ چندہ کے پلنگ پر بیٹھتے ہی پٹی جھک گئی۔
’’سب خیر ہے۔‘‘
اس نے اپنا پستول تکیہ کے پاس رکھ کر چندہ کے کورے پیالے سے گالوں کو دبوچ لیا۔
’’تم بڑے بے ایمان ہو۔‘‘ اس نے اٹھلا کر کہا۔
’’کا ہے۔‘‘ بھوری بھوری مونچھوں کے نیچے پیلے پیلے دانت چمک اٹھے۔
’’تمرے کوئی پھلیندے کا بروا ہے؟‘‘
’’ہے۔‘‘
’’اور تم آج تک ناہیں کھلایو۔۔۔ تمرے بروا میں چھائیں نائیں ہے۔‘‘
’’پرسال ای فصل ماں تم کہاں ملی رہو۔۔۔ اب پیٹ بھر کے کھایو پیٹ بھر کے باٹیو۔‘‘
’’ہوں پیسے سب تورے بیچے ڈارت ہیں۔۔۔ ہم کا پیٹ بھر کے جرور کھلیبا۔‘‘
’’ارے اوکا کوئی چھوئی نائیں سکت ہے۔‘‘
چندہ نے کچھ کہنا چاہا لیکن تراب سے محبور ہو گئی۔ چندہ کے جی کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔
’’یہ پڑوسن تمری بڑی جالم ہے۔‘‘ تراب نے چندہ کی جھانجھ سہلاتے ہوئے کہا۔
’’تم بلا وجہ پڑے ہو اوکے پیچھے، اُو کے کوڑھ ہے۔۔۔ نہیں تو حاجی میٹھے کے پلے کاہے بندھتی کوئی جوان جہان نہ جڑ جاتا۔‘‘
’’اب نائیں چندہ! اب ناہیں ہے اوکے کوڑھ۔۔۔ اور چندہ تم اگر ساتھ دے جاؤ تو میں ای کا مان توڑ کے رکھ دیوں۔‘‘
’’تو کا میں کوئی باہر ہوں۔‘‘
اور یہ رات للّی پر بڑی بھاری گزری۔ حاجی میٹھے عشاء کی نماز کے بعد آنگن میں ٹہل ٹہل کر تسبیح پڑھتے رہے۔ پھر اپنی چارپائی پر کورے گھڑے کا پانی بہا کر لیٹ رہے۔ اور خراٹوں میں ڈوب گئے مگر للّی تڑپتی رہی۔ تراب کا فقرہ بھر جی کے موسل کی طرح اس کی چھاتی پر چلتا رہا اور وہ تڑپتی رہی۔ ابھی اندھیرا تھا کہ فجر کی اذان بلند ہوئی، اس نے اپنی چارپائی پر آدھے لٹک کر حاجی کو جھنجھوڑا جو کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ بیٹھے، چھپر کی الگنی سے کرتا، طاق سے دتون اٹھا کر ٹوپی دیتے ہوئے نکل گئے۔
کڑکڑاتی ہوئی مرغیوں کے جھوکے کی سل اٹھاتے ہوئے ایک خیال نے للی کے ذہن پر چٹکی لی اور وہ بڑی تمکنت سے چارپائی کے سرہانے سے دوپٹہ اٹھاتی ہوئی باہری دروازے پر آ گئی۔ صبح کا دودھیا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ خنک ہوا مٹی اور درختوں کی خوشبو سے بوجھل تھی، وہ سدھائی ہوئی ہرنی کی طرح پگڈنڈیوں پر اڑتی ہوئی مجو بھیا کے ہار میں آ گئی جس کی دانتی پر کٹہل کا باغ تھا۔ اس میں درخت تو کم تھے لیکن رقبہ بہت تھا اور اس کی گھاس بھیکم پور والوں نے اپنے جانوروں کے لیے خرید لی تھی۔ اس کے پاس ہی مجو بھیا کی اوکھ کی پیڑی تھی۔ وہ اس کھیت کی مینڈ پر آ کر بیٹھ رہی، گھر گھروندوں کی طرح دھندلے دھندلے نظر آ رہے تھے۔ اجالا اور بڑھنے لگا۔ اکا دکا آدمی کھیتوں میں دکھائی دینے لگے۔ تھوڑی دیر بعد بھینسوں کا ایک غول طلوع ہوا۔ للی کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ بھینسیں ڈکراتی ہوئیں گھنٹیاں بجاتی ہوئیں آہستہ آہستہ چلی آ رہی تھیں۔ جیسے موٹی عورتیں چہل قدمی کرتی ہوں۔ پھر یہ غول باغ میں داخل ہو گیا۔ اور ان کے پیچھے پیچھے آتا ہوا لڑکا ان کو ڈانٹ کر اپنے کندھے پر لاٹھی رکھے جس طرف سے آیا تھا اسی طرف چلا گیا۔
للی آہستہ سے اٹھی اور گھات لگاتی شیرنی کی طرح جھکی جھکی چلتی رہی، باغ کی خندق کے پاس ہی سے اس نے بھینسوں کو کنکر مارنے شروع کیے۔ سب سے بڑی ’’مندراجی‘‘ بھینس کے آگے چلتے ہی سب کی سب اس کے پیچھے ہولیں۔ للی ان کو گھیرتی ہوئی مجو بھیا کی اوکھ میں لے آئی جب ساری کی ساری کوئی بیس پچیس بھینسیں کھیت میں بھر گئیں تب وہ مورنی کی طرح نپے تلے قدم رکھتی ہوئی اپنے کچھیانے کی طرف ہولی۔ تھوڑی دور پر اس کو رام دین نظر آیا۔ جو دوسرے نوکروں کے ساتھ مجو بھیا کی ڈیوڑھی پر جا رہا تھا۔
’’کون رام دین؟‘‘
’’ہاں۔! یہ تو چچی ہیں۔۔۔ کہاں سے سبیرے سبیرے۔‘‘
’’میں تو سنے رہوں کہ پیسے بڑے نمک حلال ہوت ہیں۔ اور مجو بھیا تو تم پنچن پر جان چھڑکت ہیں۔‘‘
’’تو ہم کون نمک حرامی کے ڈارا۔‘‘
رام دین نے کندھے سے لاٹھی اتار لی اور چچی کے کڑے تیوریوں کو بھانپنے لگا۔ دوسرے نوکر بھی تھم گئے۔
’’یوں تو میں جانت ہوں کہ جان کا پیاری ہے۔ اور گدّن کا سامنا پیسے بیچارے کرپاتے تو راج دین کے گھرانے کی ناک کاہے کٹتی۔ مل اگر تم بھینسن ہانک آؤ تو گدی کچھ توپ تو لگائے نادیہیں۔۔۔ اب بھیا بچرؤ تو بھینسن ہانکے آوے سے رہے۔‘‘
’’کون بھینسن۔۔۔ کہاں بھینسن؟‘‘
رام دین کی آواز میں گرمی آ گئی اور نوکر بھی چوکنا ہوئے۔
’’پیچھے گھومو۔۔۔ میں کہت ہوں پیچھے گھوم کے دیکھو۔۔۔ اوی بھینسن ہیں کوئی چیونٹی تو ہیں نائیں کہ دکھائی نہ دیں۔‘‘
رام دین نے آنکھوں پر ہتھیلی کا چھتہ بنایا اور دوسرے ہاتھ سے لاٹھی گھما کر دوڑ پڑا۔
’’اوہو۔۔۔ ای کی بھینسن کی۔‘‘ اور وہ ٹھمک ٹھمک کر چلتی ہوئی اپنے کچھیانے کو پار کر کے دروازے پر آ گئی۔
رام دین جس کا جوان خون للّی کی باتوں نے کھولا دیا تھا۔ جاتے ہی جاتے بھینسوں پر لاٹھی لے کر ٹوٹ پڑا۔ نوکروں میں سب پاسی تھے۔ راج پاسی۔ بھینسیں بدحواس ہو کر ڈکراتی ہوئی اپنے گاؤں کی طرف بھاگیں تو انھوں نے گھیر کر مان پور کی سڑک پر ڈال دیا۔ گدیوں کو خبر لگی تو وہ لاٹھیاں سونت سونت کر دوڑ پڑے اور مان پور کے ناکے پر بھینسیں روک لیں۔ رام دین کی گہار سن کر اس کے چچا بھتیجوں کے ساتھ سارا راجپورہ دوڑ پڑا۔ راجپورہ کی گہار پر مان پور کا بھکا جس کی بہن دلارے کو بیاہی تھی۔ اور جس کی چھاتی گدی کا نام سنتے پھٹتی تھی۔ ایک ایک آدمی بٹور کر چڑھ دوڑا۔ گدیوں نے لین ڈوری چلتے جو دیکھی تو مصالحت پر اُتر پڑے۔ مان پور نے جو یہ گڑبڑ سنی تو استاد مدی کے اکھاڑے والے بکس اور فجو خاں کی چھٹیاں والے بانا گھماتے اور بلم ہلاتے نکل پڑے۔ بوڑھا راج دین کیا جوار کے سارے پاسی نامی پاسی تراب کے لیے بارود بچھائے بیٹھے تھے۔ لیکن ایک تو گدیوں کی طاقت کا اندازہ تھا پھر مان پور کا خوف تھا کہ یہ پانچ چھ ہزار کی بستی جس طرف ٹوٹ پڑی وہاں کھلیان لگ جائے گا۔ لیکن آج راج دین دیکھ رہا تھا کہ مجو بھیا کے نام پر لاٹھی اٹھانے والے پاسیوں کے سامنے مان پور کی چھگڑی تک نہیں پھٹکے گی۔ اس نے آتے ہی آتے تراب کے باپ پیرا کو للکارا۔
’’تاؤ۔۔۔ ہم بھینسیں پکڑا ہے۔ ہم ان کا کانجی ہاوس میں بند کریبا۔۔۔ تم وہاں سے چھڑائے لیو۔۔۔ ہم سے اگر چھیننے کی بات کریو تو پھر فوجداری ہے۔ یو تم جانت ہو کہ فوجداری فوجداری ہے، ای مالڈو نا ہیں بٹت ہیں۔‘‘
راج دین کی گرمی دیکھ کر تراب جو سڑک کے کنارے بیٹھا بیڑی پی رہا تھا۔۔۔ مینار کی طرح کھڑا ہو گیا۔
’’اَی گدّن کی بھینسیں ہیں راج دین۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ اور پیسے لیے جات ہیں۔‘‘
’’تو پھر لیے جائیں۔‘‘
’’یا بات ہے۔۔۔ تو سنبھل جاؤ۔‘‘
راج دین نے کندھے پر پڑا ہوا چادر کھینچ کر سرپر باندھنے کے لیے رکھا ہی تھا کہ مجو بھیا کا مشکی گھوڑا مجمع کو کائی کی طرح پھاڑتا ہوا راج دین کے سرپر کھڑا ہو گیا۔ مجو بھیا سفید کرتا اور چوڑی دار پائجامہ پہنے تصویر بنے بیٹھے تھے۔
’’کیا راج دین گڑبڑ کرتے ہو۔‘‘
’’کتھا آپ سن چکے ہو۔‘‘
’’ہاں گدّیوں کے یہاں چارہ نہیں ہو گا۔۔۔ تمہارا کھیت چرا لیا۔ کیا مطلب ہے تمہارا۔۔۔ کیا یہ لوگ اپنی بھینسیں مروا ڈالتے راج دین۔‘‘
’’بھیا۔‘‘
’’اوکھ کے چارا گوروں کے لیے چالیس آدمی نہیں مارے جاتے۔۔۔ لے جانے دے ان کو بھینسیں۔‘‘
’’پیرا۔‘‘
’’کہیو۔‘‘
’’کٹہل کے باغ میں بھینسیں نہیں آئیں گی اب۔‘‘
یہ کہہ کر انھوں نے گھوڑا موڑا جو ایک گلی میں غائب ہو گیا۔
مان پور اور اس کے جوار کے ایک ایک دل میں مجو بھیا کی شرافت، لیاقت اور انسانیت کھونٹے کی طرح گڑ گئی۔ راج دین اور بھکا بڑی دیر تک چھپر میں بیٹھے خاموشی سے چلم پیتے رہے۔ شکار ان کی لاٹھی کی زد پر آ کر نکل گیا تھا۔ للّی نے یہ خبر سنی تو منہ لٹک گیا۔ محرم کی پہلی تاریخ تھی۔ وہ پہننے کے لیے ہری کرتی رنگ رہی تھی۔ کرتی نچوڑ کر اس نے الگنی پر لٹکا دی۔ لیکن پھر اس سے اٹھا نہ گیا۔ وہ چولہے کے پاس بیٹھی دست پنے سے زمین کھودتی رہی۔
*
مجو بھیا زمیندار کے پوت تھے، آج کا نقشہ دیکھ کر غرور سے ان کی چھاتی چار انگل اور بڑھ گئی تھی۔ تراب کے بات کرنے کا انداز ان کو کبھی اچھا نہ لگا۔ وہ واحد آدمی تھا جو ان کے دروازے کے سامنے سانڈ کی طرح جھومتا ہوا نکل جاتا۔ کبھی دو انگلی اٹھا کر سلام کا بھی روادار نہ ہوتا۔ پھر تراب کی بھینسیں اکثر ان کے ہار میں دندناتی ہوئی گھس پڑتیں۔ بظاہر تو وہ کوئی خاص توجہ نہ دیتے لیکن وہ جانتے تھے کہ یہ حرکتیں ان کے بڑھتے ہوئے اقتدار کو مجروح کرنے کے لیے سوچ سمجھ کر کی جاتی ہیں۔ پھر ہولی والے دن تو تراب نے کھل کر نوکروں سے کہہ دیا تھا کہ بڑے شیخ کے بیٹے ہوں تو ہاک دیں آ کر تراب کی بھینسیں۔ مجو بھیا خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے تھے۔ آج انہوں نے جو کچھ کیا تھا اس میں ان کی حکمت عملی کا ہی دخل تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر فوجداری ہو گئی تو میں ایک فریق بن جاؤں گا۔ اور قتل کے مقدمے میں فریق کے معنی ان کو اچھی طرح معلوم تھے اسی لیے وہ طرح دے گئے۔
مگر ایک بات انھوں نے طے کر لی تھی۔ بھیکم پور اور مان پور کی سرحد پر ان کا ایک جوار کھیت تھا۔ جس کی مینڈ تراب کے کھیت کو ان کے کھیت سے جدا کرتی تھی۔ اسی مینڈ پر جامن کا وہ درخت تھا جو اپنے مزے کی وجہ سے سارے علاقے میں مکھن والے درخت کے نام سے مشہور تھا۔ پیڑ پٹواری کے کاغذات میں بھی مجو بھیا کے نام درج تھا لیکن جس دن سے مجو بھیا نے اپنا کھیت راج دین پاسی کو بسیر بجانے کی خدمت کے صلے میں دیا تھا اس دن سے اس کے جامن تراب نے ہتھیا لیے تھے۔ جامن کون ایسی نعمت تھی جن کے لیے مجو بھیا کڑھتے لیکن یہ ان کی اور حکومت کا سوال تھا۔ ان کو معلوم تھا کہ بیڈھب تراب کے سامنے ان کے مٹھی بھر نوکر کیا کر لیں گے۔ آج پاسیوں کی آنکھوں میں جلتی ہوئی آگ دیکھ کر ان کو اپنے بھیگے ہوئے دامن کو سکھانے کی سوجھ گئی تھی۔
وہ اپنے باہر صحن میں گملوں کے گول دائرے میں آرام کرسی ڈالے بیٹھے تھے۔ آسمان پر کالے کالے جامنوں کے کھلیان سے بادل لدے کھڑے تھے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ محرم کے سلسلے میں تھانے سے آئے ہوئے کانسٹیبل کی خوراک حلوائی کو بھجوا کر وہ بیٹھے تھے۔ سارے نوکر اپنے اپنے کام میں لگے تھے۔ رام دین ان کی پشت پر بیٹھا بیڑی پی رہا تھا کہ راج دین بھکا اور دلارے آ گئے۔ سبھوں نے جھک کر سلام کیا۔
’’آؤ مہیتا۔‘‘
اور ان تینوں نے اپنے جوتے اتارے اور گول دارے میں مجو بھیا کے پیروں کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔
’’رام دین۔‘‘
’’ہاں بھیا۔‘‘
جب وہ اٹھ کر ان کے سامنے آ گیا تو بڑے لاڈ سے جھڑکتے ہوئے مجو بھیا بولے۔
’’ابے یہ تو تیرے باپ ہیں۔ ان کو تو بغیر میرے کہے بیڑی پلا دی ہوتی۔‘‘
’’باپ ہوں چاہے چچا ہوئیں۔۔۔ بیڑی کوئی پیڑن میں تھوڑے لگت ہیں جو ہم بیٹھے لٹاوا کری۔ آپ جیکا حکم دیو او کا پلائے دیئی۔‘‘
مجو بھیا نے مسکرا کر راج دین کو دیکھا۔
’’مہتیا! تمہارا یہ لونڈا کنجوس ہے۔۔۔ بہت بڑا کنجوس ہے۔۔۔ تم ایسے دل والے باپ کا بیٹا کیسے ہے یہ۔‘‘
راج دین نے فخریہ اپنے بیٹے کو دیکھا۔ دلارے اور بھکا بھی ہنس پڑے۔
’’کہو بھکا سب خیریت ہے۔۔۔ تم کیسے آئے؟‘‘
بھکا نے سوچتی ہوئی آنکھیں اٹھا کر راج دین کو دیکھا اور کھنکارا۔
’’اے بھیا آئے ہیں ایک جرورت سے۔۔۔ ہم کا اپنے سنگ لائے ہیں۔‘‘ راج دین نے بہت چبلا چبلا کر کہا۔
’’ہاں ہاں بولو۔‘‘
’’ای اپنا کمرہ پٹوائے رہے ہیں۔ کڑی اوماں پڑ گئی ہیں کم۔۔۔ تو لکڑی اگر کہوں نگاہ ماں ہوئے تو۔‘‘
راج دین دروازے پر للّی کو دیکھ کر چپ ہو گیا۔ کیوں کہ مجو بھیا نے گردن گھما کر جو دیکھا تو دیکھتے رہ گئے۔ وہ سبز ریشمی اوڑھنی کندھے پر ڈالے سبز کرتی کی بہار دکھلاتی سبز پڑا کے دار گوٹ کے لہنگے میں بھنور بناتی رانیوں کی طرح آ رہی تھی۔ گملوں کی شاخوں کے پاس کھڑے ہو کر اس نے اپنے دونوں مرمریں ہاتھ کولہے پر رکھ لیے۔
’’کا بھیا کچھ فیصلہ کرت ہیں۔‘‘ اس نے بڑے ناز سے کہا لیکن بھیا کچھ بولے نہیں وہ چاہتے تھے کہ بات ختم کر کے یہ لوگ چلے جائیں تو للّی کو غور سے دیکھوں۔
’’فقیر نائیں بنے بھیا آج؟‘‘ للّی نے پہلی بار آج بھیا کو اتنی بے باکی سے اپنے سراپے کو گھورتے پایا تھا۔
’’رجب کی اماں نے نہ ابھی ٹوپی رنگی نہ کلائی آئی۔‘‘ بھیا نے اپنے خشخشے بالوں پر ہاتھ پھیر کر کہا۔ پھر راج دین کی طرف مخاطب ہوئے۔
’’بھکا کو کڑیوں کے لیے لکڑی چاہیے۔‘‘
’’ہاں بھیا۔‘‘
’’ہے کہیں نگاہ میں۔‘‘
’’ہمری نگاہ کون۔۔۔ جہاں آپ حکم دیو وہاں نگاہ دوڑائی جائے۔‘‘
’’ارے راج دین۔‘‘
’’بھیا۔‘‘
پہاڑ ایسا پیڑ سامنے کھڑا ہے اور تم مارے مارے گھوم رہے ہو۔۔۔ تمہارے بیسر والے کھیت میں وہ جامن جو کھڑا ہے۔۔۔ دھنیاں ہی دھنیاں ہیں اس میں۔‘‘
’’سانچ تو کہت ہو بھیا۔‘‘
’’بھکا تم پیڑ کاٹ لیو۔‘‘
’’کا مکھن والا پیڑ تم ان کا دیت ہو۔۔۔ بھکا کا؟‘‘ للّی نے آنکھیں چمکا کر دخل دیا۔
’’ہاں۔۔۔! کیوں؟‘‘
کاہے اپنی آبرو مٹی میں ملاوت ہو۔۔۔ جو اپنی سونا ایسی دولہن نہ بچائے پاوا اور تراب سے اے پہاڑ ایسا پیڑ جرور چھین لیے جیے۔۔۔ ارے پیڑ دیوے کاہے تو کوئی چمار کاتا کا جون ہاتھ پاؤں جوڑ کے بھلا کاٹ تو لے۔‘‘ یہ کہہ کر للّی نے اپنی چنری ڈھلکا دی۔ زہر میں بھجے ہوئے تیر سے راج دین، بھکا، رام دین اور دلارے سب کے کلیجے چھید کر وہ جاتے جاتے مڑی۔
’’میں بھیا کے لیے ٹوپی اور کلائی لاوت ہوں۔‘‘
بڑی دیر تک سناٹا طاری رہا۔ مجو بھیا سمیت سب منہ جھلائے بیٹھے رہے۔ عصر کی اذان سن کر بھیا اٹھے، ان کے اٹھتے ہی راج دین کے ساتھ سب اٹھ پڑے۔ اور سلام کی رسم ادا کر کے نکل آئے۔
مغرب کی اذان ہو چکی تھی، لیکن حاجی بازار سے واپس نہیں آئے تھے۔ للّی نے چاول لگا کر لالٹین کی چمنی جوڑی اور جلا کر کوٹھری میں گھس گئی۔ بانس کے بنے ہوئے کپڑے رکھنے کے پٹارے کے ڈھکن پر سے آئینہ اٹھا کر اس نے اپنی چاندی کی سلائی سی مانگ پر ایک مطمئن نگاہ ڈالی اور کوٹھری بند کر دی۔ آگے آگے نوکر جھوا لیے آیا اس کے پیچھے حاجی تھے۔ انھوں نے ڈلیا ترازو کونے میں دھرا اور لوٹے میں پانی لے کر وضو بنانے لگے۔ للّی نے رنگی ہوئی ٹوپی اور کلائی اٹھائی تھی کہ اسے یاد آ گیا۔
’’بالا مؤ کی بزار ہے کل۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہے۔۔۔ آدھی رات سے گاڑی ہانکی جیہیں۔‘‘
’’آدھی رات سے؟‘‘
’’اونہہ پچھلارے سے ہانکی جیہیں۔ لیکن اٹھے کا تو آدھی رات سے پڑیہے۔‘‘ حاجی جھنجھلا گئے۔ ’’اور ای جو بادل لدے کھڑے ہیں۔‘‘ حاجی نے اٹھ کر سیاہ آسمان کو دیکھا اور ٹوپی پہن لی اور آدھے آنگن میں جا کر بولے، ’’کٹہل بھرے ہیں، کچھ مصری تھوڑے بھری گئی ہے۔‘‘
’’اچھا تو سنو۔۔۔ میں تنی لپک کے بھیا کا ٹوپی اور کلائی دے آؤں۔ تم اتنے وخت گھر ماں نماز پڑھ لیو۔‘‘ للّی کا حکم سن کر حاجی پلٹ آئے اور چٹائی ڈھونڈنے لگے۔
مجو بھیا مزدوروں کو رخصت کر کے اٹھے ہی تھے کہ چھوٹے خاں آ گئے۔
’’چچا مجھ کو آپ کا پیغام مل گیا تھا۔‘‘
’’ہاں فجو خاں کو بھیجا تھا میں نے۔‘‘
’’اب آپ یہ بتائیے کہ محرم میں کتنا پیسہ صرف ہوتا ہے۔‘‘
’’بھائی پار سال تین سو چالیس لگے تھے۔‘‘
’’اس سال آپ چار سو پورے خرچ کیجیے۔ لیکن محرم کیجیے دھوم سے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ تو صبح گھڑی بھر بیٹھ جاؤ۔۔۔ حساب بنا لیا جائے۔‘‘
’’آ جائیے گا۔‘‘
مجو بھیا چھوٹے خاں کو رخصت کر کے گھر کے آنگن میں پہنچے تو للّی باورچی خانے کے طرف سے آ رہی تھی۔
’’رجب کی اماں نائیں ہیں۔‘‘
’’نذر نیاز دلانے گئی ہوں گی۔۔۔ یہ کیا ہے؟‘‘
للّی نے ہاتھ بڑھا کر مجو بھیا کے ہاتھ میں ٹوپی پکڑائی ہی تھی کہ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا اور بڑے بڑے بوندوں کا ریلا ٹوٹ پڑا۔ مجو بھیا دالان کی طرف لپکے مگر للّی نے جلدی جلدی آنگن میں جو کھچ پڑا تھا، بین کر دالان میں کر دیا۔ اور باورچی خانے کے در میں لٹکی ہوئی لالٹین پر جھپٹی لیکن وہ اس کے پہنچنے سے پہلے ہی بھڑک کر رہ گئی۔ پیٹتے پانی میں پورا آنگن پار کر کے وہ لالٹین دبائے ہوئے دالان میں آ گئی جہاں اندھیرے میں مجو بھیا کھڑے تھے۔
’’دیا سلائی کہاں ہے بھیا۔‘‘ مکمل اندھیرے میں اس کی آواز کا شعلہ چمکا۔ اور مجو بھیا چونک پڑے اور بڑی مشکل سے بولے۔ ’’کمرے میں تخت پر۔‘‘ کڑکڑا کے بجلی چمکی تو اپنی ریشمی چنری نچوڑتی ہوئی للّی نے دیکھا کہ مجو بھیا کے دیدے اس کے گریبان پر چپک گئے ہیں۔ اس نے ٹٹول کر چنری تخت کے کونے پر رکھ دی اور کمرے کی طرف مڑ گئی۔
’’یہاں تو بھیا نہیں ہے۔‘‘
مجو بھیا اپنی شہتیر ایسی ٹانگوں پر پہاڑ سا بدن گھسیٹتے ہوئے اٹھے۔ کمرے کی دہلیز سے نکلتے ہی جلتے توے پر ان کا ہاتھ پڑ گیا اور دل اچک کر حلق میں اٹک گیا۔ سنسان راتوں کے لمبے خوابوں کی جگمگاری ہوئی زندہ تعبیر ان کے بازوؤں کی گرفت میں دھڑک رہی تھی۔ وہ اس لالچی بچے کی طرح ساکت کھڑے رہے جسے مٹھائی کے جنگل میں چھوڑ دیا گیا ہو۔ ابھی وہ اپنے ہاتھوں میں بھری ہوئی آرزوؤں کی دولت ایک نظر دیکھ بھی نہ پائے تھے کہ شانوں سے ان کے ہاتھ تراش لیے گئے۔ پھر انہوں نے بجلی کی روشنی میں دیکھا للّی آنگن میں چھپ چھپ کرتی بھیگتی ہوئی چلی جا رہی تھی۔ وہ کٹے ہوئے درخت کی طرح تخت پر بیٹھ گئے۔ پانی بند ہو گیا۔ کسی نوکر نے لالٹین جلائی۔ رجب کی اماں نے دالان صاف کر کے تخت پر دسترخوان بچھایا۔ کھانا لگایا۔ پھر اٹھا لیا۔ نوکر نے بستر لگایا مچھر دانی لگا کر کھڑا رہا پھر چلا گیا۔ باہر پہرے کا سپاہی مستعدی سے ’’جاگتے رہو جاگتے رہو‘‘ کے نعرے لگاتا رہا۔ لیکن مجو بھیا نے تخت چھوڑ کر نہ دیا۔ وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہے تھے، کوس رہے تھے۔ للّی جو چوراہے پر کھڑی ہو کر اپنے شوہر کے بکھان کرتی ہے، جس کی شعلہ مزاجی کے سامنے بڑے بڑے فقرے بازوں کی زبانیں کوّا اچک لے جاتا ہے، وہ للّی جو فتنہ نہ کھڑا کر دے وہ تھوڑا ہے۔
بکس، فجو خاں استاد مدّی کیا سوچیں گے، رام دین اور لونڈے میرے متعلق کیا خیال کریں گے۔ میں مان پور کی مسجد کا امام جس کے سامنے جوان جوان عورتیں کرتے دوپٹے سے بے نیاز بیٹھی ہوئی اپنے بچوں کو دودھ پلایا کرتی ہیں اور اپنے شوہروں کے قصے بیان کرتی ہیں۔ میرا کیا ہو گا۔ عورتیں مجھ سے پردہ کرنے لگیں گی۔ مرد مرے نام پر تھوکیں گے۔۔۔ اور لونڈے رنگے سیار پر تالیاں بجائیں گے۔ وہ بے قرار ہو کر اٹھ بیٹھے۔ کیچڑ سے بھرے آنگن میں کامدار مخملی جوتا پہنے وہ ٹہلتے رہے۔ لیکن للّی جو کچھ کہے گی صبح کہے گی۔ پھر صبح اس سے معافی مانگی جا سکتی ہے، منایا جا سکتا ہے۔ وہ کھڑے ہو گئے۔ پھر خیال آیا کہ آج تو حاجی میٹھے بالامؤ کی بازار کٹہل لے کر جائیں گے۔ ترپال مانگنے آئے تھے شام کو۔۔۔ وہ کچھ مطمئن ہو کر سوچتے رہے اور رات گزرنے کا انتظار کرتے رہے۔
للّی جب گھر پہنچی تو چولہا بجھ چکا تھا۔ وہ حاجی سے بولے بغیر ان کے ساتھ کرنے کے لیے روٹیاں پکاتی رہی۔ پھر موٹی موٹی روٹیاں گھی لگا کر ڈبے میں بند کر دیں۔ مٹی کے پیالے میں سوکھی سوکھی ترکاری رکھ کر اس نے حاجی کے حوالے کر دیا۔ اور اپنے پلنگ پر گڑمڑا گئی۔ حاجی اور ان کے ساجھے دار دوسرے چھپر میں بیٹھے حساب کتاب کر رہے تھے اور دوسرے دن کے بازار پر قیاس آرائی ہو رہی تھی۔ حاجی نے جب اس کو جھنجھوڑ کر جگایا تو اس نے آسمان پر نگاہ ڈالی جو اس کے بالوں کی طرح کالا تھا۔ اس نے جماہی لی اور انگڑائی لیتے ہوئے کہا، ’’آسمان کا حال دیکھ رہے ہو حاجی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ مل سودا ہو چکا ہے۔۔۔ سنگی سب تیار ہیں۔۔۔ چھتری ترپال سب کا انتظام ہے۔ اور دیکھو کوئی گھڑی بھر رات ہے اب۔ ہم ادھر سے رے زینب بہن کا پکار دیبا اوروئی آئے کے لیٹ ریہیں۔‘‘
’’تو دروازہ نہ بند کریں۔‘‘
’’نائیں۔۔۔ دروازہ ضرور بند کرو۔۔۔ مگر تنی چیتت سویو۔‘‘
اس نے لڑکھڑاتے ہوئے دروازہ بند کر لیا اور پھر آ کر اپنے پلنگ پر پڑی رہی۔ حاجی نے بقرعیدی کے گھر پر ہانک لگائی۔ تین چار آوازوں کے بعد اس نے دروازہ کھولا۔ حاجی نے تہرا کر اس سے زینب کو گھر بھیجنے کی تاکید کی۔ اور ہر بار اس نے پنسیری بھر کا سر ہلا کر حامی بھر لی۔ لیکن دروازہ بند کرتے ہی اپنے پلنگ پر لڑھک گیا۔
للّی کروٹیں بدلتی رہی لیکن نیند نہ آئی۔ کبھی تراب کی موذی مسکراہٹ اس کی چٹیا پر جوتا مسل کر چلی جاتی اور کبھی مجو بھیا کی باہوں کے شیریں لمس سے خیالوں میں چاندنی چھٹک جاتی۔ ابھی وہ پوری طرح مسرور بھی نہ ہو پائی کہ مجو بھیا کی شرماتی ہوئی آنکھیں اس سے کہتیں کہ چچی بکس کی طرح میں نے تجھے چھیڑنے کے لیے یہ حرکت کی تھی۔ ورنہ تو یقین جان کہ میں تجھ کو چچی ہی سمجھتا ہوں۔ خیال کے اس سنپولے کے دل پر رینگتے ہی وہ زور سے کروٹ لے کر آنکھیں بند کر لیتی۔
دروازے پر تھپکی ہوئی۔
اس نے آہستہ سے کنڈی کھول کر دروازہ جو کھولا تو دست پنے کی سی موٹی موٹی انگلیاں اس کی گردن میں جم گئیں۔ تراب نے بائیں ہاتھ سے دروازہ بند کر لیا۔ داہنے ہاتھ سے للّی کی گردن دبوچے ہوئے منگلو کے گھر والے دروازے کی زنجیر کھول کر داخل ہو گیا۔
وہ خیں خیں کرتی رہی۔ تراب نے مسکرا مسکرا کر پانی بھرنے والی رسی میں اس کے ہاتھ پشت پر باندھ دیے اور اس کے منہ میں انگوچھا ٹھونس کر ایک لات مار کر پلنگ پر گرا دیا اور کوٹھری بند کر لی۔ للّی دل ہی دل میں صبح ہونے کی دعائیں مانگتی رہی۔ لیکن جب تراب نے اُسے گود میں بھر کر پھر اس کے پلنگ پر لا کر پٹخا اور آپ اس کے دروازے کی زنجیر کھول کر باہر نکل گیا۔ اس وقت بھی اندھیرا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد فجر کی اذان ہوئی۔ اس کے تھوڑی دیر بعد کسی نے دستک دی۔ تیسری چوتھی دستک پر وہ اٹھی، دروازہ کھولا تو مجو بھیا کھڑے تھے۔ جس ہاتھ سے وہ کواڑ پکڑے تھی اس کی کلائی ٹوٹی ہوئی چوڑیوں سے زخمی تھی۔ پھر مجو بھیا نے اس کی کرتی دیکھی جس میں لہریں جھول رہی تھیں۔
’’یہ کیا ہوا؟‘‘
’’یہ کیا ہوا آخر؟؟‘‘ مجو بھیا نے ہاتھ بڑھا کر دروازہ بند کر دیا۔ اور للّی کی کلائی تھام لی۔ للّی ٹوٹے ہوئے دروازے کی طرح ان کے دیوار ایسے سینے پر ٹک کر رونے لگی۔
راج دین نے مجو بھیا کے یہاں سے آتے ہی چار چار کوس تک سارے گاؤں کو خبر بھیج دی تھی کہ دوسرے دن بازار کے وقت پہنچ جائیں۔ دس ہی بجے سے آدمی گرنا شروع ہو گئے تھے۔ کوئی بارہ بجے تک راج پورہ کے ایک ایک گھر میں کٹیہرے کموڑوں کی طرح آدمی بجکنے لگا۔ اس کے بعد راجپورہ کے سامنے والے باغ میں آدمیوں کا کھلیان لگ گیا۔ ابھی دو ہی بجا تھا کہ رام دین اور دلارے کلہاڑیاں لے لے کر مکھن والے پیڑ پر پہنچ گئے۔ اس کی پیڑی پر کلہاڑی مارکر جنگ کا ڈھول بجا دیا۔ بھیکم پور کے چماروں نے جو سودا سلف لینے مان پور جا رہے تھے، یہ رنگ دیکھا تو الٹے پیروں جا کر پیرا کے گھرانے کو خبر دی۔ پیرا اپنا ناریل لے کر چھپر سے نکلا تو آدمی سمٹنے لگے۔ کوئی چالیس پچاس آدمیوں کو عقب میں لیے تراب نے دیکھا کہ دو لونڈے کلہاڑی لیے کھلواڑ کر رہے ہیں تو وہ مسکرا دیا۔ لیکن پیراکی بوڑھی آنکھیں منظم سازش کی تہہ تک پہنچ گئیں۔ اس نے ناریل پاس کے آدمی کو پکڑادیا۔ اور نرمی سے بولا،
’’پھلا پھولا پیڑ کیوں کاٹے ڈالت ہو بھئی؟‘‘
’’روک پاؤ تو روک لو۔‘‘
پیرا اس جملے کی دھار پرکھ رہا تھا۔
کہ راجپورہ کے باغ سے پاسیوں کی آندھی چلتی دکھائی دی۔ ساتھ ہی مان پور کی طرف سے آدمیوں کے غول آتے نظر پڑے تو اس کی ڈھارس بندھی۔ ساتھ ہی بھیکم پور سے بھی آدمی سمٹنے لگے تھے۔ چھوٹے خاں نے آتے ہی پاسیوں کو ڈانٹا کہ روز تم لوگ کوئی نہ کوئی بسنت بنایا کرتے ہو۔ پیڑ کس کاہے۔ آواز آئی مجو بھیا کاہے۔ مجو بھیا کا نام سن کر چھوٹے خاں کچھ دھیمے پڑے۔ پھر گدیوں کی طرف سے نعرہ بلند ہوا کہ جس کا کھیت ہے اس کا درخت ہے۔ اس قانونی بات چیت میں جتنا وقت لگا اتنے وقت میں مکھن والے جامن کے پورب اور پچھم میں دور دور تک آدمی ہی آدمی نظر آنے لگے۔ پورب میں پاسی پچھم میں گدّی، مان پور والے کبھی ادھر کی حامی بھرتے کبھی اُدھر کی، سنجیدہ کوئی نہ تھا۔ سب تماش بینی کرنے نکل پڑے تھے۔ ویسے ہاتھ کسی کا خالی نہیں تھا۔ بانے، پٹے، تلوار، بلم، کانٹے، لاٹھی ہر چیز دیکھنے کو مل سکتی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے محرم میں کرتب دکھانے آ گئے ہوں۔
مان پور کے مکھیا چھوٹے خاں نے آدمی بھیج کر مجو بھیا کو خبر کرا دی تھی۔ مجو بھیا نے اپنے سارے نوکروں کو پہلے ہی رام دین کی حمایت میں روانہ کر دیا تھا۔ خود نیا دوری دار جوتا پہنے صحن میں چرمر کر رہے تھے۔ مگر بھیگی ہوئی زمین پر جوتے کی مدھم آواز کی وجہ سے انھیں ٹہلنے میں مزا نہیں آ رہا تھا۔ مبارک ڈھپالی نے آ کر خبر دی کہ ہندو مسلمان میں گڑبڑ مچا ہے۔ چھوٹے خاں بلاوت ہیں۔ مجو بھیا نے کوئی موٹی سی گالی دے کر اسے دھتکار دیا اور بولے کہ اگر ہندو مسلمان کا نام لیا تو اتنے جوتے ماروں گا کہ بھیجہ باہر نکل جائے گا۔ مبارک نے مجو بھیا کو بگڑتے کبھی نہیں دیکھا تھا وہ کان دبا کر بھاگ لیا۔ مجو بھیا نے بڑے اطمینان سے اصطبل کھولا۔ سفید گھوڑے کو جسے وہ بجلی کہتے تھے، باہر نکالا۔ اپنے ہاتھ سے کاٹھی رکھی اور اوٹے پر کھڑے ہو کر سوار ہو گئے۔
اسے ’’یرغہ‘‘ چلاتے ہوئے موقعہ پر پہنچے۔ پاسیوں کی کثرت دیکھ کر محظوظ ہوئے۔ رام دین نے کلہاڑی رکھ کر الف ہوئے ہوئے گھوڑے کی لگام تھام لی۔ رام دین جس نے مجو بھیا کے ساتھ ڈنڈیں لگائی تھیں، مگدر ہلائے تھے، کھلیان اٹھائے تھے اور گھوڑے خریدے تھے۔ مجو بھیا تن کر کاٹھی پر بیٹھے اور کڑک کر بولے، ’’چھوٹے چچا۔‘‘
’’ہاں بھیا۔‘‘
انہوں نے بٹوے سے لونگ لے کر ڈوری گھسیٹ لی۔
’’آپ مجو خاں، بکس اور استاد مدی کو لے کر مان پور چلے جائیے محرم ہے یہ۔۔۔ سیدھے چلے جائیے۔‘‘
محرم کا نام آتے ہی چھوٹے خاں چونک پڑے۔ بٹوا اپنے کرتے کی جیب میں گھسیڑ کر لونڈوں کو ڈانٹا جو اڑیل بیلوں کی طرح ایک قدم چل کر ٹھٹک گئے۔ جب مان پور کا بچہ بچہ چری کے کھیت تک پہنچ گیا تب مجو بھیا نے اپنا گھوڑا گدیوں کی طرف موڑا جن کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگیں تھیں۔
’’پَیرا۔‘‘ مجو بھیا رکابوں پر کھڑے تھے۔
’’کہیو۔‘‘
’’تمرے بہویں اور بیٹی دونوں ہیں شاید؟‘‘
’’ہیں۔‘‘
ابھی ان کا جملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ بھیڑ کو چیر کر تراب باہر نکلا اور لاٹھی اوہار کر دوڑا۔ مجو بھیا، بھکا اور راج دین کے ہونٹوں پر ایک قسم کی زہریلی مسکراہٹ رینگ گئی۔ مجو بھیا نے اپنے ڈوری دار جوتے کی ایڑی بجلی کے پیٹ میں گاڑ دی اور رخ بدل کر مان پور والوں کے پاس کھڑے ہو گئے۔ لاٹ ایسے تراب کی گولے دار لاٹھی اور مجو بھیا کے گھوڑے کا فاصلہ دانت پیستے ہوئے پاسیوں کے کھرپا ایسے ہاتھوں میں ناچتی گولے دار لاٹھیوں سے بھر گیا۔ دلارے نے اپنی دھوتی سے دیسی پستول نکال لیا۔ اس کی کھردری بے ہنگم نال میں مٹیالے رنگ کا کارتوس لگا کر تانا ہی تھا کہ بھکا اور راج دین کی منگت میں کوئی دو درجن لاٹھیوں نے تراب کو اپنی باڑھ پر رکھ لیا۔ تراب کی مدد کو گدی دوڑے لیکن ہزار بارہ سو پاسیوں کے سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔
بہت سے گدی بھی مان پور والوں کی طرح ہاتھوں میں سودا سلف لیے بغل میں لاٹھی دبائے نکل آئے تھے۔ بہت ایسے بھی تھے جو زندگی کی یکسانیت سے اکتا کر محض تفنن طبع کے طور پر آ نکلے تھے۔ لیکن اتنی بات سچ تھی کہ چند کو چھوڑ کر سارے کے سارے گدی ان پاسیوں کے سامنے مطمئن تھے جن سے ابھی چند روز قبل وہ بھینسیں چھین کر ہانک لے گئے تھے۔ مجو بھیا کے فقروں اور تیوریوں پر وہ چونکے ضرور تھے۔ لیکن مان پور کی آدھی جوان آبادی کو کھڑا دیکھ کر ان کی کچھ ڈھارس بندھ گئی تھی۔ آتش بازی کی چرخی کی طرح جب پاسیوں کی لاٹھیاں چو مکھی مار کرنے لگیں اور مان پور والے بھیڑ لگائے کھڑے رہے، جیسے محرم کے اکھاڑے میں تماشہ دیکھ رہے ہوں تو کسی چالاک گدی نے نعرۂ تکبیر بلند کیا۔ بھاگتے ہوؤں کو جیسے کمک مل گئی۔ انھوں نے گلے پھاڑ کر ’’اللہ اکبر‘‘ کی تکرار کی۔ راج دین اور بوڑھے بوڑھے پاسیوں کے ہاتھ سست ہو گئے اور انہوں نے بڑی حسرت سے مجو بھیا کو دیکھا۔
مان پور والوں میں بہت سے ایسے تھے جنہوں نے تراب کے ساتھ پانے ہلائے تھے۔ تاڑی کے کھجڑ توڑے تھے، عورتوں کے بدن لوٹے تھے اور مار کھائے ہوئے تراب کو دیکھ کر تازی کتوں کی طرح زنجیر تڑانے کی فکر میں تھے۔ دلوں میں آگ بھر دینے والی اس آواز کو سنتے ہی بے قرار ہو گئے۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے لاٹھیاں سونت لیں اور دوڑ پڑے۔ لیکن مجو بھیا نے زمین میں لگے ہوئے چابک کو سَڑ سے گھسیٹ کر بجلی کے ایڑ لگائی جو پھنپھناتا ہوا فجو خاں، اور بکس کی چٹھیا کا راستہ روک کر پاؤں پٹخنے لگا۔ پھر فجو خاں اور بکس کے کئی جیالے ساتھیوں نے اپنے بازو اور سینے پر کوڑے کی چلتی ہوئی چوٹ محسوس کی۔ ساتھ ہی مجو بھیا، چھوٹے خاں اور دوسرے بڑے بوڑھوں کی گالیوں کی بوچھار تیروں کی طرح ان کے کلیجوں پر پڑی اور وہ جہاں تھے وہیں مچل کر رہ گئے۔
اب میدان صاف ہو چکا تھا۔ پیرا، تراب، اور تراب کے بھتیجے کی لاش چھوڑ کر سارے گدّی بھاگ نکلے۔ بھکا اور رام دین نے لاٹھی کے گولوں سے تراب کی لاش بگاڑ دی، پھر آدمیوں کو سمیٹ کر بھیکم پور پر ہلا بول دیا۔ چیختی ہوئی عورتوں نے اپنے آپ کو اور روتے ہوئے بچوں کو اٹھا کر کوٹھریوں میں دفن کر لیا یا پڑوس کے بردے پر بھاگ نکلیں۔ تراب کے اندر سے بند دروازے پر چھوٹے سے چھپر کا مٹھا بھر پوس نوچ کر بھکا نے البٹی سے دیا سلائی نکالی ہی تھی کہ حد نگاہ تک پھیلے ہوئے پاسیوں کی کائی پھاڑ کر مجو بھیا کا بجلی تراب کے چھپر کے پاس پہنچ گیا۔
’’راج دین۔‘‘
’’بھیا۔‘‘
’’یہ کچھ نہیں ہو گا۔ تم گاؤں کی کسی مرغی کو بھی نہیں چھیڑو گے۔ بس پچاس آدمی روک کر تراب کے گھر کا پہرہ دو۔ سونا باہر نکل گئی تو مقدمہ ہار جاؤ گے۔ میں تھانے خبر بھیجتا ہوں۔‘‘
پھر سارے میں لال صافے پھیل گئے۔ مان پور تک میں طاعون سا چل گیا۔ چھوٹے سے بڑے تک سب اپنے اپنے گھروں میں دبک گئے۔ مجو بھیا کے نوکر اور مجو بھیا کے گھوڑے سڑکوں پر دوڑتے نظر آتے اور بس عشاء کی اذان ہوتے ہوتے ہردوئی کا سپرنٹنڈنٹ پولیس آ گیا۔ مان پور کے مڈل اسکول میں تھانیداروں سے گفتگو کرنے کے بعد علاقے کی سب سے بڑی بستی کے سب سے بڑے آدمی کو طلب کیا گیا۔ جامدانی کی شیروانی اور چوڑی دار پائجامے پر لکھنؤ کا کڑھا ہوا پلا دیے، سچے کام کے جوتے کو آہستہ آہستہ چرمراتے ہوئے دیو قامت مجو بھیا ہال میں داخل ہوئے تو انگریز سپرنٹنڈنٹ نے کھڑے ہو کر ہاتھ ملایا اور کرسی کی طرف اشارہ کر کے بیٹھنے کو کہا۔ گیس کی تیز روشنی میں ان کے دہکتے چہرے پر بڈھے انگریز کی نگاہ نہ ٹھہرتی تھی۔ کپتان اور کپتان کی موجودگی میں ہندو تھانیدار نے ایک سے ایک ترچھے ٹیڑھے سوال کیے۔ لیکن مجو بھیا نے اس بلوے کو ہندو مسلم فساد نہ بننے دیا۔ گدیوں نے یہ تو دیکھا ہی تھا کہ اگر مجو بھیا بیچ میں نہ آ جاتے تو پاسی پورا بھیکم پور پھونک دیتے، نہ کہ تراب کا چھپر تک کھڑا تھا، پھر ان کو یقین تھا کہ اگر مجو بھیا کا نام درمیان میں آ گیا تو مان پور سے مسلمان شہادت کا ملنا آسان نہ ہو گا۔ اس لیے گدیوں نے بہت سوچ سمجھ کر مجو بھیا کا نام نکالا تھا۔ پاسیوں کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
مجو بھیا کو اس کا علم تھا۔ وہ ٹھاٹھ سے بیٹھے ہوئے جواب دے رہے تھے۔ انگریز کپتان اور ہندو تھانیدار دونوں ان کی سچائی کے معترف تھے۔ مرعوب تھے۔ مجو بھیا کے گھر سے آئی ہوئی چائے کی ایک پیالی پی کر جب کپتان جیپ پر بیٹھا تو اس نے مجو بھیا سے بھی ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ اپنے بجلی پر سوار ہو کر کپتان کی جیپ کے آگے آگے چلے۔ اور ان کی موجودگی میں تراب کے گھر سے بھکا پاسی کی بیوی سونا برآمد ہوئی۔ جس کے وجود اور بیان نے نہ صرف مقدمہ کی نوعیت بدل دی بلکہ مجو بھیا کے بیان کی تصدیق ہو گئی۔ ابھی کپتان سونا کا بیان دیکھ رہا تھا کہ پٹواری لال پرشاد جھوا بھر کاغذات لے کر مجو بھیا کے پاس آ گئے اور مجو بھیا نے مکھن والے پیڑ کے اندراجات کپتان پولیس کو دکھلا دیے۔ جن کو وہ اتنے غور سے دیکھ رہا تھا گویا واقعی سب کچھ سمجھ رہا ہو۔
مان پور کے مڈل اسکول میں ساری رات گیسیں جلتی رہیں۔ رتجگا ہوتا رہا۔ صبح ہوتے ہوتے لاشیں اور سات پاسیوں کا چالان روانہ ہو گیا۔ مجو بھیا جب گھر آئے تو بھیڑ بیٹھی انتظار کر رہی تھی۔ اپنی اہمیت کا اندازہ کر کے مسرور ہوتے رہے۔ انہوں نے مختصر جوابات عنایت کیے۔ چھوٹے خاں کی قیادت میں مجمع منتشر ہو گیا۔ وہ شیروانی اتارتے ہوئے اندر گئے تو باورچی خانے میں رجب کی اماں کے ساتھ للّی بھی چائے کے برتن درست کرنے لگی۔ للّی کے گورے گورے ہاتھوں میں چائے کی کشتی دیکھ کر ان کی تھکن پر لگا کر اڑ گئی۔ جیسے دن بھر کے تھکے بیل گڑ کی لوئی کھا کر تازہ دم ہو جاتے ہیں۔ للّی نے انڈوں کے چلے کی پلیٹ اور ترتراتی ہوئی روغنی روٹیاں ان کے آگے رکھیں تو ان کے ہونٹوں کو للّی کے گالوں کی لذّت یاد آ گئی۔ ان کی گردن نے شانوں سے نکل کر گھر کا جائزہ لیا۔ سارے میں سناٹا تھا۔ باورچی خانے سے رجب کی اماں کی کھٹر پٹر کی آواز آ رہی تھی۔ مجو بھیا نے ہاتھ بڑھا کر اس کی میدے کی کلائی پکڑ لی۔
’’تراب کی لاش دیکھ لی تم نے۔‘‘
’’ہاں۔‘‘
اس نے اپنی کلائی چھڑا کر کہا۔
*
للّی نے اپنے دروازے سے دیکھا۔ حاجی میٹھے کھیت میں پانی لگا رہے تھے۔ نوکر ڈول کھینچ رہے تھے۔ مرغیاں ٹاپے کے اندر کڑکڑا رہی تھیں۔
’’حاجی کھول دیتے تو ہاتھ نائیں ٹوٹ جاتے۔‘‘
بڑبڑا کر اس نے روٹی کی ڈلیا اتاری۔ ایک ہاتھ سے ٹاپے کی سل الٹ کر چارپائی پر بیٹھ گئی اور اطمینان سے روٹی مل مل کر ان کو کھلاتی رہی۔ کنکھیوں سے ٹاپے کے پاس پڑے ہوئے انڈے دیکھتی رہی۔ تھوڑی دیر بعد منگلو کی موٹی موٹی گالیوں کے ساتھ ’’گھمکے‘‘ سنائی دیے۔ اس نے ڈلیا پھینک کر کنواری لڑکیوں کی طرح قلانچ لگائی اور دروازے کی جھریوں پر آنکھیں رکھ دیں۔ مرغیاں کڑکڑاتی ہوئی اس کے پیچھے پیچھے آ کر کھڑی ہو گئیں، لیکن وہ لمبی لمبی سانسیں لیتی دروازے پر جھکی رہی۔ چندا کا دوپٹہ زمین پر پڑا تھا۔ الجھے بالوں کی لٹیں منہ پر جھول رہی تھیں۔ آنکھوں سے بہہ کر موٹے موٹے آنسو لال لال گالوں پر چمک رہے تھے۔
’’تم ہوں اُو کے بدمعاش کے ساتھ بکسے میں بند ہوئے کے چلی جاؤ۔‘‘
منگلو نے کٹکٹا کر کہا اور دھمر دھمر گھونسے مارنے لگا۔ للّی نے جھن سے زنجیر کھولی اور گڑاپ سے اندر چلی گئی۔
’’توکا مار ڈلیہو تم ای کا۔۔۔ چھوڑو۔‘‘
منگلو کے ہاتھ سے چندہ کی کلائی چھڑا کر وہ اسے لیے ہوئے اپنے گھر چلی آئی۔ پیتل کے لوٹے میں پانی بھر کر چندہ کا منہ ہاتھ دھلایا۔ پھر مراد آبادی گلاس میں گڑ کا شربت بنا کر اسے پلایا۔ للّی نے اپنے دل کی جھولی میں خوشیوں کی اشرفیوں کی ایسی جھنجھناہٹ سنی کہ انگ انگ ناچ اٹھا۔ ’’موت زندگی اللہ کے گھر سے ملتی ہے۔۔۔ رو دھو کر اپنا آپ جلاتی ہو۔۔۔ مٹی خراب کرتی ہو۔‘‘
للّی نے چھوٹے خاں کی بہو کی پیاری پیاری باتوں کو نقل کی۔ پھر چندہ کے سوکھے بالوں کی چوٹی گوندھنے لگی۔
’’آج بھیا پوچھ رہے تھے کہ تراب کی منگلو کی دولہن سے بھی کچھ جان پہچان ہے۔‘‘
چندہ نے چونک کر اپنے بال چھڑا لیے۔ لال لال آنکھوں سے اسے دیکھا۔
’’مجو بھیا پوچھت رہن۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ معلوم ناہیں ان کا کیسے سن گن مل گئی۔‘‘
’’تم کا کہیو۔‘‘
’’میں کہیوں۔۔۔ اللہ اللہ کرو بھیا۔۔۔ دیوار سے دیوار ملی ہے مورے گھر کی۔۔۔ دال تک بگھاری گئی تو میں کا معلوم۔۔۔ اتنا لاٹ ایسا آدمی آتا تو پردے پڑے رہتے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر کا۔۔۔ چپ سادھ لی۔۔۔ مگر ان کا شک۔‘‘
محرم بھر حکام پڑے رہے۔ ان کے ناشتے کے انڈوں سے لے کر گھوڑوں کی گھاس تک مجو بھیا کے نوکر مہیا کرتے رہے۔ تھانیدار سکسینہ تو ان کا مرید ہو گیا۔ تھوڑی سی دوڑ دھوپ کر کے اس نے مجو بھیا کو بندوق کا لائسنس دلا دیا۔ ادھر مجو بھیا نے مقدمے کی ایسی پیروی کی کہ ایک ایک آدمی سشن سے چھوٹ گیا۔ ٹھیک ہولی کے دن مجو بھیا لکھنؤ سے دو نالی بندوق خرید کر لائے۔ رات میں پاسیوں نے مجو بھیا کے دوارے پر جشن کیا۔ رات بھر کڑاھیاں چڑھی رہیں۔ رات بھر رنڈیاں ناچتی رہیں۔ للّی نے اسی رات مسجد میں طاق بھرے اور میلاد شریف کیا۔ مجو بھیا شامیانے کے نیچے گاؤ لگائے الوان اوڑھے سگریٹ پیتے رہے۔ ناچ دیکھتے رہے۔ وہ شرمیلے مجو بھیا جو جوان عورتوں کا راستہ چھوڑ دیتے۔ بات کرتے تو لڑکیوں کی طرح آنکھیں نہ اٹھاتے۔ ہزار بارہ سو پاسیوں کے دیو استھان پر بیٹھے ہوئے خرانٹ عیاش کی طرح ناچ دیکھتے رہے۔ رام دین اپنے چکی کے پاٹ ایسے سینے پر کارتوسوں کی پیٹی کا تمغہ لگائے ان کے پیچھے بیٹھا رہا۔
مجو بھیا کے مکان سے گزرتی ہوئی سڑک پر تھوری دور چل کر بائیں طرف مڈل اسکول تھا، جس کی جھنجھری دار چہار دیواری گوٹ کی طرح سڑک پر رکھی تھی۔ اس کے سامنے سڑک کے دوسری طرف اسکول کی فیلڈ تھی جسے لوگ میدان کہتے۔ یہاں بستی بھر کے چھٹا جانور چرا کرتے۔ لڑکے گلی ڈنڈا اور کبڈی کھیلتے، کبھی کبھی پتنگ کے ’’میچ‘‘ بھی منعقد ہو جاتے۔ اس کے اطراف میں پٹھانوں، کبڑیوں اور دوسروں کے ملے جلے مکان تھے۔ نئی لڑکی کی پکائی ہوئی روٹی کی طرح ٹیڑھی میڑھی دیواروں پر بوڑھی عورتوں کے بالوں کی طرح مرا ہے چھپر جھولا کرتے۔ بوڑھی کھوسٹ دیواروں سے پھوٹتے سوراخوں سے سیراب ہوتے ہوئے کالے نابدان راہگیروں کی ناک پر رو مال رکھ دیتے، کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر یہ کالی غلاظت سودے سلف سے لدے پھندے بوڑھے بوڑھے آدمیوں کو اسکول کے لڑکوں کی قواعد کراتی رہتی۔
عورتیں اپنی دہلیز کے نیچے دو اینٹیں رکھ کر بچوں کے لیے سنڈاس بنا دیتیں۔ جس چبوترے کے چھپر میں کالو درزی کی مشین رکھی تھی وہاں سے جلیبی جان کے گھر تک دونوں طرف دوکانیں ملتیں۔ جلیبی جان کے مکان کے سامنے سڑک کے داہنی طرف لمبے چوڑے میدان میں گوریّا سے لے کر ہاتھی کی قبر کے سائز تک کے ان گنت چبوترے ملتے جن پر ہفتے میں دو دن دوکاندار اپنی دوکانیں سجاتے۔ اس کے آگے سکلیوں ڈھپالیوں کی بستی فقیر کی گدڑی کی طرح پڑی سوکھتی رہتی جس پر بدصورت عورتوں اور غلیظ بچوں کی مکھیاں بھنبھنایا کرتیں۔ یہاں سے ذرا داہنی طرف مڑ کر دیکھنے سے مان پور کی مسجد کا گنبد نظر آتا۔ جس کا صحن مجو بھیا نے وسیع کرایا تھا۔ مسجد کے پاس ہی پرائمری اسکول کی جھکی جھکی سی عمارت دکھائی پڑتی۔ جیسے کوئی لڑکا ملگجے کپڑے پہنے ٹاٹ پر بیٹھے ہوئے نقشہ بنا رہا ہو۔
پرائمری اسکول کے سامنے آبادی ہے اور پیچھے کھیت۔ اس کے لمبے چوڑے رقبے کو بانسوں کا سرسبز احاطہ گھیرے ہوئے ہے۔ اس کے کمروں میں مختلف لوگ مختلف قسم کے کام کرتے۔ دن میں لڑکے پڑھتے ہیں۔ شام میں اگر کھیت کھلیان کا جھگڑا نہ ہوا تو ’’لکی لکورا‘‘ کھیلتے نو خیز لڑکے اور لڑکیاں اُن کے اندھیارے کنجوں میں نمبردار اور تربھون کی نوٹنکی میں دیکھی ہوئی لیلیٰ مجنوں کی کہانی دہراتے۔ اغوا کی ہوئی عورتیں اس کے کمروں سے برآمد ہوتیں۔ جب چنی لال چرسئے اور چھجو مل کلوار نعل نکالنے میں بے ایمانی کرنے لگے تو مجبوراً یہاں بھی دوچار دن جوا کھیل لیا جاتا۔ یہاں سے تیر کی طرح سیدھا گلیارہ چھ سات گھروں کو پار کر کے چھوٹے خاں کے گھر کے پاس ٹھٹک جاتا۔
چھوٹے خاں کے چبوترے سے ملے لمبے چھپر میں مان پور کا مکتب تھا۔ جہاں چھوٹے چھوٹے لڑکے لڑکیوں کو نابینا مولوی صاحب قرآن مجید پڑھانے کے بہانے دن بھر بیٹھے اونگھا کرتے اور محلے سے آئی ہوئی روکھی سوکھی روٹی کھا کر جانوروں کی طرح ڈکارتے رہتے اور اس خدا کا شکر ادا کرتے جس نے ان کو مولوی صاحب بنا دیا۔ چھپر کے سامنے پختہ کنواں تھا۔ جس کی جگت سے ملا ہوا حوض دھلی ہوئی پنڈلیوں اور کلائیوں سے جگمگایا کرتا۔ یہ کنواں محلے کے بنجر علاقے میں سرسبز نخلستان کی طرح قہقہوں سے کھنکتا رہتا۔ سرگوشیوں سے گنگنایا کرتا، بفاتی کی لڑکی گھڑے سے چلو میں پانی لے کر منہ دھو رہی تھی کہ فجو خاں نے اپنے بروٹھے کی آڑ سے کنکری ماری، اس نے بھیگی ہوئی آنکھیں سکیڑ کر پہلے فجو خاں کی جھانکتی ہوئی دھوتی دیکھی پھر ارد گرد کا مطالعہ کر کے اطمینان سے منہ دھونے لگی۔
فجو خاں اس بروٹھے میں کھڑے رہے جس کے ایک کونے میں بکری کے کھونٹے کے پاس میگنیاں پڑی سلگ رہی تھیں۔ جیسے عود دان میں عود مہکتا ہو۔ پھر فجو خاں آہستہ سے دروازہ کھول کر باورچی خانے میں بوڑھی اماں کو بجھڑے کا آٹا گوندھتے ہوئے دیکھ کر کوٹھری میں چلے گئے۔ بانس کی ڈھکن دار ڈلیا میں کھتے چونے میں لت پت مٹی کی کلھیاں رکھی تھیں۔ انہوں نے ان کو نکال کر نیچے کا پرت دیکھا لیکن ایک بھی پیسہ نہ پا کر پلنگ کے نیچے سے ٹین کا صندوق گھسیٹ لیا۔ ڈھکنا ان کے ہاتھ میں ہی تھا کہ پیچھے سے ان کی دولہن کلثوم نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔
’’الّا قسم ایک پیسہ نہیں ہے ان میں۔‘‘
فجو خاں نے ایک جھٹکا دے کر اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔
’’تو دیکھ لینے دو۔۔۔ پریشانی کاہے کی ہے۔‘‘
بکس میں ہاتھ ڈالتے ہی وہ لپٹ گئی۔ فجو خاں نے اسے کمر سے اٹھا کر اتنے زور سے چارپائی پر دے مارا کہ وہ چیخ پڑی۔ چیخ کی آواز سن کر چھوٹے خاں نے ہانک لگائی، ’’فجو۔۔ اَبے اَے فجوا۔‘‘ فجو نے باپ کی آواز جو سنی تو کلثوم کے کالے کالے گالوں کو ہاتھ میں لے کر مکار آنکھوں سے خوشامد کرنے لگے۔
’’سنا نہیں تو نے۔‘‘ جلدی سے باہر نکل کر چوروں کی طرح وہ باپ کے سامنے کھڑا ہو گیا۔
’’اسکول چھوڑا۔۔۔ کھیت کھلیان چھوڑا۔۔۔ اب بھیا کے یہاں اٹھنا بیٹھنا بھی چھوڑا، گھر میں کوئی خزانہ گڑا ہے کہ میں کھود کھود کر دوزخ بھرتا رہوں۔ دس مرتبہ کہا کہ بھیا سے کہہ کر بزار کا ٹھیکہ لے لے۔‘‘
’’نیلام کے دن تو آویں۔۔۔ کہ ٹھیکہ کوئی کھٹیا ہے۔۔۔ جب جی چاہے لے آؤں۔‘‘
’’سنتی ہو تم فجو کی اماں۔۔۔ باتیں دیکھو سالا کیسا بارہ ہزار کی کرتا ہے۔‘‘
چھوٹے خاں تقریر رَٹ چکے تھے۔ ابھی انہوں نے ابتدا ہی کی تھی۔ مگر فجو خاں بروٹھے میں غڑاپ سے الوپ ہو گیا۔ کنویں کی جگت خالی پا کر وہ آگے بڑھ گیا۔ بشیر اپنے بھائی کی پرچون کی دوکان پر بیٹھ کر پڑیاں باندھتے شعر کہتے اور کوئی خوش رو گاہک آ جاتا تو گنگنا کر آنکھیں سینک لیتے۔ جلیبی جان کے چبوترے کے ایک مونڈھے پر بشیر کا بھی نام لکھا تھا۔ فجو خاں نے پہلے سوچا کہ بشیر سے کہے پھر خیال آیا کہ یہ خود ہی ایک آدھ بیڑی کے بنڈل پر دن بھر پڑیاں لپیٹا کرتا ہے۔ اس کے پاس کیا ہو گا۔ نور علی اپنے بساطے کی چادر پر بیٹھے طلسم ہو شربا کے انداز میں اخبار پڑھ رہے تھے۔ سامعین انتہائی سنجیدگی کے ساتھ بیٹھے سن رہے تھے۔ جیتے تراویح سنی جا رہی ہو۔ دوکان کے نیچے تین ٹانگ کے تخت پر میلے کچیلے اٹنگے پائجامے اور تہبند پہنے برسوں کے پرانے تاش کھیل رہے تھے۔ وہ آگے بڑھا ہی تھا کہ منور نے پتا پھینک کر صدا دی۔
’’اینٹ کی بیگم حکم کے یکے پر چلی گئی خاں صاحب۔‘‘
فجو خاں نے مسکرا کر اس کا جواب دیا اور کھیسیں نکالے ہوئے چمر دوھے جوتے کو گھسیٹتا بڑھ گیا۔ چنی لال چرسئیے کے چھپر میں بیٹھا منگلو کوڑیاں ہلا رہا تھا۔ اس نے فجو خاں کو دیکھ کر سلام کیا اور کوڑیاں پھینک دیں۔ مگر فجو خاں اڑے چلے گئے۔ منگلو قصائی کے دروازے پر بھرجی کا کالا کالا لڑکا پیتل کی تھالی میں چنے کی دال کی پٹی لیے کھڑا تھا۔ چندہ کرتے کا دامن اپنی ٹھڈی کے نیچے دبائے شلوار کے ازاربند میں بندھے ہوئے پیسوں کی گرہ کھول رہی تھی۔ فجو خاں کی نظر اس کے پیٹ پر جم گئی۔ پھر کولہوں کا طواف کرتی ہوئی للّی کے آنگن میں داخل ہو گئی۔
’’کاچلے آویں۔۔۔ چچی۔‘‘
’’آؤ۔۔۔ آؤ۔۔۔‘‘ للّی نے روٹی کو توے پر ڈال کر اپنے گھنٹے لہنگے میں چھپا لیے۔ گھائیں کی روٹی گھماتے ہوئے بولی، ’’کیسے آئے گؤ اتنے وخت۔‘‘ للّی کے لہجے کی ٹھنڈک سے وہ کھٹک گیا۔ لیکن ہونٹوں پر آئی ہوئی اُگل ہی دی۔
’’آج ایک اٹھنی دے دیو۔۔۔ کل بارہ آنے لے لیو۔‘‘
’’کاننھی پیڑے مانگن ہیں۔‘‘
’’یہی سمجھ لیو۔‘‘
پیسے تو بھائی اتنے وقت ناہیں۔ کہو تو ترکیب ایک بتائے دیں۔‘‘
’’بتاؤ۔‘‘ وہ بہت دور سے بولا۔
’’چندا کل ایک گنی بھنائن ہیں۔‘‘
’’گنّی۔۔۔ اور چندہ۔‘‘
’’ارے ہاں۔۔۔ تراب کی دی ہوئی ایک آدھ پڑی ہوئی ہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔! تب ہی منگلو چنی لال چرسئیے کے یہاں بیٹھے تھے۔۔۔ میں کہوں مینڈکی کو زکام کہاں سے ہوا۔‘‘
’’اینٹھ لیو دو ایک روپیہ تم ہو۔‘‘
’’ہے اتنے وقت اکیلی۔‘‘
’’اتنے وقت روٹی پانی کے وقت کون سگا بیٹھا ہوا ہے۔۔۔ منگلو ہوئے تو ہوئے۔‘‘
’’منگلو تو کوڑی پھینک رہے ہیں۔۔۔ ادھر سے چلے جائیں۔‘‘
’’چلے جاؤ۔‘‘
فجو خاں نے آہستہ سے دروازہ کھلا۔ چھپر میں چارپائی پر بیٹھی چندہ پٹی کھا رہی تھی۔ چونک کر کھڑی ہو گئی۔ سرہانے سے چادر اٹھا کر اوڑھنے لگی۔
’’مجو بھیا نے بھیجا ہے تم سے بات کرنے کو۔۔۔ دروازہ بند ہے باہری۔‘‘
فجو خاں نے کھنکار کر کہا اور اس کے بھاری مدن کے نشیب و فراز کو گھورنے لگا۔ وہ چپ کھڑی رہی تو فجو خاں نے خود جا کر اپنا اطمینان کر لیا۔ اور اس کے سامنے پڑی ہوئی چارپائی پر بیٹھ گئے اور بڑے متفکرانہ انداز میں بولے، ’’تراب نے ایک گدی سے کہا تھا کہ پستول تمہارے پاس ہے۔۔۔ اب وہ گدی بھیا کے پاس آیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگر چندہ نے پستول نہ دیا تو پولیس کو خبر کر دی جائے گی۔ پولیس خود برآمد کرالے گی۔‘‘
’’چاہے جیسی قسم لے لیو۔۔۔ میں نائیں جانت ہوں پستول۔‘‘
’’دیکھو پولیس کو پہلے ہی سے سن گن ہے۔ بھیا نے پانوں نہ ٹیکا کیونکہ تم اگر پولیس کے ہاتھ پڑ جاتیں تو معلوم نہیں کیا حشر ہو گیا ہوتا تمہارا اس لیے۔‘‘
’’تراب نے گنی بھی چھوڑیں۔‘‘
’’گنی۔‘‘
’’ہاں ہاں گنی۔۔۔ جو کل بھن کر آئی ہیں ہردوئی سے تب ہی کہہ رہا ہوں آج۔‘‘
اس کا چہرہ سفید ہو گیا۔ فجو خاں نے اس کا بازو پکڑ کر گھسیٹ لیا اور گبرون کے گریبان میں ہاتھ ڈال دیا۔
جلیبی جان کی صورت تو ایسی تھی جیسے بھینس کی ران پر چاقو سے آنکھیں گود دی جائیں۔ ناک کی لکیر کھینچ کر دو نقطے رکھ دیے جائیں۔ مگر خدا نے گلا ایسا نور کا دیا تھا کہ بڑی بڑی اکھاڑے دار طوائفیں بے سری ہو جاتیں۔ مان پور کے جوانوں کو پنڈت درگا سہائے کی شادی یاد تھی۔ ککراواں کی کوٹھی کے سامنے شامیانے میں لکھنؤ اور فیض آباد کی طوائفوں کے ڈھیر لگے تھے۔ جب جلیبی جان اپنے سازندوں کے ساتھ پہنچیں تو محفل تو خیر محفل تھی، طوائفیں تک منہ پھیر پھیر کر ہنسنے لگیں۔ یہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے بدصورت ہیجڑے نے پیشواز پہن لی ہو۔ طبلے پر رام دلارے کی تھاپ پڑتے ہی جلیبی جان نے ایک ہاتھ کان پر رکھ کر جو تان لگائی تو محفل سانس لینے لگی۔ ساز لو دینے لگے۔ جلیبی جان نے بیٹھے بیٹھے بدنصیب انشاء کی وہ غزل چھیڑی جس میں اس کے نصیب کی کافر ماجرائی دھڑک اٹھی ہے۔
نہ چھیڑ اے نکہت باد بہاری راہ لگ اپنی
تو بوڑھے بوڑھے رئیس جن کے سینوں میں فارسی کے دیوان دفن تھے، ایک ہاتھ سے آنکھوں کے گوشے پونچھنے لگے۔ دوسرے ہاتھ سے جیبیں خالی کرنے لگے۔ رملا مو کے جواہر سنگھ کے پاس جب کچھ نہ رہا تو کانوں کے دُر اتار کر پھینک دیے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ جلیبی جان اور ان کے سازندے برسوں اس مجرے کی روٹی کھاتے رہے۔ منی جان کے جوان ہوتے ہی جلیبی جان نے گھنگھرو اتار کر اس کو پہنا دیے اور آپ چولہا پھونکنے لگیں۔ منی جان اور ننھی جان دونوں بے سری تھیں۔ گانا ان کے پیشے کا بہانہ تھا۔ صورت شکل میں بھی آدمی کا بچہ تھیں مگر جوان تھیں۔ جوانی اور رنڈی کی جوانی۔ مان پور کے ساتے بے فکرے چونی اٹھنی کا بندوبست کر کے رنگی چوں گی بھر کر ایسی گول مٹول طوائفوں میں بیٹھ کر ذرا ہنس بول لیتے۔ فجو خاں اور بکس مان پور کے دوسرے ہنگاموں کی طرح یہاں بھی پیش پیش رہتے۔ چندہ سے چاندنی کے چھنچھناتے ہوئے چار روپے لے کر فجو خاں سیدھے بکس کے یہاں پہنچے۔ اور اس کا ہاتھ اٹھا کر اپنی جیب پر رکھ لیا۔ بکس نے یہ خزانہ جو دیکھا تو جلدی جلدی ہاتھ پاؤں دھوکر جامدانی کی قمیص میں چاندی کے زنجیر دار بٹن لگائے اور لاٹھی لے کر فجو خاں کے ساتھ ہولیا۔ جلیبی جان کی چھوٹی بیٹی ننھی جان پر صدقے ہو کر جب یہ لوگ باہر نکل آئے تو فجو خاں نے جیب سے ایک روپیہ نکال کر خالص مہاجنی انداز میں بجایا۔ روپئے کی شیریں کپکپاتی آواز کی طرح بکس کے اعصاب بھی جھنجھنا اٹھے۔ وہ اب تک سوچ رہا تھا کہ آخر فجو خاں کو چار روپے ملے کہاں سے۔
’’یار بکس اگر تقدیر سے یاری ہو جائے تو ایک کے چار بن سکتے ہیں۔۔۔ اور کل پھر۔‘‘
’’یار مجو بھیا کے کھیت میں آلو بو کر تو ہم بھر پائے جب دیکھو بپا ٹھینا دیا کرت ہیں کہ جون ہاتھن سے بھیا کے کھیت سے سونا نکالے ہو انھیں ہاتھوں سے اپنے یہاں کچھ کر کے دکھاؤ۔ اور یوں بہانے لے کر بیڑی پینے کا بھی ٹکا نہیں دیت ہیں۔ لے دے کے ایک ٹھکانا بھیا کا رہ گوا ہے۔۔۔ باقی سب خیر صلّا ہے۔‘‘
’’یار کہیں سے ایک روپیہ بناؤ۔۔۔ تو چار بازی کھیل لی جائیں۔‘‘
’’بھیا سن پائے تو کھال اتار ڈالی جیہئے۔‘‘
’’یہ بات تو ہے۔‘‘
’’اچھا آج چھوڑو۔۔۔ شاید کل تک کوئی بندوبست ہو جائے۔‘‘
*
دوسرے ڈاکو اور بدمعاشوں کی طرح تراب کا نام بھی چٹخارے دار کہانی کہنے والوں کی زبان تک محدود ہو کر رہ گیا۔ لیکن چندہ کے نام کو پر لگ گئے۔ میلے کچیلے کپڑے پہن کر گوشت کی جھوئی سر پر رکھ کر جب وہ گھروں میں جاتی تو نگاہیں چونک چونک کر اس کے جسم کے خطوط میں وہ کہانی ڈھونڈھنے لگتیں، جس پر جوار کے سب سے نامی آدمی کا نام لکھا تھا۔ منگو بجھڑے کی روٹی اور اوجھڑی کا سالن دے کر اس کی پیٹھ پر اتنے گھونسے مارتا کہ اس کے پیٹ میں سانس نہ سماتی۔ یہ تو وہ جھیل ہی رہی تھی لیکن فجو خاں کے بکوٹوں کی ٹیس سے وہ بے قرار ہو گئی۔ بیچ کی دیوار پھاند کر جب للّی کی آواز اس کے آنگن میں آ کر کدکڑے لگاتی تو وہ دانت پیس کر رہ جاتی اور اسے یقین ہو جاتا کہ اسی حرافہ نے بھیا سے پستول والی بات داغی ہے۔ اس بدمعاش نے فجو خاں کو گنی کی چھنا چھن سنائی ہے۔ منگلو دوکان بڑھا کر آیا تو اس نے کھال میں نمک بھر کر رکھ دیا اور چھولی سے بھیجے اور گردے نکال کر نئی بنی ہوئی ڈلیا میں رکھتے وقت اس نے طے کر لیا کہ اگر جوتے ہی کھانا ہے تو فجو خاں اور پولیس کے سپاہیوں کے کیوں کھائے جائیں۔ بھیا کے کھا لیے جائیں، جن کی ایڑی کے نیچے للّی کی چٹیا بھی دھری ہے۔
*
اساڑھ بھرنے لگا تھا مگر پوس کی طرح آسمان ننگا پڑا تھا۔ بادلوں کے پیرہن موسم کے پٹارے میں تہہ کیے رکھے تھے۔ سفید دیواروں سے گھرے ہوئے صحن میں دو سیدھے شہتیروں پر ایک آڑا شہتیر جڑا ہوا تھا جیسے فٹ بال کی فیلڈ سے ’’ایک گول‘‘ اکھاڑ کر کھڑا کر دیا گیا ہو۔ آڑے شہتیر میں لمبا سا پنکھا جھول رہا تھا۔ مجو بھیا کی مسہری کے نیچے پڑے ہوئے جوتوں سے تھوڑی دور کے فاصلے پر آدمی بھر اونچا اسٹول رکھا تھا۔ اس پر ایک چمار کا لڑکا مشین کی طرح نصب پنکھے کی ڈوری لیے جھوم رہا تھا۔ مگر مجو بھیا کروٹیں بدلے جا رہے تھے۔ بے آب و گیاہ میدان میں سبزے کی جستجو کرتے آہو کی مانند نیند معلوم نہیں کتنی دور نکل گئی تھی۔ مجو بھیا ایک ایک خواب ایک ایک خیال دل کے نہاں خانے سے نکال لائے۔ لیکن جلتی ہوئی پلکوں میں صلح نہ ہوئی۔ پھر مرغے بولنے لگے۔ اذانیں ہونے لگیں۔ استاد مدی آ گئے ،س کھاڑے میں پٹھے زور کرنے لگے، نوکر اصطبل میں جھاڑو دینے لگے، سائیس گھوڑوں کے کھرارہ کرنے لگے لیکن مجو بھیا سینبھل کی روئی کے تکیوں پر سر رگڑتے رہے۔ پھر مدی استاد نے کنکھیوں سے مجو بھیا کی مسہری دیکھ کر پورن کو نیم کی مسواک توڑنے کا اشارہ کیا۔ پورن نے لاٹھی سے مار کر مسواک توڑی۔ لنگوٹ میں لگے ہوئے چاقو سے اسے صاف کیا، اپنے بنائے ہوئے بدن پر انگوچھا ڈال کر مجو بھیا کے پائتی کھڑا ہو گیا۔ دیر کے بعد مجو بھیا نے ہاتھ بڑھا کر مسواک لے لی۔
’’زور نہیں کروں گا۔۔۔ رام دین کو بلواؤ۔۔۔ ککراواں جاؤں گا۔‘‘
پورن مڑ گیا۔ مجو بھیا مسواک کو دانتوں میں دبا کر تہبند کی گرہ درست کرتے ہوئے دوسرے مکان کے اس بڑے سے کمرے میں گھس گئے جو غسل خانے کے فرائض انجام دیتا تھا۔ منواں پاسی نے شیخ مرحوم کے وقت کا سوٹ کیس کھول کر چوڑی دار پائجامہ اور کڑھا ہوا کرتا نکالا۔ ازاربند ڈالنے کے لیے جھانکر کی لکڑی کو صاف کرنے لگا۔ شیروانی میں چاندی کے بٹن لگا کر گروین نے ناشتے کے تیار ہونے کی اطلاع دی لیکن بھیا نے نفی میں سر ہلا کر رام دین کے ہاتھ سے جو تالے لیا جو بڑی دیر سے اپنے انگوچھے سے چمکا رہا تھا۔ رام دین اپنے کندھے سے بندوق لگائے کنپٹی پر بہتا ہوا تیل انگلیوں سے پونچھ رہا تھا۔ بھیا کو آتا دیکھ کر اس نے بندوق کے فیتے کو گردن میں پہن لیا۔ بجلی کو چمکتی ہوئی کاٹھی پہنا کر سائیس لے آیا۔ جسے جے نے لپک کر ایک رکاب پکڑ لی اور مجو بھیا سوار ہو گئے۔
مان پور سے ککراواں کی کوٹھی تک ان گنت سلاموں کو سرکی جنبش سے قبول کرتے ہوئے مجو بھیا نے پورٹیکو میں سینے تک لگام کھینچ کر بجلی کو روکا۔ جب تک رام دین اپنے گھوڑے سے اترے۔ ککراواں کے سپاہی نے چھل بل دکھلاتے ہوئے بجلی کی لگام پکڑ لی۔ مجو بھیا اس کی گردن تھپتھپا کر اتر آئے۔ کسی خدمت گار نے لپک کر چق اٹھا دی۔ پنڈت درگا سہائے نے بھاری تخت کی مسند پر گاؤ لگائے چاندی کی گڑ گڑی پی رہے تھے۔ جھاگ ایسی سفید دھوتی ان کے کولہوں پر ٹکی ہوئی تھی۔ گردن کی سنہری زنجیر ان کے ننگے پیٹ کے رقبے کو چھو رہی تھی۔ مجو بھیا کے سلام کا مسکرا کر جواب دیا اور اپنے پاس ہی تخت پر بٹھا لیا۔ خدمت گار پائیدان پر جوتے اتار کر قالین پر ہولے ہولے قدم رکھتا آیا اور مجو بھیا کی پشت پر کھڑا ہو کر پنکھا ہلانے لگا۔ چھت گیری سے طلوع ہوتے ہوئے فانوس کے نقش و نگار دیکھتے ہوئے مجو بھیا کو درگا سہائے نے مسکرا کر دیکھا۔
’’کیسے نکل پڑے صبح صبح۔۔۔؟‘‘
’’آپ ہی کے پاس آیا ہوں۔‘‘
’’ٹھنڈائی نہیں آئی۔‘‘
درگا سہانے نے خدمت گار کو دیکھ کر جھڑکی دی۔
’’آئے رہی ہے۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا اور پنکھا تیز کر دیا۔
’’تحصیل جا رہے تھے۔‘‘
’’جی۔۔۔ نہیں۔۔۔ سنا تھا کوئی جودھپور سے گھوڑا منگوایا ہے آپ نے۔‘‘
درگا سہائے نے پہلو بدل کر تفخر سے گردن ہلائی۔
’’منگوایا ہے۔‘‘
’’ایسی دھوم مچی ہے علاقے میں کہ سن سن کر نیند اڑ گئی۔‘‘
پنڈت کے پشت کا دروازہ ہٹا کر ایک کالا کالا لڑکا ہاتھوں میں کڑے پہنے آیا اور دو پلیٹوں میں پکوان اور دو گلاسوں میں ٹھنڈائی تخت پر رکھ کر تھالی ہلاتا ہوا چلا گیا۔ درگا سہائے نے ایک پلیٹ اور ایک گلاس مجو بھیا کے سامنے کر کے ٹھنڈائی کا ایک گھونٹ لیا، ’’تو گھوڑا دیکھنے آئے ہو تم۔۔۔ میں کہوں دن میں چاند کیسے نکل آیا۔۔۔ کسی سے کہو گھوڑا نکالے۔‘‘ آدمی مجسم تسلیم ہو کر پنکھا صوفے پر رکھتا ہوا چلا گیا۔
پھر پورٹیکو کے فرش پر ٹاپوں کی آواز آئی۔ مجو بھیا اپنی بے قراری چھپائے بغیر گلاس رکھ کر اٹھ پڑے۔ سپاہیوں کے ہجوم میں گھوڑا کھڑا تھا۔ سفید گھوڑا۔۔۔ تصویروں کا گھوڑا۔۔۔ کہانیوں کا گھوڑا۔۔۔ خوابوں کا گھوڑا۔۔۔ جب وہ ہنہنا کر گردن اٹھاتا تو معلوم ہوتا طاؤس ناچ رہا ہے۔ لمبی گردن کہ سوار کو چھپا لے۔ مجو بھیا خواب ناک آنکھوں سے اس کی شان دیکھتے رہے۔ دیکھتے رہے۔ پھر درگا سہائے مجو بھیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکرائے۔ وہ مغرور مسکراہٹ جیسے شکاری اپنے شکار کو پھنستا ہوا دیکھ کر مسکرائے۔
’’دہانہ دیکھ رہے ہو مجو۔۔۔ چائے کی پیالی میں پانی دے دوتو پی جائے۔‘‘
’’گھوڑا نہیں ہے پنڈت جی۔۔۔ پری ہے۔‘‘
’’ہوں! تو پسند آیا۔۔۔ اڑا پاؤ تو اڑا کر دیکھو۔‘‘
’’ضرور اڑاؤں گا۔‘‘
ایک سپاہی نے لگام بڑھا دی، دوسرے نے لگام تھام لی۔ مجو بھیا کو لے کر گھوڑا بجلی کی طرح نکل گیا۔ درگا سہائے گاؤ سے پشت لگائے گڑگڑی پیتے رہے۔ فرش کے قالین کے پھول چنتے رہے۔ جب مجو بھیا اندر آ گئے تب انہوں نے نگاہ اٹھائی۔
’’چال میں کیسا ہے۔‘‘
’’جادو ٹونا۔‘‘
مجو بھیا کی شیروانی پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ خدمت گار ان کی پشت پر کھڑا پنکھا جھل رہا تھا۔ وہ آرام کرسی پر دراز تھے۔
’’آیا کتنے میں یہ پنڈت جی؟‘‘ مجو بھیا نے بڑی حسرت سے ان کا منہ دیکھ کر پوچھا۔
’’گٹھری بھر روپیے میں۔‘‘ بڑی تمکنت سے پنڈت جی نے الفاظ ادا کیے۔ پھر دانتوں میں مہنال دبا لی۔
’’پھر بھی کچھ تعداد تو ہو گی۔‘‘ مجو بھیا گڑگڑائے۔ دیر کے بعد پنڈت جی نے منہال نکالی۔ اٹھ کر بیٹھے۔ منہ پر آئے ہوئے جملے کی دھار دیکھی اور مسکرائے۔
’’پٹواری کے کاغذات میں جو تمہاری جائداد ہے نا اس سے زیادہ تعداد۔۔۔ بتیس سو روپیہ۔۔۔ بتیس سو۔‘‘
مجو بھیا پر جیسے گڑ گڑی کا انگارہ اچھل کر گر پڑا ہو۔ ان کی دونوں بھوئیں اچک کر ایک دوسرے سے مل گئیں۔ ہونٹ پھڑکنے لگے۔ رنگ اڑ گیا۔
ایک فصل میں ایک کھیت کا لہسن بتیس سو کا بیچتا ہوں پنڈت جی۔ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی۔
’’ہوں۔۔۔ کلو امراؤ چونسٹھ سو کا بیچتا ہے۔‘‘
مجو بھیا اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ خدمت گار نے پنکھا روک لیا۔
’’تو کلو امراو سے جوڑ ملایا ہے میرا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ وہ میری رعایا کا بیٹا ہے اور تم نوکر کے۔‘‘ پنڈت جی کے لہجے میں وہی ٹھنڈک تھی۔ وہی زہر تھا۔
’’دیکھا جائے گا پنڈت جی۔‘‘ مجو بھیا دروازے کی طرف مڑ گئے۔ باہر نکلتے نکلتے انہوں نے سنا۔ ’’توپ لگوا دینا۔۔۔۔ نو دولتیا کہیں کا۔‘‘
رام دین کو شہسواری کے جتنے کرتب یاد تھے ان سب کا اس نے آموختہ پڑھ لیا لیکن بجلی کی گرد بھی نہ ملی۔ جب وہ مکان پہنچا تو سائیس اس کو ٹہلا رہا تھا۔ دوپہر کا کھانا لگا کر اٹھا لیا گیا۔ رات کا کھانا لگا کر اٹھا لیا گیا۔ عشاء کی نماز کے بعد بھیا کمرے سے نکلے۔ پنکھے کے نیچے لگی ہوئی مسہری پر لیٹتے ہوئے نگاہ کی۔ سارے نوکر قطار باندھے کھڑے تھے۔
’’جاؤ تم لوگ۔‘‘
سب بے آواز قدموں سے سر جھکائے ہوئے چلے گئے۔
پھر صبح ہوئی۔ للّی چمکتی ہوئی آئی، لیکن کمرے کے بند دروازے پر بیٹھے ہوئے پاسی نے کہہ دیا کہ بھیا کا حکم ہے کہ کوئی نہ آنے پاوے۔ وہ چلی گئی۔ دوپہر کو بوڑھا راج دین پتاور ایسی مونچھیں چڑھائے ہوئے آیا۔ دالان میں بلم کھڑا کیا۔ جوتے اتارے۔ آہستہ سے دروازہ کھول کر ان کی مسہری کے پائنتی بیٹھ گیا۔ مگر نگاہ نہ اٹھی۔ وہ بیٹھا رہا۔ مغرب کی نماز کے وقت جب گرویں نے لیمپ جلا کر رکھا۔ دروازے کھول دیے تو اس کو اور پنکھا کھینچتے ہوئے رام رتن دونوں کو راج دین نے باہر جانے کا اشارہ کیا، اس کے بعد وہ کھسک کر مسہری کے تکیے کے پاس آ گیا۔
’’حکم ہو۔۔۔ تو ککراواں کا گھوڑا کھول کر گھرکے تھان پر باندھ دیا جائے۔‘‘
’’گھوڑا چاندی کا نہیں ہوتا جسے سنار پگھلا کر دوسرا بنا دے اور پتہ نہ چلے کہ یہ مان پور کاہے یا ککراواں کا۔‘‘
’’اس کا بھی بندوبست ہے مالک۔‘‘
’’کیا۔‘‘
’’حاجی میٹھے۔‘‘
’’ہوں۔‘‘
بڑی دیر تک سناٹا رہا۔ پھر بڑی دیر تک راج دین سرگوشیاں کرتا رہا۔ عشاء کی اذان کے وقت وہ باہر نکلا اور کسی نوکر کو حکم دیا کہ للّی کو ساتھ لے کر آئے۔ پھر جب بھیا راج دین اور للی کمرے کے باہر نکلے تو پہرہ پڑنے لگا تھا۔ دو نوکر للّی کو بھیجنے گئے۔
منگلو کی دھوتی میں بندھے کپڑوں کی گٹھری رکھ کر جب دھوبن چلی گئی۔ تو چندہ نے وہ شلوار نکالی جس کے پائنچے پر ہرے پھول کڑھے تھے۔ وہ قمیص نکالی جس کے دامن پر لال لال گلدستے تھے۔ پھر بالوں سے صاف کیے ہوئے بتانے، طوق اور جھانجھنیں پہن کر وہ کپڑے لیے کو ٹھری میں چلی گئی۔ چھپر کے طاق میں دھرے ہوئے ٹین کے آئینے میں آنکھوں کا کاجل برابر کیا۔ مانجھے ہوئے طباق میں گردے اور بھیجا رکھ کر تانبے کی لگن بند کی اور گھر میں تالا ڈال دیا۔ جھنک جھنک کی آواز سن کر رجب کی اماں نے چپاتی پکاتے ہوئے ہاتھ روک لیے۔
’’منگلو کی دولہن۔۔۔ آؤ۔‘‘
’’کابو بو۔۔۔ بھیا ہیں۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔‘‘
رجب کی اماں نے آٹے میں ڈوبی ہوئی لوہے کی پھنکنی سے کمرے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ طباق آٹے کی لگن کے پاس رکھ کر دھڑ دھڑ کرتے ہوئے کلیجے کو سنبھالے رک گئی۔ پھر من من بھر کے پاؤں اٹھاتی دالان کی طرف چلی۔ مجو بھیا کھیت سے آئے تھے۔ چوڑی دار پائجامہ اتار کر تہبند پہن چکے تھے۔ کرتا اتارتے ہوئے دیکھا تو دالان کے در میں چندہ کھڑی شرما رہی تھی۔
’’کیا ہے؟‘‘ انہوں نے اپنی روایتی گرجدار آواز میں کہہ تو دیا لیکن ذہن کے کسی گوشے میں بیٹھی ہوئی تراب کی معشوقہ کے جسم کی آن دیکھنے کی حسرت نے ان کو ڈس لیا۔ جب وہ کمرے کی دہلیز پر آ گئی تو مجو بھیا نے دھیمی آواز میں کہا، ’’چلی آؤ۔‘‘
تراب کی موت کے بعد ان گنت نگاہوں کے عرفان کی دولت سے چندہ نے اس تھرتھراتی ہوئی آواز میں چھپے ہوئے معنی دیکھ لیے۔ مجو بھیا۔ تراب سے نکلے ہوئے قد کے، تراب سے کہیں تندرست اور وجیہہ مجو بھیا دیو کی طرح تخت پر بیٹھے تھے۔ ان کے پاؤں کچے فرش پر رکھے تھے۔ چندہ نے ہارے ہوئے جواری کی طرح آخری داؤں چلا اور اپنا سر مجو بھیا کے موٹے موٹے پیروں پر رکھ دیا اور سسکنے لگی۔
’’ارے ارے۔‘‘ مجو بھیا نے گھبرا کر اس کا سر اٹھانے کے لیے ہاتھ بڑھائے تو وہ پھسل کر چندہ کے گالوں پر آ گئے۔ سر اٹھا تو بڑی بڑی آنکھوں میں آنسوؤں سے کاجل پھیل گیا تھا، چہرہ دمک اٹھا تھا۔ سینے کے فراز پر جھلارا طوق رکھا تھا۔ سرخی مائل کلائیاں اُن کے گھٹنے پر تھیں۔
’’منہ سے بولو۔۔۔ کیا ہوا؟‘‘
’’مورے پاس پستول نائیں ہے تراب کا۔ دولت نائیں ہے تراب کی۔ بس تراب کی بدنامی مورے سر پر ہے۔‘‘ اس نے اپنا سر جھکا لیا۔ ’’تم موری بوٹی بوٹی کاٹ ڈالو۔۔۔ مگر پولیس تھانے نہ بھیجو۔۔۔ للّی کا میں سے عداوت ہے۔ اگر تراب ان کا موری کوٹھری میں اٹھائے لے گئے تو میں کیسے بچائے لیتوں۔۔۔ ہاں میں نائکہ بنی ہوں تو مجرم۔۔۔ ایک دن مورے پاس آئیں کہ دوا کے لیے تین روپے دے دیو۔‘‘
’’دوا کے لیے۔۔۔ کاہے کی دوا؟‘‘
’’وہی جو اوکا مرج ہے۔۔۔ کوڑھ۔‘‘
’’مرض تو نہیں ہے اس کو اب۔‘‘
’’بھیا ہر تیسرے دن جب محلہ بھر سو چکتا ہے تو دوا بنت ہے۔۔۔ تو میں ان کا روپے دے دیوں۔۔۔ اب اس دن سے مورے پاس تراب کی گنّی جمع ہیں۔۔۔ ایک گنّی میں بھنائے ضرور ہوں۔۔۔ موری مائے کی ہیں مورے پاس۔ منگلو سے چرائی ہیں۔۔۔ منگلو سے چراؤں نہ تو جوئے میں ہار جائے۔‘‘
چندہ کی کلائیاں گھٹنے پر رکھی رہیں۔
چندہ کے جانے کے بعد مجو بھیا جو للّی کے دسترخوان سے سیر ہو چکے تھے۔ للّی کے تصور سے مکدر ہو گئے۔ ان کے کان میں کسی نے کہا کہ چندہ صحیح کہتی ہے۔ للّی کا مرض گیا نہیں ہے۔ یہ مرض جاتا نہیں ہے اور یہ مرض اڑ کر لگتا ہے۔ مجو بھیا اڑ کر لگتا ہے۔۔۔ اور کیا۔۔۔ پھر۔۔۔ تم۔۔۔۔ اور گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’کھانا ٹھنڈا ہوئے رہا ہے۔‘‘ رجب کی اماں نے گلاس میں پانی بھر کر کہا۔ مجو بھیا دسترخوان پر بیٹھ تو گئے لیکن کھانا نہ کھایا گیا۔ کتنی جھوٹی ہے یہ للّی۔ کہتی تھی اس کو مرض کبھی تھا ہی نہیں۔ قادر بھی یہی کہتے تھے۔ حاجی میٹھے بھی یہی کہتے تھے۔ وہ تو ٹھیک ہے۔ ان سب کو یہی کہنا چاہیے۔ وہ تو یہ سوچتے رہے پھر اٹھ کر باہر گئے۔ نوکر کو بلا کر راج دین کو ساتھ لانے کا حکم دیا اور اسے تاکید کی کہ دوا جلد از جلد حاصل کر لی جائے۔ اور راج دین سیدھا للّی کے یہاں پہنچ گیا۔
ہلکی بوندیں پڑنے لگتی تھیں۔ دالان میں کھانا لگ رہا تھا۔ ڈیوڑھی میں جلتی ہوئی ڈبیا کی روشنی میں مجو بھیا نے دیکھا کہ للّی آنچل میں چھپائے کوئی چیز لیے آ رہی ہے، وہ کمرے میں کھڑے رہے۔ للّی نے باورچی خانے کی دہلیز ہی پر ایک سینی میں اپنی گود خالی کی اور کمرے میں چلی آئی۔ دالان میں جلتی ہوئی لالٹین کی مدھم روشنی کمری میں پھیلی ہوئی تھی۔ للّی کے آتے ہی کمرہ جگمگا اٹھا۔ عہد فراموشی کا گریزاں دامن مجو بھیا کے ہاتھ سے نکل گیا۔ للّی کے بدن سے ان کے دونوں بازو بھر گئے۔ ڈیوڑھی میں للّی کے غروب ہو جانے کے بعد جب مجو بھیا نے گوشت کے پیالے میں نوالہ ڈبویا تو رجب کی ماں نے ایک چینی کی پلیٹ ان کے آگے بڑھا دی۔
’’للّی بَرے لائیں رہین۔‘‘
چینی کی سرمئی پلیٹ میں دہی میں ڈوبے ہوئے سفید سفید برے رکھے تھے۔ مجو بھیا کا ہاتھ ان پر منڈلا کر رہ گیا۔ ان کو معلوم ہوا جیسے کسی سانولی لڑکی کے بدن پر برص کے دھبے پڑے ہوں۔ انھوں نے پلیٹ سامنے سے ہٹا دی۔ ذہن سے اس گھناؤنے تصور کو جھٹک کر انھوں نے بڑے خلوص سے نوالہ منہ میں رکھا مگر منہ کا مزہ بدمزہ ہو چکا تھا۔
*
ککراواں کی کوٹھی کا پہرے دار گلے میں بندوق پہنے ٹہلتا رہا اور آنکھ سے کاجل اڑا لے جانے والے فنکار گھوڑا نکال لے گئے۔ جے پور کے کٹھار میں چمار کی رانپی سے راج دین نے وہ ایال اتار لیے جن پر درگا سہائے آف ککراواں کی مغرور انگلیاں مشاطگی کرتی تھیں۔ رام دین اور دلارے نے بیلوں کے سینگ رنگنے والی سیاہی سے نقرہ جانور کو ’’ابلق‘‘ بنا دیا۔ راج دین اس پر چڑھ کر رانی داتا دھنک پوری اپنی بڑی بیٹی کی سسرال پہنچا۔ وہاں ’’ابلق‘‘ کو ’’مشکی‘‘ بنا کر داماد کو سوار کرایا اور خود دس بارہ لٹھ بند لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلتا ہوا ضلع ہردوئی کے رام نگر میں اتر پڑا۔ رام نگر کے مکھیا، پاسیوں کی ناک اور اپنے سمدھی کے سامنے حاجی میٹھے کی دواؤں کے پشتارے کے ساتھ کہانی بھی رکھ دی۔ ترکیب استعمال کا نسخہ سمجھا کر آندھی کی طرح راجپورہ آیا اور حالات کی نبض ٹٹولنے لگا۔ یہاں اودھم مچا ہوا تھا۔ پنڈت درگا سہائے آف ککراواں کی تحریری رپورٹ کے موصول ہوتے ہی کئی تھانوں کی رپورٹ حرکت میں آ گئی۔ دور دور تک جانوروں کی بازاریں کھنگال ڈالی گئیں۔ تھانے دار نے چائے کی میز پر مجو بھیا سے کہا کہ پنڈت جی کو آپ پر ہی شک ہے۔ مجو بھیا نے ایک فرمائشی قہقہہ بلند کیا اور کہا اصطبل تو آپ کے سامنے ہے۔ کوٹھریوں کے بکس اگر دیکھنا ہوں تو نوکر سے کنجی لے کر چلے جائیے دیکھ لیجیے۔
مغرب کی نماز کے بعد منگلو کھانا کھا کر میلی دھوتی سے منہ پونچھتا ہوا چھپر کے طاق میں بیڑی ٹٹولنے لگا، روپے پر ہاتھ پڑتے ہی اس کی کھیسیں نکل آئیں۔ مڑ کر دیکھا تو چندہ پتیلی کی تری میں روٹی رگڑ رگڑ کر کھا رہی تھی۔ چولہے کی گرمی اور چراغ کی روشنی میں اس کا چہرہ محرم کی روشن چوکی کے سرخ گلاس کی طرح چمک رہا تھا۔ منگلو نے روپیہ اٹھا کر البٹی میں لگا لیا۔ چراغ سی بیڑی جلاتے ہوئے اسے ایک خیال نے بھڑکی طرح کاٹ لیا۔ ’’کہیں روپیہ کھوٹا تو نہیں ہے۔‘‘ اس نے بیڑی دانتوں میں دبا لی۔ چراغ لیے ہوئے تیر کی طرح کوٹھری میں گھس گیا۔ جھیں گے سنار کی طرح اس نے چاندی کو پرکھنے والی نگاہ سے دیکھا۔ اس کے بھنچے ہوئے ہونٹ پھیل گئے۔ روپیہ البٹی میں واپس چلا گیا۔ چندہ کو روٹی کھاتا چھوڑ کر دروازے کو دھڑاک سے بند کرتا ہوا گھر سے نکل گیا۔ چندہ نے جلدی جلدی روٹی ختم کی اور سیدھی طاق پر پہنچی۔ پھر اس کی آنکھوں نے دیکھا کہ چرسئے کے یہاں بیٹھا ہوا منگلو کوڑی پھینک رہا ہے۔ اس نے مسکرا کر الگنی پر سے اپنا پھولدار جوڑا اٹھالیا۔ کوٹھری میں چلی گئی۔ دیر تک چراغ کی رشنی میں اپنے جسم پر دھار رکھتی رہی۔
دروازے میں تالا ڈالتے ہوئے چندہ نے دیکھا کہ للّی اپنی دہلیز پر کھڑی تو تو کر کے کتے کو بلا رہی ہے۔ اس نے خنک ہوا کے جھونکے سے اپنا مہین چادرا چھین کر سر ڈھک لیا۔ اپنی جھانجوں کو چھن چھن کرتی للّی کے سامنے سے گزر گئی۔ ’’کہیں پانی برسا ہے۔‘‘ جلتے ہوئے دن کے بعد رات کی ٹھنڈی ہوا کی گدگدی پر اسے خیال آیا۔ حسین موسم کی اس پروائی نے تراب کی چوٹ چمکا دی۔ پرائمری اسکول کے سنسان علاقے کی طرف جاتے ہوئے جب وہ بھنگیوں کے جھونپڑوں کے سامنے سے گزری تو اس نے دیکھا کہ سکرو مہتر دیوار سے ٹیک لگائے پڑا ہے۔ تاڑی کے کھجڑ الٹے پڑے ہیں۔ تھوڑی دور پر بھنگیوں کے لڑکے ڈھولک اور لیزم بجا بجا کر ناچ رہے ہیں۔ ان کے حلقے میں اکڑوں بیٹھا ہوا سکھبند کوئل کی طرح کوک رہا ہے۔ دیوار میں لگی ہوئی مشعل کی روشنی میں کویل کی طرح کوکنے والا سکھبند کوئل ہی کی طرح چمک رہا ہے۔ اس نے چادر کھینچ کر اپنا منہ اور چھپا لیا۔
میدان سے گزر کر جب وہ چھوٹے اسکول کی پشت پر پہنچی تو اس نے چاروں طرف کا جائزہ لیا۔ جناتوں والے باغ تک سارے میں سناٹا تھا۔ بانس کی باڑھ میں شیشم کے پیڑ کے پاس ایک شگاف تھا۔ وہ خندق میں اترکر آہستہ سے کپڑوں کو بچاتی ہوئی چھوٹے اسکول میں داخل ہوئی۔ کنپٹی تک کھینچی ہوئی آنکھیں کھول کر اس نے چبوترے کو تاکا جس کے کونے پر تاڑ کا درخت سپاہی کی طرح کھڑا تھا۔ اس کی چھتری پر برسات کے چاند کی روشن مشعل جل رہی تھی۔ وہ پست چبوترے کی سیڑھیوں پر ٹھٹک گئی۔ پھر اچھل پڑی، مجو بھیا نے پیچھے سے دبوچ لیا۔
’’بڑی دیر کر دی تم نے۔‘‘
’’منگلو کی وجہ سے۔‘‘
اور اس کا منہ بند ہو گیا۔ مجو بھیا اسے اپنے کلیجے سے لگائے اس کمرے میں لے آئے، جس کی کھڑکی سے دور پر کھڑا ہوا گول پھاٹک نظر آتا تھا۔ بغیر سلاخوں کی کھڑکی سے آتی ہوئی چاندنی کی چادر میں مجو بھیا نے چندہ کی آنکھیں دیکھیں۔ سیاہ آنکھیں جن میں موتی کوٹ کوٹ کر بھر دیے گئے تھے۔ ابروکی محراب میں لانبی لانبی پلکیں سجدے کر رہی تھیں۔ مجو بھیا نے کانپتے ہوئے ہونٹ رکھ دیے۔
ان طویل ملاقاتوں کی تیز روشنائی مجو بھیا کے دل پر بنی ہوئی للّی کی چمکدار تصویر میلی کرتی گئی۔ حاجی میٹھے کی دوائیں اپنا اثر دکھانے لگیں۔ چاندی کی سفید جلد دھندلی ہو گئی۔ گھوڑا ’’سمند‘‘ ہونے لگا۔ عید کے کپڑوں کی آرزو میں چاند رات کی طویل ساعتوں پر جھنجھلانے والے بچے کی طرح مجو بھیا نے رام دین کو چاندی کے دوسو روپیوں کی گٹھری باندھ دی۔ کملا پور کے میلے میں راج دین نے ککراواں کے گھوڑے کا جوڑ خریدا اور بارہ بنکی کے کسی گانوں میں پڑ رہا۔ جب میلا اجڑ گیا۔ سوداگر تتر بتر ہو گئے تو اس نے بروہی کے جنگل میں خریدے ہوئے گھوڑے کو کھاند کر پھینک دیا۔ کئی کاغذوں میں لپیٹی ہوئی رسید شلوار کی اندرونی جیب میں رکھی، پھر چولا بدلے ہوئے ککراواں کے گھوڑے پر موچی سے خریدا ہوا چار جامہ رکھ کر جو چڑھا تو مان پور کے تھان پر دم لیا۔
مان پور کے جنگل میں آگ کی طرح خبر پھیل گئی۔ ککراواں والوں کے بھی کان کھڑے ہوئے۔ مختار عام بازار کے نیلام کی گفتگو کے بہانے آئے۔ گھوڑا دیکھا۔ چاندی کے ایال کا چنور چھل گیا تھا، جلد تروہی ہو گئی تھی۔ بدن گھٹ گیا تھا۔ مگر کنوتیوں کے وہیں تیور تھے۔ پانوں پٹکنے میں وہی جلال تھا۔ مختار عام کی سوچی ہوئی نگاہ دیکھ کر ہاتھی ایسے مجو بھیا کی چھاتی میں شیر کا دل کانپ گیا۔ مختار عام کے جانے کے بعد بھی بڑی دیر تک وہ آرام کرسی کی قبر میں پڑے رہے، پھر گھر کے سامنے میدان میں ٹہلنے لگے۔
دھیمی دھیمی پھوار پڑ رہی تھی۔ فجو خاں چنی لال چرسئیے کے چھپر میں بیٹھے کھنجڑی پر ہولی سن رہے تھے کہ سامنے سے منگلو نکلا۔ کسی منچلے نے ہانک لگائی لیکن وہ راس خریدنے کا بہانہ بنا کر پیچھا چھڑا گیا۔ گلیارے کے موڑ پر منگلو کے مڑتے ہی فجو خاں نے بیڑی کو چٹکی میں لے کر آخری دم لیا اور اٹھ پڑے۔ کسی نے ہاتھ تک پکڑ لیا، مگر وہ جھٹک کر چلے آئے۔ چندہ بروٹھے میں بیٹھی مونج کی ڈلیا بن رہی تھی۔ فجو خاں کو دیکھ کر اس نے تیور چڑھا لیے۔ فجو خاں کھٹکے تو مگر چندہ کے گریبان میں دھرے ہوئے مٹھائی کے دونے پر ہاتھ ڈال دیا۔ چندہ نے ڈلیا اور سوجا ایک طرف پھینک خانصاحب کے سینے پر مضبوط ہاتھوں کا وہ دو ہتر مارا کہ بھونچکے رہ گئے۔ چندہ طاق سے کھال ادھیڑنے والی چھری اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔
’’جات ہو خان صاب کہ پکاروں محلے کو۔‘‘
فجو خاں کو کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ جاتے جاتے ایک خونی نگاہ ضرور ڈالی۔ چندہ کا صحت مند بدن غصے سے کانپ رہا تھا۔ باہر نکل کر خان صاحب نے حواس درست کر کے نگاہ کی تو اپنے کھیت کے کونے میں للّی بیٹھی تھی۔ وہ بڑی دیر تک اس کے کولہے سے کولہا ملائے بیٹھے رہے اور کلیجے کے پھپھولے پھوڑتے رہے۔
حاجی میٹھے جب نماز پڑھنے چلے گئے تو للّی نے قلعی دار سینی میں کرکری کرکری برھیوں کے پرت جمائے، ان پر کٹہل کے کبابوں کا گلدستہ رکھا۔ لہنگے میں بھنور بناتی ہوئی سینی اٹھا کر چلی۔ مجو بھیا کی ڈیوڑھی میں اس کا دل دھڑکنے لگا آپ ہی آپ مگر وہ چلی گئی۔ باورچی خانے میں ٹین کی ڈبیا جل رہی تھی۔ اس کی خاموش چاپ پر آٹے کی ڈلیا میں اینڈتے ہوئے چوہے خرگوش کی طرح غائب ہو گئے۔ اس نے سینی دہلیز پر رکھ دی اور کمرے کی تیز روشنی کو دیکھتی ہوئی چلی۔ تیسرے دروازے کا ایک پٹ کھلا تھا۔ اس میں قدم رکھتے ہی چندہ اپنی قمیص درست کرتی ہوئی مجو بھیا کی گود سے اٹھ پڑی۔ للّی کو ایسا لگا جیسے سکرو مہتر نے اپنی ڈلیا اس پر الٹ دی ہو۔ وہ بھاگنا چاہتی تھی، لیکن جیسے کسی نے پیروں میں کیلیں ٹھونک دی ہوں۔ وہ مجسمے کی طرح نصب ہو کر رہ گئی۔ اسی پلنگ پر، اسی پھولدار بستر پر یہی مجو بھیا مجھے چومتے چومتے نڈھال کر دیتے تھے اور آج اسی پلنگ کے اسی پھولدار بستر پر ’’کلموہی‘‘ چندہ بیٹھی اس کی چھاتی پر مونگ دَل رہی ہے۔
’’کھڑی کیوں ہو۔‘‘ مجو بھیا ڈکارے۔ وہی مجو بھیا جن کی سانسیں نہ سماتی تھیں، جو اسے دیکھ کر گھگھیانے لگتے تھے، وہی مجو بھیا اسے دھتکار رہے تھے۔ چندہ اپنے شانوں پر بکھرے ہوئے بالوں کو سمیٹ کر دوپٹہ اوڑھ رہی تھی۔ للّی نے اپنے دھونکنی کی طرح چلتے ہوئے سینے کو سنبھالا۔ اور گویائی کی ساری قوت جمع کر کے آہستہ سے بولی۔
’’میں جائے رہی ہوں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ دفعان ہو جاؤ۔‘‘
مجو بھیا نے دوسرا جوتا مارا۔ اور کان تک کھینچی ہوئی کمان کی طرح صابر للّی دفعتاً لوٹ گئی۔
’’تراب یہی دن کے لیے مارے گئے رہن۔‘‘
پلنگ سے اٹھتے ہوئے مجو بھیا کے چہرے پر اپنے جملے کا رد عمل دیکھے بغیر وہ مڑ گئی۔
’’للّی۔‘‘
مجو بھیا کی دہاڑ نے دالان ہی میں للّی کو ڈس لیا۔ وہ کھڑی ہو گئی۔ مجو بھیا نے اپنا دھنی ایسا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھ دیا اور ایسے لہجے میں بولے جیسے داروغہ کسی عادی مجرم کو تاکید کر رہا ہو۔
’’اگر یہ بات کسی کو معلوم ہو گئی تو اچھا نہیں ہو گا۔‘‘
للّی نے آنکھیں اٹھا کر مجو بھیا کو گھورا جن کے نتھنے پھڑک رہے تھے اور آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں۔
’’برائی کے لیے ایک چندہ نائیں ہیں۔۔۔ ککراواں کا گھوڑا۔‘‘
مجو بھیا کے کان پر جیسے کسی لڑکے نے ’’چھچھوندر‘‘ داغ دی ہو۔ ان کا ہاتھ بے اختیار اٹھا اور للّی کے پھول ایسے گال پر شبرات کا پٹاخہ چھوٹ گیا۔ للّی کا داہنا کان سن سن کرنے لگا اور آنکھوں میں آنسو چھلک آئے۔
’’دور ہو جا حرام زادی۔۔۔ بد معاش۔۔۔ نہیں تو بوٹی بوٹی کٹوا کے پھینکوا دوں گا۔‘‘
للّی کے گورے گورے پیروں میں پہئے لگ گئے۔ وہ کوک بھرے کھلونے کی طرح ڈیوڑھی میں گھوم گئی۔ دروازے پر ایک آدمی ہانپتے ہوئے ٹٹو کی رسی پکڑے کھڑا تھا۔ حاجی میٹھے اس کا تنفس دیکھ رہے تھے جیسے حکیم قارورہ دیکھ رہا ہو۔ للّی اپنے پلنگ پر پڑی رہی۔ جب حاجی اندر آئے تو اس نے چادر سے اپنی آنکھیں پونچھیں اور کبابوں کا کٹورہ برھیوں کی ڈلیا میں رکھ کر پلنگ پر پٹخ دیا۔
’’آؤ۔‘‘ حاجی نے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے بڑے پیار سے کہا۔
’’مورا جی ماندہ ہے آج۔‘‘
’’اچھا۔‘‘
حاجی نے کھانا کھایا۔ پھر ڈلیا چھینکے پر ٹانگ دی۔ گھڑونچی کے پاس بیٹھ کر وضو کیا اور عشا کے لیے چلے گئے۔ وہ آنکھیں بند کیے پڑی رہی۔ فجر کی اذان ہو گئی مگر وہ جاگتی رہی۔
ساون کی دوپہر تھی۔ سورج سیاہ بادل کی دلائی اوڑھے بیچ آسمان میں سو رہا تھا۔ بوندوں کے گھنگھرو چھنک رہے تھے۔ کچے مکانوں کی مٹی نمک کی طرح گھل گھل کر گلیاروں میں بہہ رہی تھی۔ جوان جسم کی خوشبو کی طرح بوجھل اور خنک پروائی دلوں کو گرما رہی تھی۔ مجو بھیا کے دالان میں یہاں سے وہاں تک جاجم بچھی تھی۔ ایک سرے پر مخملی قالین پڑا تھا، مجو بھیا اور اس کے کچھ زمیندار دوست گاؤ تکیوں سے لگے بچھو کے ڈنک کی طرح کٹیلی مونچھیں انگلیوں میں مروڑ مروڑ کر رقص دیکھ رہے تھے۔ سازندوں کے نیم دائرے کے سامنے تربھون کی نوٹنکی کی گلاب جان سرخ ساری باندھے سرخ چولی باندھے ناچ رہی تھی۔ بجلی بھرے ہوئے بدن کا انگ انگ بول رہا تھا اور قہقہے لگا رہا تھا۔ وہ جس کے سامنے ایک گھٹنے پر بیٹھ کر کاجل لگی آنکھیں مٹکا مٹکا کر بھاؤ بتلاتی وہ نہال ہو کر اور زور زور سے اپنی مونچھیں انگلیوں میں مروڑنے لگتا۔ دل دھڑک رہے تھے۔ روپے چل رہے تھے کہ تھانے کا سپاہی پنڈت پائیدان پر آ کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے اپنے جسم سے بھیگا ہوا بورا ا تار کندھے پر پڑے ہوئے رو مال سے منہ پونچھ کر مجو بھیا کو سلام کیا۔ رنگ خراب ہو گیا۔
’’خیر ہے پنڈت۔‘‘
مجو بھیا نے سلام کا جواب دے کر پوچھا۔ گلاب جان گھنگھرو بندھے پاؤں کی ٹھوکر مار کر پہلے کھڑی ہو گئی پھر سلام کر کے سازندوں کے پاس بیٹھ گئی۔ مجو بھیا کے دل میں پنکھے لگے تھے۔ ان کو اندیشہ تھا کہ ککراواں کی ریاست اور دولت گھوڑے کو سانپ کے منہ کی چھچھوندر نہ بنادے۔ انھوں نے احباب سے معذرت کی اور دوسرے کمرے میں چلے گئے۔
’’میں بھیا اپنا احسان چکانے آیا ہوں۔‘‘
مجو بھیا کا دل اتنے زور سے دھڑکنے لگا کہ زبان بند ہو گئی۔
’’ککراواں والے پہلے ہی سے چوکنا تھے۔ رہی سہی کسر آپ کے قصبے کی مسماۃ للّی نے پوری کر دی۔ اس نے آج تھانے آ کر بیان دیا ہے کہ وہ گھوڑا جو آپ کملا پور سے لائے ہیں وہ ککراواں کاہے۔ اس کے ایال قینچی سے کاٹ دیے گئے ہیں اور رنگ خود اس کی دواؤں سے بدلا گیا ہے اور وہ عدالت میں یہ بیان دینے پر تیار ہے۔‘‘
’’پھر۔‘‘ مجو بھیا کو سانپ سونگھ گیا۔
’’وہ تو بڑی خیریت ہو گئی۔ بڑے تھانیدار پیشی پر گئے ہیں، چھوٹے تھانیدار اور عملہ راج گھاٹ کی ڈکیتی میں تحقیقات پر گیا ہوا ہے، میں ہی لے دے کے ایک خواندہ سپاہی ہوں۔ اس لیے مسماۃ للّی کا سابقہ مجھ ہی سے پڑا۔‘‘
’’ہوں۔۔۔ کون ہے یہاں۔‘‘
’’ہاں بھیا۔‘‘
ایک نوکر بھیگی دھوتی باندھے اندر آیا۔
’’پنڈت جی کو شربت پلاؤ۔‘‘
کرتے کی ایک جیب تو رنڈی پر نچھاور ہو چکی تھی، دوسری جیب میں ان کا ہاتھ سرسرانے لگا۔
’’للّی کے ساتھ کون کون تھا پنڈت؟‘‘
’’فجو خاں اور بکس۔‘‘
مجو بھیا دھواں دھواں پھر رہے تھے۔ گلاب جان کی بولتی ہوئی آنکھوں سے چھلکتی ہوئی شراب کی دعوت میں ان کے لیے کوئی کشش نہیں رہی تھی۔ دوستوں کے ساتھ وہ بجھے بجھے قہقہے لگا تے رہے اور ہونٹوں کو مانگے کی مسکراہٹ پہناتے رہے۔ پانی کے مدھم ہوتے ہی گلاب جان اور دوستوں نے رسماً اجازت چاہی اور مجو بھیا نے سچ مچ ان کو رخصت کر دیا۔ مغرب کی اذان نہیں ہوئی تھی لیکن اندھیرا پھیل گیا تھا۔ باہری چھپر میں راج دین، بھکا، دلارے، رام دین اور بہت سے آدمی بیٹھے چلمیں پی رہے تھے۔ اندھیرا گہرا ہوتے ہی گھوڑے کھینچے گئے۔ ککراواں کے گھوڑے پر راج دین بیٹھا، مشکی پر دلارے اور ’’بجلی‘‘ پر مجو بھیا۔ پانی برستا رہا لیکن یہ لوگ گلیارے کی اتھلی نہر میں چھپر چھپر کرتے چلتے رہے۔
انچولی کے جنگل میں چلور کے درختوں کے جھنڈ کے پاس یہ لوگ اترے۔ مجو بھیا نے تھرتھراتے ہاتھوں سے ککراواں کے گھوڑے کی بھیگی بھیگی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اسے اس نگاہ سے دیکھا جیسے عاشق اپنی دولہن بنی ہوئی محبوبہ کو غیر کے ڈولے میں بٹھاتے وقت دیکھتا ہے۔ رات اور جنگل کے سناٹے میں چھتنار درختوں پر بوندوں کی ایسی ماتمی لے بج رہی تھی تھی جیسے محرم کے باجے۔ پھر مجو بھیا نے اس کی گردن سے ہاتھ اٹھا لیا اور کنکھیوں سے راج دین کو دیکھا جس کے ہاتھ میں بھجالی چمک رہی تھی، للّی کے عریاں بازو کی طرح۔ ان کے قریب سے ہٹتے ہی راج دین کا بوڑھا ہاتھ اٹھا اور بھجالی گھوڑے کے سینے میں تیر گئی۔ وہ گولی کھائے ہرن کی طرح اچھلا لیکن راج دین کے مشاق ہاتھوں کی مار نے اسے ڈھیر کر دیا۔ راج دین اور دلارے نے آناً فاناً اس کی کھال نکال کر ایک کتھری میں باندھ لی۔ سر اور سُم ایک گڈھے میں دفن کر دیے۔
جب وہ انچولی کے جنگل میں دھوم مچاتے ہوئے بیتے کے پل سے گزرے تو راج دین نے کتھری سمیت کھال جھم سے پانی میں پھینک دی۔ مجو بھیا کے چھپر میں جھانکروں کا الاؤ لگا سب لوگ بدن سینکتے رہے۔ مجو بھیا بیٹھے بیٹھے پوری کیتلی کی چائے پی گئے۔ پانی تھم گیا تھا۔ پہرہ پڑنے لگا تھا۔ مجو بھیا دیکھ رہے تھے کہ وہ باہری کمری میں لیٹے ہیں۔ جان کو پگھلا دینے والی گرمی پڑ رہی ہے۔ پنکھے کو کھینچتے کھینچتے نوکر سو گیا ہے اور وہ سپنے میں ڈوبے کروٹیں بدل رہے ہیں کہ للّی آ گئی۔ اس کو بھیگا ہوا دیکھ کر پنکھا کھینچنے لگی، کھینچتی رہی، جب تک وہ اٹھ کر نہ بیٹھ گیا۔ جب تک اس نے ڈانٹ کر نوکر کو جگا نہ دیا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ ان کے سردی لگ گئی ہے۔ رات کے دس بج چکے ہیں۔ رجب کی اماں اپنے بیٹے کے گھر گئی ہیں۔ نوکر سب ہندو ہیں۔ للّی آئی اسی طرح لہراتی ہوئی لہنگے میں بھنور بناتی ہوئی انگیٹھی کی راکھ جھاڑی۔ آگ بنا کراس کے پاس رکھی اور گرم گرم چائے بنا کر اسے پلائی اور مزید حکم کی منتظر کھڑی ہے۔
پھر مجو بھیا نے دیکھا کہ نوکر دوپہر میں روٹی کھانے گئے ہیں۔ پٹیا پانی برس رہا ہے۔ دالان تو دالان کمروں میں بوچھار سے ٹخنوں ٹخنوں پانی بھرا ہوا ہے۔ للّی اپنے گورے گھٹنوں تک بھیگا ہوا سرخ لہنگا چڑھائے تاش لیے پانی الچ رہی ہے۔ آنکھوں سے تھکن ٹپک رہی ہے لیکن ہاتھ ’’کل‘‘ کی طرح چل رہے ہیں۔ پھر مجو بھیا نے دیکھا کہ ان کا ’’بجلی‘‘ بیمار ہے۔ وہ حاجی میٹھے سے لڑ لڑ کر نئی نئی دوائیں منگا رہی ہے، خود بنا رہی ہے اور اپنے سامنے کھڑی پلوا رہی ہے۔ سارے نوکر تھک کر جا چکے ہیں۔ مگر للّی اپنے حسین کولہوں پر پھول سے ہاتھ رکھے اس طرح گھوڑے کی کیفیت دیکھ رہی ہے جیسے یہ گھوڑا گھوڑا نہیں اس کا بیٹا ہے۔ اس کے جسم کا ایک حصہ ہے۔ للّی پھر آ گئی، مٹکتی ہوئی چمکتی ہوئی للّی۔ اور ناخوش ہوتے ہوئے بولی کہ بھیا کا پیاز سوکھ رہا ہے۔ نوکروں کے کہنے پر نہ جاؤ پانی لگواؤ۔ اور قلمی آم کے باغ کی فصل میں چھبیس سو کی نہ بکنے دوں گی۔ ستائیس سو تو فلاں آدمی میرے سر مڑھے جا رہا تھا۔ کسی نوکر نے للّی کو چھیڑنے کے لیے ہوائی چھوڑ دی کہ ’’بھیا‘‘ کے کھیت میں گورو تمباکو چرے جا رہے ہیں اور للّی توے کی روٹی چھوڑ کر لہنگا پھڑکاتی ہوئی اور کمر پر ہاتھ رکھ کر نوکروں کو میٹھی آواز اور کھٹے لہجے میں ڈانٹنے لگی۔
گلاب جان کے لہنگے کے پھولوں کی طرح چمک دار آواز اور اس کے اندر چھپے ہوئے بدن کی طرح قاتل معنی نے تھوڑی دیر کے لیے مجو بھیا کو بے حس کر دیا۔ پھر جیسے کسی طرف سے چندہ اپنی جھانجھیں بجاتی ہوئی آئی اور ان کی موٹی موٹی کلائیں پکڑ لیں۔ ہتھیلی کے پیالوں سے ان کا چہرہ چھلک گیا۔ چندہ ان کی پھنکنی کی طرح موٹی موٹی انگلیاں سہلانے لگی۔ مجو بھیا اس کی آنکھیں دیکھتے رہے۔ چمکدار آنکھیں، جن میں سارے لکھنؤ کے گوٹے کی دوکانیں ہضم ہو گئی ہوں۔ گہری آنکھیں جن میں ککراواں کا ہاتھی تو خیر ایک طرف، تراب ایسا پانی دار آدمی اپنی ساری ہیکڑی سمیت ڈوب چکا ہو۔ چندہ کے گریبان میں چھپی سونے کی پوٹلیاں جن پر تراب کی ہیبت اپنے نام کی لاٹھی کھینچے پہرہ دے رہی تھی۔ بڑی دیر تک ان کی چوڑی چوڑی ہتھیلیوں پر رکھی ہیں۔ چندہ کے بدن کے وہ سارے ’’ہفت خواں‘‘ جن میں مان پور کی سورما نگاہیں تھک کر دم تور چکی تھیں۔ مجو بھیا کے بھاری بھرکم قدموں کے نشانوں کے چراغ جلائے۔ ان کے قدموں میں دیوالی جلاتے رہے۔
مجو بھیا پر نشہ طاری ہونے لگا تھا۔ ان کے تصور نے چندہ کے بدن سے ایک ایک قطرہ نچوڑ کر پی لیا تھا۔ چندہ کے عریاں بازو ان کی گردن کو لپیٹے فضاؤں میں اڑنے لگے تھے کہ ککراواں کے تعلقدار پنڈت درگا سہائے کے فقرے نے ان کو ڈس لیا اور بلبلا کر ہوش میں آ گئے۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ لچھمن چوکیدار کا صافہ ان کی کمر میں بندھا ہے۔ سارے نوکر آنکھ میں آنسوں بھرے بلی کی طرح دبکے کھڑے ہیں اور جب وہ تھانے دار کے گھوڑے کے پیچھے پیچھے اپنی ڈیوڑھی سے نکلے تو مقتول تراب کے چھوٹے بھائی نے ان کے منہ پر پڑے ہوئے رو مال کو الٹ دیا۔ پھر قہقہوں کا وہ زلزلہ آیا کہ ان کے اصطبل میں بندھے ہوئے گھوڑے رسیاں تڑا کر نکل گئے۔ جب وہ مان پور کے گنج کے پاس پہنچے تو للّی اپنی سبز چنری ڈھلکائے نظر آئی۔ کولھوں پر پھنسے ہوئے لہنگے پر وہ ہاتھ رکھے کھڑی تھی اور ایسی خطرناک ہنسی ہنس رہی تھی جس کو ان کے ہونٹوں نے بھاگتے ہوئے ہرن کو گولی مار کر اپنے کلیجے سے لگایا تھا۔
مجو بھیا نے تلملا کر پہلو بدلا ہی تھا کہ سامنے ہاتھی پر سوار درگا سہائے نظر آئے۔ مختار عام مشکی گھوڑے کی رکابوں پر کھڑے تھے۔ ہاتھی کے پیچھے سپاہیوں کا پرا لاٹھیاں کاندھوں پر دھرے ٹھٹھول کر رہا تھا۔ پھر انہوں نے دیکھا کہ بھری عدالت میں جج نے چوری کے جرم میں چھ مہینے کی سزا کا حکم پڑھ کر سنایا۔ اور چھ بلم ان کے کلیجے میں اتر گئے۔
’’راج دین۔‘‘
’’بھیا۔‘‘
’’کیا دیر ہے۔‘‘
’’حاجی میٹھے کی گاڑیاں بالامؤ کی بازار کے لیے لد رہی ہیں۔۔۔ ہانک دی جائیں تب اٹھا جائے۔‘‘
’’رام دین۔‘‘
’’بھیا۔‘‘
’’بھورارہ ہوتے ہی تم تھانے جاؤ اور کملا پور کی بازار سے خریدے ہوئے گھوڑے کی رسید دکھلا کر چوری کی رپٹ لکھا دو۔‘‘
’’بہت نیک۔‘‘
ہولناک سناٹے نے ’’جاگتے رہو‘‘ کی مدقوق آوازوں کو نگل لیا۔ آوارہ کتے بھونکتے بھونکتے تھک گئے تو دیواروں کے سایوں اور دکانوں کے پٹوں کی آڑ میں پڑ کر سو گئے۔ وہ روشن ستارے جن کو مان پور والے دوسرے گاؤں والوں کی طرح ’’ہنی ہنا‘‘ کہتے تھے۔ پیپل کی پھنگی پر دیوں کی طرح جل اٹھے۔ جانوروں کی گردن میں بندھی ہوئی گھنٹیوں کی نحیف آوازیں آنے لگیں۔ مارکین کے کفن کی طرح دھندلی دھندلی سفیدی اس مشرق پر پھیلنے لگی جو کئی صدیوں سے مرا پڑا تھا۔ جاگیرداری نظام کی بیمار قدروں کی طرح سائے سنولانے لگے۔ ٹھنڈی ہواؤں کی پریاں اپنے پروں پر نئی صبح نئے دور کے پھولوں اور کارناموں کی خوشبو لے کرمجو بھیا کے آنگن میں اٹکھیلیاں کرنے لگیں تو باہری دروازہ ہاتف کی طرح بولا اور سب دم بخود ہو گئے۔ دھرم پال سپاہی کہہ رہا تھا۔
’’حاجی میٹھے گئے۔‘‘
راج دین نے جلتی ہوئی چلم کا آخری کش لگا کر چلم دیوار سے لگا کر کھڑی کر دی۔ پتاور ایسی مونچھوں کو ہتھیلی سے برابر کیا اور کھڑا ہو گیا۔ اس کے کھڑے ہوتے ہی بھکا دلارے رام دین اور مجو بھیا بھی کھڑے ہو گئے۔
آج مجو بھیا کا لنگر قدموں سے اٹھایا نہ جا رہا تھا۔ محرم کی ساتویں کو جب فیجو منیہار نے بیماری کا بہانہ کر کے عباسی علم اٹھانے سے انکار کر دیا تھا۔ اور چھوٹے خاں کے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں تھیں۔ تو مجو بھیا نے وہ آستینیں چڑھائی تھیں جن کے کلف دار ململ کو للّی نے بڑے ریاض سے پاندان کے ڈھکنے پر چنا تھا اور گلے میں ڈولچی ڈال کر عباسی علم اٹھا لیا تھا۔ علم لے کے چلتے ہوئے انہیں اپنی اہمیت کا اندازہ اس وقت ہوا تھا جب استاد مدی نے گرج کر ’’علی کا لشکر‘‘ کا نعرہ مارا تھا اور ہزاروں کے مجمع نے کلیجہ پھاڑ کر دلوں کو ہلا دینے والی آواز میں یا ’’حسین‘‘ کی تکرار کی تھی۔ لیکن آج مجو بھیا چلتے ہوئے ایسی اذیت محسوس کر رہے تھے جیسے دو عباسی علم دونوں ہاتھوں پر جھول رہے ہوں۔ وہ راج دین کے پیچھے اور دوسروں کے آگے چل رہے تھے۔ اونگھتے ہوئے کتے گردن اٹھا کر کرکراتے، پھر ان کے براق کپڑوں کے کفن ایسے سفید جلوے میں منہ ڈھانپ کر رہ جاتے۔
چبوترے کی سیڑھیاں چڑھ کر ان کے موٹے موٹے ہاتھ نے آہستہ سے تھپکی دی۔ چارپائی چرچرائی۔ جھانجھیں گنگنائیں۔ شیشے کی چوڑیوں نے سرگوشی کی اور کنڈی بجی اور دروازہ کھل گیا۔ مٹی کے تیل کی ڈبیہ طاق میں جل رہی تھی۔ اس کی لال روشنی میں چندہ کھڑی تھی۔ کسمیلی قمیص اور میلی شلوار پہنے چندہ نے دروازے سے ہٹ کر انگڑائی لی تو اس کے جسم کے خطوط میں چراغ جل گئے۔ الجھے ہوئے کالے کالے بال کمر تک پڑے ہوئے تھے۔ لانبی لانبی آنکھیں نیند سے سینچی ہوئی تھیں۔ مجو بھیا نے اسے مخمور نگاہ سے دیکھا۔ دل کی آرزو لہو بن کر ہاتھوں میں دوڑنے لگی۔ لیکن اُن کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو وقت کی نزاکت نے پکڑ لیا۔ رام دین دہلیز پر ہی کھڑا تھا۔ مجو بھیا کا اشارہ پا کر وہ اندرگیا، دوسرے آدمی للّی کے دروازے پر پہنچ گئے۔ چندہ کی نیم باز آنکھوں سے اپنی پیاسی آنکھوں کو بغلگیر کر کے مجو بھیا نے پوچھا،
’’منگلو کو گئے کتنی دیر ہوئی۔‘‘
’’حاجی کے ساتھ ہی وہ گئے ہیں۔‘‘
چندہ اور للّی کے گھروں کی مشرکہ دیوار پر رام دین لاٹھی لگا کر چڑھ گیا۔ بلی کی طرح اُتر کراس نے دروازہ کھول دیا۔ مجو بھیا گردن جھکا کر بازو سے شانہ بچاتے ہوئے للّی کے صحن میں آ گئے۔ رام دین پنجوں کے بل چلتا ہوا گیا اور للّی کے دروازے کی زنجیر کھول دی۔ راج دین، بھکا اور دلارے تینوں آ گئے۔ مجو بھیا نے اپنا مخملی جوتا دروازے پر چھوڑ دیا، جس کو چندہ نے اٹھا لیا۔ چھپر میں دو چارپائیاں بچھی تھیں۔ ایک خالی چارپائی پر زمین کے رنگ کی سکڑی ہوئی دری پڑی تھی۔ سرہانے کثیف تکیہ رکھا تھا۔ دوسرے پلنگ پر للّی لیٹی تھی۔ چت لیٹی ہوئی سیاہ لہنگے کی گوٹ سے چاندی کے گھٹنے جاگ رہے تھے۔ سنگ مرمر کی سڈول پنڈلیاں اندھیرے میں چمک رہی تھیں جیسے ’’پنشاخے‘‘ جل رہے ہوں۔
خراٹے لیتی ہوئی للّی کی کرتی میں وہ خربوزے دھڑک رہے تھے جن کی مٹھاس سے تراب کی زبان ہمیشہ کے لیے بندھ گئی تھی۔ باہوں کے خنجر دونوں پیٹوں پر پڑے تھے۔ جیسے ان کے قبضے مجو بھیا کی کلائی نے توڑ لیے ہوں۔ میلے میلے تکیہ پر جھبڑے جھبڑے بالوں کا انبار رکھا تھا۔ جس کے لمس کی خاطر مان پور کے کتنے ہی شانے قلم ہو جانا گوارا کر سکتے تھے۔ مجو بھیا اس کے بے پناہ حسن کے طلسم میں اسیر کھڑے رہے۔ پھر ان کی گردن ہلی۔ شاید مچھر نے بائیں گال پر کاٹ لیا تھا۔ اور ان کی گردن ہلتے ہی رام دین کی انگلیاں سنگسی کی طرح اس کی گردن کی صراحی میں پیوست ہو گئیں۔ وہ پھڑپھڑائی مگر دلارے اس پر سوار ہو گیا۔ وہ ذبح کی ہوئی بٹیر کی طرح مٹھی میں پھڑپھڑا کر رہ گئی۔ راج دین نے اسے آلو کے بورے میں ٹھونس کر بھر دیا۔ رام دین نے بورے کو پیٹھ پر لاد لیا۔ دلارے نے للّی کا مکان اندر سے بند کیا۔ پھر چندہ کے گھر میں کھلنے والی کھڑکی کو للّی کی طرف سے بندکر کے دیوار پھاند کر چندہ کے گھر میں ہوتا ہوا باہر نکل گیا۔
سڑک پر بڑے بڑے بیلوں کا ادھا کھڑا تھا۔ بورا اس میں ڈال کر جاجم بچھا دی گئی۔ اور بیل چوک بھرنے لگے۔ ہاہا کار کرتے ہوئے بیتے کے اونچے پل پر ادھا روک لیا گیا۔ مجو بھیا نے بجلی کو دوڑا کر ہر طرف سے اطمینان کر لیا۔ پھر طلوع ہوتی ہوئی صبح کے مٹیالے اندھیرے میں بورا دھار میں چھوڑ دیا گیا، جو دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا۔ مجو بھیا کارتوسوں کی پیٹی ڈالے اور کندھے پر بندوق رکھے رکابوں پر کھڑے ابلتے شور کرتے ہوئے پانی کو دیکھتے رہے۔
مان پور کے ایک ایک دل میں خودرو پیڑ کی طرح یہ بات جم گئی کہ جوان للّی بوڑھے حاجی کے پوپلے منہ پر تھپڑ مار کر کسی آشنا کے ساتھ نکل گئی ہے۔ معلوم نہیں کتنے آدمیوں نے اسے ’’نخلؤ‘‘ کے بازار میں ایک بڑی بڑی مونچھوں والے آدمی کے ساتھ ہاتھ بھر کے گلاس میں لسی پیتے دیکھا تھا۔ اس واقعہ نے دوسروں پر خیر جو کچھ اثر کیا ہو۔ لیکن منگلو نے جب جمعہ کے دن بال بنوائے، اور چاندی کے تاروں کا ایک گچھا اس کی قمیص کے دامن میں گر پڑا تو چپ سادھ لی۔ عصر کی نماز کے بعد ہی چندہ نے کھانا پکا کر چھینکے کے سپرد کیا۔ دروازہ بند کر کے چارپائی کھڑی کی اور ابٹن لگا لگا کر نہائی پھر اجلے کپڑے پہن کر دیر تک ٹین کی پشت کے آئینے میں کاجل لگی انگلی آنکھوں میں پھیرتی رہی۔ پھر جب چادر اٹھا کر چلی تو اس کے لال لال گالوں کو دیکھ کر منگلو کے منہ میں پانی بھر آیا۔ اس نے ڈرتے ڈرتے کہا،
’’کہاں چلیں اتنے بیرے۔‘‘
’’بھیا کے یہاں۔‘‘
وہ تو چلی گئی لیکن منگلو بڑی دیر تک کھٹیا پر لیٹا ہوا جلے ہوئے ناریل کو گڑگڑاتا رہا اور ذہن پر رینگتے ہوئے بچھوؤں کو پکڑ پکڑ کر مارتا رہا۔
٭٭٭
ماخذ:
https://salamurdu.com/maalkin.html
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
OOOOOO
ڈاؤن لوڈ کریں