قربانی
نا معلوم
نوید کو بقر عید میں قربانی کرنے کا بہت شوق تھا۔ ہر بقر عید پر وہ دوسروں کے گھروں میں آئے ہوئے بکروں کو دیکھتا تو اس کا بھی دل چاہتا کہ اس کے ابو قاسم صاحب بھی ایک پیارا سا سفید اور سیاہ دھبوں والا بکرا لائیں، جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چارہ کھلائے، اس کے سر پر ہاتھ پھیرے۔ بقر عید کے قریب آتے ہی وہ بڑی آس لگا کر ابو سے پوچھتا کہ کیا وہ اس بار قربانی کریں گے؟ ابو اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر افسردگی سے کہتے: "نہیں بیٹا! میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں قربانی کر سکوں۔” وہ اداس ہو جاتا۔ تب اس کے ابو اس کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر اس سے وعدہ کرتے کہ اگلے سال وہ قربانی ضرور کریں گے، مگر ان کا یہ وعدہ کسی سال بھی پورا نہ ہو سکا۔
اس سال بھی جب بقر عید میں دس دن باقی تھے اور عید کا چاند نظر آ چکا تھا تو نوید، ابو کے پاس گیا اور پوچھنے لگا کہ کیا ہمارے ہاں بکرا آئے گا؟
امی بولیں: "اس سال بھی بکرا نہیں آئے گا، کیوں کہ اول تو بکروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ دوسرے تمھارے ابو کی دکان بھی اچھی نہیں چل رہی ہے۔”
اس کے ابو کریانے کی دکان چلاتے تھے اور یہ تو اسے بھی پتا تھا کہ کچھ مہینوں سے دکان اچھی نہیں چل رہی ہے، مگر پھر بھی اسے امید تھی کہ شاید اس بار بکرا آ جائے۔ امی کی بات سن کر اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ابو اس کی رنجیدہ صورت دیکھ کر پوچھنے لگے کہ اچھا بتاؤ کہ تم بکرا کیوں لینا چاہتے ہو؟ کیا اس لیے کہ محلے کے باقی بچوں کے گھروں میں بکرے آئے ہیں اور وہ سب اپنے اپنے بکروں کی تعریفیں کرتے ہیں، انھیں سیر کراتے ہیں جب کہ تم ایسا نہیں کر پا رہے ہو؟
نوید یہ سنتے ہی تیزی سے بولا: "نہیں ابو! میں تو بکرا اس لیے چاہتا ہوں کہ قربانی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ اجر دیتا ہے اور قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھتا ہے۔” نوید کا یہ جذبہ دیکھ کر اس کے ابو سوچ میں پڑ گئے۔ پھر انھوں نے جا کر عید کے کپڑوں اور کھانے پینے کی چیزوں کے لیے بچائے ہوئے پیسے گنے اور ایک فیصلہ کر لیا۔
دوسرے روز ناشتے پر نوید کے ابو نے یہ اعلان کیا کہ وہ اس سال قربانی کریں گے۔ نوید اور اس کے چھوٹے بھائی بہن یہ سن کر خوشی سے اچھلنے اور تالیاں بجانے لگے۔
"مگر ایک شرط ہے۔” ابو نے یہ کہا تو سب خاموش ہو کر انھیں دیکھنے لگے۔
نوید نے پوچھا: "کیا شرط ہے ابو؟”
"شرط یہ ہے کہ تم لوگ مجھ سے نئے کپڑوں اور جوتوں کا تقاضا نہیں کرو گے اور عید الفطر پر بنوائے گئے کپڑے ہی پہنو گئے، ورنہ بکرا نہیں آ سکے گا۔”
سب بچے یک زبان ہو کر بولے: "ہمیں منظور ہے۔” یوں دن گزرنے لگے اور قربانی سے ایک دن پہلے مغرب کی نماز کے بعد نوید کے ابو قاسم صاحب بکرا خریدنے منڈی گئے تو نوید بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ ویسے بھی بکرا لینے کی خوشی سب سے زیادہ اسے ہی تھی۔ اس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا اور تصور میں ایک خوب صورت سا موٹا تازہ بکرا بار بار آ رہا تھا۔ اسے یہ سوچ کر بڑی خوشی ہو رہی تھی کہ وہ بھی قربانی کریں گے۔ بکرا منڈی میں بکرے ہی بکرے تھے، کیوں کہ کل قربانی کا دن تھا، لہذا خریدنے والوں کا رش بھی بے پناہ تھا۔ نوید تو بکرے دیکھنے میں اتنا مگن ہو گیا کہ اسے آس پاس کا ہوش ہی نہ رہا۔ کچھ بکرے تو چارپائیوں پر آرام فرما رہے تھے۔ بکروں کے علاوہ گائیں اور قربانی کے دوسرے جانور بھی تھے۔ غرض کہ بکرا منڈی میں تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ قاسم صاحب نوید کا ہاتھ پکڑ کر ایک بکرے والے کے پاس گئے اور ایک کتھئی رنگ کے درمیانے درجے کے بکرے کو پسند کر لیا اور بکرے والے سے بکرے کی قیمت پوچھی۔
بکرے والے نے کہا: "پندرہ ہزار۔”
قاسم صاحب کی آنکھیں پھٹی رہ گئیں: "کیا؟ پندرہ ہزار؟ تم بکرا بیچ رہے ہو یا گائے کی قیمت بتا رہے ہو؟”
"ارے صاحب! یہ کوئی عام بکرا نہیں، بڑا ہی خاص بکرا ہے۔ اس پوری منڈی میں آپ کو ایسا بکرا نہیں ملے گا۔ بیس، بائیس کلو سے تو کم گوشت نکلے گا نہیں۔” بکرے والے نے اپنے بکرے کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔ قاسم صاحب بار بار کہنے پر بھی وہ قیمت کم کرنے پر راضی نہ ہوا۔ مجبوراً قاسم صاحب نوید کا ہاتھ پکڑ کر کسی اور بکرے کی تلاش کرنے لگے، کچھ دیر بعد ہی انھیں ایک اور بکرا پسند آ گیا، مگر قیمت سن کر ان کے ہوش اڑ گئے۔ "تیس ہزار۔”
قاسم صاحب نے جب ان سے قیمت کم کرنے کو کہا تو بکرے والے نے کہا:
"ارے صاحب! آپ کی شکل دیکھ کر میں نے قیمت کم کر دی تھی، ورنہ یہ جو میرا شہزادہ ہے، اس کے ایک صاحب 35 ہزار تک دینے کو راضی تھے، مگر ان کے پاس دو اور بکرے بھی تھے اور میرا یہ شہزادہ بھیڑ بھاڑ سے گھبراتا ہے۔” وہ بڑے پیار سے بکرے کی مالش کرتے ہوئے بولا۔ نوید حیرت سے چارپائیوں پر لیٹے چارہ کھاتے بکروں کو دیکھ کر سوچ رہا تھا کہ نہ جانے ان کی قیمت ہو گئی؟
اس کے بعد قاسم صاحب نے کئی بکرے دیکھ ڈالے، مگر سب ان کی پہنچ سے باہر تھے۔ تھک ہار کر انھوں نے نوید کا ہاتھ پکڑا اور بکرا منڈی سے نکل آئے۔ راستے بھر وہ یہی سوچتے رہے کہ چلو اس بار بکرا نہ سہی تو گائے میں ہی حصہ لے لیں گے۔ وہ اپنی گلی میں پہنچے تو گھر سے کچھ ہی دور انھیں ایک بکرے والا چند بکرے ہانک کر لے جاتے ہوئے نظر آیا۔ قاسم صاحب اس بکرے والے کے پاس گئے اور قدرے مریل بکرے کی قیمت پوچھی۔ بکرے والے نے پہلے تو آٹھ ہزار بتائے۔ پھر کچھ بحث کے بعد وہ بکرا پانچ ہزار روپے میں دینے پر راضی ہو گیا۔
بکرا گہرے کتھئی اور سیاہ رنگ کا اور لاغر سا تھا، اس لیے نوید میاں کو زیادہ پسند تو نہ آیا، مگر انھوں نے سوچا کہ کل تک وہ اسے کھلا کھلا کر خوب موٹا تازہ کر دیں گے اور یہ کیا کم خوشی کی بات ہے کہ یہ اب ان ہی کا بکرا تھا۔
نوید، ابو کے ساتھ بکرے کی رسی تھامے اسے گھر کی طرف لے جا رہا تھا، مگر بکرا ایک قدم چلنے کو تیار نہ تھا۔ پورا زور لگانے کے بعد وہ چلنے پر راضی ہوا۔ اب یوں لگ رہا تھا کہ جیسے بکرا قاسم صاحب کو ہانکے لیے جا رہا ہو۔ زیادہ زور لگانے پر اس نے قاسم صاحب کے پیٹ پر زور سے سینگ مارے اور وہ ہائے کر کے پیٹ پکڑ بیٹھ گئے۔ موقع دیکھتے ہی بکرے نے نوید کے ہاتھوں سے رسی چھڑا لی اور کسی تیز رفتار گھوڑے کی طرح بھاگتا ہوا، گلی کے نکڑ تک پہنچا اور نظروں سے غائب ہو گیا۔ نوید لپک کر قاسم صاحب کے پاس آیا اور انھیں سہارا دے کر اٹھانے لگا۔
دوسرے روز عید تھی۔ قاسم صاحب پیٹ کی چوٹ کے باوجود عید کی نماز پڑھنے گئے۔ نوید بھی ان کے ساتھ تھا۔ نماز کے بعد نوید نے روتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے اپنے ابو کی صحت یابی کے لیے دعا کی، کیوں کہ اسی کی ضد کی وجہ سے نہ صرف ابو کو چوٹ لگی، نہ ان کے گھر بکرا آیا اور نہ عید کے کپڑے بن سکے تھے۔
گھر واپس آ کر قاسم صاحب کمرے میں جا کر لیٹ گئے۔ نوید دوسرے بھائی بہنوں کے ساتھ گلی میں گھومنے پھرنے کے بجائے اپنے ابو کی طرح دوسرے کمرے میں لیٹ گیا۔ وہ بہت افسردہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے جا کر دروازہ کھولا تو اسے اس بکرے والے کی پریشان صورت نظر آئی جس سے کل انھوں نے بکرا لیا تھا۔ بکرے والے نے نوید کو دیکھتے ہی پہچان لیا اور ان کا کھویا ہوا بکرا آگے کرتے ہوئے بولا: "یہ بکرا کل آپ ہی کی گلی سے بھاگا تھا نا؟”
اس کی آواز سن کر قاسم صاحب بہ مشکل اٹھ کر دروازے پر آئے۔ بکرے والا انھیں دیکھتے ہی بولا: "جناب! آپ بکرے کو قابو نہ کر سکے۔ یہ بھاگ کر واپس میرے پاس آ گیا۔ میں ذرا آگے ہی گیا تھا کہ اسے آتے ہوئے دیکھ کر قابو کر لیا۔ میں نے سوچا کہ آپ یہیں کے رہنے والے لگتے ہیں، اس لیے پیدل جا رہے تھے۔ میں تو صبح سے ہر گھر میں پتا کرتا پھر رہا ہوں۔ یہ لیجیئے اپنا بکرا اور اس بار ذرا اس کو قابو میں رکھیے گا۔”
قاسم صاحب کے پاس شکریے کے الفاظ ہی نہ تھے۔ اس بکرے نے انھیں کتنا پریشان کیا تھا۔ انھوں نے تہ دل سے بکرے والے کا شکریہ ادا کر کے اسے رخصت کیا اور جوتے پہن کر باہر کی جانب بڑھے۔ بیگم انھیں دیکھتے ہوئے بولیں: "ارے، آپ کہاں چلے؟ آپ کی طبعیت ٹھیک نہیں ہے۔”
وہ مسکراتے ہوئے بولے: "بیگم! میری طبعیت بالکل ٹھیک ہے۔ میں قصائی کو لینے جا رہا ہوں۔ نوید میاں کا بکرا واپس آ گیا ہے۔ اس کی قربانی کرنی ہے۔
نوید یہ سن کر حیرت سے بولا: "ابو! میرا بکرا۔۔۔ ۔”
قاسم صاحب مسکرا کر بولے: "بیٹا! ہاں بکرا تمھارا ہی ہے۔ تمھارے سچے جذبے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی قربانی کرنے کی توفیق دی ہے۔” یہ کہہ کر قاسم صاحب باہر چلے گئے اور نوید خوشی سے اپنے بکرے کی پیٹھ سہلانے لگا۔
٭٭٭
ٹائپنگ:مقدس
پروف ریڈنگ : فہیم اسلم، اعجاز عبید
ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید