FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

پنڈت آنند نرائن ملّا کا نظریۂ شعر و ادب

 

 

 

 

                سید راشد حامدی

 

 

 

 

 

 

 

پچھلی صدی کے پانچویں دہے سے شعر و ادب کے نام نہاد ناقدین ایک جھوٹ بڑے تو اتر سے بولتے آ رہے ہیں کہ ’’اگر سچ زیادہ ہو تو فن کم ہو جاتا ہے ‘‘۔ اگر اس جملے کی تقلیب کر کے یوں کہا جائے کہ ’’اگر جھوٹ زیادہ ہو تو فن بڑھ جاتا ہے ‘‘۔ تو ان ناقدین کی تیوریوں پر بل پڑ جائیں گے اور کہنے والے کا ادبی مقاطعہ کرنے میں انہیں دیر نہیں لگے گی۔ حالانکہ یہ اس صدی کا ہی نہیں بلکہ ماقبل تاریخ کا بھی سب سے بڑا جھوٹ ہے کہ سچ اور سچائی سے فن کم ہو جاتا ہے اور جھوٹ سے فن یا فنی معیار بڑھ جاتا ہے۔ جب کہ سچ یہ ہے کہ جھوٹ اور جھوٹ کی تبلیغ و ترسیل سے فن کا معیار تو کبھی نہیں بڑھا ہاں یارانِ میکدہ نے ’’سرخ جنت‘‘ اور ’’سفید جنت‘‘ کے ایوانوں میں اپنا قد ضرور بڑھا لیا۔

ان ناقدین نے شعر و ادب کو کیا دیا یہ ایک مختلف فیہ موضوع ہے مگر یہ متفقہ حقیقت ہے کہ انہوں نے فرد کا مذہب اور مذہبی اقدار سے رشتہ منقطع کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ انہیں جھوٹ کو سچ میں ملفوف کرنے یا بالفاظِ دیگر زہر کو شوگر کو ٹیڈ بنا کر پیش کرنے کا ہنر آتا ہے۔

اس جھوٹ نے کیا کیا گل کھلائے اور اس زہر کی خطرناکی نے کتنے ذہنوں کو مسموم کیا اس سے اہلِ نظر بخوبی واقف ہیں۔ شعر و ادب میں جھوٹ، اباحیت پسندی، فحاشی، مذہب بیزاری، وطن دشمنی اور اقدار شکنی کے فروغ سے ادب، ادب عالیہ کے بازارِ حصص میں اپنی سب سے نچلی سطح پر آ گیا ہے لیکن ہمارے نام نہاد ناقدین اور شعر و ادب کے اجارہ داروں کا حال اس بندریا سے مختلف نہیں ہے جو اپنے مرے ہوئے بچے کو بھی کئی کئی دن تک اپنے سینے سے چمٹائے پھرتی ہے کیمونزم، سوشلزم اور مادیت کی ناکامی اور خرابی پوری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے مگر وہ آج بھی اُن ڈیڈ اور ریجیکٹیڈ نظریاتی اصنام کو سینے سے لگائے ہوئے مشرق کے مقدس اور پاکیزہ حرم ڈھانے پر کمر بستہ ہیں۔ انہوں نے اپنی روح اور ضمیر ہی نہیں اپنے ایمان و ایقان کو بھی مغرب سے در آمد شدہ، خود ساختہ اور اخلاق باختہ اصول و نظریات کے ہاتھوں رہن رکھ دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرق کے بنیادی سر چشمے اور شعر و ادب کے فطری سوتے خشک ہوتے جا رہے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ آغاز میں اردو شعر و ادب کے معنیاتی دائرے محدود تھے مگر جو تھا وہ اپنا تھا، مشرق کا تھا، ہندوستان کا تھا جس میں ہند۔ اسلامی تہذیب کا مشترکہ ورثہ تھا جو مغرب سے مستعار تھا نہ در آمد شدہ، اس میں سچائی تھی، معصومیت تھی، پاکیزگی تھی، تقدس تھا، تاثیر تھی، تاثر تھا اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس کی بنیادیں مذہب و اخلاق اور ایمان و یقین سے وابستہ و پیوستہ تھیں۔ جوں جوں زمانہ آگے بڑھتا گیا، معنیاتی دائرے بڑھنے لگے۔ لفظوں میں گہرائی اور گیرائی آتی گئی۔ معنویتیں توسع اور ہمہ گیری اختیار کرنے لگیں مگر اس توسع کا فائدہ اٹھا کر کچھ موذی اور جان لیوا جونکیں اردو کے نازک اور سیم تن وجود سے چمٹ گئیں۔ سجاد ظہیر، سعادت حسن منٹو، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی، نم راشد اور میرا جی وغیرہ ہم نہایت خاموشی کے ساتھ چور دروازے سے شعر و ادب میں داخل ہو گئے اور انہوں نے دھیرے دھیرے اس کی رگوں میں زہر سرایت کر کے اس کی شکل اور ماہیت ہی بدل ڈالی۔ حالیؔ کے مقدمہ شعر و ادب اور شبلیؔ کے شعر العجم کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مقصدی اور نظریاتی شعر و ادب کی معنویتیں اس طور پر تبدیل کر دیں کہ اس کی معنویت اور اس کے وجود پر ہی سوالیہ نشان لگ گیا۔

شعر و ادب کی اس ہمہ گیر آلودگی اور تہذیب و اقدار سے عاری اس اخلاق سوز طوفان میں کچھ شعراء، ادباء اور ناقدین ایسے بھی تھے جو اپنی پاکیزگی فکر و نظر کی بنا پر اس فکری فساد، فحش نگاری، عریاں نویسی اور اباحیت پسندی کے سامنے ’’بنیان مرصوص‘‘ بن کر کھڑے تھے۔ ان میں پنڈت آنند نرائن ملّا کا کردار سب سے اہم، لائق تحسین اور قابل تقلید ہے۔ انہوں نے نہ صرف شاعری میں انمٹ نقوش چھوڑے بلکہ نثر میں بھی تھوڑا ہی سہی جو سرمایہ چھوڑا ہے وہ اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ آبِ زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔

پنڈت آنند نرائن ملّا ہندوستان کی لازوال تہذیبی، مذہبی، اور اخلاقی روایتوں کا گہرا شعور ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ زندگی بھر اس کی صالح قدروں کی تبلیغ و ترسیل اور امن کی بنیادوں پر ہندوستانی معاشرے کی تشکیل کے لئے اپنا خون جگر تحلیل کرتے رہے۔ قومی یکجہتی، مذہبی رواداری اور ہند۔ اسلامی تہذیب کی مشترکہ وراثت ان کے جہان شعر و ادب میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے خیال میں ہندوستان کی بقا اور سالمیت میں مشرق کا اقداری نظام مرکزی نوعیت کا حامل ہے۔ یوں تو ان کے شعری و ادبی کینو اس میں کافی توسع پایا جاتا ہے مگر جب ہم ان کی تفہیم کے لئے انہیں مختلف دائروں میں تقسیم کر کے ان کی جرح و تعدیل کرتے ہیں تو ان کی تمام فکری و شعری جہتیں محض اس نکتہ پر مرکوز نظر آتی ہیں جسے ہم انسانیت اور ہندوستانیت کہتے ہیں۔ جس میں انہوں نے صالح اور تعمیری اقدار کی شرط کا اضافہ کر کے اسے مزید وقیع اور اس کے دائرے کو امکانی حد تک وسیع کر دیا ہے۔

آج عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو جیسے ادیبوں کی تفہیم کے لئے نئی قرأت اور نئی پڑھت کی جا رہی ہے جنہوں نے اردو کو جنسی ہیجان انگیزی، عریاں نویسی اور فحش نگاری سے بھر دیا ہے۔ ان کی مختلف جہتیں اور نئی معنویتیں تلاش کرنے کے لئے رسائل و جرائد کے خاص نمبر جاری کئے جا رہے ہیں، ملک اور بیرون ملک سمپوزیم اور سیمنار منعقد ہو رہے ہیں اور ان کو ادب کے اس مقام بلند پر فائز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے وہ قطعی مستحق نہیں ہیں۔ پروفیسر قدوس جاوید لکھتے ہیں :

’’آج صورتِ حال مختلف ہے۔ ادب کا پورا Paradigmبدل چکا ہے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح ادب بھی نئی تھیوریز اور تازہ فکریات کے مرکز میں آ چکا ہے۔ مذہبی مابعد جدے دیت، مابعد مارکسی سماجیات اور مابعد جدید جمالیات کی آمیزش اور آویزش کے سبب ادب اور ادیب کو نئے زاویوں سے Rediscoverکرنے کا عمل بھی تیز سے تیز تر ہو رہا ہے۔ اس لئے اب افسانہ نگار کے طور پر منٹو کے انفراد اور عظمت کا گراف بھی نئی بلندیاں چھورہا ہے ‘‘۔ (صفحہ ۱۰، منٹو، ممتاز شیریں اور لذت گناہ، ایوانِ اردو دہلی)

ناطقہ سربگریباں ہے اسے کیا کہئے۔ حیرت ہے اباحیت پسندی، عریانیت اور فحاشی کو فروغ دینے کے لئے شعر و ادب میں فنی، فکری اور جمالیاتی نظام کی نئی جہتیں دریافت کی جا رہی ہیں۔ نئی فکریات اور نئی تھیوریز کی آڑ میں مشرق کے اقداری نظام پر مبنی معاشرت کو سبوتاژ کرنے اور مغرب کی بے خدا، مذہب بیزار، اخلاق و کردار سے عاری بلکہ اباحیت زدہ بکھرے، منشتر اور بے اساس سماجی ڈھانچے کو فوقیت دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ سعادت حسن منٹو ہوں یا عصمت چغتائی، نم راشد ہوں یا میرا جی، سجاد ظہیر ہوں یا واجدہ تبسم، سوچنے کی بات یہ ہے کہ انہوں نے معاشرے کو کیا دیا؟ اباحیت کا فروغ خواہ کسی بھی سطح پر ہو تخلیقات کی معراج ہے نہ انہیں تخلیقی حقائق Creative Realitiesکہا جا سکتا ہے۔ یہ مسموم ذہن، محروم اللذات نفسیات اور جنس زدہ اباحیت پسند لوگوں کی ذہنی عیاشیاں ہیں جسے آج ناقدین ادبی معراج قرار دے رہے ہیں۔ ایسے افسانے، کہانیاں، ناول اور شاعری جسے آپ بہن، بیٹی اور بہو کے ہاتھوں میں دیتے ہوئے شرمائیں۔ جس سے کوئی سبق اور سیکھ لینا تو دور لوگوں کے جذبات جس سے برانگیختہ ہوں۔ کچے اور نابالغ ذہن اور معصوم و پاکیزہ نگاہیں مردو عورت کو ٹٹولتی نگاہوں سے دیکھنے اور اس ’’شجر ممنوعہ‘‘ کا پھل چکھنے کے لئے انسانیت کو شرمسار کر دینے والی حرکات کے مرتکب ہونے لگیں، اسے ادب کے زمرے میں کیسے رکھا جا سکتا ہے۔

شاید یہی سبب ہے کہ ناقدین شعر و ادب نے ملّا کے شعری و ادبی سرمایہ کو درخورِ اعتناء نہیں سمجھا۔ ننگوں کے انفراد اور عریاں نویسوں اور فحش نگاروں کی عظمت کے بڑھتے ہوئے گراف میں ستر پوش، صالح اقدار کا حامل شریف النفس ملّا بھلا کیسے کھپ سکتا تھا۔ کیوں کہ ان میں سے ہر شخص اپنے الگ الگ تحفظات رکھتا تھا۔ کسی کا دل ماس کو کے لئے ہمکتا تھا تو کسی کے دماغ پر واشنگٹن مستولی تھا۔ کوئی لینن ایوارڈ کی دوڑ میں تھا تو کوئی نوبل پرائز کی ہوڑ میں۔ کوئی سرخ جھنڈے کو سلامی دے رہا تھا تو کوئی وہائٹ ہاؤس کی سیڑھیوں پر سجدہ ریز تھا۔ ایسے میں کسی پنڈت کی ملّائیت اور کسی ملّاؔ کی ہندوستانیت کو کون خاطر میں لاتا کیوں کہ وہ ترقی پسندی اور جدے دیت دونوں ہی سے بے زار تھے۔

ہو سکتا ہے کہ ناقدین شعر و ادب ملّاؔ کی شاعری کو شہکار ادب نہ قرار دیں کیوں کہ وہ شعر و ادب کو اپنے خود ساختہ نظریات اور مغرب سے مستعار لئے ہوئے معیارات سے جانچتے اور پرکھتے ہیں۔ ویسے سرِ دست یہ میرا موضوعِ سخن بھی نہیں ہے کہ اس پر بحث کروں مگر اس میں شک نہیں کہ انہوں نے ادبِ عالیہ کے لئے جو فنی معیارات وضع کئے ہیں وہ بذات خود شہکار کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کا مذاق فکر و نظر اتنا بالیدہ اور ان کے سماجی اور تہذیبی شعور میں اس قدر ترفع اور توسع ہے کہ ان کے ہم عصر ناقدین ان کے آگے بونے اور بالشتیے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے شعر و ادب کے جو ادبی معیارات اور تنقیدی خطوط قائم کئے ہیں وہ ریب و تشکیک کے گرد و غبار سے پاک صاف اور شفاف آئینہ کے مثل ہیں جس میں مغرب و مشرق کے ناقدین اپنے بگڑے خد و خال بخوبی دیکھ سکتے ہیں۔ بعض اوقات تو ملّا صاحب حالیؔ اور شبلیؔ سے بھی دو قدم آگے نظر آتے ہیں جنہیں اردو تنقید کا باوا آدم تسلیم کیا جاتا ہے۔ حالیؔ پر اکثر ناقدین نے یہ اعتراض کیا ہے کہ ان کے معیارات مغربی ناقدین کے وضع کردہ معیارات سے مستعار ہیں یا وہ ان سے متاثر ہیں۔ ان پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو شاعری بالخصوص غزل کے روایتی اور کلاسیکی مزاج کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھا مگر ملّا صاحب کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ان کے ادبی معیارات ان کے اپنے ہیں۔ ان کے تمام تر تنقیدی رویے مشرق اور ہندوستان کی ہند۔ اسلامی تہذیب سے ماخوذ ہیں اور ان کی تمام شقیں اور دفعات باہم دگر اتنی مربوط اور مضبوط ہیں کہ تلاشِ بسیار کے بعد بھی ان میں کوئی رخنہ نظر نہیں آتا۔ مجھے معلوم نہیں کہ کسی نے ملّا صاحب کی تنقیدی بصیرت، ان کے تنقیدی رویوں اور ان کے فلسفۂ نقد پر کوئی سیر حاصل بحث کی ہے یا نہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کسی نے اس کا ذکر بھی کیا ہو گا تو صرف زیب داستاں کے طور پر۔ یار لوگ تو ان کے اس جملے کو لے اڑے کہ ’’ میں مذہب چھوڑ سکتا ہوں زبان نہیں ‘‘۔ اس کا قدر پرپیگنڈا کیا گیا کہ ملّا صاحب کے دیگر فنی معیارات اور تنقیدی امتیازات پر منوں مٹی ڈال دی گئی۔ حالانکہ ملّا صاحب کا نثری سرمایہ قلیل ا البضاعۃ اور مختصر ہوتے ہوئے بھی نہایت وقیع ہے ان کا یہ اختصار قطرے میں دجلے کا سماں پیدا کرتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے ادبی و فنی رویوں کا پتہ چلتا ہے بلکہ ان کی فکر کی ہمہ گیریت کا بھی احساس ہوتا ہے جو ان کے ہم عصر ناقدین میں خال خال ہی نظر آتی ہے۔

شبلی شعر العجم میں فلسفۂ شاعری اور اس کی غایت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’کلام کی غرض و غایت صرف سامعین کو محظوظ کرنا نہیں بلکہ عدل کی سفارت اور پیغمبری ہے۔ کلام کی خوبی سچائی پر موقوف ہے ‘‘۔

آگے وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں :

’’شریفانہ اخلاق پیدا کرنے کا شاعری سے بہتر اور کوئی آلہ نہیں ہو سکتا‘‘۔

پنڈت آنند نرائن ملا نے اس بات کو مزید بہتر انداز میں پیش کیا ہے وہ کہتے ہیں :

’’میں شاعر کو صرف فنکار نہیں سمجھتا بلکہ دانائے راز اور پیغمبر بھی سمجھتا ہوں۔ میرے نزدیک کوئی شاعر یا افسانہ نگار نوعِ انساں سے بے پناہ محبت کئے بغیر عظیم نہیں ہو سکتا اور نہ ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے ‘‘۔

شعر و ادب کو فطرت اور قدرت کی تجلیات کا آئینہ کہا جاتا ہے بالخصوص شاعری انسان کے داخلی شعور و وجدان اور اس کے خارجی حرکات وسکنات کا عکاس تسلیم کیا جاتا ہے۔ شعر و ادب کی رست و خیز آفریدہ کائنات سے نا آفریدہ کائنات تک ہوتی ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور بھی ہے اور دعوت فکر بھی دیتی ہے کہ جو شعر و ادب عالم موجودات سے عالم امکانات پر کمندیں ڈالنے کے ساتھ ساتھ انسانی اذہان و قلوب کو مسخر کرنے اور اسے مقاصد کائنات سے ہم آہنگ کرنے میں کلیدی رول ادا کرتا ہو اس کا مقصد محض حظ نفس نہیں ہو سکتا۔ ملّا صاحب اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’میرا اپنا عقیدہ تو یہی ہے کہ جس ادب میں ا انسانی درد کی آواز نہیں وہ زیادہ سے زیادہ ذہنی عیاشی کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ لیکن دل و دماغ کی تربیت نہیں کر سکتا‘‘۔

ملا صاحب نے تقریباً اسی بات کو اپنے شعر میں یوں کہا ہے ؎

اظہار درد و دل کا تھا اک نام شاعری

یارانِ بے خبر نے اسے فن بنا دیا

اور فن بھی کیسا جسے فن کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ در اصل ملّا صاحب نہایت خوبصورت اور حکمت کے ساتھ لوگوں کے دل و دماغ سے اس غلط فہمی کو دور کرنا چاہتے ہیں کہ مقصدیت اور اخلاقی قدروں کے اظہار سے شاعری بے جان اور سپاٹ ہو جاتی ہے اور غزل تغزل سے محروم۔ جیسا کہ ناقدین کا عام رجحان ہے مگر ملّا صاحب کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو شعری جمال و کمال اور تغزل پیغام کی ندرت، دل کشی اور اس کی اثر آفرینی میں ہوتا ہے، طرز بیان اور حسن بیان میں ہوتا ہے۔ زلفِ لب و رخسار اور تغافل یار طرحدار کا ذکر اگر استعاراتی نظام کو مربوط و مضبوط کرنے کے لئے کیا جائے تو ایک حد تک اسے گورا ا کیا جا سکتا ہے مگر یہ شعر و ادب کا مقصد ہے نہ اس کا مقام۔

اگر شعر میں حسن ہے، دلکشی ہے، لطافت ہے، تازگی ہے، تاثیر ہے، زندگی ہے، سوزدروں ہے، جذبے کی پاکیزگی ہے، حقیقت ہے، بصیرت ہے، حکمت اور نکتہ آفرینی ہے، خواہ اس میں قصۂ زلف و لب ورخسار، داستان دل بیمار اور حکایت حسن یار طرح دار ہو یا نہ ہو اسے سچا اور اچھا شعر کہا جائے گا۔ خواہ آپ اس کے لئے علامتی طور پر تغزل کے لفظ کا استعمال نہ کریں مگر اس میں تغزل بھی ہے اور فنی اور شعری جمالیات بھی۔ اس بات کو خود ملّا صاحب کے الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے :

’’کلام میں تاثیر خلوص سے پیدا ہوتی ہے اور عظمت، انسانی درد کی آواز شامل کرنے سے۔ وہی شاعر ادب عالیہ پیش کر سکتا ہے جس میں یہ دونوں باتیں موجود ہوں۔ ممکن ہے کہ غلط قدروں کو اپنا کر آج ہم دھوکا کھا جائیں اور کسی مصنوعی یا روایتی پینترے کو ہی شاعر کے کلام کا آئنہ دار سمجھ لیں لیکن اس فریب کا جادو زیادہ دنوں تک چلنے والا نہیں ‘‘۔

آگے وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :

’’میری رائے میں وہی ادب، ادب عالیہ کہلائے جانے کا مستحق ہے جو پائندہ انسانی قدروں کا حامل ہو۔ ۔ ۔ ۔ میں تو اس فنکار کو عظیم فنکار سمجھتا ہوں جو نوعِ انسانی کی اکائی بن کر انسانی درد و غم سہے اور اس غم کا مکمل علم اور احساس ہونے کے باوجود اس کی ذات میں اتنی لوچ اور اس کے فن میں اتنی سکت ہو کہ وہ اس زہر کو امرت سمجھ کر پی جائے۔ اپنے دل و دماغ کی معصومیت، تازگی اور حسن برقرار رکھے اور پھر دانائی کی چوٹیوں سے کل نوع انسانی کو جس میں گمراہ انسان بھی شامل ہوں، ایک طفل معصوم کے میٹھے اور سریلے بولوں میں پکارے اور منزل انسانیت کی طرف قدم بڑھانے کا پیغام دے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں شاعر کو پیغمبری ملتی ہے اور جہاں اس کا فن عروج پر پہنچتا ہے۔ میرے نزدیک انسانیت کے درد کا مداوا دل کی تہذیب و تربیت میں مضمر ہے نہ کہ ذہن کی بڑھتی ہوئی واقفیت میں، اور دل کی تہذیب و تربیت محبت سے ہو سکتی ہے، تشدد اور نفرت سے نہیں ‘‘۔

ملّا صاحب کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ وہ ادب کو ادب عالیہ کا مقام دے کر اس کے جو معیارات متعین کر رہے ہیں وہ وقت کی رائج قدروں سے مختلف ہی نہیں متصادم بھی ہیں مگر انہوں نے بلا خوف لومتہ لائم حق گوئی کا فریضہ انجام دیا اور اس بات کی قطعاً پروانہ کی کہ دنیا انہیں کس نظر سے دیکھ رہی ہے، ان کی آواز زسنی جا رہی ہے یا صدا بہ صحرا ثابت ہو رہی ہے۔ حق کا واشگاف اور علی الاعلان اظہار ان کی فطرت ثانیہ تھی۔ اس لئے وہ زندگی بھر ستائش اور صلے کی پروا کئے بغیر اپنی بات کہتے رہے۔ وہ خود فرماتے ہیں :

’’میری ادبی قدریں رائج قدروں سے بہت مختلف ہیں۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں صحیح ہوں اور خلاف رائے رکھنے والے غلط۔ ۔ ۔ اس دور کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ہم اپنا ذہن دوسروں کے حوالے کر دیتے ہیں اور جس نظریے کی اشاعت اور تبلیغ بہتر ہوتی ہے وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔ آج نقاد، نقاد کم ہیں Publicity Agentزیادہ‘‘۔

پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کو اردو کا ایسا نمائندہ شاعر، ادیب اور نقاد کہا جا سکتا ہے جس کی شخصیت، شاعری اور ادبی نظریات کے مابین کوئی خلیج اور کھائی نہیں ہے۔ انہوں نے اپنی شعری اور فکری راہیں خود متعین کی ہیں۔ انہوں نے ترقی پسندی کی ہاں میں ہاں ملائی نہ جدے دیت کو اپنے اوپر سوار ہونے دیا۔ جو کہا خوب سوچ سمجھ کر واضح دلائل اور مثبت بنیادوں پر کہا۔ ان کی فکر اور ان کے خیالات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر اس بات میں اختلاف کی قطعاً گنجائش نہیں ہے کہ ان کے نظریات ان کے اپنے ہیں، جس میں انفرادیت اور عظمت دونوں کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’میں ممکن ہے کہ اچھا شاعر نہ ہوں لیکن اس بات میں غالباً یہ شک نہیں کیا جائے گا کہ میری فکر میری ہے۔ میرا انداز میرا ہے، میری زبان میری ہے۔ وہ میرے اشعار ہوں یا میرے فیصلے، میری تحریر ہو یا میری تقریر۔ میں نے ان سب پر اپنی انفرادیت کی مہر لگا دی ہے۔ میں نے ہمیشہ ہر سوالِ زندگی کا حل خود سوچا ہے۔ لہٰذا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ادبی تخلیقات کو بھی میں اپنی ہی میزان پر تولنا چاہتا ہوں اور بازار کے بانٹوں سے کام لینا نہیں چاہتا۔ ‘‘۔

ملّا صاحب کے یہاں یہ صرف نظریاتی اصول نہیں ہیں بلکہ ان کی شاعری میں ان اصولوں کا عکس صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کی شاعری میں جمال فکر و نظر بھی ہے اور یک رنگیِ قول و عمل بھی۔ قدیم سے مثبت انحراف بھی اور جدید سے اختلاف بھی۔ لیکن اس انحراف اور اختلاف کے اسباب کیا ہیں ؟ اس کی وضاحت ان کی تنقیدی نظریات سے ہوتی ہے۔ وہ قدیم اور جدید کے درمیان کوئی رخنہ اور خلیج دیکھنا پسند نہیں کرتے، انہوں نے مغرب سے اکتساب فیض بھی کیا ہے مگر اپنی شرطوں اور اپنے اصولوں پر۔ انہوں نے ’’خذ ماصفا‘‘ اور ’’دع ماکدر‘‘ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مغرب کی بھی خوشہ چینی کی ہے اور مشرق کی بھی عطر بیزیوں سے بھی دل و دماغ کو معطر کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’نظریات کی ان آویزشوں سے ہٹ کر ادب کو پڑھنے کا ایک آسان طریقہ اور بھی ہے۔ سترہویں صدی کے ایک فرانسیسی نقاد لابروئے (La brayere)نے کہا تھا: ’’ جب تم کوئی کتاب پڑھو اور اس سے تمہاری روح میں بلندی، جرأت اور شرافت کے جذبات پیدا ہوں تو پھر اس کی خوبی جانچنے کے لئے کسی اور معیار کی حاجت نہیں ‘‘۔

ملّا صاحب نے لابروئے کے اصولی موقف میں ذہنِ صالح کی قید لگا کر لابروئے کے معیار کو نہ صرف وقیع اور معیاری بنا دیا بلکہ ادبی رویوں اور تنقیدی زاویوں میں صالحیت کو سب سے اہم ا اور بنیادی عنصر قرار دینے کی سعی بھی کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’میرے نزدیک اس معیار کو آج تین سو سال بعد بھی کسی پس و پیش کے بغیر قبول کیا جا سکتا ہے۔ ایک ذہن صالح ادب سے یہی تقاضا کرتا ہے جو ادب اسے یہ چیزیں دیتا ہے وہی اسے ذہنی اور جذباتی آسودگی بخشتا ہے ‘‘۔

مقطع میں پھر ایک سخن گسترانہ بات آ پڑی کہ لوگوں کی فطرت اور اس کی ذہنی آسودگی کے پیمانے الگ ہو سکتے ہیں۔ ہر شخص کا ادبی ذوق الگ ہوتا ہے۔ اس لئے ہر شخص اپنے ذوق اور اپنے معیار کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ کسے ادبی شہکار قرار دے اور کسے درخورِ اعتناء سمجھ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دے۔ آج کے دور میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں میرا جی کے جنسی تجربوں میں بھی روحانیت نظر آتی ہے۔ جیسے کہ حقانی القاسمی نے فیاض رفعت کی جنس زدگی کو سند توثیق عطا کرنے میں بڑی سخاوت سے کام لیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’فیاض رفعت چوں کہ ’شجر ممنوعہ‘ کے ذائقہ میں پوری دنیا کو شریک کرنا چاہتے ہیں اس لئے نقادوں نے انہیں جلا وطن کر دیا ہے۔ ان کی تحریروں سے انہیں جلوت میں تو ابکائی آنے لگتی ہے مگر وہی خلوت میں لذت بن جاتی ہے۔ فیاض رفعت کے تازہ افسانوی مجموعہ ’میرے حصہ کا زہر‘ میں جنس کا جس طرح واشگاف اور کھلم کھلا بیان ملتا ہے وہ شاید میرا جی کے یہاں بھی نہیں ہے۔ ان کے سارے افسانے زندگی کی سب سے بڑی حقیقت جسم اور جنس کے اردگرد چکر کاٹتے رہتے ہیں اور جنسی حسیات اور ادراکات کے حوالے سے وہ جو کچھ پیش کرتے ہیں وہ آج کے دور کا ہی نہیں ماقبل تاریخ کا بھی سب سے بڑا سچ ہے۔ جسم جو کہ ایک (Healing Power)ہیلنگ پاور ہے اس میں وہ شکتی ہے جو نہ کسی حکیم کے حبوب و  قروص میں ہے اور نہ ہی کسی دیا گرا میں۔ اگر جسم کی اس طاقتور لہر کے حوالے سے گفتگو کرنا گناہ ہے تو پھر ہم سب اپنے جسم کو پیدا ہوتے ہی کیوں نہ دفن کر دیں ‘‘۔

آگے وہ قاری سے سوالیہ انداز میں مخاطب ہوتے ہیں :

’’کوئی ہمیں یہ افسانے پڑھ کر بتائے کہ یہ افسانے برے کیوں ہیں ؟ کیا صرف اس لئے کہ اس میں جنس کا اور جسم کا بے حجابانہ اور واشگاف اظہار ہے یا اس میں روغن ملے ہوئے گلابی پستانوں کا ذکر ہے یا یہ افسانوی مجموعہ برجنڈا کی بلیو فلم کا پرنٹ نظر آتا ہے۔ اگر ان کی وجہ سے یہ افسانے برے ہیں کہ یہ کہنے دیجئے کہ ابھی ہم ذہنی طور پر بالغ نہیں ہوئے ہیں۔ جب کہ ہمارے ٹین ایجر ہم سے زیادہ بالغ اور ہم سے زیادہ جوان بن چکے ہیں ‘‘۔

(طوافِ دشت جنوں صفحہ ۲۷، ۲۸)

ظاہر سی بات ہے کہ جب ہم اپنے ٹین ایجر یا جوان ہوتی ہوئی نسل کو ادب کے نام پر اس قسم کا ادب پیش کریں گے تو ان میں قبل از وقت بلوغت کے آثار پیدا ہونے لازمی ہیں۔ حقانی القاسمی کا قلم اتنے پر ہی رکتا نظر نہیں آتا ہے بلکہ کچھ اور بھی گل کھلاتا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

’’ان کے افسانوں کے بارے میں کوئی کچھ بھی کہے، ہم نے کھلے ذہن اور کھلی آنکھوں کے ساتھ ان کے افسانے پڑھے ہیں تو ہم پر نئی کائنات منکشف ہوئی ہے۔ ایک ایسی کائنات جس میں صدیاں چکر کاٹنے کے بعد بھی ہم اس کی ماہیت سمجھنے سے قاصر رہے۔ یہ نئے ڈائمینشن کی بولڈ کہانیاں ہیں جو فیاض رفعت جیسا بولڈ افسانہ نگار ہی لکھ سکتا ہے۔ کوئی بزدل، خوف زدہ، غبی، سہماہوا تخلیق کار نہیں جو اصل قوت تخلیق سے بھی محروم ہے۔ (طوافِ دشتِ جنوں صفحہ ۲۸)

پنڈت آنند نرائن ملّا نے بالکل صحیح فرمایا تھا کہ سب کا ذوق ایک نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری نہیں کہ کوئی ادبی شہکار سب کو ذہنی آسودگی بخش سکے۔ گندگی اور غلاظت میں رہتے والوں کو غلاظت ہی پسند آئے گی۔ غلیظ فطرت لوگوں کو پاکیزہ ماحول کبھی بھی پسند نہیں آ سکتا۔ پسند تو چھوڑئیے وہ اس پاکیزہ ماحول کو بھی غلیظ بنانے پر کمر بستہ ہو جائیں گے۔ یہی وجہ ہے ملّا صاحب نے فرانسیسی نقاد لابرائے کے معیار ادب میں ذہن صالح کی شرط کا اضافہ کیا ہے جو ملّا صاحب کی ذہنی اور فکری کینواس کے توسع کا مظہر ہے۔

کچھ لوگ فحش نگاری، عریاں نویسی اور شہوت انگیز بیانیہ کو حقیقت نگاری سے تعبیر کرتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ یہ حقیقت نگاری نہیں فحاشی کا فروغ ہے۔ یہ بولڈ ذہنی نہیں بلکہ جنس زدگی، دماغی دیوالیہ پن اور غلیظ ذہن میں بھری غلاظت ہے جو ابل ابل کر باہر آ رہی ہے۔ حقیقت نگاری کے نام پر جس اباحیت اور ابتذال کی وکالت کی جا رہی ہے وہ در اصل فنکار کی اپنی جنسی محرومیوں کی ازالہ کی کوشش ہے جس سے وہ سماج اور معاشرے سے انتقام لینے کی کوشش کرتا ہے۔

اس میں سب سے مناسب اور متوازن فکر یہ ہے کہ جس حقیقت نگاری سے جنسی جذبات برانگیختہ ہوں، جذبات میں ہیجان برپا ہو اور برائی کے میلان اور رجحان میں اضافہ ہو اور حقیقت نگاری کا اصل مقصد پس پشت چلا جائے، اسے کبھی بھی ادب عالیہ کا درجہ نہیں دیا جا سکتا۔ خواہ پوری دنیا اسے ایک سر میں شہکار ادب قرار دیدے۔ گندگی، غلاظت اور تعفن زدہ موشگافیوں کو ادب عالیہ تو دور ادب کے کسی بھی زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ چند سطور کے بعد ملّا صاحب اس بات کی بھی وضاحت کرتے ہیں کہ ذہن صالح اور بیمار ذہن سے ان کی مراد کیا ہے ؟ فرماتے ہیں :

’’میں اس ذہن کو صالح قرار دیتا ہوں جو انسانیت کی ایک اکائی بن کر سوچتا ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ انسانی فطرت میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ تعلیم و تربیت سے نفس امّارہ پر قابو پا سکتی ہے، جو انسان کے مستقبل سے مایوس نہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ اس کرۂ ارض پر ایک ایسا نظام رائج ہو جس میں انسان آزادی، شادمانی اور امن کے ساتھ اپنی پسند کی اجتماعی اور انفرادی زندگی بسر کر سکے اور جس وقت تک یہ مقصد حاصل نہ ہو اس وقت تک اس نظام کو لانے کے لئے اپنی بساط بھر کوشش کرے۔ بیمار ذہن وہ ہے جس کے سامنے کوئی انسانی مقصد نہیں، جو صرف اپنی ذات میں محصور ہے اور جو وقتی لذت اور جنسی آسودگی کو زندگی کی سب سے اہم قدر سمجھتا ہے اور اسے یہ شکایت ہے کہ وہ جتنی آزادی سے اپنے لذت طلب تقاضوں کو پورا کرنا چاہتا ہے دنیا اسے اتنی آزادی کیوں نہیں دیتی‘‘۔

پھر حقیقت نگاری کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ادب میں حقیقت نگاری زندگی کا عکس پیش کرنا نہیں بلکہ زندگی کے راز بے نقاب کرنا ہے۔ اس میں پس منظر منظر سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ ۔ ۔ ۔ فنکار محض منظر نہیں دکھاتا بلکہ منظر کو آڑ بنا کر اپنا پیام سناتا ہے ‘‘۔

ملّا صاحب نے حقیقت نگاری کے ذیل میں ادب کے تعمیری اور مقصدی پہلو کو کس خوبصورتی اور اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کی داد نہ دینا یقیناً نا انصافی ہو گی۔ اس سلسلے میں حقانی القاسمی کے ’’شذرات‘‘ بھی ملاحظہ فرمائیں جو انہوں نے کہانی اور افسانے کے باب میں قلم بند کئے ہیں :

’’کہانی جب کرشن کی بانسری بن جاتی ہے تو کہانی کو معراج نصیب ہوتی ہے۔ جس کہانی میں کرشن کی بانسری نہ ہو وہ کہانی کہانی نہیں ہوتی۔ کہانی تو مدھو بن میں جنم لیتی ہے لکشمی کے مدور استنوں ( بھرے پرے پستانوں ) پر وشرام کرتی ہے ‘‘۔

شاید ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی، اس لئے وہ اس کی مزید وضاحت کرتے ہیں :

’’شاید استنوں سے لذت اور قوت کشید کرنے کا نام ہی کہانی ہے۔ اندر کی زعفرانی شراب بھی کہانی ہے اور محافے میں بیٹھی ہوئی حسین دلربا باقتالۂ عالم رقاصۂ فلک بھی۔

(طواف دشتِ جنوں صفحہ ۱۳)

میرے خیال میں اس کتاب کا نام ’’طوافِ دشتِ جنوں ‘‘ نہیں ’’رقصِ نارِ جہنم‘‘ ہونا چاہئے۔ کیوں کہ کتاب کا بڑا حصہ فحش نگاری، جنس زدگی اور عریاں نویسی اور بیمار ذہنیتوں کو سندِ توثیق عطا کرتا نظر آتا ہے۔ میرا خیال یہ ہے کہ یہ ادیب ہیں نہ ناقد بلکہ نیم حکیم خطرۂ جاں ہیں جو ’’شادی سے پہلے اور شادی کے بعد ایک بار ضرور ملیں ‘‘ کا بورڈ لگا کر ’’قوت مردانگی‘‘ کے حبوب و لبوب بیچ رہے ہیں جن کا کاروبار رات کے اندھیرے میں خوب پھلتا پھولتا ہے۔

ظہیر کیفی کی افسانہ نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے حقانی صاحب رقم طراز ہیں :

’’مسکوٹ‘‘ میں یوں تو ۱۷؍ افسانے ہیں مگر صرف دو افسانوں سے میرے قلب و نظر کا رشتہ استوار ہو سکا ہے۔ یہ دو افسانے اتنے سحر آفریں اور پر اثر ہیں کہ قاری اس کے طلسماتی سحر میں بندھ سا جاتا ہے۔ ان دو افسانوں میں کہانی کار نے اپنے مشاہدے کی وسعت اور اس کی شدت کو جس طرح فنی پیکر عطا کیا ہے اس کی داد نہ دینا کم ظرفی ہو گی‘‘۔ (طواف دشتِ جنوں، صفحہ ۳۵)

مگر یہ دو افسانے حقانی القاسمی کو کیوں پسند آئے۔ آگے کی سطور سے ان کے قلب و نظر کی ’’طہارت‘‘ کا اندازہ بخوبی کیا جا سکتا ہے کہ وہ ادب میں کس طرح کی ’’غلاظت‘‘ کو پسند فرماتے ہیں اور کن چیزوں سے ان کے قلب و نظر کا رشتہ استوار ہوتا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’یہ ان کی رنگین راتوں، پر شباب لمحوں، جوانی کی بے قابو لہروں کی کہانی سناتی ہے۔ یہ کہانی ہم کناریِ جاناں سے لطف اندوزی، نوشانوشی، جوش و شہوت، ولولۂ مباشرت، دہنِ صدف میں قطرۂ نسیاں کے لئے بیتاب گل اندام، یاسمین پیکروں کی زندگی اور ہنگامۂ صحبتِ طرفین کا بیان ہے۔ اس میں فرخندہ خووں اور خوگرانِ وصل کے ساغر لالہ رنگ کی مستیوں اور ترنگوں کو خوبصورتی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے ‘‘۔ (طوافِ دشتِ جنوں، صفحہ ۳۵۔ ۳۶)

یہ ادب ہے یا کسی بلیو فلم کا ٹریلر۔ انہوں نے کس خوبصورتی اور فنی چابکدستی کے ساتھ فحش، عریاں اور اباحیت زدہ کہانیوں کو تخلیقی بیانیہ قرار دے دیا ہے۔ اس میں انہیں ظہیر کیفیؔ کی ذہنی رفعتوں اور فنی عظمتوں کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے وہ فکشن کے ناقدین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان افسانوں کی سنجیدگی سے پڑھیں تاکہ وہ بھی اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔

اسی قسم کے تخلیقی بیانیہ اور حقیقت نگاری سے شعر و ادب کا وقار مجروح ہوتا ہے اور اس قسم کی بے سروپا تنقید تنقید کا اعتبار ختم کر دیتی ہے۔ ملّا صاحب نے اس قسم کے ادیبوں اور تنقید نگاروں پر نہایت خوبصورت اور مدلل انداز میں تبصرہ کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’انسان کے دل میں شیطان بھی ہے اور فرشتہ بھی لیکن یہ کس قسم کی حقیقت نگاری ہے جو دل میں جھانکتی ہے تو اسے شیطان ہی نظر آتا ہے۔ فرشتہ ہمیشہ کسی تاریک گوشے میں چھپا رہ جاتا ہے۔ دوزخ اور جنت دونوں کے دروازے ایک ہی کنجی سے کھلتے ہیں لیکن یہ فنکار ہمیشہ دوزخ کا ہی دروازہ کیوں کھولتے ہیں، کبھی بھول کر بھی جنت کا دروازہ کیوں نہیں کھولتے ‘‘۔

ملّا صاحب کی اس بات سے مجھے کلی اتفاق ہے کہ جب تک کوئی بڑا انسانی مقصد ذہن میں نہ ہو اس وقت تک حقیقت نگاری کو عریاں نگاری کی کثافت سے بچانا ممکن نہیں۔ انہوں نے جس وقت یہ بات کہی تھی اس وقت بھی بالکل سولہ آنے صحیح تھی اور آج بھی جبکہ فحاشی، ابتذال اور اباحیت کو نئے فنی اور ادبی زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے اتنی ہی بر محل اور حقیقت پر مبنی ہے بلکہ اس کی صحت اور صداقت کی اہمیت آج کچھ زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ممتاز شیریں جن کی وجہ سے ’’منٹو شناسی کی با وقار شروعات ‘‘ ہوئی۔ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہیں :

’’منٹو کے افسانے جنسی نفسیات کے مطالعے کے لئے بہت اچھا مواد فراہم کرتے ہیں ‘‘۔

ممتاز شیریں کی جنسی نفسیات "Sex Theory”کیا ہے۔ اس کی وضاحت خود ان کے الفاظ میں سنیے اور بتائیے کہ بلی تھیلے سے باہر آئی یا نہیں۔

’’فطری جبلّتوں کو جب بندشوں سے روکا جاتا ہے اور وہ بندشوں کو توڑ کر باہر نکل آتی ہیں تو جنسی زندگی میں افراتفری اور بے راہ روی پیدا ہو سکتی ہے۔ اخلاقی بندشوں نے انسان کو گناہ سے بچانے کے بجائے گناہ کی پستیوں میں دھکیل دیا ہے اور منٹو کا فطری انسان گمراہ اور گناہگار بن گیا ہے ‘‘۔

آج منٹو شناسی اور عصمت نوازی کا حال یہ ہے کہ کل تک جو ناقدین منٹو اور عصمت کے نام سے ناک بھوں چڑھاتے تھے آج وہی انہیں چادر عظمت مرحمت فرما رہے ہیں۔ ان کی اقدار شکنی، بے راہ روی اور فحش گوئی فنی ادبی اور جمالیاتی محاسن کے ساتھ پیش کر کے انہیں عظمتیں اور بلند یاں عطا کرنے کی مسلسل کوشش کی جا رہی ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ چند ایک کو چھوڑ کر زیادہ تر ناقدین ایک نئے قسم کی فحاشی، ابتذال اور اباحیت کو ادب کے نام سے پیش کر رہے ہیں۔

ملّا صاحب کی حقیقی فکر پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ بات بہت زور و شور کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ انہوں نے ہندوستان میں انتہائی نامساعد حالات میں اردو کی بقاء کی لڑائی بڑی جرأت، بے باکی اور بے جگری کے ساتھ لڑی مگر اکثر ناقدین فن اس بات کو انتہائی خوبصورتی کے ساتھ گول کر جاتے ہیں کہ انہوں نے یہ لڑائی کن کن محاذوں پر لڑی۔ وہ دیدہ و دانستہ اس حقیقت کو پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ ملّا صاحب نے سب سے اہم جنگ شعر و ادب کی صحت، پاکیزگی اور اردو کے تہذیبی،ا خلاقی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کے لئے لڑی تھی۔ ان کی نظر میں ادب کا جو ارفع و اعلیٰ مقام تھا ترقی پسند اور جدے دیت کے علمبردار بوجوہ اسے تہ تیغ کرنے کے پر آمادہ کمر بستہ تھے۔ حالی اور شبلی کے بعد اردو تنقید کو جو مردان کار میسر ہوئے سب کے اعصاب پر ترقی پسندی اور جدے دیت سوار تھی۔ اس لئے انہوں نے ملّاؔ کی فکر کو فریز ہی نہیں سیز بھی کر دیا۔ ملّا صاحب کو اس بات کا بخوبی ادراک تھا مگر انہوں نے محاذ جنگ سے قدم پیچھے نہیں کھینچے، نہ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا اور نہ کسی قسم کی مداہنت کو راہ دی۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا ذکر نہایت طمطراق سے کرتے ہیں۔ا پنے کلیات کے مقدمہ میں ’’ کچھ اپنے پڑھنے والوں ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں۔

’’اس دور کے بہت سے نقاد جب موجودہ ادب کا جائزہ لیتے ہیں اس وقت ان کے حافظے سے میرا نام اس طرح غائب ہو جاتا ہے جس طرح چینی نقشوں سے میک ماہن لائن Mac Mahan Line۔ بعض دوسرے نقاد نام تو لیتے ہیں لیکن چونکہ میری قدریں مختلف ہیں، وہ مجھے گمراہ سمجھتے ہیں ‘‘۔

اس کے بعد انہوں نے ڈاکٹر عبادت بریلوی کے اس تنقیدی رویے کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنی کتاب ’’جدید شاعری ’’ میں ان کی مشہور نظم‘‘ گمراہ مسافر ‘‘ پر تنقید کرتے ہوئے اختیار کیا تھا۔

’’ملّا صاحب کی اس نظم میں سماجی اور تاریخی شعور موجود ہے لیکن دولت کی ’’مساویانہ تقسیم‘‘ سے انہوں نے جو شکوہ کیا ہے وہاں کچھ جذباتیت آ گئی ہے اور یہ بات ملّا صاحب کی صرف اس نظم میں نہیں ہے بلکہ ان کی شاعری میں اکثر جگہ یہ کیفیت ملتی ہے کہ وہ کسی مخصوص نظام کے قائل نہیں ہوتے۔ وہ انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، محبت کا پیغام دیتے ہیں لیکن کسی مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے ‘‘۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی کے اس اقتباس کو پڑھ کر ہر شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب خود ترقی پسندی کے محبس میں قید ہیں۔ جہاں تک ملّا صاحب کی نظم میں جذباتیت کی بات ہے وہ بھی سراسر غلط ہے بلکہ مجھے تو ڈاکٹر صاحب کی اس عبارت میں جذباتیت کے ساتھ ساتھ جماعتی تعصب بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ کیوں کہ وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ’’وہ (ملّا صاحب ) انسانیت پرستی کی منزل تک پہنچنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں، محبت کا پیغام بھی دیتے ہیں لیکن کسی مخصوص نظام کا سہارا نہ لینے کی وجہ سے ایک واضح نقطۂ نظر کی کمی ان کے یہاں برابر محسوس ہوتی ہے ‘‘۔ ’’صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں ‘‘ کے مصداق ڈاکٹر صاحب معاملہ بین بین رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ واضح انداز میں یہ نہیں کہتے کہ چونکہ ملّا صاحب اشتراکیت پر یقین نہیں رکھتے، سرخ جھنڈے کو سلام نہیں کرتے، سرخ جنت کے خواب نہیں دیکھتے اس لئے ان کے یہاں واضح نقطۂ نظر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ آگے ملّا صاحب کے نظریات پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’وہ اپنے آپ کو ترقی پسند سمجھتے ہیں اور اس کا اظہار بھی کرتے ہیں لیکن ترقی پسندوں پر جگہ جگہ برستے بھی ہیں۔ وہ انسانیت کے تو قائل ہیں، لیکن ان نظریات کو اہمیت نہیں دیتے جن کے بطن سے انسانیت پرستی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ تضاد کی یہ کیفیت ملّا صاحب کی شاعری میں ضرور نظر آتی ہے۔ ویسے ان کی نظریں سماجی اور معاشرتی موضوعات کی گہرائیوں تک جاتی ہیں کیوں کہ وہ حالات کا صحیح شعور رکھتے ہیں۔ ‘‘

ملّا صاحب ڈاکٹر صاحب کی اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’ڈاکٹر صاحب کے اس اقتباس میں بہت سے مفروضات ہیں جو نگاہ استدلال کی تاب نہیں لا سکتے۔ ایک یہی لیجئے۔ ڈاکٹر صاحب کے نزدیک انسان دوستی کا واضح نقطۂ نظر کا ہونا یا نہ ہونا اس بات پر منحصر ہے کہ کوئی اشتراکیت پر ایمان لاتا ہے یا نہیں۔ مجھ میں اور چاہے جو بھی خامیاں ہوں لیکن میرے ذہن میں نہ تو کوئی الجھاؤ ہے اور نہ کہیں جالے لگے ہیں میں ڈاکٹر صاحب سے صرف یہ عرض کروں گا کہ انھوں نے مجھے سمجھنے کی کوشش نہیں کی ورنہ ان کو کوئی تضاد نظر نہیں آتا۔ وہ خود چوں کے اپنے نظریہ کا شکار ہیں لہٰذا وہ کسی اور نظریے کی تاب نہیں لا سکتے۔ میرے نزدیک کوئی سیاسی نظریہ انسانیت کی مکمل نمائندگی نہیں کر سکتا۔ اور انسانیت کی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے صرف اشتراکیت ہی ایک راستہ نہیں میرا یہ بھی عقیدہ ہے کہ کوئی بھی نظام جس کی تبلیغ تشدد اور نفرت سے کی جائے وہ انسانیت کی راہ میں رہزن ہے رہبر نہیں۔ اس نظریے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ اشتراکیت پر ایمان لائے بغیر کوئی شخص واضح نقطۂ نظر نہیں رکھتا کسی قدر تنگ دلی اور کم نظری ظاہر کرتا ہے۔ میں ڈاکٹر صاحب کو یقین دلاتا ہوں کہ بہت سے ہوش مند اور سلجھی ہوئی ذہنیت رکھنے والے انسان ایسے بھی ہیں جو لال جھنڈے کو سلامی نہیں دیتے ‘‘۔

یہی نہیں ملّا صاحب نے بقلم خود کے عنوان کے تحت علی الاعلان اشتراکیت سے اظہار بیزاری کیا ہے اور بالکل صاف الفاظ میں یہ بتایا ہے کہ ان کا اشتراکیت اور ترقی پسندی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ فرماتے ہیں :

’’مجھے یہ پڑھ کر یقیناً بڑی حیرت ہوئی کہ احتشام نے اشارتاً اور سرور نے صریحاً میرا شمار ترقی پسند شعرا میں کیا ہے۔ آخر میں ترقی پسند کس طرح سے ہو گیا؟ نہ تو میں مزدور کو فرشتۂ رحمت سمجھتا ہوں اور نہ مزدور راج کو قائم کرنے کے لیے کشت و خون کی ترغیب دینے ہی کو شاعری کا اصل مقصد قرار دیتا ہوں۔ رہ گئی انسانیت دوستی تو اب یہ بھی اس مخصوص حلقۂ ادب میں جس پر بمبئی کی مہر لگی ہے مشکوک نگاہوں سے دیکھی جانے لگی ہے۔ مستند ترقی پسند نظریہ اب اسے بھی ایک فریب سمجھتا ہے جیسے کسی بچے کو چاند دکھا کر اس کے سامنے سے مٹھائی کی طشتری غائب کر دینا‘‘۔

آل احمد سرور نے سماجی شعور کی جن اہم اور زندہ قدروں کے حوالے سے ملّا صاحب کو ترقی پسند شعرا میں شمار کرنے کی کوشش کی ہے، وہ ایک الگ موضوع بحث ہے جس کا جواب ملّا صاحب نے خود بہت ہی سخت لہجے میں دیا ہے مگر انہوں نے ملّا صاحب کی انسانیت نوازی اور انسان دوستی کے حوالے سے علامہ اقبال کو مطعون کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ قابل مذمت ہے۔ ادب کے ان شکاریوں کا یہ عجب حال ہے کہ وہ نئی نئی ترکیبیں اور اصطلاحات وضع کر کے ایک قسم کا ادبی ہانکا لگاتے ہیں اور شکار کو اپنے بنائے ہوئے گڈھے کی طرف لا کر اس طرح اس کا شکار کرتے ہیں کہ اس کو اس کا احساس بھی نہیں ہوتا کہ وہ شکاری کی زد پر ہے، وہ پہلے خوش فہمی کا شکار ہوتا ہے پھر قعر مذلت کا۔ انہوں نے علامہ اقبال کو بھی اس قسم کے ہتھکنڈے استعمال کر کے ترقی پسند ثابت کرنا چاہا مگر جب اس میں کامیاب نہ ہوئے تو ان کی فکر کو مطعون کرنے کے لیے نئے نئے فلسفیانہ زاویے اور فکری رویے دریافت کئے جانے لگے تاکہ انھیں شعر و ادب کے اس مقام بلند سے گھسیٹ کر نیچے لا سکیں جو ان جیسے ترقی پسندوں کو اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود حاصل نہیں ہو سکا۔ آل احمد سرور کے فکری شذرات ملاحظہ فرمائیں :

’’اقبال کے یہاں وطنیت سے مذہب کی طرف جو میلان ملتا ہے وہ قومی نقطۂ نظر سے بڑا مایوس کن ہے۔ اقبال کی وطنی شاعری میں بڑی دلکشی تھی۔ بڑا جوش اور جذبہ تھا، مگر یوروپ کے قیام نے انھیں قومیت کے تصور سے نکلنا سکھایا، انھیں بین الاقوامیت اور انسانیت کا پرستار بنایا۔ اقبال کے نزدیک آفاقیت سب سے بڑا نصب العین بن گئی، مگر اس آفاقیت کے لیے انھوں نے جو خد و خال لیے وہ مذہب سے لیے۔ اقبال کے لیے مذہب کی ظاہری رسوم سے زیادہ اس کی مذہبی تعلیم اہم ہے۔ مگر اس میں شک نہیں کہ اقبال کی مذہبی اصطلاحیں، ان کی مذہبی زبان اور ایک مذہبی تہذیب و تمدن سے وابستگی اس آفاقیت کو مجروح بھی کرتی ہے۔ ہندوستان کی قومی تحریک کے دوش بدوش ایک تحریک مسلمانوں کے مذہبی احیا کی بھی چل رہی تھی، ملّا جیسے انسانیت پرست جو مندر و مسجد دونوں سے بیزار ہیں اور انسان کی خدائی پر ایمان رکھتے ہیں، اقبال کی اس آفاقیت کو جب مذہبیت اور مذہبی تحریکوں میں گھرا ہوا دیکھتے ہیں تو وہ اقبال سے ہی بیزار ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ اقبال اور ملا دونوں میں انسان دوستی، جدید، ذہن اور سماجی شعور ملتا ہے۔ ملّا جو شروع میں اقبال کی طرح وطن کے پجاری تھے جب موجودہ دور میں وطنیت کے نام پر ہنگامے اور کشت و خون دیکھتے ہیں تو آزادی کی دیوی، جس کے جلووں کے لیے انھوں نے کتنی ہی راتیں تارے گن گن کر گزاری تھیں، اپنی معصومیت کھو بیٹھتی ہے۔ وہ اس آزادی کا خیر مقدم کرتے ہیں مگر خوش نہیں ہیں۔ ‘‘

دیکھئے سرور صاحب کو کتنی دور کی کوڑی لائے ہیں۔ کتنے زور دار انداز میں ہان کا لگایا ہے۔ پہلے اقبال کے یہاں وطنیت سے مذہب کی طرف میلان کا تذکرہ کیا پھر ان کی وطنی شاعری کی دلکشی کے قصیدے پڑھے۔ پھر ان کے قومیت کے تصور سے نکل کر بین الاقوامیت اور انسانیت کے پرستار بننے میں یوروپ کے قیام کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ بین الاقوامیت سے آفاقیت نے جنم لیا۔ پھر تان اس پر ٹوٹی کہ انھوں نے اس آفاقیت کے لیے جو خدوخال لیے وہ مذہب سے لیے۔ اور اقبال کا یہی وہ جرم ہے جسے نہ سرور صاحب بخشنا چاہتے ہیں اور نہ ان جیسے مذہب کے منکر، مذہبی اقدار سے الرجک اور مذہب کی اخلاقی و تہذیبی تعلیم کے دشمن ترقی پسند حضرات انھیں عالمی ادب میں کوئی مقام دینے کو تیار ہیں۔ حالانکہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ ساری خوبیاں جو اچھے شاعر میں ہونی چاہئے وہ علامہ اقبال کے یہاں بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں اور علامہ اقبال کی جس آفاقیت کو انھوں نے یوروپ کے سر منڈھنے کی کوشش کی ہے اس کا تعلق تو سدا سے مذہب سے ہی رہا ہے لیکن اقبال کی آفاقیت کو موردِ الزام ٹھہرانے کے لیے انھوں نے اس کے خدوخال مذہب سے اخذ کرنے کی بات کہی ہے تاکہ نزلہ اقبال کے ساتھ ساتھ مذہب اور مذہبی اقدار پر بھی گرایا جا سکے۔ کیونکہ اس بات میں کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا کہ آفاقیت کا تصور مذہب کی دین ہے کیونکہ ’’ سب انسان بنو آدم ہیں ‘‘ یہ مذہب کا تصور ہے۔ بحیثیت انسان گورے اور کالے میں کوئی تفریق نہیں، یہ بھی مذہبی تصور ہے۔ اور تصور ہی نہیں بلکہ اسلام نے اس پر باقاعدہ عمل بھی کر کے دکھایا۔ سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے یہ بھی مذہب ہی کی دین ہے۔ سب انسانوں کو سماج میں برابر کے حقوق حاصل ہیں، اور اس کے علاوہ دنیا میں جنتے اعلیٰ انسانی اقدار ہیں وہ سب مختلف مذاہب کی دین ہیں۔ لیکن آج کل کا چلن یہ ہے کہ مذہب کو انسانی زندگی سے بے دخل کرنے کے لیے نت نئی اصطلاحیں وضع کی جا رہی ہیں اور ان کا اس پر قدر پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے گویا کہ مذہب کا اس کا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ سب انسان کے خود ساختہ نظاموں کی دین ہیں۔ اور جہاں ان کی کوئی کوڑی بے ڈھب بیٹھی ہے وہاں وہ راست طریقہ چھوڑ کر ایسا طریقۂ کار استعمال کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یہاں آلِ احمد سرور ملّاؔ کو انسانیت پرست قرار دے کر مسجد اور مندر سے بیزار درشانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی یا وہ گوئی دیکھئے، وہ لکھتے ہیں ’’ وہ انسان کی خدائی پر ایمان رکھتے تھے ‘‘۔ ملّا کے حاشیۂ خیال میں بھی یہ بات کبھی نہ آئی ہو گی مگر ان کی جسارت دیکھئے کہ انھوں نے پنڈت آنند نرائن ملّا کی انسان دوستی کو ترقی پسندی کے دائرے میں لانے کے لئے کس فنکارانہ چابکدستی کا مظاہرہ کیا۔ چونکہ وہ حالی، اکبر اوراقبال سے متاثر ہیں اس لئے وہ بدرجۂ مجبوری اقبال کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے فکر اور فن دونوں کو مذہب اور مذہبی اقدار کے حوالے سے مطعون کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ ملّا نہ وطن کے خلاف تھے اور نہ مذہب اور مذہبی اقدار کے۔ ان کی مخالفت کا نشانہ مذہبی شدت پسندی اور مذہبی اوبام پرستی تھی۔ اس طرح وہ حب الوطنی اور دیش پریم کے خلاف بھی نہیں تھے۔ ہاں وہ ایسی وطن پرستی کے خلاف تھے جو بنی نوع آدم کو خانوں میں بانٹ کر حق و انصاف کی بات کہنے اور اس پر عمل کرنے سے روک دے۔ ہاں وہ اس مذہبیت کے خلاف تھے جس سے خوں ریزیاں جنم لیتی ہیں۔ ہاں وہ اس وطنیت سے آخری وقت تک برسر پیکار ہے جس نے ہندوستان کی سالمیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ ہاں وہ مذہبی شدت پسندی کے سبب ہونے والی اس خوں ریزی اور کشت و خون کے خلاف تھے جس کا مظاہرہ ۱۹۴۷ میں مذہب اور وطن کے اشتراک سے بر صغیر ہندو پاک میں کیا گیا۔

اور جہاں تک علامہ اقبال کی بات ہے وہ ایسی مذہبی شدت پسندی اور اوہام پرستی کے خلاف تھے جو چادرِ عظمتِ انسانیت کو چاک کر دے۔ انھوں نے نہاد صوفیوں کو بھی نشانہ بنایا اور ترکِ دنیا کی تعلیم دینے والی خانقاہیت کو بھی نہیں بخشا۔ انھوں نے کیپٹلزم کے مادہ پرستانہ نظریات اور مارکسزم کے ’’جبری اور غیر فطری مساوات‘‘ دونوں کو ہی غیر عادلانہ، نا قابل عمل اور انسانیت کے لیے سم قاتل قرار دے کر اس پر سخت تنقیدیں کیں۔ یہی سبب ہے کہ ترقی پسندوں کی نظر میں اقبال اور ملّا دونوں قابلِ گردن زدنی قرار پائے۔

پنڈت آنند نرائن ملّا کے نظریۂ شعر و ادب کو جاننے اور پرکھنے کے لیے یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ غزل کے سلسلے میں ان کی کیا رائے ہے کیونکہ غزل ہی وہ صنف سخن ہے جو ترقی پسندوں کی نظر میں سب سے زیادہ معتوب رہی ہے اور جسے ختم کرنے اور اسے اس کے منصب سے معز ول کرنے کی انھوں نے سب سے زیادہ کوشش کی ہے حالانکہ اس میں بھی انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ ملّا غزل کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے فرماتے ہیں :

’’غزل میں وہ خوبیاں ہیں جو اور کسی صنف سخن میں نہیں اور وہ لوگ جو اس پر اعتراض کرتے ہیں وہ خالی اردو زبان کی تاریخ ہی نہیں بلکہ اپنے ملک کی تہذیب و معاشرت بھی بھول جاتے ہیں۔ غزل اردو ادب کے جسم میں ریڑھ کی ہڈی ہے اور اردو زبان کے ہاتھ میں زندگی کی لکیر۔ اگر اردو نظم مٹا دی جائے تو یقیناً اردو ادب کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچے گا اور وہ اپنا مقام کھودے گا لیکن اگر غزل مٹا دی جائے تو اردو زبان ہی زندہ نہ بچ سکے گی۔ میرے نزدیک غزل ایک مشرب ہے، ایک تہذیب ہے، ایک صلح جو پیمانہ لبریز ہے، محض ایک مٹنے والی ادبی روایت نہیں۔ مجھے اس کا خوف کم ہے کہ کوئی اس صنف کو مٹاسکتا ہے کیونکہ ایک طرف اس میں گزری ہوئی صدیوں کے دھڑکتے ہوئے دل کی آواز ہے اور دوسری طرف اس کے رشتے عوام کے جذبات اور احساسات سے وابستہ ہو چکے ہیں لیکن یہ ڈر ضرور ہے کہ کوتاہ بیں نقادوں اور ان نقادوں کی نظر سے دیکھنے والے فنکاروں میں گھر کر یہ کہیں خود کشی نہ کر لے۔ غزل اردو زبان کا وہ ہدیۂ دوستی ہے جو اس نے اس ملک کے باقی سب زبانوں کو نذر کیا ہے ‘‘۔

میرا خیال ہے کہ اس پر کسی تبصرے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملّا صاحب نے یہاں بھی بغیر کسی لاگ لپٹ اور مروت کے ان ترقی پسندوں کے منہ پر طمانچہ جڑ دیا ہے جو غزل کو اس کی مذہبی، اخلاقی اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی علامت ہونے کی وجہ سے مٹا دینے کے درپے تھے۔

آخر میں ملّا صاحب جو اصولی بات تحریر کی ہے وہ یقیناً آبِ زریں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ وہ فرماتے ہیں :

’’شاید جو کچھ باتیں میں نے اوپر لکھی ہیں ان سے آپ کو میرا نظریۂ ادب سمجھنے میں مدد ملے گی۔ میرا یہ دعویٰ ہرگز نہیں ہے کہ بحیثیت شاعر میں اس مقام پر ہوں جو میں نے اپنے نظریہ میں ایک عظیم فنکار کو دیا ہے۔ لیکن میرا یہ عقیدہ ضرور ہے کہ صحیح راستے پر کچھ قدم آگے بڑھانا غلط منزل پر پہنچ جانے سے بہتر ہے۔ اگر آپ میرے نظریوں سے اتفاق کریں گے تو ممکن ہے کہ آپ یہ قبول کر لیں کہ میں اس گمرہی کے دور میں بھی غلط راستے پر گامزن نہیں ہوں۔ ‘‘

موجودہ دور کے بے سمت، بے نشان اور بے منزل ہندوستان میں پنڈت آنند نرائن ملّاؔ کی شعری وراثت، فنی بصیرت اور ہندوستانی پسِ منظر میں ٹھوس اور زندہ حقائق اور سچائیوں پر مبنی تمناؤں، آرزوؤں اور ان کے فکری و شعری سرمایے کو نشانِ منزل کے طور پر سامنے رکھا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

کتاب ’آنند نرائن ملاؔ : حیات اور فن‘ : مرتبہ: عزیز نبیؔل، آصف اعظمی کا ایک حصہ

تشکر: عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید