FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

حجرۂ دل

 

غزلیں

                ادا جعفری

 

جمع و ترتیب: اعجاز عبید

(برقی کتابوں کی  کتاب ’سفر باقی ہے‘ کی نئی شکل، جس میں محض غزلیں شامل ہیں)

 

 

 

 

ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے

آئے تو سہی بر سرِ الزام ہی آئے

 

حیران ہیں، لب بستہ ہیں، دلگیر ہیں غنچے

خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

 

لمحاتِ مسرت ہیں تصوّر سے گریزاں

یاد آئے ہیں جب بھی غم و آلام ہی آئے

 

تاروں سے سجالیں گے رہِ شہرِ تمنا

مقدور نہیں صبح، چلو شام ہی آئے

 

کیا راہ بدلنے کا گِلہ ہم سفروں سے

جِس رہ سے چلے تیرے درو بام ہی آئے

 

تھک ہار کے بیٹھے ہیں سرِ کُوئے تمنا

کام آئے تو پھر جذبۂ ناکام ہی آئے

 

باقی نہ رہے ساکھ، ادا دشتِ جنوں کی

دل میں اگر اندیشۂ انجام ہی آئے

٭٭٭

 

 

 

 

ہر شخص پریشان سا حیراں سا لگے ہے

سائے کو بھی دیکھوں تو گریزاں سا لگے ہے

 

کیا آس تھی دل کو کہ ابھی تک نہیں ٹوٹی

جھونکا بھی ہوا کا ہمیں مہماں سا لگے ہے

 

خوشبو کا یہ انداز بہاروں میں نہیں تھا

پردے میں صبا کے کوئی ارماں سا لگے ہے

 

سونپی گئی ہر دولتِ بیدار اسی کو

یہ دل جو ہمیں آج بھی ناداں سا لگے ہے

 

آنچل کا جو تھا رنگ وہ پلکوں پہ رچا ہے

صحرا میری آنکھوں کو گلستاں سا لگے ہے

 

پندار نے ہر بار نیا دیپ جلایا

جو چوٹ بھی کھائی ہے وہ احساں سا لگے ہے

 

ہر عہد نے لکھی ہے میرے غم کی کہانی

ہر شہر میرے خواب کا عنواں سا لگے ہے

 

تجھ کو بھی ادا جرأتِ گفتار ملی ہے

تو بھی تو مجھے حرفِ پریشاں سا لگے ہے

٭٭٭

 

 

 

یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں

دو چار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں

 

جلنا تو خیر چراغوں کا مقدر ہے ازل سے

یہ دل کے کنول ہیں کہ بجھے ہیں نہ جلے ہیں

 

تھے کتنے ستارے کہ سرِ شام ہی ڈوبے

ہنگامِ سحر کتنے ہی خورشید ڈھلے ہیں

 

جو جھیل گئے ہنس کے کڑی دھوپ کے تیور

تاروں کی خنک چھاؤں میں وہ لوگ جلے ہیں

 

اک شمع بجھائی تو کئی اور جلا لیں

ہم گردشِ دوراں سے بڑی چال چلے ہیں

٭٭٭

 

 

نہ غبار میں نہ گلاب میں مجھے دیکھنا

مرے درد کی تب تاب میں مجھے دیکھنا

 

کسی وقت شام ملال میں مجھے سوچنا

کبھی اپنے دل کی کتاب میں مجھے دیکھنا

 

اسی دل سے ہو کر گزر گئے کئی کارواں

کئی ہجرتوں کے عذاب میں مجھے دیکھنا

 

میں نا مل سکوں بھی تو کیا ہوا کہ فسانہ ہوں

نئ داستاں نئے باب میں مجھے دیکھنا

 

وہی ایک لمحہ دید کا تھا کہ رکا رہا

مرے روز و شب کے حساب میں مجھے دیکھنا

 

جو تڑپ تمہیں کسی آئینے میں نا مل سکے

تو پھر آئینے کے جواب میں مجھے دیکھنا

٭٭٭

 

 

 

 

یہی نہیں کہ زخم ِ جاں کو چارہ جُو ملا نہیں

یہ حال تھا کہ دل کو اسمِ آرزو ملا نہیں

 

ابھی تلک جو خواب تھے چراغ تھے گلاب تھے

وہ رہگزر کوئی نہ تھی کہ جس پہ تو ملا نہیں

 

تمام عمر کی مسافتوں کے بعد ہی کھلا

کبھی کبھی وہ پاس تھا جو چار سو ملا نہیں

 

وہ جیسے ایک خیال تھا جو زندگی پہ چھا گیا

رفاقتیں تھیں اور یوں کہ روبرو ملا نہیں

 

تمام آئینوں میں عکس تھے مری نگاہ کے

بھری نگر میں ایک بھی مجھے عدو ملا نہیں

 

وارثوں کے ہاتھ میں جو اک کتاب تھی ملی

کتاب میں جو حرف ہے ستارہ خُو ملا نہیں

 

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بکو لیے پھری

وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

٭٭٭

 

 

 

کمیاب ہے وفا تو بہانے تراش لوں

چہرے نئے ہیں شہر پرانے تراش لوں

 

نسبت میری جبیں* کو انہیں پتھروں سے ہے

مشکل نہ تھا کہ آئینہ خانے تراش لوں

 

اوڑھے رہوں میں جلتی ہوئی دھوپ کی ردا

اور موسموں کے گیت سہانے تراش لوں

 

شبنم سے رہگزارِ سحر کا پتا کروں

مٹی سے رنگ و بُو کے خزانے تراش لوں

 

نومید مجھ سے میرا خدا آج بھی نہ ہو

زخموں کے خال و خد سے زمانے تراش لوں

 

میں جو اسیر ہوں تو خود اپنی نگہ کی ہوں

دل کی خوشی کو لاکھ فسانے تراش لوں

 

شام و سحر سے دور زمانہ ملے، تو میں

اِس بے قرار جاں کے ٹھکانے تراش لوں

 

اِک خواب اور فصلِ بہاراں کے نام ادا

آ کر کہا ہے موجِ ہوا نے تراش لوں

٭٭٭

 

 

 

جب دل کی رہ گذر پر کوئی نقشِ پا نہ تھا

جینے کی آرزو تھی مگر حوصلہ نہ تھا

 

آگے حریم سے کوئی راستہ نہ تھا

اچھا ہوا کہ ساتھ کسی کو لیا نہ تھا

 

دامان چاک چاک گلوں کو بہانہ تھا

ورنہ نگاہ و دل میں کوئی فاصلہ نہ تھا

 

کچھ لوگ شرمسار ، خدا جانے کیوں ہوئے

ان سے تو روحِ عصر، ہمیں کچھ گلہ نہ تھا

 

جلتے رہے خیال، برستی رہی گھٹا

ہاں ناز آگہی تجھے کیا کچھ روا نہ تھا

 

سنسان دوپہر ہے، بڑا جی اداس ہے

کہنے کو ساتھ ساتھ ہمارے زمانہ تھا

 

ہر آرزو کا نام نہیں آبروئے جاں

ہر تشنہ لب جمال رخ ِ کربلا نہ تھا

 

آندھی میں برگِ گل کی زباں سے ادا ہوا

وہ راز جوکسی سے ابھی تک کہا نہ تھا

٭٭٭

 

 

 

کہتے ہیں کہ اب ہم سے خطا کار بہت ہیں

اک رسمِ وفا تھی سو وفادار بہت ہیں

 

لہجے کی کھنک ہو کہ نگاہوں کی صداقت

یوسف کے لیۓ مصر کے بازار بہت ہیں

 

کچھ زخم کی رنگ میں گل تر کی قریں تھے

کچھ نقش کہ ہیں نقش بہ دیوار، بہت ہیں

 

راہوں میں کوئی آبلہ پا اب نہیں ملتا

رستے میں مگر قافلہ سالار بہت ہیں

 

اک خواب کا احساں بھی اٹھائے نہیں اٹھتا

کیا کہیے کہ آسودہء آزار بہت ہیں

 

کیوں اہلِ وفا ! زحمت بیداد نگاہی

جینے کے لیۓ اور بھی آزار بہت ہیں

 

ہر جذبہ بے تاب کے احکام ہزاروں

ہر لمحہ بے خواب کے اصرار بہت ہیں

 

پلکوں تلک آ پہنچے نہ کرنوں کی تمازت

اب تک تو ادا آئینہ بردار بہت ہیں

٭٭٭

 

 

کیا جانیے کیوں اُداس تھی وہ

کب اتنی ادا شناس تھی وہ

 

ہر خواب سے بے طرح ہراساں

ہر خواب کے آس پاس تھی وہ

 

سرشاری شوق و بے نیازی

ہر رنگ میں خوش لباس تھی وہ

 

پیروں میں ہزار بیڑیاں تھیں

اور سرد و سمن کی آس تھی وہ

 

جیسے شب ہجر کی سحر ہو

کچھ ایسی ہی بے قیاس تھی وہ

 

چھیڑی تھی ادا نے آب بیتی

یوں جیسے خود اپنے پاس تھی وہ

٭٭٭

 

 

 

 

کوئی سنگِ راہ بھی چمک اُٹھا توستارۂ سحری کہا

میری رات بھی تیرے نام تھی اس کس نے تیرہ شبی کہا

 

میرے روز و شب بھی عجیب تھے نہ شمار تھا نہ حساب تھا

کبھی عمر بھر کی خبر نہ تھی کبھی ایک پل کو صدی کہا

 

مجھے جانتا بھی کوئی نہ تھا، میرے بے نیاز ترے سوا

نہ شکستِ دل نہ شکستِ جاں ، کہ تری خوشی کو خوشی کہا

 

کوئی یاد آ بھی گئی تو کیا، کوئی زخم کھل بھی اُٹھا تو کیا

جو صبا قریب سے ہو چلی، اسے منتوں کی گھڑی کہا

 

بھری دوپہر میں جو پاس تھی ، وہ ترے خیال کی چھاؤں تھی

کبھی شاخِ گُل سے مثال دی، کبھی اس کو سرو سہی کہا

 

کہیں سنگِ راہ کہیں سنگِ در،کہ میں پتھروں کے نگر میں ہوں

یہ نہیں کہ دل کو خبر نہ تھی،یہ بتا کہ منہ سے کبھی کہا

 

مرے حرف حرف کے ہاتھ میں سبھی آئنوں کی ہیں کرچیاں

جو زباں سے ہو نہ سکا ادا بہ حدودِ بے سُخنی کہا

٭٭٭

 

 

 

 

کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں

کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں

 

تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا

یوں جیسے میں کچھ رکھ کے بھول گئی ہوں

 

پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم

ہنسنے کو تیرے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں

 

تیرے لئے تقدیر میری جنبشِ آرزو

اور میں تیرا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں

 

صدیوں سے میرے پاؤں تلے جنتِ انساں

میں جنتِ انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں

 

دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرۂ خوں ہے

کس آس پہ اے سنگ سرِ راہ چلی ہوں

 

جس ہاتھ کی تقدیر نے گلشن کو سنوارا

اُس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں

 

قسمت کے کھلونے ہیں اُجالا یا اندھیرا

دل شعلۂ طلب تھا سو بہر حال جلی ہوں

٭٭٭

 

 

 

 

آخری ٹیس آزمانے کو

جی تو چاہا تھا مسکرانے کو

 

یاد اتنی بھی سخت جان تو نہیں

اک گھروندہ رہا ہے ڈھانے کو

 

سنگ ریزوں میں ڈھل گئے آنسو

لوگ ہنستے رہے دکھانے کو

 

زخم نغمہ بھی لو تو دیتا ہے

اک دیا رہ گیا جلانے کو

 

جلانے والے تو جل بجھے آخر

کون دیتا خبر زمانے کو

 

کتنے مجبور ہو گئے ہوں گے

ان کہی بات منہ پہ لانے کو

 

کھل کے ہنسنا تو سب کو آتا ہے

لوگ ترستے رہے اک بہانے کو

 

ریزہ ریزہ بکھر گیا انسان

دل کی ویرانیاں جتانے کو

 

حسرتوں کی پناہ گاہوں میں

کیا ٹھکانے ہیں سر چھپانے کو

 

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

 

آس کی بات ہو کہ سانس اداؔ

یہ کھلونے ہیں ٹوٹ جانے کو

٭٭

ہر ایک حرف آرزو کو داستاں کیے ہوئے

زمانہ ہو گیا ہے ان کو میہماں کیے ہوئے

 

سرور عیش تلخی حیات نے بھلا دیا

دل حزین ہے بے کسی کو ہجر جان کیے ہوئے

 

کلی کلی کو گلستان کیے ہوئے وہ آئیں گے

وہ آئیں گے کلی کلی کو گلستان کیے ہوئے

 

وہ آئیں گے تو آئیں گے جنون شوق ابھارنے

وہ جائیں گے تو جائیں گے تباہیاں کیے ہوئے

 

میں ان کی بھی نگاہ سے چھپا کے ان کو دیکھ لوں

کہ ان سے بھی ہے آج رشک بد گماں کیے ہوئے

٭٭٭

 

 

 

شاید ابھی ہے راکھ میں کوئی شرار بھی

کیوں ورنہ انتظار بھی ہے اضطرار بھی

 

دھیان آ گیا ہے مرگ دل نامراد کا

ملنے کو مل گیا ہے سکون بھی قرار بھی

 

اب ڈھونڈنے چلے ہو مسافر کو دوستو

حد نگاہ تک نہ رہا جب غبار بھی

 

اک راہ رک گئی تو ٹھٹھک کیوں گئی  ادا

آباد بستیاں ہیں پہاڑوں کے پار بھی

٭٭٭

 

 

 

ذکر اُن کا ا بھی ہو بھی نہ پایا ہے زباں سے

دل میں یہ اُجالے اُتر آئے ہیں کہاں سے

 

لوں سانس بھی آہستہ کہ یہ جائے ادب ہے

تحریر کروں اسمِ نبی ہدیۂ جاں سے

 

کرنیں سی چھٹک جائیں اسی حجرۂ دل میں

تُم ان کو پکارو تو حضور دل و جاں سے

 

ہر دور کی اُمید ہیں ہر عہد کا پیغام

پہچان ہے ان کی نہ زمیں سے نہ زماں سے

٭٭٭

ماخذ: مضراب ڈاٹ آرگ، شاعرات نمبر اور مختلف اردو فورمس

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید