FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

اکبر حمیدی کی نثری تخلیقات

 

 

                جمع و ترتیب: اعجاز عبید

ماخذ: ’جدید ادب‘، جرمنی اور ’عکاس‘ اسلام آباد، مدیر: ارشد خالد کے مختلف شماروں سے

 

 

 

                انشائیے

 

 

 

 

اشتہاروں بھری دیواریں

 

 

فارسی میں کہتے ہیں ’’مفت راچہ گفت‘‘ یعنی مفت میں اگر کوئی چیز ملتی ہے تو اس کے کیا ہی کہنے !غالب نے بھی کہا تھا ’’مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے۔‘‘

اشتہار اخبار میں دیں، میگزین میں دیں، ریڈیو، ٹی۔وی پر دیں ہر جگہ پیسے دینے پڑتے ہیں……لیکن ایک جگہ ایسی ہے جہاں جتنے اشتہار چاہیں دے دیں کوئی خرچہ نہیں مانگتا!

یہ جگہ شہروں کی دیواریں ہیں……جس شہر میں جائیں دیواریں طرح طرح کے اشتہاروں سے بھری نظر آئیں گی۔کچھ اشتہار تو کاغذ پر لکھے ہوتے ہیں اور کاغذ کا اشتہار دیوار پر چسپاں کر دیا جاتا ہے ……لیکن کچھ اشتہار براہِ راست دیوار پر لکھ دئیے جاتے ہیں ان اشتہاروں کے سانچے تیار کیے جاتے ہیں ا ور پھر ان سانچوں میں سیاہی بھر کر سانچہ دیوار پر اُلٹ دیا جاتا ہے یوں یہ سانچے کا اشتہار دیوار پر لکھا جاتا ہے۔یہ اشتہار کئی نوعیت کے ہوتے ہیں اور ان کی عبارات بھی مختلف ہوتی ہیں مگر ان کا چونکا دینے والا آہنگ ایک جیسا ہوتا ہے !! مثال کے طور پر……

’’بانجھ مردوں۔عورتوں کا شرطیہ علاج……آپ کے شہر میں درویش باوا کے پاس…………تشریف لائیں۔‘‘

’’آپ کی قسمت میں کیا لکھا ہے ؟ یہ جاننے کے لئے مشہور نجومی، پامسٹ……عبدالستار سے ملئے ……جو ستاروں کی گردش رفتار اور سمت کو جانتے ہیں۔‘‘

’’سیاسی قیدیوں کو فوراً رہا کیا جائے۔‘‘

’’ہاضمے کی درستی کے لئے پھکی……لکڑ پتھر ہضم……جو چاہیں بے دھڑک کھائیں۔‘‘

’’چشم کشا مرہم۔ لگاتے ہی چودہ طبق روشن ہو جائیں۔آزمائش شرط ہے۔‘‘

اس طرح کے اشتہار آپ کو برصغیر کے تمام شہروں کی دیواروں پر نظر آئیں گے۔

ان شہروں پر ہی کیا موقوف مجھے تو یہ دنیا ایک شہر ہی نظر آتی ہے۔آسمان اور زمین اس کی دیواریں دکھائی دیتے ہیں جن پر کسی نے اپنی فنکاری دکھانے کے لئے رات اور دن کے اشتہارچسپاں کر رکھے ہیں۔رات کے اشتہار پر چاند سورج ، ستارے ، اندھیری اور چاندنی راتیں یہ سب کیسی پُر معنی تحریریں ہیں۔

زمین کے اشتہار میں میدان، پہاڑ، سمندرا ور ان میں لکھی بے شمار لفظوں کی تحریریں اپنے اندر کیا کیا معنویت رکھتی ہیں۔ یہ جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ان تحریروں سے اشتہار دینے والے کو سوچا اور سمجھا جا سکتا ہے۔غالباً ان اشتہاروں کا بڑا مقصد بھی یہی ہے !

سچ پوچھئے تو یہ کائنات مجھے شہروں بھری ایک دنیا نظر آتی ہے جس کی دیواریں……سب دیواریں اشتہاروں سے بھری ہیں بلکہ خود انسان جہاں کہیں بھی ہے ……دیوار بن گیا ہے ……اور اس دیوار پر نظریوں، اعتقادوں، ملکوں ، قوموں، رنگوں، نسلوں، طبقوں، مشغلوں کے اشتہار چسپاں ہیں…………جو کئی طرح کے تضادات سے بھرے ہیں……اصل انسان تو ان اشتہاروں کے نیچے کہیں چُھپ گیا ہے ……غائب ہو گیا؟…………

جیسے ہماری دیواریں اشتہاروں تلے دَب کر نظروں سے اوجھل ہو گئی ہیں…………!!

٭٭٭

 

 

 

 

 

کامیابی کی دیوی

 

 

دیوی دیوتاؤں کا تعلق یوں تو یونانی متھالوجی سے ہے۔ مگر جس طرح یونانی ادویات ایک زمانے میں ہمارے ہاں بہت مقبول اور شاید مفید بھی رہیں اسی طر ح ایک وقت تھا کہ یونانی متھالوجی کے دیوی دیوتاؤں کا بھی ہمارے ادب میں بہت چرچا اور عمل دخل رہا۔ پھر ان دیوی دیوتاؤں کو علامتی رنگ دے دیا گیا۔ عشق کے دیوتا کیوپڈ اور دولت کی دیوی لکشمی کا ذکر ہم اکثر سنتے رہے۔ لکشمی دیوی تو خوش بختی کی علامت بن کر بھی ادب کو با ثروت بناتی رہی۔ اسی طرح ہم جیسے لوگوں نے دیوی کو مختلف طرح کی معنوی علامتیں دے کر ادب میں شامل رکھا۔ مثلاً کامیابی کے امیدواروں نے کامیابی کی دیوی کے خدوخال مرتب کر لیے اور اس کے انتظار میں عمریں بسر کر دیں!

ایک عرصے تک ہم بھی اس خیال میں رہے کہ کامیابی کی سُندر دیوی ایک روز ہمیں تلاش کرتی ہوئی خود ہی ہمارے پاس آئے گی اور چمکتے دمکتے موتیوں کی قیمتی مالا ہمارے گلے میں ڈال کر اپنی نہایت دلنشیں آواز میں کہے گی ’’حمیدی صاحب آپ کہاں چھپے بیٹھے تھے …………مَیں کب سے آپ کی تلاش میں ماری ماری پھر رہی تھی………… لیجیے مَیں زندگی کے عظیم میدانوں میں آپ کا سواگت کرتی ہیں‘‘!۔

ایک طویل عرصے تک ہم انہی سوچوں میں مگن اور دیوی جی کے دل میں اتر جانے والے محبت بھرے الفاظ کی مٹھاس سے لطف اندوز ہوتے رہے اور دیوی جی کے آنے کے دل خوش کُن منظر سے دل کو بہلاتے رہے اور انتظار کی گھڑیوں کو دیوی کے حسین تصور سے رنگین کرتے رہے …………مگر دیوی جی کو شاید ہمارے گھر کا راستہ نہیں مل رہا تھا۔ وجہ غالباً یہ ہوئی کہ ہماری گلی کی نمبر پلیٹ جس پر گلی نمبر32 لکھا تھا کرکٹ کھیلنے والے لونڈوں کی گیند کا شکار ہو گئی تھی!

ایک مدت تک گھر کے اندر دیوی جی کے انتظار میں بے چین ہو ہو کر ٹہلتے رہے۔ کان دروازے پر اور قدم زمین پر………… مگر آخر عالم بیقراری میں باہر کے دروازے کی طرف لپکے۔ گھر کا دروازہ کھولا اور باہر گلی میں جھانکا۔ وہاں عجیب منظر تھا جس نے ہمیں حیران کر دیا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ کامیابی کی سُندر دیوی ہمارے آس پاس کے گھروں پر دستک دہے رہی ہے اور لوگ تو جیسے پہلے سے ہی اسے خوش آمدید کہنے کے لیے دروازوں کے باہر کھڑے تھے۔ بلکہ بعض تو اس کی تلاش میں دوسری گلیوں میں بھی گھوم پھر آئے تھے۔ میں نے ذرا ہمت سے کام لیا اور دیوی جی کو مخاطب کر کے کہا ’’اے کامیابی اور عزت و شہرت کی دیوی ہم کب سے آپ کے انتظار میں گھر سے باہر ہیں۔ آئیے ہمارے ہاں بھی قدم رنجہ فرمائیے۔‘‘

تب دیوی جی مسکراتی ہوئی ہماری جانب بڑھیں مگر ایک کاغذ ہمارے ہاتھوں میں تھما کر ہنستی مسکراتی ہوئی واپس ہوئیں۔ حیران ہو کر پوچھا ’’ہم تو آپ کے ہاتھوں سے قیمتی موتیوں کی مالا کے امیدوار تھے۔ کامیابی اور عزت و شہرت کی خاطر ہم نے برسوں لہو پانی ایک کیا ہے۔ محنت اور مشقّت اٹھائی ہے۔ اب قیمتی موتیوں کی مالا پر ہمارا بھی حق ہے۔ آپ نے ہم سے کمتر درجے کے لوگوں کو مالا پہنائی ہے اور اب یہ کھُلی نا انصافی ہے ‘‘۔

کامیابی کی دیوی نے مسکراتی نظروں سے ہماری طرف دیکھا اور کہا…………’’اس دَور میں لہو پانی کو اور محنت مشقت کو کیش کروانے کی ضرورت ہے اور آپ نے اس پر توجہ نہیں دی۔‘‘! پھر کہا ’’اس کاغذ پر کچھ آسان نسخے درج ہیں انہیں استعمال کریں اور پھر قدرت کے کرشمے دیکھیں‘‘۔

سو ہم نے ان نسخوں پر غور کرنا شروع کیا۔ سب سے پہلے اپنی خاندانی وجاہت پر غور کیا جو وجاہت سے زیادہ شرافت نکلی اور یہ کوئی کارآمد چیز نہیں تھی۔ بس سیدھے سادے کسانوں کا خاندان تھا جو کام کرنے کو اہمیت دیتے ہیں۔ مہربان اور مشفق اساتذہ کی طرف دھیان گیا جنہوں نے ہمیں تربیت کیا تھا۔ سو یاد آیا کہ وُہ بھی ہمیشہ محنت کی عظمت پر ہی زور دیا کرتے تھے۔ پھر اخلاقیات میں اقبال کی دی ہوئی ’’خودی‘‘ پر نظر پڑی۔ پتہ چلا ہم نے اسے خواہ مخواہ سنبھا ل کر رکھا ہوا ہے۔ یہ تو بڑی مہنگی چیز ہے اور اس کے اچھے خاصے دام مل سکتے ہیں۔ بعض لوگوں نے تو اسے فروخت کر کے غریبی میں بھی اچھا خاصا نام پیدا کر رکھا ہے !

بس پھر کیا تھا ہم ساری صورتِ حال کو سمجھ گئے۔ جی ہی جی میں وہ سب ٹوٹکے اپنا لیے جو دوسروں کے لیے عزت و شہرت اور کامیابی و کامرانی کا باعث بن رہے تھے کہ ہمارے ہاں کی زیادہ تر کامیابیاں انہی ٹوٹکوں کی مرہونِ منت ہیں۔ کامیابی کی دیوی نے جاتے جاتے ہمیں جو نصیحت کی تھی وہ کاغذ پر لکھی ہوئی تھی ’’اِس دَور میں لہو پانی ایک کرنے کی بجائے لہو پانی کو کیش کروانے کی ضرورت ہے۔‘‘ سو ہم خاندانی شرافت، محنت کی عظمت، اقبال کی خودی اور ایسی ہی بہت سی قیمتی اشیا ریڑھی پر سجا کر گھر سے نکلے اور آواز لگائی۔

’’ہر شے ایک ایک روپے میں جو چاہو لے لو‘‘۔۔۔۔لیکن اس سے پہلے کہ کوئی گاہک ہماری طرف آتا ساری گلی دن کی روشنی کے باوجود ایسی غیر معمولی روشنی سے جگمگا اٹھی کہ آنکھیں چندھیا گئیں۔ حیران ہوئے کہ کیا ہونے والا ہے۔ سامنے دیکھا کہ کوئی دیوی ہیرے جواہرات کی مالائیں ہاتھوں میں لیے ہماری طرف نہایت سنجیدہ چہرے کے ساتھ آ رہی ہے۔ دیوی ہمارے قریب آ کر رُکی اور پھر بڑے جاہ و جلال کے ساتھ بولی۔

’’اکبر حمیدی صاحب…………آپ نے ہمارا انتظار نہ کیا اور کامیابی کی جھوٹی دیوی کے فریب میں آ گئے۔ محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور سچائی اور خود داری سے ہی ہمیشہ عزت حاصل ہوتی ہے (پھر ریڑھی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) ہٹائیے یہ کام آپ کے شایان شان نہیں‘‘ کامیابی کی دیوی نے پاؤں کی ایک ٹھوکر سے ریڑھی کو ایک طرف ہٹا دیا اور مسکراتے ہوئے کہا:۔’’حمیدی صاحب ہمارے آنے میں اکثر تھوڑی سی تاخیر ہو جایا کرتی ہے۔ مگر بھروسہ رکھیے ہم آپ کی طرف آ رہے ہیں…………آج نہیں تو کل‘‘!۔

اور پھر سورج دیس کی یہ شہزادی دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہو گئی۔ تب مجھے یہ شعر یاد آیا۔

میں کہتا ہوں آج وہ کہتی ہے کل

مجھے اندازہ ہوا کامیابی اُن لوگوں کے لیے ہے جو کل کا انتظار کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور آج کا شکار نہیں ہو جاتے !!

٭٭٭

 

 

دہشت گرد

 

 

 

گذشتہ کچھ عرصے سے مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے خلاف قومی اور بین الاقوامی طور پر دہشت گردی ہو رہی ہے !کئی ایک شہروں سے کلاشنکوفوں کے چلنے اور بموں کے دھماکوں کی آوازیں مَیں سنتا رہتا ہوں۔ سمندر پار سے بھی ایسی ہی خوفناک آوازیں میری سماعت کا حصّہ بن رہی ہیں۔ پھر پریس جس دہشت ناک انداز میں اس دہشت گردی کو پیش کرتا ہے وہ بجائے خود دہشت گردی سے کم نہیں ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے یہ سب کچھ اہمیت اور طاقت حاصل کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ ہر کوئی گویا اپنی اپنی آواز میں مجھے مخاطب کر رہا ہے کہ "ادھر دیکھو مَیں بھی ہوں ……..میری اہمیت اور طاقت کو تسلیم کرو۔”

لیکن کچھ عرصے سے وہ شعبے بھی جو بڑی خاموشی سے امن و امان کے ساتھ اپنا اپنا کام کیا کرتے تھے اب اپنے تیور بدل رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے وہ بھی بزورِ علم نہیں بلکہ بزور بازو اپنی اہمیت اور فضیلت مجھ سے منوانا چاہتے ہیں اور اپنی طرف بلکہ ان میں سے ہر کوئی اپنی ہی طرف مجھے متوجہ دیکھنا چاہتا ہے۔ پتہ نہیں انہیں اپنے بارے میں یہ احساس کیوں ہونے لگا ہے کہ میں انہیں غیر اہم سمجھ رہا ہوں۔ ان سب کی اہمیت تو ہمیشہ میرے دل میں موجود رہی ہے اور گاہے بگاہے جس خاموشی سے یہ شعبے کام کرتے چلے آ رہے ہیں اسی خاموشی سے میں ان کی اہمیت کو تسلیم کرتا چلا آ رہا ہوں۔ کچھ ایسا لگتا ہے وقت میں جو تیزی آ رہی ہے یہ سب بھی اس تیزی کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ چاہتے ہیں جلدی سے مرکز نگاہ بن جائیں۔ راتوں رات امیر بننے کا جو رجحان ہمارے تمام شعبوں میں نظر آ رہا ہے۔ شاید ایسا ہی رجحان ان شعبوں میں در آیا ہے اور یوں یہ راتوں رات مرکزِ نگاہ بن جانا چاہتے ہیں۔

مثلاً کچھ سالوں سے میں دیکھ رہا ہوں کہ دنیا بھر کے سائنسدان عجیب و غریب پیش گوئیاں کرنے لگے ہیں۔ کبھی سمندروں کے اُلٹ جانے کی خبر دیتے ہیں۔ کبھی قطب شمالی میں صدیوں سے منجمد برفوں کے میلوں انبار پگھل جانے کی اطلاع دیتے ہیں۔ کبھی درجۂ حرارت انتہائی زیادہ اور کبھی انتہائی کم ہو جانے کی فکر میں ڈالتے ہیں۔ کبھی کسی سیارے کی مخلوق کے زمین پر حملہ آور ہونے کی خبر فراہم کرتے ہیں۔ پھر اس خبر کو دہشت ناک بنانے کے لیے یہ بھی کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق اسلحہ سازی میں اہلِ زمین سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ گویا ان کے ہاتھوں اہلِ زمین کے بچ نکلنے کا کوئی امکان نہیں۔ وہ تو خدا بھلا کرے ان سیّاروں کی ان دیکھی مخلوقات کا جو فی الحال ہمارے سائنسدانوں کی دہشت گردی میں مددگار بننے کے لیے تیار نہیں ہوئیں۔ یوں بھی میرا خیال ہے اگر وہ لوگ ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں تو انہیں قوت آزمائی کے لیے زمین کا رُخ کرنے کی فرصت کہاں ملے گی…….. ہماری طرح وہ ایک دوسرے سے ہی فارغ نہیں ہو سکیں گے ……..اوّل خویش اور بعد درویش کی کہاوت وہ ضرور جانتے ہوں گے !۔

سیاّروں کی مخلوق سے ہمارے سائنسدان کچھ زیادہ پُر امید دکھائی نہیں دیتے کیونکہ گذشتہ نصف صدی سے ان کی راہ دیکھ دیکھ کر اب ان کی آنکھیں دھندلانے لگی ہیں۔ سو اس سال یعنی ۱۹۹۸ء کے وسط میں انہوں نے ایک نہایت خطرناک اور غیر ذمہ دار سیّارے کے حوالے سے عالمی سطح پر اس پیش گوئی کو پھیلا یا ہے کہ اسی نومبر میں ایک مہیب سیّارہ زمین سے ٹکرا جائے گا اور ہماری دنیا کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ وہ سیّارہ اپنے مدار سے نکل چکا ہے اور اب کا رُخِ روشن عین زمین کی طرف ہے۔ اس خبر میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے اور شاید اپنی کوئی مالی مطلب برآری کے لیے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکی صدر کلنٹن اس معاملے میں بڑی تشویش محسوس کر رہے ہیں۔ نیز انہوں نے ایک بڑی رقم سائنسدانوں کے لیے مختص کر دی ہے تاکہ وہ اس سیّارے کا رُخ کسی طرح زمین کی سمت سے ہٹا کر کسی اور طرف موڑ دیں۔ پھر اپنی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے اور یہ بتانے کے لیے کہ اب دنیا کی بقا کا انحصار صرف سائنسدانوں کی مہارت اور شبانہ روز محنت پر ہے۔ فرمایا کہ سائنسدان دن رات اس سّیارے کا رُخ تبدیل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔خدا کا شکر ہے کہ اس سیّارے نے بھی خلائی مخلوق کی طرح اپنی ذمہ داری محسوس کی اور سائنسدانوں کی دہشت گردی میں شریکِ کار نہیں ہوا۔!

دنیا کے دوسرے ممالک میں ان پیش گوئیوں کا خدا جانے کیا اثر ہوا مگر کم سے کم مجھ پر ان کا کوئی اثر نہیں ہوا کیونکہ میں بچپن سے ایسی پیش گوئیاں سننے اور ان کے بے نتیجہ ہونے کا تجربہ رکھتا ہوں۔ مجھے یاد ہے میرے بچپن میں چھوٹی چھوٹی پرچیاں تقسیم ہوتی تھیں جن پر لکھا ہوتا تھا "قیامت بس آنے ہی والی ہے۔ توبہ کر لو اور اچھے کام کرنا شروع کر دو۔ نیز اس پرچی کی پچاس پرچیاں لکھ کر آگے تقسیم کرو ورنہ کسی بڑی مصیبت میں مبتلا ہو جاؤ گے ” وغیرہ وغیرہ۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ ایسی پرچیوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے جس کے باعث ہمارے لوگوں نے سائنسدانوں کی پیش گوئی کو ایسی ہی ایک پرچی سے زیادہ اہمیت نہیں دی!

مَیں دیکھ رہا ہوں کہ کوئی بھی شعبہ مجھ سے نرمی اختیار نہیں کر رہا ہے ہر کوئی مجھے یہی کہتا دکھائی دیتا ہے کہ میری اور میری دنیا کی بقا صرف اس بات میں ہے کہ میں غیر مشروط طور پر اس کی اطاعت کرتا رہوں۔ مذہبی پنڈتوں کے ہاں میرے بچ نکلنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ وہ ایسے ایسے انداز میں بات کرتے ہیں کہ سُن کر دہشت طاری ہونے لگتی اگر اللہ میاں کے حُسن و احسان کی عادت سے مَیں ذاتی طور پر متعارف نہ ہوتا!

حکومتیں وطن دوستی کے حوالے سے مجھے ہمیشہ زیر بار رکھتی ہیں۔ یہ لوگ کلاشنکوفوں سے نہیں اپنے اختیارات کے ذریعے دہشت گردی کرتے ہیں کہ میرے لیے قربانیاں دینے اور ان کے لیے قربانیاں لینے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہے۔ ہر سال نئے نئے ٹیکس لگتے ہیں اور ساتھ ہدایت ملتی ہے کہ قوم قربانیاں دے۔ اب قربانیاں دے دے کر قوم کی حالت عید قربان کے دُنبے کی سی ہو چکی ہے ! میرے اپنے شعبے ادب میں یہ خیال عام ہو گیا ہے کہ لوگ ادبی ذوق سے بے بہرہ ہو گئے ہیں۔ اسی لیے وہ اعلیٰ انسانی قدروں سے محروم ہوتے جا رہے ہیں سوال یہ ہے کہ خود ادیبوں میں اعلیٰ انسانی قدریں کہاں تک نظر آتی ہیں جنہوں نے ادب پڑھا ہے اور ادب لکھا ہے !

میرے بچپن کے زمانے میں والدین بچوں کے سر پر سوار نہیں ہوتے تھے کہ انہیں لازماً سی۔ ایس۔ پی افسر۔ ڈاکٹر۔ انجینئر یا اس طرح کا کوئی اور مفید پیشہ ور آدمی بنانا ہے۔ اب اگر بچہ ٹیچر بننا چاہتا ہے تو والدین بضد ہیں کہ اسے ڈاکٹر۔ انجینئر یا سی۔ ایس۔ پی افسر قسم کی کوئی مخلوق بنا کر دم لیں گے۔ یوں والدین بچوں کے لیے کسی دہشت گرد سے کم نہیں اور جب اس قسم کی دہشت گردی کا پروردہ بچہ وہ کچھ بن جاتا ہے جو وہ نہیں بننا چاہتا تھا تب وہ پورے معاشرے کے لیے ایک بڑا دہشت گرد ثابت ہوتا ہے !

اب حالت یہ ہے کہ یہ دہشت گرد اپنے اپنے سکّوں میں مجھ سے باقاعدہ جگّاٹیکس وصول کرتے ہیں۔ میرے ذرا سے انکار پر وہ جاہل۔ کافر۔ باغی غدار کی کلاشنکوف تان لیتے ہیں !

میرا مزاج کچھ ایسا ہے اور غنیمت ہے کہ ایسا ہے کہ جب بھی ماحول حد سے زیادہ سنجیدہ ہونے لگے۔ میرے اندر سے غیر سنجیدگی کی ایک چھوٹی سی لہر اٹھتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے برف سے ڈھکے سنجیدگی کے بحرِ بیکراں پر حاوی ہو جاتی ہے جیسے بعض اوقات تازہ ہوا کا ایک آہستہ خرام جھونکا ہمارے پژمردہ چہرے کو شاداب کر دیتا ہے !

ایک روز وطنِ عزیز کے خراب اقتصادی حالات کا ذکر ہو رہا تھا۔ ماحول سنجیدگی کی برف تلے میلوں تک دبتا چلا جا رہا تھا۔ بعض حضرات رونی شکل بنا کر بڑی ہی کسمپرسی کے عالم میں دائیں بائیں دیکھ رہے تھے۔ شاید اس امید پر کہ کوئی انہیں اس برف زار سے نکالے کہ اچانک میرے اندر سے میری دوست لہر نے سر اُٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ لہر ایک دلکش مسکراہٹ کی طرح میرے چہرے پر ہی نہیں میرے رگ و پے میں بھی پھیل گئی۔ تب میں نے اپنے ایک شاعر دوست سے سنا ہوا قصّہ بیان کیا اور کہا "دوستو سیاچین کی برفوں تلے ہیرے جواہرات سے بھری ہوئی کانیں ہیں۔ جونہی کسی روز اوپر کی برف پگھل گئی یہ جواہرات بھری کانیں ہمارے دامن میں اپنے منہ کھول دیں گی۔ اس لیے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں "۔

یہ کہہ کر میں نے حاضرین کے چہروں کی طرف دیکھا۔ وہاں ہلکی ہلکی روشنی اتر رہی تھی کہ اچانک محفل میں سے ایک دہشت گرد نے سر نکالا اور بولا "حمیدی صاحب اگر برف پگھلی تو اس کے پانیوں کا رُخ کس طرف کو ہو گا”؟ میں نے صورتِ حال کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا اور میں اس دہشت گرد کی بدنیّتی کو بھی پوری طرح بھانپ چکا تھا اس لیے فوراً کہا "سمندر کی طرف” اور تب ایک طویل زور دار قہقہہ میرے ، حلق سے نکلا اور سنجیدگی کی منحوس سرد برف زار کو میلوں تک ٹکڑے ٹکڑے کرتا چلا گیا!!!

٭٭٭

 

 

علاج پرہیز سے بہتر ہے

 

 

میرا خیال ہے ہم میں سے میرے سوائے بہت ہی کم حضرات نے اس بیحد ضروری سوال پر غور کیا ہو گا کہ جب اللہ میاں نے ہمارے باپ دادا کے شانوں پر سر رکھ دیئے تھے تو پھر ہمارے شانوں پر سررکھنے اور ہمیں زیرِ بار کرنے کی بھلا کیا ضرورت تھی؟مجھے یقین ہے ہمارے شانوں پر سر رکھ کر اللہ میاں نے فضول خرچی یقیناً نہیں کی بلکہ ایک نہایت ضروری کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا ہے ۱ مجھ سے پہلے چند اور لوگوں نے بھی اس سوال پر غور کیا ہے اور سب کے سب ایک ہی نتیجے پر پہنچے ہیں مرزا غالبؔ نے تو نتیجے کا اعلان بھی کر دیا اور کہا

؎ بامن میا ویز اے پدر فرزنِد آدر رانگرد ہر کسی کہ شُد صاحب نظر مین بزرگان خِوش نکرد

یعنی اے میرے والد مجھ سے مت الجھ آذر کے بیٹے(حضرت ابراہیم)کو دیکھ جس نے باپ دادا کے د ین بت پرستی سے انکار کر دیا تھا۔ اور یہ اس لئے کہ جو کوئی بھی خود سوچنے سمجھنے لگتا ہے اسے باپ دادا کا دین اچھا نہیں لگتا۔ یوں غالبؔ نے باپ دادا کی اندھی پیروی کرنے سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ حقیقت میں کلیشے کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے ہمیں یہ کہا ہے کہ آپ بھی اپنے دماغ سے کام لیں اور جو خود سوچیں اور جس نتیجے پر پہنچیں اس پر عمل بھی کریں۔

خود مَیں بھی جب نظر جھکا کر اپنے سرکی طرف دیکھتا ہو ں تو سمجھ لیتا ہوں کہ مجھے الگ سے سر عطا کر کے اللہ میاں نے گویا مجھے یہ کہا ہے کہ اکبر حمیدی پچھلی باتیں (کلیشے ) پچھلے زمانوں کے ساتھ گئیں اب زمانہ آگے نکل آیا ہے اب تم نے نئے زمانوں کے ساتھ چلنا ہے اس لئے خود اپنے دماغ سے سوچنا ہے اور خود نتائج اخذ کرنے ہیں۔ ۱

حاضرین یہ سب کچھ مَیں اس لئے کہہ رہا ہوں تاکہ ایک بڑے کلیشے کی طرف آپ کو متوجہ کروں جواب بہت سال خوردہ ہو چکا ہے۔ ا س میں کبھی شاید تھوڑی بہت صداقت ہو گی مگر اب وقت ایک طویل ترقی کا سفر طے کر کے بہت آگے نکل آیا ہے۔ اب ہمیں ان کلیشوں پر نئے سرے سے غور کرنا ہو گا یہاں مَیں یہ بھی عرض کروں کہ مَیں پہلے بھی آپ کو اس طرف متوجہ کر چکا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اور متوجہ کرتا رہوں گا جب تک آپ متوجہ ہو نہیں جاتے۔

ڈاکٹر کے ہاں تو آنا جانا سب کا رہتا ہے۔ ایک مرتبہ مَیں ڈاکٹر کی انتظار گاہ میں بیٹھا تھا کہ اچانک میری نظر سامنے لگے ہوئے اس کلینڈر پر پڑی جس پر کوئی پچیس تیس بیماریاں اور ان کی علامتیں لکھی تھیں۔ انہیں پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ ان میں سے ہر بیماری مجھے لاحق ہے کہ ہر ایک کی علامت مجھ میں موجود ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی بیماری بھی مجھے لاحق نہیں تھی مگر بیمار پڑ جانے کا ایک خوف سا کلیشے بن کر میری رگ رگ میں اترا ضرور تھا جو صدیوں کے نسلی کلیشے کا رنگ اختیار کر چکا تھا کہ ہم مشرقی اور ترقی پذیر ممالک کے لوگ خوف کے کلیشے میں بُری طرح مبتلا ہیں۔ وہ یہ ہے کہ ہم پر غمگین کیفیت کا شکار ہیں۔ موسیقی تک ہمیں وہ پسند ہے جو غمگین ہے۔ ہمیں کلیشے کی اس قسم پر بھی غور کرنا پڑے گا جس کی طرف کبھی ہمارا دھیان نہیں گیا۔

ان حالات میں مَیں نے ایک نعرہ تخلیق کیا ہے کہ پرہیز علاج سے بہتر کہنے کی بجائے یہ کہا جائے کہ علاج پرہیز سے بہتر ہے ’’ پرہیز علاج سے بہتر ہے ‘‘ میں خوف کا ایسا ہی کلیشے سانپ کی طرح کنڈلی مارے ہمارے خون میں چھپا بیٹھا ہے جو ہر آن اندر ہی اندر ہمیں ڈستا چلا آ رہا ہے۔ لہذا آج سے مَیں یہ کہوں گا کہ علاج پرہیز سے بہتر ہے اس میں ہمت کا اور حالات کا مقابلہ کرنے کا وہ جذبہ موجزن ہے جو انسان کی اصل قوت ہے ہمارے ایک دوست ہیں جو شوگر کے مریض ہیں مگر قلاقند کے مشتاق بھی ہیں ہمیں ایک مرتبہ انہیں قلاقند کے ڈبے میں سر ڈالے قلاقند سے لطف اندوز ہوتے دیکھا تو حیران ہو کر پوچھا کہ’’ انتظار بھائی شوگر کا مرض اور قلاقند کا شوق؟

انہوں نے کہا ’’اکبر بھائی بیمار ہونے کے خوف سے مَیں اپنا شوق کیوں کھو دوں۔ آخر دوائیاں سالی کس کام کے لئے ہیں ؟ اور ڈاکٹروں کا روز گار کیسے چلے گا؟ مَیں زندگی کے لطف اس خوف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لایعنی خوف کی نذر نہیں کر سکتا جو شاید ہی کبھی حملہ آور ہو’‘ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان پر شوگر شاید ہی کبھی حملہ آور ہوئی ہو۔ تو میرا نعرہ ہے علاج پرہیز سے بہتر ہے اور یقیناً بہتر ہے۔ کہ یہی نعرہ ہمیں خوف کے کلیشے سے نجات بخش سکتا ہے جس نے ہمیں مرنے سے پہلے ہی مار رکھا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر کیوں نہ زندوں کی طرح زندہ رہا جائے۔

٭٭٭

 

 

 

                خاکے

 

 

 

 

مت سہل ہمیں جانو

 

منشا یاد

 

جس طرح لاہور کے ساتھ شاہی قلعے ،انار کلی اور مینارِ پاکستان کا تصور وابستہ ہے اسی طرح اسلام آباد کا خیال آتے ہی ذہن میں منشا یاد آتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے ایک جملے کو اگر تھوڑا سا تبدیل کر لیا جائے تو میں کہوں گا اسلام آباد ایک چھوٹا سا منشا یاد ہے اور منشا یاد ایک بڑا اسلام آباد۔

منشا یاد پیشے کے لحاظ سے انجنیئر ہے اور ادب اس کی محبت ہے۔ آپ یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ تعمیر اس کا پیشہ ہے اور تخلیق اس کا شوق۔ اس نے ادب کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں ، مواقع ملنے کے باوجود مڈل ایسٹ وغیرہ محض اس خیال سے نہیں گیا کہ وہ ادب اور ادبی محفلوں سے دور ہو جائے گا۔ اس شہر کی داغ بیل ڈالنے اور تعمیر و ترقی میں اس کا خون پسینہ بھی شامل ہے۔ ۱۹۸۵ء کے آغاز میں وہ کالج آف ٹیکنالوجی رسول سے سول انجینئرنگ میں ڈپلوما حاصل کر کے شیخو پورہ سے راولپنڈی پہنچا۔ پھر کچھ عرصہ مری میں تعینات رہا مگر ایسا لگتا ہے جیسے اسے یہ سارے شہر ادھورے ادھورے سے لگنے لگے چنانچہ اس نے جلد ہی ان سب شہروں کو ملا کر اپنی پسند کا الگ شہر تعمیر کرنے کا ارادہ کر لیا۔ مئی ۱۹۶۰ء میں اس نے اس بے آب و گیاہ علاقے کا سروے شروع کر دیا جہاں اب ہرا بھرا اور سر سبز و شاداب اسلام آباد ہے۔ جونہی اس شہر کی کچھ صورت شکل بن گئی اس نے اس میں ادبی روح پھونکنے کی کوشش کی۔ شروع میں اس نے لکھنے والوں کی انجمن قائم کی پھر ۱۹۷۲ء میں حلقہ اربابِ ذوق کی بنیاد رکھی جس کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ابنِ انشا مرحوم نے خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اب اسلام آباد بھی ثقافت (اور ادب) سے آلودہ ہونے لگا ہے۔

گذشتہ پندرہ سال سے میں منشا یاد کے شب و روز اور اس کی زندگی کے ہر گوشے میں شریک ہو رہا ہوں۔وہ میرے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ اس نے کسی بھی شخص کے بارے میں دل کی کوئی بات کہنی ہو میرے سامنے بے دھڑک کہہ دیتا ہے۔ اس نے زندگی اور ادب میں موجودہ مقام تک پہنچنے کے لئے بڑی محنت کی ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے گذشتہ تیس برسوں میں اس نے یہاں کے ادیبوں شاعروں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور یہاں کے ادیبوں شاعروں نے اسے کتنی محبت لوٹائی ہے۔

۱۹۸۰ء میں جب میں اسلام آباد آیا تو سب سے پہلا شخص منشا یاد تھا جس نے مجھے یہاں مستقل طور پر ٹھہرنے کے لئے حوصلہ دیا۔ میں نے اسے اپنے مسائل بتائے اور اس نے ایک ایک کر کے سب کے حل بتا دئیے جیسے کوئی پڑھا کو بچہ ٹو کویں پہاڑے سنا دیتا ہے۔ اول اول میں سمجھا یہ حسنِ سلوک صرف مجھی سے ہے مگر پھر معلوم ہوا کہ یہ تواس کی "عادت” ہے کہ اس سے کوئی راہگیر راستہ پوچھے تو وہ اسے محض راستہ ہی نہیں بتاتا اکثر گھر تک پہنچا کر چھوڑتا ہے۔

منشا یاد اپنے محکمے کے مختلف شعبوں میں کام کرتا رہا ہے۔ کچھ عرصہ وہ پبلک ریلشینز آفیسر بھی رہا اور اس نے پبلک ریلیشننگ کے کچھ گر بھی سیکھ لئے بلکہ شاید اسے فلاح کا کام کہنا چاہئے کہ رائٹرز ہاؤسنگ سوسائٹی کو جو ۵۲ پلاٹ ملے اس میں سی ڈی اے کے سابق چئیرمین سید علی نواز گردیزی کے علاوہ منشا یاد کی مساعی بھی شامل تھیں۔ اسلام آباد میں ہر سال یوم آزادی کے موقع پر کل پاکستان مشاعروں کی طرح بھی اسی دور میں منشا یاد نے ڈالی۔ ان مشاعروں میں پڑھے جانے والے کلام کو با تصویر مجلوں کی صورت شائع بھی کیا۔

ریٹائر منٹ سے پہلے منشا یاد اپنے محکمے (دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے ) میں چیف کمپلینٹس آفیسر یعنی افسرِ اعلیٰ شکایات کے طور پر کام کر رہا تھا جو انجینئرنگ اور عوامی بہبود کی ملی جلی جاب ہے۔ اس کے بے تکلف احباب اس کا پنجابی ترجمہ "سب توں و ڈاشکایتی” بھی کرتے تھے لیکن منشا یاد شکایتیں کرتا نہیں سنتا اور دور کرتا تھا اور ایک ایسے ادارے کے اہلکاروں سے کام نکلوانا جس کے بارے میں انور مسعود نے اپنے دشمن کو بد دعا دی تھی "جا تجھے سی ڈی اسے سے کام پڑے ” کوئی آسان کام نہیں ہے۔

شروع میں میرا خیال تھا کہ منشا یاد کا خدمت کا وطیرہ پبلک ریلیشنگ کی غرض سے ہے لیکن کئی برس تک اسے قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ یہ تو اس کے خمیر میں رچا ہے اور یہ سلسلہ محض اپنے خاندان اور ادیب برادری تک محدود نہیں اس کے گاؤں تک پھیلا ہوا ہے کبھی وہ اکیلا شیخو پورہ سے آیا تھا اب اسلام آباد کے اندر ایک شیخوپورہ آباد ہو گیا ہے۔ وہ اپنے گاؤں کا پہلا لڑکا تھا جس نے پرائمری سے آگے تعلیم جاری رکھی طالبِ علمی کے زمانے میں ہی اس کی گاؤں میں بڑی عزت اور اہمیت تھی اور لکھنے پڑھنے کے ہر کام میں گاؤں والے اس سے مدد لیتے تھے۔ (اس کے گاؤں میں عام لوگ کم اور ڈاکو زیادہ تھے )مالیے آبیانے کی رسیدیں اور خط پڑھنے سے لے کر مقدموں کی تاریخیں اور بستہ ب کے بد معاشوں کو راہداریاں لکھ کر دینے تک سارے کام اس کے ذمے تھے۔ چنانچہ اس کی حیثیت ایک ہیرو کی سی تھی اور اب جب کبھی اس کی تصویر اخبار میں چھپتی ہے ،اس کے ڈرامے اور کبھی وہ خود گاؤں کی چوپال کے ٹی وی پر نظر آتا ہے ، وہ گاؤں سے دور رہتے ہوئے بھی گاؤں والوں کے دلوں کے اور قریب ہو گیا ہے۔

منشا یاد کا گھر، افسانہ منزل ،ادیبوں کے لئے ٹی ہاؤس ہے اور وہ خود چلتی پھرتی ادیبوں کی ڈائریکٹری۔ کبھی کبھی مجھے وہ حاتم طائی کی طرح لگتا ہے جو لوگوں کے سوالات پورے کرنے کے لئے گھر سے نکلا ہوا ہے۔ غالب نے کہا تھا:

سرمہ مفت نظر ہوں مری قیمت یہ ہے

کہ رہے چشم خریدار پہ احساں میرا

منشا یاد پر لے درجے کا شریف آدمی ہے یا شاید بزدل کہ ہر شریف اور سفید پوش آدمی اصل میں بزدل ہوتا ہے ، اس لئے افسانہ نگار لڑکیاں بے دھڑک اس سے ملتی ہیں جیسے وہ اس کی گہری سہیلیاں ہوں بعض تو ضرورت پڑنے پر اس سے ذاتی مسائل پر مشورے بھی لیتی ہیں۔ اس لئے فن کی پرستار لڑکیاں اس سے مل کر مزید اس کی پرستار بن جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ شعر کہنے والی نوجوان لڑکیاں بھی اصلاحِ سخن کی خاطر اس سے ملنا بہتر سمجھتی ہیں اور یہ تو آپ جانتے ہی ہوں گے کہ وہ ایک تائب شاعر ہے اور شاعری سے توبہ بھی ا س نے عین وقتِ شباب کر لی تھی۔ ادبی محفل کے اختتام پر لڑکیاں منشا یاد کی گاڑی تلاش کرتی ہیں اور منشا یاد بھی انہیں گھروں تک پہنچانے کو اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ صرف ایک دفعہ منشا کا کسی لڑکی سے رومان کا چرچا ہوا تھا مگر یہ لڑکی ادبی حلقوں سے باہر کی تھی، منشا یاد بھی خوش ہوا کہ اسے بھی یہ اعزاز حاصل ہو رہا ہے۔ مگر معلوم ہوا یہ با مراد منشا کوئی اور ہے۔

ان سب نرمیوں ، محبتوں اور بڑائیوں کے پیچھے منشا یاد کی مضبوط شخصیت کار فرما ہے وہ اکثر کہتا ہے کہ منشا یاد کی اپنی ایک شخصیت ہے اور وہ اس کو بحال رکھے گا۔ وہ دوسروں کے طعنے سہنے اور الزام سن کر بھی اپنے حسنِ سلوک میں کمی نہیں آنے دیتا۔ اسی طرح وہ کسی ادبی سیاست میں اپنی شخصیت کو گم نہیں ہونے دیتا۔ وہ ایک روشن خیال اور سائنٹیفک سوچ رکھنے والا نیک دل آدمی ہے اس کے رویے اور اس کی تحریریں انہی الفاظ کے گرد گھومتی ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد میں وہ غالباً واحد افسانہ نگار ہے جس کے بیک وقت احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا سے خوشگوار تعلقات ہیں اور وہ "فنون” "اوراق”دونوں جگہ وقار کے ساتھ چھپتا ہے۔اس کی امجد اسلام امجد اور عطا الحق قاسمی سے پرانی اور گہری دوستی ہے اور ڈاکٹر سلیم اختر اور انتظارحسین تو منشا یاد ہی سے مل لینا کافی سمجھتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ منشا یاد میں خوبصورت لڑکیوں والی کوئی خوبی ہے جو دوسروں کو اس کی طرف کھینچتی ہے۔ ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ہوں ، شمس الرحمان فاروقی، جو گندر پال، بلراج مین را، محمد علی صدیقی یا جمیل الدین عالی، منشا یاد کے سب لوگوں سے خوشگوار اور دوستانہ مراسم ہیں۔ بقول ضیا جالندھری صاحب منشا یاد میں سینس آف ڈپلومیسی بہت اعلیٰ درجے کی ہے۔

اس نے خود افسانے لکھے اور دوسروں کے لکھے ہوئے افسانوں کے انتخاب (انتھا لوجیز) بھی شائع کی ہیں۔ بہت سے ہلکے پھلکے طنزیہ مزاحیہ مضامین اور کالم اور ایک آدھ انشائیہ بھی لکھا ہے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے لئے بھی کئی ڈرامے لکھ چکا ہے اس کے ٹی وی سیریلز جنون،بندھن ،راہیں اور پورے چاند کی رات بھی بہت مقبول ہوئے۔ راہیں کو تو سال بھر کے بہترین سیریل کاپی ٹی وی نیشنل ایوارڈ بھی ملا۔ اس کا مطالعہ کافی وسیع ہے۔ فلسفہ، مذہب، سائنس، تاریخ، طب اور نفسیات تو خیر کم و بیش سبھی پڑھتے ہیں لیکن ایک روز اس نے بتایا کہ وہ در اوڑی زبان کے الفاظ اور سنسکرت زبان سے متعلق ایک کتاب پڑھ رہا ہے غالباً اسے ہندی اور گور مکھی پڑھنا بھی آتی ہو گی کہ اس کی بہت سی کہانیوں کے تراجم بھارتی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے گراموفون ریکارڈ سنائے جوکسی مرحومہ بائی کے گائے ہوئے گیتوں کے تھے ،۔ریکارڈ سن کر میں نے کہا منشا جی آپ کو معلوم ہے یہ بائی آپ کے دادا جان کی ہم عمر ہیں آپ کچھ خیال کریں۔ اس پر وہ مجھ سے لڑ پڑا۔

لتا منگیشکر کی آواز پر تو وہ باقاعدہ عاشق ہے شاید ہی لتا کی کوئی اچھی تصویر یا اچھا گیت ہو جو اس کے پاس موجود نہ ہو۔ اسلم سراج الدین جب بھی جدہ یا گوجرانوالہ سے اسلام آباد آتا ہے یہ دونوں گھنٹوں لتا اور روشن آرا کے کلاسیکی اور نیم کلاسیکی گیت سنتے رہتے ہیں۔ اکثر دونوں ایک دوسرے کو موسیقی کی کیسٹوں کے تحفے بھیجتے رہتے ہیں۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے ڈاکٹر وزیر آغا اور منشا یاد کے بارے میں میرا خیال ہے کہ وہ ہر مذہب میں تھوڑے تھوڑے شامل ہیں اور ہر مذہب سے تھوڑے تھوڑے باہر۔ بہر حال منشا یاد عیدین کی نماز بہت ہی اہتمام اور شوق سے پڑھتا ہے کہ بالکل ہی کافر نہ ہو جائے۔ منشا یاد کے پاس زندگی کا اتنا گہرا اور متنوع تجربہ ہے۔ اتنا وسیع مشاہدہ ہے کہ میں نے اکثر محسوس کیا کہ وہ کہانیوں سے لبالب افسانہ نگار ہے اور اس کے گودام کبھی خالی نہیں ہوتے۔ آج اردو کہانی اپنے کہانی پن کی وجہ سے جو دوبارہ مقبول ہونے لگی ہے تو اس میں سب سے بڑا حصہ منشا یاد کا ہے۔

دوستی کے لائق ہونا ایک غیر معمولی صفت ہے۔ ممکن ہے کوئی شخص بہت عالم فاضل ہو، دانشور ہو، بے مثال تخلیق کار ہو اور بہت شریف آدمی ہو لیکن ان سب باتوں کے باوجود یہ عین ممکن ہے وہ اچھا دوست ثابت نہ ہو سکے بلکہ اچھا دوست ثابت ہونے کی صلاحیت ہی سے محروم ہو لیکن اگر کسی شخص میں ایسی سب خوبیاں بھی ہوں اور وہ اچھا دوست بھی ثابت ہو سکتا ہو تو سمجھ لیجئے وہ منشا یاد ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

غازی انور سدید

 

معاصر ادب کا مرد میدان۔ جابر سلطانوں کے سامنے کلمہ حق کہنے والا دوستی میں سدید، دشمنی میں شدید، کسی کو موٹا اور کسی کو باریک کاٹنے والا۔ گفتگو میں سیدھا۔ تحریر میں سیدھا کر دینے والا محقق۔ نقاد، کالم نگار، شاعر، انشائیہ نگار، عصر حاضر کا سلطان محمود غزنوی، سومنات پر سترہویں حملے کی تیاری میں مصروف فاتح میدانِ ادب، غازی انور سدید میر ا آج کا موضوع ہے !!

شاعری کی زبان میں پہلوان سخن استاد امام بخش ناسخ کا ہم پایہ و ہمسایہ، مخالفوں کو بیچ میدان للکارنے والا مگر اس احتیاط کے ساتھ کہ صرف چھینٹے اڑیں زخم نہ لگیں۔ کسی نے کیا لکھا اس سے غرض نہیں مگر کسی نے کیا کیا، اس سے بے تعلق نہیں۔ عصری ادب سے پوری طرح آگاہ۔ ناشتے میں برصغیر کے روزناموں کے ادبی صفحوں کا حلوہ پوری۔ عصرانے میں دنیا بھر کے ادبی و نا ادبی رسائل کے چکڑ چھولے۔ عشائیے میں دیسی اور بدیسی کتب کے مرغان مسلّم سے مشق کام و دہن کرنے والا!!

کہتے ہیں کہ مرزا غالب رات سونے سے قبل بستر خواب پر لیٹے عالم سرخوشی میں فکرسخن کرتے تھے اور ہر شعر پر آزار بند میں گرہ دے لیتے تھے۔ صبح اٹھ کر شعر لکھتے جاتے تھے اور آزار بند کی گرہیں کھولتے جاتے تھے۔ ڈاکٹر انور سدید سونے سے قبل ہم عصر ادیبوں پر ’’فکر سخن‘‘ کرتے ہیں اور آزار بند کو گرہیں دیتے چلے جاتے ہیں۔ نماز فجر کے بعد ایک ایک گرہ کے عوض ایک ایک اخباری کالم لکھتے ہیں اور گرہیں کھولتے چلے جاتے ہیں۔ سنا ہے یہ گرہیں ان کے ’’ممدوحین‘‘ کے دلوں میں پڑتی رہتی ہیں !!

ہر بڑے آدمی کے اگر کچھ دوست ہوتے ہیں تو کچھ اختلاف رائے رکھنے والے بھی ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا سے اختلاف رائے رکھنے والے جب سامنے آنے لگے تو انور سدید نے دفاع کی ذمہ داری اپنے سر لے لی اور پھر اس ذمہ داری کو اپنے دوسرے ادبی کام کا حصہ بنا لیا۔ اس ضمن میں وہ خاصے ’’نیک نام ‘‘ بھی ہوئے مگر’’ کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا ‘‘سے بے تعلق ہو کر انہوں نے اس کام کو فرض منصبی کی طرح پورا کیا۔ بے شک انور سدید آغا جی کی حفاظت کا فریضہ احسن طور پر سر انجام دیتے رہے لیکن اگر وہ ایسا نہ کرتے تو آغا جی زیادہ محفوظ رہتے۔ ادھر حملہ آوروں کی ایک فوج ظفر فوج کالموں، رسالوں اور کتب سے لیس ہو کر برسرِ پیکار، ادھر انور سدید تن تنہا ہر محاذ پر نہ صرف دفاع کے لیے تیار بلکہ اکثر پیش قدمی و پیش دستی کرتے ہوئے اس نے دشمن کے علاقے کو تاخت و تاراج کیا۔ بعض نے ان سے متعلق زبان غیر میں شرح آرزو کی۔ بعض نے تلخ کلام ہو کر تھو ک دیا۔ بعض نے کہا اس نام ہی سے ان کی زبان پلید ہوتی ہے انور سدید نے صلہ و ستائش، نیک نامی و بدنامی سے بے نیاز ادبی سیاست اور صحافت میں اپنا کردار جاری رکھا۔

آج ڈاکٹر وزیر آغا اور انور سدید کی دوستی مشہور ہے مگر سچی بات یہ ہے کہ انور سدید نے اپنی شخصیت کی قیمت پر ڈاکٹر وزیر آغا کو خریدا ہے۔ گو بڑے مہنگے داموں خریدا ہے مگر وہ تو کہہ رہا ہے۔

ہر دو عالم قیمت خود گفتہ ای     نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

اس ادائیگی سے اکثر ڈاکٹر وزیر آغا کی قیمت ادا ہوتی ہے یا نہیں مگر شخصیت سے زیادہ کوئی اور کیا قیمت ادا کر سکتا ہے۔ سو جہاں مامتا وہاں ڈالڈا کی طرح جہاں ڈاکٹر وزیر آغا وہاں انور سدید بھی۔ اس رشتہ محبت کو کوئی بھی نام دے لیا جائے بہر حال اس زمانے میں اس کی مثال ملنی محال ضرور ہے۔ اگر ناممکن نہیں !!شخصیت کی قربانی شاید جان کی قربانی سے بھی مشکل ہے !!کوئی اسے ولن کی محبت کہنا چاہے تو کہہ لے آخر ولن بھی تو محبت ہی کرتا ہے۔ ہیرو تو بڑی باعزت محبت کرتا ہے اور محبوبہ کے علاوہ دوسروں کی واہ واہ بھی حاصل کر لیتا ہے۔ اپنے پلّے سے تو کچھ نہیں دیتا الٹا نیک نامیاں بٹورتا رہتا ہے۔ ولن تو اپنی ساری عزتیں اور نیک نامیاں داؤ پر لگا کر محبت کرتا ہے۔ (ایسی محبت سے محبوبہ کا کیا حال ہوتا ہے یہ ایک الگ مضمون ہے ) کچھ اس قسم کی خود سپردگی انور سدید کی محبت میں ہے۔ اس نے تو اپنے آپ کو اس محبت میں فرقہ ملا متیہ کا ایک فردبنا لیا ہے۔ وہ اس پر نادم بھی نہیں الٹا مطمئن ہے۔ مگر انور سدید نے ققنس کی طرح اس آگ میں جل کر ایک نئی زندگی بھی پائی ہے۔ وہ محض جلا ہی نہیں۔ زندہ بھی ہوا ہے !! اس نے صرف کھویا ہی نہیں پایا بھی ہے !!

محبت اور نفرت کی اس جنگ میں انور سدید نے بہت زخم کھائے ہیں اور اس کے جسم کا بہت سا خون بہہ گیا ہے۔ خون زیادہ بہہ جائے تو چہرے کی قدرتی چمک دمک تو بحال نہیں رہتی نا۔ اہمیت کے لحاظ سے اس بات کو کہاں لے جائیں کہ انور سدید نے اپنے آپ کو حرب و ضرب کے میدان میں منوایا ہے۔ سوزمانہ اس کی سپاہیانہ اور جنگ جویانہ صلاحیتوں کا تو معترف ہو گیا ہے مگر اس کی معرکۃ الآراء تنقید کو نظر انداز کر رہا ہے۔ جب ذرا وقت کی گرد بیٹھے گی تو نظر آئے گا کہ انور سدید کے ہاتھ میں سپاہی کی تلواریں نہیں ادیب کا قلم بھی ہے۔ وہ سر قلم ہی نہیں کرتا سرفراز بھی کرتا ہے۔ اس عہد کا کوئی بھی اخبار، رسالہ اٹھا کر دیکھ لیجئے اس میں آپ کو انور سدید کی جھلک ضرور ملے گی۔ ہر آدمی یہ سوچ سوچ کر دم بخود ہے کہ وہ اس قدر لکھنے کا وقت کہاں سے لاتا ہے۔ میرے خیال میں انور سدید کی گھڑی پر بارہ نہیں چوبیس بجتے ہیں۔ بارہ تو اس کے بجتے ہیں جس پر انور سدید کا کالم اخبار میں چھپتا ہے۔

انور سدید کی تمام تحریریں جمع کی جائیں تو اونٹ کا بوجھ بنے گا، کہتے ہیں بعض پرانے زمانوں کے بزرگوں کی کتب اونٹ کے بوجھ برابر تھیں۔ بہر حال ادب، ادیب اور ان کے مسائل پر اس دور میں ڈاکٹر انورسدید نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔ انور سدید کی بعض کتب تو اپنے زمانے کا منظر نامہ ہیں۔ ’’غالب کے خطوط‘‘، ’’اردو ادب کی تحریکیں ‘‘، ’’انشائیہ اردو ادب میں ‘‘جیسی کتب گواہ ہیں۔ انور سدید نے ایک مثبت انداز فکر رکھنے والے نقاد کی طرح جس صنف ادب پر لکھا ہے اسے پروجیکٹ کیا ہے۔ جب کہ ہمارے بعض نفسیاتی ناقدین نے جن اصناف ادب پر لکھا ہے انہیں بے وقار کر کے رکھ دیا ہے۔ ڈاکٹر انور سدید کی شخصیت بنیادی طور پر ایک مثبت انسان کی شخصیت ہے، مگر وہ جو شاعر نے کہا ہے کہ

ہم پہلے نرم پتوں کی ایک شاخ تھے مگر

کاٹے گئے ہیں اتنے کہ تلوار ہو گئے

رزم حق و باطل نے اس مرد آہن کو نہ صرف بظاہر منفی بنا دیا بلکہ متنازعہ بھی۔ ممکن تھا یہ مرد آہن ہمیشہ کے لیے اپنی آہنی زرہ میں غرق ہو جاتا اس نے وطن سے نکل کر کچھ ادبی سر فروشی ہی کے طور پر جانا پہچانا۔ یہ صورت حال انور سدید کے مخالفین کے لیے ابھی تک ایک لمحہ فکر یہ ہے !!

ڈاکٹر انور سدید کی زندگی کے اس خارجی رخ کا موازنہ جب انور سدید کی داخلی زندگی سے کیا جائے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آندھی اور طوفان قسم کا یہ شخص ذاتی زندگی میں یا اپنے حلقہ احباب میں خاموش، پر سکون، نرم مزاج، روادار، محبت کرنے والا، دوست قسم کا انسان ہے، وار کرنے اور وار سہنے دونوں صلاحیتوں سے بہر ور یہ مرد جری دونوں کے موقع محل کو بھی پہچانتا ہے۔ وہ بادوستاں مروت با دشمناں مدارت کا نہیں بلکہ اقبال کے اس شعر کا مثال ہے۔

ہو حلقۂ یاراں تو بریشم ی طرح نرم       رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن

انور سدید کو بات کہنے کا ہنر آتا ہے۔ انور سدید کی تحریروں کے بین السطور نہایت پر معنی بلکہ معنی خیز ہوتے ہیں۔ یہی معنی خیزی ان کے مخالفین کے لیے کیمیائی ہتھیاروں کی طرح ہلاکت آفریں ثابت ہوتی ہے !!

انور سدید کو پیشہ کے لحاظ سے انجینئر، کام کے لحاظ سے ادیب یا اہل قلم اور عادت کے اعتبار سے اہل سیف کہا جا سکتا ہے۔ یہ تینوں انور سدید کے مزاج کے تار و پود ہیں اورکسی نہ کسی صورت میں اپنا اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں !! ظاہری طور پر بھی وہ بلند، بھاری اور بے باک تیور کا آدمی نظر آتا ہے !!

بہر حال مجھے یقین ہے آنے والے زمانوں کے بے لحاظ ادبی مورخین کسی نہ کسی لحاظ سے انور سدید کا نام ضرور لیتے رہیں گے۔ نقاد اور تخلیق کار کے لحاظ سے بھی اور میدان ادب کے سرفروش غازی کے طور پر بھی!!

ادبی دنیا میں انور سدید کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک حیثیت قلمکار کی اور دوسری ڈاکٹر وزیر آغا کے دوست کی۔ برصغیر کے بہت سے لوگ وزیر آغا سے محبت کرتے ہیں لیکن انور سدید شاید پرستش کرتے ہیں۔ محبت میں سپردگی کی کیفیت ہوتی ہے مگر پرستش میں تو اپنی نفی کرنی پڑتی ہے۔ نفی ذات کی یہی وہ منزل ہے جو سب سے مشکل ہوتی ہے۔ انور سدید نے یہ منزل سر کر لی ہے اور ڈاکٹر وزیر آغا کی پرستش میں نفی ذات کے عمل سے گزر گئے ہیں۔ نفی ذات کا عمل ایک صوفی کے لیے تو آسان ہو سکتا ہے مگر کسی ادیب کے لیے نفی ذات کا عمل خود اپنے ہاتھوں اپنے آپ کو مار دینے کا عمل ہے۔ نفی ذات کا عمل ایک تخلیق کار کے لیے اس لیے بھی مشکل ہے کہ تخلیق کار کا تو سارا عمل ہی نفسیاتی طور پر اظہار ذات کا عمل ہے۔ اس میں نفیِ ذات کا تو کوئی خانہ ہی نہیں !!

اس نبرد عشق میں ان کے پاؤں ہی زخمی نہیں ہوئے بعض اوقات ہاتھ بھی خراب ہوئے ہیں مگر انور سدید نے کسی احساس ندامت کے تحت اپنے خراب ہاتھوں کو کبھی چھپایا نہیں بلکہ اظہار تفاخر کے طور پر اکثر ان کی نمائش کی ہے۔ عشق و محبت کی یہ ادا نفی ذات کے مراحل میں سے گزرنے کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس گئے گزرے اور نفسا نفسی کے زمانے میں ایثار کی ایسی مثالیں کہاں ملیں گی؟ ذرا سر زمین ادب پر نظر ڈال کر جواب دیجئے ! ؟ میرا خیال ہے آج کی ادبی دنیا میں اس مخلصانہ دوستی کی مثال نہیں ملتی۔ ادبی دنیا میں میں بڑے آدمیوں کی تو کوئی کمی نہیں مگر میں نظر اٹھا کر دیکھتا ہوں تو پورے ادبی منظر میں مجھے انور سدید جیسا چھوٹا آدمی ایک بھی نظر نہیں آتا جس کا دل اتنا بڑا ہوا۔

مجھے یقین ہے جب تک انور سدید جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اس وقت تک ہماری دوستی کی روایت بھی زندہ رہے گی اور دوستوں کے لیے معرکہ آرائی کی روایت بھی!!

ڈاکٹر انور سدید ایک فتح نصیب جرنیل ہے جسے بجا طور پر غازی انور سدید کے لقب سے یاد کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

ڈاکٹر وزیر آغا کچھ باتیں اور یادیں

 

 

ڈاکٹر وزیر آغا سے میرا تعلق محترم دوست ’’عارف عبد المتین صاحب’‘ کے ذریعے سے ہوا جو اس وقت رسالہ’’اوراق’‘ کے شریکِ مدیر تھے۔ تین چار سال تک رسالہ’’اوراق’‘ میں چھپنے کے بعد مجھے خیال آیا کہ اب آغا جی سے ملاقات بھی ہونی چاہئے۔ ان دنوں آغا جی لاہور کینٹ میں اپنی کوٹھی میں رہتے تھے چنانچہ آغا جی سے وقت لے کر مَیں وہاں پہنچ گیا۔ یہ اس سال کی بات ہے جب رسالہ افکار کراچی نے احمد ندیم قاسمی صاحب کے لیے ندیم نمبر شائع کیا تھا۔ مَیں آغا صاحب سے ملاقات کے لیے ان کی کوٹھی پہنچا۔ سردیوں کے دن تھے کوئی دس گیارہ بجے کا وقت تھا آغا جی کوٹھی کے لان میں ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کچھ کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں۔ اتفاق سے وہ اکیلے ہی تھے۔ میں گیا تو آغا جی نے کھڑے ہو کر میرا استقبال کیا۔ ان کے ہاتھوں میں افکار کا ندیم نمبر تھا جس میں میرا بھی ایک مضمون چھپا تھا۔ آغا جی نے مجھے دیکھتے ہی اشارہ کیا اور کہا کہ تشریف رکھیں پھر بو لے ندیم صاحب اس طرح کے آدمی نہیں ہیں جیسے آپ نے لکھا ہے مَیں نے انھیں مرزا غالبؔ سے موازنہ کیا تھا آغا جی نے کہا میں آپ ہی کا مضمون پڑھ رہا ہوں۔ اچھا ہے !پھر اور باتیں ہونے لگیں یوں اوراق سے وابستگی پختہ ہوئی اور پختہ تر ہوتی گئی۔ آغا جی کی شخصیت میں ایسی کوئی کشش تھی کہ جو کوئی ایک دفعہ ان کے حلقے میں آ جاتا پھر نکل نہ پاتا۔ وہ دوستیاں کرنا جانتے تھے اور نبھانا بھی۔

انشائیہ میں نے انیس سو اسی سے لکھنا شروع کیا۔ دو تین سال لکھنے کے بعدبیلنس پچیس انشائیے ہو گئے۔ میں نے آغا جی سے کہا کہ انشائیے تو ہو گئے ہیں کتاب چھپ سکتی ہے لیکن چھاپے گا کون۔ اس زمانے میں آغا جی نے اپنی کتابیں چھاپنے کے لیے مکتبہ اردو زبان کے نام سے ادارہ بنا رکھا تھا۔ میرے لکھنے کے بعد آغا جی نے جواب دیا آپ مسودہ بھیج دیں میں لکھ دو ں گا اور مکتبہ اردو زبان سے شائع بھی کروا دوں گا۔ چنانچہ میں نے مسودہ بھیج دیا۔ پھر مہینے ڈیڑھ بعد آغا جی اسلام آباد آئے، ان کی گاڑی میرے گھر کے سامنے آ کر رکی، تب میں میلوڈی کے قریب جی سکس ٹوکے سرکاری کوارٹر میں رہتا تھا۔ میں آغا جی کے انتظار میں تھا۔ جیسے ہی گاڑی رکی میں استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ آغا جی نے سب سے پہلے بایاں ہاتھ گاڑی سے باہر نکالا اُن کے ہاتھ میں کتاب تھی اور وہ میرے انشائیوں کا پہلا مجموعہ ’’جزیرے کا سفر’‘ تھا۔ گاڑی سے نکل کر مجموعہ مجھے پیش کیا اور کہا اس وقت اس سے بہتر تحفہ آپکے لیے اور کوئی نہیں ہوسکتا۔

جب آغا جی اکیلے ہوتے بڑے مزے مزے کی باتیں کرتے۔ ایک دفعہ میں ان کے ہاں وزیر کوٹ گیا ہوا تھا۔ ہم ڈرائنگ روم سے باہر سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ مَیں نے پوچھا اللہ میاں کیا ہے۔ آغا جی نے دونوں بازو آگے پھیلائے اور کہا یہ سب کچھ وہی ہے۔ آغا جی کی نظموں کا اتنا شور مچا کہ وہ غزل سے دور ہو گئے لیکن مجھے یقین ہے اور یہ یقین ان کی غزلیں پڑھ کر پیدا ہوا ہے کہ ان کی غزل ان کی نظم سے بہتر ہے۔ اب بھی ’’جدید ادب’‘ رسالہ میں آغا جی کی جو غزلیں چھپی ہیں وہ دیکھ کر یہ یقین اور بھی پختہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ غزل پر توجہ دیتے تو ان کی غزلیں اردو ادب کا عظیم سرمایہ ہوتیں لیکن ا ب بھی کچھ کم نہیں ہیں۔ آغا جی بڑے آدمی تھے مگر اپنے بڑے پن کا سایہ بھی دوستوں پر نہیں پڑنے دیتے تھے۔ وہ زندگی کے آخری دوسالوں سے لاہور ہی میں رہ رہے تھے میرا ا ن کا رابطہ ٹیلی فون پر مسلسل رہا۔ یا میں فون کر لیتا یا وہ۔ ایک دفعہ مَیں نے حال پوچھا تو بولے کوٹھی کے صحن میں چھڑی سے چہل قدمی کر لیتا ہوں اور یوں اپنی تین کلو میٹر کی واک پوری کر لیتا ہو۔ آخری دفعہ فو ن کیا تو جواب میں ان کے بیٹے سلیم آغا نے ٹیلی فون اٹینڈ کیا اور بتایا کہ آغا جی بہت بیمار ہیں۔ ہسپتال میں داخل ہیں۔ اگلے دن ٹی وی پر آغا جی کی وفات کی خبر دکھا دی گئی۔ یوں روشنی کا یہ مینار زمیں بوس ہو گیا لیکن اس کی روشنی ہمیشہ دلوں کو گرماتی رہے گی

ڈاکٹر وزیر آغا دوستوں کو تحفے بھیجتے۔ سال میں ایک دفعہ مالٹوں کا کریٹ ہر دوست کو بھجواتے۔ ایک دفعہ مجھے شہد کی بڑی بوتل بھیجی جو ان کے اپنے باغات کے چھتوں سے نکلی تھی۔ ایک دفعہ میرے موجودہ گھر میں آئے تو آتے ہی کہا اکبر صاحب آپ کے گھر کو آنے والے سبھی موڑ لیفٹ کے ہیں میں بات سمجھ گیا۔ مَیں نے کہا صرف ایک رائیٹ کا ہے۔ کہا نہیں وہ بھی رائٹ کا نہیں۔ مَیں حیران ہوا کہ آغا جی کیسی باتیں کر رہے ہیں شاید وہ اپنی شخصیت اور نظریات کی وضاحت کر رہے تھے۔ ان کی عادت تھی کہ وہ دوستوں سے باخبر رہتے۔ ان کی مزاج پرسی کرتے۔ میری آنکھ میں انفیکشن ہوا تو بطورِ خاص احوال پرسی کے لیے تشریف لائے۔ دوسروں کے گھروں میں جا جا کر ان کی عزت بڑھاتے۔ مجھے فخر ہے کہ میری کسی بات کو ٹالتے نہیں تھے۔ جب بھی کہیں بلایا تشریف لائے وہ جدیدیت کے علمبردار تھے۔ ایک دفعہ میں نے پوچھا جدیدیت کیا ہے بولے ترقی پسند نظریات سمیت موجودہ زمانے کی عکاس تحریک ہے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ ترقی پسند تحریک سے منکر نہیں بلکہ اس میں موجودہ زمانے کا اضافہ کر رہے ہیں۔ مجھے ہمیشہ اکبر صاحب یا اکبر حمیدی صاحب کہہ کر بلاتے۔ صرف حمیدی صاحب کبھی نہ کہا لیکن زیادہ تر اکبر صاحب ہی کہتے جو میرا ذاتی نام ہے۔ وہ بہت مرصع شخصیت کے مالک تھے لیکن سادگی کا لبادہ اوڑھے رکھتے۔ اسی درویشانہ روش اور عالمانہ شان سے انہوں نے زندگی گزار دی۔ ایسے لوگ جس ملک میں ہوں اس ملک کے لیے ‘ جس قوم میں ہوں اس قوم کے لیے ‘ فخر کا باعث ہوتے ہیں۔ ان میں زندہ رہنے کی بہت قوت تھی۔ اسی قوت کے بھروسے پر انہوں نے طویل زندگی بسر کی اور ساری زندگی فعال رہے۔ ان کا مشہور شعر ہے۔

دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا

سارا لہو بدن کا رواں مشتِ پر تھا

٭٭٭

 

خاورِ مشرق۔۔خاور اعجاز

 

 

مَیں کب سے خاور کو جانتا ہوں مجھے پتہ نہیں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ آپ نے گلاب کا پھول پہلی مرتبہ کب دیکھا تھا؟ اگر آپ بتا دیں تو میں بھی بتا دوں گا کہ خاور اعجاز کو مَیں کس روز سے یا کب سے جانتا ہوں۔مجھے تو اتنا یاد ہے کہ میری کسی کتاب کی تقریب میں اس نے میرے لیے ایک خوبصورت نظم لکھی تھی ویسی ہی خوبصورت نظم جیسا خوبصورت وہ خود ہے۔تب مجھے محسوس ہوا وہ میرا کچھ لگتا ہے۔تب میں نے اسے پہلی مرتبہ غور سے دیکھا اور اس کی مسکراتی ہوئی آنکھوں میں دوستی کی روشنی مجھے اپنے اندر کہیں اترتی ہوئی محسوس ہوئی۔ شاید یہ آج سے کوئی بیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ہاں میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ اس کا میرا تعلق براہِ راست ہوا کسی اور دوست کے وسیلے سے نہیں۔ پھر کبھی کبھی ہم ایک دوسرے سے ٹیلیفون پر لمبی لمبی باتیں کرنے لگے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے محسوس ہوا کہ خاور اعجاز میرا بہت قریبی اور قابلِ اعتماد دوست ہے حالانکہ وہ میرے ادبی نظریات اور اعتقادی اختلافات کو بھی جانتا ہے، حالانکہ اس دوران اس نے داڑھی بھی بڑھا لی ہے جو مجھے اس کے چہرے پر سجتی ہوئی نظر آتی ہے۔پھر بھی میں اسے اتنا جان گیا ہوں کہ وہ میری سب آوارہ خرامیوں کے باوجود میرا قابلِ اعتماد دوست ہے۔میں سمجھتا ہوں قابلِ اعتماد ہونا اس کی اخلاقیات کا حصہ ہے۔معقولیت اس کے مزاج میں داخل ہے۔مجھے نہیں معلوم وہ معروف معنوں میں کوئی نیک آدمی ہے یا نہیں اور نہ مجھے اس کی کبھی خواہش ہوئی ہے کہ خاور اعجاز یا میرا کوئی دوست نیک آدمی ہو، میرے لیے بس اس کا شریف آدمی ہونا بہت کافی ہے سو خاور اعجاز شریف آدمی ہے۔بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

مگر خاور اعجاز ایسا آدمی ہے جس کو انسان ہونا ہی نہیں ایک اچھا انسان ہونا بھی میسر ہے اور ایں سعادت بزورِ بازو نیست کہ اس میں عنایتِ الہٰی کا دخل زیادہ ہے۔ سو میں خاور اعجاز کے بارے میں یہ جانتا ہوں کہ وہ اسلام کی شاندار تعلیمات کا پیروکار ہے اس لیے اچھا انسان ہے۔بحیثیت دوست وہ کیسا ہے ؟ قابلِ اعتماد، راز دار، لحاظ دار، گفتگو اور برتاووں کی سمجھ رکھنے والا، دوستوں کے کام آنے والا، عمر اور منصب کا لحاظ رکھنے والا، اپنے آپے میں رہنے والا، دوستوں کو غور سے سننے والا اور ان کی خامیوں کو برداشت کرنے والا، دوستیاں نبھانے والا، صبر و سکون سے رہنے والا، اپنی اور دوسروں کی شخصیت کا خیال رکھنے والا، متحمل مزاج مگر گرم جوش، فعال مگر دھیما، بہت متوجہ مگر سنبھلا ہوا۔ بحیثیت مجموعی اس میں دوست بننے کی سب صلاحیتیں موجود ہیں۔میں نے اچھا انسان ہونے کو اچھا دوست بننے کے لائق قرار دیا تھا، ذاتی طور پر میرے دو معیار اور بھی ہیں کہ اچھا شاعر ہو، اچھا ادیب ہو یا اچھی گفتگو کرنے کی سمجھ رکھتا ہو۔خاور اعجاز میں یہ سب خوبیاں موجود ہیں۔

اس کی دوستی اگرچہ پکی ہے مگر شاید ابھی مجلسی ہے اور مجلسوں میں تو آدمی سوٹ اور ٹائی کے ساتھ آتا ہے اور بڑے رکھ رکھاؤ بگھارتا ہے، سو ہم دونوں ابھی تک ایک دوسرے سے بڑے رکھ رکھاؤ، بڑی محبت بلکہ شفقت سے پیش آ رہے ہیں۔وہ بھی محتاط ہے میں بھی محتاط۔وہ بھی مجھے جی جناب کہنے پر تُلا ہوا ہے میں بھی اسے پیار پوچہ دینے والا۔وہ میری طرف متوجہ میں اس کی طرف ہمہ تن گوش۔وہ میری طرف خوش اخلاق میں اس کی طرف۔لیکن میں یہ جان گیا ہوں کہ یہ سب باتیں اس کی عادتیں ہیں اور ابھی میں اس کی عادتوں کے خول توڑ کر اس کے اندر داخل نہیں ہو سکا، یہ میری کوتاہی ہے حالانکہ ان معاملات میں مَیں بہت جلد باز ہوں، یقین نہ آئے تو منشا یاد سے پوچھ لیں پھر بھی اعتبار نہ آئے تو آغا جی سے معلوم کر لیں۔اصل میں خاور اعجاز عادتوں کا اتنا سفید پوش ہے کہ میں ابھی تک اسے اپنے گندے مندے ہاتھ نہیں لگا سکا۔اب آپ نے یاد دلایا تو یاد آیا کہ مجھے اس پر کیچڑ بھرا پانی نہ سہی تھوڑا سا پانی پھینک کر تو دیکھنا چاہیے کہ وہ آگے سے کیا کرتا ہے لیکن میرا اندازہ ہے وہ اپنی عادت کے مطابق اپنی گول گول آنکھیں پوری کی پوری کھول کر مجھے دیکھے گا اور زیادہ سے زیادہ یہ کہے گا ’’حمیدی صاحب یہ کیا۔۔ اب میں دفتر کیسے جاؤں گا‘‘ مَیں نے ابھی تک اسے غصے میں نہیں دیکھا۔مجھے لگتا ہے کسی نے شاید ہی دیکھا ہو۔جس نے مرحوم ڈاکٹر بشیر سیفی سے دوستی پوری کی پوری نبھا دی ہو وہ بھلا غصے میں کب آیا ہو گا۔مجھے ایسا لگتا ہے اس کا حلقہ احباب توکس قدر وسیع ہے مگر وہ جو دوستی کا رشتہ ہوتا ہے وہ کہیں کہیں ہے اور میرا خیال ہے ایسا اس نے دانستہ کر رکھا ہے ورنہ جو شخص پیارے بشیر سیفی سے دوستی نبھا سکتا ہے اس میں نبھانے کی قوت کم کیسے ہو سکتی ہے۔یہ صلاحیت بلکہ یہ کارنامہ ہم دونوں نے کر رکھا ہے۔ڈاکٹر بشیر سیفی شوگر کوٹڈ دوائیوں کے برعکس تھا۔ اس کے اوپر کڑواہٹ تھی اور نیچے مٹھاس ہی مٹھاس۔بس اوپر کی کڑواہٹ کو جو کوئی برداشت کر لیتا وہ اس بحر شیریں تک پہنچ سکتا تھا جو دوسرے کو اپنے آپ میں جذب کر لینے کی مقناطیسی قوت رکھتا تھا۔یہ کام خاور اعجاز نے اور میں نے دونوں نے کر لیا تھا۔مجھ سے زیادہ خاور اعجاز نے جس سے ظاہر ہوتا ہے خاور اعجاز میں تلخیاں برداشت کرنے کی قوت عام لوگوں سے کہیں زیادہ ہے یا پھر اس میں زندگی کی شیرینیوں تک پہنچنے کی حوصلہ مندی زیادہ ہے۔

اب تک اس کی جو عادتیں میں نے دیکھی ہیں وہ ہیں محتاط، حوصلہ مند، سکیمیں بنانے والا، متواضع، گفتگو میں احتیاط کے باوجود اختلاف کرنے والا مگر اس پر اَڑ جانے والا نہیں، دوستوں کے حلقے کو وسیع رکھے والا، نظریات کو سر نہ چڑھانے والا بلکہ انسان کو سر آنکھوں پر بٹھانے والا۔میں اپنا اور اس کا موازنہ کرتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ میری اس کی عادتیں تقریباً نہیں ملتیں مگر پھر بھی اس نے مجھ پر محبت اور دوستی کی کمند ڈال رکھی ہے جس میں بخوشی گرفتار ہوں۔اصل میں اسے دوست بنانے کی عادت ہے اور میں تو ایسے لوگوں کو ڈھونڈتا ہوں جو مجھے کمند ڈال کر پکڑ لیں اور اپنا گرفتار کر لیں، سو خاور اعجاز نے مجھے کمند پھینک کر گرفتار کر رکھا ہے۔پتہ نہیں سوچ کر یا بِلا سوچے، اگر سوچتا تو مجھ ایسے پر کمند کیوں ڈالتا۔خاور اعجاز ! کیا تمہیں پتہ ہے کہ تم نے کمند کس پر ڈال رکھی ہے ؟؟ شاید نہیں۔۔مگر شاید ہاں ! ! ہاں اس لیے کہ وہ آنکھیں بند کر کے کوئی کام نہیں کرتا۔ یقیناً یہ کمند بھی اس نے آنکھیں کھول کر ڈال رکھی ہے اور اس سے مجھے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ایک خوبصورت، دوستوں کو اور خصوصاً مجھ ایسے کو برداشت کر لینے والے، ذہین شاعر اور قابلِ اعتماد ہاتھوں نے مجھ پر کمند ڈالی ہے۔ میں اس کمند کو اپنا زیور سمجھتا ہوں اور وجہِ عزت۔

کسی نے کہا تھا کہ جب کوئی چیز آنکھوں سے ذرا دور ہوتی ہے تو اس کی کشش کا اصل اندازہ ہوتا ہے۔گذشتہ تین برس سے وہ دفتری تبادلے میں بڑا بینک افسر بن کر پنڈی سے ملتان چلا گیا ہے۔تب سے مجھے کہیں اندر سے کسی خلا کا احساس ہونے لگا ہے۔کسی کمی کا احساس جیسے میری کوئی قیمتی چیز مجھ سے دور ہو گئی ہے جو میری رسائی میں تو ہے مگر ذرا مشکل رسائی میں۔وہ پنڈی میں تھا تو دل کو ڈھارس سی رہتی تھی۔اب جیسے پنڈی شہر میں بہت بڑا گھاؤ پڑ گیا ہے۔یوں تو پنڈی میں اور دوست بھی ہیں لیکن خاور اعجاز نہیں ہے جس سے میں دو دو گھنٹے ٹیلیفون پر گپ کر سکوں اور پھر بھی جی سیر نہ ہو۔گو اب بھی ہمارا ٹیلیفون پر یا ڈاک سے رابطہ بحال ہے مگر پھر بھی جیسے یہ رابطہ، رابطہ سا ہے۔ رابطہ نہیں ہے ! خاور اعجاز کیا تم جلد واپس نہیں آ سکتے ؟تمہارے بغیر میں اداس ہو گیا ہوں !!

خاور کی غزل بہتر سے بہتر یعنی خوب سے خوب تر کے مراحل سے گزر رہی ہے، اس کی غزل کی بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کے اشعار میں اس کی ذہانت بار بار متوجہ کرتی ہے۔وہ دل سے زیادہ دماغ سے شعر کہتا ہے مگر تھوڑی سی آنچ دل کی بھی دیتا ہے۔اس کی غزل پر لطف ہے ایک ذہین شاعر کی تخلیق۔مجھے معلوم ہے وہ کوفہ و بصرہ یا قرطبہ کا باسی نہیں پاکستان کا شہری ہے اور با شعور شہری ہے اور اس کا اظہار اس کی غزل سے ہوتا ہے۔وہ اکیسویں صدی کا کمپیوٹر چلانے والا ’’آج‘‘ کا آدمی ہے اور اس کا اظہار بھی اس کی غزل میں ہوتا ہے جو لطف دیتا ہے اور اس کی ذہانت کا غماز ہے اور یہ باتیں کچھ کم نہیں ہیں۔وہ گھر کے صحن میں بیٹھ کر ہی نہیں گھر کی چھت پر کھڑے ہو کر بھی غزل کہتا ہے۔ اس میں صفِ اول کی غزل کہنے کی پوری صلاحیت ہے۔ آج لکھی جانے والی غزلوں کے ہجوم میں بھی اس کی غزل اپنی پہچان کروا رہی ہے۔اگر میں اس کی غزل کو ایک لفظ میں بیان کرنا چاہوں تو وہ لفظ ہو گا۔۔۔ذہانت۔اور میں سمجھتا ہوں یہی وہ قرینہ ہے جس سے بڑی غزل کا آبِ حیات ٹپکتا ہے۔اس کی شاعری اس کی شخصیت کی آئینہ دار ہے اور یہ وہ خوبی ہے جو اوریجنل شاعروں میں ہوتی ہے ورنہ اکثر تو محض مضمون آفرینی سے ہی کام چلاتے ہیں۔ ان کے نزدیک مضمون پیدا کرنا ہی بڑا کام ہے خواہ وہ مضمون ان کی شخصیت، ان کے مزاج، ان کے نظریات سے لگا کھاتا ہو یا نہ کھاتا ہو۔خاور اعجاز کی شاعری اس کی شخصیت کی تصویریں پیش کرتی ہے اور ہم اس کی شاعری کے آئینے میں خود اسے جلوہ گر دیکھ سکتے ہیں، اس کے خد و خال سمیت۔میں سمجھتا ہوں یہ معمولی بات نہیں ہے، یہ خوبی بھی فی زمانہ بہت کم ہے جو خاور کی غزل میں موجود ہے۔شاعری میں غزل، نظم، ہائیکو پر خصوصاً اسے پوری طرح دسترس حاصل ہے۔ابھی ابھی اس کی غزل کا نیا مجموعہ آیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے کائنات کی گھمبیر اسراریت میں ایک بڑی جست لگائی ہے اور اس بے کنار جہانِ اسرار کے نئے دروازے کھول دیے ہیں۔مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پر اسرار دنیا کی سیاحت کرتے ہوئے بھی اس کی شخصیت اپنے پورے وجود کے ساتھ دکھائی دے رہی ہے۔اس نے اپنے آپ کو کائنات کی طلسمی اسراریت میں گم نہیں ہونے دیا بلکہ وہ اپنی روشن، چمکدار آنکھوں اور مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ مجھے صاف دکھائی دے رہا ہے۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے اس کی شخصیت اس طلسماتی پر اسرا کائنات میں گم ہونے والی نہیں ہے ! بڑی چیزیں چھوٹی چیزوں میں مدغم کیسے ہو سکتی ہیں !! میں بھی یہی چاہتا ہوں وہ جہاں بھی ہو مجھے نظر آتا رہے تا کہ میں اسے دیکھ دیکھ کر اپنے دل و دماغ کو روشن رکھ سکوں ! ! !

٭٭٭

ماخذ: جدید ادب، شمارہ ۱۱، مدیر: حیدر قریشی

کچھ متن کا حصول پنجند لائبریری کے وقاص سے حاصل ہوا

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید