FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

آدم کی کہانی، اقبال کی زبانی

 

 

                غلام احمد پرویز

یومِ اقبال ۱۹۵۴؁ء کی تقریر

 

 

 

 

 

 

اسلام سے پہلے تمام مذاہب میں تصوّر یہ تھا کی دنیا ایک جیل خانہ ہے جس میں انسان ایک بے کس و مجبور قیدی کی طرح زندگی کے دن کاٹ رہا ہے۔ ہندوؤں کا عقیدہ یہ تھا کہ انسان اپنے پچھلے جنم کے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے دنیا میں پابندِ سلاسل ہے۔ عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ ابنِ آدم اپنے اوّلیں ماں باپ، آدم و حوّا کے گناہ کی پاداش میں ماخوذ ہے۔ بدھ مت کے نزدیک انسان کی مصیبتوں کا راز اس کی آرزوؤں میں تھا اور اس مصیبت سے چھٹکارے کا علاج ترکِ آرزو۔ وید انت کی رُو سے انسان کی ہستی ہی ایک فریبِ تصوّر اور عالم تمام حلقۂ دامِ خیال تھا۔ قُرآن آیا اوراس نے سب سے پہلے یہ اعلان کیا کہ وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ (17/70) ہم نے ابنِ آدم کو واجب التکریم بنایا ہے۔ یہ مسجودِ ملائک اور مخدومِ خلائق ہے۔ کائنات کی پستیاں اور بلندیاں اس کے لیے مسخر کر دی گئی ہیں، یہ شاہکار ِ فطرت ہے۔ اِس کی تخلیق، احسنِ تقویم کی مظہر ہے۔ اس کے مدارج بڑے بلند اور اس کے مناصب بڑے رفیع الشّان ہیں۔

اقبالؒ چونکہ قُرآن کا ترجمان ہے اس لیے اس کے کلام میں مقامِ آدم کو ایک خاص حیثیت حاصل ہے۔ آپ حضرت علّامہؒ کی کسی کتاب کو اٹھا کر دیکھئے ، یہاں سے وہاں تک آدم کے احوال و ظروف کا تذکرہ ملے گا۔ کلامِ اقبال میں آدم کی یہ سرگذشت اس قدر پھیلی ہوئی ہے کہ اس سے ایک مستقل کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے تو بڑی فرصت درکار ہے۔ سرِ دست کچھ اُبھرے ہوئے عنوانات ہیں جن سے اس طویل و عریض داستان کے کچھ گوشے آپ کے سامنے لانے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ سرگذشت حسبِ ذیل ابواب پر مشتمل ہے،

(۱) تخلیقِ کائنات (۲) پیدائشِ آدم

(۳) ہبوطِ آدم

(۴) آدم کی نیند، اور

(۵) اس کی بیداری

علاوہ قلّتِ وقت کے، میری بڑی دشواری یہ ہے کہ حضرت علّامہ کے کلام کا بیشتر حصّہ فارسی میں ہے اور اس قسم کی مخلوط محفلوں میں اُردو کے اشعار ہی زیادہ موزوں رہتے ہیں۔ لہٰذا، مجھے بھی زیادہ تر انحصار ان کے اُردو کلام پر ہی کرنا پڑے گا اور فارسی اشعار صرف وہاں پیش کروں گا جہاں اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔

اب سنیئے سرگذشتِ آدم، یعنی اپنی اور میری سرگذشت۔

 

 

 

 

پہلا عنوان، تخلیقِ کائنات

 

ذرا تصوّر میں لائیےاس منظر کو کہ اس کائنات کی کوئی شے وجود میں نہیں آئی تھی۔ نہ زمین نہ آسمان، نہ چاند نہ ستارے، نہ شجر تھے نہ حجر، نہ صحرا تھے نہ سمندر۔ نہ حیوان تھے نہ انسان، ایک خدا کی ذات تھی اور باقی سب ہُو کا عالم۔ ظاہر ہے کہ ایسی سنسان حالت کب تک رہ سکتی تھی۔ ہر تصوّر اپنی نمود کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔ ہر حقیقت، لباسِ مجاز میں آنے کے لیے پیکرِ اضطراب ہوتی ہے۔ ہر نقش اپنے اُبھرنے کے لیے پیچ و تاب کھاتا ہے۔ ہر جلوہ اپنے نکھرنے کے لیے برق در آغوش ہوتا ہے۔ ہر سبز پوش سرِ بام آنے کے لیے سیماب پا ہوتا ہے۔ یعنی ہر قوّتِ خاموش ذوقِ نمود و لذّتِ تخلیق سے عملِ بیدار بننے کے لیے ہمہ تن شوق ہوتی ہے۔ شانِ الوہیت کی اسی لذّتِ تخلیق اور ذوقِ نمود نے انگڑائی لی۔ خظیرۂ قدس کی ملکوتی فضا میں ہلکا سا تموّج پیدا ہوا۔ عدم کے پردے اٹھے اور افق کے اس پار نگار خانۂ کائنات خاموشی سے ابھرنا شروع ہوا۔ یہ دن کارکنانِ قضا و قدر کی زندگی میں بڑی گہما گہمی کا دن اور یہ ساعت مدبّرانِ امور الٰہیہ کے اوقات میں بڑی ہمہ ہمی کی ساعت تھی۔ یعنی وہ وقت جب کیفیت یہ تھی کہ:

سہانی نمودِ جہاں کی گھڑی تھی تبسّم فشاں زندگی کی کلی تھی

کہیں مہر کو تاجِ زر مل رہا تھا عطا چاند کو چاندنی ہو رہی تھی

سیہ پیرہن شام کو دے رہے تھے ستاروں کو تعلیمِ تابندگی تھی

فرشتے سکھاتے تھے شبنم کو رونا ہنسی گل کو پہلے پہل آ رہی تھی

ہیولائے کائنات اُبھرنے کو تو اُبھرا لیکن بڑا بے کیف اور بہت بے رنگ۔ سورج اپنی نور افشانیوں اور حرارت سامانیوں کو لیے لیے سارا دن پھرتا رہتا لیکن نہ اسے کوئی آنکھ ایسی ملتی جو اس کی روشنی کی داد دیتی، نہ کوئی سینہ ایسا ملتا جو اس کی تپش کو اپنی متاعِ سوز بنائے۔ چاند اپنے بلوریں ساغر میں مئے نور بھرے رات بھر محوِ تلاش رہتا لیکن اسے کوئی ایسا رندِ مست نہ ملتا جو اس آتشِ خنک کے جامِ مرمریں کو لپک کر اٹھا لے، ستارے سرِ شام نقاب اُلٹ اُلٹ کر سرگرمِ تماشا ہو جاتے لیکن کوئی نگہِ نظارہ باز ایسی نہ ملتی جو ان کی چلمنی مسکراہٹوں سے آنکھ مچولی کھیلتی۔ لالہ اپناسینہ شق کیے دن بھر کسی کے انتظار میں چاروں طرف آنکھیں اٹھا اٹھا کر دیکھتا اور شام کو یاس و ناامّیدی سے لڑ کھڑا کر گر پڑتا۔ صحنِ چمن میں پھول خود ہی کھلتے اور تھوڑی دیر مسکراکر خود ہی مرجھا جاتے۔ یعنی یہ وہ زمانہ تھا جب

عروسِ شب کی زلفیں تھی ابھی ناآشنا خم سے

ستارے آسماں کے بے خبر تھے لذّتِ رم سے

قمر اپنے لباسِ نو میں بیگانہ سا لگتا تھا

نہ تھا واقف ابھی گردش کے آئینِ مسلم سے

ابھی امکاں کے ظلمت خانے سے ابھری تھی دنیا

مذاقِ زندگی پوشیدہ تھا پہنائے عالم سے

کائنات کی اس تنہائی اور غمگینی، اس بے نوری اور بے سوزی، اس بے کیفی اور بے رنگی پر نقش طرازِ ازل کا جی بھر آیا۔ اس کے پاس سامانِ سوزوساز کی کمی نہ تھی۔ صرف ایک ترکیبِ نو کی ضرورت تھی۔ اس نے فرشتۂ میرِسامان کی طرف دیکھا۔ وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ پاکر تعظیم کے لیے جھکا اور سبّوح‘’ قدّوس‘’ کی بے صوت صداؤں میں تعمیلِ ارشاد کے لیے روانہ ہوا۔ اس نے

چمک تارے سے مانگی چاند سے داغِ جگر مانگا

اڑائی تیرگی تھوڑی سی شب کی زلفِ برہم سے

تڑپ بجلی سے پائی حور سے پاکیزگی پائی

حرارت لی نفسہائے مسیح ابنِ مریم سے

ذرا سی پھر ربوبیت سے شانِ بے نیازی لی!

ملک سے عاجزی، افتادگی تقدیرِ شبنم سے

اور ان اجزا سے ایک مرکّب تیار کیا۔ پھر اس میں کچھ آگ کی چنگاریاں بھریں اور اس پر خون کے چھینٹے دیئے۔ تسبیح بدست فرشتے چپکے ہی چپکے اس پیکرِ آب و گل کو دیکھتے جو ایسے متضاد عناصر سے ترکیب پا رہا تھا۔ وہ آج تک ہر عنصر کو الگ الگ دیکھنے کے عادی تھے۔ پانی کو پانی، آگ کو آگ۔ اس لیے ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ آگ اور پانی، روشنی اور تاریکی، محبّت اور عداوت، زہر اور تریاق، صلح اور فساد کا مجموعہ بالآخر بنے گا کیا۔ ہزار ہا سال کی گردشوں کے بعد اس مشتِ خاک نے ایک متعیّن صورت اختیار کی۔ بکھری ہوئی شوخیاں سمٹ کر بجلیاں بن گئیں، زمین کانپی، آسمان تھر تھرایا، چاند کا ساغرِ زرّیں چھلک گیا۔ ستاروں کے ننھے سے دل دہل گئے۔ فضا میں اک شور اٹھا اور

نعرہ زد عشق کہ خونیں جگرے پیدا شُد

حسن لرزید کہ صاحبِ نظرے پیدا شُد

فطرت آشفت کہ از خاکِ جہانِ مجبور

خود گرے، خود شکنے، خود نگرے پیدا شُد

خبرے رفت ز گردوں بہ شبستانِ ازل

حذر اے پردگیاں، پردہ درے پیدا شُد

آرزو بے خبر از خویش بآغوشِ حیات

چشم وا کردد جہانِ دگرے پیدا شُد

زندگی گفت کہ در خاک تپیندم ہمہ عمر

تا ازیں گنبدِ دیرینہ درے پیدا شُد

اقبال کی فارسی نظموں کا اُردو میں ترجمہ بہت مشکل ہے۔ ترجمہ میں یوں بھی اصل کی روح نکل جاتی ہے۔ لیکن اس نظم کا ترجمہ علّامہ اسلم جیراجپوریؒ نے کیا تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ ان اشعار کو اُردو داں طبقہ کو سمجھانے کے لیے اس سے زیادہ موزوں الفاظ ملنے مشکل ہیں۔ وہ ترجمہ یہ ہے:

عشق چیخ اٹھا کہ اک خونیں جگر پیدا ہوا

حسن کانپ اٹھا کہ اک صاحبِ نظر پیدا ہوا

فطرت آشفتہ کہ خاکِ عالمِ مجبور سے

اک خود نگر، خود شکن اور خود نگر پیدا ہوا

پہنچی گردوں سے شبستانِ ازل میں یہ خبر

پردہ دارو! ہوشیار اک پردہ در پیدا ہوا

آرزو تھی زندگی کی گود میں سوئی ہوئی

آنکھ کھولی، اک جہانِ خیر و شر پیدا ہوا

زندگی بولی کہ تھی میں آب و گِل میں مضطرب

بارے آج اس گنبدِ بے در میں در پیدا ہوا

علّامہ اسلم ؒ نے ان اشعار کے ترجمہ کے بعد، کچھ اپنی طرف سے اضافہ بھی فرمایا ہے۔ ارشاد ہے:

مسکرا کر یہ ملائک سے کہا ابلیس نے

لو تمہارا اِک حریفِ تازہ پیدا ہوا

چرخ سے آئی نِدا اے ساکنانِ بحر و بر

اک جہانِ آشوب، ظالم، فتنہ گر پیدا ہوا

جس کی خاطر یہ زمین و آسماں چکّر میں تھے

مادرِ فطرت کا وہ نورِ نظر پیدا ہوا

تھا فضائے عالمِ ناسوت کا بربط خموش

آخر اس سازِ کہن کا زخمہ ور پیدا ہوا

فرشتے اس پیکرِ خاکی کو دیکھ کر محوِ حیرت تھے کہ بالآخر اس میں وہ کون سی خصوصیت ہے جس کی بنا پر اسے تمام کائنات میں سب سے اونچے مقام پر بٹھا یا جا رہا ہے۔ خلّاقِ فطرت نے ان کا استعجاب دُور کرنے کے لیے آدم کو باغِ جہاں میں بھیج دیا جہاں ہر شے ایک خاص انداز سے رکھی گئی تھی اور کسی کو مجال نہ تھی کہ اس میں ذرا سی بھی تبدیلی پیدا کر سکے۔ آدم نے صحنِ چمن پر ایک تیرتی ہوئی نگاہ ڈالی۔ اسے اس کی ترتیب کچھ پسند نہ آئی۔ اس نے اپنے دل میں کہا کہ یہ پیڑ وہاں ہونا چاہیئے، وہ روش یوں ہونی چاہیئے، اس پھول کا رنگ ایسا ہونا چاہیئے، اس پھل کے ذائقے میں یہ تبدیلی ہونی چاہیئے۔ وہ ابھی ان تبدیلیوں کا خیال ہی کر رہا تھا کہ جانبِ عرشِ عظیم سے آواز آئی کہ آدم! ہماری دی ہوئی ترتیب میں کوئی تبدیلی نہیں ہونی چاہیئے۔ آدم نے سر اٹھایا اور نہایت تمکنت سے کہا کہ معاف فرمائیے! جس جگہ مجھے رہنا ہے اس کی ترتیب میری پسند کے مطابق ہونی چاہیئے۔

گفت یزداں کہ چنیں است و چنیں خواہد بود

گفت آدم کہ چنیں ہست و چناں خواہد بود

آدم کے اس جواب پر صحنِ چمن سے دُور ایک طرف سے بلند قہقہے کی آواز اٹھی جس میں ابلیسانہ سرکشی کی گرج سی محسوس ہو رہی تھی۔ فضائے چمن پر سنّاٹا چھا گیا۔ معصوم فرشتے سہم کر کونوں گوشوں میں جا چھپے۔ ہر شے اپنی اپنی جگہ ساکت و صامت انگشت بدنداں کھڑی ہو گئی۔ اس سکوت کو ایک دلکش آواز نے یہ کہتے ہوئے توڑا کہ یہی وہ اختیار و ارادہ کی قوت ہے جو آدم کی سرفرازی و سربلندی کا موجب ہے۔ اسی سے یہ مسجودِ ملائک اور مخدومِ خلائق ہے۔ کشمکشِ حیات میں پُر کیف جاذبیتیں ہیں تو اسی سے اور کشاکشِ زندگی میں رنگیں کیفیتیں ہیں تو اسی کے دم سے، بربطِ ہستی کے خوابیدہ نغمے بیدار ہوتے ہیں تو اسی کے مضراب سے اور مینائے حیات کے سادہ پانی میں کیفِ رنگ و تعطر کی ارغوانی موجیں اٹھتی ہیں تو اسی کے جوش سے۔ تم کائنات کی دوسری چیزوں پر غور کرو اور پھر انسان کی اس خصوصیتِ کبریٰ کو دیکھو، بات سمجھ میں آ جائے گی کہ ان میں اور انسان میں کیا فرق ہے۔

منظر چمنستان کے زیبا ہوں کہ نا زیبا

محرومِ عمل نرگس مجبورِ تماشا ہے

رفتار کی لذّت کا احساس نہیں اس کو

فطرت ہی صنوبر کی محرومِ تمنّا ہے

تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں

انسان کی ہر قوّت سر گرمِ تقاضا ہے

اس ذرّہ کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم

یہ ذرّہ نہیں شاید سمٹا ہوا صحرا ہے

چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستان کی

یہ ہستیٔ دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے

اب فرشتوں کو معلوم ہوا کہ اس پیکرِ آب و گِل میں وہ کون سی قوّتیں خوابیدہ ہیں جن کی بنا پر اسے کائنات میں یہ مقام عطا ہوا ہے۔ اس احساس سے ان کی نگاہیں تعظیم کے لیے جھک گئیں۔ آدم نے تبسّم فشاں نظروں سے ان کی طرف دیکھا اور کہا کہ اب مجھے اس دنیا میں جانا چاہیئے جسے میں اپنے نقشے کے مطابق ترتیب دے سکوں۔ آدم خراماں خراماں نیچے اُترا۔ اس کے جلو میں قطار در قطار فرشتے اسے رُخصت کرنے کے لیے ساتھ تھے۔ وہ نسیمِ سحر کی طرح آہستہ آہستہ ساتھ آرہے تھے اور اپنی نور پاش بے صوت صداؤں سے یہ نغمۂ تبریک گا رہے تھے کہ

عطا ہوئی ہے تجھے روز و شب کی بیتابی

خبر نہیں کہ تو خاکی ہے یا کہ سیمابی

سُنا ہے خاک سے تیری نمود ہے لیکن

تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی

جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے

ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی

گراں بہا ہے ترا گریۂ سحر گاہی

اسی سے ہے ترے نخلِ کہن کی شادابی

تری نوا سے ہے بے پردہ زندگی کا ضمیر

کہ تیرے ساز کی فطرت نے کی ہے مضرابی

یہ خسرونہ جلوس، بایں شوکت و سطوت جانبِ فلک سے سوئے زمین آیا۔ خاک کے ذرّے آنکھیں ملتے ہوئے اٹھے۔ سبزۂ خوابیدہ جوشِ نمو سے بیدار ہوا۔ غنچے چٹکے، پھول کھلے، چاندنی مسکرائی، سینۂ بحر سے بیتاب موجیں اُبھر اُبھر کر دیکھنے لگیں۔ عروسِ فطرت نے اپنے حسین چہرے سے نقاب اُلٹی اور روحِ ارضی، اس تمام سامانِ رنگ و چنگ اور جہانِ شوخ و شنگ کو ساتھ لیے استقبال کے لیے آگے بڑھی۔ بربطِ ہستی کے خاموش تاروں میں ارتعاش پیدا ہوا اور سازِ فطرت کی ہم آہنگی سے روحِ ارضی نے یہ کہتے ہوئے آدم کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا کہ:

کھول آنکھ، زمیں دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ

مشرق سے اُبھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ

اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ

ایّامِ جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ

بے تاب نہ ہو معرکۂ بیم و رجا دیکھ

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیں

یہ گنبدِ افلاک یہ خاموش فضائیں

یہ کوہ یہ صحرا یہ سمندر یہ ہوائیں

تھیں پیشِ نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں

آئینۂ ایّام میں آج اپنی ادا دیکھ

خورشیدِ جہاں تاب کی ضَو تیرے شرر میں

آباد ہے اک تازہ جہاں تیرے ہنر میں

جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں

جنّت تری پنہاں ہے ترے خونِ جگر میں

اے پیکرِ گِل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ

آدم نے اس کرّۂ ارضی کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ یہ ایک مٹی کا گھروندا ہےجس کا نہ کوئی متعیّن نقشہ ہے، نہ ترتیب۔ سر پر آگ برسانے والا آتشیں گولہ ، چاروں طرف بڑے بڑے پہاڑ، اِدھر اُدھر ساحل نا آشنا سمندر اور اس کی مہیب طغیانیاں، ڈراؤنے جنگل اور ان میں بڑے بڑے خطرناک درندے اور اژدہے، چاروں طرف خوفناک بلاؤں کا ہجوم اور ان میں نہتّا ابنِ آدم، بے کس و بے بس اور بے یا ر و مددگار۔ شروع شروع میں ان لرزہ انگیز بلاؤں نے اسے دبانا چاہا لیکن اس کے بعد اس کی مضمر قوّتوں نے بیدار ہونا شروع کیا۔ اس نے پہاڑوں کے جگر شق کر دئیے۔ سمندر کے سینے پر کشتیاں چلا دیں۔ بڑے بڑے مہیب طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آہنی دیواریں کھڑی کر دیں۔ دریاؤں کے رُخ بدل دئیے۔ ہواؤں کی سمتیں تبدیل کر دیں۔ آسمان کی بجلیاں مقیّد کر لیں۔ غرضیکہ اس زمین کا پورے کا پورا نقشہ بدل دیا۔ نہ وہ انداز رہے نہ وہ ترتیب، نہ وہ رنگ رہا، نہ وہ ڈھنگ۔ اس نے فطرت کی ہر شے کو اپنے مطلب کے مطابق متشکّل کر لیا۔ اس شکست و ریخت اور حرب و ضرب کو دیکھ کر ایک دن اللہ میاں نے اس سے کہا کہ تو نے یہ کیا کر دیا؟

جہاں را ز یک آب و گِل آفریدم

تو ایران و تاتار و ژنگ آفریدی

من از خاک پولاو نا ب آفریدم

تو شمشیر و تیر و تفنگ آفریدی

تبر آفریدی نہالِ چمن را

قفس ساختی طائر نغمہ زن را

آدم نے یہ سُن کر کلہاڑا ایک طرف رکھ دیا اور کہا کہ گستاخی معاف! ذرا اپنی اور میری تخلیق پر تو غور کیجیئے ۔

تو شب آفریدی چراغ آفریدم

سفال آفریدی ایاغ آفریدم

بیابان و کہسار و راغ آفریدی

خیابان و گلزار و باغ آفریدم

من آنم کہ از سنگ آئینہ سازم

من آنم کہ از زہر نوشینہ سازم

ذرا اس مخلوق کو سامنے لائیے جسے تسبیح و تقدیس سے فرصت نہیں اور اس کے بعد یہ دیکھیئے کہ میں نے اس دنیا کو کیا سے کیا بنا دیا ہے۔

قصور وار غریب الدّیار ہوں لیکن

تِرا خرابہ فرشتے نہ کر سکے آباد

مری جفا طلبی کو دعائیں دیتا ہے

وہ دشتِ سادہ وہ تیرا جہانِ بے بنیاد

مقامِ شوق ترے قدسیوں کے بس کا نہیں

انہیں کا کام ہے یہ جن کے حوصلے ہیں زیاد

یہ تبدیلیاں تو وہ ہیں جو صرف مٹی اور پانی کی دنیا میں میرے ہاتھوں نمودار ہوئی ہیں لیکن ان سے کہیں اہم ہیں وہ نقوش و آثار جو دنیائے فکر و جہانِ تصوّرات میں میری کاہش و کاوش سے صورت پذیر ہوتے ہیں۔

میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں

غلغلہ ہائے الاماں بتکدۂ صفات میں

حور و فرشتہ ہیں اسیر میرے تخیّلات میں

میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود

گاہ اُلجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں

تو نے یہ کیا غضب کیا مجھ کو بھی فاش کر دیا

میں ہی تو ایک راز تھا سینۂ کائنات میں

آدم کے اس دعویٰ کی شہادت زمین کے ذرّے ذرّے نے دی۔ چاروں طرف پہاڑوں سے اس کی صدائے بازگشت نے فضا کو معمور کر دیا اور پستیوں اور بلندیوں سے یہ آواز آنے لگی کہ یہ بالکل درست ہے۔

ہے گرمیِ آدم سے ہنگامۂ عالم گرم

سورج بھی تماشائی، تارے بھی تماشائی

٭٭

 

دن گذرتے گئے۔ آدم اپنے ہنگاموں میں سرگرمِ عمل رہا۔ ایک دن اس کے دو بیٹے کھیت میں کام کر رہے تھے۔ ایک کی کسی بات پر دوسرے کو تاؤ آگیا۔ یہ تھا ذرا زور آور، اٹھا اور اسی کے تبر سے اس کا گلا کاٹ دیا۔ کھیت پر دُور دُور تک سُرخ خون کے چھینٹے بکھر گئے۔ اس نے اس سے پہلے کبھی سُرخ رنگ کے چھینٹے نہیں دیکھے تھے۔ وہ گھبرا گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہو گیا۔ وہ دیوانہ وار بھاگ کھڑا ہوا۔ اس نے اپنے پیچھے کسی کے پاؤں کی آہٹ سنی۔ مُڑ کر دیکھا تو اس کا بھائی اپنا سر ہتھیلی پر لیے اس کے پیچھے پیچھے بھاگا آ رہا تھا۔ اِس منظر سے اُس پر وحشت سی چھا گئی۔ یہ پہلا دن تھا کہ اسے ڈر معلوم ہوا۔ وہ جتنی تیزی سے بھاگتا اس کا بھائی اسے رفتار سے اس کا پیچھا کرتا۔ کام کرنے والے یہی دونوں بھائی تھے۔ دونوں اس افراتفری میں پڑ گئے۔ ایک کے پیچھے دوسرا۔ ایک کے ہاتھ میں کھُلا ہو ا خنجر، دوسرے کی ہتھیلی پر کٹا ہوا سر۔ زمین خون کے چھینٹوں سے لالہ زار ۔ ان کی کھیتیاں اُجڑ گئیں، باغ ویران ہو گئے، مکان گر گئے۔ غاروں میں چھُپے ہوئے درندے پھر سے باہر نکل آئے۔ پہاڑوں میں رُکے ہوئے طوفان دوبارہ اُمنڈ آئے۔ مسرّتوں کے چشمے سُوکھ گئے، شادابیوں کے پھُول مُرجھا گئے۔ صحنِ عالم قتل گاہ بن گیا۔ جس پتھر کو اُٹھایا نیچے سے خون کا فوارہ اُبھر آیا۔ جس شاخ کو توڑا لہو کے قطرے ٹپکنے لگ گئے۔ دنیا کا ہر بناؤ بگاڑ میں اور ہر تعمیر تخریب میں بدل گئی۔ آدم کی ان وحشت سامانیوں کو فرشتے تعجّب کی نگاہوں سے دیکھتے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک دوسرے سے کچھ کہہ جاتے۔ مطلب صاف تھا کہ یہی ہے وہ اشرف المخلوقات، صدرِ بزمِ کائنات، گلِ سرسبدِ ممکنات جس کے سامنے جُھکنے کے لیے ہمیں کہا گیا تھا! رفتہ رفتہ یہ باتیں اشاروں کنایوں سے گزر کر زبانوں تک آنے لگیں۔ اب بساطِ کائنات کے ہر گوشے میں یہی چرچا تھا۔ کارکنانِ قضا و قدر کی محفلوں میں ہر ایک کی زبان پر یہی تذکرو تھا۔ جو ان میں ذرا دیدہ ور تھے وہ کبھی کبھی یہ کہہ دیتے کہ آدم کا یہ جنوں عارضی ہے۔ اس کی یہ گراوٹ وقتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ

توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسمِ شب و روز

گرچہ الجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے

فرشتے یہ سُن کر سر ہلا دیتے۔ وہ درحقیقت آدم کی اس بربادی کو اپنی فتح سمجھتے تھے، اگرچہ وہ اس حرف کو زبان تک نہیں لا سکتے تھے۔ لیکن وہ خلّاقِ فطرت سے کہنا یہی چاہتے تھے کہ ‘‘کیوں! ہم نہ کہتے تھے؟ ’’ ان کی اس سادہ لوحی کا طلسم کبھی کبھی اس قسم کی آواز توڑ دیتی ہے کہ یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ ایاز! قدر خود بشناس!

کجا نورے کہ غیر از قاصدی چیزے نمی داند

کجا خاکے کہ در آغوش دارد آسمانے را

یعنی

عرشِ معلّیٰ سے کم سینۂ آدم نہیں

گرچہ کفِ خاک کی حد ہے سپہر کبود

پیکرِ نوری کو ہے سجدہ میسّر تو کیا

اس کو میسّر نہیں سوز و گدازِ سجود

بہر حال، بزمِ پردگیانِ راز میں صبح و شام اس قسم کے چرچے رہتے، طعنے دینے والے طنز آمیز لہجے میں اور غمگساری کرنے والے ہمدردانہ انداز میں اس قسم کی باتیں کرتے کہ

مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا

وہ مشتِ خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے

ابنِ آدم بھی یہ سب کچھ سنتا لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا کہ کیا کرے۔ وہ ہزار چاہتا کہ اپنے خنجر کو اٹھا کر کہیں دُور پھینک دے اور کسی طرح بھائی کا کٹا ہو سر پھر سے اس کی گردن کے ساتھ جوڑ دے لیکن وہ ،یہ نہ کر سکتا نہ وہ۔ اب اس پر مایوسی چھانے لگی۔ وہ اپنے مستقبل سے نا امّید ہونے لگا۔ وہ ایک چٹان پر بیٹھ گیا۔ خاسر و نامراد، شرمندہ اور ناکام، ہتھیلی پر سر رکھ کر گہری سوچ میں ڈوب گیا اور اسی حالت میں سوگیا۔ آدم ہزاروں سال اسی طرح سویا رہا۔ سورج حسبِ معمول اس کے دن کو روشن کرتا اور شام کو اسے سوتا چھوڑ کر اپنا چکّر پورا کرنے چلا جاتا۔ چاند حسبِ دستور اپنی منزلیں پوری کرتا لیکن آدم میں بیداری کے کوئی آثار نہ دیکھتا۔ فرشتوں سے اب نہ رہا گیا، انہوں نے جرأت کر کے بحضور ربّ العزّت عرض کر ہی دیا۔

عقل ہے بے زمام ابھی عشق ہے بے مقام ابھی

نقش گرِ ازل ترا نقش ہے نا تمام ابھی

خلقِ خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میرو پیر

تیرے جہاں میں ہے وہی گردشِ صبح و شام ابھی

تیرے امیر مال مست تیرے فقیر حال مست

بندہ ہے کوچہ گرد ابھی خواجہ بلند بام ابھی

جوہرِ زندگی ہے عشق جوہرِ عشق ہے خودی

آہ کہ ہے یہ تیغِ تیز پردگیِ نیام ابھی

فرشتوں کو اس کا جواب سوائے ایک حسین تبسّم کے اور کچھ نہ ملا۔ ایک دن جبریل کو ابلیس سرِ راہے مل گیا۔ اس نے اس سے کہا کہ ہمدمِ دیرینہ! یہ آدم کا معمّہ کیا ہے، ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ اگر تم اس راز کو پا سکے ہو تو ذرا ہمیں بھی بتا دو۔ ابلیس مسکرایا اور کہا کہ

یکے در معنیِِ آدم نگر، از من چہ می پرسی

ہنوز اندر طبیعت می خلد موزوں شود روزے

چناں موزوں شود ایں پیش پا افتادہ مضمونے

کہ یزداں را از تاثیر اُو پُر خوں شود روزے

 

بیداری، آسمان پر کانفرنس

 

اِ ک رات ستاروں نے کہا نجمِ سحر سے

آدم کو بھی دیکھا ہے کسی نے کبھی بیدار

کہنے لگا مریخ ا د ا فہم ہے تقدیر

ہے نیند ہی اس چھوٹے سے فتنے کو سزاوار

زہرہ نے کہا اور کوئی بات نہیں ہے

اس کرمکِ شب کور سے کیا ہم کوسروکار

بولا مہِ کامل کہ وہ کوکب ہے زمینی

تم شب کو نمودار ہو وہ دن کو نمودار

واقف ہو اگر لذّتِ بیداریِ شب سے

اونچی ہے ثریّا سے بھی یہ خاکِ پُر اسرار

آغوش میں اس کے وہ تجلّی ہے کہ جس میں

کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیّار

ناگاہ فضا بانگِ اذاں سے ہوئی لبریز

وہ نعرہ کہ ہل جاتا ہے جس سے دلِ کہسار

اذان کی آواز پہاڑوں سے ٹکرائی اور ساری وادی اس ولولہ انگیز نعرے سے گونج اُٹھی کہ

بر خیز کہ آدم را ہنگامِ نمود آمد

ایں مشتِ غبارے را انجم بہ سجود آمد

آدم نے ہزاروں سال کے بعد آنکھ کھولی۔ اس کے جاگنے سے سارا عالم جاگ اُٹھا۔ اس نے اپنے گرد و پیش نظر دوڑائی۔ جس دنیا میں وہ سویا تھا وہ دنیا کبھی کی ختم ہو چکی تھی۔ اب وہ ایک نئی دنیا میں تھا۔ روحِ کائنات ایک بار پھر بے نقاب ہو کر اس کے سامنے آئی۔ اس نے پوچھا کہ یہ آواز کیا تھی، کہاں سے آئی او ر کس نے دی۔ اس نے کہا کہ یہ آواز خاکِ پاکِ حجاز سے اُٹھی۔ بلالؓ کے حلق سے نمودار ہوئی اور ساری دنیا کو یہ کہہ گئی کہ

خودی کا سرِّ نہاں لا الٰہ الّا اللہ

خودی ہے تیغِ فساں لا الٰہ الّا اللہ

یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند

بُتانِ وہم و گماں لا الٰہ الّا اللہ

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند

بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الّا اللہ

اس آواز کو اذان کہتے ہیں۔ یعنی وحدتِ خالق اور وحدتِ آدم کا نعرۂ انقلاب۔ وہی اذان جس کے متعلّق کہا گیا ہے کہ

یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز

نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا

وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود

ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

یہی اذان ہے جو تمہاری بیداری کا موجب ہوتی ہے۔ اگر یہ اذان بلند نہ ہوتی تو آدم کبھی خواب سے بیدار نہ ہوسکتا۔ اب تو اٹھ اور پھر اپنا مقام پہچان۔

تو مردِ میداں تو میرِ لشکر

نُوری حضوری تیرے سپاہی

کچھ قدر اپنی تو نے نہ جانی

یہ بے سوادی یہ کم نگاہی

تو نے اذان کے الفاظ کو سنا ہے، اس کی حقیقت کو بھی اچھی طرح سمجھ لے کہ

رہے گا تو ہی جہاں میں یگانہ و یکتا

اُتر گیا جو ترے دل میں لا شریک لہُ

جس کے دل میں لَا شَرِیْکَ لَہٗ جائے اُسے بندۂ مومن کہتے ہیں اور

مقام بندۂ مومن کا ہے ورائے سپہر

زمیں سے تا بہ ثریّا تمام لات و منات

حریمِ ذات ہے اس کا نشیمنِ ابدی

نہ تیرہ خاکِ لحد ہے نہ جلوہ گاہِ صفات

اس پیامِ زندگی سے آدم کے دل میں نئی آرزوئیں بیدار ہو گئیں۔ اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہو گئی۔ اس کی مایوسیاں امّیدوں سے بدل گئیں۔ دنیا اس کی نگاہوں میں پھر حسین نظر آنے لگی۔ وہ نئے ارادوں اور نئے ولولوں سے اٹھا اور ذوق و شوق کی ایک دنیا اپنے دل میں لیے اس سمت روانہ ہوا جدھر سے بانگِ اذان اس کے کان میں پڑی تھی۔ چلتے چلتے وہ حجاز کی وادیوں میں جا پہنچا۔ اس نے دیکھا کہ ایک وسیع و رفیع قلعہ ہے جس کے دروازے پر جلی حروف میں لکھا ہے

مَن دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا (3/97)

وہ دروازے پر ٹھٹکا کہ نہ معلوم اس حصارِ امن و عافیت میں داخلے پر کیا پابندیاں ہوں۔ پہرے دار نے کہا کہ اس میں داخل ہونے پر کوئی پابندی نہیں۔ صرف ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ انسان کے پاس قلبِ سلیم ہونا چاہیئے۔ اور تمہارے خلوص اور تسلیم کی اس سے بڑھ کر دلیل اور کیا ہو گی کہ تم امن و سلامتی کی تلاش میں ہزاروں میل سے چل کر آئے ہو۔ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ o وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ (10/46-47) ۔ اس میں امن و سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔ اس میں داخل ہونے والوں کے دلوں سے کدورت، کینہ، عداوت، باہمی کبیدگی کی تمام آلائشیں دور ہو جاتی ہیں اور وہ خلوصِ قلب سے ایک دوسرے کے بھائی بن جاتے ہیں۔

آدم کو کسی ایسے ہی مقام کی تلاش تھی۔ اس نے پہرہ دار کو سلام کیا اور شاداں و فرحاں قلعے کے اندر چلا گیا۔

وہ جانے کو تو اندر چلا گیا لیکن اسے یقین نہیں آتا تھا کہ یہ فی الواقعہ ایک ایسا مقام ہے جہاں کوئی انسان دوسرے انسان کا گلا نہیں کاٹتا۔ جہاں کوئی سربریدہ اپنا سر ہتھیلی پر لیے جوشِ انتقام میں دیوانہ وار کسی کے پیچھے پیچھے نہیں پھرتا۔ وہ رہ رہ کر اپنے آپ سے پوچھتا کہ یہاں فی الواقعہ خوف و حزن کو کوئی دخل نہیں۔ کیا یہاں پہنچ کر انسان سچ مچ زمین کی پستیوں سے آسمان کی بلندیوں کی طرف اُبھرنے لگ جاتا ہے۔ اس کے دل میں رہ رہ کر یہ خیالات پیدا ہو رہے تھے۔ ان وساوس کے ہجوم نے اس کے پاؤں میں لڑکھڑا ہٹ سی پیدا کر دی۔ قریب تھا کہ وہ بیٹھ جائے یا پیچھے لوٹ آئے کہ اس نے سُنا کہ کہیں دُور اُفق کے اس پار سے یہ حیات آفریں آواز آ رہی ہے کہ کیوں گھبراتا ہے، کیوں خوف کھاتا ہے

خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو زباں تو ہے

یقیں پیدا کر اے غافل مغلوبِ گماں تو ہے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی

ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تو ہے

تری فطرت امیں ہے ممکناتِ زندگانی کی

جہاں کے جوہرِ مضمر کا گویا امتحاں تو ہے

نہ معلوم اس آواز میں کیا سحر تھا کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کے اندر ایک نئی دنیا بیدار ہو رہی ہے۔ اسے ایسا نظر آ رہا تھا کہ جو کچھ وہ پہلے تھا وہ گم ہو رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نیا آدم جنم لے رہا ہے، وہ آدم جس کی خاک کا ذرّہ ذرّہ اُبھر کر کہہ رہا ہے کہ

زمیں خاکِ درِ میخانۂ ما فلک یک گردشِ پیمانۂ ما

حدیثِ سوز و سازِ ما دراز است جہاں دیباچۂ افسانۂ ما

اس نئے آدم نے محسوس کیا کہ اس کے اندر عجیب و غریب قوّتیں نمودار ہو رہی ہیں۔ اسے ایسا نظر آتا تھا کہ بحر و بر کی وسعتیں سمٹ کر اس کی مٹھی میں آ گئی ہیں۔ پہاڑوں بلکہ آسمانوں کی بلندیاں نیچے اتر کر اس کے لیے فرشِ راہ بن گئی ہیں۔ وہ اب اپنے آپ کو ساری کائنات سے اونچا دیکھ رہا تھا۔ اسے یوں دکھائی دیتا تھا گویا وہ زمین کو چھوڑ کر فضا میں اڑتا چلا جا رہا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ یہ تبدیلیاں کس طرح پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ انقلاب کس وجہ سے آ رہا ہے۔ وہ اسی حیرت میں گم تھا کہ اس کے کان میں آواز آئی کہ اس میں حیرت و استعجاب کی کوئی بات نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ

جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا

تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا

اس یقین سے اس کے جوہر خفتہ کی نمود ہو جاتی ہے۔ اس سے اس کی خوابیدہ قوّتیں بیدار ہوتی ہیں۔ یہ قوّتیں زمان و مکان کے محدود پیمانوں سے نہیں ماپی جا سکتیں۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا

نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں

وہ حیران تھا کہ یہ آوازیں بار بار کہاں سے آتی ہیں جو اس کے دل میں پیدا ہونے والے ہر شبہ کا ازالہ کر کے اس کے اضطراب کو تسکین میں بدل دیتی ہیں۔ وہ تیزی سے قدم اٹھاتے اس سمت کو ہو لیا جدھر سے یہ آوازیں آ رہی تھیں۔ آگے بڑھا تو اس نے دیکھا کہ ایک وسیع و عریض میدان ہے۔ نہایت سرسبز و شاداب، سایہ دار گھنیرے درخت پھلوں سے لدے ہوئے، ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے اُبلتے ہوئے چشمے اور ناچتی ہوئی ندیاں، ہرے بھرے کھیت اور ان کے اناج سے لدے ہوئے خوشے، ہر سمت تازگی اور ہر طرف شگفتگی۔ اس میدان میں اِدھر اُدھر تندرست و توانا انسانوں کے گروہ تھے جن کے چہروں سے سکون و طمانیت کا نور برس رہا تھا۔ ہر شخص کام میں مصروف لیکن کسی کی کسی حرکت سے تکان یا افسردگی کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا تھا۔ جونہی یہ آدمِ نو اس میدان میں داخل ہوا چاروں طرف سے سلاماً سلاماً کی طمانیت بخش تہنیت سے فضا گونج اُٹھی اور اس کے ساتھ ہی اس کے دل سے غیریت اور بیگانگی کے تمام حجابات دُور ہو گئے۔ اس نے ایسا محسوس کیا کہ وہ انہی میں سے ایک ہے اور یہ سب اس کے عمر بھر کے ساتھی ہیں۔ اتنے میں کھانے کا وقت آگیا اور وہ سب ایک دستر خوان کے گرد بیٹھ گئے۔ نَے کوئی فغفور و خاقاں نَے فقیرِ رہ نشیں۔ کسی میں کوئی فرق اور کوئی تخصیص نہ تھی۔ اس نووارد کے لیے یہ انداز بالکل نرالا اور یہ اسلوب غیر مانوس تھا۔ ان میں سے ایک نے اس کی حیرت کو بھانپ کر کہا کہ اس میں تعجّب کی کوئ بات نہیں:

آب و نانِ ماست یک مائدہ دودۂ آدم کنفسِ واحدہ

یہاں ہر شخص کام کرتا ہے لیکن کام کے ما حصل کا کوئی مالک نہیں ہوتا۔

بندۂ مومن امیں، حق مالک است

غیرِ حق ہر شے کہ بینی ہالک است

یہ باتیں تمہیں نئی نئی سی اس لیے دکھائی دیتی ہیں کہ تم ایک دوسری دنیا سے آئے ہو ورنہ یہ تو ایسی کھلی ہوئی حقیقت پر مبنی ہیں کہ ان کے سمجھنے میں ذرا بھی دقّت نہیں ہو سکتی۔ تم حیران ہو کہ ہم زمین میں ہل چلاتے ہیں۔ سال بھر محنت کرتے ہیں اور اس کے بعد ساری فصل کو خدا کے بندوں کے لیے کھُلا چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے لیے صرف اپنی ضروریات کے مطابق رکھتے ہیں۔ تم ہماری محنت کو تو دیکھتے ہو لیکن یہ بھی سوچو کہ

پالتا ہے بیج کو مٹی کی تاریکی میں کون

کون دریاؤں کی موجوں سے اٹھاتا ہے سحاب

کون لایا کھینچ کر پچھّم سے بادِ ساز گار

خاک یہ کس کی ہے کس کا ہے یہ نورِ آفتاب

کس نے بھر دی موتیوں سے خوشۂ گندم کی جیب

موسموں کو کس نے سکھلائی ہے خوئے انقلاب

جس نے یہ سب کچھ کیا ہے، ملکیت کا حق اس کا ہے یا تمہارا اور میرا؟ بس اتنا سا تل ہے جس کی اوٹ زندگی کا سارا پہاڑ کھڑا ہے۔ جو یہ سب کچھ کرتا ہےاس کا نام رازق ہے اور اتنی سی بات کے سمجھ لینے سے سارے مسئلے حل ہو جاتے ہیں۔

اپنے رازق کو نہ پہچانے تو محتاجِ ملوک

اور پہچانے تو ہیں تیرے گدا دارا و جم

ہماری دنیا میں حرام و حلال کا یہی معیار ہے۔ جو رزق اس معاشرے سے ملے جس میں انسان صرف امین ہوں وہ رزق حلال، اور جس میں رزق، انسانوں کی ملکیت قرار پا جائے اور اس طرح اس کی نسبت غیر اللہ کی طرف ہو جائے وہ رزق حرام۔ تم یہاں جس قدر قوّت و توانائی اور طاقتِ پرواز و برو مندی دیکھ رہے ہو سب رزقِ حلال کی بدولت ہے۔

علم و حکمت زاید از نانِ حلال

عشق و رقّت آید از نانِ حلال

اور اس نکتے کو یاد رکھو کہ

زندگی جُز لذّتِ پرواز نیست

آشیاں با فطرتِ او ساز نیست

جب زندگی نام ہی لذّتِ پرواز کا ہے تو اس بات کے سمجھنے میں کیا دشواری پیش آ سکتی ہے کہ

اے طائرِ لاہوتی اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

ہمارے معاشرے میں چونکہ ہر ایک کو رزقِ حلال ملتا ہے اس لیے کسی کی پرواز میں کوتاہی نہیں آ سکتی اور اس کا راز یہ ہے کہ یہاں ہر فرد، دوسرے کی سود و بہبود کی فکر میں مصروفِ کار رہتا ہے۔ ‘‘سودِ خویش’’ کی جگہ ‘‘سودِ ہمہ’’ یہاں کے نظام کا عروۃ الوثقیٰ ہے کیونکہ یہاں ہر فرد خدا کی صفتِ ربّ العالمینی کا مظہر ہے۔ ہماری ساری تعلیم کا ما حصل یہ ہے کہ

کس نباشد در جہاں محتاجِ کس

نکتۂ شرعِ مبیں این است و بس

اس نووارد نے پوچھا کہ تم اپنے معاملات کس طرح طے کرتے ہو، یعنی یہاں حکومت کا انداز کیا ہے؟ حکومت کا لفظ سُن کر اس مخاطب کے لبوں پر مسکراہٹ آ گئی۔ اس نے کہا کہ ہمارے ہاں حکومت کا تصوّر ہی نہیں۔ یہاں کوئی انسان کسی دوسرے انسان پر حکم نہیں چلا سکتا۔ ہمارا ایمان یہ ہے کہ

سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے

حکمراں ہے اِک وہی باقی بتانِ آذری

ہمیں خدا کی طرف سے ایک کتاب ملی ہے جس میں نظامِ زندگی کے لیے محکم اور غیر متبدّل اصول درج ہیں۔ اس کا نام قرآن ہے ……….. اس لفظ کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر تمتماہٹ آگئی۔ ایک ثانیہ کے لیے گہری سوچ میں ڈوب کر اس نے سر اوپر کو اٹھایا اور کہا کہ تم نہیں جانتے قرآن کیا ہے!

چیست قرآں؟ خواجہ را پیغامِ مرگ دستگیرِ بندۂ بے ساز و برگ

نقشِ قرآں تا دریں عالم نشست نقشہائے کاہن و پاپا شکست

فاش گویم آنچہ در دل مضمر است ایں کتابے نیست چیزے دیگر است

چوں بجاں در رفت جاں دیگرشود جاں چو دیگر شد جہاں دیگر شود

اس ضابطۂ زندگی کے محکم اصولوں کی روشنی میں ہم اپنے معاملات علم و عقل کے رُو سے طے کرتے ہیں اور ہم میں جو سب سے زیادہ صاحبِ فکر و عمل ہوتا ہے وہ ان فیصلوں کو جماعتی حیثیت سے نافذ کرتا ہے۔ نووارد نے پوچھا کہ اس صاحبِ فکر و عمل کو تم کیا کہتے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے ہی جیسا ابنِ آدم ہوتا ہے۔ اسے ہم بندۂ حق کہتے ہیں۔ اور

بندۂ حق بے نیاز از ہر مقام

نَے غلام اُو را نہ اُو کس را غلام

بندۂ حق مردِ آزاد است و بس

ملک و آئینش خداداد است و بس

رسم و راہ و دین و آئینش ز حق

زشت و خوب و تلخ و نوشینش ز حق

اس کا نام ہماری اصطلاح میں مردِ مومن ہے۔ وہ مردِ مومن جس کے متعلّق کہا گیا ہے کہ

ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن

گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان

قہّاری و غفّاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

ہمسایۂ جبریلِ امیں بندۂ خاکی

ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ مومن

قاری نظر آتا ہے حقیقت میں ہے قرآن

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم

دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفان

فطرت کا سرودِ ازلی اس کے شب و روز

آہنگ میں یکتا صفتِ سورۂ رحمٰن

خاک کے ذرّے اپنی ارتقائی منازل طے کرتے کرتے پیکرِ آدم تک پہنچے اور آدم اپنی ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد مقامِ مومن تک پہنچتا ہے۔ اور

مومن کے جہاں کی حد نہیں ہے

مومن کا مقام ہر کہیں ہے

مومن، فطرت کا شاہکار اور دائرۂ کائنات کا نقطۂ پر کار ہے۔ کائنات میں مومن کے مقام سے بلند اور کوئی مقام نہیں۔

مومنے بالائے ہر بالا ترے

غیرتِ اُو بر نتابد ہمسرے

پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ ہے سب اس کے لیے مسخّر کر دیا گیا ہے، کیا چاند تارے کیا مرغ و ماہی۔

عالم ہے فقط مومنِ جانباز کی میراث

مومن نہیں جو صاحبِ لولاک نہیں ہے

یہ مومن یہ ہے جس کے متعلّق کہا گیا ہے کہ

ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا

حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

لیکن اس کا ذوقِ سفر، ناقۂ بے زمام کی آوارگی نہیں کہ جدھر مُنہ اٹھا یا چل دئیے۔ اس کے سامنے زندگی کا متعیّن نصب ا لعین ہے اور اس کا ہر قدم اس نصب ا لعین کی طرف اٹھتا ہے۔ یہ نصب ا لعین اس کا اپنا متعیّن کردہ نہیں بلکہ اس ضابطۂ حیات کی رُو سے متعیّن شدہ ہے جو اس کی زندگی کی اساس ہے۔ وہ فضا کی پہنائیوں میں پورے زورِ بازو سے اڑتا ہے لیکن اپنی منزلِ مقصود کو کبھی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔

پرد در وسعتِ گردوں یگانہ

نگاہِ اُو بشاخِ آشیانہ

مہ و انجم گرفتارِ کمندش

بدستِ اوست تقدیرِ زمانہ

قُرآن کے محکم اصولوں کے ساتھ اس درجہ وابستگی اور اس کے بعد اپنے زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دینے میں اس درجہ آزادی۔ یہ ہے وہ عناصر جن سے اس کی سیرت مرتّب ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ

نہ اس میں عصرِ رواں کی حیا سے بیزاری

نہ اس میں عہدِ کہن کے فسانہ و افسوں

حقائقِ ابدی پر اساس ہے اس کی

یہ زندگی ہے نہیں ہے طلسمِ افلاطوں

عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوقِ جمال

عجم کا حسنِ طبیعت عرب کا سوزِ دروں

آدمِ نو نے کہا کہ میں نے یہ سب کچھ سمجھ لیا۔ میں لفظاً لفظاً تم سے متفق ہوں کہ زندگی اسی کا نام ہے، باقی سب وہم و تخیّلات ہیں۔ میں اپنا ہاتھ بڑھاتا ہوں، مجھے اس حلقے میں شامل کر لیجیئے۔ سننے والے نے کہا کہ ذرا اور سوچو۔

یہ شہادت گہِ الفت میں قدم رکھنا ہے

لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا

اس نے کہا کہ میں نے اچھی طرح سمجھ لیا ہے کہ میں کیا کر رہا ہوں۔ میرا فیصلہ مشرق و مغرب کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ لیکن میں یہ اعلان عقل و ہوش اور قلب و نگاہ کی پوری تائید کے ساتھ کر رہا ہوں۔ اشھد ان لا الٰہ۔ اشھد ان لا ا لٰہ ۔ سننے والے نے کہا کہ

لا الٰہ گوئی بگو از روئے جاں

تا زِ اندامِ تو آید بوئے جاں

ایں دو حرفِ لا اِ لٰہ گفتار نیست

لا اِ لٰہ جز تیغِ بے زنہار نیست

زیستن با سوزِ او قہاری است

لا اِ لٰہ ضرب است و ضربِ کاری است

اس نے کہا کہ میں نے سمجھ لیا۔ اب مجھے بتا دیجیئے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اس نے کہا کہ اس کا سمجھنا کیا مشکل ہے۔ جاؤ دنیا میں چلو پھرو اور جہاں جہاں انسان اور خدا کے درمیان کوئی قوّت حائل نظر آئے، اسے درمیان سے ہٹا دو تاکہ بندہ اپنے خدا کو اپنے سامنے بے حجاب دیکھ لے اور زمین اپنے پرورش کرنے والے کے نور سے جگمگا اٹھے۔ تم دیکھو گے کہ

ابھی تک آدمی صیدِ زبونِ شہر یاری ہے

قیامت ہے کہ انسان نوعِ انساں کا شکاری ہے

جاؤ اور صورِ اسرافیل لے کر ساری دنیا میں اعلان کر دو کہ

سلطانیٔ جمہو ر کا آتا ہے زمانہ

جو نقشِ کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

تم دیکھو گے کہ اللہ کے دئیے ہوئے رزق کے سر چشموں پر انسان سانپ کی طرح گھیر ا ذال کر بیٹھے ہیں۔ جاؤ اور انہیں نقیبِ فطرت کا یہ پیغامِ ازلی سنادو کہ

تدبّر کی فسوں سازی سے محکم ہو نہیں سکتا

جہاں میں جس تمدّن کی بنا سرمایہ داری ہے

تم مکتبوں اور خانقاہوں میں دیکھو گے کہ

شہری ہو دہاتی ہو مسلمان ہے سادہ

مانندِ بتاں پجتے ہیں کعبے کے برہمن

نذرانہ نہیں سود ہے پیرانِ حرم کا

ہر خرقۂ سالوس کے اندر ہے مہاجن

میراث میں آئی ہے انہیں مسندِ ارشاد

زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کے نشیمن

یہ فریب کب تک قائم رہے گا۔ جاؤ اور انسانوں کے ان خود ساختہ پردوں کو الگ اٹھا کر پھینک دو۔

کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے

پیرانِ کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو

حق را بسجودے صنماں را بطوافے

بہتر ہے چراغِ حرم و دیر بجھا دو

جاؤ اور ان تک خدا کا یہ پیغام پہنچاؤ کہ

میں نا خوش و بیزار ہوں مرمر کی سلوں سے

میرے لیے مٹی کا حرم اور بنا دو

تم دیکھو گے کہ ……. ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے نوعِ انساں کو ……. آدمی کی تعظیم، آدمی کی حیثیت سے کہیں باقی نہیں رہی۔ کہیں اس کی عزّت، دولت کی وجہ سے ہوتی ہے، کہیں جاہ و منصب کی وجہ سے۔ کہیں وہ رنگ و نسب سے پہچانا جاتا ہے، کہیں ملک و قوم کی نسبت سے۔ دنیا میں انسان کی سب حیثیتیں اضافی رہ گئی ہیں۔ اس کی ذاتی حیثیت کہیں باقی نہیں رہی، حالانکہ اس کے پیدا کرنے والے نے کہا تھا وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ ہم نے آدم کو بہ حیثیتِ آدم باعثِ عزّت و تکریم بنا یا ہے۔ جاؤ اور مہذّب دنیا کے ایک ایک گوشے میں اعلان کر دو کہ

بر تر از گردوں مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

اس نے کہا کہ اس انقلابِ عظیم کے لیے مجھے کچھ ساز و سامان دے دیجیئے۔ اس نے اس کے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں تلوار دے کر کہا کہ

ایں دو قوّت حاملِ یک دیگر اند

کائناتِ زندگی را محور اند

اور ان دونوں کے مجموعے کا مطلب یہ ہے کہ یہی تلوار

لا دیں ہو تو ہے زہرِ ہلاہل سے بھی بڑھ کر

ہو دیں کی حفاظت میں تو ہر زہر کا تریاق

اور دین سے مراد ہے جمعیتِ آدم کا ضابطۂ نظام جو وحی کی بنیادوں پر متشکّل کیا گیا ہو۔ اس لیے

با خبر شو از مقامِ آدمی

آدمِ نو اس ساز و یراق ا ور اس جاہ و طمطراق کے ساتھ خراماں خراماں سوئے قوم آیا اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا۔ وہ اس طرح دنیا میں رہنے والوں کی طرف آ رہا تھا اور زمین کے ذرّے اُبھر اُبھر کر اس کے قدم چوم رہے تھے۔ آسمان جُھک جُھک کر اسے سلام کر رہا تھا اور فضا میں چاروں طرف سے یہ تہنیت بار زمزمہ بیدار ہو رہا تھا کہ

بر تر از گردوں مقامِ آدم است

اصلِ تہذیب احترامِ آدم است

اور آسمان کی بلندیوں سے کوئی پکار کر کہہ رہا تھا کہ

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں

کہ یہ ٹوٹا ہوا تارہ مہِ کامل نہ بن جائے

اتنے میں آنسوئے افلاک سے ندائے جمال نے نہایت محبّت آمیز انداز سے کہا کہ آدم! تم یہاں سے گئے تھے، اب پھر یہیں آ جاؤ۔ آدم نے نگاہ اوپر اٹھائی اور تعظیم اور شوخی کے ملے جلے حسین تبسم آمیز لہجے میں کہا

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں

کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

٭٭٭

کمپوزنگ: محمّد افتخارالحق

ماخذ:

https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=132579866900864&id=122090831283101

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید