FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

آدم شیر کے کچھ افسانے

 

 

                                آدم شیر

 

 

 

 

احساس

 

 

ساجداقبال اپنے شاندار صوفے سے اٹھا۔ شہزاد ، ظہیر احمد اور مجھے دیکھ کر بانہیں پھیلاتے ہوئے یوں مسکرایا جیسے ہمارا ہی انتظار کر رہا ہو۔

ساجد اقبال سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوا تو صحافی بن گیا اور اب کہانی کار بن رہا ہے۔ اسے کہانیاں لکھنے کا ہی نہیں بلکہ سنانے کا بھی بڑا شوق ہے۔ ہم جب کبھی اس سے ملتے ہیں، وہ اپنے افسانے جبریہ سناتا ہے۔ہر بار دو چار رسمی جملوں کے بعد اس کی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔ پھر اب کے ایسا کیوں نہ ہوتا؟ دعا سلام کے بعد نئے افسانے کے متعلق پوچھا تو اس کے چہرے پر خوشی ناچنے لگی ۔ وہ صوفے سے دوبارہ اٹھا اور دیوار گیر الماری تک گیا۔ الماری کا دروازہ کھولا، پھر الماری میں بنی ایک دراز میں سے کاغذوں کا پلندہ اٹھا لایا۔

ساجد نے صوفے پر بیٹھنے کی بجائے کھڑے کھڑے گلا صاف کرنے کی کوشش کی۔ پھر مسودہ درست کیا اور جھک کر چھوٹے چھوٹے دلکش بیل بوٹوں سے سجی میزسے چشمہ اٹھا لیا جس کا فریم نیا لگ رہا تھا۔ اسے ناک پر ٹکانے کے بعد ساجد نے مسودہ دوبارہ آنکھوں کے قریب کیا۔ اس کی نظریں کاغذ ات کے پیچھے سے ہمارے تعاقب میں اوپر اٹھیں اور وہ قدرے اونچی آواز میں بولا۔

’’لو دوستو! آج جو سنانے لگا ہوں، ذرا غور سے سنیے گا۔‘‘

’’ہم آپ کی ہر بات غور سے سنتے ہیں۔ کہانی تو ایسے ہی سنتے ہیں جیسے ہم اپنی من پسند نورجہاں کی موسیقی سنتے ہیں۔‘‘ میں نے شیشے کی چھوٹے چھوٹے خانوں والی ٹرے میں سے خشک میوہ اٹھاتے ہوئے کہا۔ ساجد کے بقول اس نے اپنے کسی عزیز سے یہ ٹرے خاص طور پر باہر سے منگوائی تھی۔

’’میں جانتا ہوں، مگر یہ خاص ہے… بہت ہی خاص… یوں سمجھئے خونِ جگر ہے۔‘‘ ساجد نے کندھوں پر ایرانی چادر درست کرتے ہوئے جواب دیا۔

’’چلیے… ساجد صاحب! اب سنا بھی دیجئے، اتنے نخرے ہماری آپ کی پرانی جاننے والی نائلہ بائی بھی نہیں کرتی تھی۔ ‘‘ شہزاد نے پستہ چباتے ہوئے مذاق کیا۔

’’کیا بات کرتے ہیں آپ؟ کہاں ہم اور کہاں وہ آپ کی گانے بجانے والی نائلہ بائی…‘‘ ساجد برا مان گیا۔

’’دیکھئے جی! ہماری نظر میں تو آپ دونوں فنکار ہیں۔مَیں نے کیا غلط کہہ دیا۔‘‘ شہزاد بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ۔

’’ ٹھیک ہے۔ مان لیا کہ وہ فن کار ہیں مگر رعایت سے… ہم عزت دار لوگ ہیں۔‘‘ ساجد نے اصرار کیا مگر الفاظ بدل دیئے۔ اس پر شہزاد نے معنی خیز انداز میں میری طرف دیکھا لیکن میں نے ظاہر کیا کہ میرا سارا دھیان صرف کھانے پر ہے۔

ساجد پتا نہیں اتنے پیسے کہاں سے لاتا ہے۔ ریٹائرڈ آدمی ہے ،پھر بھی کیا ٹھاٹھ ہے۔ اب اسی کمرے کو لیجئے جس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے۔ ساجد کے مطابق اس کمرے کی سجاوٹ پر کروڑ روپے سے اوپر ہی اٹھے تھے۔ صوفے ، جن پر بیٹھتے ہی نیند آنے لگتی ہے، پتا نہیں کس ملک سے منگوائے ہیں۔ میزیں بھی خوب مہنگی دکھائی دیتی ہیں۔ سجاوٹ کے لیے رکھے برتن مسز ساجد چین سے لائی تھی۔ پردے بھی کسی اور ہی ملک کے ٹانکے گئے ہیں۔ کھڑکیاں ساجد کی امارت کا احوال الگ بتاتی ہیں ۔ ساجد کے نزدیک کمرے کی خاص چیز وہ نوادرات ہیں جو دنیا بھر سے ایک ایک کر کے بڑی محنت سے اکٹھے کئے گئے ہیں۔

ساجد کا ذوق نہایت عمدہ ہے کہ جیب خستہ نہیں۔ اب اس کا لباس ہی دیکھ لیجئے۔ اس وقت موتیا رنگ کی شلوار قمیص اور اوپر کالی شیروانی پہنے ہوئے تھا لیکن جب یہ شیروانی اور شلوار قمیص اس نے خریدی تھی، میں ساتھ تھا۔ ساجد نے میرے سامنے چودہ ہزار روپے دیئے تھے۔ یہ دو دن پہلے کی بات ہے ۔ خریداری مہم سے واپسی پر ساجد نے گھریلو ملازم شکور کو چھ ہزار چھ سو ساٹھ روپے دیئے تھے۔ میں نے پوچھا ۔

’’شکور کی تنخواہ تو سات ہزار ہے، پھر کم کیوں؟ ‘‘

’’چھٹیوں کے پیسے کاٹے ہیں ۔‘‘

میں چپکے سے نکل گیا تھا اور اب دوستوں کے ساتھ آیا تو ساجد وہی لباس زیب تن کئے ہمارے سامنے کھڑا تھا۔ وہ ہاتھ میں چار پانچ کاغذ پکڑے ہماری طرف یوں دیکھ رہا تھا کہ کب ہم افسانہ سنانے کے لیے التجا کریں گے۔ وہ کہانی سنانے کے لیے بے قرار رہتا ہے لیکن سننے کے لیے اصرار کا طلبگار بھی ہوتا ہے۔ آخر ہم تینوں نے اکٹھے کہا۔

’’ ساجد صاحب! اب سنا بھی دیں۔ لگتا ہے عینک ٹکاتے یا کپڑے سیدھے کرتے ہی وقت نکال دیں گے۔‘‘

’’اچھا بابا! سناتا ہوں۔ لو سنو… لیکن ایک بات پہلے ہی بتا دوں۔ یہ افسانہ نہیں بلکہ افسانچہ ہے۔ ایک ایک لفظ موتی ایسا ہے۔ اب دھیان سے سنو۔‘‘

ہم نے ہاتھوں سے مخصوص اشارہ کیا… ’’آنے دو۔‘‘

ساجد نے دوبارہ گلا صاف کیا اور پڑھنے لگا۔ ’’محمد خان مال روڈ پ سائیکل پر چلا رہا ہے۔ رنگ ویسا ہی ہے جیسا پٹھانوں کا ہوتا ہے۔ عمر لگ بھگ چھیالیس سال ہے۔ سر پر روایتی ٹوپی ہے اور ٹوپی کے گرد ریشمی مشدی ہے۔ وطن کی یاد میں پشتو کا گیت گا رہا ہے۔ ٹانگوں سے سائیکل چلا رہا ہے۔ سائیکل کو کبھی اِدھر ہلکا سا موڑتا ہے تو کبھی اُدھر… آس پاس سے گزرنے والی تیز رفتار گاڑیوں سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جب سائیکل کی رفتار آہستہ ہوتی ہے، اس کی اپنی آواز بھی ہلکی ہو جاتی ہے لیکن سائیکل رکتی ہے نہ گانا…

صوبہ کے سب سے بڑے ڈاک خانے والے چوک میں اشارہ بند ہوتا ہے۔ محمد خان سائیکل روکتا ہے۔ ایک پاؤں اس کا زمین پر ہے۔ دوسرا پاؤں سائیکل کے پیڈل پر… ہینڈل کے دونوں جانب شیشے لگے ہوئے ہیں، جن کے ساتھ رنگ برنگے فیتے لٹک رہے ہیں۔ ایک طرف شیشے کے ساتھ چھوٹا باجا بھی لگا ہوا ہے۔ ٹائروں کے تاروں کو بھی شوخ رنگوں والی ٹیپ سے سجایا ہوا ہے۔ ٹائر جب گھومتے ہیں تو دھوپ میں اس ٹیپ کی وجہ سے لشکارے پڑتے ہیں۔ سائیکل کے آگے اور پیچھے سرخ رنگ کی بتیاں بھی لگی ہوئی ہیں۔

محمد خان چوک کے چاروں طرف کھڑے لوگوں پر سرسری نظر ڈال کر اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے۔ ہتھیلی جتنی گول مگر چپٹی ڈبیا نکالتا ہے۔ محمد خان ڈبیا کا ڈھکن کھولتا ہے۔ ڈھکن میں چپکائے ہوئے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھتا ہے ۔ مونچھوں کو تاؤ دیتا ہے ۔ اس کے بعد ڈبیا میں سے ایک چٹکی نسوار نکالتا ہے۔ اسے ہتھیلی پر رکھتا ہے اور رگڑ کر اس کی گولی بنا لیتا ہے۔ پھر اوپر والا ہونٹ مزید اوپر اٹھاتا ہے۔ نسوار کی گولی ہونٹ اور دانتوں کے درمیان ٹکا دیتا ہے۔ مشدی سے ہاتھ صاف کرتا ہے جس کا کنارا چہرے اور گردن سے پسینہ بار بار پونچھنے کی وجہ سے میلا ہو چکا ہے۔ ہاتھ صاف کر کے اپنے دائیں اور بائیں دیکھتا ہے۔ پھر اشارے کی سبز ہوتی بتی کو دیکھتا ہے اور پیڈل پر زور ڈال دیتا ہے۔‘‘

ساجد اقبال ابھی یہاں تک پہنچا تھا کہ اچانک مسز ساجد کمرے میں داخل ہوئیں۔ ساجد نے کاغذات واپس میز پر رکھ دیئے جس پر پڑی ٹرے میں میوہ جات اب تک موجود تھے۔ اس نے عینک اتار کر بیگم کی طرف دیکھا جبکہ مسز ساجد ہمیں ناگواری سے دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے شوہر کے کان میں کچھ کہا جس پر ساجد اپنی اہلیہ کے ساتھ کمرے سے باہر جانے لگتا ہے لیکن دروازے کے قریب پہنچ کر ساجد ہماری طرف مڑتا ہے اور کہتا ہے۔

’’ابھی حاضر ہوتا ہوں۔‘‘

ساجد کے باہر جاتے ہی شہزاد نے میز سے مسودہ اٹھایا اور انہماک سے پڑھنے لگا۔ میں کہانی میں اٹکا ہوا تھا کہ ظہیر نے کندھے پر دھپ ماری اور مسکرایا۔

’’آپ نے دیکھا۔ مسز ساجد نے خود کو کتنا سنبھال رکھا ہے۔‘‘

’’ہاں! پیسے وافر ہوں تو جسمانی ساخت درست رہتی ہے۔‘‘

’’پیسوں کے ساتھ خود پر محنت کرنے کی بات ہے۔‘‘

’’ظہیر صاحب ! محنت سے کیا مراد ہے آپ کی؟‘‘

’’میں ورزش کے متعلق کہہ رہا ہوں۔‘‘

’’غریب کی عورت جتنی ورزش ایک ہفتہ میں کرتی ہے، مسز ساجد نے پوری عمر میں نہ کی ہوگی۔‘‘ میں نے میوہ جات سے ہاتھ کھینچ لیا۔

’’تو پھر کیا بات ہے؟ غریب کی عورت کا جغرافیہ کیوں خراب ہو جاتا ہے اس عمر میں؟‘‘ ظہیر احمد نے اتنی سنجیدگی سے سوال کیا کہ ان کا چہرہ دیکھ کر میری ہنسی چھوٹنے لگی تھی لیکن ضبط کیا اور سگریٹ سلگاتے ہوئے جواب دیا۔

’’یہ سب معاشی چکر ہے۔‘‘

’’ہاں … یہ تو ہے۔ لیکن مسز ساجد کو دیکھیں۔ کیا بات ہے۔ ‘‘ شاید ظہیر کا دل آ گیا تھا یا وہ عمر کے اس حصے میں پہنچ چکا تھا کہ دل خوش کرنے کے لئے باتیں ہی رہ جاتی ہیں۔

’’کوئی خاص بات نہیں۔ جتنے قیمتی کپڑے مسز ساجد نے پہنے ہیں، کسی کو پہنا دیں، وہ بھی خاص ہو جائے گی۔ ‘‘ میرے معنی خیز انداز میں مسکرانے پر ظہیر کا منہ بن گیا تو میں نے کہا۔

’’ظہیر صاحب! یہ سب لکشمی دیوی کی دین ہے ورنہ اب تو مسز ساجد کا اپنا رنگ بھی اترنے لگا ہے۔‘‘ میری اس بات پر ظہیر کا چہرہ کھِلا ۔ شہزاد نے ہم پر ترچھی نگاہ ڈالی اور کاغذات واپس میز پر رکھ دیئے۔ ظہیر نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی اور دروازے کی طرف نظر دوڑائی جہاں سے ساجد آ رہا تھا۔ ساجد آتے ہی گویا ہوا۔

’’تو میں کہاں تھا۔‘‘

’’پیڈل پر زور دینے تک…‘‘ شہزاد نے یاد دہانی کرائی۔

ساجد نے اب کی بار کھڑے ہو کر پڑھنے کی بجائے بیٹھنا مناسب سمجھا۔

’’محمد خان پیڈل پر زور لگا کر اشارہ پار کرتا ہے۔ اب وہ آرام سے سائیکل چلا رہا ہے۔ گیت ملن کے گا رہا ہے۔ تانیں لگاتے پرانی انارکلی والا چوک پار کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایک طرف سے آنے والی کالی پجارو سائیکل کے پچھلے حصہ کو چھوتی ہے۔ محمد خان اچھل کر سڑک پر گرتا ہے۔ کچھ راہ گیر رک جاتے ہیں۔ محمد خان اٹھنے کی کوشش کرتا ہے۔ پجارو میں سے دو ہٹے کٹے نوجوان نیچے اتر کر اپنی پجارو کا معائنہ کرتے ہیں۔ گاڑی کی ایک طرف پڑے چب نے انہیں غصہ دلا دیا ہے۔ وہ محمد خان کی طرف آتے ہیں۔

’’الو کے پٹھے… اندھا ہے۔ دیکھ کے نہیں چلا سکتا۔‘‘

’’صاحب! مارا کوئی غلطی نہیں۔ تم نے ام کو گاڑی مارا۔‘‘

’’غلطی کا بچہ… بکواس کرتا ہے۔‘‘ یہ بات کہتے کہتے ایک نوجوان نے محمد خان کے چہرے پر گھونسا جڑ دیتا ہے۔ دوسرا پسلیوں میں مکا مارتا ہے۔ پھر چل سو چل… وہ مارتے جاتے ہیں اور گالیاں نکالتے جاتے ہیں ۔ محمد خان اپنی سی مزاحمت کرتا ہے۔ کبھی کبھی جوابی مکا رسید کر دیتا ہے۔ لیکن وہ دو ہیں اور محمد خان اکیلا اور ادھیڑ عمر… وہ جوانی اس کے پاس نہیں، جو پہاڑوں کا سینہ چیر دیتی ہے۔ جب نوجوان درگت بنا کر تھک جاتے ہیں تو تماشائی اپنی اپنی راہ ہونے لگتے ہیں ۔ محمد خان چہرے سے لہو پونچھتا ہے۔ ایک سائیکل سوار اس کے پاس رکتا ہے۔ اسے سہارا دے کر ایک طرف لے جاتا ہے۔ پجارو والے جوان اپنی گاڑی میں بیٹھتے ہیں اور گاڑی سائیکل کو روندتی ہوئی یہ جا وہ جا… محمد خان آسمان کی طرف دیکھتا ہے، اور کچھ کہتا ہے۔ پتا نہیں کیا؟‘‘

ساجد اقبال خاموش ہوا تو کمرے میں موجود سناٹا معلوم دیا۔ ساجد نے عینک اتاری اور میز پر رکھ دی ۔ شہزاد اور ظہیر چپ چاپ ساجد کو تکے جا رہے تھے اور میں سوچ رہا تھا کہ ساجد اقبال نے یہی کہانی تو واقعی میں کچھ اچھی کہہ دی ہے۔ اس طرح کے واقعات روزمرہ کا حصہ ہیں۔ سبھی کو واسطہ پڑتا ہے لیکن ساجد نے بڑی سادگی سے بیان کیا ہے۔ میں دل ہی دل میں داد دے رہا تھا جبکہ ساجد پوچھ رہا تھا۔

’’ہاں! تو کیسا رہا؟‘‘

’’تماشائیوں والی بات خوب ہے۔‘‘ شہزاد بولا۔

’’یار… اتنی بے حسی۔ کسی نے روکا تک نہیں۔‘‘ ظہیر کی آواز میں دنیا جہاں کا درد سمٹ آیا۔

’’یہی دستور ہے۔ امیر آدمی جو چاہے کرے۔‘‘ شہزاد نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔

’’بے حسی ہی اصل موضوع ہے؟‘‘ میں نے سوال کیا۔

’’یہ تو آپ خود سوچئے۔‘‘ساجد نے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے کندھے اچکا دیئے۔

’’اچھا۔ سوچتے ہیں۔ پہلے پانی منگوائیے۔ حلق سوکھ رہا ہے۔‘‘ میں نے گلے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تو ساجد نے شکور کو بلایا۔ شکور قمیص سے ہاتھ پونچھتا ہوا آیا جو اتنی گندی ہو چکی تھی کہ اس سے کچھ بھی صاف نہیں ہو سکتا تھا۔

’’جی صاحب؟‘‘

’’پانی لے کر آؤ … فٹا فٹ۔‘‘

’’جی صاحب۔‘‘

شکور پانی لینے چلا گیا۔ ساجد نے میز سے مسودہ اٹھایا۔ دیوار گیر الماری کی طرف گیا اور دراز میں مسودہ رکھ دیا۔ دراز بند کرنے کے بعد الماری کا دروازہ بند کیا اور جلدی سے واپس مڑاجس پر تیزی سے آتا ہوا شکور اس سے ٹکرا گیا۔ پانی ساجد پر گرا اور گلاس زمین پر… پلیٹ شکور کے ہاتھ میں رہی۔ اس کی نظریں جھکی اور ساجد کی اٹھی ہوئی تھیں۔ ساجد نے کپڑے جھاڑے اور شکور کو یہ کہتے ہوئے تھپڑ جڑ دیا۔

’’حرام خور! دیکھ کے نہیں چل سکتا۔‘‘

شہزاد اور ظہیر نے حیرانی سے مجھے دیکھا اور میں دوسری طرف دیکھنے پر مجبور ہو گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

بکاؤ مال

 

 

’’ساتھیو! آپ مجھے ایک موقع دیں۔ میں علاقے کی تقدیر بدل دوں گا۔ گلیاں پکی کرا دوں گا۔ ٹوٹی پھوٹی، گندی میلی سڑکیں میرے بوٹوں کی طرح چم چم کرنے لگیں گی۔ ہسپتال بناؤں گا جہاں مفت علاج ہوگا۔ لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے کالج بنواؤں گا۔ بس مجھے ایک بار آزما کے دیکھیں۔ میں کوئی باہر سے نہیں آیا۔ سونے کا چمچہ لے کر پیدا نہیں ہوا۔ میں آپ جیسا ہوں۔ اس لیے مجھے ووٹ دو۔ میں ہی آپ کے قیمتی ووٹ کا اصلی حق دار ہوں…‘‘

معراج دین نے چودھری رب نواز کی تقریر سنی اور محسوس ہوا جیسے یہ الفاظ پہلے بھی سن رکھے ہیں۔ انتخابات کا زمانہ تھا۔ ہر رہنما ایک جیسے وعدے کر رہا تھا۔ معراج دین بچپن سے وعدوں پر جیتے جیتے پچپن سال کا ہو گیا تھا لیکن تقریر بدلی نہ تقدیر… پھر بھی وہ جلسوں میں شرکت کرتا اور ووٹ ڈالتا۔ کبھی اسے خار پشت کی پشت جیسے کانٹوں بھرے نظام پر پورا یقین تھا لیکن اب یقین کی سِل میں سوراخ ہونے لگے تھے۔

معراج دین نے ایک روز پہلے وڈیرے بادل کی تقریر سنی تھی۔ دو روز پہلے سردار حیات کے جلسے میں شریک تھا۔ کل عاشق خان کی تقریر سننے کا سوچ رکھا تھا۔ نبیلہ رانا اور ساجد علی کے سیاسی اکٹھ میں جانا نہیں چاہتا تھا۔ وہ نبیلہ کو پسند نہیں کرتا ۔ ساجد علی پڑھا لکھا اور کچھ ٹھیک معلوم دیتا لیکن کمزور تھا۔ اس کے متعلق وہ کشمکش کا شکار تھا۔ ابھی طے نہیں کیا تھا کہ ووٹ کس کو دے۔ اس بار کچھ الگ کرنا چاہتا تھا۔

معراج دین کا چھوٹا بیٹا فیروز دین ہر بار ابا کے کہنے پر ووٹ ڈالتا ہے۔ بڑا بیٹا محمد دین کبھی ووٹ ڈالنے نہیں گیا۔اس نے قسم کھا رکھی ہے۔ معراج دین اور محمد دین میں اسی لئے اَن بن رہتی ہے۔ اسے معراج دین کا جلسوں میں خوار ہونا پسند نہیں۔ کئی بار چخ چخ ہوئی لیکن معراج دین کیا کرے، اسے چسکا ہے۔ ساری عمر ریلوے کی کلرکی میں سیاست ہی کرتا رہا۔ محلے میں بھی سیاسی لوگوں کے آگے پیچھے پھر کر وقت کاٹ رہا تھا۔ محمد دین جب اسے وقت ضائع کرنے سے منع کرتا تو معراج دین ایک ہی بات کہتا۔

’’انہی سیاسی لوگوں کی وجہ سے تھانیدار نے فیروز دین کو چھوڑا تھا۔‘‘

محمد دین کے کان یہ بات سنتے سنتے پک چکے تھے لیکن معراج دین کہتے کہتے نہیں تھکا۔ محمد دین کے خیال میں فیروز نے ویسے بھی کچھ دے دلا کر چھوٹ جانا تھا۔ جب معراج دین چودھری رب نواز کے جلسے سے فارغ ہو کر گھر آیا تو محمد دین نے آتے ہی گھیر لیا۔

’’چودھری کے جلسے میں گئے تھے؟‘‘

’’ہاں۔ کیوں؟ تجھے کیا تکلیف ہے؟‘‘ معراج دین پہلے ہی بے زار تھا۔

’’کچھ نہیں۔ ایسے ہی پوچھا۔ آج بسیں غائب تو نہیں ہوئیں ناں؟‘‘ محمد دین نے چھیڑا۔

’’نہیں۔ جا ، جا کر میرے لیے سگریٹ لا۔ زیادہ باتیں نہ کر۔ تو چار لفظ پڑھ کر زیادہ سیانا نہ بن۔‘‘ معراج دین کو غصہ آ گیا۔ اس کا تعلق ایسے طبقے سے تھا جسے بات بات پر غصہ آ جاتا ہے۔ غصے کا اظہار نہ ہو تو آنسو آ جاتے ہیں۔ غصہ اور آنسو ایک ہی ماں کے بچے لگتے ہیں۔ خوف شاید چچا زاد ہے۔ یہ تینوں اس سفید پوش طبقے کو بہت پیارے ہیں جس کی دھجیاں بکھیری جاچکی ہیں۔ معراج دین کا طبقہ سرے سے ختم ہو چکا ہے۔ پہلے وہ متوسط طبقے میں تھا۔ اب غرباء میں شمار ہوتا ہے جبھی غصہ بڑھ گیا ہے۔

معراج دین کو پہلوٹی کے بیٹے محمد دین کی کھوپڑی شروع سے الٹی لگتی ہے۔ ہر بات پر بحث کرتا ہے البتہ کوئی کام کہو تو فوراً کر دیتا ہے لیکن کوئی کام کرو تو کیڑے نکالتا ہے۔ معراج دین کو اکثر حیرانی ہوتی۔ بحث یوں کرتا ہے جیسے ابھی لڑ پڑے گا لیکن حکم ٹالتا بھی نہیں۔ سوائے ایک بات کے کہ کئی بار کہنے پر بھی ووٹ ڈالنے نہیں گیا۔معراج دین کے اصرار پر وہ یہی کہتا۔

’’ابا! یہ سب فراڈیئے ہیں۔ میں اس گناہ میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔ ‘‘

’’اوئے !جمہوری نظام میں سب غلط نہیں ہوتے۔‘‘ معراج دین سگریٹ کا دھواں چھوڑتا تو محمد دین کا جواب پہلے سے تیار ہوتا۔

’’ابا! کونسی جمہوریت؟ یہ تو مال بنانے کا کھیل ہے۔ ‘‘

’’چل میرے منہ نہ لگ۔‘‘ معراج دین جل کر بات ختم کر دیتا۔ اب تو اسے بھی یہی محسوس ہوتا لیکن وہ ووٹ ڈالتا ہے۔ ساجد علی کے بارے میں اس کا خیال تھا وہ تبدیلی لا سکتا ہے، ملک میں نہ سہی، علاقے میں تو کچھ بدلے گا مگر اسے یقین تھا ساجد علی کبھی نہیں جیتے گا۔ اس کے پاس جاگیریں ہیں نہ کارخانے ،جلسے پر خرچنے کے لیے پیسے بھی نہیں… وہ ووٹ خرید نہیں سکتا تو جیتے گا کیسے؟

معراج دین کی بیوی مقصودہ بھی ایک جماعت کی سودائی ہے۔ مقصودہ کے ابا نے ہمیشہ اسی جماعت کو ووٹ دیا۔ اس جماعت کے پاس بے مثال نعرہ ہے۔ معراج دین دوسری جماعت کا دیوانہ ہے۔ فیروز دین بھی اسی کے جھنڈے اٹھائے پھرتا ہے جس کا امیدوار چودھری رب نواز ہے۔ اس نے معراج دین سے وعدہ کیا تھا کہ فیروز کو پولیس میں بھرتی کرا دے گا۔ معراج دین جانتا تھا جیت چودھری رب نواز کی ہوگی۔ اس کا باپ بھی جیتا کرتا تھا۔ اس کا دادا بھی بڑا سیاستدان تھا۔ معراج دین اکثر اپنے باپ دادا کے متعلق سوچ کر پریشان ہو جاتا ہے۔ اس کا باپ چھابڑی لگاتا تھا۔ دادا ناشتہ لگاتا تھا۔ نسل در نسل چلنے والے چکر کا پھیر بدلنے کے لئے اس نے محمد دین کو خوب پڑھایا۔

معراج دین کو محمد دین پر بڑا مان تھا۔ محمد دین سکول جاتا تو اسے چڑھتا سورج محسوس ہوتا۔ سکول سے واپس آتا تو دوپہر کی تمازت محسوس ہوتی۔ رات کو چاند جیسی ٹھنڈک سینے میں اطمینان کی لہر دوڑا دیتی اور وہ میٹھے خواب دیکھتا۔ معراج دین نے اپنے بچپن میں کئی خواب دیکھے تھے۔ ان کے ٹوٹنے پر دکھ بھی ہوا لیکن محمد دین سے وابستہ خواب ٹوٹے تو اسے باغ اجڑا اجڑا لگتا۔ ساری زندگی کی محنت پر پانی پھرتا محسوس ہوتا۔ فیروز دین تو چلو تھا ہی نالائق ڈھکن لیکن محمد دین کا حال رائج الوقت نظام کے منہ پر طمانچہ تھا۔

محمد دین کو جب کسی نے افسر نہیں بنایا تو معراج دین نے سمجھایا کہ ریلوے میں بھرتی ہو جائے لیکن محمد دین کلرک نہیں بننا چاہتا تھا اور افسر اسے کوئی بناتا نہیں تھا۔ افسر بننے کے لئے جس تیل کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کے تلوں میں نہیں تھا۔ تب محمد دین نے ریڑھی لگانے کو ترجیح دی۔ معراج دین اپنے اول درجہ میں ایم ایس سی کرنے والے بیٹے کو دیکھ کر کڑھتا رہتا مگر محمد دین خوش نظر آتا، گالیاں نکالنے کے باوجود مسکرانے کی کوشش کرتا۔ معراج دین زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا لیکن بے وقوف بھی نہ تھا جو ہنسی کے پیچھے چھپا کرب محسوس نہ کر سکے۔ وہ محمد دین کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا۔ چودھری سے بات بھی کی لیکن سامنے وہی کلرکی تھی۔

محمد دین سے تلخ کلامی کے باوجود وہ انتخابی مہم کے آخری دن چودھری رب نواز کے جلسے میں چلا گیا۔ چودھری کا جلسہ بہت بڑا تھا۔ معراج دین کو جلسہ گاہ دیکھ کر یاد آیا کہ پہلے ایسے نہیں ہوتا تھا۔ لوگوں کو بسوں میں ٹھونس کر نہیں لایا جاتا تھا۔ سیاستدان گھر گھر جا کر ووٹ مانگتے تھے۔ یہ الگ بات ہے دوبارہ انتخابات تک شکل نہ دکھاتے۔ معراج دین جلسے میں اپنی یادوں میں کھویا رہا۔ تقریر کا ایک لفظ بھی اس کے دماغ میں نہ گھس سکا۔ کان پھاڑنے اور دل دہلا دینے والے نعروں کی گونج میں معراج دین نے اپنی دنیا بسا لی۔

معراج دین کو یاد آیا جب اس نے بتایا تھا کہ چودھری رب نواز کا والد ووٹ مانگنے آتا تو ابا کے گلے ملتا حالانکہ ابا کے کپڑے بھی صاف نہیں ہوتے تھے۔ معراج دین کی یہ بات سن کر فیروز اور مقصودہ کی آنکھیں چمک اٹھیں لیکن محمد دین مسکرا رہا تھا۔ محمد دین کو مسکراتے دیکھ کر اسے محسوس ہوا جیسے محمد دین اسے بے وقوف سمجھتا ہے۔

’’ہنس کیوں رہا ہے؟‘‘ معراج دین نے رعب سے پوچھا۔

’’یونہی…‘‘ محمد دین قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔

’’مجھے پتا ہے تُو مجھے سائیں سمجھتا ہے۔‘‘

’’نہیں۔ ابا تمہارا وہم ہے۔‘‘ محمد دین نے سنجیدگی سے کہا۔

’’ابا! یہ اتنے مکار لوگ ہیں کہ لومڑی کی کھال بھی بیچ دیں۔ ان کیلئے جذباتی نہ ہوا کرو۔‘‘

’’پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔‘‘ معراج دین نے خود پر قابو پانے کی کوشش کی۔

’’اچھا انگلیاں برابر نہیں ہوتیں تو ان کے محل کیوں برابر بڑھتے رہتے ہیں؟‘‘

’’وہ کام کرتے ہیں،الو کے پٹھے،تیری طرح ریڑھی نہیں لگاتے۔‘‘ معراج دین کو تاؤ آ گیا۔

’’ہاں۔ یہ بات تو صحیح ہے۔ میں ریڑھی لگاتا ہوں۔ وہ کام کرتے ہیں… ہماری جیبوں سے پیسے نکالنے کا…‘‘ محمد دین یہ کہہ کر کھسک گیا۔ معراج دین کو یاد آیا محمد دین ہمیشہ ایسے ہی تیلی لگا کر غائب ہو جاتا ہے۔ وہ جلسہ گاہ میں کھڑا محمد دین کی باتوں کی جگالی کر رہا تھا۔

’’ابا !تمہارا کیا ہے؟ تم تو نعروں پہ بک جاتے ہو۔ ‘‘

’’تم سب بکاؤ مال ہو۔ تمہاری تقدیر کیا بدلے گی۔‘‘

’’تقدیریں نالیاں بنانے سے نہیں ، انصاف کرنے سے بدلتی ہیں۔‘‘

’’تمہارے لیڈروں کی تدبیریں صرف زنجیریں بدلتی ہیں۔ ‘‘

’’ابا تم ان لوگوں کیلئے اتاولے ہوئے جاتے ہو، جو تمہاری محنت پر پل رہے ہیں اور کاٹتے بھی تمہی کو ہیں۔‘‘

معراج دین کو جیسے جیسے بیٹے کے الفاظ یاد آ رہے تھے،اس کا دھیان ہٹتا جا رہا تھا۔ وہ چودھری رب نواز کے سامنے کھڑا تھا لیکن اس کا دماغ کہیں اور بھٹک رہا تھا۔ تقریر کے دوران نعرے اور تالیاں دماغ پر ہتھوڑے کی طرح ضرب لگاتیں مگر وہ چپ چاپ کھڑا رہا۔ تالی نہ کوئی نعرہ…یونہی گم سم کھڑا جلسہ ختم ہونے کا انتظار کرتا رہا۔ تقریر ختم ہونے پر ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا شروع ہوا تو وہ دھکے کھاتا پنڈال سے نکلا اور گھر آ گیا۔

محمد دین ابھی واپس نہیں آیا تھا۔ فیروز دین چودھری رب نواز کے ساتھ ہی تھا۔ معراج دین کچھ دیر مقصودہ سے باتیں کرتا رہا۔ پھر سر درد کی گولی کھائی اور سو گیا۔ وہ جب سو کر اٹھا تو محمد دین روٹی کھا رہا تھا۔ معراج دین جا کر بیٹے کے سامنے بیٹھ گیا جو کھانا کھا رہا تھا۔ معراج دین کے لئے بھی کھانا آ گیا جو اس نے کھاتے ہوئے محمد دین سے پوچھا۔

’’یار! تم مجھے واقعی بکاؤ مال سمجھتے ہو؟‘‘ محمد دین مسکرایا اور معراج دین کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا۔

’’ہم سب بکاؤ مال ہیں بلکہ غلام ہیں۔‘‘

’’ او کس طرح؟‘‘ معراج دین نے آنکھیں جھپکائیں۔

’’خدا نے ہمیں انسان بنانے کے لئے صحیفوں کی صورت میں قوانین بنا کر بھیجے لیکن یہ تمہارے سیاستدان قانون بناتے ہیں ہمیں غلام بنانے کے لئے۔ ‘‘ محمد دین نے بات مکمل کر کے گردن ہلا کر نوالہ یوں نگلا جیسے کہیں کچھ پھنس گیا ہو۔ معراج دین ایک گہری ’’ہوں‘‘ کے بعد چپ چاپ کھانا کھاتا رہا۔ وہ کچھ سوچ رہا تھا۔ کھانا کھا کر چنگیری پرے رکھ دی۔ معراج دین کو سوچ میں ڈوبا دیکھ کر محمد دین بولا۔

’’ابا! ایک بات بتاؤ۔‘‘

’’ہاں پوچھ۔‘‘ معراج دین کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ اس کی عمر ایسی تھی جس میں گورو مانے جانے کی خواہش ہر کسی کو ہوتی ہے۔

’’آپ کبھی اصلی ریشم کے بستر پر سوئے ہیں؟‘‘

’’نہیں۔‘‘ معراج دین نے حیرانی سے جواب دیا۔

’’آپ کو پتا ہے اصلی ریشم کے بستر پر نیند کیسے آتی ہے؟‘‘

’’نہیں۔ جب میں سویا ہی نہیں، مجھے کیا پتا ہو کیسے آتی ہے۔‘‘معراج دین کی آواز میں تیزی در آئی۔

’’تو پھر اصلی ریشم کے بستر پر سونے والے کو کیا پتا ہو۔ تمہیں بید کی چارپائی پر نیند کیسے آتی ہے۔‘‘

’’کی مطلب اے تیرا؟‘‘ معراج دین نے فٹ پوچھا۔

’’ابو ! بھرے پیٹ والا خالی پیٹ کی تکلیف نہیں جان سکتا۔اگر جان لے تو ولی نہ ہو جائے۔‘‘

’’ہاں۔ یہ تو ہے۔‘‘ معراج دین قائل نظر آنے لگا تو محمد دین نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا۔ ’’سگریٹ لاؤں۔‘‘

’’نہیں۔ ‘‘ معراج دین نے سوچ میں ڈوبتے ہوئے جواب دیا،وہ جب سوچتے سوچتے تھک گیا تو گھر سے نکلا اور چودھری کے ڈیرہ نما انتخابی دفتر پہنچا جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی تھیں۔ چودھری کی تعریف میں زمین و آسماں کے قلابے ملائے جا رہے تھے۔ دوسروں کے کالے کرتوت بیان کیے جا رہے تھے۔ ہر کوئی زیادہ سے زیادہ قرابت ثابت کرنے میں مصروف تھا۔ معراج دین خاموش بیٹھا ،سب کی سنتا رہا۔

معراج دین اجازت لے کر رخصت ہونے لگا تو چودھری نے کان میں کہا، ’’معراج دین! فکر نہ کرنا۔ تمہارا بیٹا بھرتی ہو جائے گا۔‘‘

معراج دین دعائیں دیتا رخصت ہوا۔ اب اس کا رخ چائے والے کی دکان کی طرف تھا۔ گلیوں کی نکڑوں پر لوگ ٹولیاں بنا کر کھڑے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے برقی دانشوروں کی عینک سے سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو دیکھا جا رہا تھا۔ معراج دین سب سے پہلو کتراتا قہوہ خانے پہنچا۔ یہاں کافی لوگ جمع تھے لیکن اندھیرا بھی تھا۔ ٹی وی سے نکلنے والی شعاعیں تاریکی کم کر رہی تھیںجس پر مجرے چل رہے تھے۔ اکثر لوگوں کا دھیان چائے پر کم اور سکرین پر زیادہ تھا۔ چند سیاسی گفتگو میں مصروف تھے حالانکہ چائے والے نے لکھ کر لگایا ہوا تھا،’’سیاسی گفتگو سے پرہیز کریں۔‘‘

معراج دین پرانے یار غلام علی کے پاس بیٹھ گیا۔ حال چال پوچھنے کے بعد بولا۔

’’کس کو ووٹ دینا چاہیے۔‘‘

’’پتا نہیں یار۔ جس کو جی چاہے دے دو۔‘‘غلام علی نے لاتعلقی سے جواب دیا۔

معراج دین نے حیرت سے دیکھا، ’’کیا بات ہے؟ آج تم اپنی جماعت کی حمایت میں شور نہیں مچاؤ گے؟‘‘

’’روٹی پوری نہیں ہوتی۔ کسی کی حمایت کیا کروں؟‘‘

’’ہاں۔ یہ بات تو ہے۔ پھر بھی کسی نہ کسی کو ووٹ دینا ہے۔‘‘

’’جسے مرضی دے دو۔ ہمیں آٹا ملے گا نہ پانی، بجلی ملے گی نہ گیس، بس بل ملیں گے۔ وہ بھی ڈبل ٹرپل۔‘‘ غلام علی نے ایک اور چائے کا کپ منگوایا۔ ایک وہ پہلے ہی پی چکا تھا۔ معراج دین اپنے دوست کے لہجے میں پائی جانے والی خشکی سے پریشان ہو گیا۔ پریشانی میں سگریٹ سلگایا۔ معراج دین پریشان ہو تو چپ نہیں رہتا،زیادہ باتیں کرتا ہے۔ وہ نئی بات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ بتی چلی گئی۔

’’لو بتی چلی گئی۔ پہلے ہی دو گھنٹے بعد آئی تھی۔ اب پھر دو چار گھنٹے پار سمجھو۔‘‘ غلام علی نے کہا، ’’آؤ ، باہر چلیں۔‘‘

دونوں دکان سے باہر آ گئے۔ محلے میں تین چار گھر بتی جانے کے باوجود روشن تھے۔ ایک غلام علی کی جماعت کے سیاستدان کا تھا، دوسرا معراج دین کے امیدوار کا تھا۔ سرکاری افسر کے گھر کے باہر لگا برقی قمقمہ روشن تھا۔ صنعت کار کے بنگلے سے بھی روشنی راستہ تلاش کرتی باہر آ رہی تھی۔معراج دین نے اپنے امیدوار کے گھر کو دیکھ کر غلام علی سے کہا۔

’’اس بار چودھری رب نواز کو ووٹ دے دو۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ غلام علی چونکا۔

’’اس نے ہسپتال بنوانے کا وعدہ کیا ہے۔ مفت علاج ہوگا۔‘‘

’’یہ وعدہ تو اس کے باپ نے بھی کیا تھا۔‘‘ غلام علی ہنس پڑا۔

’’تمہارے امیدوار نے بھی پچھلی بار یہی وعدہ کیا تھا۔ ‘‘ معراج دین نے حساب برابر کیا تو غلام علی کچھ کہے بغیر گھر کی طرف چل پڑا۔ معراج دین کچھ دیر اسے اندھیرے میں دیکھنے کی کوشش کرتا رہا۔ پھر اپنے گھر آ گیا۔ محمد دین قمیص اتارے سرکار کو نو نو من وزنی گالیوں سے نواز رہا تھا۔ مقصودہ پسینہ میں تر بتر سوئی ہوئی تھی۔ وہ تھک ہی اتنا جاتی کہ سوتے سمے کچھ ہوش نہ رہتا۔ فیروز دین ابھی باہر کہیں جھنڈے لہرا رہا تھا۔ معراج دین بھی چھت پر جا کر لیٹ گیا اور اوٹ پٹانگ سوچیں پالتے پالتے سو گیا۔

وہ صبح دیر تک سوتا رہا جب اٹھا تو حالت ایسی تھی جیسے نہا یا ہو۔ جلدی جلدی نیچے آیا۔ مقصودہ کو کھانا لانے کے لیے کہا۔ ہاتھ منہ دھونے کیلئے غسل خانے میں گھسا لیکن نل میں پانی نہیں تھا۔ مقصودہ تھی چٹی اَن پڑھ لیکن گھر گرہستی میں بڑی گنی تھی۔ آدھی رات کو اٹھ کر دو تین بڑے برتن پانی سے بھر لیتی تھی۔ معراج دین نے بالٹی سے پانی کے استعمال میں کنجوسی کی۔ کھانا کھاتے ہوئے فیروز دین اور محمد دین کا پوچھا۔

’’فیروز چودھری رب نواز کے بندوں کے ساتھ گیا ہے۔ محمد دین صبح صبح ریڑھی لے کر چلا گیا۔ کہہ رہا تھا۔ آج بکری زیادہ ہو گی۔ ‘‘ مقصودہ نے پسینہ پوچھتے ہوئے بتایا۔ معراج دین نے حلق میں جلدی جلدی نوالے گھسیڑ کر کپڑے بدلے اور چودھری کے ڈیرے پر پہنچ گیا۔ اسے ڈیرے سے بس میں بٹھا کر انتخابی مرکز پہنچایا گیا۔ ووٹ ڈالنے کے لیے پرچہ ملا۔ جب مہر لگانے لگا تو کئی بار سوچا کہ کس پر مہر لگائے؟

معراج دین ووٹ ڈال کر ناک کی سیدھ پر گھر آ گیا۔ وہ ٹی وی پر خبریں سننا چاہتا تھا لیکن بتی نہیں آ رہی تھی۔ وہ جھنجھلا کر صحن میں آیا جہاں مقصودہ محمد دین کی کتاب پکڑے خود کو ہوا دے رہی تھی۔ معراج دین صحن میں کچھ دیر چکر کاٹتا رہا۔ پھر گھر سے نکل پڑا۔ اس نے انتخابی مراکز کے اردگرد گھومتا شروع کیا۔ ہر جگہ اشتہاری پرچے بکھرے پڑے تھے۔ کھمبوں پر دل فریب نعروں والے جھنڈے لٹک رہے تھے۔ دیواریں بھی دعووں اور وعدوں کا نشانہ بنی ہوئی تھیں۔ ہر طرف نعرے اور وعدے منہ چڑا رہے تھے۔ وہ سارا دن کھویا کھویا پھرتا رہا۔ شام کو تھک ہار کر گھر آ گیا۔ گھر کے باہر محمد دین کی ریڑھی کھڑی تھی اور وہ سامان اتار کر اندر لے جا رہا تھا۔ محمد دین نے باپ کو دیکھتے ہی پوچھا۔

’’ووٹ ڈال دیا۔‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’چودھری کو؟‘‘

’’ہاں۔ لیکن دل نہیں چاہتا تھا۔‘‘ معراج دین نے ہاتھ بٹاتے ہوئے جواب دیا۔

’’اچھا تو پھر دیا کیوں؟‘‘ محمد دین نے دلچسپی سے پوچھا۔

’’اس نے فیروز کو نوکری دلانے کا وعدہ کیا ہے۔‘‘

’’تو پھر میں نے صحیح کہا تھا ناں؟‘‘ محمد دین نے ریڑھی سے ٹیک لگا لی۔

معراج دین کچھ یاد کرتے ہوئے بولا۔ ’’کیا کہا تھا؟‘‘

’’ہم سب بکاؤ مال ہیں۔‘‘

’’نہیں۔ ہم بس مجبور ہیں۔‘‘ معراج دین نے بیٹے کا سینہ تھپتھپایا تو محمد دین نے سرگوشی کی۔

’’نہیں۔ ہم مجبور نہیں۔ ہم وہ ہیں کہ جنہیں جاہل رکھ کر مجبور کیا گیا۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

کھلے پنجرے کا قیدی

 

 

’’یہ موت کا گولا ہے یا پنجرہ ، ایک بہت بڑا پنجرہ، میں نہیں جانتا۔ ایک بار مجھے محسوس ہوا کہ یہ موت کا گول گول بڑا گولا ہے جس میں مَیں موٹرسائیکل چلا رہا ہوں۔ کبھی گھڑی کی سوئی کی طرح دائیں سے بائیں گھوم رہا ہوں اور کبھی موٹرسائیکل کو آڑھا ترچھا بھگا رہا ہوں۔ یوں اوپر نیچے موٹرسائیکل چلاتے چلاتے ، دائیں بائیں گھومتے گھومتے میرا دماغ گھوم جاتا ہے ۔ میں اس گھن چکر سے نکلنا چاہتا ہوں مگر سرکس کا مالک کہتا ہے ، ’’اپنا شو پورا کرو۔‘‘

جب مجھے یہ پنجرہ لگتا ہے تب میں اس کی سلاخیں دیکھتا ہوں۔ اس میں سلاخیں صرف حصار بنانے کے لئے ہی استعمال نہیں ہوئیں بلکہ پنجرے کے اندر بھی کئی سلاخیں ہیں، جنہوں نے مختلف خانے بنا رکھے ہیں۔ یہ صنعتی امیروں کا خانہ ہے۔ وہ بڑے بڑے تاجروں کا خانہ ہے۔ اِس میں سرکار کے کماؤ پوت رہتے ہیں۔ اُس میں سرکار خود رہتی ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی میں کہاں رہوں؟ میرے لئے جو خانہ بنایا گیا، یہ رہنے کے لائق نہیں۔ اس کی سلاخیں گول گول پائپ والی نہیں ، چپٹی ہیں اور دونوں طرف تلوار کی سی دھار ہے۔ ان کو پکڑ کر ہلانا چاہوں تو ہاتھ زخمی ہو جائیں۔ ایک خانے سے دوسرے میں جانے کی کوشش کروں تو جسم کا کوئی حصہ سلاخوں سے گھائل ہو جائے ۔ زخمی ہوا تو ہسپتال جانا پڑے گا۔ ہسپتال میں بھی کئی خانے ہوتے ہیں۔ ایک خانہ اشرافیہ کے لئے ہوتا ہے اور دوسرے کے باہر لمبی قطاریں ہوتی ہیں جیسے علی ہجویری کے مزار پر لنگر تقسیم ہو رہا ہو۔ میں ان قطاروں میں لگ گیا تو موت کے گولے میں موٹرسائیکل کون چلائے گا؟ یہ سوال بڑا بے تکا ہے۔

اکثر سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا کوئی تک نہیں بنتا جیسے مجھے ہسپتال سے ڈر لگتا ہے۔ شفا خانہ نہ ہوا قید خانہ ہو گیا بھئی ،ڈر لگتا ہے۔ ابھی چند مہینے پہلے میں نے پنجرے سے باہر جھانک کر دیکھا تو ٹی وی چل رہا تھا ۔ پتلے خشک ہونٹوں پر سرخی کا لیپ کئے، گندمی رنگ کو گورا کرنے کے لئے کئی طرح کے پاؤڈر ملے ہوئے کالی لمبی پلکوں والی حسینہ خبر دے رہی تھی ۔ خبر مجھے پوری یاد نہیں۔ بات کچھ یوں تھی کہ بہاولنگر کے سرکاری ہسپتال میں چاند کا چکر پورا ہونے سے پہلے پہلے سو سے اوپر بچوں کی زندگی پوری ہو گئی اور کوئی ذمہ دار نہ ٹھہرا۔ خیر اس خبر نے مجھے کچھ خاص نہیں چونکایا ۔ مجھے کیا، اور کسی کو بھی جھٹکا نہیں لگا۔ میں جس پنجرے میں رہتا ہوں، یہاں لوگ مرتے رہتے ہیں۔

اور ایک خبر، جس نے میرے رونگٹے کھڑے کر دیئے ، یہ تھی کہ وہاڑی کے سرکاری ہسپتال میں کسی ڈاکٹر نے غلط ٹیکا لگا دیا اور مریض مر گیا مگر ڈاکٹر پر مقدمہ ہو گیا۔ دوسرے ڈاکٹروں نے مقدمے کو ظلم قرار دیا اور کام چھوڑ کر بیٹھ گئے جیسے کلرک قلم چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ بہاولنگر کے ہسپتال میں دوا نے اثر کیا نہ دعا صحیح مقام پر پہنچی لیکن وہاڑی میں تو دہائی پر دہائی بھی کام نہ کر سکی۔ ڈاکٹروں کے منہ میں یوں انگلیاں داب کر ہسپتال کے باہر بیٹھ جانے سے تین بچے ہسپتال کے اندر مر گئے۔ اس خبر پر کسی اور کو کچھ ہوا ہو یا نہ ہو، مجھے تھوڑا افسوس ہوا…صرف افسوس کیونکہ اپنے ہی دکھ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کے لئے دکھی ہونے کی ہمت کہاں بچی تھی۔

یہ تو ہوئیں دوسروں کی باتیں ، اب میں اپنی بات بتاتا ہوں۔ ایک دن دفتر میں بے دلی سے کام کر رہا تھا۔ بے دلی سے اس لئے کہ چھوٹی عید پر تنخواہ ملی تھی اور چند دن بعد بڑی عید تھی۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ تین چار مہینے پہلے ہی میری شادی ہوئی تھی۔ اب آپ خود ہی اندازہ کیجئے کہ میں ذہنی طور پر کہاں تھا اور میرا جسم کہاں… پنجرے میں یا موت کے گولے میں، جو بھی ہو ،دونوں ایک جیسے ہیں۔میرا دماغ ان دونوں سے بہت دور تھا کہ میرے موبائل فون پر پیغام کی اطلاع دینے والی مخصوص گھنٹی بجی۔ میں نے پتلون کی جیب سے موبائل فون سے نکالا اور بیگم کا پیغام پایا۔

’’آج ہم ہسپتال گئے تھے۔آپ گھر آئیں گے تو ایک خوشخبری دوں گی۔‘‘

میں خوشخبری کا راز جان گیا۔ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا اور پاؤں زمین سے اٹھنے کو بے تاب ہوگئے لیکن میں نشست سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔ میں دل لگا کر کام کرنے لگا کہ جلدی ختم ہو اور گھر جا سکوں۔ چند گھنٹے بعد دفتر سے نکلا۔ اپنی موٹرسائیکل پر دھڑم سے بیٹھا۔ موٹرسائیکل صاف بھی نہیں کی۔ کک ماری اور اتنی تیز بھگائی جتنی میں موت کے گولے میں بھی نہیں بھگاتا۔ گھر کے باہر پہنچ کر زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ گھنٹی بجانا بھول ہی گیا۔ بیگم نے دروازہ کھولا۔ اس کی چہرے پر خوشی ناچ رہی تھی جو میرے خیال میں میرے دل میں بجتے راگ کا نتیجہ تھا۔ میں اس کے پیچھے پیچھے اپنے کمرے میں آیا اور آتے ہی اسے دبوچ لیا۔

ہمارے گھر میں بھوک نہیں ناچتی تھی لیکن خوشحالی کا رقص بھی نہیں دیکھا تھا۔ ہم بس ٹھیک تھے مگر بیگم کی خبر سے خوشی ناچنے لگی۔ میرے اندر یہ احساس گاجر کے جوس کی طرح خون بڑھانے لگا کہ میں مَیں نہیں رہا۔ میرا ایک اور وجود بن رہا ہے جو مجھ سے بہتر ہوگا۔ اس کی آمد کے احساس نے قبل از وقت مجھے جھکڑ لیا تھا اور اس قید سے زیادہ مسرت مجھے کبھی نہیں ملی تھی۔

دو مہینے اور دس دن میں اس احساس سے دل کی دھرتی سیراب کرتا رہا۔ پھر پتا چلا کہ میری بیگم کے پیٹ میں کہیں شور گھس گیا ہے جس سے دھرتی بنجر ہونے لگی ہے۔ میں آدھی رات کو معائنہ کرانے ہسپتال گیا۔ ہسپتال کے شعبہ بیرونی امراض کی پرچی فیس ایک روپیہ تھی مگر ہسپتال کے پارکنگ سٹینڈ پر موٹرسائیکل کی فیس دس روپے تھی۔ استقبالیہ پر پرچی بنانے والے نے مجھے اس خانے کی طرف روانہ کیا جس کے باہر لکھا تھا۔

’’مردوں کا داخلہ منع ہے۔‘‘

میں نے بیگم اور اماں کو اس خانے میں داخل کیا اور خود باہر انتظار کرنے لگا۔ دو منٹ بعد ہی دونوں باہر آ گئیں۔ ڈاکٹر نے مشینی معائنہ کرانے کی چٹ تھما دی تھی۔ ہسپتال کی لیبارٹری میں گئے تو معائنہ کرنے والی مشین خراب تھی۔ مشین چلانے والے ڈاکٹر نے ایک اور خانے کی طرف ہمارا منہ کر کے اس زور سے دھکا دیا کہ ہم سیدھا دروازے پر رکے۔ مجھے پھر باہر روک دیا گیا۔ اب کی بار اماں کو بھی باہر رکنا پڑا۔ بیگم تھوڑی دیر بعد ہاتھ میں ایک رپورٹ لئے باہر آئی۔ اس نے آتے ہی بتایا کہ اس خانے کی مشین بھی صحیح نہیں تھی، بس اندازے سے کام چلایا گیا ہے۔

ہم اندازے پر مبنی رپورٹ لے کر دوبارہ ڈاکٹر کے کمرے میں گئے تو پتا چلا وہ کہیں اور جا چکی ہے۔ ہم گھنٹہ بھر انتظار کے بعد گھر لوٹ آئے۔ دوسرے دن صبح صبح ہسپتال گئے۔ ایک بار پھر معائنہ کرانے کے لئے چٹ ملی۔ معائنہ کرایا تو ڈاکٹر نے دوا لکھ دی اورسات دن کھانے کی ہدایت کی۔ایک گولی روزانہ صبح، دوپہر اور شام کو کھانی تھی اور دوسری گولی دن میں ایک مرتبہ نگلنا تھی۔

دوا کھاتے ہوئے سات دن پورے نہیں ہوئے تھے کہ مرض پھیلتا معلوم دیا۔ چوتھے دن ڈاکٹرنی کے پاس گئے تو اس نے کہا، ’’حالت جتنی بھی خراب ہو، دوا کھاتے جاؤ، سات دن کے بعد ہی معائنہ کروں گی۔ ‘‘

خدا خدا کر کے سات دن پورے ہوئے توہسپتال گئے۔ مخصوص خانے میں بیٹھی نرس نے ناک میں گھسیڑی انگلی نکال کر کہا، ’’ رات کو آئیں۔‘‘ رات کو گئے تو ڈاکٹر کی دوست ملنے آئی ہوئی تھی جسے آدھی رات کو بھی اپنے گھر چین نہیں تھا۔ ڈاکٹرنی پہلے اس سے گپیں ہانکتی رہیں اور پھر مزید گپیں ہانکنے کے لئے اس کے ساتھ ہو لی جبکہ ہم راہ تکتے رہ گئے۔

دوسرے روز رات کو ہسپتال گئے تو لیڈی ڈاکٹر نے پھر چٹ لکھ دی۔ معائنہ کرانے گئے تو پہلے سے خراب مشین اور زیادہ خراب ہو گئی تھی ۔ لیبارٹری والے نے صبح آنے کو کہا۔ صبح پہنچے تو مشین میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ ہسپتال کے باہر ایک لیبارٹری سے معائنہ کرایا۔ ڈاکٹر کے پاس گئے تو اس نے باہر کی لیبارٹری سے کرائی گئی رپورٹ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور اس زور سے اڑی کہ جیسے رپورٹ نہ ہو ، رشتہ کا پیغام ہو۔

ہم نے ایک سفارشی ڈھونڈا جس کے کہنے پر ڈاکٹر نے دوبارہ چٹ لکھ کر دی۔ سفارشی ہمارے ساتھ ہسپتال کی لیبارٹری میں گیا تو مشین خود بخود چل پڑی۔ معائنہ کرانے کے بعد رپورٹ لا کر ڈاکٹر کو دی۔ اس نے پرانی دوا کھانے کی ہدایت کرتے ہوئے پھر سات دن کے بعد آنے کو کہا۔

اس بار سات دن پورے ہوئے تو عجب بات ہوئی۔ آٹھویں دن ہسپتال گئے تو یہاں بھی ہڑتال چل رہی تھی۔ میں نے جیب ٹٹولی جس میں بتیس سو پچیس روپے موجود تھے۔ میں بیگم کو پرائیویٹ ہسپتال لے گیا۔ وہاں جا کر میری جیب خالی ہو گئی۔ نویں دن میرے پاس اس ہسپتال جانے کے پیسے نہیں تھے اور سرکاری ہسپتال میں ہڑتال ختم نہیں ہوئی تھی۔ دسویں دن سرکاری ہسپتال گئے تو میری بیگم لیڈی ڈاکٹر سے ملنے میں کامیاب ہوئی۔ اس کی لیڈی ڈاکٹر سے تفصیلی بات چیت ہوئی جو تین منٹ پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد معائنہ ہوا تو پتا چلا کہ اب کچھ باقی نہیں رہا۔ وہ ،جس نے میرے خواب پورے کرنے تھے، آنے سے پہلے ہی رخصت ہو گیا تھا۔ اس کے یوں چلے جانے سے میں اور میری بیوی ایک دوسرے سے آنکھیں چرانے لگے۔ دو تین مہینے ہم ایک دوسرے سے منہ موڑ کر سوتے رہے۔ اس کے بعد وہ ہر رات میرا کندھا ہلا کر فرمائش کرتی۔

’’منہ میری طرف کریں۔‘‘

پھر ہم نے دوبارہ دو سے تین بننے کی کوشش کی جو یہاں آنے تک جاری تھی۔اب ملا جواب کہ مجھے ہسپتال سے کیوں ڈر لگتا ہے؟ ‘‘ کافی دیر سے لگاتار بولتے ہوئے راشد نے میز کی دوسری طرف کرسی پر بیٹھے ڈاکٹر ہشام سے یوں کہا جیسے چھٹی جماعت کا بچہ ریاضی کا سوال حل کر کے اپنے باپ سے ذہانت پر داد کا طالب ہو۔ وہ زیادہ تر چپ رہتا تھا لیکن جب بولنے پر آتا تو زبان نہ رکتی جیسے اب قینچی کی طرح چل رہی تھی۔

’’ہاں۔ لیکن تم اب پھر ایک ہسپتال میں ہو۔‘‘ ڈاکٹر ہشام نے اپنا چشمہ آنکھوں سے اتار کر میز پر رکھتے ہوئے جواب دیا جس پر راشد نے آنکھوں پر زور دے کر ڈاکٹر ہشام کو یوں دیکھا کہ اس کی آنکھیں تھوڑی تھوڑی میچ گئی تھیں۔ وہ کچھ دیر یونہی دیکھتا رہا ۔پھر آنکھیں پوری کھول کر بولا۔

’’ہاں۔ لیکن میں یہاں خود تو نہیں آیا، بھیجا گیا ہوں۔ ویسے بھی یہ ہسپتال نہیں۔ پاگل خانہ ہے۔‘‘

’’پاگل خانہ بھی ہسپتال ہی ہوتا ہے۔ تم اپنی بیوی سے اتنی مار پیٹ نہ کرتے تو تمہیں یہاں نہ آنا پڑتا۔‘‘

’’ہاں۔۔۔‘‘ راشد نے میز پر ناخن زور سے رگڑتے ہوئے اپنی پریشانیاں صاف کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک معمولی اخبار نویس ہوا کرتا تھا۔ ایک ماہر منشی کی طرح رات گئے تک خبروں کا حساب کتاب کیا کرتا۔ ان کی کانٹ چھانٹ کرتا ۔ ہر چھوٹے آدمی کی خبر بڑی سے بڑی بنانے کی کوشش کرتا اور ایک دن خود خبر بن گیا۔ اس نے اپنی بیوی کی اچھی خاصی چھترول کر دی تھی جسے ہسپتال داخل کرانا پڑا جہاں وہ کئی دن رہی ۔ جب وہ ہسپتال سے نکلی تب راشد کو ہسپتال جانا پڑ گیا۔ اب اسے یہاں رہتے ہوئے تین مہینے ہونے کو تھے اور ڈاکٹر ہشام اسے چھٹی دینے کے لئے ذہنی حالت جانچ رہا تھا۔ ڈاکٹر نے جانچ جاری رکھی ۔

’’تمہیں کیا لگتا ہے کہ تم نے اپنی بیوی کو کیوں مارنا شروع کیا؟‘‘

’’پتا نہیں۔ شاید بچہ ضائع ہونے کی وجہ سے ۔‘‘راشد کی آواز کہیں دور سے آئی۔

’’تمہیں پتا ہونا چاہئے۔ یہ اس کی غلطی نہیں تھی۔‘‘ڈاکٹر ہشام نے فٹ کہا۔

’’میرے دماغ کے کسی خانے میں اس کی صحیح وجہ موجود نہیں۔ شاید کسی کا غصہ اور کسی پر نکلتا رہا۔‘‘ راشد نے میز پر ٹھوڑی ٹکاتے اور بانہیں پھیلاتے ہوئے جواب دیا تو ڈاکٹر ہشام پل بھر کے لئے چونک گیا۔پھر اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے پوچھا۔

’’اچھا تمہارے دماغ کے خانے سے یاد آیا ، تمہیں کیوں لگتا ہے کہ تم کئی خانوں والے بڑے پنجرے میں ہو؟‘‘ ڈاکٹر ہشام نے چشمہ میز سے اٹھا کر شیشے صاف کرنا شروع کر دیئے۔

’’اس سوال کا جواب میں لکھ کر دینا چاہوں گا۔ مجھے کاغذ پنسل دو۔ کل جواب مل جائے گا۔‘‘

’’تمہیں پنسل نہیں مل سکتی۔تم خود کو یا کسی اور کو نقصان پہنچا سکتے ہو۔ ‘‘ ڈاکٹر ہشام نے ہنستے ہوئے جواب دیا ۔

’’اچھا تو یہ بات ہے۔ پھر ایسا کرو، ابھی کاغذ پنسل دو۔ تمہارے سامنے سب کچھ لکھ دوں گا۔ ‘‘ راشد کی اس سوچ پر ڈاکٹر کا قہقہہ لگانے کو جی چاہا لیکن کچھ سوچ کر مسکراہٹ تک محدود رہا اور اپنی جیب سے پین اور فائل سے کاغذ نکال کر راشد کے سامنے میز پر رکھ دیئے۔ راشد نے فوراً پین پکڑا ، اس کی نوک دیکھی جس میں ایک چھوٹی سے گیند تھی جو گھوم گھوم کر پیچھے سے پلاسٹک کے باریک پائپ سے سیاہی خود پر لپیٹ کر کاغذ پر منتقل کرتی ہے۔ راشد نے پین کو جھٹکا دیا اور کاغذ پر جھک کر لکھنے لگا۔ ڈاکٹر ہشام اسے تجسس بھری نگاہوں سے تیزی کے ساتھ لکھتے دیکھتا رہا۔ راشد نے کچھ ہی منٹوں میں صفحہ بھر دیا اور اس نے کاغذ کا رخ تبدیل کر کے حاشیے کے لئے بچی جگہ بھی پر کر دی۔ پھر اس نے کاغذ کو اوپر سے نیچے تک دیکھا اور اس عمل کے بعد کاغذ میز پر رکھا، اس کے اوپر پین رکھا اور دونوں چیزیں ڈاکٹر کی طرف کھسکا دیں۔ ڈاکٹر نے جب پین پکڑ کر جیب میں لگایا تو راشد چھت کی طرف دیکھ رہا تھا جہاں تازہ پھری سفیدی پر اناڑی ہاتھوں کے نشان دِکھ آ رہے تھے۔ ڈاکٹر نے ایک نظر اسے دیکھا اور پھر جواب پڑھنے لگا۔

’’میں پنجرے میں ہوں۔ میں پنجرے میں کیوں ہوں؟ یہ سوال زیادہ اہم ہے لیکن یہ آپ کی سوچ سے اوپر کی بات ہے۔ میں بتاتا ہوں کہ مجھے کیوں لگتا ہے میں ایک اتنے بڑے پنجرے میں ہوں جس کی کوئی حد نہیں۔ میں گھر سے نکلتا ہوں۔ موٹرسائیکل پر جاتے ہوئے دو کلومیٹر بعد کوئی پولیس والا مجھے میری حفاظت کے نام پر روک لیتا ہے۔ طرح طرح کے سوال کرتا ہے۔ کاغذ دیکھتا ہے۔ پھر کمیٹی کھانے والی عورتوں کی طرح دو چار باتیں کرتا ہے ۔ یہاں سے دو تین کلومیٹر بعد پھر کوئی پولیس والا مجھے روک لیتا ہے۔ اگر کوئی پولیس والا مجھے میری حفاظت کے نام پر نہ روکے تو کہیں نہ کہیں کسی بڑے آدمی کی سواری کے نام پر سڑک بند ہوتی ہے۔ یوں سڑک میرے لیے پنجرہ بن جاتی ہے۔ میری بیوی گھر سے باہر نکلتی ہے تو ہرس کی ماری نگاہیں اسے قید کر لیتی ہیں۔ میں سرکاری ملازم نہیں ۔ چھوٹے چھوٹے پرائیویٹ اداروں میں نوکری کرتا رہا ہوں جہاں مجھ سے گدھے کی طرح کام لیا جاتا جیسے میں کارکن نہیں، محض غلام ہوں۔ گھر واپس آتے ہوئے راستہ بھٹک کر فوج کی بنائی رہائشی کالونی میں گھس جاؤں تو لگتا ہے میں کسی اور ملک میں آ گیا ہوں۔ میں یہاں سے نکلنے کے لئے بے چین ہو جاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے میں پنجرے کے ایسے خانے میں داخل ہو گیا ہوں جہاں میرا داخلہ ممنوع ہے۔ شارٹ کٹ کے چکر میں بیورو کریٹ کالونی کی راہ لوں تو ڈرتا ہوں کہ کوئی پوچھ نہ لے، ’’ہاں بھئی تیری ہمت کیسے ہوئی ادھر آنے کی؟‘‘ میرا معیار زندگی بلند کرنے کے لئے وہ لوگ قانون بناتے ہیں جن کے علاقوں میں گھسنا بھی میرے بس سے باہر ہے۔ تو کیا میں پنجرے میں نہیں؟ گھر میں طرح طرح کی ضروریات دروازہ کھولے میرے اندر آنے کا انتظار کرتی ہیں اور ان سے نمٹتے نمٹتے میری ہمت جواب دے جاتی ہے۔ میرا آزاد ہونے کو جی چاہتا ہے۔ گھر سے باہر نکلتا ہوں تو عجب افراتفری کا عالم ہوتا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کا راستہ کاٹ رہا ہوتا ہے ۔ اپنی سواری کو تیز بھگا کر پنجرے سے نکلنا چاہتا ہے۔ کسی نے خود پر سامان تعیش کا خول چڑھا رکھا ہے اور کوئی خود کو کپڑوں میں بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ ہو کیا رہا ہے۔ ہر چوک میں چار پانچ لوگ بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔ ان کا گھیرا میرے گرد ایسے ہوتا ہے کہ میں خود کو پنجرے میں مقید پاتا ہوں۔ مجھے ڈبل ایم اے کرنے کے باوجود سرکار کلرک تک نہیں رکھتی اور ایک میٹرک پاس شخص سوئی گیس کے محکمے کا سربراہ بنا دیا جاتا ہے۔ ایسی ناانصافی تو صرف پنجرے میں ہی ہو سکتی ہے۔ جب میں کوئی سچی بات کہنا چاہتا ہوں تو مجھے روک دیا جاتا ہے۔ کبھی کبھی میری پٹائی کر دی جاتی ہے ۔ میں کچھ کہنے سے ڈرتا ہوں تو کیا میں پنجرے میں نہیں؟ میں کچھ پانے کی جستجو سے ڈرتا ہوں۔ مجھے ہر وقت کچھ نہ کچھ کھونے کا خوف رہتا ہے اور جب میں اس خوف کے علاج کے لئے جاتا ہوں تو حکم ملتا ہے ، ’’آج ملاقات کا وقت نہیں۔‘‘ تو کیا میں قید نہیں؟ میں ایسے پنجرے میں ہوں جس کا دروازہ کھلا ہے لیکن اس پر دو پہرے دار کھڑے ہیں۔ایک نے اکڑی ہوئی شلوار قمیص پہن رکھی اور ہر وقت مونچھوں کو تاؤ دیتا رہتا ہے۔ دوسرے نے بدیسی لباس زیب تن کیا ہوا ہے اور ہاتھ میں ایک لمبی چھڑی ہے جس کے ایک کونے پر لگا بٹن دبائیں تو دوسرے کونے سے سٹیل کی تیز دھار والی چھری نکل آتی ہے۔ ‘‘

ڈاکٹر ہشام نے تحریری جواب پڑھا تو اس کے چہرے پر الجھن اچھل کود کرنے لگی جس سے ڈر کر اس نے عینک اتار کر میز پر رکھ دی اور راشد کو دھندلائی ہوئی نظروں سے دیکھا جو اب تک چھت کی سفیدی تکے جا رہا تھا۔ ڈاکٹر نے اپنی ٹھوڑی پکڑ کر چند لمحے راشد کا اوپر کو اٹھا ہوا چہرہ پڑھنے کی کوشش کی۔ پھر میز پر رکھی فائل کھول کر اس میں کچھ لکھا اور کمرے سے نکل گیا۔ ڈاکٹر کے یوں چپ چاپ چلے جانے سے لاتعلق بیٹھا راشد چھت کی سفیدی تکتا رہ گیا جس پر اناڑی ہاتھوں کے نشان اور واضح ہو چکے تھے۔

٭٭٭

 

 

 

صحرا اور ڈوبتا چاند

 

 

انسان کا معدہ بڑی بری بلا ہے۔ یہی وہ بلا ہے جو دس سال کے شمس کو کھا گئی ۔وہ میرے ساتھ اس بلا سے بچنے کے لئے بھاگ رہا تھا۔ اس کا دوست حسن بھی ساتھ تھا جس کا کوئی مائی باپ نہ تھا۔ وہ شمس سے دس مہینے بڑا تھا اور میں ان دونوں سے سات آٹھ سال پہلے دنیا میں آیا تھا۔ میں نے شمس کے لئے فرار کا منصوبہ بنایا تھا جس میں حسن بھی شامل ہو گیا۔ وہ ڈیڑھ دن سے بھوکا تھا اور سمجھا ہم جہنم سے نکل کر جنت کی طرف جا رہے ہیں۔ جب اس کے پاؤں میں چلتے چلتے چھالے پڑ گئے تو اسے پتا چلا کہ یہ راہ نہیں آسان لیکن اب وہ لوٹ بھی نہیں سکتا تھا۔

جب سورج آگ برساتا تو ریت کے ذرے سچے موتیوں کی طرح چمکنے لگتے۔ حسن کے پاؤں میں پڑے چھالے یہ چمکتے موتی برداشت نہ کر پاتے اور وہ بار بار بیٹھ جاتا۔ تپتی زمین پر بیٹھ کر پاؤں ہاتھ میں پکڑ پکڑ کر دیکھتا۔ ابھی تو اسے لمبا راستہ طے کرنا تھا … ہاتھوں کے بل یا قدموں پر، جیسے بھی ہو۔ ہمیں جمعہ گوٹھ سے چلے تین دن ہونے کو تھے اور شمس کو مرے ابھی پونے دو دن ہوئے تھے۔ شمس دیکھنے میں بڑا سخت جان تھا۔ وہ شرارتیں بھی بڑی کرتا تھا لیکن بھوک نے اسے اسی طرح کھا لیا ، جیسے گندے پانی نے جمعہ گوٹھ کے کئی لوگ نگل لئے تھے۔

پیٹ بھی عجیب ہے۔ بھرا ہو تو نقصان ، خالی ہو تو اور بھی نقصان۔ کچھ الٹا سیدھا کھا لو تو ہیضہ ہو جاتا ہے۔ کچھ نہ کھاؤ تو انتڑیاں خشک ہو کر آپس میں اٹکل پیچو شروع کر دیتی ہیں اور انسان دوہرا ہو جاتا ہے۔ شمس بھی کئی بار دوہرا ہوا۔ وہ جب بھی دوہرا ہوتا ، مجھے تہرا چوہرا لگنے لگتا۔ وہ کمر کے بل لیٹتا۔ ٹانگیں پیٹ سے جوڑنے کی کوشش کرتا کہ پیٹ کے اندر نہیں تو چلو باہر ہی ماس لگ جائے۔ اس کی انتڑیاں اٹکل پیچو سے تھک کر نچڑنا شروع ہو گئی تھیں۔ ہم اسی سے بچنے کے لئے بھاگے تھے۔ شمس کی قسمت خراب تھی ، وہ زیادہ دور تک نہ بھاگ سکا۔

شمس کے پیٹ میں جب عجیب و غریب چیزیں اٹھ اٹھ کر بیٹھ جاتیں تو وہ مسکراہٹ کا منہ چڑاتے ہوئے پوچھتا۔ ’’ریت کھانے سے کچھ ہوتا تو نہیں۔‘‘ حسن اس کی بات سن کر ہنس پڑتا اور میں نہ رونے کی کوشش کرتا۔ میں تین افراد پر مشتمل اس مہاجر قافلے کا سربراہ جو ٹھہرا تھا۔ اس لئے میں رو نہیں سکتا تھا۔ جب حالات ہی ہم پر رو رہے تھے تو ہمیں رونے کی کیا ضرورت تھی۔ جب میں اور حسن شہر پہنچے تھے تو وہاں ٹی وی پر کئی لوگ ہمارے لئے رو رہے تھے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ شمس خالی پیٹ روتا تھا اور ٹی وی پر رونے والوں کی جیبیں بھی بھری ہوئی تھیں۔ مجھے یہ دیکھ کر بھی رونا نہیں آیا تھا۔

جمعہ گوٹھ میں مرد روتے نہیں تھے۔ یہ مردانگی کا سوال تھا۔ یہاں ایک مردانگی ہی بچی تھی، ورنہ ہر سال گرمیوں میں جب سورج جوبن پر آتا تو پینے کو پانی ہوتا نہ کہیں گندم بچی ہوتی۔ ہمارے جانوروں کے لئے چارہ تک نہ بچتا۔ کتے بلیوں کا پتا نہیں، اگر گائے بھی گوشت خور جانور ہوتا تو وہ ایک دوسرے کو کھا کھا کر گزارہ کر لیتیں۔ بھیڑیں ایک دوسرے کو اپنی رانیں دردِ دل کے واسطے ضرور پیش کرتیں، لیکن وہ گوشت خور نہیں تھیں۔ ہم گوشت خور تھے۔ عید کے عید گوشت کھاتے تھے ،جب قریبی شہر سے لوگ خیرات کرنے آتے۔

میں اپنی جھونپڑی کے باہر موٹی دری بچھائے ، آسماں پر تاروں کا تعاقب کرتے، اکثر خود سے ایک سوال کیا کرتا تھا۔ ’’یہ شہر کے لوگ گرمیوں میں خیرات کرنے کیوں نہیں آتے؟‘‘ میرے پاس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔ خود ہی جواب سوچ لیتا کہ گرمیوں میں شہر کے لوگ بھی بھوک پیاس سے بیمار پڑ جاتے ہوں گے یا پھر انہیں کوئی اور پریشانی ہوتی ہوگی ورنہ ہماری خبریں ہوا کے دوش پر اڑتی اڑتی ان تک پہنچتی ضرور ہوں گی۔ پچھلے سال گرمیوں میں مَیں شہر والوں کی راہ تکتے تکتے تھک گیا تو خود شہر جانے کا سوچا۔ یہی وقت صحیح تھا۔ جمعہ گوٹھ سے کئی لوگ جا رہے تھے تو مجھے بھی جانا ہی چاہیے تھا۔

ہم سندھو دریا کے بیٹے ہیں۔ یہ پانی کے ایک عظیم دیوتا کی خواب گاہ ہے جو کبھی ایک آنکھ کھول کر ارد گرد دیکھتا ہے اور کبھی دونوں آنکھیں کھول لیتا ہے۔ کبھی ہڑبڑا کر اٹھ بھی جاتا ہے۔یہ ہم پر کرم کی نظر کرتا ہے نہ کوئی اسے ہم تک لانے کی کوشش کرتا ہے۔ میرے دادا کہتے تھے کہ اگلے وقتوں میں ایک بہادر ساری رات پانی کے دیوتا سے لڑتا رہا ۔ دیوتا نے کئی بار اسے چاروں شانے چت کیا لیکن پھر وہ کھڑا ہو جاتا۔ دیوتا اسے دور دور پھینکتا ، وہ پھر جا چمٹتا ۔ شب بھر بدمست سانڈ کی طرح ٹکراتا رہا۔ سر ٹکراتے ٹکراتے رات گزرنے والی تھی۔ سورج کی پہلی کرن کے رات کی سیاہی کا سینہ چیر کر اس تک پہنچنے سے پہلے اور زندگی کی بازی ہارنے سے کچھ لمحے قبل اس نے دیوتا کا دل جیت لیا۔ اب تو مشینیں ہیں بڑی بڑی، کوئی ان مشینوں کو ہی دیوتا سے لڑا دے۔

ہم صحرا کے بچے ہیں جو پانی کے لیے جھولیاں پھیلائے رکھتے ہیں۔ آسمان کی طرف دیکھتے رہتے ہیں، لیکن آسمان چند برس سے ہماری طرف نہیں دیکھ رہا۔ جب آسمان ہی نہیں دیکھ رہا تو کوئی اور کیا دیکھے گا، لیکن میں نے دیکھا۔ میں نے شمس کو مرتے ہوئے دیکھا، اور بھی کئی لوگوں کو دیکھا لیکن شمس کو مرتے ہوئے دیکھنا کچھ عجیب تھا۔

شمس جب مر رہا تھا ، اس کے گلے کے قریب ایک ہڈی نظر آنے لگی تھی۔ مجھے بعد میں پتا چلا یہ ہڈی عورتوں کی نظر آئے تو حسن کی نشانی ہوتی ہے۔ جمعہ گوٹھ اور آس پاس کے کئی گوٹھوں میں یہ حسن بکھرا پڑا تھا۔ یوں کہنا چاہئے کہ حسن بکھر بکھر رہا تھا ،جیسے شمس بکھر گیا۔ بچھڑ گیا تھا۔ پہلے وہ مائی سکینہ سے بچھڑا تھا جس سے سائیں ذوالفقار یعنی میرا باپ کئی سال پہلے بچھڑ چکا تھا۔ مائی سکینہ کی ہڈی بھی نظر آتی تھی۔ اس کے بازوؤں میں پڑی چوریاں چوڑی ہو گئی تھیں۔ چوریوں کے نیچے سے بھی ہڈی نظر آتی تھی۔ جب وہ مری تھی تو اس کے چہرے پر وہ ہڈیاں نظر آرہی تھیں، جن کے اوپر ماس ہو تو ننھے منے گڑھے پڑتے ہیں۔

مائی سکینہ کے پاس ایک ریڈیو تھا جو سائیں ذوالفقار شہر سے لایا تھا۔ وہ ایک بار شہر گیا تھا، دوبارہ جانا چاہتا تھا لیکن کبھی جا نہیں سکا تھا۔ پچھلے سال گرمیوں میں ،جن دنوں آسمان ناراض تھا، مائی سکینہ کے ریڈیو پر ایک خبر چلی تھی کہ سندھو دریا وطن کے آقا گندم کی بوریاں، صاف پانی کی بڑی بڑی بوتلیں اور دوائیاں صحرا کے بچوں کے لئے بیج رہے ہیں۔ مائی سکینہ بڑی خوش ہوئی تھی۔ میں خوشی سے ناچا تھا۔ جمعہ گوٹھ میں یہ خبر سن کر ہر کوئی خوش ہوا تھا لیکن کئی خوشی سے ہی مر گئے۔ مائی سکینہ بھی ان میں سے ایک تھی۔

مائی کے مرنے کے بعد مجھے اور شمس کو کچھ دن آس پاس سے کھانے کو ملتا رہا۔ وہ بھلے لوگ اپنے حصے میں سے کچھ نہ کچھ دے دیتے۔ گندم کی بوریوں کی خبر بھی دیتے جو بس اب پہنچنے ہی والی تھیں۔ سنا تھا پلاسٹک کے بڑے تھیلوں میں گوشت بھی آ رہا ہے۔ ان دنوں میں کھلے آسمان تلے تاروں کا تعاقب زیادہ کرنے لگا تھا۔ تارے موٹی موٹی بوٹیوں کی طرح نظر آتے، جب دور چلے جاتے تو روٹی کا روپ دھار لیتے۔ چاند کبھی روٹی کے سخت کناروں کی طرح نظر آتا اور کبھی آدھی روٹی لگتا۔ یہ کافی دن پہلے پوری روٹی کی طرح تھا۔ لیکن ایسا وقت آ پہنچا کہ پوری روٹی آتی نہ آدھی ملتی۔

کب تک کوئی تاروں کے پیچھے بھاگ سکتا ہے۔ ایک دن ہر کوئی تھک ہی جاتا ہے۔ میں بھی تھک گیا۔ شمس کو ساتھ لیا۔ ہر وہ شے جو قیمتی لگی، تھیلے میں ڈال کر ساتھ لے لی۔ میں تھیلا کندھے پر ڈالے شمس اور حسن کے درمیان امام کی طرح چلتا رہا۔ تین گوٹھوں میں ٹھہرنے کے بعد ہمارے پاس تھیلا رہا تھا نہ شمس۔ میں اور حسن پھر بھی چلتے رہے۔ راتوں کو آسمان پر تارے شمس کی طرح میرا منہ چڑاتے ۔ دن کو آگ کا دیوتا آنکھیں دکھاتا۔ ہم ٹیڑھا منہ اور سرخ آنکھیں دیکھ دیکھ کر چوتھے گوٹھ پہنچے۔ یہاں لمبی ڈاڑھیوں والے کچھ لوگ روٹیاں دے رہے تھے۔ وہ لوگوں کو پانی بھی دیتے۔ ان کے پاس گوشت تھا جو تھوڑا تھوڑا سب کو ملتا۔ ہمیں بھی ملا۔ حسن اتنا کچھ دیکھ کر پاگل ہو گیا۔ اس نے معدے میں زیادہ ٹھونس لیا اور بیمار پڑ گیا۔ داڑھی والے لوگوں کے پاس دوائیاں بھی تھیں۔ میں نے ان سے پوچھا۔

’’کیا تمہیں سندھو دیس کے آقا نے بھیجا ہے؟‘‘ ان میں سے بڑھاپے کو گلے لگانے والے ایک شخص نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وہ کون ہے؟ میں حیران ہو گیا کہ یہ بوڑھا ہو گیا ہے اور اسے سندھو دریا وطن کے آقا کا نہیں پتا۔ پھر میں نے اسے بتایا کہ سندھو دیس کا آقا وہی ہے جس نے ہمارے لئے گندم کی ڈھیروں بوریاں، پانی کی بڑی بڑی بوتلیں، گوشت کے تھیلے اور دوائیاں بھیجی ہیں۔ اب حیران ہونے کی اس کی باری تھی۔ میں نے اسے زیادہ دیر حیران نہیں رہنے دیا اور پوچھا۔

’’تم لوگ جمعہ گوٹھ کب جاؤ گے؟‘‘

وہ بکھری بکھری داڑھی والا بوڑھا تھوڑا پریشان ہو گیا اور پھر ایسے بولا جیسے شرمندہ ہو۔ ’’ہمارے پاس سامان تھوڑا ہے۔ جمعہ گوٹھ بہت دور ہے۔ دوبارہ سامان اکٹھا کر کے وہاں جائیں گے۔‘‘ مجھے تھوڑا غصہ آیا کہ تب تک تو ہمارے آقا کی گندم بھی پہنچ جائے گی۔ یہ بات میں نے اس سے نہیں کہی تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کب واپس شہر جائیں گے۔ وہ جلد واپس جانے والے تھے۔ میں نے منت کی کہ مجھے اور حسن کو بھی ساتھ لے جائیں۔ انہوں نے انکار کر دیا لیکن میں نے پیچھا نہیں چھوڑا جس پر انہوں نے ہمیں کچھ روپے دے دیئے اور ایک پتابتا دیا۔

ہمارے لیے داڑھی والوں کا دیا ہوا سامان اور روپے چاند سے ز یادہ چمک دار تھے، جن سے ہم کچھ دن بعد سندھو دیس کے مرکز میں پہنچ گئے۔یہاں ہم داڑھی والوں کے پاس رہتے ہیں۔ میں چھوٹے موٹے کام کرتا ہوں۔ حسن قرآن پاک پڑھتا ہے۔ رہنے کے لئے جگہ ہے۔ کھانے کو ملتا ہے اور پانی بھی صاف ہوتا ہے۔ یہاں قریب ہی ایک دکان پر ٹی وی ہے جس پر ہمارا آقا نظر آتا ہے جو کہتا ہے کہ زندگی ایک تحفہ ہے۔

میں اکثر خود سے پوچھتا ہوں کہ شمس سے یہ تحفہ کس نے چھینا؟ پانی کے دیوتا کا سینہ چیر کر دل نکال لوں، جو ہم سے دور دور رہتا ہے۔ آسمان کو الزام دوں جس نے ہم پر کرم کی نظر نہیں کی یا پھر خود کو مجرم ٹھہراؤں جو چھوٹے بھائی کو سنبھال نہیں سکا۔ آقا کی گردن پکڑوں یا وڈیرے کا گریبان چاک کروںیا پھر ان سب کا پیٹ پھاڑ دوں جن کے گھر تحائف سے بھرے پڑے ہیں؟مجھے صحیح طرح پتا نہیں کہ کون بری الذمہ ہے۔ مجھے صرف اتناپتا ہے کہ زندگی واقعی ایک تحفہ ہے ،چاہے جیسی بھی ہو۔ یہ خدا نے دی ہے، واپسی بھی اسی کا حق ہے۔ اب میںتاروں کا تعاقب نہیں کرتا۔ خود سے یہ بھی نہیں پوچھتا کہ شہر کے لوگ گرمیوں میں جمعہ گوٹھ خیرات کرنے کیوں نہیں آتے۔   اب میں خود شہر میں رہتا ہوں۔

٭٭٭

تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید