FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

فہرست مضامین

صبحِ کاوش

 

 

 

                شبیر ناقدؔ

 

 

 

 

اس لیے اخلاص پہ قدغن لگائی ضبط کی

عارضہ یہ بن رہا تھا وجہِ رسوائی مری

 

شبیر ناقد

معرفت ظہور احمد فاتح، نزد گورنمنٹ کامرس کالج

تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازیخان۔ فون: 0333-5066967   0342-5237636

 

 

 

 

انتساب

 

(عساکرِپاکستان کے نام )

 

نشاں عظمتوں کا ہیں فوجیں ہماری

سکھائی گئی ہے انھیں جاں نثاری

جواں ان کے ہیں محنتی اور جیالے

وطن کے لیے نقدِ جاں دینے والے

کمانڈر ہے ان کا محبت کا پیکر

جو اَفسر ہیں سب ہیں اخوت کا مظہر

یہ ہر کام ہیں عزم و ہمت سے کرتے

کسی بھی مہم سے نہیں ہیں یہ ڈرتے

یہ نعرۂ تکبیر جب ہیں لگاتے

تو دشمن ہیں میدان سے بھاگ جاتے

 

 

 

 

تاثرات و تاثیرات

 

کائناتِ بسیط حضرت انسان کے لیے کیا کیا مداراتِ فکر و نظر رکھتی ہے ۔ درحقیقت یہ سب کمال اُس خلاقِ عالمین کا ہے جس کی صناعی کا مظہر یہ جہانِ رنگ و بو ہے ،جس نے عالمِ جمادات کو رنگا رنگ نباتات سے مرصع فرمایا۔ پھر اس گلزارِ ہست و بود میں ذی روح پیدا فرمائے اور حضرت انسان کو تقویمِ احسن کا تاج پہنا کر فخرِ موجودات بنا دیا جو دل و دماغ اور ذہن و بیاں کے گراں قدر اوصاف سے بہرہ افروز ہے ۔ پھر عالمِ انسانیت بھی خود میں کیا کیا نیرنگیاں لیے ہوئے طرح طرح کے اوصافِ حمیدہ سے ابطالِ بشریت متصف ہے ۔ کوئی ماہرِ سیا سیات ہے تو کوئی مردِ میدان، کوئی وارثِ علم و عرفان ہے تو کوئی حاملِ شعر و ادب ہے ۔ اسی موخر الذکر قبیل سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت شبیر ناؔقد کا شعری مجموعہ "صبحِ کاوش” آپ کے خوبصورت ہاتھوں میں ہے جو خود میں طرح طرح کی دل آویز یاں لیے ہوئے ہے ۔ شاعر موصوف کے فنی امتیازات پر قبل ازیں مختلف مواقع پرسیر حاصل بحث ہو چکی ہے ، آج ہم ان کے موضوعاتی تنوعات پر قلم اٹھا رہے ہیں ۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے تو محض فوجی بن کر رہ جاتا ہے مگر شبیر ناقد نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ انسان کی افتادِ طبع ہر حال میں اپنے رنگ دکھاتی ہے کیونکہ یہ وہ سخنور ہیں جنھوں نے اپنے فرائضِ منصبی کماحقہٗ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر، ادیب اور نقاد کے فرائض بھی انجام دیے ہیں ۔ قبل ازیں اُن کے پانچ شعری مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں جن میں چار اُردو اور ایک سرائیکی زبان میں ہے ۔ اسی طرح میدانِ تنقید میں بھی وہ لوہا منواتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں ۔ اس حوالے سے چھ جلدوں پر مشتمل شاعراتِ ارض پاک کاسلسلہ اور اس کے ساتھ ساتھ "نقدِ فن”کے نام سے ان کا تنقیدی کارنامہ قابل ذکر ہے۔مزید براں راقم کی نسبت سے "ابو البیان ظہور احمد فاؔتح کا کیف غزل” بھی اُن کا شاہکارِ ادب ہے ۔

زیرِ نظر شعری مجموعہ "صبحِ کاوش”بہت سی فکری دلچسپیاں اور فنی رعنائیاں خود میں سموئے ہوئے ہے ۔اس میں صاحبِ کتاب کے بھر پور اہلِ ہنر ہونے کی شہادتیں پائی جاتی ہیں ۔ کتاب کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ اُن کا سخن کثیر الموضوعات اور ہمہ جہات ہے ۔ وہ صاف صاف بات کرنے کے خوگر ہیں ۔ تکلف میں پڑنا انھیں گراں گزرتا ہے ۔ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان کی حیثیت سے اپنے شعری مجموعہ کا آغاز حمد و نعت سے کرتے ۔ہیں ساتھ ہی دیگر اسلامی موضوعات پر بھی حسبِ ضرورت اظہار خیال کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔

شعر ملاحظہ کیجئے ۔

ملا ہے جو کچھ ہیں اس پہ شاکر

سوہے مشیت بھی ہم پہ فاخر

(استغنا)

انھوں نے اپنے سخن میں اہلِ دنیا کے رویوں پر بھی بھرپور طنز کی ہے اور اُن کی کج روی کے حوالے سے برابر لکھتے رہے ہیں ۔ ذیل کے شعار میں اُن کے انھی خیال کی عکاسی ہوتی ہے ۔

مصر کج روی پر بھی یہ سارا جہاں ہے

محبت یہاں بین کرتی ہے ہر دم

کسی میں بھی اخلاص مطلق نہیں ہے

مروت بھی گھُٹ گھُٹ کے مرتی ہے ہر دم

(ذوقِ وفا)

حقیقت میں فقط کردار سے انسان بنتے ہیں

مروت سے جو عاری ہو وہ رسوا ہو ہی جاتا ہے

 

میرے شعروں میں جہاں کی بے حسی کا عکس ہے

اس لیے طنّاز ہو جاتا ہے کچھ میرا سخن

 

کبھی رقم ہوں جو حالات اہل عالم کے

صلاح یہ ہے اُنھیں محو بے حسی لکھنا

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ وہ عالم سے بیزار ہیں یا تارک الدنیا ہونے کا سبق دیتے ہیں بلکہ وہ بھر پور زندگی گزارنے اور جدید رنگ ڈھنگ اپنا نے کے حق میں ہیں ۔چنانچہ لکھتے ہیں

فکر کو بخشیں رنگ نیا

شعر میں ہو آہنگ نیا

کہنہ رنگ کریں تبدیل

سوچ کے ڈھنگ کریں تبدیل

(جدّ ت)

حیات و کائنات کے حوالے سے عموماً دو طرح کی سوچیں پائی جاتی ہیں ۔ ایک رجائی اور دوسری قنوطی۔ جہاں تک ناقد ؔ کا تعلق ہے ، وہ رجائیت پسند ہیں اور زندگی کو نگاہِ قدر سے دیکھتے ہیں ۔ وہ اس کیف وسرورکو شجر ممنوعہ سمجھنے کی بجائے درجۂ استحباب پر رکھتے ہیں ۔ وہ مصائب و آلام سے دل برداشتہ نہیں ہوتے بلکہ ایک مجاہدانہ انداز میں اس کا سامنا کرنا پسند کرتے ہیں ۔ ستم رسیدگانِ جہاں کا من پرچاتے ہوئے کہتے ہیں ۔

زندگی کے پیچ و خم ہی زندگی کاساز ہیں

یہ خوشی اور یہ الم ہی زندگی کا راز ہیں

(شعورِ حیات)

وہ زندگی کو نہ مذاق سمجھتے ہیں اور نہ غیر ذمہ دارانہ انداز میں گزارنا پسند کرتے ہیں ۔ اس کے لیے قناعت وشائستگی کا رویہ اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں ۔ نیز حیات کے مختلف رنگوں اور کیفیات سے مردانہ وار نمٹنے کا درس دیتے ہیں ۔

یہ ایک دشوار ساصحیفہ

اسے نہ سمجھو کبھی لطیفہ

کبھی خرد کی یہ داستاں ہے

کبھی جنوں کی یہ ترجماں ہے

(زندگی)

شبیر ناقد ؔ زندگی گزارنے کے لیے اولو العزمی کو ترجیح دیتے ہیں ۔ اُن کا نظریہ یہ ہے کہ دنیا میں عزم و ہمت کے ساتھ رہنا چاہیے ۔ اس کے لیے انھوں نے چٹان کا استعارہ استعمال کیا ہے جو خود تو اپنی جگہ برقرار ومستحکم رہتی ہے ، مگر جو بھی اُس سے ٹکراتا ہے ، وہ پاش پاش ہو جاتا ہے ۔ ذرا یہ نظم پارہ ملاحظہ ہو ۔

جہاں ہے میرے عمل سے خائف

کہ میں ہوں پیکر جسارتوں کا

مجھے ودیعت ہوئی حمیت

میں استعارہ ہوں کاوشوں کا

(چٹان )

شبیر ناقد ؔ سوزوسازِ حیات سے پوری دلچسپی رکھتے ہیں ۔ وہ یہ سمجھتے ہیں اور سمجھاتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ زندگی کے سوزوساز دونوں اپنے طور پر اہمیت کے حامل ہیں ۔یہ دونوں رنگ محبت میں پائے جاتے ہیں ۔ محبت سر چشمۂ حیات ہے ۔

ہر گھڑی اک سوز ہے اور سوز ہی تو سازہے

شعر اپنا درحقیقت پیار کی آواز ہے

(سوزِسازآفریں )

روایت رہی ہے کہ شعرائے قوم جنوں کا دم بھرتے رہے ہیں ، بطورِ خاص اقبال و فیض کا کلام اس کا شاہد ہے لیکن ناقد ؔ نے خرد کی طرفداری کو اپنا شعار بنایا ہے جو بظاہر ایک عام سی بات نظر آتی ہے لیکن یہ امر اُن کی افتادِ طبع کے عین مطابق ہے ۔

کوئی داستاں میرے دل کی نہیں ہے

فسانے ہیں سارے خرد کے ہی میرے

خرد نے نبھائے ہیں کردار دل کے

مگر میرا اصلی حوالہ خرد ہے

(روپ خرد کے )

اس لیے اخلاص پہ قدغن لگائی ضبط کی

عارضہ یہ بن رہا تھا وجہِ رسوائی مری

حضرت ناقد ؔ کے ہاں ایک بھرپور تنقیدی شعور بھی کار فرما ہے ۔ وہ فن کی مقصدیت ،افکار کی اہمیت اور اذکار کی افادیت سے بخوبی آشنا ہیں ۔ وہ یہ مانتے ہیں کہ شاعر کا فرضِ منصبی کیا ہے اور منتہائے سخن کیا ہے ۔ درجہ ذیل اشعار پر نگاہ فرمائیے ۔

فن مرے خوں میں سرایت کر گیا

ساغرِہستی اسی سے بھر گیا

(سفیرِ فن)

عصرِ حاضر کے سخنور کا یہی مقصود ہے

ہو سخن میرامسجّع ندرتِ الہام سے

میرے رتجگوں کا ریاض ہے میری زندگی کا ثمر بھی ہے

ہے شعور مجھ کو حیات کا، میری فکر میرا ہنر بھی ہے

بے فروغ و بے اثر تھی دہر میں

شاعری کو پر اثر میں نے کیا

منعکس ہوتا ہے وہ سب کچھ زمینِ ذہن پر

نصب کر رکھے ہیں میں نے آئینے اپنی جگہ

شبیر ناقد کی شاعر ی روکھی پھیکی نہیں ہے بلکہ اس میں روحانی فضا اور خلوص و محبت کے تذکرے بھی ہیں ۔ حسنِ محبوب کی رعنائیوں کا مذکور بھی ہے اور ہجر و وصال کی کیفیات کا انعکاس بھی ہے ۔ کیونکہ یہ امور تغزل کی جان ہوا کرتے ہیں ۔ یہاں ہم صرف دو شعر بطور استشہاد پیش کر رہے ہیں ۔

گلاب چہرے ،ستارہ آنکھیں ،خیال گہنے

ہیں روئے ارضی پہ درحقیقت کمال گہنے

ہمارا حال کچھ یوں ہے تمنا کے تعاقب میں

کہ جیسے طفلِ ناداں سے غبارے چھوٹ جاتے ہیں

القصہ مختصر ناقد ؔ میزانِ ہنر میں ایک معتبر حوالہ ہیں جو نظم و غزل دونوں میں یکساں کاوش کرنے والے ہیں ۔ وہ نبضِ جہاں پر ہاتھ رکھ کر تشخیص کا ملکہ رکھتے ہیں ۔ دور کی کوڑی لانے کی بجائے دل کے تقاضے کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔ عقل و دانش کی گفتگو اُنھیں بھلی لگتی ہے ۔ خود بھی مصروفِ عمل رہتے ہیں اور اپنے قاری کو بھی تگ و تاز کے لیے تیار کرتے ہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سماج کی ایک بڑی خدمت ہے کہ دل گرفتوں کو دل شکستہ نہ ہونے دیا جائے بلکہ اُن کی ہمت افزائی کی جائے تاکہ حوصلے جواں رہیں ۔

ہماری دعا ہے کہ رب اُنھیں مزید توفیقات سے بہرہ افروز فرمائے ۔( آمین ثم آمین !)

 

ابو البیان ظہور احمد فاؔتح

فاتح منزل تو نسہ شریف

فون نمبر03326066364

٭٭٭

 

 

 

 

حمد باری تعالی

 

تمہارے ہی چرچے ہیں نطق و دہن میں

تمہارے ہیں جلوے زمین و زمن میں

 

تمہاری مہک عنبر و یاسمن میں

ہے خوشبو تمہاری گل ونسترن میں

 

تمہارے ہی دم سے سبھی رونقیں ہیں

تمہیں سے ہے سبزہ جہاں کے چمن میں

 

تمہاری بدولت منور ہے دنیا

تمہاری تجلی ہے روشن کرن میں

 

تمہیں سے ہیں منسوب حالات سارے

ہے موجود قدرت تمہاری پَون میں

 

ہیں اوصاف سارے تمہارا ہی عطیہ

جو موجود ہیں میرے خاکی بدن میں

 

ہے پایا تمھیں ہر کہیں جلوہ آرا

تمہارا ہے مذکور ہر انجمن میں

 

تمہیں سے ملی ہے انھیں ضو فشانی

جوہیں ماہ و خورشید نیلے گگن میں

 

کسی اور میں اس کو رغبت نہیں ہے

بسیراتمہارا ہے ناقدؔ کے من میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

نعت سرورِ کونینؐ

 

صاحبِ جود و سخا،لطف و کرم

رحمت اللعالمیں ، شاہِ اُمم

تیرے دم سے دل میں ہے پاکیزگی

تو نے رکھا ہے سدا سچ کا بھرم

تجھ کو دامن گیر فکرِ قوم تھی

کھائے جاتا تھا تجھے اُمت کا غم

معتبر نا معتبر تجھ سے ہوئے

اہلِ حق نے راہ پائی دم بہ دم

کیوں نہ میں ناقدؔ لکھوں نعتِ نبیؐ؟

ہے یہی حسنِ بیاں ، حسنِ قلم

٭٭٭

 

 

 

 

کچھ خواب خیال میں رہتے ہیں

دن رات فسانے بُنتے ہیں

ہر وقت نظارہ کرتے ہیں

نینوں میں تمہارے جلوے ہیں

کوئی کام نہیں آتا ہم کو

بس تم پہ ہی ہم مرتے ہیں

کوئی نام نہیں جچتا لب پر

بس تیرے زباں پر چرچے ہیں

اب ظلم ستم مت کر اتنا

یہ لوگ بھی ہم پہ ہنستے ہیں

یہ دنیا چاہے جس کی ہو

ہم ناقدؔ صرف تمہارے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

ہے متاعِ بے بہا میری شکیبائی مری

ہے لہٰذا حُزن کی دنیا بھی شیدائی مری

اس لیے اخلاص پہ قدغن لگائی ضبط کی

عارضہ یہ بن رہا تھا وجہِ رسوائی مری

کب کسی نے ساتھ میرا اس زمانے میں دیا ؟

ہم سفر میری رہی ہے صر ف تنہائی مری

عین اُس لمحے مری پہلی محبت مر گئی

جب دمِ شادی سُنی تھی اُس نے شہنائی مری

خون سے سینچی ہے ناقد ؔ میں نے اپنی ہر غزل

اس لیے اقلیمِ فن میں ہے پذیرائی مری

٭٭٭

 

 

 

 

 

کسی سے نہایت محبت نہیں تھی

سرِزیست اتنی بھی فرصت نہیں تھی

بہت پھر بھی میں نے پذیرائی پائی

گو فن میں زیادہ ریاضت نہیں تھی

فسانہ مرا معتبر کیسے ہوتا

کہ حاصل کسی کی حمایت نہیں تھی

مجھے دوستوں نے دیے خوب دھوکے

کہ احباب میں کچھ مروت نہیں تھی

عبث تم نے ناقدؔ کو رسوا کیا ہے

کہو اُس میں وافر دیانت نہیں تھی

٭٭٭

 

 

 

 

 

سکوں کہاں رہا ہے اب دماغ میں

کہ مَے نہیں رہی مرے ایاغ میں

یہ جلتے جلتے بجھ گیا ہے شام سے

کہ دم نہیں رہا مرے چراغ میں

ہے ہر طرف ہی بے کلی کا اک سماں

خزاں عروج پر رہی ہے باغ میں

اذیتیں جواں رہی ہیں دم بہ دم

ہیں غم چھپے مرے دروں کے داغ میں

میں ناقد ؔ شکستہ پا ہوں مضطرب

کہ ہے کوئی عدو مرے سراغ میں

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت راز ہے ایسا جو افشا ہو ہی جاتا ہے

خبر جس کو نہیں ہوتی، شناساہو ہی جاتا ہے

وفا انمول موتی ہے بدل دیتی ہے انساں کو

بُرا جو شخص ہوتا ہے وہ اچھا ہوہی جاتا ہے

حقیقت میں فقط کردار سے انسان بنتے ہیں

مروت سے جو عاری ہو، وہ رُسوا ہو ہی جاتا ہے

ترا اِخلاص تحفہ ہے جو کر دے رام دشمن کو

کوئی جتنا پرایا ہو، وہ اپنا ہو ہی جاتا ہے

کسی سے حسنِ ظن رکھنا ہے ناقد ؔ خیر کا جذبہ

جسے تم جیسا سمجھو گے ،و ہ ویسا ہو ہی جاتا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

جیون روپک

 

تیرے بھی سب خواب ادھورے

میرے بھی کب سپنے پورے ؟

ہستی نام سرابوں کا ہے

پیہم درد نصابوں کا ہے

اپنا جیون درد کا دھارا

من بے چارہ نت دکھیارا

کب قسمت میں پیت اُجالا؟

بھاگوں میں ہے گھور اندھیرا

کون کسی کا کب ہوتا ہے ؟

میں روتا ہوں ،جگ سوتا ہے

دنیا غم دیتی ہے پیہم

نین جزیرے میرے پُر نم

 

 

 

جستجو

 

کتابوں کے سمندر میں

رہے ہیں غوطہ زن پیہم

فقط گوہر تلاشے ہیں

 

 

 

 

رتجگے

 

ہمیں دن کو کوئی نہیں سونے دیتا

مگر رات کو کس نے سونے دیا ہے ؟

مقدر ہمارا فقط رتجگے ہیں

 

 

 

خود پرستوں کے نام

 

مجھے خود پر ستوں سے الفت نہیں ہے

کوئی ان کی خاطر رعایت نہیں ہے

فقط زعم ہے ان کے جیون کا حصہ

کہ لایعنی لگتا ہے مجھ کو یہ قصہ

سویہ گیت گاتے ہیں اپنے ہی اکثر

فسانے سناتے ہیں اپنے ہی اکثر

کسی میں بھی تابِ سماعت نہیں ہے

کہ ان کے بیاں میں حقیقت نہیں ہے

یہ ہر حال میں خیر اپنی منائیں

نہ یہ ذات اپنی میں پھولے سمائیں

کوئی کام یہ ڈھب سے کرنے نہ پائیں

یہ اپنی ہی تعریف کے پل بنائیں

مرے دل کو ہے انکساری سے رغبت

مرے ہاں بہت ہے تواضع کی چاہت

 

 

 

 

استغنا

 

ہے حسرتوں کا وجود باقی

نہ ہست باقی نہ بود باقی

حیات نے وہ ستم دکھائے

گماں سے بڑھ کر الم دکھائے

عبث سمجھتے ہیں ہم شکایت

زباں پہ لاتے نہیں حکایت

نہیں میسرجو غم نہیں ہے

کسی کی فرقت الم نہیں ہے

ملا ہے جو کچھ ہیں اُس پہ شاکر

سوہے مشیت بھی ہم پہ فاخر

 

 

 

 

تقاضے راہِ الفت کے

 

 

محبت تو ہے اک خسارے کا سودا

ہے ا حساسِ سود و زیاں سے یہ عاری

نہیں اس میں کچھ کیف و کم کا حوالہ

خسارہ اُٹھانے کی جس میں سکت ہو

فزوں جس میں ہو ضبط کا حوصلہ بھی

مسلسل ستم کر سکے جو گوارا

تعلق نہ ہوجس کا راحت سے کوئی

الم ہم سفر جس کا رہتا ہو دائم

مصائب سے جس کی سدا دوستی ہو

قدم صرف وہ اس بیاباں میں رکھے

کرے ایسا انساں محبت کا دعویٰ

 

 

 

 

دشمنِ جاں سے

 

تری سوچ سطحی فقط عامیانہ

نہیں ہیں ترے کوئی ارفع مقاصد

خلوص و مروت سے عاری ترا دل

رہی فکر تجھ کو ہمیشہ سے اپنی

نہ رکھا بھر م تو نے اوروں کا ہرگز

رہا خبطِ عظمت میں جیون ہے تیرا

کسی کی بھی عظمت ہو تسلیم کیسے

سدا ذات اپنی میں تو ہے مقید

یہ اسباب ہیں تیری ناکامیوں کے

تری فکر ہے ارتقا سے بھی عاری

مرے ساتھ چلتے ، بہت دور جاتے

سفرتیرا موقوف اب اس لیے ہے

بنایا نہیں ہم سفر تو نے مجھ کو

 

 

 

 

روح میری مضطرب ہے اور لرزاں ہے بدن

خیر فطرت میں ہے میری اور مجھ میں اہرمن

زندگی میں کب کیا تم نے سکوں سے ہمکنار؟

اب دم آخر کرو گے کیا کرم اے سیم تن؟

کوئی بھی اپنا نہیں اس بے مروت شہر میں

مہرباں ہوتا نہیں ہم پر کوئی اہلِ وطن

میرے شعروں میں جہاں کی بے کسی کا عکس ہے

اس لیے طناز ہو جاتا ہے کچھ میر اسخن

دیکھتے ہیں چار سو گلزار میں رقصِ خزاں

جیسے مرجھائے ہوئے ہیں یا سمن ونسترن

ہر کوئی پا بند اپنی ذات کے زنداں میں ہے

کب کسی کے ذہن میں ہے جانشیں فکرِ چمن ؟

کب میں سوپایا سکوں سے چین کی آغوش میں ؟

جس کی قربت میں ہے راحت کب ملا وہ گلبدن؟

عمر کانٹوں میں کٹی ہے فصلِ بے گل میں مری

کب مری ریکھا میں ناقد صحبتِ سرو و سمن؟

 

 

 

 

لُٹ چکا ہے زندگی کا سکھ سکوں

کیا غرض تم کو جیوں یا میں مروں ؟

زندگی کا قافیہ اب تنگ ہے

ہیں مجھے گھیرے مسائل بے چگوں

راحت و فرحت سے کیا نسبت ہمیں ؟

روز و شب حالت ہماری ہے زبوں

بے کلی اپنی انیسِ جاں رہی

تم پہ کیا کھلتا مرا رازِ دروں ؟

مجھ کو سمجھایا خرد نے ہے یہی

جو مجھے چھوڑے اُسے میں چھوڑ دوں

پھیکا پھیکا زندگی کا رنگ ہے

ہیں مرے حالات ناقدؔ خواب گوں

 

 

 

 

 

کب مجھے گھیرے ہوئے ہیں کچھ مسائل عام سے ؟

میں نے بے پایاں الم پائے یہاں ہر گام سے

عصرِ حاضر کے سخنور کا یہی مقصود ہے

ہو سخن میرا مسجع ندرتِ الہام سے

پیار سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے

یہ نہیں ملتا کسی کو جبر و مکر و دام سے

آگہی کا ساتھ ہے عقل و خرد ہے رہنما

میں نہیں رکھتا کوئی نسبت شبِ اوہام سے

روزِ روشن کی طرح شائستہ میری سوچ ہے

ہے مفر افکار کے اخباث کے ادغام سے

ایک دھن میں ہے گزاری میں نے اپنی زندگی

کام رکھا ہے ہمیشہ میں نے اپنے کام سے

ایک در کا ہوں گدا اُس سے رہا ہوں ملتمس

کب رہا مجھ کو تعلق خود غرض اصنام سے ؟

شورشوں کی زد میں گزری ہے حیاتِ ناتمام

دو گھڑی بھی رہ نہیں پایا یہاں آرام سے

کر گئی تنہا مجھے اک فکر سارے شہر میں

ملتفت میری طرف تھے لوگ کچھ گلفام سے

شہرۂ آفاق اپنی فکر کے باعث ہوئے

کیسے رہ پاتے تری دنیا میں ہم گمنام سے

ہے اخوت سے محبت امن میرا دھرم ہے

اس لیے ہوں مجتنب جنگ و جدل کہرام سے

سچ ہے یہ کہ” نقدِ فن” سے ہے مجھے شہرت ملی

ماورا میرا بیاں ہر دم رہا ابہام سے

ہیں محاسن شاعری کے اور بھی کچھ دل نشیں

شعر ہوتا ہے حسیں افکار سے ایہام سے

مضطرب ہے تیری ہستی سکھ مقدر میں نہیں

روز کرتا ہوں سماعت یہ صدا میں بام سے

مر مٹا ہوں میں حقائق پر کہ ہوں تحقیق دوست

یہ سعادت پائی میں نے سچ کے استخدام سے

دن کٹا ہجراں میں میرا کرب کی آغوش میں

شوق جاگا ہے تری قربت کا من میں شام سے

زندگی ہر حال میں اپنے لیے ہے پُر خطر

اس لیے خائف نہیں میں گردشِ ایام سے

کج روی کی خو ہے اس میں کب وفا کا پاس ہے ؟

اس نے کچھ سیکھا نہیں ہے پیت کے پیغام سے

دوش ہے اخلاص میرا اور اک خوئے کرم

اس لیے میں بچ نہیں سکتا کسی الزام سے

جس نے مجھ کر دیا تنہا غموں کی بھیڑ میں

کی ہے اُس کی جستجوناقدؔسدااکرام سے

 

 

 

 

 

 

قید قفس میں ہم نے جیون گزار ڈالا

اس حزن و غم نے ہم کو بے موت مار ڈالا

تیری جدائیوں میں ہے عشق بھی توانا

تہذیبِ رنج نے ہے ہم کو سنوار ڈالا

بخشی اذیتوں نے افکار کو بلندی

درد و الم نے گویا ہم کو نکھار ڈالا

کوئی عذاب کیسا ،کوئی ملال کیسا؟

کاندھوں سے بوجھ ہر اک ہم نے اُتار ڈالا

وہ شخص جو لگا ہے ناقدؔ حریفِ ہستی

اُس پر ہمارے دل نے ہر شوق وار ڈالا

 

 

 

 

 

رفاقتیں نہیں رہیں

محبتیں نہیں رہیں

 

ہے بے حسی کا راج یوں

کہ الفتیں نہیں رہیں

 

جفا نگر ہے یہ جہاں

سو چاہتیں نہیں رہیں

 

ہے جدتوں کی آرزو

لطافتیں نہیں رہیں

 

خرد کو یوں فروغ ہے

حماقتیں نہیں رہیں

 

نفس نفس ہے بے سکوں

شرارتیں نہیں رہیں

 

عجیب سے مزاج ہیں

نزاکتیں نہیں رہیں

 

ہیں بے نیازیاں بہت

مروتیں نہیں رہیں

 

خلوص ہے گریز پا

عنایتیں نہیں رہیں

 

سنو جی ناقدِؔ حزیں

مودتیں نہیں رہیں

٭٭٭

 

 

 

مراجعت

 

یہ ہجر کا جو کرب ہے

دماغ کی یہ ضرب ہے

سکون ایک پل نہیں

کہ بے کلی کا حل نہیں

اگر تو سنگ سنگ ہو

حیات میں بھی رنگ ہو

ہوں دور ساری کلفتیں

جوان پھر ہوں راحتیں

خوشی بھی ہمر کاب ہو

نہ چشم آب آب ہو

سکون میں ہو زندگی

ہو سکھ سرور ہر گھڑی

نہ کیف ہو گریز پا

ملے مجھے تری وفا

 

 

 

 

ذوق وفا

 

اگر دوستوں سے محبت نہ ہوتی

نہ احباب کو اتنا ہم یاد کرتے

ہمیں بھول جانے کا فن کاش آتا

تو پھر اہلِ دنیا بھی معصوم کہتے

ہمیں مار ڈالا ہے اپنی وفا نے

ستم ڈھائے ہیں ہم پہ اہل جفا نے

مصر کج روی پر یہ ساراجہاں ہے

محبت یہاں بین کرتی ہے ہر دم

کسی میں بھی اخلاص مطلق نہیں ہے

مروت بھی گھٹ گھٹ کے مرتی ہے ہر دم

ہو الفت سے سر شار دنیا ہماری

وفا کے چمن کی کریں آبیاری

 

 

 

انتشار فکر

 

کتنے حصوں میں توجہ بانٹ دی؟

سوچ کو یوں منتشر میں نے کیا

 

نردوش

 

ہمیں جو یاد آتے ہیں

انھیں سب یاد کرتے ہیں

ہے اس میں دوش کیا اپنا؟

 

خواہش

 

نہیں وقت کا اور کوئی بھی مصرف

یہ جی چاہتا ہے کہ باتیں کریں ہم

 

جدت

 

عام ڈگر سے ہٹ کر سوچیں

کئی حصوں میں بٹ کر سوچیں

فکر کو بخشیں رنگ نیا

شعر میں ہو آہنگ نیا

کہنہ رنگ کریں تبدیل

سوچ کے ڈھنگ کریں تبدیل

جدت کو ہم یوں اپنائیں

کہ سب دیکھتے ہی رہ جائیں

سوچ کی مالا جپتے رہیے

نئے انداز میں سوچتے رہیے

 

 

 

دسمبر

 

بہت غم دسمبر نے مجھ کو دیے ہیں

دسمبر کی آغوش میں سانحے ہیں

اسی میں ہیں کچھ حسرتوں کے فسانے

مرے زخم گہرے ہیں ارمان پھیکے

ہیں صد مے اُجاگر ،اذیت جواں ہے

دسمبر نے بخشی مسرت کہاں ہے ؟

دسمبر میں ہے سالِ رفتہ کی بپتا

دسمبر نے وہ نقش ہستی پہ چھوڑے

مٹانا، بھلانا نہیں جن کا بس میں

دسمبر نے وہ درد بخشے ہیں مجھ کو

کہ اب جنوری سے بھی امید کم ہے

 

 

 

 

داستانِ حُزن

 

فرقتوں کے عذاب سہہ کر

الفتوں کے نصاب سمجھے

اور کچھ بھی نہیں ملا ہے

یہی تو ہے داستاں ہماری

جس کو بپتا کہا ہے ہم نے

 

 

 

 

حرزِ فن

 

ہے لازم کہ فن سے رکھو تم محبت

شب و روز اس کی ہی سیوا میں گزریں

نہ دل اپنا لہو و لعب میں لگانا

سداخدمتِ فن میں جیون بتانا

جہاں میں کوئی شئے نہیں فن سے ارفع

یہ بہتر ہے تم چھوڑ دو فن کی خاطر

مشاغل یہ سارے جو بے سود ہیں سب

مگر فن تو ہے رہتی دنیا کا قصہ

دعا ہے رہے اپنی ہستی کا حصہ

 

 

 

کثرتِ کار

 

کام اتنا ہوتا ہے

یاد کچھ نہیں رہتا

سب کو بھول جاتا ہوں

خود کو بھول جاتا ہوں

کام یاد رہتا ہے

 

 

 

 

ہے غمگساری کسی کی میرے لیے سعادت

یہی تو ہے شانِ آدمیت، یہی عبادت

مِرے خصائص بقا ہیں میری ،عطا ہیں تیری

انہیں کے باعث ہے تو نے بخشی مجھے نیابت

سخن کو میں نے دوام بخشا، مقام بخشا

یہ فکر میری ہنر ہے میرا،مری ریاضت

نفور لوگوں کو ہے سکھائی خلوص کیشی

کبھی بھی نفرت نہ پاس بھٹکی، رہی محبت

جفا نگر میں رہے کدورت سے دور ناقدؔ

ہمیں ودیعت ہوئی مروت، وفا، شرافت

 

 

 

 

مروتوں کی نمو ہے ہم سے

نگاہ بھی با وضو ہے ہم سے

صباحتوں کو ہے ہم سے نسبت

جہان یہ خوبرو ہے ہم سے

نہیں ہیں تیری وفا کے لائق

عجیب سی گفتگو ہے ہم سے

رجا کو ہم نے فروغ بخشا

ہوا جہاں مشک بو ہے ہم سے

جفا کا ناقدؔ چلن تھا پہلے

وفا کی اب جستجو ہے ہم سے

 

 

 

 

وفا چاہیے نہ جفا چاہیے

ہمیں آپ کی بس رضا چاہیے

جو ہر حال میں میرا بن کے رہے

مجھے ایسا اک دلربا چاہیے

نہیں اس سے بڑھ کر تقاضا رہا

ہمیں تیری دلکش ادا چاہیے

سدا زندگی میں یہ خواہش رہی

کرم ہو ترا اور عطا چاہیے

فقط اس نے چاہا تیرے پیار کو

نہ ناقدؔ کو اس کے سوا چاہیے

 

 

 

 

جفا نگر میں مروتوں کا جواز کیا ہے ؟

نفور لوگوں میں چاہتوں کا جواز کیا ہے ؟

غرض پرستی کے دور میں کیا وفا تلاشیں ؟

بہ ایں شقاوت محبتوں کا جواز کیا ہے ؟

چلن رویوں میں ہر طرف جب ہو کج روی کا

نفاستوں کا، نزاکتوں کا جواز کیا ہے ؟

وہ جن کے ہوتے ہو سرکشی کو فروغ حاصل

وہاں مری جاں قیادتوں کا جواز کیا ہے ؟

جہاں میں تکذیب ہو رہی ہے حقیقتوں کی

وہاں پہ ناقدؔ صداقتوں کا جواز کیا ہے ؟

 

 

 

 

دکھ کا نہیں ہے درماں

اپنا نصیب حرماں

آرام ہے میسر

پھر بھی ہوں میں پریشاں

کھائے ہیں زخم اتنے

ہوں زندگی سے نالاں

معمول ہے یہ میرا

افکار میں ہوں غلطاں

چھائی ہے ذہن و دل پر

ناقدؔ وہ زلفِ پیچاں

 

 

 

رنگِ الفت

 

محبت کو شاخِ ثمر بار سمجھے

کہ صحرا کو جیسے ہیں گھر بار سمجھے

عجب رنگ الفت نے ہم کو دکھایا

کہ پل پل اذیت میں ہم نے بتایا

زمانہ مروت کے قابل نہیں ہے

کسی کو بھی اخلاص حاصل نہیں ہے

تعلق نہیں کوئی راحت سے ہم کو

اذیت سی ہوتی ہے چاہت سے ہم کو

ملی ہے سدا ہم کو اک سرگرانی

ہوا ختم اب اپنے اشکوں کا پانی

 

 

 

 

نا تمامی

 

زندگی اک سوز ہے

اک حسرتِ دلدوز ہے

زیست ہے نوحہ کناں

ہے ہر نفس محوِ فغاں

کوئی نہیں ہے با وفا

دل مانگتا ہے دلربا

ہیں چار سو بے چینیاں

بڑھنے لگیں بے تابیاں

کوئی خوشی حاصل نہیں

سو زندگی کا مل نہیں

 

 

 

 

ہمہ صفت موصوف

 

جائیں اگر اہلِ جنوں کے دشت میں

ہم سے بڑا اہلِ جنوں کوئی نہیں

اہلِ خرد میں جب شریکِ بزم ہوں

ہم سے بڑا اہلِ خرد کوئی نہیں

 

 

 

شعورِ حیات

 

گر خوشی اور غم نہ ہو تو زندگی کا کیف کیا؟

گر بہم دونوں ہوئے تو پھر بتائیے حیف کیا ؟

جرات و طاقت نہیں ، غیرت نہیں ، ہمت نہیں

جب نہ ہو دل میں یقیں تو پھر کرے گی سیف کیا؟

زندگی کے پیچ و خم ہی زندگی کا راز ہیں

یہ خوشی اور یہ الم ہی زندگی کا ساز ہیں

اپنی اپنی منزلیں ہیں ، اپنا اپنا کارواں

اپنا اپنا ولولہ ہے ، اپنی اپنی داستاں

اپنے اپنے حوصلے ہیں کامرانی کی نوید

جس نے ہمت ہار دی اُس کا نہیں کوئی نشاں

ہر گھڑی ہر گام پر تم زندگی کا ساتھ دو

جو یہ مانگے اس کو دو اور جو یہ بخشے تھام لو

 

 

 

امن مطلوب ہے

 

چین پامال ہے امن بدحال ہے

سکھ سکوں کو ترستی ہے خلقت یہاں

وحشتیں چاروں جانب ہیں سایہ فگن

ظلمتیں چاروں جانب ہیں سایہ فگن

مالک الملک ہو اک نگاہ کرم

تا کہ باقی ہو امن و اماں کا بھرم

اور کچھ بھی ہماری تمنا نہیں

اور کچھ بھی ہمارا تقاضا نہیں

امن مرغوب ہے

امن مندوب ہے

امن مطلوب ہے

امن مطلوب ہے

 

 

 

 

پاسِ خرد

 

کسی کو جب نہ پائیں ہم تو جیون کم نہیں ہوتا

کسی کو پا کے کھونے سے تو کچھ باقی نہیں رہتا

اگر منزل نہ مل پائے تو دکھ ہوتا ہے راہی کو

اگر منزل کو پالے وہ مگر پا کر اُسے کھو دے

عبث ہوتی ہے ہستی پھر سدا رہتی ہے بیزاری

سفر آغاز کرنا ہے ، یہ باتیں جان لو پہلے

جہانِ دل میں جانے سے خرد کا پاس لازم ہے

خرد سے دور ہو جو وہ بہت مجبور ہوتا ہے

 

 

 

خرد مند

 

ہے اعزاز حاصل کہ اہلِ خرد ہیں

نہیں ہے جنوں سے ہمیں کو ئی نسبت

کہ ہم دور ہیں ہر حماقت سے کوسوں

خرد کے اشاروں کا دل منتظر ہے

خرد کے طبق سارے روشن ہمارے

ہے آگے خرد کے جہاں اک تماشا

 

 

 

مری زندگی کب ہے جاگیر میری؟

کہ ہستی رہی مثلِ نخچیر میری

یہ نقار خانہ ہے طوطی ہوں میں

سُنے گا یہاں کون تقریر میری؟

چلایا گیا عمر بھر پابجولاں

سمجھ مجھ کو آئی نہ تعزیر میری

ستم پر ستم ہی سہے میں نے ہر دم

نہیں کارگر کوئی تدبیر میری

سراپا الم بن گئی میری صورت

لگے کیوں نہ غمگین تصویر میری؟

مسلسل گریزاں جو رہتے ہو مجھ سے

بتاؤ کوئی مجھ کو تقصیر میری

بکھر کر کئی بار خود کو سمیٹا

کہ تخریب میں بھی ہے تعمیر میری

پڑھے گا جو ناقدؔ وہ ہو گا فسردہ

کہ ہے داستاں اتنی دل گیر میری

 

 

 

 

 

نہیں زندگی راس آئی کبھی

کہ پل بھر کو راحت نہ پائی کبھی

کبھی میں نے یکسربھلایا تجھے

مگر یاد من میں سمائی کبھی

دیا ہے بہت ہم نے درسِ وفا

مگر ہو گئی بے وفائی کبھی

کیا تیرے اخلاص نے شیفتہ

نہیں تو نے کی کج ادائی کبھی

کبھی مجھ کو ناقدؔ کیا معتبر

ہوئی ہے مری جگ ہنسائی کبھی

 

 

 

 

 

مجھے زندگی نے ستم یوں دکھائے

میں رونا بھی چاہوں تو رونا نہ آئے

 

رہی اب کوئی بھی تمنا نہیں ہے

ہیں میرے مقدر نے یو ں گل کھلائے

 

کسی غم سے کیا اُس کو نسبت رہے گی؟

جو شام وسحر بس پیے اور پلائے

 

رہی گردشیں میری قسمت کا حصہ

کہیں بھی سکوں کے نہ دن میں نے پائے

 

ہے جیون فقط جبر کا اک فسانہ

کوئی اپنی مرضی سے آئے نہ جائے

 

ترے عہد کا کب ہے مجھ کو بھروسہ؟

کیے تھے جو پیماں کہاں ہیں نبھائے ؟

 

مرا آب و دانہ تو یکجا نہیں ہے

مقدر مرا مجھ کو دَر دَر پھرائے

 

سبب ہے یہی اک مری بے کلی کا

مری فکر مجھ کو ہے پاگل بنائے

رہا ہے جنوں سے سد ابیرناقدؔ

خرد نے مجھے وہ سبق ہیں سکھائے

 

 

 

 

میرے رتجگوں کا ریاض ہے ، میری زندگی کا ثمر بھی ہے

ہے شعور مجھ کو حیات کا، میری فکر میرا ہنر بھی ہے

میری زیست نے مجھے کیا دیا، یہ سوال کتنا عجیب ہے

رہا زندگی سے ہے پیار بھی، مجھے زندگی سے مفر بھی ہے

مجھے رنج نے وہ مزہ دیا کہ ستم پہ ہنسنا سکھا دیا

یہ جہاں ہے جس سے گریز پا ،میرے سکھ سکوں کا نگر بھی ہے

میری آگہی بھی کمال ہے ، نہ جہاں میں جس کی مثال ہے

میرا شعر نطقِ ہنر بھی ہے ،میری گفتگو میں اثر بھی ہے

جہاں عام لطف و خلوص ہو جہاں پیار بھی ہو قرار بھی

تیری کائناتِ بسیط میں کوئی ایسی راہ گزر بھی ہے

میں وہی ہوں ناقدِؔ خستہ پا جسے آپ نے ہے بھلا دیا

میں نہال ہوں کہ ملول ہوں ، تجھے کوئی اس کی خبر بھی ہے

 

 

 

رقم کی ہے میں نے صداقت یقیناً

ملی اپنے فن کو حمایت یقیناً

ہے تیری محبت کا مقصود واحد

ہے مطلوب تیری رفاقت یقیناً

کبھی بھی جنوں کو نہ ملحوظ رکھا

خرد سے رہی اپنی الفت یقیناً

"جو رہتے ہیں وہ آج کل کھوئے کھوئے ”

اُنھیں ہو گئی ہے محبت یقیناً

کوئی جب کسی کا نہ دمساز ہو گا

بپا ہوگی اُس دن قیامت یقیناً

مجھے کامیابی ودیعت ہوئی ہے

ہے شامل خد اکی عنایت یقیناً

بیاں کو ہے جس نے پذیرائی بخشی

سخن میں ہے ناقدؔ لطافت یقیناً

 

 

 

عکس محبت

 

الم الفت کا حصہ ہے

یہ دل والوں کا قصہ ہے

یہ اشکوں کی روانی ہے

امرسی اک کہانی ہے

غموں کا ایک سمندر ہے

یہ اک موجِ قلندر ہے

حزیں دل کی یہ دھڑکن ہے

وفاؤں کا یہ درپن ہے

کسی کے بھی تغافل سے

محبت کم نہیں ہوتی

جواں یہ اور ہوتی ہے

بڑھیں چاہے ستم جتنے

یہ اک انمٹ فسانہ ہے

یہ جیون کا ترانہ ہے

 

 

 

 

تکنیک

 

کاکلِ ہستی کبھی سلجھے نہیں

جیسے اب اُلجھے کبھی الجھے نہیں

اپنے من میں توہے غم سنسار کا

آئینہ اس کو نہ سمجھو یار کا

کیا ہمیں نسبت جہانِ عشق سے ؟

دور ٹھہرے ہیں فسونِ فسق سے

زندگی سے بارہا دھوکے ملے

ہم کو درد و رنج کے تحفے ملے

پیار ہم کرتے رہے انسان سے

ہے سبق سیکھایہی قرآن سے

 

 

 

 

سعیِ لاحاصل

 

چلے ہیں فقط دو قدم ہم سفر ساتھ میرے

کوئی بھی رفاقت نہیں مستقل اب کے ٹھہری

یہی ہے سبب میری تنہائیوں کا

وفا کا ہوں خوگر،وفا ڈھونڈتا ہوں

عجب آدمی ہوں میں کیا ڈھونڈتا ہوں ؟

بہ ایں عہد صدق و صفا ڈھونڈتا ہوں

 

 

 

 

متشاعرہ سے

 

بدن بیچ کر جو ہے شہرت کمائی

ہے افسوس تجھ کو نہیں شرم آئی

ہے رسوائی ، اس کو نہ شہرت سمجھنا

کبھی جھوٹ کو نہ حقیقت سمجھنا

زمانہ سمجھتا ہے تیری ادا کو

لگایا ہے داؤ پہ شرم و حیا کو

ادب کے حسیں چہرے پر تو ہے دھبہ

تو جتنی حسیں ہے مگر تو ہے دھبہ

جو عزت نہیں ہے تو شہرت نہیں کچھ

یہاں جھوٹ کی تو حقیقت نہیں کچھ

 

 

 

 

عذابِ بیداری

 

اب تو سوجا

جاگنا کیسا؟

جاگنے سے غم

کب کٹتا ہے ؟

یہ بڑھتا ہے

جتنا جاگو

 

 

 

کربِ عصر

 

کیا وقت کی نبضیں کہتی ہیں ؟

آواز توسن

کچھ ساتھ بھی دے

جو کرب جہاں میں باقی ہے

ظلمت کے جتنے سائے ہیں

سب اپنے ہیں

تو ان کے خلاف آواز اُٹھا

تو قلم اُٹھا ،ہتھیار بنا

کچھ مدد تو کر دکھ والوں کی

یہ سب ابنائے آدم ہیں

یہ سب کے سب تیرے بھائی ہیں

جو درد ہے ان کے پہلو میں

جو کرب ہے ان کی آنکھوں میں

وہ درد بھی تیرا اپنا ہے

وہ کرب سبھی کا اپنا ہے

 

 

 

ابھی تو

 

ابھی تو وقتِ سحر نہیں ہے

ابھی تو ظلمت جواں ہوئی ہے

ابھی اندھیرے ہیں اور باقی

ابھی ستم اور دیکھنے ہیں

ابھی ہے وقفِ ملال رہنا

ابھی تو قربانیاں ہیں دینی

ابھی عزائم اٹل ہیں رکھنے

دیے جلانے ہیں آگہی کے

خلوص و الفت کی روشنی کے

ابھی مٹانا کدورتوں کو

زمانے سے ساری نفرتوں کو

مر ے عزیز و !ہے کام سب کا

رہے کوئی بھی نہ اس سے غافل

 

 

 

 

 

مفت میں تو خدا نہیں ملتا

ورنہ جیون میں کیا نہیں ملتا؟

اپنی ہستی تو وقفِ گریہ ہے

اب کہیں آسرانہیں ملتا

کیا محبت رواکسی سے ہو؟

جب کوئی دلربا نہیں ملتا

دکھ میں اپنی حیات گزری ہے

کوئی غم آشنا نہیں ملتا

زندگی میں وہ زخم کھائے ہیں

چین اب تو ذرا نہیں ملتا

گیت کیسے نشاط کے گائیں ؟

جب کوئی ہمنوا نہیں ملتا

جس کو ڈھونڈا ہے عمر بھر ناقدؔ

کیوں وہ جانِ ادا نہیں ملتا؟

 

 

 

 

 

بوجھ اوروں کا اُٹھانا مشکل

عمر اس طورِ بتانا مشکل

ہے تقاضا یہ وفا کا یارو

"اپنے محسن کو بھلانا مشکل ”

نہ بتانا بھی ہے مشکل بے حد

راز دل کا ہے بتانا مشکل

بے کلی میری بڑھی ہے پل پل

گوہرِ شوق ہے پانا مشکل

زندگی ڈوبی ہوئی درد میں ہے

نغمہ خوشیوں کا ہے گانا مشکل

رتجگے کرب بنے ہیں اپنا

اب ہے جیون کو سجانا مشکل

قافیہ تنگ ہوا ہے ناقدؔ

اب کے ہے ہوش میں آنا مشکل

 

 

 

بہت زخم دنیا سے کھائے ہوئے ہیں

ہے جینا روایت، نبھائے ہوئے ہیں

 

جہاں میں کہاں اپنی مرضی سے آئے ؟

سو آئے نہیں ہم تو لائے ہوئے ہیں

 

ہے منشائے فطرت اُسے یاد کرنا

کہ ہم دلربا کو بھلائے ہوئے ہیں

 

نہیں کو ئی تسکینِ خاطر کا ساماں

یہاں سب کے سب دل دکھائے ہوئے ہیں

کوئی آزمائش نہیں اب کے باقی

بڑی دیر سے آزمائے ہوئے ہیں

 

ہماری جو یوں خشک آنکھیں ہوئی ہیں

جو تھے اشک سب وہ بہائے ہوئے ہیں

 

کسی کو نہیں ہم سے شکوہ رہا اب

یہاں سب کا ہم دل لبھائے ہوئے ہیں

 

نہیں نفرتوں کا چلن پاس اپنے

محبت کے ہم گیت گائے ہوئے ہیں

 

دکھوں کا نہیں خوف ناقدؔ ہمیں تو

کہ ہم ہاتھ ان سے ملائے ہوئے ہیں

 

 

 

 

بے وفا دہر میں چارہ گر کیا کریں ؟

"ہم سفر کے بنا ہم سفرکیا کریں ؟”

اب تو مرنے پہ اپنے نہیں بس رہا

عالمِ جبر ہے پھر مفر کیا کریں ؟

جن کے دامن سے لپٹے ہوں جور و جفا

بغض و نفرت سے پھر وہ حذر کیا کریں ؟

جو نہ رکھتے ہوں پہلو میں جنسِ جنوں

پھر وہ دل کیا کریں اور جگر کیا کریں ؟

بے حسی نے سمیٹا ہے سنسار کو

شعر ناقدؔ کے اس پر اثر کیا کریں ؟

 

 

 

 

اب تو جیون عذاب لگتا ہے

درد و غم کا نصاب لگتا ہے

آج تھوڑا سا چین پایا ہے

یہ بھی عہدِ شباب لگتا ہے

ہم کہ ہیں محو تیرے درشن میں

حسن تیرا شراب لگتا ہے

عشق تیرا بہار ساماں ہے

رُخ ترا ماہتاب لگتا ہے

نیکیوں سے پرے ہوں میں ناقدؔ

ہر گنا ہ اب ثواب لگتا ہے

 

 

 

 

چٹان

 

محبتوں کا عمیق دریا

میں پار کرنے کی سوچتا ہوں

ہیں راہ میں مشکلات جتنی

نہ پیچھے مڑکے میں دیکھتا ہوں

سوحوصلوں کی چٹان ہوں میں

کہ الفتوں کا نشان ہوں میں

جہاں ہے میرے عمل سے خائف

کہ میں ہوں پیکرجسارتوں کا

مجھے ودیعت ہوئی حمیت

میں استعارہ ہوں کاوشوں کا

خدا مرے عزم کو بڑھائے

نہ کوئی دکھ میرے پاس آئے

 

 

 

زندگی

 

حیات جیسے ہے سانس لیتی

ہے اپنے پنجوں میں پھانس لیتی

یہ ایک مشکل سی ہے کہانی

کہ جس کے باعث ہے سرگرانی

یہ ایک دشوار سا صحیفہ

اسے نہ سمجھو کبھی لطیفہ

اسے کبھی بھی سکوں نہیں ہے

مگر کبھی بے چگوں نہیں ہے

کبھی خرد کی یہ داستاں ہے

کبھی جنوں کی یہ ترجماں ہے

 

 

 

 

سراپا ادب

 

مرا اوڑھنا اور بچھونا ادب ہے

مرا جاگنا اور سونا ادب ہے

شب و روز شعر و ادب کی ہے خدمت

سدا جاری رہتی ہے فن کی ریاضت

ہے افکار میں جاذبیت سمائی

ہے مہر و وفا اور محبت سمائی

مری شاعری ہے مروت کا مظہر

مری نثر بھی ہے بلاغت کا مظہر

ہمیشہ رہی ہے وفا نقدِ فن سے

رہی والہانہ عقیدت سخن سے

 

 

 

 

 

دل کی دنیا

 

محبت دل کی دنیا ہے

نہ پانا ہے نہ کھونا ہے

سدا دل میں مرے ہمدم!

یہی احساس رہتا ہے

جو مل پاؤ محبت ہے

نہ مل پاؤ محبت ہے

کبھی راحت ،کبھی کلفت

کبھی گلشن، کبھی صحرا

کبھی خوشیاں ، کبھی ماتم

کبھی جشنِ طرب ہے یہ

کبھی آہ و فغاں پیہم

عجب بہروپ ہے الفت

بہت سے روپ ہیں اس کے

 

 

 

عدم فرصت

 

مشیت نے بخشا ہے مصروف جیون

کسی سے نہیں بات کر نے کی فرصت

سبھی دوست احباب نالاں ہیں مجھ سے

دیے جاتے ہیں بے وفائی کے طعنے

تکبر کے اور کج ادائی کے طعنے

حقیقت ہے یہ بھی مرے پاس اپنے لیے وقت کب ہے ؟

نہیں خود میں طرفہ، یہ جیون عجب ہے

سمجھ میں نہ آئے کروں کیسے احباب کو اپنے راضی؟

مرے دوست مجھ کو وفا دار سمجھیں

مجھے اپنا ہر حال غمخوار سمجھیں

سمجھ میں نہیں آتا اب کیا کروں میں ؟

 

 

 

 

 

مروت کے سارے تقاضے نبھائے

رہے میرے احباب ہو کر پرائے

سدا رحم سے پیش آیا ہوں میں تو

مگر مجھ پہ کوئی نہ اب ترس کھائے

تجھے مجھ سے پھر شکایت رہی ہے

دل و جاں اگر چہ ہیں تجھ پر لٹائے

اگر مقصدِ قرب ہے جور کرنا

تو کہتا ہوں کوئی نہ اب پاس آئے

نہ میں بھول پاؤں گاتا عمر جن کو

جہاں نے ہیں ناقدؔستم ایسے ڈھائے

 

 

 

 

دعاؤں کی ہم نے حقیقت کو جانچا

نفاست سے ہم نے محبت کو جانچا

نہ اس میں کوئی اور مقصد ہو پنہاں

زمانے کی ہر اک عنایت کو جانچا

ہے کس درجہ اخلاص وایثاراس میں

جنوں کو کھنگالا ذہانت کو جانچا

سخن میں سمایا ہے کتنا توازن ؟

سدا شاعروں کی ریاضت کو جانچا

ریا کا نہ ہو کوئی بھی اس میں پہلو

ہے ناقدؔ نے اپنی عبادت کو جانچا

 

 

 

 

مجھے تم سے محبت ہے

یہی میری عقیدت ہے

تجھے بھولوں بھلا کیسے ؟

تری ہی دل میں چاہت ہے

کبھی کرتی ہے تو باتیں

یہی تیری عنایت ہے

تیرا ہر جور پیارا ہے

گوارا ہر شرارت ہے

رہی ہے ہم سے جو دوری

تو یہ غمازِ نفرت ہے

میں جس پہ فخر کرتا ہوں

وہ تیری ہی رفاقت ہے

ہوں ناقدؔ ہجر کا مارا

مجھے تیری ضرورت ہے

 

 

 

 

ہم کھلی کتاب ہیں

خلوص کا نصاب ہیں

ہیں خیر و شر کے درمیاں

گناہ ہیں ، ثواب ہیں

ہمیں کسی کا خوف کیا؟

جو آپ ہم رکاب ہیں

وفا کی ہم سے آبرو

کہ بے وفا جناب ہیں

ہمیں سمجھ نہ آ سکی

عجب ترے عتاب ہیں

اے ناقدِؔ خیال سن

کرم تیرے عذاب ہیں

 

 

 

 

 

رے چار سو ایک وحشت نگر ہے

مجھے اس لیے زندگی سے مفر ہے

ہمیں کام شب کو نہیں سونے دیتے

نہ سوتے ہیں ہم اور نہ ہوتی سحر ہے

سکوں سے میں اک پل بھی بیٹھا نہیں ہوں

نہ ہے کوئی منزل ،نہ اور کوئی گھر ہے

گزارا سدا بے کلی میں ہی جیون

لگے ایسا آسیب کا کچھ اثر ہے

کبھی الفتوں نے نہیں چین بخشا

کیا میں نے چاہت سے ناقدؔ حذر ہے

 

 

 

 

حدیثِ عشق

 

عشق میں ہوتی رہیں رسوائیاں

عاشقوں کو ہیں ملی تنہائیاں

ہے رواں یہ قافلہ ہر حال میں

پیت کی بجتی رہیں شہنائیاں

عشق کرنا کب یہاں آسان ہے ؟

مشکلوں کا اک نیا پیمان ہے

دل اُجڑنے کا کسی کو غم نہیں

کچھ تو ہوگا،غم نہیں یا ہم نہیں

اب کے ترکِ عشق کا دم خم نہیں

بے خبر ہے چشم جس کی نم نہیں

کارو ں جیسے رواں ہے دم بہ دم

مستعدہیں اہلِ دل اہلِ قلم

 

 

 

رودادِ حیات

 

بہت وقت آہ و فغاں میں ہے گزرا

گراں وقت کوئے بتاں میں ہے گزرا

سکوں ہم نے پل بھر کو پایا نہیں ہے

کٹھن وقت اپنا جہاں میں ہے گزرا

نہ تھے اپنی قسمت میں خوشیوں کے میلے

رہے ہیں سدا دکھ میں ہم تو اکیلے

نہ کر پایا کوئی یہاں دستگیری

ملی زندگی بھر کی ہم کو اسیری

نہیں ہے جہاں سے ہمیں کو ئی شکوہ

کہ پہلو میں ہم بھی ہیں رکھتے فقیری

یہ غم اب کے ٹھہرا ہے پہچان اپنی

ہمیں فخراس پر ہے یہ آن اپنی

 

 

 

 

سوزِساز آفریں

 

تم صباحت کی پری ہو اور وفا کا ناز ہو

جس کے دم سے ہم ہیں زندہ، اس ادا کا ناز ہو

تم نے بخشیں پیار کو ہیں رونقیں ، رعنائیاں

تم سے بجتی ہیں دلوں میں پیت کی شہنائیاں

تم ہمارے ساتھ رہ جاؤ تو کوئی غم نہیں

جو خوشی غم کو بنا ڈالے خوشی ،وہ کم نہیں

ہر گھڑی اک سوز ہے اور سوزہی تو ساز ہے

شعر اپنا درحقیقت پیار کی آواز ہے

زندگی نے ہم کو جاناں غم دیے ہیں بے شمار

ہم تصور میں تمہارے خوش ہوئے ہیں باربار

 

 

 

 

روپ خرد کے

 

کوئی داستاں میرے دل کی نہیں ہے

فسانے ہیں سارے خرد کے ہی میرے

خرد نے نبھائے ہیں کردار دل کے

مگر میرا اصلی حوالہ خرد ہے

مرے قلب پر بھی خرد حکمراں ہے

ہے دل میرا بسمل ، خرد تو جواں ہے

یہ دل کر رہا ہے خرد کی غلامی

اسی کے لیے بس سعادت یہی ہے

یہی اس کی خاطر ہے اک نیک نامی

سپر ڈال دی دل نے آگے خرد کے

جو ہیں اہلِ دل وہ سدا ہیں پریشاں

جو اہلِ خرد ہیں ،سدا شادماں ہیں

خرد نے جو کردار دل کے نبھائے

حقیقت میں اوروں کے ہیں ظرف جانچے

 

 

 

علاجِ غمِ الفت

 

کسی کے ناز کیوں کراب اٹھاؤں میں ؟

کسی کے حسن کا جادو تو مجھ پہ چل نہیں سکتا

میں بیگانۂ احساسِ تجمل ہوں

کہ دل تو مرگیا میرا

فقط اک ذہن زندہ ہے

اُسی کا میں مقلد ہوں

سبب ہے یہ کوئی بھی غم نہیں رکھتا

الم سے گر مفر مطلوب ہے تم کو

روش میری کو اپنا لو

مری تقلید کر لو تم

کوئی دکھ پھر نہ پاس آئے

 

 

 

 

غمِ فرقت نے گھیرا ہے دکھوں کا اک سمندر ہے

ہے جیون سنگدل بے حد، یہ جابر ہے ، ستمگرہے

بڑھی ہے بے کلی ایسی سجھائی کچھ نہیں دیتا

میں عالم سے ہوں بیگانہ کہ میرا من قلندر ہے

مجھے الفت نہیں اُس سے جو عاری ہے محبت سے

ہے دل پتھر نماجس کا جفاؤں کا جو خوگر ہے

رہا ہوں میں سدا پیاسا ،ہے میری پیا س برسوں کی

بچا مٹکے میں پانی ہے ،نہ کوا ہے ، نہ کنکر ہے

انوکھی میری دنیا ہے ، انوکھا کام ہے ناقدؔ

میں لفظوں کا شناور ہو ں ، ہنر میرا قلندر ہے

 

 

 

 

جہاں اُس کاہے جس نے پیدا کیا ہے

زمانے میں پھر اُس کا چرچا ہوا ہے

کسی کا نہ ہو پایا میں زندگی میں

مگرسارا عالم ہی میرا بنا ہے

کبھی اُس کے بارے میں سوچا نہیں ہے

سدا جو مرے ساتھ چلتا رہا ہے

میں اوروں کی کرتا رہا خیر خواہی

کوئی زندگی میں نہ اپنا ملا ہے

ہوائیں اگرچہ مخالف ہیں ناقدؔ

مگر تیز آندھی میں جلتا دیا ہے

 

 

 

شب و روز میرے ہیں فن سے عبارت

رہی ہے مسلسل ادب کی ریاضت

تعلق ہمارا ہے صدیوں پرانا

ہمیں تم سے تمھیں ہم سے نسبت

تمہاری محبت میں سب کچھ ملا ہے

دعا ہے یہی دائمی ہو رفاقت

کبھی بھی نہ ہم نے ندامت اُٹھائی

نہ کی ہم نے کوئی بھی ایسی حماقت

نہ اچھا لگا کوئی انداز ناقدؔ

رہی ہم کو مرغوب ہے اک شرافت

 

 

 

 

تری ہر کہانی کو سمجھا ہے میں نے

ترے ہر کرم کو بھی پرکھا ہے میں نے

جوتم سے ملاقات میری ہوئی ہے

بصد شوق پھر حال پوچھا ہے میں نے

مری زندگانی ہے جیسے بھی گزری

سخن میں اسے اپنے برتا ہے میں نے

زمانے سے مطلق شکایت نہیں ہے

جو بویا جہاں میں ،وہ کاٹا ہے میں نے

پریشان ہونا نہیں سیکھاناقدؔ

مقدر موافق ہی پایا ہے میں نے

 

 

 

 

سدا رنج بخشے ہمیں مہ وِشوں نے

دیے ہم کو دھوکے عجب دلبروں نے

اگر غیر ہوتے شکایت بھی کرتے

ہمیں دُکھ دیے اپنے ہی دوستوں نے

کسی کی امارت نہ ٹھہری معاون

وفا ہم سے کی ہے فقط مفلسوں نے

میں محروم طبقے کا حامی رہا ہوں

دیا ساتھ ہر پل مرا بے بسوں نے

کہاں اہلِ ثروت نے تعظیم کی ہے ؟

کہا مرحبا ہے ہمیں بے کسوں نے

ہمیں زندگی نے رلایا ہے ناقدؔ

نہ کی چارہ سازی ہے چارہ گروں نے

 

 

 

 

سفیرِفن

 

شعر مشکل مجھ سے بھی لکھے گئے

کچھ عروضی تجربے ہوتے رہے

فن مرے خوں میں سرایت کر گیا

ساغرِہستی اسی سے بھر گیا

ہو کوئی بھی بحر کوئی بھی زمیں

میری خاطر کوئی بھی مشکل نہیں

میرا فن ہے میرے مولا کی عطا

جس نے ہے اخلاص بخشا بے بہا

بخش دے یارب مرے فن کو دوام

میرے مالک ہو اَمر میرا مقام

 

 

 

 

جزوِ لاینفک

 

مجھے بخش دے ہوں خطا کار تیرا

توجیسا بھی سمجھے ہوں میں پیار تیرا

تری ذات سے مجھ کو الفت ہوئی ہے

تجھی سے ہی جاں کی ریاضت ہوئی ہے

نہیں کوئی آساں تجھے بھول جانا

ہے مشکل بڑا تیری یادیں بھلانا

ترا پیار ہی تو مری زندگی ہے

یہی دوستی ہے یہی روشنی ہے

ترے پیار سے میرا جیون ہے شاداں

اسی کی بدولت میں رہتا ہوں فرحاں

نہیں کچھ بھی تجھ بن مری زندگانی

بنا تیرے پھیکی ہے میری کہانی

 

 

 

 

جیون

 

تمھیں دیکھتے ہیں

تمھیں سوچتے ہیں

ہے تم سے ہی الفت

کہ تم ہی ہو راحت

یہی زندگی ہے

یہی روشنی ہے

یہی آگہی ہے

یہی عاشقی ہے

یہی شاعری ہے

یہی بے خودی ہے

 

 

 

 

خود آموزی

 

میں حریصِ حسن ہوں

میری کوئی منزل نہیں

مضطرب ہوں میں سدا

میرے اس غم کی دوا کوئی نہیں

ہے سکونِ دل کی خاطر ناگزیر

بے نیازِ حسن بن کر

ہی سدازندہ ہوں

 

 

 

 

لطفِ حیات

 

میں رکھتا ہوں خود کو جو مصروف اتنا

مجھے سردیوں میں بھی لگتی ہے گرمی

مرا سکرب رہتا ہے پیہم فزوں تر

گنوا بیٹھا ہوں اپنے چہرے کی نرمی

کبھی ذہن ہو جاتا ہے میرا شل بھی

توازن رہے تو مناسب یہی ہے

وہ مصروفیت ہو کہ ہو وہ فراغت

مجھے لطف آتا ہے دونوں طرف سے

 

 

 

 

بندِ ضبط

 

ہم نے تو سنسارکو

دیکھا نگاہِ شوق سے

الفت ہماری خو میں تھی

اور تھے جذبے تپاں

ہم بہہ گئے اخلاص کے سیلاب میں

زندگی نے غم دیے تھے بے شمار

پھر بھی ہم روئے نہیں زار و قطار

مربوط جیون ضبط سے ہر دم رہا

ہوتا رہا ہر پل سلوکِ ناروا

 

 

 

 

 

ناقابلِ تعین

 

اظہار نہ کرنا بھی

بے انت اذیت ہے

دانش کا تقاضا تھا

اظہار کیا کرتے ؟

دراصل انا میں بھی

اک گونہ خرابی ہے

اس آفتِ جاں نے بھی

جھلسایا ہمیں برسوں

اک عمر بسرکی ہے

گو ہم نے محبت میں

تم سوچ نہیں سکتے

کیا کرب ہمارا ہے ؟

 

 

 

 

سرگرمی

 

کچھ دنوں سے ہم نکمے ہو گئے

اس لیے ناخوش ہیں اپنے آپ سے

کام ہے تو زندگی کا لطف ہے

کام سے ہی رونقیں ، رعنائیاں

کام ہے توزیست اپنی رو میں ہے پیہم رواں

اور بے کاری ہے حالِ رائیگاں

ایسی حالت میں توازن زندگی کا ہے کہاں ؟

 

 

 

 

 

کبھی ہمارے بھی حالاتِ زندگی لکھنا

جو ہم نے تجھ نبھائی، وہ دوستی لکھنا

 

خلوص کا تھا تقاضا تری محبت بھی

روا رہی ہے جو تجھ سے وہ بے رخی لکھنا

 

ملے ہیں پھولوں کے ہمراہ خار بھی ہم کو

حیات کرتی رہی ہے جو کج روی لکھنا

 

ہے تیرا میرا تعلق ادب کی نسبت سے

ملی ہے شعروسخن سے جو روشنی لکھنا

 

خلوص و مہر سے موسوم اپنی ہستی ہو

سوتجرباتِ کرم کو بھی آگہی لکھنا

 

اگرچہ زندگی ساری ہی وقفِ گریہ تھی

نہ سیکھا ہم نے مگر اس کو بے بسی لکھنا

 

جن میں ہو مذکور تیری چاہت کا

پڑا ہے ایسی ہی باتوں کو شاعری لکھنا

 

اسی سے گویا عبارت ہے میر اافسانہ

مری حیات کو درپیش مفلسی لکھنا

 

کبھی رقم ہوں جو حالات اہلِ عالم کے

صلاح یہ ہے اُنھیں محوِ بے حسی لکھنا

 

غزل کہی ہے جو ناقدؔ نے تیری الفت میں

تواُس کو ذوقِ محبت کی تازگی لکھنا

 

 

 

 

 

مرے دلربا کو بھلا کیا پتا ہے ؟

عدم دستیابی کا دکھ بھی جدا ہے

سدا جس کی کرتے رہے چارہ سازی

وہی دشمنِ جاں ہمارا ہوا ہے

جہاں نے دیے ہیں کدورت کے گھاؤ

ہمیں آگہی کا صلہ یہ ملا ہے

رہی ہے مری زندگی وقفِ گریہ

سکوں مجھ سے ہر گاہ روٹھا رہا ہے

مروت رہی ہے زمانے سے شاکی

نہ حق اس سے ناقدؔادا ہوسکاہے

 

 

 

 

دوستی کو معتبر میں نے کیا

حسن کو زیرِ نظر میں نے کیا

جو جہاں میں بے وفا مشہور ہے

اُس کو اپنا چارہ گر میں نے کیا

جو جفاؤں کا رہا خوگر سدا

ہے اُسی کو ہم سفر میں نے کیا

کس لیے بھیجا گیا تھا دہر میں ؟

جرم کیا اے کوزہ گر میں نے کیا؟

بے فروغ و بے اثر تھی دہر میں

شاعری کو پر اثر میں نے کیا

زندگی زندہ دل میں کٹ گئی

دشت و صحرا کو نگر میں نے کیا

دردو رنج و غم جہاں بستے رہے

اُس نگر کورہ گزر میں نے کیا

جب دکھائی زندگی نے کج روی

اس سے ناقدؔ پھر مفر میں نے کیا

 

 

 

 

 

تری سانسوں کی خوشبو تو ہمارے ساتھ رہتی ہے

بتا مجھ کو میں کیسی ہوں ، یہی ہم سے وہ کہتی ہے

سدا وقفِ الم بھی ہے وہ اک تصویرِ غم بھی ہے

کوئی راحت نہیں رکھتی ،غموں کی رومیں بہتی ہے

بھلا کب سکھ میسرہے ،سدا دکھ میں ہی غلطاں ہے

خدا نے صبر بخشا ہے اگرچہ رنج سہتی ہے

تبسم لب سے روٹھا ہے ،تہی سُرمے سے ہیں آنکھیں

سدا تیری جدائی میں ندی اشکوں کی بہتی ہے

نہیں مایوس دل میرا تری مہر و محبت سے

تو ناقدؔ لوٹ آئے گا مجھے یہ آس کہتی ہے

 

 

 

 

وفا سے تری اب جو محروم ہم ہیں

کسی اُجڑی بستی کامقسوم ہم ہیں

فسانہ ہمارا مٹاؤ گے کیسے ؟

بقا کے صحیفے پہ مرقوم ہم ہیں

جہاں ہے یہ سارا تمہاری نظر میں

تمہاری نگاہوں سے معدوم ہم ہیں

پتا اپنا اتنا بھی مشکل نہیں ہے

اگر ڈھونڈنا چاہو معلوم ہم ہیں

ستم پائے اتنے زمانے میں ناقدؔ

لگا ہے کہ ہونے کو مرحوم ہم ہیں

 

 

 

راحت بخش

 

بہت ہی دل نواز تھی

وفا کا ایک ساز تھی

جو ساتھ میرے رہ گئی

تو رازِ دل بھی کہہ گئی

ہے یاد اُس کی دم بدم

کیے تھے اُس نے کچھ کرم

وہ چاہتوں کی ہیر تھی

وفا کی وہ اسیر تھی

حیات یوں بتا گئی

وہ گل نئے کھلا گئی

جواں ہیں اُس کی الفتیں

ملی ہیں جن سے راحتیں

 

 

 

کار کن

 

اگر نہ ہو پائے کام کوئی

تو میں طبیعت کو کوستا ہوں

مرے مقدر میں کب ہے راحت؟

مجھے ملے کام سے ہی فرحت

ہیں کام کتنے ادھورے میرے ؟

اُنھیں مکمل مجھے ہے کرنا

مقابلہ سخت ،وقت کم ہے

میں جانتا ہوں میں کارکن ہوں

ہے کام ہی میرا اک حوالہ

ہے یہ حوالہ عزیز مجھ کو

 

 

 

مرگ ساماں زندگی

 

اتنی ہے مصروفیت

زہر لگتی ہے مجھے

زیست کی آب و ہوا

سکھ مقدر میں نہیں

محنتوں کے بوجھ نے

کر دیا بے چین یوں

لگ رہی ہے اب مجھے

زندگی بھی موت سی

 

 

 

 

عقل و دیوانگی

 

جنوں دل کی دوزخ

خرد سرکی دوزخ

جنوں دل کی دلدل

خرد دردِ سرہے

ہے دونوں میں شامل اذیت کا پہلو

کہ دونوں کا حاصل فقط کرب ٹھہرا

بنائیں کسے میر ہم کارواں کا ؟

تذبذب میں ڈالااسی سوچ نے ہے

مگر ہم ہیں دونوں کی تقلید کرتے

جہاں جس کی رائے بھی ہوتی ہے صائب

اُسی کا کہا مان لیتے ہیں صاحب

 

 

 

 

نراشا

 

ہر اک جبر سہا جیون کا

قریہ قریہ دہشت دیکھی

ظالم سب دستور یہاں کے

نفسا نفسی ہر جانب ہے

خود غرضی کا راج یہاں ہے

کون کسی کا ،سب انجانے

بیگانہ ہے عالم سارا

اک پل کو بھی راحت کب ہے ؟

جگ جیون کی چاہت کب ہے ؟

اپنی ہستی ہے دکھیاری

سوچوں میں ہے عمر گزاری

 

 

 

 

 

گلاب چہرے ، ستارہ آنکھیں ،خیال گہنے

ہیں روئے ارضی پہ درحقیقت کمال گہنے

سمجھ نہ پایا میں بے حسی کے حصار میں تھا

کہ لب پہ رکھتا تھا میرا ہمدم سوال گہنے

خدا نے بخشی تھی بے نیازی وہ کہہ رہی تھی

مجھے تو ان کی نہیں ضرورت سنبھال گہنے

خلوص و الفت، وفا شعاری و جانثاری

مرے رفیقو! یہ وصف ہیں بے مثال گہنے

خدا اُسے بخشتا ہے بے شک پوتر جذبے

جسے مقدر کرے ودیعت ملال گہنے

یہ شوق تیرا کرے نہ رسوامری دعا ہے

کبھی نہ ٹھہریں تمہاری وجہِ زوال گہنے

یہ کیف ومستی کی بزمِ فن ہے عجب سی ناقدؔ

کہ تیرے پیکر پہ کر رہے ہیں دھمال گہنے

 

 

 

 

جدائی مرے جسم و جاں میں پڑی ہے

مری روح کوئے بتاں میں پڑی ہے

بیاں مجھ سے کیسے مرا مدعا ہو؟

کہ لکنت سی میری زباں میں پڑی ہے

رہا ہر کوئی ا س کو پڑھنے سے قاصر

وہ مشکل مری داستاں میں پڑی ہے

کہاں تک مٹاؤ گے اثبات میرا؟

کہانی مرے ہر نشاں میں پڑی ہے

سخن کو عطا کی ہے وسعت خدا نے

سوبانی مری اس جہاں میں پڑی ہے

بھلا کیسے منزل کو میں پاؤں ناقدؔ؟

مری سوچ وہم گماں میں پڑی ہے

 

 

 

 

 

کوئی جب یاد کرتا ہے

مجھے اپنا سالگتا ہے

مجھے تم یاد آتے ہو

کوئی جب زخم دیتا ہے

نہیں کچھ اورہوسکتا

تمہارا ذکر ہوتا ہے

بہت انجان ساہوکر

مجھے اکثر وہ ملتا ہے

اُسے کیسے بھلائیں ہم ؟

سدا من میں جو رہتا ہے

نہیں امید جب کوئی

تو کیوں تو خواب رکھتا ہے ؟

وہ حسنِ دل نشیں ناقدؔ

ہمارے دل میں بستا ہے

 

 

 

 

شب و روز ہیں فن کی خدمت میں گزرے

مرے ماہ وسال اس ریاضت میں گزرے

مشقت میں گزرا ہے جیون ہمارا

کہاں اپنے اوقات عشرت میں گزرے ؟

یہی زندگی کی ہے تعریف ہمدم !

کہ ہرپل تمہارا محبت میں گزرے

مری زندگانی کی دولت یہی ہے

وہ ایام جو تیری چاہت میں گزرے

غموں میں گزاری حیاتِ دو روزہ

بچے جو بھی لمحے وہ حیرت میں گزرے

یہی اپنا دستورِ ہستی ہے ناقدؔ

مری عمر تیری ہی قربت میں گزرے

 

 

 

 

 

یہ بے کلی کارنگ ہے

جو کرب سنگ سنگ ہے

 

یہاں کہاں ہیں عشرتیں

رباب ہے نہ چنگ ہے

 

حیات جس کے نام کی

سدا وہ محوِ جنگ ہے

 

ہیں سرکشی سے دور ہم

نہ تیر نہ تفنگ ہے

 

خلوص کی فضا رہے

یہی رہی اُمنگ ہے

 

حیات ہے کٹھن بہت

معاش ترش و تنگ ہے

 

جو عشق سے ہے واسطہ

ہماری عقل دنگ ہے

 

وفا کی آس کیا کریں ؟

کہ دل صنم کا سنگ ہے

 

متاعِ ناقدِؔ حزیں

تمہارا ہر خدنگ ہے

 

 

 

 

درسِ مشیت

 

ہمیں یاد رہتے ہیں احباب ہر دم

بھلانا ہمیں چاہیں بے شک بھلا دیں

ہمیں تو کسی سے غرض بھی نہیں ہے

کسی سے بھی احساں کے خوا ہاں نہیں ہیں

کہ ہم ٹھہرے ہیں صرف بندے وفا کے

ہمیں خو وفا کی ودیعت ہوئی ہے

مشیت سے ہم کو نصیحت ہوئی ہے

سو ہم نے روا رکھنی سب سے وفا ہے

 

 

 

جنون و خرد

 

خرد ہماری کہ جاں گسل ہے

اسی سے ہے اعتبارِ پیری

اسی کے باعث ہیں ہم توانا

جنوں نے ہم کو کیا تھا رسوا

خرد نے لیکن وقار بخشا

یہ دافعِ ننگ و عار بھی ہے

جنوں میں ہم نے ستم اٹھائے

خرد نے لیکن ہیں گل کھلائے

 

 

 

ادھورے تقاضے

 

کہاں تک تقاضے موخر کروں میں ؟

کہ صحت مسلسل گریزاں ہے مجھ سے

بڑھا جا رہا ہے مرا ضعفِ پیری

ہے تکلیف دہ جسم کی خستہ حالی

تقاضے بدن کے ہوں یا روح کے ہوں

حقیقت میں اب تک ادھورے ہیں سارے

سو نا کامیوں کی طرف گامزن ہوں

نہ جانے میں کیسے جیے جا رہا ہوں ؟

 

 

 

 

نشاط انگیز

 

جوان جذبے ، جواں ارادے

جوان دل ہے ، اٹل عزائم

مگر ہے درپیش ضعفِ پیری

سدا امیدِ بہار بھی ہے

یہ زندگی کا نکھار بھی ہے

حیات ہے پر وقار اپنی

خزاں میں شانِ بہار اپنی

قلم سے لکھے وفا کے نغمے

سمویا جن میں ہے لطف بے حد

کوئی پڑھے تو وہ پائے راحت

 

 

 

 

ہم ہیں فقیر رہ گزر ،ہم پر یہ سختی کی نظر

کوئی نہیں پر سان اب، سوپھر رہے ہیں دربدر

تر ساکیے ہم پیار کو، چاہا سدا دلدار کو

تنہا رہی ہے زندگی ،پایا نہ کوئی ہم سفر

حاصل تمہارا وصل ہو تو زندگی آسان ہو

پوری نہیں جوہوسکی خواہش رہی وہ عمر بھر

اب کیا سنائیں داستاں ، کوئی نہیں ہے مہرباں ؟

مونس نہیں ، مخلص نہیں ، کوئی نہیں ہے چارہ گر

ہیں ہم تو جیون ہار بیٹھے ایک تیری چاہ میں

ناقدؔ چمن ہے لٹ گیا ویران ہے اپنا نگر

 

 

 

 

تیر سے دو شکار کرتے ہیں

ہم یہی کاروبار کرتے ہیں

جانتا ہی نہیں جو الفت کو

ہم اُسی سے ہی پیار کرتے ہیں

مارتا ہے عدو تو چھپ چھپ کے

یار سینے پہ وار کرتے ہیں

ہم نے سیکھی ہے بس وفا کیشی

جان اپنی نثار کرتے ہیں

دن کو کرتے ہیں گردشیں ناقدؔ

شب کو تارے شمار کرتے ہیں

 

 

 

 

کبھی چاہت سی ہوتی ہے

کبھی حسرت سی ہوتی ہے

کوئی ہم پر ستم ڈھائے

ہمیں حیرت سی ہوتی ہے

وفا کے نام سے ہم کو

سدا رغبت سی ہوتی ہے

تمھیں ہم پیار کرتے ہیں

تمھیں نفرت سی ہوتی ہے

جفا جاری رہے ہم پر

ہمیں لذت سی ہوتی ہے

کوئی ہو بے وفا ناقدؔ

ہمیں کلفت سی ہوتی ہے

 

 

 

 

ہمیں بات کرنے کی فرصت نہیں ہے

بہت زندگی میں فراغت نہیں ہے

خرد میری ہر دم معاون رہی ہے

مجھے اب جنوں کی ضرورت نہیں ہے

کسی کا نہیں حسن مرعوب کرتا

مرے آئینے میں یہ حیرت نہیں ہے

جو بیزار کر دے مجھے زندگی سے

مرے پاس ایسی اذیت نہیں ہے

وہ شاعر ہے اپنے زمانے کا ناقدؔ

جسے کچھ بھی پاسِ روایت نہیں ہے

 

 

 

 

تجھے زعم ہر دم رہا برتری کا

فسانہ ہمارا تو ہے عاجز ی کا

رہا ہے مجھے تیرگی سے تنافر

میں رسیا رہا ہوں سدا روشنی کا

جہاں میں رہے گا امر ہوکے اک دن

ہنر پا لیا جس نے بھی شاعری کا

ہمیں ہر قدم پر دیے سب نے دھوکے

صلہ یہ ملا ہم کو دریا دلی کا

کوئی جرم ناقدؔ نہ کوئی خطا ہے

رہا دوش مجھ پہ فقط آگہی کا

 

 

نقیبِ نشاط

 

سفیرِ حرف و صوت ہوں

میں بے خودی کی موت ہوں

ہیں میرے دم سے منزلیں

جواں ہیں مجھ سے محفلیں

میں آس ہوں ،امید ہوں

خوشی کی اک نوید ہوں

گریز پا الم بھی ہیں

جہاں کے سب ستم بھی ہیں

مجھے خوشی کا پاس ہے

غموں کی بو نہ باس ہے

 

 

 

کچھ باتیں تم سے کرنی ہیں

 

کچھ سنگ تمہارے چلنا ہے

کچھ باتیں تم سے کرنی ہیں

کچھ افسانے بھی سننے ہیں

کچھ گیت وفا کے گانے ہیں

کچھ بھولی بسری یادیں ہیں

کچھ ماتم حسرت زاد کاہے

کچھ عشووں غمزوں کی باتیں

جن سے ہم جیسے گھائل ہیں

وہ باتیں تم سے کرنی ہیں

 

 

 

 

اپنی ڈگر

 

جہاں کا نہیں طرز اپنایا ہم نے

نہ بدلا زمانہ ہمیں غم نہیں ہے

ہم اپنی ڈگر پر مسلسل رواں ہیں

نہیں ہم کو یہ بھی خبر ہم کہاں ہیں

مشیت کا ہم پر کرم یہ ہوا ہے

نیا طرز جیون کا بخشا گیا ہے

نہیں طور دنیاسے ملتا ہمارا

ہمیں سکھ سکوں کیسے بخشے گی دنیا؟

سبب ہے یہی راس جیون نہیں ہے

ہوا اس لیے اپنا جیون اجیرن

 

 

 

گڈ نائٹ

 

چلو جاناں جی! سوجائیں

تمھیں بھی نیند آئی ہے

ہمیں بھی نیند آئی ہے

سواب گڈ نائٹ کہتے ہیں

کہ کھونا جانا ہے سپنوں میں

ہمیں پھر تم سے ملنا ہے

تمھی سے پیار کرنا ہے

فقط تم پر ہی مرنا ہے

 

 

 

 

زندگی اک جبر کی تصویر ہے

اپنا فن اس کرب کی تفسیر ہے

بھول جاؤں میں اُسے آساں نہیں

ہر ادا جس کی بہت دلگیر ہے

پیار کو بدنام ہم نے کر دیا

اب کوئی رانجھا نہ کوئی ہیر ہے

ہر ستم اُس کا روا مجھ پر ہوا

کس قدر سفاک چرخِ پیر ہے ؟

امن کی آشا لیے ناقدؔ جیے

پاس اپنے کب تفنگ و تیر ہے

 

 

 

 

 

 

بھلاتا ہوں مگر کیوں یاد آتی ہے ؟

کسی کی یاد کب پہلو سے جاتی ہے ؟

مجھے ہر شب تری قربت میسر ہے

مگر دن کو تری فرقت ستاتی ہے

اُسے خوشیاں نہیں دیں چاہے قسمت نے

مگر وہ گیت خوشیوں کے ہی گاتی ہے

سدا رہتا ہوں میں امید میں اُس کی

نہ جانے کب صباسندیس لاتی ہے

چلے آؤ یہ ناقدؔ کی تمنا ہے

تمھیں دھڑکن مری پیہم بلاتی ہے

 

 

 

 

شب گزرتی ہے روز آنکھوں میں

نیند مرتی ہے روز آنکھوں میں

پیت صدیوں سے بے سہارا ہے

آہ بھرتی ہے روز آنکھوں میں

اپنی جواں ہے جنموں سے

زیست کرتی ہے روز آنکھوں میں

کچھ بھی اس کو نہیں موافق اب

آس مرتی ہے روز آنکھوں میں

خال و خد اُس کے دل میں رکھتا ہوں

جو نکھرتی ہے روز آنکھوں میں

 

اُس کو ناقدؔ بھلا نہیں سکتا

وہ سنورتی ہے روز آنکھوں میں

 

 

 

 

حضور کس وقت بات ہوگی؟

نہ ختم ایسے ہی رات ہوگی

 

ہمارا جیون تو گومگو ہے

نہ جیت ہوگی نہ مات ہوگی

 

تمھارے بن زندگی نہیں ہے

ملو گے تم تو حیات ہوگی

 

تری وفائیں اگر بہم ہوں

حیات پھر پر ثبات ہوگی

 

خوشی نظر سے جو دور ٹھہرے

غموں کی ہرسمت گھات ہوگی

 

گوارا کرلیں گے تیرے بدلے

خفا اگر کائنات ہوگی

 

مجھے بھلا نانہ دل سے ہرگز

یہ پُرخطر واردات ہوگی

 

ملی اگر زندگی زیادہ

تو جامعِ حادثات ہوگی

 

نہ کوئی مخلص ملے گا ناقدؔ

خلوص کی جب وفات ہوگی

 

 

 

 

 

کیے مجھ کو وہ گلبدن ہے پریشاں

مری آرزو کا چمن ہے پریشاں

بسیرا کیا ہے جو مایوسیوں نے

لگے جیسے کوہ و دمن ہے پریشاں

کوئی کلمۂ خیر کیسے ادا ہو؟

زباں مضطرب ہے ،دہن ہے پریشاں

ادب کی یہاں قدر و قیمت نہیں ہے

حزیں اہلِ فن ہیں تو فن ہے پریشاں

رہی حسرتیں جس کی ہستی کا حصہ

پسِ مرگ اُس کا کفن ہے پریشاں

بُرا حال ہے قوم کے شاعروں کا

ہیں افکار مضطر ،سخن ہے پریشاں

خزاں یوں گلستاں پہ چھائی ہے ناقدؔ

گل و لالہ ونسترن ہے پریشاں

 

 

 

 

زیاں

 

قسمت میں اُس نے لکھ دی

د ن رات کی مشقت

جیون ہے اک اذیت

اکثر یہ سوچتا ہوں

آیا نہ راس جیون

ہر دم اداس جیون

کیسا کٹھن سفر ہے ؟

کیسے سفر کٹے گا؟

مجھ کو ہے فکر پیہم

سانسوں کی ڈوری بھی تو

اب کے بنی کٹاری

کچھ یوں گئی اکارت

اپنی یہ عمر ساری

 

 

 

غمِ دوش

 

ورق ورق ہے بیاضِ ہستی

مسرتوں کا نشاں نہیں ہے

کہ بے سبب یہ فغاں نہیں ہے

نہ ایک پل کو ہے چین حاصل

اذیتیں ہیں جوان پل پل

صعوبتوں کے مہیب منظر

حیات میری کو چاٹتے ہیں

سدا سے غم میرے جاگتے ہیں

اسی لیے میں بھی سونہ پایا

ہے رتجگوں میں حیات گزری

گزارا دن بھی مصیبتوں میں

بہت بھیانک ہے رات گزری

 

 

 

 

فقط یہ کام کرتا ہوں

محبت عام کرتا ہوں

لکھے جو بول الفت کے

تمہارے نام کرتا ہوں

جوہیں اسرار الفت کے

وہ طشت از بام کرتا ہوں

تری یادوں میں کھو کر میں

سحر سے شام کرتا ہوں

ہوں نت محوِسفر ناقدؔ

کہاں آرام کرتا ہوں ؟

 

 

 

 

 

حضور اپنا وعدہ وفا کیجئے

جو کرنی ہے ہم پہ عطا کیجئے

 

مجھے اور کوئی تمنا نہیں ہے

فقط میرے حق میں دعا کیجئے

 

ہوا جرم مجھ سے جوہے پیار کا

میں دوشی ہوں مجھ کو سزا کیجئے

 

بُرائی نہ ہرگز کبھی ہو روا

اگر ہو سکے تو بھلا کیجئے

 

کہا ہم نے ہم تیرے بیمار ہیں

وہ بولے کہ جا کر دوا کیجئے

 

سماعت میں کوئی قباحت نہیں

کہیں بات ہم تو سُنا کیجئے

 

عنایات جس کی زمانے پہ ہوں

اُسے اپنا حاجت روا کیجئے

 

کبھی مشکلیں جس نے دیکھی نہ ہوں

اُسے اپنا مشکل کشا کیجئے

 

کبھی دینے آئیں گے ہم حاضری

کبھی ہم سے ناقدؔ ملا کیجئے

 

 

 

 

 

مرے ساتھ ہے میرا اقلیمِ غم

کسی طور بھی دُکھ نہ ہو پائیں کم

مفر اب تو ممکن نہیں حزن سے

کہ گھیرے ہوئے چارسو ہیں الم

مقدر میں لکھا ہے رہنا حزیں

نہ سمجھے مشیت کے ہم پیچ و خم

سدا سرگرانی نصیبوں میں ہے

بہت اپنی ہستی میں ہیں زیر و بم

ہمیں مہرباں کوئی مطلوب تھا

ہوئے ہم پہ ناقدؔ ہمیشہ ستم

 

 

 

 

 

بے کلی جب جوان ہوتی ہے

خامشی با زبان ہوتی ہے

راہِ الفت میں ہم نے دیکھا ہے

اک وفا ہی مہان ہوتی ہے

سعیِ پیہم ہے نام ہستی کا

جیت کا جو نشان ہوتی ہے

دوسروں کی جو قدر کرتے ہیں

اونچی خود اُن کی شان ہوتی ہے

کہہ گزرتے ہیں اک غزل ناقدؔ

روح جب شادمان ہوتی ہے

 

 

 

تلاطم خیز طوفاں میں کنارے چھوٹ جاتے ہیں

کوئی مشکل پڑے جب تو سہارے چھوٹ جاتے ہیں

فقط اونچا ہی اُڑنے سے یہاں منزل نہیں ملتی

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ستارے چھوٹ جاتے ہیں

نہ جب اخلاص باقی ہو وفا زندہ نہیں رہتی

وفا جب فوت ہو جائے تو پیارے چھوٹ جاتے ہیں

ہمارا حال کچھ یوں ہے تمنا کے تعاقب میں

کہ جیسے طفلِ ناداں سے غبارے چھوٹ جاتے ہیں

جہاں مطلب کاہے ناقدؔ اگر مطلب نکل جائے

ہمیں ہوآس جن جن کی وہ سارے چھوٹ جاتے ہیں

 

 

کتابِ ہستی

 

ہے زندگی کی کتاب میلی

بہت سے اس میں ستم لکھے ہیں

طرح طرح کے الم لکھے ہیں

وفورِ عصیاں کا باب بھی ہے

اذیتوں کا نصاب بھی ہے

صعوبتوں کا عذاب بھی ہے

گناہ بھی ہے ثواب بھی ہے

کہیں کہیں ہے خوشی کی رونق

مگر بھیانک ہیں غم کے منظر

جو یاد بن کرستار ہے ہیں

مجھے مسلسل رُلا رہے ہیں

کتاب جیون کی جس طرح ہے

مگر مری یہ بیاضِ ہستی

سدارہے گی عزیز مجھ کو

 

 

 

خود نگری

 

کہا تم نے ہم کو،ہے دل پھینک جاناں

مگر ہم تو اتنے بُرے بھی نہیں ہیں

غلط رنگ بخشا ہے اخلاص کو بھی

رہے گا ہمیں یاد ہر دم تمہارا رویہ

سُناتارہے گا تمہاری کہانی

خفا کر دیا ہے تمہاری ادا نے

نہ جوہر دکھائے ہماری وفا نے

گراں بار بخشا تمہاری ادا نے

مگر تم سنراوارِ تعظیم ٹھہرے

خلوص و محبت کی تکریم ٹھہرے

یہ سچ ہے کہ الفت کا پندار تم ہو

ہماری کہانی کا کردار تم ہو

امر ہم ہوئے ہیں ،امر تم ہوئے ہو

ہماری طرح خود نگر تم ہوئے ہو

 

 

 

 

 

فرزانگی کا شہرہے

باہر جنوں کی لہر ہے

کیسے رہیں آرام سے ؟

ہرسوستم ہے ، قہر ہے

الفت کہیں ملتی نہیں

لگتا ہے ظالم دہر ہے

دامن ہے کشتِ زعفراں

آنکھوں سے جاری نہر ہے

ناقدؔ نہ دھوکہ کھائیے

حلوے میں شامل زہر ہے

 

 

 

 

محویت اپنی جگہ ہے ، رابطے اپنی جگہ

پیار باقی ہے مگر ہیں فاصلے اپنی جگہ

زندگی اک خواب ہے اور خواب کی تعبیر بھی

خواب ہیں اپنی جگہ،ہیں رتجگے اپنی جگہ

ہر قدم پر پائی ہیں ناکامیاں ، رسوائیاں

شکر ہے کہ زیست کے ہیں سلسلے اپنی جگہ

منعکس ہوتا ہے وہ سب کچھ زمینِ ذہن پر

نصب کر رکھے ہیں میں نے آئینے اپنی جگہ

میں کبھی مقصد سے بیگانہ تو ہوسکتا نہیں

شوق میرے کے ہیں سارے مرحلے اپنی جگہ

زندگی میں تو رہی ناقدؔ سدا زندہ دلی

دل جواں ہے ، سوچ کے ہیں زاویے اپنی جگہ

 

 

 

 

ہے طبیعت پُر ملال

جیسے ہو رہنِ زوال

غم ہے یوں کھائے مجھے

جیسے ہو عنقا کمال

کیا دیا ہے زیست نے ؟

یہ بھی ہے طرفہ سوال

کب ملے گا سکھ سکوں ؟

دل میں ہر دم ہے خیال

ہم تواب تائب ہوئے

اپنی چاہت لوسنبھال

 

فکر ناقدؔ کرب ہے

جیسے ہو جی کا وبال

 

 

 

 

وفا کی یہاں قدر و قیمت نہیں ہے

کسی کوکسی سے محبت نہیں ہے

ہے کشتِ سخن ہم نے سینچی لہوسے

فقط فخر ہے اور شکایت نہیں ہے

سبق بھول بیٹھے ہیں صدق و وفا کا

مساوات و شرم و شرافت نہیں ہے

عقیدہ و مذہب فقط نام کے ہیں

کوئی معتبر اب عقیدت نہیں ہے

یہاں جو بھی کردار ہے مسخ ساہے

کوئی قابلِ رشک سیرت نہیں ہے

یہاں زیست ناقدؔ ہے فریاد کرتی

کہ میری کوئی اب حقیقت نہیں ہے

 

 

 

 

 

راتوں کو جاگتے ہیں دل کے دیے جلا کر

دم لیں گے تجھ کو پاکر جتنی بھی تو جفا کر

کیوں روگ ہے لگایا چاہت کا تو نے خود کو؟

کس نے تجھے کہا تھا ظالم سے تُو وفا کر

کوئی نہ بات مانی کہہ کہہ کے تھک گئے ہیں

ہر بات بے اثر ہے تجھ کو بتا بتا کر

سنتا نہیں ہے کوئی ،ہے بے حسی مسلط

بیزارسے ہوئے ہیں ہم زخمِ دل دکھا کر

اس میں تو شک نہیں ہے فرقت بھی ہے قیامت

تسکیں نہ پائی ناقدؔ تجھ کو قریب پا کر

 

 

 

عصری تنقیدی رویے

 

آج کی تنقید کیا ہے ؟

فکر و فن سے کچھ نہیں نسبت اسے

بس رواداری سے ہے رغبت اسے

اس میں منطق ہے نہ ہے کوئی دلیل

لوگ جیسے چل رہے ہیں بھیڑ چال

اس میں ہے اسلوب عنقا اور فقدانِ خیال

پڑھنے والے کو بھی رہتا ہے ملال

کوئی مقصد،کوئی غایت ہی نہیں

کچھ غرض ہے تو فقط ہے نام سے

ہیں بہت کم لوگ واقف کام سے

ناقد وں کا بس یہی ہے مدعا

کام بن جائے فقط الہام سے

آج کی تنقید کا حاصل ہے یہ

من ترا حاجی بگو یم تو مرا مُلا بگو

 

 

 

 

خوبرو دوشیزہ سے

 

ترے سنگ میری جو ہو جاتی شادی

یہ بہتر مرے حق میں کچھ اور ہوتا

گزرتا مرا وقت عشرت میں سارا

مزے تیری قربت کے ہر وقت لیتا

سوبچے بھی سب خوبرو ہوتے پیدا

مرے گھر میں پھرچارسو حسن ہوتا

سماں خلد صورت مرے گھر کا ہوتا

یہ دنیا مری ہوتی پھر مثلِ جنت

 

 

 

 

بقا

 

تھک جاتا ہوں لکھتے لکھتے

بے چینی سی ہو جاتی ہے

لکھنے سے بیزار نہیں ہوں

میں نے حرف کو حرمت بخشی

حرف نے مجھ کو عزت بخشی

میرا کام ہے میری عظمت

میری بقا ہے اس کی بدولت

میں گر مر بھی جاؤں ناقد ؔ

میرا کام رہے گا زندہ

 

 

 

 

بے وفاؤں سے دوستانہ ہے

اپنا انداز عاشقانہ ہے

فکر کیوں آب و نان کی ہو مجھے

مرا مخصوص آب و دانہ ہے

اتنا دنیا میں عجیب نہیں

جتنا طرفہ مرا فسانہ ہے

کیا کروں جی کہیں نہیں لگتا

کب کہیں میرا گھر ٹھکانہ ہے ؟

ہیں مبارک یہ گردشیں ناقدؔ

یہ تگ و تاز جاودانہ ہے

 

 

 

کہیں وفا کو نہ ٹھیس پہنچے ،خیال رکھنا

مرے نوشتے ، مری محبت سنبھال رکھنا

خوشی کی دولت ہے چار دن کی جو عارضی ہے

خلوص کا ہے یہی تقاضا ملال رکھنا

زمانہ تم کونہ روند ڈالے ، یہ ڈر ہے مجھ کو

تم اپنی ہستی میں ہر طرح کا کمال رکھنا

خودی تمہارا ہے اصل جوہر یہ جان لو تم

انا کو اپنی کبھی نہ رہنِ زوال رکھنا

نہ سیم وزرسے لگانا لو بھول کر بھی ہمدم

ہمیشہ دل میں مذاقِ اکلِ حلال رکھنا

ہو فقر و فاقہ تو کام ہر دم غنا سے لینا

لبوں پہ ناقدؔ کبھی نہ حرفِ سوال رکھنا

 

 

 

مجھے میرے ملک نے بخشی وہ شکتی

مصیبت ڈراتی نہیں کوئی وقتی

رہے دنیا داری سے ہم دور کوسوں

بنایا نہ قصر اور لگائی نہ تختی

ترے نام سے ہم کونسبت رہے گی

کرے چاہے تو ہم پہ جتنی بھی سختی

ہے رشتہ تنفس کا تجھ سے ہی قائم

ہے تجھ سے مری سانس ہر دم مہکتی

تجھے جب سمجھتا ہو ں غمخوار و مونس

مری ذات رہتی ہے پھر کیوں بھٹکتی؟

ہیں افکار موزوں کیے ہم نے کیا کیا؟

طبیعت ہماری نہیں ثانی رکھتی

ودیعت ہوئی ہے ادب کی جو دولت

اسے ہم نے سمجھا ہے اک نیک بختی

ہمیں دیس اپنے سے ہے پیار ناقدؔ

پڑی اپنی گھٹی میں ہے دیش بھگتی

 

 

 

 

 

تیری آنکھیں کلام کرتی ہیں

تیری زلفیں سلام کرتی ہیں

وہ ستائی ہوئی ہیں غربت کی

بچیاں ہوکے کام کرتی ہیں

وہ تو الفت کااستعارہ ہیں

خوشبوئیں تیرے نام کرتی ہیں

تیز رو ہیں جماعتیں کیا کیا

منزلیں دوہی گام کرتی ہیں

ہستیاں جو خلوص پرور ہیں

پیار ناقدؔ وہ عام کرتی ہیں

 

 

 

 

 

دوستی میں ضابطہ پیدا کیا

ایک یہ بھی کام ہے اچھا کیا

بغض و نفرت کے جھمیلوں سے ہوں دور

کب وفا کے نام کو رسوا کیا ؟

اپنی دھن میں ہے گزاری زندگی

اہلِ دنیا سے نہ کچھ پوچھا کیا

مجھ سے کیا ایسی خطا سرزد ہوئی؟

آپ نے ہنگامہ یوں برپا کیا

غم جنوں کا بھی مجھے ناقدؔ نہیں

فکرِ دانش میں نہ میں تڑپا کیا

 

 

 

 

تم کیا جانو؟

 

جب یاد تمہاری آتی ہے

تو آنکھیں نیر بہاتی ہیں

اشکوں کے ہار پروتا ہوں

نہ کھاتا ہوں نہ پیتا ہوں

بس یاد سہارے جیتا ہوں

اس ہجر میں کیا کیا ہوتا ہے ؟

کیا جانو تم بے درد جو ہو؟

 

 

 

 

مقاماتِ فضل

 

مری زندگی ہجرتوں میں ہی گزری

بہت کرب میں نے سہا ہجرتوں کا

مرا رزق مجھ کو گھماتا رہا ہے

کبھی اس نے مجھ کو دکھائی ہے ‘دکی ‘

کبھی اس نے ‘اٹک ‘ میں بھیجا ہے مجھ کو

کبھی میں نے ‘اوکاڑہ ‘ کی خاک چھانی

کئی دن کٹے ‘ ایبٹ آباد ‘ میں بھی

گزارا سمے ‘وادیِ سون ‘ میں بھی

ہے ‘کلر کہا ر ‘اب مری جائے خدمت

پھر ائے گی قسمت نہ جانے کہاں تک؟

 

 

 

 

کیوں وفا کے نام کورسواکیا؟

تم بھی ہو تنہا ، مجھے تنہا کیا

کیا گلہ تیری جفا سے ہو ہمیں ؟

ٹھیک ہے جو کچھ کیا، اچھا کیا

لب پہ تیرا ذکر ہے شام و سحر

بس ترے ہی نام کا چرچا کیا

کیا سنائیں ہجر کی بپتا تمھیں ؟

دل تمہاری یاد میں تڑپا کیا

کیا ہے ناقدؔ روز و شب کی داستاں ؟

جیب و دامن اشک سے بھیگا کیا

 

 

 

 

کارگر ہم پر کبھی ہوتے نہیں فکر و ملال

زندگی میں اس لیے دیکھا نہیں اب تک زوال

ہم خوشی پربھی نہ ریجھے ، دور غم سے بھی رہے

اس لیے ہم نے ہے پایا اس زمانے میں کمال

کی خرد کی پاسداری جس قدر بھی ہو سکی

اہلِ دنیا میں ملے گی شاذ ہی ایسی مثال

ہر برائی سے الگ رہ کر گزاری زندگی

ہے کرم اللہ کا بخشا ہمیں رزقِ حلال

دولتِ اخلاص بھی وافر خدا نے کی عطا

دوسروں کا خود سے بھی بڑھ کے رہا ہم کو خیال

لو ادب سے بھی لگائی، کام بھی کرتے رہے

سلسلہ انفاس کا ناقدؔ رہا یونہی بحال

 

 

 

 

ہے کھانے سے پہلے قیلولے کوسوچا

غلط سوچ تھی ایک لمحے کوسوچا

رہی سوچ ہر دم ہے دمسازمیری

سو منزل سے پہلے ہے رستے کو سوچا

کرم کو ترے سوچنے سے بھی پہلے

جنوں نے ترے عشوے غمزے کوسوچا

نہ خائف ہوئے اپنی رسوائیوں سے

فقط پیار تیرے کے چرچے کوسوچا

نہ کیوں تجھ پہ افسوس ہو ہم کوناقدؔ

سدا تو نے حیلے بہانے کوسوچا

 

 

 

 

کچھ نہ کچھ شوق کی انتہا چاہیے

بے وفا دور میں بھی وفا چاہیے

ہو گئی ہے جو مجھ سے خطا پیار کی

اپنے اس جرم کی کچھ سزا چاہیے

ناؤ گرداب سے لائے ساحل پہ جو

اے خدا! ایسا اک ناخدا چاہیے

ہے وفاؤں نے چاہت کا خوگر کیا

تیرے دوشی کو تیرا بھلا چاہیے

تجھ سے ناقدؔ کرم کی نہیں آرزو

میں جفا کار ہوں اور جفا چاہیے

 

 

 

تجھے مری جاں حبیب ہوں میں

سمجھ لے تیرا نصیب ہوں میں

اگر چہ جسموں کی دوریاں ہیں

حضور !دل کے قریب ہوں میں

جدائی تیری کرے پریشاں

حقیقتاً اک غریب ہوں میں

اگرچہ تو نے جفائیں کی ہیں

ہے پیار پھر بھی، عجیب ہوں میں

تری صباحت پہ لکھ نہ پاؤں

اگر چہ شاعر ، ادیب ہوں میں

مری غرض صرف تو ہے ناقدؔ

تری وفا کا نقیب ہوں میں

 

 

 

جب ملے فرصت کبھی

ہم سے کرنا بات بھی

عشق سے گھائل نہیں

پیار پہ مائل ہے جی

تو وفا کر پیار کر

ہو جفا سے دشمنی

کیا ہے اپنا کام اور؟

کی مسلسل شاعری

شاعری کے ساتھ ساتھ

چل رہی ہے نثر بھی

ہے فقط جی کا زیاں

کیا کریں گے دل لگی؟

کیا ہے ناقدؔ رنجِ دہر

ہو اگر زندہ دلی

 

 

 

 

 

مری خواب گاہ میں قیام کر

کبھی الفتیں بھی تو عام کر

میں ہوں کربِ عشق سے جاں بہ لب

کبھی چاہتیں مرے نام کر

مجھے قربتوں سے نواز دے

مری با ت سن مرا کام کر

ہیں جو دور یاں اُنھیں دور کر

انھی فاصلوں کو دو گام کر

میں ترا ہوں ناقدؔ بے نوا

مرے پیار کو تو نہ خام کر

 

 

 

 

 

میرے چاروں طرف بے وفا لوگ ہیں

کچھ سمجھ میں نہ آئے یہ کیا لوگ ہیں ؟

جو مروت سے عاری بھٹکتے رہے

مہرباں کب ہیں وہ پر جفا لوگ ہیں

ہم اکیلے نہیں اس بھرے دشت میں

اور بھی تو ہیں جو بے نوا لوگ ہیں

ہے مفر ہم کو دنیا سے مطلوب کب؟

کچھ ہمارے یہاں دلربا لوگ ہیں

ہم چلے جن سے ناقدؔ ملا کر قدم

اس میں کچھ شک نہیں ہم نوا لوگ ہیں

 

 

 

 

رتجگوں کا مجھے ہم سفر چاہیے

چارہ جو چاہیے ،چارہ گر چاہیے

جومراساتھ دے میرے ہر حال میں

ایسا کوئی حبیبِ نظر چاہیے

ہر طرف جس میں خوشیوں کی مہکار ہو

اے خدا! ایسا پر کیف گھر چاہیے

خود غرض لوگ جس کے مکیں ہوں سبھی

ایسا گھر چاہیے نہ نگر چاہیے

وہ جو ناقدؔ محبت سے محروم ہو

ایسا دل چاہیے نہ جگر چاہیے

 

 

 

 

غزل چھیڑ دی تیری یادوں نے آج

رُلایا مجھے تیری باتوں نے آج

بجز آہ و زاری نہ کچھ بھی ملا

مجھے کیا دیا غم کی راتوں نے آج؟

مرا جرم کوئی نہ ثابت ہوا

ہے کی انتہا تیری گھاتوں نے آج

نہ تھا رونے والا کسی غم سے میں

رُلایا مجھے میری ماتوں نے آج

ہے ناقدؔ الم کی یہی داستاں

ہے بانٹا ہمیں ذاتوں پاتوں نے آج

 

 

 

 

 

کسی بے وفا کو وفا کیا سکھائیں ؟

وفا کی اُسے ہم ادا کیا سکھائیں ؟

جوہے شرکا پتلااُسے خیر سے کیا

جو ظالم ہواُس کو بھلا کیا سکھائیں ؟

جو دشنام دینے میں رطب اللساں ہے

اُسی بے غرض کو دعا کیا سکھائیں ؟

سدا جس کے ہاتھوں میں کاسہ رہا ہو

جو منگتا ہے اس کو عطا کیا سکھائیں ؟

نہ ہو جو روا دار کچھ سیکھنے کا

اُسے میرے ناقدؔ بتا کیا سکھائیں ؟

 

 

 

 

 

رتجگے کرب ہیں

مرحلے کرب ہیں

عاشقی کے سبھی

سلسلے کرب ہیں

قربتیں کیف ہیں

فاصلے کرب ہیں

خامشی پر سکوں

رابطے کرب ہیں

فکر ناقدؔ ستم

زاویے کرب ہیں

٭٭٭

تشکر: ناشر( ناصر ملک) اور جلیل حیدر لاشاری جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید