FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

فی ظلال القرآن

قرآن کے سائے میں

 

سورۃ الفاتحہ وسورۃ البقرۃ کی مکمل تفسیر

حصہ دوم

 

                شہید اسلام سید قطب رحمہ اللہ

ترجمہ:سید معروف شاہ شیرازی

الموحدین ویب سائٹ کی پیشکش

 

 

 

 

 

درس ۵ ایک نظر میں

 

اس سے قبل ہم نے جس ٹکڑے کی تشریح کی ہے، اس میں خاتمۂ کلام بنی سرائیل کے لئے یاد دہانی اور تذکیر پر ہوا تھا اور یہ بتایا گیا تھا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ان پر انعامات کی بارش کرتا رہا اور اس کے مقابلے میں یہ لوگ کس ثابت قدمی سے بار بار کفران نعمت کرتے رہے۔ وہاں کہیں بسط کے ساتھ اور کہیں اختصار کے ساتھ ساتھ اللہ کے انعامات اور بنی اسرائیل کی نافرمانیوں کے واقعات اور مشاہدات بیان کئے گئے تھے۔ بیان کا خاتمہ اس فیصلے پر ہوا تھا کہ بنی اسرائیل کے دل قبول ہدایت کے معاملے میں اس قدر سخت، خشک اور بنجر ہو چکے ہیں جیسے مضبوط پتھر ہوتے ہیں، بلکہ سنگدلی اور خشکی میں ان کے دل پتھروں سے بھی کہیں زیادہ سخت ہو گئے ہیں۔

اب ان زیر بحث آیات میں روئے سخن اسلامی جماعت کی طرف پھر جاتا ہے اور مسلمانوں کے سامنے ان کی کہانی بیان ہوتی ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ بنی اسرائیل کس قدر مکار اور فتنہ پرداز قوم ہے۔ ان کی فطرت اور ان کی طویل تاریخ کی روشنی میں اسلامی جماعت کو ان کی مکاری اور عیاری سے خبردار کیا جاتا ہے۔ تاکہ کہیں ان کی فتنہ پردازی اور غلط پروپیگنڈے اور جھوٹے دعووں سے متاثر ہو کر مسلمان دھوکہ نہ کھا جائیں۔ بنی اسرائیل کی مکاری کا یہ طویل بیان اور پھر بار بار اور مختلف پہلوؤں سے اس کا تکرار، اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ اس دور میں یہودی امت مسلمہ اور دین اسلام کے خلاف کتنے وسیع پیمانے پر سازشیں کر رہے تھے اور کس طرح وہ ہر وقت اس تحریک کو نقصان پہنچانے کی تاک میں بیٹھے رہتے تھے۔ اس لئے اس قدر تفصیلی گفتگو کی ضرورت پیش آ رہی تھی۔

دوران گفتگو روئے سخن کبھی بنی اسرائیل کی طرف پھر جاتا ہے تاکہ امت مسلمہ کے سامنے، انہیں یاد دلایا جائے کہ اللہ نے ان سے کیا کیا وعدے لئے تھے اور انہوں نے کس کس طرح ان وعدوں کو توڑا تھا۔ کس طرح وہ گمراہ ہوئے، عہد شکنی کرتے رہے اور پھر انبیاء کرام کی تکذیب کرتے رہے۔ انہوں نے کئی انبیاء کو قتل بھی کیا۔ کیونکہ وہ ان کی خواہشات نفس کے مطابق نہ چل سکتے تھے۔ نیز یہ کہ کس طرح انہوں نے اللہ کی شریعت کی خلاف ورزی کی ناجائز بحث و جدال کرتے رہے اور شریعت کے جو قوانین ان کے پاس تھے ان میں تحریف کرتے رہے۔

مسلمانوں کے ساتھ جو بحث اور مناظرہ اور جو کٹ حجتی وہ کرتے تھے یہاں اس کے کچھ نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔ اور نبیﷺ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ آپ ان دعووں کی حقیقت کھول دیں اور ان کے دلائل کی کمزوری واضح کر دیں اور ان کی باطل سازشوں کے مقابلے میں روشن اور واضح سچائی پیش کریں۔

مثلاً ان کا خیال تھا کہ وہ صرف گنتی کے چند دن ہی جہنم میں رہیں گے۔ کیونکہ وہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ اور محبوب لوگ ہیں، اللہ کے ہاں ان کا بلند رتبہ ہے۔ چنانچہ اللہ اللہ تعالیٰ نبی کریمﷺ کو حکم دیتے ہیں کہ ذرا”ان سے پوچھیں، کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟یا یہ بات ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی بات بات کہہ دیتے ہو، جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے اس کا ذمہ لیا ہے۔ ”

جب انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جاتی ہے تو وہ کہتے !”ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ہمارے ہاں اتری ہے۔ "اور اس دائرے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اسی تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ چنانچہ نبیﷺ کو یہ ہدایت کی جاتی ہے۔ "اچھا ان سے کہو، اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے پیغمبروں کو (جو بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے )کیوں کر قتل کرتے رہے۔ "تمہارے پاس موسیٰ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم رہے کہ ا س کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے۔ پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو جو کوہ طور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا، ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کرسنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا مانیں گے نہیں اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔ "(البقرہ۔ ۹۳)

ان کا دعویٰ یہ تھا کہ اگلا جہاں تو صرف انہی کے لئے ہے۔ دوسرے لوگوں کو تو وہاں کچھ نہ ملے گا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو یہ تلقین کی کہ آپ ان کو دعوت مباہلہ دیں اور کسی میدان میں دونوں فریق جمع ہو جائیں اور اللہ سے بدست دعا ہوں ب کہ ان میں سے جو جھوٹا ہے اللہ اسے مار دے۔ "ان سے کہو اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہئے کہ موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ "اس کے بعد اللہ تعالیٰ خود ہی بتا دیتے ہیں کہ یہ لوگ، ہرگز موت کی تمنا نہ کریں گے۔ "چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ مباہلہ کرنے سے پھر گئے کیونکہ جس چیز کا وہ دعویٰ کر رہے تھے انہیں معلوم تھا کہ وہ اس میں جھوٹے ہیں۔

غرض دوران کلام یہودیوں پر کڑی تنقید کی جاتی ہے۔ ان کی مکاریوں پر سے پردہ اٹھایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو ان کے بارے میں محتاط رہنے کی ہدایت دی جاتی ہیں۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ جماعت مسلمہ کی صفوں میں خفیہ سازشوں کے ذریعے، انتشار پیدا کرنے کی جو کوششیں اس یہودی کر رہے تھے، ان کا زور توڑا جائے اور مسلمانوں کو چوکنا کر دیا جائے۔ آج بھی امت مسلمہ کو یہودیوں کی اسی مکاری اور فریب کاری کاسامنا ہے۔ جس کا سامنا کبھی مدینہ طیبہ میں امت مسلمہ کے اسلاف کو تھا لیکن نہایت افسوس کے ساتھ یہ بات کہنی پڑ تی ہے کہ امت مسلمہ ان قرآنی آیات سے اس طرح فائدہ نہیں اٹھا رہی جس طرح امت کے اسلاف نے اس ربانی ہدایات سے فائدہ اٹھایا تھا اور جس کے نتیجے میں وہ مدینہ طیبہ میں یہودیوں کی مکاری اور عیاری پر غالب آئے تھے۔ حالانکہ اس وقت دین اسلام نیا تھا اور جماعت مسلمہ ابھی ابھی تشکیل پائی تھی۔ اس وقت سے لے کر آج تک یہودی اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ امت مسلمہ کو قرآن کریم سے دور ہٹا دیں۔ مسلمان اپنے دین کو چھوڑ دیں۔ کیونکہ یہودیوں کو شدید خطرہ ہے کہ کہیں مسلمان ان کے خلاف وہی قرآنی ہتھیار کام میں لانا شروع کر دیں اور ان کی مکاری اور سازشوں سے بچنے کے لئے وہ تدابیر نہ کریں جو ان کے بچاؤ کی حقیقی تدابیر ہیں اور کارگر بھی ہیں۔ کیونکہ یہودی اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب تک امت مسلمہ اپنی شوکت اور برتری کے ان حقیقی سرچشموں سے محروم ہے یہودی امن و چین سے رہ سکتے ہیں۔ لہٰذا یہ ایک حقیقت ہے اس امت کو جو شخص بھی قرآن کریم اور دین اسلام سے دور کرتا ہے وہ یہودیوں کا ایجنٹ ہے۔ چاہے وہ یہ کام شعوری طور پر کر رہا ہو یا غیر شعوری طور پر، بالارادہ کر رہا ہو جو بلا ارادہ۔ کیونکہ جب تک یہ امت ایک حقیقت یعنی حقیقتاً ایمانی، ایمانی نظام زندگی اور ایمانی شریعت اور اسلامی قانون سے دور اور غافل ہے۔ اس وقت تک یہودیت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امت مسلمہ کا وجود، اس کی قوت اور اس کی برتری کا حقیقی اور منفرد سرچشمہ صرف ایک ہے یعنی ایمان اور اسلام۔ یہی ایک راہ ہے اور رہنمائی کرنے والے یہی نشانات ہیں جن پر چل کر ایک مسلمان منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے۔

٭٭٭

 

"اے مسلمانو!اب کیا تم ان لوگوں سے یہ توقع رکھتے ہو کہ یہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ محمد رسولﷺ اللہ کے ماننے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس میں ایک دوسرے سے تخلئے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کیا بے وقوف ہو گئے ہو ؟ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولی ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت پیش کریں ؟اور کیا یہ جانتے نہیں کہ جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے۔ ” (۷۵)

 

گزشتہ درس کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے قلوب کی حالت کا جو نقشہ کھینچا تھا۔ اس سے ہمیں معلوم ہوا تھا کہ وہ نہایت سنگدل، خشک اور ناقابل تغیر دل و دماغ کے مالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو ایسے پتھروں سے تشبیہ دی تھی جو نہایت ہی ٹھوس تھے اور جن میں پانی کا کوئی قطرہ برآمد نہ ہوتا تھا۔ اس قدر کھردرے تھے کہ انسان ان پر سہولت سے ہاتھ نہیں پھیر سکتا تھا۔ ان کے اندر کسی چیز کا اگنا یا ان کے اندر زندگی کے آثار پیدا ہونا تو یہ سرے سے ممکن ہی نہ تھا۔

یہ ایک ایسی تصویر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اس جامد دماغ ایسی پست فطرت اور ایسی بے لچک متعصبانہ ذہنیت کی وجہ سے اس قابل ہی نہیں رہے کہ راہ ہدایت پر آ جائیں۔ چنانچہ اس تصویر کشی اور ان کی طرف سے مایوس ہو جانے کے بعد اس اشارے کے بعد کلام کا رخ بعض ایسے مسلمانوں کی طرف پھر جاتا ہے جو اب بھی یہ خیال کرتے تھے کہ شاید بنی اسرائیل راہ ہدایت پر آ جائیں۔ ایسے لوگ کوشش کرتے تھے کہ بنی اسرائیل کے دلوں میں ایمان انڈیل دیں، کسی طرح انہیں ایمان کی روشنی کی طرف لے آئیں۔ قرآن کریم اس طرز پر سوچنے والے مومنین کو سوالیہ انداز میں مایوس کر دیتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ اس سلسلے میں ان کے دلوں میں امید کی جو آخری کرن ہے اسے بھی دل سے نکال دیں۔

أَفَتَطْمَعُونَ أَنْ يُؤْمِنُوا لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِنْہُمْ يَسْمَعُونَ كَلامَ اللَّہِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَہُ مِنْ بَعْدِ مَا عَقَلُوہُ وَہُمْ يَعْلَمُونَ "اے مسلمانو!اب کیا تم ان لوگوں سے یہ توقع رکھتے ہو کہ تمہاری دعوت پر ایمان لے آئیں گے ؟حالانکہ ان میں سے ایک گروہ کا شیوہ یہ رہا ہے کہ اللہ کا کلام سنا اور پھر خوب سمجھ بوجھ کر دانستہ اس میں تحریف کی۔ ”

خبردار!ایسے لوگوں کے ایمان لانے کی کوئی امید نہیں ہے۔ ایمان لانے والوں کا مزاج ہی دوسرا ہوتا ہے ان میں کچھ دوسری ہی صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ ایمان لانے والی طبیعت نرم، سادہ اور سہل ہوتی ہے، اس کے دل و دماغ کے دریچے ہر قسم کی روشنی کے لئے کھلے ہوتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے ازلی و ابدی سرچشمہ ہدایت سے جڑنے اور سیراب ہونے کے لئے ہر وقت وہ تیار ہوتی ہے۔ اس کے اندر احساس، احتیاط اور خدا خوفی ہوتی ہے اور یہ خدا خوفی اس بات سے روکتی ہے کہ خدا کے کلام کو سن کر، اسے سمجھ کر پھر اس میں تحریف کرے۔ محض ذاتی خواہش کے لئے اور محض تعصب کی خاطر کلام الٰہی میں تحریف کرے کیوں کہ ایمان لانے والی طبیعت، بالکل سیدھی سادھی ہوتی ہے اور وہ اس قسم کی کجروی اور بات کو توڑ موڑ کر پیش کرنے سے محترز رہتی ہے۔

پھر یہاں جس طبقے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ (یہود)سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقہ ہے۔ اور اس سچائی کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان پر ان کی کتاب میں اتاری۔ جیسے علمائے یہود کا طبقہ، جو ان کے نبی پر اتری ہوئی کتاب تورات کو سنتے تھے، سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود اسے بدل ڈالتے تھے اور اس میں ایسی تاویلات کرتے تھے کہ بات کچھ کی کچھ بن جاتی تھی اور یہ بات وہ اس لئے نہ کرتے تھے کہ انہیں کلام کا صحیح محل معلوم نہ تھا بلکہ وہ یہ حرکت سوچ سمجھ کر بالارادہ کیا کرتے تھے اور یہ جانتے ہوئے کرتے تھے کہ وہ تحریف کر رہے ہیں۔ خواہشات نفس اور مصلحت کے ہاتھ میں ان کے فکر و عمل کی لگام تھی اور ذلیل اغراض کے نغموں کے پیچھے مست ہو کر دوڑ رہے تھے۔ جب وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب کے ساتھ بدسلوکی کرتے تھے، جس پر ان کا ایمان بھی تھا تو قرآن کریم جو حضرت محمدﷺ پر نازل ہوا، اس کے ساتھ تو انہیں اس سے بھی بدتر سلوک کرنا ہی تھا کیونکہ وہ حضرت محمدﷺ پر سرے سے ایمان ہی نہ لائے تھے۔ لہٰذا اپنی اس خراب ذہنیت اور باطل رویے پر وہ جان بوجھ کر اصرار کرتے تھے۔ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی ذہنیت خراب ہے اور یہ کہ وہ سوچ سمجھ کر باطل پر اصرار کر رہے ہیں یا پھر ان کی جانب سے دعوت اسلامی کی یہ مخالفت اور تحریک اسلامی کے خلاف سازشیں اور بہتان تراشیاں کوئی خلاف توقع امر نہیں رہتا۔

وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلا بَعْضُہُمْ إِلَى بَعْضٍ قَالُوا أَتُحَدِّثُونَہُمْ بِمَا فَتَحَ اللَّہُ عَلَيْكُمْ لِيُحَاجُّوكُمْ بِہِ عِنْدَ رَبِّكُمْ أَفَلا تَعْقِلُونَ

"جب محمد رسول اللہ کے ماننے والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی انہیں مانتے ہیں اور جب آپس میں تخلئے کی بات چیت ہوتی ہے تو کہتے ہیں۔ بے وقوف ہو!ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولیں ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں۔ ”

کیا تم ان سے توقع رکھتے ہو کہ وہ تمہاری بات مان جائیں گے ؟حالانکہ وہ نہایت غیر ذمہ دار، حق کو چھپانے والے اور کلام اللہ میں تحریف کرنے والے لوگ ہیں۔ ریاء ، فریب کاری، منافقت اور چالبازی جیسے مفاسد ان کی جبلت میں داخل ہو گئے ہیں۔ پھر ان میں بعض ایسے بھی تھے کہ جب مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہم بھی ایمان لا چکے ہیں۔ یعنی نبیﷺ کی رسالت پر ایمان لا چکے ہیں کیونکہ ان کے ہاں تورات میں نبی آخرالزماں کے بارے میں واضح بشارتیں موجود تھیں اور وہ نبی آخرالزماں کی بعثت کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔ اور اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرتے تھے کہ وہ نبی آخرالزماں کے ذریعے انہیں کفار پر فتح عطا کرے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ کَانُوا مَن قَبلُ یَستَفتِحُونَ عَلَی الَّذِینَ کَفَرُوا”وہ اس سے قبل کفار پر دعائے فتح مندی مانگا کرتے تے۔ "لیکن جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں ملتے، تو ایک دوسرے کو اس بات پر سخت تنبیہ کرتے کہ کیوں وہ مسلمانوں کو وہ باتیں بتا رہے ہیں جو آپ کی رسالت کی صداقت کے بارے میں تورات میں مذکور ہیں، کہتے ہیں، بے وقوف ہو گئے ہو!ان لوگوں کو وہ باتیں بتاتے ہو جو اللہ نے تم پر کھولیں ہیں تاکہ تمہارے رب کے پاس تمہارے مقابلے میں انہیں حجت میں پیش کریں۔ "اس طرح تم پر حجت قائم کر دیں گے۔ یہاں ان کا مخصوص مزاج جو معرفت الٰہی سے بالکل کورا ہے ان پر غالب آ جاتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے علم کی حقیقت اور اس کی صفات کے حقیقی تصور تک سے عاری نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ یہ باتیں مسلمانوں کو نہ بتائیں تو اللہ تعالیٰ ان سے کچھ مواخذہ نہ کرے گا۔ مواخذہ صرف اس صورت میں ہو گا جب یہ باتیں مسلمانوں کو بتا دی جائیں۔

اس سے بھی زیادہ ان کی مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو کہتے ہیں۔ "کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟”معلوم نہیں وہ کیسی عقل و دانشمندی ہے جس کے کام میں نہ لانے پر وہ ایک دوسرے کی سرزنش کر رہے ہیں۔

چنانچہ قرآن کریم آگے بڑھنے سے پہلے ان کی اس طرز فکر اور طرز عمل پر تعجب کا اظہار کئے بغیر نہیں رہتا۔

أَوَلا يَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ”اور کیا یہ جانتے نہیں ہیں کہ وہ کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں۔ اللہ کو سب باتوں کی خبر ہے۔ ”

اب قرآن کریم ایک دوسرے پہلو سے مسلمانوں کے سامنے بنی اسرائیل کے حالات پیش کرتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک طبقہ تو ان جاہلوں اور ان پڑھ لوگوں کا ہے جو ان پر نازل ہونے والی کتاب الٰہی کا کوئی علم نہیں رکھتا۔ اس دماغ میں صرف اوہام و خرافات اور ظن و تخمین اور خوش آئند آرزوئیں ہی بسی ہوئی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ کی پسندیدہ اور برگزیدہ قوم ہیں اور جو برے عمل بھی وہ کریں اللہ تعالیٰ نے ان کے تمام گناہ معاف کر دئیے ہیں، ا س لئے یہ اپنے ذہن میں بسہولت نجات پا جانے کی امید لئے بیٹھے ہیں۔

دوسرا وہ فریق ہے جو اس جہالت سے خوب ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے، وہ بے دھڑک اپنی جانب سے آیات و نصوص گھڑتا ہے۔ اپنی مفید مطلب تاویلات کر کے اللہ کے مفہوم کو کچھ سے کچھ بنا دیتا ہے۔ جس چیز کو چاہتا ہے، چھپا لیتا ہے۔ اور جس چیز کو چاہتا ہے لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دیتا ہے۔ خود اپنے ہاتھ سے لکھی ہوئی باتوں کے بارے میں یہ مشہور کرتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام ہے اور یہ سب کام وہ دنیا کے ختم ہو جانے والے منافع اور ذاتی مفادات کے لئے کرتا ہے یا اس لئے کرتا ہے کہ اس کی پیشوائی اور برتری برقرار رہے۔

 

"ان میں سے ایک دوسرا گروہ امیوں کا ہے، جو کتاب کا علم رکھتے نہیں بس اپنی بے بنیاد اور آرزوؤں کے لئے بیٹھے ہیں اور محض وہم و گمان پر چلے جا رہے ہیں۔ پس ہلاکت اور تباہی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنے ہاتھوں سے شرع کا نوشتہ لکھتے ہیں۔ پھر لوگوں سے کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے آیا ہوا ہے تاکہ اس کے معاوضے میں تھوڑا سا فائدہ حاصل کر لیں۔ ان کے ہاتھوں کا یہ لکھا ہوا، ان کے لئے تباہی کا سامان ہے اور ان کی یہ کمائی بھی ان کے لئے موجب ہلاکت ہے۔ ” (۷۸، ۷۹)

 

اب ان دونوں گروہوں میں سے ہم کس سے توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ مشرف بایمان ہو گا۔ حق کی آواز پر لبیک کہے گا اور ہدایت پر قائم ہو جائے گا۔ اور اپنے آپ کو نازل شدہ کتاب کی ان نصوص کی تحریف سے بچا لے گا جو ان کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھیں۔ غرض ایسے لوگوں سے کوئی امید نہیں ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے۔ مسلمانوں کی بات مان کر دیں گے۔ ان کی قسمت میں تو تباہی اور بربادی لکھی ہوئی ہے اور یہ تباہی اور بربادی جو ان کی نوشتہ تقدیر ہے اس لئے ان کے لئے مقرر کی ہوئی ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھ سے آیات لکھیں اور پھر انہیں اللہ کی طرف منسوب کر ڈالا۔ یہ تباہی اور بربادی خود ان کے ہاتھ کی کمائی ہے۔ کیونکہ انہی ہاتھوں سے انہوں ان آیات کو تراشا اور اللہ کی طرف منسوب کیا۔

ان کی خواہشات اور باطل آرزوؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ وہ جس قدر بدکاری اور احکام کی جتنی خلاف ورزی بھی کریں بہرحال وہ نجات پانے والوں میں سے ہوں گے۔ وہ جہنم کی آگ میں چند دن رہیں گے اور ا س کے بعد جنت کی طرف جا نکلیں گے، ظاہر ہے کہ ان یہ تمنا ان کے نظام عدالت، اس کی سنت دائمہ اور جزا وسزا کے صحیح تصور کے سراسرخلاف ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کی اس آرزو کی بنیاد کیا ہے۔ وہ کس وثیقہ کی بنیاد پر اس وقت کا تعین کرتے ہیں، گویا اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان کوئی باقاعدہ معاہدہ ہو گیا ہے۔ اور اس کے اند ران کی تعذیب کی معیاد متعین ہو چکی ہے۔ یہ خیال جاہل لوگوں کی بے بنیاد آرزو اور خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہے اور دوسری جانب سے یہ تصور ان کے فریب کا ر علماء کے کذب و افتراء کا پلندہ ہے۔ یہ ایسی آرزوئیں ہیں جن کا سہارا وہ تمام لوگ لیا کرتے ہیں جو صحیح عقیدہ اور نظریۂ حیات چھوڑ چکے ہیں، اس پر ایک عرصہ گزر چکا ہوتا ہے اور اپنے حقیقی دین کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں رہا ہوتا۔ وہ اپنے دین کے صرف نام اور چند ظاہری رسومات کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔ اور دین کی حقیقت اور اس کے اصل موضوع سے بے خبر ہو جاتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنے آپ کو اس دنیا کی طرف منسوب کرتے ہیں، اس لئے سمجھتے ہیں کہ بس یہ زبانی نسبت ہی ان کی نجات کے لئے کافی ہو گی۔

 

"وہ کہتے ہیں کہ دوزخ کی آگ ہمیں ہرگز چھونے والی نہیں ہے۔ الَّا یہ کہ چند روز کی سزا مل جائے تو مل جائے۔ ان سے پوچھو کہ کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا، یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اس نے ان کا ذمہ لیا ہے۔ ” (۸۰)

 

یہاں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ایک ایسی دلیل اور حجت کی تلقین کرتے ہیں جو باطل کا سرکچل دیتی ہیں۔ "کیا تم نے اللہ سے کوئی عہد لے لیا ہے، جس کی خلاف ورزی وہ نہیں کرسکتا ؟”اگر کوئی ایسا عہد تم نے لے رکھا ہے تو بتاؤ وہ کہاں ہے ؟”یا بات یہ ہے کہ تم اللہ کے ذمے ڈال کر ایسی باتیں کہہ دیتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہوتا۔ "یہ سوالیہ انداز بات کو اور مضبوط بنانے کے لئے اختیار کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کے پاس اللہ کا کوئی عہد نہیں ہے۔ سوالیہ انداز میں ناپسندیدگی اور زجر و توبیخ کے معانی بھی مضمر ہوتے ہیں۔

یہاں اب اس سلسلے میں، انہیں ایک فیصلہ کن بات بتا دی جاتی ہے کہ ان کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے ؟یہ بات جزاء وسزا کے متعلق اسلام کے عالمگیر تصور ہی سے ماخوذ ہے اور بطور قاعدہ کلیہ بتا دیا جاتا ہے کہ جزا عمل کے مطابق ہو گی۔ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

 

"آخر تمہیں دوزخ کی آگ کیوں چھوئے گی۔ جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا وہ دوزخی ہے اور دوزخ میں وہ ہمیشہ رہے گا اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ ” (٨٢)

 

یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہو گی کہ اس مخصوص اصول جزاء وسزا اور اس ذہنی مفہوم کو قرآن نے جس معجزانہ اور فنکارانہ انداز میں بیان کیا ہے اور جس طرح اس کی تصویر کھینچ کر رکھ دی ہے، ہم قدرے توقف کر کے اس پر غور کریں اور اللہ کے اٹل حکم اور ابدی اصول کے اسباب واسرار معلوم کرنے کی کوشش کریں۔

"ہاں جو بھی بدی کمائے اور خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا گویا بدی ایک قسم کی کمائی ہے۔ یہاں معنی مطلوب صرف غلطی کا ارتکاب ہے لیکن جن الفاظ سے اس کی تعبیر کی گئی ہے وہ معروف نفسیاتی حالت کی عکاسی کرتے ہیں۔ جو لوگ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں، وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں اور اس کے ارتکاب میں انہیں مزا آتا ہے۔ اور وہ اس سے لذات اندوز ہوتے ہیں۔ اور اسے اپنی کمائی سمجھنے لگتے ہیں۔ کیونکہ اگر وہ اسے مکروہ اور ناپسندیدہ سمجھتے تو اس کا ارتکاب نہ کرتے۔ نیز اگر وہ سمجھتے کہ یہ ایک قسم کا خسارہ ہے تو وہ اس جو ش و خروش سے اس کا ارتکاب نہ کرتے نیز وہ اس برائی کو اپنے اوپر اس طرح غالب نہ کرتے کہ ان کی پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ جائے اور وہ پوری طرح اس کے چکر میں پھنس جائیں کیونکہ یہ لوگ اگر اسے ناپسند کرتے اور اس کے اندر جو خسارہ تھا، اسے محسوس کرتے تو اس کے سائے سے بھی دور بھاگتے۔ اگرچہ طبعاً وہ اس کے ارتکاب کی طرف مائل ہوتے۔ نیز وہ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگتے اور اس گناہ کے دائرہ اثر سے نکل کر کسی اور کے دامن میں پناہ لیتے، اس صورت میں یہ برائی انہیں گھیر نہ سکتی اور نہ ہی ان پر چھا سکتی تھی اور ان کے لئے توبہ اور تلافی مافات کے دروازے بند نہ ہو جاتے وَاَحَاطَت بِہٖ خَطِئَتُہُ اور اس کی خطا کاری نے اسے گھیر لیا۔ "یہ ایک ایسی تعبیر ہے جواس کیفیت اور معنی کو مجسم شکل میں پیش کرتی ہے۔ قرآن کریم کی فنی خوبیوں اور خصوصیات میں سے یہ ایک اہم خصوصیت ہے نیز قرآن کریم کی مخصوص طرز تعبیر کی اہم نشانی ہے۔ اس طرز تعبیر کا انسان کے ذہن پر ایک خاص اثر پڑتا ہے، جو خالص مفہومات ومعانی کا نہیں پڑتا۔ وہ معنوی تعبیریں جو متحرک شکل میں نہ ہوں ایسا اثر پیدا نہیں کرسکتیں۔ معصیت پر اصرار کی معنوی کیفیت کی اس سے اور مستحسن تعبیر کیا ممکن ہے کہ معصیت کا مرتکب خود معصیت کے دائرے میں قید ہو، اس کے حدود کے اندر ہی زندگی بسر کر رہا ہو، وہ اس مصیبت ہی کا ہو کر رہ گیا ہو، اس کے بغیر اس کے لئے زندگی کا ایک سانس لینا بھی ممکن نہ رہا ہو۔

اور جب انسان کسی معصیت کے چکر میں اس طرح پڑ جاتا ہے وہ ہر طرف سے محصور ہو جاتا ہے اور اس کے لئے توبہ کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ کا یہ عادلانہ اور اٹل فیصلہ صادر ہوتا ہے فَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِيہَا خَالِدُونَ o "ایسے لوگ دوزخی ہیں اور وہ ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے۔ ”

اس فیصلے اور نتیجے کے بعد دوسرا اور مقابل صورت کا حکم بھی یہاں بیان کیا جاتا ہے۔

وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمْ فِيہَا خَالِدُونَ”اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔ اور نیک عمل کریں گے۔ ”

یعنی ایمان کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ دل سے عمل صالح کی شکل میں پھوٹ کر باہر نکل آئے۔ جو لوگ ایمان کے دعوے دار ہیں، انہیں چاہئے کہ اس حقیقت پر ذرا غور کر لیں نیز وہ تمام مسلمان بھی جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں، اور ہم بھی ان میں شامل ہیں، اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ ہم اس حقیقت کے بارے میں اچھی طرح تسلی کر لیں۔ ایمان کا وجود اس وقت تک متصور نہ ہو گا جب تک اس کے نتیجے میں عمل صالح پیدا نہ ہو، رہے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں، پھر زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور نیکی اور بھلائی کا مقابلہ کرتے ہیں۔ زمین پر اسلامی نظام حیات کے قیام اور اسلامی شریعت کے نفاذ کو روکتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہیں۔ اسلامی اخلاق کے خلاف برسر پیکار رہتے ہیں۔ تو ایسے لوگوں کے لئے دولت ایمان کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے، ان کے لئے اللہ کے ہاں کوئی اجر نہیں ہے۔ انہیں اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ہے۔ اگرچہ وہ ایسی خوش آئند امیدیں اور آرزوئیں اپنے دلوں کے اندر رکھتے ہیں جیسی یہود رکھتے تھے، اور جن کا اوپر اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا۔ پس سب کے لئے یہی حکم ہے۔

اس کے بعد بنی اسرائیل کے کچھ اور حالات مسلمانوں کے سامنے رکھے جاتے ہیں، مختلف اوقات میں ان کے طرزِ عمل، معصیت، کجروی، گمراہی اور عہد و پیمان کی خلاف ورزی کے مختلف واقعات بیان کئے جاتے ہیں اور یہودیوں کے یہ سیاہ کارنامے مسلمانوں کے سامنے، ان پر کھولے جاتے ہیں۔

"یاد کرو اسرائیل کی اولاد سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا، رشتہ داروں کے ساتھ یتیموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا، لوگوں سے بھلی بات کہنا، نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ دینا، مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے اور اب تک پھر ہوئے ہو۔ پھر ذرا یاد کرو، ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو گھر سے بے گھر کرنا، تم نے اس کا اقرار کیا تھا۔ تم خود اس پر گواہ ہو، مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم وزیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھا بندیاں کرتے ہو، اور جب لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لئے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ ان کو ان کے گھروں سے نکالنا ہی تم پر حرام تھا۔ تو کیا تم کتاب کے ایک حصہ پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو ؟پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں ان کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دئیے جائیں ؟اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے جو تم کر رہے ہو۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت کو بیچ کر دنیا کی زندگی خرید لی ہے، لہٰذا نہ ان کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ ” (آیات ۸۳ تا ۸۸)

 

گزشتہ سبق میں جہاں بنی اسرائیل کی وعدہ خلافیوں کا ذکر کیا گیا تھا، اس میثاق کی طرف اشارہ بھی کیا گیا تھا۔ یہاں اس معاہدہ کی بعض شقوں کی طرف تفصیلی اشارہ کیا جاتا ہے۔

پہلی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے ساتھ جس معاہدہ کا ذکر کیا ہے وہ وہی معاہدہ ہے جو ان کے ساتھ کوہ طور کو ان کے سروں پر لٹکانے کے بعد طے پایا تھا۔ اور جس کے بارے میں انہیں تاکید کی گئی تھی کہ وہ اسے مضبوطی سے پکڑیں اور اس کے اندر جو ہدایات انہیں دی گئی ہیں انہیں یاد رکھیں۔ غالباً اس کے اندر دین کے اساسی امور کا بیان تھا اور یہ اساسی امور وہی ہیں جواب اسلام نے ان کے سامنے پیش کئے ہیں اور جنہیں وہ کوئی عجیب اور نئی چیز سمجھ کر رد کر رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے ان کے ساتھ جو عہد کیا تھا، وہ جن امور پر مشتمل تھا، ان میں سے ایک اہم امر یہ تھا کہ وہ صرف اللہ کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، یعنی وہ مکمل توحید کا عقیدہ اختیار کریں۔ اس عہد میں یہ حکم بھی تھا کہ والدین، رشتہ داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں۔ اس میں یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تلقین کریں اور ظاہر ہے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اچھی باتوں میں سرفہرست ہے۔ نیز اس عہد میں نماز فرض کی گئی تھی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا تھا، غرض یہ سب چیزیں ایسی تھیں جو اسلام کے اندر بھی اساسی امور سمجھے جاتے ہیں اور یہ سب باتیں اسلام میں فرض قرار دی گئی ہیں۔

اس عہد کے مطالعے سے کئی باتیں ثابت ہوتی ہیں۔

ایک یہ کہ اللہ کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے جو اسلام ہے اور یہ کہ اسلام اس دین کی آخری کڑی ہے اور اس میں سابقہ شرائط کی تمام اصولی باتوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ دوسری حقیقت یہ عیاں ہوتی ہے کہ یہودیوں کو دین اسلام سے بے حد بغض تھا۔ اسلام انہیں محض انہیں باتوں کی طرف بلا رہا تھا جس کا انہوں نے اپنے اللہ سے معاہدہ کر رکھا تھا لیکن اس کے باوجود اس کا انکار کر رہے تھے۔

ان کے اس شرمناک طرز عمل کی وجہ سے انداز گفتگو غائبانہ کلام سے تبدیل ہو کر خطاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے حالانکہ اس سے قبل بنی اسرائیل کو چھوڑ کر مومنین کو خطاب کیا جا رہا تھا اور ان کے سامنے ان کے برے کارنامے بیان کئے جا رہے تھے۔ ان کے یہ سیاہ کارنامے بیان کرتے کرتے اچانک ان سے مخاطب ہونا ان کے لئے سخت شرمندگی کا باعث ہے ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلا قَلِيلا مِنْكُمْ وَأَنْتُمْ مُعْرِضُونَ "مگر تھوڑے آدمیوں کے سوا تم سب اس عہد سے پھر گئے ہو اور اب تک پھرے ہوئے ہو۔ ”

اس سے وہ بعض راز معلوم ہو جاتے ہیں کہ اللہ کی اس عجیب کتاب میں واقعات کو بیان کرتے ہوئے، کلام میں اچانک التفات کیوں ہوتا ہے۔ اور اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہوتی ہے ؟

اب اس سے آگے بھی کلام بنی اسرائیل کی طرف ہی ہے۔ قرآن کریم ان کو مخاطب کر کے بتاتا ہے کہ ان کے موقف میں کیا کیا تضادات پائے جاتے ہیں۔ اور کہاں کہاں وہ اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔

"پھر یاد کرو !ہم نے تم سے مضبوط عہد لیا تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کا خون نہ بہانا اور نہ ایک دوسرے کو بے گھر کرنا۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم اس پر گواہ ہو۔ "پھر اس اقرار اور شہادت اور گواہی کے بعد کیا ہوا؟

"مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو۔ اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو۔ ظلم و زیادتی کرنے کے ساتھ ان کے خلاف جتھا بندیاں کرتے ہو، اور جب لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں تو ان کی رہائی کے لئے فدیہ کا لین دین کرتے ہو۔ حالانکہ ان کو ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ "(٨٤۔٨)

یہ واقعہ جو قرآن کریم ان کے خلاف پیش کر رہا ہے، وہی تھا جو غلبہ اسلام سے کچھ زمانہ پہلے اوس اور خزرج کی جنگوں میں پیش آ چکا تھا۔ اوس و خزرج مشرکین یثرب کے دو قبیلے تھے اور ان کے درمیان ایسی شدید دشمنی تھی جس کی مثال پورے عرب میں نہ تھی۔ یثرب میں یہودیوں کے بھی تین قبائل تھے جن میں سے بعض ایک قبیلے اور بعض دوسرے قبیلے کے حلیف ہوتے تھے۔ جب ان دو قبائل کے درمیان جنگ ہوتی تو ان کے یہودی حلیف بھی جنگ میں شریک ہوتے۔ اس طرح بعض اوقات ایک یہودی مدمقابل کے حلیف دوسرے یہودی کو قتل کرتا اور اللہ کے ساتھ انہوں نے جو پختہ عہد باندھا تھا یہ اس کے سراسر خلاف تھا۔ جب ایک قبیلے کا حلیف غالب آتا تو خود بنی اسرائیل، بنی اسرائیل کو لوٹتے۔ انہیں گھروں سے نکالتے، ان کی عورتوں کو غلام بناتے حالانکہ میثاق کی نص کی رو سے یہ حرکت ان پر حرام تھی۔ لیکن جب جنگ ختم ہو جاتی تو پھر یہ غالب یہودی مقابل کے مغلوب یہودیوں کا فدیہ دیتے۔ انہیں قید اور غلامی سے رہائی دلاتے۔ جہاں جہاں بھی وہ قید ہوتے خواہ اپنے کیمپ میں یا مخالفین کے کیمپ میں ہوتے۔ اور یہ کام وہ تورات کے اس حکم پر عمل کرتے تھے جس میں کہا گیا تھا "تجھے بنی اسرائیل کا جو شخص غلام ملے اسے خریدو اور رہا کرو۔ ”

یہ تھا ان کی زندگی کا اہم تضاد اور اسے ان کے سامنے رکھ کر قرآن کریم ان سے پوچھتا ہے،

أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ”تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو۔ ”

اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ یہ عہد کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس لئے انہیں اس بات کی تہدید کی جاتی ہے کہ اس وجہ سے وہ دنیا میں ذلیل و خوار ہوں گے اور آخرت میں اس پر انہیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔ نیز انہیں تنبیہ کی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ ان سے غافل ہے اور نہ ہی ایسی صریح غلطیوں کو معاف کرے گا۔

اس کے بعدمسلمانوں کو خصوصاً اور تمام انسانیت کو عموماً خطاب کیا جاتا ہے۔ اور بتایا جاتا ہے کہ ان یہودیوں کی حقیقت کیا ہے اور ان کے ان اعمال کا انجام کیا ہے ؟جو وہ کر رہے ہیں۔

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاۃَ الدُّنْيَا بِالآخِرَۃِ فَلا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلا ہُمْ يُنْصَرُونَ”یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آخرت بیچ کر دنیا خرید لی ہے۔ لہٰذا نہ ان کی سزا میں کوئی تخفیف ہو گی اور نہ انہیں کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ ”

سوال یہ ہے کہ انہوں نے آخرت بیچ کر دنیا کس طرح خرید لی ؟وہ یوں کہ وہ اللہ کا عہد توڑنے پر محض اس لئے آمادہ ہوئے کہ وہ اپنے دنیاوی مفادات کی خاطر مشرکین کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو نبھائیں اور یہ ایسا عہد ہے جسے نباہنے میں لازماً انہیں اپنے دین اور اللہ کی کتاب کی خلاف ورزی کرنی پڑ رہی ہے۔

یاد رہے کہ دو دھڑوں میں بٹ کر دو حلیفوں سے معاہدہ کر لینا، بنی اسرائیل کا پرانا حربہ ہے۔ یہ ہمیشہ بین بین رہتے ہیں اور احتیاطاً باہم متحارب بلاکوں میں ہر ایک کے ساتھ ہو جاتے ہیں تاکہ جو بلاک بھی کامیاب ہو، اس کے حاصل ہونے والے مفادات میں ان کا حصہ بہرحال محفوظ ہو، جو گروہ بھی کامیاب ہو اس کی کامیابی یہودیوں کی کامیابی ہو۔ جن لوگوں کو اللہ پر اعتماد نہیں ہوتا اور جو اللہ کی رسی کو مضبوط تھامے ہوئے نہیں ہوتے ان کا طرز عمل ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ ہمیشہ عیاری اور چالبازی سے کام لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ اللہ کے مقابلے میں انہیں انسانوں کی مدد حاصل رہے۔ وہ اللہ کے عہد و پیمان سے زیادہ انسان کے عہد و پیمان کو اہمیت دیتے ہیں۔

لیکن ایمان تو انسان کو ہر اس عہد و میثاق کے اندر شامل ہونے سے روکتا ہے جو احکام شریعت کے خلاف ہو اور جس سے اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی خلاف ورزیاں لازم آتی ہیں۔ کسی مصلحت کی خاطر یا بچاؤ کی کوئی تدبیر اختیار کرنے کی خاطر کوئی ایسا عہد نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ بچاؤ ا س میں ہے کہ انسان اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی پابندی کرے۔ نیز سب سے بڑی مصلحت یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لائے اور اپنے دین کا اتباع کرے۔

یہ تھا بنی ا سرائیل کا طرز عمل، ان کے مصلحین اور انبیاء علیہم السلام کے ساتھ !قرآن کریم کے اس طرز عمل کو بالتفصیل بیان کرتا ہے اور مسلمہ واقعات کی روشنی میں اسے ثابت کرتا ہے اور پھر اچانک ان کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے اور نبی آخرالزماں اور اس نئی اور آخری رسالت کے بارے میں ان کے مکروہ طرز عمل پر گرفت کرتا ہے۔ قرآن کریم انہیں بتاتا ہے کہ تمہی تو ہو جنہوں نے انبیائے سابقین کے ساتھ یہ سلوک کیا۔ ذرا غور سے پڑھیئے ؟

 

"ہم نے موسیٰ کو کتاب دی، اس کے بعد پے درپے رسول بھیجے، آخر کار عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم کو روشن نشانیاں دے کر بھیجا اور روح پاک سے اس کی مدد کی۔ پھر تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا، تو تم نے اس کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کر ڈالا۔ ” ( ٨٧ تا ۹۳)

 

"وہ کہتے ہیں ؟”ہمارے دل محفوظ ہیں "نہیں، اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے، اسی لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے اس کے ساتھ ان کا برتاؤ کیا ہے ؟باجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی، باجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ خود کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے، مگر جب وہ چیز آ گئی۔ جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ خدا کی لعنت ان منکرین پر، کیسا برا ذریعہ ہے، جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بناپر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی ورسالت)سے اپنے جس بندے کو چاہا، نواز دیا۔ لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کے لئے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ خدا نے نازل کیا ہے، اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں "ہم تو صرف اس چیز پر ایمان لاتے ہیں جو ہمارے ہاں (یعنی نسل بنی اسرائیل)اتری ہے۔ "اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے، اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں، حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ اچھا، ان سے کہو ؟اگر تم اس تعلیم ہی پر ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی، تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے )کیوں قتل کرتے رہے ؟تمہارے پاس موسیٰ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آیا۔ پھر بھی تم ایسے ظالم تھے کہ اس کے پیٹھ موڑتے ہی بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے، پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو، جو طور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں ان کی سختی سے پابندی کرو۔ اور کان لگا کر سنو تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا مگر مانیں گے نہیں۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ کہو ؟اگر تم مومن ہو تو یہ عجب ایمان ہے، جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔ ”

یہاں آ کر قرآن کریم کا انداز بیان عنیف و شدید ہو جاتا ہے اور بعض مقامات پر تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا بجلی گر رہی ہے یا آگ برس رہی ہے۔ قرآن کریم، کود ان کے اقوال اور ان کے تاریخی افعال میں ان کے سامنے رکھ کر، انہیں اس طرح آڑے ہاتھوں لیتا ہے کہ بیچارے بالکل لاجواب ہو جاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی حجت نہیں رہتی۔ نہ ہی وہ کوئی معذرت پیش کرسکتے ہیں۔ درحقیقت تو وہ ازروئے استکبار سچائی قبول کرنے سے اعراض کرتے تھے۔ ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف بغض بھرا ہوا تھا، وہ مسلمانوں کو حقیر سمجھ کر ان سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے، انہیں یہ بات بے حد پسند تھی کہ ان کے علاوہ کوئی بھی یہ مقام بلند پائے اور ان کے دلوں کو یہ حسد کھائے جا رہا تھا کہ اللہ کا یہ فضل و کرم مسلمانوں پر کیوں ہو رہا ہے ؟لیکن لوگوں کو دکھانے کی خاطر اسلام قبول کرنے کی مذکورہ بالا وجوہات بیان کرتے تھے۔ جنہیں اللہ تعالیٰ نے سختی سے ردّ کر دیا کیونکہ اللہ اور رسول کے مقابلے میں ان کے منکرانہ اور متمرادانہ موقف کا یہی علاج تھا۔

وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَہُمُ اللَّہُ بِكُفْرِہِمْ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ”اور وہ کہتے ہیں کہ "ہمارے دل محفوظ ہیں۔ "اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہے۔ اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ ”

وہ کہتے تھے کہ ہمارے دلوں کے اوپر غلاف چڑھے ہوئے ہیں۔ ان تک کوئی جدید دعوت نہیں پہنچ سکتی۔ نہ ہی کسی نئے داعی کی پکار سننے کے لئے تیار ہیں۔ یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ نبیﷺ اور مسلمانوں کو مایوس کر دیں تاکہ وہ انہیں اس دین جدید کی طرف بلانا ہی چھوڑ دیں، نیز وہ یہ باتیں نبیﷺ کی دعوت قبول نہ کرنے کی علت کے طور پر کہتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ ان کی ان باتوں کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ بَلْ لَعَنَہُمُ اللَّہُ بِكُفْرِہِمْ "بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان کے کفر کی وجہ سے ان اللہ کی پھٹکار پڑی ہے۔ "یعنی ان کے مسلسل انکار کی وجہ سے اللہ نے انہیں بطور سزا ہدایت سے بہرہ ور ہونے سے محروم کر دیا اور اس روشنی کے درمیان پردے حائل ہو گئے۔ فَقَلِيلا مَا يُؤْمِنُونَ "اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ ”

یعنی چونکہ اپنے مسلسل کفر اور قدیم گمراہی کی وجہ سے وہ راہ حق سے دور جا پڑے ہیں۔ اور اللہ نے بطور سزا انہیں محروم بھی کر دیا ہے۔ اس لئے وہ ہم ہی ایمان لاتے ہیں۔ نیز اس آیت کا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے۔ "چونکہ وہ کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں، اس لئے وہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔ "یعنی یہ ان کی مستقل روش ہے جس پر وہ قائم ہیں۔ دونوں مفہوم سیاق کلام سے مناسبت رکھتے ہیں۔

ان کی جانب سے یہ کافرانہ رویہ اختیار کرنا اس لئے زیادہ قبیح تھا کہ وہ اس کا انکار کر رہے تھے۔ جس کے انتظار میں وہ صدیوں تک بیٹھے ہوئے تھے اور وہ یہ امید لگائے ہوئے تھے کہ اس کے ذریعے وہ تما م کفار پر غلبہ پالیں گے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ اس آنے والے نبی کے ذریعے وہ فتح اور نصرت حاصل کریں گے۔ اور جب وہ اس کتاب کی تصدیق کرتے ہوئے تشریف لائے، جو ان کے پاس تھی تو انہوں نے کفر کی راہ لی۔

وَلَمَّا جَاء َہُمْ كِتَابٌ مِنْ عِنْدِ اللَّہِ مُصَدِّقٌ لِمَا مَعَہُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاء َہُمْ مَا عَرَفُوا كَفَرُوا بِہِ

"اور اب جو ایک کتاب اللہ کی طرف سے ان کے پاس آئی ہے۔ اس کے ساتھ ان کا کیا برتاؤ ہے ؟باوجودیکہ وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے۔ جو ان کے پاس پہلے سے موجود تھی۔ باوجودیکہ اس کی آمد سے پہلے وہ کفار کے مقابلے میں فتح و نصرت کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ مگر جب وہ چیز آ گئی، جسے وہ پہچان بھی گئے تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا۔ ”

یہ ان کی ایسی قبیح حرکت تھی کہ وہ اس پر بجا طور پر اس سزا کے مستحق تھے کہ انہیں راہ ہدایت سے دور پھینک دیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ان پر اللہ کی پھٹکار برستی ہے۔ اور انہیں کفر کے عیب سے متصف قرار دیا جاتا ہے فَلَعْنَۃُ اللَّہِ عَلَى الْكَافِرِينَ "اللہ کی لعنت ان منکروں پر۔ "اس کے بعد اللہ تعالیٰ یہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے جو سودا کیا وہ گھاٹے کا سودا ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ ان کے اس مکروہ موقف اور ناپسندیدہ طرز عمل کا اصل اور پوشیدہ سبب بھی ظاہر فرما دیتے ہیں۔

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ أَنْ يَكْفُرُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ بَغْياً أَنْ يُنَزِّلَ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَى مَنْ يَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ فَبَاء ُوا بِغَضَبٍ عَلَى غَضَبٍ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُہِينٌ

"کیا بری ہے وہ قیمت جس سے یہ اپنے نفس فروخت کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی ورسالت)سے اپنے جس بندے کو خود چاہا نواز دیا !لہٰذا اب یہ غضب بلائے غضب کے مستحق ہو گئے ہیں اور ایسے کافروں کے لئے سخت ذلت آمیز سزا مقرر ہے۔ ”

انہوں نے جان بوجھ کر اپنی جان کے بدلے جو کفر خریدا ہے، وہ ان کے لئے بہت گھاٹے کا سودا ہے۔ گویا انہوں نے اپنی جان قیمت کفر کو قرار دیا۔ انسان اپنے آپ کی کم و بیش کوئی نہ کوئی قیمت لگاتا ہے اور اگر وہ اپنی ذات کو کفر کے عوض فروخت کر دے تو یہ اس کے لئے سخت خسارے کا سودا ہو گا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ایسا ہی کیا اگرچہ یہ بات یہاں بطور تمثیل اور منظر کشی کے بیان ہوئی ہے۔

دنیا میں انہیں یہ خسار ا ہوا کہ وہ اس قابل احترام قافلۂ ایمان کے ممبر نہ بن سکے۔ اور آخرت کا خسارہ یہ ہوا کہ نہایت ذلت آمیز عذاب ان کے لئے چشم براہ ہے۔ کیونکہ ان کا آخری خاتمہ کفر پر ہوا اور اپنی پوری زندگی میں انہوں نے کفر ہی کمایا۔

انہیں اس روش پر جس چیز نے مجبور کیا وہ صرف یہ تھی کہ ان کے دل نبیﷺ کے حسد سے بھرے ہوئے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نبی آخر الزمان ان میں سے ہو گا لیکن اللہ تعالیٰ نے بنی اسماعیل میں حضرت محمدﷺ کا انتخاب فرمایا۔ وہ اپنے دلوں میں یہ وسعت پیدا کرتے ہوئے یہ برداشت نہ کرسکے کہ اللہ اپنے فضل و کرم اور وحی ورسالت سے جسے چاہے نواز دے۔ ان کا یہ طرز عمل صریح ظلم اور حد سے تجاوز تھا۔ اور اس ظلم و تعدی کی وجہ سے یہ لوگ غضب بالائے غضب کے مستحق ہو کر لوٹے۔ چنانچہ اس استکبار، حسد اور مذموم تعدی کی سزا کے طور پر ایک ذلت آمیز عذاب ہے جوان کے لئے چشم براہ ہے۔

یہودیوں کے اندر اس قسم کا جو ایک خاص مزاج پایا جاتا ہے، یہ احسان فراموشی کا مزاج ہے اور جو لوگ یہ مزاج رکھتے ہیں وہ شدید ترین تعصب کے محدود دائرے میں خود غرضانہ زندگی بسر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر وقت یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کی خیر و فلاح درحقیقت ان کی محرومی ہے۔ ایسے لوگ انسانیت کے وسیع ترین تصور اخوت کے شعور ے عاری ہوتے ہیں۔ یہودیوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے سالہا سال تک اسی ذہنیت کے ساتھ پوری انسانیت سے علیحدگی کی زندگی بسر کی۔ گویا کہ شجر انسانیت سے انہیں کوئی تعلق نہ تھا۔ بلکہ وہ ہمیشہ پوری انسانیت کے خلاف سازشیں کرتے رہے۔ وہ ہمیشہ اپنے دلوں کے اندر پوری انسانیت کے خلاف بغض اور حسد کی آگ سلگاتے رہے اور یوں یہ بغض وحسد ان کے لئے بلائے جان بنے رہے۔ اس بغض اور کینہ کا مزہ وہ پوری انسانیت کو چکھاتے رہے کہ انہوں نے ہمیشہ بعض اقوام کو دوسری اقوام کے خلاف بھڑکایا اور انہیں باہم لڑایا تاکہ وہ ان جنگوں کے نتیجہ میں مالی منفعت حاصل کریں۔ اور س طرح اپنے دلوں میں بغض وحسد کی سدا سلگنے والی آگ کو بجھاتے رہیں۔ انہوں نے ہمیشہ مختلف اقوام پر ایسی تباہیاں لانے کی سازشیں کیں، جس کے نتیجہ میں بعض اوقات خود یہ لوگ بھی تباہ ہو اور برباد ہوتے رہے۔ شر اور فسادکا یہ طویل سلسلہ ہمیشہ اس لئے بپا ہوا کہ یہودیوں کے دل انسانیت کے خلاف حسد وبغض سے بھرے ہوئے تھے اور یہ لوگ انتہائی خود غرضانہ ذہنیت کے مالک تھے ؟

بَغْياً أَنْ يُنَزِّلَ اللَّہُ مِنْ فَضْلِہِ عَلَى مَنْ يَشَاء ُ مِنْ عِبَادِہِ "صرف اس ضد کی بنا پر کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت)سے اپنے جس بندے کو خود چاہا نواز دیا۔ ”

وَإِذَا قِيلَ لَہُمْ آمِنُوا بِمَا أَنْزَلَ اللَّہُ قَالُوا نُؤْمِنُ بِمَا أُنْزِلَ عَلَيْنَا وَيَكْفُرُونَ بِمَا وَرَاء َہُ وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِمَا مَعَہُمْ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اس پر ایمان لاؤ، تو وہ کہتے ہیں "ہم تو اس چیز پر ایمان لائے ہیں جو ہمارے ہاں (بنی اسرائیل میں )اتری ہے۔ ”

اس دائرے کے باہر جو کچھ آیا ہے اسے ماننے سے وہ انکار کرتے ہیں حالانکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی۔ یہ بات وہ اس وقت کہتے تھے، جب انہیں قرآن پر ایمان لانے اور اسلام کو قبول کرنے کی دعوت دی جاتی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ "ہم پر جو کچھ نازل ہوا ہے، ہم اس پر ایمان لا چکے اور وہ کافی و شافی ہے۔ "اس کے سوا وہ تمام ہدایات کا انکار کرتے تھے۔ خواہ وہ عیسیٰ علیہ السلام پر اتری ہوں یا نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ پر اتری ہوں۔

قرآن کریم کے نزدیک ان کا یہ طرز عمل اور ان کی جانب سے توریت کے علاوہ تمام دوسری ہدایات کا انکار ایک عجیب حرکت ہے۔

وَہُوَ الْحَقُّ مُصَدِّقاً لِمَا مَعَہُمْ "کیونکہ وہ حق ہے اور اس تعلیم کی تصدیق و تائید کر رہا ہے جو ان کے ہاں پہلے سے موجود ہے۔ ”

یعنی بنی اسرائیل کو حق سے کیا واسطہ ؟کیا ہوا کہ سچائی ان تعلیمات کی تصدیق کر رہی ہے جو ان کے پاس موجود ہیں، کیونکہ اس سے وہ محروم ہو گئے ہیں۔ یہ تو خود اپنے نفس کے پجاری ہیں، اپنی قومی عصبیت کے بندے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے وہ تو اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتے ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل وہ ان ہدایات کو بھی ٹھکرا چکے ہیں جو خود ان کے انبیاء پر اتاری گئی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمدﷺ کو سکھاتے ہیں کہ ان کی حقیقت کھولنے کے لئے اور ان کے موقف کی کمزوری کی وضاحت کے لئے وہ ان پر اس پہلو سے حملہ آور ہوں قُلْ فَلِمَ تَقْتُلُونَ أَنْبِيَاء َ اللَّہِ مِنْ قَبْلُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ

"کہہ دیجئے کہ اگر تم اس تعلیم پر ہی ایمان رکھنے والے ہو جو تمہارے ہاں آئی تھی تو اس سے پہلے اللہ کے ان پیغمبروں کو (جو خود بنی اسرائیل میں پیدا ہوئے تھے )کیوں قتل کرتے رہے ؟تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ انبیاء بنی اسرائیل تمہارے پاس جو تعلیم و ہدایت لے کر آئے تھے، تم ان پر ایمان لائے ہوئے تھے، تو اگر تم سچے مومن تھے، تو تم نے انبیاء عظام کو قتل کیوں کیا؟”

بات یہ نہیں کیونکہ حضرت موسیٰ تمہارے پہلے نبی تھے اور تمہارے عظیم نجات دہندہ تھے۔ وہ تمہارے پاس جو ہدایت لے آئے تھے تم نے اس کا بھی انکار کیا تھا وَلَقَدْ جَاء َكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ”تمہارے پاس موسیٰ کیسی کیسی روشن نشانیوں کے ساتھ آئے، پھر بھی تم اتنے ظالم تھے کہ ان کے پیٹھ موڑتے ہیں بچھڑے کو معبود بنایا تھا۔ کیا یہ تمہارے ایمان اور وحی الٰہی کا مقتضاء تھا کیا اس طرز عمل کے ہوتے ہوئے تم یہ دعویٰ کرسکتے ہو کہ تم ان ہدایات اور نشانیوں پر ایمان لا چکے ہو جو حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے پاس لائے تھے ؟”

یہی نہیں بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک چٹان اور پہاڑ کے سائے میں تم سے ایک پختہ میثاق لیا تھا، کیا تمہیں یاد نہیں کہ تم نے اس قسم کے غیر معمولی میثاق کو بھی توڑ دیا تھا اور تم سرکشی اور معصیت میں مبتلا ہو گئے تھے۔

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُمْ بِقُوَّۃٍ وَاسْمَعُوا قَالُوا سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَأُشْرِبُوا فِي قُلُوبِہِمُ الْعِجْلَ بِكُفْرِہِمْ”پھر ذرا اس میثاق کو یاد کرو جو طور کو تمہارے اوپر اٹھا کر ہم نے تم سے لیا تھا۔ ہم نے تاکید کی تھی کہ جو ہدایات ہم دے رہے ہیں، ان کی سختی کے ساتھ پابندی کرو اور کان لگا کر سنو۔ تمہارے اسلاف نے کہا کہ ہم نے سن لیا، مگر مانیں گے نہیں۔ اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں میں ان کے بچھڑا ہی بسا ہوا تھا۔ ”

یہاں آ کر خطابی انداز گفتگو، حکامت و بیان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ پہلے تو بنی اسرائیل کو مخاطب کر کے انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ تم یہ یہ کرتے رہے، اس کے بعد کلام کا رخ مومنین اور عام انسانوں کی طرف پھر جاتا ہے اور انہیں بتایا جاتا ہے کہ دیکھو یہ بنی اسرائیل یہ یہ کام کرتے رہے، اور نبیﷺ کو سمجھادیا جاتا ہے کہ آپ اچانک انہیں آڑے ہاتھوں لیں۔ اور ان سے پوچھیں کہ ان کا ایمان کس قدر گھٹیا اور مکروہ ایمان ہے جو بقول ان کے انہیں ایسا صریح کافرانہ اور ناپسندیدہ رویہ اختیار کرنے کے لئے مجبور کر رہا ہے۔

قُلْ بِئْسَمَا يَأْمُرُكُمْ بِہِ إِيمَانُكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ”کہو اگر تم مومن ہو، تو عجیب ایمان ہے جو ایسی بری حرکات کا تمہیں حکم دیتا ہے۔ ”

قرآن کریم کی یہ دو مصورانہ تعبیریں کس قدر گہری سوچ بچار کی مستحق ہیں۔ یہ کہ "انہوں نے کہا”ہم نے سن لیا مگر مانیں گے نہیں۔ "اور یہ کہ ؟”اور ان کی باطل پرستی کا یہ حال تھا کہ دلوں کو بچھڑا پلا دیا گیا تھا۔ ”

انہوں نے کہا "ہم نے سن لیا۔ "اور بعد میں کہا، ہم مانیں گے نہیں۔ لیکن پہلے ہی سے یہ نہیں کہا ؟”ہم مانیں گے نہیں۔ "سوال یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں وہ ایک ہی سانس میں کس طرح کہہ گئے ؟درحقیقت یہ ایک خاموش موقف اور حقیقت واقعہ کی حکایتی تعبیر ہے۔ انہوں نے اپنے منہ سے کہا "ہم نے سن لیا۔ "لیکن اپنے عمل سے انہوں نے ثابت کر دیا کہ وہ "مانیں گے نہیں۔ "کیونکہ عمل ہی دراصل زبانی تکلم کو معنی پہناتا ہے۔ اور عملی اظہار قولی اظہار سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ واقعاتی صورت حال کی اس تعبیر سے دراصل اسلام کے اس ہمہ گیر اصول کا اظہار ہوتا ہے کہ عمل کے بغیر محض باتوں اور زبانی جمع خرچ کی اسلام میں کوئی اہمیت نہیں ہے۔ اسلام میں اصل اعتبار عمل ہی کاہے۔ واقعاتی حرکات اور الفاظ کی تعبیروں کے درمیان عمل ہی اصل رابطہ ہے اور فیصلے عمل پر ہی کئے جاتے ہیں۔

دوسری تعبیر کہ "ان کے دلوں کو بچھڑا پلا دیا گیا۔ "بڑی ہی سخت اور اپنی نوعیت کی منفرد تعبیر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ "وہ پلائے گئے ہیں "یعنی کسی نے انہیں کچھ پلا دیا ہے۔ کیا پلا دیا ہے ؟انہیں بچھڑا پلایا گیا ہے۔ کہاں ؟ن کے دلوں میں، کس قدر سخت تعبیر ہے یہ؟انسانی تخیل یہ کوشش کر رہا ہے کہ دلوں میں ایک بچھڑے کو داخل ہوتے ہوئے دیکھے یا تصور کرے۔ یعنی گویا مجسم بچھڑا دلوں میں داخل ہو رہا ہے اور یہ بچھڑا ان کے دلوں کی دنیا میں چھایا ہوا ہے۔ تعبیر معانی کے لئے ایسی حسی تجویز کی گئی ہے کہ ایک لمحہ کے لئے انسان کے پردہ خیال سے اصل مفہوم و مدعا، یعنی ان کے دلوں میں بچھڑے کی محبت و عبادت، اوجھل ہو جاتا ہے۔ اور انسان یہ سوچتا ہے کہ گویا فی الواقعہ بچھڑا انہیں گھول کر پلا دیا گیا ہے۔

ایسے مقامات پر ادبیاتی نقطہ نظر سے غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کے مصورانہ طرز ادا کی کیا قدر و قیمت ہے ؟نظریاتی اور ذہنی تعبیروں کے مقابلے میں قرآن کریم کی حسی تعبیر کس قدر واضح اور مفصل ہے۔ الفاظ میں اصل صور ت واقعہ کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا جاتا ہے۔

قرآن کریم کی حسی طرز تعبیر اور اس کی خصوصیات میں سے یہ ایک اہم تعبیر ہے۔

یہودیوں کا یہ بڑا دعویٰ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ مخلوق ہیں، وہی راہ ہدایت پر ہیں اور وہی ہیں جنہیں عالم آخرت میں یقیناً فلاح نصیب ہو گی۔ اور آخرت میں ان کے سوا، دوسری اقوام کو کچھ نہ ملے گا، یہودیوں کے اس دعوے کا صاف صاف اشارہ اس طرف تھا کہ آخرت میں نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کی امت بھی نجات سے محروم ہو گی۔ اس پروپیگنڈے سے یہودیوں کا مقصد یہ تھا کہ عام مسلمانوں کے دلوں میں قرآن کریم کی تعلیمات حضرت محمدﷺ کے ارشادات اور دین اسلام کے بارے میں بے اعتمادی کی فضا پیدا کر دی جائے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو حکم دیا کہ انہیں مباہلے کی دعوت دیں، دونوں فریق کھڑے ہو جائیں اور ان میں سے جو بھی جھوٹا ہے اس کی ہلاکت کے لئے دعا کریں ؟

 

"ان سے کہو اگر واقعی اللہ کے نزدیک آخرت کا گھر تمام انسانوں کو چھوڑ کر صرف تمہارے ہی لئے مخصوص ہے، تب تو تمہیں چاہئے کہ موت کی تمنا کرو، اگر تم اپنے اس خیال میں سچے ہو۔ ” (٩٤۔ ۹۶)

 

” یقین جانو کہ یہ کبھی اس کی تمنا نہ کریں گے، اس لئے کہ اپنے ہاتھوں میں جو کچھ کما کر انہوں نے وہاں بھیجا، اس کا اقتضاء یہی ہے (کہ یہ وہاں جانے کی تمنا نہ کریں )، اللہ ان کے حال سے خوب واقف ہے، تم انہیں سب بڑھ کر جینے کا حریص پاؤ گے، حتٰی کہ یہ اس معاملے میں مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیئے حالانکہ لمبی عمر بہرحال انہیں عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی، جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں اللہ تو انہیں دیکھ ہی رہا ہے۔ ”

 

اس کے بعد قرآن کریم خود ہی اعلان کر دیتا ہے کہ یہ لوگ ہرگز دعوت مباہلہ قبول نہ کریں گے۔ اور کبھی موت کی طلب نہ کریں گے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ جھوٹے ہیں اور انہیں یہ ڈر تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ فریقین کی دعا قبول کر لیں تو وہ اس کی پکڑ میں آ جائیں گے۔ نیز وہ یہ بھی جانتے تھے کہ انہوں نے اس دنیا میں جو برے کام کئے ہیں ان کے نتیجے میں، دار آخرت میں خود ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اور اگر انہوں نے مباہلہ کیا، تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اپنے منہ مانگی موت کے نتیجے میں وہ دنیا سے بھی محروم ہو جائیں گے اور جو برے کام انہوں نے کئے ہیں اس کے نتیجے میں آخرت میں تو وہ محروم ہیں ہی ……..اس لئے قرآن کریم فیصلہ کن انداز میں کہتا ہے کہ ان سے یہ توقع ہرگز نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس تحدی کو قبول کر لیں گے کیونکہ وہ حیات دنیوی کے لئے سب سے زیادہ حریص ہیں اور یہی حال تمام دوسرے مشرکین کا بھی ہے (بلکہ یہ اس معاملے میں ان سے بھی بڑھے ہوئے ہیں )چنانچہ فرماتے ہیں ؟

یہ موت کی تمنا اس لئے نہ کریں گے کہ انہوں نے اس دنیا میں جو کمائی کی ہے، اس پر انہیں عالم آخرت میں کسی اجر کی توقع نہیں ہے۔ اور نہ انہیں اس بات کی امید ہے کہ اس کے ذریعے وہ عذاب الٰہی سے بچ سکیں گے۔ بلکہ عذاب تو وہاں ان کا منتظر ہے۔ اللہ ظالموں کو اچھی طرح جانتا ہے اور ان کی بد اعمالیاں بھی اس کی نظر میں ہیں۔

صرف یہی نہیں، بلکہ یہودیوں کے اندر ایک دوسری خصلت بھی پائی جاتی ہے۔ قرآن کریم اس خصلت کی ایسی تصویر کھینچتا ہے جس سے ان کی ذلت، حقارت اور رذیل پنا ٹپکتا ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاۃٍ”تم انہیں سب سے بڑھ کرجینے کا حریص پاؤ گے۔ "کیسا جینا؟اس سے انہیں کوئی سروکارنہیں ہے، زندگی ہو، چاہے جیسی ہو۔ ان کے نزدیک یہ ضروری نہیں کہ وہ زندگی با عزت بھی ہو۔ بس وہ تو صرف زندگی چاہتے ہیں۔ چاہے وہ ذلت اور حقارت کی زندگی ہو۔ زندگی اور عافیت ……..بس یہی یہودیوں کی حقیقت رہی ہے۔ یہی یہودیوں کا ماضی ہے، یہی حال ہے اور یہی مستقبل کا مطمح نظر ہے۔ یہودی صرف اسی وقت سر اٹھاتے ہیں جب خطرہ دور ہو جاتا ہے۔ جب تک خطرہ سروں پر قائم ہو وہ سر نہیں اٹھاتے، ان کی گردنیں جھکی رہتی ہیں کیونکہ وہ پرلے درجے کے بزدل ہیں اور انہیں زندہ رہنے سے بے حد محبت ہے ……..وہ کیسی زندگی چاہتے ہیں ؟

وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا يَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ وَمَا ہُوَ بِمُزَحْزِحِہِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ وَاللَّہُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ

"جب حیات کے معاملے میں یہ مشرکوں سے بھی بڑھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک ایک شخص یہ چاہتا ہے کہ کسی طرح ہزار برس جیئے۔ حالانکہ لمبی لمبی عمر بہرحال انہیں عذاب سے تو دور نہیں پھینک سکتی۔ جیسے کچھ اعمال یہ کر رہے ہیں اللہ تو انہیں دیکھ رہا ہے۔ ”

ان میں سے ہر صاحب ایک ہزار سال عمر کی تمنا رکھتے ہیں۔ کیوں ؟اس لئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کے بارے میں کوئی پختہ یقین نہیں ہے۔ وہ نہیں سمجھتے کہ اس زندگی کے علاوہ بھی کوئی زندگی ہے ؟اور جب کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی زندگی کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں ہے تو اس پر عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے۔ اسے اپنی دنیاوی زندگی بہت ہی تنگ نظر آتی ہے۔ کیونکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے صرف انہی معدودے چند گھنٹوں اور سانسوں کی مہلت ملی ہوئی ہے۔

"جب اس نقطہ نظر پر غور کیا جائے تو اخروی زندگی پر ایمان، ایک عظیم نعمت ہے جو انسان کو بخشی گئی ہے۔ ایسی نعمت جس کا فیضان، ایمان کے ذریعے، انسان کے دل پر ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ یہ نعمت اس فانی انسان کو اس لئے عطا کرتا ہے کہ اسے اس دنیا میں ایک محدود وقت دیا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس کے دل میں آرزوؤں کی ایک دنیا آباد ہوتی ہے، لہٰذا اسے زندگی کی تنگ دامانی کا احساس نہیں رہتا جو لوگ اپنے آپ کو اس نعمت سے محروم کر دیتے ہیں، اور اپنے لئے حیات دوام کا دروازہ بند کر دیتے ہیں، ان کے ذہنوں میں "زندگی”کا ایک ناقص اور مسخ شدہ تصور ہوتا ہے۔ غرض یوم آخرت پر ایمان لانا تو اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف اور آخرت میں مکافات عمل پر ایمان لانا ہے، دوسرے یہ کہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ بندۂ مومن کا وجود زندگی کی فیوض سے مالامال ہے، اور اسے ایک ایسی دائمی زندگی بخشی گئی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتی اور نہ کسی سرحد پر جا کر رکتی ہے، بلکہ یہ زندگی تمام سرحدوں سے گزر کر بقائے دوام کے حدود تک جاپہنچتی ہے۔ اور جس کی انتہاء کا علم صرف اللہ کی ذات کو ہے، یہ زندگی مستقلاً بلندیوں تک اٹھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وصال باری کی منزل تک جا پہنچتی ہے۔ ”

اب اللہ تعالیٰ نبیﷺ کو ایک نئے پہلو کی طرف متوجہ فرماتے ہیں۔ یہودیوں کو کھلا چیلنج دیا جاتا ہے اور اس حقیقت کا اعلان کیا جاتا ہے کہ؟

 

"ان سے کہو جو کوئی جبرئیل سے عداوت رکھتا ہو، اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرئیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا، جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے۔ اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت اور کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔ (اگر جبرئیل سے ان کی عداوت کا یہی سبب ہے تو کہہ دو کہ )جو اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔” ( ٩٧، ٩٨)

 

اس چیلنج کے ذریعے ہمیں یہودیوں کی ایک عجیب و غریب نئی خاصیت معلوم ہو جاتی ہے۔ یہودیوں نے محض اس لئے کہ ایک غیر یہودی پر وحی نازل ہوئی۔ شدید بغض میں مبتلا ہو گئے، بلکہ انہوں نے بغض وحسد کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے اور اس سلسلے میں وہ حماقت کی حد تک جاپہنچے ہیں ایسی متضاد باتیں کر رہے ہیں جن کی توقع کسی عقلمند انسان سے نہیں کی جا سکتی۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام وحی لے کر حضرت محمدﷺ پر نازل ہوتے ہیں تو یہ لوگ حسداور بغض کی وجہ سے جل بھن گئے اور ایک واہیات قصہ گھڑ لیا کہ جبرئیل علیہ السلام تو ان کے پرانے دشمن ہیں، کیونکہ وہ ہمیشہ اللہ کا عذاب ان پر لاتے رہے ہیں اور ان کے ہاتھوں بنی اسرائیل ہمیشہ تباہ و برباد ہوتے رہے ہیں چونکہ محمدﷺ کا تعلق حضرت جبرئیل علیہ السلام سے ہے، اس لئے وہ اس پر ایمان نہیں لاتے، اگر حضرت میکائیل وحی لاتے تو وہ ضرور ایمان لاتے کیونکہ حضرت میکائیل اللہ کے وہ فرشتے ہیں جو بارش، تر و تازگی اور انسانوں کے لئے خوشی کے سامان فراہم کرتے ہیں۔ کیا واہیات دلیل ہے یہ؟

ان کی اس احمقانہ بات پر انسان کو بے اختیار ہنسی آتی ہے لیکن جب انسان بغض وحسد کا شکار ہوتا ہے تو اس کی جانب سے اس سے بھی کہیں بڑی حماقتوں کا صدور ہونا کوئی امر بعید نہیں ہوتا۔ کیونکہ جبرئیل کوئی انسان نہ تھے کہ وہ کسی سے دشمنی کرسکیں یا وہ کسی کے ساتھ از خود کوئی دوستی گانٹھ سکیں۔ وہ اپنی مرضی سے کوئی کام کرنے کی سرے سے قدرت ہی نہ رکھتے تھے۔ حضرت جبرئیل فرشتہ ہونے کی وجہ سے، اللہ کے احکامات کی سرتابی نہیں کرسکتے تھے وہ وہی کرتے تھے جس کا انہیں حکم دیا جاتا تھا۔

قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوّاً لِجِبْرِيلَ فَإِنَّہُ نَزَّلَہُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللَّہِ”کہو اگر کسی کو جبرئیل سے عداوت ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے کہ جبرئیل نے اللہ ہی کے اذن سے یہ قرآن تمہارے قلب پر نازل کیا ہے۔ ”

جبرئیل علیہ السلام نہ ذاتی رجحان رکھتے تھے اور نہ انہوں نے آپ کے دل پر قرآن کریم اپنے ذاتی ارادے سے نازل کیا تھا۔ وہ تو صرف ارادۂ الٰہی کو نافذ کرنے والے تھے اور آپ کے قلب پر نزول قرآن کا کام وہ اللہ کے احکامات کے تحت کر رہے تھے۔ قرآن کریم کا نزول دل پر ہو رہا تھا۔ دل ہی دراصل محل ادراک ہے اور وہی ہے جو ادراک کے بعد معانی کو سمجھتا ہے اور مدرکات کو محفوظ رکھتا ہے۔ قرآن کریم انسان کی قوت مدرکہ کی تعبیر”قلب”سے کرتا ہے لہٰذا قلب مدرک سے مراد خون اور گوشت کا معروف طبیعی لوتھڑا نہیں ہے بلکہ وہ ملکہ ہے جو فہم و ادراک کا کام کرتا ہے۔

جبرئیل نے آپﷺ کے قلب پر اس حال میں قرآن اتارا کہ مُصَدِّقاً لِمَا بَيْنَ يَدَيْہِ وَہُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ”جو پہلے آئی ہوئی کتابوں کی تصدیق و تائید کرتا ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ہدایت و کامیابی کی بشارت بن کر آیا ہے۔ ”

قرآن کریم اصولی طور پر تمام سابقہ کتب کی تصدیق کرتا ہے کیونکہ تمام سماوی کتب اور تمام الٰہی ادیان کی اساسی تعلیمات ایک ہی تھیں اور وہ صرف مومنین کے لئے ہدایت اور پیغام مسرت ہے کیونکہ اس کی تعلیمات کے لئے صرف ایک مومن دل ہی کے دریچے کھلے ہوتے ہیں۔ مومن ہی اس کی تعلیمات پت لبیک کہتے ہیں۔ یہ ایک نہایت اہم حقیقت ہے جس کا کھول کر بیان کرنا نہایت ضروری ہے۔ قرآن کریم کی آیات دل مومن کے اندر اس قدر انس پیدا کرتی ہیں۔ اس کے اندر معرفت و ادراک کی ایسی راہیں کھولتی ہیں اور اس کے اندر ایک ایسا شعور اور احساس پیدا کر دیتی ہیں جن سے ہر وہ دل محروم رہتا ہے جس میں ایمان نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قلب مومن کو قرآن کریم میں ہدایت ملتی ہے اور اس کے لئے اس پیغام میں مسرت ہوتا ہے۔ قرآن کریم نے اس حقیقت کو مختلف مقامات کے اندر بیان کیا ہے۔ "ھُدًی لِلمُتَّقِینَ، متقین کے لئے ہدایت ہے۔ "”ھُدًی لِّقَومٍ یُّؤمِنُونَ، وہ اس قوم کے لئے ہدایت ہے جو ایمان لاتی ہے۔ "”ھُدًی وَّرَحمَۃٌ لِّقَومٍ یُّومِنُونَ، وہ ایسے لوگوں کے لئے ہدایت ہے جو پختہ یقین رکھتے ہیں۔ "گویا ایمان تقویٰ اور یقین کے نتیجے کے طور پر ملتی ہے۔ اور بنی اسرائیل اسی لئے اس سے محروم رہے کہ نہ وہ مومن تھے نہ متقی تھے اور نہ ذوق یقین سے آشنا تھے۔

گویا ہدایت ایمان تقویٰ اور یقین کے نتیجے کے طور پر ملتی ہے اور بنی اسرائیل اسی لئے محروم رہے کہ نہ وہ مومن تھے نہ متقی تھے اور نہ ذوق یقین سے آشنا تھے۔

ان کی یہ عادت تھی کہ وہ اللہ کے بھیجے ہوئے رسولوں اور اس کے ادیان و شرائع کے درمیان فرق کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اللہ تعالیٰ کے فرشتوں کے درمیان بھی فرق کرتے تھے جن کے ناموں اور کاموں سے وہ واقف تھے۔ کہتے تھے کہ میکائیل سے تو ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں۔ البتہ جبرئیل سے ان کے مراسم اچھے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے جبرئیل میکائیل وغیرہ تمام فرشتوں اور رسولوں کو جمع کر لیا۔ مقصد یہ ہے کہ وہ سب ایک ہی ہیں جو شخص ان میں سے ایک سے عداوت رکھتا ہے وہ سب سے عداوت رکھتا ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ سے عداوت رکھتا ہے۔ لہٰذا اللہ کو بھی ان سے عداوت ہو گی اور وہ کافر ہو جائیں گے۔

مَنْ كَانَ عَدُوّاً لِلَّہِ وَمَلائِكَتِہِ وَرُسُلِہِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللَّہَ عَدُوٌّ لِلْكَافِرِينَ”جو اللہ کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرئیل اور میکائیل کے دشمن ہیں، اللہ ان کافروں کا دشمن ہے۔ ”

اس کے بعد روئے سخن نبیﷺ کی طرف پھر جاتا ہے۔ آپ کو تلقین کی جاتی ہے کہ آپ پر جو سچائی اور کھلی نشانیاں نازل ہو رہی ہیں، آپ ان پر جم جائیں۔ سوائے فساق و فجار کے اور کوئی ان کا منکر نہیں ہوسکتا۔ اور بنی اسرائیل کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ کبھی اپنے عہد پر قائم نہیں رہتے۔ چاہے وہ عہد انہوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیا ہو یا انبیائے سابقین کے ساتھ کیا ہو۔ یا وہ عہد انہوں نے نبی آخر الزمان کے ساتھ کیا ہو۔ قرآن کریم ان کی مذمت کرتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسی کتاب الٰہی کو پس پشت ڈال دیا ہے جو ان کی تمام کتابوں کی تصدیق کرتی ہے جو خود ان کے پاس موجود ہیں۔

 

"ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کرنے والی ہیں۔ اور ان کی پیروی کرنے سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں جو فاسق ہیں۔ کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا ؟بلکہ ان میں اسے اکثر ایسے ہی ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق وتائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا کہ وہ گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ ” (٩٩ تا ١٠١)

 

یہاں اللہ تعالیٰ نے وہ اسباب کھول کر بیان کر دئیے ہیں جن کی بناء پر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کی ان واضح آیات کا انکار کر رہے تھے جو خود اللہ کی جانب سے نازل ہوئی تھیں۔ یعنی وہ لوگ فسق و فجور میں مبتلا تھے۔ ان کی فطرت بگڑی ہوئی تھی کیونکہ فطرت سلیمہ کے لئے تو اس کے سوا کوئی چارہ کار ہی نہ تھا کہ وہ ان آیات پر ایمان لے آئے اگر دل میں کجی نہ ہو تو یہ آیات از خود اپنے آپ کو منواتی ہیں اور یہودیوں نے کفر کا جو رویہ اختیار کیا ہے تو اس کاسبب یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی آیات میں دلائل کی کچھ کمی ہے یا وہ تشفی بخش نہیں بلکہ اصل سبب یہ ہے کہ خود ان کی فطرت بگڑ چکی ہے اور وہ فسق و فجور میں مبتلا ہو چکے ہیں۔

اس کے بعد روئے سخن مسلمانوں اور تمام دوسرے انسانوں کی طرف پھر جاتا ہے۔ یہودیوں کی مذمت کی جاتی ہے اور ان کی صفات رذیلہ میں سے ایک دوسری صفت کو بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لوگ آپس میں بھی مختلف خواہشات اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اپنے اس مذموم تعصب کے باوجود ان کے درمیان قدر مشترک ہے۔ وہ کسی ایک رائے پر جمتے بھی نہیں نہ ہی وہ اپنے کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی کرتے ہیں۔ وہ کسی ایک رسی کو مضبوطی سے نہیں پکڑتے۔ اگرچہ وہ اپنے ذاتی مفاد اور اپنے قومی مفاد کے سلسلے میں پرلے درجے کے خود غرض ہیں اور اس بات کو پسندنہیں کرتے کہ ا ن کے سوا کسی اور کو بھی اللہ کا فضل و کرم نصیب ہو۔ لیکن اس قومی تعصب کے ہوتے ہوئے بھی وہ باہم متحد نہیں ہیں۔ وہ خود ایک دوسرے کے ساتھ کئے ہوئے معاہدوں کی پابندی بھی نہیں کرتے۔ جب بھی وہ آپس میں کوئی پختہ عہد کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک گروہ اٹھ کر اسے توڑ دیتا ہے اور ان کے اس متفقہ فیصلے کی کھلی خلاف ورزی کرتا ہے۔

أَوَكُلَّمَا عَاہَدُوا عَہْداً نَبَذَہُ فَرِيقٌ مِنْہُمْ بَلْ أَكْثَرُہُمْ لا يُؤْمِنُونَ”کیا ہمیشہ ایسا ہی نہیں ہوتا رہا کہ جب انہوں نے کوئی عہد کیا تو ان میں سے ایک نہ ایک گروہ نے اسے ضرور ہی بالائے طاق رکھ دیا بلکہ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو سچے دل سے ایمان نہیں لاتے۔ ”

انہوں نے کوہ طور کے نیچے اللہ کے ساتھ پختہ پیمان باندھا اور بعد میں اس کی خلاف ورزی کی۔ نبیﷺ سے قبل آنے والے پیغمبروں کے ساتھ انہوں نے جو عہد کئے ان کی خلاف ورزی کی اور نبیﷺ نے مدینہ طیبہ تشریف لانے کے بعد یہودیوں کے ساتھ جو معاہدہ کیا اسے بھی انہوں نے پس پشت ڈال دیا حالانکہ اس معاہدے میں ان کے ساتھ شرائط طے کی گئی تھیں اور انہوں نے پہل کر کے حضورﷺ کے دشمنوں سے معاونت کی، نبیﷺ کے پیش کردہ نظام زندگی پر تنقید شروع کر دی اور مسلمانوں کے اندر انتشار پیدا کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ سب باتیں میثاق مدینہ کے خلاف تھیں۔

یہ تھی بنی اسرائیل کی مذموم عادت جب کہ مسلمانوں کا رویہ اس سے بالکل مختلف تھا۔ نبیﷺ فرماتے ہیں "مسلمانوں کے خون باہم مساوی ہیں اور وہ سب دوسروں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے مددگار ہیں اور ان میں ادنیٰ ترین آدمی بھی سب کی طرف سے امان دے سکتا ہے۔ "اور جب وہ کسی کے ساتھ کوئی معاہدہ کریں تو ان میں سے کسی کو یہ اجازت نہ ہو گی کہ وہ اسے توڑے یا اس کی خلاف ورزی کرے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں ان کمانڈر انچیف حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ عراق کے ایک گاؤں والوں کو ہمارے ایک غلام نے امان دے دی ہے۔ اب ہم ان کے ساتھ کیا معاملہ کریں ؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے معاہدے کی پابندی کرنے کو ایک عظیم فریضہ قرار دیا ہے۔ اور جب تک آپ لوگ اپنے اس عہد کو پورا نہ کریں گے اس وقت تک آپ کو وفادار نہیں کہا جا سکتا۔ چنانچہ انہوں نے اس عہد پر عمل کرتے ہوئے اس شہر کے باشندوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیا۔

یہ ہے صفت ایک شریف، راستباز اور اصول پرست جماعت کی۔ اس سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جاتی ہے کہ بدکردار یہودیوں کے اخلاق اور راستباز مسلمانوں کے اخلاق کے درمیان کیا فرق ہوتا ہے۔

"اور جب ان کے پاس اللہ کی طرف سے کوئی رسول اس کتاب کی تصدیق و تائید کرتا ہوا آیا جو ان کے ہاں پہلے سے موجود تھی تو ان اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کتاب اللہ کو اس طرح پس پشت ڈالا کہ وہ گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ ”

یہ وعدہ خلافی کی ایک مثال ہے جس کا ارتکاب ان میں سے ایک فریق نے کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان سے جو عہد لیا تھا اس کی ایک شق یہ بھی ہے کہ آئندہ جو بھی رسول بھیجے جائیں گے تم ان پر ایمان لاؤ گے۔ ان کا احترام کرو گے اور ان کی مدد کرو گے۔ جب اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان کے ذریعے ان کے پاس اپنی کتاب (قرآن)کو بھیجا تو ان اہل کتاب میں سے ایک فریق نے اسے پس پشت ڈال دیا۔ اس طرح انہوں نے ایک تو ایسی کتاب الٰہی کا انکار کیا جو خود ان کے پاس تھی اور جس کے اندر حضور کے بارے میں پیشن گوئیاں موجود تھیں۔ اور انہوں نے ان پیشن گوئیوں کو پس پشت ڈالا اور دوسرے رسول اللہ پر جو نئی کتاب اتری اسے بھی پس پشت ڈال دیا۔

اس آیت میں اہل کتاب پر ایک لطیف طنز بھی مقصود ہے۔ یعنی کتاب اللہ کو مشرکین رد کر دیتے تو ان سے یہ کوئی امر مستعبد نہ تھا لیکن ان بدبختوں نے اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی سے رد کر دیا۔ وہ رسالت اور رسولوں سے ء اچھی طرح واقف تھے۔ ہمیشہ ہدایت کے سرچشموں سے وہ وابستہ رہے۔ ہمیشہ روشنی ان کی نظروں میں رہی لیکن صاحب ہدایت اور صاحب بصیرت ہوتے ہوئے انہوں نے کیا کیا؟کتاب الٰہی کو پشت ڈال دیا یعنی انہوں نے کتاب کا انکار کیا اور اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ انہوں نے کتاب اللہ کو اپنی فکر اور اپنی زندگی سے خارج کر دیا۔ یہاں قرآن کریم نے ان کے انکار اور بے عملی کے ذہنی مفہوم کو ایک خالص حسی انداز میں پیش فرمایا ہے۔ ذہنی مفہوم اب ایک معنویت کے دائرے سے نکل کر محسوسات کے دائرے میں آ جاتا ہے۔ ان کے اس عمل کو ایک محسوس جسمانی حرکت سے تعبیر کیا گیا اور اس کی ایسی قبیح اور بدشکل تصویر کھینچی جاتی ہے کہ اس سے انکار جحود ٹپکے پڑتے ہیں۔ اس تصور میں وہ نہایت ہی غلیظ القلب اور احمق نظر آتے ہیں۔ گستاخی اور گندگی اور ذلت کا مجسمہ نظر آتے ہیں۔ اس تصویر کشی سے انسانی تخیل ایک شدید حرکت کو دیکھتا ہے گویا کچھ ہاتھ حرکت میں آتے ہیں اور کتاب الٰہی کو پش پشت ڈال دیتے ہیں۔

ایسی کتاب کی تکذیب کے بعد خود اس وحی کی تصدیق کر رہی تھی جو ان کے پاس موجود تھی، پھر کیا ہوا؟غالباً انہوں نے اس ناقابل شکست سچائی کو قبول کر لیا ہو گایا اس کے برعکس انہوں نے خود اس ہدایت ہی کا دامن تھام لیا ہو گاجس کی تصدیق یہ قرآن کریم بھی کر رہا تھا۔ وہ خود بھی اس پر ایمان لائے ہوئے تھے۔

ہرگز نہیں !نہ صرف یہ کہ انہوں نے ان میں سے کوئی ایک معقول روش اختیار کی بلکہ انہوں نے اللہ کی کتاب کو پس پشت ڈالا اور ایسی ناقابل فہم موہوم اعجوبوں اور دقیانوسی باتوں کے پیچھے پڑ گئے۔ جن کی کوئی حقیقت نہ تھی نہ وہ باتیں کسی یقینی اساس پر مبنی تھیں۔

 

"اور لگے ان چیزوں کی پیروی کرنے جو شیاطین سلیمان کی سلطنت میں نام لے کر پیش کیا کرتے تھے۔ حالانکہ سلیمان نے کبھی کفر نہیں کیا۔ کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم بابل کے دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی گئی تھی وہ (فرشتے تو آزمائش تھے )جب کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے تو پہلے صاف طور پر متنبہ کر دیا کرتے تھے کہ دیکھ ہم محض ایک آزمائش ہیں تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔ "پھر بھی وہی لوگ ان سے وہ چیز سیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ ظاہر تھا کہ اذن الٰہی کے بغیر وہ اس ذریعے سے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے۔ مگر اس کے باوجود وہ ایسی چیزیں سیکھتے تھے جو خود ان کے لئے نفع بخش نہیں بلکہ نقصان دہ تھی۔ اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جواس چیز کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ کتنی بری متاع تھی جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔ اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کا وہ بدلہ ملتا جوان کے لئے زیادہ بہتر تھا۔ کاش انہیں خبر ہوتی۔ ” ( ١٠٢ ۔ ١٠٣)

 

انہوں نے اللہ کی اس کتاب کو تو چھوڑ دیا جو خود اس ہدایت کی تصدیق بھی کر رہی تھی۔ جو ان کے پاس تھی اور ان باتوں کی پیروی شروع کر دی۔ جو شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کے دور کی طرف منسوب کرتے تھے۔ یہ شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف غلط باتیں منسوب کیا کرتے تھے۔ یعنی یہ کہ وہ ایک عظیم جادوگر تھے اور انہوں نے جن جن چیزوں کو مسخر کر رکھا تھا وہ انہوں نے اس کالے علم کے ذریعے مسخر کر رکھی تھیں۔ قرآن کریم ان کے اس زعم باطل کی تردید کرتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان جادوگر نہ تھے۔ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ”سلیمان نے کفر نہیں کیا”قرآن کریم گویا جادوگری کو کفر سمجھتا ہے۔ اس لئے حضرت سلیمان علیہ السلام سے اس کی نفی کر کے اور یہ بتا رہا ہے کہ جادوگری کا کام حضرت سلیمان علیہ السلام نہیں بلکہ شیاطین کیا کرتے تھے۔ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ”کفر کے مرتکب تو وہ شیاطین تھے جو لوگوں کو جادوگری کی تعلیم دیتے تھے۔ ”

اس کے بعد قرآن کریم ا س خیال کی تردید کرتا ہے کہ جادوگری کی تعلیم خود اللہ تعالیٰ نے بابل کے دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر نازل کی تھی۔ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ ہَارُوتَ وَمَارُوتَ”نہ ہی یہ بات درست ہے کہ جادوگری بابل میں ہاروت و ماروت نامی دو فرشتوں پر نازل کی گئی تھی۔ ”

معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کے ہاں ان دو فرشتوں کے بارے میں کوئی خاصا قصہ مشہور تھا اور یہودی اور شیطان یہ کہتے تھے کہ دو فرشتے جادو کا علم رکھتے تھے۔ اور یہ علم وہ لوگوں کو بھی سکھاتے پھرتے تھے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ وہ جادو کی یہ تعلیم ان پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی تھی۔ قرآن کریم نے اسی افتراء کی بھی تردید کر دی کہ سحر کی تعلیم بابل میں ان دو فرشتوں پر اللہ کی طرف سے نازل ہوئی تھی۔

البتہ یہاں قرآن کریم اس قصہ کی حقیقت کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ دو فرشتے اللہ تعالیٰ کے حکیمانہ رازوں میں سے ایک راز تھے اور عوالناس کے لئے انہیں بطور فتنہ اور آزمائش بھیجا گیا تھا۔ اور وہ ہر شخص جو ان کے پاس تعلیم سحر کے حصول کے لئے جاتا تھا وہ اسے کہہ دیتے تھے وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلا تَكْفُرْ”وہ فرشتے جب بھی کسی کو اس کی تعلیم دیتے تھے تو پہلے صاف طور پر متنبہ کر دیا کرتے تھے دیکھ ہم محض ایک آزمائش ہیں تو کفر میں مبتلا نہ ہو۔ ”

یہاں قرآن کریم دوبارہ سحر کی تعلیم اور جادوگری کو کفر سے تعبیر کرتا ہے اور اس کے کفر ہونے کا اعلان دو فرشتوں ہاروت و ماروت کے ذریعہ کرایا جاتا ہے۔

قرآن کریم کہتا ہے کہ بعض لوگ ایسے تھے جو ان فرشتوں کے واضح تنبیہ کے باوجود اس بات پر مصر تھے کہ وہ ان کی سحر سے تعلیم حاصل کریں۔ جب انہیں اصرار تھا کہ وہ اس فتنے کا شکار ہوں تو اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے لئے یہ دروازہ کھول دیا فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْہُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِہِ بَيْنَ الْمَرْء ِ وَزَوْجِہِ”پھر بھی یہ لوگ ان سے وہ چیزسیکھتے تھے جس سے شوہر اور بیوی میں جدائی ڈال دیں۔ ”

حالانکہ یہی شر تھا، اس سیاہ علم میں جس سے فرشتوں نے آگاہ کیا تھا لیکن قرآن کریم موقع و محل کی مناسبت سے یہاں اسلامی نظریۂ حیات کے ایک بنیادی اصول کی طرف مبذول کر دیتا ہے یہ کہ اس کائنات میں اللہ کی مشیت اور اذن کے بغیر ایک پتا بھی حرکت نہیں کرسکتا وَمَا ہُمْ بِضَارِّينَ بِہِ مِنْ أَحَدٍ إِلا بِإِذْنِ اللَّہِ”یہ بات ظاہر تھی کہ اذن الٰہی کے بغیر وہ اس کے ذریعے کسی کو بھی ضرر نہ پہنچا سکتے تھے۔ ”

یہ اللہ کی مشیئت اور اس کا اذن ہی ہے جس کی وجہ سے اسباب سے مسببات اور نتائج پیدا ہوتے ہیں۔ اسلامی نظریۂ حیات کا یہ نہایت ہی بنیادی اور اہم اصول اور عقیدہ ہے۔ اور ایک مومن کے دل و دماغ میں سے اچھی طرح واضح اور جاگزین ہونا چاہئے۔ اس عقیدے کو پیش کرنے کا بہترین مقام بھی ایسا ہی ساحرانہ ماحول ہوتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ اگر اپنا ہاتھ آگ میں ڈالیں تو وہ لازماً جل جائے گا، لیکن یہ جلنا اللہ کے حکم اور مشیئت کے بغیر ممکن نہیں۔ اللہ ہی نے آگ میں جلانے اور آپ کے ہاتھ میں جلنے کی قابلیت رکھی ہے اور جب وہ چاہے آگ اور بندوں دونوں سے یہ قابلیت سلب کرسکتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ میں ایسا عملاً ہوا بھی۔ یہی حال اس جادو کا بھی ہے جس کے ذریعے جادوگر میاں بیوی میں تفرقہ ڈالتے ہیں، اگر اللہ کی مشیئت نہ ہو تو وہ کوئی اثر نہیں کرسکتا۔ اگر اس کی حکمت اور مشیئت متقاضی نہ ہو، تو وہ جادوگر کی اس خاصیت کو کسی وقت بھی معطل کرسکتا ہے۔

یہی حال ہے ان تمام مؤثرات اور اسباب کا جو آج تک ہمارے علم میں آ چکے ہیں۔ ان میں سے ہر سبب میں اللہ تعالیٰ نے ایک مخصوص خاصیت ودیعت کی ہے اور یہ خاصیت اللہ تعالیٰ کے اذن اور مشیئت سے کام کر رہی ہے، جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان اسباب کو یہ خصوصیات عطا کی ہیں، بعینہ اسی طرح وہ ان سے خاصیات کو سلب بھی کرسکتا ہے۔

اس کے بعد قرآن کریم اس چیز کی حقیقت کو بھی کھول کر بیان کر دیتا ہے، جس کی تعلیم وہ حاصل کرتے تھے۔ یعنی وہ جادو جس کے ذریعے وہ میاں اور بیوی کے درمیان تفرقہ ڈالتے تھے۔ قرآن حکیم بتاتا ہے کہ یہ کالا علم خود ان کے لئے بھی کوئی مفید چیز نہ تھی، وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّہُمْ وَلا يَنْفَعُہُمْ”مگر اس کے باوجود وہ اسی چیز کو سیکھتے تھے، جو خود ان کے لئے بھی نفع بخش نہیں بلکہ نقصان دہ تھی۔ "جس فتنے میں وہ مبتلا ہو رہے تھے اس کا کفر ہونا اس بات کے لئے کافی ثبوت تھا کہ وہ شر ہی شر ہے اور اس میں کوئی منفعت نہیں ہے۔

وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاہُ مَا لَہُ فِي الآخِرَۃِ مِنْ خَلاقٍ”اور انہیں خوب معلوم تھا کہ جو اس چیز کا خریدار بنا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ "اور جب آپ کو یہ معلوم ہے کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے، اسی کے نتیجے میں وہ آخرت کی تمام بھلائیوں سے محروم ہو جائے گا اور پھر بھی وہ اس روش کو اختیار کرتا ہے، تو گویا وہ بالقصد اپنی آخرت کو خراب کر رہا ہے اور اپنے آپ کو آنے والے جہاں کی جملہ بھلائیوں سے محروم کر رہا ہے۔

یہ کیوں ؟تاکہ وہ اس چند روزہ زندگی میں مزے لوٹ لے۔ کیا ہی براسودا ہے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ حالانکہ وہ اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں۔

وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہِ أَنْفُسَہُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ”کتنی ہی بری متاع تھی جس کے بدلے میں انہوں نے جان کو بیچ ڈالا!کاش انہیں معلوم ہوتا!”

"اگر وہ ایمان اور تقویٰ اختیار کرتے تو اللہ کے ہاں اس کاجو بدلہ ملتا، وہ ان کے لئے زیادہ بہتر تھا، کاش انہیں خبر ہوتی!” ( ١٠٣)

یہ بات تو ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو بابل میں ہاروت و ماروت سے جادو سیکھتے تھے، ان پر بھی صادق آتی ہے جو ان باتوں کی پیروی کرتے تھے جنہیں شیاطین حضرت سلیمان علیہ السلام کی سلطنت کا نام لے کر پیش کرتے تھے اور یہ لوگ یہودی تھے جنہوں نے اللہ کی کتاب کو تو پس پشت ڈال دیا اور ان خرافات اور مذمومات کی پابندی اپنے اوپر لازم کر دی۔

یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس جادو کی حقیقت پر بھی قدرے روشنی ڈال دی جائے جس کے پیچھے یہ یہودی پڑ گئے تھے اور جس کے ذریعے یہ لوگ میاں اور بیوی میں ناچاقی پیدا کرتے تھے اور اس کی وجہ سے انہوں نے کتاب الٰہی تک کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

یہ بات ہمارے دور میں بھی بارہا مشاہدے میں آتی رہتی ہے کہ بعض لوگ اپنے اندر ایسی معجزانہ خصائص رکھتے ہیں کہ سائنس آج تک ان کی کوئی علمی توجیہ نہیں کرسکتی۔ ایسے عجائبات کے لئے لوگوں نے، مختلف نام تو تجویز کر رکھے ہیں، تاہم ان کی حقیقت کا تعین ابھی تک نہیں کیا جا سکا۔ اور ابھی تک وہ عجوبہ ہی ہیں۔ مثلاً ٹیلی پیتھی یعنی دور سے خیالات کا اخذ کرنا، اس کی حقیقت کیا ہے ؟یہ کیونکر ممکن ہے کہ ایک آدمی ایک ایسے فاصلے سے، جہاں تک نہ ا س کی نظر پہنچتی ہے اور نہ آواز، ایک آدمی کو بلاتا ہے اور اس سے خیالات اخذ کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان طویل فاصلے حائل نہیں ہوتے۔

پھر مقناطیسی تنویم کا عمل بھی قابل غور ہے۔ یہ کیوں کر ممکن ہو جاتا ہے۔ ایک ارادہ دوسرے پر ناقابل ادراک طریقے سے استیلاء حاصل کر لیتا ہے اور ایک فکر دوسری فکر کے ساتھ کس طرح مطابقت اختیار کر لیتی ہے کہ ایک دوسرے کی طرف خیالات منتقل کرتی چلی جاتی ہے اور دوسری اس سے اخذ کرتی چلی جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا متاثرہ شخص ایک کھلی کتاب پڑھ رہا ہے۔ آج تک سائنس اس سلسلے میں جو کچھ کرسکی ہے وہ صرف یہ ہے کہ اس نے ان حقائق کا اعتراف کر کے ان کے لئے کچھ نام تجویز کر لئے ہیں لیکن سائنس آج تک اس بات کا جواب نہیں سے سکی کہ ان کی حقیقت کیا ہے ؟نیز سائنس کے پاس اس کا جواب نہیں ہے کہ یہ عمل کیسے مکمل ہوتا ہے ؟

ان حقائق کے علاوہ بھی بعض ایسی چیزیں ہیں جن کے تسلیم کرنے میں سائنس کو ابھی تامل ہے۔ یا تو اس لئے کہ ابھی تک ان کے بارے میں اس قدر مشاہدات جمع نہیں ہوئے جن کے ذریعے وہ اس میدان میں کوئی تجربہ کرسکے۔ خود سچے خوابوں کو معاملہ بھی بڑا عجیب ہے۔ فرائڈ جو ہر روحانی قوت کا بڑی شدت سے انکار کرتا ہے، وہ بھی ان کا انکار نہیں کرسکا۔ خواب کے ذریعے ہمیں مستقبل کی تاریکیوں میں ہونے والے واقعات کا اشارہ کیسے مل جاتا ہے ؟اور پھر طویل عرصہ نہیں گزرتا کہ وہ اشارہ واقعات کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہی معاملہ انسان کے ان خفیہ احساسات کا ہے، جن کا ابھی تک وہ کوئی نام بھی تجویز نہیں کرسکا۔ بعض اوقات انسان یہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے ؟کوئی آنے والا ہے ؟اور اس کے بعد یہ متوقع امر کسی نہ کسی صورت میں وقوع پذیر ہو جاتا ہے۔

لہٰذا یہ محض ہٹ دھرمی ہے کہ انسان محض بے تکلفی میں ان نامعلوم حقائق کا انکار کر دے، صرف اس لئے کہ سائنس کی رسائی ابھی ایسے وسائل تک نہیں ہوسکی جن کے ذریعے وہ اس میدان میں کوئی تجربہ کرسکے۔

اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ انسان دنیا کے تمام خرافات کو بے چون و چرا مانتا چلا جائے، ہر فسانے پر ایمان لاتا چلا جائے، بلکہ صحیح اور معتدل روش یہ ہے کہ ایسے نامعلوم حقائق کے بارے میں انسان ایک لچک دار اور معتدل موقف اختیار کرے۔ نہ سو فیصد ی ان کا انکار کرنا درست ہے اور نہ ہی بے چون و چرا تسلیم کر لینا معقول ہے۔ اس درمیانی روش کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان کے علم، ادراک کے جو ابتدائی ذرائع اس وقت حاصل ہیں جب ان میں انسان مزید ترقی کرے گا تو اس کے لئے ایسے حقائق کا معلوم کر لینا ممکن ہو جائے گا۔ لہٰذا انسان کو یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ اس کا علم محدود ہے۔ اور بعض حقائق ایسے بھی ہیں جو اس کے حیطۂ ادراک سے باہر ہیں، اسے اپنی حدود کو پہچاننا چاہئے اور نامعلوم حقائق کا بھی کچھ لحاظ رکھنا چاہئے۔

جادوگری کی نوعیت بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ شیاطین کی جانب سے جو القاء بدکردار لوگوں کو ہوتا ہے، وہ بھی فوق الادراک امور میں سے ہے۔ اس کی متعدد شکلوں میں سے ایک یہ ہے کہ جادوگر انسانوں کے حواس اور خیالات پر اثر انداز ہونے کی قدرت رکھتا ہے۔ کبھی اس کا اثر ٹھوس چیزوں اور اجسام پر بھی ہوتا ہے۔ البتہ قرآن کریم میں فرعون کے جادوگروں کی جس سحرکاری کا ذکر ہے، وہ محض نظربندی اور نظر فریبی ہی تھی، دراصل اس سے کسی چیز کی حقیقت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوتی تھی۔

یُخَیَّلُ اِلَیہِ مِن سَحرِھِم اِنَّھَا تَسعٰی”ان کی جادوگری کی وجہ سے، اس کو ایسامعلوم ہوتا تھا کہ گویا وہ چل رہی ہیں۔ ” ہوسکتا ہے کہ وہ لوگ اپنی جادوگری کے ایسے اثرات استعمال کر کے میاں بیوی اور دوست اور دوست کے تفریق ڈالتے ہوں، کیونکہ جب انسان کسی چیز سے متاثر ہوتا ہے، اس انفعال کی مطابقت میں اس سے بعض حرکات سرزد ہو جاتی ہیں، لیکن جیسا کہ کہا گیا وسائل واسباب اور ان کے نتائج اور مسببات کاسلسلہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے سوا کام نہیں کرسکتا۔

قدرتی طور پر یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ دو فرشتے ہاروت و ماروت کون تھے ؟اور تاریخ کے کس دور میں وہ بابل میں گزرے ہیں ؟اس سوال کی تشریح قرآن نے اس ضروری نہیں سمجھی کہ ان فرشتوں کا قصہ یہودیوں کے درمیان عام طور پر معروف تھا، اور جب قرآن کریم نے انہیں یہ قصہ سنایا تو انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ کئی ایسے واقعات جو اس وقت قرآن کریم کے مخاطبین کے ہاں مشہور و معروف تھے۔ انہیں قرآن کریم نے اجمال کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا مقصد صرف اشارے ہی سے پورا ہو جاتا تھا اور قصہ گوئی قرآن کے پیش نظر تھی ہی نہیں۔

فی ظلال القرآن میں، ہم وہ تمام تفصیلات اور رطب ویابس روایات درج نہیں کرنا چاہتے جو ان فرشتوں کے بارے میں مشہور ہیں۔ کیونکہ تفاسیرمیں ان کے بارے میں مواد پایا جاتا ہے، یا جو روایات معقول ہیں ان میں کوئی روایت ثقہ نہیں ہے۔

انسانیت اپنی طویل ترین تاریخ میں متعدد آزمائشوں اور ابتلاؤں سے دوچار ہوتی رہی ہے۔ یہ آزمائشیں اور ابتلائیں، مختلف ادوار میں انسانیت کی ذہنی سطح اور اس وقت کے ماحول کی مناسبت سے مختلف نوعیت اختیار کرتی رہی ہیں۔ اب یہ آزمائش اگر کسی وقت دو فرشتوں کی صورت میں یا دو فرشتہ سیرت انسانوں کی صورت میں آئی ہے تو یہ کوئی تعجب انگیز اور انوکھی بات نہیں ہے۔ کیونکہ انسانیت پر جو آزمائشیں آتی رہی ہیں وہ کئی قسم کی عجیب و غریب اور خارق العادۃ بھی ہوتی رہی ہیں، بالخصوص اس دور میں جبکہ انسانیت فکر و ادراک کی دنیا میں ترقی کی ابتدائی منازل طے کر رہی تھی اور وہم و جہالت کی تاریک رات میں سماوی روشنی کے پیچھے چل رہی تھی۔

نیز ان آیات میں جو محکم اور واضح ہدایات دی گئی ہیں ہمارے لئے وہی کافی ہیں۔ اور اگر کوئی چیز متشابہ اور ناقابل فہم ہے تو اس کے پیچھے پڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بالخصوص اب جبکہ ہم اس ماحول سے بہت دور جا نکلے ہیں۔ جہاں ایسے واقعات پیش آئے تھے۔ بس ہمارے لئے یہی جان لینا کافی ہے کہ بنی اسرائیل جادوگری اور دوسری موہوم اور لایعنی باتوں کے پیچھے پڑ کر گمراہ ہو گئے تھے۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی سچی اور یقینی ہدایات کو پس پشت ڈال دیا تھا اور یہ کہ عمل سحر ایک کفریہ عمل ہے۔ اور جو لوگ ایسے اعمال کریں ان کے لئے دار آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو گا۔ اور وہ ان تمام بھلائیوں اور خیرات سے محروم ہو جائیں گے جو ان کے لئے وہاں اللہ تعالیٰ کی جانب سے تیار کی گئی ہیں۔

٭٭٭

 

 

درس ۶ ایک نظر میں

 

اس سبق میں یہودی سازشوں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان ریشہ دوانیوں کو مزید کھولا جاتا ہے۔ اسلامی جماعت کو ان کی چالوں اور حیلوں سے خبردار کیا جاتا ہے جو یہودی اسلام کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ نیز بتایا جاتا ہے کہ ان کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف کس قدر بغض وحسد پایا جاتا ہے اور وہ امت مسلمہ کو نقصان پہنچانے اور ان کے خلاف سازشیں تیار کرنے میں کس طرح رات دن مصروف عمل ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کو اپنی بول چال اور اپنے طرز عمل میں ان دشمنان اسلام، کفار اہل کتاب کے ساتھ ہر قسم کا تشبہ کرنے سے روکا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو یہودیوں کے اقوال اور افعال اور پالیسیوں کے حقیقی اسباب بتائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے اتحاد و یکجہتی کے خلاف وہ جوسازشیں، جو فتنہ انگیزیاں اور جو فریب کاریاں کر رہے تھے، انہیں واضح طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے اسلامی معاشرے کی تشکیل جدید اور نئے حالات اور تقاضوں کے مطابق بعض شرعی احکامات اور تکالیف میں رد و بدل اور نسخ جیسے مسائل کی آڑ لے کر مکروہ پروپیگنڈے کا طوفان برپاکیا تھا۔ انہوں نے جو گہری سازشیں مرتب کی تھی اس کے ذریعے وہ ان احکامات اور تکالیف کے منبع یعنی ذات باری تعالیٰ اور اس کی جانب سے وحی الٰہی کے نزول کی بابت مسلمانوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے چاہتے تھے۔ وہ مسلمانوں سے کہتے تھے "اگر یہ وحی منجانب اللہ ہوتی تو سابقہ احکامات میں رد و بدل اور انہیں منسوخ کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ ”

یہودی پہلے بھی ایسے پروپیگنڈے کرتے رہتے تھے لیکن جب ہجرت نبویﷺ کے ۱۶مہینے بعد تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا تو ان لوگوں نے اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک عظیم طوفان برپا کر دیا۔ ہجرت کے بعد ایک عرصے تک نبیﷺ ، یہودیوں کے قبلہ "بیت المقدس”ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہے اور اس امر سے یہودی یہ استدلال کرتے تھے کہ بس قبلہ حق اور دین حق تو انہی کا دین اور قبلہ ہیں لہٰذا نبی کریمﷺ کی دلی خواہش یہ تھی کہ مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس سے تبدیل ہو کر، بیت الحرام ہو جائے۔ البتہ نبیﷺ نے کبھی اس کا اظہار نہ کیا تھا لیکن اس پورے عرصے میں یہ خواہش بدستور آپ کے دل میں موجود رہی اور اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ کی اس خواہش کے مطابق آپﷺ کے پسندیدہ قبلہ ہی کو مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا جیسا کہ آئندہ صفحات میں تفصیلات مذکور ہیں۔ بنی اسرائیل چونکہ اس بات کو اچھی طرح محسوس کر رہے تھے کہ تحویل قبلہ کے نتیجہ میں اسلام کے مقابلے میں ان کے دین کی ایک ظاہری برتری بھی ختم ہو جائے گی۔ اور آئندہ اسے اپنے دین کی برتری کے لئے دلیل کے طور پر استعمال نہ کرسکیں گے لہٰذا اس مرحلے پر انہوں نے اسلامی صفوں انتشار پھیلانے اور وحی الٰہی کے من جانب اللہ کے نزول کے بارے میں اہل ایمان کے عقائد کے اندر شکوک و شبہات پیدا کرنے کی خاطر زبردست پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ ان کی یہ سازش اس قدر گہری تھی کہ اس میں انہوں نے مسلمانوں کے بنیادی عقیدے اور قرآن کے من جانب اللہ ہونے پر کلہاڑا چلانے کی کوشش کی تھی۔ وہ مسلمانوں سے جو کچھ کہتے تھے اس کا خلاصہ یہ تھا "اگر بیت المقدس کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھنا باطل اور خلاف حق تھا تو ۱۶ ماہ تک تمہاری تمام نمازیں ضائع ہو گئیں۔ اور اگر یہ فعل برحق تھا تو پھر تبدیلی کیوں ہوئی ؟مقصد یہ تھا کہ اب تک انہوں نے جو نمازیں ادا کیں اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا اور یہ کہ حضرت نبی کریمﷺ کی قیادت کوئی حکیمانہ قیادت نہیں ہے۔ (نعوذ باللہ)”

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بعض مسلمانوں پر اس پروپیگنڈے کے برے اثرات پڑنے لگے تھے۔ اس لئے وہ نہایت قلق اور بے چینی سے اس کے متعلق نبی کریمﷺ سے سوالات بھی کرنے لگے تھے۔ کیونکہ یہ واقعہ اس غیر معمولی تھا اور دلوں میں اس قدر خلش پیدا ہو گئی کہ اس کے ہوتے ہوئے اسلامی قیادت پر اطمینان کی فضا قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ نہ اسلامی عقائد کے منبع و ماخذ پر مکمل اعتماد رہ سکتا تھا۔ اس لئے مسلمان بھی اس کی حکمت اور اس کے بارے میں اطمینان بخش دلائل پوچھنے لگے تھے۔ یہ تھی وہ فضا جس میں قرآن کریم کی یہ آیات نازل ہوئیں۔ ان میں بتایا گیا کہ احکامات میں نسخ ایک گہری حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لئے زیادہ بہتر احکامات نازل فرماتے ہیں۔ ایسے احکامات جو نئے حالات میں مسلمانوں کے لئے زیادہ مفید ہیں۔ کیونکہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کن حالات میں کیا حکم بہتر ہے۔ ساتھ ہی مسلمانوں کو اس امر سے بھی خبردار کر دیا جاتا ہے کہ یہودیوں کا اصل مقصد اور کوشش صرف یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کو ایمان لانے کے بعد دوبارہ کافر بنا کر چھوڑ دیں کیونکہ ان کو یہ حسد کھائے جا رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وحی الٰہی جیسا فضل و کرم اور اعزازِ عظیم مسلمانوں کو کیوں بخشا ؟کیونکہ اللہ نے اپنی آخری کتاب مسلمانوں پر نازل کر دی ہے اور ان کے مقابلے میں یہ عظیم ذمہ داری کیوں ان کے سپرد کر دی ہے۔ قرآن کریم یہاں اس بات کو کھول کر بیان کرتا ہے کہ یہودیوں کی ان تما فتنہ سامانیوں کے پیچھے کون سا خفیہ مقصد کام کر رہا ہے۔ اس موقع پر قرآن کریم ان کے اس جھوٹے دعویٰ کا بھی مضحکہ اڑاتا ہے کہ جنت تو صرف ان کے لئے مخصوص ہے۔ قرآن کریم ان کی آپس کی الزام تراشیوں کو بھی نقل کر دیتا ہے کہ یہودی کہتے ہیں "نصرانیوں کے دین کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ "اور نصرانی کہتے ہیں "یہودیوں کے دین کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ "اور مشرکین آگے بڑھ کر یہ دعویٰ کرتے ہیں "دونوں باطل پر ہیں۔ ”

قرآن کریم تحویل قبلہ کے معاملے میں ان کی بدنیتی اور خفیہ سازشوں کے راز کو یوں کھولتا ہے کہ بیت اللہ تو روئے زمین پر اللہ کی پہلی عبادت گاہ ہے اور اس کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روک کر یہودی اللہ کی مساجد اور عبادت گاہوں کو خراب کرنے کے لئے ایسے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں جو خود ان کے نزدیک بھی بہت بڑا جرم ہے۔

غرض اس پورے سبق میں یہی مضمون آ کر تک بیان کیا گیا ہے اور آخر میں مسلمانوں کے سامنے یہودیوں اور نصرانیوں کے اس مقصد کو واضح طور پر رکھ دیا گیا ہے۔ جوان تمام کاروائیوں سے ان کے پیش نظر ہوتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کو اپنے اس دین حق سے پھیر کر اپنے دین پر لے آنا۔ قرآن کہتا ہے کہ اہل کتاب نبیﷺ سے اس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک آپ ان کی ملت کے پیرو نہ بن جائیں۔ جب تک آپ ان کی یہ آرزو پوری نہ کریں گے، مکر و فریب اور جھوٹے پروپیگنڈے کی اس جنگ کو آخری وقت تک جاری رکھیں گے۔ ان کی تمام فتنہ انگیزیوں، فریب کاریوں اور ان کی جانب سے پیش کئے جانے والے تمام کھوکھلے دلائل کے پس پشت بس یہی ایک مقصد کار فرما ہے۔

٭٭٭

 

 

 

درس ۶ تشریح آیات (۱۰۴تا ۱۲۳)

 

اس سبق کے شروع میں روئے سخن "ان لوگوں کی طرف ہے جو ایمان لا چکے ہیں۔ "مقصد یہ کہ دوسرے لوگوں سے ان ما بہ الامتیاز کی صفت ایمان ہے۔ یہی صفت ہے جس کی وجہ سے ایک طرف تو وہ اپنے نبی سے مربوط ہیں اور دوسری طرف اپنے پروردگار سے منسلک ہیں۔ اور یہی صفت ہے کہ جس کے ساتھ اگر انہیں پکارا جائے تو اس کی وجہ سے ان کے دل متوجہ ہو جاتے ہیں۔ اور وہ ہر پکار پر لبیک کہنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں۔

اس صفت سے انہیں پکار کر اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دیتے ہیں کہ وہ نبیﷺ سے مخاطب ہوتے وقت "راعنا”کا لفظ استعمال نہ کریں۔ بلکہ "انظرنا”(ہماری طرف رعایت کیجئے )کے بھی وہی معنی ہیں۔ صفت ایمان کے ساتھ اپیل کرتے ہوئے قرآن کریم انہیں سمع اور طاعت اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے اور کافروں کے برے ٹھکانے اور برے انجام یعنی عذاب الیم سے انہیں ڈراتا ہے۔

 

"اے ایمان والو!راعنا نہ کہا کرو، بلکہ انظرنا کہو، اور توجہ سے سنو اور یہ کافر عذاب الیم کے مستحق ہیں۔ "( ١٠٤)

 

لفظ "راعنا”کے استعمال سے ممانعت کاسبب مفسرین نے یہ بتایا ہے کہ بعض احمق یہودی اس لفظ کو یوں ادا کرتے تھے کہ یہ مصدر "رعایت "کے بجائے "رعونت”کا مشتق معلوم ہوتا تھا۔ یہ لوگ یوں نبی کریمﷺ کی توہین کر کے اور آپ کی شان میں گستاخی کر کے دل کی بھڑاس نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان میں یہ جرأت تو تھی نہیں کہ اعلانیہ کھل کر نبی کریمﷺ کو کچھ کہہ سکیں۔ اس لئے یہودیوں کے بعض کمینے اور ذلیل لوگ یوں لفظی ہیر پھیر سے آپ کے حق میں بدزبانی کرنے کی سعی کرتے تھے۔ اس لئے مؤمنین کو یہ حکم دیا گیا کہ وہ سرے سے وہ الفاظ استعمال نہ کریں، جسے یہودی ا س ذلیل مقصد کے لئے استعمال کر رہے تھے تاکہ ان کی کمینگی کا دروازہ ہی بند ہو جائے۔

نبیﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کے لئے یہودیوں کی جانب سے ایسے ذلیلانہ ہتھکنڈوں کا استعمال اس امر کو اچھی طرح ظاہر کر دیتا ہے کہ ان بدبختوں کو نبی کریمﷺ اور آپ کی تحریک سے کس قدر بغض تھا۔ اور کس طرح وہ آپ کے خلاف ہر گھٹیا حربہ استعمال کر رہے کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ اور اس سلسلے میں کسی موقع کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ نیز ایسے موقع پر وحی الٰہی کے ذریعے ایسے الفاظ کے استعمال کی ممانعت کر دینے سے یہ بات بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت اپنے نبی اور تحریک اسلامی کے نگہبان تھے اور ان کے مکار دشمنوں کی سازشوں اور مکاریوں کا دفیعہ فرما دیتے تھے۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو متنبہ کرتے ہیں کہ ان لوگوں کے دلوں مسلمانوں کے خلاف کس قدر بغض وکینہ بھرا ہوا ہے۔ کیونکر یہ ہر وقت مسلمانوں کی عداوت اور ایذا رسانی پر کمر بستہ ہیں۔ یہ سب کچھ وہ محض اس لئے کر رہے ہیں کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنے اس مخصوص فضل و کرم سے نوازا۔ یہ تفصیلات اللہ تعالیٰ نے اس لئے بیان کیں کہ مسلمان اپنے دشمنوں سے محتاط ہو جائیں اور جس ایمان کی وجہ سے ان کے دشمنوں کے دل جل اٹھے ہیں، اس پر اور جم جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان پر جو خصوصی فضل فرمایا ہے اس کا شکریہ ادا کریں۔ اس کی حفاظت کریں۔

 

"یہ لوگ جنہوں نے دعوت حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، خواہ اہل کتاب میں سے ہوں یا مشرک ہوں، ہرگز یہ پسندنہیں کرتے کہ تمہارے رب کی طرف سے تم پر کوئی بھلائی نازل ہو مگر اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے چن لیتا ہے۔ اور وہ برا فضل فرمانے والا ہے۔ ” (١٠٥)

 

اللہ تعالیٰ یہاں اہل کتاب اور مشرکین دونوں کو کافروں کے زمرے میں داخل فرماتے ہیں۔ کیونکہ یہ دونوں طبقے نبی آخر الزمان کی رسالت کے منکر تھے، لہٰذا اس پہلو سے وہ دونوں ایک حیثیت رکھتے ہیں اور دونوں کے دل مسلمانوں کے حسد اور بغض سے بھرے ہوتے ہیں، یہ دونوں نہیں چاہتے کہ مسلمانوں کو کوئی بھلائی نصیب ہو۔ وہ مسلمانوں کی جس چیز سے بہت جل بھن گئے ہیں وہ ان کا دین ہے۔ ان کو یہ بات کھلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں چھوڑ کر اس بھلائی کے لئے مسلمانوں کو کیوں منتخب فرمایا۔ ان پر قرآن کی صورت میں وحی الٰہی کیوں نازل ہوئی، انہیں اس انعام و اکرام سے کیوں نوازا گیا۔ اور کائنات کی عظیم ترین امانت، یعنی اسلامی نظریۂ حیات کا محافظ مسلمانوں کو کیوں قرار دیا گیا۔

اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ لوگ اس بات کے ہرگز روادار نہیں تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے کسی اور بندے کو بھی نواز دے۔ اس سلسلے میں ان کی تنگ دلی اس حد کو جا پہنچی ہے کہ نبیﷺ پر پیغام وحی لے کر آنے کی وجہ سے یہ لوگ حضرت جبریل علیہ السلام کے بھی دشمن ہو گئے ہیں۔ حالانکہ وَاللَّہُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِہِ مَنْ يَشَاء ُ”اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے چن لیتا ہے۔ "نیز صرف اللہ ہی اس بات کو جانتا ہے کہ اس کی اس امانت ورسالت کا بہترین مہبط کہاں ہے ؟اب اگر اللہ تعالیٰ نے یہ پیغام حضرت محمدﷺ پر اتارا ہے اور مسلمان اس پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ کے علم میں یہ بات موجود تھی کہ رسول اکرمﷺ اور مؤمنین اس بار امانت کو اٹھانے کے اہل ہیں وَاللَّہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ (١٠٥)”اور وہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔ ”

نبوت اور رسالت کی نعمت سے کوئی بڑی نعمت نہیں ہے، اور دولت ایمان سے بڑی کوئی دولت نہیں ہے اور دعوت اسلامی کے اعزاز سے کوئی بڑا اعزاز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو یہاں یہ احساس دلانا چاہتا ہے اور ان کے اندر یہ شعور اجاگر کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک عظیم احسان اور فضل و کرم کیا ہے۔ اس سے پہلے مسلمانوں کو یہ تصور دلایا گیا تھا کہ مسلمانوں پر اللہ کے ان احسانات کی وجہ سے کفار کے دل کینہ اور حسد سے جل بھن گئے ہیں۔ لہٰذا انہیں ان سے چوکنا رہنا چاہئے۔ اس کا مقصد بھی یہی تھا کہ مسلمان ان سے محتاط رہیں اور یہودی سازشیوں کے مقابلے میں ان کا شعور تیز رہے۔ یہودیوں کی وسوسہ اندازی اور تشکیک کے مقابلے میں مسلمانوں کے اندر اس قسم کے احساس و شعور کو بیدار کرنا ضروری تھا، کیونکہ یہ لوگ اس وقت بھی اور اس کے بعد آج تک مسلمانوں کے دل و دماغ میں سے اس نظریۂ حیات پر ایمان کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ دولت ایمان ہی تھی جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے ساتھ حسد کرتے تھے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے مسلمان ان سے ممتاز اور برتر ہو گئے تھے۔

جیسا کہ ہم نے اوپر بیان کیا۔ یہودیوں کے اس حملے کا آغاز قرآن کریم کی بعض آیات اور احکامات کی تنسیخ سے ہوا تھا۔ بالخصوص جب بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی قبلے کی تحویل کا حکم نازل ہوا۔ یہ واقعہ ایسا تھا جس کی وجہ سے یہودی اپنے دعوائے برتری کے اہم ثبوت سے محروم ہو گئے تھے اور انہوں نے یہ مذموم پروپیگنڈا تیز تر کر دیا تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے فرمایا!

 

"ہم اپنی جس آیت کو منسوخ کر دیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں اس کی جگہ اس سے بہتر لاتے ہیں یا کم از کم ویسی ہی۔ ” (١٠٦)

 

یہ آیات تحویل قبلہ کے موقعہ پر نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ ان آیات کے بعد سیاق کلام سے بھی معلوم ہوتا ہے۔ یا اس سے مراد وہ جزوی تبدیلیاں ہوں جو جماعت مسلمہ کی ہدایت کے لئے مختلف حالات میں احکامات قرآنی اور ہدایات الٰہی میں کی جا رہی تھیں یا اس سے مراد قرآن کریم کی وہ مجموعی تبدیلیاں ہوں جو تورات و انجیل کے مقابلے میں قرآن نے کیں حالانکہ مجموعی لحاظ سے قرآن نے ان کتابوں کو کتب برحق کہا تھا۔ ان میں سے کوئی ایک مراد ہو یا تینوں مراد ہوں جنہیں یہودیوں نے اس وقت تحریک اسلامی کے خلاف پروپیگنڈے اور مسلمانوں کے اندر شبہات پھیلانے کی خاطر استعمال کیا تھا اور اسلام کے مرکزی عقائد پر حملے شروع کر دئیے تھے۔ بہرحال مراد جو بھی ہو قرآن کریم اس اس موقع پر احکامات میں تبدیلی اور نسخ کے بارے میں واضح ہدایات دے دیتا ہے۔ اور یہودیوں کی ان تمام وسوسہ اندازیوں اور نکتہ چینیوں کا خاتمہ کر دیتا ہے جو وہ حسب عادت مختلف طریقوں سے، اسلامی نظریۂ حیات کے خلاف کرتے رہتے تھے۔

قرآن کریم کہتا ہے کہ زمانۂ رسالت کے دوران ہدایات و احکامات میں جزوی تبدیلی خود انسانوں کی بھلائی کے لئے کی جاتی ہے۔ اور ہر تبدیلی بدلے ہوئے حالات میں انسانیت کی بہتری ہی کے لئے کی جاتی ہے کیونکہ اللہ ہی انسانوں کا خالق ہے۔ اسی نے رسول بھیجے ہیں۔ وہی ان احکامات کا نازل کرنے والا ہے۔ اور یہ سب کچھ اس کے مقررہ پروگرام کے مطابق ہوتا ہے۔ چنانچہ جب اللہ تعالیٰ کسی آیت کو منسوخ کر دیتا ہے یا بھلا دیتا ہے۔ آیت سے مراد پڑھی جانے والی آیات قرآن ہو جو احکامات پر مشتمل ہوتی ہے۔ یا اس سے مراد وہ علامت یا طبعی معجزات اور خارق عادات و واقعات ہوں جن کا صدور مختلف حالات میں پیغمبروں کے ہاتھوں ہوا کرتا تھا۔ اور بعد میں یہ آیات و معجزات لپیٹ دیئے جاتے تھے۔ جو بھی مراد ہو، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ اس سے بہتر لے آتا ہے۔ اور وہ ہر چیز کا مالک ہے، وہ کسی چیز کے معاملے میں بے بس نہیں ہے۔ زمین وآسمان کے تمام امور اس کے دست قدرت میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

 

"کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ کیا تمہیں خبر نہیں ہے کہ زمین وآسمان کی فرماں روائی اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے سوا کوئی تمہاری خبرگیری کرنے والا اور تمہاری مدد کرنے والا نہیں ہے۔ ” ( ١٠٦، ١٠٧)

 

جن الفاظ میں مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے کہ "تمہاری خبر گیری کرنے والا اور تمہاری مدد کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ "ان سے یہ احساس ہوتا ہے کہ ان سے بیک وقت تنبیہ اور تذکیر مطلوب ہے۔ غائبانہ تنبیہ کا انداز اس لئے اختیار کیا گیا ہے کہ بعض لوگ یہودیوں کے اس گمراہ کن پروپیگنڈے سے متاثر ہو گئے تھے۔ اور ان کی جانب سے پیدا کردہ شر انگیزی سے مرعوب ہو کر وہ نبیﷺ سے ایسے سوالات کرنے لگے تھے، جو مکمل اعتماد اور پختہ یقین سے میل نہ کھاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے ایسے سوالات کو ناپسند کیا اور واضح طور پر انہیں تنبیہ کی۔

 

"پھر کیا تم اپنے رسول سے اس قسم کے سوالات اور مطالبے کرنا چاہتے ہو، جیسے اس سے پہلے موسیٰ سے کئے جا چکے ہیں ؟حالانکہ جس شخص نے ایمان کی روش کو کفر کی روش سے بدل لیا وہ راہ راست سے بھٹک گیا۔ ” (١٠٨)

 

اللہ مؤمنین کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کی طرح کج بحثی میں نہ پڑیں اور اپنے پیغمبر سے خوامخواہ دلائل نہ پوچھیں اور نہ ہی خارق عادت باتوں کا مطالبہ کریں۔ جس طرح بنی اسرائیل نے یہ حرکت اپنے نبی کو تنگ کرنے کے لئے کی تھی۔ ان کی یہ عادت تھی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام انہیں کوئی حکم دیتے یا ان تک اللہ تعالیٰ کا کوئی پیغام پہنچاتے تو کج بحثیوں میں پڑ جاتے جیسا کہ اس سے قبل اسی سورت میں کئی واقعات گذر چکے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس روش کے قدرتی انجام سے ڈراتے ہیں۔ کیونکہ اس روش کا قدرتی انجام گمراہی اور ایمان کے بعد کفر کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ اسی انجام تک اس سے پہلے بنی اسرائیل پہنچ چکے ہیں اور اب ان لوگوں کی دلی خواہش یہ ہے کہ مسلمان بھی اسی انجام تک پہنچ جائیں۔

وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَہْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ

"اہل کتاب میں سے اکثر لوگ یہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح تمہیں ایمان سے پھیر کر کفر کی طرف پلتا لے جائیں اگرچہ ان پر حق طاہر ہو چکا ہے مگر اپنے نفس کے حسد کی بنا پر تمہارے لئے ان کی یہ خواہش ہے۔ ”

حسد، جو ایک نہایت ہی بری خصلت اور اخلاقی بیماری ہے۔ نفس انسانی کے اندر یہ خواہش پیدا کر دیتی ہے کہ تمام دوسرے لوگ ہر قسم کی بھلائی سے محروم ہو جائیں اور راہ ہدایت نہ پائیں۔ اس لئے نہیں کہ ایسے حاسد شرپسند لوگ حقیقت حال سے واقف نہیں ہوتے۔ وہ حقیقت حال سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں مگر محض حسد کی بنا پر یہ خواہش رکھتے ہیں۔

حَسَداً مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِہِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَہُمُ الْحَقُّ”اگرچہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہے مگر نفس کے حسد کی بنا پر وہ ایسا کرتے ہیں۔ ”

یہود کے دلوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف حسد کے سیاہ اور گھٹیا جذبات موجزن تھے وہ جذبات آج بھی جوں کے توں موجد ہیں۔ اسلام کے خلاف ان کی تمام سازشیں اور تمام تدابیر انہی جذبات پر مبنی تھیں۔ اور آج تک ان کا طرز عمل جوں کا توں ہے۔ اسی حقیقت کو قرآن کریم تفصیل کے ساتھ مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کر رہا ہے تاکہ وہ معاملے کی حقیقت تک پہنچ جائیں۔ اور یہ معلوم کر لیں کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف یہودیوں کی اس مسلسل جدوجہد کے پس منظر میں صرف وہ جذبہ کارفرما ہے کہ وہ مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کر دیں اور انہیں دوبارہ اسی حالت کفر کی طرف لوٹا کر لے جائیں جس میں وہ پہلے مبتلا تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے نجات دی اور وہ ایمان لے آئے اور انہیں فضل عظیم اور نعمت جلیلہ سے نوازا گیا۔

جب یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور یہودیوں کا مکروہ بغض وحسد عیاں ہو جاتا ہے تو قرآن کریم مسلمانوں کو یہ تلقین کرتا ہے کہ وہ یہودیوں کی پست سطح سے بالا ہو کر سوچیں۔ حسد کا جواب حسد اور شر سے نہ دیں بلکہ عفو اور درگذر سے کام لیں اور اس وقت کا انتظار کریں جب اللہ تعالیٰ اپنا فیصلہ لے آئے۔

 

"اس کے جواب میں تم عفو و درگزر سے کام لو یہاں تک کہ اللہ خود اپنا فیصلہ نافذ کر دے۔ مطمئن رہو کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ ” (١٠٩)

"نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو۔ تم اپنی عاقبت کے لئے جو بھلائی کما کر آگے بھیجو گے، اللہ کے ہاں اسے موجود پاؤ گے جو کچھ تم کرتے ہو وہ سب اللہ کی نظر میں ہے۔ "( ١١٠)

 

غرض اس پورے پیراگراف میں اسلامی جماعت کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے اور مسلمانوں کی فکر کو اس پر مرکوز کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ان کے خطرے کی اصل جگہ کون سی ہے۔ کہاں ان کے خلاف سازشیں تیار ہوتی ہیں۔ یوں اسلامی شعور کو یہودیوں کے برے ارادوں، گھٹیا سازشوں اور مذموم حاسدانہ جذبات کے مقابلے میں تیار کیا جاتا ہے لیکن اس کی تیاری کے بعد اس اسلامی شعور کو اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ کر دیا جاتا ہے تاکہ مسلمان اس کے احکام کے منتظر ہوں اور اپنی ہر حرکت اور اپنے ہر فعل کو اللہ کے تصرف میں دے دیں۔ یہاں تک کہ فیصلے کی گھڑی آ جائے۔ اس وقت مسلمانوں کو یہ حکم دیا جاتا ہے کہ وہ عفو و درگذر سے کام لیں اور اپنے دلوں کو بغض وحسد اور کینہ و دشمنی سے پاک رکھیں اور صاحب امر اور صاحب مشیئت کے احکامات اور فیصلے کا انتظار کریں۔

٭٭٭

اس کے بعد قرآن کریم ان دعووں کا جائزہ لیتا ہے جو یہود و نصاریٰ بالعموم کیا کرتے تھے۔ مثلاً یہ کہ وہ کہتے تھے کہ صرف وہی ہدایت پر ہیں۔ یہ کہ جنت صرف ان کے لئے ہے اور ان کے علاوہ اس میں کوئی بھی داخل نہ ہو گا۔ اور یہ دعویٰ بیک وقت یہودی اور عیسائی کرتے تھے۔ ان میں سے ہر ایک شخص کہتا تھا کہ دوسرے کے پاس سچائی کا ایک ذرہ بھی نہیں ہے۔ ان کے ان دعووں کے تذکرے کے ضمن میں قرآن کریم عمل اور مکافات کے بارے میں اپنے حقیقی تصور کی وضاحت بھی کر دیتا ہے۔

 

"ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے اگ، جب تک کہ وہ یہودی نہ ہو یا عیسائی نہ ہو۔ یہ ان کی تمنائیں ہیں ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو، اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ دراصل نہ تمہاری کچھ خصوصیت ہے نہ کسی اور کی۔ حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے۔ اس کے لئے اس کے رب کے پاس اس کا اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا موقع نہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں۔ عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں۔ حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اس قسم کے دعوے ایسے لوگوں کے بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں۔ یہ اختلاف جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ قیامت کے رو ز اللہ کر دے گا۔ ” ( ۱۱۱ تا ۱۱۳)

 

مدینہ طیبہ میں جو لوگ مسلمانوں کے مقابلے میں اترے ہوئے تھے وہ یہودی تھے کیونکہ وہاں نصرانیوں کا کوئی ایسا منظم گروہ موجود نہ تھا جو یہودیوں کی طرح اسلام دشمنی میں مبتلا ہوتا لیکن آیت میں انداز بیان کو عام رکھا گیا ہے۔ یہاں آیات الٰہی دونوں گروہوں کے اقوال کی تردید کرتی ہے۔ اور ایک دوسرے کے بارے میں یہود و نصاریٰ دونوں کے اقوال نقل کر کے آخرت میں ان دونوں کے بارے میں مشرکین عرب کے خیالات نقل کر دیئے جاتے ہیں وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلا مَنْ كَانَ ہُوداً أَوْ نَصَارَى”ان کا کہنا ہے کہ کوئی شخص جنت میں نہ جائے گا جب تک وہ یہودی نہ ہو یا عیسائی نہ ہو۔ "یہاں ان دونوں فرقوں کے دعووں کو یکجا کر کے بیان کیا گیا ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ مدعی تھا۔ یہودی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہو گا جو یہودی ہو اور نصرانی کہتے تھے کہ جنت میں صرف وہ شخص داخل ہو گا جو نصرانی ہو۔ ان دونوں کے یہ لمبے چوڑے دعوے محض ادعائی تھے۔ ان کی پشت پر کوئی عقلی یا نقلی دلیل نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو یہ تلقین کرتے ہیں کہ وہ انہیں ان کے دعووں کی دلیل پیش کرنے کا چیلنج کریں۔

قُلْ ہَاتُوا بُرْہَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ”ان سے کہو اپنی دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔ ”

یہاں اللہ تعالیٰ موقع کی مناسبت سے مکافات عمل کے بارے میں اسلامی نظریۂ حیات کا ایک اہم اصول بیان کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس معاملے میں کسی امت کسی گروہ یا کسی فرد کی کوئی رو رعایت نہ کی جائے گی۔ اللہ کے ہاں جس چیز کی قدر ہے وہ نیکی اور مکمل بندگی اور تسلیم و رضا ہے۔ یہاں محض نام اور عنوان کو دیکھ کر فیصلے نہیں ہوتے۔

بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ أَجْرُہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلا ہُمْ يَحْزَنُونَ”حق یہ ہے کہ جو بھی اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے، اس کے لئے اس کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا موقع نہیں ہے۔ ”

اس سے قبل ایک جگہ یہودیوں کے اس دعوے پر کہ "انہیں آگ نہیں چھوئے گی مگر چند دن "کی تردید کرتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاں سزا کا یہ عام اصول بیان کیا تھا۔ "ہاں جو بھی برائی کمائے گا اور اس کی برائیاں اسے گھیر لیں گی وہ لوگ جہنمی ہوں گے اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ "یعنی خطیئات کے مرتکب لوگوں کو سزا محض اس لئے ہو گی کہ انہوں نے خطیئات کا ارتکاب کیا۔ اس کے علاوہ کوئی نقطہ نظر یا کوئی پہلو اس کا باعث نہ ہو گا کہ انہیں سزا دی جائے۔ غرض نیکی اور بدی میں اللہ کے ہاں جزاوسزا کا یہی ایک اصول ہے۔ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ وَہُوَ مُحْسِنٌ فَلَہُ جو اپنی ہستی کو اللہ کی اطاعت میں سونپ دے اور عملاً نیک روش پر چلے "یعنی اپنی پوری ذات کو اللہ کے مختص کر دے۔ اپنے پورے شعور کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہو جائے اور جس طرح پہلا شخص خالصتاً برائی میں گرفتار ہو گیا تھا۔ ۔ یہ ہمہ تن اللہ کے لئے ہو جائے۔ ” مَنْ أَسْلَمَ وَجْہَہُ لِلَّہِ”جو اپنی ذات کو پوری طرح اللہ کی اطاعت میں سونپ دے۔ "اس فقرے میں اسلام کی اہم ترین خصوصیت اور واضح علامت کو بیان کیا گیا ہے۔ یعنی ایک انسان پوری طرح اللہ کی طرف منہ کر لے۔ یعنی ہمہ تن متوجہ ہو جائے اور مکمل انقیاد اور اطاعت اختیار کر لے یعنی معنوی طور پر اللہ کے آگے جھک جائے اور عملاً بھی اس کا مطیع فرمان ہو جائے اور چونکہ معنوی رضاوتسلیم کے لئے ظاہری دلیل عملاً اطاعت حکم ہوا کرتی ہے، اس لئے کہا گیا اور عملاً نیک روش اختیار کرے۔ اسلام کی اہم ترین خصوصیات اور نشانیوں میں سے ایک یہ امر ہے کہ انسان کا شعور اور روش اس کا عقیدہ اور عمل، اس کا قلبی ایمان اور عملی روش کے درمیان ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے۔ اور تب ایک بندہ مومن اس عطاء الٰہی کا مستحق قرار پاتا ہے۔

فَلَہُ أَجْرُہُ عِنْدَ رَبِّہِ وَلا خَوْفٌ عَلَيْہِمْ وَلا ہُمْ يَحْزَنُونَ”ان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے اور ایسے لوگوں کے لئے کسی خوف یا رنج کا کوئی موقع نہیں۔ "ان کا اجر محفوظ اور ان کے رب کے پاس ہے۔ امن و طمانیت کی ایک عظیم دنیا جس میں رنج و الم کا شائبہ تک نہیں، ان کے لئے منتظر ہے۔ فرحت وسرور کا ایک عالم ہے جس میں حزن و ملال کا کوئی لمحہ نہیں۔ ان کے لئے تیار ہے۔ جزا کا یہ اصول عامہ ہے اور تمام لوگ اس میں برابر ہیں۔ اللہ کے ہاں کسی کی رو رعایت یا کسی کی کوئی شان محبوبیت نہیں ہے۔

یہود و نصاریٰ دونوں لمبے چوڑے دعوے کرتے رہتے تھے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے کے بارے میں کہتا تھا کہ وہ تو کچھ نہیں۔ نیز مشرکین تو ان سے بھی ایک قدم آگے بڑھے ہوئے تھے اور کہتے تھے کہ ان دونوں گروہوں کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

 

"یہودی کہتے ہیں کہ عیسائیوں کے پاس کچھ نہیں، عیسائی کہتے ہیں یہودیوں کے پاس کچھ نہیں۔ حالانکہ دونوں ہی کتاب پڑھتے ہیں اور اسی قسم کے دعوے ایسے لوگوں کے پاس بھی ہیں جن کے پاس کتاب کا علم نہیں۔ یہ اختلافات جن میں یہ لوگ مبتلا ہیں ان کا فیصلہ اللہ قیامت کے روز کرے گا۔ ” ( ١١٣)

 

جن لوگوں کے پاس کتاب کا علم نہیں یعنی انپڑھ عرب جن کے پاس کوئی کتاب نہ تھی۔ یہ لوگ جب بھی دیکھتے تھے کہ یہود و نصاریٰ جس تفرق اور اختلافات کا شکار ہیں ایک دوسرے کو جس طرح گالیاں دے رہے ہیں اور جس طرح الزام تراشیاں کر رہے ہیں یا جن خرافات اور بے حقیقت باتوں پر وہ ایمان لائے ہوئے ہیں۔ وہ اہل شرک اور عربوں کے مشرکانہ خیالات، فرشتوں کے اولاد الٰہی ہونے کے تصورات سے کسی بھی طرح اونچے عقائد یا نظریات نہیں۔ اس لئے وہ بھی ان عقائد کو حقیر سمجھتے ہوئے یہود و نصاریٰ کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ ان کے ارکان کی بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔

جنت کی ملکیت کے بارے میں یہود و نصاریٰ کے ان دعووں کے بعد قرآن کریم ان لوگوں کی باہم الزام تراشیاں نقل کر کے ان کے فیصلے کو اللہ پر چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے فَاللَّہُ يَحْكُمُ بَيْنَہُمْ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ فِيمَا كَانُوا فِيہِ يَخْتَلِفُونَ”پس اللہ ہی قیامت کے دن ان کے مختلف فیہ مسائل کا فیصلہ کرے گا۔ کیونکہ وہی عادل جج ہے۔ اور آخر کار تمام امور اسی کے سامنے جانے ہیں۔ "جو لوگ دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ وہی جنتی ہیں اور اہل ہدایت ہیں لیکن وہ کسی منطق کے قائل نہیں ہوتے، نہ ان کے دعاوی کسی دلیل پر مبنی ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا معاملہ اللہ ہی پر چھوڑ دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں سے جان چھڑانے کی بس یہی صورت ہے۔

یہودی، مسلمانوں کے دلوں میں پیغمبرﷺ کے اوامر اور آپ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مساعی کرتے تھے، خصوصاً تحویل قبلہ کے معاملے میں، ان کا پروپیگنڈہ تو اپنی انتہاء کو پہنچ گیا تھا۔ اب روئے سخن ان کی ان مذموم مساعی کی تردید کی طرف پھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ان کی یہ جدوجہد درحقیقت مساجد اللہ کی تخریب ہے اور ان کا مقصد مساجد اللہ میں اللہ کے ذکر و فکر سے لوگوں کو منع کرنا ہے۔

 

"اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہو گا جو اللہ کے معبدوں میں اس کے نام کی یاد سے روکے اور ان کی ویرانی کے درپے ہو؟ایسے لوگ اس قابل ہیں کہ ان کی عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی، تو ڈرتے ہوئے جائیں۔ ان کے لئے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم۔ مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں جس کی طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرح اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ” (١١٥)

 

اقرب الی الذہن یہ ہے کہ ان دو آیات کا تعلق مسئلہ تحویل قبلہ سے ہے۔ کیونکہ اس مرحلے پر یہودی اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ مسلمانوں کو نئے قبلہ کی جانب منہ کر کے نماز پڑھنے سے باز رکھیں، حالانکہ کعبہ وہ پہلا عبادت خانہ تھا جو عوام کے لئے بنایا گیا اور وہی اسبق قبلہ تھا۔ اگرچہ اس آیت کے اسباب و نزول کے سلسلے میں اس کے علاوہ بھی متعدد روایات ہیں۔

بہرحال آیت کی عمومیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ یہ ایک عام حکم ہے اور اس میں ہرکسی کو اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی مساجد میں اس کے ذکر د فکر اور عبادت سے روکیں۔ یا ان مساجد کی تخریب کے درپے ہوں۔ یہاں ایسے لوگوں کا حکم اور وہ جزا بھی بتا دی جاتی ہے جس کے مستحق وہ تمام لوگ ہیں جو ایسے کام کرتے ہیں۔ "اور وہ جزا یہ ہے أُولَئِكَ مَا كَانَ لَہُمْ أَنْ يَدْخُلُوہَا إِلا خَائِفِينَ”ایسے لوگ تو اس قابل ہیں کہ ان عبادت گاہوں میں قدم نہ رکھیں اور اگر وہاں جائیں بھی تو ڈرتے ہوئے جائیں۔ ”

یعنی وہ ہمیشہ دھکیلے جانے، بھگائے جانے اور امن وسکون سے محروم ہونے کے مستحق ہیں الا یہ کہ وہ اس خوف اور بے چینی سے پناہ گاہ کی تلاش میں ڈرتے ڈرتے مسجدوں میں جاگھسیں۔ اور مسجد کے احترام کا دامن تھام لیں۔ (یہی صورت حال فتح مکہ کے موقع پر پیش آئی )جب رسول اللہﷺ کے منادی نے پکارا کہ "جو شخص مسجد حرام میں پناہ لے گا اسے پناہ مل جائے گی۔ "چنانچہ قریش کے تمام سرکش افراد بھی مسجد میں جاگھسے حالانکہ یہی وہ لوگ تھے جو ایک عرصہ تک رسول اللہﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مسجد حرام میں عبادت کرنے سے بھی روک رہے تھے۔ )ایسے لوگوں کا انجام بتاتے ہوئے قرآن کریم مزید وضاحت کرتا ہے کہ ایسے لوگ دنیا میں بھی ذلیل ہوں گے اور آخرت میں تو ان کے لئے عذاب عظیم تیار کیا گیا ہے۔ لَہُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَہُمْ فِي الآخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِيمٌ”ان کے لئے تو دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب عظیم ہے۔ ”

بعض مفسرین نے آیت مَا كَانَ لَہُمْ أَنْ يَدْخُلُوہَا إِلا خَائِفِينَ کی تفسیر یہ کی ہے کہ ایسے لوگوں کا فرض یہ ہے کہ وہ آداب مسجدکا لحاظ کرتے ہوئے مساجد میں ڈرتے ڈرتے اور خضوع اور خشوع کے ساتھ داخل ہوں، کیونکہ اللہ کی مساجد کا احترام اور اللہ ذوالجلال کی ہیبت اور دبدبے کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے گھر میں بصد احترام قدم رکھا جائے۔ بہرحال یہ بھی ایک تفسیر ہے اور آیت اس کی بھی متحمل ہے۔

لیکن ان آیات میں سے دوسری یعنی وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ چونکہ تحویل قبلہ کے موقع پر نازل ہوئی اس لئے ہم نے پہلی آیت ومن اظلم کو بھی تحویل قبلہ پر محمول کیا ہے۔

وَلِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْہُ اللَّہِ إِنَّ اللَّہَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ”مشرق اور مغرب سب اللہ کے ہیں۔ جس طرف بھی تم رخ کرو گے اسی طرح اللہ کا رخ ہے۔ اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ”

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس پروپیگنڈے کے ردّ میں نازل ہوئی ہے جو وہ تحویل قبلہ کے خلاف کر رہے تھے کہ اگر قبلہ یہ ہے تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ مسلمانوں نے جو نمازیں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے ادا کیں وہ سب باطل تھیں۔ سب ضائع گئیں اور اللہ کے ہاں ان کا کوئی حساب نہ ہو گا۔ آیت میں یہودیوں کے اس خیال باطل کی تردید کی جاتی ہے کہ جس طرف بھی رخ کیا جائے وہی قبلہ ہے۔ ایک عبادت گذار جس طرف بھی رخ کرے، اللہ کا رخ اسی طرف ہے۔ رہا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک معین سمت کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا جو حکم دیا ہے وہ محض امتثال امر ہے اور عبادت و اطاعت ہے۔ یہ حکم اس لئے نہیں دیا گیا کہ نعوذ باللہ کہیں اس طرف اللہ کا رخ ہے اور دوسری طرف نہیں ہے۔ رہا اللہ تو وہ اپنے بندوں پر کسی معاملے میں ضیق اور تنگی نہیں کرتا، نہ ان کے ثواب میں کمی کرتا ہے، کیونکہ وہ ان کے دلوں کے بھید جانتا ہے اور ان کے میلانات اور رجحانات کو بھی جانتا ہے جو ایک خاص سمت کی طرف رخ کرنے کے لئے لوگوں میں پائے جاتے ہیں۔ اللہ کے ہاں بڑی وسعت ہے۔ وہ نیتوں کا مالک ہے إِنَّ اللَّہَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ”اللہ بڑی وسعت والا اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ ”

اس کے بعد قرآن کریم اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ان لوگوں کے تصور الٰہ میں ہی فتور آ گیا ہے اور یہ لوگ اساس دین یعنی عقیدۂ توحید ہی سے منحرف ہو گئے ہیں۔ جو تمام رسالتوں اور نبوتوں کا بنیادی اور صحیح تصور تھا۔ اور ان کے تصور الٰہ کے ڈانڈے، اللہ کی ذات و صفات کے بارے میں دوسری جاہلی تصورات سے جا ملے ہیں۔

چنانچہ قرآن کریم یہاں اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ مشرکین عرب اور مشرکین اہل کتاب کے تصور الٰہ میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ اس دونوں کے دل باہم ملے ہوئے ہیں۔ اور ا س موقع پر دونوں فرقوں کے سامنے اسلام کی صحیح ایمانی عقیدے کی وضاحت کر دی جاتی ہے۔

 

"ان کا قول ہے کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین وآسمان کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں۔ سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں۔ وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لئے بس یہ کم دیتا ہے کہ ہو جا، وہ ہو جاتی ہے۔ نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پس کیوں نہیں آتی۔ ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ان سب کی ذہنیتیں ایک جیسی ہیں۔ یقین دلانے والوں کے لئے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں۔ ” (آیات ١١٦ ۔ ١١٨)

یہ قول کہ”اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے۔ "یہ صرف عیسائیوں کا ہی عقیدہ نہیں جو وہ حضرت مسیح کے بارے میں رکھتے تھے بلکہ خود یہودی بھی حضرت عزیر کی ابنیت کے قائل تھے۔ اور یہی عقیدہ مشرکین مکہ اللہ کے فرشتوں کے بارے میں رکھتے تھے۔ قرآن کریم نے یہاں ان فرقوں کے عقیدے کی تفصیلات بیان نہیں کیں۔ کیونکہ یہاں اجمالی بحث مطلوب تھی۔ یہاں اجمالاً ان تین فرقوں کی طرف اشارہ مطلوب تھا جو اس وقت جزیرہ عرب میں تحریک اسلامی کا راستہ روکے کھڑے تھے۔ تعجب ہے کہ آج بھی عالم اسلام میں اسلام کی راہ یہی تین فرقے روکے کھڑے ہیں۔ یہودی بین الاقوامی صہیونیت کے روپ میں، عیسائی بین الاقوامی صلیبیت کی شکل میں اور عرب عالمی کمیونزم کی شکل میں ہیں۔ یہ آخری یعنی کمیونزم اس وقت کے "عربی شرک "سے زیادہ شدید کفر ہے۔ اس مشترکہ خصوصیت کے بیان سے یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ دعویٰ خود بخود رد ہو جاتا ہے کہ صرف وہی اہل ہدایت ہیں کیونکہ ہدایت کے اصل عقیدے میں وہ مشرکین کے ہم مشرب ہیں۔

ان کے تصور الٰہ کے دوسرے سقیم وفاسد پہلو کے بیان سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ اپنے بارے میں ان کے مذکورہ بالاسقیم تصور سے اپنی پاکی اور برأت کا اعلان کرتا ہے اور یہ بیان کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کی مخلوقات کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟

"اللہ پاک ہے ان باتوں سے اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین وآسمان کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں، سب کے سب ان کے مطیع فرمان ہیں، وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے، اور جس بات کا وہ فیصلہ کرتا ہے، اس کے لئے بس یہ حکم دیتا ہے کہ "ہو جا”اور وہ "ہو جاتی ہے۔ ”

اس آیت میں، اسلامی نقطہ نظر سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خالد تجریدی تصور بیان کیا گیا ہے۔ یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ اور اس کی مخلوق کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہے ؟نیز اللہ کی ذات سے اس کائنات کا صدور کیونکر ہوا؟ان تمام امور کے بارے میں جو تصور پیش کیا گیا ہے وہ ان کے بارے میں تمام دوسرے تصورات کے نسبت اعلیٰ و ارفع ہے۔ یہ کائنات اللہ کی ذات والا صفات سے کیونکر صادر ہوئی ؟بس اللہ نے ارادہ کیا اور وہ وجود میں آ گئی "کُن”کہنے کی دیر تھی کہ "فَیَکُونُ”(وہ ہو گئی)۔ یعنی کسی ہونے والی چیز کی طرف ارادہ الٰہی کی توجہ ہی امر کے لئے کافی ہے کہ وہ فی الفور وجود میں آ جائے۔ اسی صورت اور شکل میں جو اس کے لئے مقرر اور متعین ہے۔ اس عمل میں کسی واسطے اور کسی مادی قوت کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ارادہ الٰہی کسی مخلوق کے ساتھ کیونکر وابستہ ہو جاتا ہے ؟اور اس کے نتیجے میں مخلوق کس طرح وجود میں آ جاتی ہے ؟تو اس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا راز ہے جو انسانی ادراک کے سربستہ ہے۔ اس لئے کہ انسان کی ادراکی قوت ابھی تک اس راز کی متحمل نہیں ہے۔ ازروئے خلقت انسان کی ادراکی قوت کو اس راز کے معلوم کرنے کا اس لئے متحمل نہیں بنایا گیا کہ انسان کی تخلیق، جس مقصد کے لئے ہوئی ہے، اس کی ادائیگی کے سلسلے میں اسے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ تخلیق انسان کا کیا مقصد ہے ؟زمین میں فریضۂ خلافت کی ادائیگی اور زمین کے اندر تعمیر و ترقی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے قوانین قدرت کے اتنے ہی راز بتائے ہیں جن کی اسے ضرورت تھی اور جن کے بغیر وہ اپنے فرائض منصبی ادا نہیں کرسکتا تھا۔ اور جن کے ذریعے انسان کے لئے خزائن الارض سے انتفاع ممکن ہوا۔ دوسری طرف اسے ایسے رازوں سے بے خبر رکھا گیا جن کا مقصد تخلیق انسانیت یعنی خلافت کبریٰ کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔ اس سلسلے میں دوسرے فلسفے اس بھٹکے کہ انہیں کہیں بھی روشنی کی کرن نظر نہ آئی۔ وہ بے سود ان اسرا و رموز کے حل کے پیچھے پڑے رہے۔ انہوں نے ایسے مفروضے قائم کئے جو محض انسانی ادراک کی پیداوار تھے۔ حالانکہ انسانی ادراک اپنی خلقت ہی کے اعتبار سے اس قابل نہیں کہ وہ ان فوق الطبیعاتی مفروضات پر غور کرسکے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ادراک کو سرے سے وہ ذرائع ہی نہیں دئیے جن کے ذریعے وہ ان بھیدوں تک پہنچ سکے۔ چنانچہ اگر غور کیا جائے تو تمام فلسفیانہ افکار میں سے اعلیٰ ترین افکار بھی ایسے مضحکہ انگیز ہیں کہ انہیں دیکھ کر ایک عام انسان بھی حیران رہ جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ ایک فلسفی اور ذہین شخص ان نتائج تک کیونکر پہنچا۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ ان فلسفوں کے پیش کرنے والوں نے انسانی ادراک کو اس کی فطری حدود سے آگے بڑھایا اور اسے ان فوق الطبیعاتی مسائل میں استعمال کیا جن میں اس کی کوئی مجال نہ تھی۔ اس لئے وہ کسی قابل اطمینان نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ بلکہ ان کے نتائج کی فکر اس شخص کی نظر میں کوئی وقعت نہیں رکھتے جو اسلامی نظریۂ حیات پر ایمان رکھتا ہو اور اس کے سایۂ عاطفت میں زندگی بسر کر رہا ہو۔ اسلام نے اپنے معتقدین کو بغیر واضح حجت کے ان اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے سے محفوظ کر دیا ہے۔ اس لئے وہ بنیادی طور پر غلط طریق فکر کی راہ سے مابعد الطبیعاتی مسائل کے حل کی ناکام کوشش ہی نہیں کرتے۔ مابعد ادوار میں مسلمانوں میں سے جن متفلسفوں نے، یونانی فلسفے سے متاثر ہو کر فلسفیانہ مفروضات کے مطابق سوچنا شروع کیا، وہ بے حد الجھن اور غلط مبحث کا شکار ہوئے۔ جیسا کہ ان سے پہلے ان کے اساتذہ یونانی فلسفی شکار ہوئے تھے۔ ان مسلم فلسفیوں نے اسلامی نظامِ فکر میں وہ مسائل داخل کر دئیے جو اس کے مزاج ہی کے خلاف تھے۔ اور انہیں اسلامی نظریۂ حیات کی حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ غرض جب بھی انسان نے اپنی عقل و فکر کو اپنی حدود سے آگے بڑھایا اور اپنے مزاج اور خلقت کے خلاف استعمال کیا اس کا انجام یہی رہا۔ بَلْ لَہُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالأرْضِ كُلٌّ لَہُ قَانِتُونَ”اصل حقیقت یہ ہے کہ زمین و آسمان کی تمام موجودات اس کی ملک ہیں۔ سب کے سب اس کے مطیع فرمان ہیں۔ ”

آسمانوں اور زمینوں کے درمیان جو چیزیں ہیں ان میں سے اسے کسی کو بیٹا بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا تمام لوگ اس کی مخلوق ہے اور ایک درجے میں ہے، اور ایک ہی حیثیت رکھتی ہے۔

"وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے اور جس بات کا فیصلہ کرتا ہے اس کے لئے بس صرف یہ حکم دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ ”

اللہ کا یہ ارادہ جس طرح اس ہونے والی مخلوق کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے، اس کی تفصیل کی کیفیت انسانی ادراک اور فہم سے بالا ہے۔ کیونکر یہ انسانی ادراک کے حیطۂ قدرت ہی سے وراء ہے۔ لہٰذا انسانی ادراک کی قوتوں کو ایسی ناقابل تصور کیفیات کے ادراک میں صرف کر دینا ایک عبث کام ہو گا۔ اور بلا دلیل و برہان اس وادی پر پیچ میں سرگرداں ہونے کے مترادف ہو گا۔

یہاں آ کر اہل کتاب کے قول ابنیت پر تبصرہ ہو جاتا ہے۔ ان کے عقائد باطلہ کی تصحیح کے بعد، اب مشرکین کے ان اقوال کو لیا جاتا ہے جو مقام الوہیت کے خلاف ہیں اور جو اہل کتاب کے عقائد و اقوال سے ملتے جلتے ہیں۔

"نادان کہتے ہیں کہ اللہ خود ہم سے بات کیوں نہیں کرتا یا کوئی نشانی ہمارے پس کیوں نہیں آتی ؟ایسی ہی باتیں ان سے پہلے لوگ بھی کیا کرتے تھے۔ ”

"جو لوگ نہیں جانتے "ان سے مراد ان پڑھ لوگ ہیں جو کتاب کے علم سے بے بہرہ ہیں اور وہ بالعموم مشرک تھے۔ ان کے پاس کتاب الٰہی کا کوئی علم نہ تھا۔ ان لوگوں نے بارہا نبیﷺ سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ آپ انہیں اللہ تعالیٰ سے ہمکلام کرائیں۔ یا ان کے سامنے کوئی معجزہ پیش کریں۔ یہاں ان لوگوں کے اس نامعقول مطالبے کا تذکرہ اس لئے ہوا تاکہ یہ بتایا جا سکے کہ ان سے پہلے کی اقوام یہود و نصاریٰ نے بھی اپنے انبیاء سے ایسے ہی مطالبے کئے تھے۔ قوم موسیٰ علیہ السلام نے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو کھلا دیکھنا چاہتے ہیں۔ نیز انہوں نے مادی خوارق عادات اور معجزات کے مطالبے میں بھی بے حد غلو کیا تھا۔ مقصود یہ ہے کہ یہ مشرکین اور یہودی ایک ہی مزاج اور ایک ہی طرز فکر کے مالک ہیں، اور یہ ایک ہی قسم کی کجروی میں مبتلا ہیں تَشَابَہَتْ قُلُوبُہُمْ”ان سب کی ذہنیتیں ایک ہی جیسی ہیں۔ "لہٰذا یہودیوں کو مشرکین پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے۔ یہ سب طرز فکر، ہٹ دھرمی اور کجروی میں بالکل ہم مشرب ہیں قَدْ بَيَّنَّا الآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ”یقین لانے والوں کے لئے تو ہم نشانیاں صاف صاف نمایاں کر چکے ہیں۔ ”

جن کے دل میں ذوق ایمان ہے، وہ جب آیات الٰہی کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے اپنے ایمان کا مصداق ان آیات میں نظر آتا ہے۔ اور ان آیات میں اس کے ضمیر کے اطمینان کا سامان ہوتا ہے۔ غرض یہ آیات اور نشانیاں کسی کے اندر ایمان نہیں پیدا کرسکتیں بلکہ یہ ایمان ہے جس کی روشنی میں اللہ کی آیات اور نشانیوں کو سمجھا جا سکتا ہے، اور اطمینان حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح انسان کا دل و دماغ پیہم ہدایت حاصل کرسکتے ہیں۔

ان کے اقوال کے اختتام، ان کے افکار باطلہ کی تردید، اور ان کے گمراہ کن پروپیگنڈے کے پس پردہ کارفرما مقاصد کی پردہ دری کے بعد اب روئے سخن حضرت نبی کریمﷺ کی طرف پھر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے فرائض بیان فرماتے ہیں، آپ کے لئے مقاصد متعین کر دئیے جاتے ہیں اور آپ کو یہ بتایا جاتا ہے کہ یہود و نصاریٰ اور آپ کے درمیان جو معرکہ بپا ہے، اس کی نوعیت کیا ہے ؟آپ اور ان لوگوں کے درمیان کتنا گہرا اختلاف ہے اور یہ کہ ایک بھاری قیمت ادا کر کے ہی دور کیا جا سکتا ہے جبکہ آپ نہ تو وہ قیمت رکھتے ہیں اور نہ اسے ادا کرسکتے ہیں۔ اور اگر (نعوذ باللہ )ان لوگوں سے اتحاد کرنے کے لئے آپ یہ بھاری قیمت ادا کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو غضب الٰہی کا مورد ٹھہرائیں گے۔

 

"ہم نے تم کوعلم حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اب جو لوگ جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں ان کی طرف سے تم ذمہ دار و جواب دہ نہیں ہو۔ یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر چلنے نہ لگو۔ صاف صاف کہہ دو کہ راستہ بس وہی ہے جو اللہ نے بنایا ہے۔ ورنہ اگر اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی، تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لئے نہیں ہے۔ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اسی طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے۔ وہ اس پرسچے دل سے ایمان لاتے ہیں، اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کریں وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ” (آیات ١١٩۔ ١٢١)

 

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ”ہم نے تم کو علم حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ ”

ان کلمات میں اس قدر زور ہے کہ وہ گمراہی پھیلانے والوں کے گمراہ کن شبہات کو ختم کر دیتے ہیں۔ سازشیوں کی سازشوں کی جڑ کا ٹ دیتے ہیں اور منافقین کی تلبیس اور تلقین کو ختم کر دیتے ہیں، نیز ان کلمات کا صوتی زیر و بم بھی حزم و یقین کا مظہر ہے۔ بَشِيراً وَنَذِيراً”خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا۔ "یعنی پیغام حق پہنچانا اور تبلیغ کرنا آپ کا بنیادی فریضہ ہے، آپ اطاعت کرنے والوں کو خوشخبری دیں گے اور نافرمانوں کو ڈرائیں گے۔ اس پر آپ کا فریضہ ادا ہو جائے گا۔ وَلا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ (١١٩)”جو جہنم سے رشتہ جوڑ چکے ہیں ان کی طرف سے تم ذمہ دار اور جواب دہ نہیں ہو۔ "یہ لوگ ایسے ہیں جو اپنی مصیبت اور اس کے نتائج کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوں گے۔

اے پیغمبر!یہود و نصاریٰ آپ کے خلاف برسرپیکار ہیں گے، آپ کے خلاف سازشیں کرتے رہیں گے۔ کبھی آپ سے مصالحت نہ کریں گے اور نہ ہی کبھی آپ سے راضی ہوں گے۔ الا یہ کہ آپ اپنے مشن کو چھوڑ دیں، حق کو ترک کر دیں، جو یقین آپ کو حاصل ہے، اسے خیرباد کہہ دیں اور یہ لوگ جس کجروی، شرک اور جاہلی تصورات میں مبتلا ہیں اسے اختیار کر لیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے قریب ہی بیان ہو چکا ہے۔

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَہُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ”یہودی اور عیسائی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو۔ ”

یہ ہے وہ اصل سبب ان کے انکار حق کا۔ یہ نہیں کہ شاید ان کے سامنے دلیل و برہان پیش کرنے کے معاملے میں کچھ کمی کی گئی ہے۔ نہ اس بات کی کمی ہے کہ وہ آپ کے راہ حق پر ہونے کے سلسلے میں مطمئن نہیں ہیں یا یہ کہ آپ کے پاس جو ہدایات آ رہی ہیں وہ اللہ کی جانب سے نہیں آ رہی ہیں۔ آپ ان کی طرف جس قدر بھی آگے بڑھیں اور جس قدر بھی آپ ان سے محبت کریں، ان میں سے کوئی چیز بھی آپ سے انہیں راضی نہیں کرسکتی۔ یہ آپ سے صرف اسی صورت میں راضی ہوسکتے ہیں کہ آپ ان کی ملت اور ان کے دین کو اپنا لیں اور جو حق اور صداقت آپ کے پاس ہے اسے چھوڑ دیں۔

یہ نظریۂ حیات ہی ہے جس کے مظاہر، ہر زمان و مکان میں نظر آتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ ہر دور اور ہر زمانے میں جو اسلام اور جماعت مسلمہ کے خلاف برسرپیکار نظر آتے ہیں، وہ دراصل اسلام کے خلاف ایک نظریاتی جنگ لڑ رہے ہیں، اور یہ نظریاتی جنگ اسلامی بلاک اور ان دو مغربی بلاکوں کے درمیان جاری ہے۔ اگرچہ یہ مغربی بلاک کبھی کبھار ایک دوسرے کے خلاف بھی برسرپیکار ہو جاتے ہیں، لیکن یہ تخاصم ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ ایک ملت کے دو فرقوں کے درمیان ہوتا ہے جبکہ اسلام اور مسلمانوں کے مقابلے میں یہ دونوں فرقے (یہود و نصاریٰ ) ہمیشہ متحد رہے ہیں۔

اپنی حقیقت اور اصلیت کے اعتبار سے یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، لیکن یہودی اور عیسائی دنیا جو اسلام اور مسلم دشمنی میں غرق ہے، اسے مختلف رنگ دیتی رہتی ہے۔ اور اس کے اوپر مختلف قسم کے جھنڈے لہراتی رہتی ہے۔ اور یہ کام وہ نہایت ہی بد باطنی، مکاری اور فریب دہی کے ساتھ کرتی ہے۔ اس سے قبل مسلمانوں کے خلاف نظریاتی جنگ لڑ کر یہ لوگ مسلمانوں کے اس والہانہ عشق کا تجربہ کر چکے ہیں جو انہیں اپنے دین اور نظریۂ حیات کے ساتھ ہے۔ چنانچہ اسلام کے ان دشمنوں نے بڑی ہوشیاری کے ساتھ پلٹا کھا کر، اپنی جدوجہد کا عنوان اور جھنڈا تبدیل کر دیا۔ اب انہوں نے نظریاتی جنگ کا اعلان کئے بغیر ہی اسلام کے خلاف لڑائی شروع کی ہے۔ کیونکہ نظریاتی جنگ میں وہ مسلمانوں کے جذبات اور جوش و خروش سے خائف تھے۔ نیز اب یہ لوگ وطن، اقتصادیات، سیاسیات اور جنگی مراکز کے حصول اور ایسے ہی دوسرے مقاصد کے عنوان سے آگے بڑھے اور بعض غافل اور فریب خوردہ مسلمانوں کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ عقائد اور نظریات کی جنگ اب قصہ پارینہ بن چکی ہے، جس کا کوئی مفہوم نہیں ہے۔

اب دین و عقیدے کی بنا پر علم جہاد بلند کرنا اور معرکہ آرائی کرنا جائز نہیں ہے۔ یہ حقیقت ان متعصب اور بظاہر شکست خوردہ دشمنان اسلام کی خصوصیت۔ اور یہ روش انہوں نے محض اس لئے اختیار کی ہے کہ وہ مسلمانوں کے نظریاتی جوش اور غیظ و غضب سے محفوظ رہیں جبکہ اپنی نیت اور مقاصد کے اعتبار سے کٹر قسم کے صہیونی اور بین الاقوامی صلیبی (چاہے وہ عالمی کمیونسٹ ہی کیوں نہ ہوں )دراصل یہ سب لوگ اپنی راہ سے اس سنگ گراں (نظریہ اسلامی)کے ہٹانے میں مصروف ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس سے پہلے وہ ایک طویل عرصے تک اس سے ٹکر لیتے رہے مگر اسلام نے ان سب کو شکست دی۔

غرض یہ ایک نظریاتی جنگ ہے، یہ نہ تو کسی قطعہ ارضی کا جھگڑا ہے، نہ مفادات کا تنازع ہے اور نہ جنگی اہمیت کے مقامات پر نزاع ہے۔ زر و زمین کے ان بوگس نعروں اور جھنڈوں کی کوئی اہمیت حاصل نہیں ہے، یہ سب تدابیر دشمنان اسلام نے محض اس لئے اختیار کی ہیں تاکہ سادہ لوح مسلمانوں کو اس معرکے کی اصلیت اور اس کے حقیقی اغراض و مقاصد سے بے خبر رکھیں۔ اور ہم ہیں کہ ان کے اس فریب کا شکار ہو گئے ہیں۔ لہٰذا ان دشمنوں کو ملامت کرنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ ہمیں چاہئے کہ خود اپنے آپ کو ملامت کریں کیونکہ ہم نے نبیﷺ کی سنت اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو ترک کر دیا ہے جو اس نے نبی کو امت مسلمہ کی راہنمائی کے لئے دی تھیں جبکہ اللہ تعالیٰ سب سے سچا ہے اور ان کا فرمان صاف صاف یہ ہے۔

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَہُودُ وَلا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ”اور یہود و نصاریٰ آپ سے اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک آپ ان کے طریقے پر نہ چلنے لگیں۔ ”

وہ مسلمانوں سے صرف ایک یہی قیمت مانگتے ہیں۔ ا س کے سوا جو کچھ بھی ہو وہ انہیں قبول نہیں ہے۔ ۔ لیکن سچی ہدایت اور اٹل فیصلہ یہی ہے قُلْ إِنَّ ہُدَى اللَّہِ ہُوَ الْہُدَى”کہہ دیجئے کہ ہدایت بس وہی ہے جس کی طرف اللہ نے راہنمائی فرمائی۔ ”

ہدایت وہی ہے، ہدایت اس میں محصور و محدود ہے اور اس کے سوا سرے سے کوئی ہدایت ہی نہیں ہے، لہٰذا الہ تعالیٰ کے بنائے ہوئے صراط مستقیم کے علاوہ کسی راہ پر چل کر کامیابی حاصل نہیں کی جا سکتی۔ لہٰذا اسے اختیار کرنا بے حد ضروری ہے۔ اس سے کوئی چھٹکارا نہیں ہے۔ ہم اس کے اندر کوئی ترمیم نہیں کرسکتے اور اس میں سے کسی چھوٹی یا بڑی چیز کے بارے میں کوئی سودے بازی کرسکتے ہیں۔ یہ ہدایت پوری کی پوری قبول کرنی ہو گی جو چاہے قبول کرے اور جو چاہے انکار کر دے لیکن خبردار کہ ایمان و ہدایت کی خواہش یا ان کی محبت اور دوستی کہیں تمہیں اس راہ حق سے اور صراط مستقیم سے ہٹا نہ دے۔

وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء َہُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاء َكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّہِ مِنْ وَلِيٍّ وَلا نَصِيرٍ”اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لئے نہیں کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو اللہ کی پکڑ سے بچانے والا کوئی دوست اور مددگار تمہارے لئے نہیں ہے۔ "کیسی خوفناک تہدید ہے ؟کیا اٹل فیصلہ ہے اور کتنی سخت وعید ہے ؟اور ہے کس کے حق میں ؟سرتاج انبیاء اور محبوب کبریا حضرت نبیﷺ کے حق میں !

مقصود یہ کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت جس کے سوا کوئی ہدایت نہیں ہے، اس سے صرف تم اس وجہ سے ہٹ سکتے ہو کہ تم ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی شروع کرو ورنہ اس کے سوا اسے ترک کرنے کی کوئی وجہ، یعنی دلیل و برہان کی کمی یا کمزوری، نہیں ہے۔

اہل کتاب میں سے جو لوگ خواہشات نفسانیہ سے پاک ہو جاتے ہیں، وہ بھی اپنی کتاب کو س طرح پڑھتے ہیں جس طرح اس کے پڑھنے کاحق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس سچائی پر بھی ایمان لاتے ہیں جو آپ کے پاس ہے اور جو لوگ اس سچائی کا انکار کریں گے وہی گھاٹے میں رہیں گے نہ آپ خسارے میں ہیں اور نہ مؤمنین۔

الَّذِينَ آتَيْنَاہُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَہُ حَقَّ تِلاوَتِہِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِہِ وَمَنْ يَكْفُرْ بِہِ فَأُولَئِكَ ہُمُ الْخَاسِرُونَ”جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہوتا ہے۔ وہ اس پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کرتے کا رویہ اختیار کریں وہی اصل میں نقصان اٹھانے والے ہیں۔ ”

کیونکہ وہ ایمان سے محروم ہو گئے ہیں اور ایمان اس پوری کائنات میں اللہ کی جملہ نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ہے۔ لہٰذا ایمان کے خسارے سے بڑا خسارہ اور کیا ہوسکتا ہے ؟اس فیصلہ کن اور زور دار تقریر کے بعد روئے سخن بنی اسرائیل کی طرف پھر جاتا ہے۔ گویا اس طویل مقابلے اور مجادلے کے بعد اور اللہ اور اس کے نبیوں کے ساتھ ان کے طرز عمل کی طویل تاریخ کے دہرانے کے بعد انہیں آخری بار متوجہ کیا جاتا ہے۔ انہیں چھوڑ کر حضرت نبیﷺ اور مومنین کو خطاب کرنے کے بعد اب یہاں دوبارہ انہیں آخری بار دعوت دی جاتی ہے۔ دراں حالیکہ وہ امانت الٰہی یعنی اسلامی نظریۂ حیات کی حفاظت کے شرف سے حد درجہ غافل اور بے پروہ ہو چکے ہیں۔ حالانکہ یہ شرف اور ذمہ داری انہیں ازمنہ قدیم سے حاصل چلی آرہی تھی۔ غرض اس تقریر کے آخری حصے میں بھی لوگوں کو وہی دعوت دی جاتی ہے جو اس کے آغاز میں انہیں دی گئی تھی۔

"اے بنی اسرائیل یاد کرو میری نعمت جس سے میں نے تمہیں نوازا تھا اور یہ کہ میں نے تمہیں دنیا کی تمام قوموں پر فضیلت دی تھی اور ڈرو اس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا نہ کسی کا فدیہ قبول کیا جائے گا، نہ کوئی سفارش کسی ا ادمی کو فائدہ دے گی اور نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔ ” (آیات ١٢٢۔١٢٣)

٭٭٭

 

 

 

درس ۷ ایک نظر میں

 

اب یہاں سے وہ حالات بیان کئے جا رہے ہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے دور سے متعلق ہیں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے قصے کو جس طرح بیان کیا جا رہا ہے اس سیاق کلام میں اس کی اہمیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ مدینہ طیبہ میں اسلامی جماعت اور یہودیوں کے درمیان جو مختلف النوع اختلافات پائے جاتے تھے، ان پر روشنی ڈالنے کے لئے یہ قصہ بے حد اہم تھا۔

کیونکہ اہل کتاب حضرت اسحاق علیہ السلام کے واسطے سے اپنی نسبت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف کرتے تھے اور اپنی اس نسبت اور اللہ تعالیٰ کی جاب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور آپ کے بعد اولاد ابراہیم کے ساتھ ترقی اور برکت کا وعدہ کرنے پر فخر کرتے تھے۔ اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ ہدایت اور صحیح دین پر قائم رہنا گویا ان کی اجارہ داری ہے۔ جیسا کہ وہ اپنے آپ کو جنت کا ٹھیکیدار سمجھتے ہیں چاہے ان کا عمل جیسا بھی ہو۔

اہل قریش بھی حضرت اسماعیل علیہ السلام کے واسطے سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد تھے۔ اور اپنی اس نسبت پر فخر کرتے تھے اور انہوں نے بیت اللہ کی نگرانی اور مسجد حرام کی تعمیر کے مناصب حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی ورثے میں پائے تھے اور پورے عرب پر دینی سیادت اور فضل و شرف کے رتبے بھی انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی سے ورثے میں پائے تھے۔

اس سے قبل جنت کے بارے میں یہود و نصاریٰ کے دعاوی پر کلام کرتے ہوئے یہاں تک کہا گیا تھا۔ "وہ کہتے ہیں کہ جنت میں صرف وہی شخص داخ ہو گا، جو یہودی ہو یا عیسائی ہو۔ "اور دوسری جگہ ان کا یہ قول نقل کیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو یہودی یا عیسائی بنانے کی سعی کرتے ہوئے کہتے ہیں ! "تم یہودی بن جاؤ یا عیسائی تاکہ ہدایت پاؤ۔ "نیز یہ بھی بتایا گیا کہ ان میں سے بعض لوگ ایسے ہیں جو لوگوں کو اللہ کی مساجد میں ذکر الٰہی سے روکتے ہیں اور مساجد کو خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہاں ہم نے یہ کہا تھا کہ یہ باتیں واقعہ تحویل سے متعلق ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ اس موقع پر یہودیوں نے اسلامی جماعت کے خلاف مسموم پروپیگنڈہ شروع کر دیا تھا۔

اب یہاں حضرت ابراہیم حضرت اسحاق و حضرت اسماعیل علیہم السلام اور بیت اللہ، اس کی تعمیر اور اس سے متعلق اسلامی شعائر کی بابت بات کی جا رہی ہے کیونکہ یہی مناسب موقع ہے۔ تاکہ انبیاء کرام کے شجر ونسب اور باہمی تعلق کے بارے میں یہودیوں، عیسائیوں اور مشرکین کے بے بنیاد دعووں کے بارے میں صحیح حقائق لوگوں کے ذہن نشین ہو جائیں اور مسلمانوں کو جسے قبلے کی طرف مڑنا ہے اس کے مسئلے کا بھی فیصلہ ہو جائے۔ نیز اس موقع پر دین ابراہیم علیہ السلام یعنی خالص توحید کی وضاحت بھی کر دی جاتی ہے۔ اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اہل کتاب اور مشرکین نے جو من گھڑت عقائد اور بے راہ روی اختیار کی ہوئی ہے، اس کا اسلام کے عقیدۂ توحید کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل جس کی طرف سے یہ لوگ نسبت کرتے ہیں )اور مسلمانوں کے عقائد اور اخری دین میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نیز یہ بھی بتایا گیا کہ اللہ کا دین ہمیشہ ایک ہی رہا ہے اور وہی تمام انبیاء اور رسل کا مشن رہا ہے اور وہ کسی قوم یا کسی نسل کے ساتھ مخصوص نہیں ہے نہ اس پر کسی کی اجارہ داری ہے۔ یہ تو ایک عقیدہ ہے جو دل مومن کی دولت ہے۔ اندھی عصبیت سے ا س کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی میراث ہے جو خون اور نسل کے رشتوں پر تقسیم نہیں ہوتی بلکہ ایمان اور عقائد کے رشتے پر ختم ہوتی ہے۔ لہٰذا جو شخص بھی اس دین کو قبول کرے اور اس کی نگہبانی کرے، وہ جس نسل سے متعلق ہے اور جس قوم کا فرد ہو، وہ اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔ یعنی اپنے حقیقی بھائیوں اور صلبی اولاد سے بھی زیادہ۔ کیونکہ یہ اللہ کا دین ہے اور اللہ اور اس کے بندوں کے درمیان کوئی نسبی یا کوئی اور رشتے کا تعلق نہیں ہے۔

یہ حقائق جو اسلامی تصور حیات کے اساسی خطوط کا ایک اہم حصہ ہیں۔ قرآن کریم یہاں انہیں بڑے عجیب طرز ادا میں نہایت واضح کر کے بیان کرتا ہے۔ فصیح و بلیغ انداز بیان کے علاوہ سیاق کلام یہاں غایت درجہ مربوط ہے۔ پہلے بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آزمایا اور وہ اس آزمائش میں پورے اترے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے نبی آخر الزمان حضرت محمدﷺ کو مبعوث فرمایا اور امت مسلمہ کو برپا کیا گیا۔ اس لئے امت مسلمہ اس ورثے کی جائز وارث بن گئی اور اولاد ابراہیم علیہ السلام سے یہ اعزاز چھین لیا گیا۔ کیونکہ نظریاتی ورثے کے مستحق صرف وہ لوگ ہوتے ہیں جو رسالت پر پختہ ایمان رکھتے ہیں اور اچھی طرح سے اسے روبہ عمل لاتے ہیں اور رسالت کا صحیح تصور قائم رکھتے ہیں۔ یہی ہے علت نظریاتی میراث کی۔

ان تاریخی حقائق کے بیان کے درمیان، طرز ادا سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اپنے مفہوم کے اعتبار سے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا جائے، سلسلہ رسل کی ابتداء میں بھی پیغام اول تھا، اور اس سلسلے کے اختتام پر بھی یہی اسلام رسولوں کا مشن تھا۔ یہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا نظریہ تھا، اور آپ کے بعد حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور دوسری رسالتوں اور تحریکات حقہ کا عقیدہ تھا۔ ان حضرات نے اس امانت کو حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سپرد کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ وراثت آخرکار امت مسلمہ تک آ پہنچی۔ اس عقیدے اور اس نظریئے پر جو بھی ثابت قدم ہو گا وہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کا روحانی وارث ہو گا۔ اور وہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کا حق دار اور ان کی دی ہوئی بشارتوں کا مصداق ہو گا۔ اور جس شخص نے اسلام سے روگردانی کی اور اپنے نفس کو ملت ابراہیمی سے دور رکھا، تو گویا وہ اللہ کے عہد کا مستحق نہ رہا اور اس نے اپنے آپ کو اس حق وفا سے محروم کر دیا اور ان بشارتوں کا مصداق نہ رہا۔

یہاں آ کر یہود و نصاریٰ کے وہ تمام دعوے اپنی اساس کھو دیتے ہیں کہ وہ چیدہ اور برگزیدہ قوم ہیں۔ محض اس لئے کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے ہیں، اور ان کے خلیفہ ہیں، اس لئے کہ جب سے انہوں نے عقیدۂ توحید کو خیرباد کیا، تب سے وہ وراثت ابراہیمی سے محروم ٹھہرے۔

اور اس مقام پر قبیلہ قریش کے یہ دعوے بھی منہدم ہو جاتے ہیں کہ وہ بیت اللہ کی تولیت اور دیکھ بھال اور تعمیر کے حق دار ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اس مقام مقدس کے بانی اول کی روحانی میراث سے انحراف اختیار کر لیا۔ اسی طرح یہودیوں کو یہ دعویٰ بھی منہدم ہو جاتا ہے کہ وہ بیت المقدس کے اصحاب قبلہ ہیں اور مسلمانوں کے لئے بھی مناسب یہی ہے کہ وہ بدستور بیت المقدس کو قبلہ بنائے رکھیں۔ اس لئے خانہ کعبہ ان کا بھی قبلہ ہے اور ان کے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بھی قبلہ تھا۔

ان تمام امور کو ایک حسین و جمیل پیرائے میں ادا کیا گیا جس کے اندر بے شمار واضح اشارات موجود ہیں اور جس کے اندر ایسے مواقف اور مقامات غور و فکر بھی ہیں جن کے اندر نہایت ہی دقیق مفاہیم پوشیدہ ہیں اور ایسی توضیحات ہیں جو نہایت پر اثر ہیں۔ اب ہم اس فصیح و بلیغ انداز کلام پر، درج بالا اشارات کی روشنی میں تفصیلی بات کریں گے۔

٭٭٭

 

 

 

درس ۷ تشریح آیات (۱۲۴تا ۱۴۱)

 

"یاد کرو جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا تو اس نے کہا "میں تجھے لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ "ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا!”اور میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟اس نے جواب دیا "میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ ” (١٢٤)

 

خطاب رسول اللہﷺ سے ہے۔ ذرا روئیداد ابتلائے ابراہیم علیہ السلام کو یاد کرو۔ آپ کو کچھ احکام دئیے گئے۔ آپ پر کچھ بندشیں عائد کی گئیں اور آپ نے پوری وفا کیشی سے ان اوامر نواہی پر عمل کیا۔ ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وفا کیشی کو سراہتے ہوئے فرمایا وَاِبرَاھِیمَ الَّذِی وَفّٰی "اور ابراہیم جنہوں نے احکام پورے کئے۔ "یہ وہ بلند و بالا مقام ہے جس تک حضرت ابراہیم علیہ السلام پہنچے۔ اس مقام تک جہاں اللہ تعالیٰ خود بندے کی وفاداری اور اطاعت شعاری کی شہادت دیتا ہے جبکہ بحیثیت انسان ای ضعیف اور پر تقصیر مخلوق ہے اور اس کے لئے وفا یعنی پوری اطاعت ممکن نہیں ہے۔

اور اس مقام تک رسائی حاصل کرنے ہی کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سعادت اور اس اعتماد کے مستحق ہوئے۔ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَاماً "میں تمہیں لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔ "ایسا پیشوا جو لوگوں کا قبلہ وکعبہ ہو۔ جو انہیں اللہ تک پہنچانے والا ہو، جو بھلائی کے کام میں سب سے پہلے ہو، اور لوگ ان سے پیچھے ہوں اور وہ ان کا محبوب قائد ہو۔

یہاں اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات سے انسانی فطرت نمودار ہوتی ہے۔ انسان کے اندر یہ فطرت داعیہ موجود ہوتا ہے کہ اس کا تسلسل بذریعہ اولاد جا ری رہے۔ یہ ایک گہرا فطری اور نفسیاتی شعور ہوتا ہے، جو اللہ تعالیٰ نے انسان کی فطرت کی گہرائیوں میں ودیعت کیا ہوا ہے۔ اور اس کی حکمت یہ ہے کہ زندگی کی ترقی جاری رہے اور انسانی زندگی ان خطوط پر آگے بڑھتی رہے جو خالق نے اس کے لئے وضع کئے ہیں۔ اور جن ترقیات کا آغاز اگلوں نے کیا ہوتا ہے، آنے والے مزید اسے آگے بڑھائیں اور تمام نسلوں کے اندر یہ ہم آہنگی قائم رہے۔ یہ شعور بعض لوگ توڑنا چاہتے ہیں اور ختم کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ وہ انسان کی عین فطرت کے اندر مرکوز ہے۔ اور اس کی حکمت یہ ہے کہ انسان بعض دورس مقاصد پورے کرسکے۔ اسی جذبے اور شعور کے تحت اسلام نے قانون میراث کے لئے تفصیلی قواعد وضع کئے ہیں تاکہ اولاد و احفاد کی بھلائی کے لئے انسان اپنی سعی جاری رکھے اور تیز تر کر دے۔ آج اس فطری شعور کو منہدم کرنے کے لئے دنیا میں جو سعی نا مشکور ہو رہی ہے دراصل انسانی فطرت کی تباہی کاسامان ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی میں بے شک بعض مفاسد پائے جاتے ہیں لیکن ان مفاسد کو ختم کرنے کے لئے خود فطرت انسانی اور انسان کی شخصیت ہی تباہ کر دینا ایک نہایت ہی بھونڈا، کوتاہ اندیشانہ اور غیر فطری طریق علاج ہے اور ان اجتماعی مفاسد کا ہر وہ علاج جو خلاف فطرت طریقے سے کیا گیا ہو، کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا، کبھی بھی مفید نہیں ہو گا اور قطعاً دیرپا نہیں ہوسکتا۔ ایسے علاج موجود ہیں جو ان مفاسد کو ختم تو کر دیں گے لیکن وہ فطرت انسانی سے بھی متصادم نہ ہوں گے۔ لیکن ایسے طریقے پانے کے لئے ایمان و ہدایت کی ضرورت اور اس بات کی ضرورت ہے معالج کو فطرت انسانی کا مکمل اور گہرا شعور ہو۔ اور اس کی فکر انسان کی طبعی تخلیق سے بھی آگے گہرائیوں تک پہنچی ہوئی ہو اور یہ فکر اور یہ جذبہ اصلاح طبقاتی بغض و عداوت سے پاک ہو، اس لئے کہ ان طبقاتی جذبات کی وجہ سے بجائے اس کے کہ انسان کی کوئی ہمہ گیر اصلاح ہو، انسان ہمہ گیر تباہی سے دوچار ہو جاتا ہے، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا:قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي”اور کہا کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے ؟”

اس سوال کا جواب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پروردگار کی طرف سے آتا ہے جس نے انہیں آزمایا اور پھر چن لیا۔ یہ جواب اس اہم اصول کی بنیاد رکھ دیتا ہے جس کا تذکرہ ہم کر آئے ہیں۔ یہ کہ امامت و قیادت ان لوگوں کا حق ہے جو اپنے شعور اور طرز عمل اور اپنی صلاحیت اور ایمان سے اپنے آپ کو اس کا مستحق ثابت کر دیں۔ یہ کوئی نسلی اور موروثی منصب نہیں ہے کہ باپ سے بیٹے کی طرف منتقل ہوتا چلا جائے۔ یہاں رشتہ و تعلق، خون، نسل اور قومیت پر مبنی نہیں ہوتا بلکہ یہاں دین و ایمان کے رشتے مدار تعلق ہوتے ہیں اور منصب و قیادت کے معاملے میں خونی، نسلی اور قومی نعرے دعوائے جاہلیت کے زمرے میں آتے ہیں، جو حیات انسانی کے بارے میں صحیح انسانی نقطۂ نظر کے ساتھ صریحاً متصادم ہوتے ہیں۔

قَالَ لا يَنَالُ عَہْدِي الظَّالِمِينَ "کہا میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ ”

ظلم کی بھی کئی قسمیں اور کئی رنگ ہیں۔ نفس انسانی کا شرک کرنا بھی ایک طرح کا ظلم ہے۔ لوگوں کی جانب سے اللہ کی نافرمانی بھی ایک ظلم ہے۔ ظالموں پر یہاں جس امانت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے، اس سے عمومی امامت مراد ہے، جو امامت کی تمام اقسام پر مشتمل ہے۔ امامت ورسالت، امامت خلافت، امامت صلوٰۃ اور ان کے علاوہ بھی امامت و قیادت کے تمام مناصب شامل ہیں۔ لہٰذا عدل و انصاف، اپنے وسیع معنوں میں، ہر قسم کی امامت کے استحقاق کے لئے پہلی شرط ہے۔ اور کوئی شخص کسی قسم کے ظلم کا ارتکاب بھی کرے، وہ اپنے آپ کو امامت و قیادت کے استحقاق سے محروم کر دیتا ہے، چاہے وہ قیادت جیسی بھی ہو۔

یہ جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا گیا اور یہ عہد جس کے الفاظ میں کوئی پیچیدگی نہیں ہے اس بات کا قطعی فیصلہ کر دیتا ہے کہ یہودی ہمیشہ منصب قیادت سے دور اور محروم رہیں گے۔ کیونکہ انہوں نے ظلم کا ارتکاب کیا، فسق و فجور میں مبتلا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی، اور انہوں نے اپنے جد امجد کے عقائد و نظریات کو ترک کر دیا۔

نیز جو کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا اور یہ عہد جس کے الفاظ میں کوئی کجی اور کوئی غموض نہیں ہے، ان لوگوں کو بھی قطعی طور پر منصب امامت سے محروم کر دیتا ہے جو اپنے آپ کومسلمان کہلاتے ہیں، انہوں نے بھی ظلم کا ارتکاب کیا ہے، فسق و فجور میں مبتلا ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے دور بھٹک گئے ہیں۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی شریعت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ وہ دعویٰ تو اسلام کا کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے اپنی پوری زندگی سے اللہ تعالیٰ کی شریعت اور ان کے نظام حیات کو باہر نکال دیا ہے۔ ان لوگوں کا دعوائے اسلام محض جھوٹا دعویٰ ہے، جو دراصل اللہ کے ساتھ کئے ہوئے عہد کی اساس محکم پر استوار نہیں ہے۔

اسلامی تصور حیات ان تمام رشتوں اور تعلقات کی جڑ کاٹ دیتا ہے جو کسی فکر و نظر یا وحدت عمل کی اساس پر قائم نہیں ہوتے۔ وہ صرف ایسے رشتوں اور تعلقات کو تسلیم کرتا ہے جو وحدت نظریہ اور عمل کی اساس پر قائم ہوں۔ اس کے علاوہ جو رابط بھی ہوں اسلام کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں ہے بلکہ اسلام ایک ہی امت کی ان دونسلوں میں بھی تفریق کر دیتا ہے جب کہ ایک نسل اپنے عقیدے اور نظریہ میں دوسری کی مخالفت ہو جائے۔ بلکہ اگر عقیدے کا تعلق ٹوٹ جائے تواسلام باپ بیٹے اور میاں بیوی کے درمیان بھی جدائی کر دیتا ہے۔ غرض حالت شرک کی عرب دنیا اور حالت اسلام کی عرب دنیا میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ان دونوں کے درمیان اسلامی نقطۂ نظر سے کوئیک تعلق نہیں، کوئی ربط اور کوئی رشتہ نہیں ہے۔ اہل کتاب میں سے جو لوگ ایمان لائے وہ ایک امت ہیں اور جن لوگوں نے حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام کے دین کو ترک کیا اور ایک دوسری امت ہیں۔ ان دونوں کے درمیان بھی کوئی تعلق، کوئی ربط اور کوئی رشتہ نہیں ہے۔ یہاں خاندان کی تشکیل باپ دادا پوتوں کے تعلق سے نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے وہ لوگ افراد خاندان ہوتے ہیں جو ایک عقیدے اور نظرئیے پر جمع ہو جائیں۔

اسلامی نقطۂ نظر سے کسی امت کی تشکیل بھی نسلی بنیادوں پر نہیں ہوتی بلکہ امت کی تشکیل اہل ایمان سے ہوتی ہے۔ خواہ ان کے رنگ، ان کی نسل اور ان کے وطن مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ غرض یہ ہے اسلامی تصور حیات جس کے چشمے کتاب الٰہی کے اس ربانی انداز سے پھوٹتے ہیں۔

 

"اور یہ کہ ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرکز اور امن کی جگہ قرار دیا تھا اور لوگوں کو حکم دیا تھا کہ ابراہیم علیہ السلام جہاں عبادت کے لئے کھڑا ہوتا ہے اس مقام کو مستقل جائے نماز بنا لو اور ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام کو تاکید کی تھی کہ میرے اس گھر کو طواف اور اعتکاف اور رکوع اور سجدہ کرنے والوں کے لئے پاک رکھو۔ ” (١٢٥)

 

یہی گھر ہے اللہ کا آج جس کا مجاور اہل قریش، اہل ایمان کو خوفزدہ کر رہے ہیں، انہیں طرح طرح کی اذیتیں دے رہے ہیں، انہوں نے محض دین و ایمان کے جرم میں ان پر طرح طرح کے مصائب ڈھائے، یہاں تک کہ وہ اس گھر کے پڑوس اور اس کی برکات کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، حالانکہ اس گھر کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہ تھا کہ یہ مرکز عوام ہو گا اور تمام لوگ ہر طرف سے اس کا رخ کریں گے۔ یہاں انہیں کوئی خوفزدہ کرنے والا نہ ہو گا۔ یہاں انہیں روحانی اور جسمانی امن و طمانیت حاصل ہو گی۔ کیونکہ یہ گھر بذات خود مجسمہ امن منبع طمانیت اور جائے سلامت ہے۔

لوگوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقام عبادت یعنی خانہ کعبہ کو (مقام ابراہیم علیہ السلام سے میری رائے اور ترجیح کے مطابق پورا خانہ کعبہ مراد ہے )جائے نماز اور مقام عبادت قرار دیں۔ ۔ اس لئے یہ بات اب بالکل منطقی ہے کہ یہی گھر اہل اسلام کا بھی قبلہ ہو۔ اور اس پر کسی کا کوئی اعتراض جائز نہیں ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہی مناسب قبلہ ہے کیونکہ ایمان اور توحید کی نسبت سے صرف مسلمان ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہیں اور اس کے وارث ہیں۔ اور خانہ کعبہ صرف اللہ کا گھر ہے۔ کسی انسان کا گھر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ جو اس کا مالک ہے، اس نے اپنے نیک بندوں میں سے دو حضرات حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہ فریضہ سپرد کیا تھا، کہ وہ اسے ان لوگوں کے لئے پاک وصاف اور تیار رکھیں جو یہاں رکوع وسجود کی غرض سے آئیں گے یا جو لوگ مقام امن کی تلاش میں یہاں پناہ لیں گے، یا حج و زیارت کی غرض سے یہاں آئیں گے۔ یا وہ لوگ جو یہاں مقیم ہیں اور اس گھر میں اعتکاف کرتے ہیں یا جو باہر سے بغرض عبادت پہنچتے ہیں، یہاں تک کہ یہ گھر خود حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کی ملکیت بھی نہ تھا۔ تاکہ موروثی طور پر یہ حقوق قریش کو حاصل ہو جاتے۔ قریش تو محض اللہ تعالیٰ کے اذن اور حکم سے اس کے مجاور اور خادم مقرر ہوئے تھے کہ وہ اسے یہاں آنے والے اہل ایمان کے لئے تیار رکھیں۔

 

"اور یہ کہ ابراہیم علیہ السلام نے کہا!اے میرے رب، اس شہر کو امن کا شہر بنا اور اس کے باشندوں میں جو اللہ اور آخرت کو مانیں، انہیں ہرقسم کے پھلوں کا رزق دے۔ جواب میں اس کے رب نے فرمایا!”اور جو نہ مانے گا دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تومیں اسے بھی دوں گا مگر آخر کار اسے جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔” (١٢٦)

 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا ایک بار پھر اس بات کی تائید کرتی ہے کہ اللہ کا یہ گھر بیت الامن ہے۔ اور ایک بار پھر یہاں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ اسلام میں وراثت و نیابت کا مدار اخلاقی فضیلت اور نیکی پر ہے۔ اس سے پہلی آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جو ہدایت دی گئی تھی کہ لا يَنَالُ عَہْدِي الظَّالِمِينَ”میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔ ”

تو اس سے حضرت ابراہیم علیہ السلام خوب سمجھ گئے کہ دریں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست اس لئے ابراہیم علیہ السلام نے دعائے رزق میں مَنْ آمَنَ مِنْہُمْ، جو اللہ اور آخرت کو مانیں، کہہ کر از خود غلط لوگوں کو مستثنیٰ کر دیا تھا۔ اس لئے کہ وہ سنت الٰہی اور منشائے الٰہی کو خوب سمجھ گئے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نہایت ہی حلیم الطبع اور خدا ترس پیغمبر تھے۔ وہ نہایت ہی یکسو اور راہ مستقیم پر گامزن رہنے والے تھے۔ وہ فوراً وہ طرز عمل اختیار کر لیتے تھے جس کا انہیں حکم دیا جاتا تھا۔ اور آپ دعا ودرخواست میں بھی منشائے الٰہی کو ملحوظ رکھتے تھے۔ تو اس مقام پر اللہ تعالیٰ ان کی دعا کا جواب یوں دیتے ہیں کہ جن لوگوں کے بارے میں آپ خاموش ہو گئے تھے۔ یعنی اہل کفر اور اہل جہنم ان کے بارے میں بھی کہہ دیا جاتا ہے قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَأُمَتِّعُہُ قَلِيلا ثُمَّ أَضْطَرُّہُ إِلَى عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ ” اور جس نے کفر اختیار کیا تو دنیا کی چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے بھی دوں گا مگر آخرکار اسے عذاب جہنم کی طرف گھسیٹوں گا اور وہ بدترین ٹھکانہ ہے۔ ”

 

"اور یاد کرو ابراہیم علیہ السلام جب اس گھر کی دیواریں اٹھا رہے تھے، تو یہ دعا کرتے جاتے تھے !”اے ہمارے رب !ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے توسب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم(مطیع فرمان)بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے در گزر فرما، تو بڑا معاف کرنے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ اور اے رب!ان لوگوں میں خود ان کی قوم سے ایک رسول اٹھائیو، جو انہیں تیری آیات سنائے۔ "ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیاں سنوار دے۔ تو بڑا مقتدر اور حکیم ہے۔ ” (آیات ١٢٧۔١٢٩)

 

ذرا انداز کلام ملاحظہ ہو!کلام کا آغاز حکایتی ہے۔ ایک قصے کا آغاز یوں ہوتا ہے۔ وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاہِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ”اور یاد کرو جب ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام اس گھر کی بنیادیں اٹھا رہے تھے۔ ”

اب قاری انتظار میں ہے کہ یہ حکایت آگے بڑھے گی، لیکن اچانک ہمارے تصور کے اسکرین پر ایسا منظر آتا ہے کہ گویا حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل اس پر سامنے آتے ہیں۔ محسوس ہوتا ہے کہ گویا تصور نہیں بلکہ ہم اپنی آنکھوں سے ان حضرات کو دیکھ رہے ہیں۔ وہ ہمارے سامنے حاضر ہیں اور قریب ہے کہ ہم ان حضرات کی یہ رقت آمیز دعا اپنے کانوں سے سن لیں۔

 

"اے ہمارے رب، ہم سے یہ خدمت قبول فرما لے تو سب کی سننے اور سب کچھ جاننے والا ہے، اے رب، ہم دونوں کو اپنا مسلم بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا، جو تیری مسلم ہو، ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، تو بڑا درگزر فرمانے والا، رحم فرمانے والا ہے۔ "(١٢٧۔١٢٨)

 

زمزمہ دعا، نغمہ التجا اور طلب مدعا کی یہ عجیب فضا بالکل آنکھوں کے سامنے ہے، گویا یہ سب کچھ اسی وقت ہو رہا ہے۔ ایک زندہ اور متحرک منظر سامنے ہے جس کے کردار مشخص کھڑے ہیں۔ حسین و جمیل تعبیر اور انداز گفتگو قرآن مجید کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت ہے۔ قرآن مجید ازمنہ سابقہ کے کسی بھی منظر کو اسی طرح بیان کرتا ہے کہ وہ بالکل اسکرین پر چلتا ہوا نظر آتا ہے۔ زندگی سے بھرپور، متحرک اور شخصی تصویر کشی اور منظر نگاری کی یہ ایسی خصوصیت ہے جو اللہ کی اس دائمی کتاب ہی کو زیب دیتی ہے اور ہے بھی معجزانہ۔

اور اس دعا کے اندر کیا ہے ؟نبوت کی نیاز مندانہ ادا، نبوت کا پختہ یقین اور اس کائنات میں نظریہ اور عقیدے کا پیغمبرانہ شعور۔ یہی ادا اور یقین اور یہی شعور اللہ تعالیٰ وارثان انبیاء کو سکھانا چاہتے ہیں۔ قرآن مجید کی یہ کوشش ہے کہ اس القاء کے ذریعہ یہ شعور وارثان انبیاء کے دل و دماغ میں عمیق تر ہو جائے۔

رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (١٢٧)”اے ہمارے رب، قبول فرما، بے شک آپ ہی سننے والے ہیں اور جاننے والے ہیں۔ "یہ دعائے اجابت ہے۔ اور یہی منتہائے مراد ہے۔ اس لئے کہ یہ عمل خالص اللہ کے لئے ہے۔ خشوع اور خضوع کے ساتھ۔ ا س کے ذریعہ وہ دونوں اللہ کی جانب متوجہ ہوں۔ اور اس سب کاروائی اور عمل کے پیچھے صرف رضائے الٰہی اور مقبولیت دعا کا جذبہ کار فرما ہے۔ اور امید کی کرن یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر پکارنے والے کی پکار سنتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس پکار کے پیچھے جو جذبہ کارفرما ہوتا ہے اور پکارنے والے کا جو شعور ہوتا ہے وہ اس کے علم میں ہوتا ہے۔

رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ”اے ہمارے رب ہم دونوں کو اپنا مطیع فرمان بنا، ہماری نسل سے ایک ایسی قوم اٹھا جو تیری مطیع ہو۔ ہمیں اپنی عبادت کے طریقے بتا، اور ہماری کوتاہیوں سے درگزر فرما، بے شک تو بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے۔ ”

یہ اس معاونت کی امید ہے جو یہ دونوں اسلام کی طرف ہدایت پانے کے سلسلے میں اللہ سے رکھتے ہیں۔ ان کے دلوں میں یہ پختہ شعور تھا کہ ان کے دل اللہ تعالیٰ کی انگلیوں میں ہیں، یہ کہ ہدایت صرف اس کی ہدایت ہے، اس کی معاونت و توفیق کے بغیر کوئی نہیں جو ہدایت پا سکے۔ اس لئے وہ دونوں ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ اور اس کی طرف راغب اور مائل ہیں اور اللہ تو بہترین مددگار ہے۔

امت مسلمہ کا یہ مزاج کہ وہ باہم معاون و مددگار ہوتی ہے۔ اس کے افراد نسلاً بعد نسل نظریاتی طور پر باہم پیوست ہوتے ہیں، اس لئے دعا کی جاتی ہے وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّۃً مُسْلِمَۃً لَكَ”اور ہماری نسل سے بھی تیری مسلم امت پیدا ہو۔ ”

یہ ایک ایسی دعا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل مومن کی پہلی تمنا کیا ہوتی ہے۔ عقیدہ اور نظریہ ہی ایک مومن کا محبوب، مشغلہ ہوتا ہے۔ وہ اس کی پہلی ترجیح ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے سامنے اس دولت کی اہمیت واضح تھی جو انہیں دی گئی تھی یعنی دولت ایمان اور ثروت عقیدہ۔ یہ اہمیت اور خواہش انہیں مجبور کرتی ہے کہ وہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اس دولت کے بارے میں التجا کریں۔ اس لئے وہ اپنے رب سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ان کی اولاد کو بھی اس دولت ثروت سے محروم نہ رکھیں جس کی قدر و قیمت کے برابر کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ اس سے قبل انہوں نے دعا کی تھی کہ وہ ان کی اولاد کو وسائل رزق فراوانی سے دیں۔ اس لئے انہوں نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ ان کی اولاد دولت ایمان سے محروم نہ ہو۔ انہوں نے یہ بھی دعا کی کہ وہ ان کی اولاد کو تعلیم مناسک بھی دے۔ ان کو طریقۂ عبادت بھی سکھائے، ان کی مغفرت کرنے والا غفور الرحیم ہے۔

اس کے بعد وہ مزید التجا کرتے ہیں کہ ازمنہ بعیدہ میں بھی وہ ان کی ہدایت کے لئے مستقل بندوبست فرمائیں۔

وَابْعَثْ فِيہِمْ رَسُولا مِنْہُمْ يَتْلُو عَلَيْہِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَۃَ وَيُزَكِّيہِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (١٢٩)”اے اللہ !ان لوگوں میں خود انہی کی قوم سے ایک رسول مبعوث فرما جو تیری آیات تلاوت کرے، ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو پاک کر دے۔ بے شک تو غالب و حکیم ہے۔ ”

حضرت ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی اس دعا کی قبولیت کے نتیجے میں اب اس رسول کریم کی بعثت ہوئی اور کئی صدیاں گزرنے کے بعد، اور آپ کی بعثت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہوئی جواب انہیں آیات سناتے ہیں۔ انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں اور انہیں ہر قسم کی گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک کرتے ہیں۔ اللہ کے ہاں مخلصانہ دعا ہمیشہ قبول ہوتی ہے لیکن وہ اپنے اس وقت میں ظاہر ہوتی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی حکمت نے اس کے لئے مقرر کر دیا ہوتا ہے۔ عام لوگوں کی عادت یہ ہے کہ وہ جلد بازی کرتے ہیں اور جو لوگ منزل مراد نہیں پاتے وہ مایوس و پریشان ہوتے ہیں۔

سورۂ بقرہ کی اس دعا کے نزول کے وقت مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک ہمہ گیر کشمکش جاری تھی، ان حالات میں اس دعا کے اندر بعض اشارات بھی پنہاں ہیں اور اس کی خاص اہمیت ہے۔ یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام جن کو اس گھر کی تعمیر و تطہیر اور عبادت گزاروں، زیارت کنندگان اور وہاں ٹھہرنے والوں کے سہولیات فراہم کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ وہ دونوں موجودہ مجاورین یعنی قریش کے آباء اجداد جن کے ہاتھ میں آج خانہ کعبہ کا انتظام ہے۔ اور ان کا واضح فرمان ہے۔ "ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا”اور "ہماری اولاد سے بھی ایک امت مسلمہ اٹھا”جس طرح انہوں نے یہ بھی کہا "اے ہمارے رب ان میں خود ان سے ایک رسول مبعوث فرما، جو انہیں آیات پڑھ کر سنائے، انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کی زندگیوں کو پاکیزہ بنا دے۔ "گویا حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی اپنی اس دعا سے اس بات کا تقرر کرتے ہیں کہ امت مسلمہ حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کی جانشین و خلیفہ ہے۔ اور اس بات کی حق دار ہے کہ اب خانہ کعبہ کا انتظام اس کے ہاتھ میں ہو۔ گویا خانہ کعبہ امت مسلمہ کا مرکز ہے۔ اور مشرکین کے مقابلہ میں یہ امت اس خانہ خدا کے انتظام و انصرام کی زیادہ حق دار ہے اور یہ کہ یہود و نصاریٰ کے مقابلے میں اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ امتِ مسلمہ کا اپنا قبلہ ہو۔

جو لوگ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں اور اپنے دین کا جوڑ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ملاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ملت ابراہیمی کے وارث و جانشین ہیں اور قریش کے جو لوگ اپنا نسب نامہ حضرت اسماعیل سے ملاتے ہیں انہیں کان کھول کر سن لینا چاہئے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی اولاد کی نسبت اس جانشینی اور امامت وسلطنت کا سوال کیا تھا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب یہ تھا۔

لا يَنَالُ عَہْدِي الظَّالِمِينَ

"میرا وعدہ ظالموں کی بابت نہیں ہے۔ ”

اور اس کے بعد جب ابراہیم علیہ السلام نے اہل مکہ کے لئے برکت و فراوانی رزق کی استدعا کی تو آپ نے فرمایا مَنْ آمَنَ مِنْہُمْ بِاللَّہِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ”جو اللہ اور آخرت پر ایمان لے آئے۔ ”

اور یہ کہ جب یہ حضرات تعمیر کعبہ کے لئے اٹھے تو انہوں نے یہ دعا کی کہ اے رب !ہمیں اپنا مطیع فرمان بنا اور یہ کہ ہماری اولاد میں سے ایک امت مسلمہ اٹھاتے رہیو!اور یہ کہ ہماری اولاد میں سے نبی آخر الزمان کو مبعوث فرمائیے۔ تو اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کی دعاؤں کو قبول فرمایا اور حضرت محمد بن عبداللہ کو مبعوث فرمایا اور ان کے ذریعہ امت مسلمہ کو ازسر نو قائم فرمایا اور اس نظریاتی وراثت کو یوں جاری فرما دیا۔

قصہ ابراہیم علیہ السلام کے اختتام پر اب روئے سخن ان لوگوں کی طرف مڑ جاتا ہے جو لوگ امت مسلمہ کے حق امامت و برتری کو چیلنج کر رہے تھے، جو رسول اللہﷺ کی نبوت اور رسالت سے برسرپیکار تھے اور رسول اللہﷺ سے اس موضوع پر بحث و جدال میں مبتلا تھے کہ دین اسلام کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ اصل دین کیا ہے اور ان کے مزعومات کیا ہیں اس لئے قرآن مجید ان لوگوں کے بارے میں یہ تاثر دیتا ہے۔

 

"اور کون ہے جو ابراہیم کے طریقے سے نفرت کرے ؟جس نے خود کو اپنے آپ کو حماقت و جہالت میں مبتلا کر لیا ہو، اس کے سوا کون یہ حرکت کرسکتا ہے ؟ابراہیم تو وہ شخص ہے جو کو ہم نے دنیا میں اپنے کام کے لئے چن لیا تھا اور آخرت میں اس کا شمار صالحین میں ہو گا۔ اس کا حال یہ تھا کہ جب اس کے رب نے اس سے کہا مسلم ہو جا تو اس نے فوراً کہا "میں مالک کائنات کا مسلم ہو گیا”اسی طریقے پر چلنے کی ہدایت اس نے اپنی اولاد کو کی تھی اور اسی کی وصیت یعقوب اپنی اولاد کو کر گیا۔ اس نے کہا تھا”میرے بچو اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے۔ لہٰذا مرتے دم تک مسلم رہنا۔ ” (١٣٠۔١٣٢)

 

یہ ہے ملت ابراہیم علیہ السلام، یعنی خالص اور واضح اسلام اور فرمان برداری۔ اور اس سے کنارہ کش صرف وہی ہو گا جو اپنے اوپر ظلم کرے گا۔ اس سے دور وہی ہو گا جو دراصل احمق ہو گا۔ اور اپنے آپ کو برباد کرنے والا ہو گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام جسے رب ذوالجلال نے دنیا کی امت کے لئے چنا اور جن کے بارے میں اللہ نے گواہی دی کہ وہ آخر ت میں صالحین میں سے ہوں گے۔ انہوں نے اس دین کو پسند کیا ہے۔ جب ان سے ان کے رب نے کہا "مسلم ہو جا”تو انہوں نے بغیر ہچکچاہٹ کے اور بغیر کسی تردد اور انحراف کے فوراً سر تسلیم خم کر دیا اور فوراً کہا قَالَ اَسلَمتُ لِرَبِّ العَالَمِینَ "میں رب العالمین کا فرماں بردار ہو گیا ہوں۔ ”

یہ ہے ملت ابراہیمی، خالص اسلام اور واضح دین۔ ابراہیم علیہ السلام نے اسے صرف اپنی ذات تک محدود نہیں چھوڑا بلکہ اسے اپنی اولاد کے لئے بھی پسند کیا۔

اپنی اولاد کو وصیت کی کہ وہ اسے اپنائے رکھیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو اس کی وصیت کی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی اپنی اولاد کو اس کی وصیت کی اور یاد رہے کہ حضرت یعقوب ہی وہ اسرائیل ہیں جن کی طرف یہ لوگ اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ لیکن ا س کی وصیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ اپنے جد امجد کی وصیت کی تسلیم نہیں کرتے۔ حالانکہ حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب علیہما السلام دونوں نے اپنی اولاد کو یہ یاد دہانی کرائی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اس دین کو پسند کیا ہے۔ یٰبَنَیَّ اِنَّ اللہَ اصطَفٰی لَکُمُ الدِّینَ "میرے بچو !اللہ نے تمہارے لئے یہی دین پسند کیا ہے۔ ”

یہ اللہ کی پسند ہے لہٰذا اللہ کی پسند کے بعد اب ان کے لئے اس کے سوا کوئی راہ نہیں ہے کہ وہ اسے پسند کریں اور اللہ کے اس فضل و کرم اور خصوصی عنایت کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس پسند اور اس کی عطا پر اس کا بے حد شکر ادا کریں اور ہر وقت یہ سعی کرتے رہیں کہ کسی دور اور کسی زمانے میں بھی اللہ تعالیٰ کی یہ سرزمین امت مسلمہ سے خالی نہ ہو اور اس زمین پر اللہ پرستی کی یہ تحریک ہر وقت جاری وساری رہے فَلَا تَمُوتُنَّ اِلَّا وَاَنتُم مُسلِمُونَ”تم صرف اس حال میں مرو کہ تم مسلم ہو۔ ”

…….. ……..

 

یہ تھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وصیت جو انہوں نے اپنی اولاد کو کی تھی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کی تھی۔ اور یہ وصیت حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی زندگی کے آخری لمحات اور سکرات الموت میں بھی وہ اسے بھلا نہ سکے۔ بنی اسرائیل کو چاہئے کہ وہ اس پر خوب غور کریں۔

 

"پھر کیا تم اس وقت موجود تھے جب یعقوب اس دنیا سے رخصت ہو رہا تھا اور اس نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا بچو میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ان سب نے جواب دیا !ہم اس اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ کے بزرگوں ابراہیم علیہ السلام اسماعیل علیہ السلام اور اسحاق علیہ السلام نے اللہ مانا ہے اور ہم اس کے مسلم ہیں۔ ” (١٣٣)

سکرات الموت کے وقت حضرت یعقوب علیہ السلام اور آپ کے بیٹوں کا یہ منظر ایک عظیم منظر ہے۔ یہ منظر ایک نہایت ہی نصیحت آموز، سبق آموز اور پر تاثیر منظر ہے ایک شخص موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہے اور ان لمحات میں اس کے دل و دماغ پر کیا چھایا ہوا ہے ؟وہ کیا دلچسپی ہے جس میں اس کا دل و دماغ مشغول ہے حالانکہ وہ زندگی کے آخری لمحات میں ہے۔ اس وقت وہ کس عظیم الشان معاملے میں بات کر کے اس کے بارے میں اطمینان حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کے لئے کیا ترکہ چھوڑ رہے ہیں اور تاکید کرتے ہیں کہ وہ اس ترکہ کی آخر دم تک حفاظت کریں اور وہ آخری ہچکیوں میں اسے اولاد کے حوالے کر رہے ہیں اور اس پر بڑی تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ یہ ترکہ نظریۂ حیات اور عقیدے کا ترکہ ہے۔ یہی وہ دولت ہے جسے وہ بیٹوں کے حوالے کرتے ہیں اور یہی وہ اہم مسئلہ ہے جس میں وہ بے حد دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ ہے وہ عظیم الشان مسئلہ جس میں وہ بے حد دلچسپی لے رہے ہیں۔ یہ ہے وہ عظیم الشان معاملہ جو آخری لمحات میں بھی انہیں یاد ہے مَا تَعبُدُونَ مِن بِعدِی تم میرے بعد کس کی بندگی کرو گے۔ ”

یہ ہے وہ عظیم معاملہ جس کے لئے تمہیں بلایا ہے۔ اور اس اہم معاملے میں، میں چاہتا ہوں کہ تم اسے اطمینان حاصل کر لوں۔ یہ میری دولت ہے، میرا ترکہ ہے اور وہ اہم امانت ہے جو میں تمہارے سپرد کر رہا ہوں قَالُوا نَعْبُدُ إِلَہَكَ وَإِلَہَ آبَائِكَ إِبْرَاہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ إِلَہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ”ان سب نے کہا!ہم اس ایک اللہ کی بندگی کریں گے جسے آپ نے، آپ کے بزرگوں ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام نے اللہ مانا۔ اور ہم اس کے مسلم ہیں۔ ”

یوں وہ اپنے دین کو دین کو پہچان لیتے ہیں۔ اسے یاد کر لیتے ہیں۔ اس ورثے کو وہ قبول کرتے ہیں۔ اور اس کی حفاظت کا مصمم ارادہ کر لیتے ہیں اور یوں وہ اپنے والد محترم کو مطمئن کر دیتے ہیں جو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نے آخر تم تک ہمیشہ اس وصیت کا خیال رکھا اور وہ ہمیشہ اس بات کے معترف رہے کہ وہ مسلم ہیں۔ اس موقع پر قرآن مجید بنی اسرائیل سے یہ سوال کرتا ہے۔ أَمْ كُنْتُمْ شُہَدَاء َ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ

"کیا تم موجود تھے جب حضرت یعقوب علیہ السلام کے سامنے موت آ گئی۔ ”

ہاں یہ واقعہ ہوا تھا، قرآن مجید اس کی گواہی دیتا ہے، اس کی تائید کرتا ہے۔ یوں قرآن مجید ان لوگوں کے مکر و فریب کا پردہ چاک کر دیتا ہے اور یہ فیصلہ کر دیتا ہے کہ بنی اسرائیل کا اب اپنے جد امجد اسرائیل کے ساتھ کوئی نظریاتی یا روحانی تعلق نہیں ہے۔

…….. ……..

 

"اس بیان کی روشنی میں وہ فرق و امتیاز کھل کر سامنے آ جاتا ہے جو دور رفتہ کی امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کے مزاحم بنی اسرائیل کے درمیان پایا جاتا ہے۔ اس لئے کہ دور رفتہ کی اس امت مسلمہ اور اب کے نام نہاد جانشینوں کے درمیان کوئی تعلق کوئی وراثت اور کوئی روحانی وراثت کا تعلق نہیں ہے۔ ”

 

"وہ کچھ لوگ تھے جو گزر گئے۔ جو کچھ انہوں نے کمایا، وہ ان کے لئے ہے اور جو کچھ تم کماؤ گے وہ تمہارے لئے ہے۔ تم سے یہ نہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے۔ ” (١٣٤)

 

ہر شخص اپنا حساب خود دے گا۔ ہر ایک کا اپنا راستہ ہے، ہر ایک کا ایک عنوان ہے اور ہر کسی کی اپنی خصوصیات ہیں۔ وہ ایک مومن جماعت تھی جس کا بعد میں آنے والے اس کے فاسق جانشینوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بعد میں آنے والے نا خلف اور نالائقوں کا ان پاک بازوں سے کیا واسطہ؟ وہ ایک علیحدہ جماعت تھے اور یہ ایک علیحدہ جماعت ہیں۔ ان کا جھنڈا علیحدہ تھا اور ان کا جھنڈا جدا ہے۔ ان کا تصور حیات ایک ایمانی تصور حیات تھا اور ان نالائقوں کا تصور حیات بالکل جاہل تصور ہے۔ جاہلی تصور حیات میں ایک جماعت اور دوسری جماعت اور ایک دور ایک دوسرے دور میں فرق نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کے تصور کے مطابق اگر دو معاشروں کے درمیان اگر خون اور نسب کا اتحاد ہے تو گویا دونوں معاشرے ایک ہی ہیں لیکن ایمانی تصور حیات میں ایک مومن معاشرے اور ایک فاسق معاشرے کے درمیان امتیاز ہوتا ہے۔ ان کے درمیان کوئی رشتہ داری نہیں ہوتی۔ کوئی تعلق نہیں ہوتا اور نہ یہ دونوں معاشرے ایک امت بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ دونوں علیحدہ امتیں ہیں۔ اس لئے مومنین کی اقدار حیات کے مطابق بھی یہ دونوں مختلف اور متضاد ہیں۔ اسلامی تصور حیات کے مطابق ایک امت صرف وہ ہوتی ہے، جو صرف ایک نظریۂ حیات اور عقیدہ پر ایمان رکھتی ہو، چاہے جسمانی تعلق کے لحاظ اور رنگ نسل کے اعتبار سے اس کا تعلق مختلف علاقوں سے ہو۔ اسلامی جماعت کا تعلق کسی زمین کسی علاقے یا کسی رنگ ونسل سے نہیں ہوتا، یہ وہ تصور حیات ہے جو شرف انسایت کے زیادہ مناسب ہے۔ جس کی اساس بلند اور عالم بالا کی روحانیت پر ہے اور اس کی بنیاد خاکی اور سفلی تعلقات پر نہیں ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور کے تاریخی واقعات کے اس تفصیلی بیان کے ضمن میں مسلمانوں کے بیت الحرام اور کعبہ کی تاریخ کے بیان کے ضمن میں اور اسلامی نظام زندگی کی حقیقت اور موروثی تصورات کی حقیقت کے بیان کے ضمن میں، اب قرآن کریم معاصر اہل کتاب کے بوگس دعووں کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور ان کے غلط۔ خیالات، بے بنیاد دلائل اور غیر معقول مباحث کی تردید کرتا ہے، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے سب تصورات دلائل کے اعتبار سے اور بحث و جدال کے میدان میں پائے چوبین ہیں۔ اور محض ضد، عناد پر مبنی ہیں اور ان کے ان مزعومات کے حق میں ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔ یوں قرآن مجید یہ ثابت کرتا ہے کہ اسلامی نظریات و عقائد دراصل معقول اور فطری عقائد ہیں۔ اور ان سے انحراف صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو صرف ضدی اور معاند ہو۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

 

"یہودی کہتے ہیں !یہودی ہو جاؤ ہدایت پاؤ گے، عیسائی کہتے ہیں عیسائی ہو جاؤ تو ہدایت پاؤ گے۔ ان سے کہو، نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ……..اور ابراہیم علیہ السلام مشرکوں میں سے نہ تھا۔ کہو ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نال ہوئی ہے اور جو ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب علیہم السلام کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم لائے تو ہدایت پر ہیں اور اگر وہ اس سے منہ پھیریں تو، کھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں۔ لہٰذا اطمینان رکھو کہ ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لئے کافی ہے وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔ کہو اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کوئی رنگ نہ ہو گا؟اور ہم اس کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں۔ اے نبی ان سے کہو!کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں، تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، اور ہم اللہ کے لئے اپنی بندگی کو خالص کر چکے ہیں یا پھر تمہارا کہنا یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام و یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب علیہم السلام سب یہودی یا نصرانی تھے ؟کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ ؟اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس کے ذمے اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے ؟تمہاری حرکات سے اللہ غافل تو نہیں ہے وہ کچھ لوگ تھے جو گزر چکے۔ ان کی کمائی ان کے لئے تھی اور تمہاری تمہارے لئے۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہو گا۔ ” (١٣٥ ۔ ١٤١)

 

یہودیوں کا کہنا یہ تھا کہ تم یہودیت اختیار کر لو تو راہ ہدایت پالو گے اور عیسائیوں کا کہنا یہ تھا کہ عیسائی بن جاؤ تو ہدایت پالو گے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں ان دونوں دعووں کو جمع کر کے رسول اکرمﷺ کو بتایا کہ وہ ان الفاظ میں ان کے باطل دعووں کی تردید فرما دیں قُلْ بَلْ مِلَّۃَ إِبْرَاہِيمَ حَنِيفاً وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ”کہو ملتِ ابراہیم علیہ السلام راہ ہدایت ہے جو مشرکین میں سے نہ تھے۔ ”

رسول اکرمﷺ کوسمجھایا گیا کہ آپ ان سے کہہ دیں، آئیے ہم اور آپ سب اپنے اصل کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ یعنی ملت ابراہیمی کی طرف جو ہمارے بھی باپ ہیں اور آپ کے بھی جد امجد ہیں اور اسلام کا منبع اور سرچشمہ ہیں اور ان کے رب نے ان کے ساتھ جو عہد کیا ہوا تھا وہ مشرک نہ تھے، جبکہ آپ لوگ شرک میں مبتلا ہو گئے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس عظیم دینی وحدت اور دینی اتحاد کے اعلان کا حکم دیتے ہیں، جو دین ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جاری رہا اور جس کی آخری کڑی اب اسلام ہے۔ اہل کتاب کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ اس متحدہ اور مسلمہ دین پر ایمان لائیں "کہو ہم ایمان لائے ہیں اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے تمام پیغمبروں کو ان کے رب کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ ” (١٣٦)

یہ سب ملتوں کا اتحاد ہے۔ سب رسولوں کے درمیان وحدت ہے اور یہ اسلامی تصور حیات کی اساس ہے۔ اور یہی وہ فکر ہے جو امت مسلمہ کو ایک ایسی ملت بنا دیتی ہے جو اس زمین پر اس نظریہ کی واحد حامل اور وارث ہے جو نظریہ اللہ کے دین پر مبنی ہے۔ اور جس کی جڑ اصل ابراہیمی سے مربوط ہے اور جس کی وجہ سے ……..یہ امت انسانی تاریخ میں ہدایت اور روشنی کی علمبردار ہے۔ اور یہی تصور حیات ہے جو اسلامی نظام ِ زندگی کو ایک حقیقی عالمی نظام بنا دیتا ہے جس میں کوئی تعصب نہیں ہے۔ اور کوئی ظلم واستحصال نہیں ہے اور جس کے نتیجے میں اسلامی معاشرہ Open Societyمعاشرہ قرار پاتا ہے جس کے دروازے تمام انسانوں کے لئے وا ہیں۔ اور ان افراد معاشرہ کے درمیان باہم مکمل انس و محبت پائی جاتی ہے۔

اس لئے یہاں دوران کلام ایک فیصلہ کن بات بتا دی جاتی ہے اور مسلمانوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ اس بات پر ڈٹ جائیں۔ وہ یہ کہ یہی عقیدہ اور یہی تصور حیات راہ ہدایت ہے۔ جس نے اس تصور حیات اور اس راہ کو اپنا لیا تو گویا اس نے منزل مراد کو پا لیا۔ اور جو شخص اس حقیقت سے منہ موڑ لے گا تو وہ کبھی بھی ثابت قدمی سے کسی مقام پر ٹک نہ سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم تمام ایسے فرقوں سے اختلاف کرتا ہے جو ثابت قدمی سے کسی اصولی موقف پر قائم نہ ہوں۔ قرآن کہتا ہے فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِہِ فَقَدِ اہْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا ہُمْ فِي شِقَاقٍ پھر اگر وہ اسی طرح ایمان لائیں جیسے تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں اور اگر اس سے منہ پھیریں توکھلی بات ہے کہ وہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں۔

یہ کلمات الٰہی ہیں اور یہ خود اللہ تعالیٰ کی جانب سے شہادت ہے۔ یوں قلب مومن کو ایک گونہ احساس عزت دلایا جا رہا ہے کہ وہ جس موقف کو اختیار کئے ہوئے ہیں وہ قابل فخر بات ہے۔ کیونکہ ان کو لوگوں کے لئے ایک معیار اور ایک ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ اور یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ ان لوگوں کا ایمان ایسا ہونا چاہئے جس طرح کا ایمان تمہارا ہے ورنہ وہ منکر حق، دشمنان دین اور ہٹ دھرم قرار پائیں گے اور کوئی مومن گمراہوں اور کافروں کا دوست نہیں ہوسکتا۔ نہ اسے ایسے لوگوں کے ساتھ کسی مناقشہ کی ضرورت ہے۔ نہ اسے ان کے خلاف کسی سازش یا چالبازی کی ضرورت ہے نہ ان کے ساتھ جنگ و جدال اور مقابلہ و معارضہ کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اہل اسلام کی جانب سے از خود ان کے مقابلے کے لئے کافی ہے۔ وہ خود ان سے نمٹ لے گا۔ فَسَيَكْفِيكَہُمُ اللَّہُ وَہُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ”ان کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لئے کافی ہے وہ سننے اور جاننے والا ہے۔ ”

ایک مومن کی ڈیوٹی صرف یہ ہے کہ وہ اپنی راہ پر سیدھا چلتا رہے۔ اور وہ اس حق کو مضبوطی سے تھام لے جو اس نے براہ راست اللہ تعالیٰ سے پایا ہے۔ وہ اس رنگ میں رنگا ہے جو اللہ کے دوستوں کا رنگ ہوتا ہے اور وہ دنیا میں اپنے اس مخصوص رنگ سے پہچانے جاتے ہیں صِبْغَۃَ اللَّہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّہِ صِبْغَۃً وَنَحْنُ لَہُ عَابِدُونَ

"اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس کے رنگ سے اچھا کوئی رنگ نہیں ہے اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے ہیں۔ ”

اور اللہ کا یہ رنگ اللہ تعالیٰ کا وہ آخری پیغام ہے جو اس نے عالم بشریت کو دیا ہے۔ تاکہ اس رنگ میں انسانیت کا ایک وسیع تر حصہ رنگ جائے اور انسانیت ایسے وسعت پذیر اصولوں پر مجتمع ہو جائے جن میں نہ کوئی تعصب ہو، نہ کوئی بغض و کینہ ہو، نہ ان میں محدود قومیت ہو اور نہ محدود رنگ ہو۔ یہاں قرآن مجید کے اسلوب ادا کے ایک خاص رنگ کی طرف اشارہ ضروری ہے۔ اور اس طرز ادا میں ایک گہرا مفہوم پوشیدہ ہے۔ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ اس آیت کا پہلا حصہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے بیانیہ ہے۔ صِبْغَۃَ اللَّہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّہِ صِبْغَۃً”اللہ کا رنگ اختیار کرو، اس سے زیادہ اچھا کس کا رنگ ہو گا۔ ”

اور اس آیت کا باقی حصہ بطور کلام مومنین ہے اور سیاق کلام میں دونوں کلاموں کے درمیان کو حد فاصل نہیں ہے۔ اگرچہ آیت کے دونوں حصے کلام الٰہی ہیں۔ لیکن ایک متکلم اللہ تعالیٰ اور دوسرے میں مؤمنین ہیں۔ مؤمنین صادقین کہ یہ ایک عظیم عزت افزائی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے تکلم کو اپنے کام کا جز بنا دیا جو ایک ہی فقرہ ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار مطلوب ہے کہ مومنین کا اپنے رب کے ساتھ ایک گہرا رابطہ ہے۔ اس قسم کے بیان کی کئی مثالیں قرآن مجید میں موجود ہیں اور ان کی بہت بڑی اہمیت ہے۔

اب قرآن مجید کی یہ دندان شکن محبت اور دلیل اپنے فیصلہ کن انجام تک یوں پہنچتی ہے۔

 

"اے نبی ان سے کہو !کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑتے ہو۔ حالانکہ وہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی۔ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے، تمہارے لئے۔ اور ہم اللہ ہی کے لئے اپنی بندگی خالص کرچکے ہیں۔ "(١٣٩)

 

اللہ کی وحدانیت اور اللہ کی صفت ربوبیت میں کسی کو مجال اختلاف نہیں۔ وہ ہمارا بھی رب اور تمہارا بھی رب ہے۔ ہم اپنے اعمال کا حساب دیں گے اور تم اپنے اعمال کے جوابدہ ہو گے۔ لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم صرف اس کے ہو گئے ہیں، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور اس کے ساتھ کسی اور سے امیدیں وابستہ نہیں کرتے۔ یو اللہ تعالیٰ اہل اسلام کی زبانی ان کے نظریاتی موقف کی وضاحت فرماتے ہیں اور یہ موقف ایساہے کہ جس میں بحث و مباحثہ اور نزاع و اختلاف کی کوئی گنجائش بھی نہیں ہے۔

اب اس ناقابل نزاع موقف سے روئے سخن ایک دوسرے موضوع کی طرف پھر جاتا ہے، جس میں اختلاف موجود تھا، لیکن بتایا جاتا ہے کہ اس میں جو بھی اختلاف کیا گیا وہ بھی غیر ضروری اور غیر معقول اختلاف ہے۔ فرماتے ہیں أَمْ تَقُولُونَ إِنَّ إِبْرَاہِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطَ كَانُوا ہُوداً أَوْ نَصَارَى یا پھر تم یہ کہتے ہو کہ ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب اور اولاد یعقوب سب کے سب یہودی یا نصرانی تھے ؟”

یہ لوگ تو حضرت موسیٰ سے بھی پہلے گزرے ہیں اور یہودیت اور نصرانیت کے وجود میں آنے سے بھی پہلے گزرے ہیں۔ اور ان کے دین کی حقیقت اللہ نے بیان بھی کر دی ہے۔ اور اس کی گواہی دے دی ہے کہ ان کا دین اسلام تھا۔ جس طرح اوپر تفصیل سے بیان ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔ قُلْ أَأَنْتُمْ أَعْلَمُ أَمِ اللَّہُ”کہو تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ؟”

اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے موقف پر صرف ایک سوال کر دیا ہے۔ اس لئے کہ ان کا موقف بادی النظر میں غلط تھا۔ جواب دینے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ صرف سوالیہ نظروں سے تنبیہ کر دی گئی۔

اس کے بعد بنی اسرائیل اور اہل کتاب سے کہا جاتا ہے کہ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہ حضرات یہودیت اور نصرانیت کے وجود میں آنے سے بھی پہلے گزرے ہیں۔ اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ وہ اس ابتدائی دین کے حامل تھے جسے حنیفیت سے تعبیر کیا جاتا ہے اور یہ کہ تمہاری کتابوں میں، تمہارے پاس یہ شہادت موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ عنقریب نبی آخر الزمان کو الٰہی دین حنیف کے ساتھ بھیجنے والے ہیں۔ جو دین ابراہیم علیہ السلام بھی ہے لیکن تم اس شہادت کو چھپارہے ہو۔ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ كَتَمَ شَہَادَۃً عِنْدَہُ مِنَ اللَّہِ”اس شخص سے بڑا ظالم کون ہو گا جس کے ذمے اللہ کی طرف سے گواہی ہو اور وہ اسے چھپائے۔ ”

اور ا للہ کو اس بات کی اچھی طرح خبر ہے کہ جس شہادت کو تمہارے پاس بطور امامت ودیعت کیا گیا تھا، اسے تم چھپا رہے ہو۔ اور اس کے برعکس تم اسے چھپانے کے لئے بحث و جدال اور تلبیس بھی کر رہے ہو۔ وَمَا اللَّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ”اور اللہ اس بات سے غافل نہیں جو تم کرتے ہو۔ ”

اب بات اپنی انتہائی بلندی تک جا پہنچتی ہے۔ اس مسئلے کا خاطر خواہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے اور یہ بتایا دیا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام اور اولاد یعقوب علیہم السلام کے مابین اور ان کے موجود نام نہاد پیروکاروں کے درمیان مکمل تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ کچھ اور تھے اور یہ کچھ اور ۔ اس لئے یہاں خاتمہ کلام اس فقرے پر کیا جاتا ہے جو پہلے گزرچکا ہے تِلْكَ أُمَّۃٌ قَدْ خَلَتْ لَہَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ (١٤١)”یہ کچھ لوگ تھے جو گزر چکے۔ ان کی کمائی ان کے لئے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لئے۔ تم سے ان کے اعمال کے متعلق سوال نہ ہو گا۔ ”

یہ ایک فیصلہ کن بات اب گویا نزاع ختم کر دیا گیا ہے اور ان لوگوں کے فضول دعووں کے متعلق آخری بات کہہ دی گئی۔

واخر دعوانا ان الحمد ﷲرب العالمین

٭٭٭

 

 

 

پارہ دوم ……………………ایک نظر میں

 

 

                (سورۃ البقرہ آیات ۱۴۲تا ۲۵۲)

 

سورۂ بقرہ کے اس حصے میں، یعنی پارہ دوئم کے شروع ہی سے اس امر پر زور دیا جا رہا ہے کہ تحریک اسلامی کو امانت کبریٰ کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہو جانا چاہئے۔ اسلامی نظریۂ حیات کی ذمہ داریاں۔ پھر اس نظریۂ حیات کی اساس پر دنیا میں نظامِ خلافت کے قیام کی ذمہ داریاں۔ اگرچہ جا بجا تحریک اسلامی کے مخالفین کے ساتھ بحث و تکرار کے مضامین بھی پائے جاتے ہیں۔ اس وقت مخالفین کے سرخیل بنی اسرائیل، یعنی یہود ی تھے۔ اس لئے یہاں ان کی سازشوں، مکاریوں اور اسلامی نظریۂ حیات کے خلاف ان کی نظریاتی جنگ اور تحریکِ اسلامی کے وجود کے خلاف ان کی جدوجہد کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔ جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے تحریک اسلامی کو ہدایات دی گئیں ہیں اور انہیں دشمنان تحریک اسلامی کی اس چومکھی لڑائی سے خبردار کیا گیا ہے جو انہوں نے تحریک کے خلاف شروع کر رکھی ہے۔ مسلمانوں کو ان کی کوتاہیوں سے آگاہ کیا گیا ہے، جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہو گئے تھے۔

اس پارے اور سورت کے بقیہ حصے کا بنیادی مضمون امت مسلمہ کو ایک مستقل تشخص اور ایک علیحدہ قبلہ عطا کرتا ہے، تاکہ وہ ایک ایسی امت قرار پائے جو منصب خلافت الٰہی کی حامل بن سکے۔ اور اسے ایک الگ ایسا نظام قانون اور الگ شریعت دی جائے جو پہلے آئے ہوئے قوانین و شرائع کی تصدیق کرتی ہو اور ان کی حامل ہو۔ اور امت ایک جامع نظام اور عمومی منہاج کی حامل ہو۔ سب سے اہم یہ کہ یہ امت انسانی حیات و ممات کے بارے میں ایک خاص نظریہ کی حامل ہو۔ اسے امر کا شعور ہو کہ اسے اس نظریہ حیات کی راہ میں مال و زر، شعور و خیال، طور و اطوار اور جان و آبرو کی کیا کیا قربانیاں دینی ہوں گی۔ اسے اپنے آپ کو قرآن وسنت کے مطابق قادر مطلق کے اقتدار اعلیٰ کے ماننے اور اس کی اطاعت کے لئے تیار کرنا ہے۔ غرض تسلیم و رضا اور نہایت فرمانبرداری کے ساتھ اسے یہ سب کچھ کرنا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ابتداء ہی سے تحویل قبلہ کے متعلق بات شروع کی جاتی ہے۔ تحویل قبلہ کے حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس امت کو امت وسط قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ لوگوں پر گواہ ہے اور رسول امت پر گواہ ہیں۔ یہ امت پورے کرۂ ارض کی قائد ہے، رہبر و راہنما ہے، لہٰذا اسے نصیحت کی گئی ہے کہ اس منصب کی وجہ سے اسے جو جو مشکلات پیش آئیں ان پر صبر کرے۔ راضی برضا رہنا ہو گا۔ مالی و جانی قربانیاں پیش کرنی ہوں گی اور ہر حال میں اپنے تمام امور اللہ کے سپرد کر دینے ہوں گے۔

ذرا آگے چلیں تو ہمارے سامنے ایمانی تصور حیات کے کچھ اصول رکھے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ "نیکی”تقویٰ اور عمل صالح کا دوسرانام ہے۔ شرق و غرب کی سمتیں اور عبادت کرتے وقت ان کی طرف رخ کرنا بذات خود کوئی ٹھوس نیکی نہیں ہے۔ دراصل یہ یہودیوں کی اس غوغا آرائی کا جواب ہے جو وہ تحویل قبلہ کے وقت بپا کئے ہوئے تھے۔ وہ حقائق کو مسخ کر رہے تھے یا چھپا رہے تھے اور یہ تمام بحث و تکرار ایک نمائش تھی۔ وہ یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کر رہے تھے، چنانچہ ان آیا ت میں زیادہ تر بحث تحویل قبلہ اور اس سے متعلق دوسرے مباحث پر مشتمل ہے۔

اب سیاق کلام تحریک کی عملی تنظیم کی طرف پھر جاتا ہے اور ساتھ ساتھ بنیادی عبادات سے متعلق بھی کچھ احکام دیئے جاتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ اجتماعی نظم اور عبادت ہی دراصل وہ بنیادی اصول ہیں جن پر امت مسلمہ کی اجتماعی زندگی کا قیام ہے۔ معاشرہ کی تنظیم اس لئے بھی ضروری ہے کہ تحریک اس ذمہ داری کو بحسن وخوبی ادا کرسکے جو اس پر ڈالی گئی ہے۔ چنانچہ اس حصے میں قانون قصاص، قانون وصیت، احکام صیام، مسجد حرام اور اشہر حرام میں قانونی جنگ فریضۂ حج، شراب اور جوئے کے تعزیری قوانین اور عائلی قوانین کا ذکر ہے۔ یہ سب احکام اسلامی نظریۂ حیات اور تعلق باللہ کے اصولوں پر قائم ہیں۔ اس پارے کے آخری حصہ میں جہاد بالنفس اور جہاد بالمال کی مناسبت سے بطور عبرت و مثال موسیٰ علیہ السلام کے بعد بنی اسرائیل کی نشاۃ ثانیہ کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ جب انہوں نے اپنے وقت کے نبی سے کہا:”ہمارے لئے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جنگ کریں۔ "(۱)

یہ بھی تحریک اسلامی کے لئے عبرت ہے۔ اس میں اس کے لئے اہم تجربات و ہدایات موجود ہیں کیونکہ تحریک اسلامی ہی ان امم کے نظریات اور تجربات کی اصل وارث ہے۔

پارۂ اول کے عمیق مطالعے سے اس کشمکش کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے جو قرآن مجید نے برپا کی تھی۔ امت مسلمہ کی تعمیر و تشکیل کے سلسلے میں قرآن کا نصب العین واضح ہوتا ہے۔ یہ ایک عظیم کشمکش ہے۔ جو بیرونی سازشوں، نفرتوں، دھوکہ بازیوں، جھوٹے پروپیگنڈوں اور سفید جھوٹ کے پلندوں کے خلاف شروع کی گئی ہے۔ اور نفس انسانی کی اصلاح کے لئے اس کی اندرونی و بشری کمزوریوں، اخلاقی فتنوں اور گمراہیوں کے خلاف برپا ہے۔ یہ دراصل تعمیر ہدایت اور صحیح تصور حیات قائم کرنے کا معرکہ ہے جس پر ایک ایسی امت کی اساس رکھنی ہے جو خلیفۃ اللہ فی الارض کا منصب سنبھال سکے اور پوری دنیا کو ایک صالح قیادت دے سکے۔

قرآن کا اعجاز تو دیکھئے !تنظیم جماعت کے وہ اصول و مبادی اور ہدایات و اشارات جو اس نے سب سے پہلی اسلامی جماعت کے لئے تجویز کئے وہ آج بھی اور کل بھی ہر اس جماعت کے لئے ضروری ہیں جو اسلامی خطوط پر اٹھنا چاہے۔ اسلام نے اپنے مخالفین کے مقابلے میں جو معرکہ سر کیا آج بھی ہر مخالف اسلام کے خلاف وہی معرکہ بپا ہواہوسکتا ہے بلکہ قرآن اپنے اولین مخالفین کی جن سازشوں اور مکاریوں اور مخالفانہ تدبیروں سے برسرپیکار ہوا۔ وہ مخالفین بعینہٖ آج بھی موجود ہیں اور ان کی مکاریاں، سازشیں اور تدبیریں آج بھی وہی ہیں چنانچہ امت مسلمہ آج اپنی جدوجہد اور اپنے بچاؤ کے لئے انہی ہدایات کی محتاج ہے جس کے لئے پہلی اسلامی تحریک محتاج تھی۔ اسی طرح آج بھی تحریک اسلامی اپنے صحیح تصور حیات، اس کائنات میں اپنے منصب کے تعین، لوگوں کے ساتھ اپنے تعلقات کے انضباط میں انہی ہدایات اور نصوص قرآنی کی محتاج نظر آتی ہے۔ اس سلسلے میں قرآن واضح سنگہائے میل پیش کرتا ہے جبکہ علم و معرفت اور رشد و ہدایت کے تمام دوسرے مصادر جدید سے جدید سلسلے بھی اس سلسلے میں خاموش ہیں۔ قرآن آج بھی اس امت کا اس کی پوری زندگی میں راہ عمل ہے۔ وہ اس امت کا آج بھی اس راہ حقیقت میں رہبر و راہنما ہے۔ وہ آج بھی امت کا مکمل دستور اس کے نظام زندگی کا منبع اس کی اجتماعیت کا مرجع ہے۔ اس کے عالمی معاملات اور اخلاقی ضوابط کا سرچشمہ ہے۔ یہ ہے اس کتاب کا اصل اعجاز!

٭٭٭

 

 

 

درس ۸ ایک نظر میں

 

اس سبق میں موضوع سخن صرف تحویل قبلہ ہے۔ تمام مباحث اس سے متعلق ہوں گے۔ اس پورے سبق میں ان سازشوں کو بے نقاب کیا گیا ہے جو اس موقع پر یہودیوں نے، اسلامی جماعت کی صفوں میں انتشار پھیلانے کے لئے کیں۔ اس واقعے پر یہود نے جو اعتراضات کئے اور ان کے نتیجے میں اہل اسلام کے ذہنوں پر جو اثرات ہوئے، انہیں دور کیا گیا ہے۔

اس واقعہ سے متعلق کوئی قطعی روایت نہیں ہے۔ نہ ہی اس کی تاریخ کے بارے میں قرآن مجید میں کچھ ذکر ہے۔ ان آیات کا تعلق بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف قبلے کی تحویل سے ہے۔ یہ واقعہ مدینہ طیبہ میں ہجرت کے سولہ یا سترہ ماہ بعد پیش آیا۔ اس سے متعلق روایات پر مجموعی نظر ڈالنے سے اجمالاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکہ مکرمہ میں، فرضیت صلوٰۃ کے بعد، مسلمان خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔ اگرچہ یہ بات منصوص نہیں ہے، ہجرت مدینہ کے بعد، امر ربی سے مسلمان بیت المقدس کی منہ کر کے نماز پڑھنے لگے تھے۔ اگرچہ اس سلسلے میں بھی قرآن مجید کی کوئی آیت نازل نہیں ہوئی تھی صرف رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔ آخرکار اس معاملے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی :

فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوہَكُمْ شَطْرَہُ(البقرہ:۱۴۴)

"مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔ ” سابق حکم منسوخ ہو گیا۔ حقیقت واقعہ جو بھی ہو، لیکن مسلمان چونکہ بیت المقدس کی منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور بیت المقدس اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کا قبلہ تھا، اس لئے یہود مدینہ نے اسے اسلام میں داخل نہ ہونے کا بہانہ بنا لیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ محمدﷺ اور ان کے ساتھی چونکہ ہمارے قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اس لئے دین دراصل ہمارا ہی دین ہے۔ ہمارا قبلہ ہی حقیقی قبلہ ہے۔ ہم اصل ہیں اور مسلمان تابع، لہٰذا محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کے لئے مناسب یہ ہے کہ خود وہ دین یہود میں داخل ہو جائیں، نہ کہ وہ ہمیں اپنے دین کی طرف بلائیں۔

علاوہ ازیں، بیت المقدس کو قبلہ بنانا عرب مسلمانوں کو بہت شاق تھا۔ وہ بیت الحرام کے ادب و احترام کے خوگر تھے۔ وہ ہمیشہ سے ان کا کعبہ اور قبلہ تھا۔ اس پر مستزاد یہ کہ یہودیوں نے اس پر فخر کرنا شروع کر دیا تھا کہ مسلمان ان کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔ وہ اسے دین اسلام کے خلاف بطور دلیل بھی استعمال کر رہے تھے۔

اندریں حالات رسولﷺ ، بار بار آسمان کی طرف منہ اٹھاتے اور اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے تھے، لیکن زبان سے کچھ نہ فرماتے تھے۔ اس انتظار میں تھے کہ خداوند تعالیٰ اپنی مرضی سے راہنمائی فرمائیں گے۔

یہ حالات ہیں کہ وحی کا نزول ہوتا ہے۔ رسولﷺ کی خواہش پوری ہو جاتی ہے :

 

"اے نبی یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم اسی قبلے کی طرف تمہیں پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو، اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔ ” (البقرہ:۱۴۴)

 

روایت میں آتا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت کے سولہویں یا سترہویں ماہ میں پیش آیا۔ مسلمانوں نے جب تحویل قبلہ کی خبر سنی تو ان میں سے بعض نماز کی حالت میں تھے، اور نصف نماز پڑھ چکے تھے۔ انہوں نے دوران نماز ہی میں اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیا اور قبلہ جدید کی طرف رخ پھیر کر نماز مکمل کی۔ قبلہ بدلنا تھا کہ یہودیوں نے پورے مدینہ کو سر پر اٹھا لیا، شور مچانا شروع کر دیا۔ قبلے کا بدل دینا، ان پر شاق گزرا۔ اس لئے وہ قبلہ کے سلسلے میں حجت بازی کر کے، مسلمانوں کے دلوں میں، ان کے دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتے تھے اور تحویل قبلہ سے ان کی حجت بازی ختم ہو رہی تھی لیکن اب بہ انداز دگران ان کی غوغا آرائی شروع ہو گئی۔ انہوں نے بھی اس کا رخ بدل دیا اور وہ اب دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں میں شکوک پیدا کرنے لگے۔ مسلمانوں سے کہتے ہیں :”اگر بیت المقدس کی منہ کر کے نماز پڑھنا باطل تھا اور تم ایک عرصہ تک اسی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھتے رہے تو تمہاری وہ تمام نمازیں ضائع ہو گئیں اور اگر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا ٹھیک تھا تو اب تحویل قبلہ باطل ہے اور تمہاری تمام نمازیں ضائع ہو رہی ہیں۔ احکام میں یہ تغیر اور ان آیات کا یہ نسخ بہرحال اللہ تعالیٰ کی جانب سے کوئی وحی نہیں آتی۔ ”

یہودیوں کے اس مخالفانہ حملے کے اثرات اسلامی کیمپ میں بھی محسوس کئے گئے۔ اس کا اندازہ قرآن مجید کی ان آیات سے ہوتا ہے جو اس سلسلے میں نازل ہوئیں۔ پارۂ اول میں مَا نَنْسَخْ مِنْ آيَۃٍ أَوْ نُنْسِہَا…….. الخ”جس آیت کو ہم منسوخ کرتے ہیں یابھلا دیتے ہیں الخ”پورے دواسباق وہاں نازل ہوئے اور دوسرے پارے کی آیات زیر بحث بھی اسی سے متعلق ہیں۔ جن میں اس جدل کے بارے میں تاکیدی ہدایات دی گئی ہیں۔ وضاحتیں کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو ڈرایا گیا ہے ان مسائل کے بارے میں نصوص کی تشریح کے موقع پر عرض کروں گا۔

اس مناسب موقع پر معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ اور اس کی حکمت کے متعلق کچھ کہا جائے۔ مسلمانوں کے لئے ایک مخصوص قبلہ کے تعین کی ضرورت کیوں لاحق ہوئی ؟یہ درحقیقت تحریک اسلامی کی تاریخ میں ایک اہم موڑ تھا۔ تحریک کی زندگی میں اس کے عظیم آثار نمودار ہوئے۔

مسلمانوں کا قبلہ پہلے خانہ کعبہ تھا۔ ہجرت کے بعد بعض تربیتی مقاصد کے لئے اسے تبدیل کر دیا گیا اور بیت المقدس کو قبلہ مقرر کر دیا گیا۔ اس جانب اسی سبق کی اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے : "وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْہَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْہِ

"پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسولﷺ کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ ”

درحقیقت دور جاہلیت ہی سے عرب بیت الحرام کا بہت احترام کرتے تھے اسے وہ اپنے قومی وقار کی علامت تسلیم کرتے تھے۔ اسلام چونکہ خالص للہیت قائم کرنا چاہتا تھا، مسلمانوں کے دلوں سے خداوند قدوس کے تعلق کے سوا تمام تعلقات کو ختم کر دینا چاہتا ھت اور اسلامی نظریۂ حیات کے سوا، ہر نعرہ جاہلیت اور ہر جذبہ عصبیت مٹا دینا چاہتا تھا اور ایک ایسا خدائی نظام قائم کرنا چاہتا تھا جس کا تعلق صرف اللہ سے براہ راست ہو۔ وہ تمام تاریخی اور قبائلی عصبیتوں اور رنگ ونسل کی تمام آلائشوں سے پاک ہو، اس لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ نماز میں خانہ کعبہ کی منہ کرنا ترک کر دیں۔ اگرچہ یہ حکم ایک عرصہ قلیل کے لئے ہی کیوں نہ ہو۔ حکم ہوتا ہے کہ اب وہ رخ بیت المقدس کی طرف موڑ دیں۔ تاکہ ان کے دلوں سے جاہلیت کی تمام گندگی بالکل ختم ہو جائے۔ ان کے نفوس جاہلیت کی تمام نجاستوں سے پاک ہو جائیں۔ تاکہ معلوم ہو جائے کہ کون رسول اللہ کی غیر مشروط اطاعت کرتا ہے۔ کون ہے جو تسلیم و رضا کا پیکر ہے اور پختہ کردار کے ساتھ، بغیر کسی تحفظ (Reservation)کے تابع فرمان ہے اور کون جاہلیت کے تصورات، رنگ ونسل کے قومی خیالات اور تاریخ و وطن کے جاہلی نعروں سے متاثر ہو کر الٹے پاؤں پھر جاتا ہے، نیز معلوم ہو جائے کہ کسی مسلمان کے شعور کے خفیہ ترین گوشوں میں، کسی کارکن کے ضمیر کے پوشیدہ ترین تہوں میں براہ راست یا بالواسطہ باطل کی کوئی آمیزش تو نہیں ہے۔

اس حکم کے مطابق جب مسلمانوں نے سر تسلیم خم کر دیا، وہ اس نئے قبلے کی طرف خوشی سے پھر گئے۔ جس کی طرف رسول اللہﷺ نے انہیں حکم دیا تھا تو یہود نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہا اور اسے تحریک اسلامی کے خلاف بطور دلیل استعمال کرنا شروع کر دیا تو حکم الٰہی آ پہنچا۔ مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ اب اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر کے نماز پڑھیں۔ نہ صرف یہ کہ یہودیوں کی دلیل ختم ہوئی بلکہ اس تبدیلی سے مومنین کے دل ایک دوسری حقیقت سے آشنا ہو گئے۔ حقیقت اسلام سے، اسلامی تاریخ سے۔ اس حقیقت سے کہ بیت اللہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خالص اللہ کی بندگی کے لئے تعمیر کیا تھا تاکہ وہ اس امت کی میراث بنے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں کے نتیجے میں اٹھنے والی تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ رب العالمین میری نسل سے ایک رسول پیدا کر اور وہ اس دین پر ہو جو ان کا اور ان کے لڑکوں پوتوں کا دین تھا۔ جیسا کہ پہلے پارے میں ذکر ہوا: وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاہِيمَ رَبُّہُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّہُنَّ (البقرہ:۱۲۴)

"یاد کرو جب ابراہیم علیہ السلام کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اترا”

جہاں موضوع سخن مسجد حرام تھی اس کی بنیاد اور تعمیر سے متعلق اور ان امور کے ساتھ وابستہ دوسرے حالات و معاملات کے متعلق۔ اہل کتاب اور مشرکین کے ساتھ حضرت ابراہیم علیہ السلام، ان کے دین، ان کی اولاد، ان کے قبلہ، ان کے عہد اور ان کی وصیت کے متعلق، لیکن پارۂ اول کی مذکورہ آیات دراصل، تحویل قبلہ کے موجودہ احکام کی تمہید تھیں، جن میں ایک تھوڑے ہی وقفے کے بعد ہی قبلہ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف بدل دیا گیا۔ مسجد حرام کو حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام نے تعمیر کیا تھا۔ اس کے پاس کھڑے ہو کر دونوں نے طویل دعا کی تھی۔ پھر امت مسلمہ کو دین حنیف پر اٹھایا گیا اور وہی عہد ابراہیمی کی وارث قرار پائی، ان حالات میں بیت المقدس سے بیت الحرام کی طرف قبلہ کی تحویل کا حکم حالات کا طبعی اور منطقی نتیجہ تھا۔ تاریخ نے امت مسلمہ کے دل و دماغ میں جو شعوری ربط پیدا کر رکھا تھا اس حکم نے مسلمانوں کے حسی مظاہر کو ان کے تاریخی شعور کے ساتھ ہم آہنگ کر دیا۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتاکید وصیت کی تھی کہ وہ مسلمان رہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد کو بتاکید وصیت کی تھی کہ وہ بھی دین اسلام پر قائم رہیں جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام (اسرائیل) نے بھی ایسی ہی وصیت اپنی اولاد کو کی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ حقیقت بھی جان چکے تھے کہ اللہ کے اس عہد میں ظالم نہیں آتے۔ چونکہ بیت الحرام کی تعمیر کا حکم حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو ملا تھا، لہٰذا یہ انہی کی میراث تھی۔ یہ میراث ان لوگوں ہی کو ملنی تھی جو دین ابراہیم علیہ السلام کی میراث پانے والے تھے۔ اور چونکہ امت مسلمہ ہی نے اس عہد اور اس فضل خداوندی کو وراثت میں پایا، لہٰذا اس کا طبعی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اللہ کا گھر بھی ان کو ملے اور وہ اس امت کا قبلہ ہو۔

بے شک ایک مختصر عرصہ کے لئے مسلمانوں نے مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی، جو یہود و نصاریٰ کا قبلہ تھی جیسا کہ سیاق وسباق سے اشارہ ملتا ہے۔ ایک مخصوص مصلحت کے تحت ایسا ہو، جس کا ذکر ہم تفصیل سے لے آئے ہیں۔ اب مشیت الٰہی یہ ہے کہ یہ وراثت امت مسلمہ کے سپرد کر دی جائے۔

اہل کتاب نے دین اسلام کا انکار کر کے خود اپنے آپ کو ورثہ ابراہیمی سے محروم کر دیا تھا، لہٰذا ایسے حالات میں تحویل قبلہ کا حکم عین حکمت پر مبنی اور نہایت برمحل تھا۔ چنانچہ بحکم اللہ اب حضرت ابراہیم علیہ السلام کا تعمیر کردہ بیت اللہ قبلہ ہو گیا۔ تاکہ ظاہری اور شعوری طور پر مسلمان پوری پوری وراثت پالیں۔ دینی وراثت قبلہ کی وراثت اور اللہ کے فضل و کرم کی وراثت۔

تحریک اسلامی کے لئے ضروری ہے کہ وہ ممتاز ہو، مخصوص و جدا ہو، تصورات و عقائد میں ممتاز اور قبلہ و عبادات میں ممتاز!قبلہ اور عبادات کا امتیاز بھی اسی طرح ضروری ہے جس طرح تصورات و نظریات میں امتیاز ضروری ہے۔

تصوراتی اور نظریاتی امتیاز تو بالعموم سمجھ میں آتا ہے، لیکن قبلہ اور ظاہری شعائر دین کی امتیازی حیثیت بعض اوقات سمجھ میں نہیں آتی، لہٰذا مناسب ہے کہ عبادات کی شکل و صورت پر بھی کچھ کہا جائے۔

جو شخص عبادات کی ظاہری شکل و صورت کو ان کے اصل پس منظر میں نہیں دیکھ پاتا یا انسان کی نفسیات و تاثرات سے ہٹ کر عبادات میں صرف ظاہری اشکال کا مطالعہ کرتا ہے، ایسا شخص جب دیکھتا ہے کہ لوگوں کی طرف سے عبادات کی ظاہری اشکال کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے تو یہ فعل اسے متقشفانہ شکل پرستی، تنگ نظری اور تاریک خیالی نظر آتا ہے لیکن ایسا خیال درست نہیں۔ وسیع نقطۂ نظر سے دیکھا جائے اور عمیق غور و فکر سے کام لیا جائے تو ہر اعتبار سے ایک مختلف حقیقت سامنے آتی ہے۔ مثلاً:

انسان کی شخصیت کی تشکیل ظاہری جسم اور پوشیدہ روح سے کی گئی ہے۔ اس لئے انسان روحانی شعور اور پوشیدہ جذبات کے اظہار کے لئے ظاہری شکل اختیار کرتا ہے۔ اندرونی جذبات کی تسکین اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک وہ محسوس ظاہری شکل و صورت اختیار نہ کر لیں۔ صرف اسی صورت میں اندرونی جذبات و میلانات کی مکمل تعبیر ممکن ہے، اس طرح ان میلانات کی تعبیر محسوس طور پر بھی مکمل ہو جاتی ہے جس طرح وہ نفس انسان کے اندر یہ جذبات و میلانات مکمل صورت میں موجود ہوتے ہیں اور یوں جذبات تسکین پاتے ہیں اور انسان مطمئن ہو جاتا ہے اور انسانی شخصیت کا ظاہر و باطن ہم آہنگ ہو جاتا ہے۔

یوں نفس انسانی بیک وقت ایک طرف کائنات کے اسرار اور نامعلوم حقائق کی طرف مائل ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ ظاہری اشکال کی اطاعت کرتا ہے۔ ان فطری اصولوں کو مد نظر رکھ کر اسلام نے عبادات و شعائر کی ظاہری شکل و صورت متعین کی ہے، لہٰذا محض نیت یا روحانی توجہ اور ارتکاز فکر سے اسلامی عبادات کی ادائیگی ممکن نہیں۔ اسلامی عبادات میں نیت، توجہ اور ارتکاز فکر کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک ظاہری شکل و صورت میں ہو۔ مثلاً نماز میں قیام کرنا، رو بقبلہ ہونا، تکبیر ادا کرنا، تسبیحات پڑھنا، جھکنا، سجدہ ریز ہونا وغیرہ۔

حج میں متعین ایام سے احرام باندھنا، متعین لباس پہننا، متعین حرکات، سعی، دعا، تلبیہ، قربانی اور بال ترشوانا۔ اور روزے میں نیت، کھانا پینا چھوڑنا اور تعلقات زن و شوئی چھوڑنا، اسی قبیل سے ہے۔ دیکھئے ہر عبادت میں حرکت اور ہر کت میں عبادت ہے۔ یوں انسانی نفسیات کے ظاہر و باطن کو ہم آہنگ کر دیا گیا ہے۔ انسانی قوتوں کے درمیان، حسن و ترتیب قائم ہو گیا اور یوں فطرت کے تقاضوں کے عین مطابق اسلامی نظریۂ حیات کے تمام مقاصد حاصل کر لئے گئے۔

یہ بات اللہ کے علم میں تھی کہ فطری طور پر انسان اپنے اندرونی تصورات و جذبات کے اظہار کے لئے ظاہری شکل و صورت اختیار کرتا ہے۔ اسی طبعی میلان کی وجہ سے کئی اقوام جاء مستقیم سے منحرف ہو گئیں۔ بعض لوگوں نے قوت کبریائی کے اظہار کے لئے کچھ ظاہری رموز و اشارات سے کام لیا۔ پتھروں کے مجسمے گھڑ لئے گئے۔ درختوں اور پتھروں کی پوجا کی گئی۔ سورج، چاند اور ستاروں کے آگے جھکنے۔ حیوانات اور طیور وحوش کی پرستش کی۔

جب ان لوگوں نے اندرونی جذبات و عقائد کے اظہار کے لئے موزوں طریقہ اختیار نہ کیا جو مطابق فطرت ہوتا تو ان حالات میں منشائے الٰہی کے مطابق دعوت اسلامی اٹھی اور اس نے عقائد و جذبات کے اظہار کے لئے وہ فطری طریقہ اختیار کیا جو اسلامی عبادات کی ظاہری شکل کے تعین سے نظر آتا ہے۔ اسلام نے عبادت الٰہی کے لئے ایسے طریقے اختیار کئے اور اس کے لئے ایسی شکلیں وضع کیں، جس میں ذات خداوندی کے لئے جسمانیت کے تصور کا شائبہ تک نہیں ہے۔ اس میں ذات باری کے کوئی طرف، جہت متعین نہیں ہوتی۔ اسلامی طریقہ عبادت کے مطابق، جب کوئی شخص جناب باری کی طرف مکمل طور پر متوجہ ہوتا ہے، تو وہ قبلہ رخ ہوتا ہے لیکن اس کا دل، اس کے حواس اور اس کے اعضاء صرف اللہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ اگرچہ اس کا ظاہری رخ ایک مکان کی سمت میں ہوتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ پھر کسی ایک جگہ کو کیوں مخصوص کیا گیا ؟اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ ایک مسلمان دوسرے لوگوں سے امتیازی شکل اختیار کر لے اور وہ نماز اور دوسری عبادات میں ایک مخصوص قبلہ یا سمت سے متعارف ہو، یہ تعین دراصل نفرد و امتیاز کے فکری وداعی کا تقاضا تھا۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس تعین اور تخصیص نے مسلمانوں کو انفرادیت بخشی ورنہ اللہ تعالیٰ کو کسی سمت و جہت سے کوئی تعلق نہیں۔

یہی وہ داعیہ تھا، جس کی بنا پر مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ وہ دوسرے مذاہب و اقوام کے مخصوص شعارات اور ان کے مخصوص مظاہر کو نہ اپنائیں۔ ایسے شعار، جو انہوں نے اپنے اندرونی تصورات و عقائد یا خیالات و جذبات کے اظہار کے لئے وضع کئے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے فکر و عمل میں غیر مسلموں کے طور و طریقے نہ اپنائیں۔ یہ حکم محض تعصب یا تنگ نظری و تقشف کی بنا پر نہیں دیا گیا بلکہ اسلام کے پیش نظر شکل و صورت سے وراء ایک عمیق اور حکیمانہ نقطۂ نظر تھا۔ ظاہری شکل و صورت کے پس منظر میں کچھ اسباب اور حکمتیں بھی پوشیدہ تھیں۔ یہ وہی وجوہات تھیں جن کی بنا پر ایک قوم دوسری قوم سے جدا ہو جاتی ہے، ایک فہم دوسری فہم سے مختلف ہو جاتی ہے، ایک نظریہ دوسرے نظریہ سے ممتاز ہو جاتا ہے، ایک ضمیر دوسرے ضمیر سے الگ ہو جاتا ہے، ایک شخص کے اخلاق اور دوسرے شخص کے اخلاق میں فرق ہو جاتا ہے اور زندگی کی گزر گاہوں میں دو افراد کی راہیں مختلف سمتوں میں نکل جاتی ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :رسول اللہﷺ نے فرمایا!یہودی وعیسائی رنگ نہیں لگاتے تم ان کے خلاف کرو۔ "(امام مسلم۔ بخاری۔ ابوداؤد)

ایک بار نبیﷺ کچھ لوگوں کے پاس تشریف لے گئے وہ تعظیماً اٹھے۔ آپﷺ نے فرمایا!”عجمیوں کی طرح مت اٹھو، ان میں سے بعض لوگ دوسروں کی تعظیم کرتے ہیں۔ "(ابوداؤد۔ ابن ماجہ)

آپﷺ نے ایک موقع پر فرمایا!میری شان میں اس قدر مبالغہ نہ کرو، جس طرح عیسائیوں نے ابن مریم کی شان میں مبالغہ کیا۔ میں تو ایک بندہ خدا ہوں۔

غرض رسول اللہﷺ نے مظاہر اور لباس میں غیر مسلموں کے ساتھ تشبیہ سے منع فرمایا۔ حرکات وسکنات اور طور طریقوں میں بھی تشبہ بالکفار سے منع کیا گیا۔ قول و فعل میں تشبہ سے منع کیا گیا۔ کیونکہ اس ظاہری شکل و صورت کے پس منظر میں درحقیقت وہ تصورات ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ایک نظریۂ حیات دوسرے نظریہ سے، ایک نظام دوسرے نظام سے اور کسی قوم کا شعار دوسری اقوام کے شعار سے مختلف ہو جاتا ہے۔

امت مسلمہ اس لئے برپا ہوئی ہے کہ وہ دنیا میں اسلامی نظام قائم کرے۔ لہٰذا مسلمانوں کو سختی سے منع کیا گیا کہ وہ اللہ اور اسلامی نظام زندگی کے علاوہ کسی اور نظام سے ہدایات حاصل کریں۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ کرۂ ارض پر کسی دوسری قوم کے مقابلے میں ذہنی شکست ہرگز قبول نہ کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو پھر یہی شکست انہیں مجبور کرے گی کہ وہ اس قوم اور اس کی تہذیب کی تقلید کریں۔ امت مسلمہ کو اس لئے برپا کیا گیا ہے کہ دوسری اقوام اس کی تقلید کریں اور وہ قیادت سنبھالے۔

لہٰذا اسے چاہئے کہ وہ اپنے نظریات اور طور طریقے صرف اسی منبع اور سرچشمہ سے حاصل کرے، جس نے اس امت کو قیادت کا درجہ عطا کیا ہے۔ اللہ کے نزدیک مسلمان ہی اعلیٰ و برتر ہیں۔ وہی امت وسط ہیں۔ وہی خیر امت ہیں، جنہیں لوگوں کی قیادت اور بھلائی کے لئے برپا کیا گیا ہے۔ تو پھر ان کے نظریہ و عمل کا سرچشمہ کیا ہونا چاہئے ؟وہ اپنے طور طریقے اور اپنے لئے نظم و ضبط کے اصول کہاں سے اخذ کریں ؟کیا وہ اللہ کو چھوڑ دیں اور ان ذلیل ترین اقوام کو سرچشمہ رشد و ہدایت تسلیم کر لیں، جن کو قعر مذلت سے اٹھانے کے لئے اللہ نے خود مسلمانوں کو اٹھایا تھا؟

اسلام نے پوری انسانیت کو ایک اعلیٰ تصور حیات سے روشناس کرایا، اس نے انسانوں کو ایک اعلیٰ نظام زندگی دیا، لہٰذا وہ تو پوری انسانیت کو دعوت دیتا ہے کہ وہ اس اعلیٰ تصور حیات اور اعلیٰ نظام زندگی کے حلقہ بگوش ہو جائے۔ اگر اسلام دوسرے نظاموں اور نظریات کے مقابلے میں، انسانیت کو اپنے پیش کردہ اعلیٰ نظام زندگی اور ارفع نظریۂ حیات کی اساس پر متحد کرنا چاہتا ہے، تو اس کی یہ خواہش کسی تعصب کی بنا پر نہیں ہے۔ بلکہ اسلام تو اللہ کی توحید کا داعی ہے۔ وہ ایک اعلیٰ نظریہ حیات پر اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک اعلیٰ مقام پر پوری انسانیت کو متحد کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا وہ کسی ایسے اتحاد میں شریک نہیں ہوتا جس میں اسلام کے الہامی نظریہ حیات کو ترک کیا گیا ہو۔ وہ کسی ایسے اتحاد میں شریک نہیں ہوتا جس کی بنیاد جاہلیت پر رکھی گئی ہو اور یقیناً یہ کوئی تعصب نہیں ہے۔ کیا یہ تعصب ہے َاگر ہے تو پھر یہ نیکی، سچائی اور اصلاح حالات کے لئے کی گئی کوشش کا تعصب ہے اور ایسے تعصب پر میں قربان جاؤں !

تحریک اسلامی کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لے کیوں وہ ایک مخصوص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتی ہے ؟قبلہ محض ایک مکان ہی نہیں جس کی طرف نماز کے وقت مسلمان منہ کرتے ہیں۔ مکان اور سمت تو محض ایک اشارہ ہے۔ دراصل یہ امتیاز و خصوصیت کا اشارہ ہے اور یہ نظریہ کا امتیاز ہے، تشخص کا امتیاز ہے، نصب العین کا امتیاز ہے، ترجیحات کا امتیاز ہے اور امت کے عناصر ترکیبی کا امتیاز ہے۔

اس وقت دنیا جاہلی تصورات سے اٹی پڑی ہے اور مسلمان اس دنیا کے بیچ میں کھڑے ہیں۔ جاہلیت پر مبنی بے شمار نصب العین ہیں جنہیں لوگوں نے اپنایا ہوا ہے۔ بے شمار جاہلی ترجیحات ہیں جو انسانوں کے دل و دماغ پر سوار ہیں۔ جاہلیت کے بے شمار جھنڈے ہیں جو مختلف لوگوں نے اٹھا رکھے ہیں لہٰذا آج کی ضرورت یہ ہے کہ امت مسلمہ اپنا ایک علیحدہ تشخص قائم کرے جو آج کے مروجہ تشخصات کے ساتھ گڈ مڈ نہ ہو وہ اپنی زندگی کے وجود کے لئے ایک جدا نظریہ اور ایک ممتاز فلسفہ متعین کرے۔ جو جاہلی تصورات اور جاہلی فلسفوں سے مختلف ہو۔ وہ اپنے لئے ایک ایسا نصب العین وضع کرے اور اپنے لئے ایسی ترجیحات متعین کرے جو خاص اس کی شخصیت اور ا س کے نظریۂ حیات سے ہم آہنگ ہوں۔ وہ ایک ایسا ممتاز جھنڈا بلند کرے جو صرف للہیت پر مبنی ہو، اس کا طرۂ امتیاز یہ ہونا چاہئے کہ وہ امت وسط ہے، وہ امت و سط جسے اللہ نے انسانوں کی بہتری کے لئے برپا کیا ہے۔ کیوں ؟اس لئے کہ وہ ان تک نظریاتی میراث منتقل کر رہی ہے جس کی وہ امین ہے۔

یہ عقیدہ ایک مکمل نظام زندگی ہے۔ یہ امت اس عقیدے کی وارث اور امین ہے۔ وہ زمین پر خلافت الٰہیہ کی منصب دار ہے اور یہی اس کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ امت لوگوں پر گواہ ہو گی اور اس کے فرائض میں یہ داخل ہے کہ کل عالم بشریت کی قیادت کرے۔ کدھر!اللہ کی طرف اور اسلامی نظام کے قیام کی طرف۔ غرض اسلامی زندگی کا قیام ہی اس کی امتیازی خصوصیت ہے۔ اسی سے اس کی شخصیت قائم ہوتی ہے۔ اس کے وجود کے عناصر ترکیبی، اس کی شخصیت کا امتیاز، اس کے مقاصد، اس کی ترجیحات، اس کا علم اور اس کا شعار یہ سب کچھ اس کے نظریات کا مرہون منت ہے۔ یہ نظریہ ہی ہے جو اسے قیادت کا مقام عطا کرتا ہے۔ یہ نظریہ ہی ہے جس کی خاطر اس کی تخلیق ہوئی۔ اس نظریہ کے سوا وہ جولباس پہنے، جو تحریک بھی شروع کر دے، جو علم بھی بلند کرے، وہ امتیاز حاصل نہ کرسکے گی، وہ جاہلی تحریکات کے سیلاب میں بہہ جائے گی اور اس کے خدوخال ہمیشہ مبہم رہیں گے۔ تحریک اسلامی کے فلسفہ وحکمت پر روشنی ڈالنے کے بعد اب ہم تشریح آیات کی طرف آتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

درس نمبر ۸ تشریح آیات (۱۴۲تا۱۵۲)

 

"نادان لوگ ضرور کہیں گے !انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے ؟اے نبی!ان سے کہو کہ "مشرق و مغرب سب اللہ کے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ "اور اس طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک "امت وسط "بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ پہلے جس طرف تم رخ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ معاملہ تھا تو بڑا سخت، مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت ثابت نہیں ہوا جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے، اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا یقین جانو کہ وہ لوگوں کے حق میں نہایت شفیق رحیم ہے۔ ” (۱۴۲۔ ۱۴۳)

قرآن کریم کے سیاق وسباق اور مدینہ طیبہ میں رونما ہونے والے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ سفہاء سے مراد یہاں یہودی ہیں۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے تحویل قبلہ کے موقع پر غوغا آرائی کی تی۔ وہی تھے جنہوں نے یہ سوال اٹھایا تھا :مَا وَلاہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْہَا "کیا وجہ تھی کہ وہ پہلے جس قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اس سے یکایک وہ پھر گئے "اور جس قبلہ کی طرف وہ نماز پڑھتے تھے وہ بیت المقدس تھا۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں !رسول اللہﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو وہ انصار میں سے اپنے ننہال کے ہاں اترے اور آپﷺ یہاں سولہ یا سترہ ماں تک، مسجد اقصیٰ کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔ لیکن دل ہی دل میں آپﷺ کو یہ بات اچھی لگتی کہ کاش قبلہ بیت اللہ ہو جائے۔ ایک دن عصر کی نماز کا وقت تھا کہ وحی الٰہی سے قبلہ تبدیل ہو گیا اور آپ نے نماز عصر بیت اللہ کی طرف منہ کر کے پڑھی۔ لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ قبلہ تبدیل کیا۔ پھر ایک صاحب نماز پڑھ کر نکلے تو دیکھا کہ لوگ ایک دوسری مسجد میں نماز پڑھ رہے ہیں اور رکوع کی حالت میں ہیں۔ اس شخص نے کہا !”میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہﷺ کے پیچھے ابھی ابھی نماز پڑھی ہے اور ہم نے بیت اللہ کی طرف منہ کیا۔ "چنانچہ یہ لوگ اسی طرح حالت رکوع میں کعبہ کی طرف پھر گئے۔ (روایت امام مالک :مسلم، بخاری اور ترمذی)

یہودی اس پر بہت خوش تھے کہ رسول اللہﷺ ان کے قبلہ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں، لیکن جب قبلہ تبدیل ہو گیا، تو انہوں نے بہت ہی برامحسوس کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاء ِ”اے نبیﷺ یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھتے ہیں۔ ”

اس پر احمقوں یعنی یہودیوں نے کہا !مَا وَلاہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْہَا”انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ جس قبلے کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اس سے یکایک پھر گئے۔ ”

آنے والی آیات کے دیکھنے سے معلوم ہو گا کہ جس قدر قرآن مجید نے ان لوگوں کے سوالات و اعتراضات کے تفصیلی جوابات دیئے اس لئے کہ ان کے پروپیگنڈے کے اثرات بھی مسلمانوں کے دل و دماغ کو متاثر کر رہے تھے۔ اس بات کا اندازہ قرآن کے طرز تعبیر سے بخوبی ہو جاتا ہے۔

سَيَقُولُ السُّفَہَاء ُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلاہُمْ عَنْ قِبْلَتِہِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْہَا”نادان لوگ ضرور کہیں گے !انہیں کیا ہوا کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اس سے یکایک پھر گئے۔ ”

یہ آیات درحقیقت آنے والی آیات تحویل قبلہ کے لئے تمہید کا کام دے رہی ہیں۔ بات سوال و جواب کی صورت میں کی جا رہی ہے۔ اللہ کو علم تھا کہ ناراض لوگ ایسے سوالات اٹھائیں گے، لہٰذا بطور پیش بندی از خود جواب دے دیا گیا یا اصل واقعہ یہ تھا کہ تحویل قبلہ کا حکم آپ کا تھا، جس طرح حدیث میں ذکر ہوا، مخالفین نے بھی سوالات کی بوچھاڑ شروع کر دی تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے مستقبل کا انداز بیان اختیار کر کے اس طرف اشارہ کر دیا کہ وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ ان کے پروگرام کے مطابق ہے۔ ان کا یہ منصوبہ کوئی پوشیدہ منصوبہ نہ تھا، لہٰذا اس کا جواب بھی پہلے سے تیار تھا۔ تردیدی مقاصد کے لئے یہ انداز بیان بے حد پر تاثیر ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ لوگ ایسا کہیں گے !حالانکہ وہ کہہ چکے ہوتے ہیں۔

قرآن پہلے سے مخالفین کے سوالات کے جوابات نبیﷺ کو بتا دیتا ہے، تاکہ جب بھی وہ سوال اٹھائیں مسلمان جواب دے دیں، چنانچہ اس سلسلے میں تحریک اسلامی کو پہلے سے ایک صحیح نقطہ نظر دے دیا جاتا ہے۔ قُلْ لِلَّہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَہْدِي مَنْ يَشَاء ُ إِلَى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ”کہو!مشرق اور مغرب سب اللہ کے لئے ہیں۔ اللہ جسے چاہتا ہے، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ ”

شرق و غرب سب اللہ کے ہیں، جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ ذاتی طور پر کسی سمت یا کسی جگہ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اللہ کسی سمت و مکان کے بارے میں کوئی حکم دیتا ہے یا کسی جگہ کو وہ خود اختیار کرتا ہے تو یوں اس بات سے فضیلت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ تو اللہ ہے کہ جسے چاہے سیدھی راہ پر لگا دے۔ اگر وہ اپنے بندوں کے لئے کوئی سمت اختیار کرے، ان کے لئے کسی مکان کو قبلہ قرار دے دے، تو پھر وہ جگہ ممتاز و محترم ہو جاتی ہے۔ اس لئے کہ اللہ کا حکم وابستہ ہو گیا، لہٰذا صراط مستقیم اس سمت سے گزرتا ہے، باقی سب سمتیں ٹیڑھی ہو جاتی ہیں۔

اس ایک فقرے ہی میں مکان و جہت کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس سرچشمے کی نشان دہی ہو جاتی ہے جو انسان کے لئے مصدر ہدایت ہے۔ یوں ایک صحیح نقطۂ نظر سامنے آ جاتا ہے۔ کیا؟یہ کہ ہر حال میں، زندگی کے ہر موڑ پر، ذات باری تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا۔

اب روئے سخن امت مسلمہ کی طرف ہو جاتا ہے۔ اے بتایا جاتا ہے کہ اس کائنات میں وہ کس عظیم مرتبے کی حامل ہے اور اس کرۂ ارض پر اسے کیا فرائض سر انجام دینے ہیں ؟عالم انسانیت میں اسے کیا فضیلت و برتری حاصل ہے ؟لوگوں کی زندگی میں اسے کیا رول ادا کرنا ہے۔ اس مقام اور مرتبے کا تقاضا ہے کہ اس کا ایک ہی خاص قبلہ ہو۔ وہ ایک مخصوص تشخص کا مالک ہو۔ چھوڑئیے اور باتیں اس رب عظیم کی سنئے جس نے اس امت کو عظیم مشن کے لئے منتخب کیا:

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِتَكُونُوا شُہَدَاء َ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَہِيداً

"اس طرح تو ہم نے تمہیں ایک امت وسط بنایا”تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ ”

یہ امت وسط ہے۔ لوگوں پر گواہ ہے۔ اس کا فرض ہے کہ لوگوں کے درمیان عدل و انصاف قائم کرے۔ ان کے لئے معیار حق و اقدار حیات کا تعین کرے۔ ان کو ایسی رائے دے جو رائے عامہ بن جائے۔ اور لوگ اس پر اعتماد کریں۔ وہ تمام دنیا کے لوگوں کی اقدار، ان کے نظریات، ان کے رسم و رواج اور ان کے قومی شعاروں کا بغور جائزہ لے اور اپنا فیصلہ سنادے !یہ حق ہے اور یہ باطل !”وہ کوئی ایسی امت نہیں ہے کہ دوسری اقوام سے نظریات، اقدار اور معیار حسن و قبح حاصل کرے۔ وہ لوگوں پر گواہ ہے اور ایک منصف اور جج کے منصب پر فائز ہے۔ جس طرح وہ لوگوں پر گواہ ہے۔ خود رسول اللہﷺ اس پر گواہ ہیں۔ رسول اللہﷺ اس امت کے لئے اقدار حیات اور معیار حق تجویز کریں گے۔ اس کے اعمال اور رسم و رواج کے بارے میں فیصلہ دیں گے۔ اس کے افعال و اقوال کے بارے میں آخری فیصلہ رسول اللہﷺ دیں گے۔ اس سے اس امت کی حقیقت اور اس کے فرائض معلوم ہو جاتے ہیں۔ اسے چاہئے کہ اپنی حقیقت سے اچھی طرح روشناس ہو جائے۔ اپنی اہمیت اور قدر و قیمت جانے اور اس دنیا میں اپنے منصب و کردار کو ٹھیک طرح متعین کرے اور اسے ادا کرنے کے لئے اپنے آپ کو پوری طرح تیار بھی کرے، یعنی وہ لوگوں کے لئے معیار حق ہو اور رسول اللہﷺ اس کے لئے معیار حق ہوں۔

یہ امت، امت وسط ہے۔ وسط کے ہر مفہوم کے اعتبار سے وہ وسط ہے۔ وسط کا مفہوم اگر احسن و افضل ہو، تو پھر بھی یہ وسط ہے۔ وسط کا مفہوم اگر میانہ روی اور اعتدال لیا جائے تو بھی یہ وسط ہے۔ وسط سے مراد اگر مادی اور حسی وسط مراد ہو تو بھی یہ امت، امت وسط ہے۔

"امت وسط "عقائد و نظریات میں وسط، میانہ رو، روحانی تجرد میں ڈوبی ہوئی اور نہ مادہ پرستی میں گرفتار۔ بلکہ اصول فطرت کو اپنائے ہوئے ہے۔ مثلاً انسانی جسم کیا ہے ؟ایک مادہ ہے اور روح کو جسم مادی میں پیوست کیا گیا ہے یا مادی جسم کو روح کے ساتھ ایک کر دیا گیا ہے۔ یہ امت ان مختصر عناصر کے مرکب اس انسان کو، بلکہ اس کے عناصر ترکیبی میں سے ہر عنصر کو پورا پورا حق دیتی ہے۔ وہ روحانی زندگی کی ترقی اور کمال کے لئے بھی کام کرتی ہے اور انسان کی مادی ضروریات پوری کر کے اس کی اس مادی زندگی کی بقا کا کام بھی کرتی ہے۔ یہ امت انسان کی آزادی فکر، اس کی آزادی اظہار خیال اور اس کی ذاتی ذوق و شوق کی تسکین کے بلا افراط و تفریط۔ میانہ روی اور ہم آہنگی اور اعتدال کے ساتھ، ایک وسیع دائرہ مقرر کرتی ہے اور انسان کو اس دائرے میں پوری پوری آزادی دیتی ہے۔

یہ امت وسط ہے، فکر و شعور کے میدان میں بھی، یہ موجودہ ذخیرۂ علم پر قانع اور منجمد ہو کر نہیں بیٹھ جاتی اور نہ علم و معرفت اور تجربہ و تحقیق کے دروازے بند کر دیتی ہے، لیکن وہ ہر سوچے سمجھے بغیر ہر نعرہ باز کے پیچھے نہیں لگ جاتی۔ بندر کی طرح ہر کسی کی نقل بھی نہیں کرتی۔ وہ اپنے نظریات، اصول اور نظام فکر و عمل کی محافظ بن جاتی ہے اور انہیں مضبوطی سے تھامے ہوئے ہوتی ہے، لیکن پوری انسانیت کے افکار و تجربات پر بھی کڑی نظر رکھے ہوئے ہوتی ہے۔ اور اس کی مستقل پالیسی یہ ہے !”سچائی مومن کا سامان گم گشتہ ہے۔ جہاں اسے مل گیا وہ اسے اٹھا لے گا۔ "لیکن ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور یقین کے ساتھ۔

وہ نظم و ضبط میں بھی امت وسط ہے۔ وہ کار گاہ حیات میں انسان کو، اس قدر آزاد بھی نہیں چھوڑتی کہ اس ضمیر و شعور کے سوا کوئی خارجی چیک نہ ہو۔ اس طرح وہ اسے پوری خشک قانونی جکڑ بندی اور جبری اصلاح کے طریقوں کے رحم و کرم پر بھی نہیں چھوڑ دیتی بلکہ وہ ایک طرف رشد و اصلاح کے ذریعہ ضمیر و شعور کو اجاگر کرتی ہے اور معاشرے میں نیکی کا شعور پیدا کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف سے قانونی نظام اور تعزیری تادیب کے ذرائع بھی استعمال میں لاتی ہے اور معاشرے کو منظم کرتی ہے۔ بلکہ رشد و ہدایت اور قانون تعزیر کے درمیان ایک حسین امتزاج کی قائل ہے۔ نہ وہ انسان کو صرف قانون کی جبریت کے حوالہ کرتی ہے اور نہ اس قدر آزاد چھوڑتی ہے۔

یہ امت، امت وسط ہے۔ روابط و تعلقات میں بھی امت وسط ہے۔ وہ فرد کے ذاتی وجود کو بھی ایک حقیقت تصور کرتی ہے، اس لئے اسے بالکل یہ نظر انداز نہیں کرتی کہ فرد کی شخصیت کو جماعت یا ریاست کی شخصیت میں بالکل گم کر دیا جائے۔ نہ ہی اس کو اس قدر آزاد چھوڑ دیتی ہے کہ وہ یکلخت خود سر ہو جائے اور اس کے سامنے اپنی ذات کے سوا کچھ نہ رہے۔ وہ فرد کے ان ذاتی رجحانات اور ان ذاتی قوتوں کو آزاد چھوڑ دیتی ہے جن کے نتیجے میں معاشرے میں حرکت اور فعالیت پیدا ہو اور وہ ترقی کرے۔ وہ ایسے رجحانات اور ایسی خصوصیات کو آزادی دیتی ہے، جس سے فرد کی ذات اور اس کی شخصیت کی تشکیل ہوتی ہو۔

اس کے بعد وہ سوچ سمجھ کر ایسی پابندیاں عائد کرتی ہے جو غلو اور افراط و تفریط کو منضبط کر دیں۔ عام طور پر وہ ایسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے جس سے جذبہ خدمت خلق پیدا ہو، لیکن اس کے بعد ایسی قانونی تدابیر بھی اختیار کرتی ہے جن کے ذریعہ فرد جماعت کا خادم ہو اور ریاست اور جماعت فرد کی کفیل ہوں اور امت وسط یہ کام بڑی ہم آہنگی سے انتہائی مناسب طریقے سے سر انجام دیتی ہے۔

جغرافیہ کے لحاظ سے بھی یہ امت وسط ہے۔ وہ زمین کے درمیان میں رہتی ہے۔ کرۂ ارض کے آباد علاقے کے مرکز میں، روئے زمین پر جہاں یہ امت آباد ہے وہ شمال و جنوب اور شرق و غرب کے عین وسط میں واقعہ ہے۔ انسان پر وہ گواہ اور پوری انسانیت اس پر گواہ۔ اس کے پاس جو کچھ ہے وہ اس کو تمام باشندگان زمین کو عطا کرتی ہے اور اس امت کے واسطہ ہی سے قدرت کے مادی خزانے اور روحانی خزانے پوری انسانی آبادی تک پہنچتے ہیں۔ اور وہ اس اہم مقام عالی پر حاکم و مختار ہے۔ اور تمام دنیا کی ملادی اور روحانی حرکات اس کے زیر اثر نظر آتی ہیں۔

مکان کے بعد زمانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو یہ بھی امت، امت وسط ہے۔ انسان کا عہد طفولیت آتے آتے اس امت پر ختم ہو جاتا ہے۔ اس امت سے، عقل و دانش کا دور بلوغ شروع ہوتا ہے۔ انسان کے عہد طفولیت سے۔ اس کے ساتھ اوہام و خرافات کی آلودگی چلی آ رہی تھی۔ یہ امت وسط، انسانی تاریخ کے ادوار کے وسط میں کھڑی اسے جھاڑ رہی ہے۔ اور اس دور بلوغ میں بھی اسے فتنہ خود سری اور عقلی بے راہ روی سے بچا رہی ہے۔ اس نے پیغمبروں کے دور کی خدائی ہدایات و تعلیمات اور عقل و حکمت کے دور جدید کے علمی اکتشافات کے درمیان ایک حسین ہم آہنگی پیدا کر دی ہے اور وہ عین وسط میں راہ مستقیم پر پوری انسایت کولے کر چلتی نظر آتی ہے اور ہر وقت نقطہ اعتدال پر رہتی ہے۔

یہ تھا وہ مقام جو کبھی اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بخشا تھا۔ کیا وہ اسے دوبارہ نہیں حاصل کرسکتی ؟یقیناً وہ اسے دوبارہ حاصل کرسکتی ہے۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ اس امت نے اس نظام زندگی کو ترک کر دیا ہے، جسے اللہ نے اس کے لئے پسند کیا تھا۔ اس کے بجائے اس نے دوسرے نظام ہائے زندگی کو اپنا لیا، جنہیں اللہ نے اس کے لئے پسند نہیں کیا۔ اس امت نے کچھ دوسرے رنگ ڈھگ اختیار کر لئے ہیں۔ جن میں سے ایک بھی صبغۃ اللہ نہیں ہے۔ حالانکہ اللہ کی مرضی یہ تھی کہ امت خالص اللہ کے رنگ میں رنگی ہوئی ہو۔

یہ ہے امت اور یہ ہے اس کا مشن اور یہ ہے اس کا رول۔ وہ اس لائق ہے کہ یہ ذمہ داریاں اٹھائے اور اس راہ میں قربانیاں دے۔ مقام قیادت کے لئے جو کچھ ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ مقام قیادت کے حصول سے پہلے آزمائشیں ضروری ہوتی ہیں تاکہ معلوم ہو کہ امت، اللہ کے معاملے میں کس قدر مخلص ویکسو ہے۔ اور وہ کس حد تک ایک صالح قیادت کی ذمہ داریاں اٹھانے کے لئے تیار ہے۔

تحویل قبلہ کا حکم صادر ہو گیا اور اس موقع پر اس کی وضاحت بھی ہو گئی کہ مسلمانوں کو کیوں حکم دیا گیا تھا کہ وہ مسجد اقصیٰ کی طرف رجوع کر کے نماز پڑھیں وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْہَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْہِ

"پہلے جس قبلے کی طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا ہے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ ”

اس آیت سے وہ منصوبہ اچھی طرح معلوم ہو جاتا ہے جو اس نوخیز جماعت کی دینی تربیت کے لئے اللہ تعالیٰ نے وضع کیا تھا، اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ تھی کہ جماعتِ اسلامی نظریہ کی وارث و امین ہو گی اور خلافت فی الارض کا منصب حاصل کرے گی۔ اللہ تعالیٰ کی مرضی یہ تھی کہ امت خالصتاً اس نظریۂ حیات کے لئے کام کرے اور وہ اپنے دل و دماغ کو تمام جاہلی تصورات کے اثر سے پاک کر دے۔ وہ تمام قدیم عادات اور قومی خصوصیات کو ترک کر دے۔ جاہلیت کی ہرسلگتی ہوئی چنگاری کو بجھا دے۔ جاہلیت کے تمام لباس کو اتار پھینکے۔ جاہلیت کا ہر شعار ترک کر دے۔ اس کے شعور میں صرف اسلامی سند ہو، خالص اسلامی شعار، ہر آمیزش سے پاک شعار۔ اس کے رشد و ہدایت کا سرچشمہ ایک اور صرف ایک ہو، کوئی دوسرا سرچشمہ اس میں شریک نہ ہو۔

بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کے معاملہ میں نظریاتی رجحان کے علاوہ کچھ اور رجحانات بھی تھے۔ قریش مکہ کے مورث اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خالص اسلامی نظریہ ان کے ہاں خالص نہ رہا تھا۔ اس میں مختلف اقسام کی شرک داخل ہو چکی تھی اور قومی عصبیت بھی ان کے دین کا حصہ بن چکی تھی۔ اس وقت بیت اللہ صرف عربوں کا مقدس مقام تصور ہوتا تھا اور اللہ کی رضا اس میں تھی کہ وہ عربوں کے بجائے اللہ کا مقدس مقام ہو۔ اور اللہ کی نسبت کے سوا اس کی طرف کوئی اور نسبت نہ ہو۔ اور یہ مقام صرف ربانی شعار ہو، کوئی اور نسبت اس سے منسلک نہ ہو۔

چونکہ کعبہ شریف کے ساتھ عربوں کے تاریخی جذبات بھی وابستہ تھے۔ اور قومی میلانات بھی وابسطہ تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر عرصے کے لئے یہ حکم دیا کہ مسلمانوں کا قبلہ، کعبہ شریف کے بجائے مسجد اقصیٰ ہو گا تاکہ عربوں کے دلوں سے خانہ کعبہ کے سلسلے میں تاریخی اور قومی میلانات کی جڑ کٹ جائے، پھر یہ بھی معلوم ہو جائے کہ مسلمانوں میں سے کون جو رسول اللہﷺ کی اطاعت کرتا ہے اور کون ہے جو نہیں کرتا۔ وہ لوگ جو رسولﷺ کی اطاعت محض اس لئے کرتے ہیں کہ وہ رسول خدا ہیں، ان لوگوں سے جدا ہو جائیں جو اس لئے آپ کے مطیع فرمان ہیں کہ آپ عرب ہیں اور خانہ کعبہ کو قبلہ و کعبہ سمجھتے ہیں، اور اس وجہ سے کہ ان کے قومی شعور اور ان کے قدیم مقامات مقدسہ کے احترام کے جذبات کو اسلام میں بھی اہمیت دی جاتی ہے اور یہ کہ ان کے تاریخی میلانات کا سامان تسکین اسلام میں بھی ہے اور ضرور اسی وجہ سے وہ مسلمان ہیں۔

یہ ایک نہایت لطیف اور دقیق نکتہ ہے۔ اسلام کا نظریۂ حیات وحدہ لاشریک ہے اور جب وہ کسی دل میں جاگزیں ہو جائے تو پھر اس دل میں وہ کسی اور شریک کو برداشت نہیں کرتا۔ وہ اپنے شعار اور اپنی خصوصیات کے سوا تمام دوسرے شعارات و خصوصیات کو ختم کر دیتا ہے۔ اسلامی نظریہ حیات تمام جاہلی طور طریقوں کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ بڑے ہوں یا چھوٹے۔ یہ آیت اس طرف اشارہ کرتی ہے وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِي كُنْتَ عَلَيْہَا إِلا لِنَعْلَمَ مَنْ يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ يَنْقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْہِ”پہلے جس قبلے کی طرف تم رخ کرتے تھے اس کو تو ہم نے صرف یہ دیکھنے کے لئے قبلہ مقرر کیا ہے کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ ”

اللہ تعالیٰ تو مستقبل میں ہونے والے واقعات سے قبل از وقوع ہی باخبر ہیں، لیکن اراۂ الٰہی یہ ہوتا ہے کہ ہونے والا واقعہ لوگوں پر ظاہر ہو جائے اور اس کے بعد محاسبہ کیا جائے اور سزا دی جائے۔ وہ اپنے رحم و کرم کی وجہ سے محض اپنے علم مستقبل کی بنا پر سزا نہیں دیتا۔ صرف ان امور پر سزادیتا ہے جو واقع ہو جائیں اور مجرم سے ان کا صدور ہو جائے۔

یہ بات اللہ کے علم میں تھی تمام تاریخی اور قومی شعوری رجحانات کو یکلخت ترک کر دینا، ایسی خصوصیات اور شعارات کو جو دل و جان سے اٹکی ہوئی ہوں اور جو دل و دماغ میں رچی بسی ہوں، یکلخت ترک کر دینا ایک نہایت ہی مشکل کام ہے، نہایت ہی شاق ہوتا ہے ان کا اکھاڑ پھینکنا۔ یہ کام صرف اس وقت ہوسکتا ہے کہ جب ایمان دل و دماغ پر پوری طرح چھا جائے اور پھر اس دل کو خدائی امداد حاصل ہو اور ذات باری کا قرب حاصل ہو۔ ذات باری اسے اپنے ساتھ ملا لے اور اس کی راہنمائی کرے وَإِنْ كَانَتْ لَكَبِيرَۃً إِلا عَلَى الَّذِينَ ہَدَى اللَّہُ”یہ معاملہ تھا بڑا سخت مگر ان لوگوں کے لئے کچھ بھی سخت ثابت نہ ہوا، جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے۔ ”

چونکہ وہ ہدایت الٰہی سے فیض یاب ہے، اس لئے ان کے لئے، اپنے دل و دماغ سے جاہلی تصورات کو نکال دینا کوئی مشکل کام نہ تھا۔ اور انہوں نے ہدایت پاتے ہیں جاہلیت کے تمام نشانات کو پرے پھینک دیا۔ یہ امت اللہ کی امت بن گئی سمع وطاعت اس کا شعار ہو گیا اور حالت یہ ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ جس طرف چاہیں اسے ادھر موڑ دیں۔ رسول اللہﷺ جدھر چاہیں انہیں لے جائیں۔

اب مسلمانوں کو ان کے ایمان اور ان کی نماز کے بارے میں اطمینان دلایا ہے کہ وہ راہ ہدایت پر گامزن ہیں۔ اس لئے ان کی نمازیں ضائع نہیں ہوسکتیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کبھی ظلم نہیں کرتا۔ وہ اس کی جو عبادت بھی گزارتے ہیں، اسے ضائع نہیں کرتا، وہ ان پر ایسا بوجھ نہیں ڈالتا جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ اگرچہ یہ طاقت ایمان کی وجہ سے قوی تر ہو جاتی ہے بلکہ وہ دوچند ہو جاتی ہے : وَمَا كَانَ اللَّہُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّہَ بِالنَّاسِ لَرَء ُوفٌ رَحِيمٌ”اللہ تمہارے ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا، یقین جانو کہ وہ تم لوگوں کے حق میں نہایت شفیق و رحیم ہے۔ ”

وہ انسان کی طاقت اور قوت برداشت سے اچھی طرح باخبر ہے۔ لہٰذا وہ کوئی ایسا حکم صادر نہیں کرتا جو ان کے دائرہ طاقت سے باہر ہو۔ وہ تو انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔ اور اگر ان کی نیت ٹھیک ہو، عزم پختہ ہو تو وہ ہر امتحان میں خود ان کی امداد کرتا ہے تاکہ وہ کامیابی کے ساتھ اس آزمائش سے نکل آئیں۔ اگر امتحان و آزمائش اس کی حکمت کا مظہر ہیں، تو آزمائش میں پورا اترنا اس کا فضل وکرم ہے : إِنَّ اللَّہَ بِالنَّاسِ لَرَء ُوفٌ رَحِيمٌ”یقین جانو کہ وہ تم لوگوں کے حق میں شفیق و رحیم ہے۔ ”

یوں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دلوں میں طمانیت قلب کا جام انڈیل دیتا ہے۔ ان کی بے اطمینانی دور ہو جاتی ہے۔ اور ان کے دلوں میں رضائے الٰہی کا پختہ شعور اور یقین پیدا ہو جاتا ہے۔

اب اعلان ہوتا ہے کہ قبلہ کے معاملہ میں رسول خداﷺ کی خواہش پوری کر دی گئی۔ تحویل قبلہ کا اعلان ہو جاتا ہے، لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں کو یہودیوں کی فتنہ انگیزی سے بھی باخبر کر دیا جاتا ہے۔ ان عوامل اور محرکات سے بھی پردہ اٹھایا جاتا ہے جو اس فتنہ انگیزی اور مسلسل سازشوں کے پس منظر میں کام کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس انداز میں کہ تحریک اسلامی کو اس عظیم جدوجہد کا صحیح علم ہو جائے، جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی تنظیم و تربیت کے لئے کی جا رہی ہے جو مخالفین کی فتنہ انگیزیوں اور غوغا آرائیوں سے بچانے کے لئے، اس کی خاطر کی جا رہی ہے۔

 

یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ لو ہم اس قبلے کی طرف تمہیں پھیر دیتے ہیں جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو۔ اب جہاں کہیں تم ہو اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔

یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی ہے، خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور برحق ہے، مگر اس کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔ تم ان اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آؤ، ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں اور نہ تمہارے لئے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو، اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے لئے تیا ر نہیں ہے اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا، جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اس مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے )ایسا پہچانتے ہیں ہیں، جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں۔ مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپا رہا ہے۔ یہ قطعی ایک امر حق ہے تمہارے رب کی طرف سے، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو۔

ہر کسی کے لئے ایک رخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ پس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو، جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پالے گا۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں ہے۔ تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو، وہیں سے اپنا رخ (نماز کے وقت)مسجد حرام کی طرف پھیر دو، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل برحق فیصلہ ہے۔ اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ اور جہاں سے بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو، اور جہاں بھی تم ہو، اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ رہے۔ ہاں جو ظالم ہیں ان کی زبان کسی حال میں بند نہ ہو گی تو ان سے تم نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو۔ اور اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کروں گا اور اس توقع پر کہ میرے حکم کی پیروی سے تم فلاح کا راستہ پاؤ گے۔ ” (١٤٤۔ ١٥٠)

 

ان آیات کے شروع میں نبیﷺ کی حالت کی تصویر کشی ان الفاظ میں کی گئی تھی !قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْہِكَ فِي السَّمَاء ِ”اے رسول!یہ تمہارے منہ کا بار بار آسمان کی طرف اٹھنا ہم دیکھ رہے ہیں۔ ”

اس سے اس شدید خواہش کا اظہار ہوتا ہے جو آپﷺ تحویل قبلہ کے سلسلے میں رکھتے تھے۔ یہودیوں اور کٹ حجتیوں اور دلیل بازیوں سے مجبور ہو کر آپﷺ یہ چاہنے لگے تھے کہ مسلمانوں کا موجودہ قبلہ بدل جائے۔ چونکہ مسلمان یہودیوں کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز ادا کرتے تھے اور یہودیوں نے اس غلط پروپیگنڈے، غوغا آرائی اور مسلمانوں کو گمراہ کرنے کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی تھی، ا س کے لئے رسول اللہﷺ اپنی دلی خواہش کے تحت، بار بار منہ آسمان کی طرف اٹھاتے، ادب و احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی بات کا اظہار نہ کرتے، اس خوف سے کہ جناب باری میں وہ کوئی تجویز پیش کرنے کی جرأت کیسے کریں ؟یا از خود کوئی بات اللہ کے سامنے لائیں۔ مبادا کہ اللہ کو پسند نہ ہو لیکن اللہ نے اس کی خواہش پوری کر دی۔ اور جن الفاظ میں یہ خواہش پوری کی گئی ہے، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کو اپنے حبیب کی رضا منظور تھی۔

فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَۃً تَرْضَاہَا”لو ہم اس قبلہ کی طرف تمہیں پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ ”

اب اس قبلہ کا تعین ہو جاتا ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ آپ کی مرضی بھی اسی میں ہے : فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ”مسجد حرام کی طرف رخ پھیر دو۔ ”

اب یہ تمہارا قبلہ ہے تمہاری امت کا قبلہ ہے۔ جو لوگ تمہارے ساتھ موجود ہیں ان کا اور جو آنے والے ہیں ان کا تا قیامت، قبلہ ہے۔ اس وقت تک جب کرۂ ارض پر اور اس میں بسنے والے آخر کار اللہ کے سامنے پیش ہوں گے :

وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوہَكُمْ شَطْرَہُ”اب جہاں کہیں بھی تم ہو، اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھا کرو۔ ”

ہر سمت سے، کرۂ ارض کے تمام اطراف و جوانب سے، اب یہ ایک ہی قبلہ ہے اور امت کا ہر فرد اسی طرف رخ کرے گا جہاں کہیں بھی وہ رہتا ہو، چاہے وطن کوئی بھی ہو، محل وقوع دور دراز ہی کیوں نہ ہو۔ چاہے ان افراد کے رنگ جدا ہوں، زبانیں مختلف ہوں اور قومیتیں الگ ہوں لیکن قبلہ ایک ہو گا۔ اور امت مسلمہ چاہے شرق میں ہو یا غرب میں، اس سمت میں قبلہ رخ ہو گی۔ یوں اس امت میں احساس پیدا ہوتا ہے کہ وہ ایک جسم ہے، ایک جان ہے، ایک ہی نصب العین اس کے سامنے ہے، ایک ہی نظام زندگی کے قیام کے لئے، سرگرم عمل ہے۔ وہ نظام جو اسے ایک ہی تصور، ایک ہی رسولﷺ اور ایک ہی قبلہ عطا کرتا ہے۔

یوں اللہ نے اس امت کو جوڑ دیا۔ ایک اللہ، ایک رسول، ایک دین اور ایک قبلہ۔ قومیت اوطان اور السنہ و الوان کے اختلاف کے باوجود ایک امت رنگ ونسل و وطن کے تمام اصولوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور وحدت امت کی اساس اسلامی نظریۂ حیات اور وحدت قبلہ پر رکھی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہی اتحاد بنی آدم کے شایان شان ہے کیونکہ انسان عقیدے اور نظریہ پر متحد ہوتا ہے۔ ایک طرز عبادت اور قبلہ عبادت پر متحد ہوتا ہے جبکہ حیوانات کا اجتماع چارے، چراگاہ اور باڑے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

اب موضوع ہے "اہل کتاب اور قبلہ جدیدہ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّہِمْ، یہ لوگ جنہیں کتاب دی گئی تھی، خوب جانتے ہیں کہ تحویل قبلہ کا، یہ حکم ان کے رب ہی کی طرف سے ہے اور برحق ہے۔ ”

یہ بات ٹھیک ٹھیک ان کے علم میں ہے کہ خانہ خدا یعنی مسجد حرام کی بنیادیں اٹھانے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے۔ اس امت کے جد امجد جو اس مشن کے وارث بنے بلکہ تمام مسلمانوں کے جد امجد، انہیں اس امر کا بھی ٹھیک ٹھیک طرح علم ہے کہ قبلہ جدید کا حکم بھی اللہ ہی کی جانب سے آیا اور اس میں شک نہیں ہے لیکن اپنی موروثی عادت کے مطابق وہ اپنے اس علم و یقین کے عین مخالف رویہ اختیار کریں گے۔ محض مسلمانوں کی دشمنی اور عناد کی بنا پر، لیکن اللہ ہی ان کا محافظ ہے۔ وہی ہے نگہبان جو ان کی ہر سازش کو برباد کرے گا وَمَا اللَّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ”مگر اس کے باوجود جو کچھ یہ کر رہے ہیں، اللہ اس سے غافل نہیں ہے۔ ”

وہ کسی بھی دلیل سے مطمئن نہی ہوسکتے۔ ان کے ہاں فہم دلیل کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اگر وہاں کسی چیز کی کمی ہے تو وہ اخلاص ہے۔ وہ ہوائے نفس کے بندے ہیں اور باوجود علم کے ان میں حق و صداقت کے تسلیم کرنے کی استعداد نہیں ہے : وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَۃٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ”تم ان اہل کتاب کے سامنے ب چاہے کوئی دلیل پیش کرو، ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں۔ ”

ان کی نکیل ہوائے نفس کے ہاتھ میں ہے۔ دنیاوی مصالح انہیں ہانکے لے جا رہے ہیں اور ذاتی اغراض ان کے لئے حدی خواں ہیں۔ مخلصین میں سے بے شمار لوگ اب بھی ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ اسلام کو اس لئے قبول نہیں کرتے کہ انہیں اسلام کا صحیح علم نہیں ہے۔ یا ان کے سامنے اطمینان بخش طریقے سے، اسلام پیش ہی نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک وہم ہے وہ تو اسلام قبول ہی اس لئے نہیں کرتے کہ انہیں اس کا صحیح صحیح علم ہے !اور وہ جانتے ہیں کہ اسلام ان کے مفادات کے سراسر خلاف ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اس میں ان کے لئے قیادت وسیادت کا کوئی مقام نہیں ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اسلام کے خلاف مسلسل بلا انقطاع سازشیں کرتے چلے جاتے ہیں، مختلف طریقوں سے، مختلف وسائل کے ذریعہ، براہ راست بھی اور بالواسطہ بھی وہ اسلام کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ دوبدو بھی اور پس پردہ بھی۔ وہ اسلام کے خلاف خود بھی لڑتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس کے خلاف لڑنے پر آمادہ اور برانگیختہ کرتے ہیں۔ غرض ہر شکل میں وہ یہ کام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبیﷺ سے جو کہا ہے وہ ہر وقت اس کا مصداق ہیں وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَۃٍ مَا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ”تم اہل کتاب کے سامنے چاہے کوئی دلیل پیش کرو، ممکن نہیں کہ وہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں۔ ”

اہل کتاب کا حال تو یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے قبلہ اور اسلامی نظام زندگی سے مسلسل اعراض کرتے چلے آتے ہیں۔ جس کے اشارات اس قبلے میں واضح طور پر نظر آتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے اس موقف کے مقابلے میں نبیﷺ اور حلقہ بگوشان اسلام کا موقف کیا ہے ؟ وَمَا أَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَہُمْ”اور نہ تمہارے لئے یہ ممکن ہے کہ ان کے قبلے کی پیروی کرو”قدرتی طور پر یہ درست موقف ہے۔

یعنی آپﷺ کی شان کے خلاف ہے کہ آپﷺ کسی صورت میں ان کے قبلے کی پیروی کریں، یہاں قرآن نے یہ انداز بیان اختیار کیا "اور آپ بھی ان کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہیں "یعنی جملہ اسمیہ منفیہ اور یہ نہیں کہا کہ "آپ ان کے قبلے کی پیروی نہیں کرتے "کیونکہ پہلے فقرے کے ذریعے رسولﷺ کی مستقل شان اور اس معاملے میں اپنے موقف سے ڈٹا رہنے کا اظہار اچھی طرح ہوتا ہے اور آپﷺ کے بعد اس امت مسلمہ کو بھی واضح اشارہ مل جاتا ہے کہ وہ اپنے رسول کے اختیار کردہ قبلے کو ہرگز ترک نہ کرے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ اپنے رسول کی خواہش اور دلجوئی کی خاطر تمہارے لئے پسند کیا ہے۔ وہ اس ربانی جھنڈے کے سواکوئی علم بلند نہ کرے، وہ اسلامی نظام حیات کے علاوہ کسی دوسرے نظام کی پیروی نہ کرے، جس کی طرف تحویل قبلہ میں اشارات موجود ہیں۔ جب تک وہ امت، امت مسلمہ ہے اسے یہی طرز عمل اختیار کرنا چاہئے۔ اگر وہ ایسا نہ کرے تو پھر اس کا اسلام سے کوئی واسطہ اور تعلق نہ رہے گا۔ اس کا اسلام محض دعوائے اسلام رہ جائے گا۔

تحویل قبلہ کی مناسبت سے بتایا جاتا ہے کہ خود اہل کتاب کے مابین بھی قبلے کے معاملے میں شدید اختلاف رائے پہلے سے موجود ہے۔ وہ بھی باہم متفق نہیں ہیں کیونکہ ان کی خواہشات نفس بھی مختلف ہیں وَمَا بَعْضُہُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ”اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے گروہ کے قبلے کی پیروی کے لئے تیار نہیں۔ ”

یہود و نصاریٰ کے درمیان عداوت ہے، مختلف یہودی فرقے بھی ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ پھر مختلف نصرانی فرقے بھی باہم برسرپیکار ہیں۔

جب رسولﷺ کے ساتھ اہل کتاب کی یہ عداوت ہے اور آپ پر اللہ کی طرف سے سچائی نازل بھی ہو گئی ہے تو پھر آپﷺ کے لئے یہ کیونکر درست ہوسکتا ہے کہ آپﷺ ان کی خواہشات نفس کی پیروی کریں جب آپ کے پاس اللہ کی جانب سے علم آ چکا ہے : وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَہْوَاء َہُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاء َكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذاً لَمِنَ الظَّالِمِينَ”اور اگر تم نے اس علم کے بعد، جو تمہارے پاس آ چکا ہے، ان کی خواہشات کی پیروی کی تویقیناً تمہارا شمار ظالموں میں سے ہو گا۔ ”

اس سے پہلے اندازِ کلام نہایت نرم اور مشفقانہ تھا، لیکن یہاں آ کر نبیﷺ کے ساتھ خطاب خداوندی یکایک کچھ سخت ہو جاتا ہے۔ انداز کلام میں قطعی سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے۔ یہ کیوں ؟اس لئے کہ اب بات عمل واستقامت کی ہے۔ معاملہ ہدایات پر عمل کرنے کا ہے۔ چنانچہ دو ٹوک الفاظ میں متنبہ کیا جاتا ہے۔ إِنَّكَ إِذاً لَمِنَ الظَّالِمِينَ”تو یقیناً تمہارا شمار ظالموں میں ہو گا۔ ”

راہ واضح ہے۔ صراط مستقیم سامنے ہے۔ علم وہ ہے جو اللہ کی جانب سے ہو۔ اس کے سوا دوسرے ذرائع سے صرف ہوائے نفس ہی حاصل ہوتی ہے۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ علم یقین حاصل کرے۔ بدلنے والے اور خواہش نفسانیہ پر مبنی مشکوک ذرائع علم کے مقابلے میں علم حقیقی کو ترک نہ کرے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ جو علم وحی پر مبنی نہ ہو وہ ہوائے نفس کے سوا کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔

یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ یہودیوں کے منظم پروپیگنڈہ اور گمراہ کن وسوسہ اندازیوں کے نتیجے میں، مدینہ طیبہ کے اندر بعض مسلمانوں کی ذہنی کیفیت ایسی ہو گئی تھی کہ ان کے لئے اس قسم کی قطعی تعبیر کی ضرورت تھی۔ ان کو ڈرانا مناسب تھا۔ زجر و توبیخ کا انداز مناسب تھا۔

مسلمانوں سے اس مختصر خطاب کے بعد اب روئے سخن پھر اصل موضوع پر لوٹ آتا ہے۔ بات وہی ہے کہ اہل کتاب اس بات کو یقینی طور پر جانتے ہیں کہ حق وہی ہے جس کا اظہار قرآن شریف کرتا ہے اور جس کا حکم رسولﷺ دیتے ہیں لیکن وہ اپنے اس یقینی علم کے باوجود، اس حق کو چھپاتے ہیں۔ کیوں ؟اس لئے کہ وہ اللہ پرست نہیں بلکہ نفس پرست ہیں !

الَّذِينَ آتَيْنَاہُمُ الْكِتَابَ يَعْرِفُونَہُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاء َہُمْ وَإِنَّ فَرِيقاً مِنْہُمْ لَيَكْتُمُونَ الْحَقَّ وَہُمْ يَعْلَمُونَ”جن کو، ہم نے کتاب دی ہے۔ وہ ا س مقام کو (جسے قبلہ بنایا گیا ہے )ایسا ہی پہچانتے ہیں جیسا کہ وہ اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں مگر ان میں سے ایک گروہ جانتے بوجھتے حق کو چھپارہا ہے۔ ”

اپنے بچوں کو پہچاننا علم و معرفت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔ عربی زبان میں یہ مثال ایک ایسے مقام اور ایسے واقعہ کے لئے استعمال ہوتی ہے جو یقینی ہو اور اس کے علم و معرفت میں کوئی شک و شبہ نہ ہو۔ اہل کتاب کی حالت یہ ہے کہ ان کو سچائی کا یقینی علم ہو چکا ہے۔ تحویل قبلہ کا حکم بھی اسی عالم گیر سچائی کا ایک حصہ ہے اور پھر بھی وہ اس سچائی کو چھپاتے ہیں جو یقینی علم کے طور پر انہیں حاصل ہے۔ تو پھر مؤمنین کے درست راہ عمل یہ ہے کہ وہ یہودیوں کے کذب و افتراء سے ہرگز متاثر نہ ہوں۔ ان کو یہ بات ہرگز زیب نہیں دیتی کہ وہ ان یہودیوں سے کوئی چیز اخذ کریں جنہیں حقیقت کا علم ہے اور پھر بھی وہ اسے چھپاتے ہیں۔ وہ خود اپنے دین کے اس حصے کا بھی انکار کر دیتے ہیں جسے مسلمانوں کے رسول امین وحی کی صورت میں پیش کریں۔ محض تعصب کی وجہ سے۔

اہل کتاب کے سلسلے میں بیان کے بعد اب روئے سخن نبیﷺ کی ذات کی طرف ہو جاتا ہے الْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ فَلا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِينَ”یہ ایک قطعی امر حق ہے، جو تمہارے رب کی طرف سے ہے، لہٰذا اس کے متعلق تم ہرگز کسی شک میں نہ پڑو۔ ”

کیا رسول اللہﷺ نے کبھی شک کیا ؟نہیں ہرگز نہیں۔ ایک دوسری آیت میں جب کہا گیا:فَاِن کُنتَ فِی شَکٍّ مِّمَّا اَنزَلنَا اِلَیکَ فَساَلِالَّذِینَ یَقرَء ُونَ الکِتَابَ مِن قَبلِکَ”جو کلام ہم نے تمہاری طرف نازل کیا ہے، اگر تمہیں اس کے بارے میں کوئی شک ہے تو ان لوگوں سے پوچھ لو جو تم سے پہلے کتاب پڑھتے چلے آرہے ہیں۔ ”

اس پر آپﷺ نے فرمایا!”نہ مجھے شک ہے اور نہ ہی میں ان سے پوچھتا ہوں۔ ”

تو پھر رسول اللہﷺ کو ذاتی طور پر کیوں مخاطب کیا گیا ؟مسلمانوں کو متوجہ کرنا تھا۔ چاہے وہ مسلمان جو آپ کے ساتھ موجود تھے اور یہودیوں کے خرافات سے متاثر ہو رہے تھے یا وہ لوگ جو بعد میں آنے والے تھے اور دینی معاملات میں یہودیوں کے اباطیل و اکاذیب سے متاثر ہوسکتے تھے۔

میں کہوں گا کہ آج مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ذرا اس تنبیہ پر کان دھریں۔ آج ہم ایسی نادانی میں مبتلا ہیں جس کی کوئی مثال ہی نہیں ہے۔ ہم اپنے دینی معاملات میں بھی یہود و نصاریٰ اور اشتراکی ملحدین سے یہ ہدایت طلب کرتے ہیں اور فتویٰ لیتے ہیں۔ ہم ان لوگوں سے خود اپنی تاریخ پڑھتے ہیں۔ ہم ان پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ورثہ کے بارے میں کوئی بات کریں۔ وہ ہمارے قرآن اور ہمارے رسولﷺ کی سنت اور آپ کی سیرت کے بارے میں جو شکوک پیدا کرتے ہیں یہ ان پر اطمینان سے کان دھرتے ہیں۔ ہم ان کے پاس اپنے طلبہ بھیجتے ہیں تاکہ وہ ان سے اسلامی تعلیمات حاصل کریں اور ان کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہو کر آئیں اور جب ہمارے پاس لوٹیں تو ان کی عقل ان کا ضمیر فاسد ہو چکا ہو اور وہ فاضل کہلائیں۔

یاد رکھئے !یہ قرآن ہمارے لئے کتاب شریعت ہے۔ وہ پوری امت مسلمہ کی کتاب ہے۔ یہ امت کی وہ دائمی کتاب ہے جس میں اسے راہ عمل بتایا گیا ہے اور اسے راہ بد سے ڈرایا گیا ہے۔ اس کے بالمقابل اہل کتاب بہرحال اہل کتاب ہیں۔ کفار، کفار ہیں۔ ان کا دین ان کا دین ہے، اور ہمارا دین ہمارا دین!

اب بات کا رخ اصل موضوع کی طرف پھر جاتا ہے۔ مسلمانوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ اہل کتاب کی باتوں پر کان ہی نہ دھریں۔ ان کی ہدایات و رہنمائی قبول ہی نہ کریں اور مستقل مزاجی کے ساتھ اپنے طریق زندگی اور اپنے نقطہ نظر کی طرف بڑھتے چلے جائیں۔ ہر گروہ کا اپنا رخ رفتار ہوتا ہے۔ مسلمانوں کا رخ نیکی اور خیر کی طرف ہے۔ انہیں چاہئے کہ کسی چیز کی طرف بھی نظریں نہ اٹھائیں اور بڑھتے چلے جائیں۔ آخر کار انہیں خداوند قیامت کے سامنے حاضر ہونا ہے جواس پر اچھی طرح قدرت رکھتا ہے کہ انہیں جمع کرے۔ وہ قادر ہے کہ وہاں سب کو جزا وسزا دے :وَلِكُلٍّ وِجْہَۃٌ ہُوَ مُوَلِّيہَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَمَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّہُ جَمِيعاً إِنَّ اللَّہَ عَلَى كُلِّ شَيْء ٍ قَدِيرٌ”ہر ایک کے لئے ایک رخ ہے، جس کی طرف وہ مڑتا ہے۔ بس تم بھلائیوں کی طرف سبقت کرو۔ جہاں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں پالے گا۔ اس کی قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔ ”

اہل کتاب جو فتنے پھیلاتے تھے اور جو سازشیں کرتے تھے اور اللہ کے کلام کی جو تاویلات و تحریفات کرتے تھے یہاں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اہل کتاب کی ان کارستانیوں میں بالکل دلچسپی نہ لیں۔ وہ راہ عمل پر گامزن ہوں اور نیکی کے کام میں میں ایک دوسرے کے آگے بڑھیں۔ ساتھ ساتھ یہ یاد دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ آخرکار انہیں اللہ تعالیٰ کے سامنے آنا ہے۔ وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اس کے لئے کوئی کام مشکل نہیں ہے۔ نہ ہی کوئی چیز اس کی نظروں سے اوجھل ہوسکتی ہے۔ یہ ہے وہ سچائی جس کے مقابلے میں تمام اقوال احوال باطل ہیں، جن کی کچھ حقیقت ہی نہیں ہوتی۔

پھر تحویل قبلہ کی بات دھرائی جاتی ہے، تاکیداً حکم دیا جاتا ہے کہ جدید قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھا کرو، جسے اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہے، اس موقع پر کچھ نئی تعریفات مرتب ہوئی ہیں اور کچھ نتائج نکالے جاتے ہیں۔ وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِنَّہُ لَلْحَقُّ مِنْ رَبِّكَ وَمَا اللَّہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ”تمہارا گزر جس مقام سے بھی ہو، وہیں سے اپنا رخ (نماز کے وقت )مسجد حرام کی طرف پھیر دو، کیونکہ یہ تمہارے رب کا بالکل برحق فیصلہ ہے اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے۔ ”

اس تاکیدی حکم میں یہودیوں کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی قبلے کے سلسلے میں ان کے موقف کا ذکر ہے۔ کہا گیا ہے کہ نبیﷺ جہاں بھی ہوں اور ان کا گزر جس مقام سے بھی ہو، وہ نماز کے وقت بیت اللہ کی طرف پھیر دیں۔ کیونکہ یہ ان کے رب کا برحق فیصلہ ہے۔ اشارۃً یہ بھی کہہ دیا گیا کہ کہیں تمہیں اس سچائی سے روگردانی نہ کر دو۔ قرآن مجید کے الفاظ :”اور اللہ تم لوگوں کے اعمال سے بے خبر نہیں ہے "واضح طور پر اس طرف اشارہ ہوتا ہے۔ ان الفاظ سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ واقعی بعض مسلمانوں کے دلوں میں خلجان تھا اور ایسی صورت حال موجود تھی کہ اللہ تعالیٰ کو بار بار تاکید کرنی پڑی اور شدید وعید بھی فرمائی۔

تیسری مرتبہ پھر بالکل ایک جدید غرض کی خاطر، قبلہ کے معاملے میں تاکید کی جاتی ہے۔ مسلمان یہودیوں کے قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے اور یہودی اور دوسرے لوگ اس پر استدلال کرتے تھے کہ ان کا دین مسلمانوں کے دین سے زیادہ افضل ہے۔ کیونکہ ان کا قبلہ اصل ہے، لہٰذا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا نظام زندگی بھی اصل ہے۔ اس لئے تحویل قبلہ کے حکم کی تاکید مزید کر کے اس استدلال کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا گیا۔ (دوسری طرف مشرکین عرب بیت الحرام کو ایک مقدس مقام سمجھتے تھے اور اس کا بے حد احترام کرتے تھے۔ وہ بھی بیت المقدس کے قبلہ ہونے پر یوں اعتراض کرتے تھے کہ مسلمان تو یہودیوں کے تابع ہیں۔ انہوں نے اپنے مقدس مقام کو چھوڑ دیا ہے اور بنی اسرائیل کے قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں۔

وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْہَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُمَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوہَكُمْ شَطْرَہُ لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّۃٌ إِلا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْہُمْ فَلا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِي وَلأتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَہْتَدُونَ”اور جہاں بھی تمہارا گزر ہو، اپنا رخ مسجد حرام کی طرف پھیرا کرو اور جہاں بھی تم ہو، اسی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہ ملے۔ ہاں جو ظالم ہیں ان کی زبان کسی حال میں بھی بند نہ ہو گی۔ تو ان سے تم نہ ڈرو، بلکہ مجھ سے ڈرو، اور اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں۔ اس توقع پر کہ تم یہ ہدایت و فلاح کاراستہ پالو۔ ”

رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ تمہارا گزر جہاں سے بھی ہو، مسجد حرام کی طرف رخ کر کے نماز پڑھیں۔ اور مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ جہاں بھی وہ ہوں اپنا منہ بیت اللہ کی طرف پھیر کر نماز پڑھا کریں۔

ارشاد ہوا ! لِئَلا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّۃٌ”تاکہ لوگوں کو تمہارے خلاف حجت نہ ملے۔ "ظالم اپنی بات کرتے ہی رہیں گے۔ وہ کسی حجت اور کسی دلیل کے آگے نہیں جھکتے۔ ہدایت ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کو نظرانداز کر دیا جائے۔ یہ لوگ کٹ حجتی کرتے ہیں اور عناد میں مبتلا ہیں۔ ایسے لوگوں کو کسی بھی طرح مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اپنی حجت بازی جاری رکھیں گے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ فَلا تَخْشَوْہُمْ وَاخْشَوْنِي”ان سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو”

ان کو تم پر کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔ تمہاری زمام کار ان کے ہاتھ میں نہیں ہے۔ یہ بات تمہارے شایان شان نہیں ہے کہ تم ان سے ڈر کر ان احکام کو ترک کر دو، جو میری جانب سے تم پر نازل ہوئے۔ ڈر اور خشیت کے لائق تو میں ہوں۔ اس لئے کہ تمہاری دنیا و آخرت کے تمام امور میرے ہاتھ میں ہیں۔

ظالموں کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کو اللہ کی پکڑ سے ڈرایا جاتا ہے اور مسلمانوں کو اللہ کے انعام و اکرام یاد دلائے جاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے اپنا رویہ درست رکھا اور احکام خداوند کی اطاعت کی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ مزید انعامات کی بارش ہو گی :وَلأتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَہْتَدُونَ”اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں اس توقع پر کہ تم راہ ہدایت پالو۔ ”

غرض یہ ایک یاد دہانی ہے جس میں ایک خاص اشارہ ہے، ایک بڑھتی ہوئی حوصلہ افزائی ہے، اور بار بار اللہ کے فضل و کرم کی طرف اشارہ ہے۔

وہ کیا انعام ہے ؟وہ تو ان کے ہاتھوں میں ہے، خود ان کے دل و دماغ گواہ ہیں کہ وہ کیا ہے ؟ان کی پوری زندگی میں موجود ہے۔ وہ اپنے موقف اور اپنے معاشرہ میں اسے پاتے ہیں۔ اس کائنات میں انہوں نے جو مقام اپنے لئے متعین کیا ہے اس میں بھی وہ اس نعمت کو پاتے ہیں۔

وہ جاہلیت کی جہالتوں اور تاریکیوں میں زندگی بسر کر چکے تھے۔ وہ اپنی آنکھوں سے جاہلیت کی تاریکیوں کو دیکھ چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے خود نور ایمان کو اختیار کیا۔ پاکیزگی اور طہارت کو اختیار کیا اور علم و معرفت کو اختیار کیا۔ اس لئے وہ اپنے دل و دماغ میں اس نعمت کا اثر ہر وقت تر و تازہ، گہرا اور واضح پاتے ہیں۔

وہ کوتاہ اندیشانہ قبائلی زندگی بسر کر چکے تھے، گھٹیا مقاصد کے لئے سالہا سال کشت و خون کرتے رہتے تھے۔ پھر وہ اپنی خوشی سے ایک نظریۂ حیات کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے، ایک قوت اور شوکت بن گئے۔ ان کے مقاصد بلند ہو گئے اور ترجیحات وسیع ہو گئیں۔ ان کا نقطۂ نظر خاندانوں اور قبائل کے محدود دائرے سے بلند ہو کر تمام بشریت کی بنیادوں پر استوار ہو گیا۔ اور اس نے وسعت اختیار کر لی۔ اس لئے وہ اپنے اندر اور اپنے ماحول میں انعامات الٰہیہ کا وسیع شعور رکھتے ہیں۔

اسلام سے پہلے وہ کس مقام پر کھڑے تھے ؟گرا پڑا غلیظ معاشرہ، افکار پریشان اور زندگی کی اقدار مضطرب، یعنی جاہلی معاشرہ کے مقابلے میں۔ انہوں نے خوب سوچ سمجھ کر اسلام کا پاک اور بلند معاشرہ اپنایا، جس کے نظریات اور عقائد شیشے کی طرح صاف تھے، جس کی اقدار متوازن تھیں۔ اس لئے اسلام ان کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھا۔ وہ اپنے مقام کو دیکھ کر محسوس کرتے تھے کہ سرتاپا اسلام کے انعامات و برکات میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

اس لئے اللہ کا فرمان وَلأتِمَّ نِعْمَتِي”اس لئے کہ میں تم پر اپنی نعمت پوری کر دوں "تو اللہ کی طرف سے، ا س فقرے میں دراصل ایک خفیہ اشارہ ہے، ایک قسم کی حوصلہ افزائی تھی اور ہے، ان انعامات و اکرامات کی طرف جس کا احساس خود مسلمانوں کو تھا۔

یہاں تحویل قبلہ کے حکم میں تکرار سے کام لیا گیا ہے۔ لیکن اس تکرار میں ہر مرتبہ ایک نیا مفہوم دیا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ کہا گیا کہ رسولﷺ چونکہ تحویل قبلہ کی خواہش رکھتے تھے۔ اس خواہش کا انداز بیان با ادب خموشی تھا۔ آپ بار بار آسمان کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھتے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے تحویل قبلہ منظور فرما لیا۔ دوسری مرتبہ کہا گیا کہ اگرچہ رسولﷺ کی طلب اور خواہش بھی تھی، لیکن حکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہے اور عین حق ہے۔ تیسری مرتبہ جو حکم دیا گیا اس میں مسلمانوں کو بتایا گیا کہ تحویل قبلہ کی حکمت کیا ہے ؟یہ کہ دشمنان اسلام اس سے اپنے دین کی برتری کے لئے استدلال کرتے تھے اور اس لئے حکم تحویل صادر ہوا۔ اس لئے مقصد یہ تھا کہ جو لوگ حق کاساتھ نہیں دیتے، براہین و دلائل کو تسلیم نہیں کرتے، وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ان کی کوئی عزت نہ ہو اور وہ ہر معاملے میں ہلکے ہوں۔

ان وجوہ کے ساتھ، اس وقت مدینہ طیبہ میں اس نوخیز اسلامی تحریک کی صفوں میں، ایسے حالات پائے جاتے تھے، جو اس تکرار و تاکید اور استدلال و بیان کے متقاضی تھے۔ بعض مسلمانوں کے دلوں پر مخالفین کے گمراہ کن پروپیگنڈے اور باطل استدلالات کا اثر پایا جاتا تھا، جس کا اندازہ اس امر سے ہو رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سلسلے میں بار بار تاکید کے ساتھ مسلمانوں کو خطاب فرماتے ہیں اور اس اثر کے ازالے کے لئے قرآن مجید نے یہ زوردار انداز بیان اختیار کیا ہے اور تحویل قبلہ کی ان وقتی ہدایات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قرآن مجید کا جزء بنا دیا گیا۔ تاکہ اس قسم کے حالات میں، مسلمان ایسا ہی طرز عمل اختیار کریں، کیونکہ وہ ایک ایسے معرکے میں کود پڑے ہیں جو تا قیامت جاری رہے گا، کبھی ٹھنڈا نہ ہو گا، کبھی نرم نہ ہو گا، یعنی معرکہ انقلاب اسلامی۔

اس مناسبت سے قرآن مجید مسلمانوں کو پھر یاد دلاتا ہے کہ اللہ نے تمہیں اپنی نعمت سے نوازا ہے۔ اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے تمہاری طرف اپنے نبی کو بھیجا، وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو قبلہ مسلمین بیت الحرام کے معمار اول تھے۔ یوں قرآن مجید مسلمانوں کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا روحانی وارث قرار دیتا ہے۔ اور مسلمانوں کا براہ راست تعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام سے قائم کر دیا جاتا ہے۔

 

"جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا، جو تمہیں میری آیات سناتا ہے، تمہاری زندگی کو سنوارتا ہے، تمہیں کتاب اور سنت کی تعلیم دیتا ہے اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے، لہٰذا تم مجھے یاد رکھو، میں تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر ادا کرو، کفران نعمت نہ کرو۔ ” (١٥٢)

 

اس آیت کے مضمون پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے، جن کی دعوت اس صورت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دی تھی۔ اس وقت حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی دیواریں اٹھا رہے تھے۔ جناب خلیل اللہ نے دعا فرمائی تھی کہ :”اے اللہ، میری اولاد میں سے جو اس گھر کے جوار میں رہتی ہے، ایک نبی مبعوث فرما۔ جو ان کو تیری آیات پڑھ کر سنائے۔ انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کر دے۔ "یوں مسلمانوں کو یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ ان میں رسول اللہﷺ کا مبعوث کیا جانا، اور خود ان کا بطور مسلمان پایا جانا، یہ دراصل ان کے ابا جان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی براہ راست قبولیت ہے۔ اس میں یہ اشارہ بھی مضمر ہے کہ ان کی تحریک کوئی نئی تحریک نہیں ہے۔ ایک قدیم تحریک ہے۔ ان کا قبلہ کوئی نیا قبلہ نہیں ہے، بلکہ ان کے ابا ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ ہے۔ اور ان پر اسلام نے جو جود و کرم کیا ہے وہ وہی جود و کرم ہے جس کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دوست سے کیا تھا۔

اس نے تمہیں تمہارا پرانا قبلہ دے دیا، تمہیں ایک مستقل شخصیت عطا کر دی۔ یہ تو اس کے انعامات کا ایک نمونہ ہے جو وہ تم پر مسلسل کرتا چلا آ رہا ہے۔ اور سب سے پہلی نعمت یہ ہے کہ اس نے تم میں اپنا رسولﷺ تم ہی میں سے مبعوث فرمایا:كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولا مِنْكُمْ "جس طرح میں نے تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا”

اس نے تمہارے اندر رسالت قائم کر دی۔ کیا یہ تمہارے لئے کوئی کم عزت افزائی ہے ؟یہودی ایک عرصہ سے آخری رسول کا انتظار کر رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ وہ انہیں میں سے ہو گا اور اس کی قیادت میں وہ قریش پر فتح پائیں گے، لیکن اللہ تعالیٰ نے وہ خاتم الرسل تم میں سے چن لیا: يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا”تمہیں میری آیات سناتا ہے۔ ”

وہ جو کچھ پڑھ کر تمہیں سناتا ہے وہ حق ہے۔ اس فقرے میں ایک شاہانہ حوصلہ افزائی ہے۔ اللہ کا کلام، رسول اللہﷺ پر نازل ہو رہا ہے، لیکن خطاب اپنے بندوں سے ہو رہا ہے۔ ا س انداز کلام پر غور کیا جائے تو یہ ایک عظیم عزت افزائی معلوم ہوتی ہے۔ دل مارے خوشی کے جھوم جاتا ہے۔ کیا شان ہے ان لوگوں کی !وہ کون ہیں اور کیا ہیں ؟خداوند قدوس ان سے خطاب کر رہا ہے۔ خود اپنے الفاظ میں ان سے بات ہو رہی ہے۔ کیا عظیم قدردانی ہے یہ ؟اگر اللہ تعالیٰ ان پر اپنا فضل و کرم نہ کرتا تو یہ وہ شان کہاں سے حاصل کرتے۔ یہ محض اللہ کی جانب سے باران رحمت کا نتیجہ ہے۔ ابتدائے آفرینش میں اللہ تعالیٰ نے انسان کا ڈھانچہ تیار کیا اور اس میں روح پھونکی۔ اس کی نسل چلائی تاکہ ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ کے انعامات کے مستحق ہوں۔ وہ ایسے ہوں، جو انعامات کو خوش آمدید کہیں۔

وَيُزَكِّيكُمْ”وہ تمہیں پاک کر دے گا۔ "اگر اللہ نہ ہوتا تو مشرکین اہل عرب اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی پاک نہ ہوتا۔ نہ پاک ہوتا اور نہ ہی مرتبہ بلند پاتا۔ اللہ نے ان میں سے رسول بھیجا تاکہ وہ انہیں پاک کر دے۔ ان کے دل کو شرک کی آلائش اور جاہلیت کی آلودگی سے پاک کر دے۔ ان کی روح کو ایسے تمام تصورات سے پاک کر دے جن کے بوجھ تلے انسانی روح صدیوں سے دفن ہو کر رہ گئی تھی۔

وہ انہیں شہوانی قوت کی آلودگیوں سے بھی پاک کرتا ہے، لہٰذا ان کی روح جنسی بے راہ روی کے گڑھے میں نہیں گرتی۔ وہ لوگ جنہیں اسلام پاک نہیں کرتا، چاہے زمانہ قدیم کے باشندے ہوں یا زمانہ جدید کے، وہ گویا گندے پانی کے چشمے سے جنسی پیاس بجھاتے ہیں۔ جس سے طبیعت نفرت کرتی ہے اور جس سے انسان کی انسانیت ختم ہو جاتی ہے۔ اور ایک حیوان جو صرف حیوانی فطرت کا پابند ہوتا ہے۔ اس انسان سے ارفع و برتر ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو ایمان سے محروم ہیں ان سے یہ حیوان بدرجہا پاک ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ ان کے معاشرے کو لوٹ کھسوٹ اور سود وساہو کاری سے بھی پاک کرتا ہے۔ یہ سب چیزیں بھی ایک قسم کی گندگی ہیں۔ یہ انسانی شعور اور انسانی روح کو گندہ کر دیتی ہیں۔ اور اجتماعی زندگی ان سے آلودہ ہو جاتی ہے۔ وہ ان کی زندگی کو ظلم و زیادتی سے پاک کرتا ہے اور انہیں نظام عدل واحسان عطا کرتا ہے۔ وہ عدل و انصاف جو اسلامی نظام حیات، اسلامی نظام حکومت سے پہلے انسانیت نے نہ دیکھا تھا اور نہ سنا تھا۔ غرض انہیں تمام گندگیوں اور آلودگیوں سے پاک وصاف کر دیتا ہے جو ان کے گرد پھیلی ہوئی جاہلیت کے چہرے کا بدنما داغ ہیں اور ہر اس معاشرے میں پائی جاتی ہیں، جسے اسلامی روح نے پاک نہ کیا ہو، جس میں اسلام کا پاک وصاف نظام رائج نہ ہو۔

وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَۃَ”تمہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ "اس سے پہلے جو فرمایا گیا کہ وہ رسول ہی آیات پڑھ کر تمہیں سناتا ہے، اس سے بھی مراد یہ ہے کہ رسول تمہیں کتاب پڑھاتا ہے لیکن یہاں تعلیم کتاب کے ساتھ تعلیم حکمت کو شامل کیا گیا ہے۔ حکمت درحقیقت تعلیم کتاب کا نتیجہ ہوتی ہے۔ حکمت اس مہارت کا نام ہے جس کے ذریعے انسان ہر چیز کو اس کا اصلی اور صحیح مقام دے دے۔ ہر بات اور ہر مسئلے کو ایک صحیح معیار پر پرکھے اور احکام و ہدایات کی صحیح غرض و غایت سمجھ سکے۔ تاریخ شاہد ہے کہ رسول اللہﷺ نے جن لوگوں کو تربیت دی تھی اور جن کو آیات کتاب اللہ کے ذریعے پاک فرمایا تھا، وہ حکمت و دانائی میں اس طرح کامل ہو گئے تھے جس طرح ایک پھل درخت کے اوپر پوری طرح پک جاتا ہے۔

وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ (١٥١)”اور تمہیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھے۔ "اسلامی جماعت کی تاریخ اس پر گواہ ہے کہ یہ ایک عظیم سچائی ہے۔ اسلام نے اس جماعت کو عربی معاشرے سے چنا۔ جس کے پاس چند متفرق معلومات کے سوا کوئی ذخیرۂ علم نہ تھا۔ صرف وہ علم جو صحراء میں ایک قبیلے کی زندگی کے لئے ضروری تھا یا صحرا کے درمیان گھرے ہوئے چھوٹے چھوٹے شہروں کی ضرورت کے لئے کافی تھا۔ اسلام نے اس صحرائی جماعت کو ایک ایسی امت بنادیا جو پوری انسانیت کو حکیمانہ اور عادلانہ قیادت فراہم کرنے لگی۔ ایک مختصر عرصے میں یہ حالت ہو گئی تھی کہ اب یہ امت کڑی نگاہ رکھتی ہے۔ امور عالم سے باخبر ہے اور زیور علم سے آراستہ ہے قرآن و حکمت قرآن پر مبنی ہدایات رسولﷺ اس امت کے لئے لئے راہ ہدایت اور سرچشمہ علم بن گئے ہیں۔

مدینہ میں مسجد نبوی جہاں قرآن کریم اور قرآن پر مبنی ارشادات رسول پڑھے اور پڑھائے جاتے تھے، امت کے لئے ایک عظیم یونیورسٹی بن گئی۔ اس یونیورسٹی سے وہ لوگ فارغ ہو کر نکلے جنہوں نے پوری انسانیت کی حکیمانہ راہنمائی کی ایسی قیادت کی جس کی نظیر پوری انسانی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی ہے اور نہ اس کے بعد آج تک ملتی ہے۔

اسلامی نظام حیات، جس نے یہ قیادت فراہم کی اور انسانوں کا یہ معیاری گروہ تیار کیا، آج بھی یہ استعداد رکھتا ہے کہ انسانیت کو ویسی ہی قیادت فراہم کرے، بشرطیکہ یہ امت صحیح طرح اس قرآن کریم پر ایمان لے آئے۔ اسے صحیح طرح اپنے لئے زندگی کا ماخذ قرار دے۔ اور اسے خوش الحانی سے پڑھ کر قوت سامعہ کی تسکین کے لئے استعمال نہ کرے، بلکہ اسے دستور حیات بنا لے۔

فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ”تم مجھے یاد رکھو میں تمہیں یاد رکھو ں گا۔ "یہ وہ کرم ہے جس کا صدور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے ہوسکتا ہے جس کے خزانوں میں کمی نہیں، جس کے خزانوں پر کوئی چوکیدار نہیں اور جس کی داد و دہش کا نہ حساب ہے، نہ محاسب۔ اس کے خزانوں سے طلب اور بلاسبب داد و دہش ہوتی رہتی ہے، اس لئے نہیں کہ ضرورت مند ہے، بلکہ اس کے وہ معطی ہے، وہ فیاض ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے :”جس نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی اسے دل میں یاد کروں گا، جس نے مجھے بھری مجلس میں یاد کیا میں بھی اسے ایسے لوگوں میں یاد کروں گا، جو اس کے لوگوں سے افضل واخیر ہوں گے۔ "(حدیث صحیح)

ایسی ہی ایک دوسری حدیث شریف کا مضمون ہے !”رسول اللہ فرماتے ہیں "اللہ تعالیٰ نے فرمایا”اے بنی آدم!اگر تو نے مجھے دل میں یاد کیا میں بھی تجھے دل میں یاد کروں گا اور اگر تو نے مجھے لوگوں میں یاد کیا تومیں بھی تجھے ملائکہ میں یاد کروں گا۔ ”

بعض روایات میں آتا ہے "ایسے لوگوں میں جو ان سے بہتر ہوں گے۔ اگر تو ایک بالشت میرے قریب آئے گا میں ایک ہاتھ تیرے قریب آؤں گا۔ اگر تم ایک ہاتھ میرے قریب آؤ گے تو میں دو ہاتھ تیرے قریب آؤں گا۔ اگر تو میری طرف چل کر آئے گا تو میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔ ”

یہ ہے وہ فضل و کرم جس کا بیان الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ اس کا شکر، سوائے اس کے کہ دل اپنی گہرائیوں کے ساتھ سجدہ ریز ہو جائے، ادا نہیں ہوسکتا۔

اللہ کی یاد کیسے ہو، الفاظ ضروری نہیں ہیں، یہ تو دل کی توجہ ہے۔ دل کا اللہ کی طرف متوجہ ہونا ہے، چاہے الفاظ ساتھ ہوں یا نہ ہوں۔ یاد تو ایک دلی شعور ہے اور انفعال ہے اور اس شعور و انفعال کے ادنیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان اللہ کی اطاعت پر آمادہ ہو جائے اور اعلیٰ اثرات یہ ہوں کہ انسان کو اللہ کا دیدار نصیب ہو، جو لوگ وصول الی اللہ کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور جو ذوق دیدار چکھ لیتے ہیں ان کے پیش نظر اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ صرف دیدار یار۔

وَاشْكُرُوا لِي وَلا تَكْفُرُونِ”میرا شکر ادا کرو اور کفر نہ کرو۔ "شکر کے بھی کئی درجے ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ انسان اللہ تعالیٰ کے انعامات کا اقرار کرے۔ اور پھر اس کی نافرمانی سے حیا کرے۔ اور آخری درجہ یہ ہے کہ انسان مجسمہ شکر بن جائے۔ بدن کی ہر حرکت، زبان کا ہر لفظ، دل کی ہر دھڑکن اور دماغ کا ہر تصور نمونہ شکر ہو۔ کفر سے روکا گیا ہے۔ اشارہ اس آخری مقام کی طرف ہے، جس تک آخرکار ایک ناشکر گزار انسان پہنچ جاتا ہے۔ لاتکفرون سے وہ آخری نکتہ بتایا گیا ہے جہاں ناشکری کے خط کی انتہا ہو جاتی ہے۔ العیاذ باللہ۔

تحویل قبلہ کے موقع پر اشتباہ اور ہدایات بالکل واضح اور مناسب ہیں۔ ذکر الٰہی وہ نقطہ ہے جہاں آ کر مومن کا دل اللہ کی عبادت کے لئے تیار ہوتا ہے۔ پھر وہ ایک خالصتاً اللہ کا ہو جاتا ہے اور اسی نسبت سے منسوب ہوتا ہے، یعنی بندگی کی وجہ سے بندہ ہو جاتا ہے۔

یہودی سازشوں سے خبردار کرنے کے موقع پر بھی فکر و شکر کی ہدایت دینا مناسب ہے۔ ہم کہہ آئے ہیں کہ یہودیوں کا آخری مقصد یہ تھا کہ مومنین کو دوبارہ کفر میں داخل کر دیں۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں سے یہ نعمت چھن جائے، جو بطور خاص اللہ نے انہیں دی تھی۔ کیا نعمت ؟نعمت ایمان۔ وہ بلند ترین نعمت جو کسی فرد یا کسی جماعت کو دی جا سکتی ہے۔ خصوصاً عربوں کے لئے تو یہ ایک عظیم نعمت سے بھی عظیم تر تھی۔ اسی سے تو عربوں کا وجود قائم ہوا۔ تاریخ آدمیت میں عربوں نے ایک عظیم رول ادا کیا، ان کا نام اس نظریہ حیات سے منسلک ہو گیاجس کے وہ حامل تھے اور جسے انہوں نے بنی نوع آدم تک پہنچانا تھا۔

اسی نعمت کے بغیر عرب کچھ نہ تھے۔ گمنام تھے، اب بھی گمنام ہیں اور اگر وہ نہ ہو۔ آئندہ بھی گمنام ہوں گے اگر اسے نہ اپنائیں گے۔ اسلامی نظریہ حیات کے سوا ان کے پاس تھا ہی کیا؟جس کے ذریعے وہ دنیا میں کوئی نام پیدا کرتے، کیا کسی نظریہ حیات کے بغیر کوئی قوم دنیا میں مقام قیادت حاصل کرسکتی ہے ؟

مقام قیادت کے لئے ایسی فکر کی ضرورت ہے جو پوری زندگی کی قیادت کرتے۔ انسانی حیات کو ترقی کی راہ دکھائے۔ اسلامی نظریہ حیات دراصل زندگی کا پورا نظام ہے۔ وہ صرف ایک نعرہ ہی نہیں ہے جس کے پیچھے مثبت عمل نہ ہو بلکہ ایسا عمل ہے جو اس نظریہ کی تائید کرے۔ اسلام کے کلمہ طیبہ کے ساتھ ساتھ عمل طیب بھی ضروری ہے جو کلمہ کا مصداق ہو۔

امت کے لئے ضروری بلکہ فرض ہے کہ وہ اس حقیقت کو یاد رکھے تاکہ اللہ اسے یاد رکھے۔ اور اللہ اسے نسیاً منسیاً نہ کر دے اور جسے اللہ نے بھلا دیا سمجھو وہ ڈوب گیا۔ زمین پر اس کا ذکر خیر نہ رہے گا۔ آسمانوں پر اس کا کوئی خیرخواہ نہ رہے گا۔ اور جو اللہ کو یاد کرے گا اللہ اسے یاد کرے گا۔ آسمانوں پر بھی اس کا ذکر ہو گا، اور طویل و عریض کائنات میں بھی اس کا ذکر خیر گونج اٹھے گا۔

ایک وقت تھا کہ مسلمانوں نے اللہ کو یاد کیا۔ پھر اللہ نے بھی انہیں یاد کیا۔ پھر کیا تھا؟ان کا نام پوری کائنات میں بلند ہو گیا، دنیا کی قیادت صالح قیادت ان کے سپرد ہو گئی۔ لیکن پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ انہوں نے رب ذوالجلال کو بھلا دیا۔ تو اس نے بھی ان کو بھلا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مہمل بن گئے۔ ضائع ہو گئے۔ وہ اقوام کی برادری میں حقیر تابع کے مقام تک جا گرے۔ علاج اب بھی موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ بلاتا ہے "تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔ میرا شکر ادا کرو اور کفر اختیار نہ کرو۔ ”

٭٭٭

 

 

 

 

 

درس ۹ ایک نظر میں

 

تحویل قبلہ کے بعد اور امت مسلمہ کو ایک مستقل اور ممتاز حیثیت دینے اور ایسا تشخص عطا کرنے کے بعد، جو اس امت کے ممتاز نظریۂ حیات کے ساتھ مناسب تھا، مسلمانوں کو پہلی ہدایت یہ دی گئی کہ وہ صبر و صلوٰۃ سے مددلیں کیونکہ انہیں ایک عظیم ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ یہ منصب بڑی بڑی قربانیاں چاہتا ہے۔ شہداء کو خون پیش کرنا ہو گا۔ جانی نقصان، مالی نقصان، متاع و ثمرات کا نقصان برداشت کرنا ہو گا۔ وہ بھوک کے دن دیکھیں گے اور خوفناک راتوں سے دوچار ہوں گے۔ اس کے علاوہ انہیں بے شمار قربانیاں دینی ہوں گی۔ ان سب قربانیوں کے لئے انہیں اپنے آپ کو تیار کرنا ہو گا۔

انہیں اپنے نفس سے اور اس پوری دنیا سے اسلامی نظام کے قیام کے لئے جہاد کرنا ہو گا۔ اس عظیم جہاد کی خوفناکیوں کا مقابلہ کرنا ہو گا اور مقابلہ اور تیاری اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اہل ایمان صبر و صلوٰۃ سے امداد حاصل کریں۔ انہیں اس امت کا دل اللہ سے جوڑنا ہو گا۔ اپنے قلوب کو اللہ کے لئے خالص کرنا ہو گا اور اپنے تمام کاموں میں اللہ اور رسول اللہ کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ یہ سب کچھ کس لئے کیا کس انعام کے لالچ میں آیا اللہ کی رضامندی کے حصول کے لئے ؟اس کی رحمت و ہدایت کی طلب گاری کی خاطر ؟کس قدر عظیم اجر ہے یہ ؟اس کی قدر و قیمت دل مومن ہی سے پوچھئے !

٭٭٭

 

 

 

 

درس نمبر۹تشریح آیات (۱۵۳تا۱۵۸)

 

 

"اے ایمان لانے والو!صبر اور نماز سے مدد لو اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ "(١٥٣)

 

قرآن کریم میں صبر کا تذکرہ بتکرار ہوا ہے۔ اس لئے کہ تحریک اسلامی کو سخت ترین مخالفتوں اور دشواریوں کا سامنا کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ اس راہ میں صبر واستقامت کی ضرورت ہے۔ کیونکہ تحریک اسلامی کو مسلسل مشکلات اور لگاتار کشمکشوں کا مقابلہ کرنا ہو گا لہٰذا اس بات کی ضرورت تھی کہ اہل ایمان صبر سے کام لیں اور ان کے نفوس داخلی اور خارجی معاملات میں بیدار رہیں۔ اہل ایمان کی قوتیں منظم رہیں اور ان کے اعصاب پختہ رہیں۔ ایسے حالات میں صبر واستقامت کے سوا چارہ کار ہی کیا ہے ؟اس طرح عبادت میں بھی صبر کی ضرورت، گناہوں سے بچنے میں صبر کی ضرورت، غرض ان مختلف النوع سازشوں کے خلاف صبر، نصرت خداوندی میں تاخیر پر صبر، طویل تر جد و جہد پر صبر، باطل کی قوت پر صبر، دین کے حامیوں کی قلت پر صبر، بغض و عداوت کے بوجھ پر اور غرض پرستی کی تلخی پر صبر۔

جب صبر طویل ہو جاتا ہے اور مشکلات بڑھ جاتی ہے تو قوت صبر کمزور پڑ جاتی ہے۔ اور بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر بیرونی امداد میسر نہ ہو تو پیمانہ صبر لبریز ہو جاتا ہے، اس لئے نماز کے ساتھ ساتھ صبر کی تلقین بھی کیجا رہی ہے۔ نماز وہ سرچشمہ ہے جو کبھی خشک نہیں ہوتا۔ یہ وہ زاد راہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ یہ طبع تجدید قوت ہے، یہ قوت دل کا سامان ہے۔ اس سے صبر کی بھرپور قوت حاصل ہو جاتی ہے اور صبر کے ساتھ رضامندی و خندہ پیشانی اور یقین محکم پیدا ہوتا ہے۔

انسان فانی ہے، ضعیف ہے اور محدود قوت کا مالک ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وہ قوت کبریٰ سے لو لگائے۔ جب اس کا مقابلہ شر کی ظاہری اور باطنی قوتوں سے ہو اور معاملہ اس کی محدود قوت و برداشت سے بڑھ جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس "عظیم قوت”سے مدد لے۔ اس راہ میں ایسے مقامات آتے ہیں کہ خواہش نفس کا زور ہو جاتا ہے، طمع و لالچ کی شدید کشش ہوتی ہے۔ اور راہ حق پر استقامت کی جدوجہد بھاری ہو جاتی ہے، فسق و فجور اور ظلم و عدوان کی قوتیں زور پکڑ لیتی ہیں اور مقابلہ دشوار ہو جاتا ہے، راستہ طویل ہو جاتا ہے، مشقت بڑھ جاتی ہے اور زندگی کے شب و روز تاریک نظر آتے ہیں۔

انسان غور کرتا ہے دیکھتا ہے کہ ابھی وہ کسی مقام تک نہیں پہنچ سکا، لیکن موت قریب ہے۔ اس نے کچھ پایا نہیں اور زندگی کا سورج قریب الی الغروب ہے۔ وہ دیکھتا ہے کہ شر دھنی ہوئی روئی کی طرح پھولا ہوا ہے اور حق سکڑا ہوا ہے۔ منزل دور ہے، افق پر سے آخری شعاع امید غائب بھی ہے اور راستے پر کوئی نشان راہ نہیں۔ ایسے حالات میں صبر و صلوٰۃ ہی سرچشمہ قوت ہوتے ہیں۔

ایسے مقامات اور ایسی منازل ہی پر نماز کی قدر و قیمت معلوم ہوتی ہے۔ انسان فانی اور خدائے باقی کے درمیان واحد براہ راست رابطہ نماز سے قائم ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام التقا ہے جس پر ایک تنہا قطرہ ابدی سرچشمہ سے آ ملتا ہے۔ یہ اللہ کے ان خزانوں کی کنجی ہے جو مستغنی کر دیتے ہیں، جھولی بھر دیتے ہیں اور رحمتوں کی بارش کر دیتے ہیں۔ یہ ایک جست ہے اس کے ذریعے انسان اس چھوٹی اور محدود دنیا کی حدود کو پھاڑ کر عظیم تر کائنات کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے۔ وہ سخت گرمی اور تپتی ہوئی دھوپ میں۔ ٹھنڈی چھاؤں ہے، نسیم سحر اور خوشگوار شبنم ہے۔ وہ تھکے مارے دل کے لئے ایک خوشگوار احساس ہے۔

حدیث میں آتا ہے کہ رسولﷺ جب پریشان ہوتے، سخت حالات سے دوچار ہوتے تو فرماتے تھے !”بلال !ذرا ہمیں اس کے ذریعے تسکین دو۔ "جب بھی آپﷺ پریشانیوں کے ہجوم میں ہوتے، نماز کثرت سے پڑھنا شروع کر دیتے۔

اسلامی نظام دراصل عبادت اور بندگی کا نظام ہے۔ اس کی عبادت بھی حکیمانہ ہے اس کی سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ وہ زاد راہ ہے۔ روحانی امداد کا سرچشمہ ہے۔ اور دل کی صفائی ہے۔ جب بھی انسان مصیبت میں مبتلا ہو، دل تنگ ہو، یہ عبادت کشادگی کا ذریعہ بن جاتی ہے اور انسان آرام، خندہ پیشانی اور خوشگواری سے اس مصیبت کو انگیز کرتا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدﷺ کو اس عظیم شعار اور بھاری منصب کے لئے منتخب کیا تو آپ کو حکم دیا :يَا أَيُّہَا الْمُزَّمِّلُ (١)قُمِ اللَّيْلَ إِلا قَلِيلا (٢)نِصْفَہُ أَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيلا (٣)أَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلا (٤)إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا (٥)

"اے اوڑھ لپیٹ کر سونے والے، رات کو نماز میں کھڑے رہا کرو، مگر کم، آدھی رات، یا اس سے کچھ کم کر لو، یا اس سے کچھ زیادہ بڑھا لو، اور قرآن کو خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔ ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں۔ ” (المزمل:۵:۱)

یہ رات کا قیام، یہ دن کے رکوع وسجود کیا تھے ؟یہ بھاری کلام، اور اس عظیم ذمہ داری کے لئے تیاری اور تربیت تھی، جس کی راہ مصائب و شدائد سے پر تھی۔ یہ وہ عبادت تھی جس سے سکون کے سوتے پھوٹ پڑے ہیں۔ باہمی ربط مضبوط ہو جاتا ہے، کام آسان ہو جاتا ہے، آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور قلب مومن پر تسلی وتشفی اور آرام و اطمینان کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان ان مصائب و شدائد کی دہلیز تک جا پہنچتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں صبر و صلوٰۃ کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ کیا ہو گا فرماتے ہیں :اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّابِرِینَ "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ”

اللہ ان کے ساتھ ہے، ان کی مدد کرتا ہے، انہیں قوت اور ثابت قدمی عطا کرتا ہے، ان کے ساتھ انس و محبت رکھتا ہے، اس کٹھن سفر میں وہ انہیں اکیلے نہیں چھوڑتا۔ وہ انہیں اور ان کی محدود طاقت اور قوت کو چھوڑ کر ایک طرف نہیں ہو جاتا۔ جب بھی زاد راہ ختم ہو اس کی جانب سے رسد آ جاتی ہے۔ جب بھی وہ تھک کر چور چور ہو جائیں وہ انہیں از سر نو قوت عطا کرتا ہے۔ وہ آیت کا آغاز:”اے ایمان والو”کی پیاری آواز سے کرتا ہے اور اس کا اختتام ان حوصلہ افزا الفاظ پر کرتا ہے۔ "بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ ”

صبر و تحمل کے بارے میں بے شمار احادیث وارد ہیں یہاں سیاق وسباق قرآنی کی مناسبت سے اور اس ذمہ داری کو سنبھالنے کے لئے امت مسلمہ کو تیار کرنے کی خاطر جس کے لئے اس امت کو برپا کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث کا ذکر مناسب ہے :

"حضرت خباب رضی اللہ عنہ، ابن الارت روایت بیان کرتے ہیں !ہم نے رسول اللہﷺ سے شکایت کی۔ آپﷺ اس خانہ کعبہ کی دیوار سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ ہم نے کہا :اے اللہ کے رسولﷺ آپ ہمارے لئے نصرت طلب نہیں فرماتے ؟ہمارے لئے دعا نہیں فرماتے ؟آپﷺ نے فرمایا تم میں سے پہلے ایسا ہوتا تھا کہ ایک شخص کو پکڑا جاتا، اس کے لئے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے اس میں رکھ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھ کر اسے دو ٹکڑے کر دیا جاتا۔ اور لوہے کی کنگھیوں سے نوچ کر اس کی ہڈیوں سے گوشت الگ کر دیا جاتا لیکن باوجود ان مشکلات کے کوئی طاقت اسے اپنے دین سے نہ روک سکتی۔ اور اللہ کی قسم اللہ اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سوار صنعاء سے حضر موت تک سفر کرے گا، لیکن اسے اللہ کے سوا کسی کا ڈر نہ ہو گا۔ بھیڑیا بھیڑیوں کی رکھوالی کرے گا لیکن افسوس کہ تم جلد بازی کرتے ہو۔ "(بخاری، ابوداؤد، نسائی)

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ایک بار رسول اللہﷺ کسی نبی کا قصہ بیان کرتے تھے، گویا کہ میں اب بھی انہیں دیکھ رہا ہوں، اس کی قوم نے انہیں مارا اور لہولہان کر دیا۔ وہ اپنے چہرے سے خون صاف کر رہے تھے اور فرما رہے تھے !”اللہ میری قوم کو معاف کر دے۔ یہ لوگ جانتے نہیں۔ "(بخاری ومسلم)

یحییٰ بن وثاب نے رسول اللہﷺ کے ایک بوڑھے ساتھی سے روایت کی ہے۔ آپ نے فرمایا وہ مسلمان جو لوگوں میں رہے اور ان کی اذیتوں پر صبر کرے اس مسلمان سے بہتر ہے جو لوگوں سے الگ رہے اور ان کی اذیتوں پر صبر نہ کرے۔ (ترمذی)

اور اب، تحریک اسلامی مدینہ طیبہ میں ہے۔ کرۂ ارض پر، اسلامی نظام کے قیام کے لئے، وہ آگے بڑھ رہی ہے۔ کیوں نہ بڑھے !یہ روز اول سے اس کا مقسوم مقدر تھا۔ اس نے حق کا علم اٹھا لیا اور اس علم کو لے کر ایک طویل دشوار گزار سفر پر روانہ ہو رہی ہے۔ قرآن مجید روحانی طور پر اسے تیار کر رہا ہے اس عظیم تحریک جہاد کے دوران کھینچا تانی ہو گی، مصائب حائل ہوں گے اور ان مجاہدین کو اپنی جانوں اور مالوں کی قربانی دینی ہو گی، لہٰذا قرآن مجید یہاں انہیں ایک صحیح نقطہ نظر اور ایک درست نقطہ نظریۂ حیات عطا کرتا ہے۔ قرآن تحریک اسلامی کو ایک ایسا معیار، ایسی کسوٹی ایک ایسی میزان عطا کرتا ہے، جس پر وہ اس طویل اور کٹھن سفر میں اپنے تمام معاملات اور اپنی تمام اقدار کو پرکھ سکیں۔

 

"اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں، انہیں مردہ نہ کہو، ایسے لوگ تو حقیقت میں زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ہوتا۔ "(١٥٤)

 

معرکہ حق و باطل میں کچھ لوگ کام آئیں گے، راہ حق میں جان دیں گے۔ کچھ عزیز و محبوب مارے جائیں گے، کچھ شرفاء اور دین دار بھی شہید ہوں گے، تو جو لوگ اللہ کی راہ میں نکلتے ہیں اور جو لوگ معرکہ خیر و شر میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، وہ بالعموم پاک نیت اور صاف دل اور صیقل شدہ روح کے مالک ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اگر اللہ کی راہ میں مارے جائیں تو وہ مردہ نہیں ہیں۔ درحقیقت وہ زندہ ہیں۔ یہ جائز نہیں کہ انہیں مردہ کہو، نہ تو اپنے احساس اور شعور میں انہیں مردہ سمجھو اور نہ ہی زبان سے انہیں مردہ پکارو۔ وہ تو زندہ ہیں اور اللہ اس پر گواہ ہے۔ وہ زندہ ہیں یقیناً وہ زندہ !

چشم ظاہر بیں، دیکھتی ہے کہ بظاہر وہ مر چکے ہیں۔ کیا یہ سطحی نظر موت و حیات کی حقیقت کا فیصلہ کرسکتی ہے ؟حقیقت یہ ہے کہ زندگی عمل، ارتقاء اور تسلسل کا نام ہے۔ موت بے کاری، جمود اور انقطاع سے عبارت ہے۔ جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاتے ہیں ان کا عمل جاری رہتا ہے، ان کی شہادت معاشرے پر اثر انداز ہوتی ہتی ہے۔ ان کا خون اس نظریۂ حیات کو پہنچتا ہے اور اس سے نظریۂ حیات نشوونما پاتا ہے۔ دوسرے افراد اس شہادت سے متاثر ہوتے رہتے ہیں اور یہ تاثر لگاتار قائم رہتا ہے۔ شہادت کے بعد بھی شہداء فعال اور موثر ہوتے ہیں۔ ان کا خون پورے معاشرے کی زندگی میں ایک رنگ پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور یہ تسلسل تا قیامت رہتا ہے۔ یہ ہے زندگی، بلکہ حیات جاوداں۔ اس اعتبار سے تو لوگوں کی اس دنیا میں بھی وہ زندہ ہیں۔

لیکن وہ اپنے رب کے ہاں بھی زندہ ہیں اور وہاں بھی اس طرح زندہ ہیں جیسے یہاں زندہ ہیں۔ رب کے ہاں ان کی زندگی کی کیا کیفیت ہے ؟اسی طرح ہے جیسے یہاں ہے یا یہ کہ ہمیں اس کیفیت کا پورا شعور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں بَلْ أَحْيَاء ٌ وَلَكِنْ لا تَشْعُرُون َدر اصل وہ زندہ ہیں، مگر تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں۔ "ہمارے علم کا دائرہ محدود ہے۔ اور یہ ایسی زندگی ہے جسے ہم نہیں سمجھ سکتے۔ لیکن بہرحال وہ ہیں زندہ !

وہ زندہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عام مردوں کی طرح انہیں غسل نہیں دیا جاتا۔ انہیں ان کے انہی کپڑوں میں دفن کیا جاتا ہے جن میں وہ شہادت پاتے ہیں۔ غسل سے غرض و غایت یہ ہوتی ہے کہ مردے کا جسم پاک ہو جائے لیکن شہداء پہلے سے پاک ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ ان کے بدن میں روح ہوتی ہے۔ دنیا میں جو کپڑے انہوں نے پہنے ہوئے تھے قبر میں بھی وہی پہنیں گے کیونکہ بہرحال وہ زندہ ہیں۔

وہ زندہ ہیں۔ ان کے خاندان میں اس قتل پر ماتم نہیں ہے۔ ان کے یاروں دوستوں پر یہ جدائی گراں نہیں ہے۔ وہ اس طرح زندہ ہیں کہ اپنے خاندان اور عزیز و اقارب کے امور حیات میں شریک ہیں۔ وہ زندہ ہیں۔ اسی لئے تو پیچھے رہنے والوں پر ان کی جدائی گراں نہیں ہوتی۔ یہ عظیم واقعہ، یہ عظیم قربانی نہ انہیں خائف کرتی ہے، نہ ان کے لئے بوجھ بنتی ہے۔ وہ زندہ ہیں تو پھر ؟وہ اپنے رب کے ہاں با عزت طور پر رہ رہے ہیں۔ ان کو بلند ترین اعزاز دیا جاتا ہے اور ان کی اس قربانی کا پورا پورا بدلہ چکا دیا جاتا ہے، بلکہ فضل عظیم اس پر مزید ہوتا ہے۔

صحیح مسلم میں روایت ہے "شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی شکل میں، جنت میں جہاں چاہیں اڑتی پھرتی ہیں، پھر وہ عرش کے نیچے معلق قندیلوں میں آ کر بسیرا کرتی ہیں۔ "اس کی اطلاع تو رب ذوالجلال کو ہوتی ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں "تم کیا چاہتے ہو ؟”وہ کہتے ہیں !ہمارے رب ہمیں اور کیا چاہئے۔ آپ نے ہمیں وہ کچھ دیا ہے جو آپ نے اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیا؟اللہ تعالیٰ پھر وہی سوال فرماتے ہیں۔ جب انہیں علم ہو جاتا ہے کہ جب تک وہ کچھ مانگیں گے نہیں جان نہ چھوٹے گی۔ تب وہ کہتے ہیں !ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمیں دوبارہ دنیا میں لوٹا دیں، ہم آپ کی راہ میں لڑیں، ایک بار پھر مارے جائیں۔ اس لئے کہ شہادت کا اجر تو وہ خود دیکھ ہی رہے ہیں۔ اللہ جل شانہ فرماتے ہیں !”میں نے لکھ دیا ہے شہداء پھر دنیا میں نہ لوٹائے جائیں۔ ”

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "رسولﷺ نے فرمایا!کوئی شخص ایسا نہیں جو ایک بار جنت میں داخل ہو جائے اور پھر وہاں سے نکلنے کی تمنا کرے۔ اگرچہ اسے تمام دنیا بخش دی جائے۔ ہاں صرف شہید اس بات کی تمنا کرتا ہے کہ وہ دنیا کو لوٹایا جائے اور ایک مرتبہ پھر اللہ کی راہ میں قتل ہو، کیونکہ اسے نظر آتا ہے کہ شہید کی کیا قدر ہے۔ "(مسلم، بخاری)

یہ شہداء کون لوگ ہیں ؟یہ وہ لوگ ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں لڑیں۔ صرف اللہ کی راہ میں۔ اس میں کوئی دوسرا نعرہ، کوئی دوسرا مقصد اور کوئی دوسرا نظریہ شریک نہ ہو، صرف اس سچائی کے لئے لڑ رہے ہوں، جسے اللہ نے نازل فرمایا۔ صرف اس نظام زندگی کے لئے جو اس نے وضع فرمایا۔ صرف اس دین کی راہ میں جسے اللہ نے واجب کر دیا ہے۔ صرف اس کی راہ میں۔ کسی اور راہ میں نہیں۔ کسی اور جھنڈے تلے نہیں، نہ کسی اور شعار اور کسی مقصد کی شراکت میں۔ قرآن وسنت نے اس خلوص نیت پر بہت زور دیا ہے، یہاں تک کہ مجاہد کے نفس میں کوئی شبہ نہ رہے، غیر اللہ کا کوئی شائبہ نہ رہے۔ وہ صرف اللہ ہی کا ہو۔

حضرت موسیٰ سے روایت ہے، فرماتے ہیں !رسولﷺ سے، ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا، جو نمائش شجاعت کے لئے یا اظہار حمیت کے لئے یا ریا کے لئے لڑتا ہے آیا ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا!فی سبیل اللہ صرف وہ ہے جو محض اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ ”

حضرت ابوموسیٰ سے روایت ہے، فرماتے ہیں !رسولﷺ سے، ایسے شخص کے بارے میں پوچھا گیا، جو نمائش شجاعت کے لئے یا اظہار حمیت کے لئے بار بار لڑتا ہے آیا ان میں سے کون فی سبیل اللہ ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا!فی سبیل اللہ صرف وہ ہے جو محض اس لئے لڑے کہ اللہ کا کلمہ بلند ہو۔ "(مالک، امام بخاری، امام مسلم)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے کہا :یا رسول اللہ ایک شخص جہاد فی سبیل اللہ کا ارادہ کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس کی دنیاوی غرض بھی وابستہ ہے ؟آپﷺ نے فرمایا!”اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ "اس شخص نے تین مرتبہ یہ سوال دہرایا۔ اور ہر مرتبہ رسولﷺ نے فرمایا!”اس کے لئے کوئی اجر نہیں ہے۔ "(ابوداؤد)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں رسولﷺ نے فرمایا!جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتا ہے اور اس جہاد کے لئے وہ صرف اس لئے نکلتا ہے کہ وہ اللہ پر ایمان لایا ہے، رسولوں کی تصدیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کو ضمانت دی ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کریں گے یا وہ جس مسکن سے جہاد کے لئے نکلتا ہے اسے وہاں واپس کر دے گا اور اپنے ساتھ اجر و ثواب اور مال غنیمت کا ایک حصہ وافر لے جائے گا۔ اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے۔ اللہ کی راہ میں اسے جو زخم آئے، قیامت کے دن یہ مجاہد اسی زخمی حالت میں اٹھایا جائے گا۔ زخم کا رنگ خون کے رنگ جیسا ہو گا اور اس کی بو، مشک کی طرح ہو گی۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے۔ اگر مسلمانوں کے لئے یہ بات مشقت نہ بنتی تومیں ن کبھی اس دستے سے پیچھے نہ رہتا جو اللہ کی راہ میں لڑائی کے لئے نکلتا ہے۔ لیکن نہ میرے پاس اس قدر گنجائش ہوتی ہے کہ میں تمام لوگوں کے لئے سواری کا بندوبست کروں اور نہ ان میں طاقت طاقت ہوتی ہے کہ وہ میرے پیچھے آسکیں۔ اور یہ بات ان کے لئے قابل برداشت نہ ہو کہ میں چلا جاؤں اور وہ پیچھے رہیں۔ اس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ میری یہ خواہش ہے کہ میں راہ اللہ میں مارا جاؤں۔ پھر جنگ کروں اور مارا جاؤں۔ پھر جنگ کروں اور مارا جاؤں۔ (مالک، بخاری، مسلم)

یہ ہیں شہداء وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے نکلتے ہیں۔ لیکن سوائے اس کے کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ہوئے ہیں، سوائے اس کے کہ وہ تمام رسولوں کی تصدیق کرتے ہیں اور سوائے، اس کے کہ وہ ایمان کے نتیجے میں اللہ کی راہ میں جہاد کرنا چاہتے ہیں، ان کے دل میں کوئی اور داعیہ نہ ہو۔

ایک موقع پر رسولﷺ نے ایک فارسی مجاہد کو اس بات سے روکا کہ وہ جہاد کے موقع پر اپنی فارسیت کا ذکر کرے یا اپنی قومیت پر کسی قسم کا فخر کرے۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ابن ابوعقبہ سے روایت ہے، وہ اپنے باپ سے روایت فرماتے ہیں (یہ اہل فارس کے آزاد کردہ غلام تھے )فرماتے ہیں میں جنگ احد میں رسولﷺ کے ساتھ شریک ہوا۔ میں نے مشرکین کے ایک آدمی پر ضرب لگائی اور کہا:یہ لو، اور میں ایک فارسی الاصل غلام ہوں۔ "اس پر رسولﷺ میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا!تم نے یہ کیوں نہ کہا !اور میں انصاری غلام ہوں میں ان کی بہن کا بیٹا ہوں اور ان کا آزاد کردہ غلام ہوں۔ "(ابوداؤد)

رسول اللہﷺ نے اس بات کو پسند نہ فرمایا کہ وہ آپ کی نصرت کے علاوہ کسی اور صفت پر فخر کرے، یا وہ اس دین کی حمایت و نصرت کے علاوہ کسی اور جھنڈے یاکسی اور نعرے کے لئے جنگ کرے۔

یہ ہے اسلامی جہاد اور صرف اس جہاد کے نتیجے میں انسان مرتبہ شہادت پر فائز ہوتا ہے۔ اور اسے وہ زندگی نصیب ہوتی ہے جس پر شہداء فائز ہوتے ہیں۔

اب اس سبق میں تحریک اسلامی کو نئے واقعات اور نئی صورتحال کے مقابلے کے لئے تیار کیا جاتا ہے۔ آنے والے واقعات کے سلسلے میں اسے ایک صحیح نقطہ نظر دیا جاتا ہے :

 

"اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں اور جب کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ "ہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف ہمیں پلٹ کر جانا ہے۔ ” (١٥٥۔ ١٥٦)

 

تربیت کے لئے انسان کو مصائب کی بھٹی سے گزارا جاتا ہے۔ خوف و خطر میں مبتلا کر کے، جان و مال کا نقصان دے کر، مصائب اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے، اللہ طالب صادق کے عزم صمیم کا امتحان کرتے ہیں۔ یہ آزمائشیں اس لئے ضروری ہیں کہ مؤمنین اسلامی نظریۂ حیات کی ذمہ داریاں اچھی طرح پوری کرنے کے قابل ہوسکیں اور اسلامی نظریۂ حیات کی راہ میں، جتنا مصائب سے دوچار ہوں، اسی قدر نظریۂ حیات انہیں عزیز ہوتا چلا جائے۔

وہ نظریات جن کے لئے ان مجاہدین نے کوئی تکلیف نہ اٹھائی ہو نہ کوئی مصیبت برداشت کی ہو، پائیدار نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ مصیبت کے پہلے مرحلے ہی میں انہیں الوداع کہہ دیتے ہیں۔ آزمائشیں دراصل ایک نفسیاتی امتحان ہوتی ہیں، جو ایک کارکن اپنے نظریۂ حیات کے لئے پاس کرتا ہے اور اس کی وجہ سے دوسرے لوگوں سے پہلے یہ نظریہ اس کارکن کے لئے عزیز تراز جان ہو جاتا ہے۔ کارکن نظریہ کی خاطر جب دکھ پائیں گے اور مال خرچ کریں گے تو پھر وہ اس کی قدر کریں گے اور اس کی حفاظت بھی کریں گے۔

دوسرے لوگ بھی اس نظریے کی قدر تب ہی کریں گے جب وہ دیکھیں گے کہ اس نظریے کو ماننے والے ان پر جان دیتے ہیں اور اس کی وجہ سے آنے والی تمام مصیبتوں کو بخوشی برداشت کرتے ہیں۔ اپنے نظریات کے لئے مصیبت اٹھانے والوں کو دیکھ کر عام تماشائی بھی یہ کہیں گے "وہ نظریۂ حیات جس کے لئے یہ لوگ لڑتے ہیں، کوئی بڑی ہی قیمتی چیز ہے، اگر وہ قیمتی نہ ہوتی تو یہ لوگ اس قدر عظیم قربانیاں ہرگز نہ دیتے اور ان عظیم مصائب و شدائد پر صبر نہ کرتے۔ ”

ایسے حالات میں اس نظریۂ حیات کے مخالفین بھی لاجواب ہو جاتے ہیں اور اس کے بارے میں تحقیق شروع کر دیتے، قدر کرنے لگتے ہیں اور خود بخود اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہے جس تک پہنچ جانے کے بعد اللہ کی امداد اور نصرت آ پہنچتی ہے اور لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہوتے ہیں۔

آزمائش بہت ضروری ہے اس سے نظریاتی لوگوں کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے ان کی کمر مضبوط ہوتی ہے۔ مصائب و شدائد سے ان کی خفیہ قوتیں جاگ اٹھتی ہیں۔ ذخیرہ شدہ طاقتوں کے لئے چشمے پھوٹ پرتے ہیں جن کے بارے میں، ان مصائب و شدائد سے پہلے مومن کو گمان بھی نہیں ہوتا۔

اسلامی اقدار اور اسلامی تصورات اس وقت پختہ اور سیدھے نہیں ہوسکتے جب تک انہیں شدائد و مصائب کی بھٹی سے نہ گزارا جائے۔ یہ مصائب کا نتیجہ ہی ہوتا ہے کہ کارکنوں کی آنکھیں روشن ہو جاتی ہیں اور دلوں سے میل دور ہو جاتا ہے۔

اب سے اہم، سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ مصائب و شدائد کی حالت میں تمام دنیاوی رابطے کٹ جاتے ہیں۔ مختلف الاقسام اوہام اور تمنائیں غائب ہو جاتی ہیں، دل اللہ کے لئے خالی ہو جاتا ہے بلکہ صرف اللہ کا سہارا باقی رہ جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے، جہاں تمام پردے ہٹ جاتے ہیں، بصیرت کے دروازے کھل جاتے ہیں، مطلع دور تک صاف و شفاف ہوتا ہے، اللہ کے سوا کوئی شئے نظر نہیں آتی، اللہ کی قوت کے سوا کوئی قوت نظروں میں نہیں جچتی، اللہ کے سوا کسی کا کوئی اختیار نظر نہیں آتا، اللہ ہی کی پناہ ہوتی ہے، اس کے سوا کسی کی پناہ نہیں ہوتی۔ اس مقام پر پہنچ کر انسانی روح اس حقیقت کے ساتھ یکجا ہو جاتی ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں قرآن کریم کی یہ آیت نفس انسانی کا ایک حصہ بن جاتی ہے۔

 

"اور خوشخبری سنائیں ان صبر کرنے والوں کو، جن پر کبھی مصیبت آتی ہے تووہ کہتے ہیں !ہم تو اللہ کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے۔ "بے شک ہم اللہ کے لئے ہیں سب کے سب اللہ کے لئے ہیں۔ ہمارے جسم کے اندر جو طاقتیں ہیں، بلکہ ہمارا تمام وجود اور ہماری پوری شخصیت اللہ اور صرف اللہ کے لئے ہے۔ ہم کو اللہ ہی طرف لوٹنا ہے۔ تمام باتوں کا مرجع وہی ہے۔ سر تسلیم خم ہے۔ ہر معاملے میں سر تسلیم خم ہے !

گویا ہم صحیح تصور اور صحیح عقیدے کے ساتھ، کائنات کی واحد سچائی اور حقیقت یعنی رب ذوالجلال کے سامنے کھڑے ہیں اور دست بدعا ہیں۔

یہ ہیں وہ صابرین جنہیں جلیل القدر رسولﷺ ، انعام و اکرام کی خوش خبری دیتا ہے۔ اس مقام و مرتبے کا اعلان خود رب جلیل کرتا ہے۔

 

"ان پر ان کے رب کی طرف سے بڑی عنایت ہو گی، اس کی رحمت ان پر سایہ کرے گی اور ایسے لوگ راست رو ہیں۔ ” (١٥٧)

 

اللہ کی طرف سے عنایات ہوں گی۔ یہاں صابرین کے لئے لفظ صلوات استعمال کر کے گویا صابرین کو ان صلوات (عنایات)میں شریک کر دیا گیا، جو اللہ اور اس کے فرشتے نبیوں پر بھیجتے رہتے ہیں۔ کیا ہی بلند مقام ہے۔ کیا فیضان رحمت ہے کہ خود اللہ گواہ ہے کہ مصائب میں صبر کرنے والے ہی دراصل صحیح معرفت رکھتے ہیں اور صحیح راہ پر گامزن ہیں۔ غرض ہر بات عظیم اور محیر العقول ہے۔

تحریک اسلامی کی تیاری اور تربیت کے اس سبق کے آخر تک ہم پہنچ گئے۔ ذرا رک کر جائزہ لیجئے !مصائب و شدائد، قتل و شہادت، جان و مال کا نقصان، بھوک وافلاس اور خوف و خطر اور دوسری مشکلات کے لئے یہ عظیم تیاری اور تربیت، پر آشوب اور پر خطر اور عظیم المشقت طویل ترین معرکہ حق و باطل کے لئے یہ عظیم تیاری۔ یہ سب امور گہرے غور و فکر کے مستحق ہیں۔

ذرا دیکھئے !اللہ ان تمام مصائب اور مشکلات کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف صرف ایک بات ہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عنایات، اس کی جانب سے رحمت کے مستحق ہیں اور یہ اعلان کہ دنیا میں یہی لوگ ہدایت پر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس موقع پر مؤمنین صابرین کے ساتھ کسی ظفر مندی اور کامرانی کا وعدہ نہیں فرماتے، کسی خصوصی امداد کا بھی یہاں کوئی اعلان نہیں کیا جاتا۔ نہ یہاں مال غنیمت کا لالچ دیا جاتا ہے۔ کچھ بھی نہیں !صرف اللہ کی رحمت و عنایت کا وعدہ ہوتا ہے اور یہ شہادت دی جاتی ہے کہ وہ یقیناً سچائی اور حق پر ہیں۔ ۔ ۔ اللہ تعالیٰ صابرین کو ایک ایسے کام کے لئے تیار کر رہا تھا جو ان کی ذات و حیات سے زیادہ قیمتی ہے۔ ۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ہر اس خواہش و رغبت سے پاک کرنا چاہتا ہے، جس کا تعلق دنیا سے ہو۔ یہاں تک کہ ان کو ہدایت کی گئی کہ جس نصب العین کے لئے وہ کام کر رہے ہیں، جس نظریۂ حیات کے لئے وہ جدوجہد کر رہے ہیں اور جان تک دینے کو تیار ہیں، اس کے غلبہ کی خواہش تک دلوں سے نکال دیں۔ اور صرف رضائے الٰہی اور اطاعت خداوندی کو اپنا منشور قرار دیں۔ وہ صرف حکم الٰہی کے پابند ہوں۔ وہ آگے بڑھتے چلے جائیں اور ان کے پیش نظر اللہ کی رضامندی، اللہ کی رحمت کے حصول اور اس اطمینان کے سوا کچھ نہ ہو، کہ وہ حق کے لئے نکلے ہیں اور صحیح رستے پر ہیں۔ یہ ہے صحیح نصب العین۔ یہ ہے صحیح غرض و غایت اور یہ اور صرف یہ ہے وہ ثمر شیریں جس کے لئے وہ والہانہ دوڑ رہے ہیں۔ رہی یہ امید کہ اس جدوجہد کے نتیجے میں انہیں فتح و نصرت حاصل ہو گی۔ انہیں کرۂ ارض پر غلبہ و اقتدار نصیب ہو گا تو یہ تصرف و غلبہ یہ اقتدار و اختیار ان کے لئے تو نہیں ہے، یہ تو اس دعوت اسلامی کا غلبہ ہو گا جس کے وہ حامل ہیں۔

رہے اہل ایمان مجاہدین، تو انہیں ایک عظیم اجر دے دیا گیا، اللہ کی عنایات اور اللہ کی رحمت ہو گی اور انہیں یہ سرٹیفکیٹ دے دیا گیا کہ وہی حق پر ہیں۔ اور انہیں یہ اجر کس کے بدلے دیا گیا ؟جان و مال کی قربانی پر اور آمدنیوں پر دیا گیا۔ یہ اللہ کی راہ میں قتل و شہادت پر دیا گیا ہے۔ لیکن پھر بھی اللہ کے فضل و عنایت کا پلڑا بھاری ہے۔ یہ عنایت تمام عنایات سے بھاری ہے۔ فتح، نصرت اور تمکن فی الارض تمام امور سے یہ عنایت بھاری ہے۔ نیز یہ اس مسرت سے زیادہ خوش آئند ہے جو فتح و نصرت اور اسلامی انقلاب کے بعد حسرت دل پوری ہونے سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ ہے وہ ترتیب جس سے اللہ تعالیٰ نے اسلامی محاذ کو گزارا۔ بنی نوع انسان میں سے، جو شخص اپنے نفس، اپنی دعوت اور اپنے دین کو پاک وصاف کرنا چاہتا ہے، اسے چاہئے کہ وہ تربیت کے اس انداز کو اپنائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

درس ۱۰ایک نظر میں

 

اس سبق میں بعض بنیادی اصولوں کی تصحیح مطلوب ہے، جن پر اسلامی تصور حیات کی عمارت قائم ہے۔ اسلام کے ان بنیادی اصولوں کے سلسلے میں مدینہ طیبہ کے یہودی تلبیس کرتے تھے اور حق کو باطل سے ملاتے تھے، جان بوجھ کر حق چھپاتے تھے، مسلمانوں کے دلوں میں اضطراب اور ذہنوں میں پراگندگی پیدا کرتے تھے۔ اس لئے ضروری تھا ان اصولوں کے بارے میں واضح احکام دیئے جائیں۔ البتہ انداز بیان عمومی ہے اور یہود اور دوسرے مخالفین کے برخلاف بات اصولی طور پر کی گئی اور مسلمانوں کو ان خطرات سے آگاہ کیا گیا ہے، جو اس راہ میں، بالعموم انہیں درپیش ہوسکتے ہیں۔

صفا اور مروہ کے درمیان طواف کے مسئلے کو بھی لیا گیا ہے۔ دور جاہلیت میں اس سعی کے ساتھ چونکہ بعض غیر اسلامی اور شرکیہ تصورات وابستہ تھے، اس لئے وضاحت کر دی گئی کہ یہ شعائر اللہ میں سے ہیں لہٰذا سعی جائز ہے۔ تحویل قبلہ سے بھی اس کی مناسب واضح ہے۔ نیز بیت اللہ کے حج اور دوسرے شعائر کو چونکہ اسلامی نظام نے قائم رکھا ہے، اس لئے یہ مناسب تھا کہ ان امور کے سلسلے میں اسلامی نظام اپنی پالیسی واضح کرے۔

یہودی اللہ کی تعلیمات و ہدایات کو چھپاتے تھے۔ یہاں ان کی سخت مذمت کی جاتی ہے۔ البتہ یہ کہا جاتا ہے کہ توبہ کا دروازہ کھلا ہے، صد بار اگر توبہ شکستی باز آ، لیکن اگر وہ اپنی روش پر قائم رہتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں تو ان پر لعنت کی بارش ہو گی اور دردناک عذاب ان کا منتظر ہے۔ اللہ کی وحدانیت کا بیان اور اس پر تکوینی دلائل ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے شدید وعید ہے جو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان تابعین اور مبتوعین کے تعلق کا ایک منظر بھی پیش کیا گیا ہے جو قیامت میں اس وقت سامنے آئے گا جب یہ لوگ عذاب الٰہی دیکھیں کو دیکھیں گے تو ایک دوسرے سے بریت کا اظہار کریں گے لیکن بے سود۔

جو لوگ محض دنیاوی اغراض و مناصب کے لئے اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام چھپاتے ہیں، انہیں سخت تنبیہ کی گئی ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ آخرت میں ذلت، حقارت اور اللہ تعالیٰ کا شدید غضب تمہارے لئے تیار ہے۔

آخر میں نیکی اور بدی کا اسلامی معیار بتایا گیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ ایمان اور عمل صالح ہی وہ اصول ہیں، جن سے اسلامی تصور حیات درست ہوتا ہے۔ نیکی سے مراد کوئی ظاہری شکل و صورت نہیں ہے نہ صرف شرق و غرب کی طرف چہرہ کر کے نماز پڑھنا اصول تقویٰ میں سے ہے۔ نیکی تو شعور و عمل اور شعور عمل میں اللہ سے پختہ رابطے کانام ہے۔ یہ بیان دراصل تحویل قبلہ کے مباحث سے ملحق ہے۔

اس تمام بحث کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بات اسی ایک مضمون یعنی معرکہ حق و باطل کے اردگرد گھومتی ہے۔ ذہن انسانی میں حق و باطل کی کشمکش ہے۔ اسلامی اقدار کا تعین ہو رہا ہے اور تصور حیات کی وضاحت ہو رہی ہے اور بیرونی سازشوں اور مکر و فریب اور ذہنی پراگندگی پیدا کرنے والے مخالفین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے کا جواب دیا گیا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

درس ۱۰ تشریح آیات(۱۵۹ تا ۱۷۸)

 

"بے شک صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج یا عمرہ کرے اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرے اور جو شخص برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو اس کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ ” (١٥٨)

 

اس آیت کی شان نزول میں متعدد روایات منقول ہیں۔ اسلام نے مہاجرین و انصار کے سابقون الاولون کے دلوں میں جس قسم کا تصور حیات پیدا کیا تھا اس کی نوعیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے سب سے زیادہ موضوع اور اس وقت نفیساتی منطق کے مطابق کتب حدیث کی وہ روایت ہے جس میں کہا گیا ہے :”بعض مسلمان حج و عمرہ کے موقع پر صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے سے کراہت محسوس کرتے تھے۔ کیونکہ جاہلیت کے زمانے میں ان پہاڑیوں کے درمیان وہ اس لئے سعی کرتے تھے کہ یہ مقامات دو بتوں، اساف و نائلہ کے استھان تھے۔ اس لئے اسلام آنے کے بعد اب مسلمان اس سعی میں کراہت محسوس کرنے لگے تھے اور اسے زمانہ جاہلیت کا ایک فعل تصور کرنے لگے تھے۔ ”

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے محمد ابن یوسف، سفیان، عاصم بن سلیمان کے سلسلے سے روایت نقل کی ہے۔ سلیمان کہتے ہیں :میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صفا و مروہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا :”ہم سمجھتے تھے کہ یہ دور جاہلیت کی رسومات ہیں۔ جب اسلام کا ظہور ہوا تو ہم نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا ترک کر دی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل فرمائی "صفا و مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔ ”

امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اساف بت صفا پر تھا، اور نائلہ مروہ پر اور وہ انہیں بوسہ دیا کرتے تھے۔ اس لئے اسلام کے بعد مسلمانوں نے ان کے درمیان سعی کرنے میں کراہت محسوس کی اور اسی پر یہ آیت نازل ہوئی۔

روایات میں اس آیت کے نزول کی تاریخ متعین نہیں ہے، البتہ راجع صورت یہ ہے کہ تحویل قبلہ کے سلسلہ میں جو آیات نازل ہوئیں یہ ان کے بعد نازل ہوئی ہے۔ اگرچہ اس دور میں مکہ مکرمہ دار الحرب بن گیا تھا، لیکن اس کے باوجود بعض مسلمان انفرادی طور پر حج اور عمرہ کرسکتے تھے۔ ایسے ہی لوگوں نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کو جاہلیت کی ایک رسم سمجھا ہو گا۔ ان کے دلوں میں طویل تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ایمانی تصور حیات جاگزیں ہو چکا تھا۔ اور ا س کی برکت سے وہ جاہلیت کے ہر فعل اور ہر رسم و رواج کو شک اور کراہیت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ جاہلیت کے ہر کام کے بارے میں اس قدر حساس ہو گئے تھے کہ جاہلیت کے دور میں کئے جانے والے ہر فعل کو کرتے ہوئے ڈرتے تھے، مبادا کہ اسلام نے اسے ترک کرنے کا حکم دیا ہو۔ مسلمانوں نے مختلف مواقع پر اپنے اس احساس کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

اسلام کی دعوت نے ان لوگوں کے دلوں کو خوب جھنجھوڑ دیا تھا اور ی دعوت ان کے دلوں کی گہرائیوں تک ات ر چکی تھی اور اس دعوت نے ان کے دلوں میں ایک عظیم نفسیاتی اور شعوری انقلاب برپا کر دیا تھا۔ وہ اپنی ہر بات کو کراہیت سے دیکھتے تھے بلکہ وہ ماضی کو ترک کر چکے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ دور جاہلیت ان کی زندگی کا ایک باب تھا جسے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند کر چکے ہیں۔ ان کا ماضی اب ان سے کوئی تعلق ہے، نہ ان کا ماضی سے کوئی واسطہ ہے۔ ان کے خیال میں ان کا ماضی ایک قسم کی ناپاکی اور گندگی تھا جسے اب چھونا بھی جائز نہ تھا۔

اس برگزیدہ قوم کی زندگی کے آخری دور کو ذرا غور سے پڑھا جائے، تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ان پاک نفوس پر اس اسلامی نظریۂ حیات کا کیا ہی عجیب اثر ہو گیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو پکڑ کر جھنجھوڑ ا اور ان سے ہرقسم کی آلودگی کو جھاڑ دیا۔ اور ان کے وجود کے ذرات کو جدید طرز پر مرتب کر دیا بعینہ اس طرح جس طرح بجلی کا ایک جھٹکا دینے سے کسی مادے کے اجزاء اپنی سابقہ کیمیاوی شکل بدل دیتے ہیں اور ایک بالکل نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔

یہ ہے اسلام یعنی جاہلیت سے پوری طرح باہر نکل آنا، اور جاہلیت کے تمام امور کو پوری طرح حرام اور ناپسندیدہ سمجھنا۔ ہر اس ناپسندیدہ حرکت سے باہر آنا جو جاہلیت ہوتی تھی۔ ہر اس شعور کو دل ودماغ سے نکال دینا جو جاہلیت کے دور میں ذہنوں پر حاوی ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ مومن کا جام سبو نئے تصور حیات اور اس کے تمام لوازمات کے لئے خالی ہو جائے۔

تحریک اسلامی کی تاریخ شاہد ہے کہ جب مسلمانوں کے دل و دماغ میں یہ شعور اچھی طرح رچ بس گیا اور وہ اچھی طرح پختہ کار ہو گئے، تب اسلام نے دور جاہلیت کے شعائر میں سے، بعض مناسب شعائر کو باقی رکھنے کا اعلان فرمایا۔ اور اس سے پہلے ان شعائر کا رشتہ دور جاہلیت سے کاٹ دیا اور اس کے اسلام کے نظام میں، اس طرح پیوست کر دیا، جس طرح نگینہ انگشتری میں پیوست ہو جاتا ہے۔ اب ان چیدہ شعائر پر ایک مسلمان اس لئے عمل پیرا نہیں ہوتا تھا کہ دور جاہلیت میں وہ ان پر عمل کرتا تھا، بلکہ وہ انہیں اسلام کا ایک شعار جدید تصور کرتا تھا۔ جس کا اصل اسلام میں ہوتا تھا جس کی جڑیں اسلامی نظام زندگی سے آبیاری حاصل کرتی تھیں۔

اسلام کے ٹھوس اور عمیق نظام تربیت کی ایک مثال یہ ہے کہ قرآن مجید خاص اس مسئلے کے بارے میں اس طرح بات شروع کرتا ہے کہ وہ صفا و مروہ اللہ کے شعائر میں سے ہیں إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّہِ یقیناً صفا ومروہ اللہ کی نشانیوں میں ہیں۔ ” گو بتایا جاتا ہے کہ ان کے درمیان جو شخص بھی سعی کرے گا وہ اللہ کے شعائر میں سے ایک فریضہ ادا کرے گا۔ وہ ان کے درمیان جو سعی کرے گا اس سے غرض اطاعت حکم خداوندی ہے۔ اس سعی اور دور جاہلیت کی سعی کے درمیان اب کوئی تعلق باقی نہیں رہا۔ اب اس کا آساف و نائلہ اور جاہلیت کے دوسرے بتوں سے کوئی ربط و عقیدت نہیں ہے، بلکہ تعلق صرف اللہ اور رسول سے ہے۔

لہٰذا اب اس طواف وسعی میں کوئی حرج نہیں ہے۔ کوئی گناہ کی بات نہیں ہے، بات وہ پرانی بات نہیں رہی، نقطۂ نظر وہ پرانا نقطہ نظر نہیں رہا ہے فَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ أَوِ اعْتَمَرَ فَلا جُنَاحَ عَلَيْہِ أَنْ يَطَّوَّفَ بِہِمَا”لہٰذا جو شخص بیت اللہ کا حج و عمرہ کرے ، اس کے لئے کوئی گناہ کی بات نہیں ہے کہ وہ ان دونوں پہاڑوں کے درمیان سعی کرے۔ ”

حج میں عرب جن مناسک پر عمل کیا کرتے تھے ان میں سے اکثر کو اسلام نے علی حالہ برقرار رکھا ہے۔ صرف ان چیزوں کو ترک کروایا جن کی نسبت سے بتوں کی طرف تھی یا جو جاہلیت کے اوہام پر مبنی تھیں اور ان کی کوئی حقیقت نہ تھی۔ جن شعائر کو بحال رکھا گیا ان کا ربط بھی اسلام کے جدید تصور حیات نے قائم کر دیا اور یہ کہا کہ یہ وہ شعائر ہیں جن پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عمل کیا (تفصیلات آئندہ بیان حج میں ملاحظہ ہوں )

حج اور عمرہ کے مناسک ایک ہی ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ عمرہ میں عرفہ پر وقوف فرض نہیں ہے، نیز حج کے لئے جو میقات (وہ مقامات جن سے آگے بغیر نیت نہیں جا سکتا)مقرر ہیں وہ عمرہ کے لئے نہیں ہیں، لیکن حج اور عمرہ دونوں میں سعی بین الصفا و المروۃ ضروری ہے۔ اور شعائر اللہ میں سے ہے۔

آیت کا اختتام اس فقرے پر ہوتا ہے کہ جو شخص بھی برضا و رغبت مطلقاً نیکی کا کوئی بھی کام کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے :

وَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْراً فَإِنَّ اللَّہَ شَاكِرٌ عَلِيمٌ”اور جو شخص بھی برضا و رغبت کوئی بھلائی کا کام کرے گا، اللہ کو ا س کا علم ہے اور وہ اس کی قدر کرنے والا ہے۔ ”

اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ یہ سعی بھی دراصل بھلائی ہے۔ اس اشارے سے دلی کراہیت دور ہو جاتی ہے، دل ان کی ادائیگی پر آمادہ ہو جاتا ہے، اس امر پر مطمئن ہو جاتا ہے کہ اللہ تو اس سعی کا شمار نیکی میں کرے گا۔

پھر اس نیکی پر جزائے خیر بھی دیتا ہے اور وہ نیتوں کا مالک ہے اور قلب کی ہر شعوری حرکت سے باخبر ہے۔

اب ذرا رکیے !اور اس حکیمانہ انداز بیان پر دوبارہ ایک نگاہ ڈالئے فَإِنَّ اللَّہَ شَاكِرٌ "اللہ قدر کرنے والا ہے۔ "مقصد یہ ہے کہ اللہ بھلائی سے راضی ہوتا ہے۔ اس کا اجر دیتا ہے، ثواب دیتا ہے۔ لفظ "شاکر”سے صرف ایک خاص مفہوم ہی نہیں نکلتا بلکہ وہ ایک خاص سایہ عاطفت کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ یہ لفظ رضائے کامل کا پرتو ہے۔ گویا ذات باری بندے کے نیک اعمال کی قدر کرتی ہے، تو پھر اب بندے کا فرض کیا ہے کہ وہ بارگاہ خداوند میں شکر بجا لائے ؟اس کا فرض ہے کہ وہ اللہ کی مہربانی کے جواب میں مزید شکر ادا کرے۔ اس کی بے حد تعریف کرے، قرآن کے طرز تعبیر کا یہ ایک خاص اسلوب ہے، جو انسانی شعور واحساس کو شبنم کے تازہ قطروں کی طرح تازگی، حسن اور ملائمت عطا کرتا ہے۔

صفا و مروہ کے درمیان سعی کی فرضیت کے بعد اب ان لوگوں کی مذمت ہے جو اللہ کی نازل کردہ تعلیمات و ہدایات کو چھپاتے ہیں۔ یہ وہ یہودی ہیں جن کے بارے میں اس سورت میں طویل بحث، اس سے پہلے ہو چکی ہے۔ یہاں دوبارہ اس بحث کے چھیڑنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تحویل قبلہ اور فرضیت حج کے سلسلے میں انہوں نے بحث و تکرار شروع کر رکھی تھی۔ ابھی تک وہ ختم نہیں ہوئی۔

 

"جو لوگ ہماری نازل کی ہوئی روشن تعلیمات اور ہدایات کو چھپاتے ہیں، دراں حالیکہ ہم انہیں سب انسانوں کی راہنمائی کے لئے اپنی کتاب میں بیان کر چکے ہیں۔ یقین کرو کہ اللہ بھی ان پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں، البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کریں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو میں معاف کر دوں گا اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ جن لوگوں نے کفر کا رویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت ہی میں جان دے دی ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اس لعنت زدہ زندگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہو گی اور نہ انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔ ” ( ١٥٩۔ ١٦٢)

 

اہل کتاب، خود اپنی کتاب کے ذریعہ سے یہ جانتے تھے کہ رسولﷺ کی رسالت برحق ہے۔ اور یہ بھی جانتے تھے کہ آپﷺ جن احکامات کی تبلیغ کرتے ہیں وہ برحق ہیں اور من جانب اللہ ہیں۔ اس کے باوجود وہ ان احکامات کو چھپاتے تھے جو اللہ نے ان کے لئے ان کی کتاب میں نازل کئے تھے۔ بس ان لوگوں اور ہر دور میں ان جیسے لوگوں کا کردار یہ رہا ہے کہ یہ اللہ کی نازل کردہ حق اور سچائی کو چھپاتے ہیں، خواہ اس حق پوشی کی کوئی معقول وجہ بھی نہ ہو۔ ایسے لوگ مختلف ادوار میں مختلف مقامات پر پائے جاتے ہیں، جو حق و صداقت کا علم رکھتے ہیں مگر پھر بھی اظہار حق کے وقت خاموش رہتے ہیں۔ انہیں وہ اقوال و آیات یقین کے ساتھ معلوم ہوتی ہیں جن میں اس سچائی کا فیصلہ ہو چکا ہوتا ہے، اللہ کی کتاب میں سے کئی آیات سے وہ ایک طرف ہو جاتے ہیں، ان کا اظہار نہیں کرتے، ان کے بارے میں خاموشی اختیا ر کر لیتے ہیں، انہیں چھپا کر اس حقیقت سے پہلو تہی کر جاتے ہیں جس کی وہ آیات حامل ہوتی ہیں۔ وہ ان آیات کو لوگوں کے سمع واحساس سے دور رکھتے ہیں، چاہے کسی وجہ سے بھی وہ ایسا کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس سے ہم زندگی کے مختلف مراحل میں دوچار ہوتے ہیں رہتے ہیں اور حقائق دین میں سے مختلف اور بے شمار حقائق میں یہ صورتحال پیش آتی رہتی ہے۔

"یقین کرو اللہ بھی ایسے لوگوں پر لعنت کرتا ہے اور تمام لعنت کرنے والے بھی ان پر لعنت کرتے ہیں۔ أُولَئِكَ يَلْعَنُہُمُ اللَّہُ وَيَلْعَنُہُمُ اللاعِنُونَ (١٥٩) ”

گویا وہ لعنت کے مقام پر کھڑے ہوں گے اور ان پر ہر طرف سے لعنت کی بارش ہو رہی ہو گی اور اللہ کے بعد ہر لعنت کرنے والا ان پر لعنت برسا رہا ہو گا۔

لعنت کا مفہوم ہے قہر و غضب سے دھتکارنا۔ اللہ کی لعنت یہ ہو گی کہ وہ انہیں اپنی رحمت سے باہر نکال دے اور پھر ہر طرف سے لعنت کرنے والے ان کا پیچھا کر رہے ہوں گے۔ یو وہ درگاہ الٰہی سے بھی راندہ ہوں گے اور مسلمانوں کی طرف سے بھی دھتکارے جائیں گے۔ إِلا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَئِكَ أَتُوبُ عَلَيْہِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ”البتہ جو اس روش سے باز آ جائیں اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور جو کچھ چھپاتے تھے، اسے بیان کرنے لگیں، ان کو میں معاف کروں گا۔ میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ ”

اس تنبیہ و تہدید کے باوجود قرآن کریم توبہ کا دروازہ کھلا رہتا ہے۔ اس سے وہ روشنی پاتے ہیں اور رشتۂ امل ٹوٹنے نہیں پاتا۔ اس طرح دل نور کے سرچشمے کی طرف کھنچتے ہیں اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے۔ اللہ کی عفو و درگزر کی امید باقی رہتی ہے۔ اس لئے جو چاہے، جس وقت بھی چاہے صدق نیت سے، اس دار الامن میں داخل ہو جائے۔

سچی توبہ کی نشانی کیا ہو گی ؟عمل میں تبدیلی اور اصلاح، صاف صاف بات کرنا، حق کا اعتراف کرنا، اور حق کے تقاضے پورے کرنا۔ اور جو لوگ توبہ کر لیں وہ یقیناً اللہ کی رحمت سے بہرہ ور ہوں گے، ان کی توبہ قبول ہو گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ”اور میں بڑا درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہوں۔ "یقیناً ایسا ہو گا کیونکہ، بات کرنے والوں میں اللہ تعالیٰ سب سے صادق القول ہے۔

اور جو لوگ اپنی غلط روش پر مصر ہوتے ہیں اور مہلت اور فرصت کو غنیمت نہیں سمجھتے تو وہ یقیناً اپنے اس انجام کو پہنچیں گے جس کی وعید اللہ نے اس سے قبل ان سے فرمائی ہے۔ اور اب زیادہ تفصیل و تاکید سے کہا جاتا ہے إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَہُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلائِكَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (١٦١)خَالِدِينَ فِيہَا لا يُخَفَّفُ عَنْہُمُ الْعَذَابُ وَلا ہُمْ يُنْظَرُونَ (١٦٢)

"اور جن لوگوں نے کفر کارویہ اختیار کیا اور کفر کی حالت میں جان دی، ان پر اللہ اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ اسی لعنت زدگی کی حالت میں وہ ہمیشہ رہیں گے، نہ ان کی سزا میں تخفیف ہو گی اور انہیں پھر کوئی دوسری مہلت دی جائے گی۔ ”

کیوں ؟اس لئے کہ انہوں نے اس کھلے دروازے کو، خود اپنے اوپر بند کر دیا، انہوں نے فرصت کو غنیمت نہ جانا اور موقع ہاتھ سے چلا گیا اور کتمان حق، اور کفر و ضلالت پر اصرار کیا : أُولَئِكَ عَلَيْہِمْ لَعْنَۃُ اللَّہِ وَالْمَلائِكَۃِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ”ان پر اللہ، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت۔ "یہ ہمہ جہت لعنت ہو گی، کسی صورت میں بھی وہ اس سے چھٹکارا نہ پا سکیں گے۔ نہ کسی سینے میں ان کے لئے رحم ہو گا۔

قرآن کریم نے ہمہ جہت لعنت کے سوا ان کے لئے کسی عذاب کا تذکرہ نہیں کیا، بلکہ کہا ہے کہ اس عذاب میں کوئی تخفیف نہ ہو گی۔ نہ کوئی تاخیر ہو گی اور انہیں کسی قسم کی کوئی مہلت نہ دی جائے گی یہ ایک ایسا عذاب ہے جس سے تمام دوسرے عذاب کم ہوں گے، دھتکارنے، پرے پھینک دینے اور اظہار لاتعلقی کا عذاب۔ کوئی ان پر رحم کرنے والا نہ ہو گا۔ کوئی آنکھ انہیں قبول نہ کرے گی، کسی زبان پر ان کے لئے سلام تک نہ ہو گا۔ ہر طرف سے لعنت، دھتکار اور قطع تعلق، انسانوں کی طرف سے بھی اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی، زمین پر بھی اور آسمانوں پر بھی، ہر جگہ اور ہر طرف سے۔ یہ ہے وہ دردناک اور توہین آمیز عذاب۔

اس کے بعد سیاق کلام توحید کی طرف پھر جاتا ہے، ایمانی تصور حیات کی بنیاد عقیدۂ توحید پر رکھی جاتی ہے۔ کائنات سے ایسے مشاہد پیش کئے جاتے ہیں، جو عقیدہ توحید پر ناقابل تردید دلائل پیش کرتے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو معبود بناتے ہیں۔ ان پر تنقید ہے اور بتایا جاتا ہے کہ قیامت کے دن یہ لوگ کس قدر ذلیل و خوار ہوں گے، جب عذاب الٰہی سامنے ہو گا، تابع متبوع سے۔ متبوع تابع سے تبرّیٰ کر رہا ہو گا، لیکن کوئی معذرت بھی انہیں کچھ فائدہ نہ دے سکے گی۔ ان کی پشیمانی ان کے لئے مفید نہ ہو گی نہ انہیں اس کی وجہ سے نار جہنم سے چھٹکارا حاصل ہو گا۔

 

"تمہارا اللہ ایک ہی اللہ ہے، اس رحمٰن اور رحیم کے سوا کوئی اور اللہ نہیں ہے۔ "(۱۶۳۔ ۱۶۷)

(اور اس حقیقت کو پہچاننے کے لئے کوئی نشانی اور علامت درکار ہے تو)جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسان کے نفع کی چیزیں لئے ہوئے ہیں دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں۔ بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو زندگی بخشتا ہے اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہر قسم کی جان دار مخلوق کو پھیلاتا ہے۔ ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں بے شمار نشانیاں ہیں مگر (وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے ان کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی )کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں اور ان کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے۔ حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ کاش جو کچھ عذاب کوسامنے دیکھ کر انہیں سوجھنے والا ہے وہ آج ان ظالموں کو سوجھ جائے گا ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے۔ جب وہ سزا دے گا اس کیفیت یہ ہو گی کہ وہی پیشوا اور راہ نما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے مگر سزا پا کر رہیں گے۔ اور ان کے سارے اسباب ووسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں، ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال، جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے، مگر آگ سے نکلنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔ (١٦٣۔١٦٧)

 

ایمانی تصور حیات وحدت الوہیت کے اصول پر قائم ہے۔ رسولﷺ کے وقت اللہ تعالیٰ کے وجود کے بارے میں کوئی تنازع نہ تھا۔ البتہ ذات باری، صفات ب باری اور مخلوق و خالق کے باہمی تعلق کے بارے میں اختلاف رائے ضرور تھا۔ کوئی بھی اللہ کے وجود کے بارے میں اختلاف نہ کرتا تھا۔ ایسا کبھی نہ ہوا کہ انسانی فطرت نے کبھی وجود باری کو بھلادیا ہو۔ یا انسان کسی خدا کا قائل نہ رہا ہو۔ یہ تو اس دور جدید کی بیماری ہے جب اذہان میں ایسے افکار اگ آئے، جن کا تعلق زندگی کے شجرہ طیبہ سے نہیں ہے، جو فطرت کے عین خلاف ہیں، جن کے نتیجے میں انسان نے سرے سے وجود باری کا بھی انکار کر دیا۔ یقیناً یہ اوپرے افکار ہیں اور موجودات و کائنات میں ان کی کوئی جڑ موجود نہیں ہے۔ ایک وقت ضرور آئے گا جب یہ افکار سرے سے ناپید ہو جائیں گے اور ان کا کوئی نام و نشان بھی نہیں رہے گا۔ کائنات کی تشکیل و تکوین اور اس کی ساخت ان افکار کی متحمل نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کو فطرت کائنات مسترد کرتی ہے اور یہ لوگ اس لئے ناقابل برداشت ہیں کہ ان کے افکار کی جڑیں فطرت کائنات میں نہیں ہیں۔

عقیدہ توحید انسان کے نظریۂ حیات میں ایک ضروری تصحیح ہے، اسلامی نظام حیات کے لئے تو خشت اول ہے۔ اس لئے قرآن حکیم بار بار عقیدۂ توحید کا بیان مختلف پیرایوں میں کرتا ہے۔ یہی وہ بنیاد اور اساس ہے جس پر اسلام کا اخلاقی نظام اور اس کی اجتماعی تنظیم استوار ہوئی۔ یعنی اس کائنات میں وحدت ربوبیت کا تصور وَإِلَہُكُمْ إِلَہٌ وَاحِدٌتمہارا اللہ ایک ہی ہے لا إِلَہَ إِلا ہُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ”اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں ہے۔ رحمان ہے رحیم ہے۔”

تاکید اور بار بار تاکید، یعنی وحدانیت الٰہ کی اس تاکید کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معبود ایک ہو جاتا ہے جس کی تمام مخلوق بندگی کرتی ہے اور اس کے سامنے سرتسلیم خم کرتی ہے۔ وہ سمت ایک متعین ہو جاتی ہے جس سے پوری مخلوق اپنے اخلاق اور اپنے طرز عمل کے اصول اور طریقے اخذ کرتی ہے اور وہ ماخذ اور منبع بھی متعین ہو جاتا ہے۔ جس سے انسان شریعت و قانون کے اصول اخذ کرتا ہے۔ اور وہ واحد نظام حیات بھی متعین ہو جاتا ہے جو انسان کے تما م اصول حیات میں متصرف ہوتا ہے۔

جیسا کہ سیاق کلام سے معلوم ہوتا ہے۔ یہاں امت مسلم کو کو اس عظیم رول کے لئے تیار کیا جاتا ہے جو اسے کرۂ ارض پر ادا کرنا ہے۔ اس مناسبت سے یہاں اس حقیقت کا پھر ذکر کر دیا جاتا ہے۔ جس کا ذکر قرآن مجید میں بار بار کیا جاتا ہے۔ جو قرآن مجید کا وہ سایہ دار درخت ہے جس کی جڑیں دور تک زمین میں گئی ہوئی ہیں اور اس کی شاخیں عقل و شعور کے آسمان پر دور تک پھیلی ہوئی ہیں۔ بلکہ وہ اس پوری کائنات کو اپنے گھیرے میں لئے ہوئے ہیں۔ اس حقیقت کا ذکر یہاں مقرر کر دیا جاتا ہے کہ اسلامی معاشرے کی تمام قانون سازی اور ضابطہ بندی میں سے پیش نظر رکھا جائے۔ کیا ہے وہ حقیقت ؟وہ ہے توحید الٰہی۔ پھر یہاں اللہ تعالیٰ کی صفات رحمٰن رحیم کا ذکر کیا جاتا ہے۔ تمام شریعات و ضابطہ بندیوں کا ماخذ اور سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی یہ گہری اور عمومی صفت، صفت رحمت ہے۔

اسی طرح پوری کائنات اور اس کی ہر گزرگاہ اللہ کی رحمت اور اس کی وحدانیت پر شاہد عادل ہے۔

"جو لوگ عقل سے کام لیتے ہیں ان کے لئے آسمانوں اور زمین کی ساخت میں، رات اور دن کے پیہم ایک دوسرے کے بعد آنے میں، ان کشتیوں میں جو انسانوں کے لئے نفع کی چیزیں لئے ہوئے دریاؤں اور سمندروں میں چلتی پھرتی ہیں، بارش کے اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعہ زمین کو زندگی بخشتا ہے۔ اور اپنے اسی انتظام کی بدولت زمین میں ہرقسم کی جاندار مخلوق کو پھیلاتا ہے۔ ہواؤں کی گردش میں اور ان بادلوں میں جو(زمین وآسمان کے درمیان تابع فرمان بنا کر رکھے گئے ہیں، بے شمار نشانیاں ہیں )۔ ” (١٦٤)

 

احساس و شعور کو بیدار کرنے کے لئے یہ بالکل ایک نیا انداز ہے۔ اس کے ذریعے عجائبات دنیا کے نظاروں اور کائنات کے گہرے مطالعہ سے قلب و نظر کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس کائنات کے عجائب سے چونکہ ہم مانوس ہو چکے ہیں، رات دن انہیں دیکھتے رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی جدت و ندرت، احساس و شعور پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ کائنات انسان کے لئے ایک معمولی چیز بن گئی ہے۔ اس لئے انسان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک دفعہ لوٹ کر، کھلی آنکھوں کے ساتھ، تیز احساس کے ساتھ اور زندہ دل کے ساتھ، اس کائنات پر یوں نظر ڈالے جیسے وہ اسے پہلی مرتبہ دیکھ رہا ہو اور پھر وہ بار بار مشاہدہ کرے۔ یوں وہ اس کائنات میں عجیب و غریب مشاہدات کرسکے گا۔ یہاں بے شمار مناظر ایسے ہیں کہ جب ان پر انسان نے پہلی نظر ڈالی تو آنکھیں خیرہ ہو گئیں اور دل متحیر ہو گئے لیکن پھر کیا ہوا؟قلب ونظر کے لئے وہ مناظر معمول بن گئے۔ دنیا کے اس عجیب میلے کو ہر روز دیکھتے رہے۔ ہم اس سے مانوس ہو گئے۔ گردش ایام کوئی اچھنبے کی بات نہ رہی۔ اس کا انوکھا پن یک لخت ختم ہو گیا اور یہ رونگٹے کھڑے کر دینے والے مناظر فطرت تو اب ہمارے لئے جاذب نظر ہی نہ رہے۔

یہ آسمان وزمین، یہ خوفناک فاصلے، یہ دیو ہیکل اجرام فلکی، یہ حیران کن آفاق اور پھر یہ معلوم اور نامعلوم بے شمار جہاں اس فضا میں ان جہانوں کی گردش، انکے مواقع و مدارات، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کے تصور ہی سے سرچکرانے لگتا ہے۔ یہ اسرار کائنات جو پردہ غیب میں نہاں ہیں، جو کائنات کے پردوں سے نفس انسانی کو جھانکتے ہیں۔ آسمان و زمین پر مشتمل یہ عظیم کائنات۔ اور پھر یہ انسان ان ابعاد اور فاصلوں سے بے خبر، ان کے حجم اور عظمت سے بے خبر اور ان کے اسرار و رموز سے عاجز۔ ہاں جب انسانی ادراک ترقی کر جائے گا اور جدید علوم اور انکشافات اس کی ممد و معاون ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اسے کچھ راز ہائے دروں سے خبردار کرے گا۔ (سید قطب شہید کی پیش گوئی کے عین مطابق یہ سلسلہ بڑی تیزی سے جاری ہے۔ مترجم)

شب و روز کا اختلاف، نور و ظلمت کا باہمی تعاقب۔ صبح شام کی گردش یہ طلوع اور وہ غروب، اور نگہ اولیں پر ابتدائے آفرینش سے چٹکیاں لینے لگتا تھا، دل دھڑکتے تھے اور سب مناظر انسان کے لئے عجب العجائب تھے، پھر کیا ہوا؟انسان بار بار مشاہدہ کرتا رہا، اور یہ سب کچھ اس کے لئے ایک معمول بن گیا۔ انوکھا پن نہ رہا۔ کشش ختم ہو گئی۔ اور انسان غافل ہو گیا لیکن قلب مومن ہمیشہ بیدار رہتا ہے۔ اس کے احساس میں یہ بات مشاہدات تازہ بتازہ ہو بہو رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ ان میں اللہ کو دیکھتا ہے، اسے یاد کرتا ہے اور وہ ان مشاہد و عجائب کو ہر بار یوں دیکھتا ہے کہ ایک جہان نو، ایک تخلیق نو ابھی ابھی اس دکھائی گئی ہو۔

دیکھئے لوگوں کی ضروریات لئے ہوئے بحری جہاز جا رہا ہے (اور اس منظر کا بقدر حصہ میں نے خود احساس کیا ہے )کیا ہی منظر ہے۔ ایک عظیم سمندر میں سیاہ نقطہ ہے جس پر ہم سوار ہیں جو ہمیں لے کر رواں دواں ہے، ہر طرف سے متلاطم موجوں کے تھپیڑے ہیں اور تا حد نظر نیلگوں بحر بیکراں کی وسعت ہے۔ یہ کشتی تیر رہی ہے۔ ادھر کرتی، ادھر پڑتی جا رہی ہے۔ اللہ کی قدرت اور اللہ کی نگہبانی کے سوا کوئی اور طاقت نہیں، جس کا یہاں بس چل سکے۔ یہاں اللہ کے بنائے ہوئے قانون کی حکمرانی ہے۔ ایک چھوٹا سانقطہ ہے، لہروں کے مٹتے ہوئے خطوط پر، خوفناک بیکراں کے سینے پر۔

بس وہ اللہ ہی ہے جس نے آسمانوں کی بلندیوں سے پانی اتارا۔ باغ دراغ اجڑے ہوئے تھے۔ خزاں کا دور دورہ تھا۔ زمین مر چکی تھی۔ یکایک وہ پھر سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے۔ مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جاتی ہے۔ نوع بنوع کے جانور اس پر دوڑتے پھرتے ہیں۔ قسم قسم کے پرندے اڑتے اور چہچہاتے ہیں۔ ہوائیں چلتی ہیں جن میں درخت جھومتے ہیں۔ زمین وآسمان کے درمیان بادل جھومتے ہیں مگر ہیں قید میں۔ کیا مناظر ہیں یہ اگر انسان، قرآنی اشارات کی سمت میں ان پر قرآنی زاویہ نگاہ سے غور و فکر کرے تو اللہ کی عظیم قدرت اور پھر اس کی وسیع شان رحیمی دیکھ کر، اس کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں۔ یہ زندگی جس کے ادراک سے ہم قاصر ہیں۔ جس کا جوہر لطیف سرحدات ادراک سے ماورائی ہے۔ جو بڑے لطف سے کرہ ارض پر نمودار ہوتی ہے۔ پھر یک لخت کھل کر سامنے آ جاتی اور طاقتور بن جاتی۔ گٹھلی سے درخت بن جاتا ہے۔ یہ کہاں سے آ گئی؟اگر تخم اور گٹھلی کے اندر پوشیدہ تھی تو پھر گٹھلی اور تخم کہاں سے آئے ؟اور ان میں یہ زندگی کیسے داخل ہوئی؟اس کا اصل کیا ہے ؟اس کا پہلا مصدر کیا ہے ؟آپ بھاگ نہیں سکیں گے۔

ٹھہرئیے !فطرت اصرار کرتی ہے کہ آپ اس سوال کا جواب دیں۔ ملحدین نے اس سوال کے جواب سے ہمیشہ راہ فرار اختیار کی ہے۔ بے شک بہت مشکل سوال ہے۔ اس کا جواب صرف یہ ہے کہ ایک قادر مطلق، تخلیق کنندہ موجود ہے۔

وہی ہے جو مردے کو زندگی بخشتا ہے۔ ملحدین مغرب، لوگوں کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ مردہ چیز کو زندگی بخشنے کی تحقیق کر رہے ہیں تاکہ اللہ کو ماننے کی ضرورت ہی نہ رہے لکن سعی و پیہم کے بعد اپنے کفر و الحاد کے باوجود آخرکار انہیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم اس سلسلے میں ناکام ہیں۔ زندگی کی ایجاد محال ہے آج ملحد روس میں، حیاتیات کے ماہرین کو یہ اعلان کرنا پڑا ہے ہم اس راز کے ادراک سے عاجز ہیں۔ اس سے قبل بھی حیاتیات کے ایک مشہور عالم ڈارون نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا تھا۔

اور پھر یہ ہوائیں، کبھی ادھر رواں ہیں، کبھی ادھر چلتی ہیں، اپنے کندھوں پر بادل لئے ہوئے۔ بادل زمین وآسمان کے درمیان مقید ہیں۔ کرہ ارض پر اللہ تعالیٰ نے جو قوانین مقرر کئے ہیں ان کے عین مطابق ان کی حقیقت کیا ہے ؟اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ صرف یہی کافی نہیں ہے کہ ہواؤں کے چلنے کے اسباب گنوا دیں۔ مادہ پرستوں کے نظریات پڑھ دیں۔ یہ بتا دیں کہ بادل یوں بنتے ہیں اور یوں برستے ہیں۔ راز تو کچھ اور ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان اسباب کی حقیقت کیا ہے ؟قدرت، اس کا منبع اس کا موجودہ توازن اور اس کے موجودہ قوانین، جو زندگی کو یہ سہولت فراہم کرتے ہیں۔ زندگی کے اسباب بادل، بارش اور شبنم ان سب کاسر حلقہ کیا ہے ؟یہ سہولتیں، جو ہم معلوم کرسکے ہیں ہزاروں ہیں اور اگر ان سب سے صرف ایک ہی نہ تو زندگی یک لخت معدوم ہو جائے یا اس طرح خوشگواری سے نہ چلے۔ جس طرح رواں دواں ہے۔ عناصر فطرت کی یہ پیچیدہ ہم آہنگی بتاتی ہے کہ زندگی کوئی اتفاقی چیز نہیں ہے۔ یقیناً اس کے پس منظر میں ایک ارادہ کارفرما ہے۔ ایک اختیار کارگر ہے۔ یہ ارادہ صرف ایک ہے۔ اس میں دوئی نہیں کیوں ؟اس لئے کہ کوئی اس میں تضاد نہیں اور نہایت مشفقانہ ہے اس لئے اس کی ہر حرکت زندگی کے لئے معاون ہے۔ (بے شمار نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل سے کام لیتے ہیں )انسان کو دنیا کی الفت اور غفلت نے کند کر دیا ہے۔ اگر وہ الفت اور غفلت کے ان پردوں کو دماغ سے اتار پھینکے تو یقیناً ان مشاہدات فطرت کو ایک جدید احساس کے ساتھ دیکھ سکے گا۔ بالغ نظری سے دیکھ سکے گا۔ وہ ایک ایسے دل کے ساتھ غور کرسکے گا، جو نور ایمان سے لبریز ہو۔ اگر وہ اس کرۂ ارض پر ایک نووارد کی طرح نگاہ ڈالے گا جو گویا کسی دوسرے جہان سے اس زمین پر پہلی مرتبہ اترا ہے، تو وہ ہر چمک کی طرف ملتفت ہو جائے۔ اس کے کان ہر آواز کی طرف متوجہ ہوں۔ اس کا احساس ہر حرکت نوٹ کرے اور قلب و نظر اور حس و شعور نئی نئی واردات سے دوچار ہوں اور وہ حیرت واستعجاب سے کانپ اٹھے۔

یہ ہیں ایمان کی کارستانیاں اور ایمان کی برکات !وسعت نظر حد احساس و شعور، حسن، ہم آہنگی اور کمال قدردانی۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان اس کائنات کا ادراک جدید ہے۔ اور حسن و جمال کا ایک نیا شعور ہے۔ ایمان دراصل، اللہ تعالیٰ کے قوانین کے رنگین میلے میں چہل پہل کا نام ہے جس میں صبح و شام تماشائے قدرت کا نئے سے نیا نظارہ پیش ہوتا ہے۔ لیکن کار گاہ حیات کی ان نیرنگیوں کے باوجود، یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو عقل کے ادراک سے کورے ہیں۔ ان کی نظر کوتاہ ہے اور وہ قوانین فطرت کی ایسی وحدت کو اور اس کائنات کے چلانے والے اس واحد اور منضبط نظام کو جو عقیدۂ توحید کی طرف صاف صاف اشارہ کرتا ہے نظر انداز کر دیتے ہیں اور ان سب چیزوں پر سے یونہی گزر جاتے ہیں یا ان کے لئے مختلف خدا اور مختلف اسباب تلاش کرتے ہیں وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّہِ أَنْدَاداً يُحِبُّونَہُمْ كَحُبِّ اللَّہِ”اور کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں۔ اور ان کے لئے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہئے۔ ”

ہاں بعض لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں۔ جن لوگوں سے قرآن مخاطب تھا۔ ان کے معاشرے میں اللہ کے یہ ہمسر درخت، پتھر، ستارے اور ملائکہ و شیاطین تھے۔ جاہلیت کے مختلف ادوار میں کبھی عام چیزیں، کبھی افراد و اشخاص، کبھی اشارات و اعتبارات اللہ کے ہمسر رہے ہیں۔ بعض اوقات یہ ہمسری شرک خفی کی تعریف میں آتی ہے اور کبھی شرک ظاہر و جلی کی صورت میں۔ جب ان اشیاء کا ذکر اللہ کے ساتھ ہو اور دل میں ان کے بارے میں وہی عظمت و محبت ہو، جو اللہ تعالیٰ سے ہونی چاہئے تو یہ خفیہ شرک ہو گا اور اگر صورت احوال یہ ہو کہ دل سے اللہ کی محبت بالکل نکل جائے اور اس کی جگہ کسی اور چیز کی محبت اور عظمت جاگزیں ہو جائے تو یہ کھلا شرک ہو گا۔

مؤمنین کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کی محبت اور اللہ کی عظمت کی طرح کسی دوسری چیز کی عظمت نہیں کرتے اور نہ اس کی عظمت کے قائل ہوتے ہیں۔ نہ اپنی جان سے نہ کسی اور کی جان سے نہ کسی شخصیت سے، نہ کسی اشارہ و اعتبار سے، نہ کسی نعرہ و نظریہ سے اور نہ ان جدید اقدار میں سے کسی ایک قدر کے ساتھ، جن کے پیچھے آج کل مخلوق خدا بھاگ رہی ہے۔ غرض ان میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی وہ ربط و تعلق نہیں رکھتے وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبّاً لِلَّہِ "حالانکہ ایمان والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں۔ "ان کے دلوں میں اللہ کی شدید محبت ہوتی ہے۔ صرف اللہ کی محبت بلا قید و بلا قدر۔ ان تمام محبتوں پر جو دوسری چیزوں کے لئے ان کے دل میں ہوتی ہیں۔ اللہ کی محبت شدید تر ہوتی ہے۔ سبب پر غالب ہوتی ہے۔

بندہ اور اللہ کے مابین تعلق کی تعبیر محبت سی کی گئی ہے۔ یہ بہت اچھی تعبیر ہے۔ ایک سچے مومن اور حق تعالیٰ کے دور میں محبت ہی کا تعلق ہوتا ہے۔ قلبی محبت کا تعلق، روحانی کشش کا رابطہ، قرب ودوستی کا تعلق اور ایک پر خلوص نورانی جذبہ محبت کا تعلق۔ یہ افسر و ما تحت کا سرکاری تعلق نہیں ہوتا۔

"کاش، جو کچھ عذاب سامنے دیکھ کر، انہیں سوجھنے والا ہے۔ وہ آج ہی ان ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں۔ اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے۔ جب وہ سزا دے گا اس وقت کیفیت یہ ہو گی کہ وہی پیشوا اور راہ نما، جن کی دنیا میں پیروی کی گئی تھی، اپنے پیروؤں سے بے تعلقی ظاہر کریں گے، مگر سزا پا کر رہیں گے۔ اور ان کے اسباب و وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کاش ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا توجس طرح آج یہ ہم سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں، ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ یوں اللہ ان لوگوں کے وہ اعمال، جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے مگر آگ سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔ "( ١٦٥۔ ١٦٧)

 

یہ لوگ ہیں جنہوں نے غیر اللہ کو اللہ کا ہمسر بنایا، انہوں نے سچائی کے ساتھ ظلم کیا۔ انہوں نے خود اپنے آپ پر ظلم کیا۔ کاش وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے۔ اس منظر کے بارے میں کچھ سوچتے کہ ان کو ایک دن اللہ وحدہ لاشریک کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ کاش وہ چشم بصیرت سے اس عذاب کو دیکھ سکتے جو ظالموں کا انتظار کر رہا ہے۔ ہاں اگر وہ آنکھیں کھولتے تو یقیناً دیکھ لیتے کہ أَنَّ الْقُوَّۃَ لِلَّہِ جَمِيعاً”تمام طاقتیں اور اختیارات گو اللہ ہی کے ہیں۔ "لہٰذا وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔ نہ کسی کو اس کا ہمسربنائے اور ان کو معلوم ہو جاتا وَأَنَّ اللَّہَ شَدِيدُ الْعَذَابِ”یہ کہ اللہ بہت ہی سخت عذاب دینے والا ہے۔ ”

کاش وہ اس منظر کو دیکھ سکتے کہ پیشوا اپنے مریدوں سے بے تعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ انہوں نے عذاب خود دیکھ لیا ہے۔ ان کے درمیان تعلقات اور دوستیاں ختم ہو چکی ہیں۔ پیشوا ہے کہ مرید دونوں نفسا نفسی کی حالت میں ہیں۔ وہ قیادت اور ریاست ڈھیر ہو گئی جس کی وجہ سے پیروکار ان کے پیچھے بھاگتے تھے۔ قائدین کو خود اپنی پڑی ہے۔ وہ پیروؤں کی عزت پر کیا توجہ کریں، ان کو کس طرح بچائیں۔ اب تو الٰہ واحد کی حقیقت اور طاقت ظاہر ہو چکی ہے۔ اب تو ان کے سامنے صرف ایک ہی قدرت ہے۔ گمراہ قیادتوں کا جھوٹ، ان کی کمزوری اور اللہ کے سامنے ان کا عجز اور عذاب الٰہی کے سامنے ان کی سراسیمگی اور بے بسی سب پر ظاہر ہو چکی ہے۔ وَقَالَ الَّذِينَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا كَرَّۃً فَنَتَبَرَّأَ مِنْہُمْ كَمَا تَبَرَّء ُوا مِنَّا”اور وہ لوگ جو دنیا میں ان کی پیروی کرتے تھے، کہیں گے کاش کہ ہم کو پھر ایک موقع دیا جاتا تو جس طرح آج یہ ہم سے بیزار ظاہر کر رہے ہیں، ہم ان سے بیزار ہو کر دکھا دیتے۔ "وہاں یہ فریب خوردہ پیروکار اپنی گمراہ قیادت پر سخت غیض و غضب کا اظہار کریں گے۔ وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش ایک موقع ہمیں اور مل جاتا اور ہم زمین پر دوبارہ لوٹا دیئے جاتے تاکہ اپنی کمزور اور ناکارہ دھوکہ باز قیادت سے لاتعلقی کا اظہار کرتے۔ کیا وہ ہولناک منظر ہے یہ، قائد اور پیروکار ایک دوسرے پر تبرّا بھیج رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے ہیں۔ کل کے دوست آج سخت دشمن ہیں۔ ان کے اس حسرتناک انجام پر یہ نتیجہ بیان کیا جاتا ہے۔ كَذَلِكَ يُرِيہِمُ اللَّہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَيْہِمْ وَمَا ہُمْ بِخَارِجِينَ مِنَ النَّارِ”یوں اللہ ان لوگوں کے اعمال، جو یہ دنیا میں کر رہے ہیں، ان کے سامنے اس طرح لائے گا کہ یہ حسرتوں اور پشیمانیوں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہیں گے۔ مگر آگ سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے۔ ”

اب بتادیا جاتا ہے کہ زندگی کی پاک چیزوں سے فائدہ اٹھاؤ، ناپاک اور خبیث چیزوں سے دور رہو، خبردار!شیطان کی اطاعت نہ کرو، وہ تو ہر وقت ناپاک چیزوں کی طرف پکارتا ہے۔ شیطان بعض چیزوں کو اللہ کی طرف سے حلال قرار دیتا ہے اور بعض کو حرام قرار دیتا ہے۔ حالانکہ اللہ نے اسے تحلیل و تحریم اور قانون سازی کا اختیار ہرگز نہیں دیا۔ (مسلمانوں کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اپنے عقائد و نظریات کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور ذریعے سے راہ نمائی حاصل نہ کریں۔ جو لوگ اللہ کو چھوڑ کر، ایسی چیزوں کو پکارتے ہیں جو نہ سنتی ہیں نہ سمجھتی ہیں۔ ان کے اس احمقانہ فعل پر تنبیہ کی جاتی ہے۔ یوں ان آیات کا فصل سابق کی آیات کے ساتھ معنوی ربط بھی واضح ہو جاتا ہے۔

 

"لوگو!زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ اللہ نے فرمائی ہیں۔ ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کئے ہیں ان کی پیروی کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باب دادا کو پایا ہے۔ اچھا اگر ان کے باپ دادا نے عقل سے کچھ بھی کام نہ لیا ہو اور وہ راہ راست نہ پائی ہو تو کیا پھر بھی یہ انہی کی پیروی کئے چلے جائیں گے ؟” (١٦٨ ۔ ١٧٠)

 

سابقہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ وہی ایک معبود اور اللہ ہے۔ وہی ایک خالق ہے اور جو لوگ دوسروں کو اللہ ہمسر بناتے ہیں۔ ایک شدید ان کا منتظر ہے۔ اب یہاں بیان کیا جاتا ہے کہ اپنے بندوں کا رازق بھی وہی ہے۔ حلال وحرام کے بارے میں قانون سازی کا اختیار بھی اسی کو ہے اور جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے کہ وحدت الوہیت کا یہ قدرتی ثمرہ ہے۔ جس ذات نے پیدا کیا ہے اور پھر پرورش کی، وہی اس بات کی مستحق ہے کہ حلال و حرام کے معاملے میں قانون سازی کرے اور قانون سازی اور نظریات عقائد سے ہم آہنگ ہو۔ اس فقرے میں اللہ تعالیٰ اعلان فرماتے ہیں کہ زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ، سوائے ان کے جنہیں حرام قرار دیا گیا ہے۔ حرام و حلال کے تعین میں صرف اللہ تعالیٰ سے راہ نمائی حاصل کرو اور ان معاملات میں سے کسی ایک میں بھی شیطان کی پیروی نہ کرو۔ وہ تو تمہارا دشمن ہے۔ وہ ہرگز تمہیں نیکی کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ تو تمہیں غلط تصورات دیتا ہے۔ غلط افعال کی ترغیب دیتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ انسان خود اپنی مرضی سے بعض چیزوں کو حلال قرار دے اور بعض کو حرام۔ حالانکہ اس پر اللہ کی جانب سے کوئی دلیل وسند نہ ہو اور اس پر مستزاد یہ کہ ایسے انسان کو یہ زعم بھی ہو کہ جو کچھ وہ کر رہا ہے وہ عین شریعت کے مطابق ہے۔ جیسا کہ یہود مدینہ اور مشرکین مکہ اپنے عقائد ونظریات اور افعال واعمال کے بارے میں کرتے تھے۔

يَا أَيُّہَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأرْضِ حَلالا طَيِّباً وَلا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّہُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُبِينٌ (١٦٨)إِنَّمَا يَأْمُرُكُمْ بِالسُّوء ِ وَالْفَحْشَاء ِ وَأَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّہِ مَا لا تَعْلَمُونَ (١٦٩)

"اے لوگو!زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو۔ وہ تو تمہارا کھلا دشمن ہے، تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں۔ ”

(یہ حکم کہ زمین کی تمام چیزیں تمہارے لئے جائز و مباح ہیں۔ الا یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہو، ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی نظریۂ حیات ایک سادہ اور وسیع نظریہ ہے۔ وہ اس کائنات کے مزاج اور پھر اس میں بسنے والوں کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کی تمام چیزوں کو پیدا انسان کے لئے پیدا کیا ہے۔ اس کے لئے ان کا استعمال جائز قرار دیا ہے اور یہ کہ کسی چیز کے بارے میں ممانعت کا کوئی حکم آیا ہو، یا یہ کہ کوئی حکم نہ بھی ہو تو بھی یہ عام حکم موجود ہے کہ کسی چیز کا استعمال حد اعتدال سے زیادہ نہ ہو۔ لیکن اصل پالیسی یہ ہے کہ دنیا کی تمام پاک چیزوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے، تقاضائے فطرت کے عین مطابق، تنگی، سخت گیری اور ناجائز پابندیوں کے بغیر۔ صرف ایک شرط ضرور ہے وہ یہ لوگوں کے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے ؟اس کا فیصلہ صرف اللہ کے پاس ہو، کیونکہ اللہ ہی نے ان طیبات کو پیدا کیا ہے، لہٰذا حلال و حرام کے احکامات وہ اس شیطان سے اخذ نہ کریں جو ان کا بین دشمن ہے۔ وہ تو انہیں صرف برائی اور فحش کا حکم دیتا ہے۔ اور بغیر کسی ثبوت و یقین کے یہ شیطان اللہ پر افتراء باندھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی طرف کفر کی نسبت کر کے اس کی توہین کرتا ہے۔

وَإِذَا قِيلَ لَہُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللَّہُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا أَلْفَيْنَا عَلَيْہِ آبَاء َنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُہُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلا يَہْتَدُونَ (١٧٠)

"ان سے جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو احکام نازل کئے ہیں ان کی پیروی کرو، تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو اسی طریقے کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ ”

یہ کون لوگ تھے، مشرکین بھی ہوسکتے ہیں جو بار بار یہ ورد کرتے تھے کہ جب بھی انہیں اسلام کی طرف دعوت دی جاتی اور کہا جاتا کہ وہ اپنی اقدار اور اپنے قانون کا ماخذ اسلام کو تسلیم کر لیں اور جاہلیت کی ان تمام باتوں کو ترک کر دیں جنہیں اسلام نے بحال نہیں رکھا، تو وہ یہی دلیل دیتے۔ یہودی بھی مراد ہوسکتے ہیں جنہوں نے اپنی روایات کو سختی سے پکڑا ہوا تھا، اور وہ دین اسلام کی کسی بات کو ماننے کے لئے تیار نہ تھے۔ بہرحال مراد مشرکین ہوں یا یہود، اسلام اپنے پیروکاروں کو بڑی شدت سے منع کرتا ہے کہ وہ نظریہ و عمل میں کوئی چیز ان لوگوں سے اخذ کریں۔ مسلمان ان لوگوں کی تقلید کریں۔ اور نہ ہی ان سے کوئی چیز سوچے سمجھے بغیر درآمد کریں۔

أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُہُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئاً وَلا يَہْتَدُونَ”اگر ان کے آباء اجداد نے کسی چیز کو سمجھانہ ہو کوئی راہ نہ پائی ہو تو پھر بھی "اگر ان کے آباء اجداد کی فہم وفراست یہ ہو تو کیا پھر بھی یہ لوگ ان کے اتباع پر اصرار کریں گے ؟تقلید وجمود کی یہ کیا گھناؤنی مثال ہے۔ اس تقلید وجمود کی وجہ سے ہی قرآن مجید ان کے لئے نفرت آمیز خاکہ تجویز کرتا ہے۔ انہیں ایک ایسے حیوان سے تشبیہ دی جاتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا۔ اگر چرواہا ہے تو وہ صرف آواز سنتا ہے۔ کچھ نہیں سمجھتا کہ اس نے کہا کیا۔ بلکہ ان کی حالت اس حیوان سے بھی بدتر ہے۔ حیوان بہرحال دیکھتا ہے سنتا ہے، آواز نکالتا ہے اور یہ لوگ نپٹ اندھے، گونگے اور بہرے ہیں۔

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لا يَسْمَعُ إِلا دُعَاء ً وَنِدَاء ً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَہُمْ لا يَعْقِلُونَ(١٧١)

"ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو پکارتا ہے۔ اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سوا کچھ نہیں سنتے۔ یہ بہرے ہیں، گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لئے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔ ”

گونگے، بہرے اور اندھے ہیں۔ اگرچہ وہ کانوں، آنکھوں اور زبانوں والے ہیں۔ وہ کیوں ایسے نہ ہوں کہ ان چیزوں کے باوجود وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ راہِ ہدایت نہیں پاتے۔ جو آنکھیں ہوتے ہوئے نہیں دیکھتا تو اندھا ہے، کان ہوتے نہیں سنتاتو بہرہ ہے، زبان ہوتے حق بات نہیں کرتا تو، گونگا ہے۔

جو شخص غور و فکر چھوڑ دے۔ علم و معرفت اور رشد و ہدایت کے دروازے اپنے اپر بند کر دے اور نظریۂ حیات اور راہ عمل کا مآخذ و مصدر اس ذریعے کو قرار دے جو دراصل ماخذ و مصدر نہ ہو اور نہ اس کا مستحق ہو تو ایسے شخص کی ا س سے زیادہ گھناؤنی تصویر کھینچنا ممکن نہیں ہے۔

اب یہاں روئے سخن مومنین کی طرف پھر جاتا ہے۔ ان کے لئے کھانے پینے کی پاک چیزوں کو حلال قرار دیا جاتا ہے۔ حکم دیا جاتا ہے لپ وہ اپنے منعم کا شکریہ ادا کریں۔ غیر پاکیزہ چیزوں میں بعض کو بصراحت حرام قرا ر دیا جاتا ہے۔ یہودی، مسلمانوں کے ساتھ ان طیبات اور محرمات کے معاملے میں خوامخواہ الجھتے تھے۔ ان پر تنقید کی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ حلال و حرام کے یہ احکامات اور یہ اصول تو خود ان کے ہاں بھی بصراحت موجود تھے۔

"اے ایمان لانے والو!اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو، تو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے، تو وہ یہ ہے کہ مردار نہ کھاؤ۔ خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو۔ اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کئے ہیں اور تھوڑے سے دنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔ قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا اور ان کے لئے دردناک سزا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لیا۔ کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی، مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ ”

(١٧٢۔ ١٧٦)

 

یہاں مسلمانوں کو "اے ایمان والو”کے الفاظ سے پکارا گیا ہے۔ اس لئے کہ ایمان ہی اہل اسلام کے درمیان مضبوط رابطہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ میں ہی ماخذ قانون ہوں اس لئے قانون مجھ سے اخذ کرو۔ مجھ سے ہی حلال و حرام کے احکام اخذ کرو۔ بتایا جاتا ہے کہ میں نے تم پر جو انعامات کئے ہیں انہیں یاد رکھو۔ میں ہی تمہارا رازق ہوں اور میں نے ہی تمہارے لئے کھانے پینے کی چیزوں کو حلال قرار دیا ہے۔ پاکیزہ چیزوں میں سے کسی ایک کو بھی حرام نہیں قرار دیا گیا۔ جو چیزیں حرام قرار دی گئی ہیں وہ اس لئے حرام نہیں کہ اللہ تم پر تنگی کرنا چاہتا ہے بلکہ اس لئے کہ اپنی اصلیت کے اعتبار سے وہ پاک اور طیب نہیں ہیں۔ وہی تو ہے جو ابتدائے آفرینش سے تمہیں رزق دے رہا ہے۔ پھر تلقین ہوتی ہے کہ اگر وہ صرف اللہ وحدہ لاشریک کی بندگی چاہتے ہیں تو پھر اس کا شکر ادا کریں۔ چکر بھی عبادت اور بندگی کی ایک قسم ہے۔ اور اللہ شکر ادا کرنے سے بہت راضی ہوتا ہے۔ یہ تمام ہدایات اس آیت میں دے دی گئی، جو چند کلمات پر مشتمل ہے۔

يَا أَيُّہَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّہِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاہُ تَعْبُدُونَ”ایمان لانے والوں اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔ ”

اس کے بعد مخصوص طور پر بعض ان چیزوں کو جو حرام قرار دی گئی ہیں بیان کر دیا جاتا ہے۔ اور لفظ قصر”انما”استعمال کر کے دائرہ محرمات کو محدود کر دیا إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ وَمَا أُہِلَّ بِہِ لِغَيْرِ اللَّہِ”اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ تم حرام نہ کھاؤ۔ خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی ایسی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو۔ ”

ہر سلیم الفطرت انسان، ازروئے طبع مردار کو ناپسند کرتا ہے۔ یہی حال خون کا ہے لیکن فطرت کی کراہت کے علاوہ قرآن اور اس سے پہلے تورات کی بیان کردہ حرمت کے طویل عرصہ بعد، طب جدید نے بھی اس سلسلے میں کچھ قیمتی انکشافات کئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ خون اور مردار میں کئی قسم کے مضر صحت اجزاء اور جراثیم (Microses)جمع ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہمیں کوئی یقینی علم نہیں ہے کہ طب جدید نے وہ تمام مضرات اور نجاستیں معلوم کر لی ہیں اور کوئی اور سبب تحریم اب باقی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان اشیاء کی تحریم کے لئے کچھ اور اسباب بھی ہوں جن کا علم تک ہمیں نہ ہوسکا ہو۔ رہا خنزیر تو اس کے متعلق ابھی تک بعض لوگ اچھی رائے رکھتے ہیں۔ لیکن فطرت سلیمہ اس سے بھی شدید متنفر ہے۔ ایک طویل عرصہ سے شرائع سماویہ نے اسے حرام قرار دیا ہوا ہے۔ اب جا کر یہ معلوم ہوا کہ اس کے خون، گوشت اور انتڑیوں میں ایک خطرناک کیڑا موجود ہے۔ یہ کیڑا لمبے دھاگے (TapWrom)کی شکل میں ہوتا ہے۔ اور اس کے انڈے ملفوف ہوتے ہیں۔ اس کے بارے میں بعض سور خور کہتے ہیں۔ صحت و صفائی کے وسائل بہت ترقی کر چکے ہیں۔ لہٰذا یہ کیڑے اور ان کے انڈے مضر صحت نہیں رہے۔ کیوں کہ زیادہ حرارت سے یہ انڈے اور کیڑے یکسر ختم ہو جاتے ہیں۔ اور صحت و صفائی کے جدید وسائل کے تحت یہ سہولتیں ہر جگہ میسر ہیں لیکن یہ لوگ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ قرون طویلہ کے بعد ان کی علمی جدوجہد نے صرف ایک مضر کیڑا دریافت کیا۔ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ خنزیر کے گوشت میں کوئی اور ایسا مضر صحت جز نہیں ہے۔ جس کا انکشاف نہ ہوا ہو۔ شریعت الٰہیہ جس نے ہزاروں سے سال پہلے، انسانی علم و آگہی سے بہت پہلے اس مضر صحت کو ممنوع قرار دیا، کیا اس بات کی مستحق نہیں ہے کہ اس پر کلی اعتماد کیا جائے۔ اس کے فیصلے کو قول فیصل سمجھا جائے اور اس کے حلال کردہ کو حلال اور اس کے حرام کردہ کو حرام قرار دیا جائے۔ اس لئے کہ یہ شریعت حکیم و خبیر اللہ کی جانب سے نازل شدہ ہے۔

وہ چیزیں جن پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام لیا گیا ہو۔ ان چیزوں کے مالکان نے انہیں غیر اللہ کی طرف موڑ دیا ہو۔ یہ چیزیں بھی حرام ہیں۔ اس لئے کہ ان چیزوں کی ذات میں حرمت کی کوئی وجہ ہے، محض اس لئے کہ ان چیزوں کا رخ غیر اللہ کی طرف کر دیا گیا ہے۔ مرکز توجہ بدل گیا، ضمیر خالص نہ رہا۔ روح پاک نہ رہی، دل اللہ کے لئے سالم نہ رہا اور عقیدہ ہ پاک نہ رہا۔ یہ ہے وہ روحانی سبب جس کی وجہ سے ان چیزوں کا استعمال حرام قرار دیا گیا اور یہ بھی اسی طرح ناپاک ہوا، جس طرح مادی نجاست ناپاک ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ بھی غیر طیب اور وہ بھی غیر طیب۔ چونکہ اسلام اس امر کی تاکید کرتا ہے کہ مسلمان تعظیم و تکریم کے ساتھ صرف بارگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہوں اور اس میں کسی اور کو شریک نہ کریں، اس لئے ان چیزوں کو بھی اسی طرح نجس قرار دے کر نجس العین اشیاء کے ساتھ رکھا۔ کیونکہ یہ اشیاء نظریاتی طور پر ناپاک ہیں۔

پاکی قلب و نظر اور جسم و جگر ان تمام حرام کردہ چیزوں کے اسباب میں قدر مشترک ہے۔ چونکہ سابقہ آیات میں عقیدۂ توحید بیان ہوا تھا۔ مطلب یہ تھا کہ تمہارا خالق و رازق ایک ہے۔ یہاں کہا گیا کہ شارع اور مقنن بھی وہی ہے۔ رزق وخلق کا مصدر اور قانون و شریعت کا مآخذ ایک ہے۔ ان آیات میں یہ تصور ایک گہرا ربط پیدا کر دیتا ہے۔

اس حرمت کے باوجود اسلام بعض حالات و ضرورت کا خیال بھی رکھتا ہے۔ ایسے حالات میں محدود طور پر، ضرورت کی کم سے کم حد تک، ان محرمات کو جائز قرار دے دیتا ہے۔ لیکن ہدایت کرتا ہے کہ ضرورت کی حد سے ہرگزآگے نہ بڑھا جائے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلا عَادٍ فَلا إِثْمَ عَلَيْہِ إِنَّ اللَّہَ غَفُورٌ رَحِيمٌ”ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو۔ یا ضرورت کی حد سے تجاوز کرے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ "استثناء کا یہ اصول بذاتہ تو عام ہے، لیکن یہاں یہ مذکورہ بالا محرمات پر متفرع ہے۔ لیکن ان محرمات کے علاوہ اس کا اطلاق دوسرے محرمات پر بھی ہوسکتا ہے۔ جہاں ایسی ضرورت ہو، جہاں زندگی خطرے میں ہو اور ان محرمات کے علاوہ کوئی اور چیز سامنے نہ ہو تو وہاں بھی ممنوعہ چیز کو کم ازکم ضرورت پورا کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ضرورت کے مقامات کے بارے میں فقہاء کے درمیان فقہی اختلافات پائے جاتے ہیں، مثلاً کیا ضرورت کے مسئلے میں قیاس چلے گا یا محض منصوص ضرورت تک استفادہ محدود ہو گا؟پھر ضرورت پوری کرنے کی مقدار کیا ہے ؟کم از کم استعمال ہے یا سیر ہو کر کھا لینا ہے ؟میں یہاں ان اختلافات کی تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔ جو کچھ کہا گیا وہ فی ظلال القرآن کے لئے کافی ہے۔

جن چیزوں کو حرام یا حلال قرار دیا گیا تھا، ان کے بارے میں یہودیوں نے غوغا آرائی شروع کر دی تھی۔ جیسا کہ قرآن مجید نے دوسری جگہ صراحت کی ہے۔ بعض چیزیں ایسی بھی تھیں جو صرف یہودیوں پر حرام کی گئی تھیں۔ وَعَلَی الَّذِینَ ھَادُواحَرَّمنَا کُلَّ ذِی ظُفُرٍ وَمِنَ البَقَرِ وَالغَنَمِ حَرَّمنَا عَلَیھِم شُحُومَھُمَا اِلَّا مَا حَمَلَت ظُھُورُھُمَا اَوِالحَوَایَا اَو مَا اختَلَطَ بِعَظمٍ”اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیئے تھے، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اس کے جو ان کی پیٹھ یا ان کی آنتوں میں لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے۔ "یہ چیزیں مسلمانوں کے لئے جائز تھیں۔ غالباً اس جواز پر وہ سخت معترض تھے۔ بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ان چیزوں کی حرمت پر بھی اعتراض تھا جو یہاں حرام کر دی گئی ہیں حالانکہ یہ چیزیں تورات میں خود ان کے لئے بھی حرام بیان ہوئی تھیں۔ مطلب ان کا صرف یہ تھا کہ کسی نہ کسی طرح قرآنی احکامات کو مشکوک کیا جائے اور مسلمانوں کے دل میں یہ شبہ ڈال دیا جائے کہ رسولﷺ پر وحی منجانب اللہ آتی ہے یا نہیں۔

جو لوگ آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکامات چھپاتے ہیں ان پر ان آیات میں شدید ترین تنقید کی گئی ہے۔

 

"حق یہ ہے کہ جو لوگ ان احکام کو چھپاتے ہیں جو اللہ نے اپنی کتاب میں نازل کئے ہیں اور تھوڑے دنیوی فائدوں پر انہیں بھینٹ چڑھاتے ہیں، وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔ قیامت کے رو زاللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا، نہ انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا، اور ان کے لئے دردناک سزا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خریدی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لیا، کیسا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ ” (آیات

١٧٤۔١٧٦)

 

کون لوگ تھے وہ جو اللہ کے نازل کردہ احکام کو چھپاتے تھے ؟سب سے پہلے ان سے مراد اہل کتاب ہیں۔ لیکن قرآن مجید کی اس آیت کے مفہوم میں ہر مذہب و ملت کے وہ لوگ شامل ہیں جو سوچنے سمجھنے کے باوجود حق کو چھپاتے ہیں۔ کیوں چند ٹکوں کی خاطر ان مفادات کی خاطر جو وہ کتمان حق کے نتیجے میں حاصل کرتے ہیں یا اس لئے کہ انہوں نے کچھ مفادات پیش نظر رکھے ہوتے ہیں اور اگر وہ حق بیان کریں تو یہ مفادات خطرے میں پڑ سکتے ہیں۔ یا ثمن قلیل سے مراد پوری دنیا ہے۔ کتمان حق سے یہ لوگ ثواب آخرت اور رضائے الٰہی سے محروم ہو جاتے ہیں اور یہ ایک عظیم خسارہ ہے۔ اس کے مقابلے میں بے شک پوری دنیا ثمن قلیل ہے۔

کھانے پینے کے حلال و حرام اشیاء کے بیان کے سلسلے میں اعلان ہوتا ہے۔ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِہِمْ إِلا النَّار”وہ دراصل اپنے پیٹ آگ سے بھر رہے ہیں۔ "حلال و حرام کے بیان کی مناسبت سے ان کے لئے یہ فقرہ استعمال کیا گیا۔ یعنی حق چھپا کر وہ جو قلیل اجرت لیتے ہیں اور اسے کھاتے ہیں، یہ دراصل ان کے پیٹ میں آگ ہو گی اور ان کا کھانا بھی آگ ہی ہو گی۔

انہوں نے حق کو چھپایا۔ اس کے تحت سزا ملے گی انہیں۔ انہیں قیامت کے دن ذلت اور اہانت کی حالت میں چھوڑ دیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کی توجہ اور نظر کرم سے وہ محروم رہیں گے اور اس حالت زار، بے قدری اور ذلت کی تعبیر اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں کرتے ہیں۔

وَلا يُكَلِّمُہُمُ اللَّہُ يَوْمَ الْقِيَامَۃِ وَلا يُزَكِّيہِمْ”قیامت کے روز اللہ ہرگز ان سے بات نہ کرے گا اور نہ ہی انہیں پاکیزہ ٹھہرائے گا۔ "ان کے ساتھ کوئی بات نہ ہو گی، ان کا کوئی اہتمام نہ ہو گا، انہیں پاک نہ کیا جائے گا اور ان کی مغفرت بھی نہ ہو گی۔ اور انہیں مکمل طور پر نطر انداز کر دیا جائے گا۔ یہ اس لئے کہ اہل ایمان کی نظر میں ان کی سزا خوفناک ہو جائے اور صورت حال عام لوگوں کے حس وشعور کے قریب ہو جائے وَلَہُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ "اور ان کے لئے دردناک سزا ہے۔ "اور ایک دوسری زندہ تعبیر أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الضَّلالَۃَ بِالْہُدَى وَالْعَذَابَ بِالْمَغْفِرَۃِ "وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے ضلالت خرید ی اور مغفرت کے بدلے عذاب مول لیا۔ "گویا یہ ایک خرید و فروخت ہے۔ جس میں یہ لوگ ہدایت سے روگردانی کرتے ہیں اور ضلالت خریدتے ہیں۔ مغفرت سے محروم ہوتے ہیں اور عذاب دائمی خریدتے ہیں۔ کس قدر ناسمجھ ہیں یہ لوگ جو اس قدر عظیم خسارے کا سودا کرتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں نے ایک عظیم الشان برائی خرید لی ہے۔ ہدایت ان کے لئے عام تھی مگر انہوں نے اسے ترک کر کے ضلالت کو اختیار کر لیا۔ مغفرت کے مواقع انہیں فراہم تھے۔ مگر انہوں نے انہیں گنوا دیا اور عذاب کو اپنالیا۔ فَمَا أَصْبَرَہُمْ عَلَى النَّارِ”کیا عجیب ہے ان کا حوصلہ کہ جہنم کا عذاب برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ "اس کی طرف آگے بڑھ رہے ہیں۔ ان کے اس احمقانہ کام پر قدرت خندہ زن ہے۔

انہوں نے سخت گھناؤنے جرم کا ارتکاب کیا ہے اور یہ اس کی پوری سزا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تو کتاب اس لئے بھیجی تھی کہ اسے لوگوں تک پہنچایا جائے، اسے زمین پر نافذ کیا جائے۔ اور وہ ان کا قانون ہو، ان کا نظام زندگی ہو، لیکن ان ظالموں نے اس کو چھپا لیا۔ اسے چھپا کر میدان عمل سے خارج کر دیا۔ حالانکہ وہ ایک ایسی سچائی تھی جس پر عمل کرنے کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔ ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّہَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ”یہ سب کچھ اس وجہ سے ہوا کہ اللہ نے تو ٹھیک حق کے مطابق کتاب نازل کی تھی۔ "اور جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئے وہ ہدایت پر آ گئے، حق کے ساتھی بن گئے، ان لوگوں کے ٹولے میں آ گئے جو حق کے راہ یاب تھے۔ انہوں نے فطرت کائنات کا ساتھ دیا اور فطرت کے حقیقی اصولوں پر آ گئے۔

وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ”مگر جن لوگوں نے کتاب میں اختلاف نکالے وہ اپنے جھگڑوں میں حق سے بہت دور نکل گئے۔ "ایسے لوگ حق سے دور جا چکے ہیں۔

وہ اصول فطرت سے بھی ٹکراتے ہیں۔ وہ خود ایک دوسرے سے بلکہ خود اپنے نفس سے بھی ٹکراتے ہیں۔ وہ اس طرح تھے اور اسی طرح رہیں گے۔ یہی حال ہو گا ہر اس امت کا جو کتاب اللہ میں جھگڑے ڈالتی ہے۔ کتاب الٰہی کو پورے طور قبول نہیں کرتی۔ بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ ہر دور اور ہر زمانے میں، ہر امت اور ہر قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے۔ جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں، اس آیت کا مصداق ہمیں اچھی طرح نظر آ رہا ہے۔

سب سے آخر میں ایک اور صرف ایک آیت میں ایمانی تصور زندگی کے تمام اصول رکھ دیئے جاتے ہیں۔ ایمانی طرز عمل کا معیار بیان کر دیا جاتا ہے اور بتا دیا جاتا ہے کہ قرآن کی رو سے نیک لوگوں کی صفات کیا ہیں ؟

 

"نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لئے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لئے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں، تو وفا کریں اور تنگی اور مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی متقی ہیں۔ ”

 

سچ بات یہ ہے کہ یہ آیت بھی تحویل قبلہ کے احکام اور ان پر یہودیوں کے طویل اعتراضات و جوابات کے ساتھ مربوط ہیں۔ تحویل قبلہ کی حکمت کے بارے میں تو ہم اس سے پہلے بیان کر آئے ہیں۔ یہاں اللہ تعالیٰ۔ عبادات اور شعائر دین کی ظاہری شکل و صورت کے بارے میں یہودیوں کی ظاہر بینی اور تقشف پرستی کو بے نقاب کرتے ہوئے، حسن و قبح کا ایک عظیم معیار اور نیکی اور بدی کی اصلی حقیقت بیان کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہودی ان ظاہری امور کے بارے میں بے حد حساس تھے اور جھگڑتے تھے۔

تحویل قبلہ یا تمام عبادات میں غرض و غایت یہ نہیں کہ لوگ مشرق کی طرف رخ کریں یا مغرب کی طرف چہرہ کر کے عبادت سر انجام دیں۔ بیت المقدس کی طرف رخ کریں یا مسجد حرام کی طرف۔ یا یہ کہ عبادات کی موجودہ شکل و صورت ہی عین خیر و بھلائی نہیں ہے۔ بلکہ ان کے لئے بہت ضروری ہے کہ دل کے اندر محسوس کیا جانے والا تصور اور اسلامی نظریۂ حیات کا زندہ شعور ضروری ہے۔ ان ذہنی امور کے ساتھ ساتھ مخصوص طرز عمل اپنانا بھی ضروری ہے۔ ورنہ نیکی و بھلائی کے حصول اور حسن و خیر کو بروئے کار لانے کا اصل مقصد پورا نہ ہوسکے گا۔ نیکی دراصل ایک تصور ہے، ایک شعور ہے، کچھ اعمال ہیں، ایک طرز عمل ہے۔ یہ ایک تصور حیات ہے۔ جو ایک فرد اور ایک جماعت کے ضمیر پر اثر انداز ہو، وہ ایک عمل ہے جو فرد و جماعت کی زندگیوں میں پسندیدہ اثرات پیدا کرے۔ صرف مشرق و مغرب کی طرف سے رخ پھیر دینے سے زندگی میں یہ انقلاب کیونکر آسکتا ہے۔ منہ کوئی ادھر کرے یا ادھر کرے، فرق کیا پڑتا ہے، اصل مقصد تو رجوع قلب ہے۔ جو اللہ کے احکام مانتا ہے، منزل پا لیتا ہے۔ یہی معاملہ ہے تمام دینی شعائر کی ظاہری شکل و صورت کا، جنہیں یہ ادا کرتے ہیں۔ جو اللہ کے احکام مانتا ہے، منزل پالیتا ہے۔ یہی معاملہ ہے تمام دینی شعائر کی ظاہری شکل و صورت کا، جنہیں یہ ادا کرتے ہیں۔ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّہِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلائِكَۃِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ”بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے۔ ” ( آیت ١٧٧)

 

یہ ہے بھلائی کا وہ معیار جو تمام بھلائیوں کا مجموعہ ہے۔ اس معیار میں نیکی کی جو اقدار مقرر کی گئی ہیں وہ بہت ہی وزنی ہیں۔ اللہ ایمان، یو آخر پر ایمان اور ملائکہ و کتب اور انبیاء پر ایمان کی قدر و قیمت اسلامی نقطۂ نظر سے کیا ہے ؟

اللہ پر ایمان لانا انسانی زندگی میں ایک نقطہ انقلاب ہے۔ اس کے ذریعے انسان مختلف قوتوں، مختلف چیزوں اور مختلف پسندیدہ تصورات کی بندگی اور غلامی سے آزاد ہو جاتا ہے۔ اور صرف ایک بندگی اور غلامی قبول کر لیتا ہے۔ یوں انسان تمام دوسرے انسانوں کے ساتھ، ایک ہی صف میں کھڑا ہو کر، ایک ہی معبود کے سامنے جھک کر، اخوت ومساوات کا بلند مقام حاصل کر لیتا ہے۔ ایمان وہ مقام ہے جہاں طوائف الملوکی کی بجائے ایک نظام قائم ہوتا ہے۔ انتشار کی جگہ یکسوئی اور اختلاف کی جگہ اتحاد قائم ہو جاتا ہے نیز گمراہی کے بجائے ایک اونچا نصب العین سامنے آ جاتا ہے۔ اگر انسان کے دل میں ایک واحد لاشریک خدا پر ایمان نہ ہو تو، اس دنیا میں اس کا کوئی نصب العین نہیں ہوتا، جس پر دلجمعی کے ساتھ اپنی قوتوں کو مرتکز کرسکے اور جس پر مساوات کے ساتھ وہ مجتمع ہوسکے۔ بعینہ اس طرح جس طرح وجود کائنات ایک نقطہ کے اردگرد مرتکز ہے۔ اس کے اجزا کا باہمی ربط ہے۔ اور ان کے مابین واضح نسبت موجود ہے۔ اور جس کے مختلف اجزاء کے باہمی علائق اور مقاصد بالکل واضح اور معلوم اور مربوط ہیں۔

آخرت پر ایمان کا مقصد یہ ہے کہ انسان جزا وسزا میں اللہ تعالیٰ کی عدالت کو یقین کے ساتھ تسلیم کرے۔ یہ جانے کہ اس کرہ ارض پر انسان کو یونہی بے مقصد نہیں پیدا کیا گیا۔ وہ غیر ذمہ دار نہیں ہے بلکہ اسے حساب دینا ہو گا اگر کوئی بھلائی کرے تو وہ ختم نہیں ہوسکتی اگرچہ اس کی جزا اس دنیا میں نہ ملے۔ ملائکہ پر ایمان بھی غیب پر ایمان کا ایک حصہ ہے۔ انسانی فہم و ادراک اور ایک حیوان کے فہم و ادراک میں یہی فرق ہے۔ انسانی تصور حیات اور حیوانی تصور حیات میں یہی فرق ہے کہ انسان محسوسات سے آگے کی بھی بعض چیزوں پر ایمان لاتا ہے اور ان کا ادراک کرسکتا ہے۔ جبکہ حیوان کا احساس صرف محسوسات کے دائرے میں محدود ہوتا ہے کتاب اور نبیوں پر ایمان کا مقصد یہ ہے کہ انسان تمام رسولوں پر ایمان لائے بلا تفریق۔ یعنی انسانیت بھی ایک ہے اور ہمارا اس پر ایمان ہے۔ اس کا خدا بھی ایک ہے۔ اس کے لئے دین اور نظام زندگی بھی ایک ہے۔ اس طرح مومن انبیاء ورسل کے اعلیٰ خیالات کا وارث ہو جاتا ہے۔ لہٰذ ا کتب ورسل پر ایمان ایک مومن کو بہت قیمتی شعور عطا کرتا ہے۔

مال کے ساتھ انسان کو بڑی محبت ہے لیکن مال قربان کرنے کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ غریب رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور گردن چھڑانے اور غلامی سے نجات دلانے کے لئے مال خرچ کرنا یہ سبھی کام انسان کو بلند مرتبہ بناتے ہیں۔

انفاق فی سبیل اللہ کا یہ اثر ہوتا ہے کہ انسان لالچ، خود غرضی اور بخل کے بندھنوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔ مال کی محبت ہاتھوں کو انفاق سے کھینچ لیتی ہے۔ انسان بلند ہمتی، اولوالعزمی، جودوسخا اور داد و دہش کے مقام بلند سے گر جاتا ہے اور روح انسانی میں کشادگی نہیں رہتی۔ اسلامی نظام میں انفاق کا ایک روحانی مقام ہے۔ اس لئے یہ ان مسلمانوں کو بھی حکم دیا جاتا ہے کہ مال کی محبت کے باوجود اپنا محبوب ترین اور پسندیدہ ترین مال کو دل و جان کی آمادگی اور کشادگی کے ساتھ خرچ کریں۔ اس کی بڑی روحانی اہمیت ہے اور اس طریقہ سے مومن اپنے آپ کو دولت کی پوجا اور دولت کی غلامی سے چھڑا لے گا۔ دولت کی پوجا سے انسان بالیقین ذلیل ہو جاتا ہے۔ سرفرازی کی بجائے سرنگوں ہوتا ہے اور انفاق سے وہ لالچ اور حرص کی غلامی سے آزاد ہو جائے گا۔ اسلامی نقطۂ نظر سے سرنگوں ہونے کے بجائے وہ گردن فراز ہو جائے گا لیکن اگر وہ انفاق نہ کرے تو ذلیل ہو گا۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کی بہت بڑی قدر و قیمت ہے۔ کیونکہ اسلامی نظام کی غایت یہ ہے کہ انسان کو سب سے پہلے نفسیاتی پریشانیوں، اخلاقی کمزوریوں اور طمع و لالچ سے نجات دلائے۔ یہ کام انسان کے لئے معاشرتی آزادی سے بھی پہلے کیا جاتا ہے۔ شخصی وسیاسی آزادی سے بھی پہلے کیوں ؟اس لئے کہ جو شخص اپنے نفس کا غلام ہو وہ بسہولت طاغوت کی غلامی کے لئے بھی تیار ہوتا ہے۔ لیکن جو شخص خواہشات نفسانیہ کے قید و بند سے آزاد ہو جاتا ہے وہ اپنے معاشرے اور سوسائٹی میں بھی آزاد ہوتا ہے۔ کسی کی غلامی کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ انسانی معاشرے میں انفاق فی سبیل اللہ کی ایک معاشرتی قدر و قیمت بھی ہے۔ اقربا سے صلہ رحمی کی وجہ سے نفس انسانی میں مروت پیدا ہوتی ہے، خاندان میں شرافت کا چلن فروغ پاتا ہے اور اقرباء کے درمیان تعلقات زیادہ قوی ہو جاتے ہیں۔ اسلامی معاشرے کی اساس خاندان پر ہے اس لئے یہاں انفاق فی سبیل اللہ کے ذریعہ خاندانی نظام کو مضبوط کرنے کی سعی کی گئی ہے۔ پھر یتیموں کی مالی امداد کا حکم ہے۔ اس کا مقصد اصل معاشرہ میں امیر و غریب، طاقتور اور کمزور کے درمیان نظام کفالت کا قیام ہے۔ یتامی مادری اور پدری شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ان کے لئے ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ ان کے احساس محرومیت کی تلافی کی جائے۔ پھر اس تکافل کے نتیجے میں پوری سوسائٹی کو ان خودرو شتر بے مہار اور غیر تربیت یافتہ افراد کی کثرت سے بھی بچایا گیا ہے۔ جو معاشرے کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں۔ اس کے لئے وبال جان بن جاتے ہیں اور فتنہ سامانیوں کا موجب بنتے ہیں۔ ایسے لوگ آگے جا کر معاشرے کی لاپرواہی اور بے مروتی کا خوب انتقام لیتے ہیں۔ مساکین پر انفاق جن کے پاس وسائل زندگی نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ خاموش بیٹھے ہیں۔ عزت نفس رکھتے ہیں اور سوال نہیں کرتے۔ یہ انفاق ان کی عزت نفس کے لئے محافظ ہے۔ انہیں تباہی سے بچاتا ہے۔ نظام انفاق سے اسلامی معاشرے میں، ایسے حضرات کے دلوں میں اجتماعی کفالت اور ضمانت کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرہ تو ہوتا ہی وہ ہے جس میں کسی فرد کو بے یار و مددگار نہ چھوڑا جائے اور اس کے کسی عضو کو ضائع ہونے نہ دیا جائے۔ ابن سبیل (مسافر)جو اپنے خاندان سے دور ہو، جن کے پاس وسائل موجود نہ ہوں، اچانک مصیبت میں گرفتار ہو جائے۔ خاندان کے افراد اس سے دور ہوں، ایسے حالات میں یہ مسافر بھی مصیبت زدہ ہے۔

یہ انفاق اس کے لئے ایک قسم کی ہنگامی امداد ہے۔ اس امداد سے اسے یہ شعور دیا جاتا ہے کہ پوری انسانیت اس کا خاندان ہے۔ ہر ملک اس کا ملک ہے، ہر جگہ اس کا خاندان موجود ہے، مسلمان ا س کے اہل خاندان ہیں۔ ہر جگہ اس کے اپنے مال کے بدلے اس کے لئے مال موجود ہے۔ اس کے لئے صلہ رحمی موجود ہے۔ اور ا س کے لئے آرام کا سامان فراہم ہوسکتا ہے۔ سائلین پر انفاق ضروری ہے تاکہ ان کی ضرورت پوری ہو، وہ آئندہ سوال کرنا چھوڑ دیں۔ اسلام بھیک مانگنے کو ناپسند کرتا ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جس کے پاس بقدر کفالت موجود ہو اس کے لئے سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ جو کام کاج کرسکتا ہے، اس کے لئے بھی سوال جائز نہیں ہے۔ ایسے شخص کے لئے خدا کا حکم یہ ہے کہ وہ مزدوری کرے، بھیک نہ مانگے یا قناعت کرے، دست سوال دراز نہ کرے، بھیک مانگنا تب جائز ہے جب کام نہ ہو، مال نہ ہو، اس کے سوا کوئی چارۂ کار نہ ہو۔

غلامی سے چھڑانے میں انفاق بھی ایک مد ہے۔ جو بدقسمت اپنی بد عملی کی وجہ سے غلام ہو گیا، اس نے اسلام کے خلاف تلوار اٹھائی۔ جنگ کے نتیجے میں اس کی آزادی ختم ہو گئی۔ اسے عارضی طور پر معاشرے میں مقام شرافت سے محروم کر دیا گیا۔ اس پر انفاق یوں ہو گا کہ اس کو خرید کر آزاد کر دیا جائے یا غلام اپنے آقا سے معاہدۂ آزادی کرے اور اسے رقم معاہدہ ادا کرنے کا پابند ہو۔ اسلام نے غلاموں کے لئے یہ قانون بنایا تھا کہ غلام جس وقت چاہتا مالک کے ساتھ ایک معاہدہ آزادی کرتا اور آزاد ہو جاتا۔ اس معاہدے کے مطابق اسے وہ رقم ادا کرنی ہوتی ہے جو طے پا جائے۔ (ایسے معاہدہ کے بعد غلام )اپنے کام کی اجرت وصول کرنے کا مستحق ہو جاتا ہے جو معاہدے کی رقم میں کٹتی رہتی ہے۔ علاوہ ازیں وہ مستحق زکوٰۃ ہو جاتا۔ اسی طرح وہ انفاق فی سبیل اللہ کی تمام مدات میں سے اس کی امداد کی جا سکتی تھی تاکہ وہ جلد از جلد رقم معاہدہ ادا کر کے آزادی کی نعمت سے سرفراز ہو جائے۔

 

اقامت صلوٰۃ

 

نیکی کے اس معیار میں نماز کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اور اقامت صلوٰۃ صرف مشرق و مغرب کی طرف چہرہ کر کے کھڑے ہو جانے سے اقامت کا مفہوم ادا نہیں ہو جاتا۔ یہ نقطہ وسیع تر مفہوم رکھتا ہے۔ جو یہ ہے کہ انسان کا ظاہر و باطن اور اس کی عقل و روح سب پوری طرح اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ نماز نہ تو محض جسمانی ورزش کا نام ہے اور نہ ہی صرف صوفیانہ درود و وظائف کا نام ہے۔ نماز دراصل اسلام کی بنیادی فکر و نظر کی عکاس ہے۔ اسلام اس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے کہ انسان اس ایک وجود میں جسم، روح اور عقل تین چیزوں کا اجتماع ہے۔ اسلام اس بات کا بھی قائل نہیں ہے کہ ان تین طاقتوں کی سرگرمیوں اور دائرہ عمل میں باہمی کوئی تضاد پایا جاتا ہے۔ وہ جسم کو فنا کر کے روح کو آزاد کرنا جائز نہیں سمجھتا۔ کیونکہ روحانی آزادی کے لئے جسمانی فنا یا جسم کو مارنا لازمی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے، اپنی سب سے اہم اور بڑی عبادت یعنی نماز میں ان تین طاقتوں کی سرگرمی کو ہم آہنگ کر دیا ہے۔ نماز میں تینوں قوتیں مکمل نظم کے ساتھ اپنے خالق کی طرف متوجہ ہو جاتی ہیں۔ قیام، رکوع اور سجدہ وجسمانی حرکات ہیں جو روح کو رجوع الی اللہ کی طرف راغب کرتی ہیں۔ قرآن کی تلاوت، اس میں غور و فکر اور مفہوم کو سمجھنا عقل کا کام ہے اور اس پورے عرصے میں عقل انسانی اس کام میں مصروف ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عزت توجہ اور مکمل تسلیم و رضا اور عجز وانکسار روح کا کام ہے اور اس طرح یہ تینوں قوتیں ایک ہی وقت میں مصروف کار ہوتی ہیں۔ غرض اس معنی میں اقامت صلوٰۃ پوری اسلامی طرز فکر کی نمائندہ ہے۔ اور وہ چشم بینا کو یہ سبق یاد دلاتی ہے کہ پوری زندگی کے متعلق اسلام کا نقطہ نظر کیا ہے ؟ہر نماز اور ہر نماز کی حرکت میں ہم یہ سبق دہراتے ہیں۔

 

زکوٰۃ کی ادائیگی

 

یہ اسلامی نظام میں غرباء ومساکین کے لئے اغنیاء اور اہل ثروت کی دولت پر عائد کردہ، ایک اسلامی ٹیکس ہے۔ یہ ٹیکس اللہ تعالیٰ نے عائد کیا ہے۔ دراصل اللہ تعالیٰ ہی دولت کا حقیقی مالک ہے۔ بندے کو اس کا مجازاً مالک بنایا گیا ہے۔ اور اس لئے اسلامی نقطۂ نظر سے اس پر کچھ شرائط عائد کی گئی ہیں اور ان میں سے اہم اور لازمی شرط ادائیگی زکوٰۃ ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی کا ذکر عام انفاق فی سبیل اللہ کے عام حکم کے بعد کیا گیا ہے جس کا ذکر اوپر ہو گیا ہے کہ دولت محبت کے باوجود اقرباء وغیرہ پر صرف کی جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زکوٰۃ مذکورہ بالا تمام صرف مال اور انفاق فی سبیل اللہ سے علیحدہ ایک مستقل مد ہے۔ یہ لازمی ٹیکس اور منصوص فرض ہے۔ جب کہ عام انفاق فی سبیل اللہ صرف ترغیب ہے۔ لیکن نیکی کا یہ مجموعی معیار جس کا اس آیت میں ذکر ہوا ہے، اس وقت تک مکمل نہ ہو گا جب تک ان دونوں مدات پر حسب حساب وحسب توفیق عمل نہ کیا جائے۔ یہ دونوں مدیں اسلام کی بنیادی عناصر ترکیبی ہیں۔ لیکن ہر انسان کی زندگی میں دونوں کا پایا جانا ضروری ہے۔ ایک پر عمل کرنے سے دوسرا ہرگز ساقط نہیں ہوسکتا۔

 

وفائے عہد

 

یہ اسلام کی وہ علامت ہے جس کی حفاظت میں اسلام بے حد کوشش کرتا ہے۔ قرآن کریم میں بار بار اس کا تذکرہ ہوتا ہے۔ اسے ایمان کی نشانی گردانا گیا ہے۔ اسے احسان اور آدمیت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور یوں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ ایک انسان اور انسان کے تعلقات میں ایک فرد اور جماعت کے تعلقات میں، ایک قوم اور دوسری قوم کے تعلقات میں اعتماد اور اطمینان پیدا کرنے کے لئے وفائے عہد نہایت ہی ضروری ہے۔ وفائے عہد کی خشیت اول خود ذات باری تعالیٰ سے اپنے عہد کی وفا ہے۔ اگر ایک مستحق اپنے مالک کا وفادار نہ ہو تو ہمیشہ پریشان اور غیر مطمئن رہے گا اور کوئی عہد پورا نہ کرسکے گا۔ وہ کسی میثاق پر جم نہ سکے گا۔ کسی انسان پر اعتماد نہ کرے گا۔

دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ، وفائے عہد میں اسلام اس مقام بلند تک پہنچا ہے کہ جس کی مثال پوری انسانی تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی۔ کوئی قوم، کوئی امت بھی اس مقام بلند تک نہیں پہنچ سکی۔ یہ مقام انسانیت کو اسلام کے سایہ اور اسلامی نظریۂ حیات کی روشنی ہی میں معلوم ہوا۔

 

حق اور باطل کی کشمکش میں صبر

 

صبر وہ وصف ہے جو انسان کو مصائب برداشت کرنے کے قابل بناتا ہے۔ اسلام کا مقصد یہ ہے کہ کوئی مشکل مرحلہ آئے تو انسان بہت ہمت سے اس کا مقابلہ کرے۔ مصیبت کے وقت آہیں بھرنا شروع نہ کر دے۔ سختیوں میں جزع و فزع شروع نہ کر دے۔ صبر اور مصابرت اور تحمل و ثبات اسی کا نام ہے۔ صبر مضبوطی سے حق کو پکڑ لینے کا نام ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مصائب کے بادل چھٹ جاتے ہیں۔ مصیبت دور ہو جاتی ہے اور مشکلات کے بعد آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ یہ اللہ کی مرضی کو قبول کرنا ہے، اس سے پر امید ہونا، اس پر اعتماد کرنا ہے۔ وہ امت جسے پوری انسانیت کی امامت اور نگرانی کا مقام دیا گیا ہو، جسے دنیا میں عدل قائم کرنا ہے اور پوری انسانیت کی اصلاح کا فرض ادا کرنا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دولت صبر سے مالا مال ہو۔ مشکلات درپیش ہوں، اس کی راہ میں بڑی بڑی رکاوٹیں کھڑی ہوں۔ اسے تنگیوں، مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے۔ باطل کے ساتھ کشمکش برپا ہو اور شدید سے شدید تر حالات پیش آئیں تو صبر واستقامت ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہو۔ مصیبت اور غربت میں صبر، جسمانی ضعف اور بیماری میں صبر افراد کی قلت اور کمزوری پر صبر، محاصرے اور مجاہدے میں صبر، غرض ہر حال میں صبر اور ہر آن میں صبر۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس میں یہ امت اپنا عظیم فرض منصبی ادا کرسکتی ہے۔ وہ اپنے منصوبے کو پورا کرسکتی ہے۔ بصورت دیگر اسے کامیابی حاصل نہ ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں تنگی و مصیبت کے اور حق و باطل کی کشمکش میں صبر کرنے والوں کو لفظ الصابرین (حالت نصبی)سے مخاطب کیا ہے۔ جس سے لفظ "خاص کر” کا اظہار ہوتا ہے۔ اس سے پہلے جن صفات کا ذکر ہوا ہے وہ حالت رفعی (مستقل جملوں )میں ہیں لیکن اس صفت کو حالت منصبی (مفعول ہے اور فعل محذوف ہے )میں ذکر کیا ہے۔ مطلب ہے (میں صابرین کو مخصوص طور پر بیان کرتا ہوں، نیکی اور بھلائی کی صفات کے ذکر کے ضمن میں یہ ایک خاص اشارہ ہے اور اس کا اپنا ایک مخصوص وزن اور ایک خاص اہمیت ہے، یعنی اللہ پر ایمان فرشتوں پر ایمان، کتابوں پر ایمان، نبیوں پر ایمان، مال کا خرچ کرنا، نماز کا قائم کرنا، زکوٰۃ کا ادا کرنا۔ اور وفائے عہد کی تمام صفات میں سے صفت صبر اور اس کے حاملین الصابرین کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، اللہ کے ہاں ان کی سب سے زیادہ قدر ہے۔ صابرین کا مقام سب سے زیادہ برتر و بلند ہے۔ صابرین کے اس مقام بلند کو دیکھ کر تمام لوگوں کی نگاہیں اس طرف اٹھ جاتی ہیں۔

ذرا دیکھئے ایک ہی آیت میں نظریہ و عقیدہ کے اصول، جسمانی فرائض اور مالی ذمہ داریاں اور دولت کے واجبات کو بیان کر دیا گیا ہے۔ نظریہ و حقیقت کو ایک کر دیا گیا ہے۔ ایسی اکائی کی صورت میں جس کو ٹکڑے نہ کیا جا سکتا ہو، جس کے اجزاء ایک دوسرے سے کبھی جدا نہ ہوسکیں اور زندگی کے ان مختلف شعبوں کا عنوان صرف ایک ہے (نیکی)بعض احادیث میں نیکی کو عین ایمان کہا گیا ہے۔ غرض یہ آیت اسلامی تصور حیات کا مکمل خلاصہ ہے۔ اسلامی نظام زندگی کے اصول اس میں یکجا ہو گئے ہیں۔ یہ سب ضروری اصول ہیں ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ اور ان کے بغیر اسلامی نظام کا قیام ہرگز نہیں ہوسکتا۔

جن لوگوں کی صفات یہ ہوں، ان کا مقام بھی یہاں آخر میں بطور نتیجہ بیان کر دیا جاتا ہے۔ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ (١٧٧)”یہ ہیں راست باز لوگ اور یہ ہیں متقی۔ ”

یہی لوگ ہیں جنہوں نے اسلام میں، اپنے رب کے ساتھ بالکل سچ کہا۔ وہ ایمان و اعتقاد میں بھی سچے ہیں اور اپنے ایمان و اعتقاد کو اپنی زندگی میں عملی شکل دینے میں بھی بالکل وہ سچے ہیں۔ یہی لوگ دراصل متقی ہیں جو اپنے رب کے ساتھ جڑ جاتے ہیں، اس سے ڈرتے ہیں۔ وہ احساس ذمہ داری اور شعور کے ساتھ اپنے فرائض سر انجام دیتے ہیں۔

ان آیات کے درمیان سے ذرا جھانک کر دیکھیں، ہمیں ایک بلند افق نظر آئے گا۔ ایک بلند مقام عزت نظر آئے گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ، انسانیت کو اپنے تجویز کردہ اعلیٰ ترین نظام حیات کے ذریعے سرفراز کرنا چاہتا ہے۔ اور پھر ہم ذرا لوگوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں، تو وہ اس نظام سے دور بھاگتے ہیں۔ اس سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ اس کا مقابلہ کرتے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں۔ اور اس کے ماننے والوں کے جانی دشمن ہو جاتے ہیں۔ جب ہم یہ سب کچھ دیکھتے ہیں تو ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا اسی طرح کہنا پرتا ہے۔ یا حسرۃ علی العباد

اور پھر ہم نصب العین کے اس افق بلند پر دوبارہ نظر ڈالتے ہیں۔ یاس وحسرت کی یہ کیفیت فوراً رفو ہو جاتی ہے۔ امید کی کرن نظر آتی ہے۔ اللہ پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔ اسلامی نظام زندگی کی قوت اور برتری پر غیر متزلزل یقین پیدا ہو جاتا ہے اور جب اپنے مستقبل پر نظر ڈالتے ہیں تو افق پر امید کی کرن موجود پاتے ہیں۔ وہ روشن تر اور واضح تر ہے۔ ضروری ہے کہ اس طویل تھکاوٹ اور مصائب نے ایک بار پھر اسلامی نظام زندگی پر ان کا یقین پختہ کر دیا ہو۔ امید ہے اس اعلیٰ و ارفع نظام کی طرف انسانیت ایک بار پھر بڑھے گی اور یہ مان لے گی کہ اللہ ہی مستعان ہے وہی معین و مددگار ہے۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.box.com/s/8dax98x4ps69rae6c7ym

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید