FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم

عزیز نبیلؔ

 

 

ناشر

انجمن محبّانِ اردو ہند، قطر

(ملحقہ آئی سی سی، سفارت خانۂ ہند قطر)

 

خواب سمندر

ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ

اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں

 

 

انتساب

’ ممتا بھری دعاؤں ‘ کے نام

امّی کی ممتا بھری دعاؤں کے نام جو میرے اندروں کی بے سر و سامانی کو ناقابلِ شکست اعتماد بخشتی ہیں۔

اور غم اور پریشانی کے اذیّت ناک لمحات کو فرحت و انبساط کی عطر بیز گھڑیوں میں تبدیل کر دیتی ہیں۔

اور

’دستِ شفقت‘ کے نام

ابّو کے دستِ شفقت کے نام جس کی روشنی مجھے لمحہ لمحہ بلند ہوتی رات کی دیوار کے دوسری طرف موجود سنہری صبح کا راستہ دکھاتی ہے اور آگے ہی آگے بڑھتے رہنے کا حوصلہ عطا کرتی ہے۔

 

بارگاہِ ایزدی میں

بہت محدود ہے میرا تخیّل

ترے جلووں کی کوئی حد نہیں ہے

بارگاہِ رحمۃ الّلعالمیں میں

اُس ایک اسمِ منوّر کا لب پہ آ جانا

دل و دماغ کی ظلمت کو نور دیتا ہے

سرور ساقیِ کوثر کی ہے غلامی کا

جو میری تشنہ لبی کو غرور دیتا ہے

 

کچھ مصنّف کے بارے میں

اصل نام:                        عزیز الرحمن

والدین:                          محمد صدیق انصاری۔زبیدہ بیگم

پیدائش:                         ۲۶ جون ۱۹۷۶ء  ،  ممبئ

مستقل سکونت:                 بھیونڈی     آبائی وطن: الہ آباد  (مؤ آئمہ)

موجودہ قیام :                    دوحہ ، قطر  (گزشتہ گیارہ برس)

تعلیم:                             بی اے ،  جامعہ ملیہ اسلامیہ ،  دہلی

                                    ابتدائی تعلیم،  جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ

دیگر ادبی  سرگرمیاں :          جنرل سکریٹری  انجمن محبّانِ اردو  ہند  ،  قطر

                                    مدیر اعلی سالانہ ’  مجلّہ دستاویز‘  دوحہ/دہلی  (عالمی اردو ادب کا سالانہ دستاویزی سلسلہ)

اِی میل:            aziznabeel@yahoo.com  aziznabeelx@gmail.com

موبائل نمبر:  +974-55296335

 

خط و کتابت کا پتہ:

قطر:

   P&W Division, Qatar Steel,

PO Box No. 50090, Mesaieed, Qatar

ہندوستان :

646 – A/103, Bagh e Burhani Complex, Millat Nagar No. 1, 4th Nizampura, Bhiwandi, Thane, M.S.

 

پروفیسر لطف الرحمن

عزیز نبیلؔ:  ذات سے مکالمے کا شاعر

عزیز نبیلؔ نئی اردو غزل کی ایک حسّاس اور معتبر آواز ہے۔ معتبر بھی، منفرد بھی اور ممتاز بھی۔  ان کا تخلیقی باطن ضمیر ِ عہد اور شعورِ حاضر کے نشیب و فراز کا نگار خانہ ہے اور اس کے ساتھ ہی اردو تغزّل کی شاندار روایات کی زر خیزیوں سے مالامال بھی ہے۔  ان کی تخلیقی داخلیت اپنی ذات سے مکالمے کا عمل ہے اور کائنات کی دریافت کا عکس العمل، جس نے ان کی شعری جمالیات کو بدن کے ہجر سے آگے داخلی دنیا کی سیّاحی کی ایک متحرّک تصویر بنا دیا ہے۔ اپنے تجربات و مشاہدات کے حسّیاتی پیکر کا معنی خیز منطقی اظہار ان کے تخلیقی جوہر کا کرشمہ ہے۔ ان کی باطنی نغمہ گری الہامی کشش رکھتی ہے جو اس امر کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے وجدانی جوہر کی خود آگہی رکھتے ہیں ، یہ وہ خود آگہی ہے جو باطن کو منور اور دل کو نئی زندگی بخشتی ہے، دل جو عشق کا مرکز اور محبّت کا استعارہ ہے۔  وہ فطرت کے پراسرار نزاکتوں کے رمز شناس بھی ہیں اور انسان کی جذباتی پیچیدگیوں کے نبّاض بھی۔ صداقت کی تازگی ، تجربے کی برجستگی اور مشاہدے کی نزاکت  کے معتدل امتزاج نے ان کی شاعری کو جمالیاتی رفعتوں پر احساس کی بے کرانیوں کا ایک مسلسل سفر بنا دیا ہے۔ عزیز نبیلؔ کے تخلیقی تخیّل کی پرواز ان بلندیوں پر ہے جہاں شاعر کی خودفراموشی روح  ِ کائنات سے ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ اور تب فن بیک وقت کارِ جمیل اور کارِ خیر کا مصداق نظر بن جاتا ہے۔

            عزیز نبیل ؔ نے غزل اور نظم ہر دو صنف میں اپنے وجدانی آیات و نقوش کے نمایاں جلوے روشن کئے ہیں۔  صاف محسوس ہوتا ہے کہ شاعری اپنے تمام تر آداب و تہذیب کے ساتھ ان کی تخلیقی شخصیت کی فصیل پر بتدریج پُر اثر کیفیتوں کی صورت میں نازل ہو رہی ہے۔ اور تب       خلیل الرحمن اعظمی کی طرح سراپا تخلیق بن جاتے ہیں اور زبانِ حال سے کہتے ہیں ؎

            دیکھ دنیا تو مجھے فی الوقت تنہا چھوڑ دے    ایسے عالم میں کہ جب مجھ پر اترتی ہو کتاب

عزیز نبیلؔ کا صحیفہ شعری صداقتوں کے حسّیاتی نزول کا مجموعہ ہے، وہ بھی فیضؔ کے انداز میں یہ دعوی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں   ؎

ہم پہ وارفتگی ٔ ہوش کی تہمت نہ دھرو

ہم کہ رمّازو رموزِ غمِ تنہائی ہیں

اپنی گردن پہ بھی ہے رشتہ فگن

ہم بھی شوق  ِ رہ ِ دلدار کے زندانی ہیں

آیئے نبیلؔ کی الہامی آیات کی سیّاحی ا س غزل سے کریں    ؎

حیات و کائنات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم

جہاں جہاں ثواب تھا عذاب لکھ رہے تھے ہم

ہماری تشنگی کا غم رقم تھا موج موج پر

سمندروں کے جسم پر سراب لکھ رہے تھے ہم

سوال تھا کہ جستجو عظیم ہے کہ آرزو

سو یوں ہوا کہ عمر بھر جواب لکھ رہے تھے ہم

سلگتے دشت ، ریت اور ببول تھے ہر ایک سو

نگر نگر ، گلی گلی گلاب لکھ رہے تھے ہم

زمین رک کے چل پڑی ، چراغ بجھ کے جل گئے

کہ جب ادھورے خوابوں کا حساب لکھ رہے تھے ہم

مجھے بتانا زندگی وہ کون سی گھڑی تھی جب

خود اپنے اپنے واسطے عذاب لکھ رہے تھے ہم

چمک اٹھا ہر ایک پل ، مہک اٹھے قلم دوات

کسی کے نام دل کا انتساب لکھ رہے تھے ہم

سات اشعار پر مشتمل یہ غزل زندگی کی محرومیوں کا نوحہ بھی ہے اور اس کی جدلیاتی قوّتِ نمو کا اشاریہ بھی۔ ابتدائی دو اشعار میں وہ معنوی طرح داری اور جمالیاتی کیف و کم ہے جو اردو تغزّل کی جمالیات کا رشتہ ولیؔ دکنی سے آگے میرؔ و غالبؔ کی شعری حسّیات سے قائم کرتا ہے تو دوسری طرف عصری حسّیات کے المیہ مناظر کو کیف پرور نغمہ گری کا ہم معنی بنا دیتا ہے، یہ ایک ذہین ، ذمّہ دار اور با شعور فن کار کے ایسے وجدانی الہامات ہیں جو متحرّک، فعّال اور تخلیقی سطح پر لفظوں  کے استعمال سے جادوئی کیفیت پیدا کر دیتے ہیں۔ عزیز نبیلؔ کے فن میں ازل سے ابد تک کے طلسمات لفظوں کے اسی جدلیاتی شعور سے منوّر ہوئے ہیں ، جس کے ثبوت میں تیسرے اور چوتھے شعر کو خصوصیت کے ساتھ سامنے  رکھ سکتے ہیں۔ یہی فعّال ، متحرّک اور تخلیقی شخصیت انسانی معاشرے کی صحت  و شادمانی کا استعارہ بنتی ہے۔ پانچواں شعر اظہار کی دلفریبیوں کا شاہکار ہے۔ چھٹا شعر اس زخمی روح کی اندوہ ناک پکار ہے جو ماضی سے مستقبل تک کے انسانی سفر میں خود غرضیوں اور ہوس پرستیوں کا لازوال المیہ بن گئی ہے۔  آخری شعر میں رجائیت کا وہ لحن ہے جو عشق و محبّت ، دردمندی و خود سپردگی  کی صوفیانہ لَے بن جاتا ہے۔  عزیز نبیلؔ جانتے ہیں کہ آواز کی مصوّری بصارت کی سطح پر کس طرح جلوہ ساماں ہو سکتی ہے۔ یہ کوئی معمولی فن کارانہ دسترس کی بات نہیں ہے جب وہ کہتے ہیں    ؎

صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

اپنی آواز کو تصویر بنائے ہوئے ہیں

یہ حوصلہ ایک ایسے فن کار کی شجاعانہ شخصیت کا غمّاز ہے جو کوزہ گرکی آواز پر لبّیک کہنے کا جگر رکھتا ہے۔ خواہ اسے کوئی صورت عطا ہو یا خس و خاشاک کی تقدیر۔ شاذؔ تمکنت نے کہا تھا    ؎

کوئی صورت مجھے دے دو کہ ترستا ہوں میں

میری تعمیر کی مٹّی ابھی نم ہے دیکھو

اور کسی جدید شاعر کا یہ احساس بھی متوجّہ کرتا ہے    ؎

            میں وہ مٹّی ہوں جو ہے چاک کی گردش میں اسیر    تو اگر ہاتھ لگا دے تو سنور جاؤں گا

عزیز نبیلؔ کہتے ہیں   ؎

اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ

کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں

یہ عاشقانہ تہذیب بھی ہے اور  راہبانہ بے نیازی بھی۔  میرؔ نے کہا تھا    ؎

                        دور بیٹھا غبارِ میرؔ اس سے       عشق بن یہ ادب نہیں آتا

غبار ایک متحرّک شئے ہے لیکن آداب ِ عشق نے اس کو بھی بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ عزیز نبیلؔ میرؔ کے اسی تہذیبِ عاشقی کے علمبردار ہیں کہ وہ محبوب کی آواز پر لبّیک کہنے کو ہمیشہ تیّار رہتے ہیں خواہ انجام جو بھی ہو۔

عصرِ حاضر میں غزل بین اقوامی سطح پر جمالیاتی عرفان و ارتفاع کی نفیس ترین قدروں سے ہمکنار ہو رہی ہے۔ ہند و پاک کے علاوہ امریکہ ، یورپ اور خلیجی ممالک میں بھی اردو غزل بے حد ثروت مند روایات کی تشکیل میں مصروف ہے۔ نئی بستیوں کے اردو شعراء  بیدار، مہذّب اور با وقار شہری کی حیثیت سے مملکت ِ غزل میں ان آرزو مندیوں کو مثبت علامت بنا کر پیش کر رہے ہیں جن کو عالمگیریت کے پر فریب میکانکی معاشرے نے خودکشی پر مجبور کر دیا ہے۔ اس دیو ہیکل میکانکی اور مادّی تمدّن میں انسان اشیاء کی سطح پر خرید و فروخت کی جنس بن کر رہ گیا ہے جو بازار کی دوسری چیزوں کی طرح انسانی اور انفرادی وجود سے محروم ہے۔  یعنی انسان نیم انسان کی سطح پر جی رہا ہے۔  ادب کو محض تفریح و تفنّن کی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔ صارفی سماج انسان کی تخلیقی و جمالیاتی قدروں سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا۔ بازار سستے ، جنسی اور تفریحی لٹریچر سے بھرا پڑا ہے۔ اس سماج میں ایک مخلص انسان دوست اور با ضمیر فن کار غالبؔ کی طرح آج یہ دعوی کر رہا ہے   ؎

                        دراں دیار کہ گوہر خریدن آئیں نیست

                        دکاں کشودہ ام و قیمتِ گہر گویم

ایسی ہی سماجی جبریت سے عاجز آ کر کسی انگریزی کے ادیب نے کہا تھا:

I have spread my pearls before the swines(میں نے اپنے موتی ہنسوں کے سامنے پھیلا دیئے ہیں ) ۔  ایسے ماحول اور معاشرے میں عزیز نبیلؔ اور ان کے قبیلے کے شعراء اگر محبّت ، دردمندی اور انسانیت کے نغموں سے انسان کے باطنی زخموں پر کچھ مرہم رکھنے کی کامیاب کوشش کرتے ہیں تو یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ اس عہد میں تو یہ کارِ پیمبری ہے۔ اس لئے کہ آسمان سے بشارتوں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اور اب تو یہی قلم کار ہیں جو انسانی معاشرے کو صحت و شادمانی کی بشارتوں سے اعتماد و ایقان کا گنجینۂ گراں بہا عطا کرتے ہیں۔  آج جب کہ تمام انسانی رشتے مادّی اور اقتصادی سروکار تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ، حسن ، خیر اور صداقت کے عناصر زوال پذیر ہو چکے ہیں دوسرے لفظوں میں آج جب کہ سرمایہ دارانہ بورژوازی  معاشرے نے زندگی کو مستقبل کے امکانات سے محروم کر دیا ہے، جس کہ لازمی نتیجے کے طور پر زندگی خارجی و داخلی، روحانی و اخلاقی سطح پر بے معنویت  کا المیہ بنتی جا رہی ہے۔  یہ نوجوان قلم کار اپنے خونِ جگر کی بنیاد پر زندگی کی معنویت اور مستقبل کے امکانات کو روشن رکھنے کی کوشش میں ہر لمحہ فرازِ دار و رسن کی آزمائشوں سے گزر رہے ہیں اور حسن ، خیر اور صداقت کے پائدار کی حیثیت سے جریدۂ عالم پر اپنی دوامیت ثبت کر رہے ہیں۔ انسانی معاشرہ ایک نئے حوصلہ اور عزم کے ساتھ نئی معنویت کی تلاش میں گامزن ہے۔ یہ عزیز نبیلؔ اور ان کے قبیلے کے شعراء کا ایک بڑا کارنامہ ہے جسے ادب کا آئندہ مؤرّخ سنہری تاریخ کی حیثیت سے قلم بند کرے گا۔  عزیز نبیلؔ کہتے ہیں   ؎

ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں

چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچائے ہوئے ہیں

اے خدا بھیج دے امّید کی اک تازہ کرن

ہم سرِ دشتِ دعا ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں

ہر نیا لمحہ ہمیں روند کہ جاتا ہے کہ ہم

اپنی مٹّھی میں گیا وقت چھپائے ہوئے ہیں

دوسرا شعر فیض ؔ کی نظم ’’دعا‘‘ کی یاد دلاتا ہے   ؎

                        کانپتے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی    /      ہم جنہیں رسم  ِ دعا یاد نہیں

                        ہم جنہیں سوزِ محبّت کے سوا     /     کوئی بت کوئی خدا یاد نہیں

اور عزیز نبیلؔ کا  ’’  سرِ دشتِ دعا  ‘‘  اس التماس سے اٹھانا کہ ’اے خدا بھیج دے امید کی اک تازہ کرن‘  انہیں فیضؔ کی حسّیات کا ہم نوا بنا دیتا ہے۔  ظاہر ہے کہ عزیز نبیلؔ نے اردو شاعری کی ثروت مند روایتوں سے اپنے تخلیقی امکانات کو گراں قدر بنایا ہے جو انہیں ہم عصروں میں ممیّز کرتا ہے۔

عزیز نبیلؔ کی نظم ’شب گرفتہ‘  بھی رجائیت ، زندگی کی معنویت اور مستقبل کے ایقان پر مشتمل پُر خلوص جذبے کی پر اثر نمائندگی کرتی ہے۔  دیکھئے   ؎

رات کا قافلہ خیمہ زن ہو گیا/شب گرفتہ ستارہ اجڑنے لگے/صبح پھر اک مسافت کو تیّار ہے/ ہم کہ راتوں کی وحشت کے دلداگاں /روشنی کی سیاست کے مارے ہوئے/  سوچتے ہیں کہ صدیوں میں پھیلا ہوا/ یہ نحوست بھرا دن گزر جائے تو/

دن کے اہرام کے اٹھ کے باہر چلیں /اور پھر ایک شب زندگی جی سکیں

حالانکہ  ’  قحطِ منظر‘  کی دلخراش تصویروں نے انہیں باطنی سطح پر ریزہ ریزہ کر دیا ہے۔ وہ اس درد کا گہرا احساس رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں   ؎

یہ کیسا قحطِ مناظر کا دور ہے یارب/نہ عکس ہے نہ شباہت کوئی مکمّل ہے/نہ کوئی منظری پس منظری کی صورت ہے/ہجومِ دیدہ وراں منظروں کی خواہش میں / بھٹک رہا ہے ندیدوں کی طرح شام و سحر/ مگر یہ حال کہ بے منظری مسلّط ہے/ پگھل چکے ہیں مناظر جھلس چکی ہے نظر/ یہ کیسا قحطِ کا دور ہے یارب

اس کے با وصف زندگی پر نبیلؔ کا ایقان متزلزل نہیں ہوتا۔ وہ زندگی کے خواب آباد جزیروں کی ترتیبِ نو میں مصروف ہیں ، حالانکہ داخلی نا بصری اور وجودی انتشار و بحران کے اس عہد میں فرد اپنی منزل اور راہوں کی سمت کے یقین سے بھی قاصر نظر آتا ہے۔ انفرادیت سے محروم عہدِ حاضر کے انسانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایلیٹ نے لکھا تھا :

            We are like paralysed force; hollow men gesture without motion”

اور ہمنگوے کے نامرد ہیرو کی طرح جس کی مردمی اس عہد کی رسمی اور روایتی زندگی نے جھین لی ہے۔  چنانچہ آج فرد بس سماج میں ضم ہو جانے کو ترجیح دینے لگا ہے۔سماجی جبر، ظلم ، ناانصافی، بے ایمانی اور بے کرداری کے خلاف نبرد آزما ہونے کی ہمت اس میں نہیں رہ گئی ہے۔  فیضؔ نے اپنی مذکورہ نظم

’دعا‘ میں کہا ہے    ؎

جن کا دیں پیرویِ کذب و ریا ہے ان کو

 ہمّت ِ کفر ملے، جراتِ تحقیق ملے

 جن  کے  سر منتظرِ تیغِ جفا  ہیں  ان کو

دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے

زندگی پر یقین اور مستقبل پر اعتماد عزیز نبیلؔ کی تخلیقی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ ان کی متحرّک رجائی شخصیت کا ایک خوبصورت منظرنامہ ان کی نظم  ’آخری منظر‘ ہے    ؎

                        چلو اب لوٹ چلتے ہیں / چلو اُس آخری منظر کی جانب لوٹ چلتے ہیں /کہ جس کی نیم جاں آنکھوں کے اک محفوظ گوشے میں ہم اب تک سانس لیتے ہیں /وہ اک منظر کہ جس کی چھاؤں میں یادوں کے کچّے راستے آرام کرتے ہیں /وہ سارے راستے جن پر ہماری جستجو اور آرزوؤں کی کہانی آج تک ٹھہری ہوئی ہے/اور ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں مانگتی ہے/وہی منظر کہ جس کی انگلیاں پکڑے ہوئے ہم زندگی کی نامکمل ساعتوں کا سب اندھیرا پن/اجالوں میں بدلتے جا رہے ہیں /وہی منظر کہ جس کی کوکھ سے ہر صبح لاکھوں آشنا منظر نکلتے ہیں /چلو اس آخری منظر کی جانب کوچ کرتے ہیں

یہ ایک بے حد تہہ دار اور پہلو دار نظم ہے، لفظوں کی طلسم کاری نے اسے ایک خوبصورت اور حسّاس مرقع بنا دیا ہے۔ ادب کا تعلّق تو ظاہر ہے روحانی بحران سے ہوتا ہے۔ یہ تو سیاست ہے جس کا تعلّق اقتصادی بحران سے ہوتا ہے۔ عزیز نبیلؔ نے اِس عہد کے داخلی انتشار و بحران کو جس طرح وجودی تجربے کا حصّہ بنا کر ایک بھرپور خوبصورت رجائی نغمہ بلند کیا ہے ، اُس کے لئے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔

نبیل ؔ کی ایک خوبصورت نظم ’بے خوابی‘ بھی اس اجنبی گراں بار عہد کے بوجھ سے کراہتی ہوئی زندگی کے زخمِ احساس کی برہنگی کی مصوّری ہے۔  حادثات ِ حاضرہ کی برق رفتار زندگی میں مادّی رشتوں پر مبنی اجنبی چہروں کی بھیڑ میں شاعر کبھی کبھی لرزیدہ احساس کی رَو میں آ جاتا ہے، لکن وہ جلد ہی اپنی حقیقی ہستی اور اپنے اصل وجود کا عرفان حاصل کر لیتا ہے اور ایک بار پھر والہانہ انداز میں عشق و محبت کا راگ چھیڑ دیتا ہے    ؎

تم نو ر کی وادی تھے میں نجد کا صحرا تھا

تم حسن میں لاثانی میں عشق میں یکتا تھا

مرے اشعار میں شامل تری خوشبو ہو جائے

دشتِ افکار میں اے کاش تو آہو ہو جائے

میرا ہر لفظ ترے روپ کی تمہید بنے

کبھی بندیا ، کبھی کنگن، کبھی گھنگھرو ہو جائے

ہمارے جیسا کوئی بھی سخن پرست نہیں

شکستہ جسم ہیں ، آواز میں شکست نہیں

میں اس یقین سے تعبیر کی تلاش میں ہوں

یہ حادثات مرے خواب کی شکست نہیں

قید کر کے گھر کے اندر اپنی تنہائی کو میں

مسکراتا ، گنگناتا گھر سے باہر آگیا

منتشر تھا مرے آگے جو سمندر، اک دن

میرے قدموں سے سفر لے کے رواں ہونے لگا

عشق کی نازک اور پراسرار حسّیت مرئی سطح پر عزیز نبیلؔ کی تخلیقی شخصیت کا حصّہ بنی ہے۔ ان میں تازگی و شادابی تو ہے ہی، کبھی کبھی وقوعہ گوئی کی کیفیت کا اظہار نہایت خوبصورت اسلوب میں ہوا ہے، غزل کے دو مصرعوں میں اختصار اور جامعیت کے ساتھ ایک پوری داستان  ِ زندگی کو بیان کرنا ہی غزل کی ہیئتی انفرادیت ہے۔ یہی ایجازِ فن عزیز نبیلؔ کو اردو غزل کے صنادید  ِ فکر و فن میں امتیاز کا حامل بناتے ہیں۔ چند اشعار اس حوالے سے بطور ِ خاص دامن کشِ دل ہیں   ؎

گو انتظار ِ یار میں آنکھیں سلگ اٹھیں

راہوں میں دور دور اجالے ہوئے تو ہیں

ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ

اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں

چپکے چپکے وہ پڑھ رہا ہے مجھے

دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں میں

سنو مسافر!سرائے جاں کو تمہاری یادیں جلا چکی ہیں

محبّتوں کی حکایتیں اب یہاں سے ڈیرا اٹھا چکی ہیں

وہ شہرِ حیرت کا شاہزادہ گرفتِ ادراک میں نہیں ہے

اُس ایک چہرے کی حیرتوں میں ہزار آنکھیں سما چکی ہیں

شاید ہجرت اور ہجر مسلسل زندگی کی فطرت ہے۔  لیکن اس عہد میں تو موت کے سوداگروں نے پوری نسلِ انسانی کو خانہ بدوش بنا دیا ہے۔ ہجرت کا دکھ، بے جڑی کا احساس، اجنبیت کی کسک عصرِ حاضر کا مقدّر ہے۔ عزیز نبیلؔ بے حد نفیس لہجے میں اس درد کا اظہار مختلف استعارہ  و  علامت کے ساتھ کرتے ہیں    ؎

بدلتے موسم کی سلوٹوں میں دبی ہیں ہجرت کی داستانیں

وہ داستانیں جو سننے والوں کی نیند کب کی اڑا چکی ہیں

وہ ساری صبحیں تمام شامیں کہ جن کے ماتھے پہ ہم لکھے تھے

سنا ہے کل شب تمہارے در پر لہو کہ آنسو بہا چکی ہیں

دھوئیں کے بادل چھٹے تو ہم نے نبیلؔ دیکھا عجیب منظر

خموشیوں کی سلگتی چیخیں فضا کا سینہ جلا چکی ہیں

میں وہ کہ ہوں صدیوں کی مسافت کا مسافر

ہر لمحے کی آہٹ نے مری ہم سفَری کی

اے عہدِ رواں میں ترا مہمان ہوا تھا

لیکن ترے لوگوں نے بڑی بے خبری کی

اس طرح کے ان گنت اشعار، کلامِ عزیز نبیلؔ کی اوراق کی زینت ہیں جس میں اس زمانے کی مسمار منظری کی الم ناک چیخیں بھی ہیں اور یہ احساس بھی کہ شاعر نے حسّاس داخلی سطح پر ہر آہٹ ، ہر پل اور ہر لمحہ ٔ  زندگی میں صدیوں کے دکھ اٹھائے ہیں۔  وہ لمحوں کو صدیوں کے پیمانے سے ناپنے کا ہنر جانتے ہیں۔  یہ ایک غیر معمولی تخلیقی شخصیت کا سراغ ہے۔ یہی وہ اسلوب ہے جو راست دل میں اترتا ہے اور قاری محسوس کرتا    ؎    میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

عزیز نبیلؔ کے رمزیہ اسلوب کے کچھ شعر اور دیکھیں    ؎

  میں نے کسی ہنستے ہوئے لمحے کی طلب میں                 اس شہرِ دل آویز میں بس دربدری کی

ہم اپنے سر پر گزشتہ دن کی تھکن اٹھائے بھٹک رہے ہیں

دیارِ شب تیری خواب گاہیں تمام پردے گرا چکی ہیں

میں نے سورج سے دوستی کی ہے

شام ہوتے ہی ڈھل رہا ہوں میں

ایک آتش کدہ ہے یہ دنیا

جس میں صدیوں سے جل رہا ہوں میں

مجھے سب یاد ہے ٹکڑوں میں یارو

تو اب ساری کہانی جوڑ دوں کیا

مری سرشت میں ویسے تو خشک دریا ہے

اگر پکار لے صحرا اُبل بھی سکتا ہوں

یہ کیسا دشت ہے جس کی جڑوں کا سنّاٹا

تمام شہر پہ تعزیر لے کے اترا ہے

عزیز نبیلؔ کا رمزیہ             اسلوب ِ تغزّل انسانی زندگی کی دبی ہوئی کراہوں کی سلگتی ہوئی داستانوں کو صداقتوں کے جمال کی سطح پر پیش کرتا ہے۔ جس میں تہہ بہ تہہ کئی ہولناک مناظر کے رنگوں کی چھوٹ موجود ہے۔  فلسطین سے عراق ، افغانستان اور کشمیر تک کے مسلسل ریزہ ریزہ موسموں کے بے تاب برگ و شجر خاک و خون کی داستانوں کی امین بن کر عزیز کی شاعری کا صفحہ بنتے ہیں۔  اُن کا یہ احساس محض شاعرانہ تعلّی نہیں   ؎

پڑھ لیتی ہیں لفظوں کا تنفّس مری سوچیں

کچھ داد تو دی جائے مری دیدہ وری کی

اور اس میں تو کسی شک کی گنجائش بھی نہیں کہ ایک نازک احساس کے جمالیاتی مشاہدے کے

 لئے اس کے علاوہ چارۂ دگر ہی نہیں    ؎

کچھ اور وسیلہ مرے اظہار کو کم تھا

سو میں نے مری جان سدا شعر گری کی

عزیز نبیلؔ کی تخلیقی حسّیت کا مکالمہ قاری کو نکتہ آفرینی کے نوع بہ نوع آفاق کا ہم سفر بناتا ہے۔ زندگی کی محرومیوں کے شدید احساسات کی زد پر بھی شاعر زندگی ، کائنات اور فطرت کے مسلمات کے رشتوں کا اثبات کرتے ہوئے اپنی تخلیقی جوہریت کو اظہار کی شعری کائنات میں کرنوں کی طرح پھیلا دیتا ہے۔  یہ اُن کا خاص انفرادی اسلوب  ِ احساس اور اظہار ہے جس نے مجھے ورق ورق بار بار اپنی طرف متوجّہ کیا۔  عزیز نبیل ؔ نے موضوعی معروضیت کے ساتھ انسانی المیوں کے ملبے پر کھڑے ہو کر سلگتی ہوئی راکھ میں دبی ہوئی چنگاریوں کو اس بدنصیب عہد کے انسانوں کا استعارہ بنا دیا ہے۔ ان کی نظم  ’بے خوابی‘  کا آخری بند بھی اس کہانی کا ایک فطری حصّہ ہے    ؎

آہ اس درجہ اذیّت نہیں جھیلی جاتی/اتنی وحشت ہے کہ دل آج ہی مرنا چاہے/روح لٹکی ہے

 صلیبِ درِ تنہائی پر/سرد آنکھوں میں بس اک بار مچلنا چاہے/اور یہ جسم کہ بے خواب و جنوں پروردہ/

شبِ بے رحم کی سفّاکی سے بچنا چاہے/اور پھر بسترِ کمخواب میں آزادی سے /ایک دو عمر کسی غار میں سونا چاہے

لیکن ان کی شاعری میں اداسی اور سنّاٹے کا یہ احساس انفعالیت کا زائیدہ نہیں بلکہ  حقیقتوں کے جمال کی حسّیت رکھتا ہے۔ عزیز نبیلؔ بنیادی طور پر رجائیت بستہ ہیں وہ زندگی کی مثبت قدروں کے تخلیقی مصوّر ہیں ، یہی ان کی فنّی شناخت ہے۔ گرچہ ان کے تخلیقی رویّے کی تشکیل میں مختلف عناصر کارفرما ہیں ، لیکن ان کا بے لوث جمالیاتی استغراق عہدِ حاضر کے ہمہ گیر انتشار و ابتری میں روحانی مسرّت  و بصیرت کی ایک ایسی رمزیہ سخن آفرینی ہے جو نظّارہ ٔ ابدیت کا خوبصورت وسیلہ بھی ہے اور کائنات کے عرفان اور حسن کے کے وجدان کا ذریعہ بھی۔ وہ اپنے داخلی اور روحانی وجدان کی اُن بلندیوں پر نظر آتے ہیں جہاں فنکار کے بجائے فن قاری سے ہم کلام نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اُن کو ذات سے مکالمے کا شعر سمجھتا ہوں۔

 ٭٭٭

آصف اعظمی

عزیز نبیلؔ:  جسے ہم عزیز رکھتے ہیں

 عزیز نبیلؔ سے میری واقفیت اس وقت سے ہے جب ہم دونوں ساتھ ساتھ نو عمری کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ عزیز کے حوالہ سے ان دنوں کی جو بات اب تک ذہن میں محفوظ ہے وہ ایک نو عمر لڑکے کی یا د ہے جو لباس کے اوپر ایک شال پہننے کا عادی کا تھا۔۔ یہ شال اس کے جسم پر نہیں بلکہ اسکی شخصیت پر لپیٹنے کے کام آتی تھی اور اس طرح شاید اسے عام اور نا قابل اعتنا بنا کر خود اس کے لئے فرصت کے مواقع فراہم کرتی تھی۔ دوسرے اس شال کے پیچھے  وہ غیر درسی کتابیں اور معتبر شعراء کے مجموعے چھپا  رکھتا تھا۔ اسکول کی تعلیم ختم کر کے جب اس لڑکے نے اعلیٰ تعلیم کے لئے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں داخلہ لیا تو اس نے وہ شال بھی تہہ کر کے صندوق میں بند کر دی جسے ہم عمرو عیار کی زنبیل سے کم نہ جانتے تھے۔ شروع شروع میں بڑا عجیب لگتا تھا لیکن کسے پتہ تھا کہ شال کا ہٹنا اور جامعہ ملیہ میں داخلہ عزیز کی شخصیت میں چند بے حد خوشگوار تبدیلیوں کا ضامن بن جائے  گا۔  اب  نہ صرف نئے ماحول اور تازہ خیالات کے لئے اس کے دل و دماغ کی کھڑکیاں کھل جاتی ہیں ، بلکہ وہ اظہار ذات کے لئے بھی بے چین ہو جاتا ہے۔ چنانچہ وہ شاعری کا دامن تھا م لیتا ہے۔ وہ اپنے بدن ،اپنی زندگی اور اپنے ماحول میں ہو رہی تبدیلیوں کو بغور دیکھتا ہے اور مراقبہ والی شال سے لے کر مقابلہ والی زندگی کا سارا سچ اپنی شاعری میں پروس دیتا ہے۔  و ہ کبھی تو اس نیک دل بادشاہ کے رول میں نظر آتا ہے جو لوگوں کی نظریں بچا کر اپنی پرانی پوستین صندوق سے باہر نکال کر حسرت اور عبرت بھری نگاہوں سے دیکھتا تھا  تو کبھی اپنی اسی شال کو اتار پھینکتا ہے اور اس بھیڑ کی طرف قدم بڑھاتا ہے جہاں موجود لاکھوں کروڑوں زندگیاں ، اپنے اپنے سروں پر موضوعات کے ٹوکرے سجائے اس کے انتظار میں کھڑی ہیں۔

             عزیز کو محرومیوں اور ادھوری تمنّاؤں نے پال کر بڑا کیا ہے۔ لیکن یہ محرومیاں ہی اس کی سب بڑی طاقت رہی ہیں۔ انہوں نے ہی اسے آگے بڑھنے اور کامیابی کی راہ پر چلنے کا حوصلہ دیا ہے۔عزیز کے بارے میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی  ہے کہ اس نے اگر کسی سے کچھ پایا ہے تو اس سے زیادہ ہی لوٹایا ہے۔اس کا بس نہیں چلتا ورنہ  جذبات میں آ کر پوری دنیا لٹا دے۔پتہ نہیں کون سی گھڑی تھی جب قربانی، ایثار ، امداد جیسے سارے اوصاف وہ اپنے نام لکھا لایا تھا۔

گھر کی مشکلات اپنی جگہ، ماں باپ کا پیار اپنی جگہ۔ پھر مشکلات تو تقدیر کا حصہ ہوتی ہیں۔ عزیز اپنے ماں باپ کے تین بچوں میں سب سے چھوٹا اور لاڈلا بیٹا ہے۔ عزیز کو اپنا تعلیمی سلسلہ گریجویشن کے بعد ہی منقطع کر کے روزگار کی تلاش میں خلیج عرب کے ملک قطر ہجرت کرنا پڑا۔وہ آج ماشا ء اللہ یہیں ایک خوبصورت اور خدمت گزار بیوی فائزہ اور دو پیارے پیارے بچوں زہیر و ہشام کے ساتھ آرام و آسائش کی زندگی گزار رہا ہے اور وطن میں موجود اپنے والدین اور رشتہ داروں کی کفالت بھی کر رہا ہے۔ پھر سب سے بڑھ کر یہیں اسے وہ  پلیٹ فارم بھی ملا، جہاں سے وہ شعر وا دب کی پیمبری کر سکتا ہے کہ وہ یقیناً اسی کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔

عزیز کی شخصیت میں ایک انجانی سی کشش ہے۔ یوں تو وہ ایک مکمل جوان رعنا ہے، لیکن اس کشش کے ثقل کا تعلق اس کی مہذّب نشست و برخواست، اس کی علمیت اور تجربات سے پر زندگی سے جا کر ملتا ہے۔جب کبھی وہ اپنی بات رکھتا ہے تو اس کا مقصد اپنی قابلیت کا سکہ جمانا ہرگز نہیں ہوتا۔ہاں ، ہر خاکی انسان کی طرح سراہے جانے کی خواہش دل میں ضرور پوشیدہ رہتی ہے۔ اس کی روش تو سدا سے طالب علمانہ رہی ہے۔ وہ سیکھنے میں یقین رکھتا ہے۔وہ پڑھتا ہے اور خوب پڑھتا ہے۔مشاہدوں اور موازنوں کی پوری انجمن سجائے رہتا ہے۔ ہر چہ پیش آید بگیر پر مطمئن نہیں ہوتا ، بلکہ اسکے اسرار  و رموز تک پہنچ کر ہی دم لیتا ہے۔اساتذہ ہی نہیں ، عام سامعین کی بھی رایوں کا پورا احترام کرتا ہے۔ میں نے اس کی شاعری کے ابتدائی دنوں میں تھوڑی سی حوصلہ افزائی کیا کر دی تھی، اب پیچھا چھوڑنے کا نام نہیں لیتا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے وہ آج شاعری کے گہرے پانیوں میں شناوری کر رہا ہے اور میرا شمار ساحل کے تماش بینوں میں بھی نہیں ہوتا۔ میں کیا خاک رائے دوں گا؟

ان بیس سالوں کے تعلق اور دوستی میں بہت سے نشیب و فراز آئے۔ کبھی میں جھنجھلایا، کبھی اسے غصہ آیا۔ اکثر منانے میں اسی نے پہل کی ہے، لیکن مجھے یہ پتہ ہے کہ وہ انا پرور بھی ہے۔کبھی کبھی وہ  پتھر بھی بن جا تا ہے، خاص طور سے تب جب اسے کوئی دوست بن کر دھوکہ دے۔  وہ منتقم مزاج نہیں کہ نقصان پہونچانے کی کوشش کرے، مگر سمجھنے والے کے لئے یہ نقصان بھی کیا کم ہے کہ اس جیسے دوست کی رفاقت سے محروم ہوا جائے۔ ہاں ، میں اس کی انا میں تھوڑی لچک ضرور دیکھنا چاہوں گا۔ اس لئے نہیں کہ مستقبل کے کسی خطرہ کے پیش نظر میں اپنی راہ آسان کر رہا ہوں ، بلکہ اس لئے کہ عزیز کی یہ انا اور خود داری کبھی کبھی خود اس کی راہ کا روڑہ بن جاتی ہے۔

عزیز کا پہلا مجموعہ کلام شائع ہو رہا ہے،  نام ہے ’خواب سمندر‘۔ مجھے بالکل تعجب نہیں ہوا کیونکہ یہ نام بعینہ ان خوابوں ، خواہشوں اور خیالات و عزائم کا عکاس ہے جو قطار باندھے اس کے ساتھ چلتے رہتے ہیں۔حیرت ہوئی تو بس اتنی کہ خود مجھے دنیا کے بازار میں اپنی اہمیت منوانے کی نصیحت کرنے والے عزیز نے خود اپنے کلام سے دنیا کو متعارف کرانے میں اتنی دیر کیوں کر دی۔ وہ ہوشیار ہے مگر سوداگروں جتنا نہیں۔  میں نے بہت چاہا ، اس سے حسد کروں ، کر نہ سکا۔ کر پایا تو بس اتنا کہ اس کی ہر کامیابی پر بغلیں بجائیں اور تمت بالخیر کہا۔

٭٭٭

 

عرضِ طلب  ( ایک دعا)

اے خدا !  ابتدا ہے ترے نام سے

 تو جو قادر ہے ہر شئے کی تخلیق پر ،  تو کہ سب سے بڑا اور سب سے جداگانہ فنکار ہے۔

                         چاند تاروں کی بندش سرِ آسماں ، جھلملاتی ہوئی کہکشاں ، اپنی اپنی روش پر یہ سیّارگاں ، کرّۂ ارض پر دور تک رقص کرتی ہوئی ندّیوں ، سبزہ زاروں ، مہکتی ہوئی وادیوں ، برف اوڑھے ہوئے کوہساروں کی منظر کشی تیری تخلیقیت کی بہت دل رُبا اور بے حد حسیں ایک تصویر ہے۔

                        اے خداوندِ حرف و صدا !  حرف تیری عطا ، شعر تیرے کرم ، ساری آوازیں ، جذبے ، اثر آفرینی،  خیالات کے نو بہ نو سلسلے، جدّتیں ، ندرتیں ، حیرتیں ، بات کہنے کا فن،  سب ترے دستِ قدرت کے محتاج ہیں۔

                         اے خدائے زمین و زماں !  تو نے مجھ کو قلم اور حرف و صدا کے حسیں ملک کی شہریت بخشی ہے، ہاں ! ترے حکم سے لفظ چنتا ہوں پھر ایک ترتیب سے لفظ کو لفظ سے جوڑ کر ، گفتگو کے نئے پر اثر زاویئے ڈھونڈ کر شعر کہنے کے نازک عمل سے گزرتا ہوں مَیں۔

میری عرضِ طلب اس دعا کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے کہ اے ربِّ شعرو ادب !

 تو مری شاعری کو وہ جوہر عطا کر

 جو بے چین روحوں کی تسکین کا اک ذریعہ بنے۔

 جس کی خوشبو مسافر کے بے حال قدموں کو کچھ حوصلہ دے سکے۔

 جس کو پڑھتے ہی با ذوق قاری کی آنکھیں چمکنے لگیں۔

 کچھ پلوں کے لیے ہی سہی پر کسی کے لبوں پر یہ آسودہ مسکان لانے کے قابل بنے۔  اور دنیا میں امن و اماں کے لیے جو بھی کوشش ہو اس کا کسی طور سے ایک حصّہ بنے۔

 میری عرضِ طلب اس دعا کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔

٭٭٭

 

صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

اپنی آواز کو تصویر بنائے ہوئے ہیں

اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ

کوزہ گر ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں

ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں

چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچائے ہوئے ہیں

ہم نے خود اپنی عدالت سے سزا پائی ہے

زخم جتنے بھی ہیں اپنے ہی کمائے ہوئے ہیں

اے خدا بھیج دے امّید کی اک تازہ کرن

ہم سرِ دشتِ دعا ہاتھ اٹھائے ہوئے ہیں

ہر نیا لمحہ ہمیں روند کے جاتا ہے کہ ہم

اپنی مٹھّی میں گیا وقت چھپائے ہوئے ہیں

ایک مدّت ہوئی تم آئے نہ پیغام کوئی

پھر بھی کچھ یوں ہے کہ ہم آس لگائے ہوئے ہیں

٭٭٭

 

سنو مسافر! سرائے جاں کو تمہاری یادیں جلا چکی ہیں

محبّتوں کی حکایتیں اب یہاں سے ڈیرا اٹھا چکی ہیں

وہ شہرِ حیرت کا شاہزادہ گرفتِ ادراک میں نہیں ہے

اس ایک چہرے کی حیرتوں میں ہزار آنکھیں سما چکی ہیں

ہم اپنے سرپر گزشتہ دن کی تھکن اٹھائے بھٹک رہے ہیں

دیارِ شب! تیری خواب گاہیں تمام پردے گرا چکی ہیں

بدلتے موسم کی سلوٹوں میں دبی ہیں ہجرت کی داستانیں

وہ داستانیں جو سننے والوں کی نیند کب کی اڑا چکی ہیں

وہ ساری صبحیں تمام شامیں کہ جن کے ماتھے پہ ہم لکھے تھے

سنا ہے کل شب تمہارے در پر لہو کے آنسو بہا چکی ہیں

کہاں سے آئے تھے تیر ہم پر، طنابیں خیموں کی کس نے کاٹیں

گریز کرتی ہوائیں ہم کو تمام باتیں بتا چکی ہیں

دھوئیں کے بادل چھٹے تو ہم نے نبیلؔ دیکھا عجیب منظر

خموشیوں کی سلگتی چیخیں فضا کا سینہ جلا چکی ہیں

٭٭٭

 

جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی

میں تو آواز ہوں آواز کی ہجرت کیسی

سننے والوں کی سماعت گئی ، گویائی بھی

قصّہ گو تو نے سنائی تھی حکایت کیسی

ہم جنوں والے ہیں ،ہم سے کبھی پوچھو پیارے

دشت کہتے ہیں کسے ، دشت کی وحشت کیسی

آپ کے خوف سے کچھ ہاتھ بڑھے ہیں لیکن

دستِ مجبور کی سہمی ہوئی بیعت کیسی

پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ

راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی ، حیرت کیسی

اور کچھ زخم مرے دل کے حوالے مری جاں

یہ محبّت ہے محبت میں شکایت کیسی

میں کسی آنکھ سے چھلکا ہوا آنسو ہوں نبیلؔ

میری تائید ہی کیا، میری بغاوت کیسی

٭٭٭

 

حیات و کائنات پر کتاب لکھ رہے تھے ہم

جہاں جہاں ثواب تھا عذاب لکھ رہے تھے ہم

ہماری تشنگی کا غم رقم تھا موج موج پر

سمندروں کے جسم پر سراب لکھ رہے تھے ہم

سوال تھا کہ جستجو عظیم ہے کہ آرزو

سو یوں ہوا کہ عمر بھر جواب لکھ رہے تھے ہم

سلگتے دشت ، ریت اور ببول تھے ہر ایک سو

نگر نگر ، گلی گلی گلاب لکھ رہے تھے ہم

زمین رک کے چل پڑی ، چراغ بجھ کے جل گئے

کہ جب ادھورے خوابوں کا حساب لکھ رہے تھے ہم

مجھے بتانا زندگی وہ کون سی گھڑی تھی جب

خود اپنے اپنے واسطے عذاب لکھ رہے تھے ہم

چمک اٹھا ہر ایک پل ، مہک اٹھے قلم دوات

کسی کے نام دل کا انتساب لکھ رہے تھے ہم

٭٭٭

 

اگرچہ ذہن کے کشکول سے چھلک رہے تھے

خیال شعر میں ڈھلتے ہوئے جھجک رہے تھے

کوئی جواب نہ سورج میں تھا نہ چاند کے پاس

مرے سوال سرِ آسماں چمک رہے تھے

نہ جانے کس کے قدم چومنے کی حسرت میں

تمام راستے دل کی طرح دھڑک رہے تھے

کسی سے ذہن جو ملتا تو گفتگو کرتے

ہجوم ِ شہر میں تنہا تھے ہم ، بھٹک رہے تھے

یہ اُس نے دیکھا تھا اک رقصِ ناتمام کے بعد

وفورِ شوق میں کون و مکاں تھِرک رہے تھے

کتابِ عمرِ گزشتہ کے حاشیوں میں نبیلؔ

وہ شور تھا کہ زمیں آسماں دھمک رہے تھے

٭٭٭

سورج اٹھائے ڈھونڈو گے ہم کو گلی گلی

یہ دم قدم ہمارا غنیمت ہے شہر میں

عذابِ خواہشِ تعمیر لے کے اُترا ہے

وہ میرے خواب میں تعبیر لے کے اُترا ہے

میں خالی ہاتھ ہوں اور دیکھتا ہوں میرے خلاف

مرا عدو ، مری شمشیر لے کے اُترا ہے

سفر کے بوجھ تلے خود کو کھینچتا ہوا دن

مری ہتھیلی پہ تاخیر لے کے اُترا ہے

یہ کیسا دشت ہے جس کی جڑوں کا سنّاٹا

تمام شہر پہ تعزیر لے کے اُترا ہے

لہو جمی ہوئی آنکھوں میں وقت کا پنچھی

جو کھو گئی تھی وہ تصویر لے کے اُترا ہے

٭٭٭

 

داستاں میں آج شب اک ایسا منظر آگیا

سن کے جس کو میں اچانک لوٹ کر گھر آگیا

قید کر کے گھر کے اندر اپنی تنہائی کو میں

مسکراتا گنگناتا گھر سے باہر آگیا

مستقل میرے تعاقب میں تھی شب زادوں کی فوج

میں بھی پھر میدان میں سورج اٹھا کر آگیا

جل چکے جب رات کے بستر پہ خوابوں کے بدن

اجڑی تعبیروں کا غم آنکھوں کے اندر آگیا

میری راہِ جستجو میں یوں ہوا اکثر نبیلؔ

ایک دریا سر کیا تھا اک سمندر آگیا

٭٭٭

 

ہر اک منظر بھگونا چاہتی ہے

اداسی خوب رونا چاہتی ہے

مجھے اک پل کی یکسوئی عطا ہو

غزل تخلیق ہونا چاہتی ہے

ان آنکھوں کی کہانی ہے بس اتنی

نظر آواز ہونا چاہتی ہے

تمہارے حسن کے حیرت کدے میں

مری بینائی کھونا چاہتی ہے

کسی کی یاد کی خاموش بارش

مرے سب زخم دھونا چاہتی ہے

وہی معصوم سی بچپن کی حسرت

بہلنے کو کھلونا چاہتی ہے

اداسی تھک چکی ہے روتے روتے

ذرا سی دیر سونا چاہتی ہے

٭٭٭

 

میں دسترس سے تمہاری نکل بھی سکتا ہوں

یہ سوچ لو کہ میں رستہ بدل بھی سکتا ہوں

تمہارے بعد یہ جانا کہ میں جو پتھّر تھا

تمہارے بعد کسی دم پگھل بھی سکتا ہوں

قلم ہے ہاتھ میں کردار بھی مرے بس میں

اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں

مری سرشت میں ویسے تو خشک دریا ہے

اگر پکار لے صحرا ابل بھی سکتا ہوں

اُسے کہو کہ گریزاں نہ یوں رہے مجھ سے

میں احتیاط کی بارش میں جل بھی سکتا ہوں

٭٭٭

 

جیسے جیسے کر رہا ہوں عمرِ رفتہ کا حساب

ویسے ویسے اٹھ رہا ہے موجِ خوں میں اضطراب

تیرگی کے قہر سے جس وقت آزادی ملی

دیر تک چھایا رہا مجھ پر اُجالوں کا عذاب

راستوں کی دھول سے رکھنی پڑی ہے رسم و راہ

کب تلک کرتا میں آخر فاصلوں سے اجتناب

مصحفِ دل میں لکھی ہے وحشتوں کی داستاں

جانے کس کے نام لکّھا جائے گا اب انتساب

ایک ریلا سا چلا آیا سوالوں کا نبیلؔ

چھپ گئے جا کر بہت اونچے مچانوں پر جواب

٭٭٭

 

تب کہیں جھکایا ہے سر غرورِ شاہی نے

جب اٹھا لیا سر پر تخت بے گناہی نے

راستے رفاقت کے بند کر دیے سارے

اُس کی کج ادائی نے میری کج کلاہی نے

کیا عجب عدالت ہے کیا عجیب منصف ہیں

دن کو قید میں ڈالا رات کی گواہی نے

اک نگینۂ فن کو خاک میں ملا ڈالا

جوہری کی کم علمی اور کم نگاہی نے

پھر اُسی منافق کی رہبری میں چلنا ہے

کچھ نہیں کیا اب تک جس کی سربراہی نے

میں یونہی بہت اچھا دوستو خدا حافظ

خاک کر دیا مجھ کو رسمِ خیر خواہی نے

٭٭٭

تیری دیوار سے سر پھوڑ لیا

اب کوئی کتنی معافی چاہے

 

اس نے تراشا ایک نیا عذرِ لنگ پھر

میں نے بھی یارو چھیڑ دی اک سرد جنگ پھر

لایا گیا ہوں پھر سے سرِ مقتلِ حیات

ہونے لگا بدن سے جدا انگ انگ پھر

ثابت ہوا کہ تو بھی نہیں مستقل علاج

لگنے لگا ہے روح کے ملبے کو زنگ پھر

یوں لامکاں تو اپنا ستارہ کبھی نہ تھا

یہ کیا ہوا کہ کٹ گئی اپنی پتنگ پھر

پیاسے لبوں کو یا تو سمندر نصیب کر

یا ہو عطا جزیرۂ پُر خشت و سنگ پھر

جب تو فرازِ شب سے پکارے گا ساری رات

میں بھی فصیلِ جاں سے اُتاروں گا زنگ پھر

اِس بار تو خدا کی قسم کچھ نہیں کہا

کیوں اڑ گیا جناب کے چہرے کا رنگ پھر

٭٭٭

 

مزہ سفر کا بس اڑتے ہوئے غبار میں تھا

سو گرد ہوکے بھی میں تیری رہگذار میں تھا

بہت ہی خوب تھی سردار تیری سرداری

قبیلہ جنگ میں تھا تو رہِ فرار میں تھا

فرار ہونے کی خواہش رہی اُسے ہر پل

تمام عمر جو خود ساختہ حصار میں تھا

محل سراؤں پہ قابض تھا لشکرِ غدّار

جو بادشاہ تھا اجڑے ہوئے دیار میں تھا

چمک رہا تھا یونہی میرے فن کا تاج محل

میں اقتدار میں شامل نہ اشتہار میں تھا

ابل رہے تھے چٹانوں کی آنکھ سے آنسو

بلا کا درد بہت سوز آبشار میں تھا

سکون آیا میسّر تو پھر یہ راز کھلا

مزہ  وہ اس میں کہاں ہے جو انتشار میں تھا

٭٭٭

 

کچھ یوں بھی کسی روز تماشہ کیا جائے

خود اپنے ہر اک خواب کو رسوا کیا جائے

پل بھر کے لئے پھر مجھے بچّہ کیا جائے

سوکھے ہوئے تالاب کو دریا کیا جائے

برسوں سے بدن دشت میں بے جان پڑا ہوں

آتے ہوئے لمحو مجھے زندہ کیا جائے

یہ کون مجھے مجھ سے الگ کھینچ رہا ہے

میں چیخ پڑوں گا مجھے یکجا کیا جائے

یا دیدۂ بینا کو عطا ہوں نئے جلوے

یا میرے تصوّر کو بھی اندھا کیا جائے

روشن کئے جائیں ذرا خوابوں کے الاؤ

بجھتی ہوئی آنکھوں میں اجالا کیا جائے

٭٭٭

 

نئے سفر کی مسافت سے خوف آتا ہے

مرے قبیلے کو ہجرت سے خوف آتا ہے

تمام شہر کو تاریکیوں سے شکوہ ہے

مگر چراغ کی بیعت سے خوف آتا ہے

سفر بھی طئے نہ ہوا، بادبان بھی نہ رہا

ہوا کی ایسی حمایت سے خوف آتا ہے

مجھے زمانے کی شورش کا کوئی خوف نہیں

خود اپنے گھر میں بغاوت سے خوف آتا ہے

خدا بچائے کسی کی نظر نہ لگ جائے

ذرا سی عمر میں شہرت سے خوف آتا ہے

جو سن چکے ہیں وہ مٹّی میں ہو گئے تبدیل

زمین تیری حکایت سے خوف آتا ہے

برا نہ مانو تو اک بات کہنا چاہتا ہوں

مجھے تمہاری محبّت سے خوف آتا ہے

نبیلؔ کون بتائے گزرتے لمحوں کو

بدن کو روح کی وسعت سے خوف آتا ہے

٭٭٭

 

نہ جانے کیسی محرومی پسِ رفتار چلتی ہے

ہمیشہ میرے آگے آگے اک دیوار چلتی ہے

وہ اک حیرت کہ میں جس کا تعاقب روز کرتا ہوں

وہ اک وحشت مرے ہمراہ جو ہر بار چلتی ہے

نکل کر مجھ سے باہر لوٹ آتی ہے مری جانب

مری دیوانگی اب صورتِ پرکار چلتی ہے

عجب اندازِ ہم سفرَی ہے یہ بھی قافلے والو

ہمارے درمیاں اک آہنی دیوار چلتی ہے

غزل کہنا بھی اب اک کارِ بے مصرف سا لگتا ہے

نیا کچھ بھی نہیں ہوتا بس اک تکرار چلتی ہے

نبیلؔ اِس عشق میں تم جیت بھی جاؤ تو کیا ہو گا

یہ ایسی جیت ہے پہلو میں جس کے ہار چلتی ہے

٭٭٭

 

کچھ نئے شمس و قمر مانگتی ہے

جستجو تازہ سفر مانگتی ہے

شعلۂ  عشق کی بجھتی ہوئی راکھ

پھر وہی شام و سحر مانگتی ہے

زرد صحرا سے پرے فصلِ حیات

سبز رہنے کا ہنر مانگتی ہے

آج پھر تجھ سے مری بے سفری

اے خدا اذنِ سفر مانگتی ہے

بے یقینی کی یہ دیوار ہٹے

تشنگی راہ گذر مانگتی ہے

یونہی اشعار نہیں ہوتے ہیں

شاعری خونِ جگر مانگتی ہے

آج بھی روحِ زمینِ دلّی

اپنے پہلو میں ظفر مانگتی ہے

 

لہجے میں روشنی کا سمندر لیے ہوئے

وہ آدمی تھا نور کا پیکر لیے ہوئے

میں قافلے سے پیچھے بہت دور رہ گیا

آنکھوں میں ایک ڈوبتا منظر لیے ہوئے

ضبطِ درونِ ذات کی کوشش میں بارہا

خود اپنی سمت لپکا ہوں پتھر لیے ہوئے

میں بڑھ رہا ہوں جانبِ تشنہ لبانِ دشت

اپنے جِلو میں سات سمندر لیے ہوئے

جب بھی فلک نے پھینکا ہے مجھ کو زمیں کی سمت

اترا ہوں شہرِ انجم و اختر لیے ہوئے

ہر آدمی رہینِ غمِ روزگار ہے

ہاتھوں میں اپنا اپنا مقدّر لیے ہوئے

 ٭٭٭

اونگھتی میز، خلاؤں میں نظر، ذہن میں شعر

دیکھ لیتا ہوں کبھی چائے کی پیالی کی طرف

 

اُس کی سوچیں اور اُس کی گفتگو میری طرح

وہ سنہرا آدمی تھا ہو بہو میری طرح

ایک برگِ بے شجر اور اک صدائے بازگشت

دونوں آوارہ پھرے ہیں کو بکو میری طرح

چاند تارے اک دیا اور رات کا کومل بدن

صبح دم بکھرے پڑے تھے چارسو میری طرح

لطف آوے گا بہت اے ساکنانِ قصرِ ناز

بے درو دیوار بھی رہیو کبھو میری طرح

دیکھنا پھر لذّتِ کیفیّتِ تشنہ لبی

توڑ دے پہلے سبھی جام و سبو میری طرح

اک پیادہ سر کرے گا سارا میدانِ جدل

شرط ہے جوش جنوں اور جستجو میری طرح

٭٭٭

جب مری ساری حِسوں پر ہے اسی کی دسترس

روشنی لے جائیے سب رنگ و بو لے جائیے

 

ہوئے ہوں وار ترے بے اثر ضروری نہیں

مگر نشاں ہوں مرے جسم پر ضروری نہیں

نکل پڑے گا تو منزل پہ جا کے دم لے گا

جنوں کے واسطے رختِ سفر ضروری نہیں

اُڑا رہا ہوں میں خود اپنی راکھ رات ڈھلے

مجھے سمیٹ ہی لے گی سحر ضروری نہیں

وہ تشنگی تھی کہ گھر ہی بنا لیا تہہِ آب

شناوری کا ہو مقصد گہر ضروری نہیں

تمام شب کی گرانی رکھی ہے آنکھوں میں

مگر یہ رات بھی ہو مختصر ضروری نہیں

٭٭٭

 

میرے جنوں کے سامنے صحرا بکھر گیا

لہروں میں رقص کرتا سمندر ٹھہر گیا

اب یوں ہی ڈھونڈتا ہوں ہواؤں میں اُس کا عکس

اک شخص آس پاس تھا جانے کدھر گیا

دستار  پا کے خوش  ہے بہت یہ ذہین شخص

اِس کو خبر نہیں ہے کہ شانوں سے سر گیا

دن کی تکان رات کے کاندھوں پہ ڈال کر

میں شاہراہِ کرب سے بچ کر گذر گیا

اُس کے طفیل مجھ میں بہت روشنی ہے اب

آنکھوں کا آسمان جو تاروں سے بھر گیا

٭٭٭

 

تمام شہر کی نظریں تھیں میرے در کی طرف

میں تک رہا تھا خموشی سے شہر بھر کی طرف

ہماری دشت نوردی کا کچھ حساب ملے

یہ کیا کہ عمر کٹی اور اپنے گھر کی طرف ؟

یہی تھا جرم کہ سچ بولنے لگا تھا میں

سو پتھروں کی تھی بوچھار میرے سر کی طرف

الجھتے زاویے سب خطِّ مستقیم ہوئے

سبھی لکیروں کو جانا تھا مستقر کی طرف

دھواں دھواں ہے بہت روشنی کا ہر لمحہ

سلگ رہا ہے اندھیرا رخِ سحر کی طرف

اک اضطرابِ مسلسل ہے یہ سفر میرا

رواں ہوں دائرہ در دائرہ بھنور کی طرف

٭٭٭

جنگل کیا ہے صحرا کیا

اس دل کی ویرانی دیکھ

 

روح پر زخموں کی جب بڑھتی ہوئی تعداد ہو

اُس زمیں کو کوچ کر اپنوں سے جو آباد ہو

میں بتاؤں گا تمہیں بیتے ہوئے لمحوں کا درد

تم سنادینا مجھے جو بھی کہانی یاد ہو

آسماں سر پر مسلّط ہر گھڑی اور پاؤں میں

ہے زمیں کی بیڑیاں کیسے کوئی آزاد ہو

جب نہیں ہوں الف لیلہ کے کسی بھی باب میں

کیوں ضروری ہے جدھر جاؤں نئی افتاد ہو

مر نہ جاؤں بے تعیّن زندگی کے کرب سے

میرے منصف کچھ تو میرے قید کی میعاد ہو

بے سروپا گفتگو سے کچھ نہیں حاصل جناب

بات کچھ ایسی کریں جس کی کوئی بنیاد ہو

٭٭٭

میں گرد ہوتے ہوئے راستوں کا راہی ہوں

جدھر بھی پاؤں بڑھایا ہے راستہ نکلا

 

سفر تھا دشت و بیاباں کا اور ہم جیسے

امینِ سنّت و رسمِ برہنہ پائی تھے

چھپا رکھے تھے کئی پل تمہاری قربت کے

لو ہم نے کھول دی مٹھّی اڑا دیئے لمحے

مسافتِ شبِ ہجراں طویل تھی اتنی

کہ ساری عمر چلے اور کہیں نہیں پہنچے

سماعتوں پہ گراں ہو گیا ہے نعرۂ حق

ذرا سی بات پہ کتنے اتر گئے چہرے

نہ جانے کونسی منزل تھی وہ یقین کی ، جب

تھمی تھی گردشِ دوراں رکے تھے سیّارے

تمہارے ذکر کا اعجاز ہے کہ جب بھی چلا

بہت سے چاند ستارے درونِ جاں چمکے

٭٭٭

وہ دکھ نازل ہوئے ہیں میرے دل پر

کسی کے ذہن سے سوچا نہ جائے

 

وحشت کے اس شور کو مجھ میں مر جانے دے تھوڑی  دیر

سوکھ گیا ہے سوچ کا دریا بھر جانے دے تھوڑی دیر

کب تک دشت نوردی یارب کتنے جنگل کاٹوں گا

اچھا لوٹ کے آ جاؤں گا گھر جانے دے تھوڑی دیر

لمبی راتیں ، سرد ہوائیں ، ٹوٹا پھوٹا میرا گھر

تاریکی میں چھولے آ کر ڈر جانے دے تھوڑی دیر

تیری یاد میں تارے گنتے بیت گئی ہے ساری رات

صبح ہوئی وہ سورج نکلا، مر جانے دے تھوڑی دیر

کوئی نیا انداز جفا اے قریۂ جاں کے باشندے

تشنہ آنکھیں جان بہ لب ہیں بھر جانے دے تھوڑی دیر

٭٭٭

 

اے زندگی یہ کیا ہوا تو ہی بتا تھوڑا بہت

وہ بھی بہت ناراض ہے میں بھی خفا تھوڑا بہت

منزل ہماری کیا ہوئی یہ کس جہاں میں آ گئے

اب سوچنا پیشہ ہوا کہنا رہا تھوڑا بہت

نا مہرباں ہر راستہ اور بے وفا اک اک گلی

ہم کھو گئے اِس شہر میں رستہ ملا تھوڑا بہت

یہ لطف مجھ پر کس لیے احسان کا کیا فائدہ

اب وقت سارا کٹ چکا، اچھا برا، تھوڑا بہت

اُس بزم سے وابستگی کیا کیا دکھائے گی نبیلؔ

پھر آ گئے تم ہار کر جو کچھ بھی تھا تھوڑا بہت

٭٭٭

 

جانے کس آنکھ سے ٹپکا ہے شرارہ یارب

دیر تک جلتا رہا ہاتھ ہمارا یارب

درد اور کرب سے جب خامشی چلّانے لگی

میں نے گھبرا کے ترا نام پکارا یارب

کب تلک چاند ستاروں میں گذاروں راتیں

کہیں ملتا ہی نہیں میرا ستارہ یارب

ہائے اس دشتِ تمنّا کا پر اسرار سفر

کیا کروں کیسے ملے مجھکو کنارا یارب

میں فرومایہ ہوں ، کمتر ہوں ، گنہگار بھی ہوں

پھر بھی یوں خوش ہوں کہ ہے تیرا سہارا یارب

٭٭٭

 

یا دیجئے سزا مجھے یا کیجئے معاف

میں ارتکابِ جرم کا کرتا ہوں اعتراف

دامن دریدہ، جسم شکستہ سہی مگر

لہجے  میں ہے  ابھی  بھی   وہی  بوئے  انحراف

اب اہتمامِ جشنِ بہاراں کریں تو کیا

تم بھی نہیں ہو ساتھ چمن بھی ہوا خلاف

جاتے   ہو  اپنے  شہر   کو  لیکن  رہے   خیال

ہر موڑ پر ملے گا نیا ایک انکشاف

اک سنگ تم بھی پھینک دو میری طرف نبیلؔ

میں چاہتا ہوں سارے زمانے سے اختلاف

٭٭٭

 

وہ آسمان ہو گیا لغزش کے باوجود

میں اب بھی بے دیار ہوں کوشش کے باوجود

کل چاند ڈگمگا کے سمندر میں گر گیا

پھیلے ہوئے ستاروں کی بندش کے باوجود

اک کربِ بے زمینی کا عالم تھا رات بھر

سیَّاروں پہ جمود تھا گردش کے باوجود

پھر میری دستکوں میں ہے شامل ترا خیال

ترکِ تعلقات کی خواہش کے باوجود

میں سر اٹھا کے آج بھی زندہ ہوں میرے دوست

ہر ہر قدم پہ اک نئی سازش کے باوجود

٭٭٭

 

ماضی کی سمت کھینچتے لمحوں کا سلسلہ

کب  ٹوٹتا ہے دیکھیے یادوں کا سلسلہ

تعبیر دفن ہو گئی ملبے کے درمیاں

بکھرا ہے ہر طرف مرے خوابوں کا سلسلہ

اک زندگی گذار کے آیا ہوں دشت میں

مجھ سے نہ پوچھ پاؤں کے چھالوں کا سلسلہ

وہ دوستوں کا قحط پڑا ہے کہ روح کی…

اونچی فصیل تک ہے دراڑوں کا سلسلہ

مانگے کی روشنی سے کنارا کرو نبیلؔ

لاؤ کہیں سے اپنے چراغوں کا سلسلہ

٭٭٭

 

زخم سہہ لیتا سبھی میں تیر سے تلوار تک

بات آ پہنچی مگر سر سے مری دستار تک

سوچ کا ہر زاویہ الجھا ہے ریشم کی طرح

فیصلے بکھرے پڑے ہیں ذہن سے اظہار تک

اور جب کوہِ ندا سے بچ کے میں واپس ہوا

ہر بشر پتّھر کا تھا اِس پار سے اُس پار تک

برسبیلِ تذکرہ اس سے بتا دینا کبھی

دل نے کتنے رنگ بدلے درد سے اقرار تک

بے خودی ، درماندگی ، آنکھوں سے لپٹی جستجو

اک تسلسل ہے نواحِ جاں سے کوئے یار تک

منزلیں آوارگی کی زد میں آ کر کھو گئیں

فاصلے بڑھتے گئے امکان سے رفتار تک

٭٭٭

جوانی گرد ہوتی جا رہی ہے

تمنّاؤں کے کچّے راستوں میں

 

مسلسل تشنگی کا سلسلہ ہے

مرے ہمراہ صحرا چل رہا ہے

کٹی ہے زندگی ساری سفر میں

نہ جانے اور کتنا فاصلہ ہے

ہزاروں غم، بہت سی آرزوئیں

اِس اک چھوٹے سے دل میں اور کیا ہے

چھپانا چاہتے ہو حال دل کا

مگر چہرے پہ سب لکّھا ہوا ہے

ہماری ذات وہ جنگل ہے جس میں

عجب سا شور ہر دم گونجتا ہے

ہمارے بعد بھی دیکھو گے لوگو

ہر اک جانب ہمارا تذکرہ ہے

٭٭٭

عجب افتاد ہے دیوانگی میں

تعاقب میں ترے بھاگا نہ جائے

 

اس شہر میں اے کاش نکلتا کوئی سورج

مدّت ہوئی میں نے نہیں دیکھا کوئی سورج

وہ ریت کے ذرّوں پہ بکھرتی ہوئی اک شام

وہ دور سمندر میں سمٹتا کوئی سورج

تب صبح نمودار ہوئی ناز و ادا سے

جب رات کی پیشانی پہ چمکا کوئی سورج

کیوں شب کی سیاہی کا اثر بڑھنے لگا ہے

کیا ہو گیا بستی سے روانہ کوئی سورج

اڑنے لگے آکاش پہ جلتے ہوئے تارے

جب شام ڈھلے ہار کے ڈوبا کوئی سورج

٭٭٭

 

آسماں تک مسئلے پھیلے ملے

چاند اور تارے سبھی الجھے ملے

اس سے کیا مطلب مقابل کون تھا

ہم سے جو جیسے ملا ویسے ملے

خواب کے دریا میں غوطہ زن ہوا

کچھ پرانے کچھ نئے چہرے ملے

ہو گئ سرسبز شاخِ نخلِ غم

جب بھی تنہائی میں ہم خود سے ملے

سارے پس منظر الگ منظر الگ

چہرہ در چہرہ بہت چہرے ملے

٭٭٭

 

خاک چہرے پہ مَل رہا ہوں مَیں

آسماں سے نکل رہا ہوں مَیں

چپکے چپکے وہ پڑھ رہا ہے مجھے

دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں  مَیں

میں نے سورج سے دوستی کی ہے

شام ہوتے ہی ڈھل رہا ہوں مَیں

ایک آتش کدہ ہے یہ دنیا

جس میں صدیوں سے جل رہا ہوں  مَیں

راستوں نے قبائیں سی لی ہیں

اب سفر کو مچل رہا ہوں مَیں

اب مری جستجو کرے صحرا

اب سمندر پہ چل رہا ہوں  مَیں

خواب آنکھوں میں چبھ رہے تھے نبیلؔ

سو یہ آنکھیں بدل رہا ہوں مَیں

٭٭٭

 

مرا سوال ہے اے قاتلانِ شب تم سے

کہ یہ زمین منوّر ہوئی ہے کب تم سے؟

چراغ بخشے گئے شہر ِ بے بصارت کو

یہ کارِ خیر بھی سرزد ہوا عجب تم سے

وہ ایک عشق جو ، اب تک ہے تشنۂ تکمیل

وہ ایک داغ جو روشن ہے روز و شب تم سے

مری نمود میں وحشت ہے، میری سوچ میں شور

بہت الگ ہے مری زندگی کا ڈھب تم سے

مرے خطاب کی شدّت پہ چیخنے والو

تمہارے لہجے میں گویا ہوا ہوں اب تم سے

شکستہ رشتوں کی ہاتھوں میں ڈور تھامے ہوئے

میں پوچھتا ہوں مرے دوستو سبب تم سے

تمہارے نام کی تہمت ہے میرے سر پہ نبیلؔ

جدا ہے ورنہ مرا شجرۂ نسب تم سے

٭٭٭

 

مدّت سے خود اپنے ہی تعاقب میں رواں ہوں

میں کون ہوں کس شہر سے آیا ہوں کہاں ہوں

اردو ہے مرا نام میں غالبؔ کی زباں ہوں

اقبالؔ کا فن میرؔ کا اندازِ بیاں ہوں

ق

ہر حال میں سرسبز رہیں گی مری شاخیں

جڑ کاٹنے والوں سے کہو ’اردو زباں ہوں ‘

اشعار کے محلوں میں ہیں الفاظ کی اینٹیں

غزلیں مری ’ممتاز‘ ہیں میں ’شاہجہاں ‘ ہوں

آواز تو دیتا ہوں ، جواب آئے نہ آئے

میں شہر کے بازار میں صحرا کی اذاں ہوں

اے بادِ مخالف ترے قدموں میں تھکن ہے

کھلتا ہی نہیں آگ ہوں یا صرف دھواں ہوں

میں اپنے مکینوں کے قدم ڈھونڈنے والا

اجڑے ہوئے اک شہر کا بوسیدہ مکاں ہوں

٭٭٭

 

آرزوؤں کے پر جلائیں کیا

کیا کریں خود کو بھول جائیں کیا

ماں تری یاد آرہی ہے بہت

تونے بھیجی ہیں کچھ دعائیں کیا

جو بھی ہونا تھا ہو چکا سب کچھ

سر پہ اب آسماں اٹھائیں کیا

ہجر طاری ہے ، غم برستا ہے

ایسے موسم میں مسکرائیں کیا

کیوں نہیں دیکھتا ہے وہ مڑ کر

مر گئیں راہ میں صدائیں کیا

جس نے سینہ جلا دیا تھا نبیلؔ

اب وہ قصّہ تمہیں سنائیں کیا

٭٭٭

ٍ

اکیلی زندگانی چاہتا ہوں

بہت تنہا رہا ہوں دوستوں میں

 

وجد میں آنا یکایک اس دلِ برباد کا

پیش خیمہ ہے زوالِ قوّتِ صیّاد کا

نوچ کر میں پھینک آیا آج اس سینے سے دل

ایک کانٹا چبھ رہا تھا اُس میں تیری یاد کا

کیا کرو گے پڑھ کے میری سرگزشتِ زندگی

حصّۂ اوّل نہیں ملتا مری روداد کا

میں اکیلا سر بکف دشمن کا لشکر سامنے

کوئی رستہ بھی نظر آتا نہیں امداد کا

روح جیسے ایک رقّاصہ ہو قصرِ جسم میں

اور سارا جسم قیدی عمر کے جلّاد کا

میں اگر ٹوٹا تو سارا شہر بکھرے گا نبیلؔ

ایسا پتّھر ہوں فصیلِ شہر کی بنیاد کا

٭٭٭

شرق اور غرب نے گھر پھونک لیا تھا اپنا

میں جنوبی جو چلا ایک شمالی کی طرف

 

بکھیرتا ہے قیاس مجھ کو

سمیٹ لیتی ہے آس مجھ کو

میں چھپ رہا ہوں کہ جانے کس دم

اتار ڈالے لباس مجھ کو

دکھا گئی ہے سراب سارے

بس ایک لمحے کی پیاس مجھ کو

میں مل ہی جاؤں گا ڈھونڈ لیجے

یہیں کہیں آس پاس مجھ کو

جو تم نہیں ہو تو لگ رہا ہے

ہر ایک منظر اداس مجھ کو

٭٭٭

 

کام رکھتا ہوں میں اپنے کام سے

دن گزرتے ہیں بہت آرام سے

جگمگا اٹھتے ہیں دل کے آس پاس

درد کے سارے فسانے شام سے

وہ بھی تھا جنگل صفت صحرا مزاج

ہم بھی تھے آوارہ و بدنام سے

سب کرم ، انعام عالیجاہ کے

لگ رہے ہیں طنز اور دشنام سے

موت ہیبتناک ہے لیکن حضور

زندگی مربوط ہے اس نام سے

٭٭٭

 

مجھے ہے یاد ترا جوئے آب ہو جانا

پھر اس کے بعد مکمل سراب ہو جانا

مرے سوال کی برجستگی سے گھبرا کر

نظر جھکانا سراپا جواب ہو جانا

یہ میری خوبی  قسمت نہیں تو پھر کیا ہے

حضور آپ کا یوں دستیاب ہو جانا

فراقِ یار کے جلتے سلگتے لمحوں کا

گزر تو جانا مگر اک عذاب ہو جانا

دیارِ حسن میں جس کو قبولِ عام ملے

نصابِ عشق کی ایسی کتاب ہو جانا

طوافِ کوچۂ وحشت میں اب عزیز نبیلؔ

یہ کیسا ہوش گنوانا خراب ہو جانا

٭٭٭

تنہا تنہا چپکے چپکے روئے ہیں

پتھّر سے کب  پھوٹا پانی مت پوچھو

 

شام ہو گی کوئی سہما ہوا صحرا ہو گا

جب مرے ساتھ ہی خورشید بھی ڈوبا ہو گا

بس یہی سوچ کے تقسیم ہوا جاتا ہوں

وہ بھی ہر لمحہ مرے غم میں بکھرتا ہو گا

پھر تری یاد نے بہروپ بھرا ایک نیا

پھر مرے سامنے ماضی کا تماشا ہو گا

درد کی جھیل تو خاموش نہیں تھی اتنی

اس طرف تم نے کوئی سنگ اچھالا ہو گا

لوگ یوں ہی تو نہیں ہو گئے دشمن میرے

تیری آنکھوں میں مرا عکس چمکتا ہو گا

کب تلک پیاس کو ہمراہ لیے بھٹکیں گے

شہر سے دور چلو کوئی تو دریا ہو گا

یہ جو ماحول میں اک شور سا برپا ہے نبیلؔ

دل کی بستی میں کوئی خاک اڑاتا ہو گا

٭٭٭

 

ہمارے جیسا کوئی بھی سخن پرست نہیں

شکستہ جسم ہیں ، آواز میں شکست نہیں

سکوتِ شب ترے پہلو سے اب کہاں جائیں ؟

قلندروں کا کہیں اور بند و بست نہیں

فراعنہ ہیں تعاقب میں ، سامنے دریا

ہمارے ساتھ کوئی بھی عصا بدست نہیں

غریب خانے میں سب کچھ ہے۔ پیار ، مہر و وفا

میں اس قدر بھی مرے یار تنگ دست نہیں

میں اس یقین سے تعبیر کی تلاش میں ہوں

یہ حادثات مرے خواب کی شکست نہیں

اصول سب کے لیے ایک جیسے ہوتے ہیں

مرے قبیلے میں کوئی بلند و پست نہیں

٭٭٭

ترسیل وجہِ عشق کا اک سلسلہ ہے اور

انجیل میں جاری ہے تحریف مستقل

 

تم نور کی وادی تھے میں نجد کا صحرا تھا

تم حسن میں لاثانی ، میں عشق میں یکتا تھا

بہکا تو بہت بہکا، سنبھلا تو ولی ٹھہرا

اُس چاک گریباں کا، ہر رنگ نرالا تھا

جب رات کی آنکھوں سے چھلکے تھے  مرے آنسو

وہ درد کا موسم تھا وہ کرب کا لمحہ تھا

اب یونہی سہی لیکن سوچو تو ذرا اک پل

جب مجھ سے تعلق تھا کیا خوب زمانہ تھا

اُن آنکھوں کا افسانہ بس اتنا سمجھ لیجے

سہما ہوا صحرا تھا، امڈا ہوا دریا تھا

یہ جبر کا سودا کیوں ، یہ نازشِ بے جا کیا

جو دل میں تمھارے ہے کہہ دیتے تو اچھا تھا

٭٭٭

مرے ذہن و دل سے نہ مٹ سکا تری اک جھلک کا وہ رابطہ

وہی ایک لمحۂ مختصر وہی ایک لمحۂ آخری

 

مرے اشعار میں شامل تری خوشبو ہو جائے

دشتِ افکار میں اے کاش تو آہو ہو جائے

میرا ہر لفظ ترے روپ کی تمہید بنے

کبھی بندیا، کبھی کنگن، کبھی گھنگھرو ہو جائے

جب بھی چاہوں میں گئے لمحے چرا کر لے آؤں

کتنا اچھا ہو جو ایسا کوئی جادو ہو جائے

اضطراب آخری لمحے کا دمِ رخصتِ یار

جلتی آنکھوں میں سمٹ آئے تو آنسو ہو جائے

کتنی شدّت سے یہ چاہا تھا کبھی میں نے نبیلؔ

میں ترا نام لوں اور تو مرے ہر سو ہو جائے

٭٭٭

 

تمھیں اب چاند کہنا چھوڑ دوں کیا

میں گھر کے آئینے سب توڑ دوں کیا

یہ دریا کچھ زیادہ ہنس رہا ہے

اِسے صحرا کی جانب موڑ دوں کیا

مجھے سب یاد ہے ٹکڑوں میں یارو

تو اب ساری کہانی جوڑ دوں کیا

مجھے انجام کی پروا نہیں ہے

میں جس پُل پر کھڑا ہوں توڑ دوں کیا

٭٭٭

 

رک گیا روشنی کا سفر اے خدا

چاند سورج ہوئے سب کھنڈر اے خد۱

میری آوارگی کے قدم چوم کر

رقص کرنے لگی رہگذر اے خدا

سارے الفاظ جیسے دھواں ہو گئے

زخم جلنے لگے اس قدر اے خدا

کس نے تعظیم کی کس نے توہین کی

کون آیا گیا کیا خبر اے خدا

اور کب تک رہے گا یہی سلسلہ

اور کب تک رہوں دار  پر اے خدا

٭٭٭

 

کون آیا ہے کہ خوشیوں سے نگر چیخ اٹھا

ضبط کی ساری حدیں توڑ کے در چیخ اٹھا

مسئلوں کے کئی لشکر تھے مقابل میرے

ایک ہی وار میں دشمن کا جگر چیخ اٹھا

دھوپ کی قید سے آزاد کریں سوچا تھا

شاخ کاٹی بھی نہیں تھی کہ شجر چیخ اٹھا

اور ہنگامۂ شب اتنا بڑھا اتنا بڑھا

ہجر کی آگ میں مجھ جیسا نڈر چیخ اٹھا

ہم کہ بے سمت مسافر تھے ہمیشہ سے نبیلؔ

ہم جو ٹھہرے تو ہوا یوں کہ سفر چیخ اٹھا

٭٭٭

 

میری بے سمتی تھی ، میں تھا ، قافلہ کوئی نہ تھا

اک بگولہ ہم سفر تھا نقشِ پا کوئی نہ تھا

عادتاً سلجھا رہا تھا گتھّیاں کل رات مَیں

دل پریشاں تھا بہت اور مسئلہ کوئی نہ تھا

رک گئے میرے قدم اک آشنا آواز پر

اور جب دیکھا پلٹ کر کچھ نہ تھا کوئی نہ  تھا

اژدحامِ نا شناساں چھوڑ آیا تو کھلا

مجھکو اپنے شہر میں بھی جانتا کوئی نہ تھا

میں نہ جانے کون سی دنیا میں جا پہنچا ، جہاں

ہر  طرف بس میں ہی میں تھا دوسرا کوئی نہ تھا

جتنے خضرِ راہ تھے خاموش تھے مایوس تھے

منزلیں بکھری پڑیں تھیں راستہ کوئی نہ تھا

٭٭٭

تمہاری یاد یوں آئی ہے جیسے

بلا کی دھوپ میں ٹھنڈی ہوائیں

ز

سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہے میں بھی کیسا ہوں

خود اپنا راستہ مسدود کر کے بیٹھا ہوں

یہ ٹھاٹ باٹ نمائش ہے اور کچھ بھی نہیں

سنہری ڈور سے باندھا ہوا پرندہ ہوں

میں کوئی جھیل نہیں تھا قیام کیا کرتا

سفر پرست ہوں بہتا ہوں ایک دریا ہوں

جگر نکال کے ہاتھوں میں رکھ دیا لیکن

یہ اس کی ضد ہے کہ ثابت کروں میں سچّا ہوں

تمہاری بات الگ ہے تمہاری سوچ جدا

مگر میں جیسا تھا پہلے ابھی بھی ویسا ہوں

غیور تم ہو تو میں بھی بہت انا پرور

میں سات پردوں میں جیتا ہوں اور مرتا ہوں

نبیلؔ کچھ بھی تو اپنا نہیں ہے میرے پاس

کسی کی قرض ہیں سانسیں کسی کا چہرہ ہوں

٭٭٭

 

کیا ہوا بے صدا ہو گئے آپ ہم ، زندگی کے لیے جستجو کچھ تو ہو

شورِ محشر اٹھے یہ زمیں پھٹ پڑے ، کوئی ہنگامۂ ہاوہو کچھ تو ہو

نا مکمل لکھی سرگزشتِ جنوں کرب کی شدّتوں پر زوال آگیا

ایسا کیا ہو گیا اے دلِ حیلہ جو اس معمّے پہ اب گفتگو کچھ تو ہو

سر ہے بے آسماں یہ قدم بے زمیں لامکانی سے اچھے مراسم ہوئے

آسمان و زمیں جو نہیں سو نہیں ، میرے اطراف میں رنگ و بو کچھ تو ہو

دسترس میں نہیں راستوں کے نشاں فاصلہ مستقل ہے افق تا افق

کوئی منزل یا رہزن کبھی تو ملے ، الغرض اے خدا روبرو کچھ تو ہو

٭٭٭

 

پانی پہ یونہی کھینچی تھی میں نے کوئی صورت

ہر قطرۂ دریا ہوا جیسے کوئی صورت

پھر دفن ہوا جاتا ہوں میں اپنے بدن میں

چھانے لگی اعصاب پہ میرے کوئی صورت

یہ شہر ہے الجھی ہوئی شکلوں کا اک انبار

خوش بخت ہے جو ڈھونڈ نکالے کو ئی صورت

جو برف ہوا سرد رویّوں کی تہوں میں

وہ شخص پگھل جانے کی ڈھونڈے کوئی صورت

٭٭٭

 

سوچ افلاک صفت چہرہ کتابوں جیسا

گفتگو روشنی ، انداز ہے خوابوں جیسا

ق

ان سے ملیے کہ یہی لوگ ہیں سرمایۂ وقت

ان سے ملنا بھی ہے اک کام ثوابوں جیسا

میں کہ تھا علمِ ریاضی کے سوالوں کی طرح

اور وہ فلسفہ دانوں کے جوابوں جیسا

عشق کچھ اس طرح سمٹا کہ ہوا آبِ حیات

دور تک پھیل گیا حسن سرابوں جیسا

بڑھتا جاتا ہوں کسی منزلِ بے نام کی سمت

کٹتا جاتا ہے سفر یوں ہی عذابوں جیسا

٭٭٭

 

مری حیات کا یہ زاویہ عجیب رہا

مرا وجود ہمیشہ مرا رقیب رہا

عظیم تر ہے مری سوچ کا ہر اک پہلو

سو ہر خیال مرا رونقِ صلیب رہا

ہزار رنگ ہزاروں طرح کی خوشبوئیں

ورائے ہوش بہت اوج پر نصیب رہا

خیال و خواب کی دنیا عجیب ہوتی ہے

کبھی امیر ہوا میں کبھی غریب رہا

سلگتی راتوں میں تاروں سے دیر تک باتیں

ہم اہلِ عشق و وفا کا یہی نصیب رہا

٭٭٭

 

وہ کہ تھا رونقِ ہر شام و سحر کی صورت

اس کے جانے سے ہوا شہر کھنڈر کی صورت

سانحہ ہے کہ وہی ہم سے گریزاں گزرا

ہم ہوئے جس کے لیے راہ گزر کی صورت

جستجو ہے تو مرے ساتھ سمندر میں اتر

یوں ہی کیا دیکھتا رہتا ہے بھنور کی صورت

جانے کب تیز ہوا آئے اڑا کر لے جائے

ہم بھی ہیں سوکھے ہوئے برگِ شجر کی صورت

اک مدّت سے مری یاد بھی آئی نہ مجھے

ایک مدّت ہوئی دیکھے ہوئے گھر کی صورت

٭٭٭

 

ہر اک لمحہ سنبھلنا پڑ رہا ہے

مجھے رستہ بدلنا پڑ رہا ہے

سفر درپیش ہے ایسا کہ جس میں

کئی سمتوں میں چلنا پڑ رہا ہے

مکینوں پر پڑی افتاد ایسی

مکانوں سے نکلنا پڑ رہا ہے

زمین و آسماں کی وسعتوں کو

مرے شعروں میں ڈھلنا پڑ رہا ہے

غزل کی آگ سے بچنا تھا مشکل

سو ایسا ہے کہ جلنا پڑ رہا ہے

٭٭٭

 

بکھر رہا ہے مرا انگ انگ عالیجاہ

چھڑی ہوئی ہے اصولوں کی جنگ عالیجاہ

چراغ لے کے مقابل ہوا ہوں آندھی کے

اتارنا ہے ہواؤں سے زنگ عالیجاہ

منافقین کے نیزے جگر میں اترے ہیں

ہمارا لہجہ ہے پھر بھی دبنگ عالیجاہ

بچا کے رکھیے گا دستار و سر ، یہاں اکثر

برسنے لگتے ہیں محلوں پہ سنگ عالیجاہ

میں وہ کہ اب بھی سلامت ہوں جب کہ اس جا سے

گزر چکے کئی تیمور لنگ عالیجاہ

ہمارے طرزِ تخاطب پہ چونکتے کیوں ہیں

ہمیں ہے کوئی سلیقہ نہ ڈھنگ عالیجاہ

غزل نبیلؔ کی ہے خوب پر نہ آ پایا

زمینِ حضرتِ اسلمؔ کا رنگ عالیجاہ

٭٭٭

٭ اسلمؔ کولسری کی زمین میں

 

زخم زخم چہرے پر اک سکون رقصاں تھا

اور وہ سکوں میری زندگی کا ساماں تھا

جانے کون تھا جس نے حیرتوں کے دروازے

ایسے وا کئے مجھ پر عمر بھر میں حیراں تھا

عکس میری نظروں کا اس حسین چہرے پر

دیر تک چمکتا تھا دور تک نمایاں تھا

بات گو پرانی ہے پھر بھی یاد آتی ہے

مجھ سے بے وفائی پر وہ بہت پشیماں تھا

چھن گئے تھے پل بھر میں سب نشان منزل کے

ہر قدم پریشاں تھا ، راستہ گریزاں تھا

رات اک عجب منظر میں نے خواب میں دیکھا

سر نِگوں ہوائیں تھیں ہر طرف چراغاں تھا

ہانپتے ہوئے لمحے یہ سوال کرتے تھے

وقت کا سِرا تھامے کون چاک داماں تھا

٭٭٭

 

اگرچہ خوش ہوں میں سب کی خوشی میں

بہت غم ہیں مگر اس زندگی میں

کئی دریاؤں کی حاجت ہے مجھ کو

کئی صحرا ہیں میری تشنگی میں

جو باتیں تم سے اب تک کہہ نہ پایا

وہ سب لکّھی ہوئی ہیں ڈائری میں

کئی مصروف سڑکوں سے گزر کر

پہنچ جاتا ہوں اک سونی گلی میں

مجھے اک بات یہ کہنی ہے تم سے

کمی ہوتی ہے کچھ ہر آدمی میں

٭٭٭

 

مری نگاہ میں سورج زباں پہ دریا ہے

بلا کی دھوپ ہے میں ہوں مہیب صحرا ہے

یہ کس نے کر دیا ماحول پر جنوں طاری

یہ کون چاک گریباں یہاں سے گزرا ہے

ہر ایک شخص معمّہ ہر ایک شئے حیرت

نگار خانۂ دنیا میں سب تماشا ہے

کسی فقیر کے پیراہنِ بدن کی طرح

مرے نصیب کا لکھّا نہیں بدلتا ہے

ہماری دیدہ وری کے ہزار پہلو ہیں

کہ ہم نے رقص کناں خوشبوؤں کو دیکھا ہے

٭٭٭

 

آرزوؤں کی پیاس ہے دنیا

ایک خالی گلاس ہے دنیا

جس کے وارث بدلتے رہتے ہیں

ایک ایسا لباس ہے دنیا

اک مکمّل کتاب سے ماخوذ

مستقل اقتباس ہے دنیا

کیا کہوں کیا ہوا تمہارے بعد

بس مسلسل اداس ہے دنیا

نیم ہے ذائقے میں اور کبھی

شہد جیسی مٹھاس ہے دنیا

بے غرض یہ کبھی نہیں ملتی

کتنی مطلب شناس ہے دنیا

ہم فقیروں میں یہ رہی ہی نہیں

آپ جیسوں کے پاس ہے دنیا

٭٭٭

 

اک دیا دل کی حویلی میں جلا ہے شاید

پھر ہواؤں نے مجھے یاد کیا ہے شاید

میں بھی بیتی ہوئی باتوں پہ نہیں روتا کبھی

وہ بھی گزرے ہوئے دن بھول چکا ہے شاید

اب میں تنہائی میں باتیں نہیں کرتا خود سے

تیرے کھو جانے کا غم ٹوٹ رہا ہے شاید

وہ جو اک نام مرے لب پہ تھا آنے والا

میرے دل ہی میں کہیں ڈوب گیا ہے شاید

وہ لہو جس کا نشاں وقت کے رخسار پہ ہے

میری آنکھوں کی فصیلوں سے بہا ہے شاید

میں کسی سمت چلوں لَوٹ کے آتا ہوں یہیں

تیری گلیوں نے مجھے باندھ رکھا ہے شاید

ہر نیا شعر نئے درد سے روشن ہے نبیلؔ

میری سوچوں میں کوئی میرؔ چھپا ہے شاید

٭٭٭

 

ہمارے شعروں میں ایسا کمال ہوتا ہے

کہ جن کو سن کے ہر اک مست حال ہوتا ہے

ندی نہیں مرے اطراف اک سمندر ہے

یہاں بہاؤ سے بڑھ کر اچھال ہوتا ہے

میں کیا سوال کروں اے سخی ترے در پر

ترے جواب میں بھی اک سوال ہوتا ہے

لہولہان کئی دن سے ہوں چلے آؤ

تمہارے ملنے میں اک اندمال ہوتا ہے

تمہارا حال کوئی مختلف نہیں اے دوست

دلوں کے کھیل میں اکثر یہ حال ہوتا ہے

اتارتے رہو صدقے محبّتوں کے نبیلؔ

کسی کسی کو عنایت یہ مال ہوتا ہے

٭٭٭

یہیں پہ روک دے قصّہ سفید پوشوں کا

نہ جانے کس لئے سینے میں ٹوٹتا کچھ ہے

 

صبح سویرے خوشبو پنگھٹ جائے گی

ہر جانب قدموں کی آہٹ جائے گی

کیا ہو گا جب سال نیا اک آئے گا؟

جیون ریکھا اور ذرا گھٹ جائے گی

کتنے آنسو جذب کرے گی چھاتی میں

یوں لگتا ہے دھرتی اب پھٹ جائے گی

سارے سپنے باندھ رکھے ہیں گٹھری میں

یہ گٹھری بھی اوروں میں بٹ جائے گی

ہولے ہولے صبح کا آنچل پھیلے گا

دھیرے دھیرے تاریکی چھٹ جائے گی

اور بھلا کیا حاصل ہو گا صحرا سے

دھول مری پیشانی پر اٹ جائے گی

نقّارے کی گونج میں آخرکار نبیلؔ

سنّاٹے کی بات یونہی کٹ جائے گی

٭٭٭

 

ہم ترے ذکر کی محراب میں کھو جاتے ہیں

یعنی اک نشّۂ نایاب میں کھو جاتے ہیں

اب سمندر بھی ہمیں دیکھ کے ڈرتے ہیں کہ ہم

مسکراتے ہوئے گرداب میں کھو جاتے ہیں

کھینچ لیتے ہیں ہواؤں کی رگوں سے پانی

جب کسی وادیِ بے آب میں کھو جاتے ہیں

چند لمحے جو ملاقات کے ملتے ہیں کبھی

وہ بھی اکثر ادب آداب میں کھو جاتے ہیں

کوئی تعبیر بتا دے تو یہ عقدہ کھل جائے

کیوں مرے راستے ہر خواب میں کھو جاتے ہیں

اس طرح گم ہوئے ہم ان کی تمنّا میں نبیلؔ

جیسے کنکر کسی تالاب میں کھو جاتے ہیں

٭٭٭

عجیب وقت پڑا ہے ہم ایسے لوگوں پر

زبان جس کے نہیں وہ بھی بولتا کچھ ہے

 

علم کے بادل کھول

نقش مکمّل کھول

خواب ، دریچہ ، راز

سب کچھ پل پل کھول

رشتے کر ہموار

رسّی کے بل کھول

خاموشی مہمان

گھنگھرو ، پایل کھول

دروازے پر بھیڑ

آ کر مقتل کھول

ذہن کے سوتے خشک

فکر کی چھاگل کھول

کون آیا ہے دیکھ

آنکھیں بوجھل کھول

٭٭٭

 

باتوں میں بہت گہرائی ہے ، لہجے میں بڑی سچّائی ہے

سب باتیں پھولوں جیسی ہیں ، آواز مدھر شہنائی ہے

یہ بوندیں پہلی بارش کی ، یہ سوندھی خوشبو ماٹی کی

اک کوئل باغ میں کوکی ہے ، آواز یہاں تک آئی ہے

بدنام بہت ہے راہگزر ، خاموش نظر ، بے چین سفر

اب گرد جمی ہے آنکھوں میں اور دور تلک رسوائی ہے

دل ایک مسافر ہے بے بس ، جسے نوچ رہے ہیں پیش و پس

اک دریا پیچھے بہتا ہے اور آگے گہری کھائی ہے

اب خواب نہیں کِمخواب نہیں ، کچھ جینے کے اسباب نہیں

اب خواہش کے تالاب پہ ہر سو مایوسی کی کائی ہے

پہلے کبھی محفل جمتی تھی محفل میں کہیں تم ہوتے تھے

اب کچھ بھی نہیں یادوں کے سوا ، بس میں ہوں مری تنہائی ہے

٭٭٭

 

خاک ہونے سے مجھے اُس نے بچایا بھی نہیں

ہو چکا خاک تو پھونکوں سے اڑایا بھی نہیں

لُٹنے والا میں عجب ہوں کہ بڑی عجلت میں

لُٹ گیا اور کوئی شور مچایا بھی نہیں

ایک تصویر جو لفظوں سے بنا رکھّی ہے

ایک چہرہ جو خیالوں سے مٹایا بھی نہیں

حالِ دل راز کی صورت مرے سینے میں رہا

اس نے پوچھا بھی نہیں میں نے بتایا بھی نہیں

در و دیوار نہ پڑھ لیں مری آنکھوں میں تجھے

میں نے اس ڈر سے چراغوں کو جلایا بھی نہیں

٭٭٭

 

وقت کے جبر سے مجبور ہوئے جاتے ہیں

خواب آنکھوں سے بہت دور ہوئے جاتے ہیں

ہم نے جن لفظوں کو اشعار کی خلعت بخشی

کیا قیامت ہے کہ مغرور ہوئے جاتے ہیں

اور پھر مملکتِ عشق نے یہ بھی دیکھا

درد کے سلسلے دستور ہوئے جاتے ہیں

کھینچ کر پھر ہمیں لے آئے گی اپنوں کی کشش

یہ الگ بات ابھی دور ہوئے جاتے ہیں

ہائے وہ لوگ وہ پندار کے مارے ہوئے لوگ

اپنی ہی ذات میں محصور ہوئے جاتے ہیں

٭٭٭

 

لوگ پتھّر کے ، شہر آتش کا

وقت ہے میری آزمائش کا

قطرہ قطرہ پگھل رہا ہے فلک

جشنِ غم چل رہا ہے بارش کا

سارے آسیب دل کے اندر ہیں

فائدہ کیا ہے گھر کی بندش کا

زندگی جبر ہے اگر مولا

کیوں دھڑکتا ہے قلب خواہش کا

میرا اس سے ہے رابطہ اتنا

جتنا کوزے سے اس کی گردش کا

جستجو تھک کے بیٹھ جاتی ہے

اڑنے لگتا ہے رنگ کاوِش کا

آپ نے مجھ کو یاد فرمایا

شکریہ آپ کی نوازش کا

٭٭٭

 

تو کبھی پوچھ ، تو پھر حال بتاؤں تجھ کو

دیر تک روتا رہوں اور رُلاؤں تجھ کو

تو ہواؤں کی طرح چھو کے گزر جائے مجھے

میں ہمیشہ کی طرح ڈھونڈ نہ پاؤں تجھ کو

تو مرے خواب میں آ کر مجھے بیدار کرے

نیند بن کر میں چلا آؤں ، سلاؤں تجھ کو

تجھ کو پا جاؤں تو معصوم سے بچّے کی طرح

کھلکھلا کر ہنسوں ، آنکھوں سے لگاؤں تجھ کو

میں تری یاد کے جنگل میں پھروں عمر تمام

اور یوں ہو کہ کبھی یاد نہ آؤں تجھ کو

تو اگر پیاس کی صورت مرے ہونٹوں پہ رہے

اوس پلکوں سے چنوں اور بجھاؤں تجھ کو

تا کہ موجود رہے تو بھی سدا وقت کے ساتھ

اپنی غزلوں کی طرح خوب سجاؤں تجھ کو

٭٭٭

 

جستجو حیران بازاروں کے بیچ

کھو گئے ہیں راستے کاروں کے بیچ

تنگ ہوتی جا رہی ہے یہ زمیں

سر نکل آئے ہیں دیواروں کے بیچ

ہر طرف آلودگی ماحول میں

جنگ چھِڑ جائے نہ سیّاروں کے بیچ

یہ ترقّی واپسی ثابت نہ ہو

پھر نہ پہنچے آدمی غاروں کے بیچ

آنسوؤں کے ہیں نشاں ہر سطر میں

مسکراہٹ گُم ہے اخباروں کے بیچ

ظلم پر خاموش رہنا جرم ہے

ہم بھی شامل ہیں گنہگاروں کے بیچ

ایک تختی امن کے پیغام کی

ٹانگ دیجے اونچے میناروں کے بیچ

٭٭٭

 

کیا جانے کون لے گیا بادل سمیٹ کر

پیاسی زمین سو گئ آنچل سمیٹ کر

پھر ایک روز میں نے ہوا میں اڑا دیا

وہ یاد جس کو رکھّا تھا پل پل سمیٹ کر

لے جائے گی یہ عمرِ رواں خامشی کے ساتھ

تیرے بدن کے باغ سے صندل سمیٹ کر

ظالم ہمیں نہ چھیڑ کہ ہم فرطِ جوش میں

رکھ لیں گے اپنی جیب میں مقتل سمیٹ کر

آؤ سفر کی پھر سے کریں ابتدا نبیلؔ

بیٹھے ہیں کب سے راہ کی دلدل سمیٹ کر

٭٭٭

 

فصیلِ ذہن پہ جب تک خیال جلتے رہے

تجلّیوں کے نئے سلسلے نکلتے رہے

جواب تھے ہی نہیں جن کے کائنات کے پاس

ہمارے ذہنوں میں ایسے سوال پلتے رہے

غضب تھی پیاس کے شدّت ، بلا تھی دشت کی دھوپ

مگر وہ لوگ جو منزل کی سمت چلتے رہے

اگر یہی ہے حقیقت تو مجھ کو یہ بھی قبول

وہ اور لوگ تھے جو آئنے بدلتے رہے

اِسی کا نام ہے کیا زندگی عزیز نبیلؔ

قدم قدم پہ سنبھلتے رہے پھسلتے رہے

٭٭٭

 

آنکھوں کے غم کدوں میں اجالے ہوئے تو ہیں

بنیاد ایک خواب کی ڈالے ہوئے تو ہیں

تلوار گر گئی ہے زمیں پر تو کیا ہوا

دستار اپنے سر پہ سنبھالے ہوئے تو ہیں

اب دیکھنا ہے آتے ہیں کس سمت سے جواب

ہم نے کئی سوال اچھالے ہوئے تو ہیں

زخمی ہوئی ہے روح تو کچھ غم نہیں ہمیں

ہم اپنے دوستوں کے حوالے ہوئے تو ہیں

گو انتظارِ یار میں آنکھیں سلگ اٹھیں

راہوں میں دور دور اجالے ہوئے تو ہیں

ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ

اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں

٭٭٭

 

وہ حرف ہوں لبوں پہ جو اترا نہیں کبھی

وہ اشک ہوں جو آنکھ تک آیا نہیں کبھی

آنکھوں کی کائنات میں خوابوں کا اک ہجوم

تعبیر کی تلاش میں سویا نہیں کبھی

وہ میری زندگی ہے مرا اعتبار ہے

لیکن یہ بات اُس کو بتانا نہیں کبھی

دل وہ خلا نورد مسافر ہے دوستو

جو درد کے مدار سے نکلا نہیں کبھی

وہ جس کی جستجو نے مجھے راکھ کر دیا

وہ چاند آسمان سے اترا نہیں کبھی

جو لکھ رہا ہوں وہ کبھی سوچا نہیں نبیلؔ

جو سوچتا ہوں میں نے وہ لکھّا نہیں کبھی

٭٭٭

 

ورنہ کیا ہے جو دسترس میں نہیں

صرف تو ہے جو میرے بس میں نہیں

صبر آیا ہے ایک عمر کے بعد

ایک دو چار چھ برس میں نہیں

پھر بھی چاروں طرف ہیں دیواریں

جبکہ اپنوں میں ہوں قفس میں نہیں

پاؤں آگے بڑھا مرے بھائی

منزلیں راہِ پیش و پس میں نہیں

اِن چراغوں نے تو بغاوت کی

اے ہوا تو بھی دسترس میں نہیں ؟

جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہا ہوں میں

اتنی ہمّت بھی ہر نفَس میں نہیں

٭٭٭

 

نیند آنکھوں کے دریچوں میں جَگا کرتی ہے

خواب کے دشت میں بس دھول اُڑا کرتی ہے

سر جھکاتا ہوں میں جب اپنے بڑوں کے آگے

زندگی مجھ کو مرے قد سے بڑا کرتی ہے

آسماں وقت کی دھُن چھیڑ کے سر دھنتا ہے

موج میں آ کے زمیں رقص کیا کرتی ہے

مضمحل آنکھیں کِواڑوں پہ ٹکی رہتی ہیں

سرد ہونٹوں پہ کوئی بات جَلا کرتی ہے

میری سوچوں کے تعاقب میں اک آواز نبیلؔ

وقت کے ساتھ دبے پاؤں چلا کرتی ہے

٭٭٭

 

سب دروازے شام سے پہلے بند ہوئے

اِس بستی میں کھیل تماشے بند ہوئے

آنے والا وقت مسلسل سوچ میں ہے

کس زِنداں میں گزرے لمحے بند ہوئے

اک صندوق ہے رات کے اندھے ہاتھوں میں

جس میں سارے چاند ستارے بند ہوئے

ذہن کی خالی سڑکوں پر بے کار پھِروں

سوچ نگر کے سب دروازے بند ہوئے

لوگوں کی کم ظرفی دیکھ کے ہم بھی نبیلؔ

اپنے خول میں دھیرے دھیرے بند ہوئے

٭٭٭

 

خواب سنہرے بنتے رہنا عادت ہو گئی ہے

تعبیروں کی کھوج میں رہنا قسمت ہو گئی ہے

ویسے تو سب کھیل تمہارے سوچے سمجھے ہیں

لیکن اب کی بار ذرا سی عجلت ہو گئی ہے

جانے کتنا وقت لگے گا خود کو پانے میں

جانے والے مجھ کو تیری عادت ہو گئی ہے

جن سے مل کر دل کا شیشہ ٹکڑوں میں بٹ جائے

ایسے پتھر لوگوں سے اب وحشت ہو گئی ہے

اب کیا کہنا غزلیں نظمیں ، کون سنے گا نبیلؔ

اِس بستی سے دل والوں کی ہجرت ہو گئی ہے

٭٭٭

 

کیا خبر کب گر پڑے یہ آسماں گردش میں ہے

بے خبر ہیں رہنے والے اور مکاں گردش میں ہے

مجھ میں اک محفل جمی ہے جس میں تو ہے محوِ رقص

اور اک خواہش ہمارے درمیاں گردش میں ہے

چلتے چلتے رک کے یہ دیکھا مسافر نے نبیلؔ

راستے سب چل رہے ہیں ، ہر نشاں گردش میں ہے

بھر لو اپنی خشک آنکھوں میں بکھرتی سرد راکھ

جل چکے ہیں خواب سارے بس دھواں گردش میں ہے

دور جا نکلا ہوں لیکن جسم و جاں میں آج بھی

ہر گھڑی کوئی صدائے رائگاں گردش میں ہے

گردشوں میں آ گئے ہیں آپ کے تارے تو کیا

مجھ سے پوچھیں میری پوری کہکشاں گردش میں ہے

جانے موجوں سے ہوا نے کیا کہا ہو گا نبیلؔ

خوف کے عالم میں بحرِ بیکراں گردش میں ہے

٭٭٭

 

درد اشعار کے معبد میں جواں ہونے لگا

جو زمیں دوز خزانہ تھا عیاں ہونے لگا

آج پھر خواب میں کچھ بھولے ہوئے لوگ آئے

آج پھر دل کے جزیرے میں دھواں ہونے لگا

چند سوکھے ہوئے پتّوں نے لکھا درد کا گیت

موسمِ گل کا ہر انداز خزاں ہونے لگا

دکھ کئی اور تھے لیکن تجھے کھو دینے کا دکھ

ایسا دریا تھا جو آنکھوں کی زباں ہونے لگا

منتشر تھا مرے آگے جو سمندر ، اک دن

میرے قدموں سے سفر لے کے رواں ہونے لگا

کاٹ دیں ہم نے چراغوں کی لویں رات ڈھلے

اور پھر صبح کے ہونے کا گماں ہونے لگا

لفظ گرنے لگے احساس کی جھولی میں نبیلؔ

آخری بار ترے غم کا بیاں ہونے لگا

٭٭٭

 

اب کے بارش نے کیے روح کے شیشے زخمی

دھوپ نکلی تو ہوئے جسموں کے سائے زخمی

تم نے آواز کو زنجیر سے کسنا چاہا

دیکھ لو ہو گئے اب ہاتھ تمہارے زخمی

خون آلود تھی ہر ایک کرن سورج کی

آج سورج نے اتارے تھے اجالے زخمی

صبح تک آنکھ سے جاری تھی لہو کی بارش

خواب میں آئے تھے کچھ شور مچاتے زخمی

آج امّید کا اک اور دیا ٹوٹ گیا

آج پھر وقت کی پلکوں پہ تھے لمحے زخمی

٭٭٭

 

کیا دام لگاؤں کہ ترے دام بہت ہیں

اے وقت گزر جا کہ مجھے کام بہت ہیں

کس نام سے آواز دوں تجھ کو مری دنیا

ویسے تو ترے روپ بہت، نام بہت ہیں

ہر ہاتھ میں پتھّر نکل آئے تو عجب کیا

ہم یوں بھی ترے شہر میں بدنام بہت ہیں

جو رات کی ظلمت سے بچا لے وہ فقط میں

ٹوٹے ہوئے تارے تو سرِ شام بہت ہیں

٭٭٭

 

ہمارے بیچ ہے کیوں اتنا فاصلہ جاناں

یہ ایک بات کسی روز سوچنا جاناں

میں تیرے شہر کی گلیوں میں گم ہوا ایسے

نہیں ہے کوئی پلٹنے کا راستہ جاناں

بہت غرور ہے اپنی عنایتوں پہ تجھے

تو میرا ساتھ نہ دے ہو جا بے وفا جاناں

بھٹک رہا ہوں ترے ہجر کی تھکان لیے

سمیٹ لے یہ جدائی یہ فاصلہ جاناں

نبیلؔ نے تری سانسوں میں خوشبوئیں بھر کر

کچھ اور بھی تجھے مغرور کر دیا جاناں

٭٭٭

 

مری غیبت تو اس کا مشغلہ ہے

مگر تم نے گوارا کر لیا کیا؟

سرِ محفل کھڑے ہو ہاتھ ملتے

سفر سب بے ارادہ کر لیا کیا؟

بہت اونچی اڑانیں بھر رہے ہو

بکھرنے کا ارادہ کر لیا کیا

زمیں والوں سے اتنی دوریاں کیوں

ستاروں میں ٹھکانہ کر لیا کیا؟

٭٭٭

 

دیوارِ انتظار پہ چپکا ہوا سا ہوں

اک اور ہی جہان میں پہنچا ہوا سا ہوں

طاری ہے اک عجیب تعطّل سا اِن دنوں

کمرے کے ایک کونے میں رکھّا ہوا سا ہوں

آنکھوں میں چبھ رہی ہیں مسافت کی کرچیاں

رستوں کے پھیلے جال میں الجھا ہوا سا ہوں

کس شہرِ احتیاط میں رہنا پڑا مجھے

مدّت سے اپنے آپ کو بھولا ہوا سا ہوں

کل جب اُسے ملا تو عجب دل کا حال تھا

جیسے کہ سارے داؤ ہی ہارا ہوا سا ہوں

کیا جانے کون روک رہا ہے مرے قدم

کس کی گلی کے موڑ پر ٹھہرا ہوا  سا ہوں

عرصہ ہوا نبیلؔ سے باتیں کئے ہوئے

عرصے سے زندگی تجھے کھویا ہوا سا ہوں

٭٭٭

 

کیسے عجیب لوگ ہیں غمناک بھی نہیں

یوں رائگاں ہوئے ہیں کہ ادراک بھی نہیں

مانا کہ ایک دوست نے رستہ بدل لیا

ہے سانحہ پر اتنا المناک بھی نہیں

میرا لباس سچ ہے وہی زیب تن بھی ہے

اور میرے پاس دوسری پوشاک بھی نہیں

یہ حکم ہے کہ ہو کوئی تخلیق شاہکار

کوزہ گروں کے پاس مگر چاک بھی نہیں

آخر سبھی حریف ہوئے رزقِ ماہ و سال

باقی ہے اک نبیلؔ جو چالاک بھی نہیں

٭٭٭

 

شرط ہے ایک سفر عالمِ وحشت کی طرف

تیر ہر ایک نظر ہے مری جرأت کی طرف

اور کچھ دیر ٹھہر اے مرے خوش رنگ خیال

ذہن الجھا ہے ابھی ایک ضرورت کی طرف

جس طرف جا کے سبھی سنگ میں تبدیل ہوئے

دل دھڑکتا ہے اسی کوچۂ حیرت کی طرف

اک سفر یوں بھی کیا ہم نے سرِ جادۂ شوق

دل عقیدت کی طرف عقل بغاوت کی طرف

حیرتیں ٹوٹ پڑیں لشکرِ اعداء پہ نبیلؔ

ہم نے دیکھا ہی نہ تھا مالِ غنیمت کی طرف

٭٭٭

 

رقص حیران ہے پیروں میں کرن باندھے ہوئے

جیسے اک شعر ، نیا رنگِ سخن باندھے ہوئے

تو کہاں کھو گئی اے نیند کہ سڑکوں پہ تری

کب سے پھرتا ہوں میں خوابوں کا بدن باندھے ہوئے

ق

رات کی راکھ تلے نیند کا غم دفن کروں

مضمحل پلکوں سے خوابوں کی تھکن باندھے ہوئے

ایک شہکار تراشوں میں ترے حسن کے نام

ہر رگِ سنگ سے فنکار کا فن باندھے ہوئے

کرچیاں چنتا ہوں میں اپنے ادھورے کل کی

ایک بھرپور سویرے کی لگن باندھے ہوئے

چاند بھی ڈوب رہا تھا مرے دل کے ہمراہ

اپنا غم، اپنی تھکن، اپنی جلن باندھے ہوئے

کون یہ میری غزل گاتا ہے صحرا میں نبیلؔ

اپنی آواز میں صدیوں کی اگن باندھے ہوئے

٭٭٭

 

اس بار ہواؤں نے جو بیداد گری کی

پھر میرے چراغوں نے بھی شوریدہ سری کی

میں نے کسی ہنستے ہوئے لمحے کی طلب میں

اس شہرِ دل آویز میں بس دربدری کی

کچھ اور وسیلہ مرے اظہار کو کم تھا

سو میں نے مری جان سدا شعر گری کی

اے عہدِ رواں میں ترا مہمان ہوا تھا

لیکن ترے لوگوں نے بڑی بے خبری کی

حالانکہ کئی لوگ ہیں ناراض بھی مجھ سے

جو بات بھی کی میں نے بہرحال کھری کی

پڑھ لیتی ہیں لفظوں کا تنفّس مری سوچیں

کچھ داد تو دی جائے مری دیدہ وری کی

میں وہ کہ ہوں صدیوں کی مسافت کا مسافر

ہر لمحے کی آہٹ نے مری ہم سفری کی

٭٭٭

 

آخری منظر

چلو اب لوٹ چلتے ہیں

چلو اُس آخری منظر کی جانب لوٹ چلتے ہیں

کہ جس کی نیم جاں آنکھوں کے اک محفوظ گوشے میں

ہم اب تک سانس لیتے ہیں

وہ اک منظر کہ جس کی چھاؤں میں

یادوں کے کچّے راستے آرام کرتے ہیں

وہ سارے راستے جن پر ہماری جستجو اور آرزوؤں کی کہانی

آج تک ٹھہری ہوئی ہے

            اور ہمارے لوٹ آنے کی دعائیں مانگتی ہے

وہی منظر کہ جس کی جگمگاتی انگلیاں پکڑے ہوئے ہم

 زندگی کی نامکمل ساعتوں کا سب اندھیرا پن

            اجالوں میں بدلتے جا رہے ہیں

وہی منظر کہ جس کی کوکھ سے ہر صبح لاکھوں آشنا منظر نکلتے ہیں

                        چلو اُس آخری منظر کی جانب کوچ کرتے ہیں

٭٭٭

 

آوازِ دوست

وہ جب آواز کی لہروں پہ

محوِ رقص

وارفتہ نظر

میری طرف راہیں بناتا ہے

میں نیلے آسمانوں ، چاند تاروں

اور مہکتی سرزمینوں کی

سماعت میں

کبھی قوسِ قزح کے سارے رنگوں  میں

نظر آتا ہوں فرطِ جوش میں ہاتھوں کو پھیلائے

وہ سارے راستے

جو میری جانب مسکراتے ہیں

انہیں پلکوں پہ رکھتا ہوں

میں استقبال کرتا ہوں

٭٭٭

 

شب گرفتہ

رات کا قافلہ خیمہ زن ہو چکا

شب گرفتہ ستارے اجڑنے لگے

صبح پھر اک مسافت کو تیار ہے

ہم کہ راتوں کی وحشت کے دلدادگاں

روشنی کی سیاست کے مارے ہوئے

سوچتے ہیں کہ صدیوں میں پھیلا ہوا

یہ نحوست بھرا دن گزر جائے تو

دن کے اہرام سے اٹھ کے باہر چلیں

اور پھر اک شب زندگی جی سکیں

٭٭٭

 

سوالوں کا ترکش

سوالوں کے بڑے انبار ہیں اِس دل کے صحرا میں

مجھے لوگوں سے گردو پیش سے

کچھ پوچھنے کی آرزو بے چین رکھتی ہے

گزرنے والے ہر لمحے سے مجھ کو پوچھنا یہ ہے

کہ کیا زنبیل میں اُس کی

کوئی ایسی کلیدِ ساحری یا کو ئی ایسا اسمِ اعظم ہے

جو اُن لمحوں کو واپس لا سکے

جن کو مسائل کے گھنے جنگل میں

اپنی کم نگاہی اور اپنی کم نصیبی کے سبب کھوتا رہا ہوں میں

وہ سب لمحے جو میری زندگی کے استعارے ہیں

مری سوچوں کے محور ہیں

سمندر کے کناروں سے مجھے دریافت کرنا ہے

مجھے کیوں اچھّے لگتے ہو؟

سمندر کے کنارے آ کے میں کیوں اپنے سب غم بھول جاتا ہوں

میں اپنے دل کی ہر الجھن کو

 کیوں ساحل کی گیلی ریت کے ذرّوں میں گم ہوتا ہوا محسوس کرتا ہوں

سمندر کیوں مجھے تم اچھّے لگتے ہو؟

مجھے اُس سے جو میرے واسطے اب اجنبی ہے پوچھنا یہ ہے

کہ کیا وہ فیصلہ جس کے سبب ہم مختلف راہوں پہ جا نکلے

کبھی اُس فیصلے کی سسکیوں نے

اُس کے تکیئے کو بھگویا ہے؟

مجھے راتوں ، ستاروں اور اُجلے چاند کی سرگوشیوں سے جاننا یہ ہے

کہ آخر عاشقوں اور درد کی ماری ہوئی روحوں کا

اُن سے کیا علاقہ ہے؟

شبوں کی راکھ میں یہ نسخۂ راحت فزا کس نے ملایا ہے

مجھے اُس مقبرے سے جس میں دنیا بھر کے لوگوں کی

ادھوری آرزوئیں  ،  حسرتیں اور خواب جا کر دفن ہوتے ہیں

یہی معلوم کرنا ہے

کہ اتنے سخت جاں کیوں ہو؟

یہاں تو چند خوابوں اور مٹھّی بھر امیدوں نے

مجھے تا عمر کانٹوں پر چلایا ہے ، جہنّم زاد شعلوں میں مجھے پل پل جلایا ہے

مجھے بے حال رکھّا ہے ، بہت آنسو  رُلایا ہے

تم اتنے سخت جاں کیوں ہو؟

مجھے اِس شہر سے ، اِس شہر کے لوگوں سے بس یہ پوچھنا ہے کہ

یہاں معصوم بچّوں کے لبوں پر مسکراہٹ کیوں نہیں ہوتی؟

یہاں مقتل تو ملتے ہیں کبھی قاتل نہیں ملتا؟

وفاداری کے چہرے پر یہاں کیوں شک کے وحشتناک سائے رقص کرتے ہیں ؟

بھروسے کی جبیں پر گمشدہ یہ کس نے لکھّا ہے؟

وہ میرا شہر جو ہر وقت ہنستا مسکراتا تھا

اُسے کس نے چرایا ہے؟

مجھے خود کو بھی اپنے ہی سوالوں سے گزرنا ہے

مجھے خود کو بتانا ہے کہ میرے ذہن کے ترکش میں

بے ہنگم سوالوں کے کہاں سے تیر آتے ہیں ؟

مجھے یہ پوچھنا ہے اپنے شاعر سے

کہ میں کیوں شعر کہتا ہوں ؟

مرے کہنے نہ کہنے سے کہاں کچھ فرق پڑتا ہے

٭٭٭

 

جزیرہ

عمر کے جزیرے  میں

خواہشیں ، تمنائیں

آدیواسیوں جیسی

زندگی بِتاتی ہیں

عمر کے جزیرے پر

وقت کے سمندر کی

سنگ بار لہروں نے

بے پناہ شدت سے

کر دیئے کئی حملے

عمر کے جزیرے کے

سب کنارے کٹ کٹ کر

وقت کے سمندر میں

غرق ہوتے جاتے ہیں

٭٭٭

 

قحطِ مناظر

یہ کیسا قحطِ مناظر کا دور ہے یارب

نہ عکس ہے نہ شباہت کوئی مکمل ہے

نہ کوئی منظری پس منظری کی صورت ہے

ہجومِ دیدہ وراں منظروں کی خواہش میں

بھٹک رہا ہے ندیدوں کی طرح شام و سحر

مگر یہ حال کہ بے منظری مسلّط ہے

پگھل چکے ہیں مناظر جھلس چکی ہے نظر

یہ کیسا قحطِ مناظر کا دور ہے یارب

٭٭٭

 

نور چہرہ لوگ

زندگی کے سب رشتے

اک مقام پر آ کر

ساتھ چھوڑ جاتے ہیں

خوشبوؤں کا پھولوں سے

موج کا کناروں سے

آنسوؤں کا آنکھوں سے

ربط ٹوٹ جاتا ہے

جسم اور سانسوں کا

خواب اور آنکھوں کا

پیڑ اور پتوں کا

ساتھ چھوٹ جاتا ہے

٭٭٭

 

ملک مصیب الرحمن  (ابن الحبیب احقرؔ) کی یاد میں

ایسے اک شخص کی رحلت کا مجھے صدمہ ہے

جس کے جانے کی خبر پر مجھے شک ہے اب تک

شدّتِ غم میں وہ حدّت ہے کہ جلتا ہے دماغ

اُس کو سوچوں تو خیالوں سے دھواں اٹھتا ہے

لکھنے بیٹھوں تو جھلس جاتا ہے ہاتھوں میں قلم

اور بولوں تو سلگ اٹھتے ہیں ہونٹوں پہ حروف

ایسے اک شخص کی رحلت کا مجھے صدمہ ہے

ایسا لگتا ہے اچانک وہ چلا آئے گا

پھر وہی شوخئ گفتار وہی علم کا نور

وہی اندازِ تخاطب وہی باتوں کا کمال

اپنے لہجے سے ہر اک سمت کو مہکا دے گا

سارے احباب بس انگشت بدنداں ہوں گے

ایسے اک شخص کی رحلت کا مجھے صدمہ ہے

اُس کے جانے سے وہ نقصان ہوا اردو کا

جس کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا

شاعری زلفِ پریشاں کی طرح بکھری ہے

نثر کی دیدۂ حسرت سے لہو جاری ہے

چاک دامان و گریباں ہے ادب کی دنیا

آہ و زاری کا ہے اک سلسلہ ہر سو دائم

شورِ ماتم ہے کہ اے وائے مصیب الرحمن

دردِ پیہم ہے کہ اے وائے مصیب الرحمن

آنکھ ہر نم ہے کہ اے وائے مصیب الرحمن

ایک ہی غم ہے کہ اے وائے مصیب الرحمن

٭٭٭

 

شہرِ دل

شہرِ پر سوز و طربناک  تجھے تیری قسم

صرف اک بار مجھے  اِذنِ حکایت دیدے

میری درماندہ  محبت کی کہانی سن لے

نیم خوابیدہ  تمنّاؤں کو جرا ت دیدے

آخری بار تجھے غور سے میں دیکھ تو لوں

کوچ کر جاؤں گا پھر داغِ جدائی دے کر

میں چلا جاؤں گا حالات کے پہلو پہلو

اپنے ماضی کے سسکتے ہوئے لمحے لے کر

ہاں اگر کچھ بھی نہیں جشنِ مسرت ہی سہی

ترے کوچے سے کبھی میرا گذر ہو کہ نہ ہو

میں بھی  اب کچھ نہ کہوں تو بھی بھلا دے سب کچھ

کس کو معلوم کہ اب شام و سحر ہو کہ نہ ہو

میرا سامانِ حفاظت تری یادیں ہوں گی

چند ہنستی ہوئی روتی ہوئی پیاری یادیں

بات کرتی ہوئی چپ چاپ سی اٹھلائی ہوئی

ہچکچاتی ہوئی روٹھی ہوئی ساری یادیں

یعنی ایّامِ گذشتہ کی شکستہ یادیں

ذہن و احساس کی گلیوں میں بہت ڈھونڈوں گا

جو ترے قرب کی لذّت سے شناسا تھے کبھی

وہ شب و روز باندازِ جنوں پوجوں گا

تلخ ایّام جو گذرے ہیں ترے زیرِ نگیں

انکی ٹیسوں کو یہاں چھوڑ کے کیسے جاؤں

تجربے اور تری یادیں ہیں جس میں محفوظ

ایسے کشکول کو میں توڑ کے کیسے جاؤں

یا پھر ایسا ہو کہ ہمراہ مرے  تو بھی چلے

ان خلاؤں سے پرے دور نکل جائیں گے

تجربے درد کے اور یادوں کے جگنو ہوں گے

ساری دنیا سے جدا رختِ سفر باندھیں گے

سوچتا ہوں کہ تری بزم میں آیا کیوں تھا

کس لیے دردِ مسلسل کا خریدار بنا

کرب آمیز ملاقات کی حاجت کیا تھی

اور کیوں جرمِ محبت کا گنہگار بنا

ٹوٹتے دل کی بکھرتی ہوئی کرچیں لے کر

میں بہت دور بہت دور چلا جاؤں گا

جب کبھی مجھ سے ملاقات کی خواہش جاگے

ایک آواز ہی کافی ہے چلا آؤں گا

٭٭٭

 

پھر وہی رات

پھر وہی درد میں ڈوبی ہوئی بے رنگ سی رات

کرب کی  آخری  سرحد سے گذرتی ہوئی رات

جس کی جلتی ہوئی آنکھوں سے نمی جھانکتی ہے

مجھ سے ایّامِ گذشتہ کا پتہ مانگتی ہے

اور اک میں کہ بڑی دیر سے سنّاٹے میں

سوچتا ہوں کہ بھلا مجھ سے یہ کیا چاہتی ہے

میں تہی دست کسی کاسۂ  سائل کی طرح

یا کسی تشنہ دہن سوکھتے ساحل کی طرح

آخر اس رات کی تقدیر سنواروں کیسے

غم و اندوہ کے ملبے سے نکالوں کیسے

 گم گشتہ کہ جس کا نہ سرا ہے نہ سراغ

عمرِ گم گشتہ کا میں اِس کو پتہ دوں کیسے

ہاں مگر ذہن کے گوشے میں بہت دور کہیں

ایک مانوس سا چہرا ہے ابھی جلوہ نشین

اتنا مانوس کہ ہمزاد ہو جیسے میرا

اُس کے ہونٹوں پہ مچلتا ہوا میرا لہجہ

مجھ سے یہ بات بڑے کرب سے کہتا  ہے نبیلؔ

کون سے یگ میں ہو اتنا تو بتایا ہوتا

چند بے ربط سے خاکے ہیں سرِ شہرِ خیال

ہجر ہی ہجر ہے مفقود ہے امکان وصال

کون بیتے ہوئے لمحوں سے سوالات کرے

عہدِ ماضی سے بھلا کون شکایات کرے

کرب و آلام جب اِس رات کی قسمت ٹھہری

آسماں کیسے ملاقات کی برسات کرے

ہائے یہ رات تو ہلکان کئے دیتی ہے

ذہن و احساس کو بے جان کئے دیتی ہے

کیسے بتلاؤں کہ وہ ساری کی ساری شکلیں

جن کی آواز کی خوشبو ہے ابھی تک دل میں

جانے کس شہر میں کس موڑ پہ کھو بیٹھا ہوں

 مرے ہمراہ تو اب کچھ  بھی نہیں بس یادیں

پھر بھی جو کچھ ہے مرے پاس وہ اس رات کے نام

کرب آلود سسکتے ہوئے لمحات کے نام

مطلعِ شب کے جنوں پیشہ سوالات کے نام

شبِ تاریک میں جلتے ہوئے جذبات کے نام

یعنی یہ رات کہ جس کے ہیں ہزاروں پہلو

میری اِس رات کا ہر لمحہ اسی رات کے نام

٭٭٭

 

ماں

ماں سرِ چرخ چمکتا ہوا پہلا تارا

ماں کسی ریگِ بیاباں میں شجر کا سایہ

ماں دھنک رنگ و فسوں خیز نسیمِ گلزار

ماں علی الصبح دل آویز گلوں کی مہکار

ماں در و بام ، کوئی چھت ، کسی گھر کا آنگن

ماں ہوا ، پانی ، شفق اور دلوں کی دھڑکن

ماں کسی عہد کی تکمیل کا پہلا رستہ

ماں کسی قوم کی تقدیر کا پیارا گہنا

ماں کی آغوش میں جنّت کا سہانا لمحہ

ماں کے بوسے میں نہاں سب سے سنہرا لمحہ

ماں کے لہجے میں کھنکتی ہے دعا کی خوشبو

ماں کے آنچل سے برستی ہے وفا کی خوشبو

ماں کی تقدیس پہ ہو جائیں فرشتے قربان

ماں کی ممتا میں سما جائے محبّت کا جہان

ماں بہرحال ، بہر طور یقین و ایمان

ماں بہر رنگ ، بہر سمت وفا کا عنوان

٭٭٭

 

فلسطین

اے مورّخ ترے ہاتھ سے چھوٹ کر

دیکھ قدموں میں تیرے قلم گر گیا

جا بجا روشنائی بکھر سی گئی

جیسے چھینٹے لہو کے ہوں پھیلے ہوئے

وہ لہو سرزمینِ فلسطیں جسے

اپنے آغوش میں جذب کرتی رہی

وہ لہو آسمانِ فلسطیں جسے

چشمِ حیرت سے مایوس تکتا رہا

وہ لہو جو نہتّے بدن سے بہا

وہ  لہو جو کہ بچّوں کے تن سے بہا

وہ  لہو ماں کے آنچل پہ جو جم گیا

وہ  لہو جس کے بہنے کا کوئی اثر

نسلِ انسانیت پر ہوا ہی نہیں

عہدِ حیوانیت پر ہوا ہی نہیں

اے مورّخ قلم ہاتھ میں پھر اٹھا

جا بجا روشنائی بکھرنے نہ دے

وہ مقدّس لہو جو شہیدوں کا ہے

اس کو مضموں بنا ، کوئی عنوان دے

عہدِ حیوانیت کی ڈگر پر نہ جا

اپنی انسانیت آسمانی بنا

اپنی انسانیت جاودانی بنا

٭٭٭

 

بے خوابی

نیند آنکھوں میں کسی ڈوبتے تارے کی طرح

کسمساتی ہے سمٹ جاتی ہے مر جاتی ہے

صندلیں ہاتھوں سے دستک کبھی دیتی ہے مگر

ذہن کی آہنی دیوار سے ڈر جاتی ہے

گاہ خوش رنگ خیالوں کا لبادہ اوڑھے

کسی نشتر کی طرح دل میں اتر جاتی ہے

یا کبھی کوئی ستم پیشہ محبت بنکر

پاس آتی ہے مگر آ کے گذر جاتی ہے

ذہن شوریدہ خیالوں کا الم بستہ ہجوم

اپنے کاندھوں پہ لیے  بھاگ رہا ہے ایسے

جیسے ٹھہرے گا تو پتھر میں بدل جائے گا

جیسے کٹ جائیگا شمشیرِ برہنہ کے تلے

جیسے قدموں سے زمیں دور سرک جائے گی

جیسے اِس موڑ کے اُس پار بہت آگے اُدھر

کوئی دوشیزہ کھڑی ہو اُسے ملنے کے لیے

سرد ہوتی ہوئی آنکھوں کی فصیلوں سے پَرے

ایک ہنگامۂ محشر ہے کہ بڑھتا جائے

ریت اڑتی ہوئی سنسان گلی کوچوں میں

رات کا اونگھتا سنّاٹا بکھرتا جائے

زنگ آلود ستاروں کا دھواں ساتھ لیے

چاند ہر لمحہ کسی آگ میں جلتا جائے

نیم کی شاخ پہ مرتا ہوا تنہا جگنو

درد کا آخری پیغام سناتا جائے

آہ اس درجہ اذیّت نہیں جھیلی جاتی

اتنی وحشت ہے کہ دل آج ہی مرنا چاہے

روح لٹکی ہے صلیبِ درِ تنہائی پر

سرد آنکھوں میں بس اک بار مچلنا چاہے

اور یہ جسم کہ بے خواب و جنوں پروردہ

شبِ بے  رحم کی سفّاکی سے بچنا چاہے

اور پھر بسترِ کمخواب میں آزادی سے

ایک دو عمر کسی غار میں سونا چاہے

٭٭٭

 

عزیز نبیلؔ کی شاعری

مشاہیرِ ادب کا اظہارِ خیال

 پروفیسر مظفّر ؔ حنفی، نئی دہلی

اردو کی نئ بستیوں میں کچھ آوازیں ایسی اور اتنی توانا بھی ہیں کہ ان کی بازگشت سمندروں کو پار کرتی ہوئی ہماری سماعتوں کو چھو لیتی ہیں۔ عزیز نبیلؔ ماشا اللہ ایسے ہی ایک خوش آہنگ قلم کار ہیں۔ ان کی غزلیں یوں تو ہند و پاک کے متعدّد ادبی رسائل میں نظر سے گزرتی رہی ہیں لیکن چند ماہ قبل سہ ماہی مژگاں (کلکتہ) میں بیک وقت موصوف کی دس غزلیں شائع ہوئی تھیں چاہا تھا کہ ان پر سرسری نگاہ ڈال کر آگے بڑھ جاؤں لیکن ان میں سے کئی ابیات نے دامنِ دل کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا اور بغور پڑھنے پر مجبور کر دیا۔ دیکھتا ہوں کہ یہ جواں سال فنکار مادرِ وطن سے دور اور ادبی مراکز کے فیوض سے محروم رہتے ہوئے بھی دل میں اتر جانے والے اشعار کہہ رہا ہے۔ عصری حسّیت اور خود آگہی کے تانے بانے سے اس کے تخلیقی شعور نے جو معطّر اور ہفت رنگ فضا اپنی غزلوں میں تخلیق کی اس کی خوابناکی اور تحیّر خیز کیفیت کو اہلِ نظر ، نظر انداز نہیں کر سکتے۔

پروفیسر شہپر رسول، جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی

عہدِ حاضر میں کوئی عظیم شاعر خواہ پیدا نہ ہوا ہو لیکن ایسے شعراء کی تعداد خاصی نظر آتی ہے جن کو اچھّا اور منفرد کہا جا سکے۔ عہدِ رواں کو خواہ نثر کا عہد کہا جاتا ہو لیکن آج کی شاعری مختلف اور تازہ کار ضرور ہے، نیز گلوبلائزیشن کے آر پار دیکھا جائے تو اُس کا کینوس بھی خاصا وسیع نظر آتا ہے۔  روایت اور جدّت کے مناقشوں سے دور نیا اور اچھّا شاعر فن اور سچ کا متلاشی ہے۔ وہ فطری اظہار کو پسند کرتا ہے۔ اوڑھی ہوئی جدیدیت اور طے شدہ مابعد جدیدیت کی شعبدہ بازیوں سے سروکار نہیں رکھتا۔

عزیز نبیلؔ اچھّے اور تازہ کار شاعر ہیں۔ ان کی نظم و غزل دونوں متوجّہ کرتی ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ مجھے غزل گو نظر آتے ہیں۔ اُن کا لہجہ بدلتے اور بنتے ہوئے نقوش سے مزیّن ہے نیز اُن کے یہاں انفرادیت کی آہٹ کو بھی سنا جا سکتا ہے۔ فنّی تخلیقی اظہار کی مذکورہ سمت میں قدم بڑھا لینا کو ئی عام بات نہیں۔  بقول بانی   ؎                                                            پیہم موجِ امکانی میں                         اگلا پاؤں نئے پانی میں

آوازوں کے سیل میں بہنے کے بجائے ایک چھوٹی سی بوند بن کر چمکنے کی کوشش کرنا یقیناً دشوار بھی ہے اور لائقِ توجّہ بھی۔ عزیز نبیلؔ نیا سوچنے اور نیا کہنے کی دھُن میں ضرور رہتے ہیں لیکن عجوبے تخلیق نہیں کرتے، وہ لفظ و معنی کے امکان و اظہار پر نظر رکھتے ہیں اور ایک لفظ سے ایک علاقہ آباد کرنے کے خواہاں نظر آتے ہیں __ اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے

اسلم ؔ کولسری، سابق ڈپٹی ڈائریکٹر ارود و سائنس بورڈ، لاہور (پاکستان)

ذہانت ، متانت، شائستگی اور وقار عزیز نبیلؔ کی شخصیت کے نمایاں اوصاف ہیں ،اور یہی اوصاف ان کی شاعری میں بھی نگینوں کی طرح جھلملاتے نظر آتے ہیں۔ موضوعات کے انتخاب میں ان کی ذہانت جلوہ گر ہے تو اندازِ بیان  متانت سے معطر ہے، شگفتگی میں شائستگی ہے اور حزن میں وقار۔  انہوں نے نازک احساسات و جذبات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ زندگی کے متنوع مسائل کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے مگر کہیں بھی اپنے لہجے کو تلخ یا جدّت کے نام پر شعری لطافتوں کو متاثر نہیں ہونے دیا۔  الغرض نبیلؔ کی شاعری کے یہ اوصاف انہیں تخلیقی اعتبار بھی عطا کرتے ہیں اور ہم عصر و ہم قدم تخلیق کاروں میں نمایاں مقام بھی۔

افتخار امام صدیقی، مدیر ماہنامہ شاعر، ممبئی

رسالہ شاعر میں عزیز نبیلؔ کی چند نظموں کی اشاعت سے اردو عالم کے با ذوق قارئین نے اس نووارد شاعر کی پذیرائی کی تھی، جس کا تخلیقی ذہن فلک بھر سوچ کو محیط ہے۔ اسے قدرت حاصل ہے پابند اور آزاد نظموں میں اظہاریہ بن جانے کی۔ اردو غزل بھی اس کی معشوقہ ہے لہذا اس کے ناز نخرے اٹھانے میں اس گبرو جوان کو خاص حرارت ملتی ہے   ؎

مرے اشعار میں شامل تری خوشبو ہو جائے

دشتِ افکار میں اے کاش تو آہو ہو جائے

درد اشعار کے معبد میں جواں ہونے لگا

جو زمیں دوز خزانہ تھا عیاں ہونے لگا

عزیز نبیلؔ اپنی غزلوں میں باآسانی ایسے الفاظ لے آتے ہیں جو عموماً معاصر اردو غزل میں کم پڑھنے کو ملتے ہیں۔ موصوف نے اپنی ہی زمینوں میں تخلیقی ہل جوتے ہیں۔ اور اس پر انہیں اعتماد بھی ہے   ؎

یہ دریا کچھ زیادہ ہنس رہا ہے

اسے صحرا کی جانب موڑ دوں کیا

نبیلؔ کا اعتماد ایک ایسی خوشبو ہے کہ وہ باآسانی شعری اظہاریوں میں خلق ہوتے چلے جاتے ہیں۔

تم نور کی وادی تھے میں نجد کا صحرا تھا

تم حسن میں لاثانی میں عشق میں یکتا تھا

اس اعتماد نے عزیز نبیلؔ سے مستقبل کے ایک ایسے منفرد شاعر کے ظہور کا پتہ دیا ہے کہ اردو کی نئی بستیوں میں معاصر اردو شاعری ، ہند و پاک سے کسی بھی طرح کم نہیں۔

قلم ہے ہاتھ میں کردار بھی مرے بس میں

اگر میں چاہوں کہانی بدل بھی سکتا ہوں

آپ دیکھئے کہ اس حیرت بھر تخلیقی سوچ میں کیسا اعتماد ہے کہ جو کچھ بھی وہ کہہ رہا ہے اس میں ذرا سی بھی لچک نہیں ، ثابت ذہنی کے ساتھ وہ غزل سے اپنے ساز پر عشق کا برملا اظہار کرنے میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں کرتا    ؎

وہ شہرِ حیرت کا شاہزادہ گرفتِ ادراک میں نہیں ہے

اس ایک چہرے کی حیرتوں میں ہزار آنکھیں سما چکی ہیں

غزل کا ہر شعر انتخاب کی سفارش کر رہا ہے لیکن میں اپنے جذبات پر بند باندھنے پر مجبور ہوں۔

عزم بہزاد، کراچی  (پاکستان)

 نبیلؔ کا قیام ایک ایسے شہر میں ہے جو زندگی کی تمام بنیادی سہولتوں سے آراستہ ہے اور یہی نہیں وہاں قانون شکنی کا بھی کوئی تصوّر نہیں۔ دوسرے لفظوں میں فرد سے فرد کا رابطہ باہمی احترام پر قائم ہے اور یہی عکس اجتماعیت میں بھی نظر آتا ہے۔ اس صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ سوال قائم کیا جا سکتا ہے کہ ایک پرامن و پرسکون معاشرے کے بطن سے کس قسم کی شاعری کا ظہور ہونا چاہیئے یا وہ کیا کیفیات ہو سکتی ہیں جو اس طرح کی سوسائٹی میں شاعری کا محرّک ہو سکتی ہیں ؟ صرف ایک صورت ہے اگر لکھنے والا تارکِ وطن ہے تو وہ اپنی مٹّی  سے دوری اور اپنے پیاروں سے بچھڑ جانے کے ملال کو شعر کا رنگ دیتا رہے۔ اس بات کو کلّیہ بنا کر جب نبیلؔ کی شاعری پڑھتا ہوں تو مجھے اس میں اُس  ’’اقتصادی  ہجرت‘‘  کا کوئی واضح اظہار نہیں ملتا جو دیارِ غیر میں رہنے والے دوسرے لکھنے والوں کے ہاں ملتا ہے۔

میں نبیلؔ کی شاعری پڑھتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نبیلؔ نے معاش کی خاطر صرف ’’جسمانی ہجرت‘‘ کی ہے وہ ذہنی و روحانی طور پر اپنے ہی وطن میں مقیم ہے۔ نبیلؔ کا ایک مطلع ہے    ؎

جس طرف چاہوں پہنچ جاؤں مسافت کیسی

میں تو آواز ہوں آواز کی ہجرت کیسی

عزیز نبیلؔ نے نہایت کم عمری میں مشق سخن میں مہارت کی منزلیں طے کی ہیں اور اپنے سماجی شعور اور دل کی آواز کو اس طرح باہم آمیز کر دیا  ہے جس میں ہمیں مستقبل کی ایک طاقتور آواز کا امکان صاف دکھائی دے رہا ہے    ؎

اے عہدِ رواں میں ترا مہمان ہوا تھا

لیکن ترے لوگوں نے بڑی بے خبری کی

سفر کے بوجھ تلے خود کو کھینچتا ہوا دن

مری ہتھیلی پہ تاخیر لے کے اترا ہے

بدلتے موسم کی سلوٹوں میں دبی ہیں ہجرت کی داستانیں

وہ داستانیں جو سننے والوں کی نیند کب کی اڑا چلی ہیں

عزیز نبیلؔ عصری تقاضوں سے آگاہ اور سیاسی و سماجی شعور رکھنے والا ایک ایسا بیدار شاعر ہے جو یہ جانتا ہے کہ

اُسے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں کہنا۔

لیاقت علی عاصمؔ ،اردو لغت بورڈ ، کراچی  (پاکستان)

تمہاری غزل سے زیادہ مجھے تمہاری نظم نے اپنی گرفت میں لیا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تمہاری غزل پر بھی نظم کی واضح پرچھائیاں نظر آئیں ، لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ تمہاری غزل کمزور ہے کہنا یہ ہے کہ تمہاری غزل بھی نظموں کے موضوعات سے لبریز نظر آئی۔

تم جدید عہد کی جدید اور پر سوز آواز ہو، خدا تمہاری آواز کو با ذوق اور قدر داں سماعتوں سے نوازے۔

پروفیسر ڈاکٹر خلیل طوقار ،

 صدر شعبۂ اردو۔  استنبول یونیورسٹی، ترکی(مدیر سہ ماہی ارتباط، استنبول)

عزیز نبیل صاحب کے کلام کے کچھ منتخب نمونے جو میری نظر سے گزرے وہ واقعتاً دل نشیں اور عمدہ ہیں۔ اُن کے اشعار میں صدیوں سے جاری اردو غزل کی پُر نغمہ صدا سنائی دے رہی ہے۔ الفاظ کی نشست و برخواست، خیالات کی عمدگی دیدہ زیب ہے۔ ساتھ ساتھ اُن کے اشعار میں ایک حسین اور با ہمّت انسانیت کی جھلکیاں دکھائی دے رہی ہیں جنھیں پڑھ کر قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا یہ میرے دل میں بھی ہے!

معراجؔ فیض آبادی، لکھنو

تھوڑی سی دنیا دیکھی تو اندازہ ہوا کہ برّصغیر سے باہر پوری دنیا میں اردو کی بے شمار بستیاں آباد ہیں اور اپنی زبان ، اپنے ادب اور اپنی تہذیب کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ دبئی کے سلیم جعفری، دوحہ کے ملک مصیب الرحمن اور محمد عتیق،  لاس اینجلس کی نیّر جہاں ، واشنگٹن کے ڈاکٹر عبداللہ، ہیوسٹن کے پرویز جعفری، ریاض کے حفظ الرحمن……اور اس کہکشاں میں کچھ برس پہلے ایک اور چمکدار ستارے کا اضافہ ہوا ، دوحہ قطر کے عزیز نبیلؔ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دم سے اردو تہذیب کی روشنی عالمگیر ہو گئی ہے۔ برس بیتے، دوحہ کے ایک مشاعرہ کی ابتدا ایک نوعمر شاعر کے کلام سے ہوئی اور میں نے اُسی وقت مصیب بھائی سے کہا تھا کہ ایک بے  حد خوشگوار آواز کا اضافہ ہو رہا ہے غزل کی دنیا میں۔ میں نے اسی وقت اس نوعمر شاعر سے ، جس کا نام عزیز نبیلؔ تھا، بہت سی امیدیں وابستہ کر لی تھیں ، مگر اب جب ان کا کلام پڑھا تو اندازہ ہوا کہ میری امیدیں چھوٹی پڑ گئی ہیں   ؎

نہ جانے کس کے قدم چومنے کی حسرت میں

تمام راستے دل کی طرح دھڑک رہے تھے

بے حد اچھّی غزلیں اور ان سے بھی کہیں اچھی نظمیں۔  سنا ہے کہ ان کا مجموعۂ کلام شائع ہو رہا ہے۔ میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میں بڑی بے چینی سے اس مجموعۂ کلام کا منتظر رہوں گا۔ جس خوبی کے ساتھ شاعری عزیز نبیلؔ کے یہاں ارتقا کی منزلیں طے کر رہی ہے، میں یہی دعا کر سکتا ہوں ، عزیز نبیلؔ کے ہی لفظوں میں کہ   ؎    ’صبح پھر اک مسافت کو تیّار ہے‘۔

 عالم ؔخورشید، سمستی پور

عزیز نبیلؔ سے نہ تو کبھی میری ملاقات ہوئی ہے نہ ذاتی مراسم کا کوئی سلسلہ رہا ہے۔لیکن اگر کوئی مجھ سے یہ پوچھے کہ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں ابھر کر سامنے آنے والے کون سے دو تین شعرا  ایسے ہیں جن کا کلام ان کے روشن مستقبل کی گواہی دیتا ہے تو عزیز نبیلؔ کا نام میری زبان پر ضرور آئے گا۔

رسائل و جرائد کے توسط سے نبیلؔ کی شاعری پڑھنے کا جب بھی موقع ملا مجھے اس کے عقب سے ایک ایسا شخص جھانکتا نظر آیا جو نہایت سنجیدہ شخصیت کا مالک ہے اور شعر و ادب سے والہانہ لگاؤ رکھتا ہے۔ ان کے کلام سے ہمیشہ ذہن پر یہی تاثر قائم ہوا کہ وہ خوش فکر بھی ہیں ، خوش گفتار بھی اور شعری روایت سے آشنا بھی۔ وہ نہ صرف بدلتی ہوئی نئی دنیا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ ہم عصر شاعری  کے بدلتے ہوئے مزاج پر بھی انہماک سے غور و فکر کرتے ہیں۔

یہاں تفصیلی گفتگو کی گنجائش نہیں لہذا ان کے دو تین اشعار کا حوالہ دینا ضروری معلوم ہوتا ہے جو میر ی بات کی تائید کر سکیں    ؎

اب ہمیں چاک پہ رکھ یا خس و خاشاک سمجھ

کوزہ گر! ہم تری آواز پہ آئے ہوئے ہیں

یہ دریا کچھ زیادہ ہنس رہا ہے

اسے صحرا کی جانب موڑ دوں کیا

ہم اپنے سر پر گزشتہ دن کی تھکن اٹھائے بھٹک رہے ہیں

دیارِ شب! تیری خواب گاہیں تمام پردے گرا چکی ہیں

عزیز نبیلؔ کے یہ اشعار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ نہایت سنجیدگی سے مشق و ریاضت کی مسافت طے کر رہے ہیں اور اپنے لئے ایک نیا راستہ بنانے میں منہمک ہیں۔ انہیں اس پر خار راستے پر ایک طویل مسافت طے کرنی ہے مگر ان کا حوصلہ دیکھ کر میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اگر اسی سنجیدگی اور لگن سے شعر کہتے رہے تو مجھے پوری امید ہے کہ وہ اپنے لئے ایک الگ راستہ بنانے میں کامیاب ثابت ہوں گے اور میں اس کے لئے دعاگو بھی ہوں۔

نصیر احمد ناصرؔ، مدیر سہ ماہی تسطیر، راولپنڈی (پاکستان)

عزیز نبیل ؔ کی شاعری پڑھتے ہوئے میں کئی بار خوشگوار حیرت میں مبتلا ہوا۔ نبیلؔ نے زندگی اور فطرت سے وابستہ گہرے اور گمبھیر مسائل اور سوالات اتنی سہولت ، سادگی ، بے ساختگی اور معصومیت سے لفظوں میں سمو دیئے ہیں کہ ان کے اشعار ایک بچکانہ تجسّس کی خوبصورتی اور سچّائی کی طرح دل موہ لیتے ہیں۔ اور جب آپ پورے طور پر ان کی طرف مائل ہو جاتے ہیں تو یہ آپ سے ایک پختہ کار کی طرح مکالمہ کرنے لگتے ہیں۔ شاعری کا یہ وصف اور انداز کم کم شاعروں کو نصیب ہوتا ہے۔ نبیلؔ کی زبان معمول کی شعری زبان ہے جس میں کسی زور زبردستی کا دخل نہیں لیکن بیان غیر معمولی ہے، بطور خاص غزلوں میں۔ میں اسے نبیل کی شاعرانہ خوبی اور کامیابی سمجھتا ہوں اور اسے فن کی اگلی منزلوں کی نوید سناتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں۔

حسن عبدالکریم چوگلے،  سرپرستِ اعلی انجمن محبّانِ اردو ہند، قطر

ایک بانکے ،خوبصورت نوجوان عزیز نبیلؔ کی آمد دوحہ قطر میں ۱۹۹۹؁ء میں ہوئی۔قطر آوری پر یہ نوجوان جس

کسی سے بھی ملا اس کے دل پر اپنے ادبی اور با وقار لب و لہجہ کی  چھاپ چھوڑ گیا۔جوں جوں اردو والوں سے متعارف ہوا اس کے ادبی سفر کے پر کھلتے گئے ، اور اس کی شاعرانہ فن کاری لوگوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہوتی رہی۔آج الحمد للہ عزیز نبیلؔ کی شاعری اپنی شناخت قائم کر چکی ہے۔

آج کی دنیا جس تذبذب کا شکار ہے ان حالات کا اشاروں ، کنایوں اور تشبیہات کے ذریعے کھینچی گئی تصویریں انکے اشعار میں نہایت فنکارانہ انداز میں جگہ جگہ بڑی خوش سلیقگی کے ساتھ نظر آتی ہیں۔

آج کے ادبی ناقدری اور بے مقصدیت کے دور میں جہاں ہر فرد دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں گِھرا  ہوا ہے ، ان سب سے کوسوں دور عزیز نبیلؔ اپنی اچھوتی تشبیہات اور جدید لب و لہجہ سے سجی ہوئی شاعری کے ساتھ ترقی کی منزلیں طے کرتے جا رہے ہیں ، تاکہ اردو ادب کو ایک خزانہ فراہم کر سکیں    ؎

مرا طریقہ ذرا مختلف ہے سورج سے

جہاں سے ڈوبا وہیں سے ابھرنے والا ہوں

میرے خیال میں عزیز نبیلؔ اردو ادب کے لئے ، دوحہ کی ادبی سرگرمیوں کے لئے اور انجمن محبان اردو کے ایک نایاب اثاثہ ہیں۔

عبدالاحد سازؔ، ممبئی

عزیز نبیلؔ کی شاعری جو نظموں پر کم اور غزلوں پر زیادہ مشتمل ہے ، اُن کی شخصیت ہی کی طرح دلکش اور خوش لباس ہے۔ اندازِ سخن کے جھروکوں سے ان کا جمالیاتی ذوق اکثر جھانکتا رہتا ہے اور ایک ہلکے سے Sophistication کا اثر بھی کلام میں باعثِ کشش ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کچھ تو رومانی موضوعات و خیالات کا تواتر بھی ہے اور کچھ لہجے کی لطافت بھی جو بہرحال اپنے عہد کی حسّیت اور تلخی کی فہم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

انور جاوید ہاشمی،  مدیرِ اعلی، سہ ماہی تنویرِ ادب، کراچی   (پاکستان)

راقم کا عزیز نبیلؔ سے مواصلاتی رابطہ ہے، ان کی غزلوں کو پیش تر بھی بصیرت و بصارت آزما ہوتے ہوئے پایا

اور بلا شبہ جو کچھ مطالعے میں آیا اسے حاصلِ مطالعہ ہی پایا۔ہمیں نبیل ؔکی غزلوں میں ایک جانب تو عصری صداقتوں اور مروّجہ شعری روایات کی جھلکیاں نظر آتی ہیں  لیکن اس سے کہیں بڑھ کر قابلِ تحسین و ستائش بات عزیز نبیلؔ کی اپنی انسلاکی قوتِ مشاہدہ اور تقریباً ہر مصرعے یا درونِ شعر ان کی شخصیت کی موجودگی ہے۔

ہم قافلے سے بچھڑے ہوئے ہیں مگر نبیلؔ

اک راستہ الگ سے نکالے ہوئے تو ہیں

برسوں سے بدن دشت میں بے جان پڑا ہوں

آتے ہوئے لمحو مجھے زندہ کیا جائے

مری نمود میں وحشت ہے میری سوچ میں شور

بہت الگ ہے مری زندگی کا ڈھب تم سے

عزیز نبیل کے ہاں فنّی در و بست اور چاق و چوبند مصرعے لفظی و معنوی سطح پر ہی نہیں ہیں بلکہ یہ صوتی ہیئت میں بھی آواز کو مجسم تصویر کی صورت میں قاری و سامع کے پردۂ ذہن و دل پر مرتسم کرتے چلے جاتے ہیں۔

صبح اور شام کے سب رنگ ہٹائے ہوئے ہیں

اپنی آواز کو تصویر بنائے ہوئے ہیں

ہم نہیں اتنے تہی چشم کہ رو بھی نہ سکیں

چند آنسو ابھی آنکھوں میں بچائے ہوئے ہیں

انور شمیمؔ، مدیر کسوٹی جدید، سمستی پور

 عزیز نبیلؔ کی شاعری ایک خوشگوار آئند کا احساس کراتی ہے۔جو آنے والے دنوں میں ریاض و مزاولت

 کے ساتھ شاعر کا انفراد ثابت کر سکتی ہے۔ ان کی شاعری شخصی واردات اور بالکل نجی یا ذاتی تجربات کے حوالے سے کائنات کو سمجھنے کی جدوجہد ہے۔جو کسی رجحان یا تحریک کے بجائے جسم سے روح کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہے۔

 اب سے پہلے تک میں نے عزیز نبیلؔ کو صرف ان کی غزلوں سے جانا تھا کہ عزیز نبیلؔ غزل کے تازہ کار شاعر ہیں ،لیکن تازہ مجموعے کے مسودہ کو دیکھتے ہوئے ،بیحد خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ انہوں نے نظمیں بھی کہی ہیں اور ان کی نظمیں ،ان کی غزلوں سے بالکل مختلف تاثّر دیتی ہیں۔بلکہ غزلوں سے بہتر۔

 عزیز نبیلؔ کی خوش گوئی،خوش فکری اور تازہ کاری کی کوششیں ،ان کے روشن مستقبل کا احساس کرواتی ہیں۔

سہیل ثاقبؔ  ،  دمام، سعودی عرب

عزیز نبیل ؔکی شاعری عصرِ حاضر کی عکّاس ہے جس میں کلاسیکی رنگ کی خوبصورت روایات  کے ساتھ ساتھ  جدید غزل کی آفاقی وسعت بھی نظر آتی ہے۔ وہ کسی بھی وسیع مضمون کو دو مصرعوں میں سمیٹ کر دریا کو کوزے میں بند کرنے کا ہنر اچھی طرح جانتا ہے۔  عزیز کی شاعری کا اسلوبِ بیان سہل اور آسان ہے، وہ اپنی شاعری میں زبان کے استعمال کا بہت خیال رکھتا ہے۔ زبان کی نوک پلک درست کرنے میں ہمیشہ بڑی جانفشانی سے کا م لیتا ہے۔ الفاظ کے در و بست کا شعور، اظہار بیان کا سلیقہ اور مضمون کے تمام تقاضوں کو ان کی ضرورت کے مطابق پورا کرنے کی جو خدا داد صلاحیت اس میں موجو ہے اس کا ادراک خلیج کے ہر اس شخص کو ہے جو ادبی گہوارے سے تعلق رکھتا ہے۔

نبیل کا تفکر، اندازِ بیاں ، جدّتِ تخیل اور ان کی مکمل شاعری کو ادب میں اپنا مقام  بنانے کے لیے کسی سہارے کی ضرورت نہیں۔ وہ اپنی ادبی منزل کا تعیّن کر چکا ہے اور اس پر وہ کامیابی سے محوِ سفر ہے۔ میری دعا ہے کہ اس کا یہ سفر اس کے فکر و بیاں کو تیز تر کرتا جائے اور ادب کے ہر قاری کو اپنی گرفت میں لیتا چلا جائے۔

نوشادؔ مومن  ،  مدیر سہ ماہی ، مزگاں کولکاتا

اردو کی عالمی بستیوں میں فروغِ اردو کیلئے محبان ِ اردو جو کام کر رہے ہیں وہ لائقِ ستائش ہی نہیں قابلِ فخر بھی ہے۔ ہمارے عزیز نبیلؔ انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جو قطر میں شمعِ اردو روشن رکھنے کے عمل میں نہ صرف یہ کہ مشاعرے و مذاکرے کی محفل سجاتے ہیں بلکہ اپنی تخلیقات سے بھی گیسوئے شعر و ادب کی شانہ کشی میں

منہمک رہتے ہیں۔

عزیز نبیلؔ کی غزلیہ شاعری قاری کے خانۂ دل میں ایک عجیب کیفیت پیدا کرتی ہے اور بصارتوں کے ساتھ ساتھ ان کی سماعتوں کو بھی تسخیر کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ موصوف کے اشعار اپنے طرز و اسلوب میں بے مثال اور منفرد اس لحاظ سے بھی ہیں کہ وہ عام اور خاص ہر دو طرح کے ادبی ذوق رکھنے والوں کی یادداشت کا حصّہ ہیں۔  عزیز نبیلؔ کی شاعری میں عصری آگہی ، عوامی شعور اور جدید حسّیت کے دھارے کچھ اس طرح گھل مل گئے ہیں کہ ہم ان کی شاعری پر کوئی مخصوص چھاپ لگانے سے قاصر ہیں کیوں کہ ہم شاعری میں کسی بٹوارے کے نہیں بلکہ اس فن میں رموز و علائم کو سلیقے سے برتنے کے قائل ہیں۔

عزیز صاحب ہمیں اس لئے عزیز ہیں کہ ان کی شاعری قلب پر وارد ہونے والی کیفیات کا اظہار ہے۔ اگر ان کا رہوارِ شوق تھکن سے چور نہیں ہوا اور وہ اپنے احساسات و محسوسات قارئین  ِ شعرو ادب تک پہنچانے کیلئے اپنی مصروفیت سے کچھ وقت نکال سکیں تو یہ ان کا ہم پر احسان ہو گا کیوں کہ نبیلؔ کی شاعری زندگی کے تجربات سے مزیّن ہے جس سے لطف اندوز ہونے والے زندگی کی تازگی ، جذبوں کی حرارت اور دلوں کی خوشگوار مسرّت محسوس کریں گے جو عہدِ حاضر میں عنقا ہیں۔

اسیرؔ امیدی برہانپوری، ممبئی

روایات کا پاسدار اور جدید لب و لہجہ کا منفرد فنکار عزیز نبیلؔ کے کلام میں زبان و بیان کا رکھ رکھاؤ اور وہ تمام تر فطری و فنّی خوبیاں موجود ہیں جو کسی شاعر کو ادب میں زندہ و نمائندہ رکھنے کی ضامن ہیں۔

روایت کی خوشبوؤں سے معطّر اور، جدید لہجے کی روشنی سے جگمگاتی نبیلؔ کی شاعری اپنی انفرادی کشش رکھتی ہے جس میں زندگی کے تمام رنگ موجود ہیں۔

شاہدذکیؔ، دی ہاؤس آف نالج، سیالکوٹ  (پاکستان)

عزیزنبیلؔ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات پہ ایمان پختہ ہو جاتا ہے کہ شاعری شاعر پر ایسے ہی اترتی ہے جیسے درخت پر پھل اور پھول۔ وہ ایک فطری شاعر ہے، حسنِ فطرت سے ہمکلام ہوتے ہوئے وہ رائج الفاظ کے بے رنگ مطالب میں اپنے حسّی تجربات کا رنگ اس خوبی سے بھرتا ہے کہ لفظ لَو دینے لگتے ہیں اور چراغ ہوتے ہوئے الفاظ دماغ کو روشنی اور روح کو بالیدگی سے ہم کنار کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ نبیلؔ کی اِس کاوش کے دوران اُس کی ذاتی واردات کائناتی واردات میں ڈھل جاتی ہے اور اس کا شاعر زندگی کے ظاہری تضادات اور ہنگامی مخالفتوں کے باوجود اُتنا ہی مکمّل اور مربوط ہوتا ہے جتنا کسی ماہرِ فلکیات کا نظام ِ شمسی۔  نبیلؔ بھرپور امکانات کا شاعر ہے اور بقول شاعر   ؎

                        دیکھنا یہ ہے کہ دیوانے کا                  دوسرا پاؤں کہاں پڑتا ہے

صائمہ علی زیدی، اسلام آباد  (پاکستان)

حیرت فن کی بنیاد ہوتی ہے اور تمام ہنر جادۂ حیرت پر چل کر درجۂ کما ل تک پہنچتے ہیں۔  شاعر اسی حیرت سے سرشار ہو کر فطرت کے مظاہر سے کلام کرتا ہے، سوال اٹھاتا ہے اور جواب کی جستجو میں رہتا ہے۔  حیرت کے اس سفر کا کوئی انت نہیں۔

 کسی ذہین شاعر کی طرح عزیز نبیلؔ کی شاعری کا بنیادی عنصر بھی یہی حیرت ہے اور وہ اس حیرت سرا میں بار بار جانا چاہتا ہے۔ اور اسی لئے تو وہ کہتا ہے   ؎

جس طرف جا کے سبھی سنگ میں تبدیل ہوئے

دل دھڑکتا ہے اُسی کوچۂ حیرت کی طرف

عزیز نبیل ؔ کی شاعری میں احساس ِ جمال کی فراوانی کے ساتھ ساتھ فکری اور استدلالی پہلو نمایاں ہے   ؎

کوئی جواب نہ سورج میں تھا نہ چاند کے پاس

مرے سوال سرِ آسماں چمک رہے تھے

عزیز نبیلؔ سبھی کچھ دیکھنا اور محسوس کرنا چاہتا ہے، وہ مناظر بھی جو آنکھوں کے سامنے ہیں اور وہ بھی جو ماورائے بصیرت ہیں۔  اُس کا لہجہ نرم آگیں ہے اور اُس کا شعری اسلوب اپنی سمت متعیّن کررہا ہے۔

عذرا پروین ،  لکھنو

شاعر جنوری ۲۰۱۱ء  میں تمہاری خوبصورت شاعری دیکھی، بہت اثر کرنے والی  شاعری کرتے ہو۔ بہت خوبصورت اور دل کو موہ لینے والی شاعری۔  حیرت ہے اس عمر میں یہ اعتماد۔  مبارکباد اور دعائیں۔

جاوید انور ،  مدیر، سہ ماہی تحریک ِ ادب (وارانسی)

عزیز نبیلؔ اردو شعر و ادب کی اس نوجوان صف سے تعلق رکھتے ہیں جس نے دنیا کے نشیب و فراز کو دل کی گہرائیوں سے محسوس کیا،  غور و فکر کی اور چھان پھٹک کے بعد شاعری کو اپنے اظہار کا وسیلہ بنایا۔  عزیز نبیلؔ وطن سے دور خلیج عرب میں ذریعہ معاش کے حصول کے ساتھ ساتھ ایک صاحبِ ادراک صحرا نورد کی حیثیت

سے اپنے وطن کی تہذیب و ثقافت کی ترویج و اشاعت اور اردو زبان اور ادب کی خدمت میں بھی ہمہ وقت سرگرم عمل رہتے ہیں۔  یہی صحرا نوردی عزیز نبیلؔ کی تخلیقی قوت، ان کے مشاہدوں اور تجربوں کے پہلو بہ پہلو نئی نئی معنویتوں کو ان کی تخلیقات میں مختلف نوعیتوں کے ساتھ ابھارتی ہے۔

اختر جمال، بھیونڈی

تقریباً دس برس پہلے میں نے ایک مشاعرے میں پہلی بار عزیز نبیلؔ کو دیکھا اور سنا۔ کچھ روز بعد وہ حصولِ معاش کے سلسلے میں قطر چلا گیا، مگر جب لوٹا تو اپنی غزلوں میں آگ چھپا کر لایا، اس کی فنّی و تخلیقی قوّت اور تخیّل کی فراوانی کا اندازہ اس کے اشعار کی تازہ کاری  اور معنی کی تہہ داری سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ چند ہی سالوں میں خود کو اہم غزل گو شعراء کی صف میں کھڑا کر دینا کوئی آسان نہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں میں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں میں جن نئے شاعروں کا اضافہ ہوا ہے بلا تکلّف عزیز نبیلؔ کا نام نمایاں طور سے لیا جا سکتا ہے۔

عزیز نبیلؔ ان دنوں اپنے وجدان کی زرخیزی کی بدولت صحرائے ادب کو گل و گلزار بنانے میں مصروف ہے۔ امید ہے عزیز نبیلؔ نے لفظ و معانی کے جو پھول کھلائے ہیں قاری کی روح تک کو معطّر کر دیں گے۔

اب تو قطرہ نہیں طوفان ہوا چاہتا ہے         تیرا لہجہ تری پہچان ہوا چاہتا ہے

ابراہیم خان کمال، بانی انجمن محبّانِ اردو ہند،قطر

عزیز نبیلؔ کی شاعری کا اسلوب اور ان کے لہجے میں موجود بلا کی کشش سننے والوں اور پڑھنے والوں کو بیک وقت اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ ان کی شاعری میں موجود خوبصورت انداز میں  لفظوں ، استعاروں اور تشبیہات کا استعمال انہیں عام شعراء سے الگ اور ممتاز مقام عطا کرتا ہے۔ نیز ان کی شاعری میں مہکتے پھولوں کا احساس اور نسیم سحر جیسی تازگی پائی جاتی ہے۔

عزیز نبیلؔ کی شاعری جو مسلسل اپنی شکلیں بدل بدل کر ہمارے سامنے آ رہی ہے، وہ اردو شاعری کو پھر سے سر سبز و شاداب کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گی۔

میں بحیثیت بانیِ انجمن پورے اعتماد اور وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ عزیز نبیلؔ بلاشبہ فخر ِ انجمن ہیں ، اور میری دعا ہے کہ اللہ ان کے قلم اور ان کی فکر کو مزید بلندی و کامرانی سے نوازے۔آمین

 خالد داد خان، صدر انجمن محبّانِ اردو ہند، قطر

عزیز نبیل ؔدوحہ قطر کے ادبی افق پر ایک ایسا نام ہے جس کا مستقبل ہمیں بے انتہا روشن نظر آتا ہے ، عزیز نبیل ؔ انجمن محبان اردو ہند کے جنرل سکریٹری ہیں اور ان کی خدمات سے انجمن نے کامیابی کے بے شمار مراحل طے کئے ہیں۔ان کی متانت اور سنجیدہ شخصیت نے ہر موڑ پر انجمن کے لئے ایک اکسیر کا کام کیا ہے۔

خاموش مزاج اور وجیہہ شخصیت کے ساتھ وہ دوحہ قطر کے ہر پروگرام میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ شاعری میں بھی ا ن کا ایک الگ آہنگ اور الگ انداز ہے ،  ندرت سے بھرپور وہ اپنی شاعری کے جوہر دکھانے میں ہمیشہ بہتر سے بہتر کی طرف گامزن ہیں۔

نبیل کے یہاں ایسے اشعار کی ایک کثیر تعداد ہے جنہیں ہم اردو ادب کے ذخیرہ میں خوبصورت اضافہ قرار دے سکتے ہیں۔ہم عزیز نبیل ؔ کی طویل عمری کی دعا کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری اور ان کے کاموں میں کامرانی و کامیابی کی دعا کرتے ہیں۔

٭٭٭

شاعر کے تشکر اور اجازت سے

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل۔ اعجاز عبید