FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

سنن نسائی

 

 

                   امام ابو نسائی

 

جلد چہارم

 

 

 

 

نماز کے مختلف مسائل

 

ظہر کی نماز کے بعد سنت کتنی پڑھے ؟

 

قتیبہ بن سعید، مالک، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر سے قبل دو رکعات ادا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ظہر کی نماز کے بعد دو رکعات ادا فرمایا کرتے تھے اور دو رکعت نماز مغرب کے بعد اپنے مکان میں ادا فرماتے تھے اور نماز جمعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ نہیں پڑھتے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم واپس آتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت نماز ادا فرماتے۔

 

نماز عصر کے قبل کی سنت

 

اسمعیل بن مسعود، یزید بن زریع، شعبہ، ابو اسحاق، عاصم بن ضمرۃ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت علی سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دن کے وقت نماز فرض سے قبل کس قدر رکعات ادا فرماتے تھے ؟ انہوں نے فرمایا کہ کس شخص میں اس قدر طاقت ہے کہ وہ اس قدر تعداد میں رکعات ادا کرے۔ پھر فرمایا کہ جس وقت سورج بلند ہوتا ہے تو دو رکعات ادا فرماتے اور دوپہر سے قبل چار رکعات ادا فرماتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخر میں سلام فرماتے (مطلب یہ ہے کہ دو رکعت کے بعد سلام نہ پھیرتے تھے )۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد بن عبدالرحمن، حصین بن عبدالرحمن، ابو اسحاق، عاصم بن ضمرۃ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے حضرت علی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا تمہارے میں سے کوئی شخص اس بات کی قوت رکھتا ہے ہم لوگوں نے عرض کیا کہ اگر طاقت نہ رکھیں تب بھی بات تو سن لیں۔ جس وقت سورج یہاں پر آتا یعنی نماز عصر کے وقت تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعات نماز پڑھتے اور جس وقت یہاں پر آتا یعنی نماز ظہر کے وقت تو چار رکعت ادا فرماتے اور نماز ظہر سے قبل چار رکعات ادا فرماتے اور نماز ظہر کے بعد دو رکعت ادا فرماتے اور نماز عصر سے قبل چار رکعت ادا فرماتے لیکن دو دو رکعت کے بعد سلام پھرتے اور سلام کرتے فرشتوں اور پیغمبروں اور جو ان کے پیروکار ہیں مومنین اور مسلمین میں سے۔ مطلب یہ ہے کہ اس طریقہ سے ارشاد فرماتے تھے (اَلسَّلَامُ عَلَی المَلَائِکَۃِ وَالمُقَرَّبِینَ وَالاَنبِیَاءِ وَالصَّالِحِینَ)

 

نماز کے آغاز میں کیا کرنا چاہئے ؟

 

عمرو بن منصور، علی بن عیاش، شعیب، زہری، سالم، احمد بن محمد بن مغیرۃ، عثمان، ابن سعید، شعیب، محمد، زہری، سالم بن عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت تکبیر پڑھتے نماز کے شروع کرنے کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھاتے تکبیر کہتے وقت یہاں تک کہ ہاتھ دونوں مونڈھوں کے برابر آ جاتے اور جس وقت رکوع کے واسطے تکبیر پڑھتے تو جب بھی اسی طریقہ سے کرتے (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے تھے ) پھر جس وقت (سمع اللہ لمن حمدہ) کہتے تو اسی طریقہ سے کرتے تھے (مطلب یہ ہے کہ دونوں ہاتھ کندھے تک اٹھاتے ) اور پھر (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) پڑھتے پھر جس وقت سجدہ میں جاتے توہاتھ نہ اٹھاتے۔ اسی طریقہ سے جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے تو جب بھی ہاتھ نہ اٹھاتے۔

 

جس وقت تکبیر پڑھے تو پہلے دونوں ہاتھ اٹھائے

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، سالم، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوتے نماز کے واسطے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں جانب کے ہاتھ اٹھاتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ مونڈھوں کے برابر آ جاتے پھر تکبیر کہتے اور جس وقت رکوع کے واسطے تکبیر کہتے تو جب بھی اسی طریقہ سے کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے مونڈھوں تک پھر جس وقت (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) کہتے تو اسی طریقہ سے کرتے (مطلب یہ ہے کہ مونڈھوں تک ہاتھ اٹھاتے ) اور جس وقت سجدہ میں جاتے تو ہاتھ نہ اٹھاتے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، ابن شہاب، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز کے شروع فرماتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور جس وقت رکوع کرتے اور رکوع سے سر اوپر اٹھاتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ) اور (رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) پڑھتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں اس طریقہ سے کرتے۔

 

کان تک ہاتھ اٹھانے سے متعلق

 

قتیبہ، ابو احوص، ابو اسحاق، عبدالجبار بن وائل، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت نماز شروع فرمائی تو تکبیر پڑھی اور دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائے پھر سورہ فاتحہ کی تلاوت فرمائی جس وقت اس سے فراغت ہوئی تو بلند آواز سے آمین پڑھی۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن الحویرث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت تکبیر پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع فرماتے تو دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاتے تھے۔ اس طریقہ سے جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اس طرح کرتے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، ابن علیٰۃ، ابن ابو عروبۃ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت نماز شروع فرمائی تو دونوں ہاتھ اٹھائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع فرمایا تو دونوں ہاتھ اٹھائے پھر جس وقت رکوع سے سر اٹھایا تو دونوں ہاتھ کانوں کی لو تک اٹھائے۔

 

جس وقت ہاتھ اٹھائے تو دونوں ہاتھ کے انگوٹھوں کو کس جگہ تک لے جائے ؟

 

محمد بن رافع، محمد بن بشر، فطر بن خلیفۃ، عبدالجبار بن وائل، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت نماز شروع فرمائی تو دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انگوٹھے کانوں کی لو تک پہنچ گئے۔

 

دونوں ہاتھ بڑھا کر ہاتھ کا اٹھانا

 

عمرو بن علی، یحیی، ابن ابو ذنب، سعید بن سمعان سے روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ مسجد بنی دریق میں داخل ہوئے اور فرمایا کہ تین باتیں ہیں جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کرتے تھے اور لوگوں نے ان باتوں کو چھوڑ دیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اپنے بڑھا کر نماز کے دوران اٹھایا کرتے تھے اس کے بعد کچھ دیر تک خاموش رہتے تھے اور جس وقت سجدہ میں جاتے تو تکبیر پڑھتے اور سجدہ سے سر اٹھانے کے وقت بھی تکبیر پڑھتے تھے۔

 

نماز شروع کرنے کے وقت تکبیر پڑھنا لازم ہے (یعنی تکبیر اولیٰ اور تکبیر تحریمہ)

 

محمد بن مثنی، یحیی، عبید اللہ بن عمر، سعید بن ابو سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لائے تو ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے نماز ادا کی۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں وہ شخص حاضر ہوا اور اس نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا اور ارشاد فرمایا کہ تم واپس جاؤ اور نماز دوبارہ پڑھو کیونکہ دراصل تم نے نماز نہیں پڑھی وہ شخص واپس چلا گیا اور اس نے جس طریقہ سے پہلے نماز پڑھی تھی اسی طریقہ سے نماز پڑھ کر وہ شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام کا جواب دیا اور ارشاد فرمایا کہ جا پھر نماز پڑھو۔ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طریقہ سے تین مرتبہ ہوا تو اس شخص نے کہا کہ اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نبی برحق بنا کر بھیجا ہے دراصل بات یہ ہے کہ میں تو اس سے زیادہ بہتر نماز نہیں جانتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو نماز سکھلا دیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تو نماز کے واسطے کھڑے ہو تو اللہ اکبر کہو پھر جتنا قرآن کریم ہو سکے پڑھ لو پھر تم خشوع و خضوع کے ساتھ رکوع کرو۔ پھر تم سر اٹھاؤ اور تم سکون اور اطمینان کے ساتھ سر اٹھاؤ۔ پھر تم اس طریقہ سے نماز کو پورا کرو۔

 

نماز کے آغاز میں کیا پڑھنا ضروری ہے ؟

 

محمد بن وہب، محمد بن سلمہ، ابو عبدالرحیم، زید، ابن ابو انسیٰۃ، عمرو بن مرۃ، عون بن عبد اللہ، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑا ہوا اور اس نے (اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًا وَسُبْحَانَ اللَّہِ بُکْرۃً وَأَصِیلًا) پڑھا یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ یہ جملے کس شخص نے کہے ہیں۔ اس شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے کہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اس کلمہ پر بارہ فرشتے دوڑے (مطلب یہ ہے کہ اس کلمہ کو سننے کے بعد بارہ فرشتوں نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس کو اٹھا کر بارگاہ الہی میں پیش کروں )

 

 

٭٭ محمد بن شجاع المروذی، اسماعیل، حجاج، ابو زبیر، عون بن عبد اللہ، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز میں مشغول تھے کہ اس دوران ایک شخص نے کہا اللَّہُ أَکْبَرُ کَبِیرًا وَالْحَمْدُ لِلَّہِ کَثِیرًاوَسُبْحَانَ اللَّہِ بُکْرۃً وَأَصِیلًا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کس شخص نے یہ کلمات پڑھے ہیں ؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے یہ کلمات پڑھے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھ کو اس بات سے حیرت ہے کہ اس کلمہ کی وجہ سے آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ اس دن سے میں نے اس کلمہ کو نہیں چھوڑا۔ جس وقت سے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ جملے ارشاد فرمائے۔

 

نماز کے دوران ہاتھ باندھنے سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، موسیٰ بن عمیرالعنبری و قیس بن سلیم عنبری، علقمہ بن وائل، حضرت وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز میں کھڑے ہوتے تو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر باندھ دیا کرتے تھے۔

 

اگر امام کسی شخص کو بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر باندھے ہوئے دیکھے

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن، ہشیم، حجاج بن ابو زینب، ابو عثمان، ابن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دیکھا کہ میں نے بایاں ہاتھ دائیں ہاتھ پر باندھ رکھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کر بائیں ہاتھ کے اوپر کر دیا۔

 

دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے اوپر کس جگہ رکھے ؟

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، زائٍدۃ، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے کہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کو دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے نماز ادا فرماتے ہیں ؟ تو ایک روز میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور تکبیر پڑھی پھر دونوں ہاتھ اٹھا کر دونوں کانوں کے برابر کئے پھر دائیں ہاتھ کو اپنے بائیں ہاتھ پر رکھا یعنی ایک ہاتھ کا پہونچا دوسرے ہاتھ کے پہنچے پر رکھا اور ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور اس طرح سے (دونوں کانوں کے برابر) اور دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھے پھر جب سر اٹھایا رکوع سے تو دونوں ہاتھ اٹھائے اسی طرح سے یعنی کانوں کے برابر نہ رکھے پھر سجدہ فرمایا اور دونوں ہاتھ اپنے دونوں کانوں کے برابر کیا پھر بایاں پاؤں بچھا کر بیٹھ گئے اور بائیں ہتھیلی اپنی ران پر اور گھٹنے پر رکھ لی اور دائیں ہاتھ کی کہنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دائیں ران پر رکھ لی پھر دو انگلی کو بند کر لیا اور ایک حلقہ بنایا (درمیان کی انگلی اور انگوٹھے سے ) اور شہادت کی انگلی کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اوپر اٹھا لیا تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کلمہ کی یعنی شہادت کی انگلی کو ہلاتے تھے اور اس سے دعا مانگتے تھے۔

 

کوکھ پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنا ممنوع ہے

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، ہشام، سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، ہشام، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوکھ پر یعنی پشت پر ہاتھ رکھ کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعٍدۃ، سفیان بن حبیب، سعید بن زیاد، زیاد بن صبیح سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کے برابر میں نماز ادا کی تو میں نے اپنا ہاتھ اپنی پشت پر رکھا۔ انہوں نے اپنا ہاتھ مارا (یعنی اشارہ کیا) جب میں نماز سے فارغ ہو گیا تو میں نے ایک آدمی سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں ؟ لوگوں نے کہا کہ یہ حضرت عبداللہ بن عمر ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ اے ابو عبدالرحمن! تم کو کیا برا معلوم ہوا میری جانب سے انہوں نے کہا کہ یہ پھانسی دی جانے والی صورت ہے (مراد کوکھ پر ہاتھ رکھنا ہے ) اور بلاشبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو اس بات سے منع فرمایا ہے۔

 

دوران نماز دونوں پاؤں ملا کر کھڑا ہونا کیسا ہے ؟

 

عمرو بن علی، یحیی، سفیان بن سعید ثوری، میسرۃ، منہال بن عمرو، ابو عبیٍدۃ سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے ایک آدمی کو دیکھا نماز میں جو کہ پاؤں جوڑ کر کھڑا تھا کہا کہ اس آدمی نے خلاف سنت کیا ہے اگر وہ پاؤں کو دوسرے پاؤں سے جدا رکھتا (یعنی دونوں قدم کے درمیان کسی قسم کا فاصلہ رکھتا) اور کبھی وہ ایک پاؤں پر زور دیتا اور وہ اس کو آرام دیتا تو بہتر تھا پھر دوسرے پاؤں پر وزن دیتا اور اس کو آرام دیتا تو بہتر ہوتا۔

 

 

٭٭ اسمعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، میسرۃ بن حبیب، منہال بن عمرو، ابو عبیٍدۃ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دونوں پاؤں کو ایک ساتھ ملا کر نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے یہ دیکھ کر فرمایا کہ اگر یہ شخص فاصلہ رکھتا تو بہتر ہوتا۔

 

تکبیر تحریمہ کے بعد کچھ خاموش رہنا

 

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ دیر تک خاموش رہتے تھے نماز شروع کرنے کے بعد اور اس میں وہ دعا پڑھا کرتے تھے۔

 

 

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان میں کونسی دعا مانگنا چاہئے ؟

 

علی بن حجر، جریر، عمارۃ بن قعقاع، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز کا آغاز فرماتے تو کچھ دیر تک خاموش رہتے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا فرمایا کرتے ہیں اس سکتہ کے درمیان تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان ہوتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں کہتا ہوں ( اللَّہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِی وَبَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ اللَّہُمَّ نَقِّنِی مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْأَبْیَضُ مِنْ الدَّنَسِ اللَّہُمَّ اغْسِلْنِی مِنْ خَطَایَایَ بِالْمَائِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ)۔ یعنی اے خدا مجھ کو میرے گناہوں سے اس قدر دور فرما دے جیسے کہ مشرق سے مغرب کا فاصلہ ہوتا ہے اور اے خدا مجھ کو گناہوں سے اس طریقہ سے صاف فرما دے کہ جس طرح سے سفید کپڑا صاف ہوتا ہے میل سے۔ اے خدا میرے گناہ برف اور پانی سے دھو دے اور اولے سے دھو دے۔

 

ایک اور دعا

 

عمرو بن عثمان بن سعید، شریح بن یزید حضرمی، شعیب بن ابو حمزٰۃ، محمد بن منکدر، جابر بن عبد اللہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز کا آغاز فرماتے تو تکبیر پڑھتے اور فرماتے آخر تک مطلب یہ ہے کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت تمام کی تمام خداوند قدوس کیلئے ہے جو کہ تمام دنیا جہان کا پالنے والا ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے مجھ کو یہی حکم ہے اور میں سب سے پہلے تابعدار ہوں (حکم خداوندی کا) اور اے اللہ! مجھ کو نیکی کے کام میں لگا دے اور عمدہ اخلاق سے نواز دے اور تیرے علاوہ کوئی ان میں لگانے والا نہیں ہے اور مجھ کو برے کام اور برے اخلاق سے محفوظ فرما دے اور کوئی نہیں ہے تیرے علاوہ مجھ کو بچانے والا۔

 

دوسری دعا تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالعزیز بن ابو سلمہ، عمی الماجشون بن ابو سلمہ، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابو رافع، علی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر پڑھتے پھر فرماتے یعنی میں نے چہرہ اس ذات کے سامنے کر لیا کہ جس نے آسمانوں اور زمینوں کو بنایا اس حالت میں کہ میں ایک سچے مذہب کا پیروکار ہوں اور میں جھوٹے دین سے بے زار ہوں اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کہ خداوند قدوس کے ساتھ دوسروں کو بھی شریک بناتے ہیں۔ پس میری نماز اور قربانی اور موت و زندگی تمام کی تمام خداوند قدوس کے واسطے ہے جو کہ تمام ہی جہان کا پالنہار ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے مجھ کو یہی حکم ہے اور میں اس کے بعد تابعدار میں سے ہوں۔ اے خدا تو بادشاہ ہے اور تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ہے میں تیرا بندہ ہوں میں نے اپنی جان پر ظلم کر لیا ہے اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں اے خدا میرے تمام گناہ معاف فرما دے اور آپ کے علاوہ کوئی بھی گناہ نہیں معاف کرتا ہے اور مجھ کو عمدہ عادت اور خصلت عطا فرما کوئی ان میں لگانے والا نہیں ہے اور مجھ سے میری عادت دور فرما دے تیرے علاوہ کوئی دور کرنے والا نہیں ہے۔ میں تیری خدمت میں حاضر ہوں اور میں تیری تابعداری میں بھلائی میں حاضر ہوں تمام کا تمام تیرا ہی اختیار ہے اور تیری طرف برائی نہیں ہے میں تیری وجہ سے ہوں اور تیری جانب جاؤں گا۔ تو صاحب برکت اور بلند ہے میں تجھ سے مغفرت چاہتا ہوں اپنے گناہ کی اور تیرے سامنے توبہ کرتا ہوں۔

 

 

٭٭ یحیی بن عثمان حمصی، ابن حمیر، شعیب بن ابو حمزٰۃ، محمد بن منکدر، عبدالرحمن بن ہرمز اعرج، محمد بن مسلمہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نفل پڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو اللَّہُ أَکْبَرُ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِی فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِیفًا مُسْلِمًا وَمَا أَنَا مِنْ الْمُشْرِکِینَ إِنَّ صَلَاتِی وَنُسُکِی وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ لَا شَرِیکَ لَہُ وَبِذَلِکَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِینَ اللَّہُمَّ أَنْتَ الْمَلِکُ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ سُبْحَانَکَ وَبِحَمْدِکَ۔ پھر قرأت فرماتے۔

 

 

تکبیر اور قرأت کے درمیان چوتھی ثناء

 

عبید اللہ بن فضالۃ بن ابراہیم، عبدالرزاق، جعفر بن سلیمان، علی بن علی، ابو متوکل، ابو سعید سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ تَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالَی جَدُّکَ وَلَا إِلَہَ غَیْرُکَ پڑھتے یعنی اے خدا تو پاک ہے۔ اے خدا شکر ہے تیرا نام برکت والا ہے اور بلند ہے بزگی تیری اور کوئی معبود نہیں ہے علاوہ تیرے۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، زید بن الحباب، جعفر بن سلیمان، علی بن علی، ابی المتوکل ابو سعید اس حدیث کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان ایک ذکر خداوندی

 

محمد بن مثنی، حجاج، حماد، ثابت و قتادہ و حمید، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز نماز پڑھانے میں مشغول تھے کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اس کا سانس پھول رہا تھا تو اس شخص نے کہا اللَّہُ أَکْبَرُ الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ فَلَمَّا قَضَی رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلَاتَہُ قَالَ أَیُّکُمْ الَّذِی تَکَلَّمَ بِکَلِمَاتٍ فَأَرَمَّ الْقَوْمُ قَالَ إِنَّہُ لَمْ یَقُلْ بَأْسًا قَالَ أَنَا یَا رَسُولَ اللَّہِ جِئْتُ وَقَدْ حَفَزَنِی النَّفَسُ فَقُلْتُہَا قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَقَدْ رَأَیْتُ اثْنَیْ عَشَرَ مَلَکًا یَبْتَدِرُونَہَا أَیُّہُمْ یَرْفَعُہَا تو جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھا چکے تو ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کس شخص نے یہ کلمات پڑھے ہیں ؟ لوگ خاموش ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص نے کوئی بری بات نہیں کہی۔ اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے یہ کلمات کہے ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں نے بارہ فرشتوں کو دیکھا کہ وہ سب کے سب جلدی کر رہے تھے کون ان کلمات کو اٹھا کر لے جائے۔

 

پہلے سورۂ فاتحہ اور پھر دوسری سورت تلاوت کرے

 

قتیبہ بن سعید، ابو عوانہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق قرأت شروع فرماتے تھے الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ(مطلب یہ ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ فاتحہ تلاوت فرماتے تھے اور پھر سورت ملاتے تھے )۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن زہری، سفیان، ایوب، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر فاروق کے ساتھ نماز پڑھی۔ انہوں نے قرأت شروع کی الْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا

 

علی بن حجر، علی بن مسہر، مختار بن فلفل، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک دم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہلکی سی نیند آ گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر اٹھایا تبسم فرماتے ہوئے۔ ہم نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس وجہ سے تبسم فرما رہے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ابھی ابھی مجھ پر ایک سورت نازل ہوئی ہے (بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الْأَبْتَرُ۔ (یعنی اے نبی! صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حوض کوثر عطاء فرمائی ہے تم بطور شکر کے اپنے پروردگار کیلئے نماز پڑھو اور قربانی کرو بلاشبہ تمہارے دشمن کی جڑ کٹنے والی ہے اور کیا تم لوگ واقف ہو کہ کوثر کیا ہے ؟ ہم نے عرض کیا کہ خدا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی خوب واقف ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ نہر ہے کہ جس کا میرے پروردگار نے وعدہ فرمایا ہے جنت میں اور اس کے برتن ستاروں سے زیادہ ہیں۔ میری امت اس پر آئے گی پھر ایک شخص اس میں سے باہر کھنچا جائے گا۔ میں کہوں گا کہ اے پروردگار یہ تو میری امت ہے پروردگار فرمائے گا کہ تم واقف نہیں ہو کہ جو اس نے تمہارے بعد کیا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد، ابو ہلال، نعیم بن مجمر سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو ہریرہ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہا تھا انہوں نے فرمایا بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ تلاوت کی پھر سورہ فاتحہ تلاوت کی۔ جس وقت پر پہنچے تو انہوں نے آمین کہی۔ لوگوں نے بھی آمین کہی اور وہ جس وقت سجدہ میں جاتے تو اللَّہُ أَکْبَرُ کہتے اور وہ جب دو رکعت پڑھ کر اٹھتے تو اللَّہُ أَکْبَرُ کہتے۔ پھر جس وقت سلام پھیرا تو فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں تم لوگوں سے زیادہ مشابہ ہوں نماز میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے۔

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھنا

 

محمد بن علی بن حسن بن شقیق، ابو حمزٰۃ، منصور بن زاذان، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی توبِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ کی آواز ہم لوگوں نے نہیں سنی اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے نماز پڑھی ہم نے ان سے بھی بسم اللہ کی آواز نہیں سنی مطلب یہ ہے کہ یہ تمام کے تمام حضرات آہستہ آواز سے بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھتے تھے۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن سعید ابو سعید اشجع، عقبہ بن خالد، شعبہ و ابن ابو عروبۃ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان غنی کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ میں نے کسی کو بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ بلند آواز سے پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔

 

 

٭٭ اسمعیل بن مسعود، خالد، عثمان بن غیاث، ابو نعامۃ حنفی، ابن عبداللہ بن مغفل کے صاحبزادے سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مغفل جس وقت کسی کو بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ(آواز سے ) پڑھتے ہوئے سنتے تھے تو فرماتے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی اقتداء میں نماز ادا کی اور کسی کو بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ (پکار کر) پڑھتے ہوئے نہیں سنا۔

 

سورۂ فاتحہ میں بسم اللہ نہ پڑھنا

 

قتیبہ، مالک، العلاء بن عبدالرحمن، ابو سائب، ہشام ابن زہرۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص نماز پڑھے اور اس میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے وہ ناقص ہے ہرگز پوری نہیں ہے حضرت ابو سائب نے فرمایا کہ میں نے ابو ہریرہ سے دریافت کیا کہ میں کبھی کبھی امام کی اقتداء میں ہوتا ہوں تو میں سورہ فاتحہ کس طریقہ سے پڑھوں ؟ انہوں نے فرمایا اور پھر میرا ہاتھ دبایا اور ارشاد فرمایا اے فارسی اپنے دل میں پڑھ لے اس لئے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ خداوند قدوس فرماتا ہے نماز میرے اور بندے کے درمیان آدھی آدھی تقسیم ہو گئی ہے تو نماز آدھی میرے واسطے ہے اور آدھی میرے بندے کے واسطے ہے اور میرا بندہ جو مانگے وہ اس کے واسطے موجود ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت بندہ کہتا ہے (اَلْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) تمام تعریف خدا کے واسطے ہے جو کے مالک ہے تمام جہان کا تو خداوند قدوس فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری تعریف کی ہے پھر بندہ کہتا ہے الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ بہت مہربان اور نہایت رحم والا تو خداوند قدوس فرماتا ہے میرے بندے نے میری تعریف بیان کی پھر بندہ کہتا ہے مَالِکِ یَوْمِ الدِّینِ مالک ہے بدلہ کے دن کا۔ تو خداوند قدوس ارشاد فرماتا ہے۔ میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی اس کے بعد بندہ کہتا ہے إِیَّاکَ نَعْبُدُ وَإِیَّاکَ نَسْتَعِینُ کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ میرے اور بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے واسطے ہے کہ وہ جو کچھ مانگے پھر بندہ کہتا ہے اہْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَیعنی ہم کو سیدھا راستہ دکھلا دے۔ صِرَاطَ الَّذِینَ أَنْعَمْتَ عَلَیْہِمْ ان لوگوں کا راستہ کہ جن پر تو نے اپنا فضل و کرم کیا۔ غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ۔ یعنی نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تو ناراض ہوا وہ گمراہ ہو گئے۔ مذکورہ تین آیت کریمہ بندوں کے واسطے ہے وہ جو سوال کرے وہ موجود ہے۔

 

نماز کے دوران الحمد شریف کی تلاوت لازمی ہے

 

محمد بن منصور، سفیان، زہری، محمود بن ربیع، عباٍدۃ بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس شخص کی نماز ہی نہیں ہوتی جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، معمر، زہری، محمود بن ربیع، عباٍدۃ بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کی نماز ہی نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہ پڑھے۔ پھر اس سے زیادہ (یعنی سورت وغیرہ)۔

 

فضیلت سورۂ فاتحہ

 

محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، یحیی بن آدم، ابو احوص، عمار بن زریق، عبداللہ بن عیسی، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے کہ حضرت جبرائیل آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تشریف رکھتے تھے۔ کہ اس دوران آسمان کے اوپر سے دروازہ کھولنے کی آواز سنی تو انہوں نے اپنی آنکھ اوپر کی طرف اٹھا کر دیکھا پھر فرمایا کہ یہ آسمان کا وہ دروازہ ہے جو کہ آج سے قبل کبھی نہیں کھلا تھا۔ اس کے بعد اس آسمانی دروازے میں سے ایک فرشتہ نازل ہوا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مبارک ہو تم کو دونوں انعام عنایت کئے گئے اور تم سے قبل کسی نبی کو نہیں عطاء فرمائے ایک تو سورہ فاتحہ دوسری آخری آیت کریمہ سورہ بقرہ کی۔ (مطلب یہ ہے کہ آمَنَ الرَّسُولُ سے لے کر ختم سورہ بقرہ تک) یعنی اگر تم ان میں سے ایک حرف بھی پڑھو گے تو تم کو اجر و ثواب ملے گا۔

 

تفسیر آیت کریمہ سے آخر تک

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، خبیب بن عبدالرحمن، حفص بن عاصم، ابو سعید بن معلی سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے سامنے سے گزرے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز میں مشغول تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو طلب فرمایا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نے کس وجہ سے یہ جواب دیا انہوں نے فرمایا میں نماز میں مشغول تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا خداوند قدوس نے ارشاد نہیں فرمایا کہ اے اہل ایمان! تم جواب دو خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جس وقت وہ تم کو ان کاموں کے واسطے طلب کرے جن سے تمہاری زندگی۔ (یعنی آخرت میں زندگی کا لطف حاصل ہو سکے ) میں تم لوگوں کو ایک ایسی سورت بتلاؤں گا مسجد سے نکلنے سے قبل جو کہ بڑی آیت ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد سے نکلنے لگے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا فرمایا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ سورۃالْحَمْدُ لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ ہے اور پہلی سورت سبع مثانی اور قرآن عظیم ہے۔

 

 

٭٭ حسین بن حریث، فضل بن موسی، عبدالحمید بن جعفر، العلاء بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ، ابی بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس نے نہ تو تورات میں اور نہ ہی انجیل میں کوئی سورت سورہ فاتحہ جیسی نازل فرمائی وہ ام القرآن ہے یعنی قرآن کی جڑ ہے وہ سبع مثانی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ یہ سورت میرے اور میرے بندہ کے درمیان تقسیم ہوئی ہے اور میرے بندہ کے لئے وہ ہے جو وہ مانگے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، اعمش، مسلم، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سبع مثانی عطا فرمائی گئی یعنی سات سورتیں جو کہ بڑی سورت ہیں تو سبع مثانی سے مراد یہ سات سورتیں ہیں اور مثانی ان سورت کو اس وجہ سے کہا کہ ایک سورت کا مضامین دوسری سورت میں موجود ہیں اور وہ سورہ بقرہ اور سورہ آل عمران سورہ نساء سورہ مائدہ سورہ اعراف سورہ ہود اور سورہ یونس ہیں۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، شریک، ابو اسحاق، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس، نے فرمایا کہ سبع مثانی سے مراد وہ سات سورتیں ہیں جو بہت زیادہ لمبی ہیں۔

 

امام کی اقتداء میں سری نماز میں (سوا سورۃ فاتحہ کے ) قرأت نہ کرے

 

محمد بن مثنی، یحیی، شعبۃ، قتادہ، زرارۃ، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر ادا فرمائی تو ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے سبع اسم ایک تلاوت فرمائی جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ اس سورت کو کس شخص نے تلاوت کیا؟  آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھ کو اس بات کا خیال ہوا کہ کوئی شخص مجھ سے قرآن کریم چھین رہا ہے۔

 

 

٭٭ ابوعوانہ، قتادہ، زرارۃبن اوفی، عمران بن حصین، ترجمہ سابقہ حدیث میں گزر چکا ہے

 

جہری نماز میں امام کے پیچھے قرأت نہ کرنے کا بیان

 

قتیبہ، مالک، ابن شہاب، ابن اکیمۃ لیثی، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک نماز سے فارغ ہوئے جس میں بلند آواز سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قرأت فرمائی تو ارشاد فرمایا کیا تمہارے میں سے کسی شخص نے میرے ہمراہ تلاوت قرآن کریم کی ہے۔ ایک شخص نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے قرآن کریم کی تلاوت کی ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ اسی وجہ سے ہی تو مجھ کو (دوران نماز خیال ہوا کہ) مجھ کو کیا ہو گیا ہے کہ قرآن کریم مجھ سے چھین رہا ہے۔ جس وقت لوگوں نے یہ بات سنی تو جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پکار کر قرأت کرتے تو کوئی شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں قرأت نہ کرتا۔

 

جس وقت امام جہری نماز میں قرأت کرے تو مقتدی کچھ نہ پڑھیں لیکن سورۂ فاتحہ پڑھیں

 

ہشام بن عمار، صدقۃ، زید بن واقد، حرام بن حکیم، نافع بن محمود بن ربیعۃ، عباٍدۃ بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کسی وقت کی نماز جہری کی امامت فرمائی پھر ارشاد فرمایا جس وقت میں بلند آواز سے قرأت کروں تو کوئی شخص کچھ نہ پڑھے لیکن سورہ فاتحہ۔

 

آیت کریمہ کی تفسیر

 

جارود بن معاذ ترمذی، ابو خالد، الاحمر، محمد بن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا امام اس واسطے ہے کہ تم لوگ اس کی تابعداری کرو جس وقت وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور جس وقت وہ قرأت کرے تم خاموش رہو اور جس وقت وہ سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ کہو۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک، محمد بن سعد انصاری، محمد بن عجلان، زید بن اسلم، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا امام تو اس لئے ہے کہ اس کی تابعداری کی جائے وہ جس وقت وہ تکبیر کہے تم بھی تکبیر کہو اور وہ جس وقت وہ قرأت کرے تم خاموش رہو اور غور سے سنو۔

 

مقتدی کی قرأت امام کے واسطے کافی ہے

 

ہارون بن عبد اللہ، زید بن حباب، معاویہ بن صالح، ابو زاہریٰۃ، کثیر بن مرۃ حضرمی، ابو درداء سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا گیا کہ کیا ہر ایک نماز میں قرأت ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جی ہاں۔ ایک انصاری نے کہا کہ یہ بات لازم ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری جانب دیکھا اور میں تمام لوگوں سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نزدیک تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں اس بات سے واقف ہوں کہ جس وقت امام لوگوں کی امامت کرے تو اس کی قرأت ان کو کافی ہے۔ (صاحب نسائی شریف) حضرت عبدالرحمن نے فرمایا کہ اس حدیث کو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قول قرار دینا غلط ہے دراصل یہ ابو درداء کا قول ہے۔

 

جو کوئی تلاوت قرآن نہ کر سکے تو اس کے واسطے اس کا کیا بدل ہے ؟

 

یوسف بن عیسیٰ و محمود بن غیلان، فضل بن موسی، مسعر، ابراہیم اسکسکی، ابن ابو اوفی سے روایت ہے کہ ایک شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو قرآن کریم معمولی سا بھی یاد نہیں ہو سکتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو ایسی چیز سکھلائیں جو قرآن کریم کا بدل بن سکے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَاللَّہُ أَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّٰۃَ إِلَّا بِاللَّہِ کہہ لو۔

 

امام آمین بلند آواز سے پکارے

 

عمرو بن عثمان، بقیٰۃ، زبیدی، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت پڑھنے والا (امام) آمین کہے تو تم بھی آمین پکارو۔ کیونکہ فرشتے بھی (ساتھ میں ) آمین کہتے ہیں۔ (اس لفظ کا مطلب یہ ہے اے خدا میرا عمل قبول فرما لے ) پھر جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے برابر ہو جائے تو اس کے اگلے پیچھے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، زہری، سعید بن مسیب، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت امام کہے تو تم آمین پکارو۔ اس لئے کہ فرشتے بھی آمین پکارتے ہیں اور امام بھی آمین پکارتا ہے۔ پھر جس شخص کی آمین فرشتوں کی آمین کے مطابق ہو گی اس کے اگلے پیچھے گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، معمر، الزہری، سعید بن المسیب، ابی ہریرۃ، اس کا ترجمہ گزشتہ حدیث کے مطابق ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، ابن شہاب، سعیدو ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت امام آمین کہے تو تم لوگ بھی آمین کہو۔ کیونکہ جس کسی کی آمین فرشتوں کی آمین ٹکرائے گی (یعنی اسی وقت ہو گی) تو اس کے اگلے پیچھے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

امام کی اقتداء میں آمین کہنا اس کا حکم

 

قتیبہ، مالک، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت امام غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ کہہ چکے تو تم لوگ آمین پکارو۔ کیونکہ جس شخص کی آمین کہنا فرشتوں کی آمین کے برابر ہو جائے گی تو اس کے اگلے پیچھے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

فضیلت آمین

 

قتیبہ، مالک، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص آمین پکارتا ہے تو فرشتے آسمان میں آمین پکارتے ہیں پھر اگر تمہاری آمین اور ان کی آمین برابر ہو گئی تو تم لوگوں کے اگلے اور پیچھے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

اگر مقتدی کو نماز میں چھینک آ جائے تو کیا کہنا چاہئے ؟

 

قتیبہ، رفاعۃ بن یحیی بن عبداللہ بن رفاعۃ بن رافع سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کی تو مجھ کو چھینک آ گئی۔ میں نے عرض کیا آخر تک۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو دریافت کیا کہ کس نے یہ بات نماز میں کہی تھی؟ لیکن کسی نے جواب نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ بات میں نے کہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نے کیا بات کہی تھی؟ میں نے کہا آخر تک۔ یہ سن کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے لیکن اس کو تیس سے زائد فرشتوں نے بھاگ کر اٹھایا اور تمام اس بات کا لالچ کرتے تھے کہ ان کلمات کو کون اوپر لے جائے۔

 

 

٭٭ عبدالحمید بن محمد مخلد، یونس بن ابو اسحاق، عبدالجبار بن وائل، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی تو دونوں ہاتھ اٹھائے کچھ اپنے کانوں سے نیچے تک پھر جس وقت غَیْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّینَ کہہ چکے تو آمین کہی تو میں نے آمین سنا اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے تھا کہ اس دوران ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ کہتے ہوئے سنا (الْحَمْدُ لِلَّہِ حَمْدًا کَثِیرًا طَیِّبًا مُبَارَکًا فِیہِ) آخر تک۔ بہرحال جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو دریافت کیا یہ بات کس نے کہی تھی؟ ایک شخص نے عرض کیا میں نے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! اور میری نیت یہ جملہ کہنے سے بری نہیں تھی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا (یاد رکھو) بارہ فرشتے ہیں جو کہ اس کلمہ پر دوڑ پڑتے تھے (اس بات سے اس کلمہ کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ وہ فرشتے کسی جگہ نہیں ٹھہرتے اور یہ کلمات عرش الہی تک یعنی بارگاہ رب العالمین تک پہنچ گئے۔

 

فضائل قرآن کریم

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حارث بن حشام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کس کس طریقہ سے نازل ہوتی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھ پر وحی اس طریقہ سے نازل ہوتی ہے کہ کبھی تو اس طریقہ سے ہوتا ہے کہ جس طرح سے گھنٹی کی آواز (جھنکار) پھر وہ بند ہو جاتی ہے جس وقت اس کو یاد کرتا ہوں اور اس طریقہ سے وحی نازل ہونا مجھ کو سخت محسوس ہوتا ہے اور کبھی وحی لے کر ایک فرشتہ انسان کی صورت میں میرے پاس آتا ہے وہ مجھے بتلا دیتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و الحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ہشام بن عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حارث بن حشام نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی کس طریقہ سے نازل ہوتی ہے ؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کبھی تو وحی اس طریقہ سے نازل ہوتی ہے جس طریقہ سے کسی گھنٹی کی جھنکار ہوتی ہے جو کہ میرے اوپر سخت گزرتی ہے پھر وہ موقوف ہو جاتی ہے۔ جس وقت اس کو یاد کرتا ہوں اور کبھی فرشتہ ایک انسان کی صورت بن کر میرے پاس آتا ہے اور وہ فرشتہ مجھ سے گفتگو کرتا ہے میں اس حکم الہی کو یاد کر لیتا ہوں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے دیکھا کہ جس وقت سخت ترین موسم سرما میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہوتی تھی پھر وہ وحی آنا بند ہو جاتی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیشانی سے پسینہ نکلنے لگتا وحی کی سختی کی وجہ سے اس کے زور سے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، موسیٰ بن ابو عائشہ صدیقہ، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس، کی تفسیر کے سلسلہ میں بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مذکورہ بالا آیت کریمہ کے نازل ہونے کی وجہ سے زحمت گوارا فرماتے اور تکلیف برداشت فرماتے اور (قرآن کریم کے نازل ہونے کے وقت) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مبارک ہونٹ کو ہلایا کرتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ مجھ سے بھول ہو جائے جس پر خداوند قدوس نے ارشاد فرمایا (لَا تُحَرِّکْ بِہِ لِسَانَکَ لِتَعْجَلَ بِہِ إِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ) 75۔ القیامۃ:16) اس آیت کریمہ کا حاصل یہ ہے کہ اے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تم اپنی زبان قرآن کریم کے نزول کے وقت (ساتھ ساتھ نہ چلا) جلدی قرآن کریم سیکھنے کی غرض سے دراصل قرآن کریم کا یاد کرانا اور اس کا محفوظ کرنا تو ہمارے ذمہ ہے اور اس کے جمع کرنے اور محفوظ کرانے کی ذمہ داری ہماری ہے پھر تم اس قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول ہو جاؤ تو جس وقت ہم قرآن کریم پڑھنے لگ جائیں تو تم اس کی تابعداری کرو (یعنی خاموشی توجہ اور غور کے ساتھ قرآن کریم سنا کرو) تو جس وقت سے مذکورہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو جبرائیل علیہ السلام خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم سنتے اور وہ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے اس کے بعد جبرائیل تشریف لے جاتے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے کرتے کہ جس طریقہ سے حضرت جبرائیل نے تعلیم دی تھی۔

 

 

٭٭ نصر بن علی، عبدالاعلی، معمر، زہری، عروہ، ابن مخرمۃ، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۃ الفرقان کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ انہوں نے اس طریقہ سے کچھ الفاظ پڑھے کہ جس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو وہ الفاظ نہیں پڑھائے تھے۔ میں نے کہا کہ یہ سورت تم کو کس نے پڑھائی؟ انہوں نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔ میں نے کہا کہ تم جھوٹ بھول رہے ہو اس طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ پڑھائی (اور نہ سکھلائی ہو گی) پھر میں ان کا ہاتھ پکڑ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے گیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو سورۃ الفرقان کی تعلیم دی ہے اور میں نے ان کو تلاوت کرتے ہوئے سنا اور انہوں نہ کچھ الفاظ اس طریقہ سے پڑھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو اس طریقہ سے نہیں سکھلائے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ یہ سورت تم کو کس نے سکھلائی انہوں نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے۔ میں نے عرض کیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے کبھی نہیں پڑھائی ہو گی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ہشام سے فرمایا پڑھو۔ انہوں نے پڑھا کہ جس طریقہ سے پہلے پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت اسی طریقہ سے نازل ہوئی ہے پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قرآن کریم سات زبانوں (لغات) میں نازل ہوا ہے

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، عبدالرحمن بن عبدالقاری، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم کو سورۃ الفرقان دوسرے طریقہ سے تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ اس طریقہ سے میں جس طریقہ سے پڑھتا تھا اور خود رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یہ سورت تعلیم دی تھی۔ تو میں قریب تھا کہ میں جلدی (گفتگو) کروں لیکن میں نے ان کو مہلت دی جس وقت وہ اس سورت کی تلاوت سے فارغ ہو گئے تو میں نے ان کی ہی چادر ان کے گلے میں ڈال کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں نے ان کو سورۃ الفرقان کی دوسرے طریقہ سے تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے جو کہ اس طریقہ سے مختلف ہے کہ جس طریقہ سے مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تعلیم دی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان سے ارشاد فرمایا تم تلاوت کرو انہوں نے اسی طریقہ سے تلاوت کی جس طریقہ سے میں نے ان سے سنا تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا یہ سورت اسی طریقہ سے نازل ہوئی پھر مجھ سے ارشاد فرمایا تم اس سورت کی تلاوت کرو میں نے اسی طریقہ سے سورت کی تلاوت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ سورت اسی طریقہ سے نازل ہوئی ہے اور قرآن کریم سات زبانوں (لغات) میں نازل ہوا ہے۔ تو جس طریقہ سے سہولت ہو تم لوگ اسی طریقہ سے تلاوت کرو۔

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، عروہ بن زبیر، مسور بن مخرمۃ و عبدالرحمن بن عبدالقاری، عمر بن خطاب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ہشام بن حکیم سے سنا سورۃ الفرقان کی تلاوت فرماتے ہوئے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی زندگی میں میں نے ان کو ان الفاظ میں تلاوت فرماتے ہوئے سنا جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو تعلیم نہیں دئیے تھے تو ہو سکتا تھا کہ مذکورہ وجہ کی وجہ سے میں ان پر بحالت نماز ہی حملہ آور ہو جاتا لیکن میں نے انتہائی صبر سے کام لیا حتی کہ انہوں نے سلام پھیر دیا پس جس وقت وہ سلام پھیر چکے تو میں نے ان ہی کی چادر ان کے گلے میں ڈال دی اور میں نے ان سے دریافت کیا کہ (ٹھیک ٹھیک) بتلا کہ اس سورت کو تمہیں کس نے بتلایا ہے ؟ یعنی یہ سورت جو کہ میں نے ابھی ابھی سنی ہے انہوں نے فرمایا کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ سورت سکھلائی اور پڑھائی ہے۔ اس پر میں نے جواب دیا کہ تم جھوٹ بول رہے ہو خدا کی قسم مجھ کو خود یہ سورت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سکھلائی ہے پھر کس وجہ سے تم اس کے خلاف کہہ رہے ہو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یہ سورت پڑھائی ہے۔ بہرحال آخرکار میں ان کو پکڑ کر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں لے آیا اور میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نے ان کو سورۃ الفرقان دوسرے طریقہ سے اور کچھ دوسرے الفاظ کے ساتھ پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ جس طریقہ سے کہ وہ سورت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو نہیں سکھلائی اور یہ سورت مجھ کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہی پڑھا چکے ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے عمر تم ان کو چھوڑ دو۔ پھر فرمایا اے ہشام تم اس سورت کو پڑھو۔ چنانچہ انہوں نے اس طریقہ سے تلاوت فرمائی کہ جس طریقہ سے میں نے ان کو تلاوت کرتے ہوئے سنا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورت (اسی طریقہ سے نازل ہوئی ہے ) اے عمر! تم اس سورت کی تلاوت کرو۔ چنانچہ میں نے اس سورت کو اسی طریقہ سے تلاوت کیا کہ جس طریقہ سے مجھے پڑھایا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ سورت اسی طریقہ سے نازل ہوئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کریم سات طریقہ سے نازل ہوا ہے تو تم جس طریقہ سے قرآن کریم کو آسان اور سہل محسوس کرو تو اسی کے مطابق تم تلاوت کرو۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، محمد بن جعفر، غندر، شعبہ، حکم، مجاہد، ابن ابی لیلی، ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز قبیلہ بنی غفار کے تالاب پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران حضرت جبرائیل تشریف لائے اور فرمایا خداوند قدوس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حکم فرمایا ہے کہ امت ایک طریقہ سے قرآن کریم کی تلاوت کرے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا میں خداوند قدوس سے معافی کا طلب گار ہوں اور اس کی مغفرت چاہتا ہوں اس لئے کہ میری امت میں اس بات کی قوت نہیں ہے۔ اس کے بعد جبرائیل دوسری مرتبہ تشریف لائے اور فرمایا کہ خداوند قدوس نے حکم فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت قرآن کریم کو دو طریقہ سے تلاوت کیا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں خداوند قدوس کی مغفرت چاہتا ہوں میری امت میں اس قدر قوت نہیں ہے اس کے بعد تیسری مرتبہ حضرت جبرائیل آئے اور فرمانے لگے کہ خداوند قدوس نے حکم فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت قرآن کریم کو تین طریقہ سے تلاوت کیا کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں خداوند قدوس سے معافی چاہتا ہوں کہ میری امت میں اس قدر قوت نہیں ہے اس کے بعد چوتھی مرتبہ حضرت جبرائیل تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ خداوند قدوس حکم فرماتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امت قرآن کریم کو سات مرتبہ تلاوت کیا کرے۔ مطلب یہ ہے کہ ملک عرب کے سات زبان والے حضرات اپنے اپنے علاقہ کی زبان میں تلاوت قرآن کریم کیا کریں۔

 

 

٭٭ عمرو بن منصور، ابو جعفر بن نفیل، معقل بن عبید اللہ، عکرمۃ بن خالد، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس، ابی بن کعب سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک سورت کی تعلیم دی میں ایک دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی نے وہی سورت تلاوت کی لیکن اس نے وہ سورت دوسرے طریقہ سے تلاوت کی میں نے عرض کیا کہ تم کو یہ سورت کس نے تعلیم دی ہے ؟ اس شخص نے عرض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یہ سورت سکھلائی۔ اس پر میں نے کہا کہ تم ابھی اس جگہ سے رخصت نہ ہونا جس وقت تک کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ملاقات نہ کر لیں۔ اس کے بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! یہ آدمی میرے خلاف تلاوت کرتا ہے یعنی جو سورت جس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو پڑھائی اور سکھلائی ہے اس کے خلاف یہ شخص اس سورت کو تلاوت کر رہا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے ابی! تم پڑھو تو میں نے وہ سورت تلاوت کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نے بہتر طریقہ سے تلاوت کی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس آدمی سے فرمایا کہ تم اس سورت کی تلاوت کرو چنانچہ انہوں نے اس سورت کی تلاوت کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم نے عمدہ طریقہ سے تلاوت کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے ابی قرآن کریم سات طریقہ سے نازل ہوا ہے اور ہر ایک طریقہ صحیح اور کافی ہے۔

 

 

٭٭ یعقوب بن ابراہیم، یحیی، حمید، انس سے روایت ہے کہ میرے قلب میں کبھی اس قسم کی بات نہیں چھپی رہی جب سے میں نے اسلام قبول کیا جب سے یہ بات محسوس ہوئی کہ کوئی ایک آیت ایک شخص کس طرح پڑھتا ہے۔ آخر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یہ آیت کریمہ اس طریقہ سے تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ پھر دوسرے شخص نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو یہ آیت کریمہ اس طریقہ سے تعلیم دی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جی ہاں۔ حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل میرے پاس تشریف لائے تو حضرت جبرائیل دائیں جانب بیٹھ گئے اور حضرت میکائیل بائیں جانب بیٹھ گئے حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ قرآن کریم ایک طریقہ سے تلاوت کیا کرو میکائیل نے فرمایا کہ زیادہ کرا زیادہ کرا۔ یہاں تک کہ سات طریقہ سے پہنچ جائے اور فرمایا کہ ہر ایک طریقہ سے تلاوت قرآن شافی اور کافی ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا حافظ قرآن کی مثال ایسی ہے کہ جس طریقہ سے اونٹ والے کی مثال ہے جس کی رسی سے اونٹ بندھے ہوئے ہوں اور اگر وہ اس کی حفاظت کرے گا تو وہ اونٹ محفوظ رہیں گے اور اگر چھوڑ دے گا تو چلے (بھاگ) جائیں گے۔

 

 

٭٭ عمران بن موسی، یزید بن زریع، شعبہ، منصور، ابو وائل، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ بات بری ہے کہ اگر کوئی شخص یہ بات کہے کہ میں فلاں آیت کریمہ بھول گیا بلکہ اس طریقہ سے کہنا چاہیے کہ فلاں آیت کریمہ بھلا دیا گیا (اس لئے کہ اس میں غلطی کا احساس ہوتا ہے اور لفظ بھول گیا میں لا پرواہی ظاہر ہوتی ہے ) اور تم لوگ قرآن کریم یاد کرتے ہو اس لئے کہ قرآن کریم سینوں سے جلد نکل جاتا ہے۔ ان جانور سے بھی زیادہ جو کہ رسی سے بندھے ہوئے ہوں۔

 

سنت فجر میں کیا پڑھنا چاہئے ؟

 

عمران بن یزید، مروان بن معاویہ الفزاری، عثمان بن حکیم، سعید بن یسار، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سنت فجر میں پہلی رکعت میں آخر تک جو کہ سورہ بقرہ میں فرمایا گیا ہے وہ تلاوت فرمایا کرتے تھے اور دوسری رکعت میں آیت مبارکہ (اٰمَنَّا بِاللہِ ۚ وَاشْہَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ ) 3۔ آل عمران:52) تلاوت فرماتے تھے۔

 

سنت فجر میں سورۂ کافرون اور سورۂ اخلاص پڑھنے سے متعلق

 

عبدالرحمن بن ابراہیم، مروان، یزید بن کیسان، ابو حازم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فجر کی نماز کی سنتوں میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ تلاوت فرمائی۔

 

فجر کی سنتیں خفیف پڑھنا

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، یحیی بن سعید، محمد بن عبدالرحمن، عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں یہ دیکھا کرتی تھی کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فجر کی سنتوں کو اس قدر ہلکا پڑھا کرتے تھے کہ میں کہا کرتی تھی کہ کیا سورہ فاتحہ بھی تلاوت فرمائی ہے یا نہیں۔

 

نماز فجر میں سورۂ روم کی تلاوت کرنا

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، عبدالملک بن عمیر، شبیب ابو روح سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز فجر ادا کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فجر میں سورہ روم کی تلاوت فرمائی۔ جس وقت نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کیا حالت ہے وہ نماز پڑھتے ہیں اور ہم لوگوں کے ساتھ لیکن وہ اچھی طریقہ سے پاکی حاصل نہیں کرتے وہی لوگ قرآن کریم (کی عظمت) فراموش کرتے ہیں۔

 

نماز فجر میں ساٹھ آیات کریمہ سے لے کر ایک سو آیات کریمہ تک تلاوت کرنا

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یزید، سلیمان تیمی، سیار، یعنی ابن سلامۃ، ابو برزٰۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر میں ساٹھ آیات کریمہ سے لے کر ایک سو آیات کریمہ تک تلاوت فرماتے تھے۔

 

 

نماز فجر میں سورۂ ق کی تلاوت سے متعلق

 

عمران بن یزید، ابن ابو رجال، یحیی بن سعید، عمرۃ، ام ہشام بنت حارثۃ بن نعمان سے روایت ہے کہ میں نے سورہ قاف نہیں سیکھی لیکن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز پڑھ پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو نماز فجر میں تلاوت کرتے تھے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود و محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، زیاد بن علاقۃ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے چچا سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز فجر ادا کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک رکعت میں (وَالنَّخْلَ بَاسِقَاتٍ لَہَا طَلْعٌ نَضِیدٌ) تلاوت کیا۔ حضرت شعبہ نے کہا کہ میں نے زیاد سے بازار میں ایک بڑے مجمع میں ملاقات کی تو انہوں نے سورہ قاف تلاوت فرمائی۔

 

نماز فجر میں سورۂ  تکویر تلاوت کرنا

 

محمد بن ابان بلخی، وکیع بن جراح، مسعر، مسعودی، ولید بن سریع، عمرو بن حریث سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر میں سورہ تکویر پڑھتے تھے۔

 

 

فجر میں سورۃ الفلق اور سورۃ الناس پڑھنا

 

موسی بن حزام ترمذی وہارون بن عبد اللہ، ابو اسامۃ، سفیان، معاویہ بن صالح، عبدالرحمن بن جبیر بن نفیر، وہ اپنے والد سے ، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سورہ معوذتین کے بارے میں دریافت فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فجر میں ان ہی دونوں سورت کو تلاوت فرمایا۔

 

فضیلت سورۃ الفلق اور سورۃ الناس

 

قتیبہ، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو عمران اسلم، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت سوار تھے تو میں نے اپنا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں مبارک پر رکھ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! مجھ کو سورہ ہود اور سورہ یوسف سکھلا دیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم نہیں پڑھ سکتے ہو کوئی سورت بہتر نہیں ہے خدا کی نزدیک سورۃالفلق اور سورۃالناس سے۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، بیان، قیس، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا چند آیات ہیں جو کہ میرے اوپر رات میں نازل ہوئیں اور یہ کہ ان جیسی آیات کبھی بھی نہیں دیکھی گئیں ان میں سے ایک تو سورۃ الفلق اور دوسری سورہ الناس یعنی قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ اور قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ۔

 

بروز جمعہ نماز فجر میں کونسی سورت تلاوت کی جائے ؟

 

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، سفیان، عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، سعد بن ابراہیم، عبدالرحمن اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں بروز جمعہ سورہ الم تنزیل اور ھَل اَتیٰ یعنی سورہ سجدہ اور سورہ دہر تلاوت فرماتے تھے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، ابو عوانہ، علی بن حجر، شریک، مخول بن راشد، مسلم، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر میں جمعہ کے دن سورہ تنزیل السجدہ اور سورہ دہر کی تلاوت فرماتے تھے۔

 

قرآن کریم کے سجدوں سے متعلق

 

ابراہیم بن حسن مقسمی، حجاج بن محمد، عمر بن ذر، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ ص میں سجدہ کیا اور ارشاد فرمایا داؤد علیہ السلام نے یہ سجدہ توبہ کے لئے فرمایا تھا۔ تو ہم لوگ شکر خداوندی بجا لانے کے واسطے سجدہ کیا کرتے تھے اور خداوند قدوس نے داؤد علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی۔

 

سورۂ نجم کے سجدہ سے متعلق

 

عبدالملک بن عبدالحمید بن میمون بن مہرا ن، ابن حنبل، ابراہیم بن خالد، رباح، معمر، ابن طاؤس، عکرمۃ بن خالد، جعفر بن مطلب بن ابو وداعۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مکہ مکرمہ میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ فرمایا اور جس قدر لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے تمام کے تمام نے سجدہ کیا۔ میں نے اپنا سر اٹھایا اور سجدہ نہیں فرمایا اور میں ان دنوں میں مسلمان نہیں تھا۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبۃ، ابو اسحاق، اسود، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ نجم تلاوت فرمائی تو اس میں سجدہ فرمایا۔

 

سورۂ نجم میں سجدہ نہ کرنے سے متعلق

 

علی بن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، یزید بن خصیفۃ، یزید بن عبداللہ بن قسیط، عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت زید بن ثابت سے دریافت فرمایا کہ امام کی اقتداء میں قرأت کرنی چاہیے یا نہیں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ امام کی اقتداء میں قرأت نہیں کرنی چاہیے اور فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے سورہ نجم کی تلاوت کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ نہیں فرمایا۔

 

سورۂ  انشقت میں سجدہ کرنے سے متعلق

 

قتیبہ، مالک، عبداللہ بن یزید، ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ابو ہریرہ نے سورہ انشقت تلاوت فرمائی تو اس میں سجدہ فرمایا پھر جس وقت تلاوت سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے بیان فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس میں سجدہ فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، ابن ابی ذنب، عبدالعزیز بن عیاش، ابن قیس، محمد، عمر بن عبدالعزیز، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ انشقت میں سجدہ فرمایا۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، یحیی بن سعید، ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، عمر بن عبدالعزیز، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ہم نے سجدہ کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ إِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ اور اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ میں۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، یحیی بن سعید، ابی بکر بن محمد، عمر بن عبدالعزیز، ابو بکر بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی، قرۃ بن خالد، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے سجدہ فرمایا اذاإِذَا السَّمَاءُ انْشَقَّتْ میں اور انہوں نے جو کہ ان دونوں سے بہتر تھے یعنی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔

 

سورۂ اقراء میں سجدہ کرنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، المعتمر، قرۃ، ابن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نے سورہ انشقت اور سورہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّکَ میں سجدہ فرمایا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، سفیان، ایوب بن موسی، عطاء بن میناء، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ سورہ العلق اور سورہ اقراء میں سجدہ کیا۔

 

نماز فرض میں سجدہ تلاوت سے متعلق

 

حمید بن مسعٍدۃ، سلیم و ابن خضر، تیمی، بکر بن عبداللہ مزنی، ابو رافع سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کی اقتداء میں نماز عشاء ادا کی تو انہوں نے إِذَا السَّمَاءُانْشَقَّتْ تلاوت فرمائی اور اس میں انہوں نے سجدہ فرمایا۔ جس وقت فارغ ہوئے تو میں نے کہا اے ابو ہریرہ! یہ سجدہ بالکل نئے قسم کا سجدہ ہے کہ جس کو کہ ہم نے کبھی نہیں کیا (اور نہ ہی سنا) ہے۔ انہوں نے فرمایا ابو القاسم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سورت میں سجدہ فرمایا ہے اور میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں تھا تو ہمیشہ میں سجدہ کرتا رہوں گا یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے میری ملاقات ہو۔

 

دن کے وقت نماز میں قرأت آہستہ کرنی چاہئے

 

محمد بن قدامۃ، جریر، رقبۃ، عطاء سے روایت ہے کہ ابو ہریرہ نے فرمایا ہر ایک نماز میں قرأت ہوتی ہے لیکن جس نماز میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو قرأت سنائی ہے تو اس نماز میں ہم تم کو (بلند) آواز سے سناتے ہیں اور جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تلاوت قرآن آہستہ سے فرمائی ہے تو ہم لوگ بھی آہستہ سے تلاوت کرتے ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، عطاء، ہریرہ، اس کا ترجمہ سابق کے مطابق ہے۔

 

نماز ظہر میں قرأت سے متعلق

 

محمد بن ابراہیم بن صدران، سلم بن قتیبہ، ہاشم بن برید، ابو اسحاق، براء بن عازب سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ظہر ادا فرماتے تھے تو کوئی ایک آدھ آیت کریمہ متعدد آیت کریمہ کے بعد سنائی دیتی تھی سورہ لقمان اور سورہ ذاریات کی۔

 

 

٭٭ محمد بن شجاع مروذی، ابو عبیٍدۃ، عبداللہ بن عبید، ابو بکر بن نضر سے روایت ہے کہ ہم لوگ مقام طف میں حضرت انس کے پاس تھے انہوں نے نماز ظہر کی امامت فرمائی جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی تو فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ظہر ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ دو سورت پڑھیں دو رکعت میں یعنی سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ۔

 

 

نماز ظہر میں پہلی رکعت میں سورت پڑھنے سے متعلق

 

عمرو بن عثمان، ولید، سعید بن عبدالعزیز، عطیٰۃ بن قیس، قزعۃ، ابو سعیدخدری سے روایت ہے کہ نماز ظہر شروع ہو جایا کرتی تھی پھر کوئی شخص مقام بقیع جاتا تھا اور وہ قضائے حاجت کے بعد وضو کرتا تھا پھر وہ واپس آتا تو اس وقت تک حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی رکعت میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس مقدار میں رکعت پڑھتے تھے۔

 

 

٭٭ یحیی بن درست، ابو اسماعیل، قناد، خالد، یحیی بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر ادا فرماتے تھے تو پہلی دو رکعت میں قرأت فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کبھی کبھی ایک آدھ آیت کریمہ سنایا کرتے تھے (کہ جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذرا بلند آواز میں پڑھتے ) اور پہلی رکعت نماز ظہر اور نماز فجر کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طویل پڑھا کرتے تھے بہ نسبت دوسری رکعت کے۔

 

نماز ظہر میں امام کا آیت کریمہ پڑھنا اگر سنایا جائے

 

عمران بن یزید بن خالد بن مسلم، ابو جمیل، اسماعیل بن عبداللہ ابن سماعۃ، اوزاعی، یحیی بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے نماز ظہر کی پہلی دو رکعت میں اور نماز عصر میں اور کبھی کبھی (اتفاق سے مذکورہ دو نمازوں میں ) ایک آدھ آیت کریمہ ہم کو سنائی دیتی اور پہلی رکعت کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم طویل فرماتے تھے

 

نماز ظہر کی دوسری رکعت میں پہلی رکعت سے کم قرأت کرنا

 

عبید اللہ بن سعید، معاذ بن ہشام، یحیی بن ابو کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعت میں قرأت فرماتے۔ کبھی ایک آدھ آیت کریمہ ہم لوگ سن لیا کرتے تھے اور پہلی رکعت کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسری رکعت سے طویل فرماتے تھے اور نماز فجر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے طویل فرماتے اور نماز عصر میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پہلی رکعت میں قرأت فرماتے لیکن پہلی رکعت کو دوسری رکعت سے طویل فرماتے اور دوسری کو چھوٹی کرتے یعنی مختصر پڑھتے۔

 

نماز ظہر کی دو رکعت میں قرات

 

محمد بن مثنی، عبدالرحمن، بن مہدی، ابان بن یزید، یحیی بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر اور نماز عصر کی پہلی دو رکعت میں سورہ فاتحہ اور دو سورت پڑھتے تھے اور بعد والی دو رکعت میں دو سورہ فاتحہ پڑھتے اور کبھی ایک آدھ آیت کریمہ اس طریقہ سے پڑھتے تھے کہ ہم لوگ سن لیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر کی پہلی رکعت طویل پڑھا کرتے تھے۔

 

نماز عصر کی شروع والی دو رکعت میں قرات

 

قتیبہ، ابن ابو عدی، حجاج، الصواف، یحیی بن ابی کثیر، عبداللہ بن ابو قتادہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر اور نماز عصر کی پہلی دو رکعت میں سورہ فاتحہ اور دو سورت پڑھا کرتے تھے اور ایک آدھ آیت کریمہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے پڑھا کرتے تھے کہ ہم لوگ وہ آیت کریمہ سن لیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت چھوٹی یعنی مختصر کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر میں بھی اسی طریقہ سے کرتے تھے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، حماد بن سلمہ، سماک، جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر اور نماز عصر میں وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوجِ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ اور ان کے برابر سورت پڑھا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، عبدالرحمن، شعبہ، سماک، جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ظہر میں واللیل پڑھتے اور نماز عصر میں اس سورت کے برابر پڑھتے اور نماز فجر میں اس سورت سے لمبی سورت اور طویل سورت پڑھا کرتے تھے جیسے کہ سورہ دہر اور سورہ مرسلات یا سورہ ق اور سورہ رحمن۔

 

قیام اور قرأت کو مختصر کرنے سے متعلق

 

قتیبہ، عطاف بن خالد، زید بن اسلم سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت انس بن مالک کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ نماز سے فارغ ہو چکے ہو؟ ہم نے کہا جی ہاں۔ انہوں نے اپنی باندی سے کہا کہ پانی لے کر آ۔ پھر فرمایا کہ میں نے کسی امام کی اقتداء میں نماز نہیں ادا کی جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے زیادہ مشابہ ہو تم لوگوں کے امام کی نماز سے زیادہ۔ زید نے کہا کہ عمر بن عبدالعزیز جو کہ اس زمانہ کے خلیفہ اور امام تھے وہ رکوع اور سجدہ عمدہ طریقہ سے ادا فرمایا کرتے تھے اور وہ قیام اور قعود کو مختصر کرتے۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، ابن ابو فدیک، ضحاک بن عثمان، بکیر بن عبد اللہ، سلیمان بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے کسی کی اقتداء میں نماز ادا نہیں کی جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسی نماز پڑھتا ہو لیکن فلاں شخص البتہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے زیادہ مشابہ ہے سلیمان نے کہا کہ وہ نماز ظہر کی پہلی دو رکعت کو ہلکا پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہلکا کرتے تھے نماز عصر کو اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز مغرب میں مفصل کی چھوٹی سورت پڑھتے تھے اور نماز عشاء میں مفصل کی متوسط سورت تلاوت فرماتے تھے اور نماز فجر میں مفصل کی طویل سورت تلاوت فرماتے۔

 

نماز مغرب میں مفصل کی چھوٹی سورت پڑھنا

 

عبید اللہ بن سعید، عبداللہ بن حارث، ضحاک بن عثمان، بکیر بن عبداللہ بن اشج، سلیمان بن یسار، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ میں نے کسی کی اقتداء میں اس طرح کی نماز نہیں پڑھی جیسی نماز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز سے مشابہ ہو مگر یہ کہ فلاں صاحب کی اقتداء میں جو نماز پڑھی (مطلب یہ ہے کہ صاحب کی نماز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے زیادہ مشابہ ہے ) اور وہ صاحب نماز ظہر کی پہلی دو رکعت کو طویل کر کے پڑھتے تھے اور بعد والی دو رکعت کو مختصر کرتے اور نماز عصر کو مختصر پڑھتے اور نماز مغرب کی رکعات میں مفصل کی چھوٹی سورت تلاوت فرماتے اور نماز عشاء میں سورہ والشمس پڑھتے اور اس کے برابر جو سورت ہیں اور نماز فجر میں دو سورت طویل پڑھتے۔

 

نماز مغرب میں سبح اسم ربک الاعلیٰ کی تلاوت کرنا

 

محمد بن بشار، عبدالرحمن، سفیان، محارب بن دثار، جابر سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار کے پانی کھینچنے والوں میں سے ایک صاحب حضرت معاذ بن جبل کے پاس سے گزرے اور اس وقت معاذ نماز مغرب ادا کرنے میں مشغول تھے کہ انہوں نے نماز مغرب میں سورہ بقرہ شروع فرما رکھی تھی تو وہ شخص نماز ادا کر کے رخصت ہو گیا۔ پھر یہ خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تک پہنچ گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اے معاذ تم فتنہ برپا کر رہے ہو کیا تم فتنہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو؟ تم نماز میں کس وجہ سے سورہ شمس وغیرہ تلاوت نہیں کرتے ہو۔

 

نماز مغرب میں سورۂ و المرسلات کی تلاوت

 

عمرو بن منصور، موسیٰ بن داؤد، عبدالعزیز بن ابو سلمہ الماجشون، حمید، انس، ام فضل بنت حارث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے (اپنے مرض الموت میں ) مکان میں نماز مغرب ادا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ والمرسلات کی تلاوت فرمائی پھر اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی نماز نہیں پڑھائی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، زہری، عبید اللہ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی والدہ سے سنا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز مغرب میں سورہ والمرسلات سنی ہے

 

نماز مغرب میں سورۂ والطور کی تلاوت کرنا

 

قتیبہ، مالک، زہری، محمد بن جبیر بن مطعم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سورہ والطور کی تلاوت نماز مغرب میں فرماتے تھے۔

 

 

نماز مغرب میں سورۂ حم دخان کی تلاوت

 

محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، حیوٰۃ، جعفر بن ربیعۃ، عبدالرحمن بن ہرمز، معاویہ بن عبداللہ بن جعفر، عبداللہ بن عقبہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز مغرب میں سورہ حم دخان کی تلاوت فرمائی۔

 

نماز مغرب میں سورۂ المص کی تلاوت کرنا

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو بن حارث، ابو اسود، عروہ بن زبیر، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت مروان سے فرمایا اے ابو الملک تم نماز مغرب میں قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اور إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَرَ پڑھتے ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں یہ نئی بات ہے یا اس طریقہ سے کہا کہ میں قسم کھاتا ہوں بلاشبہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس میں طویل سورت تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے یعنی المص اور سورہ اعراف۔

 

 

٭٭ محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن جریج، ابن ابو ملیکۃ، عروہ بن زبیر، مروان بن حکم سے روایت ہے کہ حضرت زید بن ثابت نے مجھ سے فرمایا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ تم نماز مغرب میں مختصر سورت تلاوت کرتے ہو حالانکہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو طویل سورت دو طویل سورت میں سے تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے کہا کہ اے ابو عبد اللہ طویل سورت کونسی ہے ؟ انہوں نے فرمایا سورہ اعراف۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیٰۃ و ابو حیوٰۃ، ابن ابو حمزٰۃ، ہشام بن عروہ، وہ اپنے والد سے ، عائشہ صدیقہ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز مغرب میں سورہ اعراف دو رکعت میں تلاوت کی۔

 

نماز مغرب میں کونسی سورت تلاوت کی جائے ؟

 

فضل بن سہل، ابو جواب، عمار بن رزیق، ابو اسحاق، ابراہیم بن مہاجر، مجاہد، عبداللہ ابن عمر سے روایت کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بیس مرتبہ نماز مغرب کی سنت میں اور نماز فجر کی سنت میں قُلْ یَا أَیُّہَا الْکَافِرُونَ اور قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ تلاوت فرماتے ہوئے سنا۔

 

سورۂ قل ھو اللہ احد کی فضیلت سے متعلق

 

سلیمان بن داؤد، ابن وہب، عمرو بن حارث، سعید بن ابو ہلال، ابو رجال، محمد بن عبدالرحمن، امہ عمرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو ایک چھوٹے لشکر کا سردار بنا کر بھیجا۔ وہ اپنے لوگوں کے ساتھ نماز میں قرآن کریم تلاوت کرتا تھا پھر آخر میں قل ھو اللہ احد پڑھتا تھا۔ لوگوں نے یہ بات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص سے دریافت کرو وہ شخص کس وجہ سے اس طریقہ سے کرتا ہے ؟ لوگوں نے اس شخص سے دریافت کیا تو اس شخص نے جواب دیا کہ سورہ قل ھو اللہ احد میں خداوند قدوس کی صف ہے اس وجہ سے مجھ کو اس سورت کا پڑھنا بہت عمدہ معلوم ہوتا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس سے کہہ دو کہ خداوند قدوس اسے دوست رکھتا ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، عبید اللہ بن عبدالرحمن، عبید بن حنین، زید بن خطاب، ابو ہریرہ سے روایت کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھتے ہوئے سنا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ضرور لازم ہو گی۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کونسی شئی لازم ہو گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جنت۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، عبدالرحمن بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابو صعصعۃ، ابو سعیدخدری سے روایت ہے کہ ایک شخص کو متعدد مرتبہ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ پڑھتے ہوئے دیکھا۔ جس وقت صبح ہو گئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ سورہ قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ تہائی قرآن کے برابر ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، عبدالرحمن، زائٍدۃ، منصور، ہلال بن یساف، ربیع بن خشیم، عمرو بن میمون، ابن ابو لیلی، امراٰۃ، ابو ایوب سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا قُلْ ہُوَ اللَّہُ أَحَدٌ اجر و ثواب کے اعتبار سے تہائی قرآن کے برابر ہے۔

 

نماز عشاء میں سورۂ اعلیٰ کی تلاوت

محمد بن قدامۃ، جریر، اعمش، محارب بن دثار، جابر سے روایت ہے کہ حضرت معاذ بن جبل کھڑے ہوئے اور انہوں نے نماز عشاء پڑھائی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اے معاذ تم کیا فتنہ برپا کرو گے اے معاذ سورہ اعلیٰ اور سورہ الضحی اور سورہ انفطار کس طرف چلی گئیں یعنی تم نے ان سورتوں کو کس وجہ سے نماز میں نہیں پڑھا؟

 

 

نماز عشاء میں سورۂ شمس پڑھنا

 

قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضرت معاذبن جبل نے اپنے لوگوں کے ساتھ نماز عشاء ادا کی اور اس کو لمبا کر دیا تو ایک شخص نماز توڑ کر چلا گیا حضرت معاذ نے فرمایا کہ یہ شخص منافق ہے۔ اس شخص کو جس وقت یہ خبر ہوئی کہ (اس کو منافق قرار دیا گیا) تو وہ شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور حضرت معاذ کا قول نقل کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت معاذ سے فرمایا کیا تم لوگوں کے درمیان فتنہ برپا کرنا چاہتے ہو جس وقت امامت کرو تو تم سورہ والشمس اور سورہ اعلیٰ اور سورہ غاشیہ اور سورہ اقراء پڑھو۔

 

 

٭٭ محمد بن علی بن حسن بن شقیق، حسین بن واقد، عبداللہ بن بریٍدۃ، بریٍدۃ سے روایت کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عشاء میں سورہ والشمس تلاوت کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جیسی دوسری سورت تلاوت فرمایا کرتے تھے۔

 

سورۂ والتین نماز عشاء میں تلاوت کرنا
قتیبہ، مالک، یحیی بن سعید، عدی بن ثابت، براء بن عازب سے روایت کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز عشاء ادا کی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عشاء میں سورہ والتین تلاوت فرمائی۔

 

عشاء کی پہلی رکعت میں کونسی سورت پڑھی جائے

 

اسماعیل بن مسعود، یزید بن زریع، شعبہ، عدی بن ثابت، براء بن عازب، کہتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ سفر میں تھے کہ عشاء کی پہلی رکعت میں سورہ والتین پڑھی۔

 

شروع کی دو رکعت کو طویل کرنا

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، شعبہ، ابو عون، جابر بن سمرۃ سے روایت کہ حضرت عمر نے حضرت سعد سے فرمایا کہ تمہاری ہر ایک بات اور ہر ایک عمل کے بارے میں لوگ شکایت کرتے ہیں یہاں تک کہ نماز کے بارے میں بھی۔ (شکایت کرتے ہیں ) حضرت سعد نے فرمایا کہ میں شروع کی دو رکعت میں قرأت کو لمبا کرتا ہوں اور آخری دو رکعت میں قرأت نہیں کرتا اور میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اتباع میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کرتا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ تمہارے ساتھ یہی گمان ہے۔

 

 

٭٭ حماد بن اسماعیل بن ابراہیم ابن علیٰۃ ابو حسن، داؤد الطائی، عبدالملک بن عمیر، جابر بن سمرۃ سے روایت کہ کوفہ کے چند حضرات نے حضرت عمر کی خدمت میں حضرت سعد کی شکایت پیش کی اور عرض کیا کہ خدا کی قسم وہ عمدہ طریقہ سے نماز ادا نہیں کرتے۔ سعد نے فرمایا میں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز جیسی نماز پڑھتا ہوں اور میں اس میں کسی قسم کی کوئی کوتاہی نہیں کرتا اور میں شروع کی دو رکعت کو طویل کرتا ہوں اور بعد والی دو رکعت کو مختصر کرتا ہوں۔ عمر نے فرمایا کہ ہم کو بھی یقین ہے تم سے کہ تمہاری شکایت بے کار ہے اور واقعی آپ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طریقہ کے مطابق چلتے ہیں اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مطابق عمل کرتے ہیں۔

 

کس طریقہ سے رکوع کیا جائے ؟

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، سعید بن ابو عروبۃ و حماد بن سلمہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ سیدھے اور ٹھیک ہو جاؤ۔ رکوع اور سجدہ میں اور تم لوگوں میں سے کوئی شخص دونوں ہاتھوں کو کتے کی طرح سے رکوع اور سجود میں نہ پھیلائے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، شعبہ، سلیمان، ابراہیم، علقمہ و اسود سے روایت ہے کہ ہم دونوں عبداللہ بن مسعود کے ہمراہ ان کے مکان میں تھے۔ انہوں نے فرمایا کہ کیا یہ لوگ نماز سے فارغ ہو چکے ہیں۔ ہم لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر عبداللہ بن مسعود نے امامت فرمائی اور ہم دونوں کے درمیان میں کھڑے ہو گئے۔ نہ تو اذان پڑھی اور نہ اقامت اور فرمایا جس وقت تم تین آدمی ہوں تو تم اسی طرح سے کرو (مطلب یہ ہے کہ امام درمیان میں کھڑا ہو اور دونوں مقتدی دائیں اور بائیں کھڑے ہوں ) اور جس وقت تین سے زیادہ مقتدی ہوں تو تمہارے میں سے کوئی شخص امامت کرے اور چاہیے کہ اپنی دونوں ہتھیلیوں کو بچھائے اپنی رانوں پر۔ گویا کہ میں دیکھ رہا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی انگلیوں کے اختلاف کو۔

 

 

٭٭ احمد بن سعیدرباطی، عبدالرحمن ابن عبد اللہ، عمرو، ابن ابی قیس، زبیر بن عدی، ابراہیم، اسود و علقمہ سے روایت ہے کہ دونوں حضرات نے فرمایا ہم لوگوں نے عبداللہ بن مسعود کے ہمراہ نماز ادا کی ان کے مکان میں اور وہ ہمارے درمیان میں کھڑے ہو گئے تو ہم لوگوں نے دونوں ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھا۔ انہوں نے ہمارے ہاتھ وہاں سے اٹھا دیئے اور انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کر دیا اور فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ نوح بن حبیب، ابن ادریس، عاصم بن کلیب، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو نماز کی تعلیم دی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر پڑھی جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع فرمانے لگے تو دونوں ہاتھ ملا کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے گھٹنوں کے درمیان میں رکھ لئے اور رکوع کیا جس وقت یہ حدیث حضرت مسعود رضی اللہ عنہ کے علم میں آئی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے بھائی نے درست فرمایا اور پہلے اسی طریقہ سے حکم تھا پھر رکوع میں دونوں گھٹنوں کے پکڑنے کا حکم ہوا۔

 

اس حکم کا منسوخ ہونا

 

قتیبہ، ابو عوانہ، ابو یعفور، مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے اپنے والد کے پاس کھڑے ہو نماز ادا کی اور دونوں ہاتھوں کو رکوع میں گھٹنوں کے درمیان میں رکھا پھر میں نے دوسری مرتبہ اسی طرح کیا یعنی دونوں ہاتھ ملا کر گھٹنوں کے درمیان میں رکھا۔ میرے والد نے میرے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور فرمایا ہم کو اس سے منع فرمایا گیا اور ہاتھوں کو گھٹنوں پر جمانے کا حکم ہوا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، اسماعیل بن ابو خالد، زبیر بن عدی، مصعب بن سعد سے روایت ہے کہ میں نے رکوع میں دونوں ہاتھ جوڑے تو میرے والد حضرت سعد بن وقاص نے فرمایا کہ پہلے ہم اس طریقہ سے کرتے تھے پھر ہم کو حکم ہوا گھٹنوں پر ہاتھ رکھنے کا۔

 

دوران رکوع دونوں گھٹنوں کو پکڑنا

 

محمد بن بشار، ابو داؤد، شعبہ، اعمش، ابراہیم، ابو عبدالرحمن، عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا گھٹنوں پر ہاتھ رکھنا مسنون ہے تو تم لوگ گھٹنوں کو پکڑ لو۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سفیان، ابو حصین، ابو عبدالرحمن سلمی سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا رکوع میں گھٹنوں کو پکڑنا مسنون ہے۔

 

دوران رکوع دونوں ہتھیلیاں کس جگہ رکھے ؟

 

ہناد بن سری، ابو احوص، عطاء بن سائب، سالم سے روایت ہے کہ ہم لوگ ابو مسعود کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے کہا کہ (آپ فرمائیں کہ) رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کو کس طریقہ سے ادا فرماتے تھے ؟ چنانچہ وہ ہمارے سامنے کھڑے ہوئے اور تکبیر پڑھی اور جس وقت رکوع کیا تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دونوں گھٹنوں پر رکھا اور اپنی انگلیاں ان سے نیچے رکھ دیں اور اپنی دونوں کہنیاں (پیٹ) سے جدا رکھیں۔ یہاں تک کہ ہر ایک عضو سیدھا ہو گیا پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فرمایا یہاں تک کہ ہر ایک عضو سیدھا ہو گیا۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان دہاوی، حسین، زائٍدۃ، عطاء سالم، ابو عبد اللہ، عقبہ بن عمرو سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کیا میں تم لوگوں کے سامنے اس طریقہ سے نماز ادا کروں جیسے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو پڑھتے ہوئے دیکھا ہے ہم نے کہا کہ ضرور پڑھو۔ چنانچہ وہ کھڑے ہو گئے جس وقت انہوں نے رکوع کیا تو دونوں ہتھیلیاں اپنے گھٹنوں پر رکھ لیں اور اپنی انگلیاں گھٹنوں کے نیچے کر لیں اور اپنی دونوں بغل کو کھول دیا یہاں تک کہ اپنی جگہ پر ہر ایک عضو جم گیا۔ پھر سر اٹھایا اور کھڑے ہو گئے یہاں تک کہ ہر ایک عضو سیدھا ہو گیا پھر سجدہ کیا تو دونوں بغل کھول دیں۔ یہاں تک کہ اپنی جگہ پر ہر ایک عضو جم گیا پھر بیٹھ گئے۔ یہاں تک کہ اپنی جگہ پر ہر ایک عضو جم گیا پھر سجدہ کیا پھر چاروں رکعت میں اس طریقہ سے کیا اس کے بعد فرمایا کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اس طریقہ سے نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے ہم لوگوں کے ہمراہ نماز ادا فرماتے تھے۔

 

دوران رکوع بغلوں کو کشادہ رکھنے سے متعلق

 

یعقوب بن ابراہیم، ابن علیٰۃ، عطاء بن سائب، سالم براد سے روایت ہے کہ حضرت ابو مسعود نے فرمایا کہ کیا میں تم لوگوں کو نماز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ سکھلا دوں ؟ ہم نے عرض کیا کہ ضرور۔ چنانچہ وہ کھڑے ہو گئے اور تکبیر کہہ دی اور جس وقت انہوں رکوع کیا تو اپنی بغلوں کو کشادہ رکھا حتی کہ جس وقت ہر ایک عضو اپنی جگہ جم گیا تو انہوں نے اپنا سر اٹھایا اور چاروں رکعت اسی طریقہ سے ادا کیں پھر فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طریقہ سے نماز ادا فرماتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

بحالت رکوع اعتدال اختیار کرنے سے متعلق

 

محمد بن بشار، یحیی، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع فرماتے تو اعتدال کرتے یعنی اپنے سر کو نہ نیچا کرتے نہ اونچا کرتے (بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر مبارک اور پشت مبارک) اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے۔

 

بحالت رکوع تلاوت قرآن کا ممنوع ہونا

 

عبید اللہ بن سعید، حماد بن مسعٍدۃ، اشعث، محمد، عبیٍدۃ، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قسی حریر اور سونے کی انگوٹھی پہننے سے اور بحالت رکوع قرآن مجید پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی بن سعید، ابن عجلان، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، عبداللہ ابن عباس، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سونے کی انگوٹھی پہننے اور رکوع میں قرآن کریم پڑھنے اور قسی اور کسم میں رنگے ہوئے کپڑے پہن لینے کی ممانعت فرمائی۔

 

 

٭٭ حسن بن داؤد المکندری، ابن ابو فدیک، ضحاک بن عثمان، ابراہیم بن حنین، عبداللہ بن عباس، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے منع فرمایا اور میں یہ بات نہیں کہتا ہوں کہ تم کو منع فرمایا سونے کی انگوٹھی پہن لینے سے اور قسی اور سرخ رنگ کے کپڑے پہن لینے اور کسم میں رنگ دیئے ہوئے کپڑے پہن لینے سے اور رکوع میں قرأت کرنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ عیسی بن حماد زغبۃ، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے قسی اور کسم میں رنگین کپڑے پہن لینے سے اور سونے کی انگوٹھی اور رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، نافع، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، وہ اپنے والد سے ، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو قسی اور کسم میں رنگے ہوئے کپڑوں کے پہننے اور دوران رکوع تلاوت قرآن سے منع فرمایا۔

 

دوران رکوع پروردگار کی عظمت کرنا

 

قتیبہ بن سعید، سفیان، سلیمان بن سحیم، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن (اپنے حجرہ مبارک کا) پردہ اٹھایا اور اس وقت لوگ صف باندھے ہوئے تھے (نماز ادا کرنے کے لئے ) حضرت ابو بکر کی اقتداء میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے لوگو البتہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی خوشخبری دینے والوں میں سے کچھ نہیں لیکن سچا خواب کہ اس کو مسلمان دیکھے یا اور کوئی دوسرا شخص اس کے واسطے دیکھے پھر فرمایا کہ تم لوگ خبردار ہو جاؤ کہ مجھ کو رکوع اور سجدہ میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا گیا ہے لیکن رکوع میں تم لوگ عظمت بیان کرو اپنے پروردگار کی اور تم لوگ سجدے میں دعا کے واسطے کوشش کرو کیونکہ اس میں دعا کا قبول ہونا عین ممکن ہے۔ کیونکہ سجدہ بہت زیادہ عاجزی پر مشتمل ہے اپنے مالک کے سامنے تو امید ہے کہ مالک اپنے بندہ پر رحم کرے اور جو چیز مانگے وہ شئی ملے۔

 

بوقت رکوع کیا پڑھنا چاہئے ؟
اسحاق بن ابراہیم، ابو معاویہ، اعمش، سعد بن عبیٍدۃ، مستورد بن احنف، صلۃ بن زفر، حذیفہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع فرمایا اور اس میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ فرمایا اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی فرمایا۔

 

 

رکوع میں دوسرا کلمہ پڑھنا

 

اسماعیل بن مسعود، خالد و یزید، شعبہ، منصور، ابو ضحی، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر اپنے رکوع اور سجدہ میں فرماتے تھے سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللَّہُمَّ اغْفِرْ لِی۔

 

رکوع میں تیسرا کلمہ کہنا

 

محمد بن عبدا لاعلی، خالد، شعبہ، قتادہ، مطرف، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے رکوع میں فرماتے تھے سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ رَبُّ الْمَلَائِکۃِ وَالرُّوحِ۔

 

رکوع کے درمیان چوتھا کلمہ پڑھنا

 

عمرو بن منصور، یعنی نسائی، آدم بن ابو ایاس، لیث، معاویہ یعنی ابن صالح، ابن قیس، الکندی، عمرو بن قیس، عاصم بن حمید، عوف بن مالک سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس ایک رات حاضر ہوا تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع فرمایا تو سورہ بقرہ کے برابر ٹھہرے رہے (یعنی اس قدر دیر تک رکوع میں رہے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تھے (سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمۃِ) فرماتے تھے آخر تک۔

 

دوران رکوع پانچویں قسم کا کلمہ پڑھنا

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن بن مہدی، عبدالعزیز بن ابو سلمہ، عمی الماجشون بن ابو سلمہ، عبدالرحمن اعرج عبید اللہ بن ابو رافع، علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع فرماتے تو فرماتے اللَّہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ وَبِکَ آمَنْتُ خَشَعَ لَکَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَعِظَامِی وَمُخِّی وَعَصَبِی پڑھتے۔

 

رکوع کے دوران ایک دوسری قسم کا کلمہ

 

یحیی بن عثمان الحمصی، ابو حیوٰۃ، شعیب، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع فرماتے تو فرماتے (اللَّہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ أَنْتَ رَبِّی خَشَعَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَدَمِی وَلَحْمِی وَعَظْمِی وَعَصَبِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالِمِینَ)

 

 

٭٭ یحیی بن عثمان، ابن حمیر، شعیب، محمد بن منکدر، عبدالرحمن اعرج، محمد بن مسلمۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز نفل ادا فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوران رکوع یہ دعا پڑھتے (اللَّہُمَّ لَکَ رَکَعْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ أَنْتَ رَبِّی خَشَعَ سَمْعِی وَبَصَرِی وَلَحْمِی وَدَمِی وَمُخِّی وَعَصَبِی لِلَّہِ رَبِّ الْعَالَمِینَ) پھر رکوع کیا اور تجھ پر ایمان لایا اور تیرے سامنے گردن رکھ دی اور تجھ پر بھروسہ کیا۔ تو میرا پالنے والا ہے میرے کان اور میری آنکھ اور گوشت اور خون اور صفرا اور پٹھے تمام کے تمام خدا کے سامنے جھک گئے ہیں جو کہ تمام جہان کا پالنے والا ہے۔

 

دوران رکوع کچھ نہ پڑھنے سے متعلق

 

قتیبہ، بکر بن مضر، ابن عجلان، علی بن یحیی زرقی، وہ اپنے والد سے ، عمہ رفاعۃ بن رافع سے روایت ہے کہ وہ بدری تھے یعنی (غزوہ بدر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ شریک جہاد ہوئے تھے ) کہ اس دوران ایک آدمی مسجد میں حاضر ہوا اور اس نے نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس شخص کو دیکھ رہے تھے لیکن اس شخص کو اس کا علم نہیں تھا جس وقت وہ نماز سے فارغ ہو گیا تو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کے سلام کا جواب دیا پھر ارشاد فرمایا جا تم نے نماز نہیں پڑھی۔ تم (دوبارہ) نماز پڑھو۔ اس شخص نے دوسری یا تیسری مرتبہ میں عرض کیا اس ذات کی قسم کہ جس نے قرآن کریم نازل فرمایا ہے میں تو بالکل تھک چکا ہوں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے سکھلا دیں اور فرمائیں کہ کس طریقہ سے نماز ادا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم نماز ادا کرنا چاہو تو تم ٹھیک طریقہ سے وضو کرو۔ پھر وہ شخص کھڑا ہو گیا اور جانب قبلہ چہرہ کر کے تکبیر پڑھو۔ پھر قرآن کریم پڑھو اس کے بعد تم سکون اور اطمینان کے ساتھ رکوع کرو پھر تم سر اٹھاؤ اور سکون کے ساتھ بیٹھ جاؤ پھر تم اطمینان سے سجدہ کرو۔ جس وقت تم اس طریقہ سے کر لو  گے تو تم (واقعی صحیح طریقہ سے ) نماز ادا کر لو گے اور تم اس میں جس قدر کمی کرو گے تو تم درحقیقت میں نماز میں کوتاہی کے مرتکب ہوں گے۔

 

عمدہ طریقہ سے رکوع پورا کرنا

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبۃ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم رکوع اور سجدہ کو مکمل کرو جب کہ تم رکوع اور سجدہ کرو۔

 

رکوع سے سر اٹھانے کے وقت ہاتھوں کو اٹھانا

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، قیس بن سیلم العنبری، علقمہ بن وائل، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کی تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے جس وقت نماز شروع فرماتے اور جس وقت رکوع فرماتے اور جس وقت سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فرماتے۔ جناب قیس نے نقل فرمایا ہے کہ دونوں کانوں تک۔

 

رکوع سے اٹھتے وقت کانوں کی لو تک ہاتھ اٹھانا

 

اسماعیل بن مسعود، یزید ابن زریع، سعید، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے رکوع کے وقت اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت دونوں کانوں کی لو تک۔

 

جس وقت رکوع سے سر اٹھائے تو ہاتھوں کو دونوں مونڈھے تک اٹھانا کیسا ہے ؟

 

عمرو بن علی، یحیی بن سعید، مالک بن انس، زہری، سالم، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے دونوں ہاتھ کو دونوں مونڈھوں تک اٹھاتے تھے۔ جس وقت نماز شروع فرماتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طریقہ سے کرتے اور جس وقت سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہتے تو رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ پڑھتے اور دونوں سجدہ کے درمیان ہاتھ نہ اٹھاتے۔

 

 

رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ نہ اٹھانے کی اجازت

 

بخاری، محمود بن غیلان المروزی، وکیع، سفیان، عاصم بن کلیب، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں تم لوگوں کے سامنے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جیسی نماز پڑھتا ہوں پھر انہوں نے نماز ادا کی تو ہاتھ نہیں اٹھائے لیکن ایک مرتبہ (یعنی جس وقت نماز شروع فرمائی تو ایک مرتبہ اس وقت ہاتھ اٹھائے۔)

 

جس وقت امام رکوع سے سر اٹھائے تو اس وقت کیا پڑھنا چاہئے ؟

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، مالک، ابن شہاب، سالم، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو دونوں ہاتھ کو مونڈھوں تک اٹھاتے اور اسی طریقہ سے ہاتھ اٹھاتے جس وقت رکوع میں جانے کے واسطے تکبیر پڑھتے۔ اس طریقہ سے جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے دونوں ہاتھ کو مونڈھوں تک اٹھاتے اور سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ پڑھتے اور سجدہ میں ہاتھ نہ اٹھاتے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ پڑھتے تھے۔

 

 

مقتدی جس وقت رکوع سے سر اٹھائے تو اس وقت کیا کہنا چاہئے ؟

 

ہناد بن سری، ابن عیینہ ، زہری، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک مرتبہ گھوڑے سے دائیں جانب سے نیچے گر گئے تو حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمیعن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عیادت کے واسطے حاضر ہوئے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ارشاد فرمایا کہ امام تو اس واسطے ہے کہ اس کی اتباع کی جائے اور وہ جس وقت رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جس وقت وہ سر اٹھائے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جس وقت وہ سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ پڑھے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ پڑھو۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، نعیم بن عبد اللہ، علی بن یحیی زرقی، رفاعۃ بن رافع، فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب رکوع سے سر اٹھایا اور سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہا تو ایک شخص نے کہا رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد پوچھا کہ یہ کلمہ کہنے والا کون ہے ؟ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے تیس سے زیادہ فرشتوں کو اس کلمہ پر پہلے حاصل کرنے کیلئے جھپٹتے ہوئے دیکھا۔

 

ربنا ولک الحمد کہنا

 

قتیبہ، مالک، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ پڑھو۔ جس کا کہنا فرشتوں کے کہنے کے برابر ہو گا اور اس کے اگلے پیچھے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، سعید، قتادہ، یونس بن جبیر، حطان بن عبد اللہ، ابو موسی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز خطبہ دیا اور ہم لوگوں کو (نماز کے ) طریقے سکھلائے پھر ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ نماز پڑھو تو تم لوگ صفیں کھڑی کرو اور تم لوگوں میں سے ایک شخص امامت کرے جس وقت امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جس وقت وہ کہے تو تم لوگ آمین کہو خداوند قدوس اس کو قبول فرمائے گا اور جس وقت وہ تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم لوگ بھی تکبیر کہو اور تم لوگ رکوع کرو کیونکہ تم لوگوں سے پہلے امام رکوع کرتا ہے اور تم لوگوں سے قبل سر اٹھاتا ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کی جانب کی کمی دوسری جانب نکل جائے گئی مطلب یہ ہے کہ تم لوگ اس کے بعد رکوع کرو تو وہ لوگوں سے قبل سر اٹھائے گا اور تم لوگ اس کے بعد سر اٹھاؤ گے پس تم لوگوں کا رکوع بھی اس کے رکوع کے برابر ہو گا اور جس وقت امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہے تو تم لوگ اَللھُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الحَمد کہو۔ خداوند قدوس تمہارا کہنا سن لے گا۔ کیونکہ خداوند قدوس نے اپنے پیغمبر کی زبان سے ارشاد فرمایا سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ مطلب یہ ہے کہ سن لیا اللہ نے۔ جو شخص اس کی تعریف کرے پھر جس وقت وہ تکبیر کہے اور سجدہ کرے تو تم لوگ بھی تکبیر کہو اور سجدہ کرو اس لئے کے امام تم سے پہلے سجدہ کرتا ہے اور سر اٹھاتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر اس جانب کی کمی دوسری جانب سے پوری ہو جائے گی اور جس وقت امام بیٹھ جائے تو تم لوگوں میں سے ہر ایک شخص بیٹھ جائے اور تمہارے بیٹھنے میں ہر ایک شخص اس طریقہ سے کہے التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّہِ سَلَامٌ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ سَلَامٌ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔ یہ کلمات نماز میں التحیات میں پڑھے جاتے ہیں۔

 

رکوع اور سجود کے درمیان کتنی دیر کھڑا ہوا جائے

 

یعقوب بن ابراہیم، ابن علیٰۃ، شعبہ، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رکوع اور رکوع سے سر اٹھانا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ جانا یہ تمام کے تمام برابر ہوتے تھے۔

 

جس وقت رکوع سے کھڑا ہو تو کیا کہنا چاہئے ؟

 

ابوداؤد سلیمان بن سیف، سعید بن عامر، ہشام بن حسان، قیس بن سعد بن عامر، عطاء، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہتے تو اس کے بعد فرماتے اے اللہ! پالنے والے تیری تعریف کرتا ہوں آسمان اور زمین بھر اور اس کے علاوہ جس پر تم چاہو۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، یحیی بن ابو بکیر، ابراہیم بن نافع، وہب بن میناس عدنی، سعید بن جبیر، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رکوع فرما کر سجدہ میں جانا چاہتے تو فرماتے (اللَّہُمَّ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ مِلْئَ السَّمَوَاتِ وَمِلْئَ الْأَرْضِ وَمِلْئَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ بَعْدُ)

 

 

٭٭ عمرو بن ہشام، ابو امیٰۃ الحرانی، مخلد، سعید بن عبدالعزیز، عطیٰۃ بن قیس، قزعۃ بن یحیی، ابو سعید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ فرماتے پھر فرماتے رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ آخر تک۔ اے پالنے والے ہمارے ، تیری تعریف ہے آسمانوں اور زمین میں اور پھر اس کے بعد جس کو تو چاہے۔ اے تعریف اور بڑائی کے لائق تیری ذات اعلیٰ ہے۔ بندوں نے کہا اور ہم سب تیرے بندے ہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے تیرے دیئے ہوئے انعام کو اور تیرے سامنے مالدار کا مال کام نہیں آتا۔

 

 

٭٭ حمید بن مسعٍدۃ، یزید بن زریع، شعبۃ، عمرو بن مرۃ، ابو حمزٰۃ، حذیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ ایک رات نماز ادا کی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر پڑھی تو ارشاد فرمایا اللَّہُ أَکْبَرُ ذَا الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمۃِ اور رکوع میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیمِ فرماتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھایا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لِرَبِّیَ الْحَمْدُ لِرَبِّیَ الْحَمْدُ اور سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْأَعْلَی فرمایا اور دونوں سجدوں کے درمیان میں رَبِّی اغْفِرْ لِی رَبِّی اغْفِرْ لِی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا قیام اور رکوع اور رکوع کے بعد قیام اور سجدوں کے درمیان کا قعدہ قریب قریب ہے۔

 

رکوع کے بعد دعاء قنوت پڑھنا

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، سلیمان تیمی، ابو مجلز، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ماہ تک رکوع کرنے کے بعد دعا قنوت پڑھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبیلہ رعد اور ذکوان اور عصبیہ کے واسطے بد دعا کرتے تھے کیونکہ انہوں نے خدا اور اس کے رسول کی نافرمانی کی تھی۔

 

نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھنا

 

قتیبہ، حماد، ایوب، ابن سیرین سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک سے دریافت کیا گیا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز فجر میں دعائے قنوت پڑھی؟ انہوں نے فرمایا کہ جی ہاں پڑھی ہے۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ رکوع سے قبل یا رکوع کے بعد؟ انہوں نے فرمایا رکوع کے بعد۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، بشر بن مفضل، یونس، ابن سیرین سے روایت ہے کہ مجھ سے ایک شخص نے نقل کیا جس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز فجر ادا کی تھی اس نے کہا کہ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کہا دوسری رکعت میں تو کچھ دیر کھڑے رہے دعائے قنوت پڑھنے کے واسطے۔

 

 

٭٭ محمد بن منصور، سفیان، زہری، سعید، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر اٹھایا رکوع سے فجر کی دوسری رکعت میں تو فرمایا اللہ نجات دے ولید بن ولید کو اور سلمہ بن ہشام کو اور عیاش بن ابی ربیعہ کو اور جو کمزور حضرات مکہ مکرمہ میں کفار کے ہاتھ میں پھنس گئے ہیں۔ یا اللہ! اپنا عذاب سخت بنا دے قبیلہ مضر پر اور ان کے سال حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ جیسے سال بنا دے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، بقیٰۃ، ابن ابو حمزٰۃ، محمد، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں دعائے فرماتے (سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ) کھڑے کھڑے سجدے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے یا اللہ نجات دے ولید بن ولید کو اور سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو اور جو ضعیف لوگ مکہ مکرمہ میں رہ گئے ہیں مسلمانوں میں سے ان کو یا اللہ! سخت کر دے اپنا عذاب قبیلہ مضر پر اور ان کے سال ایسے ہوں کہ جیسے حضرت یوسف کے سال تھے پھر فرماتے تھے اللہ اکبر اور سجدہ فرماتے تھے اور اس زمانہ میں عرب کے قبیلہ مضر کے لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مخالف تھے۔

 

نماز ظہر میں قنوت پڑھنے سے متعلق

 

سلیمان بن سلم البلخی، نضر، ہشام، یحیی، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ انہوں نے بیان فرمایا کہ تم لوگوں کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دکھلاؤں گا تو وہ آخر رکعت میں نماز ظہر اور نماز عشاء اور نماز فجر میں سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ کے بعد قنوت پڑھا کرتے تھے اور اہل اسلام کے لئے دعا فرماتے اور کفار پر لعنت فرماتے۔

 

نماز مغرب میں قنوت پڑھنے سے متعلق

 

عبید اللہ بن سعید، عبدالرحمن، سفیان و شعبہ، عمرو بن مرۃ، عمرو بن علی، یحیی، شعبہ، و سفیان، عمرو بن مرۃ، ابن ابو لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر اور نماز مغرب میں قنوت پڑھا کرتے تھے۔

 

قنوت میں کفار اور مشرکین پر لعنت بھیجنا

 

محمد بن مثنی، ابو داؤد، شعبہ، قتادہ، انس، وہشام، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ماہ تک چند لوگوں پر قنوت پڑھی یا عرب کے چند قبائل پر لعنت فرمائی پھر اس کو چھوڑ دیا اور یہ قنوت آپ نے رکوع فرمانے کے بعد پڑھی اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ماہ تک قنوت پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لعنت فرماتے تھے قبیلہ رعل اور ذکوان اور قبیلہ لحیان پر۔

 

دعاء قنوت کے دوران منافقین پر لعنت بھیجنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبدالرزاق، معمر، زہری، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جس وقت سر اٹھایا نماز فجر کی آخری رکعت میں رکوع سے تو فرمایا خداوند قدوس لعنت کرے فلاں اور فلاں شخص پر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بد دعا فرمائی کچھ منافقین کے واسطے جو بظاہر مسلمان ہو گئے تھے اور ان لوگوں کے دلوں میں کفر بھرا ہوا تھا اس پر خداوند قدوس نے یہ آیت نازل فرمائی (لَیْسَ لَکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ) 3۔ ال عمران:128) یعنی تجھ کو کسی قسم کا کوئی اختیار نہیں ہے خداوند قدوس کو اختیار ہے خدا اس کی مغفرت فرمائے ان پر عذاب نازل فرمائے وہ لوگ گناہ گار ہیں۔

 

دعاء قنوت نہ پڑھنے کے بارے میں
اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک ماہ تک قنوت پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بد دعا فرماتے تھے عرب کے ایک قبیلہ پر پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ قنوت پڑھنا ترک فرما دیا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، خلف، ابن خلیفۃ، ابو مالک، اشجعی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد حضرت طارق سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قنوت نہیں پڑھی اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کی تو انہوں نے قنوت نہیں پڑھی اور حضرت عمر فاروق کی اقتداء میں نماز ادا کی تو انہوں نے قنوت نہیں پڑھی اور حضرت عثمان ذوالنورین کی اقتداء میں نماز ادا کی تو دیکھا کہ انہوں نے بھی قنوت نہیں پڑھی پھر فرمایا کہ اے صاحبزادے ! یہ ایک بالکل نیا کام ہے۔

 

کنکریوں کو سجدہ کرنے کی غرض سے ٹھنڈا کرنا

 

قتیبہ، عباد، محمد بن عمرو، سعید بن حارث، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کیا کرتے تھے تو میں (دوران نماز ہی) ایک مٹھی کنکریوں کی اٹھا لیا کرتا تھا پھر میں اس کو دوسرے ہاتھ کی مٹھی میں رکھ لیا کرتا تھا ان کو ٹھنڈا کرنے کیلئے اور جس وقت میں سجدہ کرتا تھا تو میں ان کو اپنی پیشانی کے نیچے رکھ لیا کرتا تھا۔

 

 

بوقت سجدہ تکبیر کہنا کیسا ہے ؟

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، غیلان بن جریر، مطرف سے روایت ہے کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین نے حضرت علی کی اقتداء میں نماز ادا کی وہ جس وقت سجدہ فرماتے تو تکبیر فرماتے اور جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر فرماتے اور جس وقت دو رکعت ادا فرما کر اٹھ جاتے تو تکبیر فرماتے اور جس وقت وہ نماز سے فراغت حاصل کر چکے تو حضرت عمران نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور فرمایا کہ انہوں نے (یعنی حضرت علی نے ) مجھ کو نماز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یاد تازہ فرما دی۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، معاذ و یحیی، زہیر، ابو اسحاق، عبدالرحمن بن اسود، علقمۃ و اسود، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک جھکنے اور اٹھنے کے وقت تکبیر فرمایا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا کرتے تھے اور حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بھی یہی عادت مبارکہ تھی۔

 

سجدہ کس طریقہ سے کرنا چاہئے ؟

 

اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، ابو بشر، یوسف، ابن ماہک، حکیم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس بات پر بیعت کی کہ میں سجدہ نہیں کروں گا لیکن کھڑے کھڑے۔

 

 

سجدہ کر نے کے وقت ہاتھ اٹھانا

 

محمد بن مثنی، ابن ابو عدی، شعبہ، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے (یعنی نماز شروع کرتے وقت) اور جس وقت رکوع میں سر اٹھایا کانوں کی لو تک۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، عبدالاعلی، سعید، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا پھر اسی طرح بیان فرمایا

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، معاذبن ہشام، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ جس وقت نماز میں جاتے پھر روایت اسی طریقہ سے بیان فرمائی البتہ اس روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جس وقت رکوع فرماتے تو اس طریقہ سے عمل فرماتے اور جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے اس طریقہ سے عمل فرماتے (دونوں ہاتھ) اٹھاتے تھے۔

 

 

بوقت سجدہ ہاتھ نہ اٹھانے سے متعلق

 

محمد بن عبیدالکوفی المحاربی، ابن مبارک، معمر، زہری، سالم، عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز شروع فرماتے اور جس وقت رکوع فرماتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے اور سجدہ کے دوران اس طریقہ سے نہ کرتے (یعنی دوران سجدہ ہاتھ نہ اٹھاتے تھے )۔

 

سجدہ کر نے کے وقت پہلے زمین پر کونسا عضو رکھے

 

حسین بن عیسیٰ القومسی البسطامی، یزید، ابن ہارون، شریک، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سجدہ فرماتے تھے تو دونوں گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر رکھتے اور جس وقت سجدہ سے اٹھ جاتے تو دونوں ہاتھ گھٹنوں سے اٹھاتے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، عبداللہ بن نافع، محمد بن عبداللہ بن حسن، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تمہارے میں سے ایک شخص نماز میں بیٹھ جانا چاہتا ہے پھر اس طریقہ سے بیٹھ جاتا ہے جس طریقہ سے اونٹ بیٹھ جاتا ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن محمد بن بکار بن بلال، مروان بن محمد، عبدالعزیز بن محمد، محمد بن عبداللہ بن حسن، ابو زناد، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص سجدہ کرے تو اس کو چاہیے کہ وہ پہلے دونوں ہاتھ کو زمین پر سہارا دے پھر گھٹنے رکھے اور اونٹ کی طرح نہ بیٹھے۔

 

دونوں ہاتھ پیشانی کے ساتھ زمین پر رکھنا

 

زیاد بن ایوب، دلویہ، ابن علیٰۃ، ایوب نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا (انسان کے ) دونوں ہاتھ اس طریقہ سے سجدہ کرتے ہیں کہ جس طریقہ سے (انسان کا چہرہ) سجدہ کرتا ہے تو تم لوگوں میں سے جس وقت کوئی شخص (سجدہ میں ) اپنا چہرہ رکھے تو اپنے دونوں ہاتھ بھی رکھے اور جس وقت چہرہ اٹھائے تو دونوں ہاتھ بھی اٹھائے۔

 

سجدہ کتنے اعضاء پر کرنا چاہئے ؟

 

قتیبہ، حماد، عمرو، طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کے بارے میں حکم فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا کہ بالوں اور کپڑوں کو (ایک ساتھ) نہ جوڑیں۔

 

 

مذکورہ سات اعضاء کی تشریح

 

قتیبہ، بکر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، عامر بن سعد، عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس وقت بندہ سجدہ میں جاتا ہے تو اس کے جسم کے سات اعضاء سجدہ کرتے ہیں چہرہ دونوں ہتھیلیاں اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔

 

پیشانی زمین پر رکھنا

 

محمد بن سلمہ و الحارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، یزید بن عبداللہ بن ہاد، محمد بن ابراہیم بن حارث، ابو سلمہ، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ (یہ ایک طویل حدیث ہے ) راوی فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک پیشانی اور ناک پر کیچڑ کا نشان تھا۔ اکیسویں رات کو صبح کو۔ (اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ سجدہ میں پیشانی زمین پر لگانا ضروری ہے )

 

بحالت سجدہ زمین پر ناک رکھنا

 

احمد بن عمرو بن سرح و یونس بن عبدالاعلیٰ و حارث بن مسکین، ابن وہب، ابن جریج، عبداللہ بن طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مجھے حکم ہوا ہے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا اور کپڑے یا بال کے نہ سمیٹ لینے کا (وہ سات اعضاء یہ ہیں پیشانی ناک اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور پاؤں )۔

 

دونوں ہاتھوں پر سجدہ کرنے سے متعلق

 

عمرو بن منصور النسائی، معلی بن اسد، وہیب، عبداللہ بن طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا مجھے حکم ہوا ہے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا پیشانی اور پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ سے ناک کی جانب اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں کے کنارہ (یعنی دونوں پاؤں کی انگلی کے کنارے )

 

بحالت سجدہ دونوں گھٹنے زمین پر لگانے سے متعلق

 

محمد بن منصور المکی و عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمن زہری، سفیان، ابن طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سات اشیاء پر سجدہ کرنے کا حکم ہوا ہے اور ممانعت بیان فرمائی گئی بالوں اور کپڑوں کو جوڑنے کی دونوں ہاتھوں پر اور دونوں گھٹنوں پر اور دونوں پاؤں کی انگلی کے سروں پر۔ حضرت سفیان نے نقل کیا کہ (جو کہ مذکورہ حدیث کے روایت نقل کرنے والے ہیں ) کہ حضرت ابن طاؤس نے دونوں ہاتھ اپنی پیشانی پر رکھے اور ان کو ناک تک لائے اور فرمایا کہ یہ تمام کا تمام ایک ہے۔

 

دونوں پاؤں پر سجدہ کرنے کا بیان

 

محمد بن عبداللہ بن حکم، شعیب، لیث، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، بن حارث، عامر بن سعد بن ابو وقاص، عباس بن عبدالمطلب سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ بندہ جس وقت سجدہ میں جاتا ہے تو اس کے سات اعضاء سجدہ میں جاتے ہیں ایک چہرہ دوسرے اور تیسرے دونوں ہتھیلی چوتھے اور پانچویں دونوں گھٹنے اور ساتویں دونوں پاؤں۔

 

سجدہ کی حالت میں دونوں پاؤں کھڑے رکھنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، عبیٍدۃ، عبید اللہ بن عمر، محمد بن یحیی بن حبان، اعرج، ابو ہریرہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکان میں نہیں دیکھا تو میں چل پڑی تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تھے اور دونوں پاؤں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے اللَّہُمَّ إِنِّی أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَبِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ مطلب یہ ہے کہ اے خدا میں پناہ مانگتا ہوں تیری خوشی کی تیرے غصہ سے اور تیری مغفرت کی تیرے عذاب سے اور میں تیری تجھ سے پوری تعریف بیان نہیں کر سکتا تو ایسا ہے کہ جیسی تو نے اپنی تعریف کی ہے۔

 

بحالت سجدہ دونوں پاؤں کی انگلیاں کھڑی کرنا

 

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عطاء، ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سجدہ میں جاتے تو اپنے بازو دونوں بغل سے الگ رکھتے اور دونوں پاؤں کی انگلیاں کھڑی رکھتے۔

 

جس وقت سجدہ میں جائے تو دونوں ہاتھ کس جگہ رکھے ؟
احمد بن ناصح، ابن ادریس، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے مدینہ منورہ میں حاضر ہوا اور میں نے عرض کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دیکھوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر کہی اور دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے انگوٹھے میں نے کانوں کے پاس دیکھے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا تو تکبیر پڑھی دونوں ہاتھ اٹھائے پھر سر اٹھایا اور فرمایا سمع اللہ لمن حمدہ پڑھا پھر تکبیر پڑھی اور سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسی جگہ تھے کہ جس جگہ نماز کے شروع میں تھے۔

 

دوران سجدہ دونوں بازو زمین پر نہ رکھنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، یزید، ابن ہارون، ابو العلاء و اسمہ ایوب بن ابو مسکین، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے بازو سجدہ میں نہ بچھائے جس طریقہ سے کوئی کتا اپنے بازو بچھاتا ہے۔

 

ترکیب اور کیفیت سجدہ

 

علی بن حجر مروزی، شریک، ابو اسحاق سے روایت ہے کہ حضرت براء بن عازب نے سجدہ کو دکھلایا تو دونوں ہاتھ زمین پر رکھ دئیے اور دونوں سرین اٹھائے اور فرمایا کہ میں نے اسی طریقہ سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن بزیع، معتمر بن سلیمان، عمران، ابو مجلز، بشیر بن نہیک، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ اگر میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے بحالت نماز ہوتا کہ جس آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی میں دونوں بغل دیکھتا (مطلب یہ ہے کہ سجدہ میں جانے کے وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھوں کو کشادہ رکھتے یہاں تک کہ دونوں بغل نظر آ جاتی)۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسماعیل، داؤد بن قیس، عبید اللہ بن عبداللہ بن ارقم سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی دونوں بغل کی سفیدی سجدہ کی حالت میں دیکھا کرتا تھا۔

 

سجدے میں دونوں ہاتھوں کو کھلا رکھنا

 

قتیبہ، سفیان، عبید اللہ، ابن عبداللہ بن الاصم، عمہ، یزید و ابن الاصم، میمونہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سجدہ کرتے تو دونوں ہاتھوں کو کھلا رکھتے تھے اس قدر کہ اگر بکری کا بچہ چاہتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھوں کے اندر سے نکل جاتا۔

 

سجدہ میں میانہ روی رکھنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ، سعید، قتادہ، انس، اسماعیل بن مسعود، خالد، شعبہ، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ سجدہ میں درمیانہ طریقہ رکھو (مطلب یہ ہے کہ خوبی کے ساتھ اور عمدگی کے ساتھ سجدہ ادا کرو) اور تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے بازو کتے کی طرح سے نہ پھیلائے (یا بچھائے )۔

 

بحالت سجدہ پشت برابر رکھنے کے بارے میں

 

علی بن حشرم المروزی، عیسیٰ و ابن یونس، اعمش، عمارۃ، ابو معمر، ابو مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس شخص کی نماز صحیح طریقہ سے ادا نہیں ہوتی کہ جو اپنی پشت کو (برابر) نہ کرے رکوع اور سجدہ کرنے کی حالت میں۔

 

کوے کی طرح سے (نماز میں ) چونچ مارنا ممنوع ہے

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، خالد، ابن ابو ہلال، جعفر بن عبد اللہ، تمیم بن محمود، عبدالرحمن بن شبل سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین باتوں سے منع فرمایا ایک تو کوے کی طرح سے ٹھونگ مارنے سے دوسرے درندہ کی طرح سے ہاتھ پھیلانے سے تیسرا یہ کہ نماز کے واسطے ایک جگہ متعین کرنے سے جس طریقہ سے کہ اونٹ جگہ متعین کرتا ہے (اس کا مطلب یہ ہے کہ اسی جگہ نماز ادا کرے اور دوسری جگہ نماز ادا نہ کرے )۔

 

بال جوڑنے کے ممنوع ہونے سے متعلق

 

حمید بن مسعٍدۃ بصری، یزید و ابن زریع، شعبہ، و روح یعنی ابن قاسم، عمرو بن دینار، طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ ارشاد فرمایا کہ مجھ کو حکم ہوا ہے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا اور بال اور کپڑوں کے نہ جوڑنے کا۔

 

 

جس شخص کا جوڑا نہ بندھا ہو اگر وہ نماز ادا کرے ؟

 

عمرو بن سواد بن اسود بن عمروسرحی، ولدعبد اللہ بن سعد بن ابو سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، بکیر، کریب، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ انہوں نے عبداللہ بن حارث کو نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا اور وہ جوڑا باندھے ہوئے تھے اپنے سر کے پیچھے تو وہ کھڑے ہو کر وہ بال کھولنے لگ گئے۔ پس جس وقت عبداللہ بن حارث نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عبداللہ ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فرمایا کہ میرے سر سے تمہارا کیا واسطہ تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے نماز میں کسی آدمی کے جوڑا باندھنے کی مثال ایسی ہے کہ جس طریقہ سے کہ کسی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں اور ایسا شخص نماز ادا کرے۔

 

کپڑوں کو جوڑنے کی ممانعت سے متعلق

 

محمد بن منصورالمکی، سفیان، عمرو، طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حکم فرمایا سات ہڈی پر سجدہ کرنے کا اور بال اور کپڑے کے جوڑنے سے منع فرمایا۔

 

کپڑے پر سجدہ کرنے سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، خالد بن عبدالرحمن السلمی، غالب القطان، بکر بن عبداللہ المزنی، انس سے روایت ہے کہ جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں ہم لوگ نماز ادا کیا کرتے تھے دوپہر کے وقت تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گرمی کی شدت کی وجہ سے کپڑوں پر سجدہ فرماتے۔

 

سجدہ کے مکمل طریقہ سے ادا کرنے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ، سعید، قتادہ، انس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ رکوع اور سجدہ کو مکمل طریقہ سے ادا کرو کیونکہ خدا کی قسم ہے میں تم لوگوں کو پیچھے کی جانب سے دیکھتا ہوں رکوع اور سجدہ کرنے کی حالت میں۔

 

سجدہ کی حالت میں قرآن کریم پڑھنے کے ممنوع ہونے سے متعلق

 

ابوداؤد بن سلیمان بن سیف، ابو علی حنفی و عثمان بن عمر، ابو علی، عثمان، داؤد بن قیس، ابراہیم بن عبداللہ بن حنین، عبداللہ ابن عباس، علی بن ابو طالب سے روایت ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو سونے کی انگوٹھی کے پہن لینے سے اور ریشمی قس کے لباس اور کسم میں رنگا ہوا گہرے سرخ رنگ کا کپڑا اور سجدے اور رکوع میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، یونس، و حارث بن مسکین، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ابراہیم بن عبد اللہ، علی سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع اور سجدے میں قرآن کریم پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔

 

 

سجدہ کے دوران کوشش سے دعا کرنا

 

علی بن حجر المروزی، اسماعیل، ابن جعفر، سلیمان بن سحیم، ابراہیم بن عبداللہ بن معبد بن عباس، عبداللہ بن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پردہ کھولا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سر بندھا ہوا تھا اس مرض کی وجہ سے کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہوئی تو ارشاد فرمایا اے خدا میں نے (حکم خداوندی) پہنچا دیا اور پیغام الہی پہنچا دیا۔ تین مرتبہ یہ جملے ارشاد فرمائے۔ پھر فرمایا کہ اے لوگو! پیغمبری کی خوش خبری میں سے کوئی بات نہیں ہے جو کہ باقی رہی ہو مگر سچا خواب کہ جس کو بندہ دیکھے (یعنی نبوت کے بعد سچے خواب باقی رہ جائیں گے ) اور یاد رکھو کہ مجھ کو رکوع اور سجدہ میں قرآن کریم پڑھنے سے ممانعت فرمائی گئی ہے تو جس وقت تم لوگ رکوع کرو تو تم اپنے پروردگار کی عظمت بیان کرو اور جس وقت تم لوگ سجدہ کرو تو تم کوشش کرو دعا کے کرنے میں۔ اس لئے کہ سجدہ کرنے کی حالت میں دعا کا قبول ہونا زیادہ قریب ہے۔

 

بحالت سجدہ دعا کرنے سے متعلق

 

ہناد بن سری، ابو احوص، سعید بن مسروق، سلمہ بن کہیل، ابو رشدین، کریب، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ میں اپنی خالہ حضرت میمونہ کی خدمت میں رہا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی رات میں اسی جگہ قیام فرما رہے میمونہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قضاء حاجت کیلئے اٹھے اور پانی کے مشکیزہ کے نزدیک تشریف لا کر اس کا منہ کھول دیا اور پھر وضو فرمایا (ایک طرح کا وضو فرمایا اور ہاتھ دھوئے ) پھر اپنے بستر پر تشریف لائے اور سو گئے پھر اٹھے اور مشکیزہ کے نزدیک آ کر اس کا منہ کھولا اور مکمل وضو فرمایا (جس طریقہ سے کہ نماز کے واسطے وضو فرماتے ہیں ) پھر کھڑے ہو کر نماز شروع فرمائی اور سجدہ کے دوران یہ دعا پڑھی (اللَّہُمَّ اجْعَلْ فِی قَلْبِی نُورًا وَاجْعَلْ فِی سَمْعِی نُورًا وَاجْعَلْ فِی بَصَرِی نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ تَحْتِی نُورًا وَاجْعَلْ مِنْ فَوْقِی نُورًا وَعَنْ یَمِینِی نُورًا وَعَنْ یَسَارِی نُورًا وَاجْعَلْ أَمَامِی نُورًا وَاجْعَلْ خَلْفِی نُورًا وَأَعْظِمْ لِی نُورًا ثُمَّ نَامَ حَتَّی نَفَخَ) ترجمہ اے خدا! میرے قلب میں نور پیدا فرما دے اور میرے کانوں کو طنور عطا فرما دے اور میری آنکھ میں نور عنایت فرما اور میرے نیچے نور عطا کر اور میرے اوپر نور نازل فرما اور میرے دائیں جانب نور دے دے اور میری بائیں جانب نور عنایت فرما اور میرے پیچھے نور عطا فرما اور میرا نور بڑا کر دے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سو گئے۔ حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نیند میں خراٹے آنے لگے۔ اس کے بعد بلال تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز پڑھنے کے واسطے نیند سے بیدار فرمایا۔

 

دوران سجدہ دوسری قسم کی دعا مانگنا

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، سفیان، منصور، ابو ضحی، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجدہ کے دوران یہ دعا فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قرآن کریم کی اتباع فرمایا کرتے تھے اس لئے کہ قرآن میں ہے

 

دوران سجدہ دوسری قسم کی دعا نہ پڑھنا

 

محمود بن غیلان، وکیع، سفیان، منصور، ابو ضحی، مسروق، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجدے کے دوران فرماتے تھے اور پھر آیت کریمہ کی تفسیر اس طریقہ سے فرماتے کہ تم رکوع کے دوران خداوند قدوس کی پاکی بیان کرو اور اس سے گناہوں کی معافی مانگو۔

 

دوران سجدہ دوسری قسم کی دعا

 

محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، ہلال بن یساف، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی سونے کی جگہ نہیں مل سکے تو میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلاش کرنے لگ گئی مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی باندی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے کہ اس دوران میرا بھائی آ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت سجدہ میں تھے اور فرماتے تھے اے خدا! میرے وہ بھی گناہ معاف کر دے جو کہ پوشیدہ ہیں اور وہ گناہ بھی معاف فرما دے جو کہ ظاہری گناہ ہوں۔

 

دوران سجدہ ایک دوسری دعا پڑھنا

 

محمد بن مثنی، محمد، شعبہ، منصور، ہلال بن یساف، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک رات نہیں پایا مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کسی باندی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ اس کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تلاش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں تھے اور یہ دعا آخر تک پڑھ رہے تھے یعنی اے خدا بخش دے میرے گناہ جو پوشیدہ ہوں اور جو ظاہر ہوں۔

 

دوران سجدہ ایک دوسری قسم دعا

 

عمرو بن علی، عبدالرحمن، ابن مہدی، عبدالعزیز بن ابو سلمہ، عمی الماجشون بن ابو سلمہ، عبدالرحمن اعرج، عبید اللہ بن ابو رافع، علی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سجدہ میں جاتے تو فرماتے اے خدا تیرے ہی لئے میں نے سجدہ کیا اور تیرے ہیں واسطے میں نے گردن رکھ دی اور میں تیرے اوپر یقین لے آیا میرے چہرہ نے سجدہ کیا اس ذات کے واسطے کہ جس نے اس کو بنایا اور صورت ڈھالی اور اس کے کان آنکھ بنائے وہ خدا بہت بابرکت ہے جو کہ تمام بنانے والوں میں بہتر ہے۔

 

ایک دوسری قسم کی دعا

 

یحیی بن عثمان، ابو حیوٰۃ، شعیب بن ابو حمزٰۃ، محمد بن منکدر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوران سجدہ یہ دعا پڑھتے تھے آخر تک۔ یعنی اے خدا میں نے تیرے ہی واسطے سجدہ کیا اور میں تجھ پر یقین لایا اور میں نے تیرے سامنے گردن رکھ دی تو میرا مالک ہے میرے چہرہ نے اس پروردگار کے واسطے سجدہ کیا کہ جس نے اس کو بنایا اور بہترین صورت بنائی اور اس کے کان اور آنکھ بنائے وہ ذات بہت زیادہ بابرکت ہے جو کہ تمام پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

 

 

٭٭ یحیی بن عثمان، ابن حمیر، شعیب بن ابو حمزٰۃ، محمد بن منکدر، عبدالرحمن بن ہرمز، اعرج، محمد بن مسلمہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت رات میں بیدار ہوتے تھے تو نفل پڑھتے اور سجدہ میں فرماتے  اللَّہُمَّ لَکَ سَجَدْتُ وَبِکَ آمَنْتُ وَلَکَ أَسْلَمْتُ اللَّہُمَّ أَنْتَ رَبِّی سَجَدَ وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَصَوَّرَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ تَبَارَکَ اللَّہُ أَحْسَنُ الْخَالِقِینَ۔ یعنی اے خدا! میں نے تیرے ہی واسطے سجدہ کیا اور تیری ہی میں نے فرمانبرداری کی اور میں تجھ پر ہی ایمان لایا اور میرے چہرہ نے اس ذات کے واسطے سجدہ کیا کہ جس نے اس کو پیدا فرمایا اور عمدہ صورت عنایت فرمائی پھر اس کے کان اور آنکھ بنائے خدا تعالیٰ کی ذات بہت برکت والی ہے جو کہ بہترین پیدا کرنے والا ہے۔

 

دعا کا ایک اور طریقہ

 

سوار بن عبداللہ بن سوار القاضی و محمد بن بشار، عبدالوہاب، خالد، ابو عالیٰۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ تلاوت کے دوران رات میں یہ دعا پڑھتے تھے وَجْہِی لِلَّذِی خَلَقَہُ وَشَقَّ سَمْعَہُ وَبَصَرَہُ بِحَوْلِہِ وَقُوَّتِہِ۔

 

 

دوران سجدہ ایک دوسری دعا

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، یحیی بن سعید، محمد بن ابراہیم، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موجود نہ پایا پھر دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت سجدہ میں تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاؤں مبارک کی انگلیاں قبلہ کی جانب تھیں میں نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرما رہے تھے أَعُوذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوبَتِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْکَ لَا أُحْصِی ثَنَائً عَلَیْکَ أَنَتْ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلَی نَفْسِکَ اے خدا! میں پناہ مانگتا ہوں تیری رضا مندی کی تیرے غصہ سے اور تیری مغفرت کی تیرے عذاب سے اور میں تیری تجھ سے پوری تعریف نہیں کر سکتا۔ تو ایسا ہے کہ تو نے جیسی اپنی تعریف بیان کی ہے۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن حسن مصیصی المقسمی، حجاج، ابن جریج، عطاء، ابن ابو ملیکۃ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو موجود نہیں پایا تو مجھ کو یہ خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی کسی اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے تو میں نے ان کو تلاش کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت رکوع میں تھے یا سجدہ میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ فرما رہے تھے سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ فَقَالَتْ بِأَبِی أَنْتَ وَأُمِّی إِنِّی لَفِی شَأْنٍ وَإِنَّکَ لَفِی آخَرَ۔ میں نے عرض کیا کہ میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر فدا ہو جائیں میں کس خیال میں تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس دھیان میں ہیں۔

 

 

ایک اور دعا

 

ہارون بن عبد اللہ، حسن بن سوار، لیث بن سعد، معاویہ بن صالح، عمرو بن قیس الکندی، عاصم بن حمید، عوف بن مالک سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ کھڑا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسواک فرمائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے وضو فرمایا پھر نماز ادا کرنے کے واسطے کھڑے ہو گئے تو سورہ بقرہ شروع فرمائی۔ اس طریقہ سے کہ جس وقت اس آیت کریمہ پر پہنچتے تو ٹھہر جاتے اور خداوند قدوس سے دعا مانگتے اور جس وقت آیت عذاب آتی تو رک جاتے اور پناہ مانگتے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع فرمایا اور رکوع میں اس قدر ٹھہرتے کہ جس قدر تاخیر تک گھر میں رہے تھے رکوع میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے (سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمۃِ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ رکوع کے بعد فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں فرماتے تھے (سُبْحَانَ ذِی الْجَبَرُوتِ وَالْمَلَکُوتِ وَالْکِبْرِیَاءِ وَالْعَظَمۃِ) آخر تک۔ یعنی میں پاکی بیان کرتا ہوں اس ذات کی جو طاقت بزرگی اور بڑائی والا ہے پھر دوسری رکعت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ آل عمران تلاوت فرمائی پھر اس طرح سے ایک ایک سورت پڑھی اور اسی طریقہ سے کیا۔

 

دوران سجدہ ایک اور قسم کی دعا

 

اسحاق بن ابراہیم، جریر، اعمش، سعد بن عبیٍدۃ، مستورد بن احنف، صلۃ بن زفر، حذیفہ سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ بقرہ شروع فرمائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک سو آیات تلاوت فرمائیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع نہیں فرمایا۔ مجھ کو خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعت میں اس سورت کو ختم فرما دیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے کی طرف بڑھے (یعنی مزید تلاوت کی)۔ میں اس وقت سمجھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سورت کو ختم فرما کر رکوع فرمائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے کی طرف بڑھ گئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سورہ نساء پڑھی پھر سورہ آل عمران تلاوت فرمائی پھر رکوع فرمایا جو کہ قیام کے قریب قریب تھا (مطلب یہ ہے کہ اس قدر دیر تک رکوع میں رہے ) اور رکوع میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے پھر سر اٹھایا اور کہہ کر بڑی دیر تک کھڑے رہے پھر سجدہ فرمایا بڑی دیر تک۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ میں فرماتے تھے (سبحن ربی الاعلیٰ سبحن ربی الاعلی) اور جس وقت کوئی آیت کریمہ خوف کی یا عظمت خداوندی سے متعلق آتی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ذکر خداوندی (حمد و ثناء) فرماتے۔

 

دوران سجدہ ایک دوسری قسم کی دعا

 

بندار محمد بن بشار، یحیی بن سعیدقطان و ابن ابو عدی، شعبہ، سعید، قتادہ، مطرف، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع اور سجدہ کے دوران فرماتے تھے۔

 

دوران سجدہ کتنی مرتبہ تسبیح کہنا چاہئے ؟

 

محمد بن رافع، عبداللہ بن ابراہیم بن عمر بن کیسان، وہب بن مانوس، سعید بن جبیر، انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز سے زیادہ مشابہ اس نوجوان شخص کی نماز سے زیادہ کسی کو نہیں دیکھا۔ (مطلب یہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی نماز نماز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زیادہ مشابہ ہے ) حضرت سعید بن جبیر نے فرمایا کہ ہم لوگوں نے ان کے رکوع کا اندازہ قائم کیا تو وہ اندازہ دس تسبیحات کے برابر لگتا تھا اور سجدہ کی بھی یہی کیفیت تھی

 

 

اگر دوران سجدہ کچھ نہ پڑھے تو سجدہ جب بھی ادا ہو جائے گا

 

محمد بن عبداللہ بن یزید مقری ابو یحیی، بصری، وہ اپنے والد سے ، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، علی بن یحیی بن خلاد بن مالک بن رافع بن مالک، عمہ رفاعۃ بن رافع سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف فرما تھے اور ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک بیٹھے ہوئے تھے کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور خانہ کعبہ کے نزدیک جا کر اس نے نماز ادا کی جس وقت وہ شخص نماز سے فراغت حاصل کر چکا تو وہ شخص خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور تمام حاضرین اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وعلیک۔ یعنی تم پر سلام ہو۔ جاؤ تم نماز ادا کر لو کیونکہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ چنانچہ وہ آدمی پھر نماز ادا کرنے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت اس کی نماز کو دیکھ رہے تھے لیکن اس کو علم نہیں تھا کہ اس کی نماز میں کیا ہے اور کس قسم کی کمی ہے ؟ جس وقت وہ نماز ادا کر چکا تو وہ شخص حاضر ہوا اور اس نے تمام حاضرین کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وعلیک۔ (یعنی تم پر سلامتی ہو) تم واپس جاؤ تم اور نماز ادا کرو تم نے نماز نہیں ادا کی۔ اس شخص نے اسی طرح سے دو یا تین مرتبہ نماز ادا کی آخر اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری نماز میں تو میں کسی قسم کی کوئی کمی محسوس نہیں کرتا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تمہارے میں سے کسی شخص کی نماز مکمل نہیں ہوئی۔ جس وقت تک کہ وضو مکمل نہ کر لو۔ جس طریقہ سے کہ خدا نے حکم فرمایا ہے مطلب یہ ہے کہ تم چہرہ دھو ڈالو اور دونوں ہاتھ کہنیوں تک دھو اور تم مسح کرو سر پر اور دونوں پاؤں دھو ڈالو۔ دونوں ٹخنوں تک پھر خداوند قدوس کی عظمت بیان کرو (ثناء پڑھو) جو آسان ہو اس قدر قرآن کریم پڑھو اس میں سے جس قدر آسان ہو اس قدر قرآن کریم پڑھو اس میں سے جس قدر خداوند قدوس نے اس کو سکھلایا ہے اور حکم فرمایا پھر تکبیر پڑھو اس میں سے جس قدر خداوند قدوس نے اس کو سکھلایا ہے اور حکم فرمایا پھر تکبیر پڑھو اور رکوع کرو۔ حتی کہ اس کے تمام کے تمام جوڑ اپنی جگہ آ جائیں اور ڈھیلے پڑ جائیں پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہو پھر سیدھا کھڑا ہو۔ یہاں تک کہ اس کی پشت برابر ہو جائے پھر تکبیر پڑھو اور سجدہ کرو یہاں تک کہ اس کا چہرہ جم جائے اور پیشانی بھی جم جائے اور تمام کے تمام جوڑ اپنی جگہ آ جائیں اور سب کے سب جوڑ ڈھیلے پڑ جائیں پھر تکبیر پڑھو اور اٹھ جاؤ۔ یہاں تک اپنے سرین پر سیدھا بیٹھ جائے اور اپنی پشت سیدھی کرو پھر تکبیر کہے اور سجدہ کرے حتی کہ اس کا چہرہ جم جائے اور وہ ڈھیلا پڑھ جائے یہاں تک کہ اس کا چہرہ جم جائے اور وہ ڈھیلا پڑ جائے اگر ایسا کرے گا تو اس کی نماز پوری نہ ہوئی۔

 

بندہ عز و جل سے کب نزدیک ہوتا ہے ؟

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، عمرو یعنی ابن حارث، عمارۃ بن عربۃ، سمی، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا بندہ خدا سے اس وقت زیادہ نزدیک ہوتا ہے کہ وہ جس وقت سجدہ میں ہو اور سجدہ کرنے کی حالت میں بہت زیادہ دعا مانگے۔

 

خداوند قدوس کے واسطے جو شخص ایک سجدہ کرے تو اس کو کس قدر اجر ملے گا؟

 

ہشام بن عمار، ہقل بن زیاد الدمشقی، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ربیعۃ بن کعب اسلمی سے روایت ہے کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں وضو کرنے کا (پانی) اور ضرورت کا سامان (ڈھیلے پتھر وغیرہ) لایا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا تم مانگو کیا مانگتے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں جنت میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ساتھ مانگتا ہوں یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اچھا اس کے علاوہ اور کچھ تم مانگنا چاہو تو مانگ سکتے ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صرف یہی الفاظ ارشاد فرمائے کہ تم میری امداد کرو اس سلسلہ میں سجدہ کرنے سے۔ ابو عمار الحسین بن حریث، ولید بن مسلم، اوزاعی، ولید بن ہشام معیطی، معدان بن طلحہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ثوبان سے ملا جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غلام تھے اور میں نے کہا کہ مجھ کو اس قسم کا کوئی کام بتلا جو کہ جنت میں داخل کر دے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے اس کے بعد میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم سجدہ میں جایا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو بندہ خدا تعالیٰ کے واسطے ایک سجدہ کرے تو خداوند قدوس اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔ حضرت معدان نے فرمایا کہ پھر میں نے حضرت ابو درداء سے ملاقات کی اور میں نے ان سے بھی وہی بات دریافت کی جو حضرت ثوبان سے دریافت کی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ سجدہ کیا کرو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی بات سنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے جو کوئی بندہ خداوند قدوس کے واسطے سجدہ میں جاتا ہے تو خداوند قدوس اس کا ایک مقام بلند فرما دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔ حضرت معدان نے فرمایا کہ پھر میں نے حضرت ابو درداء سے ملاقات کی اور ان سے بھی وہی بات دریافت کی جو حضرت ثوبان سے دریافت کی انہوں نے فرمایا کہ تم سجدہ کیا کرو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو بندہ اس کے واسطے سجدہ کرتا ہے تو خداوند قدوس اس کا درجہ بلند فرما دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔

 

 

٭٭ ابوعمار الحسین بن حریث، ولید بن مسلم، اوزاعی، ولید بن ہشام معیطی، معدان بن طلحہ سے روایت ہے کہ میں حضرت ثوبان سے ملا جو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے غلام تھے اور میں نے کہا کہ مجھ کو اس قسم کا کوئی کام بتلا جو کہ جنت میں داخل کر دے۔ وہ کچھ دیر خاموش رہے اس کے بعد میری جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ تم سجدہ میں جایا کرو۔ کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو بندہ خدا تعالیٰ کے واسطے ایک سجدہ کرے تو خداوند قدوس اس کا ایک درجہ بلند کرے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔ حضرت معدان نے فرمایا کہ پھر میں نے حضرت ابو درداء سے ملاقات کی اور میں نے ان سے بھی وہی بات دریافت کی جو حضرت ثوبان سے دریافت کی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ تم لوگ سجدہ کیا کرو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہی بات سنی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمایا کرتے تھے جو کوئی بندہ خداوند قدوس کے واسطے سجدہ میں جاتا ہے تو خداوند قدوس اس کا ایک مقام بلند فرما دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔ حضرت معدان نے فرمایا کہ پھر میں نے حضرت ابو درداء سے ملاقات کی اور ان سے بھی وہی بات دریافت کی جو حضرت ثوبان سے دریافت کی انہوں نے فرمایا کہ تم سجدہ کیا کرو کیونکہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے جو بندہ اس کے واسطے سجدہ کرتا ہے تو خداوند قدوس اس کا درجہ بلند فرما دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔

 

دوران سجدہ زمین پر لگنے والے اعضاء کی فضیلت کا بیان

 

محمد بن سلیمان، حماد بن زید، معمرو نعمان بن راشد، زہری، عطاء بن یزید سے روایت ہے کہ میں حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا ان دونوں میں سے ایک صاحب نے حدیث شفاعت بیان فرمائی اور دوسرے صاحب خاموش رہے تو بیان فرمایا کہ فرشتے آئیں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھی شفاعت فرمائیں گے پھر پل صراط کا تذکرہ فرمایا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا سب سے پہلے میں اس پل سے نکل جاؤں گا جس وقت خداوند قدوس اپنی مخلوق کے انصاف سے فارغ ہو گا اور جن حضرات کو آگ سے باہر نکالنا چاہے گا ان کو نکال لے گا۔ اس وقت فرشتوں کو اور پیغمبروں کو شفاعت کا حکم دے گا۔ وہ لوگ ان لوگوں کی شناخت کریں گے (یعنی جو لوگ شفاعت کے اہل ہیں ) ان کو نشانیوں سے وہ یہ ہے کہ آگ انسان کے ہر عضو کو کھا لے گی لیکن سجدوں کی جگہ کو پھر ان پر چشمہ حیات کا پانی ڈالا جائے گا اور وہ اس طریقہ سے اگ جائیں گے یعنی دوبارہ ان میں جان آ جائے گی کہ جس طریقہ سے دانہ اگتا ہے۔ سیلاب کے کوڑے اور کرکٹ میں یعنی جس طریقہ سے وہ جلدی تر  و تازہ ہو جاتا ہے اسی طریقہ سے وہ لوگ بھی اس پانی کی برکت سے بالکل تندرست ہو جائیں گے اور آگ کا نشان بالکل ختم ہو جائے گا۔

 

کیا ایک سجدہ دوسرے سے طویل کرنا جائز ہے ؟

 

عبدالرحمن بن محمد بن سلام، یزید بن ہارون، جریر بن حازم، محمد بن ابو یعقوب بصری، عبداللہ بن شداد سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عشاء ادا کرنے کیلئے باہر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت حضرت امام حسن اور امام حسین کو گود میں اٹھائے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت آگے بڑھے (نماز کی امامت فرمانے کیلئے ) اور ان کو بٹھلایا۔ زمین پر پھر نماز کے واسطے تکبیر فرمائی اور نماز شروع فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے درمیان ایک سجدہ میں تاخیر فرمائی تو میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ صاحب زادے (یعنی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نواسے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پشت مبارک پر ہیں اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت سجدہ میں ہیں۔ پھر میں سجدہ میں چلا گیا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے دوران ایک سجدہ ادا فرمانے میں تاخیر فرمائی۔ یہاں تک کہ ہم لوگوں کو اس بات کا خیال ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ کسی قسم کا کوئی حادثہ پیش آ گیا یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ایسی کوئی بات نہیں تھی میرا لڑکا (نواسہ) مجھ پر سوار ہوا تو مجھ کو (برا) محسوس ہوا کہ میں جلدی اٹھ کھڑا ہوں اور اس کی مراد (کھیلنے کی خواہش) مکمل نہ ہو۔

 

 

جس وقت سجدہ سے سر اٹھائے تو تکبیر پڑھنا چاہئے

 

اسحاق بن ابراہیم، فضل بن دکین و یحیی بن آدم، زہیر، ابو اسحاق، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ، عبداللہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا تکبیر پڑھتے ہوئے جھکتے اور اٹھتے ہوئے اور کھڑے اور بیٹھ جانے کے وقت۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیرتے تھے دائیں اور بائیں جانب السلام علیکم ورحمۃ اللہ فرماتے۔ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخسار مبارک کی سفیدی نظر آنے لگتی۔ (یعنی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اتنی دیر تک گردن کا رخ موڑ دیتے ) حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بھی اس طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

پہلے سجدے سے اٹھتے وقت رفع یدین کرنا

 

محمد بن مثنی، معاذ بن ہشام، قتادہ، نصر بن عاصم، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے اور جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت بھی اس طریقہ سے کرتے یعنی دونوں ہاتھ اٹھاتے۔

 

دونوں سجدوں کے درمیان ہاتھ نہ اٹھانے سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، سفیان، زہری، سالم، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز شروع فرماتے تو تکبیر فرماتے اور دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھاتے پھر جس وقت آپ رکوع فرماتے تو دونوں ہاتھ اٹھاتے اور رکوع کرنے کے بعد بھی ہاتھ اٹھاتے اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔

 

دونوں سجدوں کے درمیان دعا کرنا

 

محمد بن عبدالاعلی، خالد، شعبہ، عمرو بن مرۃ، ابو حمزٰۃ، رجل، حذیفہ سے روایت ہے کہ ایک روز وہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کے بعد سورہ بقرہ تلاوت فرمائی اس کے بعد رکوع فرمایا تو رکوع میں اس قدر تاخیر تک رہے کہ جس قدر تاخیر تک کھڑے رہے تھے اور فرمایا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع سے سر اٹھایا تو ارشاد فرمایا تمام تعریفیں میرے پروردگار کے واسطے ہیں اور سجدہ کے دوران فرمایا اور دونوں سجدوں کے درمیان فرمایا یعنی اے خدا مجھ کو بخش دے اے خدا مجھ کو معاف فرما دے۔

 

چہرہ کے سامنے دونوں ہاتھ اٹھانے سے متعلق

 

موسی بن عبداللہ بن موسیٰ بصری، نضر بن کثیر، ابو سہل ازدی، نے فرمایا کہ میرے نزدیک حضرت عبداللہ بن طاؤس نے مقام منیٰ میں مسجد خفیف کے اندر نماز ادا کی تو جس وقت انہوں نے پہلے سجدہ سے سر اٹھایا تو دونوں ہاتھ چہرہ کے سامنے کئے میں نے اس کا انکار کیا اور حضرت وہیب بن خالد سے کہا کہ یہ شخص وہ کام کرتا ہے کہ ہم نے جو کام کسی شخص کو نہیں کرتے دیکھا ہے حضرت عبداللہ بن طاؤس نے فرمایا کہ میں نے اپنے والد کو اس طرح کرتے دیکھا ہے اور وہ کہتے تھے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عباس کو اس طرح سے کرتے دیکھا ہے اور حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے تھے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یہ عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

دونوں سجدوں کے درمیان کتنی دیر تک بیٹھنا چاہئے ؟
عبید اللہ بن سعیدابوقدامۃ، یحیی، شعبۃ، حکم، ابن ابو لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا رکوع سجدہ اور رکوع کے بعد کھڑا ہونا اور دونوں سجدوں کے درمیان میں بیٹھ جانا برابر برابر ہوا کرتا تھا۔

 

دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنے کا طریقہ

 

عبدالرحمن بن ابراہیم دحیم، مروان بن معاویہ، عبداللہ ابن عبداللہ بن الاصم، یزید بن الاصم، میمونہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سجدہ فرماتے تو دونوں ہاتھ کھلے رکھتے۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مبارک بغلوں تک کی چمک پیچھے سے دکھائی دیتی اور جس وقت بیٹھ جاتے تو بائیں طرف کی ران زمین پر لگا کر بیٹھ جاتے۔

 

سجدہ کے واسطے تکبیر پڑھنا

 

قتیبہ، ابو احوص، ابو اسحاق، عبدالرحمن بن اسود، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہر ایک عضو اٹھاتے ہوئے اور رکھتے اور اٹھتے اور بیٹھ جانے کے وقت تکبیر پڑھتے اور حضرت ابو بکر اور حضرت عثمان غنی بھی اسی طریقہ سے کرتے (یعنی ان حضرات کا عمل مبارک بھی اسی طریقہ سے تھا)۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، حجین، ابن مثنی، لیث، عقیل، ابن شہاب، ابو بکر بن عبدالرحمن بن حارث بن ہشام، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز پڑھنے کے واسطے بیدار ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تکبیر پڑھتے کھڑے ہونے کے وقت پھر تکبیر پڑھتے رکوع کرنے کے وقت پھر سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ پڑھتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے پھر کھڑے کھڑے فرماتے سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ پھر جس وقت سجدہ میں جاتے تو تکبیر فرماتے پھر جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر پڑھتے پھر جس وقت سجدہ میں چلے جاتے تو تکبیر پڑھتے پھر جس وقت سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر پڑھتے اس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پوری کی پوری نماز میں عمل کرتے۔ نماز مکمل ہونے تک اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو رکعات ادا فرما کر اٹھ جاتے تب بھی تکبیر فرماتے۔

 

جس وقت دونوں سجدوں سے فارغ ہو کر اٹھنے لگے تو پہلے سیدھا کھڑا ہو کر بیٹھ جاتے پھر اٹھتے

 

زیاد بن ایوب، اسماعیل، ایوب، ابو قلابہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو سلیمان مالک بن حویرث ہم لوگوں کی نماز میں تشریف لائے اور فرمایا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تم لوگوں کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دکھلاؤں کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ (اس کے بعد انہوں نے نماز ادا فرمائی تو) آپ پہلی رکعت ادا فرما کر بیٹھ گئے اور جس وقت آپ نے دوسرے سجدہ سے سر اٹھایا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، ہشیم، خالد، ابو قلابۃ، مالک بن حویرث سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز ادا فرماتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت طاق والی نماز ہوتی (مطلب یہ ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین رکعت جیسے مغرب کی نماز یا نماز وتر ادا فرماتے ) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ اٹھتے کہ جس وقت تک آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سیدھے ہو کر نہ بیٹھ جاتے۔

 

کھڑے ہوتے وقت ہاتھ زمین پر ٹکانا

 

محمد بن بشار، عبدالوہاب، خالد، ابو قلابۃ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن حویرث ہم لوگوں کے پاس آیا کرتے تھے اور فرماتے کیا میں تم لوگوں کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز بتلاؤں پھر وہ (بے وقت) نماز ادا فرماتے (یعنی نماز نفل) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت دوسرے سجدہ سے فراغت کے بعد سر اٹھاتے پہلی رکعت میں سیدھے بیٹھ جاتے پھر زمین پر سہارا دے کر بیٹھ جاتے۔

 

ہاتھوں کو گھٹنوں سے پہلے اٹھانا

 

اسحاق بن منصور، یزید بن ہارون، شریک، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سجدہ فرماتے تو دونوں گھٹنوں کو ہاتھ سے پہلے رکھتے اور جس وقت سجدہ سے اٹھ جانے لگتے تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے گھٹنوں کو اٹھانے سے قبل۔

 

سجدے سے اٹھتے وقت تکبیر کہنا

 

قتیبہ بن سعید، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ جس وقت نماز کی امامت فرماتے تو تکبیر فرماتے تھے جھکنے اور اٹھنے کے وقت پھر جس وقت فراغت ہو گئی تو کہتے خدا کی قسم میں نماز نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے زیادہ مشابہ ہوں۔

 

 

٭٭ نصر بن علی و سوار بن عبداللہ بن سوار، عبدالاعلی، معمر، زہری، ابو بکر بن عبدالرحمن، و ابو سلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ ان دونوں حضرات نے ایک روز حضرت ابو ہریرہ کی اقتداء میں نماز ادا فرمائی جس وقت رکوع فرمایا تو تکبیر پڑھی پھر جس وقت سر اٹھایا تو سمع اللہ لمن حمدہ فرمایا پھر سجدہ فرمایا اور تکبیر پڑھی پھر سر اٹھایا اور تکبیر پڑھی پھر جس وقت رکعت ادا فرما کر کھڑے ہو گئے تو تکبیر پڑھی اس کے بعد فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ میں تم لوگوں سے زیادہ مشابہ ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے نماز میں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اسی طریقہ سے نماز پڑھتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات ہو گئی۔

 

قعدہ اولیٰ میں بیٹھنے کا طریقہ

 

قتیبہ بن سعید، لیث، یحیی، قاسم بن محمد، عبداللہ بن عبداللہ بن عمر، نے فرمایا کہ نماز میں قعدہ میں سنت یہ ہے کہ بائیں جانب کے پاؤں کو بچھا دیا جائے اور دائیں جانب کے پاؤں کو کھڑا کر دیا جائے۔

 

تشہد میں بیٹھنے کے وقت پاؤں کی انگلیاں قبلہ کی جانب رکھنا چاہئے

 

ربیع بن سلیمان بن داؤد، اسحاق بن بکر بن مضر، عمرو بن حارث، یحیی، قاسم، عبد اللہ، ابن عبداللہ بن عمر، نے فرمایا کہ سنت نماز یہ ہے کہ دائیں پاؤں کو کھڑا رکھے اور قبلہ کی جانب انگلیاں کر لے اور قعدہ میں بائیں جانب کے پاؤں کو بچھا کر بیٹھ جائے۔

 

بیٹھ جانے کے وقت ہاتھ کس جگہ رکھنا چاہئے ؟

 

محمد بن عبداللہ بن یزید مقری، سفیان، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے۔ نماز کی ابتداء میں دونوں مونڈھے تک (ہاتھ اٹھاتے ) اسی طریقہ سے جس وقت رکوع فرماتے اور جس وقت دو رکعت کے بعد بیٹھ جاتے تو بایاں پاؤں بچھاتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے اور دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھ لیتے اور (شہادت کی) انگلی کھڑی کرتے دعا کے واسطے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بایاں ہاتھ بائیں پاؤں پر رکھتے حضرت وائل بن حجر نے فرمایا کہ اس کے بعد میں حضرات صحابہ کرام کی خدمت میں دوسرے سال حاضر ہوا تو دیکھا کہ وہ اپنا ہاتھ اٹھایا کرتے تھے اپنے جبوں کے اندر۔

 

بحالت نماز جس وقت بیٹھ جائے تو کس جانب نگاہ رکھنا چاہئے ؟
علی بن حجر، اسماعیل، ابن جعفر، مسلم بن ابو مریم، علی بن عبد الرحمن معاوی، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو نماز کی حالت میں کنکریوں کو کریدتے ہوئے دیکھا جس وقت وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ تم نماز کی حالت میں کنکریوں سے نہ کھیلا کرو کیونکہ یہ شیطان کی جانب سے ہے (تاکہ وہ نماز میں غفلت پیدا کر دے ) لیکن تم وہ کام کیا کرو جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا تھا۔ اس شخص نے جواب دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا عمل فرمایا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ نے دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھا اور شہادت کی انگلی سے اشارہ کیا کعبہ کی جانب اور اپنی آنکھ کو اسی جانب رکھا پھر فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اسی طریقہ سے عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

انگلی سے اشارہ کر نے سے متعلق حدیث

 

زکریا بن یحیی، حسن بن عیسی، ابن مبارک، مخرمۃ بن بکیر، عامر بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت دو رکعت یا چار رکعت پڑھ کر بیٹھ جاتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھتے پھر انگلی سے اشارہ فرماتے۔

 

پہلا تشہد کون سا ہے ؟

 

یعقوب بن ابراہیم الدورقی، اشجعی، سفیان، ابو اسحاق، اسود، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو سکھلایا کہ ہم لوگ جس وقت دو رکعت نماز ادا کر کے بیٹھ جائیں تو اس طریقہ سے کہہ لیں آخر تک۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، محمد، شعبۃ، ابو اسحاق، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگوں کو علم نہ تھا کہ ہم لوگ اس وقت کیا کہہ لیا کریں کہ جس وقت دو رکعت پڑھ کر کے بیٹھ جائیں علاوہ اس کے کہ تسبیح کہہ لیں اور تکبیر و تعریف کریں اپنے پروردگار کی اور کہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو وہ باتیں سکھلا گئے ہیں جن کا شروع اور آخر عمدہ ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ بیٹھ جاؤ تو تم لوگ دو رکعت ادا کر کے اس طریقہ سے کہوالتحیات للہ آخر تک۔ اس کے بعد تم لوگ اختیار کرو کوئی دوسری دعا جو کہ پہلے معلوم ہو اور خدا سے دعا مانگو۔

 

 

٭٭ قتیبہ، عبشر، اعمش، ابو اسحاق، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو نماز کا تشھد اور تشھد حاجت کے بارے میں ارشاد فرمایا تو اس طرح سے کہا کہ نماز کا تشھد یہ ہے التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، یحیی بن آدم سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت سفیان کو یہ تشھد پڑھتے ہوئے دیکھا ہے نماز فرض اور نماز نفل میں۔ اور وہ فرماتے تھے کہ میں نے یہ بات سنی یہ تشھد ابو اسحاق سے منقول ہے اور انہوں نے حضرت ابو الاحوص سے سنا اور انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے یہ تشھد سنا ہے۔

 

 

٭٭ احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو بن حارث، زید بن ابو انیسۃ جزری، ابو اسحاق، اسود و علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور کوئی بات نہیں جانتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس وقت تم لوگ بحالت نماز بیٹھ جاؤ تو تم اس طریقہ سے کہا کرو التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔ مطلب یہ ہے کہ یہ تمام بزرگی خدا کے واسطے ہیں اس طریقہ سے تمام دعائیں اور نمازیں اور پاک سلامتی ہو تم پر اے نبی اور رحمت اللہ کی اور برکات نازل ہوں۔ اس کی سلامتی ہو ہم پر اور خدا کے نیک بندوں پر میں گواہی دیتا ہوں اس بات کی کہ بلاشبہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کے بندے اور اس کے بھیجے ہوئے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ہیں۔

 

 

٭٭ محمد بن جبلۃ رافقی، علماء بن ہلال، عبید اللہ، ابن عمرو، زید بن ابو انیسۃ، حماد، ابراہیم، علقمہ بن قیس سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ ہم لوگ اس بات سے واقف نہ تھے کہ نماز کی حالت میں کیا کہنا چاہیے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو جوامع کلام سکھلائے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ نماز میں التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ کہو۔

 

 

٭٭ عبدالرحمن بن خالدرقی، حارث بن عطیٰۃ، ہشام، حماد، ابراہیم، علقمۃ، نے فرمایا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود ہم کو یہ کلمات اس طریقہ سے سکھلایا کرتے تھے کہ جس طریقہ سے کہ قرآن کریم ہم کو سکھلایا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد، ہشام، دستوائی، حماد، ابو وائل، ابن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز پڑھا کرتے تھے تو اس طریقہ سے کہتے تھے سلام اللہ پر سلام حضرت جبرائیل اور حضرت میکائیل پر سلام۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس طریقہ سے نہ کہو کہ اللہ پر سلام۔ اس لیے کہ وہ خود سلام ہے بلکہ تم لوگ اس طریقہ سے کہو التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

 

٭٭ بشر بن خالدعسکری، غنذر، شعبہ، سلیمان و منصور و حماد و مغیرۃ و ابو ہاشم، ابو وائل، عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے الفاظ تشھد ارشاد فرمائے التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، فضل بن دکین، سیف مکی، مجاہد، ابو معمر، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو ان الفاظ سے تشھد کی تعلیم دی ہے کہ جس طریقہ سے قرآن مجید کی سورت کی تعلیم دی اور قرآنی سورت سکھلائی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھ کے سامنے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

دوسری قسم کا تشہد

 

عبید اللہ بن سعید، ابو قدامۃ سرخسی، یحیی بن سعید، ہشام، قتادہ، یونس بن جبیر، حطان بن عبد اللہ، ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ پڑھا اور ہم لوگوں کو طریقے ارشاد فرمائے اور نماز سکھلائی پھر ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ نماز پڑھو تو صفیں کھڑی کرو اور تمہارے میں سے ایک شخص کو امامت کرنا چاہیے۔ جس وقت امام تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جس وقت وہ کہے تو تم لوگ آمین کہو خداوند قدوس قبول فرمائے گا اور جس وقت وہ شخص تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تم لوگ بھی تکبیر کہو اور رکوع کرو کیونکہ تم لوگوں سے قبل امام رکوع کرتا ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر تو اس کی طرف کی کمی دوسری جانب نکل آئے گئی اور جس وقت امام سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ پڑھے تو تم لوگرَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ پڑھو اور اس طریقہ سے کہو کہ خداوند قدوس تمہاری بات سن لے۔ کیونکہ خداوند قدوس نے اپنے پیغمبر کی زبان سے فرمایا سَمِعَ اللَّہُ لِمَنْ حَمِدَہُ یعنی خدا نے سن لیا جو شخص اس کی تعریف بیان کرے پھر جس وقت امام تکبیر پڑھے اور سجدہ میں جائے تو تم لوگ بھی تکبیر پڑھو اور سجدہ کرو کیونکہ امام تم لوگوں سے قبل سجدہ کرتا ہے اور سر اٹھاتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر اس جانب کی کمی دوسری جانب سے مکمل ہو جائے گی۔ جس وقت بیٹھنے لگے توہر ایک تم میں سے بیٹھتے ہی پہلے اس طرح سے کہے التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

ایک دوسری قسم کے تشھد سے متعلق

 

ابواشعث، احمد بن مقدام معجلی بصری، معتمر، ابو یحدث، حطان بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ حضرت ابو موسیٰ اشعری کے ہمراہ نماز ادا کی تو کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص (بحالت نماز) بیٹھ جائے تو پہلے اس طریقہ سے کہے التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

ایک دوسری نوعیت کے تشھد کا بیان

 

قتیبہ، لیث بن سعد، ابو زبیر، سعید بن جبیر و طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو تشھد اس طریقہ سے سکھلاتے تھے کہ جس طریقہ سے قرآن کریم سکھلاتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے التَّحِیَّاتُ الطَّیِّبَاتُ الصَّلَوَاتُ لِلَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

ایک اور نوعیت کے تشہد سے متعلق

 

محمد بن عبدالاعلی، معتمر، ایمن ابن نابل، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو اس طریقہ سے تشھد سکھلایا کرتے تھے کہ جس طریقہ سے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھلایا کرتے تھے بِسْمِ اللَّہِ وَبِاللَّہِ التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ أَسْأَلُ اللَّہَ الْجَنۃَ وَأَعُوذُ بِاللَّہِ مِنْ النَّارِ۔

 

پہلے قعدہ کو ہلکا کرنے کا بیان

 

ہیثم بن ایوب طالقانی، ابراہیم بن سعد بن ابراہیم بن عبدالرحمن بن عوف، ابو عبیٍدۃ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (چار رکعت والی نماز میں ) دو رکعت نماز ادا فرما کر اس طریقہ سے بیٹھا کرتے تھے گویا کہ آگ میں جلتے ہوئے توے پر بیٹھتے ہوئے ہیں (حضرت ابو عبیدہ نے نقل فرمایا کہ) میں نے عرض کیا اٹھ جانے تک؟ انہوں نے کہا جی ہاں یہی مراد ہے۔

 

اگر قعدہ اولیٰ یاد نہ رہے تو کیا کرنا ہو گا؟

 

یحیی بن حسیب بن عربی بصری، حماد بن زید، یحیی، عبدالرحمن اعرج، ابن بحینۃ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی تو پہلے دو رکعت کے بعد جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھا کرتے تھے وہ بیٹھنا بھول گئے اور کھڑے ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کی امامت فرماتے گئے حتی کہ آخر نماز میں سلام سے قبل دو سجدے ادا کئے اس کے بعد سلام پھیرا

 

 

٭٭ ابوداؤد سلیمان بن سیف، وہب بن جریر، شعبہ، یحیی بن سعید، عبدالرحمن اعرج، ابن بحینۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی اور دو رکعت ادا فرما کر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور (نماز میں بیٹھ جانا بھول گئے ) حضرات صحابہ کرام نے تسبیح کہی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرماتے چلے گئے جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے فرمائے پھر سلام پھیرا۔

 

جس وقت درمیان کہ قعدہ سے فراغت ہو جائے اور پچھلی دو رکعت کے واسطے اٹھنا چاہئے تو تکبیر پڑھے

 

قتیبہ بن سعید، ابو عوانہ، عبدالرحمن بن اصم سے روایت ہے کہ حضرت انس بن مالک سے بحالت نماز تکبیر پڑھنے کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا کہ پہلے تکبیر کہنا چاہیے جس وقت رکوع کرے اور جس وقت سجدہ میں جائے اور جس وقت سجدہ سے سر اٹھائے اور جس وقت دو رکعت ادا کر کے کھڑا ہو۔ حضرت حطیم نے نقل فرمایا تم نے یہ بات کس جگہ سے جانی ہے ؟ انہوں نے فرمایا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور حضرت ابو بکر اور حضرت عمر سے پھر خاموش ہو گئے۔ حطیم نے فرمایا اور حضرت عثمان سے حضرت انس نے نقل کیا۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، یحیی بن سعید، حماد بن زید، غیلان بن جریر، مطرف بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت علی نے نماز ادا فرمائی تو وہ تکبیر فرماتے تھے اٹھتے اور جھکتے وقت حضرت عمران بن حصین نے فرمایا انہوں نے یاد دلایا اس نماز میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے عمل مبارک کو۔

 

جس وقت پچھلی دو رکعت کے واسطے اٹھے تو دونوں ہاتھ اٹھائے

 

یعقوب بن ابراہیم الدورقی و محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت دو رکعت ادا فرما کر اٹھ جاتے تو تکبیر فرماتے اور دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مونڈھوں تک اٹھاتے تھے کہ جس طریقہ سے شروع نماز میں اٹھاتے تھے اور پچھلی دو رکعت کے واسطے اٹھتے تو دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے تھے۔

 

 

قعدہ اولیٰ کے بعد دونوں ہاتھ کندھوں تک اٹھانا

 

محمد بن عبدالاعلی، معتمر، عبید اللہ، عبداللہ ابن عمر، ابن شہاب، سالم، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھ اٹھایا کرتے تھے جس وقت نماز شروع فرماتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے اور جس وقت دو رکعت ادا فرما کر اٹھتے اس طریقہ سے مونڈھوں تک ہاتھ اٹھایا کرتے تھے۔

 

دونوں ہاتھوں کا اوپر اٹھانا اور بحالت نماز خداوند قدوس کی تعریف کرنا

 

محمد بن عبداللہ بزیع، عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی، عبد اللہ، عبداللہ ابن عمر، ابو حازم، سہل بن سعد سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں صلح کرانے کے واسطے تشریف لے گئے تو مؤذن حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں حاضر ہوا اور حکم فرمایا ان حضرات کو لوگوں کے ہمراہ جماعت کے ہمراہ امامت کرنے کا تو انہوں نے امامت شروع فرمائی کہ اس دوران حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے نماز کی صف کو چیرتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صف اول میں کھڑے ہو گئے اور لوگوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں تاکہ حضرت ابو بکر کو اس کا علم ہو سکے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے ہیں لیکن حضرت ابو بکر نماز میں کسی جانب دھیان نہیں فرماتے تھے۔ جس وقت بہت زیادہ تالیاں بج گئیں تو ان کو معلوم ہوا کہ کوئی واقعہ پیش آیا ہے انہوں نے دیکھا تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو بکر کو ارشاد فرمایا کہ تم اپنی جگہ کھڑے رہو۔ انہوں نے دونوں ہاتھوں کو اٹھایا اور خداوند قدوس کی تعریف بیان فرمائی اور اس کی شان والا صفات (بحالت نماز ہی) بیان فرمائی۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اس ارشاد پر پھر الٹے پاؤں پیچھے کی جانب آ گئے اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آگے کی جانب بڑھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی امامت فرمائی جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں نے تم کو جس وقت اشارہ کیا تھا تو تم کس وجہ سے کھڑے نہیں رہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے (تواضع اور انکساری سے ) ارشاد فرمایا کہ کیا یہ مناسب ہے کہ ابو قحافہ (یہ حضرت ابو بکر کے والد ماجد کی کنیت ہے ) کے لڑکے کو یہ لائق ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی امامت کرے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا تم کو کیا ہو گیا کہ تم لوگ تالیاں بجاتے ہو۔ یہ عمل تو دراصل خواتین کاہے۔ جس وقت تم کو بحالت نماز کسی قسم کا واقعہ پیش آ جائے تو تم لوگ کہو۔

 

 

بحالت نماز ہاتھ اٹھا کر سلام کرنے سے متعلق

 

قتیبہ بن سعید، عبشر، اعمش، مسیب بن رافع، تمیم بن طرفۃ، جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر تشریف لائے ہم لوگ نماز میں ہاتھ اٹھا رہے تھے (سلام کیلئے یعنی اشارہ سے لوگوں کو سلام کرتے یا سلام کا جواب دیتے ) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا حالت ہے ان لوگوں کی ہاتھ اس طریقہ سے اٹھاتے ہیں کہ جس طریقہ سے کہ شریر قسم کے گھوڑوں کی دمیں (ہوتی ہیں )۔ نماز میں سکون کرو (یعنی بلا ضرورت اس قسم کی حرکات نہ کرو)۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، مسعر، عبید اللہ ابن قبیطیٰۃ، جابر بن سمرۃ سے روایت ہے کہ ہم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے نماز ادا کرتے تھے۔ تو ہاتھوں کے اشارہ سے سلام کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا حالت ہے ان لوگوں کی جو کہ ہاتھوں سے سلام کرتے ہیں گویا وہ شریر گھوڑوں کی دمیں ہیں کیا تم میں سے ہر ایک کو یہ کافی نہیں ہے کہ وہ اپنا ہاتھ ران پر رکھ لے اور زبان سے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ کہے۔

 

نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے

 

قتیبہ بن سعید، لیث، بکیر، نابل صاحب، عبداللہ ابن عمر، صہیب سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انگلی کے اشارہ سے جواب دیا۔

 

نماز کی حالت میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا کیسا ہے

 

محمد بن منصورمکی، سفیان، زید بن اسلم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد قبا میں نماز ادا کرنے کے واسطے تشریف لے گئے کچھ لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس سلام کرنے گئے حضرت صہیب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے میں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کام کرتے تھے سلام کے جواب میں۔ حضرت صہیب نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں ہاتھوں سے اشارہ فرمایا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، وہب یعنی ابن جریر، قیس بن سعد، عطاء، محمد بن علی، عمار بن یاسر، نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب دیا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو ایک کام کے واسطے بھیجا میں جس وقت واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرما رہے تھے میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میری جانب اشارہ فرمایا جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی تو مجھ کو بلایا اور فرمایا کہ تم نے مجھ کو ابھی ابھی سلام کیا تھا۔ لیکن میں نماز میں مشغول تھا اس لئے میں جواب نہ دے سکا تھا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ مبارک جانب مشرق تھا

 

 

٭٭ محمد بن ہاشم بعلبکی، محمد بن شعیب بن شابور، عمرو بن حارث، ابو زبیر، جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو کسی جگہ بھیج دیا جس وقت واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سواری پر تشریف لے جا رہے تھے جانب مشرق اور جانب مغرب پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ پھر میں نے سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہاتھ سے اشارہ فرمایا۔ میں واپس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آواز دی کہ اے جابر! لوگوں نے بھی آواز دی اور کہا کہ اے جابر! اور میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب نہیں دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نماز میں مشغول تھا۔

 

 

نماز کے دوران کنکریوں کو ہٹانا منع ہے

 

قتیبہ بن سعید، و حسین بن حریث، سفیان، زہری، ابو احوص، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جس وقت کوئی شخص نماز کی حالت میں ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ (سامنے سے ) کنکریاں نہ ہٹائے کیونکہ رحمت خداوندی اس کے سامنے ہوتی ہے۔

 

ایک مرتبہ کنکریوں کو ہٹانے کی اجازت سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، معیقیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر تم کو (بحالت نماز) کنکریاں ہٹانا ہی ہوں تو تم ایک مرتبہ کنکریاں ہٹا دو۔

 

بحالت نماز آسمان کی جانب دیکھنے کی ممانعت سے متعلق

 

عبید اللہ بن سعید و شعیب بن یوسف، یحیی و ابن سعیدقطان، ابن ابو عروبۃ، قتادہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ان لوگوں کی کیا حالت ہے جو کہ نماز کی حالت میں اپنی نگاہیں آسمان کی جانب اٹھاتے ہیں پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سلسلہ میں سختی فرمائی اور ارشاد فرمایا لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں ورنہ ان کی آنکھوں کی روشنی ضائع ہو جائے گی۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، یونس، ابن شہاب، عبید اللہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ایک صحابی سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص نماز کی حالت میں ہو تو وہ اپنی آنکھیں آسمان کی جانب نہ اٹھائے ورنہ کہیں اس کی آنکھوں کی روشنی نہ ضائع ہو جائے۔

 

نماز کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا ممنوع ہے

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، یونس، زہری، ابو احوص، سعیدابن مسیب و ابن مسیب، ابو ذر سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا خداوند قدوس بندہ کی جانب اس وقت تک متوجہ رہتا ہے جس وقت تک وہ بندہ نماز کی حالت میں کھڑا رہتا ہے اور وہ اس طرف یا دوسری طرف نہیں دیکھتا اور جس وقت وہ چہرہ کا رخ موڑ لیتا ہے تو خداوند قدوس بھی اس کی جانب سے چہرہ موڑ لیتا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، زائٍدۃ، اشعث بن ابو الشعثاء، مسروق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا کہ نماز پڑھنے کی حالت میں ادھر ادھر دیکھنا کیسا ہے ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ شیطان کی اچک ہے جو کہ نماز سے اچک لیتا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبد الرحمن، اسرائیل، اشعث بن ابیالشعثاء، ابی عطیۃ، مسروق، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا یہ روایت مذکورہ بالا روایت جیسی ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبد الرحمن، اسرائیل، اشعث بن ابی الشعثاء، ابی عطیۃ، مسروق، عائشہ رضی اللہ عنہا یہ روایت مذکورہ بالا جیسی روایت ہے۔

 

 

٭٭ ہلال بن العلاء بن ہلال، معافی بن سلیمان، قاسم و ابن معن، اعمش، عمارۃ، ابو عطیہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا نماز میں ادھر ادھر دیکھنا شیطان کا اچک لینا ہے حالت نماز میں۔

 

نماز میں ادھر ادھر دیکھنے کی اجازت

 

قتیبہ، لیث، ابو زبیر، جابر سے روایت ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار پڑ گئے تو ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کی کھڑے ہو کر اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے ہوئے تھے اور ابو بکر تکبیر کی آواز کو ہمیں سنایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری جانب دیکھا (حالت نماز میں ہی) تو ہم لوگ کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اشارہ فرمایا ہم لوگ بیٹھ گئے۔ بیٹھے بیٹھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا کی جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو فرمایا تم اس وقت ملک فارس و روم کے لوگوں جیسے کام انجام دے رہے تھے وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے رہتے ہیں اور ان کے بادشاہ بیٹھے رہتے ہیں ایسا نہ کرو بلکہ اماموں کی اتباع کرو اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھیں تو تم بھی کھڑے ہو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کریں تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو۔

 

 

٭٭ ابوعمار حسین بن حریث، فضل بن موسی، عبداللہ بن سعید، ابو ہند، ثور بن زید، عکرمۃ، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم حالت نماز میں دائیں اور بائیں جانب دیکھتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی گردن پیچھے کی جانب نہ پھیرتے تھے۔

 

بحالت نماز سانپ اور بچھو قتل کر ڈالنا درست ہے

 

قتیبہ بن سعید، سفیان و یزید ابن زریع، معمر، یحیی بن ابو کثیر، ضمصم بن جوس، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی حالت میں سانپ اور بچھو کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، سلیمان بن داؤد، ابو داؤد، ہشام، ابن ابو عبد اللہ، معمر، یحیی، ضمضم، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی حالت میں سانپ اور بچھو کے مار ڈالنے کا حکم فرمایا ہے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عمرو بن سلیمل ابو قتادہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی نواسی کو جو کہ حضرت زینب کی صاحبزادی تھیں ان کو بحالت نماز اٹھائے ہوئے تھے اور جس وقت آپ سجدہ فرماتے تو اس کو ہٹا دیتے تھے اور جس وقت کھڑے ہوتے تو اس کو اٹھا لیتے تھے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عثمان بن ابو سلیمان، عامر بن عبداللہ بن زبیر، عمرو بن سلیم، ابو قتادہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لوگوں کی امامت فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم امامہ بنت ابو العاص کو اٹھائے ہوئے تھے اپنے مبارک کاندھوں پر اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم رکوع فرماتے تھے تو بٹھا دیتے تھے پھر جس وقت سجدہ سے فراغت ہوتی تو اٹھا لیتے تھے۔

 

نماز میں چند قدم قبلے کی طرف چلنا

 

اسحاق بن ابراہیم، حاتم بن وردان، برد بن سنان، ابو العلاء، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے دروازہ کھلوایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز نفل میں مشغول تھے اور دروازہ قبلہ کی جانب تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب یا بائیں جانب چل دیئے اور دروازہ کھولا پھر نماز ادا فرمانے لگے

 

نماز کی حالت میں دستک دینے سے متعلق

 

قتیبہ و محمد بن مثنی، سفیان، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مردوں کے واسطے تسبیح ہے اور خواتین کیلئے دستک ہے یعنی نماز میں کسی قسم کا کوئی واقعہ پیش آ جائے تو مردوں کو کہنا چاہیے اور خواتین کو تسبیح کی بجائے دستک دینا چاہیے۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، سعید بن مسیب و ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مردوں کے واسطے تسبیح ہے یعنی کہیں اور خواتین کے واسطے دستک دینا ہے۔

 

 

بحالت نماز سبحان اللہ کہنا

 

قتیبہ، فضیل بن عیاض، اعمش، سوید بن نصر، عبد اللہ، سلیمان اعمش، ابو صالح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا مردوں کے واسطے تسبیح ہے اور خواتین کے واسطے دستک دینا ہے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعید، یحیی بن سعید، عوف، محمد، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مذکورہ بالا مضمون کی طرح ہے۔

 

نماز کی حالت میں کھنکارنا

 

محمد بن قدامۃ، جریر، مغیرۃ، حارث العکلی، ابو زرعۃ بن عمرو بن جریر، عبداللہ بن نجی، علی، نے فرمایا کہ میرا ایک وقت مقرر تھا کہ میں اس وقت خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا کرتا تھا اور میں جس وقت حاضر خدمت ہوتا تو پہلے اجازت حاصل کرتا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز میں مشغول ہوتے تو فرما دیتے اور میں اندر داخل ہو جاتا اور اگر فارغ ہوتے تو اجازت عطاء فرما دیتے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبید، ابن عیاش، مغیرۃ، حارث العکلی، ابن نجی سے روایت ہے کہ حضرت علی نے فرمایا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری کے واسطے میرے دو وقت مقرر تھے ایک تورات کا وقت دوسرے دن کا وقت تو جس وقت بھی رات میں داخل ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھانس دیا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ قاسم بن زکریا بن دینار، ابو اسامۃ، شرجیل یعنی ابن مدرک، عبداللہ بن نجی، علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک میرا ایک ایسا درجہ تھا کہ جو کسی دوسرے کو نہ تھا۔ میں ہر روز صبح کے وقت خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا اور السلام علیکم یا نبی اللہ کہتا تھا اگر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھنکار دیتے تو میں اپنے مکان واپس آ جاتا ورنہ اندر داخل ہو جاتا۔

 

نماز کے دوران رونے سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبد اللہ، حماد بن سلمہ، ثابت البنانی، مطرف، نے اپنے والد (حضرت عبداللہ بن خبر) سے روایت نقل کی ہے کہ میں خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز میں مشغول تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک سینہ سے اس طرح کی آواز محسوس ہو رہی تھی کہ جس طرح کی آواز تکلے (ہانڈی) میں سے آتی ہے۔

 

بحالت نماز شیطان پر لعنت کرنے سے متعلق

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، معاویہ بن صالح، ربیعۃ بن یزید، ابو ادریس خولانی، ابو درداء سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز ادا فرمانے کے واسطے کھڑے ہوئے۔ ہم نے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں پھر ارشاد فرمایا کہ میں تجھ پر خدا کی لعنت بھیجتا ہوں یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا اور اپنا ہاتھ پھیلایا کہ جس طریقہ سے کہ کسی چیز کو پکڑتے ہیں پس جس وقت نماز سے فراغت ہو گئی تو ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز کے دوران اس طریقہ سے کہتے ہوئے سنا ہے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ہاتھ پھیلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا خدا کا دشمن ملعون شیطان ایک آگ کا شعلہ لے کر میرے منہ میں لگانے کے واسطے آیا تھا۔ میں نے کہا کہ میں تجھ سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں یہ جملہ تین مرتبہ ارشاد فرمایا پھر میں نے کہا کہ میں تجھ پر لعنت بھیجتا ہوں خداکی۔ اس وقت بھی وہ پیچھے کی جانب نہیں ہٹا تو میں نے چاہا کہ اس کو پکڑ لوں لیکن خدا کی قسم! اگر سلیمان کی دعا کا مجھ کو خیال نہ رہتا تو میں اس کو باندھ لیتا پھر صبح کو مدینہ کے لڑکے اس سے کھیلتے۔

 

دوران نماز گفتگو کرنے سے متعلق

 

کثیر بن عبید، محمد بن حرب، زبیدی، زہری، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں مشغول ہو گئے کہ ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز کیلئے کھڑے ہو گئے تھے۔ ایک گاؤں کا رہنا والا شخص حاضر ہوا اس نے عرض کیا (جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں مشغول تھے ) کہ اے خدا مجھ پر رحمت فرما اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر رحمت نازل فرما اور کسی دوسرے پر رحمت نہ فرما پس جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا تو اس گاؤں والے سے فرمایا کہ تم نے بڑی نعمت کی قدر کم کر دی۔

 

 

٭٭ عبد اللہ بن محمد بن عبدالرحمن زہری، سفیان، احفظہ، زہری، سعید، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہات کا رہنے والا شخص مسجد میں حاضر ہوا اور دو رکعت ادا کر کے کہنے لگا کہ اے خدا مجھ پر اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر رحم فرما اور نہ رحم فرما ہمارے ساتھ کسی پر بھی اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ تم نے ایک کھلی ہوئی بات کو (یعنی رحمت خداوندی کو) تنگ کر دیا۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، محمد بن یوسف، اوزاعی، یحیی بن ابو کثیر، ہلال بن ابو میمونہ، عطاء بن یسار، معاویہ بن حکم سلمی سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کا زمانہ جاہلیت کا زمانہ بھی گزرا ہے اس کے بعد خدوندقدوس نے اسلام نازل فرمایا اور ہمارے میں سے کچھ لوگ بدفالی (یعنی برا شگون) لیتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ یہ ان کے قلب کی حالت ہے تو برا شگون لینا کسی کام سے ان کو نہ منع کرے۔ پھر میں نے کہا کہ ہمارے میں سے کچھ لوگ نجومی لوگوں کے پاس جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ ہرگز نجومی لوگوں کے پاس نہ جاؤ۔ پھر میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمارے میں سے بعض لوگ لکیریں کھینچ لیتے ہیں یعنی زمین کے اوپر یا کسی کاغذ وغیرہ پر لائن کھینچ لیتے ہیں آئندہ کی بات اطلاع دینے کیلئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ایک پیغمبر حضرات انبیاء میں سے لکیریں کھینچا کرتے تھے (وہ پیغمبر حضرت ادریس علیہ السلام یا حضرت دانیال علیہ السلام تھے اور علم رمل ان کی ایجاد ہے ) اب جس شخص کی لکیریں ان کی لکیر جیسی ہوں تو درست ہے اور سیکھنے کی گنجائش ہے لیکن معلوم نہیں کہ وہ لکیریں ان کی لکیر جیسی ہیں یا نہیں ؟ حضرت معاویہ نے فرمایا کہ پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ رہا۔ نماز کی حالت میں کہ اس دوران ایک شخص کو حالت نماز میں چھینک آ گئی۔ میں نے نماز کے دوران یَرْحَمُکَ اللَّہُ کہا تو اس پر لوگ مجھ کو غور سے دیکھنے لگ گئے۔ میں نے عرض کیا کہ میری والدہ مجھ پر روئے (مطلب یہ ہے کہ میرا انتقال ہو جائے تم لوگ مجھ کو کس وجہ سے غور سے دیکھ رہے ہو) یہ بات سن کر لوگوں نے اپنے اپنے ہاتھ رانوں پر مارے مجھ کو خیال ہوا کہ مجھ کو خاموش رہنے کو فرما رہے ہیں۔ اس وجہ سے میں خاموش رہا۔ جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز سے فراغت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مجھ کو بلایا۔ پھر میرے والدین آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر قربان آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نہ تو مجھ کو مارا اور نہ مجھ کو ڈانٹ ڈپٹ کی اور نہ ہی مجھ کو برا کہا۔ میں نے کوئی تعلیم دینے والا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے قبل یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے بہتر نہیں دیکھا۔ تعلیم دینے کے حوالے سے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز کی حالت میں ہم لوگوں کو کسی قسم کی کوئی بات لوگوں کو نہیں کرنا چاہیے۔ نماز میں تو تسبیح ہے یا تکبیر ہے یا تلاوت قرآن کریم ہے۔ حضرت معاویہ نے فرمایا پھر میں اپنی بکریوں میں چلا گیا کہ جس کو میری باندی چرایا کرتی تھی احد پہاڑ اور جوانیہ (یہ ایک گاؤں کا نام ہے جو کہ احد نامی پہاڑ کے نزدیک مدینہ منورہ سے جانب شمال واقع ہے ) اس کی جانب گیا تو میں نے دیکھا کہ بھیڑیا ان میں سے ایک بکری کو لے گیا ہے پھر آخر کار میں آدمی تھا جس طریقہ سے دوسرے انسانوں کو غصہ آتا ہے مجھ کو بھی غصہ آتا ہے۔ میں نے اس کو ایک مکہ مارا پھر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا اور یہ بات (باندی کا مارنا) مجھ کو بہت زیادہ ناگوار گزرا میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں اس کو آزاد نہ کر دوں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس کو بلا لاؤ (چنانچہ میں بلا کر لے آیا اس پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سے دریافت کیا اور عرض کیا کہ خداوند قدوس کس جگہ ہے ؟ اس باندی نے جواب دیا آسمان پر۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا یہ عورت صاحب ایمان ہے تم اس کو آزاد کر دو۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، یحیی بن سعید، اسماعیل بن ابو خالد، حارث بن شبیل، ابو عمرو الشیبانی، زید بن ارقم سے روایت ہے کہ پہلے ہر ایک آدمی اپنے ملنے والے شخص سے حالت نماز میں گفتگو کیا کرتا تھا۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے پس جس وقت یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی نمازوں کی حفاظت کرو اور درمیان والی نماز کی اور تم لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور اللہ کے لئے کھڑے رہو خاموشی کے ساتھ چنانچہ اس دن سے ہم لوگوں کو حکم ہوا خاموش رہنے کا۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عمار، ابن ابو غنیٰۃ و اسمہ، یحیی بن عبدالملک و قاسم بن یزیدجرمی، سفیان، زبیر بن عدی، کلثوم، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جواب عطا فرمایا کرتے تھے چنانچہ میں ایک مرتبہ خدمت اقدس میں سلام عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت نماز میں مشغول تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب عطا نہیں فرمایا۔ جس وقت سلام پھیرا تو لوگوں کی جانب اشارہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ خداوند قدوس نے حالت نماز میں نیا حکم دیا کہ تم لوگ نہ گفتگو کرو مگر خدا کو یاد کرو اور تم کو نہیں مناسب ہے دوسری کوئی گفتگو کرنا اور تم کھڑے رہو خدا کے سامنے خاموشی کے ساتھ یا فرمانبرداری کے ساتھ۔

 

 

٭٭ حسین بن حریث، سفیان، عاصم، ابو وائل، ابن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں سلام کیا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جواب دیا کرتے تھے ہم لوگ جس وقت ملک حبشہ سے واپس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جواب نہیں دیا۔ مجھ کو اپنے پاس اور فاصلہ کی فکر لاحق ہوئی۔ (یعنی قسم قسم کے پرانے اور نئے نئے خیالات آتے گئے ) اور اس کا افسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کس وجہ سے جواب نہیں عنایت فرمایا؟جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ارشاد فرمایا خداوند قدوس جس وقت چاہتے ہیں نیا فرمان جاری فرما سکتے ہیں۔ اب اس نے یہ حکم دیا ہے کہ دوران نماز گفتگو نہ کی جائے۔

 

جو شخص دو رکعات ادا کر کے بھول کر کھڑا ہو جائے اور درمیان میں وہ قعدہ نہ کرے

 

قتیبہ بن سعید، مالک، ابن شہاب، عبدالرحمن اعرج، عبداللہ ابن بحینۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی تو دو رکعت ادا کر کے کھڑے ہو گئے۔ درمیان کا قعدہ نہیں کیا لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو ہم لوگ سلام کے انتظار میں رہے کہ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تکبیر پڑھی اور دو سجدے فرمائے بیٹھے بیٹھے سلام سے قبل پھر سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، لیث، یحیی بن سعید، عبدالرحمن بن ہرمز، عبداللہ ابن بحینۃ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں کھڑے ہو گئے اور ایک قعدہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اور تھا (مطلب یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے درمیان کا قعدہ نہیں فرمایا) تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ فرمایا بیٹھے بیٹھے سلام کے پھیرنے سے قبل۔

 

جس شخص نے دو رکعت ادا کر کے بھول کر سلام پھیر دیا اور گفتگو بھی کر لی تو اب وہ شخص کیا کرے ؟

 

حمیدۃ بن مسعٍدۃ، یزید، ابن زریع، ابن عون، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر اور نماز عصر ادا فرمائی۔ (حضرت ابو ہریرہ نے فرمایا کہ میں بھول گیا) تو دو رکعات ادا کر کے سلام پھیرا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک لکڑی کی جانب تشریف لے گئے جو کہ مسجد میں لگی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا دست مبارک اس پر رکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت غصہ میں تھے اور جلدی جانے والے لوگ مسجد کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ لوگوں نے بیان کیا کہ ہو سکتا ہے کہ نماز کی رکعت میں کمی واقع ہو گئی ہے یعنی چار رکعت کے بدلے دو رکعت ہی باقی رہ گئی۔ اس وقت لوگوں میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر موجود تھے وہ بھی ڈر گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کچھ نہیں کہہ سکے اس وجہ سے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ کے عالم میں دکھ رہے تھے اور ایک آدمی ایسا تھا کہ جس کے دونوں ہاتھ لمبے لمبے تھے۔ اس کو ذوالیدین (یعنی لمبے ہاتھ والا) کہا کرتے تھے اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں یا نماز کم ہو گئی ہے ؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا اسی طریقہ سے ہوا ہے کہ جس طرح سے ذوالیدین کہتے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ! اسی طرح سے ہوا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر تشریف لائے (مصلی کی جانب) اور جس قدر نماز باقی رہ گئی تھی اس کو ادا فرمایا پھر سلام پھیرا پھر تکبیر فرمائی اور سجدہ فرمایا معمولی سجدہ کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ طویل سجدہ فرمایا پھر تکبیر فرمائی اس کے بعد سجدہ فرمایا معمولی سجدہ کے برابر یا اس سے کچھ کم پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن قاسم، مالک، ایوب، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت ادا فرما کر فراغت فرمائی (بوجہ بھول کے ) تو ذوالیدین نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا نماز میں تخفیف ہو گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے فرمایا کیا ذوالیدین درست کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور دو رکعات ادا فرمائیں پھر سلام پھیرا پھر تکبیر فرمائی اور ایک سجدہ فرمایا معمولی سجدہ کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ طویل سجدہ فرمایا۔ پھر سر اٹھایا پھر سجدہ فرمایا معمولی سجدہ کے برابر یا اس سے کچھ زیادہ طویل سجدہ کیا پھر سر اٹھایا۔

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، داؤد بن حصین، ابو سفیان، ابن ابو احمد، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر پڑھائی تو دو رکعت ادا فرما کر سلام پھیر دیا۔ اس پر ذوالیدین کھڑے ہو گئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! کیا نماز میں تخفیف ہو گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں بھول ہو گئی ہے ؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ حضرت ذوالیدین نے فرمایا کوئی بات ضرور پیش آئی ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر لوگوں کی جانب متوجہ ہو گئے اور دریافت کیا کہ ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بقیہ نماز مکمل فرمائی اور پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے فرمائے سلام کے بعد۔

 

 

٭٭ سلیمان بن عبید اللہ، بہزبن اسد، شعبہ، سعد بن ابراہیم، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر کی دو رکعت ادا فرمائی۔ پھر سلام پھیرا لوگوں نے عرض کیا کہ کیا نماز میں کوئی کسی قسم کی کمی واقع ہو گئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور دو رکعت ادا فرمائی۔ پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے فرمائے۔

 

 

٭٭ عیسی بن حماد، لیث، یزید بن ابو حبیب، عمران بن ابو انس، ابو سلمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک روز نماز کی امامت فرمائی اور دو رکعت ادا فرما کر سلام پھیرا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم چل پڑے تو ذوالیدین حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! نماز میں کیا کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہو گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا نہ تو نماز میں کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہوئی ہے اور نہ ہی مجھ کو بھول ہوئی ہے تو ذوالیدین نے فرمایا ضرور ایک بات پیش آئی ہے اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سچا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بنا کر بھیجا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے دریافت فرمایا کہ ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں۔

 

 

٭٭ ہارون بن موسیٰ الفروی، ابو ضمرۃ، یونس، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو نماز میں بھول ہو گئی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت ادا فرما کر سلام پھیرا تو ذوالیدین نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! نماز میں کیا کسی قسم کی کوئی کمی واقع ہو گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کچھ بھول ہو گئی؟ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کیا ذوالیدین سچ کہہ رہے ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا جی ہاں ! پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو گئے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز مکمل فرمائی۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، زہری، ابو سلمۃ، عبدالرحمن ابو بکر بن سلیمان بن ابی حثمۃ، حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر یا نماز عصر ادا فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو رکعت ادا فرما کر سلام پھیرا اور فراغت ہوئی اور ذوشمالین جو کہ عمرو کے صاحب زادے تھے انہوں نے فرمایا کیا نماز میں تخفیف واقع ہو گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھول ہو گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں سے ارشاد فرمایا ذوالیدین کیا کہہ رہے ہیں ؟ حاضرین نے عرض کیا وہ سچ فرما رہے ہیں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اور دو رکعات جو کم تھیں وہ ادا فرمائیں۔

 

 

٭٭ ابوداؤد، یعقوب، صالح، ابن شہاب، ابو بکر بن سلیمان بن ابی حثمۃ سے روایت ہے ان کو معلوم ہوا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بھول سے دو رکعت ادا فرمائیں پھر ذوشمالین نے بیان فرمایا۔ یہ حدیث مذکورہ بالا حدیث جیسی ہے۔

 

 

حضرت ابو ہریرہ سے روایات کا اختلاف کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سہو کے سجدے فرمائے یا نہیں ؟

 

محمد بن عبداللہ بن عبدالحکم، شعیب، لیث، عقیل، ابن شہاب، سعید و ابو سلمہ و ابو بکر بن عبدالرحمن و ابن ابو حثمۃ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس روز (یعنی ذوالیدین نے جس وقت یہ کہا کہ کیا نماز میں کوئی کمی واقع ہو گئی ہے یا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے ہیں ) سجدہ سہو نہیں فرمائے۔ نہ تو سلام سے قبل اور نہ ہی سلام کے بعد۔

 

 

٭٭ عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، عبداللہ بن وہب، لیث بن سعد، یزید بن ابو حبیب، جعفر بن ربیعۃ، عراک بن مالک، ابو ہریرہ، نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اسی طرح سے روایت نقل فرمائی۔

 

 

٭٭ عمرو بن سواد بن اسود، ابن وہب، عمرو بن حارث، قتادہ، محمد بن سیرین، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سامنے ذوالیدین نے سلام کے بعد دو سجدے کئے۔

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان بن سعید بن کثیر بن دینار، بقیۃ، شعبہ، ابن عون و خالدالحذاء، ابن سیرین، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث گزشتے حدیث کے مطابق ہے اور اس کا ترجمہ سابقہ حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن یحیی بن عبد اللہ، محمد بن عبداللہ انصاری، اشعث، محمد بن سیرین، خالد، ابو قلابۃ، ابو مہلب، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کو نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سجدہ سہو کے دو سجدے کئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ ابواشعث، یزید بن زریع، خالد، ابو قلابۃ، ابو مہلب، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر تین رکعات ادا فرما کر سلام پھیر دیا (بھول کی وجہ سے ) پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے مکان میں تشریف لے گئے ایک آدمی کہ جس کو کہ خرباق کہتے تھے انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی تخفیف فرما دی گئی ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غصہ سے باہر تشریف لائے اپنی چادر مبارک کو گھسیٹتے ہوئے اور دریافت فرمایا یہ صاحب سچ کہہ رہے ہیں ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا جی ہاں ! یہ سچے ہیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور جو رکعت باقی رہ گئی تھی وہ ادا فرمائی پھر سلام پھیرا پھر دو سجدے فرمائے پھر سلام پھیرا۔

 

جس وقت نماز کے دوران کسی قسم کا شک ہو جائے ؟ (تو کتنی رکعت پڑھے ؟)

 

یحیی بن حبیب بن عربی، خالد، ابن عجلان، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو نماز میں کسی قسم کا شک ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ شک دور کرے اور جس پہلو پر یقین ہو وہ اختیار کرے اور جس وقت یقین حاصل ہو جائے نماز کے مکمل ہونے کا تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، حجین بن مثنی، عبدالعزیز، ابن ابو سلمہ، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو یہ یاد نہ رہے کہ اس شخص نے نماز کی تین رکعات پڑھی ہیں یا چار رکعات پڑھی ہیں تو اس کو چاہیے کہ مزید ایک رکعت پڑھے اور پھر بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرے اب اگر اس شخص نے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں تو ان دو سجدوں کی وجہ سے وہ رکعت دوگانہ رکعت بن گئی اور اگر اس نے چار رکعت پڑھ لی تو یہ دو سجدے شیطان کیلئے رسوائی ہوئی کہ اس کے بہکانے سے کسی قسم کا کوئی بگاڑ نہیں ہوا بلکہ خداوند قدوس کی عبادت ہوئی۔

 

شک ہو جانے کی صورت میں سوچ میں پڑ جانے سے متعلق

 

محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل و ابن مہلہل، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا فرمان مبارک بیان فرمایا جس وقت کوئی شخص نماز کے دوران شک کرے (یعنی بھول سے نماز کی رکعت کی تعداد میں شک ہو جائے ) تو وہ خود غور فکر کرے کہ اس نے نماز درست طریقہ سے ادا کی ہے (یا غلطی کی ہے ) پھر (حتی الامکان) درست پہلو اختیار کرے اور دو سجدے (سہو کے ) کر لے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، وکیع، مسعر، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص نماز کی رکعت میں شک کرے تو وہ شخص عذر کرے اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد دو سجدے کرے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، مسعر، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز میں اضافہ فرمایا یا کچھ کمی فرما دی۔ حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تم لوگوں کو خبر دیتا۔ کیونکہ میرا یہی فریضہ ہے لیکن بہر حال میں بھی ایک انسان ہوں اور جس طریقہ سے تمہارے ساتھ بھول چوک لگی ہوئی ہے اسی طریقہ سے میرے ساتھ بھی بھول چوک لگی ہوئی ہے اور تم لوگوں میں سے نماز میں کوئی شخص کسی قسم کے شک میں مبتلا ہو جائے تو خواہ کوئی درست بات ہو تو اس کو غور و فکر کر کے نکالے اور اسی اعتبار سے نماز کو مکمل کر لے اس کے بعد سلام پھیرے اور دو سجدے کر لے۔

 

 

٭٭ حسن بن اسماعیل بن سلیمان مجالدی، فضیل یعنی ابن عیاض، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز پڑھی تو اس میں اضافہ یا کمی فرما دی اور جس وقت سلام پھیرا تو لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کیا نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم نے کیا بیان کیا؟ ہم نے کہا وہی بیان کیا جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا منہ مبارک موڑ لیا اور قبلہ کی جانب چہرہ مبارک فرمایا پھر دو سجدے فرمائے جو سہو کے سجدے تھے۔ پھر ہماری جانب چہرہ کیا اور ارشاد فرمایا کہ اگر نماز میں کسی قسم کا کوئی نیا حکم نازل ہوتا تو میں تم لوگوں کو بتلاتا لیکن میں انسان ہوں اور جس طریقہ سے تم لوگوں کے ساتھ بھول چوک لگی ہوئی ہے میں بھی بھولتا ہوں اور تمہارے میں سے جو شخص شک میں مبتلا ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ اچھی طرح سے غور و فکر کرے کہ درست کیا ہے ؟ پھر سلام پھیرے اور سہو کے دو سجدے کرے۔

 

 

٭٭ اسماعیل بن مسعود، خالد بن حارث، شعبہ، منصور، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر پڑھی پھر لوگوں کی جانب چہرہ مبارک فرمایا۔ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا انہوں نے بیان فرمایا کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بیان فرمایا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا مبارک پاؤں موڑ لیا اور بیت اللہ شریف کی جانب رخ فرمایا۔ پھر دو سجدے کئے اور سلام پھیرا اس کے بعد متوجہ ہوئے لوگوں کی جانب اور فرمایا کہ میں بھی انسان ہوں اور میں بھی اسی طریقہ سے بھولتا ہوں کہ جس طریقہ سے تم لوگ بھولتے ہو۔ جس وقت میں بھول جاؤں تو تم لوگ مجھ کو یاد دلا دو اور ارشاد فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی کسی قسم کا نیا حکم ہوتا تو میں تم کو خبر دیتا اور ارشاد فرمایا کہ جس وقت تم لوگوں میں سے کسی شخص کو نماز میں وہم یا شک ہو جائے تو جو بات درست ہو اس کو خوب اچھی طرح سے غور وفکر کر لے پھر اسی حساب سے نماز مکمل کرے اور دو سجدے کرے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، حکم، ابو وائل سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا کہ جو شخص نماز میں شک کرے تو اس کو چاہیے کہ جو بات صحیح ہو اس کو غور کرے پھر دو سجدے کرے نماز سے فراغت کے بعد بیٹھے بیٹھے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، مسعر، حکم، ابو وائل، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص شک یا وہم کرے نماز کے دوران تو اس کو چاہیے کہ غور کرے درست بات کو پھر دو سجدے کرے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ابن عون، ابراہیم نخعی سے روایت ہے کہ حضرات صحابہ کرام فرماتے تھے کہ جس وقت کسی شخص کو نماز کے دوران وہم یا شک ہو جائے تو اس کو چاہیے وہ درست بات سوچ لے پھر دو سجدے کرے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ابن جریج، عبداللہ بن مسافع، عقبہ بن محمد بن حارث، عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جس وقت تم لوگوں میں سے کسی شخص کو نماز کے دوران وہم یا شک ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ سلام کرنے کے بعد دو سجدے کر لے۔

 

 

٭٭ محمد بن ہاشم، ولید، ابن جریج، عبداللہ بن مسافع، عقبہ بن محمد بن الحارث، عبداللہ بن جعفر اس حدیث کا ترجمہ مندرجہ بالا حدیث کی طرح ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، حجاج، ابن جریج، عبداللہ بن مسافع، مصعب بن شیبہ، عقبہ بن محمد بن الحارث، عبداللہ بن جعفر اس حدیث کا ترجمہ بھی مندرجہ بالا حدیث جیسا ہے۔

 

 

٭٭ ہارون بن عبد اللہ، حجاج و روح، ابن عباٍدۃ، ابن جریج، عبداللہ بن مسافع، مصعب بن شیبہ ، عقبہ بن محمد بن حارث، عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز کے دوران شک کرے تو اس کو چاہیے کہ دو سجدے کرے۔ حجاج نے سلام کے بعد کہا اور روح نے کہا بیٹھے ہی بیٹھے (واضح رہے کہ روح اور حجاج یہ دونوں کے دونوں اس حدیث شریف کے روایت کرنے والے ہیں۔)

 

 

٭٭ قتیبہ، مالک، ابن شہاب، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص نماز پڑھنے کیلئے کھڑا ہوتا ہے (نماز شروع کرتا ہے ) تو اس کو شیطان بہکانے کے واسطے آتا ہے پھر اس کو یاد نہیں رہتا کہ میں نے نماز کی کس قدر رکعت پڑھی ہیں پس جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو اس طرح کا اتفاق ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ دو سجدے کرے بیٹھے بیٹھے۔

 

 

٭٭ بشر بن ہلال، عبدالوارث، ہشام دستوانی، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت نماز کی اذان ہوتی ہے تو شیطان ریح خارج کرتا ہوا بھاگ کھڑا ہوتا ہے پھر جس وقت تکبیر پوری ہو جاتی ہے تو وہ واپس آ جاتا ہے اور وہ انسان کے قلب میں داخل ہو کر اس کے قلب اور ذہن میں وسوسے پیدا کرتا ہے حتی کہ اس کو یاد ہی نہیں رہتا کہ میں نے نماز کی کس قدر رکعت پڑھی ہیں پس جس وقت تمہارے میں سے کسی شخص کو اس طرح کا اتفاق ہو جائے تو اس کو چاہیے کہ دو سجدے کر لے۔

 

جو کوئی شخص نماز کی پانچ رکعات پڑھے تو اس کو کیا کرنا چاہئے ؟

 

محمد بن مثنی و محمد بن بشار، ابن مثنی، یحیی، شعبہ، حکم، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر کی پانچ رکعات پڑھیں۔ حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! نماز میں اضافہ ہو گیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دریافت فرمایا کہ کس طرح کا اضافہ ہو گیا ہے ؟ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ایک پاؤں موڑ لیا اور دو سجدے کئے۔

 

 

٭٭ عبٍدۃ بن عبدالرحیم، ابن شمیل، شعبہ، حکم و مغیرۃ، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر پڑھائی تو پانچ رکعات پڑھ لی صحابہ کرام نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے فرمائے سلام کے بعد بیٹھے ہی بیٹھے۔

 

 

٭٭ محمد بن رافع، یحیی بن آدم، مفضل بن مہلہل، حسن بن عبید اللہ، ابراہیم بن سوید سے روایت ہے کہ حضرت علقمہ نے (بھول سے ) پانچ رکعات پڑھ لی صحابہ کرام نے عرض کیا کہ تم نے بھول سے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں تو انہوں نے انکار فرمایا۔ پھر میں نے سر سے اشارہ کیا کہ پانچ رکعات پڑھ لی ہیں میں نے کہا کہ جی ہاں حضرت علقمہ نے دو سجدے فرمائے اس کے بعد حدیث بیان فرمائی حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ ایک مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی پانچ رکعات پڑھ لی۔ انہوں نے فرمایا کہ اور تم نے بھی پانچ ہی رکعات پڑھ لی ہیں اے ایک آنکھ والے شخص! میں نے عرض کیا جی ہاں حضرت علقمہ نے دو سجدے فرمائے پھر حدیث بیان فرمائی حضرت عبداللہ بن مسعود سے کہ آج حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی پانچ رکعات پڑھ لی ہیں۔ اس پر لوگوں نے آپس میں آہستہ آہستہ ایک دوسرے سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ آخرکار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کیا کہ نماز میں اضافہ ہو گیا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نہیں۔ اس پر لوگوں نے نقل کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا مبارک پاؤں موڑ لیا اور دو سجدے فرمائے پھر ارشاد فرمایا کہ میں انسان ہوں جس طریقہ سے تم لوگ بھول جاتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، مالک بن مغول، شعبی سے روایت ہے کہ حضرت علقمہ بن قیس کو نماز کے دوران سہو ہو گیا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا پس جس وقت وہ گفتگو سے فارغ ہوئے تو انہوں نے کہا کہ واقعہ اسی طرح سے پیش آیا ہے ایک آنکھ والے شخص! اس نے کہا کہ جی ہاں۔ انہوں نے اپنا کمر بند کھول لیا پھر دو سجدے فرمائے اور عرض کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے عمل فرمایا تھا حضرت شعبی نے بیان کیا کہ میں نے حکم سے سنا کہ حضرت علقمہ نے نماز کی پانچ رکعات پڑھ لی تھیں۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، سفیان، حسن بن عبید اللہ، ابراہیم سے روایت ہے کہ حضرت علقمہ نے ایک روز نماز کی پانچ رکعات پڑھ لی تو حضرت ابراہیم بن سوید نے فرمایا کہ اے ابو شبل! تم نے پانچ رکعات پڑھ لی ہیں انہوں نے کہا کہ ایک آنکھ والے صاحب! یہ بات درست ہے۔ پھر دو سجدے کئے سہو کے بعد۔ اس نے کہا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس طریقہ سے کیا ہے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، ابو بکر، عبدالرحمن بن اسود، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر یا نماز عصر کی پانچ رکعات پڑھ لیں۔ لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ نماز میں اضافہ ہو گیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ کس طریقہ سے ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کی پانچ رکعات پڑھ لی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میں بھی آخر ایک انسان ہوں اور میں بھی اس طریقہ سے بھول جاتا ہوں کہ جس طریقہ سے تم لوگ بھول جاتے ہو اور میں بھی اس طرح سے یاد کرتا ہوں کہ جس طریقہ سے تم لوگ یاد کرتے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ کھڑے ہوئے۔

 

 

٭٭ ربیع بن سلیمان، شعیب بن لیث، لیث، محمد بن عجلان، محمد بن یوسف، عثمان، ابو یوسف سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ بن سفیان نے نماز پڑھائی تو وہ درمیان میں نہ بیٹھے اور وہ کھڑے ہو گئے لوگوں نے کہا وہ کھڑے رہے پھر جس وقت وہ نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے بیٹھے بیٹھے دو سجدے فرمائے اور اس کے بعد منبر پر گئے اور انہوں نے بیان فرمایا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے تھے کہ جو شخص نماز میں کچھ بھول جائے تو اس طریقہ سے وہ سجدے کرے۔

 

سجدہ سہو کے دوران تکبیر کہنا

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، عمرو و یونس والیث، ابن شہاب، عبدالرحمن اعرج، عبداللہ ابن بحینۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ظہر کی دو رکعت پڑھ کر کھڑے ہو گئے اور درمیان کا قعدہ نہیں فرمایا۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو سجدے فرمائے اور ہر سجدہ میں تکبیر فرمائی بیٹھے ہی بیٹھے سلام سے قبل اور لوگوں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ دونوں سجدے کیے یہ اس قعدہ کے بدلے تھے کہ جس کو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بھول گئے تھے۔

 

آخر جلسہ میں کس طریقہ سے بیٹھنا چاہئے ؟

 

یعقوب بن ابراہیم دورقی و محمد بن بشار، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آخر کی دو رکعت کے بعد کہ جن پر نماز مکمل ہو جاتی ہے اس طریقہ سے بیٹھے بایاں پاؤں دائیں جانب نکال دیتے اور اپنے ایک سرین پر زور دے کر بیٹھ جاتے پھر سلام پھیرتے۔

 

 

٭٭ قتیبہ، سفیان، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دونوں مبارک ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جس وقت نماز شروع فرماتے اور جس وقت رکوع فرماتے اور جس وقت رکوع سے سر اٹھاتے تو بایاں پاؤں بچھا دیتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے بایاں ہاتھ ران پر رکھ دیتے اور دایاں ہاتھ داہنی طرف والی ران پر رکھ دیتے اور درمیان کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ باندھ لیتے اور اشارہ فرماتے۔

 

دونوں بازو کس جگہ رکھے ؟

 

محمد بن علی بن میمون رقی، محمد، ابن یوسف فریابی، سفیان، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں جب بیٹھتے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے بایاں پاؤں بچھایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دونوں ہاتھ رانوں پر رکھے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ فرمایا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس سے دعا مانگتے تھے۔

 

دونوں کہنیاں بیٹھنے کے وقت کس جگہ رکھنی چاہئیں ؟

 

اسماعیل بن مسعود، بشر بن مفضل، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز دیکھوں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طریقہ سے نماز پڑھتے تھے تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے اور خانہ کعبہ کی جانب رخ فرمایا پھر دونوں ہاتھ اٹھائے دونوں کانوں کے برابر۔ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پکڑا اور جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے رکوع کرنے کا ارادہ فرمایا تو دونوں ہاتھوں کو اس طریقہ سے اٹھایا یعنی کانوں کے برابر اور پھر دونوں ہاتھوں کو دونوں طرف کے گھٹنوں پر رکھا۔ جس وقت رکوع سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سر مبارک اٹھایا تو دونوں ہاتھ کو اس طریقہ سے اٹھایا پھر جس وقت سجدہ کیا تو سر کو اس جگہ پر رکھا یعنی جس جگہ تک ہاتھ اٹھایا تھا وہیں تک ہاتھ سجدے میں سر کے نزدیک رہے۔ پھر بیٹھے تو بایاں پاؤں بچھایا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور دائیں جانب کی کہنی ران سے اٹھا رکھی یعنی کہنی کو پہلو سے نہیں ملایا (علیحدہ رکھا) اور دو انگلی کو بند کر لیا۔ یعنی کہ چھنگلی انگلی کو اور اس کے پاس والی انگلی کو اور حلقہ باندھا اس طرح سے یہ بشر جو کہ اس حدیث کی راوی ہیں کہ انہوں نے شہادت کی انگلی سے اشارہ فرمایا دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اور درمیان کی انگلی کا حلقہ بنایا۔

 

دونوں ہتھیلیاں بیٹھنے کے وقت کس جگہ رکھنی چاہئے ؟

 

محمد بن منصور، سفیان، یحیی بن سعید، مسلم بن ابو مریم شیخ، علی بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر کی اقتداء میں نماز ادا کی تو میں کنکریاں الٹ پلٹ کرنے لگا عبداللہ بن عمر نے (نماز کے بعد) مجھ سے کہا کہ تم نماز کے دوران کنکریوں کو نہ الٹ پلٹ کرو۔ اس لئے کہ یہ شیطانی کام ہے (مطلب یہ ہے کہ یہ عمل شیطان کی جانب سے ایک وسوسہ ہے ) بلکہ تم اس طریقہ سے عمل کرو کہ جس طریقہ سے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کس طریقہ سے عمل کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے اس طریقہ سے دائیں پاؤں کو کھڑا کیا اور بایاں پاؤں کو الٹا دیا اور دائیں ہاتھ کو دائیں ران پر رکھا اور بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ فرمایا۔

 

شہادت کی انگلی کے علاوہ دائیں ہاتھ کی تمام انگلیوں کو بند کرنے سے متعلق

 

قتیبہ بن سعید، مالک، مسلم بن ابو مریم، علی بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ مجھ کو حضرت عبداللہ بن عمر نے دیکھا اور میں اس وقت نماز میں کنکریوں سے کھیل رہا تھا وہ جس وقت نماز سے فارغ ہو گئے تو انہوں نے مجھ کو منع فرمایا اور عرض کیا تم اس طریقہ سے کرو جس طریقہ سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عمل فرماتے تھے میں نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کس طرح کرتے تھے انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب نماز میں بیٹھے تھے تو دائیں ہتھیلی کو ران پر رکھتے اور تمام انگلیوں کو بند کرتے تھے اور کلمہ کی انگلی جو انگوٹھے کے پاس ہے اشارہ کر کے اور بائیں بازو کو بائیں ران پر رکھتے۔

 

انگلیوں کو بند کرنا اور درمیان کی انگلی اور انگوٹھے کا حلقہ باندھنے سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، زائٍدۃ، عاصم بن کلیب، وائل بن حجر سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کو دیکھا اور بیان کیا تو فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے اور بایاں پاؤں بچھایا اور بائیں ہتھیلی بائیں ران اور گھٹنے پر رکھی اور دائیں ہاتھ کی کہنی دائیں طرف کی ران کے برابر کی۔ پھر دو انگلی بند کر لی اور ایک حلقہ باندھ لیا پھر انگلی اٹھائی تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو ہلاتے تھے اور اس سے دعا کرتے تھے۔

 

 

بائیں ہاتھ کو گھٹنوں پر رکھنے سے متعلق

 

محمد بن رافع، عبدالرزاق، معمر، عبید اللہ، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز میں بیٹھ جاتے تھے تو دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جماتے اور شہادت کی انگلی دائیں ہاتھ کی اٹھاتے اور اس سے دعا کرتے اور ہاتھ گھٹنے پر جماتے۔

 

 

٭٭ ایوب بن محمد و زان، حجاج، ابن جریج، زیاد، محمد بن عجلان، عامر بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی انگلی سے اشارہ فرماتے جس وقت دعا مانگتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس انگلی کو نہیں ہلاتے تھے۔ دوسری روایت میں حضرت عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس طریقہ سے دعا مانگتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بایاں ہاتھ بائیں پاؤں پر رکھتے تھے۔

 

تشہد کے درمیان انگلی سے اشارہ کرنے سے متعلق

 

محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی، عصام بن قدامۃ، مالک بن نمیرخزاعی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا وہ فرماتے تھے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھتے نماز میں اور انگلی سے اشارہ کرتے۔

 

دو انگلی سے اشارہ کرنے کی ممانعت اور کونسی انگلی سے اشارہ کرے ؟

 

محمد بن بشار، صفوان بن عیسی، ابن عجلان، قعقاع، ابو صالح، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص دو انگلی سے اشارہ کرتا تھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ایک انگلی سے لے کر ایک انگلی سے اشارہ کرو (اس لئے کہ یہ اشارہ ہے توحید کی جانب)۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن مبارک مخرمی، ابو معاویہ، اعمش، ابو صالح، سعد سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز میرے نزدیک سے گزرے میں انگلیوں سے دعا مانگ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم ایک انگلی سے دعا مانگو پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شہادت کی انگلی کی جانب اشارہ فرمایا۔

 

شہادت کی انگلی کو اشارہ کے دوران جھکانے سے متعلق

 

احمد بن یحیی صوفی، ابو نعیم، عصام بن قدامۃ، مالک بن نمیر خزاعی سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے والد سے سنا اور انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے دوران بیٹھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دایاں ہاتھ دائیں ران پر رکھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کلمہ کی انگلی کو اٹھائے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس کو کسی قدر موڑ لیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت دعا مانگ رہے تھے۔

 

 

بوقت اشارہ نگاہ کس جگہ رکھی جائے ؟

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، ابن عجلان، عامر بن عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت تشہد میں بیٹھ جایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بائیں طرف کی ہتھیلی بائیں ران پر رکھ دیتے اور دائیں ہاتھ کی انگلی سے اشارہ فرماتے اور اس جگہ پر اپنی نگاہ رکھتے تھے۔

 

نماز کے دوران دعا مانگتے وقت آسمان کی جانب نظر نہ اٹھائے

 

احمد بن عمرو بن سرح، ابن وہب، لیث، جعفر بن ربیعۃ، اعرج، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں کو نماز کے دوران دعا مانگتے وقت آسمان کی جانب دیکھنے سے باز آنا ورنہ خداوند قدوس ان کی آنکھوں کی روشنی ختم کر دے گا (یہ حکم اس وجہ سے ہے کیونکہ بارگاہ خداوندی میں یہ حرکت بے ادبی اور ایک طرح کی گستاخی ہے )۔

 

تشہد پڑھنے کے وجوب سے متعلق

 

سعید بن عبدالرحمن، ابو عبید اللہ مخزومی، سفیان، اعمش و منصور، شقیق بن سلمہ، ابن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ نماز کے دوران تشہد کے فرض ہونے سے قبل اس طریقہ سے کہا کرتے تھے سلام اللہ پر سلام حضرت جبرائیل پر سلام حضرت میکائیل پر۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس طریقہ سے نہ کہو کیونکہ خداوند قدوس خود سلام ہے لیکن تم اس طریقہ سے کہو التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

تشہد ایسے طریقہ سے سکھلانا کہ جس طریقہ سے قرآنی سورت سکھلاتے ہیں کیسا ہے ؟

 

احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، عبدالرحمن بن حمید، ابو زبیر، طاؤس، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو اس طریقہ سے تشہد سکھلایا کرتے تھے کہ جس طریقہ سے قرآن کریم کی سورت سکھلاتے ہیں۔

 

تشہد سے متعلق احادیث

 

قتیبہ، فضیل، ابن عیاص، اعمش، شقیق، عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ اللہ خود سلام ہے یعنی اللہ کا ایک نام سلام بھی ہے۔ تو جس وقت کوئی شخص تمہارے میں سے (نماز پڑھنے کیلئے ) بیٹھ جائے تو اس کو التحیات للہ کہنا چاہیے۔

 

ایک دوسری قسم کے تشہد سے متعلق

 

محمد بن بشار، یحیی بن سعید، ہشام، قتادہ، محمد بن مثنی، یحیی، ہشام، قتادہ، یونس بن جبیر، حطان بن عبد اللہ، ابو موسی اشعری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خطبہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہم لوگوں کو طریقے سکھلائے اور طریقہ نماز سکھلایا پھر ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگ نماز ادا کرنے کیلئے کھڑے ہو جاؤ تو تم لوگ صفوں کو درست کر لو پھر تم لوگوں میں سے کوئی ایک امامت کرے۔ جس وقت امام تکبیر کہے اور جس وقت وہ کہے تو تم لوگ آمین پڑھو خداوند قدوس قبول فرمائے گا اور جس وقت وہ تکبیر پڑھے اور رکوع میں جائے تو تم لوگ بھی تکبیر پڑھو اور رکوع میں چلے جاؤ کیونکہ تمہارے سے قبل امام رکوع میں جاتا ہے اور تمہارے سے قبل سر اٹھاتا ہے۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پھر تو اس کی جانب کی کمی دوسری جانب نکل جائے گئی اور جس وقت امام سمع اللہ لمن حمدہ پڑھے تو تم لوگ ربنا لک الحمد پڑھو کیونکہ خداوند قدوس نے اپنے پیغمبر کی زبان پر فرمایا کہ خداوند قدوس نے سن لیا اس کو یہ جو شخص اس کی تعریف کرے پھر جس وقت وہ تکبیر پڑھے اور سجدہ میں جائے تو تم لوگ بھی تکبیر پڑھو اور سجدہ میں جاؤ کیونکہ امام تم لوگوں سے قبل سجدہ میں جاتا ہے اور تمہارے سے قبل سر اٹھاتا ہے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ اس جانب کی کمی دوسری جانب نکل جائے گی اور جس وقت امام بیٹھ جائے تو تم لوگ اس طریقہ سے پڑھو التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔

 

 

٭٭ عمرو بن علی، ابو عاصم، ایمن ابن نابل، ابو زبیر، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کو اس طریقہ سے تشھد سکھلایا کرتے تھے کہ جس طریقہ سے قرآن کریم کی کوئی سورت سکھلایا کرتے تھے بِسْمِ اللَّہِ وَبِاللَّہِ التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ وَأَسْأَلُ اللَّہَ الْجَنۃَ وَأَعُوذُ بِہِ مِنْ النَّارِ۔ امام نسائی نے فرمایا کہ ہم لوگ نہیں جانتے کسی شخص کو اس نے متابعت کی ہوایمن بن نابل کی اس روایت پر ہم لوگوں کے نزدیک راوی ایمن بن نابل میں کسی قسم کا کوئی عیب نہیں ہے لیکن حدیث خطا ہے اور ہم خداوند قدوس سے توفیق مانگتے ہیں۔

 

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام سے متعلق

 

عبدالوہاب بن عبدالحکم الوراق، معاذبن معاذ، سفیان بن سعید، محمود بن غیلان، وکیع و عبدارزاق، سفیان، عبداللہ بن سائب، زاذان، عبداللہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ خداوند قدوس کے فرشتے زمین میں گھومتے رہتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور الکوسج، عفان، حماد، ثابت، قدم، سلیمان، حسن، ابن علی، زمن حجاج، عبداللہ بن ابو طلحہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ انور پر خوشی محسوس ہو رہی تھی ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کے آثار محسوس کر رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا بلاشبہ میرے پاس فرشتہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خداوند قدوس فرماتا ہے کیا تم لوگ خوش نہیں ہوتے جو شخص تمہارے اوپر ایک درود بھیجے گا تو میں اس شخص پر دس مرتبہ رحمت بھیجوں گا اور تمہارے میں سے جو شخص سلام (ایک مرتبہ) بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلام کروں گا۔

 

نماز کے دوران عظمت خداوندی بیان کرنا

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، ابو ہانی، ابو علی جنبی، فضالۃ بن عبید سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو نماز کے دوران دعا مانگتے سنا کہ اس نے خداوند قدوس کی عظمت بیان کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجا اس پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اے نمازی! تم نے عجلت سے کام لیا اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے لوگوں کو سکھلایا کہ (پہلے خداوند قدوس کی عظمت بیان کرنا پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجا کرو اس کے بعد دعا مانگا کرو) تاکہ تمہاری دعا جلد قبول ہو جائے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک آدمی کو نماز پڑھتے ہوئے سنا اس شخص نے خداوند قدوس کی عظمت بیان کی اور اس کی تعریف کی پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اب تو دعا قبول ہو گی اور مقصد حاصل ہو گا۔

 

درود شریف بھیجنے کی تاکید سے متعلق

 

محمد بن سلمہ و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، نعیم بن عبداللہ المجمر، محمد بن عبداللہ بن زیاد انصاری و عبداللہ بن زید، ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز ہم لوگوں کے پاس تشریف لائے حضرت سعد بن عبادہ کے گھر تشریف لائے تو حضرت بشیر بن سعد نے عرض کیا یا رسول اللہ! خدا نے ہم کو حکم فرمایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجنے کا اس لئے کہ خداوند قدوس فرمایا ہے کہ اے اہل ایمان! درود بھیجیں ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم یہ بات سن کر خاموش ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے تمنا کی کاش ہم لوگوں نے سوال نہ کیا ہوتا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم اس طریقہ سے کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ فِی الْعَالَمِینَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجنے کا طریقہ

 

زیاد بن یحیی، عبدالوہاب بن عبدالحمید، ہشام بن حسان، محمد، عبدالرحمن بن بشر، ابو مسعود انصاری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگوں کو حکم ہوا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر درود بھیجنے کا اور سلام بھیجنے کا۔ تو سلام ہم لوگوں کو معلوم ہو گیا لیکن درود ہم لوگ کس طریقہ سے بھیجیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ فِی الْعَالَمِینَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! اپنی رحمت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جیسی رحمت بھیجی تم نے ابرا ہیم کی اولاد پر اور برکت نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر جیسے برکت فرمائی تو نے ابراہیم کی اولاد پر۔

 

 

ایک دوسری قسم کا درود

 

قاسم بن زکریا بن دینار، حسین بن علی، زائٍدۃ، سلیمان، عمرو بن مرۃ، عبدالرحمن بن ابو لیلی، کعب بن عجزٰۃ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجنا تو ہم لوگ معلوم کر چکے لیکن ہم لوگ درود شریف کس طریقہ سے بھیجا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم لوگ اس طریقہ سے کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ فِی الْعَالَمِینَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔ حضرت امام ابن ابی لیلی نے فرمایا کہ ہم لوگ اس کے ساتھ یہ اور اضافہ کرتے ہیں وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ۔ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ حدیث انہوں نے اپنی کتاب سے نقل فرمائی اور یہ ایک بھول ہے۔

 

ایک دوسری قسم کا درود

 

قاسم بن زکریا، حسین، زائٍدۃ، سلیمان، حکم، عبدالرحمن بن ابو لیلی، کعب بن عجزٰۃ سے روایت ہے کہ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجنا تو ہم لوگوں کو معلوم ہو گیا لیکن ہم لوگ درود شریف کس طریقہ سے بھیجا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس طریقہ سے اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَآلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ وَبَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی إِبْرَاہِیمَ وَآلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔ حضرت عبدالرحمن نے فرمایا ہم اس روایت میں یہ اضافہ مزید کرتے ہیں وَعَلَیْنَا مَعَہُمْ حضرت امام نسائی نے فرمایا کہ یہ روایت درست ہے اور پہلی روایت بھول ہے۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبد اللہ، شعبہ، حکم، ابن ابو لیلی سے روایت ہے کہ حضرت کعب بن عجزہ نے مجھ سے نقل کیا کہ میں تم کو ایک ہدیہ دے دوں۔ ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگ سلام کرنے کو خوب پہچان لیتے ہیں لیکن ہم لوگ درود شریف کس طریقہ سے بھیجا کریں تو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

ایک دوسری قسم کے درود شریف سے متعلق

 

اسحاق بن ابراہیم، محمد بن بشر، مجمع بن یحیی، عثمان بن موہب، موسیٰ بن طلحہ، طلحہ سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگ درود شریف کس طریقہ سے بھیجا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اس طریقہ سے کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، عمی، شریک، عثمان بن موہب، موسیٰ بن طلحہ، طلحہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی ایک روز خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگ کس طریقہ سے درود شریف بھیجا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

 

٭٭ سعید بن یحیی بن سعید الاموی، عثمان بن حکیم، خالد بن سلمہ، موسیٰ بن طلحہ، زید بن خارجہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم لوگ میرے اوپر درود بھیجو اور تم لوگ دعا میں کوشش کرو اور کہو اللَّہمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

 

٭٭ قتیبہ، بکرو ابن مضر، ابن ہاد، عبداللہ بن خباب، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر سلام بھیجنا تو ہم کو معلوم ہو گیا اب ہم لوگ درود شریف کس طریقہ سے بھیجا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم کہو اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔

 

 

٭٭ قتیبہ بن سعید، مالک و حارث بن مسکین، ابن قاسم، مالک، عبداللہ بن ابو بکر بن محمد بن عمرو بن حزم، وہ اپنے والد سے ، عمرو بن سلیم زرقی، ابو حمید ساعدی سے روایت ہے کہ حضرات صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! ہم لوگ کس طریقہ سے درود شریف آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر بھیجا کریں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔ اس طرح سے کہا کرو اور حارث کی روایت میں یہ مزید اضافہ ہے آخر تک۔ پھر حارث اور قتیبہ دونوں حضرات کی روایت میں ہے کہ۔ امام نسائی نے فرمایا کہ قتیبہ نے مجھ سے یہ حدیث شریف دوسری مرتبہ بیان فرمائی تو غالباً ان سے اس روایت کا بعض جز نقل کرنے سے رہ گیا۔

 

فضیلت درود سے متعلق

 

سوید بن نصر، عبداللہ یعنی ابن مبارک، حماد بن سلمہ، ثابت، سلیمان، مولی الحسن بن علی، عبداللہ بن ابو طلحہ، ابو طلحہ سے روایت ہے کہ ایک دن حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر خوشی محسوس ہو رہی تھی ہم نے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے چہرہ مبارک پر خوشی کس وجہ سے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ابھی میرے پاس جبرائیل تشریف لائے اور انہوں نے کہا خداوند قدوس فرماتا ہے کہ کیا تم اس سے اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوش اور رضامند نہیں ہوتے کہ جو شخص تم پر ایک درود شریف بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ رحمت نازل کروں گا اور تمہاری امت میں سے جو شخص تم پر ایک مرتبہ سلام بھیجے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجوں گا اور تمہاری امت میں سے جو شخص ایک مرتبہ تم پر سلام پڑھے گا تو میں اس پر دس مرتبہ سلامتی بھیجوں گا۔

 

 

٭٭ علی بن حجر، اسمعیل بن جعفر، ابیہ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ روایت مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن منصور، محمد بن یوسف، یونس بن ابو اسحاق، یزید بن ابو مریم، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جو شخص میرے اوپر ایک مرتبہ درود بھیجے گا تو خداوند قدوس اس پر دس مرتبہ رحمت بھیجے گا اور دس گناہ معاف ہوں گے اور دس درجات اس کے بلند ہوں گے۔

 

 

درود شریف پڑھنے کے بعد نماز میں جو دل چاہے دعا مانگ سکتا ہے

 

یعقوب بن ابراہیم دورقی و عمرو بن علی، یحیی، سلیمان اعمش، شقیق، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ بیٹھے تھے نماز کی حالت میں تو ہم کہتے تھے یعنی سلام ہو اللہ پر اللہ کے بندوں کی جناب سے اور سلام فلاں پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ اللہ پر سلام نہ کہو کیونکہ اللہ خود سلام ہے بلکہ تمہارے میں سے کوئی شخص اگر بیٹھ جائے تو اس طرح سے کہے التَّحِیَّاتُ لِلَّہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ أَیُّہَا النَّبِیُّ وَرَحْمۃُ اللَّہِ وَبَرَکَاتُہُ السَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلَی عِبَادِ اللَّہِ الصَّالِحِینَ فَإِنَّکُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِکَ أَصَابَتْ کُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِی السَّمَائِ وَالْأَرْضِ أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَرَسُولُہُ۔ اس لئے کہ جب اس طریقہ سے کہے گا توہر ایک نیک بندہ کو آسمان اور زمین میں سلام پہنچ جائے گا اس کے بعد جو دعا زیادہ پسندیدہ ہو وہ دعا مانگے۔

 

نماز میں تشہد پڑھنے کے بعد کیا پڑھنا چاہئے ؟

 

عبید بن وکیع بن جراح، سفیان بن وکیع، عکرمۃ بن عمار، اسحاق بن عبداللہ بن ابو طلحہ، انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضرت ام سلیم ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو چند کلمات سکھلا دیں کہ میں ان کلمات کے وسیلے سے دعا مانگ لیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ تم سُبحَانَ اللہ کہو دس مرتبہ پھر دس مرتبہ اَلحَمدُ لِلہ کہو اور اس کے بعد دعا مانگو اور تم اپنے مقصد کو خداوند قدوس سے مانگو وہ حکم فرما دے گا۔ مطلب یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں وہ قبول کرے گا۔

 

 

دعا ماثورہ سے متعلق

 

قتیبہ، خلف بن خلیفۃ، حفص بن اخی انس، انس بن مالک سے روایت ہے کہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے نزدیک بیٹھا ہوا تھا اور ایک آدمی وہاں پر کھڑا ہوا نماز میں مشغول تھا جس وقت رکوع اور سجدے اور تشہد سے فراغت ہوئی تو دعا مانگنے لگا اور کہنے لگا اللَّہُمَّ إِنِّی أَسْأَلُکَ بِأَنَّ لَکَ الْحَمْدَ لَا إِلَہَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِیعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ إِنِّی أَسْأَلُکَ پڑھا کرو۔ پھر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ کیا تم لوگ اس سے واقف ہو کہ کون سے جملوں سے دعا مانگی جائے ؟ انہوں نے فرمایا کہ خدا اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خوب واقف ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس سے خداوند قدوس کو آواز دی۔ اس کے اسم اعظم (یعنی بڑے نام) سے جس وقت خداوند قدوس کو اس کے نام سے آواز دی جاتی ہے اور اس کو یاد کیا جاتا ہے اور جس وقت کوئی شخص مانگتا ہے اس سے یہ نام لے کر تو وہ عنایت کرتا ہے۔

 

 

٭٭ عمرو بن یزید، ابو برید بصری، عبدالصمد بن عبدالوارث، حسین معلم، ابن بریٍدۃ، حنظلۃ بن علی، محجن بن ادرع سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں تشریف لے گئے کہ ایک آدمی نماز پڑھ کر تشہد پڑھنے میں مشغول تھا کہ اس دوران وہ شخص کہنے لگا تین مرتبہ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ شخص مغفرت کر دیا گیا۔

 

 

ایک دوسری قسم کی دعا سے متعلق

 

قتیبہ بن سعید، لیث، یزید بن ابو حبیب، ابو خیر، عبداللہ بن عمرو، ابو بکر صدیق سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھ کو ایک دعا سکھلا دیں کہ جس کو میں نماز میں پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تم اس طرح سے کہو

 

 

٭٭ یونس بن عبدالاعلی، ابن وہب، حیوٰۃ، عقبہ بن مسلم، ابو عبدالرحمن، ضابحی، معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور ارشاد فرمایا میں تم سے محبت رکھتا ہوں اے معاذ! میں نے عرض کیا میں (بھی) آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے محبت کرتا ہوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم پابندی سے ہر ایک نماز میں یہ دعا مانگا کرو

 

 

٭٭ ابوداؤد، سلیمان بن حرب، حماد بن سلمہ، سعیدجریری، ابو العلاء، شداد بن اوس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے دوران فرمایا کرتے تھے سے آخر تک۔ مطلب یہ ہے کہ اے اللہ! میں تجھ سے ہر ایک کام میں استحکام چاہتا ہوں (صبر اور استقلال کا طلبگار ہوں ) اور عزم بالجزم ہدایت پر اور میں تجھ سے تیری نعمت پر شکر اور تیری عبادت کی بہتری چاہتا ہوں اور میں تجھ سے قلب کی سلامتی چاہتا ہوں اور زبان کی سچائی چاہتا ہوں اور میں تجھ سے ہر چیز کی بہتری مانگتا ہوں جس کو کہ تو جانتا ہے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری ہر ایک چیز کی برائی سے کہ جس کو تو جانتا ہے اور میں مغفرت چاہتا ہوں تیری اس چیز سے کہ جس کو تو چاہتا ہے (یعنی مجھ سے جو غلطی سرزد ہو گئی ہے اس کی معافی مانگتا ہوں )۔

 

 

٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، عطاء بن سائب، نے اپنے والد سے روایت کی حضرت عمار نے نماز پڑھائی تو مختصر نماز پڑھائی بعض نے کہا کہ تم نے نماز ہلکی یا مختصر پڑھی انہوں نے کہا کہ باوجود اس کے کہ میں نے اس میں کئی دعائیں پڑھیں جن کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے جس وقت وہ کھڑے ہوئے تو ایک شخص ان کے پیچھے گئے حضرت عطاء نے بیان کیا کہ وہ میرے والد تھے لیکن انہوں نے اپنا نام پوشیدہ رکھا اور وہ دعا ان سے دریافت کی پھر واپس آئے اور لوگوں کو بتلائی وہ دعا یہ تھی یعنی اے اللہ! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں تیرے غیب اور قدرت کے وسیلہ سے جو تجھ کو مخلوقات پر ہے تو مجھ کو زندہ رکھ جس وقت تک میرے واسطے زندگی قائم رکھنا تیرے نزدیک بہتر ہو اور مجھ کو مار ڈال کہ جس وقت میرے واسطے مر جانا بہتر ہو اے خدا میں ظاہری اور پوشیدہ تیرا خوف مانگتا ہوں اور میں مانگتا ہوں تجھ سے حکمت بھری سچی بات خوشی اور غصہ میں اور میں مانگتا ہوں تجھ سے درمیان کا درجہ محتاجی اور مالداری میں اور میں تجھ سے اس نعمت کو مانگتا ہوں جو کہ تمام نہ ہو اور اس کی آنکھ کی ٹھنڈک کو کہ جو ختم نہ ہو اور میں تجھ سے رضامندی تیرے فیصلہ پر اور میں تجھ سے مانگتا ہوں راحت اور مرنے کے بعد آرام۔ اور میں مانگتا ہوں تجھ سے تیرے چہرہ کے دیکھنے کی لذت کو اور تجھ سے ملاقات کا شوق اور میں مانگتا ہوں تیری اس مصیبت پر کہ جس پر صبر نے ہو سکے اور جو فساد سے گمراہ کرا دے اے خدا ہم کو ایمان کی دولت سے مالا مال فرما دے اور ہم کو ہدایت یافتہ لوگوں کا راستہ دکھلا دے۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن سعد بن ابراہیم بن سعد، عمی، شریک، ابو ہاشم الواسطی، ابو مجلز، قیس بن عبادہ سے روایت ہے کہ حضرت عمار بن یاسر نے لوگوں کے ساتپ نماز پڑھائی اور ہلکی (مختصر) نماز پڑھائی تو انہوں نے انکار کر دیا (اس قدر مختصر نماز پڑھنے پر) اس پر حضرت عمار نے فرمایا میں نے نماز ادا کرنے میں سجدے اور رکوع کو برابر نہیں ادا کیا؟ انہوں نے کہا کہ کس وجہ سے نہیں حضرت عمار نے بیان کیا کہ میں نے تو نماز کے دوران وہ دعا مانگی تھی کہ جس کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پڑھا کرتے تھے اللَّہُمَّ بِعِلْمِکَ الْغَیْبَ وَقُدْرَتِکَ عَلَی الْخَلْقِ أَحْیِنِی مَا عَلِمْتَ الْحَیَاٰۃَ خَیْرًا لِی وَتَوَفَّنِی إِذَا عَلِمْتَ الْوَفَاٰۃَ خَیْرًا لِی وَأَسْأَلُکَ خَشْیَتَکَ فِی الْغَیْبِ وَالشَّہَاٍدۃِ وَکَلِمۃَ الْإِخْلَاصِ فِی الرِّضَا وَالْغَضَبِ وَأَسْأَلُکَ نَعِیمًا لَا یَنْفَدُ وَقُرۃَ عَیْنٍ لَا تَنْقَطِعُ وَأَسْأَلُکَ الرِّضَائَ بِالْقَضَائِ وَبَرْدَ الْعَیْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَلَذَّٰۃَ النَّظَرِ إِلَی وَجْہِکَ وَالشَّوْقَ إِلَی لِقَائِکَ وَأَعُوذُ بِکَ مِنْ ضَرَّائَ مُضِرۃٍ وَفِتْنۃٍ مُضِلۃٍ اللَّہُمَّ زَیِّنَّا بِزِینۃِ الْإِیمَانِ وَاجْعَلْنَا ہُدَاٰۃً مُہْتَدِینَ۔

 

نماز کے دوران پناہ مانگنے سے متعلق
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، ہلال بن یساف، فروٰۃ بن نوفل سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ سے عرض کیا کہ مجھ کو وہ دعا بتلا دو جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز میں پڑھا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اچھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ دعا مانگتے تھے اے خدا! میں پناہ مانگتا ہوں میری برائی سے اس کام کے جو کہ میں نے انجام دیا ہے اور برائی سے اس کام کی جو میں نے نہیں انجام دئیے۔ (مطلب یہ ہے کہ مجھ کو اندیشہ ہے کہ میں وہ نہ کرنے لگ جاؤں۔)

 

ایک دوسری قسم کی پناہ سے متعلق

 

محمد بن بشار، محمد، شعبہ، اشعث، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا عذاب قبر سے متعلق تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ عذاب قبر سچ (اور حقیقت) ہے حضرت عائشہ صدیقہ نے بیان فرمایا کہ پھر جو نماز حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پڑھی اس میں عذاب قبر سے پناہ مانگی

 

 

٭٭ عمرو بن عثمان، شعیب، زہری، عروہ بن زبیر، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے دوران دعا مانگا کرتے تھے آخر تک۔ یعنی اے خدا میں پناہ مانگتا ہوں تیری عذاب قبر سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری فتنہ و دجال سے جو کہ ایک آنکھ والا ہو گا اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری گناہ کے کام سے اور مقروض ہو جانے سے۔ یہ بات سن کر حاضرین میں سے ایک صاحب نے عرض کیا اس کی کیا وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر اوقات مقروض ہونے سے پناہ مانگتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت انسان مقروض ہوتا ہے تو وہ جھوٹ بولنے لگتا ہے اور وہ وعدہ خلافی کرتا ہے۔

 

 

٭٭ محمد بن عبداللہ بن عمار، معافی، اوزاعی، علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، حسان بن عطیٰۃ، محمد بن ابو عائشہ صدیقہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا جس وقت تم لوگوں میں سے کوئی شخص تشہد پڑھے تو اس کو چاہیے کہ وہ چار کاموں سے پناہ مانگے۔ ایک تو عذاب دوزخ سے دوسرے عذاب قبر سے اور تیسرے موت اور زندگی سے اور فتنہ موت سے اور دجال کے فتنہ سے پھر دعا مانگے اپنے واسطے جو دعا مناسب معلوم ہو۔

 

ایک دوسری نوعیت کی دعا سے متعلق

 

عمرو بن علی، یحیی، جعفر بن محمد، جابر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز کے دوران تشہد کے پڑھنے کے بعد فرماتے تھے سب سے بہتر کلام اللہ کا کلام اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ہدایت ہے۔

 

نماز کو گھٹانے کے بارے میں

 

احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، مالک، ابن مغول، طلحہ بن مصرف، زید بن وہب، حذیفہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک آدمی کو دیکھا کہ جس شخص نے نماز کو گھٹا دیا (یعنی اس کی شرائط اور ارکان میں کمی کر دی) تو دریافت کیا کہ تم کتنے زمانہ سے اس طریقہ سے نماز پڑھتے چلے آ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ چالیس سال سے حضرت حذیفہ نے فرمایا کہ تم نے چالیس سال سے نماز نہیں پڑھی اور جب تم مر جاؤ گے اس طرح سے نماز پڑھتے ہوئے تو تمہاری موت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے علاوہ کسی دین پر ہو گی نہ کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دین پر مرو گے۔ اگر (ہم) نماز میں تخفیف کرتے ہیں تو اس کی شرائط و ارکان کو اچھی طرح سے ادا کرتے ہیں۔

 

نماز پڑھنے کے واسطے کیا کیا شرائط ہیں ؟

 

قتیبہ، لیث، ابن عجلان، علی بن یحیی سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اپنے والد سے انہوں نے اپنے چچا سے سنا جو کہ بدری تھے یعنی غزوہ بدر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ شریک جہاد ہوئے تھے۔ انہوں نے نقل کیا کہ ایک آدمی مسجد میں حاضر ہوا اور اس نے نماز ادا کی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس کو دیکھ رہے تھے لیکن ہم لوگ اس شخص سے واقف نہیں تھے جس وقت وہ شخص نماز سے فارغ ہو گیا تو خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوا اور سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جاؤ تم نے نماز نہیں پڑھی اس طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دو یا تین مرتبہ فرمایا اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو عزت کی دولت سے نوازا میں تو تھک چکا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مجھے بتلائیں میں کس طریقہ سے نماز ادا کروں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت تم نماز پڑھنے کے واسطے کھڑا ہو تو پہلے اچھی طرح سے وضو کرو یعنی تمام شرائط اور ارکان کا خیال رکھو۔ پھر تم قبلہ کی جانب رخ کرو اور تکبیر پڑھو۔ پھر قرآن کریم پڑھو یعنی سورہ فاتحہ اور اس کے ساتھ دوسری سورت پڑھ لو۔ پھر تم اطمینان کے ساتھ رکوع کرو پھر تم سر اٹھا یہاں تک کہ تم بالکل اچھی طرح سے سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر تم اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر تم سر اٹھاؤ۔ یہاں تک کہ تم اطمینان کے ساتھ بیٹھ جاؤ پھر تم اطمینان کے ساتھ سجدہ کرو پھر تم سر اٹھاؤ پھر تم اس طرح سے نماز میں کیا کرو۔

 

 

٭٭ سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، داؤد بن قیس، علی بن یحیی بن خلاد بن رافع بن مالک انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے سنا اپنے والد سے انہوں نے اپنے چچا (رفاعہ بن رافع) سے سنا جو کہ غزوہ بدر میں شریک تھے۔ کہا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ مسجد میں بیٹھا تھا کہ اس دوران ایک شخص حاضر ہوا اور اس نے دو رکعت نماز ادا کی پھر وہ شخص حاضر ہوا اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس وقت اس شخص کو دیکھ رہے تھے جس وقت وہ شخص نماز میں مشغول تھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس شخص کے سلام کا جواب دیا پھر فرمایا جاؤ اور تم نماز ادا کرو تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ شخص واپس چلا گیا اور اس شخص نے نماز ادا کی پھر وہ شخص حاضر ہوا اور اس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو سلام کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جاؤ تم نماز پڑھو (دراصل) تم نے نماز نہیں پڑھی۔ پس جس وقت تیسری یا چوتھی بار اس نے اس طریقہ سے کیا تو اس نے عرض کیا اس ذات کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر کتاب نازل کی میں تو تھک گیا اور مجھ کو لالچ ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرمائیں اور سکھلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ جس وقت تم نماز ادا کرنے کا ارادہ کرو تو تم ٹھیک طریقہ سے وضو کرو پھر تم بیت اللہ شریف کی جانب چہرہ کرو اور تم تکبیر پڑھو (نماز شروع کرو) پھر قرآن کریم پڑھو پھر تم رکوع میں جاؤ۔ خوب اچھی طرح سے اطمینان سے پھر تم سر اٹھاؤ یہاں تک کہ تم سیدھے کھڑے ہو جاؤ۔ پھر تم اطمینان سے سجدہ کرو پھر سر اٹھاؤ۔ اگر تم نے اس طریقہ سے نماز کو مکمل کر لیا تو تمہاری نماز مکمل ہو گئی اور اگر تم نے اس میں سے کم کر دیا تو اپنی نماز میں سے کم کر دیا۔

 

 

٭٭ محمد بن بشار، یحیی، سعید، قتادہ، زرارۃ بن اوفی، سعد بن ہشام سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا کہ ام المومنین مجھ کو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وتر کی نماز کے متعلق بتلاؤ تو انہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے واسطے سامان کر کے رکھتے ہیں یعنی مسواک اور وضو کا پانی ہم تیار رکھتے تھے پھر جس وقت خداوند قدوس کو منظور ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اٹھا دیتا تھا۔ رات میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور آٹھ رکعات ادا فرماتے اور نہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کے درمیان میں بیٹھا کرتے تھے لیکن آٹھویں رکعت کے بعد پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھ جاتے تھے اور یاد خداوندی میں مشغول ہو جاتے اور دعا مانگتے پھر سلام پھیرتے۔ اس قدر آواز سے کہ ہم کو آواز سنائی دیتی۔

 

سلام سے متعلق

 

محمد بن اسماعیل بن ابراہیم، سلیمان یعنی ابن داؤد ہاشمی، ابراہیم بن سعد، عبداللہ بن جعفر، ابن مسور مخرمی، اسماعیل بن محمد، عامر بن سعد، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرا کرتے تھے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، ابو عامرعقدی، عبداللہ بن جعفر مخرمی، اسماعیل بن محمد بن سعد، عامر بن سعد، سعد بن ابی وقاص سے روایت ہے کہ وہ جناب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنی دائیں اور بائیں جانب سے دیکھا کرتے تھے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخسار مبارک کی سفیدی معلوم ہوتی تھی (یعنی سلام پھیرنے میں )۔

 

سلام پھیرتے وقت ہاتھ کہاں رکھے جائیں ؟

 

عمرو بن علی، ابو نعیم، مسعر، عبید اللہ ابن قبیطۃ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ ہم جس وقت حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں نماز ادا کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہا کرتے تھے السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ حضرت مسعر (راوی حدیث) وہ دائیں اور بائیں جانب ہاتھ سے اشارہ کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا ان لوگوں کی کیا حالت ہے کہ جو اپنے ہاتھ اس طرح سے گھماتے ہیں کہ گویا وہ ہاتھ شریر گھوڑے کی دم ہیں۔ تمہارے میں سے کیا ہر ایک شخص کے واسطے یہ بات کافی نہیں ہے کہ وہ اپنے ہاتھ ران پر ہی رہنے دے۔ (وہ زبان سے ) دائیں اور بائیں جانب اپنے (مسلمان) بھائی کو سلام کرے۔

 

 

٭٭ محمد بن مثنی، معاذبن معاذ، زہیر، ابو اسحاق، عبدالرحمن بن اسود، اسود و علقمہ، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جھکنے اٹھنے اور کھڑے ہونے کے وقت تکبیر کہتے اور بیٹھ جاتے اور سلام پھیرتے دائیں اور بائیں جانب اور فرماتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رخسار کی سفیدی نظر آتی اور میں نے حضرت ابو بکر اور عمر کو بھی اسی طریقہ سے کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ حسن بن محمد زعفرانی، حجاج، ابن جریج، عمرو بن یحیی، محمد بن یحیی بن حبان، واسع بن حبان سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے بارے میں تو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اللہ اکبر فرماتے تو جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جھک جاتے اور اللہ اکبر فرماتے جس وقت اٹھ جاتے پھر آخر میں دائیں اور بائیں السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ فرماتے۔

 

بائیں جانب سلام میں کیا کہنا چاہئے ؟

 

قتیبہ، عبدالعزیز، عمرو بن یحیی، محمد بن یحیی بن حبان، واسع بن حبان سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر سے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نماز کے متعلق دریافت کیا کہ وہ نماز کس طریقہ سے تھی؟ تو انہوں نے تکبیر سے متعلق بیان فرمایا اور اس طرح سے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ فرماتے اور بائیں جانب السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ فرماتے۔

 

 

٭٭ زید بن اخزم، ابن داؤد یعنی عبداللہ بن داؤد خریبی، علی بن صالح، ابو اسحاق، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ گویا میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مبارک گال کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانبالسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ فرماتے اور بائیں جانب السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ فرماتے۔

 

 

٭٭ محمد بن آدم، عمر بن عبید، ابو اسحاق، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب اس طریقہ سے سلام پھیرا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گال کی سفیدی نظر آتی۔ اس طریقہ سے بائیں جانب سلام پھیرتے تھے

 

 

٭٭ عمرو بن علی، عبدالرحمن، سفیان، ابو اسحاق، ابو احوص، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں اور بائیں جانب سلام پھیرتے تو فرماتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گال کی سفیدی اس جانب سے اور اس جانب سے نظر آ جاتی۔

 

 

٭٭ ابراہیم بن یعقوب، علی بن حسن بن شقیق، حسین بن واقد، ابو اسحاق، علقمہ و اسود و ابو احوص، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دائیں جانب سلام پھیرتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ۔ یہاں تک کہ دائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی پھر بائیں جانب سلام پھیرتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمۃُ اللَّہِ۔ یہاں تک کہ بائیں رخسار کی سفیدی نظر آتی۔

 

سلام کے وقت ہاتھوں سے اشارہ کرنا

 

احمد بن سلیمان، عبید اللہ بن موسی، اسرائیل، فرات القزاز، عبید اللہ، ابن قبطیٰۃ، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ نماز ادا کی تو ہم جس وقت سلام پھیرتے ہاتھوں کو اٹھاتے اور کہتے السَّلَامُ عَلَیْکُمْ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہماری طرف دیکھا اور فرمایا کیا حالت ہے۔ تمہاری اپنے ہاتھوں سے اشارہ کرتے ہو یا وہ دمیں ہیں شریر گھوڑوں کی۔ جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص نماز یا سلام پھیرے تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے نزدیک والے شخص کی جانب دیکھے لیکن ہاتھ سے اشارہ نہ کرے۔

 

 

جس وقت امام سلام کرے تو اس وقت مقتدی کو بھی کرنا چاہئے

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، معمر، زہری، محمود بن ربیع، عتبان بن مالک سے روایت ہے کہ میں اپنی قوم قبیلہ بنو سالم کی امامت میں مشغول رہا کرتا تھا کہ ایک مرتبہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میری آنکھوں کی روشنی رخصت ہو گئی ہے اور راستہ میں ندی نالے مجھ کو (دربار نبوی) اور مسجد نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضری سے روکتے ہیں تو میری خواہش ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میرے مکان پر تشریف لائیں اور کسی جگہ نماز پڑھ دیں جس کو میں مسجد بنا لوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا انشاء اللہ میں حاضر ہوں گا۔ چنانچہ صبح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تشریف لائے اور حضرت ابو بکر صدیق آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ تھے اور دن چڑھ گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے داخل ہونے کی اجازت طلب فرمائی میں نے اس کو اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیٹھے نہیں اور فرمایا تم اپنے مکان میں کس جگہ چاہتے ہو کہ میں نماز پڑھوں میں نے ایک جگہ کی نشاندہی کی جس جگہ میں چاہتا تھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نماز ادا کرنا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اقتداء میں صف باندھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز ادا فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ہی سلام پھیرا۔

 

نماز سے فراغت کے بعد سجدہ کرنے سے متعلق

 

سلیمان بن داؤد بن حماد بن سعد، ابن وہب، ابن ابو ذئب و عمرو بن حارث و یونس بن یزید، ابن شہاب، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز عشاء سے فراغت کے بعد نماز فجر ہونے تک گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اور ہر ان میں سے ایک رکعت وتر کی ہوتی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس قدر دیر تک سجدہ فرماتے جس قدر تاخیر تک تمہارے میں سے کوئی شخص پچاس آیات کریمہ پڑھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے سر کے اٹھانے سے قبل اور تمہارے میں سے ایک شخص دوسرے شخص سے زیادہ جلدی پڑھ سکتا ہے (مختصراً)

 

سلام پھیرنے اور گفتگو کرنے کے بعد سجدہ سہو

 

محمد بن آدم، حفص، اعمش، ابراہیم، علقمہ، عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا پھر گفتگو فرمائی اس کے بعد سہو کے سجدے فرمائے۔

 

سجدہ سہو کے بعد سلام

 

سوید بن نصر، عبداللہ بن مبارک، عکرمۃ بن عمار، ضمضم بن جوس، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سہو کے دو سجدے کئے بیٹھے ہی بیٹھے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، خالد، ابو قلابۃ، ابو مہلب، عمران بن حصین سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین رکعات ادا فرما کر سلام پھیر دیا تو حضرت خرباق (کہ جن کو ذوالیدین کہتے ہیں ) عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے تین رکعات پڑھیں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو رکعات باقی تھی اس کو پڑھا پھر سہو کے دو سجدے فرمائے پھر سلام پھیرا۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، عمرو بن عون، ابو عوانہ، ہلال، عبدالرحمن بن ابو لیلی، براء بن عازب سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو ایک روز غور سے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا کھڑا ہونا نماز میں پھر رکوع کرنا۔ پھر رکوع سے فراغت کے بعد کھڑے ہونا اور پھر سجدہ کرنا پھر سجدہ کر کے بیٹھ جانا پھر دوسرا سجدہ کرنا۔ پھر سلام پھیر کر بیٹھ جانا سب قریب قریب تھا یعنی ہر ایک دوسرے کے برابر تھا۔

 

 

٭٭ محمد بن سلمہ، ابن وہب، یونس، ابن شہاب، ہند بنت حارث، ام سلمہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دور میں خواتین نماز سے سلام پھیرتے ہی اٹھ جایا کرتی تھیں اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس جگہ پر بیٹھے رہتے تھے اور مرد حضرات بھی سب کے سب بیٹھے رہتے جس وقت تک خدا کو منظور ہوتا پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اٹھ جاتے تو مرد بھی اٹھ جاتے۔

 

سلام پھیرتے ہی اٹھ جانا

 

یعقوب بن ابراہیم، یحیی، سفیان، یعلی بن عطاء، جابر بن یزید بن اسود سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ نماز فجر ادا فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فراغت کے بعد فوراً ہی اٹھ گئے۔

 

امام کے سلام پھیرنے کے بعد تکبیر کہنے کے بارے میں

 

بشیر بن خالدعسکری، یحیی بن آدم، سفیان بن عیینہ ، عمرو، ابو معبد، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ مجھ کو جس وقت معلوم ہوتا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فارغ ہو گئے جبکہ تکبیر ہوتی۔

 

 

نماز سے فراغت کے بعد معوذ تین (سورۃ الفلق و سورہ ناس) کی تلاوت

 

محمد بن سلمہ، ابن وہب، لیث، حنین بن ابو حکیم، علی بن رباح، عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ہر ایک نماز کے بعد مجھ کو سورۃ الفلق اور سورہ الناس پڑھنے کا حکم فرمایا۔

 

سلام کے بعد استغفار پڑھنا

 

محمود بن خالد، ولید، ابو عمرو او زاعی، شداد، ابو عمار، ثوبان سے روایت ہے جو کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز سے فارغ ہو جایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم تین مرتبہ استغفار پڑھا کرتے تھے پھر ارشاد فرماتے یعنی اے اللہ! تو پر قسم کی برائی اور عیب سے سالم اور بری ہے اور تیری جانب سے ہماری سلامتی ہے تو بڑی برکت والا ہے تو اے بزرگی اور عزت والے !

 

استغفار کے بعد ذکر خداوندی میں مشغول ہونا

 

محمد بن عبدالاعلیٰ و محمد بن ابراہیم بن صدران، خالد، شعبہ، عاصم، عبداللہ بن حارث، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سلام پھیرتے تھے تو فرماتے (ترجمہ گزر چکا)۔

 

 

سلام کے بعد کیا دعا پڑھی جائے ؟

 

محمد بن شجاع المروذی، اسماعیل ابن علیٰۃ، حجاج بن ابو عثمان، ابو زبیر، عبداللہ بن زبیر سے روایت ہے کہ وہ فرماتے تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت سلام پھیرتے تو فرماتے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّٰۃَ إِلَّا بِاللَّہِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ أَہْلَ النِّعْمۃِ وَالْفَضْلِ وَالثَّنَائِ الْحَسَنِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ یعنی تیرے علاوہ کوئی سچا معبود نہیں ہے اے ذوالجلال والاکرام! اور تیرا کوئی بھی شریک نہیں ہے اس کی بادشاہت ہے اور اس کے واسطے تعریف ہے اور وہ ہر ایک بات پر قدرت رکھتا ہے گناہ سے بچا اور حفاظت نہیں ہے نہ طاقت ہے عبادت کی لیکن اللہ کی مد د سے ہم کسی دوسرے کی عبادت نہیں کرتے مگر اس ذات کی اور وہ ہی ذات لائق ہے نعمت اور فضل کے اور عمدہ تعریف کے کوئی سچا معبود نہیں علاوہ خدا کے ہم اس کی خالص عبادت کرتے ہیں اور اگرچہ مشرکین اور کفار برا مانیں۔

 

سلام کے بعد تسبیح پڑھنا اور ذکر کرنا

 

اسحاق بن ابراہیم، عبٍدۃ، ہشام بن عروہ، ابو زبیر سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن ابو زبیر ہر ایک نماز کے بعد اس طریقہ سے فرمایا کرتے تھے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّٰۃَ إِلَّا بِاللَّہِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ أَہْلَ النِّعْمۃِ وَالْفَضْلِ وَالثَّنَاءِ الْحَسَنِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ اور وہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان کلمات کو ہر ایک نماز کے بعد پڑھتے تھے۔

 

 

نماز کے بعد کی ایک اور دعا

 

محمد بن منصور، سفیان، عبٍدۃ بن ابو لبابۃ، عبدالملک بن اعین، وراد سے روایت ہے کہ جو مغیرہ بن شعبہ کے کاتب تھے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان نے مغیرہ بن شعبہ کو لکھا کہ مجھے تم وہ دعا بتلا جو کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہے۔ جو انہوں نے بیان کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز سے فارغ ہو جاتے تو فرماتے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّٰۃَ إِلَّا بِاللَّہِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ أَہْلَ النِّعْمۃِ وَالْفَضْلِ وَالثَّنَائِ الْحَسَنِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ یعنی کوئی سچا معبود نہیں ہے علاوہ خدا کے وہ تنہا ہے اور اس کا کوئی شریک اور حصہ دار نہیں ہے اس کی بادشاہت ہے تمام قسم کی تعریف اس کی شایان شان ہے اور جس کو تو روک دے اس کا کوئی دینے والا نہیں ہے اور تیرے عذاب سے مال دار کو اس کا مال نہیں بچا سکتا۔

 

 

٭٭ محمد بن قدامۃ، جریر، منصور، مسیب ابو العلاء، وراد سے روایت ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ نے حضرت معاویہ بن ابی سفیان کو لکھا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب سلام پھیرتے تھے تو نماز کے بعد فرماتے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّٰۃَ إِلَّا بِاللَّہِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ أَہْلَ النِّعْمۃِ وَالْفَضْلِ وَالثَّنَائِ الْحَسَنِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔

 

 

یہ دعا کتنی مرتبہ پڑھی جائے

 

حسن بن اسماعیل مجالدی، ہیثم، مغیرۃ، یعقوب بن ابراہیم، ہیثم، مغیرۃ، اشجعی، وراد سے روایت ہے کہ جو مغیرہ بن شعبہ کے کاتب تھے کہ حضرت معاویہ نے حضرت مغیرہ کو تحریر کیا میرے پاس وہ دعا تحریر کر کے بھیج دو کہ جو تم نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنی ہو۔ حضرت مغیرہ نے اس کا جواب لکھا کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سنا ہے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز پڑھ کر فرمایا کرتے تھے لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلَی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیرٌ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّٰۃَ إِلَّا بِاللَّہِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ لَا نَعْبُدُ إِلَّا إِیَّاہُ أَہْلَ النِّعْمۃِ وَالْفَضْلِ وَالثَّنَاءِ الْحَسَنِ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ مُخْلِصِینَ لَہُ الدِّینَ وَلَوْ کَرِہَ الْکَافِرُونَ۔ تین مرتبہ۔

 

سلام کے بعد کا ایک اور ذکر

 

محمد بن اسحاق ، ابو سلمہ خزاعی، منصور بن سلمہ، خلاد بن سلیمان، ابو سلمہ، خالد بن ابو عمران، عروہ، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب کسی مجلس میں بیٹھ جاتے یا نماز پڑھتے تو چند کلمات کہتے۔ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ان کلموں کے بارے میں دریافت کیا۔ عائشہ صدیقہ نے فرمایا کہ اگر وہ شخص نیک گفتگو کرتا ہے تو یہ جملے قیامت تک میری طرح ان پر قائم رہتے ہیں اور جو شخص دوسری قسم کی گفتگو کرے تو ان باتوں کا کفارہ ہو جاتے ہیں وہ کلمات یہ ہیں سُبْحَانَکَ اللَّہُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوبُ إِلَیْکَ

 

 

سلام کے بعد ایک دوسری قسم کی دعا

 

احمد بن سلیمان، قدامۃ، حبسرۃ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور کہنے لگی عذاب قبر پیشاب کے لگنے سے ہوتا ہے۔ اس پر میں نے کہا تو جھوٹی ہے۔ اس نے کہا نہیں سچ ہے ہم کو حکم ہے کہ اگر پیشاب کھال یا کپڑے پر لگ جائے تو اس کو کاٹ ڈالیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک دن نماز پڑھنے کے واسطے نکلے ہم گفتگو میں مشغول تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کیا بات ہے ؟ میں نے عرض کیا جو اس یہودی خاتون نے کہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا وہ خاتون سچ کہتی ہے پھر اس دن سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کوئی نماز نہیں پڑھی۔ لیکن نماز کے بعد فرمایا وہ خاتون سچ کہتی ہے۔ پھر نماز کے بعد ارشاد فرمایا (ہر نماز کے بعد پڑھا) رب جبرائیل و میکائیل۔ اے میرے پروردگار مجھ کو دوزخ کی گرمی اور عذاب قبر سے محفوظ فرما۔

 

ایک دوسری قسم کی دعا کے بارے میں

 

عمرو بن سواد بن اسود بن عمرو، ابن وہب، حفص بن میسرۃ، موسیٰ بن عقبۃ، عطاء بن ابو مروان سے روایت ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حلف سے کہا کہ اس نے خدا کی قسم اس ذات کی قسم کہ جس نے حضرت موسیٰ کے واسطے دریا کو چیر دیا کہ ہم نے تورات میں دیکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام جس وقت نماز سے فارغ ہوتے تو فرماتے آخر تک۔ یعنی اے خدا میرا دین درست فرما دے اور میری دنیا سنوار دے۔ جس میں کہ میرا رزق ہے اے اللہ میں پناہ مانگتا ہوں تیرے غصہ سے تیری رضامندی سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری معافی کی تیرے عذاب سے اور میں پناہ مانگتا ہوں تیری تجھ سے اور تیرے عنایت کئے ہوئے رزق کو کوئی روکنے اور منع کرنے والا نہیں ہے اور جس سے تو منع کر دے اور جس کو تو روک دے وہ کوئی دینے والا نہیں ہے اور دولت مند کی دولت تیرے سامنے کوئی کام نہ آئے گی۔ مروان نے نقل کیا حضرت صہیب نے ان سے نقل کیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز سے فارغ ہو جاتے تھے تو یہ جملے پڑھتے تھے۔

 

نماز کے بعد پناہ مانگنے کے بارے میں

 

عمرو بن علی، یحیی، عثمان شحام، مسلم بن ابو بکرہ سے روایت ہے کہ میرے والد نماز کے بعد فرماتے تھے اے خدا! میں پناہ مانگتا ہوں کفر سے اور فقر سے اور عذاب قبر سے۔ چنانچہ میں بھی کہنے لگا کہ میرے والد نے دریافت کیا کہ تم نے یہ جملے کس جگہ سے سیکھے ہیں۔ تو میں نے عرض کیا کہ آپ سے ہی سیکھے ہیں انہوں نے کہا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان جملوں کو نماز کے بعد پڑھا کرتے تھے۔

 

سلام کے بعد تسبیح کتنی مرتبہ پڑھنا چاہئے ؟

 

یحیی بن حبیب بن عربی، حماد، عطاء بن سائب، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ دو خصلتیں ہیں جن کو اگر کوئی مسلمان اختیار کرے تو وہ شخص جنت میں داخل ہو گا اور وہ آسان ہیں۔ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا پانچ وقت کی نمازیں خداوند قدوس کی تسبیح کرتی ہیں اور تمہارے میں سے ہر ایک شخص ہر ایک نماز کے بعد دس مرتبہ تسبیح کرے (یعنی پڑھے ) اور ہر ایک تمہارے میں سے ہر ایک نماز کے بعد دس مرتبہ کہے اور دس مرتبہ الحمد للہ پڑھے اور دس مرتبہ اللہ اکبر پڑھے تو تمام کا مجموعہ ایک سو پچاس کلمات ہو گئے۔ زبان پر ایک ہزار پانچ سو میزان پر کیونکہ ہر ایک نیک عمل کے عوض خداوند قدوس دس نیک عمل لکھتا ہے۔ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی انگلیوں پر ان جملوں کو شمار فرمایا کرتے تھے اور جس وقت تمہارے میں سے کوئی شخص اپنے بستر پر سونے کیلئے جائے تو اس کو چاہیے کہ وہ 33 مرتبہ پڑھے اور الحمد للہ بھی 33 مرتبہ ہی پڑھے اور اس کو چاہیے کہ وہ 34مرتبہ اللہ اکبر پڑھے تو یہ مجموعی عدد زبان پر ایک سو بن گیا اور میزان اعمال میں یہ عدد ایک ہزار بن گیا اور یہ عدد اور مذکورہ بالا عدد شامل کر کے (روزانہ میزان میں ڈھائی ہزار ہو گئے ) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ پھر تمہارے میں سے کون شخص دھائی ہزار گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس لئے کہ جس وقت روزانہ اس قدر گناہ کرے گا تب خداوند قدوس اس کے نیک اعمال سے آگے بڑھ سکتے ہیں اس طریقہ سے تو نیک اعمال ہی میں اضافہ ہوتا رہے گا لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان ہر دو عادت کا اختیار کرنا بڑا مشکل اور دشوار بنا دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ نماز کے درمیان شیطان حاضر ہوتا ہے اور نمازی سے کہتا ہے کہ تم فلاں وقت کی بات یاد کرو اور تم ذرا فلاں مقدمہ کو بھی یاد کرو (بس ان ہی جملوں کا کہنا نماز میں بھول پیدا کرتا ہے ) اسی طریقہ سے شیطان سونے کے وقت آتا ہے اور وہ یہ کلمات نہیں کہنے دیتا۔

 

ایک دوسری قسم کی تسبیح سے متعلق

 

محمد بن اسماعیل بن سمرہ، اسباط، عمرو بن قیس، حکم، عبدالرحمن بن ابی لیلی، کعب بن عجزٰۃ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز کے بعد متعدد الفاظ ہیں کہنے کے واسطے کہ جن کو پڑھنے والا شخص مایوس اور محروم نہیں ہو سکتا۔ 33مرتبہ کہنا اور 33 مرتبہ ہر ایک نماز کے بعد الحمد للہ کہنا اور 34 مرتبہ اللہ اکبر پڑھنا۔

 

 

٭٭ موسی بن حزام ترمذی، یحیی بن آدم، ابن ادریس، ہشام بن حسان، محمد بن سیرین، کثیر ابن افلح، زید بن ثابت سے روایت ہے کہ حضرات صحابہ کرام کو حکم ہوا ہر ایک نماز کے بعد 33مرتبہ کہنے کا اور 33مرتبہ الحمد للہ کہنے کا اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہنے کا کہ ایک شخص جو قبیلہ انصار کا تھا وہ حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا کہ تم 33 مرتبہ ہر ایک کلمہ کو پڑھو اور تم ایک مرتبہ لَا اِلہَ اِلَّا اللہ کہو صبح کے وقت انہوں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے عرض کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے تم اس طریقہ سے کرو۔

 

 

٭٭ عبید اللہ بن عبدالکریم ابو زرعہ الرازی، احمد بن عبداللہ بن یونس، علی بن فضیل بن عیاض، عبدالعزیز بن ابو داؤد، نافع، عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے خواب میں دیکھا اس شخص نے کسی دوسرے شخص سے دریافت کیا تم کو تمہارے پیغمبر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا حکم ارشاد فرمایا؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ ہم لوگوں کو حکم ہوا ہے 33 مرتبہ اور مرتبہ 33 الحمد للہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہنے کا یہ مجموعی عدد سو ہو گئے اس نے کہا کہ 33 مرتبہ کہو اور 33 مرتبہ الحمد پڑھو اور تم 33 مرتبہ اللہ اکبر کہو اور ایک مرتبہ لَا اِلہَ اِلَّا اللہ کہو پھر صبح کے وقت اس شخص نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے اس خواب کے بارے میں عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام سے فرمایا تم اسی طرح سے کرو جیسا کہ انصاری نے بیان کیا (یہ واضح رہے کہ وہ خواب درست تھا اور خداوند قدوس کی جانب سے تعلیم دی گئی تھی)۔

 

ایک دوسری قسم کی تسبیح سے متعلق احادیث

 

محمد بن بشار، محمد، شعبہ، محمد بن عبدالرحمن، طلحہ، کریب، عبداللہ ابن عباس، جویریٰۃ بنت حارث سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایک روز ان کے پاس سے گزرے تو دیکھا کہ وہ مسجد میں بیٹھی ہوئی دعا مانگ رہی ہیں پھر دوپہر کے وقت اس طرف گئے اور ان سے فرمایا کیا تم اب اس وقت تک اسی حالت میں ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں تم کو چار کلمات کی تعلیم دیتا ہوں تم ان کو پڑھا کرو وہ کلمات یہ ہیں تین مرتبہ اور تین ہی مرتبہ یہ دعا بھی تین مرتبہ اور یہ دعا بھی تین مرتبہ۔

 

ایک دوسری قسم کی تسبیح کے بارے میں

 

علی بن حجر، عتاب، ابن بشیر، خصیف، عکرمۃ و مجاہد، عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ فقیر اور محتاج لوگ ایک دن خدمت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ! مالدار لوگ ہم جیسی نماز ادا کرتے ہیں اور وہ لوگ ہم لوگوں جیسی نماز کے علاوہ ہم لوگوں جیسا روزہ رکھتے ہیں پھر ان کے پاس دولت ہے وہ اس دولت کو صدقہ کرتے ہیں اور اس سے وہ لوگ غلام خرید کر آزاد کرتے ہیں (ہم ان کی برابری کیسے کریں ؟) یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا تم لوگ نماز کے بعد 33 مرتبہ اور الحمد للہ 33 مرتبہ اور اللہ اکبر 33 مرتبہ اور لَا اِلہَ اِلَّا اللہ دس مرتبہ کہا کرو تو تم لوگ مذکورہ بالا لوگوں کے برابر پہنچ جاؤ گے ان لوگوں سے جو کہ تم سے آگے ہیں۔ یعنی درجات میں تم سے بڑھے ہوئے ہیں اور اس طریقہ سے تم لوگ اپنے سے بعد میں آنے والے لوگوں سے اور زیادہ آگے چلے جاؤ گے۔

 

ایک دوسری قسم کی دعا کے بارے میں

 

احمد بن حفص بن عبداللہ نیسابوری، ابراہیم یعنی ابن طہمان، حجاج بن حجاج، ابو زبیر، ابو علقمہ، ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا نماز فجر کے بعد جو شخص ایک سو مرتبہ کہے اور ایک سو مرتبہ لَا اِلہَ اِلَّا اللہ کہے تو اس شخص کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اگرچہ وہ گناہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔

 

تسبیح کے شمار کرنے کے بارے میں احادیث

 

محمد بن عبدالاعلیٰ صنعانی و حسین بن محمد، عثام بن علی، اعمش، عطاء بن سائب، عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو (انگلیوں پر) تسبیح شمار کرتے ہوئے دیکھا۔

 

سلام کے بعد چہرہ خشک نہ کرنے کے بارے میں

 

قتیبہ بن سعید، بکر، ابن مضر، ابن ہاد، محمد بن ابراہیم، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم (رمضان میں ) اعتکاف فرمایا کرتے تھے یعنی آخری عشرہ میں۔ جس وقت رات گزرنے کو ہوتی اور 21 ویں رات آتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر تشریف لے جاتے اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ اعتکاف کیا کرتے تھے تو وہ لوگ بھی اپنے مکانات کو واپس ہو جاتے تھے پھر ایک مہینہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس رات میں واپس آتے ٹھہرے رہے اور لوگوں کو خطبہ سنایا اور خدا کو جو منظور تھا اس کا لوگوں کو حکم فرمایا۔ پھر ارشاد فرمایا کہ میں اعتکاف کرتا تھا اس عشرہ میں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ بات مجھ کو بہتر معلوم ہوئی کہ میں اعتکاف کرتا تھا آخر عشرہ میں۔ تو جس آدمی نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہے وہ شخص اپنی جگہ قائم رہے اور میں نے رات کو یعنی شب قدر میں دیکھا ہے پھر میں بھول گیا اب تم اس کو آخری عشرہ میں تلاش کرو ہر ایک طاق رات میں اور میں نے دیکھا کہ میں اس رات میں کیچڑ میں سجدہ کرتا ہوں۔ ابو سعید نے نقل کیا کہ 21 ویں رات میں بارش ہوئی اور جس جگہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے تو اس جگہ پر بارش ہوئی میں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز فجر سے فارغ ہو گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا چہرہ پانی اور مٹی سے تر ہو گیا تھا (آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے چہرہ کو خشک نہ کیا)۔

 

نماز کے سلام کے بعد جس جگہ نماز پڑھی ہے اس جگہ امام کا بیٹھے رہنا

 

قتیبہ بن سعید، ابو احوص، سماک، جابر بن سمرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز فجر ادا فرماتے تو نماز کی جگہ پر بیٹھے رہتے سورج کے نکلنے تک۔

 

 

٭٭ احمد بن سلیمان، یحیی بن آدم، زہیر، سماک بن حرب سے روایت ہے کہ میں نے جابر بن سمرہ سے کہا کہ تم لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس بیٹھا کرتے تھے انہوں نے کہا جی ہاں ! رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جس وقت نماز فجر ادا فرماتے تو اسی طرح بیٹھے رہتے آفتاب کے طلوع ہونے تک پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنے صحابہ کرام سے گفتگو فرماتے وہ حضرات دور جاہلیت کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے اور اشعار پڑھتے اور ہنستے اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اس پر مسکراتے۔

 

 

نماز سے فارغ ہو کر کس طرف گھوما جائے ؟

 

قتیبہ بن سعید، ابو عوانۃ، سدی سے روایت ہے کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے دریافت کیا کہ جس وقت میں نماز سے فارغ ہو جاؤں تو میں کس جانب رخ کروں یعنی دائیں یا بائیں جانب رخ کروں ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ میں نے اکثر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دائیں جانب رخ پھیرتے ہوئے دیکھا ہے۔

 

 

٭٭ ابوحفص عمرو بن علی، یحیی، اعمش، عمارۃ، الاسود سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمایا تمہارے میں سے کوئی شخص اپنے اوپر شیطان کا ایک حصہ نہ لگائے یعنی جو بات شروع میں لازم نہیں ہے اس کو لازم نہ کر لے۔ یہ سمجھے کہ جس وقت نماز سے فراغت ہو جائے تو دائیں جانب اٹھ کر چلے حالانکہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اکثر اوقات میں بائیں جانب اٹھ کر جاتے تھے۔

 

 

٭٭ اسحاق بن ابراہیم، بقیٰۃ، زبیدی، مکحولا، مسروق بن الاجدع، عائشہ صدیقہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو کھڑے ہونے اور بیٹھ جانے کی حالت میں پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے اور نماز کے بعد دائیں اور بائیں طرف سے اٹھتے ہوئے پس معلوم ہوا کہ یہ سب باتیں درست ہیں اب اگر کوئی شخص ان میں سے کسی بات کو لازم یا فرض سمجھے مثلاً نماز میں ہوتے ہوئے لازمی سمجھے تو یہ شیطان کی تقلید ہے۔

 

خواتین نماز سے کس وقت فراغت حاصل کریں

 

علی بن خشرم، عیسیٰ بن یونس، اوزاعی، زہری، عروہ، عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ خواتین نماز فجر کی سنتیں پڑھتی تھیں پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سلام پھیر لیتے تھے تو خواتین چادریں لپیٹ کر واپس آ جاتیں تاکہ ان کی اندھیرے کی وجہ سے شناخت نہ کی جا سکے۔

 

اٹھنے میں امام سے جلدی کرنا ممنوع ہے

 

علی بن حجر، علی بن مسہر، مختار ابن فلفل، انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک دن نماز کی امامت فرمائی پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہم لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا قیام میں میں تم لوگوں کا امام ہوں اور تم لوگ رکوع اور سجدہ میں مجھ سے جلدی نہ کیا کرو چونکہ میں تم لوگوں کے آگے اور پیچھے کی جانب سے دیکھتا ہوں پھر فرمایا اس ذات کی قسم کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم لوگ دیکھو جو کچھ میں نے دیکھا ہے تو تم لوگوں کو بہت کم ہنسی آئے اور زیادہ رویا کرو۔ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کیا دیکھا؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں نے جنت اور دوزخ کو دیکھا ہے۔

 

جو شخص امام کے ساتھ نماز میں شریک ہو اور اس کی فراغت تک ساتھ رہے تو کیا ثواب ہے؟

 

اسماعیل بن مسعود، بشر بن مفضل، داؤد بن ابو ہند، ولید بن عبدالرحمن، جبیر بن نفیر، ابو ذر سے روایت ہے کہ ہم لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ رمضان المبارک کے روزے رکھے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز تراویح نہیں پڑھائی یہاں تک کہ سات رات باقی رہ گئیں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہو کر ایک تہائی رات تک نماز پڑھتے رہے پھر 24 ویں شب میں کھڑے نہیں ہوئے اور 25ویں رات میں کھڑے ہوئے آدھی رات تک۔ ہم لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم! کاش آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم زیادہ کھڑے ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا جس وقت انسان کسی دوسرے کے ساتھ نماز پڑھے اس سے فراغت تک تو اس کو تمام رات کھڑے ہونے کا اجر و ثواب ملے گا پھر 26ویں رات کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے نہیں ہوئے پھر جس وقت تین رات باقی رہ گئیں یعنی 27ویں رات کو تو کہلوایا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی لڑکیوں خواتین اور تمام حضرات کی جماعتوں کو اور کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہاں تک کہ ہم لوگ ایسا سمجھے کہ شاید سحری کا وقت ہی فوت ہو جائے۔ پھر باقی راتوں میں آپ کھڑے نہیں ہوئے۔ داؤد بن ابی ہندہ نے نقل کیا جو کہ اس حدیث کے راوی ہیں کہ میں نے حضرت داؤد سے دریافت کیا انہوں نے کہا کہ یہ سحری ہے یعنی سحری کا وقت ہو جانا مراد ہے۔

 

لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر امام کو نماز پڑھنے کیلئے جانا درست ہے

 

احمد بن بکار حرانی، بشر بن سری، عمر بن سعید بن ابو حسین نوفلی، ابن ابو ملیکۃ، عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کہ ہمراہ نماز عصر ادا کی مدینہ منورہ میں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نماز سے فراغت کے بعد لوگوں کی گردنیں پھلانگ کر چل دئیے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جلدی پر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے صحابہ کرام ساتھ ہو گئے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اپنی ایک زوجہ مطہرہ کے پاس تشریف لے گئے پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم باہر نکلے اور فرمایا کہ مجھ کو نماز عصر میں خیال آیا کہ ایک ڈلی سونے کی تھی یا چاندی کی تو مجھے برا لگا۔ اس وجہ سے میں نے جلدی اس کے تقسیم کرنے کا حکم دیا۔

 

جب نماز کا پوچھا جائے تو وہ شخص کہہ سکتا ہے نہیں پڑھی

 

اسماعیل بن مسعود و محمد بن عبدالاعلی، خالد، ابن حارث، ہشام، یحیی بن ابو کثیر، ابو سلمہ بن عبدالرحمن، جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے غزوہ خندق کے دن جس وقت کہ سورج غروب ہو گیا تھا تو انہوں نے مشرکین کو برا کہنا شروع کر دیا اور عرض کیا کہ یا رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نماز نہیں پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ خدا کی قسم میں نے ابھی تک نماز نہیں ادا کی۔ پھر ہم لوگ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ بطحان نامی جگہ ٹھہر گئے اور وضو فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز کے واسطے وضو فرمایا اور ہم لوگوں نے وضو فرمایا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے نماز عصر ادا کی سورج کے غروب ہونے کے بعد پھر نماز مغرب ادا کی۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.esnips.com/web/hadeesbooks

ایم ایس ایکسل سے تبدیلی، پروف ریڈنگ اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید