FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

سوات۔سیاحوں کی جنت

 

 وادیِ سوات کا تفصیلی اور جامع منظر نامہ

 

 

 

               فضل ربی راہی

 

 

بِسمِ اﷲ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم

 

 

 

وادیِ سوات، ایک تعارف

 

سوات کی سحر آگیں اور پُر بہار وادی سیر و سیاحت کے لئے دنیا بھر میں غیر معمولی شہرت کی حامل ہے۔ قدرت نے اس پُر فسوں خِطہ کو حُسن و دل کشی اور رعنائی و زیبائی کے اَن گنت رنگوں سے سجا دیا ہے۔ یہاں کی فضائیں عِطر بیز اور مناظر سحر انگیز ہیں۔ برف پوش چوٹیوں ، گن گناتے آبشاروں ،نباتات سے پُر، قدرتی صاف و شفاف پانی کے چشموں ، طلسماتی جھیلوں ، پُر شور دریائے سوات اور گل و لالہ کی اس مہکتی وادی کا ہر رنگ اتنا دِل پذیر اور طراوت بخش ہے کہ یہاں آنے والا ہر شخص اس کی خوب صورتی اور رعنائی میں کھو جاتا ہے۔

دنیا کے حسین ترین خطوں میں شامل یہ علاقہ، پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، جب کہ صوبائی دارالحکومت پشاور سے اس کا فاصلہ 170 کلومیٹر ہے۔ 1998ء کی مردم شماری و خانہ شماری کے مطابق ضلع سوات کی کل آبادی بارہ لاکھ ستاون ہزار چھ سو دو (1257602)ہے اور اس کا کل رقبہ 5337 مربع کلومیٹر پر پھیلاہوا ہے۔ اس کے شمال میں ضلع چترال، جنوب میں ضلع بونیر، مشرق میں ضلع شانگلہ، مغرب میں ضلع دیر اور ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاستِ امب(دربند) کا خوب صورت علاقہ واقع ہے۔

سوات کو تین طبعی حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(1) بالائی سوات (2) زیریں سوات (3) کوہستان سوات

قدرت نے وادیِ سوات کو بے حد حسین اور دل کش بنایا ہے۔ بلند و بالا سرسبز پہاڑ، پھلوں سے لدے پھندے درخت، صاف و شفاف پانی کی بپھری ہوئی ندیاں اور منہ زور دریا، گن گناتے چشمے اور شور مچاتے آبشار جنت کا منظر پیش کرتےہیں۔

سردی کے موسم میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے۔ اردگرد کے پہاڑ برف سےڈھک جاتےہیں۔ برف کی سپید چادر ہر چیز کو ڈھانپ لیتی ہے۔ گرمیوں میں جب برف پگھلتی ہے تو پوری وادی دھُل جاتی ہے۔ موسم خوش گوار ہو جاتا ہے، درختوں کو نئی زندگی ملتی ہے اور ہر طرف سبزہہی سبزہ نظر آنے لگتا ہے۔ رنگ برنگ پھول ذہن کو آسودگی اور دل کو راحت سے معمور کر دیتےہیں۔ہزاروں ، لاکھوں کی تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح سیر کے لئے آتےہیں اور یہاں کے دل کش مناظر سے محظوظ ہوتےہیں۔

٭٭٭

 

 

یہاں کے لوگ

 

جس طرح وادیِ سوات قدرتی حُسن و دل کشی سے مالا مال ہے، اسی طرح اس کے باشندے بھی ظاہری اور باطنی طور پر نہایت خوب صورت ہیں۔ یہاں پر زیادہ تر لوگ یوسف زئی پشتون ہیں تاہم کوہستانی باشندے بھی کافی تعداد میں آباد ہیں۔ کوہستانی لوگ یہاں کے پشتونوں کے ساتھ اخوت اور بھائی چارے کے رشتے میں گھل مل چکےہیں اور پشتون کلچر ان پر اس قدر غالب آ چکا ہے کہ وہ بھی خود کو پشتون کہلانے پر فخر محسوس کرتےہیں۔یہاں زیادہ تر پشتو زبان بولی جاتی ہے۔ تاہم کوہستانی علاقوں میں کوہستانی، گوجری، گاؤری اور قاشقاری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔سوات میں پنجابی اور ہندکو بولنے والے بھی رہتےہیں لیکن ان کی تعداد بہت کم ہے۔ اُردو یہاں کے قریباً تمام لوگ بول اور سمجھ سکتےہیں۔

وادیِ سوات کے باشندوں کو قدرت نے بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ یہاں کے اصل مکین فطری طور پر خوش اخلاق، ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔ اگر کوئی اجنبی ان سے کوئی جگہ یا راستہ معلوم کرنا چاہے تو وہ اس کو منزل پر چھوڑ آتےہیں۔ مہمانوں کی عزت اور تکریم کو اپنا فرض سمجھتےہیں۔ خصوصاً خواتین کا احترام بہت مقدم جانتےہیں۔

یہاں کا عمومی لباس شلوار اور قمیض ہے۔ خواتین بھی یہی لباس زیب تن کرتی ہیں۔ کوہستانی علاقوں کی خواتین ہاتھوں سے کڑھےہوئے روایتی لباس بڑے شوق سے پہنتی ہیں اور سوات کے روایتی چاندی اور سونے کے زیورات بھی استعمال کرتی ہیں جو سوات کی پُرانی تہذیب و ثقافت اور اُس دور کی مخصوص معاشرتی اقدار کے آئینہ دار ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

سوات کا تاریخی پسِ منظر

 

وادیِ سوات جہاں حسن و دل کشی کا حسین مرقع ہے، وہاں تاریخی اعتبار سے بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ قدیم زمانے میں یہ اپنی خوب صورتی اور شادابی کی وجہ سے بہت سے حملہ آوروں کی شکار رہ چکی ہے۔ لیکن یہاں کے رہنے والوں نےہر دور میں غلامی کی زندگی پر موت کو ترجیح دی ہے اور کسی بھی دور میں کسی کے زیر نگین رہنا قبول نہیں نہیں کیا۔ اس مَردم خیز سرزمین نے بہت سی قابل اور تاریخ ساز شخصیات کو جنم دیا ہے۔ جنہوں نے اپنے غیر معمولی کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے اوراق میں خود کو زندہ و پائندہ کر دیا ہے۔

قدیمی کتب میں سوات کا ذکر مختلف ناموں سے آیا ہے۔ جن میں سواستوس، سواد، اساکینی اور اُودیانہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ اُودیانہ(Udyana) سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں گلستان یا باغ۔ وادیِ سوات کی بے پناہ خوب صورتی اور اُس کے حسین مناظر اور دل کشی کے باعث اُس کا اودیانہ نام زیادہ خوب صورت اور موزوں نظر آتا ہے کیوں کہ اس نام پر سوات کو باغ اور گلستان سے تشبیہہ دی گئی ہے اور اُس کا یہ نام اسم بامُسمّٰی ہے۔ یونانی مورخین نے، جو سکندر اعظم کے ساتھ یہاں آئے تھے، اپنی رسم کے مطابق اس علاقہ کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا ہے۔جواَب دریائے سوات اور اس عہدِ قدیم میں سواستو (Swastu) کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا

(Sweta) سے مشتق ہے جس کے معنی سپید کےہیں۔ یقین کیا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اُسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہو گا جو بعد میں چل کر سواد، جیسا کہ مغل بادشاہ بابر کی تحریر سے ظاہر ہوتا ہے، اور پھر سوات بن گیا۔

چھٹی صدی (ق۔م) سے لے کر جب یہ علاقہ ایرانی شہنشاہوں کی عظیم سلطنت کا ایک حصہ تھا،موجودہ دور تک سوات نے بڑے اہم انقلابات دیکھےہیں۔ڈھائی ہزار (ق۔م) میں آریائی نسل کے لوگ جب برصغیر میں داخل ہوئے تو وہ اسی وادی سےہو کر گزرے تھے۔

326 (ق۔م) میں سکندر اعظم ایران کو فتح کر کے کابل کے راستےہندوستان پر حملہ آور ہوا تو وہ علاقہ کونڑ(Conar) کابل سےہوتا ہوا وادیِ سوات میں داخل ہوا اور سوات کے بانڈئ نامی گاؤں کے قریب دریائے سوات کو عبور کر کے منگلور(سوات) تک پیش قدمی کی۔ سکندر اعظم اپنی فوج کےہمراہ منگلور سے باہر ایک بڑے میدان میں مقیم ہو گیا۔ یہاں ایک زبردست معرکہ کے بعد جنگ بندی ہوئی اور سکندر اعظم اپنی من مانی شرائط منوا کر سوات میں مزید پیش قدمی کرتا ہوا آگے بڑھا اور دریائے سندھ کو عبور کر کے پنجاب میں داخل ہوا۔ سکندر کے زمانے میں سوات کا راجہ ارنس تھا، جسے سکندر نے شکست دی تھی۔ تاریخ میں مذکور ہے کہ سکندرِ اعظم کو اپنی فتوحات کے دوران صرف سوات میں سخت ترین مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا تھا جس میں وہ زخمی بھی ہوا۔اُس وقت یہاں کے لوگ بُدھ مذہب کے پیروکار تھے۔

100ء میں سوات میں بُدھ مت عروج پر تھا۔ اس وقت سوات سلطنت گندھارا کا ایک اہم حصہ تھا اور اس پر راجہ کنشک کی حکم رانی تھی۔ جس کا پایہ تخت پشاور تھا۔

403ء میں مشہور چینی سیاح اور بُدھ مت کے مقدس مقامات کا زائر فاھیان سوات آیا۔519ء میں ایک اور مشہور چینی سیاح سنگ یون کافرستان سےہوتا ہوا سوات میں داخل ہوا۔ 630ء میں چین کا ایک تیسرا معروف سیاح، بُدھ مذہب کا عالم اور زائر ہیون سانگ کابل سےہوتا ہوا سوات آیا۔ چینی سیاحوں میں آخری مشہور سیاح وکنگ تھا جو 752ء میں سوات آیا۔ ان چینی سیاحوں نے اپنے اپنے سفرناموں میں سوات کے اس وقت کے مذہبی ، معاشی، تہذیبی اور ثقافتی حالات کے متعلق تفصیلاً لکھا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت سوات میں بُدھ مت کا دور دورہ تھا اور یہاں کے لوگ کافی ترقی یافتہ اور خوش حال تھے۔

گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنویؒ کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں جنہوں نے اس وقت کے راجہ گیرا نامی حکم ران کو شکست دے کر سرزمینِ سوات کو اسلام کی ابدی قندیل سے روشن و تاباں کر دیا۔

1485ء میں کابل کے چغتائی ترک حکم ران الغ بیگ نے قبیلہ یوسفزئی کی سرکردہ شخصیتوں کو دھوکہ سے قتل کر دیا۔ شیخ ملی اور ملک احمد خوش قسمتی سے اس قتل عام سے بچ کر اپنے بچے کھچے قبیلے کےہمراہ پشاور میں داخل ہوئے اور ایک طویل لڑائی کے بعد یوسف زئی قبیلہ پشاور، مردان اور سوات پر قابض ہو گیا۔

1515ء میں سوات کے بادشاہ سلطان اویس کو تخت و تاج سے معزول کر کے سوات کے پُرانے باشندوں کو مانسہرہ ،ہزارہ چلے جانے پر مجبور کر  دیا گیا۔

1516ء میں جب مغل بادشاہ بابر افغانستان سےہندوستان پر حملہ کرنے کی غرض سے جا رہا تھا تو اس نے سب سے پہلے سوات پر لشکر کشی کی لیکن اُسے یہاں مُنہ کی کھانی پڑی۔ آخر یوسف زئی قبیلہ کے سردار شاہ منصور کی بیٹی سے مصلحتاً (ڈپلومیٹک) شادی کی اور یہاں کے یوسف زئی قبیلہ کے باشندوں سے صلح کر کے انہیں اپنے لشکر میں شامل کیا اور بعد میں ہندوستان کو فتح کر لیا۔

1530ء میں شیخ ملیؒ نے ویش (زمینوں کی تقسیم) کا طریقہ رائج کیا اور یوسف زئی قبیلہ میں زمینوں کی باقاعدہ تقسیم عمل میں لائی گئی۔بابر کے مرنے کے بعد اُس کے بیٹےہمایوں نے سوات کو بزورِ شمشیر فتح کرنا چاہا لیکن کامیاب نہہو سکا۔ اِسی طرح تاریخ کا یہ دور گزرتا ہوا اکبر بادشاہ تک آن پہنچتا ہے جس نے 1586ء میں سوات پر حملہ کیا لیکن شکست کھا کر پسپا ہونے پر مجبور ہوا۔

1825ء میں سید احمد شہید نے ان علاقوں (پنجتار) میں سکونت اختیار کر لی اور اپنی سرکردگی میں بہت سے مجاہدوں کو سکھوں کے خلاف جہاد میں شامل کر لیا۔

1850ء تک سوات میں کوئی سیاسی تنظیم نہیں تھی اس لئے اس علاقہ کی سالمیت کے لئے اس دور کے خوانین اور رؤسا کی مشاورت سے حضرت اخوند عبدالغفور (سیدو بابا) نے پیر بابا کی اولاد میں سے سید اکبر شاہ کو 1850ء میں سوات کی پہلی شرعی حکومت کا امیر منتخب کیا لیکن 11مئی1857ء میں ان کی وفات کے بعد سوات پھر سیاسی افراتفری اور امنِ عامہ کی ابتری کا شکار ہوا۔

1863 ء میں امبیلہ کے مقام پر انگریزوں کے ساتھ سخت جنگ ہوئی۔ لیکن یہاں کے باشندوں نے سخت مزاحمت کی جس کے باعث انگریز سوات فتح کرنے میں ناکام رہے۔

1876-77ء میں اخون صاحب (سیدو بابا) وفات پا گئے۔ اخون صاحب اور سید اکبر کی اولاد میں سوات کی بادشاہت کے لئے ایک طویل کش مکش شروع ہو گئی جو دیر اور باجوڑ کی سیاسی کش مکش میں ملوث ہونے کی وجہ سے اور بھی پیچیدہ صورت اختیار کر گئی۔

1881ء میں میاں گل عبدالودود ( جو بعد میں  بانیِ سوات بنے اور بادشاہ صاحب کے نام سے مشہور ہوئے) اخون صاحب کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبد الخالق کےہاں پیدا ہوئے۔

1887ء میں میاں گل عبدالحنان اخون صاحب کے بڑے بیٹے ریاست بنانے میں ناکام ہوئے اور وفات پا گئے۔

1895ء اور 1897ء میں انگریزوں نے ملاکنڈ کے راستے سے سوات پر دو الگ الگ حملے کئے مگر سوات کے بہادر عوام نے اُن کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اِن معرکوں میں دیر، باجوڑ، بونیر اور موجودہ ملاکنڈ ایجنسی کے لوگ بھی شامل تھے۔

1903-07ء میں میاں گل عبدالرزاق اور میاں گل عبد الواحد، جو اخوند صاحب کے بڑے فرزند کے بیٹے تھے، اپنے چچا زاد بھائی میاں گل عبدالودود کے ہاتھوں قتل ہوئے اور میاں گل عبدالودود اخون صاحب کی تمام روحانی اور مادی میراث کے واحد وارث قرار پائے۔ اسی طرح سیاسی اقتدار کے لئے سخت کش مکش ختم ہو گئی۔

سوات میں مچی مسلسل افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سید عبدالجبار شاہ نامی ایک شخص نے 1914ء میں دریائے سوات کے پار شمالی علاقوں میں اپنی حکومت قائم کی۔ بعد میں میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) جو سیدوبابا کے پوتے بھی تھے، نے عبدالجبار شاہ سے حکومت کی باگ ڈور چھین کر 1917ء میں اپنی باقاعدہ حکومت کی بنیاد ڈالی۔1917ء سے 1926ء تک اندرونی طور پر ریاست سوات کی تشکیل و تعمیر اور اختیارات کے استحکام کے لئے تیز کوششیں شروع کی گئیں۔ سڑکیں ، ٹیلی فون اور قلعہ جات وغیرہ بنائے گئے۔ بیرونی طور پر مختلف جنگوں کے ذریعے اس نوزائیدہ ریاست کی حدود وسیع کی گئیں اور از سر نو ان کا تعین کیا گیا۔برطانوی حکومت کی طرف سے رسمی طور پر ریاست سوات کو 1924ء میں تسلیم کیا گیا اور میاں گل عبدالودود کی حکم رانِ سوات کی حیثیت سے تخت نشینی عمل میں لائی گئی۔1947ء میں ریاست سوات کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کیا گیا۔

12 دسمبر 1949ء کو میاں گل عبدالودود نے عنانِ حکومت اپنے فرزند شہزادہ محمد عبدالحق جہان زیب (سوالیِ سوات) کو سونپ دیئے۔ جنہوں نے سوات کو ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست بنانے کی پوری کوشش کی اور سوات کی تعمیر و ترقی میں ایک ناقابلِ فراموش اور زندۂ جاوید کردار ادا کیا۔

28 جولائی 1969 ء میں ریاستِ سوات کو پاکستان میں ایک ضلع کی حیثیت سے ضم کر دیا گیا اور یہاں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر اور دیگر انتظامی اہل کاروں کی تعیناتی عمل میں لائی گئی۔

 

٭٭٭

 

 

 

دریائے سوات

 

وادیِ سوات کی تمام تر خوب صورتی، رعنائی اور شادابی کا انحصار دریائے سوات پر ہے۔دریائے سوات ہی کی بدولت سوات کی تمام وادیاں قدرتی حُسن و جمال کا مظہر دکھائی دیتی ہیں اور اس کا ہر گوشہ سرسبز و شاداب نظر آتا ہے۔ سوات کی تقریباً تمام قابل دید وادیاں ، دریائے سوات ہی کے کنارے آباد ہیں۔ ان میں اتروڑ،گبرال، اوشو،مٹلتان، گلیشیئر، کالام، بحرین، مدین، باغ ڈھیرئ، خوازہ خیلہ، شین، چارباغ اور منگورہ شامل ہیں۔

دریائے سوات، وادیِ کالام سے لے کر ملاکنڈ کے بجلی گھر تک سو میل کا فاصلہ طے کرتا ہے۔ اس دوران یہ وسیع و عریض علاقے کو سیراب کر کے اس کی شادابی اور رعنائی کا باعث بنتا ہے۔

دریائے سوات اتنا ہی قدیم ہے جتنی قدامت سوات کی خوب صورت سرزمین کو حاصل ہے۔ ہزاروں سال قبل تو سوات اور بھی حسین اور دل کش تھا۔اس وقت سوات جدید دور کی مشینی آلائشوں کی دست برد سے قطعی محفوظ تھا اور نہ صرف اس کی فضائیں پرکشش اور خوش رنگ پھولوں اور گھنے جنگلات کی وجہ سے معنبر تھیں بلکہ پوری وادیِ سوات میں جو ندیاں ، نالے، آبشار اور دریا تھے وہ ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھے۔ دریائے سوات کے غیر معمولی طور پر پاک و شفاف سپید پانی کی وجہ سے سکندرِ اعظم کے ساتھ آئے ہوئے مؤرخین نے اس علاقے کا ذکر اس کے دریا کی نسبت سے کیا تھا موجودہ دریائے سوات اس قدیم عہد میں ’’سواستو‘‘ کہلاتا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ لفظ سویتا سے مشتق ہے جس کے معنی ’’سپید‘‘ کے ہیں۔

مشہور چینی سیاح ہیون سانگ نے بھی یہاں کے سپید پانی کا خصوصی ذکر کیا ہے اور گیارھویں صدی عیسوی میں البیرونی بھی سوات کے شفاف پانی کا ذکر کرتا ہے اور موجودہ وقت میں بھی سوات کے صاف و شفاف، چاندی کی طرح چمکتے ہوئے پانی کو دیکھا جائے تو عجیب سی مسرت محسوس ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ دریائے سوات کے قریب ’’سپینے اوبہ‘‘ (سپید پانی) کے نام سے ایک بستی بھی موجود ہے۔اس لئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس علاقے کے صاف و شفاف سپید پانی کے ندی نالوں اور دریا کی وجہ سے اسے ’’سواستو‘‘ یا ’’سویتا‘‘ پکارا گیا ہو گا۔ جو بعد میں چل کر ’’سواد‘‘ اور پھر  ’’سوات‘‘ بن گیا۔

مشہور چینی سیاح سنگ یون 502ء میں کافرستان (چترال) سے ہوتا ہوا سوات آیا تھا اس نے اپنے سفر نامے میں دریائے سوات کا ذکر ’’دریائے سوٹو‘‘ کے نام سے کیا ہے۔ بعض تاریخی کتب میں اس کے نام ’’دریائے سوتی‘‘ یا سواستو اور ’’سولتاس‘‘ بھی ملتے ہیں جو چار ہزار سال قدیم زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس دریا کے نام کی مناسبت سے اس علاقے کا نام بھی ’’سوتی‘‘یا’’سواستی‘‘ مشہور تھا جو بعد میں ’’سواد‘‘ یا ’’سوات‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ دریائے سوات کو سنسکرت میں ’’گوری‘‘ کا نام بھی دیا گیا اور قدیم مصنّفین کے ’’سوساتوس دریا‘‘(دریائے سوات) کا ذکر مقدس رگ وید میں بھی موجود ہے اور مہا بھارت میں بھی اسے یاد کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں یونانی سیاح ایرین نے بھی اپنی تحریروں میں اس کا تذکرہ کیا ہے۔

بہرحال مختلف ادوار میں دریائے سوات کو مختلف توصیفی ناموں سے نوازا گیا ہے اور ہر قوم اور حملہ آور نے اس کا نام اپنے مزاج اور روایات کے مطابق رکھا۔ موجودہ دور میں اس کا معروف نام ’’دریائے سوات‘‘ ہے اور جب یہ دریا وادیِ سوات کی حدود سے باہر نکل جاتا ہے تو دریائے پنج کوڑہ (دیر) کا معاون ہونے کی وجہ سے اسے ’’دریائے پنج کوڑہ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ جب کہ وادیِ پشاور اور چارسدہ میں یہ دریا ’’جیندی‘‘ اور ’’خیالی‘‘ کے ناموں سے مشہور ہے۔

دریائے سوات کی مجموعی لمبائی ’’کالام‘‘ سے ضلع چارسدہ میں ’’نِستہ‘‘ تک قریباً 210 کلومیٹر بنتی ہے۔ یہ حسین دریا اپنا سفر طے کرتے ہوئے کہیں تو محجوب ہو کر سکڑ سمٹ جاتا ہے اور کہیں فخر سے سینہ پھُلا کر بہنے لگتا ہے، چناں چہ وادیِ بحرین اور کالام کے درمیان اس کی چوڑائی پچاس فٹ رہ جاتی ہے جب کہ سوات کی ایک خوب صورت وادی ننگولئی میں اور منگورہ میں فضا گٹ پارک کے قریب اس دریا کا پاٹ دو کلومیٹر تک چوڑا ہو جاتا ہے۔

دریائے سوات کو عبور کرنے کے لئے جگہ جگہ چھوٹے بڑے پل بنائے گئے ہیں۔ ان پلوں میں مضبوط اور جدید طرز کے پلوں کی تعداد سات ہے جن میں کالام،بحرین، خوازہ خیلہ، کانجو، شموزی(بریکوٹ) اور چک درہ کے پل شامل ہیں۔ اب جاپان کے تعاون سے جگہ جگہ جدید ’’سسپینشن پل‘‘ تعمیر کئے جا رہے ہیں جن میں سے ایک پل بحرین کے قریب ’’گورنئی‘‘ کے مقام پر تعمیر کیا گیا ہے۔ دریا پر بنائے گئے رسیوں اور لکڑی کے پل بے شمار ہیں۔ تیز بہاؤ والے علاقوں میں دریا کے اوپر مضبوط رسی تان کر باندھ دی جاتی ہے اور دوسری طرف اسی کے ذریعے اس کے ساتھ ڈھول نما کھٹولا باندھا جاتا ہے جس کے ساتھ مخالف اور موافق دونوں سمتوں سے رسی منسلک ہوتی ہے۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے کی طرف جاتے ہوئے ایک جانب کی رسی کوئی دوسرا شخص کھینچ لیتا ہے اور کھٹولا اسی سمت چلنے لگتا ہے۔

اس قسم کے کھٹولے کو مقام زبان میں ’’زانگوٹی‘‘ کہا جاتا ہے۔ دریا عبور کرنے کا یہ طریقہ خالصتاً مقامی ہونے کے ساتھ ساتھ دل چسپ اور ’’پر خوف‘‘ بھی ہے۔

دریا پار کرنے کا ایک ذریعہ چیئر لفٹ کی طرز پر بنائی گئی ’’زانگوٹیاں ‘‘ بھی ہیں جو پک اَپ کے انجن کے ذریعہ دو مضبوط رسیوں سے منسلک ہوتی ہیں۔ جہاں پل نہیں ہیں ، وہاں لوگ مقامی ساخت کی کشتیوں کے ذریعہ دریا عبور کرتے ہیں۔ اس قسم کی کشتی کو ’’جالہ‘‘ کہا جاتا ہے۔

دریائے سوات کا منبع ایک نہیں ہے بلکہ اس کے کئی منبعے ہیں۔ یہ دریا کوہِ ہندوکش کی اوٹ میں واقع ’’سوات کوہستان‘‘ کے علاقوں سے نکلتا ہے اور مختلف مقامات پر اس کے ساتھ ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا ایک منبع کالام کوہستان میں ’’جل گہ‘‘ کے مقام پر ہے۔ ’’جل‘‘ کوہستانی زبان میں پانی اور ’’ گہ‘‘ ندی کو کہتے ہیں۔ اس علاقے میں اسے ’’دریائے جل گہ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، تاہم اسے صحیح معنوں میں ان منبعوں نے ’’دریائے سوات‘‘ بنا دیا ہے۔ مہوڈنڈ، کنڈلوڈنڈ، دریائے گبرال، گبرال کے قرب و جوار میں واقع خوب صورت مقامات گل آباد اور غوائی بیلہ کے ندی نالے اور درال ڈنڈ وغیرہ۔

دریائے سوات کالام سے وادیِ مدین تک تنگ گھاٹیوں اور بڑی بڑی چٹانوں کو پھلانگتا ،کہیں گن گناتا اور کہیں دھاڑتا ہوا چالیس کلومیٹرکا راستہ طے کرتا ہے۔ وادیِ مدین میں اس کا پاٹ یک دم چوڑا ہو جاتا ہے اور یہاں اس کے ساتھ مشرق کی طرف سے آتا ہوا دریائے بشی گرام بھی شامل ہو جاتا ہے۔ دریائے سوات کا معاون دریائے بشی گرام، بشی گرام جھیل سے نکلا ہوا ہے۔ جس کے ساتھ راستے بھر میں برف پوش چوٹیوں اور مختلف چشموں سے نکلے ہوئے پاک و شفاف ندی نالے شامل ہوتے چلے گئے ہیں جو دریائے سوات کی مزید وسعت اور تندی و تیزی کا باعث بنتے ہیں۔باغ ڈھیرئ اور شین کے مقام پر دریائے سوات کے کنارے پُر لطف اور محفوظ کیمپنگ ایک خاص شہرت رکھتی ہے۔ یہاں اکثر و بیشتر دریا کے کنارے مخصوص مقامات پر سیاحوں کی ٹولیاں کیمپنگ سے محظوظ ہوتی نظر آتی ہیں۔ منگورہ تک پہنچتے ہوئے دریائے سوات کے ساتھ متعدد جگہوں پر مزید ندی نالے شامل ہوتے چلے جاتے ہیں اور بالآخر یہ دریا ضلع چارسدہ میں ’’نِستہ‘‘ کے مقام پر دریائے کابل میں ضم ہو جاتا ہے۔

ملاکنڈ اور امان درہ کے مقام پر دریائے سوات سے دو نہریں نکالی گئی ہیں۔ ان پر درگئی بجلی گھر (پَن) اور ملاکنڈ بجلی گھر(پَن) بنائے گئے ہیں ، جنہیں ملکِ عزیز کے سب سے پرانے پاور ہائیڈرو الیکٹرک ورکس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ یہ بجلی گھر عرصہ دراز سے ملک کو مقدور بھر بجلی فراہم کرنے کے باعث بنے ہوئے ہیں۔ حکومت اگر چاہے تو کالام اور سوات کی دوسری ذیلی وادیوں میں دریائے سوات پر مزید بجلی گھروں کی تعمیر کا مربوط منصوبہ بنا کر ان کے ذریعے ملک بھر کے لئے کافی بجلی پیدا کر سکتی ہے۔ یہ بجلی تھرمل بجلی گھروں میں پیدا ہونے والی بجلی کی نسبت بہت سستی پڑے گی۔

دریائے سوات اپنی قدامت کے باعث بھی تاریخ کے اوراق میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے کنارے دنیا کی کئی مشہور تہذیبیں پھلی پھولیں اور عروج کی منزلیں طے کر کے زوال پذیر ہوئیں۔ اس کی اسی اہمیت کے باعث اس دریا کا ذکر ہندوؤں کی مشہور مذہبی کتاب رگ وید میں بھی آیا ہے۔

سوات میں بدھ مت کے دورِ عروج میں اس کے کنارے سینکڑوں خانقاہیں اور بدھ مت کے علمی مراکز قائم تھے جن میں بدھ مت کے ہزاروں طالب علموں کو علم کے زیور سے آراستہ کیا جاتا تھا۔ ان بدھ خانقاہوں اور عبادت خانوں کا ذکر مشہور چینی سیاحوں نے بھی اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ چینی سیاح سنگ یون نے دریائے سوات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’رات کے وقت خانقاہوں میں اتنی کثرت سے گھنٹیاں بج اٹھتی ہیں کہ تمام فضا گونج اٹھتی ہے۔ ’’دریائے سوٹو‘‘ (دریائے سوات) کے کنارے بہت سی خانقاہیں آباد ہیں۔ سوات سرسبز و شاداب علاقہ ہے اور یہاں کے باشندوں کا گزارہ کھیتی باڑی پر ہے۔‘‘

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ دریائے سوات ایک قدیم دریا ہے اور اس کا مختلف مذہبوں اور تہذیبوں سے گہرا تعلق رہا ہے اور اس دریا کے سبب یہ علاقہ قدیم زمانے سے ہی سرسبز و شاداب اور زرخیز چلا آ رہا ہے۔

دریائے سوات انسانوں کے لئے طرح طرح کی نعمتیں لے کر آتا ہے۔ اس کے پانی سے متعدد فصلیں سیراب ہوتی ہیں جن میں مکئی، دھان اور گندم شامل ہیں۔ کئی طرح کی سبزیاں مثلاً آلو، مٹر، شلجم، گوبھی، ٹماٹر اور سرسوں اس دریا کی بدولت انسان کو نصیب ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد خوش ذائقہ پھل مثلاً خوبانی، آلوچہ، اسٹرابری، لوکاٹ، سیب، ناشپاتی، مالٹا، انگور، اخروٹ، شفتالو(آڑو) اور چائنا املوک کے درختوں کے لئے حیات بخش پانی، دریائے سوات ہی لے کر آتا ہے، یہی نہیں بلکہ دریائے سوات کے کنارے گلاب، گلِ نرگس، غانٹول، بنفشہ، پھلواری، ریحان اور دیگر طرح طرح کے خوشبودار اور دھنک رنگ پھول بھی کھلتے ہیں جو حسین سرزمینِ سوات کے حُسن کو مزید زیبائی عطا کرتے ہیں۔

قدرت نے دریائے سوات میں جو مچھلیاں پیدا کی ہیں ان میں ٹراؤٹ مچھلی سب سے زیادہ مشہور ہے۔ اس کے علاوہ مہاشیر مچھلی اور سواتی مچھلی بھی پائی جاتی ہے۔ ٹراؤٹ مچھلی بہت سرد پانی میں ملتی ہے۔ اس کا ذائقہ نہایت لذیذ اور بے مثال ہوتا ہے۔ ان مچھلیوں کا شکار کانٹے، جال، بجلی کے کرنٹ اور ڈائنامائٹ کے ذریعہ کیا جاتا ہے۔ تاہم کرنٹ اور ڈائنامائٹ کے ذریعہ مچھلی کا شکار غیر قانونی ہے البتہ محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں سے لائسنس لے کر مچھلی کا شکار مروجہ طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔

دریائے سوات کا پانی کسی زمانے میں بہت صاف و شفاف تھا اور ہر قسم کی آلودگی سے پاک تھا لیکن جب سے سوات میں ہوٹلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ دریا کا شفاف پانی بھی قدرے آلودہ ہو گیا ہے۔ مقامی انتظامیہ نے دریائے سوات کے کنارے واقع ہوٹلوں پر پابندی عائد کی تھی کہ ان کا کوڑا کرکٹ اور فضلہ دریا میں نہیں پھینکا جائے لیکن اس پابندی پر پوری طرح عمل درآمد نہیں ہو پایا ہے۔ اس ضمن میں سخت کارروائی کی ضرورت ہے۔

’’سوات کوہستان‘‘ کے پہاڑوں سے نکلا ہوا دریائے سوات پشتو زبان و ادب میں بھی کافی عمل دخل رکھتا ہے۔ اس دریا کی وجہ سے بہت سے ٹپے، چار بیتے (پشتو زبان و ادب کی مخصوص اصناف) اور ضرب الامثال وجود میں آئے ہیں۔ پشتو زبان کے بڑے بڑے شاعروں نے اس دریا کا ذکر اپنے اشعار میں بڑی خو ب صورتی اور برجستگی کے ساتھ کیا ہے۔ جن میں خوش حال خان خٹک، علی خان، بیدل، پروفیسر محمد نواز طائر، محمد اسلام ارمانی اور دیگر قدیم و جدید شعرائے کرام شامل ہیں۔

موجودہ دور کے ایک مشہور پشتو شاعر نصراللہ خان نصرؔ(مرحوم) کی ایک پشتو نظم کے چند اشعار کا درج ذیل ترجمہ سوات اور دریائے سوات کی تاریخی عظمت ، قدامت اور دریائے سوات کے کنارے جنم لینے والی تہذیبوں اور تمدنوں کے متعلق کیسی خوب صورت منظر کشی کرتا ہے:

سر زمینِ سوات تیری منفرد اک شان ہے

تیرا ذرہ ذرہ ہے تاریخ و تہذیبوں کا گھر

تیرے دامن میں ہے کھولی کتنی تہذیبوں نے آنکھ

تیرے ہر منظر میں جنت کی بہاریں جلوہ گر

تیری وادی میں دراوڑ بھی رہے، منگول بھی

آریاؤں کو ہے لایا حُسن تیرا کھینچ کر

٭٭٭

 

 

 

 

موسم اور آب و ہوا

 

فلک بوس پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں میں گھری ہوئی وادیِ سوات کا موسم سال کے بیشتر مہینوں میں نہایت معتدل اور خوش گوار رہتا ہے۔ زیریں سوات میں گرمیوں میں نہ ہی شدید گرمی پڑتی ہے اور نہ ہی سردیوں میں شدید سردی۔ تاہم جولائی اور اگست کے مہینوں میں گرمی کی حِدت زیادہ محسوس ہوتی ہے اس طرح جنوری اور فروری کے مہینوں میں شدید برف باری کی وجہ سے یخ بستہ ہوائیں سردی کی شدت کا احساس دلاتی ہیں۔

 

               درجۂ حرارت

 

یہاں موسمِ گرما میں مئی سے ستمبر تک زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 37.77 اور اکتوبر سے مارچ تک 26.66 سنٹی گریڈ رہتا ہے۔ سردی کے موسم میں کم سے کم درجۂ حرارت صفر سے منفی 8سنٹی گریڈ تک ہوتا ہے۔ موسمِ بہار یعنی مارچ اور اپریل میں زیادہ سے زیادہ درجۂ حرارت 24 اور کم سے کم 22 ڈگری سنٹی گریڈ تک رہتا ہے۔

 

               بارش

 

وادیِ سوات میں زیادہ تر بارشیں فروری، مارچ ، اپریل اور اگست میں ہوتی ہیں جس کی سالانہ اوسط 32 سے 36 انچ بنتی ہے۔

 

               برف باری

 

برف باری زیادہ تر ملم جبہ، ایلم، شانگلہ، مدین، بشی گرام، بحرین، کالام، اتروڑ ، گبرال، اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ(اَپر سوات) میں ہوتی ہے جو ایک فٹ سے 12 فٹ تک ہوتی ہے۔ جب کہ بلند و بالا چوٹیوں پر اس سے بھی زیادہ برف پڑتی ہے۔

 

               سیاحت کا سیزن

 

ویسے تو سوات میں سال کے بارہ مہینے سیر و سیاحت کے لئے موزوں ہیں تاہم مارچ سے اکتوبر تک اس کی سیر  و سیاحت سے کما حقہ لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے۔

 

جنوری، فروری

 

ان مہینوں میں سوات میں شدید برف باری ہوتی ہے۔ اس لئے برف باری سے لطف اندوز ہونے کے لئے یہ موزوں ترین مہینے ہیں۔

 

مارچ ،اپریل

 

ان مہینوں میں آمدِ بہار کی وجہ سے پورے سوات میں سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے درختوں کو نئی زندگی ملتی ہے اور پھل پھولوں کی رنگینی اور خوش بُو ہر طرف پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ پہاڑوں پر برف پگھلنے کی وجہ سے آبشار اور ندی نالے پورے جوبن میں ہوتے ہیں۔

 

مئی، جون

 

اِن مہینوں میں بارشیں زیادہ نہیں ہوتیں۔ اس لئے کیمپنگ اور ٹریکنگ کے لئے یہ موزوں ترین مہینے ہیں۔ سوات کی قدرتی جھیلوں تک پہنچنے کے لئے یہ مہینے نہایت مناسب ہیں۔

 

جولائی، اگست

 

سوات کے بعض پہاڑی علاقے بالخصوص بحرین، کالام اور گبرال وغیرہ مون سون کی ہواؤں کی زد سے بچے رہتے ہیں۔ اس لئے یہاں کا موسم خوش گوار اثرات مرتب کرتا ہے۔

 

ستمبر ، اکتوبر

 

ان مہینوں میں پھلوں اور پھولوں کی وافر افراط ہوتی ہے۔ اُس موسم میں خنکی کا احساس ہوتا ہے جو دل و دماغ کو لطف و سرشاری سے ہم کنار کرتا ہے۔

 

نومبر،دسمبر

 

موسم قدرے سرد اور خشک ہوتا ہے۔ خزاں اور پت جھڑ سے پورا ماحول زرد سا محسوس ہوتا ہے۔ان مہینوں میں دریائے سوات کا پانی نہایت شفاف اور نیلگوں نظر آتا ہے۔ تاہم اس موسم کا بھی ایک عجیب سا لطف اور انجانا سا مزہ ہوتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

فاصلے

               (منگورہ  سے فاصلہ کلومیٹر میں )

 

مقام                       فاصلہ                                    مقام                             فاصلہ

سیدو شریف           2                                            کالام                  99

ائیرپورٹ                 3                                            مٹلتان               111

کبل(گراؤنڈ)           9                                            ا٘وشو                   112

مرغزار                    15                                           گلیشئر              113

ملم جبہ                 42                                           اتروڑ                   120

مٹہ سب ڈویژن      25                                          گبرال                 128

خوازہ خیلہ             29                                          مہوڈنڈ               134

میاں دم                 51                                             شانگلہ ٹاپ       56

مدین                     51                                            الپورئی                 63

چیل درہ                56                                            بشام                   98

بحرین                   60                                            تھاکوٹ               128

کولالئی                 75                                            ڈگر                      64

پیر بابا                    64                                            مردان                 90

دیر                       155                                           چترال                  270

ایبٹ آباد            249                                           راولپنڈی             254

مانسہرہ             239                                            لاہور                   570

پشاور                       172                                            کراچی                 2244

چلاس               360                                           گلگت                 496           ہنزہ                  560                                            سکردو                613

خنجراب            800                    پیکنگ(عوامی جمہوریہ چین)    5513

 

٭٭٭

 

 

 

 

سطح سمندر سے بُلندی

               (فٹ میں )

 

 

مقام                               بلندی                             مقام                        بلندی

سیدو شریف                  3200                              کالام                       6800

منگورہ                          3200                              اوشو                        7500

مرغزار                          4200                               اتروڑ                         7300

کبل                            2863                                گبرال                     7500

میاں دم                       6800                               کروڑہ                       3700

مدین                           4235                                 یخ تنگے                 2858

بحرین                          4500                                 شانگلہ ٹاپ           7000

کولالئی                        5000                                 پیر بابا                    2500

٭٭٭

 

 

 

رسد و رسائل کے ذرائع

 

وادیِ سوات میں آپ جہاں بھی جانا چاہیں ، اس کے لئے پرائیویٹ گاڑی اور پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت ہر جگہ موجود ہے۔ تاہم سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے آپ با آسانی وادی کے ہر مقام تک جا سکتے ہیں۔ اس کے لئے درج ذیل سٹینڈ ہیں۔

               جنرل بس سٹینڈ

منگورہ میں داخل ہونے کا یہ واحد اور بڑا بس سٹینڈ ہے۔ جہاں سے آپ کو بس، ڈاٹسن ، پک اپ، فلائنگ کوچ اور ٹیکسی کی سہولت دن بھر ملے گی۔ یہاں سے میاں دم، مدین، بحرین،کالام، شانگلہ،بشام اور بونیر وغیرہ جانے کے لئے ہر قسم کی ٹرانسپورٹ کی سہولت مل سکتی ہے۔

               ائرپورٹ، کبل سٹینڈ

یہ بس سٹینڈ گرین چوک کے قریب ائرپورٹ روڈ پر واقع ہے۔ جہاں سے کانجو، ائرپورٹ، ڈھیرئی، بانڈئی، مٹہ، بیدرہ، باغ ڈھیرئی، کبل، دیولئی، چائنا کلے، شاہ ڈھیرئی وغیرہ کے لئے گاڑیاں ملتی ہیں۔

               مرغزار ، سیدو شریف سٹینڈ

نشاط چوک اور گلشن چوک کے قریب سیدو شریف جانے کے لئے رکشہ اور سوزوکی سٹینڈ ہیں۔ چوک کے قریب ملا بابا روڈ پر ایک اور سٹینڈ ہے جہاں سے ڈاٹسن کے ذریعے سیدو شریف اور مرغزار کی حسین وادیوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔

               شاہدرہ سٹینڈ:

منگلور، جہان آباد، سیر، تلے گرام، ملم جبہ، چارباغ، شانگلہ اور یخ تنگی کے لئے بس، ڈاٹسن اور فلائنگ کوچ وغیرہ یہاں ملتی ہیں۔

 

 

 

سوات سے پشاور اور اسلام آباد تک ہوائی سروس کا شیڈول

 

 

سوات کا ہوائی اڈہ، منگورہ سے تین کلومیٹر دور ’’کانجو‘‘ کے مقام پر ’’ڈھیرئی‘‘ کے قریب واقع ہے۔ جہاں سے فی الحال پشاور اور اسلام آباد تک ہوائی جہاز آتے جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ہفتہ میں دوبار پرواز اسلام آباد سے ہوتی ہوئی سوات سے چترال تک بھی جاتی تھی لیکن اب یہ سلسلہ منقطع کر دیا گیا ہے، حالاں کہ سوات آنے والے سیاحوں کے لئے یہ پروازیں نہایت فائدہ مند تھیں۔ وہ سوات کی سیر کے بعد ان کے ذریعے چترال تک بھی با آسانی  آ جا سکتے تھے۔ اس طرح سوات اور چترال کی سیاحت کو بہت فروغ حاصل ہو رہا تھا۔

سیدو شریف ائر پورٹ سے فی الوقت پشاور اور اسلام آباد کے لئے باقاعدہ ہوائی سروس موجود ہے۔ اس کی روزانہ آمد و رفت کی تفصیل کچھ یوں ہے۔

٭ اسلام آباد تا منگورہ روزانہ آمد صبح ساڑے سات بجے

٭ منگورہ تا پشاور روزانہ روانگی صبح ساڑھے آٹھ بجے

٭ پشاور تا منگورہ روزانہ آمد 12 بجے دوپہر

٭ منگو رہ تا اسلام آباد روزانہ روانگی 1 بجہ دوپہر

٭٭٭

 

 

 

اہم ٹیلی فون نمبرز

 

 

وادیِ سوات ڈائرکٹ ٹیلی فون ڈائیلنگ نظام کے تحت پورے ملک اور پوری دُنیا سے منسلک ہے۔ اس کے ذریعے کسی بھی وقت ملک اور دنیا کے کسی بھی حصہ سے فوری رابطہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ ٹیلی فون کی یہ سہولت وادیِ سوات کے قریباً تمام اہم سیاحتی مقامات میں موجود ہے۔

٭ سوات کا کوڈ نمبر: 0946

٭ سیدو شریف ائرپورٹ: 812017-812572

٭ آفیسر انچارج ائر پورٹ: 813269

٭ پی آئی اے آفس سیدو شریف: 9240074

٭ پاکستان ٹورازم آفس +پی ٹی ڈی سی:9240159

٭ پولیس تھانہ منگورہ: 711563

٭ پولیس تھانہ رحیم آباد: 711849

٭ پولیس تھانہ سیدو شریف: 711784

٭ بلدیہ منگورہ: 9240146

٭ سوات کوچ جنرل بس سٹینڈ: 726935

٭ فائر بریگیڈ: 710629-9240148

٭ سنٹرل ہسپتال سیدو شریف: 711927

٭ سیدو شریف ہسپتال: 9240122

٭ ایمرجنسی سیدو شریف ہسپتال: 711929

٭ چلڈرن ہسپتال سیدو شریف: 9240126

٭ منگورہ پوسٹ آفس: 710147

٭ سیدو شریف پوسٹ آفس: 9240379

٭ سوات میوزیم: 9240305

٭ زمرد کان منگورہ:                                                812121

٭ ڈی آئی جی ملاکنڈ رینج:                                     720444

٭ناظم تحصیل کونسل سوات:                                  711032

٭ایس پی سوات:                                                      728886

٭ ایمرجنسی پولیس:                                          711756-15

٭ جہان زیب کالج:                                                  9240191

٭ منگورہ ڈگری کالج:                                              9240200

٭ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ منگورہ:                        9240196

٭ سیدو شریف میڈیکل کالج:                                 9240131

٭ پولیس تھانہ خوازہ خیلہ:                                     744306

٭ پولیس تھانہ مدین:                                             780308

٭ پولیس تھانہ بحرین:                                            780149

٭ پولیس تھانہ کالام:                                             830008

٭ پولیس تھانہ بشام:                                             913-0941

٭ کبل ہسپتال:                                                   755306

٭ پولیس تھانہ کبل:                                            755301

٭٭٭

 

 

 

 

ہوٹل اور ریسٹ ہاؤسز

 

وادیِ سوات کے ہر علاقہ اور ہر مقام پر سیاحوں کے لئے مختلف معیار کے ہوٹل موجود ہیں۔ ان میں ادنیٰ اور درمیانہ درجہ کے ہوٹلوں سے لے کر اعلیٰ معیار کے ہوٹل تک موجود ہیں۔ اسی طرح سوات کے تمام اہم سیاحتی مقامات پر سرکاری ریسٹ ہاؤسز بھی موجود ہیں۔ ان میں بیشتر ریسٹ ہاؤس نہایت خوب صورت اور دل کش مقامات پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ ان ریسٹ ہاؤسز میں ٹھہرنے کے لئے متعلقہ محکمہ کے سربراہ سے پیشگی اجازت لینا ضروری ہے۔

چند اہم ہوٹلز اور ریسٹ ہاؤسز کی تفصیل درج ذیل ہے۔

 

منگورہ:

٭ الحرمین ہوٹل فون:712633

٭ شبستان ہوٹل فون:727837

٭ تاج محل ہوٹل فون:727521

٭ ڈائمنڈ ہوٹل فون:711321

٭ الحمراء ہوٹل فون:710966

٭ اودیانہ ہوٹل فون:711054

٭ ہوٹل ڈی پاپا فون: 725362

٭ چنار ہوٹل فون: 725849

٭ سوات کانٹی نینٹل ہوٹل فون:711399

٭ تھیمز ہوٹل فضا گٹ فون:816260

٭ شنگریلا ہوٹل فون:813225

٭ فضا گٹ ہوٹل فون:811152

٭ ہوٹل سلطان پیلس فون: 815141

٭ لالہ زار ہوٹل فون:812005

٭ اباسین ہوٹل فون:710961

٭ ہوٹل سوات ریورینا فون: 812593

٭ ہوٹل مارکوپولو فون:714501

٭ ہوٹل میزان فون: 720331

سیدو شریف:

٭ پی ٹی ڈی سی موٹل فون:9240157

٭ سوات سیرینا ہوٹل فون:710518

٭ رائل پیلس ہوٹل عقبہ فون:720239

ملم جبہ:

٭ ملم جبہ ہوٹل فون:755588

خوازہ خیلہ:

٭ سپین غر ہوٹل فون:745445

باغ ڈھیرئی:

٭ ہوٹل وائٹ ہاؤس فون:780394

میاں دم:

٭ پی ٹی ڈی سی موٹل فون:616333

٭ پینو راما ہوٹل فون:616231

مدین:

٭ مدین ہوٹل فون:780031

٭ زرین پیلس ہوٹل فون:780319

٭ ہوٹل الفاروق فون:780429

٭ ماؤنٹین ویو ہوٹل فون: 780572

بحرین:

٭ ہوٹل لِبرٹی فون:780045

٭ ہوٹل ڈمِ سن فون:780163

٭ ہوٹل ڈیلکس فون:780115

٭ گریس ہوٹل فون:780030

٭ مرینہ ہوٹل فون:780168

٭ کے بی فائیو ہوٹل فون:780078

پشمال (کالام)

٭ پشمال ہوٹل فون:830268

٭ دی ایمرلڈ(ایگل موٹل پرائیویٹ لمیٹڈ) فون: 830710

کالام:

٭ خیبر ہوٹل فون: 830292

٭ ہنی مون ہوٹل فون:830089

٭ ہوٹل ہیون روز فون: 830118

٭ ہوٹل پامیر فون: 830033

٭ ہوٹل منانو اِن فون: 830041-42

٭ پی ٹی ڈی سی موٹل فون:830245

٭ ہوٹل مارکوپولو فون: 830113

٭ ہوٹل خالد فون:830006

٭ ہوٹل نیسٹ فون: 830213

٭ ہوٹل تاج محل فون: 830108

٭ ہوٹل گولڈن سٹار فون:830092

٭ داؤد گیسٹ ہاؤس فون: 830197

٭ اُوشو: اُوشو ہوٹل

٭ مٹلتان: باغیچہ ہوٹل

٭ اُتروڑ: ہوٹل ہیون روز (چین ہوٹل)

بشام: (کوڈ: 0941)

٭ پاک ٹورازم/ پی ٹی ڈی سی موٹل فون:301

٭ انٹرنیشنل ہوٹل فون:415

٭ بشام ہوٹل فون:595

٭ ماؤنٹ ویو ہوٹل فون:356

٭ فلک سیر ہوٹل فون:530

 

ریسٹ ہاؤسز

سیدو شریف، منگورہ:

٭ فارسٹ ریسٹ ہاؤس ٭ ٹی اینڈ ٹی ریسٹ ہاؤس

٭ پی ڈبلیو ڈی ریسٹ ہاؤس ٭ آر ڈی ڈی ریسٹ ہاؤس(دیہی

٭ پوسٹ آفس ریسٹ ہاؤس ترقیات)

٭ ایری گیشن ریسٹ ہاؤس ٭ آرمی ریسٹ ہاؤس(سرہ خٹان)

٭ سرکٹ ہاؤس ریسٹ ہاؤس ٭ پی ٹی ڈی سی ریسٹ ہاؤس

٭ سوات میوزیم ریسٹ ہاؤس ٭ جہانزیب کالج ریسٹ ہاؤس

٭ نیشنل بنک ریسٹ ہاؤس ٭ پولیس ریسٹ ہاؤس(سرہ خٹان)

 

کبل:

٭ کبل ریسٹ ہاؤس (کبل گراؤنڈ) فون: 773118

٭ فر نٹئیرریسٹ ہاؤس فون:

میاں دم:

٭ پی ٹی ڈی سی ریسٹ ہاؤس فون:

٭ گورنمنٹ ریسٹ ہاؤس

٭ میاں دم ڈسٹرکٹ کونسل ریسٹ ہاؤس

مدین:

٭ ایف ڈی سی ریسٹ ہاؤس (نزد رنزڑہ پل) فون: 780238

٭ آرمی ریسٹ ہاؤس( پاٹی بند چیل روڈ) فون: 781205

متفرق:

٭ بحرین ریسٹ ہاؤس بحرین ٭ کولالئی ریسٹ ہاؤس کولالئی

٭ پشمال ریسٹ ہاؤس پشمال ٭ اتروڑ ریسٹ ہاؤس اتروڑ

٭ گبرال ریسٹ ہاؤس گبرال ٭ اوشو ریسٹ ہاؤس اُوشو

٭ بنڑ کلے ریسٹ ہاؤس اُوشو ٭ مٹلتان ریسٹ ہاؤس مٹلتان

٭ شانگلہ ریسٹ ہاؤس شانگلہ ٹاپ ٭ یخ تنگے ریسٹ ہاؤس یخ تنگے (شانگلہ)

کالام:

٭ پی ٹی ڈی سی ریسٹ ہاؤس ٭ (آزمَرہَٹس) ریسٹ ہاؤس

٭ ایریگیشن ریسٹ ہاؤس ٭ بنڑ ریسٹ ہاؤس

٭٭٭

 

 

 

وادیِ سوات کے تحائف

 

وادیِ سوات کے تمام اہم سیاحتی مقامات کے بازاروں میں ہر قسم کی ملکی ، غیر ملکی اور مقامی مصنوعات با آسانی دستیاب ہیں۔ یہاں سیدو شریف کے قریب اسلام پور نامی گاؤں میں اونی کپڑے کی سینکڑوں کھڈیاں ہیں جن کا تیار کیا ہوا اونی کپڑا، کمبل اور شال بین الاقوامی معیار کے حامل ہیں۔ اس کے علاوہ سوات کے چار باغ نامی گاؤں میں نہایت عمدہ زری کی ٹوپیاں تیار کی جاتی ہیں۔ سوات کے خاص تحائف میں دنداسہ، شہد، اخروٹ، کھمبی(مشروم)، زیرہ، سلاجیت، بنفشہ اور تازہ پھل خصوصی شہرت رکھتے ہیں۔

منگورہ، میاں دم، مدین،بحرین اور کالام کے با رونق بازاروں میں درج ذیل اشیاء سیاحوں کی خصوصی توجہ کے قابل ہیں :

گلے، دوپٹے، شال، چادر، کمبل، لونگی، اجرک، سواتی گرم پٹی، کشن کور، بیڈ شیٹ، صوفہ بیگ، ٹیبل کلاتھ، سوٹ، کرتے، واسکٹ، جیکٹ ، چوغہ(گاؤن)، ٹی کوزی، بیگ، ڈیکوریشن کا سامان، اونی شال، نمدے، قالین، پھول کاری کے بنے ہوئے ملبوسات، مینا کاری اور کندہ کاری کی انٹیک کراکری، گل کاری سے مرصع قدیم فرنیچر، زمرد،جواہرات اور زیورات وغیرہ۔

٭٭٭

 

 

 

آثار قدیمہ

 

وادیِ سوات اپنی فطری خوب صورتی کے ساتھ ساتھ تاریخی طور پر بھی نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ علاقہ مختلف اقوام کی تہذیبی، ثقافتی اور سماجی اقدار کا گہوارہ رہا ہے۔ اس علاقہ پر مختلف ادوار میں مختلف اقوام نے اپنے رہن سہن اور بود و باش کے طور طریقے اور نقوش ثبت کئے ہیں جن کے قدیم آثار وادی کے کونے کونے میں آج بھی موجود ہیں اور یہی آثارِ قدیمہ ان ادوار اور ان اقوام کی منہ بولتی تصویریں ہیں۔

منگورہ میں ’’ بُت کڑہ‘‘ کے مقام پر بُدھ مت کے بہت زیادہ آثار ظاہر ہوئے ہیں جن کی کھدائی پہلی بار اٹلی کے مشہور ماہرِ آثارِ قدیمہ (آرکیالوجسٹ)ڈاکٹر ٹوچی نے 1956ء میں کی تھی، جس کے نتیجے میں بُدھ مت کے زمانے کی قدیم اشیاء،نوادرات اور سکے برآمد ہوئے۔ اِن آثارِ قدیمہ میں بدھ مت کے عبادت خانے خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ یہ علاقہ 1800 مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے جو اصل میں اس شہر کی بہت بڑی عبادت گاہ تھا۔ جس میں شاہی محلات کے کچھ آثار بھی پائے گئے ہیں۔ یہاں ایک عالی شان اور عظیم اسٹوپا کے آثار بھی ملے ہیں جس کے گرد 250 چھوٹے اسٹوپا ایستادہ تھے۔ یہیں سے ہرے رنگ کے پتھر سے ترشے ہوئے قریباً سات ہزار مجسمے ملے ہیں ، جو سب کے سب اس اسٹوپا کے چاروں طرف نصب تھے۔ چند چھوٹے اسٹوپا سے طلائی ڈبیاں بھی ملی ہیں جن میں مہاتما بُدھ کی خاک(راکھ) تبرک کے طور پر رکھی جاتی تھی۔ اس مقام کے کچھ آثار دوسری صدی قبلِ مسیحؑ سے لے کر گیارھویں صدی عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر ٹوچی کی تحقیق کے مطابق حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش کے وقت سوات(منگورہ) میں ایک بہت بڑا سیلاب آیا تھا جس میں ان آثارِ قدیمہ کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ ڈاکٹر موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ بُدھ مت کے دورِ عروج میں یہ علاقہ قریباً تین سو سال تک بُدھ مذہب کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔

سوات میں بت کڑہ کے بعد اُوڈی گرام گاؤں میں سب سے زیادہ قدیم آثار ظاہر ہوئے ہیں جو گیرا نامی مشہور پہاڑ کی چوٹی پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ہیں۔ اُوڈی گرام کا خاص مقام جسے یونانی مؤرخ ’’اریان‘‘ نے اُورا (ORA) کا نام دیا ہے، چوتھی صدی قبل مسیح کے سکندرِ اعظم کے حملے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اُوڈی گرام قلعہ سے جو قیمتی نوادرات برآمد ہوئے ہیں ان میں ایرانیوں اور کشان حکمرانوں کے اثرات خاصے نمایاں ہیں۔ یہ اثرات دوسری صدی عیسوی سے تعلق رکھتے ہیں۔ محمود غزنویؒ کی فوج کے حملے کا قصہ جو گیارھویں صدی عیسوی سے تعلق رکھتا ہے ، کی تصدیق بھی ان خاص قسم کے قدیم نوادرات سے ہوتی ہے جو اُوڈی گرام کے آثارِ قدیمہ میں کھدائی کے دوران ملے ہیں۔ یہاں محمود غزنویؒ کے دور کی ایک مسجد بھی کھدائی میں دریافت ہوئی ہے جس سے اس بات کی توثیق ہوتی ہے کہ محمود غزنویؒ کی فوج سوات میں آئی تھی اور اس نے یہاں کے بُدھ راجہ گیرا کو شکست دی تھی۔ اس مسجد میں ایک کتبہ بھی برآمد ہوا ہے جو سپید سنگ مرمر سے بنا ہوا ہے۔ اس پر لکھی عربی عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ محمود غزنوی کے ایک امیر شہزادہ الحاجب ابو منصور کے حکم سے یہ مسجد نوشتگین نے تعمیر کرائی تھی اور اس کی تعمیر کی تاریخ 640ھ ہے۔ اُوڈی گرام کے آثار قدیمہ ایک بڑے فوجی قلعہ کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں۔ شواہد اور روایات کے مطابق یہ قلعہ بدھ راجہ گیرا سے منسوب کیا جاتا ہے جس پر گیارھویں صدی عیسوی میں محمود غزنویؒ کی فوج نے پیر خوشحال کی سرکردگی میں حملہ کیا تھا اور اُسے شکست دی تھی۔

منگلور گاؤں کے قریب جہان آباد میں (پُرانا نام شخوڑئی) ایک پہاڑ کے دامن میں مہاتما بُدھ کا پتھر سے تراشیدہ ایک بہت بڑا مجسمہ غیر معمولی شہرت اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ دور دراز کے مقامات اور باہر کے ملکوں سے آنے والے سیاح، جن کو آثارِ قدیمہ سے ذرا سی دلچسپی بھی ہوتی ہے، جہان آباد میں واقع مہاتما بُدھ کے اس نادر اور نایاب مجسمہ کو دیکھنے ضرور جاتے ہیں۔

سوات کے دیگر آثارِ قدیمہ میں نجی گرام، نیمو گرام، ایلم پہاڑ، پانڑ، بالی گرام، گوگدرہ، غالیگے، باراماغر، ملم جبہ، چکیسر، تیراتھ، قندیل، بحرین، کالام، ننگریال، میاں دم، دنگرام، کوکارئ، جامبیل، دیولئی، شاہ ڈھیرئی، ابوہا، ہیبت گرام اور سنگوٹہ وغیرہ کے آثار قدیمہ قابلِ ذکر ہیں۔

ان علاقوں میں بُدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے آثار بہت وسیع اراضی میں پائے جاتے ہیں لیکن ان میں ذاتی طور پر عام لوگ کھدائی کر کے بہت سے قیمتی اور نادر نوادرات برآمد کر کے اندرون ملک اور بیرون ملک بڑے پیمانے پر سمگل کرتے ہیں۔ حکومت اور محکمہ آثارِ قدیمہ کا فرض ہے کہ وہ سوات میں پھیلے ہوئے آثارِ قدیمہ پر باقاعدہ کھدائی کا کام شروع کرے اور ان قدیم آثار سے برآمد ہونے والی نایاب اور قیمتی اشیاء سوات میوزیم اور ملک کے دیگر عجائب گھروں میں محفوظ کروائے کیوں کہ یہ قدیم تاریخی ورثہ اور پُرانے آثار ملک عزیز کی قدیم جغرافیائی، سیاسی، تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی اقدار کے زندہ نمونے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

معدنیات

 

وادیِ سوات معدنی ذخائر سے بھی مالا مال ہے۔ یہاں بہت سے معدنی ذخائر دریافت ہوئے ہیں اور اُن سے کہیں زیادہ زمین کے سینے میں چھپے ہوئے ہیں جنہیں دریافت کر کے کام میں لانا حکومت اور متعلقہ محکموں کی ذمے داری ہے۔

ان قیمتی معدنیات میں زمرد کی کانیں بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں۔ سوات میں زمرد کی ایک بہت بڑی کان منگورہ میں واقع ہے۔ اس کے علاوہ زمرد کی ایک کان شموزئ اور ایک گوجر گڑھی (شانگلہ) میں بھی واقع ہے۔ سوات میں واقع زمرد کی کانوں سے ہر ماہ سات ہزار قیراط سے زائد زمرد نکالا جاتا ہے۔ یہاں کا زمرّد دُنیا کے قیمتی ترین زمرد میں شمار کیا جاتا ہے جو اپنے شفاف گہرے سبز رنگ کے لئے غیر معمولی طور پر شہرت کا حامل ہے۔ بڑے تاجر چھوٹے چھوٹے تاجروں سے زمرد خرید کر اُسے باہر کے ملکوں میں بھیج دیتے ہیں۔اس طرح انہیں بہت منافع حاصل ہوتا ہے۔ زمرّد کے کاروبار کے سلسلے میں یہاں کے کئی تاجر بین الاقوامی شہرت رکھتے ہیں۔ حکومت اگر زمرد کی کانوں کے انتظامات زیادہ ذمہ دار اور دیانت دار ہاتھوں میں دے تو اس سے نہ صرف ملک کو بیش قیمت زرِ مبادلہ حاصل ہو سکتا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو بھی اس سے خاطر خواہ فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

زمرد کے علاوہ سوات کے پہاڑوں میں سنگِ مرمر، سپید پتھر،میگنا مائٹ، سوپ سٹوپ، ابرق اور چائنا کلے کے کافی ذخائر موجود ہیں۔

سوات کے مرکزی شہر منگورہ کے مین بازار میں زمرّد کی بہت سی دُکانیں ہیں۔ جہاں ملکی اور غیر ملکی سیاح اپنی پسند اور ضرورت کے مطابق زمرد حاصل کر سکتے ہیں۔ مین بازار میں زمرد اور دیگر قیمتی پتھروں میں روبی، اکوامرین،برجد، جگدلے کی روبی اور دیگر بہت سے نادر و قیمتی پتھروں کے بڑے شوروم یہ ہیں۔

(۱) رائل جم سٹون سنٹر

(۲) سوات جم سٹون سنٹر

(۳) لکی برتھ سٹون سنٹر

٭٭٭

 

 

 

صنعت و حرفت

 

 

سوات میں خصوصی اہمیت کا حامل کوئی بہت بڑا کارخانہ موجود نہیں ہے، تاہم سوات میں مجموعی طور پر 462 چھوٹے بڑے سلِک لومز کام کر رہے ہیں۔ ان کارخانوں کی اکثریت (یعنی ستر ،اسی فی صد) کارخانے منگورہ اور اس کے مضافات میں واقع ہیں۔ اِن میں مصنوعی ریشم سے کپڑا بنانے کے 425 کارخانے، آٹے کی چار ملیں ، ادویات کی دو فیکٹریاں ،پلاسٹک کی اشیاء، ہاٹ پاٹس، واٹر کولر بنانے کے تین کارخانے اور فرنیچر کی کئی فیکٹریاں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں چند کارخانوں میں اونی کپڑا بھی تیارکیا جاتا ہے۔

سوات کے ایک گاؤں شاہ ڈھیرئی میں چینی مٹی صاف کرنے کا کارخانہ(چائنا کلے) کا ایک مشہور کارخانہ واقع ہے جہاں سے بڑی مقدار میں چائنا کلے، ملکِ عزیز کے چینی کے برتن بنانے والے کارخانوں کو مہیا کی جاتی ہے۔ جس سے بڑے نفیس اور مضبوط، چینی کے برتن ٹائلیں اور سنیٹری کا سامان تیار کیا جاتا ہے۔ حکومت اگر سوات میں چینی کے برتن بنانے کا کارخانہ قائم کرے تو اس طرح نہ صرف شاہ ڈھیرئی کے چائنا کلے کے کارخانے کا خام مال بغیر کسی ٹرانسپورٹ کے اضافی خرچ کے، کام میں لایا جا سکے گا بلکہ اس طرح یہاں روزگار کے نئے مواقع بھی پیدا ہو سکیں گے۔

سوات اور پُورا ملاکنڈ  ڈویژ ن ہر قسم کے ٹیکسوں سے مستثنیٰ(یعنی ٹیکس فری زون) علاقہ ہے۔ اس وجہ سے سندھ اور پنجاب کے بعض بڑے صنعت کاروں نے اس رعایت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں مختلف صنعتیں لگا رکھی ہیں جن میں ریشمی کپڑے کی صنعت کے علاوہ سامانِ آرائشِ حُسن (کاسمیٹکس) اور برقیات(الیکٹرونکس) کی مصنوعات شامل ہیں۔ یہاں ملکِ عزیز کے دو درجن سے زائد بڑے اشیائے آرائشِ حُسن یعنی کاسمیٹکس کی کمپنیوں نے اپنی شاخیں کھول رکھی ہیں جن میں آرائشِ حُسن کی مختلف اشیاء کی تیاری اور پیکنگ کے بعد انہیں لاہور اور کراچی بھیجا جاتا ہے جہاں سے یہ اشیاء ملک بھر کے علاوہ بیرون ملک بھی بھجوائی جاتی ہیں۔ چپکانے کے لئے ایک مشہور لوشن ایلفی کی پیکنگ بھی منگورہ میں کی جاتی ہے۔ اِن کارخانوں میں قریباً 20ہزار مقامی اور غیر مقامی افراد بر سرِ  روزگار ہیں۔

مذکورہ بالا کارخانوں کے علاوہ سوات میں دست کاری، کشیدہ کاری اور گل کاری کی گھریلو صنعت بھی عام ہے۔ جو پورے ملک میں اپنی فنی نزاکت اور ماہرانہ خوب صورتی کے لئے مشہور ہے۔ علاوہ ازیں سوات میں اسلام پور(پُرانا نام سلام پور) کا علاقہ عرصۂ قدیم سے کھڈیوں کی صنعت کے لئے مشہور و معروف چلا آ رہا ہے۔ جسے بجا طور پر سوات کا مانچسٹر بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں اونی کپڑا اور کمبل تیار کرنے والی تقریباً 18 فیکٹریاں ہیں جن میں دو سو سے زائد کھڈیاں قائم کی گئیں ہیں۔ ان میں اونی کپڑا، کمبل، چادر اور واسکٹ کی پٹی بڑی مقدار میں تیار کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خصوصی آرڈر پر یہاں شال، گلوبند اور دیگر اشیاء بھی خوب صورت گل کاری سے مرصع بنائی جاتی ہیں جو ملک بھر میں امتیازی شہرت رکھتی ہیں۔یہاں کی تیار کی ہوئی مصنوعات کو پاکستان بھر کے علاوہ باہر کے ملکوں کو بھی برآمد کیا جاتا ہے۔ جنہیں مضبوطی ، پائیداری ، خوب صورتی اور ماہرانہ کاری گری کے لحاظ سے بہت پسند کیا جاتا ہے۔ یہاں کے کاری گر اپنے اپنے کاموں میں بے حد ماہر اور مستعد ہیں۔

سوات میں کھڈیوں کی یہ صنعت صدیوں پُرانی ہے۔ قدیم زمانے میں بھی سیدو شریف اور اسلام پور میں چرخوں اور کھڈیوں کے ذریعے نرم و ملائم اُونی کپڑے اور گرم کمبلوں کی تیاری کا کام کیا جاتا تھا جنہیں اس وقت کے امراء ، بادشاہوں اور راجاؤں کو خصوصی نذرانوں کی صورت میں پیش کیا کرتے تھے۔ آج سے پندرہ سال قبل تک یہ مصنوعات ہاتھ سے چلنے والی کھڈیوں کے ذریعے تیار کی جاتی تھیں۔ جس کا طریقہ بہت دِقت طلب ہوتا تھا جس سے زیادہ وقت میں کم کپڑا تیار کیا جاتا تھا لیکن بعد میں کھڈیوں کی اس صنعت نے ترقی کی اور اب کپڑے کی تیاری کا کام کھڈی مشین کے ذریعے ہوتا ہے۔ جس کا طریقہ نہ صرف سہل ہے بلکہ اس طریقے سے کم وقت میں زیادہ کپڑا تیار ہو جاتا ہے۔

یہاں تیار ہونے والے اونی کمبل، شال اور دیگر اشیاء مختلف رنگوں ، خوب صورت اور دیدہ زیب ڈیزائنوں میں تیار کی جاتی ہیں ، جن کی طرف دل خواہ مخواہ ہی کھِچا چلا جاتا ہے۔ سیاحوں کے لئے سوات کا مانچسٹر اسلام پور خاص طور پر دیکھنے کی جگہ ہے۔ یہ مقام سیدو شریف اور مرغزار کے درمیان میں واقع ہے۔

٭٭٭

 

 

 

علم و ادب

 

 

سوات کی اعلیٰ تعلیمی ضرورتوں کے لئے سیدو شریف کی واحد عظیم تعلیمی درس گاہ ’’گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ جہان زیب کالج‘‘ کے نام سے قائم ہے۔ یہ کالج روشن خیال والیِ سوات (مرحوم) نے 1952ء میں قائم کیا تھا جو اپنے خوب صورت اور اچھوتے طرزِ تعمیر کی وجہ سے بہت مشہور ہے۔ کالج کی سہ منزلہ عمارت انگریزی کے حرفE کے طرز پر تعمیر ہے۔ جس سے ایجوکیشن مُراد لی گئی ہے۔ اس کالج کو ماضی میں حکومت نے یونیورسٹی میں تبدیل کرنے کی باقاعدہ منظوری دی تھی لیکن تا حال اس پر عملی کام کا آغاز نہیں ہو سکا ہے۔ اس کے علاوہ منگورہ میں ایک ڈگری کالج بھی ہے۔ سوات کے ایک گاؤں مٹہ میں بھی ڈگری کالج موجود ہے۔ اس کے علاوہ سوات بھرمیں پرائمری، مڈل اور ہائی سکولوں کا جال بچھا ہوا ہے جو بیشتر ریاستی دور میں تعمیر کئے گئے تھے۔ سوات میں بہت سے ہائر سیکنڈری سکول بھی ہیں۔ ایک گرلز کالج اور بہت سے گرلز ہائی سکول ہیں۔ علاوہ ازیں بوائز اور گرلز ایلیمنٹری کالجز بھی یہاں پی ٹی سی کی سطح پر تربیت یافتہ اساتذہ کی تیاری میں ممد ثابت ہو رہے ہیں۔ فنی تعلیم کے سلسلے میں پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ اور ٹیکنیکل کالج موجود ہیں۔ دینی تعلیم کے سلسلے میں بھی یہاں ایک بہت بڑا دارالعلوم بانیِ سوات کے دورِ حکومت میں قائم کیا گیا تھا جب کہ دوسرا بڑا دارالعلوم چارباغ نامی گاؤں میں بھی ہے۔ سوات میں پیرا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ بھی موجود ہے جس سے مقامی اور غیر مقامی طلباء استفادہ کر رہے ہیں۔ سیدو شریف میں سیدو میڈیکل کالج کے نام سے بھی چند سال قبل میڈیکل کالج کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے جس سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی جا سکتی ہے۔حال ہی میں حکومت نے یہاں کیڈٹ کالج اور کامرس کالج کے قیام کی بھی منظوری دی ہے۔

سوات(منگورہ) پورے ملاکنڈ ڈویژن کی علمی، ادبی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز و محور ہے۔یہاں وقتاً فوقتاً بڑی بڑی ادبی محفلوں اور مشاعروں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے جن میں پشتو اور اردو زبانوں کے شاعر،ادیب ، صحافی اور دانش ور شریک ہو کر اپنی علمی اور ادبی صلاحیتوں کو جِلا بخشتے رہتے ہیں۔ نشر و اشاعت کے سلسلے میں یہاں ’’شعیب سنز پبلشرز‘‘ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ سوات، دیر، چترال اور دیگر شمالی علاقہ جات کی تاریخ، ثقافت اور سیاحت کے بارے میں کتابیں شائع کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ منگورہ سے تین مقامی روزنامے ’’شمال،سلام‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے ناموں سے باقاعدگی سے شائع ہوتے ہیں۔ علم و ادب کے فروغ کے سلسلے میں جہانزیب کالج اور بلدیہ منگورہ کی لائبریریاں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان لائبریریوں میں ہر موضوع پر ہزاروں قیمتی و نایاب کتب موجود ہیں۔ ذاتی سطح پر سوات کی ایک ممتاز علمی اور ادبی شخصیت محمد پرویش شاہین کے پاس ایک بڑی لائبریری ہے جس میں قریباً 26 ہزار کے قریب قیمتی اور نایاب کتب کا ذخیرہ موجود ہے۔

٭٭٭

 

 

 

زرعی پیداوار

 

وادیِ سوات کی زمین اپنی قدرتی زرخیزی کی وجہ سے زرعی پیداوار کے لئے نہایت موزوں ہے۔ دریائے سوات نے اس کی زرخیزی اور شادابی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ سوات میں بہت سی فصلیں پیدا ہوتی ہیں۔ تاہم بعض فصلوں کے لئے سوات غیر معمولی شہرت رکھتا ہے اور ان میں بعض کی پیداوار بیرونی ممالک میں بھی بھیجی جاتی ہے۔

اجناس میں گندم، چاول ، جو، باجرہ، مسور، سرسوں اور مونگ اہم فصلیں ہیں۔ چاول کی کئی قسمیں مثلاً بیگمئی اور لونگئی چاول صرف وادیِ سوات میں پیدا ہوتی ہیں جو اپنی خوش بُو اور لذت کے لئے اپنی مثال آپ ہیں۔

سبزیوں میں یہاں آلو، مٹر،گوبھی، توری، ٹماٹر، پیاز، مرچ، مولی، گاجر، کچالو، بینگن، شلجم، مختلف قسم کے ساگ اور بہت سی دوسری سبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔ کالام ، اتروڑ، گبرال ، اُوشو، مٹلتان اور ان کے قرب و جوار کی دیگر وادیوں کا آلو بہت مشہور ہے۔ ان وادیوں میں آلو بہت بڑی مقدار میں کاشت کیا جاتا ہے اور ہر سال سینکڑوں ٹرکوں کے ذریعے اُسے راولپنڈی، لاہور اور کراچی بھیجا جاتا ہے۔ یہاں کے لوگوں کی آمدنی کا بڑا انحصار سیاحت اور جنگلات کی رائلٹی کے بعد آلو کی فصل پر ہے۔اس علاقے کے شلجم اور مٹر بھی خاص شہرت رکھتے ہیں۔

پھلوں میں وادیِ سوات سیب، اخروٹ، مالٹے اور شفتالو (آڑو)کے لئے خاص شہرت رکھتی ہے۔ کالام کا سیب اور بالائی سوات کا شفتالو(آڑو) باہر کے ممالک میں بھی بھیجا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں خوبانی، سنگترے،املوک(جاپانی پھل)،لوکاٹ، انجیر، شہتوت ،اسٹرابیری اور بعض دوسرے پھل بھی پیدا ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

گندھارا تہذیب

 

 

قدیم زمانے میں وادیِ سوات مختلف تہذیبوں ، ثقافتوں اور مذہبوں کی آماجگاہ رہی ہے۔ یہاں کئی تہذیبیں پھلیں ، پھولیں اور عروج کی منزلیں طے کر کے زوال پذیر ہوئیں۔ کئی مذاہب نے اپنے اثرات یہاں چھوڑے اور کئی اقوام کی بود و باش اور ان کی طرزِ زندگی کے نقوش یہاں اُبھر کر ماند پڑ گئے۔

زمانہ ء قدیم کے سوات میں موجود اُن تمام تہذیبوں ، ثقافتوں اور مذاہب میں بُدھ مت کو اولیت حاصل رہی۔ بُدھ مت یہاں باہر سے آیا لیکن اس نے یہاں عروج و رفعت کی بلندیاں حاصل کیں۔ ہزاروں سال گزرنے کے باوجود اس کے اثرات آج بھی سوات میں آثار قدیمہ کی شکل میں ہر جگہ پھیلے ہوئے ہیں۔ سوات کا وہ کون سا علاقہ ہے جہاں بدھ آثار ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ یہاں قدم قدم پر پھیلی ہوئی بدھ دور کی منہدم آبادیاں کھنڈرات کی شکل میں بدھ مذہب کی عظمتِ رفتہ کی طلسماتی کہانیاں سنا رہی ہیں۔

سوات میں گندھارا آرٹ بُدھّا کے مختلف مجسمّوں ، کندہ کاریوں او ر مختلف نقش و نگار کی صورت میں فروزاں نظر آتا ہے۔ گویا سنگ تراشی، مجسمہ سازی، تصویر کشی اور مختلف نقوش پر مشتمل کندہ کاری کا جو فن وجود میں آیا ہے، اُسے گندھارا آرٹ کا نام دیا گیا ہے۔گندھارا نہ صرف فن کا نام ہے بلکہ یہ ایک وسیع علاقے اور ایک مکمل تہذیب کا آئینہ دار ہے۔یہاں گندھارا آرٹ پہلی صدی عیسوی سے لے کر ساتویں صدی عیسوی تک عروج پر رہا۔

گندھارا کا نام سب سے پہلے ہندوؤں کی مذہبی کتاب رگ وید میں آیا ہے۔ اس کے بعد ایرانی، یونانی اور رومی زبانوں سے تعلق رکھنے والے تاریخی ذرائع سے بھی مختصراً معلوم ہوتا ہے۔ تاہم گندھارا کا مفصل ذکر چینی سیاح ہیون سانگ کی تحریروں میں ملتا ہے۔

یہ سیاح ساتویں صدی عیسوی میں بُدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے برصغیر آیا تھا۔ چوں کہ گندھارا کا علاقہ بھی بُدھ مت کا اہم مرکز تھا، اس لئے وہ یہاں بھی آیا۔ اس کی تحریروں کی روشنی میں گندھارا کی ریاست میں شمال کی طرف سوات، دیر، باجوڑ اور مشرق کی طرف دریائے سندھ تک کا علاقہ شامل تھا۔البتہ بیرونی حملہ آوروں کی یورشوں کی وجہ سے گندھارا کی ریاستی حدود وقتاً فوقتاً بدلتی رہتی تھیں۔

 

               گندھارا کا صدر مقام

 

گندھارا کے صدر مقام کے بارے میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ٹیکسلا جو اسلام آباد کے قریب واقع ہے، اسے بھی وادیِ گندھارا کا صدرمقام قرار دیا جاتا ہے اور پشکلاوتی جو اَب چارسدہ کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور پشاور کے قریب واقع ہے،کو بھی گندھارا کا مرکز قرار دیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وادیِ پشاور بھی قدیم زمانے میں گندھارا کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور یہ ایک طویل عرصے تک گندھارا کا صدر مقام رہ چکا ہے۔ ’’ہنڈ‘‘ کو بھی گندھارا کے صدر مقام کی حیثیت سے جانا جاتا ہے جہاں سکندرِ اعظم نے دریائے سندھ عبور کیا تھا۔ اسی طرح وادیِ سوات کو بھی گندھارا کے صدر مقام کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔کیوں کہ سوات میں بُدھ مت اور گندھارا تہذیب کے قدیم اثرات کی بہتات ہے۔ سوات میں برآمد ہونے والی گندھارا تہذیب اور گندھارا آرٹ کے بعض نادر نمونوں سے یہ اندازہ لگتا ہے کہ سوات میں گندھارا تہذیب کوبڑا عروج حاصل تھا اور اس تہذیب کے اثرات یہاں اس قدر زیادہ ملتے ہیں کہ سوات پر گندھارا آرٹ کی ایک بڑی فیکٹری کا گمان گزرتا ہے۔ جہاں بہترین نقش و نگار کی حامل کندہ کاری اور نفیس سنگ تراشی کے نمونے سلطنت گندھارا کے دیگر علاقوں میں بھی سپلائی کئے جاتے تھے۔ سوات میں جہان آباد میں بُدّھا کا قد آور خوب صورت مجسمہ گندھارا آرٹ کا ایک بہترین اور نایاب نمونہ ہے۔

 

               گندھارا آرٹ کی وجہِ تسمیہ

 

لفظ گندھارا کے بہت سے معانی نکالے جاتے ہیں۔ تاہم محققین کسی ایک معنی پر متفق نہیں۔ بعض مؤرخین کی تحقیق کے مطابق وسطی ایشیاء سے آنے والے قبائل کے ایک سردار کا نام گندھاریہ تھا جس نے اپنے نام سے یہ نو آبادی قائم کی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سردار کی ایک بیٹی کا نام گندھاری تھا، جس کے نام پر اس علاقے کا نام گندھاری رکھ دیا گیا تھا جو بعد میں بگڑ کر گندھارا کہلایا۔ بعض کے خیال میں لفظ گندھارا کے معنی یہاں کی مشہور اون پر پڑ گیا تھا۔ بھیڑوں کی یہ اون بہت نفیس تھی اور اس کی شہرت کا ڈنکا پورے   برصغیر میں بجتا تھا۔

افغانستان کے مشہور شہر قندھار سے بھی اس کی نسبت بیان کی جاتی ہے۔ ٹیکسلا جب بدھ مت کا مرکز تھا تو اس وقت قندھار سے بہترین سنگ تراش آئے تھے اور انہوں نے ہند، یونانی اور ایرانی فن کی آمیزش سے اپنے ہنر کے اعلیٰ جوہر دکھائے جس کے باعث یہاں کا نام قندہارا اور پھر گندھارا پڑ گیا۔

 

               گندھارا آرٹ کا مقصد

 

اس آرٹ کا مقصد بدھ مت کی اشاعت اور تبلیغ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ آرٹ کشان خاندان کے راجہ کنشک کے دورِ حکومت میں انتہائی عروج پر پہنچ گیا تھا۔ کیونکہ اس دور میں مملکت کی مادی خوشحالی اور مذہبی جوش و جذبے نے اس آرٹ کو کمال تک پہنچا دیا تھا۔ بعض مؤرخین کی رائے کے مطابق اُس وقت کے ہُنر مندوں نے مذہب سے انتہائی عقیدت کی وجہ سے اپنی دلی ترجمانی سنگلاخ چٹانوں کے سینوں پر ثبت کی۔ اس آرٹ میں بت سازی کے لئے ایک خاص قسم کا پتھر استعمال کیا گیا ہے جو وادیِ سوات اور بونیر کے پہاڑوں میں عام دستیاب ہے۔ یہ پتھر مجسمہ سازی کے لئے بڑا موزوں ہے۔ اسے بڑی آسانی کے ساتھ تراشا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چونے اور مٹی سے بھی بت سازی کا کام لیا جاتا ہے سوات میں یہ آرٹ پتھر اور لکڑی کے دروازوں لوہے اور پیتل کے اوزاروں پر کُندہ کاری، گل کاری اور کپڑوں پر کشیدہ کاری کی صورت میں نظر آتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

منگورہ

 

 

وادیِ سوات کا عروس البلاد منگورہ اس خوب صورت اور دِل رُبا وادی کے ماتھے پر حسین جھومر کی مانند سجا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہ صاف ستھرا شہر اپنی جدید تعمیرات، خوب صورت ہوٹلوں ، پُر رونق بازاروں ، ملکی اور غیر ملکی سیاحوں اور قرب و جوار میں بکھرے حُسنِ فطرت کو اپنے دامن میں سمیٹنے کے باعث منفرد خصوصیات کا حامل ہے۔ 25 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا یہ شہر پشاور شہر سے 170 کلومیٹر اور راولپنڈی سے 254 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ منگورہ سطح سمندر سے 3[L: 44]200 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور اس کی آبادی دو لاکھ نفوس سے تجاوز کر چکی ہے۔

منگورہ کو سوات کے سب سے بڑے تجارتی، صنعتی ،تعلیمی اور ضلعی صدر مقام کی وجہ سے اہم مرکزی شہر کی حیثیت حاصل ہے۔ جس پر سوا ت کے تمام چھوٹے بڑے علاقوں کی روز مرہ ضروریات کا انحصار ہے۔ منگورہ، قدیم تہذیب و ثقافت اور ہر طرح کی مقامی و بین الاقوامی مصنوعات کا مرکز ہے۔ اس کا مین بازار پورے سوات کا دل ہے، جہاں ہر قسم کی ملکی اور غیر ملکی اشیاء بافراط دستیاب ہیں۔یہاں آنے والے سیاحوں کے لئے پہلا پڑاؤ منگورہ ہے جہاں سے سیاح وادیِ سوات کے ہر علاقے کی سیر کے لئے روانہ ہو سکتے ہیں۔

منگورہ کا قدیم نام’’ منگ چلی‘‘ ہے جس کا کوئی واضح اور متعین مفہوم معلوم نہیں ، تاہم اس نام کا ذکر پہلی دفعہ چین کے بُدھ مذہب کے مقدس زائر ہیون سانگ، فاہیان اور سنگ یون نے اپنے سفر ناموں میں کیا ہے۔ ان سیاحوں کی آمد کا سلسلہ 403ء میں شروع ہوا تھا جنہوں نے بعد میں اپنے مشاہدات، سفرناموں کی شکل میں قلم بند کئے تھے۔ قدیم زمانے میں سوات بدھ مذہب کا مقدس مرکز رہا ہے۔ یہیں سے یہ مذہب چین، تبت اور بھوٹان وغیرہ کی طرف پھیل گیا تھا، اس لئے ان ممالک بالخصوص چین کے بُدھ زائرین سوات میں بدھ مت کے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے بہت بڑی تعداد میں آتے تھے۔ علاوہ ازیں مشہور محقق اور مستشرق میجر راورٹی نے منگورہ کا ذکر اپنی تحریروں میں ’’منگوڑا‘‘ اور’’ منگراوڑہ‘‘ کے ناموں سے بھی کیا ہے۔ چناں چہ بعد میں یہ نام ہوتے ہوتے’’ منگورہ‘‘ کے روپ میں ڈھل گیا۔

منگورہ عہد قدیم میں بدھ مت کا ایک روحانی اور تاریخی شہر رہا ہے جس کاثبوت یہاں برآمد ہونے والے بدھ مت کے قدیم آثار سے ملتا ہے۔

سوات کے بزرگوں کا کہنا ہے کہ منگورہ کی پرانی آبادی جو بت کڑہ میں تھی، چوہوں کی وجہ سے تباہ ہوئی تھی۔ لوگوں نے چوہوں کی تباہ کاریوں سے تنگ آکر اپنے گھر بار چھوڑ دیئے تھے اور بت کڑہ سے متصل ’’مکان باغ‘‘ میں منتقل ہو گئے تھے جو آج کل بھی اندرون منگورہ واقع ہے۔ اس کے بعد منگورہ کی بیشتر آبادی مین بازار کی حدود میں آباد ہونا شروع ہوئی۔ بعد میں منگورہ کی آبادی مزید پھیلتی گئی اور آج کل منگورہ کی حدود رحیم آباد، فیض آباد، پانڑ، فضا گٹ، نوے کلے اور اینگرو ڈھیرئی تک پھیل چکی ہیں۔

منگورہ بلند و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا خوب صورت اور صاف ستھرا شہر ہے۔ یہ دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔ اس کے قرب و جوار میں سیاحوں کے لئے بہت سے دل کش اور تفریحی مقامات موجود ہیں جن میں سیدو شریف خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ منگورہ کی زیادہ تر آبادی یوسف زئی پشتونوں پر مشتمل ہے جو بے حد محنتی، جفاکش اور حب وطن کے جذبے سے سرشار ہیں۔ یہاں کے بیشتر لوگ تعلیم یافتہ، مہذب، با شعور اور بہت مہمان نواز ہیں۔ مقامی باشندے عام طور پر شلوار اور قمیض زیب تن کرتے ہیں جو مقامی اور قومی لباس ہونے کے ناطے اُن کا طُرّۂ امتیاز بھی ہے۔

سوات ائیر پورٹ جاتے ہوئے راستے میں کانجو سے پہلے ایُوب برج(پل) آتا ہے جو دریائے سوات کے اوپربناہوا ہے۔ اس پل پر سے دریائے سوات اور ارد گرد کے حسین مناظر کا نظارہ دل و دماغ کو فرحت اور تازگی کا ایک خوش کن احساس بخشتا ہے۔ ایوب پل کے قرب و جوار میں دریائے سوات سے چھوٹی چھوٹی نہریں قریبی کھیتوں کی سیرابی کے لئے نکالی گئی ہیں جو مناظر کو دل فریب بنا دیتی ہیں۔

منگورہ قدیم تجارتی مرکز ہے اور اس کی یہ حیثیت صدیوں سے مُسلّم ہے۔ یہاں کے قرب و جوار کے پہاڑی علاقوں کے مکین تازہ پھل ،دودھ او ر سبزیاں منگورہ کی منڈھیوں میں لاتے ہیں جن میں پہاڑوں کی خطرناک چوٹیوں میں اُگنے والی قیمتی جڑی بوٹی ’’گوجئی‘‘ (سیاہ کھمبی یا مشروم)’’لاڈورے‘‘ اور’’کونجے‘‘(منفرد قسم کے مقامی ساگ) کافی مشہور ہیں۔ پھلوں میں سیب، ناشپاتی، اخروٹ،انگور اور املوک (جاپانی پھل) یہاں وافر مقدار میں فروخت ہوتے ہیں۔

منگورہ کے مین بازار میں ملکی اور غیر ملکی کپڑا، الیکٹرونکس کے سامان، زری اور شیشے کے کام کے ملبوسات، واسکٹ اور قمیض، خوب صورت سواتی ٹوپیاں اور دست کاری و کشیدہ کاری کی دیگر نفیس اشیاء سیاحوں کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ زمرد اور دیگر قیمتی پتھروں کی دکانیں بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میں بازار میں الیکٹرونکس کے سامان کے لئے محبوب الیکٹرونکس اور نیو روڈ پر اوورسیز الیکٹرونکس کی دُکانیں بہت مشہور ہیں۔

منگورہ میں عمدہ ہوٹل اور ریستوران بھی واقع ہیں۔ خاص طور پر نشاط چوک میں تِکّہ کڑاہی اور مرغ کڑاہی کی اشتہا انگیز خوشبو ہر طرف پھیلی ہوتی ہے۔ یہاں لذیذ چپلی کباب بھی ملتے ہیں جن کا ذائقہ نہ بھولنے والا ہے۔ چپلی کباب میں نوشاد کے کباب اور عام کیفے میں مکرم خان کا کیفے بہت مشہور ہے۔ ہوٹلوں میں یہاں ’’پامیر،سوات سیرینا، رائل پیلس، فضا گٹ ہوٹل ، راکاپوشی اور سوات کانٹیننٹل وہ ہوٹل ہیں جنہیں کسی بھی اعلیٰ درجے کے ہوٹلوں کے ہم پلہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کے علاوہ منگورہ میں اوسط درجے کے بھی درجنوں ہوٹل موجود ہیں جن میں سیاحوں کے لئے قیام و طعام اور ٹیلی فون کی جدید سہولتیں موجود ہیں۔ منگورہ میں شام کے وقت پلوشہ سینما کے قریب نیو مدین روڈ ایک پُر رونق جگہ ہے، جہاں زیادہ تر کیفے اور ریستوران واقع ہیں۔ ان میں کیفے کہکشاں ، علی کبانہ اور خوراک محل زیادہ مشہور ہیں۔ یہاں کے سیخ کباب، کڑاہی تکے، مرغ کڑاہی، چکن اور روسٹ چکن ذائقہ اور لذت کے لئے خاص شہرت رکھتے ہیں۔

سیاحوں کی سہولت کے لئے واحد اور با قاعدہ ادارہ ’’سوات ٹوورازم کلب پاکستان‘‘ گلشن چوک منگورہ میں شائقین سیاحت کے لئے موجود ہے جو مہمانوں کے لئے وادیِ سوات اور شمالی علاقہ جات کے بارے میں معلومات بِلا معاوضہ فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ کرایہ پر ہر قسم کی سواری( ٹرانسپورٹ) قابلِ دید مقامات کی سیر کی لئے با اعتماد راہبر (گائیڈز) ،پہاڑوں پر ٹریکنگ اور وادی کے ہر مقام پر ہوٹلوں میں قیام و طعام کا بندوبست اور مختلف ٹور پیکجز(فرد یا گروپس) کی لئے مناسب معاوضہ پر خدمات سرانجام دیتا ہے۔

منگورہ کی مشہور شخصیات میں چاچا کریم بخش مرحوم ،کامران خان اور ملک بیرم خان (سابق چیئرمین بلدیہ منگورہ) کے اسمائے گرامی زیادہ نمایاں ہیں۔

منگورہ ، وادیِ سوات کا خوب صورت اور با رونق شہر ہے۔ یہ چھوٹا سا گنجان آباد شہر قدیم و جدید تہذیب کا حسین امتزاج ہے۔ اس کی بعض قدیم آبادیوں کے دروازوں اور چوبی ستونوں پر گندھارا تہذیب کے نمائندہ خوب صورت روایتی نقش و نگار اگر سوات کے صدیوں قدیم طرز بود و باش کی یاد دلاتے ہیں ، تو شہر کے بازاروں میں زندگی تمام تر جدید سہولتوں کے جلو میں مسکراتی نظر آتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

سوات میوزیم

 

منگورہ میں بت کڑہ کے قریب سیدو شریف روڈ پر ایک خوب صورت، دلچسپ اور تاریخی عجائب گھر ’’سوات میوزیم‘‘ کے نام سے موجود ہے جو ضلعی عدالتوں اور دفاتر سے متصل واقع ہے۔ اس عجائب گھر کی بنیاد والیِ سوات(مرحوم) نے رکھی تھی۔ یہ عجائب گھر اپنی منفرد تزئین و آرائش، حسین سبزہ زاروں اور قیمتی نوادرات کے باعث بہت مشہور ہے۔ یہاں زیادہ تر گندھارا تہذیب اور بُدھ مت سے متعلق اشیاء رکھی گئی ہیں۔

اس میوزیم میں کل نو گیلریاں بنائی گئی ہیں جن میں چار گیلریوں میں بدھ مت سے تعلق رکھنے والی اشیاء نہایت نفاست اور سلیقے سے رکھی گئیں ہیں۔ پانچویں گیلری میں گندھارا گریک کلچر اور پری بدھسٹ آثار سجائے گئے ہیں۔ چھٹی گیلری میں آثار قدیمہ کے مائنرز آبجیکشن ہیں۔ ساتویں ، آٹھویں اور نویں گیلریاں سوات کی ثقافتی اور تہذیبی اشیاء کے لئے مخصوص کی گئیں ہیں۔ ان کو تین الگ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جس کے تحت ایک میں سوات کوہستان کی اشیاء، دوسری میں صرف وادیِ سوات اور تیسری میں ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے برتن، کپڑے اور استعمال کی دیگر اشیاء رکھی گئی ہیں۔

سوات میوزیم میں حال ہی میں جاپان کی حکومت کے تعاون سے 46 ملین ین (قریباً 90 لاکھ روپے) کی خطیر رقم سے تزئین و آرائش کا نیا کام کیا گیا ہے جس سے میوزیم کی خوب صورتی اور اہمیت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

یہاں سیاحوں کو میوزیم اور گندھارا تہذیب سے متعلق مختلف معلوماتی پروگرام دکھانے کے لئے ایک خوب صورت سماعت گاہ( آڈیٹوریم) بنایا گیا ہے جس میں جدید پروجیکٹر کی سہولت موجود ہے۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر لیکچرز اور مختلف قسم کی تقریبات کے انعقاد کا اہتمام بھی آڈیٹوریم میں کیا جا سکتا ہے۔ میوزیم کے ساتھ ہی مہمانوں کے لئے ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس موجود ہے۔جس میں ٹھہرنے کے لئے میوزیم ڈائریکٹر سے اجازت لینا پڑتی ہے۔

سوات میوزیم میں قدیم سوات کا ایک چھوٹا سا روایتی گھر تعمیر کیا گیا ہے جس کا سارا کام روایتی اور مقامی فنِ تعمیر کا خوب صورت مظہر ہے۔ اس میں سوات کے قدیم طرزِ رہائش کی عکاس اشیاء کو بڑے سلیقے کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

سوات میوزیم میں ہر طرف سبزہ زار اور خوب صورت پھول کھلے ہوئے ہیں جس سے اس کا ماحول نہایت حسین اور پُر سکون محسوس ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بہترین ماحول اور عجائب گھر میں موجود ہزاروں سال قدیم قیمتی نوادرات محققوں کو قدیم تہذیب و تمدن کے مطالعہ اور تحقیق کے لئے بہترین ماحول فراہم کرتے ہیں۔

آثارِ قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والے سیاحوں کو سوات کے آثارِ قدیمہ سے برآمد ہونے والے قدیم اور قیمتی نوادرات دیکھنے کے لئے ’’سوات میوزیم‘‘ اور قدیم آثار کو کھنڈرات کی شکل میں دیکھنے کے لئے میوزیم کے قریب واقع ’’بت کڑہ‘‘ ضرور جانا چاہئے۔

٭٭٭

 

 

 

سیدو شریف

 

 

سیدو شریف سوات کا جدید ترین شہر ہے جو منگورہ سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ سیدو شریف منگورہ کے ساتھ کچھ اس طرح سے جڑا ہوا ہے کہ دونوں کا تعین کرنا بہت مشکل ہے بلکہ منگورہ اور سیدو شریف بالکل دو  جڑواں شہر معلوم ہوتے ہیں۔ تاہم منگورہ کا خوب صورت اور کشادہ گراسی گراؤنڈ دونوں شہروں کے مابین مرکزِ اتصال تصور کیا جا سکتا ہے۔

1957ء میں جب پہلی دفعہ وادیِ سوات میں بلدیہ وجود میں لائی گئی تو منگورہ اور سیدو شریف دونوں کو ایک ہی بلدیہ کی حدود میں شامل کر لیا گیا جس کے بعد دونوں شہروں کا نظم و نسق، تزئین و آرائش اور صفائی کا سارا انتظام بلدیہ ہی انجام دیتی آ رہی ہے۔

ریاستِ سوات کے پاکستان میں ادغام کے بعد سیدو شریف کو ملاکنڈ ڈویژن کے صدر مقام کی حیثیت بھی دی گئی جس میں سوات، بونیر، شانگلہ، دیر اور چترال کے اضلاع کے علاوہ ملاکنڈ ایجنسی کے علاقے بھی شامل ہیں جس کی وجہ سے سیدو شریف کی گہما گہمی اور رونق میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ اسی مرکزی حیثیت کے باعث ضلع سوات کے تمام محکموں کے دفاتر بھی سیدو شریف ہی میں قائم کئے گئے ہیں۔

منگورہ اور سیدو شریف میں آمد و رفت کا مقبول ذریعہ سوزوکی اور رکشے ہیں۔ سوزوکی دو روپیہ اور رکشہ تین روپیہ کے کرایہ فی سواری یک طرفہ کے عوض آپ کو لے جا اور لا سکتے ہیں۔ رکشے میں عموماً پانچ سواریاں بٹھائی جاتی ہیں ، تاہم پندرہ روپے میں رکشہ بُک کروا کر آپ خصوصی طور پر علاحدہ بھی منگورہ سے سیدو شریف تک دو تین کلومیٹر پر محیط پُر کشش مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

سیدو شریف ایک بہت قدیمی اور تاریخی شہر ہے جس نے زمانے کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ جس طرح سیدو شریف آج ملاکنڈ ڈویژن کا صدر مقام ہے،اسی طرح پُرانے زمانے میں بھی اُسے مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ اور اس زمانے میں بھی یہ شہر تہذیبی، ثقافتی اور جدید ترقی کے لحاظ سے بہت آگے تھا اور آج ریاستِ سوات کے آخری حکمران کا محل بھی یہیں ہے۔

بُدھ مت کے دور میں سیدو شریف کا پُرانا نام ’’بالی گرام‘‘ (اس نام کا ایک چھوٹا سا درہ آج بھی سیدو شریف کے قرب میں واقع ہے) تھا جس کے بعد یہ سادوگان کے نام سے مشہور ہوا۔ پشتو زبان میں لفظ سادوگان ’’سادھو‘‘ کی جمع ہے۔ عہدِ قدیم میں یہاں بُدھ مت کے پیروکار بڑی تعداد میں آباد تھے جو یہاں غاروں میں عبادت کیا کرتے تھے۔ اس وجہ سے اُس کا نام ’’سادوگان‘‘ پڑ گیا جو بعد میں ’’سیدو‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔

1845ء میں مشہور روحانی شخصیت اخوند صاحبِ سوات( عبدالغفور عرف سیدوبابا) جب سوات کے ’’سپل بانڈئ‘‘ نامی گاؤں کو خیر باد کہہ کر ہمیشہ کے لئے سیدو چلے آئے تو اس وقت سیدو کی عظمتِ رفتہ کے نقوش ماند پڑ چکے تھے اور یہ ایک چھوٹا سا معمولی گاؤں تھا لیکن جب عبدالغفور اخوند صاحبِ سوات نے اس کو اپنی مستقل رہائش کے لئے منتخب کیا اور اس میں ایک مسجد کی بنیاد رکھی تو اس کی گزشتہ عظمت دوبارہ لوٹ آئی اور اس کی شہرت اخوند صاحبِ سوات (سیدوبابا) کی وجہ سے دور دراز تک پھیل گئی۔ ان کی وجہ سے سیدو، سیدو شریف بن گیا اور لوگ اس جگہ کو مقدس سمجھنے لگے۔ اُن کے دورِ سکونت میں سیدو شریف کوبڑا مذہبی رعب داب حاصل تھا۔ ان کا مزار اب سیدو شریف ہی میں ہے جو مرجع خلائقِ عام ہے۔

عبدالغفورؒ(سیدوبابا) کے فرزند کشر میاں گل عبدالخالق کے زمانے میں اس شہر کو مذہبی اور سیاسی دونوں حیثیتیں حاصل ہو گئیں۔ان دونوں کی وفات کے بعد سیدو شریف کی عظمت اور شوکت بھی ختم ہو گئی لیکن بعد میں 1915ء میں سیدو غوث عبدالغفور کے پوتے اور کشر میاں گل عبدالخالق کے بیٹے اعلیٰ حضرت میاں گل، گل شہزادہ عبدالودود نے سوات کی عنانِ سلطنت سنبھالی تو سیدو شریف کی وہی پرانی عظمت اور شوکت پھر لوٹ آئی۔ انہوں نے سیدو شریف کو ریاستِ سوات کے دارالحکومت کا درجہ دے دیا اور اس طرح اس کی پرانی شہرت و عظمت بحال ہو گئی۔

سیدو شریف گیرا پہاڑ کے مشرقی دامن میں واقع ہے۔ اس کے مغرب کی طرف ایک ندی بہِ رہی ہے جس کے ماخذ’’ وادیِ مرغزار‘‘ کے پہاڑ اور چشمے ہیں۔ سیدو شریف کے تینوں جانب پہاڑ اور شمالی سمت میدانی ہے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 3500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور یہاں سے سوات کی تمام اطراف کو سڑکیں جاتی ہیں۔ اس سے ایک ذیلی سڑک ندی کے ساتھ ساتھ ’’مرغزار‘‘ کی حسین وادی تک لے جاتی ہے۔ سڑک کے دائیں جانب پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں جو وادیِ سیدو شریف کو ’’اوڈی گرام‘‘ (سوات کا ایک مشہور تاریخی گاؤں ) سے علیحدہ کرتی ہیں۔ اس سے آگے ’’راجہ گیرا‘‘ کے قلعہ کے قدیم آثار نظر آتے ہیں جو گیرا پہاڑ کے مغربی جانب کھنڈرات کی شکل میں اوڈی گرام کے عین سامنے واقع ہیں۔ یہاں سے اوڈی گرام تک ہائنکنگ بھی کی جا سکتی ہے۔

سیدو شریف کے شمال مشرقی جانب پہاڑوں سے گھری ہوئی ایک خوب صورت ترین جگہ ’’عقبہ‘‘ ہے جس کا پُرانا نام’’ بڑینگل‘‘ تھا۔ یہاں ریاستی دور کا ایک خوب صورت شاہی محل ہے جسے اب ہوٹل(رائل پیلس) میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ محل طرز تعمیر اور حسین ماحول میں واقع ہونے کی وجہ سے بہت دل کش اور سحر انگیز معلوم ہوتا ہے۔ اس میں منفرد اور بہترین انداز کی ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے۔ جس کے بلند و بالا خوب صورت مینار اس کی گزشتہ عظمت کی ایمان افروز حیثیت پر گواہ ہیں۔ یہ مسجد بانیِ سوات بادشاہ صاحب(مرحوم) نے اپنی ذاتی مسجد کے طور پر تعمیر کرائی تھی۔ جس میں وہ اپنے ملازموں کے ساتھ با جماعت نماز ادا کیا کرتے تھے۔ اب بھی اس میں با جماعت نماز ادا کرنے کا اہتمام ہے۔اس مسجد کی تعمیر میں نادر اور خوب صورت سپید سنگِ مرمر کے بڑے بڑے ٹکڑے استعمال کئے گئے ہیں۔

عقبہ تینوں جانب سے بلند پہاڑوں میں گھرا ہوا ایک سرسبز و شاداب مقام ہے۔ اس میں چنار اور زیتون کے بلند و بالا درخت بکثرت پائے جاتے ہیں۔ اس کے قرب و جوار کے خوب صورت پہاڑٹریکنگ اور کیمپنگ کے لئے نہایت موزوں ہیں۔ عقبیٰ ہی میں بانیِ سوات، مردِ آہن بادشاہ صاحب ابدی نیند سو رہے ہیں۔

سیدو شریف جا کر اگر سیدو بابا کے مزار پر حاضری نہ دی جائے تو سیدو شریف کی سیر ادھوری محسوس ہوتی ہے اس کے علاوہ جہانزیب پوسٹ گریجویٹ کالج کی حسین اور اچھوتی عمارت ، کالج کے عین سامنے پُر شکوہ و دودیہ ہال، جس میں کالج اور سوات بھر کی علمی،ادبی، سیاسی، تہذیبی اور ثقافتی محفلیں منعقد ہوتی ہیں ، خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے قریب واقع سوات سیرینہ ہوٹل کے عطر بیز اور گل رنگ ماحول سے بھی لطف اندوز ہونا نہ بھولئے گا۔ اس کے قریب ہی پاکستان ٹوورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن ضلع سوات کی حسین عمارت اور اس سے متصل پی ٹی ڈی سی موٹل بھی خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سیاحتی معلومات کی فراہمی کے لئے مستعد عملہ ہمہ وقت مصروف کار رہتا ہے۔

سوات بھر کے باشندوں کی طبی سہولتوں کا انحصار سیدو شریف میں واقع سیدوگروپ ہسپتال اورسنٹرل ہسپتال پر ہے۔ یہ دونوں ہسپتال سابق والیِ سوات (مرحوم) کے دور میں تعمیر کئے گئے تھے جن میں اُس وقت علاج معالجہ کی سہولتیں بہت معیاری تھیں۔ لیکن اب اُن کی کارکردگی قطعی غیر تسلی بخش ہے کبھی سیدو ہسپتال میں واقع آئی سی یو وارڈ قدرے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ تھا۔

سیدو شریف کی آبادی قریباً بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں شہری آبادی کی تمام تر سہولتیں دستیاب ہیں۔ یہاں ٹیلی فون ڈائریکٹ ڈائلنگ کے ذریعے پورے ملک اور بیرون ممالک سے منسلک ہے۔ سیدو شریف واقعتاً ایک بہت ہی صاف ستھرا مقام ہے اور اس کی آب و ہوا نہایت معتدل ہے۔

سیدو شریف کی اہم ترین شخصیت، سابق گورنر بلوچستان و سرحد و سابق ایم این اے اور ریاستِ سوات کے آخری ولی عہد میاں گل اورنگ زیب کے بغیر اس شہر کا تذکرہ نامکمل ہے۔ باغ و بہار شخصیت کے مالک پرنس اورنگزیب اب بھی اپنے محل میں دربار سجاتے ہیں۔ اب بھی ان کے رہائشی محل میں سوات بھر اور بیرون سوات سے آئے ہوئے مہمانوں کا تانتا بندھا رہتا ہے اور وہ اُن کے جھرمٹ میں بیٹھے عوام و خواص میں گھل مل جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

مرغزار

 

مرغزار ایک ایسا نام جو ذہن میں طراوت اور روئیدگی کا ایک مسحور کن احساس اُبھارتا ہے اور جسے سن کر آنکھوں کے سامنے سرسبز و شاداب، قدرت کی رعنائیوں سے بھرپور ایک حسین و دل کش وادی کا روپ اُجاگر ہوتا ہے۔ سوات کی یہ حسین و جمیل اور قدرے تنگ وادی سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے جو پکی سڑک کے ذریعے جنوب مغرب کی طرف سے سیدو شریف اور منگورہ سے ملتی ہے۔ یہ سحر انگیز وادی سوات کے مشہور اور تاریخی پہاڑ ایلم کے دامن میں واقع ہے جس کا پرانا نام مینہ تھا۔ یہ پرانا نام مرغزار کے قریب مغربی جانب واقع ’’ٹل‘‘ اور ’’وربازہ‘‘ نامی مقامات کے درمیان ایک چھوٹی سی جگہ کی صورت میں اب بھی موجود ہے۔ مینہ پشتو زبان کا لفظ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ وہ جگہ جو شہر بھی نہ ہو اور گاؤں کے برابر بھی نہ ہو۔ مطلب یہ کہ وہ علاقہ جہاں لوگ نئے نئے آباد ہونا شروع ہوئے ہوں اور جس کی آبادی بتدریج بڑھ رہی ہو، اسے مینہ کہتے ہیں۔ بعد میں مرغزار کا یہ نام میاں گل عبدالودود(بانیِ سوات) نے یہاں کے حسین سبزہ زاروں کی وجہ سے بدل کر مرغزار رکھا۔

مرغزار جانے والے راستے میں کئی دیہات اور گاؤں آتے ہیں جن میں شگئی، میاں بابا، بٹوڑا، کوکڑئی، چتوڑ ،اسلام پور اور سپل بانڈئ قابلِ ذکر ہیں۔ یہ دیہات فطری حسن و دل کشی کی زندہ تصویریں ہیں۔ ان سب میں اسلام پور(پُرانا نام سلام پور) کا علاقہ عرصۂ قدیم سے کھڈیوں کی صنعت کے لئے مشہور و معروف چلا آ رہا ہے جسے بجا طور پر سوات کا مانچسٹر بھی کہا جا سکتا ہے۔

ایلم پہاڑ مرغزار کا قریبی پہاڑ ہے جو 9250 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ تاریخی لحاظ سے منفرد اہمیت کا حامل ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر ایک چبوترہ بنا ہوا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ چبوترہ سری رام چندر جی(ہندوؤں کے اوتار) نے اس زمانے میں بنایا تھا جب انہوں نے آبادی کی بجائے جنگلوں کو اپنا مسکن بنایا تھا۔ ہندوؤں کی تاریخی اور مذہبی کتابوں میں اس کو ’’بن باس‘‘ کا زمانہ کہا جاتا ہے۔ بن کا مطلب جنگل اور باس(باش) کے معنی ہیں ، رہائش اختیار کرنا۔ رام چندر جی نے ایلم پہاڑ کی چوٹی پر موجود، اپنے بن باس کے دوران بنائے ہوئے چبوترے پر کافی عرصہ گزارا تھا اور اس قدیم روایت کی بناء پر قیام پاکستان سے قبل سابق ہندوستان کے کونے کونے سے ہندو یہاں اس متبرک چبوترے کی زیارت کے لئے آیا کرتے تھے۔ وہ اس جگہ کوبڑا متبرک خیال کرتے تھے اور انتہائی ادب اور احترام کی وجہ سے وہ اسے ’’رام تخت‘‘ کے نام سے پکارتے تھے۔ رام چندر جی سے منسوب ایلم پہاڑ کی چوٹی پر واقع اس چبوترے پر قیام پاکستان کے بعد بھی کچھ عرصہ تک محدود ہندوؤں پر مشتمل ایک چھوٹا سا سالانہ میلہ لگتا تھا جس کی روایت بعد ازاں رفتہ رفتہ ختم ہو گئی۔ سوات کے تاریخی پہاڑ ایلم میں رام چندر جی کی آمد کا زمانہ 500 (ق۔م) بتایا جاتا ہے۔ ایلم کی دوسری جانب مشہور روحانی پیشوا پیر بابا کا مزار اور ضلع بونیر کا سرسبز و شاداب علاقہ واقع ہے۔ جہاں مرغزار سے اس پہاڑ کے راستے پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔

مرغزار نہ صرف اپنی دِل کشی اور اچھوتے حسن کے اعتبار سے مشہور ہے بلکہ یہ علاقہ اپنے معدنی وسائل کے سبب بھی شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے پہاڑوں میں سنگ مرمر کی کئی نادر اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہاں ’’ سپید محل‘‘ کے نام سے سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ایک خوبصورت عمارت بھی موجود ہے جو بانیِ ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود(بادشاہ صاحب) نے تعمیر کروایا تھا۔ اس محل پر تعمیری کام کا آغاز 1935ء میں کیا گیا تھا اور اس کی تکمیل 1941ء میں ہوئی تھی۔اس محل میں سپید سنگِ مرمر کے دل کش اور قیمتی ٹکڑے استعمال کئے گئے ہیں جس کی وجہ سے محل کے نچلے حصے میں خوب صورت سپید سنگِ مرمر محل کی شان و شوکت اور اس کے حُسن میں ملکوتی اضافہ کرتے ہیں۔ یہ محل ایک وسیع رقبے میں پھیلا ہوا ہے جس کا بالائی حصہ بہت پُر سکون ماحول میں واقع ہے۔ اس کے اردگرد پہاڑوں پر گھنے درختوں کے سلسلے، محل میں موجود حسین اور معطر پھول، اس کے ساتھ بیٹھنے کے لئے سنگِ مرمر کے بنے ہوئے خوب صورت تخت یہاں موجود سبزے کی مخملیں چادر محل کی دل کشی اور خوب صورتی کو چار چاند لگا رہی ہے۔ یہ سپید محل بانیِ ریاستِ سوات بادشاہ صاحب (مرحوم) کا گرمائی صدر مقام تھا جس کو اب ہوٹل کی حیثیت دے دی گئی ہے۔ اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے آج بھی عام سیاح بے تاب نظر آتے ہیں۔یہ تاریخی محل بلا شبہ جدید فنِ تعمیر کا خوب صورت نمونہ ہے۔

مرغزار کی وادی سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے قریب ہونے کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بہت دلچسپی کا باعث ہے۔ یہاں ہر وقت سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ مرغزار میں سیاحوں کے لئے بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔ یہاں ہر وقت ٹریفک کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا مختصر بازار ہے جو دو حصوں پر مشتمل ہے۔ بازار کے ایک حصے میں چائے کے ہوٹل اور علاقے کے لوگوں کے لئے روز مرہ ضرورت کی اشیاء پر مشتمل دُکانیں ہیں جب کہ بازار کا دوسرا حصہ پانچ چھ دکانوں پر مشتمل ہے جن میں ہینڈی کرافٹس، سواتی مصنوعات، قدیم نوادرات، زمرد، یاقوت اور دیگر قیمتی پتھر دست یاب ہیں جو با ذوق سیاحوں کے لئے تحفۂ خاص کی حیثیت رکھتے ہیں۔

مرغزار بہت پُر سکون اور حسین جگہ ہے۔ یہاں ایک بڑی ندی بھی بہتی ہے جس میں بڑے بڑے پتھر عجیب دل کشی کا سبب ہیں۔ سیاح مرغزار آ کر عموماً سپید محل اور اس کے قرب کی جگہوں تک ہی محدود ہو جاتے ہیں۔ حالاں کہ مرغزار میں سیر و تفریح کی بہترین جگہیں اس کے پہاڑ ہیں جو کیمپنگ اور ٹریکنگ کے لئے بہت موزوں ہیں۔ ان

پہاڑوں کے دامن میں جا بجا قدرتی چشمے ہیں جن کا پانی نہایت ٹھنڈا اور شیریں ہے۔ پہاڑوں کی بلندیوں سے نیچے مرغزار کا نظارہ بہت حسین اور دل موہ لینے والا ہے۔ یہاں حدِ نگاہ تک خوب صورت باغات اور پھلوں سے لدے ہوئے درخت نظر آتے ہیں جو مرغزار کی کشش اور حسن میں اضافہ کے باعث ہیں۔

٭٭٭

 

 

اُڈوی گرام سے لنڈاکی تک

 

اوڈی گرام سوات کا ایک تاریخی قصبہ ہے جو منگورہ سے 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سکندر اعظم کے حملے سے قبل اوڈی گرام ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں کے لوگ ترقی یافتہ اور متمدن تھے۔ اس کا ثبوت گیرا پہاڑ کے قدیم آثار اور اوڈی گرام کے قرب و جوار میں بکھرے ہوئے آثار قدیمہ سے ملتا ہے۔ ان آثار سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں ایک مضبوط حکومت قائم تھی جس کے تحت عوام ایک منظم اور مہذب زندگی گزارتے تھے۔ یہاں کے آثارِ قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں رہائشی مکانات ، بڑا بازار، تجارتی منڈی اور مذہبی خانقاہیں تھیں۔ غرض زندگی کے تمام شعبوں میں ترقی عروج پر تھی۔ قدیم منہدم عمارتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے گلی کوچے پختہ تھے، صحت و صفائی کا خاص انتظام تھا، صاف پانی کے لئے مٹی کے پائپوں کے ذریعے دریائے سوات سے پینے کے لئے صاف پانی بلند چوٹی پر واقع عظیم الشان قلعہ میں ایک خاص تکنیک کے ذریعے پہنچایا جاتا تھا۔ یہاں کے آثار قدیمہ میں پتھروں پر نقش بہت پرانی تصاویر ملی ہیں جن میں زیادہ تر گھریلو اور جنگلی جانور دکھائے گئے ہیں۔ ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ نقوش 2500 اور 2000 ق۔م کے درمیانی عہد میں اُبھارے گئے تھے۔

اس زمانہ 326(ق۔م) میں جو راجدھانی قائم تھی، اس کے راجہ کا نام ’’اورا‘‘ تھا۔ جس پر سکندر اعظم نے حملہ کیا تھا۔مختلف قدیم یونانیوں نے اپنی اپنی تواریخ میں اس مقام کا نام بھی ’’اورا‘‘ ہی لکھا ہے۔ یہاں راجہ ہوڈی نامی حکمران بھی گزرا ہے جس کے نام پر اس جگہ کا نام ’’ہوڈی گرام‘‘ پڑ چکا ہے۔ راجہ ہوڈی کے بعد اس راجدھانی کا آخری حکمران راجہ گیرا تھا جس کو روایات کے مطابق محمود غزنوی کی فوج کے ایک سپہ سالار پیر خوشحال نے شکست دے کر اسلام کا نور پھیلایا تھا۔ اس جنگ میں پیر خوشحال شہید ہو گیا تھا۔ اس پہاڑ کے دامن میں آج بھی پیر خوشحال غازی اور ان کے فوجیوں کی قبریں موجود ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ راجہ گیرا کی بیٹی مونجا دیوی پیر خوشحال پر فریفتہ ہو گئی تھی اور ان دونوں کی محبت کا قصہ آج بھی سوات میں ایک افسانوی کردار کی مانند زبانِ زد خاص و عام ہے۔

یہاں کے آثارِ قدیمہ میں محمود غزنوی کے دور کی ایک مسجد بھی 1985ء میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئی ہے۔ جو بہت اچھی حالت میں ہے۔ اس کی صرف چھت غائب ہے۔ باقی عمارت صحیح حالت میں ہے۔ اس کا محراب،وضو خانہ، تالاب، نکاسئی آب کی نالیاں وغیرہ اچھی خاصی حالت میں ہیں۔ مسجد سے ایک کتبہ بھی برآمد ہوا ہے جو سپید سنگِ مرمر سے بنا ہوا ہے اور اس پر عربی زبان میں ایک عبارت درج ہے۔ اس عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ محمود غزنویؒ کے ایک امیر شہزادہ الحاجب ابومنصور کے حکم سے یہ مسجد نوشتگین نے تعمیر کی تھی اور تعمیر کی تاریخ 440ھ ہے۔ یہ سوات کی اولین مسجد قرار دی جاتی ہے۔

 

               گوگدرہ

 

اوڈی گرام سے قریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر جرنیلی سڑک پر واقع ہے۔ یہاں ایک چٹان پر کندہ کچھ جانوروں کی شکلیں دریافت ہوئی ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق قدیم ایران سے ہے۔ گوگدرہ کے قدیم کھنڈرات کا تعلق گیارہ یا بارہ سو قبل مسیح سے لے کر پہلی صدی عیسوی تک لگتا ہے۔ یہاں گوتم بدھ کے چند مجسّمے بھی دریافت ہوئے ہیں۔

 

               غالیگے

 

گوگدرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ گاؤں بہت قدیمی ہے۔ اس کا اندازہ یہاں سے برآمد ہونے والے آثارِ قدیمہ سے ہوتا ہے۔ یہاں بھی پہاڑی چٹانوں پر جانوروں کی تصویریں ، مثلاً بیل ،گائے، گھوڑے اور مارخور وغیرہ کی تصاویر کندہ ہیں۔ غالیگی میں سڑک کے کنارے پہاڑ کی بلندی پر ایک بہت بڑا بت کندہ ہے، جس کے اوپر ایک اوربت بھی کندہ ہے۔ جس سے یہاں کی قدامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ غالیگی کی غیر معمولی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ریاستِ سوات میں جب پہلی مرتبہ1850ء میں سید اکبر شاہ کی قیادت میں ایک شرعی اور اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تو غالیگی کو اس کا دارالخلافہ قرار دیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ یوسف زئی قبیلہ کے بزرگ اور عظیم مقنن شیخ ملی بابا کا انتقال بھی اسی گاؤں میں ہوا تھا۔ اس وجہ سے سوات کی تاریخ میں غالیگے گاؤں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

 

               شنگردار

 

یہ گاؤں بھی بر لبِ سڑک غالیگے سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں بُدھ مت کا ایک بہت بڑا سٹوپا موجود ہے جو اچھی حالت میں ہے۔ اس سٹوپا کے گنبد کا قطر 162 اور اونچائی 90 فٹ ہے۔ یہ سٹوپا شنگردار سٹوپا کے نام سے مشہور ہے۔ سوات کے مشہور محقق اور ادیب محمد پرویش شاہینؔ کی تحقیق کے مطابق شنگر دار کا لفظ شنگریلا سے نکلا ہے جو تبتی زبان کا لفظ ہے۔ جس کے معنی دیوتاؤں کی جگہ کے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس سٹوپا میں مہاتما گوتم بدھ کی راکھ کا کچھ حصہ دفن ہے۔ اس سٹوپا کی زیارت کے لئے دنیا بھر سے بُدھ زائرین اور مختلف ممالک کے سیاح آتے رہتے ہیں اور اس کی زیارت سے روحانی فیض حاصل کرتے ہیں۔

 

               بری کوٹ

 

سکندرِ اعظم کے دور کا ’’بازیرہ‘‘ اور آج کا بریکوٹ سوات کا ایک قدیم قصبہ ہے جو منگورہ سے تقریباً 15کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ اس کے خوب صورت بازار میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز دستیاب ہے۔ یہاں سے ایک سڑک جنوب کی طرف ضلع بونیر تک چلی گئی ہے اور دوسری سڑک بری کوٹ غونڈئ کے قریب شمالاً شموزئ نامی علاقے کی جانب چلی گئی ہے۔ جہاں نیموگرام اور ڈیڈہ ورہ نامی مقامات میں آثارِ قدیمہ واقع ہیں۔ سوات بھر میں نیموگرام کے آثارِ قدیمہ بہت اچھی حالت میں ہیں۔ بری کوٹ سے قریباً دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک اور مقام نجی گرام ہے جہاں کے وسیع اراضی میں آثارِ قدیمہ دریافت ہوئے ہیں۔ ان آثار سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں یہاں بدھ مت سے متعلق ایک یونیورسٹی قائم تھی جہاں بُدھ مذہب کی تعلیمات کے علاوہ طالب علموں کو سنگ تراشی کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔

بری کوٹ میں بھی بہت سے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ جن میں بری کوٹ غونڈئی کے آثار زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان کا تعلق 1700 قبل مسیح سے جوڑا جاتا ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں مذکور ہے کہ سکندرِ اعظم نے وادیِ سوات میں جن چار مقامات پر خون ریز لڑائی لڑی تھی ان میں بری کوٹ بھی شامل ہے۔ اس زمانے میں بری کوٹ کا نام ’’بازیرا‘‘ تھا۔

 

               کوٹہ، ابوھا، لنڈاکے

 

بری کوٹ سے چند کلومیٹر آگے کوٹہ، ابوھا اور لنڈاکی چیک پوسٹ واقع ہے۔ کوٹہ اور ابوھا دونوں گاؤں سوات کی تاریخ میں غیر معمولی اہمیت رکھتے ہیں۔ کیوں کہ ریاستِ سوات کے قیام میں یہاں کے معززین کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ یہاں بھی آثارِ قدیمہ وسیع علاقے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ ابوھا کا گاؤں نیمبولا اور بیگم جان کے رومان کے لئے بہت مشہور ہے۔ روایات کے مطابق یہاں کی ایک دوشیزہ پر نیمبو لا نامی ’’جن‘‘ عاشق ہوا تھا جس کو ملا بہادر نامی مولوی نے جلایا تھا۔ بعد میں جن کے لواحقین نے ملا بہادر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ باو ضو رہتا تھا۔ ایک دن جب وہ با وضو نہیں تھا تو نیمبولا کے رشتہ دار جنوں نے اس کو مسجد میں پھانسی دی اور پھر اس کی لاش کو ابوھا کی ایک پہاڑی پر لٹکا دیا۔

کوٹہ میں ریاستی دور کا ایک مشہور قلعہ تھا جس کو حال ہی میں مسمار کر دیا گیا۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ اس قلعہ کو قومی ورثہ کی حیثیت سے محفوظ کر لیا جاتا اور اُسے سیاحوں کیلئے پر کشش بنا دیا جاتا لیکن جس طرح ریاستی دور کے دیگر نشانات بڑی بے دردی سے مٹائے جا رہے ہیں ، اس طرح اس قلعہ کو بھی صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔

لنڈاکی ضلع سوات کی آخری حد پر واقع ہے۔ اس سے آگے ملاکنڈ ایجنسی کا علاقہ شروع ہوتا ہے۔ لنڈاکی ایک خوب صورت گاؤں ہے جو عین دریائے سوات کے کنارے پر واقع ہے۔ یہاں کے قدرتی مناظر بہت د ل فریب ہیں۔ یہاں سیاحوں کی سہولت کے لئے کئی ریسٹورنٹ عین دریائے سوات کے کنارے بنے ہوئے ہیں۔ جن میں دریائے سوات کی تازہ مچھلی ہر وقت ملتی ہے۔ سوات آنے والے سیاح اپنے طویل سفر کی تھکاوٹ، خوب صورت مناظر سے گھرے ہوئے ان ریستورانوں میں مختصر قیام سے با آسانی دور کر سکتے ہیں اور دریائے سوات اور اس کے قرب میں بکھرے ہوئے حسین مناظر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

وادیِ بونیر

 

31دسمبر1990ء تک ضلع بونیر ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے وادیِ سوات کا حصہ تھا۔ یکم جنوری 1991ء کو ضلع سوات سے بونیر کا علاقہ الگ کر کے اُسے علیٰحدہ ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔ ڈگر ضلع بونیر کا صدر مقام ہے جوسوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 64 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

بری کوٹ کے مقام پر سوات کی جرنیلی سڑک سے جنوباً ایک سڑک براستہ کڑاکڑ پاس بونیر تک چلی گئی ہے۔ راستے میں نجی گرام کے مشہور آثارِ قدیمہ ہیں جس تک دائیں طرف ایک دوسری ذیلی سڑک چلی گئی ہے۔ جب کہ بونیر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں ایک نہایت حسین مقام’’ املوک درہ‘‘ آتا ہے جو بلند  و بالا پہاڑوں سے گھرا ہوا نہایت دِل کش مقام ہے۔ ناوہ گئی نامی مقام سے ہوتے ہوئے درہ کڑاکڑ میں داخل ہوا جاتا ہے جو اگرچہ زیادہ تر چڑھائی اور پھر اُترائی  پر مشتمل ہے لیکن پورا راستہ گھنے جنگلات سے پُر بہت خوب صورت ہے۔ ’’جوڑ‘‘ کے مقام پر سڑک دو حصوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ ایک سڑک براستہ تور ورسک ڈگر تک چلی گئی ہے جبکہ بائیں طرف سڑک حضرت پیر بابا کے مزار (پاچا کلے) تک جاتی ہے۔ یہ سڑک بھی دس میل کے فاصلے پر ڈگر تک چلی گئی ہے۔ ضلع بونیر کا صدر مقام ہونے کی وجہ سے ڈگر میں ضلعی دفاتر، ٹیلی فون ایکس چینج، مرکزی ڈاک خانہ، ہسپتال اور ضلعی انتظامیہ کی رہائش گاہیں واقع ہیں۔ یہ مقام نہایت حسین اور دل کش ہے۔ یہاں سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع’’ سواڑی‘‘ ایک اہم جگہ ہے۔ جو ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔یہاں ایک خوب صورت کالج بھی ہے۔ سواڑی سے ایک سڑک مشہور تاریخی مقام درہ امبیلہ تک چلی گئی ہے۔ جہاں سے براستہ سدم، شہباز گڑھی جایا جا سکتا ہے اور پھر وہاں سے تربیلہ ڈیم، ضلع صوابی اور ضلع مردان میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔ سواڑی سے دوسری سڑک واپس تورورسک، انغاپور اور ایلئی سے ہوتے ہوئی بری کوٹ (سوات) سے مل جاتی ہے۔

بونیر کی پوری وادی بلند پہاڑوں سے گھری ہوئی ہے۔ یہ وادی کہیں تنگ اور کہیں بہت کشادہ ہے۔ زیادہ تر زمین بارانی ہے تاہم کہیں کہیں پہاڑی نالے اور ایک ندی اس کی زمین کو سیراب کرتے ہیں۔ یہاں کے پہاڑوں میں قیمتی معدنیات بھی پائے جاتے ہیں۔ یہاں سفید پتھر اور سنگِ مرمر کے وسیع ذخائر ہیں اور اس کے کارخانے یہاں قدم قدم پر قائم ہیں جہاں سے سنگِ مرمر پورے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔

وادیِ بونیر کے مقامات ملکا اور امبیلہ تاریخی شہرت رکھتے ہیں۔ یہ سید احمد شہید بریلویؒ کے مجاہدوں کا مرکز تھا اور یہیں سے اخوند صاحبِ سوات نے 1863ء میں جہاد کیا تھا اور اس علاقہ میں 1897ء میں یہاں کے قبائل نے انگریزوں کے خلاف علمِ آزادی بلند کیا تھا۔ پاچا کلے کے مقام پر مشہور بزرگ اور روحانی شخصیت حضرت سید علی ترمذی* عرف ’’پیرباباؒ‘‘ کا مزار ہے۔ جہاں دور دراز سے زائرین لاکھوں کی تعداد میں آتے ہیں۔

وادیِ سوات اور بونیر کے درمیان ایلم پہاڑ کا طویل سلسلہ حائل ہے۔ کڑاکڑ ٹاپ سے بونیر کے میدانوں اور برف پوش چوٹیوں کا نظارہ بہت حسین اور دل فریب ہے۔ سردی کے موسم میں وادیِ بونیر کے بلند پہاڑوں سمیت کڑاکڑ پاس پر بھی بہت برف پڑتی ہے۔

بونیر کے خوب صورت مقامات میں ڈگر، ایلئی،انغاپور اور قادر نگر شامل ہیں۔ قادر نگر کی خوب صورت اور حسین وادی پاچا کلے سے قریباً 8 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔جہاں مشہور صوفی اور روحانی شخصیت عبید اللہ درانی باباؒ محو استراحت ہیں۔ جن کے مزار (عُرس) پر ہر سال ہزاروں زائرین حاضر ہوتے ہیں۔

حضرت سید علی ترمذیؒ کے بارے میں شیر افضل خان بریکوٹی(لندن) نے اپنی ایک جامع تحقیقی کتاب’’پیر باباؒ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ (مصنف)

 

 

               فضاگٹ پارک

 

منگورہ کے مشرق کی طرف مدین، بحرین روڈ پر ’’فضا گٹ‘‘ کے مقام پر ایک خوب صورت پارک واقع ہے۔ یہ پارک بلدیہ منگورہ کے سابق چیئرمین اور سوات کی مشہور سیاسی و سماجی شخصیت ملک بیرم خان کے متنوع ذہن کی تخلیق ہے جو دل کشی، رعنائی اور فطری مناظر کے لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے۔ اُسے باقاعدہ پارک کی شکل 1984ء میں دی گئی۔یہ پارک قدرت کی بے پناہ رنگینیوں کا مظہر ہے اور دریائے سوات کے عین کنارے پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے۔ کیوں کہ اس کے دونوں جانب دریائے سوات سے نکلی ہوئی شفاف ندیاں رواں دواں ہیں جن کے بیچ میں پارک از حد خوب صورت اور پُر کیف منظر پیش کرتا ہے۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے اور حسین پھول خوشبو بکھیرتے نظر آتے ہیں۔

فضا گٹ کا پُرانا نام ’’قضا گٹ‘‘ ہے۔ پشتو میں ’’قضا‘‘ موت اور ’’گٹ‘‘ چٹان کو کہتے ہیں یعنی موت والی چٹان۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ ریاستِ سوات کے قیام سے پہلے دریائے سوات کے کنارے کوئی سڑک نہیں تھی جس کی وجہ سے لوگ دریائے کے ساتھ واقع بلند پہاڑ کی چوٹی پر سفر کر کے بالائی سوات سے منگورہ اور منگورہ سے بالائی سوات جایا کرتے تھے۔ راستہ بڑا پُر پیچ اور تنگ تھا، پاؤں کی معمولی سی لغزش سے آدمی سینکڑوں فٹ بلندی سے نیچے گر کر دریائے سوات کی تند و تیز لہروں کا شکار ہو جاتا، اس لئے لوگ اُسے قضا گٹ کے نام سے پکارنے لگے۔ فضا گٹ کا پُرانا نام ’’کومبڑ‘‘ بھی ہے جب کہ اسے ’’فرنجل‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

مِنگورہ سے فضا گٹ جاتے ہوئے پارک سے پہلے سڑک کی دوسری جانب سوات(منگورہ)کی مشہور زمرد کی کان نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ راستے میں دریائے سوات سے نکلی ہوئی ندی کے سنگ سنگ، جدید آبادی کے خوب صورت بنگلے اور ان سے متصل سرسبز و شاداب کھیت بڑی دل آویزی اور رعنائی کا باعث ہیں۔

فضا گٹ پارک میں ایک بڑی سی قدرتی چٹان ہے جس کے اُوپر کافی کھلی اور ہموار جگہ ہے۔جس سے دریائے سوات اور ارد گرد کے مناظر بہت رومان پرور اور نشاط انگیز دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں بچوں اور بڑوں کی تفریح طبع کے لئے کئی طرح کی دل چسپیاں فراہم کی گئی ہیں جس کے باعث یہاں ہر وقت ملکی و غیر ملکی سیاحوں اور مقامی لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

یہاں دریائے سوات کے کنارے جگہ جگہ چھوٹی کشتیاں ( جن کو منفرد مقامی ہئیت کی وجہ سے پشتو میں ’’جالہ‘‘ کہا جاتا ہے) سیاحوں کو دریا کی سیر کراتی نظر آتی ہیں جو دریا کی زورآور موجوں پر ہچکولے کھاتی ہوئی عجب سرشاری اور انبساط انگیزی کا موجب بنتی ہیں۔ پارک سے ذرا ہٹ کر دریائے سوات کے اُوپر دو مختلف جگہوں پر چیئر لفٹ کی طرز پر رسیوں سے چلنے والی ڈولیاں ( جنہیں پشتو میں ’’زانگوٹی‘‘ اور انگریزی میں ’’ریور لفٹ‘‘ کہا جاتا ہے) لگی ہوئی ہیں جو بہ یک وقت چھ سواریوں کو دریا کے ایک کنارے سے دوسرے سرے پر پہنچا دیتی ہیں۔ ان چیئر لفٹس کی مضبوط رسیوں کو سوزوکی پک اپ کے انجن سے منسلک کیا گیا ہے اور باقاعدہ ایکسی لیٹر کے ذریعے ان کی رفتار بڑھائی اور گھٹائی جا سکتی ہے۔ چیئرلفٹس کو بریک کے ذریعے بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ یہ ڈولی نما چیئر  لفٹس دریا کے دوسرے کنارے پر واقع مختلف دیہات کے مکینوں کی آمد و رفت کا سہل ذریعہ ہیں لیکن گرمیوں میں زیادہ تر باہر سے آئے ہوئے سیاح ان کے ذریعے دریائے سوات کا نظارہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔

فضا گٹ کا پورا علاقہ پانچ کلومیٹر پر محیط ہے۔گرمیوں میں معتدل موسم کی وجہ سے یہاں کئی خوب صورت ہوٹل تعمیر کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں چند ریسٹ ہاؤس بھی ہیں جن میں آرمی ریسٹ ہاؤس، پولیس ریسٹ ہاؤس اور زمرد ریسٹ ہاؤس قابل ذکر ہیں۔ یہاں دریائے سوات میں مقامی مچھیرے سوات کی لذیذ مچھلیاں پکڑ کر منگورہ شہر کو فراہم کرتے ہیں۔

فضا گٹ پارک، مناظرِ فطرت اور دریائے سوات سے نکلی ہوئی ندیوں میں چاروں اطراف سے کچھ اس طرح گھرا ہوا ہے کہ یہ ملک بھر کا منفرد اور حسین ترین پارک بن سکتا ہے کیوں کہ اس کے ساتھ سرسبز و شاداب اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کی شکل میں بہت سا میدانی علاقہ موجود ہے جو پارک میں با آسانی ضم کیا جا سکتا ہے۔ یہ پارک پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔ قریبی پہاڑ کافی بلند ہیں اور خوب صورتی سے سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ اس لئے اگر یہاں ملم جبہ اور ایوبیہ کی طرح چیئر لفٹس لگوائی جائیں تو پارک کی اہمیت اور خو ب صورتی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پانڑ، دنگرام، جامبیل، کوکارئ

 

 

منگورہ میں حاجی بابا روڈ پر جنوب کی طرف سرسبز و شاداب کھیتوں کے درمیان ایک پختہ سڑک پانڑ، دنگرام، جامبیل اور کوکارئ تک چلی گئی ہے۔ پانڑ سے کوکارئ تک پورا علاقہ نہایت خوب صورت اور سرسبز و شاداب ہے۔ چاروں طرف بلند پہاڑ اور حدِ نظر تک سبزے کی بچھی دل موہ لینے والی چادر آنکھوں کو طراوت بخشتی ہے۔

پانڑ کا مقام کھلا کھلا سا اور میدانی ہے لیکن پانڑ سے آگے کی جانب بڑھتے ہوئے پورا علاقہ قدرے تنگ وادی کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دنگرام سے آگے ’’جامبیل‘‘ اور ’’کوکارئ‘‘ بلند پہاڑوں کے عین وسط میں واقع ہیں اور یہاں سردی کے موسم میں کافی برف پڑتی ہے جس کی وجہ سے گرمی میں بھی یہاں کا موسم معتدل اور خوش گوار محسوس ہوتا ہے۔ جامبیل تک سڑک پختہ حالت میں ہے لیکن آگے چند کلومیٹر تک سڑک کچی حالت میں ہے۔ جامبیل کے جنوبی پہاڑوں کے پار ضلع بونیر کا وسیع اور خوب صورت علاقہ واقع ہے جہاں مشہور روحانی بزرگ پیر بابا کا مزار مرجع خلائقِ عام ہے۔ حکومت نے جامبیل میں چنار کے مقام سے ضلع بونیر تک سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جس پر اب تک کافی کام ہوا ہے۔ اس سڑک کی تکمیل سے بونیر کے قادر نگر اور پیر بابا تک کم وقت میں پہنچنا ممکن ہو جائے گا اور اس سے نہ صرف سوات آنے والے سیاحوں کے لئے کم وقت میں بونیر کے خوب صورت علاقوں کی سیاحت کرنا ممکن ہو جائے گی بلکہ اس طرح پیر بابا سے منگورہ تک آمد و رفت کے لئے کڑاکڑ کے طویل اور پُر پیچ راستے کی بجائے جامبیل کے مختصر اور آسان راستے کو استعمال کرنا ممکن ہو جائے گا جس سے وقت کی کافی بچت ہو گی۔

جامبیل اور کوکارئ کے پہاڑ ٹریکنگ اور کیمپنگ کے لئے نہایت موزوں اور محفوظ ہیں۔ اب بھی ٹریکنگ کے شوقین افراد پیدل پہاڑی راستے کے ذریعے کوکارئ کے چنار نامی مقام سے قادر نگر(پیر بابا) تک پیدل جاتے رہتے ہیں اور راستے میں خوب صورت مناظر سے لطف اندوز بھی ہوتے ہیں۔

پانڑ اور دنگرام کو آثارِ قدیمہ کی وجہ سے غیر معمولی شہرت اور اہمیت حاصل ہے۔ پانڑ اور دنگرام میں ہزاروں سال قدیم زمانے سے تعلق رکھنے والے آثار وسیع رقبے میں ظاہر ہوئے ہیں جو بُدھ مت سے تعلق رکھتے ہیں او ر ان سے علاقے کی قدیم تہذیبی، سماجی اور مذہبی ترقی اور عروج کا اندازہ بخوبی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پانڑ میں مختلف صنعتیں بھی قائم ہیں اور یہاں ایک ماڈل ٹاؤن کے لئے وسیع و عریض اراضی بھی منتخب کر لی گئی ہے جس پر عنقریب کام کا آغاز ہو جائے گا۔ پانڑ میں ملاکنڈ ڈویژن کا سب سے بڑا ٹیکنیکل ادارہ گورنمنٹ پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ اور ایک ٹیکنیکل کالج بھی واقع ہے جن میں سینکڑوں طالب علم فنی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہو رہے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

کانجو، علی گرام، کبل، شاہ ڈھیرئ،ٹال، دردیال

 

منگورہ کی حدود ایوب برج پار کر کے ختم ہو جاتی ہیں۔ جہاں سے دریائے سوات کے پار کانجو کی حدود شروع ہو جاتی ہیں۔ کانجو چوک میں دائیں طرف سڑک ائیرپورٹ، ننگولئی، مٹہ، باغ ڈھیرئی اور لالکو تک چلی گئی ہے جو سوات کے نہایت خوب صورت اور دل کش مقامات ہیں۔ با غ ڈھیرئ میں دریائے سوات کے اوپر ایک خوب صورت پل بنا ہوا ہے، جس کو پار کر کے مدین، بحرین، کالام تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کانجو چوک کے بائیں جانب جانے والی سڑک پر ہوتے ہوئے سب سے پہلے آپ دل کش قدرتی مناظر سے لبریز کانجو ٹاؤن شپ پہنچیں گے جو پہاڑوں سے گھرا ہوا میلوں پر محیط خوب صورت ہموار قطعۂ اراضی ہے۔ جہاں ایک عظیم الشان رہائشی منصوبہ زیر تعمیر ہے۔

کانجو ٹاؤن شپ سے کچھ فاصلہ پر ایک تاریخی مقام علی گرام واقع ہے۔ جہاں 1400 قبل مسیح کے قدیم آثار دریافت ہوئے ہیں۔ ان قدیم آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک قدیم بستی تھی جس میں بعض مقامات پر پہاڑوں کو کاٹ کر رہائش گاہیں تعمیر کی گئی تھیں۔ یہاں سے برآمد شدہ مٹی کے نفیس برتن اور دیگر اشیاء سوات کے دیگر آثار قدیمہ سے برآمد ہونے والے برتنوں اور اشیاء سے قدرے عمدہ اور ترقی یافتہ ہیں۔ یہاں کے آثار بدھ مت سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ان آثار کا تعلق بدھ دور سے قبل کے زمانے سے معلوم ہوتا ہے۔

کبل ، علی گرام سے دو کلومیٹر اور منگورہ سے  12کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ ایک صاف ستھرا قصبہ ہے جس کا کچھ حصہ دریائے سوات کے کنارے آباد ہے۔ کبل کا مقام گاف (Golf)کے خوب صورت اور دل کش گراؤنڈ کی وجہ سے پورے ملک میں بہت مشہور ہے۔ اس گاف گراؤنڈ میں کھیلنے کے لئے ماضی کے کئی حکمران باقاعدگی سے آتے تھے۔ گاف کا یہ میدان 18 سوراخوں پر مشتمل ہے۔ یہاں ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس اور وسیع باغ بھی ہے جو ہر قسم کے پھلوں اور پھولوں سے لدا پھندا ہے۔

کبل چوک میں ایک راستہ مغرب کی طرف بری کوٹ اور چک درہ کی طرف بھی چلا گیا ہے جب کہ کبل کے قریب ’’توتانو بانڈئ ‘‘نامی مقام سے ایک سڑک خوب صورت اور حسین مناظر سے گھرے ہوئے مقامات سے گزرتے ہوئے ضلع دیر تک چلی گئی ہے۔

کبل کے بعد اگلا اہم گاؤں شاہ ڈھیرئی ہے۔ جہاں مشہور چائنا کلے کے ذخائر اور کارخانہ واقع ہے۔ شاہ ڈھیرئی سے سوات کے دو اور حسین و جمیل مقامات ٹال اور دردیال تک بھی جایا جا سکتا ہے جو حسین قدرتی مناظر سے مملو ہیں۔ لیکن یہاں سیاحتی سہولتیں موجود نہیں ہیں جس کی وجہ سے ان علاقوں تک سیاح بہت کم جاتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

ملم جبہ

 

ملم جبّہ سوات کے سیاحتی مراکز میں منفرد خصوصیات کی حامل ایک جدید تفریح گاہ ہے۔ یہ پُر کشش اور قابلِ دید علاقہ دل کشی اور شادابی کا حسین مرقع ہے۔ ملم جبہ سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے شمال مغرب کی طرف 42 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ منگلور پُل کے قریب اس کا راستہ مدین، بحرین کے راستے سے الگ ہو جاتا ہے۔ اس کی مضبوط اور پختہ سڑک میں داخل ہوتے ہی انسان کو ایک خوش گوار کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس کی سڑک کے ایک طرف سرسبز پہاڑ، درخت اور دوسری جانب ایک چھوٹی سی ندی بہتی ہے جس میں پڑے ہوئے بڑے بڑے دیو ہیکل پتھر جا بجا دکھائی دیتے ہیں۔ اس ندی کا ماخذ گڈ اور جبہ نامی قدرتی چشمے ہیں۔ یہ ندی ملم جبہ کے قریب ’’سپینہ اُوبہ‘‘ نامی مقام سے شروع ہو کر سڑک کے ساتھ ساتھ بہتی ہوئی منگلور گاؤں کے قریب دریائے سوات میں شامل ہو جاتی ہے۔

ملم جبہ جاتے ہوئے راستے میں جہان آباد، تلے گرام، سیر، کشورہ، سپینہ اوبہ، گناجیر، کو، ملم اور جبہ جیسے علاقے آتے ہیں۔ ان میں تلے گرام ایک تاریخی جگہ ہے۔ یہاں پر آثار قدیمہ بھی ہیں۔ یہاں سڑک کے عین سامنے ننگریال نامی بلند وبالا پہاڑ پر وسیع علاقے میں آثار قدیمہ موجود ہیں جو بدھ مت کے عہد سے تعلق رکھتے ہیں اور آثار قدیمہ سے شغف رکھنے والے سیاحوں کی دلچسپی اور لطف اندوزی کا ایک بہت دل چسپ ذریعہ ہیں۔

ملم جبہ دو علاحدہ الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ملم اور جبہ ملم الگ علاقہ اور جبہ الگ۔ لیکن دونوں علاقے آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ اس لئے دونوں کو یکجا ملم جبہ کہا جاتا ہے۔ ملم جبہ مری کی طرح پہاڑی کی چوٹی پر واقع ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 9500 فٹ ہے اور اس کا رقبہ 250 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ گاڑی میں ملم جبہ کی طرف اُوپر چڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے انسان آسمان کی طرف چڑھ رہا ہو۔ سیر نامی گاؤں سے آگے ساری سڑک پُر پیچ، دشوار گزار اور مسلسل چڑھائی پر مشتمل ہے۔ سڑک کے نیچے بڑی بڑی گھاٹیاں مُنہ کھولے کھڑی ہیں لیکن یہ گہری گھاٹیاں دیکھ کر انسان کو خوف اور گھبراہٹ کی بجائے خوش گواری اور لطف کا احساس ہوتا ہے۔ بعض جگہوں پر مسلسل چڑھائی زیادہ دشوار گزار، طویل اور تھکا دینے والے سفر کی وجہ سے بوریت اور اُکتاہٹ کا احساس بھی ہوتا ہے، تاہم ملم جبہ کے قریب پہنچتے ہی ٹھنڈی ٹھنڈی مدہوش اور مُعّطر ہوائیں سیاحوں کا استقبال کر تی ہیں۔ ملم جبہ کی سڑک بہت پختہ اور مضبوط ہے لیکن کہیں کہیں اس کے تنگ ہونے کا احساس شدت سے ہوتا ہے۔ اس لئے ڈرائیونگ میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر یہ سڑک کشادہ کر دے تو اس طرح ملم جبہ کی سیاحتی افادیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔

ملم جبہ دسمبر سے ماہِ مارچ تک برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس عرصہ میں یہاں 12 سے 16 فٹ تک برف پڑتی ہے۔ہلکی برفباری تو اپریل کے مہینے تک جاری رہتی ہے۔یہاں کا درجۂ حرارت سردیوں میں منفی پانچ سے10 ڈگری سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے جبکہ موسم گرما میں درجۂ حرارت دس سے پچیس ڈگری رہتا ہے۔

ملم جبہ سرسبز پہاڑوں اور دل کش مناظر کی وجہ سے خوب صورت اور پُر فضا مقام ہے۔ گرمیوں میں یہاں موسم بہت خوش گوار اور قدرے سرد ہوتا ہے۔ لیکن یہاں فراواں پانی کی قلت بہت محسوس ہوتی ہے جس کے باعث ملم جبہ کا حُسن دریا اور آبشار نہ ہونے کی وجہ سے مزید نکھرنے سے رہ گیا ہے، تاہم پہاڑوں پر پڑی ہوئی برف کے پگھلنے سے چھوٹے چھوٹے نالوں کے ذریعے صاف و شفاف پانی نشیب کی طرف بہتا ہے جس سے سیاحوں کے پانی کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ پہاڑوں کے اوپر اور پہاڑوں کے دامن میں جگہ جگہ میٹھے پانی کے گن گناتے چشمے موجود ہیں لیکن ان تک رسائی ذرا مشکل ہے۔ پہاڑوں کے دامن میں قریب پڑی ہوئی برف سیاحوں کی دلچسپی اور لطف اندوزی کا ایک بہت دل چسپ ذریعہ ہے۔ سیاح پہاڑ پر چڑھ کر بہت آسانی سے برف تک پہنچ سکتے ہیں اور قدرت کا یہ اَن مول تحفہ اپنے ساتھ لے جا سکتے ہیں۔ قدرتی برف کھاتے ہوئے بہت لطف محسوس ہوتا ہے اور خاص کر جب اسے گلاس میں ڈال کر اس کے ساتھ دودھ اور گُڑ یا چینی ملا کر کھایا جائے تو اس کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

ملم جبہ کے قرب و جوار میں جنگلات وسیع قطعہ ء اراضی پر پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں جگہ جگہ عجیب طرح کے خوب صورت پھول کھلے ہوئے ہیں۔ ملم جبہ مجموعی طور پر اوپر تلے ڈھلانوں پر مشتمل ہے جس میں جگہ جگہ سیاحوں کے لئے پک نک منانے کے لئے قدرتی ہموار چمن زار موجود ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ملم جبہ ایک غیر معروف سا علاقہ تھا لیکن حکومت نے اس تفریح گاہ کی ترقی کی جانب بھرپور توجہ دی اور اب یہ علاقہ سیاحتی طور پر ترقی کی جانب رواں دواں ہے۔ حکومت پاکستان نے آسٹریا کی حکومت کے تعاون سے یہاں ایک جدید تفریحی منصوبہ مکمل کیا ہے جس سے یہاں کے قدرتی حسن میں معتدبہ اضافہ ہوا ہے۔ اس پروجیکٹ کے تحت 52 کمروں پر مشتمل جدید طرز کا ایک عظیم الشان ہوٹل تعمیر کیا گیا ہے جس میں اِن ڈور اور آؤٹ ڈور گیمز کھیلنے کی سہولتیں فراہم کی گئیں ہیں۔ ’’اس کی انگ‘‘ یعنی برفانی کھیل یہاں پاکستان میں پہلی مرتبہ متعارف کیا جا رہا ہے۔ یہاں ’’اس کی اِنگ‘‘ کے لئے کھیل کا مخصوص ڈھلان با آسانی بنایا گیا ہے جس کے تحت ’’ اس کی انگ‘‘ سے دلچسپی رکھنے والے سیاح جنوری سے مارچ تک یہاں آ کر اس کھیل سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔

ہوٹل کے عین سامنے ایک خوب صورت چیئرلفٹ لگائی گئی ہے۔ لفٹ کے ہر کیبن میں دو افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ جنہیں لفٹ ہوٹل کے قریب نشیبی حصہ سے ایک یا ڈیڑھ فرلانگ کی بلندی پر واقع چوٹی تک لے جا کر واپس لے آتی ہے۔

حکومت آسٹریا کے تعاون سے یہاں وسیع رقبے پر ایک قدرتی جنگل میں جنگلی جانور پالنے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے جس سے قدرتی ماحول میں ہر قسم کے جانور پالے جائیں گے۔ علاوہ ازیں بجلی کی سہولت یہاں موجود ہے اور بجلی فیل ہو جانے کی صورت میں موجود دو جنریٹر بجلی پیدا کرتے ہیں۔

ملم جبہ پروجیکٹ اپنی نوعیت کا واحد سیاحتی منصوبہ ہے جس پر 12 کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے جس میں تین کروڑ روپے کا زر مبادلہ بھی شامل ہے۔ اس پروجیکٹ پر 1980ء میں کام شروع ہوا۔ 1985ء میں پاکستان ٹورازم کی تحویل میں اس کے کام میں تیزی لائی گئی اور آخر کار1989ء کے اوائل میں یہ منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس منصوبے کے تحت ملم جبہ میں سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں مہیا کی جا رہی ہیں۔

ملم جبہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں اعلیٰ نسل کا چکور بھی پایا جاتا ہے۔ سیب اور ناشپاتی یہاں کے اہم پھل ہیں۔ گندم، پیاز، آلو اور ٹماٹر یہاں کی عام فصلیں ہیں۔

ماسوائے ایک فور سٹار ہوٹل کے یہاں سیاحت کے لئے دوسری بنیادی ضرورتیں عنقا ہیں۔ اپنی فطری خوب صورتی اور حسین مناظر کی کشش کی وجہ سے یہ خوب صورت علاقہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن سکتا ہے۔ اگر چند ہوٹل، ریسٹورنٹ، ڈسپنسری اور روزانہ استعمال کی اشیاء کے لئے مارکیٹ وغیرہ کا اضافہ کیا جائے تو اس طرح یہ علاقہ مزید سیاحتی اہمیت حاصل کر جائے گا۔ جس سے یہاں کے غریب اور پس ماندہ باسیوں کا معیار زندگی بدلنے میں بھی خوش گوار تبدیلی آ جائے گی۔

یہاں رات بسر کرنے کے لئے کوئی عام ہوٹل موجود نہیں ہے۔ شام کے وقت جلد واپسی کا سفر شروع کر کے رات بسر کرنے کے لئے منگورہ لوٹ جانا چاہئے۔

٭٭٭

 

 

 

گلی باغ

 

 

گلی باغ وادیِ سوات کا ایک نہایت حسین اور دل کش مقام ہیجو منگورہ سے قریباً 12 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے سوات کے کنارے پر واقع ہے۔ گلی باغ میں ڈھلوانی سطح پر سڑک کے موڑ سے دریائے سوات اور اس کے قرب و جوار میں حسین سبزہ زار پھولوں سے لدے پھندے باغات اور سرسبز لہلہاتے کھیت دل و دماغ کو تازگی اور آسودگی کا ایک سُرور افزا احساس بخش دیتے ہیں۔ یہاں سیاحوں کے لئے قیام و طعام کی کوئی سہولت موجود نہیں تاہم مدین، بحرین اور کالام جانے والے سیاح یہاں کے حسین مناظر دیکھ کر کچھ دیر کے لئے بے اختیار رُک جاتے ہیں۔

گلی باغ میں آسٹریا حکومت کے تعاون سے ایک بڑا سیاحتی منصوبہ ’’ٹورازم اینڈ ہوٹل مینجمنٹ‘‘ کے نام سے شروع کیا گیا ہے جو تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ یہ انسٹی ٹیوٹ برلبِ سڑک حسین و دل کش مناظر کے جلو میں تعمیر کیا جا رہا ہے۔ جس پر ایک اندازے کے مطابق چار ملین ڈالر لاگت آئے گی۔ جس کے تحت یہاں ہر سال قریباً چھ سو افراد کو ہوٹلنگ اور سیاحت سے متعلقہ شعبوں میں تربیت دی جائے گی۔ یہ ایشیاء بھر میں اپنی نوعیت و اہمیت کے لحاظ سے منفرد منصوبہ ہے جس کی تکمیل سے ملک عزیز میں سیاحت کو غیر معمولی فروغ حاصل ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

خوازہ خیلہ،شین، فتح پور، باغ ڈھیرئی

 

خوازہ خیلہ وادیِ سوات کا ایک اہم تجارتی قصبہ ہے جومنگورہ سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ قصبہ دریائے سوات کے کنارے واقع ہے اور یہاں سیاحوں کی دلچسپی کے لئے کئی خوب صورت مقامات ہیں جن میں ’’گیمن پُل‘‘ کے قرب کا علاقہ قدرتی نظاروں اور کیپمنگ کے لئے موزوں و مناسب ہے۔ یہاں کے خوب صورت بازار میں سیاحوں کے لئے بنیادی ضرورت کی تمام جدید اشیاء با آسانی ملتی ہیں۔

خوازہ خیلہ میں سڑک تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک سڑک مشرق میں شانگلہ کی جانب جاتی ہے اور بشام کے قریب شاہراہِ ریشم سے مل جاتی ہے۔ دوسری سڑک شمال کی طرف سیدھی مدین اور بحرین کی جانب گئی ہے جب کہ تیسری سڑک مغرب کی طرف گیمن پُل کے ذریعے’’ مٹہ‘‘ کی طرف لے جاتی ہے۔

خوازہ خیلہ سے آگے بڑھتے ہوئے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک نہایت خوب صورت مقام’’شین‘‘ واقع ہے جس کے ایک طرف سرسبز و شاداب پہاڑ سر اُٹھائے کھڑے ہیں اور دوسری جانب دریائے سوات خاموشی سے بِہہ رہا ہے۔ یوں تو دل کشی میں یہ پورا گاؤں ہی اپنی مثال آپ ہے لیکن دریا کے کنارے پر واقع گاؤں کا مغربی حصہ نہایت دل فریب اور خوب صورت ہے جہاں بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوا دریائے سوات اس کی قدرتی خوب صورتی اور دل کشی میں اضافہ کرتا ہے۔ دریا کے پار، شین کے عین سامنے ’’دُرش خیلہ‘‘ کا خوب صورت اور زرخیز علاقہ ہے جہاں سیب،املوک اور شفتالو(آڑو) کے وسیع باغات ہیں۔ میلوں وسیع ان باغات کے پھلوں سے ملک کو ہر سال کروڑوں روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

شین گاؤں دو حصوں میں منقسم ہے ایک سم شین(میدانی علاقہ) اور دوسرا غر شین( پہاڑی علاقہ) دونوں حصوں میں بہت سے قدرتی چشمے ہیں جن کا شیریں ٹھنڈا پانی مختلف قسم کی صحت بخش پہاڑی جڑی بوٹیوں سے کشید ہو کر نہایت روح افزا اور سرور افزا بن جاتا ہے۔ یہاں کے مختصر بازار میں سیاحوں کے لئے ضروری سہولتیں دستیاب ہیں۔

نیرنگیِ قدرت سے گھِرے ہوئے اس مقام پر اکثر و بیشتر سیر و تفریح کے لئے آئے ہوئے گھرانوں اور سیاحوں کی ٹولیاں یہاں کے قدرتی حسین مناظر سے لطف اندوز ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ دریا کے اُوپر رسیوں سے بنا ہوا ایک پُل ہے، جس پر کھڑے ہو کر دریائے سوات کا نظارہ بہت ہی بھلا معلوم ہوتا ہے۔

شین سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پر آگے بڑھئے تو ایک اور نہایت حسین و جمیل تفریحی مقام ’’باغ ڈھیرئ‘‘ واقع ہے۔ جو سیاحوں کے لئے نہایت کشش اور جاذبیت کا حامل ہے۔ یہاں دریائے سوات انتہائی زور و شور کے ساتھ جھاگ اُڑاتا ہوا بہ رہا ہے۔ باغ ڈھیرئی میں سیاحوں کے لئے تفریحی سہولتیں اور دلچسپیاں موجود ہیں۔ دریا کے اُوپر بنائے گئے کننگھم پُل سے قرب و جوار کے نظارے بے حد طمانیت اور مسرت کا باعث بنتے ہیں۔ یہ پل سر جارج کننگھم کے نام سے موسوم ہے۔ وادیِ سوات کا یہ گوشہ بہت پُر سکون ہے اور شہری زندگی کی آلائشوں اور ہنگاموں سے تھکے ہوئے لوگوں کے لئے نہایت سکون بخش ہے۔یہاں دو خوب صورت ہوٹل ہیں جن میں سیاحوں کے لئے جدید سیاحتی سہولتیں موجود ہیں۔ یہاں دریائے سوات کے کنارے کیمپنگ کی جا سکتی ہے اور محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہلکاروں سے اجازت لے کر یہاں مچھلی کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔

باغ ڈھیرئ سے قریباً ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ’’فتح پور‘‘ نامی ایک اور دل کش مقام آتا ہے جہاں کے مختصر بازار میں سیاحوں کے لئے بنیادی سیاحتی سہولتیں دستیاب ہیں۔ یہ دل کش گاؤں دریائے سوات کے عین کنارے آباد ہونے کی وجہ سے نہایت خوب صورت اور دل کش ہے۔ دریا کے کنارے پر واقع اس کا مغربی حصہ سیر و سیاحت اور کیمپنگ کیلئے نہایت موزوں ہے۔ یہاں دریا میں مچھلی کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

شانگلہ

               (الپورئ،لیلونئی، کروڑہ،بشام، یخ تنگے)

 

ضلع بونیر کی طرح شانگلہ بھی ایک سب ڈویژن کی حیثیت سے ضلع سوات کا ایک حصہ تھا لیکن جون 1995ء میں اُسے ایک الگ ضلع کی حیثیت دے دی گئی اور جولائی 1995ء میں باقاعدہ طور پر ڈپٹی کمشنر نے یہاں کے انتظامی اُمور کا چارج سنبھال لیا لیکن تاریخی طور پر ضلع شانگلہ اب بھی سوات کا ایک حصہ ہے اور اس کے عوام خود کو سوات سے تاریخی، جغرافیائی اور معاشرتی طور پر الگ نہیں سمجھتے۔ منگورہ سے شانگلہ کا فاصلہ 54 کلومیٹر ہے۔

شانگلہ از حد خوب صورت علاقہ ہے لیکن سیاحتی طور پر سیاحوں کی نظروں سے اوجھل چلا آ رہا ہے کیوں کہ یہاں نہ تو سیاحوں کیلئے بنیادی سہولتیں موجود ہیں اور نہ ہی اس کے خوب صورت مقامات تک پختہ سڑکیں ہیں۔ شانگلہ تک پہنچنے کے لئے خوازہ خیلہ تک مدین،بحرین روڈ پر ہی سفر کرنا پڑتا ہے، تاہم خوازہ خیلہ کے مقام پر ایک سڑک سیدھی مدین بحرین اور کالام تک چلی گئی ہے جبکہ دوسری پختہ سڑک پہاڑی راستہ پر مشرق کی جانب شانگلہ ٹاپ تک اُوپر ہی اُوپر موڑ در موڑ چلی جاتی ہے۔ اس کے بعد ڈھلان شروع ہو کر ’’الپورئ‘‘ کے مقام پر ختم ہو جاتی ہے۔ الپورئ ضلع شانگلہ کا صدر مقام ہے اور ایک حسین و جمیل قصبہ ہے جس کے طویل بازار میں زندگی کی بنیادی ضرورت کی تمام اشیاء با آسانی مل سکتی ہیں۔یہاں ایک ڈگری کالج،ہسپتال، ہائی سکول، ٹیلی فون ایکس چینج اور ضلعی دفاتر ہیں۔ پشتو زبان کے مشہور صوفی شاعر حافظ الپورئ کا مزار بھی یہیں پر واقع ہے۔خاص الپورئ میں سیاحوں کے لئے دلچسپی کے خاص مواقع نہیں ہیں تاہم اس کے قرب و جوار میں سیاحوں کے لئے بہت سی دلچسپیاں موجود ہیں۔ اردگرد کے پہاڑوں میں خوب صورت دشت ہیں جن میں قدرتی چشمے اور دل کش آبشار شائقین فطرت کے لئے دل رُبائی اور تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ الپورئ کے قریب ’’لیلونئی‘‘ کے نام کا ایک خوب صورت اور پُر کشش مقام ہے جو دل کشی میں سوات کے دیگر حسین اور صحت افزا مقامات سے کسی طور پر کم نہیں ہے۔

الپورئ سے آگے ’’کروڑہ‘‘ کے قریب سڑک پھر تین حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ یہ جنوباً چکیسر اور مارتونگ تک چلی گئی ہے جہاں مشہور تاریخی پہاڑ پیر سر واقع ہے جو سکندر اعظم کی گزرگاہ رہ چکا ہے۔شمالاً شاہ پور، داموڑئ اور اجمیر تک اور مشرق کی جانب یہ سڑک بشام جا کر شاہراہِ ریشم کے ساتھ مل گئی ہے۔ وادیِ سوات آنے والے اکثر سیاح سوات کی دل فریب ذیلی وادیوں کی سیر و سیاحت کے بعد واپسی میں ملاکنڈ کے راستے کی بجائے شانگلہ سے ہوتے ہوئے بشام میں شاہراہِ ریشم کے راستے ایبٹ آباد نکل جاتے ہیں اور اس طرح وہ کم وقت اور کم خرچ میں ہزارہ ڈویژن کی خوب صورت وادیاں بھی دیکھ لیتے ہیں۔ ہزارہ میں مانسہرہ سے براستہ بالاکوٹ،کاغان ویلی اور گڑھی حبیب اللہ سے مظفر آباد (آزاد کشمیر) اور پھر ایبٹ آباد سے نتھیا گلی،ایوبیہ اور مری بھی جایا جا سکتا ہے۔

بشام ضلع شانگلہ کا ایک خوب صورت اور دل کش علاقہ ہے جو منگورہ سے 97 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں سے ایک راستہ ایبٹ آباد اور دوسرا راستہ گلگت اور خنجر اب کی طرف چلا گیا ہے۔ یہاں پر آپ تاریخی دریا ’’اباسین‘‘ کا نظارہ بھی کر سکتے ہیں اور بشام کے قرب و جوار میں بکھری خوب صورتیوں سے بھی لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔ ضلع شانگلہ کے مذکورہ مقامات قدرتی حُسن و جمال سے مالامال ہیں لیکن سیاحتی سہولتوں کے فقدان اور بعض جگہوں پر سڑکوں کی خراب حالت کے باعث یہ علاقے سیاحوں کی نگاہوں سے اوجھل ہیں۔ تاہم بشام میں سیاحوں کی سہولت کے لئے درمیانہ درجہ کے متعدد ہوٹل موجود ہیں اور یہاں پی ٹی ڈی سی کا ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔

الپورئ سے پہلے بورڈ نامی مقام آتا ہے جہاں سے ایک سڑک سیدھی الپورئ تک پہنچاتی ہے جبکہ دوسری سڑک جنوب کی طرف یخ تنگے کی جانب مڑ گئی ہے۔اس سڑک پر آپ جوں ہی قدم رکھیں گے، وہاب خیل کوٹکے کے قریب ایک خوب صورت آبشار آپ کو دعوتِ نظارہ دیتی نظر آئے گی۔ وہاب خیل کوٹکے ایک چھوٹا سا خوب صورت گاؤں ہے جس کی آبادی تین ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہاں کے قدرتی مناظر دل موہ لینے والے ہیں۔ اس مقام سے قریباً پانچ کلومیٹر آگے ملک خیل کوٹکے کے نام سے ایک بڑا گاؤں آتا ہے۔ بلند و بالا حسین پربتوں سے گھرا ہوا یہ مقام بہت خوب صورت ہے۔ اس کے بیچ میں ندی بہِہ رہی ہے جواس مقام کے حُسن کو اور بھی دل فریب بنا دیتی ہے۔

ملک خیل کوٹکے کی آبادی 7000 نفوس پر مشتمل ہے جس کے زیادہ تر مکانات پہاڑوں کے اوپر واقع ہیں جو دُور سے بڑے دلآویز نظر آتے ہیں۔ یہاں ایک چھوٹا سا بازار بھی ہے جس میں یہاں کے مکینوں کے لئے بنیادی ضرورت کی اشیاء ملتی ہیں ، سیاحتی سہولتوں کے لحاظ سے یہ مقام خاصا پس ماندہ ہے۔ یہاں سیاحوں کے قیام کے لئے کوئی ہوٹل ہے اور نہ ہی طعام کا معیاری انتظام موجود ہے اس لئے وہاں جاتے ہوئے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء ضرور لے جانی چاہئیں۔ یہاں ایک ہائی سکول، ٹیلی فون ایکس چینج اور پولیس چوکی بھی موجود ہے۔

یہاں ’’مشک بالا‘‘ کے نام سے ایک قیمتی جڑی بوٹی پہاڑوں میں بڑی مقدار میں پائی جاتی ہے، جسے یہاں کے لوگ جنگل سے لا کر مکانوں کی چھتوں پر خُشک ہونے کے لئے رکھ دیتے ہیں اور پھر اُسے شہری علاقوں میں فروخت کے لئے لے جاتے ہیں جہاں انہیں اس کے اچھے خاصے دام مل جاتے ہیں۔مشک بالا کی تیز اور مخصوص خوشبو انسان کو عجیب طرح کا خوش کن احساس دلاتی ہے۔ یہ جڑی بوٹی یونانی ادویہ میں بطورِ خاص استعمال کی جاتی ہے۔ حکومت کے متعلقہ محکمہ کے اعلیٰ حکام کو یہاں کے پہاڑوں میں پائی جانے والی جڑی بوٹیوں پر باقاعدہ تحقیق کرنی چاہئے اور انہیں ان کی مخصوص افادیت کے پیش نظر مختلف قسم کے متعلقہ امراض کے لئے دوائیوں میں استعمال میں لانا چاہئے۔ یہاں کی پیداوار میں اخروٹ، ناشپاتی، املوک، مکئی اور آلو وغیرہ شامل ہیں۔ اس پورے علاقے کو غوربند کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے(اس نام کا ایک علاقہ افغانستان میں بھی موجود ہے)

ضلع شانگلہ کا سب سے زیادہ حسین اور دل فریب مقام ’’یخ تنگے‘‘ جو ’’ملک خیل کوٹکے‘‘ سے 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہ سیاحوں اور فطری مناظر کے شائقین کے لئے دنیاوی جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ یہ مسحور کُن وادی مناظرِ فطرت اور حُسن و دل کشی کے لحاظ سے مدین، بحرین اور ملم جبہ جیسے صحت افزا مقامات سے کسی طرح کم نہیں ، لیکن سیاحتی سہولتوں کے شدید فقدان کے باعث یہ خوب صورت مقام عام لوگوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کے بلند و بالا پہاڑ اور رعنائی سے بھرپور مناظر مصروف شہری زندگی کے بکھیڑوں کے ستائے ہوئے لوگوں کے لئے ایک پُر سکون اور خاموش گوشۂ عافیت کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یخ تنگے فر اور کائل کے خاموش اور مسحور کن جنگلات کی ڈھلوان پر واقع ہے۔ یہاں کی آبادی بہت ہی کم ہے۔ سیاحتی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم یخ تنگے ٹاپ میں ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس ہے جو محکمۂ جنگلات کے دائرۂ اختیار میں ہے اور اس میں رہائش کے لئے متعلقہ محکمے سے اجازت لینا پڑتی ہے۔ یہ ریسٹ ہاؤس رہائش کی جدید سہولتوں سے آراستہ ہے اور اس کے چاروں طرف دل فریب مناظر کی صورت میں حسن و جمال بِکھرا ہوا ہے۔ اس کی چاروں جانب سر بفلک چوٹیاں ، سرسبز و شاداب کھیت اور بلند و بالا درخت اس کی دلآویزی اور حسین مناظر کی خوب صورتی کو درجۂ کمال تک پہنچانے کا باعث ہیں۔

منگورہ سے یخ تنگی کا فاصلہ 70 کلومیٹر ہے جبکہ ملم جبہ سے یخ تنگی کا پہاڑی فاصلہ قریباً گیارہ کلومیٹر بنتا ہے لیکن دونوں علاقوں کے درمیان بڑے بڑے پہاڑ حائل ہیں جس کی وجہ سے راستہ مشکل اور دشوار گزار ہے۔ ملم جبہ اور بازار کوٹ (یخ تنگے کے قریب واقع ایک خوبصورت مقام) کے درمیان اگر صرف سات کلومیٹر نئی سڑک بنائی جائے تو دونوں صحت افزا مقامات آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہو سکتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کو سُندر پربتوں کے درمیان گھری ہوئی دونوں دھنک رنگ وادیوں کے حُسن و جمال سے بہ یک وقت لطف اندوز ہونے کا سنہری موقع میسر آ سکے گا بلکہ حکومت کو بھی درختوں کی کٹائی کے بعد لکڑی کی ترسیل میں آسانی میسر آ سکے گی۔

یخ تنگے کے قرب و جوار کے پہاڑوں میں میلوں کے احاطے میں گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جن کی کٹائی کا کام یخ تنگے ریسٹ ہاؤس کے اُوپر واقع پہاڑ میں جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یخ تنگے میں جا بجا بڑے بڑے گیل اور درختوں کے تنے پڑے نظر آتے ہیں۔ یہ جنگلات جس قدر بے دردی سے کاٹے جا رہے ہیں ، اس سے یقیناً اس علاقے کے حُسن اور آب و ہوا کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ متعلقہ حکام کو اس کمی کو پورا کرنے کے لئے نئی شجر کاری کرنی چاہئے، ورنہ یہ انمول دولت ایک دن بالکل ناپید ہو جائے گی۔حکومت اور محکمہ سیاحت اگر اس علاقے میں سیاحتی سہولتوں کی فراہمی پر توجہ دیں تو بہت کم عرصے میں یہ علاقہ سیاحوں کے لئے غیر معمولی کشش، دلچسپی اور نہایت شہرت کا حامل ثابت ہو سکتا ہے۔

یخ تنگے کے قریب پہاڑوں سے پھوٹنے والا ایک قدرتی چشمہ واقع ہے جس کا پانی اس قدر ٹھنڈا ہے کہ اس میں ہاتھ کودو منٹ سے زیادہ دیر تک ڈبوئے رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھنڈا میٹھا چشمہ نہایت صحت بخش اور روح افزا ہے۔ اس کے لذت بخش پانی سے جی نہیں بھرتا اور انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا پانی مسلسل پیتا ہی چلا جائے۔ پورن (شانگلہ کا ایک اور خوب صورت علاقہ) تک جانے اور واپس منگورہ آنے والی گاڑیاں اس چشمہ پر ضرور رکتی ہیں۔ سواریاں چشمہ کے پانی سے لطف اندوز ہوتی ہیں اور کنڈیکٹر گاڑیوں کے گرم انجنوں میں یہ سرد پانی ڈال دیتے ہیں۔چوں کہ یہاں کے تمام پہاڑوں میں قیمتی و نایاب جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں اور یہ پانی جڑی بوٹیوں کی خاصیتیں بھی اپنے ساتھ کشید کر کے شامل کر لیتا ہے، اس لئے یہ پانی بعض بیماریوں کے لئے شِفا کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ یخ تنگے جا کر اس مشہور چشمے کا پانی نہ پینا کفرانِ نعمت کے مترادف ہے۔

سردیوں میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے۔ لمبے لمبے دیو قامت درخت اور پہاڑ برف سے ڈھک جاتے ہیں اور ہر چیز برف کی سپید چادر میں لپٹی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہ علاقہ اپریل، مئی تک برف کی فرغل اوڑھے رہتا ہے تاہم جون، جولائی کے مہینوں میں یہ برف پگھل کر پانی کی صورت میں یہاں کی ندی اور چشموں میں شامل ہو جاتی ہے۔

یخ تنگے کی سیر و سیاحت ایک دن میں بھی کی جا سکتی ہے اور یہ دن آپ یخ تنگے کے خوب صورت ریسٹ ہاؤس کے طراوت بخش سبزہ زاروں میں گزار سکتے ہیں۔ سبزہ زاروں میں ایک دن کی سیر کے لئے متعلقہ محکمہ سے پیشگی اجازت کی ضرورت نہیں لیکن چند دن کے قیام کے لئے یخ تنگے ریسٹ ہاؤس بُک کروا کر آپ حقیقی معنوں میں یہاں کے دھنک رنگ مناظر سے پوری طرح لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء کا مناسب ذخیرہ ضرور لے جائیے کیوں کہ یہاں ہوٹل نام کی کوئی شے آپ کو نہیں ملے گی۔ ریسٹ ہاؤس میں چند دنوں کا قیام یقیناً آپ کے لئے نہایت سکون بخش اور پُر کیف ثابت ہو گا۔

٭٭٭

 

 

 

میاں دم

 

میاں دم وادیِ سوات کی ایک سحر انگیز وادی ہے۔ یہ خوش رنگ و گُل رنگ وادی اپنے دل کش مناظر اور معتدل آب و ہوا کی وجہ سے دل و دماغ کو فرحت و آسودگی کا احساس بخشتی ہے۔ خاص مقام ’’میاں دم‘‘ پہاڑوں کی چوٹیوں سے قدرے نیچے آباد ہے۔ جس کو ہل ٹاپ بھی کہا جا سکتا ہے۔

میاں دم، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس حسین اور پُر فضا سیاحتی مقام تک پہنچنے کے لئے منگورہ کے جنرل بس سٹینڈ سے فلائنگ کوچ اور پرائیویٹ ٹیکسی مل سکتی ہے۔ میاں دم تک پہنچنے کے لئے آپ دریائے سوات کے سنگ سنگ حسین و دل کش مناظر سے بھری ہوئی سڑک پر سفر کریں گے۔ فتح پور سے آگے فتح پور چوکی کے قریب یہ سڑک تین اطراف میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک سڑک مدین، بحرین اور کالام کی طرف چلی گئی ہے اور دوسری سڑک ، باغ ڈھیرئی کے راستے سوات کی دیگر حسین وادیوں روڈینگار،بہا،شکر درہ اور مٹہ وغیرہ کا رخ کرتی ہے جب کہ تیسری سڑک جس پر ہمیں آگے بڑھنا ہے، مشرق کی طرف خم کھا کر ہمیں میاں دم پہنچا دیتی ہے، جو فتح پور سے قریباً 9 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ جگہ سطح سمندر سے 6000 فٹ بلند ہے۔ یہاں کی آبادی قریباً سات ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

میاں دم کی حدود میں داخل ہوتے ہی ٹھنڈک اور عطر بیزی کا ایک پُر مسرت احساس رگ و پے میں دوڑ جاتا ہے۔ چڑھائی پر چڑھتے ہوئے جوں جوں آپ میاں دم کے قریب ہوتے جائیں گے۔ اس خوب صورت وادی اور اس کی خوب صورت عمارات کے دل رُبا مناظر آپ پر اپنا جلوہ ظاہر کرتے چلے جائیں گے۔ میاں دم میں داخل ہوتے ہی وادی میں مشرق کی جانب واقع سرسبز بیل بُوٹوں ، گھنے سایہ دار درختوں اور افسانوی ماحول میں رچا بسا پی ٹی ڈی سی کا میاں دم ریسٹ ہاؤس آپ کو اپنی طرف متوجہ کرے گا۔

پہلے پہل اس علاقے میں میاں دم کے نام سے کوئی جگہ موجود نہیں تھی۔ جو مقام اب میاں دم کہلاتا ہے، وہ یہاں کے دو مشہور گاؤں گوجر کلے(گوجروخوڑ) اور سواتی کلے(سواتو خوڑ) کے مابین حدِ فاصل تھا۔ ایک بار یہاں پر سید خاندان کے ایک بزرگ تشریف لائے اور موجودہ بس اڈے کے قریب ایک مکان میں مقیم ہو گئے۔ وہ مختلف بیماریوں اور تکالیف میں مبتلا افراد کا علاج آیاتِ قرآنی کا دم کر کے کرنے لگے۔ اُن کا نام میاں عثمان باباجی تھا لیکن علاقے کے لوگ احتراماً انہیں میاں جی کہا کرتے تھے۔ میاں جی کے علاج کی شہرت اور تاثیر کے چرچے اس قدر ہوئے کہ رفتہ رفتہ یہ پورا علاقہ ہی ’’میاں دم‘‘ کہلانے لگا۔ یہاں تک کہ اس علاقے کے دوسرے مشہور مقامات بشمول گوجر کلے اور سواتی کلے بھی ’’میاں دم‘‘ کی مرکزی شناخت میں ضم ہو کر رہ گئے۔

جنگلات کی قیمتی دولت سے مالا مال، بلند و بالا پہاڑوں کے طویل سلسلوں کے دامن میں واقع، میاں دم کا پورا علاقہ نہایت صحت بخش، خوب صورت، پُر سکون اور دل کش ہے۔ سیاحوں کی رہائش کے لئے یہاں پر جدید ہوٹل، موٹل اور تین دل کش ریسٹ ہاؤس ہیں جو بہت آرام دہ اور صاف ستھرے ہیں۔ ریسٹ ہاؤسز میں گھنے درخت ، کھلے ہوئے حسین مہکتے پھول، ہر طرف سبزے کی بچھی ہوئی دل موہ لینے والی چادر اور تا حدِ نظر پُر لطف نظارے، قابلِ رشک ماحول فراہم کرتے ہیں۔

میاں دم کا خوب صورت بازار قریباً دو درجن دُکانوں پر مشتمل ہے جہاں زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے علاوہ سیاحتی سہولتیں بھی فراواں ہیں۔ دست کاری کی دُکانوں میں قدیم و جدید طرز کی خوب صورت شالیں ، روایتی سواتی کشیدہ کاری سے مزین ملبوسات، علاقے کے مخصوص چاندی کے زیورات، منقش لکڑی کا قدیم سامان اور دیگر مقامی مصنوعات سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنی رہتی ہیں۔یہاں ٹیلی فون کی سہولت بھی موجود ہے جس کے ذریعے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک فوراً ہی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

میاں دم کی طرف جاتے ہوئے راستے میں برہم پٹی، سینے، نرے تنگے اور خیر آباد کے مقامات آتے ہیں ان میں ’’سینے‘‘ تاریخی اعتبار سے اہم ہے کیوں کہ یہاں ایک طرف پہاڑوں میں قریباً دو ہزار سال پُرانے آثارِ قدیمہ ہیں۔ اس مقام سے وقتاً فوقتاً پکی مٹی کے بنے ہوئے قدیم برتن اور دیگر نوادرات برآمد ہوتے رہے ہیں۔’’سینے ‘‘کے پیچھے ایک پُرانا تاریخی چینہ (چشمہ) بھی ہے جو ’’شاہ توت چینہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا پانی پہاڑوں میں موجود بہت سی صحت بخش اور قیمتی جڑی بوٹیوں سے کشید ہوتا ہوا آتا ہے، اس لئے مٹھاس کے علاوہ یہ پانی اپنے اندر قدرتی طور پر شِفا بھی رکھتا ہے۔

میاں دم کے آس پاس پہاڑی مقامات میں مُلا بانڈہ، شام سر اور کافر بانڈہ بھی کافی مشہور ہیں۔ واضح رہے کہ پشتو زبان میں ’’بانڈہ‘‘ یا’’بانڈئ‘‘ کا مطلب گاؤں یا دیہات ہے۔ان تینوں میں ’’شام سر‘‘ کی شہرت زیادہ ہے۔ شام پرندے کے علاوہ یہاں کے جنگلوں میں مرغ زریں بھی پایا جاتا ہے نیز ریچھ، بندر، گیدڑ وغیرہ بھی وافر ملتے ہیں۔

شام سر پہاڑ کے آخری حصے کے مغرب کی طرف سڑک کے کنارے پر ’’برہم پٹی ‘‘نامی گاؤں آباد ہے۔ یہ اور اِس کے ارد گرد کا علاقہ بدھ مت کے آثار سے مالا مال ہے۔ برہم پٹی سے مدین کی طرف جاتے ہوئے ٹانگو کے مقام پر سڑک سے نیچے مہاتما بُدھ کا ایک مجسمہ ہے۔ مجسمے کے دائیں ہاتھ میں ایک ٹہنی ہے جس کے کنارے پر ایک پھُول ہے۔ پھول مجسمے کے چہرے کی طرف جھُکا ہوا ہے اور دائیں ہاتھ ہی کی ایک انگلی پھول کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔ لوگ اس مجسمے کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے دور دراز کے مقامات سے آتے ہیں۔ ٹانگو سے مدین تک پیدل بھی جایا جا سکتا ہے۔

میاں دم کے چاروں طرف اونچے برف پوش پہاڑ سر اُٹھائے کھڑے ہیں۔ اس کی بائیں جانب چھوٹا سا گاؤں ’’گوجر کلے‘‘ سطح سمندر سے سات ہزار فٹ کی اُونچائی پر واقع ہے۔ اس کے عین سامنے ’’گنہگار پہاڑ‘‘ کا طویل برف پوش سلسلہ نظر آتا ہے۔ جس کی صحیح وجہ تسمیہ تو معلوم نہیں ،البتہ مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ شاید کسی خطا کی پاداش میں یہ پہاڑ سارا سال برف تلے دبا رہتا ہے۔

میاں دم کے عین وسط میں صاف و شفاف پانی کی دو ندیاں گن گناتے جھرنوں اور شور مچاتے آبشاروں کے ساتھ بہ رہی ہیں۔ ان ندیوں کا سرچشمہ، پہاڑی چوٹیوں پر مستقل جمی ہوئی برف ہے، جس میں مختلف پہاڑی چشمے بھی اپنا حصہ ڈال دیتے ہیں۔ دُور سے دیکھنے پر یہ برف، بادلوں اور سُورج کی شعاعوں کے حسین امتزاج سے نہایت خوب صورت اور دل آویز منظر کو جنم دیتی ہے۔ خاص کر شام کے ملگجے اندھیرے میں یہ رنگ و روپ مزید نکھر آتا ہے، جس کی وجہ سے پوری وادی پر ایک حسین و جمیل طلسماتی سرزمین کا گمان گزرنے لگتا ہے۔ یہاں کا درجۂ حرارت جون جولائی کے مہینوں میں 30 سے زیادہ نہیں ہوتا۔

میاں دم کے پہاڑوں پر سرسبز و شاداب دشت واقع ہیں۔ تاہم سیاحوں کی وہاں تک رسائی ذرا مشکل ہے۔ اُن تک پہنچنے کے لئے دشوار گزار پہاڑوں پر چڑھنا پڑتا ہے۔ یہاں کی خاص بات یہ ہے کہ سوات کی مشہور بشی گرام جھیل تک جانے کے لئے میاں دم کے پہاڑی راستوں کے ذریعے با آسانی پہنچا جا سکتا ہے۔ عام طور پر سیاح، بشی گرام تک جانے کے لئے مدین میں علاقہ’’ چیل ‘‘کی طرف سے روانہ ہوتے ہیں ، جو طویل اور دشوار گزار راستہ ہے۔ اس کے مقابلے میں میاں دم کا پہاڑی راستہ بہت آسان ہے۔

میاں دم میں خالص سواتی شہد اور موسمی پھل کافی مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ مشروم یعنی کھمبی یہاں کی خاص پیداوار  ہے۔ یہ علاقہ مختلف قیمتی اور نادر و نایاب جڑی بوٹیوں کے لئے بہت شہرت رکھتا ہے۔ یہاں کے لوگ زیادہ تر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ مخصوص پشتون تہذیب پر عمل پیرا یہ لوگ بہت سیدھی سادی زندگی گزارتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

مدین

               (تیراتھ، جونو سر، شاہ گرام، چیل)

 

حسین سبزہ زاروں ، گھنے جنگلات اور برف کی سپید فرغل پہنی ہوئی فلک بوس چوٹیوں کے دامن میں واقع مدین کی وادی، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 52 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ پختہ سڑک کے ذریعے منگورہ سے منسلک ہے اور سطح سمندر سے اس کی بلندی 4334 فٹ ہے۔

مدین سوات کی حسین ترین وادیوں میں سے ایک ہے۔ جہاں ہر طرف رنگینی، دل کشی، رعنائی اور حُسن کا راج ہے۔ دریائے سوات کے کنارے واقع یہ خوب صورت مقام دلوں میں نئی اُمنگ پیدا کرتا ہے۔ جو لوگ اس وادی کا رُخ کرتے ہیں یہاں کے دل فریب مناظر میں کھو کر رہ جاتے ہیں۔

مدین کی حدود پیا خوڑ (پیاندی) سے لے کر مشکون گٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہاں کی کل آبادی قریباً 50 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں کے لوگ اپنی قدیم تہذیب میں رنگے ہوئے ہیں۔ مذہبی لحاظ سے پکے مسلمان ہیں۔ جنگ و جدل کو پسند نہیں کرتے اور امن و آشتی سے رہنے والے یہ لوگ بڑے مہمان نواز ہیں۔

مدین کا پُرانا نام ’’چوڑڑئی‘‘ ہے۔ یہ نام وادیِ سوات میں بُدھ مت کے دورِ عروج میں اُسے دیا گیا تھا۔ بعد میں والیِ سوات میاں گل عبدالحق جہان زیب نے اُسے مدین کے نام سے تبدیل کیا۔مدین کے قرب و جوار میں کئی خوب صورت علاقے موجود ہیں۔ جن میں بیلہ، بشی گرام،شنڑکو، تیراتھ، قندیل، دامانہ، آریانہ، مورپنڈئ، چورلکہ، شاہ گرام، الکیش، کالاگرام، شیگل اور گڑھی نامی گاؤں کافی مشہور ہیں۔ ان علاقوں کی خوب صورتی اور حسین مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں مگر ان میں بعض علاقوں تک پختہ سڑک کی غیر موجودگی نے ان خوب صورت مقامات کو سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے۔ ان علاقوں میں تیراتھ ایک حسین و جمیل علاقہ ہے جو مدین سے جنوب کی طرف دریائے سوات کی مغربی سمت واقع ہے۔ اس مقام تک جانے والی سڑک دریائے سوات پر بنائے گئے ایک خوب صورت پُل کے ذریعے جرنیلی سڑک کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ علاقہ قدیم تہذیب و ثقافت،تاریخ و تمدن اور آثارِ قدیمہ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں پر آثارِ قدیمہ کافی وسیع رقبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن پر کچھ عرصہ قبل محکمہ آثارِ قدیمہ نے باضابطہ طور پر کام شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں بُدھ مت سے متعلق بہت سی قیمتی اشیاء اور نوادرات برآمد ہوئے تھے۔ یہاں مولا مولئی کے مقام پر ایک چٹان پر انسانی پاؤں کے نشانات بھی ملے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مہاتما بدھ کے قدموں کے نشانات ہیں۔ اس کے قریب ایک دوسری چٹان کے متعلق مشہور ہے کہ اس پر گوتم بدھ نے اپنے گیلے کپڑے سُکھائے تھے۔

جُونوسر،بابوسر، شاہی سر اور میخو سر تیراتھ کی مشہور پہاڑی چوٹیاں اور سیر گاہیں ہیں۔ ان میں جونو سر کی چوٹی کو نمایاں تاریخی مقام حاصل ہے۔ اس کی بلندی دس ہزار فٹ سے لے کر پندرہ ہزار فٹ تک ہے۔ اس کی چوٹی پر سیاحوں کے لئے سیر و سیاحت کی بہت سی دلچسپیاں موجود ہیں۔ یہ پہاڑ قدیم سوات کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں اگر ایک طرف سوات کے قدیم قبائل کی گم شدہ کڑیاں ملتی ہیں تو دوسری جانب یہاں ایسے آثار اور روایات بھی موجود ہیں جن سے زرتشت مذہب، بُدھ مذہب اور آریا مت (ہندو)کے متعلق گراں قدر معلومات ہاتھ آ سکتی ہیں۔ اس پہاڑ میں ’’سوما‘‘ (اسے باٹنی میں اِفیڈرا پلانٹ کہا جاتا ہے اور اس سے ایفیڈرین نامی دوائی کشید کی جاتی ہے) نامی پودا بھی پایا جاتا ہے جس کے متعلق مشہور ہے کہ یہ ہر قسم کی جسمانی قوت کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہندوؤں کی مذہبی کتاب رِگ وید کے مطابق یہ پودا بہت قوت بخش ہے اور قدیم زمانے میں یہ روحانی قوت بڑھانے کا ایک بڑا محرک بھی سمجھا جاتا تھا۔ قدیم کتابوں میں اس پودے کے حیرت انگیز کرشمے بیان کئے گئے ہیں۔ اس پودے سے ’’سوم رس‘‘ نامی شراب بھی نکالی جاتی تھی،جس کا ذکر سوم رس کے نام سے ہندوؤں کی قدیم متبرک کتابوں میں تفصیل سے ملتا ہے۔اس پہاڑ کے متعلق یہ بات بھی کافی مشہور ہے کہ کافروں کے زمانے میں اس کی چوٹی پر دوشیزائیں سوما چننے کے لئے چاند رات میں چلی جاتیں اور وہ یہاں چاند کی روشنی میں ناچتی تھیں اور شراب کشید کرنے کی خاطر اس پودے کو چنتی تھیں۔ اس وجہ سے پہاڑ کی اس چوٹی کا نام جونو سر (یعنی دوشیزاؤں والی چوٹی) پڑ گیا۔

تیراتھ اور مدین کے درمیان تین چار مقامات پر دریائے سوات پر لکڑیوں اور رسیوں کے اشتراک سے خوب صورت پُل بنے ہوئے ہیں جن کے ذریعے متعلقہ علاقوں تک نقل و حمل میں بہت آسانی رہتی ہے۔ ان پلوں سے دریا اور ارد گرد کے دل کش مناظر بہت سُرور انگیز اور فرحت بخش محسوس ہوتے ہیں۔

وادیِ مدین سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر ایک چھوٹا سا علاقہ چیل ہے جو حقیقی طور پر فردوسِ بریں کا منظر پیش کرتا ہے۔ چیل کی سڑک مدین بازار سے جنوب مغربی جانب ایک کچے راستے کی شکل میں الگ ہوئی ہے۔ یہاں ہر طرف سبزے کی بچھی ہوئی چادر دل کش آبشاروں کا ترنم اور بہتے ہوئے ندی نالوں کا سُرور انگیز آہنگ ایک عجیب سی موسیقی کا سماں پیدا کرتا ہے۔ یہاں آ کر انسان کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جنت کے ایک پُر سکون اور خوب صورت باغ میں گھوم رہا ہو۔ پہاڑوں میں بِل کھاتی ہوئی سڑک بہت خوب صورت لگتی ہے۔ سڑک کے سنگ سنگ بہتی ہوئی بشی گرام کی ندی اور اس کے کنارے پر کھِلے ہوئے خوب صورت پھول پُوری وادی کی فضاء کو معطر بنا دیتے ہیں۔ ندی کا پانی جب بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتا ہے تو اس سے ہلکی سی پھُوار نکلتی ہے جس کے ساتھ پھولوں کی خوش بُو شامل ہو جاتی ہے تو ساری فضا رنگ و بو کے سحر میں ڈوب جاتی ہے۔ مدین آ کر اگر چیل کونہ دیکھا جائے تو مدین کی سیر ادھوری رہ جاتی ہے۔

وادیِ مدین کے بلند پہاڑوں کی چوٹیاں ہر وقت برف سے ڈھکی رہتی ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پہاڑوں نے سپید چادر اوڑھ رکھی ہو۔ یہاں کے ندی نالے اور گن گناتے آبشار کائنات کے فطری حُسن و جمال کے حقیقی مظہر ہیں۔ پہاڑوں کے دامن میں واقع یہ وادی بلاشبہ بہت خوب صورت ہے۔ اس کے ایک طرف دریائے سوات بپھرے ہوئے شیر کی مانند دھاڑتا ہوا بہِہ  رہا ہے اور دوسری طرف چیل خوڑ دریائے سوات سے جا ملتی ہے۔چیل خوڑ کو دریائے بشی گرام بھی کہا جاتا ہے۔ یہ دریا، دریائے سوات کا معاون دریا ہے اور اس کا اصل منبع بشی گرام جھیل ہے۔ چیل اور اس کے ارد گرد علاقوں سے بھی برف کا پانی پگھل کر بشی گرام خوڑ میں شامل ہو جاتا ہے۔ مدین میں پُل پر سے دریائے بشی گرام اور دریائے سوات کے اتصال کا منظر نہایت دل کش ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

وادیِ مدین میں پھلوں اور دیگر میوہ جات کے بڑے بڑے باغات ہیں۔ جن میں سیب کے باغات کافی مشہور ہیں۔ یہاں جوار، مکئی، آلو، املوک، اخروٹ، آلوچہ،اور عناب وغیرہ بھی وافر مقدار میں پیدا ہوتے ہیں۔ شہد یہاں کا خاص تحفہ ہے جو یہاں موجود شہد کی مکھیوں کے فارموں سے حاصل کیا جاتا ہے اور سیاح اُسے دور دراز کے مقامات تک بطورِ سوغات لے کر جاتے ہیں۔ مدین بہت سی مفید جڑی بوٹیوں کا مرکز بھی ہے۔ یہاں کے جنگلوں میں بہت سی ایسی کارآمد جڑی بوٹیاں (خصوصاً مشکِ بالا) ملتی ہیں جو مختلف دواؤں میں استعمال ہو تی ہیں۔

وادیِ مدین میں ایک با رونق بازار ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز بآسانی ملتی ہے۔ بازار کا ایک حصہ قدیم آبادی پر مشتمل ہے۔ جہاں بازار سے تنگ گلیوں کی صورت میں راستے گئے ہیں۔ یہ آبادیاں قدیم طرزِ تعمیر کا عجب سا تاثر دیتی ہیں۔ آبادیوں میں جا بجا لکڑی کے مضبوط شہتیروں اور تختوں کے استعمال سے پوری وادی کو ایک خاص مماثلت اور اچھوتی انفرادیت حاصل ہے۔

مدین بازار کا دوسرا حصہ دریائے بشی گرام پُل سے آگے ہے۔ جہاں زیادہ تر جدید ہوٹل اور ریسٹورنٹ ہیں۔ اس کے ساتھ ہینڈی کرافٹس کی دُکانوں میں قدیم نوادرات اور سوات کے آثار قدیمہ میں نکلنے والی دیگر قیمتی اشیاء کی دل کش سجاوٹ نوادرات جمع کرنے والے سیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے۔

قریباً پچیس برس قبل وادیِ مدین میں موسم سرما میں غیر ملکی یورپی سیاحوں کا ہر وقت جم غفیر رہتا تھا۔ سینکڑوں (Overland) پیدل چلنے والے سیاح یہاں مہینوں تک ڈیرا ڈالتے تھے۔ بازار میں مقامی لوگوں کی نسبت ان کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ وہ یو رپ سے براستہ تُرکی، ایران اور افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان آتے اور یہاں زیادہ عرصہ تک قیام کے متمنی سیاحوں کا بیس کیمپ مدین ہوا کرتا تھا۔ عام طور پر خواتین سیاح مقامی لوگوں سے اُن کے گھروں کا نصف یا پورا گھر کرایہ پر لے کر قیام پذیر ہوا کرتی تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ مدین کے اکثر مرد، خواتین، بچے اور بچیاں انگریزی ، فرانسیسی، جرمنی اور اٹالین زبانیں کافی حد تک سمجھتے تھے۔ اب بھی یورپ سے پاکستان آنے والے سیاح اگر سوات آئیں تو یہاں کا چکر ضرور لگاتے ہیں۔

مدین میں چیل روڈ پر ٹراؤٹ مچھلی کی افزائش کا ایک سرکاری فارم بھی ہے۔ جہاں سے چھوٹی مچھلیوں کو افزائشِ نسل کے لئے دریائے اوشو و اتروڑ وغیرہ میں ڈالا جاتا ہے اور بڑی مچھلی کو فروخت بھی کیا جاتا ہے۔

وادیِ مدین میں سیاحوں کے لئے بہت سی جدید سہولتیں موجود ہیں۔ جدید ہوٹل ہیں اور ٹیلی فون کا ڈائریکٹ ڈائلنگ سسٹم ہے۔ موسم گرما میں فیملی کے لئے ہوٹلوں کے علاوہ پورے سیزن کے لئے فلیٹ نما مکانات بھی کرایہ پر ملتے ہیں۔یہاں منگورہ سے ہر پانچ دس منٹ کے وقفہ سے مدین کے لئے فلائنگ کوچ، ویگن اور پرائیویٹ گاڑیاں چلتی ہیں۔ سڑک کی حالت کافی بہتر ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ مدین کے نواح میں موجود ان خوب صورت علاقوں تک پختہ سڑکوں کی تعمیر ممکن بنائی جائے جو انتہائی خوب صورتی کے باوجود سیاحوں کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

بشی گرام جھیل

 

وادیِ سوات کی یہ حسین و جمیل اور طلسماتی جھیل سوات کے مشہور تفریحی مقام مدین سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ گھنٹے کی پیدل مسافت پر واقع ہے۔ بشی گرام محض ایک جھیل کا ہی نام نہیں بلکہ یہ ایک وسیع و فراخ وادی کا نام بھی ہے جس کی خوب صورتی اور رعنائی قابلِ دید ہے۔

اس تک پہنچنے کے لئے شنڑ کو نامی مقام تک چھ کلومیٹر کا راستہ بذریعہ بس طے کیا جاتا ہے اور آگے شمال مشرق کی طرف بشی گرام جھیل تک آٹھ گھنٹے کا طویل سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ بیس کلومیٹر کا یہ راستہ اگرچہ کافی دشوار گزار ہے لیکن تمام راستہ حسین مناظر اور فطری رعنائیوں کی رنگینیوں سے اس قدر معمور ہے کہ انسان کو راستے کی پیچیدگیوں کے باوجود تھکاوٹ اور بوریت کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ بشی گرام ایک انتہائی دل کش اور خوب صورت مقام ہے۔ یہاں فطرت اپنے اصل رنگ و روپ میں نمایاں ہے لیکن یہاں تک رسائی کا سہل ذریعہ نہ ہونے کی وجہ سے حسن و جمال کا مرقع یہ سرسبز و شاداب علاقہ سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کی سیاحتی سہولت موجود نہیں ہے۔ تاہم انتہائی پس ماندگی کے عالم میں زندگی گزارنے والے یہاں کے کوہستانی باشندے بہت صاف دل اور مہمان نواز ہیں اور اپنے مخصوص رسم و رواج کی بھی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔

بشی گرام میں قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیوں کی افراط ہے۔ جن پر علم نباتات کے ماہرین ریسرچ کریں تو انہیں انسانیت کی فلاح کے لئے استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ یہاں سردیوں میں کافی برف باری ہوتی ہے۔ گرمیوں میں بھی یہ برف عموماً پہاڑوں کے دامن تک رہتی ہے اور پہاڑ تو ہمیشہ برف کی فرغل پہنے رہتے ہیں۔ بشی گرام میں جا بجا ٹھنڈے اور میٹھے پانی کے چشمے ہیں جن کا پانی قدرتی دوا کا کام دیتا ہے۔

بشی گرام جھیل تک پہنچنے کے لئے ایک راستہ مدین میں چیل نامی گاؤں سے ہوتے ہوئے شینکو، ڈبوگے، بیلہ، کرڈیال، کس، مغل مار اور بشی گرام نامی قابل ذکر دیہات کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ اس جھیل تک پہنچنے کے لئے دوسرا راستہ سوات کے ایک اور حسین و جمیل مقام میاں دم سے چلا گیا ہے۔ جہاں سے شام سر، پیازوبانڈہ، کافر بانڈہ اور نکئی بانڈہ جیسی مشہور چراگاہوں اور سیرگاہوں سے ہوتے ہوئے بشی گرام جھیل پہنچا جا سکتا ہے۔جھیل بشی گرام کی سیاحت کا موزوں مہینہ ستمبر ہے کیوں کہ اس مہینہ تک برف پگھل چکی ہوتی ہے اور راستے آسان ہو جاتے ہیں تاہم پہاڑوں کے بیشتر حصوں پر برف پورا سال موجود رہتی ہے۔

بشی گرام تک جانے والے راستے میں نہایت حسین اور دل فریب مقامات آتے ہیں جہاں حسن، دل کشی اور رعنائی جیسے قدم قدم پر بکھری ہوئی ہے۔ پورا علاقہ مختلف قسم کی قیمتی جڑی بوٹیوں اور جنگلی پھولوں سے اٹا پڑا ہے۔ بعض مقامات پر صاف پانی کے ٹھنڈے میٹھے چشمے ہیں جن کا پانی نہایت صحت بخش اور سُرور افزا ہے۔ جھیل بشی گرام تک جانے والے خواہش مند سیاحوں کو گروپ کی شکل میں جانا چاہئے اور اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء، گرم کپڑے، ضروری ادویات اور شب بسری کے لئے گرم کمبل یا سلیپنگ بیگ ضرور لے جانے چاہئے کیوں کہ رات کے وقت وہاں شدید سردی پڑتی ہے۔ بشی گرام جھیل کے قرب و جوار میں کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے دستیاب نہیں ہیں۔تاہم قرب و جوار کے دیہات میں مقامی لوگ سیاحوں کی شب بسری اور ان کے کھانے پینے کا بندوبست بخوشی کرتے ہیں۔ سیاح اگر ان کو نقدی کی شکل میں معمولی سی رقم دینا چاہیں تو ٹھیک ورنہ وہ سیاحوں کی خدمت بلا معاوضہ کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ یہاں کے لوگ نہایت پس ماندگی کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن زندگی کی بنیادی سہولتوں کی عدم دست یابی کے باوجود ان کے چہروں پر خوشی ،شادمانی اور اطمینان کی چمک نظر آتی ہے۔

بشی گرام جھیل کے قرب و جوار میں رہنے والے لوگ ستمبر کے مہینہ میں برف باری شروع ہونے سے قبل یہاں سے رختِ سفر باندھ لیتے ہیں اور بعض لوگ میاں دم اور بعض مدین کی راہ لیتے ہیں۔ کیوں کہ ستمبر کے آخر میں جب برف باری شروع ہوتی ہے تو ہر شے برف کی سپید چادر اوڑھ لیتی ہے اور شدید ترین سردی کی وجہ سے وہاں کسی ذی روح کا رہنا دشوار ہو جاتا ہے۔ گرمی کا موسم شروع ہوتے ہی یہ خانہ بدوش لوگ دوبارہ اپنے ٹھکانوں کی راہ لیتے ہیں۔

سیب، اخروٹ، انگور اور دیگر میوہ جات یہاں فراوانی سے پیدا ہوتے ہیں جبکہ عام فصلوں میں جو، گندم، چاول، بھنڈی، مٹر اور ٹماٹر شامل ہیں۔ یہاں بعض دیہات میں شہد کی مکھیاں بھی پالی جاتی ہیں۔ یہاں کا خالص شہد بہت مشہور ہے اور اکثر لوگ خصوصی طور پر یہاں سے شہد منگواتے ہیں۔

جھیل بشی گرام سوات کی دوسری مشہور جھیلوں درال اور سیدگئی سے بڑی اور گہری ہے۔ جب آٹھ گھنٹے کا سفر طے کر کے، دور سے جھیل پر نظر پڑتی ہے تو عجیب قسم کی خوشی اور طمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ پورے راستے کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے اور جسم میں نئی تازگی آ جاتی ہے۔ جھیل کا نیلگوں پانی اتنا ٹھنڈا ہے کہ اس میں دو تین منٹ سے زیادہ ہاتھ نہیں رکھا جا سکتا۔

جھیل سے دریائے بشی گرام کی شکل میں پانی ’’چیل‘‘ گاؤں سے ہوتے ہوئے مدین کے مقام پر دریائے سوات کے ساتھ جا ملتا ہے۔ اس کے ساتھ راستے میں مختلف مقامات شینکو، چیل اور ڈبرگے جیسے بلند وبالا علاقوں سے بھی برف کا پانی پگھل کر دریائے بشی گرام کے ساتھ شامل ہوتا ہے۔ جھیل بشی گرام اور اس کے قرب و جوار کا علاقہ بلاشبہ خوب صورتی اور رعنائی سے اس قدر مالا مال ہے کہ اس پر کسی طلسماتی نگری کا گمان گزرتا ہے۔ جھیل کا طلسماتی ماحول انسان کو سحر زدہ کر دیتا ہے۔یہاں کی خوب صورتی اور رعنائی میں اتنی کشش ہے کہ یہاں سے جانے کو جی ہی نہیں چاہتا۔

٭٭٭

 

 

سوات کوہستان

 

سوات کوہستان وسیع و عریض وادیِ سوات کا ایک خوب صورت اور پُر کشش علاقہ ہے۔ اس کی حدود مدین اور بحرین کے درمیان واقع ایک حسین مقام ’’ساتال‘‘ (مشکون گٹ) سے شروع ہوتی ہیں اور بحرین ، کالام، اُتروڑ، گبرال، اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ کے سحر انگیز مقامات اور ان کی بلند و بالا برف پوش چوٹیوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ جغرافیائی طور پر سوات سے کوئی الگ علاقہ نہیں ہے بلکہ اپنی مخصوص زمینی ساخت، زبان اور بلند و بالا پہاڑوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اُسے ’’سوات کوہستان‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

بحرین کو سوات کوہستان کا دروازہ کہا جاتا ہے اور اس مقام پر مہوڈنڈ اور گبرال سے نکلا ہوا دریائے سوات درال ندی کو اپنی بپھری ہوئی لہروں میں ضم کر لیتا ہے۔ سوات کوہستان کا پورا علاقہ سردیوں میں برف کی سپید چادر اوڑھے رکھتا ہے اور یہاں سردیوں میں 10 سے 16 فٹ تک برف پڑتی ہے۔ اس کے پہاڑی علاقے برفانی باد و باراں کی لپیٹ میں رہتے ہیں اور بیشتر علاقوں کے مکین اپنے اپنے گھروں میں شدید برف باری کے باعث محصور ہو کر رہ جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں بعض اوقات یہاں بڑے بڑے گلیشیئر پہاڑوں کی بلندیوں سے لڑھکتے ہوئے نیچے کی طرف آتے ہیں جن کی تند و تیز ہوا سے بڑے بڑے مضبوط درخت بھی جڑ سے اُکھڑ جاتے ہیں۔ سردی کے موسم میں زیادہ برف باری کی وجہ سے اُتروڑ، گبرال اور مٹلتان وغیرہ کی وادیوں سے دیگر علاقوں کا زمینی راستہ کٹ جاتا ہے اور کئی ہفتوں تک یہاں کے باشندے سوات کے مرکزی شہر منگورہ تک آنے جانے سے قاصر رہتے ہیں۔

بحرین کی وادی میں زیادہ تر جو کوہستانی بولی جاتی ہے، اُسے توروالی کہتے ہیں جبکہ کالام اور اس کے قرب و جوار کے مقامات کے لوگ گاؤری نامی کوہستانی زبان بولتے ہیں۔ تاہم پشتو زبان یہاں عام بولی جاتی ہے اور بیشتر لوگ اُردو بھی با آسانی بول اور سمجھتے ہیں۔’’سوات کوہستان‘‘ کا پورا علاقہ وادیِ سوات میں سب سے زیادہ حسین اور پُر کشش ہے۔ جہاں خوب صورت جھیلیں ہیں ، گن گناتے آبشار ہیں ، صحت بخش پانی کے چشمے ہیں ، مُنہ زور ندیاں ہیں ، فلک بوس اور برف پوش چوٹیاں ہیں ، گھنے جنگلات ہیں ، قیمتی جڑی بوٹیاں ہیں ، گل رنگ اور خوش رنگ پھول ہیں ، نایاب پرندے اور جنگلی جانور ہیں ، دل موہ لینے والے وسیع سبزہ زار ہیں اور سب سے بڑھ کر پُر خلوص اور مہمان نواز لوگ ہیں۔ جن کی تمام تر معیشت کا انحصار جنگلات کی رائلٹی اور سیاحوں کی آمد و رفت پر ہے۔ پورے علاقہ میں سیاحوں کے لئے ہر قسم کی سہولتیں موجود ہیں۔ ہر معیار کے جدید ہوٹل اور ریسٹ ہاؤس ہیں جن میں سیاحوں کے لئے ٹیلی فون سمیت ہر نوع کی سہولتیں موجود ہیں۔

کوہِ  ہندوکش اور کوہِ ہمالیہ کے طویل سلسلوں سے گھِرا ہوا یہ پورا علاقہ نہایت خوش گوار اور معطر آب وہوا پر مشتمل ہے۔ یہاں کے پہاڑوں اور جنگلات میں مرغ زرین، چکور، ہرن اور ریچھ وغیرہ جیسے نایاب پرندے اور جانور پائے جاتے ہیں۔ جن کے تحفظ کے لئے حکومت نے کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے یہ نادر جانور اور نایاب پرندے یہاں سے بڑی تیزی سے معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔

یہاں دریائے سوات کے ٹھنڈے پانی میں ٹراؤٹ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں جو اپنی منفرد لذّت کے لحاظ سے شہرت کی حامل ہیں۔ ان مچھلیوں کا شکار خود بھی کیا جا سکتا ہے اور تیار تازہ مچھلیاں خریدی بھی جا سکتی ہیں۔ تاہم ان کے شکار سے لطف اندوز ہونے کے لئے متعلقہ محکمہ کے مجاز اہل کاروں سے باقاعدہ اجازت(پرمٹ) لینا پڑتی ہے۔

سوات کوہستان اپنی بے پناہ خوب صورتی اور غیر معمولی رعنائی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے اور یہاں کی معّطر اور پُر کشش وادیوں کی رنگینوں سے لطف اندوز ہو کر سیاح بار بار یہاں کا رُخ کرتے ہیں۔نہ صرف یہاں کے حسین قدرتی مناظر سے محظوظ ہوتے ہیں بلکہ یہاں کی مقامی مصنوعات، تازہ پھل، شہد اور اخروٹ جیسی سواتی سوغات بھی اپنے ساتھ لے جا تے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

بَحرین

 

گل و لالہ کی وادی بحرین، سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 64 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ وادی حسن و دل کشی اور خوب صورتی میں سوات کے دیگر علاقوں سے نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 4500 فٹ ہے اور آبادی قریباً 40 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہاں سے مانکیال کی 19 ہزار فٹ بلند چوٹی برف کی سپید چادر میں لپٹی بہت دل کش نظر آتی ہے۔ کوہِ سجن یہاں کا مشہور اور بلند پہاڑ ہے۔ بحرین کی حدود پنجی گرام سے لے کر لامبٹ تک پھیلی ہوئی ہیں۔

بحرین کے ارد گرد بلند و بالا پہاڑ ہیں جن میں مشرقی پہاڑوں کے دامن میں دریائے سوات خوف ناک اور تند و تیز لہروں کے ساتھ بہِ رہا ہے۔ بحرین کے ایک طرف مانکیال پہاڑ ہے تو دوسری طرف جنوباً چمکتا ہوا ایک گاؤں ’’آئین‘‘ ہے۔ اس کے شمال کی جانب سڑک سے چند کوس دور پہاڑوں میں پنجی گرام کا چھوٹا سا حسین اور تاریخی گاؤں ہے جس کا نام بدھ مت کے عہد کی یاد دلاتا ہے۔

بحرین کا پُرانا نام ’’برانڑیال‘‘ تھا۔ اس سے قبل اس کا نام ’’بھونال‘‘ تھا۔ جو صدیوں پُرانا نام ہے۔ یہاں کی فطری خوب صورتی ، دل کشی اور رعنائی جب بانیِ سوات بادشاہ صاحب نے دیکھی تو دو دریاؤں کے حسین ملاپ کے باعث اُسے بحرین( دو دریاؤں کی ملنے کی جگہ) کا نام دیا اور یہی اس کی وجہ تسمیہ بھی ہے۔

دو دریاؤں کے سنگم پر واقع یہ زرخیز وادی سیر و تفریح کی بہترین جگہ ہے۔ جہاں ہر سال گرمیوں میں سیاحوں کا جم غفیر رہتا ہے۔ یہاں سیاحوں کے لئے بہت سی سہولتیں موجود ہیں۔ متعدد جدید ہوٹل ہیں جن سے باہر دریا اور علاقے کے مناظر بہت حسین اور دل کش معلوم ہوتے ہیں۔ آمد و رفت کا ذریعہ منگورہ سے ویگن، بس اور فلائنگ کوچ سروس ہے۔ یہاں تک سڑک پختہ اور رسائی آسان ہے۔ ٹیلی فون کی سہولت موجود ہے اور ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز آسانی سے مِل سکتی ہے۔

شام کے وقت بحرین کا منظر بہت سُہانا اور رومان پرور ہو جاتا ہے۔ وادی کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتے ہوئے ایک عجیب طرح کی لطافت، اُمنگ اور رومانوی جذبے سے سرشاری کا نازک احساس اُمڈ آتا ہے۔ سرد ہوا کے خوش گوار جھونکے، پانی کی لہروں کی نغمگی اور آبشاروں کا پُر لطف شور ہلکی ہلکی روح پرور موسیقی کو جنم دیتا ہے جس سے انسان پر مدہوشی کی سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ نیم تاریکی میں ڈوبی ہوئی وادیِ بحرین شام کے وقت یورپ کے کسی پُر رونق اور حسین بازار کی طرح دکھائی دیتی ہے کیوں کہ اس وقت پیدل چلنے والے سیاحوں کی گروہ در گروہ ٹولیاں بحرین کے بازار اور اس سے ملحقہ باہر کالام کی طرف جاتی ہوئی سڑک پر دور تک پیدل گھومتی پھرتی ہیں جس سے بحرین میں رونق اور رنگ وبُو کا ایک حسین سماں بندھ جاتا ہے۔

بحرین سے بارہ میل کے فاصلے پر ایک اور دل کش مقام کولالئی ہے جو سطح سمندر سے تقریباً 5000 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ جگہ بہت حسین اور پُر سکون ہے۔ یہاں دریا کے کنارے ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس ہے جس سے اردگرد پہاڑوں اور دریائے سوات کا منظر بہت دل فریب اور سحر انگیز نظر آتا ہے۔ قدرت نے یہاں کے مناظر کو بہت سُرور، رعنائی اور دل کشی بخشی ہے جس کی وجہ سے یہاں آکر انسان خود کو جنت کی ایک حسین وادی میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سیر و تفریح کی بہترین جگہیں مانکیال، پشمال، شیلہ در، ارین، شگئی اور لگن ہیں۔جہاں سیر کے لئے پیدل جایا جا سکتا ہے۔ بحرین کے قریبی پہاڑ بھی سیر کے لئے دل کش تفریح گاہوں کا سامان مہیا کرتے ہیں۔علاوہ ازیں بحرین کے قریب بر لبِ سڑک واقع’’شِفا‘‘ نامی چشمہ بہت مشہور ہے۔ مقامی لوگوں کی روایت ہے کہ اس چشمے کا پانی کئی قسم کی بیماریوں کے لئے شِفا ہے۔

بحرین میں کئی مقامات پر دریائے سوات اور درال ندی پر لکڑی اور رسیوں کے معلق پُل بنے ہوئے ہیں۔ صحت بخش آب و ہوا کی وجہ سے یہ جگہ بہترین تفریح گاہ تصور کی جاتی ہے۔ اس لئے سوات کے دیگر تفریحی علاقوں کی نسبت یہاں سیاحوں کا ہجوم اور رونق زیادہ دیکھنے میں آتی ہے۔ رنگ برنگ لباسوں میں ملبوس سیاح بحرین کے پُر رونق بازار میں مختلف اشیاء کی خریداری کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں ہینڈی کرافٹس اور دیگر دُکانوں میں سیاحوں کی دلچسپی کی بہت سی اشیاء اور ان کے ذوق کے مطابق طرح طرح کے تحفے تحائف ملتے ہیں۔ جن میں سواتی کمبل، نمدہ، شال، کُرتے، ٹی کوزی سیٹ، شولڈر بیگ، ہینڈ بیگ، کُشن، ریڈی میڈ سوٹ، زری کی ٹوپی اور دیگر سواتی مصنوعات شامل ہیں۔ یہاں کا خاص تحفہ سیاہ زیرہ اور خالص قدرتی شہد ہے۔

یہاں کے لوگ بہت وضع دار اور انسان دوست ہیں۔ مہمانوں کی عزت کو مقدم سمجھتے ہیں۔ مذہب کے معاملے میں بہت سخت(مسلمان) ہیں۔ یہاں کے باشندے تاریخ کے نامور اور مجاہد بزرگ میاں قاسم باباؒ کی تبلیغی مہم کے نتیجہ میں مشرف بہ اسلام ہوئے۔مخصوص علاقائی تہذیب و ثقافت پر عمل پیرا یہ لوگ بہت سادہ اور خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

درال ڈنڈ (جھیل)

 

وادیِ بحرین کی مغربی سمت کوہِ ہندوکش سلسلے کی چوٹیوں کی اوٹ میں وادیِ سوات کی ایک حسین جھیل ’’درال ڈنڈ‘‘ واقع ہے۔ اس ڈنڈ (جھیل) سے نکلی ہوئی ’’درال ندی‘‘ کا صاف و شفاف پانی جب بپھری ہوئی موجوں کی شکل میں بحرین پُل کے نیچے دریائے سوات کے ساتھ جا ملتا ہے تو فضا میں ایک طرح کی نغمگی اور موسیقی بِکھر جاتی ہے۔ پُل پر سے درال ندی اور دریائے سوات کا خوب صورت ملاپ بہت حسین اور طلسماتی لگتا ہے۔ درال ڈنڈ بہت ہی دل کش اور رعنائی سے بھرپور جگہ ہے۔ اس کی بے پناہ خوب صورتی کی وجہ سے اس کے متعلق بہت سی دیو مالائی اور ناقابلِ یقین کہانیاں مشہور ہیں۔ اس جگہ کے ساتھ جنوں اور پریوں کی روایتی کہانیاں بھی منسوب کی گئیں ہیں۔ درال ندی اور دریائے سوات کی ملاپ والی جگہ اگر کوئی انسان یا گاڑی ڈوب جائے تو اس کا نام و نشان تک نہیں ملتا۔

درال جھیل برف میں ڈوبا ہوا فلک بوس چوٹیوں کے درمیان ایک بڑی گلیشیئر کا پانی جمع ہونے سے وجود میں آئی ہے جس کا پانی سردیوں میں جم جاتا ہے اور موسمِ گرما میں اِسی پانی سے درال اور دریائے پنج کوڑہ(دیر) ٹھاٹھیں مارنے لگتے ہیں۔دریائے درال، بحرین پہنچ کر دریائے سوات میں ضم ہو جاتا ہے جب کہ دریائے پنج کوڑہ دوسری جانب ضلع دیر کی طرف جا نکلتا ہے اور 112 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد یہ بھی دریائے سوات کے ساتھ مل جاتا ہے۔ اس جھیل تک رسائی پیدل راستے کے ذریعے بحرین سے دریائے درال کے ساتھ پانی کے بہاؤ کی مخالف سمت میں قریباً 20گھنٹے کا طویل سفر طے کر کے ممکن ہے۔ جھیل تک پہنچنے کا ایک اور راستہ سخرہ نامی خوب صورت مقام سے بھی جاتا ہے جو نسبتاً بحرین والے راستے سے آسان ہے، تاہم حکومت نے حال ہی میں بحرین بازار سے آگے کچھ فاصلے پر اس تک پختہ سڑک کی تعمیر شروع کی ہے جس میں ابھی تک صرف 6 کلومیٹر کی سڑک بن چکی ہے۔ اگر درال جھیل تک پختہ سڑک کی تعمیر مکمل ہوئی تو یقیناً بحرین کی سیاحتی افادیت میں غیر معمولی اضافہ ہو گا کیوں کہ درال جھیل از حد خوب صورت اور طلسماتی ہے، تاہم اب بھی پیدل راستہ کے ذریعے یہ جھیل مہم جُو اور ہائیکنگ کے شوقین افراد کے لئے بہت ہی پُر کشش ہے جو اپنی وسعت اور گہرائی کے لحاظ سے نہایت دل کش ،خوب صورت اورپُر  ہیبت ہے۔ درال ندی کے ساتھ ساتھ حال ہی میں جو چھ کلومیٹر کی پختہ سڑک تعمیر کی گئی ہے، اس کے آخری سرے پر سیر و تفریح کی بہترین دل چسپیاں موجود ہیں۔ یہاں کا موسم گرمیوں میں بھی قدرے سرد رہتا ہے اور ندی پر بنا ہوا رسیوں کا پُل یہاں کے حُسن و رعنائی میں اضافے کا باعث ہے۔

بحرین ہی سے قریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بجاٹ نامی آبشار تک پیدل راستہ کے ذریعے جایا جا سکتا ہے۔ راستے میں کئی خوب صورت بستیاں آتی ہیں جن میں لگن اور داریل قابلِ ذکر ہیں۔ یہاں کے مناظر خوب صورتی اور رعنائی کے لحاظ سے ناقابلِ فراموش ہیں۔ حسن و لطافت کی اس وادی میں ایک پُر سکون حُسن پھیلا ہوا ہے۔ خوب صورت باغات اور لہلہاتے کھیت یہاں کی دل کشی اور خوب صورتی میں بے نظیر اضافہ کرتے ہیں۔ پچاس فٹ کی بلندی سے آبشار کی صورت میں نیچے گرتا ہوا پانی نہایت دل پزیر اور فرحت انگیز منظر پیش کرتا ہے جو ایک چھوٹی سی جھیل کی شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ بحرین آنے والے سیاحن اکثر اس حسین آبشار کا نظارہ کرنے ضرور جاتے ہیں۔

آبشار سے بھی درال جھیل تک پہنچنا ممکن ہے لیکن یہ راستہ بعض مقامات پر آسان اور بیشتر جگہوں پر انتہائی خطرناک، ڈھلوانی اور تنگ گھاٹیوں پر مشتمل ہے۔ راستے میں حدِ نگاہ تک گھنے جنگلات پھیلے ہوئے ہیں جن میں درندے بھی پائے جاتے ہیں۔مسلسل چڑھائی پر مشتمل صبر آزما اور طویل تھکا دینے والا سفر اگرچہ مشکل ضرور ہے مگر شائقینِ فطرت کے لئے بہت پُر کشش اور دل چسپ ہے۔ دریا کے کنارے جگہ جگہ قدرتی چشمے اور کئی چھوٹی جھیلیں مناظرِ فطرت کے آفاقی حُسن کو مزید سُرور انگیز بنا دیتی ہیں۔ جھیل تک پہنچنے کے لئے انفرادی سفر کی بجائے اجتماعی سفر کو ترجیح دینی چاہئے کیوں کہ راستہ سنسان اور طویل ہے۔ اس لئے اپنے ساتھ چند دنوں کے کھانے پینے کی اشیاء اور شب بسری کے لئے خیمے اور سردی سے بچاؤ کے لئے گرم کپڑے بھی ساتھ لے جانے چاہئیں۔ اگر یہ مہم کسی تجربہ کار گائیڈ کی معیت میں سر کی جائے تو راستے کی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔بحرین سے مناسب نرخ پر مزدور(قُلی) اور گائیڈ مل سکتے ہیں۔ جھیل کے فطری حسن و جمال سے لطف اندوز ہونے کے لئے جون، جولائی اور اگست کا وقت موزوں ترین ہے۔ یہاں پہنچ کر بِلا شُبہ فطرت کے حسن و شباب سے دل کو سُرور اور دماغ کو فرحت و تازگی کا ایک لازوال احساس ملتا ہے۔

٭٭٭

 

 

سیدگئی ڈنڈ (جھیل)

 

سیدگئی جھیل، سوات کی ان حسین و جمیل اور دل کش جھیلوں میں سے ہے، جو طویل پیدل مسافت اور قدرے مشکل راستہ کے باوجود سیاحوں کے لئے نہایت کشش رکھتی ہے۔ طلسماتی خوب صورتی کی حامل، سیدگئی جھیل جانے کے لئے سوات کے ایک مشہور قصبہ مٹہ سے روانہ ہو کر پہلے ’’مانڈل ڈاگ‘‘ نامی مقام تک پہنچنا پڑتا ہے، پھر وہاں سے ’’گام سیر‘‘ اور ’’چاڑما‘‘ کے خوب صورت مقامات سے ہوتے ہوئے ’’سُلاتنڑ‘‘ کے دل کش گاؤں تک جایا جاتا ہے جہاں سے آگے ’’سیدگئی جھیل‘‘ تک پورا سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔ مٹہ سے سلاتنڑ تک سڑک کی حالت بعض جگہوں میں اچھی ہے لیکن بیشتر مقامات پر سڑک بہت خستہ اور کچی حالت میں ہے یہی وجہ ہے کہ سلاتنڑ تک فور وہیکل ڈرائیو یا جیپ کے ذریعے ہی پہنچنا ممکن ہے۔ سلاتنڑ سے جھیل سیدگئی تک قریباً آٹھ گھنٹے کا پیدل سفر ہے۔

سیدگئی جھیل تک پہنچنے کا دوسرا اور قدرے آسان راستہ باغ ڈھیرئ کے قریب واقع سوات کے ایک حسین مقام ’’ لالکو‘‘ سے بھی گیا ہے جو سلاتنڑ والے راستہ سے مختصر اور آسان ہے۔

سلاتنڑ پہاڑوں سے گھرا ہوا ایک دل کش مقام ہے جس کے قرب و جوار کے پہاڑوں میں گھنے جنگلات کے طویل سلسلے ہیں۔ سلاتنڑ میں بڑے بڑے سلیپروں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جو حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے بارش کے پانی سے بوسیدہ ہو رہے ہیں۔ بہت سے گرے ہوئے قیمتی درخت بوسیدہ ہو چکے ہیں اور اس قیمتی دولت کو محفوظ کر کے کام میں لانے والا کوئی نہیں۔ سلاتنڑ میں ندی کے سنگ سفر کرتے ہوئے بہت سے دل کش اور دلآویز مقامات آتے ہیں جہاں قدم قدم پر خوش رنگ جنگلی پھول اور قدرتی مناظر دل و دماغ کو فرحت دیتے ہیں۔ بہت سی پہاڑی چوٹیوں کو سر کرتے ہوئے اور دل کش و حسین سبزہ زاروں اور گھنے جنگلات سے ہوتے ہوئے سیدگئی جھیل پہنچنا ممکن ہے۔ جھیل پر جوں ہی اچانک نگاہ پڑتی ہے تو آنکھیں اس کے حسن و دل کشی سے خیرہ ہو جاتی ہیں۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ پہاڑوں کے اوپر قدرت نے کس قدر حسین و دل کش اور وسیع و عریض جھیل اُبھاری ہے۔ سیدگئی جھیل کے پہاڑی سلسلہ کو ’’سپین سر‘‘ یعنی سفید چوٹی بھی کہا جاتا ہے۔

سیدگئی جھیل تک جانے والا بیشتر راستہ برف سے ڈھکا ہوا ہے اور بعض مقامات پر تو برف اتنی زیادہ ہے کہ چلنے میں دُشواری محسوس ہوتی ہے۔ راستے میں کئی چھوٹی جھیلیں بھی آتی ہیں جن میں ’’کنگرو جھیل‘‘ قابل ذکر ہے۔ یہ چھوٹی سی جھیل پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور اس کا نیلگوں پانی نہایت طراوت بخش محسوس ہوتا ہے۔

سیدگئی جھیل بلند پہاڑوں کی چوٹیوں کے درمیان بنے ہوئے ایک قدرتی میدان میں واقع ہے جو قریباً 3 یا 4 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔ اس کا صاف و شفاف نیلگوں پانی دُور سے اپنے سحر میں مبتلا کر دیتا ہے۔ جھیل کے اطراف میں ہر طرف سپید برف کی چادر بچھی ہوئی ہے اور اس کے قرب میں بلند و بالا چوٹیوں پر پڑی ہوئی برف، سورج کی روشنی میں قوس و قزح کا ایک روح پرور منظر پیش کرتی ہے۔

یہ جھیل ضلع سوات اور ضلع دیر کی پہاڑی سرحد پر واقع ہے۔ اگرچہ یہ جھیل سوات کی حدود میں ہے لیکن اس کا پانی ’’درۂ عشیری‘‘ کے راستے دیر کے دریائے پنج کوڑہ میں جا شامل ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ دریائے پنج کوڑہ کا اصل منبع یہ عظیم الشان جھیل ہے۔

سیدگئی جھیل سے ایک راستہ درال جھیل اور گبینہ جبہ تک بھی چلا گیا ہے جو قدرتی حسن و رعنائی سے مالا مال علاقے ہیں۔ جہاں فطرت اپنے اصل رنگ روپ میں ہے اور جن کی طلسماتی خوب صورتی سحر زدہ کر دیتی ہے۔

سیدگئی جھیل تک جانے کے لئے کھانے پینے کی اشیاء اور گرم کپڑے ضرور ساتھ لینے چاہئیے۔ کیوں کہ اس مقام تک پہنچتے ہوئے راستے میں کم از کم ایک رات ضرور بسر کرنی پڑتی ہے۔ یہ رات راستے میں آنے والے بانڈوں (دیہاتوں ) میں بسر کی جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مقامی لوگ بہت تعاون کرنے والے ہیں۔ جھیل تک پہنچنے کی مہم گروپ کی شکل میں طے کر لینی چاہئے اور اپنے ساتھ مقامی گائیڈ ضرور لے جانا چاہئے ورنہ راستہ میں بھٹکنے کا امکان ہے۔ جھیل کی سیاحت کے لئے موزوں وقت جولائی کے آخر سے لے کر ستمبر کے آخر تک ہے۔

سیدگئی جھیل جتنی خوب صورت ہے، اس سے کہیں زیادہ خوب صورتی اس تک جانے والے راستہ میں بکھری ہوئی ہے۔ جھیل تک جانے والا راستہ جتنا مشکل ہے، اتنا ہی حسین اور پُر لطف بھی ہے۔ قدرت نے جتنی خوب صورتی وادیِ سوات کے اس گوشے کو بخش دی ہے، اگر یہاں تک پختہ سڑک کی تعمیر ممکن ہو جائے تو یہاں آنے والے سیاح بِلا مبالغہ سوئٹزرلینڈ کو بھی بھُول جائیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

کالام

 

قدرت کی بے پناہ نیرنگیوں سے معمور وادیِ کالام سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے 96 کلومیٹر کے فاصلے پر شمال کی جانب واقع ہے۔یہ پختہ سڑک کے ذریعے منگورہ سے ملی ہوئی ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 6886 فٹ ہے اور اس کی آبادی قریباً 50 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔ یہاں کی بلند ترین چوٹی فلک سیر کہلاتی ہے۔ جو چو بیس ہزار فٹ بلند ہے۔ یہ بلند پہاڑ سوات اور چترال کے درمیان ایک طرح کی قدرتی حد بندی بھی ہے۔ کالام کی سرحدیں دیر، چترال، گلگت، تانگیر اور انڈس کوہستان سے ملی ہوئی ہیں۔

کالام کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ہزاروں سال قبل یہاں ایک خاندان آباد تھا جس کا نام ’’کال‘‘ بیان کیا جاتا ہے۔ کوہستانی زبان میں ’’لام‘‘ گاؤں کو کہتے ہیں۔ اس وجہ سے اس علاقے کا نام ’’کالام‘‘ یعنی ’’کال کا گاؤں ‘‘ رکھا گیا۔ کال کی نسل کے لوگ آج بھی کالام میں موجود ہیں اور انہیں ’’کالام خیل‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔

کالام جدید سیاحتی سہولتوں اور اپنی بے انتہا خوب صورتی کی وجہ سے سیاحوں کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہاں کے خوب صورت بازار میں سینکڑوں دُکانیں ضروریاتِ زندگی کی تمام تر سہولتوں سے آراستہ ہیں۔ منگورہ کے جنرل بس سٹینڈ سے کالام تک ہر وقت ویگن، فلائنگ کوچ اور ٹیکسی گاڑیاں چلتی ہیں۔ کالام جاتے ہوئے راستے میں دوسرے خوب صورت مقامات مدین اور بحرین آتے ہیں جن سے آگے بڑھتے ہوئے سارے راستے پر پُر شور دریائے سوات کے سنگ سنگ سفر کر کے کالام پہنچا جا سکتا ہے۔ سیاحوں کے ٹھہرنے کے لئے کالام میں بہت سے خوب صورت اور پُر آسائش ہوٹل ہیں۔ سینکڑوں ہوٹلوں کی موجودگی کی وجہ سے کالام کو اگر ہوٹلوں کا شہر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔ کالام جانے کے لئے بہترین موسم مئی سے اکتوبر تک ہے جب کہ نئے بیاہتے جوڑوں کے لئے ماہ ستمبر سے اکتوبر کے آخر تک کا وقت آئیڈیل ہے۔

کالام سے پہاڑی راستوں کے ذریعے پیدل، براستہ اتروڑ دیر کوہستان اور کندیا کوہستان سے براستہ اشلوگا ہوتے ہوئے تانگیر، داریل، گلگت اور چترال تک بھی جایا جا سکتا ہے جن پر زمانۂ قدیم میں مشہور سیاح ہیون سانگ اور فاہیان بھی گزرے تھے۔

کالام کے چاروں طرف بلند و بالا پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے ہیں جن کے بیچ میں وادیِ کالام دلہن کے ماتھے پر سجے خوب صورت جھومر کا منظر پیش کرتی ہے۔ رنگ برنگ قدرتی پھولوں کے تختے ،اخروٹ اور سیب کے جھومتے ہوئے درخت اور مکئی کے لہلہاتے کھیت خوب صورت منظر کشی کو جنم دیتے ہیں۔ دریا کا مد بھرا شور اور دھوپ کی تمازت میں چاندی کی مانند چمکتی برف، سب مل کر انسان کو مسحور کر دیتے ہیں اور دل کو ٹھنڈک اور دماغ کو فرحت و سرور بخش دیتے ہیں۔

یہ علاقہ دریائے سوات کے کنارے کنارے فطری مناظر کے لحاظ سے کاغان سے بہت زیادہ خوب صورت اور میدانوں کی شادابی کی وجہ سے کشمیر ثانی ہے۔ یہاں قدرتی جھیلیں ہیں ، دریائے سوات سے ہر سُو نکلے ہوئے ندی نالے ہیں ، سرسبز کھیتوں میں جا بجا خوب صورت پھول کھِلے ہوئے ہوتے ہیں ، پہاڑوں پر برف کی رنگا رنگ چٹانیں نظر آتی ہیں ، جن میں طرح طرح کے پھول اور پھلوں کے درخت و پودے ہیں۔ دور سے پہاڑوں پر برف کے چھوٹے چھوٹے گلیشیئرز کا سہانا منظر اور مانکیال پہاڑ کی 18750 فٹ بلند چوٹی پر سورج کا طلوع و غروب ہونا، رات کی خاموشی اور ستاروں کا جھرمٹ کالام کے وجدانی مناظر ہیں۔ گرمیوں میں یہاں مون سون ہواؤں کے اثرات نہیں ہوتے جس کے باعث یہاں کا موسم خشک اور معتدل رہتا ہے۔خاص کالام کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ دن کے وقت یہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں اور شام کے وقت یہ ہوائیں رک جاتی ہیں۔ لہٰذا دن کے وقت گرمی اور رات کو زیادہ سردی کا قطعی احساس نہیں ہوتا۔

وادیِ کالام کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ زیریں وادی اور بالائی وادی زیریں وادی دریائے سوات کے دائیں طرف واقع ہے، جہاں کالام کا قدیم گاؤں آباد ہے کچے پکے مکان جن میں لکڑی کا کام نمایاں نظر آتا ہے، قدیم و جدید کا حسین امتزاج پیش کرتے ہیں۔ دریائے سوات کے بائیں طرف ایک پُر رونق بازار ہے جس میں ضروریاتِ زندگی کی ہر چیز با آسانی ملتی ہے۔ بازار میں ہر وقت ملکی اور غیر ملکی سیاحوں کا جمِ غفیر موجود رہتا ہے۔

دریائے سوات کے دائیں کنارے پر ایک قدیم مسجد ہے جس کی تعمیر میں زیادہ تر بھاری بھرکم لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ اس کے مضبوط اور بڑے بڑے دیو ہیکل شہتیر صدیوں پُرانے ہیں۔ یہ مسجد کافی بڑی ہے جس میں علاقے کے لوگ اور دُور دراز سے آئے ہوئے مہمان سیاح نماز ادا کرتے ہیں۔باہر کے لوگوں کے لئے یہ مسجد نماز کے علاوہ اپنی منفرد طرزِ تعمیر اور غیر معمولی قدامت کی وجہ سے بھی توجہ کا مرکز بنی رہتی ہے۔

بالائی کالام دریائے سوات کے بائیں جانب ریت کے اونچے ڈھلوانی ٹیلوں کے اوپر ’’فلک سیر‘‘ پہاڑ کے دامن میں ایک بڑے میدان میں واقع ہے۔ جہاں جدید تعمیرات نے کالام کی خوب صورتی میں مزید اضافہکیا ہے۔ بالائی کالام میں ہر قسم کے سرکاری دفاتر، پولیس سٹیشن، ٹیلی فون ایکسچینج، ہسپتال، تحصیل ہیڈ کوارٹر اور دیگر جدید عمارتیں واقع ہیں۔ یہاں کی رنگ برنگ جدید عمارتیں عجیب طرح کی سرخوشی کا باعث بنتی ہیں۔یہاں پر واقع تمام ہوٹل ہر طرح کی جدید سہولتوں سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔ بالائی کالام میں پی ٹی ڈی سی موٹل اور فرنٹئیر ہاؤس اپنی خوب صورت عمارتوں اور سرور افزاء ماحول کی وجہ سے دیکھنے کے قابل ہیں۔ بالائی کالام کو ’’کس‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ یہاں سے زیریں کالام کا نظارہ بہت دل کش، پر کیف اور جاذب نظر ہے۔

دریا کی دوسری طرف دریا سے نکلی ہوئی چھوٹی چھوٹی نہروں پر چارپائیاں اور میز و کرسیاں رکھ دی گئی ہیں جن پر سیاح ٹولیوں کی شکل میں بیٹھے کھانا کھاتے اور چائے پیتے نظر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہاں بہت رونق اور گہما گہمی ہوتی ہے۔ یہیں پر دریا کے عین کنارے ایک وسیع رقبے میں سیاح دن کے وقت مختلف سرگرمیوں میں منہمک نظر آتے ہیں۔ اس جگہ کو ’’مینا بازار‘‘ کہا جاتا ہے۔ دن کے وقت اپنے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کو یہیں پر تلاش کیا جا سکتا ہے۔

زیریں کالام کا ایک حسین منظر اس وادی کے دو دریاؤں کا پُر کشش سنگم ہے۔یہاں دریائے اُتروڑ اور دریائے اُوشو آ کر ملتے ہیں اس کے علاوہ قدرتی چشمے اور جھرنے بھی اس مقام پر آ کر ملتے ہیں۔ دریائے سوات کا تندوتیز سلسلہ یہیں سے شروع ہوتا ہے۔کالام کا پانی بہت سرد اور ہاتھوں کو سُن کر دینے والا ہے۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں بھی پائی جاتی ہیں جو لذت اور تازگی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں کی اجازت سے یہاں ٹراؤٹ مچھلیوں کا شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔

یہاں تین بڑے قبیلے قابل ذکر ہیں جو درہ خیل، نیلور اور جافلور کے ناموں سے پہچانے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں کالام میں بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ہیں اور اس معاملے میں کالام کو مختلف علاقائی زبانوں کا گڑھ بھی کہا جا سکتا ہے۔ یہاں داشوی، گاؤری، توروالی، قاش قاری، اُشوجی، تانگیری، گوجری اور پشتو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ قومی زبان اردو بھی یہاں عام بولی اور سمجھی جاتی ہے اور جب مختلف زبانیں بولنے والے ملکی اور غیر ملکی مہمان سیاح یہاں آ کر اپنی اپنی زبانیں بولتے ہیں تو یہاں پر زبانوں کے بین الاقوامی میلہ لگنے کا سا گمان ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے یہاں آ کر انسان ایک نئی تہذیب اور ثقافت سے آشنا ہو جاتا ہے۔

اس علاقہ کے لوگ ڈھیلے ڈھالے روایتی لباس زیب تن کرتے ہیں جن میں خوب صورت اور مخصوص قسم کی گل کاری سے مزین لباس اور چاندی کے روایتی زیور میں ملبوس خواتین انسان کو قدیم زمانے کی یاد دلاتی ہیں لیکن سیاحوں کی افراط کی وجہ سے یہ روایات اب ماضی کا قصہ بنتی جا رہی ہیں۔

کالام برف پوش چوٹیوں ، گھنے چیڑ و دیار کے جنگلوں ، بنفشہ، سیب، زیرہ اور مختلف پھلوں اور پھولوں کی ایک دل کش جلوہ گاہ ہے۔ یہاں دیار،فر، سپروس اور کائل کے درخت عام ہیں۔ یہاں بڑی بڑی چراگاہیں بھی ہیں جن میں موسم گرما میں بھیڑ بکریاں چرائی جاتی ہیں۔ یہ بھیڑ بکریاں خانہ بدوش لوگوں کی ہوتی ہیں جنہیں اجڑ اور گوجر کہتے ہیں۔ تاہم مویشیوں کی زیادتی اور ان کی خوراک کی کمی کے باعث دوسرے مقامی لوگ بھی اپنے مال مویشی موسمِ گرما کے اوائل میں ان چراگاہوں میں لے جاتے ہیں اور موسمِ سرما کے شروع میں واپس لے آتے ہیں۔ یہاں قیمتی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں جو باٹنی(Botany) کے ماہرین کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں۔ اگر اس سلسلے میں تحقیق کا آغاز کیا جائے تو بہت سی ایسی قیمتی اور نایاب جڑی بوٹیاں ہاتھ آ سکتی ہیں جو مختلف دوائیوں اور دیگر مفید کاموں میں مستعمل ہو کر انسانیت کی فلاح و بہبود کا موجب بن سکتی ہیں۔

کالام خاص سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر گھنے جنگلا ت کا ایک وسیع سلسلہ ہے جس میں سورج کی روشنی بمشکل چھن چھن کر آتی ہے۔ اِن وسیع و عریض جنگلات میں شاہ بلوط، شیشم، صنوبر اور اخروٹ کے درخت عام ہیں۔جنگلات کا یہ سلسلہ اوشو اور مٹلتان تک پھیلا ہوا ہے۔

کالام میں کھیتی باڑی کا پیشہ عام ہے۔ یہاں کی پیداوار میں آلو،سیب اور اخروٹ خصوصی طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ آلو تو اتنا زیادہ پیدا ہوتا ہے کہ اُسے پاکستان کے تمام علاقوں میں بھیجا جاتا ہے۔ پھلوں میں یہاں کے سیب بہت زیادہ مشہور ہیں جو اپنی مِٹھاس اور لذت میں منفرد ہیں۔

شہد اور تازہ پھل، کالام میں کڑھے ہوئے ملبوسات، شالیں ، چاندی کے ظروف، ہاتھ کے بنے ہوئے کھیس، چادریں اور لکڑی کی منقش اشیاء یہاں کے خاص تحفے ہیں۔

٭٭

 

 

 

وادیِ کالام کے دل کش اطراف

 

خاص کالام کے اطراف میں پیدل اور جیپ کے ذریعہ متعدد خوب صورت مقامات تک جایا جا سکتا ہے۔ جو سیاحوں کے لئے نہایت کشش اور دلچسپی کے حامل ہیں۔ ان میں درج ذیل مقامات سیاحوں کے لئے بہترین سیر گاہوں اور قدرتی جلوہ گاہوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔

 

               وادیِ گیہل

 

کالام کی حدود میں داخل ہوتے ہی بجلی گھر کے قریب ’’گودر جھیل‘‘ سے نکلی ہوئی چھوٹی سی زور آور ندی کے ساتھ ساتھ ایک پُختہ پہاڑی راستہ مغرب کی طرف گیا ہے۔ جو ایک تنگ سی لیکن نہایت حسین اور پُر کشش ذیلی وادی گیہل اور ہل ٹاپ کو جاتا ہے۔ گیہل میں ندی کے کنارے ایک دل کشا اور جدید طرز کا ہوٹل ہے۔ جس میں سیاحوں کے لئے بنیادی سیاحتی سہولتوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ذہنی اور جسمانی سکون و آرام کے متلاشیوں کے لئے یہ ایک بہترین مقام ہے۔ یہاں ہِل ٹاپ سے کالام ایک پیالے کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ دریائے سوات سانپ کی طرح نیچے بل کھاتا ہوا بہ رہا ہے جو بہت بھلا اور دل فریب معلوم ہوتا ہے۔ یہ جگہ پِک نِک منانے کے لئے بہت موزوں ہے۔

 

               وادیِ بیہوں

 

کالام خاص سے مشرق کی طرف پہاڑوں کی بلند چوٹیوں کے قریب بیہوں گاؤں واقع ہے۔ جہاں پر قریباً چار سو کے قریب خاندان آباد ہیں۔ یہاں کی زمین چکنی مٹی پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے کافی زرخیز ہے۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے کالام سے بذریعہ جیپ آٹھ کلومیٹر کی مسافت طے کرنا پڑتی ہے لیکن اگر کالام سے پیدل جانا مقصود ہو تو یہ مسافت قریباً ایک ڈیڑھ گھنٹہ میں طے کی جا سکتی ہے اور راستہ بھر خوب صورت اور دل رُبا مناظر سے بھی محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔

جیسے ہی انسان اس گاؤں کی حدود میں پہلا قدم رکھتا ہے تو برف سے ڈھکا ہوا ایک دیو قامت پہاڑ اس کا استقبال کرتا ہے۔ یہ پہاڑ کچھ اس طرح ابھرا ہوا ہے جیسے یہ زمین پر ابھی گرنے والا ہو۔ وادیِ بیہوں کی طرف جاتے ہوئے راستے میں سرسبز و شاداب کھیت اور جگہ جگہ کھلے خوب صورت قدرتی پھول اور دور سے نظر آنے والے برف پوش پہاڑ قدرت کی صناعی کا دل کش نمونہ محسوس ہوتے ہیں۔ یہاں کھیتوں کو پانی دینے کے لئے جو نہر لائی گئی ہے، وہ بہت قدیمی ہے۔ بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے یہ وادی کالام کے مقابلہ میں قدرے سرد ہے۔ البتہ موسمِ گرما میں یہ مقام بہت فرحت بخش محسوس ہوتا ہے۔بیہوں سے مغرب کی طرف اگر نظر ڈالی جائے تو دو پہاڑوں کی الگ الگ نوکیلی چوٹیوں کے درمیان ’’گودر جھیل‘‘ واقع ہے۔ جس کی خوب صورتی سحرزدہ کر دیتی ہے۔ یہاں کے پرسکون ماحول میں ندی نالوں کے مدھم شور کی وجہ سے ایک خاص طرح کی موسیقی بکھری ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں کے مکین بہت مہمان نواز ہیں۔ اگرچہ مالی طور پر آسودہ نہیں لیکن پھر بھی سیاحوں کو بڑے خلوص اور محبت سے چائے اور کھانے کی دعوت دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یہاں کی مرکزی مسجد کے پیش امام مولانا عبدالحق صاحب علاقے کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ بڑے عالم فاضل انسان ہیں۔ کالام کوہستان کی تاریخ کے چلتے پھرتے انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ وسیع معلومات رکھتے ہیں۔ شاعر بھی ہیں۔ ساتھ ساتھ ایک دلچسپ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان سے ملاقات کئے بغیر وادیِ بیہوں کی سیر ادھوری محسوس ہوتی ہے۔

 

               بَنڑ کا میدان و جنگل

 

کالام سے اوشو جاتے ہوئے دو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گھنے جنگلات میں برلبِ سڑک ایک وسیع میدان واقع ہے جو محکمۂ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس سے ملحق ہے۔ یہ مقام سیاحوں کے لئے ایک دلچسپ اور پُر کشش تفریح گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہاں گیارہ بجے سے لے کر شام پانچ بجے تک سیاحوں کا ایک جمِ غفیر رہتا ہے۔ بچے مختلف کھیلوں سے محظوظ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ درختوں پر رسیاں ڈال کر جھولا جھولنے، گھنے درختوں میں چہل قدمی اور چھوٹے چھوٹے کیبنوں (Cabins) میں چائے اور دیگر اشیائے خورد و نوش عجب لطف و انبساط دیتی ہیں۔ کالام میں زیادہ دنوں تک قیام کی صورت میں یہاں نہ آ کر سیاح یقیناً اپنی سیر ادھوری محسوس کریں گے۔

٭٭٭

 

 

 

اُتروڑ، گبرال

 

وادیِ اُتروڑ اور گبرال جنت نظیر سوات کی تمام وادیوں میں سب سے زیادہ خوب صورت، دل فریب اور سحر انگیز وادیاں ہیں۔ کالام خاص سے جیپ، پرائیویٹ یا ذاتی گاڑی کے ذریعے اتروڑ اور گبرال پہنچنا ممکن ہے۔ کالام سے اُتروڑ اور گبرال تک بس کی سروس بھی موجود ہے۔ منگورہ سے کالام تک سارے راستے میں سوات کی فطری خوب صورتی اور رعنائی بِکھری ہوئی نظر آتی ہے۔ منگورہ کے فضا گٹ پارک سے دریائے سوات کے کنارے اس کی مخالف سمت سفر کرتے ہوئے چارباغ، فتح پور، شین، خوازہ خیلہ، باغ ڈھیرئ، مدین، بحرین اور کالام کی جاں فزا وادیوں سے گزرتے ہوئے اتروڑ، گبرال، شاہی باغ، لوئے پنڈال، کالام بانڈہ، دیسان، بَٹل اور گل آباد کی مہکتی ہوئی طلسماتی خوب صورتی کی حامل وادیوں میں داخل ہوا جا سکتا ہے۔

کالام میں بنڑ(جنگل) کے مقام پر سڑک دو حصوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ ایک سڑک مشرق کی طرف سیدھی اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ تک چلی گئی ہے جب کہ دوسری سڑک بائیں طرف شمالاً اُتروڑ اور گبرال کی معطر خیز وادیوں کی جانب مُڑ گئی ہے۔ یہ سڑک چند کلومیٹر تک پختہ حالت میں ہے لیکن اس کے بعد گبرال تک ساری سڑک کچی حالت میں ہے، تاہم صاف موسم میں اس سڑک پر ہر قسم کی گاڑی با آسانی چلی جا سکتی ہے۔

کالام سے اُتروڑ تک کا فاصلہ 12 کلومیٹر ہے جب کہ گبرال تک 18 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہنچا جا سکتا ہے۔ اُتروڑ کی وادی سطح سمندر سے 7300 فٹ بلند ہے اور گبرال سطح سمندر سے 7500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اُتروڑ اور گبرال کی مشترکہ آبادی قریباً 30 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

وادیِ اُتروڑ فطری مناظر اور معطر آب و ہوا کے لحاظ سے ایک نہایت خوب صورت اور دل نشیں وادی ہے جس کے چاروں جانب بلند و بالا برف پوش پہاڑ گھنے جنگلات کی قیمتی دولت سے مالا مال ہیں۔ اس کے بیچ میں ایک طرف گبرال سے اُچھلتا کودتا اور شور مچاتا ہوا دریائے گبرال بڑے بڑے پتھروں سے ٹکراتا ہوا چلا آرہا ہے جب کہ دوسری جانب کنڈلوڈنڈ اور سپین خوڑ ڈنڈ سے نکلی ہوئی ندی بُلندی سے نشیب کی طرف نہایت بے قراری کے ساتھ بہتی ہوئی اُتروڑ گاؤں کے قریب دریائے گبرال کے ساتھ مل جاتی ہے جس سے دریائے گبرال کی تُندی اور تیزی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ راستے میں اس کے ساتھ کئی ندی اور نالے بھی ملتے چلے جاتے ہیں۔ کالام پہنچ کر دریائے گبرال مہوڈنڈ سے نکلے ہوئے دریا کے ساتھ مدغم ہو جاتا ہے جو دریائے سوات کے نام سے پوری وادیِ سوات کو سیراب کر کے اس کی شادابی اور رعنائی کا بڑا باعث بنتا ہے۔ دریائے گبرال میں ٹراؤٹ مچھلی بھی پائی جاتی ہے جو اپنی مخصوص لذت اور بے مثال ذائقہ کے لئے غیر معمولی شہرت رکھتی ہے۔ محکمہ ماہی پروری کے متعلقہ اہلکاروں سے اجازت لے کر یہاں اس کا باقاعدہ شکار بھی کیا جا سکتا ہے۔

اُتروڑ میں سیاحوں کے لئے اگرچہ بھرپور سہولتیں موجود نہیں ہیں لیکن وادی کی سیاحتی اہمیت کے پیشِ نظر ایک بڑے ہوٹل کی تعمیر جاری ہے اور سیاحوں کی سہولت کے لئے ریسٹورنٹ اور مزید ہوٹلوں کے لئے جگہوں کا انتخاب ہو چکا ہے۔کیوں کہ اتروڑ میں قیام کر کے ہی یہاں کے صحت افزا اور مسحورکن مقامات سے صحیح لطف اٹھایا جا سکتا ہے۔ محکمہ جنگلات کا ریسٹ ہاؤس اور خوب صورت ’’ہیون روز ہوٹل‘‘ یہاں آنے والے سیاحوں کی سیاحتی ضرورتیں بڑی حد تک پورا کرتے ہیں۔ ہیون روز ہوٹل اعلیٰ معیار کا ہے۔ جس میں دیار کی قیمتی لکڑی پر کیا گیا گل کاری اور کندہ کاری کا خوب صورت کام دل موہ لیتا ہے۔ یہاں کے مختصر بازار میں کھانے پینے کی اشیاء با آسانی مل سکتی ہیں۔

اُتروڑ اور گبرال کی وجۂ تسمیہ اور مفہوم کے متعلق صحیح طور پر کچھ کہنا ممکن نہیں ، تاہم بہت عرصہ قبل اُتروڑ کی وادی کوبھی گبرال کے نام سے پکارا جاتا تھا اور یہ علاقہ اُتروڑ سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع وادیِ گبرال کاعلاقہ سمجھا جاتا تھا۔ بعدازاں اُسے اُتروڑ کے الگ نام سے پکارا جانے لگا۔ یہاں کے لوگ اُتروڑ کو’’ اُزروڑ‘‘ کے نام سے بھی پکارتے ہیں اور یہ نام قدیم وقتوں میں یہاں کی ایک مشہور شخصیت اُز نامی مَلَک کے نام پر رکھا گیا تھا جوبعد میں اُزروڑ اور اب اُتروڑ کے نام میں ڈھل گیا ہے۔ وادیِ گبرال کی وجۂ تسمیہ کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نام یہاں کی ایک ہر دل عزیز شخصیت گبر نامی مَلَک کے نام پر رکھا گیا تھا جو بعد میں گبرال کے نام سے مشہور ہوا۔ اُتروڑ اور گبرال دونوں میں زیادہ تر کوہستانی آباد ہیں ، تاہم بَر گبرال (بالائی گبرال) میں گوجر بھی بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ کوہستانی قوم دو بڑی شاخوں میں تقسیم ہے۔ درے خیل اور نریٹ۔ یہاں دونوں شاخوں کے لوگ بڑی تعداد میں آباد ہیں جو بہت بہادر اور ایک بات پر ڈٹ جانے والے ہیں۔ یہ لوگ بہت مہمان نواز ہیں اور مہمانوں کی عزت و تکریم اپنے فرائض میں شامل سمجھتے ہیں۔ یہاں کے باشندوں کا اہم رسم و رواج مضبوط اور پائیدار دوستی کی مستحکم روایت ہے۔ ایک مقامی شخص جب کسی دوسرے مقامی شخص کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے تو پھر دوستی کی خاطر جان تک قربان کر دیتا ہے اور دوست کو بھائی سے بڑھ کر حیثیت دے دی جاتی ہے۔ یہاں کلاشنکوف بہت عام ہے اور اُسے بلند معاشرتی حیثیت کا معیار سمجھا جاتا ہے۔ اسلحہ کی فراوانی کے باوجود یہاں کے لوگ امن پسند اور انسانیت دوست ہیں۔

اُتروڑ سے گبرال جاتے ہوئے راستے میں قدرتی مناظر اس قدر لازوال حسن و جمال کے حامل ہیں کہ انسان کو یُوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی طلسماتی سرزمین میں گھوم رہا ہو۔ ہر طرف گھنے جنگلات کے طویل سلسلے نظر آتے ہیں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سُورج کی روشنی میں چمکتی ہوئی برف قو س و قزح کے حسین رنگوں کا خوب صورت امتزاج پیش کرتی ہے۔ جگہ جگہ گیلیوں کے ڈھیر اور اُن سے اُٹھنے والی مخصوص مہک انسان پر وجد آفریں کیفیت طاری کر دیتی ہے۔ سڑک کے دونوں جانب واقع سر سبز و شاداب کھیت اور اِن میں کھِلے ہوئے گل رنگ اور خوش رنگ پھول آنکھوں کو طراوت بخشتے ہیں اور دل و دماغ کو فرحت و سرشاری سے لبریز کر دیتے ہیں۔ گبرال پہنچ کر وادی قدرے کشادہ ہو جاتی ہے اور اس کے مناظر اور بھی سُرور افزا اور فرحت بخش محسوس ہونے لگتے ہیں۔

گبرال کی وادی دو حصوں میں تقسیم ہے۔ کوز گبرال(نشیبی گبرال )اور بر گبرال (بالائی گبرال) بَر گبرال کو باڑہ بھی کہا جاتا ہے۔ گبرال کی پوری وادی نہایت دِل کش، خوب صورت اور دل میں نئی اُمنگ پیدا کرنے والی ہے۔اس کے قرب و جوار میں بہت سے دِل کش اور مُعطر مقامات ہیں۔ جن میں جبہ، شاہی باغ، گل آباد اور غوائی بیلہ کافی مشہور ہیں۔ ان میں بعض مقامات تک کچی سڑک چلی گئی ہے اور بعض مقامات تک پیدل راستوں کے ذریعے پہنچنا ممکن ہے۔ غوائی بیلہ میں وسیع و عریض حسین دشت ہیں جن کو دیکھ کر انسان قدرت کی بہترین صناعی پر ورطۂ حیرت میں مُبتلا ہو جاتا ہے اور وہ سوچنے لگتا ہے کہ کیا منصۂ شہود پر اتنا زیادہ حُسن سمٹ کر جلوہ گر ہو سکتا ہے؟ گُلاباد سے چترال تک پیدل راستہ کے ذریعے بھی پہنچا جا سکتا ہے۔

گبرال میں ایک ہسپتال بھی ہے جس میں طبی سہولتوں کا شدید فقدان ہے۔ ایک مڈل سکول ہے جس میں مقامی اساتذہ کی عدم موجودگی کے باعث سال بھر طلبہ کو درس و تدریس کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سیاحتی سہولتوں کے سلسلے میں یہ وادی نہایت پس ماندہ ہے۔ ہوٹل ہے نہ ریسٹورنٹ اور نہ ہی یہاں تک پہنچنے کے لئے ہر وقت سواری مِل سکتی ہے۔ البتہ محکمۂ جنگلات کا ایک چھوٹا سا ریسٹ ہاؤس موجود ہے جو اس کے متعلقہ اہلکاروں کی اجازت سے بُک کیا جا سکتا ہے۔ اس لئے یہاں آنے والے سیاحوں کو اپنے ساتھ کھانے پینے کی ا شیاء ضرور لانی چاہئیں جب کہ رات بسر کرنے کے لئے یہاں ٹینٹ بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ کیمپنگ کے لئے سوات بھر میں اس سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے۔ گبرال کے بُلند و بالا پہاڑ ہائیکنگ کے شوقین افراد کے لئے نعمتِ غیر مترقبہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔

اُتروڑ اور گبرال اس لحاظ سے بھی نہایت خوب صورت اور سحر انگیز ہیں کہ یہاں کے مناظر انسانی دست بُرد سے قطعی طور پر محفوظ ہیں اور یہاں کا حُسن خالص فطری اور بے حجاب حالت میں ہے۔ پہاڑوں کے اُوپر اور اُن کے دامن میں واقع مکانات لکڑی کے بنے ہوئے ہیں اور مقامی طرزِ تعمیر کا خوب صورت نمونہ ہیں۔ اُتروڑ میں ایک تاریخی دو منزلہ مسجد ہے جس کی دوسری منزل کی تعمیر میں دیودار اور اخروٹ کی لکڑی استعمال کی گئی ہے۔ یہ مسجد جدید طرزِ تعمیر کا شاہکار ہے۔ اس کی تعمیر اور اس میں دل کش گُل کاری و کُندہ کاری کے لئے برادر ملک افغانستان سے ماہرین بُلوا گئے تھے جنہوں نے اپنے فن اور مقامی فنِ تعمیر کی آمیزش سے طرزِ تعمیر کا ایک نہایت خوب صورت فن تخلیق کیا ہے۔ یہ مسجد خاص طور پر دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔

وادیِ اتروڑ کی خوب صورتی، دل فریبی اور سحر انگیزی سے لطف اندوز ہونے کے لئے سیاحوں کو اتروڑ میں دو تین دن تک رہائش رکھنی چاہئے۔ گبرال وادی، شاہی باغ، جبہ جھیل، گل آباد(آبشار)، لدو بانڈہ (جھیل)، لوئے پنڈغال، کالام بانڈہ، اِزمِس جھیل، دیسان (چراگاہ)، کنڈلو ڈنڈ (جھیل)، خاپیرو ڈنڈ (پریوں کی جھیل)، سپین خوڑ ڈنڈ (سفید ندی والی جھیل) وغیرہ کو جیپ، گھوڑ سواری اور ٹریکنگ (پیدل چلنے) کے ذریعہ دیکھا جا سکتا ہے۔

جامرہ (اتروڑ و گبرال کے درمیان) کے مقام سے باڈ گوئی پاس سے ہوتے ہوئے ’’دیر‘‘ اور چترال جایا جا سکتا ہے۔ اپنی مدد آپ کے تحت شاہی باغ تک جیپ کا راستہ بن چکا ہے اور دیر کے لئے آٹھ کلومیٹر مجوزہ زیرِ تعمیر سڑک میں دو کلو میٹر تک سڑک مکمل ہو چکی ہے۔ یہ سارا علاقہ خوب صورت مناظر اور دل کش سبزہ زاروں سے اَٹا ہوا ہے۔ یہ تمام مقامات ہائیکنگ اور ٹریکنگ کے لئے نہایت موزوں ہیں۔

یہاں کا مشہور پہاڑ ’’دیسان‘‘ ہے جو اُتروڑ میں واقع ہے۔ اس پہاڑ کے اُوپر وسیع سرسبز و شاداب چراگاہیں اور دشت پھیلے ہوئے ہیں جن میں گُن گُناتے آبشار اور مدھ بھرے جھرنے ہیں۔ اُتروڑ، دیسان اور گبرال میں وسیع و عریض جنگلات ہیں جن کی رائلٹی اُتروڑ اور گبرال کے باشندوں کو ہر سال ملتی ہے اور اس پر یہاں کے مکینوں کا گزارہ چلتا ہے۔اِن جنگلات میں دیار، فر،برج اور جیح نامی درخت پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے گھنے جنگلات میں ریچھ، جنگلی مُرغ،اعلیٰ نسل کے چکور، ہرن اور طاؤس پائے جاتے ہیں۔ یہاں کے لوگ عام طور پر کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ یہاں کا آلو، گوبھی،شلجم اور مٹر بہت مشہور ہیں۔ جنہیں ٹرکوں کے ذریعے راول پنڈی، لاہور اور کراچی تک بھیجا جاتا ہے۔ اس علاقہ میں سوئٹزرلینڈ کے تعاون سے کالام مربوط ترقیاتی پروگرام (کے ڈی پی) پراجیکٹ کے نام سے علاقہ کی زراعت سمیت مختلف شعبوں کو بے مثال ترقی دی گئی ہے۔ یہاں کی مقامی زبان کوہستانی اور گوجری ہے، تاہم پشتو زبان عام بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ بیشتر لوگ اُردو بھی سمجھتے ہیں۔

سردی کے موسم میں یہاں خوب برف باری ہوتی ہے، برف اتنی زیادہ پڑتی ہے کہ سردیوں میں عموماً اتروڑ اور گبرال کے راستے بند ہو جاتے ہیں او ر یہاں تک آمد و رفت معطل ہو جاتی ہے۔ اکتوبر اور نومبر کے مہینوں میں یہاں برف باری شروع ہو جاتی ہے اور مارچ، اپریل تک جاری رہتی ہے۔ یہاں کی سیر و سیاحت کے لئے موزوں مہینے مئی، جون، جولائی، اگست اور ستمبر کے ہیں۔ اُتروڑ سے پیدل راستہ کے ذریعے ضلع دیر تک بھی با آسانی جایا جا سکتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

کنڈلو ڈنڈ (جھیل)

 

کنڈلوڈنڈ(کنڈلو جھیل) حسین وادیِ سوات کی وہ خوب صورت اور دل کش جھیل ہے جس کے ارد گرد طلسماتی خوب صورتی اور دل لُبھا دینے والی رعنائی پھیلی ہوئی ہے۔ یہ حسین ترین جھیل اپنی لازوال خوب صورتی اور غیر معمولی سحر انگیزی کے باوجود ابھی تک سیاحوں کی نظروں سے پوشیدہ چلی آرہی ہے، حالاں کہ یہ جھیل اپنی منفرد ہئیت اور قدرتی ماحول کے لحاظ سے اس قدر وسیع اور قدرت کی بے پناہ فیاضی سے لبریز ہے کہ ایک بار اگر اس کی خوب صورتی، رعنائی اور دل کشی آنکھوں میں بسا لی جائے تو اس کی دید کے لئے دل،رہ رہ کر بے چین ہو جاتا ہے۔ وادیِ سوات کی یہ خوب صورت ترین جھیل اُتروڑ سے تین گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔

کنڈلو ڈنڈ تک پہنچنے کے لئے کالام سے ’’اُتروڑ‘‘ کی حسین وادی تک 24 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے جانا پڑتا ہے۔ اس کی سڑک کالام سے آگے چند کلومیٹر تک پختہ ہے جب کہ باقی سڑک ’’گبرال‘‘ تک کچی حالت میں ہے، تاہم صاف موسم میں اس پر ہر قسم کی گاڑی با آسانی چلائی جا سکتی ہے۔

کالام سے اُتروڑ تک بس، مخصوص اوقات میں ملتی ہے جب کہ یہاں تک فلائنگ کوچ کی باقاعدہ سروس موجود نہیں ہے، تاہم کالام میں کرایہ پر جیپ ہر وقت مل سکتی ہے۔ مخصوص تعداد میں مختلف سواریاں موجود ہوں تو جیپ کا کرایہ سب پر یکساں تقسیم کیا جا سکتا ہے ورنہ اُتروڑ تک پہنچنے کے لئے خصوصی طور پر، جیپ بُک کرانا پڑتی ہے۔ مقامی سواریوں کے لئے کالام سے اتروڑ تک جیپ اور ڈاٹسن بھی چلتی ہیں۔ جن کا کرایہ پندرہ بیس روپے فی سواری ہوتا ہے لیکن اس صورت میں گاڑی عموماً اوور لوڈ ہوکر چلتی ہے۔

کنڈلوڈنڈ(کنڈلوجھیل) تک راستہ اُتروڑ بازار کے عین وسط میں ایک کچی سڑک کی شکل میں، بائیں سمت جنوب مغرب کی طرف چلا گیا ہے۔ جھیل تک پہنچنے کے لئے اُتروڑ میں رات بسر کر کے صبح سویرے روانہ ہونا چاہئے۔ یہ سڑک ’’گائل‘‘ تک قابلِ استعمال ہے جب کہ آگے کا راستہ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ تک پیدل طے کرنا پڑتا ہے۔’’گائل‘‘ تک پہنچنے کے لئے گاڑی کا بندوبست کرنا پڑتا ہے، کیوں کہ اس مقام تک باقاعدہ ٹریفک موجود نہیں ، تاہم گائل کے قُرب و جوار کے جنگلات سے گیلیاں لانے کے لئے ٹرک اور ’’گٹو‘‘(بھاری جسامت کے پستہ قامت ٹرک) جاتے رہتے ہیں ، لیکن ان کے آنے جانے کا وقت متعین نہیں ہے۔ گائل تک گاڑی میں قریباً نصف گھنٹے کا سفر ہے اور اس آگے جھیل تک پیدل راستہ دو گھنٹے کا ہے۔

گائل کی سڑک میں داخل ہوتے ہی انسان ایک نئی دُنیا سے آشنا ہو جاتا ہے۔ یہاں ہر طرف گیلیوں (Logs) کے بکھرے ہوئے بڑے بڑے ڈھیر نظر آتے ہیں ،جن کے بیچ میں ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ اور ’’سپین خوڑ ڈنڈ‘‘ سے نکلی ہوئی تیز و طرار ندی، بلند و بالا برف پوش پہاڑ، چاروں طرف پھیلے ہوئے گھنے جنگلات، راستے میں جگہ جگہ دیودار کی قیمتی لکڑی سے بنے ہوئے خوب صورت مکانات اور مختلف مقامات پر ندی کے اوپر بنائے گئے لکڑی اور رسیوں کے پُل، انسان کو قدرتی مناظر اور اچھوتی خوب صورتی کی ایک نئی دُنیا سے آشنا کرتے ہیں۔ اس سڑک میں داخل ہو کر آگے بڑھتے ہوئے نئے نئے دل رُبا اور سرور افزا مناظر کی نئی نئی شکلیں وا ہوتی چلی جاتی ہیں۔ بِلا مبالغہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان جنت کے کسی حسین گوشے میں داخل ہو گیا ہے۔ آگے بڑھتے ہوئے وہ خود کو دل کش مناظر اور بے حجاب قدرتی حُسن پر مشتمل ایک ناقابلِ یقین فضا میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ قدرت نے یہاں کے مناظر تخلیق کرتے ہوئے خصوصی فیاضی سے کام لیا ہے اور اس علاقہ کو حسن و جمال کی دولت دل کھول کر عطا کی ہے۔

بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی ندی نصف گھنٹہ کی مسافت پر واقع محکمۂ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس تک ہم سفر رہتی ہے۔ ندی کا جھاگ اُڑاتا سفید و نیلگوں پانی دل میں ایک نئی اُمنگ پیدا کرتا ہے اور اس سے نکلنے والی پھوار عجب سرخوشی اور انبساط انگیزی کا باعث بنتی ہے۔یہ خوب صورت ریسٹ ہاؤس ’’گائل‘‘ میں واقع ہے جس کے ساتھ ہی ندی کا صاف و شفاف پانی بہتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے چاروں طرف جنگلات سے ڈھکے ہوئے بلند و بالا پہاڑ ہیں جن کے درمیان میں واقع ریسٹ ہاؤس کسی حسین نگینے کی مانند جُڑا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ محکمۂ جنگلات کے متعلقہ افسروں کی اجازت سے کوئی بھی شخص اپنے لئے ریسٹ ہاؤس بک کروا سکتا ہے۔ ریسٹ ہاؤس کے گرد و نواح میں ٹراؤٹ مچھلی کیبن نما چائے خانوں میں مل جاتی ہے۔

کچی سڑک اگرچہ ریسٹ ہاؤس سے ایک یا دو کلومیٹر آگے تک بھی چلی گئی ہے لیکن اس کی حالت کافی خراب ہے اور اس پر صرف جیپ یا فور وہیکل گاڑی ہی جا سکتی ہے اس لئے بہتر ہو گا کہ یہاں سے آگے کا سفر پیدل شروع کیا جائے۔ریسٹ ہاؤس سے جھیل تک کا فاصلہ صرف دو گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے اور اس خوب صورت اور طلسماتی جھیل تک پہنچنے کے لئے یہ کوئی بڑی قیمت نہیں ہے۔

پہاڑوں اور بعض جگہوں میں سر سبز و شاداب چراگاہوں کو پار کرتے ہوئے پہلے ’’لدھو بانڈہ‘‘ پہنچا جاتا ہے۔ جہاں سے ایک پیدل راستہ ’’سپین خوڑ ڈنڈ‘‘(سپید ندی والی جھیل) تک چلا گیا ہے جب کہ دوسراراستہ دائیں طرف ’’بٹلو ندی‘‘ کے سنگ اس کی مخالف سمت ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ تک پہنچا دیتا ہے۔ یہاں سے ’’خاپیروڈنڈ‘‘(پریوں والی جھیل) تک بھی راستہ گیا ہے جو بہت ہی دشوار گزار اور طویل ہے۔

کنڈلوڈنڈ جاتے ہوئے راستے میں انواع و اقسام کے جنگلی پھول اور خوش بو دار پودے نظر آتے ہیں۔ بعض قیمتی جڑئ بوٹیاں بھی یہاں کے پہاڑوں میں پائی جاتی ہیں ، جنہیں مقامی زبان میں جڑئی، تیضان،گوبگہ اور مامیخ کہا جاتا ہے۔ ان میں جڑئ نامی پودے کی یہ خاصیت ہے کہ جب پہاڑوں کی بلندی پر چڑھتے ہوئے، آکسیجن کی کمی کی وجہ سے سر چکرانے، سانس پھولنے اور دل متلانے لگتا ہے تو اس پودے کے چھوٹے چھوٹے گھنے پتے سُونگھنے کے بعد، حیرت انگیز طور پر طبیعت فوراً بحال ہو جاتی ہے۔

جب آپ وسیع اور کھُلے میدان میں قدم رکھیں گے تو سمجھ لیجئے کہ کنڈلو ڈنڈ تک صرف آدھ گھنٹے کا راستہ رہ گیا ہے۔ اس وسیع میدان کے قرب میں واقع پہاڑوں پر جگہ جگہ برف جمی ہوئی نظر آتی ہے۔ بعض مقامات پر یہ قدرتی برف چھوٹے چھوٹے گلیشئرز کی شکل میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ جب آپ پہاڑ کی آخری چڑھائی طے کریں گے تو آپ کو ایک اور وسیع اور کھُلا میدان نظر آئے گا۔میلوں تک پھیلا ہوا یہ سرسبز و شاداب میدان برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور حسین و دل کش کنڈلو ڈنڈ بھی اسی میدان میں پیالے کی مانند نظر آتی ہے۔

آپ کی نظر جوں ہی جھیل پر پڑے گی، آپ کے دل کی دھڑکن یک دم تیز ہو جائے گی اور آپ کو عجیب طرح کی خوشی اور طمانیت کا احساس ہو گا۔ جب آپ جھیل کے نزدیک پہنچیں گے تو یہ آپ کو اپنے تمام تر حُسن اور بے پناہ خوب صورتی کے ساتھ پہاڑوں کے دامن میں جلوہ آراء نظر آئے گی۔ چاروں طرف برف سے ڈھکی چوٹیوں کے پسِ منظر میں ، اوپر نیلگوں آسمان اور نیچے ایک بڑے پیالے کی مانند کنڈلو ڈنڈ کے چاندی جیسے شفاف پانی میں آسمان، برف پوش چوٹیوں اور ڈنڈ(جھیل) کے کنارے واقع بلند درختوں کا خوب صورت عکس جھلملاتا ہوا نظر آئے گا۔ آپ کو گمان ہو گا کہ آپ کسی خواب و خیال کی سرزمین، کسی پرستان یا کسی حیرت افزا طلسماتی دیس میں جا پہنچے ہیں۔ جھیل کے اطراف میں پھیلے ہوئے حسین مناظر، پہاڑوں پر پڑی ہوئی چمکتی برف، سرسبز چراگاہیں ، خنک اور صحت بخش آب و ہوا جسم و جاں کو عجیب طرح کی تازگی کا احساس دلاتی ہے۔

یہ سُہانی اور طلسماتی جھیل قریباً ڈیڑھ کلومیٹر لمبی اور ایک کلومیٹر چوڑی ہے اور محتاط اندازے کے مطابق اس کی گہرائی سو فٹ سے زیادہ ہے۔ جھیل تک پانی ایک ندی کی صورت میں آ رہا ہے، تاہم یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس جھیل کا پانی صرف اس چھوٹی سی ندی کا مرہونِ منت نہ ہو بلکہ اس کے اندر گہرائی میں بھی بہت سے چشمے پھوٹ رہے ہوں جن کا پانی جمع ہو کر اس جھیل کو وجود میں لانے کا باعث بنا ہو۔ اس جھیل کی حیرت انگیز خصوصیت یہ ہے کہ بظاہر پانی، اس سے کسی سمت جاتا ہوا محسوس نہیں ہوتا بلکہ اس سے بہت دور پہاڑوں کے دامن میں چشمے کی مانند پھوٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کنڈلو ڈنڈ مکمل طور پر ایک پیالے کی مانند بند نظر آتی ہے۔

’’کنڈلو‘‘ کا لفظ دراصل پشتو زبان کے لفظ ’’کنڈولے‘‘ سے نکلا ہے جس کے معنی ’’جام‘‘ کے ہیں اور ’’ڈنڈ‘‘ اُردو کے لفظ ’’جھیل‘‘ کے ہم معنی ہے۔ چونکہ یہ جھیل قدرتی طور پر قریباً گولائی کی صورت میں واقع ہے اور ایک بڑے جام کی شکل میں ہے۔ اس لئے مقامی زبان میں یہ ’’کنڈلوڈنڈ‘‘(یعنی جام والی جھیل) کے نام سے مشہور ہے۔ اس نام کی ایک توجیہہ یہ بھی کی جاتی ہے کہ جب چودھویں کے چاند کا عکس اس پر پڑتا ہے تو وہ اس میں ایک سنہرے جام کی مانند دکھائی دیتا ہے۔ اس لئے اس جھیل کو ’’کنڈلوڈنڈ‘‘ کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

جھیل میں کشتی رانی بہت آسانی سے کی جا سکتی ہے، لیکن یہ سہولت یہاں موجود نہیں ہے۔ اس کے لئے ذاتی موٹر بوٹ اور کشتی لانا پڑے گی۔ یہاں سیاحتی سہولتوں کا تصور تک نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہ جھیل ابھی سیاحوں اور مُہم جو افراد کی نظروں سے مکمل طور پر پوشیدہ ہے۔ بہت ہی کم لوگوں کو اس خوب صورت جھیل کے بارے میں علم ہے۔ حکومت اگر یہاں تک سڑک کی تعمیر ممکن بنائے تو یقیناً یہ جھیل ’’مہوڈنڈ‘‘ اور ’’جھیل سیف الملوک‘‘ سے بھی زیادہ مقبول ہو سکتی ہے اور یہ مقام اور اس کے قُرب و جوار کے خوب صورت مناظر سیاحوں کو بہترین تفریح مہیا کر سکتے ہیں۔

جھیل تک پہنچنے کے لئے اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیاء ضرور لے لینی چاہئے اور کوئی مقامی باشندہ بھی اگر بطور گائیڈ اپنے ساتھ لے لیا جائے تو راستے کی تکالیف اور دشواریوں میں نمایاں کمی آ سکتی ہے۔گائیڈ کی موجودگی میں سیاحوں کو نہ صرف تحفظ کا احساس ملے گا بلکہ وہ راستے میں پھیلے ہوئے بعض دوسرے اہم خوب صورت تفریحی مقامات کی نشان دہی بھی کر سکے گا۔ جھیل کے کنارے مقامی گائیڈ کی موجودگی میں بلا خوف و خطر کیمپنگ کی جا سکتی ہے اور صبح و شام، اس جھیل کے حسین طلسماتی مناظر سے لطف اندوز ہو ا جا سکتا ہے۔ جھیل سے واپسی کا سفر ڈیڑھ گھنٹے میں طے کیا جا سکتا ہے۔

کنڈلو ڈنڈ تک پہنچنے کے لئے پہاڑوں پر چڑھتے ہوئے بعض مقامات پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے اور یہ سیاحتی مہم اگر گروپ کی شکل میں سر کی جائے تو زیادہ لطف و سُرور حاصل کیا جا سکتا ہے۔اس مہم جوئی کے لئے موزوں ترین مہینے مئی، جون ، جولائی اور اگست کے ہیں۔

 

یہاں کے لوگ نہایت مہمان نواز اور پُر امن ہیں۔ اسلحہ اگرچہ یہاں فیشن کے طور پر قریباً ہر دوسرے تیسرے شخص کے پاس نظر آتا ہے لیکن اس کے استعمال کی نوبت خال خال ہی آتی ہے۔ کنڈلوڈنڈ کے راستے میں ایک آدھ مقام پر مقامی افراد باہر سے آئے ہوئے مہمانوں کو بڑے خلوص اور تپاک کے ساتھ چائے پینے کی دعوت دیتے ہیں۔ سرسبز و شاداب پہاڑوں کے درمیان زمین پر بیٹھ کر چائے پینے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

اُوشو،مٹلتان،گلیشئر،آبشار،مہوڈنڈ

 

اُوشو،مٹلتان اور مہوڈنڈ سوات کی وسیع و فراخ وادی کے حسین گوشے ہیں جہاں کالام کے دل فزا مقام سے جیپ یا پرائیویٹ گاڑی کے ذریعے دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے پہلے اُوشو ، مٹلتان،گلیشئیر اورپھر مہوڈنڈ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ کالام سے اُوشو قریباً 10  کلومیٹر ،مٹلتان13 کلومیٹر اور مہوڈنڈ 37 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ کالام میں بنڑکے مقام پر ایک پختہ سڑک مشرق کی طرف اُوشو اور مٹلتان ہوتے ہوئے مہوڈنڈ تک چلی گئی ہے جبکہ دوسری سڑک شمال مغرب کی طرف اُتروڑ اور گبرال کی سمت جاتی ہے۔

 

کالام سے روانہ ہو کر بنڑ(جنگل) کے مقام پر اُوشو کی سڑک میں داخل ہوتے ہی گھنے جنگلات کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جس میں حسین قدرتی سبزہ زاروں میں سیاح اہل خانہ کے ساتھ آرام کرتے یا پِک نِک مناتے ہوئے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔ شاہِ بلوط کے گھنے جنگلات کے بیچوں بیچ سڑک پر آگے بڑھتے ہوئے ایک عجیب قسم کی خوشی اور شیریں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے۔ دل میں نئی اُمنگ اور نیا ولولہ محسوس ہوتا ہے۔ مٹلتان اور مہوڈنڈ پہنچنے سے پہلے آپ اُوشو کی گل رنگ وادی میں داخل ہوں گے جو حسن و جمال کا ایک دل نشین منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں ایک خوب صورت ہوٹل’’ اوشو‘‘ کے نام سے دریائے اُوشو کے عین کنارے پر واقع ہے۔ اُوشو کی مہکتی ہوئی وادی کے نظارے اس قدر دل فریب ہیں کہ یہاں ٹھہرنے کے لئے انسان کا دل مچل مچل جاتا ہے۔ یہاں کے بیشتر مکانات دیار کی قیمتی لکڑی سے بنائے گئے ہیں جو اس خوب صورت وادی کے طلسماتی مناظر میں کسی پرستان کی وادی کا عکس پیش کرتے ہیں۔ اُوشو سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر مٹلتان کی حسین و دل کش مہکتی ہوئی وادی سیاحوں کے لئے اپنے دامن کو وا کئے ہوئے ہے۔ یہ وادی چاروں جانب سے بلند و بالا اور سرسبز و شاداب پہاڑوں میں گھری ہوئی ہے۔ یہ پہاڑ اتنے اُونچے ہیں کہ آسمان سے سرگوشیاں کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ سارے پہاڑ سفید برف سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ سفید اور کالے بادلوں کے ٹکڑے اُڑتے سائبان کی مانند پھیلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ خوب صورت موسم میں بادلوں کے یہ ٹکڑے ایک انتہائی حسین اور لطیف منظر کو جنم دیتے ہیں اور جی چاہتا ہے کہ اس دل کش منظر کو مسلسل دیکھتا چلا جائے اور اس کی ساری خوب صورتی اور دل رُبائی کو آنکھوں کے ذریعے دل میں جذب کر لیا جائے۔ یہاں ہر وقت سرد ہوا چلتی ہے جس میں پُر کیف خوش بو بسی ہوئی ہوتی ہے۔ شدید گرمی کے موسم میں بھی یہاں انسان کو سردی کا احساس ہوتا ہے۔

یہ علاقہ ’’سوات کوہستان‘‘ میں شامل ہے اور یہاں کے لوگوں کی زبان کوہستانی ہے لیکن پشتو عام بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ کی کل آبادی ملا کر قریباً بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر مکان پہاڑوں میں واقع ہیں جو تسبیح کے بکھرے دانوں کی مانند نظر آتے ہیں۔ مکانات عام طور پر دو منزلہ ہیں۔ جن میں پتھر اور لکڑی کا استعمال زیادہ ہے۔ یہاں کے لوگ بہت سادہ زندگی گزارتے ہیں اور اپنی روایتی معاشرتی اقدار کی سختی سے پابندی کرتے ہیں۔ سیاحوں کی عزت اور احترام یہاں کی روایات میں شامل ہے۔ مقامی آبادی کا گزارہ آلو کی کاشت پر ہے۔ اکتوبر ، نومبر کے مہینوں میں برف باری شروع ہو جاتی ہے اور تمام راستے دسمبر کے وسط سے فروری کے آخر تک بند ہوتے چلے جاتے ہیں۔ یہاں سردیوں میں اتنی زیادہ برف پڑتی ہے کہ اُوشو، مٹلتان اور مہوڈنڈ بشمول کالام اور اردگرد کے تمام علاقے سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے کٹ جاتے ہیں۔ لوگ بھیڑ بکریاں پالتے ہیں اور اُنہی سے دودھ حاصل کرتے ہیں۔ موسمِ سرما کے اوائل میں اپنے مویشیوں کی خاطر صوبہ سرحد کے میدانی علاقوں چارسدہ، مردان اور صوابی وغیرہ کی طرف ہجرت کر جاتے ہیں۔

مٹلتان کی وجۂ تسمیہ کافی دلچسپ ہے۔ مٹل دراصل کوہستانی زبان میں سفید مٹی کو کہتے ہیں اور یہاں چوں کہ سفید مٹی کی بہتات ہے اس لئے اسی نسبت سے یہاں کا نام مٹلتان پڑ گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جگہ جہاں سفید مٹی زیادہ ہو۔ اس سفید مٹی کو یہاں کے لوگ بطور چونا بھی استعمال کرتے ہیں کیوں کہ سردیوں میں یہاں گھروں میں آتش دانوں میں آگ مسلسل روشن رہتی ہے اور چمنیوں سے دھوئیں کی وجہ سے مکانوں کی دیواریں سیاہ ہو جاتی ہیں۔ موسم سرما کے اختتام پر مکانوں کو ’’مٹل ‘‘ سے دوبارہ اُجال لیا جاتا ہے۔

مٹلتان کا چھوٹا سا بازار کسی خاص اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ دُکانوں میں زیادہ تر مقامی لوگوں کے لئے روز مرہ ضرورت کی اشیاء دست یاب ہوتی ہیں۔ مٹلتان میں سیاحتی سہولتیں بھی ناکافی ہیں۔ صرف ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس اور ایک نچلے درجہ کا ہوٹل باغیچہ ہے لیکن کالام سے قریب ہونے کی وجہ سے قیام و طعام کے لئے کالام بھی بروقت واپسی ممکن ہے۔

اُوشو اور مٹلتان میں آلو کے علاوہ سیب اور اخروٹ بھی پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کے سیب اپنی لذت اور مٹھاس کے لئے خاص طور پر مشہور ہیں۔ اخروٹ تو یہاں اتنی زیادہ مقدار میں پیدا ہوتے ہیں کہ یہاں ایک مقام کا نام ہی ’’چوراٹ‘‘ مشہور ہو گیا ہے۔چوراٹ کوہستانی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی اخروٹ کے ہیں۔

مٹلتان کے ایک طرف دریائے اُوشو بڑی بڑی چٹانوں سے ٹکراتا ہوا بہہ رہا ہے اور دوسری طرف ایک ندی اچھلتی کودتی ہوئی دریائے اُوشو کی جانب بے قراری سے بہتی جا رہی ہے۔یہ دونوں آپس میں مدغم ہو کر کالام میں دریائے سوات کے ساتھ مل جاتے ہیں۔مٹلتان کے قریب ہی ایک گلیشیئر ہے جو سیاحوں کے لئے خصوصی دلچسپی اور لطف اندوزی کا باعث بنتا ہے۔ موسمِ گرما میں یہاں سیاحوں کا ایک جمِ غفیر صبح سے سہ پہر تک موجود رہتا ہے اور سیاحوں کی سہولت کے لئے یہاں اشیائے خورد و نوش کا وافر انتظام ہے۔ مٹلتان سے قریباً بیس کلومیٹر کے فاصلے پر جھیل ’’مہوڈنڈ‘‘ ہے جو ایک اور مشہور و معروف تفریح گاہ ہے۔ اس جھیل کا لاثانی حُسن اور غیر معمولی خوب صورتی انسان کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے اور ایک ابدی احساس بخش دیتی ہے۔ ’’مہوڈنڈ‘‘ حقیقتاً سراپا حُسن ہے۔ دل کشی ہے اور قدرتی رعنائیوں سے معمور فطرت کی فیاضیوں کا ایک لاثانی شاہکار ہے۔ اگر آپ کیمپنگ کے شائق ہیں تو جھیل کے کنارے سبزہ زار پر بلا خوف و خطر اپنا خیمہ نصب کر سکتے ہیں۔ یہاں ٹراؤٹ مچھلیاں بڑی تعداد میں پائی جاتی ہیں او ر اسی کی وجہ سے اس کا نام مہوڈنڈ (یعنی مچھلیوں کی جھیل پڑ گیا ہے)۔ ٹراؤٹ مچھلی اپنی لذت اور ذائقے کے لحاظ سے دنیا کی چار پانچ بہترین مچھلیوں میں شمار ہوتی ہے۔ مچھلی کے شکار کے لئے اجازت نامہ لینا ضروری ہے جو محکمۂ ماہی پروری کے متعلقہ اہل کاروں سے با آسانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔بعض غیر ملکی سیاحوں کا کہنا ہے کہ مہوڈنڈ بہت خوب صورت جھیل ہے۔

مہوڈنڈ تک پہنچنے کے لئے کالام سے جیپ کرایہ پر حاصل کی جا سکتی ہے۔ اگر آپ خصوصی طور پر جیپ بُک نہیں کرانا چاہتے تو چھ سات سیاح مل کر بھی جیپ کرایہ پر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس طرح سیاحوں کو کافی بچت ہو گی۔ کچھ عرصہ قبل مہوڈنڈ میں رات کے قیام کے لئے کوئی ہوٹل موجود نہیں تھا،اب یہاں فرانسیسی کمرشل ادارے کے تعاون سے رہائشی انتظامات کا منصوبہ تکمیل کے مراحل میں ہے۔ چناں چہ شب بسری کی سہولت بھی میسر آ جائے گی۔ مہودنڈ کی سیر و سیاحت کے لئے صبح سویرے ہی کالام سے روانہ ہونا چاہئے اور شام کو جلد واپسی ممکن بنانی چاہئے تاکہ سیاح کالام میں اپنے ہوٹل بروقت پہنچ سکیں۔ مہوڈنڈ جاتے ہوئے راستے میں بہت خوب صورت مقامات آتے ہیں اس لئے اگر آپ ان مقامات پر تھوڑی دیر کے لئے ٹھہر جائیں تو آپ کا سفر مزید پُر لطف بن سکتا ہے۔ ان مقامات میں گلیشئر، پلوگا اور آبشار خصوصی طور پر شامل ہیں۔ آبشار نامی مقام اتنا خوب صورت و دل پزیر ہے کہ مہوڈنڈ جانے والی گاڑیاں کچھ دیر کے لئے اس مقام پر بے اختیار رُک جاتی ہیں اور سیاح پندرہ سو فٹ کی بلندی سے گرتے ہوئے اس طویل اور پُر عظمت آبشار کا نظارہ کرنے لگتے ہیں۔ یہ آبشار اس قدر دل فریب اور مسحور کُن ہے کہ بعض سیاح محض اس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھنٹوں فاصلہ طے کر کے آتے ہیں اس مقام کا نام بھی اس طویل آبشار کی وجہ سے ’’آبشار‘‘ پڑ گیا ہے۔

کالام سے مٹلتان تک سڑک کی حالت کسی حد تک عمدہ ہے لیکن مہوڈنڈ تک کا سارا راستہ بہت خستہ اور خراب ہے جگہ جگہ سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور جیپ، ڈاٹسن یا بس کے ذریعے ہی یہاں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ ہلکی پھلکی گاڑی کا اس سڑک پر چلے جانا ناممکن ہے۔ وادیِ سوات کا یہ گوشہ بلاشبہ فطرت کے اصل رنگ و روپ میں ہے اور اس کی بے پناہ خوب صورتی جمالیاتی ذوق کے حامل سیاحوں کو تسکین اور سیرابی کا ایک بھرپُور احساس دلاتی ہے۔

٭٭٭

 

 

 

پہاڑ،درے اور چوٹیاں

 

سوات کی بے پناہ خوب صورتی میں اگر ایک طرف یہاں کا صاف و شفاف پانی کارفرما ہے تو دوسری جانب اس کا حسن دوبالا کرنے میں یہاں کے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں کی موجودگی بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ کیوں کہ ان پہاڑوں پر سردیوں میں برف پڑتی ہے اور وہ گرمیوں میں پگھل کر دریا، ندی اور نالوں کی صورت میں پوری وادیِ سوات کو سرسبز و شاداب بناتی ہے۔ یہی برف پگھل کر چشموں ،جھرنوں اور آبشاروں کی صورت میں سوات کے حسن اور رعنائی کو سُرور افزا اور دل پذیر بناتی ہے۔ اس طرح سوات کا موسم اگر معتدل ،صحت بخش اور خوش گوار ہے تو وہ یہاں کے سرسبز پہاڑوں اور سر بہ فلک چوٹیوں کی بہ دولت ہے۔

وادیِ سوات کے چاروں جانب اُونچے اُونچے پہاڑوں کے طویل سلسلے ہیں۔اس کے شمالی اطراف کے پہاڑ بہت بلند ہیں۔ ان میں بیشتر پہاڑ سال بھر برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ سوات کے مشرق کی طرف بھی پہاڑوں کے طویل سلسلے ہیں۔ سوات کے مغربی پہاڑ بھی بہت بلند و بالا ہیں جو ضلع سوات اور ضلع دیر کے درمیان حدبندی کا کام دیتے ہیں۔ ان پہاڑوں میں جا بہ جا خوب صورت درے ہیں جن پر لوگوں کی پیدل آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ان پہاڑوں میں گھنے جنگلات بھی ہیں۔جن کی لکڑی بہت مضبوط،قیمتی اور کار آمد ہے۔ ان پہاڑی سلسلوں میں بہت سے آبشار،چشمے اور جھیلیں ہیں جن کی وجہ سے وادیِ سوات سیاحوں کی جنت کہلاتی ہے۔

وادیِ سوات کے چند مشہور پہاڑ یہ ہیں۔

 

ایلم: یہ پہاڑ سطح سمندر سے 9250 فٹ بلند ہے۔ جو بونیر اور سوات کے درمیان حد فاصل کا کام دیتا ہے۔ سوات میں سب سے زیادہ سرسبز یہی پہاڑ ہے۔ رام تخت اس پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو ہندوؤں کی ایک عبادت گاہ (تیرتھ) ہے۔ جس کی زیارت کے لئے متحدہ ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے ہندو یاتری آیا کرتے تھے۔

 

دوہ سرے: یہ پہاڑ سطح سمندر سے10 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑ بھی ایلم کی طرح زرخیز ہے جو ’’ایلم‘‘ سے ملحق سوات اور بونیر کے درمیان واقع ہے۔ دوہ سری بانڈہ اس پہاڑ کا درہ ہے۔ جس پر مخوزی اور سوات کے لوگ آتے جاتے ہیں۔

 

فلک سیر: فلک سیر سوات کے شمالی پہاڑوں کے سلسلے کالام میں واقع ہے۔ اس کی بلندی قریباً20 ہزار فٹ ہے۔ اس کا قدیم نام پالا سر بتایا جاتا ہے۔

 

مانکیال(مانڑکیال):سوات کوہستان میں یہ ایک مشہور پہاڑ ہے۔ جو وادیِ بحرین میں واقع ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے 18750 فٹ بلند ہے۔ قدرتی مناظر اور خوب صورتی کے لحاظ سے یہ سوات کا حسین ترین پہاڑ ہے۔ یہاں مرغ زریں کے علاوہ دوسرے پہاڑی مرغ بھی پائے جاتے ہیں جو حسن اور دل کشی میں لاثانی ہیں۔ اس کی چوٹی ہمیشہ برف کی سپید چادر سے ڈھکی رہتی ہے۔

 

کڑاکڑ: یہ سوات اور بونیر(اباخیل اور سالارزی) کے درمیان واقع ہے۔ اس کی چوٹی سطح سمندر سے 4500 فٹ بلند ہے۔ اس کے درہ میں ایک پختہ سڑک بنائی گئی ہے۔ جس کے پیچ و خم ہر سیاح کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لیتے ہیں۔ یہ سڑک سوات اور بونیر کو ملاتی ہے۔ اس پہاڑ کی برف پوش چوٹی پشاور سے باہر ترناب فارم کے قریب سے بھی نظر آتی ہے۔

 

جواڑے: یہ سطح سمندر سے7 ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ بابوزو اور گوکند درہ کے درمیان اس کے اُوپر راستہ چلا گیا ہے۔ پیدل آمد و رفت کے لئے یہ موزوں راستہ ہے۔

 

کلیل کنڈؤ: یہ بھی سطح سے 7 ہزار فٹ کی اُونچائی پر واقع ہے۔ بابوزو اور گوکند درہ (بونیر) کے درمیان اس کے اُوپر راستہ گیا ہے۔ پیدل آمد و رفت کے لئے یہ بہت آسان راستہ ہے۔

 

گاڈوا: یہ سوات اور غوربند کے درمیان واقع ہے۔

 

گنہگار: یہ پہاڑ ضلع سوات اور دیر کے درمیان سطح سمندر سے 15ہزارفٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ اس پہاڑ کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں سبز، سرخ ، سفید اور دیگر کئی رنگوں کی برف نظر آتی ہے جو سیاحوں کے لئے یقیناً باعث حیرت اور دلچسپی ہے۔ اگرچہ عام طور پر برف سپید رنگ کی ہوتی ہے لیکن یہاں چوں کہ ہمیشہ برف جمی رہتی ہے اور بہت کم پگھلتی ہے، اس لئے اس کا رنگ بدلتا رہتا ہے۔ یہ دل کش پہاڑ سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔ اس کی وجۂ تسمیہ کے بارے میں مشہور ہے کہ قدیم زمانے میں اس سے ایک بزرگ نے پتھر مانگے تھے تاکہ وہ اسے تعمیراتی کام میں استعمال کر سکے لیکن اس پہاڑ نے دینے سے انکار کیا تھا جس کی پاداش میں بزرگ نے اُسے بد دُعا دی اور اس وجہ سے یہ پہاڑ ہمیشہ برف کی سپید چادر اوڑھے رہتا ہے۔

 

کروڑہ: یہ لیلونئی کے قریب واقع ہے۔ جو پہاڑوں سے گرا ہوا ایک تنگ درہ (وادی) ہے۔ یہ منگورہ اور لیلونئی (ضلع شانگلہ) کے مابین رابطے کا راستہ بھی ہے۔ جو کہیں کچی اور کہیں پختہ سڑک کے ذریعے سوات کے مرکزی شہر منگورہ سے ملا ہوا ہے۔

 

شلخو: سوات اور کانڑا(داموڑئ) کے درمیان یہ ایک چوٹی ہے۔ جس پر پیدل راستہ بھی موجود ہے۔ شلخی سر یخ تنگی کے قریب غوربند اور پورن کے درمیان واقع ہے۔

 

داموڑئ: یہ اُونچے پہاڑوں کے درمیان ایک خوب صورت درہ ہے۔ جس کی بیچوں بیچ ایک ندی بہہ رہی ہے۔ یہاں کافی لوگ آباد ہیں۔ یہ منگورہ سے ایک نیم پختہ سڑک کے ذریعے ملا ہوا ہے۔ اس سے آگے ایک سڑک اُولندھر اور دوسری سڑک چکیسر تک چلی گئی ہے۔

 

جبے سر: یہ متوڑیزی(چارباغ) اور غوربند الپورئ کے درمیان واقع ہے۔ جو سطح سمندر سے 9 ہزار فٹ بلند ہے۔ اس کی چوٹی پر ایک سرسبز میدان ہے جو سیاحوں کے لئے غیر معمولی دل کشی کا باعث ہے۔

 

درال بانڈہ: یہ 10ہزار فٹ کی بلندی پر پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدان ہے۔ جس میں قدرتی جھیلیں ہیں۔ یہاں کا پانی بہت ٹھنڈا ،شیریں ،ہاضم اور قدرتی دوائی کا سا اثر رکھتا ہے۔

 

چکیل سر:12ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ایک پہاڑی بانڈہ (دیہات) ہے۔ جو بہت خوب صورت اور سیر و سیاحت کی بہترین جگہ ہے،تاہم اس درہ نما بانڈہ میں سیاحوں کے لئے سہولتوں کا فقدان ہے۔

 

قادر سر: بہا،فاضل بانڈہ اور نیک پی خیل کے درمیان ایک مشہور چوٹی ہے۔تاریخی لحاظ سے بہت اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ دیر اور سوات کے مابین لڑائیوں میں اس کی حیثیت محاذِ جنگ کی سی ہوا کرتی تھی۔

 

ڈوما: مداخیل اور اور سورے امازی(چملہ،بونیر) کی حدود میں واقع ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈوما کافر کے دورِ حکومت میں اس چوٹی کو ایک خاص اہمیت حاصل تھی جس کو تین سو سال قبل باکو خان نے شکست دی تھی۔

 

پیرسر: چکیسر(شانگلہ) کی بلند تاریخی چوٹی ہے اور سکندرِ اعظم کی وجہ سے شہرت کی حامل ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیرسر کی بلند چوٹی پر اس وقت کے مشہور راجہ اُرنس کا مضبوط قلعہ تھا جس کو فتح کرنے کے لئے سکندراعظم نے اس پر حملہ کیا تھا۔

٭٭٭

 

 

 

اخوند صاحبِ سوات(سیدو بابا)

 

وادیِ سوات، صوبہ سرحد، آزاد قبائل اور افغانستان میں اخوند صاحبِ سوات کا نام ایک عظیم صوفی اور صاحبِ کشف و کرامت بزرگ کے طور پر مشہور ہے۔ اخوند صاحبِ سوات کا اصل نام عبدالغفور اور والد کا نام عبدالوحید تھا۔ آپ سوات کے علاقہ ’’شامیزئ‘‘ میں جبڑی کے مقام پر 1794ء میں پیدا ہوئے۔ آپ افغان قوم کے مہمند قبیلے صافی سے تعلق رکھتے تھے۔ بچپن میں آپ نے بھیڑ بکریاں چرائیں۔ لیکن جب ہوش سنبھالا تو حصولِ علم اور تلاشِ حق کے لئے صوبہ سرحد کے فاضل علماء اور خدا رسیدہ مشائخ کے پاس زانوئے تلمذ تہِ کرتے رہے۔

اِبتدائی تعلیم آپ نے ’’بڑنگولا‘‘ کے ایک مولوی صاحب سے حاصل کی۔ اس وقت سوات میں تعلیم حاصل کرنے کے مؤثر ذرائع موجود نہیں تھے۔ اس لئے آپ مزید حصولِ علم کے لئے ضلع مردان کے گاؤں ’’ گوجر گڑھی‘‘ چلے گئے۔ جہاں آپ نے مولانا عبدالحلیم سے باقاعدہ مزید روحانی فیض حاصل کیا۔ کچھ عرصہ آپ نے چمکنی(پشاور) اور زیارت کاکا صاحبؒ تحصیل نوشہرہ میں گزارا۔ اس کے بعد پشاور میں گنج والے حافظ حضرت جی کی خدمت میں زانوئے تلمذ تہِ کیا اور قریباً چار سال تک اُن سے سلوک و طریقت کی تعلیم حاصل کرتے رہے۔ بعد ازاں آپ شیخ المشائخ صاحب زادہ محمد شعیب ساکن تورڈھیری کی خدمت میں پہنچے اور وہاں ایک جھونپڑی میں رہ کر بارہ سال تک مجاہدہ اور ریاضت کرتے رہے۔

آپ نے 1816ء میں دریائے سندھ کے کنارے ایک گاؤں ’’ بیکی‘‘ میں مسلسل بارہ سال تک چلہ کشی کی۔ اس ریاضت سے فارغ ہو کر آپ نے باطنی مدارج کی جو منزلیں طے کیں ، اس سے آپ کی شہرت دور دراز تک پھیل گئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں سرحد و افغانستان کے لاکھوں افراد آپ کے مرید بن گئے اور سلسلۂ قادریہ کا ایک عظیم دور جاری ہو گیا۔1828ء میں آپ نے ’’بیکی‘‘ سے رختِ سفر باندھا اور دریائے سندھ کی دوسری طرف ’’نمل‘‘ نامی مقام میں سکونت اختیار کی اور روحانی ریاضت میں مشغول رہے۔ چوں کہ یہ دور ایک طرف انگریزوں کی ایسٹ انڈیا کمپنی کے غلبے، دوسری طرف سکھوں کے اقتدار اور تیسری طرف سوات میں خوانین کی سازشوں اور لاقانونیت کا تھا اور اسی علاقے میں حضرت سید احمد شہید بریلوی سکھوں کے خلاف فوج جمع کر رہے تھے، اس لئے آپ نے خوانین کی سازشوں سے لوگوں کو بچایا اور اس وقت سید احمد شہید بریلوی کی ہر ممکن مدد کی۔ آپ نے سب سے پہلے جہاد 1835ء میں پشاور کے قریب شیخان کے مقام پر امیر کابل دوست محمد خان کی معیت میں سکھوں کے خلاف کیا۔

ستمبر1835ء میں چوبیس سال اپنے علاقے سے باہر گزارنے کے بعد آپ اپنے گاؤں واپس آ گئے۔ سوات پہنچ کر آپ کچھ عرصہ ’’ملوچ‘‘ کی ایک مسجد میں رہے۔ اس عرصہ میں آپ کے والدین چل بسے۔ ملوچ سے آپ رنگیلا چلے گئے۔ وہاں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد ’’اوڈی گرام‘‘ کے قریب پہاڑوں کے دامن میں غازی باباؒ کی زیارت میں مقیم ہو گئے۔ زیارت میں کچھ عرصہ زہد و عبادت میں گزارنے کے بعد آپ مرغزار چلے گئے۔ مرغزار میں ایک غار صاف کر کے وہاں مقیم ہو گئے۔ اس کے بعد سپل بانڈئ میں مقیم ہو کر وہاں شادی کی۔ آپ کے دو فرزند میاں گل عبدالخالق اور میاں گل عبدالحنان پیدا ہوئے۔1848ء میں سپل بانڈئ کو خیر باد کہہ کر آپ مستقل سکونت کے لئے سیدو چلے آئے۔ اس وقت سیدوکو کوئی خاص اہمیت حاصل نہ تھی لیکن جب آپ نے اسے اپنی دائمی سکونت کے لئے منتخب کیا تو اس کی اہمیت اور وقعت میں یک دم اضافہ ہوا۔ آپ کی وجہ سے سیدو،سیدو شریف بن گیا۔

1849ء میں جب سکھوں کو شکست دے کر انگریزوں نے پشاور پر اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تو اخوند صاحب نے سوات، ملاکنڈ اور بونیر کو انگریزوں کے تسلط سے بچانے کے لئے اپنے تمام وسائل جمع کئے۔ پشتونوں کی باہمی دشمنی ختم کرانے اور ایک مضبوط و مستحکم محافظ فوج ترتیب دینے کے لئے آپ نے بار بار جرگے کئے۔ شرعی حکومت کے قیام پر زور دیا۔ چناں چہ پہلی بار آپ نے ’’ستھانہ‘‘ کے سید اکبر شاہ کی نگرانی میں 1849ء میں حکومت قائم کی۔ یہ حکومت نازک اور ناگفتہ بِہ حالات میں قائم ہوئی تھی اور ابھی اچھی طرح مستحکم بھی نہ ہوئی تھی کہ 1857ء میں سید اکبر شاہ وفات پا گئے۔ اس کے بعد بھی سوات میں مستحکم حکومت قائم کرنے کے لئے آپ نے اپنی مساعی جمیلہ جاری رکھیں۔ جب ستمبر 1863ء میں انگریزی فوج کا ایک دستہ علاقہ بونیر میں شکار کا بہانہ بنا کر داخل ہوا تو اخوند صاحب کا جذبۂ جہاد شدت اختیار کر گیا اور آپ 26 اکتوبر 1863ء کو باقاعدہ جنگ پر آمادہ ہو گئے۔

انگریزی فوج کے پاس ہر قسم کا جدید اسلحہ تھا اور ان کی تعداد دس ہزار تک تھی۔ اس مسلح اور منظم فوج کے مقابلے میں اخوند صاحب کی فوج معمولی دیسی ہتھیاروں یا محض لکڑی اور پتھروں سے مسلح تھی اور اس کی تعداد سات ہزار سے زائد نہ تھی۔ یہ لڑائی پوری شدت سے امبیلہ اور ملکا وادیِ بونیر کے پہاڑی مورچوں میں 20 اکتوبر 1863ء سے شروع ہو کر 27 دسمبر 1863ء تک جاری رہی۔ اخوند صاحب کی فوج نے نہتے ہو کر بریگیڈئیر جنرل سرنیول چیمبر لین کی افواج کا جس جواں مردی سے مقابلہ کیا، وہ تاریخ کے صفحات میں ایک یادگار دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔ انگریزوں کو بہت جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ خود چیمبرلین بھی شدید زخمی ہوا۔ مجاہدین کی اکثریت بھی شہید ہوئی۔ انگریزوں کو اس لڑائی میں کوئی علاقہ نہیں ملا۔ انہوں نے ملکا میں آگ لگا دی۔ مجاہدین ختم نہ ہوئے اور انہوں نے اپنا مرکز دوسری جگہ بنا لیا۔

12 جنوری 1877ء کو اخوند صاحبِ سوات نے وفات پائی۔ آپ کا مزار سیدو شریف میں ہے۔ جہاں دور دراز سے آنے والے ہزاروں زائرین کا تانتا بندھا رہتا ہے۔

٭٭٭

 

 

 

بانیِ سوات میاں گل عبدالودود

               (بادشاہ صاحب)

 

میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب جدید ریاستِ سوات کے بانی تھے۔ آپ 1881 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ صاحبِ سوات(سیدوبابا) کے پوتے تھے۔ آپ کے والد حضرت اخوند صاحب کے چھوٹے بیٹے میاں گل عبدالخالق تھے اور آپ کی والدہ سابق مہتر چترال افضل الملک کی دختر تھی۔

 

حضرت اخوند صاحب کی وفات( 1877ء) سے بادشاہ صاحب کے آغازِ  حکومت (1915ء) تک یعنی (بیالیس سال) سوات میں بدامنی اور خانہ جنگی کا دور دورہ رہا۔ اخوند صاحبِ سوات نے اپنی زندگی میں سوات اور اہلِ سوات کو متحد کرنے اور ان کے مابین چپقلش ختم کرنے کی جو کوششیں کی تھیں ، وہ برباد ہو چکی تھیں۔ کئی بار مضبوط حکومت کا قیام عمل میں بھی آیا مگر با اثر خوانین کی خانہ جنگی نے پھر انتشار پھیلا دیا۔ سوات کے دوسرے حکمران عبدالجبار شاہ کے دور میں جب حالات بالکل خراب ہونے لگے تو اہلِ سوات نے ان کو معزول کر کے بادشاہ صاحب کو والی تسلیم کر لیا۔اس وقت سوات کی حدود بھی کم تھیں۔ کالام، کوہستان اور بونیر کے علاقے ریاست سوات کی حدود میں شامل نہ تھے۔

دریائے سوات کے پار کے بعض علاقے جو خاص سوات کے حصے تھے، ریاست دیر میں شامل تھے۔ بادشاہ صاحب نے ابتدائی استحکام کے بعد پہلا کام یہ کیا کہ طاقتور نواب دیر کو 1919ء میں ’’ ہر نائی‘‘ کی وادی میں فیصلہ کن شکست دے دی اور ہمیشہ کے لئے دریائے سوات کے دونوں کناروں کے میدان کو، مخالفانہ قبضے سے چھڑا لیا۔ بادشاہ صاحب نے خاص دیر کا ایک بڑا علاقہ بھی اس لڑائی میں فتح کر لیا مگر بعد میں مستقل حدبندی کے دوران دیر کا مفتوحہ علاقہ دیر کو واپس کر دیا گیا۔

بادشاہ صاحب نے اس فتح کے بعد ان خوانین کا مزاج درست کیا جو کسی مستحکم حکومت کے اصول و قوانین ماننے پر آمادہ نہ تھے اور خانہ جنگی کی آگ بھڑکاتے رہتے تھے۔ بعد ازاں بادشاہ صاحب نے ریاستِ سوات کی حدود میں بونیر،کالام اور کوہستان کے علاقے بھی شامل کر لئے اور ریاستِ سوات کی سرحدیں ہر طرف سے محفوظ کر لیں۔

میاں گل عبدالودود بہت نڈر، اسلام پسند،مدبر اور روشن خیال حکمران تھے۔ انہوں نے ریاستِ سوات کے عوام کی بہبود اور بھلائی کے لئے بے شمار ترقیاتی کام کئے۔ جگہ جگہ سکول کھولے، ہسپتال قائم کئے، سڑکیں بنوائیں ،دریاؤں اور ندیوں پر پل بنوائے، نہریں کھدوائیں ، جنگلات کی حفاظت کی اور مزید درخت لگوائے۔ تجارتی سرگرمیوں کو وسعت دی،بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کئے،لوگوں میں اپنی مدد آپ کا جذبہ پیدا کیا، شرعی قوانین نافذ کئے اور انصاف کے حصول کو بہت آسان بنا دیا۔ غرض انہوں نے سوات کو

امن، ترقی اور خوش حالی کا گہوارہ بنا دیا۔

12 دسمبر 1949ء  کو بانیِ ریاستِ سوات میاں گل عبدالودود بادشاہ صاحب نے خود حکومت سے کنارہ کشی اختیار کی اور عنانِ سلطنت اپنے ولی عہد شہزادہ میاں گل عبدالحق جہاں زیب کے سپرد کر دی۔ آپ نے اپنی باقی زندگی عوام کی خدمت اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں گزاری۔ سوات کے اس’’ مردِ آہن‘‘ نے جولائی 1971ء میں وفات پائی اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو عقبہ سیدو شریف میں سپرد خاک کر دیا گیا۔

٭٭٭

 

 

 

میاں گل عبدالحق جہانزیب

(سابق والیِ سوات )

 

 

سوات کی عظیم اور تاریخ ساز شخصیات میں سابق والیِ سوات میاں گل عبدالحق جہانزیب کا نامِ نامی سب سے زیادہ نمایاں اور غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کی شخصیت کا پیکر تراشتے وقت ان کی بہت سی خوبیاں اور اعلیٰ صفات نظروں کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہیں۔ جن میں اُن کی اعلیٰ تعلیمی قابلیت اور روشن خیالی کا وصف سب سے نمایاں ہے۔ انہوں نے نہ صرف سوات میں تعلیم کا حصول سہل بنا کر یہاں کے لوگوں کو علم و آگہی اور تہذیب و شائستگی کے زیور سے آراستہ کیا بلکہ ریاستِ سوات کو بھی جدید ریاست کی شکل میں ڈھال دیا تھا۔ اس لئے صوبہ سرحد کی تمام سابق ریاستوں میں سوات کے عوام سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور مہذب ہیں۔

سرزمینِ سوات کی یہ تاریخ ساز شخصیت 5 جون 1908ء میں پیدا ہوئی۔ جب وہ چار سال کے ہوئے تو انہیں گھر پر قرآن شریف پڑھانا شروع کیا گیا۔ جب انہوں نے عمر کے پانچویں سال میں قدم رکھا تو انہیں اعلیٰ تعلیم و تربیت کے لئے اسلامیہ کالجیٹ سکول پشاور بھیج دیا گیا۔ جہاں 1926ء میں انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور 2 مئی 1926ء میں سوات واپس آئے۔

1924ء میں صرف15 سال کی عمر میں ولی عہد کی بھاری ذمے داریاں اُن کے کندھوں پر ڈال دی گئیں اور وہ انٹر کرنے کے بعد اپنے والد میاں گل عبدالودود (بادشاہ صاحب) کی زیرِ نگرانی عملی سیاست اور ریاست کے نظم و نسق میں اُن کا ہاتھ بٹانے لگے۔

1940ء میں بادشاہ صاحب نے ولی عہد جہان زیب کی ذمے داریوں میں اضافہ کر کے، انہیں ریاستی فوج کا سپہ سالار مقرر کیا۔ یوں والی صاحب کی ذمے داریاں روز بروز بڑھتی گئیں اور انہیں ملکی نظم و نسق چلانے میں اپنے والد کے سنگ سنگ کئی اہم ذمے داریاں نبھانی پڑیں۔ چناں چہ 1943ء میں وزارتِ عظمیٰ کا اہم عہدہ بھی انہیں تفویض کر دیا گیا۔ جب بادشاہ صاحب کو محسوس ہوا کہ اُمورِ مملکت کی تمام تر ذمے داریاں ولی عہد بہ خوبی ادا کرنے کا متحمل ہو چکا ہے تو انہوں نے 12 دسمبر 1949ء کو حکومت کی تمام ذمے داریاں والیِ سوات محمد عبدالحق جہان زیب کے سپرد کر دیں۔ اسی تاریخ کو وزیر اعظم پاکستان جناب نواب زادہ لیاقت علی خان(شہید ملت) نے اپنے ہاتھوں سے والی صاحب کی دستار بندی کی۔

14 اگست 1951ء میں والی صاحب کو پاکستان آرمی میں اعزازی بریگیڈئر کا عہدہ دیا گیا اور 1955ء میں انہیں میجر جنرل کے اعزازی عہدے سے نوازا گیا۔ والیِ سوات کو کشمیر میں نمایاں خدمات انجام دینے پر حکومتِ پاکستان نے انہیں غازئ ملت کا قابلِ فخر خطاب بھی عطا کیا۔ مارچ 1959ء میں انہیں ہلالِ قائد اعظم اور 1961ء میں ہلالِ پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ 1962ء میں اٹلی حکومت نے انہیں ایک اعلیٰ اعزاز دیا۔ اس طرح انہیں حکومتِ پاکستان نے 15 توپوں کی سلامی کے ساتھ ہز ہائی نس کا خطاب بھی دیا۔ سوات کو غیر معمولی تعلیمی ترقی دینے کی وجہ سے انہیں سلطان العلوم کا خطاب دیا گیا اور پشاور یونی ورسٹی کی طرف سے انہیں ایل ایل ڈی (ڈاکٹر آف لٹریچر) کی اعزازی ڈگری بھی دی گئی۔

28 جولائی 1969ء  میں جب ملک کی تمام ریاستوں کو پاکستان میں مدغم کیا گیا تو والی صاحب کو بھی حکمرانی سے دست بردار ہونا پڑا۔ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں سوات اور اہلِ سوات کو اتنا کچھ دیا، جس کی مثال تاریخ میں بہت کم ملتی ہے۔ انہوں نے جدید تعلیم اور روشن خیالی کے باعث سوات کو ایک جدید ریاست بنانے کی پوری کوشش کی۔ سوات کے گوشے گوشے میں سکول و کالج قائم کئے، طبی سہولتوں کی بہتر فراہمی کے سلسلے میں جگہ جگہ شفا خانے اور ہسپتال قائم کئے، مضبوط سڑکوں کا جال بچھایا، ڈاک و تار، بجلی، جنگلات، ریاست کے نظم و نسق، غرض ہر شعبۂ زندگی میں انہوں نے خوش گوار اور انقلابی تبدیلیاں کیں۔ جس قدر ممکن تھا، انہوں نے ریاستِ سوات کو نئے دور کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اُن کے دور میں سوات نے صحیح معنوں میں غیر معمولی ترقی کی بے مثال منزلیں طے کیں۔

ریاستِ سوات کی طرزِ حکومت اگرچہ جمہوری نہیں بلکہ شخصی تھی، ہر قسم کی سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائد تھی اور ان سے اختلاف رکھنے والوں کو یا تو طاقت کے ذریعے دبایا جاتا اور یا انہیں ریاست بدر کر دیا جاتا لیکن اس کے باوجود امن و امان کی صورت حال مثالی تھی اور ریاست کے عام افراد کو انصاف کے حصول میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی تھی اور اگر انہیں مزید حکومت کرنے دیا جاتا تو وہ ریاستِ سوات کو سوئٹزرلینڈ بنانے کا اپنا کیا ہوا عہد پورا کرتے۔

والیِ سوات عام زندگی میں نہایت خوش خلق، ہمدرد، ملنسار اور ہر شخص کے ساتھ اخلاص و محبت سے پیش آنے والے انسان تھے۔ انہیں کاروبارِ مملکت سے از حد دلچسپی تھی۔ وہ اپنے دفتر میں وقت پر حاضری دیتے اور ان سے ہر شخص بڑی آسانی سے ملاقات کر سکتا تھا۔ حکمرانی سے سبک دوشی کے بعد اپنی زندگی کے آخری ایام میں ان کا رجحان مذہب کی طرف زیادہ ہو گیا تھا اور اکثر موت کو یاد کیا کرتے تھے۔14 ستمبر 1987ء کو ریاستِ سوات کے یہ آخری حکمران اور اُولو العزم تاج دار بالآخر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

٭٭٭

مصنف کی اجازت سے

ان پیج سے تبدیلی: مصنف

تدوین،  اور برقی کتاب کی تشکیل: اعجاز عبید