FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

عالم عرب کے نامور ادیب طہٰ حسین

ایک تنقیدی جائزہ

               نا معلوم

 

مشہور ادیب، نقاد اور ماہر انشا پرداز طہٰ حسین نے اپنے ادبی شہ پاروں سے ایک دنیا کو مسحور کر رکھا ہے، ادبی افق کا یہ قابل قدر ستارہ مصری دنیا پر انیسویں صدی کے اواخر میں طلوع ہوا اور پون صدی سے زائد تک چمکتا رہا اور بیسویں صدی کے اواخر میں ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا، جن نامور ادبا کو عرب دنیا سرفہرست شمار کرتی ہے ان میں طہٰ حسین کی شخصیت بھی نمایاں حیثیت رکھتی ہے، ان کا اپنے ہم عصروں پر ادبی تفوق اور ان کی تحریر کی فصاحت وسلاست مسلم امر ہے لیکن اسلامی اور دینی اعتبار سے طہٰ حسین کی زندگی بہت داغدار ہے، مسلمہ اسلامی نظریات و عقائد پر استشراقیت ولادینیت سے متاثر اس شخص نے تجددی افکار کی ڈھال لے کر حملہ کیا اور اسلامی اساس کو کھوکھلا کرنے کے واسطے فکری آزادی اور حریت رائے کی حمایت دکھلا کراسلامی فلسفہ اور دینی تعلیم پر اعتراضات کی وہ ضربیں لگائیں کہ ادبیت کا خوبصورت پردہ از خود چاک کر کے اپنی لادینیت کا مکروہ چہرہ ظاہر کر دیا، یہ سب کچھ اس تخم کی پود تھی جس نے جامعہ مصریہ کے مستشرقین اساتذہ کی زیر نگرانی نشو نما پائی تھی اور جس کی جڑیں ان کے دل و دماغ میں گہری اور مضبوط ہو چکی تھیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم طہٰ حسین کی شخصیت ان کی تصنیفات اور ان کے مخالف اسلام افکار و نظریات کا تجزیہ اور اٍن کے بارے میں چند آراء پیش کریں گے۔ خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہی سمجھیے کہ علمی دنیا میں نام پیدا کرنے والے اور علمی درجات کی اعلیٰ منازل طے کرنے والے غالباً متوسط گھرانے یا پھر نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والے ہوتے ہیں، موصوف نے ایک ایسے ہی متوسط گھرانے میں جنم لیا، طہ حسین ۱۴/نومبر ۱۸۸۹ء کو مصر کے ایک بالائی گاؤں مغاغہ میں پیدا ہوئے، بعض تذکرہ نگاروں سے موصوف کی تاریخ ولادت میں غلطی واقع ہوئی ہے اور انہوں نے تاریخ پیدائش ۲۸ /اکتوبر ۱۸۹۸ء ذکر کی، اور اکثر جگہ موصوف کے تذکرے میں یہی تاریخ ذکر کی گئی ہے لیکن یہ درست نہیں، کیونکہ خود موصوف سے مصری مجلہ "اللسان العربی” کے مدیر و منتظم نے اپنا تعارف نامہ لکھنے کی درخواست کی تو اس میں انہوں نے اپنی تاریخ پیدائش ۱۴/نومبر ۱۸۸۹ء لکھوائی تھی۔ موصوف پیدائشی نابینا نہ تھے بلکہ تین سال یا چھ سال کی عمر میں آنکھ کی سوزش کی وجہ سے بینائی جاتی رہی اس میں کچھ دخل تو غلط طریقۂ علاج تھا اور زیادہ دخل عدم توجہی اور بے پرواہی کا، طہ حسین نے نوسال کی عمر میں قرآن کریم کے حفظ کے ساتھ ساتھ تجوید کا کورس بھی پڑھ لیا تھا لیکن حفظ قرآن مکمل کرنے کے بعد اس کو یاد نہ رکھ سکے اور بھول گئے۔ اس کی تفصیل بہت ہی دکھ بھرے الفاظ میں موصوف نے اپنی خود نوشت سوانح "الایام” میں ذکر کی ہے۔ ۱۹۰۲ء میں مغاغہ ہی میں "الفیہ ابن مالک” یاد کی اور تحصیل علم کی غرض سے قاہرہ کاسفر کیا اور جامعہ ازہر میں داخلہ لیا، ازہر کے طریقۂ تعلیم سے دل برداشتہ ہونے کے ساتھ قاہرہ میں بڑے بھائی کی طرف سے بے التفاتی کا گہرا اثر بھی موصوف نے محسوس کیا، جامعہ ازہر میں اساتذہ کی باہم تنقید و چپقلش اور فقرہ بازی نے ان کے تعلیمی صفحۂ حیات پر ایک گہرا داغ رقم کر دیا، اس تنقیدی ذہن سازی کے بارے میں ان کے ایک استاد شیخ سید علی المرصفی (متوفی ۱۳۴۹ھ) کا ذکر ضروری ہے جن سے موصوف نے چند دیگر طلباء کے ہمراہ فارغ اوقات میں زمخشریؒ کی "المفصل” ابوتمام کا "الدیوان الحماسة” اور مبرد کی "الکامل” پڑھی، خود موصوف شیخ مرصفیؒ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ "ازہر کے اساتذہ کی تنقید اور ان پر سخریانہ جملے کہنا شیخ کا خاص شغل تھا جس سے ہمارے ذہن بہت متاثر ہوئے” اس تاثر کا اندازہ خود موصوف کی تصنیفات اور ان کے افکار و نظریات سے بخوبی ہوسکتاہے۔ طہ حسین اس بددلی کی کیفیت کے باوجود چھ سال ازہر ہی سے وابستہ رہے۔  ۱۹۰۸ء میں جب جامعہ مصریہ کا قیام عمل میں آیا تو وہاں پربھی دروس و محاضرات میں شرکت کرنے لگے۔  یہیں سب سے پہلے موصوف کا واسطہ مستشرقین سے پڑا اور پروفیسر گائیڈی اور پروفیسر نللنیو سے تعارف ہوا۔ یہ دونوں پروفیسر وہاں جامعہ میں لیکچرز دیا کرتے تھے۔ فرانسیسی ادب پر مہارت حاصل کر کے طہ حسین نے عرب کے مشہور شاعر ابو العلاء المصری کی شاعری اور ان کے فلسفۂ حیات پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جو "ذکریٰ ابی العلاء” سے مشہور ہوا، موصوف جامعہ مصریہ کے پہلے طالب علم تھے جنہوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اپنے کچھ عرصۂ قیام کے بعد جامعہ مصریہ نے اپنے وظیفہ پر چند طلباء کو اعلیٰ تعلیم کے لئے فرانس بھیجنے کی تحریک کی، اگرچہ موصوف مقرر کردہ شرائط پر پورے نہ اترتے تھے لیکن کچھ تو ان کا اصرار تھا اور کچھ قابلیت بھی کہ ان کے لئے جامعہ کی طرف سے فرانس جانے کا پروانہ جاری ہو گیا۔ گو کچھ زمانہ فرانس کے جنگی حالات جانے کے لئے سازگار نہ ہوئے لیکن بہرحال ۱۹۱۵ء میں فرانس روانگی طے پا گئی اور انہوں نے وہاں جا کر فرانس کے مشہور تعلیمی ادارے سوربون یونیورسٹی کے آرٹس کالج (کلیة الآداب) میں داخلہ لیا اور عمرانیات کے موضوع پر ابن خلدون کے نظریہ کے بارے میں مقالہ لکھ کر ۱۹۱۷ء میں ڈاکٹریٹ کی دوسری ڈگری حاصل کی۔ یہاں ان کی زندگی کا ایک اہم موڑ قابل ذکر ہے جب موصوف نے فرانس کے زمانۂ قیام میں فرانسیسی نژاد لڑکی (سوزان جو اس تعلیمی سفر میں ان کی معاون و مددگار تھی اور کتابیں پڑھ کر انہیں سناتی تھی )سے شادی کر لی یہ خاتون موصوف کو بہت محبوب تھیں اورطہ حسین ان کو اپنے چلنے کی لاٹھی کہا کرتے تھے، انہی خاتون سے ایک لڑکی امینہ اور ایک لڑکا مونیس پیدا ہوئے، ان خاتون نے "معک” نامی کتاب لکھی جس میں موصوف کے ساتھ گذارے ہوئے خوشگوار لمحوں کو بڑی خوش اسلوبی سے ادبی پیرائے میں بیان کیا ہے۔ طہ حسین نے تدریسی زندگی کا آغاز ۱۹۱۹ء میں جامعہ مصریہ ہی سے کیا، چھ سال قدیم تاریخ پڑھانے کے بعد تاریخ و ادب کے استاد مقرر ہوئے، ۱۹۲۶ء میں متنازع فیہ اور ہنگامہ خیز کتاب "الشعر الجاہلی” لکھی جس کا مفصل تذکرہ آئندہ سطور میں بیان ہو گا، ۱۹۳۰ء میں اسی "کلیة الفنون” کے پرنسپل مقرر ہوئے جبکہ ۱۹۳۹ء میں وزارت معارف میں فنی مشیر کے عہدہ سے سرفراز ہوئے اور ۱۹۴۲ء جامعہ اسکندریہ کے وائس چانسلر مقرر ہوئے۔ وزارت تعلیم کا عہدہ ۱۹۵۰ء میں ملا اور ۱۹۵۱ء میں حکومت مصر نے ’پاشا” کا خطاب دیا، ۱۹۵۲ء میں سیاسی یورش کی بناء پر اپنے سابق عہدوں سے دستبردار ہوئے، سیاسی کشیدگی اور کچھ اندرونی خلجان نے ان کو گوشہ نشین کر دیا اور اپنا وظیفۂ زندگی انہوں نے صرف اور صرف علم سے وابستہ کر لیا، آخری عمر میں امراض کی بہتات نے نقاہت سے چور کر دیا تھا اور حافظہ پر گہری چوٹ پڑی تھی جس کی بناء پر اکثر باتیں بھول جایا کرتے۔ آپ کے آخری زمانے کے پرسنل سیکریٹری ڈاکٹر محمد دسوقی لکھتے ہیں:”آخری چند سالوں میں حافظہ کی حالت یہ ہو چکی تھی کہ صبح میں اخباروں سرخیاں پڑھ کرسناتا اور شام کو کوئی ملنے آتا اور کسی خبر کے متعلق بحث کرنا چاہتا تو عمید ادب (طہ حسین کو دسوقی "عمید الادب” کہا کرتے تھے جس کے معنی صدر کے ہیں) کہتے کہ: یہ خبر تو دسوقی نے مجھ کو سنائی نہیں حالانکہ میں نے وہ سنائی ہوئی ہوتی تھی موصوف اکثر قسم بھی کھا لیا کرتے تب میں خاموش ہو جاتا”۔ اکتوبر ۱۹۷۳ء کو یہ ادبی چراغ گل ہوا اور عربی ادب کا ایک گوشہ ویران ہو گیا، واضح رہے کہ بعض مبصرین نے سن وفات ۱۹۷۴ء بتلایا ہے لیکن پہلی رائے زیادہ صحیح ہے، موصوف کو کئی ایک یونیورسٹیوں سے اعزازی ڈگریاں بھی دی گئی ہیں جن میں مونبلر، لیون، بالرم، اثینا اور مڈریڈ بھی شامل ہیں۔

قلمی کاوشیں

طہٰ حسین کا موضوع بحث وسیع ہونے کے باوجود مدار ادب ہی میں محیط ہے ہر تصنیف میں عربی کی وہ سلاست اور روانی کہ قاری کے دل و دماغ کو یکساں متاثر کر دیتی ہے۔  ۷۰ کے قریب چھوٹی بڑی کتابیں تصنیف کیں جن میں بڑی تعداد میں ناول شامل ہیں ذیل میں چند شہر ت یافتہ تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے:

۱- الایام: یہ موصوف کی خود نوشت سوانح حیات ہے ۱۹۳۹ء میں شائع ہوئی، تین حصوں پر مشتمل ہے حال ہی میں مصر کے مشہور ادارے کی طرف سے ایک جلد میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب نے ادبی حلقوں میں نمایاں پذیرائی حاصل کی اور کئی زبانوں میں اس کا ترجمہ بھی ہوا۔ انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ "دی ڈیز” کے نام سے شائع ہوا جسے قاہرہ کی امیریکن یونیورسٹی نے ۱۹۹۷ء میں طبع کروایا تھا جس میں سرورق پر طہٰ حسین کی تصویر آویزاں کی گئی ہے اس کتاب کو پاک و ہند میں بھی خوب پذیرائی حاصل ہوئی ہے اور گذشتہ دنوں اس کتاب کا اردو ترجمہ پاکستان کے ایک مشہور اخبار میں قسط وار شائع بھی ہوا ہے موصوف نے اس کتاب میں اپنے آپ کو غائب شمار کیا ہے اور کتاب کو بہت دلچسپ اسلوب میں لکھا ہے واقعی یہ کتاب عربی لٹریچر کا ایک عمدہ شاہکار ہے جس کی پذیرائی کچھ قابل تعجب نہیں۔

۲- علی ہامش السیرة: سیرت پر اچھوتے انداز کی تحریر ہے سیرت کے واقعات کو افسانوی قالب میں ڈھال کر قاری کو مسحور کر دیا ہے ۱۹۴۱ء یا ۱۹۴۳ء میں شائع ہوئی۔

۳- الفتنة الکبریٰ: یہ کتاب د وحصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ قضیۂ خلیفہ ثالث کے بیان پر مشتمل ہے جس کا نام "عثمان” رکھا گیا ہے اور دوسرا حصہ قضیۂ خلیفہ رابع کے متعلق ہے اور "علی وبنوہ”کے نام سے پرستاران ادب میں مشہور و معروف ہے پہلا حصہ ۱۹۴۷ء میں اور دوسرا حصہ ۱۹۵۸ء میں شائع ہوا۔

۴- الشیخان: یہ کتاب خلیفۂ اول حضرت ابوبکر صدیقؓ اور خلیفۂ ثانی حضرت عمر بن الخطابؓ کے بارے میں لکھی گئی ہے۔ لیکن عام کتب تواریخ سے ایک انفرادی طرز اور ممتاز طریقہ کی عمدہ تحریر ہے کتاب کی ابتداء میں لکھتے ہیں کہ:”اس طریقہ کار کو جو حضرات شیخین ؓ نے اپنایا اور جس سے بعد کے خلفاء و ملوک نے پہلو تہی کی، اس طریقہ کار کو میں اس کتاب کے قاری کے سامنے واضح کرنا چاہتا ہوں اور اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ اور حضرت عمر ؓ کی شخصیت کا خلاصہ اور حاصل پیش کرنا چاہتا ہوں”۔ ابھی کچھ عرصہ قبل یہ کتاب آزاد بن ڈپو، اردو بازار لاہور سے شائع ہوئی تھی جو مصری کتاب کا آفسٹ ایڈیشن تھا اس پر "الطبعة السابعة” درج ہے جس سے بخوبی معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب نے کتنی پذیرائی حاصل کی ہو گی۔

۵- ذکریٰ ابی العلاء: ڈاکٹریٹ ڈگری کے حصول کے لئے پہلا مقالہ جو جامعہ مصریہ کے زمانۂ تعلیم میں لکھا گیا ۱۹۱۵ء میں شائع ہوا۔

۶- فی الشعر الجاہلی: یہ مشہور زمانہ کتاب ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئی اور مذہبی واسلامی حلقوں میں موصوف کی بدنامی کا باعث بنی جس میں زمانہ جاہلیت کے عربی ادب کے متعلق بحث کرتے ہوئے موصوف کج راستوں پر رواں ہوئے اور اپنے تئیں مخالف کتاب وسنت باتیں لکھ کر بعض اسلامی نظریات و افکار کو گڑھی ہوئی بے بنیاد باتیں قرار دے بیٹھے۔ دراصل موصوف کے قلبی تاثرات اور اسلام مخالف افکار و خیالات اس کتاب سے آشکارا ہوئے تھے یہ ناپاک اثرات پروفیسر گائیڈی اور پروفیسر نللنیو کی صحبت تلمذ اور ان سے محبت کا نتیجہ اور لادینی افکار کے حامل مستشرقین سے تعلق کا ثمرہ و حاصل تھا، رومن کیتھولک ویسے ہی موصوف کا پسندیدہ موضوع تھا اس پر ملحدانہ طرز فکر نے موصوف کو اسلام مخالف کر چھوڑا، بعد ازاں قابل اعتراض مقامات سے کتاب کی تنقیح کی گئی اور "فی الادب الجاہلی” کے نام سے شائع ہو کر داخل درس ہوئی، اگلی سطور میں اس کے متعلق مزید کچھ تذکرہ ہو گا۔ ان تحقیقی و تاریخی تصنیفات کے علاوہ کئی ناول بھی اس ادیب اور انشاء پرداز کے قلم سے منصۂ شہود پر ائے جن میں سے چند مشہور کے اسماء اور کچھ تفصیل ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔

۱- دعاء الکروان: یہ قاہرہ سے ۱۹۳۴ء میں شائع ہوا۔

۲- الوعد الحق: ۱۹۵۰ء میں شائع ہوا جس میں فدایان اسلام صحابہؓ میں سے ان فقراء صحابہ کرامؓ کا جو غلام تھے دلسوز تذکرہ ہے جنہوں نے ہزارہا ستم برداشت کئے لیکن "احد” کے نعرۂ مستانی سے کفر کو ہلا کر رکھ دیا اور اخیر میں ان بعض کو حاصل شدہ فتوحات کا بھی تذکرہ کیا گیا ہے۔  ۱۹۵۱ء میں اس پر فلم بھی بنی جو بہت مقبول ہوئی یہ کتاب بھی "علی ہامش السیرة” کی طرح افسانوی رنگ لئے ہوئے ہے۔ یہ کتاب پاکستان میں بھی بآسانی دستیاب ہے کراچی کے ایک مشہور کتب خانہ نے اس کو شائع کیا ہے اس کا ترجمہ "خدائی وعدہ” بھی بہت مقبول اور متعارف ہے۔

۳- الحب الضائع: یہ ۱۹۳۷ء میں شائع ہوا۔

۴- شجرة البؤس:۱۹۴۴ء میں شائع ہوا۔

۵- ادیب: ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا اس ناول کا ترجمہ موصوف کے صاحبزادے مونیس نے فرنچ میں کر دیا ہے۔

طہٰ حسین آئینۂ تنقید میں

دینی نظریہ ایک طرف لیکن موصوف بزم ادب و ادباء میں قابل قدر شہرت رکھتے تھے اور رکھتے ہیں اور ادبی طرز میں بعض ادباء موصوف کے خوشہ چین بھی ہیں حتی کہ سید قطب شہیدؒ تک زمانہ طالبعلمی اور اخوان المسلمین سے وابستگی سے قبل ان کے ادب کو خوب سراہتے تھے بلکہ سید شہیدؒ طہٰ حسین کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں سید شہیدؒ کی کتاب "معالم فی الطریق” کے مترجم "خلیل احمد حامدی” "جادہ و منزل” میں (جو معالم فی الطریق ” بھی کا ترجمہ ہے) لکھتے ہیں:”اس دور (یعنی زمانہ طالب علمی اور پروفیسری قبل شمولیت اخوان المسلمین) میں انہوں (سید شہیدؒ) نے قاہرہ کے چوٹی کے ادباء اور ارباب صحافت سے راہ ورسم پیدا کر لی تھی۔ پہلے طہٰ حسین کے حلقۂ ارادت سے منسلک ہوئے بلکہ طہٰ حسین کے پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے”۔ بلکہ سید شہیدؒ کے تاثر کا تو یہ حال تھا کہ جب انہوں نے اپنی کتاب "طفل من القریة” لکھی جس میں داستان کے رنگ میں اپنا بچپن اور دیہاتی ماحول کا نقشہ کھینچا ہے اس میں طہٰ حسین کی خود نوشت سوانح کا طرز واسلوب اختیار کیا اس پر طرہ یہ کہ اس کتاب کا انتساب طہٰ حسین کے نام کرتے ہوئے یوں لکھا کہ:”امید ہے کہ وہ اس کہانی کو بھی "الایام” کے چند ایام کی حیثیت سے قبول فرمائیں گے”۔ (یہ سب تفصیل جادہ و منزل سے ماخوذ ہے)۔

لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ طہٰ حسین کہ ادب میں بھی جدت اور مغربیت کا تاثر نمایاں ہے جبکہ موصوف کے معاصر اور مخالف و مناظر مصطفی صادق الرافعی کا ادب بھی قرآن کا سا طرز واسلوب لئے ہوئے ہے۔ خلیل احمد حامدی لکھتے ہیں:”مصطفی صادق الرافعی بیسویں صدی کے حاجظ تھے ان کی انشاء پردازی میں قرآنی ادب کی چاشنی ہوتی تھی قرآن کی بلاغت و ایجاز اور قرآن کے ادبی و معنوی مقام کو رافعی نے جس قدرت و ندرت اور واضح عربی کے ساتھ بیان کیا ہے اس کی وجہ سے انہیں "قرآنی ادیب” کہا جائے تو مبالغہ نہ ہو گا طہٰ حسین اور عقاد (محمود عباس العقاد) ان کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔ بہرحال ادبی مقام اپنی جگہ لیکن موصوف اپنے استشراقی ولا دینی افکار کی بناء پر جو ان کی تصنیف "الشعر الجاہلی” میں کھل کر سامنے آئے اسلامی حلقوں میں بہت بدنام ہیں اسلام کے خلاف اس معاندانہ اور جرأت مندانہ حملے کا اصل سبب وہی مستشرقین سے حاصل شدہ فکری تاثر ہے جس کو رافعی یوں لکھتے ہیں اور راقم السطور ان کی اس بات سے متفق بھی ہے کہ:”ہم اپنی اس رائے سے صرف نظر نہیں کرسکتے کہ طہ حسین کو مستشرقین کی تقلید نے خراب کر دیا طہ حسین ان کے ساتھ رہا اور جب ان سے ان کے استشراقی افکار حاصل کئے تو ان کا مذہب اور ان کی آراء اس کو بھانے لگیں”۔ موصوف کی کتاب "الشعر الجاہلی” جب داخل نصاب ہوئی اور ملحدانہ افکار کی نشر و اشاعت شروع ہوئی، تو مسلک حق کے حامل مصری اسلام پسند علماء نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس کے بارے میں تنقیدی مضامین لکھے "تحت رایة القرآن” میں رافعیؒ لکھتے ہیں:”جامعہ مصریہ کو ۱۹۲۵ء میں جب وزارة المعارف کے ساتھ ملحق کیا گیا تو اساتذہ جامعہ نے ادب عربی کی تدریس کے لئے ڈاکٹر طہ حسین کا انتخاب کیا اور ہمیں معلوم بھی تھا کہ موصوف "فی الشعر الجاہلی” پر لیکچرز دیتے ہیں لیکن اس کتاب کی بابت ہم کو چنداں خبر نہ تھی اور نہ ہی ہم نے اس کتاب کے بارے میں کبھی غور و فکر کا ارادہ کیا اس لئے کہ ہمارے تو وہم وخیال میں بھی نہ تھا کہ کوئی شخص کرۂ ارض کو اس کے مدار سے دوسرے مدار پر اٹھا کر پھینک بھی سکتا ہو گا جیساکہ طہ حسین نے علم ادب کے ساتھ برتا ہے حتی کہ استاد عباس فضلی کے اس مضمون نے جو مجلہ "السیاسة” میں شائع ہوا ہمیں متنبہ وباخبر کر دیا اور بعد ازاں مشہور مشرقی ادیب امیر شکیب ارسلان نے اپنے مضمون "التاریخ لایکون بالافتراض والتحکم” سے جو مجلہ "الکوکب” میں شائع ہوا ہیں خبر دار کر دیا پھر اس قسم کے مضامین ہم نے "الکوکب” رسالہ کو لکھے”۔

ڈاکٹر عباس فضلی کے جس مضمون کا تذکرہ رافعیؒ نے کیا اس کو رافعیؒ نے اپنی تالیف "تحت رایة القرآن” میں بھی نقل کیا ہے اس کا عنوان ہے "الدکتور طہ حسین وما یقررہ” مضمون واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے فضلیؒ نے اس مضمون میں ڈاکٹر موصوف کے ایک لیکچر پر دقیق النظری سے تبصرہ وتجزیہ کرتے ہوئے اس سے حاصل شدہ نتائج پر اعتراضات کی بوچھار کر دی ہے اسی طرح امیر شکیب ارسلان کا بھی یہ مضمون جس کا ابھی ذکر ہوا "تحت رایة القرآن” میں منقول ہے۔

امیر شکیب ارسلان لکھتے ہیں کہ:”بعض ادباء زمانہ کو شوق ہوا کہ ہم تک جو تاریخ اسلامی پہنچی ہے اس کو داغدار بنادیا جائے اور قدماء کے مسلک سے ہٹ کر چند ایسے حوادثات کے جو مشہور و معروف نہ تھے نئے اور دوسروں سے مختلف وجوہ واسباب اخذ کر کے تعلیل کے باب میں جدید طرز واسلوب اپنائیں تاکہ ایسے لوگوں کے بارے میں (ان کی مدح میں) یوں کہا جائے کہ ان لوگوں نے ایسے تاریخی حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جس کو دیگر مؤرخین سمجھ ہی نہ سکے ہیں اور ایسے غموض واسرار پہچانے ہیں جس سے دینی تاریخ نے یا پھر سیاست اور سیاست کی خواہش نے جمہور مؤرخین کو اندھا کر دیا تھا یہ لوگ اس بات کو تحقیق و تفتیش کا نام دیتے اور سمجھتے ہیں کہ وہ تحقیق عام آراء سے ہٹ کر مخالف رائے پیش کرنے کا نام ہے”۔

اور اس مضمون کے آخر میں امیر شکیبؒ ایک معنی خیز عبارت درج کر کے ایک اصولی ضابطے سے طہ حسین کی تمام اسلام مخالف تحقیقات پر خط تنسیخ پھر ڈالتے ہیں تحریر فرماتے ہیں:”چنانچہ بھائیوں! تاریخ کچھ ظن وتخمین کی کار فرمائی نہیں ہوتی اس لئے کہ محض ظن و تخمین یقین کا فائدہ نہیں دیتے ہیں”۔ اسی طرح موصوف مارکسی نظریات کے حامل اور مذہب اعتزال کے شائق بھی تھے جس کا اظہار انہوں نے اپنے زمانہ وزارت میں قاضی عبد الجبار المعتزلی (متوفی ۴۱۵ھ) کی مشہور زمانہ کتاب "المغنی” جو ۲۰ جلدوں میں ہے اور گویا کہ مذہب اعتزال کا دائرة المعارف ہے شائع کروا کر کیا "پروفیسر کبیر احمد مظہر” لکھتے ہیں:”روسی نظریہ ادب کے تحت فرانس کے ترقی پسند ادباء کا رویہ پسند کیا گیا مذہب کا مذاق اڑایا گیا قدیم اسٹائل کو طعنے دیئے گئے، طبقاتی تقسیم کے خلاف لکھا گیا اور معاشرہ کی دکھتی رگوں پر نشتر لگایا گیا اس گروہ کے زعماء میں ایک طہ حسین بھی تھے جنہوں نے "الشعر الجاہلی” اور قدیم جاہلی روایات کو موضوع ٹھہرایا اور قرآن مجید کو جاہلی ادب کا نمونہ کہا”۔

چنانچہ مذہبی جماعتوں میں اسلامی حمیت کی آگ بھڑک اٹھی اور موصوف کی اس جنونی جرأت کا خوب پرچار کیا گیا، اور مصطفی صادق الرافعی، امیر شکیب ارسلان، اسماعیل بک مظہر اور محمود عباس فضلی وغیرہ علماء اسلام نے احتجاجی علم بلند کیا اور موصوف کے شیریں انداز میں بیان کردہ مستشرقانہ اور ملحدانہ افکار پر لوگوں کو مطلع کیا اور موصوف کے دین مخالف روپ کی نقاب کشائی کی آخر کار حکومت کی جانب سے کتاب کی اشاعت پر پابندی عائد کی گئی اور کتاب خارج از نصاب ہوئی اور بعد ازاں مجبوراً و مقہوراً کتاب کے مخالف اسلام خیالات کو تبدیل کیا گیا اور ملحدانہ افکار سے اس کی ستھرائی کی گئی اور "فی الادب الجاہلی” کے نام سے دوبارہ شائع ہوئی اس کے مقدمہ میں موصوف لکھتے ہیں:”یہ گذشتہ سال کی ہی طرح کی کتاب ہے ایک فصل اس میں سے حذف کر کے دوسری فصل اس کی جگہ رکھی گئی ہے اور بعض دیگر فصول کا بھی اضافہ کیا گیا ہے اور کتاب کے عنوان میں بھی کچھ تبدیلی کی گئی ہے اور مجھے امید ہے کہ میں نے اس دوسرے ایڈیشن میں ان طلباء کی جو عربی ادب کو اور اس میں خاص طور پر جاہلی ادب کو علم ادب اور اس کی تاریخی طور پر تحقیق و تفتیش کے ساتھ پڑھنا چاہتے ہیں حاجت روائی کر دی ہے بہرحال یہ کتاب گذشتہ دوسالوں سے آرٹس کالج میں پڑھائی جانے والی کتاب کا خلاصہ ہے”۔

طہ حسین کے چند مخالف اسلام نظریات

پہلے ان کے ملحدانہ اور زندیقانہ افکار درج کئے جاتے ہیں اور پھر تصفیہ اور فیصلہ کیا جائے گا کہ ان افکار کا نتیجہ اور اس ساری مبحث کا خلاصہ کیا ہے۔

 ۱- الشعر الجاہلی: کے صفحہ نمبر ۲۶ پر موصوف لکھتے ہیں: "توریت اور قرآن ہر دو کتابیں ہم کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے متعلق خبر دیتی ہیں لیکن ان دونوں ناموں کا توریت اور قرآن میں وارد ہونا تاریخی اعتبار سے ان دونوں شخصیات کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں، چہ جائیکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کا قصہ ثابت ہو، جو ہمیں یہ دونوں کتابیں سناتی ہیں۔ ” کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں”چنانچہ ہم اس قصہ (یعنی قصہ ہجرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک حیلہ مانیں گے جس کو ایک طرف تو یہودیوں اور اہل عرب میں رشتہ داری ثابت کرنے کے واسطے اور دوسری طرف مذہب اسلام اور یہودیت، اسی طرح قرآن و توریت میں باہم یکسانیت اور ہم آہنگی ثابت کرنے کے واسطے استعمال کیا گیا ہے۔ ” معاذ اللہ! ایک طرف قرآن کی قطعیت بلکہ اس کے مستند و معتبر ہونے کا انکار اور دوسری طرف یہ بہتان طرازی کہ قرآن نے حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے قصوں کو محض اس خاطر گڑھا ہے تاکہ یہودی حمیت و تعصب میں آکر ان کی طرف راغب ہو جائیں اور اس کو دین حق مان کر قبول کر لیں۔

۲- اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۳ پر تحریر کرتے ہیں: "قرآن کریم جس لغت اور لہجہ پر پڑھا جاتا تھا وہ قریش کی لغت اور ان کا لہجہ تھا، جس کو عرب کے دیگر قبائل قرآن پڑھنے کے لئے اپنا نہیں سکتے تھے، اسی بناء پر قراء توں میں اختلاف ہوا اور متعدد لہجوں میں قرآن پڑھا جانے لگا، جن میں بہت فرق تھا”۔ مذکورہ بالا اقتباس واضح کرتا ہے کہ موصوف اس بات کے قائل نہ تھے کہ قراء ت سبعہ نبی کریم ا سے بالتواتر منقول ہیں، بلکہ قراء ات سبعہ مختلف قبائل کی اختراعات ہیں، جب کہ مسلم و معتبر عقیدہ اہل سنت والجماعت ہے کہ یہ تمام قرات متواتر ہیں اور رسول اللہؐ پر بذریعہ وحی یہ تمام قراء ات نازل ہوئیں، چنانچہ ان کے آپ ا سے منقول ہونے میں کسی قسم کا تردد و شک اور انکار، وحی کے انکار کو لازم ہے، اور وحی کا منکر باتفاق اہل سنت والجماعت کافر ہے۔

 ۳- دین اسلام کے بارے میں خداوند تعالیٰ کا واضح اعلان ہے کہ دین اسلام بھی اسی بات کا داعی ہے جس بات کے داعی گذشتہ انبیاء پر نازل شدہ ادیان تھے اور عقائد اولیہ میں تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی ہے اور تمام امم و اقوام مسلمہ سابقہ ان عقائد میں یکساں اور ہم آہنگ ہیں اور شرائع کا اختلاف کچھ معتد بہ نہیں، کیونکہ وہ بھی ایک ہی ذات کے فرامین و احکام ہیں جس کو وہ ذات چاہے جیسے احکام دیدے، اساس اور مبنی تمام شرائع کا ایک ہی ہے جب کہ موصوف خدا کے اس واضح اعلان کو اپنی پر فریب عبارت میں یوں رد کرتے ہوئے صفحہ: ۸۱ پر رقمطراز ہیں: "مسلمان یہ چاہتے تھے کہ بلاد عرب میں اسلام کی اولیت و قدامت بعثت نبوی سے قبل بھی ثابت کر دیں اور یہ بات ثابت کر دیں کہ دین اسلام کا خلاصہ و ما حاصل بعینہ وہی ہے جو گذشتہ انبیاء پر خداوند تعالیٰ کی طرف سے وحی کردہ دین حق کا خلاصہ ہے”۔ اس شیریں اور پر کشش عبارت میں کیا ہی خطرناک زہر گھول دیا گیا ہے یعنی مسلمانوں نے یہ قرآن آپ گڑھ لیا ہے اور مسلمان کیا کہئے؟ معاذ اللہ! طہٰ حسین یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قرآن حضور اکا اپنا بنایا ہوا ہے۔ (العباذ ثم العیاذ)

۴- صحابہ کرامؓ کے بارے میں موصوف کی رائے کا مطالعہ خالی الذہن ہو کر کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہو گا کہ اس قسم کی رائے رکھنے والا تشیع کے ناپاک اثرات سے ملوث اور متاثر ہے، بعض صحابہؓ پر ایسی تنقید کہ خدا کی پناہ! مذکورہ بالا کتاب ہی کہ صفحہ: ۵۱ پر تحریر فرماتے ہیں کہ: "فتح مکہ کے موقعہ پر ابو سفیان ؓ کے سامنے دو چیزیں تھیں، یا تو مقابلہ جاری رکھیں، تاکہ مکہ مکرمہ تباہ ہو جائے یا پھر بتکلف نباہتے ہوئے صلح کر لی جائے اور لوگ جس دین میں داخل ہو رہے ہیں، داخل ہولیا جائے اور پھر انتظار کرے کہ یہ سیاسی بادشاہ (مراد حضور ا ہیں) جو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ اور قریش سے انصار کی طرف منتقل ہوا تھا، دوبارہ قریش اور مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ آوے، انہوں نے (ابوسفیانؓ) انصار و قریش کے مابین اس بھڑکتی آگ پر راکھ ڈال دی اور سب لوگ بظاہر دینی بھائی اور آپس میں محبت کرنے والے ہو گئے۔ ” (ازاں بعد صفحہ ۵۵ پر لکھتے ہیں کہ) "یزید اپنی اسلام دشمنی اور جو طرز وطریقہ اس نے لوگوں کے ساتھ روا رکھا اپنے دادا (یعنی حضرت ابو سفیانؓ) کی سچی تصویر تھا (اسی صفحہ ۵۵ کے شروع میں یوں لکھا ہے کہ) "ابوسفیانؓ کے اس پوتے یزید بن معاویہؓ نے غزوۂ بدر کا انتقام واقعۂ حرہ کے ذریعے لیا”۔ حضرت ابوسفیانؓ پر اس قسم کی فحش طعن طرازی اور دشنام گوئی کوئی رافضی شیعہ تو کر سکتا ہے مسلمان نہیں۔

 ۵- "ایام مع طہ جسین: جو موصوف کے اخیر عمر کے پرائیویٹ سیکرٹری "الدکتور محمد الدسوقی” کے کچھ مذاکرات (ڈائریوں) کا مجموعہ ہے، میں ۱۱-۲-۱۹۶۸ء کی ڈائری جو صفحہ: ۵۶ پر ہے، طہ حسین کی حضرت ابن عباسؓ کے متعلق رائے لکھتے ہیں کہ: "میں (طہ حسین) ابن عباسؓ کی روایت کو قبول نہیں کرتا، ڈاکٹر کامل نے کہا وہ کیوں ؟ تو کہنے لگے کہ: حضرت ابن عباسؓ مسلمانوں کے مال کے بارے میں امانتدار نہ تھے، امام علیؓ نے جب ان کو کسی شہر کا متولی بنایا تو سوائے مسلمانوں کے مال بٹورنے کے اس شہر میں کچھ کام نہ تھا اور پھر حجاز بھاگ آئے اور جب حضرت علیؓ نے اس مال کے واپس لوٹانے کا کہا تو ابن عباس ؓ نے امام علیؓ کو حضرت معاویہؓ کے ساتھ مل جانے کی دھمکی دی، اگر امام علیؓ (مال کی واپسی کے مطالبے سے) باز نہ آئے، بنا بریں میں ان کی روایات کو اور ان سے مروی شدہ اقوال و آراء کو قبول نہیں کرتا۔ ” ایک سادہ لوح مسلمان بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ جس ہستی اور جس عمدہ شخصیت کو رسول خدا ا ترجمان القرآن فرماتے ہوں اس کو خائن کہا جائے اور اس کی ذاتیات میں طرح طرح کے جھوٹے الزامات تراشے جائیں۔ ۶- اسی کتاب "ایام مع طہ حسین” سے ایک خالص غیر اسلامی نظریہ مقتبس کیا جاتا ہے، جس سے استشراقیت اور لادینیت کی بو آتی ہے، صفحہ: ۱۴۲ ملاحظہ ہو ":موصوف نے کہا کہ: قرآنی آیت یوں کہتی ہے کہ:

"ان الذین آمنوا والذین ہادوا والنصاری والصابئین من اٰمن باللہ والیوم الآخر وعمل صالحاً فلہم اجرہم عند ربہم ولاخوف علیہم ولاہم یحزنون”۔

ترجمہ:․․․․”جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہو گا اور نہ وہ غمناک ہوں گے”۔ "جس سے صراحةً معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان، عیسائی، صابی جو کوئی نیک عمل کرے گا اس کو اللہ جل شانہ کے ہاں بدلہ ملے گا اور یہ کچھ ضروری نہیں کہ نصرانی حضرت محمد ا پر ایمان لا کر ہی مسلمان بنیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حضور ا اور قرآن کا برائی کے ساتھ تذکرہ نہ کرے۔ ” یعنی گویا کہ اسلام لانے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ بدون اسلام لائے بھی انسان جنت میں جا سکتا ہے، یہ رائے صریح نصوص کے خلاف اور مستشرقانہ فکر کی عکاس ہے، جب کہ اسلامی مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ بعثت نبوی کے بعد ایمان اسی شخص کا معتبر و مقبول ہو گا جو حضور ا کی نبوت کا معترف و معتمد ہو، اور آپ کی تعلیمات کو بصدق دل تسلیم کرتا ہو، وگرنہ نجات و جنت کچھ حاصل نہ ہو گی۔ یہ تو موصوف کے افکار کا کچھ نمونہ ہے جو خالص ملحدانہ فکر کی پیداوار ہیں، دیگر کئی افکار نے موصوف کی ادبیت کو اپنی ناپاکی سے متاثر کیا ہے، ان تمام افکار کو طوالت کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے۔  (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تحت رایة القرآن تالیف مصطفی صادق الرافعی) خلاصۂ مبحث: مذکورہ بالا افکار کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طہ حسین کا دینی نظریہ نظریہ اہل سنت والجماعت کے صریح مخالف و مقابل ہے، جدت پسندی اور روشن خیالی کے نشے میں مخمور ہو کر طہ حسین نے قدامت پرستی سے بیزاری اور اس کی بے لاگ تنقید کرتے ہوئے الحاد و زندقہ کی باتیں کہہ ڈالی ہیں، کہیں رجم کے منسوخ ہونے کو ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ (ایام مع طہ حسین صفحہ ۲۴) اور کہیں معراج کا انکار کر رہے ہیں (ایام مع طہ حسین صفحہ ۱۱۹) چنانچہ دینی نظریات و افکار کی فاش غلطی نے ان کے ادبی مقام کو بھی گزند پہنچائی اور مارکیٹ میں ان کی کتابوں کی مانگ میں خاطر خواہ کمی آ گئی۔ بعض لوگ مصر ہیں کہ موصوف آخری عمر میں اپنے مارکسی نظریات اور لادینی افکار سے رجوع کر چکے تھے لیکن یہ ایک بے سند اور بے بنیاد بات ہے اور "علی ہامش السیرة” اور "مراٰة الاسلام” کی تالیف کو ان کے رجوع کی دلیل ٹھہرانا صحیح نہیں، کیونکہ اول الذکر کا سن اشاعت ۱۹۴۱ء یا پھر ۱۹۴۳ء اور ثانی الذکر کا ۱۹۶۱ء ہے اور مذکورہ بالا افکار جو ابھی ذکر کئے گئے ان میں سب سے آخری نظریہ جو خاص لادینی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، اس پر محمد الدسوقی نے "الجمعة ۱۸-۱۲-۱۹۷۰ کی تاریخ درج کی ہے، جس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف کے افکار کی کلیة تصویب و تائید کرنا سلب ایمان کے خطرہ سے خالی نہیں۔ تتمۂ کلام:زیر نظر مضمون تسوید و تکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ ایک مشہور معاصر "عربی سہ ماہی مجلہ” میں زیر بحث شخصیت طہ حسین کے متعلق مضمون شائع ہونے کی اطلاع ہوئی یہ مضمون ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب کا تحریر کردہ تھا، اس کا عنوان تھا "طہ حسین” حیاتہ ․․․․ ومنہاجہ الفکری والادبی” اس مضمون کی جب کچھ تحقیقی اور کچھ فکری اغلاط سامنے آئیں تو زیر نظر سطور ناقص محسوس ہونے لگیں اور تقاضا ہوا کہ ان اغلاط کی نشاندہی کو بعنوان تتمہ و ضمیمہ مضمون کا جزء بنا لیا جائے، تاکہ ہمارا موضوع تشنۂ تکمیل نہ رہ جائے، چنانچہ اغلاط کی نشاندہی ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ ۱- ڈاکٹر اسحاق صاحب لکھتے ہیں:

"وقد ذکر طہ حسین فی ردایتہ الذاتیة "الایام” بانہ مرض حینما کان فی السنة الثالثة من عمرہ”۔

ترجمہ:․․․”طہ حسین نے اپنی خود نوشت سوانح میں یہ بات ذکر کی ہے کہ ان کو یہ مرض (سوزش چشم) تین سال کی عمر میں لاحق ہوا تھا”۔ بصد افسوس! کہ تحقیق میں اس قدر تقصیر اور کوتاہی سے مضمون علمی طور پر بہت معیوب ہو گیا ہے، طہ حسین کو آنکھوں کی سوزش کتنی عمر میں ہوئی، اس میں اختلاف واقع ہوا ہے، کچھ نے تین سال کی عمر میں لکھا ہے اور کسی نے چھ سال کی عمر بتلائی ہے، جبکہ ڈاکٹر محترم نے جو حوالہ الایام کا دیا ہے تو اس کو ان کی تحقیق کی کوتاہی پر یا پھر محض کسی روایت پر اعتماد کرنے پر محمول کیجئے، بہرحال "الایام” میں یہ بات مذکور نہیں ہے۔

۲- اسی طرح ڈاکٹر محترم لکھتے ہیں:

"فاخذہ اہلہ الی معالج فی القریة ففقد البصارة ولکن اللہ تبارک وتعالیٰ کافاہ بذکاء خاص انہ استظہر القرآن اولا الخ”۔

ترجمہ:․․․("آنکھوں کی تکلیف کا جب مرض موصوف کو لاحق ہوا تو) موصوف کے گھر والے گاؤں کی کسی معالج کے پاس لے گئے، سو موصوف بینائی کھو بیٹھے لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کے بدلے ان کو خاص ذہانت و ذکاوت سے سرفراز فرمایا جس کی بنا پر پہلے پہل قرآن حفظ کر لیا الخ”۔ اس عبارت کو ذرا منطقی طرز پر سمجھئے تو موصوف نے اس عبارت میں ایک دعویٰ کیا، پھر اس کی دلیل دی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ دلیل کا ابطال دعوے کے ابطال کو موجب ہوتا ہے، چنانچہ جب موصوف نے دعویٰ کیا کہ طہ حسین کو خداوند تعالیٰ نے بینائی کے بدلے ذہانت و ذکاوت خاص سے نوازا تھا، اس ذہانت کی دلیل یہ تھی کہ موصوف نے قرآن حفظ کر لیا، لیکن یہ دلیل درست نہیں، اس لئے کہ موصوف قرآن کو حفظ نہ رکھ سکے، بلکہ بھول گئے تھے جب قرآن پاک حفظ نہ کرسکے تو پھر کیسی ذہانت اور کیسی ذکاوت۔ چنانچہ اس عبارت میں کجی اور خلل واقع ہوا جس کا اثر مضمون پر یہ ہوا کہ تحقیقی اعتبار سے ایک اور داغ مضمون کو بدنما کر گیا۔

۳- ڈاکٹر صاحب کے اس تبصرہ پر ذرا غور کیا جائے تو موصوف طہ حسین کے ثناء خوان اور مداح معلوم ہوتے ہیں۔ اسی لئے ․․فی الشعر الجاہلی” جو طہ حسین کی انتہائی مشہور اور متنازع فیہ کتاب ہے، اس کے بارے میں عقدہ کشائی سے موصوف نے پہلو تہی کی ہے اور کہا ہے کہ جو طریقہ کار طہ حسین نے اس کتاب میں اپنایا، اس پر تنقید بعد میں کی جائے گی جبکہ طہ حسین کی کتاب زندگی کا ایک بہت بڑا باب، اسی کتاب سے متعلق ہے جس کی تفصیل میں ڈاکٹر صاحب کوتاہی کر گئے ہیں اور اپنے تبصرہ کے آخر میں انتہائی خوش اعتقادی سے تحریر کرتے ہیں:

"ان طہ حسین عاش اعمی العین ولکنہ کان بصیراً بالقلب”۔

ترجمہ:․․․”طہ حسین نے آنکھوں سے تو نابینا ہو کر زندگی گذاری، لیکن قلبی بصیرت ان کو حاصل تھی”۔ اس عبارت سے زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز اور اس رائے سے زیادہ بڑی غلطی راقم السطور کے خیال میں اس پورے تبصرہ میں نہ ہو گی اور دراصل اس تتمہ و ضمیمہ لکھنے کا اصل محرک یہی جملہ تھا جس کے ڈاکٹر صاحب تہہ دل سے معتقد ہیں، اب اگر ذرا طہ حسین کے مخالف اسلام نظریات کو ملحوظ رکھا جائے اور ان کی شیریں عبارات میں گھلے زہر آلود نظریات کو بنظر غائر دیکھا جائے، پھر ان کی قلبی بصیرت کو داد دی جائے، ایک انتہائی فحش غلطی ہے، ان نظریات کے حامل کو قلبی بصیرت کی سند دینا گویا اس کے افکار و نظریات سے اتفاق کرنا ہے، ان کی "فی الشعر الجاہلی” کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے تو ان کو "فاقد البصارة والبصیرة” کہنا زیادہ زیب معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال اس تبصرہ میں "طہ حسین” کے ادبی پہلو کو تو خوب بلند الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے، لیکن بتقضائے عنوان جو دوسری بات یعنی فکری پہلو جس کی تفصیل مبصر پر لازمی تھی، چھوڑ دی گئی ہے، جس سے یہ تبصرہ تحقیقی و علمی طرز پر نظر ثانی کا محتاج ہے۔ ——————

مضمون بالا میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا۔

۱۔الایام طہ حسین ناشر: مطابع الاہرام التجدیة فلیوب مصر۔

۲- ایام مع طہ حسین الدکتور محمد الدسوقی دار القلم دمشق ۱۴۲۳-۲۰۰۲۔

۳- تحت رایة القرآن مصطفی صادق الرافعی المکتبة العصریة بیروت ۱۴۲۲- ۲۰۰۱۔

۴- علوم العربیة پروفیسر محمد کبیر احمد مظہر ادبستان -۸- بینک اسکوائر دی مال لاہور ۱۹۹۸۔

۵- تحقیقات و تاثرات ڈاکٹر سیدرضوان علی ندوی ادارہ علم وفن ۱۴۲۰ھ-۲۰۰۰ء۔

۶- اردو دائر معارف اسلامیہ۔

۷- الشیخان طہ حسین دار المعارف ۱۱۱۹ کورنیش النیل۔ القاہرة۔

۸- جادہ و منزل ترجمہ معالم فی الطریق (سید قطب شہیدؒ) مترجم: خلیل احمد حامدی اسلامک پبلکیشنز لمیٹڈ ۱۳- ای شاہ عالم مارکیٹ لاہور۔

٭٭٭

ماخذ:

http://www.banuri.edu.pk/ur

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید