FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

بارہ افسانے

اِبنِ مُنیب

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

انتساب

والدین کے نام

تعارف

بسم اللہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللہ۔

صفحہ صفحہ گزر رہے ہیں دِن

ہم ہیں کردار اِک فسانے کے!

‘بارہ افسانے ‘ کے عنوان سے میرا پہلا نثری مجموعہ پیشِ خدمت ہے۔ اس میں وہ افسانے شامل ہیں جو میں نے ۱۹۹۹ سے لے کر اب تک لکھے۔ یہ میرے شعری مجموعوں ‘نادان لاہوری’ اور ‘مقدس لمحے ‘ سے نہ صرف صنف کے لحاظ سے مختلف ہے بلکہ یہ پہلا مجموعہ ہے جس میں میں نے قلمی نام ‘ابنِ منیب’ اختیار کیا ہے (والدِ گرامی ‘منیب’ تخلص کرتے ہیں)۔ شاعری ہو یا نثر، میری نظر میں بنیادی اہمیت پیغام کی ہے۔ اور میں اُمید کرتا ہوں کہ اصل پیغام اِن بارہ افسانوں کی صورت میں آپ کے سامنے کھُلے گا۔ آپ نے اِس پیغام کو کیسا پایا، اِس بارے میں اپنی آراء اور اپنے خیالات سے ضرور نوازیے گا۔

بہت شکریہ،

ابنِ منیب

اکتوبر ۲۰۱۵

چور

اُسے پتا تھا کہ آج وہ پکڑا جائے گا۔

آنے والی مشکل کی بُو ہوا میں چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔

صبح سویرے گھر سے نکلنا اور پھر گھنٹوں بعد لوٹنا اب اُس کی عادت بن چکی تھی۔ مگر شاید آج کسی نے اُس کا پیچھا کیا تھا۔

اور یہ عادت؟ یہ عادت اُسے پڑی کیسے؟

پہلے پہل تو وہ گھر سے نکلتا اور ارد گرد بنگلوں کے بیچ سے ہوتا ہوا بڑی سڑک تک پہنچتا۔ پھر سڑک پار کر کے پُرانے اور خستہ مکانوں کے درمیان ایک گلی پر سیدھا چلتے چلتے کھُلے بازار تک پہنچ جاتا جہاں کی رونق اور گہما گہمی اُسے اچھی لگتیں۔ مگر ایک دن نہ جانے کیوں وہ پرانے مکانوں کی درمیانی گلی پر چلتے چلتے بازار سے پہلے ایک خاص مقام پر بائیں جانب مڑ گیا تھا۔ اور پھر تھوڑی ہی دُور اُسے وہ کوڑے کا وسیع ڈھیر نظر آیا تھا جہاں اب وہ روزانہ جاتا تھا۔ اِسی کوڑے کے ڈھیر پر اُسے وہ دونوں کھیلتے ہوئے ملے تھے جن سے اب وہ روزانہ کھیلنے جاتا تھا۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھ، ننگے پاؤں، معصوم چہرے، شرارتی آنکھیں۔ پہلے دن تو وہ اُنہیں دُور سے ہی دیکھتا رہا۔ وہ کبھی اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے کوڑے کو کریدتے اور اُس میں سے ملنے والی اشیاء اپنی بڑی بڑی نیلی بوریوں میں ڈالتے (بوریاں جو اُن سے بھی بڑی معلوم ہوتی تھیں اور جنہیں جب وہ کمر پر لادتے تو پوری نہ اٹھتیں اور زمیں پر گھِسٹتی رہتیں)، اور کبھی سب کچھ چھوڑ کر کھیل کود میں لگ جاتے، ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے، یا کسی ڈبے کو گیند بنا کر کھیلنے لگتے۔ اُن کے ایک دوسرے کو بار بار پکارنے سے اُسے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ نسبتاً لمبے قد مگر چھوٹے بالوں والا جمیل ہے، اور چھوٹی سی چادر سر پر اوڑھنے والی جمیلہ ہے (یہ چادر جو جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی کبھی سرکتی سرکتی جمیلہ کے کندھوں پر آ جاتی اور کبھی کھیل کے دوران بالکل ہی زمین پر پڑی ہوتی، تب اُس کے لمبے بھورے بال صاف نظر آتے)۔ پہلے دن اُسے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ دونوں کام اور کھیل کے بیچ کنکھیوں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ دوسرے دن سے وہ اُن کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔

پھر وہ دن بھی آیا جب اُس نے اُنہیں لڑتے دیکھا۔

اُس دن جمیل کو کوڑے کے ڈھیر میں خراب انگوروں کا ایک گچھا ملا تھا جن میں ایک دانہ بالکل صاف تھا۔ جمیل اِس صاف دانے کو دیکھ کر خوشی سے اچھلا تھا اور جمیلہ اُس کی طرف بھاگی تھی۔ اپنے انگور کے دانے کو بچانے کے لیے جمیل نے جمیلہ کو دھکا دیا تھا۔ وہ منہ کے بل گری تھی اور بہت زور سے روئی تھی۔ جمیل گچھا چھوڑ کر جمیلہ کی طرف بھاگا تھا اور پھر اپنے پھٹے ہوئے کُرتے کے کونے سے اُس نے جمیلہ کے ہونٹ سے بہتے خون کو روکا تھا اور اپنے ہاتھ سے جمیلہ کو انگور کا دانہ کھلایا تھا۔ دانہ کھا کر جمیلہ اپنا درد بھول گئی تھی اور اُس کے ننھے چہرے پر ایک خاص تازگی آ گئی تھی۔ یہ جھگڑا، یہ خون، یہ تازگی اُس نے اُن دونوں سے کچھ فاصلے پر بیٹھ کر دیکھے تھے۔ اور شاید اسی لیے اگلے دن گھر سے نکلتے ہوئے اُس نے ایک ایسا کام کیا تھا جو اُس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔ اُس نے اپنے ہی گھر سے چوری کی تھی۔ اور پھر کرتا چلا گیا تھا۔ مہمان خانے میں چھوٹی میز پر دھری پھلوں کی ٹوکری سے انگوروں کا ایک گچھا غائب کرتا اور اُن دونوں کو لا دیتا۔ تازہ انگور کھا کر وہ بہت خوش ہوتے۔ دیوانہ وار اچھلتے، دوڑتے اور کھیلتے۔ ہنستے ہنستے اُن کے چہرے سُرخ ہو جاتے۔ اُس نے ایسا سرخ رنگ اِس سے پہلے کچھ پودوں پر پتوں کے بیچ جھومتے دیکھا تھا۔

چوری، کھیل، اور گھر واپسی، یہ سلسلہ اب تک بغیر کسی مداخلت اور روک ٹوک کے چلتا رہا تھا۔ مگر آج ہوا میں جا بجا بکھرا کچھ اور ہی پیغام تھا۔ اور اُس کی سونگھنے کی حِس اُسے خبردار کر چکی تھی۔

گھر پہنچتے ہی بڑی مالکن اُس پر برس پڑیں۔ چھوٹے مالک نے اُس کا پیچھا کیا تھا اور گھر آ کر سب کچھ بتا دیا تھا۔ ٹونی نے پہلے تو دُم ہلا ہلا کر اور ہلکی آواز میں بھونک کر بڑی مالکن کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ پھر نیم ندامت اور نیم خوف کے عالم میں گلے کے اندر ہی اندر غراتا ہوا اُن کے سامنے فرش پر بیٹھ گیا۔ مگر بڑی مالکن کا غصہ کم نہ ہوا اور انہوں نے ڈانٹتے ڈانٹتے اُسے پٹّے سے پکڑ کر ایک زنجیر سے باندھ دیا۔ اِس سے پہلے اُسے بہت کم اِس زنجیر سے باندھا گیا تھا۔ کئی دن تک اُس نے اِس مصیبت سے جان چھڑانے کی دیوانہ وار کوشش کی اور بھونک بھونک کر شور مچاتا رہا –جمیل اور جمیلہ انگوروں پر لڑ رہے ہوں گے، جمیلہ گر جائے گی، اُس کے ہونٹ سے خون نکلے گا، درد ہو گا، وہ روئے گی۔ مگر کسی نے اُس کی طرف توجہ نہ دی اور دھیرے دھیرے اُس کا شور کم ہونے لگا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب وہ اُن دونوں کو مکمل طور پر بھول گیا۔ اب وہ صرف گھر کے چھوٹے مالکوں کے ساتھ کھیلنے لگا تھا۔ اب باہر کوڑے کے ڈھیر پر پلتے، کھیلتے، لڑتے، اور خراب انگوروں میں صاف دانے تلاش کرتے جمیل اور جمیلہ کا خیال اُسے بالکل نہیں ستاتا تھا۔ اب وہ انسانوں کے طور طریقے سیکھ چُکا تھا۔

ناپاک

"آسمان والے کا واسطہ حاجی صاحب۔۔ ۔۔ آسمان والے کا واسطہ۔۔ ۔۔ ۔ ہمارے بچوں کو بچا لیں!”

دروازہ کھُلتے ہی یوحنا حاجی سلیم کے قدموں میں گِر پڑا اور بلبلا کر رونے لگا۔ پیچھے اُس کی بیوی گھٹنوں کے بل بیٹھی اپنے دو بچوں کو کسی پاگل دیوانے کی طرح پیار کئے جا رہی تھی۔ وہ اُنہیں سینے سے لگاتی، پھر کانپتے ہوئے ہاتھوں سے سینے سے ہٹاتی اور گال چُومتی۔ پھر یکایک دوبارہ سینے سے لگاتی اور ایسے بھینچتی جیسے آغوش میں مار ہی ڈالے گی۔ پھر کھوئی کھوئی نگاہوں سے اُنہیں تکتی، اپنے چھِدے ہوئے مَیلے پلو سے اُن کے آنسو پونچھتی اور اُن کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی۔ اُس کی حرکات و سکنات سے یوں لگتا تھا جیسے اُسے دو باتوں کا یقین ہو چُکا ہے۔ ایک یہ کہ گاؤں کے شفیق بزرگ، حاجی صاحب، اُس کے بچوں کو پناہ دے دیں گے اور دوسرے یہ کہ وہ آج کے بعد اپنے بچوں کو کبھی نہیں دیکھے گی۔ حاجی سلیم اپنی آنکھوں کے سامنے بکھرے ہوئے منظر کو ابھی سمجھ بھی نہ پایا تھا کہ گاؤں کی مسجد کا اِسپیکر ایک گستاخ چیخ کے ساتھ جاگ اُٹھا۔ کسی نے اِسپیکر میں زہر آلود پھونک ماری اور براہِ راست سزائے موت سُنا دی۔ اعلان مختصر تھا۔ مگر بات واضح تھی۔ بھٹے کے مالک ملک سہیل نے یوحنا کی بیوی کو قرآن کے جلے ہوئے کاغذ کوڑے کے ساتھ پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔

"جلائے تُو نے؟”، حاجی سلیم کی کھوجتی نگاہ یوحنا کی بیوی پر پڑی۔

بدنصیب ماں کی سوجی ہوئی آنکھیں اور شکستہ چہرہ رحم کی بھیک مانگ رہے تھے۔

"نہیں پتا حاجی صاحب، نہیں پتا۔ اَن پڑھ بندی۔۔ ۔ "، مگر اب اُس کی آواز ساتھ چھوڑ گئی، تازہ موٹے آنسو آنکھوں سے ٹپکنے لگے اور وہ ہچکیاں لیتی ہوئی اپنے بچوں سے لپٹ گئی۔

بیوی کی حالت دیکھ کر یوحنا گڑگڑایا، "آسمان والے کا واسطہ حاجی صاحب، آسمان والے کا واسطہ، ہمارا یقین کریں۔ ملک سہیل سے لڑائی ہوئی۔ تنخواہ مارتا تھا۔ یہ کمینی صحن میں جو پتہ کاغذ دیکھے، جمع کر کے جلا دیتی۔۔ ۔ نہیں پتا ہم سے غلطی ہوئی یا وہ بدلہ لیتا ہے۔۔ ” اب وہ ایک لمحے کے لئے رُکا اور پھر بچوں کی طرف دیکھ کر مانگنے لگا

” اپنی پرواہ نہیں حاجی صاحب، بوٹی بوٹی کر دیں، پر اِن معصوموں کو بچا لیں۔ آسمان والے کا واسطہ حاجی صاحب! آسمان والے کا واسطہ!۔۔ ”

بولتے بولتے اچانک یوحنا اُٹھ کھڑا ہوا اور اِس سے پہلے کہ حاجی سلیم کچھ کہتا، اُس نے دونوں بچوں کو پکڑ کر دروازے سے اندر دھکیلا اور بجلی کی سی تیزی سے دروازہ باہر سے بند کر دیا۔ پھر دونوں میاں بیوی گلی کی نکڑ کی طرف بھاگنے لگے۔ اندر حاجی سلیم کچھ دیر بوکھلایا کھڑا رہا۔ پھر ایک انجان سے خوف کی گرفت میں آ کر اُس نے دروازے کو کنڈی لگا دی، اور صحن میں کھڑا باہر سے آنے والی آوازوں کو غور سے سُننے لگا۔ یوحنا اور اُس کی بیوی کے بھاگتے ہوئے قدموں کی چاپ مدھم پڑتے پڑتے غائب ہو گئی اور کچھ دیر کے لئے ہر طرف سناٹا چھا گیا۔ دُور کہیں ایک کوّا اپنی کرخت آواز میں چِلّایا اور پھر دو تین گلیوں کے فاصلے سے آوازیں بلند ہونا شروع ہوئیں۔

"وہ رہے۔۔ ۔ وہ رہے ناپاک۔۔ ۔۔ پکڑ لو۔۔ ۔۔ پکڑ لو۔۔ ۔۔ بھاگنے نہ پائیں خبیث۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ مارو خنزیروں کو۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ سر پہ۔۔ ۔۔ ۔ سر پہ۔۔ ۔۔ ۔ ٹانگوں میں۔۔ ۔۔ ۔۔ کمر توڑ دو۔۔ ۔۔ ۔۔ کیسے بچا رہا ہے خنزیر اپنی مادہ کو۔۔ ۔۔ ۔ بوٹی بوٹی کر دو دونوں کی۔۔ ۔۔ ۔۔ دشمن خدا کے۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ”

یوں لاٹھیوں، گالیوں، اور نعروں کے طوفان کے بیچ یوحنا اور اُس کی بیوی کی دلخراش چیخیں، قَسمیں، اور واسطے گاؤں کی مقدس ہوا کو گندہ کرنے لگے۔ اور اب پہلی بار حاجی سلیم کو یاد آیا کہ اُن کے بچے اُس کے پیچھے سہمے کھڑے ہیں۔ کسی حیوانی جبلت کے تحت اُس نے دونوں کو ایک ایک بازو سے پکڑا اور تقریباً گھسیٹتا ہُوا اندرونی کمرے میں لے گیا۔ وہاں ایک ٹِین کی بڑی پیٹی کے نیچے دونوں کو دھکیلا اور پیٹی کو ڈھکنے والی چادر فرش تک لٹکا دی

"ایک آواز بھی نکالی تو ٹانگیں توڑ دُوں گا دونوں کی!”

نیچے کسی نے ایک سِسکی کا گلا گھونٹا۔ حاجی سلیم سُنے بغیر دوبارہ صحن میں آ گیا۔ باہر روشنی پہلے سے کم ہو چُکی تھی۔ صبح کے بعد اندھیرا؟ شاید یہ خون آلود صبح روشن ہو کر دن میں بدلنے کی بجائے واپس رات کی تاریکی کی طرف ہانپتی کانپتی بھاگ رہی تھی۔ حاجی سلیم نے آسمان میں تیزی سے پھیلتے ہوئے سیاہ بادلوں کا جائزہ لیا اور ایک بار پھر غور سے باہر کا شور سُننے لگا۔

"مرے نہیں ابھی ناپاک۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ تیل لاؤ!۔۔ ۔۔ ۔ تیل لاؤ!۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ چھڑکو اِن کے خبیث جسموں پر۔۔ ۔۔ ۔۔ تِیلی!۔۔ ۔۔ ۔ تِیلی!۔۔ ۔۔ ۔ لگا دو آگ۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ جلو خبیثو جلو!۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔ ”

خونی کھیل کے دوران اچانک کسی کو یاد آیا، "پِلّے کہاں ہیں اِن کے؟”۔ سوال سُن کر حاجی سلیم کانپ اُٹھا۔ پورا مجمع چِلّانے لگا، "پِلّے کہاں ہیں اِن کے؟۔۔ ۔۔ پِلّے کہاں ہیں اِن کے؟”

اب گلی کے اِرد گرد ہر طرف مکانوں کے دروازے زور زور سے بجنے لگے۔ حاجی سلیم صحن میں ساکت کھڑا انتظار کرتا رہا۔ دھیرے دھیرے خوفناک دستک قریب آتی گئی اور اُس کے ساتھ حاجی سلیم کے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی، یہاں تک کہ جب اُس کے گھر کا دروازہ دھاڑ دھاڑ بجا تو اُس کا دل اُس کی نَس نَس میں تڑپ رہا تھا۔ چار و ناچار اُس نے دروازہ کھول دیا

"حاجی صاحب، اعلان سُنا آپ نے؟ اُن کے پِلے اِدھر تو نہیں آئے؟ خنزیروں کے بچے!”

"نہیں، اِدھر نہیں آئے خنزیروں کے بچے!”

(ساتھ دل کو قابو کرتے ہوئے، زیرِ لب، "اندر جو چھُپے ہیں وہ تو انسانوں کے بچے ہیں ")

جواب سُن کر مشتعل ہجوم آگے کو چل دیا۔ حاجی سلیم نے دروازہ بند کیا اور ایک بار پھر اندر سے کنڈی لگا دی۔ لمحات کی شدت سے اُس کی آنکھوں میں پانی اُتر آیا تھا اور اُس کے بوڑھے بدن میں ارتعاش ناچ رہا تھا۔ اُس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کی، مگر یہ ناچ بے قابو ہوتا جا رہا تھا۔ اب وہ کمرے کی طرف بڑھا۔ اچانک لاؤڈ اسپیکر جاگ اُٹھا

"کس ناپاک جہنمی نے یوحنا کے پِلوں کو چھُپا رکھا ہے؟”

اعلان سُنتے ہی حاجی سلیم کے وجود میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ اُس کی کپکپاہٹ غائب ہو گئی، جسم تَن گیا، اور وہ غراتا ہوا دروازے پر جھَپٹا۔ قریب تھا کہ وہ دروازہ کھول کر چیخ چیخ کر کہہ دیتا، "میں ہوں وہ ناپاک، ہاں میں ہوں وہ ناپاک، آؤ جلاؤ مجھے!!!۔۔ ۔ "۔ مگر اندر چھُپے معصوموں کے خیال نے اُسے ایسا کرنے سے روک دیا۔ اُس کا جسم ایک بار پھر ڈھیلا پڑا اور لرزہ لوٹ آیا۔ وہ دروازے سے ہٹا اور تقریباً بے جان حالت میں صحن میں پڑی چارپائی پر ڈھیر ہو گیا۔ ایک تیز ہوا کا جھونکا صحن میں داخل ہوا، خاک اور پتوں کو سمیٹ کر چارپائی کا طواف کیا، اور پھر سب کو بکھیرتا ہوا بلند ہو کر باہر چلا گیا۔ بادل جھِلا کر گرجے، بجلیاں تڑپیں، اور اندھا دھند بارش ہونے لگی۔ حاجی سلیم ہمت کر کے چارپائی سے اُٹھا اور کمرے میں آ کر پیٹی کے سہارے فرش پر بیٹھ گیا۔ ایک معصوم بھرائی ہوئی آواز نے کُچھ پوچھنا چاہا، "حاجی صاحب۔۔ ۔۔ باہر۔۔ ۔۔ ۔ کیا۔۔ ”

"چُپ کر خبیثا!”، حاجی سلیم پورے زور سے چلایا۔

اُس کے بوڑھے وجود میں اب اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ اُن معصوموں کو بتا سکے کہ باہر اُن کے والدین کی جلی ہوئی لاشوں پر فرشتے دھاڑیں مار مار کر رو رہے ہیں۔

حرام خور

حرام خور شہر میں داخل ہو چکا تھا۔

کب اور کیسے ہُوا، اِس بارے میں اتفاق نہیں تھا۔

اتفاق اِس بارے میں بھی نہیں تھا کہ اُس کی اصل شکل و ہیئت کیا ہے۔

کہ وہ شہر میں داخل ہو چکا تھا اِس کی پہلی واضح خبر تب ملی جب بخار کی دوا پینے والے بہت سے بچے جاں بحق ہو گئے اور تفتیشی ٹیم نے بتایا کہ حرام خور نے دوا میں ملاوٹ کر دی تھی۔

اِس کے بعد کے پے در پے واقعات نے لوگوں کو حرام خور کی شہر میں موجودگی کا مکمل یقین دلا دیا۔

چند ہی روز میں شہر کا نیا پُل زمین پر آ گرا۔ کسی نے کہا کہ حرام خور نے سیمنٹ میں ملاوٹ کر دی، اور کسی نے کہا کہ اُس نے پُل سے سریا چوری کر لیا۔ دونوں صورتوں میں سب کو یقین تھا کہ یہ کام حرام خور کا ہی ہے۔

تیسرا بڑا واقعہ تب پیش آیا جب طوفانی بارشوں نے قریبی علاقوں میں گندم کی کھڑی فصلیں تباہ کر دیں۔ حرام خور نے راتوں رات فلور ملوں اور دکانوں سے آٹے کی زیادہ تر بوریاں غائب کر دیں۔ جو چند بچیں وہ لوگوں کو بڑی مشکل سے دگنی تگنی قیمت پر ہاتھ آئیں۔

اِس کے بعد تو ہر طرف کہرام مچ گیا۔ حرام خور شہر کے چپے چپے میں اپنے آسیبی وجود کے ساتھ سرایت کر گیا۔ تھانوں میں مجرموں کی جگہ معصوموں کے نام ظاہر ہونے لگے اور بڑے بڑے سرکاری دفاتر، ہسپتالوں اور سکولوں میں افسروں ڈاکٹروں اور اساتذہ کو حرام خور نے کام سے روک دیا۔

لوگ تنگ آ کر شہر کی جامع مسجد کی جانب دوڑے اور بحث مباحثہ کرنے لگے۔ ایک انتہائی ضعیف بزرگ بمشکل اٹھے اور اٹھ کر محراب کی دائیں جانب ٹنگی آیت کی طرف اشارہ کیا

وَلَا تَأْکُلُوا اَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِل

اشارہ دیکھ کر جن کو بات پہلے سمجھ آئی وہ پہلے اور جن کو بعد میں سمجھ آئی وہ بعد میں باہر کی جانب دوڑے اور آیت کے بیسیوں چھوٹے بڑے تعویذ بنوا کر اپنے گھروں دکانوں اور بچوں کے گلوں میں لٹکا دیے۔ کسی کے ذہن میں نہ آیا کہ بزرگ کا اشارہ آیت کے پیغام کی طرف تھا۔

"اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ”

تعویذ

"مولوی صاحب، کوئی ایسا تعویذ لکھ دیں کہ میرے بچے رات کو بھوک سے رویا نہ کریں۔ ”

مولوی صاحب نے تعویذ لکھ دیا۔

اگلے ہی روز کسی نے پیسوں سے بھرا تھیلا گھر کے صحن میں پھینکا۔ شوہر نے ایک دُکان کرائے پر لے لی۔ کاروبار میں برکت ہوئی اور دُکانیں بڑھتی گئیں۔ پیسے کی ریل پیل ہو گئی۔ پرانے صندوق میں ایک دن عورت کی نظر تعویذ پر پڑی۔

"جانے مولوی صاحب نے ایسا کیا لکھا تھا؟” تجسس میں اُس نے تعویذ کھول ڈالا۔

"جب پیسے کی ریل پیل ہو جائے تو سارا تجوری میں چھپانے کی بجائے کُچھ ایسے گھر میں ڈال دینا جہاں رات کو بچوں کے رونے کی آواز آتی ہو”

عورت نے تجوری کھولی اور کُچھ سوچنے لگی۔

تعویذ اُس کے ہاتھ میں تھا۔

سویا ہُوا محل

گاؤں والے سخت تنگ آ چکے تھے۔ ڈاکو دن دیہاڑے آتے اور کسی کو بھی لوٹ کر لے جاتے۔ مریض کلینک کے باہر ‘بند ہے ‘ کا بورڈ دیکھ کر واپس چلے آتے۔ بچوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ سرکاری اہلکار کٹائی کے وقت گاؤں آتے اور شاہی حکمنامہ دکھا کر دو تہائی فصلیں قبضے میں کر لیتے۔ اگر کبھی کچھ لوگ ہمت کر کے اِن سے مشکل حالات کی شکایت کرتے تو یہ اہلکار اُنہیں شاہی حکمنامہ دوبارہ دکھا کر کہتے کہ وہ صرف لگان اکھٹی کرنے پر مامور ہے۔ اِن اہلکاروں کی نقل و حرکت اور اِن کا کام بھی عجیب تھے۔ نہ جانے کہاں سے عین کٹائی کے وقت یہ گاؤں پہنچ جاتے اور پھر اگلی کٹائی تک دوبارہ نظر نہ آتے۔ لگان میں لی ہوئی فصلوں کو بَیل گاڑیوں پر لاد کر گاؤں کے قریبی دریا تک لے جاتے اور وہاں بڑے بڑے لکڑی کے جڑے ہوئے تختوں پر رکھ کر دریا کے بہاؤ پر روانہ کر دیتے۔ یہ دریا آگے کہاں تک جاتا تھا، گاؤں والوں کو ٹھیک طرح سے معلوم نہیں تھا۔ کچھ بوڑھوں کا کہنا تھا کہ اُنہوں نے اپنی جوانی میں اِس دریا کے ساتھ ساتھ کئی دن تک سفر کیا ہے۔ اور یہ کہ گاؤں سے کم از کم پانچ دن کی مسافت پر یہ دریا چار چھوٹے دریاؤں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اور وہ دریا کہاں جاتے ہیں؟ یہ جاننے کی کوشش کسی نے کبھی نہیں کی تھی۔ صرف اتنا کہا جاتا تھا کہ اِن چار دریاؤں پر ایک طلسماتی اور قدرے خوفناک سی دھُند چھائی رہتی ہے۔ چوپال میں جب کبھی اِن دریاؤں کا ذکر آتا تو گاؤں کا دیوانہ اچانک ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ناچنے لگتا۔ طرح طرح کے منہ بناتا اور انگوٹھا بند کر کے ہاتھ کی چار اُنگلیاں ہوا میں لہراتا۔ پھر ایک ایک انگلی بند کرتا اور کچھ عجیب سے الفاظ بَکتا، جیسے دریاؤں کے نام گنوا رہا ہو۔

"سوئٹزرلینڈ، لندن، دبی، ڈیفینس”

گاؤں والوں کو یقین تھا کہ یہ نام اُس کے مفلوج ذہن کی پیداوار ہیں اور بالکل بے معنی ہیں۔ دیوانہ تو خیر دیوانہ تھا، مگر اب حالات کے ہاتھوں گاؤں والے بھی پاگل ہوتے جا رہے تھے۔ بالآخر پنچائت نے طے کیا کہ گاؤں کے پانچ نوجوانوں کو بادشاہ کے دربار میں بھیجا جائے گا۔ مگر یہ کام اِتنا آسان نہیں تھا۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ تو یہ تھا کہ اُن میں سے کسی نے بھی دارالحکومت اور بادشاہ کا محل نہیں دیکھے تھے۔ پھر اُنہیں اِس بات کا بھی ہرگز اندازہ نہیں تھا کہ دربار میں اپنی شکایات کیسے پیش کی جاتی ہیں، یا پیش کی بھی جا سکتی ہیں یا نہیں؟ (گاؤں میں رعایا کے حقوق کے بارے میں کبھی بات ہوئی ہی نہیں تھی۔ اور جس دور میں کچھ عرصے تک گاؤں کا اسکول چلتا رہا تھا وہاں بچوں کو طوطا مینا کی کہانیاں ہی پڑھائی جاتی تھیں، جنہیں بچے لفظ بہ لفظ یاد کر لیتے اور بغیر توجہ دیئے لفظ بہ لفظ سُنا دیتے)۔ چار و ناچار اُنہوں نے گاؤں کے نجومی سے راستے کا اندازہ لگوایا اور نوجوانوں کو اِس راستے پر روانہ کر دیا۔ نجومی نے اُنہیں دو اہم نشانیاں بتائی تھیں، چار دریا اور دو رنگا پہاڑ۔ سفر کے پہلے حصے میں اُنہیں دریا کے ساتھ ساتھ گاؤں سے مغرب کی طرف چلتے جانا تھا۔ جب چار یا پانچ دن کی مسافت کے بعد دریا چھوٹے چھوٹے چار دریاؤں میں تقسیم ہوتا نظر آئے تو اُنہیں عین بائیں یعنی جنوب کی جانب مڑ کر ناک کی سیدھ میں سفر کرنا تھا، یہاں تک کہ اُنہیں دو رنگا پہاڑ نظر آ جائے۔ نجومی کا دعوی تھا کہ پہاڑ سے آگے اُنہیں محل کا راستہ خود مل جائے گا۔ اور ہُوا بھی ایسا ہی۔ چار دریاؤں کے پھوٹنے کے مقام پر نوجوان بائیں مڑے اور مزید تین دِن کے سفر کے بعد دو رنگے پہاڑ تک پہنچ گئے۔ یہ وسیع و عریض پہاڑ بھی ایک عجیب معمہ تھا۔ جس جانب سے وہ اِس تک پہنچے تھے وہ بالکل بنجر اور ویران تھی۔ جبکہ اِسکا عقبی رُخ (جو پوری طرح چوٹی پر چڑھ کر نظر آتا تھا) کسی عظیم الشان باغ کا منظر پیش کر رہا تھا۔ پہاڑ کے اِس رُخ پر موجود خوبصورت درخت اور بُوٹے پہاڑ کے دامن پر ختم نہیں ہوتے تھے بلکہ تا حدِ نگاہ ایک جنت نظیر میدان میں پھیلے ہوئے تھے۔ اِسی سرسبز میدان میں پہاڑ سے بہت دُور بادلوں اور دھُند میں گھرے ہوئے بلند و بالا میناروں کی ہلکی سی جھلک دیکھی جا سکتی تھی۔ یہی بادشاہ کا محل تھا۔ نوجوان اِن میناروں کی جانب سفر کرتے ہوئے بالآخر محل کے قریب پہنچ گئے۔ اب اُنہیں پورا محل اپنی مکمل شان و شوکت میں نظر آ رہا تھا۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اُنہیں ایک مشکل درپیش تھی۔ محل کے چاروں طرف ایک گہری خندق کھُدی ہوئی تھی جس میں نصف گہرائی تک پانی چل رہا تھا۔ اِس خندق پر ایک ہی پُل تھا جو محل کے بڑے دروازے تک جاتا تھا۔ پُل کا داخلی کنارہ ایک بھاری زنجیر سے بند کر دیا گیا تھا اور اِس کی ایک جانب ایستادہ ایک قدرے چَوڑی اور قدِ آدم سے اونچی سنگِ مرمر کی سِل پر شاہی حکمنامہ درج تھا

"یہاں سے آگے جانا منع ہے۔ بادشاہ سلامت اور اُن کے وزراء پانچ سال کے لئے سو رہے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی مشکل درپیش ہے تو بالکل فکر نہ کریں، پانچ سال بعد بادشاہ سلامت خود آپ کے گھر پر حاضر ہو کر آپ کی داد رسی کریں گے۔ ”

مکروہ پرندہ

دادی اماں کی کہانیوں میں مکروہ پرندے کا ذکر ضرور ہوتا تھا، جس نے ساتھ والے گاوں پر آفت نازل کر رکھی تھی۔ بچوں کے اصرار پر دادی اماں نے بتایا تھا کہ مکروہ پرندے میں ایک سینکڑوں سال پرانی درندہ صفت روح بستی ہے۔ وہ روح جس نے ماضی میں قبیلے کے قبیلے اور پوری پوری نسلیں نیست و نابود کر دی تھیں۔ اور جس نے پلَک چھپک میں لاکھوں انسانوں کو گھروں میں بیٹھے بیٹھے جلا کر بھسم کر دیا تھا۔ ایسی درندہ روح جس کے شر سے بچے بوڑھے جوان کوئی بھی محفوظ نہ تھا۔

کئی دنوں سے ننھے گل جان کے ذہن میں ایک ہی سوال دوڑ رہا تھا، اور آج صبح اٹھتے ہی وہ اپنی الجھن لے کر دادی اماں کی چارپائی کی طرف لپکا۔ دادی اماں چارپائی پر بیٹھیں انتہائی خوف کی حالت میں تیزی سے ہل ہل کر تسبیح کر رہی تھیں۔

شاید اُنہیں غیبی اشارہ مل چکا تھا کہ موت نے اُن کا گھر دیکھ لیا ہے۔

اُن کی آنکھوں میں لالی اور چہرے کی زرد رنگت دیکھ کر گل جان سہم گیا۔ مگر اُس کا سوال بہت ضروری تھا۔

"دادی اماں، ‘مکروہ ‘کیا ہوتا ہے؟”

سوال سُن کر دادی اماں ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گئیں، تسبیح والا ہاتھ کانپنے لگا اور آنکھوں کی پُتلیاں پھیل گئیں۔ انہوں نے لرزتے ہاتھ سے گل جان کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ دادی اماں کہا کرتی تھیں کہ بلاؤں کی باتیں کرنے سے وہ نازل بھی ہو سکتی ہیں۔ اِسی انجان سی کشمکش میں گل جان کی نظر کھڑکی سے باہر پڑی۔ اُس کا باپ گھر کے احاطے میں کھڑا حیرانی سے آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا۔ گل جان پورے زور سے چلایا، "دادی اماں، مکروہ پرندہ!”۔

ایک ہولناک دیو ہیکل پرندہ گھر کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔

باہر کا منظر دیکھتے ہی دادی اماں کے ہاتھ سے تسبیح چھوٹ گئی۔ وہ اپنی مکمل بوڑھی جان کے ساتھ اچھل کر اٹھیں اور چھڑی کے بغیر ہی لنگڑاتی ہوئی احاطے کی طرف دوڑیں۔ مکروہ پرندہ اب گھر کے بہت قریب آ چکا تھا اور جس لمحے بوڑھی عورت نے لپک کر اپنے بیٹے کو بانہوں میں لپیٹا اُسی لمحے مکروہ پرندے نے ایک آگ کا گولا احاطے کی جانب مارا۔ شاید اُس نے پہچان لیا تھا کہ یہ وہی عورت ہے جو بچوں کو اُس کی کہانیاں سناتی ہے۔ ہولناک منظر کی دہشت سے گل جان بے اختیار زمین پر لیٹ گیا۔ باپ اور دادی کی دلدوز چیخوں اور پرندے کی خبیث بھنبھناہٹ کے بیچ ایک ہولناک دھماکے کی آواز اٹھی۔ پورا گھر لرز اُٹھا اور کھڑکی کے شیشے ٹوٹ کر کچھ گل جان پر گرے۔ ایک لمحے کے لیے ساری کائنات خاموش ہو گئی۔ گل جان نے اٹھ کر ٹوٹی ہوئی کھڑکی سے باہر جھانکا۔ گھر کے احاطے میں ایک گڑھا بن چکا تھا، سامنے کی دیوار گر چکی تھی اور کچھ چیتھڑے جلی ہوئی مٹی اور گھاس کے درمیان بکھرے پڑے تھے۔

مکروہ پرندہ ابھی تک گھر کے اوپر منڈلا رہا تھا۔

مقدس لمحے

صبح چودہ اگست تھی۔ ایک عجیب سی خوشی اور انتظار اگست شروع ہوتے ہی سبھی دلوں میں پھوٹ پڑا تھا اور جوں جوں چودہ اگست قریب آ رہی تھی، بے چینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اُس کی سمجھ میں ‌ نہ آتا تھا کہ یہ بے چینی کس بات کی ہے۔ بہر حال وہ خوش تھا اور دوسروں کی طرح وہ بھی اپنے نئے کپڑے تیار کر کے سو گیا۔ صبح چھٹی تھی اور سب معمول کے خلاف کافی جلدی اٹھ گئے۔ ناشتے کے بعد ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کبھی کسی دوست کا فون تو کبھی کسی رشتے دار کا، سب کی زبان پر ایک ہی فقرہ تھا "آزادی مبارک”۔ ناشتے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھا اپنے بیگ میں سے کچھ تلاش کر رہا تھا کہ اُس کی ننھی سی بہن ایک کاغذ کا ٹکڑا اس کے ہاتھ میں تھما کر بولی

"بھائی جان! آزادی مبارک”۔

اِس چھوٹے سے کاغذ پر پاکستان کا جھنڈا بنا کر اس میں بے ربط سے رنگ بھر رکھے تھے اور ایک تنکے پر پورے کاغذ کو چپکایا ہوا تھا۔ وہ اس’جھنڈی’ کو آنکھوں کے قریب لا کر نہایت غور سے دیکھنے لگا۔ اس ننھے سے پرچم کے چاند ستارے میں، جن میں کہیں کہیں سبز رنگ بھی غلطی سے بھر دیا گیا تھا، اُسے جیسے پورا مینارِ پاکستان نظر آنے لگا، جس پر پاکستانی پرچم بڑے فخر سے لہرا رہا تھا۔ نیچے کچھ ہلچل تھی اور ایک آواز گونج رہی تھی۔ "اے میرے ہم وطنو!” مینارِ پاکستان کے سائے تلے ایک نوجوان نہایت پر جوش خطاب کر رہا تھا۔ اس کے چاروں طرف خوش و خرم چہرے نظر آ رہے تھے۔ ہر چہرے پر ایک نئی امنگ اور تازگی تھی۔ سبھی ہاتھوں میں چھوٹے چھوٹے پرچم اٹھائے ہوئے تھے اور اس نوجوان کی تقریر سُن رہے تھے۔ "اے وہ قوم! جس نے اس مقام پر کھڑے ہو کر جناح کی قیادت میں پاکستان بنانے کی قسم کھائی تھی۔ اے وہ قوم! جس نے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر غلامی کی زنجیریں توڑ ڈالی تھیں۔ اے وہ قوم! جس نے اس مٹی کو اپنے خون سے سینچا تھا۔ اے وہ قوم! جس نے اسلام کی خاطر اپنے گھر، جان، مال سب ٹھکرا دیئے تھے "، نوجوان کا جوش بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ "میں تم میں سے ایک ایک کو مبارکباد دیتا ہوں، کہ تم نے اور تمھارے آباء نے جس گلشن کے لئے جد و جہد کی تھی، تم نے جس وطن کا عہد کیا تھا اور تم نے جس پاکستان کے لئے دعائیں مانگی تھیں۔ وہ صحیح معنوں میں ‘آزاد’ پاکستان ہمیں مل چکا ہے!”۔ سامعین کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہو گئیں اور ایک پر زور آواز گونجی "پاکستان!”، خوشی سے لبریز دلوں نے جواب دیا "زندہ باد”۔ نوجوان نے اپنی تقریر جاری رکھی، "آپ جانتے ہیں کہ اِس دہائی کے آغاز سے اللہ تعالیٰ نے ہم پر خاص کرم فرمایا، ہم سب نے بالآخر اپنے اس گھر کو بہتر بنانے کی ذمہ داری قبول کی، ہمارے نوجوانوں اور دانشوروں نے کمر باندھی اور تعلیم عام کرنے کی قسم کھائی۔ علم کا نور دھیرے دھیرے اندھیر دریچوں سے جھانکنے لگا۔ علم سے بے بہرہ اور دنیا کی نظر میں ‘عقل کے اندھے ‘ اب کھلی آنکھوں سے زمانے کے تیور دیکھنے لگے، اور جس طرح انیس سو سینتالیس میں ایک غلام قوم نے آزادی حاصل کی تھی، اب ایک آزاد قوم عظمت حاصل کرنے لگی۔ اور۔۔ ۔

"بھائی جان اب یہ واپس بھی کر دیں ”

ایک معصوم آواز نے اس کے خیالات کا ربط توڑ دیا۔ ننھی بہن اس کے ہاتھ سے اپنی محنت سے بنائی ہوئی جھنڈی لے کر باہر بھاگ گئی۔ مگر وہ اب بھی کھویا کھویا سا بیٹھا تھا۔ وہ شاید حقائق کی دنیا میں لوٹنے سے ڈر رہا تھا۔ بچی کا معصوم جذبہ اسے اچانک ایک ایسی دنیا میں لے گیا تھا جہاں تمنائیں حسیناؤں کی طرح قطار اندر قطار رقص کیا کرتی ہیں۔ وہ اِس دنیا میں صرف چند لمحوں کے لئے ہی تو گیا تھا۔ مگر اتنا سکون؟ اتنی ٹھنڈک؟ یہ لمحے واقعی بڑے مقدس تھے۔ اُسے پتا بھی نہ چلا اور ایک ننھا سا قطرہ اس کی آنکھ سے ٹپک کر فرش پر پڑی ہوئی گرد میں ایسے جا ملا جیسے امنگیں انسان کے ساتھ ہی مٹی میں دفن ہو جایا کرتی ہیں۔

الحاج الرّاشی

اکرم خان کے مرنے میں پندرہ سیکنڈ باقی تھے۔

رات کے اِس پہر اُس کی آنکھ اپنے بستر کے قریب ہونے والی سرگوشی سے کھُلی تھی۔ روشندان سے جھانکتی ہوئی چاند کی مدھم روشنی میں وہ صرف اتنا دیکھ پایا تھا کہ کچھ اجنبی اُس کے بستر کی طرف پشت کیے کسی بحث میں مشغول ہیں۔ تاریکی، اور بڑھاپے میں نظر کی کمزوری اُسے اجازت نہیں دے رہی تھیں کہ وہ اُن کے کچھ خدوخال جان سکے۔ بس اتنا سمجھ پایا کہ وہ سر تا پیر لمبے سیاہ چوغوں میں ملبوس ہیں اور وہی اُس کی آنکھ کھلنے کا سبب ہیں۔ ایک عجیب سا خوف اُس کے کمزور جسم میں سردی کی لہر کی طرح دوڑ گیا۔ مگر نہ جانے کیوں وہ کچھ بولے بغیر آنکھیں زور سے بند کر کے اُن کی گفتگو سننے لگا۔

"اِس روح پر مہر الحاج کی لگے گی”

ایک بولا۔

"ہرگز نہیں، اِس پر مہر الراشی کی ہی لگے گی”

دوسرے نے قدرے سخت لہجے میں جواب دیا۔

"اِسے لوگ الحاج کہہ کر بلاتے تھے ”

تیسرا سمجھانے لگا۔

"اور پیٹھ پیچھے الراشی کے نام سے یاد کرتے تھے ”

چوتھے نے دوسرے کا ساتھ دیا۔

"مگر یہ ہر سال حج کرتا تھا”

پہلا اپنی بات پر قائم رہا۔

"اور سارا سال رشوت کے لین دین سے اپنا کاروبار بڑھاتا تھا”

دوسرے نے جواب دیا۔

"دیکھو، یہ کعبے کا دروازہ تھام کر دعائیں مانگتا تھا”

تیسرا بولا۔

” اور جن لوگوں کے حق اِس نے رشوت کے زور پر مارے اُن کے بھوکے بیمار بچے اپنی ماؤں کے دامن تھام کر روتے تھے۔ ”

چوتھے نے فوراً جواب دیا۔

"تو پھر اِس کا کیا حل ہے؟”

پہلے نے سوال کیا۔

"اِس صورت میں حل تو ایک ہی ہے!”

دوسرا بولا۔

"یونہی کر لیتے ہیں پھر!”

سب نے تائید میں سر ہلایا اور خاموشی سے اکرم خان کی جانب مڑے۔

کہتے ہیں کہ موت سے بالکل پہلے انسان کی پوری زندگی اُس کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتی ہے۔ ہر چہرہ، ہر منظر، ہر لمحہ، آخری اُس ثانیے میں کسی دیکھی ہوئی فلم کی طرح تیزی سے ‘رِی-پلے ‘ ہوتا ہے۔ یہ بات درست ہو یا غلط، مگر اکرم خان کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ زندگی کے اِس آخری لمحے میں اُس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی منظر تھا۔ ہزاروں جُڑے ہوئے ہاتھ، زرد چہرے، اور لاغر بدن اُس کے بستر کا طواف کر رہے تھے۔ ہر طرف ایک شور برپا تھا

"الحاج الراشی، الحاج الراشی، الحاج الراشی”۔

خراسانی

اَفَرَایْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہ ھَوَاہ

"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”

خراسانی آیت پڑھتے ہوئے چونکا۔

نہیں، یہ میں نہیں ہوں۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔ اُس نے اپنے آپ کو تسلی دی۔

میں نے اپنی خواہش کو اپنا خدا نہیں بنایا۔ یہ میں نہیں ہوں۔

"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”

سوچتے سوچتے اُس کی نظر ایک بار پھر آیت کے الفاظ پر دوڑی۔

کیوں نہیں؟ تمہاری فتح اور غلبے کی خواہش تمہارا خدا ہی تو ہے۔۔ ۔

نجانے کیوں آج اُس کا ذہن اُس سے الجھ رہا تھا۔

ہرگز نہیں، ہرگز نہیں۔ میں دین کا مجاہد ہوں۔ یہ میں نہیں ہوں۔۔ ۔

"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”

آیت نے جیسے تیسری بار اُس سے سوال کیا۔

بھلا خُدا کو تم جیسے مجاہدوں کی کیا ضرورت ہے جو مایوسی کو دِین بنا بیٹھے ہیں؟ جو جِیت اور غلبے کی خاطر درندگی کی سب حدیں پار کر چکے ہیں؟۔۔ ۔

نہیں، نہیں، نہیں، یہ میں نہیں ہوں۔۔ ۔

کیوں غلط بات بولتے ہو؟ تمہارا خدا تمہاری خواہشِ نفس ہی ہے۔ جیت کی خواہش۔ غلبے کی خواہش۔ تم اِسی کو پوجتے ہو، اِسی کے بندے ہو، اِسی کی خاطر مایوس اور گھناؤنے حربے اختیار کرتے ہو۔۔ ۔

بالکل نہیں بالکل نہیں۔ میں دن کا مجاہد ہوں۔ میں خدا کا نائب ہوں۔ یہ میں نہیں ہوں، نہیں ہوں۔۔

پھر یہ گھٹن کیسی تھی؟

آیت پر دوبارہ نظر دوڑائے بغیر اُس نے فوراً مصحف بند کر دیا اور اپنے ارد گرد کا جائزہ لینے لگا۔ حجرے کی دیواریں انتہائی خاموشی سے اُس کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ اُس نے اپنے حواس کو قابو کرنے کے لیے سر کو جھٹکنے کی کوشش کی مگر سر پر بندھی دستار بہت وزنی ہو چکی تھی اور اب اُس کی گردن اِس ناقابلِ برداشت وزن تلے دبی جا رہی تھی۔ اُسے لگا کہ کسی بھی لمحے اُس کی گردن ٹوٹ جائے گی۔ گھبراہٹ کے عالم میں اُس نے دستار دونوں ہاتھوں میں پکڑی اور دیوانہ وار زمین پر دے ماری۔ گردن سیدھی ہوئی اور گھٹن کم ہونے لگی۔ حجرے کی دیواریں اپنی اپنی جگہ واپس چلی گئیں۔ اب وہ اپنے وہم پر مُسکرایا اور عادتاً ریڈیو کے ڈائل پر انگلیاں گھمانے لگا۔ مختلف اسٹیشنوں کو ٹِیون کرتے کرتے اُس کی انگلیاں ایک خاص اسٹیشن پر آ کر رک گئیں۔ سورہ جاثیہ کی تلاوت چل رہی تھی۔ ریڈیو سے جنم لیتی قاری کی آواز حجرے میں پھیلی

"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”

اُس نے گھبرا کر ریڈیو بند کر دیا۔ پھر اُٹھا اور اُٹھ کر وضو کے لیے رکھے پانی کے برتن کی طرف بڑھا، تیزی تیزی سے وضو کیا اور حجرے سے باہر نکل گیا۔ ارد گرد کوئی بھی نہیں تھا۔

شاید جماعت شروع ہو گئی۔۔ ۔۔

یہ سوچ کر وہ نماز کی جگہ پہنچا۔ امام کی مانوس آواز اُس کے کانوں سے ٹکرائی

"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”

اُس کا سر بُری طرح چکرایا۔ ساتھ ہی کسی نے اُس کی دونوں ٹانگوں پر زور دار ضرب لگائی اور وہ دھڑام سے زمین پر آ گرا۔ اُس کے ساتھی اُس کی طرف دیکھے بغیر نماز میں مشغول رہے۔ وہ ہانپتا کانپتا واپس اپنے حجرے کی طرف بھاگا۔ حجرے کی دیواریں ابھی تک اپنی اپنی جگہ خاموش کھڑی تھیں۔ وہ اپنا سر دباتا ہوا بستر پر لیٹ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اُس کی آنکھ لگ گئی۔ نجانے کتنی دیر سویا ہو گا کہ حجرے کے باہر ایک زبردست شور سے اُس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ فوراً باہر نکلا۔ اُس کے ساتھی ایک چھوٹے سے کمپیوٹر کے گرد جمع تھے اور زور دار نعرے لگا رہے تھے۔ سکرین پر ایک تباہ شدہ عمارت بار بار دکھائی جا رہی تھی۔ ایک رپورٹر تیزی تیزی سے بول رہا تھا

"اطلاعات کے مطابق حملہ آور بچیوں کے اسکول میں سامنے کے دروازے سے داخل ہوئے۔ انہوں نے چوکیدار کو قتل کیا اور پھر مختلف کمروں میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کرتے رہے۔ پولیس اور فوج کی نفری کے پہنچتے ہی حملہ آوروں نے اپنے آپ کو دھماکا خیز مواد سے اُڑا دیا۔ ”

رپورٹر کی آواز کانپ رہی تھی۔

"عمارت کے اندر ہر طرف کتابیں اور خون بکھرا ہوا ہے۔ ”

سکرین پر اب عمارت کے ساتھ ساتھ ہلاک ہونے والی بچیوں اور اُن کے حواس باختہ والدین کی فوٹیج دکھائی جا رہی تھی۔ اتنا خون اور خوف دیکھ کر خراسانی کے کلیجے میں ٹھنڈک پڑ گئی اور وہ بے اختیار چِلّانے لگا

"اب اِن کے دلوں سے ہمارا خوف کوئی نہیں نکال سکتا۔ اب ہم غلبہ پا کر رہیں گے یا پھر اِس کی خاطر اِن کے معصوموں اور نہتوں کو مارتے رہیں گے۔ غلبہ اور صرف غلبہ یہی ہماری خواہش ہے۔ یہی ہمارا خدا ہے۔ ہم اِسی کے بندے اور غلام ہیں ”

چِلاتے چِلاتے اُس کی نظر اپنے ساتھیوں پر پڑی جو اب سکرین چھوڑ کر پھٹی پھٹی آنکھوں سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مگر اب اُسے کسی بات کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بہت ہلکا محسوس کر رہا تھا۔ آج پہلی بار اُس نے کھُلے عام اپنی حقیقت کو تسلیم کر لیا تھا۔ اپنے آپ کو پہچان لیا تھا۔ ذہن کے کسی کونے میں ایک آواز گونجی

"کیا تُم نے اُس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہو؟”

جیون راگ

صبح، آٹھ بج کر پچاس منٹ، روشنی۔۔ ۔

گھر کے خاموش کمرے میں ایک بڑے صوفے پر حیدر مزے سے لیٹا ایک دلچسپ ناول پڑھ رہا تھا۔ کالج سے سردیوں کی چھٹیاں تھیں اور مکمل فراغت ہونے کے باوجود وہ گھر والوں کے ساتھ گھومنے پھرنے نہیں گیا تھا۔ آخر گھر میں آرام سے ناول پڑھنے اور ٹی وی دیکھنے کا اپنا ہی مزہ ہے۔ ناول کی کہانی مختلف رُخ اختیار کرنے کے بعد اب تیزی سے عروج کی طرف جا رہی تھی کہ اچانک دروازے کی گھنٹی زور سے بجی۔ حیدر ناول میں مگن رہا۔ اُسے پتا تھا کہ سرونٹ کوارٹر سے رحیم بابا دیکھ لیں گے کہ باہر کون آیا ہے۔ مگر جب دو تین مرتبہ گھنٹی بجی اور کسی نے دروازہ نہ کھولا تو حیدر تلملا کر اُٹھا۔ آخر ضرورت کے وقت یہ لوگ کہاں غائب ہو جاتے ہیں، اور اِس وقت باہر کسی کو کیا تکلیف ہے؟۔ یہ سوچتے ہوئے وہ بے دلی سے اُٹھا اور آ کر دروازہ کھول دیا۔ باہر ایک ادھیڑ عمر نوجوان کھڑا تھا۔ ہاتھ میں کُچھ مزدوری کے اوزار تھے، بال بکھرے بکھرے سے تھے اور چہرے سے پریشانی عیاں تھی۔ حیدر نے اس کے حلیے پر مزید توجہ دیے بغیر سوالیہ لہجے میں پوچھا "جی؟”۔ اب نوجوان اپنے چہرے پر عاجزی کا تاثر نمایاں کرتے ہوئے بولا، "جناب میں بہت مشکل میں ہوں "۔ جملہ سنتے ہی حیدر سمجھ گیا کہ اب فقیروں نے نیا روپ دھار لیا ہے اور وہ ایک لمبی دکھ بھری کہانی سننے کو تیار ہو گیا۔ اُس نے جان چھڑانے والے انداز میں پوچھا "بھائی کون ہو اور کیا مسئلہ ہے؟”

"وہ جی، میں ایک غریب مزدور ہوں۔ کئی دنوں سے مجھے مزدوری نہیں ملی”۔

حیدر نوجوان کے الفاظ پر خاص غور نہیں کر رہا تھا بلکہ اُس کے ذہن میں اُس کے ابو کے الفاظ گھوم رہے تھے۔۔ ۔

"بیٹا یہ لوگ سب جھوٹے اور فراڈ ہوتے ہیں۔۔ ۔ "، "میری بچی سخت بیمار ہے۔ ”

"یہ سب نئے نئے طریقوں سے پیسے نکلواتے ہیں۔۔ ۔ "، "اور اُس کے علاج کے لیے میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ”

"آخر ہم اپنی محنت کی کمائی اِن پر کیوں ضائع کریں۔ یہ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہیں؟۔۔ ۔ "، "خدا کے لیے میری مدد کریں۔ ”

"بیٹا اِن کی ہوس کی کوئی حد نہیں۔ آج ایک روپیہ دو گے تو کل دو روپے مانگیں گے۔۔ ۔ ”

حیدر کو یقین تھا کہ دروازے پر آنے والا ہر فقیر جھوٹا اور مکار ہوتا ہے۔ اِن میں سے کوئی بھی ضرورت مند نہیں ہوتا۔ پہلے تو وہ کچھ کہے بغیر دروازہ بند کرنے لگا۔ لیکن پھر اُسے ایک عجیب خیال آیا۔ کیوں نہ آج ابو کی بات کو آزمایا جائے؟ا اورس نے جلدی سے پوچھا، "کتنے پیسے دُوں؟”۔ ایک لمحے کے لئے نوجوان کے چہرے پر حیرانی کے آثار نمودار ہوئے اور پھر اُس کی آنکھیں چمک اُٹھیں۔ حیدر کا خیال تھا کہ یہ فقیر بے وقوف شکار کو دیکھ کرسو دو سو روپے مانگ لے گا۔

"صاحب! خدا آپ کو ہمیشہ خوش رکھے۔ اگر دو تین ہزار روپے مل جائیں تو میری بچی کے لئے چند دنوں کی دوائی کا انتظام ہو جائے گا”۔

جواب سن کر حیدر آپے سے باہر ہو گیا۔ ابو واقعی ٹھیک کہتے ہیں۔ اِن لوگوں کی ہوس کی کوئی حد نہیں۔ اور وہ جیسے پھٹ پڑا، "تم لوگ ہمیں بے وقوف سمجھتے ہو؟ شرم نہیں آتی، تین ہزار روپے مانگتے ہوئے؟میں نے تمہارا ٹھیکہ اٹھا رکھا ہے؟ پیسے درختوں پر نہیں اگتے۔ محنت کرنی پڑتی ہے "۔ یہ کہہ کر اُس نے جیب سے چند سکے نکال کر نوجوان کو تھمائے اور حقارت سے بولا، "یہ لو اور خدا کے لئے معاف کرو”۔ نوجوان اپنی ہتھیلی پر پڑے سِکوں کو شرمندگی سے تکنے لگا، جیسے دل ہی دل میں اُنہیں ملامت کر رہا ہو۔ اُدھر حیدر اپنے آپ سے خوش تھا کہ آج اُس نے اِن لوگوں کا اصلی روپ دیکھ لیا ہے۔ اُس نے دروازہ بند کیا اور واپس کمرے میں آ کر ناول پڑھنے لگا۔ کہانی ایک مرتبہ پھر دلچسپ موڑ پر تھی کہ دروازے کی گھنٹی دوبارہ بجی۔ اب کوئی پہلے جیسا جاہل ہوا تو اُس کی خیر نہیں۔ حیدر ناول ہاتھ میں لئے دروازے پر پہنچا اور باہر اپنے دوست احمد کو کھڑے پایا۔

"کہاں ہوتے ہو یار، چھٹیاں شروع ہونے کے بعد نظر ہی نہیں آئے "۔

احمد مسکرایا اور بولا، "بھائی اب تو آ گیا ہوں نا۔ یہ بتاؤ کہ آج شام آ رہے ہو یا نہیں؟”۔

"کہاں؟” حیدر نے حیرانی سے پوچھا۔

"یار کس دُنیا میں رہتے ہو؟ آج رات کالج میں میوزیکل شَو ہے۔ اور تمہارا فیورٹ بینڈ جیوَن راگ بھی آ رہا ہے "۔

"یار تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا؟ ضرور چلیں گے۔ ٹکٹ کتنے کا ہے؟”

"کالج کے سٹوڈنٹس کے لئے بہت ہی کم رکھا ہے۔ تمہیں یقین نہیں آئے گا۔ صرف تین ہزار روپے "۔

"صرف تین ہزار؟ کالج والے چھا گئے ہیں "۔

شام، پانچ بج کر پندرہ منٹ، اُفق پر ڈوبتے سورج کی سُرخی۔۔ ۔

احمد اور کُچھ اور دوست جیپ میں آئے اور حیدر کو اپنے ساتھ لے کر کالج کی طرف روانہ ہوئے۔ حیدر دوستوں کے ساتھ خوب گپ شپ لگاتا رہا۔ میں روڈ پر چڑھنے سے پہلے جیپ کچی آبادی سے گزری۔ اِس آبادی کی بھی ایک عجیب کہانی تھی۔ یہاں مختلف قسم کے لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ فقیر، بھنگی، غریب، مزدور، مہاجر۔ کچھ نے جھونپڑیاں بنا رکھی تھیں اور کچھ نے گارے سے مکان نما مسکن تعمیر کر لئے تھے۔ ڈویلوپمنٹ اتھارٹی کئی مرتبہ انہیں یہ جگہ چھوڑنے کا حکم دے چکی تھی۔ کیونکہ اِن لوگوں نے سرکاری زمین پر ‘ناجائز قبضہ’ کر رکھا تھا۔ اِنہی کچے مکانوں کے بیچ و بیچ ایک بے نام و نشان مکان میں ایک ننھی سی بچی چارپائی پر لیٹی سخت سردی اور بخار سے کانپ رہی تھی۔ اُس کے سرہانے اُس کی پریشان ماں بیٹھی تھی۔ گھر میں چند برتنوں، ایک گھڑے اور ایک چولہے کے علاوہ مزدوری کے چند اوزار تھے جو ایک کونے میں بے ترتیبی سے بکھرے ہوئے تھے۔ نوجوان اِس گھر میں داخل ہوا۔ جیب سے چند سکے نکال کر عورت کے ہاتھ پر رکھے اور بولا، "خدا کو جو منظور ہو گا وہی ہو گا۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ میں کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلا سکتا۔ مجھے دوبارہ مجبور نہ کرنا”۔ اُس نے بچی کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ ننھے سے جسم کو چاٹتے بخار کی گرمی اُس کی روح تک جا پہنچی۔ آخر خدا کو کیا منظور تھا؟۔ وہ کچھ دیر بچی پر نظریں جمائے کھڑا رہا اور پھر انتہائی بے بسی اور اضطراب کے عالم میں گھر سے باہر چلا گیا۔

رات، دس بج کر بائیس منٹ، تاریکی۔۔ ۔

جیوَن راگ کا کانسرٹ زور و شور سے جاری تھا اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بچی کا بخار تیز اور زندگی کا راگ مدھم پڑتا جا رہا تھا۔ رات کی ظلمت انتہائے شدت کو پہنچی۔ کانسرٹ کامیابی سے ختم ہوا اور اُس کے تھوڑی دیر بعد بچی کا جسم بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔ ننھی جان کا ساز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا۔ نہ کسی نے دیکھا، نہ سُنا، نہ پرواہ کی۔ خوش و خرم دوستوں سے بھری جیپ دھول اڑاتی کچی آبادی کے پاس پہنچی اور ان خاک نشینوں پر دھول اُڑاتی ہوئی تیزی سے گزر گئی۔ آسمان سے کم جاری ہوا۔۔ ۔ فرشتے روتے ہوئے آئے اور معصوم روح کو لپیٹ کر اُس صاحبِ عرش کے پاس لے گئے جس کی رحمت پر پلنے والے امیر آسائش اور اینٹرٹینمنٹ کو اپنا حق اور زندگی کا اصل مقصد سمجھتے ہیں۔

بوجھ

مجھے روز ایک ہی خواب آتا ہے۔

میں چیونٹی ہوں اور ایک بھاری بوجھ اُٹھائے ایک تنگ راستے پر چڑھائی چڑھ رہا ہوں۔ راستے کے دونوں طرف گہرائی ہے۔ مجھے نیچے نظر نہیں آتا۔ کوئی پھونک مارتا ہے۔ میرے قدم اُکھڑ جاتے ہیں۔ میں بوجھ سمیت گہرائی میں گرتا ہوں۔ مگر مجھے چوٹ نہیں آتی۔ شاید نیچے سبزہ ہے۔ میں اپنے آپ کو سنبھالتا ہوں۔ اپنا بوجھ ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ سبزے کے بیچ ایک قبر ہے۔ مجھے اِس قبر سے سخت وحشت ہوتی ہے۔ میں دیوانہ وار اِس سے دُور بھاگتا ہوں۔ راستے میں میرا بوجھ پڑا ہے۔ میں اِسے اُٹھاتا ہوں اور بمشکل قدم اُٹھاتا ہوا پھر تنگ راستے پر چڑھنے لگتا ہوں۔ بوجھ پہلے سے زیادہ بھاری ہے۔ پر میں رُکتا نہیں۔ چڑھتا جاتا ہوں۔ کوئی پھونک مارتا ہے۔ میرے قدم اُکھڑ جاتے ہیں۔ میں پھر بوجھ سمیت گرتا ہوں۔ میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میں پسینے میں ڈوبا ہوا ہوں۔ میرا انگ انگ درد کر رہا ہے۔ میں آنکھیں بند کرتا ہوں اور دوبارہ سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ شاید سو جاتا ہوں۔ شاید نہیں۔

امّاں کہتی ہے تُو دِن بھر محنت کرتا ہے۔ تیرا ذہن تھک جاتا ہے۔

امّاں سمجھتی ہے میں اسٹیشن پر سامان اُٹھاتا ہوں۔ اُسے نہیں پتا میں اب بھِیڑ میں جیبیں کاٹنے لگا ہوں۔

قبر والی بات میں امّاں کو نہیں بتاتا۔ ابھی تو اُس کا علاج چل رہا ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی۔ اب تو میں جیب کاٹنے میں ماہر ہو گیا ہوں۔ میں اِس سے ڈرتا نہیں۔ پر مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔ بس جب امّاں آیت الکرسی پڑھ کر مُجھ پر پھونکتی ہے تو میری آنکھ لگ جاتی ہے۔ امّاں کہتی ہے یہ ہمیں اپنے اور دوسروں کے شر سے بچاتی ہے۔ شاید اُسے میرے بوجھ کا پتا چل گیا ہے۔ ماں ہے، بھولی بنتی ہے۔ بتاتی نہیں۔ مجھے لگتا ہے جب میں سو جاتا ہوں تو وہ رات کو دوبارہ آتی ہے۔ اور آیت الکرسی پڑھ پڑھ کر مجھ پر پھونکتی ہے۔ مجھے میرے اپنے اور دوسروں کے شر سے بچانے کے لئے۔ میں بھی سوچتا ہوں اپنا بوجھ اُتار پھینکوں۔ تنگ راستہ چھوڑ دُوں۔

پر مجھ سے وہ قبر دیکھی نہیں جاتی۔

دَین

داتا کی دَین اور گرو کی دَین آپس میں گتھم گتھا تھے۔

اسلحہ کئی دنوں سے ختم ہو چُکا تھا اور بارڈر کے پاس ایک کھیت میں چھپتے چھپاتے اچانک دونوں کا آمنا سامنا ہو گیا تھا۔ ایک دوسرے پر نظر پڑتے ہی دونوں بجلی کی تیزی سے ایک دوسرے پر جھپٹ پڑے تھے۔ اور اب ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ دوسرے کا وجود جلد از جلد صفحۂ ہستی سے مِٹا دے۔ اِس کشمکش میں گرو کی دین نے اپنے پنجے داتا کی دین کے کندھوں میں گاڑ رکھے تھے اور داتا کی دین گرو کی دین کا گلا گھونٹنے کی بے چین کوشش کر رہا تھا۔ یکایک گرو کی دین نے ٹانگ کی لانگڑی دیتے ہوئے ایک زور دار جھٹکے سے داتا کی دین کو زمیں پر گرا لیا اور اُس کے اوپر سوار ہو کر پوری قوت سے اُس کا گلا دبانے لگا۔ نیچے داتا کی دین گرو کی دین کی دونوں کلائیاں ہاتھوں میں جکڑ کر اپنا گلا چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ اُس نے کلائیاں اسقدر زور سے پکڑ رکھی تھیں کہ اگر دیو ہیکل اور سخت جان گرو کی دین کی جگہ کوئی اور ہوتا تو یہ کلائیاں تک ریزہ ریزہ ہو چکی ہوتیں۔ مگر سخت جان گرو کی دین داتا کی دین کے گلے پر اپنی خونخوار گرفت مضبوط تر کئے جا رہا تھا اور دُور سے دیکھنے میں یُوں لگتا تھا جیسے چاروں ہاتھ مل کر داتا کی دین کا گلا گھونٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ موت کے اِس شکنجے میں پھنسے داتا کی دین کا چہرہ خونی سُرخ ہو رہا تھا اور اُس کی آنکھیں باہر کو آ رہی تھیں۔ اب وہ زور زور سے سانس کھینچنے کی کوشش کرنے لگا، مگر یہ کام ہر لمحے پہلے سے زیادہ مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ بے درد موت گرو کی دین کے کرخت پنجوں کی شکل میں اپنا منحوس گھیرا اُس کے گرد بدستور تنگ کئے جا رہی تھی۔ قریب تھا کہ اُس کی سانسیں ہمیشہ کے لئے تھم جاتیں۔

مگر سانس بھی تو ایک عجیب چیز ہے۔ جس قالب کو مل جائے وہ آسانی سے چھوڑتا نہیں۔

بقاء کی اِس بھیانک جنگ میں اچانک داتا کی دَین کے پورے وجود نے ایک غیر انسانی جھٹکا لیا۔ اور پلک جھپک میں معاملہ اُلٹ چُکا تھا۔ اب داتا کی دین گرو کی دین کے سینے میں اپنا گھٹنا قاتل میخ کی طرح پیوست کئے اپنا ہاتھ قریب بڑے نوکیلے پتھر کی جانب بڑھا رہا تھا۔ موت کو اتنی قریب سے دیکھنے کے بعد کُچھ دیر کے لئے اُس میں ایک مافوق الفطرت قوت آ گئی تھی۔ اور گرو کی دَین کی جانب سے اُس کے ہاتھ کو روکنے کی پوری کوشش کے باوجود پتھر اُس کے ہاتھ میں آ گیا۔ اب اُس نے مشینی سُرعت سے پتھر ہوا میں بلند کیا تاکہ وہ پوری قوت سے نوکیلا پتھر گرو کی دین کی کھوپڑی میں دے مارے۔ نوکیلے پتھر کو دشمن کے ہاتھ میں بلند اور اپنی کھوپڑی کی طرف تیزی سے اُترتے دیکھ کر گرو کی دین نے آنکھیں زور سے بند کر لیں اور دھیما سا بڑبڑایا

"معاف کرِیں ماویں "۔

آواز کان میں پڑتے ہیں داتا کی دین کا ہاتھ ایک زبردست جھٹکے سے رُک گیا۔ ایک ہی لمحے میں سورج اُلٹی سمت میں ہزاروں پر غروب اور طلوع ہوا، اور اب داتا کی دین اپنے گاوں کے کھیتوں میں اپنے بھائی کے اوپر سوار اُس پر گھونسوں کی بارش کی تیاری کر رہا تھا۔ دُور سے ماں جی کی آواز آئی

"پتر چھڈ دے بھرا نُوں، تے آ کے لسی پی لو”

ماں جی کی آواز سُن کر داتا کی دین دیوانہ وار ہنسنے لگا، اور ہنستے ہنستے ایک جانب زمین پر لیٹ گیا۔ گرو کی دَین اُسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے تک رہا تھا۔

"ماں نُوں آکھیں لسی رج کے مٹھی بنائے "۔

٭٭٭

ماخذ اور تشکر: کتاب ایپ

ای پب سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل