FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

یہ شام تمہارے نام

 

 

 

               اعتبار ساجد

 

 

 

 

انتساب

 

دلدار حسین کے نام!

 

کسی کے نام اپنی صبح ، اپنی شام کیا لکھیں

تمہار ا نام کافی ہے کسی کا نام کیا لکھیں

 

 

یہ شام تمھارے نام

 

کیا ضروری ہے کہ ہاتھوں میں ترا ہاتھ بھی ہو

چند یادوں کی رفاقت ہی بہت کافی ہے

لوٹ چلتے ہیں اسی پل سے گھروں کی جانب

یہ تھکن اتنی مسافت ہی بہت کا فی ہے

٭٭٭

 

 

 

 یونہی تنہا تنہا نہ خاک اُڑا،مری جان میرے قریب آ

میں بھی خستہ دل ہوں تری طرح مری مان میرے قریب آ

میں سمندروں کی ہوا  نہیں کہ تجھے دکھائی نہ دے سکوں

کوئی بھولا بسرا خیال ہوں نہ گمان میرے قریب آ

نہ چھپا کہ زخم وفا ہے کیا، تری آرزوؤں کی کتھا ہے کیا

تری چارہ گر نہ یہ زندگی نہ جہان میرے قریب آ

تجھے ایسے ویسوں کی دوستی نے بہت خراب و خجل کیا

کسی جھوٹ کی یہ نقاب رُخ پہ نہ  تان میرے قریب آ

جو نکل سکے تو نکال لے کوئی وقت اپنے لئے کبھی

مرے پاس بیٹھ کے رو تو لے کسی آن میرے قریب آ

نہ مکالمہ ہو نہ گفتگو فقط اتنا ہو کہ نہ میں نہ تو

ملیں صرف اپنے جلے ہوئے دل و جان میرے قریب آ

***

 

 

یہ نہیں کہ میری محبتوں کو کبھی خراج نہیں ملا

مگر اتفاق کی بات ہے ،کوئی ہم مزاج نہیں ملا

مجھے ایسا باغ نہیں ملا،جہاں گل ہوں میری پسند کے

جہاں زندہ رہنے کا شوق ہو مجھے وہ سماج نہیں ملا

کسی داستان قدیم میں، مرے دو چراغ بھی دفن ہیں

میں وہ شاہ زادہ بخت ہوں جسے طاق و تاج نہیں ملا

میں اک ایسی موت ہوں جس کے سوگ میں کام بند نہیں ہوئے

کوئی شورِ گریہ نہیں اٹھا کہیں احتجاج نہیں ملا

کوئی آس کوئی اُمید ہو کہیں اُس کی کوئی نوید ہو

کئی دن ہوئے مرا خوش خبر مرا خوش مزاج نہیں ملا

تری گفتگو میں نہیں ملی وہ مٹھاس پیار کے شہد کی

سو،قرار جیسا قرار بھی مرے دل کو آج نہیں ملا

***

 

 

 

وہ جو تاج ور تھے سبک قدم اُنہیں شور و غل نے اڑا دیا

مری بستیوں کے جو مور تھے کہیں جنگلوں میں نکل گئے

مرے بچپنے کے جو پیڑ تھے انہیں کون لے گیا کا ٹ کے

وہ عمارتوں میں بدل گئے کہ کسی الاؤ میں جل گئے

***

 

 

 

 

بھیڑ ہے برسربازار کہیں اور چلیں

آ مرے دل مرے غمخوار کہیں اور چلیں

کوئی کھڑکی نہیں کھلتی کسی باغیچے میں

سانس لینا بھی ہے دشوار کہیں اور چلیں

تو بھی مغموم ہے میں بھی ہوں بہت افسردہ

دونوں اس دکھ سے ہیں دوچار کہیں اور چلیں

ڈھونڈتے ہیں کوئی سر سبز کشادہ سی فضا

وقت کی دھُند کے اس پار کہیں اور چلیں

یہ جو پھولوں سے بھرا شہر  ہوا کرتا تھا

اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں

ایسے ہنگامہ محشر میں تو دم گھٹتا ہے

باتیں کچھ کرنی ہیں اس بار کہیں اور چلیں

***

 

 

 

مال و زر کے کسی انبار سے کیا لینا ہے

عشق کو گرمی بازار سے کیا لینا ہے

تیرے کنبے کی وراثت سے ہمیں کیا مطلب؟

تجھ سے مطلب ہے پریوار سے کیا لینا ہے

عمر بھر ساتھ نا ہے تو پھر بات کرو

ہم کو مہمان اداکار سے کیا لینا ہے

کونسے ہم بھی فرشتے ہیں کہ تجھ کو جانچیں

تیری سیرت، ترے کردار سے کیا لینا ہے

جھونپڑی اپنی بنا لیں گے کسی گوشے میں

قصر شاہی !ترے معمار سے کیا لینا ہے

اپنے اشکوں کے لیے جیب میں رومال رکھو

کام اپنا کسی غمخوار سے کیا لینا ہے

برف باری کا وہ شیدائی ہے ساجد اس کو

تیرے جلتے ہوئے اشعار سے کیا لینا ہے

***

 

انہی رسموں سے رواجوں سے بغاوت کی تھی

آپ نے بھی تو جوانی میں محبت کی تھی

کوچہ گردی کی روش مجھ سے بھی کب چھوٹے گی ؟

آپ کو بھی تو بزرگوں نے نصیحت کی تھی

میں بھی کانوں کو لپیٹے ہوئے چپ بیٹھا ہوں

آپ کی بھی تو یہی طرز سماعت کی تھی

ہاں،دریاں کے درباں سے مری یاری ہے

آپ نے بھی تو اسی ڈھب کی سیاست کی تھی

بولتے بولتے رو پڑتا ہوں میں جس کے لیے

آپ نے بھی اسی جذبے کی وکالت کی تھی

میں ہوں شعلہ تو شرربار کبھی آپ بھی تھے

آپ کی بھی تو یہی عمر قیامت کی تھی

***

 

 

 

فصل پک جائے تو کیا اس کی حفاظت نہ کریں

کھیت آوارہ بٹیروں کے حوالے کر دیں؟

صرف اس جرم شرافت پہ کر مجبور ہیں ہم

کیا محبت کو وڈیروں کے حوالے کر دیں

***

 

 

 

کہیں گھر بار حائل ہے کہیں سنسار حائل ہے

ہمارے اور تمہارے بیچ ہر دیوار حائل ہے

مجھے معلوم ہے وہ رو رہا ہے سامنے میرے

مگر چہرے کے آگے آج کا اخبار حائل ہے

کھلا رکھتا ہے وہ زینے کا دروازہ مری خاطر

مرے رستے میں لیکن شب کا چوکیدار حائل ہے

میں اتنی بھیڑ میں تجھ سے کروں کیا گفتگو دل کی

کہیں مخلوق حائل ہے کہیں بازار حائل ہے

کدھر سے راستہ ڈھونڈیں کدھر جائیں کہاں نکلیں

گلی کو چوں میں ہر جانب صف اغیار حائل ہے

میں اک ہی شب میں اپنا قصہ جاں ختم تو کر لوں

مگر بس کیا کروں،رستے میں تیرا پیار حائل ہے

***

 

 

مری راتوں کی راحت دن کا اطمینان لے جانا

تمہارے کام آ جائے گا، یہ سامان لے جانا

تمہارے بعد کیا رکھنا اَنا سے واسطہ کوئی؟

تم اپنے ساتھ میرا عمر بھر کا مان لے جانا

شکستہ کے کچھ ریزے پڑے ہیں فرش پر،چن لو

اگر تم جوڑ سکتے ہو تو یہ گلدان لے جانا

ادھر الماریوں میں چند اوراق پریشاں ہیں

مرے یہ باقی ماندہ خواب میری جان لے جانا

تمہیں ایسے تو خالی ہات رخصت کر نہیں سکتے

پرانی دوستی ہے اس کی کچھ پہچان لے جانا

ارادہ کر لیا ہے تم نے گر سچ مچ بچھڑنے کا!

تو پھر اپنے یہ سارے وعدہ و پیمان لے جانا

اگر تھوڑی بہت ہے شاعری سے اُن کو دلچسپی

تو ان ے سامنے تم میرا یہ دیوان لے جانا

***

 

 

کوئی رُقعہ نہ لفافے میں کلی چھوڑ گیا

بس اچانک وہ خموشی سے گلی چھوڑ گیا

جب دیا ہی نہ رہا،خوف ہو کیا معنی؟

خالی کمرے کی وہ کھڑکی بھی کھلی چھوڑ  گیا

گونجتے رہتے ہیں سناٹے اکیلے گھر میں

در و دیوار کو وہ ایسا دُکھی چھوڑ گیا

بس اُسی حال کی تصویر بنا بیٹھا ہوں

مجھ کو جس میں وہ میرا سخی چھوڑ گیا

پہلے ہی درہم دینار محبت کم تھے

اک تہی دست کو وہ اور تہی چھوڑ گیا

کہیں تنہائی کے صحرا میں نہ پیاسا مر جاؤں

جانے والا مری آنکھوں میں نمی چھوڑ گیا

***

 

 

تو کیا تم اتنی ظالم ہو ؟

 

مرے تیمار داروں سے

مسیحا جب یہ کہہ دیں گے

دوا تاثیر کھو بیٹھی

دُعا کا وقت  آ پہنچا

یہ بیماری بہانہ تھی

قضا کا وقت آ پہنچا

تو کیا تم اتنی بے حس ہو

یقیں اس پر نہ لاؤ گی

تو کیا تم اتنی ظالم ہو

مجھے ملنے نہ آؤ گی ؟

***

 

 

 

یہ ٹھیک ہے کہ بہت وحشتیں بھی ٹھیک نہیں

مگر ہماری ذرا عادتیں بھی ٹھیک نہیں

اگر ملو تو کھلے دل کے ساتھ ہم سے ملو

کہ رسمی رسمی سی یہ چاہتیں بھی ٹھیک نہیں

تعلقات میں گہرائیاں تو اچھی ہیں

کسی سے اتنی مگر قربتیں بھی ٹھیک نہیں

دل و دماغ سے گھائل ہیں تیرے ہجر نصیب

شکستہ در بھی ہیں ان کی چھتیں بھی ٹھیک نہیں

تم اعتبار پریشان بھی ان دنوں ہو بہت

دکھائی پڑتا ہے ،کچھ صحبتیں بھی ٹھیک نہیں

قلم اٹھا کے چلو حال دل ہی لکھ دالو

کہ رات دن کی بہت فرصتیں بھی ٹھیک نہیں

***

 

 

 

 

پھول تھے رنگ تھے ،لمحوں کی صباحت ہم تھے

ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے

سب خرد مند بنے پھرتے تھے ،ماشاء اللہ!

بس ترے شہر میں اک صاحب وحشت ہم تھے

نام بخشا  ہے تجھے کس کے وفورِ غم نے

گر کوئی تھا تو ترے مجرم شہرت ہم تھے

رَت میں تری یاد آئی تو احساس ہوا

اک زمانے میں تری نیند کی راحت ہم تھے

اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو

وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے

دھُوپ کے دشت میں کتنا وہ ہمیں ڈھونڈتا تھا

اعتبار اس کے لئے اَبر کی صورت ہم تھے

***

 

 

اب  اس کو وہ بھولی باتیں یاد دلانا ٹھیک نہیں

ناحق وہ آزردہ ہو گا، اسے رُلانا ٹھیک نہیں

فون کے آگے چپ بیٹھا،میں کتنی دیر سے سوچ رہا ہوں

ابھی وہ تھک کر سویا ہوگا ، اسے جگانا ٹھیک نہیں

اک روشن کھڑکی کہتی ہے دیکھو،آگے دریا ہے

جاگ رہے ہیں سب گھر والے لان میں آنا ٹھیک نہیں

اس کے سپنے ٹوٹ گئے ، تو تم کو کیا نیند آئے گی

گڑیا جیسی لڑکی کو ،یوں آس دلانا ٹھیک نہیں

جتنا سفر گذرا ہے اب تک اب اس کی تکمیل کرو

تم اپنے گھر، میں اپنے گھر،  آگے جانا ٹھیک نہیں

گھر والے ناراض تو ہوں گے اتنی دیر سے آنے پر

چاند کے ساتھ سفر میں تھے تم،یہ تو بہانہ ٹھیک نہیں

***

 

 

کھو چکے ہیں جس کو،وہ جاگیر لے کر کیا کریں

اک پرائے شخص کی تصویر لے کر کیا کریں

ہم زمیں زادے،ستاروں سے ہمیں کیا واسطہ؟

دل میں ناحق خواہش تسخیر لے کر کیا کریں

عالموں سے زائچے بنوائیں کس اُمید پر

خواب ہی اچھے نہ تھے تعبیر لے کر کیا کریں

اعتبارِ حرف کافی ہے تسلی کیلے

پکے کاغذ پر کوئی تحریر  لے کر کیا کریں

اپنا اک اسلوب ہے ،اچھا برا جیسا بھی ہے

لہجۂ غالب، زبان میر لے گر کیا کریں

شمع اپنی ہی بھلی لگتی ہے اپنے طاق پر

مانگے تانگے کی کوئی تنویر لے کر کیا کریں

***

 

 

 

مجھے کیا خبر تھی سچ مچ یہ سمے گزر رہا ہے

میں یہی سمجھ رہا تھا وہ مذاق کر رہا ہے

ذرا مہلت تو دے دو، مرے بخت نارسا کو

یہ ابھی بدل رہا ہے یہ ابھی سنور رہا ہے

تری چاپ سننے والا ترا منتظر ہے اب تک

ابھی کل تلک یہ رستہ تری رہگزر رہا ہے

تجھے مل سکے جو فرصت تو یہ دیکھ تیری خاطر

کوئی کیسے جی رہا ہے کوئی کیسے مر رہا ہے

نئے ہم سفر کیا ہے کوئی ایسی خاص خوبی

کہ مری رفاقتوں کا بھی نشہ اتر رہا ہے

اسے جانے خوف کیا ہے مری جان ناتواں سے

کہ قفس میں لانے والا مرے پر کترے رہا ہے

***

 

 

 

نہ دوائیں پر اثر ہیں نہ دعائیں کیا بتائیں

تجھے اپنے دل کی حالت جو بتائیں کیا بتائیں

جو چراغ آرزو تھا وہ تو بجھ چکا کبھی کا

کسے ڈھونڈتی ہیں اب تک یہ ہوائیں کیا بتائیں

کبھی دور کے نگر سے ،کبھی پاس کی گلی سے

ہمیں کون دے رہا ہے یہ صدائیں کیا بتائیں

وہ بہار کس چمن میں مری راہ تک رہی ہے

یہ درخت گونگے بہرے، یہ خزائیں کیا بتائیں

کہ گھڑی کی سوئیاں سے تری ساعتیں بندھی ہیں

تجھے پاس منتوں سے جو بٹھائیں کیا بتائیں

تجھے اعتبار ساجد کے ان آنسوؤں کی کیا غم

کہ برس رہی ہیں کیونکر یہ گھٹائیں کیا بتائیں

***

 

 

گئی رُت کی وحشتوں  کا یہ خراج مانگتی ہے

کوئی کھیل تو نہیں ہے یہ غزل کی شاعری ہے

یہی سوچ، یہ ندامت مرا دل نچوڑتی ہے

کہ حروف آرزو میں کسی رنگ کی کمی ہے

جو لہو لہو میں مصرعے،تو ہنر نہیں ہے میرا

یہ بہار زخم دل ہے ،یہ کمال جانکنی ہے

مرا چاند رہ گیا ہے کہیں راستے میں شائد

اک اداس کنج گل میں مری شام ڈھل رہی ہے

کبھی عکس تھا کسی کا اسی چوکھٹے میں روشن

وہ شکستہ خالی کھڑکی مجھے اب بھی دیکھتی ہے

مرے دل کے طاقچے پر ذرا تم نگاہ رکھنا!

مری رات کے سفر میں یہ چراغ آخری ہے

مرے اعتبار ساجد! مرے بیقرار ساجد

ذرا حوصلہ تو رکھو،یہ فراق عارضی ہے

***

 

 

ذرا ٹھہرو، دُعا کے ساتھ ہی انعام  لے جانا

ادھر تم جا رہے ہو میرا اک پیغام لے جانا

مرے آنسو ذرا دامن سے اپنے پونچھتے جاؤ

اگر لے جا سکو میری اکیلی شام لے جانا

اسے کہنا ضروری ہو اگر قیمت شب غم کی

تو یہ ٹوٹا ہوا دل چن کے اپنے دام لے جانا

اُسے کہنا مرے آنسو، مرا قرضہ ادا کر دے

بس اس کے پاس یہ میرا ذرا سا کام لے جانا

اُسے کہنا اُسے کہنا نہیں! کچھ بھی نہیں کہنا

مت اس کے سامنے میرا کوئی پیغام لے جانا

مگر تم جب کہو گے ساتھ چلنے کو ،تو حاضر ہوں

کہ میں تو ہوں سدا بندہ بے دام لے جانا

***

 

 

 

صبح بخیر

 

میرے سرہانے

چائے کی پیالی رکھتے رکھتے

جھک کر

میری بند آنکھوں پر

اپنے ہو نٹوں کے دو پھول بھی رکھ دو

تاکہ سارادن

مجھ کو احساس رہے

آج کی صبح بہت سندر تھی

آج کا دن بھی اچھا ہو گا !

***

 

 

ہونٹوں کے دو پھول رکھے تھے اس نے جب پیشانی پر

چاند ہنسا تھا دیکھ کے ہم کو پاس ندی کے پانی پر

جگمگ جگمگ کرتی آنکھیں مجھ کو اچھی لگتی ہیں

قصہ لمبا کر دیتا ہوں بچوں کی حیرانی پر

یہ بھی کوئی باتیں ہیں جن پر آنکھیں کھل جاتی ہیں

میں حیران ہوا کرتا ہوں دنیا کی حیرانی پر

ہوش و خرد ایسے کھوتے ہیں، باپ بھلا  ایسے ہوتے ہیں

بچہ بن کر چیخ رہے ہو بچوں کی نادانی پر

اے اس عہد کے بوڑھے بچو!آؤ ہمارے ساتھ چلو

لال گلابی ناؤ چلائیں ہرے سنہرے پانی پر

شام کے بعد ہی کھلتا ہے ہر بھید نشیلی خوشبو کا

دن کو توجہ کب دیتا ہے کوئی رات کی رانی پر

***

 

 

 

ویسا چاند نہ مانگو

 

 

نہیں!

یہ میرا چاند نہیں

اتنا دھندلا

اتنا ماند

میرا چاند؟

نہیں یہ میرا چاند نہیں

یہ تو کوئی پیتل کی تھالی

کسی نے یونہی کر کے خالی

دیواروں کے پار

اچھالی

نہیں !یہ میرا چاند نہیں

اگر  یہ میرا چاند ہے تو پھر شہر کی راتو!

اس میں چرخہ کاتنے والی

بڑھیا کیوں موجود نہیں ہے

دائیں سے بائیں،اُوپر نیچے

اُڑنے والی

چڑیا کیوں موجود نہیں ہے

میرے ساتھ مرے بچپن میں

کھیلنے والی

گڑیا کیوں موجود نہیں ہے

***

 

 

بالکنی سے دیکھ رہا ہوں،سوچ رہا ہوں

 

اب اس عمر میں ایسی باتیں…….

ایسی باتیں ٹھیک نہیں ہیں

ویسے راتیں ٹھیک نہیں ہیں،

اب یہ باتیں ٹھیک نہیں ہیں

***

 

 

 

چاندی رات میں ہوا کا جھونکا ٹکرایا چوباروں سے

چند شکستہ زینوں سے اور کچھ گرتی دیواروں سے

آؤ کھلی محراب کے نیچے بیٹھ کے باتیں کرتے ہیں

دل کو وحشت سی ہوتی ہے گھٹے گھٹے بازاروں سے

میں نے اپنا کمرہ نچلی منزل پر تبدیل کیا

ہوٹل کی کھڑکی اونچی تھی ،مسجد کے میناروں سے

رات نمائش گاہ میں گملے بھی موجود تھے پھولوں کے

تازہ خون کی بو آتی تھی لیکن کچھ فن پاروں سے

ان پہ کبوتر سرنیوڑھائے بیٹھے ہیں خاموش ملول

کل اس شہر کی رونق تھی جن مرمر کے فواروں سے

ایسی قیامت کی سردی میں چاند سے باتیں کون کرے

آؤ ہم اپنی رات گزاریں لفظوں کے انگاروں سے

***

 

 

آخر ہم نے کب دینے والے کا رزق حلال کیا

اک دو غزلیں کہہ ڈالیں تو کونسا ایسا کمال کیا

موتی کا اک ہار لپیٹے اپنے کالے جوڑے میں

خوشبو جیسی اس لڑکی نے ایسا استقبال کیا

صبح ہوئی پلکوں سے چلتے اس کو ہونٹوں کی کلیاں

رات کسی نے روشن دے کر ایسا مالا مال کیا

ریل سے اتری پلٹ کے دیکھا اور پھر آگے نکل گئی

اک بے نام تعارف والی! تو نے اور نڈھال کیا

اپنے گھر والوں میں بیٹھی کتنی چہک رہی ہوگی وہ

جس کے فرض ہجر میں ہن نے اپنا شکستہ حال  کیا

صبح کو شام کیا مرمر کے،پھر بھی نہ غم کے پتھر سرکے

اک دو روز کی بات نہیں ہے ایسا سالہا سال کیا

اپنی بانہوں کی زنجیر میں اک رہرو کو باندھ لیا

اک ٹوٹا ہوا رشتہ ساجد ہم نے ایسے بحال کیا

***

 

 

بہت گہرا ہے اپنا تاجرانہ پیار آپس میں

کہ ہم کرتے ہیں سمجھوتوں کا کاروبار آپس میں

کبھی ٹکرا بھی جاتے ہیں جو برتن ساتھ رہتے ہیں

ہماری ہو بھی جاتی ہے کبھی تکرار آپس میں

یہاں دو سوختہ دل بھی اکٹھے رہ نہیں پاتے

جڑے رہتے ہیں لیکن سینکڑوں کہ سار آپس میں

بہت روئیں گے سناٹے ،یہ گھر جب چھوڑ جاؤ گے

بہت باتیں کریں گے یہ در و دیوار آپس میں

انا کو بیچ میں آئندہ ہم آنے نہیں دیں گے

یہ طے کر لیں کھلے دل سے چلو اک بار آپس میں

وہی نازک گھڑی ہوتی ہے ساجد پر زمانے کی

جگہیں تبدیل جب کرتے ہیں پہرے دار آپس میں

***

 

 

گر یہی تلخی یہی تکرار بڑھتی جائے گی

تیرے میرے درمیان دیوار بڑھتی جائے گی

اس طرف رہ جائے گا تو اور ادھر میں بیچ میں

اک سڑک پر بھیڑ کی رفتار بڑھتی جائے گی

جیسے جیسے ترس آتا جائے گا خود پر ہمیں

ویسے ویسے لذت آزار بڑھتی جائے گی

میرے گونگے حرف کا پتھر ترے کام آئے گا

اور بھی تیغ زباں کی دھار بڑھتی جائے گی

جتنے اپنے زخم دنیا کو دکھاتے جاؤ گے

دل میں اتنی خواہش غمخوار بڑھتی جائے گی

مت محبت مانگ اس سے قرض خواہوں کی طرح

اور اس کی شدت انکار بڑھتی جائے گی

ہات لہراتا ہوا وہ جائے گا تنہا کوئی

رفتہ رفتہ ریل کی رفتار بڑھتی جائے گی

***

 

 

رستے کا انتخاب ضروری سا ہو گیا

اب اختتام باب ضروری سا ہو گیا

ہم چپ رہے تو اور بھی الزام آئے گا

اب کچھ نہ کچھ جواب ضروری سا ہو گیا

ہم ٹالتے رہے کہ یہ نوبت نہ آنے پائے

پھر ہجر کا عذاب ضروری سا ہو گیا

ہر شام جلد سونے کی عادت ہی پڑ گئی

ہر رات ایک خواب ضروری سا ہو گیا

آہوں سے ٹوٹتا نہیں یہ گنبدِ سیاہ

اب سنگ آفتاب ضروری سا ہو گیا

دینا ہے امتحان تمہارے فراق کا

اب صبر کا نصاب ضروری سا ہو گیا

***

 

 

 

میں نے راتوں کو بہت سوچا ہے تم بھی سوچنا

فیصلہ کن موڑ آ پہنچا ہے تم بھی سوچنا

سوچنا ممکن ہے کیسے اس جدائی کا علاج ؟

حال ہم دونوں کا اک جیسا ہے تم بھی سوچنا

پل تعلق کا شکستہ کیوں ہوا؟ سوچوں گا میں

دور نیچے ہجر کا دریا ہے تم بھی سوچنا

کس قدر برہم ہیں لہریں،سوچ کر آتا ہے خوف

اور پانی کس قدر گہرا ہے تم بھی سوچنا

اپنے روز و شب گزر سکتے ہیں تنہا کس طرح

تجربہ میرا بھی یہ پہلا ہے تم بھی سوچنا

ہاں نہیں کے درمیانی راستے پر بیٹھ کر

کس کے حق میں کیا نہیں اچھا ہے ،تم بھی سوچنا

***

 

 

 

مشکل یہ آ پڑی تھی ہمارے نباہ میں

دنیا فریق بن گئی چاہت کی راہ میں

ایسا تھا دل کا حال ترے بعد جس طرح

بجھتا ہوا چراغ کسی خانقاہ میں

اک ایسی کشمکش میں گرفتار یہ دل

راحت ثواب میں تھی نہ لذت گناہ میں

کتنا میں پھوٹ پھوٹ کے رویا تھا اس گھڑی

اس نے لیا تھا جب مجھے اپنی پناہ میں

ہاتھوں میں پھول، آنکھ میں آنسو لئے ہوئے

کہتے ہیں وہ بھی آئی تھی میرے بیاہ میں

ہاں تیرا اعتبار ملا، خستہ و خراب

کل شام اک اُجاڑ سے جنگل کی راہ میں

***

 

 

 

جانے کس چاہ کے، کس پیار کے گن گاتے ہو

رات دن کونسے دلدار کے گن گاتے ہو

یہ تو دیکھو کہ تمہیں لوٹ لیا ہے اس نے

اک تبسم پہ خریدار کے گن گاتے ہو

اپنی تنہائی پہ نازاں ہو مرے سادہ مزاج!

اپنے سونے در و دیوار کے گن گاتے ہو

اپنے ہی ذہن کی تخلیق پہ اتنے سرشار!

اپنے افسانوی کردار کے گن گاتے ہو

عمر بھر ساتھ نبھائے گا بھلا تم سے کوئی ؟

کاہے مہمان اداکار کے گن گاتے ہو

اور لوگوں کے بھی گھر ہوتے ہیں گھر والے بھی

صرف اپنے در و دیوار کے گن گاتے ہو

***

 

 

 

مگن کس دھن میں اپنے آپ کو دن رات رکھتا ہے

نجانے آج کل وہ کیسے معمولات رکھتا ہے

اثاثہ اس کے کمرے کا ہیں کچھ مغموم آوازیں

درازوں میں مقفل ہجر کے نغمات رکھتا ہے

ہماری گفتگو کس روز کس منزل پہ پہنچی تھی

بلا کا حافظہ ہے یاد وہ ہر بات رکھتا ہے

اگر نالاں ہوں میں اس سے تو وہ بھی خوش نہیں مجھ سے

مرے جیسے ہی وہ میرے لیے جذبات رکھتا ہے

بہت گہرا ہے ،اس کی ظاہری حالت پہ مت جانا

وہ سینے میں پہاڑوں سے بڑے صدمات رکھتا ہے

اسے کیا چاند سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ساجد

وہ اپنی کھڑکیوں کیو بند کیوں دن رات رکھتا ہے

***

 

 

 

مزاج!مختلف ہیں چارہ گر،جوہیں میسر

مگر تنہائی ہر لمحہ رفاقت چاہتی ہے

یہ سناٹا تو جاں لیوا ہ اب دیوارو در کا

کسی سے بات کرنے کو طبیعت چاہتی ہے

***

 

 

چھوٹے چھوٹے کئی بے فیض مفادات کے ساتھ

لوگ زندہ ہیں عجب صورت حالات کے ساتھ

فیصلہ یہ تو بہرحال تجھے کرنا ہے!

ذہن کے ساتھ سلگنا ہے کہ جذبات کے ساتھ

گفتگو دیر سے جاری ہے نتیجے کے بغیر

اک  نئی بات نکل آتی ہے ہر بات کے ساتھ

اب کے یہ سوچ کے تم زخم جدائی دینا

دل بھی بجھ جائے گا ڈھلتی ہوئی اس رات کے ساتھ

تم وہی ہو کہ جو پہلے تھے مری نظروں میں

کیا اضافہ ہوا ان اطلس و بانات کے ساتھ

اتنا پسپا نہ ہو، دیوار سے لگ جائے گا

اتنے سمجھوتے نہ کر صورت حالات کے ساتھ

بھیجتا رہتا ہے گمنام خطوں میں کچھ پھول

اس قدر کس کو محبت ہے مری ذات کے ساتھ

***

 

 

اختلاف اس سے اگر ہے تو اسی بات پہ ہے

زور سب اس  کا فقط اپنے مفادات پہ ہے

اپنے آئندہ تعلق کا تو اب دارومدار

تیری اور میری ہم آہنگی جذبات پہ ہے

دل کو سمجھایا کئی بار کہ باز آ جائے

پھر بھی کمبخت کو اصرار ملاقات پہ ہے

اس کا کہنا ہے مجھے بھی کبھی دیکھو مڑ کر

کیا کروں میری نظر صورت حالات پہ ہے

بے حسی کے مجھے الزام عطا اس نے کئے

جس کے احساس کا سایہ مرے دن رات پہ ہے

چارہ گر اس کے سوا کون ہے ساجد میرا

قبضہ جس کا مری تنہائی کے لمحات پہ ہے

***

 

 

آنکھوں میں حلقے پڑ گئے ،پیروں میں چھالے پڑ گئے

یہ عاشقی اچھی رہی جاں کے بھی لالے پڑ گئے

***

 

کسی کا نام سنتے ہی لرز اٹھتے ہیں لب اس کے

کہ اس کے ساتھ بھی شاید نہیں اعصاب ان اس کے

ہمارے ہوش بھی آخر ٹھکانے آ ہی جائیں گے

اسے بھی راس آ جائیں گے  شائد روز و شب اس کے

سر ساحل وہ اپنی بالکونی میں ہی آ جاتا

اور آ کر دیکھتا کس حال میں ہیں تشنہ لب اس کے

رہی ہے دھڑکنوں تک فاصلوں میں بھی ہم آہنگی

ذرا بھی مختلف ہم سے رہے جذبات کب اس کے

نجانے ایسا کیا دکھ دے دیا ہے اس کی چاہت نے

کہ لوگ اس شہر میں شکوہ کناں ہیں سب کے سب اس کے

دکھانے کیا چلے جاتے ہو ساجد ٹاٹیٹل اپنے

بھی نزدیک سے گزرا نہیں ذوق ادب اس کے

***

 

 

ہمارا حال کچھ یوں ہے ترے دربان کے آگے

کہ یخ بستہ مسافر جیسے آتشدان کے آگے

ہمارے پیر لیکن اس زمیں نے تھام رکھے ہیں

بہت سے شہر ہوں گے اور بھی،ملتان کے آگے

اک آندھی گردش حالات کی حاوی ہوئی مجھ پر

کہاں تک جلتا رہتا وقت کے طوفان کے آگے

طبیعت کی بحالی سے بڑی راحت نہیں کوئی

ہر اک شے ہیچ ہے اس دل کے اطمینان کے آگے

جواب اس کو مری باتوں کا جب دینا  نہیں ہوتا

وہ فوراً ہاتھ رکھ لیتا ہے اپنے کان کے آگے

ہماری نسبتیں قائم ہیں ساجد اس گھرانے سے

جو سجدہ نہیں  کرتا کسی سلطان کے آگے

***

 

 

ایک لڑکی

 

دنیا جب رب رب کرتی ہے

ہم کو گھائل کرتی ہے

جن میں رسوائی نہیں ہوتی

ایسے کام وہ کب کرتی ہے

نام کسی کا لے کر مجھ سے

آٹو گراف طلب کرتی ہے

مطلب کی باتوں کے علاوہ

باتیں ہم سے سب کرتی ہے

جن سے اس کا دل نہیں ملتا

ان کا صرف ادب کرتی ہے

اک لڑکی گل بوٹوں والی

باغ کی سیر بھی اب کرتی ہے

دیکھیں، اپنی نظر عنایت

کس ٹہنی پر کب کرتی ہے

 

 

مجھے ملنے جب آیا،ساتھ پہرے دار لے آیا

وہ خود تلوار تھا ،اک دوسری تلوار لے آیا

کہیں مل بیٹھتے ہم گفتگو آرام سے کرتے

انا کی بے سبب وہ بیچ میں دیوار لے  آیا

مری پسپائی ناممکن تھی ،لیکن میں بھی کیا کرتا؟

مرا دشمن نہتے میرے سب سالار لے آیا

وہ پہلے کسمایا ،ذکر احساس مروت پر

پھر اپنی گفتگو میں اپنا کاروبار لے آیا

سخن کے گوہر تاباں کی ارزانی کا یہ صدمہ

ہم ایسے گوشہ گیروں کو سر بازار لے آیا

یہاں پہلے ہی کچھ جاں سوختہ بیٹھے تھے آزردہ

میں کس محفل میں اپنے دل جلے اشعار لے آیا

 

 

بالکونیاں

 

بنانے والوں نے کیا سوچ کر بنائی تھی

سمندروں کی طرف بالکونیاں اپنی

جو اپنی آنکھ سے لہروں  کو روک لیتے ہیں

نمی سے بھی تو بچائیں وہ کھڑکیاں اپنی

***

 

 

رویے اور فقرے ان کے پہلو دار ہوتے ہیں

مگر میں کیا کروں یہ میرے رشتہ دار ہوتے ہیں

مرے غم پر انہیں کاموں سے فرصت ہی نہیں ملتی

مری خوشیوں میں یہ دیگوں کے چوکیدار ہوتے ہیں

دلوں میں فرق پڑ جائے تو اس نے درد ساعت میں

دلیلیں، منطقیں اور فلسفے بیکا ر ہوتے ہیں

جنہیں صبر و رضا کی ہر گھڑی تلقین ہوتی ہے

وہی مظلوم ہر تکلیف سے دو چارہ ہوتے ہیں

بہت قابو ہے اپنے دل پہ لیکن کیا کیا جائے

جب آنکھیں خوبصورت ہوں تو ہم لا چار ہوتے ہیں

غزل کے شعر خاصا وقت لیتے ہیں سنورنے میں

یہ نخرے باز بچے دیر سے تیار ہوتے ہیں

ادھر کا رخ نہیں کرتا کوئی آسودہ دل ساجد

جہاں بیٹھے ہوئے ہم نوحہ گر دو چار ہوتے ہیں

***

 

 

ان کی خوشی کا خاطر

 

اگر وہ زہر دیتے ہیں

تو اس میں کیا قباحت ہے

چلو ،ان کی خوشی کے نام پر ہی مرلیا جائے

زباں کو زہر کی نعمت سے بھی

تر کر لیا جائے

کبھی صحرا میں دریا چاہتے ہو

کبھی دریا میں صحرا چاہتے ہو

بہانے ڈھونڈتے ہو مرد ہو کر

تناتے کیوں نہیں ،لیا چاہتے ہو

کس شادی میں دیکھ آئے تھی اس کو

اب اس لڑکی کا رشتہ چاہتے ہو

کبھی آئینے میں خود کو بھی دیکھا؟

جو چہرہ چاند جیسا چاہتے ہو

حصول ماہ گھر بیٹھے ہو ممکن !

سو، اب پانی میں نیلا چاہتے ہو

تمہیں شہرت کی خواہش ہے تو بولو

کہ تم الزام کیسا چاہتے ہو

کسی کو بار جاں بخشو گے اپنا

کہ تم تنہا ہی رہنا چاہتے ہو

ہماری گفتگو بس تھی یہیں تک

کہو کچھ تم بھی کہنا چاہتے ہو

یہ تو ہم کہتے نہیں، سایہ ظلمت کم ہے

روشنی ہے تو سہی جب ضرورت کم ہے

دل کا سودا ہے یہ مٹی کے کھلونے کا نہیں

اور تخفیف نہ کر پہلے ہی قیمت کم ہے

اس نے کھڑکی مرے کمرے کی مقفل کر دی

گویا تنہائی میں جلنے کی اذیت کم ہے

اک بڑی گھر سے تعلق ہے حسیں بھی ہے بہت

پھر بھی لگتا ہے کہ کچھ اس میں نفاست کم ہے

کیا دیا تم نے اسے جس نے نوازا ہے تمہیں

پھر بھی شاکی  ہو کہ حاصل تمہیں نعمت کم ہے

کوئی حقدار تو ہو لائق وستار تو ہو

کون کہتا ہے کہ  اس شہر میں عزت کم ہے

 

 

SONU! DON’T CRY

 

 

آوازوں کی انگلی تھام کے

چلنے والے

پیارے بیٹے

اندھیاروں میں تنہا چلنے کی

تم اچھی عادت ڈالو

کیونکہ آوازیں کرنیں ہیں

اور کرنیں گہنا جاتی ہے

لوگ تو کہتے ہیں کہ گہنا تے ہیں

چاند اور سورج،

لیکن

اپنی عمر کی اس منزل پر

آکر اب احساس ہوا ہے

روشنیاں کلیاں ہیں

اور یہ کلیاں بھی مرجھا جاتی ہیں

آوازیں  بھی کرنیں ہے

گہنا جاتی ہیں

جاؤ اندھیرے کمرے  سے

ماچس کی

اک ڈبیا لے آؤ

لیکن اس کمرے میں جاکر

تم مجھ کو آواز نہ دینا

***

 

 

 

مجھے سارے رنج قبول ہیں اُسی ایک شخص کے پیار میں

مری زیست کے کسی موڈ پر جو مجھے ملا تھا بہار میں

وہی اک امید ہے آخری اسی ایک شمع سے روشنی

کوئی اور اس کے سوا نہیں، مری خواہشوں کے دیار میں

وہ یہ جانتے تھے کہ آسمانوں،کے فیصلے ہیں کچھ اور ہی

سو ستارے دیکھ کے ہنس پڑے مجھے تیری بانہوں کے ہار میں

یہ تو صرف سوچ کا فرق ہے یہ تو صرف بخت کی بات ہے

کوئی فاصلہ تو نہیں ،تری جیت میں مری ہار میں

ذرا دیکھ شہر کی رونقوں سے پرے بھی کوئی جہان ہے

کسی شام کوئی دیا جلا کسی دل جلے کے مزار میں

کسی چیز میں کوئی ذائقہ کوئی لطف باقی نہیں رہا

نہ تری طلب گداز میں نہ مرے ہنر کے وقار میں

***

 

 

رشتے کا انٹر ویو

ہوتی ہے جیسی خواب میں وہ ایسی عورت ہی نہیں

سو تم ٹیچر ہو

بچوں کو پڑھاتے ہو

انہیں تم ڈاکٹر، انجینئر افسر بناتے ہو

مگر اتنا کماتے ہو؟

چلو یہ بعد کی باتیں ہے

موضوع سخن اب ہم بدلتے ہیں

یہاں تو لان میں خنکی ہے

آؤ ہم ڈرائنگ روم کے خاموش سے گوشے میں چلتے ہیں

……………………….

تو ہاں ہم کہہ رہے تھے ….

شکر ہے اللہ کا  اچھے کھاتے پیتے ہیں

بڑی راحت سے جیتے ہیں

ہماری تیسری بیٹی کا شوہر شارجے میں ہے

ہزاروں میں لٹاتا ہے

خود اندازہ لگاؤ تم کہ وہ کتنا کماتا ہے

ہماری دوسری بیٹی کا شوہر اک وڈیرا ہے

زمینیں اس کی اتنی ہیں

کہ اگلے سو برس تک ہم

مسلسل پیٹ بھر سکتے ہیں

اس کی تازہ فصلوں سے

مگر افسوس

اپنی پہلی بیٹی پڑھ نہیں پائی

مصیبت پولیو نے بچپنے میں اس پہ نازل کی

بچاری چل نہیں سکتی

مزاجاً تلخ ہے

کڑوی فضا میں پل نہیں سکتی

نہاتی اس لیے کم ہے کہ صابن مل نہیں سکتی

بہت آئے ہیں رشتے مانگنے والے

مگر ہم نے

تمہاری گفتگو سن کر یہ اندازہ لگایا ہے

کہ سچ مچ آج کے دن گو ہر مقصود پایا ہے

تمہارا گھر کہاں ہے ؟

خیر جیسا بھی جہاں بھی ہے

تمہارا گھر مناسب ہے

ہماری بیٹی کے لئے

یہ بر مناسب ہے

مگر…………………..

خاموش کیوں ہو تم

***

 

 

 

فقط گھر کی محبت کیا کرے گی

نہ ہو زر جیب میں ،چھت کیا کرے گی

در و دیوار کیا دیں گے سہارا

ان اینٹوں کی رفاقت کیا کرے گی

اگر حاصل نہ ہو آسائش جاں

یہ خالی خولی قربت کیا کرے گی

بھرے گی سرد و گرم آہیں یہ دنیا

مدد، حسب ضرورت کیا کرے گی

بھلا کب کرچیاں جوڑے گا کوئی

اس آئینے کی حیرت کیا کرے گی

چلو ہم تو غزل میں، رو بھی لیں گے

کسی گونگے کی وحشت کیا کرے گی

***

 

 

نری خوش فہمیاں ہوتی ہیں، یکسر کب بدلتا ہے

نئی عینک پہن لینے سے منظر کب بدلتا ہے

سمندر اچھا لگتا ہے مگر اس اونچے جنگلے سے !

مجھے معلوم ہے یہ دیو تیور کب بدلتا ہے

مجھے بھی وقت کچھ درکار ہے خود کو بدلنے میں

مزاجاً وہ بھی پتھر ہے سو ، پتھر کب بدلتا ہے

تری چشم کرم کے مستحق ہم کب ٹھہرتے ہیں

چلو دیکھیں تری سوچوں کا محور کب بدلتا ہے

کسی کو سال نو کی کیا مبارک باد دی جائے

کیلنڈر کے بدلنے مقدر کب بدلتا ہے

ہمیشہ اک یہی تصویر وہ جاتی ہے آنکھوں میں

یہ پہلا ہجر ہے اور ایسا منظر کب بدلتا ہے

***

 

 

 

امانت

 

اتنی قربت اور ایسی تنہائی

کتنی صبر آزما یہ خلوت ہے

پیش قدمی کو جی و تو چاہتا ہے

بس یہی سوچ روک لیتی ہے

تو کسی اور کی امانت ہے

***

 

 

 

وہ یکسر مختلف ہے منفرد پہچان رکھتا ہے

اک آئینے کی صورت شہر کو حیران رکھتا ہے

کوئی اس میں بھی ہوگی اس کی منطق پوچھ لیں گے ہم

بہاروں میں وہ خالی کس لئے گلدان رکھتا ہے

تعلق کس لئے ترک تعلق پر  بھی قائم ہے؟

وہ کیوں اپنے سرہانے اب مرا دیوان رکھتا ہے

یہ دل یادوں سے بھر جاتا ہے اکثر سرد راتوں میں

یہ کمرہ سردیوں میں گرم آتشدان رکھتا ہے

ہر اک آہٹ پہ آخر کیوں دھڑک اٹھتا ہے دل میرا

ابھی تک کیا ترے آنے کا کچھ امکان رکھتا ہے

فقط تم اپنے دل کو رو رہے ہو آج تک ساجد

وہ اپنے کھیلنے کے اور بھی میدان رکھتا ہے

***

 

 

 

ہوا کے سامنے

 

ہوا کا کارِ منصب ہی کچھ ایسا ہے کہ ہر جانب

بجھاتی ہے چراغوں کو ،لویں مدھم نہیں کرتی

یہ کیا مایوس ہو کر راہ میں دل چھوڑ بیٹھے ہو

محبت حوصلہ دیتی ہے ،ہمت کم نہیں کرتی !

***

 

 

ہیں دھوپ کے نیزے بھی جعلی اشجار بھی یونہی لگتے ہیں

احباب بھی ہیں ناکارہ سے ،اغیار بھی یونہی لگتے ہیں

اس عہد کے گدلے پانی میں تصویر کوئی شفاف نہیں

محکوم بھی یونہی لگتے ہیں مختار بھی یونہی لگتے ہیں

ادوار بدلتے ہیں ،تاریخ کی تبدیلی کے لئے

حکام وہی خدام وہی دربار بھی یونہی لگتے ہیں

موسم کے بدلنے پر اب تک بدلے تو نہیں مظلوم ترے

مایوس بھی یونہی لگتے ہیں، بیزار بھی یونہی لگتے ہیں

بیکار نہیں جاتی آہیں،کچھ ہو کے رہے گا دیکھنا تم

اُمید تو ہے انشاء اللہ، آثار بھی یونہی لگتے ہیں

جب غالب و میر کو پڑھتے ہیں ہم راتوں کی تنہائی میں

تب اپنے قلم سے نکلے ہوئے اشعار بھی یونہی لگتے ہیں

***

 

 

 

آواز

 

تو سمجھتا ہے کہ اشعار میں تو بولتا ہے

نہیں! ہر مصرعے میں اس دل کا لہو بولتا ہے

***

 

 

 

کسی کے ہجر میں گر ہم بھی مر لیتے تو کیا لیتے

نہ یہ کرتے تو کیا پاتے؟یہ کر لیتے تو کیا لیتے

یقیناً ایسی ہی کچھ صورت حالات ہونی تھی

نہ اس کی بے وفائی کا اثر لیتے ہو کیا لیتے

گزر جانا تھا اس نے روند کر قدموں تلے ہم کو

مثال ریگ رستے میں بکھر لیتے تو کیا لیتے

اکیلے بیٹھ کر ساحل پہ اب لہریں تو گنتے ہیں

ہم اس دریائے خلقت میں اتر لیتے تو کیا لیتے

اسی کے ہو کے رہتے زندگی بھر اور کیا ہوتا؟

اُسے خوش کرنے کی خاطر یہ کر لیتے تو کیا لیتے

ہماری ایک نادانی ہمیں کس کام کا رکھتی؟

ذرا سوچو کہ ترکِ عشق کر لیتے تو کیا لیتے

***

 

 

 

سنگ مرمر کی طرح سرد نہیں لگتے ہیں

آپ تو آتشیں محلوں کے مکیں لگتے ہیں

یہ دیکھتے ہوئے شفاف سے مومی چہرے

شمعیں بجھتی ہیں تو کچھ اور حسیں لگتے ہیں

اس کی پازیب میں شائد ہیں دلوں کے گھنگھرو

زلزلے آج تو بالائے زمیں لگتے ہیں

غور سے جب انہیں دیکھو تو پریشاں ہو کر

بے سبب دیکھنے وہ اور کہیں لگتے ہیں

روتے ہوں گے کبھی خلوت میں ترے سوختہ دل

محفلوں میں تو بہت خندہ جبیں لگتے ہیں

کل مرے شانے پہ سررکھ کے کہا تھا اس نے

جیسے بدنام تھے ایسے تو نہیں لگتے ہیں

***

 

 

یہ حسیں لوگ ہیں، تو  ان کی مروت پہ نہ جا

خود ہی اٹھ بیٹھ کسی اذن و اجازت پہ نہ جا

صورت شمع ترے سامنے روشن ہیں جو پھول

ان کی کرنوں میں نہا، ذوق سماعت پہ نہ جا

دل سی چیک بک ہے ترے پاس تجھے کیا دھڑکا

جی کو بھا جائے کو پھر چیز کی قیمت پہ نہ جا

اتنا کم ظرف نہ بن، اس کے بھی سینے میں ہے دل

اس کا احساس بھی رکھ، اپنی ہی راحت پہ نہ جا

دیکھتا کیا ہے ٹھہر کر مری جانب ہر روز

روزن در ہوں مری دید کی حیرت پہ نہ جا

تیرے دل سوختہ بیٹھے ہیں سر بام ابھی

بال کھولے ہوئے تاروں بھری اس چھت پہ نہ جا

میری پوشاک تو پہچان نہیں ہے میری

دل میں بھی جھانک، مری ظاہری حالت پہ نہ جا

***

 

 

 

 

تم سے پہلے بھی

 

تم سے پہلے بھی کسی اور نے چاہا تھا مجھے

یہی باتیں یہی انداز وفا تھے اس کے

اس کے بھی سامنے تھے رسموں رواجوں کے عذاب

جتنے بھی خواب تھے سب آبلہ پا تھے اس کے

وہ بھی سر کش تھا بہت اپنے خیالوں کی طرح

حوصلے عشق میں مانند ہو تھے اس کے

تم پہ بھی اتری ہیں یہ وحشتیں تازہ تازہ

موم سے تم بھی بنائی ہوئی اک مورت ہو

سوچ لو وہ بھی اک عورت تھی تمہاری جیسی

مختلف تم بھی نہیں، تم بھی تو اک عورت ہو !

***

 

 

تمہیں خیال ذات ہے شعور ذات ہی نہیں

خطا معاف یہ تمہارے بس کی بات ہی نہیں

غزل فضا بھی ڈھونڈتی ہے اپنے خاص رنگ کی

ہمارا مسئلہ فقط قلم دوات ہی نہیں

ہماری ساعتوں کے حصہ دار اور لوگ ہیں

ہمارے سامنے فقط ہماری ذات ہی نہیں

ورق ورق پہ ڈائری میں آنسوؤں کا نم بھی ہے

یہ صرف بارشوں سے بھیگے کاغذات ہی نہیں

کہانیوں کا روپ دے کے ہم جنہیں سنا سکیں

ہماری زندگی میں ایسے واقعات ہی نہیں

کسی کا نام آ گیا تھا یونہی درمیان میں

اب اس کا ذکر کیا کریں جب ایسی بات ہی نہیں

***

 

 

 

ہم مر گئے کہ پیاس میں پانی نہیں ملا

ہم کو ثبوت تشنہ دہانی نہیں ملا

اوجھل ہوئے وہ شہر تو پھر مل نہیں سکے

جیسے ہمارا عہد جوانی نہیں ملا

اتنے بڑے جہاں میں کمی تو نہ تھی کوئی

جاناں تو سینکڑوں تھے وہ جانی نہیں ملا

دریا کھنگال ڈالے ہیں اس کی تلاش میں

پلکوں سے ریگ دشت بھی چھانی نہیں ملا

صبر آ گیا تو سوکھی  ندی بھی اُبل پڑی

جب پیاس تھی تو بوند بھی پانی نہیں ملا

***

 

 

ہم کو کیا اپنے خریدار میسر آتے

کوئی سیف تھے کہ بازار میسر آتے

کیسا ہر جائی ہے مقبول بھی کس درجہ ہے

کاش ہم کو ترے اطوار میسر آتے

اس گلی میں ابھی تل دھرنے کی گنجائش ہے

اور عاشق تجھے دوچار میسر آتے

کوچہ گردی سے ہی فرصت نہیں دن رات ہمیں

گھر کے ہم ہوتے تو غمخوار میسر آتے

دربدر پھرتے رہے سوختہ ساماں تیرے

ہم مہاجر تھے کہ انصار میسر آتے؟

ایسا ہوتا کہ کسی حرف میں جاں پڑ جاتی

کاش پیرایہ اظہار میسر آتے

اپنے سینے کا یہ ننھا سا دیا کام آیا

نہ یہ جلتا نہ یہ اشعار میسر آتے

***

 

 

نہ گمان موت کا ہے ،نہ خیال زندگی کا

سو، یہ حال ان دنوں ہے مرے دل کی بے کسی کا

میں شکستہ بام دور میں جسے جا کے ڈھونڈتا تھا

کوئی یاد تھی کسی کی ،کوئی نام تھا کسی کا

میں ہواؤں سے ہراساں،وہ گھٹن سے دل گرفتہ

میں چراغ تیرگی کا ،وہ گلاب روشنی کا

ابھی ریل کے سفر میں ہیں بہت نہال دونوں

کہیں روگ بن نہ جائے یہی ساتھ دو گھڑی کا

کوئی شہر آ رہا ہے تو یہ خوف آ رہا ہے

کوئی جانے کب اتر لے کہ بھروسہ کیا کسی کا

کوئی مختلف نہیں ہے یہ دھواں ، یہ رائیگانی

کہ جو حال شہر کا ہے وہی اپنی شاعری کا

***

 

 

کوئی بھیڑ جیسی یہ بھیڑ ہے کسی دوسرے کا پتا نہیں

یہ تو برق و بار کا شہر ہے کوئی رہنے بسنے کی جا نہیں

مرے شہر میں تو ابھی تلک انہی یکوں تانگوں کا دور ہے

مرے ذہن میں جو مکان ہیں وہاں اتنی آہ و بکا نہیں

ترے ہم خیال کدھر  گئے ؟کہیں مر گئے کہ بکھر گئے

میں ضرور اس سے یہ پوچھتا کوئی کوچہ گرد ملا نہیں

یہ احاطہ جس میں کھڑا ہے تو یہاں اور بھی تو درخت تھے

ترے سارے ساتھی تو کٹ چکے ،تیرا سودا کیسے ہوا نہیں

یہ نہیں کہ حسن فضا نہ تھا میں خود اپنے بس میں رہا نہ تھا

تجھے کنج باغ میں کر کوئی پھول اچھا لگا نہیں

ذرا پہلے خود کو ٹٹولتے تو خلاف عقل نہ بولتے

وہ گلہ گذار ہیں مجھ سے کیوں،مجھے جن سے کوئی گلہ نہیں

***

 

 

جب کتابوں سے مری بات نہیں ہوتی ہے

تب مری رات، مری رات نہیں ہوتی ہے

تم ہو ناراض کہ ملنے نہیں آتا تم سے

میری تو خود سے ملاقات نہیں ہوتی ہے

***

 

 

پھر رات بھر کیا جاگنا جب دل کو وحشت ہی نہیں

چاندی کے فوارے لگے ہیں اس کے قصر ناز میں

افسردہ سی رہتی ہے وہ تسکین و راحت ہی نہیں

باہر  فصیل قصر ہے ،مخلوق ہے کس حال میں؟

یہ جاننے، محسوس کرنے کی ضرورت ہی نہیں

چھت جس نے ہم سے چھین لی ،جلتی جھلستی دھوپ میں

کیا صلح ہم اس سے کریں جس کو ندامت ہی نہیں

یہ جھوٹے سچے فیصلوں پر کس قدر مسرور ہیں

یاد ان کو اک سب سے بڑی ،رب کی عدالت ہی نہیں

کچھ سنگ مرمر کے سے بت پہلی ہی صف میں سج گئے

پھر کیا کرے شاعر جہاں حسن سماعت ہی نہیں

آٹو گراف اس نے لیا پھر زیر لب پوچھا گیا

کیا چارہ گر کی اب  مرے شاعر کو حاجت  ہی  نہیں

***

 

 

 

یہ شعر کی دیوی ہے بہروپ تو دھارے گی

باہر سے اجاڑے گی اندر سے سنوارے گی

جب ٹوٹ گئے سمبندھ ،پھر کونسے رشتے سے

میں کس کو صدا دوں گا تو کس کو پکارے گی

بوچھاڑ یہ بارش کی گذرے ہوے لمحوں کو

کھڑکی سے دریچے سے ،کمرے میں اتارے گی

کیا ہوش نہ آئے گا اس بحر تلاطم میں

جذبوں کی یہ طغیانی کیا جان سے مارے گی

لگتا ہے مجھے ساجد معصوم انا میری

جس روز بھی ہارے گی اپنوں ہی سے ہارے گی

***

 

 

 

آخر شب کا انتظار

 

رات آئی ہے

دروازے پر آ بیٹھی

اک ماں

اپنے لال کی آس میں

جانے بیٹا کب گھر آئے

راتیں یونہی ڈھل جاتی ہیں

بوڑھی آنکھیں جل جاتی ہیں

بھید نہیں کھلتا ہے ،آخر

بیٹے دیر سے کیوں آتے ہیں

مائیں جاگتی کیوں رہتی ہیں

ان کی آنکھیں کیوں بہتی ہیں؟

***

 

 

چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں

دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں

اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر

ہاتھ میں کاسہ خیرات لئے پھرتے ہیں

شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا

کچھ سلگتے ہوئے نغمات لئے پھرتے ہیں

دنیا میں ترے غم کو سمونے والے

اپنے دل پر کئی صدمات لئے پھرتے ہیں

مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے

منفرد ہم غم حالات لئے پھرتے ہیں

ایک ہم ہیں کہ غم دہر سے فرصت ہی نہیں

ایک وہ ہیں کہ غم ذات لئے پھرتے ہیں

***

 

 

 

گھر کی دہلیز سے بازار میں مت آ جانا

تم کسی چشم خریدار میں مت آ جانا

خاک اُڑانا انہی گلیوں میں بھلا لگتا ہے

چلتے پھرتے کسی دربار میں مت آ جانا

یونہی خوشبو کی طرح پھیلتے رہنا ہر سو

تم کسی دام طلبگار میں مت آ جانا

دور ساحل پہ کھڑے رہ کے تماشا کرنا

کسی امید کے منجدھار میں مت آ جانا

اچھے لگتے ہو کہ خود سر نہیں، خود دار ہو تم

ہاں سمٹ کے بت پندار میں مت آ جانا

چاند کہتا ہوں تو مطلب نہ غلط لینا تم

رات کو روزن دیوار میں مت آ جانا

***

 

 

نہ اب وہ گھر کے مکیں ہیں نہ بام ودرویسے

تو کیا کریں کسی امید پر سفر ویسے

۔۔۔۔۔۔تکلف، تصنع بناوٹی باتیں

سفر میں لطف ہے ویسا نہ ہم سفر ویسے

یہ جانتے نہیں آداب پر سش احوال

کہاں سے ڈھونڈ کے ہم لائیں چارہ گر ویسے

نہ ویسے کنج چمن ہیں نہ چاندنی راتیں

نہ وحشتوں کا وہ عالم نہ باغ و در ویسے

کسی سے ویسے مراسم نہیں رہے پھر بھی

چلو، وہ شہر تو دیکھ آئیں اک نظر ویسے

تجھے جدائی کا صدمہ سہی مگر اے دل!

کسی کے ساتھ رہا کون عمر بھر ویسے؟

***

 

 

 

جلتے فانوس کی روشنی چھن گئی

جو ہنساتا تھا اس کی ہنسی چھن گئی

سب عناصر میں رد و بدل ہو گیا

تازہ خبروں سے بھی تازگی چھن گئی

کاروباری تعلق تو بہتر ہوا

اچھی خاصی مگر دوستی چھن گئی

شاعری چھن گئی، ہم کو تو مل گیا

ایک نعمت ملی، دوسری چھن گئی

نذر آتش کتاب تمنا ہوئی

بات آغاز تھی ان کہی چھن گئی

ذائقے سے بھی ہر ذائقہ کھو گیا

سنسنی سے بھی اب سنسنی چھن گئی

***

 

 

آنگن میں ستاروں کو سجانے کے یہ دن تھے !

عباس مری ترے جانے کے یہ دن تھے؟

جانے کی تجھے کونسی عجلت  تھی یہاں سے؟

گلشن میں نئے پھول کھلانے کے یہ دن تھے !

تجھ کو تو رہ  شوق میں جانا تھا بہت دور

آغوش میں دھرتی کی سمانے کے یہ دن تھے ؟

یہ عمر ترے روٹھ کے جانے کی نہیں تھی

عباس ترے ناز اٹھانے کے یہ دن تھے

کیا ظلمت دوراں نے بھی تجھ کو نہیں روکا؟

اس شمع رفاقت کو بجھا نے کے یہ دن تھے؟

اے میرے جواں مرگ! تری قبر پہ آ کر

گل پاشی کے اور شمعیں جلانے کے یہ دن تھے؟

***

 

 

 

مجھے وہ کنج تنہائی سے آخر کب نکالے گا

اکیلے پن کا یہ احساس مجھ کو مار ڈالے گا

کس کو کیا پڑی ہے میری خاطر خود کو زحمت دے

پریشان ہیں کبھی کیسے کوئی مجھ کو سنبھالے گا

ابھی تاریخ نامی ایک جادو گر کو آنا ہے

جو زندہ شہر اور اجسام کو پتھر میں ڈھالے گا

بس اگلے موڑ پر منزل تری آنے ہی والی ہے

مرے اے ہم سفر! تو کتنا میرا دکھ بٹالے گا

شریک رنج کیا کرنا اسے تکلیف کیا دینی

کہ جتنی دیر بیٹھے گا وہی باتیں نکالے گا

رہا کر دے قفس کی قید سے گھائل پرندے کو

کسی کے دور کو اس دل میں کتنے سال پالے گا

***

 

 

تری طرح کوئی بھی غمگسار ہو نہیں سکا

بچھڑ کے تجھ سے پھر کس سے پیار ہو نہیں سکا

جو خون دل کے رنگ میں ٹپک پڑے تھے آنکھ سے

ان آنسوؤں کا مجھ سے کاروبار ہو نہیں سکا

وہی تھا وہ  وہی تھا میں، شکست دل کے بعد بھی

وہ مجھ سے اور میں اس سے شرمسار ہو نہیں سکا

سپاٹ خال و خد لئے کھڑا تھا اس کے سامنے

دکھاوے کے لئے بھی سوگوار ہو نہیں سکا

پلیٹ فارم پر تھا جس کا جسم روح ریل میں

اک ایسا شخص ریل میں سوار ہو نہیں سکا

جہاں گیا، مرے ہی اپنے لوگ منتظر ملے

میں بے دیار ہو کے بے دیار ہو نہیں سکا

***

 

 

 

ترسیدہ

 

اگر بے فیض ہے خود اپنے حق میں

تو پھر بادل برستا کس لئے ہے

کھلونے بیچنے والے کا بیٹا

کھلونوں کو ترستا کس لئے ہے

***

 

 

 

نکل کر قصر سے تیرے ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا

میں کوئی ٹوٹا پھوٹا آشیانہ ڈھونڈ ہی لیتا

خدا کی سر زمیں پر کچھ نہ کچھ تو مل ہی جانا تھا

کوئی بھوکا پرندہ آب و دانہ ڈھونڈ ہی لیتا

اگر تم صاف کہہ دیتے کہ اس گھر سے نکل جاؤ

تو میں اپنے لئے کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ ہی لیتا

بھرم رہتا تمہاری اور میری نیک نامی کا

جد کے لئے میں کوئی شانہ ڈھونڈ ہی لیتا

سفر تو کاٹنا ہی تھا  کسی صورت مجھے آخر

کوئی چہرہ کوئی منظر سہانہ ڈھونڈ ہی لیتا

بھرے بازار میں تحلیل جیسے ہو گیا کوئی

وگرنہ آج اک رشتہ پرانہ ڈھونڈ ہی لیتا

***

 

 

 

نہیں

 

ہزار باغ ہیں اور دس ہزار مالی ہیں

کسی کو پھول کھلانا ابھی نہیں آیا

ہم اپنے بیج میں زیر زمیں ہیں پوشیدہ

نہیں ہمارا زمانہ ابھی نہیں آیا!

***

 

 

 

کبھی کسی شجر کی اوٹ میں،کبھی کھنڈر میں ہے

ہمارے ساتھ ساتھ چاند آج پھر سفر میں ہے

یہ سبز تیرگی کی بڑھتی ،پھیلتی فصیل سی

کسی اکیلے مور کی پکار کے بھنور میں ہے

یہ چاند نے جو اوڑھ لیں ردائیں برگ سبز کی

ہوا کے دوش پر کوئی کہانی مشت پر میں ہے

کسی درخت پر اکیلے آشیاں کو دیکھ کر

اُداسی یاد آ گئی جو اپنے سونے گھر میں ہے

نڈھال، محو خواب سنگ و خشت میں پنہ گزیں

کئی رتوں کا قافلہ شکستہ  بام و در میں ہے

کہاں کی منزل وفا کہاں کی راحت فضا

ترا مسافر طلب ابھی  تو رہگزر میں ہے

***

 

 

 

بھری محفل میں تنہائی کا عالم ڈھونڈ لیتا ہوں

جہاں جاتا ہوں اپنے دل کا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں

اکیلا خود کو جب محسوس کرتا ہوں کسی لمحے

کسی امید کا چہرہ کوئی غم ڈھونڈ لیتا ہوں

بہت ہنسی نظر آتی ہیں جو آنکھیں سر محفل

میں ان آنکھوں کے پیچھے چشم پرنم ڈھونڈ لیتا ہوں

گلے لگ کر کسی کے چاہتا ہوں جب کبھی رونا

شکستہ اپنے جیسا کوئی ہمدم ڈھونڈ لیتا ہوں

کیلنڈر سے نہیں مشروط میرے رات دن ساجد

میں جیسا چاہتا ہوں ویسا موسم ڈھونڈ لیتا ہوں

***

 

 

اکیلی رات

 

کتنی سخت سردی ہے

کیسی ڈھند ہے ہر سو

ایسی بیکرانی میں

برف کی کہانی میں

آگ ہے نہ شعلہ ہے

اور دل اکیلا  ہے

***

 

 

 

یہ موسم کا غذی پھولوں سے ٹالا جا رہا ہے

ہمیں گملوں سے آخر کب نکالا جا رہا ہے

ہوا کے بات میں ہیں کنجیاں سخت رسا کی

بہت اس شہر میں سکہ اچھالا جا رہا ہے

مبادا بیچ سے اکھوے نہ پھوٹ آئیں ہمارے

زمینیں کھود کر ہم کو نکالا جا رہا ہے

جلیں گے کیا خبر ہم قبر پر یا انجمن میں

ابھی تو موم کو سانچوں میں ڈھالا جا رہا ہے

ہوا ارشاد آلودہ ہیں باہر کی فضائیں

ہمیں پر کاٹ کے کابک میں ڈالا جا رہا ہے

شب صحرا! ترے ماتھے پہ اک بند یا سجانے

کف پا سے ستارہ بن کے چھالا جا رہا ہے

مرے قدموں کو اے ماں اے مری مٹی جکڑ لے

بڑی مشکل سے اب پرچم سنبھالا جا رہا ہے

***

 

 

اگر

 

نام و مقام و رُتبہ و منصب پہ ناز کیا؟

حالات تم سے گر یہ انعامات چھین لیں

پٹرول کے بھی دام نہیں ہوں گے جیب میں

تم سے اگر یہ ساری مراعات چھین لیں

***

 

 

 

ابھی آگ پوری جلی نہیں، ابھی شعلے اونچے اٹھے نہیں

سو کہاں کا ہوں میں غزل سرا مرے خال و خد بھی بنے نہیں

ابھی سینہ زور نہیں ہوا، مرے دل کے غم کا معاملہ

کوئی گہرا درد نہیں ملا ابھی ایسے چرکے لگے نہیں

اس سیل نور کی نسبتوں سے مرے دریچہ دل میں آ

مرے طاق چو ں میں ہے درشنی ابھی یہ چراغ بجھے نہیں

نہ مرے خیال کی انجمن نہ مرے مزاج کی شاعری

سو قیام کرتا میں کس جگہ مرے لوگ مجھ کو ملے نہیں

مری شہرتوں کے جو داغ ہیں مری محنتوں کے یہ باغ ہیں

یہ متاع و مال شک تگا ں ہیں، زکوٰۃ میں تو ملے نہیں

ابھی بیچ میں ہے یہ ماجرا سورہے گا جاری یہ سلسلہ

کہ بساط حرف و خیال پر ابھی پورے مہرے سجے نہیں

***

 

 

 

 

جسے آنسوؤں سے مٹائیں ہم جسے دوسروں سے چھپائیں ہم

سو یہ خیریت رہی عمر بھر کوئی حرف ایسا لکھا نہیں

ہمیں اعتبار نہیں ملا کوئی لمحہ اپنے لئے کبھی

لکھے دوسروں کے عذاب جاں، مگر اپنا نوحہ لکھا نہیں

***

ماخذ:

اردو پوئٹس ڈاٹ نیٹ،

اعتبار ساجد سے اجازت کے ساتھ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید