FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

یاد سی آ کے رہ گئیں بھولی ہوئی کہانیاں

 

فراقؔ گورکھپوری: یادیں، ملاقاتیں، خاکے

حصہ اول

 

یہ ای بک   اصل کتاب ’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘ کا دوسراحصہ ہے

 

                مرتبہ: عزیز نبیلؔ

 

 

 

عکس سا پڑ کے رہ گیا جیسے تری نگاہ کا

یاد سی آ کے رہ گئیں بھولی ہوئی کہانیاں

فراقؔ گورکھپوری

 

 

 

 

 

فراقؔ : چند یادیں

 

                ………آل احمد سرور

 

فراقؔ اس دور کے صفِ اوّل کے شعرا میں سے تھے۔ انھوں نے خاصی عمر پائی اور شاعری اور تنقید میں ایسا گراں قدر سرمایہ چھوڑا ہے کہ اسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ فراقؔ انگریزی کے استاد تھے۔ وہ اردو زبان و ادب کے عاشق، مغربی ادب کے رمز شناس اور ہماری مشترک تہذیب کے ایک گل سر سبد تھے۔ ان کے انتقال سے ہم ایک بلند پایہ شاعر، ایک بالغ نظر نقاد اور ایک جاندار اور طرحدار شخصیت سے محروم ہو گئے۔

فراقؔ کا نام میں نے سب سے پہلے اُس وقت سنا جب وہ آگرہ، یونی و رسٹی میں ایم۔ اے۔ انگریزی کے امتحان میں فرسٹ کلاس فرسٹ آئے۔ میں سائنس کا طالب علم تھا لیکن مجھے انگریزی ادب سے اس زمانے میں بھی گہری دلچسپی تھی۔ اس کے بعد اُن کی غزلیں رسالوں میں نظر سے گذریں۔ بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کے شروع میں مجنوںؔ  گورکھپور ’’ایوان‘‘ کے نام سے ایک رسالہ نکالتے تھے۔ اس رسالے میں اکثر ادبی مسائل پر فراقؔ کا اظہارِ خیال اور مجنوں کا جواب ہوتا تھا۔ ان مضامین سے یہ اندازہ ہوا کہ فراقؔ نے اردو شاعری کا بہت گہرا مطالعہ کیا تھا اور انگریزی ادب پر بھی گہری نظر کی وجہ سے وہ ایک وسیع تناظر میں ہمارے شعر و ادب کو پرکھنے کی کوشش کرتے تھے۔

اب اس وقت یہ یاد نہیں کہ سب سے پہلے ان سے کب ملاقات ہوئی۔ شاید پہلی ملاقات علی گڑھ میں ہوئی۔ جب وہ مولانا احسن مارہروی کی دعوت پر لٹن لائبریری میں منعقد ہونے والے ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے آئے اور انھیں کے یہاں قیام کیا۔ میں کئی دفعہ اُن سے وہاں ملا۔ وہ بہت دلچسپ آدمی تھے۔ لطیفے خوب سُناتے تھے اور با توں میں اپنی تعریف کا کوئی پہلو بھی نکال لیتے تھے۔ اُن کے بعض لطیفے نہایت شوخ ہوتے تھے جن کے بیان کا یہاں موقع نہیں۔ میرے ساتھ ایک ملاقات میں ڈاکٹر عترت حسین زیدی بھی تھے جو الہٰ آباد سے ایم۔ اے۔ کر چکے تھے اور فراقؔ سے ان کی اچھی ملاقات تھی۔ عترت کو مشہور انگریزی ما بعد الطبیعاتی شاعر جان ڈنؔ سے بہت دلچسپی تھی چنانچہ با توں میں ڈنؔ کی شاعری کی خصوصیات اور گہرے مذہبی عقیدے کے ساتھ شوخ و شنگ جسم کی شاعری کا بھی ذکر آیا اور فراقؔ نے بڑے مزے لے لے کر ان پر تبصرہ کیا۔ جس رات مشاعرہ ہونے والا تھا میں مولانا احسنؔ کے یہاں پہنچا اور ان کے یہاں سے فراقؔ کے ساتھ ہی مشاعرے میں گیا۔ یاد آتا ہے کہ کھانا ختم کرتے ہوئے فراقؔ نے کہا تھا کہ آج قتل کی رات ہے اور ہم سب لوگ ان کے اس جملے سے بہت محفوظ ہوئے تھے۔ مشاعرے میں پہنچے تو فراقؔ کی پیشین گوئی سچی ثابت ہوئی۔ دو، چار شعرا نے اپنا کلام سنایا تھا کہ مجمع میں شور بلند ہوا۔ سامعین نے جن میں زیادہ تعداد یونی ورسٹی کے طلبہ کی تھی، داد کو بے داد کر دیا اور کسی شاعر کو پڑھنے نہیں دیا۔ ستم یہ ہوا کہ سامعین نے جگہ کی قلّت کی وجہ سے ڈائس پر حملہ کیا اور بیشتر شعرا کو نیچے پناہ لینے پر مجبور کیا۔ ان میں فراقؔ بھی تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب کچھ نظم و ضبط قائم ہوا تو پھر صاحب صدر کی فرمائش پر کچھ مہمان شعرا نے اپنا کلام سنایا۔ ان میں فراقؔ بھی تھے۔ پہلے ہی شعر پر کتّے اور بلی کی بولیوں سے ان کا خیر مقدم ہوا۔ لیکن یہ بات دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہوئی اور مسرت بھی کہ فراقؔ نے بالکل برا نہیں مانا اور جب سامعین مختلف قسم کی بولیاں بولتے تھے تو فراقؔ قہقہہ لگاتے تھے۔ اُن کی غزل کا صرف ایک شعر ہی اس وقت یاد ہے : ؎

اے ساکنانِ دہر یہ کیا اضطراب ہے

اتنا کہاں خراب جہان خراب ہے

فراقؔ سے دوسری ملاقات الٰہ آباد میں اُن کے گھر پر ہوئی۔ میں اُس زمانے میں انگریزی میں ایم۔ اے۔ کر چکا تھا اور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں انگریزی کا لیکچر ر ہو گیا تھا۔ میری چھوٹی بہن جو میرے چچا کے پاس الٰہ آباد میں رہتی تھی۔ اس کو دیکھنے الٰہ آباد آ گیا تو الٰہ آباد یونی ورسٹی بھی گیا۔ ڈاکٹر اعجاز حسین سے شعبۂ اردو میں ملاقات ہوئی اور انھوں نے دوسرے دن شعبے میں چائے کی دعوت کی۔ اتفاق یہ ہوا کہ میں شعبہ پہنچنے سے پہلے فراقؔ کے گھر چلا گیا جو یونی ورسٹی کے قریب ہی بینک روڈ پر تھا۔ ان سے باتیں شروع ہوئیں تو اتنی دیر ہو گئی کہ چائے کا وقت نکل گیا۔ اس گفتگو میں فراقؔ نے بڑی دلچسپ باتیں کیں۔ یونی ورسٹی کے استادوں پر بڑے لطیف تبصرے کئے۔ اور امرنا تھ جھا کے متعلق جو اس وقت شاید وائس چانسلر تھے، بہت سے دلچسپ قصّے سنائے۔ ایک بات یہ یاد آتی ہے کہ اعجاز صاحب کی ایک نئی کتاب کا ذکر آ گیا تو اس کے متعلق ہمعصر شعرا پر تنقید کو میں نے سراہا۔ فراقؔ نے کہا کہ در اصل میری با توں میں ان شعرا پر جو تبصرے ہوتے تھے ان کو ہی اعجاز صاحب نے اپنے الفاظ میں پیش کر دیا ہے۔ اس قول کی صحت کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اس کے بعد فراقؔ کی شاعری کے متعلق ’’نگار‘‘ میں نیاز صاحب کا ایک مضمون چھپا۔ اس کا عنوان ’’یوپی کا ایک نو جوان ہندو شاعر۔ فراقؔ گورکھپوری‘‘ تھا لیکن اس عنوان میں لفظ ہندو کی میرے نزدیک ضرورت نہ تھی البتہ مضمون میں فراقؔ کی شاعری کے جو نمونے دئے گئے تھے اور اُن پر جو تنقید کی گئی تھی، دونوں کو میں نے بہت پسند کیا۔ اس مضمون میں جن اشعار کا حوالہ دیا گیا تھا۔ ان میں سے چند اب تک مجھے یاد ہیں ؎

 

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنّا نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست

آہ! اب مجھ سے تجھے رنجش بیجا بھی نہیں

٭٭٭

غرض کہ کاٹ دیے زندگی کے دن اے دوست

وہ تری یاد میں ہوں یا تجھے بھلانے میں

 

اس کے بعد فراقؔ سے کئی ادبی جلسوں اور مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہی۔ فراقؔ کا شعر پڑھنے کا ایک خاص انداز تھا۔ تحت اللفظ پڑھتے تھے، ہر لفظ پر زور دیتے تھے اور بعض الفاظ کو بہت کھینچتے تھے۔ پڑھتے ہوئے ان کی آنکھوں کی پُتلیاں بڑی تیزی سے گردش کرتی تھیں۔ بعض اوقات اپنے اشعار پڑھنے سے پہلے میرؔ یا غالبؔ یا کسی اور مشہور شاعر کے شعر کا حوالہ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ بات میں نے اس طرح کہی ہے۔ مشاعروں کی نبض پہچانتے تھے۔ جب سامعین کی داد بے داد ہو جاتی تو کوئی لطیفہ سناکر یا قہقہہ لگا کر انھیں منا لیتے۔ فراق کو اکثر مشاعروں میں، میں نے ہوٹ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن انصاف یہ ہے کہ وہ زچ کبھی نہیں ہوئے یا تو کسی فقرے سے بازی جیت لی یا چپکے سے اسٹیج سے اُتر آئے۔ انھوں نے کبھی سامعین کے سامنے رعونت یا بد دماغی کا ثبوت نہیں دیا۔ ہاں !یہ ضرور ہوتا تھا کہ ڈائس پر بیٹھے ہوئے شعرا کے لئے وہ کبھی کبھی اچھی خاصی مصیبت بن جاتے تھے۔ اس لئے کہ وہ اُن کے کلام پر بلند آواز سے تبصرہ کرتے تھے اور بعض اوقات ان تبصروں کی وجہ سے بات بڑھ بھی جاتی تھی۔ ۱۹۴۰ء کے لگ بھگ گونڈہ میں ایک ادبی کانفرنس منعقد ہوئی جس کے ساتھ ایک مشاعرہ بھی تھا۔ کانفرنس کے منتظم خواجہ مسعود علی ذوقی تھے۔ میں نے اس کا نفرنس میں سجاد انصاری پر ایک مقالہ پڑھا تھا۔ جوشؔ  بھی موجود تھے اور فراقؔ بھی۔ فراقؔ نے اپنی شاعری پر ایک مضمون پڑھا تھا۔ اس مضمون میں انھوں نے اپنے اشعار کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے دوسرے بہت سے مشرقی اور مغربی شعرا کا ذکر کیا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ فراقؔ کی نظر ادب پر بہت گہری تھی۔ گونڈہ کی کانفرنس کے بعد ۱۹۴۴ ء میں بستی کی ایک کانفرنس میں پھر اُن سے ملاقات ہوئی اس وقت تک ہم لوگ ایک دوسرے سے خاصے واقف ہو چکے تھے۔ بستی کی کانفرنس کے ساتھ جو مشاعرہ تھا اُس کی صدارت میں نے کی تھی اور فراقؔ نے اپنا کلام سنایا تھا۔ میں نے اپنے خطبۂ صدارت میں قدرے تفصیل کے ساتھ جدید اردو شاعری کے میلانات پر اظہار خیال کیا تھا۔ مشاعرے کے بعد فراقؔ نے کہا ’’سرورؔ صاحب۔ آپ نے اتنا لمبا خطبۂ صدارت پڑھا اس عرصہ میں آپ سات آٹھ شعرا کو بھگتا سکتے تھے۔ ‘‘

جب ۱۹۴۶ ء میں، میں لکھنؤ پہنچا تو فراقؔ سے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی بڑھا۔ نومبر ۱۹۴۶ ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جو بلی ہوئی۔ جو بلی کی تقریبات میں ایک مشاعرہ بھی شامل تھا۔ اس میں بہت سے ممتاز شعرا شریک تھے۔ جوشؔ، روشؔ، فیضؔ کے نام یاد آتے ہیں۔ فراقؔ نے غزل پڑھنے سے پہلے جامعہ سے اپنے جذباتی لگاؤ کا ذکر کیا۔ اور یہ بھی کہا کہ الٰہ آباد یونی ورسٹی سے ریٹا ئر ہونے کے بعد ان کا ارادہ مستقل قیام کرنے کا ہے۔ انھوں نے جو غزلیں سنائیں اُن میں سے ایک آتشؔ کی زمیں میں تھی۔ جس کا یہ شعر بہت پسند کیا گیا تھا ؎

 

منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں

وہی اندازِ جہانِ گزراں ہے کہ جو تھا

دوسری غزل پر انھیں زیادہ داد نہ ملی۔ پر وفیسر احمد شاہ بخاری پطرسؔ اور تاثیرؔ میرے قریب بیٹھے تھے۔ اور فراقؔ پر فقرے کس رہے تھے۔ مجموعی طور پر فراقؔ اس مشاعرے میں زیادہ کامیاب نہ رہے۔ پطرسؔ کا ایک فقرہ دلچسپ تھا۔ فراقؔ در اصل امجسٹ(Imagist ) ہیں۔

۱۹۴۷  ء کے آخر میں لکھنؤ ہی میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس کی مجلس استقبالیہ کا میں جنرل سکریٹری تھا۔ کانفرنس کے ایک اجلاس کی صدارت فراقؔ کے سپرد کی گئی تھی۔ اور انھوں نے ہماری دعوت منظور کر لی تھی۔ اُس زمانے میں کانفرنس اور مشاعرے کے سلسلے میں انتظامات کی وجہ سے بڑی مصروفیت رہتی تھی۔ فراقؔ دو دن پہلے گھر پر ملنے آئے۔ ان کے ساتھ تیغؔ الٰہ آبادی بھی تھے جو بعد میں مصطفٰے زیدیؔ کے نام سے مشہور ہوئے۔ میں نے فراقؔ سے کہا کہ اگر آپ اپنا خطبہ لکھ لیں تو بہت اچھا ہو۔ بس خفا ہو گئے۔ کہنے لگے ’’سرورؔ صاحب آپ تحریر کو اتنی اہمیت دیتے ہیں، تقریر کو نہیں۔ میں اپنی بات بھر پور انداز میں اپنی تقریر میں کہہ دیتا ہوں۔ پھر لکھنے کی زحمت کیوں کروں۔ ‘‘ میں نے کہا کہ ’’آپ کی تقریر تو واہ واہ کے بعد فضا میں تحلیل ہو جائے گی ہاں تحریر ہوئی تو ہم اس کو چھپوا کر محفوظ کر سکتے ہیں۔ ‘‘ اس پر کچھ دھیمے پڑے۔ لیکن لکھنے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ میرا خیال یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کے علاوہ خود بہت کم لکھتے تھے۔ میرے پاس ان کے بہت سے خط محفوظ ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب فراقؔ نے ایک اجلاس کے صدر کی حیثیت سے تقریر کی تو وہ تقریر ایسی مد لل، مرتب اور کیل کا نٹے سے درست زبان میں تھی کہ سامعین پر بہت گہرا اثر ہوا۔ اجلاس اردو زبان کے مسائل سے متعلق تھا۔ انھوں نے اردو زبان میں ہندستانی عناصر، اس کے لفظی سرمایے اور اس کے مزاج کے متعلق بڑی پُر مغز تقریر کی تھی۔ ان خیالات کو وہ برابر آخر تک دہراتے رہے۔ مگر جب بھی وہ تقریر کرتے تھے، ایک سماں بندھ جاتا تھا۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں تقریریں ٹیپ کرنے کا رواج نہ تھا، اب حال میں ایسا ہونے لگا ہے، اس لئے فراقؔ کی بہت سی تقریریں ضائع ہو گئیں۔ لیکن انھوں نے کچھ عرصہ پہلے ریڈیو پر جو انٹرویو دیے تھے وہ محفوظ ہیں اور ان سے نہ صرف فراقؔ کی نکتہ رس طبیعت اور شوخ و شنگ شخصیت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ان کی نظر کی گہرائی اور نکتہ سنجی بھی نمایاں ہوتی ہے۔

جب لکھنؤ میں ۷؎ ہیرو روڈ پر میرا قیام تھا تو وہاں ہر ہفتہ انجمن ترقی پسند مصنفین کا جلسہ ہوتا تھا اور اس کے علاوہ جو ادیب اور شاعر لکھنؤ آتے تھے وہ بھی ملنے آتے تھے۔ جوشؔ، جگرؔ، فراقؔ، اثرؔ لکھنوی، اقبالؔ احمد سُہیل، روشؔ صدیقی، آنندؔ نرائن مُلّا جیسے ممتاز شعرا کے علاوہ مجازؔ، جذبیؔ، مجروحؔ، ساحرؔ، جاں نثارؔ اختر یا تو انجمن ترقی پسند مصنفین کے جلسوں میں شرکت کرنے یا ملنے کے لئے آتے تھے، فراقؔ بھی کئی دفعہ آئے، ایک دفعہ دوپہر کے کھانے پر فراق بھی تھے اور روشؔ بھی۔ ان کے علاوہ لکھنؤ کے کئی ممتاز شعرا بھی تھے۔ فراقؔ دلچسپ باتیں کرتے تھے اور بحث کی انھیں خاصی عادت تھی۔ کسی مسئلہ پر روشؔؔ  سے الجھ گئے۔ لیکن با توں میں فراقؔ سے بازی لے جانا مشکل تھا۔ اس لئے میدان فراق کے ہاتھ ہی رہا۔

فراقؔ کے مدّاحوں اور دوستوں کا خاصا بڑا حلقہ تھا۔ اُن کی شخصیت اور شاعری کی وجہ سے لوگ ان سے متاثر بھی ہوتے تھے۔ لیکن ان کی بعض باتیں عجیب و غریب تھیں۔ وہ اگر کہیں مہمان ہوتے تو چاہتے یہ تھے کہ میز بان کی ساری توجہ ان کی طرف رہے۔ ایک دفعہ لکھنؤ آئے تو اپنے بھائی کے یہاں ٹھہرے۔ میں ان سے ملنے گیا۔ تو بھاوج کی شکایت کرنے لگے کہ ’’صاحب! وہ جب دال اپنے شوہر کے سامنے رکھتی ہے تو اس میں گھی بہت زیادہ ہوتا ہے اور میرے سامنے رکھتی ہے تو اس میں بہت کم ہوتا ہے۔ سرورؔ صاحب: بتائیے بھلا یہ کون سی تہذیب ہے۔ ‘‘ ایک اور میزبان سے انھیں یہ شکایت تھی کہ ’’وہ ناشتہ الگ کرتا ہے۔ خود چھپ کر دو انڈے کھاتا ہے اور مجھے ایک کھانے کو دیتا ہے۔ ‘‘

فراقؔ سرتا پا اپنی ذات اور شاعری میں غرق تھے۔ گھر بار سے انھیں چنداں دلچسپی نہ تھی۔ اپنی بیوی کی بدصورتی اور پھوہڑ پن کا تو وہ اکثر رونا روتے تھے۔ ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی کا بیان ہے کہ وہ جب الٰہ آباد میں ان سے رسالہ ’’جامعہ‘‘ کے لئے کچھ غزلیں حاصل کرنے کے لئے ملے تو اتفاق سے ایک دن پہلے ان کے جوان لڑکے نے خود کشی کر لی تھی۔ ہاشمی صاحب کا خیال تھا کہ اب ان سے سوائے تعزیت کرنے کے کوئی اور بات کرنا مناسب نہ ہو گا۔ چنانچہ انھوں نے اظہار ہمدردی کے طور پر چند کلمات کہنے کے بعد اجازت چاہی۔ لیکن فراقؔ نے انھیں روک لیا۔ اپنی شاعری کے متعلق دیر تک باتیں کرتے رہے اور رسالہ ’’جامعہ‘‘ کے لئے کئی غزلیں عنایت کیں۔ ہاشمی صاحب کہتے تھے کہ میں ان کی توجہ کے لئے تو ممنون تھا مگر مجھے یہ حیرت رہی کہ اتنے بڑے واقعے کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں معلوم ہوتا تھا۔

لکھنؤ کے قیام کا ایک واقعہ یاد آتا ہے۔ قاضی عبد الغفار حیدر آباد سے سبکدوشی کے بعد لکھنؤ آ گئے تھے اور اپنے داماد چودھری محمد سلطان کے یہاں ٹھہرے تھے انھوں نے ایک رات ہم لوگوں کی دعوت کی۔ جگرؔ اور فراقؔ لکھنؤ آئے ہوئے تھے۔ ان کو خاص طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ جگرؔ تو کسی وجہ سے نہیں آئے مگر فراقؔ موجود تھے۔ میں کھانے کے بعد کسی کام کے سلسلہ میں چلا آیا تھا۔ بعد میں ایک شعری نشست ہوئی۔ اس میں مجازؔ بھی تھے اور سردار جعفریؔ بھی۔ فراقؔ نے جو اشعار سنائے ان میں ایک جگہ بزمِ چراغاں کرتے ہیں، کی ترکیب باندھی تھی۔ سردارؔ نے اس پر اعتراض کیا۔ فراقؔ نے جواب میں غالبؔ کا یہ مصرع پڑھا ؎

جوش قدح سے بزم چراغاں کئے ہوئے

اور’ بزم چراغاں ‘ کو’ بزمِ چراغاں ‘ پڑھاسردارؔ نے کہا یہ بزمِ چراغاں کرتے ہیں، غلط ہے۔ اس پر خاصی نوک جھونک رہی۔ فراقؔ نے اپنی غلطی تسلیم نہیں کی لیکن دوسرے دن جب وہ میرے گھر آئے اور مجھ سے کہنے لگے ’’سرورؔ صاحب آپ تو رات چلے آئے بعد میں سردار نے میرے ایک شعر پر اعتراض کیا۔ کیوں صاحب بزمِ چراغاں کرتے ہیں کیا غلط ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ کہنے لگے۔ غالبؔ نے جو کہا ہے۔ میں نے جواب دیا غالبؔ نے بزم چراغاں کئے ہوئے کہا ہے۔ بزمِ چراغاں کرتے ہیں نہیں کہا ہے۔ پھر کچھ دیر خاموش رہے۔ بولے نیازؔ بھی یہی کہتے ہیں۔ انھوں نے پھر کوئی بحث نہیں کی۔

۱۹۴۷ ء کی گرمی کی چھٹیوں میں، میں اپنے وطن بدایوں گیا تھا وہاں اسی زمانے میں ایک آل انڈیا مشاعرہ ہوا جس میں فراقؔ بھی موجود تھے اور وحشیؔ کانپوری بھی۔ ان دونوں کے قیام کا انتظام علی مقصود صاحب کے گھر پر کیا گیا تھا، جواس زمانے میں میونسپل بورڈ کے چیر میں تھے، مشہور شاعرہ زہرا نگاہ ان کی بھتیجی ہیں۔ علی مقصود کے مکان کے سامنے میرے ماموں زاد بھائی مولوی قیوم بخش کا مکان تھا۔ گرمی کا زمانہ تھا مشاعرہ کو ئی ڈیڑھ بجے رات کو ختم ہوا۔ فراقؔ کی غزل توجہ سے سنی گئی۔ مگر انھیں کوئی خاص داد نہ ملی۔ مشاعرے کے بعد میں اپنے گھر چلا گیا اور فراقؔ اپنی قیام گاہ کو روانہ ہوئے۔ دوسرے دن دس گیارہ بجے میں اپنے مامو زاد بھائی کے ہاں گیا۔ دیکھا کہ وہاں وحشیؔ کانپوری موجود ہیں۔ مجھے انھیں وہاں دیکھ کر تعجب ہوا لیکن انھوں نے یہ کہہ کر کہ میں صبح یہاں منتقل ہو گیا ہوں، مجھے خاموش کر دیا۔ بعد میں میرے ماموں زاد بھائی نے مجھے بتایا کہ مشاعرے سے واپسی کے بعد فراقؔ اور وحشی،ؔ  علی مقصود کے یہاں پہنچے تو گرمی کی وجہ سے باہر لان پر ان کی چارپائیاں بچھی ہوئی تھیں۔ وحشیؔ صاحب تھکے ہوئے تھے فوراً سوگئے۔ بہت سویرے اٹھا کر تے تھے۔ جب آنکھ کھلی تو دیکھا کہ فراقؔ اپنی چارپائی پر ننگ دھڑنگ لیٹے ہوئے تھے۔ لباس کی تہمت سے بالکل بے نیاز۔ وحشیؔ صاحب گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اور سامنے والے مکان میں پناہ لی۔ فراقؔ کا قیام بدایوں میں کئی دن رہا۔ ان کے اعزاز میں کئی شعری نشستیں ہوئیں، جن میں انھوں نے شعر بھی سنائے اور لطیفے بھی۔ ایک نشست ایک نوجوان طالب علم مختارؔ آزاد کے یہاں تھی۔ فراقؔ نے حسب معمول کئی لطیفے سنائے جس پر سامعین لوٹ پوٹ ہو گئے۔ لیکن سب سے زور دار لطیفہ فراقؔ کے خلاف ہوا۔ جب شاعری کا دور شروع ہوا تو فراقؔ سے بھی فرمائش کی گئی۔ وہ اٹھ کر چکن کی جیب سے کوئی کاغذ نکالنے لگے۔ مختارؔ آزاد نے کہا ’’فراقؔ صاحب کیا کوئی لطیفہ تلاش کر رہے ہیں۔ ‘‘

لکھنؤ اور بارہ بنکی (دیوا شریف) کے کئی مشاعروں کی یاد آتی ہے جن میں فراقؔ، حسرتؔ، جگرؔ شریک ہوئے تھے۔ فراقؔ برابر والے شعرا کی کم ہی تعریف کرتے تھے۔ میں نے اُن کے منہ سے جگرؔ کی تعریف نہیں سنی۔ لیکن بعض غیر معروف شعرا کی بڑی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ..۔ .لکھنؤ میں ایک کاتب عشرتؔ لکھنؤی تھے جو شعر بھی کہتے تھے اور ہمارے ایک دوست ڈاکٹر زین العابدینؔ  قدوائی سے اصلاح لیتے تھے۔ ان کے ایک شعر پر فراقؔ نے کہا کہ یہ شعر حاصل مشاعرہ ہے۔ شعر تو معمولی تھا لیکن فراقؔ کی داد کی وجہ سے بار بار پڑھوایا گیا۔

فراقؔ کبھی کبھار مشاعروں میں شعر اپر فقرے کستے تھے، جس کی وجہ سے محفل میں ایک تناؤ پیدا ہو جا تا تھا۔ بستی میں ۱۹۵۴ ء میں ایک اردو کا نفرنس تھی۔ فراقؔ بھی اس میں موجود تھے۔ اور انھوں نے اردو زبان کی مقبولیت پر بڑی اچھی تقریر کی تھی۔ جب مشاعرے کا وقت قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ خاصی چڑھا چکے تھے۔ باتیں دلچسپ کرتے تھے لیکن خطرہ یہ تھا کہ کسی سے الجھ نہ جائیں۔ میں مشاعرے کا صدر تھا۔ چنانچہ میں نے منتظمین سے یہ کہا کہ فراقؔ مشاعرے کا افتتاح کرنے کے بعد اپنے خیمے میں آرام کر لیں اور گھنٹہ دو گھنٹے بعد اطمینان سے آئیں۔ مشاعرہ تو چار پانچ گھنٹے چلے گا۔ یہ ترکیب کار گر ہوئی اور فراقؔ نے ایک غزل سے مشاعرے کا افتتاح کیا اور اس کے بعد اپنے خیمے میں چلے گئے۔ مگر غضب یہ ہوا کہ جب مشاعرہ اپنے شباب پر تھا تو فراق تشریف لائے۔ وہ اس وقت کچھ زیادہ ہی ترنگ میں تھے اور آتے ہی پڑھنے والوں پر کوئی نہ کوئی اعتراض کرنے لگے۔ بعض شعرا جو فراقؔ کا احترام کرتے تھے، خاموش رہے لیکن بعض نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ میں نے انھیں سمجھا بجھا کر خاموش کر دیا اور بہرحال مشاعرہ بہت کامیاب رہا۔ لطیفہ یہ ہے کہ فراقؔ بھی خوش اور مطمئن رہے۔

۱۹۵۳ ء میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی کانفرنس دہلی میں ہوئی۔ صدارتی پینل میں فراقؔ بھی تھے اور میں بھی۔ اس زمانے میں عام طور پر اردو کے ادیبوں میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بے عملی کی وجہ سے خاصی بر ہمی تھی۔ فراقؔ نے ہوشیاری یہ کی کہ تھوڑی دیر ڈائس پر بیٹھنے کے بعد مجمع میں پہنچ گئے اور گپ لڑانے لگے۔ مخالفت کا سارا بار مجھے اور بنگالی ادیب گوپالؔ ہلدار کو اٹھانا پڑا۔ میں، احتشامؔ حسین، اور جاں نثارؔ اختر دہلی کالج میں خواجہ احمد فاروقی کے ساتھ ٹھہرے تھے۔ فراقؔ کا قیام کر نل بشیر زیدی کے یہاں نئی دہلی میں تھا۔ فراقؔ نے وہاں تین چار دن قیام کیا تھا اور بیگم قدسیہ زیدی نے ان کی بڑی خاطر کی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد کرنل بشیر حسین زیدی کسی سلسلہ میں الٰہ آباد آ گئے اور شام کو فراقؔ سے ملنے بینک روڈ پہنچے فراقؔ نے انھیں بالکل نہیں پہچانا۔ اور پوچھا: ’’ کہئے آپ کیسے تشریف لائے۔ ‘‘زیدی صاحب نے جب یہ دیکھا کہ فراقؔ نے انھیں پہچانا نہیں ہے تو انھیں مذاق سوجھا۔ کہنے لگے۔ ’’الٰہ آباد یونی ورسٹی میں لا ڈیپارٹمنٹ میں ایک جگہ خالی ہوئی ہے۔ میں نے اس کے لئے درخواست دی ہے۔ سنا ہے کہ وائس چانسلر سے آپ کے بہت گہرے مراسم ہیں۔ آپ ان سے میری سفارش کر دیجئے۔ ‘‘ انھوں نے نام پوچھا۔ کہا۔ ’’بشیر حسین۔ ‘‘ پھر دریافت کیا۔ ’’کہاں سے آئے ہو۔ ‘‘ کہنے لگے۔ ’’دہلی سے۔ ‘‘ اس پر فراقؔ نے چونک کر کہا۔ ’’تو آپ وہاں کرنل بشیر حسین زیدی کو جانتے ہوں گے۔ وہ میرے دوست ہیں۔ ‘‘ زیدی صاحب نے کہا ’’اسی خاکسار کو بشیر حسین زیدی کہتے ہیں۔ ‘‘ اب فراقؔ کا پینترا ملاحظہ ہو فوراً اپنے پیر سے چپل نکالی اور ان کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’مجھے دس جوتے ماریے کہ میں نے آپ کو پہچانا نہیں۔ ‘‘ اب زیدی صاحب کہہ رہے ہیں کہ ’’فراقؔ صاحب آپ یہ کیا کر رہے ہیں چھوڑیے بھی۔ ‘‘ مگر فراقؔ ہیں کہ زیدی صاحب کہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں کہ ’’مار یے صاحب میں اسی قابل ہوں۔ ‘‘ زیدی صاحب اب بھی ہنس ہنس کر یہ واقعہ بیان کرتے ہیں۔

۱۹۵۵ ء کے آخر میں، میں لکھنؤ سے ڈاکٹر ذاکر حسین وائس چانسلر کے بُلانے پر علی گڑھ واپس آ گیا۔ اس زمانے میں فراق کئی مشاعروں کے سلسلہ میں علی گڑھ آئے اور مجھ سے بھی ملاقات ہوئی۔ ۱۹۵۶ ء میں ایشیائی ادیبوں کی کانفرنس دہلی میں ہوئی۔ فراقؔ نے اس موقع پر بڑی اچھی تقریر کی اور ادب کے سماجی اور تہذیبی رول کو بڑی خوبی سے واضح کیا۔ خاص طور پر انھوں نے حکومت کی اردو سے بے پروائی اور بے انصافی کا گلہ کیا:

نومبر ۱۹۵۹ ء میں میری لڑکی کی شادی ہوئی۔ احباب کے ساتھ میں نے فراقؔ کو بھی بلایا۔ فراقؔ نے شادی میں شرکت کی۔ اور ایک خوب صورت مجسمہ لڑکی کو تحفے میں پیش کیا۔ اس موقع پر میں نے شعبۂ اردو اور شعبۂ انگریزی میں ان کے لیکچروں کا انتظام کیا تھا۔ فراقؔ نے چونکہ مغرب کے رومانی شعرا کا گہرا مطالعہ کیا تھا اس لئے شعبۂ انگریزی میں ان کی تقریر ’ورڈس ورتھ ‘پر تھی جو بہت پسند کی گئی۔ ۱۹۶۲ ء میں انھیں ’’گل نغمہ‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ اور یاد پڑتا ہے کہ انعامات کی تقسیم کے بعد انھوں نے اور ’سمتر آنند پنت ‘نے اپنا کلام بھی سنایا تھا۔ ۱۹۶۹ ء میں، میں کشمیر یونی ورسٹی میں کچھ تو سیعی لیکچر دینے کے لئے آیا تھا اور’ بڈ شاہ ہوٹل‘ میں ٹھہرا تھا اس زمانے میں یہاں ایک بہت بڑا مشاعرہ ہوا، جس کے لئے فراقؔ، مخدومؔ محی الدین، جگن ناتھ آزادؔ، خلیلؔ  الرحمن اعظمی، منیبؔ  الرحمن، شاذؔ تمکنت، وحیدؔ اختر، بلراجؔ کو مل، شہر یارؔ، کرشن موہنؔ، اور کچھ شعرا مدعو کئے گئے تھے۔ اس زمانہ میں فراقؔ نئے شعرا سے کچھ آزردہ تھے۔ مشاعرے سے ایک رات پہلے ٹورِسٹ ریسپشن سنیٹر میں سب شعرا جمع تھے۔ وہیں فراقؔ نے بلراجؔ کو مل کی نظم پر اس انداز میں تبصرہ کیا کہ ’’یہ سنڈاس سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘ اس پر خلیلؔ الرحمن اعظمی نے ان کی خوب خبر لی۔ دوسری دن صبح مخدومؔ محی الدین نے یہ سارا واقعہ مجھے سنایا۔ مجھے بھی مشاعرے میں کلام سنانے کے لئے مدعو کیا گیا تھا۔ میں جب پہنچا تو پتا چلا کہ کچھ شعرا نے یہ طے کیا تھا کہ فراقؔ صاحب اپنا کلام سنائیں گے تو ان کو داد بالکل نہ دی جائے گی اور ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔ میں نے اس خیال پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا اور جب فراقؔ کی باری آئی تو ان کو مناسب داد دی۔ ایک غزل سنانے کے بعد جب فراقؔ رُک گئے اور سامعین کی طرف سے کچھ اور سنانے کی فرمائش ہوئی، تو قبل اس کے کہ فراقؔ کوئی دوسری غزل شروع کریں، ان شعرا میں کسی نے کہا کہ ’’اب آپ اپنے پھٹکر اشعار سنائیں، آپ کے پاس یہی کچھ تو ہے۔ ‘‘ یہ ایک لطیف چوٹ تھی۔ کیونکہ فراقؔ خود بھی بعض مشاعروں میں متفرق اشعار، پھٹکر اشعار کہہ کر سنایا کرتے تھے۔

سری نگر میں مشاعرے کے بعد اچھا بل، ہانڈی پورہ اور سوپور میں بھی مشاعرے ہوئے۔ لیکن وہاں کوئی بے لطفی نہیں ہونے پائی۔ فراقؔ نے بھی اپنی طرف سے کوئی بے جا بات نہیں کی۔ وہ خاصے محتاط ہو گئے تھے۔

فراقؔ اور مجنوںؔ  کی بڑی گہری دوستی تھی اور فراقؔ مجھ سے برابر کہتے رہتے تھے کہ مجنوںؔ  کو کسی نہ کسی طرح سے علی گڑھ میں زیادہ سے زیادہ قیام کا موقع دیا جائے۔ جب مجنوںؔ  بالآخر پاکستان چلے گئے تو فراقؔ کو رنج ہوا۔ لیکن انھوں نے مجنوںؔ  کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ صرف ان کی مجبوریوں کا تذکرہ کرتے رہے۔ ۱۹۷۰   یا ۱۹۷۱ ء کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آتا ہے۔ گورکھپور یونی ورسٹی میں شعبۂ اردو کی طرف سے ’یوم فراقؔ ‘ منایا گیا تھا۔ اس میں شرکت کے لئے فراقؔ کے علاوہ مجھے، احتشامؔ حسین، خلیلؔ الرحمن اعظمی، شمیمؔ حنفی اور وحیدؔ اختر کو بھی مدعو کیا گیا۔ شری گو پال ریڈی گورنر یوپی، جلسے کے صدر تھے۔ ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا مگر زیادہ تر ہندی جاننے والے تھے۔ فراقؔ نے مجمع کا رنگ بھانپ لیا اور اپنی تقریر میں بہت سے لطیفے سنائے۔ مجمع کے مزاج کو دیکھتے ہوئے اپنے اردو اشعار کا ہندی میں ترجمہ بھی کرتے جاتے تھے۔ مثلاً آسمان، آکاش، روشنی، پرکاش، بہر حال فراقؔ نے کوئی پون گھنٹہ تقریر کی۔ لیکن ان کے جانے کے بعد کوئی نہ جما۔ میری مختصر تقریر تو لوگوں نے بے دلی سے سن لی۔ مگر احتشاؔم حسین کی تقریر پر خاصا شور مچا۔ در اصل وہ مجمع اردو کے اشعار نہ سننا چاہتا تھا اور نہ سمجھنا، صرف فراقؔ کو دیکھنے آیا تھا۔ دوسرے دن فراقؔ پر ایک سمینار ہوا، جس میں ان کی شاعری پر بہت سے اعتراضات بھی کئے گئے۔ فراقؔ برافروختہ بالکل نہیں ہوئے اور انہوں نے اپنے کلام پر نکتہ چینی خاموشی سے سن لی۔

۱۹۷۳ ء میں رام لعل نے لکھنؤ میں غیر مسلم اردو مصنفین کی ایک کانفرنس کی۔ اس میں فراقؔ کی ایک معرکہ آرا تقریر ہوئی اور اگر چہ اس میں بہت ممتاز ادیب اور مصنف موجود تھے مگر فراقؔ نے جس طرح اردو کی خصوصیات اور اس کی تہذیبی اہمیت کا ذکر کیا اس کا سب پر بہت گہرا نقش ہوا، واقعہ یہ ہے کہ اس موضوع پر فراقؔ کی ہر تقریر نہایت پر مغز اور دلکش ہوتی تھی۔

ملک نے فراقؔ کی بڑی قدر کی۔ انھیں ۱۹۶۲ ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ بعد میں ہندستانی ادبیات کا سب سے بڑا اعزاز گیان پیٹھ ایوارڈ بھی ان کو پیش کیا گیا۔ انھیں دسمبر ۱۹۸۱ ء میں غالبؔ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ ان کی شاعری پر تنقید کا یہ موقع نہیں۔ لیکن اتنا ضرور کہنا چاہتا ہوں کہ فراقؔ ہمارے بڑے غزل گو شعر امیں سے ہیں۔ انھوں نے اگر چہ نظمیں بھی کہی ہیں مگر نظم میں ان کا کوئی خاص کارنامہ نہیں۔ ہاں ان کی رباعیات خصوصاً روپؔ کی رباعیات بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کا اردو تنقید میں ایک اہم مقام ہے ’’اردو کی عشقیہ شاعری‘‘ اور ’’اندازے ‘‘ میں ان کی تاثراتی تنقید اپنے اندر ایک بانکپن رکھتی ہے۔ مصحفیؔ کی اہمیت کی طرف اگرچہ حسرتؔ نے سب سے پہلے توجہ دلائی تھی مگر فراقؔ کا مصحفیؔ پر مضمون مصحفیؔ کو اس کا حق دلانے میں سب سے زیادہ معاون ہوا۔ فانیؔ کی شاعری کی خوبیوں کا بھی انہوں نے دل کھول کر اعتراف کیا ہے۔ لیکن اقبالؔ کے ساتھ وہ انصاف نہ کر سکے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ وہ اقبالؔ کی فکرسے اپنے آپ کو ہم آہنگ نہ کر سکے۔ فراقؔ نے اپنے آپ کو Hindu Humanist کہا تھا۔ وہ مارکس سے ایک زمانے میں بہت متاثر تھے، مگر آخر میں یہ اثر کم ہو گیا تھا شاعری کے نئے میلانات سے بھی انہیں کچھ زیادہ ہمدردی نہ تھی۔ ان کی رنگارنگ شخصیت، تہہ دار شاعری، نکتہ آفریں تنقید اور آزاد ہندستان میں اردو ادب کی بقا کے لئے ان کی مسلسل کوششیں کبھی فراموش نہیں کی جا سکتیں۔ یہ دلچسپ بات ہے کہ فراقؔ اور جوشؔ ایک دوسرے سے خاصے قریب تھے۔ اور جوشؔ نے ’’یادوں کی برات‘‘ میں ان کی بڑی تعریف کی ہے۔ مجھے کچھ ایسا لگتا ہے کہ فراقؔ نے جوشؔ کی تقلید میں رباعیاں لکھنی شروع کی تھیں۔ لیکن ان میں ایک انفرادیت ضرور پیدا کر دی۔ جوشؔ کے انتقال پر فراقؔ کی جذباتی اور اکھڑی اکھڑی تقریر میں نے ریڈ یو پر سنی تھی۔ وہ اس زمانے میں آل انڈیا میڈیکل انسٹی ٹیوٹ میں زیر علاج تھے۔ کسے خبر تھی کہ جوشؔ کے انتقال کے بعد فراقؔ بھی اتنی جلد اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے۔ ان کے جانے سے ہماری شاعری کے دو اہم ستون گر گئے۔ رہے نام اللہ کا۔

فراقؔ کی جو غزلیں میں نے مختلف اوقات میں ان سے سنی ہیں ان میں سے حسب ذیل غزلیں مجھے زیادہ پسند آئیں۔ یہ فراقؔ کے مزاج کی بڑی اچھی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے مطلعے یہ ہیں۔

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

اک شرح حیات ہو گئی ہے

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا

وہی میل اور سنگ نشاں ہے کہ جو تھا

کچھ اشارے تھے جنھیں دنیا سمجھ بیٹھے تھے ہم

اس نگاہ آشنا کو کیا سمجھ بیٹھے تھے ہم

سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں

لیکن اس ترک محبت کا بھروسا بھی نہیں

یہ نرم نرم ہوا جھلملا رہے ہیں چراغ

ترے خیال کی خوشبو سے بس رہے ہیں دماغ

شام غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بے خودی بڑھتی چلی ہے راز کی باتیں کرو

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی

اب دورِ آسماں ہے نہ دور حیات ہے

اے دردِ ہجر تو ہی بتا کتنی رات ہے

نگاہِ ناز نے پردے اٹھائے ہیں کیا کیا

حجاب اہل محبت کو آئے ہیں کیا کیا

اب اکثر چپ چپ رہے ہیں یونہی کبھو لب کھولیں ہیں

پہلے فراقؔ کو دیکھا ہوتا اب تو بہت کم بولیں ہیں

نرم فضا کی کروٹیں دل کو دُکھا کے رہ گئیں

ٹھنڈی ہوائیں بھی تری یاد دلا کے رہ گئیں

٭٭٭

 

 

 

 

فراق صاحب

 

                ………پروفیسر جگن ناتھ آزاد

 

 

ہمارے یہاں ہر اچّھے شاعر کو بڑا شاعر کہہ دینے کی رسم عام ہے۔ ہو سکتا ہے یہ رسم مشاعروں کے رستے سے آئی ہو کیونکہ مشاعرے میں میرِ مشاعرہ کو شعرا کے تعارف میں وہ سب کچھ کہنا پڑتا ہے جو مشاعرے کو کامیاب بنا نے کے لئے ضروری ہو غالباً یہی سبب ہے کہ اردو میں بڑے شاعروں کی بھرمار ہے اور ہر شاعر بھی اس بات کا آرزو مند ہے کہ اسے بڑا شاعر کہا جائے۔ حالانکہ اچھّا شاعر ہونا یا اچھّا شاعر کہلانا بھی کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ حسرتؔ، اصغرؔ، فانیؔ، جگرؔ، یاسؔ، جمیلؔ مظہری، جوشؔ ملیح آبادی، محرومؔ، نادرؔ کاکوروی، سرورؔ جہاں آبادی، چکبستؔ، حفیظؔ جالندھری۔ یہ سب ہمارے اچھے بلکہ بہت اچھے شاعر ہیں۔ انھوں نے اردو شاعری کو جو کچھ دیا ہے اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ کیا ضروری ہے کہ ہم انہیں بڑا شاعر سمجھیں اور زبر دستی اس صف میں لے آئیں جس میں میرؔ، غالبؔ، اقبالؔ، ملٹن، فردوسیؔ، رومیؔ، ٹیگور، بھارتی اور تلسی داس آتے ہیں۔ کسی کو بڑا شاعر تسلیم کرنے سے قبل ہمیں بڑی شاعری کے لئے کوئی تو معیار مقر ر کرنا ہو گا۔ اس ضمن میں میرا خیال کا لرج کے ان الفاظ کی طرف جاتا ہے جس میں اس نے یہ کہا ہے کہ عظیم خیال جب جذبہ بنتا ہے تو بڑی شاعری معرض وجود میں آتی ہے اس کے ساتھ ہی اگر ہم یہ شرط بھی عائد کر دیں کہ وہ جذبہ اگر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ Sustained emotion کی صورت اختیار کرے تو بڑی شاعری کے معرض و جود میں آنے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔

فراقؔ صاحب کے بارے میں ان کی زندگی میں بھی اور آج بھی دو طرح کی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف تو وہ قاری ہے جو فراق کو اچھّا تو کیا معمولی شاعر ماننے کو بھی تیار نہیں اور دوسری طرف ان کے وہ مدّاح ہیں جو ان کے ذکر کے ساتھ یہ کہنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ غالبؔ اور میرؔ کے پائے کے شاعر ہیں اول الذکر طبقے کی بات یہاں ضروری معلوم نہیں ہوتی اس لئے کہ اقبالؔ یا غالبؔ کے متعلق بھی ایسی رائے رکھنے والے لوگ مل جائیں گو یعنی ایسے لوگ جو انہیں شاعر تسلیم نہیں کرتے۔ اب کسی کو اس بات پر مجبور کرنا کہ فلاں کو شاعر تسلیم کرو تنقید کا کام نہیں۔ ہاں دوسرے طبقے کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس پر بات چیت بہت ضروری ہے۔

مجھے چونکہ فراقؔ صاحب سے خاصا قرب رہا ہے اس لئے اگر میں اس بات چیت میں ان کی زبانی با توں کے حوالے کبھی دوں تو غالباً نامناسب نہیں ہو گا۔

فراقؔ صاحب کے ساتھ میرے گہرے مراسم کی ابتدا ۴۸  ء سے ہوتی ہے اور یہ مراسم ان کے انتقال تک قائم رہے صرف خط و کتابت کی حد تک نہیں بلکہ میل ملاپ کی صورت میں بھی میرے مراسم جوشؔ اور جگرؔ کے ساتھ بھی خاصے گہرے رہے ہیں اور اپنے دور کے بعض اہم اور قابلِ ذکر شعرا کے ساتھ بھی، اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ شاید ہی کوئی شاعر Self-publicity اور Self-advertisement کا اتنا قائل رہا ہوں جتنا فراقؔ صاحب۔ غالباً ہر شاعر اپنے کلام کی تعریف بھی پسند کرتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کے کلام کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھا بھی جائے لیکن فراقؔ صاحب کا معاملہ دوسرا تھا وہ اپنی پبلسٹی کے اتنے زیادہ مشتاق تھے کہ خود اپنے قلم سے اپنے بارے میں لکھ لکھ کر دوسروں کے نام سے چھپوانے میں بھی کوئی عیب نہیں سمجھتے تھے۔ فراقؔ صاحب نثر کی تنقیدی حیثیت کیا ہوتی تھی مثلاً ۱۹۳۷ ء میں جب فراقؔ کی غزلوں کا مجموعہ ’’ر مزو کنایات‘‘ چھپا تو اس کے بلرب پر فراقؔ نے لکھا:

’’شعریت میں ڈوبا ہوا تفکّر، عالمِ خیال میں ڈوبی ہوئی نغمگی، سنگیت میں ڈوبے ہوئے جذبات، وہ خلوص و صداقت جس میں گویا راگنیاں رچائی ہوئی ہوں، وہ آواز جو کائنات کے آنسوؤں میں نہائی ہوئی ہے اور جس آواز پر خیرو برکت کی روشنیاں اور پرچھائیاں پڑ رہی ہیں، یہ ہیں ’’رمز و کنایات‘‘ کی غزلوں کی ایسی خصوصیتیں جنھیں سوا فراقؔ کے اردو غزل کو کس نے دیں ؟ ذاتی محبت کے واردات میں جو نرمی، جو داخلیت جو گیرائی، جو گہرائی، تخّیل میں جو معصومیت و شرافت، شعور میں جو چٹیلا پن فراقؔ نے بھر دیا ہے وہ اردو شاعری کی تاریخ میں آپ اپنی مثال ہے یہ غزلیں ایک بار پڑھ کر رکھ دینے کی چیز نہیں ہیں بلکہ ہماری جیون ساتھی ہیں۔ فراقؔ کی آواز ہمیں رلاتی بھی ہے اور ہمارے آنسو بھی پونچھتی ہے۔ ‘‘

یہ ایک خوبصورت رومانوی انداز کی نثر ہے (اگر چہ یہ جملہ ساخت کے اعتبار سے غلط ہے یہ ہیں ’’رمزو کنایات کی غزلوں کی ایسی خصوصیتیں ہیں جنھیں فراق کے سوا اردو غزل کو کس نے دیں۔ ‘‘ جنھیں کی جگہ لفظ ’’جو‘‘ ہونا چاہئے ) اگر انشا پردازی کا نمونہ پیش کرنا ہو تو شاید ہم یہ عبارت اس نمونے کے طور پر بھی پیش کر دیں لیکن اس کی کوئی تنقیدی قدر و قیمت نہیں ہے۔ یہ مشاعرہ کی واہ وا کی طرح کی کوئی شے ہے۔

یا حال ہی میں ایک جدید نقّاد نے فراقؔ کے بارے میں لکھا ہے :

’’بلا شبہ فراقؔ گورکھپوری اس عہد کے ان شاعروں میں سے تھے جو کہیں صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی شاعری میں حیات و کائنات کے عظیم سنگیت سے ہم آہنگ ہونے کی عجیب و غریب کیفیت تھی۔ اس میں ایک ایسا حسن، ایسا رس اور ایسی لطافت تھی جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

فراقؔ نے اردو شاعری کو ایک آفاقی گونج دی۔ ان کی شاعری میں انسانی تہذیب کی صدیاں بولتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعر کے نغمے وہ ہاتھ ہیں جو رہ رہ کر آفاق کے مندر کی گھنٹیاں بجاتے ہیں۔ ان کی آواز میں ایک ایسا لوچ، نرمی اور دھیما پن ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں نہیں ملتا۔ ‘‘

یہ تنقید نہیں ہے بلکہ تنقید کے ساتھ مذاق ہے۔ غالباً یہ سطور لکھنے والے نقّاد کی نظر سے میر تقی میرؔ کی شاعری نہیں گذری ورنہ وہ یہ نہ لکھتے کہ فراقؔ کی آواز میں ایک ایسا لوچ، نرمی اور دھیما پن ہے جو پوری اردو شاعری میں کہیں نہیں ملتا۔

اگر ان کی نظر سے اقبالؔ کا کلام گذرا ہوتا تو یہ نہ لکھتے کہ فراقؔ نے اردو شاعری کو ایک آفاقی گونج دی اور ان کی شاعری میں انسانی تہذیب کی صدیاں بولتی ہیں۔ گویا فراقؔ سے پہلے اردو شاعری آفاقی گونج سے خالی تھی یا اقبالؔ کی شاعری میں انسانی تہذیب کی صدیاں دم بخود اور مہر بہ لب ہیں۔ یہاں مجھے مرزا یاس یگانہؔ کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

بلند ہو تو کھُلے تجھ پہ راز پستی کا

بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگائے ہیں کیا کیا

در اصل اس طرح کی تنقید میں تین عوامل کار فرما ہوتے ہیں ایک تو تقلیدی تنقید یا دو سرے لفظوں میں بھیڑ چال کی یہ بات جب سب کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہی ہو گی۔ میں کیوں نہ کہوں دوسرا خوش مذاقی کا فقدان جس کی بنیاد کلا سیکی شاعری کے رچاؤ سے بیگانگی ہے۔ تیسرا مختلف شعرا کی تحقیقات کا تقابلی مطالعہ نہ کرنے کا رجحان۔ یہ نام نہاد تنقید اگر ہمارے اس کو لوں، کالجوں یا یونیورسٹیوں میں راہ پا گئی تو وہ دن دور نہیں جب ع

کارِ طفلاں تمام خواھم و کی جس خدمت کا موقعہ مل جائے اور میں انجام دے سکوں۔ اردو محفل فورم میں اصلاح سخن کا کام بھی میں نے لے رکھا ہے۔کی، سوائے پنجابد شد

بلکہ میرا تو یہ بھی گمان ہے کہ جب نیازؔ فتحپوری نے اپنا مقالہ ’’یوپی کا ایک نوجوان ہندو شاعر‘‘ کے عنوان سے لکھا تھا تو وہ بڑی حد تک میر تقی میرؔ کی شاعری سے بے گانہ رہے ہوں گے۔ در اصل میرؔ کی دریافت تو بہت بعد میں شروع ہوئی اور ابھی تک اس سلسلے نے وہ زور نہیں پکڑا جس کا یہ مستحق ہے۔

فراقؔ صاحب کی ذہانت اور مطالعے کی فراوانی میں شک نہیں اگرچہ یہ مطالعہ کافی حد تک یک رخا رہا ہے۔ انہوں نے اس وقت میرؔ اور مصحفیؔ پر ہاتھ ڈالا جب اردو کے زیادہ تر نقّاد ان دونوں شعرا کے کمالات میں بڑی حد تک بے خبر تھے۔ اِکّا دُکّا مقالوں کو چھوڑئیے۔ محمد حسین آزادؔ نے مصحفیؔ کو انشاء کے مقابلے میں کم پائے کا شاعر ثابت کر کے رکھ دیا تھا اور میرؔ کی بات بہتّر نشتروں سے آگ نہیں بڑھی تھی اور فراقؔ کے دور کے اکثر و بیشتر نقّاد ایک حد تک اس چہار دیواری سے باہر نہیں نکل سکے تھے۔ اس وقت نیازؔ صاحب کو ’’یوپی کے ایک نوجوان ہندو شاعر‘‘ کے کلام میں جو تازگی، شگفتگی، نرم اور دھیما لہجہ یا اور جو محاسن نظر آئے ان کو انھوں نے اردو شاعری میں پہلا تجربہ یا پہلی کا وش سمجھا اور یہ سمجھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ ان کا سر چشمہ کہیں اور ہے اور وہ سمندر بہت بڑا اور بہت گہرا ہے جس میں سے یہ چند لہریں نکلی ہیں۔

پرانی بات ہے لاہور میں محمد طفیلؔ ’’مدیر نقوش‘‘ کے ساتھ فراقؔ کی غزل گوئی پر بات ہو رہی تھی۔ میں کہہ رہا تھا کہ فراق ہمارے ایک بہت اچھّے غزل گو شاعر ہیں۔ انھوں نے غزل کو نئے موضوعات بھی دئیے ہیں اور کسی حد تک نیا اسلوب بھی۔ ان کا کارنامہ حسرتؔ، فانیؔ اور اصغرؔ سے کم نہیں اور میں نے اپنی بات کی تائید میں اس طرح کے اشعار پڑھے۔

کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے اک مگر پھر بھی

ہزار بار زمانہ ادھر سے گذرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہگذر پھر بھی

پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا

وہ کوچہ رو کشِ جنّت ہو گھر ہے گھر پھر بھی

 

آتشِ عشق بھڑکتی ہے ہوا سے پہلے

ہونٹ جلتے ہیں محبّت میں دعا سے پہلے

 

اس دور میں زند گی بشر کی

بیمار کی رات ہو گئی ہے

اِکّا دُکّا صدائے زنجیر

زنداں میں رات ہو گئی ہے

 

ترکِ محبت کرنے والو! کون ایسا جگ جیت لیا

عشق سے پہلے کے دن سوچو، کون ایسا سکھ ہوتا تھا

 

بہت پہلے سے ان قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں

تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

طبیعت اپنی گھبراتی ہے جب سنسان را توں میں

ہم ایسے میں تری یادوں کی چادر تان لیتے ہیں

 

جہاں میں تھی بس اک افواہ تیرے جلووں کی

چراغ دیر و حرم جھلملائے ہیں کیا کیا

 

دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بے گانوں میں

لیکن اس جلوہ گہہ ناز سے اٹھتا بھی نہیں

ایک مدّت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں

 

یہ نہیں ہوتی تھی حالت جانبِ در دیکھ کر

آستان یار سے ہم آج اٹھ جائیں گے کیا!

 

کوئی پیغامِ محبّت لبِ اعجاز تو دے

موت کی آنکھ بھی کھُل جائے گی آواز تو دے

 

اس کھنڈر میں کہیں کچھ دیے ہیں ٹوٹے ہوئے

انہیں سے کام چلاؤ بڑی اُداس ہے رات

 

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آگے رہ گئیں

 

دل دکھے روئے ہیں شاید اس جگی اے کوئے دوست

خاک کا اتنا مہک جانا ذرا دشوار تھا

 

یہ در اصل فراقؔ کا منتخب کلام تھا جو مجھے ازبر تھا اور شاید اب بھی از بر ہے لیکن فراقؔ کی غزلوں میں نہ تو ایسے اشعار کی تعداد بہت زیادہ ہے اور نہ ہی فراقؔ کی شاعری اس معیار کی ہے۔ فراقؔ کی غزلوں کی پچانوے فیصد یا اس سے بھی زیادہ اشعار مذکورہ شعار کی سطح تک نہیں پہنچتے۔

لیکن میری بات چیت اور اشعارسن کر طفیلؔ صاحب نے جواب میں کہا۔ ’’آزادؔ !آپ چونکہ فراقؔ کو بہت قریب سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں اس لئے ان کی شاعرانہ عظمت آپ پر منکشف نہیں ہوئی۔ فراقؔ، میرؔ، غالبؔ کے پائے کے شاعر ہیں اگر فراقؔ کا ایک انتخاب شائع کیا جائے تو وہ غالبؔ کے پائے کا ہو گا۔

اگرچہ یہ بات وہیں ختم ہو گئی لیکن میرے دل میں ایک خلش چھوڑ گئی اور میں جب بھی فراقؔ کا کلام پڑھتا تھا طفیل کی یہ رائے میرے سامنے ایک سوالیہ علامت بن کر آ جاتی تھی۔

میرؔ ہمارے سب سے پہلے مفکّر شاعر ہیں۔ یوں تو میرؔ سے پہلے اردو کی صوفیانہ شاعری میں فکر کی جھلک نظر آ جاتی ہے لیکن پہلی بار فکر جذبہ بنتا ہوا، خیال محسوس بنتا ہوا میرؔ کے یہاں نظر آتا ہے۔ اگر چہ بقول پروفیسر آل احمد سرورؔ ۔ میرؔ کے یہاں وہ مسائل یا سوالات ڈھونڈنا بیکار ہیں جو غالبؔ کے یہاں ملتے ہیں۔ غالبؔ کے دور پر آنے والے زمانے کی پرچھائیاں پڑ رہی تھیں۔

یوں تو دو بڑے شاعروں کے تقابُلی مطالعے کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ میرؔ اور غالبؔ کا تقابلی مطالعہ ہویا غالبؔ اور اقبالؔ کا لیکن تقابلی مطالعہ میں ایک چیز جو نمایاں طور پر سامنے آتی ہے وہ ہے اپنے اپنے دور کا فرق۔ غالب کا دور میرؔ کے بعد کا دور ہے اور جب آل احمد سرورؔ یہ کہتے ہیں کہ غالبؔ کے دور پر آنے والے دور کی پرچھائیاں پڑ رہی تھیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ غالبؔ کی شاعری اپنے دور سے بھی متاثر ہو رہی تھی۔ ہر بڑا شاعر جہاں اپنے دور کو متاثر کرتا ہے وہاں اس سے متاثر بھی ہوتا ہے۔ فکری اعتبار سے آج گذرے ہوئے کل سے ایک قدم آگے ہے اور آنے والا کل آج سے۔ اس پیمانے سے ناپا جائے تو غالبؔ کا دور میرؔ کے دور سے ایک قدم آگے تھا چنانچہ غالبؔ کے یہاں فکر ایک باقاعدہ فلسفہ کی صورت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔ یہاں ایک بار پھر میں سرورؔ صاحب کے دو ایک جملوں کا حوالہ دینا چاہوں گا۔ وہ لکھتے ہیں۔ نئے نظام کی آمد نے غالبؔ کے دور کے سامنے جو مخصوص الجھنیں پیدا کی تھیں میرؔ کے زمانے میں ان کا احساس نہیں ہوتا تھا۔ زندگی کی وجہ سے جو سوالات غالبؔ کے ذہن میں آئے تھے اور اس کی وجہ سے ان کے یہاں جو فکر و فلسفہ ملتا ہے وہ میرؔ کے یہاں تلاش کرنا بیکار ہے۔

غالبؔ کے بعد اقبالؔ کا دور آیا۔ یہ دور فکری اعتبار سے غالبؔ کے دور سے ایک قدم آگے تھا چنانچہ اقبالؔ کے یہاں فلسفے نے ایک نظامِ فکر کی صورت اختیار کی۔ یہاں اس بحث میں پڑنا بیکار ہے کہ میرؔ غالبؔ اور اقبالؔ میں کون زیادہ بڑا شاعر ہے۔ ادب العالیہ میں اس طرح کے حکم صادر نہیں کئے جا سکتے ہر گل را رنگ و بوئے دیگر است۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ شعر میں فکر کو جذبہ بنا نے کی روایت جو میرؔ سے شروع ہوئی تھی اقبالؔ کے یہاں ایک پورے نظام فکر یا System of thought کو جذبہ بنانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔

فراقؔ کا دور اقبالؔ کے بعد آیا۔ اس دور میں مشرق اور مغرب کے فکری فاصلے اور کم ہوئے۔ جہاں تک فکر کو جذبہ بنانے کا تعلق ہے اقبالؔ کے بعد آنے والے کسی بھی بڑے شاعر کو اس میدان میں اقبالؔ کے مقابلے میں ایک قدم آگے بڑھانا چاہئے تھا لیکن ایک شاعر بڑا شاعر ہونے کا دعوا کرتے ہوئے میرؔ کے زمانے کو واپس چلا جاتا ہے اور میرؔ ہی کے انداز میں شعر کہتا ہے۔ یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ ابھی چند برس قبل میرؔ کے انداز میں شعر کہنے کی روش پاکستان میں بھی چل نکلی تھی اس پر میرؔ کے لب و لہجہ کو اپنانے والے شاعروں سے خطاب کرتے ہوئے حبیب جالبؔ نے کہا تھا۔

اپنے انداز میں بات اپنی کہو

میرؔ کا شعر تو میرؔ کا شعر ہے

ممکن ہے اس وقت حبیب جالبؔ کے سامنے فراقؔ کی شاعری بھی رہی ہو۔ فراقؔ کہتے ہیں۔

اک درد بھری آواز نئی پھر بزم سخن کو رلاتی ہے

یہ طرز فراقؔ سے پھر نکلی کوئی کہہ دے طرز میرؔ نہیں

یا ایک غزل میں جس کا عنوان ہی طرز میرؔ ہے کہتے ہیں۔

صدقے فراقؔ اعجاز سخن کے کیسے اڑائی یہ آواز

ان غزلوں کے پردے میں تو میر کی غزلیں بولیں ہیں

ادل تو یہ طرز میرؔ نہیں ہے اور بفرض محال اگر ہے بھی تو اس میں فراقؔ صاحب کا کیا کمال ہے ؟ امیں حزیںؔ  سیال کوٹی ساری عمر اقبالؔ کے رنگ میں شعر کہتے رہے اور رضا علی وحشتؔ غالب کے رنگ میں۔ اس سے کیا حاصل ہوا؟ خدا جانے دوسروں کے رنگ میں شعر کہنے والوں پر یہ حقیقت منکشف کیوں نہیں ہوتی کہ یہ کھلم کھلّا (یا درپردہ ہی سہی) اپنی شخصیت اور اپنی شخصیت کے اظہار سے ایک انکار ہے۔

منکر اواگر شدی منکر خویشتن شو!

جاں نثار اخترؔ کی کتاب ’’گھر آنگن‘‘ کے دیباچے میں کرشن چندرؔ نے فراقؔ کی رباعیات کا بھی ذکر کیا ہے اور یہ کہنے کے بعد کہ فراقؔ کی رباعیات گھر آنگن کے موضوع سے ہٹ گئی ہیں۔ لکھا ہے۔ ’’فراقؔ اس کے لئے قصوروار نہیں ہیں۔ ان کی گھر یلو زندگی اس کی ذمّہ دار ہے جس کا اعتراف انہوں نے بار ہا کیا ہے۔ ‘‘ در اصل یہ قصوروار یا بے قصور ہونے کی بات نہیں ہے شاعر کی limitationکی بات ہے۔

یہاں کرشن چندرؔ ایک اہم نکتے کو فراموش کر رہے ہیں۔ شاعری فوٹوگرافی نہیں ہے۔ فراقؔ کے گھر آنگن کے موضوع تک نہ پہنچنے کا سبب ان کی گھریلو زندگی نہیں ہے بلکہ یہ ہے کہ فراقؔ ان متنوع موضوعات کے شاعر نہیں ہیں۔ فراقؔ کی رباعیات فراقؔ کی غزل ہی کا ایک دوسرا روپ ہیں۔ فراقؔ کی زیادہ ترنظمیں سپاٹ اور پھیکی ہیں۔ صرف ان ہی نظموں میں فراقؔ ایک کامیاب شاعر نظر آتے ہیں جو فراقؔ کے محدود غزلیہ موضوع کے ساتھ ہم آہنگ ہیں۔ ہاں غزل کے روایتی موضوع حسن و عشق کو فراقؔ نے جو ایک ندرت عطا کی ہے اس سے انکار نہیں۔ ان حدود کے باہر اول تو فراقؔ نے کچھ کہا نہیں اور جو کچھ کہا ہے وہ درجۂ اول کی تخلیق نہیں۔

گھریلو زندگی والی بات اپنی جگہ جیسی ہے سوہے لیکن اگر فراق غزل کے محدود موضوع سے باہر ہو جانے کی صلاحیت رکھتے تو ان کی اس تلخ گھریلو زندگی کا ردّ عمل خوش گوار گھریلو زندگی کی شاعری میں ظاہر ہوتا لیکن فراقؔ اپنی تمام تر ذہانت اور علمیت کے باوجود اس شاعرانہ ردّ عمل کی لذتّ سے نا آشنا رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زندگی کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے باوجود ان کے یہاں زندگی کی جانب اتنا شدید ردّ عمل نہیں ملتا جس کی ایک حسّاس شاعر سے توقع کی جا سکتی ہے۔

میں نے اس بات چیت کے شروع میں یہ لکھا ہے Self-publicityاور Self-advertisement کے فراقؔ بہت قائل تھے۔ فراقؔ اس راز کو پا گئے تھے کہ ایک ہی بات اگر بار بار کہی جائے تو وہ سننے والے کے دل و دماغ پر کچھ نہ کچھ اثر چھوڑ ہی جاتی ہے۔ با توں کے مردِ میدان تو وہ تھے ہی غیر معمولی ذہانت سے لبریز، فکر آمیز گفتگو ان پر ختم تھی اور باتیں کرتے وہ کبھی تھکتے نہیں تھے لیکن بات چیت کی تان وہ اکثر اپنی شاعری ہی پر توڑتے تھے اور ماحول آفرینی کا کام بھی وہ ساتھ ہی ساتھ جاری رکھتے تھے جو ایک سامع کو متاثر کرتے ہوئے بات کرنے والے کی شاعری کی جانب متوجّہ کئے چلی جاتی ہے مثلاً وہ اپنا آئی سی ایس والا بے بنیاد قصّہ اس وقت بھی سناتے رہے جب پوری تحقیق کے بعد یہ ثابت ہو چکا تھا اور کئی رسائل اور اخبsغزلوں کے بارات میں چھپ چکا تھا کہ یہ واقعہ نہیں ہے۔ گپ ہے لیکن ان کی اس سالہا سال تک افسانہ طرازی کا نتیجہ یہ ہے کہ ابھی حال ہی فراقؔ کی شاعری کے نام سے دہلی سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے اس کے ابتدا میں یہ لکھا ہے کہ پہلے پی سی ایس اور بعد میں آئی سی ایس کے لئے منتخب کئے گئے۔ اس سے پہلے ’’گل نغمہ‘‘ کے دیباچے میں ڈاکٹر جعفر رضاؔ نے لکھا کہ فراقؔ ۱۹۱۹ ء میں پہلے ڈپٹی کلکٹر پھر آئی سی ایس کے لئے منتخب ہوئے۔ حالانکہ اس آئی سی ایس والی بات کی کوئی بنیاد ہی نہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آئی سی ایس ہونا کوئی بہت بڑی بات ہے یا شاعری سے اس کا کوئی خاص تعلق ہے لیکن اس سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ شاعر کا ذہن جا و بیجا طور پر Self-publicityکے لئے کن خطوط پر چل رہا ہے۔

میرے نزدیک فراقؔ کے اپنی شاعری کے تعلق سے اس دعوے کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے کہ میری شاعری میرے شاعر ہونے سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی۔ ابھی میں بچہ ہی تھا کہ میری ماں نے اور گھر کے اور لوگوں نے دیکھا کہ میں بدصورت عورت اور بدصورت آدمی کی گود میں نہیں جاتا تھا۔ مجھے صرف جسم ہی میں نہیں بلکہ لباس میں، طور طریقوں میں، چال ڈھال میں، آواز میں اور آدمیوں میں اور ان کی ہر بات میں پھوہڑ پن اور بھدا پن سخت ناپسند تھا۔ میرا خیال ہے کہ کوئی ذہین اور حسّاس بچہ کسی بدصورت یا بھیا نک نظر آنے والے مرد یا عورت کی گود میں جانے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔ ان با توں کا اپنی شاعری سے رشتہ جوڑ نا ایک دور از کار بات نظر آتی ہے۔

ایک غزل گو شاعر کے طور  پر میں فراقؔ کو معمولی درجہ کا شاعر ثابت کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ فراقؔ یقیناً غزل کے ایک اچھّے اور بہت اچھّے شاعر ہیں اس سے زیادہ نہیں۔ ان کی غزل کار چا ہوا لہجہ یقیناً دلوں کو کھینچتا ہے لیکن محض اس کی بنا پر انہیں بڑا شاعر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اپنے لہجہ کے بارے میں وہ کہتے ہیں۔

میں نے اس آواز کو مَر مَر کے پالا ہے فراقؔ

کاش یہ مصرع میر تقی میرؔ کی اس رباعی سے پہلے کہہ جاتے۔

ہر صبح غموں میں شام کی ہے ہم نے

خونابہ کشی مدام کی ہے ہم نے

یہ مہلتِ کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر

مر مر کے غرض تمام کی ہے ہم نے

یا مذکورہ شعر کے دوسرے مصرعے میں وہ یہی ایک لہجہ برقرار رکھ سکتے جس کی نشست و برخاست یہ ہے۔

آج جس کی رم سے لو ہے شمع محرابِ حیات

اب آپ دونوں مصرعوں کو الٹا پڑھ کے دیکھ لیجئے

ابھی میں عرض کر چکا ہوں کہ فراقؔ، اقبالؔ کے بعد آئے اور اقبالؔ کے بعد آنے والا شاعر ہے تو اس سے ہم بہت زیادہ توقع رکھتے ہیں صرف یہ کہنے سے بات نہیں بنتی:

فراقِ ہمنوائے میرؔ و غالبؔ اب نئے نغمے

وہ بزمِ زندگی بدلی وہ رنگِ شاعری بدلا

 

نماز شاعری ہے اور امامِ فن فراقؔ ہے

رکوع اور سجود زیر و بم ہیں صوتیات کے

 

فراق احساس کی ایسی ریاضت

حقیقی شاعری بھی ہے بڑا کام

 

سن لو کہ فراق آج یہاں گرم نوا ہے

اس دور میں اقلیمِ سخن کا وہ شہنشاہ

 

غالبؔ و میرؔ و مصحفیؔ

ہم بھی فراقؔ کم نہیں

 

یہاں میں فراقؔ کے ان کمزور، ساقط المعیار، ناموزوں اور اکھڑے اکھڑے لب و لہجہ والے اشعار کی مثالیں نہیں دوں گا جن کی تعداد سیکڑوں تک پہنچتی ہے بلکہ ان کے اچھّے اشعار ہی کی بات کروں گا جو وجدان کو متاثر کرتے ہیں اور جو فراق اپنے منتخب کلام کے طور پر ہمیں سنا چکے ہیں یہ غزل کے اچھّے اشعار ہیں دنیا کی بڑی شاعری نہیں ہے مجھے اس بات کا بھی بڑی فراخدلی سے اعتراف ہے کہ ہندو تہذیب کے ایک پہلو یعنی ادب کی جمالیات نے رُباعی کے پردے میں فراقؔ کے یہاں ایک بھرپور جھلک دکھائی ہے لیکن مجھے ان رباعیات میں ہندو فلسفے، ہندو تہذیب یا روایت کی جامعیت کا دور دور تک سراغ نہیں ملا، ہندو فلسفہ سے ہم سیکولرزم کے جوش میں ہندوستانی فلسفہ کہہ کے بہت خوش ہوتے ہیں اپنی پوری تابناکی کے ساتھ اقبالؔ کی اردو اور فارسی شاعری اور ان کی اردو اور انگریزی نثر میں نظر آتا ہے اور یہ جو میں نے فراقؔ صاحب کی رباعیات کے تعلق سے ہندو تہذیب کے ایک پہلو کا ذکر کیا ہے تو اس ضمن میں یہ کہنے کی بھی اجازت چا ہوں گا کہ رباعی میں ہندو تہذیب کی جھلک پیش کرنے کی اولیّت فراقؔ کو حاصل نہیں ہے۔ اس ضمن میں تقابلی مطالعہ کے لئے درگا سہائے سرورؔ اور محرومؔ کی شاعری پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہو گا۔

’’شعلۂ ساز‘‘ کے دیباچے میں یوسف ظفرؔ نے فراقؔ صاحب کی یہ عبارت نقل کی ہے۔

’’۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن میں شاعری ایسی کرنا چاہتا تھا، اپنے اشعار میں ایسی روح، ایسی فضا اور فضا میں ایسی تھرتھراہٹ چاہتا تھا کہ وہ تمام خوبیاں جلوہ گر اور اجاگر ہو جائیں جو اس قوم کی تہذیب میں ملتی ہیں۔ جس قوم نے مہابھارت اور رامائن، سیتا، شکنتلا، کرشن، بدھ اور ہندوستان کے قدیم آرٹ اور کلچر کو پیدا کیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘

فراقؔ صاحب کا یہ اقتباس چونکہ ان کے مجموعۂ غزلیات، شعلہ ساز۔ ہی کے عرض مرتّب میں درج ہے۔ اس لئے میں نے اس مجموعے کی غزلوں کو اول سے آخر تک دیکھ ڈالا۔ لیکن مجھے ایسے اشعار نہیں مل سکے جو اس دعوے کو حق بجانب ثابت کریں۔ چند اشعار اس طرح کے ملے مثلاً:

سرس نرم سنگیت ایک ایک اَدا میں

ستاروں کی پچھلے پہر گنگناہٹ

لٹکے لٹکے کالے گیسو گورے گورے لمبے بازو

مل کے رواں ہیں گنگ و جمن، ساتھ خراماں رام و لکھن

روپ سنگیت نے دھارا ہے بدن کا یہ رچاؤ

تجھ پہ لہلوٹ ہے بے ساختہ پن کیا کہنا

یہ اشعار مجھے فراقؔ صاحب کے اس مجموعۂ غزلیات میں نظر آئے ہیں جس کے دیباچے میں ان کی غزل میں ہندو تہذیب کو اُجاگر کرنے کا دعوا ہے۔

ان اشعار کے بارے میں مجھے قاری سے دو ایک سوال کرنا ہیں۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا سرس کا لفظ اردو زبان کا لفظ بن سکا ہے۔ اگر نہیں تو اس نوع کے الفاظ کو اردو میں گھسیڑنے کی کوشش کیوں کی جائے۔ اور کیا ہندو تہذیب اور ہندو فلسفے سے یہی مراد ہے جو کچھ ان اشعار میں کہا گیا ہے (اس بات سے قطعِ نظر کہ دو سرے شعر کا مصرعہ ثانی خارج از بحر ہے خارج از بحر سے میری مراد یہ ہے کہ دوسرے مصرع کی بحر پہلے مصرعے کی بحر سے مختلف ہے لیکن میں فراقؔ صاحب کے خارج از بحر اشعار کو اس وقت خارج از بحث قرار دے کر نظر انداز کر رہا ہوں کیونکہ اس طرح کے اشعار کو لانے سے میری ساری بات چیت اپنی پٹری سے اتر جائے گی۔

اب اس سلسلے میں چند اور اشعار دیکھئے۔

یہ صبح یہ سجل روپ کی جگمگاہٹ

یہ لہکی ہوئی رسمسی مسکراہٹ

دھندلکے میں وہ جوئے سیمیں بدن کی

ستاروں کی کرنوں کی وہ لہلہاہٹ

تناؤ مدھ بھرے سینے کا یہ کمر کا کٹاؤ

خطوط جسم سرنگی کے ہیں کھنچے ہوئے تار

وہ پچھلی شب نگہ نرگسِ خُمار آلود

کہ جیسے نیند میں ڈوبی ہوئی ہو چندر کرن

دلوں کو تیرے تبسّم کی یاد یوں آئی

کہ جگمکا اٹھیں جس طرح مندروں میں چراغ

قدِ جمیل ہے یا کام دیو کی ہے کماں

نظر کے پھول گندھے تیر کرتے جاتے ہیں وار

یہ فراقؔ صاحب کے خوبصورت اور دلکش اشعار ہیں لیکن اگرساری ہندو تہذیب سجل روپ، دیپ مالا، مدھ بھرے سینے، کمر کا کٹاؤ، چندر کون، مندروں میں چراغ اور کام دیو کی کمان میں سمٹ کے رہ گئی ہے اور یہی اس تہذیب کا طول و عرض ہے اور یہی اس کا ماحصل ہے۔ تو عالمی تہذیبوں کے پیمانے سے یہ ایک معمولی اور غیر اہم تہذیب ہے۔ اس سے تو میں اس نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ ساری ہندو تہذیب شرنگار رس کی شاعری کے علاوہ ہمیں کچھ بھی نہیں دے سکی لیکن یہ حقیقت نہیں ہے اگر یہ حقیقت ہوتی تو مجھے بطور ہندو کے اس عظیم تہذیب کا وارث کہلا کر بڑی شرم آتی لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ یہ مفروضہ limitations ہندو تہذیب کی نہیں ہیں۔ یہ فراقؔ صاحب کی اپنی حقیقی limitations ہیں جو قبل از وقت فارسی اور سنسکرت کا عالم ہونے کا دعوا کر بیٹھے۔ وید، اپنشد، گیتا، رامائن اور مہابھارت یا کالی داس، تلسی داس کی شاعری کی بات میں کیا کروں (میں نے تو صرف ان کے ترجمے ہی دیکھے ہیں ) میرا سوال تو صرف اتنا ہے کہ اقبالؔ کے ’’جاوید نامہ‘‘ میں ہندو تہذیب کا وہ ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر کس کھاتے میں جائے گا جو ہمیں زندہ رود (اقبال) اور شوخی کی گفتگو میں یا اقبالؔ اور بھر تری ہریؔ کی بات چیت میں نظر آتا ہے۔

فراقؔ صاحب نے اپنے آپ کو ساری ہندو تہذیب کی نمائندگی کا شرف بخشتے ہوئے شاید اپنے قاری کو مشاعرہ کا سامع سمجھ لیا ہے جو شاعر کی گلے بازی سے مسحور ہو کر سراب میں غوطے کھانے لگتا ہے۔

’’روپ‘‘ کے دیباچے میں فراقؔ صاحب لکھتے ہیں ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اردو شاعری فارسی شاعری کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے لیکن ایڑی چوٹی کا پسینہ ایک کر کے بھی کیا اردو شاعری ایرانی شاعری بن سکی؟ کیا اردو اور فارسی شاعری میں وہ مشابہت پیدا ہو سکی کہ اس کو چھپاؤ اس کو نکالو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نقل اور اصل کا فرق جہاں کا تہاں رہ جاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ فراقؔ صاحب یہ کہہ کر اپنی علمیت کا ثبوت دے رہے ہیں یا معصومیت کا، آخر یہ دعوا ہی کس نے کیا ہے کہ اردو شاعری ایرانی شاعری بن گئی ہے یا بننا چاہتی ہے۔ کیا اردو شاعری کا کمال یہ ہے کہ وہ ایرانی شاعری بن جائے کیا ہم نے کبھی یہ دعوا کیا ہے کہ اردو اور فارسی شاعری میں وہ مشابہت پیدا ہو بھی جائے تو یہ اردو شاعری کا کون سا بڑا کمال ہو گا۔ ایسا دعویٰ ہم کیوں کریں جب ہم اردو شاعری اور فارسی شاعری میں اس طرح کی مشابہت پیدا کرنا ہی نہیں چاہتے۔ اردو شاعری نے فارسی سے بہت کچھ لیا ہے لیکن اس کے باوجود اردو شاعری کی اپنی ایک الگ حیثیت ہے، یہ فارسی شاعری کا دم چھلّا نہیں ہے۔ یہ خود اپنی جگہ ایک حقیقت ہے۔ اردو شاعری کو نقلی اور فارسی شاعری کو اصلی کہہ کے فراقؔ صاحب نے شاعری کا نقاد ہونے کا ثبوت دیا ہے نہ سخن فہم ہونے کا۔ یہ ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی بات ہے۔

غالبؔ اور اقبالؔ نے اردو شاعری بھی کی ہے اور فارسی شاعری بھی لیکن ہم نے کبھی ان کی اردو شاعری کو ان کی فارسی شاعری کا چر بہ نہیں سمجھا نہ ہی ان کی دونوں زبانوں کی شاعری کو ایک ہی پیمانے سے ناپا حالانکہ دونوں ہندوستان کے شاعر ہیں اور ان کی اردو اور فارسی شاعری کا تقابلی مطالعہ کی وجہ جواز بھی پیدا ہو سکتی ہے ( یعنی غالبؔ کی اردو اور فارسی شاعری کا تقابلی مطالعہ یا اقبالؔ کی اردو اور فارسی شاعری کا تقابلی مطالعہ) لیکن ہم نے ان کی اردو شاعری کو اردو شاعری سمجھا چہ جائے کہ ہم اردو والے اردو شاعری کا مقابلہ ایرانی شاعری سے کرتے پھریں۔ ہاں اس طرح کے تقابلی مطالعے کی گنجائش ضرور ہے کہ ہندو ستانی فارسی شعراء کا تقابلی مطالعہ ہم ایران کے شعرا سے کریں۔

اسی بحث میں فراقؔ صاحب کہتے ہیں۔ ’’اردو شاعری فارسی شاعری نہیں بن سکی اور وہ ہندوستانی شاعری بھی نہیں بن سکی۔ کچھ عجیب الخلقت سی ہو کر رہ گئی۔ ‘‘ یہ عجیب الخلقت والی بات بھی خوب رہی۔ اب اس کے سوا اور کیا کہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کر شمہ ساز کرے۔ یہاں فراقؔ صاحب نے پھر متضاد قسم کی باتیں کہی ہیں۔ یہ کہنا کہ ’’اردو شاعری فارسی شاعری نہیں بن سکی اور وہ ہندوستانی شاعری بھی نہیں بن سکی‘‘ اردو شاعری پر خواہ مخواہ کا الزام ہے۔ اردو شاعری جب فارسی شاعری بننا ہی نہیں چاہتی اردو شاعری ہی رہنا چاہتی ہے تو بار بار اسے نہ بن سکنے کا طعنہ کیوں دیا جا رہا ہے۔ فراقؔ صاحب کہتے ہیں کہ وہ ہندوستانی شاعری بھی نہیں بن سکتی۔ میں یہ تسلیم کرنے کو تیّار نہیں کہ فراقؔ صاحب یہ بات دیا نتداری کے ساتھ کہہ رہے ہیں کیونکہ اگر میں یہ تسلیم کر لوں تو پھر فراقؔ صاحب کی کم مطالعگی کا ثبوت مجھے فراہم کرنا ہو گا اور یہ ثبوت میں تو کیا کوئی بھی پیش نہیں کر سکتا کہ فراقؔ صاحب نے محمد قلی قطبؔ شاہ، نظیرؔ اکبر آبادی، میر انیسؔ، اکبرؔ الہٰ آبادی، غالبؔ، اقبالؔ چکبستؔ، درگاسہائے سرورؔ، جمیلؔ مظہری، تلوک چند محرومؔ، حسرتؔ موہانی، جوشؔ یلح آبادی، سیمابؔ اکبر آبادی، حفیظؔ جالندھری، سردارؔ جعفری، ساحرؔ لدھیانوی، سکندرؔ علی و جد، سلامؔ مچھلی شہری جاں نثار ا خترؔ، مجازؔ، کیفیؔ اعظمی اور بیسیوں دوسرے شعرا کا کلام سرے سے نہیں پڑھا۔ اسی رو میں فراقؔ صاحب کہتے ہیں۔ کہ ’’میں اردو شاعری کا دلدادہ ہوتا ہوا اردو شاعری سے نا آسودہ رہنے کا احساس کرتا رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بعد کو شاعری میں میری کوشش خواہ غزل ہو یا نظم یا رباعی محض اضطراری چیزیں نہیں تھیں بلکہ ان کوششوں میں ہندوستان کے کلچر کی تھر تھرائی ہوئی زندہ رگوں کو چھو لینا چاہتا تھا۔ ‘‘ مجھے فراق صاحب کے اس بیان میں ذرا بھی شک و شبہ نہیں۔ کوشش انھوں نے ضرور کی ہو گی ممکن ہے انھوں نے ہندوستان کے کلچر کی تھر تھراتی ہوئی رگوں کو چھو بھی لیا ہو لیکن ان کے چھونے کا یہ عمل ان کی نمائندہ صنفِ سخن یعنی غزل میں بالکل نظر نہیں آتا۔ رباعی میں ہندوستانی کلچر کی تھر تھراتی ہوئی زندہ رگوں کو چھو لینے کا عمل صرف معشوقہ یا معشوق کا سرا پا بیان کرنے کے عمل ہی تک محدود رہ گیا ہے۔ یا زیادہ سے زیادہ عورت کے بدن کو چھو لینے کے عمل تک۔ میں ہندوستانی کلچر کے بارے میں بہت نہیں جانتا لیکن اتنا جانتا ہوں کہ ہندو کلچر، مسلم کلچر اور عیسائی کلچر کے امتزاج سے جو ہندوستانی کلچر معرض و جود میں آیا ہے اسے صرف اس شاعری میں محدود کر دینا جو روپ کی رباعیات میں نظر آتی ہے۔ اس پورے کلچر کا مفہوم نہیں ہو سکتا۔ یہ تو صرف شرنگار رس ہے جو ہندی شاعری میں ایک اہم صنف سخن ہے۔ مجھ کم علم کا خیال یہ ہے کہ اس ہندوستانی کلچر میں مذہب یا دھرم، فلسفہ، تاریخ اور عمرانیات کی گہرائیاں بھی پوشیدہ ہوں گی کم از کم اقبالؔ، رادھا کرشننؔ، راج گوپالؔ آچاریہ، ابوالکلام آزادؔ، ٹیگورؔ اور سبرامنیم بھارتیؔ کی تحریروں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔

اس کے ساتھ ہی جنسی محرکات کو پاکیزہ اور لطیف بنانے کے دعوے سے متعلق بھی میری ناقص رائے یہ ہے کہ یہ فراقؔ کا اوریجنل کارنامہ نہیں ہے۔ ہماری ساری غزلیہ شاعری روز اول سے آج تک محض ہو سنا کی کا شکار نہیں رہی ہے۔ اس میں طہارت اور پاکیزگی بھی اپنے جلوے دکھا رہی ہے۔ ولیؔ وکنی کا شعر ہے۔

ولیؔ اس گوہر کانِ حیا کی کیا کہوں خوبی

مرے گھر اس طرح آتا ہے چوں سینے میں راز آوے

اور پھر میرؔ کے یہاں آ کے یہ جذبہ اور زیادہ پنپا اور پھولا۔ اقبالؔ کے یہاں جنسی شاعری کی پاکیزگی اپنی انتہائی بلندی پر نظر آتی ہے اور جب جگرؔ صاحب کے یہاں ہمیں اس طرح کی شاعری ملتی ہے۔

اس شاہدِ لفظ و معنی سے ملنے کی تمنّا سب کو ہے

ہم اس کے نہ ملنے پر ہیں فدا لیکن یہ مذاق عام نہیں

تو ہم یہ کیسے مان لیں کہ ولیؔ سے لے کر جگرؔ تک تمام شعراء فراقؔ صاحب سے متاثر ہوئے ہیں۔

جہاں تک زبان و بیان کا تعلّق ہے۔ میں گوپی چند نارنگؔ کے اس خیال سے متفق ہوں کہ ’’ فراقؔ کو زبان پر وہ قدرت نہیں جو جوشؔ کو حاصل ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فراقؔ کے یہاں الفاظ کبھی کبھی جذبہ و خیالات کا ساتھ دیتے ہوئے محسوس نہیں ہوتے ‘‘ لیکن میں اس کو بڑی شاعری کی تخلیق کے رستے میں کوئی رکاوٹ نہیں سمجھتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

فراق، تاثرات اور یادیں

 

                ………دوارکاداس شعلہ

 

 

فراؔق کو جو بات موجودہ دور کے ادبا سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کی بے مثل ذہانت تھی جس کے بل بوتے پر ان کی حاضر جوابی ضرب المثل بن گئی تھی۔ ان کا انتقال چھیاسی برس کی عمر میں دہلی کے ایک ہسپتال میں ہوا۔ بیمار تو وہ تھے کئی برس سے، فالج نے انھیں اپاہج کر رکھا تھا مگر مرنا آسان رہا کہ دو ہی ہچکی میں زندگی سے ناطہ توڑ دیا، دنیوی مکروہات اور غم عشق سے نجات کا یہ سلیقہ بھی ان کی انفرادیت کا آئینہ دار ہے ؎

 

وہ جن کے پاؤں چھونے کو جھکتا تھا آسمان

کیا لوگ تھے کہ زیر زمیں جا کے بس گئے

 

وہ ذہین تھے، نکتہ رس اور نکتہ آفریں تھے۔ دوسروں کے شعر سنتے وقت اکثر مصرع اٹھاتے تو مصرع ثانی کہہ دیتے۔ کبھی وہ متعلقہ شاعر ہی کا ہوتا ورنہ بہتر کہ ہر اس شعر کو جس میں فراقؔ کا رنگ شامل ہو جائے بہتر ہونا ہی تھا۔

وہ خود ذہانت آسودہ تھے اس لئے ان کو اگر یہ وصف کسی اور میں نظر آتا تو کھل کر داد دیتے۔ صرف واقعہ سے بات نہیں بنتی مگر ہوا کا رخ تو معلوم ہو ہی جاتا ہے۔ ان کے پڑوس میں ایک بزرگ ادب و ادیب نواز رہتے تھے جن کا برابر آنا جانا تھا۔ ایک مرتبہ آئے تو ان کا دو ڈھائی برس کا ہونہار پوتا بھی ہمراہ تھا۔ وہ نچلا نہ بیٹھتا تھا۔ مولانا نے تنبیہ کی تو اس نے کہا ’’آپ گدھے ہیں ‘‘ فراقؔ نے بچہ کے با موقع احتجاج کی داد دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’لڑکا مہذب و مؤدب تو ہے کہ آپ کو تم یا تو سے خطاب نہیں کیا مگر اصل خوبی یہ ہے کہ مردم شناس بھی ہے۔ ‘‘

وہ بسیار گو تھے۔ بیس پچیس شعر کی غزل کہہ لینا تو معمولی ہی تھا مگر کبھی معاملہ طول پکڑتا تو پچاس تک پہنچتا۔ میں نے ایک مرتبہ اشارہ کیا تو فرمایا کہ ’’کیا کروں، رات اکثر نیند نہیں آتی تو شب بیداری کو بہلانے کے لئے شعر ہونے لگتے ہیں اور نمود سحر سے پہلے غزل طویل۔ ‘‘

فراقؔ یقیناً اچھا شعر کہنے پر قادر تھے۔ کاش انتخاب ان کے بس کی بات ہوتی۔ ایسا ہوتا تو ہر شعر تیر و نشتر کی حیثیت رکھتا مگر وہ اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ شعر شاعر کی معنوی اولاد ہوتا ہے اور اولاد کو نہ عاق کرنا نامناسب مستحسن ہوتا ہے نہ قربان کرنا۔ اسی لئے ان کے فرمودوں میں بلند و پست کا حسین امتزاج نمایاں ہے اور ان کے مزاج کا رنگ بدستور غالب۔ میں نہیں جانتا کہ ان کے سب شعر منصۂ شہود پر آ چکے مگر کہاں آئے ہوں گے کہ چالیس پچاس شعر روز کہنے کا کلام لاکھوں تک پہنچتا ہے اور اس قدر اشعار کتابی صورت میں کہاں ہیں۔ ممکن ہے رسالوں اور جریدوں میں بکھرے پڑے ہوں یا پھر مخطوطات کے بستوں میں۔

ان کی یادداشت پختہ تھی اور معتبر۔ اساتذہ اور معاصرین کے سیکڑوں شعرا زبر تھے اور لطیفوں اور دلچسپ واقعات کا تو ان کے یہاں کبھی نہ ختم ہونے والا خزانہ تھا۔ نجی محفلوں میں وہ چہکتے تو نشست کو جہاں اشعار سے لالہ زار بنا دیتے وہیں لطف ظرافت و مزاح سے زعفران زار، شعر نہایت اطمینان سے پڑھتے اور تحت لفظ مگر لطائف اتنی تیزی سے سناتے کہ کبھی تو کچھ پلے ہی نہ پڑتا۔ پہلی مرتبہ مجھے شک ہوا کہ یہ بات میرے ذہن کی نارسائی اور کج فہمی کے باعث مجھ ہی سے متعلق ہے مگر حاضرین سے استفسار پر پتہ چلا کہ معاملہ ان کا بھی برعکس نہیں تو اطمینان ہوا کہ اس حمام نا فہمی میں ہم سب یکساں ننگے تھے۔

احسانؔ دانش جب لاہور پناہ ہوئے اور مجھ سے متعارف تو نجانے مجھ پر اس درجہ کیوں مہربان ہو گئے کہ صبح و شام ملاقات ہونے لگی۔ میں اس شاعر مزدور کے شعر اور شعریت سے متاثر تھا مگر وہ گا کر پڑھتے جس میں کرختگی ہوتی اور اس نغمگی کا فقدان جو ترنم کی جان ہوتی ہے اور خوش ذوقی کی پہچان۔ ہاں تو کچھ دنوں کی بے تکلفی کے بعد وہ مجھ کو یوں نوازنے لگے کہ جب بھی کوئی قابل ذکر شاعر لاہور وارد ہوتا اور ان سے ملتا تو وہ بہ اہتمام اسے میرے یہاں بھی لاتے۔ یہی کرم فرما جوشؔ ملیح آبادی کو لائے، یہی اصغرؔ و جگرؔ کو اور یہی فراقؔ کو بھی۔ اور بھی بہت سے مشاہیر جن کے نام بجز حرمانؔ خیرا ٓبادی، مجازؔ لکھنوی اور بسملؔ الہ آبادی مجھ کو اب یاد نہیں، آمدو رفت کی اس بہتات کے زیر اثر میری ایک غزل کے یہ دو شعر یادگار ہیں جو میں نے احسانؔ کو سنائے تو یورش مشاہیر کچھ کم ہو گئی۔

تم توجہ کرو فقیروں پر

ہاں مگر یہ کہ دم بہ دم نہ کرو

اک کرم اور ہم غریبوں پر

اور وہ یہ کہ اب کرم نہ کرو

میں شعر ضرور کہتا تھا مگر مجھے ناموری سے رشتہ نہ تھا اس لئے جمنا پار کے ارباب فن میرے یہاں براہ راست نہ آتے۔ مقامی ادبا سے ملاقات البتہ عام تھی۔ یہاں عام سے مطلب برسر را ہے گاہے اور سربزم گاہے گاہے ہے۔ میری شعرا اور ادباء کرام کے سلسلے میں بے رخی یا خفیف الحرکتی کے لئے میرے استاد گرامی قدر حضرت حفیظؔ جالندھری بہت حد تک ذمہ دار ہیں کہ میرے والد کی موت ۱۹۳۹ء کے بعد مجھ پر ان کی نگاہ احتساب کچھ اور کڑی ہو گئی تھی۔ ایک مرتبہ وہ آئے تو چند خوش ذوق احباب مجھے احاطہ کئے بیٹھے تھے۔ حفیظؔ صاحب نے لمحہ بھر جائزہ لیا اور فرمایا تم نے یہ مجمع بازی کا شوق کب سے پال لیا۔ جب آؤ لوگ جمع ہیں۔ میں نہایت ضروری کام سے آیا ہوں۔ چلو دوسرے کمرے میں۔ یہ سنتے ہی موجود لوگ کہ حفیظؔ آشنا تھے اور ان کے مزاج آشنا بھی جب کچھ دیر میں کنارہ کر گئے تو حفیظؔ نے سختی سے کہا، سنو! تم کاروباری آدمی ہو۔ کاروبار نہ دیکھو گے تو روٹی کہاں سے آئے گی؟ باپ کا اثاثہ لٹ گیا تو ٹکڑوں کے محتاج ہو جاؤ گے۔ آج تو خیر، اگر آئندہ میں نے یہ طائفے تمہارے یہاں دیکھے تو تمہاری موجودگی میں انھیں یوں بھگا دوں گا کہ پھر ادھر کا رخ نہ کریں۔ حفیظؔ صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ وہ کہتے وہ کر گزرنے کا حوصلہ بھی رکھتے تھے۔ ان سے متعلق میں نے جو مذکور کیا وہ ان کے قلم سے افکار کے حفیظؔ نمبر میں شامل ہے اور میرے لئے مستقل سبق کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج کی پود کو میرا یہ بیان مضحکہ خیز معلوم ہو گا کہ اس تہتر برس کے سن میں حفیظؔ آنکھیں دکھائیں اور روح فنا ہونے لگتی ہے اور یہ کیونکر نہ ہو کہ ان کے ہر اشارے میں ان کا اخلاص کار فرما تھا اور خیر خواہی کا جذبہ مضمر، حفیظؔ میخواری کے سخت خلاف تھے اور غالباً اسی لئے لاہور میں شراب سے مجھے اجتناب رہا جز ایں قدر کہ خلوت مسلمہ ہو اور کسی خوش ذوق حسینہ کی رفاقت میسر تو بے دھڑک چکھتا اور سونگھتا۔ بلانوشی میرے بس کا روگ نہ جب تھی نہ اب۔

تقسیم ملک جب مجھے دہلی لے آئی تو  میں نے باقاعدہ پینا شروع کر دی کہ حفیظؔ کے سایہ سے دور ہو چکا تھا اور ملک کے ساتھ میں بھی آزاد۔ مقدار البتہ ہمیشہ انتہائی قلیل رہی اور اس درجہ کہ حفیظؔ جب بھی دہلی آئے میرے یہاں قیام فرمایا و ہیں نے ان کی موجودگی میں پی اور وہ معترض نہ ہوئے۔ انہی دنوں میری بیوی نے ان سے کہا، آپ ان کو سگریٹ اور شراب کے استعمال سے منع کیوں نہیں کرتے ؟ انھوں نے نہایت سنجیدگی سے جواب دیا نیک بی بی! سگریٹ سے کیونکر منع کروں کہ میں خود پیتا ہوں۔ میری تنبیہ کچھ اثر نہیں کرے گی۔ شراب سے متعلق یہ کہ گھر میں پیتا ہے اور اکیلا اور تھوڑی مقدار میں۔ موجودہ صبر آزما حالات میں اگر اس سے کچھ سکون پاتا ہے تو پا لینے دو۔ اور پھر بیٹی! یہ بھی اس عمر کو پہنچ کر اپنی خامیوں میں پختہ ہو چکا۔ اب کچھ کہنا سننا بیکار ہے۔ وہ مصور جذبات ہونے کے باوجود اصطلاحی طور پر جذباتی نہیں ہوتے تھے مگر یہ کہہ کر نجانے کیوں ان کی آنکھیں نمناک ہو گئیں اور گہر ہائے اشک نور افشاں کو دامن میں سمیٹ کر رقت آمیز لہجہ میں فرمایا، ودّیاؔ تیرا شوہر لاکھوں میں کھیلتا تھا اور آج کوڑیاں گنتا ہے اور تو ریشم و کمخواب میں لدھی پھندی پھدکتی پھرتی تھی، آج سوتی دھوتی سے سر ڈھانپنے پر مجبور ہے۔ تم لوگ رحم و ہمدردی کے مستحق ہو، احتساب و عتاب کے نہیں، حفیظؔ ودیاؔ کو بیٹی سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے اور یہ کیونکر نہ ہوتا کہ بزرگوں میں ایک وہ تھے یا میرزا یگانہؔ کہ کہاروں کے ساتھ اسے ڈولی کو برابر کاندھا دیتے گھر تک لائے۔ اس کی گزشتہ حشمت کا خیال آیا ہو گا کہ آنکھیں بھر آئیں۔ اب با توں کا نفس مضمون سے لاکھ تعلق نہ ہو مگر مجھ سے تو ہے اور میں فطرت سے مجبور میرے والد میرے باتونی پن سے تنگ آئے تو جنگ پر اتر آئے اور فرمایا، آئندہ مجھ سے جو کہنا ہو لکھ کر کہا کرو، افسوس کہ وہ زندہ نہیں ورنہ انھیں یہ دیکھ کر صدمہ ہوتا کہ میں اس قید کے باوجود محدود نہیں ؎

بری عادت کبھی بہ آسانی نہیں جاتی

بات یہاں تک پہنچی تھی کہ احسانؔ، فراقؔ کو میرے یہاں لائے۔ ان سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور ۱۹۴۱ء اور ۱۹۴۲ء کا زمانہ تھا۔ رسمی تعارف کے بعد آپ نے کہا کہ میں تو صرف آپ کا کلام آپ کی زبان سے سننے کے لئے آیا ہوں۔ رسائل میں جو دیکھا میں اس سے متاثر ہوا اور یہ محرک ہے میری حاضری کا۔ خیر میں نے کچھ شعر پڑھے اور اشعا کی حیثیت سے بڑھ کر داد پائی۔ یوں بھی میرا تجربہ ہے کہ میزبانی کا معقول انتظام ہو تو کلام کی داد بھی ضرورت سے زیادہ ملتی ہے۔ ایک ملاقات وہاں اور ہوئی اور بزم آرائی کا ہنگامہ پہلے سے بڑھ کر نمایاں کہ بے تکلفی نے رنگ پکڑ لیا تھا۔ فراقؔ نے بھی کئی شعر پڑھے۔ سب اچھے، ان دنوں وہ ایسے مشہور نہ تھے جس قدر تقسیم ملک اور خاص کر جوشؔ کے نقل وطن کے بعد ہوئے۔ ان کے کلام سے بڑھ کر میں ان کی وسعت معلومات سے متاثر ہوا کہ وہ براہ فن جو بات بھی کہتے وہ پتے کی ہوتی۔ کبھی کبھی حوالوں اور بزرگوں کے اقوال سے اپنے نکتہ کو مثبت فرماتے۔

ان دو نشستوں سے متعلق میں اور تو سب بھول گیا جز اس قدر کہ وہ فنون لطیفہ کے سلسلہ میں ترقی پسندوں کی تحریک کو پسند نہ فرماتے۔ ان کی رائے تھی کہ گمراہی، بے راہ روی یا کجروی کو ترقی پسندی کہنا اس تحریک کی توہین ہے۔ فرمایا اس مادر پدر آزاد شاعری اور مصوری کے پس پشت نئی پود کی کوتاہیِ علم کار فرما ہے، اور ان کی یہ رائے اس وقت تھی کہ ابھی ترقی پسندی نے بے معنویت کی موجودہ حدیں نہ چھوئی تھیں۔ فرمایا یہ لوگ شعر کہنے پر یکسر قادر نہیں، کوئی با وزن مقفی شعر ہو بھی جاتا ہے تو بے جان اور پھسپھسا ہوتا ہے۔ ان دنوں نذر محمد راشدؔ اور میراجیؔ کا نام کچھ اچھلنے لگا تھا۔ میں نے ذکر کیا تو کہا، چھوڑیے اچھی بھلی با توں میں ان کا ذکر ذوق سلیم پر بار گزرتا ہے، اور پھر بحث کا رخ میرزا یگانہؔ کے فن یکتائے زمانہ کی طرف موڑ دیا۔ میں گواہ ہوں کہ موجودہ دور کے شعرا میں میرزا مرحوم صرف فراقؔ اور ہری چند اخترؔ کو نگاہ میں لاتے تھے اور جوشؔ ملسیانی کو براہ فن۔ اور اگر آپ نے فراقؔ کو قابل اعتنا و ذکر سمجھا تو بڑی بات تھی کہ وہ رائے دینے کے معاملے میں بخل کی حد تک محتاط تھے۔ جس شخص نے جوشؔ ملیح آبادی کو بگڑا ہوا شاعر اور اقبالؔ کو، اکبالؔ اس نے اگر فراقؔ کی غزل گوئی کو قابل قبول گردانا تو اس کے بڑا اور مستند شاعر ہونے میں کلام کی گنجائش کہاں ہے۔ میرزا مجنوںؔ  گورکھپوری سے متعلق بھی اچھی رائے رکھتے تھے مگر بحیثیت سخن فہم، بحیثیت سخن گو شاید نہیں۔ اور یہ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوتا کہ میرے استفسار پر پانچ چھ اشعار کی حد تک وہ مجھے بھی شاعر مان لیتے تھے۔

اسی نشست میں ترقی پسند شعرا کے فرمودوں کے سلسلے میں ایک واقعہ سنایا۔ غالباً انگریزی کے ایک شاعر براؤننگ سے متعلق تھا۔ فرمایا ان کا ایک مداح ان کی ایک بہت پرانی نظم کا تراشہ لے کر حاضر ہوا اور کہا کہ حضور میں آپ کی ہر نظم کو شوق سے پڑھتا ہوں اور اکثر سمجھ بھی لیتا ہوں مگر یہ نظم انتہائی غور کے باوجود نہ سمجھ پایا۔ آخر استفادہ کے لئے آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔ شاعر موصوف نے مذکورہ نظم کو دیکھا اور فرمایا کہ دیکھو میاں ! جب یہ نظم ہوئی تو اس کو دو ہستیاں سمجھتیں تھیں، ایک میں اور ایک خدا، اور اب صرف خدا ہی سمجھتا ہے۔

اسی دوران ایک بات مزے کی اور بھی ہوئی، لاہور میں میرے ایک کرم فرما تھے جناب عبدالرحمن چغتائی، فن تصویر کشی میں شہرۂ آفاق اور بحیثیت دوست مخلص، ان کا مرقع چغتائی انہیں دنوں شائع ہو کر مقبول خواص ہو چکا تھا۔ میں نے ان کے فن کی تعریف کی اور ان کی ترقی پسندی کی تحسین کی تو فراقؔ صاحب نے بے تکلف فرمایا۔ کہ آپ کی توصیف کو لاکھ دوست نوازی سے تعلق ہو مگر ہے تحسین ناشناس۔ یہ بتایئے کہ عورتوں کے جس قسم کے مرقعے وہ تصویروں میں پیش کرتا ہے، آنکھیں ناک سے کانوں کو چھوتی ہوئی، انگلیاں اینٹھی سی، لب و رخسار توازن اور تناسب سے خارج، کیا واقعی وہ مثال حسن کی نمائندگی اور ترجمانی ہے ؟ اور اس کی کسوٹی یہ کہ اگر ایسی حسینہ سے آپ کو بیاہ دیا جائے تو کیا وہ قابل قبول ہو گی۔ میں تو بھاگ اٹھوں گا بلکہ اگر خواب میں بھی بحیثیت بیوی نمودار ہوئی تو نیند حرام ہو جائے گی۔ ہاں چغتائی کو خطوط کے فنکارانہ استعمال پر بے پناہ قدرت ہے اور واقعی یہ خطوط کا بادشاہ ہے۔ یہ فن مغلوں کا ہے اور ان کی ہر قابل ذکر عمارت میں نمایاں ہے۔ چغتائی کی صلاحیتوں کے متعلق میں ان کی رائے کا قائل تو نہ ہوا البتہ لاجواب ہو گیا کہ فنون لطیفہ سے متعلق میرا علم شُد بُد سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ میرے نزدیک وہ گانا اچھا جو کانوں کو بھلا لگے۔ وہ تصویر اچھی جو قدرت کے شاہکاروں کو نقل بمنزلۂ اصل پیش کرے اور شعر وہ اچھا جو پڑھتے ہی دل میں اتر جائے اور محبوب وہ جو پہلی ملاقات میں ہتھیار ڈال دے۔

لاہور میں ہر چند کہ شراب میرے یہاں پانی کی طرح بہتی تھی مگر میں خود ان دنوں پیتا نہیں تھا اور یہ کہ فراقؔ شوق فرماتے ہیں اس کا مجھے علم نہ تھا اور جس کے ہمراہ وہ آئے تھے وہ تو سونگھتا بھی نہ تھا۔ معاملہ یہیں تک رہا کہ نہ انھوں نے طلب کی اور نہ میں نے پیش کی۔ یوں بھی میرا قاعدہ تھا کہ میں ادبائے کرام کو میکشی کے لئے خود نہیں اکساتا۔ اور کچھ ہی دن میں یہ قاعدہ اصول کی صورت اختیار کر گیا کہ شاعر اور شراب کار یا تو میں اسے زحمت کرم فرمائی ہی نہ دیتا۔ اخترؔ شیرانی، مجازؔ اور شادؔ سے متعلق میرا تجربہ تلخ تھا۔ اس اصول کو مزید تقویت حضرت جوشؔ ملیح آبادی نے میرے یہاں بدمزگی پیدا کر کے مہیا فرمائی۔ ایسی محفل میرے گلے کا ہار ہو ہی جاتی تو میں اس کا اہتمام کسی ہوٹل میں کرتا یا کسی ایسے کرمفرما کے یہاں جو تماشائے اہل شعر و شراب کو جھیل جانے کا حوصلہ رکھتے۔

ایک مدت گزر جانے کے باوجود وہ مجھ کو بھولے نہ تھے۔ جوشؔ سے میرا پتہ پوچھ کر وہ چاندنی چوک والی دوکان پر تشریف لائے۔ کچھ دیر رکے، لاہور کی یادوں کو تازہ کیا اور آئندہ جلد آنے کا وعدہ فرما کر رخصت ہو گئے۔ جب تک ان کی صحت اور ہمت ان کا ساتھ نبھاتی رہی آپ نے مشاعرہ نوازی کی روایت کو قائم رکھا۔ برس میں دو مرتبہ آنا تو معمول ہی تھا، جشن جمہوریت اور دلی کلاتھ مل کے مشاعروں میں اور ان کے علاوہ اگر کوئی اور بھاری بھرکم مشاعرہ برپا ہو جاتا تو افتاں و خیزاں اس میں بھی شرکت فرما لیتے۔ دہلی میں کلہم چار ملاقاتیں ہوئیں، دو تو میری دکان پر، عامیانہ، قسم کی کہ کاروباری مصروفیتوں کے درمیان اطمینان سے مل بیٹھے کا امکان کم ہی ہوتا ہے۔ ایک یاد گار ملاقات میں خور دو نوش کے دوران شعر خوانی جی بھر کر ہوئی اور خوش گپیاں بساط بھر۔ چوتھی اور آخری ملاقات میری استاد پرستی کے صدقے افسوناک اور تکلیف دہ ثابت ہوئی اور باہمی ہم خیالی کے باوجود ہم پھر نہ مل سکے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر میں ایک مرتبہ بھی ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عفو خطا کے لئے کہتا اور معذرت خواہ ہوتا تو وہ سینے سے لگا لیتے۔ مگر میری ندامت نے راہ ہی نہ دی، ہاں تو تفصیل اس اجمال کی یوں ہے۔

دہلی کی دوسری ملاقات بھی جب دفتری تکلفات کی نذر ہونے لگی تو میں نے انھیں کھانے کی دعوت دی۔ آپ نے قبول فرما لی۔ طے یہ پایا کہ مقررہ دن وہ سرشام میری دکان پر آ جائیں گے اور ہم وہیں سے چلیں گے۔ میرے ایک عزیز تھے جن کی اہلیہ گوشت کے پکوان تیار کرنے پر قدرت رکھتی تھی۔ انہی کے یہاں بزم آرائی کی ٹھہری اور یہ بھی کہ معزز مہمان کے شایان شان شراب لیتا آؤں۔ یہ واقعہ فراقؔ کی بے مثل عالی ظرفی کا زندہ اور تابندہ ثبوت ہے۔ ہاں تو فراقؔ دو مداحوں کے ساتھ تشریف لائے اور قطعی مقررہ وقت پر ورنہ شعرائے کرام وعدہ تک کے پابند نہیں ہوتے۔ میرے پاس ان دنوں میری گزشتہ خوشحالی کی یادگار ایک موٹر کار ابھی باقی تھی۔ اس میں بیٹھ کر ہم ایوان میزبان کی طرف چلے تو راستے میں کناٹ پلیس کے ایک شراب فروش کے یہاں مطلوبہ داروئے شراب آور کے لئے رکے۔ فراقؔ اور ان کے ساتھی بھی اتر آئے۔ میں نے بلیک ڈاگ کی بوتل جو اس کاچ وسکیوں میں بہتر اور زیادہ روح پرور گردانی جاتی ہے طلب کی تو فراقؔ نے پوچھا، کیا آپ یہ پیتے ہیں ؟ خیر لے لیجئے مگر میرے لئے سولن نمبر ون لیجئے کہ میرے لئے وہی ٹھیک ہے۔ میرے اصرار پر کہ سولن تو نہایت ادنیٰ قسم کا ٹھرہ ہے، فرمایا ہم بھی ٹھرہ قسم کے آدمی ہیں۔ مگر یہ کہ اپنے لئے جو پسند ہو لیجئے، میرے لئے وہی سولن چلے گی اور اگر ان کے یہاں موجود نہ ہو تو اسی قیمت کی کوئی بھی۔ حکم حاکم مرگ مفاجات، میں نے وہی چند روپلی والی بوتل خرید لی جسے دوران نشست وہ کمال رضا و رغبت سے پیتے رہے اور چہکتے رہے اور پینے کے باوجود نہ خدائی کا دعوا کیا اور نہ اس غلط فہمی میں الجھے کہ موجودہ خواتین ان کے فن کی عظمت سے متاثر ہو کر ان پر بری طرح ریجھی ہوئی ہیں ان کے کردار کے ضبط و نظم کا یہ عالم اور آداب محفل کا یہ لحاظ کہ فرمائش کے باوجود آپ نے نہ کوئی ارزاں قسم کا لطیفہ سنایا، نہ مزاحیہ اشعار ورنہ ہزل و طنز و مزاح تو نجی محفلوں کی جان ہوتے ہیں۔

ہاں تو جب ہم میزبان کے یہاں پہنچے تو فراقؔ نے بوتل نشست گاہ کی مرکزی میز پر رکھ دی۔ میزبان استقبال کے تکلف سے فارغ ہوئے تو نظر بوتل پر پڑی تو حیرت سے پوچھا، یہ آپ لائے ہیں ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو کہا کہ کیا کوئی بہتر چیز نہ مل سکی؟ اس سے قبل کہ میں بولتا فراقؔ کہ پنجابی خوب سمجھتے ہیں، بول اٹھے ہم بہتر چیزیں بہتر لوگوں کے لئے چھوڑ آئے۔ میزبان کے پلے کچھ پڑا یا نہیں مگر وہ جھٹ سے ایک سربمبر جہاز نما بوتل انتہائی قیمتی برانڈی کی نکال لائے اور معذرت طلب لہجہ میں کہنے لگے، حضور! معاف فرمائیے ہمارے یہاں اس وقت یہی برگ سبز حاضر ہے اگر آپ قبول فرما لیں۔ اور اگر برانڈی آپ کے مزاج کو موافق نہ ہو تو میں لپک کر کوئی کام کی وہسکی لے آتا ہوں، فراقؔ ہنسے اور کہا شعلہ تو اس کاچ لے رہے تھے۔ میں نے خود انہیں روکا اور اپنی پسند کی چیز لی۔ اور یہ کہہ کر ایک پنجابی ضرب المثل کا ترجمہ ارشاد فرمایا اگر برتن کا منھ کشادہ ہو تو کتے کو شرم آنا چاہئے۔ یہ سن کر میں اور دوسرے حاضرین حیرت سے ان کا منھ تکتے رہ گئے۔ اور پھر فراقؔ نے برانڈی کو اٹھایا، ہر زاویہ سے ملاحظہ کیا اور فرمایا اگر یہ مئے شباب آور ایسی دیدہ زیب بوتل میں پیش کی گئی ہے تو یقیناً بہت اچھی ہو گی اور اگر فرنچ ہے تو دنیا کی بہترین برانڈیوں میں سے ہے۔ یہ تو خیر میں نہ پیوں گا، بوتل البتہ مجھے پسند آئی۔ میزبان نے دونوں ہاتھ پر رکھ کر بوتل ان کی نذر کرنی چاہی، مودبانہ جھک کر تو آپ نے کہا، ہاں ہاں جب یہ خالی ہو جائے میرے لئے محفوظ فرما لیجئے۔ میزبان نے کہا، تو یہ کیا مسئلہ ہے خالی کر کے ابھی حاضر کرتا ہوں۔ فراقؔ نے پوچھا تو کیا آپ یہ سب آج ہی پی سکیں گے۔ اور جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ صاحب تو پیتے ہی نہیں تو کہا کہ پھر آپ اس کو کسی اور بوتل میں منتقل کیجئے گا، وہ ایسی نفیس کہاں ہو گی اور معمولی بوتل میں اس کو رکھنا اس گرانقدر بادۂ غم ربا کی توہین ہے۔ ایسی کوئی جلدی نہیں، جب بھی خالی ہو جائے شعلہؔ کو دے دیجئے، مجھے پہنچ جائے گی۔ اور اس کے برعکس یہ واقعہ بھی ہے کہ انہیں دنوں ہری چند اخترؔ کی وساطت سے جوشؔ ملیح آبادی نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کی دعوت کروں اور اپنے مکان پر ان سے میرے تعلقات دیرینہ تھے اور ہمہ رنگ یگانگت کے۔ خیر دعوت سے ایک دن قبل دو بوتلیں اس کاچ لے آیا۔ ان دنوں اس شراب کے دام قابل برداشت تھے اور کم نوشی کے باعث یوں بھی گراں نہ تھے۔ لانا تو ایک ہی بوتل تھی مگر حفظ ماتقدم کے طور پر دو لایا کہ اگر ختم ہو گئی تو رات کے وقت گاندھی نگر ایسے علاقے میں اور کہاں ملے گی اور ہوا بھی یہی کہ جوش کے ہمراہ بسملؔ سعدی اور فقہیؔ کاکوروی بھی آ گئے۔ جوشؔ تو خیر چار پیک تک پیتے مگر دوسرے حضرات البتہ ضرورت سے زیادہ عالی ظرف تھے کہ ان کے نزدیک بوتل جرعے کی حیثیت رکھتی۔ خیر جب محفل جمی اور جوشؔ مسند صدارت پر رونق افروز ہوئے۔ سوڈا اور گلاس آ چکے تو میں نے جانی واکر کی سربمہر بوتل حاضر کی۔ وہ ختم ہوئی تو ڈمپل اس کاٹ کی سہ پہلو بوتل پیش کی۔ پہلی کے مقابلہ میں شاید بہتر سمجھی جاتی ہے۔ جوشؔ اسے دیکھتے ہی بھڑکے اور سخت برافروختگی کے عالم میں فرمایا تمہارے یہاں یہ تھی تو ہمیں ادنا درجہ کی شراب پینے پر مجبور کیوں کیا؟ میں نے ابھی جواب دینے کے لئے لب وانہ کئے تھے کہ حضرت بسملؔ بولے، شعلہؔ صاحب یہ بوتل تو بس ہمیں دے دیجئے۔ میں نے کہا میرے پاس یہی ہے، پیجئے یا لیجئے۔ خیر ختم تو یہ بھی ہو گئی۔ خالی بوتل بسملؔ نے بہ ایں عالم خود رفتگی قبضے میں لے لی کہ محفل بے رنگ ہونے لگی اور نتیجہ اچھا نہ ہوا ؎

ببیں تفاوت رہ از کجاست تابہ کجا

فراقؔ کو سخن ہی میں کوئی کمال خاص نہ تھا۔ وہ سخن فہم اور سخن سنج بھی بلا کے تھے۔ مذکورہ بالا نشست جس میں فراقؔ صاحب موجود تھے پانچ بجے شام سے رات کے دس بجے تک جاری رہی۔ اس میں غزل گوئی کے کئی دور چلے۔ میری غزل سے متعلق جب آپ نے فرمایا کہ آپ کی ہر غزل ایک ہی نشست میں تکمیل پاتی ہے تو میں حیران ہوا کہ حقیقت یہی تھی۔ اس محفل میں ہم دونوں کے مذاق کی ہمرنگی ہمیں ایک دوسرے سے اور بھی قریب لے آئی۔ ان کی یادداشت قابل رشک تھی کہ شعر گوئی کے دوران آپ میری ان غزلوں میں سے جو آپ نے لاہور میں سنی تھیں اپنے پسندیدہ شعر پڑھے اور وہ دو چار سے زیادہ تھے۔ حافظہ کی یہ کیفیت واقعی قابل داد ہے۔ انہیں اساتذہ کے ہزاروں شعر یاد تھے، اکثر وہ میرے شعر سن کر فرماتے، فلاں استاد کے یہاں ہم مضمون شعر یوں ہے، یہ بھی کہا کہ میں بزرگوں کے اشعار سے بچ کر شعر کہنے کی کوشش کرتا ہوں مگر یہ کہاں تک ممکن ہے کہ نئی بات کہنا نا ممکن کی حد تک محال ہے اور انگریزی کا وہ مقولہ دہرایا کہ اب سورج کے تلے کوئی نئی بات نہیں رہ گئی ہے، اور کچھ رک کر مزید وضاحت فرمائی، ہر خیال اور ہر نکتہ کروڑوں مرتبہ دہرایا جا چکا ہے۔ ہمارے لئے البتہ ہر وہ بات نئی ہوتی ہے جو ہم پہلی مرتبہ پڑھیں یا سنیں۔

دہلی میں ہر سال مارچ یا اپریل میں شنکرؔ اور شادؔ کی یاد میں ایک اچھا مشاعرہ ہوتا ہے جس میں ہندوستانی شعرا کے علاوہ پاکستان کے شاعر بھی اکثر شریک ہوتے ہیں۔ تو یاد نہیں، غالباً ۱۸۵۶ء یا ۱۹۵۷ء تھا۔ حفیظؔ صاحب اس سلسلہ میں آئے ہوئے تھے اور بدستور سابق میرے یہاں قیام پذیر تھے۔ معمول یہ تھا کہ ہر صبح جب میں دکان جاتا تو وہ بھی میرے ہمراہ ہو جاتے کہ گھر میں اکے لیے کیا کرتے۔ میرے دفتر کا کمرہ خاصہ کشادہ تھا اور معقول۔ ان سے ملنے والے وہیں آتے۔ مجھے فرصت ہوتی تو خوش گپیوں سے لطف لیتا۔ ایک ملازم ہر وقت ان کی خدمت میں رہتا۔ مگر وہ منتظر ہی رہتا کہ حفیظؔ آنے والوں کی مدارات کے سرے سے قائل ہی نہیں تھے۔ مگر اس حد تک بھی نہیں کہ کوئی پانی مانگے تو یہ فرمائیں، حضرت راہ میں سبیلیں اکثر پڑیں گی، واپسی پر وہیں پی لیجئے گا اور یوں بھی اب آپ جانے ہی والے ہیں۔ ہاں تو ایک دن صبح گیارہ بجے کے قریب میں دفتری کام میں مصروف تھا اور حفیظؔ نکتہ چینی میں کہ فراقؔ دو نوجوان اور خوش پوش شاگردوں کی معیت میں تین سوٹ کیس اور دو بڑے بڑے بستر لئے آ پہنچے۔ ان کے آنے کے متعلق مجھے پہلے سے اطلاع نہ تھی کہ رشتۂ اخلاص و اتحاد یک طرفہ بھی ہو تو اس تکلف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں اٹھا، فراقؔ سے بغل گیر ہوا۔ سامان وہیں قریب ہی رکھوا لیا۔ حفیظؔ نے فراقؔ کو دیکھا، فراقؔ نے حفیظؔ کو، رسمی سلام و آداب کا تبادلہ ہوا مگر یوں گویا ایک دوسرے سے ایسے شناسا نہیں ؎

کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام

جس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں

فراقؔ ابھی اطمینان سے بیٹھنے بھی نہ پائے تھے کہ حفیظؔ اٹھے اور ملحقہ گودام میں جا کر مجھے بلوا بھیجا۔ میں گیا تو نہایت کرختگی سے پوچھا، یہ بستر وستر لے کر کیا تمہارے یہاں قیام کے ارادے سے آیا ہے ؟ میں نے عرض کیا بہ ظاہر تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، فرمایا خبردار جو ان کو گھر لائے۔ میں فکر مند ہوا تو کڑکے، ہاں اگر تو نے میرے ہوتے ایسی جسارت کی تو میں ابھی تیرے عملہ کے سامنے تیری وہ درگت بناؤں گا کہ توقیر اور وقعت خاک میں مل جائے گی۔ دولت تو پہلے ہی برباد ہو چکی، تو کس برتے پر یہ ہاتھی پالنے لگا۔ بچوں کو پوری روٹی تو مل نہیں رہی اور جو ہے تو وہ بھی ان کے منھ سے چھین رہا ہے۔ (ہاں یہ الفاظ سخت ہیں اور جس لہجہ میں کہے گئے تھے وہ بھی قابل اعتراض تھا مگر کیا کیا جائے کہ وہ میرے مالی وسائل سے خوب آگاہ تھے ) میں نے عرض کیا، انھیں چائے پانی تو پلواؤں، دور کے سفرسے آ رہے ہیں، فرمایا چائے وائے کچھ نہیں، جہاں قیام کریں گے وہاں یہ سب مل جائے گا۔ اگر وہ میری موجودگی میں چند لمحے بھی بیٹھے تو ایسی بدمزگی ہو گی کہ اس سے پہلے تیرے مشاہدے میں نہ آئی ہو گی۔ میں نے ان کو کچھ دیر گودام میں رکنے کو کہا، میرے چھوٹے بھائی وہاں تھے، وہ ان کے پاس بیٹھ گئے اور میں نے فراقؔ سے آ کر عرض کیا کہ، حفیظؔ پہلے سے میرے یہاں ہیں۔ آپ کے قیام کا انتظام اگر آپ برا نہ مانیں تو کسی معقول ہوٹل میں کر دیا جائے۔ فراقؔ صاحب انتہائی ذہین اور معاملہ فہم تھے، فوراً کہا ہاں یہ بھی مناسب رہے گا۔ وہاں آزادی سے ملاقاتیں ہوا کریں گی۔ میں نے اپنے نائب کے ہمراہ انھیں دوکان کی گاڑی میں جو سامان ڈھونے کے لئے مخصوص تھی بھجوا دیا۔ جب تک گاڑی آنکھوں سے اوجھل نہ ہو گئی حفیظؔ سر پر سوار رہے۔ آزادی سے ملاقاتوں والا فقرہ شاید انھوں نے سن لیا تھا، فرمایا، ہاں میری ملاقات سے فارغ ہو گا تو ان سے ملے گا۔ اور اس کے بعد چند بے ضر ر سی گالیاں ان کی اور میری شان میں صرف کر دیں۔

نائب کے واپس آنے پر میں اسے ہدایت کی کہ ہر روز صبح و شام فراقؔ کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی ضروریات کے متعلق دریافت کرے اور احکام کی تعمیل کرے۔ مگر وہ جتنی مرتبہ وہاں گیا فراقؔ نے اس سے کسی خدمت یا مدد کے لئے نہ کہا، حتیٰ کہ واپسی کے وقت ہوٹل کا بل بھی خود ادا کیا، کچھ دن بعد میں نے معذرت کا خط لکھا مگر جواب نہ ملا کہ وہ دانائے راز اس نکتہ کو خوب سمجھتا تھا کہ ؎

جواب دے کے نہ توڑو کسی غریب کا دل

کوئی بلا سے سراپا امیدوار رہے

وہ برہم ہو گئے تھے اور ان کی برہمی اسی نسبت سے برحق تھی جس نسبت سے میری شرمندگی۔ اور اس کا کیا علاج کہ میری زندگی ہی شرمندگی ہو کر رہ گئی۔

اصلاح کی مجال نہیں ہے تو کیا ضرور

بے ربطیِ نوشتۂ تقدیر دیکھنا

٭٭٭

 

 

فراق گھر کے باہر

 

                ………رمیش چندر دویدی

 

 

ان تمام واقعات، واردات اور حادثات کو جو فراق کی زندگی میں رو نما ہوتے رہے اور جو ۱۹۵۳ء سے لے کر ۳ مارچ ۱۹۸۲ء تک کے طویل عرصہ میں بکھرے ہوئے ہیں، اس مختصر مضمون کے اندر سمیٹنا ایک انتہائی مشکل اور دقت طلب کام ہے۔ پھر بھی واقعات و حالات اتنے پر لطف دلچسپ غیر معمولی اور فراقؔ کی زندگی اور ان کے خیالات کی ترجمانی کرنے والے ہیں کہ انہیں نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں شک نہیں کہ فراق جتنے عظیم شاعر تھے اس سے بھی زیادہ عظیم معلم تھے لیکن میرے نزدیک ان کی تہہ دار شخصیت کا سب سے دلچسپ اور روشن پہلو یہ ہے کہ وہ ایک قد آور مفکر اور ایک بہترین Conversationalist تھے ان کی شخصیت کا جو پہلو جس وقت سامنے آتا وہ اسی میں بہت ہی دلکش نظر آتے۔ در اصل یہ سارے پہلو ایک ہیں جو مکمل طور سے فراقؔ کی شخصیت میں گھل مل کر ایک ’’کامل فراق‘ کی شکل میں نظر آتے ہیں۔

خواہ وہ فراقؔ کی شاعری ہو، ان کے لطائف ہوں، ان کی دلچسپ گفتگو ہو، ادب اور فلسفہ کے لطیف ترین نکات پر تقریریں ہوں، فراقؔ کے اندر کا چھپا ہوا Elemental Man جسے فراقؔ ٹھیٹ آدمیت کہتے تھے صاف نمایاں ہو جاتا تھا اس لئے فراقؔ کے پاس اٹھنے بیٹھنے والا یا ان کی کی باتیں سننے والا شخص کبھی اکتا تا نہیں تھا۔ ان کی با توں میں دلچسپی اس لیے بھی ہوتی تھی کہ وہ دوسروں کے معاملات میں، دکھ درد میں اور دنیاوی مسائل میں دلچسپی لیتے تھے۔ دنیا کا غم ان کا ذاتی غم بن جاتا تھا۔

دردِ دلِ ما غمِ دنیا غمِ معشوق شود

بادہ چوں بود پختہ کند شیشۂ ما

۱۹۵۳ء میں جب میری پہلی ملاقات فراقؔ سے ہوئی اور میں نے ان کے ساتھ رہنا شروع کیا تو ہر وقت میں یہ محسوس کرتا تھا کہ کیا کوئی دوسرا آدمی بھی اس طرح کا اس دھرتی پر ہو گا۔ کیونکہ میں اب تک جس طرح کے لوگوں کے درمیان رہتا آیا تھا یا جن لوگوں سے ملا تھا اور جن کی باتیں سنی تھیں، فراقؔ کی شخصیت ان سے قطعی مختلف تھی۔ ذرا ذراسی بات پر حد سے زیادہ خفا ہو جانا، بڑی سے بڑی غلطیوں کو نظر انداز کر دینا، سماجی زندگی کی لکیر سے ہٹ کر اور ر سوم و قیود کی پرواہ کئے بغیر اپنے طور زندگی بسر کرنے والا یہ شخص میرے لیے معمہ بن گیا تھا۔ ہر وقت جی چاہتا تھا کہ بھاگ جاؤں۔ مگر فراقؔ کی شخصیت کی مقناطیسی طاقت اور کشش نے جیسے میرے پیروں میں زنجیر ڈال رکھی تھی۔ اور میں وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے علاوہ ان کے یہاں ایک دو لوگ اور بھی رہتے تھے جو مشاعروں میں ان کے ساتھ اکثر باہر جایا کرتے تھے۔

پہلی بار فراقؔ نے مجھ سے کہا ’’میاں رمیش آؤ میرے ساتھ رکشہ میں بیٹھ جاؤ۔ چلو کافی ہاؤس گھوم آئیں ’’۔ میرے لیے تو یہ موت کا پیغام تھا۔ ایک رکشہ پران کے ساتھ سٹ کر بیٹھنا اور پھر پتہ نہیں گھر واپس آنے تک کیا گزرے، اس اندیشے نے میری حالت کچھ ایسی ہی کر دی تھی جیسے کسی قصاب کے سامنے کوئی جانور ہو۔ بہر حال میں رکشہ کے ایک گوشہ میں سکڑ کر بیٹھ گیا اور فراقؔ نے رکشہ والے کو کافی ہاؤس چلنے کا حکم دیا۔ تھوڑی دور جانے کے بعد سگریٹ بجھ گئی اور وہ پوری طاقت لگا کر چیخ کر بولے۔ ’’روکو، رکشہ روکو۔ ‘‘ میرا دل دھڑکنے لگا۔ رکشہ رک گیا۔ مجھ سے اپنی سگریٹ جلانے کی فرمائش کی۔ سگریٹ تو کیا جلتی، گھبراہٹ میں میرے ہاتھ سے دیا سلائی چھوٹ گئی۔ فراقؔ بگڑ گئے اور بول اٹھے ’’گنواروں کے بس کا یہ کام نہیں ہے۔ میاں سگریٹ سلگانے کے لیے بڑی Mental Alertness کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تمہارے بس کا نہیں ہے۔ تمہیں اپنے کو کوڑے مار مار کر شہری زندگی کے تقاضوں کو پورا کرنا پڑے گا۔ سچ کہتا ہوں کہ میری آنکھیں بھر آئیں، اور شاید فراقؔ نے آنسوؤں سے ڈبڈبائی ہوئی میری آنکھوں کو دیکھ لیا تھا۔ ان کا لہجہ بالکل بدل گیا۔ ہم لوگ کسی طرح کافی ہاؤس کے اندر داخل ہو گئے۔ کچھ لوگ حلقہ بنائے ایک میز کے گرد بیٹھے ہوئے تھے۔ فراقؔ کو دیکھتے ہی سب کھڑے ہو گئے۔ ’’حضور ادھر آئیے ! حضور ادھر آئیے۔ ‘‘ کی آوازیں بلند کرنے لگے۔ فراقؔ ایک خالی کر سی پر بیٹھ گئے اور میرے لیے بھی ایک کرسی کا انتظام کر دیا گیا۔ جیسے ہی لوگوں نے باتیں شروع کیں، فراقؔ نے اپنی آواز کو تیز کرتے ہوئے کہا۔ ‘‘ اس وقت میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ بیرے کو فوراً بلا یا جائے۔ کچھ بھوک لگ آئی ہے۔ ‘‘ کافی ہاؤس کا بیرا سامنے آ کر کھڑا ہو گیا۔ فراقؔ نے اسے حکم دیا مکھن دو پاؤ روٹی کے ٹکڑے اور دو تلے ہوئے انڈے لے کر آئے۔ میں نے زندگی میں کبھی انڈا نہیں کھا یا تھا۔ لیکن میری ہمت نہ پڑسکی کہ میں ان کے حکم کی بادل نا خواستہ تعمیل نہ کرتا۔ میں نے کس طرح پاؤ روٹی اور انڈے کھائے اور ایسا کرنے میں میرے اوپر کیا بیتی اسے میں یا میرا بھگوان ہی جانتا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک سینئر ایڈوکیٹ نے بہت ہی عاجزی کے ساتھ فراقؔ سے ایک سوال پوچھنے کی اجازت مانگی۔ تو فراقؔ نے کہا ’’پوچھو۔ پوچھو۔ جلدی کرو۔ ‘‘ حضور کیا آپ یہ بتانے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے کہ آپ کی شاعری سے لوگوں کی دلچسپی کب ختم ہو جائے گی۔ ‘‘ فراقؔ نے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو گھماتے ہوئے چھت کی طرف دیکھنے لگے، جیسے کسی دوسری دنیا میں کھو گئے ہوں جواب کی تلاش میں۔ باقی لوگ چپ چاپ سنجیدہ ہو کر بیٹھے تھے۔ تھوڑی دیر بعد فراقؔ نے کہا۔ ‘‘ بھائی میری شاعری سے لوگوں کی دلچسپی اس وقت ختم ہو جائے گی جب انسان کے دل و دماغ سے کائنات کی رمزیت اور استعجاب کا احساس مٹ جائے گا۔ ‘‘ فراقؔ کے جواب نے سارے مجمع کو جیسے سوچ میں ڈال دیا۔ اس کے بعد بڑی دیر تک شاعری اور کائنات پر لطیف سے لطیف اور گہری سے گہری باتیں فراقؔ کرتے رہے۔ سارا کافی ہاؤس سمٹ کر اسی جگہ آ گیا جہاں فراقؔ بیٹھے تھے۔ سارے کافی ہاؤس پر ایک طلسمی سکوت طاری تھا۔ لوگوں کے ہاتھوں میں پنسلیں اور نوٹ بکیں تھیں۔ فراقؔ فرما رہے تھے۔ جانتے ہیں جناب شعر کہنا کھلواڑ نہیں ہوتی۔ شاعر کی شخصیت تحلیل ہو کر جب کائنات میں مد غم ہو جاتی ہے اور شاعری کی روح اور کائنات کی روح میں جب مکمل ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے تو شعر نازل ہونے لگتے ہیں۔ ہر بڑا شعر کائنات کے مرکز سے یعنی دل یزداں کو چیر کر نکلتا ہے۔ شعر کہنا کھیل نہیں ہے۔ کیا آپ نے غور فرمایا ہے کہ دھرتی کے پیٹ کو چیر کر ایک بیج کس طرح پودے کی شکل میں باہر نکلتا ہے۔ کہنے کو تو یہ ایک بہت چھوٹی سی بات ہے، مگر اس عمل میں درد زہ سے ساری دھرتی کراہ اٹھتی ہے، تب ایک پودا نمودار ہوتا ہے۔ ایک بڑے شعر کو جنم دینے کے بعد شاعر کی کیا حالت ہوتی ہے، اس کا شعور کس قدر تھک کر چور چور ہو جاتا ہے۔ اس کا احساس صرف شاعر ہی کر سکتا ہے۔ ‘‘ ماحول بہت سنجیدہ ہو گیا تھا۔ تابشؔ عثمانی نے دبی زبان سے پوچھا۔ ’’حضور! کیا ہر شاعر شعر کہنے میں اسی ذہنی کشمکش سے گزرتا ہے۔ ‘‘ فراق کچھ چونک سے گئے اور بول اٹھے۔ ‘‘ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مصرع سیدھا کرنے والا ہر انسان شاعر ہوتا ہے۔ اردو زبان میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہاں ایک کمزوری بھی ہے۔ ذرا بھی دماغ میں موزونیت ہوئی اور گد گدی پیدا ہوئی کہ شعر حاضر ہے۔ ہزار ہا شعر ایسے ہوتے ہیں جن پر صرف تھوکا جا سکتا ہے۔ شاعری پیغمبری ہے۔ اچھا شعر کہنا تو دور رہا اچھے شعر کو سمجھنے میں بڑے سے بڑے لوگوں کے ذہن کی دھجیاں اڑ جاتی ہیں۔ خیر چھوڑ یے ان سب با توں کو۔ میاں کافی کی بات کیجئے۔ شاعری پر بات کرنا یا سننا آپ کے بس کی بات نہیں ہے۔ ‘‘ اتنے میں الٰہ آباد کے ایک شاعر سے جو وہاں پہلے سے موجود تھے، فراقؔ کی اجازت لے کر لوگوں نے ان سے کچھ اشعار سنانے کی فرمائش کی۔ شاعر صاحب جیسے پہلے ہی سے تیار بیٹھے ہوں فوراً شروع ہو گئے۔ ایک ایک مصرع کو کئی بار دہرانا شروع کیا۔ فراقؔ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے۔ ‘‘ میں ذرا باتھ روم جا رہا ہوں جب تک تم مصرع دہرانے کا کام ختم کر لو۔ ‘‘یہ سن کر سبھی لوگ زور زور سے قہقہے لگانے لگے اور شاعر صاحب ایک دم خاموش ہو گئے۔ محفل بر خاست ہو گئی اور ہم فراقؔ کے ساتھ کافی ہاؤس سے باہر نکل کر رکشہ پر بیٹھ گئے۔ رکشہ پر بیٹھ کر فراقؔ پھر اتر پڑے اور کہنے لگے چلو ذرا لوک بھارتی ہو آئیں۔

لوک بھارتی کافی ہاؤس والے کمپاؤنڈ کے ایک حصہ میں تھا لوک بھارتی پر یس نے گل نغمہ کو ہندی میں چھاپا تھا۔ لوک بھارتی پریس میں کچھ ہندی کے لیکھک موجود تھے۔ فراق صاحب کو دیکھتے ہی سب تعظیماً اٹھ کھرے ہوئے۔ سب کو بیٹھنے کا اشارہ کر کے خود بھی بیٹھ گئے۔ ادھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ گفتگو ہندی اور اردو پر آ گئی۔ ہندی کے ایک ادیب نے کہا۔ ’’فراق صاحب! اردو بھی کوئی زبان ہے۔ اس میں گل و بلبل کے علاوہ اور ہے ہی کیا۔ ہلکی پھلکی اور گدگدی پیدا کرنے کے علاوہ سنجیدہ اور اونچے قسم کی فلاسفی سے متعلق باتیں اس زبان میں ادا نہیں کی جا سکتیں۔ آپ بڑے شاعر ضرور ہیں، لیکن اردو ایک گھٹیا زبان ہے اور ہندوستان کی روح اس زبان کے قالب میں نہیں سما سکتی۔ ‘‘فراقؔ صاحب بہت ہی سنجیدہ ہو کر یہ سب سنتے رہے۔ پھر جیب سے سگریٹ کا ایک پیکٹ نکالا۔ سگریٹ سلگاتے ہوئے کہنے لگے۔ ‘‘ ہر گنوار انسان خوبصورت چیز کے باے میں وہی کہتا ہے جو آپ نے اردو کے بارے میں فرمایا ہے۔ سن لیجئے دنیا کی لطیف سے لطیف اور گہری سے گہری بات چاہے وہ شاعری پر ہو، فلسفہ پر ہو، ویدانت پر ہو، اکنامکس (Economics) پر ہو، سائنس پر ہو، روز مرہ کی گفتگو پر ہو، معشوق سے چھیڑ چھاڑ ہو، اردو میں بہت ہی خوبصورت طریقہ سے ادا کی جا سکتی ہے، اور اردو میں ان سارے موضوعات پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آر یہ سماج کے مفکروں اور معلموں کے بڑے سے بڑے مضامین اردو میں موجود ہیں۔ اور کیا آپ کو یہ بھی پتہ ہے کہ سوامی رام تیرتھ شروع میں اردو ہی میں لکھتے تھے اور ان کی کتابیں الف کے نام سے آج بھی موجود ہیں۔ پورا یونانی ادب و فلسفہ عربی اور فارسی سے ہوتا ہوا اردو میں منتقل ہو گیا ہے۔ اور شاید آپ کو نہیں معلوم کہ اردو ہندی کا سب سے خوبصورت روپ ہے۔ پھوہڑ، بدصورت اور کانوں کو کھٹکنے والے الفاظ ہندی زبان سے ہٹا دیجئے تو جو کچھ بچ جائے گا اسے اردو کہتے ہیں۔ میں ہندی کا نہیں بدصورت ہندی کا دشمن ہوں۔ یہی نہیں میں ہر اس چیز کا دشمن ہوں جو بدصورت ہے، چاہے وہ زبان ہو انسان ہو، انسان کا دماغ ہو۔ کھڑی بولی نہ سنسکرت ہے، نہ عربی اور نہ فارسی۔ کھڑی بولی ایک زبان ہے جس کا ایک اپنا وجود ہے۔ بس بات اتنی ہے کہ اس زبان میں ہزار ہا فارسی اور عربی کے الفاظ شیر و شکر ہو گئے ہیں۔ اور جن کے بغیر ہمارا کام ہی نہیں چل سکتا۔ مثال کے طور پر کچھ الفاظ کی فہرست دے رہا ہوں۔ بازار، دوکان، مکان، ہوا، یاد، بچہ، بیمار، سوال، جواب، اخبار، حکم، حاکم، افسر، تکلیف، قلم، سیاہی، آواز، پردہ، زمیں، آسمان، دریا، روغن، باغ، پیمانہ، پیمائش، شراب، ضرورت، محنت، عزت، آفت، طاقت، روانی، جوانی، شادی، سایہ، خواب، بستر، زندگی، دیوار، غافل، آرام، گناہ، قبر، مردہ، جلسہ، شور، خون، رگ جاں، کمال، حاصل، فائدہ، نقصان، تصویر، زنجیر، سپاہی، حال، رنگ، خوشبو، بدبو، دولت، خزانہ، قصہ، ظلم، زمانہ، جسم، سزا، شامل، شیر۔ الفاظ کے علاوہ اور بھی ہزاروں الفاظ ہیں جنہیں میں نے اپنے ایک مضمون میں جو ’’نیا ہند‘‘ رسالہ میں شائع ہوا تھا، گنوائے ہیں۔ اور تو جانے دیجئے۔ ’’ہندی‘‘ اور ’’ہندوستان‘‘ کے الفاظ بھی نہ سنسکرت کے ہیں نہ کسی اور زبان کے بلکہ خالص فارسی ہیں۔ اس کے علاوہ کھڑی بولی میں جمع (Plurals) فعل (Verbs) اور ان کے تمام صیغے اردو کی دین ہیں۔ محمد حسین آزادؔ نے لکھا ہے کہ اردو برج بھا شا سے نکلی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برج بھاشا کا تمام لوچ، نرمی اورسوز و گداز اردو میں رچ بس گیا ہے۔ اور ایک بات اور ہے۔ ہندی زبان Word Mindedہے جبکہ اردو Sentence Mindedہے۔ زبان کوئی بھی ہو وہ ایک قوم کی طرز معاشرت اور تہذیب کی ترجمانی کرتی ہے۔ جس قوم کے دماغ اور ذہن کی خوبصورتی، تاج محل کے حسن، تناسب اور احساس جمال کی شکل میں نمودار ہوئی ہے، وہی ایک زبان کے روپ میں ڈھل گئی جسے ہم اردو کہتے ہیں۔ ‘‘ گفتگو کا یہ دلچسپ اور عالمانہ سلسلہ جاری تھا کہ فراقؔ صاحب کی بات کاٹتے ہوئے ایک صاحب بول اٹھے۔ ’’فراقؔ صاحب ! آپ کے اوپر اردوکا بھوت سوا رہے۔ ‘‘ اور اتنا کہہ کر وہ زور زور سے ہنسنے لگے۔ فراقؔ صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے۔ ’’چلو بھائی رمیش گھر چلیں۔ یہ ہندی اردو کا معاملہ ہے۔ ‘‘ لوگوں کے روکنے کے باوجود فراقؔ باہر نکل گئے اور رکشہ پر بیٹھ کر گھر کی طرف چل پڑے۔ سگریٹ سلگائی پھر بول پڑے۔ ’’تم نے کچھ ہندی اور اردو کا فرق محسوس کیا؟ بے سبب بغیر بات کے اور بے موقع ہنسنا یا ایک خوبصورت بات کے سلسلہ میں ٹانگ اڑا دینا پھوہڑ پن ہے اور یہی چیزیں زندگی میں ڈھل کر زبان میں آ جاتی ہیں۔ ‘‘ پھر فراقؔ بہت ہی سنجیدہ ہو کر بیٹھ گئے۔ سگریٹ پیتے جاتے تھے اور کسی دنیا میں غرق ہوتے چلے جاتے تھے۔ رکشہ جب بینک رود پر پہنچا تو فراقؔ بھی خیالی دنیا سے اتر کر دھرتی پر آ گئے تھے۔

فراقؔ کی بادہ نوشی بھی ایک عجیب و غریب چیز تھی۔ جب جی میں آیا رات دن شراب میں غرق رہے اور خود چلتی پھرتی بوتل بن گئے۔ اور جب جی میں آیا شراب کے نام سے بیزار ہو گئے۔ انہیں کے سامنے بیٹھ کر لوگ شراب پیتے رہے اور فراقؔ ایک پارسا بن کر لوگوں کی گفتگو میں حصہ لیتے رہے۔ جاڑے کے دن تھے اور کرسمس کے ایام۔ فراقؔ نے کہا ’’رمیش۔ چلو کچھ شراب خرید لائیں۔ ‘‘ اور فوراً نوکر کو رکشہ لانے کا حکم دے دیا۔ میں نے عرض کیا۔ ’’حضور آجکل تو آپ شراب چھوڑ چکے ہیں۔ ‘‘ تو فرمانے لگے۔ ‘‘ جیسے میں نے چھوڑی تھی ویسے ہی میں نے شروع کر دی۔ میاں شراب وراب اب کون پیتا ہے اور کون چھوڑتا ہے۔ جی میں آیا آج بڑا دن ہے۔ خشک ہونٹوں کو ذرا بھگو لیا جائے۔ میں شراب ضرور پیتا ہوں مگر شرابی نہیں ہوں۔ رکشہ پر بیٹھ کر سول لائنس پہنچے اور شراب کی دوکان میں داخل ہو گئے۔ دوکان کے مالک نے فراقؔ کو پہچان لیا اور پوچھ پڑا۔ ’’حضور! کیا پیش کروں۔ ‘‘ ’’بھائی کچھ اچھی شرابوں کے نام بتاؤ جو تمہاری دوکان میں موجود ہوں۔ ‘‘ ویٹ ۶۹، جانی واکر، ریڈ اور بلیک لیبل، ڈمپل، پسیٹراس کاٹ، میکڈاول، بلیک نائٹ، ڈرائی جن وغیرہ وغیرہ، آپ جو فرمائیں پیش کروں۔ رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔ دوسرے خریداروں کی توجہ شراب سے ہٹ کر فراقؔ پر مرکوز ہو گئی۔ فراقؔ بولے۔ بتاؤ رمیش! کیا لے لوں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ’’آپ جو چاہیں خریدیں۔ شراب کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ ‘‘ پھر ٹہل ٹہل کر بوتلوں کو دیکھنے لگے اور کہنے لگے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے۔ دوکان میں کل کتنی بوتلیں ہوں گی؟۔ یہی ساٹھ ستر کے قریب۔ فراقؔ نے پیشانی پر شکن ڈالتے ہوئے کہا ’’ساری بوتلیں پیک کر کے رکشہ پر رکھوا دیجئے …‘‘ دوکان کے مالک کی بڑی منت سماجت کے بعد دس بوتلیں چھوڑ دینے پر راضی ہو گئے۔ باقی پیتالیس پچاس کے قریب بوتلیں پیک کر کے رکشہ پر رکھ دی گئیں۔ چلتے وقت فراقؔ نے کہا کل ملازم کے ہاتھ بل بھیج دیں۔ چیک دے دوں گا۔ ‘‘

جاڑے کی صبح لان پر کر سیاں لگی ہیں ایک دو آدمی ملنے آئے ہیں۔ فراقؔ دھوپ سینک رہے ہیں اور اخبار پڑھ رہے ہیں ڈاکیہ خطوں اور رسالوں کا ایک بنڈل دے کر چلا گیا۔ فراقؔ ایک ایک کر کے خطوط پڑھنے لگے۔ رمیش دیکھو بمبئی سے مشاعرہ کا دعوت نامہ آیا ہے۔ دو دن کا پروگرام ہے۔ ہم لوگوں کا تاج محل ہوٹل میں ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا ہے۔ ’’جشنِ میر منایا جا رہا ہے۔ ایک دن طرحی مشاعرہ بھی ہے۔ مصرع طرح ہے ’’مشہور چمن میں مری گل پیر ہنی ہے۔ (میر) رمیش تم بھی میرے ساتھ بمبئی چلنا۔ اچھا حضور جیسا آپ کا حکم۔ ’’دیکھو گیٹ پر رکشہ سے کوئی اتر رہا ہے۔ کون ہے بھئی۔ ’’میں ہوں اعجاز حسین۔ ‘‘ ’’ ارے بھائی خوب آئے آؤ جلدی آؤ۔ ‘‘ اعجاز صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ نوکر نے ان کے سامنے تلے ہوئے کباب اور چائے کی پیالی رکھ دی۔ ’’فراقؔ صاحب آپ کو ایک زحمت دینے آیا ہوں۔ ایک چھوٹا سا کام ہے۔ آپ کو میرے ساتھ……جج صاحب کے پاس چلنا ہے۔ ضرور ضرور دو رکشے بلوا لیے گئے۔ ایک پر ڈاکٹر اعجاز اور دوسرے پر میں اور فراقؔ ۔ جج صاحب کے بنگلہ پر پہنچنے پر ہم لوگوں کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا گیا۔ معلوم ہوا کہ جج صاحب ابھی پوجا کر رہے ہیں۔ اتنے میں جج صاحب کے والد صاحب جن کی عمر ۷۵ اور ۸۰ کے درمیان ہو گی تشریف لے آئے اعجاز صاحب نے ان سے پوچھا۔ ‘‘ کیسے مزاج ہیں آپ کے آج کل آپ کیا کر رہے ہیں۔ ‘‘ جج صاحب کے بزرگ والد صاحب کچھ اونچا سنتے تھے۔ فراقؔ بول پڑے۔ ’’آج کل آپ جج صاحب کی فادری کر رہے ہیں۔ ‘‘بزرگوار فراقؔ صاحب کے جملوں کو ٹھیک سے سن بھی نہ پائے تھے۔ کہنے لگے۔ ‘‘ فراقؔ صاحب ٹھیک فرماتے ہیں۔ ‘‘ ہنسی روکنا مشکل ہو رہا تھا۔ انتظار کرتے کرتے نصف گھنٹہ ہو گیا۔ فراقؔ پریشان ہو گئے۔ وہاں بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب کر کے کہنے لگے۔ اس ملک کا کیا ہو گا۔ لوگوں کو اتنا انتظار کرانا کتنا بڑا گناہ ہے۔ اسے سمجھنا حضرت کی سمجھ سے باہر ہے۔ بتائیے نو بج رہے ہیں اور پوجا ابھی تک چل رہی ہے۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ میاں کو اتنی بڑی رشوت کیوں دی جا رہی ہے کہ نوکری بر قرار رہے۔ آدمی سے ٹھیک سے ملنا، اچھی طرح چائے پینا، جاڑے میں دھوپ سینکنا، سبھی کچھ پوجا ہی تو ہے ہمارا ہر کام پوجا کے سوا اور ہے کیا۔ ہمارا وجود ایک عبادت ہے اور ہماری ہر سانس اک پوجا ہے۔ ‘‘ لوگ بڑی سنجیدگی اور دلچسپی کے ساتھ فراقؔ کی باتیں سن رہے تھے۔ ساڑھے نو بج رہے تھے۔ فراقؔ اٹھ کھڑے ہوئے۔ تب تک جج صاحب مسکراتے ہوئے باہر آ گئے۔ حضور معاف کیجئے گا آپ کو بڑا انتظار کرنا پڑا۔ میں پوجا تو کب کی ختم کر چکا تھا۔ آپ کی باتیں چھپ کر سن رہا تھا۔ یہ میری پوجا کا اثر تھا کہ آپ سے اتنی باتیں تبرک کی شکل میں مل گئیں۔ در اصل بات یہ تھی کہ آج میری آنکھ دیر میں کھلی اسی لیے سندھیا میں دیر ہو گئی۔ فراقؔ صاحب نے پھر اعجاز صاحب کے کام کے بارے میں بات کرنا شروع کی۔ اعجاز صاحب چاہتے ہیں کہ آپ ان کے گھر پر ہونے والی اگلی نشست پر صدارت فرمائیں۔ جج صاحب نے منظوری دے دی۔

ایسے دلچسپ واقعات کسی نہ کسی شکل میں روز ہی پیش آیا کرتے تھے۔ بمبئی کے لیے ہم لوگوں کا ریزرویشن ہو گیا۔ فراقؔ طرحی غزل ابھی تک پوری نہیں کر پائے تھے۔ ایک دن علی الصباح فراقؔ پر شعر نازل ہونے لگے۔ پورے دو دن میں غزل تیار ہو گئی۔ بمبئی جانے کی پوری تیاری کر لی گئی۔ ہم لوگ اسٹیشن پہنچ گئے۔ گاڑی آنے سے دو گھنٹے پہلے اسٹیشن پر فراقؔ اور ہم لوگ ریفریشمنٹ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ فراقؔ نے کباب کی فرمائش کی۔ کباب نہیں تھے۔ بھنے ہوئے مرغ کی فرمائش کی۔ جواب ملا نہیں ہے۔ فراقؔ بٹیر، تیتر، سیخ کباب کی فرمائش کرتے رہے ہر چیز کا جواب نہیں ملتا رہا۔ پھر جھلا کر کہنے لگے۔ ستو ہے، بتاشہ ہے گڑ کی جلیبی ہے گوبر ہے۔ بھوسا کھانے والے جب منتظم ہوں گے تو ان سے امید ہی کیا کی جا سکتی ہے۔ ہوٹل کے بیرے کے کندھے پر پڑے گندے کپڑے کو دیکھ کر کہنے لگے، اسے دیکھ کر قے ہو رہی ہے۔ بیرے سے کہئے کہ یہاں سے تشریف لے جائیں۔ ان گندے کپڑوں کی طرح ان کی روحیں بھی گندی ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب اسٹیشن کے ہوٹلوں میں کلنرKilnerکا انتظام تھا۔ گورکھپور جیسی جگہ میں نے پنڈت موتی لال جی کو اسٹیشن کے ہوٹل میں کھانا کھلایا تھا اور پنڈت جی خوش ہو گئے تھے۔ جناب اچھے کھانے کی صفت یہ ہے کہ کھانا (Memory) بن جائے۔ اس وقت پنڈت جی کے سامنے اس کاچ کی بوتل رکھ دی تھی۔ پنڈت جی خوش ہو گئے۔ کسی طرح گاندھی جی تک یہ بات پہنچ گئی۔ گاندھی جی نے اس بات پر ناراضگی ظاہر کی۔ اس واقعہ کو لے کر موتی لال جی اور گاندھی جی میں اچھی خاصی خط و کتابت ہو گئی۔ بڑا دلچسپ واقعہ تھا۔ تب تک گاڑی آنے کی خبر ہوئی قلیوں نے سامان اٹھا لیا اور ہم لوگ پلیٹ فارم پر نکل آئے۔ گاڑی آ کر رک گئی۔ فراقؔ نے کہا :رمیش! دو انگل شراب بنا دو۔ حضور ہم لوگ گاڑی میں بیٹھ جائیں پھر آپ شراب لے لیجئے گا۔ میں شراب اسی وقت لوں گا چاہے مجھے گاڑی چھوڑ دینی پڑے۔ شراب بننے کے بعد فراقؔ ایک ہی گھونٹ میں شراب پی گئے۔ گاڑی چل پڑی۔ آؤ رمیش پاس بیٹھ جاؤ۔ یار ہلکی پھلکی باتیں کریں۔ ٹوکری سے ایک موتی چور کا لڈو نکال کر مجھے دے دو۔ ہم لوگ اپنے بچپن میں گرمیوں کی چھٹی میں بیل گاڑی میں بیٹھ کر اپنے گاؤں جایا کرتے تھے۔ راستے میں کسمی جنگل پڑتا تھا۔ میرے والد صاحب نے مجھ سے کہا دیکھو یہ پیڑ ایک پیر پر کھڑے ہو کر تپسیا (ریاضت) کر رہے ہیں۔ اسی طرح تمہیں بھی علم حاصل کرنے کے لیے تپسیا کرنی چاہیئے۔ میں نے بڑے ادب سے والد صاحب سے کہا اگر علم حاصل کر کے لیے اتنی محنت کرنے کی ضرورت ہے تو میں جاہل رہنا پسند کروں گا۔ میں کسی چیز کو محنت کر کے حاصل کرنے کے خلاف ہوں۔ علم کا سر چشمہ تو ہمارے اندر سے پھوٹتا ہے۔ جتنی آسانی اور تجربوں اور طریقہ سے ہم سانس لیتے ہیں اسی سہج بھاؤ سے دنیا کا مشکل سے مشکل علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔ میں نے فراقؔ صاحب سے پوچھا تو پھر حضور دنیا میں محنت کرنے پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے۔ محنت کی اتنی تعریف کیوں کی جاتی ہے۔ اسی لیے کہ اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چلتا۔ محنت ایک Necessary Evilہے۔ اس محنت کا مقصد ہی یہی ہے کہ ہمیں کم سے کم محنت کرنی پڑے۔ All Labour is Degradingٹیگور نے بالکل ٹھیک کہا تھا۔ شود ر وہ ہے جسے مجبور اً کام کرنا پڑے۔ مگر اپنی خوشی اور پنی مرضی سے کیا جانے والا کام خوشی اور تفریح ہے۔ آدمی اس لیے نہیں بنا ہے کہ وہ آٹھ گھنٹے دفتر میں گدھوں کی طرح فائلیں ڈھوتا رہے۔ دو روٹی پانے کے لیے کم سے کم محنت کی ضرورت ہونی چاہئے۔ یہی کمیونزم کا بھی مقصد ہے۔ سرمایہ داری اور کمیونزم میں یہی فرق ہے۔ سامنے بیٹھے دوسرے مسافر سے فراقؔ نے ٹائم پوچھا۔ اس نے گھڑی دیکھ کر کہا حضور ابھی تین بج رہے ہیں۔ ہر گز نہیں۔ ابھی تین نہیں بج سکتے۔ دو سے زیادہ ہوہی نہیں سکتے۔ واقعی اس وقت دو بج کر دس منٹ ہوئے تھا۔ ان صاحب کی گھڑی بند ہو گئی تھی۔ ساتھ بیٹھے ہوئے ایک دوسرے مسافر نے پوچھا حضور آپ کو وقت اتنا صحیح اندازہ کیسے ہوا۔ سنیے جناب ہندوستان میں لوگ گھڑی وقت جاننے کے لیے نہیں پہنتے۔ گھڑی اس لیے پہنتے ہیں کہ وہ کلائی کی زینت ہے۔ گھڑی کلائی میں نہیں پہنی جاتی۔ گھڑی دماغ میں ہوتی ہے۔ آپ پوچھتے ہیں ہمیں وقت کا اتنا ٹھیک اندازہ کیسے ہوا۔ بھائی میری زندگی لمحوں اور دھڑکنوں میں کٹی ہے۔ زندگی کی رات کا لمبا سفر صرف گھڑی کے سہارے طے کر رہا ہوں۔ مجھے ہر چیز کا بڑا انتظار کرنا پڑا ہے۔ دوستوں کا، معشوقوں کا، پیسوں کا۔ میری ساری زندگی اک انتظار کی کہانی ہے۔ ایسا انسان تو خود ہی گھڑی بن جائے گا۔

جب فراق کی آنکھ کھلی تو اس وقت سات بج رہے تھے۔ یہ فراق کے شراب پینے کا وقت تھا۔ شراب کی بوتل ان کے پاس رکھ دی گئی۔ اب فراق شراب پی رہے تھے سگریٹ پی رہے تھے اور شعر گنگنا رہے تھے۔ سنو رمیش میر دردؔ کے یہ شعر مجھے بہت پسند ہیں :

کھولی تھی آنکھ خوابِ عدم سے ترے لیے

آخر کو جاگ جاگ کے جا چار سو گئے

روندے ہے نقشِ پا کی طرح خلق یاں مجھے

اے عمرِ رفتہ چھوڑ گئی تو کہاں مجھے

فراقؔ ادھر ادھر سے کبھی میرؔ کے دردؔ کے کبھی یقینؔ کے کبھی آتشؔ کے اور کبھی کبھی انگریزی شاعروں کے کلام سناتے رہے۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ فراقؔ کھا پی کر سو گئے۔ میں بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔ فراقؔ کے ساتھ رہنے میں میرے دماغ میں ہر وقت Tensionیا ایک تناؤ کا عالم بنا رہتا تھا، حالانکہ میرے لیے کسی چیز کی پابندی نہیں تھی۔ میں فراقؔ کی شخصیت کے بوجھ سے کبھی آزاد نہیں ہو سکا۔ مجھے ویسے بھی گاڑی میں نیند  ر ہے۔ بھوسا کھانے والے جب منتظتنہیں آتی۔ بارہ بجے کے قریب فراقؔ نے میرا نام لے کر پکارا۔ جی حضور کیا حکم ہے۔ یار طرحی غزل میں ایک دو شعر ہو گئے ہیں۔ نوٹ کر لو صبح بتا دینا۔ میں نے روشنی کر دی۔ دوسرے مسافر بھی اٹھ گئے وہ دو شعر یہ تھے۔

تاروں کو، ہواؤں کو، فضاؤں کو سلا کر

اے رات کوئی آنکھ ابھی جاگ رہی ہے

کہہ دے تو ذرا سر ترے دامن میں چھپاؤں

اور یوں تو مقدر میں مرے بے وطنی ہے

’’جاؤ اب سو جاؤ‘‘

اس رات فراقؔ رات بھر کچھ نہ کچھ گنگناتے رہے۔ صبح ہوئی تو بولے ’’ بھائی کہیں سے چائے اور اخبار منگواؤ۔ اگلے اسٹیشن پر گاڑی رکی تو دونوں چیزیں حاضر کر دی گئیں میں نے فراقؔ کو رات میں کہے ہوئے دونوں شعروں کی یاد دلائی تو فراقؔ کہنے لگے ’’بھائی مجھے قطعی یاد نہیں ہے۔ بڑا احسان کیا آپ نے۔ دونوں ہی بہت اچھے شعر ہیں۔ میں نے ایک آدھ شعر اسی طرح کے اور بھی کہے تھے رات کو۔ مگر اس وقت شعر ذہن سے اتر گئے ہیں ابھی یاد آ جائیں گے۔ دو انگل شراب بنا دو۔  ہاں،  انڈے بھی دے دو۔ کچھ کھا پی لیا جائے۔ یہ شعر سنو:

جاؤ نہ تم اس گم شدگی پر کہ ہمارے

ہر خواب سے اک عہد کی بنیاد پڑی ہے

فراقؔ ڈائری میں شعر لکھتے رہے۔ گنگناتے رہے۔ پھر بولے ہٹاؤ ڈائری وائری۔ شعر ذہن کو سکون بھی دیتے ہیں اور تھکا بھی ڈالتے ہیں۔ فراقؔ کی دیکھ بھال کرتے بمبئی آ گیا۔ اسٹیشن پر کافی بڑی تعداد میں لوگ فراقؔ کو لینے آئے تھے۔ سامان اتار لیا گیا۔ گاڑی میں بیٹھ کر ہم لوگ تاج محل ہوٹل پہنچ گئے۔ علی سردارؔ جعفری، عصمتؔ چغتائی، کیفیؔ اعظمی، کیفی صاحب کی بیگم، مظفرؔ بھائی اور ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ تھے۔ مجھے ہوٹل کا سوٹ بہت پسند آیا۔ کمرے سے دور دور تک پھیلا ہوا سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ جو زندگی اور ابد کا منظر پیش کر رہا تھا۔ سب کے لیے چائے آ گئی۔ اسی ہوٹل میں شاعروں کے ایک دوست پر کاش نیرؔ صاحب ٹھہرے تھے۔ فراقؔ کو اس ہوٹل میں ٹھہرانے کا ذمہ انہوں نے ہی لیا تھا۔ فراقؔ صاحب نے علی سردارؔ جعفری کو خطاب کر کے کہا۔ ’’بھائی علی سردار۔ ہونٹ کڑوے کراؤ۔ میں چائے وائے نہیں پیوں گا۔ جعفری صاحب کے اشارے پر پرکاش نیرؔ ایک اسکاچ کی بوتل اٹھا لائے۔ کچھ لوگ شراب پی رہے تھے اور کچھ لوگ چائے۔

دوسری دن فراقؔ صبح چار بجے ہی اٹھ بیٹھے۔ کہنے لگے ’’رمیش کل رات تم بڑی گہری نیند سو رہے تھے۔ میرے کئی بار آواز دینے پر بھی تم نہیں اٹھے۔ تمہیں ایسی گہری نیند میں دیکھ کر مجھے بڑی خوشی بھی ہوئی اور رشک بھی آیا۔ ایسی گہری نیند مجھے کبھی نصیب ہی نہیں ہوئی۔ میں رات ٹہل ٹہل کر شعر کہتا رہا۔ کافی لمبی غزل ہو گئی ہے کچھ شعر کاٹنے ہیں۔ شعروں کے انتخاب کا کام بڑا مشکل ہوتا ہے۔ اس معاملے میں غالبؔ نے بڑا کمال دکھایا۔ کاش میں بھی ایسا کر پاتا۔ خیر میں یہ کام دوسروں پر چھوڑ تا ہوں۔

دن میں ملنے جلنے والوں کا سلسلہ جاری رہا۔ پانچ دس لوگ ہمیشہ ہی فراقؔ کے پاس ہوتے۔ فراقؔ اسے بہت پسند کرتے تھے دن بھر شعر و شاعری فلاسفی اور لطیفوں کا دور چلتا رہا شراب کے دور کی طرح۔ شام کو مشاعرے میں جانے کی تیاری ہونے لگی۔ مشاعرہ پٹیل اسٹیڈیم میں تھا۔ پھاٹک پر اتر کر ابھی کچھ ہی دور چلے ہوں گے کہ جوشؔ صاحب مل گئے۔ ’’جان من جانِ من‘‘ کہہ کر فراقؔ سے گلے مل گئے۔ دونوں کی آنکھوں میں محبت اور خلوص نمایاں تھا۔ فراقؔ نے پوچھا  ’’جوشؔ صاحب، آپ کا کیا حال ہے۔‘‘

’’ فراقؔ میں ویسے ہی ہوں جیسے کوفہ میں حسینؑ ہوں۔ زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ تمھارا کیا حال ہے فراقؔ۔‘‘ (جوش نے کہا)

’’ بس جی رہا ہوں جوشؔ صاحب آپ سے ملنے بمبئی چلا آیا۔ ‘‘(فراق نے جواب دیا)

فراقؔ اور جوشؔ ہلکی پھلکی پیار اور محبت میں ڈوبی ہوئی باتیں کرتے ہوئے مشاعرے کے پنڈال کی طرف بڑھتے جا رہے تھے اور ان کو گھیرے ہوئے لوگوں کا ایک ہجوم بھی ان کے ہمراہ تھا۔ میں نے جوشؔ کے بارے میں فراقؔ سے بہت کچھ سن تو ضرور رکھا تھا مگر ان کو دیکھا کبھی نہیں تھا۔ اس دن ان کے درشن بھی ہو گئے۔

مشاعرہ کا پنڈال بہت ہی خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ فراقؔ اور جوشؔ جیسے ہی پنڈال میں داخل ہوئے۔ جناب وی شنکر نے بڑھ کر ان کا خیر مقدم کیا۔ اس مشاعرہ کی صدارت کا بار وی شنکر پر ہی تھا۔ لوگوں نے فراقؔ اور جوشؔ کو گھیر لیا۔ لوگ ان شاعروں کو پر اشتیاق نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ انسان کی شخصیت میں وہ کیا چیز ہوتی ہے جو لوگوں کے دل و دماغ کو اپنی طرف اتنی زور سے کھینچتی ہے۔ پنڈال کھچا کھچ بھرا تھا۔ بمبئی شہر کا کریم (Cream) اس مشاعرہ کو سننے کے لیے وہاں جمع ہو گیا تھا۔ جوشؔ، فراقؔ، جگرؔ، سردارؔ جعفری، کیفیؔ اعظمی، مجروحؔ سلطانپوری، شکیلؔ بدایونی، کے علاوہ اور بھی متعدد شاعر تھے مشاعرے کا افتتاح جناب وی شنکر کی تقریر سے ہوا۔ شنکر صاحب میرؔ کی شاعری پر بھی بول رہے تھے اور ساتھ ہی ساتھ جوشؔ، فراقؔ، جگرؔ وغیرہ کا بھی بڑی خوبصورتی سے اپنی تقریر میں ذکر کر رہے تھے۔ شنکر صاحب کی تقریر کے بعد محترمہ مینا کماری نے مشاعرے کا افتتاح میر صاحب کی ہی ایک غزل سے کیا جس کا ایک شعر ہے :

ہم ہوئے تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے

اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے

کیا آواز تھی، کیا غزل تھی۔ مینا کماری جی کی آواز رات کی خاموشی کے طلسم کو توڑ رہی تھی۔ آواز تھی کہ جادو تھا۔ شاعروں اور سامعین پر ایک عالم بے خودی اور فضا پر ایک سکوت طاری تھا۔ مینا جی کا پڑھنا ختم ہوا تو جادو ٹوٹا اور لوگ عالم بے خودی سے عالم بیداری میں واپس آئے۔ تھوڑی دیر بعد مقامی شاعروں کو دعوت سخن دی گئی۔ پھر جگرؔ صاحب تشریف لے آئے۔ غزل بہت ہی پیاری تھی اور غزل سے زیادہ پیاری جگرؔ صاحب کی آواز، بیماری کے عالم میں بھی کتنی جان تھی ان کی آواز میں، ان کے ترنم میں۔ واہ جگرؔ صاحب واہ۔ جگرؔ صاحب کے بعد فراقؔ کا نام پکارا گیا۔ لوگوں نے زور زور سے تالیاں بجا کر فراقؔ کا خیر مقدم کیا۔ اس نام کے ساتھ جانے کتنی باتیں ساتھ ساتھ جڑی ہوئی تھی۔ علم و دانش غصہ، پیار، امرد پرستی کے ہزار سچے جھوٹے واقعات، شاعری میں خیالات کی گہرائی، پیسوں کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ ہوشمندی دماغ کی برہمی بے ساختہ اور بے مثال حاضر جوابی اور صاف گوئی۔ اور جانے کیا کیا چیزیں وابستہ تھیں فراق کے نام کے ساتھ۔ فراق مائک کے پاس تشریف لائے۔ میں ان کے ہاتھ میں ڈائری اور چشمہ دے کر بیٹھ گیا۔ فراقؔ نے غزل کا مطلع سامعین کی خدمت میں پیش کیا۔ اپنی تہہ دار سوچ میں ڈوبی ہوئی اور گرجتی ہوئی آواز میں ؛

ہر ذرّہ پہ اک کیفیت نیم شبی ہے

اے ساقیِ دوراں یہ گناہوں کی گھڑی ہے

چاروں طرف سے مکرّر ارشاد، مکرّر ارشاد کی آوازیں آ رہی تھیں۔ فراقؔ بھی جھوم رہے تھے اور سننے والے بھی۔ فراقؔ نے دوسرا شعر پڑھا۔

معلوم ہے سیرابیِ سر چشمۂ حیواں

بس تشنہ لبی تشنہ لبی تشنہ لبی ہے

اس شعر نے جگرؔ کا برا حال کر دیا۔ جگرؔ صاحب نے فرمایا فراقؔ کیا شعر ہوا ہے، فراقؔ زندہ باد، زندہ باد فراقؔ ۔ فراقؔ ابھی شعر پڑھ ہی رہے تھے کہ مینا کماری جی تھوڑی دیر کے لیے اٹھ گئیں اور ابھی وہ ڈائس پر تشریف لا ہی رہی تھیں کہ فراق نے ان کو مخاطب کر کے یہ شعر پڑھا۔

ہم لوگ ترا ذکر ابھی کر ہی رہے تھے

اے کا کلِ شب رنگ تری عمر بڑی ہے

واہ واہ کا ایک ہنگامہ بر پاہو گیا۔ فراق کی غزل اب مقطع تک آ گئی تھی۔ فراق نے مقطع پیش کیا۔

جاگے ہیں فراق آج غمِ ہجر میں تا صبح

آہستہ چلے آؤ ابھی آنکھ لگی ہے

فراق کے غزل پڑھنے کے بعد بھی دس پندرہ منٹ تک تالیوں کی آواز سنائی پڑتی رہی۔ اسی مشاعرے میں جوش نے اپنی مشہور نظم ’’کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے ‘‘سنائی تھی قریب بارہ بجے کے ہم لوگ اپنے ہوٹل میں لوٹ آئے۔ ہم لوگوں کے ساتھ بھی بہت سے لوگ تھے۔ سبھی پر فراقؔ کا جادو سوار تھا۔

دوسرے دن دس بجے کے قریب کچھ لوگ ملنے آ گئے۔ فراقؔ گفتگو کے دوران بول اٹھے سنیے حضرات ایک واقعہ۔ گورکھپور کے ایک رئیس نے کسی اعلیٰ حاکم کو دعوت پر بلایا۔ حاکم نے لکھ بھیجا۔ I Am Sorry, I Cannot Come رئیس صاحب کو انگریزی بالکل نہیں آتی تھی۔ کسی سے خط پڑھوا کر سمجھا تو کہنے لگے۔ نہ آ سکنے کے لیے حاکم نے بڑا افسوس ظاہر کیا ہے۔ میں اس خط کو بڑی حفاظت سے رکھوں گا۔ آنے والی نسلیں اس پر بڑا فخر کریں گی۔

دو پہر کا کھانا عصمت آپا کے گھر تھا۔ ہم لوگ وہیں چلے گئے۔ کھانے کی میز پر پچھلی رات کے مشاعرے کا ذکر رہا۔ سبھی اپنی اپنی رائے ظاہر کر رہے تھے۔ عصمت آپا نے پوچھا ’’فراقؔ صاحب! آپ ہندی کو اتنا برا کیوں کہتے ہیں۔ ہندی ایک بڑی خوبصورت زبان ہے۔ عصمت آپا نے برج بھاشا کی کچھ خوبصورت سطریں سنائیں تو فراقؔ کہنے لگے ’’عصمت جی میں برج یا اودھی کا تو خود بھی قائل ہوں۔ میں ہندی کھڑی بولی میں جو پھوہڑ اور بھدی شاعری ہو رہی ہے اس کا دشمن ہوں۔ تمہاری نظر ابھی ہندی کی کھڑی بولی شاعری تک نہیں پہنچی ہے۔ پھوہڑ الفاظ اور بھونڈی آوازیں کانوں کو بہت تکلیف پہنچاتی ہیں۔ ‘‘ کسی صاحب نے پوچھا ’’حضور زیادہ تر سنسکرت الفاظ ہماری کھڑی بولی کے ساتھ تال میل کیوں نہیں کھاتے ‘‘ ’’ اچھا سوال پوچھا آپ نے۔ ہر کلاسیکی زبان کا مزاج عوام کی زبان نہیں تھی۔ کچھ گنے چنے یعنی خواص ہی اسے بولتے تھے۔ زیادہ تر سنسکرت کے الفا کا مزاج بھی کٹّر برہمنوں کے مزاج جیسا ہی ہے۔ جیسے پنڈت لوگ عوام کے ساتھا ٹھنے بیٹھنے ملنے جلنے اور کھانے پینے سے گریز کرتے تھے۔ وہی حال ان سنسکرت الفاظ کا ہے عوام کی زبان کا ساتھ یہ الفاظ نہیں دے پاتے۔ فارسی اور عربی الفاظ کا معاملہ ٹھیک اس سے الٹا ہے۔ بادشاہ سے لے کر معمولی اونٹ چرانے والے سبھی ایک ہی زبان بولتے تھے اور پھر فارسی تو کافی حد تک سنسکرت سے نکلی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے فارسی اور عربی کے الفاظ ہماری زبان یعنی کھڑی بولی اردو میں گھل مل گئے ہیں بس ہندی والے اتنی سی بات نہیں سمجھ پاتے۔ اردو کا شاعر یا ادیب ہندوستان میں چاہے جہاں بھی رہتا ہو، اس کی نظر دلّی یا لکھنؤ پر رہتی ہے چاہے میرؔ ہوں، ولیؔ دکنی ہوں، شادؔ عظیم آبادی ہوں، حالیؔ پانی پتی ہوں، آسیؔ غازی پوری ہوں عصمتؔ چغتائی ہوں، مجروحؔ سلطانپوری، خمارؔ بارہ بنکوی ہوں، نذیرؔ بنارسی ہوں یا فراقؔ گورکھپوری ہوں یا منشی پریمؔ چند ہوں سردارؔ جعفری ہوں کیفیؔ اعظمی ہوں اقبالؔ ہوں، جوشؔ ملیح آبادی ہوں یا فیض احمد فیضؔ ہوں۔ سب کی زبان ایک خاندان یا ایک کنبہ کی زبان معلوم ہوظ راق نے جواب دیا)تی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ سب کے سب ایک ہی گھر میں رہنے والے بھائی بندھو ہیں۔ ہندی کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ ہر زبان کا ایک مرکز ہوتا ہے۔ کسی سے پوچھئے ہندی کا گھر کہاں ہے تو بتانا مشکل ہو جائے گا۔ پھر بھی ہندی کے جن ادبیوں نے خوبصورت ہندی لکھی ہے میں انہیں دل سے مانتا ہوں۔ ‘‘

شام کو چھ بجے ہم لوگ مشاعرے میں پہنچ گئے اس دن مشاعرے کی سج دھج پہلے دن سے بھی کچھ زیادہ تھی جشنِ میر کے اس دن کے مشاعرے میں فراقؔ سامعین کے سامنے ایک نئے انداز میں پیش آئے۔ پوری غزل میرؔ کے رنگ اور میرؔ کی زبان میں تھی غزل شروع کرنے سے پہلے فراقؔ نے کہا۔ سنویارد آج سے ڈھائی سو برس پہلے کا اردو شعر عرض کیا ہے۔

ایک بار محفل پر پھر فراقؔ کا جادو چل گیا۔ رس کے ساگر میں ڈوب گئے لوگ۔ فراقؔ نے دو سرا شعر تیسرا شعر پڑھا۔

خنک سیہ جھکے ہوئے سائے پھیل جائے ہیں جل تھل پر

کن جتنوں سے میری غزلیں رات کا جوڑا کھولے ہیں

فطرت میری عشق و محبت قسمت میری تنہائی

کہنے کی نوبت ہی نہ آئی ہم بھی کسو کے ہوتے ہیں

مشاعرہ ختم ہوا تو لوگ فراقؔ کو گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ چاروں طرف سے آواز آر ہی تھی۔ کلام میر بہ زبانِ فراقؔ واہ فراقؔ واہ۔ دس گیارہ بجے کے قریب ہم لوگ اپنے ہوٹل میں لوٹ آئے۔ فراقؔ کہنے لگے بھائی رمیش ریڈیو والوں سے اور گراموفون کا ریکارڈ بنانے والوں سے بات کی جائے۔ پروگرام ہو جائے تو کچھ پیسے مل جائیں گے۔ فراق کو ہر وقت پیسوں کی فکر رہتی تھی۔

دوسرے دن ہم لوگ سردار جعفری کے یہاں چلے گئے اور جب تک وہاں رہے بڑا خوبصورت ماحول رہا شعر و ادب سیاست ویدانت سبھی کچھ سمٹ کر آ گئے ان ادبیوں کی گفتگو کی زد میں ہر روز فراق کی دعوت کسی نہ کسی کے گھر پر رہتی۔ ڈاکٹر رفیق ذکر یا کے یہاں سردار خشونت سنگھ جی سے ملاقات ہوئی بات کھجراہو تک پہنچی۔ فراق نے کہا۔ Nudity is Not Obscenityاس جملے نے سب کو خوش کر دیا۔

اگلے دن بمبئی کے ایک کالج میں جلسہ تھا۔ فراق اس جلسہ میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے بلائے گئے تھے۔ فراق نے اپنی تقریر کے دوران کہا۔ ہندوستان کو جنتا خطرہ گنوار پن سے ہے اتنا خطرہ نہ تو پاکستان سے ہے اور نہ کسی دوسرے ملک سے۔ بھائی گنوارپن اور جہالت سے بچنے کی کوشش کرو۔ تقریر کے بعد لوگوں نے فراق سے شعر سنانے کی فرمائش کی باقر مہدی اور ندا فاضلی نے بھی اپنا کلام سنایا۔ فراق نئے شاعروں میں ندا فاضلی کو بہت ہی پسند کرتے تھے ندا صاحب کی شاعری کے متعلق کہنے لگے کہ ندا کی شاعری چاہے جدید شاعری ہو یا کچھ اور مگر اس کے کلام میں شعریت ہے ایک تھر تھری ہے اور پاکیزگی ہے۔ طہارت کا احساس شاعری کی جان ہے۔ نیچر اور انسانی زندگی کی اتنی ہم آہنگی کسی دوسرے جدید شاعر کے یہاں کم ہی نظر آتی ہے۔ جب وہ جھرنے کا یا املی کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جھرنا، املی اور گاؤں کا منظر گاؤں کی لڑکی اور انسان کے جذبات سب ایک ہی ہیں جو الگ الگ شکلوں میں نمود ار ہو گئے ہیں۔ بھائی جو کچھ بھی ہو میں ندا کی شاعری دل سے پسند کرتا ہوں۔ اس منزل پر پہنچ کر شاعری شاعری رہ جاتی ہے۔ جدید اور قدیم کا جھگڑا ختم ہو جاتا ہے۔ باقر مہدی صاحب کے متعلق فراق نے فرمایا وادب ان کی شخصیت پر۔ بہر حال آپ ان کے ساتھ رہ کر کبھی سنجیدہ نہیں رہ سکتے۔ You must Laugh With Him Or At Himمیں فیصلہ ہی نہیں کر پاتا ہوں دونوں میں سے کس کو زیادہ بڑا سمجھا جائے۔ شاعر کو یا اس کی شاعری کو پھر میں نے سوچا دونوں کو ہی بڑا مان لیا جائے۔

دوسرے دن تاج محل ہوٹل میں بیٹھ کر فراق اور ان کے دوست شراب پی رہے تھے اس محفل میں عصمت آپا کے شوہر شاہد لطیف صاحب بھی شریک تھے فراق کی کسی بات پر چڑ کر شاہد صاحب کہنے لگے Firaq You are a bore فراق نے فوراً جواب دیا And you are a wildدونوں لڑ پڑے پھر فراق کہنے لگے شاہد صاحب آپ مجھے اور جو چاہئے گالی دے لیجئے مگر بور تو نہ کہئے۔ ‘‘ میں عصمت آپا کے پاس بیٹھا تھا۔ انہوں نے کہا دونوں نے شراب پی رکھی ہے۔ ابھی تھوڑی دیر میں ٹھیک ہو جائیں گے۔ واقعی کچھ ہی دیر بعد دونوں بیٹھ کر بڑے پیار اور مزے کی باتیں کر رہے تھے۔ فراق فرما رہے تھے کہ آپ لوگ جانتے ہیں سب سے بڑا بور کون ہوتا ہے سب سب بڑا بور وہ ہے جو کسی چیز سے بور ہی نہ ہو۔ ‘‘ ایک صاحب نے پوچھا ’’فراق صاحب آپ کی شاعری میں رمزیت، رمز یا رموز کا استعمال بہت ہوا ہے۔ یہ رمزیت ہے کیا؟ یہ ہمارا سنسار مادّے کا بنا ہوا سنسار ہے۔ ہر چیز صاف نظر آتی ہے۔ اس میں رمزیت محسوس کر سکتے ہیں یا یہ صرف کورا لفظ ہی ہے ’’بھائی سوال بہت ہی نازک اور گہرا ہے ‘‘ شاہد صاحب نے کہا ظاہر ہے معاملہ رمزیت کا ہے ’’فراق نے کہا ’’آپ نے ٹھیک ہی کہا شاہد صاحب جب تک ہم چیزوں کو دور سے دیکھتے ہیں یا اچٹتی ہوئی نظر سے دیکھتے ہیں تب تک ہمیں اس چیز یا مادے کی باہری شکل کا ہی اندازہ ہو پاتا ہے جیسے جیسے ہم اس چیز کے قریب ہوتے جاتے ہیں یا وہ چیز ہمارے نزدیک آتی جاتی ہے ویسے ویسے وہ چیز ہمارے لیے ایک راز بنتی جاتی ہے قریب اور نزدیک یا چیزوں سے ہماری Intimacy ایک Mysteryکا Senseپیدا کرتی ہے۔ آپ بھی اندھیری رات یا تاروں بھری رات یا کسی وادی دریا پہاڑ جنگل یا کسی معمولی درخت یا پودے یا ایک بچے کو دیکھئے اور دیکھتے جائیے۔ جتنی بھی ان چیزوں میں آپ کی محویت بڑھتی جائے گی آپ ان چیزوں کی خارجی شکل کو دیکھیں گے تو چیزیں آپ کے لیے ایک راز بنتی جائیں گی اور آپ ایک دم سدھ بدھ کھو بیٹھیں گے۔ چیزیں آپ کے لیے ایک راز بنتی جائیں گی اور یہ مادی دنیا یا مجاز دنیائے راز بن جائے گا۔ ‘‘ ‘‘ حضور ایسی نظر کہاں سے لائی جائے جو چیزوں میں رمزیت دیکھ سکے۔ بھائی یہ تو خدا جس کو دے۔ ‘‘ اتنے میں مظفر بھائی نے مجھے اشاروں سے بلایا ایک صاحب سے ملوانے کے لیے فراق نے مظفر کو اشارہ کرتے دیکھ لیا تھا۔ بس خفا ہو گئے۔ رمیش صاحب (فراق جب مجھ سے خفگی ظاہر کرتے تھے تو مجھے رمیش صاحب کہتے تھے ) دیکھئے آپ یہ چمر پن بند کیجئے چار شریف آدمیوں کے ساتھ بیٹھ کر کسی سے اشاروں میں بات کرنا اچھا نہیں ہے کیا بات ہے مظفر میاں ‘‘ کچھ نہیں حضور کچھ نہیں کہاں اتنی سنجیدہ باتیں ہو رہی تھیں کہاں اشارے ہونے لگے ماراستیاناس کر دیا۔ ‘‘ فراق کا غصہ بڑھتا ہی گیا اور محفل برخاست ہو گئی۔

ایک بار فراق اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ دلیپ کمار سے ملنے گئے اس وقت بیراگ فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ خبر ہوتے ہی دلیپ صاحب فوراً اسٹوڈیوکے باہر آ گئے اور بڑی محبت سے فراق کو اسٹوڈیو کے اندر لے گئے بیٹھ کر باتیں ہونے لگیں۔ میں نے بڑی دبی زبان میں فراق صاحب سے شوٹنگ دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ فراق نے میری بات دلیپ صاحب تک پہنچا دی۔ شوٹنگ شروع ہو گئی۔ یہ میری زندگی میں شوٹنگ دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔ میں بڑے غور سے دیکھ رہا تھا اک اک چیز کو، اک اک ادا کو اور اک اک اداکار کو، شوٹنگ کے دوران فراق کو سگریٹ پینے کی اجازت نہیں تھی بیچ بیچ میں فراق کئی بار سگریٹ جلاتے اور یاد دلانے پر انہیں سگریٹ بجھانی پڑتی۔ تھوری دیر میں شوٹنگ رک گئی۔ دلیپ صاحب آ کر فراق صاحب کے بغل میں بیٹھ گئے Thoughtاور Actionکی جوڑی بے مثال تھی۔ فراق نے کہا، بھائی دلیپ کمار ہمیں تو ایسا لگا جیسے تم ایکٹنگ ہی نہیں کر رہے ہو۔ :: کافی دیر تک رہنے کے بعد فراق واپس آ گئے۔

بمبئی میں ایک بار  ندافاصفراق وجے لکشمی جی کے مہمان ہوئے۔ فراق کے ساتھ میں میری بیوی کملا جی اور میری بیٹی مجو بھی گور نر ہاؤس میں ٹھہرے۔ گورنر ہاؤس کا ایک بیر اپیرا جی میری بچی منجو کا دوست بن گیا۔ ایک دن منجو دوڑتی ہوئی آئی اور فراق صاحب کی گود میں بیٹھ کر کہنے لگی۔ بابا بابا سمندر زور زور سے چیخ رہا ہے۔ اس کی ٹانگ ٹوٹ گئی ہے۔ بیچارہ کنارے پر بار بار چڑھنا چاہتا ہے مگر کنارہ بار بار اسے ڈھکیل دیتا ہے۔ بابا بابا چلئے سمندر کو اوپر اٹھا لیجئے۔ ‘‘ اس وقت فراق صاحب لکشمی جی سے باتیں کر رہے تھے منجو کی بات سن کر کہنے لگے۔ ‘‘ یہ بچے بھی کھیل کھیل میں کتنی گہری باتیں کر جاتے ہیں، اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے اچھا بیٹی میں ابھی چلتا ہوں اور سمندر کو اٹھا کر اوپر لاتا ہوں اور اس کے پیر میں دوا لگاتا ہوں۔ ‘‘ فراق منجو کو گود میں لے کر اپنے کمرے میں چلے آئے۔

گورنر ہاؤس میں ہم لوگوں کو جو کھانا ملا وہ کچھ مراٹھی طریقے کا تھا سبزی میں، دال میں، گوشت میں گڑ، ہم لوگ پریشان ہو گئے۔ شام کو جب فراق صاحب کی ملاقات گورنر سے ہوئی تو انہوں نے سب سے پہلے کھانے کی شکایت کی۔ وجے لکشمی جی ہم لوگ تو بھوکوں مر گئے۔ مراٹھی کھانے سے ہماری جان بچائیے۔ ہمیں یوپی کے مسلمانوں والا کھانا چاہئے۔ اسی رات سے کھانے کا انتظام بہتر ہو گیا۔ پرتھوی راج فراق سے ملنے تقریباً روز ہی راج بھون تشریف لاتے تھے۔ آرٹ کلچر سنگیت ڈراما سنیما سے لے کر بیگن کا بھرتا کٹہل کے کباب اور کریلا کی کلوجی، ساری چیزیں ان لوگوں کی با توں کے دائرے میں سمٹ آتیں۔ ڈرامے کے ذکر کے دوران بات گیرک تک پہنچتی۔ گیرک اپنے وقت کا انگلینڈ کا سب سے بڑا ادا کار تھا۔ فراق نے کہا کہ گیرک کے مرنے پر جانسن نے کیا بات کہی تھی Gaiety of the Nation has been Eclipsed۔

فراق سہگل کی آواز کو بہت پسند کرتے تھے اور پرتھوی راج جی بھی۔ سنگیت (موسیقی) پر بات آئی تو فراق نے کہا۔ Music is thinking with the throat سنگیت میں جان اس وقت پڑتی ہے جب آسمانوں کے دل میں چھپی ہوئی شاعری گانے والے کی آواز میں بس جائے۔ ساری دنیا فطرت کے الاپوں سے بنی ہے۔ دوسروں کے راز کو جو سمجھ گیا اور سن پایا اور اپنی آواز میں اتار پایا وہی سچا موسیقار ہے آسمانوں کی Musicا تھاہ سکوت سے پیدا ہوتی ہے جس نے سکوت کو اپنے اندر بسا لیا اورسکوت میں خود بس گیا وہی آوازوں کے راز کو سمجھ پایا۔ اور یہ آواز ان کانوں سے نہ سنی جاتی ہے نہ سنائی پڑتی ہے مشہور موسیقار بیتھوون بہرا تھا اور اپنی ہی سنفونی (Symphony) کو سننے کے لیے سر دھنتا تھا بات یہ تھی کہ وہ جنگلوں میں جا کر جنگل کے بولتے ہوئے سناٹوں اور سکوت کو اپنی روح میں سمو لیتا تھا۔ آوازوں کی آواز میں اپنی آواز کو ملا لینا ہی اہم موسیقی کو جنم دینا ہے۔ ‘‘بات کرتے کرتے فراق مسکرا نے لگے۔ پرتھوی راج جی بھی مسکرا پڑے مگر  a You Aمیں پریشان تھا۔ میں نے پوچھا حضور کیا بات ہے۔ ‘‘ کچھ نہیں یار ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک بار رسولن بائی اپنی جادو بھری آواز میں کلاسیکی میوزک پیش کر رہی تھی۔ ‘‘کیسے بھروں میں نیر‘‘ لائن کو بار بار دہرا رہی تھیں لوگ بڑی محویت کے ساتھ سن رہے تھے۔ اس محفل میں ایک بہت بڑے حاکم بھی اپنی بیوی کے ساتھ تشریف فرما تھے ان کی بیوی ایک سیدھی سادی گاؤں کے معمولی گھرانے کی عورت تھی رسولن بائی کو کیسے بھروں میں نیر کو بار بار دہراتے ہوئے سن کر کہنے لگیں۔ اتنی دیر میں تو میں کنویں سے کئی گھڑے پانی بھر لاتی۔ ‘‘ پرتھوی راج کا ہنستے ہنستے برا حال تھا۔ تقریباً ایک ہفتہ بمبئی رہ کر ہم لوگ الہ آباد لوٹ آئے۔

بولپور شانتی نکیتن میں بڑا جلسہ ہونے والا تھا۔ یہ جلسہ و شو بھارتی یونی ورسٹی (University) کی طرف منعقد کیا گیا تھا ہندوستان کی ہر زبان کے نمائندے کو ٹیگور کا اثر اس کی زبان پر کیا پڑا تھا، اسی پر بولنا تھا۔

فراقؔ سے میں الہ آباد ہی میں روز کہتا تھا کہ حضور آپ اپنی تقریر بول کر اسے لکھوا دیں جس سے مضمون ٹھیک وقت سے ٹائپ کرا لیا جائے۔ فراقؔ آج کل کرتے رہے اور چلنے کا وقت قریب آ گیا۔ انہوں نے کہا چل کر مضمون بلو ا دوں گا۔ اب مجھے فراقؔ کے ساتھ سفر کرنے اور دنیا بھر کے ادبی جلوس میں شرکت کرنے کا مزہ آنے لگا تھا۔ ہندوستان کے بڑے سے بڑے ادیبوں اور فنکاروں سے ملنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملتا تھا۔ ہم لوگ ٹھیک وقت پر شانتی نکیتن پہنچ گئے فراق کو ٹاٹا گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرا دیا تھا۔ سبھی ادیب اسی گیسٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے۔ دیر دیر تک ادب پر سیاست پر اور ٹیگور کے فن پر باتیں ہوتی رہتیں نند لال بوس کی پینٹنگ سے لے کر بنگا لی ادب کے مختلف پہلوؤں پر فراق اس خوبصورتی اور خود اعتمادی سے باتیں کرتے تھے کہ سننے والوں کو حیرت ہو جاتی تھی۔ دوران گفتگو فراق صاحب لطیفے بھی سناتے جاتے تھے فراق نے اپنے بچپن کے ایک ماسٹر صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا۔ ’’نرائن پر ساد بھٹا چار یہ ہم لوگوں کو انگریزی پڑھاتے تھے۔ اسکول ہمیشہ ایک گھوڑی پر بیٹھ کر آتے تھے جہاں بھی جاتے گھوڑی ساتھ۔ اسکول کے کچھ بچوں اور ماسٹروں نے پوچھا بھٹا چاریہ جی آپ نے اپنی سواری کے لیے گھوڑی کیوں پسند کی۔ ‘‘ ماسٹر جی نے جواب دیا۔ ‘‘ بھائی میں نے گھوڑی اس لیے پسند کی کہ سواری کی سواری اور زنانہ ساتھ‘‘ ماسٹر جی کی شادی نہیں ہوئی تھی۔ اس دن فراق نے کئی ایسے لطیفے اور واقعات سنائے جو بنگالیوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ایک بنگالی لڑکا تھا سے ملٹری سروس میں بھرتی ہونے کا بے حد شوق تھا۔ وہ بار بار کرنل صاحب کے پاس جاتا اور منت سماجت کرتا۔ ایک بار کرنل صاحب کو ترس آ ہی گیا۔ انہوں نے لڑکے سے دوسرے دن دس بجے آنے کو کہا۔ بنگالی بابو دوسرے دن کرتا اور ڈھیلی ڈھالی دھوتی پہن کر حاضر ہو گئے۔ کرنل نے بنگالی بابو سے کہا اس پول (Pole) کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر تن کر کھڑے ہو جائیے۔ کرنل نے بندوق کا نشانہ سادھ کر گولی چلا دی۔ گولی کرتے کی آستین کو چیرتی ہوئی نکل گئی۔ مگر بنگالی بابو ٹس سے مس نہ ہوئے شاباش شاباش کہتے ہوئے کرنل نے ان کی پیٹھ ٹھونکی اور انہیں نوکری دے دی۔ کرنل نے پھر پوچھا۔ ینگ مین! تمہارا کرتا خراب ہو گیا ہے۔ بتا ؤ اس کی کیا قیمت ہے۔ تیس روپے سر کرنل نے تیس روپے دے دیئے۔ ’’سر تیس روپے اور دیجئے۔ ‘‘ کیوں۔ ‘‘ دھوتی بھی خراب ہو گئی ہے۔ ‘‘ چاروں طرف قہقہوں کا شور گونجنے لگا سنئے ایک اور واقعہ۔ سر راس بہاری گھوش کلکتہ ہائی کورٹ کے مہان وکیلوں میں سے تھے۔ ان کی حاضر جوابی لاجواب تھی ہائی کورٹ کے ایک انگریز کو اجلاس میں سگریٹ پینے کی عادت تھی۔ لوگوں کو برا لگتا تھا مگر کیا کریں۔ بات سر راس بہاری تک پہنچی۔ دوسرے دن جب سر راس بہاری اجلاس میں پہنچے اور بحث شروع کی تو ان کے ہاتھ میں ایک دہسکی کا بڑا خوبصورت پیالہ تھا۔ بحث کرنے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ دہسکی سے شغل بھی کرتے جاتے تھے۔ جج کی نگاہ پڑی تو وہ بو کھلا اٹھاWhat is this Sir Ras Behariجج کے منہ میں لگی سگریٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے راس بہاری نے کہا”And what is that my lord”جج نے سگریٹ پھینکتے ہوئے کہا ’’Here it goes‘‘ راس بہاری ایک ہی گھونٹ میں وہکسی اتار گئے اور بولے ’’Here it goes my lord‘‘ محفل ختم ہو گئی۔

لوگ اپنے اپنے کمروں میں جا کر اپنی لکھی ہوئی تقریر کو پڑھ رہے تھے شام کو چھ بجے سے جلسہ شروع ہونے والا تھا۔ جلسہ کی صدارت ریٹائر چیف جسٹس آف انڈیا جناب ایس آر۔ داس کر رہے تھے۔د اس صاحب وشوا بھارتی کے وائس چانسلر بھی تھے۔ فراق صاحب سے میں نے عرض کیا۔ حضور آپ اب تو مضمون بول دیں۔ میں لکھ ڈالوں تاکہ وقت پر ٹائپ ہو جائے۔ بہت کہنے سننے پر فراق تیار ہوئے اور مضمون لکھانا شروع کیا۔ مضمون کی شرط یہ تھی کہ مضمون یا تو انگریزی میں ہو یا بنگالی میں۔ ٹھیک دو گھنٹے تک فراق سگریٹ پیتے رہے اور ٹہل ٹہل کر مضمون بولتے رہے مضمون تیار ہو گیا۔ میں نے پھر عرض کیا د’حضور اب میں آپ کا لکھا ہوا مضمون پڑھ رہا ہوں ایک بار آپ اسے سن لیجیے اور کوئی بات چھوٹ گئی ہو یا کوئی خامی رہ گئی ہو تو ٹھیک کر لی جائے فراق چڑھ گئے اور کہنے لگے رمیش بابو !آپ میرے ساتھ اتنے دنوں سے ہیں پچاسوں مضامین میرے ڈکٹیشن پر انگریزی اور ہندی میں لکھ چکے ہیں مگر آپ نے کبھی غور نہیں کیا کہ میں ایک بار لکھوانے کے بعد دو بارہ کبھی نہ تو سنتا ہوں اور نہ ہی اس میں کچھ کاٹ چھانٹ کرتا ہوں۔ جو لکھ دیا سو لکھ دیا۔ تب تک وشوا بھارتی کے انگریزی کے پروفیسر صاحب بھی آ گئے۔ فراقؔ نے مضمون کو ٹائپ کرانے کا کام انہیں کے سپرد کر دیا۔ چار بجے شام تک مضمون ٹائپ ہو کر آ گیا۔ فراق صاحب مضمون پڑھ کر باغ باغ ہو گئے تھے اور رہ رہ کر superb اور Wonderfulکہہ رہے تھے۔ ساڑھے پانچ بجے فراق شیروانی اور پاجامہ وغیرہ پہن کر تیار ہو گئے اور مجھ سے کہنے لگے، بیٹا میرے بالوں میں کنگھی کر دو۔ ‘‘ دس منٹ میں ہم لوگ جلسہ میں پہنچ گئے۔ بڑا مہذب جلسہ تھا۔ بنگال کا کلچر اس جلسہ سے ظاہر تھا۔ سبھی لوگ شاندار کرتے اور دھوتی میں نظر آ رہے تھے جلسہ ایک کھلی جگہ شامیانے کے نیچے منعقد کیا گیا تھا، میں فراق کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ جلسہ شروع ہوا۔ صدر کی تقریر ہوئی۔ فراق بڑے غور سے سن رہے تھے اور رہ رہ کر تعریف کر رہے تھے۔ صدر کے بعد کے ایم منشی اماشنکر جوشی اور دوسرے لوگوں کی تقریریں ہوئیں۔ اس کے بعد فراق کا نمبر آیا۔ فراق کھڑے ہوئے لکھے ہوئے مضمون کو ہاتھ میں لے کر پھر ایک آدھ لائن پڑھنے کے بعد مضمون کو میرے پاس پھینک دیا اور اپنے من سے بولنا شروع کر دیا۔ کیا غضب کی تقریر تھی ہر شخص واہ واہ کر رہا تھا۔ تقریر غزل بن گئی تھی فراق قریب ڈیڑھ گھنٹے بولتے رہے لوگوں میں وقت کا احساس ہی جیسے ختم ہو گیا تھا۔ ان سے پہلے بولنے والوں نے بیس پچیس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیا تھا۔ فراق کی تقریر ختم ہوئی تو سدھی رنجن داس(صدر) نے فراق کو گلے سے لگالیا اور کہنے لگے یہ بتانا مشکل ہے کہ ہم لوگ تقریر سن رہے تھے یا کوئی خوبصورت نظم۔ اپنی اختتامی تقریر میں جلسہ کے صدر جناب داس صرف فراق کی تقریر پر تقریر کرتے رہے ان کا آخری جملہFiraq’s Speech was a Poet’s Interpretation of a Poet”” مجھے آج بھی یاد ہے۔ جلسہ ختم ہوا۔ اور آٹو گراف لینے والوں کی بھیڑ نے فراق کو گھیر لیا۔

ایک دن فراق لوگوں کو مخاطب کر کے کہنے لگے۔ اب گرو دیو ٹیگور جسمانی طو  رپر تو نہیں ہیں مگر شانتی نکیتن کے ذرّے ذرّے میں ٹیگور کی آتما(روح) تھر تھرا رہی ہے۔ شانتی نکیتن میں ایک چھوٹی سی مٹی کی بنی ہوئی کٹیا تھی۔ پتہ لگا کہ گاندھی جی اسی کٹیا میں ٹھہرا کر تے تھے۔ اس کٹیا کو دیکھ کر فراق بول اٹھے۔ کتنی اداس لگ رہی ہے یہ کٹیا۔ گاندھی جی ایسا آدمی جس گھر یا جگہ کو چھوڑ جائے وہ گھر یا جگہ اداس تو ہو ہی جائے گی۔

فراق اپنی صحت کے دنوں میں دلّی ایک سال میں کم سے کم دو بار تو ضرور ہی جایا کرتے تھے۔ دلی کلاتھ مل کا شاندار مشاعرہ ہر سال مارچ کے مہینہ میں ہوتا تھا۔ اس مشاعرہ میں فراق ضرور ہی شرکت فرماتے تھے، صحت خراب ہونے کی حالت میں بھی فراق کو ہم لوگ کرسی میں بٹھا کر مشاعرہ گاہ تک پہنچاتے تھے تکلیف گوارہ کر کے بھی مشاعرہ میں شرکت کا سبب تھا لوگوں سے ملنے کی خواہش اور پیسوں کی ضرورت۔ ڈی۔ سی ایم کے مشاعرہ کے علاوہ جنوری میں قریب قریب ہر سال۲۶ جنوری کے سلسلہ میں ایک مشاعرہ بھارت سر کار کی طرف سے منعقد کیا جاتا تھا۔ یہ مشاعرہ بھی بڑا شاندار ہوتا تھا اور اس مشاعرے میں وزیر اعظم سے لے کر بھارت سرکار کے بھی اعلا افسر مشاعرہ سننے کے لیے تشریف لاتے تھے ایک دو بار تو پنڈت نہرو نے بھی اس مشاعرہ کی زینت بڑھائی تھی۔ فراق دلی میں شروع شروع میں جگن ناتھ آزاد کے یہاں ہی ٹھہرتے تھے۔ ان دنوں آزاد صاحب رنگ شیڈ موتی باغ میں رہا کرتے تھے۔ آزاد صاحب جب دفتر سے شام کو گھر واپس آتے تو فراق کے لیے جامع مسجد سے کباب ضرور لاتے۔ کھانے پر گوشت ضرور پکتا تھا ناشتہ میں پوریاں آلو کی سبزی تلے ہوئے انڈے اور وہیں آزاد صاحب کے والد بھی ان دنوں آزاد صاحب کے ساتھ ہی رہتے تھے فراق ان کو استاد مانتے تھے۔ دلّی میں کچھ خاص ہی لوگ تھے جن کے یہاں فراق ٹھہرتے تھے اس سلسلہ میں دی۔ کے ورما۔ بلراج ارورا، بی۔ این۔ ٹنڈن، آر کے گرگ اور جناب اکھلیش متل کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔

ایک بار فراق صاحب وی کے ورما کے مہمان ہوئے۔ وی کے ورما فراق کی بڑی قدر کرتے تھے رات کو ورما جی کے گھر پر ایک نشست تھی۔ قریب دس پندرہ آدمی موجود تھے۔ لوگ صرف فراق کو سننے کے لیے اکٹھا ہوئے تھے۔ اس نشست میں بلراج ارورا صاحب بھی تشریف رکھتے تھے۔ فراق شعر پڑھ رہے تھے لوگ واہ واہ کر رہے تھے۔ ورما جی بے اختیار ہو کر دادے دے رہے تھے۔ واہ واہ کرنے میں ان کا منھ دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں کچھ زیادہ ہی کھل جاتا تھا اور بڑی دیر تک واہ واہ کرتے رہتے تھے۔ فراق نے ایک دو بار تو ورما جی کو سمجھانے کی کوشش کی مگر لاکھ لاکھ ضبط کرنے پر بھی دل قابو میں نہ رکھ سکے فراق بھی بے قابو ہو گئے۔ ورما جی ایسی داد نہ دیجئے کہ مجھے اپنے اشعار سے نفرت ہو جائے۔ داد دینے کا ایک سلیقہ ہوتا ہے۔ سنئے مشاعرے میں مصحفیؔ شعر پڑھ رہے تھے ؎

با توں میں ادھر لعل فسوں گرنے لگا ہے

دے پیچ ادھر زلف اڑا لے گئی دل کو

میر تقی میرؔ  وہاں موجود تھے۔ انہوں نے کہا۔ ‘‘ میاں اک بار شعر ذرا پھر پڑھنا۔ مصحفیؔ نے جھک کر سات سلام کیے اور کہا کہ گھر جا کر اپنے کمرے کی دیواروں پر لکھوں گا کہ میرؔ صاحب نے اس شعر کو دو بارہ پڑھنے کی فرمائش کی تھی بات سمجھ میں آئی کچھ کہ داد کیسے دی جاتی ہے نہ کہ آپ کی طرح منھ پھیلا کر اور دانت چیار کر واہ واہ کیا جاتا ہے ورما جی ایک چپ سارا مزہ کر کرا ہو گیا۔

دلّی میں فورڈ کلب کا مشاعرہ تھا۔ بہت ہی منتخب لوگ اس مشاعرے کو سننے آئے تھے مشاعرے کی صدارت دلّی کے لفٹنٹ گور نر جناب اے۔ این۔ جھا۔ صاحب کر رہے تھے جھا صاحب فراق صاحب کو بھائی صاحب کہہ کر پکار تے تھے مشاعرے میں کچھ باہر ملکوں کے معزز مہمان بھی تشریف رکھتے تھے لوگ فراق کو سننے کے لیے بے چین ہو رہے تھے فراق بڑی سنجیدگی سے شعر سنا رہے تھے اور لوگوں کی درخواست پر اپنے شعروں کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کر رہے تھے۔ جھا صاحب مارے خوشی کے اٹھ اٹھ کر کھڑے ہو جاتے تھے لوگ ایسے جھوم رہے تھے جیسے بین کی دھن پر ناگ لہرائے کبھی کبھی انگریزی کے ایک دو الفاظ سلام مچھلی شہری کے منھ سے نکل آتے تھے جو لوگوں کو کافی پریشان کر رہے تھے۔ فراق نے پڑھنا بند کر دیا تو واہ واہ کی آواز سے پورا ہال گونج گیا اس کے بعد بغیر بلائے سلام مچھلی شہری صاحب مائک کے پاس پہنچ گئے ایک دو منٹ تک غلط انگریزی بولتے رہے پھر شعر پڑھنا شروع کیا۔ سلامؔ صاحب شراب کچھ زیادہ ہی پی گئے تھے اپنے ہر شعر کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کرنے لگے۔ شعر کچھ اور، اور ترجمہ کچھ اور لوگ اوبنے لگے اور نشہ کی ترنگ میں فراق کو کچھ گالیاں دینے لگے۔ لوگوں نے انہیں ڈانٹ کر بٹھا دیا مگر فراق ایک دم خاموش تھے انہوں نے بے حد ضبط کا ثبوت دیا۔ محفل ختم ہو گئی اور لوگ ڈنر کھانے پہنچ گئے اس وقت بھی سلام صاحب چپ نہ رہ سکے اور فراق کی شان میں بد تمیزی کے جملے بولنے لگے جھا صاحب کا غصہ بڑھتا جا رہا تھا۔ فراق نے سلامؔ کو مخاطب کر کے کہا میں کتوں سے بات نہیں کرتا ہوں۔ سلامؔ نے کہا حضور کتا تو یودھشٹر کے ساتھ سورگ تک پہنچ گیا تھا۔ مگر کتا کتا ہی رہے گا چاہے وہ جہاں بھی پہنچ گیا ہو۔ معاملہ حد سے بڑھ گیا تھا جھا صاحب کے اشارے پر دو سپاہیوں نے سلام صاحب کو ڈھکیل کر باہر کر دیا۔ تھوڑی دیر میں فراقؔ نے دریافت کیا سلامؔ کہاں گیا بھائی۔ میں نے فراق کو بتایا کہ جھا صاحب کے حکم سے سلام کو باہر نکال دیا گیا فراقؔ اداس ہو گئے انہوں نے جھا صاحب سے کہا آدتیہ ناتھ تم نے اچھا نہیں کیا ارے یار سلامؔ نشہ میں تھا ایسی نوک جھونک تو چلتی رہتی ہے۔

فراق لال قلعہ کے مشاعرے کے سلسلہ میں دلی گئے تھے اور جامع مسجد کے پاس آزاد ہند ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے آزاد ہند ہوٹل کے مالک افضل پیشاوری فراق کے دوست بھی تھے اور شاعر بھی۔ افضل صاحب زبان بہت ہی خوبصورت بولتے تھے اچھے خاصے لوگ اس ہوٹل میں جمع ہوتے تھے فراق کی باتیں سننے کے لیے۔ اس بار فراق کے ساتھ میرے علاوہ ڈاکٹر اقبال ماہر بھی تھے ایک دن اپنی گفتگو کے دوران فراق نے کہا کہ میرؔ نے فرمایا تھا کہ اردو زبان جامع مسجد کی سیڑھیوں پر بنی ہے اور اس بات کو فراق نے کئی موقعوں پر دہرایا تھا میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اردو زبان جامع مسجد کی سیڑھیوں پر کیسے بنی فراقؔ نے سمجھا نا شروع کیا۔ بات یہ ہے کہ آدھا دلی شہر گرمی کے دنوں میں انہیں سیڑھیوں پر راتیں گزارتا تھا۔ کافی رات گئے تک لوگ ایک دوسرے سے باتیں کرتے تھے بادشاہ سے متعلق با توں سے لے کر شہر میں دن بھر کے ہوئے واقعات، قصے، کہانیاں آپسی لڑائی جھگڑے عاشقوں کی آہ و زاریاں اور معشوقوں کے ناز و نخرے پیار نہ محبت کی داستانیں قسم قسم کے کھانوں کا ذکر تہذیبی باتیں، پیروں اور فقیروں کی کرامتوں کا بیان، لطیفے بازی اور دنیا بھر کی باتیں دلی شہر کے لوگوں کی گرفت میں سمٹ آتیں Social Inter Courseکا سب سے بڑا مرکز کہیے جامع مسجد کی سیڑھیوں کو زبان یونیورسٹی میں بیٹھ کر یا کسی کتب خانہ میں لغتوں کو یکجا کر کے یا کسی ادارہ یا اکاڈمی میں Resolutionsپاس کر کے نہیں بنائی جاتی۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ زندگی کے کارو بار جتنی ہی ترقی کریں گے۔ زبان بھی اسی رفتار سے آگے بڑھے گی۔ کسی پہاڑ کی گپھا میں رہنے والے لوگ یا الگ الگ رہنے والے لوگ زبان میں چستی پھرتی اور مقصدی نہیں لا سکتے۔ بازاروں میں، گلی کوچوں میں، اسٹیشنوں پر، بس اڈّوں پر، سڑکوں پر، کچہریوں میں اکٹھا ہونے والی بھیڑ میں زبان بنتی ہے۔ تاریخ میں اکثر ایسا دیکھا گیا ہے کہ جس قوم کی نثر (Prose) زیادہ ترقی یافتہ ہوتی ہے، وہی قوم کمزور یا گھٹیا نثر والی قوموں پر راج کرتی آئی ہے۔ مسلمانوں کا Proseہم سے زیادہ Developedتھا اس لیے انہوں نے ہمیں ہرا دیا اور خود مسلمان انگریزوں سے بھی اس لیے شکست کھا گئے کہ انگریزوں کا Prose مسلمانوں کے Proseسے بہت ترقی یافتہ تھا۔ فراقؔ کا یہ بیان سن لیجئے اور یاد رکھیئے گاIndia Was Conquered by the sword of Proseلوگ سمجھتے ہیں کہ زبان یوں ہی بن جاتی ہے۔ میں نے بہت سے لوگوں کو کہتے سنا ہے کہ استعمال کرتے کرتے الفاظ میں روانی آ ہی جاتی ہے اور وہ لوگوں کی زبان پر چڑھ جاتے ہیں۔ بات ایسی نہیں ہے۔ ٹیڑھے میڑھے اور بھونڈی شکل والے اور نوکدار پتھروں کو دریا اپنے ساتھ بہا تا رہتا ہے۔ پانی کی رفتار کی وجہ سے آپس میں ٹکراتے ٹکراتے یہ پتھر چکنے ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح الفاظ زندگی کے کارو بار کی روانی میں پڑ کر چکنے ہوتے رہتے ہیں یعنی لفظوں کو رگڑ رگڑ کر خوبصورت بنایا جاتا ہے اور یہ کام صدہا سال تک چلتا رہتا ہے تب کہیں جا کر یہ الفاظ زبان پر چڑھ سکنے کے لائق ہوتے ہیں۔ سماج نے اسی رتیلی، کنکریلی اور اوبڑ کھابڑ زمیں کو ہموار کرنے میں اپنا خون پانی ایک کیا ہے تب کہیں جا کر زمیں سبز ہو پائی ہے۔ کھڑی بولی دلی اور میرٹھ کے آس پاس بولی جانے والی جاٹوں کی زبان ہے۔ جو بڑی کرخت اور کانوں کو تکلیف دینے والی ہے۔ دلی میں رہنے والے رستو گی پریوار کے لوگ بھی کھڑی بولی ہی بولتے ہیں۔ جاٹوں کی اس سخت زبان کو بڑا ہی رچایا اور سنوارا گیا ہے۔ اسے نرم لچکدار بنایا گیا ہے۔ اس میں سوز و گذار پیدا کیا گیا ہے۔ تب جا کر کہیں یہ زبان سانچے میں ڈھلنے کے لائق ہو سکی ہے۔ اسی کو اردو کہتے ہیں۔ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زر خیز ہے ساقی‘‘ بڑی تپسیا کرنا پڑی ہے اس کھڑی بولی کو غزلوں کی زبان بنانے میں۔ ‘‘ میرا دل دو ماغ صرف جامع مسجد کی سیڑھیوں پر تھا۔ میں تصور کی دنیا میں کھویا ہوا تھا۔ تخت کی طرح چوڑی چوڑی سیڑھیاں جن پر کسی زمانے میں آدھا دلی شہر سویا کرتا تھا۔ نیم شعوری طور پر میں بھی اس زمانے میں پہنچ گیا۔

گیارہ بجے کے قریب کھانا کھایا گیا۔ پھر ہم لوگ اپنے اپنے بستروں پر چلے گئے۔ آدھے گھنٹے کے بعد فراقؔ منھ ڈھک کر سو گئے۔ مجھے نیند بالکل ہی نہیں آ رہی تھی۔ بستر پر کروٹیں بدل رہا تھا گھڑی دیکھی بارہ بج کر بیس منٹ ہو گئے تھے۔ میں اٹھ بیٹھا۔ پائجامہ پہنا فراق صاحب کی شیروانی پہنی مفلر لپیٹا اور ہاتھ میں فراقؔ کی چھڑی سنبھالی اور جامع مسجد کی طرف دھیرے دھیرے چل پڑا۔ ہوٹل سے جامع مسجد کا تین منٹ کا راستہ ہے سرمداور ہرے بھرے شاہ کے مزاروں کے سامنے ایک چائے کی دکان کھلی تھی۔ چوڑی چوڑی سیڑھیوں کو دیکھ کر فراقؔ کی باتیں تازہ ہو گئیں اور تصور نے کئی سو سال پہلے کی گزری ہوئی دنیا کو سامنے لا کر کھڑا کر دیا۔ چائے کی دکان کے پاس پہنچ کر دیکھتا ہوں کہ آگ کی بھٹی کو گھیرے پندرہ بیس کے قریب فقیر قسم کے لوگ کھڑے کھڑے اپنے اپنے تام چینی کے بڑے بڑے پیالوں میں چائے پی رہے تھے۔ میں بھی انہیں میں شریک ہو گیا۔ ان لوگوں نے بڑے ادب سے السلام علیکم کہا اور میں نے بھی وعلیکم السلام کہہ کر ان کو جواب دیا۔ دن بھر میں ہوئے واقعات کا بیان کیا جا رہا تھا۔ میں نے سر مد کی بات شروع کی۔ انہوں نے بیان کرنا شروع کیا۔ کیا خوبصورت جوان تھے میں نے ہزار ہا تقریریں اور بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگوں کی باتیں سنی ہیں مگر زبان کا جو مزہ اور چٹخارہ ان کے بیان میں تھا۔ وہ کہیں دوسری جگہ نصیب نہیں۔ اس دن مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ اردو کسے کہتے ہیں اور زبان کیا چیز ہے۔ افسوس کہ میرے پاس ٹیپ ریکارڈ نہیں تھا۔ میں نے ان سبھی لوگوں کو اپنی طرف سے ایک ایک پیالی چائے پلوائی پھر کیا تھا۔ دعاؤں کا خزانہ نچھاور کیا جانے لگا مجھ پر کتنے خوبصورت الفاظ کے بیش قیمت جواہر پارے جڑ گئے تھے دعاؤں کے اس تاج میں جو میرے سر پر فقیروں نے رکھا۔ خدا اردو زبان کو سلامت رکھے۔

بات ۶۰ ۔ ۱۹۵۹ء کی ہے۔ فراقؔ  نے ایک ادبی ادارہ قائم کیا تھا۔ جس کا نام انھوں نے اردو سبھارکھا تھا اس دارہ کے تحت ایک عظیم الشان مشاعرہ منعقد کیا گیا تھا۔ اس مشاعرے میں فراقؔ نے بے حد دلچسپی دکھائی تھی۔ کافی بڑی تعداد میں شاعر حضرات فراقؔ کے گھر پر ہی ٹھہرائے گئے تھے۔ مشاعرہ ختم ہوا۔ تین چار مہینے گزر جانے پر پتہ چلا کہ فراقؔ  کے کئی ہزار روپیوں کے نیشنل سیونگ سرٹیفکٹ غائب ہیں۔ فراقؔ کی پریشانی بڑھ گئی۔ ان دنوں جناب وی شنکر آئی۔ سی۔ ایس پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف محکمہ کے ڈائرکٹر  جنرل تھے۔ فراقؔ نے اس معاملہ کے بارے میں انہیں ایک لمبا چوڑا خط لکھ ڈالا۔ سرکاری کار روائی شروع ہو گئی۔ جبل پور میں کئی ہزار کے سرٹیفکٹ بھنا لیے گئے تھے۔ چور گرفتار کر لیا تھا تھا اور باقاعدہ مقدمہ کی کار روائی شروع ہو گئی۔ فراق کے سرٹیفکٹ چوری کرنے والے ایک شاعر صاحب نکلے۔ ہم لوگ مقدمہ کی تاریخ سے ایک دن پہلے ہی جبل پور پہنچ گئے اسٹیشن پر کافی تعداد میں لوگ فراق کا استقبال کرنے آئے تھے اس ہجوم میں شاعر صاحب بھی تھے جنہوں نے چوری کی تھی۔ چور شاعر نے آگے بڑھ کر فراق کو سلام کیا۔ فراق نے کہا۔ ’’ارے رمیش چور صاحب بھی تشریف لائے ہیں۔ ‘‘ فراق کو ان حضرت کو چور صاحب ہی کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔ چور صاحب نے ایک دن فراق کو کھانے کی دعوت بھی دی۔ فراق نے دعوت قبول کر لی۔ بڑا لذیذ کھانا پکوایا تھا۔ فراق کو ایک کرسی دے دی گئی تھی۔ وکیل نے پوچھا۔ ’’آپ نے کیوں چوری کی۔ ‘‘ فراق خود ہی بول پڑے۔ کیا سوال پوچھا ہے آپ نے ؟ غریب آدمی ہے گھر میں کھانے پینے کی تکلیف ہے اس لیے چوری کی۔ جو بھی ہو چور صاحب کے گھر میں کھانا بہت عمدہ پکتا ہے۔ میرے گھر میں اتنا عمدہ کھانا کبھی نہیں پکا اور چور صاحب شعر بھی بہت خوب کہتے ہیں۔ میں یہ ہر گز نہیں چاہتا کہ انہیں جیل بھیج دیا جائے۔ ان کے چھوٹے چھوٹے بچے پریشان ہو جائیں گے۔ اب بات آئی دس ہزار کے قریب ان روپیوں کے لوٹانے کی۔ فراق کہنے لگے بھائی آپ لوگ سمجھتے ہیں کہ روپیہ ان کے پاس رکھا ہو گا۔ غریب آدمی ہے کھا پی گیا ہو گا۔ جو سرٹیفکٹ اس کے پاس بچے ہیں وہی لوٹا دیں۔ یہی بڑی بات ہے۔ بچے ہوئے سرٹیفکٹ فراق کو مل گئے۔ مقدمہ ختم ہو گیا۔ فراق نے چور صاحب کا بڑا ہی شکریہ ادا کیا۔ چور شاعر نے بڑی دبی زبان سے کہا۔ ‘‘ حضور چور صاحب چور صاحب کہہ کر تو آپ نے میری بڑی بے عزتی کر ڈالی۔ میں بڑا شرمندہ ہوں۔ مجھ سے اتنی بڑی غلطی ہو گئی جس کا میں بیان بھی نہیں کر سکتا۔ نہیں چور صاحب۔ اس میں آپکی کوئی خطا نہیں ہے۔ اللہ کسی کو اتنا مجبور نہ بنائے کہ اسے چوری کرنی پڑے۔ خیر چھوڑ و ان با توں کو یہ سب تو ہوتا ہی رہتا ہے۔

پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ فراق صاحب ہر سال دلی کلا تھ مل کے مشاعرے میں شرکت کرتے تھے ہر سال دعوت نامہ آتا تھا۔ فراق صاحب ہر سال معاوضہ بڑھانے کے لیے ڈی۔ سی۔ ایم کو لکھتے تھے مشاعرے کا انتظام ایک بڑے شامیانے میں تھا۔ پنڈال بڑا خوبصورت سجایا گیا تھا۔ اس بار مشاعرے کی صدارت صدر جمہوریہ جناب فخرالدین علی احمد کر رہے تھے۔ معزز سامعین میں حکومت ہند کے اعلان افسران اور چھوٹے بڑے سبھی منسٹر تھے شہر کے بڑے بڑے ادیب اور رؤسا بھی شامل تھے ڈائس بہت ہی خوبصورت سجا یا گیا تھا۔ فخرالدین صاحب کا نام صدارت کے لیے تجویز کیا گیا فخر الدین صاحب جب ڈائس پر تشریف لائے تو ان سے درخواست کی گئی کہ وہ کرسی پر بیٹھنے کی زحمت فرمائیں۔ فخر الدین صاحب کرسی پر نہ بیٹھ کر فراق کے پاس ہی بیٹھ گئے۔ فراق نے مسکراتے ہوئے کہا۔ فخر الدین صاحب کرسی پر بیٹھئے۔ آپ صدر ہیں۔ نہیں بھئی۔ میں فراق کے پاس ہی بیٹھوں گا۔ میرا مرتبہ فراق سے بڑا نہیں ہے۔ فخرالدین صاحب فراق کے بغل میں ہی بیٹھ گئے۔ بتائیے فراق صاحب کیا حال ہے آپ کا۔ دیکھنے سے تو آپ بہتر لگ رہے ہیں۔ فراق نے کہا ٹھیک ہی کہا آپ نے کرسی ارسی میں کیا رکھا ہے جہاں آرام ملے وہیں اٹھنا بیٹھنا چاہئے۔ میرے Appearance پر مت جائیے۔ ہزار ہا بیماریاں پل رہی ہیں میرے جسم میں۔ بس یہ سمجھئے کہ بے حیا بن کے جی رہا ہوں۔ کیا عمدہ شعر اکبر الہ آبادی نے کہا ہے ؎

کمزور مری صحت بھی تھی، کمزور مری بیماری بھی

بیمار پڑا تھا مر نہ سکا، اچھا جو ہوا کچھ کر نہ سکا

فخرالدین صاحب زیر لب مسکرا دیئے۔ اب مشاعرے کی کار روائی شروع ہونے جا رہی تھی اس لیے فراق صاحب کو خاموش ہونا پڑا۔ مگر بیچ بیچ میں فراق کچھ نہ کچھ بولتے ہی رہے۔ مشاعرہ شروع ہوا۔ ایک کے بعد ایک دوسرے شاعر کو پڑھنے کے لیے بلایا جا رہا تھا۔ فراق بار بار مجھ سے کہتے تھے۔ اناؤنسر سے کہو کہ فراق کا نام پکارے مگر کسی نہ کسی بہانے سے سوال کو ٹالا جا رہا تھا۔ مجھ سے لوگوں نے کہا۔ بھئی رمیش لوگ فراق کو سننے کے لیے ہی بیٹھے ہیں اور جب یہ پڑھ کر چلے جائیں گے مشاعرہ بے جان ہو جائے گا کسی طرح فراق کو سمجھاتے رہو میرے لاکھ سمجھانے پر بھی فراق اپنی ضد پر اڑے رہے یہ مشاعرے والے پیسہ دینے میں بڑی دیر کرتے ہیں۔ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد پھر شاعر کو کوئی پہچانتا نہیں۔ ’’میں نے عرض کیا۔ حضور آپ کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ رمیش صاحب آپ نہیں جانتے یہ مشاعرے والے میرؔ اور غالبؔ کے ساتھ بھی یہی کریں گے۔ اللہ میاں تک کے ساتھ بھی ان کا یہی سلوک ہو گا۔ اور آپ تو کئی بار بھگت چکے ہیں ہم لوگوں کو دو دو دن تک مشاعرے کے بعد پیسے پانے کے لیے رکنا پڑا ہے۔ ‘‘ فخر الدین صاحب آپ ذرا لالہ بھرت رام سے کہہ دیں کہ فراق کو پڑھنے سے پہلے ہی پیسے مل جائیں آپ پریسیڈنٹ ہیں۔ آپ کی بات ٹالنا ذرا مشکل ہے۔ ‘‘ میں نے کہا۔ ‘] حضور پیسے کے معاملے میں مجھ پر چھوڑیے۔ ‘‘ ٹھیک ہے۔ جب آپ کہیں گے کہ پیسہ آپ کو مل گیا تبھی میں پڑھوں گا ورنہ میں پڑھوں گا ہی نہیں۔ فخر الدین صاحب مسکراتے رہے بہر حال میں نے جا کر مشاعرے کے منتظمین سے روپے حاصل کر لیے اور رسید پر فراق کے دستخط کر وا دیئے۔ چوتھے شاعر نے جیسے ہی پڑھنا ختم کیا کہ فراق زور سے بول پڑے۔ بھئی مجھے بلاؤ نہیں تو میں خود آ رہا ہوں۔ فراق کو دعوت سخن دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ فراق شعر پڑھتے تھے اور بیچ بیچ میں بولتے بھی جاتے تھے آدھے گھنٹے تک سنانے کے بعد فراق واپس آ گئے۔ اب پریسیڈینٹ صاحب اٹھنے کی تیاری ہی کر رہے تھے کہ فراق نے کہا۔ ‘‘بھئی فخر الدین صاحب آپ کی گاڑی تو ہو گی۔ آپ مجھے ہوٹل تک چھوڑتے ہوئے نکل جائیے گا۔ چاہئے گا تو دس منٹ بیٹھ لیجئے گا۔ انہوں نے اپنی مجبوری ظاہر کی مگر فراق کے لیے گاڑی کا انتظام ہو گیا۔

ایک دن فراق فرمانے لگے کہ منشی پریم چند اور میں دونوں آدمی ایک یکے پر بیٹھ کر گورکھ پور میں ہی کہیں جا رہے تھے۔ شام کا وقت تھا اور گرمیوں کے دن۔ ہم لوگ کسی گاؤں کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اچانک میری نظر ایک عورت پر پڑی جو اپنے گھر کے سامنے کھڑی تھی آم کی ایک ڈال پکڑے عورت بہت ہی خوبصورت تھی لیکن بے حد اداس لگ رہی تھی۔ دن ڈوبنے پر آم کا باغ گاؤں میں بہت منحوس اور اداس لگتا ہے۔ اس عورت کو دیکھ کر میرے دل میں بہت سے خیالات ایک ساتھ ابھر نے لگے۔ پتہ نہیں اس پر کیا کیا مصیبتیں ہوں گی۔ اس کا بچہ یا شوہر بیمار ہو گا آج سارا گھر بھوکا سو جائے گا۔ یا کسی نے اسے کچھ کہہ دیا ہو گا۔ جس سے اس کا دل دکھ گیا ہو۔ طرح طرح کے خیالات آنے لگے۔ جب میں ان خیالات پر کچھ قابو پا سکا تو یہ شعر ہوا ؎

شام بھی تھی دھواں دھواں، حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

اس واقعہ کا بیان جب میں نے مجنوںؔ  سے کیا تو ان پر بھی اس کا بے حد اثر ہو۔ اور ان کے مشہور ناول سو گوار شباب کی بنیاد میں یہی واقعہ ہے۔ ‘‘

میرے دوست پروین کمار جی نے بہت ڈرتے ڈرتے فراق سے پوچھا حضور میں نے آپ کی نظم جگنو پڑھی۔ بار بار آنکھیں بھر آتی تھیں اور آگے پڑھنا مشکل ہو رہا تھا۔ کیا آپ کی ماں آپ کو بچپن میں ہی چھوڑ کر چل بسی تھیں۔ ’’جگنو‘‘ پڑھنے سے مجھے ایسا ہی لگا۔ ‘‘ نہیں نہیں ایسی بات نہیں ہے۔ کئی لوگوں کو یہ دھوکا ہو چکا ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ شاعر وہی بیان کرتا  ہے جو اس کی اپنی ذاتی زندگی میں گزر چکا ہو۔ شاعر کے لیے جگ بیتی بھی آپ بیتی جن جاتی ہے، غم دنیا غم جاناں بن جاتا ہے پرائی پیت اپنی پیت بن جاتی ہے شاعر خود وہ واقعہ یا جذبہ بن جاتا ہے جس کو وہ بیان کرتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کے بیان میں تاثیر پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔ سورداس کرشن کا بچپن بیان کرتے وقت خود بچّہ بن جاتے ہیں یا یشودھا کے جذبات بن جاتے ہیں جب اتنی ہم آہنگی قائم ہو جاتی ہے تب معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ خود اپنے آپ کو بیان کر رہا ہے در اصل بات یہ ہے کہ میرا ایک شاگرد تھا شیام سندر وہ ہندی میں شاعری بھی کرتا تھا۔ اس نے ایک نظم لکھ کر مجھے سنائی۔ اس نظم میں ایک ایسے بچے کے جذبات کا بیان تھا جس کی ماں اس کے جنم کے دن پر ہی مر گئی تھی اسے دائیوں نے پالا تھا برسات کے موسم میں جگنو چمکتے ہوئے اڑتے تھے۔ دائیاں اس بچے کو بتاتی تھیں کہ یہ جگنو بھولی بھٹکی روحوں کو راہ دکھاتے ہیں۔ بچہ سوچتا ہے کہ اگر میں بھی جنگو ہوتا تو اپنی ماں کی بھٹکی ہوئی روح کو واپس لاتا۔ اس کی نظم یہیں ختم ہو گئی۔ یہ واقعہ میرے دل میں برسوں پکتا رہا۔ تقریباً بیس سال بعد نظم ہونا شروع ہوا۔ برسات کے موسم یعنی اگست کے مہینے میں نظم شروع ہوئی اور دوسرے اگست میں جا کر مکمل ہوئی‘‘ تھوڑی دیر تک محفل پر خاموشی چھائی رہی۔ فراق نے شراب کا ایک گھونٹ لیا۔ باتھ روم سے لوٹ کر آنے کے بعد بولے۔ بھئی رمیش یار کمرے میں بندر ہتے رہتے تو میں مر گیا۔ کل کہیں آؤٹنگ کی جائے۔ ایڈورڈ پارک میں پکنک کی بات طے ہو گئی۔ دوسرے دن دس بجے کے قریب ہم لوگ کار میں بیٹھ کر جامع مسجد کے پاس ایڈورڈ پارک میں پہنچ گئے میں نے گھوڑے پر سوار ایڈورڈ کے بت کو دیکھ کر اس کے آرٹ کی تعریف کی تو فراق کہنے لگے۔ سنویارایک بار اس طرف سے گذرتے ہوئے ایک دیہاتی کی نظر اس گھوڑے سوار پر پڑی بڑا متاثر ہوا۔ بڑی دیر تک دیکھتا رہا۔ پھر چلا گیا۔ دوسرے دن پھر وہ ادھر سے گزرا رک گیا اور سر ہلاتے ہوئے بولا واہ بیٹا چڑھنے کو تو چڑھ گئے اب اترنے میں پھٹ رہی ہے۔ ‘‘ شروع ہو گیا لطیفوں اور ہنسنے ہنسانے کا دور۔

دہلی میں ایک ایسو سی ایشن ہے۔ الہ آباد المونی ایسوسی ایشن۔ شاید اس کی بنیاد امر ناتھ جھا نے رکھی تھی۔ دہلی میں یا دہلی کے باہر الہ آباد یونیورسٹی کے طالب علم چاہے وہ کتنے ہی بڑے سے بڑے عہدے پر فائز ہوں کبھی کبھی الہ آباد کے کسی بڑے پروفیسر یا شاعر کے اعزاز میں ایک جلسہ کرتے ہیں، اس ادارہ نے ایک بار فراق صاحب کے اعزاز میں ایک عظیم الشان جلسہ ایوان غالب میں منعقد کیا اس موقع پر فراق نے اپنی تقریر کے دوران بتایا کہ انگریزی جاننا ہمارے لیے بہت ہی لازمی ہے صرف ہندی یا اردو سے کام اب نہیں چل سکتا۔ یہ زبانیں آج کل کی زندگی کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتیں زمانۂ جدید انگریزی میں سانس لیتا ہے۔ شاعری کے لیے بھی انگریزی جاننا ضروری ہے۔ اپنی مادری زبان کے علاوہ کچھ اور زبانیں بھی جاننا لازمی ہیں۔ ایک صاحب بیچ میں ہی بول پڑے غالب کہاں انگریزی جانتے تھے ؟ فراق نے فوراً کہا۔ غالب فارسی اور عربی زبانوں کو مادری زبان کی طرح جانتے تھے۔ انگلینڈ میں انگریزی کی تعلیم بہت بعد میں شروع ہوئی۔ گر یک اور لیٹن زبانوں کا جاننا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ انگریزی کا پہلا ٹیچر میتھو آرنلڈ انگلینڈ میں نہیں بلکہ ہندوستان میں تعینات کیا گیا تھا۔ صرف مادری زبان جاننے والا آدمی ایک اہم ہندوستانی نہیں بن سکتا۔ ایک صاحب نے پوچھا۔ فراق صاحب اردو میں مجھے کچھ چیزوں کی کمی بہت کھلتی رہی ہے Nature Poetryاور Child Poetry اردو میں قریب قریب نہیں ہے۔ فراق سنجیدہ ہو گئے اور کہنے لگے آپ بجا فرماتے ہیں اردو میں ان چیزوں کی بڑی کمی رہی ہے۔ ایک پروفیسر نے کہا اردو میں نیچر کی شاعری بہت ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے یہاں نیچر کی شاعری کافی ہے اور بچوں پر بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ پروفیسر صاحب کی بات کاٹتے ہوئے فراق نے کہا۔ سنیے جناب فوٹوگرافی کو میں نیچر کی شاعری نہیں مانتا۔ نیچر کے لیے اردو شاعری میں وہ Intimate Touchنہیں ہے جو کالی داس کے یہاں یاWords Worthکے یہاں ہے یا سورداس کے یہاں جو کرشن کی بال لیلا کا بیان ہے وہ اردو شاعری یا اردو شاعروں کو میسر نہیں یہی نہیں عورت کا وہ روپ جو دیوی کا روپ یا ماں کا روپ ہے یا کنّیا یا سہاگن کا روپ ہے اردو شاعری میں نا پید ہے۔ یہ نظر یہ کی بات ہے۔ کلچر کی بات کی ان کمیوں کو کچھ حد تک پورا کرنے کی کوشش اس خاکسار نے کی ہے۔ ‘‘ اردو کے پروفیسر صاحب نے کہا۔ معاف کیجئے گا حضور قطع کلام ہو رہا ہے بات یہ ہے کہ اردو شاعری پر بہت اثر رہا ہے فارسی اور عربی کا ان ملکوں میں نیچر ہے ہی نہیں۔ فراق چڑھ کر بولے کیا بات کی ہے آپ نے مولانا دنیا میں ایسی بھی کوئی جگہ ہے جہاں نیچر نہ ہو۔ نیچر کے سوا اور ہے کیا۔ اور کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کالی داس جب کسی دیودار کے پیڑ کا بیان کرتے ہیں یا ہمالیہ کا ذکر کرتے ہیں تو پیڑ پر بیٹھ کر یا ایورسٹ کی چوٹی پر بیٹھ کر شاعری نہیں کرتے ہیں۔ ہمالیہ یا دیودار شاعر کے دل میں ہوتا ہے۔ میں نے جگنو میں پیپل کا بیان یوں کیا ہے۔

یہ اس کی گہری جڑیں تھیں کہ زندگی کی جڑیں

پسِ سکوتِ شجر کوئی دل دھڑکتا تھا

میں دیکھتا تھا اسے ہستیِ بشر کی طرح

کبھی اداس کبھی شادماں کبھی گمبھیر

اردو میں نیچر شاعری یا بال لیلا کی شاعری یا عورت کے دیوی کے روپ کی شاعری کی کمی ضرور ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اردو میں ایسی شاعری ہو ہی نہیں سکتی۔ ان موضوعات پر اب جو شاعری کی جا رہی ہے وہ ہندی کی شاعری سے کہیں بہتر ہے۔ پاکستان میں تو اس طرح کی شاعری بہت ہو رہی ہے بات یہ ہے کہ اردو کے ساتھ جو بے انصافی ہو رہی ہے اس کے پس پشت نفرت کا جذبہ کار فرما رہتا ہے۔ اردو سے نفرت کرنے کا ایک سبب اور ہے۔ اردو زبان کی خوبصورتی کا اعتراف کرنے کے با وجود اس سے نفرت کی جاتی ہے۔ اگر خوبصورت چیز کو فروغ دیا گیا تو لوگ اپنے آپ بدصورت چیز سے نفرت کرنے لگیں گے۔ آپ نے پڑھا ہو گا کہ مہاتما بدھ کے باپ کاسخت حکم تھا کہ جب سدھارتھ سڑک پر ٹہلنے نکلیں تو اس وقت سڑک پر کوئی بوڑھا یا بدصورت آدمی، کوئی مریض یا کوئی مردہ شخص نظر نہ آئے چاروں طرف خوبصورتی ہی خوبصورتی بکھری ہوئی چاہئے۔ ان ساری کوششوں کے با وجود مہاتما بدھ کو روکا نہیں جا سکا۔ ٹھیک وہی حالت اردو اور انگریزی کے ساتھ ہے ان زبانوں کو کھل کر گالی دی جا رہی ہے انہیں غیر ملکی کہا جا رہا ہے میں نے لوگوں کو یہاں تک کہتے سنا ہے کہ زبانیں غلامی کی یاد دلاتی ہیں آزادی کی جنگ میں حصہ لینے والے زیادہ تر لوگ انگریزی یا اردو دونوں زبانوں کے ماہر تھے۔ کون سمجھائے لوگوں کو۔ نفرت کے جذبے نے کچھ لوگوں کو پاگل کر رکھا ہے۔ جادو وہ جو سر پر چڑھ کر بولے۔ انگریزی ہٹاؤ کی آواز جتنی ہی بلند کی جا رہی ہے انگریزی اتنی ہی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ میرا ایک نو کر تھا وہ اپنے لڑکے کو سمجھا جا رہا تھا کہ بیٹا انگریزی ضرور پڑھنا نہیں تو پڑھنا نہ پڑھنا برا بر ہے۔ دیوناگری حروف میں چھپا ہوا اردو شاعروں کا کلام بڑی تیزی سے بک رہا ہے۔ فلموں میں اردو زبان کا بول بالا ہے۔ ہندی شاعروں کی کویتا پڑھنے میں بچوں کی زبان لڑ کھڑا جاتی ہے جو زبان ہم بولتے نہیں جو زبان کوئی نہیں بولتا اسے یاد کیسے کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘ میں نے عرض کیا حضور میرے ایک دوست ہیں جو ہندی کے شاعر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہندی شاعری میں خیالات کی گہرائی اتنی ہوتی ہے اور وہ اتنی سنجیدہ اور گمبھیر بھاشا ہے کہ اس کا زبانوں پر چڑھنا ممکن نہیں ہے۔ ‘‘ فراق بولے۔ رمیش صاحب آپ تو تلسی داس کو بہت پڑھتے ہیں اور آپ ہی کی طرف ہندوستان میں ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جن میں تعلیم یافتہ بھی ہیں اور غیر تعلیم یافتہ بھی جن میں عالم بھی ہیں اور جاہل بھی لیکن ان سب کی زبانوں پر تلسی کی رامائن چڑھی ہوئی ہے کیا؟۔ اس کا مطلب یہ سمجھا جائے کہ تلسی داس کی شاعری سنجیدہ نہیں ہے اور اس میں گمبھیرتا نہیں ہے سورداس، میرا، رحیم، رسکھان وغیرہ کی ہزاروں لائنیں لوگوں کو یاد ہیں تو کیا ان کی شاعری غیر سنجیدہ ہے۔ روس میں تلسی داس کو عوام کا شاعر کہا جاتا ہے۔ ‘‘سمت پرکاش شوق نے کہا۔ اگر اردو کو دیو ناگری رسم الخط میں لکھا جائے تو ہندی اردو کا جھگڑا کافی حد تک ختم ہو سکتا ہے۔ سمت پرکاش جی آپ نے تو بڑے معصوم طریقے سے ایک بات کہہ دی مگر اپنی بات میں چھپے ہوئے خطروں کی جانب آپ نے غور نہیں فرمایا۔ زبان اور رسم الخط میں لکھ دیا جائے تو کیا ہو گا۔ بس آپ سوچ لیجئے مراٹھی زبان دیونا گری میں لکھی جاتی ہے مگر آپ پڑھ نہیں سکتے۔ اگر انسان کی روح کسی غیر انسانی جسم میں اتر آئے تو کیا فرق ہو گا۔ ایک بات اور سمجھ لیجئے ادیب یا شاعر تو پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ اگر فارسی رسم الخط ہٹا دیا جائے تو پورا کا پورا فارسی ادب ہم سے چھن جائے گا۔ کیا آپ سنسکرت یا اودھی اور برج بھاشا کی شاعری کو فارسی رسم الخط میں لکھ کر پڑھ یا سمجھ سکتے ہیں ؟بھئی اردو زبان اور رسم الخط کو آپ کیوں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اردو ہندی اور دوسری ہندستانی زبانوں کو کوئی نقصان تو نہیں پہنچا رہی ہے بلکہ دوسری زبانوں کو کافی حد تک فائدہ ہوا ہے اردو سے۔ اردو تو یہیں پیدا ہوئی اور یہیں پروان چڑھی۔ دوسری زبانوں کی طرح اردو بھی بھارت ماں کی سنتان ہے۔ بے انصافی اچھی نہیں۔ یہ کہتے کہے فراق کی آنکھیں بھر آئیں۔ اردو اور ہندی کے مسئلہ پر بات کرنے میں اس بار فراق کی آواز میں غصہ بالکل نہیں تھا۔ دکھ تھا درد تھا اور گھٹن تھی بڑی دیر تک خاموش رہنے کے بعد پھر کہنے لگے Father forgive them for they know not what they do۔

مارچ کے مہینے میں ڈی۔ سی۔ ایم کے مشاعرے کے سلسلے میں ہم لوگ دہلی گئے ہوئے تھے بات ۱۹۶۴ء کی ہے مشاعرہ ختم ہونے کے بعد ہم لوگ رات کی گاڑی سے الہ آباد واپس آنے والے تھے قریب دو بجے خبر ملی کہ فراق کو پنڈت جواہر لال نہرو نے یاد کیا ہے ریزرویشن کینسل کرا دیا گیا۔ شام کو قریب چار بجے ہم لوگ تین مورتی پہنچ گئے ہم لوگوں کے ساتھ جناب وی کے ورما اور شوق صاحب بھی تھے، پنڈت جی کو اتنے قریب سے دیکھنے اور ان کی باتیں سننے کے لیے میرا دل بے چین ہو رہا تھا۔ پنڈت جی کی کوٹھی کے اوپری حصے کے بیچ کے بڑے کمرے میں کچھ لوگ جمع تھے۔ لوگوں کی تعداد کل ملا کر تیس پینتیس کے قریب رہی ہو گی۔ اس محفل میں کیسے کیسے لوگ رہے ہوں گے اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں۔ لوگ فراق صاحب کو گھیرے کھڑے تھے لال بہادر شاستری بھی وہاں موجود تھے۔ شاستری جی نے کہا۔ فراق صاحب کل کے ڈی۔ سی۔ ایم کے مشاعرے میں آپ نے کیا کیا شعر پڑھے اور آپ کا یہ شعر ؎

چھلک کے کم نہ ہو ایسی کوئی شراب نہیں

نگاہِ نرگسِ رعنا ترا جواب نہیں

اسے میں رات بھر گنگناتا رہا۔ کن بلندیوں پر آپ لے جاتے ہیں۔ اچھا یہ بتائیے آج پنڈت جی کو کن بلندیوں تک لے جائیں گے۔ شاستری جی ہم اور پنڈت جی ایک ہی مقام پر رہتے ہیں۔ کیسی اڑان اور کہاں کی پرواز۔ پھر فراق شاستری جی سے ہندوستان اور دنیا کی سیاست پر باتیں کرنے لگے۔ اتنے میں علی سردار جعفری صاحب، تاباں صاحب، سکندر علی وجد صاحب اور بیکل اتساہی صاحب بھی تشریف لائے۔ اب پتہ چلا کہ وہاں ایک نشست ہونے والی ہے۔ تھوڑی دیر میں نہرو جی اپنے کمرے سے باہر آتے ہوئے نظر آئے۔ فراق نے ان کو دیکھتے ہی سگریٹ بجھا دی۔ پنڈت جی قریب آئے تو فراق نے بڑے پتاک اور خلوص کے ساتھ انہیں آداب عرض کیا۔ پنڈت جی نے اپنی شگفتہ مسکراہٹ کے ساتھ فراق کے آداب کا جواب دیا۔ کرسیوں کی پہلی قطار کے بیچ میں پنڈت جی بیٹھ گئے اور ان کے بغل میں شاستری جی۔ اور شاستری جی کے بغل میں فراق گورکھپوری، پنڈت جی کے داہنی طرف بیگم پٹودی اور ان کے بغل میں اندراجی دوسری قطار میں فراق کے پیچھے میں۔ جواہر لال جی نے شاستری جی سے کہا۔ لال بہادر تم رگھوپتی سہائے کی کرسی پر بیٹھ جاؤ اور انہیں یہاں بیٹھنے دو۔ پنڈت جی کے سامنے قالین پر موٹا سا گدا بچھا تھا اور گدے پر دودھ جیسی دھلی ہوئی چادر اور چادر پر شاعر لوگ بیٹھے تھے صرف فراق پنڈت جی کے بغل میں کرسی پر بیٹھے تھے۔ اس کے بعد شعر و شاعری کا دور شروع ہو افراق نے اپنی مشہور اور شاندار نظم رقص شب تاب پڑھنا شروع کی اپنی تہہ دار آواز میں۔

فراق کی اداؤں کو دیکھ کر پنڈت جی مسکرا پڑے۔ فراق کے پڑھ لینے کے بعد محفل ختم ہوئی۔ پنڈت جی فراق کو لے کر اپنے کمرے میں چلے گئے پنڈت جی سے اجازت لے کر فراق دس منٹ کے بعد باہر آئے پھر فراق آنند بھون میں بیتے ہوئے زمانہ کو یاد کرنے لگے اور ایک ہی سانس میں بہت سے واقعات بیان کرنے لگے۔ ایک بار پنڈت جواہر لال جی نے مجھے اخبار لانے کو کہا۔ میں نے آ کر بتایا کہ اخبار تو نہیں ہے۔ پنڈت جی نے اپنی رعب دار آواز میں جھلاتے ہوئے کہا۔ میں نے آپ کو اس لیے نہیں بھیجا تھا کہ آ کر آپ کہہ دیں کہ اخبار تو نہیں ہے میں نہیں سننے کا عادی نہیں ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ پنڈت جی کا خیال بالکل ٹھیک تھا اسی طرح میں ایک دن سویرے سویرے آنند بھون پہنچ گیا اور ملازم کو حکم دیا کہ وہ جا کر پنڈت جی سے بتا دے کہ سہائے صاحب آئے ہیں۔ پنڈت جی ہاتھ میں اخبار لیے سیڑھیوں سے نیچے اتر آئے اور مجھے دیکھ کر بول اٹھے کہ اچھا آپ ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہ آپ سہائے سے صرف ہائے ہو کر رہ جائیں۔

جب ہم لوگ تین مورتی سے لوٹ کر ہوٹل واپس آئے تو فراق ایک دم اداس نظر آ رہے تھے کہنے لگے۔ پنڈت جی پر بیماری کا بہت گہرا حملہ ہو چکا ہے خدا ان کو سلامت رکھے۔ اتنی سوجھ بوجھ کا اور اتنا بڑا سیاست داں اس وقت اس دھرتی پر کوئی دوسرا نہیں ہے۔ جواہر لال ہیں یا دماغ کی ایک شمع روشن ہے اور گلوب بڑی خوبصورتی سے چکر لگا رہا ہے۔ ‘‘

فراق ایک جلسہ کے سلسلہ میں پٹنہ تشریف لے گئے تھے پٹنہ میں فراق کی دونوں لڑکیاں رہتی ہیں مگر فراق نے ہوٹل میں ٹھہرنا پسند کیا۔ مشاعرے کے علاوہ پٹنہ یونی ورسٹی میں فراق کا لکچر بھی تھا۔ ہم لوگوں کی دیکھ بھال کرنے کے لئے ایک صاحب کو تعینات کر دیا گیا تھا۔ صبح کی چائے پیتے وقت فراق صاحب نے ان سے پوچھا۔ کیوں صاحب آپ کیا کرتے ہیں۔ جواب ملا۔ آئی۔ ایم۔ پروفیسرI am Professor فراق نے چائے کی پیالی نیچے رکھ دی اور کہا۔ ‘‘ کیا فرمایا آپ نے ؟۔ اپنا پرانا جواب انہوں نے پھر دوہرایا I am Professor۔ فراق کو ان کا جواب بالکل ہی سمجھ میں نہیں آیا۔ فراق کچھ پریشانی ظاہر کرتے ہوئے بولے۔ یہ پروفیسر کیا بلا ہے بھائی۔ میں پڑھاتا ہوں صاحب۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔ اب میں سمجھ گیا۔ آپ کس چیز کے پروفیسر ہیں ؟۔ جواب ملا (کام رس) (I am Professor of Kamarasفراق چائے اور ناشتہ ایک دم بھول گئے اور بہت ہی غمگین ہو گئے۔ میں نے بہت ہی آہستہ سے کہا۔ حضور آپ ناشتہ تو کر لیجئے کیا ناشتہ کریں صاحب پروفیسر صاحب نے تو میری ساری بھوک ہی ختم کر دی۔ بات در اصل یہ ہے کہ آپ پر تو کسی چیز کا اثر ہی نہیں ہوتا۔ نہ تو آپ کو بد صورتی سے تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی آپ کو جہالت پر غصہ آتا ہے۔ مجھے پروفیسر صاحب پر ذرا بھی غصہ نہیں ہے۔ ہندستان میں ہزاروں لاکھوں پروفیسر بھرے پڑے ہیں۔ الہ آباد یونیورسٹی میں ایک صاحب انگریزی پڑھاتے ہیں وہ ڈینجرس کوڈینگرس کہتے ہیں۔ ایک صاحب کسی ڈگری کالج میں انگریزی پڑھاتے ہیں۔ ایک دن وہ اپنے دوست کو لے کر مجھے سے ملنے آئے ان کے دوست ذرا بولتے کم تھے۔ اپنے دوست کے بارے میں فرمانے لگے۔ "Shy” "He is Shamy”کا لفظ ہی انہیں نہیں معلوم تھا اور شیم سے کیا لفظ بنایا انہوں نے شیمی یہ پڑھانے والوں کی حالت ہے۔ لڑکے تو اب ایسے ایسے آنے لگے ہیں یونیورسٹی میں کہ کچھ پوچھئے مت۔ کچھ سمجھتے ہی نہیں ان کے درمیان رہتے رہتے میں کبھی کبھی غلط انگریزی بول جاتا ہوں۔ کیا ہو گا اس ملک کا جنھیں کچھ نہیں آتا وہ پڑھانے کا کام کرنے لگتے ہیں۔ جس دن سے پڑھانے کی نوکری ملی پڑھنا لکھنا بند کر دیا۔ مجھے پتہ چلا ہے کہ لوگ بغیر پڑھے لکھے اور امتحان پاس کیے ڈگریاں خرید لیتے ہیں۔ ذہین لڑکوں کا جواب ممتحن سمجھ نہیں پاتے اور انہیں فیل کر دیتے ہیں۔ نوکری کے لیے انٹر ویو میں جانے والے لڑکے جواب رٹتے ہیں۔ اس وقت تک فراق سے ملنے والے سات آٹھ اور لوگ بھی آ گئے تھے۔ اس میں سے کچھ اخبار نویس تھے کچھ پروفیسر اور کچھ افسر۔ سب بیٹھ کر فراق کی باتیں سن رہے تھے فراق کا بیان جاری تھا۔ افسر لوگ فائلوں پر جو آرڈر پاس کرتے ہیں اس کا کچھ مطلب ہی نہیں ہوتا۔ ایک افسر نے کلرک سے لکھ کر پوچھا کہ کون کون سی فائل کہاں کہاں ہے۔ اس بات کو انہوں نے اس طرح لکھا”Which Which File is Where Where”اب آپ خود سوچ لیجئے۔ ہماری یونیورسٹی میں ایک پروفیسر صاحب لڑکوں سے کہہ رہے تھے Meet me Behind the Classکلاس کے بعد کا ترجمہ Behind the Classکر دیا لوگوں کو ہنسی آ گئی فراق کہنے لگے ہنسنے کو ہنس لیجئے مگر تعلیم کی کیا حالت ہوتی جا رہی ہے اس پر بھی غور کرنا مت بھولیے۔ ہائی کورٹ میں وکیل حضراتYour Lordshipکو Permissionاور Your Lordship کہتے ہیں۔ کریئے اردو اور انگریزی سے نفرت۔ گنوار ہو کر رہ جائیے گا۔ آج کل ایک دھوکا اور پھیلا ہے کہ اور وہ دھوکا ہے ڈی۔ فل اور ڈی۔ لٹ کا۔ چار کتا بیں کھول لیں ادھر اُدھر سے نقل کر لیا۔ تھیسس تیار ہو گئی اور خوشامد کر کے ڈاکٹریٹ کی ڈگری مل گئی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ڈاکٹر ہونے کے بعد ایک آدمی کیسے اچھا ہو جاتا ہے۔ ہمارے دوست امر ناتھ جھا بہت صحیح کہتے تھے Doctorate is a Disqualification ان چیزوں کی ضرورت سائنس وغیرہ میں ضرور ہے میں نے پروفیسر صاحبان کی بیویوں اور لڑکوں کو ڈاکٹر صاحب کہتے سنا ہے۔ لڑکا اپنے باپ کو ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارتا ہے۔ یہ ہے روح کا بھک منگا پن۔ ایک سے بڑھ کر مسنحرے ہیں۔

فراق ایک دفعہ پٹنہ کے گور نر جناب دیوکانت بروا کے مہمان ہوئے فراق ایک مشاعرے میں شرکت کرنے پٹنہ تشریف لے گئے تھے۔ بردا صاحب خود بھی شاعر تھے اور بہت ہی اعلا درجہ کی شاعری کرتے تھے فراق صاحب اور بردا صاحب گھنٹوں شاعری اور فلسفہ پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ بہار کے اس وقت کے وزیر اعلی جناب کید الہ پانڈے بھی فراق سے ملنے راج بھون میں کئی بار تشریف لائے۔ فراق مشاعرہ شروع ہونے کے کافی دیر بعد پہنچے۔ اس دن فراق شراب کچھ زیادہ ہی پی گئے تھے مشاعرہ جناب ملک زادہ منظور احمد کنڈکٹ کر رہے تھے۔ منظور صاحب اس فن میں بڑے ماہر ہیں۔ بے جان مشاعرہ میں جان ڈال دیتے ہیں ان کا انداز ان کا لب و لہجہ بر محل اشعار پڑھنا اور شاعروں کی تعریف میں الفاظ کا انتخاب یہ سب چیزیں محفل کو جگمگا دیتی ہیں۔ خاص طور سے انہوں نے فراق کے مرتبہ کا ہمیشہ ہی خیال رکھا ہے اور فراق کی تعریف جی کھول کر ہر محفل میں کی ہے۔ فراق کو پڑھنے کی ہمیشہ جلدی رہتی تھی اور انہوں نے کبھی ترتیب وغیرہ کا کوئی خیال نہیں کیا جب جی میں آیا مائک پر پہنچ گئے۔ کبھی کبھی فراق صاحب ملک زادہ صاحب پر خفا بھی ہو جاتے تھے جلد بلائیے صاحب مجھے اب میں مشاعرے میں پانچ منٹ سے زیادہ بیٹھ ہی نہیں سکتا۔ جو صاحب پڑھ رہے ہیں ان کے بعد مجھے بلوائیے نہیں تو میں خود ہی اٹھ کر مائک کے پاس چلا آؤں گا۔ ملک زادہ صاحب ان ساری الجھنوں کے باوجود اپنا توازن قائم رکھتے تھے ملک زادہ صاحب تو خود بھی تو ایک اچھے شاعر اور ادیب ہیں اسی لیے انہیں فراق کی شاعرانہ عظمت کا ہمیشہ پاس رہتا۔ کبھی کبھی فراق گھنٹے آدھ گھنٹے تک پڑھتے ہی رہ جاتے تھے۔ اس دن شعر پڑھنے کے بعد سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے فراق نے کہا ’’حضرات اب آپ لوگ اپنے اپنے گھر تشریف لے جائیے جو قوم رات کے گیارہ بجے تک مشاعرہ سنتی ہے اس قوم کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بمبئی میں ایک بڑی اچھی بات یہ ہے کہ وہاں آپ نو بجے کے بعد کوئی جلسہ نہیں کر سکتے۔ ایک بار میں نے اپنے ایک دوست سے مشاعرے میں چلنے کے لیے کہا تو کہنے لگا فراق صاحب میں آپ کے ساتھ مشاعرے میں ضرور چلتا مگر مجھے ایک بڑا ضروری کام کرنا ہے۔ میں نے پوچھا۔ بھئی کون سا ضروری کام کرنا ہے۔ جواب ملا مجھے سونا ہے۔ اس دن سے میرے دل میں اپنے دوست کے لئے عزت بڑھ گئی‘‘۔ ملک زادہ منظور احمد صاحب نے بڑے سلیقے سے سامعین کو سنبھالا نہیں تو مشاعرہ ختم تھا۔

دلی کے ایک بہت بڑے رئیس نے فراق کے اعزاز میں دعوت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ فراق نے کہا۔ خیال تو بہت برا نہیں ہے۔ مگر کچھ ضروری ہدایات نوٹ کر لیجئے۔ رئیس صاحب نے اپنی ڈائری نکالی اور ہدایات کو نوٹ کرنا شروع کیا۔ فراق سوچ سوچ کر بولنے لگے۔ لکھئے صاحب پٹیراس کاچ کی دو بوتلوں کا میرے لیے بندوبست کر لیجئے گا فراق نے پھر کہنا شروع کیا۔ ۴ بجے شام کو کار ہمارے پاس آ جائے۔ رئیس صاحب نے فراق کی بات کاٹتے ہوئے کہا محفل تو چھ بجے شام سے شروع ہو گی۔ ساڑھے پانچ بجے تک گاڑی بھیج دوں گا۔ فراق نے اپنی آواز اونچی کرتے ہوئے کہا۔ آپ معاملات بالکل نہیں سمجھتے۔ میں کوئی بستر کی طرح بندھا ہوا بیٹھا ہوں کہ گاڑی میں ٹھونس دیا جاؤں گا اور گاڑی چل پڑے گی۔ جب کار آ جائے گی تب میں اپنے آپ کو ذہنی طور پر چلنے کے لیے تیار کرنا شروع کروں گا۔ کہیں آنے جانے سے مجھے سخت نفرت ہے۔ ایک دو سگریٹ پیوں گا دس پندرہ منٹ دوستوں سے باتیں کروں گا۔ ایک آدھ پیالی چائے پیوں گا ہو سکتا ہے کہ تھوڑی بہت شراب بھی پینا پڑے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ بستر سے اٹھ کر کار تک پہنچنا کوئی آسان کام ہے۔ جتنی تکلیف زمیں کو سورج کے گرد ستر طواف کرنے میں ہوتی ہے اس سے زیادہ الجھن مجھے ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ مجھے کہیں جانا ہے میں تو مر جاتا ہوں اور آپ حضرات دانت نکال کر فوٹو کھنچوانے میں لگے رہتے ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ مجھے لوگ اپنے یہاں اس لیے بلاتے ہیں کہ میرے ساتھ بیٹھ کر شراب پیتے ہوئے یا کھانا کھاتے ہوئے اپنی فوٹو کھنچوا لیں اور لوگوں کے سامنے ڈینگیں مارنا شروع کر دیں کہ فراق تو میرا یار ہے۔

دہلی میں ایک بار جناب چاری صاحب نے اپنے عالی شان بنگلہ پر فراق صاحب اور مجھ کو دعوت دی۔ چاری صاحب سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ تھے اور بڑے ہی علم دوست تھے۔ انگریزی اور اردو زبانوں پر غیر معمولی دسترس رکھتے تھے۔ گرمیوں کے دن تھے۔ ان کے خوبصورت اور ہرے بھرے لان میں پندرہ بیس کے قریب کرسیاں پڑی تھیں۔ اس محفل میں چاری صاحب کی بیوی۔ وی۔ کے۔ کرشنا مینن۔ وی کے درما، بلراج اروڑہ، اردو کے مشہور شاعر مخدوم محی الدین اور فراق شامل تھے۔ چاری صاحب نے بڑی محبت سے فراق کو اپنے بغل میں بٹھایا۔ پھر شراب کا دور شروع ہو گیا۔ چاری صاحب نے فراق کو مخاطب کر کے کہا۔ فراق سپریم کورٹ کے جج لوگ میری انگریزی زبان کی تعریف کرتے ہیں مگر تمہارے انگریزی مضامین پڑھ کر مجھے رشک آتا ہے۔ کیا زبان لکھتے ہو یار۔

اس کے بعد شعر و شاعری کا دور شروع ہوا۔ کرشنا مینن اردو نہیں سمجھ پاتے تھے۔ اس لیے فراق کو اپنے اشعار کا ترجمہ انگریزی میں کرنا پڑ رہ تھا۔ مینن صاحب کافی متاثر تھے اور رہ رہ کر Beautifulاور Wonderfulکہتے جا رہے تھے۔ ساری محفل جھوم رہی تھی۔ فراق نے ایک شعر پڑھا۔

ہر لمحے پہ ہوتا ہے سایہ ابدیت کا

اک رات محبت کی اک رات نہیں ہوتی

شعر کا ترجمہ

Enter Broods Over Every Moment

A Night of Love Is Not A Night Of Love

چاری صاحب کھڑے ہو کر ناچنے لگے۔ پھر بیٹھ کر کرشن کنہیا کی بانسری گانے لگے۔ بڑا خوبصورت راگ تھا ان کا مخدوم صاحب سے شعر سنانے کی فرمائش کی گئی۔ بڑی پیاری سی نظم سنائی اس نظم کا ایک مصرع مجھے ابھی تک یاد ہے ؎

ابھی نہ رات کے گیسو کھلے نہ دل مہکا

مخدوم صاحب نے فراق سے درخواست کی کہ وہ نظم کا ترجمہ انگریزی میں کر دیں تاکہ مینن صاحب بھی اس کا لطف اٹھا سکیں۔ اس مصرع کا ترجمہ فراق نے کچھ اس طرح کیا۔

"The Night Has Yet Not Loosened Its Locks and the Heart Has Yet Not Sent Forth Its Fragrance”

اس کے بعد بحث شروع ہو گئی کمیونزم پر، فراقؔ کی کسی بات پر چاری صاحب سے خفا ہو گئے اور کہنے لگے۔ فراقؔ صاحب آپ مجھے مہمان نوازی کے قوانین توڑنے پر مجبور نہ کریں۔ ‘‘ بات چیت انگریزی زبان میں ہو رہی تھی، فراقؔ نے فوراً جواب دیا ’’وکیلوں سے قانون توڑنے کے علاوہ اور امید ہی کیا کی جا سکتی ہے۔ ‘‘ سبھی لوگ زور سے ہنس پڑے، چاری صاحب بھی ہنس پڑے۔

واقعات و واردات تو بہت ہیں اور ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ جگہ کی کمی ہے۔ اگر موقع ملا تو پھر کبھی ایک اور مضمون میں ان واقعات کا ذکر کیا جائے گا جو باقی رہ گئے ہیں اور جن میں فراقؔ کی زندگی کے مختلف پہلو چھپے ہوئے ہیں اور جو ہزاروں زاویوں سے فراقؔ کی شاعری اور شخصیت پر بھرپور روشنی ڈالتے ہیں ع

خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں

ہاں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا۔ فراقؔ اپنے آخری وقت میں گھر چھوڑ کر باہر نکلے تو پلٹ کر واپس نہ آ سکے۔ فراقؔ کا ہی ایک شعر یاد آ رہا ہے۔

یہ دنیا چھوٹتی ہے میرے ذمہ کچھ نہ رہ جائے

بتا اے منزلِ ہستی ترا کتنا نکلتا ہے

٭٭٭

 

 

فراق گورکھپوری

 

                ………مجتبیٰ حسین

 

(۱)

جی! آپ نہیں سمجھے !! سیاہی مائل پیشانی شام کے دھندلکے کی طرح ہلکی سی پر اسرار چمک لئے ہوئے ہے، پیشانی کی چھوٹی بڑی متعدد شکنیں تاریک سمندر کی لہروں سے ملتی ہوئی۔ صاف، شفاف، بے انتہا چمک دار آنکھیں، گول گول دیدے ہر وقت گھومتے ہوئے تھرکتے ہوئے، غوطے کھاتے ہوئے، آنکھیں جو آگے پیچھے تمام دیکھ سکتی ہیں، سونگھ سکتی ہیں۔ چھو سکتی ہیں اور سوچ سکتی ہیں، در اصل ہاتھ پیر ناک کان سب کا کام انجام دیتی ہوئی کبھی کبھی معمول سے زیادہ سکڑی ہوئی، جو کم ہوتا ہے۔ کبھی معمول سے زیادہ کھلی ہوئی، جو اکثر ہوتا ہے۔ گردن میں خم، ہونٹوں پر خفیف استہزا، اور اس طرح کھنچی ہوئی، بھینچی ہوئی، گہری اشتعال انگیز آواز آتی ہے۔ ’’جی آپ نہیں سمجھے !!‘‘ اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ واقعی آپ نہیں سمجھے۔ اب تک جو کچھ آپ سمجھے ہوئے تھے وہ سب غلط تھا، جو کچھ دوسرے سمجھائیں گے وہ سب غلط ہو گا اور جو کچھ اب آپ کو بتایا جائے گا۔ وہ آپ کی سمجھ سے بالا تر ہے، عشق و محبت، تہذیب و تمدن، موت و حیات، جزا و سزا سب غلط، خود آپ اور آپ کے سامنے بیٹھا ہوا شخص سب معمّہ ہے، ایک راز ہے، زندگی کی طرح گہرا اور سر بستہ یہی رازmysteryفراق کی غزلوں کا اہم جزو ہے۔

یہ احساس کم و بیش ان کی ہر غزل میں ملتا ہے خواہ وہ اجتماع ضدّین یا اتحاد و تمدن کا کرب دکھاتی ہوں یا سیدھے سادے انداز میں حسن و عشق کے تعلقات کا ذکر کرتی ہوں یا فضائی تاثرات کی حامل ہوں۔ ان کی غزلوں کا لہجہ ہمیشہ پراسرار ہوتا ہے جو مختلف معنی و مطالب، مواقع اور ماحول کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ یہ ہلکا پلکا بھی ہوتا ہے اور بھاری بھرکم بھی۔ تیز بھی اور سرگوشی کے انداز میں بھی۔ بعض اوقات یہ سرگوشیاں کسی حد تک پہنچ جاتی ہیں کہ مطلب خبط ہو جاتا ہے۔ اس میں ترجمے کی گرانباری بھی ملتی ہے اور تخلیق کی حسن کاری بھی۔ مگر یہ لہجہ ہر صورت، ہر حال میں ’’راز دارانہ‘‘ ضرور ہوتا ہے۔ ان کی زمینیں احساس و فکر کے زیر و بم کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں۔

اجتماع ضدین اور اتحادِ ضدین فراقؔ کا محبوب مشغلہ ہے۔ مگر یہ محض مشغلہ نہیں ہے۔ ان کی پوری نتغزلانہ شخصیت اس میں مضمر بھی ہے اور اس سے ابھرتی بھی ہے۔ خود انھیں کے الفاظ میں سنیے۔ ’’نفرت و محبت، حسن و قبح کا شدید ترین احساس کرتے ہوئے حیات اور کائنات پر میرا ایمان قائم رہا۔ کفر و ایمان دونوں لحاظ سے وحدت وجود کا قائل رہا۔ پھر تلخ ناکامی، حسرتوں کا خون ہوتا اور جدلیت پذیر وحدت کا احساس اتحادِ ضدین (RECOACILIATION OF OPPOSITES ) کی صنعت میرے وجدان اور میری شاعری میں کیوں نہ پیدا کر دیتا‘‘ یہ صفت فراقؔ کے کلام کا امتیازی رنگ ہے، اس طریقۂ کار کو اپنانے میں بڑی احتیاط، قوتِ فکر اور صحیح تصور احساس کی اشد ضرورت ہے۔ اس تضاد سے جو اچانک پن اور نئی دریافت کا احساس پیدا ہوتا ہے وہ اس قسم کے اشعار کو ایک پراسرار کیفیت دے دیتا ہے۔

دل دکھ کے رہ گیا یہ الگ بات ہے مگر

ہم بھی ترے خیال سے مسرور ہو گئے

مدتیں گزریں تری یاد بھی آئی نہ ہمیں

اور ہم بھول گئے ہوں تجھے، ایسا بھی نہیں

اک فسوں ساماں نگاہ آشنا کی دیر تھی

اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے

فراق کے یہاں یہ ’’تضادیات‘‘ کبھی ایک مشق بن کر رہ جاتی ہے ؎

پار ہوا، پار ہوا بحرِ غم

ڈوب چلیں، ڈوب چلیں کشتیاں

یہ بھی سچ ہے کوئی الفت میں پریشان کیوں ہو

یہ بھی سچ ہے کوئی کیوں کر نہ پریشان ہو جائے

شعر کی روانی اور صفائی ایک نوع کا حسن فریب رکھتی ہے۔ مگر فراقؔ کا پراسرار لہجہ یہاں دوسروں سے مل جاتا ہے۔ فراقؔ کے لہجے کی پراسرار ہیں ان مواقع پر زیادہ نمایاں ہوتی ہیں جہاں وہ جذبات اور احساسات کو کسی فضائی کیفیت سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں ؎

شام بھی تھی دھواں دھواں، حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

یہ نکہتوں کی نرم روی یہ ہوا یہ رات

یاد آ رہے ہیں عشق کو ٹوٹے تعلقات

اب دورِ آسمان ہے نہ دور حیات ہے

اے دردِ عشق تو ہی بتا کتنی رات ہے

یہ لہجہ اس موقع پر بھی دلنواز اور پراسرار بن جاتا ہے جب حسن و عشق کے تعلقات کی بات آتی ہے ؎

اک وہ ملنا، اک یہ ملنا

کیا تو مجھ کو چھوڑ رہا ہے

اس پرسش کرم پہ آنسو نکل پڑے

کیا تو وہی خلوص سراپا ہے آج بھی

وہ سوز و درد مٹ گئے وہ زندگی بدل گئی

کمالِ عشق ہے ابھی یہ کیا کیا یہ کیا ہوا

حیات و کائنات کے مسائل سے بحث کرتے وقت فراقؔ کا لہجہ ’’تاریخ رسی‘‘ کے ساتھ ساتھ موت و زیست کے دونوں افق کو چھوتا نظر آتا ہے ؎

ہزار بار زمانہ ادھر سے گزرا ہے

نئی نئی سی ہے کچھ تیری رہ گزر پھر بھی

یہ موڑ وہ ہے کہ پرچھائیاں بھی دیں گی نہ ساتھ

مسافروں سے کہو اس کی رہ گزر آئی

ظلمت سرائے دہر میں کچھ روشنی سی ہے

اک رات کا روانِ عدم کا قیام دیکھ

ابھی فطرت سے ہوتا ہے نمایاں شان انسانی

ابھی ہر چیز میں محسوس ہوتی ہے کمی اپنی

فراقؔ کی غزلوں کی ایک ایسی فضا ہے اور ہماری غزل گوئی میں نہیں ملتی اس فضا میں حزن، تنہائی، ہجر، نیم تاریکی میں محو گفتگو ملتا ہے۔ یہ فضا اسرار اور تشکیک سے مل کر بنی ہے۔ ان کی غزلوں میں ’’سی‘‘ اور ’’سا‘‘ کا استعمال کثرت سے پایا جاتا ہے جو پڑھنے والے کے ذہن میں تشکیک کی فضا پیدا کر دیتا ہے اگرچہ ان الفاظ کا کثرتِ استعمال کبھی کبھی ان کے یہاں عجز شعری کا بھی غماز بن جاتا ہے۔

فراق نے غزل میں بڑی بات یہ کی کہ اسے عہد حاضر کے تقاضوں سے شعوری طور پر ربط دے دیا۔ ’’کچھ غمِ دوراں، کچھ غم جاناں ‘‘ کا نہایت جاں سوز اور فکر انگیز امتزاج پہلی بار ان کی غزلوں سے نمایاں ہوا ہے۔ حیات و کائنات کے مسائل سے بحث کرتے وقت انہوں نے مشرق و مغرب کی فکر کی خوشگوار ہم آہنگی سے اردو غزل کو نئی توانیاں وسعتیں اور امکانات دیئے ہیں۔ فراقؔ نے شدید داخلی احساسات کو خارجی حالات سے جس طرح ربط دیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس سنگم پر اگر کسی قسم کی غزل کہی جا سکتی ہے تو وہ وہی ہے جو ہمیں فراقؔ کے یہاں ملتی ہے۔ ان کی غزلیں پڑھتے وقت بارہا یہ احساس ہوتا ہے کہ ان میں دورِ جدید کی نظموں میں احساس و فکر کی بڑی مماثلت ہے۔ فراقؔ کی غزلیں اپنے دھیمے لہجے میں دور حاضر کے مسائل کو سمیٹنے کی جو قوت رکھتی ہیں وہ ان کے معاصر شعراء میں اور کہیں نہیں ملتی۔ ان کی غزلوں سے دورِ جدید کی سماجی، سیاسی، معاشی تغیرات اور بدلتی ہوئی اقدار کی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ مگر یہ آوازیں صفت غزل کے بنیادی سروں سے الگ نہیں ہیں۔ فراقؔ نے غزل ہی کہی ہے نظم نہیں کہی ہے۔ وہ غزل کی روایات کا اس دور میں سب سے نکھرا اور گہرا شعور رکھتے ہیں۔

فراقؔ کی غزلوں میں ہمیں خاموش نغمہ بھی ملتا ہے اور وہ نغمہ بھی جو خاموشی چھیڑتی ہے۔ یہ بڑے دھیمے سروں کا نغمہ ہے۔ مگر اس کی گونج آفاقی ہو جاتی ہے۔

شامِ ہجراں سنا گئی اکثر

خامشی بھی کہانیاں تیری

چونک پڑے جو سناٹے میں

ایسے دل کو کون پکارے

شامِ غم اور شبِ فراق کا ذکر ان کی شاعری میں بار بار ملتا ہے اور ہر جگہ ایک نئی کیفیت، نئے آہنگ اور نئی معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ اردو کے کسی غزل گو شاعر کے یہاں یہ ذکر اتنی مختلف کیفیتوں، دل خستگی اور ایسی فضا کے ساتھ نہیں پایا جاتا۔

تھی یوں تو شامِ ہجر مگر پچھلی رات

وہ درد اٹھا فراقؔ کہ میں مسکرا دیا

بہت دنوں میں محبت کو یہ ہوا معلوم

جو تیرے ہجر میں گزری وہ رات، رات ہوئی

گام بہ گام مہر و ماہ، چاروں طرف شب سیاہ

عالم صبح زندگی رات اگر کئی تو دیکھ

رکی رکھی سی شب ہجر ختم پر آئی

وہ پو پھٹی، وہ نئی زندگی نظر آئی

ان غزلوں میں سیاہ رنگ عجب انداز سے مختلف احساس کی کیفیتوں کے ساتھ ابھرتا ہے۔ اس رنگ میں زندگی میں زندگی کا ابہام، حسن کی کم نگاہی، عشق کی تیرہ بختی اور رات کی گہرائی ہے۔ یہ رنگ نحس نہیں ہے۔ اس کے سائے میں غموں کو جھیل جانے کی توانائی پیدا ہوتی ہے ؎

شام غم کچھ اس نگاہِ ناز کی باتیں کرو

بیخودی بڑھتی چلی ہے، راز کی باتیں کرو

نکہت زلف پریشاں، واستانِ شام غم

صبح ہونے تک اسی انداز کی باتیں کرو

یہ سکوت شام، یہ دل کی رگوں کا ٹوٹنا

خامشی میں کچھ شکست ساز کی باتیں کرو

اور یہ شعر بھی دیکھئے ؎

یہ رات اندھیری ہے مگر اے غم فردا

سینوں میں ابھی شمع یقین جاگ رہی ہے

فراقؔ نے اپنی غزلوں کے لئے نئی زمینیں نہیں دریافت کی ہیں مگر ان کی فکر اور ان کے سوچتے ہوئے لہجے نے مروجہ زمینوں کو ایک نئی آواز دے دی۔ ردیف ان کے یہاں نہ صرف استادی کے ساتھ مصرف میں لائی گئی ہے بلکہ وہ شعر کی معنویت اور اشاراتی پہلوؤں کو اور اجاگر کرتی معلوم ہوتی ہے ؎

کسی کا کون ہوا یوں تو عمر بھر پھر بھی

یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے ہاں مگر پھر بھی

رواں اور مترنم، بحروں سے ان کا مزاج ہم آہنگ نہیں ہے۔ وہ بحروں کے ترنم سے دھوکا نہیں کھاتے۔ ان کی غزلوں کی مخصوص نغمگی ان کے طرزِ فکر سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ نغمگی جذبات کے ابال کے فرو ہو جانے کے بعد پھوٹتی ہے۔ ان کی شاعری میں پھبک اس لئے نہیں ہے کہ فوری واردات اور جذبات کے اظہار سے زیادہ عشق و محبت کی سوچی سمجھی اور پیچیدہ نفسیات ان کا موضوع رہی ہے۔ وہ ذہنی کیفیات کے متعدد عمل اور رد عمل کو مختلف زادیوں سے پیش کرتے ہیں ؎

اب اس کے بعد محبت کی زندگی معلوم

تری نگاہ نے اس دم کمی نہ کی ہوتی

ارے وہ درد محبت سہی تو کیا مر جائیں

اتنی سوچی سمجھی شاعری کا کبھی کبھی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی غزلیں ڈھیلی ڈھالی اور بے لطف ہو جاتی ہیں۔ اس میں تخلیقی عمل کم اور کوشش و محنت زیادہ ملتی ہے۔ مصرعے نثر کے ٹکڑے بن جاتے ہیں۔

فراقؔ نے اپنی کئی غزلوں میں کوشش کی ہے کہ ان میں حسی رنگ پیدا کریں جسم کی لطافتوں پر ان کے بہت سے شعر ہیں جس میں ہندی شاعری سے بھی کچھ رنگ لے لیا گیا ہے۔ یہ گوشت پوست کی غزلیں اکثر و بیشتر خیالی لطافتوں کا شمار معلوم ہوتی ہیں۔ ان میں تخیل پر زیادہ بھروسہ ہے اور محبوب کا جسم اس قسم کی لفاظیوں میں چھپ جاتا ہے۔

جیسے صباح مسکرائے جیسے حیات گنگنائے

یہ قال ہے حالت نہیں

جسم اس کا نہ پوچھئے کیا ہے

لوچ ایسی تو روح میں بھی نہیں

فراقؔ نے اپنی غزلوں میں کہیں کہیں ٹھیٹھ لہجے کی بھی شاعری کی ہے۔ یہ تیکھا اور دو ٹوک قسم کا لہجہ یگانہ سے ملتا جلتا ہے۔ فراقؔ کے یہاں آتشؔ اور یگانہؔ دونوں کے اثرات پائے جاتے ہیں ؎

بھیک مانگ کے بھاگے بگ ٹٹ

ورنہ وہ سرکار تھی لکھ لٹ

آتشؔ کی مشہور غزل، آئینہ سینۂ صاحب نظراں ہے کہ جو تھا۔ پر فراقؔ کی غزل بھی دیکھنے کے قابل ہے۔ فراقؔ میرؔ کے لہجے کی زیر لب سخن آفرینی کو سراہنے کے باوجود و مزاجاً آتشؔ اور یگانہؔ کے زیادہ قریب معلوم ہوتے ہیں۔

فراقؔ کی غزلوں نے اس دور میں جب کہ نظم نگاری پوری اردو شاعری پر چھائی ہوئی ہے۔ غزل گوئی کو نظر انداز نہیں ہونے دیا۔ یہ ان کا بڑا کارنامہ ہے۔ غزل میں جتنی توانائی، گہرائی، تنوع اور جذبات کے جتنے مختلف عالم (STATES OF EMOTION) فراقؔ نے ہمیں دیئے ہیں وہ غزل کی وسیع النظری اور زندہ ضمیری کی روشن مثال ہے۔ فراقؔ کی ناقدانہ حیثیت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ انھوں نے ایک پوری نسل کی ادبی تربیت کی ہے۔ شعر فہمی اور سخن سنجی کی جتنی راہیں فراقؔ کی تنقیدوں سے کھلی ہیں شاید ہی کسی ناقد کے یہاں یہ بات ملتی ہے۔ ان کی تنقیدی بذات خود تخلیقی ادب کا درجہ رکھتی ہیں۔ شعر و ادب اُن کے یہاں انسانی تہذیب کا نچوڑ ہیں۔ ان کا انداز تحریر داخلی اور تاثراتی ہوتے ہوئے بھی قوت استدلال رکھتا ہے۔ وہ تجزیہ سے زیادہ وجدانِ صحیح کے قائل ہیں۔ تاریخِ ادب پر ان کی نگاہ واقعاتی نہیں پڑتی بلکہ نفسیاتی گہرائیوں میں ڈوبتی چلی جاتی ہے۔ ان کی دیدہ وری اور ’’جزرسی‘ بعض دفعہ حیرت انگیز طور پر صحیح نتائج اخذ کر لیتی ہے۔ اصغرؔ گونڈوی کے بارے میں ایک جگہ لکھتے ہیں ’’بات شاید یہ ہے کہ اصغرؔ کی جوانی نے جنسیات و شہوانیات میں روحانیات کا عنصر پایا ہی نہیں ‘‘ اس قسم کے الفاظ رسالۂ جامعہ میں ایک مدت بعد دیکھنے آئے۔ صاحب مضمون اصغر مرحوم کے قریبی دوست ہیں۔ انھیں کے استفسار پر مرحوم نے فرمایا تھا کہ ’’وہ جنسیات میں روحانیات کا عنصر نہیں پاتے۔ ‘‘

فراقؔ کی تنقیدیں ٹھس اور دو دو چار والی نہیں ہوتیں۔ ان میں صفر کی وسعت اور معنویت پائی جاتی ہے۔ بن جانس (BEN JONSON ) کے یہ الفاظ کہ شاعر کو شاعر ہی پرکھ سکتا ہے۔ (TO JUDGE A POET IS THE FACALTY OF A POET) فراقؔ پر پوری طرح صادق آتے ہیں۔

 

 

(۲)

’’فراقؔ صاحب! ۲۳؍ اکتوبر سنیچر کا دن ڈیڑھ بجے رات کو اشرف علی کا انتقال ہو گیا۔ ۱۷؍اکتوبر کو ایک کار انہیں روندتی ہوئی گزر گئی ہے۔

یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

انہیں ہسپتال پہنچا دیا گیا جہاں وہ گہری بیہوشی کے عالم میں ایک ہفتے تک پڑے رہے، پھر ان کی سانس اکھڑ گئی اور وہ لالو کھیت (کراچی) کے قبرستان میں دفن کر دیئے گئے۔ ‘‘

آج جب فراقؔ صاحب پر یہ ذاتی قسم کا مضمون لکھ رہا ہوں تو اشرف علی بار بار مجھے یاد آ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ مجھے فراقؔ صاحب کی وہ سخت علالت بھی یاد آتی ہے جب ۴۳ ء میں الہ آباد سول ہسپتال میں جہاں صرف بڑے بڑے افسروں کا داخلہ ہو سکتا ہے۔ وہ بیہوش پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہوش میں آنے کے بعد اتنی سخت اتنی سخت اور خطرناک علالت کے باوجود ’’شامِ عیادت‘‘ والی نظم شروع کر دی تھی جسے انہوں نے دو تین دن ہی میں ختم کر دیا تھا۔ اس نظم کوسنانے سے قبل مجھے ان کے وہ الفاظ بھی یاد آ رہے ہیں۔ ’’صاحب کتنی منحوس فضا ہے اس ہسپتال کی! ہر شخص مہذب بنا بستر پر لیٹا رہتا ہے یہ صاحب لوگوں کا ہسپتال ہے نا؟ مگر جب سے میں آیا ہوں جان پڑ گئی ہے اس ہسپتال میں اب معلوم ہوا ہے۔ یہاں کے اسٹاف کو۔ کوئی ’’ آدمی آیا ہے ہسپتال میں ! اور واقعی اسپتال میں جان پڑ گئی تھی۔ خاموش اور پر سکون اسپتال ایک مشاعرے کے پنڈال میں تبدیل ہو گیا تھا۔ صاحب لوگوں کو سخت پریشانی دامن گیر تھی۔ اشرف علی بھی ایک ایسے اسپتال میں داخل تھے۔ اگر وہ بچ جاتے تو وہ بھی کچھ اسی قسم کی باتیں کرتے۔ وہ فراقؔ صاحب کے سب سے پرانے اور ذہین ترین شاگردوں میں سے تھے۔ جہاں کہیں اور جب کہیں مل جاتے تو فراقؔ صاحب کی گفتگو ضرور چھیڑ دیتے جب ان کے پاس اور بہت سی ضروری اور اہم باتیں کرنے کی ہوتی تو بھی وہ ان سے ذرا دیر کے لئے منہ موڑ کر فراقؔ صاحب کے بارے میں ادھر ادھر کی باتیں ضرور شروع کر دیتے اور جب ان کے پاس بات کرنے کو کچھ بھی نہیں رہ جاتا اس وقت بھی وہ فراقؔ صاحب کا تذکرہ کرتے مجھے معلوم ہے فراقؔ صاحب سب سے زیادہ اشرف علی سے نالاں تھے۔ فراقؔ صاحب کے ہاں بالعموم احمد حسین، ممتاز حسین، ارتضیٰ حسین، سردار انصاری، پروفیسر رام پرتاب بہاؤ، پروفیسر یدپتھ سہائے (فراقؔ صاحب کے چھوٹے بھائی) اور دیگر چند حضرات بیٹھتے تھے، مگر سب سے زیادہ جس شخص کے شاکی اور جس شخص سے ’’خائف‘‘ تھے وہ اشرف علی تھے۔ ’’خائف‘‘ کا لفظ میں قصداً استعمال کر رہا ہوں اس لئے کہ اشرف علی فراقؔ صاحب کو ان سب حضرات سے زیادہ جانتے اور سمجھتے تھے۔ عین اس وقت جب فراقؔ صاحب بڑے جوش و خروش کے ساتھ کسی مسئلہ پر گفتگو کرتے وہ ان کو۔ اگر انہیں اختلاف ہوتا تو ٹوک دیتے اور کہہ دیتے :

’’فراقؔ صاحب اس سلسلے میں آپ نے جس مصنف کا حوالہ دیا ہے، غلط ہے یوں نہیں یوں ہے ‘‘ یا یہ حوالہ کسی کتاب کا نہیں ہے، یہ آپ ہی کا ایجاد کردہ ہے جو آپ صرف اپنی بات منوانے کے لئے کسی اور کے نام سے منسوب کر رہے ہیں۔ ‘‘

اور فراقؔ صاحب بپھر جاتے مگر وہ ان کی برہمی کی پروا کئے بغیر اپنی بات پر اڑے رہتے۔

’’فراقؔ صاحب آپ نے جو بات کہی وہ اپنی جگہ بہت مناسب ہے مگر یہ کیا ضرور ہے کہ آپ اسے کسی دوسرے کے نام سے پیش کریں ؟‘‘

فراقؔ صاحب اور برہم ہو جاتے۔ ان کا چہرہ سرخ ہو جاتا۔ گفتگو سخت اور درشت لہجے میں ہونے لگتی۔ صبح سے شام ہو جاتی اور پھر رات دو دو تین تین بج جاتے مگر بحث جاری رہتی۔ فراقؔ صاحب کی بھاری کھردری، لوہے کی طرح تپتی ہوئی آواز گونجتی، گرجتی آس پاس کے مکانوں سے ٹکراتی۔ اس وقت ایسا معلوم ہوتا کہ ان کی آواز پوری کائنات پر حملہ آور ہے۔ ادب، سائنس، مذہب، اخلاق، فلسفہ، نفسیات، جنس، جمہوریت، اشتراکیت، فسطائیت سارے مسائل کی تہہ ان کے لہجہ کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ کھلتی چلی جاتی ہے۔ گویا سارے مسائل لہجہ میں لپیٹ کر رکھ دیئے جاتے ہیں۔ اس لہجہ میں تجربات کا نچوڑ ہوتا، یہ ایک طویل مسافت طے کرتا ہوا زندگی کے پیچیدہ اور پراسرار راہوں سے گزرتا ہوا۔ نور و ظلمت دونوں کو سمیٹتا ہوا لوگوں کے دلوں میں اترتا رہتا اور انہیں بھی اپنے ساتھ کھینچتا ہوا اپنے کبھی نہ ختم ہونے والا سفر پر روانہ ہو جاتا۔ اس لہجہ میں کبھی عظمت ہوتی، کبھی پستی، کبھی سکون ہوتا، کبھی اضطراب، کبھی شدید محبت، کبھی شدید نفرت، کبھی صرف بغض، عناد اور تحقیر، مگر یہ ہر حال، ہر صورت میں ایک للکار، ایک چیلنج، ایک دعوتِ فکر ضرور ہوتا۔ اسی کے ساتھ بڑی بڑی بے تحاشا کھلی ہوئی آنکھوں میں سیاہ پتلیاں ایک جنون کے عالم میں گردش کرتی رہتیں۔ یہ پتلیاں لہجہ کے ساتھ ساتھ دوڑتی رہتیں۔ ہر لفظ کے گرد گھوم جاتیں اور ہر جملے کے اختتام پر سننے والے پر جم جاتیں اور اسے کچل کر رکھ دیتیں۔ یہ جیسے سارے خیالات اور لفظوں کو پہلے ہی سے جمع کئے ہوتے ان کے مناسب اظہار اور استعمال کا موقع سوچتی رہتیں انہیں ٹٹول ٹٹول کر دھیرے دھیرے اور کبھی برق رفتاری کے ساتھ جملوں میں رکھتی جاتیں۔ جنتی جاتیں، یہاں تک کہ جملہ پورا ہو جاتا۔ اور بالکل وہی تاثیر پیدا ہو جاتی جو وہ پیدا کرنا چاہتیں۔ سننے والا دم بخود، مبہوت بیٹھا رہتا اسے ایسا محسوس ہونے لگتا جیسے آج ہی اسی گھڑی وہ تمام چیزوں کے باہمی ربط سے واقف ہو رہا ہے۔ اب تک جو کچھ اس کی معلومات تھیں، وہ بہت ناکافی، معمولی اور سطحی تھیں۔ اس نے اس طرف کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔ جہاں متضاد چیزیں الگ ہوتے ہوئے بھی ایک ہو جاتی ہیں۔ آنکھوں اور لہجہ کے ساتھ ہی ساتھ ہاتھ بھی ان دیکھی فضاؤں سے خیالات کو سمیٹتے رہتے۔ لفظوں کے ساتھ اٹھتے اور گرتے رہتے۔ انگلیاں آگے بڑھ بڑھ کر سننے والوں کو برابر متوجہ کرتی رہتیں، دھمکاتی رہتیں، ان پر فرد جرم عائد کرتی رہتیں اور اگر ان کا بس چلتا تو وہ شاید سننے والوں کی گردن بھی مروڑ دیتیں، ’’دیکھئے صاحب! ادھر دیکھئے !‘‘ آواز غصہ کی دبی ہوتی لرزشیں، کشادہ اور سیاہ پیشانی پر لمبی لمبی شکنیں، سڈول اور بھرا ہوا جسم بے چین، متحرک پورے کمرے میں چھایا ہوا۔

’’صاحب!‘‘ کھینچا ہوا ’’صا‘‘ اور دبا ہوا ’’حب‘‘۔ ’’صاحب آپ چپ ہیں۔ جواب دیجئے، میری بات کا۔ یہ دیکھئے۔ دیکھا آپ نے۔ میری انگلی یہاں سے اب تک نہیں ہٹی ہے۔ ‘‘ چھنگلیے کی آخری پور پر انگوٹھا رکھا ہوا۔ ’’بتائیے صاحب! نمبر ایک۔ دیکھئے میں انگلی رکھے ہوئے ہوں۔ کیا شکایت ہے آپ کو۔ جی ہاں ! آپ ہی کو۔ دیکھئے یہ انگلی ہٹی نہیں۔ یہاں سے اب تک۔ صاحب آپ بولتے کیوں نہیں، نمبر ایک، کیا شکایت ہے آپ کو۔ صاحب خون کر دینے کو جی چاہتا ہے آپ کی خاموشی سے۔ کتنے لمحے برباد کئے آپ نے۔ آپ کو نہیں احساس ہے اتنے عرصہ میں جنگ میں فتح اور شکست دونوں ہو سکتی ہیں۔ ‘‘ لمحے بھر کے لئے کمرے میں خاموشی چھا جاتی۔ا تھاہ خاموشی۔ باہر بینک روڈ پر ’’سواریوں کے بڑے گھنگروؤں کی جھکاریں کچھ اونگھتی ہوئی بڑھتی‘‘ رہتیں۔ پھر اشرف علی کچھ بول اٹھتے اور بات خالص گالم گلوچ تک پہنچ جاتی۔ ’’میں تو گالیوں کا بادشاہ ہوں۔ ‘‘ اور اس میں شک نہیں کہ فراقؔ صاحب کی گالیاں کھا کر ادب کبھی ’’بے مزہ‘‘ نہیں ہوا۔ یہ گالیاں بارہ بارہ گھنٹے کی یک لخت نشست میں کبھی کبھی ایک RELIEF بن کر آتیں۔ کبھی یہ بہت سی الجھی ہوتی با توں کو نہایت آسانی سے سلجھا دیتیں۔ یہ ٹیلی ویژن کا کام دیتیں جس کے ذریعہ معنی کے خد و خال ابھر آتے۔ کبھی یہ سارے فاصلوں کو ختم کر کے اپنائیت کی فضا پیدا کر دیتیں اور کبھی ان گالیوں کے بعد محفل برخاست ہو جاتی۔ اشرف علی اور دوسرے حضرات رخصت ہو جاتے اور دوسرے دن پھر آ دھمکتے۔ اشرف علی نے غلط بات سے یا جس کو وہ غلط بات سمجھتے۔ اس سے سمجھوتہ نہ کرنے کا۔ ۔ فراقؔ صاحب ہی سے سیکھا تھا، اور وہ اس کو ان پر آزمایا بھی کرتے۔ اسی لئے شاید فراقؔ صاحب نے انہیں کبھی معاف نہیں کیا۔ ’’صاحب! اگر آپ تھانے میں رپٹ نہ کریں تو میں اس شخص کو شوٹ کر دوں۔ ‘‘ اشرف علی نے مجھے بتایا تھا کہ دلی میں فراقؔ صاحب نے جوشؔ سے لڑنے کے بعد اشرف علی کے بارے میں کچھ اسی قسم کے کلمات کہے تھے۔ مگر اشرف علی کار کی زد میں آنے سے صرف دو تین دن قبل بھی فراقؔ صاحب ہی کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ بڑی سے بڑی بات کہتے وقت بھی فراقؔ صاحب کو QUOTE کرتے اور اپنی معمولی سے معمولی با توں کی سطح بلند کرنے کے لئے بھی فراقؔ صاحب ہی کا سہارا لیتے۔ وہ کراچی میں ’’فراق کا ایک مرکز‘‘ تھے جہاں وہ سب لوگ جمع ہو جاتے جنہیں فراقؔ اور اشرفؔ علی سے دل چسپی تھی۔ فراقؔ صاحب ان سے سخت نفرت کرتے، وہ فراقؔ صاحب سے بڑی محبت کرتے تھے۔ یہ بات نہیں ہے کہ ان کی اپنی شخصیت نہیں تھی انہوں نے اپنی شخصیت کو فراقؔ صاحب ہی کی طرح محنت اور محبت سے پالا تھا، اور اپنی شخصیت کی عظمت کے اسی طرح قائل تھے جس طرح فراقؔ صاحب شاید ان میں اور فراقؔ صاحب میں تصادم کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔ مگر وہ بڑی شخصیتوں کے کبھی منکر نہیں ہوتے۔ اسی لئے وہ فراقؔ صاحب کے بھی منکر نہیں تھے۔ یہاں کراچی میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جسے ادب سے دل چسپی ہو اور انہوں نے اس سے فراقؔ صاحب کا ذکر نہ کیا ہو، اپنے مخصوص انداز میں، آہستہ آہستہ اپنی با توں سے خود لطف اندوز ہوتے ہوئے، ہر لفظ کو سنبھال سنبھال کر، رک رک کر استعمال کرتے ہوئے نہایت احتیاط کے ساتھ آنکھوں میں خود اعتمادی کی چمک، لہجہ میں متانت اور تہذیب، وہ بڑے سرکش اور باغی ہوتے ہوئے بھی بڑے وضع دار اور منکر مزاج تھے کسی صورت میں حفظِ مراتب اور رکھ رکھاؤ میں فرق نہیں آنے دیتے، یوں چاہے وہ کچھ بھی کریں۔ وہ ہمارے یہاں کے جاگیری دور کے تو نہیں البتہ دکٹورین عہد کے انسان معلوم ہوتے تھے۔ فراقؔ صاحب ان کے لئے صرف ایک شاعر، ایک استاد کی حیثیت نہیں رکھتے۔ وہ ان کے لئے ایک ’’طرزِ فکر‘‘ بن گئے تھے۔ بعض روز کہتے۔ ’’مجتبیٰ! فرقوا۔ ۔ ۔ وہ کبھی کبھی پیارے سے یوں بھی پکارتے کہ ہم لوگوں سے بہتر کون جانتا ہے اور۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ ذرا سا رک کر اور مسکرا کر ’’اور تم بھی کیا جانتے ہو، بڑی زبردست سوانح عمری ہو گی اس کی اگر لکھی جائے۔ ‘‘ پھر کچھ سمجھ کر کہتے ’’مگر ایک وقت ہے۔ اس کی گفتگو کا پورا حسن اس وقت تک اجاگر نہیں ہو سکتا جب تک وہی لب و لہجہ تحریر میں منتقل نہ کر دیا جائے۔ یہ اگر نہ ہو سکا تو اس کی (فراقؔ صاحب) گفتگو کا وزن زائل ہو جائے گا۔ یہ کام بڑا کٹھن ہے۔ ‘‘

اس کے بعد وہ خاموشی سے کچھ سوچنے لگتے۔ میں پوچھتا ہوں ’’پھر کیا ارادہ ہے ؟‘‘ پھر اگر کبھی یہ سوانح عمری لکھی گئی تو ہمیں لوگ لکھیں گے۔ ‘‘ مگر وہ لکھنے سے پیشتر ہی چل بسے اور وہ لکھتے بھی نہیں۔ عرصہ ہوا انہوں نے لکھنا پڑھنا چھوڑ دیا تھا اور صرف باتیں کرتے یا باتیں بناتے۔ اس میں ان کا جواب نہیں تھا اس لحاظ سے وہ اپنی جگہ خود ایک ادارہ تھا۔ ادب میں صرف ادیبوں ہی کی اہمیت نہیں ہوتی اس میں ان کی بھی اہمیت ہو سکتی ہے جو ادب پر اچھی گفتگو کر سکیں۔ کبھی کبھی تو ایسے لوگ ادیبوں سے بہتر ادب کو سمجھتے اور دوسرے کے سامنے پیش کرتے ہیں ان کی گفتگو بیشتر ادیبوں کے شائع شدہ ادب سے زیادہ بلند پایہ۔ فکر انگیز اور تخلیقی ہوتی۔ اشرف علی اگرچہ ادیب نہیں تھے۔ مگر وہ ’’ادیب گر‘‘ تھے جہاں بیٹھتے ایک ادبی ماحول، ایک ادبی فضا پیدا کر دیتے۔ اس فضا میں ادب جاندار ہو کر سامنے آ جاتا اور لوگوں کو وہ ’’شئے ‘‘ مل جاتی جو آج بہت سے ادیبوں کی کتابوں میں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملتی۔ اشرف علی کی یہی سب سے بڑی اہمیت تھی انہوں نے ادب کے سلسلے میں ایک قسم کی ’’اقوام متحدہ‘‘ کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ اشرف علی کو اس راہ پر لگانے میں فراقؔ صاحب نے بڑا اثر چھوڑا تھا۔

اس مضمون کو لکھتے وقت میں نے بڑی دیانت داری کے ساتھ اپنا جائزہ لیا ہے کہ کہیں میں صرف بر بنائے دوستی تو اشرف علی کا ذکر نہیں ٹھونس رہا ہوں۔ آخر فراقؔ صاحب پر لکھنے کے لئے اشرف علی یا ان کے کسی اور جاننے والے کی شخصیت کے ذکر کا کون سا محل ہے ؟ مگر میں بڑی ذمہ داری کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ فراقؔ صاحب کی وہ شخصیت جو غزلوں میں ہے، اس تک تو ممکن ہے سب کی رسائی ہو سکے اور کوشش کرنے پر بہت سے لوگ اسے پہچان بھی سکیں۔ مگر وہ شخصیت جو غزلوں میں نہیں ہے اور اس سے بھی بڑی ہے، جو اپنے دوستوں، اپنے شاگردوں کی بے تکلف محفل میں نمایاں ہوتی ہے، وہ بغیر ان لوگوں کے ذکر کے سمجھی نہیں جا سکتی جو فراقؔ صاحب کی صحبت میں رات دن اٹھتے بیٹھتے تھے۔ یہ لوگ ایک ایسا محور تھے جس کے گرد فراقؔ صاحب کی گفتگو گھومتی تھی اور فراقؔ صاحب کی گفتگو ہی ان کی سب سے بڑی تخلیق ہے ان کی غزلوں، نظموں اور رباعیات سب سے بڑی! فراقؔ صاحب اسی گفتگو کے ذریعہ سے اپنے ذہن کو سلجھایا تھا۔ ایک راہ پر لگایا ہے۔ بہت سی چیزیں دریافت کی ہیں اپنے جذبات کا تزکیہ کیا ہے۔ یہ ان کی پوری شخصیت کا مکمل اظہار ہے۔ اس گفتگو کی سب سے بڑی جھلک ان سطروں میں بھی مل جاتی ہے جو فراقؔ صاحب کسی زمانہ میں ساقی میں ’’باتیں‘‘ کے عنوان سے گھسیٹ دیا کرتے تھے۔ ان کی اس گفتگو کو سننے والے محض تختۂ مشق کا کام نہیں دیتے تھے۔ وہ خود بھی فراقؔ صاحب کو بہت کچھ دے کر اٹھتے تھے انہوں نے فراقؔ صاحب کی ’’آگہی‘‘ کو جدید سے جدید تر بنائے رکھا ہے۔ سوچنے اور سمجھنے کا نیا ڈھنگ اور نیا جذبہ جو فراقؔ صاحب کو ہمہ وقت بے چین رکھتا ہے، اسے ان لوگوں کی گفتگو نے برقرار رکھنے اور نکھارنے میں بڑی مدد دی ہے۔ فراقؔ صاحب کی بزرگی کی یہ بھی بڑی دلیل ہے کہ وہ نئے زمانے کے پڑھے لکھے لوگوں سے بحث کر کے نئے خیالات کو قبول کرنے سے کبھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ ہر ابھرتے ہوئے شاعر کی آواز پر ان کے کان لگے رہتے ہیں۔ وہ شاعری اور ادب کے نو بہ نو امکانات سے کبھی غافل نہیں ہوتے۔ اگرچہ انہوں نے بہت سے نئے شاعروں اور ادیبوں کی تصانیف نہیں پڑھی ہیں یا ادھر ادھر سے پڑھی ہیں۔ مگر وہ ان کا ذکر ہمیشہ سننا چاہتے ہیں اور اس ’’نہ پڑھنے کی کمی کو وہ اس دوسری سے بحث کر کے پوری کر لیتے ہیں۔ فراقؔ صاحب کی قوت ادراک اور اکتساب اتنی زبردست ہے کہ ان کی معلومات کے لئے صرف یہی گفتگو اور بحث کافی ہوتی ہے۔ ایک سرسری نگاہ میں وہ ساری کتاب کے نفس مضمون سے واقف ہو جاتے ہیں ان کی نگاہیں بہت زور رس اور دور رس ہیں۔ فراقؔ صاحب نے ادھر عرصہ سے پڑھنا تقریباً ملتوی کر رکھا ہے۔ انگریزی ادب میں بھی ان کا مطالعہ ٹی۔ ایس ایلیٹ پر آ کر ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد انہیں کوئی دل چسپی نہیں رہ جاتی۔ جب تک بڑا ادب سامنے نہ آتے۔ فراقؔ صاحب توجہ مشکل ہی سے کرتے ہیں۔ انگریزی ادب میں انہیں ROMANTIC AGE کے شاعروں میں سب سے زیادہ دلچسپی رہی ہے اور ان میں بھی غالباً وہ Wordsworth سے سب سے زیادہ متاثر ہیں لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ وہ جدید ادب کی رفتار سے ناواقف اور بے خبر یا کم باخبر ہیں۔ وہ جدید ادب کی رفتار سے شاید اس سے زیادہ واقف ہیں جتنا خود جدید شاعر یا ادب۔ بات یہ ہے کہ فراقؔ صاحب نے ادب کی اصل روح کو پا لیا ہے ان کی باتیں کرتے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ یہ فراقؔ نہیں خود ادب بول رہا ہے۔ دنیا کا سارا ادب جو کبھی دانتے کی زبان میں بولتا ہے کبھی شیکسپیئر کی زبان میں، کبھی گوئٹے، کبھی ملٹن، کبھی فردوسی، کبھی حافظؔ، کبھی میرؔ، کبھی غالبؔ، کبھی کالیؔ داس، کبھی تلسیؔ داس کی زبان ہیں۔ اس وقت وہ ایک شاعر اور ادیب ہی نہیں کچھ اس سے بڑے بھی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ الہ آباد یونیورسٹی کے ایک پروفیسر جو ادب پر دوسروں ہی کی رائے نہیں اپنی بھی رائے دے سکتا ہو اور اتنی جو معتبر اور ’’گرہ کشا‘‘ رائے جو شیکسپیئر یا کسی اور مغربی ناقد کی ہو سکتی ہے۔ ادب پر فراقؔ صاحب کی نظر عالمانہ اور محققانہ نہیں ہے اور وہ ادیبوں اور شاعروں کے سن پیدائش سے واقف ہیں اور نہ ان کی زندگی کے پورے پورے واقعات سے وہ ان کے زمانے کے تمام سیاسی اور سماجی رجحانات سے بھی ایک مورخ کی طرح واقف نہیں ہیں۔ انہیں ان سب با توں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ادب کی تاریخ بیان کرتے وقت ان کا بے تکان قلم لڑکھڑانے لگتا ہے اور ان کی تحریر کمزور معلوم ہونے لگتی ہے۔ وہ غلطیاں کر جاتے ہیں۔ کبھی کبھی فاش غلطیاں، وہ ادب کے عالم نہیں ہیں خالق ہیں۔ وہ ادب کو پہچانتے نہیں جانتے ہیں۔ اسی لئے ان میں اب زیادہ پڑھنے کی ضرورت کم پڑتی ہے۔ الہ آباد یونیورسٹی کے ایک مشہور پروفیسر کے بارے میں ایک دفعہ کہنے لگے ’’صاحب!! ان کے پاس کوئی کیا جائے وہ تو کہہ دیتے ہیں جنگ کی وجہ سے دوسری جنگ عظیم، یورپ سے کتابیں آنی بند ہو گئی ہیں اس لئے THINKING رک گئی ہے۔ ذرا سوچئے چالیس سال STUDY کرنے کے بعد بھی آپ بغیر کتاب کے THINKING نہیں کر سکتے۔ اب کچھ اپنے دماغ سے بھی سوچنے کی عادت ڈالو‘‘ ایک اور مشہور پروفیسر کے بارے میں ایک دن کہنے لگے ’’آپ کو کتابیں پڑھنے کا بڑا شوق ہے کہتے ہیں میں نے HAMLET کو سو بار پڑھا ہے اگر ایک بار پڑھنے پر سمجھ نہیں آیا تو ہزار بار پڑھنے کے بعد بھی سمجھ میں نہیں آئے گا‘‘ یہ فرمایا ہے وہ علم و فضل میں ہندوستان کے گنے چنے لوگوں میں سے تھے۔ فراقؔ صاحب صرف اپنی کمزوری کے جواز میں اس قسم کے نظریات اور نکتے وضع اور بیان کرتے ہیں لیکن ان میں بھی شک نہیں ہے کہ ان کی ہر بات میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہوتی ہے کتابوں کے مطالعہ کی طرح اور بہت سی چیزوں کے بارے میں فراقؔ صاحب کا رویہ بڑی حد تک داخلی اور سخت قسم کا انفرادی ہے وہ جست لگا کر اشیاء کی ماہیت تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ہر چیز کو اپنی ذات کی روشنی میں دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، مگر اس سے حقیقت کا چہرہ کبھی کبھی دھندلا پڑ جاتا ہے ان تمام با توں کے باوجود ان کا تیار ذہن ’’صحیح نتائج اخذ کرنے میں بڑی سرعت کا کام لیتا ہے اور چشم زدن میں اس منزل پر پہنچ جاتا ہے جہاں پہنچنے کے لئے ’’تجزیہ نگار‘‘ حضرت کو برسوں کا سفر طے کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات وہ بھی کبھی وہاں نہیں پہنچ جاتے۔ فراقؔ صاحب کی نگاہ ادب کو پہچاننے میں مشکل ہی سے خطا کرتی ہے۔ یہ ان کی ذہنی تربیت کی تکمیل اور ’’ہمہ بیداری‘‘ ہے جس کو وہ وجدان سے تعبیر کرتے ہیں۔ فراقؔ صاحب حقائق سے آنکھیں نہیں چراتے وہ خارجیت کے بہت سے ’’ماہرین‘‘ سے زیادہ خارجیت کا احترام اور اعتراف کرتے ہیں۔

مگر ان کی فکر جامد اور پابند نہیں ہے۔ اس میں جستجو ہے اور جستجو عقیدہ نہیں ہوتی۔ یہ سوچ کر میں ڈر جاتا ہوں کہ کیا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی کو پڑھنے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ صرف اپنے دماغ کے سہارے زندہ رہ سکتا ہے یہ شاید نہیں یقیناً نا ممکن ہے۔ مگر فراقؔ صاحب پر کبھی کبھی ایسا گمان ضرور ہوتا ہے پڑھنے کی طرف سے فراقؔ صاحب کی اس ’’بے نیازی‘‘ کے خلا کو ان کے شاگردوں کی موجودگی نے پورا کر دیا ہے وہ ان سے بحث کر کے اپنے کام کی باتیں چن لیتے بہت سی نئی چیزیں اخذ کر لیتے پھر ان اخذ شدہ چیزوں کو ادب کی مجموعی اور مرکزی روح سے ربط دے کر مستحکم، وسیع اور متحرک کر دیتے۔ اس کے بعد وہ جو باتیں کرتے وہ ان کی اپنی ہوتی۔ ان میں کسی اور کا دخل نہ ہوتا۔ فراقؔ صاحب کی گفتگو ہمیشہ بڑی معتبر ہوتی ہے۔ باتیں کرتے وقت ان میں بڑی خود اعتمادی پائی جاتی ہے۔ اس خود اعتمادی کو پروان چڑھانے میں بھی ان کے پاس بیٹھنے والوں کا کافی حصہ ہے۔ انہی لوگوں نے ان کی غزلوں کی پہلی بار ’’دریافت کیا‘‘ ان کو پسند کیا، اس دوسرے تک پہنچایا، ان کے نئے فکری انداز کو سراہا کھلے دل سے ان کی بے پایاں عظمت کا اعتراف کیا، ان کی آواز کو اردو شاعری کی ایک نئی آواز سے تعبیر کیا۔ کھردری سے کھردری غزل کو ایک نیا موڑ ایک نیا تجربہ بتایا اور اس طرح فراقؔ صاحب کی غزلوں کے بارے میں ان لوگوں کی یہ رائے یونیورسٹی کے محدود دائرے سے نکل کر دور دور تک پھیل گئی۔ ان چیزوں نے بھی فراقؔ صاحب کی خود اعتمادی کو پہنچا ہے، ابھارا ہے اس کی تائید کی ہے جس زمانے میں ان لوگوں کا جھمگٹ تھا وہی زمانہ شاید فراقؔ صاحب کی بہترین غزلوں کی تخلیق کا زمانہ نہ تھا۔ ۳۹۔ ۴۰ء لے کر ۴۵۔ ۴۶ ء تک۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ فراقؔ صاحب کی غزلوں کی زندگی انہیں لوگوں کے دم سے تھی۔ اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ یہ لوگ فراقؔ صاحب کی غزلوں کے نہ صرف بہت دیانتدار سامعین میں سے تھے بلکہ ان کی غزلوں کا صلہ بھی تھا۔ اور نہ فراقؔ صاحب کی عدم خود اعتمادی کے ذکر سے یہ مطلب ہے کہ انہیں اپنی فکر کی صداقت پر یقین نہیں۔ وہ بڑے پر یقین آدمی ہیں۔ ان میں اگر بعض اوقات خود اعتمادی کی کمی نظر آنے لگتی ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ بیک وقت بہت بڑے شاعر اور بہت بڑے ناقد ہیں ان کے پیش نظر اپنا اور دنیا کے تمام بڑے ادیبوں اور شاعروں کا ادب ہے۔ وہ سب کے مرتبہ داں ہیں۔ اس ’’ادب شناسی‘‘ کی بدولت شاید نہیں اندیشہ ہونے لگتا ہے کہ کہیں نئی نسل ان کی عظیم تعمیری کوششوں اور کاوشوں سے منکر نہ ہو جائے۔ لہٰذا وہ پیش بندی کے طور پر اپنی اور دوسروں کی شاعری کے بارے میں عجیب و غریب باتیں بھی کہہ جاتے ہیں۔ اپنا رنگ چھوڑ کر کبھی دوسروں کے رنگ میں کہنے لگتے ہیں کبھی ایک نیا رنگ پیدا کرنے کے سلسلے میں بالکل بے رنگ ہو جاتے ہیں۔ کبھی طولانی نظموں کی طرف رجوع ہو جاتے ہیں۔ کبھی ادب کے ایسے نظرئیے سے پیش کرنے لگتے ہیں جن کو وہ خود شدید مخالف ہیں اور یہ سب جتن وہ صرف اپنی شاعری کی ’’خاطر‘‘ کرتے ہیں۔ انہی ’’نظریات‘‘ کو بعض ’’فراق پسند‘‘ ناقد فراقؔ صاحب کے اصلی نظریات سمجھ کر اپنی تنقید میں جگہ دے کر وہ موشگافیاں کرتے ہیں کہ خود فراقؔ صاحب دل ہی دل میں کڑھتے ہوں گے۔ مگر فراقؔ صاحب اپنے اس کڑھنے کا اظہار زبان سے نہیں کرتے اس لئے کہ آج کل انہیں اپنے حلقے کو وسیع کرنے کی دھن ہے۔ حالانکہ فراقؔ صاحب کو نہ کل اس بات کی ضرورت تھی نہ آج۔ وہ ادب میں جس جگہ کھڑے ہیں وہ انہیں ادب کی ضرورت نہیں، ادب کو ان کی ضرورت ہے۔ فراقؔ صاحب کی یہ ذہنیت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک آدمی ان سے پوری طرح واقف نہ ہو جاتے۔ اسی لئے ان کی شخصیت کو جاننے اور پہچاننے کے لئے ہمیں اس آدمی کی ضرورت پڑتی ہے جو ان سے بخوبی واقف ہو، جو دن رات ان سے بحث کرتا ہو جو انہیں اس حد تک جانتا ہو کہ وہ چڑ جائیں، خفا ہو جائیں، گالیاں دینے لگیں اور کبھی معاف نہ کریں اس لئے اشرف علی کا ذکر کرنا گزیر ہے وہ فراقؔ صاحب کے سب سے بڑے مفسر اور مبلغ تھے۔ فراقؔ صاحب کی شخصیت کا ایک یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ جہاں ان کے چار جاننے والے اکھٹے ہو گئے، ان کی بات ضرور چل نکلتی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ کیا بات ہے ؟ یہ کیسی شخصیت ہے جو ماہ و سال کے تغیرات کو رد کرتی، میلوں کا فاصلہ طے کرتی ہوئی آنِ واحد میں سامنے آ کھڑی ہوتی ہے اور اس کے حوالے سے ہر بات کی جا سکتی ہے۔ ہر مسئلہ کو خوش اسلوبی سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ بات یہ ہے کہ فراقؔ صاحب کی شخصیت بے فیض نہیں ہے۔ یہ ایک وسیلۂ اظہار، زندگی کا ایک رویہ بن گئی ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ایسی توانا اور ہمہ گیر شخصیت ساری اردو تاریخ میں شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔ اس کے پر تو سے ذہن جاگ اٹھتے ہیں۔ اشرف علی نے اسی پر تو کو اپنی پر نور شخصیت سے ملا کر اور نورانی کر دیا تھا اسی لئے آج جب میں فراقؔ صاحب کی ذاتی زندگی پر لکھنے بیٹھا ہوں تو اشرف علی بار بار یاد آ رہے ہیں۔

اشرف علی کی با توں میں ایک بانکپن ہوتا، غالباً خود فراقؔ صاحب بھی اس کے منکر نہ ہوں گے۔ وہ کسی کی دھونس میں نہیں آتے تھے۔ اناڑیوں اور بہروپیوں کے چہرے سے نقاب اتار لینے کو وہ اپنا ’’دھرم‘‘ سمجھتے اور یہ سب فراقؔ صاحب ہی کا فیض صحبت تھا۔ اشرف علی جلدی کبھی کسی کو قبول کرنے کے عادی نہیں تھے۔ خواہ کتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو۔ لیکن ان کے لہجے میں فراقؔ صاحب کی طرح تشدد نہیں تھا۔ ان کا لہجہ اپنی بات پر اڑے رہنے کے باوجود نرم ہوتا۔ اسی لئے ان کی شخصیت فراقؔ صاحب کے مقابلے میں کمزور تھی۔ ایک اعلیٰ تہذیبی احساس نے انھیں ہمیشہ ’’ناکام‘‘ بنائے رکھا۔ ان کا نازک جسم تہذیب اور بغاوت دونوں کے بار کو ایک ساتھ سنبھال نہیں سکا۔ مجازؔ کے بارے میں ایک دن بات کرتے کرتے فراقؔ صاحب نے اپنے بارے میں جو جملہ کہا تھا۔ وہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گا۔ فراقؔ صاحب کو غیر ذمہ دار آدمیوں سے جو اپنی زندگی کو دانستہ تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ سخت چڑ ہے۔ ایسے آدمیوں کو وہ زیادہ دیر برداشت نہیں کر پاتے وہ انہیں ’’اکھڑے ہوئے لوگ‘‘ کہا کرتے ہیں۔ وہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ یک بیک اپنے بارے میں کہنے لگے۔ ’’میں اور جوشؔ بھی اپنی زندگی میں سخت غیر ذمہ دار واقع ہوئے ہیں، مگر پھر بھی ہمارا دماغ توازن کے احساس سے کبھی خالی نہیں رہتا۔ ہمارے خیموں کی طنابیں ڈھیلی ضرور پڑ جاتی ہیں مگر کھونٹے کس کر گڑے رہتے میں ‘‘ اشرف علی کبھی کبھی سرور کے عالم میں فراقؔ صاحب کے بارے میں کہتے۔ ’’فراقؔ کی شخصیت بڑی ABNORMAL ہے۔ ‘‘ جب وہ یہ کہتے تو مجھے الہ آباد یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر امرناتھ جھا کے والد مہامہو اپدھیائے گنگا ناتھ جھا کی بات یاد آ جاتی۔ ’’فراقؔ اگر یونہی رہا تو ایک دن پاگل ہو جائے گا۔ ‘‘ اشرف علی اور گنگا ناتھ جھا نے مختلف پیرائے میں قریب قریب ایک ہی بات کہی ہے۔ مگر فراقؔ صاحب کی شخصیت کو اس توازن نے بچا لیا جس کی طرف انہوں نے مجازؔ پر گفتگو کرتے ہوئے اشارہ کیا تھا۔ فراقؔ صاحب خود سے کبھی غافل نہیں ہونے پاتے۔ عین بے خبری کے عالم میں بھی وہ خبردار رہتے ہیں اور اپنے نیک و بد کو خوب سمجھتے ہیں۔ اسی لئے وہ در حقیقت اتنے ABNORMAL ہیں نہیں جتنے نظر آتے ہیں۔ میں اشرف علی کی اس بات سے اختلاف کرتا تو وہ ذرا کھل کر اپنی بات کی تشریح کرنے لگتے۔

’’میاں تمہاری سمجھ میں فراقؔ نہیں آئے گا اور نہ تم اس کی غزل سمجھ سکو گے۔ ‘‘

’’کیوں ‘‘

’’اس لئے کہ اس کی غزل اس کی شخصیت ہے۔ بڑا کرب اور درد ہے اس شخصیت میں، یہ دوزخ اور جنت دونوں سے مل کر بنی ہے۔ اس میں شدید بہیمت پائی جاتی ہے، مگر اسی کے ساتھ انسانیت سے بھی یہ بڑی محبت کرتی ہے۔ ایک طرف اپنے پورے گھر بار سے متنفر ہے، دوسری طرف یہ سب کو چاہتی ہے۔ یہ شخص (فراقؔ صاحب) ایک طرف تو پیسے کو دانت سے پکڑتا ہے دوسری طرف نادار مگر ذہن طلبہ کی فیس بھی جمع کراتا اور اپنا نام تک ظاہر نہیں کرتا۔ اس نے زہر کو تریاق بنایا ہے اور یہی اس کی غزل کی روح ہے۔ اسی کشمکش اسی تضاد نے اس کی فکر کو جنم دیا ہے کبھی موقع ملا تو تو لکھوں گا اس کے بارے میں۔ ‘‘

آج جب وہ نہیں رہے تو معلوم ہوتا ہے کہ فراقؔ صاحب کی شخصیت کتنی بڑی ہے جس نے اشرف علی جیسے شخص کو متاثر کیا جو خود ایک دو نہیں بیسیوں آدمیوں کو متاثر کر چکا ہے۔ اشرف علی ان ادبی روایات کی ایک کڑی ہیں جن سے مل کر فراقؔ صاحب کی شخصیت کا پورا سلسلہ تعمیر ہوتا ہے۔ا س لئے ان کے اُٹھ جانے سے ایک بہت ہی مضبوط اور اہم کڑی گم ہو گئی ہے۔ انہوں نے فراقؔ صاحب کی ادبی روایت کو آگے بھی بڑھایا تھا۔ ادب اور ادیبوں کو پسند کرنے میں وہ صرف سفاکی اور بے باکی سے کام نہیں لیتے۔ اس میں انہوں نے درد مندی کی بھی آمیزش کی تھی مجھے اس وقت ان کا یہ جملہ یاد آ رہا ہے۔ ’’فراقؔ صاحب کی زندگی میں بڑی تنہائی ہے ‘‘ جب میں اس پر غور کرتا ہوں تو میری نظر فراقؔ صاحب کی اس قوت فکر پر پڑتی ہے جس نے اس ’’تنہائی‘‘ کو بڑی شاعری میں بدل دیا۔ اس کو انسانیت سکھائی۔ اس بھری دنیا میں ہم تنہا نظر آنے لگے۔ کے بعد کی منزل پر فراقؔ صاحب کی شاعری جس طرح پہنچی ہے وہ اردو ادب کا گرداں قدر سرمایہ ہے۔

رفتہ رفتہ عشق مانوسِ جہاں ہوتا گیا

خود کو تیرے ہجر میں تنہا سمجھ بیٹھے تھے ہم

اشرف علی کے اس جملے سے میری نظر میں الہ آباد کی متعدد شامیں پھر جاتی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جب ہم لوگ پہنچے ہیں تو شام ہو رہی تھی۔ فراقؔ صاحب حسب معمول متوحش سے برآمدے میں تنہا ٹہل رہے تھے ابھی ہم لوگ کچھ دور ہی تھے کہ ان کی آواز آئی۔ ’’آئیے صاحب!‘‘

’’آداب عرض!‘‘ آداب عرض! چلو‘‘ ان کی آواز گونجی اور نوکر بچارہ لرزتا ہوا کانپتا ہوا، دوڑتا ہوا آیا۔ ’’کرسیاں باہر لگا دو‘‘ کرسیاں باہر لگا دی گئیں۔ ہم لوگ بیٹھ گئے۔ فراقؔ صاحب اب متوحش نہیں تھے۔ ہم لوگوں کے آنے سے جیسے فراقؔ صاحب نے جان پڑ گئی ہو۔ ان کے لئے شام ہمیشہ ایک بوجھ بن کر آتی ہے۔ یہ وقت ان کے لئے بڑا صبر آزما ہوتا ہے اور وہ برآمدے میں عام طور سے ٹہلتے رہتے ہیں اور روز کے آنے والوں کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ ان کی شاعری میں شام ہجر اور شام غم کا ذکر جتنی بار اور جس طرح سے ملتا ہے وہ اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتا۔ شام کی اداسی اور رات کا لمبے بے پایاں پراسرا سکوت ان کی شاعری کا نغمہ بن جاتا ہے۔ ان کی غزل کے لہجے میں نرم روی اور سکون کا احساس اس فضا کا بھی پروردہ ہے۔ ان کی گفتگو میں بعض اوقات جو تندی اور تیزی پائی جاتی ہے وہ ان کی غزلوں تک پہنچتی پہنچتی اداس اور چاندنی رات میں بدل جاتی ہے۔ البتہ ان کی گفتگو کی ’’دیدہ دری‘‘ جوں کی توں ان کی غزلوں میں بغیر کسی رد و بدل کے کھینچ آتی ہے۔ فراقؔ صاحب تنہائی سے بچنے کے لئے بڑی کوشش اور بڑا احترام کرتے ہیں۔ اسی لئے جب کوئی آ جاتا ہے تو وہ بڑے خوش ہوتے ہیں ان کے یہاں کوئی بھی شخص کسی بھی وقت بلا روک ٹوک کے آ سکتا ہے۔ ان کا دروازہ کسی پر بھی بند نہیں ہوتا۔ یہ الگ بات ہے کہ ذرا دیر بعد وہ آنے والے کی بغاوت سے خفا ہو کر اسے نکال دیں۔ ’’صاحب! میں آپ سے کیا بات کروں۔ آپ کی گردن پر جو اتنا بڑا سر رکھا ہوا ہے۔ معاف کیجئے گا۔ اس میں کچھ نہیں ہے۔ ‘‘ اس بات پر اگر اس نے ذرا بھی احتجاج اور اپنی حیرت کا اظہار کیا تو فراقؔ صاحب ضبط کھو دیتے ہیں۔ ’’آپ نہیں سمجھیں گے میری بات آپ چلے جائیے فوراً یہاں سے۔ ابھی!‘‘ اور اس کے بعد چیختی ہوئی آواز محلے والوں کو چونکاتی ہوئی نظر آنے لگتی ہے۔ ’’نکل جاؤ۔ نکل جاؤ۔ نکل جاؤ‘‘ فراقؔ صاحب کی گالیاں سرائے گی کے عالم۔ میں بھاگنے والے کا دور تک پیچھا کرتی رہتی ہیں۔ مگر فراقؔ صاحب بد اخلاق یا بد گفتار نہیں ہیں۔ وہ اس کے بالکل برعکس ہیں۔ جب وہ اپنے ’’گورکھپوریہ‘‘ انداز میں گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ تو ہر لفظ نہایت نرم، معصوم اور ظاہر بن جاتا ہے۔ فراقؔ صاحب پر کبھی کبھی ایک بگڑے بچے کا گمان ہوتا ہے۔ ایک ایسا بچہ جو بچپن میں ماں باپ کی محبت سے محروم ہو گیا ہو، یا جسے سوتیلی ماں سے سابقہ پڑ گیا ہو اور وہ گھر سے بھاگ کھڑا وہ اور اس میں ہر طرح کی شرارت اور عیاری آ گئی ہو۔ وہ گھاگھ ہو چکا ہو۔ لیکن پھر بھی گفتار سے رفتار سے بچپن جھلک ہی پڑتا ہے۔ فراقؔ صاحب بعض وقت ایسے ہی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنی تمام انتہا پسندی کے باوجود بڑی خاطر تواضع کے آدمی ہیں۔ وہ ملنے ملانے کے معاملے میں کسی کے تکلف کے ذرا بھی رودار نہیں ہیں۔ ان کے ہاں آنے والے کو اطلاع کرانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ اطلاع کرانے کی رسم سے ہمیشہ دور رہے۔ کہتے ہیں کہ ایسے مکان میں قدم رکھنا سخت توہین اور اذیت کی بات ہے جہاں اطلاع کرانی پڑے۔ چپراسی یا ملازم نام پوچھ کر اندر گیا ہے اب کھڑے ہوئے جواب کا انتظار کیجئے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے مکان میں آدمی رہتے ہیں اور آدمی سے ملنے کے لئے آدمی ہی جاتے ہیں جانور نہیں آتے پھر اطلاع کرانے کے کیا معنی ہوئے۔ صاحب جس مکان میں اطلاع کرانی پڑے سمجھ لیجئے اس کے رہنے والے سخت منحوس اور اردل ہیں۔ اور وہ اس رسم کے خلاف گھنٹوں لیکچر دیا کرتے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک پورا ’’فلسفۂ اطلاع‘‘ تیار کر رکھا تھا۔ نوکر کو سخت ہدایت تھی کہ ’’اگر میں نہ رہوں تو بابو جی کا نام ضرور پوچھ لینا۔ ‘‘ فراقؔ صاحب دل سے چاہتے ہیں کہ ان سے ملنے کے لئے لوگ آیا کریں۔ گھنٹے دو گھنٹے کی بحث کے بغیر انہیں چین نہیں آتا۔ وہ بدحواس رہتے ہیں جہاں قدموں کی آہٹ ہوئی ان کی نظر اٹھی۔ ’’آئیے صاحب!‘‘ یا اگر وہ کمرے میں ہوئے تو باہر نکل آئے۔ وہ جس حال میں بھی ہوتے باہر چلے آتے۔ نہا کر آئے ہیں، تولئے سے بدن پونچھ رہے ہیں، پوری طرح دھوتی بھی نہیں باندھ چکے ہیں کہ اتنے میں کوئی آ گیا ہے اور فراقؔ صاحب اسی عالم میں باہر چلے آتے ہیں۔ کمرے میں بٹھا کر اور یہ تاکید کر کے کہ ’’بیٹھئے صاحب ابھی آیا‘ پھر کپڑے پہنے چلے گئے ہیں۔ بہرحال تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ ہم لوگ پہنچے، گرمیوں کا زمانہ تھا، کرسیاں باہر لگی ہوئی تھیں۔ باہری جنگ کی خبریں سن کر انہیں بتایا جائے اس زمانہ میں دوسری جنگ عظیم چھڑی ہوئی تھی۔ فراقؔ صاحب کو خود ریڈیو سے دل دلچسپی نہیں ہے، انہوں نے محض جنگ کی خبریں سننے کے لئے اسے خرید لیا تھا۔ جب جنگ ختم ہو گئی تو یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے اسے فروخت کر دیا۔ اسی طرح انہیں سنیما سے مطلق دلچسپی نہیں ہے مگر وہ باتیں سب موضوعات پر کر سکتے ہیں اور پورے عبور کے ساتھ۔ انہیں دو چیزوں سے البتہ دلچسپی ہے مگر وہ باتیں سب موضوعات پر کر سکتے ہیں اور پورے عبور کے ساتھ۔ انہیں دو چیزوں سے البتہ دلچسپی ہے اچھے کپڑے پہننے اور اپنی کتابوں کے لئے اپنے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق نہایت خوبصورت الماریاں بنوانے سے۔ ان الماریوں کو بھی وہ سال، دو سال کے بعد فروخت کر دیتے ہیں اور پھر نئے سرے سے بنواتے ہیں۔ خیر تو اس وقت وہ کچھ گنگنا رہے تھے، پھر انہوں نے شعر سنانا شروع کر دیا۔

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

اس زمیں میں اس وقت انہوں نے صرف دو ہی شعر کہے تھے۔ غزل انہوں نے ایک عرصہ بعد پوری کی ہے۔ شعر و شاعری کے بعد بحث مباحثہ ہونے لگا۔ رات ہو چکی تھی۔ اسی اثنا میں ریڈیو سے خبریں آنے لگیں۔ جو صاحب ریڈیو پر بیٹھتے تھے انہوں نے ریڈیو کو ذرا تیز کر دیا۔ فراقؔ صاحب شد و مد سے بحث کر رہے تھے معاً رک گئے۔ ذرا سے توقف کے بعد ان کی گھٹی ہوئی آواز آئی۔ ’’صاحب آپ ریڈیو سمیت کمرے میں تشریف لے جائیں اگر آپ کو خبریں سننے کا اتنا ہی شوق ہے۔ ‘‘ وہ غریب ذرا سی خاموشی کے بعد کہنے لگا۔ ’’مگر فراقؔ صاحب آج ہٹلر کی تقریر نے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ فراقؔ صاحب نے جملہ پورا نہیں ہونے دیا۔ ’’صاحب یہاں ادب کی بات ہو رہی ہے۔ ہٹلر کا یہاں کیا گزر۔ ۔ ۔ ‘‘ ریڈیو کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ پھر دوسری باتیں چھڑ گئیں۔ سیاست، فلسفہ اور اخلاق کی۔ دفعتاً گفتگو نے پھر پلٹا کھایا۔ ’’آپ لوگوں کو معلوم ہے اس لفظ ’’چاہئے ‘‘ سے بڑھ کر گندہ کوئی لفظ نہیں ہے۔ ‘‘ہم لوگ حیران کہ اس سوال کا یہاں کون سا محل ہے ؟ ذرا دیر ڈرامائی فضا پیدا کر کے فراقؔ صاحب نے خود ہی تشریح فرمائی۔ ’’خبر سننے کے وقت آ گیا ہے اس لئے خبریں سننا چاہئے۔ صاحب آپ محسوس کیوں نہیں کرتے۔ کس قدر بد اخلاقی ہے اس لفظ میں ؟ میں فلاں شخص اس وقت ملنا نہیں چاہتا مگر چونکہ وہ برا مان جائیں گے اس لئے ان سے ملنا چاہئے۔ کتنا دکھاوا، ریاکاری، تصنع اور غلاظت ہے اس لفظ میں۔ ‘‘ اب ان کی گفتگو پوری طرح شباب پر آ چکی تھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مختلف موضوعات پر دنیا کی ہزاروں لاکھوں ایسی بڑی بڑی کتابوں کے ورق پر ورق الٹتے چلے جا رہے ہیں جو کہیں چھپی نہیں ہیں صرف ان کے ذہن میں لکھی ہوئی ہیں ان کی گفتگو جب عروج پر ہوتی تو ان کی تقریر کے انداز سے مل جاتی۔ فراقؔ گورکھپوری اردو اور انگریزی دونوں کے بڑے اچھے مقر ر ہیں جس انداز سے وہ تقریر کرتے ہیں وہ اپنا جواب آپ ہے، یونیورسٹی یونین کا حال کھچا کھچ بھرا ہوا ہے۔ فراقؔ صاحب آئے، اس سے قبل انہوں نے اپنی تقریر کے بارے میں کچھ بھی نہیں سوچا ہے بلکہ جان بچانے کا موقع ڈھونڈھ رہے ہیں۔ وہ ہمیشہ فی البدیہہ تقریر کرتے ہیں اور کبھی تیار نہیں کرتے۔ اب وہ کشاں کشاں ہال میں آتے ہیں۔ مگر جیسے جیسے ان کی تقریر آگے بڑھتی جاتی ہے سامعین مسحور ہونے لگتے ہیں ان کی تقریر کنول کے پھول کی طرح کھلنے لگتی ہے بالکل ان کی گفتگو کی طرح۔ جیسے جیسے وہ گفتگو کرتے جاتے ہیں ان کی گفتگو میں بے شمار دریچے کھلنے لگتے ہیں۔ یہی حال ان کی تقریر کا ہے۔ وہ خطابت سے کام نہیں لیتے۔ سامعین کو ادھر ادھر کی با توں میں نہیں لگاتے، چٹکلے بازی، اور لطیفوں کا سہارا نہیں ڈھونڈتے اس سے انہیں بڑی نفرت ہے۔ اسے وہ ذہنی تہی مائے گی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی لئے وہ اردو کے بعض بسیار نویس مزاح نگاروں سے بدظن ہیں۔ اپنی تقریروں میں وہ زباندانی کے جوہر نہیں دکھاتے، وہ صرف تقریر کرتے ہیں، ان کی تقریر کے ہر لفظ کے پیچھے جو شاعرانہ معنویت اور فکری رعنائی ہوتی ہے وہی خطابت بن جاتی ہے یہ سامع کو جتائے اور بتائے بغیر اپنا بناتی رہتی ہے۔ چپکے چپکے اور پھر سامع آہستہ آہستہ محسوس کرنے لگتا ہے کہ اس میں اور مقر ر میں کوئی فرق نہیں رہ گیا ہے۔ یہ تو وہ خود تقریر کر رہا ہے۔ فراقؔ صاحب کی تقریروں میں بڑی انسانیت اور اپنائیت ہوتی ہے وہ اپنی گفتگو کی طرح تقریر میں بھی چھوٹی چھوٹی اور آسان تمثیلوں سے کام لیتے ہیں۔ یہ تمثیلیں ہماری روز مرہ کی زندگی سے تعلق رکھتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سامع فوراً مقر ر سے قرب محسوس کرنے لگتا ہے۔ فراقؔ صاحب تقریر کرتے کرتے کرتے ہال سے باہر نکل آتے ہیں۔ شیروانی کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالے ایک آدھ منٹ گیلری میں ٹہلنے کے بعد وہ پھر خراماں خراماں اندر آ جاتے ہیں اور پھر تقریر شروع کر دیتے ہیں۔ سامعین اسی طرح ساکت و صامت کھوئے ہوئے بیٹھے رہتے ہیں۔ تقریر کا سلسلہ کہیں سے بھی ٹوٹتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ دیکھئے بات پھر دوسری طرف جا پڑی ذکر تھا ان کی گفتگو کا اور قصہ چھڑ گیا تقریر کا۔ بات در اصل یہ ہے کہ فراقؔ صاحب کی شخصیت اتنی ’’پہلودار ہے کہ ایک پہلو پر غور کرنے سے ہزاروں پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ فراقؔ صاحب بحیثیت ایک پروفیسر کے، فراقؔ صاحب بحیثیت ایک شاعر اور ناقد کے۔ فراقؔ صاحب ایک دوست، ایک باپ ایک بھائی کی حیثیت سے اتنے رخ اور اتنے موڑ ہیں زندگی کے جس کا ایک مضمون احاطہ کر ہی نہیں سکتا۔ بہرحال اخلاقیات کے فلسفے پر وہ دھواں دھار گفتگو کر رہے تھے۔ بیچ بیچ میں حسب معمول گالیاں اپنا جوہر کھائی جا رہی تھیں۔ اب رات کافی ہو چکی تھی۔ ہم لوگوں نے اجازت مانگی۔ وہ بولتے بولتے رک گئے۔ ’’ہاں صاحب کافی دیر ہو گئی۔ اچھا صاحب جائیے۔ کل تو کوئی کام نہیں ہے آپ لوگوں کو صبح ہی آ جائیے گا۔ دھوپ بہت سخت ہو جاتی ہے ‘‘ وہ ذرا رکے، ہم لوگ ان سے رخصت ہو کر چلے گئے لیکن فراقؔ صاحب کا یہ بھیانک جملہ آج بھی میرے ذہن کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ فراقؔ صاحب کی زندگی کا یہ پہلو بڑا درد ناک ہے ان کی اور ان کی بیوی دونوں کے لئے، ذمہ داری کس کی ہے۔ اس کو فراقؔ صاحب تمام لوگوں سے بہتر سمجھتے ہیں۔

۱۹۴۹ ء میں پرسٹ بنوا کر میں ہندوستان گیا کچھ ہم بدل گئے تھے کچھ ہندوستان، الہ آباد جانے پر یہ احساس ہوا کہ جیسے الہ آباد کی زندگی اب ہمیں پہچانتی نہیں۔ وہ ہی زندگی جو کبھی ہماری تھی۔ یونیورسٹی کے در و بام وہی تھے، طالب علم بھی ویسے تھے۔ مگر کوئی چیز گم ضرور ہو گئی تھی۔ شاید طالب علم۔ اب وہ صرف ڈگری کے طالب علم رہ گئے تھے۔ شام کو میں فراقؔ صاحب کے یہاں پہنچا وہ برآمدے میں ٹہل رہے تھے ان کے ہاں بہت کم لوگ آتے تھے۔ پرانے بیٹھنے والوں کا مجمع منتشر ہو چکا تھا۔ کبھی کبھار کوئی بھولا بھٹکا طالب علم اِدھر آ نکلتا، مگر وہ بھی ذرا دیر بعد فراقؔ صاحب کی با توں سے اکتا کر اٹھ کھڑا ہوتا۔

’’آئیے صاحب! آداب عرض ہے۔ ‘‘ فراقؔ صاحب نے سلام کرنے میں پہل کی۔

’’کب آئے ؟‘‘

’’آداب عرض ہے فراقؔ صاحب‘‘

’’جیتے رہو۔ آؤ بیٹھو۔ ‘‘

میں بیٹھ گیا۔ دیر تک بیٹھا رہا۔

شام بھی تھی دھواں دھواں حسن بھی تھا اداس اداس

دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کے رہ گئیں

پھر میں چلا آیا۔

ٹالسٹائی کو دیکھ کر گور کی کو ’’دیوتا‘‘ یاد آ گئے تھے۔ فراقؔ صاحب کو دیکھ کر مجھے صرف فراقؔ صاحب یاد آ جاتے ہیں۔ اور اشرف علی کو دیکھ کر !؟ انہیں دیکھ کر بھی فراقؔ صاحب یاد آ جاتے ہیں۔

فراقؔ صاحب اشرف علی مر گئے۔ !!

۱۹۵۵ء

٭٭٭

 

 

 

 

فراق صاحب کی یاد میں

 

                ………مختار زمن

 

 

فراقؔ صاحب کو دیکھنے سے بہت پہلے میں نے ان کی تصویر دیکھی تھی اور خاصا متاثر ہوا تھا۔ میں ان دنوں مرزاپور کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ کسی اردو رسالے میں ان کی وہ مشہور تصویر نظر پڑی جو اکثر شائع ہوتی رہی ہے۔ سائیڈپوز، ’شیروانی کے بٹن گلے تک بند‘ تھوڑی کے نیچے مضبوط کلائی کی ٹیک لگائے، روشن آنکھوں سے دور خلا میں دیکھتے ہوئے، فراقؔ صاحب خاصے شاندار معلوم ہوئے۔ اس وقت شعر تو کیا سمجھ میں آتے، ہاں یہ معلوم ہو گیا کہ مشہور شاعر ہیں۔ پھر میں نے الہ آباد یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ جب ایم اے کے درجے میں پہنچا تو انگریزی ادب میرا مضمون تھا، اور فراقؔ صاحب کلاس لیا کرتے تھے۔ اسی زمانے میں انھوں نے ادبی انگریزی مضامین کا ایک مجموعہ بھی شائع کیا تھا۔ مجھے کتاب کا نام یاد نہیں اتنا یاد ہے کہ فراقؔ صاحب کا لکھا ہوا دیباچہ دلچسپ اور جامع تھا۔ کتاب کے شروع میں ایک شمع کی تصویر تھی جو اپنی ہی آگ میں جل جل کر پگھل رہی تھی۔ نیچے لکھا تھا۔

A MOMENT IN ANNIHILATION’S WASTE

مجھے ہمیشہ جلتی ہوئی موم بتی دیکھ کر فراق اور فراق کا ذکر سن کر موم بتی یاد آ جاتی ہے۔

فراقؔ صاحب بینک روڈ پر یونیورسٹی کے ایک بنگلے میں رہا کرتے تھے۔ گھر سے اکثر پیدل چل کر امرودوں کے باغ میں ہوتے ہوئے یونیورسٹی کے پچھلے دروازے سے کمپاؤنڈ میں داخل ہو جاتے۔ انھوں نے اپنی مورس گاڑی بیچ ڈالی تھی۔ سنا ہے قرضہ ادا کرنے کے لیے انھیں نقد کی ضرورت تھی۔ وہ ہمیشہ شیروانی اور چست پاجامہ پہنتے تھے۔ یہ لباس ان پر خوب جچتا تھا۔

میں جب ان کا شاگرد ہوا تو رفتہ رفتہ ان کی علمیت و لیاقت کے جوہر کھلے۔ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ فراقؔ صاحب مہذب بھی ہیں اور بے باک بھی، شمع انجمن بھی ہیں اور بالکل تنہا بھی، شاعر بھی ہیں اور شعر کے اعلی درجے کے پارکھ بھی۔ وہ صرف شعر و ادب کے لیے بنے تھے۔ ان کے پڑھانے کا انداز اسکول ماسٹروں کا انداز نہیں تھا۔ در اصل وہ نصاب سے زیادہ اس بات کو اہمیت دیتے تھے کہ طالب علموں میں ادب کا صحیح ذوق پیدا ہو۔ بارہا ایسا ہوا کہ لکچر ورڈزورتھ یا کٹیس پر شروع ہوا لیکن دس منٹ بعد پتہ چلا کہ وہ میرؔ یا غالبؔ کے کلام کی باریکیوں پر روشنی ڈال رہے ہیں، آغازِ کلام شیکسپیئر سے ہوا تھا مگر جب گھنٹہ ختم ہوا تو ہمیں یہ معلوم ہو چکا تھا کہ کالی داس کی عظمت کا راز کیا تھا بعض چٹپٹے جملے اردو میں بھی ہوتے تھے اور انگریزی میں بھی۔ مثلاً ایک دفعہ کہنے لگے کہ بڑا شاعر بننے کے لیے بڑے کردار کی اور گہرائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ’’جو آدمی طبیعت کا برا ہے وہ بھلے ہی اچھا شاعر بن جائے بڑا شاعر نہیں بن سکتا!‘‘ وہ ایک خاص انداز سے بولتے تھے۔ آنکھیں گول گول کر کے جچے تلے انداز میں ہر لفظ کو الگ الگ صاف اور واضح طور پر زور دے کر ادا کرتے تھے۔ شعر تحت الفظ کچھ اسی طرح پڑھتے تھے۔ ان کے لکچر درسی کتابوں اور نصاب کے سبق کی تنگنائے تک محدود نہ ہوتے تھے۔ وہ ان با توں سے ماورا تھے۔ ادب پر ان کی نظر گہری بھی تھی اور وسیع بھی اور خود بڑے شاعر اور بڑے نقاد تھے۔

یہ زمانہ وہ تھا جب جوشؔ، جگرؔ، حسرتؔ اور دوسرے بڑے غزل گو زندہ تھے اور بہت سے اچھے غزل گو ابھر رہے تھے۔ فراقؔ صاحب کی شہرت ہندوستان گیر تھی اور وہ اس گروہ عظیم کے صف اول میں نظر آتے تھے۔ فراقؔ صاحب کے قریبی دوستوں میں شاید اب بھی ہندوستان میں کچھ لوگ موجود ہوں گے لیکن پاکستان میں ان کے قریب ترین دوست اور ہم وطن صرف ایک صاحب ہیں۔ مجنوںؔ  گورکھپوری، خود مجنوںؔ  صاحب کا پایہ مختلف اصناف ادب میں بہت بلند ہے۔ وہ ادب کے استاد بھی ہیں عظیم نقاد وافسانہ نگار بھی ہیں۔ کسی زمانے میں شعر بھی کہتے تھے، اور کئی زبانوں پر قادر ہیں۔ فراقؔ صاحب سے ان کی دوستی کی عمر پچاس برس سے اوپر ہو گی۔

میں نے جب یہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا تو مناسب سمجھا کہ مجنوں صاحب سے فراقؔ صاحب کی باتیں کی جائیں۔ مجنوںؔ  صاحب اب ۸۰ برس کے پیٹے میں ہیں۔ صحت جواب دے چکی ہے۔ نگاہ اتنی کمزور ہو گئی ہے کہ لکھنا پڑھنا ترک کرنا پڑا۔ ہاتھ پاؤں میں رعشہ ہے۔ جسم نحیف مگر ذہن ہمیشہ کی طرح چاق چوبند ہے یادداشت کا اب بھی یہ عالم ہے کہ بیسیوں اشعار اور واقعات نوک زبان پر ہیں۔

مجنوںؔ  صاحب مجھ پر شفقت فرماتے ہیں اور دیر تک باتیں کرتے ہیں۔ جب میں ان سے ملا اور کہا کہ ’’آج تو میں آپ سے فراقؔ صاحب کے متعلق باتیں کروں گا، مجنوںؔ  صاحب یکایک خاموش ہو گئے، چند لمحوں کے بعد کسی قدر اداس لہجے میں بولے ‘‘ میاں تم نے کن یادوں کو چھیڑ دیا۔ وہ زمانہ آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب ہم جیتے تھے ’’عرض کیا کہ فراقؔ صاحب آپ کے دوست تھے۔ دوست نہ رہے تو اس کی یاد ہی سے دل بہلائیے ‘‘ مجنوں صاحب سنبھل کر بیٹھ گئے۔ ان کی نواسی چائے لے آئی۔ وہ بلا دودھ کی چائے پیتے ہیں۔ ھر کچھ دیر سوچتے رہے جیسے ماضی کے دریچوں میں جھانک رہے ہوں اور کہنے لگے۔

’’فراقؔ مجھ سے کوئی آٹھ سال بڑے تھے، لیکن میں انھیں رگھوپتی کہتا تھا گورکھ پور میں ان کے اور میرے خاندان کے تعلقات پشتہا پشت سے چلے آتے تھے، وہ سری واستوا کائستھ تھے۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرتؔ پہلے ٹیچر تھے پھر وکالت کرنے لگے اور پیشے میں بڑا نام کمایا۔ انھوں نے میرے والد (مولوی محمد فاروق دیوانہؔ ) کو پڑھایا تھا اور میرے والد فراقؔ کے استاد رہ چکے تھے۔ فراقؔ اور میں ہم وطن تو تھے ہی میں انھیں بچپن سے دیکھتا آیا تھا لیکن در اصل ان سے میری دوستی کی ابتدا ۱۹۱۹ء میں ہوئی۔ میں اس وقت ہائی اسکول طالب علم تھا اور وہ میور سنٹرل کالج الہ آباد سے بی اے پاس کر کے گورکھ پور آئے ہوئے تھے۔ میں ان سے اکثر ملنے جاتا تھا ہماری دوستی کی بنیاد پڑ چکی تھی۔ ‘‘

فراقؔ صاحب نے مجنوںؔ  صاحب کے بارے میں خود بھی ایک جگہ لکھا ہے۔

’’ہم محسوس کرتے تھے کہ پورے شہر میں حقیقی علمی مذاق رکھنے کی وجہ سے ہم لوگ اتنی جلد ایک دوسرے کے اتنے قریب ہو گئے ہیں۔ ہم دونوں کی ایک دنیا بن گئی تھی۔ روز مجنوںؔ  میرے یہاں آتے اور روز چائے اور ناشتے کا دور چلتا۔ ‘‘

اسی زمانے میں دونوں نے رباعیاں بھی کہیں اور ایک دوسرے کو دکھلائیں۔ مجنوںؔ  صاحب کہتے ہیں کہ ’’میورسنٹرل کالج میں فراقؔ صاحب پروفیسر ایس۔ سی۔ ڈن (S.C.DUNN) کے شاگرد تھے۔ ڈن کوئی معمولی حیثیت کا پروفیسر نہ تھا وہ جید عالم اور با اثر انگریز تھا رگھوپتی سہائے کی قابلیت دیکھ کر اس نے انھیں پی۔ سی۔ ایس میں نامزد کرا دیا۔ لیکن قدرت نے انھیں علمی و ادبی کاموں کے لیے پیدا کیا تھا۔ حالات نے پلٹا کھایا۔ ۱۹۲۱ءکا سال ان کی زندگی کا اہم سال ثابت ہوا۔ اس سال مہاتما گاندھی گورکھ پور آئے اور الٰہی باغ کے میدان میں ایک بہت بڑا جلسہ ہوا۔ گاندھی جی نے تقریر کی اور لوگوں کو سامراج سے ٹکر لینے کے لیے اکسایا۔ جلسے میں فراقؔ صاحب، مجنوںؔ  صاحب اور منشی پریم چندؔ بھی موجود تھے۔ منشی جی اس وقت نارمل اسکول میں ماسٹر تھے۔ بس اسی دن سے فراقؔ صاحب نے ملازمت کا خیال ترک کر دیا سیاست کے میدان میں کود پڑے۔ اور دو سال کے لیے جیل بھیج دیئے گئے۔ ۱۹۲۴ء میں فراقؔ صاحب پنڈت جواہر لال نہرو کے بلاوے پر آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے دفتر سے منسلک ہو کر الہ آباد گئے۔ اس وقت بقول مجنوںؔ  صاحب وہ قدرے گداز بدن کے جوان تھے۔ اور چھوٹی لائین کے اسٹیشن رام باغ (کچ پروا) کے قریب رہتے تھے۔ مجنوں صاحب اسی گھر میں ان کے ہاں ٹھہرا کرتے تھے۔

مجنوںؔ  صاحب کہتے ہیں ’’شعر و شاعری فراقؔ کو اپنے والد سے ورثے میں ملی تھی۔ ان کے والد منشی گورکھ پرشاد عبرتؔ ذوق سلیم رکھتے تھے۔ اور اچھے شعر کہتے تھے ان کا شعر ہے ؎

زمانے کے ہاتھوں سے چارا نہیں ہے

زمانہ ہمارا تمہارا نہیں ہے

عبرتؔ نے ایک مثنوی ’’حسن فطرت‘‘ لکھی تھی جس میں حُسن مجسم کو ہیروئین قرار دیا گیا ہے اور دل ہیرو ہے۔ مجنوںؔ  صاحب ہی نے یہ مثنوی شائع کی تھی۔

مجنوںؔ  صاحب کہتے ہیں کہ ’’شروع شروع میں رگھوپتی نے پروفیسر مولانا ناصری کو اپنا کلام دکھلایا وہ میور سنٹرل کالج کے نامور استاد تھے۔ پھر ریاضؔ خیر آبادی اور ان کے رشتے کے بھائی وسیمؔ خیر آبادی سے مشورۂ سخن لیا۔ مگر بھلا فراقؔ کو کون شاگرد بنا سکتا تھا۔ ان کی طبیعت میں دریا کی روانی تھی۔ کچھ دن بعد وہ سناتن دھرم کالج کانپور میں ٹیچر ہو گئے۔ ہیرا لال کھنّا پرنسپل تھے۔ جو ہر ادبی اور کلچر تحریک میں پیش پیش رہتے تھے اور علمی دنیا میں اچھی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ فراقؔ صاحب پر مہربان اور ان کے قدردان تھے۔ ‘‘

پھر یوں ہوا کہ مجنوںؔ  صاحب نے فراقؔ پر مضمون لکھا اور ان کا کلام نیاز فتح پوری کو بھجوایا۔ اور نیاز بھی فراقؔ کے قائل ہو گئے۔

مجنوںؔ  صاحب نے بتایا کہ جب فراقؔ جیل سے چھوٹ کر آئے تو انھوں نے حکیم ضامن علی جلالؔ کی غزل پر غزل کہی جس کا شعر ہے ؎

قفس سے چھُٹ کے وطن کا سراغ بھی نہ ملا

وہ رنگ لالۂ و گل تھا کہ باغ بھی نہ ملا

پہلے شعر سنایا پھر مجنوںؔ  صاحب خود جھومنے لگے۔ کہتے تھے جزو اتنا چھا گیا کہ کل کا تصور ہی غائب ہو گیا۔ جو بلاغت دوسرے مصرع میں ہے اس کا جواب نہیں۔ ‘‘

فراقؔ کے گھر پر ادیبوں اور شاعروں کی صحبتیں بڑی دلچسپ ہوا کرتی تھیں ان کے چھوٹے بھائی یدپت سہائے بھی یونیورسٹی میں لکچرار تھے اور قریب ہی رہتے تھے ان کی ایک بہت چھوٹی سی بچی تھی نوکروں سے سن کر یا نہ معلوم کیسے اس نے لفظ ’’حرام زادہ‘‘ سیکھ لیا۔ ایک دن مجازؔ اور دوسرے کئی دوست جمع تھے کہ یدپت کی بچی کھیلتی ہوئی اندر آ گئی۔ شاید کوئی بات اس کے خلاف مزاج ہو گئی۔ اس نے فراقؔ کو دیکھ کر کہا ’’تایا حرام زادہ‘‘ سب لوگ ہنسنے لگے۔ فراقؔ نے کہا کہ یہ بچی بڑی بدتمیز ہوتی جا رہی ہے۔ مجازؔ نہایت معصومیت سے بولے ’’نہیں صاحب یہ بات نہیں۔ ماشاء اللہ بڑی ذہین بچی ہے۔ یہ عمر اور اتنی مردم شناس، اس جملے پر فراقؔ بھی ہنس پڑے۔

مجنوںؔ  صاحب کہتے ہیں کہ فراقؔ ان لوگوں میں تھے جو اپنے گرد و پیش حسن دیکھنا چاہتے تھے۔ لیکن ان کی زندگی کا المیہ یہ تھا کہ جس خاتون سے ان کی شادی ان کی مرضی کے خلاف کر دی گئی وہ ظاہری، باطنی اور ذہنی لحاظ سے ان کے لیے قطعاً غیر موزوں تھیں۔ اسی لیے ان کی خانگی زندگی بڑی بے لطف اور تکلیف دہ گزری۔ وہ تنہا اور اداس رہتے تھے اور شعر کہتے تھے ’’فراقؔ کا ذہن تخلیقی ذہن تھا اور کسی نہ کسی حد تک تخلیقی ذہن معمول سے ہٹ کر چلتا ہے وہ بہترین اردو لکھتے اور بولتے تھے اچھا تخلیق کار جو لفظ استعمال کرتا ہے اس میں بلاغت ہوتی ہے، معنوی بلاغت معمول سے لفظ کے حجم کو بڑھا دیتی ہے فراقؔ اس فن کے ماہر تھے۔ ‘‘

مجنوںؔ  صاحب فراقؔ کے بارے میں باتیں کرتے کرتے اداس ہو گئے اور کہنے لگے ’’مجھے اپنے دوست بہت یاد آتے ہیں سب مر گئے بس میں باقی رہ گیا اور تم پرانی باتیں یاد دلا کر ہمیں بے چین کر دیتے ہو۔ ‘‘

میرے لیے اس کے سوا کیا چارہ تھا کہ گفتگو کا رخ بدل دوں۔ تھوڑی دیر میں اٹھ کر چلا آیا اور مجھے بھی فراقؔ صاحب سے اپنی آخری ملاقات یاد آ گئی۔

۱۹۷۷ ء کی گرمیوں میں مجھے الہ آباد جانے کا اتفاق ہوا۔ کوئی دس بجے دن کے قریب استاد سے ملنے کے لیے ان کے گھر واقع بینک روڈ پہنچا۔ وہ برآمدے میں بنیائن پہنے ہوئے تخت پر نیم دراز تھے۔ میں نے کہا ’’فراقؔ صاحب آداب بجا لاتا ہوں۔ ‘‘

بولے۔ ’’کون ہو آگے آؤ۔ ‘‘

قریب آیا تو پہچان گئے کہنے لگے ’’چونکہ دھوپ کی روشنی تھی اس لیے دور سے تمہیں صاف نہ دیکھ سکا مگر تم تو پاکستان چلے گئے تھے۔ ‘‘

میں نے کہا ’’جی ہاں۔ میں کراچی سے آ رہا ہوں ‘‘ دیر تک باتیں کرتے رہے ادب کے متعلق۔ گاندھی جی کے متعلق، سیاست کے بارے میں، اردو زبان کے بارے میں، گفتگو میں وہی کڑک، وہی دو ٹوک انداز جو علم اور فکر کی خود اعتمادی سے پیدا ہوتا ہے طبیعت ویسی ہی رسا اور ذہن اسی طرح چوکنا اور بیدار جیسا کہ ہمیشہ سے تھا۔ ہاں جسم گھُل چکا تھا۔ سر کے بال بہت کم ہو گئے تھے۔ دو تین نوجوان جو غالباً یونیورسٹی کے طلبا تھے وہاں بیٹھے تھے ان کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے۔ کس سے بات کروں ؟ ان کی تو ’’ویولنگتھ‘‘ (WAVE LEGTH) ہی الگ ہے۔ پھر گاندھیت کے فلسفے پر دوچار باتیں کیں جن کا لب لباب یہ تھا کہ گاندھی جی بہت بڑے آدمی تھے لیکن بعض معاملات میں ان کا فلسفہ معاشرے کو پیچھے کی طرف گھسیٹا تھا، مگر شکر ہے کہ ہم جیٹ کے دور میں آ گئے ہیں بیل گاڑی کے دور میں نہیں جا رہے ہیں۔ پھر کہنے لگے کہ علامہ سلیمان ندوی کی ’’سیرت النبی‘‘ بڑی زبردست تصنیف ہے پڑھنے کی چیز ہے مگر کتنے مسلمان ہیں جو اسے پڑھتے ہیں ؟

غرضیکہ دلچسپ باتیں کرتے رہے۔ میں نے عرض کیا کہ آپ کے شاگردوں اور آپ کی شاعری کو پسند کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد پاکستان میں ہے، ایک دفعہ تو آپ ضرور پاکستان آئیے۔ ‘‘

کہنے لگے ’’ہاں کئی برس ہوئے پاکستان گیا تھا، پھر جی چاہتا ہے کہ ایک چکر لگاؤں مگر مجھے بلاؤ تو دو ٹکٹ بھیجنا، ایک میرا، ایک میری ٹانگوں کا۔ ‘‘

میں نے پوچھا ’’اس کا کیا مطلب؟‘‘

بولے کہ ’’میری ٹانگیں جواب دے چکی ہیں۔ چلنے پھرنے میں دِقت ہوتی ہے۔ لہٰذا ایک آدمی کو ساتھ لے جان پڑے گا جس کے سہارے چلوں گا۔ ‘‘

گفتگو شروع کرنے سے پہلے انھوں نے پاکستان میں رہنے والے صرف دو اصحاب کی خیریت پوچھی، ایک جوشؔ ملیح آبادی کی، دوسرے مجنوںؔ  گورکھپوری کی۔

میں نے بتایا کہ جوشؔ صاحب اسلام آباد میں رہتے ہیں۔ صحت اچھی نہیں پھر بڑی اپنائیت سے پوچھا۔ ’’اور ہمارا مجنوںؔ  کیسا ہے ؟‘‘ میں نے ان کا حال بھی بتایا۔

پاکستان واپس آ کر میں نے کوشش کی کہ فراقؔ صاحب کو لیکچروں اور مشاعروں کے لیے مدعو کیا جائے تو ان کی با توں سے ادب کے بہت سے پہلوؤں پر روشنی پڑے گی۔ لیکن اس کا موقع نہ آ سکا، پاکستان کا سفر کرنے کے بجائے فراقؔ صاحب سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔ ایسی طرفہ طبیعت اور اعلیٰ قابلیت کے لوگ خال خال ہی پیدا ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

یادوں کے جھروکوں سے

 

                ………مطرب نظامی

 

 

 

 

 

لمحوں کی خموشی میں بجنے لگی شہنائی

پھر اس نے مجھے دیکھا یادوں کے جھروکوں سے

فراقؔ صاحب کی موت اردو زبان و ادب کے لیے ایک عظیم اور تاریخی سانحہ ہے۔ فراقؔ صاحب بذاتِ خود ایک انجمن تھے ان کے پاس بیٹھنے والا بہت جلد محسوس کر لیتا تھا کہ وہ کسی عظیم المرتبت اور قد آور شخصیت سے ہمکلام ہے۔

مجھے وہ اکثر یاد فرمایا کرتے تھے اور کہتے تھے ویسے تو آنے جانے والوں میں بہت سے حضرات آتے ہی رہتے ہیں لیکن مجھے ان حضرات میں زیادہ دلچسپی ہوتی ہے جو اپنی بات سلیقے سے کہتے ہیں اور دوسروں کی بات غور سے سنتے ہیں۔ ایک مرتبہ دوران گفتگو میں نے ان سے کسی بات کی وضاحت بحث کے انداز میں چاہی تو خفا ہو کر بولے کہ میں آج آپ کو جو نصیحت کر رہا ہوں اس کو گرہ میں باندھ لیں۔ اگر آپ کسی ایسے شخص سے گفتگو کر رہے ہیں کہ جس کو آپ عظیم سمجھتے ہیں تو گفتگو کے درمیان بولنے سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ‘‘ جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کے مصداق آپ کو نظر انداز کر دے اور جس بات کی اہمیت سے آپ کو وہ روشناس کرانا چاہتا ہے آپ معلومات کے اس بے بہا خزینے سے محروم رہ جائیں جس کے انکشاف سے آپ کے تجربے میں ایک اضافہ ہوتا۔ بحث ہمیشہ برابر کے ذی علم سے مناسب ہے۔ نصیحتوں اور ان کے اخلاص کے تذکروں کے ساتھ ان کو آنجہانی لکھ رہا ہوں۔ ان کے عنایات فراواں اور خورد نوازی نے دل پر ایسے نقوش چھوڑے ہیں جو تمام زندگی ابھر ابھر کر نئے رنگ بھرتے رہیں گے۔ ان کے حالات لکھنے میں روشنائی آنسوؤں میں ڈھلی جا رہی ہے انگلیاں کانپ رہی ہیں کہ آنجہانی کیسے لکھوں۔ وہ دل کی دھڑکنیں جو گذرے ہوئے لمحوں میں ڈھل چکی ہیں ان کو کیسے جدا کر دوں۔ افسوس مستقبل کی خوش آئند نصیحتیں کرنے والا ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گیا۔ فراقؔ صاحب نے موت اور زندگی کے فلسفے پر جب بھی گفتگو کی تو مذہب سے ہٹ کر عقلی اور منطقی دلائل سے سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ بالکل آزاد خیال تھے۔ ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ آواگون، یا بہشت و جہنم کے قائل ہیں تو فرمایا کہ جنت کے بارے میں غالبؔ نے وضاحت کر دی ہے۔

ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن

دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

اس معاملے میں تو غالبؔ کا پیرو ہوں، در اصل آوا گون یا جنت و جہنم دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔

فراقؔ صاحب کے چھوٹے بھائی شری پت سہائے نے ایک بار دوران گفتگو مجھ سے فرمایا کہ فراقؔ صاحب نے اپنی ماں سے بھی اچھا برتاؤ نہیں کیا۔ ایک مرتبہ والدہ میرے ہی یہاں موجود تھیں اور فراقؔ صاحب کسی مشاعرے سے واپسی پر وہاں آ گئے جب والدہ صاحبہ کو معلوم ہوا کہ بڑے بھیا آئے ہیں تو وہ ساری بدل کر ملاقات کے کمرے میں منتظر بیٹھ گئیں جب میں نے فراقؔ صاحب سے کہا کہ والدہ صاحبہ آپ کی منتظر ہیں تو کہنے لگے کہ وہ بڑھیا مجھ سے مل کر کیا کرے گی اور والدہ مایوس ہو گئیں۔ برخلاف اس کے جب والدہ کا انتقال ہوا تو ان کے غم میں ایک نظم لکھ دی۔

فراقؔ صاحب نے عرصہ دراز پہلے اپنی اہلیہ کو گھر سے نکال دیا تھا اور لڑکیوں سے بھی ان کا کوئی خاص رابطہ نہیں تھا اس کی وجہ درمیانی طور پر ایک شخص کی مداخلت تھی اور یہ وجہ فراقؔ صاحب کی کمزوری بن کر رہ گئی تھی اس لئے کہ ان کی روز مرہ کی زندگی نوکروں کے اختیار میں تھی۔ اکثر انھیں گالیاں دیتے تھے اور اندھیرے میں ڈھکیل بھی دیتے تھے اور جب وہ کھانے کے لیے کچھ مانگتے تو انڈے کی جگہ آلو ابال کر رکھ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ انڈے فارم کے ایسے ہی آ رہے ہیں میری موجودگی میں جب ایسے واقعے پیش آتے تھے تو مجھے بہت دکھ ہوتا تھا کہ ایک عظیم شخصیت اپنوں کے نہ ہونے کی وجہ سے نوکروں کے ہاتھوں کھلونا بن کر رہ گئی ہے۔

فراقؔ صاحب عام طور پر صبح کو برآمدے میں ضرور بیٹھتے تھے۔ چائے پینے کے بعد عجیب محویت کے عالم میں سامنے باغ کی طرف نگاہیں اٹھ جاتی تھیں ہمیشہ ہی انھوں نے درختوں اور پھولوں سے دلچسپی لی اور اس کی نگہداشت کے لیے ایک مالی مقر ر تھا۔ وہ باغ کی دلکشی سے کافی دلچسپی لیتے تھے چڑیوں کے چہچہانے پر گوش بر آوز ہو جاتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چڑیوں کی نغمگی میں وہ کوئی کھوئی شے تلاش کر رہے ہیں۔ ایسے عالم میں زیادہ تر خاموش رہتے تھے۔ اور ایک دم سے کبھی واہ کہہ دیتے تھے۔

مکان کے پچھلے حصے میں متعدد کبوتر پلے تھے ان کے دانے کے مصارف بھی اچھے خاصے تھے ایک دن نوکر نے کہا کہ صاحب کبوتروں کا خرچہ بلاوجہ بہت ہے اور کبوتر جس حصے میں ہیں اب ادھر آپ جا بھی نہیں سکتے اس لیے اگر آپ کہیں تو ان کو کسی کو دے دیا جائے۔ فراقؔ صاحب مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے کہ یہ فطری حس کو نہیں سمجھ سکتا۔ اس کو کیا معلوم کہ کبوتروں کو ہر چند میں دیکھ نہیں سکتا لیکن ان کے اڑنے کی آوازیں تو سن سکتا ہوں۔ میں اسے یہ کیسے بتاؤں کہ کبوتر جس وقت گونجتا ہے اسکی لطیف آواز کتنی پیچ در پیچ گرہیں کھولتی ہے۔ وہ جس وقت اپنے خانے میں مادہ کو تیز آواز میں غوں غوں کر کے بلاتا ہے تو کبھی مجھے یہ آواز آوازِ جرس معلوم ہوتی ہے کبھی ساز و مضراب کی کشمکش سے بکھری ہوئی جھنکار، کبھی تیز ہوا سے لچکتی ہوئی شاخ صندل، کبھی غم کی تلخ شیرینی، کبھی حال و مستقبل کے توازن کا برستا ہوا رنگ اور رفتہ رفتہ یہ آواز میرے دل کی دھڑکنوں میں ضم ہو جاتی ہے۔

جوانی میں فراقؔ صاحب نے را توں کی لذت کو محسوس کیا ہے یہ ان کے اشعار سے واضح ہے مگر آخر عمر میں ان کی راتیں بڑی بھیانک تھیں جو دوسروں کے لئے بھی تکلیف دہ تھیں اور خود ان کی ذات کے لیے بھی۔ نیند ان کو بہت کم آتی تھی۔ اگر شراب پی لیتے تھے تو غل مچاتے تھے اور جب شراب نہیں پیتے تھے تو کسی باتیں کرنے والے کا پاس بیٹھنا بہت ضروری تھا اور با توں میں زیادہ تر تمام شعرا کی برائی اور صرف اپنی برتری کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ظاہر ہے جب روز کا معمول بن جائے تو دوسروں کی برائی اور ان کی تعریف کے کتنے فرضی پہلو ڈھونڈے جا سکتے ہیں اس لیے عموماً قریب بیٹھنے والا زیادہ تر خاموش ہی رہتا تھا۔ ایک دن میں نے نیا گوشہ نکالتے ہوئے کہا کہ حضرت آپ کی اچھی شاعری کے علاوہ میں نے آپ کے تخلص میں یعنی لفظ فراقؔ میں ایک دھڑکن محسوس کی اور اس دھڑکن میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کی ہر شئے اس میں متحرک ہے۔ لفظ فراقؔ ایک ساز بھی ہے اور نغمہ بھی۔ اس معنویت کے علاوہ اس سے مستقبل کی بھی کرنیں پھونٹی ہیں۔ چونکہ آپ مستقبل، حال اور ماضی کے نمائندہ شاعر ہیں اس لیے فراقؔ تخلص فطرت کا ایک عطیہ ہے۔ فراقؔ صاحب نے گردن ہلاتے ہوئے کہا کہ اس پر کبھی میں نے غور نہیں کیا لیکن آپ کے کہنے پر خیال آ گیا کہ اس تخلص کے شاعر بہت کم ہوئے ہیں اور اگر کچھ گذرے بھی تو انھوں نے برائے نام شاعری کی ہے۔ شاید ان کا تخلص ان کے استادوں کا انتخاب ہو اور یہ بھی ضروری نہیں کہ عطیہ کوئی روشن نگینہ ہو لیکن میں نے اپنا تخلص خود نہیں انتخاب کیا تھا اتفاقیہ طور پر ایک شعر میں یہ لفظ ضرور صرف ہو گیا اور میرے مزاج میں رچ بس گیا۔

فراقؔ صاحب کو بہت سی بیماریاں تھیں ان کے علاج کے سلسلے میں جو کوئی رائے دیتا تھا اس پر زیادہ تر عمل کرتے تھے۔ ایک زمانے میں پیشاب کی خصوصیات مرار جی ڈبسائی کے نام سے کافی منسوب ہو چکی تھیں فراقؔ صاحب کو کسی نے رائے دی کہ واقعی پیشاب کئی چیزوں میں فائدہ مند ثابت ہوا ہے اور اپنا تجربہ بڑے دعوے کے ساتھ بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی ٹانگیں جو سکڑ گئی ہیں اگر پیشاب کی مالش ہو تو قطعی ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں بھی اس وقت موجود تھا زبان پر قابو نہ رہا فوراً بول اٹھا کہ کس کے پیشاب کی مالش کی جائے خود بیمار کا یا کسی اور کا۔ فراقؔ صاحب آنکھیں نچا کر بولے کہ جناب ہر بات کو ہنسی میں نہیں اڑانا چاہئے آخر مرار جی ڈیسائی بھی ہندستان کا ایک بڑا لیڈر ہے یقیناً کچھ نہ کچھ تجربہ ان کا درست ہو گا، میں خاموش ہو گیا اور دوسرے ہی دن سے خود فراقؔ صاحب کی ٹانگوں کی مالش انھیں کے پیشاب سے شروع کر دی گئی۔ پھر نہ پوچھئے گندگی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ دیکھنے والا برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اور یہ سلسلہ بہت دنوں تک چلتا رہا۔ آخر نتیجہ وہی ہوا کہ پیر جیسے تھے ویسے ہی رہے۔

میں نے کئی دن کے بعد عرض کیا کہ آپ کو تو بہت سی بیماریاں ہیں اس لیے ممکن ہے کہ آپ کا پیشاب خراب ہونے کی وجہ سے فائدہ نہ ہوا ہو۔ میری سنجیدگی سے تیر بالکل نشانے پر بیٹھا کہنے لگے یہ تو آپ نے ٹھیک ہی کہا کہ بیمار کا پیشاب بھی خراب ہی ہو گا اور اسی سے اطبا مریض کی بیماری کا اندازہ لگانے کے لیے پہلے پیشاب ہی منگواتے ہیں بلکہ تشخیص کا مدار بھی اسی پر ہوا کرتا ہے واقعی مجھ سے غلطی ہو گئی۔ تب میں نے ان سے کہا کہ اچھا پیشاب تو جب ہی دستیاب ہو سکتا ہے جب پیشاب کے بینک قائم کیے جائیں یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے ورنہ فوراً دوسری تجویز یہ ہوتی کہ کسی دوسرے کے پیشاب کی مالش ہو اور ممکن تھا کہ میرے ہی پیشاب پر طبع آزمائی شروع ہو جاتی۔

ایک دن بیٹھے بیٹھے کہنے لگے کہ آپ کی پنشن کے بارے میں گورنر سے اگر کہوں تو کام فوراً ہو جائے گا۔ آپ ایک خط گورنر صاحب کو لکھئے۔ میں حسب مراتب مع آداب و القاب خط لکھ کر سنایا۔ سن کر کہنے لگے آپ نے جو القاب لکھے ہیں سب کاٹ دیجئے۔ وہ اگر سرکاری گورنر ہیں تو میں ادب کا گورنر ہوں۔ صرف بھائی لکھئے۔ اور بس سلام شوق۔ حسب الحکم خط لکھ کر گورنر صاحب کی خدمت میں بھیج دیا گیا اور چند ہی روز بعد جواب آ گیا کہ آپ تشریف لائیں میں نے سب انتظام کر دیا ہے ہمہ تن منتظر ہوں۔ فراقؔ صاحب جب گورنر ہاؤس پہنچے تو انتظامیہ کے ایک صاحب بڑے بڑے فخریہ انداز میں فراقؔ صاحب سے فرمانے لگے کہ فراقؔ صاحب آپ کے لیے وہی کمرہ رہائش کو رکھا گیا ہے جس میں فلاں مشہور فلمی اداکار ٹھہر چکے ہیں۔ فراقؔ صاحب یہ سنتے ہی برہم ہو گئے اور مجھ سے فرمانے لگے میرا سامان گاڑی میں رکھیے یہاں نہیں رک سکتا۔ کسی نے یہ اطلاع گورنر صاحب کو دے دی کہ فراقؔ صاحب خفا ہو کر واپس جا رہے ہیں، یہ سنتے ہی گورنر صاحب بہ نفس نفیس خود تشریف لائے اور پوچھنے لگے بھئی فراقؔ کیا غلطی ہو گئی۔ فراقؔ صاحب برہمی کے انداز میں بولے کہ جناب میرے لیے وہ کمرہ رکھا گیا ہے جس میں نچنئے اور گوّیئے ٹکتے ہیں۔ گورنر صاحب حالات سے بے خبر تھے بجائے اس کے کہ یہ پوچھتے کون سا کمرہ گویئے کا ہے اور کس نے آپ کو اس میں ٹکنے کے لیے کہا ہے اپنی ذہانت کا ثبوت دیتے ہوئے بولے نہیں بھئی ان لوگوں نے غلطی سے آپ کو وہ کمرہ بتا دیا ہے آپ کے لیے تو مخصوص کمرہ ہے۔ فراقؔ صاحب مسکراتے ہوئے مجھ سے بولے۔ کیوں مطرب کیسی رہی حالانکہ کمرہ وہی تھا جس میں پہلے انتظام کیا گیا تھا صرف الفاظ اور لہجے کے الٹ پھیر سے خوش ہو گئے۔

مشاعرے میں جب کوئی شاعر سامعین سے زیادہ داد وتحسین وصول کرنے لگتا تو فراقؔ صاحب سے یہ برداشت نہیں ہوتا تھا چنانچہ کامیاب شاعر کے پڑھنے کے دوران وہ ایسی آواز حلق سے نکالتے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ جاڑے کے موسم میں آسمان پر قازیں آوازیں ملا کر بولنے لگیں۔ فطری طور پر ایسے عالم میں سامعین بجائے شاعر کا شعر سننے کے ان کی طرف متوجہ ہو جاتے تھے۔ نتیجے میں اس شاعر کا کلام خود اس کی فریاد ہو کر رہ جاتا تھا۔ بمبئی کے ایک مشاعرے میں جہاں تمام شعرا موجود تھے اس میں شاہجہاں بانو یادؔ بھی تھیں اور برابر فراقؔ صاحب کی حرکات وسکنات پر نظر رکھے تھیں۔ جب یادؔ صاحبہ کا نام پکارا گیا تو مائک پر پہنچ کر انھوں نے سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ’’اس مشاعرے میں جہاں اور معروف شعرا شرکت کر رہے ہیں ہمیں فخر ہے کہ یہاں حضرت فراقؔ بھی تشریف فرما ہیں ‘‘ فراقؔ صاحب نے اپنی انفرادیت کا جھنڈا بلند ہوتے ہوئے جو دیکھا تو خوش ہو کر فرمانے لگے، پڑھو ’’یاد‘‘ پڑھو۔ لیکن یا دؔ صاحبہ نے اسی پر اکتفا نہیں کی بلکہ فرمانے لگیں کہ میں حضرت فراقؔ کو ایک عظیم شاعر کے علاوہ اپنا باپ سمجھتی ہوں اور یہ کہہ کر فراقؔ صاحب کو مخاطب کیا کہ ابا! مطلع عرض کر رہی ہوں۔ فراقؔ صاحب ابا کا لفظ سن کر چونک پڑے اور کہنے لگے بھئی چوٹ دے گئی اب ’’ابا‘‘ بیٹی پر کیا ہوٹنگ کرے۔

فراقؔ کے جتنے بھی نوکر تھے وہ کسی دوسرے شخص کا وجود پسند نہیں کرتے تھے اور فراقؔ صاحب مجھے روک روک کر اپنی تنہائی اور اداسی کو دور کرنے کے لیے رکھتے تھے لیکن نوکروں کو ان کی کمزوریاں معلوم تھیں۔ مثلاً ان کے میز پر رکھے ہوئے دو پوسٹ کارڈ ہٹا دیئے۔ اور جب دوسرے دن انھوں نے نوکروں سے پوچھا کہ یہیں پوسٹ کارڈ رکھے ہوئے تھے وہ کیا ہوئے۔ نوکر حسب عادت یہی کہہ دیتے تھے کہ صاحب دن بھر آپ کے پاس نہ معلوم کون کون آتا ہے فلاں صاحب جو آپ سے باتیں کر رہے تھے وہی اٹھا لے گئے ہوں گے ہمارے کس کام کے وہ پوسٹ کارڈ۔ فراقؔ صاحب یہ سننے کے بعد یقین کی منزلوں میں پہنچ جاتے تھے اور اتفاق سے وہ صاحب اگر دوبارہ آ گئے تو پہلی بات فراقؔ صاحب کی ان سے یہی ہوتی تھی کہ جناب اس دن آپ میرے دو پوسٹ کاڑ د اٹھا لے گئے تھے اور یہ سب کچھ کہتے وقت وہ یہ بھی نہیں سوچتے تھے کہ وہ شخص کس اہمیت کا ہے اور کس معیار کا ہے۔ نتیجے میں بددلی کا وہ پہلو نکلتا تھا کہ آنے والا شخص جو ان کی دلچسپی کا باعث ہوتا تھا وہ دوبارہ گریز کرنے لگتا تھا۔

ایک دن مجھ سے کہنے لگے جناب آپ مجھ پر بہت کرم کرتے ہیں کیا ممکن نہیں کہ زیادہ تر مرے ہاں قیام کریں۔ اب میں نوکروں کی بدسلوکی اور بدتمیزی زیادہ برداشت نہیں کر سکتا۔

میں ہمیشہ ان سے یہی کہہ دیتا تھا کہ میری ذمہ داریاں اتنی ہیں کہ زیادہ عرصے تک آپ کی خدمت میں رہنے سے قاصر ہوں۔ مگر نوکروں کو اس کے باوجود یہ احساس ہوا کہ ایسا نہ ہو کہ فراقؔ صاحب کے مسلسل اصرار پر میں ہمیشہ رہنے کے لیے تیار ہو جاؤں، ایک آدھ دن قیام کے بعد میں لکھنؤ چلا آیا یہاں پہنچنے کے بعد ہی مجھے نشورؔ واحدی صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط فراقؔ صاحب کی جانب سے ملا کہ میں آج کل اخراجات کی بنا پر ٹوٹ گیا ہوں اس لیے جب تک میرا خط آپ کو بلانے کا نہ ملے آپ زحمت نہ کیجئے گا۔

خط پڑھ کر بہت تعجب ہوا کہ فراقؔ صاحب اس قسم کی تحریر مجھے لکھ ہی نہیں سکتے لیکن یقین یوں آ گیا کہ تحریر نشورؔ صاحب کی تھی اور ظاہر ہے کہ نشور صاحب کوئی غیر ذمہ دار انسان نہیں تھے۔ جو بغیر کسی پُر خاش کے اپنی جانب سے لکھ دیں فوراً خیال آیا کہ نوکروں کی کوئی نئی چال ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجھے بہت تکلیف ہوئی اور خود داری کو ٹھیس لگی اس لیے میں نے مکمل خاموشی اختیار کر لی۔ نئے نوکروں کے آنے جانے کی کوئی انتہا نہ تھی تھوڑے ہی عرصے میں ہر نوکر کچھ لے کر فرار ہو جاتا تھا۔

اسی طرح ایک نوکر کے ساتھ اس کے گھر کی کچھ عورتیں آ کر رہنے لگیں اور رفتہ رفتہ اتنا قابو پا لیا کہ ایک کمرے میں فراقؔ صاحب کو مقید کر لیا۔ ان دنوں فراقؔ صاحب بہت سخت بیمار تھے اخبار والے کے ذریعے مجھے تار بھجوایا کہ فوراً آ جائیے تار ملتے ہی میں فوراً الہ آباد روانہ ہو گیا۔ سخت گرمی پڑ رہی تھی کسی صورت سے بینک روڈ پہنچا تو گھر بند ملا، سب طرف سے پکارا کسی نے دروازہ نہیں کھولا بلکہ اندر سے ہنسنے کی آوازیں آتی تھیں مجبوراً مکان کی پشت سے ایک درخت کے سہارے دیوار پر چڑھا۔ گرمی کی شدت سے ہاتھ جل گئے، بہرحال کسی نہ کسی صورت آنگن میں اُتر گیا۔ چند عورتیں مجھے دیکھ کر گالیاں دینے لگیں میں بغیر جواب دیئے فراقؔ صاحب کے کمرے میں پہنچا تو دیکھا کہ بے حال پڑے ہیں، جسم میں نجاست لپٹی ہوئی ہے پیچش کی وجہ سے اتنا کمزور ہو گئے تھے کہ میرے پکارنے پر مشکل سے بولے۔ میں انتہائی افسوس کے عالم میں ان کو دیکھتا رہا کہ اتنا بڑا شاعر ہے اور گھریلو زندگی ایک معمولی یا عام آدمی سے بھی بدتر ہے۔ پیسہ ہوتے ہوے بھی بے دست وپا ہے۔ میں نے اسی وقت پانی گرم کیا، سب کپڑے اتار کر روئی سے سارا جسم پوچھا، بستر بدلا اور دوسرے کپڑے پہنائے، جب ان کو قدرے سکون ہوا تو آنکھ کھولی اور پوچھا آپ کیسے آئے ہیں۔ عرض کیا دیوار پھاند کر۔

دوسرے دن حکیم صاحب کو بلا کر دکھایا اور جب ان کی طبیعت کچھ ٹھیک ہو گئی تو انھوں نے فرمایا کہ کسی صورت سے ان عورتوں کو نکالئے میں نے دوسرے ہی دن عزیزؔ الہ آبادی کی مدد سے جبراً ان عورتوں کو نکلوایا۔

فراقؔ صاحب نے بیان کیا کہ جوشؔ صاحب جب میرے مہمان ہوتے تھے تو بہت بے تکلف طریقے پر رہتے تھے حالانکہ میری تنخواہ اس وقت اتنی نہیں تھی کہ میں ان کی خاطر و مدارات کر سکتا لیکن محبت ان کی اتنی تھی کہ میں نے اپنی پریشانی کا احساس انھیں کبھی نہیں ہونے دیا۔ جوش صاحب عام طور پر زمیں کا فرش پسند کرتے تھے اور تین بجے دن ہی سے ان کے عقیدت مندوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا اور شب کے دس بجے تک چلتا رہتا تھا۔ ایک دن اتفاق سے بارش ہو گئی۔ اور کوئی بھی نہیں آیا۔ میں اور جوشؔ صاحب فرش پر لیٹے ہوئے تھے میں نے عرض کیا جوشؔ صاحب میں نے بھی کچھ شعر کہے ہیں۔ جوشؔ صاحب کہنے لگے بھئی میں اتنے دن سے تمہارا مہمان ہوں لیکن تم نے کچھ بھی نہیں سنایا۔

بھائی جوشؔ صاحب میں گستاخی کیسے کر سکتا تھا کیوں کہ مہمان نوازی میں یہ چیز بد تہذیبی میں شامل ہے بلکہ میں خود اس کا متمنی رہتا ہوں کہ جس قدر زیادہ سے زیادہ آپ کو سن سکوں اتنا ہی میرے لیے بہتر ہے۔ آپ فرماتے ہیں تو عرض کرتا ہوں۔

آج بھی قافلۂ عشق رواں ہے کہ جو تھا

وہی میل اور وہی سنگِ نشاں ہے کہ جو تھا

منزلیں گرد کے مانند اڑی جاتی ہیں

وہی انداز جہاں دگراں ہے کہ جو تھا

تیرہ بختی نہیں جاتی دل سوزاں کی فراقؔ

شمع کے سر پہ وہی آج دھواں ہے کہ جو تھا

جب تیسرا اور چوتھا شعر پڑھا تو جوشؔ صاحب فرمانے لگے بھئی فراقؔ مطلع سن کر تو مجھے مایوسی ہوئی تھی اور جب دوسرا شعر سنا تو میرا ذہن مصرع طرح کی طرف گیا کہ میں بھی کچھ کہوں گا لیکن جب تم نے تیسرا اور چوتھا شعر پڑھا تو میں نے غور کیا کہ تم نے حدیں چھو لیں۔ اب میں اس میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ تیسرے اور چوتھے شعر کا تو جواب ہی نہیں۔ منزلیں گرد کی مانند اڑی جاتی ہیں، اس خیال کی ترجمانی ہو ہی نہیں سکتی۔ اور توجہ سے اگر اس پر لکھا جائے تو ایک کتاب ہو سکتی ہے۔ شمع کے سر پر دھواں خیال کی بلندی کے علاوہ مشاہدے کی اہم تصویر کشی کے ساتھ زندگی اور نفسیات کا گہرا مطالعہ ہے۔

جوشؔ صاحب نے اپنی کتاب ’یادوں کی بارات‘ فراقؔ صاحب کو ڈاک سے بھیجی اور ساتھ ہی ایک خط بھی تھا اور خط پر پتہ یوں تحریر تھا۔ پروفیسر فراقؔ گورکھپوری امرد پرست شاعر برآمدے میں ننگا بیٹھا ہوا حقہ پی رہا ہو گا ۴/۸ بینک روڈ الہ آباد۔ یوپی۔ ہندوستان۔ خط کا مضمون یوں تھا ’’فراقؔ تم کو یادوں کی بارات بھیج رہا ہوں امید ہے کہ پسند آئے گی میں نے اس میں اپنی زندگی کے خدوخال کی صحیح نشاندہی کی ہے۔ اپنی رائے کا اظہار ضرور کرنا۔ ‘‘ فراقؔ صاحب نے خط سن کر کتاب مجھے دی اور کہا تھوڑی تھوڑی روز سنائیے گا اور اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہو گیا کچھ عرصے کے بعد پوری کتاب فراقؔ صاحب نے سن لی۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے فرمانے لگے جوشؔ کو جواب اور میری رائے لکھ دیجئے ’’یادوں کی بارات‘‘ کے جوش میں نے داستان سنی واقعی بڑی دلچسپی کے ساتھ اتنا عمدہ جھوٹ لکھا ہے جھوٹ اس لیے کہ ایک بڑا انسان واقعی اگر اپنی سوانح لکھتا ہے تو وہ عیوب جو اس کی ذات کو بھی داغدار کر چکے ہیں وہ اس کو بھی بیان کرنے میں گریز نہیں کرتا لیکن تم نے جتنے بھی واقعات لکھے ہیں چند کو چھوڑ کر صرف اپنی برتری کے یا دوسروں کو کمتر ثابت کرنے کے لیے تم نے اپنے عشق کے واقعات عورت کے بارے میں بہت کچھ لکھے ہیں مگر کوئی واقعہ تم نے اپنے مفعول ہونے کا نہیں لکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

میں نے ایک دن سوال کیا کہ آپ نے ابتدا میں اپنی شہرت کے لیے جہاں اور بہت ذرائع اختیار کیے وہاں اپنے بارے میں خود مضامین لکھ کر دوسروں کے نام سے چھپوائے، فرمانے لگے یہ باتیں اس وقت شاعر کو زیب دیتی ہیں جب اس میں کوئی صلاحیت ہو اور ابھرنے کا کوئی موقع نہ مل رہا ہو۔ جعفر علی خاں اثر کو لے لیجئے کہ وہ اپنی دولت اور افسر ہونے کی وجہ سے شہرت پا گئے۔

عام طور پر فراقؔ صاحب شام کو چار بجے بہت لطف لے کر شراب پیتے تھے اور نوکر کو یہ تاکید ہوتی تھی کہ ان کے پاس موجود رہے لیکن نوکر اکثر میری موجودگی کا فائدہ اٹھا کر رات میں تو سنیما چلے جاتے تھے اور دن میں گھومنے کے لیے نکل جاتے تھے۔ ایک شام کو شراب پینے سے پہلے انھوں نے نوکر کو آواز دی، میں نے کہہ دیا کہ وہ ترکاری لینے گیا ہے۔ میں تو موجود ہوں۔ کہنے لگے چلئے کوئی بات نہیں اور یہ کہہ کر پیگ پہ پیگ انڈیلنا شروع کر دیئے پیگ بنا کر دینا میرا کام تھا۔ سامنے میز پر ایک پانی کی بوتل شراب کی بوتل اور دو گلاس بھی رکھے رہتے تھے، ابھی فراقؔ صاحب زیادہ مد ہوش نہیں ہوے تھے کہ دھوکے میں میں نے پانی کا گلاس ان کے مانگنے پر بڑھا دیا ایک گھونٹ پیتے ہی کہنے لگے۔

بجائے مئے کے دیا پانی کا گلاس مجھے

سمجھ لیا مرے ساقی نے بدحواس مجھے

چند دنوں میں کافی اچھی ہو گئی ایک صاحب نے کہا کہ جناب آپ بغیر شراب کے آج کل کیا کر رہے ہیں۔ فرمانے لگے ’’دور تو جاری ہے فرق اتنا ہے کہ کوئی پیشاب پی رہا ہے اور میں زہرِ غم پی رہا ہوں۔ ‘‘

گھریلو اخراجات میں کبھی تو ایک ایک پیسہ کا حساب روز لکھتے تھے اور کبھی مزاج کی کیفیت یہ ہو جاتی تھی کہ کچھ بھی خرچ ہو جائے تو کوئی فکر نہیں۔ جب کوئی مہمان ہوتا تھا تو اس کی خاطر میں کبھی گریز نہیں کرتے تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اپنے لیے کچھ اور ہو اور مہمان کے لیے کچھ اور بلکہ نوکروں کو ہدایت کرتے تھے کہ دیکھو کوئی تکلیف نہ ہونے پائے۔

ایک صاحب نے مجھ سے شکایت کی کہ فراقؔ صاحب بہت محسن کش انسان ہیں، میں نے ان کو ایک شیروانی کا کپڑا لا کر دیا اس کے علاوہ بھی خدمت کرتا رہا لیکن اس شخص نے ایسا فراموش کیا جیسے کچھ بھی نہیں یاد میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ صحیح معنوں میں فراقؔ صاحب کی طبیعت کا جائزہ نہیں لے سکے۔ آپ کے احسانات کو وہ عمداً بھول گئے یہ آپ کا خیال ہے اول تو ان کا اقتضائے عمر دوسرے ان کے مزاج کی ساخت کہ وہ جہاں دوسروں کا احسان بھول جاتے ہیں وہاں یہ خصوصیت ہے کہ خود جس کے ساتھ کچھ سلوک کرتے ہیں اس کو بھی فراموش کر دیتے ہیں اس سلسلے میں میرا اپنا واقعہ ہے کہ میری پنشن کے بارے میں لکھنؤ جا کر گورنر کے یہاں قیام کیا اور ان سے کہہ کر میری پنشن میں اضافہ کرایا لیکن میں نے کچھ عرصہ بعد جب اس واقعے کا ذکر کیا تو ان کو بالکل یاد نہیں تھا۔ در اصل وہ ان فروعات کو زندگی کے کسی گوشے میں جگہ دینے کے قائل ہی نہ تھے۔

٭٭٭

 

 

 گہے ایزدو گہے اہرمن

 

                ………ڈاکٹر ملک زادہ منظور احمد

 

منھ سے ہم اپنے برا تو نہیں کہتے کہ فراقؔ

ہے ترا دوست مگر آدمی اچھا بھی نہیں

گفتگو آگے بڑھی۔

جٹا دھاری پنڈت گوری شنکر مصرا اس بات پر مصر تھے کہ ماضی کو حال سے بہتر ثابت کر کے رہیں گے۔ انھوں نے فراقؔ صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔

’’جب میرے مکان کی بنیاد کھودی جاری تھی تو اس میں سے ایک پرانا زنگ آلودہ تار بر آمد ہوا، میں نے اسے ماہرین کو دکھایا۔ انھوں نے اس بات کی تائید کیک ہ یہ تار ہزاروں سال پرانا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پرانے زمانے میں بھی ہندوستانک ے اندر بجلی موجود تھی۔ ‘‘

فراقؔ صاحب آرام کرسی پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔ سگریٹ کا ایک کش کھنچتے ہوئے آنکھیں نچا کر بولے۔

’’پنڈت جی آپ نے تکلف سے کام لیا ہے جب میرا مکان کھودا جا رہا تھا تو اس میں سے کچھ بر آمد نہیں ہوا۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں WIRELESS بھی موجود تھا۔ ‘‘

پنڈت جی اپنی تمام تر طلاقتِ لسانی کے باوجود کھسیا کر رہ گئے اور تمام محفل قہقہہ زار میں تبدیل ہو گئی۔ یہ ۴۹۔ ۱۹۴۸ء کا واقعہ ہے۔ گورکھپور کی ادبی فضا کافی متحرک اور فعال تھی۔ نواب زادہ علی کبیر کا ’’نشیمن‘‘ نکل کر بند ہو چکا تھا۔ مگر اس کے پرانے پرچے دیکھنے کو مل جاتے تھے۔ مولانا خیر بہوروی کی سرپرستی میں عزیز مسعودی ماہنامہ ’’بھائی‘‘ کا اجراء کر چکے تھے۔ شاگرد داغؔ دہلوی مولوی عمر گورکھپوری ابھی زندہ تھے اور مقامی شعری نشستوں میں مسند صدارت پر جلوہ افروز ہوتے تھے۔ حکیم امجد حسین نظر ریتی چوک اور نخاس کے درمیان اپنے اونچے مطب میں بوتلوں کی قطاریں الماریوں میں سجائے ہوئے ہر گزرنے والے کو اپنی زیارت سے فیض یاب کرتے تھے۔ غلام مرتضیٰ جگرؔ اور ایشوری پرشاد گہرؔ کی رندی اور سرمستی کی بازگشت ادبی حلقوں میں سنائی دیتی تھی۔ پستہ قد ہندی گورکھپوری غیر مقامی مشاعروں میں مدعو کئے جانے کے باعث اپنے ہم عمروں میں سربلند نظر آتے تھے۔ مسلم، شبنم، احمر، رؤف، عارف، شر ر، نامی، رشیدی، ساحر، سرحد، کرشن مراری، ناظر الشاکری، شمیمؔ مظفرپوری، اخگر، نور، شمس الآفاق، عمر، عبدالحئی، ماسٹر احمد اللہ، گردش، غبار اور نہ جانے کتنے اور نئے اور پرانے چراغوں سے گورکھپور کا نگار خانہ ادب جگمگا رہ تھا۔ کم و بیش یہی وہ زمانہ تھا جب دور حاضر میں جدے دیت کی شیرازہ بندی کرنے والے شمس الرحمن فاروقی نے جماعت اسلامی کی ادبی تنظیم تعمیر پسند مصنفین کے سکریٹری کی حیثیت سے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا۔ اور میں نے انجمن ترقی پسند مصنفین  کے پہلے سکریٹری کی حیثیت سے اپنا عہدہ سنبھالا تھا۔ مگر اس وقت ہماری نیک نامیوں اور رسوائیوں کا دائرہ گورکھپور کے ضلعی جغرافیہ تک محدود تھا۔ البتہ ایک شخصیت ایسی تھی جس کے سامنے گورکھپور کے شعراء داد با تو درکنار، اردو کے مشاہیر آگر سر تسلیم خم کرتے تھے اور یہ شخصیت تھی جناب احمد صدیقی مجنوںؔ ؔ  گورکھپوری کی۔

مجنوںؔ  صاحب اس وقت سینٹ اینڈ ریوز کالج گورکھپور میں انگریزی اور اردو ادبیات کے استاد تھے اورمیاں صاحب کے مشہور امام باڑے کے مشرقی حصے میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے لیے دیئے رہنے کا انداز، ان کا علمی وقار ان کی زندگی کے ضابطے کچھ اتنے اسٹرکٹ تھے کہ بغیر اذنِ باریابی کے بڑے بڑوں کی ہمت ان کی صحبت میں بیٹھنے کی نہیں پڑتی تھی۔ میں ان کے ان چند خوش نصیب شاگردوں میں ایک تھا جو کلاس روم کے علاوہ بھی ان کے مکان پر جا کر شاگردانہ نیاز مندی کے ساتھ ان سے اکتساب فیض کر سکتا تھا۔ انھیں کے مکان پر سب سے پہلی بار مجھے فراقؔ صاحب کو قریب سے دیکھنے کا موقع حاصل ہوا۔ دیکھ تو ان کو میں پہلے بھی مشاعروں میں چکا تھا۔ اور ان کے پڑھنے کے انداز، ان کے کلام، ان کی سگریٹ پینے کی مخصوص ادا، ان کی ناچتی ہوئی آنکھوں کی چمک سے متاثر بھی ہوا تھا۔ مگر وہ مشاہدہ جو مطالعہ بھی ہوتا ہے اس کا آغاز مجنوںؔ  صاحب کے مکان ہی سے ہوا جہاں کبھی کبھی فراقؔ آ کر مہمان ہوا کرتے تھے۔

فراقؔ جب مجنوںؔ  کے مہمان ہوتے تھے تو علم و ادب کا وہ سنجیدہ وقار اور دبدبہ جو مجنوںؔ  کی شخصیت کے ساتھ لازم و ملزوم تھا پگھل کر لطیف ہو جایا کرتا تھا۔ اور علمی اور ادبی رموز و نکات بحث و مباحثہ اور لطیفوں کا سہارا لے کر فروغ پاتے تھے۔ مجنوںؔ  ان کو رگھوپتی کہہ کر مخاطب کرتے تھے اور فراقؔ ان سے اس دوستانہ بے تکلفی کی اجازت مجنوںؔ  نے شاید اپنے معاصرین میں کسی کو دی ہو۔ طالب علمی کے انھیں سنہرے دنوں اور چمکتی را توں کا واقعہ ہے کہ ہمیں معلوم ہوا کہ فراقؔ، مجنوںؔ  کے مہان ہیں اور شام کو ریلوے کالونی کے سینئر انسٹی ٹیوٹ میں ان کی آمد پر مقامی شعراء کی ایک اعزازی نشست ہے۔ میں اس زمانے میں نہ تو شاعری کرتا تھا اور نہ مشاعروں میں شعراء کے تعارف کے فرائض انجام دیتا تھا لیکن فراقؔ صاحب کو سننے کی کشش اور اس بات کے امکانات کہ شاید مجنوںؔ  صاحب بھی اپنا کلام سنائیں، میں اپنے چند ہم جماعت دوستوں کے ساتھ برسات کی اس شام کو جب پانی ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہا تھا بھیگتا بھاگتا سینئر انسٹی ٹیوٹ پہنچ گیا۔ اور پچھلی نشستوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ ڈائس کے پیچھے ہی انسٹی ٹیوٹ کا شراب خانہ تھا۔ فراقؔ صاحب کافی بدمست تھے اور مجنوںؔ  صاحب بھی وہ نہیں تھے جو ہوا کرتے تھے، مشاعرہ شروع ہوا۔ چند شعراء کے بعد فراقؔ نے اپنا کلام سنانا شروع کیا۔ چند متفرق اشعار، کچھ رباعیاں، کچھ لطیفے اور کئی غزلوں سے انھوں نے سامعین کو نوازا، اور پھر یکایک بولے ’’اب مجنوںؔ  اپنا کلام سنائے گا۔ ‘‘ مجنوںؔ  صاحب کھڑے ہوئے، ازار بند شیروانی سے نیچے گھنٹوں تک لٹک رہا تھا۔ آواز متاثر تھی لڑکھڑاتے ہوئے لہجہ میں بولے ’’حضرت میں تو نثر کے ہتھوڑے چلانا جانتا ہوں۔ لیکن رگھوپتی کہتا ہے کہ میں اپنے اشعار سناؤں، اس کی بات ٹالی بھی نہیں جا سکتی۔ چند رباعیاں ملاحظہ ہوں ‘‘ وہ پہلا دن تھا جب میں نے مجنوں صاحب کا کلام ان کی زبان سے سنا اور انھیں شراب کے نشہ میں بد مست و سرشار دیکھا۔ مجنوںؔ  جنھیں گورکھپور کے بازاروں نے کچھ خرید و فروخت کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جن کی وضعداری نے کبھی یہ گوارہ نہیں کیا کہ نانگے یا جیپ کے علاوہ کبھی پیدل یا رکشہ پر کالج آئیں، جو گھر کے باہر شیروانی چوڑی دار پائجامہ اور دانش کے چمکدار جوتے کے علاوہ کسی اور جلو میں کبھی نہ دیکھے گئے، جن کی چھٹانک بھر کی جسامت کے آگے بقول شوکت تھانوی، ادبی پہاڑوں پر رعشہ سیماب طاری ہوتے ہوئے دیکھا گیا۔ جب گورکھپور کی اس شام کو پہلی بار اس عالم میں نظر آئے تو اس وقت ہمارا طالب علمانہ تصور اس نتیجہ پر پہنچا کہ جب فراقؔ آتے ہیں تو مجنوںؔ  خراب ہو جاتے ہیں۔

وقت گذرتا جا رہا تھا۔ میں تاریخ اور انگریزی میں ایم۔ اے کر کے شبلی نیشنل کالج اعظم گڑھ کے شعبہ ادبیات انگریزی میں لکچر ر ہو گیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب الہ آباد سے نکلنے والا رسالہ ’’نکہت‘‘ شاعروں اور افسانہ نگاروں کی ایک نئی نسل کو پروان چڑھا رہا تھا۔ تیغ الہ آبادی (جو بعد میں مصطفیٰ زیدی ہوے ) اسرارؔ ناردی (جو بعد میں ابن صفی ہوئے ) راہی معصوم رضا جنھوں نے شکیل اختر کے نام سے لکھا، نازشؔ پرتاپ گڑھ، شکیل جمالی، ابن سعید (ڈاکٹر مجاور حسین رضوی، نافع رضوی، سلام مچھلی شہری، ذکی انور، سب کے سب ’’نکہت‘‘ کے مدیر اعلیٰ عباس حسینی کے حلقہ بگوشوں میں تھے ’’نکہت کلب‘‘ کے عنوان سے اس رسالہ میں قلمی دوستی کا ایک بہت ہی متحرک اور فعّال گوشہ بھی تھا جس کی شاخیں مختلف شہروں میں موجود تھیں۔ چونکہ میرے درجنوں افسانے اس رسالے میں شائع ہو چکے تھے اور ایک فرضی نام سے میں اس کا قلمی حصہ بھی کافی عرصہ سے لکھ رہا تھا اس لیے میں ’’نکہت کلب‘‘ کی کل ہند تنظیم کا صدر منتخب کر لیا گیا اور میں نے اس کی سالانہ کانفرس کا انعقاد جس میں ایک کل ہند مشاعرہ بھی شامل تھا اعظم گڑھ میں کر ڈالا۔ یہ ۱۹۵۳ ء کی بات ہے۔

مشاعرہ میں نوحؔ ناردی، جگر مر آبادی، فراقؔ گورکھپوری، شفیق جونپوری اور عارفؔ عباسی سے لے فناؔ نظامی اور شمس مینائی تک کم و بیش تیس پینتیس شعراء نے شرکت کی، جگر صاحب اپنے دیرینہ کرم فرما مرزا احسان احمد صاحب کے ساتھ قیام پذیر ہوئے، اور فراقؔ صاحب کو محلہ تکیہ کے ایک مکان کے بالائی حصّہ پر مسعود اختر جمال کے ساتھ ٹھہرا دیا گیا۔ وہ عباس حسینی کی موٹر پر الہ آباد سے ان کے ہمراہ آئے تھے۔ اور صبح ہی کو اعظم گڑھ پہنچ گئے تھے۔ فراقؔ صاحب اور مسعود اختر جمال نے خوب شراب پی، شکم سیر ہو کر دن کا کھانا کھایا، اور سو گئے، میں انتظامی امور سے فارغ ہو کر جب سہ پہر کی چائے کے لیے فراقؔ صاحب کے پاس پہنچا تو وہ بیدار ہو چکے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی غصہ سے بولے ’’مشاعرہ کرنے کا بڑا شوق ہے لیکن شعرا کی ضیافت کا بوتا نہیں ہے، کھانے میں بھینسے تک کا بھی گوشت میسّر نہیں ‘‘ میں نے معذرت چاہی اور ان کو یہ بتلایا کہ اعظم گڑھ میں ایک دن ذبیحہ نہیں ہوتا، بدقسمتی سے آج وہی دن تھا‘‘ مگر فراقؔ صاحب نے سنی ان سنی ایک کر دی، کہنے لگے ٹھہرنے کا بھی انتظام خوب کیا ہے، دن بھر سو نہیں سکا اورسوتا بھی کیسے، سر پر بسم اللہ خاں کی روشن چوکی جو بج رہی ہے ‘‘ یہ کہتے ہوئے انھوں نے مسعود اختر جمال کی طرف اشارہ کیا جو بے خبر سورہے تھے اور بلند اواز کے ساتھ خراٹے لے رہے تھے میں نے ان کے غصہ کو نیاز مندانہ عقیدت کے ساتھ برداشت کیا اور جب وہ چائے پی چکے میں وہاں سے رخصت ہو گیا۔

غروب آفتاب کے وقت فراقؔ نے طلوعِ جام کیا۔ اور پھر قیام گاہ سے لے کر مشاعرہ گاہ (ہری اودھ کلا بھون) تک کا سفر قیامت ہو گیا۔ وہ بڑی منت سماجت کے بعد کالج کے استاد وسیم الحسن صاحب کی مدد سے رکشہ پر لاد دیئے گئے۔ سگریٹ شیروانی کی جیب میں تھی اور شیروانی کی جیب ان کے بوجھ سے دبی ہوئی تھی۔ بہ ہزار دقت دہ نکالی گئی۔ دیا سلائی دوسری جیب میں تھی، وہ بر آمد کی گئی، کئی تیلیاں جلانے کے بعد کسی طرح سگریٹ جلی، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے لگے تو اپنا ایک شعر ترنم کے ساتھ گنگنانے لگے۔ ترنم بھی ایسا تھی جیسے بڑے بوڑھے صبح کے وقت مناجات پڑھ رہے ہوں، ابھی رکشہ ڈسٹرکٹ جیل کے پاس ہی پہنچا تھا کہ ان کو پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی، رکشہ تو رک گیا مگر ازار بند نہ کھل سکا، اس میں گرہ پڑ گئی تھی، پائنچہ اٹھا کر ان کو پیشاب کروایا گیا، اور پھر وہ اپنی بیوی کی شان میں رطب اللسان ہو گئے۔ اپنے مخصوص لب و لہجہ میں انھوں نے موصوفہ کو کئی گورکھپوری گالیوں سے نوازا، اور یہ انکشاف کیا کہ وہ ہمیشہ ازار بند کے بجائے پائجامہ میں ساری کا کنارا ڈال دیتی ہیں، نتیجہ میں گرہ پڑ جاتی ہے اور ان کو انھیں مراحل سے گذرنا پڑتا ہے جس سے ابھی وہ گذر چکے ہیں۔ مشاعرہ گاہ کے دروازے پر ایک اورسانحہ ہو گیا، وہ ابھی داخل ہی ہو رہے تھے کہ دوسرے دروازے سے جگر صاحب آ گئے، اعظم گڑھ کے لوگوں نے جگر صاحب کی رندی اور سرمستی کا زمانہ دیکھا تھا، وہ بہت دنوں کے بعد تالیفِ قلب کے ساتھ اس شہر میں پہلی بار آئے تھے۔ اس لیے لوگوں کی توجہ انھیں کی جانب مرکوز ہو گئی مجمع میں ایک شور اٹھا ’’جگر صاحب آ گئے ‘‘ جگر صاحب آ گئے ‘‘ یہ سننا تھا کہ فراقؔ بدک گئے اور بولے کہ جب جگر آ گئے تو پھر میری کیا ضرورت‘‘ اور ڈائس پر بیٹھے بغیر واپس جانے لگے، میں اپنی اور اراکین کی اس منت سماجت کو احاطۂ تحریر میں نہیں لا سکتا جس سے مجبور ہو کر فراقؔ مشاعرہ کی شرکت پر آمادہ ہوئے۔

’’نکہت کلب کا یہ مشاعرہ میری زندگی اور اعظم گڑھ کے مشاعروں کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مشاعرہ سے قبل میں نکہت کلب ہی کے ایک مشاعرہ میں جو اناپور (پٹنہ) میں منعقد ہوا تھا، شعراء کا تعارف کرا چکا تھا۔ مگر اس مشاعرہ کے بعد اعظم گڑھ میں ایک بار پھر مشاعروں کا چلن ہو گیا اور وہاں کے قصبات اور گاؤں تک میں مشاعروں کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ میں باضابطہ طور پر ابتدائی کچھ برسوں تک مشرقی اضلاع اور بھرپور ہندوستانی میں اسٹیج سکریڑی کے فرائض ادا کرنے کے لیے مدعو کیا جانے لگا۔ اس وقت سے لے کر فراقؔ صاحب کے انتقال تک، یعنی کم و بیش اس تیس سال کے عرصہ میں ان سے میراسابقہ صدہا مشاعروں میں پڑا۔ مگر میں نے اپنے دل کی بات آپ کہتا ہوں کہ میں یہ سمجھ نہیں سکا کہ وہ کس اہم بات پر ناخوش اور کس معمولی بات پر خوش ہو جائیں گے۔ کبھی میں نے ان کا مصرعہ اٹھاؤ ’’ہو جب تک اسٹیج پر موجود رہتے ہیں ڈرا اور سہمارہتا کہ نہ جانے کب وہ کسی کی عزت و آبرو نیلام کر دیں۔ پٹنہ میں علامہ جمیل مظہری کا جشن ہو رہا ہے۔ اردو کے مشاہیر شعراء موجود ہیں صدارت بہار کے گورنر مسٹر ڈی، کے بردا کر رہے ہیں، وہ اپنی افتتاحی تقریر میں اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ انھیں آج فراقؔ کو اپنا ذاتی مہمان بنا کر جتنی خوشی حاصل ہوئی ہے اتنی خوشی اس روز بھی نہیں ہوئی تھی جب انھیں گورنر نامزد کیا گیا تھا۔ مشاعرہ ابھی اپنے ابتدائی مراحل میں ہے، نو مشق اور مبتدی شعرا اپنا کلام سنا رہے ہیں کہ یکایک فراقؔ نے منھ بنایا، آنکھیں نچائیں اور مجھے حکم دیا کہ میں انھیں دعوت سخن دوں۔ مجھ میں یہ ہمت کہاں تھی کہ میں ان کے حکم کی تعمیل نہ کرنا، تفصیلی تعارف کے بعد ان سے کلام سنانے کی گزارش کی، فراقؔ صاحب مائک کے سامنے آئے، جی نہیں بلکہ مائل ان کے سامنے لایا گیا۔ منھ میں سگریٹ لگائی۔ میں نے ماچس جلائی، دو ایک کش لیے لطیفے سنائے، متفرق اشعار سے نواز، غزل پیش کی، چلتے چلاتے دور چار رباعیاں بھی سنا ڈالیں، جب سب کچھ کر چکے تو بولے ’’حضرات آپ نے اردو کے سب سے بڑے شاعر کا کلام سن لیا۔ اب آپ اپنے گھروں کو تشریف لے جائیے۔ ‘‘ سب حیرت سے ان کا منھ دیکھنے لگے۔ میں نے سامعین سے کہا ’’فراقؔ صاحب مذاق کر رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں ابھی بہت شعراء کو اپنا کلام سنانا ہے، فراقؔ صاحب بولے آپ کا جو جی چاہے کریں مگر میں بتا دیتا ہوں کہ جو قوم گیارہ بجے رات کے بعد شعراء کے اشعار سنے گی وہ ترقی نہیں کر سکتی۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے اپنی چھڑی سنبھالی، دو ایک بار منھ بنایا اور ڈائس سے اتر کر قیام گاہ کی طرف چلے گئے، فراقؔ صاحب اگلے لمحے کیا کر ڈالیں گے اس کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔

شبلی ہائی اسکول اعظم گڑھ میں مشاعرہ ہو رہا ہے۔ فراقؔ صاحب حسب معمول اپنے انفرادی اور امتیازی انداز میں بیٹھے ہوئے ہیں، شعراء کا کلام بڑی توجّہ کے ساتھ سن رہے ہیں، کبھی منھ بناتے ہیں، کبھی خلا میں گھورتے ہیں کسی کسی شعر پر آنکھوں میں چمک اور لبوں پرمسکراہٹ پھیل جاتی ہے اور جب ان کی باری آتی ہے تو کلام سنانے کے بجائے پہلے تو ہندی والوں کی خبر لیتے ہیں، اور بڑے ہی جذبات کو ٹھیس پہچانے والے انداز میں ہندی پر اردو کی سبقت اور برتری کا ثبوت پیش کرتے ہیں، ’’تم پہلے کے بجائے ‘‘ پرتھم کہو گے تومیں تھوک دوں گا، دوسرے کے بجائے ’’دوتیہ‘‘ بولو گے تومیں قے کر دوں گا‘‘ وغیرہ وغیرہ، ہندی کے طلباء اور اساتذہ میں بے چینی پیدا ہوتی ہے، ہنگامہ ہونے والا ہی تھا کہ نہ جانے کیسے روئے سخن علامہ اقبال کی طرف ہو گیا۔ نتیجہ ظاہر تھا، ہندی کے طرفدار اور اقبال کے پرستار دونوں ان سے ناخوش ہو گئے اور وہ پھر کبھی شبلی کالج یا اس سے متعلق اداروں میں مدعو نہیں کئے گئے۔

حلیم ڈگری کالج کانپور کے مشاعرہ میں شرکت کرنے کے لیے فراقؔ صاحب تشریف آئے ہیں۔ پرنسپل رضوی نے ان کے ٹھہرنے کا خصوصی انتظام اپنے آفس میں کیا ہے، سجے سجائے کمرے کو چار پائی اور آرام دہ بستر ڈال کر عارضی طور پر بڈ روم میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ میں فراقؔ صاحب کے پاس بیٹھا ہوا ہوں، مگر فراقؔ صاحب مضطرب اور بے چین ہیں۔ بار بار دیوار پر آویزاں رضوی صاحب کی تصویروں کو دیکھ رہے ہیں، اتنے میں رضوی صاحب تشریف لاتے ہیں ’’فراقؔ صاحب کوئی تکلیف تو نہیں ہے ‘‘ جی نہیں تشریف رکھئے ‘‘ رضوی صاحب ایک کرسی پر تا بعد ار نہ انداز میں بیٹھ جاتے ہیں ’’کیوں جناب یہ سب تصویریں آپ کی ہیں ‘‘ فراقؔ صاحب دیوار پر لگی ہوئی تصویروں کی طرف اشارہ کر کے پوچھتے ہیں، رضوی صاحب شرماتے ہوئے ’’جی ہاں ‘‘ کہہ کر اثبات میں سر ہلاتے ہیں۔ فراقؔ صاحب کا لہجہ کرخت اور چہرہ تبدیل ہو جاتا ہے ’’تصویریں کھنچوانے کا بڑا شوق ہے۔ مگر منھ تو آپ کا چقندر جیسا ہے، کس احمق نے آپ کو پرنسپل بنا دیا۔ یہ میرے ٹھہرنے کا انتظام آپ نے کیا ہے میں اپنی شیروانی کہاں ٹانگوں گا، بوتل کہاں رکھوں گا، اور کرسیاں، یہ کرسیاں، جب مجھے کسی کی توہین کرنی ہوتی ہے تو اپنے گھر پر اس طرح کی کرسیوں پر اسے بٹھاتا ہوں۔ ۔ ۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ رضوی صاحب ہنستے ہوئے سب با توں کو جھیل جاتے ہیں۔ اور ایک رضوی صاحب کیا، نہ جانے ان کے معاصرین میں کن کن لوگوں کو ان منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اور سب نے یہ سوچ کر برداشت کیا ہے کہ یہ انداز تکلم رگھوپت سہائے کا نہیں بلکہ فراقؔ گورکھپوری کا ہے، جو ایک عظیم شاعر ہے۔

گورکھپور کے بابو پر میشوری دیال مختار کے ڈرائنگ روم میں فراقؔ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں میں اور میرے ہمراہ اور کئی ایک شعراء ان کے حاشیہ نشینوں میں ہیں، فراقؔ صاحب لطیفے پر لطیفہ سنا رہے ہیں، پوری محفل قہقہہ زار بنی ہوئی ہے، کہ یکایک ڈرائنگ روم کے پردے میں جنبش ہوتی ہے اور آنندہ موہن گلزار زتشی پارے کی طرح سے اچھلتے ہوئے ’’اخاہ فراق صاحب‘‘ کہہ کر ان سے بغل گیر ہو جاتے ہیں، کمرے میں زلزلہ آ جاتا ہے، فراقؔ صاحب گرجنے لگتے ہیں ’’آپ اپنی اس حرکت سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ فراقؔ جیسے عظیم شاعر سے آپ اس حد تک بے تکلف ہیں، اگر میرؔ ہوتے غالبؔ ہوتے تو کیا اسی انداز میں آپ ان سے ملتے ‘‘ وغیرہ وغیرہ پوری محفل پر سناٹا چھا جاتا ہے اور ہم سب دم بخود ہو کر راہ فرار اختیار کر لیتے ہیں۔

نفسیاتی وجہ چاہے جو کچھ بھی رہی ہو، مگر میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ایک اچانک پن کے ساتھ دوسروں کی توہین کی حد تک مذاق اڑا کر فراقؔ صاحب اپنی ’’انا‘‘ اور انفرادیت کے امتیازی پہلو پیدا کر لیا کرتے تھے، بزمِ شنکر و شاد دہلی کا انڈ و پاک مشاعرہ ہے کوئی شاعر اپنا کلام پڑھ رہا ہے۔ فراقؔ صاحب مجھ سے پوچھتے ہیں۔ ’’کون صاحب ہیں ‘‘ یہ گفتگو شاعر بھی سن لیتا ہے، وہ بڑی عقیدت کے ساتھ احترام آمیز انداز میں کہتا ہے ‘‘ فراقؔ صاحب آپ مجھے بھول گئے۔ ابھی کچھ دنوں قبل میں فلاں فلاں جگہوں پر آپ کے ساتھ مشاعروں میں شریک ہوا ہوں ‘‘ فراقؔ صاحب کی ذہانت فوراً ایک لطیفہ گڑھ لیتی ہے۔ شاعر اپنے مائکرو فون پر کھڑا ہے۔ اور فراقؔ صاحب میرا مائکر و فون استعمال کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‘‘ انگلستان کا مشہور ایکٹر (نام مجھے یاد نہیں ہے ) جو ہیملٹ کا پارٹ کرتا تھا ایک دن ہوا خوری کے لیے سڑک پر جا رہا تھا۔ کہ سامنے سے ایک صاحب آئے اور بڑے ہی تپاک سے اس کا خیر مقدم کیا۔ ایکٹر نے پوچھا ’’آپ کون صاحب ہیں، میں نے آپ کو پہچانا نہیں ‘‘ وہ صاحب بولے ’’تعجب ہے، میں آپ کا رفیق کار اور ساتھی ہوں، روزانہ رات میں آپ کے ساتھ ڈرامے میں پارٹ کرتا ہوں اور آپ نے مجھے نہیں پہچانا‘‘ ایکٹر نے پوچھا ’’کون سا پارٹ کرتے ہیں، مجھے یاد نہیں ہے ‘‘ ان صاحب نے کہا کہ ڈرامے میں جب صبح کا منظر پیش کیا جاتا ہے تو میں پردے کے پیچھے سے مرغے کی بولی بولتا ہوں۔ ‘‘ لیجئے سامعین پر قہقہوں کا دورہ پڑ گیا اور اس شاعر کی عاقبت خراب ہو گئی۔

فراقؔ صاحب مشاعروں میں عموماً اس وقت آتے تھے جب مشاعرہ شروع ہو چکتا تھا۔ اور ان کی آمد اس شاعر کے لیے جو اس وقت اپنا کلام سنا رہا ہے موت کا پیغام ہوتی تھی (مشاعرہ کے نقطہ نگاہ سے ) فراقؔ صاحب اسٹیج پر آتے ہی اس انداز میں تھے کہ سامعین کی توجہ شاعر سے ہٹ کر ان پر مرکوز ہو جاتی تھی ان کی حرکات وسکنات، ان کے چہرے کا اتار چڑھاؤ ان کی شخصیت، ان کی وضع قطع اور کبھی کبھی ان کا لباس (میں نے گورکھپور کے ایک مشاعرہ میں ان کو سفید ساٹن کا چمکدار پائجامہ پہنے ہوئے دیکھا ہے ) یہ تمام چیزیں مل کر ایک مقناطیسی کشش پیدا کرتی تھیں اور لوگ انھیں دیکھنے لگتے تھے۔ دہلی کے انڈ و پاک مشاعرے میں نازش پرتاپ گڑھی اپنی نظم ’’متاعِ قلم‘‘ سنا رہے ہیں نظم ابھی اپنے ابتدائی مراحل ہی میں ہے کہ فراقؔ صاحب کی آمد آمد کا غلغلہ اٹھا۔ نازشؔ رک گئے جب حالات سکون یافتہ ہوئے تو نازش نے پھرے اپنی نظم کو آگے بڑھایا، جب وہ اس مصرع پر پہنچے ؎

قلم خریدنے اٹھے ہیں اہل دولت بھی

تو فراقؔ صاحب نے گردہ اٹھا کر اور آنکھیں نچا کر پوچھا ’’ بھئی یہ اہل دولت قلم کیسے خریدتے ہیں ‘‘ نازش جھلّا تو پہلے ہی گئے تھے، اس سوال پر سامعین کے قہقہوں نے ایک اور تازیانہ لگایا۔ اپنی تمام ترسلامت روی کو بالائے طاق رکھ کر بولے ’’گیان پیٹھ کا ایک لاکھ کا انعام دے کر‘‘ فراقؔ کو اسی سال گیان پیٹھ کا انعام ملا تھا۔ جواب چاہے صحیح رہا ہو یا نہ رہا ہو مگر اتنا برجستہ اور بھرپور تھا، کہ فراقؔ کی ذہانت منھ دیکھتی رہ گئی۔

فحش لطیفے سنانا، مشاعرے میں کسی شاعر کی توہین کر دینا، جھگڑا کر لینا فراقؔ صاحب کے معمولات میں شامل تھا۔ گورکھ پور کے ایک مشاعرے میں انھوں نے شمسی مینائی کو مرغی کا بچہ کہا، فضل بھائی داؤد ٹرسٹ کے مشاعرے میں انھوں نے ظ، انصاری کو بلاکسی وجہ کے برا بھلا کہا، جشنِ وسیم کے موقع پر بریلی میں وہ ناظر خیامی سے بھڑ گئے اور ان لوگوں کی فہرست تو کافی طویل ہے جو فراقؔ صاحب کے جارحانہ جملوں کو محض اس لیے پی گئے کہ وہ بزرگ ہی نہیں بلکہ ایک بڑے شاعر بھی ہیں۔ جب جگر صاحب کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی، تو شعبۂ اردو گورکھپور کے اساتذہ نے آپس میں یہ مشورہ کیا کہ کوئی ایسی صورت نکالی جائے کہ یونیورسٹی کے ارباب حل و عقد فراقؔ صاحب کا براہ راست تعارف یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور مجلس منتظمہ کے اراکین سے ہو جائے اور پھر بعد میں اعزازی ڈاکٹریٹ والے مسئلہ کو آگے بڑھایا جائے، صدر شعبہ اردو ڈاکٹر محمود الٰہی نے اس تقریب کا غیر معمولی اہتمام کیا، اور وائس چانسلر کے ساتھ ساتھ شہر کے سبھی معززین اور اکابرین کو مدعو کیا۔ اس موقع پر ایک خصوصی برو شر بھی شائع ہوا۔ فراقؔ صاحب اس تقریب میں آئے اور بڑی آن بان سے آئے جلسہ شروع ہوا، یکایک برو شر پر شائع شدہ اپنے ایک شعر پر ان کی نگاہ پڑ گئی، جو کاتب کے خامۂ اصلاح کی ضربات شدیدہ سے غلط شائع ہو گیا تھا۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جو اردو کتابت کی تاریخ میں غیر معمولی رہی ہو، مگر فراقؔ صاحب نے اس بھرے مجمع میں جس طرح شعبۂ اردو کے اساتذہ اور تقریب کے اراکین کی عزت و آبرو لوٹی، شاید اس کی کوئی مثال اردو تقریبات کی تاریخ میں نہ مل سکے، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کے حوصلے پست ہو گئے اور اعزازی ڈگری والا مسئلہ اپنی جگہ پر رہ گیا، فراقؔ صاحب نادان کے ہاتھ کی تلوار تھے، اس سے کب کسی دوست یا دشمنی کا گلا کٹ جائے گا اس کے بارے میں کوئی پیش گوئی کی جا سکتی تھی۔

فراقؔ صاحب اگر رگھوپت سہائے نہ ہوتے تو ان کے بہت سے جملے فسادات کا موجب بن جاتے، سینٹ اینڈر یوز کا سج گورکھپور کے ایک ادبی جلسہ میں انھوں نے ایک بہت ہی اہم مذہبی شخصیت کو (Inter Cultural Interloper) کہا، حلیم ڈگری کالج کانپور کے مشاعرے میں تقریر کرتے ہوئے جب وہ عہد حاضر کی برکتوں کا ذکر کرنے لگے تو انھوں نے ایک دوسری مذہبی شخصیت کے بارے میں کہا کہ اگر وہ موجودہ دور میں ہوتے تو انجمن کی سیٹی سن کر ان کی دھوتی خراب ہو جاتی۔ اردو کے مسئلہ پر شاید ہی ان کی کوئی ایسی تقریر رہی ہو جس میں انھوں نے اردو کے موقف کو مثبت انداز میں پیش کیا ہو، وہ ہمیشہ اردو کا تقابلی موازنہ ملک کی سرکاری زبان ہندی سے کرتے تھے اور بڑے ہی جارحانہ طریقے سے ہندی کے منفی پہلوؤں کو استہزائی انداز بیان کے ساتھ پیش کرتے تھے، اور اس کے اہم شعراء اور ادبا کا مذاق اڑاتے تھے نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے فکر انگیز اور بلیغ جملوں کو بھی لوگ تفریحی انداز میں سنتے تھے اور جب ان کا پارہ کچھ نیچے گرنے لگتا تھا تو پھر کوئی نہ کوئی انھیں چھیڑ دیتا تھا اور وہ مزید جوش و خروش کے ساتھ تبرہ پڑھنے لگتے تھے۔

یہ سب تو اس کھرے سکہ کا ایک رخ تھا جس پر فراقؔ کی تصویر بنی ہوتی تھی، مگر سکے کا دوسرا رخ جس پر قیمت لکھی ہوتی ہے اتنا بیش عیار تھا کہ مملکت لوح و قلم کی آنے والی صدیاں اس سکہ کو سکہ رائج الوقت تصویر کریں گی، گنگا کی سطح پر خس و خاشاک کا انبار اور طرح طرح کی آلودگیاں بھی تیرتی رہتی ہیں مگر ہندوستان صدیوں سے اس کی تقدیس کی قسم کھاتا چلا آ رہا ہے۔ انھیں پراگندہ مظاہر منتشر اور بکھری ہوئی نفسیات کے پیچھے ایک اور بھی چہرہ ابھرتا ہے اور یہ چہرہ اس فراقؔ کا ہے جو ایک عظیم شاعر، مفکر، دانشور اور زندگی کی اعلیٰ و ارفع قدروں کا مبلغ بھی ہے، جس نے نہ جانے کتنے تضادات کو اپنی شخصیت کے اندر ہم آہنگ کر رہا ہے۔ جو بقول جوشؔ ملیح آبادی ’’آسمان خوش لہجگی کا بدر، انجمن آگہی کا صدر، اولیائے ذہانت کا قافلہ سالار، اقلیم ژرف نگاہی کا تاجدار، جودت پناہ، نقاد نگاہ محیط جبرئیل اور شاعر بزرگ و جلیل بھی ہے، جو مسائل علم و ادب پر جب زبان کھولتا ہے تو لفظ و معنی کے لاکھوں موتی رول دیتا ہے اور اس افراط سے کہ سامعین کو اپنی کم سوادی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ‘‘ مؤ ناتھ بھنجن میں کمیونسٹ پارٹی کا اجلاس اور ترقی پسند ادبا کا اجتماع ہے، سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبدالعلیم، احتشام حسین، حیات اللہ انصاری، آل احمد سرورؔ ساحر لدھیانوی، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، علی سردار جعفری کے علاوہ اس وقت کے بھی ممتاز شعرا، ناقدین اور افسانہ نگار جمع ہیں، شب میں مشاعرہ ہونے والا ہے دن میں مختلف ادبی مختلف ادبی موضوعات پر اکابرین کی تقریریں ہو رہی ہیں۔ فراقؔ صاحب کو ترقی پسند تحریک کے پس منظر میں اردو غزل کا جائزہ لینا ہے، میں فراقؔ صاحب کو جلسہ گاہ کی طرف لے جا رہا ہوں، راستہ میں میں ان سے راز دارانہ انداز میں کہتا ہوں ’’فراقؔ صاحب، لوگ آپ کو محض شاعر سمجھتے ہیں، آج ایسی تقریر ہو جائے کہ آپ کی دانشوری کا جھنڈا لہرانے لگے ‘‘ فراقؔ صاحب مسکراتے ہوئے ‘‘ اچھا ’’کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ اور پھر فراقؔ صاحب کی تقریر ہوتی ہے، آپ اسے مبالغہ تصور فرمائیں، میں بڑے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ آزادی کے بعد آسماں ادب پر جتنے آفتاب و ماہتاب چمکے، میں نے سب کا کلام سنا ہے اور سب کی تقریروں کے استفادہ کیا ہے مگر اس دن فراقؔ صاحب کی تقریر کی کچھ اور ہی بات تھی، انھوں نے جس دلنشیں انداز میں غزل کے گیسوؤں کی مشاطگی کی، اور جس تنقیدی بصیرت، ذہن بیدار مغزی کے ساتھ غزل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا وہ فراقؔ صاحب ہی کا حصہ تھا، جس میں کوئی دوسرا مقر ر شریک نہیں ہو سکتا۔

میں لکھنؤ یونیورسٹی میں لکچر ر کے عہدہ کے لیے امیدوار ہوں سہمی ہوئی صلاحیتوں کے ساتھ انٹرویو بورڈ کے سامنے حاضر ہوتا ہوں، وائس چانسلر صدر شعبہ نور الحسن ہاشمی کے علاوہ آل احمد سرور اور فراقؔ گورکھپوری ماہرین زبان وا دب کی حیثیت سے تشریف فرما ہیں۔ تعلیمی استعداد کے متعلق وائس جانسلر کبھی رسمی سوالات کرتے ہیں، میں سب کے جوابات دیتا ہوں، فراقؔ صاحب خاموش بیٹھے ہوئے سگریٹ پی رہے ہیں، وائس چانسلر کے بعد سرورؔ صاحب مختلف سوالات کرتے ہیں، میں اپنی بساط کے مطابق انھیں مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہوں، بات بڑھ کر قرآن کے اردو ترجموں تک آ جاتی ہے اور شاہ ولی اللہ کے خانوادے سے شروع ہو کر سر سید کی تفسیرتک پہنچتی ہے، یکایک فراقؔ صاحب کی بھاری بھرکم آواز سب پرچھا جاتی ہے ’’ہاں بھائی ڈپٹی نذیر احمد کے ترجمۃ القرآن کے بارے میں تمہارا خیال ہے ‘‘ میں ابھی صرف اتنا ہی کہہ پاتا ہوں کہ وہ دلی کے محاوروں کی خاطر آیاتِ قرآنی کے مفہوم کو توڑ مروڑ دیتے ہیں ‘‘ کہ فراقؔ صاحب گفتگو اٹھا لیتے ہیں اور سرورؔ صاحب کو مخاطب کر کے نذیر احمد کو موضوعی گفتگو بنا لیتے ہیں، چلئے مجھے نجات مل گئی اور انٹرویو تمام ہو گیا۔ بعد کی ملاقات میں جب کبھی میں اس واقعہ کا تذکرہ کرتا اور اس بات کا اعتراف کرتا کہ میرا موجودہ منصب آپ کی نوازشات کا نتیجہ ہے تو فراقؔ صاحب کو جیسے کوئی بھولی بسری بات یاد آ جاتی اور ایک مسرت آمیز چمک ان کے چہرے پر بکھر جاتی اور آنکھیں جگمگانے لگتیں، دوسرے کی خطائیں ممکن ہے کہ فراقؔ صاحب کو یاد رہی ہوں، مگر میں بڑے وثوق سے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اپنے احسانات انھیں کبھی یاد  ’’آسمان کنہیں رہے۔

فراقؔ صاحب کو میں نے کبھی کسی سے مرعوب ہوتے نہیں دیکھا، صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، مرکزی اور ریاستی وزرا، گورنر صاحبان، سفرا، سبھی کی موجودگی میں میرا ان کا مشاعروں میں ساتھ رہا ہے میں نے ایسے مواقع پر دوسرے شعراء کو محتاط طریقۂ آداب نشست و برخاست اختیار کرتے دیکھا ہے، جو فطری نہیں تھا، صرف فراقؔ صاحب کی تنہا مثال ہے کہ جن کے رویہ میں کبھی بھی کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ وہی قلندرانہ انداز، پیر پھیلا ہے تو پھیلا ہوا ہے تکیہ پر ٹیک لگائے ہوئے ہیں تو لگائے ہوئے ہیں گفتگو کر رہے ہیں تو جاری ہے۔ جوان کی شخصیت کا خاصہ تھا، ہمیشہ ان کے ساتھ رہا سینٹ اینڈریوز کالج گورکھپور میں ایک آئی۔ اے۔ ایس افسر کو جو مشاعرہ کی صدارت کر رہا تھا اور ان کی شعر خوانی کے وقت گفتگو کرنے لگا تھا فراقؔ صاحب نے بہت ہی توہین آمیز طریقہ سے ڈانٹا اور یہاں تک کہہ گئے کہ اگر تمہارے گھروں کی عورتیں اپنی عزت و آبرو بھی نیلام کر دیں تو بھی فراقؔ کا ایک شعر نہیں خرید سکتیں۔ (کہا تو انھوں نے کچھ اور تھا، میں ان جملوں کو دہرا نہیں سکتا، مگر مفہوم یہی تھا)

وقت گذرتا جا رہا تھا اور فراقؔ جسمانی انحطاط کا شکار ہو رہے تھے۔ بزمِ شنکر و شاد دہلی کے انڈ و پاک مشاعروں میں کلام پڑھنے سے قبل انھوں نے اکثر یہ پیشین گوئی کی کہ یہ ان کا آخری مشاعرہ ہے۔ ایسے مواقع پر میں انھیں یاد دلاتا تھا کہ غالبؔ بھی اسی طرح اپنے بارے میں کہا کرتے تھے مگر وہ پیشین گوئی کے مطابق نہیں مرے، میری یہ بات فراقؔ صاحب کو اچھی لگتی تھی۔ ان کی ذہین آنکھوں میں زندگی کے چراغ جھلملانے لگتے تھے۔ بعد میں جب وہ چلنے پھرنے سے قاصر ہوئے تو کرسی پر اٹھا کر مشاعروں میں لائے جانے لگے۔ رمیش ان کے ساتھ ہوتے اور ان کی تمام ضروریات کا خیال رکھتے۔ فراقؔ صاحب جب مشاعروں میں مدعو ہوتے تو رمیش کو بھی مدعو کرانے کی جد و جہد کرتے جو شوقؔ مرزا پوری کے تخلص کے ساتھ اپنا کلام بھی سناتے۔ فراقؔ صاحب کی بیاض، مجموعہ ہائے کلام، سگریٹ ماچس، یہ تمام چیزیں وہ اپنے ساتھ رکھتے اور بڑے ادب اور احترام کے ساتھ فراقؔ صاحب کو بوقت ضرورت پیش کرتے۔ اور جب فراقؔ صاحب اپنا کوئی شعر بھولتے تو لقمہ بھی دے دیا کرتے، میں نے رمیش کو فراقؔ صاحب کے گھر میں نہیں دیکھا ہے، مگر سفرمیں جتنا فراقؔ صاحب کو دیکھ بھال کرتے اور ان کے آرام وآسائش کا تتھا، ہمشخیال رکھتے۔ شاید اس حد تک فراقؔ صاحب کا کوئی قریب ترین رشتہ دار بھی ان کا خیال نہ رکھنا۔

شرافت، تہذیب اور اخلاق کے مروّجہ ضابطوں پر فراقؔ صاحب کو پرکھنا غیر دانشمندانہ بات ہو گی، وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنے ضابطے خود بناتے ہیں، عالمی ادب کے عظیم فنکاروں کی داستان حیات پڑھئے اور دیکھئے کہ ان تمام خصوصیات کو جنھیں لوگوں نے کمزوریوں سے تعبیر کیا، ان کے وجود کی کتنی غیر معمولی طاقتیں پوشیدہ تھیں، فراقؔ اپنی تمام ناہمواریوں اور تضادات کے باوجود ایک ایسے جو ہر قابل ہیں جو بقول جوش ’’ہندوستان کے ماتھے کا ٹیکا اور اردو زبان کی آبرو، اور شاعری کی مانگ کا صندل‘‘ کہے جا سکتے ہیں۔ وہ ایک ایسی جاندار تخلیقی قوت کے مالک ہیں جو شخصیت کے تمام تضادات پر حاوی ہو جاتی ہے۔ رابرٹ لوئی اسٹیونسن نے گوئٹے کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وہ ان تمام گناہوں کا نچوڑ تھا جو ایک نابغہ یا جوہرِ خلّاق میں فطری اور لازمی طور پر پائے جاتے ہیں ‘‘ یہ قول اگر ہندوستان میں کسی پر صادق آ سکتا ہے تو بقول مجنوں گورکھپوری وہ صرف رگھوپتی سہائے فراقؔ کی ذات ہے۔

٭٭٭

تشکر عزیز نبیلؔ جنہوں نے مکمل کتاب ’’ فراق گورکھپوری: شخصیت، شاعری اور شناخت‘‘ کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید