FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

فہرست مضامین

یاد تو آتی ہو گی نا!

 

(شعری مجموعہ)

 

                   کائنات بشیر

(جرمنی)

 

 

 

اب بھی ساون برستا ہو گا

 

اب بھی منظر بھیگتے ہوں گے

تمناؤں کے گُل کھلتے ہوں گے

قوسِ قزح کے جھولے پڑتے ہوں گے

بلبل راگ الاپتی ہو گی

پیہو، پیہو کی صدا ابھرتی ہو گی

کھڑکی پہ بارش کی دستک دے کر

اب بھی ساون برستا ہو گا

اب بھی نیر بہتے ہوں گے

٭٭٭

 

 

 

انتساب!

 

ان شائقین ادب کے نام،

جن کے دلوں پر شاعری وجد کی طرح اترتی ہے

٭

 

 

 

پیش لفظ

 

کچھ مصنف پیش لفظ سے ناطہ جوڑے بغیر آگے بڑھ جاتے ہیں جبکہ یہ تمہید باندھنے قارئین سے جڑنے کا نادر موقع ہے۔ اس سے پہلے کہ قاری کتاب کے دو چار صفحات الٹ کر آگے بڑھ جائے اسے پہلے ورق پر ہی روک کر اپنی سنانا ضروری ہے۔ ۔ دو قدم تم بھی چلو اور دو قدم ہم بھی چلیں،

شام کتنی اداس ہے۔ ۔ میرے ادبی سفر کی تیسری اور شاعری کی پہلی کتاب تھی۔ وہ احساسات جو دل کے آس پاس اترے انہیں قلم نے سمیٹ کر آپ تک پہنچا دیا۔ حقیقتاً اسے لکھتے ہوئے مجھے بھی اچھا لگا۔ کوئی بھی نظم، خیال، قطعہ لکھنے کے بعد وہی سکون دل پہ اترتا جو کسی مصور کو اپنی پینٹنگ بنا کر اور موسیقار کو دھُن بنا نے پر ملتا ہو گا۔ وہ اس دشت میں پہلا قدم تھا اور مجھے یہ بتانے میں کوئی عار نہیں کہ سفرنامہ کے بعد میری شاعری کی کتاب آن لائن بہت دور دور تک گئی۔ کچھ لائبریریز میں میری پوری کتابیں موجود تھیں لیکن بہت سے بلاگرز، پیجز والے مہربان صرف شاعری کی کتاب اٹھا لے گئے اور اپنے لوگو، واٹر مارک کے ساتھ پیش کر دیا۔ اور یہ اعتراض کی نہیں خوشی کی بات ہے۔ پن ٹرسٹ پہ شاعری کی بدولت کئی مہربانوں نے پیج فالو کیا۔ مختلف اشعار پن کر کے اپنی پسندیدگی کا اظہار کرتے رہے۔ اب شاعری کی اگلی کتاب،

یاد تو آتی ہو گی نا!

پیش ہے۔ کتاب بہت اچھے ڈیزائنر ایاز محمود بھائی نے تیار کی ہے اور سرورق پہ اپنی خوبصورت ڈیزائننگ کا ہنر آزمایا ہے۔ میں ان کا خصوصی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی۔ شاعری کی دوسری کتاب کوئی سوچا سمجھا فسانہ نہیں۔ کبھی موسم نے جلوہ دکھایا۔ کبھی کائنات نے رنگ بکھیرے۔ کبھی دوسروں کا درد سمیٹ کر لطیف پیرائے میں اظہار کر دیا۔ ۔ زیادہ مسئلہ کتاب کے ٹائیٹل پہ آن رکتا ہے کہ اب کوزے میں دریا کیسے سمیٹا جائے۔ پَر زیادہ سوچا نہیں اور پہلے کی طرح کتاب ہی کی ایک مشہور منظوم پورے فسانے کا عنوان بن گئی۔ ہلکی پھلکی شاعری ہے اس امید کے ساتھ کہ کتاب آپ کو پسند آئے گی۔ ان مہربانوں کی شکرگزار ہوں جنہوں نے پہلی کاوش۔ ۔ شام کتنی اداس ہے۔ ۔ پسند کی۔ اپنی رائے سے نوازا۔ ان مہربانوں کا بھی شکریہ جنہوں نے دوسری کتاب کا انتظار کیا۔ ۔ کتاب پڑھیے اور دعاؤں میں ضرور جگہ دیجئے گا۔

شکریہ

کائنات بشیر(جرمنی)

kainat- bashir@hotmail.com

 

 

 

 

اے مصوّر تری تصویر!

 

دور دور حدِ نظر آسمان۔ ۔

اِک وسیع کینوس کی مانند پھیلا ہے

اُفق کے کنارے اسکی حد بندی کرتے ہیں

صبح اس کے کناروں پہ گلابی۔ ۔

شام شفق رنگوں کی حاشیہ آرائی کرتی ہے

پردے پر منظر بدلتا رہتا ہے

 

اوپر کونے میں آفتاب جلوہ گر ہوتا ہے

پرندے محوِ پرواز چلے جا رہے ہیں

کبھی بدلیاں برستی چلی آتی ہیں

کینوس پر بھیگے رنگ بکھر جاتے ہیں

 

شام ڈھلے یہ رنگ تابناکی کھونے لگتے ہیں

اداس منظر ل پر اُترنے لگتا ہے

کینوس پہ رنگ مدھم پڑنے لگتے ہیں

گویا نئی تصویر آنے والی ہے۔ ۔ !

 

سُرمئی رنگ اس پہ اترنے لگتے ہیں

اب یہ آنچل کی مانند دراز لگتا ہے

جگنو سے اس پہ ٹھہر جاتے ہیں۔ ۔

ستارے ٹمٹماتے ہیں۔ ۔ جگمگاتے ہیں

 

چاند نمودار ہو کر منظر کو گویائی بخشتا ہے

دل کے اندر جاگزیں ہونے لگتا ہے

 

اتنی پیاری، اتنی خوبصورت منظر کشی کرنے والے

یَا مُصّور۔ ۔ یَا   خَالِقُ!

تیری تخلیق کے آگے زبان گنگ اور سر بسجود ہے

‏‏‏٭٭٭

 

 

 

اِسم محمدﷺ

 

تیری گلیاں، تیرے کوچے گواہ ہیں

مدینے کی ہر گلی میں ترا نقش پا ٹھہرا

٭٭٭

 

 

 

 

جنوری

 

سال نو۔ ۔

جنوری۔ ۔

سنو فال۔ ۔

کینوس پہ سفید کاغذ آ چکا ہے

اے مصوّر!

تیری نئی تصویر کا انتظار رہے گا

٭٭٭

 

 

 

اگر تم نہ ہوتے

 

میری زندگی میں اگر تم نہ ہوتے

تو شاید پھول میں خوشبو اور وہ رنگ نہ ہوتے

ندی میں وہ روانی نہ ہوتی اور لہروں میں ترنگ نہ ہوتے

ہوائیں چنچل نہ ہوتیں اور پھول رقص میں نہ ہوتے

بادل گھر گھر کر آتے پر بارش رم جھم کی تال پر نہ برستی

اور ساون کی بوندیں کیسے دل کو بے قرار کرتیں۔ ۔ !

ساز بجتے ہی رہتے۔ ۔ نغمے تڑپتے ہی رہتے

ہجر اور وصل اپنا معنی کھو دیتے

یوں تو سب کچھ ہوتا پر شاید وہ نہ ہوتا

جسے دل کی نظروں سے میں اب دیکھتی ہوں

٭٭٭

 

 

دیار غیر میں

 

دیار غیر۔ ۔

روشنیوں کا خوبصورت شہر!

جہاں میں اجنبی کی طرح کھڑا ہوں

پرائے دیس میں پرایا بن گیا ہوں

مصنوعی روشنیوں میں لوگ بدل سے گئے ہیں

چاند کو بھلا کر کلب میں جا گھسے ہیں

کائنات کی رنگینی کو اُچٹتی نظر سے دیکھتے ہیں

بے موسم بارش پر تلملاتے ہیں

بس اپنی ہستی کو اُجاگر کرنے میں لگے ہیں

جاناں،

میں تمہیں سوچ کر مسکرا اٹھا ہوں

تم نے جو اتنے ڈھیروں نیر بہائے

خدشے، وہم، وسوسے پالے

سب بے کار ہوئے۔ ۔

یہاں زندگی اور ہی ڈگر پر ہے

کسی کوکسی کی خبر ہی نہیں ہے

اور میرے تصور میں !

دیس کا چاند، مہکتی ہوائیں اور تم ہو

٭٭٭

 

 

ویلنٹائن ڈے

 

خوبصورت مہکتے پھول

اِک گلدستہ۔ ۔

جو تم نے مجھے لا تھمایا

اک بار پھر تجدیدِ وفا کی

جانم۔ ۔ آئی لو یو

محبت کے رنگ تمہاری آنکھوں میں دیکھے

پھر بھی !

اِک کسک سی باقی ہے

جاناں !

پھولوں کی طرح

تمہاری محبت بھی اِک روز مرجھا تو نہیں جائے گی

٭٭٭

 

 

 

جواہرات

 

لفظ ہیروں کی طرح چمک رہے ہیں

حروف موتیوں کی مانند بکھرے پڑے ہیں

فقرے زر و جواہرات کا خزانہ بنے ہیں

پَر اپنی کہانی بیاں کرنے سے قاصر ہیں

اور جذبات۔ ۔ !

اِک ادنی سے قلم کی نوک پہ آ کر

اپنا آپ منوانے لگے

٭٭٭

 

 

 

 

یاد تو آتی ہو گی نا !

 

شام گئے جب دن ڈھل جاتا ہو گا

آفتاب افق کے ساگر میں ڈوبتا ہو گا

پرندے آشیاں اُترتے ہوں گے

رات کے سائے پَر پھیلاتے ہوں گے

تب یاد تو آتی ہو گی۔ ۔ !

 

جب چپکے چپکے چندرمَا نکلتا ہو گا

تارے آنکھ مچولی کھیلتے ہوں گے

ہر سُو دیپک جلتے ہوں گے

اِک دیوالی سی سجتی ہو گی۔ ۔

تب اس گھڑی یاد تو آتی ہو گی نا۔ ۔ !

 

جب رَنگ برنگے خوش رنگ

پھولوں پہ رات کی چادر گرتی ہو گی

منظر دھندلا جاتا ہو گا۔ ۔

دل میں اُداسی اترتی ہو گی

اُس لمحے تمھیں یاد تو آتی ہو گی نا۔ ۔ !

 

جب آکاش پہ بادل چھا جاتے ہوں گے

ہوائیں لہراتی ہوں گی، سَرسَراتی ہوں گی،

بجلی کوندتی ہو گی، برکھا برستی ہو گی

کچھ تو ہوتا ہو گا۔ ۔

تب یاد ہماری آتی تو ہو گی نا۔ ۔ !

٭٭٭

 

 

 

بارش

 

کڑکتی بجلی، گرجتے بادل، برستی بارش

تیری یاد کے سہارے بڑی دور نکل گئے

٭

 

پھر تیری یاد بن بلائے چلی آئی

رات بارش بہت ٹوٹ کے برسی تھی

٭

 

ساون میں بادل، بادل میں رم جھم، رم جھم میں پھوار

تمہیں یاد ہو۔ ۔ شاید کہ تمہیں یاد ہو

٭٭٭

 

 

 

 

تم ہنستی اچھی لگتی ہو

 

سنو،

تم ہنستی اچھی لگتی ہو

گنگناتی ہوئی

مسکراتی ہوئی

جب تم ہنستی ہو تو میں موتیوں کی لڑی دیکھتا رہ جاتا ہوں

قوس و قزح بکھر جاتی ہے

اور تم کسی شاعر کا خواب لگتی ہو

لگتا ہے تخلیق کار نے بڑی فرصت سے بنایا ہے

سرو قد، شربتی آنکھیں، گھٹاؤں سے بال، دودھیا رنگت

میں انجانے میں مرعوب ہو کر رہ جاتا ہوں

تم دل کی بھی بڑی اچھی ہو۔ ۔

من کی بات چھپاتی نہیں۔ ۔ کھل کر قہقہے لگاتی ہو

اور میں بجلیاں کوندتے دیکھتا رہ جاتا ہوں

بس کبھی کبھی اِک ڈر سا لگتا ہے

کہتے ہیں۔ ۔ !

زیادہ ہنسنے والوں کو اک تاوان چکانا پڑتا ہے

خوشی کے نغمے گاتے گاتے آنسوؤں میں ڈوب جانا پڑتا ہے

٭٭٭

 

 

 

لانگ ڈرائیو

 

 

بہت دنوں کے بعد۔ ۔

کارہائے روز و شب کو بھلا کر

جانے کیسے آج تمہیں یہ خیال آیا

کہ چلو لانگ ڈرائیو پہ چلتے ہیں

میں نے بے یقینی سے تمہیں دیکھا

قریب آ کر تمہاری آنکھوں میں جھانکا

اور مسکرا دی۔ ۔

 

دل لگا کر تیار ہوئی

آنکھوں میں کاجل، تن پہ روپہلی ساڑھی

خوبصورت بالوں کا جوڑا، ہائی ہیل کی نازک سینڈل

اور کار میں تمہارے پہلو میں آ بیٹھی

تم میری بھرپور تیاری دیکھ کر دھیرے سے مسکرائے

ہاں ہاں مسکرا لو۔ ۔

اگر سر منہ جھاڑ یونہی آ بیٹھتی تو!

تمہاری باندی تمہاری کنیز لگتی

 

آج بہت دنوں کے بعد۔ ۔

تم میرے تھے میں تیری تھی

شب کی نیم تاریکی تھی

چاند کی چاندنی تھی

اور محبت ہمارے درمیاں تھی

خاموشی میں بھی اک چاہت تھی

اور مغنیہ گا رہی تھی۔ ۔

ہر چند سہارا ہے تیرے پیار کا دل کو

رہتا ہے مگر ایک عجب خوف سا دل کو

میری ہی ترجمانی شاید وہ کر رہی تھی

 

ٹریفک سگنل پہ۔ ۔

تم نے میرے لیے گجرے خریدے

اور پیار سے میرا ہاتھ تھام کر پہنا دئیے

غم دوراں سے دور۔ ۔ محبت کی برستی پھوار

 

آئس کریم پارلر پہ تم نے بی ایم ڈبلیو جا روکی

میرا پسندیدہ فلیور آرڈر کیا

پھر ایک بُک سٹور پہ لے گئے

چند من پسند کتابیں !

میری روح کی سرشاری کو کافی تھیں

 

ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد

واپس گھر پہنچے۔ ۔

گاڑی سے اترنے سے پہلے

تم نے میرا ہاتھ تھام لیا۔ ۔

اور یہ کہہ کر میرے دل پر چابک مارا،

تم بزنس ٹور پر اگلے تین ماہ کے لیے یورپ جا رہے ہو

٭٭٭

 

 

 

 

پیغام

 

پھولوں پہ نکھار ہے

بہار ہی بہار ہے۔ ۔

مدھُر بانسری ہولے ہولے بج رہی ہے

اِک پھول میرے جوڑے میں،

گجرے میری کلائی میں،

دلکش کھِلا کھِلا خوبصورت سُرخ گلاب

میری انگلیوں کے بیچ گھوم رہا ہے۔ ۔

ہر چکر میں کچھ پتیاں گر رہی ہیں۔ ۔

نرم و نازک بکھری چلی جا رہی ہیں

شکوہ کناں ہو کر کہہ رہی ہیں،

زندگی کے اوراق بھی تو۔ ۔

ایسے ہی اڑے چلے جا رہے ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

وحشتوں کا ساتھی

 

سائیں سائیں کرتی رات

چہار سُو اندھیرا، سناٹا، ہو کا عالم

تارے کب کے بادلوں کی اوٹ چھپ چلے

آسماں مٹیالا ہونے لگا۔ ۔

رات گئے تک تیرے انتظار کی شمع جلتی رہی

دئیے کی لو دل کو دہکاتی رہی

ہر آہٹ پہ میں چونک اٹھتی

وسوسے، وہم دبے قدموں چلنے لگے

آنکھیں نم ہونے لگیں۔ ۔

اور۔ ۔ اور طوفان آ گیا

بارش کے موتی اِدھر اُدھر بکھرنے لگے

ہوائیں بین کرنے لگیں

در و دیوار پہ سر پٹخنے لگیں۔ ۔

چلو کوئی تو تھا جو میرے دل کا عالم جان گیا تھا

اور میرے ساتھ ماتم منا رہا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

چاند

 

روز چاند دھرتی پہ اتر آتا ہے

چلو آج ہم چاند کے پار چلیں

٭٭٭

 

 

باورا پنچھی

 

آج دن بڑا مٹیالا تھا

دل کا بھنور خاموش تھا

اِک خاموشی تھی، سب ساکن تھا

جیسے کچھ ہونے والا ہو۔ ۔

یکدم شمال مشرق سے گھٹائیں اٹھیں

دیکھتے دیکھتے ہوا کا رقص شروع ہو گیا

پتے زرق برق لہرانے لگے۔ ۔

شاخیں جھومنے لگیں، پھول بن پیئے بہکنے لگے

تتلیاں اڑنے لگیں، ساز بجنے لگے

دل کا بھنور پکار کرنے لگا

اور۔ ۔ من کا باورا پنچھی بولنے لگا

٭٭٭

 

 

تیرے آنے سے

 

چپکے سے بہار آ گئی

دنیا بدل گئی۔ ۔

قوس قزح بکھر گئی

ابھی تھوڑی دیر پہلے۔ ۔

یہ دن یونہی عام سا تھا

دوپہر کی تپتی دھوپ، ہجر کے سائے

یکدم تمہارے آ جانے سے

میرے اندر کا موسم بدل گیا!

ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں، خوشبوئیں اُڑنے لگیں

تپتی دوپہر مہکی شام میں ڈھلنے لگی۔ ۔

میری آنکھوں کے چمکتے جگنو چھپ نہ سکے

اور تم نے مسکراتے ہوئے۔ ۔

میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہولے سے دبا دیا

٭٭٭٭

 

 

 

 

(شگفتہ تحریر)

 

پڑوسن

 

ویسے تو دیوار سے دیوار ملی ہے

پَر پڑوسن جانے کہاں چھپی ہے

 

پھنک رہا ہوں دو دن سے بخار میں

کھانسی کی کھوں کھوں ساتھ لگی ہے

 

نزلہ، کھانسی، سر درد، چکر، بخار

کسی تیمار دار کی ضرورت پڑی ہے

 

ذرا منے کو بھیج میرا حال پوچھا ہوتا

مجھ بیمار کو کھچڑی کی طلب پڑی ہے

 

کسی ڈاکٹر یا حکیم کو ہی بلا دیتیں

آخر کو میری بیماری لاچار پڑی ہے

 

حقِ ہمسائے گی تم کچھ تو ادا کرتیں !

پڑوسی کے حقوق کی کتاب پڑھی ہے

٭٭٭

 

 

 

خط

 

جاناں !

دل چاہتا ہے تمہیں خط لکھوں

پھر تجدیدِ زمانہ کروں۔ ۔

دل کے جذبات صفحہ قرطاس پہ بکھیروں

لفظوں کے موتی چن چن کر پیش کروں

کچھ اپنی کہوں کچھ موسم کی لکھوں

خط کو خوشبو سے معطر کروں

نظروں سے چوم کر سینے سے لگا کر

ڈاکیے کی نذر کر دوں۔ ۔

اور جوابی خط کی گھڑیاں گننا شروع کر دوں

پَر میں جانتی ہوں۔ ۔ تمہیں پہچانتی ہوں

تمہیں خط کھول کر پڑھنے کی فرصت کہاں !

فرقت کے ماروں کا حال جاننے کا وقت کہاں

خط ملنے کا میسج تم مجھے موبائل سے کر دو گے

اور خط کو دراز میں رکھ کر بھول جاؤ گے

٭٭٭

 

 

 

 

روٹھ گئے نا!

 

بے وجہ

بن بات

روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں پیا!

ہاں اب تم کہاں بولو گے

اب تو مجھے ہی بولنا پڑے گا

اپنی اور نظر ڈالنا پڑے گی

اپنی انجانی خطاؤں پر

اپنی وفاؤں پر

اپنے جلوؤں پر

کہاں کمی سی ہوئی ہے

جو تمہارے دل سے ہوتی میرے دل تک پہنچی ہے

٭٭٭

 

 

 

برکھا رُت

 

رِم جھِم گرے ساون

موسموں سے اُلجھتی، طوفانوں سے لڑتی

بادلوں سے ٹکراتی!۔ ۔

آہا۔ ۔ ! برکھا رُت تم چلی آئی

ساون کے جھولے پڑے

بادلوں کے میلے چلے

ہفت رنگ ہر سُو پڑے

بارش گنگناتی آئی۔ ۔

آکاش پہ پنچھی اُڑنے لگے

مدھُر ساز چھڑنے لگے

رِم جھم کے ترانے بجنے لگے

سَت رنگی اوڑھنی لہراتی آئی

نِت نئے پکوان بننے لگے

رنگین جلوے بکھرنے لگے

ہر سُو نظارے دھُلنے لگے

من کی دنیا میں بہار آئی

ساون کے گیت الاپنے

ملہار کے نغمے گونج اُٹھے

میگھا تن پہ چھانے لگے

راتوں کو چاندنی عاشقوں کو جلانے آئی

 

تم کتنی اچھی ہو۔ ۔ !

تن کو بھگونے، من کو نکھارنے

برکھا رانی ! آخر تم چلی آئی۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

گمنام

 

بے دلی سے اٹھائی اِک کتاب

سادہ سَرورق۔ ۔

عام سا عنوان۔ ۔

اوراق پلٹے جانے لگے

ردیف، قافیہ، بندش، خیال

اشعار، نظمیں، غزلیات

دلکش، دلنشیں، حسیں تخیلات

کتاب کے پَنے ختم ہوتے تک

شاعر مشہور ہو چکا تھا۔ ۔ !

غزل لَے کی تال پہ اُترنے لگی

نظمیں ہوا میں اُڑنے لگیں

اشعار دل سے گزرنے لگے

کتاب عام سی نہ رہی !!

اور شاعر گمنامی سے باہر آ چکا تھا

٭٭٭

 

 

 

 

ٹورنٹو

 

ٹورنٹو شہر کی ایک بلڈنگ

دسویں منزل کی ایک کھڑکی

باہر دور تک کا منظر عیاں کر رہی ہے

فطرت اور بلڈنگ

اونچائی اور نیچائی

جانے لوگ یہاں زمین پر رہنا پسند کیوں نہیں کرتے

افق کا کنارہ کہیں کھو سا گیا ہے

نیچے گاڑیوں کی قطار، لوگوں کی بہتات

کوئی بھی فرصت سے نظر نہیں آتا

ملک ملک کے باشندے۔ ۔

سرحدوں سے آزاد ہو گئے ہیں

 

آج صبح اس حبشی عورت نے سلام کہہ کر متحیر کر دیا

مسکرا کر جواب دیتے اسے اپنا سا پایا

امراء کے علاقے بیگم پورہ نے مغلپورہ، باغبانپورہ کی یاد دلا دی

رات کو یہ شہر روشنی کی چادر اوڑھ لیتا ہے

جھِلمل جھِلمل ہر سُو اس کا آنچل لہراتا ہے

دور سے سی این ٹاور اور ڈاؤن ٹاؤن نظر آ رہا ہے

یقیناً وہاں زندگی اور بھی جوان ہو گی

ساقی ہو گا، مے ہو گی، رنگین رات ہو گی

رات گئے تک یہ محفل جوان رہتی ہے

پو پھٹتے ہی دیوالی ختم ہو جاتی ہے

 

زندگی ٹھہر جا، رُک جا، کیا جلدی ہے

آخر کو پھر وہی۔ ۔ !

صبح کی جوگن اور شام کی بیراگن ہی تیری منتظر ہو گی

٭٭٭

 

 

 

 

 

ہمراز

 

میری سوچوں کی رفیق

میرے خیالوں کی امین

وہ ہے میرے قریب قریب۔۔

جو ہر روز ہر پل میں آس پاس رہتی ہے

اپنی اور بلاتی ہے۔ ۔

بارش اس کا تن بھگوتی ہے

چاندنی اسکے مکھڑے پہ اتر آتی ہے

ہوائیں جب مچل مچل کر اسے چھوتی ہیں

تو میں مسکرا دیتی ہوں۔ ۔

جب کبھی دل پہ اَن دیکھا بوجھ آن گرے

تو میں اُسی کے پاس چلی آتی ہوں

اسکے کاندھے پہ سر رکھ کر ڈھیروں نیر بہا دیتی ہوں

تو مہربان بھی ہے ہمراز اور دمساز بھی۔ ۔ !

میرے کمرے کی شمالی کھڑکی۔ ۔ جو ہمیشہ میری منتظر رہتی ہے

٭٭٭

 

 

 

میری ذات ذرہ بے نشان

 

بارش کی اک بوند، موتی آب، اک بلبلہ

آکاش کے نیچے۔ ۔ دھرتی کے اوپر

مست ہوائیں، کالی گھٹائیں، جھومتے بادل

مستی میں لہراتے رہے۔ ۔ گاتے رہے

اور۔ ۔ ابھی ابھی تو میں وجود میں آیا تھا

اپنے ہونے کا احساس پا کر کتنا خوش تھا

روشن چمکتا ہوا بے آب رنگ و روپ

مجھے اک نئی ترنگ دے رہا تھا۔ ۔

ہواؤں پہ تیرتا دھرتی کی اور چلا آ رہا تھا

لہراتا ہوا

گنگناتا ہوا

مسکاتا ہوا

نادان نہیں جانتا تھا !

پستی سے ٹکرا کر میری ذات ذرہ بے نشان ہو جائے گی

چار پل کو ملی زندگی لمحے بھر میں ختم ہو جائے گی

٭٭٭

 

 

 

بازار

 

بازار سے گزریں گے گرچہ خریدار نہیں ہیں

پَر روشنیوں، جلوؤں کی بھیڑ ضرور دیکھیں گے

٭٭٭

 

 

او جانے والے بابو !

 

اجنبی شہر کے اجنبی راستے

مجھے ہولائے رہے ہیں۔ ۔

دل کو سہمائے دے رہے ہیں

جانے کہاں تک ساتھ چلیں گے

کہاں تک مجھ کو چھوڑ کر آئیں گے

اجنبی چہرے، بے نام شہر

بے حس رویے، انجان موسم

سنو، ٹھہرو، ذرا رُک جاؤ !

میرے رہبر، میرے رہنما

مجھے اُس پڑاؤ تک ہی پہنچا دو

جہاں سے ان بھول بھلیوں کا سفر شروع ہوا تھا

٭٭٭

 

 

مجھے تم سے محبت ہے

 

کیسے کہوں !

کاش مجھے یہ کہنا نہ پڑتا

بن کہے تم میرے جذبات سمجھ لیتے

اے باغبان۔ ۔ میں وہی ہوں !

جو تیرے ساتھ ساتھ ہوں

ترے گلستاں کے آنگن میں آباد ہوں

ابھی کل ہی تو میں نے شرارت سے تمہیں آنکھ ماری تھی

اور تم منہ موڑ کر چل دئیے تھے۔ ۔

دن رات گزرتے جاتے ہیں

محبت پنپتی جاتی ہے

اِک کسک اٹھنے لگی ہے

بہار جاتے ہی یہ پھول مرجھا جائے گا

وقت جانے مجھے کہاں لے جائے گا

اور شاید تمہیں۔ ۔ !

اس بے نام محبت کا نشان بھی نہ ملے گا

٭٭٭

 

 

 

 

جانے کی بات مت کرو تم

 

ابھی ابھی تو آئے ہو

جانے کی بات مت کرو تم

 

لحظہ لحظہ کرنیں چمکیں

خوش رنگ منظر پھول کھلے

رَستے تیرے قدموں سے مہکے

ندی میں لہریں مچلتی جائیں

ابھی ابھی تو آئے ہو

تڑپانے کی بات مت کرو تم

تن آسودہ ہوتا جائے

من کا سراب بہتا جائے

ابھی تو تجدید وفا باقی ہے

وعدے وعید باقی ہیں

ہاں ابھی ابھی تو آئے ہو

دل جلانے کی بات مت کرو تم

ابھی پرندوں کی چہکار باقی ہے

جھلمل تاروں کی بارات باقی ہے

جب چاند کا جوبن ابھر کر

ندی کے پانی پہ اپنا عکس دیکھے گا

کائنات کے سب رنگ ٹھہر جائیں گے

تو دل کے منبر پہ بٹھائیں گے تم کو

ابھی ابھی تو آئے ہو

جانے کی بات مت کرو تم

٭٭٭

 

 

 

اُداسی کے دن

 

چلے بھی آؤ میرا دل میری آنکھیں

اور یہ اداس رستے تیرے منتظر ہیں

٭٭٭

 

افق کے کناروں پر شفق کی لالی

پھر تیری یاد مجھے سوگوار کرتی ہے

٭٭٭

 

رُکی رُکی زندگی، ٹھہرا ٹھہرا سماں

تم آ جاؤ تو منظر رواں ہو جائے

٭٭٭

 

 

 

درد

 

زندگی ٹھہر جا

رک جا مڑ کے دیکھ ذرا

اپنے غم خواروں کو

درد کے ماروں کو

کس حال میں بیٹھے ہیں

جیتے ہیں یا مرتے ہیں

اشکبار ہیں کہ مسکراتے ہیں

پُر دامن ہیں یا خالی ہاتھ بیٹھے ہیں

آخر طوفان گزرنے کے آثار تو باقی رہتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

بن بادل برسات

 

جانے کیا بات ہے

بڑی لمبی رات ہے

ہوا بھی ساکت ہے

ماحول گم سم ہو چلا ہے

آنکھیں نم ہو رہی ہیں

بارش اترنے لگی ہے

۔ ۔ بن بادل برسات۔ ۔

شاید اس لیے کہ۔ ۔ تم یاد آ گئے ہو

٭٭٭

 

 

 

زندگی یا سراب

 

ادھوری تمنائیں

خواہشاتِ ناتمام

نامکمل خواب

دامن میں سمیٹ کر زندگی مسکرا رہی ہے

٭٭٭

 

 

 

 

 

محبت ہو بھی سکتی تھی

 

سنو اگر تم۔ ۔

کچھ دن اور انتظار کر لیتے

ان سیدھے سادے رستوں پر چلنا سیکھ لیتے

چاندنی میں نہا کر من کو اُجلا کرتے

ہواؤں کے گیت دل پہ اتار لیتے

تاروں کی چھاؤں میں بیٹھ کر

روشنیوں کی پھوار میں بھیگ کر

پُر سکون احساس سے آنکھیں موند کر

سحر کی روشنی، شب کی تاریکی پر

ذرا غور کرتے۔ ۔

تو شاید دل کے ٹوٹنے اور جڑنے کا سبب جان لیتے

محبت کا کوئی باب تم پڑھ لیتے۔ ۔

ہولے سے دل پر دستک دے لیتے

تو محبت ہو بھی سکتی تھی

٭٭٭

 

 

 

 

تیرے قدموں کے نشاں باقی ہیں

 

جانے والے۔ ۔ مڑ کے دیکھ ذرا

ترے قدموں کے نشاں باقی ہیں

میں جن پہ نظریں جمائے بیٹھی ہوں

سوچ رہی ہوں۔ ۔ !

تری محبت، ترے وعدے، تری وفا کو

جن پہ ہمیشہ بھروسے کی چادر تانے رکھی

طنابیں کمزور بھی پڑیں تو بڑھ کر تھام لیا ان کو

پَر گرہیں کھل گئیں۔ ۔

بادباں الٹ گئے۔ ۔

تری محبت چپکے سے کسی اور کے نام ہونے چل دی

دل نے ماتم منانا چاہا تو یہ ساون بھادوں خاموش تھے

جانے والے۔ ۔ مڑ کے دیکھ ذرا

اب یہ دریا کبھی نہیں بہیں گے۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

تیرے شہر میں

 

اِک مسافر۔ ۔

انجان شہر کی اجنبی مسافت

رات کی تاریکی اور۔ ۔

دھند کی چادر منظر روپوش کر رہی ہے

میں بھٹک کر کہاں آ گیا ہوں

کس کے آستانے آن کھڑا ہوں

یکبارگی دل میں کسک سی اٹھی ہے

اور پاؤں لڑکھڑانے لگے ہیں۔ ۔

میں تو دیار یار کی زمیں پر کھڑا ہوں

برسوں پہلے تم سے بچھڑتے وعدہ کیا تھا

اب کبھی اس راہ پر نہ آؤں گا

پَر دیکھو۔ ۔ دل نے یہ پیماں توڑ دیا

اور ایک بار پھر۔ ۔ !

جدائی کے موڑ پر کھڑا ہوں

٭٭٭

 

 

آبگینے

 

کتنے انمول نایاب ہیں وہ آبگینے

جو نینوں میں سمائے رہتے ہیں

جذبات بن کر دل میں دبے رہتے ہیں

آنسو بن کر باڑ توڑنا چاہتے ہیں

فنا پانا چاہتے ہیں۔ ۔

پلکیں جھپک جھپک کر بند باندھنا پڑتا ہے

دل کو سمجھانا پڑتا ہے۔ ۔

منانا پڑتا ہے۔ ۔

زمانے کا ڈر دینا پڑتا ہے۔ ۔

اِک بے بسی کی چادر اوڑھنا پڑتی ہے

اور اس چادر پہ مسکراہٹ، ہنسی کے پھول ٹانکنا پڑتے ہیں

٭٭٭

 

 

صنم خانہ

 

پاؤں چھونے کو لہریں یوں دوڑی چلی آئیں

جیسی تیری یاد میرے دل کے صنم خانے میں

٭٭٭

 

 

 

کبھی اس ڈگر پر بھی تو جا

 

زندگی تو امتحان لیتی ہے ان کا !

جو صبر کرتے ہیں دل پر جبر کرتے ہیں

حقیقتوں سے مات کھا جاتے ہیں۔ ۔

تیری آنکھوں میں دیکھنے سے گھبراتے ہیں

 

اور تو بھی انھی سے دل لگی کرتی ہے

پیاس کچھ اور بڑھا دیتی ہے۔ ۔

کبھی اس ڈگر پر بھی تو جا!

دنیا جن کی جیب میں اور پاؤں زمین پر نہیں

جو آسمان چھونا، مقدر آزمانا چاہتے ہیں

 

کبھی ان کا بھی تو ظرف آزما

پھر دیکھ!

تُو امتحان لیتی ہے یا دیتی ہے

٭٭٭

 

 

 

اور دن گزرتے رہے

 

کتنی رُتیں بیت گئیں

کتنے موسم گزر گئے۔ ۔

ہائے۔ ۔ اس دل کو سنبھالتے سنبھالتے

بہار کے دن بھی میرے دل کا پھول کھلا نہ سکے

ساون کے جھولے پڑے اور تم آ نہ سکے

وہ بھیگی رُتیں تیرے بن گزر گئیں

وہ شامیں ترے نام گزر گئیں

اور محبت بن باس کاٹتی رہی

چاند کھویا کھویا سا رہا

ساری دنیا خود میں مگن تھی۔ ۔

میں روز ڈبڈباتی آنکھوں سے تکیے پہ سر رکھتی رہی

اور دن گزرتے رہے۔ ۔ !

کتنی گھڑیاں، کتنے لمحے، کتنے پل

بن تیرے ہم تیرے۔ ۔ رہیں گے

آخر کب تک جدائی کے موسم باقی رہیں گے

٭٭٭

 

 

 

شمالی علاقہ جات

 

اپنے دیس میں۔ ۔ !

ایک کونا ایسا ہے

گوشہ جہاں !

حسن کا بیاں !

 

جب سورج منبر سے اُترے

کرنیں اس کا تخت سنواریں

صبح کی لالی چہرے پہ ڈالے

سبز شبنمی آنچل لہراتا جائے

ہاں اپنے ملک میں۔ ۔

ایک سماں ایسا ہے

 

جہاں ندیاں گنگناتی اتریں

پریاں آ کر رقص کریں

ہوائیں سرگوشیاں کریں

منظر نظروں کو خیرہ کریں

ہاں اپنے وطن میں۔ ۔

ایک جہاں ایسا ہے

جہاں برفوں کے لبادے بچھیں

دھیرے دھیرے شمعیں پگھلیں

آنسو ٹپ ٹپ گرتے جائیں

بے موسم طوفان آئیں

گھبرا کر منظر چھپتے جائیں

وہ جائے نظر دل پہ اترتی ہے

ہاں اپنی سلطنت میں۔ ۔

ایک مقام ایسا ہے

جہاں پردیسی پنچھی آتے ہیں

برفوں پہ بسیرا کرتے ہیں

بلندیاں ناپتے ہیں۔ ۔ ٹاپتے ہیں

آسمان کے تارے گنتے ہیں

حسرتِ دل لیے جاتے ہیں

اپنی جائے گاہ میں۔ ۔

ایک مکاں ایسا ہے۔ ۔

ایک نشاں ایسا ہے

شمالی علاقہ جات!

گلگت، ہنزہ، سکر دو، اشکولے،

جہاں ایک مصوّر ایسا ہے

ایک کریم ایسا ہے

ایک بشیر ایسا ہے

ایک مالک الملک ایسا ہے

جس کی رحمت کا وافر نزول ہوا ہے

٭٭٭

 

 

 

وسوسہ

 

جانے کیا ہوا۔ ۔

ابھی ابھی تم میرے پاس سے گزرے ہو

اور میں رُک سی گئی ہوں

سنو!

تمہاری وہ خاص خوشبو مجھ تک پہنچی نہیں

وہ شعاع بھی جانے کہاں رہ گئی

تمہارے بڑھتے قدم میرے معصوم دل کو۔ ۔

انجانے سے وہم میں ڈال رہے ہیں

جاناں، تمہیں مجھ سے محبت تو ہے نا !

٭٭٭

 

 

جب محبت درمیاں نہیں ہوتی

 

جب محبت درمیاں نہیں رہتی۔ ۔

خاموشی کچھ اور بڑھ جاتی ہے

تعلق۔ ۔ بے تعلق ہو جاتا ہے

سناٹا کچھ اور بڑھ جاتا ہے

خواب دھندلے پڑ جاتے ہیں

زندگی رواں نہیں لگتی۔ ۔

پل، لمحے، گھڑیاں

دل پہ دستک دئیے بنا گزرنے لگتے ہیں

اِک بے بسی سی ہوتی ہے

عجب وحشت چھا جاتی ہے

اور تبھی۔ ۔

مجبوری درمیاں آ کر بس جاتی ہے       ٭٭٭

 

ہر خوشی ہے تمہارے لیے

 

پل، لمحے، گھڑیاں

نہیں مانگوں گی۔ ۔

میں تم سے کچھ نہیں مانگوں گی

وہ گھڑیاں جو تیرے ساتھ گزریں

انہیں بھول بھی نہیں پاؤں گی

زندگی میں جو کمی تھی ترا ساتھ پا کر پوری ہوئی

اچانک تیرے بچھڑ جانے کی خبر نے

کانٹوں کی سی کسک دی۔ ۔

شاید تیرا میرا ساتھ یہیں تک تھا

اسی سنگِ میل تک۔ ۔

تم خوش رہو آباد رہو

قیامت تا شاد رہو

میں تم سے کچھ نہیں مانگتی!

محبت دے کر کبھی واپس نہیں لی جاتی

٭٭٭

 

 

 

 

وچھوڑا

 

ہوا تو دھیرے دھیرے چل

آہستہ آہستہ سُبک خرامی سے

میرا وجود کمزور پڑ چکا ہے

بدن کا الاؤ سیاہ پڑنے لگا ہے

 

میرا تن من سجانے والے

سر سبز زرق برق پتے

خزاں کے خوف سے پیلے پڑ چکے ہیں

ذرا سی آہٹ سے ڈرنے لگتے ہیں

اپنے ساتھیوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں

وچھوڑا۔ ۔ دل کو ستانے لگتا ہے

جانے اب کس کی باری ہے

یہ شان و عظمت زمیں بوس ہونے کو ہے

دنیا کی ٹھوکروں میں جا پڑنے کو ہے

وہ ہرا بھرا مقابلہ اب ختم سمجھو

 

اب انتظار کر۔ ۔

اگلی رُت، اگلی بہار، اگلے وچھوڑے کا۔ ۔

٭٭٭

 

 

 

رنگ مدھم پڑ جائیں گے

 

کچھ نہ کہو

کچھ بھی نہ کہو

ورنہ الفاظ بکھر جائیں گے

جذبے بے اثر ہو جائیں گے

رنگ مدھم پڑ جائیں گے

موسم کا سحر چھٹ جائے گا

اِک پشیمانی گھیر لے گی

جذبوں کی زباں گنگ رہ جائے گی

اور تم دیکھتے رہ جاؤ گے

٭٭٭

 

 

اجنبی

 

اجنبی ذرا سوچ لو

ایسا نہ ہو کہ۔ ۔ !

کسی انجان راہ پہ

ہم دوبارہ مل جائیں

٭٭٭

 

 

 

آنچل

 

میری زندگی ہے تو میری آرزو ہے تو

میرا ارمان بھی تو میری جان بھی تو

میرے سُندر سپنوں کے۔ ۔

جال کا اِک اِک تار ہے تو

تمہیں دیکھتی ہوں تو میری آنکھوں میں

اک روشنی بھر جاتی ہے۔ ۔

رگ و پے میں انہونی سی خوشی اتر آتی ہے

تجھے دیکھ میرا آنچل دراز ہو جاتا ہے

تیری زندگی، خوشیوں کے لیے بدست دعا بن جاتی ہوں

میرے اپنے، میرے بیٹے، میرے لعل

میرے لبوں سے تیرے لیے ہر دم

دعاؤں کے پھول برستے ہیں

ان دعاؤں کی لاج رکھنا۔ ۔

اس آنچل کے رنگ کبھی پھیکے نہ پڑنے دینا

٭٭٭

 

 

 

 

ہرجائی

 

کلی کلی منڈلائے بھنورا

جا۔ ۔ ویری، نادان بھنورے

تو اس انتظار میں ہے نا!

کلیاں گھونگھٹ کھولیں تو ان پہ ڈورے ڈالے

جا میں تو سے نہ ہی بولوں۔ ۔

تیری بیباک شرابی نظروں سے بچتی پھروں

بہار آتے ہی۔ ۔

باغبان کی نظر بچا کر آنے والے

کلی کلی منڈلانے والے

گھوں گھوں کر کے گانے والے

ہر طرف تیری بے وفائی کے چرچے

اب یہ گھونگھٹ تیرے لیے نہیں کھلے گا

اسے تو انتظار ہے اک ایسے آنے والے کا!

جو سُبک خرامی سے وفا کے دیپ جلاتا آئے

ہوا کے دوش پہ لہراتا آئے۔ ۔

نرمی سے گنگنائے،

 

سو بار جنم لیں گے

سو بار فنا ہوں گے

اے جانِ وفا پھر بھی

ہم تم نہ جدا ہوں گے

 

اور اس گھونگھٹ والی کے ساتھ

ہمیشہ کے لیے باغ میں بس جائے

٭٭٭

 

 

گر تم برا نہ مانو

 

تو میں یہ کہہ دوں۔ ۔

تم کتنے خود پسند ہو

اَنا پرست ہو

تمہاری دنیا!

تمہارے ہی گرد گھومتی ہے

٭٭٭

 

 

 

بات کچھ بھی نہ تھی

 

تنہائی تھی

خاموشی تھی

تاریکی تھی

اور دیکھ مجھے اکیلا!

جدائی، ہجر، کرب

میرے ساتھ چل دئیے

٭٭٭

 

 

 

کبھی کبھی

 

بنتی بات بگڑ جاتی ہے

منزل بس دو گام لگتی ہے

جیت کی خوشی لڑکھڑانے لگتی ہے

تبھی بازی پلٹ جاتی ہے

اور زندگی جیسے روٹھ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

انجان دل انجان راہیں

 

رونق افروز

رنگِ محفل

روشنیوں کے طوفان

سازوں کی جلترنگ

ہم اِک بار ہی تو ملے تھے

نہ کلام۔ ۔ نہ پیام

اجنبی ملے تھے۔ ۔ اجنبی بن کر بچھڑ گئے

اور یہ دل !

آج بھی ان انجان راہوں پہ بھٹکتا ہے

٭٭٭

 

 

 

شریک سفر

 

میرے ہمدم میرے ساتھی

اس میں کچھ تو خاص بات تھی

کیا۔ ۔ ؟

میں سمجھ نہ پائی سب عام ہی تو تھا

وہی جو اِک شریک سفر میں ہوا کرتا ہے

اِک روز میں نے اس کی آنکھوں میں ڈھونڈنا چاہا

کچھ کھوجنا چاہا، اس کی ذات میں اترنا چاہا

اور مجھے مل گیا، میں سرشار ہو گئی

بے شک وہ عام سا ہے پَر بے وفا نہیں

٭٭٭

 

 

 

ایک نظم

 

میرے کمرے کی کھڑکی پر

بارش کی بوندیں

ریت پہ قدموں کے نشاں کی طرح پڑی ہیں

٭٭٭

 

 

 

 

تیرے در پر

 

وہ دن بھی ہوا کرتے تھے

جب چاند مسکراتا تھا

تارے شوخی سے ٹمٹماتے تھے

گھٹائیں جھوم کے برستی تھیں

چنچل ہوا لہرا کر بھاگ جایا کرتی

قدم بہکے سے آگے بڑھتے تھے

آنکھیں روز اِک نیا خواب بنتی تھیں

نظر ہاتھوں کی لکیروں میں الجھ جاتی تھی

تب اِک روز تن من کا سوداگر۔ ۔ وہ سہرے والا!

چار گواہوں، ان گنت باراتیوں کے ساتھ آیا

اور۔ ۔ دل ان کو دے بیٹھے جو طلبگار ہی نہ تھے

ہائے۔ ۔ کیسے پھوٹے نصیب میرے

اور وہ بھی ان کے در پہ جا کے

٭٭٭

 

 

جدائی

 

مت پوچھو کیا ہوتا ہے

جب دل ٹوٹ جاتا ہے

نظارے تھم جاتے ہیں

ہوائیں سستانے لگتی ہیں

بہاریں منہ موڑ لیتی ہیں

زندگی ویران لگتی ہے

ہاں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے

کچھ ویسا ہی ہوتا ہے

جب ہم سفر ساتھ چھوڑ جائے

زمیں قدموں تلے سرک جائے

اور دل پہلو میں سسک کر رہ جائے

٭٭٭

 

باز گشت

 

چلتے چلتے کبھی کبھی

اِک باز گشت سنائی پڑتی ہے

قدموں کو روکنے لگتی ہے

منزل ہے یا سراب!

یہ خیال دل کو جکڑنے لگتا ہے

قدم سست پڑنے لگتے ہیں

پیچھے بھی کارواں چھٹ چکا

آگے بڑھنے کی چاہ مٹنے لگتی ہے

شاید یہ گردشِ زمانہ تھی

منزل کی اور سفر ہی نہ تھا

٭٭٭

 

 

تم ہارے یا میں۔ ۔ !

 

نہیں جانتی۔ ۔

کیا ہوا، کیوں ہوا، کیسے ہوا؟

دل اس موڑ پہ پہنچ گیا ہے

جب فیصلے کی کوئی گھڑی آ جاتی ہے

دل احساس سے عاری ہو جاتا ہے

کانچ کا نہیں رہتا۔ ۔

پتھر بھی ٹکرا کر پاش ہو جاتے ہیں

اور میں نہیں چاہتی تم سے کوئی حساب

وصل کے دنوں، ہجر کی راتوں کا

زمانے کی گواہی لے کر

تم نے میرا ہاتھ تھاما تھا

اور زندگی پوری لگنے لگی تھی

 

کچھ سال بعد۔ ۔

تمہاری آنکھوں میں جھوٹ کے رنگ اترنے لگے

محبت کی گھڑیاں جھوٹی پڑ گئیں

بے وفائی کا لمحہ حاوی ہو گیا۔ ۔

وصل، ہجر اپنا رنگ کھو بیٹھے

سنو، دو راہا آ چکا ہے

نظریں چرا کر جینے سے۔ ۔

بہتر ہے اب تم اپنی کھوجی نئی راہ پر چلو

نقب لگنے کے بعد مکان اجڑ جایا کرتے ہیں

٭٭٭

 

 

 

محبت کی نہیں تم نے

 

محبت۔ ۔ !

تو لہجے میں نرمی بھر دیتی ہے

دلوں کو جیت لینے کے ساماں کرتی ہے

خودی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ آتی ہے

محبت دل میں بس جائے تو

منزل کی ہر راہ وضع کرتی ہے

رنگوں میں، خوشبو میں، دل کے تاروں میں اتر جاتی ہے

اور وہ۔ ۔ مجھے تم میں نظر کیوں نہیں آتی؟

پھولوں میں تمہارا عکس نہیں

چاند میں تمہاری شبیہ نہیں

تمہارے لہجے میں محبت کی پھوار

پانے کو دل ترستا ہے۔ ۔

تمہارے فولادی بازوؤں میں

محفوظ ہونے کو جی چاہتا ہے

پَر نہ جانے کیوں۔ ۔ !

تم اپنی ذات اپنی اَنا میں جینا چاہتے ہو

تو پھر مجھے کہنے دو نا کہ۔ ۔ ہاں !

وہ زندگی جی ہی نہیں تم نے

محبت کی ہی نہیں تم نے

٭٭٭

 

 

 (شوخی گفتار)

 

لاڑا

 

دوستو پچھلے ماہ چوبیس کا تھا

اس ماہ پچیس کا ہونے جا رہا ہوں

 

بہت دن گزار لیے اکیلے آواگون

سو اس سال لاڑا بننے جا رہا ہوں

 

پھونک لیں سگرٹیں، چبا لیے پان

اب اگلے سال ابا بننے جا رہا ہوں

 

بہت تاڑا حسینوں کو نظریں چُرا کر

اب ماہ جبیں کے نام ہونے جا رہا ہوں

 

قبول ہے، قبول ہے قبول ہے سنتے ہی

حقوق بیوی کے نام کرنے جا رہا ہوں

 

کتابیں رکھ دی ہیں سنبھال سنبھال کر

اب اگلا سبق بیگم سے پڑھنے جا رہا ہوں

 

بہت سن لیا رفیع، کشور اور مہدی حسن کو

اب میڈم نورجہاں کو سننے جا رہا ہوں

٭٭٭

 

 

انتہا پیار کی

 

جدھر دیکھتی ہوں اُدھر تم ہی تم ہو

میری زندگی کا حاصل ارمان ہو

پھولوں میں تم بہاروں میں تم ہو

میری سانس کے ہر تار میں تم ہو

آئینے میں بھی اپنی صورت نہیں ملتی

اس کے ہر عکس در عکس نظر آتے ہو

دل کے سنگھاسن پہ براجمان ہو

ہوش و خرد کی منزلوں پہ نظر آتے ہو

میرے ساحر بس اتنا بتا دو!

یہ محبت کی ابتدا ہے کہ عشق کی انتہا

٭٭٭

 

 

 

 

رنگ باتیں نہیں کرتے

 

کیا کہوں۔ ۔ کیسے کہوں

کیسا دستورِ زباں بندی ہے

دل غم سے رنجور، آنکھوں میں سیلاب اتر آیا ہے

کسی نے پھولوں بھرا رنگین آنچل

میرے سر سے کھینچ ڈالا ہے۔ ۔

مجھے بے رنگ پہناوا دے دیا ہے

سہاگن کی نشانی مٹا دی گئی

میری ذات سمٹ گئی۔ ۔

ہوا ہولے ہولے تھپکی دے رہی ہے

ماحول آہستہ آہستہ سلگ رہا ہے

دیکھ کر میری بے بسی چاند نے بھی اپنی لو مدھم کر دی

اور۔ ۔ اب رنگ بھی باتیں نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

فلیش لائٹ

 

تمنا، خواہش، آرزو

محبت اس کو کہتے ہیں

جو بن کہے دل میں جا بستی ہے

اک آگ دہکا دیتی ہے

چار دن کی چاندنی تن من اڑائے پھرتی ہے

زمیں سے قدم اکھاڑ دیتی ہے

کائنات بازوؤں میں محسوس ہوتی ہے

ہر سُو جگنو چمکتے ہیں۔ ۔

چاند پہلو میں لگتا ہے۔ ۔

ستارے آنچل میں چھپ جاتے ہیں

اچانک اماؤس کی کالی رات چھا جاتی ہے

آنکھیں کھوجتی رہ جاتی ہیں

دل اس محبت کو ڈھونڈتا رہ جاتا ہے

جو فلیش لائٹ کی طرح چمک کر بجھ جاتی ہے

٭٭٭

 

 

 

زندگی یونہی گزر جائے گی

 

سیکنڈ، منٹ، گھنٹے

روز و شب کی طرح

شبِ فراق کی مانند

یونہی رستے سنورتے رہیں گے

جدائی کی شامیں ڈھلتی رہیں گی

تیری زلف یونہی بکھرتی رہے گی

میری نظریں تجھے ڈھونڈتی رہیں گی

دل ملنے کو یونہی بے قرار رہیں گے

اور زمانہ دیوار بنتا رہے گا۔ ۔

کتابوں میں عشق پنپتا رہے گا

افسانے خوبصورت موڑ لیتے رہیں گے

آنکھوں میں وصل کے جگنو اترتے رہیں گے

دامن میں ہجر کے موتی گرتے رہیں گے

ہم سفر راہِ محبت میں ملتے رہیں گے

کچھ بیچ سفر راہ بدل لیں گے۔ ۔

وقت کے بنتے مٹتے قدموں پر

مسافر سفر کرتے رہیں گے

اور زندگی یونہی گزر جائے گی

٭٭٭

 

 

 

برسات میں

 

برسات کی طرح

پہلے ہم برسے تھے

پھر بچھڑے تھے۔ ۔

اور۔ ۔ موسم اندر ٹھہر گیا تھا

اب بھی جب برسات آتی ہے

یہ آنکھیں چھم چھم برستی ہیں

٭٭٭

 

 

 

جدید آرٹ

 

اِک نمائش، آرٹ گیلری، لوگوں کا ہجوم

اے مصور!

تیری تخلیق یہاں کھینچ لائی ہے

شائقین کی بھیڑ بتا رہی ہے

کچھ شاہکاروں نے جنم لیا ہے

میں یہاں وہاں گھوم رہی ہوں

پلکیں جھپک جھپک کر دیکھ رہی ہوں

انوکھے اسکیچ، رنگوں کا امتزاج

کچھ نئی کہانی سنا رہے ہیں

واہ واہ کی بازگشت اٹھ رہی ہے

کیا جدید آرٹ پیش کیا ہے

پس پردہ۔ ۔ !

اک کہانی جنم لیتی محسوس ہو رہی ہے

جا بجا پھیلی لکیریں

ٹپ ٹپ گرتے قطرے

لال رنگ کی بکھری کرچیاں

کچھ اور ہی فسانہ کہہ رہی ہیں

بہت خوب !

اے مصور!۔ ۔ ٹوٹے دلوں، ارمانوں کو

تم نے جدید آرٹ کے لبادے میں پیش کر دیا ہے

٭٭٭

 

 

 

 

موسم کے رنگ بدل گئے

 

کس موڑ پر ملے ہو

وہ سنگِ میل تو گزر چکا

راہِ نشاں بھی مٹ چلا

موسم کے رنگ بدل گئے

شوخ جذبات مدھم ہو گئے

اور خواب بے نور۔ ۔

اچانک۔ ۔ اک روز،

بے موسم بہار کی طرح تم سامنے آ گئے

اور دل دھک سے رہ گیا۔ ۔

زیست بھر کی تلاش ختم ہوئی

دھڑکن بے تاب سی ہوئی

اب زمانہ ہے نہ سماج!

خود ساختہ بیڑیاں ہیں۔ ۔

اور۔ ۔ لمحے پھسل چکے ہیں

اک بار پھر دل کو سمجھانا ہو گا

آئیڈیل کبھی ملا نہیں کرتے

٭٭٭

 

 

 

گھر کے آنگن میں

 

نادان۔ ۔ معصوم بچپن

اور وہ۔ ۔ امرود کا درخت۔ ۔ !

جو گھر کے آنگن میں اِک فرد کی طرح رہتا تھا

ساری خوشیاں سارے دکھ جانتا تھا

دیکھ کر میری تنہائی!

اک ہمدرد کی طرح درد بٹاتا تھا

اپنی اور بلاتا تھا۔ ۔

جس پہ جھولا ڈال کر

میں نے اِک بندھن باندھ لیا

اسکی شاخیں مجھے ہلکورے دیتیں

من کا پنچھی جھوم اٹھتا۔ ۔

ہونٹوں پہ نظمیں بکھرنے لگتیں

دل کی دنیا آباد رہتی

شاد رہتی۔ ۔

میرے بچپن کا وہ پہلا ساتھی!

جس نے میری اور ہاتھ بڑھایا

دینے کو خوشی اپنا مقصد بنایا

اور وقت گزرتا رہا۔ ۔

پتہ ہی نہ چلا۔ ۔ !

کب یہ نظمیں نغموں میں ڈھل گئیں

دیس کی ہوائیں پردیس اڑا لے گئیں

لیکن میں تجھے کبھی نہیں بھول سکی۔ ۔

میری یادوں کے اک گوشے میں تم ہمیشہ جاگزیں رہو گے

٭٭٭

 

 

 

دور کہیں دور ہمیں لے چلو صنم

 

وہ کونسی زمین ہے

جہاں پھول کھلکھلاتے ہیں

بھنورے مسکراتے ہیں

آبشاریں بہتی ہیں

نغمے گنگناتی ہیں

دل خوشی کے ہنڈولے جھولتا ہے

وہ کون سا آسمان ہے

جہاں حدِ نظر آزادی کا پیغام ہے

اپنے ہونے کا احساس ہے

پرندوں کی چہچہاہٹ ہے

اِک لمبی اڑان ہے۔ ۔

 

اور۔ ۔

اک یہ بھی زمین ہے

جو پاؤں کے نیچے سے کھینچ لی جاتی ہے

اک یہ بھی آسمان ہے

جو بے اماں ہونے کا احساس دے کر

دل کو اداس، تنہا کر دیتا ہے

٭٭٭

 

 

 

آشیاں جل گیا

 

نہ جانے کیا ہوا!

آج دنیا بڑی عجب ہے

دل پہلو میں نہیں۔ ۔

نظریں آکاش کو تکتی ہیں

رات بھر ہوا ہولاتی رہی

دھا دھا دھم دھم۔ ۔ چھم چھم بارش برستی رہی

اور میں ٹوٹتا رہا۔ ۔

آندھی چلتی رہی۔ ۔ تنکے بکھرتے رہے

بجلی گر چکی تھی۔ ۔

قیامت کی رات اور نئی صبح!

ہوا، بارش، آندھی کی سازش مسکرا رہی تھی

آشیاں جل گیا گلستاں لٹ گیا

اب اک مخمصے میں ہوں۔ ۔

آج میں دانہ دانہ تلاش کروں کہ تنکا تنکا

٭٭٭

 

 

 

دل پر کیسا وار کیا

 

دل رُک رُک کر دھڑک رہا ہے

جیسے پاتال میں جا گرا ہو۔ ۔

بھیانک موڑ، کھائی میرے سامنے ہے

میں آگے بڑھوں کہ پلٹ جاؤں

یہ اختیار بھی مجھے ہی دیا گیا ہے

ہوئے میرے خواب ریزہ ریزہ۔ ۔

ابھی ابھی تو قیامت ٹوٹی ہے

دل غم سے آشنا ہوا ہے۔ ۔

کہ تم اپنوں کی پسند سے گھر بسا رہے ہو

میری نم بھیگی آنکھیں دیکھ کر تم نے کچھ اور بھی کہا ہے

جھُکی جھُکی نظروں کے ساتھ!

تم اپنا دوسرا حق میرے لیے استعمال کرو گے

جاناں ! تم نے یہ کیسے سوچ لیا

دل پر کیسا وار کیا۔ ۔

میں تمہیں کسی کو پورا تو سونپ سکتی ہوں

لیکن بانٹ نہیں سکتی۔ ۔

٭٭٭

 

 

تم چلے جاؤ گے

 

اور تنہائیاں رہ جائیں گی

دل جیسے بجھ سا گیا ہے

اک گھٹن طاری ہے

ہوا دم سادھے ہوئے

خاموشی کچھ کہنا چاہتی ہے پر کہہ نہیں پاتی

میری زلفیں پریشاں ہیں

تم بھی چپ چپ سے ہو۔ ۔

جی گھبرا رہا ہے جیسے کچھ ہونے والا ہو

یہ ساون بھادوں برسنے کو ہیں

تیرے جانے کے خیال سے !

یہ سماں، یہ دل اور یہ آنکھیں سوگ منا رہی ہیں

٭٭٭

 

 

تیرا آنچل تھام لوں

 

جاناں،

دل چاہتا ہے کچھ دل لگی کروں

کوئی گستاخی کروں

تم بُرا تو نہیں مانو گی۔ ۔ !

گر بڑھ کر تمہارا آنچل تھام لوں

یہ آنچل سپنا بن کر میرے خوابوں میں لہراتا ہے

جس دن تم دھنک رنگ اوڑھتی ہو

میرے خواب رنگین ہو جاتے ہیں

بہار آتے ہی اس کے رنگ جوبن پہ ہوتے ہیں

تمہارے اڑتے آنچل کو تیرا چہرہ چومتا دیکھ کر

مجھے کبھی کبھی جلن ہونے لگتی ہے۔ ۔

دل چاہتا ہے تمہارا آنچل کھینچ کر

میں اپنے چہرے پہ ڈال لوں

اور اپنی آنکھیں بند کر لوں۔ ۔

جاناں میری دعا ہے۔ ۔ !

تیرے آنچل کے یہ ساتوں رنگ ہمیشہ قائم رہیں

٭٭٭

 

 

 

تیرے آنے کا پتہ دیتی ہے

 

دبے قدموں اِک چاپ

خاموشی میں اک صدا

تم کہیں آس پاس ہو

اور میں مسکرا اٹھی ہوں۔ ۔

ہوا تیری خوشبو کو تجھ سے پہلے مجھ تک لے آئی ہے

٭٭٭

 

 

 

سرمئی شام

 

سرمئی شام، دلکش نظارے، بھیگے رستے

جن پر کبھی ہمارے تمھارے قدم پڑے تھے

 

شام ہوتے ہی جلنے لگے تیری یاد کے دئیے

دیکھو کس قدر روشنی ہے میری تنہائی میں

 

شام، پیڑ، تنہائی، اداسی، خاموش راستے

میں اکیلا کہاں سب میرے ساتھ ہی تو ہیں

٭٭٭

 

 

اب ہم نہ مل سکیں گے

 

تم خاموش بجھے بجھے سے ہو

میں بھی چپ اداس سی ہوں

آثار یہی کہہ رہے ہیں۔ ۔

تم ہم کو بھول جاؤ اب ہم نہ مل سکیں گے

بچپن کی نسبت توڑ دی گئی۔ ۔

دلوں میں پیار کی جوت جلا کر بجھا دی گئی

تیرا قصور تھا نہ میرا۔ ۔ !

تاوان بھی ہمی کو بھرنا پڑا

دیکھو۔ ۔ زندگی ہمارے ساتھ کیا دو دو ہاتھ کر گئی

٭٭٭

 

 

 

ایک عرضی

 

اِک عرض میری سننا سرکار

اس سے پہلے کہ لالیاں

چھوڑ کر کراچی آ جاؤں

گلی کے غنڈے سے بچ کر

دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاؤں

اک عرض میری سننا سرکار

 

اس سے پہلے کہ چینی

بلیک بلیک ہو جائے

کھیر، زردہ، فرنی، حلوہ

پھیکا پھیکا ہو جائے

اک عرض میری سننا سرکار

 

اس سے پہلے کہ نام منے کا

مدرسہ سے کٹ جائے

اور منی استانی کے گھر

برتن مانجھتی رہ جائے

اک عرض میری سننا سرکار

 

اس سے پہلے کہ بیوی

کو مجھ پہ تاؤ آ جائے

اور ساس سسر کو

میرے سر پر لا بٹھائے

اک عرض میری سننا سرکار

 

اس سے پہلے کہ میری

سفید پوشی گھبرا جائے

اور مجھ سے سوال پہ

سوال کرتی جائے

اک عرض میری سننا سرکار

 

سن کر اس پہ کان دھرنا سرکار

ملے مجھ غریب کو اک نوکری

تو بے روزگاری شاید کم ہو سرکار

٭٭٭

 

 

 

محبت کم نہ ہو گی

 

کہتے ہیں۔ ۔

وقت گزرنے کے ساتھ

جذبوں میں وہ شدت نہیں رہتی

ملن کے بعد وصل میں راحت نہیں رہتی

پَر تم گھبراؤ مت جاناں،

زمانہ دیکھ لے گا!

ہماری محبت دن بدن پروان چڑھے گی

٭٭٭

 

 

پوچھو میرے دل سے

 

میرے صنم۔ ۔

تو جو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے

تیرے بغیر۔ ۔ !

دنیا فقط سرائے خانہ ہوتی

دل اِک خالی مسکن ہوتا

اور تیرے بن میری زندگی اِک ادھورا خواب ہوتی

٭٭٭

 

 

 

منظر

 

میں جن راستوں سے گزر جاتا ہوں ایک بار

مڑ مڑ کے وہ نظارے بلاتے ہیں بار بار

 

لاکھوں نظروں سے گزرتا ہے ایک منظر

ہر منظر کے لیکن لاکھ شیدائی نہیں ہوتے

 

تم چلے جاؤ گے اور ہم دیکھتے رہ جائیں گے

نم آنکھوں کے منظر نظروں میں ٹھہر جائیں گے

٭٭٭

 

 

مجھے تم سے کچھ بھی نہ چاہیے

 

جانتی ہوں۔ ۔ مانتی ہوں

انسان انا کے جنگل میں مقید ہو جاتا ہے

احساس کا دیا بجھ جاتا ہے

رشتے ناطے طاق پہ جا پڑتے ہیں

تمہاری محبت تمہارے وعدے میرا دل تو لبھا سکتے ہیں

سورج، چاند، ستارے میری جھولی تو بھر سکتے ہیں

لیکن الوہی خوشی نہیں دے سکتے۔ ۔

میرے ہمدم، میرے ہم سفر، مجھے تم سے کچھ بھی نہ چاہیے

ماں، بہن، بیوی، بیٹی، بہو۔ ۔

عورت کی ہمیشہ عزت و تکریم کرنا

تو سمجھو تم نے حوا کی اس بیٹی کا حق ادا کر دیا ہے

٭٭٭

 

آئیڈیل

 

نہ جانے کب۔ ۔ پتہ ہی نہ چلا

گڑیا کا بیاہ رچاتے رچاتے۔ ۔

گڈا۔ ۔ اک ہیولا بن کر اس کے من میں اتر گیا

وقت گزرتا رہا۔ ۔ گڈا روپ دھارن کرتا رہا

لمبا قد، گوری رنگت، سیاہ چمکتی آنکھیں

دن بدن دل کی ڈیمانڈ بڑھنے لگی۔ ۔

فارن ایجوکیٹڈ، ویل مینرز، ہیوی بنک بیلنس

دل اپنی شرائط کی تکمیل چاہنے لگا

آخرکار وہ وقت آ گیا۔ ۔

بیری پر پتھر پڑھنے لگے۔ ۔

کبھی افسانوں جیسا ہیرو متاثر کرتا

کبھی تصور میں دولتمند لانگ ڈرائیو پہ لے جاتا

تعلیم یافتہ اپنی لچھے دار باتوں میں الجھا لیا

اور سنجیدہ مزاج دل کے آس پاس ٹھہرنے لگتا

دولت، تعلیم، شرافت

تعلیم، شرافت، دولت

فیصلہ مشکل ہونے لگا

آئیڈیل لڑکھڑانے لگا

آخر کار۔ ۔ اس نے والدین کی پسند پر سر جھکا دیا

٭٭٭

 

 

 

تم ساتھ ہو جب اپنے

 

جب سے تم میری زندگی میں شامل ہوئے ہو

ہم سفر بن کر۔ ۔ ہم قدم بن کر

میں کچھ بدل سی گئی ہوں۔ ۔

وہی زندگی ہے وہی راز و رموز

پَر تیری محبت۔ ۔ !

مجھے اک اَن دیکھا اعتماد دینے لگی ہے

تری وفا۔ ۔

پا کر میں خود کو فاتح سمجھنے لگی ہوں

تری چاہت۔ ۔

نے مجھے میری نظروں میں معتبر کر دیا ہے

اور۔ ۔ !

میں دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر

جینے کا وصف سیکھ گئی ہوں

٭٭٭

 

 

 

اور خواب بکھر گئے

 

خواب۔ ۔

جو میری تمہاری آنکھوں میں اترے

اک منزل کے ہم سفر بن کر۔ ۔ !

تیرے میرے سپنوں کی تعبیر بڑی خوبصورت تھی

اس شاہکار میں مجھے تمہاری آنکھیں جڑی محسوس ہوتیں

اور تمھیں۔ ۔ میری شبیہ اس میں دکھائی پڑتی

چاند سورج اسے دیکھ شرماتے تھے

میں اسے پلنے میں جھولا جھلاتی

تم اپنی بانہوں میں آکاش کی اور اچھالتے

اس کی روشن آنکھیں ہماری امیدوں کی طرح چمکتیں

ہم نے اپنی زندگی اسے دان کر دی

وقت آگے بڑھ گیا۔ ۔

اور اس خواب نے اپنے لیے اور آنکھیں ڈھونڈ لیں

ایک اور آسمان چن لیا۔ ۔

ہماری محبت کی زمیں سے اپنے پاؤں کھینچ لیے

ہم جو اسے اپنی زندگی میں صفحہ اوّل پہ رکھتے تھے

اس کی زندگی میں آخری باب بن کر رہ گئے

٭٭٭

 

 

 

وقت نے کیا، کیا حسیں ستم

 

روز و شب کی دوڑ میں

کبھی کبھی

وہ وقت یاد آنے لگتا۔ ۔

جب زندگی لڑکپن، جوانی کا سنگم تھی

دُنیا تب بھی وہی جو آج ہے

سوالوں کی آماجگاہ۔ ۔ !

دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں

سامنے اِک کوری سلیٹ

گزرتا وقت معلم ثابت ہوا!

اس نے تمام سوالوں کے جواب ذہن کی دیوار پر اتار دئیے

اندازِ فکر، سوچ، تحمل زادِ راہ بنتے گئے

سلیٹ بھرتی چلی گئی۔ ۔

مانا الہڑ عمر میں یہ ہتھیار میرے پاس نہ تھے

پر آج زندگی مجھے نہیں میں اسے بسر رہی ہوں

٭٭٭

 

 

 

اندر کا موسم

 

چہرہ سپاٹ، لب خاموش

بظاہر کچھ بھی تو نہیں ہے

وہی میں ہوں، وہی دل ہے

وہی عالم ہے، وہی کائنات ہے

بس اندر کی دنیا میں طوفان برپا ہے

بے چینی ہے۔ ۔ الفاظ سُلگ رہے ہیں

کتنا اچھا ہوتا !!

بِن کہے جذبات زباں پا لیتے

اور لفظوں کو رسوا نہ ہونا پڑتا

٭٭٭

 

 

تیرا میرا ساتھ رہے

 

نہ جانے کہاں تم تھے

نہ جانے کہاں ہم تھے

وٹے سٹے کی شادی میں ہم تم آن ملے

ندی کے دو کنارے

رات اور دن۔ ۔

دھوپ اور چھاؤں

میں تجھ سے بیگانی تو مجھ سے انجان

ایک دوسرے کی آنکھوں میں کچھ نظر نہ آتا

پیار کے نام پر ملنے والے۔ ۔ محبت کے تار پہ رقصاں رہے

ادھر ہم تم سمجھوتے، مجبوری کی ڈور لپیٹتے رہے

کسی راہ میں کسی موڑ پر مجھے چل نہ دینا تو چھوڑ کر

میرے ہم سفر۔ ۔ میرے ہم سفر،

دل ہر پل فریاد کناں رہتا۔ ۔

کسی انہونی سے سہما رہتا

زندگی دور کھڑی تماشا دیکھتی رہی۔ ۔

وقت کا دھارا دھیرے دھیرے بہتا رہا

شاخوں پہ کونپلیں کھل گئیں۔ ۔

اور ایک دن محبت کی مالا جپنے والے اسے توڑ بیٹھے

تیرا میرا ساتھ انھی کے فیصلے پہ مربوط ہوا

 

آج میں بہت خوش ہوں۔ ۔ آزاد ہوں

میرے ہم سفر، میرے ہم نفس!

تم نے ہمارے رشتے کو ختم کرنے والے سلسلے روک دئیے

اور یوں۔ ۔ !

محبت ہمارے درمیان آ کر بس گئی

٭٭٭

 

 

 

چاند سے پریت لگائی

 

سات محبت بھرے دن

وصل کی راتیں۔ ۔

دل نے ابھی ابھی تو دھڑکنا سیکھا ہے

آئینہ بھی جسارت کرنے سے ڈرتا ہے

شادی۔ ۔ پیا۔ ۔ پیار۔ ۔ وعدے۔ ۔ دلہن۔ ۔ ،

ابھی ابھی تو سنگم ہوا ہے

تیرا میرا نام ایک ہوا ہے

اک پیار کا نغمہ ہے موجوں کی روانی ہے

فضا میں الوہی سی خوشبو رچی ہے

اچانک۔ ۔ اک انجان سرگوشی ابھرتی ہے

اور میرے اندر جا اترتی ہے۔ ۔

تم مجھے یہاں چھوڑ کر شہر اپنی جاب پہ چلے جاؤ گے

اور میں یہاں سب کے درمیان

اپنے فرائض نبھانے کے لیے رہوں گی

دو تین ماہ بعد۔ ۔ تم آیا کرو گے !

اور وصل کی دو چار راتیں میری جھولی میں ڈال جایا کرو گے

اس شادی کی یہی تو اساس رکھی گئی ہے

او، رے، پیا۔ ۔ ہائے،

یہ تو نے کیا۔ ۔ کیا!

پنچھی کو پیار سے دانہ کھلا کر اس پہ جال پھینک دیا

٭٭٭

 

 

 

شبنم

 

نئی صبح۔ ۔

نئی نوید۔ ۔

دیوار گیر شیشے کی کھڑکی

اِک نیا منظر لیے ہوئے ہے

شاخیں، پتے، درخت انوکھے سے ہو چکے ہیں

نکھرے نکھرے، سنورے سنورے

رات بھر۔ ۔ !

شبنم موتیوں کا پیرہن تیار کرتی رہی تھی

٭٭٭

 

 

تم کتنی معصوم ہو

 

سادہ۔ ۔ خوبصورت

پھولوں کی طرح نازک

سہمی سہمی، گھبرائی گھبرائی

لگتا ہے زمانے کی ہوا سے نا آشنا ہو

جبکہ میں۔ ۔ !

گھاٹ گھاٹ کا پانی پیئے ہوں

ہم تم مثبت، منفی تاروں کی طرح آن ملے ہیں

میں چالاک، ہوشیار، کائیاں سہی

پَر تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں

میں سوداگر بڑا اچھا ہوں

اور سچا مال اپنے پاس رکھتا ہوں

٭٭٭

 

 

داؤ

 

یہ کہاں لے آئی!

تمہاری چاہت ہم کو

تمہاری راحت ہم کو

میٹھے بول،

سُندر باتیں،

مَد بھرے نین،

ان میں کھو سے گئے ہم

کھو کر اپنا ہی پتہ بھول گئے ہم

٭٭٭

 

 

تم نے مجھے بھلا دیا

 

اور ہم نہ تمہیں بھلا سکے

کیسے مان لوں۔ ۔ !

کیسے میرے خیال کو تم نے جھٹک دیا

ان آنسوؤں کو بے مول کیا

ان لمحوں کو پامال کیا

جو زندگی کی جان ہوا کرتے تھے

محبت کا ایمان ہوا کرتے تھے

اک بار۔ ۔ فقط۔ ۔ ایک بار بتا دو

کیا تمہیں مجھے سے وقتی لگاؤ تھا

یا۔ ۔ !

تم نے محبت سے آنکھ چرانا سیکھ لیا ہے

٭٭٭

 

کہیں دیپ جلے کہیں دل

 

اک حسین رات ہو

دل میں تیری یاد ہو

آنکھیں پُر نم

ہجر کا ساتھ ہو

ایسے میں تری محبت کی جاودانی !

اک الوہی طاقت دے

ہونٹوں پہ ترا نام آ کر آنکھیں جگمگا اٹھیں

اور دور دور تک تیری محبت کے دیپ جل اٹھیں

٭٭٭

 

 

 

پورے چاند کی رات

 

چودہ تاریخ

پورے چاند کی رات

اِک محفل سجنے والی ہے

تیرے لیے۔ ۔

آج تیرے دیدار کی گھڑیاں نصیب ہوں گی

سنہری کامدار جوڑا۔ ۔

آنکھوں میں کاجل کے سیاہ ڈورے

بالوں میں مہکتے پھول!

گولڈن ہائی ہیل سینڈل

سب تیاری تیرے لیے۔ ۔ صرف تیرے لیے

بے چین نظریں تجھے ڈھونڈ رہی ہیں

اِدھر اُدھر کھوج رہی ہیں۔ ۔

تبھی تم محفل میں چلے آئے

آنکھیں وصل کے جام پینے لگیں

ساز چھڑے۔ ۔ ۔ نغمے گونجے

اچانک تم اپنی جگہ سے اٹھے

اِک ادا سے محفل پہ نظر کا سکہ اُچھالا

آگے بڑھے اور اک حسین لڑکی کا ہاتھ تھام لیا

اسے ڈانس فلور پر لے گئے۔ ۔

ہولے ہولے قدم تھرکے، دل دھڑکے

تمہارے تھرکتے قدم میرے دل پر جا پڑے

میں جانتی تھی۔ ۔ ۔ تجھے پہچانتی تھی

اگلی صف میں ہی تو بیٹھی تھی

!!! بس اک امید باقی تھی

شاید مقدر کا سکہ آج میری جھولی میں آن گرے !

آخر۔ ۔

تیری محفل میں قسمت آزما کر ہم بھی دیکھیں گے

گھڑی بھر کو تیرے نزدیک آ کر ہم بھی دیکھیں گے

٭٭٭

 

 

 

دوش

 

سنو، تمہارا کچھ دوش نہیں

ہمی خود سے بیگانے

بنا عنوان کے افسانے

تنہائی کے مارے تنہا!

زیست کی رہگزر پہ اکیلے

تمہی کو اپنا سب کچھ مان

اِک ستم کر بیٹھے !!

ہم تم سے محبت کر بیٹھے

٭٭٭

 

 

 

ایک رات کی دلہن

 

شادی والا گھر۔ ۔

رنگین قمقمے، رونق، شور شرابا، میوزک

رات نشیلی رنگ رنگیلی مست ہوا

جا میرے چندا ان کو کہیں سے ڈھونڈ کے لا

رات نشیلی سہی۔ ۔ پر دل گھبرا رہا ہے

ابھی ابھی ساس نے۔ ۔

میرے سر پہ ہاتھ پھیر کر خوشیوں کی دعا دی

نند نے شوخی سے میرا آنچل سرکایا۔ ۔

دیور نے اپنی شرارت کا حق جتایا

مذاق بھری سرگوشیاں ابھر رہی ہیں

دل دھک دھک کر رہا ہے

یہ کمرا یہ سماں، پھولوں بھری سیج۔ ۔

خوبصورتی سے مزین سہی

پر سب اجنبی لگ رہا ہے۔ ۔

میں دھڑکتے دل کے ساتھ شرمائی سی گھبرائی سی

دل کو تھامے بیٹھی ہوں۔ ۔

نہ جانے میرے مقدر کا چاند کیسا ہو گا؟

اور وصل کی رات آ کر بیت گئی

 

ولیمے کی دلہن بنی میں سٹیج پر بیٹھی ہوں

اور وہ میرے ساتھ ہے۔ ۔

وہی۔ ۔ دل نے جسے اپنا سا کہا

ہر سو کہکشاں اتری ہے

ماحول اپنا سا لگ رہا ہے

ساس ماں جیسی دکھائی دے رہی ہے

سسر باپ جیسا شفیق۔ ۔

نند بہن جیسی دوست لگ رہی ہے

دیور چھوٹے بھائی سا نٹ کھٹ،

سب کی شوخی شرارت دل کو بھا رہی ہے

جانتے ہو۔ ۔ یہ سب تیری محبت کا اعجاز ہے

٭٭٭

 

 

 

حُسن والے تیرا جواب نہیں

 

کوئی تجھ سا نہیں ہزاروں میں

ہوا کے دوش پر آتے کسی آوارہ کے بول۔ ۔

میری روح تک میں جا اترے

مانا کہ میں حسین ہوں !

گورا رنگ، سرو قد، گھٹاؤں سے بال

پَر خود پرست نہیں ہوں۔ ۔

یہ حسن میرے لیے قیامت بن گیا ہے

کچھ نظروں میں ستائش ہے

پَر میں خوفزدہ ہوں۔ ۔

ان رنگین مزاجوں سے،

جن کی ہوسناک، ننگی نظروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے

تو میں اپنے گرد لپٹی چادر اور لپیٹنے لگتی ہوں

خود میں سمٹ کر رہ جاتی ہوں۔ ۔

یا خدایا۔ ۔ گر مجھے زلیخا بنایا تھا تو پھر سارے مردوں کو،

یوسف، قیس، رانجھا، فرہاد بنایا ہوتا

٭٭٭

 

 

 (ہم سفر ناول کی ہیروئن خرد)

میرے مقدر کا چاند

 

نظریں جھکائے شرمسار سی بیٹھی ہوں

زباں خاموش ہے کچھ کہنا چاہتی ہوں

میرے ہم سفر۔ ۔

میرے ہم قدم۔ ۔

معاف کر دینا میری اَن دیکھی خطا کو

جو تمہیں اک انجانی ڈگر پہ لے گئی

تمہارا خواب۔ ۔ تمہارا آئیڈیل

شاید کیا یقیناً میں نہ تھی۔ ۔

میں نے کبھی چاند پانے کی تمنا نہ کی تھی

میری جھولی کبھی یوں پھیلی ہی نہ تھی

پر میرے مقدر کا چاند بن کر تم اس میں آن گرے

آنکھیں خیرہ ہوئیں۔ ۔ دل ہلکورے لینے گا

اپنے زور نصیب پہ رشک آنے لگا

پر تمہارے چہرے پر کچھ نہیں ہے

جذبے خاموش ہیں۔ ۔

خاموشی کی چاپ نظر آتی ہے

میری نظریں تمہاری نظروں سے جا ٹکراتی ہیں

تو اِدھر۔ ۔ اُدھر ہونے لگتی ہیں

اک انہونا سا احساس جگاتی ہیں

کسی بے رخی کا۔ ۔ کسی بے انصافی کا

اب اسی سرد آگ میں ہمیں جلنا ہے

گلزار نہیں۔ ۔ کنول کی طرح کھلنا ہے

اگر ہو سکے اے ہم سفر۔ ۔ !

اپنی زندگی کے کچھ پل دان کر دینا ٭٭٭

 

 

 

(ہم سفر ناول کا ہیرو اشعر)

ٹوٹا ہوا تارہ

میری رہگزر پہ۔ ۔

تیرا دور دور تک سایہ نہ تھا

میں تھا۔ ۔ موسم تھا اور رقص میں سارا جنگل تھا

آرزوؤں کے دن تھے۔ ۔ خوابوں کی راتیں

اچانک اِک ڈاکہ پڑ گیا۔ ۔

تمہیں میرے آنگن بھیج کر۔ ۔ سماجی دروازہ بند ہو گیا

میں بھی حیران۔ ۔ تم بھی حیران،

گھبراہٹ میں ہم نظریں جھکاتے رہے، چراتے رہے

خاموشی۔ ۔ تنہائی

تنہائی۔ ۔ خاموشی

پس پردہ ساز بجتے رہے

میں دل کو سمجھا کر جب تیری اور دیکھتا ہوں

تیری آنکھیں جھکی جھکی رہتی ہیں

کبھی کبھی پلکوں میں پروئے موتی نظر آتے ہیں

مجھے اب تم پہ ترس آنے لگا ہے۔ ۔

جو ٹوٹے تارے کی مانند میرے آنگن میں آن گریں

جو ہونا تھا وہ ہوا۔ ۔ تیری خطا نہ میری خطا

بھول جاؤ۔ ۔ سب کچھ

سب باتیں۔ ۔ سب غم

شاید ہمیں اسی سنگ میل پر ملنا تھا

٭٭٭

 

 

(انتظار کی گھڑیاں )

 

دلہن

 

سولہ سنگھار کے تیر سجائے

گھونگھٹ چہرے پہ اوڑھائے

 

آنکھیں جھکائے دیکھ رہی ہوں

دیکھتے دیکھتے مراقبہ میں ہوں

 

سرخ انگارہ شعلہ بن کر

سپنوں کا اک جال بن کر

 

بھسم کرنے کا ارادہ ٹھن کر

نیند چرائے بیٹھی ہوں

 

رات بھی ڈھلتی جائے ہے

میک اپ اترتا جائے ہے

 

آ جا رے میرے راجکمار

کب سے ہے مجھے ترا انتظار

٭٭٭

 

 

(معافی کا خواستگار)

دلہا

 

آج سہانی رات ہے

امنگوں کی بارات ہے

 

چاند سے شرما کر

چاندنی پہ نکھار ہے

 

میں جانوں میری دلہن

تجھے میرا انتظار ہے

 

دل میرا بھی آنے کو

بے کل بے قرار ہے

 

پر یاروں کی یاری کا

عروج اور کمال ہے

 

کیسے آؤں چھوڑ کر ان کو

زن مریدی طعنہ تیار ہے

 

میری جاں خفا نہ ہونا

دولہا معافی کا خواستگار ہے

٭٭٭

 

 

 

مہکے ہیں پھول

 

دیکھا ہے تم نے جدھر جدھر

مہکے ہیں پھول اُدھر اُدھر

کیا سے کیا بنا دیا

تیری چاہت نے

تیری الفت نے

ہم کو ہمی سے بیگانہ کر دیا

تیرا دیوانہ کر دیا۔ ۔

چاند تاروں میں تو دکھے

من کے تاروں میں تو بجے

تیرے بن سُونا سُونا جہاں لگے

گلیاں ویران دِکھیں۔ ۔

صد شکر زندگی تم ہو

میرے ہم سفر تم ہو

٭٭٭

 

 

 

ذرا سن حسینہ نازنیں

 

میری نئی نئی شریک حیات

میں وہ نہیں جو تم نے سمجھ لیا ہے

غصیلا۔ ۔

اَکھڑ۔ ۔

بد مزاج۔ ۔

تم نے میرے لیے یہی سنا ہے نا!

ویسے کچھ غلط تو نہیں ہے

میں اس سے بھی کچھ بڑھ کر ہوں

سنگدل، بے رحم، بے اعتدال

اپنے اصولوں سے میں کنارہ نہیں کرتا

پَر تمہارے چہرے کے رنگ کیوں پھیکے پڑ گئے

سنو۔ ۔ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں

میرا وہ روپ صرف دنیا والوں کے لیے ہے

جہاں سیر پر سَوا سیر کی ضرورت پڑتی ہے

تمہارے لیے تو میرے دل میں بڑا سوفٹ کارنر ہے

جہاں تم مطمئن ہو کر براجمان رہنا

٭٭٭

 

اہم نوٹ

 

اس کتاب کے جملہ حقوق بحق شاعرہ محفوظ ہیں۔

خلاف ورزی کی صورت شاعرہ قانونی چاہ جوئی کا حق محفوظ رکھتی ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

مصنفہ کی اگلی آنے والی کتاب

 

: وہی منزلیں وہی راستے :

(عمرے کا سفرنامہ)

٭٭٭

کائنات بشیر کی دیگر کتابیں

 

چاند اور صحرا( دلچسپ تحاریر پر مبنی کتاب)

سفر ٹورنٹو کینیڈا کا(سفر نامہ)

شام کتنی اُداس ہے (شاعری)

آپ بیتی، جگ بیتی(اردگرد بکھری کہانیاں )

٭٭٭

تشکر: شاعرہ جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید