FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

ہوائے صبح

 

 

 

 

 

 

 

ردا کنول

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

کھڑکی بند تھی اور اُس کے آگے بھاری پردے پڑے تھے، باہر سے آتی آوازیں جانے کیسے راستہ بناتی ہوئی اندر تک آ رہی تھی،گھر میں پہلے کبھی اس قسم کا شور سننے کو نہیں ملا تھا اُسے سمجھ نہیں آیا وہ کیا کرے کمرے میں بیٹھی رہے یا اُٹھ کر باہر چلی جائے ،وہ عجیب طرح کے اضطراب میں مبتلا تھی،بے چینی سے اُٹھ کر وہ کمرے میں ٹہلنے لگی تھی،باہر جتنا شور تھا اُس کے اندر اُتنا ہی سکوت طاری تھا۔

"محبت اندھی ہوتی ہے”، ہمیشہ وہ یہ جملہ سنتی آئی تھی یا پھر پڑھتی آئی تھی لیکن اب وہ اس کا عملی مظاہرہ دیکھ رہی تھی،کھلی آنکھوں کے ساتھ پورے ہوش و حواس میں۔

اُسے اپنے کمرے کے باہر ہلکے قدموں کی چاپ سنائی دی تھی۔

"آ گئیں تم، اتنی دیر لگا دی آج”، امی کمرے میں داخل ہوئی تھیں، اُس کے سامنے کھڑی وہ تشویش سے پوچھ رہی تھیں۔

"اچھا میں کھانا لگاتی ہوں مجھے پتا ہے تُم صبح سے بھوکی پیاسی ہو گی”،امی بولے جا رہی تھیں وہ چپ چاپ یک ٹک اُن کی شکل دیکھ رہی تھی۔ یکدم اُسے احساس ہوا کہ آواز بہت دور سے آ رہی ہے، اُس نے اپنے سوئے ہوئے دماغ کو جھٹکنے کی کوشش کی تھی اور چونک کر اُس نے اپنے ارد گرد امی کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی۔

وہ کمرے کے بیچوں بیچ تنہا کھڑی تھی،باہر سے شور کی آوازیں ابھی تک آ  رہی تھیں ،ایک گہری سانس لیتے ہوئے وہ بیڈ پر بیٹھ گئی تھی۔

یادیں کبھی پیچھا نہیں چھوڑتیں ،اچھی یا بُری وہ ہمیشہ ساتھ رہتیں ہیں، تڑپانے کے لیے، رُلانے کے لیے اور کبھی تو روتے روتے ہنسانے کے لیے ،اُسے بھی یاد نے تڑپا ڈالا تھا۔

"کاش اس وقت وہ باہر نہ ہوتیں ،وہ یہاں ہوتیں میرے پاس،تب مجھے اس طرح اکیلی بیٹھی آنسو تو نہ بہا رہی ہوتی،مجھے اُن کو ’ یاد ‘ نہ کر رہی ہوتی”،اُس کی آنکھوں سے ایک سیل رواں تھا جو جاری تھا۔

"مجھے سمجھ نہیں آتی اب میں کیا کروں ،میں پل بھر میں کیسی بے مول ہو گئی ہوں ،میں نے تو کبھی کسی کا بُرا نہیں چاہا حالانکہ اُس کا بھی نہیں جس کی وجہ سے آج میں اس مقام پر ہوں جہاں مجھے اپنا آپ ہی دھندلا نظر آنے لگا ہے ،پھر وہ کیسے میرے ساتھ وہی سب کر سکتے ہیں جو پہلے بھی ہو چکا ہے۔ مگر امی۔۔ ۔ وہ کیسے میرے وجود سے انکاری ہو سکتی ہیں میں نے تو ہمیشہ اُن کا ساتھ دیا ہمیشہ وہ کیا جو وہ چاہتی تھیں ،پھر اب کیوں ؟، ایسا کیا ہو گیا ان دنوں میں کہ میں اُنہیں بھولنے لگی ہوں”، اپنا سر اُس نے ہاتھوں میں گرا لیا تھا، پانی تیزی سے اُس کے گالوں کو بھگو رہا تھا۔

"مجھے لگتا تھا میں نے زندگی میں کبھی کوئی غلطی نہیں کی۔ کبھی غلط راہ پر قدم جمانے کی کوشش نہیں کی، حالانکہ میرے جیسی لڑکی کے لیے یہ بڑا آسان ہوتا، کیا مواقع مجھے نہیں ملے تھے، مگر میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ میں نے سیدھی اور صاف راہ چنی، مگر کیا ملا مجھے۔ کچھ بھی نہیں کچھ بھی تو نہیں”۔

وہ زار و قطار رو رہی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اس کی آنکھ عجیب قسم کے شور سے کھلی تھی۔ کچھ لمحے وہ خالی الذہنی کے عالم میں بیٹھی رہی تھی۔لیکن پھر یکدم ہی شور کی آواز تیز ہوئی اور وہ ہڑبڑا کر اُٹھ بیٹھی تھی، شور کرنے والے سے وہ اچھی طرح واقف تھی، وہ کسمساتی ہوئی بستر سے اُٹھ گئی تھی، کیونکہ یہ شور بلا شبہ اُسے اُٹھا نے کی غرض سے ہی کیا جا رہا تھا۔

پاؤں میں آڑے تر چھے سلیپر اڑستے ہوئے وہ باہر آ گئی تھی۔

"ارے کالج جانے میں ابھی بیس منٹ ہیں تم اتنی جلدی اُٹھ گئیں”، آدم بھائی نے اُسے دیکھتے ہی مصنوعی حیرت بسے کہا تھا، بیس منٹ سن کر اُس کے رونگٹے کھڑے ہوئے تھے لیکن پھر اُس کی ازلی ہٹ دھرمی عود کر آئی تھی، وہ آرام سے صوفے پر ڈھے گئی، اُسے لیٹتے دیکھ کر آدم بھائی نے پھر سے میز پر چھری کانٹا "کٹا کٹ” والے انداز میں چلانا شروع کر دیا تھا، شور پھر سے شروع ہوا تو امی کچن سے نکل آئی تھیں۔

"اب اگر بستر کی جان چھوڑ دی ہے تو صوفے کی بھی چھوڑ دو۔ اُٹھ جاؤ۔۔ اور جا کر تیار ہو”، امی کی تو جیسے جان ہی جل کر خاک ہو گئی تھی۔ اُسے ڈپٹتے ہوئے وہ میز پر ناشتے کے لوازمات رکھنے لگی تھیں اور وہ اُٹھ گئی تھی،امی کی ایک گھوری ہی اُن دونوں کے لیے کافی ہوتی تھی۔

آدم چونکہ بیٹا تھا اور رفعت اور مغیث کی شادی کے دس سال بعد ہونے والی پہلی اولاد بھی تھا سو وہ اکثر ہی رعایت لے جاتا تھا، سارہ اُن کی آخری اولاد تھی، جتنے عرصے کے وقفے سے آدم پیدا ہوا تھا تقریباً اُتنے ہی عرصہ بعد سارہ اُن کی زندگی میں آئی تھی، آدم سے اُنہیں صرف محبت ہی نہیں تھی بے پناہ محبت تھی،وہ بڑی منتوں مُرادوں سے اُن کی جھولی میں آیا تھا اس لحاظ سے وہ رفعت اور مغیث کا بے انتہا لاڈلا بیٹا تھا، بچپن میں وہ ہر وقت اُن میں سے کسی کی گود میں چڑھا رہتا تھا اور سارہ کے آنے کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی وہ اب بھی کسی سائے کی طرح اُن کے ساتھ لگا رہتا تھا، رفعت کی گود میں پیاری سی گول مٹول بچی پر اُسے بہت پیار آتا وہ گھنٹوں گھنٹوں اُس کو اپنی گود میں اُٹھائے پھرتا رہتا،اُس کے ہاتھ جیسے کھلونا لگ گیا تھا، اُسے چٹاچٹ چومنا اور اُس کے گالوں پر پیار سے چٹکی کاٹنا اُس کا پسندیدہ ترین مشغلہ تھا۔

مغیث ایک فرم میں بطور آرکیٹیکٹ کام کر رہے تھے۔ گھر میں پیسے کی کبھی بھی کمی نہیں رہی تھی۔ رفعت نے بڑی خوشحال زندگی گزاری تھی۔ مغیث نے اُنہیں ہر طرح کا مان اور فخر بخشا تھا۔ آدم عمر بڑھنے کے ساتھ اپنے باپ کے بہت قریب ہوتا گیا تھا۔

گھر میں ہر طرح کا سکون تھا لیکن پھر پتا نہیں ایسا کیا ہوا کہ یہ سکون جیسے رفتہ رفتہ ختم ہونے لگا تھا۔ بے سکونی سی تھی جو ہر طرف چھائی رہتی تھی، آدم نے بہت بار رفعت اور مغیث کو آپس میں آہستہ آواز میں باتیں کرتا دیکھا تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے کسی سنجیدہ مسئلے پر بات ہو رہی ہو لیکن جیسے ہی آدم اُن کے پاس جا کر بیٹھتا وہ با توں کا رُخ بدل دیتے تھے پھر وہ کو ئی شوخ و چنچل بات کرنے لگتے تھے مگر اس میں بھی دونوں کا انداز بجھا بجھا ہی رہتا تھا۔ آدم اُس وقت صرف دس سال کا تھا اُن کے درمیان ہونے والی با توں کی نوعیت سمجھنا بھی چاہتا تو بھی یہ بڑا مشکل تھا۔

مغیث کو پچھلے دس سال سے شوگر کا مسئلہ تھا اور پرہیز نہ کا کرنے کی وجہ سے اُن کا یہ مسئلہ اتنا بڑھ چکا تھا کہ گلے کا پھندا بن گیا تھا،مغیث کو کافی عرصے سے ڈاکٹر ہدایت کر رہے تھے کہ وہ پرہیز کریں اور دوائیوں کا باقاعدگی سے استعمال کریں لیکن ڈاکٹر کی اتنی ہدایت کے باوجود بھی اُنہوں نے کوئی خاطرخواہ اثر نہیں لیا تھا اور اب نوبت یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ اُن کی دائیں ٹانگ نے آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔

رفعت اور مغیث کی پریشانی کی وجہ بھی یہی تھی، ڈاکٹر نے اُن سے آپریٹ کرنے کو کہا تھا اور صرف ایک ہی ڈاکٹر سے اُنہیں یہ سننے کو نہیں ملا تھا بلکہ باری باری وہ شہر کے ہر بہترین ڈاکٹر کے پاس گئے تھے لیکن اُنہیں کہیں سے بھی تسلی بخش جواب نہیں ملا تھا سوائے اس کے کہ وہ آپریٹ کروا لیں۔ لیکن رفعت اور مغیث کی پریشانی صرف یہاں ہی ختم نہیں ہو جاتی تھی، ڈاکٹرز نے صاف الفاظ میں اُن سے کہہ دیا تھا کہ آپریشن ناکام ہونے کی صورت میں اُن کی ٹانگ کاٹی بھی جا سکتی ہے اور یہ خبر جیسے رفعت اور مغیث کے اوسان خطا کرنے کے لیے کافی تھی۔

آدم اور سارہ ابھی بہت چھوٹے تھے سارہ چار سال کی تھی اُس سے وہ کیا کہتے لیکن آدم۔۔ رفعت اور مغیث اُس سے بھی اگر اپنی پریشانی شیئر کرنا چاہتے تو نہیں کر سکتے تھے، مستقبل کے بہت سے خوفناک اندیشے اُن کے سامنے منہ کھولے کھڑے تھے۔

بالآخر نا چاہتے ہوئے بھی مغیث کو آپریٹ کروانا پڑا تھا اور آپریشن کرواتے ہی اُن کے وہ سارے خدشے جو پہلے کسی ناگ کی طرح پھن پھیلائے کھڑے تھے ایک ایک کر کے ڈسنے لگے تھے ،مغیث کا آپریشن ناکام رہا تھا،اُن کی ٹانگ کو ضائع ہونے سے نہ مہنگا ہسپتال بچا سکا تھا نہ ہی رفعت اور بچوں کے آنسو اور دعائیں۔

دنوں میں وہ دو ٹانگوں سے ایک پر آ گئے تھے، زندگی میں اگر کبھی مغیث نے اپنے بارے میں کوئی بُرا خواب دیکھا تھا تو بھی یہ خواب سب سے بھیانک تھا جو وہ کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔

اُن کی کمپنی نے آپریشن کے ناکام ہونے پر اُنہیں برخاست کر دیا تھا اور جیسے ہی اُن کے گھر روپے کا داخلہ بند ہوا آہستہ آہستہ سارے رشتہ داروں نے بھی اُن کا اپنے گھر میں داخلہ بند کر دیا،آدم چھوٹا تھا لیکن اتنا چھوٹا نہیں کہ لوگوں کی خود غرضی اور مطلب پرستی کو نا دیکھ سکتا،وہ دیکھ رہا تھا اور سمجھ بھی رہا تھا اور یہ سمجھنا بعض دفعہ بڑا تکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے ،جب ہر چیز واضح ہو جاتی ہے تو یا تو وہ اپنے حصار میں کر لیتی یا حسرت سے دور کھڑی دیکھتی رہتی ہے۔

مغیث کی دواؤں کا خرچ اتنا زیادہ تھا کہ اب مغیث نے خود رفعت کو دوائیں لانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ دوسری صورت میں بچوں کا سکول جانا مشکل ہو جاتا،آدم اور سارہ شہر کے بہترین سکولوں میں زیر تعلیم تھے اور پھر اس لحاظ سے اُن کی فیسیں بھی ویسی ہی تھیں ،مغیث کی دوائیں نا آنے کی وجہ سے ایک بار رفعت نے اُن سے کہا تھا کہ وہ بچوں کو اُس سکول سے ہٹا کر کسی اور نسبتا کم فیس والے سکول میں داخل کروا دیتی ہیں لیکن مغیث نہیں مانے تھے اُنہوں نے رفعت کو ڈانٹ دیا تھا۔

"بچے کسی اور سکول میں نہیں جائیں گے میں اپنی وجہ سے اُن کی تعلیم پر کوئی کمپرومائز نہیں کر سکتا،میں اپنی دواؤں پر سارا پیسہ خرچ کر دوں اور بچے تعلیم سے محروم رہیں، نہیں رفعت!میں اتنا خودغرض نہیں ہوں کہ بچوں کی زند گی داؤ پر لگا دوں”۔

"لیکن اگر آپ ٹھیک نہیں ہوں گے تو بچوں کا کیا ہو گا۔ تب بھی تو اُن کی زندگی ڈسٹرب ہو گی”، رفعت نے اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

"تم میری فکر نا کرو بس بچوں پہ دھیان دو”، مغیث نے اُلٹا بے فکری سے رفعت سے کہا تھا۔

اور رفعت اُن کے پاس سے اُٹھ گئی تھیں وہ اُن سے مزید بحث نہیں کر سکی تھیں، لیکن مشکلوں نے تو جیسے اُن کے گھر کا راستہ دیکھ لیا تھا، مغیث نے رفعت کو اپنی طرف سے بے فکر رہنے کو تو کہا تھا لیکن اُن کی تکلیف دن بہ دن بڑھتی ہی جا رہی تھی اور اُوپر سے دوائیں نا ملنے کی وجہ سے شوگر مزید بگڑ رہی تھی ایسے میں رفعت کو صرف ایک ہی حل سوجھا تھا۔

رفعت کو شادی کے بعد دوبارہ کبھی میکے سے کچھ مانگنے کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن اب وہ سوالی بن کر ماں باپ کے گھر جا پہنچی تھیں جو کہ اب صرف بھابھیوں کا گھر تھا، ماں باپ ہوتے تو شاید اُنہیں سوالی بننا ہی نہ پڑتا لیکن اب اُنہیں منہ کی کھانی پڑی تھی جب بھائی نے اُن سے کہا تھا۔

"ہم کیا مدد کر سکتے ہیں تمہاری رفعت، تم خود سوچوہمارے اپنے بچے ہیں اُن کے ہزار قسم کے مسئلے ہیں، یہ ساجدہ سے پوچھو ابھی کل یہ چھوٹے والے کا داخلہ کروا کہ آئی ہے آرٹس کالج میں لاکھوں روپے یوں یوں اُڑے ہیں”، طلحہ بھائی نے چٹکی بجائی تھی، ساجدہ بھابھی نے بھی منہ دوسری طرف پھیر لیا تھا، مزید کسی بات کی تو گنجائش ہی نہیں رہی تھی، لیکن پھر بھی باری باری وہ اپنے چاروں بھائیوں کے دروازے پر گئی تھیں اور وہاں بھی اُنہیں تقریباً یہی سب سننے کو ملا تھا، الفاظ کی مختلف ترتیب کے ساتھ۔

لیکن سجاد بھائی کے الفاظ نے انہیں حقیقت میں رُلایا تھا۔

"رفعت یہ شادی تم نے اپنی پسند سے کی تھی اب بھگتو، تب تم سے کہا تھا کہ عاصمہ کے بھائی سے شادی کر لو مگر تم پر تو بھوت سوار تھا، آج اگر اُس سے شادی کی ہو تی تو عیش کر رہی ہوتی عیش”۔

سجاد بھائی نے کوئی لحاظ نہیں کیا تھا اور آدم کے سامنے ہی اُنہیں بے بھاؤ کی سنائی تھیں، رفعت کو شرم سی آ گئی تھی اپنے جوان ہوتے بیٹے کے سامنے اُنہیں ایسی بات سننا کانٹوں پر چلنے کے برابر لگ رہا تھا۔ وہ کمزور سی آواز میں اپنے دفاع میں بس اتنا ہی کہہ سکی تھیں۔

"بھائی جان ان با توں سے اب کیا حاصل آپ مجھے بتائیں مغیث کے علاج کے سلسلے میں میری مدد کر سکتے ہیں یا نہیں”۔

حالانکہ وہ کہنا چاہتی تھیں یہ باتیں آپ کو اُس وقت کیوں نہ یاد آئیں جب آپ میرے گھر آ کر اُسی شخص کے پیسوں سے دعوتیں کھاتے تھے جس میں اب آپ کو کیڑے نظر آ رہے ہیں، تب تو آپ اُسی شخص کے ساتھ لمبی لمبی نشستیں لگایا کرتے تھے کبھی سیا ست پر بات کرتے تھے تو کبھی اکانومی کے اُتار چڑھاؤ پر، آج وہی شخص جب بستر پر لاچار پڑا ہے تو آپ اُس کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کے سوا اور کیا کر رہے ہیں اور اُس کی بیوی کو کس قسم کی باتیں یاد دلا رہے ہیں۔

سجاد بھائی نے اُن کی مدد کرنے سے صاف انکار کر دیا تھا، رکشے میں بیٹھے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر روپڑی تھیں، آدم سہم کر رہ گیا تھا، جو کچھ وہ دیکھ اور سن کر آ رہا تھا وہ کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔اس وقت وہ صرف ایک کام کر سکتا تھا، ماں کے آنسو پو چھنا لیکن وہ یہ بھی نہیں کر سکا تھا، وہ تو ہمیشہ سے وہ لاڈ اُٹھواتا آیا تھا اب کسی کے آنسو پونچھنا بڑا مشکل لگ رہا تھا۔

گھر پہنچنے پر رفعت بہت گم صم ہو گئی تھیں، مغیث کی حالت اُن کے سامنے تھی، آدم اور سارہ کو اُنہوں نے اُس مہنگے سکول سے ہٹوا کر ایک سستے سے گورنمنٹ سکول میں داخل کروا دیا تھا اور اس بار مغیث اُنہیں باز نہیں رکھ سکے تھے، منع کرنے کا کوئی جواز ہی باقی نہیں رہا تھا، وہ اگر اُنہیں کہتے تو کس منہ سے کہتے کیونکہ سکول کی بھاری فیس دینے کے لیے رفعت روپیہ کہاں سے لاتیں سو وہ چپ رہے تھے اور پھر مغیث کی اپنی حالت اس قدر خراب ہو گئی کہ اُن کی دوسری ٹانگ بھی جاتی رہی، مکمل علاج نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹرز نے اُنہیں دوسری ٹانگ کا آپریٹ کرنے کا کہنے لگے تھے لیکن اس بار مغیث ڈٹ گئے تھے اُنہوں نے آپریٹ کروانے سے انکار کر دیا تھا نتیجتا اُن کی دوسری ٹانگ بھی کچھ ہی عرصے میں ناکارہ ہو گئی تھی۔

اس تمام عرصے کے دوران رفعت کی توجہ بچوں سے بالکل ہٹ کر رہ گئی تھی، پہلے کبھی جو آدم باپ اور ماں کے ساتھ چپکا رہتا تھا اب وہ اُن سے کوسوں دور بھاگتا تھا، مغیث کے بہت بار بلانے پر بھی وہ کچھ دیر اُن کے پاس بیٹھ جاتا اور پھر وہاں سے اُٹھ جاتا تھا، وہ ہمیشہ سے پڑھائی میں آؤٹ اسٹیڈنگ رہا تھا مگر یکدم اُس کے گریڈز خراب آنے لگے تھے، وہ ایک بہت ہی مہنگے اور بہترین سکول سے ہٹ کر گورنمنٹ سکول میں گیا تھا اور رفعت کا خیال تھا اُس کے ان خراب گریڈز کی وجہ یہی ہے لیکن وہ یہ بات نظر انداز کر رہی تھیں کہ سارہ بھی اُسی سکول سے ایک نچلے درجے کے سکول میں آئی ہے پھر اُس کی پڑھائی اُس طرح سے ڈسٹرب کیوں نہیں ہوئی جس طرح سے آدم کی ہوئی تھی، شاید وہ اس کی وجہ سارہ کا بہت چھوٹا ہونا سمجھ رہی تھیں اور وہ یہ بھول رہی تھیں جنہوں نے پڑھنا ہوتا ہے وہ ٹاٹ پر بیٹھ کر بھی پڑھ جاتے ہیں اور جو نہیں پڑھنا چاہتے اُن کا مہنگے اور بہترین سکول بھی کچھ نہیں سنوار سکتے۔

آدم نے اکثر ہی گھر سے باہر اپنا زیادہ وقت گزارنا شروع کر دیا تھا، گھر اور گھر میں رہنے والے لوگوں سے اُسے جیسے دلچپسی ہی نہیں رہی تھی، مغیث اُسے دیکھتے تھے اُس کی سرگرمیوں پر کٔڑھتے تھے لیکن وہ اُس سے کچھ کہہ نہیں سکتے تھے کیونکہ اُس سے بات کرنے کے لیے آدم کا اُن کے سامنے ہونا ضروری تھا اور وہ خود اُٹھ تو سکتے نہیں تھے جو وہ اُس کے پاس جانے کی کوشش کرتے یا اگر کبھی وہ اپنی وہیل چیئر کو دھکیلتے ہوئے اُس کے پاس جانے کی کوشش کرتے تو وہ اُٹھ کر وہاں سے چلا جاتا تھا مغیث اس وقت اپنے آپ کو شدید بے بس محسوس کرتے تھے وہ اپنے اُس بیٹے کو ہاتھوں سے نکلتا ہوا محسوس کر رہے تھے جس سے وہ شدید محبت کرتے تھے۔

۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔

"سمجھ میں نہیں آتا گھر کا خرچ آخر کیسے چلاؤں، خرچے ہیں کہ دن بہ دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں”، رفعت بڑبڑاتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی تھیں، وہ ایک دم چو نکے تھے، رفعت الماری کا پٹ کھول کر کھڑی ہو گئی تھیں، مغیث نے بغور اُن کی طرف دیکھا تھا، وہ اس وقت سارہ کو ہوم ورک کروانے میں مصروف تھے۔

"اب کون آیا ہے پیسے مانگنے ؟ مغیث نے ایک ٹھنڈی سانس خارج کی تھی وہ رفعت کے انداز سے ہی سمجھ گئے تھے کہ پھر سے کوئی دروازے پر اپنے پیسے واپس مانگنے آیا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ ہی ہونے لگا تھا لوگ اپنے روپے واپس لینے آنے لگے تھے جن سے مختلف اوقات میں رفعت اور مغیث نے قرض لیا تھا۔

"وہ آپ کے دوست اسلم صاحب کا ملازم کھڑا ہے باہر، دس ہزار قرض لیا تھا تب اُن سے۔ اب اتنے سارے پیسے ایک دم کہاں سے آئیں”، رفعت نے پریشانی سے ہاتھ میں پکڑے نوٹ گنتے ہوئے کہا تھا، مغیث کا سرجھک گیا تھا، ہاتھ میں پکڑی سارہ کی کتاب کو اُنہوں نے بند کر کے میز پر رکھ دیا تھا۔

"یہ کل ملا کر بھی چار ہزار ہیں”، رفعت جیسے رو دینے کو تھیں، وہ نوٹوں کو ایک بار پھر سے گننے لگی تھیں اور پھر جیسے تھک ہار کر وہ نوٹ مٹھی میں دبائے کمرے سے باہر نکل گئی تھیں۔

سارہ نے بہت غور سے اپنے باپ کا چہرہ دیکھا تھا جہاں افسردگی پھیلی تھی اور اُن کا سر تقریباً ڈھلکنے کے سے انداز میں جھکا ہوا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

مغیث کے معذور ہونے کے پورے ایک سال بعد گھر مزید زبوں حالی کا شکار ہو گیا، غربت نے مکمل طور پر اپنے پنجے گاڑ لیے تھے، جو بھی جمع پونجی تھی وہ ختم ہو چکی تھی اور جو قرض کا سلسلہ شروع ہوا تھا وہ بھی ختم ہو گیا تھا کیونکہ قرض دینے والوں نے بروقت روپوں کی وصولی نہ ہو سکنے پر مزید مدد کرنے سے انکار کرنا شروع کر دیا تھا۔رفعت کے اپنے خاندان نے تو جو کیا تھا مغیث کے خاندان والے بھی پیچھے نہیں رہے تھے اور مغیث کے جو دوست تھے وہ بھی باری باری پیچھے ہٹ چکے تھے۔

مغیث کو سمجھ نہیں آتی تھی کہ آخر اب وہ کیا کریں اُن کے ہاتھ میں ایسا کوئی ہنر نہیں تھا کہ وہ بیٹھے بیٹھے کچھ کر سکتے اور یہی حال رفعت کا تھا، وہ نہ تو زیادہ پڑھی لکھی تھیں نہ ہی کسی ایسے کام میں اُن کو مہارت حاصل تھی جس سے وہ چار پیسے کما سکیں، وہ اپنے ماں باپ کی سب سب سے چھوٹی اولاد تھیں، ماں باپ کی لاڈلی اور بہن بھائیوں کی سر چڑھی، پھر کھاتی پیتی فیملی میں پیدا ہوئی تھیں کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ زندگی میں کبھی وہ پائی پائی کو بھی محتاج ہو سکتی ہیں اور خوش قسمتی سے واقعی اُنہیں شادی کے بعد ایک لمبے عرصے تک ایسے کسی حالات سے دو چار نہیں ہونا پڑا تھا اور یوں بیٹھے بٹھائے ایک اُفتاد اُن پر آن پڑی تھی اُن کے ہاتھ پاؤں نہ پھولتے تو اور کیا ہوتا، اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے مغیث کو ایک ہی خیال سوجھا تھا۔

وہ پڑھے لکھے تھے سو اُنہوں نے گھر کے ہی ایک کمرے میں اکیڈمی کھول لی تھی بچے اُن کے پاس پڑھنے آنے لگے تھے۔ اُس سے بہت زیادہ تو نہیں لیکن اتنا تو وہ کمانے لگے تھے آدم اور سارہ کی سکول کی فیسیں ادا کر پاتے اور دو وقت کا کھانا پک جاتا، لیکن وہ جانتے تھے اتنا کافی نہیں تھا زندگی صرف ان ہی دو چیزوں کے ارد گرد نہیں گھومتی ہے اور بھی بہت کچھ تھا جو زندگی مانگتی ہے پھر بھی وہ ثابت قدم رہے تھے، ہمت نہیں ہار رہے تھے۔

"مغیث یہ محلے کے دو چار بچوں سے تو گزارا نہیں ہو گا نا اتنے خرچے ہیں یہ کہاں سے پورے ہوں گے”، رفعت نے پریشانی سے اُن سے کہا تھا، وہ میز پر کھانا رکھ رہی تھیں، آدم اور سارہ بھی وہیں بیٹھے تھے، اب وہ بچوں کے سامنے اس طرح کی با توں کو چھپاتی نہیں تھیں بلکہ اب وہ اُن کے سامنے ہی گھر کے حالات کے بارے میں بات کرنے لگی تھیں۔ مغیث نے ایک دن اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی تھی۔

"رفعت بچوں کے سامنے اس طرح کی باتیں مت کیا کرو اُن کے ذہنوں پر بُرا اثر پڑے گا، لیکن رفعت نے اُن کی بات کو ٹال دیا تھا۔

"بچوں کے سامنے نہیں کریں گے تو پھر کس کے سامنے کیا کریں، اُن کو بھی پتا ہونا چاہیے گھر کس طرح کی مشکلات کا شکار ہے کچھ احساس ذمہ داری تو پیدا ہو اُن میں”۔

اور مغیث خاموش رہ گئے تھے وہ بحث کرنا چاہتے تھے لیکن نہیں کر سکے تھے، بحث کے لیے دل کا زندہ ہونا ضروری ہے، دماغ کا ٹھکانے پر ہونا ضروری ہے وہ دونوں تو جیسے مردہ دل ہو گئے تھے، دماغ جیسے کام کرنے کی صلاحیت ہی کھونے لگا تھا اور اس کا اثر اُن دونوں کے تعلقات پر بھی پڑ رہ تھا، وہ دونوں گھنٹوں وہ خاموش رہتے تھے، باتیں کرنے کا موضوع بھی شاید اُن کے پاس کوئی رہا ہی نہیں تھا۔۔

حال۔۔ خستہ حال تھا۔۔ ۔

ماضی … ماضی کی باتیں کنا اب اچھا نہیں لگتا تھا کیونکہ اُس میں اُن لوگوں کا ذکر تھا جن کے اندر باہر کا اب پتہ چل چکا تھا اور مستقبل۔۔ ۔ وہ تو جیسے کہیں تھا ہی نہیں۔

نمک مر چوں اور آلو کے سالن میں ڈوبا نوالہ اُنہوں نے بمشکل حلق سے نیچے اُتارا تھا کیونکہ رفعت کا سوال بہرحال کاٹ دار ضرور تھا۔

"اپنے ایک دوست کو فون کیا تھا میں نے، اُس سے کہا ہے کہ کوئی کالج کے بچے ٹیویشن پڑھنا چاہتے ہیں تو اُنہیں میرے پاس بھیج دو، اب دیکھو حا می تو بھری ہے اُس نے "۔

رفعت بس ایک ٹھنڈی سانس خارج کر کے رہ گئی تھیں، چند منٹ چاروں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے تھے پھر آدم کی آواز نے خاموشی کو توڑا تھا۔

"میرا ایک دوست پیپر فیکٹری میں کام کرتا ہے کل سے میں بھی وہاں جانا شروع کر دوں گا، آپ کو مزید بچے پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے”، آدم نے جیسے فیصلہ کن انداز میں کہا تھا۔ سب نے ہی چو نک کر آدم کو دیکھا تھا، پھر بلا آخر مغیث ہی بو لے تھے۔

"کوئی ضرورت نہیں ہے میں کر رہا ہوں نا، تم صرف اپنی پڑھائی پر توجہ دو۔کچھ بن جا ؤ گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا”، مغیث نے دو ٹوک منع دیا تھا۔

"اچھا اور میں یہ کچھ بن کیسے جاؤں گا ؟کچھ بننے کے لیے جیب میں ’’کچھ‘‘ ہونا ضروری ہے اور وہ ہمارے پاس ہے نہیں اس لیے آپ مجھے جانے دیں، آج نہیں تو کل بھی تو مجھے مزدوری کرنا ہی ہے پھر آج ہی سے کیوں نہیں”، آدم جیسے بحث کرنے کے موڈ میں تھا، رفعت اور سارہ ہونق بنی اُن کی شکلیں دیکھ رہی تھیں۔

"کل کی کل دیکھی جائے گی۔ کل کیلئے اپنا آج تباہ مت کرو”، مغیث نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا تھا یکدم جیسے اُن کی بھوک اُڑ گئی تھی۔

"تو ٹھیک ہے پڑھائی پر دھیان دے لیتا ہوں لیکن میں تو نہیں جاؤں گا اُس سکول میں۔  بھیجیں مجھے میرے پُرانے سکول میں، میں تو وہیں پڑھوں گا”، آدم نے ضدی لہجے میں نوالہ پلیٹ میں پھینک کر کہا تھا۔

مغیث کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا۔ وہ سن سے بیٹھے اُس کی شکل دیکھتے رہ گئے تھے۔

"آدم تمیز سے بات کرو یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم باپ سے، کہاں سے پورے کریں وہ اُس سکول کے خرچے ؟”، رفعت کا جیسے دماغ گھوم گیا تھا وہ آدم سے اس قدر بد تمیزی کی توقع نہیں کر رہی تھیں، اُس نے کبھی اُن سے اتنی بد تمیزی سے بات نہیں کی تھی، پھر کیا ہو گیا تھا اُسے۔

"گھر کے حالات تمہارے سامنے ہیں پھر بھی تم اس قسم کی باتیں کر کے اُنہیں دکھی کر رہے ہو شرم آنی چاہیے تمہیں”، رفعت نے جیسے اُسے شرمندہ کرنے کی کوشش کی تھی۔

"تو پھر آپ لوگ مجھے کام کرنے دیں۔ جب خود کچھ نہیں کر سکتے تو مجھے کرنے دیں، کیونکہ گھر کے حالات ٹھیک نہیں ہیں”، آدم نے ایک جھٹکے سے اُٹھا تھا اور مزید بد تمیزی سے کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا تھا۔

رفعت اُس کو بس بے بسی سے جاتا دیکھتی رہی تھیں اور مغیث اُن کا سر مزید جھک گیا تھا۔ سارہ آنکھوں میں آنسو لیے بس ماں باپ کے دکھی چہرے دیکھتی رہ گئی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

آدم نے رفعت اور مغیث کی شدید مخالفت کے باوجود اُسی فیکٹری میں کام کرنا شروع کر دیا تھا، سکول جانا وہ چھوڑ چکا تھا لیکن ایک چیز جو رفعت نے اُس میں محسوس کی تھی وہ یہ تھی کہ آدم انتھک محنتی تھا، اُس کے سر جیسے بھوت سوار رہتا تھا کام کرنے کا، ہر وقت وہ کچھ نا کچھ کرتا ہوا ہی پایا جاتا تھا، اُس کے ورکنگ آورز بہت زیادہ تھے، جہاں عام آدمی آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کر سکتا تھا وہ چودہ چودہ گھنٹے کام کیا کرتا تھا، آدم کے کام کرنے سے یہ ضرور ہوا تھا کہ گھر میں آہستہ آہستہ رزق کی برکت آنے لگی تھی لیکن مغیث جیسے شرمندہ سے رہتے تھے، ساری زندگی اپنے جس بیٹے کے اُنہوں نے بے تحاشہ ناز نخرے اُٹھائے تھے اب وہ گھنٹوں فیکٹری میں کام کرتا رہتا تھا اُس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا تھا کہ اپنے معذور باپ کے پاس بھی بیٹھ جاتا اور جب وقت ہوتا تو بھی وہ زیادہ وقت گھر سے باہر ہی گزارنا پسند کرتا تھا۔ رفعت اور مغیث جیسے اُس کی صورت دیکھنے کو بھی ترسنے لگے تھے ایسے میں صرف سارہ تھی جو ہر وقت اُن کے پاس رہتی تھی۔

وقت بڑی تیزی سے گزر رہا تھا سارہ اب کا لج جانے لگی تھی، آدم اُسی طرح فیکٹری میں اپنا زیادہ وقت گزارتا تھا، دن مہینے اور سال بڑی تیزی سے اپنی مدت پوری کر کے گزرتے جا رہے تھے۔

پھر ایسا ہوا کہ آدم کو یکے بعد دیگرے پروموشنز ملنے لگیں پہلے وہ ایک نچلے درجے کا ہیلپر تھا پھر وہ باقاعدہ سپروائزر لگ گیا، خوشحالی بڑھنے لگی تھی، رفعت کی تو جیسے دعائیں رنگ لا رہی تھیں۔ مغیث بھی خوش رہنے لگے تھے، آدم اُن کا فرمانبردار نا سہی ہونہار بیٹا ضرور ثا بت ہوا تھا، بہت کم عرصے میں ہی وہ سپروائزر سے اسسٹنٹ منیجر کے عہدے پر فائز ہو گیا۔

خاندان بھر میں پتا نہیں کیسے اُس کی ترقی کی خبر یں پھیلنے لگی تھیں، آہستہ آہستہ اب وہ تمام رشتہ دار اُن کے گھر آنے لگے جو پہلے راہ چلتے ہوئے اگر آدم کو اپنے سامنے دیکھ لیتے تو منہ موڑ کر گزر جاتے تھے۔

اور پھر جیسے جیسے آدم ترقی کے آسمان چھوتا گیا خاندان بھر کے لوگوں کی زبانوں میں ویسے ویسے شیرینی بڑھتی ہی چلی گئی۔

رفعت کے بھائی جو کب کا بہن کے گھر کا راستہ بھول چکے تھے اب پھر سے یاد کرنے لگے، مغیث کے بہن بھا ئی کا بھی یہی حال تھا، وہ پھر سے معذور بھائی کے واری صدقے جانے لگے تھے۔

لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر نہیں چل سکا تھا، رفعت جو سب کچھ بھلا کر پھر سے بھائیوں کے آگے پیچھے پھرنے لگی تھیں اُن کو جلد ہی ایک بار پھر سے منہ کی کھانی پڑی تھی اور یہی حال مغیث کا تھا۔

بہت جلد ہی اُن کے سامنے اس مہربانی کی وجہ کھل کر سامنے آ گئی تھی۔

آدم دن بہ دن ترقی کی منازل طے کرتا جا رہا تھا اور اُس کے روشن مستقبل میں سب کو اپنے بیٹیوں کے چمکتے ہوئے مقدر نظر آنے لگے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ خاندان میں آدم کے سوا کوئی خوبرو اور لائق لڑکا نہیں تھا، ہر گھر میں ہی تقریباً دو تین لڑکے موجود تھے لیکن وہ سب کہ سب یا تو خاندان میں شادی کرنا نہیں چاہتے تھے یا پھر وہ کہیں اور انٹرسٹڈ تھے اور جو باقی بچتے تھے وہ بلا کے نکمے تھے چنانچہ اُن کے ساتھ تو کوئی بھی اپنی بیٹیوں کو بیاہنا نہیں چاہتا تھا ایسے میں صرف آدم ہی بچتا تھا جو ہر لحاظ سے ایک پر کشش رشتہ تھا جو اُن کی بیٹیوں کے محفوظ مستقبل کی ضمانت بن سکتا تھا۔

آدم اچھا خاصا کماتا تھا اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا لمبے چوڑے بہن بھائیوں کا بھی کوئی جھنجھٹ نہیں تھا لہذا ہر کوئی اپنی د نست میں بڑا مطمئن تھا کپ ان کی بیٹی کی شادی آدم سے ہی ہو گی کیونکہ رفعت اور مغیث کا برتاؤ ہر ایک کے ساتھ بہت اچھا تھا۔ رفعت اور مغیث کو لگتا تھا اُن کے بہن بھائی اُن دونوں کی محبت میں کھنچے چلے آتے ہیں اور جب اُن کو حقیقت کا علم ہوا تھا تو اُن پر جیسے قیامت ٹوٹ پڑی تھی کیونکہ رفعت اور مغیث کے بھائی ایک ہی وقت میں اُن کے گھر آن دھمکے تھے اور جب اُنہوں نے اپنے آنے کا مقصد رفعت اور مغیث کے سامنے رکھا تو وہ دونوں تو ساکت ہی بیٹھے رہ گئے تھے لیکن اُن دونوں کے بھائیوں کے درمیان تو جنگ ہی چھڑ پڑی تھی، وہ دونوں ہی اس وقت اپنی اپنی بیٹیوں کا رشتہ خود آدم کو دینے آ گئے تھے اور رفعت اور مغیث دونوں سُبکی سے مرے جا رہے تھے تھے اور اُن دونوں کو ہی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آخر کس کا ساتھ دیں، رفعت اگر اپنے بھائی کا لایا رشتہ قبول کرتیں تو سسرال والوں کی لعن طعن کا نشا نہ بنتیں ‌ اور مغیث ایسا کرتے تھے تو اپنے بیوی کو اُس کے خاندان کے سامنے چھوٹا کرتے، عجیب سی صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس سے وہ دو چار ہوئے تھے۔

ایسی صورتحال میں اُن کو بس ایک ہی خیال سوجھا تھا کہ وہ فی الحال اُن دونوں کو کسی نا کسی طرح سے ٹال کر واپس بھیج دیں سو اُنہوں نے ایسا ہی کیا تھا، دونوں نے اُن سے کہا تھا کہ وہ سوچ کر جواب دیں گے اتنی جلدی وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ لیکن اُن کی بات وہ لوگ جیسے کچھ اور بھڑکے تھے اُن کا خیال تھا کہ بھائی کا خون سفید ہو گیا تھا جو اُن کو کوئی مثبت جواب دئیے بغیر واپس بھیج رہا تھا، وہ بکتے جھکتے ہوئے واپس چلے گئے تھے لیکن جاتے ہوئے بھی وہ یہ کہنا نہیں بھولے تھے کہ اُنہیں اپنے بھائی سے کتنی اُمیدیں تھیں اور وہ اُس کے بالکل بر عکس نکلے تھے اور یہ بھی کہ وہ اس سب کے با وجود بھی اپنے بھائی سے رشتہ کرنے میں بالکل راضی ہیں۔ اُن کا انداز بالکل ایسا تھا جیسے یہ رشتہ وہ خود نہیں بلکہ رفعت اور مغیث اُن کے گھر لائے ہوں اور وہ یہ رشتہ کر کے جیسے اُن پر کوئی احسان کر رہے ہوں، لیکن بہرحال وہ اُس وقت وہاں سے چلے گئے تھے اور پیچھے رفعت اور مغیث جیسے عجیب طرح کی مشکل میں گھرے رہ گئے تھے۔

تھک ہار اُنہوں نے فیصلہ آدم پر چھوڑ دیا تھا کہ وہ جس سے چاہے شادی کر لے کیونکہ شادی تو اُسی کی ہونی تھی لیکن پھر آدم نے اُن کے کچھ کہنے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا تھا۔

اُسے یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ ماموں اور تایا کی فیملی اُن کے گھر آئی تھی، اُس نے یہ پو چھنے کی کوشش نہیں کی تھی کہ وہ لوگ کیوں آئے تھے وہ جیسے پہلے سے ہی سب کچھ جانتا تھا، اُس نے بس اتنا کہا تھا کہ وہ حسنہ سے شادی کرنا چاہتا ہے، رفعت اور مغیث کو اُس سے کچھ بھی کہنے یا پو چھنے کی ضرورت ہی نہیں رہی تھی وہ جیسے پہلے ہی سب کچھ طے کر چکا تھا۔

حسنہ اُس کے ماموں کی بیٹی تھی، آدم سے اُس کی بات چیت تبھی شروع ہوئی تھی جب سارے خاندان والوں نے اُن کے گھر آنا جانا شروع کیا تھا۔وہ بہت خوب صورت نہیں تھی اور نا ہی زیادہ پڑھی لکھی تھی لیکن آدم جیسے اُس پر دل و جان سے فریفتہ تھا، اپنے ماں باپ کو حسنہ سے شادی کے بارے میں آگاہ کرتے ہوئے اُس نے ایک بار بھی یہ نہیں سوچا تھا کہ اُس کا باپ اپنے بھائی کا کس طرح سامنا کرے گا اُنہیں کس طرح انکار کر پائیں گے وہ بس اپنی پسند اُنہیں بتا کر وہاں سے نکل گیا تھا۔

ایسا نہیں تھا کہ مغیث اس رشتے سے خوش نہیں تھے وہ بس اُس سبکی کا سوچ رہے تھے جو اُنہیں اپنے بھائی کے سامنے اُٹھانی تھی، وہ بس اتنا چاہتے تھے کہ آدم کم از کم اُس وقت اُن کے پاس ہو اُن کا سہارا بن کر اُنہیں اپنے بھائی کے ہر وار سے بچا لے جیسے وہ بچپن میں اُسے تپتی دھوپ سے بچانے کے لیے اُسے اپنے سینے میں چھپا لیتے تھے۔

اولاد روپیہ پیسہ اور آسائشیں دے کر یہ کیوں سمجھتی ہے کہ سارے فرائض پورے کر دئیے، آسائشیں سب کچھ نہیں ہوا کرتیں ’’ساتھ‘‘ اہم ہوا کرتا ہے۔

ماں باپ کے لیے اولاد کا پیار سے بات کر لینا ہی ہر آسائیش پر بھاری ہوتا ہے۔

وہ ساری زندگی اسی زعم میں گزار دیتے ہیں کہ اولاد نے اُن کی ساری آزمائیشوں اور ریاضتوں کا صلہ دے دیا اور اولاد ساری زندگی آسائشوں اور روپے پیسے کے مدار کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔

رفعت اور مغیث نے تایا ابا سے معذرت کر لی تھی اور رفعت کے بھائی کی بیٹی سے آدم کا رشتہ طے کر دیا تھا لیکن تایا ابا نے مغیث کو معاف نہیں کیا تھا اُنہوں نے مغیث کو بہت لعن طعن کیا تھا اور پھر آخر میں اُن سے سارے رشتے تعلق ختم کر لیے تھے، مغیث کی گردن جیسے کچھ اور جھک کر رہ گئی تھی، لیکن پھر بھی وہ بیٹے کی خوشی میں ہر طرح سے شا مل ہوئے تھے وہ اُسے ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔

رفعت کے بھائی نے شادی کی جلدی مچا دی تھی، وہ لوگ جلد از جلد بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہو جانا چاہتے تھے اور رفعت اور مغیث کے لیے جیسے ایک اور مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا، وہ لوگ ابھی اتنی جلدی شادی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے لیکن حسنہ کے گھر والوں کے شدید اصرار پر اُن کو ہامی بھرنی ہی پڑی تھی، سو رفعت اور مغیث نے سوچا تھا کہ وہ سادگی سے شادی کر دیں گے لیکن اس بات پر وہ لوگ راضی نہیں ہوئے تھے، حسنہ اپنے بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی وہ اُس کی شادی میں ہر طرح کے ارمان پورے کرنا چاہتے تھے اور رفعت اور مغیث سے بھی یہی توقع کر رہے تھے اس صورتحال سے اُن لوگوں کی پریشانی جیسے دو چند ہو گئی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

"فیکٹری سے لون لے لیتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں”۔

جب مغیث نے آدم سے اس مسئلے پر بات کی تھی تو آدم نے بے زاری سے اُن سے کہا تھا، لیکن مغیث اُس کی بات سن کر پریشان ہو گئے تھے۔

"فیکٹری سے لون لو گے تو بعد میں اُتارتے رہو گے مزید تنگ ہو گے تم”، وہ جیسے آدم کی پریشانی کا سوچ کر ابھی سے پریشان ہو رہے تھے۔

"تو پھر کیا کروں میں آپ نے کونسا اپنی جوانی میں جائیدادوں کے انبار بنائے تھے جو اب ہمارے کام آئیں گے۔ جو کچھ تھا وہ بھی امی کی بے وقوفیوں کی وجہ سے ختم ہو گیا۔ اب ایسے ہی ہو گا سب کچھ”، آدم نے بغیر کسی لحاظ کے اُن سے کہہ دیا تھا، وہ اب اکثر ہی ایسی باتیں کرنے لگا تھا اور مغیث چپ بیٹھے رہ گئے تھے اُن کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ اپنے دفاع میں کچھ کہنا چاہیے یا آدم کو اس بات کے لیے سرزنش کرنی چاہیے رفعت اچانک ہی کمرے میں داخل ہوئی تھیں اور باپ بیٹے کو خاموش بیٹھا دیکھ کر ٹھٹھک کر رُک گئی تھیں اُن کی شکلیں دیکھ کر ہی وہ سمجھ گئی تھیں کہ موضوع گفتگو کیا ہو سکتا تھا وہ اُن کے پاس ہی بیٹھ گئی تھیں۔

"آدم حسنہ سے بات کرو اُسے سمجھانے کی کوشش کرو کہ اتنا شور شرابا کرنے کی کیا ضرورت ہے سادگی سے شادی کر لیتے ہیں”، اُنہوں نے آدم کو سمجھانے کی کوشش کی تھی لیکن آدم جیسے پھٹ پڑا تھا۔

"امی کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ میں کیسے اُس سے یہ کہوں کہ بھئی ہم تو ٹٹ پونجیے ہیں دھوم دھام سے شادی کرنا ہم افورڈ نہیں کر سکتے اس لیے تم اپنے سارے ارمانوں کو سنبھال کر رکھ لو”۔آدم نے رفعت کا بھی کوئی لحاظ نہیں رکھا تھا اور اُن کو کھری کھری سنا دی تھیں۔

"ہونے والی بیوی کے ارمانوں کا خیال ہے ماں باپ بے شک اس چکر میں پس کر رہ جائیں اور وہ کیا سمجھتا ہے ہمیں اُس کی شادی کا کوئی ارمان نہیں ہے لیکن حالات۔۔”، رفعت یہ سب کچھ آدم سے کہنا چاہتی تھیں لیکن بس سوچ کر رہ گئی تھی، آدم غصے سے بھرا ہوا وہاں سے اُٹھ چلا گیا تھا اور پیچھے رفعت اور مغیث ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتے رہ گئے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

اور پھر آدم اور حسنہ کی شادی اُسی دھوم دھام سے ہوئی تھی جیسی کہ وہ لوگ چاہتے تھے اور اس کے لیے آدم کو صرف فیکٹری سے لون لینا پڑا تھا باقی سارہ خرچہ مغیث نے پورا کیا تھا اور نا صرف مغیث بلکہ سارہ نے بھی اس دوران باپ کے ساتھ ہی ٹو یشنز پڑھانی شروع کر دی تھیں۔

شادی سے کچھ عرصہ پہلے آدم کا رویہ گھر والوں کے ساتھ بے پناہ خوش گوار ہو گیا تھا، سارہ کے ساتھ وہ پہلے کی ہی طرح باتیں کرنے لگا تھا اُس کے لاڈ اُٹھانے لگا تھا، وہ فطرتاً ضدی یا سست قسم کی لڑکی نہیں تھی لیکن پچھلے کچھ عرصے سے آدم کے لاڈ اور توجہ کی وجہ سے ہو گئی تھی۔اُس کا خیال تھا آدم کی یہ خوش مزاجی سدا بہار رہے گی لیکن اُس کی خام خیالی ثابت ہو ئی تھی۔ آدم کے مزاج کی تبدیلی کے ساتھ ہی اُس کی ساری ضد اور ہٹ دھرمی بھاگ گئی تھی۔

مغیث کو ایک بار پھر سے مختلف جگہوں سے قرض لینا پڑا تھا۔ جس کی ادائیگی بعد میں مغیث اور سارہ نے اکیلے ہی کی تھی آدم نے ایک بار بھی اُن سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی تھی وہ جیسے ہر بات سے جانتے بوجھتے ہوئے بھی انجان بن گیا تھا۔ ماں باپ کس پل صراط سے گزر رہے تھے اُس کی بلا سے۔ شادی کے کچھ عرصے بعد اُس نے گھر میں خرچا دینا بند کر دیا اور ہر بار رفعت کے مانگنے پر وہ اُونچی آواز میں اُن پر چلانا شروع کر دیتا تھا، اُس کا کہنا تھا کہ اپنی شادی پر اُس نے خود سارا خرچ اُٹھایا اور اس وقت وہ اُسی قرض کو اُتارنے میں مصروف ہے جو اُس نے باہر سے لیا تھا۔

گھر سے سکون اور اطمینان یکدم جیسے غائب ہو گیا تھا، رفعت کا خیال تھا اُن کی بھتیجی شادی ہو جانے کے بعد اُن کا ساتھ دے گی لیکن ایسا ہوا نہیں تھا اُن کے سارے خیال غلط ثابت ہوئے تھے وہ اُلٹا اُن کے سر پر چڑھ کر ناچنے لگی تھی شادی کر کے تو وہ جیسے پھنس کر ہی رہ گئے تھے۔

آدم کے رویے میں بہت سی تبدیلیاں آنے لگی تھیں وہ حد درجہ بے زار رہنے لگا تھا لیکن ایسا رویہ اُس کا صرف اپنے باپ ماں اور بہن کے ساتھ تھا حسنہ کے ساتھ وہ بالکل نارمل بی ہیو کرتا تھا، ماں باپ کے ساتھ بیٹھنا تو وہ کب کا چھوڑ چکا تھا اب جیسے اُن کے سائے سے بھاگنے لگا تھا شادی کے کچھ عرصہ تک اُس کا یہ رویہ برقرار رہا تھا پھر اُس میں ایک عجیب سی تبدیلی آئی تھی وہ اپنا زیادہ وقت گھر سے باہر گزارتا تھا لیکن اب وہ پچھلے کچھ عرصے سے فیکٹری جانا جیسے بالکل بند کر چکا تھا گھر میں وہ پریشانی سے ادھر سے اُدھر ٹہلتا رہتا رفعت اور مغیث کے پوچھنے پر پہلے تو اُس نے ٹالنے کی کوشش کی تھی لیکن پھر اُن کے اصرار پر وہ اُنہیں سب کچھ بتاتا چلا گیا تھا۔

"امی فیکٹری سے مجھے نکال دیا گیا ہے بہت عرصے سے وہاں میرے خلاف سازشیں ہو رہی تھیں اُن سازشیوں کی با توں میں آ کر مجھے نکال دیا ہے اب فیکٹری والے فوری مجھ سے قرضے کی واپسی کا کہہ رہے ہیں”، آدم نے پریشانی سے اپنا ما تھا مسلا تھا وہ حد درجہ پریشان لگ رہا تھا اور رفعت اور مغیث اُس سے زیادہ پریشان ہو گئے تھے۔

"اتنی آسانی سے باس کسی کی با توں میں تمہیں کیسے نکال سکتا ہے تم اتنے عرصے سے وہاں کام کر رہے ہو”، مغیث نے اہم نکتہ اُٹھایا تھا۔

"ابا لوگوں کو بڑے ٹرک آتے ہیں سب کچھ ہو جاتا ہے یہاں پر”۔ آدم تو جیسے چڑا بیٹھا تھا۔

"پر پھر بھی بیٹا وہ ایسے کیسے۔ میرا مطلب ہے وہ تمہیں قرض کی ادائیگی کیلئے مہلت تو دے سکتے ہیں نا:، رفعت نے بھی کھل کر اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا۔

"امی قرضہ دیتے وقت اُنہوں نے مجھ سے دستخط کروا لیے تھے کہ اگر میں جاب چھوڑتا ہوں یا نکالا جاتا ہوں تو قرض کی ادائے گی فوری کرنا ہو گی، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ آخر اتنے سارے پیسے کہاں سے لاؤں اور پھر جاب بھی چلی گئی”۔

رفعت اور مغیث کی تو جیسے جان سولی پر لٹک گئی تھی آدم کی جاب چلی جانا مزید کسی آزمائش سے کم نہیں تھا کچھ دن مزید اسی پریشانی میں گزر گئے تھے اور جب قرض ادا کرنے کی تاریخ بالکل سر پر پہنچ گئی تو بالآخر آدم نے اُن سے کہا تھا کہ وہ گھر بیچ دیں کیونکہ اس کے علاوہ اُس کے پاس ایسا کوئی سرمایہ نہیں تھا جو اس بُرے وقت میں اُن کے کام آ سکتا۔

رفعت اور مغیث کے لیے گھر کو بیچ دینا کوئی آسان کام نہیں تھا، اسی گھر میں رفعت دلہن بن کر آئی تھیں اور مغیث نے خود یہ گھر بڑے چا ؤ سے بنوایا تھا یہاں پر اُن کے بچوں کے بچپن کی یادیں تھیں یہ گھر ہی اُن کا قیمتی سر مایہ تھا لیکن رفعت اور مغیث کو یہ زہر کا گھونٹ بھی پینا پڑا تھا حالانکہ رفعت چاہتی تھیں کہ آدم حسنہ سے اُس کا کچھ زیور مانگ لے لیکن اس بات کا اظہار وہ مغیث کے علاوہ اور کسی کے سامنے نہیں کر پائی تھیں اور پھر مغیث نے بھی اُنہیں خاموش رہنے کو کہا تھا یہ گھر آدم کے احسانوں کی وہ قیمت تھا جو مغیث پر ادا کرنا واجب تھی۔

اور پھر وہ اپنے بیٹے کو وہ قرض کے نیچے دبا ہوا نہیں دیکھ سکتے تھے مغیث نے آدم کو گھر بیچنے کا کہہ دیا تھا اور اگلے ہی دن آدم ایک آدمی کو لے آیا تھا اور اُس نے فی الفور ہی گھر خرید لیا تھا۔

وہ سب لوگ ایک چھوٹے سے کرائے کے گھر میں آ گئے تھے۔ یہاں آنے کے بعد آدم کو ایک اور فیکٹری میں جاب مل گئی تھی۔

مغیث اور رفعت کا خیال تھا اب سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اُن کا یہ خیال بھی غلط ثابت ہوا تھا، حسنہ کا رویہ اُن کے ساتھ خراب سے خراب تر ہوتا چلا گیا تھا وہ بات بے بات لڑنے کے بہانے ڈھونڈتی تھی چھوٹی چھوٹی با توں پر ہنگامہ کھڑا کرنا اُس کا معمول تھا اور آدم اُس کا بھرپور ساتھ دیتا تھا۔

ایک دن ایسی ہی کسی چھوٹی سی بات پر حسنہ سے تماشہ لگا دیا تھا اور آدم جیسے اپنے ماں باپ پر چڑھ دوڑا تھا۔

اُس نے رفعت اور مغیث کو بے نقط سنائی تھیں اوراسی طرح بکتے جھکتے ہوئے وہ حسنہ کو لے کر گھر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔

رفعت اور مغیث تو جیسے اُس کی اس حرکت پر بھونچکا رہ گئے تھے اُنہوں نے بہت کوشش کی تھی کہ کسی طرح وہ یہاں سے نہ جائیں لیکن وہ لوگ نہیں رُکے تھے۔

سارہ بھائی کی اس حرکت سے حیران پریشان رہ گئی تھی، پچھلے کچھ عرصے سے وہ آدم کی حرکتوں سے دل برداشتہ ضرور ہوئی تھی لیکن آدم کا اس طرح چلے جانا اُس کے لیے کسی شاک سے کم نہیں تھا، وہ آدم سے بے تحاشہ محبت کرتی تھی کیونکہ وہ بھائی تھا اُس کا، سارا بچپن وہ اُس کے نخرے اُٹھاتا رہا تھا، بڑے ہونے پر دونوں کے درمیان ایک دیوار سی ضرور آ گئی تھی مگر محبت تو اب بھی تھی۔

سارہ کا خیال تھا آدم کا غصہ عارضی ہو گا اور وہ صبح ہوتے ہی واپس آ جائے گا لیکن جب نہیں ہوا تو وہ اپنے باپ کے سامنے بیٹھ کر روئی تھی بے تحاشہ، زار و قطار۔ اور مغیث اُس کے آنسو پونچھتے رہ گئے تھے۔ وہ اُسے سمجھانا چاہتے تھے لیکن وہ کچھ نہیں کہہ پائے تھے، حقیقت کہنا آسان تھوڑی ہوتا ہے۔ سووہ چپ رہے تھے اور اُس کا سر تھپکتے رہے تھے۔ سارہ نے اپنے سارے آنسو اُن کے گھٹنے پر سر رکھ کر بہا دیے تھے اور جب وہ چپ ہو گئی تو مغیث نے صرف ایک جملہ کہا تھا اُس سے۔

"اولاد جب اپنے کیے کا احسان جتانے لگے تو اُسے خود سے دور کر دینے میں ہی عافیت ہے”۔

سارہ ناسمجھ نہیں تھی کہ باپ کے کہے ہوئے اس ایک جملے کے اندر چھپی ہوئی اذیت کا اندازہ نہ لگا پاتی۔ اُس ایک جملے نے جیسے اُسے اپنی گرفت میں لے لیا تھا اور پھر وہ کبھی اس کی گرفت سے باہر ہی نہ آ سکی۔ گزرے سالوں میں اُس نے کیا کچھ نہیں کر لیا تھا لیکن یہ جملہ… یہ ایک جملہ۔۔ آج تک اُس کے کانوں میں ایسے ہی گونجتا تھا جیسے وہ ابھی بھی اپنے باپ کے گھٹنوں پر سر رکھ کر آنسو بہا رہی ہو اور اُس کے باپ نے ابھی ابھی یہ الفاظ اُس سے کہے ہوں۔

اُس دن آدم کے چلے جانے کے بعد وہ تینوں جیسے نئے سرے سے اپنے قدموں پر کھڑے ہوئے تھے۔ آدم نا آنے کے لیے گیا تھا یہ بات وہ تینوں سمجھ گئے تھے۔ مغیث اُسی طرح ٹیوشنز پڑھاتے تھے اور سارہ اُن کا ساتھ دیتی تھی لیکن یہ سب کا فی نہیں تھا اس لیے سارہ نے ساتھ ایک اکیڈمی میں بھی پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ لڑ کی ہوتے ہوئے لڑکے سے کہیں بہتر طریقے سے گھر چلانے لگی تھی۔ انٹر کے بعد اُس نے سی اے کرنے کی ٹھانی، کہاں سے اور کیسے کیسے اُس نے ایک پائی پائی جوڑ کر اپنا نام اینرول کروایا، اکیڈمی میں پڑھانا، ماں کا ہاتھ بٹانا، باپ کی خدمت، اُس کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اپنی بے حد ٹف پڑھائی، اُن پانچ سالوں کے بارے میں اُسے کچھ یاد نہیں تھا کہ زندگی علاوہ محنت، انتھک محنت کے بھی کُچھ اور تھی اُس کیلئے، وہ پیدل میلوں کا سفر طے کرتی تھی، مشقتیں کاٹتی تھی کہ اُس کے پاس اگلے امتحان میں بیٹھنے، مہنگی کتابیں خریدنے کیلئے روہے جمع ہو جائیں خیر…سی اے کرتے ہی اُس نے ایک بنک میں جاب کر لی تھی۔ پو سٹ اچھی تھی سو وہ گھر کو اچھے طریقے سے سپو رٹ کر سکتی تھی۔

وہ چھبیس کی ہونے والی تھی رفعت اور مغیث نے بہت کوشش کی تھی کہ وہ اب شادی کر لے لیکن وہ کسی طور بھی راضی نہیں ہوئی تھی تھک ہار کر اُنہوں نے اب اُسے سمجھانا بھی چھوڑ دیا تھا اور مغیث اُس کی شادی کی خواہش کو دل میں لیے ہوئے ہی چلے گئے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سارہ اُٹھی تھی اور بالآخر قدم باہر کی جانب بڑھائے تھے۔

اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر وہ باہر آ گئی تھی، آدم کے تین بچے تھے اور اس وقت وہ ادھر سے اُدھر بھا گتے پھر رہے تھے، رفعت بے پناہ خوش تھیں بالآخر اُن کا بیٹا اتنے سالوں بعد ایک بار پھر سے اُن سے ملنے جلنے لگا تھا، پہلے وہ اکیلا ہی آتا تھا اور کچھ دیر بیٹھ کر چلا جاتا، مغیث کی وفات پر بھی وہ حسنہ اور بچوں کو نہیں لا سکا تھا کیونکہ وہ لوگ تب بیرون ملک اپنی چھٹیاں گزارنے کے لیے گئے ہوئے تھے، آج پہلی بار ہوا تھا کہ وہ بیوی بچوں کو اُن سے ملوانے لایا تھا اور رفعت جیسے پھولے نا سما رہی تھیں۔

سارہ آ کر لاؤنج کے صوفے پر بیٹھ گئی تھی، رفعت آدم کی بیٹی کو پُرانی البم کھول کر دکھا رہی تھیں اُنہوں نے سارہ کے وہاں آنے کو نو ٹس نہیں کیا تھا وہ بے پناہ جوش کے ساتھ علیزہ کو تصویریں دکھانے میں مگن تھیں، حسنہ کچن میں گھس کر نجانے کیا بنا رہی تھی آدم اپنے دونوں بیٹوں کے ساتھ کیرم کھیلنے میں مصروف تھا یکدم سارہ کو لگا جیسے وہ اپنے گھر میں نہیں بلکہ اجنبیوں کے گھر میں ان چاہا مہمان بن کر بیٹھی ہو۔ اُسے اپنا آپ کوئی فالتو چیز کی طرح لگا۔ جس کی مدت پوری ہونے کے بعد وہ سب کے لیے بیکار ہوتی ہے۔

اُس نے یاسیت سے گھر کے در و دیوار کو دیکھا تھا۔ گھر کی یہ چھت اور دیواریں بنا نے کے لیے اُس نے اپنی زندگی میں کیا کیا جتن نہیں کر چھوڑے تھے اور یہی سب اُسے اجنبیوں کی طرح کیوں دیکھ رہی تھیں۔ کیا دیواریں، گھر کبھی اپنے نہیں ہو سکتے ؟؟وہ بس سوچ کر رہ گئی تھی۔

اُسے بہت سال پہلے کی وہ کالی بھیا نک رات یاد آئی تھی۔

تین ماہ سے وہ گھر کا کرایہ ادا نہیں کر پائے تھے۔ اور کرائے دار کے بار بار مہلت دینے پر بھی وہ اتنی رقم کا اکٹھی کر سکے جس سے گھر کا کرایہ ادا ہو جاتا ایک شام مالک مکان نے اُنہیں گھر سے نکال باہر کیا تھا۔ مغیث کو ایسے موقعے پر صرف آدم یاد آتا تھا لیکن اُس کا کوئی کانٹیکٹ نمبر اُن کے پاس نہیں تھا۔ جاتے ہوئے وہ سارے تعلق ختم کر گیا تھا اور پھر اُس نے کبھی اُن لوگوں کا حال دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔

مغیث اپنے ایک پُرانے دوست کے پاس چلے گئے تھے لیکن اُن کی بھی انیکسی اس وقت خالی نہیں تھی سو مغیث کے اُس دوست نے اُنہیں کواٹر میں ٹھہرا دیا تھا۔ وہ رات کسی بھیانک خواب سے زیادہ ڈراؤنی تھی۔ جب بھری دنیا میں سر چھپانے کو اپنی چھت نہیں ہوتی تو باقی ہر شے بڑی بے معنی سی ہو جاتی ہے۔

اُس رات کو ئی بھی سو نہیں پایا تھا وہ تینوں اپنی اپنی جگہ پرسوچوں کے بھنور میں پھنسے ہوئے تھے، سارہ نے سوچا تھا جب تک ماں باپ خود کرتے تھے خوش حال اور مطمئن تھے جب اولاد پر انحصار کرنے لگے تھے تو سڑک پر آ گئے تھے۔

"کیا ہوا ایسے کیوں بیٹھی ہو؟”، وہ چونکی تھی امی اُسے ہلا کر پوچھ رہی تھیں۔

خالی نظروں سے اُس نے اپنے گھر کو دیکھا تھا۔ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے وہ صوفے سے اُٹھ گئی تھی، اُسے احساس ہوا کوئی اُس کی طرف دیکھ رہا تھا، سر اُٹھا نے پر اُسے ایک کونے میں علیزہ بیٹھی ہوئی نظر آئی تھی وہ اُسی کی طرف دیکھ رہی تھی سارہ کو سمجھ نہیں آئی وہ اُس تیرہ چودہ سال کی بچی کو کیا ایکسپریشن دے، وہ دونوں پہلی بار ایک دوسرے کو اتنے قریب سے دیکھ رہی تھیں۔ سارہ وہاں سے خاموشی سے واپس پلٹ گئی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

"امی آپ کیسے وہ سب بھول سکتی ہیں آپ کو یاد نہیں انہوں نے کیا کیا تھا ہمارے ساتھ۔ ابا کے ساتھ”، اُس نے زور دیتے ہوئے کہا تھا امی آرام سے اُسی طرح کچن کاؤنٹر پر رکھی ہوئی سبزیاں کاٹتی رہی تھیں۔ سارہ کو افسوس ہوا تھا۔ ایسے کیسے وہ اتنے آرام سے وہ سب کچھ بھلا کر پھر سے آدم کے ساتھ روابط بڑھا سکتی تھیں۔

"ابا آخری وقت تک بھائی کو یاد کرتے رہے تھے لیکن یہ نہیں آئے تھے اور آئے بھی تو تب جب "، سارہ کے لہجے میں افسردگی ہی افسردگی تھی۔

"ماں ہوں میں اُس کی محبت کرتی ہوں اُس سے”، رفعت نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے اُس سے کہا تھا۔

"اُن کی سب خطا ؤں کے با وجود؟”، سارہ نے جیسے اُنہیں سر زنش کرنے کی کوشش کی تھی۔

"ہاں اُس کی سب خطاؤں کے باوجود بھی اور صرف اُس سے ہی نہیں اُس کے بچوں سے بھی نفرت کر ہی نہیں سکتی میں اُن سے "، رفعت بے بسی کی انتہا پر تھیں۔

"چلیں پھر تو قصہ ہی ختم ہوا نا”، اُس نے اپنے دونوں ہاتھ ہوا میں اُٹھائے تھے۔ "لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دوں امی آپ جتنی بھی محبت کر لیں اُن سے وہ کبھی آپ کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے”، سارہ نے اُنہیں باور کروانے کی کوشش کی تھی۔

"ماں کی محبت بدلہ نہیں مانگا کر تی”، رفعت نے اتنے سکون سے کہا کہ وہ چند ساعتوں کے لیے ساکت رہ گئی۔

یکدم اُس کا دل چاہا وہ امی کو وہ سب بتا دے جو مغیث جانتے تھے جو وہ خود جانتی تھی۔ لیکن اُسنے اپنے اندر اتنی ہمت نا پائی کہ رفعت کو مزید دکھی کرنے والی کوئی بات کرتی۔

اُسے آج بھی وہ کرب یاد تھا جو اسنے مغیث کے چہرے پر دیکھا تھا۔ جب اُس نے اُنہیں بتانے کی کوشش کی تھی کہ آدم نے اُن کے ساتھ کیا کیا تھا۔

"ابا آدم بھائی نے ہم سے جھوٹ بولا”۔

ایک دن جب سارہ اکیڈمی سے واپس آئی تو شدید غصے میں تھی۔ وہ تن فن کرتی ہوئی باپ کے سامنے جا کر کھڑی ہو گئی تھی۔ اکیڈمی میں اُس کے ساتھ ایک لڑکی پڑھاتی تھی جو آدم کے اُسی دوست کی بہن تھی جس نے اُسے فیکٹری میں کام دلوایا تھا، با توں کے دوران اُس لڑکی نے اُسے بتایا تھا کہ آدم آج بھی اُسی فیکٹری میں کام کرتا تھا لیکن سارہ چو نک پڑی تھی اور پھر اُسے پتہ چلا تھا فیکٹری سے نکالے جانا صرف ایک بہانہ تھا آدم نے اُن کے گھر کو بیچ کر اچھے علاقے میں ایک اپنا گھر خرید لیا تھا۔ اور اُس کا اس طرح گھر سے چلے جانا بھی ایک سازش تھا تا کہ رفعت اور مغیث کو اُس کی حرکت کا پتہ نا چل سکے۔ اُس نے سارے تعلق بھی اسی وجہ سے ختم کر لیے تھے۔

سارہ شدید غصے کے عالم میں گھر آئی تھی۔ وہ اپنے ہی گھر سے نکالے گئے تھے اور اب کسی اور کے گھر میں دھکے کھا رہے تھے۔ وہ غصہ نہ کرتی تو کیا کرتی۔

"اُن کو کم از کم یہ نہیں کرنا چاہیے تھا”، ساری بات اُنہیں بتا نے کے بعد سارہ نے اُن سے کہا تھا۔”کوئی انسان اپنی بیوی کے بہکاوے میں اس حد تک کیسے آ سکتا ہے”۔ اُس نے حیرانی سے باپ سے کہا تھا۔

"کوئی انسان کسی کے کہنے پر کچھ نہیں کرتا ہے بیٹا یہ تو اُس انسان کی اپنی نیت ہوتی ہے جو اُسے ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ وہ اندھا نہیں تھا نہ ہی بہرا کہ جس نے جس راہ پر چلایا وہ چل پڑا۔ ہر انسان کے اندر ایک شیطان ہوتا ہے جو اُسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ بات تو تب ہے نا جب انسان اپنے شیطان کو اپنے اُوپر حاوی نا ہونے دے”۔

اُن کے لہجے میں کیا نہیں تھا۔ لیکن جو احساس سب سے پر حا وی تھا وہ شکست خوردگی کا تھا۔

"مجھے بڑا افسوس ہوا تھا سارہ تب جب آدم نے آ کر مجھ سے کہا تھا کہ اُسکی جاب جا رہی ہے اور گھر بیچنا پڑے گا، مجھے لگا جیسے میں ہار گیا، میرا بیٹا شیطان کے بہکاوے میں آ رہا تھامیں بڑا شرمندہ تھا تب۔”وہ سر جھکا گئے تھے۔ سارہ اُلجھ کر رہ گئی تھی۔

"کیا مطلب؟آپ سب جانتے تھے کیا؟”، اُس نے حیرانی سے استفسار کیا تھا۔

"ہاں۔ میں جانتا تھا”، اُن کے چہرے پر کرب ہی کرب تھا۔

سارہ کے لیے اپنے آنسو روکنا مشکل ہو گئے۔ وہ گھٹنوں کے بل اُن کے سامنے بیٹھ گئی تھی۔

"پھر آپ نے روکا کیوں نہیں اُنہیں۔ کیوں نہیں کہا اُن سے کہ آپ سب جانتے ہیں”، سارہ نے روتے ہوئے اُن سے کہا تھا۔

"جب شیطان غلبہ پا لیتا ہے نا تو انسان کچھ نہیں دیکھتا۔ وہ سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیتا ہے”، مغیث نے اُس کا سر تھپکتے ہوئے دکھی لہجے میں کہا تھا، وہ ہچکیوں کے ساتھ رونے لگی تھی۔

دفعتاً اُنہوں نے اُس کا چہرہ اُوپر اُٹھایا تھا اور اُس کے آنسو پونچھے تھے۔ اور اُس سے کہا تھا”تمہیں یہ سب اپنی امی کو نہیں بتانا ہے۔ ورنہ اُس کا دل مر جائے گا بیٹا”۔ اُنہوں نے بہت ہمت سے اُس سے کہا تھا۔ سارہ دوبارہ روتے ہوئے سر چھپا گئی تھی۔

اُسے رفعت کو نہیں بتانا تھا۔

ماؤں کے دل بڑے نازک ہوتے ہیں۔

وہ اُٹھ کر کچن سے باہر آ گئی تھی۔ وہ رونا چاہتی تھی۔

آج ابا اُسے بار بار یاد آ رہے تھے۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

"میں کچھ نہیں کر سکتی، میں بیکار ہوں، بالکل بیکار، مجھے لگتا ہے ابا میں کبھی زندگی میں کچھ نہیں کر سکوں گی”، وہ رو دینے کو تھی۔

کچھ عرصہ پہلے ہی وہ لوگ کواٹر سے ایک کرائے کے گھر میں شفٹ ہوئے تھے، سارہ کی بنک میں جاب لگنے کی وجہ سے وہ اب اچھا خاصا کمانے لگی تھا۔اتنا کہ تھوڑے ہی عرصے میں وہ کرائے کا گھر اُس نے مالک مکان سے خرید لیا تھا، وہ اس طرح کی باتیں تو کبھی نہیں کرتی تھی پھر اب؟، مغیث حیرت میں مبتلا ہو گئے تھے۔

وہ باہمت تھی محنتی تھی بہت کچھ کر لیا تھا اُس نے اپنی زندگی میں پھر ایسے الفاظ کیوں ؟، وہ سخت اچنبھے میں مبتلا ہوئے تھے لیکن اُنہیں کچھ بھی پوچھنے کی ضرورت نہیں پڑی تھی اُس نے سب کچھ خود ہی اُنہیں بتا دیا تھا۔

"مجھے بولنا نہیں آتا ابا، لوگ مجھے توجہ سے نہیں سنتے، وہ میری طرف مائل ہی نہیں ہوتے، میرے پاس بہت کچھ ہوتا ہے کہنے کیلئے لیکن میں کچھ کہہ ہی نہیں پاتی ہوں”، وہ بے بسی کی انتہا پر تھی۔ مغیث اُسے دھیان سے سن رہے تھے۔

"اور نتاشہ۔۔ ابا اُس کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا۔ بہت کچھ ایسا جو میرے پاس ہے۔ لیکن پھر بھی لوگ اُسے سننا چاہتے ہیں۔ اُسے با قاعدہ اُکسایا جاتا ہے کہ وہ بولے، اُسے موٹیویٹ کیا جاتا ہے حالانکہ ابا میرے پاس اُس سے زیادہ نالج ہے۔ میں نے اُس سے کہیں بہتر چیزیں کی ہیں آج بھی ایسا ہی ہوا ہے ابا ایک دوسرے بنک کے منیجر آئے ہوئے تھے، ایک بریفنگ تھی ابا مگر وہ سب کو چھوڑ کر بس نتاشہ کو ہی سنتے رہے”۔

"تم جیلسی فیل کر رہی ہو؟”، ساری بات سننے کے بعد مغیث نے اُس سے دریافت کیا تھا۔

"جی ابا”، سارہ نے بغیر کسی جھجھک کے اُن سے کہا تھا، ابا سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تھے۔

"تمہیں لو گوں کو امپریس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، نتاشہ ضرور اچھا بول سکتی ہو گی لیکن تم یہ بھی تو دیکھو اُسے آخر بولنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آ رہی ہے، اُسے کیوں دُنیا کو یہ بتانا پڑ رہ ہے کہ ہاں ’ وہ ‘بھی ہے، اُسے متوجہ کرنا پڑ رہ ہے سب کو اپنی طرف، تمہارے ساتھ ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے، تم اتنی ٹیلنٹڈ ہو کہ بنک نے تمہیں اتنی اچھی پوسٹ دی ہوئی ہے اور رہی بات کسی دوسری اچھی اپورچونٹی کی تو وہ خود چل کر تمہارے پاس آئے گی”، وہ سانس لینے کے لیے رُکے تھے۔

"ذہن اور آنکھیں رکھنے والے لوگ خود تم تک آئیں گے تمہیں اُنہیں متوجہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، ہیرے کی پرکھ جوہری کو نہیں ہو گی تو پھر کس کو ہو گی”، وہ مسکرائے تھے،”اور جو ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر مر مٹتے ہوں اُن سے تو دور رہنا ہی بھلا”، اُنہوں نے مزید اضافہ کیا تھا۔

"یاد رکھو! بعض لوگ سوائے باتیں بگھارنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔۔ صرف ایک چیز امپورٹنٹ ہوتی ہے کہ آپ کیا ’ بن ‘ گئے ہو۔۔ آپ نے کیا اچیؤ کیا ہے باقی سب تو ثانوی باتیں ہوتی ہیں جو صرف منہ سے ادا ہو تی ہیں اُن کو پا یہ تکمیل تک پہچانے میں کوئی ہاتھ نہیں ہوتا، یہ سماج کی دیواریں روک ٹوک راستے کی رکاوٹیں آپ کے ہمت اور حوصلے کے آگے کچھ بھی نہیں، یہ صرف بہانے ہوتے ہیں”۔

سارہ کی آنکھوں کی چمک واپس آ گئی تھی اور اتنے سالوں بعد بھی اُس کی یہ چمک اُسی طرح بر قرار رہی تھی جب وہ نتاشہ کے سامنے بیٹھ کر اُس کی زندگی کی دکھی کہانی سن رہی تھی، یہ اُس کی مجبوری تھی۔ نتاشہ سے وہ کئی سالوں بعد اچانک ملی تھی۔ وہ آج بھی ویسی ہی تھی، صرف اپنی مجبوریوں کا واویلہ کرتی ہو ئی اور اعلان کرتی ہوئی کہ وہ ماضی میں کیا کیا نہیں کر سکی تھی لیکن سماج کی روک ٹوک۔۔

اُس کی داستان غم سنتے ہوئے سارہ کو ابا یاد آئے تھے، آنکھوں میں چمک لیے ہوئے وہ مسکرا دی تھی اور نتاشہ سے ہاتھ ملاتے ہوئے وہ وہاں سے اُٹھ کر آ گئی تھی۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

"امی آپ کیا کہہ رہی ہیں یہ”، سارہ شاکڈ سی رفعت کے سامنے کھڑی تھی، وہ اُس سے کیا کہہ رہی تھیں، یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا لیکن وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتی تھی۔

بعض چیزیں جب سمجھ میں آ جاتی ہیں تو وہ بہت سارا حوصلہ اور برداشت مانگتی ہیں اور حوصلے اگر پہاڑ جتنے مضبوط نہ ہوں تو آگہی بڑی مہنگی پڑ جاتی ہے۔ یہ کہیں کا نہیں چھوڑتی پھر۔

آفس سے آنے کے کچھ دیر بعد رفعت اُس کے پاس آئی تھیں، اُن کی چہرے پر کچھ پریشانی کے تاثرات تھ، کھا نا کھاتے ہوئے بھی سارہ نے یہ بات نو ٹس کی تھی، اُسے فی الحال اُن کی پریشانی کی کوئی وجہ نظر نہیں آ رہی تھی۔

سارہ کے پو چھنے پر وہ تھوڑی شش و پنج کا شکار ہوئی تھیں، لیکن اُنہوں نے اپنی پریشانی اُسے نہیں بتا ئی تھی اور سارہ خاموشی سے وہاں سے اُٹھ آ ئی تھی اور اب وہ اُس کے کمرے میں بیٹھی اُسے وہ سب بتا رہی تھیں، سارا کو لگا جیسے وہ دس سال پیچھے آ گئی ہو۔

"آدم کی فیکٹری میں بہت نقصان ہوا ہے پچھلے کچھ مہینوں سے اُس کا کام بالکل ٹھپ ہو کر رہ گیا ہے، اپنی ساری جمع پو نجی وہ آہستہ آہستہ کر کے اپنی فیکٹری میں لگ اچکا ہے، اب ایک گھر بچا ہے، آدم اُس کو بھی بیچنے کا سوچ رہا ہے، میں نے تو کہہ دیا ہے آدم سے کوئی ضرورت نہیں ہے گھر بیچنے کی، وہ اپنا گھر کرائے پر دے اور یہاں آ جائے ہمارے پاس”، رفعت روانی سے اُس سے کہتی جا رہی تھیں، سا رہ ہکا بکا سی اُن کی بات سن رہی تھی۔

"امی بھائی یہاں آ کر کیوں رہیں گے، اب وہ وہیں رہیں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ۔ اب وہ ہمارے پاس نہیں آ سکتے، جب ہمیں اُن کی ضرورت تھی تب تو وہ بڑے آرام سے اپنی عیاشی بھری زندگی گزارنے کیلئے ہمیں بے یار و مددگار چھوڑ گئے تھے، ہم زندہ ہیں یا مر گئے پوچھا تک نہیں اُنہوں نے کبھی ہمیں اور آج جب اُن پر یہ جھوٹی مصیبت آئی ہے تو اُنہیں ہم یاد آ گئے”، بولتے ہوئے اُس کا تنفس تیز ہو گیا تھا سانس جیسے دھونکنی کی طرح چلنے لگا تھا۔

"ماں ہوں میں اُس کی مصیبت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتی میں اُسے”، رفعت کے لہجے میں صرف مامتا تھی۔

"امی اُنہوں نے کبھی بھی ہمارے ساتھ اچھا نہیں کیا، یاد ہے نہیں کیا آپ کو؟، اُنہوں نے کبھی ہمارا احساس ہی نہیں کیا۔ کتنی کتنی دیر میں باہر سٹاپ پہ دھوپ میں کھڑی رہتی تھی بس کے انتظار میں، ابا کیسے صبح سے شام تک وہیل چئیر پر بیٹھ کر پڑھاتے رہتے تھے۔ تب بھائی کہاں تھے۔ تب تو وہ مزے سے اپنی زندگی گزار رہے تھے، اُن کی لائی ہوئی مصیبت کو ہم نے بھگتا تھا”، آنسو اُس کی آنکھوں سے مسلسل جاری تھے۔

آنسو تو رفعت کی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے، کیا کیا تھا جو انہیں یاد نہ تھا۔۔مگر ماں تھیں نا۔۔ماں کی یادداشت بڑی کمزور ہوتی ہے وہ یہ بھول جاتی ہے کہ اُسے اولاد نے کن کن کانٹوں میں گھسیٹا تھا۔۔اُسے بس یہ احساس مار ڈالتا ہے کہ اُس کی اولاد بھنور کی زد میں آ گئی ہے۔

"میں اُن کو یہاں نہیں آنے دوں گی، یہ گھر میں نے بنایا ہے اُنہوں نے نہیں، خود جو اُنہوں نے اپنی زندگی میں تھوڑا بہت ہمارے لیے کیا تھا، احسان جتا جتا کر آپ کا اور ابا کا جینا حرام کر دیا تھا، اُس کی بڑی بھاری قیمت وصول کر چکے ہیں وہ”، یکدم وہ خاموش ہو ئی تھی۔

وہ اپنی ہی کہی ہو ئی بات کو سن کر ساکت رہ گئی تھی۔”احسان”۔۔ ۔ وہ جیسے اس ایک لفظ میں جکڑی گئی تھی۔ کیا کیا یاد نا دلاتا تھا یہ لفظ۔

رفعت اُس کو خاموش دیکھ کر وہاں سے اُٹھ گئی تھیں، اُن کا سر جھکا ہوا تھا، اُسے اپنی زندگی کے بہت سے ایسے لمحے یاد تھے جب اُس نے مغیث کو اسی طرح سر جھکائے دیکھا تھا۔

ہر بار آدم کا اُنہیں باور کروانا کہ وہ کیا کر رہا ہے اُن کے لیے اُن کا سر شرم سے جھکا دیتا تھا تب اُس نے تہیہ کیا تھا کہ وہ اپنے ماں باپ کو آسائیشیں دے کر کبھی اُنہیں یہ نہیں جتائے گی کہ دیکھیں میں کیا کر رہی ہوں آپ کے لیے یا کیا کر چکی ہوں۔

اولاد کا بار بار احسان جتانا ماں باپ کو اندر ہی اندر مار ڈالتا ہے۔ اُن کا سر جھکا دیتا ہے۔

اُسے بہت بُرا لگتا تھا مغیث کا جھکا سر۔

اور آج اتنے سال بعد اُسے لگا ایک بار پھر جیسے مغیث کا سر جھک گیا ہو اور اس بار وجہ وہ بنی ہو۔ یکدم اُسے اپنے آپ سے گھن سی آئی وہ اب جیسے کسی ٹرانس کی سی کیفیت میں بیٹھی تھی۔

"میں کون ہوتی ہوں یہ احسان جتانے والی کہ یہ گھر میں نے بنایا ہے، میں نے کیا سمجھ لیا ہے خود کو، کوئی فرشتہ یا کوئی بہت ہی عظیم ہستی؟، میں کیا ہوں کچھ بھی تو نہیں۔

اپنے ماں باپ کے احسانات کا بدلہ میں ساری زندگی بھی لگا دوں تو نہیں چکا سکتی، پھر میں نے کیسے سمجھ لیا کہ میں اُنہیں کبھی احسان جتاؤں گی جنہوں نے مجھے پیدا کیا مجھے پیار دیا، مجھے جینے کا سلیقہ سکھایا۔ مجھے بتا یا کہ اچھا کیا ہے اور بُرا کیا۔ پھر میں کیسے۔۔”… وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی تھی۔

انسان کا اپنا استحصال اُسے بہت کچھ سمجھا جاتا ہے سکھا جاتا ہے۔

"ابا مجھے معاف کر دیں، میں نے آپ کا سر جھکا دیا۔ مجھے معاف کر دیں” زار و قطار روتے ہوئے وہ اپنے باپ سے معافی مانگ رہی تھی، اُس باپ سے جنہوں نے اُسے "احسان مندی” کا کرب سکھایا تھا۔

۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰

سلام پھیر کر اُس نے دعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے تھے، ابا کا چہرہ جھپاک سے اُس کی آنکھوں کے سامنے نمو دار ہوا تھا، اُس کے چہرے پر ایک اطمینان بھری مسکراہٹ دوڑ گئی تھی اور پھر اپنے ایک سال کے بیٹے اور شوہر کے لیے دعا مانگنے تک یہ مسکراہٹ قائم رہی تھی۔

جائے نماز تہہ کر کے رکھنے کہ بعد ایک نظر اپنے سوئے ہوئے بیٹے اور شوہر پر ڈال کر وہ باہر نکل آئی تھی۔

باہر ابھی ہلکا ہلکا اندھیرا پھیلا تھا، وہ لان میں نکل آئی تھی۔

اپنے پیروں کو جوتے سے آزاد کروانے کے بعد وہ گھاس پر ننگے پاؤں چلنے لگی تھی۔

صبح کا یہ وقت اُس کو شروع سے پسند تھا، بچپن میں وہ ابا کی وہیل چئیر گھسیٹتے ہوئے اسی طرح ٹہلا کرتی تھی۔

بہت سی یادیں اُس کے ذہن میں نمودار ہونے لگی تھیں، تین سال پہلے آدم ایک بار پھر سے اُن کے پاس آ کر رہنے لگا تھا، اُسے بُرا نہیں لگا تھا کیونکہ دماغ میں جو کشمکش چل رہی تھی وہ ختم ہو گئی تھی، سب کچھ صاف ہو گیا تھا جو عرصے سے غبار بن کر دل پر چھایا ہوا تھا مگر پھر جیسے کوئی گرجتا ہوا بادل یکدم برسا تھا اور دل و دماغ پر جمی ساری دھول مٹا گیا تھا۔

اُس نے امی کی خو شی کی خاطر آدم کو بلوا لیا تھا اور وہ خود مطمئن سی ہو گئی تھی۔

بعض فیصلے جب اللہ پر چھوڑ دیے جاتے ہیں تو وہ انسان کو پریشان کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔

سارہ بھی پر سکون سی ہو گئی تھی۔

کچھ ہی عرصے بعد اُس نے بھی شاہویز سے شادی کر لی تھی، شاہ ویز اُس کے ساتھ ہی بنک میں جاب کرتا تھا اور کافی عرصے سے اُسے شادی کے لیے کہہ رہا تھا لیکن تب وہ رفعت کے تنہا رہ جانے کے خیال سے نہیں کر رہی تھی۔ وہ اپنی ماں کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتی تھی، لیکن آدم کے آنے کے بعد رفعت کا اصرار بڑھ گیا تھا اور اُسے شادی کرنا ہی پڑی تھی۔ شاہ ویز اُس کے لیے جیسے کسی نیکی کا صلہ تھا۔ بہترین انعام۔

گیلی گھاس پر چلتے ہوئے ٹھنڈی ہوا کے جھو نکے اُسے تر و تازگی کا احساس دلا رہے تھے۔

ہوائے صبح کی پاکیزگی اُسے خود میں سمو رہی تھی۔

لان میں ہلکا ہلکا اُجالا پھیلنے لگا تھا بہت پر سکون انداز میں اُس نے گھر کے اندر کی طرف قدم بڑھا دیے تھے۔

٭٭٭

ماخذ: کنواس ڈائجیسٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل