FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

ہر رنگ میں ہے محشر برپا

 

 

 

 

ریما علی سیّد

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

 

 

 

 

ہسَپتال میں بستر پر لیٹا ہوا دنیا کا ہر مریض اپنے لئے شفاء مانگتا ہے، اُس تکلیف سے نجات مانگتا ہے جس نے اُس کے سانس لینے کے عمل تک کو دُشوار بنایا ہوتا ہے، خواہ اس مریض کا جسم جل چکا ہو، وہ ذہنی طور پر مفلوج ہو چکا ہو، کسی ایکسیڈنٹ میں ہڈیاں ٹوٹ چکی ہوں یا پھر کوئی موذی بیماری لاحق ہو، لا شعوری طور پر متاثرہ ہر انسان کی زبان سے اپنے لئے زندگی کی دعا ضرور نکلتی ہے مگر چند لوگ دنیا میں ایسے بھی یقیناً ہوتے ہیں جو بے حد ابتر حالت میں لیٹے اپنے لئے موت مانگتے ہیں، انہیں زندگی نے کچھ اس طرح تنگ کیا ہوتا ہے کہ موت سے بڑھ کر انہیں کوئی چیز اپنے لئے نجات محسوس نہیں ہوتی۔ مگر میرا شمار ان دونوں طرح کے لوگوں میں نہیں ہوتا، نہ میں اپنے لئے زندگی چاہتی ہوں اور نہ ہی موت مانگ رہی ہوں۔

شہر کے مشہور ترین اور مہنگے پرائیوٹ ہسَپتال کے آئی سی یو میں نرم اور آرام دہ بستر پر لیٹی، جو کہ میرے لئے انگاروں کا بستر ہے، میں خدا سے کچھ اور مانگ رہی ہوں، کچھ پوچھنا چاہ رہی ہوں، کچھ بتانا چاہ رہی ہوں۔۔ ۔ بظاہر میری حالت ابتر ہے، میں زبان سے الفاظ ادا کرنے سے قاصر ہوں لیکن میرا ذہن بالکل ٹھیک کام کر رہا ہے، لفظوں کے بننے اور ترتیب پانے کا سلسلہ بالکل روانی سے چل رہا ہے، ایسی یکسوئی مجھے زندگی میں پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی، حالانکہ میرے دونوں بازوؤں پر موجود خراشیں اور دائیں ٹانگ پر زخم سے اٹھنے والی درد کی لہریں مجھے مسلسل بے آرام کئے دے رہی ہیں، میں سوئی جاگی کیفیت میں ہوں مگر پھر بھی میرا ذہن ٹھیک کام کر رہا ہے، میری بائیں آنکھ سوجی ہوئی ہے اور اس کے پپوٹے میں وقفے وقفے سے اٹھنے والی ٹیسیں مجھے آنکھیں کھولنے نہیں دے رہیں اس کے باوجود کمرے میں موجود روشنی میں بند آنکھوں سے بھی مجھے اپنا مستقبل مکمل تاریکیوں میں ڈوبا ہوا واضح نظر آ رہا ہے اور صرف اپنا ہی نہیں اپنے والدین اور اپنے چھوٹے بھائیوں کا بھی۔

کبھی کبھی روشنی میں ابھرنے والے مناظر اتنے تاریک اور بھیانک ہوتے ہیں کہ انسان ڈرنا بھی بھول جاتا ہے اور پھر اذیت اور ذلت کے جس مہیب اور خوفناک جنگل سے میں گزری ہوں اُس کے بعد تو ہر چیز کا ڈر دل سے نکل جاتا ہے صرف سوچ باقی رہ جاتی ہے، باقی سب کچھ اُسی جنگل میں چھوٹ کر گِر جاتا ہے، اعتماد، انا، عزتِ نفس، وقار۔۔ ۔ سب کچھ۔۔ حالانکہ ڈاکٹرز مسلسل کہہ رہے ہیں کہ میری یہ کیفیات وقتی ہیں، میں اس وقت شدید شاکڈ ہوں، بہت جلد نارمل ہو جاؤں گی۔

یہ ڈاکٹرز بھی بہت عجیب ہوتے ہیں۔۔ ۔ پتا نہیں اِن کی ڈکشنری میں نارمل کے کیا معنیٰ ہیں؟۔۔ اور یہ زندگی کی ہر چیز کو فکشن کیوں سمجھتے ہیں جس کے آخر میں بالآخر سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے؟۔۔ شاید ان ڈاکٹرز کو بھی جھوٹ بولنے کی بیماری ہوتی ہے، True Picture نہ دکھانے کی بیماری، جھوٹی تسلیاں دینے کی بیماری۔۔ ۔ یہ ڈاکٹرز بھی شاید ’’نارمل‘‘ انسانوں کی طرح سچائیوں کا سامنا نہیں کرنا چاہتے یا پھر یہ مریض اور اس کے رشتے داروں کو سچ بتا کر انہیں مزید کسی تکلیف سے بچانا چاہتے ہیں مگر مجھ میں اور دوسرے مریضوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔۔ ۔ یہ بات۔۔ ۔ یہ بات۔۔ یہ ڈاکٹرز کیوں نہیں مان لیتے۔۔ میں پہلے ’’ایب نارمل‘‘ تھی۔۔ ۔ میں اب ہی تو ’’نارمل‘‘ ہوئی ہوں۔۔ یہ بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آ رہی۔۔؟۔

یہ کیوں نہیں مان لیتے کہ یہ میرے جسم پر لگے ہوئے زخموں، چوٹوں اور خراشوں کا علاج تو کر دیں گے مگر جو چرکے میری روح پر لگ چکے ہیں۔۔ ۔ ان کا علاج اور مداوا دنیا کے کسی ڈاکٹر، کسی سائیکاٹرسٹ کے پاس نہیں ہے۔۔ پھر بھی یہ ڈاکٹرز اپنی سی کوششوں میں مصروف ہیں۔۔ نہ جانے کس چیز کے دوبارہ حصول کی توقع ہے انہیں؟، شاید یہ مجھے زندہ رکھنا چاہتے ہیں اور میں سوچ رہی ہوں کہ میں انہیں کیسے سمجھاؤں کہ اب میرے لئے زندگی اور موت دونوں نے اپنے معنیٰ اور اہمیت کھو دئیے ہیں اور اپنا احساس بھی۔۔ ۔ میں زندہ ہوں۔۔ ۔ مگر اڑتالیس گھنٹے پہلے بیدردی سے مار دی گئی ہوں۔۔ اور اب باقی کی زندگی مجھے ایسے ہی ایک زندہ لاش کے طور پر گزارنی ہے، مگر چونکہ ڈاکٹرز پُر امید ہیں لہٰذا میرے ممی پپا اور دونوں بھائی ڈاکٹرز کی امیدوں پر توَکل کیئے بیٹھے ہیں۔

میرے والدین بھی یہ حقیقت ماننے پر تیار نہیں ہیں کہ اڑتالیس گھنٹے قبل ملنے والی ذلت اب باقی کی ساری زندگی میرے وجود کے ساتھ سایہ بن کر چمٹی رہے گی، میرے جسم، میرے وجود اور میری روح پر جو کیچڑ لگ چکی ہے اُسے اب سات سمندروں کا پانی مل کر بھی صاف نہیں کر سکتا، میرے کردار پر وہ سیاہی لگ چکی ہے جِسے گزرنے والا وقت کبھی مدھم نہیں کرے گا بلکہ اُسے مزید کالا اور بد نُما بنا دے گا، جسمانی اذیت سے گزرنے کے بعد میں جس ذہنی کرب سے دوچار ہوں اُس میں اب کبھی رَتی بھر کمی نہیں آئے گی۔۔ اور کوئی سائیکائٹرسٹ میری نفسیات میں پڑ جانے والی گرہوں کو کبھی کھول نہیں سکے گا۔

دنیا کا کوئی بھی شخص اِس وقت میرے وجود سے اٹھنے والی چیخوں کو نہیں سن سکتا، میری رگ رگ سے بلند ہوتی ہوئی آہیں کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آ سکتی ہیں کیونکہ میرے ہونٹ سلے ہوئے ہیں مگر کیا میرا چہرہ پڑھنا بھی سب کیلئے دُشوار ہے؟، جِسے دیکھے بناء بھی میں بتا سکتی ہوں کہ میرے چہرے پہ اس وقت وحشت اور عبرت کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو گا۔۔ ۔ کیا واقعی کوئی مجھے پہچان نہیں پا رہا۔۔ کیا واقعی اب کبھی کوئی مجھے شناخت کر سکے گا کہ میں ہی نوین مرتضیٰ ہوں۔۔ ۔ وہ نوین مرتضیٰ جو مجسم خوبصورتی تھی۔۔ ۔ جو سراپاِ زندگی تھی۔۔ بالکل گلاب کی کسی نوخیز کلی کی طرح۔۔ ۔ وہ نوین مرتضیٰ جس پر چند دن پہلے تک مجھے اور میرے گھر والوں کو فخر تھا۔۔ ۔ نہیں فخر نہیں۔۔ ۔ غرور، گھمنڈ۔۔ ہاں یہ زیادہ مناسب الفاظ ہیں۔۔ ۔ خود پہ اُنیس سالوں تک ناز و فخر میں مبتلا رہ کر زندگی گزارتے ہوئے میں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ ایک دن بڑی بے رحمی اور سفاکی سے میرا سارا غرور، تکبر، انا، فخر، وقار، ناز انداز سب کچھ منوں مٹی تلے دفن ہو جائے گا اور زمین کے اوپر خالی میں رہ جاؤں گی۔۔ ۔ کھوکھلے وجود اور زخمی روح کے ساتھ۔۔ ایسی زندہ لاش جس پر اس دنیا کے لوگ اپنی اپنی مرضی اور Taste کے مطابق نمک مرچ میں لپیٹ کر اپنے خیالات، اندازوں اور آراء کا کفن ڈال کر چھُپا چھُپا کر عُریاں کرتے رہیں گے .

دو دن پہلے تک میں بھی تو انہی میں سے ایک تھی، دنیا والوں میں سے ایک، اُن سے بڑھ کر دنیا دار، دنیا دار ہم جیسے انسانوں کو ایک ہی شوق ہوتا ہے کسی دوسرے انسان کی زندگی کے جہنم کو کسی بار میں ہونے والے Strip Show کی طرح مزے لے لے کر دیکھنے کا، اس معاشرے کا ہر فرد یہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کی زندگی میں دخل اندازی نہیں کرتا، نہ ہی وہ دوسرے انسانوں کے حوالے سے تجسس میں مبتلا ہوتا ہے اور نہ ہی وہ دوسرے انسانوں کے بارے میں Judgmental ہوتا ہے، مگر حقیقت میں یہ وہ مخملی لبادے ہیں جو اس غلیظ معاشرے کے تعفن زدہ ہر پڑھے لکھے، خاندانی، کامیاب اور “میں” کے موذی مرض میں مبتلا انسان نے اوڑھ رکھے ہیں، وہ لبادے جن سے ہم انسان دھوکہ دیتے ہیں اور فریب کھاتے ہیں، میں بھی تو یہی کیا کرتی تھی.

کسی کی غلط انگریزی پر میں اُس کا جینا حرام کر دیتی تھی، کسی کا ڈریسنگ سینس خراب ہوتا تو میں اُسے اپنے مذاق کا ہارڈ ٹارگٹ بنا لیتی تھی، Poor Knowledge میرے نزدیک ناقابل معافی جرم تھا، بنیادی مینرز سے عاری انسان کو تو میں انسان ہی تسلیم نہیں کرتی تھی، یہ تو خیر بڑی باتیں ہیں، کسی کے پاس اگر اچھی ریسولیوشن کیمرے والا موبائل فون نہیں تو میری نظر میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی، Instagramپر کسی کو زیادہ لائکس نہیں مل رہے تو میرے خیال میں وہ فارغ تھا، Snap-chat پر اگر Followers کی تعداد کم ہے تو اُسے تو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں تھا، یہ ہیں وہ پیمانے اس اکیسویں صدی کی New World کے جو ہر لمحہ ایک نیا چیلنج اٹھا کر مجھ جیسے انسانوں کے سامنے لے آئی ہے، Entertainment، پی آر کے نام پر دنیا کے کونے کونے میں رہنے والے لوگوں سے تعلق رکھنے کی یہ خواہش کب دلچسپی کی ہر حد پھلانگ کر جنون بن جاتی ہے اور کیسے احساس کمتری اور احساس برتری کے ببول ہماری ذات میں اگنے لگتے ہیں پتا ہی نہیں چلتا، میں دو دن پہلے تک اسی نظام کا حصہ تھی، پتا نہیں حصہ تھی یا Addicted میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ لوگوں اور اُن کی زندگیوں کے بُرے فیزز کے بارے میں، میں اپنے اردگرد دوسرے انسانوں کی طرح جی بھر کر Judgmental بھی تھی اور اُن پر ہنسنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے بھی نہ دیتی تھی … کیونکہ مجھے یقین تھا کہ میں زندگی میں کبھی بھی کسی دوسرے انسان کیلئے “Discussion Matter” نہیں بنوں گی، کچھ ایسا ہی اندھا یقین تھا مجھے بھی، اس معاشرے کے ہر انسان کی طرح، وہ جو ہنستا ہے، بخئے ادھیڑتا ہے، ٹوہ لگاتا ہے اور وہ جو اپنی زندگی میں ہر جگہ سے پذیرائی وصول کرتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ وہ اتنا پرفیکٹ ہے کہ ساری عمر ستائش ہی سمیٹے گا، اُس کے وجود سے یہ پرفیکشن کبھی الگ ہی نہیں ہو گی، ہم انسان کس قدر نادان ہوتے ہیں نا …

ہوش سنبھالنے سے لے کر دو دن قبل تک میں نے اپنے ارد گرد موجود لوگوں کی نگاہوں میں اپنے لئے ستائش دیکھی تھی، اپنے لئے ان کی زبانوں سے نکلنے والے تعریفی جملوں کے علاوہ کبھی کچھ نہیں سنا تھا، ممی، پپا، دونوں بھائیوں، انکلز اور آنٹیز پر مشتمل ایک بڑے خاندان سے میرا تعلق تھا، میرے دوست اور ان کے خاندان والے، میرے کالج کے اساتذہ۔۔ میں مشہور والدین کی بیٹی تھی، میں خود بھی لائم لائٹ میں رہتی تھی، اتنے وسیع حلقہ احباب میں سے ہر ایک جیسے میرے گُن گانے پر مامور تھا، مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ سب تعریفیں، پسندیدگی اور ستائش میرا حق ہیں اور میں انہیں تفاخر سے وصول کرتی تھی اور یہ بھی تو تھا کہ مجھے خود کو نمایاں ’’کرنا‘‘ اور ’’رکھنا‘‘ آتا تھا۔۔ بات چیت کے ذریعے۔۔ تعلیم کے ذریعے۔۔ روپوں کے ذریعے۔۔ ۔ لباس کے ذریعے۔۔ ۔ مگر اب جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا ہے۔۔ اُس کے بعد لوگوں کی نظریں کیسے نہیں بدلیں گی؟، جس معاشرے میں میں پلی بڑھی ہوں، موو کرتی رہی ہوں اور جس کی سائیکی سے اچھی طرح واقف ہوں، وہ کیسا سلوک میرے ساتھ کریں گے اور میں اُن کا سامنا کیسے کروں گی؟، جب انسانوں کا سامنا کرنے کی ہمت و جرأت مجھ میں نہیں تو میں خدا کاسامنا کیسے کر سکوں گی؟۔۔ کیسے ممکن ہے کہ میں کسی مذاق، کسی گفتگو، کسی کانا پھوسی کا حصہ نہیں بنوں گی؟، میں جانتی ہوں  …  میں بہت اچھی طرح سے جانتی ہوں  … اور اپنا یہ سیاہی بھرا مقدر میں نے خود اپنے لئے منتخب کیا ہے  … میں نے  … اور میرے ممی پاپا نے  … وہ بھی ذمے دار ہیں  … کیسی شامت سی شامت تھی جو مجھ پر آئی تھی۔۔ صالحہ مشتاق شاید اسی شامت سے مجھے بچانا چاہتی تھی اور اس وقت مجھے اُس کی کوئی بات سمجھ نہیں آئی تھی، مگر اب۔۔ اب مجھے ’’آزمائش‘‘ اور ’’شامت‘‘ کا فرق اچھی طرح سمجھ آ گیا ہے۔۔

اپنی زندگی کے اُنیسویں سال میں بالآخر یہ بات جان گئی ہوں کہ آزمائش خود بخود انسان پر آتی ہے اور شامت کو انسان خود اپنی حرکتوں سے دعوت دیتا ہے، آزمائش دبے پاؤں آتی ہے، چُپکے سے اور شامت اپنے آنے سے پہلے بار بار خطرے کی گھنٹی بجا کر اپنی آمد سے مطلع کر رہی ہوتی ہے، آزمائش خدا کے چُنیدہ بندوں پر آتی ہے اور شامت مجھ جیسوں کی، آزمائش میں سُرخرو رہنے والے خدا کے پسندیدہ بن جاتے ہیں اور مجھ جیسے لوگ اپنے اعمال کی سزا بھگتنے والے تماشہ بن جاتے ہیں ،۔۔ اور اب جب میں یہ جان چکی ہوں کہ جو پہاڑ مجھ پر ٹوٹا ہے وہ میری ہی کرنیوں کا پھل ہے اور صرف میری ہی نہیں۔۔ ۔ میرے والدین کی بھی۔۔ ۔ ممی پپا کی بھی۔۔ ۔ تو میری سمجھ میں نہیں آ رہا کہ۔۔ ۔ کوتاہیاں، بے عقلی، لاعلمی۔۔ ۔ یا زندگی کا جوش  … کیا نام دوں اُس چیز کو جس کی وجہ سے ممی اور پپا نے میری پرورش اور شخصیت سازی میں ہر وہ کمی چھوڑ دی جس کے ہاتھوں آج مجھے اور انہیں یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔۔ مگر میں سب کچھ ان پر چھوڑ کر خود کو بری الذمہ بھی تو قرار نہیں دے سکتی۔۔ میں ایسا کر ہی نہیں سکتی۔۔ ساری زندگی میں نے انہیں بہت سی باتوں کیلئے Blameکیا ہے۔۔ مگر اب نہیں۔۔ اب مزید نہیں۔۔ ۔

اُنیس سال کی عمر میں، میں یہ تو جانتی تھی کہ دنیا میں کون کون سی نئی ایجادات اور تخلیقات سامنے آ رہی ہیں، سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں کون کون سے کارنامے سر انجام دئیے جا رہے ہیں، ایک عام انسان کی زندگی کو مزید آسان بنانے والی کون کون سی نئی مشینریز متعارف کروائی جا رہی ہیں، آج کا انسان کس طرح مزید Luxurious زندگی کیلئے کن کن مراحل سے گزرنے پر مجبور ہے، کیا کیا چاہتا ہے، جو پاتا ہے ہمیشہ کم ہی لگتا ہے، میرے علم میں یہ تو تھا کہ سمندر کی تہہ میں کتنی اقسام کے آبی جانور موجود ہیں، کائنات کا نظام کس طرح چل رہا ہے، ایک سوئی پانی میں ڈوب جاتی ہے مگر پانی کا جہاز سمندر میں نہیں ڈوبتا، میں اس کی سائنسی وجہ جانتی تھی، مجھے دنیا کی مختلف زبانیں آتی تھیں، آتی کیا تھیں، میں نے خود بہت شوق سے سیکھی تھیں، میں دنیا کے مختلف خطوں کا لٹریچر پڑھتی تھی، موویز دیکھتی تھی، کتابوں، رسائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی معلومات کو Up To Date رکھتی تھی، Showbiz کی دنیا کی Happenings سے لے کر پاکستان میں اندرونی و بیرونی سطح پر بُنے جانے والے سازشوں کے جال، افریقہ میں عالمی طاقتوں کی رسائی تک، پورنوگرافی میں نت نئی فتوحات سے لے کر ناسا کی کائنات کے نظام کے بارے میں نت نئی ریسرچ رپورٹز تک ہر چیز میری فنگر ٹپس پر تھی، یہی نہیں، میری شدید ترین خواہش تھی کہ میں ہر ایک سے منفرد نظر آؤں اور اس کیلئے میں ہر ویک اینڈ پر شہر کے معروف اور مہنگے ترین بیوٹی سیلون کو وزٹ ضرور کرتی تھی، اپنے لباس میں فیشن اور ٹرینڈز کا بہت خیال رکھتی تھی، میک اپ، جیولری، ہینڈ بیگز۔۔ ۔ مجھ سے بہتر کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کس باڈی فریم پر کیا چیز سوٹ کرے گی۔۔ ۔ مجھے یہ سب معلوم تھا اور مجھے اپنی اس معلومات پر بے انتہا فخر تھا اور اپنی اسی قابلِ رشک معلومات پر میں سراہی جاتی تھی۔۔ اور جس کیلئے میں محنت بھی بہت کرتی تھی  … ۔ لیکن۔۔ لیکن مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ میرا خالق کون ہے، اُس نے مجھے زندگی کیوں دی، وہ مجھ سے کیا چاہتا ہے اور اُس نے مجھے زندگی گزارنے کیلئے کون کون سے احکامات دئیے ہیں؟۔۔ میرے پیغمبر محمدﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل زندگی گزارنے کا جو آئیڈیل خاکہ دیا تھا وہ کیا تھا؟، وہ کیوں تھا؟، وہ کس قدر فائدہ مند تھا؟۔۔ ۔ اللہ نے اپنی کتاب جو در اصل میری رہنمائی کیلئے ہی اتاری گئی ہے کو ایک بار پڑھ لینے کے بعد دوبارہ پڑھنے اور اُس زبان میں پڑھنے جو مجھے آتی تھی، کا خیال مجھے کبھی کیوں نہیں آ سکا؟۔۔ ۔ میں کتنی انجان تھی۔۔ میں جو اپنی ذہانت، تعلیم، معلومات اور ٹرینڈی ہونے پر اتراتی پھرتی تھی، میرا علم در حقیقت کتنا محدود تھا۔۔ مجھے اُسے وسیع کرنے کا کبھی خیال کیوں نہیں آیا۔۔ ۔ میں ہاتھ جھاڑ کر یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ مجھے کسی نے سمجھایا یا بتایا ہی نہیں۔۔ کیونکہ اُنیس سال میں جو کچھ اپنی شخصیت کو بہتر بنانے کیلئے کرتی رہی تھی مجھے وہ بھی کسی نے کرنے کیلئے نہیں کہا تھا۔۔ انسان جب خود کچھ نہ سوچے، کچھ نہ سمجھے تو پھر وقت اسے خود بہت سی باتوں کا احساس دلاتا ہے۔۔ ۔ ادراک کا لمحہ عذاب کا لمحہ ہوتا ہے۔۔ کہیں پڑھا تھا اور اب پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے میں اسی عذاب سے دوچار ہوں ،۔۔ اور مجھے حیرانی ہے ممی پپا پر۔۔ اُن پر وہ سارے انکشافات نہیں ہو رہے جنہوں نے مجھے حال سے بے حال کر رکھا ہے۔

پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے میں اپنے اور اپنے والدین کے علاوہ ہر ایک کیلئے ہمدردی محسوس کر رہی ہوں، اپنے دوستوں کیلئے جن کو میری وجہ سے نہ چاہتے ہوئے بھی اگلے کئی مہینوں تک ہر ایک کے مختلف سوالوں کے جواب دینے ہوں گے، وہ جواب دہ نہیں ہیں اس کے باوجود صرف مجھ سے تعلق کی وجہ سے وہ بھی لوگوں کی زبانوں اور نظروں کی زد میں آئیں گے، میرے کالج کی انتظامیہ بھی نہ جانے آنے والے دنوں میں بدلی ہوئی صورتِ حال کو کس طرح فیس کرے گی۔۔ میں جو اپنے کالج کیلئے ایک قابلِ فخر اثاثہ تھی، صوبائی اور قومی سطح پر ہونے والے مقابلے جیت کر میں نے ہمیشہ اپنے کالج کا نام اونچا کیا تھا اور اب میں ہی۔۔ ۔۔ اب اخباروں میں جس انداز میں میرے کالج کا نام آئے گا وہ۔۔ ۔۔ محض ایک لمحہ لگتا ہے اور انسان اپنے خاندان سمیت کئی دوسرے لوگوں کیلئے خفت اور شرمندگی کا سامان بن جاتا ہے۔۔ ۔ اور میرے بھائی۔۔ ۔

سلمان اور زین۔۔ ۔ جو پچھلے دو دنوں میں صرف پانچ چھے بار ہی میرے پاس آئے ہیں، نظریں چراتے ہوئے الجھے ہوئے۔۔ ۔ شاید اُن سے میری یہ حالت دیکھی نہیں جا رہی یا شاید وہ اس حقیقت کو قبول نہیں کر پا رہے کہ دو دن قبل تک اخبار میں اور نیوز چینلز پر وہ جس طرح کی خبریں اور واقعات دیکھتے رہے تھے وہی سب کچھ ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔۔ ۔ اُن کے چہروں پر میں نے وہ داستان با آسانی پڑھ لی تھی جس کا مرکزی کردار میں ہوں۔۔ اور جسے اب کچھ دنوں بعد باقی لوگ بار بار دوہرائیں گے، میں نے اُن دونوں کے چہروں پر دکھ، پریشانی، ملال اور حزن دیکھا ہے، اُن کی آنکھوں میں بھی وہی وحشت اور ویرانی ہے جو میری آنکھوں میں بھی ہے، اُن دونوں نے ہی مجھ سے یہ نہیں پوچھا کہ ’’میں کیسا محسوس کر رہی ہوں؟‘‘، شاید وہ اس سوال کا جواب جانتے ہیں کہ گندگی کا ڈھیر بن کر میں اب کیسا محسوس کر سکتی ہوں۔ البتہ میں یہ ضرور جاننا چاہتی ہوں کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟، مگر میرے پاس یہ سوال کرنے کیلئے الفاظ تو ہیں، ہمت نہیں ہے۔۔ صرف ایک نظر ان کو دیکھنے کے بعد میں دوبارہ ان کے چہرے نہیں دیکھ سکی۔۔ مجھ میں اتنی سکت ہی نہیں کہ ان سے اب نظریں ملاسکوں۔۔ مجھے ان سے۔۔ ۔ اپنے سگے بھائیوں سے شرم محسوس ہو رہی ہے۔۔ نہ جانے مجھے اب ان سے اتنی شرم کیوں آ رہی ہے؟۔

حالانکہ مجھے تو کبھی ان سے کسی بھی ’’حالت‘‘ میں شرم اور جھجھک محسوس نہیں ہوئی۔۔ میں ہر طرح کے حلیے میں ان کے ساتھ بیٹھ کر، لیٹ کر باتیں کرتی تھی۔۔ وہ دونوں ہی کچھ دیر میرے پاس بیٹھے تھے اور پھر ’’آرام کریں اور بھول جائیں سب کچھ‘‘ کہتے ہوئے اٹھ کر چلے گئے تھے۔

میں نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا تھا کہ ان کے اور میرے درمیان زندگی میں کبھی خاموشی کا ایسا طویل وقفہ بھی آ سکتا ہے، شاید ان دونوں کو بھی ایسی کوئی توقع نہیں تھی۔۔ ورنہ ہم آپس میں کتنی باتیں کرتے تھے، نان اسٹاپ، بے تکی اور لایعنی باتیں، دنیا جہاں کی شرارتیں، وہ دونوں اپنا ہر مسئلہ، اپنے آپس کا ہر جھگڑا مجھ سے حل کرواتے تھے، اپنے اسکول کی باتیں مجھ سے ڈسکس کرتے تھے، اپنی اپنی گرل فرینڈز کے قصے مجھ سناتے تھے۔ میں ہنستی تھی تو وہ بھی ہنستے تھے، میں اداس ہوتی تو وہ بھی اداس ہو جاتے، میں کبھی روٹھ جاتی تو کون کون سے جتن کر کے مجھے مناتے، اپنے اپنے سرکل میں، اسکول میں، دوستوں میں ہر جگہ وہ میرا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے تھے، ’’نوین سب سے اچھی۔۔ ۔ نوین سب سے پیاری۔۔ ۔ نوین نے ایگزامز میں ٹاپ کیا ہے۔۔ نوین نے Dance Competition جیتا ہے۔۔ ۔  نوین نے تقریری مقابلے میں فرسٹ پرائز جیتا ہے۔۔ ۔ نوین کو ماڈلنگ کی آفر ہوئی ہے ‘‘۔ میں جیسے ان کیلئے ایک رول ماڈل تھی۔۔ بلکہ رول ماڈل سے کچھ زیادہ ہی۔۔ ۔ اور اب۔۔ ۔۔ اب میں ان کیلئے کیا ہوں۔۔

لوگوں کی آنکھوں میں اُن کیلئے اُگ آنے والا ایک ایسا کانٹا جو اب انہیں اگلے کئی سالوں تک چبھتا رہے گا، ایک ایسا بدنما اور گندا داغ جو اب شاید زندگی بھر انہیں نظریں جھکا کر اور چرا کر جینے پر مجبور کئے رکھے گا۔ زندگی میں وہ اب ہر جگہ میرے ذکر سے بچنے کی کوشش کریں گے اور لوگ ان کی ایسی ہر کوشش کو ناکام بنا دیں گے۔ آج سے کئی سالوں بعد جب پپا کے بزنس کو سنبھالتے ہوئے وہ مختلف لوگوں کے ساتھ بزنس میٹنگز اور ڈیلنگز کریں گے تو اس وقت ان کی اپنی شخصیت، ذہانت، محنت اور قابلیت کو نہیں دیکھا جائے گا۔۔ لوگ ان کی بہن کے ماضی کی راکھ کو چھیڑا کریں گے۔۔ اور جب ان کی شادیوں کا مرحلہ آئے گا تب۔۔ ۔ جب لڑکی والے یہ پوچھیں گے کہ ’’آپ کی بہن کے ساتھ کیا ہوا تھا؟‘‘ تو۔۔ تب وہ کیا جواب دیں گے؟۔۔ ہر جگہ ناکامی اور بے عزتی پر کیا انہیں مجھ سے نفرت نہیں ہو جائے گی؟۔۔ آج وہ مجھ سے ہمدردی کر رہے ہیں، مجھ پر ترس کھا رہے اور یہ ہمدردی اور ترس مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تو کل میں ان کی نفرت اور بیگانگی کیسے سہوں گی؟، آج وہ میری زندگی کی دعائیں مانگ رہے ہیں اور کل۔۔ ۔ کل وہ میرے مر جانے کی خواہش کریں گے۔۔ ۔ آج وہ مجھے مظلوم سمجھ رہے ہیں اور کل۔۔ ۔ کل انہیں مجھ سے بڑھ کر ظالم دنیا میں کوئی اور نہیں لگے گا۔۔ ۔ واقعی حادثے انسان کو بہت دور اندیش بنا دیتے ہیں۔۔ میں مسلسل سوچ رہی ہوں۔۔ ۔

اور جنہیں یہ ساری باتیں سوچنی چاہئیں وہ ایسا نہیں کر رہے۔۔ وہ خود کو دنیا کے سب سے مظلوم انسان سمجھ رہے ہیں، جن کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی زیادتی ہوئی ہے۔۔ وہ یعنی ممی پپا۔۔ جن پر مجھے ترس نہیں آ رہا، جن کو دیکھتے، بات کرتے ہوئے مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہو رہی بلکہ ان سے میری ناراضی بڑھتی جا رہی ہے۔

پچھلے اڑتالیس گھنٹوں میں اپنے پپا کو کئی بار دیکھ چکی ہوں، مجھے ان کی آنکھوں میں اپنے لئے جو کچھ نظر آیا ہے میں اسے لفظوں میں بیان کر ہی نہیں سکتی مگر اتنا ضرور جانتی ہوں کہ جو کچھ ان کی آنکھوں اور چہرے پر ہے اس کے آگے رنج، تکلیف، اذیت، درد، زیاں بہت ہی معمولی اور چھوٹے الفاظ ہیں، میں انہیں پھرکی کی طرح گھومتے ہوئے دیکھ رہی ہوں، کبھی اُس ڈاکٹر سے سوال، کبھی کسی سائیکاٹرسٹ سے مشورے، ماتھے پر تفکرات کے جال لئے وہ یہاں سے وہاں چکر بنے ہوئے ہیں، انہوں نے شاید خوراک کے نام پر کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے، میں جانتی ہوں انہیں کسی طرح بھی آرام نہیں ہے۔۔ ۔ وہ چین سے بیٹھ بھی کیسے سکتے ہیں۔۔ ۔ اب۔۔ ۔ اب وہ چین سے کیسے بیٹھ سکتے ہیں؟۔۔ ۔ اپنی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی کو اس بکھری، اجڑی اور مسلی ہوئی مسخ شدہ حالت میں دیکھ کر دنیا کا کونسا باپ ہے جو اطمینان سے سانس بھی لے سکتا ہے۔۔ ان پر جو گزر رہی ہے میں وہ اچھی طرح محسوس کر رہی ہوں مگر۔۔ ۔ پھر بھی مجھے ان سے کوئی ہمدردی نہیں ہے۔۔ نہ ہی میں ان کی اس تکلیف کیلئے جو میری وجہ سے ان کو پہنچ رہی ہے، شرمندہ ہوں۔۔

سالوں پہلے بچپن میں ایک بار لان میں کھیلتے ہوئے میں گلاب کے پودوں کی کیاری میں گر گئی تھی، مجھے کوئی چوٹ تو نہیں آئی تھی مگر کانٹوں میں الجھ کر میری فراک ایک جانب سے چِر کر پھٹ گئی تھی، وہ میری سب سے فیورٹ فراک تھی اور اسے پھٹا ہوا دیکھ کر میں بری طرح رو دی تھی۔ پپا نے اگلے کئی ہفتوں تک مجھے سینکڑوں نئی فراکس دلائی تھیں مگر میرا رنج اور کچھ کھو دینے کا احساس کم نہیں ہوا تھا، مجھے بار بار پچھتاوا ہو رہا تھا کہ اگر میں لان میں بھاگتے ہوئے احتیاط سے کام لیتی تو میری فراک کبھی خراب نہ ہوتی، پپا نے مالی بابا سے کہہ کر گلاب اور دوسرے پودوں کو وہاں سے ہٹوا کر دوسری جگہ لگوا دیا تھا۔۔

اور آج۔۔ ۔ آج بھی پپا یہی کر رہے ہیں۔۔ میں اپنی غلطیاں گن رہی ہوں اور پپا میرے وجود سے ایک ایک کر کے اُن کانٹوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں جنہوں نے مجھ سے زیادہ انہیں درد سے بلبلا رکھا ہے اس کے باوجود میری ان سے شکایات کم نہیں ہو رہیں۔۔ یہ ہر لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔۔ حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ وہ مجھ سے جنون کی حد تک محبت کرتے ہیں۔۔ کوئی اپنی پہلی اولاد سے نفرت کیسے کر سکتا ہے بھلا۔۔؟

پپا ہمیشہ ہی میرے معاملے میں Extra Protective رہے ہیں، میرے کپڑوں، کتابوں، کھلونوں تک کی وہ بہت فکر کیا کرتے تھے، اُن پر کوئی دھبہ، کوئی شکن، کوئی ٹوٹ پھوٹ وہ دیکھ ہی نہیں سکتے تھے، پھر اپنی لاڈلی اولاد کے پھٹے ہوئے کپڑوں میں ملبوس ادھڑے ہوئے وجود کو دیکھ کر انہوں نے کیسے برداشت کیا ہو گا؟، مجھے ان کی محبت پر کوئی شبہ نہیں، کوئی شک نہیں اس کے باوجود۔۔ اس کے باوجود میرے دل میں ان کیلئے بہت گِلے ہیں۔۔ بہت سے سوال ہیں۔۔ ۔ انہیں آخر یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا کہ اس طرح کے حلیے میں وہ مجھے پہلی بار تو نہیں دیکھ رہے بلکہ وہ تو مجھے اس سے بھی زیادہ ’’برے ‘‘ حلئے میں کئی بار دیکھ چکے ہیں، انہوں نے مجھے کبھی روکا ٹوکا نہیں۔۔ میری موجودہ حالت اورسابقہ حالت میں صرف اتنا فرق ہے کہ میرا یہ حلیہ میں نے فیشن کے نام پر ’’خود‘‘ نہیں بنایا۔۔ وہ یہ کیوں نہیں مان رہے کہ میری یہ حالت ان کی پرورش کا نتیجہ ہے۔۔ ۔ انہوں نے مجھے دنیا کی تمام تر آسائشیں دیں، میری تمام خواہشیں پوری کیں، مگر انہوں نے مجھے Moral Valuesنہیں دیں، انہوں نے مجھے ’’صحیح‘‘ اور ’’غلط ‘‘ کا فرق نہیں بتایا …  کیا Protection صرف ’’وجود‘‘ کی ہوتی ہے۔۔ ۔ کیا ’’ذات‘‘ کی حفاظت ضروری نہیں ہوتی؟۔۔

ان باتوں کا احساس کئے بغیر وہ موبائل پر کئی طرح کے لوگوں سے مسلسل رابطے میں ہیں، اُن کے مبہم جملوں سے میں کافی کچھ سمجھ گئی ہوں، ملک کے نامی گرامی بزنس مین میں سے ایک مرتضیٰ شیخ اپنا اثرورسوخ اب استعمال نہیں کریں گے تو کب کریں گے؟، اور میں یہ سوچ رہی ہوں کہ اپنے تمام سیاسی اور غیرسیاسی تعلقات استعمال کرنے کے بعد بھی وہ کیا واپس حاصل کر سکیں گے؟، جیل کی سلاخوں کے پیچھے اُن وحشی درندوں کو دھکیل کر وہ آخر کتنے عرصے تک وہاں قید رکھ سکیں گے اور انہیں سزا ہو بھی گئی تو بھی کیا ہونے والے نقصان کا ازالہ ہو سکے گا؟۔۔ مگر پپا کو ان باتوں کا خیال نہیں آ رہا وہ مسلسل کوششوں میں مصروف ہیں اور اب تک انہیں صرف اتنی کامیابی ملی ہے کہ میڈیا کو پہنچ جانے والی ’’اِس‘‘ خبر کو چند ہی لمحوں میں دبا دیا گیا ہے مگر کب تک کیلئے؟ اس کی کوئی گارنٹی نہیں۔۔ ۔ پولیس جگہ جگہ چھاپے مار رہی ہے، مجھے پولیس کو یوں بھی صرف ان کے حلیوں کے بارے میں بتانے کے اور کوئی بیان نہیں دینا پڑا۔۔ اورایسا صرف اس لئے تھا کہ میری ولدیت میں مضبوط اور طاقتور شخص کا نام تھا۔۔ اور میں شہر کے جس علاقے میں رہتی ہوں وہاں کا نام ہی اچھے اچھوں کے اوسان خطا کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے۔۔

میری جگہ اس وقت کوئی عام سی لڑکی ہوتی، جس کی ولدیت میں کسی ریڑھی والے، کسی سرکاری ملازم، کسی سکول ٹیچر، کسی دوکان والے کا نام ہوتا تو … میں شہر کے کسی چھوٹے علاقے میں رہتی، کسی عام سے خاندان سے تعلق رکھتی، گمنام ماں باپ کی اولاد ہوتی، ایک لگی بندھی عام سی زندگی گزار رہی ہوتی تو، جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا ہے اُسے میڈیا “بریکنگ نیوز” میں “اندوہناک” واقعے کی صورت “ناچ ناچ” کر اشتہارات کے لوازمات کے ساتھ اب نشر کر چکا ہوتا، موم بتی مافیا حرکت میں آ چکی ہوتی، ہر صورت اس واقعے کے ڈانڈے کسی نہ کسی طرح مذہب سے جوڑ دیئے جاتے، لبرل فاشسٹ اطمینان سے قانون نافذ کرنے والوں، مذہبی جماعتوں اور دین کو ذمے دار ٹھہرا کر ہاتھ جھاڑ چکا ہوتا، مذہبی رہنما نہایت ہی سنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھ پر ہی انگلیاں اٹھا دیتے، جن کے نزدیک ہر بُرائی کی ذمے دار لڑکی ہوتی ہے، اُسے ہی کونے کھدروں میں چھپا کر قید کر کے رکھ دیا جانا چاہئے، پولیس، میڈیا رپورٹرز، ہسپتال اور خاندان پر مبنی مستطیل کے چاروں کونوں کے درمیان ٹکراتے ہوئے میرے ماں باپ انصاف کی تلاش میں ہر امید ہار جاتے اور میں زندگی  …

اُس کے بارے میں کوئی بھی نہ سوچتا …

میں نے بھی کبھی نہیں سوچا تھا، خود پر پڑی ہے تو سمجھ آئی ہے ..

میں عام نہیں ہوں، بڑے ماں باپ کی بیٹی ہوں، اثر ورسوخ رکھنے والے ماں باپ کی بیٹی مگر یہ سب۔۔ پپا کی ساری کوششیں۔۔ ممی کی بھاگ دوڑ کچھ بھی مجھے بہلا نہیں پا رہی … ۔ میں اب ’’بہل‘‘ کیسے سکتی ہوں۔۔

میں انہیں یہ بتا ہی نہیں پا رہی کہ میں نے تو وہ فصل کاٹی ہے جس کا بیج انہوں نے اور ممی نے میری زندگی میں بویا تھا۔

ممی۔۔ ۔ ہاں۔۔ ۔ ممی کو بھی میں نے اڑتالیس گھنٹوں میں کئی بار دیکھا ہے۔۔ ۔ وہ کچھ دیر پہلے بھی میرے سرہانے ہی بیٹھی کچھ آیات یاد کرنے کی کوشش کرتے ہوئے آنسو بھری آنکھوں سے مجھے دیکھتے ہوئے مجھ پر پڑھ کر پھونک رہی تھیں۔۔ پتہ نہیں انہیں رونا میری تکلیف پر آ رہا تھا یا آیات یاد نہ آنے پر۔۔ میں اب کچھ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتی۔۔ میں جانتی ہوں وہ چاہتی ہیں کہ میرا درد کم ہو جائے، میں پرسکون ہو کر سوجاؤں۔۔ ایک لمبی نیند۔۔ اتنی فکر کرتے ہوئے میں نے انہیں پہلی بار دیکھا ہے۔۔ اور اُن کا یہ روپ میرے لئے کس قدر اجنبی ہے کاش میں انہیں دوسری بہت سی باتوں کی طرح بتا سکوں۔۔

ہوش سنبھالتے ہی میں نے ممی کو ایک انتہائی ایکٹو سوشل ورکر کے طور پر ہی دیکھا تھا، وہ ایک نامی گرامی غیر ملکی این۔ جی۔ او سے منسلک ہیں، جس کا صدر مقام جینیوا میں ہے اور جو پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے دوسرے ممالک میں خواتین اور بچوں کے حوالے سے فلاح و بہبود کا کام کر رہی ہے اور جس کیلئے تیس فیصد فنڈز وہ ان مقامی علاقوں سے حاصل کرتے ہیں جہاں وہ ریفارمر کے طور پر کام کر رہے ہوتے ہیں جبکہ بقایا ستر فیصد اخراجات کی مد میں فنڈز اور ڈونیشنز ہائی کمیشن سے ملتا ہے۔ واکس، سیمینار، مظاہرے، صوبائی اور قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے کسی ترمیمی بل کے حوالے سے تحفظات کا اظہار، متاثرہ اور ناخواندہ خواتین اور بچوں کے اعداد و شمار۔۔ ۔ .. یہی ہے میری ممی مسز نجمہ مرتضیٰ کی زندگی۔۔ اور ان کاموں میں مصروف رہنے کے باوجود وہ اپنے لئے بھی وقت نکالنے کی عادی تھیں۔۔ باب کٹ ہیئر اسٹائل، نک سک سے ہر وقت تیار، ہلکے پھلکے میک اپ سے آراستہ، دھیمی اور مہنگی ترین امپورٹڈ خوشبوؤں میں نہائی ہوئی، دنیا کے بہترین ڈیزائنرز وئیرز پہنے، ہاتھوں اور کانوں میں ڈائمنڈ کی جیولری سے مزین۔۔ یہ تھی میری ممی کی ظاہری شخصیت۔۔ مگر آج جو پورا دن خاتون میرے ساتھ تھیں وہ تو کوئی اور ہی تھیں۔۔ اور آج ہی انہوں نے اپنی زندگی میں سے ایک پورا دن میرے لئے وقف کیا ہے ورنہ تو وہ اپنی اولادوں کو ہمیشہ ’’کوالٹی ٹائم‘‘ دینے پر یقین رکھتی تھیں۔۔ ۔ وہ آج ہی پاکستان پہنچی تھیں، پچھلے بیس روز سے وہ نیپال میں تھیں، جہاں وہ جسم فروش خواتین کے حوالے سے ورکشاپس کے علاوہ متاثرہ خواتین سے مل کر اُن کی زندگیوں کو اس جہنم سے نکالنے کیلئے لائحہ عمل بنانے میں مصروف تھیں۔۔ ویسے یہ بھی کتنی عجیب بات ہے نا کہ دنیا بھر میں جسم فروش خواتین مرد و بچوں کی زندگیوں کو اس غلاظت سے نکالنے کیلئے بھرپور کوششیں ہو رہی ہیں، پالیسیز بنائی جا رہی ہیں، لاکھوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی جا رہی ہے، اس کے باوجود ایک جانب پورنوگرافی اس وقت دنیا کا سب سے منافع بخش کاروبار ہے، سب سے زیادہ تیزی سے پھلنے پھولنے اور ترقی کرنے والی انڈسٹری ہے، صرف مسلم دنیا میں ہی کروڑوں کی تعداد میں مفت خدمات پیش کرنے والی ویب سائٹس کو لوگ صرف ایک دن میں وزٹ کرتے ہیں جن میں تارکین وطن کی تعداد سب سے نمایاں ہے، یہی نہیں پورنو ویب سائٹس کی لاکھوں امریکی ڈالرز کی سبسکرپشن صرف مسلم دنیا سے ہی حاصل کی جا رہی ہے، تو دوسری جانب شہر شہر گاؤں گاؤں میں جسم فروشی کی وباء بھی بڑھتی جا رہی ہے بلکہ بعض دیہی علاقے تو ایسے بھی ہیں جہاں اس قبیح فعل کیلئے صرف انسانوں پر ہی اکتفا نہیں کیا جا رہا بلکہ جانوروں تک کو بھی “دھندے ” پر بٹھا دیا گیا ہے، Prostitution نت نئے ناموں کے ساتھ بدلتی ہوئی دنیا کا ایک Norm بن گئی ہے اور اسی شدت سے اس کا سر کچلنے کیلئے سرتوڑ کوششیں کی جا رہی ہیں، مگر کون جانتا ہے کہ ان دونوں طرح کی کاوشوں میں کون ملوث ہے، کہیں قاتل ہی تو مسیحا کے بھیس آستین کا سانپ بن کر نہیں بیٹھا ہوا  … اُف … اس ایک حادثے نے کیسے کیسے در کھول دیئے ہیں مجھ پر سوچوں کے  … یکدم ہی میرا وژن یوں پھیل گیا ہے کہ چیزیں صحیح اور غلط کے ساتھ آر پار دکھنے لگی ہیں ..

اوہ!ممی شاید وہ میرے بارے میں اطلاع پاتے ہی پاکستان آ گئی تھیں۔۔ کتنی عجیب بات تھی۔۔ جس ذلت اور تکلیف کے سمندر سے غوطے کھاتے کھاتے میں ڈوبتی ابھرتی جس وقت درد کے کنارے پر پہنچی تھی اس وقت میری ماں۔۔ ۔ مجھے جنم دینے والی ماں۔۔ ۔ اس دنیا میں خدا کا سا روپ رکھنے والی ماں۔۔ ۔ میرے پاس۔۔ میرے قریب نہیں تھی۔

اڑی ہوئی رنگت، آنکھوں میں آنسو، ملگجا لباس۔۔ وہ اپنا ہی کوئی بچھڑا ہوا سایہ لگ رہی تھیں۔۔ میں جانتی ہوں وہ شدید اذیت سے دوچار ہیں۔۔ مگر میں کیسے مان لوں۔۔؟

’’میری بیٹی کے ساتھ ہی یہ سب کیوں؟۔۔ کیسے۔۔؟۔۔ کس لئے۔۔ ۔؟، خدا غارت کرے اُن جانوروں کو۔۔ کُتے۔۔ حرام زادے۔۔ ‘‘ انہوں نے روتے ہوئے کہا تھا۔۔ وہ اُس عورت سے بالکل مختلف لگ رہی تھیں جس کو میں نے ہمیشہ دیکھا تھا۔۔ ۔ تکلف سے، مینرز اور ایٹی کیٹس کا خیال رکھنے والی۔۔ اُن کو ایک عام عورت کی طرح بین کرتے ہوئے دیکھا میرے لئے حیران کُن تھا، اُس عام عورت کی طرح جس سے اُنہیں نفرت تھی۔۔ ۔ شدید نفرت۔۔ ۔!

’’سخت زہر لگتی ہے مجھے پاکستانی عورت۔۔ ۔ نہ اپنی کوئی سوچ، نہ اپنی کوئی رائے اور نہ ہی اپنی زندگی میں کسی بھی بات کیلئے آزاد۔۔ باپ، بھائی اور شوہر کی پابندیوں کا چولا پہن کر گھُٹ گھُٹ کر زندگی گزارنے والی۔۔ رہی سہی کسر مذہب نے پوری کر دی ہے۔۔ بھئی مذہب زندگیوں میں آسانیاں پیدا کرنے کیلئے ہوتا ہے نا کہ مشکلات بڑھانے کیلئے۔۔ ۔ دنیا چاند پر جا کر زندگی کے آثار ڈھونڈ رہی ہے اور یہاں کی عورتیں آج تک ’’چادر‘‘ کے ’’پنجرے ‘‘ سے ہی خود کو آزاد نہیں کرواسکیں ‘‘ میں خاموشی سے متاثر ہوتے ہوئے ان کے نادر خیالات سنا کرتی تھی۔۔ وہ ایک مکمل Progressive عورت تھیں اور وہ دھڑ لے سے کہا کرتی تھیں کہ “عورت نے کب بچہ پیدا کرنا ہے اور کس کا بچہ پیدا کرنا ہے یہ اُس کی اپنی چوائس ہونی چاہئے، اُسے لباس پہننا ہے یا نہیں پہننا یہ بھی اُس کی مرضی ہے، کوئی مرد، کوئی معاشرہ اور کوئی مذہب کون ہوتا ہے اُسے یہ بتانے والا کہ اُسے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہیں ”، میں اُن کے خیالات حفظ کر لیا کرتی تھی، مجھے ایک Progressiveماں کی بیٹی ہونے پر فخر تھا۔۔ مگر اب نہیں۔۔ ۔ انہیں اسی عام پاکستانی ماں اور عورت کے روپ میں دیکھ کر مجھے حیرت بھی ہو رہی تھی اور ناگواری بھی۔۔ ۔ انہیں آخر یہ احساس کیوں نہیں ہو رہا تھا کہ ان کی وہ Progressiveسوچ در اصل وہ آگ ہے جس نے کسی اور کو تو جلایا ہو یا نہیں مگر اُن کی اپنی بیٹی کو جلا کر راکھ کر ڈالا تھا۔ کیا ہوتا جو اگر وہ ایک عام پاکستانی عورت اور ماں ہوتیں۔۔ ۔ دنیا کے پیچھے اندھوں کی طرح بھاگتے ہوئے چاند پر جانے کی اُن کی خواہش کم از کم مجھے تو پاتال میں نہیں اُتارتی۔۔ میں اُن سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا ایکProgressive ماں کا فرض صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کے بچے کلاس میں فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن لاتے رہیں، اُن کے پاس دنیا کا ہر علم ہو، کیا ایک ماں کا کام صرف یہیں تک محدود ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانے کے ادب و آداب ہی سکھائے، کانٹا پلیٹ کے دائیں جانب رکھنا چاہئے یا بائیں، پانی کا گلاس کس ہاتھ پر اور روٹی کس ہاتھ پر رکھی ہونی چاہئے۔۔ کیا ایک Progressive زندگی کیلئے یہی جاننا ضروری ہے۔۔

میرا دل چاہتا ہے کہ میں انہیں بتاؤں کہ جو تعریف Progressiveہونے اور لبرل ہونے کی وہ کرتی آئی ہیں وہ کچھ نہیں صرف اندھا کنواں ہے اور بس … ایک ایسی آگ جو دکھائی نہیں دیتی مگر اچھے اچھوں کی عقل جلا کر راکھ کا ڈھیر کرتی جا رہی ہے، لبرلازم کا مطلب ہرگز ہرگز وہ نہیں ہے جس کو انیس سال میں پریکٹس کرتی رہی ہوں  … میں پوچھنا چاہتی ہوں اُن سے کہ کیا ایکProgressiveماں کی یہ ذمے داری نہیں کہ وہ اپنی بیٹی کو اٹھنے بیٹھنے، بولنے، چلنے، لباس میں احتیاط کرنا سکھائے؟، کیا انہیں احساس نہیں کہ کیسی زیادتی سی زیادتی کر ڈالی ہے انہوں نے میرے ساتھ۔۔

’’کیا والدین اولاد کا بُرا چاہ سکتے ہیں؟‘‘ کچھ مہینوں پہلے میری کلاس فیلو ناجیہ نے مجھ سے پوچھا تھا۔ وہ میری ہم عمر ہی تھی اور اس بات پر شدید غصے میں تھی کہ جس لڑکے سے وہ محبت کرتی تھی، اُس کے بچے کی ماں بننے والی تھی اور اب اسی سے شادی کرنا چاہتی تھی، اُس کے ماں باپ کو وہ لڑکا بطور داماد سخت ناپسند تھا البتہ وہ اس بات کو بُرا نہیں سمجھتے تھے کہ ناجیہ وقت گزاری کیلئے اس لڑکے کے ساتھ دوستی رکھے۔۔ آخر ایسی دوستیاں وقت اور عمر کا تقاضا ہی ہوتی ہیں، اور جنس تو ایک حقیقت ہے اس میں کیا شرم، وہ کون سا آرتھوڈوکس لوگ ہیں، وہ تو پڑھے لکھے روشن خیال لوگ ہیں، مگر اتنی کم عمری میں شادی … اُن کا سرکل کیا کہے گا کہ چائلڈ میریج کو پروموٹ کر رہے ہیں، آج کا دور تو کریئر بنانے کا دور ہے، شادی کا کیا ہے وہ تو ہو ہی جاتی ہے اور نادانی کا کیا ہے اس عمر میں ہر لڑکا اور لڑکی ایسی نادانیاں کرتے ہی ہیں، اُن کے اس روئیے کی ناجیہ اکثر شکایت کرتی تھی۔۔ اُس روز میں اُس کے سوال پر خاموش رہی تھی، میرے پاس اُس وقت اس سوال کا جواب نہیں تھا۔

’’ہاں! چاہ سکتے ہیں ‘‘ کچھ لمحوں بعد اُس نے خود کلامی کی تھی ’’بُرے ماں باپ‘‘ میں حیران رہ گئی تھی۔

’’ماں باپ بُرے نہیں ہوتے۔۔ ۔ ہو ہی نہیں سکتے ‘‘ میں نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تھا۔

’’ہاں!سب اولادیں بد قسمت نہیں ہوتیں۔۔ مگر ہم ہیں۔۔ یا شاید صرف میں ہوں ‘‘ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ بولی تھی تو اُس کا لہجے میں عجیب سی چبھن تھی ’’ہمارے ماں باپ زندگی کے ہر شعبے میں Exceptionalہیں بس اپنی زندگی میں موجود رشتوں کے معاملے میں بہت بڑے Failures ہیں ‘‘ اُس کی آواز میں رنج تھا ’’کنفیوژڈ لوگ کبھی اچھے ماں باپ نہیں بن سکتے۔۔ ۔ Hypocrites ہمیشہ بُرے ماں باپ ہوتے ہیں۔۔ ۔ جو زندگی بھر اولادوں کو لبرل ازم انجیکٹ کرتے رہتے ہیں اور پھرStereotypical انداز میں اپنی مرضی اور فیصلے ہم پر مسلط کرتے رہتے ہیں، ساری عمر ویسٹرن بنے رہتے ہیں اور پھر اچانک ان پر مشرقیت کا بھوت سوار ہو جاتا ہے ‘‘ اُس نے کہا تھا، میں اُس وقت متفق نہیں تھی، مگر اب ہوں۔۔ ۔

یہ ماننا اولاد کیلئے بے حد تکلیف دہ ہوتا ہے کہ اس کے ماں باپ ناکام ترین والدین ہیں اور اس سے بھی زیادہ اذیت ناک یہ بات ہوتی ہے کہ ماں باپ خود اس تلخ حقیقت سے انجان رہتے ہیں۔۔ خود مجھے بھی تو۔۔ مجھے بھی اس حادثے سے گزر کر ہی اس بات کا احساس ہوا ہے ورنہ تو۔۔ ۔ آہ۔۔ ۔ دو دن پہلے تک زندگی کیا تھی اور دو دن بعد زندگی کیا بن گئی ہے۔۔ ۔ کیا زندگی سے بڑا مذاق۔۔ ۔ سنگین مذاق دنیا میں کوئی اور ہے؟۔۔ کیا اللہ آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ مذاق آپ بناتے ہیں یا ہم۔۔؟۔۔ ہم انسان خود اپنے ساتھ یہ سنگین مذاق کرتے ہیں؟۔۔ ۔ مجھے معلوم ہے آپ مجھے عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے سوچ رہے ہوں گے کہ ’’کیا اب بھی مجھے اس سوال کے جواب کو جاننے کی ضرورت ہے؟‘‘، واقعی اب مجھے آپ سے کسی سوال کی ضرورت تو نہیں ہے، آپ نے تو بہت پہلے ہی سب کچھ بتا دیا تھا، سب کچھ جتا دیا تھا، کچھ بھی چھُپا کر نہیں رکھا تھا۔۔ مگر میں انجان ہی رہی۔۔ پتا نہیں کون سی چیز تھی جس نے مجھے ہر صحیح اور غلط میں تمیز بھلا رکھی تھی،۔۔ مجھے کبھی پتا ہی نہیں چلا۔۔ اُس وقت بھی نہیں جب صالحہ مشتاق نے مجھے راہِ راست پر لانے کی بھرپور کوشش کی تھی۔۔ نہ جانے ان دو دنوں میں وہ مجھے اتنی یاد کیوں آ رہی ہے۔۔ ۔ حالانکہ اس کے ساتھ میری دوستی کو ختم ہوئے بہت سال ہو چکے ہیں اور میری اُس سے دوستی ختم کروانے والی بھی ممی ہی تھیں۔ نہ جانے ممی صالحہ سے اتنی خار کیوں کھاتی تھیں۔۔ حالانکہ وہ محض ایک دو بار ہی اپنی امی کے ساتھ میرے گھر آئی تھی اور ایک نظر میں ہی ممی نے ان دونوں کو ناپسندیدہ قرار دے دیا تھا، ان کی اس ناپسندیدگی میں اُس وقت مزید اضافہ ہو گیا تھا جب میں نے انہیں بتایا تھا کہ صالحہ کی امی نے اسے اسکول سے اٹھوا کر کسی دوسرے اسکول میں داخل کروا دیا ہے، انہوں نے غیر دلچسپی سے یہ قصہ سنا تھا مگر جب میں نے ممی کو ان کے اس اقدام کی وجہ بتائی تھی تو وہ یکدم غصے میں آ گئی تھیں۔

’’اسی لئے کہتی ہوں کہ اس طرح کے لوگوں سے سلام دعا کا بھی تعلق نہیں رکھنا چاہئے، یہ مذہبی لوگ بہت ہی دقیانوسی اور کٹر ہوتے ہیں، نہ خود زندگی میں آگے بڑھتے ہیں اور نہ ہی کسی دوسرے کو آگے بڑھتا دیکھ سکتے ہیں، ہر وہ چیز جس سے زندگی میں راحت، رونق اور خوشی آتی ہو ان کی نظر میں حرام ہوتی ہے ‘‘ انہوں نے مجھے فیصلہ سنا دیا تھا ’’بس ختم کرو اس سے دوستی‘‘، میں اُس وقت ممی کے اتنے زیرِ اثر تھی کہ مجھے ان کی کوئی بھی بات غلط لگتی ہی نہیں تھی۔

صالحہ کو اُس کی امی نے اسکول سے صرف اس لئے اٹھوا لیا تھا کیونکہ اسکول میں Valentine`s Dayمنایا جا رہا تھا اور صالحہ کی امی کا خیال تھا کہ ایسا کرنا ہماری مسلم اقدار سے کھلم کھلا انحراف ہے، مجھے یہ ساری بات صالحہ نے خود بتائی تھی اور مجھے اُس کے لہجے میں کوئی دُکھ اور ملال محسوس نہیں ہوا تھا، وہ اپنی امی کے اس فیصلے پر خوش تھی، اسکول الگ ہوتے ہی ہمارا رابطہ بالکل ختم ہو گیا۔

مگر جب وہ دوبارہ مجھے کالج میں ملی تو میں اُسے پہچان ہی نہیں سکی تھی، کیونکہ اُس نے عبایا لیا ہوا تھا اور چہرہ سکارف سے ڈھانپا ہوا تھا، صرف آنکھیں نظر آتی تھیں اور میں اتنے عرصے بعد اُسے صرف آنکھوں سے تو شناخت نہیں کر سکتی تھی لیکن اُس نے مجھے فوراً پہچان لیا تھا، شاید کسی کیلئے بھی مجھے “پہچاننا” مشکل نہیں تھی، میں ’’کھُلی کتاب‘‘ جو تھی۔ اُس نے مجھ سے اپنا تعارف کروایا تھا اور تب ہی وہ مجھے یاد آئی تھی۔ اُسے دوبارہ دیکھ کر اور وہ بھی اتنے عجیب حلئے میں دیکھ کر مجھے کوفت تو بہت ہوئی تھی مگر میں نے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا، میری اور اُس کی فیکلٹی ایک ہی تھی لہذا ہر روز ہی ہمارا آمنا سامنا ہوتا تھا، میری زندگی میں نئے دوست آ چکے تھے اور صالحہ مشتاق کیلئے کہیں کوئی جگہ نہیں تھی اس کے باوجود صالحہ شاید یہ سوچتی تھی کہ سکول کی طرح ہم کالج میں بھی فرینڈز بن کر رہیں گے تو یہ ممکن نہیں تھا۔

مجھے یہ تو اندازہ تھا کہ جس طرح کی فیملی سے صالحہ کا تعلق تھا اُس کا ظاہر ایسا ہی ہونا چاہئے تھا مگر گرلز کالج میں بھی اُس کا سر مسلسل ڈھانپے رہنا صرف مجھے ہی نہیں کافی لڑکیوں کو ناگوار گزرتا تھا، حالانکہ وہ کالج کی حدود میں باقاعدہ پردہ نہیں کرتی تھی صرف سر ہی ڈھانپ کر رکھتی تھی مگر وہ بھی میرے لئے ناقابل برداشت تھا.میں یہ بھی جاننا چاہتی تھی کہ آج کے جدید دور میں عبایا جیسی ’’پابندی‘‘ کو وہ Carryکرتے ہوئے کیسا محسوس کرتی تھی اور ایک روز میں نے اُس سے پوچھ ہی لیا تھا۔

’’نہیں! مجھے کوئی مشکل پیش نہیں آتی بلکہ میں تو بہت Comfortableمحسوس کرتی ہوں اور پھر نائنتھ کلاس سے پردہ کر رہی ہوں تو اب تو عادت ہو گئی ہے ‘‘اُس نے مسکرا کر جواب دیا تھا۔

’’مگر کیوں؟۔۔ اب تو Norms بدل گئی ہیں؟‘‘میں نے پوچھا تھا۔

’’اللہ اور رسولﷺ کے بتائے ہوئے اصول ہر دور کیلئے ہیں، Normsنہیں بدلے ہیں ہماری سوچ بدل گئی ہے ‘‘ اُس نے بدستور مسکراتے ہوئے کہا تھا۔

’’پُرانے دور میں تو عورتیں گھروں میں ہی رہتی تھیں وہ کچھ کرتی ہی کہاں تھیں جبکہ آج عورت سب کچھ کر رہی ہے اور یہ پردہ، یہ عبایا اس کی راہ میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہے ‘‘میں نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔

’’نہیں یہ ہماری کم علمی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ پرانے وقتوں میں خواتین کچھ نہیں کرتی تھیں بلکہ خدیجہ کُبریٰ کی مثال سامنے ہے کہ انہوں نے پردہ کرتے ہوئے بھی تجارت کا کام کیا، عبایا کبھی بھی کسی عورت کیلئے مسئلہ نہیں بنا یہاں تک کہ غزوات کے ادوار میں خواتین زخمی صحابیات کی مرہم پٹی وغیرہ کا کام بھی کرتی تھیں۔۔ ۔ تم آج کی بات کر رہی ہو تو کیا تم بھول گئی ہو کہ مسلم دنیا کی پہلی جیٹ پائلٹ پاکستانی تھی اور باقاعدہ سکارف لیا کرتی تھی، میڈیسن، سائنس، ریسرچ، کری ایٹو رائیٹنگ کون سا شعبہ ہے جہاں آج کی عورت اپنی ذہانت سے Excel نہیں کر رہی ہے اور کہیں بھی عبایا یا سکارف اُس کیلئے رکاوٹ نہیں بن رہا … پردہ تو ہر دور میں عورت کی حفاظت کیلئے اہم رہا ہے ‘‘

’’تو جو لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں کیا وہ غیر محفوظ ہیں؟‘‘ پتا نہیں کیوں میں جرح پر اتر آئی تھی۔

’’ہاں ‘‘ اُس نے دو ٹوک جواب دیا تھا۔

’’کیا کسی پردہ کرنے والی عورت پر کبھی کوئی برا وقت نہیں آتا؟‘‘ میں نے طنزیہ پوچھا تھا۔

’’آتا ہے۔۔ آ سکتا ہے۔۔ ممکن تو ہر چیز ہے۔۔ لیکن وہ آزمائش ہوتی ہے۔۔ امتحان ہوتا ہے۔۔ اس میں لڑکی کا اپنا ہاتھ نہیں ہوتا‘‘ اس کی مسکراہٹ میں کوئی کمی نہیں آئی تھی۔

’’تو تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ جو لڑکیاں پردہ نہیں کرتیں، فیشن اور ٹرینڈز کو فالو کرتی ہیں وہ غیر محفوظ ہیں، بری ہیں؟‘‘، میں نے خاصا برا مانا تھا، میرے ذہن میں ممی کا وہ خیال بیٹھا ہوا تھا کہ مذہبی لوگ بہت کنزرویٹو ہوتے ہیں اور اپنے آگے کسی کی بات نہیں سنتے اور انہیں اپنے علاوہ سب گناہگار اور غلط لگتے ہیں۔

’’نہیں لڑکی کوئی بری نہیں ہوتی چاہے وہ پردہ کرتی ہو یا نہیں ‘‘اُس نے کہا تھا اور اُس کے جواب نے مجھے خاصا حیران کیا تھا ’’لیکن ہاں وہ لڑکیاں جو بے پردہ گھومتی ہیں، Revealing ڈریسز پہنتی ہیں وہ اصل میں اپنی ’’شامت‘‘ کو خود آواز دیتی ہیں۔۔ اب دیکھو نا ہم دھوپ کی حدت سے بچنے کیلئے Sun Screen کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ہماری اسکِن خراب نہ ہو تو پھر ہم باہر گھومنے والے مردوں کی گندی نظروں اور غلیظ سوچوں سے بچنے کیلئے خود کیوں نہ ڈھانپیں؟‘‘

’’معاف کرنا صالحہ میں تمہاری اس Logic سے اتفاق نہیں کرتی، جو مرد حضرات بری نظروں سے دیکھتے ہیں، گندے جملے کستے ہیں سزا تو اُن کو ملنی چاہئے، گناہ تو وہ کرتے ہیں اس کی وجہ لڑکیوں کو ٹھہرانا نا انصافی ہے، ناجائز ہے بلکہ ظلم ہے ‘‘میں نے ایک اور نقطہ اٹھایا تھا ’’معذرت کے ساتھ اسلام اُن مردوں کو تو کچھ کہتا نہیں ہے، اسلام میں تو ہر برائی کی جڑ عورت کو قرار دے دیا جاتا ہے ‘‘میں لاشعوری طور پر ممی کے الفاظ ہی دوہرا رہی تھی۔

’’نہیں نوین!ہمارا دین ہر ایک کیلئے برابر ہے، سب کو تمام حقوق دیتا ہے اور ان کی پاسداری کرنا سکھاتا ہے، یہ مذہب صرف مردوں کی ترجمانی کرنے کیلئے نہیں اتارا گیا، ہمارے مذہب نے جس طرح عورت کی Protectionپر زور دیا ہے وہ بے مثال ہے ‘‘ اس نے بدستور مسکراتے ہوئے نرم لہجے میں کہا تھا

’’عورت کو اگر جسم ڈھانپنے کا حکم ہے تو مردوں کو نظریں جھکا کر رکھنے کی تاکید و ہدایت کی گئی ہے تا کہ دونوں ہی گناہ سے بچ سکیں۔۔ لیکن اب اگر دونوں ہی ان احکامات پر عمل نہیں کرتے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہیں تو یہ ایک اور غلطی ہے اور پھر یقیناً وہ خسارے میں بھی رہتے ہیں ‘‘اُس نے اپنی جانب سے بھرپور دلیل دی تھی لیکن میرا اختلاف قائم تھا۔ ”ہم سائیکولوجی کے اسٹوڈنٹس ہیں نوین اور انسانی نفسیات، جبلت، اُس کی بشری کمزوریاں اور تقاضے ہماری فنگر ٹپس پر ہونی چاہئے، جس قسم کا ماحول ہے ہمارے اردگرد، پورنوگرافی کی Access نے ہماری معاشرتی روایات کو بالکل بگاڑ کر رکھ دیا ہے، ہم اکثر سنتے ہیں کہ جنسی بے راہ روی پڑھ گئی ہے، مگر یہ غلط ہے، ”ذہنی بے راہ روی” بڑھ گئی ہے، ہم بڑے عجیب دور میں آ گئے ہیں نوین، اب مرد و عورت کا تعلق صرف “مرد و عورت” کے تعلق میں ہی بریکٹ کیا جانے لگا ہے، اشتہا، ہیجان ایک بہت بڑا فرسٹریشن بن چکا ہے اور پھر اس کا Outburst ہم آئے دن دیکھتے اور سنتے ہیں تو کیا بہتر نہیں ہے کہ انسان خود ہی محتاط ہو جائے تاکہ کسی ناگہانی سے بچ سکے ”، اُس کے دن کے بعد سے تو صالحہ نے جیسے ایک سلسلہ ہی شروع کر دیا تھا مجھے لیکچرز دینے کا، کبھی وہ مجھے میری تنگ لباس پر ٹوکتی تو کبھی میرے بے حجاب گھر سے نکلنے پر تنقید کرتی، جلد ہی میری برداشت جواب دے گئی تھی۔

’’دیکھو صالحہ!مذہب پرائیوسی میں مداخلت کو بھی پسند نہیں کرتا اور تم ضرورت سے زیادہ میری ذاتیات میں دخل اندازی کر رہی ہو، میں تم سے نہیں کہتی کہ عبایا لینا چھوڑ دو یا تھوڑی ماڈرن ہونے کی کوشش کرو تو تم بھی مجھے ہر وقت وعظ مت دیا کرو، یہ میری زندگی ہے جو مجھے ایک ہی بار ملی ہے، اللہ نے مجھے خوبصورت بنایا ہے اور یہ میرا حق ہے کہ میں اپنی خوبصورتی کو جس طرح چاہے نمایاں کروں یوں بھی جس کے پاس جو ہوتا ہے وہ دنیا کو وہی دکھاتا ہے ‘‘ میں نے تلخ لہجے میں کہا تھا، اُس کے بعد میں خود ہی اس سے دور دور رہنا شروع کر دیا تھا، ممی صالحہ جیسے لوگوں کہ بارے میں جو کہتی تھیں ٹھیک کہتی تھیں۔

’’دنیا بدل گئی تھی، دنیا کا مزاج بدل گیا تھا۔۔ زمانہ بدل رہا ہے لیکن صالحہ جیسے لوگ۔۔ ‘‘میں سوچتی تھی، میں اپنے لئے “آزادی” مانگتی تھی شخصی آزادی  … لیکن کسی دوسرے کو وہ Space دینا مجھے آتا ہی نہیں تھا، جیسے صالحہ، وہ مجھے کچھ سمجھاتی تھی تو مجھے وہ دخل اندازی لگتا تھا، لیکن میں خود اُس کے حلئے پر تنقید کرتے ہوئے یہ نہیں سوچا کرتی تھی کہ وہی شخصی آزادی صالحہ کا بھی حق ہے  …

پھر انہی دنوں صالحہ کا نکاح ہو گیا اور مجھے یہ جان کر بے حد حیرانی ہوئی تھی کہ یہ نکاح سو فیصدی صالحہ کی مرضی اور پسند سے ہوا تھا، مجھے صالحہ کے دوغلے پن پر بے حد غصہ آیا تھا، یہ وہی صالحہ تھی جو مجھے میرے بوائے فرینڈ فرحان سے دور رہنے کے مشورے دیا کرتی تھی اور ہر وقت مجھے یہ سمجھاتی رہتی تھی کہ ایسے ناجائز رشتوں کی دین اسلام سختی سے ممانعت کرتا ہے اور وہی صالحہ نہ صرف پسند سے نکاح کر بیٹھی تھی بلکہ اُسے وہ دین کی ممانعت بھی یاد نہ آئی تھی اور موقع ملتے ہی میں نے صالحہ کو یہی کہا تھا.

وہ میری بات سن کر مُسکرائی تھی”پسند اور انتخاب کا حق تو مجھے میرا دین دیتا ہے نوین، میرا دین صاف کہتا ہے کہ مرد و عورت ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھ لیں، کوئی ابہام کوئی شک ہے تو دور کر لیں، کوئی بات شادی سے پہلے بتانا چاہتے ہیں تو بتا دیں تاکہ وہ بناء کسی دباؤ کے کوئی بھی فیصلہ کر سکیں ”، اُس نے میری بات کا بُرا منائے بغیر کہا تھا، ”لیکن نوین!یہ سب میرے اور فرید کے گھر والوں کے علم میں تھا، ہمیں جھوٹ نہیں بولنا پڑا، ہم کسی سے چوری چھپ کر نہیں ملے، ہم تنہائی میں ضرور ملے مگر فاصلے پر دور دور بیٹھ کر، میں نے باقاعدہ پردہ کیا ہوا تھا اور فرید نے نظریں جھکا رکھیں تھیں، رات گئے تک لمبی لمبی فون پر گپ شپ، انڈرسٹینڈنگ کے نام پر ہر حد سے گزرتی ہوئی گفتگو، ہوٹلنگ، فارم ہاؤسز میں رات کا قیام یہ سب محبت نہیں ہے، بُرا مت ماننا یہ سب Prostitution کی ایک نہایت

Advance اور بھیانک شکل ہے، ساری بات Interpretation کی ہے اور افسوس کی بات ہے کہ مذہبی احکامات کی انتہائی غلط Interpretation کی جا رہی ہے خاص کر میڈیا اور بڑے پلیٹ فارمز پر جو مذہبی رہنما ہیں یہ کام سب سے سفاکی کے ساتھ وہی کر رہے ہیں ”.میں جو اپنی دلیلوں سے اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیا کرتی تھی، صالحہ مشتاق کے آگے نکو سی بن کر رہنے لگی تھی اُس کی کوئی بات مجھے سمجھ نہیں آتی تھی، مگر وہ میری ہر منطق کو اپنی دلیل اور دانش کے چھری چاقو سے اتار کر میری ہتھیلی پر دھر دیتی تھی، بہت یہی تھا کہ میں اُسے مکمل نظر انداز کرتی … اور پھر میں نے یہی کیا تھا..

مگر اُس وقت مجھے رتی بھر اندازہ نہیں تھا کہ صالحہ کی باتیں مجھے اس طرح سمجھ میں آئیں گی، انسان کو کبھی نہ کبھی خدا کی طرف سے ایک ’’وارننگ‘‘ ضرور ملتی ہے کہ ابھی بھی وقت ہے سنبھل جاؤ، صالحہ میرے لئے ایک ایسی ہی وارننگ تھی جسے میں نے جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔۔ میں تو بس خوش تھی۔۔ مگن تھی۔۔ میری زندگی میں کوئی خلاء، کوئی کمی اور کوئی حسرت نہیں تھی پھر میں زندگی کو انجوائے کیوں نہ کرتی۔۔ مگر میں یہ جانتی ہی نہیں تھی کہ ہر بات کی کوئی حد ہوتی ہے۔۔ کوئی ضابطہ کوئی قانون ضرور ہوتا ہے۔

دو دن پہلے گھر سے ایک پارٹی میں جاتے ہوئے میں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ آج ہمیشہ کی طرح میں صحیح سلامت گھر واپس نہیں پہنچ سکوں گی، مجھے کبھی بھی وہم، خدشہ، ڈر اور خوف پالنے کی عادت ہی نہیں تھی، کبھی کسی نے پھونک پھونک کر قدم اٹھانا سکھایا ہی نہیں تھا۔۔ جو اگر سکھایا ہوتا تو۔۔ ۔

وہ پارٹی میری سہیلی کے گھر پر تھی، ہم سارے ہی دوست اکثر ویک اینڈز پر ایسی پارٹیز کرتے ہی ہیں، بے وجہ اور بے موقع۔۔ ایسی پارٹیز یوں بھی ہماری کلاس کا ایک لازمی جزو ہیں، ان پارٹیز میں کھانا پینا، ہلہ گلا، میوزک مستی جیسی بے ضرر چیزیں ہی ہوتی ہیں، کچھ لوگ ڈرگز وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں مگر یہ ذاتی پسند پر منحصر ہے، ان پارٹیز میں کوئی غیر اخلاقی حرکت نہیں ہوتی۔۔ ۔ جی ہاں غیر اخلاقی۔۔ ۔ اخلاقیات کا ڈھیر بھی ہم سب اپنی اپنی پسند، اپنی اپنی مرضی اور اپنے اپنے Comfort Zone کے مطابق ہی اکھٹا کرتے ہیں ..

وہ پارٹی بھی ایسی ہی تھی حالانکہ میرا جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن مجھے اپنے بوائے فرینڈ فرحان کے اصرار پر جانا پڑا تھا، پارٹی کے موڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی میں نے ڈریسنگ بھی کی تھی، سلیو لیس میرون رنگ کی نفیس سی ٹاپ، پنڈلیوں سے کچھ اوپر تک کی بیگی جینز، اپنے لمبے سلکی گھنے سیاہ بال میں نے کھلے ہی چھوڑ دئیے تھے، کانوں میں ڈائمنڈ اسٹڈز اور کلائی میں وہ طلائی بریسلٹ جو فرحان نے مجھے گفٹ کیا تھا، میرون لپ اسٹک سے سجے بھرے ہونٹ، میں حقیقتاً ہوش رُبا لگ رہی تھی، پارٹی میں ہر ایک نے میرے حسن اور فگر کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا اور ہمیشہ کی طرح میں تنی ہوئی گردن اور مسکراتے ہوئے لبوں کے ساتھ ان تعریفی کلمات کو سنا تھا۔ اپنے حسن کی زیبائش اور تعریف کسے بری لگتی ہے۔۔ پتا نہیں اُس رات مجھے کیا ہو گیا تھا۔۔ نہ جانے کس چیز نے میری رگ رگ میں سرور طاری کر دیا تھا۔

میں اگلے دو گھنٹوں تک فرحان اور اس کے چند دوستوں کے ساتھ رقص کرتی رہی تھی، رات کے ڈیڑھ بجے کے قریب میں پارٹی سے گھر واپس جانے کیلئے نکلی تھی، حالانکہ پارٹی تب بھی جاری تھی بلکہ اپنے عروج پر تھی مگر چونکہ ممی پپا کی ہدایت تھی کہ ہم تینوں بہن بھائیوں کو رات دو بجے تک اپنی ہر ایکٹویٹی ختم کر کے گھر لازمی پہنچنا ہوتا تھا لہٰذا میں معذرت کرتے ہوئے وہاں سے واپس آنے لگی تھی، فرحان نے مجھے آفر بھی کی تھی کہ وہ مجھے چھوڑ دے گا لیکن میں نے منع کر دیا تھا میں نہیں چاہتی تھی کہ میری وجہ سے وہ اپنی انجوائنمنٹ خراب کرے۔

میرا گھر جس فیز میں تھا وہاں تک کا راستہ بمشکل پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر تھا، میں اطمینان سے گنگناتے ہوئے کار ڈرائیو کر رہی تھی کہ اچانک میری گاڑی چند جھٹکے لے کر رُک گئی تھی، ایک لمحے کیلئے تو میں ساکت ہو کر کچھ نا سمجھی کے عالم میں بیٹھی رہی مگر پھر یہ سوچ کر گاڑی سے اتر گئی کہ اگر کوئی معمولی خرابی ہوئی تو خود ہی ٹھیک کر لوں گی مگر بونٹ کھول کر دیکھنے پر بھی میری سمجھ کچھ نہیں آیا تو میں واپس گاڑی میں آ کر بیٹھ گئی اور موبائل سے گھر فون کر کے ڈرائیور کو بلوا لیا اور اطمینان سے گاڑی میں بیٹھ کر اُس کا انتظار کرنے لگی۔ میں نے گھر جانے کیلئے مین روڈ کے بجائے ذیلی سڑک کا انتخاب کیا تھا، جو خاصی سنسنان تھی اور مجھے اپنی حماقت کا اس وقت بھی احساس نہیں ہوا تھا کہ جب ایک ہی گاڑی آٹھ منٹ کے اندر اندر وہاں سے تین بار گزری تھی۔ میں نے تب بھی اُس گاڑی پر دھیان نہیں دیا جب وہی گاڑی چوتھی بار میرے سامنے سے گزر کر کچھ آگے جا کر رُک گئی تھی اور اُس میں سے دو لمبے تڑنگے لڑکے نکل کر میری جانب ہی آ رہے تھے اور کچھ ہی سیکنڈز میں وہ میری گاڑی کے پاس کھڑے تھے اور ان میں سے ایک میری جانب والی کھڑکی کا شیشہ بجا رہا تھا۔ میری حسیات نے یکدم کسی گڑبڑ کا سگنل دیا تھا، میں انہیں پہچان بھی چکی تھی وہ دونوں اس پارٹی میں شریک تھے اور وہ دو نہیں تھے بلکہ چار تھے۔۔ میں جانتی تھی وہ چاروں ڈرنک بھی تھے مجھے یکدم خوف محسوس ہونے لگا تھا۔ اسی لڑکے نے میرے جواب نہ دینے اور شیشہ نیچے نہ کرنے پر گاڑی کا دروازہ کھولنے کیلئے ہاتھ بڑھایا تھا اور میں نے برق رفتاری سے دروازہ لاک کرنے کی کوشش کی تھی مگر محض ایک لمحے کی گڑبڑ ہوئی تھی، وہ دروازہ کھول چکا تھا اور اُس کے بعد۔۔ ۔!!

مجھے نہیں یاد کہ زندگی میں پہلے کبھی میں اتنی بلند آواز میں چیخی تھی یا نہیں مگر اُس رات میں جتنا بلند چیخ سکتی تھی، اپنی مدد کیلئے کسی کو بلا سکتی تھی میں نے بلایا تھا، مگر کوئی نہیں آیا۔۔ میں نے زندگی میں کبھی کسی کی اتنی منتیں نہیں کی تھیں، ہاتھ پیر نہیں جوڑے تھے، کسی کے آگے بلبلائی نہیں تھی، گڑگڑائی نہیں تھی، پیروں میں بیٹھ کر رحم کی بھیک نہیں مانگی تھی۔۔ مگر اُس رات میں نے یہ سب کیا تھا۔۔ میں نے اُن چاروں کو ’’انسان‘‘ سمجھ کر یہ سب کیا تھا مگر وہ چاروں انسان نہیں تھے، وہ مرد بھی نہیں تھے  … مردوں کے بھیس میں چار وحشی تھے۔۔ ۔ اندھے تھے  … یا شاید۔۔ شاید وہ میری بدقسمتی تھے۔۔ ۔ یا پھر۔۔ ۔ یا پھر۔۔ ۔ یا پھر وہ میری سزا تھے۔

میری ہر فریاد نے اُن کے جنون میں اضافہ کیا تھا، میری ہر گڑ گ  ڑا ہٹ نے اُن کے شیطانی قہقہوں کو اور بلند کر دیا تھا، میری ہر منت سماجت نے اُن کے کر و فر کو بڑھا دیا تھا، میں مسلسل بلبلاتے ہوئے انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہوئے مزاحمت کر رہی تھی، میرا ٹاپ پھٹ چکا تھا۔۔ ۔ میں انہیں اللہ اور رسولﷺ کے واسطے دے رہی تھی مگر اُن پر کسی چیز کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا، کتنی عجیب بات ہے جس اللہ اور رسولﷺ کی ہم ایک نہیں مانتے مگر یہ توقع لگاتے ہیں کہ دوسرے اسی اللہ اور رسولﷺ کے واسطے ہماری بات مان لیں گے، میں نے انہیں آنسوؤں سے روتے ہوئے ان کی ماؤں بہنوں کے حوالے دئیے تھے۔۔ ایک لمحے۔۔ محض ایک لمحے کیلئے وہ چاروں رُکے تھے۔

’’ہماری مائیں بہنیں تم جیسی آوارہ اور ذلیل نہیں کہ لباس کے نام پر چیتھڑے پہن کر دوسرے مردوں کی نظروں سے لذت حاصل کریں اور نہ ہی وہ تمہاری طرح مردوں کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر ناچتی ہیں ‘‘ ان میں سے ایک نے میرے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کیا تھا، اس کے تھپڑ سے زیادہ یہ اس کا لہجہ تھا جس میں اس قدر تحقیر تھی کہ ایک لمحے میں میری ساری مزاحمت دم توڑ گئی تھی۔۔ ۔ اُس کے ایک جملے نے مجھے صالحہ کی ساری باتیں سمجھا دی تھیں۔۔ مجھے ایک لمحے میں اس معاشرے کی وہ منافقت دکھا دی تھی جس پر ہر ایک سوال تو اٹھاتا ہے مگر اُسے ختم نہیں کر سکتا، میں جو کچھ کرتی رہی تھی یا جو کچھ وہ چاروں کر رہے تھے، وہ گناہ تھا۔۔ ۔ بہت بڑا گناہ۔۔ لیکن ’’سزا‘‘ صرف مجھے مل رہی تھی۔۔ نہ کوئی بجلی گری تھی۔۔ ۔ نہ کہیں آسمان ٹوٹا تھا۔۔ ۔ نہ ہی کہیں زمین پھٹی تھی۔۔ اس کے باوجود میں نے ’’قہر‘‘ دیکھ لیا تھا۔۔

ذلت، تذلیل اور تحقیر کے اس غلیظ مرحلے سے میں نہیں جانتی کہ میں کتنی بار گزری تھی، مجھے اُن کے طمانچوں سے تکلیف نہیں ہو رہی تھی، اُس سے کہیں زیادہ ذلت تو ان تعریفی جملوں میں ہوتی تھی جو میرے جسم کی خوبصورتی کے بارے میں کہے جاتے تھے۔۔ میں جان رہی تھی، مجھے اُن کے نوچنے اور بھنبھوڑنے پر بھی درد نہیں ہو رہا تھا، اس سے کہیں زیادہ تذلیل تو ان نگاہوں میں ہوتی تھی جو میرے لباس سے جھانکتے میرے جسم پر پڑتی تھیں۔۔ میں محسوس کر رہی تھی، میں اُس وقت شرم اور ذلت سے مر جانا چاہتی تھی وہ ذلت اور شرم جو مجھے اپنے باپ بھائیوں کے سامنے لباس پہن کر بھی عریاں گھومنے، بیٹھنے اور لیٹنے پر ہونی چاہئے تھی اور تب تب مجھے یاد آیا تھا کہ لباس کے معاملے میں میرا یہ Taste ڈیویلپ کرنے والی ممی ہی تھیں جنہوں نے پچپن سے ہی مجھے اس قسم کے ملبوسات پہنوائے، انہوں نے کبھی مجھے دوپٹہ لینا سکھایا ہی نہیں۔۔ انہوں نے کبھی مجھے ستر پوشی کا کہا ہی نہیں۔

اور ہمیشہ وہ یہی کہتی تھیں کہ لوگ کیا کہیں گے کہ نجمہ کی بیٹی اتنی سی عمر میں بڑھیاؤں والے لباس پہنتی ہے۔۔ اور ایک صالحہ کی امی تھیں۔۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ صالحہ بھی تو میری کلاس سے ہی تعلق رکھتی تھی، اُس کی امی بھلے کسی نامی گرامی این جی او سے منسلک نہیں مگر سوشل ورک تو وہ بھی کرتی تھیں، ہماری طرح وہ بھی ڈیفینس کے وی آئی پی بلاک میں رہتی تھیں پھر۔۔ ان میں اور میری ممی میں اتنا تضاد کیوں تھا؟

کیا ممی واقعی ایک ’’ماں ‘‘ ہیں؟

میں مسلسل کچھ سوچتی رہی تھی یا پھر میں کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھی۔۔ ۔ اُس وقت مجھے اللہ کا خیال آیا تھا۔۔ ۔ بری طرح خیال آیا تھا۔۔ میں گنگ ساکت سوچ رہی تھی کہ آخر اللہ نے میرے ساتھ یہ سب کیوں ہونے دیا تھا؟ اسے روکا کیوں نہیں تھا؟۔۔ ۔ اور تب۔۔ ۔ تب مجھے یہ احساس ہوا تھا کہ اللہ نے مجھے اس سب سے بچانے کیلئے ہی تو خود کی حفاظت کرنے، خود کو ڈھانپ کر رکھنے کا حکم دیا تھا۔۔ ۔ اللہ نے مردوں کو اسی لئے تو نظریں جھکا کر رکھنے کی تاکید کی تھی، اللہ نے اسی لئے تو جذبات پر قابو رکھنے اور ایسی چیزوں سے دور رہنے کا حکم دیا تھا جو جذبات کو بہکاتے اور بھڑکاتے ہیں، صالحہ ٹھیک ہی کہتی تھی  …  مگر … اور جب میں یہ بات سمجھی تھی اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی۔۔ ۔ بہت ہی دیر۔۔

مجھے نہیں معلوم کہ وہ چاروں مجھے کہاں چھوڑ گئے تھے، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ مجھے گھرکس طرح لے جایا گیا، گھر پہلے لے جایا گیا یا سیدھا ہسپتال لایا گیا، اب تک میں صرف اتنا جان سکی ہوں کہ ڈرائیور وہاں پندرہ منٹ سے بھی پہلے پہنچ گیا تھا اور مجھے وہاں نہ پا کر اور گاڑی کھلی دیکھ کر اُس کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ اُس نے میری تلاش شروع کر دی تھی اور پھر اُس نے مجھے ایک سڑک کے کنارے پڑا دیکھا تھا۔۔ میں شاید ان چاروں کے نزدیک ٹشو پیپر سے بھی گئی گزری تھی۔

میں پہلی لڑکی نہیں ہوں، مجھ سے پہلے نہ جانے کتنی ہی لڑکیاں اس ’’مقتل‘‘ سے تباہ حال نکلی ہیں جن کا قتل کرتے ہوئے کسی نفس کے اندھے نے یہ نہیں سوچا ہو گا کہ اسے تو اللہ نے ’’مرد‘‘ بنایا ہے، دنیا میں اپنا ’’خلیفہ‘‘ پھر وہ یہ کیا کر رہا ہے؟، اُن اَن گِنت لڑکیوں میں اور مجھ میں صرف اتنا فرق ہے کہ وہ بے چاریاں ظلم و بربریت کا شکار ہوئیں اور میں۔۔ ۔ میں۔۔  ’’اصل‘‘ سے ہٹ گئی تھی، ساری بات اسی فرق ہی کی تو ہے۔

پچھلے اڑتالیس گھنٹوں سے میں Self-Accountability کے جس تپتے ہوئے صحرا سے گزر رہی ہوں، خاموش، چُپ چاپ اُس نے مجھ پر بہت کچھ واضح کر دیا ہے، میرا ماضی۔۔ ۔ میرا حال۔۔ ۔۔ میرا مستقبل۔۔ ۔ سب کچھ۔۔ ۔ میں جانتی ہوں آج سے کچھ روز بعد میرے ساتھ ہونے والے اس حادثے کا سب کو پتا چل جائے گا تو لوگ مجھ سے ہمدردی کریں گے، مجھ پر ترس کھائیں گے، وہ مجھ سے ایک ایک بات کی تفصیل بھی پوچھیں گے، ایسے واقعات کو دوہرا نے سے یوں بھی لوگوں کو عجیب سی تسکین ملتی ہے، پھر اپنے تجزئیے اور اندازے بھی لگائیں گے، میرے سامنے بیٹھ کر روئیں گے اور میری پیٹھ پیچھے مجھ پر انہیں ہنسی آئے گی، وہ مجھ پر تہمت بھی لگائیں گے میری غیبت بھی کریں گے۔

اخبار میں ایک اور ’’حوا کی بیٹی‘‘ پر ’’آدم کے بیٹے ‘‘ کے ظلم کے خلاف آرٹیکلز لکھے جائیں گے، نیوز چینلز اس خبر کو Exploit کر کے لاکھوں کمائیں گے، اس ذلیل فعل کے خلاف خواتین کی آزادی و حقوق کی علمبردار تنظیمیں سیمینارز کریں گی، واکس اور مظاہرے ہوں گے، مجرموں کو سخت سے سخت سزا دینے کا مطالبہ کریں گے، کوئی بہت ہی انقلابی شخص اس واقعے پر ڈاکیومینٹری فلم بنا لے گا اور کسی غیر ملکی فلمی میلے میں دنیا کا سب سے معتبر ایوارڈ وصول کر لے گا، لبرل فاشسٹ مذہب اور اسلام کو رگیدنے اور گالی دینے کا یہ سنہری موقع ہاتھ سے نہیں گنوائیں گے اور مذہبی تنظیموں کے رہنما کسی ہیجڑے کی طرح تالیاں پیٹ پیٹ کر ایک عورت کو ہی اس کا ذمے دار ٹھہرا دیں گے لیکن وہ سب ’’عبرت‘‘ حاصل نہیں کریں گے، وہ خدا اور رسولﷺ کی تعلیمات کو ردی سمجھنا بند نہیں کریں گے اور نہ ہی اُن پر صحیح طرح عمل کریں گے۔۔ ۔ ان میں سے کسی کے پاس اتنی طاقت اور ہمت نہیں ہے کہ یہ معاشرے میں جنسی اور ذہنی بے راہ روی پھیلانے والے عناصر کی روک تھام کر سکیں میں جانتی ہوں۔۔ میں سب کچھ جانتی ہوں۔۔ ۔ لیکن کیا لوگ ہمیشہ انجان رہیں گے کہ زندگی میں آنے والی ہر مصیبت آزمائش نہیں ہوتی۔۔ بعض دفعہ نہ سنبھل کر چلنے پر بہت زور کی ٹھوکر لگتی ہے۔۔ ۔۔ ۔ شاید۔۔ ہاں  … شاید … نہیں۔۔ شاید … پتا نہیں  …

٭٭٭

ماخذ: کنواس ڈائجیسٹ

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

 

ڈاؤن لوڈ کریں

ورڈ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل