FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

ای پب فائل

کنڈل فائل

…..مکمل کتاب پڑھیں

فہرست مضامین

گم سمندر

آفتاب اقبال شمیم

آشنا نا آشنا

دن کے مکان میں

لائے کرن سفارتیں سورج کے شہر کی

در آئے تنگیوں میں دریچے کی آنکھ سے

وسعت سپہر کی

نیرنگ واقعات سے ہر سو بنی ہوئی

تصویر دہر کی

ہر گل کی چشمِ وا

تکتی ہے ایک منظر ہم زاد چار سو

اڑتی ہے اوج شاخ سے ہریالیوں کی بو

لمحوں کے چنگ سے

پھوٹیں شرار نغمہ سرائے بہار کے

رت کے چڑھاؤ میں

موہوم، بے نشان اشارے اتار کے

نا دید کا نمو

حلقے میں گھومتی ہوئی گونجوں کی آب جو

آواز ہفت زاویہ موسم کے اسم کی

جیسے ہو یہ زمیں کوئی وادی طلسم کی

آنکھوں کے آس پاس

عیش رواں میں بہتی ہوئی ناؤ جسم کی

دلدادۂ حواس

تکتا ہے اپنی چشم تمنا کے روبرو

دلدار خوبرو

جس کے بدن میں اطلس دنیا کا لمس ہے

بیٹھا ہے جو نمود کی اونچی نشست پر

جلوے کی شست پر

رنگوں کی دھوپ میں

پھیلی ہیں خوشبوئیں گل ثروت کے عطر کی

ایسی کشش میں خود کو سبک کر سکے تو کر

جینے کا لطف لے

کس نے تجھے کہا ہے کہ محرومیوں پہ مر

اے ہفت آشنا!

اے آسماں نورد!

آوارۂ ہوا، تری بلقیس کا محل

تقدیس کا محل

سچ کی بلندیوں کا کہیں خواب ہی نہ ہو

ایسے میں فیصلے کا کوئی اہتمام کر

آ خود کو عام کر

گہرے بدن کا عطر کیوں ملبوس میں رہے

رقص تمام کر

کیوں داغ رنگ کا پرِ طاؤس میں رہے

***

راج ہنس

پرندہ

دھوپ کے دو چار تنکے

نیم وا منقار میں تھامے ہوئے اترا ہے

خواہش کی بلندی سے

بدن میں کپکپاتے بادلوں کا سرمئی ہیجان پھیلا ہے

وہ اترا ہے

کسی بے نام ساحل پر

ہوا کی چند خود رو جھاڑیوں کے درمیاں اپنے نشیمن میں

(جہاں اس کی اڑانیں ختم ہوتی ہیں)

سمندر سامنے ہے

اور آنکھوں کے سفینے میں پڑا ہے بادباں لپٹا ہوا

فردا کے سائے میں

وہی ٹھہری ہوئی تصویر کچھ بے صرفہ خوابوں کی

وہی اس کی پرانی جستجو۔۔۔۔

تخلیق کے اوج مقدس سے

اتر کر حسن خوابیدہ کے پہلو میں سحر تک ریت کے بستر پہ سونے کی

تمنا کے صدف میں روشنی کی پرورش کرتی ہوئی لہریں

اسے ویرانیوں کے چاند کی دف پر

وصال و ہجر کے نغمے سناتی ہیں

سمندر سامنے ہے

اور اس اسرار کی تاریک وسعت میں

اسے کل اور پرسوں بھی

سفر کی قوس پر ایک دودھیا سے نقش کی مانند اڑنا ہے

وہ کیا ہے؟

کیا خبر بے معنویت کے سفر کا استعارہ ہو

زمیں کی رات میں بھٹکا ہوا

کوئی ستارہ ہو

***

بناہل کا ایک منظر

۔۔۔۔ اور پرانے پربت پر

آتے جاتے سورج رک کر تکتا ہے

اپنے اپنے خون میں تر دو بیلوں میں

بے انجام لڑائی یکساں ماتوں کی

طبل زمیں پر تھاپ۔۔۔۔ مسلسل تھاپ پڑے

غیب کے بھاری ہاتھوں کی

آنکھیں۔۔۔۔ ہر سو خفیہ آنکھیں

محو جشن تماشا ہیں

دم دم بولتے سنانے میں ہول کڑی دوپہروں کا

ہر پتے پر طاری ہے

اور ہمیشہ کی، نا وقت اڑانوں پر

دھوپ کے زرد بسیرے سے

اس پربت کے

پیچھے بہتے دریا کی آواز کا پنچھی آتا ہے،

بکھراتا ہے

سبز نمی کا نغمہ ٹھہری وادی پر

لیکن مٹی کے اعصاب میں، شریانوں میں

بے انجام لڑائی پیہم جاری ہے

***

ہجر زاد

میرے دکھ کا عہد طویل ہے

میرا نام لوح فراق پر ہے لکھا ہوا

میں جنم جنم سے کسی میں عکس مشابہت کی تلاش میں

پھرا اپنے خواب سراب ساتھ لیے ہوئے

گیا شہر شہر، نگر نگر

تھیں عجیب بستیاں راہ میں، میری جیت، میری شکست کی

کسی دوسرے کی صداقتیں۔۔۔۔ مری راہبر، مری رہزن

لیے ساتھ ساتھ، قدم قدم

کبھی پیش خلوت آئینہ،

کبھی صبح و شام کی خلقتوں کے جلوس میں،

کئی ظاہروں، کئی باطنوں کے بدلتے روپ میں منقسم مجھے کر گئیں

میں دھواں سا آتش اصل کا

اڑا اور خود سے بچھڑ گیا

مجھے ہر قدم پہ لگا کہ میں

سفر آزما ہوں۔۔۔۔ مگر مجھے مری سمت کی بھی خبر نہیں

میں حلیف اپنے غنیم کا

ہوں جہاں بھی راہ زیاں میں ہوں

میں خیال پرور شوق، شہر مثال کا

مجھے ہر مقام پہ یوں لگا

کہ حقیقتوں کے سگانِ کوچہ نورد مجھ پہ جھپٹ پڑیں گے یہیں کہیں

مجھے دنیا دار پچھاڑ دیں گے مفاہمت کی زمیں پر

میرے ہاتھ بھیگے ہوئے صداؤں کے خوف سے

میری سانس لرزی ہوئی ہوا کی مچان پر

یہ فرار تھا۔۔۔۔

کہ انا کا سایہ و سائبان

لیا جس نے اپنے بچاؤ میں

میں رواں رہا کسی بے نمود سی روشنی کے بہاؤ میں

میرا پائے شوقِ سزا کہیں پہ رکا نہیں

یہ نشیب شام ہے اور میں ہوں رواں دواں

یہ نہیں کہ مجھ کو اماں ملے گی شب ابد کے پڑاؤ میں

ذرا انتظار۔۔۔۔ کہ جب وجود کا کوزہ گر مجھے پھر سے خاک بنا چکے

تو یہ دیکھنا

کہ شبیہِ شخص دگر میں لوٹ کے آؤں گا۔۔۔۔

اسی شہر میں

میرا نام لوح فراق پر ہے لکھا ہوا

میرے دکھ کا عہد طویل ہے

***

بے نام ہونے کی آرزو

کسی شجرے کی ٹہنی پر ہوئی ہے

لمحۂ حاضر کی ہریالی

ہوا نسیاں زدہ پچھلی خزاں کے رفتگاں کی

خاک پر رقصاں

خمیدہ ہو کے مجرا پیش کرتی ہے

حضور برگِ تازہ میں

یہ عشوہ ساز واقف ہے پرانے باسیوں کی رسم و عاد ت سے

یہ بستی کیسی بستی ہے!

جہاں پر لوگ اچھے نام کی شیشم سے

دروازے، دریچے او دہلیزیں بناتے ہیں

یہی دو چار عشروں میں

جنہیں لمحوں کی دیمک چاٹ جاتی ہے

عجائب گاہ میں یہ اسم نامعلوم کس کا ہے!

جسے اسلوب کا ماہر

دعائے جستجو سے زندہ کرتا ہے

کسی قدر مروج کے حوالے سے یہی دو چار عشروں کے لیے

اس سے زیادہ کون جیتا ہے

تو پھر بہتر یہی ہو گا کہ دروازے کی مستک سے

ہم اپنے نام کی تختی اتروا دیں

***

المیے کے فالتو کردار

اور وہ کیا المیے کے فالتو کردار تھے؟

شہر کی چوکوں میں

جن کا شوق وارفتہ لہو اور آگ کی تحریر میں

اپنی گواہی دے گیا

اور وہ۔۔۔۔۔۔

ٹکٹکی پر جن کے چمکیلے بدن داغے گئے

اور وہ۔۔۔۔۔۔

جو گیارہ پہر لمبی رات کی راہداریوں میں پابجولاں

اپنی گھٹتی عمر کی بڑھتی مسافت میں رہے

جن کے دل کی دھڑکنیں

ایام کی تسبیح پر ورد وفا کرتی رہیں

اور وہ۔۔۔۔۔۔

دہشت زندان و مقتل کا سگ مخبر جنہیں

سونگھتا پھرتا رہا بستی کی ہر دہلیز پر

تھیں مقرر جن کے سر کی قیمتیں

اور وہ۔۔۔۔۔۔

اپنے پیاروں سے بچھڑ کر جو عجب افسوس کی

ہجرت سرائے میں رہے

شاہ گر کا ذہن حکمت ساز کہتا ہے یہی

یہ ہجوم عاشقاں اب بے افادہ ہو چکا

قصر و قوت تحفۂ تقدیر ہیں

بخت زادی سے کہا جائے

کہ وہ یکتائیوں کے شہ نشیں پر جلوہ افروزی کرے

اور وہ۔۔۔۔۔۔

شاہ گر۔۔۔۔ چہرہ بدلنے کے پرانے پیشہ ور

اپنے سحر حکمت و الفاظ سے

بخت زادی کے لیے ایسی کرشمہ سازیاں کرتے رہیں

اس کے سر سے ہر بلا ٹلتی رہے

مملکت چلتی رہے

***

ایک پرانے ورق پر نئی تحریر

بہت دھوپ ہے

میرے آنگن کی مٹی۔۔۔۔ ہنسی اور شرارت کے چھونے سے

جیسے سنہری سی ہونے لگی ہے

مرے پاس رنگین ملبوس میں اک خوشی

جھلملاتی کرن کے بنائے ہوئے نقش

برگ گلابی کے نزدیک ٹھہری ہوئی نرم خوشبو کی مانند

بیٹھی ہوئی ہے

اور گہرے مساموں میں گھلتا ہوا لمس

بے نام سی سنسی کا

ہرے نم سے آلودہ سانسوں میں جیسے

اجالے کے چھلکے ہوئے جام کی جھاگ سی مل رہی ہو

کہیں کوئی آنسو پس چشم ٹھہرا ہوا

جس سے تقطیر ہو کر نظر

ایک قوسِ قزح سی رگِ جاں کے اندر بناتی ہوئی

پانیوں میں کنول سے کھلاتی ہوئی

اور میں اس سے کہتا ہوں

اے مہر لمحے کے مندر میں چھیڑی ہوئی راگنی!

اے گلابوں کے رستے سے آئی ہوئی روشنی!

اس گھڑی کے جزیرے کے چاروں طرف

تجھ سے آگے بھی تو، تجھ سے پیچھے بھی تو

اور میں تیرے موجود کے عکس کا عکس دل میں لیے

روز کے رنگ میلے میں بھٹکا ہوا

دور سے دیکھتا ہوں تجھے

اور اب دیکھتے دیکھتے گلشن شام میں آ گیا ہوں

جہاں ایک آوارہ لڑکے کی مٹھی سے اڑتے ہوئے

شوخ جگنو کے پیچھے

نظر حیرتوں کے دھندلکے میں کھوئی ہوئی ہے

***

اے ہمیشہ کے زندانیو!

اک جہاں گیر لمحے کی یلغار میں

راز کے سب حصاروں کو تسخیر کرتے ہوئے

اپنے دل میں اترتے ہوئے

پنجۂ دست سے نوچ لوں

وہ جڑیں جن سے اگتا ہے میری حدوں کا شجر

۔۔۔۔ منظرِ کرب میں

آ ذرا دیکھ زنداں کی زنجیر کو حالت ضرب میں

سرمگیں آنکھ سے

غصۂ بے بسی کے شرارے نچڑتے ہوئے

اور آہن کے ہونٹوں پہ محشر بپا

جھنجھلائی ہوئی چیخ کا

اور پھر پوچھ خود سے کہ

پاؤں کی جولانیوں کی حدیں ہیں کہاں

۔۔۔۔۔۔ ان سلاخوں سے باہر ہرے پیڑ پر

کٹ کے گرتی پتنگوں کی چھوڑی ہوئی ڈور سے

ایک طائر کسی سایۂ شے کی مانند

لٹکا ہوا

۔۔۔۔ اور اس سے پرے

یہ شعاع نظر، آنکھ کی راہبر

سارے رنگوں کو مٹھی میں بھینچے ہوئے

جانے کیا دیکھتی ہے دکھاتی ہے کیا

رت کی پھلواریوں میں کہیں

خاک سے تا دمِ گل، تمنا کے زندانیوں کا نفس

تار خوشبو کی مانند چلتا ہوا

۔۔۔۔۔۔ اس سے آگے افق اور آگے افق

۔۔۔۔ اے ہمیشہ کے زندانیو!

چار دیواریاں

وسعتوں کے مدور علاقے کی

چوکور شکلیں ہیں کیا؟

یہ چھتیں آسمانوں کی نقلیں ہیں کیا؟

یہ نگاہ و تصور کی پرواز، آزادیوں کی ہوس

خاک کی خوش خیالی ہے کیا؟

۔۔۔۔ اے ہمیشہ کے زندانیو!

ضبط و تسلیم کی عادتیں ڈالنے کی دعا دو مجھے

کیا عجب اس طرح

اپنی شدت کو میں معتدل کر سکوں

یا

کسی دن جہاں گیر لمحے کی یلغار میں

خود کو ہر دل کے اسرار میں

منتقل کر سکوں

***

ادھوری گونج گیتوں کی

اداسی وسعتوں میں گا رہی ہے

اور میں خیمے میں بیٹھا ہوں

کسی بیتی ہوئی بستی کے دریا پر اترتی چاندنی کی

نیلمیں دھندلاہٹوں میں دیکھتا ہوں

اس کے چہرے کا کنول

اور سنتا ہوں

گئی رت کے سنہرے پاؤں میں بجتی ہوئی

جھانجر کا، ہر لحظہ بدلتے سر کا گیت

اور میرے پاس ہی سایہ مرا

گھٹنوں پہ سر رکھے ہوئے چپ چاپ،

چاک چشم سے لے کر تصور کے افق تک

اس کی، ہلکے سرمئی رنگوں میں

تصویریں بناتا ہے

ادھوری گونج کے اس پیش منظر میں

زمینیں نارسائی کی

جہاں پر ساتھ چلتے چاند کو

آوارہ رکھتی ہیں نگاہیں آخرِ شب تک

جہاں پر انگلیاں لکھتی ہیں پھیلی ریت پر

اک حرف، نامعلوم سا

معدوم سا۔۔۔۔ آتی ہوا سے مہلتیں لے کر

محبت! اے محبت تو کہاں ہے

وقفۂ دائم ہمارے درمیاں ہے

اور میں افسوس کے قرطاس پر

لکھے ہوئے ضائع شدہ حرفوں کو اپنی

نوک ناخن سے کترتا ہوں

پھر اس گھاؤ میں

چشم آبدیدہ سے گزرتی روشنی کے رنگ بھرتا ہوں

***

اے غیر فانی اجنبی!

اے غیر فانی اجنبی!

یہ زندگی، یہ خاک یکساں کی زمیں

تیرے لیے موزوں نہیں

تو نے فراز خواب سے دیکھا جسے

وہ یوں نہیں

کیا ہے تری میراث میں

کچھ چادر ایام کی بوسیدگی، کچھ بستیوں کی بیوگی

کچھ منظروں کی اوٹ میں اڑتی ہوئی

خوشبو گل نایاب کی

برجوں میں بجھتی روشنی

محرومیاں۔۔۔۔

ڈوبے ہوئے دن کا سماں۔۔۔۔

اجڑا ہوا خیمہ جسے چھوڑ آئے پیچھے کارواں

اے غیر فانی اجنبی!

وہ زیر نخلاں درس گاہ دوستی

وہ غار جس میں روشنی

شاخ بشارت پر کھلی

وہ چوب جس پر سرخیاں ابھریں نئے امکان کی

نغمہ نما آواز میں روئیدگی نروان کی

وہ زیر دستوں کے لیے منشور

اس روئے زمیں پر خلد کی تعمیر کا

لیکن یہ عادت خاک کی

ایجاد کر لینا بدل زنجیر کا

اے غیر فانی اجنبی!

کل بھی یہاں تو آئے گا

یہ خاک یکساں کی زمیں، نیم آفریں

جلوہ تجھے دکھلائے گی بے انت کا

اس انت میں

کیسی شگفت اس نام کی

پیغام کی

لکھے جسے دست زماں

مایا کے اڑتے رنگ میں

اے ہجر زاد زندگی!

تیری تمنا کے افق ہیں بے زمیں، بے آسماں

تیرے ہنر کی انگلیاں

جو لانی ء محدود سے شاید کبھی

پرچھائیوں کو باندھ لیں

لیکن نہیں

یہ خاک یکساں کی زمیں

تیری بقاء کی راز  داں

اپنی انا تیری انا کے درمیاں

اک فاصلہ قائم رکھے

شاید تجھے یوں مضطرب دائم رکھے

***

جہلم کے کنارے اک شام

اے ملاحو!

ان لہروں کی کتنی چاندی ساتھ سمیٹے

اپنی رات کی کٹیا میں لے جاتے ہو

اور تمہارے روز کنارے کی بد بوئیں سلوٹ سلوٹ کپڑوں میں

سپنوں کی البیلیاں کیسے دھوتی ہیں

گیلی تو پڑ جاتی ہو گی موتیے جیسی رنگت

ان کے ہاتھوں کی

زخمی ہو تو ہو جاتے ہوں گے سبک سنہرے پاؤں ان کے

جیون دکھ کے گھاٹوں پر

سایہ سا

دیوار سے اپنی پشت لگائے

ہولے ہولے کھینچ رہا ہے دھوپ کا کانٹا

اپنے ننگے پاؤں سے

ہونٹوں پر اجڑی خاموشی شور کے گزرے لمحے کی

ڈھلتی شام کی پیشانی پر

زرد چنبیلی کا گھاؤ

پھیکی پڑتی کرنوں کی پیلاہٹ کو پھیلاتا ہے

ایک ستارہ

نم آلودہ پلکوں پر، گھمبیر اندھیرے کے چپ کی ویرانی میں

تھراتا ہے

اے ملاحو!

آنکھ بھنور سے کتنی دوری پر تم ناؤ کھیتے ہو

غفلت کی عمروں کے لمبے رستے پر

مٹی اور کنارے کے ٹھہراؤ جیسی

یاد بھی ہے کچھ

کتنی چاندنیاں اور دھوپیں

زرد اداسی کی فصلوں کے کھیت بنیں

کتنے پتھر ریت بنے

اس پانی کی

اپنے بانسوں سے تم نے کتنی گہرائی ناپی ہے

دریا بھید ہے اس سے کیسے دکھ کا انت ملے

ایک کھنڈر

بے آہٹ گزری صدیوں کا

شام سویرے کے رستے میں پھیلا ہے

اندر باہر کی دنیائیں

جیسے ہوں خالی پرچھائیاں آپس کی

اور کنارا بھی دھارا ہو الٹا بہتے دریا کا

لوک کہانی والے جس میں

مٹی کے پیکر لمحوں کے بہتے رہنے کا نظارا

اپنی آنکھ کے ناٹک گھر سے

تکتے ہوں

***

دریا درویش!

وہ دریا درویش

کسی پربت کی پتھریلی کٹیا میں رہتا ہے

چاندیوں سے دھلی ہوئی

وادی کی صبحیں

کافیاں گاتے پانی کی

شفاف روانی میں عکسوں کے گجرے پہنے

اس بے پروا آواز کے دھیمے بھاری لہجے کی

محبوبی میں،

سدا سہاگن رہتی ہیں

میں اس کو برسوں سے پیاس پرندے کے

پاؤں میں باندھ کے سندیسا

بھجواتا ہوں

آ، اس ہجر کے موسم میں

لہروں کے چمکیلے چمٹے پر بھیگی مٹی کی

اڑتی خوشبو کے نغمے سے

آس کنارے پر رہنے والوں کی دنیا کو

مہکاتا جا

آ، تیرا آنا مژدہ ہے تیرے دائم آنے کا

تجھ کو لوٹ کے جاتے کس نے دیکھا ہے

آ، ان

اشکوں کی مقدار بہت کم ہے

ان کے نم سے کیسے ہم

سورج مکھیوں کے مرجھائے کھیتوں کو سیراب کریں

***

منحنی کی ثنا

بہت سنجیدگی اچھی نہیں

یہ زندگی ایسی ہے۔۔۔۔ اس پر مسکرا لینا

شفا دیتا ہے زخموں کو

چلو کہہ لیں کہ سطحیں منحنی ہیں

نارسائی کی

ہمارے علم کی پیمائشوں میں بھید کے رقبے نہیں آتے

چلو کہہ لیں

کہ پیچیدہ مسائل پر بہت سنجیدہ ہو جانا

جنم لیتا ہے ظرف کم کشادہ سے

کسی دشوار ناہموار کے خوف زیادہ سے

ہمارا قہر بے بخشش، ہماری مہر بے پایاں

ہمیشہ آنسوؤں کے المیے تخلیق کرتے ہیں

مگر پھر معتدل ہونا بھی راس آتا نہیں

ذوق طبیعت کو

ارادہ زوردار غیب کے آگے نہیں چلتا

کبھی چیزیں بگڑتی ہیں بنانے سے

کبھی آلام بڑھتے ہیں گھٹانے سے

یہاں نزدیکیوں میں دوریاں ہیں

اور ہم الفاظ مضمونوں میں ملتا ہے نہایت فرق

معنی کا

سبھی چہرے مشابہ ہیں

مگر ان پر

جدا آنکھوں کے پرچم پھڑپھڑاتے ہیں

پرانی دانشیں۔۔۔۔

گرتا ہوا پختہ ثمر مٹی کی جھولی میں

مسائل بھی نئے حل بھی نیا ہمراہ لاتے ہیں نئے انداز

جینے کے

یہاں اس کچھ سے کچھ ہوتی ہوئی دنیا کے فردا میں

جو ہو گا وہ نہیں ہو گا۔۔۔۔

کہ منطق ہے یہی ہونے نہ ہونے کی

تو پھر سنجیدگی اچھی نہیں

یہ زندگی ایسی ہے۔۔۔۔ کوئی کیا کرے

ہر چیز کو تسلیم نا تسلیم کرنے کے سوا

چارہ نہیں کوئی

***

مرحبا!

کشف منظر کا پیمبر

توڑتا ہے یاس کے آذر کے بت

آنکھ بے وہم و گماں

دیکھتی ہے جا بہ جا اس وسعت شب میں

اچکتی روشنی کے واقعے ہوتے ہوئے

ذائقے کی آبجو میں خواہشوں کی لہر اٹھتی ہے کہیں

اور اس باغ سماعت کی خزاں کے عہد میں

کوئی طائر گیت کے رنگیں پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے

مہکتی آس کا پیغام دیتا ہے ہمیں

برتری کے تخت پر بیٹھے ہوئے زور آوروں کے سامنے

کوئی سرکش آتش بارود سے کر کے کشید

پھونک دیتا ہے سروں میں اپنے جسم و جان کی سچائیاں

دیکھتی ہے ماریا مغرب کی ظلمت میں

طلوع خواب کی رعنائیاں

اور صنعا اپنے بالوں میں سجا کر

پھول اجلی دھوپ کے

تنگ گلیوں سے کھلے میدان کی جانب رواں

ڈالتی جاتی ہے مایوسی کے خالی دامنوں میں

مٹھیاں بھر بھر کے جذبوں کی نیاز

اور ہم خوش ہیں کہ دو جنگوں کے جابر فاتحوں کے سامنے

سینہ سپر ہے زیر دستوں کی انا

مرحبا!

***

خواب کی خالی مچان

چار دیواری میں گر گر کر شفق بجھتی ہوئی

دید بانوں سے لگی آنکھوں میں

ننگے خنجروں کے عکس تھرائے ہوئے

اور بے بازو جواں کے سامنے رکھی ہوئی

خالی کماں

مسکن تقدیر ۔ ۔ ۔ ۔ ایوان سفید

بھیجتا ہے زر نوشتہ حکم روہیلے کے نام

بے بسی کے قصر میں

نوجواں شہزادیوں کے جسم

خوف مرگ سے ڈھلکے ہوئے

اور آنکھوں میں سلائی پھیرتا لمحہ

زوال روشنی لکھتا ہوا

سب نے اپنے دوش پر

رکھا ہوا ہے کپکپاتا ہاتھ کل کی آس کا

دیکھ! منظر یا س کا

کس طرح یہ بے ارادہ جرأتیں

طے کریں اک جست میں پس ماندگی کا فاصلہ!

***

دوری کے ا فق

آپ ملاپ کا سپنا تم نے دیکھا تھا؟

ہاں سائیں!

وہ میری انگلی تھامے آدرش کے برج دوارے پر

آتا تھا اپنے کل کی پرچھائیں میں

اور کسی ان دیکھی شے کو دور افق میں

تکتے تکتے کہتا تھا

دیکھو! چنگاری کا انت الاؤ ہے

موج کا ظرف بڑھے تو دریا ہو جائے

تم چاہو تو

سانس کا جھونکا تیز ہوا کا جنگل بھی بن سکتا ہے

دیکھو! تم سپنے کی جوت جگائے رکھنا اپنے دل کے مندر میں

سر سے سر کو اونچا کر کے اس دانا سے

جو مانگو گے پاؤ گے۔۔۔۔

آپ ملاپ کی آشا کے اس عمروں لمبے رستے پر

آج میں خود سے پوچھ رہا ہوں

وہ جو بیچ شراروں کے

میں نے جذبوں کے موسم میں بوئے تھے

ان سے راکھ کی فصلیں کیوں اگ آئی ہیں؟

(ہاں سائیں!

روز کے سمجھوتوں کے بدلے

اتنا ہی تاوان ادا کرنا پڑتا ہے)

اور زیاں کے اس حاصل سے

میں نے یاس کا جو آکاش بنایا ہے

اس کے نیچے، شام کے میلے میں دنیا کے سوداگر

مجھ سے آنکھ بچا کر کیسے

رنگ برنگے منظر اس کی آنکھوں میں بھر جاتے ہیں

وہ۔۔۔۔ جس کی انگلی تھامے آدرش کے برج دوارے پر

آتا ہوں اپنے کل کی پرچھائیں میں

اور کسی ان دیکھی شے کی جانب تک کر کہتا ہوں

دیکھو! چنگاری کا انت الاؤ ہے! ۔۔۔۔ خاکستر ہے!

***

وہ اور میں

اس کے دھیان میں ارمانوں کی جوت جگائے بیٹھا ہوں

وہ گوری تو ایسی ہے

جیسے دھوپ کے گلشن میں بہتی ندی کا نغمہ ہو

روشنیوں کی رم جھم میں

اس کا بھیگا بھیگا مکھڑا جب دیکھوں

ان دیکھا ہی رہ جائے

بے تسخیر ہے جادو اس کی آنکھوں کا۔۔۔۔

وہ تو وہ ہے

اور مرے آدرش کے جیون مندر میں

دیکھوں تو مجھ جیسی ہے

میں اپنی پہچان کے بھیدی لمحے میں

اس سے پوچھوں

گوری! تم کیوں اپنے رنگ دکھا کر مجھ سے

اپنا انگ چراتی ہو؟

وہ مجھ کو سمجھائے لیکھ اشارے میں

تم مٹی کی کایا ہو

روپ سے روپ بدلتا، ڈھلتا سایا ہو

میں تو میں ہوں

کل کے آج میں، آج کے کل میں رہتی ہوں

جنم جنم سے اک اک پل میں رہتی ہوں

***

ہم (٢)

یہ زمیں، یہ سمندر، یہ کہسار، یہ آسماں

اور ہم ایک ہیں

برگ و گل، شاخ و طائر، زمان و مکاں

اور لوح و قلم ایک ہیں

اے اندھیرے میں سوئے ہوئے فاتحو!

شرمساری سے ہم سر جھکائے کھڑے ہیں، ہمیں

آ کے لوٹاؤ

اتلاف کی تیغ سے ساری لوٹی ہوئی بستیاں

سارے مارے ہوئے نوجواں

اور جن شاعروں نے تمہارے قصیدے لکھے

ان سے آ کر کہو

اپنی توقیر کی خلعتیں پھینک دیں

دل کی پس ماندگی کے نوشتوں پہ اپنی ملامت کریں

کون کس سے بڑا ہے۔۔۔۔ کہو!

برتری کی روایت یہاں کمتروں نے رکھی

وہ جو فطرت کی آواز سے منحرف ہو گئے

ساعد خاک کو بے حنا کر کے

بد صورتی سے بیاہے گئے۔۔۔۔

زندگی آسمانوں کی جانب لپکتی ہوئی

روشنی کے سفر میں

ستارے، مہ و مہر، سیر زمیں پہ ہمیشہ سے نکلے ہوئے

ایک قرطاس پر ایک تصویر پھیلی ہوئی

اور تم۔۔۔۔ فرق و تفریق کے پیشواؤں کی تقلید میں

تنگیوں کی کمندوں سے پھیلی ہوئی وسعتیں

صید کرنے پہ مامور ہو

دن کو شب اور پھر شب کو دن میں بدلتے ہوئے وقت سے

ایک لمحے کی عریانیاں مانگ کر

خود کو دیکھو کبھی

،،ہست،، کے سارے رشتے تمہارے حوالے سے ہیں

اپنی طے کردہ سچائیوں کی نظر بندیاں توڑ کر

رقص کرتے ستاروں کے نغمے سنو!

مہر کے زر سے کیسے تونگر ہوئی ہے زمیں

کس طرح مٹیوں کے بدن میں کرن ڈوب کر

آسماں کی نیازیں

کبھی رنگ و خوشبو، کبھی نخل و انساں، کبھی ناچ کے، گیت کے

روپ میں۔۔۔۔ بانٹتی ہے

کہو! کون کس سے بڑا ہے

کہو!

***

آس پیاس

آخر تم نے

میرے لیکھ میں میرے بھید کا مجھ پر ایسے

کم کم کھلنا کیوں لکھا تھا!

کیسے دن تھے

خواب میں اپنی تخت نشینی کا منظر جب دیکھا تھا

دودھ کا امرت، پیار کا بوسہ

خوشبو کے کیسے جھونکے تھے، جن کے لمس سے لمس ملا کر

دھوپ میں شعلے کی کیفیت جاگی تھی

اور مجھے چاروں جانب کے آئینوں کی دنیا میں

تنہائی کا، کثرت کا دلچسپ تماشا

خود ہی منظر خود ہی ناظر بن کر اپنے راج نگر میں

تکنا تھا

اپنے آپ کو میں نے دیکھا سپنے کے سنگھاسن سے

دن کی ہولی کے میلے میں

تصویروں پر تصویروں کے رنگ گرانے والوں میں

اور اسی میلے میں پھر ڈھلتی دوپہر کے رستے پر

میں نے اپنے آپ کو دیکھا

بھیڑ کے اندر تنہائی کی راکھ اڑانے والوں میں

کیسے دن ہیں۔۔۔۔ اونچائی سے

میرے نام پہ میری آس کا ساون دھارا

اوک میں چھینٹے چھوڑ گیا ہے

اور میں خود سے سرگوشی میں کہتا ہوں

پیارے یہ دن دو بارہ بھی آئے گا

تو نے یہ منظر آنے سے پہلے بھی تو دیکھا تھا

***

بنت براہیم (صنعا کی نذر)

تجھے جاناں!

معطر آنسوؤں کی اوٹ سے آنکھوں نے دیکھا

تو۔۔۔۔ عروس آسماں

اپنے جواں جذبے کے سادہ سے بلاوے پر

شفق کی قرمزی پوشاک پہنے

گیسوؤں میں شام کی چنبیلیاں گوندھے ہوئے

اقرار کے معبد سے نکلی تھی

قبول عشق کا سجدہ ادا کر کے

عجب منظر تھا رونق کا

زمیں نے ان گنت طائر اڑائے روشنی کے

تیرے رستے میں

چھنا چھن۔۔۔۔ منتشر ہوتی ہوئی خوشبو نے ہر ہر سو

لٹائی نقرئی خیرات سپنوں کی

نمو کا شوق جاگا سرمئی مٹی کے سینے میں

کیا طے زندگی سے زندگی تک کا سفر اک جست میں

بخشش کے لمحے نے

شگفت ایسی ہوئی تاریکیوں میں دور تک اڑتے شرارے کی

دل شب میں

اندھیرے کے چٹخنے کی صدا آئی

دھڑکتے بولتے رنگوں نے ہر خیمے میں جا جا کر

منادی کی

اسے دیکھو!

اشاروں میں بلاتی ہے تمہیں بام بلندی سے

تمہیں جو عشق کے میلے میں آئے ہو!

اسے دیکھو!

ذرا سی خاک

کیسے خوبصورت منظروں کے گلستاں تخلیق کرتی ہے

فنا ہو کر

بقا کی داستاں تخلیق کرتی ہے

***

اے وطن!

اے وطن!

کوئی کیوں مجھ پہ تیری ثنا،

تیری توصیف کی شرط عائد کرے

جب کہ میری محبت کی خاموشیاں

لفظ کے شور سے معتبر

میرے سینے کے معبد میں تیرے تقدس کی گلنار

شمعیں جلائے رکھیں

عطر سا کنجِ دل میں اڑائے رکھیں

میں کہ پیکر ہوں تیری ہی مٹی کی تخلیق کا

تیری مہکار کو ہر مسام بدن میں چھپائے ہوئے

فخر کرتا ہوں خود پر کہ میں

زندگی کی سفارت میں تیرا نمائندہ ہوں

اور تیری ہی تائید سے زندہ ہوں

تیری ،،تو،، میری ،،میں،، ۔۔۔۔۔۔ ایک باطن کے دو روپ ہیں

اے وطن!

میں تری خاک کی سرفرازی کے اقرار میں

سر اٹھائے رکھوں

اور میرا یہ انداز ہی ہے قصیدہ ترا

اے وطن!

گونجتا ہے مرے خواب میں نغمۂ نا شنیدہ ترا

میری ناداریوں پر

ترا منظر خلد کھلتا نہیں

گنج بخشش پہ بیٹھے ہوئے اژدہوں کی شرر بار پھنکار سے

ترے فرزند جھلسے ہوئے

تیری اولاد صدیوں سے اجڑی ہوئی

استقامت سے امید کے رزق پر جی رہی ہے

کہ تو۔۔۔۔ ایک دن

پست و بالا کی تفریق سے ماورا

ایک سی روشنی۔۔۔۔ مثلِ خورشید۔۔۔۔ تقسیم کرتا نظر آئے گا

سارے پیڑوں پہ ہریالیوں کا ثمر آئے گا

اے وطن! اے وطن!

***

گلی

یہاں پر روشنی

ہر روز مقدار مقرر میں اترتی ہے

یہاں پر زندگی کو نالیوں کے فحش پانی کی نمی

سیراب کرتی ہے

دھوئیں کے شامیانے میں

یہاں لڑکے غروب شام سے ہی کرنے لگتے ہیں

تھکن کی دھول میں تیاریاں سپنوں کے میلوں کی۔۔۔۔

ابھی چلتے ہوئے ہو گا

اسے احساس سانسوں کے ذرا سے گرم ہونے کا

کسی در پر لٹکتے ٹاٹ کے ادھڑے کنارے پر

گلابی انگلیوں کا پھول مہکے گا

سکینہ مسکرائے گی

فضائے دل میں جینے کی تمنا گنگنائے گی۔۔۔۔

ابھی دہلیز تک آ کر

اسے ماں اپنی ناداری

کے عالم میں دعا دے گی

وہ گھر سے رزق کے کھلیان کی جانب

ہوا میں تیرتا۔۔۔۔ ہریالیاں چننے نکل جائے گا

ڈھلتی دھوپ کے آنگن میں آ کر

مژدۂ فردا سنائے گا

سنو ماں! سبز خوشحالی کا موسم آنے والا ہے۔۔۔

یہاں خشت شکستہ کی کسی دہلیز پر بیٹھے

وہ ہم عمروں کی سنگت میں

سناتا اور سنتا ہے

کہانا اس دلاور شاہزادے کی

جو دیو جبر کو تسخیر کرتا ہے

یہاں وہ بچپنے سے نیم عمری تک

ہزیمت کے سفر میں

رفتہ رفتہ یہ گلی اپنے بدن کی خاک میں تعمیر کرتا ہے

اچانک خواب سے اٹھ کر

وہ اپنے خوں میں پلتی زرد بیزاری میں کہتا ہے

میں مرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔

***

منکر کا خوف

پرانا پاسباں ظل الٰہی کا

جسے چاہے، کرے نصب عطا عالم پناہی کا

اسے ترکیب آتی ہے

کسی مضمون کہنہ کو نیا عنوان دینے کی

وہ دیدہ ور ہمیشہ سے معین ہے

ہمارے راستے کے پست و بالا پر

وہ دانا اپنے منصوبے بناتا ہے

ہماری فطرتوں کی خاک ظلمت سے

ہماری خواہش تکرار کی دیرینہ عادت سے

وہ معبد ساز، بت گر اپنی ہستی کے تقدس میں

سدا محفوظ رکھتا ہے

ہمارے گھر کو تحقیق و تجسس کی بلاؤں سے

کہیں اوہام کی عمدہ شبیہوں میں

ثقافت کے نگارستاں سجاتا ہے۔۔۔۔

کہیں خوش فہمیوں کے استعارے سے

ہرے لفظوں کے باغیچے کھلاتا ہے

کہیں نوک سناں کے اسم و افسوں سے

لہو کی بند میں تسلیم کی کرنیں جگاتا ہے

قلوب اہلِ زمیں کے اس کی مٹھی میں دھڑکتے ہیں

شعور اس کا سدا مامور رہتا ہے

ہمیں، اچھے برے کے فلسفے کی آڑ میں

ہم سے چھپانے پر

مگر اس کا مداوا کیا

کہ وہ پروردگار زور و حکمت اپنی نیندوں میں

ہمیشہ سے

وجود فرد میں اک مضطرب سی شے سے ڈرتا ہے

وہ شے۔۔۔۔ جس کی حقیقت

وقت کا ابلیس اس پر فاش کرتا ہے

***

اس سے دو ملاقاتیں

جان کے امبر پہ ساون خواہشیں امڈی ہوئی

اور آنکھوں کی خیاباں میں

مہکتی روشنی

پوشش گل میں کسی ندی پہ تکتا ہوں تجھے

اک لپکتا عکس۔۔۔۔ آئینے کے اندر مضطرب

ایک منظر کا سنہرا پن۔۔۔۔ ہرے جنگل میں آواز سحر کے شور سے

دیکھتا ہوں۔۔۔۔ تو دہکتی سانس کی سچائیوں سے

مجھ کو مجھ سے آشنا کرتی ہوئی

جنگلوں کی راج دھانی میں سوئمبر جان کی پہچان کا

اور اب۔۔۔۔

دیکھتا ہوں شہر کی اونچی فصیلوں کی اترتی دھوپ میں

رسم کے ملبوس میں لپٹا ہوا تیرا بدن

مجھ سے میری دوریوں کے کرب سے نا آشنا

دیکھتا ہوں۔۔۔۔ تیرا پیکر

سرمئی سی شام کے اسرار سے رنگِ شفق کی دلبری

چھنتی ہوئی

اور تو اس جھٹپٹے کی شاہزادی

خوبصورت۔۔۔۔ نیم دیدہ خواب کی مانند

لگتی ہے مجھے

***

پیاس ادھورے لمحے کی

عمر۔۔۔۔ ادھورا لمحہ وقت کی کایا کا

پیاسی سہ پہروں سے آگے

رات کی رت میں

سپنے کی بہتی ندی کی مدھم سی آواز سنائی دیتی ہے

اور میں سرگوشی میں اس سے کہتا ہوں

جانِ من!

یہ جنموں کی وہ بستی ہے

جس کے سبز علاقے میں ہم دونوں کا سنجوگ ہوا

اور جہاں رنگوں، خوشبوؤں کے اس گزرے موسم میں

یادوں کا اک آنگن ہے۔۔۔۔

جس کے پیچھے کے کمرے میں

نقب لگا کر

مجھ کو خود معلوم نہیں کیا چیز چرانے جاتا ہوں

برسوں کے روزن سے آتے

نم آلود اجالے میں

چیزوں کی بدلی بوسیدہ شکلوں کو

الٹ پلٹ کر تکتا ہوں

اور اندھیری گونج کی لمبی راہداری سے

ہاتھ کا خالی کاسہ تھامے

لوٹ آتا ہوں

***

دھوپ ندی کا مانجھی

دھوپ کی مغویہ اور وہ

شعر کی کنج روشن میں سرگوشیاں کر رہے تھے

کہ پکڑے گئے

ظلمتوں کے کماں دار مقتل کی جانب

لیے جا رہے ہیں انہیں

ایک ہو کی صدا آبنوسوں سے اٹھتی ہوئی

سن ذرا دستکیں بستیوں میں

جہاں گیر پیغام کی

دیکھ! اس دار پر

چند چھینوں کی شہ سرخیاں

اور خبریں کنشت و کلیسا کی دیوار پر

کوہ زندہ سے گرتے ہوئے پیڑ کی

دیکھ!

برگِ خزاں بر د ٹہنی پہ پھر سے نمودار ہوتا ہوا

ہر دریچے میں

آنکھوں کی کلیاں سلاخوں پہ چٹکی ہوئی

عکس سے عکس بنتے ہوئے

جیسے جشنِ چراغاں سر آب جو۔۔۔۔

بارش اشک سے خشک جنگل میں ہریالیوں کی نمو

***

پیاسوں کے لیے ایک نظم

ہم وارث تخت تمنا کے

ٹھہرے منظر کے سائے سے کب نکلیں گے

دکھ کی دیروز سرائے سے کب نکلیں گے

ہم آب سراب کے دریا کو

دریا، کیسے تسلیم کریں

اے دل والو!

کچھ چھینٹے شوق تغیر کے ہم پر ڈالو

دھڑ پتھر کے متحرک ہوں

ہم وارث تخت تمنا کے

سانسوں کی حبس حویلی میں، جینا اپنا معمول کریں

آ تہمت کفر قبول کریں

آ برسیں ٹوٹ کے آنکھوں سے

مرجھائے وقت کی ظلمت کو، سیراب کریں

پھر نشوونما کا شجر اگے

امکان کے فردا زاروں میں

پھر موسم کے میخانے کا در کھل جائے

میخواروں پر، دروازۂ منظر کھل جائے

پھر عرش، زمیں کی باہوں میں

باہیں ڈالے

اس بستی کی، دہلیز پہ آ کر رقص کرے

ہر لمحے کی پھلواری میں

طاؤس تغیر رقص کرے

***

مراجعت

شام فنا کی جھیل پر

کیا بے بسی تھی، جو اسے اس سے چھڑا کر لے گئی

باہر محیط چشم سے

اک اجنبی سا شخص تھا، جو دھوپ کے پردیس سے

نکلا بدن پر اوڑھنے

سایہ درخت آب سے مانگا ہو

اندر بپا کہرام تھا

ہارے ہوئے برسوں کا بنجر منطقے کی ریت پر

ننگی ہوا کی سیٹیوں کے بین میں

چلتے ہوئے۔۔۔۔کیا جانیے، کیوں رک گیا

شاید اسے آیا نظر

ان شدتوں کی اوٹ میں اک عکس سا

کھوئی ہوئی پہچان کا

آئی اسے شاید زمین سبز کی

مانوس مٹی کی مہک

شاید لپک کر آئی ہوں۔۔۔۔سرگوشیاں

دکھ کے پرانے سرمئی خیموں سے اس کی سمت

پہچانے ہوئے انفاس کی

وہ اجنبی۔۔۔۔کیا جانیے کیوں رک گیا

ممکن ہے خود پر منکشف

ہوتے ہوئے اس نے سنا ہو پاس کی

اس کنج میں

شاخ ہوا پر خوشبوؤں کا چہچہا

اس ڈال پر

جھولا جھلاتی یاد کی بانہوں میں

رنگیں چوڑیوں کا نغمۂ خواب آفریں

کچھ دوستوں کا ذکر موج ساز پر

احساس کے سنگیت کا چھیڑا ہوا

کوئی پرانا واقعہ۔۔۔۔

وہ رک گیا

اور لوٹ کر، کچھ مختلف انداز میں

دکھ کے پرانے قافلے سے آ ملا

***

ٹھہرا ہوا منظر

دل کے اک متروک گوشے میں وفا کی

خوبصورت راہبہ بیٹھی ہوئی

اپنے گردا گرد

بے برکت دعا کا نور پھیلائے ہوئے

مدتوں سے۔۔۔۔جانے کس کی منتظر

اور باہر

شہر کی دہلیز پر

رات کے نوزائیدہ بچے کے جشن تہنیت میں

رقص کرتے ہیجڑے

درد کی فرہنگ کے سارے ورق بکھرے ہوئے

لفظ نابینا کے آگے درج معنی کا خلا

عشرت یک شب کے دلدادہ تماشا بیں

بہک کر

جمگھٹوں میں بام ثروت کی طرف جاتے ہوئے

نغمہ بے سوز سننے کے لیے

اور کم میعاد کی مانگی ہوئی خوشحالیوں کے پیرہن سے

شوخ، کچا رنگ۔۔۔۔ نا پختہ چمک اڑتی ہوئی

ایک گوشے میں اکیلا

معرکہ زار شکست پے بہ پے میں ایستادہ نوجواں

بے بس و مجبور، بے دست و کماں

***

ساحل سمندر پر (ماؤ کی نظم پئے تاخہ کے پس منظر میں)

یہیں کبوتر کے اس بسیرے کے دیدباں سے

روانہ ہو کر

اسی سمندر کے پار اتریں

افق کے ساحل پہ اس کی آنکھیں

یہیں پہ دیکھا نئے زمانے کا خواب اس نے

یہ پاک دربار پانیوں کا

وہی ہے جس میں

ملی اسے خلوت بصیرت، عنان برداریِ تغیر

یہیں پرانی حویلیوں کے کھنڈر سے اس نے

نئی سحر کا طلوع دیکھا

یہیں سحر کا طلوع دیکھا

یہیں مصور کی آنکھ میں نقش خواب ابھرا

وہ خواب۔۔۔۔تعبیر بن کے جس کی

ہزاروں برسوں کی جبر خوردہ زمیں سے

یوم حساب ابھرا

***

مارکوپولو برج

شہر سے کچھ پرے

پل کے نیچے انہیں

خشک ندی کی بہتی ہوئی ریت پر

باڑ ماری گئی

سینۂ شب میں ہلکی سی لرزش ہوئی

چند صحنوں میں قد کے برابر بلندی سے

چیخیں گریں

بے بسی کے اندھیرے کنوئیں میں دھمک سی ہوئی

اور اوپر کہیں لوحِ تقدیر پر

حاکم نیک اندیش کی عمر میں اور توسیع

کر دی گئی

***

روشنی نا روشنی

سارے رنگ ادھورے ہیں

سب خوشبوئیں

میرے مشام ذوق کو ترسایا ترسایا رکھتی ہیں

آنکھوں کی اس ناآسودہ بستی میں

روشنیوں نا روشنیوں کی آپس میں یک جہتی ہے

دھوپ ہمیشہ سائے سے سمجھوتا کر کے رہتی ہے

ہریالی سے پیلے پن

اور پیلے پن سے ہریالی کے

گردش کرتے موسم میں ایک تماشا برپا رہتا ہے محدود تغیر کا ایک بخل کے عالم میں

عمر کے اس پیمانۂ کم کیفیت کو

رنگیں کر لیتا ہوں اپنے خوابوں کی آمیزش سے

اگلے دن کی دھوپ میں جو اڑ جاتے ہیں

ان رنگوں کی بخشش سے

***

پڑاؤ۔۔۔۔بے سفر مسافروں کا

یہ جوہڑ عضو بریدہ ہے اس دریا کا

جس کے شفاف بہاؤ میں ہر ٹھہرا منظر بہتا تھا

جو گزرا کل کی بستی سے

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے پرچھائیں اپنے گھاؤ کی

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے

کچھ خار و خس، کچھ ٹوٹے پر، طائر ایامِ گذشتہ کا

ٹہنی کے خمیدہ شانے پر

اس خالی سرد بسیرے میں

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے مٹھی میں بند عفونت سی ٹھہراؤ کی

اور چھوڑ گیا اپنے پیچھے

مسند پہ کلاہ خود داری کی، وہ شاہ سوار جو گزرا تھا

اس رستے سے

جو فرش یہ اوندھی رکھ دی ہے

ان آج کے عزت داروں نے

اب کاسۂ دست گدایاں ہے

اور اپنے آپ پہ حیراں ہے

***

حوصلے والے

آ چرائی ہوئی آنکھ سے دیکھ کر

بے نیازانہ برتیں اسے جو ملا ہے ہمیں

اور چپ چاپ بیزاریاں کاٹنے کی سزائیں سہیں

جیسے فردوس کے راندگاں

آگ کی کیچڑوں میں فراغت سے لیٹے ہوئے

اپنے معمول کی نا امیدی میں جلتے رہیں

اور جیسے زنان مہ و سال خوردہ

بجھی جنس کی اور بڑھتی ہوئی عمر کی راکھ کو

دست افسوس کی سلوٹوں میں سمیٹے ہوئے

روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہوں

اور جیسے کوئی ہر دفعہ

مکتب شوق سے لوٹ آئے در بند کو دیکھ کر

جس پہ آویزاں نوٹس ہو

تعطیل کے بعد تعطیل کا

***

شہر کے لیے دعا

اے خدا عمریں دے

ایسے پیوند لگے پیڑوں کو

جن کی کم وقت نہادوں سے ابھی پھوٹی نہیں

وہ اکائی کی تراوت جو نئی ٹہنی کو

جور موسم سے نمٹنے کی سکت دیتی ہے

اے محبت کے خدا!

اپنے ایوان تغافل سے ذرا نیچے آ

اور اس شہر کو جو آئنہ داری کے تمدن سے ابھی عاری ہے

جس میں زر خوردہ ثقافت کی عمل داری ہے

اپنی تخریب کے حملے سے بچا

ورنہ یہ رعشۂ خوف

یہ فشار ہوس و حرص کا روگ

جس سے اعضائے بدن اپنے توازن میں نہیں

بڑھ گیا اور تو پھر اس کے لیے

نا امیدی کے سوا

نسخۂ چارہ گری کر نہ سکے گی تجویز

تیری بخشش، تیری فطرت کی مسیحائی بھی

فیصل وقت کی بینائی بھی

***

دو چہرے۔۔۔۔ایک چہرہ

دن کے دورانئے میں

ایک بے لیکھ جواری کی طرح

ہار دیتے ہو کمایا ہوا دھن خوابوں کا

پاؤں کے گرد تھکن بن کے لپٹتے ہوئے اس رستے پر

نیم فہمیدہ مقاصد کی تگ و دو میں رواں رہتے ہو

ایک موہوم سے وعدے کے تعاقب میں سدا

کیوں نہ اک تجربہ کر کے دیکھیں

چل کے اس رات کے میخانے میں

آج ہم اتنا پئیں، اتنا پئیں

کہ اندھیرا بھی نشے میں آ کر

ہچکیاں لینے لگے

اور جب اپنے ادھورے پن کو

سیل تسلیم کی موجوں میں ڈبو کر نکلیں

ہاتھ رکھے ہوئے اک دوسرے کے کاندھے پر

کیا عجب دن کے دکھاوے کی نظر بندیوں سے

آنکھ آزاد ملے

اور ان روشنیوں کے خوانچے میں

رکھ کے شیرینیاں جو بیچتا ہے

اس کی آواز پہ بچوں کی طرح

ہم نہ للچائیں کہ یہ زہر لہو میں جا کر

قطرہ قطرہ سیاہی میں بدل جاتا ہے

***

وارداتیا

ہوا یوں تھا

کہ وہ دانستہ، نا دانستہ اس دن

کار گاہ مصلحت کے ساختہ، آنکھوں کے عدسے

اپنے گھر پر بھول آیا تھا

وہ وسط شہر سے گزرا تو شاید

راج گھر میں اس سمے اجلاس جاری تھا

اسے ایسے نظر آیا کہ جیسے کوئی منظر ہو

ڈرامے کا

ہنسا وہ مسخرہ پن دیکھ کر سنجیدہ چہروں پر

محبت کی کہانی میں

اسے گرما دیا تکرار کی تکرار کرتے عشق بازوں نے

تصادم خیز تھا ماحول برجستہ کلامی کا

فضا میں سنسنی ٹلتے ہوئے سسپنس کی سی تھی

دھوئیں اور دھول کے سیناریو میں

یہ ابھرواں اور اجلایا ہوا منظر

اسے ایسے پسند آیا

کہ بے قابو سا ہو کر داد دی دل کھول کے

اس نے ڈرامے کے مصنف کو

اسی پاداش میں جیسے کہ ہوتا ہے ہمیشہ سے

اسے اس عامیانہ پن پہ ٹھہرایا گیا

مجرم، متین و برگزیدہ کی اہانت کا

***

نخل رواں

میں وہ نخل رواں ہوں

جو نمود و نیستی کی گردشوں میں گھومتا رہتا ہے

بستی کے ذخیرے میں

جہاں پر آب رو دنیا کی بہتی ہے

بقائے روزمرہ کی ضمانت میں

جہاں پر وقت

دن بھر گرم کرنیں گوندھنا رہتا ہے

میری سرد مٹی کی قدامت میں

وہ کرنیں، جو سماع و رقص میں انبوہ خورشیداں

کے آوارہ خراباتی

لٹاتے پھر رہے ہیں لا مکانوں کے اندھیرے میں

یہ سیم و زر ذکاوت اور جذبوں کے

رضائے وقت نے شاید نکالے ہیں

انہی کرنوں، اسی مٹی، اسی پانی کے معدن سے

یہ سیم و زر۔۔۔۔یہ میرے بھید کے اثمار جو

لگتے ہیں اوج شاخ ہستی پر

انہیں میں دیکھتا ہوں نیم بینندہ نگاہوں سے

انہیں میں دور سے چھوتا ہوں

اپنے لمس کی کوتاہ دستی سے

سمجھتا ہوں کہ ان کو جانچنا شاید مرے پیمانۂ لفظ و عدد میں ہو

یہ لامحدود میری جستجو، میری تمناؤں کی حد میں ہو

***

آدھی نظم

مشق جنوں کرتا رہتا ہوں

جانے کب وہ مرد صفت لمحہ آ پہنچے

جو معمول کی اس شائستہ نظم کا دامن چاک کرے

دید برہنہ سچائی کی، لفظوں کو بے باک کرے

آنسو، توڑ کے ساحل خالی آنکھوں کا

اس ظلمت کی مٹی کو نمناک کرے

کوئی مداوا؟۔۔۔۔اوسطیوں کی نسل مجھے

اپنی عمروں کے ترکے سے عاق کرے

دل کہتا ہے

آ خطرے کی سب سے اونچی چوٹی پر

جان کو عریاں کرنے کا وہ رقص کریں

جس کو دیکھ کے ساری دنیا پاگل ہو

خون کے اندر صدیوں کی خفتہ آنکھوں میں ہلچل ہو

اور شرر بھر وقفے میں یہ آدھی نظم مکمل ہو

***

دوسرے منظر کی بازگشت

بہت گہرائیوں میں جا کے مت پوچھو

تمہیں میں کیا بتاؤں گا۔۔۔۔ہنسی آ جائے گی مجھ کو

کہ ان تاریکیوں کے شہرِ بے حد میں

چراغ چشم لے کر میں نے دیکھا

چراغ چشم ایسا تھا کہ جس کے عقب میں بھی

ٹمٹماتی تھیں لویں سی نا شناسائی کے نادیدہ

چراغوں کی

مری تحقیق نا کافی سہی لیکن

وہی جو روشنی تھی دستیاب اس سے

یہی دیکھا کہ

سچے خواب بھی سچے نہیں ہوتے

امیدیں داشتائیں ہیں۔۔۔۔رعایا کی

جو داد عیش ناداری پہ پلتی ہیں

جسے عادت ہے خود پہ رحم کھا کھا کر گزر اوقات کرنے کی

تغیر ایک ڈھارس ہے بدلنے کی

یہی دس بیس برسوں کے اجالے میں

اور اس کے بعد اگلے آمروں کا دور آتا ہے

نشیبوں پر ذرا سے نخل کی مانند ہے دنیا

جو گہرے جبر کی وسعت میں پلتا ہے

وہی رفتہ کا رفتہ

اور آئندہ کا آئندہ

ہمیشہ گھوم پھر کے مطلع منظر پہ چڑھتا اور ڈھلتا ہے

وہ عامل۔۔۔۔

اور میں معمول گزرے چار عشروں کے تماشے کا

وہی بولوں گا جو بتلائے گا مجھ کو

کہ میں پس ماندگی میں رہ گیا ہوں وقت سے پیچھے

کہ میں۔۔۔۔

شگفت

ایک خیال خواب افروز کی کرنوں نے

اپنے نور سے درزیں بھر دیں بستی کے دروازوں کی

چپ کی خاک سے تانیں پھوٹیں ہری ہری آوازوں کی

ایک نگاہ فردا زاد بلندی سے

کیسی کیسی رمزیں لے کر آئی اپنے دامن میں

پھیلی جن سے خوابوں کی خوشحالی آنگن آنگن میں

ایک صدائے دروں نما نے اپنے قول کی برکت سے

صدیوں کی نادار زمیں کو تحفہ کیا نایاب دیا

مٹی کو اک سمت عطا کی، آنکھوں کو اک خواب دیا

***

میں

تمہیں معلوم ہی کیا، کون ہوں میں

کون سے ملتے بچھڑتے پل کے سنگم پر

کسی اسرار نے اپنی سنہری دھڑکنوں کی تال پر

مٹی سے بالیدہ کیا مجھ کو

تمہیں معلوم ہی کیا

اس جہانوں کے جہاں والے نے

کس خوش بخت کو شہزادگی بخشی

چٹکتے کیسری لمحے کی بے سایہ زمینوں کی

تمہیں تو چاہیے تھا وقت سے لمحہ چرا کر

مجھ سے ملتے اس ابد آباد جہلم کے محلے میں

جہاں کی تنگنائی سے افق کی وسعتوں تک

سرحدیں تھیں میری کشور کی

کہاں مہلت ملی تم کو

کہ آ کر دیکھتے آوارگی کے تخت پر اڑتے سلیماں کو

کبھی تم دیکھتے آ کر

صبا کے ساتھ قصرِ خواب کی پھلواریوں میں گھومتی

اس موج پیچاں کو

تمہیں معلوم ہی کیا، کون ہو میں

ایک چوتھائی صدی سے عمر کی لمبی گلی میں

روز ہی جاتا ہوں دریوزہ گری کرنے

زمیں زادہ خداوندان نعمت کے دروں پر نوکری کرنے

***

اندیشہ دار

چیخ کے کہتا ہوں نیزہ برداروں سے

شہر پناہ کے سب سے اونچے بام پہ جو استادہ ہیں

سنو، سنو

اکڑی گردن کو خم دے کر تم دیکھو تو

کتنا پانی ڈوب چکا ہے چوری چوری

بستی کی بنیادوں میں

کتنی دھنسی ہوئی مٹی نے

شہر پناہ کی ستر کو ننگا کر ڈالا ہے

ایک دھڑام

جو آج کے دن کو بے فردا کر جائے گی

کون سنے گا

بجلی گرنے کی آواز تو کافی دیر کے بعد

آتی ہے

***

سنگ مارگلہ

یہ پتھر مارگلہ کی پہاڑی کا

جسے نسبت ہے تاروں کے پرانے خانوادے سے

جسے نروان میں رکھا

نہ جانے کتنی صدیوں کی تپسیا میں

سماع و وجد میں مصروف پانی کے گیانی نے

گھٹا کی حبشنیں

اپنی برہنہ چھاتیوں کے دودھ کی برکھا میں نہلاتی رہیں

جس کو

ہوا کی بوسہ بوسہ لذتوں کی رات میں

اپنے بدن خود سے چراتی ناگنوں کے لمس سے

طاری رہی مدہوشیوں کی سنسنی

جس پر

سدا آتے ہوئے جاتے ہوئے موسم نے کی تحریر

جس کی لوح پر تاریخ وقتوں کی

یہ سنگ مارگلہ جس کی رگ رگ میں

گل آتش کا زیرہ بہتا رہتا ہے

اسی خورشید زادے کو

چنا ہے حادثے کے راج معماروں نے

میرے شہر کے ایوان اول میں

جہاں یہ بے بس و ناچار

قند مرتبہ پر رال ٹپکاتے ہوئے

درباریوں کی

لاڈلی سی بھنبھناہٹ سنتا رہتا ہے

کسی آتے ہوئے سائے کی آہٹ سنتا رہتا ہے

***

میں مایوس نہیں

یہ فنا کے گھاٹ اتارتے ہوئے

تجربے

یہ الم سلائی کی نوک سے جو لکھے گئے

میری آنکھ پر

یہ ہمیشہ سے

کسی شے پرست کی دسترس

کسی خواب پھونکتی آرزو کے طلسم پر

یہ دل و دماغ کی بے نتیجہ سی کاوشیں

فن و فلسفہ کی مشاورت

جو نہ ظلمتوں کو گھٹا سکی، جو نہ روشنی کو بڑھا سکی

یہ ضرورتوں کے معاہدے

جو سدھائے فہم کی فرض کردہ صداقتوں سے،

بنے بنائے مجردات سے

ناپتے ہیں مرے وجود کے بھید کو

یہ رجا و بیم کے جھپٹنے کی مسافتیں

یہ ہجوم

ایک ہی دائرے میں گھسیٹتے ہوئے چل رہے ہیں

حدوں کی بیڑیاں پاؤں میں

ہے گمان کیا؟ ہے یقین کیا؟ مجھے کیا خبر

رکھیں اپنی اپنی گرفت میں میرے ذہن کو

یہ وسیلے ہندسہ و حرف کے

یہ دلیلیں، منطقیں اور زاویے سوچ کے

جنہیں مثل سکۂ رائجہ کیا معتبر

زر و زور نے،

یہ نفاق نیت و فعل، معنی و لفظ میں،

یہ سدا سے بہری عدالتوں میں

سدا کی گونگی گواہیوں کی سماعتیں،

کئی اور ایسے ہی یاس خیز تلازمے۔۔۔۔

مجھے کیا برا تھا کہ ایسے جینے کے کرب سے

میں فرار ڈھونڈتا موت میں

مگر ایک رابطہ قرب کا

مری چاہتوں میں کسک سی ایک

جدائی کی

مری شاخ دل کو بھری خزاں میں ہرا رکھے

نہیں بھولتا

وہ لڑکپنے کی زباں پہ ذائقہ پان کا

سرِ راہ

بھیگے ہوئے سمے کی چنبیلیوں پہ

سماں عجیب سا جگنوؤں کی اڑان کا

وہ جو شفقتیں

میرے بچپنے میں ملیں مجھے

میں اسی سخاوت جاریہ سے نہال ہوں

وہ عجیب و سادہ سی چاہ جو

مری دھڑکنوں میں خلل سا ڈال دے

دفعتاً

رخ دل نواز کو دیکھ کر

وہ چٹکتے نشے کی باس دیتے ہوئے

لبوں کی گلابیاں

وہ فسوں سا چشمِ سیاہ کا

غمِ روزگار سے مہلتوں کی گھڑی گھڑی

میں رچا ہوا

وہ دنوں کی بھیڑ سے بچ کے

کنج گریز میں مرا بیٹھنا

بڑی دیر تک

میری اپنے آپ سے گفتگو

کسی آشنائی کے درد کی ہو شفق سی

جیسے کھلی ہوئی

میرے گرد و پیش کے کاسنی سے سکوت میں

یہی گرمیوں کا وہ موڑ ہے

جہاں سبز جھاڑ سے جھانکتے ہوئے موتیے کی

شگفت سی

میری صبح و شام کی راہ میں، مجھے ایک ثانیہ روک کر

کرے عطر بیز سواگتیں

وہ وفور شکر کہ آنکھ میں امڈ آئے

اشک سپاس کا

وہ کھلے کنول کا سکون رات کی جھیل میں

وہ تھکن کے لمبے سفر سے واپسی

صفر وقت کی سمت پر

سر بام کوچہ شرر فشاں

وہ سلگتا گیت جسے جنوب کی بے مثال مغنیہ نے

عطا کیا

مجھے اپنے مخزن سوز سے

دل در کشادہ کی بیٹھکوں میں وہ صحبتیں،

وہ نیاز یار فرید کے

وہی آستانۂ یاد روز کی شام کا

مرا تخت ہے

جہاں دوستوں سے نشست ہوتی ہے چائے پر

یہ سپردگی کا خمیر میری سرشت میں

یہ محبتوں کی روایتیں

جو وراثتوں میں ملیں مجھے

جو مرے لہو میں تھکے بغیر سبک سبک سی

رواں رہیں

مرے حوصلے کی امین ہیں

میں ذرا سا پیکر خاک ہوں

مگر عندیہ کوئی غیب کا میرے سلسلے میں

ضرور ہے

کہ ہزیمتوں پہ ہزیمتیں

مجھے بار بار ہرا کے بھی نہ ہرا سکیں

یہ حصار ویسے تو دیکھنے میں ہے پست

قد غنیم سے

اسے کل جہان کے حزن و یاس کی یورشیں نہ گرا سکیں

***

خوبصورت عورت کا خواب

گڑی ہے چوب درخت مردہ

سبھی زمانوں کے راستے میں

شکست و نصرت کا استعارہ

غلام و آقا کے رابطے کی ہمیشگی کا

جسے ہرا پھر سے کر دیا ہے

تمہارے وارے ہوئے لہو نے

بلندیوں پر

تمہارے مصلوب بازوؤں کے کشودہ پرچم کی پھڑپھڑاہٹ

تمہارے سوکھے لبوں کی قوسیں،

فضا میں زندہ پروں کی بست و کشود کے دلنواز

مژدے بکھیرتی ہیں

خموشیاں بولنے لگی ہیں

ابھی وہ دلبر۔۔۔۔ قدیم وعدے کی پالکی میں

تمہیں تمہاری وفا کا انعام دینے آئے گی

اور گھونگھٹ اٹھا کے

آنکھوں کے آسماں پر ابھرتے تارے

کی روشنی میں

تمہارے دو بارہ لوٹنے کی نوید دے گی

کہ اس نے ہارے ہوئے لہو سے

کشید کر کے

بنا لیا ہے نیا ہیولیٰ

زمیں کی قسمت کا تازہ وارث

جسے وہ اپنے وجود میں پلنے والی

خواہش کے دودھ پر پالتی رہے گی

***

ایک ہارا ہوا دن (اپنے پیشرو کے نام)

مجھے مایوس کر دو نا!

یہ کار لفظ دوزی۔۔۔۔ جس سے جذبوں اور خیالوں کو

منقش کرتا رہتا ہوں۔۔۔۔

اسے بے کار سمجھوں

اور برسوں کی بچت کے قطرہ قطرہ وقت سے

لکھی ہوئی نظموں کی اس ساری کمائی کو

جلا ڈالوں

مجھے مایوس کر دو نا!

تمہاری ہی طرح میں بھی کسی بے نام بے آشوب

گوشے میں

شکستہ کر کے آئینے حوالوں اور مثالوں کے

مٹا کر وہم، زور لفظ سے کچھ کر گزرنے کا

لگا لوں اپنے گردا گرد باڑیں روزمرہ کی،

دھواں پیتے ہوئے

کھاتا رہوں معمول کی خوراک میں

محدود سی مقدار رنج و شادمانی کی

چڑھے جب دن تو میں

تپتی ہوئی شب کی سرائے سے نکل کر دھوپ کے نخل سکون افشاں کی

چھاؤں میں ذرا بیٹھوں

اکیلا کھیلتے دیکھوں اجالے کے لڑکپن کو

گزرتے پہر کے ٹیلے پہ چڑھ کر جو گیا ہوتے سنہرے میں

رہوں

تازہ شجر کی ڈال پر سورج کے پکنے تک

پرندوں کے بسیرے سے اترتے شور کی گت پر

نئے دن کے خبر نامے کی سنگت میں

برابر ہیں سبھی اچھی بری خبریں

مجھے کیا تیسری دنیا کا باشندہ ہوں

اپنا قہر سہہ لینے کی عادت پال رکھی ہے

ابھی امرود اور جامن کے پیڑوں سے ہوا اترے گی

اپنے کاسنی ملبوس پیلی اوڑھنی میں

اور لے جائے گی چڑھتی سانس کے اونچے بہت اونچے

ہلارے میں مجھے پیچھے بہت پیچھے

جہاں پہلے سفر میں دفعتاً حملہ ہوا تھا

جان کے خیمہ پڑاؤ پر

کسی دلدار چہرے کی بڑی آنکھوں نے

دل کے شہریوں میں ایک بھگدڑ سی مچا دی تھی

بدن کے باغ میں

سورج مکھی سے شہد کا تاوان لیتے ڈنک میں

کہرام برپا ہو گیا تھا نارسائی کا

جہاں پہلی گلی والے

سویرے ہی سویرے چند لقموں کے عوض آرا کشی کرنے

دیوداروں کو اپنی پشت پر لادے ہوئے جاتے تھے

شب کو لوٹ کر سستانے آتے تھے

ذرا آواز تو دوں دھوپ کو۔۔۔۔ شاید کہ رک جائے

پڑا ہوں دیر سے

ٹیکے ہوئے کہنی ملائم اور اجلائی ہوئی راحت کے تکیے پر

ذرا قامت کشیدہ دھوپ سے ہٹ کر

دراز ہو جاؤں اپنے آپ پر جھکتی ہوئی

آنکھوں کے سائے میں

پسینہ، اونگھ کچی ٹوٹتی بنتی ہوئی شکلیں،

پرانی تہمدیں، کھیتوں پہ ٹھہری باس گنے اور

گوبر کی، تھرکتے نقرئی پاؤں کسی لاطینی لڑکی کے،

لبوں پر تھرتھری سی چھوڑ کر اڑتی ہوئی مہکار

نغمے کی، قبا کے چاک سے چھلکی ہوئی جھلکی کے اندر

کوند اوجھل کی، پرانی آنچ میں بھیگی ہوئی آنکھیں

بچائے کوئی ان آنکھوں کو قد ریگ میں چلتے ہوئے

سائے کے سائے سے

یہی نسیاں، یہی یادیں۔۔۔۔

رواں آئینے نا موجود کی آئینہ داری کے

زمانوں کے بہاؤ میں

کہاں سے دیکھتا ہے کون اس لمحے کے جگنو کو

ذرا سی رات کا منظر بنا کر بند مٹھی میں

ابھی بے انت کے رستے میں اس آئی ہوئی

سہ پہر کے زینے سے اتروں گا

پرانی دوستی کے آشنا چہروں کی بیٹھک میں

تو رنگا رنگ موضوعات کے پتوں کو پھینٹا جائے گا

چلتی رہے گی دیر تک تفریح چائے اور چالوں کی

مزا آتا ہے کم کم چسکیوں میں ٹال کر

موضوع کی گرمی کو اپنے سامنے موجود رکھنے میں

یہ میٹھے گھونٹ کیسے ایک لمحے میں

پھڑکتی کنپٹی میں ایک دو کڑوی کسیلی گولیوں کی

راحتیں سی گھول دیتے ہیں

نہیں تو جسم کو خنکی کا اک احساس سا بے چین رکھتا ہے

چلوں آگے

کہ میرے اس سفر کی نہج پہلے سے معین ہے

مجھے چلتی زمیں کے ساتھ چلنا ہے

اور اب دو رویہ نیندوں میں گھرے دن کی

سڑک سے شام کی بستی میں آ اترا ہوں

میرا سارباں آواز دیتا ہے

کہ بس کی لائٹیں ٹوٹی ہوئی ہیں

تم یہیں سپنے کی چادر تان کر سو لو

یہ وقفہ جاگنے کا ہے کہ سونے کا؟

میں خود سے پوچھتا ہوں

اور کمرے میں گھڑی کی نبض دھیمی پڑنے لگتی ہے

یہ دائم جاگنے والا مجھے سونے نہیں دے گا

کوئی تدبیر۔۔۔۔ اس اندر کی تنہائی سے بچنے کی

جو آنکھوں میں سلائی پھیرتی ہے

اور سیسہ سا پلا دیتی ہے کانوں میں

مگر سوچوں تو یہ ہونا نہ ہونا بھی غنیمت ہے

مجھے کیا مفت میں زندہ ہوں ورنہ

میں بہت پہلے

کرائے پر کسی پردیس میں لڑتے ہوئے مارا گیا ہوتا

جنم کا حادثہ کہیے

کہ میں اس نسل میں شامل نہیں تھا

جس نے سورج کے جزیرے میں

ہمکتے شہر سے اٹھتے ہوئے خیمہ نما شعلے کا

رقص مرگ دیکھا تھا

مرے امکان میں تھا

کوئی یالو کے کنارے یا گھنے بانسوں کے جنگل میں

بدن میں چھید کر کے اوک بھر مجھ کو بہا دیتا

مجھے کیا، مفت میں زندہ ہوں ورنہ

یہ بھی ممکن تھا

کہ صحرا میں پلٹتے قافلے پر آگ کی بارش میں

میں بھی بھیگ جاتا

اور زندہ ہوں

کہ میں نے بے حمیت، مصلحت آمیز خاموشی میں

جینے کی سزا تسلیم کر لی ہے

مجھے کیا، ٹھاٹھ سے دستور کے مسکن میں رہتا ہوں

گزر اوقات ہو جاتی ہے رزق خواب پر

نان قناعت پر

بس اتنا ہے

کہ ساری عمر اس اپنی ہی بستی میں

زمانے اور زمیں کی علتوں کے آستانے پر

جبیں رکھ کر جیا ہوں

ور میرا نام بھی مذکور ہے گم نام صدیوں سے رواں

انبوہ کی لوح مقدر پر

یہ کیسی ذلتیں ہیں جن سے بچنے کی

مری تہذیب داری نے مجھے مہلت نہیں دی

اور یہ تہذیب داری۔۔۔۔ زندگی کی اس فضائے اجنبیت میں

بہر انداز جینے کے قرینے کا سبق دے کر

مجھے تم نے سکھائی تھی

مجھے اب حوصلہ دو

میں تمہاری ہی طرح

اپنے لہو کی روشنائی سے لکھی نظموں کی اس ساری

کمائی کو جلا ڈالوں

مجھے مایوس کر دو نا!

***

نئے پرانے کے سنگم

باہر شام کے جنگل کا سناٹا ہے

روپ بدل کر

لمحوں کا چرواہا اپنے

پتلے پھرتیلے پنجوں پر

خون کی بچھڑی بو کی ٹوہ میں آتا ہے

سوکھے پتوں پر چلنے کی چاپ سنائی دیتی ہے

باڑیں، دیواریں، دروازے

جوں کے توں رہ جائیں گے

کوئی اندر سے جھپٹے گا

اور اچانک خود کو چھو کر دیکھو گے

تو اپنے آپ کو جھاگ لگو گے

جس کے اندر سے جھانکے گی

ایک سفیدی خون کے عادی دانتوں کی

***

دو گواہیاں

وقت کی کہانی میں عام داستانوں کی

منطقیں نہیں ہوتیں

کس طرح یہ فردا سا آ گیا تھا ماضی میں

وہ جو روشنی دن کی، رات کی ولایت میں

آ کے جھلملائی تھی

وہ جو تخت زرداراں بے زروں نے الٹا تھا

خواب تو نہیں تھا وہ

آرزو کے کہنے پر، لاشعور ماضی سے

دفعتاً جو ابھرا ہو مطلع بصارت پر

نیند ہے یا بیداری

ایک جنڈ سپنوں کی نقرئی سفیدی کا

آنکھ نے بلندی پر پھڑپھڑاتے دیکھا ہے

دور کی فضاؤں میں

برگ و شاخ و طائر کے صبح خیز منظر کی

سرخیاں سی ابھری ہیں

اور میرے پاؤں سے اٹھ رہی ہیں جھنکاریں

بیڑیوں کے بجنے کی

***

مٹی کا بلاوا

میں اس غم سے مفرور ہو کر

کسی دور کی کنج مستور میں جا بسا تھا

جہاں سیم تن لعبتیں لمس کی قربتوں کے

چھلکتے ہوئے جام ترغیب کی عشرتیں بانٹتی تھیں

جہاں دن کے آنگن میں پھیلی ہوئی جھنڈ کی

جھنڈ دھوپیں

بڑی دور تک اونگھ میں جسم و جاں کو

شرابور رکھتی تھیں بے نام سے شربتی بوجھ

کے ذائقے سے

جہاں انگلیوں پر

گلابی چٹکتی تھی، شیشے کی کنج معطر میں عکسوں

کے جھرمٹ

اترے تھے آنکھوں کے رستے

جہاں ٹمٹماتے ہوئے قمقموں میں

گھری شام کی جھیل پر پھڑپھڑاتی ہوا، وقفہ وقفہ

صدا۔۔۔۔ گیت بن کر

ہویدا سے مستور تک، دور تک آتے جاتے

ہوئے موسموں سے

پرے تیسرے رت میں آوارگی کی کسک، دل

کے پنجرے سے چھوڑے ہوئے طائروں سے

بھرے آسماں کو

بناتی تھی رنگیں

گماں کو

گماں جو۔۔۔۔ ہمیشہ سے عمروں کے دیکھے ہوئے سارے خوابوں سے بھی بے کراں ہو

مگر ایک بے مہر لمحے کے کھائے ہوئے عام سے ایک غم نے

مجھے ایسے بے بس کیا، میری مٹی کے پاؤں سے باندھا

ہوا بوجھ برتی ہوئی زندگی کا

ہوا سا لگا اور میں اس غنودہ فضا، اس رہائی

کی جنت کے پردیس سے لوٹ کر آ گیا

***

دیوار چاٹنے والے

میں زر غم کا لئیم

کیسۂ ضبط میں رکھتا ہوں بڑا مال جسے

رات جب آئے تو گننے بیٹھوں

لب پہ افسوس کی چپ سادھے ہوئے

لمس کو شانت کروں

اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اشکوں کے اچکے آ کر

میرا کچھ سیم اٹھا کر لے جائیں

پھر کسی یاد کے پچھواڑے سے

چاندنی ساتھ لیے

چپکے سے در آئے نقب زن کوئی

ایک آسودہ سی بے چارگی کے عالم میں

اپنے دیناروں کی

دور ہوتی ہوئی جھنکار سنوں

اور آواز کا سہم

بھاگتے شعر کے پیچھے بھاگے

لے گیا کتنے ہی برسوں کی کمائی میری

کوئی روکے اس کو

اور کچھ دیر کے بعد

پہرۂ دنیا سے

خواب اغوا کیے لے آئے اسے

جس کی اک دید بخیلوں کو سخی کر ڈالے

ضبط کی تاب کہاں

وار دوں اس پہ زر غم سارا

خود سے سرگوشی کروں

میری دولت ہے تہی جیب مری

اور جب اگلی سحر خواب مقدر سے اٹھوں

کیسۂ ضبط بھرا ہو غم سے

آستیں بھیگی ہوئی ہو نم سے

***

ان سے کہنا!

کون ہو؟

قصر خداوند سے آئے ہو بلاوا لے کر

ان سے کہنا

کہ غم شعر سے فرصت پا کر

میں ضرور آؤں گا

اور یہ ایسی فراغت ہے کہ ملتی ہی نہیں

میرا گھر اتنا بڑا ہے کہ مرے آنگن میں

ان کا افلاک سما جاتا ہے

میرا دل کشور اسرار تمنا ہے جہاں

چپ کی گلیوں میں ہیں آباد ہجوموں کے ہجوم

ان کہی باتوں کے

میرا غم ایسا گلستاں ہے جہاں کھلتا ہے

رنگ نایاب

جو دامن قزح میں بھی نہیں

جس میں رہتی ہے وہ خوشبو

جو مشاموں میں اجالے کی طرح بہتی ہے

اور اس دنیا میں

بے زمانہ ہیں زمینیں جن پر

یاد آباد ہے جو جب بھی اشارہ کر دے

کوئے امروز میں ماضی کے مکیں آ جائیں

ان سے کہنا کہ وہ چاہیں تو یہیں آ جائیں

***

فیصلہ

اتنی بھیڑ میں، اتنے گم کردہ سفروں میں

اتنے پھیلاؤ میں، اتنی ظلمت میں

تو کیا معنی ڈھونڈے ہے

پیشانی پر ایک چراغ چشم دھرے

ارے، ارے!

اندر کے گنجلک عکسوں کو

ڈھلتے وقت کی مدھم کرتی پرچھائیں میں دیکھ ذرا

اور بتا

ہستی کا مفہوم ہے کیا؟

ہم کیا جانیں ہستی کا مفہوم ہے کیا

جو معلوم کی نامعلوم سے دوری ہے

اس کے بیچ بھٹکتے رہنا دانش کی مجبوری ہے

ہم کیا جانیں ہستی کا مفہوم ہے کیا

ہم تو بس اتنا جانیں

،،ہونا،، ایک حضوری ہے

جینا شرط ہے جینے کی

عمریں چاہے چھوٹی ہوں یا لمبی ہوں

طے کرنی ہی پڑتی ہیں

اور ہمارے اندر کوئی ہم سے کہتا رہتا ہے

فرق بڑا ہے

سچ کے جینے اور ضرورت کے جینے میں

اک ارادہ۔۔۔۔ اپنے آپ کو با معنی کر لینے کا

ایک حمایت ۔۔۔۔ دکھ سہنے والوں کی،

اپنے جیسوں کی

***

بعید کے بعد

کافی بار کا دروازہ مغرب کی جانب کھلتا ہے

گوری اپنے سائے میں

ناچ رہی ہے ڈسکو کی ہچکولے کھاتی لہروں پر

کھلتی چمپا

پنکھڑیوں کی اوٹ سے رنگ دکھاتی ہے

آنکھیں، گل چیں آنکھیں نیم شرابی سی

چھلک رہی ہیں مس مس کرتی خواہش سے

تیز سروں میں اکساہٹ سے جھاگ اڑاتی بوتل کی

صبح اٹھانے آئے گی

اڑے ہوئے رنگوں کے دھبے

گزری رات کے درپن سے

اور یہی وہ جائے منظرِ رفتہ ہے

جس میں کوئی آٹھ برس پہلے ہم نے

جھرمٹ جھرمٹ رقص میں پر کھولے،

گاؤں کی پریوں کو

مشرق میں چڑھتے سورج کی جانب اڑتے دیکھا تھا

***

ادھورے میل کی نظم

آدھی شام ہوئی ہے آؤ!

دھیمی سانس کی ناؤ سے نیچے اتریں ان روشنیوں

نا روشنیوں کے ساحل پر

ماہی پشت، پری چہرہ سے تھوڑا تھوڑا جسم ملا کر

رقص کریں

اگلے لمحے جب ہاتھوں میں رہ جائے

نیم نما احساس پھسلتی کائی کا

اور گلے کو کچا پن سا کھاری کر دے

جائیں اور خلا سے مانگیں

ایک صراحی آب شراب وضو کرنے کو

جس کے بعد ستاروں کی تسبیح پہ شب بھر

بے معنی کا اسم پڑھیں

***

زیطہ ۔(نجیب محفوظ کا ایک کردار)

ہنر مند زیطہ

اکیلی گلی کی خدائی میں چھپ کر

بناتا ہے سیار و سالم، توانا و بے عیب جسموں کو کسب زیاں سے

اپاہج

یہیں اس کی مشاق ترشی ہوئی انگلیاں خام کی خامیوں سے

کمالات کے چاک پر وہ نوادر بنائیں

جو حیران کر دیں

یہ پہلو میں لٹکے ہوئے بازوؤں کا تماشا

یہ آنکھوں سے پھسلی ہوئی روشنی کی نمائش

یہ بہروپ کے ابٹنوں سے سنوارے ہوئے مسخ و مسکین چہرے

یہ کتنی ہی قسموں کے بے آسرا بے سہارا بھکاری

جو اپنی فغاں سے

گزرتے ہوئے نیک دل راہ گیروں کو تسخیر کر لیں

کرشمہ ہیں اس کی ہنر کاریوں اور پیشہ وری کا

ہنرمند زیطہ

جراحت کے آلات، حکمت کے نسخوں سے اہلِ جہاں کو

شفا بخشتا ہے

مفاد زر و زور و دانش کی خاطر

بدلتا ہے کتنے ہی حیلوں وسیلوں سے اصلیتیں خلقتوں کی

زمانے کے آئین میں اس کے خفیہ مصنف نے لکھا یہی ہے

سفر پر چلو تو

سزا و جزا، پند و تلقین، رسم و روایت کا زادِ سفر ساتھ رکھو

گلوں میں لٹکتا رہے روزمرہ کا طوق ضرورت

زمیں کا خلیفہ

جبلت، انا اور طبع مخالف کی تہذیب کر کے

مسافر کو دیتا ہے پروانۂ راہداری

بدن مہر حاکم سے داغے ہوئے اور تلووں

میں ٹھونکی ہوئی استقامت کی نعلیں

بندھے قاعدے، نظریے اور تجرید۔۔۔۔ آنکھوں

کو یک سمت رکھنے کی اندھیاریاں جو

حدوں میں رکھیں گور تک آدمی کو

عجب ہیں خداوند دنیا کی محتاجیوں کے نمونے۔۔۔۔ گداگر

ہنرمند زیطہ

کروں، لا مکانوں، زمانوں کا آقا

مجھے جس نے مٹی سے بہر تماشا اٹھایا

مجھے میرے مثبت کو منفی سے، سیدھے سے الٹے

کو پیوست کر کے بنایا

کہ میں اپنے ہاتھوں خجل اپنی ضد، اپنی حد، اپنی مجبوریوں

کے پلستر میں مفلوج باہوں کو باندھے ہوئے روز کے اس اندھیرے

اجالے میں اس سے

زمانے کے ہاتھوں میں پہلے سے گروی شدہ عمر کی بھیک مانگوں

مری خاک کے اندروں نیند میں چلنے والی

تمنا کی آنکھیں

ادھورے میں پورے کا سپنا جگائے

مجھے ایک بے صرفہ جہد مسلسل پہ مامور رکھیں

وہ میرے تماشے کا میلہ لگائے

سدا مجھ کو بے چارگی میں مجھے ہی دکھائے

***

یہی وہ دن ہے

یہی وہ دن ہے

کہ آسماں، چاند اور ستارا لیے ہوئے

خود زمیں پہ اترا تھا

شب گزاروں کو پیش کرنے ثمر مقدر کی روشنی کا

یہی وہ دن ہے

کہ لعل و یاقوت جرأتوں کے

درونِ دل کی تپش سے سیال ہو کے ٹپکے تھے

اور اس صفحہ زمیں پر

ہرے ہرے لفظ بن گئے تھے

یہی وہ دن ہے

کہ دشت و میدان و کوہ و وادی

رکی ہوئی سانس کھل کے لینے لگے تھے

دریاؤں اور جھیلوں میں عکس سرسبز ہو گئے تھے

یہی وہ دن ہے

کہ ہم نے جزدان فیصلہ میں

رکھا تھا لکھ کر وفا کا پیمان اس زمیں سے

چلو کہ اس دن کے فیصلے نے

ہمیں جو نور شعور بخشا

ہمیں جو نقد ضمیر سونپا

اسے ہم اپنی وفا کا شاہد بنا کے دیکھیں

کہ ہم امینوں سے یہ زمیں کتنی مطمئن ہے

یہی وہ دن ہے

***

خریف

شہر ظلمت میں ہے

جس کے ہر راستے میں برہنہ ملے

نیم خفتہ گلی، کنکروں کے بچھونے پہ لیٹے ہوئے

ستر پر میلے پانی کی بد رو لپیٹے ہوئے

ڈیوڑھیاں، تنگ دلان، آلودۂ دود بودار

باورچی خانوں میں صدیوں سے رہتی ہوئی بیبیاں

مرد سورج کی آنکھوں سے جن کو بچائے رکھے

سقف کا سائباں

شہر ظلمت میں ہے

دل کی سجدہ گہ لامکاں

بے اماں

لحن یکساں، مضامین تکرار کی گونج سے

خاک نائے مقدس کا منبر نشیں

اپنی دانست میں لفظ کے غیب سے آشنا

اس طرح شرح معنی کرے

چار خانوں میں تقسیم ہوں نیم خفتہ گلی کے مکیں

ایک جیسے جو ہیں ایک جیسے نہیں

نام کا پیرہن

جس کے نزدیک پہچان ہے ابن انسان کے اصل کی

پوچھتا ہوں میں خود سے کہ میں

ہوں خزاں کشت تاریخ کی کون سی فصل کی

***

روداد۔۔۔۔ ایک جلسے کی

نا مولود زمانے کا

ہال بھرا تھا غیب کے سننے والوں سے

شام کو ہونے والی اس تقریب دور نمائی میں

ہم نے بھی مضمون پڑھا

ان صدیوں پر

جو ندی کے گھاٹ پہ بیٹھے

بہتی ریت سے ذرہ ذرہ

سونا چنتی رہتی ہیں

ویسے تو

ہم نے اس مضمون کے اندر

معنی کے معنی دھونڈے تھے

لیکن دور سے آنے والے

بے ساحل دریا کے راز شناسوں نے

ہر فقرے پر

بنچ بجا کر ہوٹنگ کی

***

امکان کے دوراہے پر

ترجمے سچ کے اتنے ہوئے

میری شرحوں نے مجھ کو مرے سامنے

غیر ثابت شدہ کر دیا

نا کشیدہ، گماں آفریدہ لکیروں کے نقشے میں

شاید کہیں

کوئی بستی ہے جس کے کسی گھر میں رہتا ہوں میں

سو جگہ سے کٹا اور بانٹا ہوا

میں زمین تغیر سے دیکھوں ،،ہیں،، اور ،،ہے،، کے

تماشے میں ہجرت زدہ وقت کو

جو اگر ایک لمحہ ٹھہر جائے تو

آئینہ بے انا ہو کے دیکھے، دکھائے مجھے

وہ مری سمت جو مجھ میں

نا یافتہ ہے ابھی

اور یہ لحظہ بہ لحظہ بدلتی زمیں

کس قدر سخت ہے

نوک ناخن سے کیسے کریدوں اسے

اور دیکھوں کہ میرے بنانے کی ترکیب میں

کس سفیدی میں کتنی سیاہی ملائی گئی

چوب کی اصلیت چوب ہے

اپنے ظاہر میں بھی اور باطن میں بھی

آب کی اصلیت آب ہے

جس کی تاثیر یا ذائقہ اتنی صدیوں میں بدلا نہیں

اور میں تہ بہ تہ

مختلف بھی ہوں یکساں بھی ہوں

منکشف بھی ہوں پنہاں بھی ہوں

اور کیا ایسے ہونے کا امکاں بھی ہے؟

لفظ کے لمس سے

جامۂ ہست کے رنگ و نارنگ کو چھو سکوں

٭٭٭

بے عقیدہ ہو تم

شک سے باہر کی آبادیاں

آدمی کی ولایت میں ہیں

ظلمتوں کے ذخیروں میں اگتی ہوئی روشنی

وقت کا واقعہ

جنگلوں سے بھری رات میں

ایک چیتا جھپٹتا ہوا نور کے غول پر

اک گلہری ہری ٹہنیوں کو کترتی ہوئی

ایک آفاق بے انت کا

جس کے محراب پر ڈوبتے اور ابھرتے ہوئے واقعے

انت کے

یہ جزیرے سفینہ نما

بے کراں کے سمندر کی قوسوں پہ بہتے ہوئے

اور پیہم بدلتے ہوئے منظروں کی شفق زادیاں

ساحل ریگ پر ڈھیر سیپوں سے

آنکھوں کے گوہر چنیں

اور ان گوہروں میں پلیں

راز۔۔۔۔ حلقہ بہ حلقہ کسی ایک نقطے کی جانب

اترتے ہوئے

ایک نقطے کے دل سے ابھرتے ہوئے

خواب نا وقت کا

جس میں موجود و نابود آپس میں آمیختہ

کار تخلیق کرتے رہیں

یہ تمہارے گماں، یہ ہمارے یقیں

فکر و وجداں کی جہتیں ہیں جو

آج اور کل کی رائج شدہ منطقوں سے

سدا

پیش رفتہ رہیں

***

زمیں زاد

رہ گزر نشیب کی اور سفر فراز کا

دونوں پہ ایک وقت میں

چلنے کا اذن ہے اسے

عمروں کا روپ اوڑھ کر

کرتا رہے مسافتیں وادیِ ماہ و سال میں

دور کے اوج کوہ سے

آتی رہے نظر اسے چادر آب نیلگوں

سپنے کے آسمان کی،

گرتی ہوئی زمین پر

شوق کی وسعتوں میں وہ بال و پر وجود پر

اڑتا رہے صعود پر

پنجۂ باد گرد سے جانے ہے کیا بندھا ہوا

دیکھیں ذرا قریب سے

دیکھیں کسی حسین کا، کوئی پیام ہی نہ ہو

پھینکا ہوا زمین کا حلقۂ دام ہی نہ ہو

***

جل بھومیا

باپ کی نافرمانی کرنا آدم زاد کا شیوہ ہے

پہلے چرواہے سے لے کر

دور زر کے آخری نا پیغمبر تک

ہر پیغام کے سبز و سرخ نوشتے سے

اس نے رو گردانی کی

جیسے وہ مخلوق ہو گدلے پانی کی

جو گاہے گاہے ظلمت کے حبس زدہ مسکن سے باہر

آتش و باد کے ساحل پر

سانس سکھانے آتی ہے

چندھیائی آنکھوں کو دے کر

دھوکا نیل بلندی کو چھو لینے کا

جل بھومی کے مادر زاد بلاوے پر

اپنے آپ میں پھر ہجرت کر جاتی ہے

***

پرانے تماشائی کی شہادت

وہ مشتبہ ہے! مسیحا ہے! یا تغیر کے

اصول امر و نہی کا نقیب ہے شاید!

کریں گی فیصلہ اگلی عدالتیں آ کر

وہ جو بھی ہے

اسے اک سلطنت گرانے کو

بدن سے نکلی ہوئی روح کو اشارا ملا

ذرا نہ دیر لگی

بس انحراف کے دو حرف۔۔۔۔ اور اس کے بعد

زن ستارہ جبیں سے نکاح فسخ ہوا

ستون و سقف گرے بے نہاد قلعے کے

ہمارے ساتھ تماشائیوں میں شامل تھا

اس انہدام کا سب سے قدیم ناظر بھی

زمیں کی آب و ہوا کے نمو کا پروردہ

درخت پا بستہ

***

١٣ مارچ ۔ (حبیب جالب)

بہت رویا تھا، دھاڑیں مار کر رویا تھا

کل شب آسماں

اور آج بستی کی منڈیروں پر

صفیں باندھے کھڑی ہے دھوپ،

کہتے ہیں کہ وہ شوریدہ سر

پھولوں کی بکل مار کر گزرے گا ان چپ چاپ

سڑکوں سے

وہی جو سونت کر شمشیر آواز برہنہ کی

اندھیرے سے لڑا چالیس برسوں تک

وہی سچ کا صدا بردار جس نے زندگی کی لہر پر سینہ سپر ہو کر

گواہی دی

ربود آب پر مامور پہرے کے مقابل میں

وہی شوریدہ سر

اس آج کی تاریخ، وسط موسمِ گل میں

ہری چادر بدن پر اوڑھ کر

گزرے گا، کہتے ہیں

کہ قبر شام پر انبوہ کے انبوہ لوگوں کے

دعا مانگیں گے

اس کے لوٹ کر دو بارہ آنے کی

***

سپنے کا برگد

فصیل برف سے حصار آب تک

زمیں۔۔۔۔

ازل کی کوکھ سے جنی ہوئی

تکون سی بنی ہوئی

نشیب در نشیب،

سو ہزار سال کے رکے ہوئے سمے کو اوڑھ کر

دراز ہے

گزرتے آسماں نے روز ایک مہر بے کفن

کیا ہے دفن اس کی سرد خاک میں

مگر یہ کیا کہ ممکنات کے افق پہ وہ

طلوع واقعہ ہوا نہیں

جو اس کی چشمِ تنگ بیں کو کھول دے

جو اس کو ضرب روشنی سے دھن کے اور کات کر

نئے سرے سے پھر بنے

اور انتظار ہے کہ ایک دن مدارِ وقت پر

طلوع بے غروب میں

وہ شاہ مرد آئے گا

جو اس ادھیڑ عمر، ثقل یافتہ، شکن زدہ زمین میں

نئے خیال و فعل کے عمود و قوس ڈال کر

پتنگ کی طرح اسے

سبک بدن، فراز جو بنائے گا

بلندیوں کے بام سے

بسنت کی سہاگنوں کے درمیاں کھڑے ہوئے

اسے ورائے آسماں اڑائے گا

***

میلہ

تھئیٹر کی کھڑکی پہ بیٹھا ہوا کمپنی کا ملازم

ٹکٹ بیچتا ہے

بھرے ہال میں دن، مہینے، برس بے بدل حالتوں کے

لڑائی کے منظر کی سرشاریوں میں

ولین اور ہیرو کو آپس میں جگہیں بدلتے ہوئے دیکھتے ہیں

قناتوں سے باہر

بڑی رونقیں ہیں

پرانے پھٹے چیتھڑوں میں بسی بے نیازی سے چمٹا بجاتے ہوئے گا رہا ہے

اسی قول کے بول جس کو

کئی بار بستی کی چو سر پہ ہارا گیا ہے

قناتوں کے اندر

تماشے کا پنڈال وعدے کے رنگیں غباروں

بیانات کی جھلملاتی ہوئی کترنوں سے

سنوارا گیا ہے

جہاں آتے جاتے تماشائیوں اور خبروں کی مڈبھیڑ میں

ہوش سے ہوش بچھڑا ہوا ہے

بڑی رونقیں ہیں

گلابی ہے شیشہ نشاط آفریں ماڈلوں کی دمک سے

کہیں پر

ظرافت کو سنجیدگی لکھنے والے کی ارزاں نویسی کی

دھومیں مچی ہیں

کہیں پر

سدھائے ہوئے شیر کی ٹیپ کردہ صدا دھاڑتی ہے

کہیں پر

قدامت کے پنجرے میں پالا ہوا طائر سبز

لحن مکرر میں نغمہ سرا ہے

انہی رونقوں میں

وہ ہارا ہوا شخص رومان کا سرخ رومال

ماتھے پہ باندھے ہوئے،

کان میں نا شنیدہ سخن کی پھریری رکھے،

بے عصا چل رہا ہے

وہی جس نے سپنوں کے ساون میں آنکھیں گنوا دیں

ہرا ہی ہرا دیکھتا ہے

***

تمنا کے مخبر کی سرگوشی

اگر وہ خونخوار اپنے سر سے نکال سکتا

سڑاند مردار حافظے کی

اگر وہ اپنی ہوس کی اس عارضی کمائی میں

دیکھ پاتا

زیاں۔۔۔۔ جو ناپاک کرتا رہتا ہے حوض کے تازہ پانیوں کو

اگر وہ جسموں کی اس کھدائی میں دل کے معدن کا

وہ زر خام ڈھونڈ لیتا

جو خلیہ خلیہ بنا ہے پیمائشوں سے باہر کے وقت میں

اور جس پہ ظلمات کے ستارہ جبیں شناور کے

عکس کی جھلملاہٹیں ہیں

تو پھر یہ ابنائے جہل صیہون و سربیا کے

سری نگر پہ جھپٹنے والے سپوت بے چشم کورؤں کے

جنوب دنیا کی بستیوں میں

کرائے پر قتل کرنے والے

کبھی نہ ہم جنس روشنی کو ہلاک کرتے

کبھی نہ لا وقت کی کشیدوں سے بننے والے لہو کو

یوں رزقِ خاک کرتے

***

آ۔۔۔۔ پان کھانے چلیں

جب بگولے کے کژدم کی کاٹی ہوئی رت نے

تریاق مانگا تو اس نے کہا

میں مسیحا نہیں

دیکھتے ہو وہ بوڑھا جو سورج کی دستار باندھے ہوئے

ظلمتوں میں رواں ہے اسے

زید داؤد، نیلامبر اور وہ کتنے وقتوں میں

کتنے مقاموں پہ ملتے رہے

اور شاید کہ اس کا بتایا ہوا برگ نایاب

چڑھتی اترتی خزاں کے گڈریے کی لمبی عصا کے

خم تیز کی دسترس میں نہیں

دیکھتے ہو، نہیں دیکھتے ہو کہ فردا کے آئے ہوئے

چاہ ماضی کی دیوار پر کیسے پیوند ہیں

پن سے ٹان کی ہوئی تتلیوں کی طرح

دیکھتے ہو، نہیں دیکھتے ہو کہ نیون سائن سے

ڈھانپے ہوئے کوڑھ کے زخم میں کلبلاتی ہوئی آگ ہے

اور تقسیم کی آنکھ ماتھے پہ رکھے ہوئے

وہ سمجھتا ہے اس کا بنایا ہوا دھات کا آدمی

معجزہ کر دکھائے گا اس آگ میں کود کر

بس اسی وہم میں، آس کی آس پر سب زمانے چلیں

آ چلیں، پان کھانے چلیں

***

بود نابود

کون شیاما تھی جو گھر کے ساتھ جڑے

سنسان احاطے میں اگتے چنبے کی جھاڑ میں رہتی تھی

کون مڑے پیروں والی

دھوپ کی سیدھی قامت میں چلتی تھی اجڑی گلیوں میں

مٹی کے پردے سے کس کی سرخ سنہری جھلکی پر

پہلی بھڑ کا پہلا ڈنک بند کے اندر کھٹکا تھا

جھلسی خوشبوؤں میں مل کر باس گھڑے کے پانی کی

پیلے تنکوں سے لیپی سہ پہروں میں

بان کی پھیکی ٹھنڈک کا احساس بدن کو دیتی تھی

اور وہ شامیں کیسی تھیں

جن کے گیلے آنگن میں اگتی کائی کے سبزے میں

لیمپ جلا کر پڑھنے والا

لفظوں اور پتنگوں کی گڈمڈ میں بنتی

شکلوں کی املا آنکھوں کی تختی پر

سرکنڈے کی بے قط نوک سے لکھتا تھا

اور ابد کے دریا میں بہتے امبر کا بیڑا جو اس وقت وہاں سے، اس بستی سے گزرا تھا

کیا جانے اب کس ظلمت کے پار

کس بے اسم سمندر کے ساحل پر اترا ہو

آؤ استفسار کریں

شاید یہ ازلوں کا دریا واقف ہو

الٹی سمت میں بہتی لہر کی منزل سے

ساحل کے نا ساحل سے

***

یک شہر زرد رو

زوال کا معرکہ بپا ہے

یہیں کہیں تسمۂ گلو سے لٹکتے سورج کے

خود و بکتر گرے ہیں

تم دیکھتے نہیں ہو! تمہاری آنکھوں کے صحن میں

مور خوردہ کرنیں

جگہ جگہ چور چور بکھری ہوئی پڑی ہیں

سیاہ چیونٹوں کے لشکری

چاندنی کے ریزے لیے ہوئے جا رہے ہیں اپنے بلوں کی جانب

سنا نہیں! چاک کر رہی ہیں وجود کی نیلگوں تہوں کو

کثافتیں بے ضمیریوں کی

میں اپنے پاؤں کے نیچے ادھڑی ہوئی زمیں میں

جڑوں کے پنجر سے پوچھتا ہوں

یہ کیا کہ جوہڑ سے اس نے اب کے نہیں پکارا

سمندروں کو

یہ میرا دستِ بریدہ کس کے خفیف ڈھانچے کو چھو رہا ہے

یہ کیسی تحریر چلنے والوں کی گردنوں میں لٹک رہی ہے

یہ نرخ نامہ ہے

اوہ، مکتب میں یہ زباں کیوں مجھے پڑھائی

نہیں گئی تھی!

میں کس سے بولوں

کہ سیل بازار گر لے گیا ہے سماعتوں کو

اب ایسے انبوہ لاتعلق سے رابطے کا بھی فائدہ کیا!

ہے شیلف خالی

نہ جنتری ہے نہ خواب نامہ

بتاؤ نا! قال کیا نکالوں

کہ سارے لفظوں نے اپنے معنی بدل لیے ہیں

میں کوئی ہاتف نہیں کہ فردا کا بھید کھولوں

مجھے یہ احساس ہے کہ یوں بھی

مرا سخن معتبر نہیں ہے

میں اپنے سچ کو کہاں پہ تولوں

کہ ساری بستی میں رہ گئی ہے

بس ایک میزان زرگروں کی

بس ایک پہچان۔۔۔۔ مومیائے ہوئے سروں کی

***

ایک آنسو، ایک تبسم

مت کہو ان مہ وشوں کو فاحشہ

یہ تو وہ ہیں جن کے آگے میں ہمیشہ

نیم سجدے میں رہا

میرے سپنوں کو بنفشی شال کی مانند جو بنتی رہیں

جس کے لمس گرم کو کندھوں سے لپٹائے ہوئے

کاٹ لی ہے میں نے یہ سرما کی لمبی رات جیسی زندگی

جن کی آنکھوں کی تپش او روشنی سے عمر بھر

میرے صحراؤں میں ہریالی رہی

مت کہو ان مہ وشوں کو فاحشہ

یہ تو وہ ہیں

جو جنم کی قید بے میعاد میں جی رہی ہیں بھید اندر بھید خود اپنے لہو کی بے وفائی کی سزا

سہتے ہوئے

برتر و بالا ہو جو چاہو کہو

میں تو رو دوں فاحشہ کو فاحشہ کہتے ہوئے

***

نظم باز

تو کیسا ہرجائی ہے

شب بھر نظم کی فرقت جیسی قربت میں

روشنیوں، خوشبوؤں، لفظوں

اور ادھورے پن کی چھوڑی جگہوں کو

وصل مکمل کرنے کی تیاری میں

کچھ جمع کچھ منہا کرتا رہتا ہے

جیتا مرتا رہتا ہے

اور نئے دن کی سڑکوں پر

ایک نویلی محبوبہ کے ساتھ فلرٹنگ کرتے دیکھا جاتا ہے

دیکھو نا!

اور وفا کیا ہوتی ہے

پورا کرتا رہتا ہوں

ایک مکمل مرد کا وعدہ ایک مکمل عورت سے

دل دائم امڈا رہتا ہے کہنے پر

ایک مسلسل نظم کے لکھتے رہنے پر

***

بنچ پر بیٹھے ہوئے

نرودا اور میں بیٹھے ہوئے ہیں

پانچ دریاؤں کے سنگم پر

ہمارے سامنے اپنے بدن کو توڑ کر

باہر نکلتے رقص میں سپنے کی لڑکی ہے

مہکتی شام جس پر مٹھیاں بھر بھر کے

شانوں سے پھسلتی چاندنی میں، جگنوؤں کا زر لٹاتی ہے

بڑی خوشبو، نہایت لمس سے بھیگی حسوں کی بھیڑ ہے

بستی کے میلے میں

جہاں پر

موم سی رنگت کے اٹھتے شور کے ریشم پہ

انگشتِ شہادت کے قلم سے گیت لکھا جا رہا ہے

رنگ کے بے رنگ ہونے کا

حناؤں کی معطر تال پر دف کی طرح بجتی ہوئی

ہر کنپٹی میں ایک ہی آواز لرزاں ہے

کہ ہم اہلِ زمیں۔۔۔۔ زنجیر کی مانند پھیلی سرحدوں کو

نسخ کرتے ہیں

معافی چاہتا ہوں

کیا کروں، عادت جو سپنے دیکھنے کی ہے

٭٭٭

والیریا کے ساتھ آدھی شام

سینٹ پیٹرز برگ کی اے سرو قد لڑکی!

تیرے انگور ہونٹوں پر

کئی جاگی ہوئی گیلی شبوں کے ڈھیر سے اٹھتے دھوئیں کی

دھول ہے

قاف سے اترے ہوئے پہلے اجالے کی سنہری کاکلوں کی

چھاؤں میں نیلاب آنکھیں

اور ان آنکھوں میں سپنے کی خزاں کا آسماں

اترا ہوا

تیرے ہاتھوں میں ہے می شی ما کی نظموں کی کتاب

تیرے بازو میں کلامی بند، تیرے پرس میں ویزا،

زر وافر کی خواہش جیب میں

کتنے سستے دام میں بیچا گیا ہے

اجنبی ہاتھوں میں اپنی نسل رفتہ کے سنہرے خواب کو

ہاں مگر ٹوٹی ہوئی ان سرحدوں کی دھار سے گرتا لہو

تیرے تعاقب میں رہے گا دیر تک

یوں نہیں، ایسے نہیں

جانتے ہو! خوف ایسا نجس ہے، لگ جائے تو

تبدیل ہو جاتا ہے باطن کھاد میں

اور پھر پورا زمستاں کاٹنا پڑتا ہے تب جا کر کہیں

ادنیس دو بارہ جنم لیتا ہے اپنی راکھ سے

سب سے پہلے ہم نے پگھلی دھوپ سے

دھو کر نکالا سایۂ ابلیس جو بستی پہ تھا

اور بدلا نام اپنے شہر کا

ماں مری اول معلم تھی کسی اسکول میں

اپنی راسخ عادتیں ہم کو سکھاتی تھی،

سزا ملتی تھی بائیں ہاتھ سے لکھنے پہ، ایسی ہی سزاؤں کی فضا میں

مجھ کو اپنی ماں سے نفرت ہو گئی

کس طرح تم دوسری مرضی کے جوئے میں انائیں جوت کر سر سبز رکھ سکتے ہو کشت حکم کو

اور کب تک کوئی سن سکتا ہے مریل خواہشوں کی سسکیاں

کیا ہو گر خاکۂ تعمیر ہے بدلا ہوا

یہ مگس نر آدمی

شہد کو امرت بنانے میں زیاں کرتا چلا آیا ہے

قصر عالیہ کے سود کا

اور بے شک ایک سا، دو مشت کا چھتہ نہیں ہے زندگی

تا افق پھیلی ہوئی شب میں یہ آتش بازیاں

اور صبحوں کی ہتھیلی پر ذرا سی راکھ کے دھبے۔۔۔۔

یہی ہے زندگی

اور اس کیٹنگ میں اک پل کے اچٹتے دھیان میں

پھسلی ہوئی مایر، گل صد خواب جیسے برف کی چادر پہ

بکھرا ہو، یہی ہے زندگی

میں کہ فرحت میں الم بھی ڈھونڈتی ہوں

میں کلیسائی ہوں، کیا جانوں پرانے قرض کی میعاد

گھٹ سکتی ہے پیسے سے کہ پچھتاوے سے

لیکن اے خدا! لاریب پیسے میں بڑی تسکین ہے

میں کلیسائی ہوں، آزادی کا حق رکھتی ہوں

باطن اشتمال ارض سے باہر کی شے ہے

ارض تو دہلیز ہے

جی کیا تو پاؤں سے جوتے اتارے اور سیر آسماں کو چل دیے

اور وہ کوئے معیشت بند تھا

بلڈنگیں بے روح تھیں

فیکٹری کے آہنی پھاٹک سے گھر کے آہنی پھاٹک پہ جا کر

ختم ہو جاتی تھیں سڑکیں شہر کی

جن پہ راشن، وردیاں

انسان شکلوں میں چھپی آنکھوں، ہدایت کے نوشتوں،

حاجت اصلاح کے کتبوں کے بیچوں بیچ

رہتے تھے رواں

مصلحت کے شعبدے کرتے ہوئے

گورکی! کون تھا یہ گورکی!

ٹالسٹائی تو کتاب غم کی صرف و نحو کا ماہر تھا، اب متروک ہے

میرے باطن کی ثقافت میں بلیک اور بودلر

کشف علامت سے ملائیں نفس کو آفاق سے

لفظ و معنی اور تمثال و اشارہ بال و پر کھولے ہوئے

اور نیچے آبنائے زندگی پھیلی ہوئی

کون جانے لفظ کے ایجاد گر کا

اس سے آگے بھی کوئی آدرش ہو

اور سچ پوچھو تو سب آدرش مر جاتے ہیں

شاید ٹوٹنا پہچان ہے پہچان

سچے خواب کی

اور سچ پوچھو تو میں الجھی، بہت الجھی ہوئی ہوں۔۔۔۔

***

پابند شہر کی تین آوارہ لڑکیاں

چلو ہو جائیں کچھ باتیں

اسائیڈ، تخلیے یا خود کلامی میں

زلیخا، نائے لویاؤ، میا میرا

تمہارے ہونٹ کیسے ارغوانی ہیں

مگر سانسوں سے کیسی باس آئے بے خیالی کی

بہت نا مطمئن ہو کیا؟

کمانوں پر انا کی تانت ڈھیلی پڑ گئی ہے

انگلیوں میں انگلیاں باندھے

میں اپنے جسم کی گٹھڑی کے میلے پاپ کو گرنے نہیں دیتی

مجھے یہ فاختائی رنگ کا انڈر ویر اچھا نہیں لگتا

مجھے تو نیم عریانی کی باتیں

گالیاں اور چست پہناوے

مساموں میں ذرا سی گدگدی کرتے ہوئے، کولون کی خوشبو

لبوں کی قرمزی رنگت

بدن کے صرف ہو جانے کی راتوں کا تصور اچھا لگتا ہے

مگر یہ حکم کے دربار والے بھی قیامت ہیں

ہوا سے کیا خبر کس روز استعفیٰ طلب کر لیں

گلوں میں رنگ بھرنے کا

زلیخا! تو نے جیسے میرے دل کی بات کہ دی ہے

یہ خبریں، روز کی خبریں مجھے تو زہر لگتی ہیں

مجھے کیا ان غباروں سے

جو شام ہوتے ہی

گھٹتی پھونک، بڑھتے ضعف سے لمبوترے ہو جائیں

نامردی کی حالت میں

یہ سارے رہس دھاری ہیں ڈرامے کی مثلث کے

ہماری مائیں کہتی ہیں

وہاں پورب کے امبر سے کوئی اوتار اترا تھا

چٹانیں بن گئیں تھیں

دودھ دیتی گائیں جس کے لمس کرنے سے

اسی کے شبد کی تاثیر نے

مجھ کو بنا ڈالا ہے گائے بھی گوالن بھی

یہ کیسا روگ ہے ہنسنے میں رونے کا

میں دھرتی ہوں

میں سب بھوکیں بھگت لیتی ہوں

لیکن سانولے ساون کی باہوں میں سمٹ کر پھیلنے کی پیاس

کیسے فرش کے نیچے

مرے آئے ہوئے اعضا مٹائیں گے

کروں کیا حکم کی سرکار

میرے جسم کی مٹی سے ترکاری اگاتی ہے

میں کیسے چڑ مڑا کر بھربھری سی ہو گئی ہوں

گرم خانوں میں

اری او نائے لو یاؤ!

ذرا یہ دیکھ! کیسے چوڑیوں جیسے یہ حلقے

نقرئی وینس کے حلقے ثبت ہیں میری کلائی پر

میں نمفومینیک ہوں

اور لعنت، باہ ہم بگ بھیجتی ہوں

جسم کے کنجوس لوگوں پر

میں گٹھڑی سی بنی ڈرتی ہی رہتی ہوں

یہاں کی سنگساری سے

کسی دن آئے گا اسپ ہوا پر

شاہزادہ اور بھگا کر ساتھ لے جائے گا مجھ کو

عشرتوں کی راج دھانی میں

ختن کی مشک اور لعل یمن کی آبداری سے

تمنا کے شبستان میں

دمشق و قاہرہ، یونان و روما کے پری زادوں کی

سب راتیں

میری غارت گری کی ایک شب میں منعکس ہوں گی

مجھے تم دیکھنا میری ہی آنکھوں سے

میں جب فانوس آویزوں میں، اونچی ہیل پہنے

اپنے ابریشم کے سارے چاک کھولے، کاسنی ساعت میں

نکلوں گی

تو آنکھیں شوق سے باہر نکل آئیں گی آنکھوں سے

کسی دن آب پر چلتے ہوئے تم دیکھنا مجھ کو

ہوائی کے جزیرے میں

میں بے پروائیوں کے سیل میں بہتی ہوئی

صندل کی لعبت ہوں

کبھی گدلاہٹیں پانی کی چکھتی ہوں

کبھی خطِ افق پر شیڈ کی مانند رکھے آسماں کے

لیمپ میں ایام کی تحریر پڑھتی ہوں

کہ اس وسعت سے میرا واسطہ کیا ہے

زن بے حد ہوں

امراؤ، بواری اور ہیلن کے قبیلے کی

***

مرگ یک خواب

وہ بڑا شہر، اتنا بڑا شہر کیوں دیکھتے دیکھتے

منہدم ہو گیا ہے

اور ٹکڑوں میں بے ضرب ہی منقسم ہو گیا

ایک اتنا بڑا خواب آدرش کے عرش سے

گر گیا، اب چنو کرچیاں فرش سے

سائیکی! غالباً ترک معمول کے تجربے

ناپ، پیمائشیں، ضابطے اور پابندیاں

تجھ کو بھاتی نہیں

دیکھ! تیرے سخی نام پر

نائیکہ خوش ہے خواجہ سرا شاہ کا

قاف کی اس پری کو بٹھا کر لموزین میں لے گیا

اور وہ کس قدر شاد ہے چڑمڑائی ہوئی سی

شکن در شکن

شب کے باسی گلابوں کے بستر سے اٹھتے ہوئے

حسن زرخیز ایسا ہوا

گونگ لی کے تبسم کی لاکھوں میں بولی لگی

سائیکی! تو یہ چاہے ہمیشہ سے جو ہو رہا ہے

اسی طور ہوتا رہے

نفس کے آستانوں پہ بیٹھی ہوئی عادتیں، غفلتیں

اور خوش فہمیاں

دھوپ کی اونگھ سے اون بنتی رہیں

سائیکی! اس طلب اور رسد، اس اناؤں کی

نیلام گاہوں کے بازار میں

تو سدا سے رواں، نیم عریاں خراماں خراماں رواں

تجھ سے راجا بھی خوش اور پرجا بھی خوش

اپنی اپنی دکانوں مکانوں میں آنند سے

صبر کی تنکا تنکا چٹائی پہ بیٹھی ہوئی مفلسی

مطمئن ہے کہ شاید کسی شب

ستاروں کی لپٹی ہوئی پرچیوں سے نکل آئے

نادار کے اسم بے اسم کی لاٹری

تجھ کو اچھا لگے دیکھنا

ان ذرا سی اناؤں کی امواج سے

جھاگ اڑتی ہوئی (بیوقوفانہ سی روز کی نرگسیت کی آویزشیں)

اور ہر موج غصے میں ساحل سے مڑتی ہوئی

تجھ کو اچھا لگے

اپنی آوارگی کے پرانے سبو سے

ذرا ہوش میں آنے والوں میں، بے راہ کرتی ہوئی

مستیاں بانٹنا

سرحدیں کھینچنا، بستیاں بانٹنا

سائکی! عام گلیوں کے کچے اندھیرے سے اٹھتے ہوئے

اور پھٹتے ہوئے بلبلے، تو نے دیکھے تو ہیں

کوئی ہم جنس کسبی میاماریا

گندگی کے بڑے ڈھیر سے کوئی ردی اٹھاتا ہوا اور گاتا ہوا واسکو

کوئی پنجر سے چپکے ہوئے چلبلے ہاتھ سے

پرس، جیبیں، دکانوں کی اشیا اڑاتا ہوا ویر یا

کوئی خود سے خفا راڈریگے لہو کی دبی چیخ پر شاد ہوتا ہوا

اور ہر شب بگوٹا کے جاروب کش

پھینک آتے ہیں ان فالتو اور فاضل تہی ماچسوں کو

غلاظت میں بدلی ہوئی شرم کے ڈھیر پر

کرگس و زاغ کے ڈائننگ ہال میں

اور وہاں پر

سرائیگو، صومالیہ اور فلسطین اپنے لہو میں نہائے ہوئے

مذہب و نسل و تاریخ و جغرافیہ کی کرامات پر دنگ ہیں

بے زمیں اور بے آسماں

صید سوداگراں

یہ رعایا جسے نسل در نسل شاہوں کی تحویل میں

چابکوں، منتروں اور دانائیوں کے خریدہ وسیلے سے

ہانکا گیا

وقت انصاف کرتا تو دیتا اسے مہلتیں

قصر و اہرام و ہیکل اٹھا کر سدا چلتے رہنے کی

بے جرم پاداش سے

وقت انصاف کرتا تو اپنے سخی ہاتھ سے

رسیوں کی طرح ان بٹے بازوؤں کی گرہیں کھول کر

ان سے کہتا کہ لے جاؤ ساری زمیں

ہے تمہاری زمیں

اور اگلے زوالوں کے پنڈال میں

کر رہا ہے مداری تماشا گری

سائیکی! تیرے البم میں آئیں نظر بستیاں

ناف تک زرد لاوے میں ڈوبی ہوئی

جنس و زر کی وبا۔۔۔۔

ماس کے دور اندر جنینوں میں اتری ہوئی موت کی سونڈیاں

سائیکی! پر تجھے کیا

کہ یہ رقصِ بسمل بھری بستیوں میں ہمیشہ سے تو

دیکھتی ہی چلی آ رہی ہے

***

کہانی ایک پیڑ کی

دیکھ یہ البم ذرا

بیس برس پیشتر، باغ کے اس پیڑ پر

آئے تھے تجھ کو کبھی اتنے پرندے نظر!

رامش صد رنگ کے چھینٹے اڑاتے ہوئے

اور تجھے یاد ہے!

کتنے مہ و سال تک

جو نہ فروزاں ہوئے ایسے بجھے چہچہے

روز کف شاخ سے

آ کے اڑاتی رہی باد گماں دور کی

وہ تھے یہاں حکم کی فرمانروائی کے دن

گنتی رہیں تتلیاں گل سے جدائی کے دن

نغمۂ بے ساختہ گاتی رہیں ہجرتیں

دینا گواہی ذرا

کتنے برس پیڑ نے دیکھے پرندوں کے خواب

دینا گواہی ذرا

قوس نما آنکھ میں کیسے معلق رہی

ایک جھپٹ خوف کی

اور لب برگ سے اڑتی رہی چار سو

لفظ مکرر کی بو

ہوتی رہی شاخ پر تیرے میرے روبرو

ایک ہی سر تال میں جھینگروں کی گفتگو

***

زندگی جیسی ایک لڑکی

نظر کے بدلتے ہوئے پینترے سے

فنا کر کے

دیتی ہے خیرات بھی پھر سے جینے کی

آدھی شکن کے تبسم سے اک جرعۂ وہم پینے کی

میں اک ستارہ اشارے کے رخ

اور محراب وعدے کی قبلہ نمائی میں

اس کی طرف منہ کیے

بے نیازی کے معبود کے روبرو ہوں

تمنا کے سو بار ٹوٹے ہوئے تار میں

حرف حرف آیتوں کو پروتے ہوئے

سجدہ جو ہوں

***

الوداع، اے داشتہ!

نکسیر، نیل، چاک گریبان و آستین

کچھ اور (کٹ)

بھنور سا بنے رخ پہ کرب کا

لب بستہ چیخ اور ذرا (کٹ) بلند ہو

دہشت سے جیسے آئینہ (کٹ) ٹوٹ کر گرے

اندر کے فرش پر

رشتوں کے مسخ عکس (بہت خوب اس طرح)

تعمیلِ حکم جبر ہو اور ٹھیکرا سی آنکھ

اس سے کہے کہ کون ہو تم، میں تمہیں پہچانتا نہیں

انکار تین بار

بازار دشمنان کی شَے زر خرید سے

کیا واسطہ مرا

(اقرار پھڑپھڑائے، پھٹے حرف و لب کے ساتھ)

اور یہ زن غلطیظ!

عورت مری! نہیں نہیں، تھی داشتہ مری

فوکس۔۔۔۔ کچھ اور، اور صداقت کا ا یک رخ

کیسا مہیب ہے

دے اے خدا پناہ خدایان خاک سے

***

گمان کا رومان

نہیں! تم اپنے آنسو کو چھپا رکھو

اسی سے چھن کے سارے فاصلے،

سب روشنی، پوری ہوا شفاف ہوتی ہے

تناظر ہے ابد آباد کا جس میں

اجالے کے منصور نے صلیب و دار و نہر خشک کا منظر بنایا ہے

زپاتا، چی گویرا اور ماؤ

ہار کر ہارے نہیں ہیں،

یہ پون چکّی پہ دھاوا بولنے والے

سدا آتے رہیں گے

کیا کیا جائے یہ مشکیزہ پرانا جب سیا جائے

تو بخیوں سے ٹپکتا ہے

خرابی کار سوزن کی ہے

یا پھر چرخ پر کاتی ہوئی کرنوں کے دھاگے کی!

کہا جاتا ہے نابینا مغنی کو بشارت ہے

کلا کی روشنی مل جائے گی لیکن

زد مضراب سے اس کو

ہزاروں تار سارنگی کے پہلے توڑنے ہوں گے

***

دھوپ اور دھند

جیسے میں کوئی ساز ہوں جس کے تاروں کو

آتے لمحے اپنی اپنی

آسودہ یا ناآسودہ کیفیت میں

چھیڑیں اور گزر جائیں

یوں لگتا ہے

جیسے میں اپنے اس گھور اکیلے پن میں

پیاس ہی پیاس کی بے آواز صدا سے لے کر

شوخ سروں کے ہولی کھیلتے رنگوں تک

ایک رواں میلے کی اڑتی دھول میں چلتا رہتا ہوں

(۲)

پی اور پی کر

یاد جگا ان نا نوشیدہ گھونٹوں کی

جن کی چھوڑی ریت پہ تو محرومی کی فرمائش پر

آنسو اور لہو کے نم سے

شعر اگاتا رہتا ہے

(۳)

کیا خواری اور کیا خود داری

دانے کی پستی سے لے کر اوج پر شہبازاں تک

طائر کو اڑتے رہنا ہے حدِ سفر کے امکاں تک

میں بی کیا ہوں،

جینا چاہوں تو جینے کے بدلے میں

سوچوں، رسموں اور وسیلوں پر فائز

مختاروں کی

سب شرطیں تسلیم کروں

(۴)

دیکھو جاناں!

دور بگولا اڑتا ہے پیلی سہ پہر کے آنگن میں

گم کردہ رونق کا ہلکا سایہ سا

جاتا لمحہ ڈالے آتے لمحے پر آؤ نا گلگشت پہ جائیں اس مہلت کے رستے پر

جس میں سپنا پڑتا ہے

نیم فراموشی کی میچی آنکھوں سے

دیکھیں اور نہ دیکھیں دھوپ کے گالوں پر

چھینٹے سے مسکانوں کے

دیکھیں اور نہ دیکھیں، گہرے سبزے سے

چنے ہیں جو طائر نے سوکھے خار و حس کاشانوں کے

(٥)

غیب کا کوئی چشمہ جیسے

جسم کے اندر بہتا ہے

جس کے گھٹنے بڑھنے میں من کی دھرتی کا

رنگ بدلتا رہتا ہے

جوہڑ سے ساگر تک کتنے روپوں میں

جو گن دھوپ تماشے کی

اس بستی میں گیتوں کی مالائیں پہنے

زلفیں کھولے، بڑی بڑی سی آنکھوں سے

ذرے کے گھمبیر خلا میں جانے کیا کیا تکتی ہے

چشمے سے سیراب زمیں کو شاید پیاسا تکتی ہے

(٦)

نا سنجیدہ

بے احساس زمانے کے

جور سے بچنے کی خاطر

اک فرار ضروری تھا

سو اس نے آنکھیں پلٹا کر

اندر کے گلشن کی لمبی سیریں کیں

باہر کے نیلے رقبے میں چوب دشت تصور سے

بے در، بے دیوار مکاں تعمیر کیے

اس آوارہ گرد نے یوں تو

چاہا تھا تریاق ملے

جسم کے اندر پھیلے زہر اذیت کا

قسمت دیکھیں، اس کو غم کے بدلے میں آفاق ملے

(٧)

سرما کے ننگے ننگے پہناوے میں

جھنڈ کھرے ہیں پیڑوں کے

جن کے پیچھے امبر کا بن نیلے پن میں پھیلا ہے

جانے یہ آہٹ سی کیا ہے

وقت میں وقت سے باہر کی

گہری چپ کے ٹھہراؤ میں

گونج کے اندر گونج کا محشر اٹھتا ہے

جیسے کوئی ناقہ سوار دشت سوس بپا کر دے

امڈی دھوپ کے صحرا میں

شور اکیلے سائے کا

جیسے کوئی سانس بچائے بیٹھا ہو

بوڑھ کے نیچے ساکت سا

اندھیارے کی دھوھل اڑاتی

روشنیوں کی آندھی میں

(٨)

کیسے کھوئے کھوئے سے تم رہتے ہو

نا موجود کی دنیا میں

دیکھو! ان آتی جاتی باراتوں کو

جن کے آگے آگے ست رنگے سہرے میں

آج کا دولہا چلتا ہے

جس پر وقت نچھاور کرتا جاتا ہے

چھن چھن گرتی نذریں رنج و راحت کی

اور جنہیں بچے موجود کی نگری کے

لوٹ رہے ہیں روز کی افراتفری میں

(۹)

ہم تو مست ملنگ ہیں اپنے ساویں کے

جو کوئی بھی ہرا تکونا جھنڈا لے کر

اسے رستے سے گزرے گا

پیچھے پیچھے ہو لیں گے

اور اڑا کر سر میں دھول دھمالوں کی

اپنی راہ ٹٹولیں گے

دل دربار کی چوکھٹ تک

(١٠)

ناں سائیں!

یہ مجھ سے نہ دیکھا جائے

منظر

خاک پہ گتے اور تڑپتے دستِ بریدہ کا

منظر

سنگ زنی سے پارہ پارہ ہوتے ننگے جسموں کا

میں کہ ارادے کو بے رشتہ کر نہ سکوں

اپنے عصر کے جذبوں سے

میرے حق میں دعا کرنا

میری لوح مقدر پر تو لکھی ہے

بخشش آدھے سجدے کی

اور بدلہ آدھی دوزخ کا

(١١)

میں اپنے اندر کے سچ کو

کند بنا کر اس کی دھار پہ دھیمی انگلی رکھتا ہوں

میں اپنی سچائی کو

قند بنا کر چکھتا ہوں

اس کے سچے چہرے کو جھٹلا دیتا ہوں

پردے کی تہہ داری سے

میری جان کی روشنیوں میں زور ہی شاید اتنا ہے

دھندلی یا دھندلائی آنکھیں

میری یہ آبائی آنکھیں

نسلوں سے مامور ہیں مجھ کو پیہم زندہ رکھنے پر

(١٢)

جب سہ پہریں۔۔۔۔ پل پل اڑتی کچی دھوپ کے پیراہن میں

رونق سے خالی جگہوں پر

جھک کر اپنے میلے ہاتھوں سے

ردی کاغذ کے ٹکڑے اور سوکھے پتے چن چن کر

شانوں سے لٹکے جھولوں میں بھرتی ہیں

جب سڑکوں پر دھوپ کے چھوٹے چھوٹے گرم بگولوں میں

آنکھیں تنکا تنکا سی ہو جاتی ہے

اور منڈیروں سے آہستہ آہستہ

ایک اداسی شام کے کاسنی رنگوں میں

آہٹ آہٹ نیچے آنے لگتی ہے

جانے کیوں اس وقت گنواوے دن کے اوجھل ہونے لگا

جان کی گہری تہہ میں شور سا اٹھتا ہے

جیسے کوئی دھم سے گر کر پانی میں

ریزہ ریزہ کر دے اپنے سائے کو

(١٣)

میں نے اپنے گرد و پیش میں۔۔۔۔

جو کچھ ہوتے دیکھا وہ مصنوعی تھا

اس سے سمجھوتا کر لینا ایسے تھا جیسے کوئی

دنیا کے بازار میں جا کر

صدیوں کے دکھ کی میراث کو بیچ آئے

سودا کافی مہنگا تھا

سو میں نے جلوت میں رہنا چھوڑ دیا

اب میری اس خلوت میں

مجھ کو یاروں کے بھیجے گلدستے ملتے رہتے ہیں

جن سے اک متناسب خوشبو

سچ اور دنیاداری کی

اڑ کر مجھ کو

گاہے اترانے پر، گاہے خود سے رحم جتانے پر

اکساتی ہے

(١۴)

دن کے زینے سے میں شب کی چھت پر روز اترتا ہوں

جس کے لیپ میں تنکا تنکا

بکھراؤ سا چھوڑ گئی ہے چاندنی گزرے برسوں کی

جس پر سیل جدائی کا

انت منڈیروں پر سے لے کر محراب افق تک

ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے

میں بے غفلت غافل سا رہنے والا

اپنی بینائی سے آگے کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا

کیسے ان میرے اوسان پہ ظاہر ہو

کیا ہوتا ہے

روز و شب کے آٹھ پہر سے باہر کے

سناٹے میں

٭٭٭

ماخذ: خواب سرا  ڈاٹ کام

تشکر: یاور ماجد

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

پی ڈی ایف فائل

ورڈ فائل

ٹیکسٹ فائل

اگگلی پب فائل

کنڈل فائل