FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

 

 

گنگا میّا

ہندی ناول

 

 

 

بھیرو پرساد گپت/ عامر صدیقی

 

 

 

 

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل

 

 

 

 

 

حصہ اول

 

ایک

 

 

اس دن صبح گوپی چند کی بیوہ بھابھی گھر سے لاپتہ ہو گئی، تو محلے کے لوگوں نے مل کر یہی فیصلہ کیا کہ یہ بات اپنوں میں ہی دبا دی جائے، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو۔ ان لوگوں نے ایسا کیا بھی، لیکن نجانے کیسے کیا ہوا کہ گوپی چند کے دروازے پر حلقے کا داروغہ، ایک پولیس والے اور چوکیدار کے ساتھ نتھنے پھلاتا، آنکھوں میں شک بھر کر کے آن دھمکا۔ اس وقت ان لوگوں کی حالت کچھ ویسی ہی ہو گئی، جیسی ایک چور کی نقب پر ہی پکڑے جانے پر ہوتی ہے۔

داروغہ نے تیکھی نظروں سے اکٹھے ہوئے محلے کے لوگوں کو دیکھ کر ایک تاؤ کھایا اور پیترا بدلا اور پولیس والے کی طرف اشارہ کر کے گرج دار آواز میں بولا، ’’سب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں کس دو! ‘‘ پھر چوکیدار کی طرف مڑ کر کہا، ’’تم ذرا مکھیا کو تو خبر کر دو۔ ‘‘یہ کہہ کر وہ آگ اگلتی آنکھوں سے ایک بار لوگوں کی طرف دیکھ کر چارپائی پر دھم سے بیٹھ گیا۔ اس وقت اس کی ڈنک سی مونچھیں کانپ رہی تھیں۔

لوگوں کو تو جیسے لقوہ مار گیا ہو۔ سب کے سب سر جھکائے ہوئے، لکڑی کے پتلوں کی طرح گم صم کھڑے رہے۔ کسی کے منہ سے ایک لفظ نہ پھوٹا۔ پھوٹتا بھی کیسے؟ پولیس والے نے باری باری سب کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں کس کر، انہیں داروغہ کے سامنے لا کر زمین پرجوٹ بٹھایا تھا۔

گاؤں کے لوگوں کی بھیڑ وہاں جمع ہو گئی۔ گوپی چند کی بوڑھی ماں جو اب تک مصلحتاً چپ سادھے ہوئے تھی، دروازے پر ہی بیٹھ کر زور زور سے چیخیں مار کر رو نے لگی۔ پتہ نہیں کہاں سے اس کے دل میں اپنی بیوہ بہو کے لئے اچانک محبت امڈ پڑی۔ گوپی چندرکا بوڑھا باپ جو برسوں سے گٹھیا کا دائمی مریض ہونے کی وجہ سے چلنے پھرنے سے قطعی مجبور تھا اور برآمدے کے ایک کونے میں پڑا پڑا کراہ رہا تھا، باہر مچے شور شرابے اور اپنی عورت کا رونا سن کر اٹھ بیٹھا اور کھانسنے کھنکھارنے لگا کہ کوئی اس اپاہج کے پاس بھی آ کر بتا جائے کہ آخر معاملہ کیا ہے!

گوپی چند گاؤں کا ایک معتبر کسان تھا۔ بھگوان نے اسے جسم بھی خوب دیا تھا۔ تیس سال کا یہ کڑیل جوان اپنے سامنے کسی کو کچھ نہیں سمجھتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اتنا کچھ ہونے پر بھی جمع ہوئی بھیڑ میں سے کوئی اس کے خلاف کچھ کہنے کی ہمت نہ کر رہا تھا۔ اسے ہتھکڑی پہنے، سر جھکائے، خاموشی سے بیٹھے دیکھ کر لوگوں کو حیرانگی ہو رہی تھی کہ وہ کچھ کیوں نہیں بول رہا ہے؟ آخر اس میں اس کا دوش ہی کیا ہو سکتا ہے؟ کسی بیوہ کے لئے راجپوتوں کے اس گاؤں میں یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں۔ کتنی ہی بیواؤں کے نام ان کے ہونٹوں پر ہیں، جو یا تو بگڑ کر منہ کالا کر گئیں، یا کسی دن اچانک لاپتہ ہو گئیں، یا کسی کنوئیں، تالاب کی نذر ہو گئیں۔ لیکن جو بھی ہو، اس کے گھر کی بہو تھی، عزت تھی، اس طرح لاپتہ ہو کر اس نے برادری کی عزت پر تو بٹہ لگا ہی دیا۔ شاید اسی شرمندگی کے دکھ کی وجہ سے وہ اس طرح خاموش ہے۔ ہونا بھی چاہئے، عزت دار آدمی جو ٹھہرا!

عام اور غریب آدمیوں سے الجھنا پولیس اہلکار ناپسند کرتے ہیں۔ بہت ہوا تو اس طرح کی وارداتوں پر ایک آدھ تھپڑ لگا دیا، کچھ ڈانٹ پھٹکار دیا یا گالی گفتار کی ایک بوچھاڑ چھوڑ دی۔ وہ جانتے ہیں کہ ان سے الجھنا اپنا وقت برباد کرنا ہے، ہاتھ تو کچھ لگے گا نہیں۔ پھر گناہ بے لذت کا عذاب سر پر کیوں لیں؟ جان بوجھ کر معمولی سے معمولی بہانے پر بھی الجھنا انہیں پیسے والے عزت داروں سے پسند ہے۔ داروغہ جی نے گوپی چند کے اس معاملے میں جو اتنی پھرتی، پریشانی اور فرض شناسی کا ثبوت دیا، تو انہیں کسی کتے نے تو کاٹا نہیں تھا۔

مکھیا کے آتے ہی داروغہ آگ کے بھبھوکے کی طرح پھٹ پڑا۔ پھر اس نے کیا کیا کہا، کیسی کیسی آنکھیں دکھائیں، کیا کیا پینترے بدلے اور کیا کچھ کر ڈالنے کی دھمکیاں ہی نہیں دیں، بلکہ کر دکھانے کے فتوے بھی دے ڈالے، اس کا کوئی حساب نہیں۔ مکھیا ہونٹوں میں ہی مسکرایا، پھر سنجیدہ ہو کر اس نے وہ سب مکمل کر ڈالا، جو داروغہ نے بھول سے نامکمل چھوڑ دیا تھا۔ پھر گوپی چند اور اس محلے کے ملزم لوگوں کو کچھ کھری کھوٹی سنا کر آپ ہی ان کا وکیل بھی بن گیا اور ان کی جانب سے معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ کچھ پان پھول بھینٹ کرنے کی بات چلا کر کہا، ’’داروغہ جی، یہ گوپی چندنہ تو ایک بار جیل کی ہوا کھا کر بھی جیسے کچھ نہیں سیکھا! یہ ایک بار پھر جیل جائے گا، داروغہ جی، آخر ہم کب تک اسے بچائے رکھیں گے؟ اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک بار داغ لگ جانے کے بعد پھر گواہی شہادت کی بھی ضرورت نہیں رہ جاتی! ‘‘ پھر دوسرے لوگوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا، ’’اور ان کو میں کہتا ہوں کہ اس کے ساتھ ساتھ انہیں بھی بڑے گھر کی سیر کا شوق چرایا ہے! ‘‘

اسی درمیان داروغہ اپنا نیا داؤ پھینکنے کیلئے اپنے تاثرات اس کے موافق بنانے میں کافی کامیاب رہا۔ مکھیا کے خاموش ہوتے ہی وہ برس پڑا، ’’نہیں، صاحب، نہیں! یہ ایسی ویسی کوئی واردات ہوتی تو کوئی بات نہ تھی۔ مگر یہ سنگین معاملہ ہے! آخر مجھے بھی تو کسی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے! ‘‘ یہ کہہ کر وہ اینٹھ گیا۔

مکھیا سمجھ گیا، ’’ کھگ جانے کھگ ہی کی بھاشا‘‘ ہاتھ بڑھا کر اس نے داروغہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے کر ایک طرف ہو گیا۔

دس منٹ کے بعد وہ واپس آئے، تو داروغہ نے نوٹ بک اور پنسل جیب سے نکال کر کہا، ’’ گوپی چند، تم اپنا بیان تو دو۔ ‘‘پھر بھیڑ کی طرف دیکھ کر پولیس والے کی طرف اشارہ کیا۔

بھیڑ بھگا دی گئی۔ پھر گوپی چند کے بیان دیئے بغیر ہی داروغہ نے خود ہی خانہ پری کر لی، واردات میں لاپتہ بیوہ کے ایک ہاتھ میں رسی اور دوسرے ہاتھ گھڑا تھما کر کنوئیں پر بھیج دیا گیا اور اس کا پاؤں کائی جمے کنوئیں کی منڈیر پر پھسلا کر، کنویں میں گرا کر، اسے مار ڈالا گیا۔ ادھر گوپی چند کی تھیلی کا منہ کھلا، ادھر قانون کا منہ بند ہو گیا۔

کہانی ختم ہو گئی۔

گاؤں میں طرح طرح کی باتیں اٹھیں۔ پھر ’’بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں ‘‘ کے مصداق لوگوں نے اس کے بارے میں کوئی بحث و مباحثہ کر کے اس کی روح کو بیکار تکلیف پہچانا غیر مناسب سمجھا اور اپنے منہ بند کر دیئے۔ بات آئی گئی ہو گئی۔ لیکن۔۔۔

***

 

 

 

 

دو

 

گوپی چند دو بھائی تھے۔ بڑے بھائی مانک چند اور اس کی عمر میں مشکل سے دو سال کا فرق تھا۔ پِتا دو بیلوں کی کھیتی کراتے تھے۔ گھر کی بھینس تھی۔ مانک چند اور گوپی چندبھینس کا دودھ پیتے اور گھنٹوں اکھاڑے میں جمے رہتے۔ پِتا نے انہیں سانڈوں کی طرح آزاد اور بے فکر چھوڑ دیا تھا۔ کھیلنے کھانے کے یہی تو دن ہیں، پھر زندگی کا بوجھ کندھے پر پڑنے کے بعد کسے فرصت ملتی ہے جسم بنانے کی؟ اسی وقت کا بنا بدن تو زندگی بھر کام آئے گا۔

بڑھتے ہوئے جوانوں کو آزادی، بے فکری، دودھ اور اکھاڑے کی کسرت ملی تو ان کے بدن سانچے میں ڈھلنے لگے۔ ان کی جوڑی جب اکھاڑے میں اترتی تو لوگ تماشا دیکھتے اور بڑائی کرتے نہ تھکتے۔ جب اکھاڑے سے اپنے سڈول، خوبصورت جسم میں دھول رمائے وہ شیروں کی طرح مست چالوں سے جھومتے ہوئے گھر لوٹتے تو اپنی رام لکشمن کی جوڑی کو دیکھ ماں باپ کی چھاتی پھول اٹھتی، چہرے خوشی کے مارے دمک اٹھتے اور ان کی آنکھوں سے جیسے فخر کے دو ہ8دیپ جل اٹھتے۔ ماں اس کی بلائیں لیتی، باپ دل ہی دل میں ان کیلئے جانے کتنی شبھ کامنائیں کرتے!

بڑائی جتنی مدھر ہے، اس کا چسکا لگ جانا اتنا ہی برا ہے۔ وہ آدمی کو اندھا بنا دیتی ہے! دونوں بھائیوں کے گھڑے بنے بدن اور ان کی قوت کی بڑائی گاؤں اور آس پاس کے علاقے میں جو شروع ہوئی، تو ان پر جیسے ایک نشہ سا چھا گیا۔ کھیل کھیل میں جو کسرت انہوں نے شروع کی تھی، وہ آہستہ آہستہ ان کا شوق بن گئی۔ پھر تو جیسے جسم بنانے اور طاقت بڑھانے کی زبردست دھن ان کے سر پر چڑھ گئی۔ ماں باپ اور گاؤں کے لوگوں کا بڑھاوا ملا۔ مانک اور گوپی کی جوڑی گاؤں کا نام جوار میں اجاگر کرے گی! اور حقیقتاً مانک اور گوپی گاؤں کی شہرت میں چار چاند لگانے کو جی جان سے پابندِ عہد ہو گئے۔ بادام گھوٹے جانے لگے، بکرے کٹنے لگے، گھی میں تر حلوے کی خوشبو محلے میں صبح شام چھائی رہنے لگی۔ پِتا اپنی گاڑھی کمائی ان پر نچھاور کرنے لگے۔ ایک اور دودھ دینے والے بھینس کھونٹے پر آ بندھی۔

نتیجہ یہ ہوا کہ عمر سے دوگنی اور تگنی رفتار سے ان کے جسم مزید زور بڑھنے لگا اور پچیس کا ما تھا چھوتے چھوتے تو ان کا جسم اور زور اچھا خاصا ہاتھی کی طرح ہو گیا۔ اب جو وہ اکھاڑے میں اترتے، تو ان کی سانسوں کی پھنکار کی آواز بیگھوں تک سنائی پڑتی، جیسے دو سانڈ لڑ رہے ہوں۔ جہاں ان کا پاؤں پڑ جاتا، اکھاڑے کی زمین بالشت بالشت بھر دھنس جاتی اور جو کوئی اپنی ران یا بازو پر تال ٹھونکتا، تو معلوم ہوتا، جیسے کوئی بادل کا ٹکڑا دوسرے بادل کے ٹکڑے سے ٹکرا کر گرج اٹھا ہو۔ گھنٹوں وہ دو پہاڑوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکر لیتے اور اکھاڑے میں جمے رہتے۔ اکھاڑے کی مٹی کھد جاتی، پسینے کی دھاریں بہنے لگتیں، تب کہیں وہ باہر نکلنے کا نام لیتے۔ باہر آ کر وہ ہاتھیوں کی طرح پھیل جاتے اور ان کے دو دو، تین تین شاگرد ہاتھوں میں مٹی لے لے کر ان کے جسم سے بہتے پسینے کی دھاروں کو مل مل کر گھنٹوں میں سکھا پاتے۔

اب حال یہ تھا کہ جسم بے قابو ہوا جا رہا تھا، بے پناہ طاقت کی کرنیں ان کے روم روم میں پھوٹ رہی تھیں، موٹی رگیں حد درجے تک صحت مند خون سے پھول پھول کر ابھی پھٹیں کہ تب پھٹیں کی مصداق ہو رہی تھیں اورسرخ چہرے سے جیسے خون ٹپکا پڑ رہا ہو۔ بلند پیشانیاں، رعب دار، خون اگلتی سی آنکھیں، بانکی مونچھیں، سڈول گردنیں، اونچی، چوڑی چکلی، میدان کی طرح کی چھاتیاں، مضبوط بازو، کسرتی رانیں، گٹھیلی پنڈلیاں لئے، احتیاط سے جسم کو جانچتے، طاقت اور فخر کے نشے میں مست ہاتھی کی طرح جھومتے، جب وہ چلتے، تو لگتا، جیسے ان کے ہر قدم کے ساتھ زلزلہ چلا آ رہا ہے، ان کی ہر حرکت پر راستے جھکے جا رہے ہیں، ان کی ہر تیوری میں طاقت کی بجلیاں کوند اٹھتی ہیں۔ ماں باپ نے جب انہیں ایسے اعلی درجے کی حالت میں دیکھا، تو فخر اور خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ گاؤں والوں نے دیکھا، تو آنکھوں میں خوشی کی چمک اور ہونٹوں پر کامیابی کی مسکراہٹ لا کر کہا، ’’ہاں، اب وہ وقت آ گیا، جس کا انتظار ہمیں برسوں سے تھا۔ اب دیکھیں، کون مائی کا لال ہمارے گاؤں کے ان شیروں کے جوڑے کے سامنے سے سر اٹھا کر چلا جاتا ہے۔ ‘‘

باپ سے رائے لی گئی، تو انہوں نے لاپرواہی سے کہا، ’’ارے، ابھی تو یہ بچے ہیں! ‘‘

لوگوں نے سمجھایا، ’’تم باپ ہو۔ باپ کے لئے تو بیٹا بوڑھا بھی ہو جائے، تب بھی بچہ ہی رہتا ہے۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ چڑھتی جوانی کی عمر ہی کچھ کر گزرنے کی ہوتی ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کی قوت، زور اور کشتی کا ڈنکا گاؤں کی حدود میں ہی بندھا نہ رہ جائے بلکہ پورے جوار، تحصیل اور ضلع میں ہی نہ بجے، بلکہ پورے صوبے اور ملک میں بھی ان کا نام چمک اٹھے۔ تم اگر اس وقت کسی طرح کی کمزوری دکھاؤ گے، تو ان کے حوصلے پست ہو جائیں گے۔ تم انہیں خوشی سے حکم دو کہ یہ اپنے نام اورسب کی مان پر چار چاند لگانے کے ساتھ ہی گاؤں کا نام بھی روشن کریں! ‘‘

باپ کو اپنے بیٹوں کی طاقت کا اندازہ نہ ہو، ایسی بات نہ تھی۔ لیکن ان کے پدری دل میں جہاں بیٹوں کو کامیاب دیکھنے کی غالب خواہش اور امنگ تھی، وہیں ممتا اور پیار کی فراوانی کی وجہ سے ذرا شک اور خوف بھی تھا کہ کہیں۔۔۔ لوگوں کی بات سن کر ان کے ہونٹوں پر ایک گریزاں سی مسکراہٹ پھیل گئی، جیسے انہیں اپنے نام اور مان کی قطعی فکر نہ ہو۔ نام، مان، شہرت، شان کی خواہش کسے نہیں ہوتی! لیکن یہ خواہش دوسروں پر ظاہر کر کے ان نایاب درجوں کی عظمت کو کم کر کے کوئی ذہین خود کو لالچی ثابت کر کے مضحکہ خیز نہیں بننا چاہتا۔ باپ تجربہ کار آدمی تھے۔ انہوں نے دل کی اٹھتی امنگوں کو دبا کر کسی متاسف انسان کی طرح کہا، ’’اگر تم لوگ ایسا ہی سمجھتے ہو، تو میں اس میں کسی طرح کی رکاوٹ ڈالنا نہیں چاہتا۔ آخر ان پر گاؤں کا بھی تو وہی حق ہے، جو میرا ہے۔ گاؤں کی ہی مٹی، پانی، ہوا سے تو ان کا بدن بنا ہے۔ تم لوگ انہی سے کہو۔ اب تک وہ ہر طرح سے آزاد رہے۔ آج بھی وہ جیسا چاہیں، کرنے کو خود مختار ہیں۔ ‘‘

لوگ خوشی خوشی دونوں بھائیوں کے پاس پہنچے اور ان کے پِتا کی اجازت کی بات بتا کر انہوں نے کہا، ’’اب تم لوگ بتاؤ، تم میں سے کون پہلے کشتی میں اترنا چاہتا ہے؟ ‘‘

وہ دونوں اکھاڑے میں ایک دوسرے کے دشمن بن کر اترتے تھے، لیکن اکھاڑے کے باہر ان کا باہمی برتاؤ اتنا محبت بھرا تھا کہ بس رام لکشمن کی ہی مثال دی جا سکتی تھی۔ گوپی نے کہا، ’’میرے ہوتے بھیا کو کشتی میں نہیں اترنا پڑے گا۔ بابو جی اور بھیا کی شبھ کامنائیں اور آشیرواد کی طاقت حاصل کرنے کا حق مجھے ہی تو بھگوان کی جانب سے ملا ہے! ‘‘

مان، گوپی سے عمر میں بڑا تھا، لیکن جسم اور طاقت میں گوپی، مان کے کہیں زیادہ تھا، یہ خود مانک بھی جانتا تھا اور گاؤں کے لوگ بھی۔ ایک طرح سے گوپی کے پہلے اترنے کی بات سے لوگوں کو بھی خوشی ہی ہوئی۔

بہترین ساعت دیکھ کر برہمن اور نائی کے ساتھ للکار کا پان، جوار کے نامی گرامی پہلوانوں کے پاس بھیج دیا گیا۔ ادھر گوپی کی تیاریاں مزید زور پکڑ گئیں۔

مانک اور گوپی کے بارے میں جوار کے پہلوان بہت کچھ سن ہی نہیں چکے تھے، بلکہ انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی چکے تھے۔ ان میں سے کسی کو بھی ان سے بھڑنے کی ہمت نہیں رہ گئی تھی۔ برہمن اور نائی ایک ایک کر کے تمام پہلوانوں کے یہاں پہنچے۔ لیکن سب کوئی نہ کوئی بہانہ کر کے ٹال گئے۔ آخر وہ جوار کے سب سے نامی بوڑھے جوکھو پہلوان کے اکھاڑے میں پہنچے۔ جوکھو کو جب ان سے معلوم ہوا کہ جوار کا کوئی بھی پہلوان پان کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہ کر سکا، تو اس کے حیرت کا ٹھکانا نہ رہا۔ زیادہ تر نامی پہلوان جوکھو کا لوہا ماننے والے یا اس کے شاگرد تھے۔ اپنی جوانی کے دنوں میں اس نے ایک بار جو اپنا سکہ جما لیا تھا، وہ آج کے دن تک ویسا ہی جما رہا تھا۔ کسی نے اس سے بھڑنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ اسی کی طوطی جوار میں آج تک بولتی رہی۔ آج اب وہ جوانی کے دن نہ رہے۔ جوکھو بوڑھا ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ گوپی کے مقابلے میں اٹھ کر وہ اپنی عمر بھر کی ساری کمائی ہوئی نام و شہرت ہمیشہ کے لئے کھو دے گا۔ لیکن اب چارہ ہی کیا تھا؟ برہمن اور نائی سبھی نامی گرامی پہلوانوں کے یہاں سے، شیام کرن گھوڑے کی طرح، گوپی کی شہرت کا پھریرا لہراتے ہوئے چلے آئے تھے۔ جوکھو کے یہاں سے بھی اگر اسی طرح چلے جائیں گے، تو لوگ کیا سمجھیں گے؟ بوڑھا شیر اس بے عزتی کی بات سوچ کر تمتما اٹھا! اس کی مردانگی کو یہ کیسے گوارا ہوتا کہ کوئی للکار کر اس کے سامنے سے نکل جائے؟ جوکھو بوڑھا ہو گیا ہے۔ اب وہ جسم اور زور نہیں رہ گیا۔ پھر بھی پرانے خون کا وہ مرد ہے، سچا مرد! یوں للکار کو قبول کئے بغیر ہی بزدلوں کی طرح پہلے ہی وہ کیسے سر جھکا دیتا؟ اس نے پان اٹھا لیا اور گرج کر، بجرنگ بلی کی جے ہو، بول کر اسے منہ میں ڈال لیا۔

لوگوں نے جب یہ سنا تو حیرت کے ساتھ ہی وہ بوڑھے جوکھو کی مردانگی اور ہمت کی داد دیئے بغیر نہیں رہ سکے۔ ان کے منہ سے اچانک ہی نکل پڑا کہ جوار کے جوان پہلوانوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہئے! گوپی نے جب یہ سنا، تو جیسے چھوٹا ہو گیا۔ اپنے باپ کی عمر کے پہلوان سے لڑنا اسے کچھ جچا نہیں۔ وہ تو اپنی عمر کے کسی پہلوان سے بھڑنا چاہتا تھا۔ لیکن اب ہو ہی کیا سکتا تھا؟ ایک بار بد کر کچھ اور کیا ہی کیسے جا سکتا تھا۔

مقررہ تاریخ پر گاؤں کا اکھاڑہ، نواڑ اشوک کے پتوں کے پھاٹکوں اور رنگ برنگی کاغذ کی جھنڈیوں سے خوب سجایا گیا۔ وقت سے بہت پہلے ہی سے جوار اور دور دور کے گاؤں کے لوگوں کی بھیڑ جمنے لگی۔

ماں باپ کی آشیرواد لے کر پھولوں کے ہاروں سے لدے ہوئے دونوں بھائی، باجے گاجے کے ساتھ اپنے گاؤں کے لوگوں کے ہجوم کے آگے آگے اکھاڑے کی طرف چل پڑے۔ بھیڑ جوش میں باؤلی ہو کر بجرنگ بلی کی جے جے کار سے آسمان سر پر اٹھائے ہوئے تھی۔ لیکن گوپی کے دل میں وہ خوشی، جوش، جذبہ اور امنگ نہ تھی، جس کی اس نے کبھی ایسا موقع آنے پر خواہش کی تھی۔ پھر بھی دل کی بات دبائے وہ اوپری جوش سے بھیڑ کی خوشی میں حصہ لے رہا تھا۔

اکھاڑے پر دونوں جانب سے ایک ہی وقت میں گوپی اور جوکھو کے دَل پہنچے۔ دونوں دَلوں نے جے جے کی۔ مارُو باجے زور زور سے بجنے لگے۔ ماحول کے ذرے ذرے سے ویر رَس جاری ہو رہا تھا۔ بھیڑ کی آنکھوں میں مسرت اور بے چینی چمک رہی تھی۔ سب کے سب اکھاڑے کے پاس ہی ٹوٹے پڑ رہے تھے۔ گوپی اور جوکھو کے معاونین انہیں چاروں جانب سے گھیرے شاباشی کے ساتھ ہی طرح طرح کی گُر کی باتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ کوئی بزرگ پیٹھ ٹھونک کر جوش بڑھا رہا تھا، تو کوئی ہم عمر ہاتھ ملا کر فتح کی خواہش کا اظہار کر رہا تھا اور تمام چھوٹے شاگرد پاؤں چھوکر کامیابی کیلئے بھگوان سے پرارتھنا کر رہے تھے۔

گوپی اکھاڑے میں کودے، اس سے پہلے ہی مانک نے اس کے کان کے پاس منہ لے جا کر چپکے چپکے کہا، ’’بوڑھا پرانا خرانٹ استاد ہے۔ زیادہ موقع نہ دینا۔ ہاتھ ملاتے ہی، پلک مارتے ہی۔۔۔ سمجھے؟ ورنہ کہیں چمٹ گیا، تو پھر گھنٹوں کی چھٹی ہو جائے گی! پھر ہار بھی کھائے گا، تو کہنے کو رہ جائے گا کہ ایک تو بوڑھے سے لڑنا ہی گوپی جیسے جوان کی زیادتی تھی، دوسرے لڑا بھی تو کہیں گھنٹوں میں ریں ریں کر۔۔۔ سو، یہ کہنے کا موقع کسی کو نہ ملے۔ بس، جھٹ پٹ۔۔۔ ‘‘

دونوں جانب سے کود کروہ اکھاڑے میں اترے۔ دونوں طرف سے زور زور کی جے کار ہوئی۔ مارُو باجے اور زور سے بج اٹھے۔ بھیڑ کی آنکھوں کی بے چینی کی چمک میں پتلیوں کی کپکپاہٹ بڑھ گئی۔

دونوں نے جھک کر اکھاڑے کی مٹی چٹکی سے اٹھا کر پیشانی میں لگا کر اپنے اپنے گروؤں کو یاد کیا۔ پھر ہاتھ ملانے کے لیے ایک دوسرے کی آنکھوں سے آنکھیں ملائے آگے بڑھے۔ ہاتھ بڑھے، انگلیاں چھوئیں کہ اچانک جیسے بجلی سی کوند گئی۔ گوپی نے جانے کیسے دایاں پیر جوکھو کی کوکھ میں مارا کہ بوڑھا ایک چیخ کے ساتھ ہوا میں اچھلا، ہوا ہی سے جیسے ایک آہ کی آواز آئی اور دوسرے ہی لمحے اکھاڑے کی میڑ پر پہاڑ کے ایک ٹکڑے کی طرح وہ بھد سے گر پڑا۔ بھیڑ میں سناٹا چھا گیا۔ مارُو باجا تھم گیا۔ اس کے دَل کے لوگ خدشات سے کانپتے ہوئے اس کی طرف بڑھے۔ جھک کر دیکھا تو وہ ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ اب کیا تھا، ان کی آنکھوں میں غضب کے شعلے بھڑک اٹھے۔

’’ یہ نا انصافی ہے، یہ دھوکہ ہے، ہاتھ ملانے سے پہلے ہی گوپی نے جوکھو استاد کو مار ڈالا۔ کشتی کے قاعدے کو اس بزدل نے توڑا ہے۔۔۔ ہم اسے جیتا نہ چھوڑیں گے۔ ‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ غصے اور اشتعال میں چُور، چیختی آوازیں بھیڑ سے اٹھیں۔ گوپی ساکت کھڑا تھا۔ اس کی سمجھ میں خود نہیں آ رہا تھا کہ اچانک یہ کیا ہو گیا۔ لیکن اب سمجھنے بوجھنے کا موقع ہی کہاں تھا؟ جب جوکھو کے دَل نے لاٹھیاں اٹھا لیں تو دوسرا دَل خاموش کیسے رہتا؟ لاٹھیاں پٹ پٹ بجنے لگیں۔ تماش بینوں میں بھگدڑ مچ گئی۔ بہت سوں کے سروں سے خون کی دھارے بہہ چلیں، بہت سے ہاتھ پیروں میں چوٹ کھا کر گرے اور تڑپنے لگے۔ آخر جب جوکھو کے دَل والوں نے دیکھا کہ ان کا پلہ کمزور پڑ رہا ہے، تو ان میں سے بعضوں نے خود ہی بیچ بچاؤ کا شور اٹھایا اور اپنے لوگوں کو ہی روکنے لگے۔ گوپی کے اپنے گاؤں کا معاملہ تھا۔ جوکھو کے دَل والے پرائے گاؤں کے تھے۔ اگر روک تھام کی انہیں نہ سوجھتی تو ایک آدمی بھی بچ کر نہ جا پاتا۔ لاٹھیاں آہستہ آہستہ تھم گئیں۔ پھر کچہری میں دیکھ لینے کی دھمکی دے کر وہ چلے گئے۔

ایسی واردات کو لے کر کچہری دوڑنا، خود ان کیلئے کوئی ساکھ کی بات نہ نہیں تھی۔ اس سے عزت گھٹتی ہی، بڑھتی نہیں۔ جوکھو پہلوان کی اس طرح جو موت ہو گئی تھی، اس سے جوار میں کیا ان کی کم کر کری ہوئی تھی، جو وہ بھری کچہری میں اس بدنامی کا ڈھول پیٹتے۔ حلقے کے داروغہ نے پہلے ضرور استغاثہ دائر کرنے پر زور دیا، لیکن گوپی کے دَل نے جیسے ہی اس کی جیب گرم کر دی، وہ بھی خاموشی اختیار کر گیا۔

جو بھی ہو، اس واردات کا اتنا نتیجہ ضرور نکلا کہ جوکھو کے گاؤں والے ہمیشہ کیلئے گوپی اور اس کے خاندان کے جان لیوا دشمن بن گئے۔ ان کے دلوں میں ایک زخم بن گیا۔ گوپی کے دل پر جوکھو کی اس طرح ہوئی موت کا اتنا اثر پڑا کہ اس نے ہمیشہ کے لئے لنگوٹ اتار پھینکا۔ مانک اور گاؤں کے لوگوں نے اسے بہت سمجھایا، لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔ وہ اب ہر طرح سے گھر گرہستی کے کاموں میں باپ کی مدد کرنے لگا۔

***

 

 

 

 

 

تین

 

 

آہستہ آہستہ وہ باتیں پرانی پڑ گئیں۔ باپ کو اب اپنے بیٹوں کی شادی کی فکر ہوئی۔ اس سے قبل بھی کئی جگہوں سے رشتے آئے تھے، لیکن انہوں نے، ’’ ابھی کیا جلدی ہے؟ ‘‘ کہہ کر ٹال دیا تھا۔ اب کے اتفاق سے ایک ایسا رشتہ آ گیا کہ ان کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ سیتا اور ارملا کی طرح دو پیار کرنے والی، سگی، نیک نام، مہذب بہنوں کی ایک ہی ساتھ دونوں بھائیوں سے رشتے کی بات چلی۔ جیسے بیٹے تھے، ویسے ہی بہویں ملنے جا رہی تھیں۔ ماں تو برسوں سے بہوؤں کا منہ دیکھنے کو تڑپ رہی تھی۔ اس رشتے کی خبر جس نے بھی سنی، اسی نے باپ کو رائے دی کہ، ’’بس، اب کچھ سوچنے سمجھنے کی بات نہیں ہے۔ یہ بھگوان کی کرپا ہے کہ ایسی بہویں مل رہی ہیں۔ ایک ہی ساتھ جیسے دونوں بیٹوں کی تمام تر پرورش ہوئی ہے، ویسے ہی ایک ہی ساتھ بیاہ بھی جتنی جلدی ہو جائے، اچھا ہے۔ ‘‘

خوب دھوم دھام سے بیاہ ہو گیا۔ دو دو مہذب، خوبصورت بہویں گھر میں ایک ساتھ کیا اتریں، گھر روشنیوں سے بھر گیا۔ ماں باپ کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ جب انہوں نے دیکھا کہ سچ مچ بہویں اس سے کہیں بڑھ چڑھ کر ہیں جیسا کہ انہوں نے سنا تھا، تو ان کے اطمینان اور سکھوں کا کیا کہنا!

گوپی پیاری بیوی کے ساتھ ہی پیاری بھابھی پا کر نہال ہو گیا۔ اس کے لئے گھر سنساراتنا پرکشش، اتنا خوشیوں بھرا ہو اٹھا کہ وہ صرف گھر میں ہی جم کر رہ گیا۔ باہری دنیا سے اس نے ایک طرح سے ناطہ ہی توڑ لیا۔ وہ ایک دھن کا آدمی تھا۔ پہلے دنیاوی باتوں سے، اپنا جسم بنانے اور کسرت کی دھن میں، کوئی دلچسپی ہی نہ تھی۔ اب وہ چھوٹی، تو دوسرے سے وہ اس طرح چپک گیا کہ لوگ دیکھتے تو تعجب کرتے۔ تہذیب کی بندشوں کی وجہ سے اسے اپنی بیوی سے ملنے جلنے کی اتنی آزادی نہ تھی، جتنی بھابھی سے۔ بھابھی سے وہ کھل کر ملتا اور ہنسی مذاق کی آوازوں سے گھر کو سر پر اٹھا دیتا۔ ماں باپ کا دل گھر کے اس سداکے خوشگوار ماحول کو دیکھ کر خوشی سے جھوم اٹھتا۔ مانک کو ان باتوں میں کھل کر حصہ لینے کی آزادی نہ تھی، پھر بھی وہ گوپی اور بھابھی کا محبت بھرا رویّہ دیکھ کر دل ہی دل خوشیوں سے بھر اٹھتا۔ بھائی بھائی کی محبت، بہن بہن کی محبت، دیور بھابھی کی محبت، بیٹوں اور ماں باپ کی محبت، بہوؤں کی محبت، ایسا لگتا تھا جیسے چوبیس گھنٹے اس گھر میں امرت کی بارش ہوتی ہو، چھک چھک کر، نہا نہا کر گھر کا ہر ایک فرد خوشیوں سے لطف کشید کر رہا ہے، کوئی دکھ نہیں، کوئی مسئلہ نہیں، کوئی تشویش نہیں، کوئی شک نہیں۔

کیا اچھا ہوتا اگر وہ پھلواری ہمیشہ ایسی ہی گلزار بنی رہتی، اس کے پودے اور پھول ہمیشہ اسی طرح خوشی سے جھومتے رہتے! لیکن دنیا کی وہ کون سی پھلواری ہے، جس کے پودوں اور پھولوں کی خوشی، پت جھڑ اپنے منحوس قدموں سے نہیں روند دیتا؟

بمشکل ان خوشیوں کے ابھی چھ مہینے بھی نہ گزرے ہوں گے کہ ایک کالی رات کو خوشی کی اس دنیا کے ایک کونے میں آگ لگ گئی۔ مانک ستیانارائن جی کی کتھا کیلئے کچھ ضروری سامان لینے قصبے گیا ہوا تھا۔ لوٹنے لگا تو کافی رات ہو گئی تھی۔ قصبے سے اس گاؤں کا راستہ جوکھو کے گاؤں کی حدود سے ہو کر نکلتا تھا۔ سامان کی گٹھری کندھے پر لٹکائے وہ تیزی سے قدم بڑھائے چلا آ رہا تھا۔ اُس گاؤں کے ایک سرحدی باغ میں وہ پہنچا تو اچانک اسے لگا کہ اس کے پیچھے کچھ لوگ آ رہے ہیں۔ مڑ کر اس نے دیکھنا چاہا کہ تڑاک سے ایک بھرپور لاٹھی اس کے سر پر بج اٹھی۔ پھر کئی لاٹھیاں ساتھ ساتھ اس کے اوپر چاروں اطراف سے بجلی کی تیزی سے چوٹ کرنے لگیں۔ اس کے ہوش وحواس غائب ہو گئے۔ وہ زیادہ دیر تک خود کو سنبھال نہ پایا اور گر پڑا۔ سر پھٹ گیا تھا۔ خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں۔ اتنے میں اسے لگا کہ کسی نے اس کی گردن پر لاٹھی جھٹکے سے رکھی ہے، پھر اسے زور سے دبایا گیا ہے۔ اس کی سانسیں گھٹتی گئیں اور آنکھیں باہر نکل آئیں۔

قاتل لاش ٹھکانے لگانے کی بات ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ کچھ لوگوں کے آنے کی آہٹ پا کر بھاگ چلے۔ وہ لوگ بھی قصبے ہی سے آ رہے تھے۔ باغ میں عین راستے پر خون اور لاش دیکھ کر وہ خدشے سے ٹھٹھک گئے۔ گاؤں کے لوگ ایسی وارداتوں میں شہریوں کی طرح خوف کھا کر بھاگ نہیں کھڑے ہوتے۔ ایسے وقتوں پر بھی اپنا فرض نبھانا خوب جانتے ہیں۔ انہوں نے جھک کر دیکھا اور مانک کو پہچانا، تو ان کے دکھ کی کوئی حد نہ رہی۔ جوار کا کوئی ایسا آدمی نہ تھا، جو ان دو بھائیوں کو اور ان کی طاقت اور بہادری کو نہ جانتا ہو۔ لمحے بھر میں انہیں جوکھو کے ساتھ گوپی کی کشتی کی باتیں یاد آ گئیں۔ پھر سب کچھ ان کی سمجھ میں خود ہی آ گیا۔ جوکھو کے گاؤں والوں کے اس بزدلانہ اقدام سے وہ پریشان ہو اٹھے۔ انہوں نے ایک آدمی کو گوپی کو خبر کرنے کو بھیجا۔ ساتھ ہی اس سے یہ بھی کہنے کو کہا کہ پورے دَل بل کے ساتھ اس کے گاؤں والے ابھی آ جائیں، تاکہ ان بزدلوں سے مانک کے قتل کا بدلہ فوراً ہی لے لیا جا سکے۔

’’ بے چارہ مانک! اس کی نوجوان بیوہ کی زندگی ہمیشہ کیلئے دکھی ہو گئی! ان بزدلوں کو ان کا بھیانک گناہ نگل جائے گا۔ بدلہ ہی لینا تھا تو مردوں کی طرح میدان میں لیتے! ‘‘ مانک کی لاش کو گھیرے ہوئے پرانی یادوں اور غصے میں بڑبڑاتے وہ لوگ وہیں بیٹھ گئے۔

گوپی کے گھر خبر پہنچی۔ ماں اور بہویں چھاتی پیٹ پیٹ کر، پچھاڑے کھا کھا کر، چیخ چیخ کر رو پڑیں۔ گوپی کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ وہ سر پکڑ کر جہاں کا تہاں بیٹھ گیا۔ باپ دل پر جیسے گھونسا کھا کر پتھر کے بت بن گئے۔ اس حادثے کی خبر کے جھٹکے سے ان کا دماغ ہی ماؤف ہو گیا تھا۔

سارے گاؤں میں اس حادثے کی خبر بجلی کی طرح پھیل گئی۔ چاروں جانب ایک کہرام سا مچ گیا۔ سارے کاسارا گاؤں لاٹھیاں سنبھالے ہوئے، گوپی کے دروازے پر دکھ اور اشتعال سے پاگل ہو کر جمع ہو گیا۔ عورتیں اس کی ماں اور بہوؤں کو سنبھالنے لگیں۔ بڑے بوڑھے پِتا سمجھانے بجھانے لگے۔ لیکن جوانوں کو کہاں چین تھا؟ چاروں طرف سے گوپی کو گھیر کر اسے بھائی کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے للکارنے لگے۔

تھوڑی دیر تک تو گوپی، ہوش و حواس کھوئے ان کی باتیں سنتا رہا۔ پھر جیسے اس کی آنکھوں میں بجلیاں چمکنے لگیں۔ وہ تڑپ کر اٹھا اور کونے میں کھڑی گوجی اٹھا کر زخمی شیر کی طرح دوڑ پڑا۔ اس کے پیچھے پیچھے گاؤں کے لٹھ باز نوجوان آنکھوں میں انتقام کی آگ کیلئے بڑھ چلے۔ ادھر خبر پا کر چوکیدار تھانے کی جانب بھاگ گیا۔

جوکھو کے گاؤں والوں کو اس واردات کی کوئی خبر نہ تھی۔ اس کے چند شاگردوں کا ہی یہ کارنامہ تھا۔ انہوں نے اپنا کام کیا اور غائب ہو گئے۔ گاؤں والوں نے جب گاؤں کی جانب بڑھتا شور سنا تو سوچا کہ شاید یہ ڈاکوؤں کا کوئی گروہ ہے، جو گاؤں کو لوٹنے آ رہا ہے۔ پورے گاؤں میں تہلکہ مچ گیا۔ نوجوانوں نے لاٹھی سنبھال کر مقابلے کا فیصلہ کیا اور جدھر سے وہ شور بڑھتا آ رہا تھا، ادھر گاؤں کے باہر ہی وہ بھڑنے کو دوڑ پڑے۔ عورتوں اور بوڑھوں کا کلیجہ دھک دھک کر رہا تھا۔ بچے بلبلا اٹھے تھے۔

گوپی کا دَل پاس پہنچا، تو سامنے لاٹھیاں اٹھی دیکھ کر انھوں نے سمجھ لیا کہ کھلی فوجداری کی تیاری انہوں نے پہلے ہی سے کر رکھی ہے۔ سمجھنے بوجھنے کی صورت میں کوئی پارٹی نہ تھی۔ ایک دوسرے پر وہ بھوک لگے شیروں کی طرح جھپٹ پڑے۔ لاٹھیاں پٹاپٹ بجنے لگیں۔ اندھیرے میں سینکڑوں بجلیاں کوندنے لگیں۔ اندھیرے میں اندھوں کی طرح بس اندھا دھند لاٹھیاں چل رہی تھیں۔ کس کے دَل کا کون زخمی ہو کر گرتا ہے، کس کی لاٹھی کس پر اور کہاں گرتی ہے، یہ جاننے کی سمجھ کسی کو نہ تھی۔ ایک طرف مانک کے قتل کے بدلے کی لپٹیں جل رہی تھیں، تو دوسری طرف اپنی جان و مال کی حفاظت کا سوال تھا۔ کوئی دَل اپنی ہار کیسے مان لیتا؟ دیکھتے دیکھتے کئی لاشیں زمین پر تڑپنے لگیں۔ خون کی بوچھاروں سے جگہ جگہ پھسلن ہو گئی۔ لیکن اس پر دھیان دینے کی فرصت کسے تھی؟ وہاں تو جان دینے اور لینے کی بازی لگی تھی۔

مانک کی لاش تھانے پر لے جانے کا حکم دے کر داروغہ اور نائب، دس ہتھیار بندکانسٹیبلوں کے ساتھ چوکیدار کو آگے رکھ کے جائے حادثہ کی جانب لپکے۔ لاٹھیوں کی پٹاپٹ سن کر انہوں نے ٹارچ جلا کر سامنے کا بھیانک منظر دیکھا، تو ریوالور نکال لیا اورکانسٹیبلوں کو ہوائی فائر کرنے کا حکم دیا۔

فائرنگ کی آواز سن کر دونوں دل والوں نے سمجھ لیا کہ پولیس کی دوڑ آ گئی۔ وہ اپنی لاٹھیاں روک بھی نہ پائے تھے کہ پولیس دندناتی پہنچ گئی۔ لوگ ابھی فرار کو ہی تھے کہ چاروں طرف سے پولیس کی سنگینوں سے گھر گئے۔ ٹارچوں کی روشنی سے ان کی آنکھیں چوندھیا رہی تھیں۔ دیکھتے دیکھتے ہی ان کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پڑ گئیں۔

گوپی کے بائیں ہاتھ کی تین انگلیاں پس گئی تھیں اور گلے کے پاس والی دائیں پسلی میں گہری چوٹ آئی تھی۔ لیکن غم اور غصہ کے جھونکے میں وہ اس طرح غافل تھا کہ جب دوسرے دن صبح اس کی آنکھیں پرگنے کے ہسپتال میں کھلیں، تو اسے اس کا علم نہ تھا کہ وہ کہاں ہے، اس کے ہاتھ، گلے اور سینے میں پٹیاں کیوں بندھی ہیں، اس کا جسم کیوں چور چور ہو گیا ہے، اس کا ما تھا کیوں زور زور سے جھنجھنا رہا ہے؟ اس کی اغل بغل میں اور بھی اس کے گاؤں اور جوکھو کے گاؤں کے جوان اسی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے۔ سب ایک دوسرے کو ٹکٹکی باندھے، پھٹی آنکھوں سے گھور رہے تھے۔ لیکن جیسے کسی میں بھی کچھ کہنے سننے کی طاقت ہی نہ تھی، جیسے وہ سب کے سب اپنے لئے اور ایک دوسرے کیلئے مسئلہ بنے ہوئے ہوں۔

مانک نہیں رہا، زخمی گوپی قانون کی گرفت میں پڑا ہوا فیصلے کا انتظار کر رہا ہے۔ ماں باپ اور بہوؤں کے سر پر ایک ساتھ ہی جیسے پہاڑ گر پڑا۔ اس کے نیچے وہ دبے ہوئے چھٹپٹا رہے ہیں، کراہ رہے ہیں، تڑپ رہے ہیں۔

گاؤں میں بہت سے گھروں میں ماتم بچھا ہے، بہت سے گھروں میں دکھ کی گھٹا گھری ہے۔ لیکن گوپی کے گھرکا حزن جیسے پھیل کر پورے گاؤں پر چھا گیا ہے۔ لوگ اس کے گھر بھیڑ لگائے رہتے ہیں۔ کبھی ماں باپ کو سمجھاتے ہیں، کبھی تسلیاں دیتے ہیں اور کبھی خود کو بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہو کر انہی کے ساتھ ساتھ خود بھی رو پڑتے ہیں۔

مقدمے کی پیروی کا بھی انتظام ہو رہا ہے۔ سب کے سب اپنی گاڑھی کمائی بہا دینے کو تیار ہیں۔ گاؤں داری کا معاملہ ہے، گاؤں کے جوانوں کی زندگی کا واسطہ ہے اور سب سے بڑھ کر گاؤں کی آنکھوں کے تارے، ماں باپ کے اکلوتے سہارے، تڑپتی اور بدقسمتی کی ماری بیوہ بھابھی کی زندگی کی اکیلی امید، گوپی کو بچا لینے کا سوال ہے۔ بہوؤں کے باپ اور بڑے بھائی بھی اس مصیبت کی خبر پا کر آ گئے ہیں۔ ان کے بھی دکھ کا ٹھکانہ نہیں ہے۔ وہ بھی گوپی کو بچا لینے کیلئے سب کچھ نچھاور کرنے پر تلے ہیں۔

کوئی بھی رقم قانون کا منہ بند کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پانچ آدمیوں کا قتل ہوا ہے، ایک آدھ کی بات ہوتی تو داروغہ کھپا دیتا۔ وہ مجبور ہے۔ ہاں، ضلع کے بڑے افسر ضرور کچھ کر سکتے ہیں، لیکن ان کے یہاں ان دیہاتیوں کی پہنچ نہیں۔

زخمی اچھے ہو ہو کر حوالات میں پڑے ہیں۔ مقدمہ سیشن کے سپرد ہے۔ فوجداری کے سب سے بڑے وکیل کو کیا گیا ہے۔ اس کی تمام تر کوششوں پر بھی کسی کی ضمانت منظور نہیں ہوئی۔

باپ ایک بار گوپی سے مل آئے ہیں۔ ملتے وقت دونوں نے اپنے دل و دماغ پر پورا پورا قابو رکھنے کی کوشش کی تھی۔ کسی قسم کی کمزوری یا تڑپ دکھا کر وہ ایک دوسرے کا دکھ بڑھانا نہیں چاہتے تھے۔ باپ نے بیٹے کی ڈھارس بندھائی۔ بیٹے نے باپ کو کوئی فکر نہ کرنے کو کہا۔ اور کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ بچھڑتے وقت، پتہ نہیں، دل کے کس درد میں ڈوب کر گوپی نے کہا، ’’بھوجی کا خیال رکھیو! ‘‘

اس ایک بات میں کتنا درد، کتنا رنج، کتنی تڑپ تھی، باپ نے اس کا اندازہ کرتے ہی اپنا اینٹھتا دل لئے منہ پھیر لیا تھا۔ ادھر گوپی نے آنسو پونچھ لیے، ادھر جیل کے دروازے پر باپ نے اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کو پلکوں میں ہی سنبھال لیا۔

آخر مقدمے کا فیصلہ ہوا۔ سزا سب کو ہوئی۔ کسی کو بیس سال، تو کسی کو چار اور کسی کو پانچ سال کے لئے جیل بھیج دیا گیا۔ گوپی کو پانچ سال کی سزا ملی۔ اس کے گھر میں دھیما پڑا ماتم پھر ایک بار پھر زور پکڑ گیا۔ ماں باپ کے دکھ کا کیا کہنا! بڑی بہو کی حالت تو ابتر تھی ہی۔ چھوٹی بہو کے دل میں بھی ایک ترشول چبھ گیا۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

حصہ دوم

 

 

چار

 

 

پِتا جی اب سچ مچ بوڑھے ہو گئے۔ دونوں بیٹے کیا ان سے بچھڑ گئے، ان کے دونوں ہاتھ ہی ٹوٹ گئے! دل کے سارے رس کو درد کی آگ نے جلا دیا۔ کوئی جوش و خروش، امید نہیں رہ گئی ان کی زندگی میں۔ بہوؤں کا درد دیکھ کر وہ آٹھوں پہر کڑھتے رہتے۔ کھانا پینا، کام دھام کچھ اچھا نہ لگتا۔ بہوؤں کا بڑا بھائی آ کر کھیتی، گرہستی کا بھی انتظام کر جاتا۔

ماں کا حال بھی بے حال تھا۔ بیٹھی بیٹھی وہ آنسو بہاتی رہتی یا اپنے لالوں کو یاد کر کر کے سسکتی رہتی۔ چھوٹی بہو کے دل میں جو ایک بار ترشول چبھا، تو اس کا چین ہمیشہ کیلئے ختم ہو گیا۔ وہ بڑی ہی کومل اور جذباتی مزاج کی تھی۔ دنیا کے دکھوں اور پریشانیوں کا اسے کوئی تجربہ نہ تھا۔ دفعتاً جو آفت کا پہاڑ اس کے سر پر آ گرا، تو وہ اس میں دب دبا کر چور چور ہو کر رہ گئی۔ اس نے چارپائی پکڑ لی۔ کھانا پینا چھوڑ دیا، دن بدن سوکھنے لگی۔ ساس سسر اپنے دکھوں کو پی کر اسے سمجھاتے، بھائی اور دوسری عورتیں اسے خودکو سنبھالنے کو کہتے، لیکن جیسے اس کے کانوں میں کسی کی بات ہی نہ پڑتی۔

ایک دن باپ رات کو واپس آ رہے تھے، تو انہیں زور کی سردی لگ گئی۔ دوسرے دن بخار لے کر پڑ گئے۔ وہ ایسا بخار تھا کہ ہفتوں پڑے رہے۔ کھانسی کا الگ زور تھا۔ جو دوا دارو ممکن تھی، کی گئی۔ گھر کی ایسی تتر بتر حالت تھی کہ ان کی خدمت عمدہ طریقے نہیں ہو سکتی تھی۔ چھوٹی بہو نے تو پہلے ہی چارپائی پکڑ لی تھی۔ بڑی بہو کو اپنے دکھ سے ہی فرصت نہ تھی۔ اکیلی دکھیاری بوڑھی کیا کیا کرتی، کیسے کیسے کرتی؟ نتیجہ یہ ہوا کہ بوڑھے کچھ سنبھلے، تو ان دونوں گھٹنوں کو گٹھیا نے پکڑ لیا۔ کچھ دنوں تک تو وہ لاٹھی کا سہارا لے کر ہلتے ڈلتے، کچھ کچھ چل پھر لیتے تھے۔ پھر اس سے بھی مجبور ہو گئے۔ اب برآمدے کے ایک کونے میں چارپائی پر پڑے پڑے ایڑیاں رگڑ رہے ہیں۔

لوگ اس کے گھر کی یہ بگڑی حالت دیکھتے ہیں اور آہ بھر کر کہتے ہیں، ’’اوہ، کیا تھا اور کیا ہو گیا! ‘‘

آخر بڑی بہو کو خیال آیا کہ گھر کی اس دن بدن گرتی حالت کی اگر روک تھام نہ ہوئی، تو یہ کہیں کا نہیں رہ جائے گا۔ خود کیلئے اب سوچنے ہی کو کیا رہ گیا تھا؟ اس کی زندگی تو تباہ ہو ہی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی اگر یہ گھرانہ بھی تباہ ہو گیا، تو اس کی زندگی کے اس سخت ترین دور کے کتنے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے! نہیں، نہیں، وہ گھر کی بڑی بہو ہے، اسے اپنی ذمہ داری کا احساس ہونا چاہئے۔ اگر سبھی اپنے اپنے غموں میں نڈھال ہو کر پڑے رہیں گے، تو کام کیسے چلے گا؟ اور اب اس کی زندگی کا مقصد ساس، سسر، دیور اور بہن کی خدمت کے سوا رہ ہی کیا گیا ہے؟ اس کی بدقسمتی کی وجہ سے ہی تو اس گھر کی یہ حالت ہو گئی ہے۔ ساس، سسر، دیور، بہن سب کے سب اسی کی وجہ سے تو اس حال میں پہنچے ہیں۔ پھر کیا اپنے مصائب میں ہی ڈوب کر ان کے تئیں اس کی جو ذمہ داریاں ہے، اسے وہ بھلا دے گی؟ نہیں، اب اس کی زندگی انہی کیلئے تو ہے۔ ان کی خدمت وہ دل پر پتھر رکھ کر بھی کرے گی۔ دکھوں کی چڑھتی ندی ایک نہ ایک دن تو اترے گی ہی!

اس دن سے جیسے وہ رحم کی دیوی بن گئی اور دکھی اور جلتی ہوئی روحوں پر وہ خدمت گذاری، پیار اور لگن کا کومل سایہ بن کر چھا گئی۔ نہا کر کے بہت سویرے ہی وہ پوجا کرتی۔ پھر ساس، سسر اور بہن کی خدمتوں میں جٹ جاتی۔

سسر اس کی سونی مانگ، سونی کلائی اور سفید کپڑوں میں لپٹے ہوئے اس کے کمہلائے بدن کو دیکھ کر دل ہی دل رو پڑتے۔ ان سے کچھ کہتے نہ بنتا۔ وہ انہیں سہارا دے کر چارپائی سے اٹھاتی، ان کا ہاتھ منہ دھلاتی، سامنے بیٹھا کر انہیں کھانا کھلاتی۔ سسر کاٹھ کے پتلے کی طرح سب کرتے اور دل میں صرف ایک تڑپ کا طوفان لیے، جب تک وہ ان کے سامنے رہتی خاموش ہو کر اس کے اداس مکھڑے کی طرف ٹکر ٹکر تکا کرتے۔

ساس کو کچھ اطمینان ہوا کہ چلو، یہ اچھا ہوا تھا کہ بڑی بہو خود کو یوں کاموں میں الجھائے رکھنے لگی۔ ایسا کرنے سے وہ دکھ کو بھلائے رہے گی اور اس کا دل بھی بہلا رہے گا۔

چھوٹی بہن کی تو وہ ماں ہی بن گئی۔ پہلے وہ اس سے ایک بہن کی طرح محبت کرتی تھی، لیکن اب اسے بہن کی محبت کے ساتھ ساتھ ماں کے پیار، ممتا، خدمت اورسرشاری کی بھی ضرورت تھی۔ بڑی بہو نے اسے وہ سب کچھ دینا شروع کر دیا۔ وہ اسے بچے کی طرح گود میں بٹھا کر دوا پلاتی، کھلاتی، اس کے کپڑے تبدیل کرتی، اس کے بال سنوارتی، چوٹی گونتی۔ پھر سیندوردان اس کے سامنے رکھ کر کہتی، ’’لے، اب مانگ تو ٹھیک کر لے۔ ‘‘

یہ سن کر چھوٹی بہن کی ویران آنکھیں اپنی کی بہن کی سونی مانگ کی طرف اٹھ جاتیں۔ اس کے کلیجے میں ایک ہوک اٹھتی اور ڈبڈبائی آنکھیں ایک طرف پھیر کر کہتی، ’’رکھ دے، بہن۔ ‘‘

بڑی بہن اسے گود میں لے کر، آہ و بکا کرتے دل کو قابو میں کر کے کہتی، ’’ایسا نہ کہہ، میری بہن! میری مانگ لٹ گئی، تو کیا ہوا؟ تیری مانگ کا سیندور بھگوان قائم رکھے! اسے ہی دیکھ دیکھ کر میں یہ دکھوں بھری زندگی کاٹ لوں گی! لے، بھر تو لے مانگ۔ ‘‘

چھوٹی بہن، بڑی بہن کی گود میں منہ ڈال کر پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتی۔ بڑی بہن کی آنکھوں سے بھی ٹپ ٹپ آنسوؤں کی بوندیں گر پڑتیں۔ لیکن اگلے ہی لمحے ہی وہ خود کو سنبھال کر کہتی، ’’ایسا نہیں کرتے، میری لاڈلی! ‘‘ کہہ کر وہ اس کی آنکھوں کو اپنے آنچل سے پونچھ دیتی۔ پھر کہتی، ’’لے اب سیندور لگا لے، میری اچھی بہن! ‘‘

چھوٹی بہن آنکھوں میں امڈتے ہوئے آنسوؤں کا طوفان لیے کانپتی انگلیوں سے سلاکا اٹھا کرسیندور کی ڈبیا سے سیندور اٹھاتی۔ بڑی بہن اس وقت نہ جانے کیسا اینٹھتا درد، دل میں لئے اپنی بھری آنکھیں دوسری طرف پھیر لیتی۔

گوپی کی بھابھی کو اپنے شوہر کی یاد بہت ستاتی۔ ہر گھڑی اس کی بھری بھری آنکھوں کے سامنے شوہر کی طرح طرح کی تصویریں جھلملایا کرتیں۔ پوجا کرنے بیٹھتی تو ہمیشہ یہی دعا کرتی، ’’ اے بھگوان، مجھے بھی ان کے چرنوں میں پہنچا دو! ‘‘

کبھی کبھی اسے اپنے دیور کی اور اپنے ہنسی مذاق اور خوشیوں بھرے قہقہوں کی بھی یاد آتی۔ اس وقت اسے لگتا کہ وہ سب ایک خواب تھا۔ آہ، یہ کون جانتا تھا کہ وہ ہنسی خوشی کی باتیں ایک دن اس طرح ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائیں گی اور ان کی باز گشت روح کے ذرے ذرے میں ایک درد بن کر رہ جائے گی؟ پھر اسے خیال آتا کہ کیسے دیور نے بھائی کے قتل کی وجہ سے غم سے پاگل ہو کر اپنے سکھ کی بَلی چڑھا دی۔ اسی لمحے بھر کیلئے اس کی آنکھیں چھوٹی بہن کی طرف اٹھ جاتیں، جس کے دامن سے دیور کی زندگی کا سکھ دکھ بندھا ہوا تھا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ اس کی ہر طرح کی خدمت گذاری کے باوجود دن دن وہ پھول کی طرح مرجھائی چلی جا رہی ہے۔ وہ اسے ہر طرح سے سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتی ہے، لیکن جیسے وہ کچھ سمجھتی ہی نہیں۔ دیور جب لوٹ کے آئے گا اور اسے اس حالت میں دیکھے گا، تو اس کیا حالت ہو گی؟

آہستہ آہستہ دکھ جھیلتے جھیلتے وہ سخت جان بن گئی۔ بہن کی خدمت وہ اور بھی جی جان سے کرنے لگی۔ اسے لگتا کہ وہ صرف اس کی بہن ہی نہیں ہے، بلکہ اس کے پیارے دیور کی انمول امانت بھی ہے۔ اس امانت کی حفاظت کرنا اس کا سب سے بڑا فرض ہے۔

لیکن اس کی اتنی خدمتوں کا بھی کوئی اثر اس کی بہن پر پڑتا دکھائی نہ دیتا۔ اس کا دل کبھی کبھی ایک بھیانک خدشے سے کانپ اٹھتا۔ وہ ٹھا کر کی مورتی کے سامنے گڑ گ      ڑا کر منت کرتی، ’’اے بھگوان! اب تو رحم کر تُو اس بدنصیب گھر پر اور اگر تجھے اتنے پر بھی اطمینان نہیں ہے تو مجھ ابھاگن کو ہی اٹھا لے اور اپنے غصے کو ٹھنڈا کر لے! ‘‘

لیکن بھگوان نے تو جیسے اپنی نظر کرم اس خاندان سے پھیر لی تھی۔ چھوٹی بہن کی حالت نہ سدھرنی تھی، نہ سدھری۔ آخر اس کی حالت جب دن دن بگڑتی ہی گئی، تو اس کا بھائی ایک دن اسے اپنے گھر لے گیا۔ خیال تھا کہ شاید ہوا بدلنے سے، وہاں ماں، بھابھی اوراپنی سکھی سہیلیوں کے درمیان رہ کر خوش ہونے سے اور طبیعت بدلنے سے وہ صحت مند ہو جائے۔ وہ تو اپنی بڑی بہن کو بھی کچھ دنوں کیلئے لے جانا چاہتا تھا، لیکن اس گھرکا اس کے بغیر کیسے کام چلے گا، یہی سوچ کر اسے نہ لے جا سکا۔ پالکی پر چڑھنے سے پہلے چھوٹی بہو خوب بلک کر روئی اور ساس اور بہن سے ایسے لپٹ کر ملی، جیسے ان سے آخری رخصت لے رہی ہو۔ سسر کے پاؤں کو اس نے آنسوؤں سے دھو دیا۔ بوڑھے سسر ہاتھوں سے آنکھیں ڈھک کر ایک بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔

کون جانتا تھا کہ حقیقت میں وہ اس کی آخری رخصت تھی؟ ماں، باپ، بھائی، بھاوج نے کچھ بھی اٹھا نہ رکھا۔ روپے پیسے پانی کی طرح بہا دیئے۔ لیکن ہوا وہی جو ہونا تھا۔ وہ تر شول جو ایک دن اس نرم جان میں چبھا تھا، اس نے جان لے کر ہی دم لیا۔

یہ خبر جب ساس سسر اور بہن کو ملی، تو ان کی کیا حالت ہوئی، اس کا بیان نہیں ہو سکتا۔ یہ تو کچھ ایسا ہی ہوا، جیسے ان کے دل کے ناسور میں ایک تیر اور آن چبھا ہو۔

***

 

 

 

 

پانچ

 

جیل میں شروع شروع میں گوپی کے باپ اس سے ہر ماہ ایک بار ملتے رہے۔ پھر جب چلنے پھرنے سے مجبور ہو گئے، تو اس کے سسر اور سالا برابر اس سے ملنے جایا کرتے۔ گوپی ہر بار اپنے ماں باپ اور بھابھی کے بارے میں پوچھتا، گھر گرہستی کے بارے میں پوچھتا۔ وہ کچھ گول مول اسے بتا دیتے۔ ہچکچاہٹ میں نہ گوپی اپنی بیوی کے بارے میں کچھ پوچھتا، نہ وہ بتاتے۔ قید کا دکھ ہی کیا کم ہوتا ہے، جو وہ اس سے کوئی دل پر چوٹ پہچانے والی بات کہہ کر اس کے دکھ کو مزید بڑھاتے؟

گوپی کو جیل میں سب کی یاد ستاتی، لیکن بھابھی کے دکھ کی اسے جتنی فکر تھی، اتنی اور کسی بات کی نہ تھی۔ بھابھی کی بیوگی کی تصویر ہمیشہ اس کی آنکھوں میں گھوما کرتی۔ جس پیاری بھابھی کو پا کر، جس دل کی ممتا بھری محبت سے سیر ہو کر، ایک دن وہ نہال ہو اٹھا تھا، اسی بھابھی کو بیوہ کے روپ میں وہ کن آنکھوں سے دیکھ سکے گا؟ وہ سونی مانگ، وہ سونی کلائیاں، وہ مرجھایا مکھڑا۔۔۔

جیل کی کڑی مشقت سے اس نے کبھی جی نہ چرایا۔ محنتی جسم پر سخت محنت کا بھی کیا اثر پڑنا تھا؟ گھر کی طرح کھانے پینے کو ملتا، بے فکری کی زندگی ہوتی تو جیل میں بھی گوپی جیسے کا تیسا رہتا۔ لیکن گھی دودھ کے پالے جسم کا اب خشک روٹی اور کنکر ملی دال سے پالا پڑا تھا۔ اوپر سے بھابھی کی فکر چوبیسوں پہر کی۔ گوپی سوکھ کر کانٹا ہو گیا۔ پھر بھی ڈھانچہ ایک پہلوان کا تھا۔ سڑاہوا تیلی بھی ایک ادھیلی۔ کس کی مجال تھی کہ آنکھ دکھا دے! پھر براہ راست گوپی سے کسی کو الجھنے کا موقع بھی کیسے ملتا؟ وہ دن رات اپنی ہی مصیبت میں الجھا رہتا۔ اتنی بڑی جیل بھی جیسے تنہائی کے گھیرے میں ہی اس کیلئے محدود بنی رہی۔

مقدمے کے دوران وہ ضلع اسپتال میں پڑا رہا تھا۔ پسلی کی چوٹ خطرناک تھی۔ درد جاتا ہی نہ تھا۔ چھوٹے ہسپتال میں ایکسرے وغیرہ تھا نہیں۔ پھر کسی کے لئے کوئی کیوں زحمت اٹھائے؟ جیسے تیسے دوا ہوتی رہی اور مقدمہ چلتا رہا۔ اور پھر اسے حوالات میں بھیج دیا گیا۔ سزا پا کر گوپی جب بنارس ضلع جیل میں بھیج دیا گیا، تو بھی اس کی وہی حالت تھی۔ وہ تو قوت برداشت اس میں اتنی تھی کہ وہ سب جھیلے جا رہا تھا۔

بنارس ضلع جیل کے ہسپتال میں اس کی خوش قسمتی سے ایک اچھا کمپوڈر مل گیا۔ وہ بھی اسی کے جوار کا تھا۔ جیل کے ہسپتالوں میں کوئی خاص دوائیں نہیں رکھی جاتیں۔ وہ تو کمپوڈر کی تیمار داری اور گوپی کے خون کی طاقت تھی کہ درد کم ہونے لگا۔ وہیں اس کی ملاقات مٹرو سنگھ سے ہوئی۔ وہ گھاگھرا کے دِیّر کا ایک نامی گرامی پہلوان تھا۔ ایک ہی برادری کے اور ہم پیشہ ہونے کی وجہ سے دونوں ایک دوسرے سے پہلے ہی سے واقف تھے۔ گوپی کا گاؤں دِیّر سے قریب پانچ میل ہی پر تھا۔ مٹرو ایک کٹیا بنا کر گھاگھرا کے کنارے چٹیل میدانوں کے درمیان اپنے بال بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ جوار میں ایک کہانی مشہور ہے کہ مٹرو کی ہاتھی کی طرح بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر کسی پہلوان نے حسد میں نہ جانے پان میں اسے کیا کھلا دیا کہ مٹرو کی سانس اکھڑ گئی۔ اسے دمہ ہو گیا۔ اس نے بہت علاج کرایا، لیکن اس کی سانس کی بیماری نہ گئی۔ کیا کرتا، مجبور ہو کر پہلوانی چھوڑ دی اور بیاہ کر کے ایک عام کسان کی طرح زندگی گزارنے لگا۔ اب اس کے تین لڑکے بھی تھے۔

ایک طرح سے وہ دِیّر کا بادشاہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ کنارے میلوں تک اس کی اکلوتی حکومت تھی۔ گھاگھرا ندی کے ساتھ ہی اس کا بھی ’’محل‘‘ اٹھتا اور گرتا تھا۔ برسات میں جوں جوں گھاگھرا اوپر اٹھتی جاتی، توں توں مٹرو کی کٹیا بھی۔ یہاں تک کہ بھادوں میں جب گھاگھرا ابل کر سمندر بن جاتی، تو مٹرو کی کٹیا کنارے کے کسی گاؤں میں پہنچ جاتی۔ اور پھر جوں جوں سیلاب اترنے لگتا، مٹرو کی کٹیا بھی اترنے لگتی اور کارتک مہینہ لگتے لگتے پھر اپنی پرانی جگہ پر پہنچ جاتی۔ مٹرو اسی طرح ’’گنگا میا‘‘ کا آنچل ایک لمحے کو بھی نہیں چھوڑتا، جیسے بچے ماں کا۔

پہلے ندی کے ہٹنے پر جو میلوں ریت پڑتی، اس پر جھاؤں اور سرکنڈے کے جنگل اگ آتے۔ بیساکھی جیٹھ میں جب یہ جنگل جوانی پر ہوتے تو زمیندار انہیں کٹوا کر فروخت کرتے۔ لوگ لاون اور کھپریل لگانے کے لئے خرید لیتے۔ پھر برسات شروع ہو جاتی اور سب طرف سیلاب امڈنے لگتا۔

مٹرو جب تک پہلوانی میں مست رہا، اسے کسی بات کی فکر نہ تھی۔ گھاٹ سے ہی اسے اتنی آمدنی ہو جاتی، اتنا دودھ، دہی اور کھانے پینے کا سامان مل جاتا کہ خوب مزے سے دن کٹ جاتے۔ کوئی گوالا اسے دودھ دیئے بغیر کشتی پر نہ چڑھتا۔ کوئی بنیا مٹرو کی ’’چنگی‘‘ چکائے بغیر ادھر سے نہ گزر جاتا۔ مٹرو کے لئے اتنا بہت تھا۔ کھانے، ڈنڈ پیلنے اور گھاٹ پر اینٹھ اینٹھ کر کسرتی بدن دکھانے کے سوا کوئی کام نہ تھا۔

لیکن جب پہلوانی چھوٹ گئی، گرہستی بس گئی، تو حرام کی روٹی بھی چھوٹ گئی۔ اس نے کٹیا کے آس پاس کا جنگل صاف کیا۔ سسر سے بیل اور ہل لے کر کھیتی شروع کر دی۔ دریا کی چھوڑی ہوئی کنواری زمین جیسے ہل کے پھل کا ہی انتظار کر رہی تھی۔ اس نے وہ فصل اگلی کہ لوگوں نے دانتوں تلے انگلی دبا لی۔

دو تین سال کے اندر ہی مٹرو کی کٹیا بڑی ہو گئی۔ دودھ کیلئے جمنا پاری بھینس اور ایک جوڑی بیل دروازے پر جھومنے لگے۔ مٹرو کا حوصلہ بڑھا۔ اس نے کھیتوں میں پھیلاؤ اور بھی بڑھا دیا اور اپنے ایک جوان سالے کو بھی اپنے پاس ہی بلا لیا۔ خوب ڈٹ کر محنت کی اور محنت کا پسینہ سونے کا پانی بن کر فصلوں پر لہرا اٹھا۔

زمیں داروں کے کانوں میں یہ خبر پہنچی، تو وہ کسمسائے۔ انہیں کیا خبر تھی کہ وہ زمین بھی اس طرح سونا اگلنے سکتی ہے۔ وہ تو جھاؤں اور سرکنڈوں کو ہی بہت سمجھتے تھے۔ ترواہی کے کسانوں کی زبان سے بھی چھاتی چھاتی بھر ربیع کی فصل دیکھ کر رال ٹپکنے لگی۔ لیکن ان میں مٹرو کی طرح جرات تو تھی نہیں کہ آگے بڑھتے، جنگل صاف کرتے اور فصل اگاتے۔ وہ زمیں داروں کے یہاں پہنچے اور لمبی چوڑی لگان دے کر انہوں نے کھیتی کرنے کیلئے زمین مانگی۔ زمیں داروں کو جیسے بن مانگے ہی وردان ملے۔ انہیں اور کیا چاہیے تھا! انہوں نے دنادن دونی چوگنی رقمیں سلامی لے لے کر کسانوں کے نام زمین بندوبست کرنی شروع کر دی۔

مٹرو کو اس کی خبر لگی، تو اس کا ما تھا ٹھنکا۔ وہ گاؤں میں جا جا کر کسانوں کو سمجھانے لگا کہ وہ یہ کیسی بیوقوفی کر رہے ہیں۔ گنگا میا کی چھوڑی زمین پر زمیں داروں کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ اس پر سلامی اور لگان لیں؟ جس کو جوتنا بونا ہو، وہ خوشی سے آئے اور اسی طرح جنگل صاف کر کے جوتے بوئے۔ زمیں داروں سے بندوبست کرانے کی کیا ضرورت ہے؟ وہ کیوں ایک نئی رِیت نکال رہے ہیں اور زمیں داروں کا من بگاڑ رہے ہیں۔۔۔

کسانوں کو یہ کہاں معلوم تھا؟ وہ تو مٹرو ہی سے سب سے زیادہ ڈرتے تھے۔ سوچتے تھے کہ کہیں مٹرو نے روک دیا تو؟ انہیں کیا معلوم تھا کہ مٹرو ان کے استقبال کرنے کو تیار ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا، تو انہوں نے پچھتا کر پوچھا، ’’اب تو سلامی اور لگان تین تین سال کی ایڈوانس دے چکے، مٹرو بھائی! پہلے معلوم ہوتا تو۔۔۔ ‘‘

’’ اب بھی کچھ نہیں بگڑا ہے، ’’مٹرو نے سمجھایا، ’’تم لوگ اپنی رقمیں واپس مانگ لو۔ صاف کہہ دو کہ ہمیں زمین نہیں لینی، یہی ہو گا نہ کہ ایک فصل نہیں بو پاؤ گے۔ اگلے سال تو تمہیں کوئی روکنے والا نہ ہو گا۔ گنگا میا کی گود تمام کسانوں کے لئے کھلی پڑی ہے۔ وہاں بھلا زمین کی کوئی کمی ہے کہ خواہ مخواہ تم لوگوں نے لے دے مچا دی؟ یہ یاد رکھو کہ ایک بار اگر زمیں داروں کو تم نے چسکا لگا دیا، تو تم ہی نہیں تمہارے بال بچے بھی ہمیشہ کے لئے ان کے شکنجے میں پھنس جائیں گے۔ ان کی لالچ کی زبان، سرسا کی طرح بڑھتی جائے گی اور ایک دن سب کو نگل جائے گی۔ اس کے الٹ اگر ہم لوگ اطمینان میں رہیں اور زمیں داروں کا منہ نہ دیکھیں بلکہ خود ہی اس زمین پر اپنا حق جما لیں، تو یہ زمیندار ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ گنگا میا پر کوئی ان کا آبائی حق نہیں ہے۔ اس کے پانی کی ہی طرح اس کی زمین پر ہم سب کا برابر حق ہے۔ اپنے اس قدرتی حق کو زمیں داروں کا سمجھنا، خود اپنے گلے پر چھری چلانا ہے۔ تم لوگ میرا کہا مانو اور میرا پورا پورا ساتھ دو۔ دیکھیں گے کہ زمیندار ہمارا کیا بگاڑ لیتے ہیں۔ ‘‘

کسانوں نے بہانے بنا کر زمیں داروں سے روپے واپس مانگے، تو وہ مسکرائے۔ زمیندار کی تحویل میں پڑے روپے کی وہی حالت ہوتی ہے جو سانپ کے منہ میں پڑے چوہے کی۔ چوہا لاکھ چیں چیں کرے، چھٹپٹائے، لیکن ایک بار منہ میں پھنس کر نکلنا نا ممکن ہے۔ بیچارے کسان چیں چیں کرنے کے سوا کر ہی کیا سکتے تھے؟ زمیں داروں نے ڈانٹ کر بھگا دیا۔ کوئی رسید وسید تو تھی نہیں، کسان کرتے بھی تو کیا؟ ہاں، اس کا نتیجہ اتنا ضرور ہوا کہ دوسرے کسانوں نے زمین بندوبست کرانا بند کر دیا۔

اس طرح آمدنی رکتے اور کسانوں کو زمین لینے سے بچتے دیکھ کر زمیں داروں کے غصے کا ٹھکانا نہ رہا۔ پتہ لگانے پر جب انہیں معلوم ہوا کہ مٹرو اس کی تہہ میں ہے، تو ایک دن کئی زمیں داروں نے اکٹھا ہو کر مٹرو کو بلا بھیجا۔

مٹرو دِیّر میں ابھی تک جنگل کے ایک شیر کی طرح رہا تھا۔ زمیں داروں کی یہ ہمت نہ تھی کہ اسے سیدھے طریقے سے چھیڑیں۔ جوار میں یہ دھاک جمی تھی کہ مٹرو پہلوان کے پاس سینکڑوں لٹھیت ہیں۔ جب وہ چاہے دن دہاڑے لٹوا سکتا ہے۔ یہی بات تھی کہ سارے جوار میں اس کا دبدبہ تھا۔ ادھرسے گزرنے والا کوئی بھی اسے بغیر سلام کئے نہ جاتا۔

بلاوا سن کر مٹرو اکڑ گیا۔ اس نے صاف لفظوں میں کہلوا بھیجا کہ مٹرو کسی زمیندار کا کوئی آسامی نہیں ہے۔ جسے غرض ہو، وہی اس سے آ کر ملے۔

ایسے موقعوں پر کام لینا زمیں داروں کو خوب آتا ہے۔ انہوں نے پڑھا لکھا کر اپنے ایک چلتے پرزے کارندے کو مٹرو کے پاس بھیجا۔

کارندے نے خوب جھک کر ’’ جے گنگا جی‘‘ کہہ کر سلام کیا۔ پھر دونوں ہاتھ کو الجھاتا، بڑی لجاجت سے منہ بنا کر بولا، ’’پار جا رہا تھا۔ سوچا، پہلوان جی کو جے گنگا جی کہتا چلوں۔ ‘‘

صبح کا وقت تھا، ماگھ کا مہینہ۔ دریا پر گہرے بھاپ کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ چاروں جانب کہرے کی دھندلی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ اسی میں سورج کی کمزور کرنیں اٹک کر رہ گئی تھیں۔ گندم کی چھاتی بھر اگی فصل نگاہوں کی حد تک چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ کہرے سے جمے موتی ان کے پتوں پر چمک رہے تھے۔ بالیوں نے شکل لے لی تھی۔ اب اوس پی پی کر خوش ہو رہی تھیں۔

مٹرو، گاڑھے کی لنگی اور کرتہ پہنے بیلوں کی ناندوں کے پاس کھڑا تھا۔ کرتے کی آستینیں بازوؤں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ داہنا ہاتھ کہنی کے اوپر تک سانی سے بھیگا تھا۔ ابھی ابھی اس نے ناندوں میں چاولوں کی کھدّی ملائی تھی۔ آنکھیں تک منہ ڈبوئے بیل بھڑ بھڑ کی آواز کرتے کھا رہے تھے۔ ایک کے پچھواڑے پر بایاں ہاتھ رکھ کر مٹرو نے نگاہ اٹھا کر کارندے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’گھاٹ چھوٹنے میں ابھی دیر ہے، چلم پیو گے؟ ‘‘ یہ کہہ کر وہ کَوڑے کے پاس آ بیٹھا۔

کارندہ بھی اس کی بغل میں پتلوں کی چٹائی پر بیٹھ گیا۔ مٹرو نے پاس سے کھودنی اٹھا کر آگ بڑھا دی۔ پھر دونوں ہاتھ پاؤں پھیلا کرتا پنے لگا۔ مٹرو نے آواز دی، ’’لکھنا، ذرا تماکو چلم دے جانا۔ ‘‘

لکھنا، مٹرو کا بڑا لڑکا تھا۔ عمر چار سال، ننگ دھڑنگ، وہ ایک ہاتھ میں چلم اور دوسرے میں تمباکو لیے جھونپڑے سے باہر نکل کر دوڑا دوڑا آیا اور کاکا کے ہاتھ میں چلم تمباکو تھما کر وہیں بیٹھ گیا اور انہی کی طرح ہاتھ پاؤں پھیلا کر آگ تاپنے لگا۔

مورت کی طرح سڈول، سانولے خوبصورت لڑکے کی طرف دیکھ کر کارندہ بولا، ’’کیوں رے، تجھے جاڑا نہیں لگتا؟ ‘‘

لڑکے نے ایک بار آنکھیں جھپکا کر اس کی طرف دیکھا، پھر مسکرا کرسر جھکا لیا۔

مٹرو ہی بولا، ’’کچھ پہنتا اوڑھتا نہیں۔ سوئے میں بھی کچھ اڑھاؤ تو پھینک دیتا ہے۔ ‘‘

’’ تمہارا ہی تو لڑکا ہے، پہلوان جی! ‘‘ کارندے نے لاسا لگایا۔

’’ ہاں، پانچ سال پہلے تک میں نے بھی نہ سمجھا کہ کپڑا کیا ہوتا ہے۔ ایک لنگوٹا اور لنگی کافی ہوتی تھی۔ گنگا میا کی مٹی اور پانی کا اثر ہی کچھ ایسا ہے کہ سردی گرمی، روگ سوگ کوئی سامنے نہیں آتا۔ کیا کروں، سانس کی بیماری سے بدن اکھڑ گیا۔ ‘‘کہہ کر چلم پر مٹرو انگارے رکھنے لگا۔

’’ برا ہو اس دشمن کا! ۔۔۔ ‘‘پھر درمیان ہی میں بات روک کر بولا، ’’چھوڑو بھائی، اس بات کو، تماکو پیو۔ بھگوان سب کا بھلا کریں! ‘‘

’’ ہاں بھائی، ’’چلم منہ لگاتے ہوئے کارندہ بولا، ’’آدمی ہو تو تمہاری طرح، جو دشمن کا بھی بھلا منائے۔ ‘‘کہہ کر کارندہ چلم سلگانے لگا۔

’’ کس گاؤں کے رہنے والے ہو؟ کایستھ معلوم ہوتے ہو؟ ‘‘ مٹرو نے پوچھا۔

’’ ہاں، رہنے والا تو بالوپور کا ہوں، لیکن کام جنداپور کے زمیندار کے یہاں کرتا ہوں۔ ‘‘دھوئیں کا بادل چھوڑ کر، مطلب پر آ کر کارندے نے صاف صاف ہی کہا، ’’سنا تھا زمیں داروں نے تمہیں بلایا تھا، تم نے جانے سے انکار کر دیا۔ ‘‘

مٹرو کے ماتھے پر بل آ گئے۔ اس نے تیکھی نظروں سے کارندے کی طرف دیکھ کر کہا، ’’ہم کسی کے تابع ہیں، جو۔۔۔ ‘‘

’’ نہیں، بھائی، نہیں، میرا مطلب یہ نہیں تھا، ’’ کارندہ درمیان میں ہی بول اٹھا، ’’کون نہیں جانتا کہ تم بادشاہ آدمی ہو۔ تم نے اپنے قابل ہی کام کیا۔ لیکن وہاں سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ تمام زمیندار، جن کا دِیّر میں حصہ ہے، مل کر تمہارے نام ایک بہت بڑا کھاتہ لکھ دینے کی سوچ رہے ہیں۔ تم۔۔۔ ‘‘

’’ لکھنے والے وہ کون ہوتے ہیں؟ ‘‘ مٹرو تاؤ میں آ کر بولا، ’’یہاں تو صرف گنگا میا کی عملداری ہے۔ ان کے سوا تو میں نے آج تک کسی کو نہیں جانا۔ اور سن لو، طبیعت چاہے تو ان سے کہہ بھی دینا کہ دِیّر میں کوئی زمیندار کا بچہ نظر آ گیا، تو بغیر اس کی ٹانگ توڑے نہ چھوڑوں گا! ‘‘

’’ ارے، بھائی، تم تو بیکار ناراض ہو رہے ہو۔ مجھے کیا پڑی ہے یہ سب کسی سے کہنے کی؟ مگر، بات چلی تو میں نے کہہ دی۔ یہ بھی سننے میں آیا تھا کہ پہلوان چاہیں تو سلامی اور لگان کی رقم میں بھی ان کا حصہ مقرر کر دیا جائے۔۔۔ ‘‘

مٹرو ہنس پڑا۔ پھر آنکھیں چڑھا کر بولا، ’’مٹرو پہلوان حرام کا نہیں کھاتا۔ گنگا میا کے سوا اس نے کسی کے سامنے کبھی ہاتھ نہیں پھیلایا۔ دیکھیں گے کہ اب کیسے کسی کسان سے سلامی اور لگان لیتے ہیں اور یہاں کی زمین پر قبضہ دلاتے ہیں! گنگا میا کی قسم لے کر کہتا ہوں، لالا، کہ۔۔۔ ‘‘

’’ بھائی، میں تو غلام آدمی ٹھہرا۔ بھلا تم جیسے بادشاہ آدمی کے سامنے کچھ کہنے کی ہمت ہی کیسے کر سکتا ہوں؟ زمیں داروں کے جوتے سیدھے کرتے ہی میری عمر گزر گئی۔ برا نہ ماننا، یہ زمیندار بڑے ظالم شیطان ہوتے ہیں۔ تمہاری طرح کے سیدھے سادے آدمی کیلئے ان سے الجھنا ٹھیک نہیں۔ وہ اونچ نیچ، جھوٹ سچ، مکر فریب کچھ نہیں دیکھتے۔ حمالوں کے ساتھ روز کا ان کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے۔ بھلا تم ان سے کیسے پار پاؤ گے؟ پھر کاغذ پتر پر بھی ان کا نام درج ہے۔ قانون قاعدے کے پینترے میں ہی وہ تم کو نچا ماریں گے۔ ‘‘

’’ قانون قاعدے کی بات وہ گھر بیٹھے بگھارا کریں۔ مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ میں تو یہی جانتا ہوں کہ یہ زمین گنگا میا کی ہے۔ جو چاہے آئے، محنت کرے، کمائے، کھائے! زمیں داروں نے اگر ادھر آنکھیں اٹھائیں تو میں ان کی آنکھ پھوڑ دوں گا! کہاں رکھا تھا قاعدہ قانون اب تک! میں نے محنت کی، فصل اگائی، تو دیکھ کر دانت گڑ گئے۔ چلے ہیں اب زمینداری کا حق جتانے! آئیں نہ ذراہل کندھے پر لے کر! دل لگی ہے یہاں کھیتی کرنا! بھولے کسانوں کو بیوقوف بنا کر روپے اینٹھ لئے۔ بیچارے وہ محنت کریں گے اور مسند پر بیٹھے گل چھرے اڑائیں گے تمہارے زمیندار۔ یہاں میں نہیں چلنے دوں گا یہ سب! ان سے کہہ دینا کہ یہاں گنگا میا کی عملداری ہے۔ کسی نے پاؤں بڑھائے، تو دیکھتے ہو وہ دھارا! ایک کی بھی جان نہ بچے گی۔ جاؤ، اب تو محاذ کھل جائے گا۔ ‘‘

کارندہ اپنا سا منہ لے کر اٹھ کھڑا ہوا۔ مٹرو بڑبڑائے جا رہا تھا، ’’ہوں! چلے ہیں گنگا میا کی چھاتی پر مونگ دلنے! ‘‘

دِیّر میں مٹرو اور اس کے لٹھیتوں سے پار پانا، ممکن نہیں، یہ زمیندار بھی جانتے تھے اور پولیس بھی۔ یہ بالکل ویسا ہی تھا، جیسے جان بوجھ کر سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنا۔

میلوں لمبے وسیع جھاؤں اور سرکنڈے کے گھنے جنگلوں کے درمیان کوئی باقاعدہ راستہ نہ تھا۔ اجنبی کوئی وہاں کہیں پڑ جائے، تو پھنس کر رہ جائے۔ جانے بوجھے لوگ ہی جنگل کے درمیان سے ہو کر گھاٹ تک جانے والی ٹیڑھی میڑھی، ویران، پوشیدہ اور چھپی ہوئی پگڈنڈیوں کو جانتے تھے۔ پھر بھی شام ہوتے ہی کسی کی ہمت اس پر چلنے کی نہ ہوتی۔ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ ان جنگلوں میں کتنے ہی ڈاکوؤں کے گروہوں کے اڈے ہیں۔ وہاں مٹرو سے لوہا لینے کا مطلب جان گنوانے کے سوا کچھ نہ تھا۔ سو، موقع کی بات سمجھ کر زمیندارانہ فنکاری شروع ہو گئی، پولیس سے ساٹھ گانٹھ چلتی رہی اور موقع کی تیاری ہوتی رہی۔

ہمیشہ کی طرح جیٹھ چڑھتے چڑھتے فصل کاٹ کوٹ، دان مس کر مٹرو نے اناج اور بھوسا سسرال پہنچا دیا۔ بال بچوں کو بھی بھیج دیا۔ خانہ بدوشی کے دن سر پر آ گئے تھے۔ کیا ٹھکانہ کب گنگا میا پھولنے لگیں! رات بھر میں لگاتار پانی بڑھتا ہے۔ لہریں مارتی ہوئی ندی کی طرف سے بچ کر کٹیا اوپر ہٹانا جتنی تیزی کا کام تھا، اتنا ہی خطرے کا بھی۔ ایسی حالت میں بال بچوں کو ساتھ رکھنا ٹھیک نہ رہتا۔ اکیلی جان لے کر مٹرو رہتا تھا۔ سسر تو اس سے بھی چلے آنے کو کہتے، لیکن مٹرو کو جب تک دریا کی ہوا نہ چھوئے، نیند نہ آتی تھی۔ اس کی خودمختار روح کو گنگا میا کی لہر ایک لمحے کو بھی چھوڑنا قبول نہ تھا۔ کنوئیں کا پانی اسے رَچتا نہ تھا۔

اب کی ایک بات اور مٹرو نے کر ڈالی۔ اس نے جوار میں یہ خبر بھیج دی کہ جو چاہے جھاؤں، سرکنڈے کاٹ کر لے جائے، زمیں داروں سے خریدنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گنگا میا کی دولت پر سب کا برابر کا حق ہے۔

چاروں جانب سے کسانوں، مزدوروں اور غریبوں نے جٹ کر ہلا بول دیا۔ جسے دیکھو، وہی سر پر جھاؤں یا سرکنڈے لیے بھاگا جا رہا ہے۔

زمیں داروں نے یہ سنا تو جل بھن کر رہ گئے۔ ہزاروں کے خسارے کا سوال ہی نہیں تھا، بلکہ ہر سال کی مستقل آمدنی کی مد بھی ختم ہونے جا رہی تھی۔ انہوں نے پولیس سے رائے لی کہ کیا کرنا چاہئے، لیکن پولیس نے انہیں چپ چاپ بیٹھے رہنے کی صلاح دی۔ اس وقت کچھ کرنے کا مطلب صرف مٹرو ہی سے بھڑنا نہ تھا، بلکہ ان ہزاروں لاکھوں کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کا مقابلہ کرنا بھی تھا، جنہیں اس صورت حال میں فائدہ ہو رہا تھا۔ تھانے پر مشکل سے لگ بھگ ایک درجن بندوقیں ہوں گی۔ ان میں اتنی طاقت کہاں کہ ہزاروں لاکھوں لاٹھیوں کے مقابلے میں اٹھ سکیں۔ پھر جگہ ٹھہری ویران، ایک بار پھنس کر نکلنا نا ممکن۔ اُن کا تو چپہ چپہ چھانا ہوا ہے۔ ہاں، ضلع سے گارد بلایا جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا کرنے سے زمیں داروں کو جو نقصان ہوا سو تو ہوا ہی، اوپر سے گارد کے اخراجات بھی سر پر آ پڑیں گے۔ اس پر بھی کیا ٹھیک ہے کہ اجنبی گارد ہی وہاں آ کر کچھ کر لے گی۔ جنگل میں کہیں کسی کا پتہ لگا لینا کیا کھیل ہے؟ ابھی مٹرو کو چھیڑنا کسی بھی حالت میں ٹھیک نہیں۔ وقت آنے دو، پھر دیکھنا کہ کیسے لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی اور سانپ بھی مر جاتا ہے۔

کیا کرتے زمیندار؟ کڑوا گھونٹ پی کر رہ گئے۔

ادھر مٹرو گھوم گھوم کر جنگل کٹوا رہا تھا۔ آج کسانوں کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ مٹرو جو کہتا ہے، وہی ٹھیک ہے۔ یہاں کسی کی زمینداری ومینداری نہیں ہے۔ ورنہ کیا زمیں داروں کے حمایتیوں کا کوئی بیٹا بھی یہاں دکھائی نہ دیتا؟ چاروں جانب ’’گنگا میا کی جے ‘‘ گونج رہی تھی۔ دریا کی لہریں کھلکھلا کر ہنسے جا رہی تھیں۔

اس سال ہزاروں کسانوں، مزدوروں اور غریبوں کی کٹیا پر نئی چھاجن ہو گئی اور سال بھر کے لئے لاون گھر میں آ گیا۔ مٹرو کو لوگ دل سے دعائیں دے رہے تھے۔

جیٹھ کی دسہرا آتے آتے ندی پھولنے لگی۔ پھر اب کے کچھ پہلے ہی اتنے زور سے بارش شروع ہو گئی کہ دن میں دو دو، تین تین بار مٹرو کو کٹیا ہٹانی پڑنے لگی۔ زوروں سے پانی بڑھا آ رہا تھا۔ گھنٹے میں دس دس، بیس بیس ہاتھ ڈبو دینا معمولی بات تھی۔

دن کی تو کوئی بات نہ تھی، لیکن رات کو مٹروسو نہ پاتا۔ ندی کا یہ حال، کون جانے کب کٹیا ڈوب جائے۔ مٹرو بیٹھے بیٹھے ٹکٹکی باندھے چمکتے پانی کی طرف دیکھا کرتا۔ اوپر بادل گرجتے، بجلی کڑکتی۔ نیچے دھاراؤں کے چلنے کی بھیانک آوازیں گونجتی۔ رہ رہ کر کناروں کے ٹوٹ کر گرنے کا چھپاک چھپاک ہوتا رہتا۔ جھینگروں کی مانوس آوازیں اور مینڈکوں کی ٹرر ٹرر چاروں سمتوں میں مسلسل ایسے گونتی رہتی تھیں، جیسے ان میں مقابلہ چھڑا ہو۔ چاروں جانب چھائے گھنے اندھیرے میں کبھی ادھر تو کبھی اُدھر بھک سے کچھ جل اٹھتا۔ اور مٹرو بیٹھا بیٹھا گنگا میا کا یہ بھیانک روپ دیکھ کر سوچتا ہے کہ جو ماں پیار سے بھر کر بیٹے کو سینے دودھ پلاتی ہے، وہی کبھی غصہ ہو کر کیسے بیٹے کے گال پر تھپڑ بھی مار دیتی ہے۔

ساون چڑھتے چڑھتے مٹرو کی کٹیا کنارے ایک گاؤں کے پاس آ لگی۔ یہ دن مٹرو کو بری طرح کھلتے۔ اسے ایسا لگتا جیسے غصے میں آ کر ماں کدھیڑتی جا رہی ہو اور دھمکی دے رہی ہو کہ ’’اگر پکڑے گئے تو چھٹی کا دودھ یاد کرا دوں گی۔ ‘‘اسے تو کوار سے شروع ہونے والے دن اچھے لگتے، جب آگے آگے ماں بھاگتی ہوتی اور پیچھے پیچھے وہ پیار اور احترام سے ہاتھ پھیلائے اسے پکڑنے کو دوڑتا ہوتا کہ کب پکڑ لیں اور اس آنچل میں منہ چھپا کر، رو کر اس سے پوچھیں، ’’ماں، اتنے دن تم ناراض کیوں رہی؟ ‘‘ ماں بیٹے کا یہ بھاگ دوڑ بھراکھیل ہر سال ہوتا ہے۔ کبھی ماں دوڑاتی، تو بیٹا بھاگتا، کبھی ماں بھاگتی تو بیٹا دوڑاتا۔ اس کھیل میں کتنا مزہ آتا تھا!

آخر ندی جب سمندر بن گئی اور کسی بھی کنارے مٹرو کیلئے جگہ نہ بچی، تو لاچار ہو، ماں کا دامن چھوڑ کر، اسے رہائش کیلئے گاؤں کے کنارے کٹیا کھڑی کرنی پڑی۔ مہاجرت کے ان دنوں میں مٹرو آنکھوں میں آنسو بھرے راستے پر بیٹھا گھنٹوں ندی کے روپ میں پھیلتے ماں کے آنچل کو دیکھا کرتا۔ طوفانی رفتار سے دھارا بانسوں اچھلتی کودتی، قیامت کا شور کرتی بھاگتی جاتی۔ بیچ بیچ میں کہیں کہیں تھوڑا سا ابھر کر خاموش ہو جاتی۔ کہیں بھنور میں پھنس کر کسی درخت کا تنا اس طرح ناچنے لگتا، جیسے کوئی انگلیوں پر نچا رہا ہو۔ مٹرو کے من میں ایک بچے کی طرح خیال اٹھتا کہ وہ دھارا میں کود کر اسے چھین لے اور اپنی انگلیوں پر اسے نچاتا دھارا میں گھوما کرے۔ ماں کی طاقت سے بیٹے کی طاقت کیا کم ہے؟ کبھی کسی کٹیا کو بہتے جاتے دیکھتا، تو تڑپ کر کہتا، ’’ماں، یہ تو نے کیا کیا؟ کسی بیٹے کا بسیرا اجاڑتے تجھے درد نہ لگا؟ ایسا غصہ بھی کیا، ماں؟ ‘‘

بستی کی ہوا اسے اچھی نہ لگتی، جیسے ہر پل اس کا دم گھٹتا رہتا۔ جنگلی پھول کی طرح بستی میں مرجھایا مرجھایا سا رہتا۔ تمام وقت اس میدان، اس صاف ہوا، اس نرم مٹی، اس مفت دھوپ اور اس کی محبت کیلئے اس کا تڑپتا رہتا۔ کبھی تو وہ اتنا گھبراتا کہ اس کے جی میں آتا کہ اچانک ہی کود پڑے اور اتنا تیرے کہ تن من ٹھنڈا ہو جائے اور پھر دھاراؤں کی سیج پر ہی سو جائے۔ لیکن تبھی اسے اپنی پیاری بیوی اور ننھے منے بچوں کی یاد آ جاتی اور وہ جانے کیسا من کیلئے کنارے پر سے اٹھ جاتا۔ اس وقت اسے ایسا لگتا کہ کہیں وہاں بیٹھے رہ کر سچ مچ وہ کود نہ پڑے۔

ان دنوں کبھی کبھی بہت اصرار پر وہ سسرال جاتا، تو ایک آدھ رات سے زیادہ نہ رہ پاتا۔ اسے لگتا جیسے ماں اسے پکار رہی ہو۔ وہ لوٹ کر جب تک گھنٹوں دھارا میں نہ لوٹ لیتا، اس چین نہ ملتا۔

اس رات کنارے پر بیٹھے بیٹھے اس کی پلکیں جب جھپکنے لگیں، تو اٹھ کر وہ کٹیا کے دروازے پر پڑی پتلوں کی چٹائی پر لیٹ گیا۔ بڑی سہانی، ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ دھارائیں جیسے لوری گا رہی تھیں اور الّو رہ رہ کرتا ل دے رہے تھے۔ مٹرو کو بڑی میٹھی نیند آ گئی۔

نیند میں ہی اچانک اسے ایسا لگا، گویا چھاتی پر منوں بوجھ اچانک آ پڑا ہو۔ اس نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں تو سینے پر ٹارچ کی روشنیوں میں دو جوانوں کو چڑھا پایا۔ ہاتھوں کا سہارا لے وہ زور لگا کر اٹھنے کو ہوا، تو زنجیریں جھنجھنا اٹھیں۔ معلوم ہوا کہ ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ گھبرا کر اس نے ادھر ادھر دیکھا، تو چاروں جانب بھالے سے لیس کانسٹیبل دکھائی پڑے۔ اس کی سمجھ میں سب آ گیا۔ غصے اور نفرت سے کانپتا وہ دانت پیس کر رہ گیا۔

جب سے وہ کگار کی بستی میں آیا تھا، پولیس اس کے پیچھے کھڑی تھی۔ آج موقع پا کر اس نے اسے دبوچ لیا تھا۔ رات ہی رات مٹرو کو ہتھکڑی بیڑی ڈال کر ضلع کی حوالات میں پہنچا دیا گیا اور گاؤں والوں پر اتنی سختی کی گئی کہ کوئی چوں تک نہ کر سکا۔

رپٹ مقدمہ، گُر گواہی، سب کچھ پہلے ہی سے تیار تھا۔ مٹرو کے سسر خبر لینے تھانے پر پہنچے، تو انہیں معلوم ہوا کہ مٹرو ڈاکے کے جرم میں گرفتار ہوا ہے۔ پولیس نے مٹرو کی کٹیا میں چھاپہ مار کر جو زیور مال برآمد کئے ہیں، وہ جنداپور کے زمیں دار نتھنی سنگھ کے ہیں، ایک ایک چیز پہچان لی گئی ہے۔ جلد ہی کچہری میں مقدمہ چلے گا۔ استغاثہ تیار ہو رہا ہے۔

جس نے یہ سنا، آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا، کوئی دکھ سے، تو کوئی حیرت سے۔ لیکن اس دوران جوار میں پولیس کی سختی اتنی بڑھا دی گئی تھی کہ کسی کی ہمت پولیس یا زمیندار کے خلاف ایک بات بھی زبان پر لانے کی نہ ہوئی۔ شور یہ مچایا گیا کہ مٹرو سردار کے گروہ کے قریب پچاس ڈاکو فرار ہیں۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لئے سرگرمی سے دوڑ لگا رہی ہے۔ دوسرے تیسرے دن یہ بھی افواہ بھی گاؤں میں پھیل جاتی کہ آج دو ڈاکو گرفتار ہوئے، تو آج تین۔ ایک عجب ہنگامہ مچا دیا پولیس نے چاروں طرف۔

مہینوں رچ رچ کر تمام حربوں ہتھیاروں کے ساتھ جو مقدمہ تیار کیا گیا تھا، اس میں بال کی کھال نکالنے پر بھی کوئی نقص نکال لینا مشکل تھا۔ پھر چھوٹے سے لے کر ضلع کے بڑے بڑے افسران تک کی مٹھیاں اتنی گرما دی گئی تھیں کہ سب کے سب کچھ بھی کھڑے کا کھڑا نگل جانے کو تیار تھے۔

ڈپٹی صاحب کی کچہری سے ہو کر مقدمہ سیشن کے سپرد ہوا۔ سالے اور سسر سے جو بھی کرتے بنا، انہوں نے کیا۔ لیکن نتیجہ وہی نکلا جو پہلے ہی سیل مہر میں بند کر کے رکھ دیا گیا تھا۔

مٹرو کو تین سال کی سخت سزا ہو گئی اور تین دن کے اندر ہی رات کی گاڑی سے بنارس ضلع جیل کو اس کا چالان بھیج دیا گیا۔

***

 

 

 

 

چھ

بھابھی کی زندگی ایک خاموشی بھری زندگی بن گئی۔

کلیجے میں شوہر کی چبھتی ہوئی یادیں دبائے، وہ رات دن خود کو کسی نہ کسی کام میں مصروف رکھتی۔ آنکھوں سے ٹپ ٹپ خون کے آنسو ٹپکا کرتے اور ہاتھ کام کرتے رہتے۔ ساس سسر خاموشی سے سب دیکھتے! ایک بات بھی ان کے منہ سے نہ نکلتی۔ ایسی بیوہ کیلئے تسلی کی کونسی بات کہیں؟ کوئی بچہ ہوتا، تو اس کا منہ ہی دیکھ کر اسے جینے کی، صبر کرنے کی، بات کہی جاتی۔ یہاں تو وہ بھی حیلہ بھی نہ تھا، کوئی کیا کہتا؟ ایسی بیوہ کی زندگی ایک ٹھونٹھ کی ہی طرح ہوتی ہے، جس پر کبھی ہریالی نہیں آنے کی، کبھی پھل پھول نہیں لگنے کے، بیکار، بالکل بیکار، زمین کا بیکار بوجھ! ہاں، ٹھونٹھ کا صرف ایک استعمال ہے۔ اسے کاٹ کر لاون میں جلا دیا جاتا ہے، گرہست جیون میں شاید ایسی بیوہ کا استعمال لاون کی ہی طرح ہے، زندگی بھر جلتے رہنا، جل کر گرہستی کی خدمت کرنا، جس خدمت کے پھل کا مزہ دوسرے لوٹیں اور خود وہ راکھ ہو کر رہ جائے۔

یہی حال بھابھی کا تھا۔ وہ سب کام کرتی۔ بوڑھی ساس کونے میں بیٹھی اپنے بیٹوں کو بسور بسور کر رات دن رویا کرتی۔ اپاہج سسر کے دل دماغ کو اچانک ایک پر دوسری پڑی بپتاؤں کی وجہ سے لقوہ مار گیا تھا۔ وہ گہری ذہنی اذیت میں ڈوبے رہتے، یہ کیا ہو گیا؟ کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ انہیں جب اپنا ہرا بھرا چمن یاد آتا، تو چپکے چپکے ہی کڑھنے لگتے وہ۔۔۔ آہ، آہ رام! تو نے یہ کیا کر دیا! ایسا کون سا گناہ میں نے کیا تھا، جو یہ دن دکھایا؟

کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ تینوں لوگ ایک دوسرے کو تسلی دینے جمع ہو جاتے۔ اور پھر باتوں ہی باتوں میں جانے کیا ہو جاتا کہ تینوں ایک ساتھ ہی شرمندگی اور لحاظ چھوڑ کر رونے لگتے، ایک دوسرے سے لپٹ جاتے۔ مشترکہ درد کی تڑپ جیسے انہیں ایک کر دیتی۔ اس وقت پاس پڑوس کے عورت مرد جمع ہو کر انہیں سمجھا بجھا کر زبردستی الگ کرتے اور آنسو پونچھ کر خاموش کراتے۔ پھر سب کچھ مسان کی طرح شانت ہو جاتا۔ جیسے وہاں کوئی زندہ آدمی ہی نہ رہتا ہو۔ درد کی موجودگی اندر اندر ہی خون سکھاتی رہتی۔ لیکن ہونٹ نہ ہلتے۔ لوگ وہاں سے جانے لگتے، تو ان کی سانسیں بھی آہ بن جاتیں۔ اوہ، کیا تھا اور کیا ہو گیا؟ بیچارہ گوپی چھوٹ کر آ جاتا، تو انہیں کچھ ڈھارس بندھتی۔

بھابھی کو کبھی ٹھیک طرح سے نیند نہ آتی۔ کبھی جھپکی آ جاتی، تو جیسے کوئی خوفناک خواب دیکھ کر چونک اٹھتی اور چپکے چپکے رونے لگتی۔ ایک ایک یاد ابھرتی اور ایک ایک ہوک اٹھتی۔ رات کا سناٹا اور اندھیرا جیسے پوری تاریخ کھول دیتے۔ بھابھی بے چین ہو ہو کروٹیں بدلتی اور ایک ایک ورق الٹتا جاتا۔ آخر جب برداشت نہ ہو پاتا، تو اٹھ کر باورچی خانے کے برتن باسن اٹھاتی اور آنگن میں لا کر مانجنے دھونے لگتی۔ ساس برتنوں کا بجنا سنتی، تو سوئے سوئے ہی بولتی، ’’ارے بہو، ابھی سے اٹھ گئی؟ ابھی تو بڑی رات معلوم دیتی ہے۔ سو جا، ابھی سوجا۔ ‘‘

بھابھی گلا صاف کر کے کہتی، ’’کہاں رات ہے اب؟ اجالا اگ آیا ہے اماں جی! ‘‘

’’ ابھی میری ایک بھی نیند پوری نہیں ہوئی ہے اور تو کہتی ہے کہ اجالا اگ گیا ہے؟ سو جا، بہو، سوجا، کون کھانے پینے والا ہے، جو اسی وقت برتن بھاڑا لے کر بیٹھ گئی؟ سو جا، بہو، سوجا۔ ‘‘

بھابھی کوئی جواب نہ دیتی۔ ساس رک رک کر کروٹ بدلتی اور بڑبڑاتی، ’’اے رام، اے رام! ‘‘ اور نیند میں غوطہ لگا جاتی۔

دھیرے دھیرے بغیر کوئی آواز نکالے بھابھی برتن مانجھ دھوکر اٹھتی، آہستہ آہستہ چوکا لگاتی۔ پھر نہا کر کے کپڑے بدلتی اور ٹھا کر گھر صاف کر کے، دیپ جلاتی، مورتی کے سامنے بیٹھ کر، رامائن کھول کر ہونٹوں ہی میں ہل ہل کر پڑھنے لگتی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آتا۔ وہ پڑھی لکھی بالکل نہیں تھی۔ بچپن میں ایک دو مہینوں کیلئے بھائی کے ساتھ کھیل کھیل میں اسکول گئی تھی۔ اسی دوران کھیل کھیل میں اس نے حروف تہجی اور گنتی سیکھ لی تھی۔ پھر ماں نے اسے اسکول جانے سے روک دیا تھا۔ لڑکیوں کو پڑھنے لکھنے کی بھلا کیا ضرورت ہے؟ پھر سب کچھ بھول گئی۔ اب، جب وقت کاٹے نہ کٹتا، تو اس نے پھر سالوں بعد اس حروف تہجی کو آہستہ آہستہ تازہ کیا۔ گھر میں رامائن کے سوا اور کوئی کتاب نہ تھی۔ وہ اسی پر عمل کرنے لگی۔ ایک ایک چوپائی میں اس کے منٹوں گزر جاتے۔ حرف حرف ملا کر وہ لفظ بناتی۔ پھر کئی بار دہرا کر آگے بڑھتی۔ پھر دو الفاظ کو کئی بار دہرا کر آگے بڑھتی۔ اس طرح ایک چرن ختم کر کے وہ اسے بیسوں بار دہراتی۔

اس میں وقت کاٹنے کے ساتھ ہی، کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے بھی، اسے ایک روحانی خوشی اور تسلی ملتی۔ اس کا خیال تھا کہ آہستہ آہستہ مشق ہو جانے پر وقت کاٹنے کا ایک اچھا ذریعہ بن جائے گا۔ دکھی لوگوں کیلئے وقت کاٹنے کے مسئلے سے بڑھ کر کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ اور وہ تو ایسی دکھی تھی، جسے ساری زندگی ہی اسی طرح کاٹنا تھا۔ بیوہ کی زندگی میں خوشیوں کے ایک لمحے ک ابھی تصور کیسے کیا جا سکتا ہے؟

صبح ساس سسر کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ سارا گھر بُہار کر صاف کر لیتی؟ ہلوایا آتا، تو اس سے بھینس دُہواتی، اس کی ناندوں میں ڈالنے کیلئے بھوسا گھر سے بھوسا نکال کر دیتی۔ پھر ضروری سامان دے کر اسے کھیت پر بھیج دیتی۔ پرانا ہلوایا بڑا ہی نمک حلال تھا۔ اسی پر آج کل پوری کھیتی کا بوجھ چھوڑ دیا گیا تھا۔ گھر کے آدمی کی طرح وہی سب کچھ کرتا اور بھابھی کو پورا پورا حساب دیتا۔

سسر کی نیند کھلتی، تو وہ بہو کو پکارتے۔ بھابھی جلدی جلدی آگ تیار کر کے حقہ بھر کر ان کے ہاتھ میں تھما آتی۔ ساس نے کچھ اس طرح بدن چھوڑ دیا تھا کہ بھابھی کو سسر کے تمام کام سبھی لاج شرم چھوڑ کر کرنے پڑتے تھے۔

چارپائی پر ہی وہ ان کے ہاتھ منہ دھلاتی، دودھ گرم کر کے پلاتی۔ پھر حقہ تازہ کر کے ان کے ہاتھ میں دیتی، دوا کی مالش کرنے لگتی۔ سسر حقہ گڑ گ    ڑاتے رہتے۔ کہیں کسی جوڑ پر بہو کا ہاتھ ذرا زور سے لگ جاتا، تو چیخ کر کہتے، ’’ارے بہو، سنبھال کرمل! اوہ، آہ!‘‘

پھر وہ گھر کے کام میں لگ جاتی۔ پھٹکنے پچھوڑنے، کوٹنے پیسنے سے لے کر کھلانے پلانے تک کے تمام کام وہ کرتی۔ ساس بسور بسور کر کسی کونے میں بیٹھی روتی رہتی یا ٹکر ٹکر بہو کو کام کرتے دیکھا کرتی۔

بھابھی اب پہلے سی بھابھی نہیں رہ گئی۔ نہ وہ روپ، نہ رنگ، نہ وہ جوانی، نہ وہ بدن۔ اب تو وہ جیسے پہلے کی بھابھی کی ایک چلتی پھرتی پرچھائیں رہ گئی تھی۔ دبلی پتلی، سوکھا بدن، بے آب زرد چہرہ، اداس، آنسوؤں میں ہمیشہ تیرتی سی آنکھیں، مرجھائے پتھریلے ہونٹ، روئیں روئیں سے جیسے ہمدردی ٹپک رہی ہو، ایک زندگی کی طرح مردہ تصویر ہو، یا جیسے ایک مردہ زندہ ہو کر چل پھر رہا ہو۔

ہائے، وہ کیوں زندہ ہے؟ آہ، اس کے بھی جان انہی کے ساتھ کیوں نہ نکل گئی! بہن نے کیسا کام کیا تھا کہ اسے بھگوان نے بلا لیا! ہائے، وہ کیسی مہا پاپن ہے کہ نرک جھیلنے کو رہ گئی؟ اس نرک سے وہ کب نکلے گی، اس اذیت سے آخر کب چھٹکارا ملے گا؟

مہینوں بعد درد کی برساتی دھارا، جب آہستہ آہستہ دھیمی ہو کر خاموش ہوئی اور جب بھابھی آہستہ آہستہ سب کچھ کرنے سہنے کی عادت ہو گئی، تو اس کی زندگی کی بے ثمری اور لامتناہی مایوسی، کے جو روح کے چور چور ہو جانے سے آئی تھی، اس کے ڈنک بھی کند ہونے لگے۔ اب بھابھی کبھی کبھار کچھ سوچتی تھی، اب کبھی کبھی اس کے دل میں زندگی کے ان خوشیوں کے شگوفے پھر ابھرتے ہوئے محسوس ہوتے، جنہیں ایک بار وہ اپنی زندگی میں پھل پھول سے لدے دیکھ چکی تھی۔ شوہر کی یاد سے بھی اب کبھی کبھار اس کے من میں انہی کومل جذبات کا اظہار ہوتا، جو اس کے ساتھ رہنے میں اسے ملے تھے۔ اب بار بار اس کے دل کے سات پردوں میں دبے مقام سے سوال اٹھتا، ’’کیا زندگی میں وہ دن پھر کبھی نہیں آئیں گے؟ کیا وہ سکھ پھر کبھی نہ ملے گا؟ وہ، وہ۔۔۔ ‘‘اور اس کے منہ سے ایک دبی ہوئی ٹھنڈی سانس نکل جاتی۔ جان میں جانے کیسی اینٹھ اور درد محسوس ہوتا۔ وہ کچھ پریشان سی ہو اٹھتی کاش۔۔۔

ایسے موقع پر جانے کیسے اس کا دھیان اپنے دیور کی طرف چلا جاتا۔ وہ سوچتی کہ اس کی حالت بھی تو ٹھیک اسی کی جیسی ہو گی۔ اس کی بھی تو خوشیوں بھری دنیا اسی کی طرح اجڑ گ     ئی۔ اس کے دل میں بھی تو آج ٹھیک اسی کی طرح کے جذبات اٹھتے ہوں گے۔ وہ بھی تو اسی کی طرح تڑپتا ہو گا کہ کاش۔۔۔

اور تبھی جیسے کوئی اس سے کہہ جاتا، ’’وہ تو مرد ہے۔ جیسے ہی وہ جیل سے لوٹے گا، اس کا دوسرا بیاہ ہو جائے گا اور پھر اس کی ایک نئی زندگی شروع ہو گی، جس میں پہلے ہی سا سکھ۔۔۔ ‘‘

اور وہ متنفر ہو اٹھتی۔ اس کے ہونٹ چپک سے جاتے، جیسے اس میں ایک نفرت، ایک ناراضگی بھرا تاثر ہو اور یہ سوال اس کی روح کی تڑپ میں لپٹ کر اٹھ پڑتا ہو، ’’ایسا کیوں، ایسا کیوں ہوتا ہے؟ یہ فرق کیوں؟ کیوں ایک کو اپنی اجڑی دنیا کو گلے سے لپٹائے پل پل جل کر راکھ ہو جانے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور دوسرے کو اپنی اجڑی ہوئی دنیا دوبارہ بسا کر سکھ چین سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے؟ ‘‘

اور وہ تلملا اٹھتی؟ نہیں، ایسا نہیں ہونا چاہئے، ہرگز نہیں! اسے بھی حق ہونا چاہئے کہ۔۔۔

یہ کیسی باتیں اٹھنے لگی ہیں من میں؟ بھابھی کو جب ہوش آتا، تو اسے خود پر حیرت ہوتی۔ ابھی کل کی ہی تو بات ہے کہ شوہر کے سوگ میں تڑپ کر وہ مر جانا چاہتی تھی۔ لیکن آج، آج یہ کیا ہو رہا ہے کہ وہ ایک دم بدل گئی ہے، ایسی ایسی باتیں سوچ رہی ہے، ایسے ایسے خیالات ذہن میں اٹھتے ہیں، ایسی ایسی خواہشیں اندر سر اٹھا رہی ہیں اور وہ ابھی کل کی ہی اپنی ذہنی حالت کی بات سوچ کر خود ہی کے سامنے آج شرمندہ ہو اٹھتی ہے۔ کہیں کسی کو آج اس کے دل میں اٹھنے والے جذبات معلوم ہو جائیں تو؟ نہیں، نہیں، نہیں! لوگ کیا کہیں گے؟ لوگ اسے کتنی گنہگار سمجھیں گے؟ لوگ اسے کیا کیا طعنے دیں گے کہ شوہر کو مرے ابھی دو تین سال بھی نہ ہوئے اور یہ کلموہی ایسی ایسی باتیں سوچنے لگی! یہ بیوگی بھری زندگی کی پاکیزگی آگے کیا قائم رکھ سکتی ہے؟ اوہ، زمانہ کتنا بگڑ گیا ہے۔ دیکھو نہ، کل کی بیوہ آج۔۔۔

اور وہ مجبوری اور بے حاصلی سے تڑپ اٹھتی۔ وہ اپنے اس دل کو کیا کرے؟ وہ کیسے ان ناپاک جذبات کو دبائے۔ وہ ٹھا کر گھر میں آج کل پرارتھنا کرتی ہے، ’’بھگوان، مجھے طاقت دے کہ میں رِیت پر قائم رہوں! من میں اٹھتے ناپاک جذبات پر قابو پا سکوں! بیوگی کی زندگی پر کلنک نہ لگنے دوں! ‘‘ لیکن بھگوان سے اسے وہ طاقت نہیں مل رہی تھی۔ دماغ ہرن کی طرح جب تب چھلانگیں مارنے لگتا۔ وہ مجبور ہو کر شوہر کو یاد کرتی۔ سوچتی کہ جب تک ان کی یاد باقی رہے گی، وہ نہ ڈگمگائے گی۔ لیکن اب اُنکی یاد بھی دھندلی پڑتی جا رہی تھی۔ بہت کوشش کرتے ہوئے بھی وہ بہت دیر تک ان یادوں میں نہ گزار پاتی۔ نہ جانے کب یادیں اپنا روپ بدل دیتیں! درد پیدا کرنے والی یادیں، ان بیتی خوشیوں کو یاد دلانے والی بن جاتیں، جو اسے اپنے شوہر سے ملی تھیں۔ اور پھر ان خوشیوں کو یاد کر کے انہیں دوبارہ حاصل کرنے کی چاہ دل میں نمودار ہو جاتی۔ بالآخر ایک میٹھی کپکپی سے بدن بھر جاتا۔ اور جب اسے اس کا خیال آتا، تو وہ خود کو سمجھانے لگتی۔ اس طرح ایک عجیب پراسرار دوہرا پن اس کے دل میں بس گیا۔ اور وہ جان بوجھ کر بھی اس کا تجربہ کرتی رہی کہ کون سا فریق جیت رہا ہے، اور کون سا ہار رہا ہے۔

اب پہلی سی حالت اس کی نہ رہی تھی۔ اب گھر میں کام کاج، ساس سسر کی خدمت میں اس کی وہ دلچسپی نہ دکھتی تھی۔ اب جیسے وہ سب بجھے من سے کرتی، اب کبھی کبھی ساس کسی کام میں دیر ہونے پر اسے ڈانٹتی، تو وہ جواب بھی دے دیتی، ’’دو ہی ہاتھ ہیں میرے! کیوں نہیں تم ہی کر لیتیں؟ لونڈی کی طرح رات دن تو گھس رہی ہوں! پھر بھی یہ نہیں ہوا، وہ نہیں ہوا! سنتے سنتے میرے کان پک گئے۔۔۔ ‘‘

ساس سنتی، تو بڑبڑانے لگتی۔ اناپ شناپ جو بھی منہ میں آتا، کہہ جاتی۔ بھابھی میں اب بھی اس سے زبان لڑانے کی ہمت نہ تھی۔ پھر بھی منہ ہی منہ میں بڑبڑانے سے اب وہ بھی باز نہ آتی۔

آہستہ آہستہ دونوں پریشان ہو گئیں اور جھلا جھلا کر باتیں کرنے لگیں۔ ایک دکھ بھرا سناٹا، جو اتنے دنوں گھر میں چھایا رہا تھا، وہ اب ختم ہو گیا۔ اب تو محلے والوں کے کانوں تک بھی اس گھر کی باتیں پہنچنے لگیں۔ یہ باتیں دو مایوس، بیمار زندگیوں کی تھی، تنک مزاجی، غصے، بے چینی اور چڑچڑے پن سے بھری۔

ایک دن صبح بھوسا گھر سے کھانچی میں بھوسا نکال کر دالان میں کھڑے ہلوا ہے کو دینے بھابھی آئی تو کھانچی ہاتھ میں لیتے ہوئے ہلوا ہے نے کہا، ’’چھوٹی مالکن، کئی دنوں سے ایک بات کہنے کو جی ہوتا ہے، برا تو نہ مانیں گی؟ ‘‘

کپڑے پر پڑے بھوسے کے تنکوں کو صاف کرتے ہوئے بھابھی بولی، ’’کیا بات ہے؟ تجھے کچھ چاہئے؟ ‘‘

’’ نہیں، مالکن۔ ‘‘ ہلوا ہے نے آنکھوں میں ننگا پن اور ہونٹوں پر سچا موہ لا کر، بڑی ہی ہمدردی کے لہجے میں کہا، ’’مالکن، آپ کا بدن دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے! ابھی آپ کی عمر ہی کیا ہے؟ اسی عمر سے اس طرح آپ کی زندگی کیسے کٹے گی؟ اتنے ہی دنوں میں آپ کا سونے کے سا بدن کیسے مٹی ہو گیا؟ مالکن، آپ کو اس روپ میں دیکھ کر مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے! ‘‘ کہتے کہتے ایسا لگا کہ وہ رو دے گا۔

بھابھی کے چہرے کے اداس سائے اور بھی گہرے ہو گئے۔ وہ بولی، ’’کیا کریں، بلرا، قسمت کے آگے کس کا بس چلتا ہے؟ بیو گی نے سیندور مٹا دیا، کرم پھوڑ دیا، تو اب اس طرح رو دھو کر ہی تو زندگی کاٹنی ہے۔ تو دکھ کا ہے کو کرتا ہے؟ جنم کا ساتھی کون ہوتا ہے؟ جب موت سے ہی میرا سکھ نہ دیکھا گیا، تو۔۔۔ ‘‘وہ آنکھوں پر آنچل رکھتے ہوئے سسک پڑی۔

ایک ٹھنڈی سانس لے کر بلرا بولا، ’’یہ کیسا رواج ہے مالکن، آپکی برادری کا؟ اس معاملے میں تو ہماری ہی برادری بہتر ہے، جس میں کوئی بیوہ اس طرح اپنی زندگی خراب کرنے پر مجبور نہیں۔ میری ہی دیکھئے نہ۔ بھیا، بھابھی کو چھوڑ کر گزر گئے، تو بھوجی کا بیاہ مجھ سے ہو گیا۔ مزے سے زندگی کٹ رہی ہے۔ اور آپ اونچی برادری میں کیا پیدا ہوئیں کہ آپکی زندگی ہی خراب ہو گئی۔۔۔ کیا کہوں مالکن، من میں اٹھتا تو ہے کہ چھوٹے مالک سے اگر آپ کا بیاہ ہو جاتا۔۔۔ ‘‘

’’ بلرا! ‘‘ اونچی برادری کا تکبر بھبک اٹھا، ’’پھر کبھی یہ بات زبان پر مت لانا! جس مالک کا تو نمک کھاتا ہے، اس کی عزت کا تو خیال کر، ایسی بات پھر منہ سے نکالی، تو میں تیری زبان کھینچ لوں گی! تجھے کیا معلوم نہیں کہ اس ذات کی بیوہ زندہ جل کر چتا میں بھسم ہو جاتی ہے، لیکن۔۔۔ جا، ہٹ جا تو! ‘‘ کہہ کر بھابھی اپنی چارپائی پر جا گری اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔

ساس سسر ابھی سو رہے تھے۔ کافی دیر تک بھابھی روتی رہی۔ یہ رونا باعث ذلت تھا۔ نیچ، کمینے آدمی نے جس تارکو چھیڑا تھا، وہ کتنی ہی بار آپ ہی آپ بھی جھنجھنا اٹھا تھا، بھابھی نے اس کا ذائقہ دل ہی دل میں لیا تھا۔ لیکن یہ تار اتنا خفیہ، اتنا متکبرانہ اور اصولوں کے درمیان چھپا کر احتیاط سے رکھا گیا تھا کہ اسے کبھی کوئی چھو پائے گا، اس کا تصور بھابھی کو نہ تھی۔ اسی تار پر اس نیچ کمینے آدمی نے براہ راست انگلی رکھ دی تھی۔ یہ کیا کوئی عمومی توہین کی بات تھی! بھابھی کی ماندگی ہی رونے میں نکلی تھی۔ اس ماندگی کی ایک دھار جہاں اس کمینے کی گردن پر تھی، وہیں اس کی دوسری دھار خود بھابھی کی گردن پر، اس کا علم بھابھی کو تھا۔ ورنہ وہ کمینہ کیا تھپڑ کھائے بغیر جا پاتا؟ راجپوتنی کے خون کی بات تھی کہ کوئی مذاق تھا؟

بھابھی اس دن سے مزید محتاط ہو گئی، ٹھیک اسی طرح جیسے ایک بار چوری پکڑے جانے پر چور۔ اب وہ بلرا کے سامنے بھی نہ جاتی۔ ساس کو صبح ہی جگا دیتی۔ اسی کے ہاتھ دودھ نکالنے کے لئے گھُونچا اور ناند میں ڈالنے کیلئے بھوسا بھی بھجواتی۔ کوئی بھی ہو، آخر مرد ہی تو ہے۔ کسی مرد کے سامنے بیوہ نہ جانا چاہے، تو اس کی تعریف کون نہ کرے؟

جو بھی ہو، اس کمینے آدمی کی اس بات نے بھابھی کی خفیہ، گناہوں سے آلودہ سوچوں کو پروان چڑھنے کیلئے ایک مضبوط بنیاد فراہم کر دی۔ جانے انجانے میں بھابھی کے خیال میں دیور اب ابھر ابھر آتا۔ اس کی سینکڑوں باتوں کی یادیں ایسا ایسا روپ لے کر آتیں کہ بھابھی کو شک ہونے لگا کہ دیور کہیں سچ مچ تو اسے نہیں چاہتا تھا۔ معصوم، بے داغ، مقدس پیار پر ہوس کی دھندلی چادر اوڑھاتے کس کو کتنی دیر لگتی ہے؟ پھر بھابھی کا بھوکا من آج کل تو ایسی سوچوں میں ہی منڈلایا کرتا، کبھی کبھی تو اُس کمینے کی برادری سے بھی جلن ہو جاتی کہ کاش۔۔۔ تبھی پھر نہ جانے کہاں سے ایک کٹھور مرد آ کر بھابھی پر اتنے کوڑے لگا دیتا کہ بھابھی خون خون ہو کر چھٹپٹا اٹھتی۔

بھابھی کی خواہشوں کی سیج بھی کانٹوں کی تھی، جس پر اس کا جسم پل پل چھدتا رہتا۔

٭٭٭

 

 

 

 

حصہ سوم

 

سات

 

بنارس ضلع جیل پہنچتے ہی مٹرو کی سانس کی بیماری بیدار ہو گئی۔ تین چار دن تک تو کسی نے اس کی پرواہ نہ کی، جب وہ بالکل نڈھال پڑ گیا، اور کوئی بھی کام کرنے کے قابل نہ رہا، تو اسے ہسپتال میں پہنچا دیا گیا۔ اس کا بستر ٹھیک گوپی کے برابر میں تھا۔

ڈاکٹر کسی دن آتا، کسی دن نہ آتا۔ دیکھا جائے تو کمپوڈر ہی یہاں کا کرتا دھرتا تھا۔ وہ بڑا ہی نیک سیرت آدمی تھا، اس کی خدمت گذاری سے ہی مریض آدھے اچھے ہو جاتے تھے۔ پھر یہاں کھانا بھی کچھ اچھا ملتا تھا، کچھ دودھ بھی مل جاتا تھا، مشقت سے چھٹکارا بھی مل جاتا تھا۔ یہی سہولت حاصل کرنے کیلئے بہت سے تندرست قیدی بھی ہسپتال میں پڑے رہتے۔ اس کیلئے ڈاکٹر اور وارڈن کی مٹھی تھوڑی گرم کر دینی پڑتی تھی۔ ظاہر ہے کہ ایسا خوشحال قیدی ہی کر سکتے تھے۔

ایک ہفتے تک مٹرو بے حال پڑا رہا۔ وہ خشک کھانسی کھانستا اور درد کے مارے ’’آہ آہ‘‘کیا کرتا۔ بلغم سوکھ گیا تھا۔ کمپوڈر رات گئے تک اس کے سینے اور پیٹھ پر دوا کی مالش کیا کرتا۔ وہ اپنی چھٹی کی پرواہ بھی نہ کرتا۔

کئی انجکشن لگنے کے بعد جب بلغم کچھ ڈھیلا ہوا، تو مٹرو کو کچھ آرام ملا۔ اب وہ گھنٹوں سویا پڑا رہتا۔ سوتے میں ہی کبھی کبھار وہ ’’ماں ماں‘‘ چیختا، اٹھ کر بیٹھ جاتا اور چاروں جانب آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے لگتا۔

ایک دن ایسے ہی موقع پر گوپی نے پوچھا، ’’ماں، تمہیں بہت یاد آتی ہے؟‘‘

’’ہاں‘‘، مٹرو نے جیسے دور دیکھتے ہوئے کہا، ’’وہ رات دن مجھے پکارا کرتی ہے۔ جب تک میں اس کے پاس نہ پہنچ جاؤں گا، چین نہ ملے گا۔ جب تک اس کا پانی اور ہوا مجھے نہ ملے گی، میں صحت یاب نہ ہوں گا۔ ‘‘

گوپی نے استعجاب سے کہا، ’’ماں سے پانی ہوا کا کیا لینا دینا؟ تم۔۔۔‘‘

’’ تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ ‘‘ مٹرو نے ذراسا مسکرا کر پوچھا، ’’مٹرو سنگھ پہلوان کا نام نہیں سنا ہے؟ اس کی ماں گنگا میا ہے، یہ بات کون نہیں جانتا! ‘‘

’’ مٹرو استاد! ‘‘ گوپی آنکھیں پھیلا کر چیخ پڑا، ’’پا لاگی! میں گوپی ہوں، بھیا، بھلا مجھے تم کیا جانتے ہو گے؟ ‘‘

’’ جانتا ہوں، گوپی، سب کچھ جانتا ہوں۔ میں اس دنگل میں بھی شریک تھا اور پھر جو واردات ہو گئی تھی، اس کے بارے میں بھی سنا تھا۔ کیا بتاؤں، کوئی کسی کی طاقت نہیں دیکھ پاتا۔ جب کسی طرح کوئی پار نہیں پاتا، تو کمینے پن پر اتر آتا ہے۔ تمہارے بھائی کی وہ حالت ہوئی، تمہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ میرا بھی تو سنا ہی ہو گا۔ کمینے سے اور کچھ کرتے نہ بنا، تو نجانے کیا کھلا دیا۔ سانس ہی اکھڑ گئی۔ جسم مٹی ہو گیا۔ دیکھ رہے ہو نا؟ ‘‘

’’ ہاں، سو تو آنکھوں کے سامنے ہے، ‘‘دکھ بھرے لہجے میں گوپی نے کہا، ’’پھر یہاں کیسے آنا ہوا، بھیا؟ ‘‘

مٹرو ہنس پڑا اور بولا، ’’وہی، زمیں داروں سے میری وہ زندگی بھی نہ دیکھی گئی۔ ڈاکے میں ملوث کر کے یہاں بھیج دیا۔ ‘‘کہہ کر وہ پوری کہانی سنا گیا۔ آخر میں بولا، ’’کیا بتاؤں، سب سہہ سکتا ہوں، لیکن گنگا میا کا بچھڑنا نہیں سہا جاتا۔ آنکھوں کے سامنے جب تک وہ دھارا نہیں رہتی، مجھے چین نہیں ملتا، کچھ کرنے کے لیے جوش و خروش نہیں رہتا۔ وہ ہوا، وہ پانی، وہ مٹی اب کہاں ملنے کی؟ جب سے بچھڑا ہوں، بھر پیٹ پانی نہیں پیا۔ چلتا ہی نہیں، بھیا، کیا کروں؟ جانے کیسے کٹیں گے تین سال؟ ‘‘

’’ مجھے تو پانچ سال کاٹنا ہے، بھیا! مرد کے لئے کہیں بھی وقت کاٹنا مشکل نہیں، لیکن دل میں ایک کانٹا لیے کوئی کیسے وقت کاٹے! مجھے بیوہ بھابھی کا خیال کھائے جاتا ہے اور تمہیں گنگا میا کا۔ ایک نہ ایک دکھ سب کے پیچھے لگا رہتا ہے۔ پھر بھی وقت تو کٹے گا ہی، چاہے دکھ سے کٹے، چاہے سکھ سے۔ اب تو ہم ایک جگہ کے دو آدمی ہو گئے ہیں۔ دکھ سکھ ہی کہہ سن کر مزے سے کاٹ لیں گے۔ سنا تھا، تم نے شادی کر لی تھی؟ ‘‘

’’ ہاں، اب تو تین بال گوپال بھی گھر آ گئے ہیں۔ بڑے مزے سے زندگی کٹ رہی تھی، بھیا! ہر سال پچاس سو بیگھا جوت بو لیتا تھا۔ گنگا میا اتنا دے دیتی تھیں کہ کھائے ختم نہ ہو، لیکن زمیں داروں سے یہ دیکھا نہ گیا۔ گنگا میا کی دھرتی پر بھی انہوں نے فتنہ انگیزی کرنا شروع کر دی۔ نا انصافی دیکھی نہ گئی، بھیا مرد ہو کر ماں کے سینے پر مونگ دلتے دیکھوں، یہ کیسے ہوتا ہے! ‘‘

’’تم نے جو کیا، ٹھیک ہی کیا، بھیا! یہ زمیندار اتنے حرامی ہوتے ہیں کہ کسان کی ذرا بھی خوش حالی ان سے نہیں دیکھی جاتی۔ تمہیں وہاں سے ہٹا کر اب اپنی من مانی کریں گے۔ لالچی کسانوں نے جو تمہارے رہنے پر نہ کیا، ان سے وہ اب سب کروا لیں گے۔ تمہارا کوئی ساتھی وہاں ہو گا نہیں، جو روک تھام کرے؟ ‘‘

’’ ایک سالا ہے تو۔ مگر اس میں وہ ہمت نہیں ہے۔ پھر بھی وہ خاموشی سے نہ بیٹھے گا۔ تھوڑے دن کی میری شاگردی کا اثر اس پر کچھ نہ کچھ پڑا ہی ہو گا۔ دیکھتے ہیں۔ ‘‘

’’ وہ تم سے ملنے آئے گا نہ، تو پوچھنا۔ ‘‘

آہستہ آہستہ مٹرو اور گوپی کا تعلق مضبوط ہو گیا۔ دونوں کے یکساں مزاج، یکساں دکھ، یکساں جیون نے انہیں یک جان بنا دیا۔ ان کی زندگی اب ایک دوسرے کے ساتھ سہارے سے کچھ مزے میں کٹنی لگی۔ ایک ہی بیرک میں وہ رہتے تھے۔ جہاں تک کام کا تعلق تھا، ان سے کسی کو کوئی شکایت نہ تھی۔ اس لئے کسی افسر کو انہیں چھیڑنے کی ضرورت نہ تھی۔ مٹرو کی ’’ گنگا میا‘‘ جیل بھر میں مشہور ہو گئیں۔ انہیں چھوٹے بڑے، بہت ہی زیادہ مذہبی آدمی سمجھتے اور جب ملتے، ’’جے گنگا میا ‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے۔ ایک نوع کی زندگی ان دیواروں کے اندر بھی پیدا ہو گئی۔ ہنسی مذاق، لڑنا جھگڑنا، بغض و عناد، رونا گانا، وہاں بھی تو ویسا ہی چلتا ہے، جیسے باہر۔ کب تک کوئی وہاں کی سماجی زندگی سے کٹا ہٹا، الگ اکیلے پڑا رہے؟ سینکڑوں کے ساتھ سکھ دکھ میں گھل مل کر رہنے میں بھی تو آدمی کو ایک قسم کا اطمینان مل جاتا ہے۔

اب مٹرو اور گوپی کے درمیان کبھی کبھی جیل کے باہر بھی ساتھ ہی رہنے سہنے کی بات چل پڑتی۔ دونوں میں اتنی انسیت ہو گئی تھی کہ علیحدگی کا سوچ کر کے بھی وہ بے چین ہو اٹھتے۔ مٹرو کہتا، ’’جیل سے چھوٹ کر تم بھی میرے ساتھ رہو، تو کیسا؟ گنگا میا کے پانی، ہوا اور مٹی کا چسکا تمہیں ایک بار لگ جائے، پھر تو میرے بھگانے پر بھی تم نہ جاؤ گے۔ پھر مجھے تمہارے جیسے ایک ساتھی کی ضرورت بھی ہے۔ زمیندار اب زور زبردستی پر اتر آئے ہیں۔ نہ جانے مجھے وہاں سے ہٹانے کے بعد انہوں نے کیا کیانہ کیا ہو۔ میں چاہتا ہوں کہ گنگا میا کی چھاتی پر منڈیریں نہ کھنچیں۔ ویسے منڈیریں کھینچنا نا ممکن بھی ہے، کیونکہ گنگا میا کی دھارا ہر سال سب کچھ برابر کر دیتی ہے۔ کوئی نشان وہاں قائم نہیں رہ سکتا ہے۔ میاکی زمین چھوڑنے پر جو جتنا چاہے، جوتے بوئے۔ زمین کی وہاں کبھی کوئی کمی نہ ہو گی، جوتنے والوں کی کمی بھلے ہی ہو جائے۔ وہاں سب کا برابر حق رہے۔ زمیندار اسے ہڑپ کر، وہاں اپنی زمینداری قائم کر کے لگان وصول کرنا چاہتے ہیں، وہی مجھے پسند نہیں۔ گنگا میا بھی کیا کسی کی زمینداری میں ہیں، گوپی؟ ‘‘

’’ نہیں بھیا، یہ تو سراسرانکی نا انصافی ہے۔ ایسا کر کے تو ایک دن وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ گنگا میا کا پانی بھی ان کا ہے جو پینا نہانا چاہے، ادائیگی کر کے کرے۔ ‘‘

’’ ہاں، سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ گھاٹ کو وہ ٹھیکے پر اٹھانا چاہتے ہیں۔ کہتے ہیں، گھاٹ ان کی زمین پر ہے۔ وہاں سے جو پار اترائی ملتا ہے، اس میں بھی ان کا حق ہے۔ میرے ہوتے تو وہاں کسی کی ہمت ایسا کرنے کی نہیں ہوئی۔ اب میرے پیچھے جانے انہوں نے کیا کچھ کیا ہو۔ سو بھیا، وہاں ایک مورچہ بنا کر اس نا انصافی کا مقابلہ کرنا ہی پڑے گا۔ اگر تم میرے ساتھ ہو تو میری قوت دوگنی ہو جائے گی۔ ‘‘

’’ سو تو میں بھی چاہتا ہوں۔ لیکن تمہیں تو معلوم ہے کہ گھر میں، میں ہی اکیلا بچ گیا ہوں۔ بابو کو گٹھیا نے اپاہج بنا دیا ہے۔ بوڑھی ماں اور بیوہ بھابھی کا بوجھ بھی میرے ہی سر پر ہے۔ ایسے میں گھر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟ ہاں، کبھی کبھار تم کو سو پچاس لاٹھی کی ضرورت ہوئی، تو ضرور مدد کروں گا۔ تمہارے اطلاع دینے بھر کی دیر رہے گی۔ یوں بھی، دو چار دن آ ٹھہر کر گنگا میا کا جل سیون ضرور سال میں دو چار بار کروں گا۔ تم بھی آتے جاتے رہنا۔ اس طرح، خیر خبریں تو برابر ملتی ہی رہیں گی۔ ‘‘

یہ سن کر مٹرو اداس ہو جاتا۔ وہ حقیقت میں گوپی پر جان چھڑکنے لگا تھا۔ لیکن اس کے گھر کی ایسی حالت جان کر بھی وہ کس طرح اپنی بات پر زور دیتا۔ وہ کہتا، ’’اچھا، جیسے بھی ہو، ہماری دوستی قائم رہے، اس کی ہمیں برابر کوشش کرنی چاہیے! ‘‘

ادھر بہت دنوں سے مٹرو یا گوپی سے ملاقات پر کوئی نہیں آیا تھا۔ دونوں ہی فکر مند تھے۔ دور دیہات سے کاروباری کسانوں کا بنارس آنا جانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ زندگی میں بہت ہوا تو سالوں سے انتظام کرنے کے بعد، وہ ایک بار کاشی پریاگ کا تیرتھ کرنے نکل پاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی گڑھا ہوا خزانہ تو ہوتا نہیں کہ جب ہوا نکل پڑے، گھوم آئے۔ پھر انہیں فرصت بھی کب ملتی ہے؟ ایک دن بھی کام کرنا چھوڑ دیں، تو کھائیں گے کیا؟ اور کھانے کو ہو تو بھی پیسہ بٹورنے اور کھیت خریدنے کی خواہش کی طرف سے انہیں چھٹکارا کیسے ملے؟

گوپی کے سسر پہلے دو دو، تین تین مہینے پر ایک بار آ جاتے تھے۔ لیکن چونکہ ایک بیٹی بیوہ ہو گئی تھی اور دوسری چل بسی تھی، ان کی دلچسپی بالکل ختم ہو گئی تھی۔ خواہ مخواہ کی دلچسپی کے نہ وہ قائل تھے، نہ اسے پالنے کی ان کی حیثیت ہی تھی۔ دوسرا کون آتا۔

مٹرو کے سسر بالکل معمولی آدمی تھے۔ زندگی میں کبھی باہر جانے کا انہیں موقع ہی نہ ملا تھا۔ ہاں البتہ سالے سے کچھ امید ضرور تھی۔ لیکن وہ بھی نجانے کس الجھن میں پھنسا ہوا ہے، جو ایک بار بھی خیر خبر لینے نہیں آیا۔

اگلے مہینے میں چندر گرہن پڑ رہا تھا۔ مٹرو اور گوپی کو پورا یقین تھا کہ اس موقع پر ضرور کوئی نہ کوئی تو آئے گا۔ برداری میں کاشی نہان کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک پنتھ، دو کاج۔

گرہن کے ایک دن پہلے اتوار تھا۔ صبح سے ہی ملاقاتوں کی دھوم مچی تھی۔ جن قیدیوں کی ملاقاتیں ہونے والی تھی، ان کے نام وارڈن پکار رہے تھے اور دروازے کے پاس صحن میں بیٹھا رہے تھے۔ جس کا نام پکارا جاتا، اس کا چہرہ کھل جاتا، جس کا نام نہ پکارا جاتا، وہ اداس ہو جاتا۔ صحن سے خوشیوں بھری آوازوں کا شور سا اٹھ رہا تھا۔

مٹرو اور گوپی آنکھوں میں اداسی بھری حسرت لیے بیرک کے باہر کھڑے تھے۔ انہیں پوری امید تھی کہ آج کوئی نہ کوئی ان سے ملنے ضرور آئے گا۔ لیکن جب پکارنا بند ہو گیا اور ان کا نام نہ آیا تو ان کی آنکھوں میں بھری حسرت خاموشی بھرے رونے میں بدل کر مٹ گئی۔

’’ دیکھو نہ۔ ‘‘تھوڑی دیر بعد گوپی جیسے رو ہانسا ہو کر بولا، ’’آج بھی کوئی نہیں آیا۔ ‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘ٹھنڈی سانس لیتا ہوا مٹرو بولا، ’’گنگا میا کی مرضی۔۔۔ ‘‘

تبھی انہیں وارڈن نے بھاگتے ہوئے آ کر کہا، ’’چلو، چلو، گنگا پہلوان، تمہاری ملاقات آئی ہے! جلدی کرو، پندرہ منٹ ایسے ہی گزر گئے۔ ‘‘

مٹرو نے سنا، تو اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ تبھی گوپی نے وارڈن سے پوچھا، ’’میری ملاقات نہیں آئی ہے، وارڈن صاحب؟ ‘‘

’’ نہیں، بھائی نہیں۔ آتی تو بتاتا نہیں؟ ‘‘ وارڈن نے کہا، ’’گنگا پہلوان کی آئی ہے۔ ہم تو سمجھتے تھے کہ ان کا گنگا میا کے سوا کوئی ہے ہی نہیں، مگر آج معلوم ہوا کہ۔۔۔ ‘‘

’’ میرے ساتھ گوپی بھی چلے گا! ‘‘ مٹرو نے اداس ہو کر کہا، ’’یہ بھی تو میرا رشتہ دار ہے۔ ‘‘

’’ جیلر صاحب کے حکم کے بغیر یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ چلو، دیر کر کے وقت خراب نہ کرو! ‘‘ وارڈن نے مجبوری ظاہر کی۔

’’ ارے وارڈن صاحب، اتنے دنوں بعد تو کوئی ملنے آیا ہے، کون کوئی ہر مہینے آنے والا ہے ہمارا؟ مہربانی کر دو! ہمارے لئے تو تم ہی جیلر ہو! ‘‘ مٹرو نے منت سماجت کی۔

’’ مشکل ہے، پہلوان! ورنہ تمہاری بات خالی نہ جانے دیتا۔ چلو، جلدی کرو۔ ملنے والے انتظار کر رہے ہیں! ‘‘ وارڈن نے جلدی مچائی۔

’’ جاؤ، بھیا، مل آؤ۔ ہماری طرف کی بھی خیر خبریں پوچھ لینا۔ کیوں میری خاطر۔۔۔ ‘‘

’’ تم چپ رہو! ‘‘ مٹرو نے جھڑک کر کہا، وارڈن صاحب چاہیں تو سب کر سکتے ہیں، میں تو یہی جانوں! ‘‘ اتنا کہہ کر مٹرو، وارڈن کی طرف بڑی قابل رحم آنکھوں سے دیکھ کر بولا، ’’وارڈن صاحب، اتنے دن ہو گئے یہاں رہتے، کبھی آپ سے کچھ نہ کہا۔ آج میری گذارش سن لو! گنگا میا تمہیں بیٹا دیں گی! ‘‘

وارڈن لا ولد تھا۔ قیدی اس کے بیٹا ہونے کی دعا کر کے، اس سے بہت کچھ کرا لیتے تھے۔ یہ اس کی بہت بڑی کمزوری تھی۔ وہ ہمیشہ یہی سوچتا، جانے کس کی زبان سے بھگوان بول پڑے۔ وہ دھرم سنکٹ میں پڑ کر بول پڑا، ’’اچھا، دیکھتا ہوں۔ تم تو چلو، یا میری شامت بلاؤ گے؟ ‘‘

’’ نہیں، وارڈن صاحب، بات پکی کہیے! ورنہ میں بھی نہ جاؤں گا۔ اب تک کوئی نہ ملنے آیا، تو کیا میں مر گیا؟ گنگا میا۔۔۔ ‘‘

’’ اچھا بھائی اچھا۔ تم تو چلو، میں جلد موقع دیکھ کر اسے بھی پہنچا دیتا ہوں۔ تم لوگ تو ایک دن میری نوکری لے کر ہی دم لو گے! ‘‘ اتنا کہہ کر وہ آگے بڑھا۔

مٹرو، سسرکا پاؤں چھو چکا تو سالا اس کا پاؤں چھوکراس سے لپٹ گیا۔ بیٹھ کر ابھی باتیں شروع ہی کی تھیں کہ جانے کدھر سے گوپی بھی آہستہ سے آ کر ان کے پاس بیٹھ گیا۔ مٹرو نے کہا، ’’یہ ہر دیا کا گوپی ہے۔ وہی گوپی، مانک! سنا ہے نہ نام؟ ‘‘

’’ ہاں ہاں! ‘‘ دونوں بول پڑے۔

’’ یہ بھی یہاں میرے ہی ساتھ ہے۔ اس کے گھر کی کوئی خیر خبر؟ ‘‘ مٹرو نے پہلے دوست کی ہی بات پوچھی۔

’’ سب ٹھیک ہی ہو گا۔ کوئی خاص بات ہوتی، تو سننے میں آتی نا؟ ‘‘ بوڑھے نے کہا، ’’اچھا ہے کہ تم جوار کے اپنے دو آدمیوں کے ساتھ ہو۔ پردیس میں اپنے جر جوار کے ایک آدمی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا۔ ‘‘

’’ اچھا، پُوجن۔ ‘‘مٹرو نے سالے کی جانب مخاطب ہو کر کہا، ’’تو دِیّر کا حال چال بتا۔ گنگا میا کی دھارا وہیں بہہ رہی ہے، یا کچھ ادھر ادھر ہٹی ہے؟ ‘‘

’’ اس سال تو پاہُن، ندی بہت دور ہٹ کر بہہ رہی ہے، جہاں ہماری کٹیا تھی نہ، اس سے آدھا کوس مزید آگے۔ اتنی بڑھیا چکنی مٹی اب کے نکلی ہے پاہُن کہ تم دیکھتے تو نہال ہو جاتے! اس سال فصل بوئی جاتی، تو کٹّا پیچھے پانچ من ربیع ہوتی۔ میں تو ہاتھ مل کر رہ گیا۔ زمیں داروں نے مغرب کی طرف کچھ جوتا بویا ہے۔ ان کی فصل دیکھ کر سانپ لوٹ جاتا ہے۔ ‘‘

’’ کسانوں نے بھی۔۔۔ ‘‘

’’ نہیں پاہُن، زمیں داروں نے چڑھانے کی تو بہت کوشش کی، لیکن تمہارے خوف سے کوئی تیار نہیں ہوا۔ زمیں داروں کی بھی فصل کو بھلا میں بچنے دوں گا۔ دیکھو تو کیا ہوتا ہے! ترواہی کے کسان خار کھائے ہوئے ہیں۔ تمہارے جیل ہونے کا سب کو صدمہ ہے۔ پولیس والوں نے بھی معمولی تنگ نہیں کیا۔ ذرا آپ چھوٹ تو آؤ، پھر دیکھیں گے کہ کیسے کسی زمیندار کے باپ کی ہمت وہاں پاؤں رکھنے کی ہوتی ہے۔ تمام تیاری ہو رہی ہے، پاہُن! ‘‘

’’ شاباش! ‘‘ مٹرو نے پوجن کی پشت ٹھونک کر کہا، ’’تُو تو بڑا شاطر نکلا رے! میں تو سمجھتا تھا کہ تو بڑا ڈرپوک ہے۔ ‘‘

’’ گنگا میا کا پانی پی کر اور مٹی بدن میں لگا کر بھی کیا کوئی ڈرپوک رہ سکتا ہے پاہُن؟ تم آنا تو دیکھنا! ایک دانہ بھی زمیں داروں کے گھر گیا تو، گنگا میا کی دھار میں ڈوب کر جان دے دوں گا! ہاں! ‘‘

’’ اچھا اچھا اور سب خبریں کہہ۔ بابو جی کو اس سردی پالے میں کا ہے کو لیتا آیا؟ ‘‘ مٹرو نے تشویش سے پوچھا۔

’’ مائی نہیں مانی! گرہن کا سنان اسی حیلے ہو جائے گا۔ وش ناتھ جی کا درشن کر لیں گے۔ زندگی میں ایک تیرتھ تو ہو جائے۔ اب تم اپنی کہو۔ جسم تو ڈھلک گیا ہے۔ ‘‘

’’ کوئی بات نہیں۔ گنگا میا کی کرپا سے سب اچھا ہی کٹ رہا ہے۔ تم سب خیال رکھنا۔ زمیں داروں کے پنجوں میں کسان نہ پھنسیں، کوششیں کرتے رہنا۔ پھر تو آ کر میں دیکھ ہی لوں گا۔ اور بتاؤ تمہاری طرف فصل کا کیا حال چال ہے؟ اوکھ کتنی بوئی ہے؟ ‘‘

’’ ایک پانی پڑ گیا تو فصل اچھی ہو جائے گی۔ اگی تو بہت اچھی تھی، لیکن جب تک رام جی نہ سینچیں، آدمی کے پانی دینے سے کیا ہوتا ہے؟ اوکھ بوئی ہے دو بیگھا۔ اچھی اٹھان ہے۔ کسی بات کی فکر نہیں۔ اب دِیّر کا بھی کچھ اناج بکھار میں پڑا ہے۔ ‘‘

’’ بابو سب کیسے ہیں؟ ‘‘ مٹرو نے لڑکوں کے بارے میں پوچھا۔

’’ بڑے کو اسکول بھیج رہا ہوں۔ اسے لازمی پڑھانا ہے پاہُن! کم از کم ایک آدمی کا گھر میں پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے۔ پٹواری زمیندار جو قانون کی بہت بگھارتے ہیں، اس کا علم حاصل کئے بغیر ان کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ ان پڑھ گنوارسمجھ کر وہ ہر قدم پر ہمیں بیوقوف بنا کر نچوڑتے ہیں۔ ہم اندھوں کی طرح ہکا بکا ہو کر ان کے منہ تکتے رہتے ہیں۔ دِیّر کے بارے میں بھی انہوں نے کوئی قانون نکالا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن کا حق جنگل پر تھا، انہیں کا زمین پر بھی ہے۔ پاہُن اپنی زور زبردستی سے ہی تو وہ جنگل کٹوا کر بیچتے تھے۔ ان کا کیا کوئی سچ مچ کا حق اس پر تھا! پوچھنے پر کہتے ہیں، تم قانون کی بات کیا جانو! بڑے آئے ہیں، قانون بگھارنے والے دیکھیں گے، کیسے فصل کاٹ کر گھر لے جاتے ہیں! ہل کی مُٹھیا تو پکڑی نہیں، مشقت کبھی اٹھائی نہیں، پھر کس حق سے اس کو فصل ملنی چاہئے؟ جن ہلواہیوں نے محنت کی، انہی کا تو اس پر حق ہے! اور پاہُن ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ فصل انہی کے گھر جائے گی! ‘‘

’’ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے! اوہ ہاں، کچھ کھانے پینے کی چیز نہیں لایا؟ ستّو کھانے کو بہت دنوں سے جی کر رہا تھا۔ ‘‘مٹرو نے ہنس کر کہا۔

’’ لایا ہوں، پاہُن تھوڑا ستّو بھی ہے، نیا گڑ اور چیوڑا بھی ہے۔ باہر دروازے پر دھرا لیا ہے۔ کہتا تھا، پہنچ جائے گا۔ تمہیں مل جائے گا نہ پاہُن؟ ‘‘ پوجن نے اپنا شک دور کرنا چاہا۔ دروازے پر وہ جمع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کہتا تھا، خود اپنے ہاتھ سے دے گا۔ افسر نے قانون قاعدے کی بات کی، تو کچھ نہ سمجھ کر بھی جمع کر دیا تھا۔

’’ ہاں، آدھا تو مل ہی جائے گا۔ ‘‘

’’ اور باقی؟ ‘‘ پوجن نے حیرت سے پوچھا۔

’’ باقی قاعدے قانون کی پیٹ میں چلا جائے گا! ‘‘ اتنا کہہ کر وہ زور سے ہنس پڑا۔ بوڑھا سسر اور پوجن اس کا منہ تکتے رہ گئے۔ وہ پھر بولا، ’’اب کی آنا، تو گوپی کے گھر کی خبر لانا نہ بھولنا۔ ‘‘

’’ آؤں گا تو ضرور لاؤں گا۔ مگر پاہُن، آنا اب مشکل ہی معلوم پڑتا ہے۔ فرصت ملتی کہاں ہے؟ اور پھر تم لوگ تو مزے سے ہی ہو۔ ‘‘پوجن نے مجبوری ظاہر کی۔

’’ پھر بھی کوشش کرنا۔ خیر خبریں ملتی رہتی ہیں، تو کسی اور بات کی فکر نہیں رہتی۔۔۔ ‘‘

ملاقات ختم ہونے کی گھنٹی بج اٹھی۔ ہنستے ہوئے آنے والے چہرے اب اداس ہو کر بھاری دل کیلئے لوٹنے لگے۔ کوئی سسک رہا تھا، کوئی آنکھوں کو صاف کر رہا تھا، کوئی ناک چھنک رہا تھا، کسی کی آواز ہی بند ہو گئی تھی۔ پلٹ پلٹ کر وہ دروازے کی طرف ہوئے اپنے رشتے داروں کو حسرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے۔

***

 

 

 

 

آٹھ

 

سدو برس گزرتے گزرتے گوپی کے یہاں مہمانوں کا آنا جانا شروع ہو گیا۔ گوپی ابھی جیل میں ہے، اس کے چھوٹنے میں قریب دو سال مزید ہیں، یہ جان کر بھی وہ مہمان نہ مانتے۔ وہ ستیہ گرہیوں کی طرح دھرنا ڈال دیتے۔ اپاہج باپ سے وہ گذارش کرتے کہ تلک لے لیں۔ گوپی کے چھوٹ کر آنے پر شادی ہو جائے گی۔

وہ دن ماں کی خوشیوں کے ہوتے۔ اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر خوشی کی چمک چھا جاتی۔ وہ دوڑ دھوپ کر کے مہمانوں کی خاطر تواضع کا انتظام کرتی۔ بہو کو حکم دیتی کہ یہ کر وہ کر۔ لیکن بھابھی کے یہ دن بڑی بے چینی کے ہوتے۔ بڑی جھنجھلاہٹ کے ساتھ وہ کام کرتی۔ چہرہ غصے سے تمتمایا رہتا۔ آنکھوں سے چنگاریاں چھوٹا کرتیں۔ ساس سے کبھی سیدھے منہ بات نہ کرتی۔ برتن بھانڈے کو ادھر ادھر پٹک دیتی۔ کبھی کبھی دبی زبان سے یہ بھی کہتی، ’’ابھی جلدی کیا ہے؟ اسے چھوٹ کر تو آنے دو۔ ‘‘ تب ساس پھٹکار دیتی، ’’اس کے آنے نہ آنے سے کیا ہوتا ہے؟ شادی تو کرنی ہی ہے۔ ٹھیک ہو جائے گی، تو ہوتی رہے گی۔ بوڑھے کی زندگی کا کیا ٹھکانہ ہے! ان کے رہتے ٹھیک تو ہو جائے۔ ‘‘

بھابھی سنتی تو اس کے دل و دماغ میں ایک حیوان سا جاگ کر کھڑا ہو جاتا۔ سارا جسم جیسے ایک مجبوری بھرے غضب سے پھنک اٹھتا۔ آتے جاتے پیر زمین پر پٹکتی، گویا ساری دنیا کو چور چور کر دے گی۔ ہونٹ بھینچ جاتے، نتھنے پھول اٹھتے اور نجانے پاگلوں کی طرح کیا کیا بڑبڑاتی رہتی۔

ساس یہ سب دیکھتی تو جل بھن کر کہتی، ’’تیرے یہ سب لچھن ٹھیک نہیں ہیں! مجھے دماغ دکھاتی ہے! جو بھگوان کے گھر سے لے کر آئی تھی، وہی تو سامنے پڑا ہے۔ چاہے رو کر گذار، چاہے ہنس کر، اس سے بھاگ نہیں! بھلے سے رہے گی، تو دو روٹی ملتی رہے گی۔ نہیں تو کسی گھاٹ کی نہ رہے گی، سب تیرے منہ پر تھوکیں گے! ‘‘

’’ تھوکیں گے کیا؟ ‘‘ بھابھی جل بھن کر کہہ اٹھتی، ’’باپ بھائی مر گئے ہیں کیا؟ ان کے کہنے سے نہ گئی، اسی کا تو یہ نتیجہ بھگت رہی ہوں! جہاں جان توڑوں گی وہیں دو روٹی ملے گی! روئیں وہ، جن کے جسم ٹوٹ گئے ہوں۔ ‘‘

اپنے اور اپنے مرد پر پھبتی سنی تو ساس جل بھن کر کوئلہ ہو کر چیخ پڑتی، ’’اچھا! تو چار دن سے جو تُو کچھ کرنے دھرنے لگی ہے، اسی سے تیرا دماغ اتنا چڑھ گیا ہے؟ تو کیا سمجھتی ہے مجھے؟ کسی کے ہاتھ کا پانی پینے والے کوئی اور ہوں گے! مجھ سے بڑھ چڑھ کے باتیں نہ کر! میرے ہاتھ ابھی ٹوٹ نہیں گئے ہیں! تُو جو بھائی باپ پر اترائے رہتی ہے، تو وہاں جا کر بھی دیکھ لے! کرم جلیوں کو کہیں ٹھکانہ نہیں ملتا! اب تجھے کیا معلوم ہے؟ آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گا، تب سمجھے گی کہ کوئی کیا کہتی تھی! میں اس بوڑھے کی بیماری کی وجہ سے مجبور ہوں، نہیں تو دیکھتی کہ تُو کیسے ایک بات زبان سے نکال لیتی ہے! ‘‘

اس رگڑے کا آخری نتیجہ یہ ہوتا کہ یا تو بھابھی اپنے کرم کو کوس کوس کر رونے لگتی یا ساس سسر سنتے، تو بڑبڑانے لگتے، ’’اے بھگوان اس شریر کو اٹھا لو! روز روز کے یہ طعنے سہے نہیں جاتے۔ ‘‘

محلے والوں کو اس گھر سے اب کوئی دلچسپی نہیں رہ گئی تھی۔ روز مرہ کی بات ہو گئی تھی۔ کوئی کہاں تک کھوج خبر لے؟ ہاں، عورتوں کو ضرور کچھ دلچسپی تھی۔ رونا سن کر کوئی آ جاتی، تو بھابھی کو سمجھاتی بجھاتی، ’’اب تمہیں غم کھا کر رہنا چاہئے۔ کون سی ساس دو باتیں بہو کو نہیں کہتی؟ ساس سسر کی خدمت ہی کر کے تو تمہیں زندگی کاٹنی ہے۔ ان سے اختلاف کر کے تم کہاں جاؤ گی؟ بھائی باپ جنم کے ہی ساتھی ہوتے ہیں، کرم کے ساتھی نہیں۔ کرم پھوٹنے پر اپنے بھی پرائے ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ساس سنتی تو بڑی معصوم بن کر کہتی، ’’کوئی پوچھے تو اس سے کہ میں نے کیا کہا ہے؟ تم سب تو جانتی ہی ہو کہ بھلا میں کچھ بولتی ہوں۔ ایک جوان بیٹا اٹھ گیا، دوسرا جیل میں پڑا ہے، وہ ہیں تو سالوں سے چارپائی توڑ رہے ہیں۔ مجھے کیا کسی بات کا ہوش ہے؟ ارے، وہ تو گنہگار جان ہیں، کہ نکلتی ہی نہیں۔ نصیب میں تکلیف سہنی لکھی ہے، تو آسانی سے کیسے مر جاؤں؟ ‘‘ ساس کہنے کو تو سب کچھ بھابھی سے کہہ جاتی، لیکن وہ جانتی تھی کہ کہیں وہ واقعی اگر اپنے باپ کے یہاں چلی گئی، تو مشکل ہو جائے گی۔ کون سنبھالے گا گھر دوار؟ اس کا تو ہاتھ پاؤں ہلنا مشکل تھا۔ سو، بات کو سنوارنے کی غرض سے کہتی، ’’کون سا بڑا کام ہے؟ تین افراد کا کھانا بنانا، کھانا اور کھلانا۔ یہی تو! اس پر بھی مجھ سے جو بن پڑتا ہے، کر ہی دیتی ہوں۔ اب کوئی مجھ سے پوچھے کہ اتنا بھی نہ ہو گا، تو کیا ہو گا؟ کوئی راجا مہاراجہ تو ہم ہیں نہیں کہ بیٹھ کر کھائیں اور کھلائیں۔ ایسا کرنے سے بھلا ہما شُما کا گزر ہو گا؟ ‘‘

’’ نہیں بہو نہیں، تجھے سمجھنا چاہئے کہ ساس جو کہتی ہے، تیرے بھلے ہی کے لئے کہتی ہے۔ جان چرانے کی عادت تجھے نہیں ڈالنی چاہئے۔ بیوہ کی قدر کام سے ہی ہوتی ہے، چام سے نہیں۔ ‘‘وہ عورت کہتی، ’’ بھگوان نہ کرے، کہیں ایسا وقت آن پڑے، تو کہیں کا کوٹ پیس کر عمر تو کاٹ لے گی۔ ‘‘

بھابھی کے کانوں میں یہ باتیں گرم سیسے کی طرح سارا تن من جلاتی چلی جاتیں۔ لیکن وہ کچھ نہ بولتی۔ غیر کے سامنے منہ کھولے، ایسی جرات اس میں نہ تھی۔ وہ چپ چاپ بس ٹھنڈی سانسیں بھرا کرتی۔ وہ بھی کہنے کو باپ کے گھر چلے جانے کی دھمکی ضرور دے دیتی تھی، لیکن سچ تو یہ تھا کہ وہ کہیں بھی جانا نہیں چاہتی تھی۔ اس کے دل میں جانے کیسے ایک امید بیٹھ گئی تھی کہ دیور کے آنے پر شاید کچھ ہو۔

ان ساس، بھابھی کی بھی اپنی اپنی غرض ہی تھی کہ لڑ جھگڑ کر بھی وہ پھر مل جل جاتیں۔ لڑائی کے دن کبھی ساس خفا ہو کر کھانا نہ کھاتی، تو اسے بھابھی منا لیتی اور بھابھی نہ کھاتی تو اسے ساس منا لیتی۔

سسر کو اپنی خدمت چاہئے تھی۔ انہیں وہ مل جایا کرتی تھی۔ بھابھی اپنی خدمت سے ان کو خوش رکھنا چاہتی تھی۔ بوڑھے اس سے خوش بھی رہتے تھے، کیونکہ ایسی خدمت گذاری ان کی عورت سے ممکن نہ تھی۔ وہ بھابھی کی طرفداری بھی گاہے بگاہے کر ہی لیتے تھے۔ وہ گوپی کیلئے آنے والے رشتوں کے بارے میں بھی اس سے باتیں کرتے تھے اور رائے مانگتے تھے۔ ایسے مواقع پر وہ بڑے طریقے سے کہہ دیتی، ’’رشتہ تو برا نہیں، لیکن آدمی برابر کا نہیں ہے۔ لوگ کہیں گے کہ پہلی شادی اچھی جگہ کی اور دوسری بار کہاں جا گرے۔ ‘‘

بوڑھے سسر گھمنڈ کا احساس محسوس کر کے کہتے، ’’سو تو  تُو ٹھیک ہی کہتی ہے، بہو۔ سو جگہ انکار کرنے کے بعد میں نے وہ شادیاں کی تھیں۔ کیا بتاؤں، سب گوٹی ہی بگڑ گئی! گھر اجڑ گیا۔ ایک دغا دے گیا، دوسرا جیل میں پڑا نصیب کاٹ رہا ہے۔ میرے رام لچھمن، سیتا ارملا کی جوڑی ہی ٹوٹ گئی۔ میں بے ہاتھ پاؤں کا ہو گیا۔ ‘‘کہتے کہتے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، ’’اب میرا وہ زمانہ نہ رہا۔ کھیتی گرہستی سب بکھر گئی۔ اب ویسا کون سا ساکھ کا آدمی میرے یہاں رشتہ لے کر آئے گا، کون اتنا تلک جہیز دے گا؟ ‘‘

’’دل چھوٹا نہ کریں، بابو جی، ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ دیور آیا نہیں کہ سنبھال لے گا۔ سب کچھ پھر پہلے کی طرح جم جائے گا۔ تب تو کتنے آ کر ناک رگڑیں گے۔ آپ ذرا صبر سے کام لیں، بابو جی! ابھی جلدی بھی کا ہے کی ہے؟ وہ پہلے چھوٹ کر تو آئے۔ ‘‘

’’ ہاں بہو، یہی سب سوچ کر تو کسی کو زبان نہیں دیتا، لیکن تیری ساس ہے کہ جان کھائے جاتی ہے۔ کہتی ہے کہ زیادہ میں میخ نکالنے سے کام نہ چلے گا۔ اسے جانے کا ہے کی جلدی ہے، جیسے ہم اتنے گئے گزرے ہو گئے ہیں کہ کوئی رشتہ جوڑنے ہی ہمارے یہاں نہ آئے گا۔ کچھ نہیں تو خاندان کی مان تو ابھی ہے۔ نہیں، میں کسی ایسی جگہ نہ پڑوں گا۔ اس کے کہنے سے کیا ہوتا ہے؟ ‘‘ سسر اکڑ کر بولتے۔

انہی دنوں ایک دن شام کو ایک اجنبی آدمی نے آ کر گاؤں کی مغربی سرحد کے تالاب کے کچے چبوترے پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں سے ایک سے پوچھا، ’’گوپی سنگھ کا مکان کس طرف ہو گا۔ ‘‘

گرمیوں کی شام تھی۔ اندھیرا چھا رہا تھا۔ آس پاس گھنے باغات ہونے کی وجہ سے وہاں کچھ زیادہ ہی اندھیرا ہو گیا تھا۔ کھلیان سے چھوٹ کر کسان یہاں آ کر، نہا دھوکر چبوترے پر بیٹھ گئے تھے اور دن بھر کا حال چال سن سنا رہے تھے۔ بہتوں کے تن پر بھیگے کپڑے تھے اور بہتوں نے اپنے بھیگے کپڑے پاس ہی سوکھنے کو ڈال دیئے تھے۔ کئی تو اب بھی تالاب میں غوطہ ہی لگا رہے تھے۔ ان کے کھانسنے کھنکھارنے اور ’’ رام رام‘‘ کہنے اور سیڑھیوں سے پانی کے ہلکوروں کے ٹکرانے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ باغات سے چڑیوں کا شور اٹھ رہا تھا۔ ہوا بند تھی۔ لیکن تالاب کی دانتی پر پھر بھی کچھ تری تھی۔

سوال سن کر سب کی نگاہیں اٹھ گئیں۔ تالاب میں پڑے ہوؤں نے گردنیں اٹھا اٹھا کر دیکھنے کی کوشش کی۔ ایک نے تو پوچھا کہ کون ہے، کس کا مکان پوچھ رہا ہے؟

اجنبی محض ایک لنگی پہنے ہے۔ جسم موٹا تگڑا ہے۔ سینے پر سیاہ گھنے بالوں کا سایہ چھا رہا ہے۔ گلے میں کالی تلڑی ہے۔ چہرہ بڑی بڑی مونچھوں داڑھی سے ڈھکا ہے۔ آنکھوں میں ضرور کچھ رعب اور غرور ہے۔ سر کے بال جٹاؤں کی طرح گردن تک لٹکے ہوئے ہیں۔

جس سے سوال پوچھا گیا تھا، اس نے گوپی کے مکان کا پتہ بتا کر پوچھا، ’’کہاں سے آنا ہوا ہے؟ ‘‘

’’کاشی جی سے آ رہا ہوں۔ وہاں جیل میں تھا۔ ‘‘اجنبی کہہ کر آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ ایک آدمی جیسے جلدی میں پوچھ بیٹھا، ’’ارے بھائی، سنا تھا کہ گوپی بھی کاشی جی کی ہی جیل میں ہے۔ وہاں اس سے تمہاری ملاقات ہوئی تھی کیا؟ ‘‘

اجنبی ٹھٹھک گیا اور بولا، ’’ہم ساتھ ساتھ ہی تھے۔ اسی کی خبر بتانے آیا ہوں۔ ‘‘

یہ سن کر سب کے سب اٹھ کر اس کے چاروں جانب کھڑے ہو گئے۔ تالاب کے اندر سے سب گیلے بدن لیے ہی لپک آئے۔ بہتوں نے ایک ساتھ ہی مشتاق ہو کر پوچھا، ’’کہو بھیا، اس کی خبر۔ اچھی طرح سے تو ہے وہ؟ ‘‘

’’ ہاں، مزے میں ہے۔ کسی بات کی فکر نہیں۔ ‘‘کہتا ہوا اجنبی آگے بڑھا، تو تمام اس کے ساتھ ہو لئے۔ جن کے کپڑے پھیلے ہوئے تھے، انہوں نے اٹھا لیے۔ ایک دوڑ کر آگے اطلاع دینے چلا گیا۔

’’ اس کے سینے میں چوٹ لگی تھی، بھیا، ٹھیک ہو گئی نا؟ ‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘

’’ اور بھی گاؤں کے کئی آدمی اس کے ساتھ جیل گئے تھے۔ کچھ ان کی خبر؟ ‘‘

’’ وہ سب وہاں نہیں ہیں۔ شاید سینٹرل جیل میں ہوں گے۔ ‘‘

’’ تو تم دونوں ساتھ ہی رہتے تھے؟ ‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘

’’ تمہیں کیوں جیل ہوئی تھی بھیا؟ کہاں کے رہنے والے ہو تم؟ ‘‘

’’ زمینداروں سے دِیّر کی زمین کو لے کر جھگڑا ہوا تھا۔ تم لوگوں کو معلوم نہیں کیا؟ ڈھائی تین سال پہلے کی بات ہے۔ مٹرو پہلوان کو تم نہیں جانتے؟ ‘‘

’’ ارے مٹرو پہلوان؟ ‘‘ سبھی حیرانگی سے بول پڑے، ’’جے گنگا جی! ‘‘

’’ جے گنگا جی! ‘‘

’’ سب معلوم ہے بھیا سب! اس کی دھمک تو کوسوں پہنچی تھی۔ تو آپ کو سزا ہو گئی تھی۔ کتنے سالوں کی؟ ‘‘

’’ تین سال کی۔ ‘‘

’’ گوپی کی سزا تو پانچ سال کی تھی نا؟ کب تک چھوٹے گا؟ بیچارے کی گھر گرہستی برباد ہو گئی، جورو بھی مر گئی۔ ‘‘

’’ کیا؟ ‘‘ حیران ہو کر مٹرو بول پڑا۔

’’ تمہیں نہیں معلوم؟ اس کی جورو تو سال اندر ہی مر گئی تھی۔ گوپی کو کسی نے خبر نہیں دی کیا؟ ‘‘

’’ خبر ہوتی تو کیا مجھے نہ کہتا؟ یہ تو بڑی بری خبر سنائی تم نے۔ ‘‘

’’ کوئی اپنے اختیار کی بات ہے بھیا؟ بھائی مرا، جورو مر گئی۔ باپ کو گٹھیا نے ایسا پکڑ لیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ دم کے ساتھ ہی چھوڑے گا۔ جوان بیوہ الگ سسک رہی ہے۔ کیا بتایا جائے، بھیا؟ گوٹی بگڑتی ہے تو عقل کام نہیں کرتی۔ ایک زمانہ ان کا وہ تھا، ایک آج یہ ہے! یاد آتا ہے، تو کلیجہ مسلنے لگتا ہے۔۔۔ ادھر سے آؤ۔ ‘‘

دور سے ہی رونے دھونے کی آواز آنے لگی۔ ماں بھابھی خبر پاتے ہی رونے لگی تھیں۔ پرانی باتوں کو بسور بسور کر وہ رو رہی تھیں۔ سن کر محلے کی جو عورتیں اکٹھی ہوئی تھیں، انہیں سمجھا کر خاموش کرا رہی تھیں۔ باپ کسی طرح اٹھ کر دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئے تھے۔ ان کا دل بھی چپکے چپکے رو رہا تھا۔

کسی نے ایک کھٹولا لا کر بوڑھے کی چارپائی کے پاس ڈال دیا، کسی نے دیپک لا کر طاق پر رکھ دیا۔

مٹرو نے بوڑھے کے پاؤں پکڑ کر پا لاگا۔ بوڑھے نے اسے آسیس دیئے۔ پھر پوچھا، ’’میرا گوپی کیسا ہے؟ ‘‘ اور پھوٹ پھوٹ کر رو اٹھے۔

کتنے ہی لوگ وہاں اپنے پیارے گوپی کی خبر سننے کے لئے جمع ہو گئے تھے۔ مٹرو جیسے گائے کی ہتھیا کر کے بیٹھا ہو، ایسا خاموش بھرا بھرا تھا۔ لوگ بھی آپس میں کچھ نہ کچھ کہہ کر ٹھنڈی سانسیں لینے لگے۔ کچھ بوڑھے کو بھی سمجھانے لگے، ’’تم نہ رو کاکا! تمہاری طبیعت تو ویسے ہی خراب ہے اور خراب ہو جائے گی۔ بہت دن گزرے، تھوڑے دن اور باقی ہیں، کٹ ہی جائیں گے۔ جس بھگوان نے برے دکھائے ہیں، وہی اچھا بھی دکھائے گا۔ ‘‘

’’ پانی وانی توپیو گے نہ بھیا؟ ‘‘ ایک نے پوچھا۔

’’ ارے پوچھتا کیا ہے؟ جلدی گگرا لوٹا لا۔ تھکا ماندہ ہے۔ ‘‘ایک بوڑھے نے کہا، ’’ہاتھ منہ دھوکر ٹھنڈا لو، بیٹا۔ آج رات ٹھہر جاؤ۔ بے چاروں کو ذرا تسلی کو جائے گی۔ ‘‘

مٹرو کے منہ سے ایک لفظ نہیں پھوٹ رہا تھا۔ وہ تو کچھ اور سوچ کر چلا تھا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ وہ کتنے ہی درد کے سوئے ہوئے تاروں کو چھیڑنے جا رہا ہے۔

آہستہ آہستہ کافی دیر بعد درد کی جوش کھاتی ہوئی ندی پرسکون ہوئی۔ ایک ایک کر لوگ ہٹ گئے، تو بوڑھے نے کہا، ’’بیٹا، اب منہ ہاتھ دھو لے۔ تیری مہمان نوازی کرنے والا یہاں کوئی نہیں ہے۔ کچھ خیال نہ کرنا۔ تیری بڑائی ہم سن چکے ہیں۔ تُو خبر دینے آ گیا تو ہم بدنصیبوں کو کچھ آرام ہو گیا۔ بھگوان تجھے خوش رکھیں! ‘‘

ہاتھ منہ دھوکر مٹرو بیٹھا، تو اندر سے ماں نے لا کر گڑ اور دہی کا شربت بھرا گلاس اس کے سامنے رکھ دیا۔ مٹرو نے اس بھی پاؤں چھوئے۔ بوڑھی آنچل سے بہتے ہوئے آنسوؤں کو پونچھتی وہیں کھڑی ہو گئی۔

شربت پی کر مٹرو جیسے خود سے ہی بولنے لگا، ’’کوئی تشویش کی بات نہیں ہے مائی۔ گوپی بہت اچھی طرح ہے۔ ہم تو ایک ہی ساتھ کھاتے پیتے، سوتے جاگتے تھے۔ ایک ہی بات کا اسے دکھ رہتا ہے کہ گھر کی کوئی خیر خبر نہیں ملتی۔ ‘‘

’’ کیا کریں بیٹا؟ جو آنے جانے والا تھا، اسے تو تم دیکھ ہی رہے ہو۔ پہلے اس کے ساس سسر چلے جاتے تھے۔ ادھر وہ بھی موٹا گئے ہیں۔ کیا مطلب ہے انہیں اب ہم سے۔ ‘‘ساس سسکتی ہوئی بولی۔

’’ ارے، تو چٹھی پتری تو بھیجنی تھی؟ ‘‘

’’ ہمیں کیا معلوم بیٹا؟ تو چٹھی پتری وہاں جاتی ہے؟ ‘‘

’’ ہاں ہاں، کیوں نہیں؟ مہینے میں ایک چٹھی تو ملتی ہی ہے۔ ‘‘

’’ تو کل ہی لکھا کر بھجواؤں گی۔ ‘‘

’’ ابھی رہنے دو۔ میں بھجوا دوں گا۔ تم لوگوں کو کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہاں، سنا ہے کہ اس کی جورو بھی نہیں رہی۔ اسے تو کوئی خبر نہیں۔ ‘‘

’’ میں نے ہی منع کر دیا تھا بیٹا! دکھ کی خبر کیسے کہلواتی۔ وہاں تو کوئی سمجھانے بجھانے بھی اسے نہ ملتا۔ ‘‘

’’ ارے، جورو کا کیا؟ ‘‘ بوڑھے بولے، ’’وہ چھوٹ کر تو آئے۔ یہاں تو کتنے ہی روز ناک رگڑنے آتے ہیں۔ دوبارہ ایسی بہو لا دوں گا کہ۔۔۔ ‘‘

’’ نہیں کاکا، اب کے تو اس کی شادی میں کرواؤں گا۔ تم بیمار آدمی ہو آرام کرو۔ میں سب کچھ کر لوں گا۔ اسے آنے تو دو۔ تمہیں کیا معلوم کہ اسے میں اپنے چھوٹے بھائی سے بھی زیادہ مانتا ہوں۔ اور کاکا، وہ بھی مجھے کم نہیں مانتا۔ ہاں، اس کی بھابھی تو اچھی ہے؟ اسے وہ بہت یاد کرتا ہے۔ ‘‘

دروازے کی اوٹ میں کھڑی بھابھی سب سن رہی ہے، یہ کسی کو معلوم نہ تھا۔

بوڑھی بولی، ’’اس کا اب کیا اچھا اور کیا برا، بیٹا؟ کرم جب دغا دے گیا تو کیا رہ گیا اس کی زندگی میں؟ جب تک جئے گی، پڑی رہے گی۔ اس کے بھائی باپ نے بھی ادھر کوئی خبر نہ لی۔ ‘‘

’’ گوپی کو اس کی بہت فکر رہتی ہے۔ بیچارہ رات دن بھابھی بھابھی کی رٹ لگائے رہتا ہے۔ ان دونوں میں بہت محبت تھی کیا؟ ‘‘ مٹرو نے پوچھا۔

’’ ارے بیٹا، بہو ہے ہی ایسی مخلوق۔ ایکدم گائے! ‘‘ بوڑھے بول پڑے، ’’اسی کی خدمت پر تو میرا دم اڑا ہے۔ اس کی سونی مانگ دیکھ کر میرا کلیجہ پھٹتا ہے۔ اسی عمر میں ایسی مصیبت آن پڑی بیچاری پر۔ پھر بھی بیٹا، میرے رہتے اسے کوئی دکھ نہ ہونے پائے گا۔ وہ میری بڑی بہو ہے، ایک دن گھر کی مالکن بنے گی۔ وہ دیوی ہے، دیوی! ‘‘

بوڑھی دل ہی دل سب سن کر کڑھتی رہی۔ جب سہا نہ گیا، تو بولی ’’کھیکا تیار ہے۔ ابھی کھاؤ گے یا۔۔۔ ‘‘

***

 

 

 

 

نو

 

ترواہی کے کسانوں میں قدرتی طور پر خود سری اور بہادری ہوتی ہے۔ کھلے ہوئے کوسوں پھیلے میدانوں، جھاؤں اور سرکنڈے کے جنگلوں اور ندی سے ان کا لڑکپن میں ہی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ نڈر ہو کر جنگلوں میں گائے بھینس چرانے، گھاس لکڑی کاٹنے، ندی میں نہانے، کشتی چلانے، اکھاڑے میں لڑنے، بھینس کا دودھ پینے سے ہی ان کی زندگی کی ابتدا ہوتی ہے اور انہی کے درمیان گزر بھی جاتی ہے۔ فطرت کی گود میں کھیلنے، صاف ہوا میں سانس لینے، شفاف پانی پینے، دودھ دہی کی افراط اور کسرت کے شوق کی وجہ سے سبھی ہٹے کٹے، مضبوط اور مزاج کے اکھڑ ہوتے ہیں۔ وسیع جنگلوں اور میدانوں کا پھیلاؤ ان کے دل و دماغ میں بھی جیسے خودسری اور آزادی کا بے پایاں احساس بچپن میں ہی بھر دیتا ہے۔ پھر زمیندار کی بستی وہاں سے کہیں دور ہوتی ہے۔ وہاں سے وہ ان پر وہ زور زبردستی، ظلم زیادتی کی چانڑ نہیں چڑھا پاتے، جو آس پاس کے کسانوں کو غلام بنا دیتی ہے۔ بلکہ اس کے برعکس زمیندار وہاں کے اسامیوں سے دل ہی دل ڈرتے ہیں۔ ان کی طاقت، ان کے ماحول، ان کے اکھڑ پن اور مر مٹنے کی خواہش کے آگے، زمیندار جانتے ہیں کہ ان کا کوئی بس نہیں چل سکتا۔ اسی وجہ سے وہ ان کے ساتھ سمجھوتے سے رہتے ہیں، کہیں وہ زیادتی بھی کر جاتے ہیں، لگان نہیں دیتے، یا آدھا پونا دیتے ہیں، تو بھی نظرانداز کر جاتے ہیں، ان سے بھڑنے کی ہمت نہیں کرتے۔ پولیس بھی براہ راست ان کے مقابلے میں کھڑے ہونے سے کنارہ کشی کرتی ہے۔ بہت ہوا، وہ بھی جب کسی زمیندار نے ضرورت سے زیادہ ان کی مٹھی گرم کر دی تو پولیس نے لک چھپ کر دھوکے دہی سے ایک آدھ کو پکڑ کر اپنے وجود کا احساس کرا دیا۔ اس سے زیادہ نہیں۔

وہ جتنے خودسر، آزاد اور طاقتور ہوتے ہیں، اتنے ہی زیادہ بیوقوف بھی۔ بات بات میں لاٹھی اٹھا لینا، خون کھچّر کر دینا، ایک دوسرے سے لڑ جانا، فصلیں کاٹ لینا، کھلیانوں میں آگ لگا دینا یا کسی کو لوٹ لینا آئے دن کی باتیں ہوتی ہیں۔ دماغ لگا کر، سوچ و فکر کے بعد وہ کوئی معاملہ طے کرنا جانتے ہی نہیں! وہ سمجھتے ہیں کہ ہر مرض کی دوا لاٹھی ہے، طاقت ہے۔ جدھر آگے آگے کوئی بھاگا، سب اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ جن کے منہ سے پہلے بات نکل گئی، سب اسی کو لے اڑتے ہیں۔ کوئی دلیل، کوئی بحث و مباحثہ، کوئی بات چیت، کوئی معاہدہ سمجھوتہ، وہ جانتے ہی نہیں۔ بات پر اَڑنا اور جان دے کر اسے نباہنا وہ جانتے ہیں۔ ان کے یہاں اگر کسی بات کی قدر ہے تو وہ ہے طاقت کی، جرات کی، مر مٹنے کے احساس کی۔ ان کا رہنما وہی ہو سکتا ہے، جس میں سب سے زیادہ قوت ہو، دنگل مارا ہو، محاذ پر آگے آگے لاٹھیاں چلائی ہوں، بھری ندی کو پار کر گیا ہو، گھڑیالوں کو پچھاڑ دیا ہو، کسی بڑے زمیندار سے بھڑ گیا ہو، اسے تھپڑ مار دیا ہو، یا سرِعام گالی دے کر اس کی عزت اتار دی ہو۔

ان کی سب سے بڑی کمزوری کھیت اور بیل بھینس ہیں۔ کھیتوں پر یہ جان دیتے ہیں۔ کسی بھی قیمت پر کھیت لینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ ان کی اس کمزوری سے زمیندار اکثر فائدہ اٹھاتے ہیں، انہیں بیوقوف بناتے ہیں۔ ایک بیل یا بھینس خریدنی ہوئی تو جھنڈ بنا کر، ستّو پسان باندھ کر نکلیں گے۔ مول بھاؤ کریں گے اسی اکھڑ پنے کے ساتھ۔ جو دام وہ مناسب سمجھیں گے، اس کے علاوہ کوئی اور دام مناسب ہو ہی کیسے سکتا ہے؟ وہ اَڑ جائیں گے، دھرنا دے دیں گا، دھمکائیں گے، لاٹھیاں چمکائیں گے۔ بیچنے والا مان گیا، تو ٹھیک۔ ورنہ رات برات وہ اسے کھونٹے سے کھول کر تڑی کر دیں گے اور دِیّر کے جنگل میں اسے کہیں چھپا کر اپنی بہادری کا کارنامہ بیان کریں گے اورسنیں گے۔ وہاں یہ کام کسی بھی لحاظ سے برا نہیں سمجھا جاتا۔

مٹرو نے جب انہیں دِیّر کے کھیتوں کے بارے میں سمجھایا تھا، تو چونکہ یہ ایک پہلوان، بہادر، نڈر اور ’’ گنگا میا‘‘ کے بھکت کی بات تھی، وہ خاموش ہو گئے تھے۔ پھر مٹرو کے جیل چلے جانے کے بعد زمیں داروں کی دوسری باتیں ان کی سمجھ میں کیسی آتیں؟ یہاں تک کہ زمیں داروں نے انہیں لالچ دیا کہ وہ جہاں چاہیں، کھیتی کاری کریں اور کچھ نہ دیں۔ پھر بھی وہ اکڑ گئے۔ سب کی اب ایک ہی رٹ تھی کہ مٹرو پہلوان جب لوٹ کر آئے گا، وہ جیسا کہے گا ویسا ہی ہو گا۔ اس کے آنے سے پہلے کچھ نہیں۔

پوجن نے بھی چاہا تھا کہ مٹرو کا کام جاری رکھے۔ لیکن مٹرو کی طرح اس میں ہمت اور طاقت نہ تھی کہ وہ اکیلے کٹیا کھڑی کر کے ندی کے کنارے پر جنگلوں کے درمیان، زمیں داروں سے دشمنی مول لے کر رہے اور کھیتی کرے۔ اس لئے اس نے کوشش کی ؂ کہ دس بیس کسان مزید اس کے ساتھ کنارے پر رہنے، کھیتی کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ لیکن مٹرو کے نام پر بھی تیار نہ ہوئے تھے۔ جیسے ایک سیار بولتا ہے، تو سارے سیار اسی کی دھن میں بولنے لگتے ہیں، اسی طرح مٹرو کے آنے سے پہلے اس سمت میں وہ کوئی قدم اٹھانے کیلئے تیار نہ تھے۔

مجبور ہو کر، اپنا دبدبہ قائم رکھنے کیلئے تب زمیں داروں نے خود ہی وہاں اپنی کھیتی کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ کام کچھ کچھ شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنے کے ہی برابر تھا۔ عام حالات میں وہ ایسا کبھی نہ کرتے۔ لیکن اب صورت ہی ایسی آن پڑی تھی کہ وہ کچھ نہ کرتے تو یہ اندیشہ تھا کہ دِیّر میں ان کے دب جانے کی بات اٹھ جاتی اور کر کری ہو جاتی۔ پھر سارا کھیل چوپٹ ہو جاتا۔ سبھی کئے دھرے پر پانی پھر جاتا۔ سو، انہوں نے وہاں اپنی کٹیا کھڑی کروائی۔ اپنے آدمی اور ہل بھجوا کر جوتوایا، بووایا اور تنخواہ پر کچھ مضبوط آدمیوں کو حفاظت کے لئے وہاں رکھا۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ جب تک ترواہی کے کسانوں سے ان کا رویہ ٹھیک نہ رہے گا، تب تک کچھ بچنا مشکل ہے۔ انہوں نے پہلے بھی کوشش کی تھی کہ کم از کم حفاظت کا ذمہ وہاں ہی کا کوئی آدمی لے لے، لیکن کوئی تیار نہیں ہوا تھا۔ اس طرح زمیں داروں کو کافی خرچ کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ اگر فصل کٹ کر صحیح سلامت گھر آ جائے تو بھی اس کا دام خرچ سے کم ہی ہو۔ پھر بھی انہوں نے ایسا ہی کیا۔ دبدبہ قائم رکھنا ضروری تھا۔ دبدبہ نہ رہا تو زمینداری کیسے رہ سکتی ہے؟

فصل اگی، بڑھی اور دیکھتے دیکھتے ہی چھاتی بھر کھڑی ہو کر لہرا اٹھی۔ ترواہی کے کسانوں نے دیکھا، تو ان کی چھاتیوں پر سانپ لوٹ گئے۔ انہیں ایسا لگا، جیسے کسی نے ان کے اپنے کھیت پر ہی قبضہ کر کے یہ فصل بوئی ہو، جیسے ان کے گھر سے ہی کوئی اناج کی بوریاں اٹھائے لے جا رہا ہو اور وہ مجبور ہو کر بس دیکھتے ہی جا رہے ہوں۔

ایسے موقع کا فائدہ پوجن نے اٹھایا۔ مٹرو کے ساتھ تعلق ہونے کی وجہ سے اس کا مان آخر کچھ کسانوں میں ہو ہی گیا تھا۔ اس نے چپکے چپکے کسانوں میں بات چھیڑ دی، ’’باہر کے آدمی ہماری آنکھوں کے ہی سامنے ہماری گنگا میا کی زمین سے فصل کاٹ لے جائیں! ڈوب مرنے کا مقام ہے! اور یاد رکھو، اگر ایک بار بھی فصل کٹ کر زمیں داروں کے گھر پہنچ گئی، تو ان کا دماغ چڑھ جائے گا! مٹرو پاہُن کے آنے میں ابھی سالوں کی دیر ہے۔ اس وقت تک یہ ساری زمین ان کے قبضے میں ہی چلی جائے گی۔ آدمی کے خون کا چسکا لگ جانے پر گھڑیال کی جو حالت ہوتی ہے، وہی زمیں داروں کی ہو گی۔ تم لوگ تب مٹرو مٹرو کی رٹ لگاتے رہو گے اور کچھ نہ ہو گا۔ ایسے موقع پر مٹرو ہی آ کر کیا کر لیں گے؟ ذرا تم لوگ بھی تو سوچو۔ تم اتنا تو کر سکتے ہو کہ فصل زمیں داروں کے گھر میں نہ جانے پائے۔ ‘‘

یہ کسانوں کے من کی بات تھی۔ پوجن کی بات ان کے من میں اتر گئی۔ بہت سے جوانوں نے پوجن کا ساتھ دینے کا عہد کیا۔ تمام تیاری ہو گئیں۔ اور جب فصل تیار ہوئی، تو ایک رات کٹ کر، کشتیوں پر لد کر پار پہنچ گئی۔ رکھوالے دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ جان دینے کی بیوقوفی وہ زمیں داروں کے لئے کیوں کرتے؟

دوسرے دن ایک شور اٹھا۔ ایک آدھ لال پگڑی بھی مکھیا کے یہاں دکھائی دی اور پھر سب کچھ شانت ہو گیا۔ کہیں سے کوئی سراغ کیسے ملتا؟ تمام کسانوں کی چھاتیاں ٹھنڈی ہو گئی تھیں۔ کہہ دیا کہ کاٹنے والے، ہو نہ ہو پار سے آئے ہوں گے۔ ندی کنارے کئی جگہ ڈانٹھ پڑے ہوئے ملے ہیں۔ رات ہی رات لاد لُود کر چمپت ہو گئے۔ ان کو تو خبر تک نہ لگی۔ لگی ہوتی تو ایک آدھ لاٹھی تو بج ہی جاتی۔

جوانوں کامن بڑھ گیا۔ جھاؤں اور سرکنڈوں کے جنگلوں پر بھی انہوں نے رات برات ہاتھ صاف کرنا شروع کر دیا اور کہیں کہیں تو محض دل کی جلن شانت کرنے کیلئے آگ بھی لگا دی۔

زمیندار سنتے اور اینٹھ کر رہ جاتے۔ ایسی بے بسی سے تو ان کا کبھی پالا ہی نہ پڑا تھا۔ ایک بار پولیس کی مٹھی گرم کرنے کا جو آخری نتیجہ ہوا تھا، انہوں نے دیکھ لیا تھا۔ اب پھر اسے دوہرا کر کوئی فائدہ کیسے دیکھتے؟

اب پوجن کی قدر وہاں بڑھ گئی۔ لیکن پوجن بھی اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکا۔ زمیندار بھی خاموشی اختیار کئے ہوئے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں ہونے کا۔ اگر وہ شانت رہے تو ممکن ہے کہ کسان بھی شانت ہو جائیں اور پھر پہلے ہی جیسے حالت سدھر جائے۔ ان کی جانب سے کوئی پہل نہ دیکھ کر کسان بھی لاتعلق ہو کر مٹرو کا انتظار کرنے لگے۔ وہی آئے تو آگے کچھ کیا جائے۔ یوں اس سال کے بعد وہاں کوئی قابل ذکر واقعہ نہیں پیش آیا۔

گوپی کے گھر مٹرو کا وہ وقت بڑی بے کلی سے کٹا۔ اسٹیشن پر مٹرو کی گاڑی تیسرے پہر پہنچی تھی۔ وہاں سے اس کا دِیّر دس کوس پر تھا۔ ایک پل بھی راستے میں وہ نہ کہیں رکا، نہ سستایا۔ پریتوں کی طرح چلتا رہا۔ گنگا میا کی لہریں اسے اسی طرح اپنی طرف کھینچ رہی تھیں، جیسے کئی سالوں سے بچھڑے پردیسی کو اس کی محبوبہ۔ وہ بھاگم بھاگ، جلد از جلد گنگا میا کی گود میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اوہ، کتنے دن ہو گئے! وہ ہوا، وہ پانی، وہ مٹی، وہ گنگا میا۔ کاش، اس کے پنکھ ہوتے!

راستے میں ہی گوپی کا گھر پڑتا تھا۔ سوچا تھا کہ پانچ چھ منٹوں میں خیر خبر لے دے کر، وہ پھر بھاگ کھڑا ہو گا اور گھڑی دو گھڑی رات گزارتے گنگا میا کا کچھار پکڑ لے گا۔ لیکن گوپی کے گھر ایسی صورت حال سے اس کا پالا پڑ گیا کہ اسے رک جانا پڑا۔ ان دکھی لوگوں کو چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہونا کوئی آسان کام نہ تھا۔ دل رہ رہ کر دکھی ہو رہا تھا، لیکن نہ رک سکنے کی بات اس کے منہ سے نہ نکلی۔ ان کی مہمان نوازی کو ٹھکرا کر، ان دکھی دلوں کو چوٹ پہچانا۔ ایسا دل مٹرو کے پاس کہاں تھا؟

کھا پی کر گوپی کی ماں اور باپ کے ساتھ رات گئے تک گفتگو چلتی رہی۔ آخر جب وہ تھک گئے، تو ماں سونے چلی گئی اور باپ خراٹے لینے لگے، تو مٹرو نے سونے کی کوشش کی۔ مگر نیند کہاں؟ دل و دماغ اسی دِیّر میں بھٹکنے لگے۔ وہ ندی، وہ جنگل، وہ ہوا مٹی جیسے سب وہاں بازو پھیلائے کھڑے مٹرو کو گود میں بھر لینے کو تڑپ رہے ہیں اور مٹرو ہے کہ اتنے قریب آ کر بھی سب کو بھلائے یہاں پڑا ہوا ہے۔ ’’ آؤ، آؤ! دوڑ کر چلے آؤ بیٹا! کتنے دنوں سے ہم تم سے بچھڑ کر تڑپ رہے ہیں! آؤ، جلدی آ کر ہمارے کلیجے سے چپک جاؤ! آؤ! آؤ! ‘‘ اور اس ’’ آؤ‘‘ کی پکار اتنی تیز اور بلند ہو کر مٹرو کے کانوں میں گونج اٹھی کہ اس کا رواں رواں تڑپ اٹھا۔ وہ پریشان ہو کر اٹھ بیٹھا۔ آنکھیں پھاڑ کر چاروں جانب کچھ ایسا دیکھا کہ کہیں یہ پکار پاس سے ہی تو نہیں آئی ہے، کہیں یہ جان کر کہ مٹرو پاس آ کر یوں پڑا ہوا ہے، گنگا میا خود ہی تو نہیں چلی آئیں؟

مٹرو اٹھ کھڑا ہوا اور ایسے بھاگ چلا، جیسے اسے ڈر ہو کہ پھر کہیں کوئی اسے پکڑ کر نہ بیٹھا لے۔ چاروں جانب سناٹا اور اندھیرا چھایا تھا۔ کہیں کچھ سوجھ نہ رہا تھا۔ پھر بھی مٹرو کے پیروں کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کی گنگا میا تک پہنچنے کی سمت کون سی ہے۔ پھر ان فولادی پاؤں کے لئے راستہ بنا لینا کیا مشکل بات تھی؟

کٹے ہوئے کھیتوں سے مٹرو بری طرح بھاگا جا رہا تھا۔ ایک لمحے کی دیر بھی اب اسے برداشت نہ تھی۔ پیروں میں کنکریاں گڑ رہی ہے، کہیں کچھ دکھائی نہیں دیتا، ہوش و حواس ٹھکانے نہیں ہیں۔ پھر بھی وہ بھاگا جا رہا ہے۔ آنکھوں کے سامنے بس گنگا میا کی دھارا چمک رہی ہے، من بس ایک ہی بات کی رٹ لگائے ہوئے ہے ’’آ گیا، ماں، آ گیا! ‘‘

نیند سے بھری زمین گرم گرم سانس لے رہی ہے۔ تاریکی کی سیج پر ہوا سو گئی ہے۔ گرمی سے پریشان رات جیسے رہ رہ کر جمائی لے رہی ہے۔ اُمس بھراسناٹا اونگھ رہا ہے اور روح میں ملن کی تڑپ لئے مٹرو بھاگا جا رہا ہے۔ پسینے کی دھاریں بدن سے بہہ رہی ہیں۔ بھیگی آنکھوں کے سامنے تاریکی میں گنگا میا کی لہریں بازو پھیلائے، اسے اپنے گود میں سما لینے کو بڑھی چلی آ رہی ہیں۔ اوپر سے ستارے پلکیں جھپکاتے یہ دیکھ رہے ہیں۔ لیکن مٹرو، گنگا میا کے سوا کچھ نہیں دیکھ رہا ہے۔ اس کے کانوں میں ماں کی پکار گونج رہی ہے۔ اس کی روح جلد از جلد ماں کی گود تک پہنچ جانے کو تڑپ رہی ہے۔ وہ بھاگا جا رہا ہے، وہ بھاگا جا رہا ہے۔۔۔

یہ دِیّر کی ہوا کی خوشبو ہے۔ یہ دِیّر کی مٹی کی خوشبو ہے۔ یہ گنگا میا کے آنچل کی خوشبو ہے۔ مٹرو کی روح جیسے سودائی ہو اٹھی۔ روئیں جیسے بے قابو ہو کر اکڑ گئے۔ اس کے پیروں میں بجلی بھر گئی۔ وہ آندھی کی طرح پکارتا دوڑا، ’’ماں! ماں! ‘‘

لہروں کی گونج سنائی دی، ’’بیٹا! بیٹا! ‘‘

سمتوں نے بازگشت کی، ’’بیٹا! بیٹا! ‘‘

زمین پکار اٹھی، ’’بیٹا! بیٹا! ‘‘

آسمان اور زمین جیسے کروڑوں ترستی ماؤں اور بیٹوں کی پکاروں سے گونج اٹھے، جیسے دسیوں جہتیں پکارتی ہوئی دوڑ کر مٹرو کے گلے سے لپٹ گئیں۔ مٹرو ایک بھوکے بچے کی طرح لپک کر، گنگا میا کی گود میں کود پڑا۔ گنگا میا نے بیٹے کو اپنی گود میں ایسے کس لیا، جیسے اپنے تن من روح میں ہی اسے سموکر دم لے گی۔ یہ موجوں کی آوازیں نہیں تھیں، ماں کی پچکاروں اوربوسوں کی صدائیں ہیں۔ جہتیں جھوم رہی ہیں۔ ہوا گنگنا رہی ہے۔ مٹی کھلکھلا رہی ہے، ’’ آ گیا! ہمارا بیٹا آ گیا! ہمارا لاڈلا آ گیا! ‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

حصہ چہارم

 

 

دس

 

 

یہ کتنی نا ممکن بات تھی، بھابھی جانتی تھی۔ پھر بھی اس بات کو اپنے دل میں پالے جا رہی تھی۔ آخر کیوں؟

آدمی کیلئے جینے کا سہارا اسی طرح ضروری ہے، جیسے ہوا اور پانی۔ کسی کے پاس کوئی حقیقی سہارا نہیں ہوتا، تو وہ فرضی سہارے کاہی سہارا لیتا ہے۔ وہ ایک تخیل، ایک خواب کا سہارا سامنے کھڑا کر لیتا ہے۔ سبھی تخیل اور خواب کسی ٹھوس بنیاد پر ہی تعمیر ہوں، ایسی بات نہیں۔ بہت سی خواہشوں اور خوابوں کی بنیاد بھی خودساختہ، خیالی اور خوابیدہ ہوتی ہے۔ لیکن انسان انہی سے زندگی کی حقیقی طاقت حاصل کر کے جیتا رہتا ہے۔ کون جانے اس عجیب دنیا میں کہیں بے بنیاد تخیل اور خواب بھی ایک دن کامل ہو جائیں!

یہی بات صحیح ہے کہ اس طرح کے سہارے کی تخلیق آدمی اسی حالت میں کرتا ہے، جب اس کے لئے کوئی دوسرا چارہ ہی نہیں رہ جاتا۔ جینے کی قدرتی غیر متزلزل چاہت آدمی کو مجبور کرتی ہے کہ وہ ایسا کرے۔ کیا بھابھی کی حالت ایسی ہی نہیں تھی؟ پھر وہ ایسا کر رہی تھی، تو اس میں غیر فطری کیا ہے؟

جس دن اس نے مٹرو کے منہ سے گوپی کی وہ چند باتیں سنی تھیں، اسی دن سے جیسے، بہت پہلے سے اس کے دل میں اُگے اس شگوفے کو ان باتوں نے امرت بن کر سینچنا شروع کر دیا تھا۔ یہ باتیں اس کی زندگی کے ویران تاروں کو ہر لمحہ مربوط کرتی رہتیں! اس کے ہونٹ ہمیشہ کسی منتر کی طرح دوہرایا کرتے، ’’گوپی کو اس کی بہت فکر رہتی ہے۔ بیچارہ رات دن بھابھی بھابھی کی رٹ لگائے رہتا ہے۔۔۔ ان دونوں میں بہت محبت تھی کیا؟ ‘‘ اور اس کے جسم و جان جیسے ایک مدھر موسیقی کے امرت میں نہا اٹھتے۔ روح جیسے مضطرب ہو کر پکار اٹھتی، ’’ہاں، محبت تھی، بہت۔۔۔ پردیسی، تو اسے خط لکھنا، تو میری طرف سے یہ لکھ دینا کہ مجھے بھی اس کی فکر لگی رہتی ہے۔ میری جان بھی رات دن اسی کی رٹ لگائے رہتے ہیں۔۔۔ ہاں، پردیسی، ہم میں بہت محبت تھی، بہت!‘‘

بھابھی کو اس منتر کے جاپ نے بہت تبدیل کر دیا تھا۔ وہ چڑچڑا پن، وہ کڑواپن، وہ جھنجھلاہٹ، وہ غصہ، وہ بے رخی اب ختم ہو گئی تھی۔ اب وہ خود میں جوش و جذبہ محسوس کرتی، کام میں کچھ مزہ لیتی، پوجاپاٹھ کا کچھ مطلب سمجھتی، ساس سسر کی خدمت گذاری میں اسے کچھ اجر دکھائی دیتا۔ بیکار جاتی زندگی کی کچھ وقعت کا احساس ہوتا، کوئی ہے، جو اس کی بہت بہت فکر کرتا ہے، اس کی رات دن رٹ لگائے رہتا ہے۔ کوئی ہے، کوئی تو ہے۔۔۔

گھر میں موجوداختلاف مٹ گئے۔ سب کچھ صحیح طریقے چلنے لگا۔ ساس کو کوئی شکایت نہیں رہ گئی۔ پکا پکایا دونوں وقت، میٹھی میٹھی التفات بھری باتیں، ہر حکم پر ایک پاؤں پر کھڑی بہو، کبھی ہلنے ڈلنے کا موقع نہ دینے والی، رات دیر تک ابٹن کی مالش! نصیب پھوٹی بہو گھر کی لکشمی نہ بن جائے تو کیا بنے؟ سسر تو پہلے ہی اس کی اطاعت گذاری کے غلام تھے۔ وہ جانتے تھے کہ جس دن بہو نے ہاتھ کھینچا، وہ کل مرنے والے ہوں گے، تو آج ہی مر جائیں گے۔ بیوی کے بس کی بات کہاں رہ گئی تھی۔ بلکہ وہ تو ان کی لمبی بیماری سے عاجز آ کر کبھی کبھی ایسے ظاہر کرنے لگتی کہ جیسے بوڑھا بوجھ ہو گیا ہو۔ بہو کی بہترین تیمار داری نے تو واقعی ان میں یہ امید پیدا کر دی تھی کہ وہ بچ جائیں گے۔ ان کے منہ سے ہر لمحہ دعاؤں کے الفاظ جھڑا کرتے۔

کبھی کبھی ان دعاؤں سے ایک نوع کی کلبلاہٹ محسوس کر کے بھابھی پوچھ بیٹھتی، ’’بابو جی، مجھ ابھاگن کو آپ ایسی دعائیں کیوں دیتے ہیں؟ ‘‘

بوڑھے کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے۔ بے چین ہو کر وہ بولتے، ’’میں جانتا ہوں، بہو، کہ یہ بنجر زمین کو سینچنا ہے۔ لیکن اپنے من کو کیا کہوں؟ مانتا ہی نہیں، بہو میں تو ہمیشہ یہی دعا کرتا ہوں کہ تُو خوش رہے! ‘‘

ایک پھیکی مسکراہٹ ہونٹوں پر لا کر بھابھی کہتی، ’’سکھ تو انہی کے ساتھ چلا گیا، بابو جی! ‘‘ اور ٹپ ٹپ آنسو بہانے لگتی۔

’’ تُوسچ کہتی ہے بہو، ’’بوڑھے روندھی آواز سے کہتے، ’’عورت کا لوک پرلوک مرد سے ہی ہے۔ ‘‘

انکے گھٹنے پر سر رکھ کر بلکتی ہوئی بھابھی کہتی، ’’میرا لوک پرلوک دونوں ختم گیا، بابو جی۔ آپ مجھے آسیس دیجئے کہ جتنی جلدی ممکن ہو، اس دنیا سے چھٹکارا مل جائے! ‘‘

’’ نہیں، بہو، نہیں! تُو بھی اس اپاہج بوڑھے کو چھوڑ کر چلی جانا چاہتی ہے؟ ‘‘ بوڑھے نے کانپتے لہجے میں کہا۔

سر اٹھا کر آنچل سے آنسو پونچھتی بھابھی کہتی، ’’دیور کی نئی بہو آئے گی۔ وہ کیا آپ کی خدمت مجھ سے کم کرے گی؟ ‘‘

’’ کون جانے، بہو کیسی آئے گی؟ تُو تو پچھلے جنم کی میری بیٹی تھی۔ نہ جانے کتنا گنگا نہا کر اس جنم میں تجھے بہو کے روپ میں پایا! ‘‘ بوڑھے گدگدا کر کہتے، ’’دوسرے کی بیٹی اس طرح کسی کی خدمت کر سکتی ہے؟ یہ تو میری خوش قسمتی ہے بیٹی، کہ تجھ سی بہو مجھے ملی۔ نہیں تو کون جانے اب تک میری مٹی کہاں گل سڑ گئی ہوتی۔ ‘‘

’’ میرا بدقسمتی بھی تو یہی ہے بابو جی، کہ ساری عمر مصیبت جھیلنے کے لئے جی رہی ہوں۔ روح نہیں نکلتی۔ روز مناتی ہوں کہ کب یہ روح نکلے کہ زندگی سے چھٹکارا پاؤں! آخر اب میری زندگی میں کیا بچ گیا ہے، جس کی وجہ سے روح اٹکی رہے! ‘‘ بھابھی نڈھال ہو کر کہتی۔

’’ اپنی سوچ سے کوئی نہیں مرتا جیتا،ا رے پگلی! ‘‘ بوڑھے اسے تسلی دیتے، ’’ جانے کس کے نصیب سے تُو جی رہی ہے۔ میرے من میں تو آتا ہے کہ میرے نصیب سے ہی تُو زندہ ہے۔ رام جی نے مجھے ایسا مرض دیا، تو اس کے ساتھ تجھ سی بہو بھی دی، کہ رات دن خدمت کر سکے۔ بہو، اپنے چاہنے، نہ چاہنے سے کیا ہوتا ہے؟ جو رام جی چاہتے ہیں، وہی ہوتا ہے۔ کون جانے رام جی کی اس میں کیا مرضی ہو! بہو، میں تو سوچوں کہ میری ہی خدمت کیلئے پیدا ہوئی۔ ہاں ری، ایسا لگتا وقت تجھے گوپی کا خیال نہیں آتا؟ تم دونوں میں کتنی محبت تھی! مٹرو اس دن کہتا کہ گوپی کو تیری بہت فکر رہتی ہے۔ بہو، وہ تجھے بہت مانتا ہے۔ جب تک وہ جیے گا، تجھے کوئی تکلیف نہ ہونے دے گا۔ خاطر جمع رکھ۔ ‘‘

’’ کون جانے، بابو جی مقدر اور نصیب میں کیا لکھا ہے؟ دیور جی کا پیار مجھے بھی کم نہیں لگتا۔ اسے ایک بار دیکھ لیتی، پھر مر جاتی۔ جانے یہ نئی بہو کیسی آئے۔ اس کا رویہ میرے ساتھ کیسا ہو۔ مجھ سے تو کچھ سہا نہ جائے گا، بابو جی! کہیں دیور کا من میلا ہوا، تو میں تو کہیں کی نہ رہوں گی۔ ‘‘بھابھی پھر سسک اٹھی۔

’’ یہ تُو کیا کہتی ہے، بہو؟ ‘‘ بوڑھے ایک میٹھی ڈانٹ کے ساتھ کہتے، ’’تو میری بڑی بہو ہے! تو گھر کی مالکن کی طرح رہے گی! میرے رہتے۔۔۔ ‘‘

’’ آپ کا بس کہاں چلنے کا بابو جی؟ تندرست رہتے، تو مجھے کسی بات کی فکر نہ رہتی۔ اس نے آ کر کہیں دیور پر جادو پھینکا اور وہ اس کے بس میں ہو کر۔۔۔ نہیں بابو جی، میرا تو مر جانا ہی اچھا ہے! کہیں تال، پوکھر۔۔۔ ‘‘

’’ بہو! ‘‘ بوڑھے جیسے چونک کر چیخ پڑتے، ’’تال، پوکھر کا نام کبھی پھر منہ پر نہ لانا! جانتی ہے، تُو کس خاندان کی بہو ہے! بھلے ہی گھر میں گل سڑ جانا، لیکن بہو، خاندان پر کلنک کا ٹیکہ نہ لگانا! کسی کو کہنے کا اگر کبھی موقع مل گیا کہ فلاں کی بہو تال پوکھر میں ڈوب مری، تو میں اپنا سر پھوڑ لوں گا! اس بوڑھے کے سر کا خیال رکھنا، بیٹی، اور چاہے جو کرنا! ‘‘ غضب سے چور ہو کر بوڑھے کانپنے لگتے۔

آنچل سے آنسو پونچھتی بھابھی وہاں سے ہٹ جاتی۔ اس بوڑھے سے کوئی بات کرنا بیکار ہے۔ یہ کچھ نہیں سمجھتا کچھ نہیں! اسے اپنی تیمار داری کی فکر ہے۔ بوڑھی کو گھر کے کام کاج اور اپنی خدمت کے لئے اس کی ضرورت ہے۔ کوئی بھی نہیں خیال کرتا کہ آخر اسے بھی تو کچھ چاہیے۔ لیکن کسی کو خیال بھی کیسے ہو؟ خواب میں بھی کوئی یہ تصور کیسے کر سکتا ہے کہ ایک کشتریوں کی بیوہ بہو۔۔۔ نا ممکن، نا ممکن! اور بھابھی میں پھر جیسے ایک غصہ بھر اٹھنے کو ہوتا کہ تبھی کوئی کانوں میں گنگنا اٹھتا، ’’مجھے تمہاری فکر ہے، بھابھی! میں رات دن تمہاری رٹ لگائے رہتا ہوں! تم سے میں کتنی محبت کرتا تھا! مجھے آ جانے دو بھابھی، پھر تو۔۔۔ ‘‘

اور بھابھی پھر ایک ہنڈولے پر جھولنے لگتی۔ کوئی پرواہ کرے یا نہ کرے، وہ تو۔۔۔ اور پھر کام میں مگن ہو جاتی۔

پھر پہلے ہی کا معمول چلنے لگتا تھا۔ وہی پوجا، وہی رامائن پاٹھ، وہی سب کچھ۔ ٹھا کر سے دعا کرتی، ’’تیرا بازو بڑے لمبے ہیں، ٹھا کر نا ممکن کو بھی ممکن کرنا تیرے لئے کوئی مشکل نہیں! کچھ ایسا کرنا کہ۔۔۔ ‘‘

ایک دن بلرا کو بھوسے کی کھانچی تھمانے گئی، تو اس کے دل نے چاہا کہ بلرا پھر وہی بات کہے۔ لیکن بلرا خوف کھا کر سر جھکائے رہا۔ تب بھابھی نے ہی ٹوکا، ’’کیوں رے، تجھے کوئی قتل کی دفعہ لگی ہے کیا، جو اس طرح خاموش رہتا ہے! ‘‘

سر جھکائے جھکائے ہی بلرا نے کہا، ’’سچ ہی، چھوٹی مالکن، کیا میرے منہ سے اس دن ایسی کوئی بات نکل گئی تھی۔۔۔ ‘‘

’’ ارے، وہ تو میں بھول گئی۔ ناحق تُو۔۔۔ ‘‘

’’ چھوٹی مالکن، میں من کی بات نہ روک سکا، کہہ ڈالی۔ میرے کہنے سے تم کو تکلیف ہوئی۔ مجھے معاف کر دو۔ چھوٹی مالکن، ہم لوگوں کے دل میں کوئی گرہ نہیں ہوتی۔ تم لوگ تو دل میں کچھ اور رکھتے ہو، منہ سے کچھ اور کہتے ہو۔ مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ بڑے مالک اور مالکن آنکھوں سے تمہارا یہ روپ کیسے دیکھتے ہیں! میرا تو کلیجہ پھٹتا ہے! اسی عمر سے تم سادھنی بن کر کیسے رہ سکتی ہو؟ اسی لئے من میں اٹھا کہ کہیں چھوٹے مالک کے ساتھ تمہارا۔۔۔ ‘‘

بھابھی کا من گدرا گیا۔ آنکھیں مند سی گئیں۔ لیکن دوسرے ہی لمحے جیسے کسی نے کھینچ کر ایک تھپڑ جما دیا ہو۔ وہ بولی، ’’ایسی بات نہ کہا کر بلرا۔ ‘‘اور اندر بھاگ گئی۔

بلرا کچھ لمحے وہیں کھڑا رہا۔ پھر ہونٹوں پر ایک کر مسکراہٹ لیے ناند کی جانب چل پڑا۔ سوچ رہا تھا کہ اس دن کا گرم لوہا آج کچھ ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ آج ڈانٹ نہیں کھانی پڑی۔ سچ، اگر ایسا ہو جاتا تو کتنا اچھا ہوتا! بیچاری کی زندگی خوشیوں سے کٹ جاتی۔ چھوٹے مالک بیاہ نہ کر سکیں، تو اسے رکھ تو سکتے ہی ہیں۔ کتنے ہی ان کی برادری کے ایسا کرتے ہیں۔ سننے میں تو آتا ہے کہ ان کے پردادا بھی ایک چمارن کو رکھے ہوئے تھے۔ پھر یہ تو ان کی بھابھی ہی ہیں۔ تھوڑے دن شور شرابہ ہو گا، پھر سب آپ ہی شانت ہو جائے گا۔ قصائیوں کے ہاتھ پڑی ایک گائے کی جان تو بچ جائے گی۔ کتنا پنیہ ہو گا!

مہینے دو مہینے میں رات برات مٹرو خیر خبر لینے ضرور آ جاتا۔ اب وہ چھاج بھی پھونک کر پیتا تھا۔ دشمنوں کو بھول کر بھی اب وہ ایسا کوئی موقع دینے کو تیار نہ تھا کہ پہلے ہی کی طرح پھر پکڑ میں آ جائے۔ وہ دِیّر کبھی نہیں چھوڑتا۔ جانتا تھا کہ اس نوعیت کے قلعے میں کوئی اس پر حملہ کرنے کی ہمت نہ کرے گا۔ اب وہ پہلے کی طرح تنہا بھی نہ تھا۔ اس کٹیا کے پاس درجنوں جھونپڑیاں بس گئی تھیں۔ پچاسوں کسان نوجوان اپنی لاٹھیوں کے ساتھ ان میں رہتے تھے۔ بہت سارے اکھاڑے بھی کھل گئے تھے۔ سبھی کی بھینسیں بھی وہیں رہتی۔ مٹرو جب چھوٹ کر آیا تھا، تو ربیع کی فصل کٹ چکی تھی۔ سب کا خیال تھا کہ دِیّر میں صرف ربیع کی ہی فصل بوئی جا سکتی ہے۔ پھر تو برسات شروع ہو جاتی ہے اور چاروں جانب پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ لیکن مٹرو خالی بیٹھنا نہیں چاہتا تھا، اس نے طے کیا کہ اب اوکھ بوئی جائے۔ سب نے نہ کیا۔ لیکن مٹرو نہ مانا۔ اس نے کہا کہ گنگا میا خوش ہو جائے گی تو اوکھ بھی ہو گی۔ اونچی، بہترین مٹی کی زمین دیکھ کر اس نے اوکھ بو دی۔ اس کی دیکھا دیکھی اوروں نے بھی ہمت کی کہ ایک کا جو حال ہو گا، سب کا ہو گا۔ جائے گا تو ٹکا اور کہیں آ گیا تو گڑ رکھنے کی جگہ نہ ملے گی۔

دِیّر گلزار ہو گیا۔ جھونپڑیاں بس گئیں۔ چولہے جلنے لگے۔ بھینسیں ڈکرانے لگیں۔ اکھاڑے جم گئے۔ بغیر کسی خاص کام کے اوکھ ایسی آئی کہ دیکھنے والوں کو تعجب ہوتا۔ تر، چکنی مٹی کا مقابلہ بانگر کی مٹی کیا کرتی؟ وہاں چار چار ہاتھ کی بھی اوکھ ہو جائے، تو بہت غنیمت، وہ بھی بڑی مشقت کے بعد۔ اور جب یہاں اوکھوں نے سر اٹھایا تو ایسا لگا کہ ہاتھی ڈوب جائے، بس، اب ڈر تھا گنگا میا کا۔ برسات کے سر پر چڑھ آئی تھی۔ ندی بڑھنے لگی تھی۔ سبھی کے دلوں میں دھک دھک سی مچی تھی۔ سبھی کہتے، ’’گنگا میا! کرپا کر دو، تو اوکھ کاٹے نہ کٹے! ‘‘ سب یہی گذارش کرتے کہ گنگا میا اس سال دھار پلٹ دیں۔

کچھ ایسی ہونہار کہ حقیقت ہی میں ندی کی مرکزی دھارا اب کے اُس پار بن گئی۔ پانی ادھر بھی خوب پھیلا، لیکن دس پندرہ دن میں اوکھوں کی جڑوں میں مزید زر خیر مٹی چھوڑ کر چلا گیا۔ کسانوں کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ مٹرو کو سراہا جانے لگا۔ اس نے کہا، ’’یہ سب گنگا میا کی کرپا ہے! ‘‘

زمیں داروں نے براہ راست تو چھیڑنے کی کوشش نہ کی تھی۔ اب ویسے بھی مٹرو تنہا نہ رہ گیا تھا۔ سننے میں بس یہی آیا کہ انہوں نے صدر میں درخواست دی ہے کہ کسانوں نے ان کی زمین پر قبضہ کر لیا ہے، سرکار پڑتال کرائے اور باغیوں کو سزا دے۔ ورنہ بغاوت ہونے کا اندیشہ ہے۔

پھر کیا ہوا کچھ پتہ نہ چلا۔ سرکارکا دربار بہت دور ہے، جاتے جاتے پکار پہنچے گی، ہوتے ہوتے سماعت ہو گی۔ اس وقت تک کیا دِیّر میں کوئی نشان باقی رہ جائے گا؟ اور پھر کچھ ہو گا، تو دیکھا جائے گا۔ پٹواری کے نقشے میں تو صرف دِیّر لکھا ہے، کاغذ پتر میں بھی دِیّر کسی کے نام نہیں ہے۔ کوئی سرحد کوئی منڈیر تو بن نہیں سکتی، یہاں بنائی بھی جائے، تو کیا گنگا میا رہنے دیں گی؟ سرکار کیا خاک پڑتال کرے گی!

برسات میں مٹرو اور اس کے ساتھی کافی ہوشیاری سے رہے۔ ایک طرح سے اب ان کا ایک دَل بن گیا تھا۔ آس پاس کے گاؤں کے کسان ان کے بھائی بند تھے۔ ہر بات کی کھوج خبر لیتے رہتے اور مٹرو کے کان میں پہنچایا کرتے۔ اب مٹرو پر جان دینے والے سینکڑوں تھے۔ یوں بھی مٹرو کو پکڑ لے جانا اب آسان نہ تھا۔

مٹرو رات میں ہی اپنے دس پانچ ساتھیوں کے ساتھ گوپی کے گھر جاتا اور رات رہتے ہی چلا آتا۔ سب اس کی مہمان نوازی بڑی امنگ سے کرتے۔ بوڑھے بوڑھی پوچھتے، ’’ گوپی کی شادی کی کہیں بات چلائی؟ ‘‘

مٹرو کہتا، ’’ارے، ہمیں چلانے کی کیا ضرورت؟ درجنوں یوں ہی منہ پھاڑے بیٹھے ہیں۔ اسے آ تو جانے دو۔ پھر ایک ماہ کے اندر ہی شادی کرا دوں گا۔ وہ بہو لا دوں گا کہ گاؤں دیکھے گا! ‘‘

مٹرو گوپی کو برابر خط لکھتا۔ لیکن اس نے گوپی کو اس کی بیوی کے بارے میں کچھ نہ لکھا تھا۔ کیوں خواہ مخواہ رنج کی خبر لکھے؟ نہ جانے اس کے چلے آنے کے بعد گوپی کی کیسے کٹتی ہے۔ کئی بار سوچا کہ مل آئے۔ لیکن فرصت کہاں؟ پھر گنگا میا کو وہ کیسے چھوڑے، اپنے کسان بھائیوں کو کیسے چھوڑے؟ اسی کے دم سے تو سب دم ہے۔ کہیں اس کی غیر حاضری میں زمیندار کچھ کر بیٹھیں، تو؟

اندر کھانے جاتا، تو بھابھی کے بنائے کھیکا کی تعریف کر کے کہتا، ’’تبھی تو گوپی لٹو ہے! میں بھی کہوں، کیا بات ہے؟ اتنا بڑھیا کھیکا جو ایک بار کھا لے گا، وہ کیا گوپی کی بھوجی کو کبھی بھول سکتا ہے؟ ‘‘

ساس بھی تب کہتی، ’’یہ دونوں بہنیں بڑی گن والی تھیں، بیٹا! کرم کو کیا کہوں؟ ‘‘

بھابھی سنتی اور دل ہی دل نہ جانے کیا سوچتی۔ ایک بار تو موقع نکال کر اس نے خود کو مٹرو کو دکھا دیا تھا۔ مٹرو خود بھی اس کو دیکھنے کے لیے متجسس تھا۔ اسے دیکھ کر جیسے سینے پر ایک گھونسا کھا گیا تھا۔ اس نے کب سوچا تھا کہ گوپی کی بھوجی ایسی جوان ہے، ایسا بجلی سا اس کا روپ ہے۔ تبھی سے اس کا دل بھابھی کے لئے ہمدردی سے بھرا ہوا تھا۔ کبھی کبھی بڑی میٹھی میٹھی باتیں وہ یہی ہمدردی دکھانے کیلئے ماں سے بھابھی کے بارے میں کہہ دیتا۔ بھابھی نہال ہو اٹھتی۔

مٹرو کو فکر لگ گئی۔ گوپی کی بھوجی سی خوبصورت بہو گوپی کے لئے کہاں سے تلاش کر کے لے آئے گا؟ اس نے تو آج تک ایسی عورت کہیں نہ دیکھی تھی۔ گوپی اس پر جان دیتا ہے، تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں۔ ایسی عورت پر کون جان نہ دے گا؟ اسی طرح اس کی بہن بھی تو ہو گی۔ پھر دوسری سے اس کا دل کیسے بھرے گا؟

اور مٹرو کے من میں بلرا کی ہی طرح بات اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہمیشہ دِیّر میں آزاد رہنے والے مٹرو کے من پر برادری کے رسم و رواج کا اتنا غلبہ نہ چڑھا تھا۔ اس نے آزادی سے ہی زندگی گذاری تھی۔ جو من میں اٹھا، ویسے ہی کیا تھا۔ کبھی کوئی بندھن نہ مانا تھا۔ وہ تو بس اتنا ہی جانتا تھا کہ انسان کے پاس طاقت اور بہادری ہونی چاہئے۔ پھر کون روک سکتا ہے اسے کچھ کرنے سے؟ اس نے تو یہ بھی طے کر لیا تھا کہ اگر گوپی تیار ہو گیا، تو وہ یہ کر کے ہی دم لے گا۔ بہت ہو گا، گوپی کو اپنا گھر چھوڑ دینا پڑے گا۔ تو اس دِیّر میں ایک کٹیا اوربس جائے گی۔ اسی کی طرح وہ بھی رہیں گے، سہیں گے۔ کانچ کی مورت کی جان تو بچ جائے گی!

***

 

 

 

 

گیارہ

 

گوپی اپنی سزا کاٹ کر جب چھوٹا، تو اسے اور قیدیوں کی طرح وہ خوشی نہ ہوئی، جو قید سے چھوٹنے کے وقت ہوتی ہے۔ آج وہ اپنے گھر کی طرف جا رہا ہے۔ آخر اسے آج اپنی اس بیوہ بھابھی کے سامنے جا کر کھڑا ہونا ہی پڑے گا، اسے اس حالت میں، اپنی ان آنکھوں سے دیکھنا ہی پڑے گا، جس کیلئے قریب پانچ سالوں سے بھی وہ مطلوبہ ہمت نہیں بٹور سکا ہے۔

گاؤں میں جب وہ گھسا تو شام کے دھندلی سائے زمین پر جھکے چلے آ رہے تھے۔ جاڑے کے دن تھے۔ چاروں جانب اب سناٹا چھا گیا تھا۔ تالاب سے ایک آدھ آدمیوں کے ہی کھانسنے کھنکھارنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ گھاٹ سُونا تھا۔ گاؤں کے اوپر جمے دھوئیں کا بادل آہستہ آہستہ نیچے سرکا چلا آ رہا تھا۔

آگے بڑھ کر گوپی نے سوچا کہ کسی سے گھر کی خبر پوچھے۔ لیکن پھر ٹھٹک گیا۔ پاس ہی چھوٹا سامندر تھا۔ سوچا، پجاری جی کے پاس ہی کیوں نہ چلے۔ بھگوان کے درشن بھی کر لے، پجاری جی سے خبریں بھی پوچھ لے۔ گوپی کا دل لرز رہا تھا۔ سالوں دور رہنے سے اس کے دل میں یہ بات اٹھ رہی تھی کہ جانے اس دوران کیا کیا ہو گیا ہو۔ اسے ڈر تھا کہ کہیں کوئی اسے بری خبر نہ سنا دے۔

مندر اسے ویران سا دکھائی دیا۔ حیرانگی ہوئی کہ ایسا کیوں؟ یہ بھگوان کی آرتی کا وقت ہے۔ پھر بھی سناٹا کیوں چھایا ہوا ہے؟ چبوترے پر کوئی بوڑھا بھک منگا اپنی گٹھری رکھے لِٹّی یعنی ٹکیہ نما روٹی سینکنے کے لئے اُپلے سلگا رہا تھا۔ اس نے گوپی کو کھڑے دیکھا تو پوچھا، ’’کا ہے، بھیا؟ ‘‘

’’مندر بند کیوں ہے؟ پجاری جی نہیں ہیں کیا؟ ‘‘ گوپی نے اس کے پاس جا کر پوچھا۔

بھک منگا زور سے ہنس پڑا۔ دانت نہ ہونے کی وجہ ڈھیر ساراتھوک اس کے ہونٹوں سے بہہ پڑا۔ وہ بولا، ’’تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو کیا؟ ارے، پجاری کو بھاگے ہوئے تو آج تین برس کے قریب ہو گئے۔ گاؤں کی ایک بیوہ کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ اسے لے کر جانے کہاں منہ کالا کر گیا۔ ‘‘اور وہ پھر زور سے قہقہے لگانے لگا۔

گوپی کے کانپتے ہاتھ اس کے کانوں پر پہنچ گئے۔ اس کا دل زوروں سے دھڑک اٹھا۔ اس سے ایک پل بھی وہاں نہ ٹھہرا گیا۔ لامتناہی اندیشے من میں لئے وہ سیدھا اپنے گھر کی طرف بڑھا۔ ایک کھٹکا اس کے دل میں کانپ رہا تھا کہ کہیں۔۔۔

اپنے گھروں کے سامنے چبوترے کے پاس بیٹھے، جن جن لوگوں نے اس غم واندوہ کی مورت کو گزرتے ہوئے دیکھا، وہ خاموشی سے اس کے ساتھ ہو لئے۔ خاموش نظروں سے کبھی کبھار گوپی ان کے سلام کا جواب دے دیتا۔ اس کی دماغی کیفیت کسی سے کچھ پوچھنے کی نہ تھی اور نہ لوگوں کی۔ لگ رہا تھا، جیسے وہ سب کے سب اپنے کسی پیارے کی لاش جلا کر خاموش اور اداس لوٹ رہے ہوں۔

گھر والوں کو اس وقت تک کسی نے دوڑ کر گوپی کے آنے کی اطلاع دے دی تھی۔ گوپی ابھی اپنے گھر سے کچھ ہی دور تھا کہ اس کے کانوں میں اپنے گھر کی سمت سے زور زور سے چلا کر رونے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ رواں رواں دکھ سے کانپ اٹھا۔ پیروں میں کپکپی چھوٹنے لگی۔ آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔ دماغ میں چکر سا آنے لگا۔ اس کے ساتھ ساتھ چلنے والے لوگوں سے اس کی یہ حالت پوشیدہ نہ رہی۔ کچھ نے بڑھ کر اسے سہارا دیا۔ ایک کے منہ سے یوں ہی نکل گیا، ’’ہوش وحواس کھو بیٹھا بیچارہ! بھیم کی طرح بھائی کے مرنے کا غم ہی کیا کم تھا جو ودھاتا نے اس کی عورت کو بھی چھین لیا! ‘‘

گوپی کے کانوں میں اس کی بھنک پڑی تو آنکھیں پھاڑے وہ پوچھ بیٹھا، ’’کیا؟ ‘‘

بہتوں نے ایک ساتھ ہی کہا، ’’اب دکھ سے کیا ہو گا، بھیا؟ ان کا تمہارا اتنے ہی دن کا تعلق لکھا تھا۔ اب جو رہ گئے ہیں، انہی کوسنبھالو۔ اب انہیں تمہارا ہی تو سہارا رہ گیا ہے۔ ‘‘

گوپی کو لگا، جیسے ایک بجلی کی طرح جلتا ترشول اس کے دل میں کوند کر اس کے تن من کو جلاتا ہوا سَن سے نکل گیا۔ وہ ہائے کہہ کر سہارا دینے والوں کے ہاتھوں میں آ گرا۔

اسے گھر لے جا کر لوگوں نے چارپائی پر لٹا دیا اور پانی کے چھینٹے مار کر اسے ہوش میں لانے لگے۔ عورتوں نے روتے روتے، بے حال ہوئیں ماں اور بھابھی کو، اور بڑھے بوڑھوں نے بستر پر بلکتے پِتا کو کسی طرح یہ کہہ کر خاموش کرایا کہ اگر بڑے ہو کر تم ہی اس طرح تڑپ تڑپ کر جان دے دو گے، تو گوپی کا کیا ہو گا؟

دکھ کی گھٹا چھائی رہی اس گھر پر مہینوں۔ درد کے آنسو برستے رہے سب کی آنکھوں سے مہینوں۔

دکھ کی جتنی طاقت ہے، اس سے کہیں زیادہ قدرت نے آدمی کو برداشت دی ہے۔ جس طرح دکھ کی کوئی مقر رہ حد نہیں، اسی طرح انسان کی برداشت بھی لامتناہی ہے۔ جس دکھ کا تصور کر کے بھی انسان روح کی گہرائی تک کانپ اٹھتا ہے، وہی دکھ جب اچانک اس کے سر پر آن گرتا ہے، تو جانے کہاں سے اس میں اسے برداشت کرنے کی طاقت بھی آ جاتی ہے۔ اسے وہ ہنس کر یا رو کر جھیل ہی لیتا ہے۔ دکھ کی کالی گھٹا کے نیچے بیٹھ کر وہ تڑپتا ہے، روتا ہے۔ رو رو کر ہی وہ دکھ کو بھلا دیتا ہے۔ وہ گھٹا چھٹتی ہے، خوشی کی روشنی چمکتی ہے اور انسان ہنس دیتا ہے۔ وہ یہ بات بھی بھول جاتا ہے کہ کبھی اس پر دکھ کی گھٹا چھائی تھی، کبھی وہ رویا اور تڑپا بھی تھا۔ یہ بات کچھ غیر معمولی انسانوں پر بھلے ہی لاگو نہ ہو، پر عام انسانوں کیلئے سیدھا سادا سچ ہے۔

گوپی، اس کے والدین اور بھابھی عام سے ہی تو انسان تھے۔ درد کے امنڈتے گرجتے سمندر میں سالوں دکھ کے تھپیڑے کھا کر آہستہ آہستہ انہیں لگنے لگا کہ وہ درد اور دکھ کی گرجتی لہریں، اب کچھ میٹھی اور کچھ مدھر یادوں کی دھیمی دھیمی لہریں بن بن ان کے پریشان دلوں کو اپنے نرم لمس سے سہلا سہلا کر کچھ امید، کچھ خوشی کے باریک باریک جال بُننے لگی ہیں۔

بھابھی اور دیور، دونوں ایک ہی طرح کی بدقسمتی کے شکار تھے۔ ان کی سمجھ میں نہ آتا کہ وہ کیسے ایک دوسرے کو تسلی دیں۔ بھابھی نے حسبِ معمول خود کو پوجا اور گھر کے کاموں میں الجھا دیا تھا۔ وہ مشین کی طرح سب کچھ کرتی، جیسے وہی سب کرنے کیلئے اس مشین کی ایجاد ہوئی ہو، جیسے یہ مشین ایک ہی رفتار سے، اسی طرح چلتی رہے گی، کام کرتی رہے گی، اس کے قوانین میں کبھی کوئی تبدیلی نہ ہو گی۔ ہاں، آہستہ آہستہ، جیسے جیسے اس کے پرزے گھستے جائیں گے، اس کی استعداد میں کمی آتی جائے گی، پھر ایک دن اس کے پرزے بکھر جائیں گے، پھر یہ مشین ٹوٹ جائے گی ہمیشہ کیلئے۔

بھابھی اب کہیں زیادہ گھمبیر، خاموش اور اداس بن گئی تھی۔ گویا اپنی پوجا اور اپنے معمولات کے سوا اس کی زندگی میں کچھ ہو ہی نہیں۔ گوپی بھابھی کو دیکھتا اور اس سدا کی سنجیدہ، اداس اور دکھ میں لپٹی ہوئی بیمار سی مورتی کو دیکھ کر سوچتا کہ کیا وہ ایسے ہی اپنی زندگی گزار دے گی؟ کیا وہ واقعی اسے ایسے ہی زندگی گزارنے دے گا؟ دنیا کے گلستاں میں خزاں آتی ہے، پھر بسنت آتی ہے۔ بھابھی کی زندگی میں ایک بار جو خزاں آ گئی ہے کیا ہمیشہ قائم رہے گی؟ کیا پھر اس میں بسنت نہ آئے گی؟ کیا پھر ایک بار اس میں بسنت لائی ہی نہیں جا سکتی؟ خزاں میں خاموش ہوئی بلبل کیا ہمیشہ کے لئے ہی چپ ہو جائے گی؟ کیا اس کا چہکنا ایک بار پھر نہ سن سکے گا؟

گوپی اپنے سماج کے رسم و رواج سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ ان کی برادری کی بیوہ، لکڑی کا وہ کُندا ہے، جسے اس کے شوہر کی چتا کی آگ ایک بار جو لگ جاتی ہے، تو وہ جل رہتا ہے، اس وقت تک جلتا رہتا ہے، جب تک جل کر راکھ نہیں ہو جاتا۔ اس کے راکھ ہو جانے سے پہلے کسی کو چھونے کی ہمت نہیں ہوتی، بجھانے کی تو بات ہی دور۔ اور گوپی سوچتا کہ کیا اس کی بھابھی بھی اسی طرح جل کر راکھ ہو جائے گی؟ وہ اس میں لگی آگ کو کبھی نہ بجھا سکے گا؟ گوپی کے دل کی آنکھوں کے سامنے یہ سوال ہر لمحہ چکر لگاتے رہتے ہیں۔ اور وہ ہمیشہ کی طرح ان سوالات کا جواب ڈھونڈ نکالنے میں ڈوبا سا رہتا ہے۔ بھابھی کے سکھ دکھ کا مقام یوں بھی اس کی زندگی میں کم نہیں رہا ہے، جب بھابھی کی زندگی میں کبھی بھی نہ ختم ہونے والی ویرانی آ گئی ہے، تو اس کا مقام اس کے دل میں مزید بلند ہو گیا ہے۔ وہ ایک طرح سے اپنے بارے میں کچھ نہ سوچتا، بلکہ ہمیشہ بھابھی کے بارے میں سوچا کرتا ہے کہ کیسے وہ اپنی محبوب بھابھی کو پھر ایک بار پہلے ہی کی طرح چہچہاتے ہوئے دیکھے گا۔

دنیا چاہے جس حالت میں رہے، بیٹی والے باپوں کو چین کہاں؟ گوپی کے جیل سے آنے کا پتہ جیسے ہی انہیں چلا، انہوں نے پھر سے دوڑنا بھاگنا شروع کر دیا۔ گوپی کے جیل سے لوٹنے کی ہی تو علت تھی۔ اب شادی پکی کرنے میں کوئی عذر نہیں ہونا چاہئے۔ پِتا اسے براہ راست گوپی سے بات کرنے کے لیے کہہ دیتے۔ معذور آدمی ٹھہرے۔ سب کچھ اب گوپی کو ہی تو کرنا دھرنا ہے۔ وہ جیسا مناسب سمجھے، کرے۔

گوپی انہیں دیکھ کر جل بھن جاتا ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بھابھی کے سامنے وہ کیسے بیاہ رچا سکتا ہے؟ وہ کن آنکھوں سے اس کے خوشی کے تہوار کو دیکھے گی، کن کانوں سے بیاہ کے گیت سنے گی، کس دل سے وہ سب سہہ سکے گی؟ نہیں نہیں گوپی جلے پر اس طرح نمک نہیں چھڑک سکتا! ایسا کرنے سے اس کا دل چھلنی ہو جائے گا۔

اس کے جی میں آتا ہے کہ وہ مہمانوں کو پھٹک کر بتا کر کہہ دے، ’’تمہیں شرم نہیں آتی ایسی باتیں مجھ سے کہتے؟ کچھ نہیں تو کم از کم ایک انسان ہونے کے ناطے ہی میرے دل کی حالت تو سمجھنے کی کوشش کرو۔ شادی کی بات کر کے میرے ہرے زخموں پر اس طرح نمک تو نہ چھڑکو۔ ‘‘ لیکن شائستگی کو مد نظر رکھتے ہوئے، وہ شادی نہ کرنے کی بات کہہ کر انہیں ٹال دیتا ہے۔ انہوں نے الجھانے کی کوشش کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، ’’آخر ایسا کیوں کہتے ہو؟ ‘‘

گوپی خاموش رہتا ہے۔ وہ کیسے بتائے کہ ایسا کیوں کہتا ہے؟

’’آخر اس عمر سے ہی تم اس طرح کیسے رہ سکتے ہو؟‘‘ دوسرا سوال پھینکا جاتا ہے۔

گوپی کا دل پوچھنا چاہتا ہے کہ بھابھی کی عمر بھی تو میری ہی برابر ہے، آخر وہ کیسے رہے گی؟ لیکن وہ چپ ہی رہتا ہے۔

تیسرا داؤ لگایا جاتا ہے، ’’ایک نہ ایک دن تم کو گھر بسانا ہی پڑے گا، بیٹا!‘‘

اور گوپی کہنا چاہتا ہے کہ کیا یہی بات بھابھی سے بھی کہی جا سکتی ہے؟ لیکن اس کے منہ سے کوئی لفظ ہی نہیں پھوٹتا۔ اندر ہی اندر ایک غصہ اسے نمودار ہونے لگتا ہے۔

’’اور نہیں تو کیا؟ کوئی بال بچہ ہوتا، تو ایک بات ہوتی۔‘‘ چوتھی بار لاسا لگایا جاتا ہے۔ لڑکا خاموش ہے اس کا مطلب یہ کہ اس پر اثر پڑ رہا ہے۔ شاید مان جائے۔

بھابھی کے بھی تو کوئی بال بچہ نہیں ہے۔ کیا اسے اس کی ضرورت نہیں؟ گوپی کے دل میں ایک خاموش سوال اٹھتا ہے۔ اس کے ہونٹ پھر بھی نہیں ہلتے۔ ناراضگی ابھر رہی ہے۔ نتھنے پھڑکنے لگے ہیں۔

’’خاندان کا نام و نشان چلانے کے لئے۔۔۔ ‘‘

اور گوپی اور زیادہ کچھ سننے کی تاب نہ لا کر گرجتے بادل کی طرح کڑک اٹھتا ہے، ’’تمہیں میرے خاندان کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں! تم چلے جاؤ! ‘‘

’’ عجیب آدمی ہے! ہم کیسی باتیں کر رہے ہیں اور یہ کیسے بول رہا ہے! ‘‘ توہین کا کڑوا گھونٹ پی کر مہمان کہتے، ’’دان جہیز کی اگر کوئی بات ہو، تو۔۔۔ ‘‘

’’ کچھ نہیں۔ کچھ نہیں! میں شادی نہیں کروں گا! نہیں کروں گا! نہیں کروں گا! ‘‘ اور وہ خود ہی وہاں سے اٹھ کر ہٹ جاتا۔

لیکن یہ سلسلہ ٹوٹنے پر نہیں آتا۔ اور اب تو وہ کسی ایسے مہمان کے آنے کی خبر سنتا ہے، تو پاگل سا ہو جاتا ہے۔ اس کے دل کی کشمکش اور بھی شدید ہو اٹھتی ہے۔ وہ جیسے خود سے ہی سے خاموش آواز میں پوچھنے لگتا ہے، کیسے، کیسے؟ کیسے اپنی بیوہ بھابھی کی ویران آنکھوں کے سامنے بیاہ کا راس رنگ رچاؤں؟ کیسے اپنے دل کے تڑپنے کی پکار نہ سن کر، میں نے ایک معصوم لڑکی کو لا کر اپنی خوشیوں بھری دنیا بساؤں؟ نہیں یہ نہیں ہو سکتا! اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑتا۔

***

 

 

 

 

بارہ

 

دِیّر میں اس سال خوب ہمک کر ربیع آئی تھی۔ میلوں پکی گندم کی فصل سے جیسے آسمان سرخ ہو اٹھا تھا۔ کٹائی کی خبر پا کر دور دور سے کتنے ہی عورت مرد بَنہار آ کر وہاں بس گئے تھے۔ کم از کم پندرہ بیس دن کٹائی چلے گی۔ مٹرو پہلوان خوب بَن دیتا ہے اور کسانوں کو بھی تاکید کر دی ہے کہ بنہاروں کے بن میں کوئی کمی نہ کریں۔ سو، بنہار گٹھری باندھ باندھ کر اناج لے جائیں گے۔

گنگا میا کے کنارے ایک میلے سا لگ گیا ہے۔ بہت سے دکاندار بھی گھاٹھی پسان، ساگ ستّو، بیڑی تمباکو کی چھوٹی چھوٹی دکانیں لگا کر بیٹھ گئے ہیں۔ اناج کے بدلے وہ سودا کرتے ہیں۔ پیسہ یہاں کس کے پاس ہے؟ بنہاروں کو روز شام کو بَن ملتا ہے، اسی میں سے خرچ کیلئے وہ تھوڑا سا نکال لیتے ہیں اور ضرورت کی چیزوں سے خریداروں کے یہاں بدل آتے ہیں۔ دن میں تو تمام بنہار ستّو کھاتے ہیں۔ لیکن رات میں روٹی لِٹّی سینکنے کے لئے جب سینکڑوں اوپلوں سے بنے چولہے گنگا میا کے کنارے جل اٹھتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے، جیسے آسمان میں دھوئیں کے بادل چھا گئے ہوں۔

مٹرو یہ سب دیکھتا ہے، تو پھولا نہیں سماتا۔ لوگ مٹرو کی اتنی تعریف کرتے ہیں کہ وہ شرما جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں، ’’یہ مٹرو پہلوان کا بسایا علاقہ ہے۔ دوسرے کس میں اتنی سوجھ بوجھ اور ہمت و طاقت تھی، جو جنگل کو بھی گلزار کر دیتا؟ پشتوں سے دِیّر پڑا تھا۔ کبھی کہیں کوئی دکھائی نہ دیتا تھا۔ اب وہی زمین ہے کہ میلہ لگ گیا ہے۔ سینکڑوں کسانوں اور بنہاروں کی روزی کا سہارالگ ہے۔ سب اسے دعائیں دے رہے ہیں۔ پشتوں سے دھاندلی کر کے زمیندار جنگل بیچ کر ہزاروں ہڑپتے رہے۔ مٹرو پہلوان سے پہلے تھا کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا؟ بھائی آدمی ہو تو مٹرو پہلوان کی طرح! شیر ہے، اس پر ہزاروں آدمی کیا یوں ہی جان دے رہے ہیں؟ دلوں پر ایسے ہی انسان راج کرتے ہیں۔ اب ہے زمیں داروں کی مجال کہ اس کی طرف آنکھ اٹھا دیں۔ ‘‘

مٹرو سنتا ہے، تو دونوں ہاتھ ندی کی طرف اٹھا کر کہتا ہے، ’’یہ سب ہماری گنگا میا کی کرپا ہے! اس کے خزانے میں کسی چیز کی کمی نہیں۔ لینے والا چاہئے بھیا، لینے والا! ماں کا آنچل کیا کبھی بیٹوں کیلئے خالی ہوتا ہے؟ وہ بھی جگت کی ماں، گنگا میا کا! ‘‘

کرشن پکش کا چاند جیسے ہی آسمان میں ظاہر ہوا، مٹرو اور پوجن نے بنہاروں کو ہانک دینا شروع کر دیا۔ دن میں گرمی اور لو کے مارے بنہار پریشان ہو جاتے ہیں، ٹھنڈی صبح کے دو تین گھنٹے میں جتنا کام ہو جاتا ہے، اتنا دن کے آٹھ دس گھنٹوں میں بھی نہیں ہوتا۔ بنہار ندی کے کنارے ٹھنڈی ریت پر گہری نیند میں قطار لگا کر سوتے تھے۔ بڑی پیاری ہوا جنوب سے بہہ رہی تھی۔ چاند میٹھی چاندنی کی بارش کر رہا تھا۔ ندی دھیمے دھیمے کوئی مدھر گیت گنگنا رہی تھی۔ ہانک سنتے ہی بنہار اور بنہارنیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ آلسی کا نام نہیں۔ تھکے جسموں کو ندی کی ہوا جیسے ہی چھوتی ہے، ان میں پھر سے نئی تازگی اور لگن بھر جاتی ہے۔ یہاں کی دو چار گھنٹے کی نیند سے ہی، گاؤں کی رات بھر کی نیند سے زیادہ آرام اورسکون آدمی کو مل جاتا ہے۔

منڈیر پر آگ سلگ رہی ہے، پاس ہی تمباکو اور کھینی رکھی ہوئی ہے۔ جو تمباکو پیتا ہے، وہ چلم بھر رہا ہے۔ جو کھینی کھاتا ہے، وہ خوردنی تمباکو پھٹک رہا ہے۔ تھوڑی دیر تک بوڑھے بوڑھیوں کی کھوں کھوں سے فضا بھر جاتی ہے۔ پھر فصل کٹنی شروع ہو جاتی ہے۔

کھیت کی پوری چوڑائی میں بنہار اور بنہارنیں قطار لگا کر اکڑوں بیٹھی فصل کاٹ رہے ہیں، بنہار ایک طرف بنہارنیں دوسری طرف۔ ایک سرے پر مٹرو جٹا ہے اور دوسرے پر پوجن۔ پوجن نے بغل کی بوڑھی عورت کو کہنی مار کر ہنستے ہوئے کہا، ’’کڑھاؤ ایک بڑھیا گیت۔ ‘‘

بوڑھی نے مسکرا کر اپنی بغل والی کو کہنی ماری، اور پھر پوری زنجیر جھنجھنا اٹھی۔ نویلیوں نے کھانس کر گلا صاف کیا۔ ایک آدھ لمحے ’’تُوکڑھا، تُوکڑھا ‘‘رہا۔ پھر زمین کی بیٹیوں کے گلے سے زمین کا جنگلی شہد سا میٹھا گیت پھوٹ پڑا۔ چہرے دمک اٹھے، آنکھیں چمک اٹھیں، ہاتھوں میں تیزی آ گئی۔ کام اور سنگیت کی تال بندھی، فضا جھوم اٹھی، چاند اور ستارے ناچنے لگے، گنگا میا کی لہریں بے قابو ہو ہو کر ساحل سے ٹکرانے لگیں۔

’’ اے پیا، تو پردیس نہ جا،

وہاں تجھے کیا ملے گا، کیا ملے گا؟

یہاں کھیت پک گئے ہیں، سونے کی بالیاں جھوم رہی ہیں۔

میں درانتی لے کر بھنسارے جاؤں گی،

گا ناچ کر فصلوں کے دیوتا کو رجھاؤں گی،

خوش ہو کر وہ نیا اناج دے گا، میں پھانڑ بھر کر لاؤں گی۔

کوٹوں گی، پیسو گی، پہا پکاؤں گی،

ٹھہر دے کے پیڑھے پر تجھ کو بٹھاؤں گی!

اپنے ہاتھوں سے رچ رچ کھلاؤنگی۔

یاد ہے تجھے وہ پچھلی فصل کی بات؟

اے پیا، تو پردیس نہ جا۔

وہاں تجھے کیا ملے گا، کیا ملے گا؟ ‘‘

شفق کی سیندوری چمک آہستہ آہستہ کھیتوں میں پھیل کر رنگین جھیل کی طرح مسکرا اٹھی۔ بنہاروں اور بنہارنوں کے چہرے سنہری مورتیوں کی طرح دمک اٹھے۔ ندی کا پانی سنہرے آبِ رواں کے دوپٹے کی طرح لہرا اٹھا۔ کہیں دور سے دریائی پرندوں کی آوازیں شانت، سہانے ماحول میں گونجنے لگیں۔ فطرت نے ایک انگڑائی لے کر خمار بھری پلکیں اٹھائیں۔ سورج کی پہلی کرن نے اس کے قدم چومے اور موجودات نے جھوم کر زندگی اور محبت کی راگنی چھیڑ دی۔

تبھی مٹرو کے کانوں میں آواز پڑی، ’’مٹرو بھیا! ‘‘

یک لخت مٹرو نے دیکھا اور لپک کر گوپی کے گلے سے لپٹ کر کہا، ’’گوپی، ارے گوپی! تُو کب آ گیا، بھیا؟ ‘‘

’’ خوب پوچھ رہے ہو! چار پانچ مہینے ہو گئے ہمیں آئے، خبر بھی نہ لی؟ ‘‘ گوپی نے شکایت کی۔

’’ اتنی جلدی کیسے چھوٹ گئے؟ میں تو سوچتا تھا، اس مہینے میں چھوٹو گے۔ ‘‘اس کے دونوں بازوؤں کو اپنے ہاتھوں سے دباتا مٹرو بولا۔

’’چھ مہینے مزید چھوٹ کے مل گئے۔ سنا کہ ادھر تم برابر گھر آتے جاتے رہے۔ اس دوران کیوں نہیں آئے؟ میں تو برابر تمہارا انتظار کرتا رہا۔ مزے میں تو رہے؟‘‘ گوپی بولا۔

’’ہاں، گنگا میا کی سب کرپا ہے! تم اپنی کہو؟ ادھر کاموں میں بہت پھنسے رہے۔ یہاں سے ہٹنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ سوچا تھا کہ فصل ختم ہوتے ہی تمہارے یہاں ایک رات ہو آؤں گا۔ اچھا کیا کہ تم آ گئے۔ میرے تو پاؤں پھنس گئے ہیں۔‘‘ اپنی کٹیا کی جانب گوپی کو لے جاتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ تم تو کہتے تھے کہ یہاں تم ہی رہتے ہو، میں دیکھتا ہوں کہ یہاں تو ایک چھوٹا موٹا گاؤں ہی بس گیا ہے۔ ‘‘چاروں طرف دیکھتا ہوا گوپی بولا۔

مٹرو ہنسا۔ بولا، ’’سب گنگا میا کی کرپا ہے۔ اب تو سینکڑوں کسان ہمارے ساتھ یہاں بس گئے ہیں۔ مٹرو اب تنہا نہیں ہے۔ اس کا خاندان بہت بڑا ہو گیا ہے!‘‘ اور پھر وہ ہنس پڑا۔

کٹیا کے سامنے لکھنا، کندھے تک دائیں ہاتھ میں پانی بھوسا لپٹائے کر کھڑا انہیں دیکھ رہا تھا۔ مٹرو نے کہا، ’’تیرا چچا ہے بے، لگ رہا ہے کیا؟ چل، پاؤں پکڑ!‘‘

لکھنا پاؤں پکڑنے لگا، تو گوپی نے اسے ہاتھوں سے اٹھا کر کہا، ’’بڑکا ہے نا؟‘‘

’’ ہاں۔ ‘‘مٹرو نے کہا، ’’کیوں بے، بھینس دوہ چکا؟‘‘

’’ ہاں۔‘‘ لڑکے نے سر جھکا کر کہا۔

’’تو چل، چچا کے لئے ایک لوٹا دودھ تو لا۔ اور ہاں، لپک کر کھیت پر جا۔ پانتی چھوڑ کر آیا ہوں۔‘‘ چٹائی پر گوپی کو بٹھاتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ارے، ابھی تو منہ ہاتھ بھی نہیں دھویا۔ کیا جلدی ہے؟‘‘ گوپی نے کہا۔

’’شیر بھی کہیں منہ دھوتے ہیں؟ اور پھر دودھ کے لئے کیا منہ دھونا؟‘‘ ہنس کر مٹرو نے کہا۔

جیل گھر کی تمام باتیں کہہ کر گوپی نے کہا، ’’جان مصیبت میں پڑ گئی ہے۔ تم سے رائے لینے چلا آیا۔ ابھی تم ہی نکالو، تو جان بچے۔ روز روز مہمان گھر آ رہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا، کیا کروں۔ بھابھی کی حالت نہیں دیکھی جاتی۔ بڑا مشکل لیتا ہے! اس کی چھاتی پر خوشی منانا ہم سے تو نہ ہو گا!‘‘

’’ سچ پوچھو، تو اسی ادھیڑ بن میں، میں بھی پڑا تھا۔ وہاں جانے پر مائی اور بابو جی تمہاری شادی پکی کرنے کی بات کہتے تھے اور میں ٹال جاتا تھا۔ جب سے تمہاری بھابھی کو دیکھا، دنیا بھر کی لڑکیاں نظر سے اتر گئیں۔ سوچا تھے، تم آ جاؤ، تو کچھ سوچا جائے۔ بھیا سچ کہنا، تیرا دل بھابھی کے ساتھ شادی کرنے کو ہے؟ ہمیں تو لگتا ہے کہ تم اسے بہت مانتے ہو۔‘‘

’’ میرے چاہنے سے ہی کیا ہو جائے گا؟‘‘ گوپی نے اداس ہو کر کہا۔

’’کیوں نہ ہو گا؟ مرد ہو کہ کوئی مذاق ہو؟ ساری دنیا کے خلاف تمہارا مٹرو اکیلے تمہیں لے کر کھڑا ہو گا! کیا سمجھتے ہو مجھے؟ میں نے تو یہاں تک سوچا ہے کہ اگر تمہارے ماں باپ گھر سے نکال دیں، تو یہاں میری کٹیا کے قریب ایک اور کٹیا کھڑی ہو جائے گی۔ اور دیکھ رہے ہو نہ یہ کھیت! مل جل کر کام کریں گے۔ کوئی سالا ہمارا کیا کر لے گا؟ سچ کہوں گوپی، تیری بھابھی کاسوچ کر میرا بھی کلیجہ پھٹتا ہے۔ تو اسے اپنا لے! بڑا پنیہ ہو گا، بھیا! قصائی کے ہاتھ سے ایک گائے اور چڑی مار کے ہاتھ سے ایک چڑیا بچانے میں جو پنیہ ملتا ہے، وہی تجھے ملے گا۔ بہادر ایسے موقعے پر پیٹھ نہیں پھیرتے!‘‘ گوپی کی پشت ٹھوکتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’لیکن اس کی بھی تو کوئی رائے معلوم ہو۔ جانے کیا سوچ رہی ہو۔ وہ تیار ہو گی بھیا؟‘‘ گوپی نے زیرِ لب کہا۔

’’ارے، پانچ ماہ تجھے آئے ہو گئے اور تجھے یہ بھی معلوم نہیں ہوا؟‘‘ مٹرو نے تعجب ظاہر کیا۔

’’کیسے معلوم ہو بھیا؟ وہ تو بالکل گونگی ہو گئی ہے۔ بس آنسو بھری آنکھوں سے ایسے ہی دیکھا کرتی ہے، جیسے چھری کے نیچے کبوتری۔ میں کیسے جانوں۔۔۔ ‘‘

’’ابے، تو ایک دن پوچھ کر دیکھ۔ ‘‘

’’لیکن، مائی، بابو۔۔۔‘‘

’’ایک بات تو سمجھ لے۔ مائی بابو کے چکر میں اگر پڑا، تو یہ نہیں ہو گا! رسم و رواج اورسَنسکار کو بوڑھے جان کے پیچھے رکھتے ہیں۔ عمر بھر کی کمائی عزت آبرو کو وہ جان سے ویسے ہی چپکائے رہتے ہیں، جیسے مرے بچے کو بندریا۔ سمجھا؟ تو ان کے چکر میں نہ پڑ! جوان ہے۔ ابے، تجھے ڈر کا ہے کا؟ پھر میں جو ہوں تیری پیٹھ پر! دیکھیں گے کہ تیرے خلاف جا کر کون کیا کر لیتا ہے! ہمت چاہئے، بس ہمت! ہمت کے آگے دنیا جھک جاتی ہے!‘‘

’’اچھا، تو تم کب آؤ گے؟ تم ذرا مائی بابو جی کو سمجھاتے۔ وہ بڑی جلدی مچائے ہوئے ہیں۔ ‘‘

’’بس، چار پانچ دن میں۔ کھیت کٹنے بھر کی دیر ہے۔ میں سب کر لوں گا۔ بس، تو اپنی بھابھی کو سمجھا لے۔ چل، تجھے کھیت دکھاؤں۔ ادھر ہی گنگا میا میں غوطے لگا کر لوٹیں گے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

حصہ پنجم

 

تیرہ

 

کتنے ہی مہمان آ آ کر جب مایوس ہو ہو کر لوٹ گئے، تو ایک دن، جب بھابھی اپنی پوجا میں مستغرق تھی، ماں نے گوپی کو بلایا اور باپ کے سامنے لا کھڑا کیا۔ پِتا کے چہرے پر بے انتہائی سنجیدگی چھائی تھی۔ گوپی سمجھ نہ سکا کہ آخر کیا بات ہے۔

باپ نے اسے اور پاس بلا کر کہا، ’’بیٹا، میری اور اپنی ماں کی حالت دیکھ رہے ہو نا؟‘‘

گوپی نے جیسے کسی خدشے سے بھر کر سر ہلا دیا۔

’’بیٹا، اب ہمارا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ آج کسی طرح کٹ گیا، تو کل دوسرا دن سمجھو۔ ہمارے دل میں کیا کیا ارمان تھے، آج انہیں یاد کر کے ہمارا کلیجہ پھٹ جاتا ہے۔ ٹھیک ہے، بھگوان کی جو خواہش تھی، پوری ہوئی۔ لیکن اب کیا تو چاہتا ہے کہ گھر گرہستی کو اسی اجڑی حالت میں چھوڑ کر ہم۔۔۔‘‘ کہتے کہتے ان کا گلا امنڈتے ہوئے غم کے تسلسل سے روہانسا ہو گیا۔

ماں نے سسکتے ہوئے اپنا منہ آنچل سے ڈھک کر پھیر لیا۔

گوپی کے دکھی دل کے زخموں کے ٹانکے جیسے کسی نے ایک جھٹکے میں توڑ دیئے۔ اس کی روح درد کے مارے کراہ اٹھی۔ وہ خود کو مزید سنبھالنے کے قابل نہیں رہا تو وہاں سے ہٹنے لگا، اس پر باپ نے بھرائے گلے سے مجروح لہجے میں کہا، ’’ہمارے رہتے ہی اگر تو گھر بسا لیتا، تو کم از کم ہم شانتی سے۔۔۔ ‘‘

گوپی آگے کی بات نہ سن سکا۔ وہ چوپال میں جا کر بلک بلک کر رو پڑا۔ اوہ، اسے کوئی کیوں نہیں سمجھ رہا ہے؟ کسی کو اپنی بیٹی کے بیاہ کی فکر ہے، تو کسی کو اس کے کل کے نام و نشان کی فکر ہے۔ ماں باپ کو اجڑا گھر بسانے کی فکر ہے۔ لیکن اس چوٹ کھائے دل کی کیوں کسی کو فکر نہیں ہے؟

یہ سوچ سوچ کر وہ بار بار جھنجھلایا اور اس نے جھنجھلا جھنجھلا کر اسے بار بار سوچا۔ آخر وہ ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔ اس نے استقامت کے ساتھ سماج کی جانب سے، دنیا کی جانب سے آنکھیں موند کر جذباتی ہیجان میں فیصلہ کیا کہ وہ گھر بسائے گا، ضرور بسائے گا، لیکن اس طرح بسائے گا کہ ایک ساتھ ہی اس کے دل کی چوٹوں پر بھی مرہم لگ جائے اور اس کی بیوہ بھابھی کی بھسم ہوتی زندگی پر بھی ٹھنڈے پانی کے چھینٹے پڑ جائیں۔

دوسرے دن شام کو جب ماں، باپ کے پیتانے بیٹھ کر ان کے پاؤں دبا رہی تھی، گوپی پوجا گھر میں جا کر دھک دھک کرتے دل کے ساتھ بھابھی کے پیچھے کھڑا ہو گیا۔ بھابھی پوجا میں مستغرق تھی۔ رامائن کا پاٹھ چل رہا تھا۔۔ ’’ایہ تن ستی بھینٹ اب ناہِیں۔۔۔ ‘‘بھابھی اسی پنکتی کو بار بار بھرائی آواز میں دہرا رہی تھی۔ آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے تھے۔

گوپی کا دل غمگساری سے بھر گیا۔ اس کی آنکھوں سے بھی آنسو کی دھار بہہ چلی۔

آخر آنچل سے آنکھیں سکھا کر، بھابھی نے پوجا ختم کر ٹھا کر کے چرنوں پر سرلگایا۔ پھر چرن امرت پان کر کے اٹھی، تو سامنے دیور کو ایک عجیب حالت میں کھڑا دیکھ کر پہلے تو اس کی آنکھیں پھیل گئیں، پھر دوسرے لمحے پلکیں جھپکنے لگیں۔ جیل سے واپس لوٹنے کے بعد گوپی ایک بار بھی بھابھی سے آنکھیں نہ ملا سکا تھا، تنہائی میں ملنے کی بات تو دور رہی۔ بھابھی ایک بار گوپی کی جانب حیران ہرنی کی طرح دیکھ کر بغل سے جانے لگی، تو گوپی نے ساری جرات بٹور کر اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے اس کی کلائی پکڑ لی۔ بھابھی کے منہ سے جیسے ایک چیخ سی نکل گئی، ’’بابو!‘‘

گوپی کا چہرہ تمتما اٹھا۔ جذبات میں جلتا ہوا وہ کانپتے لہجے میں بولا، ’’بھابھی، اب مجھ سے یہ سب نہیں دیکھا جاتا!‘‘

بھابھی اپنے دیور کو خوب جانتی تھی۔ اس کی ایک ہی بات، ایک ہی حرکت سے وہ اس کے اندر کی ساری باتیں جان گئی۔ اس کی آنکھوں کی ویرانی اور مجبوری پر خوشی کی ایک کرن پھوٹی اور پوشیدہ ہو گئی۔ وہ بھرائے لہجے میں بولی، ’’میرے قسمت میں یہی لکھا تھا بابو۔‘‘ اور آنسوؤں کو امنڈنے سے روکنے کیلئے اس نے ہونٹوں کو دانتوں سے بھینچ لیا۔

’’ میں قسمت نصیب کی بات تو نہیں جانتا بھابھی! میں تو صرف اپنے دکھ اور تمہارے دکھ کی بات جانتا ہوں۔ کیا ہم دونوں مل کر یہ دکھی زندگی ساتھ ساتھ نہیں کاٹ سکتے ہیں؟ اجڑے ہوئے دو دلوں کے ملنے پر کیا کوئی نئی دنیا نہیں بس سکتی؟ ‘‘ کہہ کر گوپی نے بھری آنکھوں سے پر زور درخواست کر کے بھابھی کی طرف دیکھا۔

بھابھی نے ایک ٹھنڈی سانس لی، دوسرے ہی لمحے اس کا چہرہ امید اور مایوسی کی دوہری مسکان سے عجیب سا ہو گیا۔ بولی، ’’ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔۔ بابو، ایسا بھی کیا۔۔۔ ‘‘

’’ایسا کبھی نہیں ہوا، اسی لیے آگے بھی کبھی نہیں ہو گا، یہ بات میں نہیں مانتا۔ بھابھی! میں تو بس یہی جانتا ہوں اور خوب سوچ سمجھ کر دیکھ بھی لیا ہے کہ اس کے سوا ہمارے تمہارے لئے کوئی دوسری راہ نہیں ہے! میں تمہاری اس حالت کی وجہ سے اپنی زندگی میں ایک پل کو بھی چین سے نہ رہ پاؤں گا!‘‘ گوپی نے براہ راست دل کی بات کہہ کر نگاہیں نیچی کر لیں۔

اس کے دل کی تڑپتی سچائی کو بھابھی سمجھ نہ پائی ہو، یہ بات نہیں۔ دیور کے پیار سے یہ ہمیشہ دبی رہی ہے۔ اسی کا سہارا لے کر وہ آج بھی ایک نا ممکنات کو اسی طرح گلے لگائے ہوئے ہے، جیسے بِچھّی اپنے پیٹ میں بچوں کو پالتی ہے۔ بِچھّی کی جان اس کے بچے لے لیتے ہیں یہی سوچ کر وہ ان سے اپنا گلا تو نہیں چھڑا لیتی! بھابھی کی جان بھی ایسے ہی نکل جائے گی، وہ جانتی ہے۔ پھر بھی اس نا ممکنات کو اپنے دل سے ایک لمحے کے لیے بھی وہ الگ کہاں کر پائی ہے؟ آج کے اس موقع کا اسے مدتوں سے انتظار تھا۔ اس نے بہت بار یہ بھی سوچا تھا کہ ایسے موقع پر وہ کیا کہے گی۔ لیکن اب موقع سچ مچ اس کے سامنے آ گیا، تو اسے لگا کہ دل کی بات اس کے ہونٹوں پر آئی نہیں کہ دیور کے سامنے وہ چھوٹی ہو جائے گی۔ اس حالت میں اسے لگا کہ اس بات کو مجبوراً دبانا ہی پڑے گا۔ اس کی بے چینی دیور کو بھی معلوم ہے، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ بھابھی اپنے پیارے دیور کے دلی پیار، سچی ہمدردی کا بوجھ برداشت سکنے میں آج کتنی لاچار ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے کئے ہی کچھ ہو سکتا ہے۔ بھلا بھابھی کیلئے ایسے دیور کی درخواست ٹھکرا دینا، اپنے آپ کو اور اس کے اب تک چلے آئے پیار کی ڈور میں بندھے تعلق کو توڑ دینا کیسے ممکن ہے؟ اتنا سب جان کر بھی بھابھی کے منہ سے کچھ قبول کروا کر اسے وہ چھوٹا کیوں بنانا چاہتا ہے۔

کشمکش میں پڑی بھابھی بولی، ’’ہمارا سماج، ہماری برادری، ہمارے ماں باپ ایسا کبھی نہیں ہونے دیں گے بابو!‘‘

’’بھابھی، اس سب کو تم میرے اوپر چھوڑ دو، میں تو تم سے یہ جاننا چاہتا ہوں کہ جس راستے پر چلنے کا میں نے فیصلہ کر لیا ہے، اس پر تم بھی میرے ساتھ ساتھ چل سکو گی نا!‘‘ اتنا کہہ کر گوپی نے بھابھی کی کلائی اپنے ہاتھ میں دبا کر اس کی طرف ایسے آنکھوں میں کلیجہ نکال کر دیکھا، جیسے اس کے جواب پر ہی اس کا زندگی اور موت منحصر ہو۔

بھابھی کے ہونٹوں میں کپکپاہٹ ہوئی۔ من کی بات ہونٹوں پر آ کر ابلنے لگی۔ لیکن پھر بھی، لاکھ جرات بٹورنے کے بعد بھی منہ سے کچھ نکل نہ سکا۔ اس کے دل منہ تک آئی بات کو جیسے پی گیا۔ دل کی طوفانی دھڑکن پر قابو پانے کیلئے اس نے اپنا تمتمایا، کانپتا چہرہ نیچے کر لیا۔ اور گوپی کو گویا جواب مل گیا۔ اس کے جی میں آیا کہ بھابھی کو کھینچ کر اپنے سینے سے لپٹا لے۔ اس کے ہاتھ میں کچھ حرکت بھی ہوئی، لیکن دوسرے ہی لمحے وہ خود کو روکنے کیلئے ہی بھابھی کی کلائی چھوڑ کر، تیزی سے باہر چلا گیا۔

بھابھی متلاطم دل کو تسلسل میں لانے کے لئے ٹھا کر کے چرنوں میں گر کر بے قابو ہو کر رو پڑی، ’’بھگوان! بھگوان! کیا سچ ہی۔۔۔‘‘

گوپی ماں باپ کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا۔ باپ نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا، ’’دانہ میسنا اب کتنا رہ گیا، بیٹا؟‘‘

’’آج ختم ہو گیا، بابو جی۔‘‘

’’ اچھا، تُو جا، ہاتھ منہ دھو لے۔ بھابھی نے روٹی سینک لی ہو، تو گرم گرم کھا لے۔ دن بھر کا تھکا ہارا ہے۔ ‘‘پھر اپنی عورت کی طرف دیکھ کر کہا، ’’فصل گھر آ جاتی ہے، تو کسان کی سال بھر کی محنت کامیاب ہو جاتی ہے۔ کام سے ذرا فرصت پا کر اس دن وہ آرام کی ایک سانس لیتا ہے۔‘‘

’’بابو جی۔‘‘

باپ نے مڑ کر پھر گوپی کی طرف دیکھ کر کہا، ’’کیا کہتا ہے؟ کوئی بات ہے؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’تو کہو!‘‘

’’بابو جی، اب میں گھر بساؤں گا۔‘‘

’’ یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے، بیٹا! ہم تو تمہاری اسی بات کا، جب سے تم آئے، اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ کر ہی لو۔ طے کرتے کتنی دیر لگے گی! کتنے آ آ کر چلے گئے۔ اوہ ہاں، مٹرو ادھر مہینوں سے نہیں آیا۔ کہہ گیا تھا، میں ہی گوپی کا بیاہ کراؤں گا۔ بھول گیا ہو گا۔ دانے میسنے سے آج کل کس کسان کو کہاں کسی بات کی فکر رہ جاتی ہے! ٹھیک ہے، اب سب ٹھیک ہو جائے گا، بیٹا! تجھے کوئی فکر کرنے کی ضرورت نہیں!‘‘ پھر اپنی عورت کی طرف مڑ کر خوشی سے پاگل ہوتے ہوئے بولے، ’’کھیت کی دولت کٹ کٹ کر جب گھر آ جاتی ہے تو کسان کی توجہ کھیت سے ہٹ کر گھر میں آ جاتی ہے! کیوں گوپی کی ماں؟‘‘

ماں خوشی میں پھولی ہوئی اپنے آنچل سے اپنے لاڈلے کے منہ پر جمی دھول گرد کو پونچھتے ہوئی بولی، ’’سو تو ہے ہی گوپی کے بابو جی! گھر بھرتا ہے تو پیٹ بھرتا ہے، اور جب پیٹ بھرتا ہے تو۔۔۔ ‘‘اور وہ زور زور سے کھی کھی کر کے ہنس پڑی، تو بوڑھے بھی ہو ہو کر اٹھے۔

’’لیکن بابو جی۔۔۔‘‘ سر جھکائے، ہاتھوں کو الجھاتا گوپی بولا۔

’’تم فکر نہ کرو، بیٹا! سب ٹھیک ہو جائے گا بیٹا! میری برادری سے تعلق کرنے کا لالچ کس میں نہیں؟ ابھی کچھ نہیں بگڑا ہے۔ تو لائق بن کر رہے گا، تو سب بگڑی بن جائے گی۔ وہی دیکھنے کو تو ابھی تک میں زندہ ہوں۔ کیوں گوپی کی ماں؟‘‘

’’اور نہیں تو کیا؟ میرا لال سلامت رہے، تو پھر گھر افشاں بھر جائے گی۔ اوہ میرے بھگوان!‘‘ اور بوڑھی نے دونوں ہاتھ پیشانی سے لگا لئے۔

’’ مگر بابو جی!’’ سوکھتے حلق کے نیچے تھوکنے اتارتا ہوا گوپی بولا، ’’میں۔۔۔ میں نے۔۔۔ مجھے۔۔۔ مجھے۔۔۔ اپنا گھر بسانے کیلئے کسی دوسری لڑکی کو نہیں لانا ہے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ بھابھی۔۔۔‘‘

’’کیا؟‘‘ غصے میں کانپتے پِتا ایسے چیخ پڑے کہ ان کی آنکھیں نکل آئیں۔ ماں جیسے دفعتاً جم کر پتھر ہو گئی۔ اس کا منہ اور آنکھیں حد سے زیادہ پھیل گئیں۔ باپ نے گرج کر کہا، ’’میرے جیتے جی اگر تو نے یہ بات پھر منہ سے نکالی، تو۔۔۔ تو۔۔۔ تو سن لے، وہ میرے گھر کی دیوی ہو سکتی ہے، لیکن بہو۔۔۔ بہو وہ مانک کی ہی رہے گی۔ تو نے اگر۔۔۔ اوہ، مانک کی ماں؟ ‘‘ ان کا غصے میں اٹھا ہوا اوپری جسم کانپتا ہوا کٹے درخت کی طرح دھم سے گر پڑا اور وہ دونوں گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے زور سے کراہ اٹھے۔ ماں سلگتی ہوئی آنکھوں سے گوپی کی جانب دیکھتی، غصے سے کانپتی ان کے گھٹنوں کو سہلانے کی بیکار کوشش کرنے لگی۔

بوڑھے کی کڑک دار آواز سن کر کئی آدمی لپک آئے۔ بھابھی دروازے پر آ کر ہونٹ چبانے لگی۔

گوپی ہاتھوں سے سر پکڑے وہاں سے ہٹ گیا۔

دنیا سمجھتی ہے کہ بیٹا اور بیوہ بہو، ماں باپ کی آنکھوں کے ستارے ہیں۔ بوڑھا کیسے دوسروں سے کہتا ہے، ’’میرے گھر کی لکشمی ہے! بیوہ ہوئی تو کیا، وہ میری جان کے پیچھے ہے! اس کی خدمتوں کا بدلہ کیا اس کی زندگی میں میں چکا سکتا ہوں؟ پچھلے جنم کی وہ میری بیٹی ہے، اگلے جنم میں، میں اس کی بیٹی بن کر اس کی خدمت کروں گا، تبھی قرض سے نجات پاؤں گا؟ ‘‘ اور ماں؟ ’’ اسے میں اپنی آنکھوں کی پتلی کی طرح رکھوں گی! میرے لئے تو یہ میرا مانک ہی ہے؟ بڑی بہو ایک دن گھر کی مالکن بنے گی! اسے تلسی کی طرح سب اپنے سر پر رکھیں گے! ‘‘ لیکن کوئی بھولے گوپی سے تو پوچھے کہ وہ اس کے لئے کیا ہیں؟ اوہ، ان کی آنکھوں کے شعلوں نے کیوں نہیں اسے وہیں جلا کر بھسم کر دیا، کیوں نہیں بڑھ کر بھابھی کو جلا دیا، کیوں نہیں پھیل کر سارے گھر کو جلا دیا؟ سب جھنجھٹ ہی صاف ہو جاتا۔ پھر بوڑھا بوڑھی بیٹھ کر مسان جگاتے!

گوپی کا سارا تن من پھنک رہا تھا۔ اس کے جی میں آتا تھا کہ ابھی سب کو نوچ ناچ کر رکھ دے اور بھابھی کا ہاتھ پکڑ کر گھر سے نکل جائے۔ کئی بار چوپال سے گھر میں جانے کو اس کے پاؤں بڑھے اور پیچھے ہٹے! کئی بار اس نے دانت بھینچ بھینچ کر کچھ سوچا، لیکن اتنی ہمت اس میں کہاں تھی کہ ماں باپ کی چھاتی پر پیر رکھ کر وہ چلا جائے۔ اس نے کب سوچا تھا کہ آخر اسے ایسا بھی کرنا پڑے گا؟ وہ تو سوچتا تھا کہ ماں باپ کا اکیلا لاڈلا جیسے ہی منہ کھولے گا۔۔۔۔

وہ مجبور ہو کر غصے میں پاگل سا باہر نکل پڑا۔ اسے ڈر لگا کہ سچ مچ وہ کہیں کچھ کر نہ بیٹھے!

اس کی اب تک کی بندھی امید ٹوٹ گئی تھی۔ اتنے دنوں اپنے دل سے لڑ کر اس نے اس سے جو معاہدہ کیا تھا، وہ بیکار ثابت ہو گیا۔ پِتا کی ایک بات نے ہی اس کے اب تک کے کھڑے کئے گئے محل کو ٹھوکر مار کر گرا دیا۔ ایک نئی راہ پر چل کر اپنی منزل کے قریب وہ پہنچا ہی تھا کہ اس کی ٹانگیں توڑ دی گئیں۔ آج وہ جتنا دکھی تھا، اس سے کہیں زیادہ پریشان تھا۔ اپنے ماں باپ پر۔ چلی آ رہی کھوکھلی رِیت، سماج کا بدبو دار رواج، سڑی گلی رسم، ذات برادری کی ایک جھوٹی عزت کے تنگ دل پجاری ماں باپ، اپنے خونی جبڑوں میں ایک پھول سی نازک، گائے سی بھولی، رو گی سی کمزور، لاچار سی اپنی حفاظت میں بے بس، قیدی سی غلام، صبح کے آخری ستارے سی اکیلی، ایک جوان عورت کو دبا کر چبا ڈالنا چاہتے ہیں۔ اوہ! انہی آنکھوں سے وہ کیسے بے رحمی کا یہ سفاکانہ منظر دیکھتا رہے گا؟

وہ بوکھلایا سا کٹے ہوئے کھیتوں کھلیانوں میں پراگندہ ذہن اور پریشان دل کیلئے رات گئے تک گھومتا رہا۔ اسے اس وقت صرف ایک مٹرو ہی ایسا آدمی دکھائی دیتا تھا، جس کی گود میں سر ڈال کر وہ ذرا شانتی محسوس کرتا۔ شاید وہی اب کچھ کرے۔ بھابھی کی جانب سے تو اسے تسلی مل ہی گئی۔ اس کے جی میں آیا، ابھی دوڑ کر مٹرو کے پاس پہنچ جائے، لیکن گھر کاسوچ کر کہ جانے آج بھابھی پر کیا بیتے، وہ واپس لوٹ آیا۔

وہ کھیتوں سے گھر کی طرف چلا۔ چاروں جانب سناٹا چھایا تھا، کالی رات نے سب کچھ ڈھانک لیا تھا۔

چور کی طرح وہ گھرکے دالان سے کھٹولا نکالنے کو گھسا تو ماں کی کڑکدار آواز سن کر چوکھٹ پر ٹھٹھک گیا۔

ماں چوٹ کھائی شیرنی کی طرح گرج رہی تھی، ’’کلموہی! تجھے شرم نہ آئی دیور پر ڈورے ڈالتے۔ میں تو سمجھتی تھی کہ ساوتری سی ستی ہے بہو۔ کیا کیا ڈھونگ رچے تھے، پوجا پاٹھ، دھیان بھکتی، خدمت گذاریاں! مجھے کیا معلوم تھا کہ اس پاکھنڈ کی آڑ میں تو میری ناک کاٹنے کی تیاری کر رہی ہے! ڈائن! تجھے لاج نہ آئی یہ سب پاپ کرتے؟ یہی کرنا تھا، تو تُو کیوں نہ نکل گئی کسی گنہگار کے ساتھ؟ تُو منہ کالا کرتی، میرا بیٹا تو بچ جاتا تیرے جال سے! کتنے ہی آئے رشتہ لے کر اور واپس لوٹ آ گئے۔ ہم کہیں کیا بات ہے کہ وہ کسی پر کان ہی نہیں دھرتا۔ ہمیں کیا معلوم تھا کہ اندر ہی اندر تُو بے شرمی کا ناٹک رچ رہی ہے۔ خیر منا کہ بوڑھا معذور ہو گیا ہے، نہیں تو تیری آج بوٹی بوٹی کاٹ کر پھینک دیتا! تو چکھتی مزا اپنی کرنی کا! جا کہیں ڈوب کر مر جا کلموہی۔۔۔ ‘‘

گوپی اور زیادہ نہ سن سکا۔ اس کا دماغ پھٹنے لگا۔ اسے لگا کہ اگر وہ ایک لمحہ بھی وہاں کھڑا رہ گیا، تو کچھ ایسا شدید کام کر ڈالے گا، جس کا پھل نہایت ہی شدید ہو جائے گا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا سا بھاگ کر گھر کے قریب کنویں کی منڈیر پر دونوں ہاتھ سے اپنا پھٹتا ہوا سر دبائے پڑ گیا۔ اس کے دل میں دہائی مچی تھی۔

بھابھی نے آج تک ایسی باتیں نہ سنی تھیں۔ آج زندگی کے گزرے ہوئے دن اس کی آنکھوں کے سامنے ایسے ہی ناچ اٹھے، جیسے کسی مرنے والے کے سامنے۔ ماں باپ، بھائی بہن کا لاڈ، مانک کی محبت، ساس سسر، دیور کا پیار۔ ادھر، بیوہ ہونے کے بعد ضرور کچھ پریشان ہو کر وہ ساس سے اُلجھی تھی۔ لیکن اس طرح کی بات کوئی کہے، اس کا موقع اس نے کسی کو کبھی نہیں دیا تھا۔ آج بھی اس کی کوئی غلطی نہ تھی۔ پھر ساس جو ایسی باتیں بغیر کچھ جانے بوجھے، بنا سوچے سمجھے اسے سنانے لگی، تو اس کے دل کی کیا حالت ہوئی، یہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کا زخمی دل فریاد کر اٹھا۔ اس اچانک ہوئے بے رحمانہ حملے سے وہ ایسی سُن ہو گئی کہ نہ کچھ کہہ سکی، نہ رو سکی، نہ ہی ایک آہ ہی بھر سکی۔ دماغ بھنا رہا تھا، شعور پر نا قابل برداشت اذیت کا خاموش نشہ سا چھا گیا، انگ انگ میں جیسے کلبلا ہٹ ہو رہی تھی۔ جہاں شعور اور لا شعور ایک دوسرے سے ملتے ہیں، ایسی کیفیت میں وہ بت بنی بیٹھی رہ گئی۔ ساس بڑبڑاتی رہی۔ لیکن اب اسے جیسے کچھ سنائی نہ دے رہا تھا۔ اس کا شل ہو چکے دل و دماغ کی گہرائیوں میں ساس کی ایک ہی بات گونج رہی تھی، ’’جا کہیں ڈوب مر، کلموہی! جا۔۔۔‘‘

کبھی پہلے بھی مر جانے کی بات اس کے دل میں اٹھی تھی، لیکن ایک امید، ایک سہارے نے اس کے ہاتھ تھام لیے تھے۔ وہ امید نا ممکن ہی تھی تو کیا، پھر بھی امید تھی، لیکن آج؟ آج وہ بھی ٹوٹ گئی۔ جس ستارے پر نظر لگائے وہ آج تک زندہ تھی، وہی ٹوٹ کر گر پڑا۔ اب، صرف تاریکی ہے، تاریکی ہے، دشوار، سخت، شدید!

بڑبڑاتے بڑبڑاتے ساس بستر پر پڑ گئی اوراسی طرح تھک کر سو گئی۔ اسے کھانے پینے، بوڑھے کی دوا دارو، بیٹے کی کھوج خبر، یہاں تک کہ گھر کا بیرونی دروازہ بند کرنے کا بھی غصے کی وجہ سے خیال نہ رہا۔

اندھیری رات پل پل گاڑھی ہوتی گئی۔ گھر کا سناٹا گہرا ہوتا گیا۔ ماحول بھائیں بھائیں کرنے لگا۔ ویرانی کو بھی جیسے نیند آ گئی۔ سانسیں بھی جیسے تھم گئی ہوں۔

پاتال کی لامتناہی گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے بھابھی کے شعور میں ایک حرکت ہوئی۔ مد ہوشی میں لاش کی طرح وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ کوئی لفظ نہیں، کوئی خیال نہیں۔ اس کے بیہوش پاؤں اٹھے۔ یہ گھر کے باہر کی سیڑھی ہے، جس پر بھابھی نے اس گھر میں آنے کے بعد کبھی پاؤں نہ رکھا تھا۔ لیکن آج وہ نہیں ہے۔ آج ایک لاش ہے جو باہر جا رہی ہے۔ اور اسے تو اس پل بھی علم نہ تھا کہ وہ کیا کر رہی ہے۔ ایک بیہوشی بھرا شعور ہے، جو اسے لئے جا رہا ہے۔

اس کنوئیں کی منڈیر کی سیڑھیاں ہیں۔ دو قدم اور۔۔۔ اور۔۔۔ پھر۔۔۔

’’ کون؟ ‘‘ آنکھوں پھاڑتا ہوا گوپی اب تک جاگ گیا تھا۔

بیہوشی کو اچانک ہوش آ گیا۔ کانپتی بھابھی کنویں کے دہانے کی جانب دوڑی ہی تھی کہ گوپی نے اسے پکڑ لیا۔ ’’کون ہے؟ بھابھی تم؟‘‘ بھابھی بیہوش ہو کر اس بانہوں میں جھول گئی۔ یہی ہونے والا تھا، یہی ہونے والا تھا! گوپی کی بزدلی کا انجام یہی ہونے والا تھا! اب؟ وقت نہیں! جلدی! جلدی! سوچنے کا وقت کہاں، نادان!

اور گوپی بھابھی کو اپنی بانہوں میں اٹھائے بھاگ چلا۔ اندھیرا، کوئی راستہ نہیں۔ لیکن گوپی بھاگا جا رہا ہے۔ راستہ دیکھنے سمجھنے کا یہ وقت نہیں۔ اس وقت تو بھابھی کو ان چنڈالوں سے کہیں دور لے جانا ہے، وہ بس یہی جانتا ہے، یہی!

***

 

 

 

 

چودہ

 

 

پو پھٹنے سے پہلے ہی گوپی لوٹ کر کنویں کی منڈیر پر آ گیا۔ ابھی وہ خود کو مستحکم کرنے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ ماں کے چیخنے کی آواز اس کے کانوں میں پڑی، ’’ہائے رام! بڑی بہو گھر میں نہیں ہے!‘‘ لیکن وہ آنکھیں موندے ایسے پڑا رہا، جیسے نیند میں بے خبر ہو۔

آہستہ آہستہ محلے کے عورتیں مرد اس کے دروازے پر جمع ہو گئے۔ گوپی کو جگایا گیا۔ وہ ایک قاتل کی طرح خاموش بنا رہا۔ لوگوں نے بہت سوچ سمجھ کر بھیڑ ہٹائی اور ہدایت کی کہ سب چپ رہیں، کسی کو کانوں کان خبر نہ ہو، ورنہ بدنامی ہو گی سو تو ہو گی ہی، اوپر سے کہیں لینے کے دینے بھی پڑ نہ جائیں۔

لیکن اس طرح کی وارداتیں چھپائے کہیں چھپتیں ہیں؟ بہتوں کو اس طرح کی سنگین خبریں پھیلانے میں ایک عجیب طرح کا مزا ملتا۔ سو، گھڑی آدھ گھڑی گزرتے داروغہ آن دھمکا۔

داروغہ چلا گیا۔ گوپی چوپال میں اکیلا بیٹھا سوچ میں ڈوبا تھا۔ ماں کے رونے کی آواز سن کر اس کا پارہ چڑھ رہا تھا۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے؟ اسی نے تو اسے ڈوب مرنے کے لئے کہا تھا۔ اب یہ ڈھونگ کیوں دکھا رہی ہے؟ اس کے جی میں آتا تھا کہ جا کر اسے خوب آڑے ہاتھوں لے اور کہے کہ اب تو ناک بچ گئی! خوشیاں مناؤ! اپنی ذات برادری کی عزت کا ڈھول پیٹو! وہ اپنے باپ سے بھی جھگڑنا چاہتا تھا۔ اب تو عزت بڑھ گئی؟ کلیجہ ٹھنڈا ہوا؟ قاتلوں! اس معصوم کے قتل کا گناہ تا حیات تمہارے سر پر رہے گا۔ تم اپنی برادری کو ہار بنا کر گلے میں پہنے رہو، رسم و رواج کی خوب مالا جپو!

لیکن رات کا واقعہ اس کے دل و دماغ پر اتنا اور اس طرح چھایا تھا، کہ وہ اٹھ نہ سکا۔ سوچنے سمجھنے پر اسے لگتا تھا کہ وہ خود بھی ماں باپ سے کسی طرح کم مجرم نہیں تھا۔ اس کا بھی اس میں اتنا ہی ہاتھ تھا، جتنا انکا۔ اگر ہمت کر کے وہ ماں باپ کا مقابلہ کر سکتا، سرعام بھابھی کا ہاتھ پکڑ لیتا، تو بھابھی کیلئے ایسا کرنے کی نوبت کیوں آتی؟ یہی خیال اسے بری طرح کچلے ہوئے تھا۔ اس کی زبان بند تھی۔

آج وہی بات پھر اس کے دل میں بار بار اٹھ رہی تھی کہ سچ ہی اس سماج کی بیوہ لکڑی کا وہ کندا ہے، جسے اس کے شوہر کی چتا کی آگ ایک بار جو لگا دی جاتی ہے، وہ جلتی رہتی ہے، اس وقت تک جلتی رہتی ہے، جب تک وہ جل کر راکھ نہ ہو جائے اور اس کے راکھ ہو جانے سے پہلے اسے بجھانے کسی کو حق نہیں۔ کیا راکھ ہو جانے سے پہلے اس نے بھابھی کو بچا لینے کی جو کوشش کی، وہ اس کی سرکشی بھری سعی تھی؟ کیا اس کی سچی ہمدرد کوششوں کا یہی اختتام ہونا تھا؟ آخر اس میں باقی ہی کیا رہ گیا تھا۔ بھابھی کے راکھ جانے میں کسر ہی کتنی تھی؟ یہ تو اتفاق ہی تھا نہ، جو بچ گئی، ورنہ، ورنہ۔۔۔ اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔ اوہ! یہ کیا ہونے والا تھا! اے بھگوان! تیرا لاکھ لاکھ شکر، جو۔۔۔

اور یہ سوال بار باراس کے دماغ میں اٹھ پڑتے، ایسا کیوں ہوا؟ کیوں، کیوں؟

اور اس کے ہی ضمیر کی آواز اس کے جواب میں گونجنے لگتی، ’’ہاں، تم سچے تھے، تمہارے دل بھی سچا تھا، تم نے کوشش بھی کی ضرور! لیکن اس کوشش کو کامیابی کی منزل تک پہچانے کے لئے جس جرات کی ضرورت تھی، وہ تم میں زیادہ نہ تھی۔ اسی جرات کے فقدان نے ہی بھابھی کو راکھ ہو جانے کیلئے مجبور کر دیا تھا۔ جرات سے مبرا اس طرح کی کوششوں کا یہی آخر ہوتا ہے۔ یہ آگ کو اور بھڑکا دیتی ہیں۔ یہ فوری طور پر بھسم دیتی ہیں۔ مورکھ! اب بھی سمجھ جا، اب بھی سنبھل جا! یہ بچوں کا کھیل نہیں، یہ جذباتیت کے بیکار سے جوش کے بس کا روگ نہیں! یہ آگ میں پھاند کر آگ بجھانے جیسا ہے، یہ زندگی پر کھیل کر زندگی کو بچانا ہے، یہ ہزاروں سالوں سے لاکھوں بیواؤں کا خون پی کر توانا ہوئے رسم و رواج کے بھیانک شیطانی قوت سے اکیلے لڑ کر اسے زیر کرنا ہے، یہ سنسان جنگل سے ایک نیا راستہ نکالنا ہے! کوئی مذاق نہیں، کوئی کھیل نہیں! ‘‘

اور زندگی میں کبھی بھی ہار نہ ماننے والے گوپی کو لگا کہ جیسے اس کی جرات اور طاقت کو یہ دوسری للکار ہے، جس کے سامنے اگر اس نے سر جھکا دیا، تو اس میں بھابھی جل کر راکھ ہو جائے گی۔ پہلی للکار جوکھو کی تھی اور آج یہ دوسری ہے۔ اور گوپی کو محسوس ہوا کہ آج پھر وہی خون اس کی رگوں میں دوڑنے لگا ہے، جس کی طاقت کے سامنے وہ کسی کو کچھ نہ سمجھتا تھا۔

کنویں میں رسی ڈالی گئی، تال پوکھر کو چھانا گیا۔ اور جب کچھ پتہ نہ چلا، تو طرح طرح کی افواہیں ہوا میں اڑائی گئیں، طرح طرح کی کہانیاں رچی گئیں۔ عورتوں نے بھابھی میں کتنے ہی عیوب نکال ڈالے، بوڑھے مردوں نے زمانے کو کوس کوس مارا۔ یاروں نے باتیں خوب بگھاریں اور خوب مزے لوٹے۔ لیکن کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ گوپی کے سامنے زبان کھولتا۔ پھر اپنی چادر کے چھید کو چھپا کر دوسرے کی چادر کے چھید میں پاؤں ڈال کر کہاں تک پھاڑتے؟ پتھر گرنے سے پانی کی سطح پر جو ہلچل مچتی ہے، وہ بھلا کتنی دیر ٹھہرتی ہے؟

دن گزرتے گئے۔ دنیا معمول کے مطابق چلتی رہی۔ اور ایک رات جب گاؤں میں سناٹا ہو گیا تھا۔ گوپی کے دروازے پر ایک بھاری بھر کم گوجی دھم سے بج اٹھی۔

بوڑھے نے، جس کی نیند آج کل پہلے کی بہو والی خدمت گذاری نہ پا کر ہرن ہو گئی تھی، یوں ہی مندی آنکھیں کھول کر ٹوکا، ’’کون؟ ‘‘

مہمان آہستہ سے ہنسا۔ پھر بوڑھے کی جانب بڑھتا ہوا بولا، ’’جاگ رہے ہو، بابو جی؟‘‘

’’ کون؟ مٹرو ہے کیا؟ ارے بیٹا، میری نیند تو اُسی دن اڑ گئی، جس دن سے بہو چلی گئی۔ اب تو لاش ڈھو رہا ہوں۔ کون اس کے برابر ہماری سیوا کرے گی؟ بوڑھی تو ذرا دیر میں جھلا کر بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ اب تو بھگوان اٹھا لیں، یہی مانگتا رہتا ہوں۔ آؤ بیٹھو۔ بہت دن پر آئے! کیا کیا ہو گیا، اسی درمیان۔ سوچا تھا، اب دن لوٹیں گے، لیکن کرم میں تو جانے اب کیا کیا سہنا باقی ہے۔ ‘‘

دیوار سے گوجی ٹکا کر، پیتانے بیٹھ کر مٹرو بولا، ’’سب ٹھیک ہو جائے گا، بابو جی۔ آپ فکر نہ کریں! اس گھر کو بسانے کے لیے ہی تو میں اتنے دنوں رات دن ایک کیے رہا۔ سوچتا تھا کہ جب تک کام نہ بن جائے، کون سامنہ لے کر آپ کے یہاں آؤں۔ زبان دی تھی، تو اسے پورا کئے بغیر چین کہاں؟ مٹرو کی زندگی اسی ایک بات سے تو پامال رہتی ہے۔ اپنے مزاج کا کیا کروں؟ گنگا میا کے پانی، مٹی اور ہوا کے سوا زندگی کا کوئی سکھ نہ جانا۔ ہاں، بس حق اور انصاف کے سامنے کسی کو میں نے کبھی کچھ نہ سمجھا۔ کئی بار منہ کی کھا کر بھی زمیں داروں کی اینٹھ نہیں جاتی۔ منہ کا لگا ہوا آسانی سے نہیں چھوٹتا، بابو جی! پشتوں حرام کا دِیّر سے جمع کیا ہے۔ اب نہیں ملتا، تو دانت کٹکٹاتے ہیں۔ سنا ہے، قانون گو کو پڑتال کرنے کا حکم آیا ہے۔ ابھی تو چاروں جانب پانی ہی پانی ہے، وہ کا ہے کی پڑتال کرے گا؟ بات اگلے سال پر گئی۔ اس وقت تک ہمیں بھی تیاری کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ جان دے دیں گے بابو جی، لیکن زمیں داروں کا وہاں پاؤں نہ جمنے دیں گے۔ سالوں یہ لڑائی چلے گی۔ گنگا میا کی کرپا سے ہماری جیت ہو گی۔ حق اور انصاف ہمارے ساتھ ہیں۔ جھوٹ، فریب، دھاندلی، زور، ظلم کی گاڑی، بہت دنوں تک نہیں چلتی۔ اب مٹرو اکیلا نہیں، دِیّر اور ترواہی کے ہزاروں کسان اس کے ساتھ ہیں۔ اپنی پیاری زمین پر جان دینے والوں سے ان کی زمین چھین لینے کی طاقت کس میں ہے؟ ۔۔۔ انہی مسائل میں پھنسا رہا بابو جی، نہیں تو کبھی کا سب ٹھیک ہو گیا ہوتا۔ ادھر گنگا میا بھی پھول اٹھی ہیں۔ پانچ دن پہلے ہی تو اپنی کٹیا پار لے گیا ہوں۔ اس پار تو کتے کی طرح زمیندار میری مہک سونگھتے رہتے ہیں۔ اب تم کہو، یہاں کی کوئی خیر خبر بہت دنوں سے نہیں ملی؟ ۔۔۔ ‘‘

’’کیا کہیں بیٹا، گھر میں ایک کرنے دھرنے والی تھی، وہ بھی۔۔۔ ‘‘

’’وہ تو سن چکا ہو، بابو جی۔۔۔ ‘‘

’’ کیا بتاؤں، مٹرو بیٹا، ایسی لائق تھی وہ کہ اس کی یاد آتی ہے، تو کلیجہ پھٹ لگتا ہے۔ اب میں نہیں جیوں گا۔‘‘ کہتے کہتے وہ رو پڑے۔

’’بابو جی، آپ اس طرح اپنا جی ہلکا نہ کرو۔ تمہارے چرنوں کی قسم کھا کر کہتا ہوں بابو جی، کہ میں گوپی کو ایسی بہو لا دوں گا، جو اکیلے ہی آپکی بڑی بہو اور چھوٹی بہو، دونوں کی جگہ بھر دے گی۔ آپ فکر نہ کریں؟‘‘

’’لیکن گوپی تیار ہو تو، بیٹا! وہ تو ہم سے بہت ناراض ہے۔ بولتا بھی نہیں۔ اب تم سے کیا چھپاؤں، وہ اپنی بھابھی کے ساتھ گھر بسانا چاہتا تھا۔ یہ بھلا کیسے ہو سکتا تھا؟ جانے اس دن پگلی بوڑھی نے بہو کو کیا کہہ ڈالا کہ وہ گھر سے نکل گئی۔ ادھر یہ ہم ناراض ہو کر گھلتا جا رہا ہے! ہمیں کیا معلوم تھا بیٹا، کہ اس طرح اس کا دل لگا تھا۔ معلوم ہوتا تو ہم کا ہے کو کچھ کہتے؟ ماں باپ کیلئے کیا بیٹے سے بڑھ کر برادری ہے؟ وہ بھی دو چار ہوتے تو ایک بات ہوتی۔ یہاں تو اسی کے سہارے ہماری زندگی ہے۔ برادری والے کیا ہمیں کھانا دیں گے؟ لیکن ہمیں کیا معلوم تھا؟ اب کتنا افسوس ہو رہا ہے! ارے، میری تو بیٹی ہی نکل گئی۔ اس کے برابر کون میری خدمت کرے گا؟ لیکن اب کیا ہی کیا جا سکتا ہے، بیٹا! تم اسے سمجھاؤ، اب تو ہوش سنبھالے۔‘‘

’’ سمجھاؤں گا بابو جی۔ میری بات وہ نہیں ٹال سکتا۔ مجھے اپنے مانک بھیا کی طرح وہ سمجھتا ہے۔ آپ فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کہاں پڑا ہے وہ۔ ‘‘اٹھتے ہوئے مٹرو نے کہا۔

’’ارے بیٹا ذرا دیر اور بیٹھ۔ مجھے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ کہاں۔۔۔‘‘

مٹرو آہستہ سے ہنس کر بولا، ’’اپنے گھر کی لڑکی ہے، بابو جی! یوں سمجھ لو کہ میری چھوٹی سالی ہی ہے۔ پنڈت سے جنچوا لیا ہے۔ گننا بننا سب ٹھیک ہے۔ روپ رنگ میں بالکل گوپی کی بھابھی ہی کی طرح ہے۔ ذرہ برابر بھی فرق نہیں۔ خصوصیات میں بھی اسی کی طرح۔ خدمت تو اتنا کرتی ہے، بابو جی، کہ تم سے کیا کہوں؟ تم دیکھنا نا! تم تو سمجھو گے کہ بڑی بہو ہی دوسرا روپ دھار کر آ گئی! تم بھی کیا سمجھو گے کہ میں کیسا ماہر ہوں۔ جب سے گوپی کی بھابھی کو دیکھا تھا، گوپی کے قابل کوئی لڑکی ہی نظر پر نہ چڑھتی تھی۔ کم کیسے آتی گھر میں؟ یہ تو اتفاق کہو کہ بالکل ویسی ہی لڑکی گھر میں ہی نکل آئی۔ وہ لوگ رنڈوے سے اس کی شادی کرنے کو تیار ہی نہ ہوتے تھے۔ سچ بھی ہے، ویسی روپ والی، گُنوں والی لڑکی کی شادی کوئی رنڈوے سے کیسے کرے؟ وہ تو مٹرو کی بات تھی کہ مانی گئی۔ مٹرو کی بات کوئی نہیں ٹالتا بابو جی۔ لیکن ہاں گھر کی ہوئی تو کیا؟ میں نے ان سے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو بھی جہیز وہ مانگیں گے، دینا پڑے گا۔ سو بابو جی، کسی بات کا لحاظ نہ کرنا۔ جو مانگنا ہے، کہہ دو۔۔۔‘‘

’’ارے، ہمیں اس سے کیا مطلب ہے؟ تُو گوپی سے ہی یہ سب طے کر لینا ہمیں کیا بیٹا؟ جس میں سب خوش، اس میں ہم خوش۔ گھر بس جائے، بس یہی بھگوان سے بنتی ہے۔ اچھا تو جا، صحن میں گوپی ہو گا اس سے باتیں کر لے۔ اور بیٹا، جتنی جلدی ہو، سب کر ڈال۔ دیر اب نہیں سہی جاتی! اے بھگوان۔۔۔‘‘

’’سو تو سب تیاری ہی کر کے آیا ہوں بابو جی‘‘ اتنا کہہ کر مٹرو اٹھا اور گوجی میں بندھی گٹھری کھول کر بوڑھے کے ہاتھ میں تھماتا ہوا بولا، ’’یہ مٹھائی، دھوتی اور پانچ سو روپے تلک کے ہیں۔۔۔ ‘‘

’’ ہیں ہیں، ارے اتنی جلدی کیسے ہو گا یہ سب؟ پر۔۔۔ پروہت، بر۔۔۔ برادری۔۔۔ ‘‘

’’وہ تم سب کرتے رہنا بابو جی۔ میرا تو جانتے ہو، رات کا ہی مہمان ہوں! پھر گنگا میا جوشیلی ہو گئی ہیں۔ پار وار کا معاملہ ہے۔ کون بار بار آنے جانے کا خطرے اٹھائے گا؟ پھر تم یہ سب لے لو گے تو گوپی پر دباؤ ڈالنے کی ایک جگہ بھی نکل آئے گی۔ میرا کام کچھ آسان ہو جائے گا۔ یوں، کام تو تمہارا ہی ہے۔ اب گوپی کو بھی ٹیکا لگا دوں۔ جے گنگا جی!‘‘ اور وہ اٹھ پڑا۔

گوپی صحن میں کھٹولے پر پڑا خراٹے لے رہا تھا۔ مٹرو نے پہنچ کر ایک زور کی دھول جمائی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھاتا ہوا بولا، ’’کیوں بے، میں تو تیری شادی کے چکر میں اتنی رات کو چڑھتی ہوئی ندی پار کر کے آیا ہوں اور تو یہاں خراٹے مار رہا ہے؟ آنے دے بہو کو، پھر دیکھوں گا کہ کیسے خراٹے لیتا ہے؟‘‘

ہڑبڑا ہوا گوپی اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور آہستہ سے بولا، ’’چوپال میں چلو، مٹرو بھیا۔ ‘‘

’’اور یہاں کیا ہوا ہے بے؟ ۔۔۔ او، شرم آتی ہو گی! ابے، تُو نے تو، عورتوں کو بھی مات کر دیا؟‘‘

گوپی اس کا ہاتھ کھینچ کر اندر لے گیا۔ اس کے ہاتھ سے گوجی لے کر دیوار سے ٹکا کر بولا، ’’میری۔۔۔‘‘

’’ ابھی چپ رہ، مجھے اپنا کام کر لینے دے! ‘‘کہہ کر اس نے بائیں ہتھیلی پر دائیں ہاتھ کا انگوٹھا رگڑا اور کچھ منتر سا بڑبڑاتا ہوا گوپی کے ماتھے پر تلک سا لگانے لگا، تو گوپی بولا، ’’اسے تُو نے کوئی کھیل سمجھ رکھا ہے؟‘‘

مٹرو دفعتاً ہنسی چھپاتا ہوا سنجیدہ ہو اٹھا۔ بولا ’’کھیل تُو کہتا ہے؟ بہادروں کے لئے مشکل سے مشکل کام بھی کھیل ہے اور بزدلوں کیلئے آسان سے آسان کام بھی مشکل ہے! تو یہ بات کس سے کہہ رہا ہے، کچھ خیال ہے؟ مٹرو نے اپنی زندگی میں کسی کام کو کبھی بھی مشکل نہ سمجھا۔ اس نے مشکلوں سے ہمیشہ ہی کھیلا ہے اور کھیل کھیل میں ہی سب کچھ سر کر لیا ہے۔ تو اس طرح کی بات پھر زبان پر نہ لانا! دنیا میں مجھے کسی بات کی طرف سے چڑھ ہے تو وہ بزدلی سے ہے اور جس دن میں نے سمجھ لیا کہ تُو بزدل ہے، اسی دن تجھے اور تیری بھابھی کو کاٹ کر گنگا میا کی بھینٹ چڑھا دوں گا! سمجھ لوں گا کہ ایک بھائی تھا، مر گیا، ایک بہن تھی، نہ رہی!‘‘ اس کا گلا بھرا گیا اور اس نے سر جھکا لیا۔

گوپی اس کی گود میں سر ڈال کر سسک پڑا۔ مٹرو اس کی پیٹھ سہلاتے ہوئے بولا، ’’پاگل، میرے رہتے تجھے کون سی بات مشکل لگتی ہے؟ اٹھ، میری بات سن! وقت زیادہ نہیں ہے۔ رات ہی رات مجھے واپس جانا ہے! ‘‘ اور اس نے گوپی کو اٹھا کر اس کے گالوں کو تھپتھپاتے ہوئے کہا، ’’سیسون گھاٹ کے سامنے میری ناؤ لگی رہتی ہے۔ وہاں تُو کہے گا، تو میری کٹیا تک پہنچا دیا جائے گا۔ میں اپنے آدمیوں سے کہہ رکھوں گا۔ تجھے کوئی دقت نہ ہو گی۔ میں نے بابو جی کو تلک دے دیا۔ کل پیلی دھوتی پہننا، برادری میں مٹھائی بٹوا دینا۔ اور شادی کی تاریخ کی خبر میرے آدمیوں کو دلوا دینا۔ سب قاعدے سے ہو۔ دولہا بن کر میرے یہاں آنا۔ بارات، بارات بھر نہ لانا، لانا تو چھوٹی لانا۔ گنگا میا غصے میں ہیں۔ ٹھیک ہے، جیسا مناسب سمجھنا، کرنا۔ میری بہن کی شادی ہے۔ خود کو بیچ دینے میں بھی مجھے کوئی عذر نہ ہو گا۔ گنگا میا پھر جھولی بھر دیں گی۔ اس کے دربار میں کسی چیز کی کمی نہیں، سمجھا؟ من میں کوئی ویسی بات نہ لانا۔ یہ نہ بھولنا کہ تُو مٹرو کا بھائی ہے۔ ایسا کرنا کہ مٹرو کی عزت بڑھے۔ مٹرو کی عزت بہادر ہی بڑھا سکتا ہے۔ اچھا، تو خیال رکھنا میری باتوں کا! سیسون گھاٹ! اب چلوں؟ ‘‘

’’ میری بھابھی کیسی ہے؟ ‘‘ محبت سے سرشارگوپی بول پڑا۔

مٹرو ہنسا! بولا، ’’ابے اب بھی وہ تیری بھابھی ہی ہے؟ دلہن کیوں نہیں کہتا؟ اچھی ہے، بالکل اچھی ہے! گنگا میا کی ہوا جہاں تن میں لگی کہ تینوں تپ مٹ جاتے ہیں۔ وہ تو اب ایسی ہری ہو گئی ہے، کہ دیکھو تو جیا لہرا اٹھے۔ اس دوران کبھی موقع ملے تو آ جانا‘‘ کہہ کر اس نے گوپی کا ما تھا چوم لیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔

گوپی نے اس پاؤں پکڑ لیے۔ مٹرو بولا، ’’ہاں، ابھی سے سیکھ لے، کہ بڑے سالے کا احترام کیسے کیا جاتا ہے!‘‘

’’ بھیا!‘‘ گوپی نے شرما کر سر جھکا لیا۔ مٹرو نے اسے اٹھا کر بازوؤں میں بھر لیا۔

***

 

 

 

 

پندرہ

 

 

منہ اندھیرے ہی بلرا سانی پانی کر کے آیا تو، بوڑھے نے اسے بلا کر کہا، ’’بھاگ کر جا کر پروہت جی کو بلا لا۔ کہنا، ساتھ ہی چلیں، دیر نہ کریں۔ ‘‘

’’کیوں مالک، کوئی مہمان آئے ہیں کا؟ چھوٹے مالک کا بیاہ۔۔۔ ‘‘

’’ہاں، ہاں رے، سب ٹھیک ہو گیا، تُو جلدی سے بلا تو لا!‘‘

بلرا چلا، تو اس کے قدموں میں وہ پھرتی نہ تھی، جو ایسی خوشی کے موقع پر ہوا کرتی ہے۔ چھوٹی مالکن جس دن سے لاپتہ ہوئی تھیں، اسے بہت دکھ ہوا تھا۔ گوپی کے آ جانے کے بعد اسے چھوٹی مالکن کو دیکھنے کا موقع نہ ملا تھا۔ گوپی ہی بھوسا وغیرہ نکالتا تھا۔ اس کے جی میں کتنی بار آیا کہ چھوٹے مالک سے وہ اپنے من کی بات کہے۔ کئی بار اکیلے میں بات اس کے منہ میں بھی آئی تھی، اور گوپی نے اسے کچھ کہتا دیکھ کر پوچھا بھی تھا۔ لیکن وہ ٹال گیا تھا، اس کی ہمت نہ پڑی تھی۔ چھوٹی مالکن عورت تھی، اس سے کہہ دینا آسان تھا۔ لیکن یہ بات گوپی کے ساتھ نہ تھی۔ کہیں ناراض ہو کر ایک آدھ تھپڑ جما دیا تو؟ کشتری کا غصہ کیا ہوتا ہے، اس سے اس کا کتنی ہی بار پالا پڑا تھا۔ آخر جب چھوٹی مالکن کے بھاگ جانے کی بات اسے معلوم ہوئی تھی، تو اس کے منہ سے یہی نکلا تھا، ’’چہ۔۔۔ چہ کیسے ظالم ہیں یہ لوگ! آخر بیچاری کو بھگا کر ہی دم لیا!‘‘

اسے اس معصوم، چھوٹی سی مالکن کی یاد بہت آتی تھی۔ بیچاری جانے کہاں، کیسے ہو گی۔ کون جانے، کسی پوکھر کے اندر ہی ہو۔ اس کی یہ سوچ ایک بھولے بھالے دل والے کی تھی۔ آخر چھوٹی مالکن سے اس کا ناطہ ہی کیا تھا؟ پھر بھی اس کیلئے جتنا سچاغم اسے ہوا تھا، شاید ہی کسی کو ہوا ہو۔

پھر کتنی جلدی یہ لوگ اسے بھول گئے! جیسے کوئی بات نہ ہوئی ہو۔ کتنے دن ہوئے ابھی اسے گئے؟ اور یہاں جھٹ سے بیاہ ٹھن گیا! خوشی منائی جائیں گی۔ باجے بجیں گے۔ کتنی خود غرض ہے یہ دنیا! اپنے سکھ کے آگے دوسرے کے دکھ کی یہاں کسے پرواہ ہے؟

بلرا جب پروہت کو ساتھ لیے لوٹا تو دروازے پر ہنگامہ مچا تھا۔ بلاوے پر برادری کے لوگ جمع تو ہوئے تھے، لیکن بغیر سب کچھ جانے سمجھے وہ شامل ہونے سے انکار کر رہے تھے۔ کہاں کی لڑکی ہے، اس کے ماں باپ کا خون کیسا ہے، ہڈی کیسی ہے؟ وہ رات کو بریچھے کے لوازمات دے کر کیوں چلا گیا؟ کیوں نہیں رکا؟ اس طرح کہیں کسی کا تلک چڑھتا ہے؟

گوپی ایک طرف خاموش کھڑا تھا۔ بوڑھے ہی دیوار کے سہارے بیٹھے ان سے باتیں کر رہے تھے۔ پنڈت جی کو انہوں نے دیکھا، تو بلا کر پاس پڑی چارپائی پر بٹھا کر ان سے کہا، ’’ پنڈت جی، کیا میں اندھا ہوں؟ اپنے خون خاندان کی فکر مجھے نہیں ہے؟ آج یہ مجھے یاد دلانے آئے ہیں۔ موقعے کی بات ہے۔ مٹرو سنگھ نہ رک سکا۔ لڑکی اس کی سالی ہے۔ کئی بار کہہ چکا، سمجھا چکا، منت کر چکا، لیکن ان لوگوں کی اینٹھ ہی نہیں جاتی۔ اپاہج ہو کر پڑا ہوں، تو یہ رعب جمانا چاہتے ہیں۔ آج یہ بھول گئے کہ ہم کون ہیں؟‘‘

’’برادری کے معاملات میں سب برابر ہیں! آنکھ سے دیکھ کر تو مکھی نہیں نگلی جائے گی! پنڈت جی، آپ ہی کہئے، شادی ہے کہ کوئی مذاق؟‘‘ ایک بولا۔

پنڈت جی جانتے تھے کہ کدھر کی حمایت کرنا اس موقعے پر فائدہ مند ہے۔ انہوں نے کھانس کر، سنجیدہ ہو کر کہا، ’’آپ کا کہا ٹھیک ہے۔ لیکن بھائی، ہر موقعے کے نزاکت کا قانون بھی بھگوان نے بنایا ہے۔ آپ لوگ تو جانتے ہیں کہ موقعے پر اگر دولہا بیمار پڑ جائے، بارات کے ساتھ نہ جا سکے، تو لوٹے کے ساتھ بھی لڑکی کی شادی کرا دی جاتی ہے۔ موقعے کی نزاکت تو دیکھنی ہی پڑتی ہے۔ کسی وجہ سے مٹرو سنگھ نہ رک سکے، تو کیا اسی لیے یہ موقع نکل جانے دیا جائے گا؟ نہیں، ایسی بات تو دستور کے خلاف ہو گی۔ میری رائے تو یہی ہے۔ پنچوں کی اب جو مرضی ہو۔ ‘‘

برادری والوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ ایک بوڑھا بولا، ’’پنڈت جی آپ نے جو موقع کی بات کہی، وہ ٹھیک ہے۔ لیکن یہ موقع تو کچھ ویسا نہیں۔ یہ ٹالا جا سکتا۔ لگن تو کہیں پھاگن میں ہی پڑے گا۔ چار پانچ مہینے ابھی ہیں۔‘‘

’’کیسے ٹالا جا سکتا ہے؟ یہ دھوتی، مٹھائی، روپیہ کیا لوٹا دوں؟‘‘ بوڑھے گرم ہو اٹھے۔

’’کئی بار ایسا بھی ہوا ہے۔‘‘ ایک دوسرا بول پڑا۔

’’اور میں نے اسے جو زبان دی ہے؟‘‘ بوڑھے چمک اٹھے۔

’’ایسی کوئی راجا ہریش چندر کی زبان نہیں ہے!‘‘ کسی تیسرے نے طعنہ دیا۔

بوڑھے کے لئے اب برداشت کرنا مشکل ہو گیا۔ وہ کانپ اٹھے اور گرج کر بولے، ’’یہ بات کس نے منہ سے نکالی ہے۔ ذرا پھر سے تو کہے! اصلی راجپوت باپ کا بیٹا ہوا، تو اس کی زبان نہ کھینچ لوں، تو کہنا؟ ابے گوپیا! تو کھڑا کھڑا میری توہین دیکھ رہا ہے؟ ذرا بتا تو اسے کہ تیرے باپ کو جھوٹا کہنے کا نتیجہ کیا ہوتا ہے!‘‘

برادری میں ایک لمحے میں سناٹا چھا گیا۔ پھر اشتعال سا مچ گیا۔ ’’یہ زبان کھینچنے والے کون ہوتے ہیں؟ سر آنے پر بات کہی ہی جائے گی۔ یہ ساری برادری کی توہین ہے! اٹھو! اٹھو! ۔۔۔ چلو! کوئی گالی سننے یہاں نہیں آیا۔ ٹاٹ پر بیٹھنے والا ہر شخص برابر ہوتا ہے۔۔۔ ان کیا مجال ہے؟ اٹھو! چلو!‘‘

پنڈت جی ’’ہاں ہاں‘‘ کرتے ہی رہ گئے۔ لیکن دھوتی جھاڑ جھاڑ کر، سب کے سب اٹھ کر بوکھلائے ہوئے، آنکھیں دکھاتے وہاں سے چلے ہی گئے۔ اب تک بھری بھری، دروازے پر کھڑی بوڑھی کو بھی جیسے اب غبار نکالنے کا موقع مل گیا۔ ہاتھ نچا نچا کر وہ بولی، ’’جاؤ جاؤ! تمہارے بغیر ہمارے بیٹا کی شادی نہیں رک جائے گی! پنڈت جی، پوجا کی تیاری کیجیے۔ ان کے آنکھوں دکھانے سے کیا ہوتا ہے؟ ہو گا کوئی گھُورا کتوار ان کی پرواہ کرنے والا! یہ مانک کے باپ کا گھرانا ہے، جو اکیلے ہی ہمیشہ سو پر بھاری رہا ہے! کیا سمجھ رکھا ہے انہوں نے؟‘‘

’’ سچ کہتی ہو، ججمانن، یہ تو سراسر ان کی نا انصافی ہے۔ پروہت کی بات بھی انہوں نے نہ مانی۔ اس سے آپ کا کیا بگڑ جائے گا؟ کچھ خرچ ہی بچ جائے گا۔ جس کا کوئی نہیں، اس کا بھگوان ہے، کسی کے بغیر کہیں کسی کا کام اٹکا ہے۔ ‘‘ اتنا کہہ کر پنڈت جی نے تیاری شروع کر دی۔

اس تماشے سے سب سے زیادہ خوشی بلرا کو ہوئی۔ انہی کم بخت برادری والوں کے خوف سے تو چھوٹی مالکن کی وہ حالت ہوئی تھی۔ اس برادری کا ڈر نہ ہوتا تو جتنی بیواؤں کی زندگیاں تباہ ہوئی ہیں، سبھی بچ جاتیں اور ٹھکانہ پا جاتیں! یہ خوشی بالکل ایک مد مقابل کی جیت کی تھی۔ اسے ایسا لگا کہ یہ اسی کی جیت ہوئی!

پنڈت جی کو کھانا کھلا پلا کر، رخصت کر کے گوپی پیلی دھوتی پہنے ہوئے چوپال میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ چلو، یہ بھی اچھا ہی ہوا۔ بلی کے بھاگ سے چھینکا ہی ٹوٹ گیا۔ راستے کا ایک بڑا پہاڑ آپ ہی ہٹ گیا۔

تبھی بلرا آ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔

گوپی نے اس کی طرف دیکھ کر کہا، ’’بہت خوش ہو؟ کیا بات ہے؟ ‘‘

’’مالک، تمہاری برادری والوں کو بھاگتے دیکھ کر آج مجھے بہت خوشی ہوئی!‘‘ ہاتھوں کو ملتے ہوئے بلرا بولا۔

’’اس میں خوشی کی کیا بات ہے!‘‘ گوپی یوں ہی بولا۔

’’واہ مالک! اس میں کوئی خوشی کی بات ہی نہیں ہے؟ انہی کے خوف سے تو چھوٹی مالکن نکل گئیں۔ ان کا ڈر نہ ہوتا تو کا ہے کو وہ گھر چھوڑتیں؟‘‘ اداس ہو کر بلرا بولا۔

’’ہاں، یہ تُو ٹھیک ہی کہتا ہے۔‘‘ کچھ کھویا سا گوپی بولا۔

’’تمہیں بھی برادری والوں کا ڈر تھا مالک؟‘‘

’’ہاں۔‘‘

’’لیکن آج تو ان سے تم نے اپنا سب ناطہ توڑ لیا۔ پہلے ہی ایسا کر لیتے، مالک، تو چھوٹی مالکن کو گھر کیوں چھوڑنا پڑتا؟ پہلے ایسا کیوں نہ کیا، مالک؟‘‘ بھرائے گلے سے بلرا بڑے ہی درد ناک لہجے میں بولا۔

گوپی اس کے اس سوال سے گھبرا گیا۔ اسے کیا معلوم تھا کہ یہ نیچ، گنوار بھی ایسی سمجھ کی بات کر سکتا ہے! وہ حیران سا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا۔

بلرا ہی بولا، ’’جانے کہاں کس حالت میں ہوں گی۔ ان سے بڑا موہ لگتا ہے، مالک! ایسی باچھی کی طرح وہ تھیں کہ کیا بتاؤں! ان کی یاد آتی ہے، تو آنکھوں سے لہو ٹپکنے لگتا ہے!‘‘ اور وہ رو پڑا۔

پریشان ہو کر گوپی بولا، ’’بھگوان تیرے جیسا دل سب کو دے، تیرے جیسا موہ سب کو دے! تُو دکھ نہ کر، بھگوان سب اچھا ہی کرتے ہیں۔ تُو چپ رہ۔‘‘

’’مالک۔‘‘ سسکتا ہوا بلرا بولا، ’’جب چھوٹی مالکن کو دیکھتا تھا، من میں اٹھتا تھا کہ تمہارے ساتھ ان کی کیسی اچھی جوڑی ہوتی! مالک، برادری والوں کا ڈر نہ ہوتا، تو تم ان کے ساتھ بیاہ کر لیتے نا؟‘‘

گوپی کا دل ہل گیا۔ وہ گھبرا سا گیا اور بلرا کا ہاتھ پکڑ کر اس کی آنکھیں پونچھتے ہوئے بولا، ’’تو بڑا اچھا آدمی ہے بلرا! جا، صبح سے تُو گھر نہیں گیا۔ تیری عورت کھوج رہی ہو گی۔ مائی سے کھیکا مانگ لے۔‘‘

٭٭٭

 

 

 

 

 

حصہ ششم

 

 

سولہ

 

پڑتال کیا ہونی تھی، جو ہوتی۔ کتنی ہی دھاندلیوں کی طرح یہ بھی کسانوں کو ڈرانے دھمکانے کی ایک ذمہ دارانہ اورافسرانہ چال ہی تھی۔ اور پھر گنگا میا کی مایا کہ اس سال پانی ہٹا، تو دو دھارائیں بن گئیں، ایک اِدھر اور ایک اُدھر اور درمیان میں زمین نکل آئی، دو پہاڑوں کے درمیان کسی وادی کی طرح۔ یہ سال شدید جد و جہد کا تھا، مٹرو جانتا تھا۔ اس نے اس کی مکمل تیاری بھی کی تھی۔ اب جو ندی کی دو دھاریں دیکھیں، تو اسے لگا کہ گنگا میا نے اس کے دونوں جانب اپنے وسیع بانہیں پھیلا کر اسے اپنی ایسی حفاظت کے گھیرے میں لے لیا ہے، کہ دشمن لاکھ سر مار کر بھی اس کا بال بانکا نہیں کر سکتے۔

ریت پر پہلے مٹرو کی کٹیا کھڑی ہوئی، اور دیکھتے ہی دیکھتے گزشتہ سال کی طرح پچاسوں جھونپڑیاں جگمگا اٹھیں۔

زمیں داروں نے سوچا تھا کہ اس سال کوئی کسان وہاں نہ جائے گا، لیکن جب یہ خبر ان کے کانوں میں پہنچی، تو وہ کلبلا اٹھے۔ تھانے، تحصیل، ضلع کی دوڑ دھوپ شروع ہو گئی۔ اتنے دن خاموش رہ کر انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ ایسے چلنے سے وہ پرانے دن نہیں آنے کے۔ اب تو کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا، ورنہ ہمیشہ کے لئے دِیّر ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہی آخری بازی ہے، ہارے تو ہار اور جیتے تو جیت۔ جان لگا کر، اس بار ادھر یا ادھر کر لینا چاہئے۔

مٹی تو ہموار ہے، لیکن زمین ابھی بہت گیلی ہے۔ کہیں کہیں تو ابھی تک دلدل ہی پڑا ہے۔ سوکھنے میں بڑی دیر لگے گی۔ دونوں جانب برابر زور کی دھاریں ہیں۔ شاید نہ بھی سوکھیں۔ بوائی کا وقت نکلا جا رہا ہے۔ دیر سے بھی بوائی کے لائق زمین ہو گی، اس کی بھی امید نہ تھی۔ مٹرو فکر میں پڑا تھا۔ تمام کسان فکر میں پڑے تھے کہ کیا کیا جائے، کہیں یہ سال خالی نہ چلا جائے۔

پوجن کا علم زمین کے بارے میں مٹرو سے کہیں گہرا تھا۔ یوں ہی جانچ کیلئے اس نے کنارے کے قریب ایک چھوٹا سا گڑھا کھود کر تھوڑے سے دھان کے بیج ڈال دیے تھے۔ پانچ چھ دن کے بعد وہاں ہریالی نظر آئی، تو اس نے مٹرو سے کہا، ’پاہُن، دھان بویا جائے تو کیسا؟‘‘

مٹرو نے ہنس کر کہا، ’’ابے، کیا دھان آج کل بویا جاتا ہے۔ ‘‘

پوجن نے اپنے تجربے کی بات کہہ کر کہا، ’’سنا ہے بنگال، مدراس میں دھان کی کئی کئی فصلیں ہوتی ہیں۔ اس دفعہ ہماری زمین بھی دھان کے لائق ہی معلوم پڑتی ہے۔ پانی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ نمی مہینوں بنی رہے گی۔ میں تو کہوں پاہُن، بویا جائے۔ فارغ بیٹھے رہنے سے کچھ بھی کرنا بہتر ہے۔ نہیں کچھ ہوا، تو اجڑ جائے گی اور کہیں ہو گئی تو ایک نئی بات معلوم ہو جائے گی۔‘‘

مٹرو اسی لمحے اٹھ کھڑا ہوا اور پوجن کے ساتھ جا کر گڑھے میں اگے دھان کو دیکھا، اس کی آنکھیں چمک گئیں۔ کہا، ’’سچ رے، تیری بات تو ٹھیک معلوم ہوتی ہے۔ ‘‘

اور کسانوں سے پھر صلاح مشورہ ہوا۔ پوجن کی بات مان لی گئی۔ بوائی کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔

گوپی سے آنے کیلئے مٹرو کہہ آیا تھا، لیکن اس کے بعد سے وہ ایک بار بھی نہ آیا۔ ناؤ والوں سے برابر پوچھا جاتا ہے۔ بارات میں دس پانچ مہمانوں کے سوا کوئی نہ ہو گا۔ برادری نے کھانا پینا بند کر دیا ہے۔ کسی بات کی فکر نہیں۔

ایک دن بھابھی نے مٹرو سے کہا، ’’بھیا، آپ نے اس سے آنے کو کہا تھا نا؟ ‘‘

’’ہاں۔ ‘‘

’’لیکن وہ تو نہیں آیا۔ تم سے جھوٹ تو نہیں کہا تھا؟‘‘

’’جھوٹ کیوں کہتا، ری؟ لیکن وہ آئے بھی کیسے؟‘‘

’’کیوں؟ ‘‘

’’شادی کے پہلے کوئی دولہا سسرال آتا ہے کیا؟ ‘‘ کہہ کر مٹرو مسکرایا۔

’’دھت! جاؤ بھیا، تم تو دل لگی کرتے ہو اور یہاں من میں رات دن ایک دھک دھک لگی رہتی ہے۔ ‘‘

’’کہ کیسا ہو گا دولہا؟ بھینسے کی طرح کالا کہ چاند کی طرح گورا؟‘‘

’’ہاں! پہلی بار دیکھنا ہے نا؟‘‘

’’تو؟‘‘

’’جانے کیا کیا اب دیکھنا ہے نصیب میں! تم لوگوں کو یہ سب تماشا جانے کیوں اچھا نہیں لگتا۔۔۔ ‘‘

’’تو یہاں دروازے پر گنگا میا ہیں۔ کنوئیں میں ڈوب مری ہوتی تو جہنم میں جاتی۔ یہاں تو گنگا میا کی گود میں سما جاؤ گی، تو سیدھا جنت تک پہنچ جاؤ گی!‘‘ کہہ کر مٹرو ہنسا۔

’’تم لوگ مجھے ایسا کرنے بھی تو دو! تمہیں کیا معلوم کہ جب سوچتی ہوں کہ وہاں دوبارہ جانے پر کیسی عجیب حالت میں پڑوں گی، تو دل کتنا بیکل ہو جاتا ہے۔ اس سے تو مر جانا کہیں زیادہ آسان ہے۔ ‘‘

’’ہوں! تو پھر وہی بات؟ تمہارے اس بھیا کے ہوتے بھی تیری فکر نہیں جاتی؟ ارے پگلی، اب گھر بسانے کی سوچ، ایک نئی زندگی شروع کرنے کی سوچ۔ جب دو دو تم پر جان نچھاور کرنے کو تیار ہیں، تو کس کی ہمت ہے، جو تجھے کچھ بھی کہہ سکے؟ تجھے بھی ذرا ہمت سے کام لینا چاہئے۔ بغیر ہمت کے ان رسوم و رواج کو کیسے توڑا جا سکتا ہے؟‘‘

’’عجب بندھن سے تم لوگوں نے مجھے باندھ دیا!‘‘

’’ہاں، بندھن کا موہ نہیں ہوتا، تو آدمی کا ہے کو جیتا؟ بچپن میں ایک کہانی سنی تھی ہیرامن سقّے کی۔ میرے جیسا ہی ایک دَیو تھا۔ اس کا دل ہیرامن سقّے میں بس گیا تھا۔ جب ہیرامن مرا، تو وہ دیو بھی مر گیا۔ اسی طرح لگتا ہے کہ جس دن تو مرے گی، اسی دن میں بھی مر جاؤں گا۔ ‘‘

’’بھیا!‘‘ بھابھی چیخ پڑی، ’’ایسی بات پھر زبان پر نہ لانا!‘‘

’’تو تُو بھی پھر ایسی بات منہ پر نہ لانا سمجھی۔‘‘ کہتے کہتے مٹرو کی آنکھیں بھر آئیں، ’’زندگی رہنے کیلئے ہے، حالات سے لڑ کر جینے کا ہی نام زندگی ہے۔ من چھوٹا کر کے اس دنیا میں نہیں جیا جا سکتا ہے!‘‘

’’میں بھی مرد ہوتی۔۔۔‘‘

’’نہیں، عورت ہو کر بھی کر، تب ہی تو تعریف کا ڈھنڈورا پیٹ کر میں لوگوں سے کہہ سکوں گا کہ ایک بہن ہے میری، جو ہمت میں مردوں کے بھی کان کاٹتی ہے!‘‘

’’تمہارے پاس رہ کر یہاں کوئی خوف، خوف نہیں لگتا۔ ‘‘

’’گنگا میا کے سائے میں آ کر تمام خوف بھاگ جاتے ہیں۔ یہاں کی مٹی اور ہوا ہی کچھ ایسی ہے۔ لکھنا کی ماں بھی پہلے بہت ڈرتی تھی، لیکن جب سے یہاں رہنے سہنے لگی، تمام ڈر، خوف چھو منتر ہو گیا۔ ابھی دیکھتی ہو نہ کیسے رہتی ہے۔‘‘

’’ہاں، آپ بھی میرے ساتھ کچھ دنوں کے لئے چلو گے نا؟‘‘

’’کیوں، گوپپا پر بھروسہ نہیں کیا؟‘‘

’’ہے، لیکن اتنا نہیں۔ تم پر جتنا بھروسہ ہوتا ہے، اتنا اس پر نہیں۔ ‘‘

’’ارے لکھنا کی ماں!‘‘ مٹرو نے پکار کر کہا، ’’سنتی ہے، یہ کیا کہتی ہے! یہ تو تیری سوت بن گئی معلوم ہوتی ہے!‘‘

لکھنا کی ماں ایک طرف بیٹھی دہی متھ کر مکھن نکال رہی تھی۔ ہنس کر وہیں سے بولی ’’ایسی سوت ملے، تو گلے کی مالا بنا کر پہنو۔ بہن، لے، یہ مٹھا تو دے بھائی کو، کہیں بغیر پئے ہی نہ نکل جائے۔ آج کل اسے کسی بات کی سدھ تھوڑی ہی رہتی ہے۔ ‘‘

بھابھی کے ہاتھ سے مٹھے کا لوٹا لے، گٹ گٹ پی کر مٹرو بولا، ’’اچھا اب چلوں، تھوڑی بہت تیاری تو کرنی ہی پڑے گی۔ بیس پچیس دن تو رہ گئے لگن کے۔ پوجن کو شہر بھیجنا ہے آج۔ ‘‘اور پھر وہ ’’ اے گنگا میا توہکے چُنری چڑھبو۔۔۔‘‘ گنگناتا ہوا باہر نکل گیا۔

گنگا میا کا آنچل دھانی رنگ میں رنگ کر لہرا اٹھا تھا۔ دیکھ دیکھ کر کسانوں کی چھاتیاں پھول اٹھتیں۔ اتنا زبردست دھان آیا تھا کہ بس۔ ربیع نہ بونے کا افسوس جاتا رہا۔ اس سے کہیں زیادہ دھان کی پیداوار ہو گی۔ گنگا میا کی لیلا نرالی ہے۔ اس کے آنچل میں کیا کیا بھرا پڑا ہے، اس کا اندازہ کون لگا سکتا ہے؟ جو جتنی خدمت اس زمین کی کرے، گنگا میا اسے اتنا ہی دے! محنت کبھی اکارت ہوئی ہے؟

پوجن نے شہر سے آ کر اپنی گٹھری بہن کے سامنے رکھ دی۔ وہ چوکے میں بیٹھی مٹرو کو کھیکا کھلا رہی تھی۔ بھابھی ایک طرف بیٹھی چھاج میں گندم پھٹک رہی تھی۔

مٹرو نے نوالہ نگل کر بیوی سے کہا، ’’کھول کر دیکھ تو، کیا کیا ہے؟ ‘‘ پھر بھابھی کی طرف منہ پھیر کر بولا، ’’اے ری، تو بھی آ! نہیں تو تیری بھابھی اکیلے ہی سب پر قبضہ کر لے گی! ‘‘

بھابھی آ کر کھڑی ہو گئی، تو لکھنا کی ماں نے گٹھری کھولی۔ چاندی کے نئے نئے زیورات کی چمک سے آنکھیں جگمگا اٹھیں۔ لکھنا کی ماں کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا۔ وہ ایک ایک کو اٹھا اٹھا کر دیکھنے لگی۔ من کی امنگ دباتی ہوئی بھابھی بھی جھک گئی۔

کڑا، گوڑہرا، ہنسلی، بازو بند، ہلکا۔۔۔ ہر ایک کی ایک ایک جوڑی۔ لکھنا کی ماں نے پوچھا، ’’یہ جوڑیاں کیوں منگائیں؟ اتنی۔۔۔‘‘

’’کیوں؟‘‘ درمیان میں ہی مٹرو بول پڑا، ’’ہمارے گھر دو پہننے والیاں ہیں نا؟‘‘

’’بھیا!‘‘ بھابھی چیخ سی پڑی، ’’میرے لئے تم کا ہے کو منگائے؟ ‘‘

’’ کیوں، بھائی کے گھر سے ننگی ہی سسرال جائے گی کیا؟ کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا؟ پگلی، یہ تُو کیوں نہیں سمجھتی کہ میرے کوئی لڑکی نہیں ہے، اور اب۔ ‘‘کنکھیوں سے اپنی عورت کی طرف دیکھ کر بولا، ’’ہونے کی کوئی امید بھی نہیں۔ تجھ ہی بیٹی کی خواہش بھی پوری کرنی ہے! اس نے نہ جانے کتنی بار گہنے کیلئے کہا تھا۔ آج تیری ہی قسمت سے اس کیلئے بھی آ گئے۔ پسند ہے نا؟‘‘

تبھی باہر سے ایک کسان نے آ کر کہا، ’’پہلوان بھیا، پھول چن گرفتار ہو گیا۔ باہر خبر دینے ایک آدمی آیا ہے۔ کہتا ہے۔۔۔ ‘‘

کھیکا ادھ کھایا ہی چھوڑ کر مٹرو اٹھ کر باہر لپکا۔ باہر بہت سے کسان جمع تھے۔ سب کے چہرے پر پریشانیاں تھیں۔ پوچھنے پر خبر لانے والے نے کہا، ’’پھول چن کے باپ نے کشتی پر خبر بھیجی ہے کہ پھول چن آج دوپہر کو گاؤں میں آنے پر گرفتار ہو گیا۔ اپنی بیمار ماں کو دیکھنے وہ آج صبح ہی گھر گیا تھا۔ دوپہر کو دس پولیس اہلکار آ کر اسے گرفتار کر کے لے گئے۔ وہ اوروں کو بھی تلاش کر رہے تھے۔ کہتے تھے، سو آدمیوں پر وارنٹ ہے دِیّر کے معاملے میں۔ زمیں داروں نے فوجداری چلائی ہے۔ ‘‘

سن کر سب سناٹے میں آ گئے۔ زمیندار کچھ کرنے والے ہیں، یہ سب کو معلوم تھا، لیکن اچانک اس طرح وارنٹ کٹ جائے گا، یہ کون سمجھتا تھا۔ سوچ کر مٹرو نے کہا، ’’تمام کشتیاں اس پار منگا لو۔ ادھر کے کنارے پر ایک بھی کشتی نہ رہے اور ادھر اس پار جانے والی کشتیوں کو بھی تیار رکھو۔ سب سے کہہ دو، کوئی گاؤں میں نہ جائے۔ سب لاٹھیاں تیار رکھو۔ سب سے کہہ دو ہوشیار رہیں۔ ایک کشتی سیسون گھاٹ کے سامنے ادھر سے خبر لانے کے لئے بھیج دو۔ ہاں، پھول چن کے بال بچے کہاں ہیں؟ ‘‘

’’یہیں اپنی کٹیا میں ہیں۔ سب رو رہے ہیں۔‘‘ ایک نے بتایا۔

’’ چلو، انہیں سنبھالو۔ ‘‘ آگے بڑھتا ہوا مٹرو بولا، ’’سیسون گھاٹ کون جا رہا ہے؟ کوئی ہوشیار آدمی جائے۔ گاؤں میں اپنے آدمیوں کو بھی تیار رہنے کی تاکید کرنی ہو گی۔ یہ زمیندار اب خون خرابے پر اتر آئے ہیں۔ ‘‘

***

 

 

 

 

سترہ

 

دوسرے دن فوری طور پر ایک ایک کر کے تمام جھونپڑیاں اٹھا کر جھاؤں کے جنگل میں کھڑی کر دی گئیں۔ کناروں پر جوانوں کا پہرا بٹھا دیا گیا۔ خبر ملتی رہی کہ پولیس والے روز گاؤں کا ایک چکر لگایا کرتے ہیں، لیکن دِیّر کے کسانوں کو یہ معلوم تھا کہ جب تک ہم یہاں ہیں، کوئی ہمارا بال بانکا نہیں کر سکتا۔ اس قلعے میں آ کر کوئی دشمن اپنی جان بچا کر نہیں جا سکتا۔ تمام چوکنے ہو گئے تھے۔ کوئی اپنے ترواہی کے گاؤں میں نہیں جاتا۔ ضرورت کی چیزیں اِدھر سے پار کر کے بہار کے قصبے سے لائی جاتی ہیں۔ ایک لحاظ سے زندگی کی ڈور کٹ کر دوسری طرف جا جڑی ہے۔ سب ٹھیک چل رہا ہے۔ کوئی غم نہیں۔ دھارائیں ویسے ہی بہہ رہی ہیں۔ دھان ویسے ہی لہلہا رہے ہیں۔ ہوا ویسے ہی چل رہی ہے۔

لیکن ادھر مٹرو کچھ پریشان سا ہے۔ زندگی میں کبھی بھی پریشان نہ ہونے والا مٹرو آج پریشان ہے۔ بہن کی شادی ہے۔ کہیں عین وقت پر رکاوٹ نہ پڑ جائے۔ پھر کون سا منہ وہ دکھائے گا اپنے ہیرامن کو! آج کل گنگا میا کی یاد بہت بڑھ گئی ہے۔ اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے برابر، اس کے منہ سے یہی نکلتا رہتا ہے، ’’میری میا! اس کی کشتی پار لگا دے۔ میری میا۔۔۔ ‘‘

بہن بیٹی کا بوجھ کیا ہوتا ہے، آج اسے معلوم ہو رہا ہے۔ نہ کھانا اچھا لگتا ہے، نہ پینا۔ بیوی اور بھابھی پوچھتی ہیں تو روہانسا ہو کر کہتا ہے، ’’جی نہیں ہوتا۔ سوچتا ہوں میری بہن چلی جائے گی، تو میری یہ کٹیا کتنی اداس ہو جائے گی۔ ‘‘

’’تو جانے کیوں دیتے ہو؟ روک لو! ‘‘ بیوی مذاق میں کہتی۔

’’کیا بتاؤں؟ رگھو کُل رِیتی سداچلی آئی‘‘ اور گنگناتا ہوا وہ وہاں سے ہٹ جاتا ہے۔ باہر نکل کر وہی پکار لگانے لگتا ہے، ’’میری میا! اس کی کشتی پار لگا دے! میری میا۔۔۔ ‘‘

میا نے بیٹے کی پکار سن لی تھی۔ بغیر کسی مسئلے کے وہ دن آن پہنچا۔ شام کے دھندلکا ہوتے ہی سیسون گھاٹ پر بارات اتری۔ نائی، پنڈت، دولہا اور پانچ براتی۔ نہ باجا، نہ گاجا۔ جیسے پار اترنے والے راہی ہوں۔

پھر بھی، اس دن رات بھر جھاؤں کے جنگلوں میں ہوا شہنائی بجاتی رہی۔ گنگا میا کی لہریں کساننوں کی آواز سے آواز ملائے منگل کے گیت رات بھر گاتی رہیں۔ کسانوں کی ٹِمکی بجی۔ بِرہوں کی بہاریں لہرائیں۔ رات بھر شہد بھریا وس ٹپکتی رہی، ٹپ، ٹپ!

جنگل کی ننھی ننھی چڑیوں اور ندی کے بڑے بڑے پنچھیوں نے ایک ساتھ مل کر جب پربھاتی شروع کی، تو رخصتی کی تیاریاں ہونے لگیں۔

دلہن، لکھنا کی ماں سے لپٹ کر ایسے ہی روئی، جیسے ایک دن وہ اپنی ماں سے لپٹ کر روئی تھی۔ لکھنا اور ننھوں کو ایسے ہی چوما چاٹا، جیسے ایک دن اپنے بھتیجوں کو چوما چاٹا تھا۔ پھر پوجن کی بھینٹ لی۔ مٹرو بھی انتظامات میں بھاگا بھاگا پھر رہا تھا۔ نہ جانے کیوں اسے بڑی گھبراہٹ سی ہو رہی تھی۔ بہن اس کے پاؤں پکڑ کر روئے گی، تو وہ کیا کرے گا، اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا۔

آخر سواری دروازے پر آ لگی، رخصت کی گھڑی آن پہنچی۔ بہن ملنے کیلئے بھیا کا انتظار کر رہی ہے۔ اب بھاگ کر کہاں جا سکتا ہے؟

دل سخت کر کے وہ کھڑا ہو گیا۔ دلہن پاؤں پکڑ کر رونے لگی۔ لکھنا کی ماں نے اسے اٹھانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ پاؤں چھوڑنے پر ہی نہ آتی۔ مٹرو بت بنا کھڑا تھا۔ رونے کی کن منزلوں سے چپ چپ وہ گزر رہا تھا، یہ کون بتائے؟

آخر جب وہ اسے اٹھانے کیلئے جھکا، تو دو آنسو ٹپک پڑے۔ اس کی بانہوں میں کھڑی، اس کے کندھے پر سر ڈال کر دلہن نے کہا، ’’تم ساتھ چلو گے نا؟‘‘

’’یہ کیا کہتی ہے بہن!‘‘ لکھنا کی ماں نے فکر مند ہو کر کہا، ’’اس پر وارنٹ ہے نا!‘‘

مٹرو نے اس کا منہ ہاتھ سے بند کرنا چاہا، لیکن وہ کہہ ہی گئی۔

دلہن نے سر اٹھا کر جانے کس کشمکش پر قابو پا کر کہا، ’’نہیں، بھیا، تمہارے جانے کی ضرورت نہیں، لیکن بہن کو بھول نہ جانا! ماں باپ، بھائی بہن سب کو کھو کر تمہیں پایا ہے، تم بھی بھلا دو گے، تو میں کیسے جیوں گی؟‘‘

’’نہیں نہیں، میری ہیرامن! تجھے بھلا کر میں کیسے رہ سکوں گا؟ تو ہمت سے کام لینا۔ میں۔۔۔ ‘‘ اور مزید کچھ کہہ سکنے کے قابل نہیں ہو کر ہٹ گیا۔

گھاٹ تک اداس مٹرو، گوپی کو سمجھاتا رہا۔ گوپی نے اسے یقین دہانی کرائی کہ فکر کی کوئی بات نہیں، وہ ہر حد تک تیار ہے۔ لیکن مٹرو کو اطمینان کہاں؟ اس کے کانوں میں تو وہی بات گونج رہی تھی، ’’تم پر جتنا بھروسہ ہوتا ہے، اتنا اس پر نہیں۔‘‘

کشتی چلی جا رہی ہے، بال بچوں، کسان کساننوں کے ساتھ کھڑا مٹرو تک رہا ہے، اس کی اداس آنکھیں جیسے اس پار، دور ایک طوفان کو آتے دیکھ رہی ہیں جو اس کی بہن کا استقبال کرنے والا ہے۔ اوہ، وہ ساتھ کیوں نہ گیا؟

گھر آ کر اداس مٹرو چٹائی پر پڑ رہا۔ اداس دھوپ پھیل گئی ہے۔ دودھ کے مٹکے ایک طرف پڑے ہیں۔ ان پر مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔ تھکی ہوئی لکھنا کی ماں کو جیسے کوئی ہوش ہی نہیں۔ سچ مچ گھر کتنا اداس ہو گیا ہے۔ مٹرو کا دل بھرا آیا ہے۔ خوب رونے کو جی چاہتا ہے۔ ایک ہی خلش دل مسل رہی ہے کہ وہ بہن کے ساتھ کیوں نہ گیا؟

کافی دیر کے بعد لکھنا کی ماں اٹھی۔ اس طرح بیٹھے رہنے سے کام کیسے چلے گا؟ سارا کام دھام پڑا ہے۔ مٹرو کے پاس آ کر بولی، ’’جاؤ، نہا دھو آؤ۔ اس طرح کب تک پڑے رہو گے؟ ‘‘

’’ نہا دھو لوں گا۔ ‘‘مٹرو نے کچے دل سے کہا، ’’مجھے اس کے ساتھ جانا چاہئے تھا۔ جانے بیچاری پر کیا بیتے؟ ‘‘

’’گوپی کیا مرد نہیں ہے؟ ‘‘ تنک کر لکھنا کی ماں بولی، ’’تم تو ناحق سوچ فکر کر رہے ہو! اٹھو!‘‘ اتنا کہہ کر اس کے اوپر پڑی چادر کھینچنے لگی۔

’’مرد ہے تو کیا ہوا؟ آخر ماں باپ کا لحاظ تو آدمی کو کرنا ہی پڑتا ہے۔ مجھے ڈر لگتا ہے، کہیں اس نے کمزوری دکھائی تو میری ہیرامن کا کیا ہو گا؟ مجھے جانا چاہئے تھا، لکھنا کی ماں!‘‘

’’ کچھ ہو گا تو خبر ملے گی نا! اس وقت تو تم اٹھو۔ دیکھو، کتنی دیر ہو گئی۔ گھر کا سارا کام کاج ابھی اسی طرح پڑا ہے۔ ‘‘ کہہ کر اندر سے دھوتی مسواک لا کر اس کے ہاتھوں میں تھماتی بولی، ’’جاؤ، جلدی نہا دھو آؤ! من ہلکا ہو جائے گا۔ ‘‘

کسی طرح کسمسا کر مٹرو اٹھا اور کنارے کی طرف چل پڑا۔

آج گنگا اشنان میں وہ لطف نہ آیا۔ زندگی میں اس طرح کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ اسے لگ رہا تھا کہ آج گنگا میا بھی اداس ہے۔ اس کی لہروں میں وہ زور نہیں، اس کی لہروں میں وہ تیزی نہیں، اس میں تیرتی مچھلیوں میں وہ چستی نہیں۔ کہیں کوئی تار ڈھیلا ہو گیا ہے۔ ساز بے ساز ہو گیا۔

’’تمہارے پاس رہ کر یہاں کوئی ڈر، ڈراؤنا نہیں لگتا۔ جب سوچتی ہوں کہ وہاں پھر جانے پر کیسی آفت اور نازک حالت میں پڑوں گی، تو دل کتنا بیکل ہو جاتا ہے۔۔۔ تم بھی میرے ساتھ کچھ دنوں کیلئے چلو گے نا؟ ۔۔۔ تم پر جتنا بھروسہ ہوتا ہے، اتنا اس پر نہیں۔۔۔‘‘ مٹرو کے ذہن میں یہ باتیں گونج جاتی ہیں اور اسے لگتا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر ہی اپنی ہیرامن کو اس کٹھور حالات میں اکیلی جھونک دیا ہے۔ اور وہ دل ہی دل میں تڑپ اٹھتا ہے۔ کیوں، کیوں وہ نہیں ساتھ گیا؟ کیوں اسے اکیلی چھوڑ دیا؟ کیوں اس کے ساتھ دھوکہ کیا؟

وارنٹ یہاں کا۔ اُس کا ایک احساس ذمہ داری! کہیں اسے کچھ ہو گیا ہوتا، تو یہاں اس کے ساتھیوں کی کیا حالت ہوتی؟ ۔۔۔ ساتھی اس کے اب پہلے کی طرح بیوقوف نہیں ہیں۔ انہیں اپنے قدموں پر کھڑا ہونا سیکھنا چاہئے۔ مٹرو آخر ہمیشہ ان کے ساتھ کیسے کھڑا رہے گا؟ مٹرو کی زندگی میں سب سے پہلے ایک ہی ذمہ داری تھی، لیکن اب تو دو ہو گئی ہیں۔ اسے اپنے دونوں ذمے داریوں کو نبھانا ہے۔ دونوں محاذوں پر برابر کے دشمن ہیں۔ ایک کے ظالم پنجوں میں پھنس کر کتنے ہی کسان تڑپ رہے ہیں اور دوسرے کے خونی جبڑے میں ایک بہن کراہ رہی ہے۔ ایک نہیں لا تعداد! ان کیلئے بھی راستہ نکالنا ہے۔

گھاٹ پر بیٹھا، کھویا کھویا مٹرو جانے ایسی ہی کیا کیا اوٹ پٹانگ باتیں سوچے جا رہا تھا کہ پوجن نے آ کر کہا، ’’بہنا آپ کو بلا رہی ہے۔ چلو، جلدی کرو۔ کب کے یہاں یوں ہی بیٹھے ہو؟ ‘‘ اتنا کہہ کر مٹرو کے سامنے پڑی گیلی دھوتی اس نے اٹھا لی۔

چلتے چلتے مٹرو نے کہا، ’’پوجن، ایک بات پوچھوں؟‘‘

’’کہو؟‘‘

’’اگر میں نہ رہا، پوجن تو تم لوگ سب سنبھال لو گے نا؟‘‘

’’لیکن تم رہو گے کیسے نہیں؟ گنگا میا تم سے چھوڑی جا سکتی ہیں؟ ‘‘

’’نہیں، چھوڑی کیسے جا سکتی ہیں؟ لیکن مان لو میں نہ رہوں؟ ‘‘

’’ واہ! یہ کیسے مان لیں؟‘‘

’’ارے، اس دفعہ نہیں ہوا تھا۔ میں کیا گنگا میا کو چھوڑ سکتا تھا؟ لیکن اتفاق کہ پولیس والوں کی پکڑ میں آ گیا۔ اُسی طرح۔۔۔‘‘

’’اب یہ کیسے ہو سکتا ہے، پاہُن؟ تب تم اکیلے تھے۔ ابھی سینکڑوں جوان تم پر جان دینے کو تیار ہیں۔ اگرچہ ہماری جان چلی جائے، لیکن تمہارا بال بانکا نہ ہونے دیں گے! پاہُن، تم زمین کی جان ہو!‘‘

’’سو تو ہے لیکن اتفاقاً۔۔۔‘‘

’’نہیں نہیں، پاہُن، ایسا اتفاق آ ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

’’اُف، تم تو بات کرنا ہی مشکل ہے، پوجن! اچھا مان لے، میں مر ہی گیا۔‘‘

’’پاہُن! ‘‘ پوجن چیخ پڑا، ’’ایسی بات منہ سے کیوں نکالتے ہو؟‘‘

’’پوجن!‘‘ سنجیدہ اور گھمبیر لہجے میں مٹرو بولا، ’’گنگا میا کا، ان کی زمین کا، ان کھیتوں کا، اس ہوا اور پانی کا، اس جنگل اور ان کسانوں کا اور اپنے ساتھیوں کا موہ مجھے اپنے بال بچوں کی طرح، بلکہ ان سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ آج خیال آ گیا کہ کہیں میں نہ رہا، تو ان ظالم زمیں داروں کے پاؤں اس زمین پر پھر تو نہیں جم جائیں گے؟‘‘

’’نہیں پاہُن، نہیں! اگر یہی بات ہے، تو سن لو کہ تمہارے ساتھی اپنے خون کی آخری بوند تک اس کی حفاظت کریں گے! جس طرح گزرا زمانہ پھر واپس نہیں آتا، اسی طرح زمیں داروں کے اکھڑے پاؤں یہاں پھر نہیں جم پائیں گے! ہمارا زور دن دن بڑھتا جا رہا ہے۔ ہمارے ساتھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ زمانہ آگے بڑھ رہا ہے! نہیں پاہُن ویسا کبھی نہ ہو گا! یہاں کا ہر کسان آج مٹرو بننے کی تمنا رکھتا ہے! تم اس کی فکر نہ کرو، پاہُن!‘‘

’’شاباش!‘‘ مٹرو نے پیٹھ ٹھونک کر کہا، ’’آج میں خوش ہوں، بہت خوش، پوجن! ایسا ہی ہونا چاہئے، ایسا ہی!‘‘

اور سچ مچ اداسی چھٹ گئی۔ چہرہ پہلے ہی کی طرح دمک اٹھا۔ آنکھیں چمک اٹھیں۔

لیکن جیسے ہی وہ کٹیا میں گھسا، وہ پہلے کی ہی طرح اداس ہو گیا۔

لکھنا کی ماں نے چوکے میں پیڑھی ڈالی۔ لوٹا بھر کر پانی رکھا۔ پھر بولی، ’’آؤ، روٹی کھا لو۔ ‘‘

مٹرو نے بیٹھ کر پہلا نوالہ توڑتے ہوئے کہا، ’’جی نہیں کر رہا۔ ‘‘

’’جی کیسے کرے؟ تیری ہیرامن تو چلی گئی!‘‘

’’اونہوں، اس کے جانے کی فکر نہیں۔ ‘‘

’’ پھر؟‘‘

’’جانے اس پر کیا بیتی ہو؟ اب تو پہنچ گئی ہو گی۔‘‘

’’بیتے گی کیا۔ تم راضی تو کیا کرے گا قاضی۔ گوپی تیار ہے، تو اس کا کون کیا بگاڑ لے گا؟‘‘

’’سو تو ہے رے، لیکن یہ ہتیاراسماج بڑا ظالم ہے۔ کتنے ہی گوپیوں کو اس نے زندہ چبا ڈالا ہے۔ اور گوپی چند کمزور ہے بھی۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ کہانی اتنی لمبی کیوں ہوتی؟ وہ تو اتفاق کہو، کہ گوپی کنویں پر جاگ گیا تھا، نہیں تو کہانی ختم ہونے میں دیر ہی کیا تھی؟ سوچتا ہوں کہ جس وقت گوپی کی ماں اس کی بھابھی کو جلی کٹی سنا رہی تھی، اگر اسی وقت ہمت کر کے، آگے بڑھ کر گوپی اپنی بھابھی کا ہاتھ تھام لیتا، تو کون اس کا کیا کر لیتا؟ لیکن وہ ایسا نہ کر سکا تھا۔ عورت کا مرد پر سے ایک بار یقین ہٹ جاتا ہے، تو پھر مشکل سے جمتا ہے۔ کہتی تھی نہ وہ، تم پر جتنا بھروسہ ہوتا ہے، اتنا اس پر نہیں۔‘‘

’’تو تمہارے ہی بھروسے پر اس کی زندگی پار لگے گی؟ آخر۔۔‘‘

’’ارے، سو تو ہے ری، کون کس کی زندگی پار لگا دیتا ہے؟ وقت کی بات ہوتی ہے۔ اسے اس وقت میرے سہارے کی ضرورت تھی۔ دو چار دن میں آندھی گزر جاتی، تو سب آپ ہی ٹھیک ہو جاتا۔۔۔‘‘

’’سب ٹھیک ہو جائے گا۔ روٹی کھا لو! ‘‘کٹوری میں گرم دودھ ڈالتی ہوئی اس نے بات ختم کر دی، ’’جو ہوا ہم سے کیا نا؟ کون اتنا غیر کے لئے کرتا ہے؟‘‘

’’تو عورت ہے نہ، لکھنا کی ماں’’ درد بھرے لہجے میں مٹرو بولا، ’’میرے اور میرے بچوں کے سوا تیرا کوئی اپنا نہیں، میں کسی کو اپنا بنا لوں تو اوپر سے تُو بھی اسے اپنا کہہ دے گی۔ میری منشا ہی تو تیری منشا ہے۔ تیرا دل اتنا بڑا، اتنا آزاد کہاں کہ میری منشا کے خلاف بھی تو اپنی منشا سے کسی غیر کو اپنا بنا لے۔ گوپی کی بھابھی جب تک یہاں رہی، تو اسے اپنائے رہی، کیونکہ یہی میری خواہش تھی۔ لیکن من تیرا اندر سے اسے اپنا نہ بنا سکا۔ لکھنا کی ماں، مان لے کہ کہیں تو آفت میں پھنس جائے اور تیری مدد کو میں نہ جاؤں تو؟‘‘

’’خاموش بھی ہو! کھا لو، پھر بولنا بیٹھ کر!‘‘

جی نہ ہوتے بھی مٹرو نے بھر پیٹ کھایا۔ اس کی بیوی کا اس میں کوئی دوش نہیں۔ وہ جانتا ہے، جیسی وہ بنی ہے، ویسا ہی برتاؤ تو کرے گی۔ نہ کھا کر اس کا دل میلا کیوں کرے؟

چٹائی باہر دھوپ میں بچھا کر، حقہ تازہ کر کے اس کی بیوی نے رکھ دیا۔ مٹرو گڑگڑاتا رہا اور سوچتا رہا۔ سوچتے سوچتے اونگھنے لگا۔ رات بھر کا جاگا تھا۔ حقہ ایک طرف ٹکا کر پھیل گیا اور تھوڑی دیر میں ہی نیند میں ڈوب گیا۔ بیوی نے چادر لا کر اوڑھا دی۔

شام ڈھل گئی۔

کہیں کوئی آفت کا مارا اکیلا توتا بڑے دردناک لہجے میں ٹیں ٹیں کرتا ہوا مٹرو کے سر پر سے اڑا، تو مٹرو کی آنکھ کھل گئی۔ جانے کس سپنے میں چونک کر وہ پکار اٹھا، ’’پوجن! پوجن! ‘‘

دوڑتے ہوئے آ کر پوجن نے کہا، ’’طوفان آ رہا ہے پاہُن۔ اُتّر کا آسمان کالا سیاہ ہو گیا ہے!‘‘

توتے کی ٹیں ٹیں آواز اب بھی آسمان میں گونج رہی تھی۔ مٹرو چادر پھینک کر کھڑا ہو گیا۔ پھر ادھر ادھر آنکھیں پھیلا کر دیکھتا ہوا بولا، ’’پوجن، میری ہیرامن طوفان میں پھنس گئی ہے، سن رہا ہے نہ اس کی ڈر بھری آواز!‘‘ اور سیسون گھاٹ کی طرف پاؤں بڑھا دیے۔

دروازے پر کھڑی بیوی چلائی، ’’کہاں جا رہے ہو؟ ‘‘

پوجن بولا، ’’اس طوفان میں کہاں جا رہے ہو؟‘‘

مڑ کر مٹرو نے کہا، ’’جلد لوٹ آؤں گا۔‘‘

طوفان آ گیا، گنگا میا کی لہریں، چیخ اٹھیں، ہوا سوں سوں کر اٹھی۔ جنگل سر دھننے لگا۔ زمین ہلنے لگی۔ جھونپڑیاں اب گریں کہ تب گریں۔

گھاٹ پر ناؤ والے سے مٹرو نے کہا، ’’کھولو، جلدی کرو!‘‘

’’اس طوفان میں، پہلوان بھیا؟ یہ کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ ناؤ والا آنکھ منہ پھاڑ کر بولا۔

’’کوئی حرج نہیں! اپنی میا کی ہی تو لہریں ہیں! اٹھاؤ لنگر! مجھے جلدی ہے! لاؤ مجھے دو! تم خاموشی سے بیٹھے رہو!‘‘ اور مٹرو نے کشتی کھول دی۔ دیکھتے دیکھتے چنگھاڑتی لہروں میں کشتی غائب ہو گئی۔

گوپی کے دروازے پر مٹرو کی گوجی دھم سے جب بولی، طوفان گزر چکا تھا اور اس کے بعد کاسناٹا گھر پر چھایا تھا۔ ہمیشہ کی طرح بوڑھے نے آواز نہ دی۔ مٹرو خود ہی آگے بڑھ کر بولا، ’’پائیں لاگو، بابو جی! ‘‘

بابو جی خاموش رہے!

’’ناراض ہو کیا، بابو جی؟ نئی بہو پسند نہیں آئی کیا؟ وہ کیا بالکل تمہاری بڑی بہو کی طرح نہیں ہے؟ میں نے کہا تھا نا۔۔۔ ‘‘

’’ہٹ جاؤ میرے سامنے سے!‘‘ بوڑھی ہڈی چٹخ اٹھی۔

’’ ہٹ کیسے جائیں؟ رشتے داری کی ہے کہ کوئی مذاق کیا ہے؟ ‘‘

’’ میری جگ ہنسائی کر کے جلے پر نمک چھڑکنے آیا ہے؟ ڈھول تو پٹ گیا گاؤں بھر میں! کیا باقی رہ گیا؟ مجھے پہلے ہی کیوں نہ مار ڈالا، چنڈال۔ ‘‘

’’ایسا کیوں کہتے ہو، بابو جی! تم میری عمر بھی لے کر جیو! اس دن تم ہی نے تو کہا تھا کہ اس کی یاد آتی ہے تو کلیجہ پھٹنے لگتا ہے۔ ماں باپ کیلئے کیا بیٹے سے بڑھ کر برادری ہے! برادری والے کیا ہمیں کھانا دیں گے۔ لیکن ہمیں کیا معلوم تھا۔ اب تو ہو گیا معلوم! اب تو کلیجہ نہیں پھٹنا چاہئے۔ لیکن یہاں تو۔۔۔‘‘

’’چپ رہ! میں کیا سمجھتا تھا، کہ تم سب ایسے پاگل۔۔۔ ‘‘

مٹرو ہنسا اور بولا، ’’پاگل آپ اور آپ کا سماج ہے، بابو جی! لیکن جو ان اندھیر کھاتہ اور پاگل پن ختم کر کے ایک گائے کی جان بچانے کیلئے آگے بڑھتا ہے، اسے ہی وہ پاگل ہی کہتے ہیں۔ ‘‘

’’ یہ سب جا کر تو اسی سے کہہ! میرے سامنے سے ہٹ جا۔ ‘‘

’’کہاں ہے وہ! ‘‘

’’چوپال میں۔ ‘‘

’’ چوپال میں؟ گھر میں نہیں؟ ‘‘

’’میرے جیتے جی وہ گھر میں پاؤں نہیں رکھ سکتا! ‘‘

’’تو ان کا ایک گھر اور بھی ہے۔ چوپال میں کیوں رہیں گے؟ میں ابھی۔۔۔ ‘‘

’’باپ بیٹے کے جھگڑے میں تُو کیوں پڑا ہے؟ تو جاتا کیوں نہیں؟‘‘

’’یہ باپ بیٹے کا جھگڑا نہیں ہے۔ یہ پورے سماج اور اس کی لاکھوں بیواؤں کا جھگڑا ہے۔ اس کے ساتھ میری بہن کی زندگی کا واسطہ ہے۔ ‘‘

’’وہ میرا بیٹا ہے۔۔۔ ‘‘

’’نہیں، جس بیٹے کو تم نے گھر سے نکال دیا۔۔۔ ‘‘

’’ارے، یہ کیا شور مچا رکھا ہے؟ ‘‘ بوڑھی چیختی ہوئی آ گئی۔

’’سینے پر مونگ دلنے مٹرو آیا ہے!‘‘ بوڑھے نے کروٹ لے کر کہا۔

’’ گاؤں گھر میں تو تھو تھو کرا دی! اب کیا باقی ہے؟ ‘‘ بوڑھی نے ہاتھ لہرا کر کہا۔

’’انہیں لے جانے آیا ہوں! ‘‘ مٹرو نے کہا۔

’’تُو کون ہوتا ہے انہیں لے جانے والا؟ اس کے ماں باپ کیا مر گئے ہیں؟ ‘‘ بوڑھی نے اس کے منہ پر تھپڑ مارتے ہوئے کہا۔

’ آج معلوم ہوا کہ مر گئے! نہیں تو وہ گھر سے نکال کر چوپال میں نہیں ڈالے جاتے۔ ‘‘

’’یہ تجھے کس نے کہا؟ ‘‘ بوڑھی نے شانت ہو کر کہا۔

’’بابو جی۔۔۔ ‘‘

’’ ان کی مت کو تم کیا لئے پھرتے ہو؟ ادھر آؤ۔ ‘‘کہہ کر بوڑھی اس کا ہاتھ پکڑ کر گھر کے اندر لے جا کر پھسپھسا کر بولی، ’’دیکھ کر مکھی نہیں نگلی جاتی! کیا کرتے، ٹولے محلے والے، گاؤں گونڑے کے سب کے سب کیچڑ اچھالنے لگے تو انہوں نے انہیں چوپال میں کر دیا۔ میں نے بہت سہا۔ جب سہا نہ گیا، تو میں بھی ان کے کارنامے لے کر بیٹھ گئی۔ اسی گاؤں میں میرے بال سفید ہوئے ہیں۔ کسی کا کچھ چھپا نہیں ہے مجھ سے۔ جب جھاڑنے لگی، تو سب دم دبا کر بھاگ گئے۔ تم ہی کہو، کسی چمار ڈومن سے میری بہو ہی خراب ہے؟ ڈنکے کی چوٹ پر اس سے بیاہ کیا ہے! شہدوں کی طرح چوری چھپے تو اپنا منہ کالا نہیں کیا؟ مانا کہ اس نے برا کیا، لیکن پاگل بن کر، کر ہی ڈالا، تو کیا اس کا سر اتار لیا جائے؟ بیٹا ہی تو ہے۔ لاکھ برا اس کا معاف کیا، تو ایک اور سہی۔ اپنے سڑے ہاتھ کو کوئی کاٹ کر تو نہیں پھینک دیتا۔ بھگوان نے جو مالا گلے میں ڈال دی، اسے اتار کر کیسے پھینک دوں؟ میں انہیں خود گھر میں لے آئی ہوں۔ ان کا گھر ہے۔ کون انہیں نکال سکتا ہے؟ ہم بوڑھوں کا کیا ٹھکانہ؟ آج ہیں، کل نہیں۔ انہیں تو جھیلنے کو ساری زندگی پڑی ہے۔ جیسے چاہے رہیں! تو کھائے گا نا؟ رس پوری بنائی ہے رے! ‘‘

مٹرو نے جھک کر بوڑھی کے پاؤں چھو لیے اور پیار سے کہا، ’’مائی تُو کتنی اچھی ہے! یہ بابو جی تو۔۔۔ ‘‘

’’تازہ تازہ غصہ ہے! سب ٹھیک ہو جائے گا۔ باپ بیٹے سے کب تک ناراض رہ سکتا ہے؟ کھائے گانا؟ ہاتھ پیر دھو لے! ‘‘

’’وہ کہاں ہیں؟ مٹرو نے بوڑھی کے کان میں کہا۔

بوڑھی نے مسکراتے ہوئے اس کے کان میں کچھ کہا۔ مٹرو بھی مسکرا پڑا۔

’’چل چوکے میں۔ ‘‘آگے بڑھتی ہوئی بولی، ’’کھا لے۔ ‘‘

’’اب کیسے کھاؤں؟ وہ میری چھوٹی بہن ہے نہ۔ اس کا دھن۔۔۔ میں اب چلوں گا، گنگا میا پکار رہی ہیں۔ سب پریشان ہوں گے۔‘‘

تبھی بغل کی کوٹھری کا دروازہ کھلا اور مسکراتے ہوئے دو بتوں نے نکل کر مٹرو کے دونوں پاؤں پکڑ لیے۔

سرشار ہو کر مٹرو نے کہا، ’’گنگا میا تیرا سہاگ امر رکھیں، میری ہیرامن!‘‘

کھڑی ہو کر، گھونگھٹ میں سر جھکائے ہیرامن بولی، ’’جیسے ہونٹوں سے لاج ٹپکے، گنگا میا کو میں نے چنری بھاکھی تھی، بھیا، بھابھی سے کہہ دینا، چڑھا دے گی۔‘‘

٭٭٭

تشکر: مترجم جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید

ڈاؤن لوڈ کریں

 

 

ورڈ فائل

 

ای پب فائل

 

کنڈل فائل