FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

گفتگو۔ ۔  دو بدو

مظفر حنفی

 

انتساب

محبوب راہیؔ

(ان کی محبتوں کے اعتراف میں )

اور

شاہد لطیف

( جنھوں نے روزنامہ’ انقلاب‘ کے لیے کالم ’حاضر جوابیاں ‘لکھنے کی ترغیب دی)

کے نام

 

گلزار جاوید

سہ ماہی ’’چہار سو‘‘ ( راولپنڈی)

    ’’اب دل پر ہاتھ رکھیے یا تھامیے جگر کو، یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ تیسری دنیا بلکہ کرۂ ارض کے کونے کونے میں لکھی،پڑھی، بولی جانے والی اردو زبان کا شمار کسی طور بھی ترقی یافتہ زبانوں میں نہیں کیا جاتا، وگرنہ یہ کیونکر ممکن تھا کہ جس زبان نے میرؔ، غالبؔ، اقبال جیسے نادر و نایاب نگینے تلاشے اور تراشے آج وہی زبان اپنے جواہر پاروں کو پڑھوانے اور منوانے کو ترس رہی ہو!

             پروفیسر مظفر حنفی اپنے دور کے میرؔ ہیں نہ غالبؔ اور نہ پروفیسر صاحب کو اقبال کی ہمسری کا دعویٰ ہے، دعویٰ اگر ہے تو اپنے دور کے انسان اور اُس پر گزرنے والی المناکی کے بیان کا ہے جس کا انداز اچھوتا بھی ہے، انوکھا بھی ہے اور نرالا بھی، سوال پھر اس قدر اچھوتے، انوکھے اور نرالے ادب پاروں کی ترویج و ابلاغ کا ہمارے سامنے آ کھڑا ہے۔ کیا اردو ادب سے وابستہ انگلیوں پر شمار کردہ لوگ اس قدر علمی، ادبی اور شعری سرمائے کی امانت و دیانت کا بار اُٹھانے کے متحمل ہو سکیں گے اور کب تک ہو سکیں گے؟

    کچھ دیر کو مستقبل کے خدشات سے قطع تعلق کرتے ہوئے آج کی مہلت کو غنیمت جانیے اور پروفیسر حنفی سے کچھ اس طور پر ہم کلام ہو جائیے کہ سات دہائیوں کی فنی ریاضت کا ثمر حق بہ حق دار پہنچے اور کچھ دیر کے لیے ہمارے دل، دماغ اور اعصاب تازگی، تراوٹ اور توانائی سے فیض یاب ہو سکیں، اس کی ضرورت ہمیں جس قدر آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی!!‘‘

سوال:  بچپن، لڑکپن اور نو جوانی کے اُن ایام کی تھوڑی سی جھلک دکھلائیے جن کے زیر اثر کھولتا ہوا لاوا سینے سے اُبل اُبل کر باہر آیا کرتا تھا؟

جواب: میاں میرا بچپن، لڑکپن اور جوانی، سبھی معاشرتی جبر اور سماجی بے انصافیوں کا مقابلہ کرتے ہوئے گزرے ہیں ان کی تفصیل آپ کے بہت سے صفحات گھیر لے گی۔ اجمالاً عرض ہے کہ پرائمری اور مڈل اسکول کا زمانہ انتہائی عسرت میں بسر ہوا۔ والد صاحب کھنڈوا میں پرائمری اسکول کے ٹیچر تھے۔ والدہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے ساتھ آبائی وطن ہسوہ ( فتح پور) میں رہنے پر مصر تھیں۔ کھنڈوہ سے دس روپے کا منی آرڈر ہر مہینے آتا تھا جس میں ہم پانچ نفر مہینے بھر تنگی ترشی میں بسر کرتے تھے۔ اس افلاس زدگی کے عالم میں مڈل اسکول کے امتحان میں بورڈ کے پچیس ممتاز طلبہ کی لسٹ میں میرا نام بھی تیسرے مقام پر تھا۔ اس دوران میں، خدا انھیں جوار رحمت میں جگہ دے، والد صاحب ملازمت سے ریٹائر ہو گئے۔ تایا زاد بھائی کا کھنڈوا میں بہت بڑا کاروبار تھا، مزید تعلیم دلانے کے بہانے موصوف نے مجھے اپنے ساتھ رکھ لیا اور پھر کم سنی میں ہی مجھے اپنے کار و بار کے کولھو میں جوت دیا۔ پڑھنے لکھنے اور اسکول کا کام کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ملتا تھا۔ یہ سلسلہ چھ برسوں تک چلا۔ بمشکل ہائر  سیکنڈری اسکول کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا اور ۱۹۵۲ء میں کانپور چلا آیا جہاں بہت تکلیفیں جھیل کر دو برس تک ملازمت کی تلاش میں بھٹکنے اور ناکام رہنے کے بعد کہیں بھوپال میں مڈل اسکول ٹیچر کی حیثیت سے تقرر ملا۔ پوسٹنگ بیحد دور دراز جنگلی اور دلدلی علاقوں میں ہوئی۔ متعصب اور تنگ نظر افسروں کی زیادتیوں کے خلاف احتجاجاً تین برس بعد میں نے استعفا دے دیا۔ کھنڈوا میں تایا زاد بھائی فضول خرچی اور جہالت کے سبب لاکھوں کے مقروض ہو گئے تھے، خوشامد کر کے اپنے ساتھ لے گئے۔ سخت محنت اور جانفشانی سے اُن کا کارو بار دوبارہ مستحکم کیا۔ پھر میری شادی ہو گئی اور والدین کی خواہش کے مطابق دوبارہ ملازمت کی۔ چودہ برس تک محکمہ جنگلات میں کلرک رہ کر ایم اے۔ ایل ایل۔ بی اور پی ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ قلیل تنخواہ میں والدین، بیوہ بہن اور ان کے بیٹے نیز چھوٹی بہن کی کفالت کے ساتھ اپنے بیوی بچوں کی پرورش، مزید برآں منجھلی بہن کی افلاس زدہ حالت میں اعانت پھر چھوٹی بہن کی شادی، خوشدامن کے کینسر کا علاج وغیرہ۔ خاصے پاپڑ بیلنے پڑے۔ کہیں ۱۹۷۴ء میں جا کر بہتر ملازمت نصیب ہوئی تو چین کی سانس لی۔ ان حالات میں سینے سے کھولتے ہوئے لاوے کا ابلنا فطری تھا سو اُبلا کرتا تھا۔

سوال:  حافظے پر زور دیتے ہوئے اُن اسباب کی بابت کچھ بتلائیے جن کے تحت آپ نے ابتدا بچوں کے ادب سے کی۔ مثلاً کیا لکھا،کہاں چھپا اور کس قسم کا ردِّ عمل ہوا؟

جواب: کہانیاں اورداستانیں پڑھنے کا شوق لڑکپن سے ہی جنون کی حد تک پہنچ گیا تھا۔ بارہ تیرہ برس کی عمر میں عین امتحان کے زمانے میں والد مرحوم نے طلسم ہوشربا پڑھتے ہوئے پکڑ لیا۔ خاصی سرزنش کی اور یہ بھی کہا کہ ایسا ہی شوق ہے تو پڑھ لکھ کر اس لائق بنو کہ تم لکھو اور دوسرے پڑھیں چنانچہ اُسی وقت سے چل میرے خامہ بسم اللہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دہلی سے بچوں کا رسالہ ’ کھلونا‘ نیا نیا جاری ہوا تھا، بچوں کے لیے میرے تحریر کردہ لطیفے، کہانیاں، نظمیں اوّلاً اسی پرچے میں چھپیں پھر ’ پھلواری‘ (دہلی)، ’ٹافی ‘( مالیگاؤں )، ’کلیاں ‘(لکھنؤ)، ’دوست‘ ( کراچی) اور ہند و پاک کے دوسرے بچوں کے رسالوں کے لیے خوب خوب لکھا۔ لڑکپن میں ہی معروف ہو جانے کی وجہ سے جب ۱۹۵۳ء کے آس پاس بڑوں کے لیے افسانے، غزلیں وغیرہ لکھنے کی ابتدا کی تو معیاری رسالوں میں کسی دشواری کے بغیر شائع ہونے لگا۔ نقّاد تو ادب اطفال کو آج بھی اہمیت نہیں دیتے لیکن مقام شکر ہے کہ حکومت ہند کی مطبوعہ درسی کتب سے لے کر دیگر کئی ریاستوں کی درسی کتابوں میں میری تخلیقات شامل ہیں۔ ادب اطفال پر میرے متعدد تنقیدی اور تحقیقی مضامین کو حوالہ جاتی اہمیت حاصل ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بچوں کے ادب پر ایک ضخیم تحقیقی مقالہ ڈاکٹر خوشحال زیدی میری نگرانی میں قلمبند کر کے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں اور میں اب بھی بچوں کے لیے نظمیں وغیرہ لکھتا رہتا ہوں۔

سوال:  کھنڈوا بوائز اسکول کی تحریک چلانے کے محرکات کیا تھے؟

جواب: ۱۹۴۷ء میں میں نے کھنڈوا کے موتی لال نہرو مڈل اسکول کے اردو، انگریزی، ہندی، مراٹھی میڈیم سے آٹھویں پاس کرنے والے طلبہ میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور سونی پرائز حاصل کیا لیکن تقسیم ہند کے بعد نویں جماعت میں اردو میڈیم سے پڑھنے کا سلسلہ بند ہو گیا۔ مجبور اً ہندی سکشن میں داخلہ لیا اور ہائر سیکنڈری بمشکل سیکنڈ ڈیویژن میں پاس کر سکا۔ میرے بہت سے ساتھیوں کی تعلیم کا سلسلہ ہی منقطع ہو گیا۔ اس تلخ تجربے کی یادیں بھی سینے میں لاوے کی طرح جوش کھا رہی تھیں۔ اس لیے ۱۹۵۸ء میں جب دوبارہ کھنڈوا پہنچا تو اپنے زخم خوردہ کچھ ساتھیوں کی مدد سے وہاں اردو میڈیم اسکول کے لیے بڑے پیمانے پر تحریک چلائی اور بڑی جدّ و جہد کے بعد اردو بوائز ہائر سیکنڈری اسکول قائم کرنے میں کامیاب ہوا۔ آگے چل کر وہاں میرے انھیں ساتھیوں میں سے قاضی حسن رضا نے جواہر لال اردو ہائی اسکول بھی قائم کیا۔

سوال:  ’’ نئے چراغ‘‘ کا اجراء کس تحریک اور تعاون پر ہوا اور اس کا انجام کیا ہوا؟

جواب: اردو تحریک کو طاقت ور بنانے کے لیے ہم لوگوں نے کھنڈوا میں نیشنل اردو لائبریری قائم کی اور رسالہ ’’ نئے چراغ‘‘ کا اجرا ء عمل میں آیا۔ یہ ہندوستان میں (’’شب خون‘‘ سے آٹھ برس پہلے) صحت مند جدیدیت کا ترجمان تھا۔ یہ محض ڈیڑھ دو برس جاری رہا اور شادی کے بعد میرے کھنڈوا سے چلے آنے کی وجہ سے بند ہو گیا۔

سوال:  انجمن ترقی اردو ( ہند) کی شاخ کھولنے کا خیال کیونکر آیا اور اس تجربے میں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے؟

جواب: انجمن ترقی اردو ( ہند) کی کھنڈوا میں شاخ کھولنے کا سبب بھی اردو تحریک تھی۔ اس پلیٹ فارم سے میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے عوام میں اتنا جوش بھر دیا کہ کھنڈوا کے قرب و جوار میں کئی ان پڑھ کسانوں نے اردو اسکول کھولنے کے لیے اپنی زمینیں وقف کر دیں اور ہم لوگ وہاں دیہاتوں میں درجنوں اردو پرائمری اسکول اور چند مڈل اسکول کھولنے میں کامیاب ہوئے، البتہ یہ ضرور ہوا کہ ہمارے نوجوان ساتھیوں میں سے اکثر کی سائیکلیں، گھڑیاں اور دوسرا قیمتی سامان اردو تحریک کو جاری رکھنے کے لیے بکتا رہا۔

سوال:  اردو ادب کی تمام اصناف پر حاوی شخص کاشت کار اور پولٹری فارسنگ کی جانب کیونکر رجوع ہوتا ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟

جواب: میاں گلزار! ابتدائی زندگی کی پریشانیوں اور بڑھی ہوئی ذمہ داریوں کا حال آپ پر روشن ہو چکا ہے۔ اُسی مالی پریشانی کو کم کرنے کے لیے میں نے چالیس ایکڑ زمین کو آباد کرنے کی کوشش کی اور کئی سال تک جانفشانی کے بعد نقصان اُٹھا کر وہ زمین فروخت کرنی پڑی۔ پولٹری فارمنگ تو کلکتہ یونیورسٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد وقت گزاری کے لیے شروع کی تھی لیکن ضرورت سے زیادہ پُر جوش ہونے کے باعث کام بڑے پیمانے پر شروع کیا اور تقریباً پچاس ہزار چوزے بیک وقت فارم میں ڈال لیے۔ نتیجہ نا تجربہ کاری کے صلے میں صفر رہا۔ اسی اثنا میں برڈ فلو کی آفت آئی، کئی لاکھ کا نقصان اٹھایا لیکن زمین کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے اس کی بھرپائی ہو گئی البتہ باور کیجیے کہ کاشتکاری اور پولٹری فارسنگ کرتے ہوئے جن تجربات سے گزرا اُنہوں نے میری تخلیقی صلاحیتوں کو بڑی تقویت پہنچائی۔

سوال:  آپ خود کو پانچواں درویش کن معنوں میں مانتے ہیں ؟

جواب: جواب میں دو شعر ملاحظہ ہوں :

        پانچواں درویش ہوں مجھ سے سُنو

اک نیا افسانۂ باغ و بہار

    اور پھر پانچویں درویش کی باری آئی

باغ افسانہ میں ندرت کی سواری آئی

                        سو اس نئے افسانۂ باغ و بہار کی تلاش اور تخلیقی ندرت کی جستجو نے پانچواں درویش بنا دیا آپ جانتے ہیں روایتی چار درویش تو قدیم داستانیں ہی سنا سکتے تھے۔

سوال:  ڈاکٹر صاحب ! آپ کی پوری زندگی کام، اور کام سے عبارت ہے اس کے باوجود آپ کے تجربات کا بڑا چرچا ہوا کرتا ہے۔ کب، کہاں، کیسے ان تجربات کا موقع میسر آیا آپ کی شادی بھی کم عمری میں ہو چکی تھی؟

جواب: اسے مبالغہ نہ سمجھیے میرے لیے تخلیقی کام کے بغیر زندگی گزارنا دشوار ہے بقول کسے ’اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے‘۔ شعر کہنا میرے تئیں سانس لینے کی طرح ناگزیر ہے۔ جب صورتحال یہ ہو تو وقت کی تنگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ اکثر یوں ہوا کہ رات کو سوتے سے چونک کر جاگ پڑے اور ڈھلے ڈھلائے شعر بر آمد ہونے لگے چنانچہ تخلیقی تجربات کے لیے پوری زندگی دستیاب تھی۔ شادی کے وقت میں تو پھر بھی تقریباً چوبیس برس کا تھا۔ بیگم محض پندرہ سال کی تھیں۔ یہ بھی ایک پُر لطف تجربہ تھا۔

سوال:  غالباً ۱۹۵۳ء میں آپ نے پہلا افسانہ تحریر کیا تھا اُس کی تحریک اور افسانے کے بقیہ سفر کی مختصر روداد کیا ہے نیز کرشن چندر جیسے ثقہ افسانہ نگار کی حوصلہ افزائی کے باوجود آپ اس سفر کو جاری کیوں نہ رکھ سکے۔

جواب: جی، ادب اطفال کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری ۱۹۵۲ء میں شروع کی۔ قیام کانپور میں تھا، وہاں پروفیسر کشفی مرحوم کے خاندانی بزرگ دادا میاں کے مزار سے متعلق ایک افسانہ ’منّت کی چادریں ‘بیساختہ وجود میں آیا جو اس وقت کے بر صغیر کے سب سے زیادہ کثیر الاشاعت رسالے ’’شمع‘‘ (دہلی) میں چھپا جس کے مدیر ’’ کھلونا ‘‘کے مالک تھے جس میں میں بچوں کے لیے تین چار برس سے لکھ رہا تھا اس لیے پہلے افسانے کی اشاعت میں کوئی دشواری پیش نہیں آئی۔ ۱۹۶۰ء تک تقریباً ڈیڑھ سو افسانے تخلیق کیے جو ہند و پاک کے تقریباً سبھی معیاری رسائل میں شائع ہوئے ان کے تین مجموعے بھی منظر عام پر آئے جن پر توصیفی دیباچے فراقؔ گورکھپوری، کرشن چندر اور کنھیا لعل کپور نے لکھے تھے۔ ۱۹۶۰ء کے آس پاس جدیدیت کی رو چلی اور افسانے میں بھی پلاٹ اور کردار وغیرہ کو در کنار کرتے ہوئے تجریدیت، علامت پسندی اور رمزیت نے زور پکڑا۔ میں ان مطالبات کو غیر فطری سمجھتا تھا اس لیے غزل پر زیادہ توجہ صرف کرنے لگا جہاں رمزیت اور علامت پسندی سے حُسن و خوبی پیدا ہوتی ہے۔ رفتہ رفتہ افسانہ نگاری سے بالکل دست بردار ہو گیا۔

سوال:  شاعری کی ابتدا اور شاد عارفی مرحوم سے تعارف، تعلق کے مراحل کب اور کیسے طے ہوئے نیز استادی شاگردی کا یہ سلسلہ کتنے عرصے پر محیط ہے اور اس عرصے میں آپ عارفی صاحب سے کیا کچھ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے؟

جواب: جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں، شاعری کی ابتداء تو لڑکپن سے ہی ہو گئی تھی لیکن زیادہ توجہ افسانہ نگاری پر تھی ویسے شادؔ عارفی کی طنزیہ نظمیں اور غزلیں مجھے بہت پہلے سے بھاتی تھیں۔ اُن سے خط و کتابت کا سلسلہ ’’ نئے چراغ‘‘ کی ادارت کے زمانے میں شروع ہوا۔ وہ ہمارے پرچے کے مستقل لکھنے والوں میں سے تھے۔ کچھ آگے چل کر جب میں نے افسانہ نگاری کے بجائے شاعری کو اپنا مرکز توجہ بنایا تو شادؔ  عارفی کی باقاعدہ شاگردی اختیار کی اور نومبر ۱۹۶۲ء سے فروری ۱۹۶۴ء تک تقریباً چودہ مہینے ان سے اپنی تقریباً ڈیڑھ سو غزلوں پر اصلاح لی۔ یہ سب ڈاک کے وسیلے سے ہو رہا تھا۔ فروری ۱۹۶۴ء میں وہ وفات پا گئے لیکن اُن کی تحریروں سے آج تک سیکھتا رہتا ہوں۔ جو کچھ ہوں اُن کی جوتیوں کے طفیل ہوں :

ہے شادؔ  عارفی سے مظفرؔ کا سلسلہ

اشعار سان چڑھ کے بہت تیز ہو گئے

                        تا حال سلسلۂ شادیات کی نو کتابیں شائع کر چکا ہوں اور یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔

سوال:  آپ کے ہاں تلخی کا عنصر بہت نمایاں ہے جس کے باعث آپ کے کلام میں نوکیلا، کرارا بلکہ مرچ مصالحے والا عنصر پایا جاتا ہے جس کے باعث احباب آپ کو طنزیات کا امام بھی کہتے ہیں۔ یہ خاص رویہ یا عمل کس چیز کا ردِّ عمل ہے۔

جواب: جاوید صاحب، آپ نے درست فرمایا۔ بقول شادؔ عارفی:

دوسروں کے واقعات عشق اپناتے ہیں وہ

جن سخن سازوں کی اپنی داستاں کوئی نہیں

                        میری نگارشات میرے اپنے تجربات کی دین ہیں لیکن طرزِ اظہار وہ اختیار کیا ہے کہ آپ بیتی، جگ بیتی معلوم ہو، البتہ یہ ساری تلخی، ترشی اور کرار ا پن نیم کے رس کی طرح معاشرے کی صحت کے لیے بے حد مفید ہے۔ ردِّ عمل کے بارے میں پچھلے سوالوں کے جوابات ملاحظہ فرمائیں۔

سوال:  پروفیسر صاحب! آپ کی شاعری میں جا بجا کلاسیکی رنگ نمایاں ہونے کے باوجود آپ خود کو میرؔ، غالبؔ اور فراقؔ سے الگ گرداننے پر بضد ہیں مگر شادؔ عارفی اور جگرؔ مرادآبادی کے اثرات سے پہلو تہی آپ کے لیے ممکن نہیں ؟

جواب: میں نے ہمیشہ کہا اور لکھا ہے کہ کوئی فنکار اس وقت تک جدید ہو ہی نہیں سکتا جب تک اُسے یہ نہ معلوم ہو کہ قدیم ہے کیا۔ میرے ادبی مزاج کا خمیر اساتذہ کے کلام سے ہی اُٹھا ہے جس میں میر و غالب بھی ہیں اور فراق و یگانہ بھی، لیکن جہاں تک اثر پذیری کا تعلق ہے:

اوروں سے تقابل نہ کرو ہے مری توہین

ہاں شاد و مظفرؔ میں کُجا شادؔ کجا میں !

سوال:  صدیوں سے اردو شاعری کی بنیاد ’’ عشق و محبت‘‘ پر استوار ہے آپ اپنی عمارت کی نیو الگ رکھ کر ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں ؟

جواب: بقول فیضؔ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’ اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘۔ ۔ ۔ میں اپنی شاعری کو دوسروں سے مختلف رکھنا چاہتا ہوں، اکثر دعا کرتا ہوں :

ویسے تو مظفرؔ کی تمنّائیں بہت ہیں

آہنگ الٰہی مرا آہنگِ الٰہی

سوال:  بسا اوقات آپ کی غزل کا لہجہ سپاٹ اور بسا اوقات کھردرا کیوں ہوا کرتا ہے؟

جواب: سپاٹ کے لیے بسا اوقات کی جگہ ’ بعض اوقات‘ کہیں تو بات بجا ہو گی۔ یوں ہے کہ لہجہ کا شعر اکثر نثری ساخت رکھتا ہے اور سہل ممتنع کا حامل ہوتا ہے نیز بادی النظر میں سادہ اور سپاٹ لگتا ہے لیکن غور کریں تو اس میں گہرے مفاہیم اور معنی کی پرتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ کھردرے پن کا اپنا الگ ذائقہ ہے۔

سوال:  تمام تر جدّت طرازی اور روشن خیالی کے با وصف کبھی کبھی روایت پرستی بھی آپ پر حملہ آور ہو کراس طرح کے شعر کہلواتی ہے:

ہمیں اک نیا حوصلہ چاہیے

پرانے عقیدوں پہ رندہ نہیں

جواب: بھائی میرے، اگر کوئی پُرانے عقیدوں پر رندہ نہیں کرتا تو اُسے روایت پرست نجّار کیسے کہہ سکتے ہیں البتہ جس طرح کوئی پودا زمین چھوڑ کر خلا میں معلق نہیں رہ سکتا اسی طرح شاعر کتنا ہی منفرد اور جدید کیوں نہ ہو اپنی شعری روایت سے بے تعلق نہیں ہو سکتا۔ اہمیت برتاؤ کی ہے۔

سوال:  کئی موقعوں پر آپ کا انداز اس قدر ناصحانہ ہوا کرتا ہے کہ اُس پر مقدس صحائف کی نقل کا گمان ہونے لگتا ہے مثلاً:

زمین تنگ پڑی میرے پائے وحشت کو

تو اب خلائیں مرے نقشِ پا کی زد پر ہیں

جواب: آپ کے حسن ظن کا شکریہ۔

سوال:  آپ غزل کی کون سی کمائی سے نا آسودہ ہیں اور ہیں تو آپ کے ہاں غزل کی کمائی کا تصور کیا ہے؟

جواب: آپ نے میرے اس مطلع کو سوال میں تبدیل کر دیا ہے:

مری زمین رہی آسماں پہ چھائی ہوئی

مگر غزل کی کمائی کوئی کمائی ہوئی

                                    جواب میں ایک دوسرا مطلع سماعت فرمائیے:

تشویش اور زیاں کے پہلو عرض ہنر میں صاف

شہرت سے ہٹ کر دیکھا تومطلع گھر میں صاف

سوال:  اس کے علاوہ ایک تصور یہ بھی ہے کہ آپ اپنی آواز کو بھیڑ میں گم ہونے سے بچانے کے لیے دانستہ کئی روایتی اور غیر روایتی جتن کیا کرتے ہیں ؟

جواب: جی ہاں، یہ خیال حقیقت پر مبنی ہے۔

سوال:  اور ایک تاثر یہ بھی ہے کہ غزل تو آپ عام اور سادہ کہتے ہیں مگربعد از تحریر کسی نہ کسی طور اس میں اپنا گاڑھا اور چوکھا رنگ ڈالنے کی کوشش ضرور کیا کرتے ہیں ؟

جواب: میں غزل میں زبان کو نثری ساخت سے قریب رکھ کر سہل ممتنع کی مدد سے اپنا لہجہ منفرد بنانے کی کوشش کرتا ہوں اور تکمیل غزل کے بعد بھی اُسے مسلسل مانجھتا اور چمکاتا ہوں۔ اب یہ آپ جیسے بالغ نظر اصحاب قلم بتائیں کہ رنگ کتنا چوکھا اور گاڑھا آیا ہے۔

سوال:  ’’ کئی بقراط شاعر پُر تکلف شعر کہتے ہیں ‘‘ آپ کے فرمان میں اشارہ کس جانب ہے اور یہ پُر تکلف شعر کس طرح کا ہوا کرتا ہے؟

جواب: پُر تکلف شعر سے میری مراد اس کلام سے ہے جسے شعوری طور پر صنعتوں اور رنگیں بیانیوں سے بہت زیادہ آراستہ کیا گیا ہو ایسے شعروں کی تخلیق کرنے والے میرے خیال میں بقراط شاعر ہوتے ہیں۔

سوال:  کم ظرفوں کے ذکر کا تیر کس جانب چلایا کرتے ہیں ؟

جواب: جانب دار نقادوں کی طرف جو اپنے گروپ کے متشاعروں کو بھی سچے اور اچھے شاعروں پر فوقیت دیتے ہیں کیونکہ کھرا شاعر کسی متشاعر کی طرح نقاد کی خوشامد کر ہی نہیں سکتا نہ ہی ناقدین کے جاری کردہ فرامین کو خاطر میں لاتا ہے۔

سوال:  ساری دنیا آج کے دور کو انتہائی Loudاور پُر شور گردان رہی ہے جبکہ آپ اسے گونگوں بہروں کی بستی سے تشبیہ دے رہے ہیں ؟

جواب: اس چیخم دھاڑ والے نقار خانے میں سچ گفتار طوطی کی آواز نہ سننے والوں کو گونگا بہرا نہ کہوں تو کیا کروں ؟ سچی اور کھری باتیں آسانی سے کون سنتا ہے اس زمانے میں !

سوال:  ’’قلم کو تیز مظفر غزل کو تیغ کرو‘‘ کی ضرورت کب اور کیوں محسوس ہوئی؟

جواب: ہمارے زخموں پہ دُنیا نمک چھڑکتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو ہم بھی مرچ غزل کی زباں پہ رکھتے ہیں بے حسی اور سہل پسندی کے موجودہ تاجرانہ اور صنعتی معاشرے میں نشتر زنی کے بغیر کام نہیں چلنے کا۔ چکنی چُپڑی عشقیہ شاعری سے سماجی معنویت کا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

سوال:  اشعار لہو میں ڈوبے ہوئے، سوچ پر خون کی بوچھار، کن خدشات کی نشان دہی کر رہے ہیں ؟

جواب: ہمارے ملک کے فرقہ وارانہ فسادات اور معاشرے میں جاری و ساری تعصب، بے انصافی اور تشدد پسندی کی طرف!

سوال:  کچھ لوگوں کا خیال ہے! آپ اپنے معاشرتی اور سیاسی کرب کا سلسلہ کربلا سے جا ملاتے ہیں۔ جبکہ یہ بیان ہوتا آپ کے گرد و پیش کا ہے مگر کوئی خوف ہے جس کے باعث آپ برملا اس کا اظہار نہیں کر پاتے؟

جواب: بے شک کربلا کا استعارہ میری شاعری میں کثرت سے استعمال کیا گیا ہے۔ اکثر لوگ مجھے واشگاف لہجے کا شاعر کہتے ہیں پھر بھی غزل جیسی رمزیہ اور اشاریاتی صنفِ سخن میں باتیں اگر علامت کے وسیلے سے نہ کی جائیں تو وہ وقتی اور ہنگامی نوعیت کی شاعری ہو جائے گی ایسی باتیں کرنے کے لیے میری نثری تحریریں کافی ہیں۔

سوال:  غیر جانبداری کو یار لوگ بڑی ڈھٹائی سے منافقت کے کھاتے میں ڈال دیتے ہیں پھر بھی آپ خود کو غیر جانبدار کہلانے پر بضد ہیں ؟

جواب: اب بقول آپ کے یار لوگوں کی ڈھٹائی سے ڈر کر میں اپنے اصول سے کیسے منحرف ہو سکتا ہوں۔ غیر جانبدار رہنے میں سر تا سر نقصان ہے کیونکہ ہر فریق ایسے آدمی کو فریقِ مخالف کا آدمی سمجھتا ہے اور کوئی اس کا حامی و مددگار بھی نہیں ہوتا۔ ایک فائدہ یہ ضرور ہے کہ آپ غیر جانبدار رہ کر وہ باتیں بے باکی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں جو آپ کے خیال میں صداقت پر مبنی ہیں۔

سوال:  ترقی پسندی، جدیدیت، ما بعد جدیدیت سے لا تعلقی کے بعد نظمِ جدید سے تعلق بھی تضادات والی کیفیت کا سماں پیدا کر رہی ہے؟

جواب: کسی خاص ازم یا ادبی تحریک سے نا وابستگی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکا کہ ترقی پسندی، جدیدیت یا ما بعد جدیدیت کی خامیوں سے محفوظ رہ کر اپنی شاعری میں اپنی بات کہی جا سکے اور ہر خوبی خواہ وہ کہیں بھی ملے، اپنائی جا سکے۔ نظمِ جدید میں طبع آزمائی کرنا میرے خیال میں تو تضاد کی علامت نہیں ہے۔

سوال:  آپ کے تنقیدی رویے کی بابت ہم فقط ایک سوال آپ کے اپنے شعر کی روشنی بلکہ تشریح کے ذریعے دریافت کرنا چاہیں گے؟

کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں

مظفرؔ سر بسر انکار ہو جا

جواب: ہمارے زمانے کے نقاد ہر ایرے غیرے نتھو  خیرے کے سر پر عظمت کا تاج رکھ دیتے ہیں۔ عظیم شاعر تو کہیں صدیوں میں ایک آدھ نکلتا ہے۔ اردو میں میرؔ، غالبؔ اور اقبالؔ ہی عظیم شاعر ہیں چنانچہ میں نے سچے شاعروں کو مشورہ دیا ہے کہ نقاد کی عطا کردہ مصلحت آمیز عظمت کی پرواہ نہ کریں اپنے تنقیدی مضامین میں بھی میں عظمتیں تقسیم کرنے کے خلاف ہوں۔ میرا مشہور شعر ہے:

مظفرؔ پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکّر میں نہیں رہتا

سوال:  شمس الرحمن فاروقی آپ کو بر صغیر کا سب سے زیادہ کہنے اور چھپنے والا شاعر کہہ کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟

جواب: اس طرح شاید میری حقیر خدمات کا اعتراف مقصود ہو۔ ویسے میں اب سے کوئی پچاس برس ادھر راولپنڈی کے بھی کئی رسالوں میں چھپتا رہا ہوں جن میں ’’ نیرنگ خیال‘‘ کا نام یاد آتا ہے۔ رشید امجد، سلطان رشک، ماجد الباقری مرحوم سے اُسی زمانے میں آشنائی ہوئی تھی۔

سوال:  ہندی دیو مالائی اور اساطیری ادب کی جانب آپ کی توجہ کب اور کیوں کر ہوئی اوراس میں آپ نے کیا کارہائے نمایاں انجام دیے اور آپ کو اس میں کس طرح کا اختصاص حاصل ہے؟

جواب: جیسا کہ پہلے عرض کیا ہے نویں جماعت کے بعد مجھے ہندی میڈیم سے پڑھنا پڑا اس لیے ہندو دیو مالا اور اساطیر سے واقفیت ہوئی۔ اسلام، صنمیات اور اساطیر کے خلاف ہے۔ اس لیے میں شاعری میں دیو مالائی علامت اور ہندو اساطیر سے استفادہ کرتا رہا ہوں البتہ اس میدان میں کسی اختصاص کا دعویٰ ہرگز ہرگز نہیں ہے۔

سوال:  ’’ سخاروف‘‘ سے آپ کا تعارف کب اور کیسے ہوا اور ان کی کتاب کے ترجمے کا خیال کیونکر آیا۔ اس کے علاوہ آپ کن غیر ملکی ادیبوں اور شاعروں سے ہم کلام ہوئے اور آپ کے ہاں اُن کے افکار و خیالات کا برتاؤ کس رنگ میں ظاہر ہوا؟

جواب: حضرت! میں نے ’’ سخاروف ‘‘ کے علاوہ انگریزی سے روسی مصنف سولنستین کے ’گلاگ آرچی  پیلاگو‘ کے تین دفتر، گجراتی کے یک بابی ڈرامے، اوڑیا افسانے، بنگالی ناول اور ہندی سے کئی کتابیں اردو میں منتقل کی ہیں لیکن یہ سب معاشی ضرورتوں کے پیش نظر کیا تھا۔ افسانہ نگاری میں البتہ چیخف اور  او۔ ہنری سے تاثر قبول کیا۔

سوال:  کلکتہ یونیورسٹی نے آپ کو کس اہلیت کی بنا پر اقبال چیئر کے لیے منتخب کیا۔ یعنی اس سے قبل اقبالیات کے حوالے سے آپ کے تجربات کی نوعیت کیا تھی نیز اقبال کی شاعری اور ان کے شعری مستقبل بالخصوص بھارت کے حوالے سے آپ کیا رائے رکھتے ہیں ؟

جواب: مجھے بغیر کسی درخواست یا انٹرویو کے ۱۹۸۹ء میں اقبال چیئر کی پروفیسری پیش کی گئی۔ اقبال پر چند مضامین میں نے ضرور لکھے ہیں لیکن مہارت کا دعویٰ نہیں کرتا البتہ کلکتہ یونیورسٹی میں میرا تیار کردہ اقبال پر ایک خصوصی پرچہ ایم۔ اے ( اردو ) کے نصاب میں شامل کیا گیا جو تمام طلبہ کے لیے لازمی تھا۔ کئی ریسرچ اسکالروں سے اس موضوع پر تحقیقی مقالات مکمل کرائے۔ اقبالؔ کے نظریات اور کلام سے ۱۹۶۰ء تک ہندوستان میں بلا شبہ بے اعتنائی برتی گئی لیکن اب تو ہماری سبھی دانش گاہوں میں زیادہ سے زیادہ کام اقبال کے فکر و فن پر ہو رہا ہے البتہ یہاں اُنھیں فلسفی اور مفکر سے زیادہ شاعر کی حیثیت سے اہمیت دی جاتی ہے اور اُن کا شعری مستقبل ہندوستان میں بے حد روشن ہے۔

سوال:  اپنی ذات کی تلاش کا سفر آپ کے ہاں مدّت سے جاری ہے مگر کوئی اس کے ثمر کی بابت نہیں جان پایا؟

جواب: سچ کہا آپ نے۔ حکیم الامت نے بھی زندگی بھر کی تلاش کے بعد کہا تھا۔ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے۔ وہی حال میرا ہے البتہ:

طرزِ تعمیر کے کچھ نئے زاویے عصر نو کو مظفرؔ نے بخشے تو ہیں

اپنی ہی ذات پر وار کرتے ہوئے اپنی ہستی کو مسمار کرتے ہوئے

سوال:  ڈاکٹر صاحب! کچھ اندازہ ہے کہ انڈیا اور انڈیا سے باہر آپ کی شخصیت اور فن پر کہاں کہاں کس نوعیت کا کام ہو رہا ہے اور آپ کا کلام کن زبانوں میں منتقل ہو سکا یا ہو رہا ہے؟

جواب: جی، ہندوستان میں دو محققین کو پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری میری ناچیز شخصیت اور ادبی خدمات کے متعلق تحریر کردہ تحقیقی مقالوں پر مل چکی ہے جن میں سے محبوب راہیؔ کا مقالہ کتابی صورت میں ۱۹۸۲ء میں شائع ہوا تھا جو بقول وزیر آغا کسی ادبی شخصیت پر اس کے دورانِ حیات شائع ہونے والی پی ایچ۔ ڈی کا اولین مقالہ تھا۔ دو دیگر یونیورسٹیوں میں کام جاری ہے۔ پاکستان میں خواجہ طارق محمود نے میری تقریباً سوا سو غزلوں کو غزل کی ہیئت کے ساتھ انگریزی میں ترجمہ کیا ہے۔ حسرتؔ موہانی اور محمد حسین آزادؔ پر میری کتابیں انگریزی اور ہندی کے علاوہ چند دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ ہوئی ہیں۔ بہت سی نظمیں اور غزلیں انگریزی، ہندی، گجراتی، مراٹھی، بنگلہ، پنجابی وغیرہ میں منتقل کی جاچکی ہیں۔ ایک آدھ مضمون اور غزل جرمن اور ترکی زبان میں بھی ترجمہ کی گئی ہے۔

سوال:  حنفی صاحب! جس قدر وقت اور توانائی آپ نے اردو ادب پر صرف کی اور جس قدر گراں مایہ کام سر انجام دیا اس کے بدلے آپ کیا توقعات باندھے ہوئے ہیں ؟

جواب: نادان ہوں ’ جریدۂ عالم پر دوام ما‘ ثبت دیکھنا چاہتا ہوں لیکن یہ شعر بھی میرا ہی ہے:

پلٹ کر دیکھنے میں راہ کھوٹی ہو گئی میری

چراغاں سایہ کیا سارے نقوش پا میں روشن ہے

سوال:  آنے والے وقت میں ہندوستان بلکہ بر صغیر میں اردو زبان و ادب کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں ؟

جواب: روشن اور خوش آئند، مجھے یقین ہے کہ آج نہیں تو کل ہندوستان بھر میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملے گا اور پاکستان میں یہ سرکاری زبان کے طور پر رائج ہو گی۔ دونوں طرف ادب میں ترقی کی رفتار اطمینان بخش ہے۔

سوال:  اردو کی نئی بستیاں امریکہ، برطانیہ، کینیڈا،مشرق وسطیٰ وغیرہ سے کس قسم کی توقعات باندھی جا سکتی ہیں ؟

جواب: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ ہمارے نئی بستیوں میں بسنے والے تارکین وطن کے بچّے عموماً اردو سمجھ تو لیتے ہیں، بولتے نہیں ہیں۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔

سوال:  گزشتہ دنوں ڈاکٹر گیان چند جین نے اردو زبان کو ایک فرقے سے منسوب کرنے کی جو کوشش کی اُس کی بابت آپ کی رائے اور اردو کے رسم الخط کو تبدیل کرنے کی جو مذموم کوششیں ہو رہی ہیں اس کی نسبت آپ کی پوزیشن کیا ہے؟

جواب: جین صاحب سے میرے ذاتی مراسم رہے ہیں اور وہ میری شاعری کے مداحوں میں سے تھے میں بھی ان کے تحقیقی کاموں کی قدر کرتا ہوں لیکن اپنی آخری کتاب ’’ ایک بھاشا، دو لکھاوٹ، دو ادب‘‘ میں انھوں نے انتہائی تعصب آمیز رویّہ اختیار کیا، جس کی میں نے بھی پُر زور مذمّت کی۔ رسم الخط کو تبدیل کرنے کی کاوشیں اب دم توڑ چکی ہیں۔ یہ ویسی ہی فرمائش تھی جیسے کسی زندہ انسان کی کھال اُتار کر دوسری پہنانے کی کوشش کی جائے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ دوسروں کے ساتھ کچھ اردو کے بڑے نام بھی رسم الخط کی تبدیلی کے حق میں تھے۔ مثلاً پروفیسر احتشام حسین، سردار جعفری، کرشن چندر، عصمت چغتائی وغیرہ۔ ظاہر ہے میں نے اس تجویز کی جی توڑ مخالفت کی تھی البتہ تقسیم ہند سے آٹھ دس سال پیشتر گاندھی جی نے تجویز رکھی تھی کہ آزاد ہندوستان کی سرکاری زبان ہندوستانی (اُردو اور ہندی) ہو جو فارسی اور دیو ناگری دونوں رسم الخط میں لکھی جائے۔ اگر ایسا ہوتا تو یہاں اردو ہندی پر حاوی رہتی لیکن مولوی عبد الحق نے اس تجویز کو تسلیم نہیں کیا۔ خیر یہ سب گزرے وقتوں کی باتیں ہیں۔

سوال:  ڈاکٹر صاحب ! زیر نظر سوالنامہ ہم نے نہایت دیانتداری اور غیر جانبداری سے مرتب کیا ہے مگر اس کے نمائندہ ہونے کا ہرگز دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کسی خاص موضوع یا نکتے کے حوالے سے اگر آپ اظہارِ خیال فرمانا پسند کریں تو چشم ما روشن دلِ ما شاد؟

جواب: جی ہاں ! باتیں بہت سی رہ گئیں لیکن ایک انٹرویو میں سب کچھ ممکن بھی نہیں ہے۔ صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ خاکسار کی کوشش سے حکومت ہند کے بہت بڑے اشاعتی ادارے قومی کونسل برائے تدریسی تحقیق و تربیت ( این۔ سی۔ ای۔ آر۔ ٹی) کی تیار کردہ اردو کی درسی کتب کی قیمتیں ہندی کتابوں کے مساوی رکھی گئیں ورنہ وزارت تعلیم کے سرکلر کے مطابق ان کی قیمت آٹھ گنا سے بھی زیادہ مقرر ہوئی تھی۔ دوسری اہم خدمت یہ ہے کہ میں نے دوسرے بڑے سرکاری ادارے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کی فرمائش پر بیسوی صدی کے آخری ربع میں ہندوستان بھر میں شائع ہونے والی اردو کتابوں کی وضاحتی کتابیات بائیس جلدوں میں تیار کی ہے جو شائع ہو گئی ہے۔ ان جلدوں میں تقریباً بیس ہزار کتابوں کا مختصر تعارف ہے۔ ٭٭٭

 

کیول دھیر

سہ ماہی ’’ ادیب انٹر نیشنل‘‘ (لدھیانہ)

سوال:  آپ ادیب کیوں بنے؟

جواب: ہمارا ایک شعر ہے:

بچپن میں کھلواڑ کیا تھا اک دن ہم نے شعروں سے

بھوگ رہے ہیں پچپن برسوں سے اپنی نادانی کو

                                    یہ دس برس پرانا شعر ہے یعنی شعروں سے کھلواڑ کوئی ۴۶۔ ۱۹۴۵ء کے آس پاس کیا تھا۔ ہوا یوں کہ منجھلی بہن شفیق فاطمہ اپنی سہیلی کو خط لکھنے کے لیے ایک مناسب شعر چاہتی تھیں ہم نے ایک آنہ کے عوض گڑھ دیا اور تا حال اس اِکنّی کا قرض ادا کر رہے ہیں۔ اُن دِنوں چھٹی جماعت میں پڑھتے تھے۔ امتحان کے زمانے میں کہیں سے طلسم ہوشربا کی جلدیں ہاتھ آ گئیں چنانچہ نصابی کتب الگ رکھ کر اُن میں غرق تھے کہ والد مرحوم نے پکڑ لیا، خاصی سرزنش کی گئی اور  بطور طنز کہا گیا کہ کہانیوں کا ایسا ہی شوق ہے تو پڑھ لکھ کر اس لائق کیوں نہیں بنتے کہ تمھارا لکھا دوسرے پڑھیں۔ ہم نے سعادت مند بیٹے کی طرح اسی دن سے قلم سنبھال لیا اور ادیب بن گئے۔

سوال:  اگر آپ ادیب نہیں ہوتے تو کیا ہوتے؟

جواب: اب سوچتے ہیں ادیب نہ بنتے تو کرتے بھی کیا۔ نہ صورت شکل کے اچھے تھے کہ ہیرو بن جاتے، نہ اتنے ذہین اور فطین تھے کہ آئی اے ایس ہوتے، اتنے چالاک اور مکار بھی نہیں تھے کہ نیتا بن سکتے۔ سچ مچ ہم ادیب نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتے۔

سوال:  اپنی اولین تخلیق کی اشاعت پر آپ کا ردِّ عمل؟

جواب: بچوں کے لیے ہماری پہلی کہانی ماہنامہ ’’ کھلونا‘‘ ( دہلی) کے کسی ابتدائی شمارے میں چھپی تھی غالباً ۱۹۵۲ء میں ’’منت کی چادریں ‘‘ کہانی ماہنامہ ’ شمع‘ (دہلی) میں اور ۵۳۔ ء۵۴ کے آس پاس ’’بیسویں صدی‘‘( دہلی) میں دوسرا افسانہ چھپا تھا۔ متعلقہ رسالوں کو کئی ہفتوں تک سرہانے رکھ کر سویا کیے، ہزاروں زاویوں سے قریب لا کر، دور رکھ کر، کھڑے ہو کر، بیٹھ کر، لیٹ کر، پرچے کو دیکھتے، خوش ہوتے اور چاہتے کہ دوست احباب، عزیز و اقارب بھی اسی طرح خوش ہوں لیکن ہمارے علاوہ اور کسی کو احساس نہیں ہوا کہ دنیا میں ایک بہت بڑا حادثہ ہو گیا ہے۔

سوال:  پہلا اعزاز /انعام/ سمان حاصل ہونے پر آپ کا ردِّ عمل؟

جواب: ۱۹۶۰ء تک ہم نے افسانہ نگاری کی۔ ان افسانوں کے تین مجموعے ’’ اینٹ کا جواب‘‘(۱۹۶۸ء)،’’ دو غنڈے‘‘( ۱۹۶۹ء)، اور ’’ دیدۂ حیراں ‘‘ (۱۹۷۰ء) مختلف ناشروں نے شائع کیے۔ دوسرا مجموعہ لکھنؤ کے ’کتاب پبلشرز ‘نے چھاپا تھا۔ اس کے لیے ایک دن اچانک اتر پردیش اردو اکادمی ( لکھنؤ ) کی جانب سے چھ سو روپئے موصول ہوئے۔ ہر چند کہ ہم کو معلوم بھی نہیں تھا کہ ایسا کوئی ادارہ وجود میں آیا ہے، نہ کتاب انعام کے لیے بھیجی گئی تھی۔ در اصل اکادمی نے پہلی بار انعامات کا سلسلہ اپنی جانب سے شروع کیا تھا ویسے بھی اس زمانے میں اردو کی کتابیں چھپتی ہی کتنی تھیں۔ یہ بن مانگے کے موتی بہت قیمتی لگے۔ ان دنوں بحیثیت کلرک ہماری تنخواہ بمشکل دو سو روپے ماہانہ تھی، سونا ڈیڑھ سو روپے تولہ تھا۔ آج کے حساب سے وہ چھ سو،پچھتر ہزار روپیوں کے برابر تھے۔ ہمیں اپنے مرحوم استاد ( شادؔ عارفی) کا کلیات اور دوسری کتابیں شائع کرنے کی تمنا بھی سو یہ پیسے اس کار خیر میں کام آ گئے۔ باور کیجیے، اب تک بہت بڑے بڑے انعامات خدا کے فضل سے مل چکے ہیں لیکن اتنی مسرت پھر کبھی حاصل نہیں ہوئی جتنی وہ چھ سوروپئے پا کر ہوئی تھی۔

سوال:  ماضی سے وابستہ آپ کی یادیں ؟

جواب: ۱۹۴۶ء میں تایا زاد بھائی سیٹھ مظہر الدین نے کھنڈوا میں ایک بہت بڑا مشاعرہ کیا جس میں ساغر نظامی، ماہر القادری، ادیبؔ سہارنپوری، شعری بھوپالی اور بہت سے شاعروں نے شرکت کی۔ پروفیسرشورؔ علیگ صدر مشاعرہ تھے۔ بچپن میں ہم نے بحیثیت میزبان، شاعروں کے ناز نخرے جھیلے۔ یہ سارے لوگ دوسری دنیا کی مخلوق جیسے لگے۔ ایک مقامی شاعر تھے ظفرؔ کھنڈوی۔ معمولی پڑھے لکھے، شعر فی البدیہہ کہنے میں مہارت رکھتے تھے۔ درجنوں شاگردوں کو خود کلام فراہم کرتے تھے۔ ہمیں تھوڑی سی شد بُد عروضی اصطلاحات کی آ گئی تو موصوف کو اکثر پریشان کرتے۔ استاد اس شعر میں شتر گربہ ہے، وہ فوراً شعر بدل دیتے، ہم کہتے اب ایطا ہو گیا، بیچارے پھر نیا شعر کہہ دیتے۔ ان کی ایک دوسرے مقامی استاد سے معاصرانہ چشمک تھی، ہم اپنے ساتھیوں کے ساتھ دونوں کو بِھڑاتے رہتے تھے۔ کچھ سال بعد خود ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ نکالا اور اس کے لیے مشاعرے کیے۔ فراقؔ گورکھپوری کو الٰہ آباد سے، شعریؔ کو بھوپال سے، فناؔ نظامی کو کانپور سے اور متعدد شعراء کو مختلف علاقوں سے مدعو کرتے۔ اکثر بمبئی سے ظؔ۔ انصاری کو صدارت کے لیے اور لکھنؤ سے ملک زادہ منظور کو نظامت کرنے کی غرض سے بلایا جاتا۔ خود اپنے منعقد کردہ مشاعروں میں اسٹیج پر آنے سے گریز کرتے تھے۔ ایک بار ناطق گلاؤٹھوی کی صدارت میں اس وقت کے مشاعروں کے مقبول ترین شاعر دلؔ لکھنوی ڈائس پر نغمہ سرا تھے۔ ہمارے بھائی سیٹھ مظہر الدین کو ایک شعر بھا گیا اور داد کے طور پر ملازم کے ذریعے بیس روپے شاعر کی خدمت میں بھیج دیے جو موصوف نے آداب کر کے جیب میں رکھ لیے۔ یہ دیکھ کر مولانا ناطقؔ بھڑک گئے، ایسی داد دینے والے اور روپیے قبول کرنے والے شاعر دونوں کو پھٹکار اور دلؔ لکھنوی کو مجبور کیا کہ وہ پیسے واپس کریں اور مشاعرے کو قوالی کی محفل نہ بنائیں۔ ایسی ہزاروں باتیں اور بے شمار یادیں ہیں کس کس کا ذکر کیا جائے۔

سوال:  ادبی گروہ بندی/ ادبی ہتھکنڈے / ادبی و ذاتی مفادات کے حوالے سے منٹو، بیدی، ساحرؔ، فیضؔ،  فراقؔ جیسے گزرے وقت کے قلم کاروں کا زمانہ آج کے مقابلہ میں کیسا تھا؟ اور موجودہ دَور میں صورت حال کیا ہے؟

جواب: عالمی ادب ہو یا اردو کا ادبی منظر نامہ، گروہ بندی اور ادب میں ذاتی مفاد پرستی ہر دور میں مروّج رہی ہے۔ معاصرانہ چشمکیں، میر و سوداؔ، انشاؔء و مصحفیؔ،انیسؔ و دبیرؔ، غالبؔ و ذوقؔ، چکبستؔ و شرر،ؔ حالیؔ و اکبرؔ وغیرہ کے درمیان بھی رہیں اور ماضی قریب میں ایسی مثالیں نیازؔ و ماجدؔ دریابادی، یگانہؔ و ناطقؔ، شادؔ عارفی و امتیاز علی عرشیؔ،جوشؔ و فراق کے درمیان ہونے والے معرکوں میں نظر آتی ہیں۔ ترقی پسند تحریک اور حلقہ اربابِ ذوق کے مابین جو نظریاتی اختلافات تھے اور ادب برائے ادب نیز ادب برائے زندگی کے نام پر جو قلمی جنگیں مدتوں چلیں اُن سے ہم سب واقف ہیں۔ پھر ۱۹۶۰ء کے آس پاس ترقی پسند وں کی باقیات اور جدیدیوں نے ایک دوسرے پر جتنی کیچڑ اُچھالی وہ ادبی مہابھارت سے کم نہیں۔ لیکن تسلیم کرنا ہو گا کہ عہد رواں میں گٹ بندی اور مفاد پرستی جس نچلی سطح پر نظر آتی ہے اور باقاعدہ ذاتیات کے حوالے سے گالم گلوج کی جو روش ہمارے بہت بلند مرتبت نقادوں اور ادیبوں نے اختیار کر لی ہے اس کی مثالیں تاریخ ادب میں کم ملیں گی۔

سوال:  آپ کی ادبی زندگی میں شریک سفر کا ر ول؟

جواب: ہمارے استاد( شادؔ عارفی )نے کوئی ستّر برس پہلے کہا تھا :

فخر ہے مجھ کو کہ جاہل ہے مری گھر والی

ذہن آزادی بیباک سے بالکل خالی

                        خوش بختی سے یہ شرف ہمیں بھی حاصل ہے کہ ہماری گھر والی ( سیدہ عاصمہ خاتون) ایک گاؤں کے اسکول سے تیسری جماعت کی فارغ التحصیل ہیں۔ ماشاء اللہ اکیاون برس سے ہمارے شانہ بہ شانہ جہدِ حیات میں مصروف ہیں۔ ہمیں تنگی ترشی کے زمانے میں بھی گھریلو جھنجھٹوں سے آزاد رکھا اور موقع فراہم کیا کہ اپنی تعلیم مکمل کریں، کلرک سے اقبالؔ پروفیسر بن سکیں۔ ستّر اسّی کتابیں تصنیف کر سکیں۔ موصوفہ نے پانچ بیٹوں اور ایک بیٹی کو شیرنی کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اعلیٰ تعلیم دلائی۔ میری ڈاک میں آنے والے رسالے اور کتابیں پہلے وہ پڑھتی ہیں اور اب بقیہ تمام وقت تلاوت و عبادت میں صرف کرتی ہیں ہمیں سچ مچ اُن پر فخر ہے۔

سوال:  اچھی بُری عادتیں جو آپ کو پسند ہیں ؟

جواب: اُن کی تو تمام عادتیں ہمیں اچھی لگتی ہیں، باور  کیجیے کہ ہماری غزل میں جس محبوب کا ذکر کبھی کبھار آ جاتا ہے وہ یہی محترمہ ہیں۔ اچھی عادتوں میں سر فہرست دو کا احوال یوں ہے کہ موصوفہ کبھی عطر کی شیشی سے زیادہ کی فرمائش نہیں کرتیں۔ ایک بار جوش محبت میں ہم نے اصرار کیا کہ کچھ تو بڑی فرمائش کرو، بھولپن سے ایک بڑے مکان ( دہلی میں ) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ دلائیے۔ داد دیجیے کہ ہم نے ایک ہفتے کے اندر خرید کر مہر کی حیثیت سے اُن کی نذر کر دیا۔ دوسری اچھی عادت یہ ہے کہ پیٹھ پیچھے کی خدا جانے،کبھی منہ پر ہماری تعریف نہ کی۔ ایک مرتبہ ہم بضد ہوئے کہ ہماری شاعری کے بارے میں کچھ تو کہیے، فرمایا برا مت ماننا ہمیں تو آپ کی غزلیں کچھ ایسی لگتی ہیں اور داہنے ہاتھ کا پنجہ پھیلا کر ٹیڑھا کر دیا۔

سوال:  آپ نے اُردو زبان و ادب کو کیا دیا؟

جواب: ہم کیا، ہماری اوقات کیا، لے دے کر تیرہ شعری مجموعے ( ڈیڑھ ہزار سے زائد غزلیں، ڈیڑھ سو کے قریب نظمیں، ساتھ ستر رباعیاں وغیرہ)، افسانوں کے تین مجموعے، چالیس کے قریب تنقیدی و تحقیقی کتابیں ( بشمول وضاحتی کتابیات کی بائیس جلدیں ) بچوں کی چھ کتابیں، ایک سفر نامہ، ایک انٹرویوز پر مشتمل کتاب، دس بارہ مترجمہ کتب اور بس یہی کچھ ہے ساقی متاع فقیر !اردو کے بحرِ ذخّار میں ان کی کیا حیثیت ہے۔

سوال:  اُردو زبان و ادب نے آپ کو کیا دیا؟

جواب: عزت، شہرت، دولت، سکون وغیرہ جو کچھ اور جتنا کچھ ہمیں حاصل ہے بخدا سب اُردو زبان و ادب کا ودیعت کر دہ ہے۔ ہم اس کے لیے ہمیشہ جذبہ تشکر سے سرشار رہتے ہیں۔

سوال:  کیا آپ اپنی ادبی زندگی سے مطمئن ہیں ؟

جواب: واللہ، ہم اپنی بے بضاعتی کا شدید احساس رکھتے ہیں اور زندگی کی آخری سانس تک غیر مطمئن رہنا چاہتے ہیں کیونکہ مطمئن ہو کر تخلیق کا ر مر جاتا ہے۔

 سوال:  آپ کی ادبی منزل؟

جواب: تمنّا یہ ہے کہ کاش کچھ ایسا کہہ سکیں، لکھ سکیں جس کے لیے لوگ دو ایک صدیوں تک یاد رکھیں، پسند کریں۔

سوال:  کچھ اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ؟

جواب: کچھ اور پھر کبھی، فی الحال والسلام۔ ٭٭٭

 

پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی

سہ ماہی ’’ کوہسار جرنل‘‘ ( بھاگل پور)

سوال:  آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی؟

جواب: یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو بدھوارہ بازار، کھنڈوا ( مدھیہ پردیش اُس وقت کا سنٹرل پراوِنس) میں پیدا ہوا جہاں والد صاحب ( عبد القدوس مرحوم) اردو اسکول میں ٹیچر تھے۔

سوال:  تعلیم اور ذریعۂ معاش کی تفصیل بتائیں ؟

جواب: آپ کا مختصر سوال خاصے طویل جواب کا متقاضی ہے۔ اردو میڈیم سے پہلی اور دوسری جماعت میں،میں اردو اسکول کھنڈوا سے، تیسری اور چوتھی کلاس گورنمنٹ پرائمری اسکول ایرایاں ( ضلع فتح پور، یو پی) سے، پانچویں تا ساتویں کلاس ورنا کیولر مڈل اسکول، ہسوہ (فتح پور۔ یوپی) سے ضلع میں پہلی پوزیشن کے ساتھ پاس کی ۱۹۴۶ء میں موتی لال نہرو اینگلو ورناکیولر  مڈل اسکول کھنڈوہ کی اردو میڈیم ساتویں کلاس میں داخلہ ملا، آٹھویں کلاس میں ضلع کے تمام ہندی، مراٹھی، انگلش اور اردو میڈیم اسکولوں میں پہلی پوزیشن پائی۔ بی۔ بی۔ سونی پرائز حاصل کی، ہندی میڈیم سے سبھاش ہائی اسکول کھنڈوہ میں داخلہ جہاں سے ۱۹۵۲ء میں سیکنڈ ڈیویژن میں ناگپور بورڈ آف ہائر سیکندری ایجوکیشن کی گیارہویں جماعت کا امتحان پاس کیا۔ دو تین مہینے نیل کنٹھیشور کالج کھنڈوا میں بی۔ کام سال اوّل جوائن کیا اور اسی سال جامعہ اردو علی گڑھ کا امتحان ادیب ماہر فرسٹ ڈیویژن میں پاس کیا۔ پھر فتح پور (یوپی)آ کر انٹر سائنس کے پہلے سال میں داخلہ لیا۔ اقتصادی پریشانی کے باعث تعلیم کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ ڈھائی برس  تک ٹیوشن کرتے ہوئے کانپور میں ملازمتیں تلاش کرنے کی ناکام سعی کی، جولائی ۱۹۵۵ء میں محکمہ تعلیمات بھوپال میں مڈل اسکول ٹیچر کی حیثیت سے تقرر ہوا،۱۹۵۷ء تک لاڑکوٹی مڈل اسکول میں تعینات رہا، وہیں سے جامعہ اردو علی گڑھ کا امتحان ادیب کامل اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی۔ اے آنرس انگلش ( پرائیویٹ) پاس کیے۔ پپلیا خاص ( تحصیل سلوانی، ضلع رائے سین) میں تبادلہ کر دیا گیا جہاں سے اواخر ۱۹۵۸ء میں استعفیٰ دے دیا کیونکہ یہ بہت  کوردہ اور دور اُفتادہ علاقہ تھا۔ اواخر ۱۹۵۹ء تک کھنڈوا میں تایازاد بھائی کے ساتھ تجارت میں شریک رہا اور ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ کی چیف ایڈیٹری کے فرائض انجام دیے۔ ۱۹۶۰ء میں پھر بھوپال آکر محکمہ جنگلات میں بحیثیت کلرک ملازمت کر لی جہاں بعد میں اکاؤنٹنٹ ہو گیا۔ اس ملازمت میں رہتے ہوئے گورنمنٹ کالج سیہور (بھوپال) سے انگلش میڈیم میں ال ال۔ بی کی ڈگری حاصل کی، سیفیہ کالج بھوپال میں داخلہ لے کر اردو میں ایم اے ( سالِ اوّل) کا امتحان وکرم یونیورسٹی اوجّین سے اور سال دوم کا امتحان برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے فرسٹ ڈیویژن میں پاس کیا اور یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ یہیں سے اردو میں پی ایچ۔ ڈی بھی کیا، موضوع تھا ’’ شادؔ عارفی: فن اور شخصیت‘‘ اور نگراں تھے پروفیسر عبد القوی دسنوی( صدر شعبۂ اردو، سیفیہ کالج، بھوپال)۔ جون ۱۹۷۴ء میں این سی ای آر ٹی میں اسسٹنٹ پروڈکشن افسر ( اردو ) کی حیثیت سے متعین ہو کر دہلی آ گیا پھر فروری ۱۹۷۶ء سے ستمبر ۱۹۸۹ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں لکچرار اور ریڈر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۸۹ء (۲۵ ستمبر) میں کلکتہ یونیورسٹی نے بحیثیت پروفیسر اقبال چیئر پر فائزکیا جہاں سے یکم اپریل ۲۰۰۱ء کو پنشن لے کر سبکدوش ہو گیا۔

سوال:  وہ کیا محرکات تھے جنھوں نے آپ کو شعر و ادب کی طرف راغب کیا؟

جواب: دوسری کلاس میں تھا اُس وقت سے گھر میں بہنوں کے لیے ’’ پھول‘‘، ’غنچہ‘‘ وغیرہ بچوں کے رسالے پڑھنے کے لیے خریدے جاتے تھے جنھیں میں پہلے پڑھ لیتا تھا۔ ہسوہ (فتح پور) کے مڈل اسکول میں مولوی شبراتی ( ہیڈ ماسٹر) تقطیع کے لیے اشعار دیتے تھے۔ طبع آزمائی کے لیے ہر مہینے کوئی مصرع طرح دیا جاتا تھا۔ گھر میں الف لیلہ اور داستان امیر حمزہ کی چاروں جلدیں، طلسمِ ہوشربا کے چند دفتر، آرائشِ محفل، قصہ گل بکاولی، پریم چند، راشد الخیری، ایم اسلم، عبد الحلیم شررؔ، وغیرہ کے کچھ ناول محفوظ تھے سو چاٹ لیے۔ اسکول کی چھوٹی سی لائبریری کی اردو اور ہندی کی تمام کتابیں پڑھیں ان میں بطور خاص عمرو عیار کے کارناموں پر پر مشتمل دو جلدیں، بہرام کی گرفتاری، بہرام کی رہائی، نیلی چھتری وغیرہ چاسوسی ناول اور حفیظ جالندھری کی بچوں کے لیے قلمبند کردہ نظمیں بہت شوق سے کئی بار پڑھ ڈالیں۔ غالباً اسی کے زیر اثر آگے چل کر جاسوسی ناول پڑھنے کا شوق خبط کی حد تک پہنچا۔ تیرتھ رام فیروز پوری کے تراجم کا پورا سٹ گیارہویں جماعت کے دوران میرے پاس تھا۔ البتہ اردو کے طبع زاد جاسوسی ناولوں سے بیزاری ہوتی تھی۔ ابن صفی کی چٹخارے دار زبان البتہ بھاتی تھی۔ انگریزی کے ہزاروں جاسوسی ناول پڑھے ہوں گے اور اب بھی گاڑھی ادبی کتابوں سے طبیعت بھر جاتی ہے تو انگریزی کے جاسوسی ناول ہی سہارا دیتے ہیں۔ جملہ معترضہ بڑا ہو گیا۔ ہسوہ سے کھنڈوا آنے پر غیر درسی مطالعے کا شوق اور بڑھ گیا۔ یہاں مڈل اسکول کے ایک استاد احسان الحمید صاحب نے اور ہائی اسکول کے استاد سکرگائے صاحب نے ادبی ذوق کی تربیت کی۔ اس مرتبہ قیام تایا زاد بھائی سیٹھ مظہر الدین مرحوم کے ہاں تھا ان کا بہت بڑا کاروبار تھا وہ زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے لیکن اچھی کتابیں اور رسالے خریدنے کا جنون تھا۔ گھر کی الماریاں بڑے شعراء کے دواوین اور مجموعوں سے پٹی پڑی تھیں۔ کتب فروشوں کو عمومی ہدایت تھی کہ ہر رسالہ اور نئی کتاب دوکان پر پہنچائی جائے۔ اس اعتبار سے کنواں خود پیاسے کے پاس آ گیا۔ جی بھر کر آتشِ شوق کو سیراب کیا لیکن مقام شکر ہے کہ آگ اب تک سرد نہیں ہوئی۔ جہاں تک تخلیق ادب کی جانب مائل ہونے کی بات ہے اس کا قصّہ بھی پُر لطف ہے۔ امتحان کے زمانے میں طلسم ہوشربا کی ایک جلد ہاتھ آ گئی اس میں منہمک دیکھ کر والد مرحوم نے خاصی سرزنش کی اور کہا لکھ پڑھ کراس لائق بنو کہ تمھارا لکھا ہوا دوسرے پڑھیں۔ ہم نے سوچا مستقبل کا انتظار کون کرے اُسی دن سے اپنا قلمی نام بے سوچے سمجھے رکھ لیا ’ ابو المظفر حنفی ہسوی‘ اور بچوں کی کہانیوں اور نظموں کا ڈھیر لگا دیا۔ ان دنوں رسالہ ’کھلونا‘ نیا نیا نکلا تھا پھر ’ پھلواری‘ نکلا اور دوسرے پرچے تھے بچّوں کے ان میں خوب پذیرائی ہوئی پھر مرض بڑھتا گیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

سوال:  غزل آپ کے مزاج سے زیادہ قریب ہے یا نظم؟

جواب: غزل۔ میرا مقطع ہے:

بُری نہیں ہے مظفرؔ کوئی بھی صنفِ ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

                        ہر چند کہ آپ نے وجہ دریافت نہیں کی پھر بھی اجمالاً عرض کر دوں کہ ادب کا پہلا فریضہ یہ ہے کہ مختصر ترین لفظوں میں بات یوں کہی جائے کہ سُننے والے کے دل میں اُتر جائے۔ غزل اس باب میں سب سے زیادہ کامیاب ہے۔

سوال:  کیا نثری نظم کا زور ختم ہو گیا؟

جواب: حقیقت یہ ہے کہ اردو میں نثری نظم نے کبھی زور نہیں پکڑا۔ ہمارے ہاں پابند شاعری کی اتنی چھتنار روایت ہے کہ آزاد نظم کو ہی جڑیں جمانے میں دُشواری ہو رہی ہے۔ ویسے نثری نظمیں آج بھی چھپ رہی ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ تجرباتی چیزیں زندہ رہ سکیں گی۔

سوال:  آپ ایک مدت تک کہانیاں لکھتے رہے۔ لیکن اب با ضابطہ طور پر شاعر ی کر رہے ہیں اور تنقید لکھ رہے ہیں۔ اس تبدیلی کی وجہ؟

جواب: یہ سچ ہے کہ ۱۹۵۲ء تا ۱۹۶۰ء میں نے افسانے زیادہ لکھے شاعری کم کی پھر جب ۱۹۵۹ء میں ماہنامہ ’’نئے چراغ‘‘ کی ادارت سنبھالی تو ساتھ ہی تجارت کا کام بھی تھا۔ وقت کم ملتا تھا کہانیاں لکھنے کا، چنانچہ اس زمانے میں رسالے کے لیے ارسطو ثانی کے نام سے مِنی کہانیاں (افسانچے) کافی لکھے۔ غزل کے اشعار چونکہ ایک نشست کا مطالبہ نہیں کرتے، مختلف اوقات میں ہوتے رہتے ہیں اس لیے اس طرف رغبت زیادہ ہو گئی، مزید برآں جدیدیت کے رجحان نے شاعری کے ساتھ نثر اور فکشن میں بھی علامت پسندی اور تجریدیت کو پسندیدہ قرار دیا لیکن میرا ذاتی خیال تھا اور اس بارے میں اُس دَور کے ناقدین سے مباحثے بھی رہے کہ علامت ابہام، تجرید وغیرہ شاعری کے زیور ہیں ان کے استعمال سے افسانہ’ منہ بند‘ ہو جاتا ہے۔ جب اس رویّے میں شدّت آئی تو میں نے غزل کو اپنا لیا کیونکہ اس کا تو خمیر ہی رمزیت اور اشاریت سے اُٹھا ہے۔ اسی کے آس پاس  شادؔ عارفی کا شاگرد ہوا اور اوائل ۱۹۶۲ء میں ان کا انتقال ہو گیا۔ اُن کے ہمعصر ناقدین بوجوہ ان سے خفا تھے اور میں چاہتا تھا کہ مرحوم کے فن پر تنقیدی اور تحقیقی کام ہو، لہٰذا خود ہی ابتداء کی اور مضامین کے علاوہ ان پر ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیقی مقالہ بھی لکھا، پھر یونیورسٹی کی ملازمت میں آکر پیشہ ورانہ تقاضوں کے تحت بھی تنقید کے میدان میں اُترنا پڑا سو نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔

سوال:  آپ نے تدوین کا بھی اہم کام کیا ہے۔ اس کی افادیت بتائیں ؟

جواب: تدوین بے شک ایک اہم ادبی کام ہے۔ ذوقؔ پر مولانا محمد حسین آزادؔ نے یا شادؔ عارفی پر اس خاکسار نے توجہ نہ کی ہوتی تو غالباً ان اہم فنکاروں کو اُن کا جائز ادبی مقام نہ ملتا یا بہت دیر سے ملتا۔

سوال:  ہمارے یہاں علامتی شاعری کئی مرحلے سے گزری۔ اس کی ترقی کے امکانات کیا ہیں ؟

جواب: موجودہ صنعتی اور مشینی دور میں بیانیہ شاعری، رزمیہ،مثنوی وغیرہ کا ذوق بہت کم ہو گیا ہے۔ شاعری کی رمزیت اور اس میں علامات کے استعمال سے جو پرتیں پڑتی ہیں اور ہر ذوق کے قاری کی پسند کے مفاہیم اس سے برآمد ہوتے ہیں اس کے پیش نظر علامتی شاعری کے لیے ترقی کا میدان کھلا ہے۔

سوال:  ساختیاتی یا امتزاجی تنقید کے بارے میں آپ کی کوئی رائے نظر سے نہیں گزری جبکہ اس کا غلغلہ رہا ؟

جواب: نادر شاہ کے بقول اس سواری سے بچنا چاہیے جس کی لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہو۔ ساختیات سے میری یاد اللہ ہی نہیں ہے اس پر کیا اظہار رائے کرتا۔ امتزاجی تنقید پر مثبت رائے رکھتا ہوں اور اپنی تنقید میں اس رویّے پر گامزن ہوں کہ فن پاروں کی تفہیم و تفسیر کے لیے ہر مکتبِ فکر سے حسبِ ضرورت استفادہ کیا جائے۔

سوال:  اساطیر کا استعمال اور ترسیل کا مسئلہ؟

جواب: اساطیر کا استعمال تو شاعری میں روز اوّل سے تلمیح، تشبیہ، استعارے وغیرہ کی صورت میں ہو رہا ہے، ترسیل کے مسائل تو فن کاروں کی عدم استطاعت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں، اس میں اساطیر کا کوئی قصور نہیں۔

سوال:  نئے افسانے میں عدم ابلاغ کی وجہ صرف فن پارے کی پیچیدگی نہیں بلکہ قاری کے ذہن کی سطح اور تربیت بھی ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟

جواب: نئے افسانے میں عدم ابلاغ کا مسئلہ اب سے دس پندرہ برس پہلے در پیش تھا اب تو ناقدین اور افسانہ نگار دونوں نے ترسیل کی اہمیت اور کہانی پن کی ضرورت کومحسوس کر لیا ہے۔ فن پارے کی پیچیدگی کو قاری کے لیے غیر پیچیدہ بنانا ہی تو فنکاری ہے اگر تخلیق کار کی گرفت فن پر مضبوط نہ ہو تو اس کا الزام قاری کے سر منڈھنا بے انصافی اور بد دیانتی ہے۔

سوال:  ادب میں جنس کس حد تک جائز ہے؟

جواب: ادبی ضرورت کے تحت ہر سطح تک جائز ہے۔ محض لذت کی خاطر ادب میں جنس کا استعمال بے ادبی ہے۔

سوال:  ترجمے کی افادیت؟

جواب: کوئی کافی ہی اس کی افادیت کا منکر ہو سکتا ہے۔

سوال:  آج کی اردو صحافت ؟

جواب: بیشتر سنسنی خیزی پر انحصار کرتی ہے لیکن اعلیٰ نمونے کم سہی، نایاب نہیں ہیں۔

سوال:  آپ کی دانست میں آج کے انسان کے کرب کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

جواب: انسان اور کرب لازم و ملزوم ہیں ماضی میں بھی انسان کرب سے دو چار تھا اور مستقبل میں بھی ہو گا تاوقتیکہ سائنسی ترقی اُسے احساسات سے عاری نہ کر دے۔

سوال:  شاعری میں نسائی شعور کے رد عمل کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: بیشک، اس کی پذیرائی ہونی چاہیے۔

سوال:  نئی نسل کے قلمکاروں میں تخلیقی اعتبار سے آگے بڑھنے کی صلاحیت؟

جواب: نئی نسل بہ ہر اعتبار بھرپور صلاحیتوں کی حامل ہے البتہ بہت جلد ثمر یاب ہونے کی خواہش اس کے لیے مُضر ہے۔

سوال:  کیا مشاعرے زبان و ادب کے فروغ میں کوئی کردار ادا کرتے ہیں ؟

جواب: بے شک مشاعروں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا البتہ مشاعروں کی بھرمار اور بے کردار نقلی شاعر و شاعرات کی کثرت نے اس مفید ادارے کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ فوری اصلاح کی ضرورت ہے۔

سوال:  کیا زندگی نے آپ کو دھوکہ بھی دیا ہے؟

جواب: میں نے بھی زندگی کو کم دھوکے نہیں دیے ویسے زندگی سے مجھے کوئی گلہ نہیں ہے۔

سوال:  آپ کی کون کون سی کتابیں منظرِ عام پر آئی ہیں ؟

جواب: ایک دو نہیں، ستّر اسّی ہیں اور ایک کتاب کی تو بائیس ضخیم جلدیں ہیں۔ کچھ کئی زبانوں میں چھپی ہیں آپ کی سہولت کے لیے فہرست منسلک ہے۔

سوال:  شکریہ!

جواب:  خدا کا شکر ہے۔

٭٭٭

 

 ندیم صدیقی

روز نامہ ’’ انقلاب‘‘ ( ممبئی)

            تکنیکی سطح پر یقیناً دنیا پہلے سے زیادہ ترقی یافتہ ہے جس سے ہم اور ہماری نئی نسل مستقید بھی ہو رہی ہے۔ مگر معیار و اقدار کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ترقی محض ترقی معکوس ہے۔ آج انسان ایک دوسرے سے بہت قریب ہے کہ مثلاً اپنے کسی عزیز سے جو امریکہ کے کسی دور افتادہ مقام پر موجود ہے، اس سے کوئی بات کرنی ہے تو آپ اسی لمحے اس سے رابطہ کر سکتے ہیں فون ہے، موبائل ہے اور ای میل وغیرہ کی سہولتیں موجود ہیں۔ اس کے بر عکس میں یہ بھی دیکھتا ہوں کہ ایک ہی بلڈنگ بلکہ ایک ہی منزل کے مختلف فلیٹ میں رہنے والے ایک دوسرے سے اس قدر بے نیاز رہتے ہیں کہ بسا اوقات اپنے پڑوسیوں کے نام سے بھی نا واقف ہیں۔ یہ بات آپ کے مشاہدے اور تجربے میں بھی ہو گی۔

            اب رہی بات اُردو اور اُردو والوں کی تو اردو والے بھی اسی زمیں اسی ماحول کے رہنے والے ہیں تو وہ الگ کیسے ہو سکتے ہیں۔ اس بات کے قبول کرنے میں کچھ کمی بیشی ضرور ہو سکتی ہے۔ ‘‘

            یہ بات اُردو کے مشہور اور ایک خاص لہجے کے ادیب و شاعر استاد ڈاکٹر مظفر حنفی نے انقلاب سے انٹرویو کے  دوران کہی۔

            عہد حاضر کے منفرد شاعر شادؔ عارفی کے شاگرد اور ان کی شخصیت  اور فن پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر مظفر حنفی گزشتہ دنوں مہاتما گاندھی ریسرچ سنٹر کے جلسے میں شرکت کے لیے ممبئی آئے ہوئے تھے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے ہم نے ان سے پوچھا تھا کہ ’’ آج عام خیال ہے کہ دورِ گزشتہ کے مقابلے میں دُنیا نے بہت ترقی کر لی ہے  اس خیال کے پیش نظر آپ بتائیں اُردو اور اُردو والے ترقی کی کس منزل میں ہیں ؟‘‘

            پچاس سے زائد کتابوں کے مصنف ڈاکٹر مظفر حنفی کہتے ہیں ’’ ہمارے بچپن میں کسان اپنے کھیتوں میں کام کرتے وقت الطاف حسین حالیؔ کا مسدس پڑھتے تھے اور آج یہ عالم ہے کہ طلباء تو طلبا ہیں ہماری درسگاہوں، دانش گاہوں میں اساتذہ بھی اپنے کلاسیکی ادب سے ناواقف ہیں مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ ان اساتذہ میں اکثر اس قابل ہی نہیں کہ وہ درس و تدریس کے شعبے سے متعلق ہوں جب یہ صورت حال ہو تو پھر طلبا کے بارے میں کیا کہا جائے؟‘‘

            یکم اپریل ۱۹۳۶ء کو کھنڈوہ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر مظفر حنفی سے کہ جن کا آبائی وطن فتح پور (ہسوہ) ہے ہم نے ان سے پوچھا کہ اس صورتِ حال کا سبب کیا ہے؟

            جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ اُردو کے سابق ریڈر اور کلکتہ یونیورسٹی کی اقبال چیئر کے سابق پروفیسر اس سوال کے جواب میں برجستہ کہتے ہیں ’’یہ سب مشینی دور میں ہر چیز کو معاشی نقطہ نظر سے دیکھنے کا نتیجہ ہے۔ ہر چند کہ آج زندگی کی تمام سہولتیں ہمیں میسر ہیں مگر نہیں ہے تو اخلاق و اخلاص اور اس سے بھی زیادہ بری بات تو یہ ہے کہ ان جواہر کے نہ ہونے کا احساس بھی مفقود ہوتا جا رہا ہے۔ دولت سے آدمی زندگی کی ہر آسائش حاصل کر سکتا ہے مگر ان آسائشوں سے مستفیدہونے کا سلیقہ علم و ادب ہی سے حاصل ہوتا ہے۔ میرے نزدیک ہمہ جہت ترقی کے باوجود موجودہ معاشرہ انسانی اقدار سے دور ہو چکا ہے۔ آج کا معاشرہ دو کشتیوں میں سفر کر رہا ہے جب کہ اپنے آپ کو متوازن کرنے کی ہمیں ضرورت ہے ورنہ تمام تر ترقی اس معاشرے کو ایک ایسی اندھیری راہ کی طرف دھکیل دے گی کہ منزل کا حصول تو جانے دیجیے منزل کا تصور ہی گُم ہو کر رہ جائے گا۔ ‘‘

            ڈاکٹر مظفر حنفی اسی سوال کے جواب میں یہ بھی کہتے ہیں ’’ علم و ادب کا یہ زوال عالمی نوعیت کا ہے۔‘‘

            موصوف کی نگرانی میں کئی ریسرچ اسکالرز نے پی ایچ ڈی کی ہے نیز ان پر بھی تحقیقی کام کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی جا چکی ہے۔ وہ ملک کی دیگر جامعات کے شعبۂ اردو کے بارے میں صاف صاف کہتے ہیں کہ جس طرح زندگی کے اکثر شعبوں میں انحطاط کا دور دورہ ہے ہماری جامعات کے شعبۂ اردو بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ آج درس و تدریس اور دانش گاہوں کے شعبۂ اُردو سے متعلقین کا محبوب عمل اگر کوئی ہے تو وہ یہ ہے کہ ٹیوشن کے ذریعے زیادہ سے زیادہ مالی منفعت ہو اور سمینار وسمپوزیم کی صدارت یا پھر کم از کم انھیں اچھے ڈی اے وغیرہ پر شرکت کا دعوت نامہ موصول ہو جائے۔ مختصر یہ کہ اس علمی انحطاط کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہمارے اساتذہ کو غیر تدریسی کاموں سے زیادہ دلچسپی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ اساتذہ معاشرے میں اپنی توقیر سے محروم ہو چکے ہیں۔

            ڈاکٹر مظفر حنفی انگلستان اور امریکہ وغیرہ کے دورے بھی کر چکے ہیں۔ اسی پس منظر میں ان سے ہمارا سوال تھا کہ آپ ملک سے بارہا باہر گئے ہیں ذرا بتائیں کہ یہ جو کہا جا رہا ہے کہ ’’اُردو کی نئی بستیاں ‘‘ تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ اس سوال پر انھوں نے کہا ’’مغرب میں میری بڑی پذیرائی ہوئی اور وہاں میری عمر کے لوگوں میں اُردو سے خاصی دلچسپی بھی دیکھنے کو ملی مگر مجھے ان کے بچوں میں اور بالخصوص اُن بچوں میں جو وہیں کی پیداوار ہیں وہ دلچسپی اور اُنس دیکھنے کو نہیں ملا۔ بلکہ ان بچوں سے میں اکثر اردو بولنے پر بھی قادر نہیں ہیں میرا خیال ہے کہ اگر اس طرف توجہ نہیں دی گئی تو ایک آدھ نسل کے بعد اُردو کی نئی بستیوں کا یہ محل اڑاڑ اڑا دھم ہو کر رہ جائے گا۔ ‘‘

            ڈاکٹر مظفر حنفی ادبی تقریبات میں شرکت کی غرض سے کئی بار پاکستان جا چکے ہیں اس حوالے سے ان سے ہمارا سوال یہ تھا کہ کیا آپ ہندوستانی اور پاکستانی ادب میں کسی قسم کی تفریق پاتے ہیں ؟

            ان کا جواب تھا ’’ جی ہاں تفریق تو ہے۔ اس کو ذرا یوں دیکھیے کہ ہمارے ہاں دو درجن سے زائد ریاستیں ( صوبے) ہیں اور پاکستان میں صرف چار ریاستیں۔ دوسرے یہ کہ ہم نے صرف ۲۹ ماہ ہی ایمر جنسی جھیلی اور حکومت بدل کر رکھ دی، پاکستانیوں کی صورت حال اس کے برعکس ہے۔ پاکستان کی عمر کو پیش نظر رکھیے اور ذرا سوچیے کہ وہ اب تک ایمرجنسی کی صورتِ حال سے باہر نہیں ہے۔ ہمارے ہاں جمہوری مزاج نہ صرف موجود ہے بلکہ ایک طاقت بھی رکھتا ہے جب کہ ان کے ہاں ابھی یہ مزاج پنپ بھی نہیں سکا۔ اس ماحول کا اثر شاعر و ادیب پر بھی پڑا۔ اس کے علاوہ دو قومی نظریہ بھی ان کے ہاں بڑا کردار ادا کرتا ہے وہ دو ادب کو مانتے ہیں۔ ‘‘

            ہم نے کہا ’’ ذرا واضح الفاظ میں کہیں۔ ‘‘

            ’’ میاں سچ تو یہ ہے کہ ہماری غزل، ہماری تنقید، ہماری تحقیق اُن سے کہیں آگے ہے۔ البتہ پنجاب کی زمین افسانے اور نظم کے لیے بڑی زرخیز ہے۔ ایک بات اور کہوں گا کہ ہمارے ہاں سچ بولنے والے نقادوں کی بہت کمی ہے۔ ‘‘

            اب ادبی ایوارڈز بھی سیاست کے زیر اثر ہیں تو کیا آپ کے نزدیک ان ایوارڈز کی کوئی توقیر یا اہمیت باقی ہے؟ اس سوال پر ڈاکٹر مظفر حنفی مسکراتے ہوئے بولے کہ مالی اعتبار سے دیکھا جائے تو ان ایوارڈز کی کوئی اہمیت ضرور بنتی ہے مگر معیار و وقار کے اعتبار سے برسوں پہلے محمد علوی نے اسی سوال کے جواب میں چند نام لے کر کہا تھا کہ ’’ یہ ایوارڈ اتنے چھوٹوں کو مل چکے ہیں کہ ان کی اب کوئی اہمیت باقی ہی نہیں رہ گئی ہے۔ ‘‘ یہی حال ہے ہمارے رسائل اور جرائد کا کہ وہ ایسے ایسوں کے نمبر اور گوشے نکال رہے ہیں کہ اب اپنا نمبر یاگوشہ اپنی نگاہ میں ہی مشکوک ہو کر رہ گیا ہے۔ در اصل ایک سچے فن پارے کی تخلیق ہی اپنے آپ میں سب سے بڑا اعزاز ہے۔ رہی بات نمبر اور گوشوں کی تو اس طرح کچھ رسالوں کے ذہنی یتیم و یسیر مدیروں کی مالی اعانت ہو رہی ہے اس میں ادب، ادیب و شاعر اُن کا شکار ہو رہا ہے۔ افسوس کہ کچھ لوگ از خود شکار ہوتے ہیں شاید وہ اپنے علم و فن کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہیں۔

            یہ بات وہ کہہ ہی رہے تھے کہ ہم نے کہا کہ نمبر وغیرہ تو آپ کے بھی نکل چکے ہیں۔

            جس پر انھوں نے فوراً کہا کہ یقیناً نمبر یا گوشے اس خاکسار کے بھی شائع ہوئے ہیں مگر میں اپنے ضمیر کے تئیں مطمئن ہوں کہ ان نمبروں کی اشاعت میں میری طرف سے نہ تو مالی اور نہ ہی کسی اور طرح کی اعانت شامل ہے۔ میں یہاں یہ بھی بتا دوں کہ میں نے اپنے اوپر پی ایچ ڈی کرنے والے کو تین برس تک دوڑایا جب یہ دیکھ لیا کہ واقعی اسے صرف پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول میں دلچسپی نہیں بلکہ وہ واقعی تحقیقی کام کرنا چاہتا ہے تو پھر میرا رویہ ضرور بدلا۔

            اردو کے ایک عام اخبار سے لے کر کسی بھی رسالے میں اکثر ہم مظفر حنفی کی غزل پڑھتے ہیں بعض اوقات ان کی بسیار گوئی پر حیرت بھی ہوتی ہے ہم نے اس بات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان سے یہ بھی پوچھ لیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ آپ بہت کہتے ہیں اور بہت چھپتے ہیں تو کیا اس بسیار گوئی نے آپ کی خوش گوئی کو کبھی متاثر کیا؟

            ہمیں اپنے سوال پر جواباً ایک جھلاہٹ کا امکان تھا مگر ہوا اس کے برعکس ’’ جہاں تک خوش گوئی کا تعلق ہے اس بارے میں مَیں کچھ نہیں کہہ سکتا اس کا فیصلہ پڑھنے والے ہی کریں گے۔ رہی اشاعت کی بات تو میں مخصوص لوگوں کا شاعر نہیں رہنا چاہتا۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کی میری طبع رواں ہوتی ہے تو ایک دن میں میرے ہاں ۹۔ ۹غزلیں ہوئی ہیں۔ دراصل یہ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے میری طبیعت میں روانی رکھی ہے۔ ورنہ تومیں یہ بھی جانتا ہوں کہ بعض شاعر سوچتے تو بہت ہیں مگر ان کی طبع قبض میں مبتلا ہوتی ہے اور ان کی سوچ وہیں ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے اور پھر بسیار گوئی اور کم گوئی کوئی اہمیت نہیں رکھتی کیوں کہ یہ دونوں باتیں کسی شاعر کے اچھے یا بُرے ہونے کا پیمانہ نہیں بن سکتیں۔ میر تقی میرؔ اور مصحفیؔ کے ۶ اور ۸ دیوان ہیں اور مرزا غالبؔ کا دیوان محض ڈیڑھ جُز کا ہے۔ ہمارے دور میں کرشن موہن یا عبدالعزیز خالد بھی تھے جن کے ۲۰۔ ۲۰ مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور ان کا معیار کسی سے پوشیدہ بھی نہیں۔ اسی طرح شعرا میں ایسے بھی ملیں گے جن کے پاس ۱۰ سے ۱۵ غزلیں  ہی ہیں تو کیا وہ بڑے شاعر سمجھ لیے جائیں گے۔ میرا پیمانہ یہ ہے کہ زیادہ کہیے یا کم کہیے مگر اچھا کہیے۔ اگر آپ نے اچھا کہا ہے اور زیادہ کہا ہے تو آپ اس سے بڑے شاعر ہیں جس نے اچھا تو کہا ہے مگر کم کہا ہے۔ ‘‘

            ڈاکٹر مظفر حنفی سے ہم نے یہ بھی کہا کہ آپ لکھنے والوں کی نئی نسل سے کچھ کہنا چاہیں گے؟

            موصوف نے جواباً  اثبات میں گردن ہلاتے ہوئے کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ادب کو بطور شوق نہیں اختیار کرنا چاہیے۔ یہ کل وقتی مصروفیت کا متقاضی ہے۔ اچھا شاعر و ادیب مسلسل سوچتا اور محسوس کرتا ہے اور آپ وہی کہیں جومحسوس کرتے ہوں دوسروں کو خوش کرنے والی بات ادب نہیں ہوسکتی۔ اور دوسری بات یہ بھی نوٹ کر لی جائے کہ ادب میں کوئی چور دروازہ نہیں ہوتا  اور اگر کچھ لوگ پیچھے کے دروازے سے آبھی جائیں تو ادب بِلا کسی رو و رعایت اسی راستے سے واپسی کا انتظام کر دیتا ہے۔ ادب میں اس کی کئی مثالیں ہیں۔ ادب کی تاریخ نے ایسے لوگوں کو حاشیے پر بھی درج نہیں ہونے دیا۔ ‘‘

            ڈاکٹر مظفر حنفی عام طور پر ایک تیکھے شاعر کہے جاتے ہیں مگر ان سے گفتگو کے بعد یہ بھی کھلا کہ:

مختلف انداز رکھتی ہے مظفرؔ کی غزل

یہ ہماری آپ بیتی ہے خبر نامہ نہیں

٭٭٭

 

ڈاکٹر مہتاب عالم

ای۔ ٹی وی، اردو ( بھوپال)

ڈاکٹر مہتاب عالم: ناظرین۔ آداب! ای ٹی وی کے خاص پروگرام خاص ملاقات میں ایک بار پھر آپ سب کا خیر مقدم ہے۔ حسب روایت آج پھر ایک شخصیت کو لے کر ہم آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں۔ ناظرین جب ہم بات خاص کی کرتے ہیں تو اس کا مطلب ایسی شخصیت سے ہوتا ہے جس نے اپنی تحریروں سے ایک جہاں کو منور کرنے کا کام کیا ہو۔ آج کی جو شخصیت ہے اس نے اپنی تحریروں سے صرف ہندوستان ہی نہیں بلکہ دنیا میں جہاں کہیں بھی اردو ادب کو پڑھا جاتا ہے، امِٹ نقوش مرتب کئے ہیں۔ اردو تنقید میں اس کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اگر ہم شکسپیئر کے حوالے سے بات کریں تو شیکسپیئر نے عظیم انسانوں کی تین قسمیں بیان کی ہیں۔ ایک وہ جن کو عظمت وراثت میں ملتی ہے، دوسرے وہ جو اپنے کارنامے سے عظیم بنتے ہیں اور تیسرے وہ جو اپنے بے تکے عمل سے عظیم بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج کی جو شخصیت ہم سے گفتگو کرنے کے لیے اسٹوڈیو میں حاضر ہوئی ہے اس نے اپنے کام سے نہ صرف ہندوستان بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو دنیا میں عظمت حاصل کی ہے۔ آپ کا نام ڈاکٹر مظفر حنفی ہے۔

                         مظفر صاحب ای ٹی وی کے خاص پروگرام خاص ملاقات میں آپ کا خیر مقدم ہے۔ مظفر صاحب! اگر آپ کی کتابوں کی تعداد کی ہم بات کریں تو اب تک ۷۱ کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں اور آپ کا ادبی سفر نصف صدی سے زیادہ کے عرصہ پر محیط ہے۔ مظفر صاحب ہم اپنی گفتگو کا آغاز ادب اطفال سے کرنا چاہیں گے۔ ہم لوگ اکیسویں صدی میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ سائنس و ٹیکنالوجی کا زمانہ ہے۔ وہ بچے جو کسی معاشرے کے لیے بیک بون کہے جاتے ہیں اردو ادب میں انھیں بچوں کے ادب پر کیوں کم سے کم لکھا جا رہا ہے؟

ڈاکٹر مظفر حنفی:  مہتاب صاحب! آپ کے سوال کا جواب دینے سے پیشتر میں شکریہ ادا کرنا چاہوں گا ای ٹی وی کا اور آپ کا۔ آپ نے جیسے حوصلہ افزا کلمات میرے تعارف میں پیش کیے ہیں، یہی دعا ہے کہ جیتے رہیے اور خوش رہیے۔ اب آپ کے سوال پر بات شروع کرتے ہیں اردو میں ادب اطفال کے سلسلے میں بڑی گمراہ کن باتیں کہی جاتی ہیں کہ صاحب ادبِ اطفال کی طرف توجہ کرنے والوں میں نوسِکھیے اورایسے لوگ یا جن کی ادبی حیثیت کم ہوتی ہے وہی ادب اطفال کو ہاتھ لگاتے ہیں اور معروف و عظیم شعرا نے اس طرف توجہ نہیں کی۔ لیکن اگر مہتاب صاحب! آپ تاریخ ادب اردو کا بغور مطالعہ کریں تو کوئی عظیم شاعر ایسا نہیں ہے جس نے بچوں کے لیے ادب تخلیق نہ کیا ہو۔ میر تقی میرؔ کی موہنی بلّی، دیکھیے میری یاد داشت بہت اچھی نہیں رہی، ۷۵ برس کا ہو چکا ہوں اس لیے بہت زیادہ حوالے نہیں دے سکوں گا لیکن میر تقی میرؔ، سوداؔوغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ غالبؔ نے تو باقاعدہ قادر نامہ بھی لکھا ہے۔ اس کے بعد اقبال کو لیجیے اقبال نے بچوں کے لیے کتنی نظمیں لکھی ہیں اور پھر سب سے اچھا ترانہ’’ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری‘‘ اقبال کا ہی لکھا ہوا ہے۔ یا جگنو۔ جگنو کی روشنی ہے کاشانہ چمن میں۔ بہت ساری نظمیں ہیں۔ اس کے بعد آگے چلیے فیضؔ، کرشن چندر، عصمت چغتائی۔ اب دیکھیے حفیظؔ جالندھری کا نام مجھے یاد آ رہا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کا نام مجھے یاد آ رہا ہے۔ مرزا ادیب کا نام مجھے یاد آ رہا ہے۔ یہ سب تو اردو کے بڑے نام ہیں۔ قاضی عبد الستار صاحب ہیں، قرۃ العین حیدر سارے لوگوں نے بچوں کے ادب پر کام کیا ہے۔ یہ سب ایسے نام ہیں جنھوں نے بچوں کے لیے ادب تخلیق کیا ہے اور اس کی جانب باقاعدہ توجہ کی ہے۔ ان کے جو دوسرے کارنامے ہیں اس کی جانب تو لوگوں نے خوب توجہ کی لیکن ادب اطفال کو اپنی بنیاد قرار دینے والے ادبا و شعرا کو اس لائق نہیں سمجھا گیا کہ ان پر کچھ لکھا جائے۔ اصل میں ادب اطفال کے سلسلے میں جو کمزوری رہی ہے وہ یہ رہی ہے کہ بے توجہی ناقدین نے فرمائی۔ وہ شاعری میں قصیدہ، مرثیہ، غزل پھر فکشن، ڈرامہ، انشائیہ وغیرہ وغیرہ کے اوپر تو خوب طبع آزمائی فرماتے رہے لیکن ادب اطفال کے سلسلے میں تنقید نے بہت کم توجہ کی ہے۔ میرے کئی مضامین ایسے ہیں جن میں یہ بات کہی ہے کہ ادب اطفال کی جانب نئے لکھنے والے اس لیے بھی اور کم مائل ہوتے ہیں کہ وہاں سے حاصل کچھ نہیں ہوتا۔ اردو میں اِکّا دُکّا کچھ خوش نصیب شاعر ایسے ہیں جن کو سرکاری رسائل معاوضہ دے دیتے ہیں۔ دوسری جانب جو تھرڈ گریڈ کے شعرا ہیں ان کو مشاعروں میں بلا کر فائیو اسٹار ہوٹلوں میں ٹھہرا کے اور خراب کلام سن کر پچاس پچاس ہزار کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ میں یہاں پر اس کی بات کر کے اپنا وقت ضائع نہیں کر نا چاہتا۔ مہتاب صاحب! کتابوں سے جو رائلٹی ملتی ہے، رسالوں سے جو معاوضے ملتے ہیں ان میں بھی آپ دیکھیے کہ تخلیقی مضامین پر نظم پر افسانہ پر تو معاوضے مل سکتے ہیں لیکن ادب اطفال پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ بچوں کے رسالے ہیں ہی نہیں،دو تین رسالوں کے علاوہ۔ ان میں بس امنگ ہے، گل بوٹے ہے، گلشنِ اطفال ہے۔ بس دو تین رسالے ہیں پورے ملک میں۔ ایک زمانہ تھا کہ ہندوستان کے کونے کونے سے بچوں کے رسالے نکلتے تھے۔ لیکن اس زمانے میں بھی ناقدین نے اس کی جانب توجہ نہیں کی۔ اب آپ اپنی تسکین کے لیے ادب اطفال کو تخلیق کریں تو کریں لیکن اس سے آپ کونہ شہرت ملتی ہے۔ نہ اس سے آپ کو عزت ملتی ہے اور نہ اس سے آپ کو معاوضہ ملتا ہے۔ وہیں اگر اردو میں ادب اطفال زندہ ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا جینر(genre) اتنا طاقتور فورس فل ہے کہ وہ مٹنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  مظفر صاحب اس کے ساتھ ایک اہم بات یہ ہے کہ جب ہم اکیسویں صدی کے منظر نامے پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب ہم کسی بک اسٹال پر جاتے ہیں تو ہمیں ہندی اور انگریزی یا دوسری زبانوں میں دیدہ زیب بچوں کی کتابیں،کامکس تو مل جاتے ہیں لیکن اردو کا بچہ پڑھنا چاہے تو وہ کیا کرے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی:  افسوسناک صورتحال ہے۔ لیکن اردو میں کامکس پڑھنے والے بچے بھی کتنے ملتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کو انگلش میڈیم میں پڑھا کر خوش ہولیتے ہیں کہ اس سے ہمارے بچوں کو ملازمت مل جائے گی۔ اب ٹارگیٹ ملازمت ہے۔ اور وہ ٹارگیٹ لوگ انگریزی اور دوسری زبان میں تلاش کرتے ہیں لیکن میرا یہ ماننا ہے کہ اردو پڑھنے سے ملازمت کے دروازے بند نہیں ہو جاتے۔ اردو پڑھنے سے مستقبل تاریک نہیں ہو جاتا۔ لیکن لوگوں نے ایک مفروضہ بنا لیا ہے۔ جب ہمارے بچے اردو پڑھتے ہی نہیں اس لیے جب وہ کتابوں کی دکان پر جاتے ہیں تو انگلش میں یا ہندی میں کامکس خرید کر لاتے ہیں۔ اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ یہ کتابیں قیمتی ہوتی ہیں اور عام آدمی اسے افورڈ کر ہی نہیں سکتا ہے۔ اب اردو والوں کی تسکین کے لیے چند رسالے ہیں اور لے دے کے ٹی وی سیریل میں کچھ دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ ویسے ایک بات اور میں عرض کروں، موجودہ دَور میں جو ایڈوانس ایجوکیشن کا میتھڈ (Method)ہے اس میں کامکس کو بہت زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ اس کو بہت زیادہ ترجیح نہیں دی جاتی۔ وہ کہتے ہیں کہ بچہ اس میں ویزیول(Visual) دیکھنے میں زیادہ انٹرسٹیڈ(Interested) ہو جاتا ہے اور ریٹن ٹیکسٹ (Written Text)کی جانب توجہ کم کرتا ہے اور اس کی ذہنی نشو و نما پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  لیکن جس طرح سے ہم لوگ ای ٹی وی اردو کے بھوپال اسٹوڈیو میں بیٹھ کر بات کر رہے ہیں۔ بھوپال، نماڑ، خاندیش کے ادبی منظر نامے کی بات کریں تو امیر خسرو کے بعد اردو ادب کی تاریخ میں جنوبی ہند میں حیدرآباد، بیجا پور، گولکنڈہ اور شمالی ہند میں دہلی،لکھنؤ اور دوسرے مراکز کا ذکر ہوتا ہے تو برہانپور کو کیوں فراموش کر دیا جاتا ہے۔ جب کہ تاریخ ادب اردو کا ہر طالب یہ بات جانتا ہے کہ علاء الدین خلجی نے ۱۲۹۶ء میں کوہ وِندھیا چل کو عبور کر کے جب دیو گیری پر قبضہ کیا تھا تو اس کے ہمراہ امیر خسرو بھی تھے۔ خزائن الفتوح میں امیر خسرونے خود اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ۱۲۹۸ء میں علا ء الدین نے قلعہ اسیرگڑھ کو فتح کیاتو وسا نہ نامی گاؤں میں جہاں موجودہ دور میں برہانپور آباد ہے، ریختی کے موجد شیخ سعدی دکنی سے ان کی ملاقاتیں رہی ہیں۔ قائم نے بھی مخزن نکات میں امیر خسرو سے محبوب الٰہی کے دربار میں سعدی کی ملاقات کا ذکر کیا ہے۔ برہانپور میں شیخ سعدی دکنی کے بعد بہاء الدین باجن، شیخ علی متقی، عیسیٰ جند اللہ اور پھر سعداللہ گلشن کا نام آتا ہے۔ انھیں سعد اللہ گلشن کے شاگرد  ولیؔ تھے۔  تو آخر ایسا کیا ہے کہ تاریخ ادب اردو میں ولی اور ولی سے پہلے یا بعد کی تاریخ کا جب ذکر کیا جاتا ہے تواس میں برہانپور کو یکسر فراموش کر دیا جاتا ہے۔ کسی طرح سے ریاست بھوپال جس نے متحدہ ہندوستان کی ریاستوں میں سب سے پہلے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا، اس کا بھی ادب کے دبستان میں کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ آپ بھی بھوپال میں رہ چکے ہیں اور آپ کو یہ معلوم ہو گا کہ بھوپال میں ولی کے دہلی پہنچنے سے قبل قاضی محمد صالح مثنوی اخلاق حسنہ لکھ چکے تھے۔

ڈاکٹر مظفر حنفی: سب سے پہلے تو میں آپ کے مطالعے اور تحقیقی نظر کی داد دینا چاہتا ہوں۔ آپ کی تحقیقی نظر بہت گہری ہے۔ ماشا اللہ اسے جاری رکھیے۔ صرف یہ کہنا کہ بھوپال نے ہی اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا، ٹھیک نہیں ہے کیونکہ گوالیار، جے پور، اندور جو ہندو اسٹیٹ تھیں انھوں نے بھی اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  مظفر صاحب میں ان ریاستوں کی اُردو خدمات سے انکار نہیں کر رہا ہوں۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ بھوپال نے ۱۸۵۹ء میں سب سے پہلے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا۔ بھوپال کے ۲۸ سال بعد حیدر آباد نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دیا اس کے بعد دوسری ریاستوں نے اردو کے کارواں کو آگے بڑھایا۔

ڈاکٹر مظفر حنفی:  اچھا اچھا آپ اس موضوع پر تحقیق کر رہے ہیں، زیادہ جانتے ہیں۔ بیشک اردو کے فروغ میں دوسری ریاستوں کے ساتھ بھوپال کا بہت بڑا حصہ ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہو، جامعہ ملیہ اسلامیہ ہو، شانتی نکیتن ہو ہر جگہ بھوپال کے فرمانرواؤں نے اپنی حیثیت کے مطابق بڑے بڑے ڈونیشن دے رکھے تھے۔ جب دہلی میں بھوپال گراؤنڈ  کو قرۃ العین حیدر گیٹ بنا دیا تو میں نے اس پر سخت احتجاج کیا تھا قرۃ العین حیدر تو جامعہ کے شعبۂ اُردو میں ہماری ساتھی بھی رہی ہیں۔ دو سال ہم لوگوں نے ساتھ پڑھایا ہے۔ اس وقت بھی میں نے کہا کہ بھوپال اسٹیٹ کا اس ادارہ میں جو اتنا بڑا کنٹری بیوشن ہے، اس کو اس طرح سے ختم کرنا مناسب نہیں ہے۔ عینی کے لیے آپ کوئی دوسرا آڈیٹوریم بنا دیتے۔ لیکن خیر موجودہ زمانہ کچھ اور ہے۔ اور موجودہ صورتحال بھوپال کی جو ہے اس پر افسوس ہوتا ہے کہ اس شہر سے اب کوئی قابل ذکر اچھا رسالہ بھی نہیں نکل رہا ہے۔ اردو اخبار ات اور اردو میڈیم اسکولوں کی صورت بھی بہت نازک ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  اخبار و رسائل کی صورتحال نازک تو ہے ہی ’ندیم ‘ جیسا اخبار جس نے اپنی زندگی کے ۷۵برس مکمل کر لیے ہیں اب وہ بمشکل چند سو تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ مظفر صاحب !ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ جب ہم ملک کی دیگر ریاستوں پر نظر ڈالتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ انھوں نے صرف شعرا کی پذیرائی کی لیکن بھوپال نے شعرا کے ساتھ نثر نگاروں اور علمائے دین کی بھی پذیرائی کی ہے۔ اب اسی شہر میں ۷۰ء کے بعد جو نسل پیدا ہوئی ہے جس نسل نے آزادی کی فضا میں آنکھ کھولی اور جس کے پاس وسائل بہت ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بھوپال کیا ہندوستان کی سطح پر ہم کو ایک خلا محسوس ہوتا ہے کہ پوری پوری ریاست کو اٹھا کر دیکھ لیجیے ادب کی کسی صنف کی بات کیجیے اس میں نئی نسل کا کوئی نمائندہ سامنے نہیں آتا ہے۔ ایسے میں جب ہم سیکنڈ جنریشن کی بات کرتے ہیں تو کیا اردو والے اپنے اس قیمتی ورثے کو سیکنڈ جنریشن کو منتقل کرنے کا کوئی انتظام کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مظفر حنفی: ہاں یہ آپ صحیح کہہ رہے ہیں۔ دیکھیے میں یہاں پر یہ عرض کروں کہ یہ اردو کا اتنا بڑا ادبی مرکز، اتنے اچھے شعرا یہاں ہیں۔ آج سے تیس سال پیشتر یہاں انجمن ترقی اردو کی ریاستی شاخ کا اجلاس تھا جس کے سکریٹری یہاں ہمارے دوست آفاق احمد صاحب ہیں۔ کھنڈوہ سے ایک صاحب مولانا چین پوری کہلاتے تھے۔ وہ بھی تشریف لائے تھے میٹنگ میں شرکت کے لیے۔ تو وہ مجھ سے کہہ رہے تھے کہ مظفر بھائی مِج کُو یہ ضرورت ہے۔ ان کے  لفظ ’مِج کو‘  پر آفاق صاحب نے مسکرا کر کہا کہ دیکھیے انجمن ترقی اردو کے جلسے میں شرکت کے لیے یہ صاحب آئے ہیں اور ’مِج کو‘ بول رہے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ جن صاحب کے ’ مِج کو‘ کہنے پر آپ معترض ہو رہے ہیں۔ اس شخص نے تین پرائمری اسکول اور ایک مڈل اسکول اپنے کھیت بیچ کر کھنڈوہ کے دیہاتوں میں قائم کیے ہیں تو ہمیں ایسے ’مج کو‘ کہنے والوں کو بھی عزت و احترام کے ساتھ سر پر بیٹھانا چاہیے۔ کیا بھوپال میں کسی نے اردو کے لیے یا اردو کی تعلیم کے لیے ایسا انتظام کیا ہے۔ اس وقت تک یہاں اردو میڈیم اسکول تھا ہی نہیں، یہ صورتِ حال افسوس ناک ہے اور بقول آپ کے جہاں اردو سرکاری زبان سب سے پہلے بنائی گئی، اس کی سرپرستی کے لیے اقدام کیے گئے وہاں تو اردو کی مرکزی حیثیت ہونا چاہیے۔ اب اس بھوپال میں اردو میڈیم اسکول کا نہ ہونا تو افسوس ناک ہے ہی اور میں تو یہ کہتا ہوں کہ نہ ہوں اُردو میڈیم اسکول لیکن دوسرے اسکول اور کالجوں میں بہ حیثیت سبجیکٹ تو اردو تعلیم کا انتظام ہونا چاہیے۔ شاید ان دنوں کوئی خوشگوار تبدیلی آ گئی ہو تو میں نہیں کہہ سکتا۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:            آپ کی نظر مدھیہ پردیش کے ساتھ پورے ہندوستان کے ادبی منظر نامے پر ہے۔ مظفر صاحب اردو شاعری کی بات ہو یا نثر کی۔ دونوں میں بہت سی اصناف سخن ہیں لیکن یہ دیکھا جا رہا ہے کہ نئی نسل کی توجہ جس تعداد میں شاعری کی جانب ہے اس تعداد میں نثر نگاری کی جانب نہیں ہے اور شاعری میں بھی صرف غزل پر طبع آزمائی ہو رہی ہے تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اکیسویں صدی میں اردو ادب کے منظر نامے کی صورت کیا ہو گی۔

ڈاکٹر مظفر حنفی:  مہتاب صاحب! تاریخ ادب اردو پر آپ کی بڑی گہری نظر ہے۔ آپ دیکھیے شروع سے آخر تک نوابین اودھ کے زمانے میں مرثیہ کا دور دور ہ تھا اسی طرح ہے دکن کے جو سلاطین تھے ان کے دور میں مثنوی فروغ پر تھی۔ اس کے بعد دوسری جگہوں پر نثر کا زور ہوا۔ سر سید احمد تحریک چلی۔ وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کوئی بھی دور ہو چاہے وہ قلی قطب شاہ کا دور ہو، چاہے وہ انشاؔ یا آصف الدولہ کا دور ہو، چاہے وہ غالب یاؔ ذوقؔ کا دور ہو یا پھر فورٹ ولیم کالج میر امن وغیرہ کا دور ہو۔ کسی بھی دور میں غزل نے ثانوی حیثیت اختیار کی ہی نہیں۔ اگر مثنوی سر فہرست رہی تو اس کے شانہ بشانہ غزل رہی۔ یعنی غزل کا پرچم از اول تا حال بلندی پر ہی لہر اتارہا اور اس کے اسباب یہ نہیں ہیں کہ لوگ کچھ اور پڑھنا نہیں چاہتے اور لوگوں میں فکشن یا تنقید یا داستان سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہیں۔ داستانوں کا عالم تو یہ تھا کہ طلسم ہوش ربا کے انتالیس دفتر تھے کہ پڑھنے میں ہی آپ کی عمر گزر جائے۔ یہ کیسے ہوا اِسے سوچ کر عقل حیران رہتی ہے۔ لیکن ان کا ایک طریقہ تھا کہ وہ سُناتے تھے اور کاتب لکھ لیتے تھے۔ غزل کا زور غزل کی اندرونی ساخت کی وجہ سے ہے۔ غزل ایک ایسی صنف سخن ہے جو سانپ کی طرح کیچلی اتارتی ہے۔ ماحول تبدیل ہو انہیں کہ شعر کا مفہوم بدل گیا۔ ایک شعر جس کا مفہوم ایمرجنسی کے دور میں کچھ تھا اور آج جب وہی شعر پڑھا جاتا ہے تو اس کا مفہوم کچھ اور نکالا جاتا ہے۔ اسی طرح سے غالب نے جو شعر کہا اس کا مفہوم ان کے عہد میں کچھ اور نکالا گیا اور آج اس کا مطلب کچھ اور اخذ کیا جا  رہا ہے تو دیکھیے کہ غزل اتنی پہلو دار صنف ہے کہ زمانے کے بدلنے کی وجہ سے، حالات کے بدلنے سے کی وجہ سے، علاقہ اور حکومتوں کے بدلنے کی وجہ سے بالکل نئے ماحول میں اپنے آپ کو ڈھال لیتی ہے۔ یہ صورتحال کسی دوسری صنف سخن میں نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہر ادب کا بنیادی مقصد تو یہ ہوتا ہے کہ جو تخلیق کار ہے، جو ادب تخلیق کر رہا ہے وہ شخص جیسا کچھ محسوس کر رہا ہے یا جیسا کچھ سوچ رہا ہے ویسا کا ویسا ہی سننے والے یا پڑھنے والے کے دل و دماغ میں منتقل کر دے۔ اگر سو صفحات کی کوئی کتاب پڑھ کر ایک تاثر منتقل ہوتا ہے اور دو مصرعوں کا ایک شعر پڑھ کر وہی تاثر منتقل ہوتا ہے تو ظاہر ہے کہ نہ صرف تخلیق کار بلکہ اس تخلیق سے استفادہ کرنے والے بھی اسی صنف سخن کو پسند کریں گے جس میں اِیسنس ہے، عطر ہے۔ غزل چونکہ احساسات کا جذبات کا عطر ہے۔ اب دیکھیے اقبال کو، ایک بہت مشہور نظم ہے شکوہ اور جب مولانا لوگوں نے ان کا بہت گھیراؤ کیا اور ناراضگی ظاہر کی تو انھوں نے جواب شکوہ لکھی۔ دونوں نظمیں ملا کر سیکڑوں بندوں پر مشتمل ہیں۔ جب علما نے ’ شکوہ‘ پر بہت زیادہ اعتراضات کیے تو اپنے تحفظ میں اقبال نے ’ جوابِ شکوہ‘ لکھی۔ اس کا کوئی مرکزی خیال آپ کے ذہن میں یقیناً ہو گا۔ غالبؔ نے پچاس سال پہلے کہا تھا کہ :

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

            ان دو مصرعوں میں جو بات غالبؔ نے سمیٹ کر کہہ دی ہے کیا شکوہ اور جواب شکوہ میں اس سے کچھ الگ ہٹ کر کہا گیا ہے؟ جتنا آپ کسی تصویر کو انلارج کریں گے اتنا ہی وہ بدنما ہوتی چلی جائے گی اور جب اس کو ریڈیوس کریں گے تو اس کے نقش تیکھے ہوتے چلے جائیں گے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  مظفر صاحب آپ جس غزل کی اتنی تعریف کر رہے ہیں اسی غزل کو نیم وحشی بھی کہا گیا ہے۔ اور پھر ہندوستان جیسے وسیع ملک میں جہاں ہزاروں کی تعداد میں شاعر ہیں اور ہر روز اسی تعداد میں غزل کے شعر بھی کہے جا رہے ہیں تو آج کے شعر میں کوئی تازگی کیوں نہیں آپا رہی ہے۔ کیا پچھلی ایک دہائی کا کوئی ایسا شعر آپ بتا سکتے ہیں جس نے آپ کو چونکا یا ہو اور آپ کے ذہن کو اس نے نئی تازگی دی ہو۔

ڈاکٹر مظفر حنفی:  اس مہینے بھی پرچے پڑھے سیکڑوں۔ شعر تازہ تو کوئی نکلتا نہیں۔ ۔ ۔ ۔ خاکسار کا ایک معمولی سا شعر ہے۔ ۔ ۔ جو ایک سچائی ہے۔ آپ سیکڑوں پرچے پڑھ جائیے اس میں تازگی کی فقدان ہوتا ہے۔ آپ اگر اس میں ڈوبے رہے ہیں تو کہیں ہزاروں اشعار کے بعد بمشکل کوئی ایک شعر کبھی سامنے آتا ہے جس کے بارے میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ تازہ شعر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ غزل تو جذبات اور احساسات سے تعلق رکھتی ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پہلو بھی بدلتی ہے تو وہ مفہوم جو غالبؔ کے ذہن میں بھی نہیں تھا لیکن جو غزل وہ کہہ گئے ہیں وہ مفہوم آج قاری غالب کے شعر پڑھتے ہوئے اخذ کر لیتا ہے اور اس کے بعد کسی مظفر حنفی یا کسی شہر یار کا شعر پڑھتا ہو تو اس کو فوراً ایسا احساس ہوتا ہے کہ جیسے یہ بات پہلے بھی کہیں اور کہی جا چکی ہے۔ تو غزل کے بارے میں میں یہ اکثر کہتا ہوں کہ غزل میں اچھا شعر تو وہی ہے جس میں آپ نے کوئی خیال نیا باندھا ہو لیکن نیا خیال باندھنا کارے دارد پوری زندگی گزرنے کے بعد اگر کسی کے یہاں چار پانچ شعر بھی نئے ہو جائیں تو بڑی بات ہے۔ چودہ مجموعے ہیں میرے، دو ہزار کے قریب غزلیں کہی ہیں میں نے۔ میں بڑا فخر محسوس کروں گا کہ اگر کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ میرے یہ پانچ شعر سو سال کے بعد بھی زندہ رہیں گے۔ نیا خیال بڑی مشکل سے آتا ہے۔ اچھا شاعر کو شش یہ کرتا ہے کہ یا تو نیا خیال نظم کرے ورنہ اس کو کچھ ایسے دلکش پیرائے میں کچھ ایسے انوکھے انداز اور اسلوب میں ادا کرے کہ کم سے کم لہجہ تو اس کا اپنا رہے۔ اور اس کو پڑھنے سے کچھ نیا پن تو محسوس ہو۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  مظفر صاحب اب تک آپ کی ۷۱ کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ابھی نئی کتاب آئی ہے ’’ہیرے ایک ڈال کے‘‘، شعری مجموعوں ’پانی کی زبان‘ ۱۹۶۷ء، ’تیکھی غزلیں ‘ ۱۹۶۸ء، ’ عکس ریز‘ طویل طنزیہ نظم ۱۹۶۹ء، ’ صریرِ خامہ‘ ۱۹۷۳ء، ’ دیپک راگ‘ ۱۹۷۴ء، ’ یم بہ یم‘ ۱۹۷۹ء، ’ طلسمِ حرف‘ ۱۹۸۰ء، ’ کھل جا سم سم‘ ۱۹۸۱ء، ’ پردہ سخن کا ‘ ۱۹۸۶ء، ’ یا اخی‘ ۱۹۹۷ء، ’ پرچمِ گرد باد‘ ۲۰۰۱ء، ’ ہاتھ اوپر کئے ‘۲۰۰۲ء، ’آگ مصروف ہے‘ ۲۰۰۴ء کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ اسی طرح افسانے کی کتابوں میں ’اینٹ کا جواب‘ ۱۹۶۷ء، ’دو غنڈے‘ ۱۹۶۹ء، ’ دیدۂ حیراں ‘ ۱۹۷۰ء کے نام سے آ چکی ہیں اور تحقیق و تنقید کی کتابوں میں ’شاد عارفی : شخصیت اور فن‘ ۱۹۷۸ء، ’ تنقیدی ابعاد ‘ ۱۹۸۰ء، ’ جہات و جستجو‘ ۱۹۷۰ء، ’غزلیات میر حسن : انتخاب و مقدمہ ‘ ۱۹۹۱ء، ’ ادبی فیچر اور تقریریں ‘ ۱۹۹۲ء، ’باتیں ادب کی‘ ۱۹۹۴ء، ’محمد حسین آزاد، حسرت موہانی کئی زبانوں میں ۲۰۰۰ء، ’وضاحتی کتابیات ‘ بائیس جلدیں ۲۰۰۱، شاد عارفی: فن اور فنکار ۲۰۰۱ء، ’ لاگ لپیٹ کے بغیر ۲۰۰۱ء، ’سوالوں کے حصار میں ‘ انٹرویوز ۲۰۰۷ء، ’ میر تقی میر‘ ۲۰۰۹ء کے نام لیے جا سکتے ہیں اور ترتیب و تدوین کی کتابوں میں ’ نئے چراغ‘ ماہنامہ ۱۹۵۹ء، ’ ایک تھا شاعر‘ ۱۹۶۷ء، ’ نثر و غزل دستہ‘ ۱۹۶۷ء، شوخیِ تحریر ‘ شاد عارفی کی غزلیں ۱۹۷۴ء، ’ کلیاتِ شاد عارفی ‘ ۱۹۷۵ء،’ جدیدیت: تجزیہ و تفہیم‘۱۹۷۱ء، ’ جائزے‘ ۱۹۸۵ء، ’ آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز   ومزاح‘ ۱۹۹۰ء، ’شاد عارفی : ایک مطالعہ‘ ۱۹۹۲ء، ’ روح غزل: پچاس سالہ انتخاب‘ ۱۹۹۳ء، ’ کلیات ساغر نظامی ‘ تین جلدیں ۱۹۹۹ء، شریشٹھ ایکانکی ہندی ۲۰۰۳ء، ’ مظفر کی غزلیں دیو ناگری‘ ۲۰۰۳ء،’ جھرنے اور بگولے ‘ دیوناگری ۲۰۱۰، ’مضامین تازہ‘ ۲۰۱۰ء کے نام سے کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے ترجموں کا بھی کام کیا ہے۔ آپ کے تراجم میں پانچ جاسوسی ناول ۱۹۵۴ء، ’دوہری سازش‘۱۹۵۵ء، ’گلاگ مجمع الجزائر‘ تین دفتر ۱۹۸۵ء، ’سخاروف نے کہا‘ ۱۹۷۶ء، گجراتی کے یکبابی ڈرامے ۱۹۷۷ء اڑیا افسانے ۱۹۸۰ء، بیداری ۱۹۸۰ء، بھارتیندو ہریش چندر ۱۹۸۴ء، بنکم چندر چٹر جی ۱۹۸۸ء کے نام قابل ذکر ہیں اور آپ کے سفر ناموں کی بات کی جائے تو اس میں ’ چل چنبیلی باغ میں ‘ کے نام سے آپ نے ایک سفرنامہ لکھا۔ ادب اطفال پر آپ کی کتابوں میں بندروں کا مشاعرہ (۱۹۵۴ئ)، نیلا ہیرا ۱۹۸۳ء، کھیل کھیل میں ۲۰۰۴ء، چٹخارے ۲۰۰۷ء، نرسری کے گیت ۲۰۰۷ء، بچوں کے لیے ۲۰۰۸ء کے نام سے آپ کی کتابیں شائع ہو کر منظر عام پر آ چکی ہیں۔

                        مظفر حنفی  صاحب آپ کی کتابوں کے ذکر کے بعد میں پھر اسی جانب آنا چاہتا ہوں کہ ہمارے اس عہد میں شاعری کے نام پر لوگ اساتذہ کے چبائے ہوئے لقمے کی پیروی پر ہی نہ صرف اکتفا کر رہے ہیں بلکہ اس سے آگے بڑھنے کی کوشش بھی نہیں کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر مظفر حنفی:  سب سے پہلے تومیں آپ کی ذہانت اور یاد داشت کے لیے مبارک باد دیتا ہوں۔ آپ نے جس روانی سے میری کتابوں کے نام بتائے ہیں میں خود اتنی روانی سے انہیں نہیں گنوا سکتا ہوں بلکہ اس کے لیے مجھے کتابوں کی فہرست دیکھنی ہو گی۔ دوسری بات جس کی جانب آپ نے اشارہ کیا ہے۔ اصل میں ہر دور کا نقاد یا ہر دور کا قاری اس بات کی شکایت کرتا رہا ہے کہ اچھا ادب کم ملتا ہے۔ یہ معاملہ صرف آج کا نہیں ہے۔ آج چونکہ شعرا بہت ہو گئے ہیں۔ غالب اور میرؔ کے دور میں اِتنے شاعر نہیں تھے۔ آپ قلعہ معلی کا آخری مشاعرہ پڑھیں یا دوسری تحریروں کو پڑھیں تو ان کی تعداد اتنی نہیں تھی۔ تذکرہ شعرا جو مرتب کیا گیا ہے اس میں دو سو ڈھائی سو شعرا ہیں۔ اب ایک ایک شہر میں تین تین سو شاعر ہیں۔ بھوپال میں تو عرفان دادا کہتے تھے کہ جس اینٹ کو اٹھائیے اس کے نیچے سے تین شاعر برآمد ہوتے ہیں۔ تو بھوپال میں ہی ڈھائی تین سو شعرا میں سے کوئی ایک بھی سچا اور جینوین شاعر ہے تو آپ دیکھیے کہ ہندوستان بھر میں اس طرح سے پندرہ بیس تو ہوں گے ہی۔ پندرہ بیس شاعروں کا جینوین ہونا بہت بڑی بات ہے۔ کبھی موتی اور لعل ڈھیروں کی تعداد میں نہیں پائے جاتے ہیں۔ خس و خاشاک آتا ہے تو اس میں سے دو چار کہیں نکلتے ہیں۔ تو یہ صورت حال موجودہ دور کی بھی ہے۔ آج بھی ہمارے ملک میں دو چار اچھے شعرا موجود ہیں۔ یا دو چار شعرا کے یہاں اچھے شعر موجود ہیں۔ اس طرح سے ہر دور کا ناقد شکایت کرتا رہا ہے جو آپ کر رہے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں صرف ایک تشویش یہ ہے کہ ہمارے عوام الناس میں اردو کی جو سوچ اور سمجھ تھی اس میں کمی آئی ہے۔ وہیں اسپوکن(spoken)   اردو تو بڑھی ہے لیکن ادبی شائستگی، محاوروں کی نزاکت، برجستگی، ہے یا فنی اور دوسری خوبیاں ہیں ان کی جانب نگاہ نہیں رہ گئی ہے۔ اس لیے مشاعروں میں کمتر درجہ کی وہ شاعری جو ایک سیکنڈ کے اندر شاعر نے پڑھی اور دوسرے سیکنڈ کے اندر سمجھ میں آ جائے۔ کوئی بھی اچھا اور بڑا شاعر اپنے کسی شعر پر کسی قاری کو فوری ری ایکٹ (Re-act)  کرتے دیکھتا ہے تو وہ خوشی محسوس نہیں کرتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس نے غور سے سنے اورمحسوس کیے بغیر داد دے دی ہے۔ اچھے شعر پر غور کرنے کے بعد اس کی پرتیں کھلتی ہیں۔ تو غور کرنے اور اس کی پرتیں کھلنے کی نوبت ہی نہیں آتی۔ سطحی شعر کے اوپر داد بھی ملتی ہے اور پیسا بھی خوب ملتا ہے۔ اس لیے ۹۹ فیصد شعر ویسے ہی ہوتے ہیں جو فوری طور پر سامعین کو مطمئن کر سکیں۔ شاعر کو جو شعر مطمئن کر رہا ہو، جس میں کچھ فلسفہ ہوتا ہے جس میں فن اور فکر ہوتی ہے ایسے شعر نہ تو داد حاصل کر پاتے ہیں اور نہ ہی عوام کے بیچ اس شاعر کو مقبولیت ملتی ہے تو انکریج منٹ تو ضروری ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  اچھی شاعری جو ہوتی ہے وہ ہمیشہ اپیلنگ رہتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کے اثرات دیر میں ہوتے ہیں۔ مظفر صاحب جب آپ نے ہوش سنبھالا تو ملک غلام تھا۔ آپ نے اپنی آنکھوں کے سامنے غلامی کے سورج کو ڈوبتے اور آزادی کے سورج کو طلوع ہوتے دیکھا ہے۔ اس ملک نے جب آزادی حاصل کی تو آزادی کے ساتھ اسے تقسیم کا کرب بھی برداشت کرنا پڑا اس تقسیم میں سب سے زیادہ نقصان ملک کی مشترکہ تہذیب اور اردو زبان کو ہوا۔ تقسیم ہند کے بعد وہ لوگ جو اردو کے نام لیوا تھے انھوں نے بھی اپنا ہاتھ اردو کی جانب سے کھینچ لیا تھا تاکہ ان پر کوئی الزام نہ لگے۔ لیکن اسی ملک میں ۱۹۷۰ء کے بعد اردو کے حق میں فضا تبدیل ہوتی ہے اور حکومت کی سطح پر ملک میں اردو کے فروغ کے لیے اکادمیوں کے قیام کا عمل شروع ہوتا ہے۔ آج ملک میں ۱۷ اکادمیوں کے ساتھ دوسرے ادارے اردو کے فروغ کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اس کے باوجود یہ شکایت کی جا رہی ہے کہ اکادمیوں نے اپنے قیام کے بعد سے اب تک اردو کے حق میں وہ کام نہیں کیا جو ان کا بنیادی مقصد تھا۔

ڈاکٹر مظفر حنفی: مہتاب صاحب! آپ کے سوال بڑے دلچسپ ہوتے ہیں۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ یہ بات عوام کے سامنے آئے کیونکہ یہ میرے اوپر گزری ہے۔ میں یہ کوشش کروں گا کہ میرے جواب میں سب باتیں آ جائیں۔ ۱۹۴۷ء میں جب میں اردو میڈیم اسکول میں زیر تعلیم تھا۔ میں نے آٹھویں کا امتحان دیا تو وہاں مراٹھی سیکشن، گجراتی سیکشن، انگلش سیکشن اور اردو سیکشن،ہندی سیکشن میں تعلیم دی جاتی تھی۔ ہرکلاس میں پانچ چھ سیکشنس ہوتے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں مڈل اسکول میں طلبا  امتحان دیتے تھے۔ پورے ضلع میں میں فرسٹ آیا اور مجھے  اس وقت کے کلکٹر نے بی بی سونی پرائز سے نوازا۔ اس کے فوراً بعد ہی ملک کی تقسیم ہوئی۔ نویں جماعت میں جب میں داخل ہوا تو اردو میڈیم ختم ہو گیا تھا۔ مڈل تک اب بھی کھنڈوہ میں اردو میڈیم چل رہے تھے۔ بھوپال جیسے شہروں میں بھی اردو کی وہ صورتحال نہیں ہے جو کھنڈوہ میں ہے۔ تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ نویں جماعت سے مجھے ہندی زبان کو کا کھا گا گھا سے سیکھنا پڑا۔ سارے سبجیکٹ مجھے ہندی میں پڑھنے پڑے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لڑکا جو پورے ضلع میں فرسٹ آتا تھا جب اس نے ہائر سیکنڈری کا امتحان دیا تو وہ سیکنڈ ڈویژن میں پاس ہوا۔ اصل میں اگر مادری زبان میں آپ کی تعلیم ہو رہی ہے تو آپ کا ٹیلنٹ (Talent)کھل کر سامنے آتا ہے۔ تو اس طرح سے بہت سے لوگوں کی صلاحیتیں ٹھٹھر کے رہ گئیں۔ آپ  ۱۹۷۰؁ء کی بات کر رہے ہیں۔ میں نے ۱۹۵۲ء سے بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا اور ۱۹۶۰ء کے بعد غزل اور دوسری اصناف پر طبع آزمائی کی تو اُس وقت اور اس وقت میں فرق یہ ہے کہ اس وقت میں بھی جو رسالے نکل رہے تھے ان میں چھپنے والے معدودے چند لوگ جویہ سمجھ کر لکھ رہے تھے کہ ہم وقت اپنا ضائع کر رہے ہیں۔ اس وقت تو یہ یقین بھی نہیں ہوتا تھا کہ یہ زبان زندہ بھی رہے گی یا نہیں۔ ۱۹۴۷ء سے ۱۹۶۰ء تک یہ صورتحال رہی ہے۔ اس عہد میں ہم لکھتے تھے لیکن ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی کارِ فضول میں لگے ہوئے ہیں۔ جب یہ زبان ہی زندہ نہیں رہے گی تو ہماری لکھی ہوئی چیز،ں کو پڑھے گا کون۔ ساٹھ کے بعد کچھ حالات بہتر ہونا شروع ہوئے اور ستّر کے بعد حالات یقیناً بہت بہتر ہو گئے۔ حالات بہت بہتر ہونے سے مراد وہ نہیں ہے کہ آپ بہت خوش ہو جائیں۔ ہمیں جتنا کچھ چاہیے یا جتنا کچھ ہم چاہتے ہیں اتنا تو نہیں ہوا لیکن پھر بھی بہت کچھ ہوا۔ میں ساٹھ کے پہلے اور ساٹھ کے بعد کی صورت حال کے تناظر میں کہہ رہا ہوں یہ بات۔ اس وقت حالات یہ تھے کہ فراق گورکھ پوری، کرشن چندر اور عصمت چغتائی جیسے بڑے لوگوں کی شاعری اور افسانوں کے مجموعے پاکستان میں چھپتے تھے۔ ہندوستان میں انھیں چھاپنے والا کوئی پبلشر نہیں تھا۔ ہندوستان میں اگر پبلشر تھے تو وہ ابن صفی کے ناول چھاپتے تھے۔ ہم بھی اچھی خاصی افسانہ نگاری کر رہے تھے اور ابن صفی کے چکر میں پڑ کر میرے بھی چھ ناول بالکل وہیں الٰہ آباد سے مان سروور پبلیکیشن تھا، گوری شنکر لال اختر نکالتے تھے۔ اس میں شائع ہوئے تو جاسوسی ناول تو چھپ سکتا تھا ہندوستان میں لیکن خالص ادب کے لیے پاکستانی پبلشر تلاش کرنا پڑتا تھا۔ ۱۹۷۰ء کے آس پاس ملک میں اردو اکادمی وغیرہ کا قیام عمل میں آیا۔ سب سے پہلے اتر پردیش میں اردو اکادمی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ انہوں نے اردو کے شعر و ادب کو کچھ مالی معاونت دینے کی صورت نکالی اور کچھ مطبوعہ کتب پر انعامات کا سلسلہ شروع کیا۔، اس وقت انعامات آج کی طرح نہیں ہوتے تھے بلکہ پانچ سو روپے، ہزار روپیہ اور زیادہ سے زیادہ پندرہ سو روپیے کے ہوتے تھے۔ لیکن ساڑھے تین سو روپئے میں کتاب چھپ جاتی تھی۔ سستا زمانا تھا اور ایک انعام میں دو کتابیں شائع ہو جاتی تھیں اور آج صورت حال یہ ہے کہ آپ کسی اکادمی کا بڑا انعام لے لیجیے آپ کی کوئی کتاب مشکل سے اتنی رقم میں چھپے گی۔ ویسے تو انعام ملنا ہی بڑا مشکل ہوتا ہے۔ مجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں۔ اردو اکادمیوں کے قیام کا تاریک پہلو یہ ہے کہ ایسی ایسی کتابیں بھی شائع ہو جاتی ہیں جن پر بَین لگنا چاہیے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  مظفر صاحب! کتابوں کی اشاعت تو اپنی جگہ جوہے وہ تو ہے ہی ایسے ایسے لوگوں کو ایوارڈ بھی دیا جاتا ہے جن کے نام سن کر حیرت ہوتی ہے۔ دوسری ریاستوں میں جو ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے مدھیہ پردیش بھی کسی سے کم نہیں ہے۔ یہاں جتنی اقربا پروری آج کل ہے اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔

ڈاکٹر مظفر حنفی:   ہاں آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، آپ کو زیادہ معلوم ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  مظفر صاحب موجودہ زمانے میں ملک و بیرون ملک میں اردو کی  نئی بستیوں کی بہت بات کی جاتی ہے۔ اردو کی ان نئی بستیوں میں آپ کا بھی جانا ہوتا ہے۔ ان نئی بستیوں میں اردو کے مستقبل کو لے کر بہت سی باتیں کی جاتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو ان نئی بستیوں میں اردو کا مستقبل بہت روشن نظر آتا ہے۔ آپ بھی ان بستیوں میں جاتے ہیں اور یہاں ہم یہ جاننا چاہیں گے کہ جہاں پر اردو کی نئی بستیاں ہیں ان میں بیشتر لوگ ہندوستان اور پاکستان کے ہیں اور یہ لوگ تلاش معاش میں وہاں گئے تھے تو کیا اردو کی ان نئی بستیوں میں اردو زبان و ادب وہیں تک ہے یا نئی نسل میں بھی اردو رائج ہو رہی ہے؟

ڈاکٹر مظفر حنفی:   مہتاب صاحب۔ خدا کا شکر ہے کہ بیسیوں ملکوں میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔ انگلینڈ کے ایک جلسے میں مجھ سے بھی یہ سوال کیا گیا جو آج آپ نے مجھ سے کیا ہے۔ دو مہینے میں میرے اعزاز میں اور دوسری تقریبات کو ملا کر پچاس کے قریب جلسے ہوئے  ہوں گے۔ اور ہال بھرے ہوئے تھے لیکن میں نے وہاں پر کہا کہ آپ خوش نہ ہوں آپ میں سے جتنے لوگ اس محفل میں موجود ہیں ان میں سے بیشتر لوگ وہ ہیں جو آج سے پندرہ سال بیس سال پہلے مائیگریٹ (Migrate) ہوئے ہیں۔ میں ان لوگوں کے گھروں میں بھی گیا اور بچوں سے بھی بات کی اور میں نے دیکھا جب میں ان کے بچوں سے بات کرتا ہوں تو وہ اردو میں تو سمجھ لیتے ہیں لیکن سیکڑوں بچوں میں سے کسی ایک بچے نے بھی مجھے جواب اردو میں نہیں دیا۔ میرا سوال وہ اردو میں سمجھ لیتا ہے اور جواب انگریزی میں دیتا ہے تو آپ کے بعد کیا صورتحال ہو گی؟ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ جو تازہ بستیاں کہہ رہے ہیں اور نئی بستیاں کہہ رہے ہیں اس میں اردو کے لیے کچھ زیادہ روشن امکانات ہوں گے۔ اردو کی ان بستیوں سے اور نو آبادیوں سے زیادہ امید رکھنا زیادہ مناسب نہیں ہے۔ میں ابھی یو اے ای میں چار مہینے رہ کر آیا ہوں۔ ابو ذہبی کی جس بلڈنگ میں تھا اس کے گراؤنڈ فلور میں ایک بہت بڑا بک اسٹال تھا۔ میں اس میں روزانہ حسرت سے جا کر دیکھتا تھا اس میں تمل تیلگو ہندی کی بھی کتابیں تھیں۔ تمل اور تیلگو وغیرہ کی کتابیں کثرت سے تھیں اور یہ حیرت ہوتی تھی کہ اتنے سارے رسالے نکل رہے ہیں ہمارے یہاں سے۔ اردو کا کبھی کوئی اخبار ہفتے میں مشکل سے نظر آتا تھا۔ صرف سمندر پار ایک ہفت روزہ دکھائی دیتا تھا۔ تو میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہمیں ساری توقعات رکھنا چاہیے بر صغیر سے، ہند و پاک سے۔ یہیں پر اردو کا مستقبل ہے اور اس سے بھی زیادہ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس میں سیاسی وجوہ بھی ہیں۔ کچھ لوگوں کا یہ خیال ہے کہ زیادہ چیخیں گے تو ہمیں زیادہ ملے گا اس لیے بہت سارے لوگ اردو کے لیے مایوس کن باتیں کرتے ہیں۔ ۱۹۴۷ء  میں ہماری آبادی کتنی تھی، تیس کرور۔ اب ہم ایک سو پندرہ کرور کی آبادی میں رہ رہے ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں اردو بولنے والے جتنے ہندوستان میں تھے یقین کیجیے اس سے تین گنا زیادہ اردو بولنے والے آج ہندوستان میں ہیں۔ اسپوکن اردو تو بے تحاشا بڑھی ہے۔ مشاعروں کی ہم لوگ بہت بُرائی کرتے ہیں لیکن مشاعروں کی یہ بہت بڑی خوبی ہے کہ اس نے اسپوکن اردو سے عوام الناس کا رشتہ جوڑ دیا۔ مشاعرے نے ادب کو تو نقصان پہنچایا لیکن زبان کو اس نے بہت فائدہ پہنچایا۔ اسی طرح سے فلموں میں چاہے ان کے سرٹیفکیٹ ہندی کے ہوں یا کسی زبان کے لیکن فلموں میں ۹۰ فیصد جو زبان استعمال ہوتی ہے وہ اردو ہے۔ تو اردو نے اپنے قدم بہت گہرائی میں جما رکھے ہیں۔ قصبوں میں بھی، دیہات میں بھی اور شہروں میں بھی۔ اسپوکن اردو میں ترقی زیادہ ہوئی ہے اور رِٹن(written) اردو میں صورتحال ستر سے پہلے جو تھی اس کے مقابلے میں آج بھی بہتر ہے۔

ڈاکٹر مہتاب عالم:  اس طرح سے ناظرین ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر مظفر حنفی نے ہندوستان اور ہندوستان کے باہر اردو زبان، اردو ادب اور شاعری میں جو کچھ لکھا جا رہا ہے اور نئے امکانات کیا ہے اس پر تفصیل سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اس گفتگو میں جو خاص بات نکل کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اردو والوں کو حکومت سے جو توقعات ہیں اس کے لیے تحریک تو چلا نا چاہیے لیکن اس کے لیے انھیں اپنا بھی احتساب کرنا چاہیے کہ اردو کے روشن مستقبل کے لیے ان کے اپنے فرائض میں کیا شامل ہیں۔ اگر اردو والے اپنے فرائض کو انجام دیتے ہیں تو ہم یہ بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں موجودہ میں اردو کا جومستقبل ہے آئندہ اس کے دائرے میں نہ صرف وسعت آئے گی بلکہ اس کا مستقبل اور بھی روشن ہو گا۔ اگر شاعری کی زبان میں بھی بات کہی جائے تو یہ کہا جائے گا کہ:

بات صدیوں کی چھوڑیئے مہتاب

پہلے لمحوں سے گفتگو کیجیے

            تو  ناظرین آج کے اس پروگرام میں بس اتنا ہی۔ اگلے ہفتے پھر کسی شخصیت کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ تب تک کے لیے اپنے میزبان مہتاب عالم کو دیجیے اجازت۔  خدا حافظ

٭٭٭

 

ڈاکٹر راشد عزیز

ماہنامہ ’’ ایوانِ اردو ‘‘ ( دہلی)

ر۔ ع :   شاعری کے علاوہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے بھی آپ کی شہرت رہی ہے۔ افسانے میں بھی آپ حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح کے اسی اسلوب سے کام لیتے رہے ہیں جو آپ کی شاعری میں داخل رہا ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہمعصر افسانوی ادب میں آپ کو کوئی نمایاں یا ایسا مقام حاصل نہ ہو سکا جو بحیثیت شاعر آپ کو ملا۔

م۔ ح :   آپ کا خیال صحیح ہے۔ میں نے ابتدا میں افسانے ہی لکھے اور غزلیں منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے کبھی کبھار کہہ لیتا تھا۔ اقبالؔ مجید، ذکی انور، غیاث احمد گدّی، کلام حیدری،  اقبال فرحت اعجازی بھی میرے ہی ساتھ ادب میں وارد ہوئے تھے۔ ہم میں چند لوگوں کو چھوڑ کر باقی ماندہ افسانہ نگار وہ تھے جو جدید نقادوں کے اس تقاضے کو حق بجانب نہیں سمجھتے تھے کہ افسانے میں بھی تجریدیت،رمزیت اور اشاریت کا اسی طرح استعمال ہو جیسا کہ شاعری میں ہوتا ہے۔ میرا بھی یہی خیال تھا کہ یہ تمام جو زیور ہیں رمزیت کے، اشاریت کے،علامت پسندی کے، یہ شاعری کو زیادہ راس آتے ہیں۔ افسانہ تو در اصل بیانیہ اور براہِ راست قسم کی صنف سخن ہے جس میں ان ٹولس (Tools) کے استعمال سے فائدے کے بجائے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ چنانچہ میں نے پٹری بدل لی اور شعر کہنے لگا۔ اپنے کئی مضامین میں بھی اُس دور میں اس بات کا میں نے ذکر کیا کہ یہ رمزیت اور علامت پسندی کی جو شدت ہے افسانے میں، وہ اسے منہ بند بنا دے گی اور وہی ہوا کہ آگے جا کرسنہ ساٹھ تا اسّی تک کا افسانہ تقریباً منہ بند ہو گیا۔ قارئین سے دور جاپڑا۔ کہانی پن اس سے خارج ہو گیا۔ میرے تین افسانوی مجموعے شائع ہوئے، لیکن وہ ان ہی خصوصیات کے حامل ہیں جو جدیدیت سے پیشتر رائج تھیں اور آگے جا کر جنھیں معیوب قرار دیا گیا۔ چنانچہ ناقدین میں اور مجھ میں جو اختلافات نظر تھا اس کا اثر پڑنا چاہیے تھا سومجھے بحیثیت افسانہ نگار کوئی خاص مقام حاصل نہ ہو سکا اور میں اس پر اصرار بھی نہیں کرتا۔

ر۔ ع :   افسانے میں رمزیت اور علامت پسندی کے مروج ہو جانے کے بعد کیا کوئی افسانہ آپ نے لکھا؟

م۔ ح :   میاں مجھے اختلاف ہی اس بات سے رہا کہ شاعری کے ٹولس(Tools) کا استعمال افسانے کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ میں نے تو یہ نتیجہ برآمد کر کے اظہار بھی کر دیا تھا کہ شاعری کے ٹولس سے افسانے کو نقصان ہی پہنچنا  ہے۔ لہٰذا میں نے سنہ ساٹھ کے بعد سے افسانہ لکھنا ہی ترک کر دیا اور پوری توجہ سے شاعری کی جانب راغب ہو گیا۔ یہاں ایک بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جدیدیت کے رجحانات نے ادب کو بہت سے فائدے بھی پہنچائے اور بہت سے نقصان بھی پہنچائے۔ سنہ ساٹھ سے پہلے اُردو افسانہ اس منزل پر تھا کہ ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانیں اس کی تقلید کر رہی تھیں اور سب سے اچھا افسانہ اُردو میں لکھا جا رہا تھا۔ جدیدیت کے اس تقاضے کے بعد بیس سال کے اندر ہی اندر وہ منزل آ گئی کہ ہندی، بنگالی، گجراتی اور مراٹھی افسانہ اُردو افسانے سے کوسوں آگے نکل گیا اور اُردو کے افسانے کو قارئین بھی میسر نہ رہے۔ سنہ اسّی کے بعدسے جب اُردو ناقدین نے اس حقیقت کوتسلیم کیا کہ نہیں افسانے میں بیانیہ اور کہانی پن کا ہونا ضروری ہے اور اس شدّت کے ساتھ اس میں اشاریت پسندی اور علامت پسندی سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ جب اس حقیقت کو تسلیم کر لیا گیا تو افسانہ پھر دوبارہ اپنے منصب اور مقصد کی طرف لوٹا لیکن ظاہر ہے کہ بیس سال کا جو نقصان ہے اس کو پورا کرنے کے لیے ابھی دو تین دہائیاں لگ جائیں گی۔ اُردو افسانہ ابھی ہندوستان کی دوسری علاقائی زبانوں کے مقابلے میں پیچھے ہے اور یہی ٹولس یعنی اشاریت، رمزیت اور علامت پسندی شاعری میں برتے گئے تو اس کا خاصا فائدہ ہوا اور سب سے زیادہ فائدہ غزل کو ہوا کیونکہ اس کی سرشت میں ہی اشاریت، رمزیت اور علامت پسندی شامل ہے۔ چنانچہ میرا خیال یہ ہے کہ اُردو غزل کو سب سے زیادہ فائدہ جدیدیت نے پہنچایا اور جدیدیت نے ہی سب سے زیادہ اُردو افسانے کو نقصان پہنچایا۔

ر۔ ع :   اپنے معاصرین میں آپ ایسے ادیب ہیں جو حق گوئی، بے باکی اور مصلحت نا اندیشی میں شہرت رکھتے ہیں۔ معاصر ادب ہوں یا اُردو کے ادارے ہوں آپ بڑی جرأت مندی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مثلاً حال ہی میں اُردو کے تنقیدی رویوں اور آندھرا پردیش کی اُردو اکیڈمی کے بارے میں آپ نے جو کچھ لکھا ہے اور کہا ہے کیا اس حق گوئی کے پیچھے حق شناسی کا وہی جذبہ ہے جو آپ کے استاد شادؔ عارفی کے یہاں ملتا رہا ہے یا دوسرے محرکات بھی ہیں ؟

م۔ ح :   بالکل درست، آپ نے تجزیہ بالکل درست فرمایا۔ ہاں ! اس سلسلے کا سب سے اہم مضمون وہ ہے جو میں نے ۹۰ء میں کتاب نما کے لیے لکھا تھا اور اس کی اشاعت کے بعد وہ اتنا مقبول ہوا کہ بر صغیر اور بیرونِ ملک کے ایک درجن سے زائد رسائل میں اہتمام کے ساتھ شائع کیا گیا اس کا عنوان تھا معرکۂ تخلیق و تنقید۔ اس میں میں نے ادبی صورتِ حال کا جائزہ لیا تھا کہ وہ چاہے نقّاد ہوں، شاعر ہوں یا اُردو ادارے، اتنے زیادہ مصلحت پسند ہو گئے ہیں کہ بس! نقاد کو اپنے گرد حلقۂ خاص کی ضرورت ہے اور وہ خاص گروپ ظاہر ہے کہ جینوین اور بڑے شاعروں یا تخلیق کاروں کا نہیں بن سکتا کیونکہ بڑا شاعر اور تخلیق کار کبھی تنقید کا پِچھ لگّو نہیں ہو سکتا۔ اس لیے درجہ دوم کے شعرا کو ناقدین اپنی گرفت میں لے کر اور بہکاوے میں لاکر اس طرح سے ایک گروپ بناتے ہیں کہ ہم سمجھیں کہ جب تک کسی بڑے نقّاد کی سر پرستی اسے حاصل نہیں ہو گی،وہ بڑا فنکار نہیں بن سکتا۔ اس طرح چھوٹے فنکار اور مفاد پرست نقاد ایک لابی بناتے ہیں اور یہ لابی زیادہ تر مضر ثابت ہوتی ہے، سچے اور جینوین فن کار کے لیے، جو کسی نقاد کے آگے پیچھے نہیں گھومتے اور انعام و اعزاز کے لالچ میں نہیں رہتے۔ میرے تو کئی مقطعے اس طرح کے ہیں :

مظفر پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکّر میں نہیں رہتا

اور

نئی تنقید عظمت بانٹتی ہے

مظفرؔ سر بسر انکار ہو جا

            میں اس نقطۂ نظر سے سراسر اختلاف کرتا ہوں کہ انعام اور اکرام حاصل کرنے کے لیے سچا تخلیق کار ناقدین کی جاری کردہ ہدایات پر عمل کرنا شروع کر دے۔ کسی کی بھی جاری کردہ ہدایت پر عمل کرنے کے بعد سچا ادب وجود میں نہیں آسکتا اور جو وجود میں آئے گا وہ پروپیگنڈہ ہو گا۔ خواہ اس کے وسیلے سے انعامات و اکرامات بھی حاصل ہو جائیں۔ کوئی بھی بڑے سے بڑا انعام کسی بھی چھوٹے فنکار کو بڑا اور بڑے کو چھوٹا نہیں بنا سکتا۔ یہ تخلیق کے اوپر منحصر ہے اور عام طور پر ہوتا بھی یہی ہے کہ تخلیق کار کے ساتھ انصاف اس کی ہمعصر تنقید نہیں کرتی۔ آئندہ آنے والی نسلیں اس کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرتی ہیں اور اس کا صحیح مقام و مرتبہ متعین کرتی ہیں، لہٰذا اچھا اور سچا تخلیق کار بننے کے لیے فنکار کو مرنا پڑتا ہے۔ ہاں آندھرا پردیش اُردو اکادمی کے بارے میں میں نے کہیں کچھ نہیں کہا۔

ر۔ ع :   ہند و پاکستان میں جو ادب پیدا ہو رہا ہے کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس کے رجحانات اور سروکار ایک دوسرے سے الگ اور مختلف ہو گئے ہیں۔

م۔ ح :   جی بالکل درست فرمایا آپ نے۔ دونوں جگہوں کا ماحول، دونوں جگہوں کا معاشرہ دونوں جگہوں کے مسائل مختلف ہیں، انسانی مسائل تو ظاہر ہے پوری دُنیا میں یکساں ہیں۔ بہت مختلف حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں ہم لوگ۔ لندن سے ایک ٹیلی ویژن ایک Live انٹرویو کرتا ہے۔ ایک ہندوستانی شاعر اور ایک پاکستانی شاعر کا۔ انھوں نے پہلے احمد فراز صاحب سے گفتگو کی اس کے بعد مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ جناب احمد فراز صاحب کا کہنا یہ ہے کہ ہندوستان میں مشاعرے بہت اچھے ہو رہے ہیں اور پاکستان میں شاعری بہت اچھی ہو رہی ہے۔ میں نے کہا کہ دیکھیے احمد فراز مشاعروں میں اکثر ہندوستان تشریف لاتے ہیں۔ ان کا مشاعروں کے تعلق سے تجربہ بالکل درست ہے۔ ہندوستان میں جس پیمانے کے مشاعرے ہوتے ہیں پاکستان میں ان کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن احمد فراز خود بھی بہت کم پڑھتے ہیں اور ہندوستان کے رسالے اور کتابیں بھی پاکستان بہت کم پہنچ پاتی ہیں اس لیے احمد فراز صاحب نے جو یہاں کی شاعری کے بارے میں اظہار خیال کیا ہے وہ در اصل مشاعروں کی شاعری ہی کے پیشِ نظر کیا ہے کیونکہ ہندوستان اور پاکستان کی مختلف صورتِ حال ہے۔ ہندوستان میں مشاعروں کے شاعر اور مشاعروں کی شاعری بالکل مختلف ہے اور ادبی شاعر اور ان کی شاعری مختلف۔ اس لیے فرازؔ کی رائے درست نہیں ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں میں اچھی اور سچی شاعری بھی ہو رہی ہے اگر ہم کتابیں اور رسائل پڑھیں تو معلوم ہو گا۔ آپ کے سوال کے مطابق بنیادی صورتِ حال یوں ہے کہ آزادی کے ساٹھ اکسٹھ سال گزر جانے کے باوجود پاکستان میں جمہوریت اپنی جڑیں مضبوط نہیں کر سکی۔ لہٰذا وہاں جو شخصی اور آمری حکومتیں رہی ہیں ان کے جبر، استبداد اور بندش کی وجہ سے وہاں حالات مختلف ہیں۔ پاکستانی ادب میں جیسا کہ جدیدیت کے سلسلے میں میں نے گزارش کی تھی کہ جدیدیت کا آغاز بھی پاکستان ہی میں ہوا۔ وہاں اس کا سلسلہ سنہ اٹھاون سے شروع ہو گیا تھا اور ہمارے یہاں سنہ ساٹھ سے شروع ہوا۔ جبر و استبداد اور شخصی حکومتوں کے دور میں فنکار کھل کر بات نہیں کر سکتا۔ ہم ہندوستان میں چاہے صدر جمہوریہ ہوں یا وزیر اعظم یا بڑے سے بڑا لیڈر ہو ہم اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر سچ بات کہہ سکتے ہیں اس کا اظہار کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں تنہائی میں بیٹھ کر بھی لیڈروں کے، افسران کے اور اعلیٰ طبقے کے بارے میں بات کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے اس لیے فنکار رمزیت اور علامت کے پردوں میں بات کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سب سے ڈکشن میں بڑا فرق آئے گا۔ اس ڈکشن کے فرق کو دونوں جگہ کے ادب میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں تک تحقیق و تنقید کا تعلق ہے اس کے مواقع ہندوستان میں پاکستان کے مقابلے زیادہ ہیں۔ وہاں کوئی رضا لائبریری، خدا بخش لائبریری، سالار جنگ میوزیم اور نیشنل لائبریری (کلکتہ) جیسا کوئی ادارہ نہیں ہے۔ وہاں اس طرح کی صورتِ حال کے باعث تنقید و تحقیق ثانوی حیثیت اختیار کر گئی ہے۔

ر۔ ع :   آپ اکثر مشاعروں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ آج مشاعرے مقبولیت کے ساتھ ساتھ جس زوال و انحطاط کا نمونہ بن گئے ہیں آپ کے خیال میں یہ اُردو کے زوال کا ثبوت ہے یا بڑھتی ہوئی مقبولیت کا؟

م۔ ح :   سچائی بین بین ہے۔ جہاں تک زوال کا تعلق ہے تو صرف مشاعرے ہی کو اُردو کے زوال کے اسباب میں شامل نہیں کیا جانا چاہیے۔ بلکہ ایک طرح سے دیکھا جائے بہت سطحی انداز میں، تو اُردو کی جو بالائی سطح پر مقبولیت ہے اس میں آج کے مشاعروں کا بڑا ہاتھ ہے۔ لیکن اس پر فارمینس آرٹ نے شاعری کوبری طرح سے متاثر کیا ہے۔ بڑے بڑے معاوضے ملنے لگے ہیں۔ پہلے شاعر، جن کے بارے میں سوچا جاتا تھا کہ ان کے بیوی بچے کھانے سے بھی محروم ہو جائیں گے، والدین کوشش کرتے تھے کہ بچہ شاعر نہ ہونے پائے۔ اس کے مقابلے میں اب عالم یہ ہے کہ درجہ اوسط کے شاعر کو بیس بیس پچیس پچیس ہزار روپے ایک رات کے مشاعرے کا معاوضہ ملتا ہے۔ پرفارمینس پر بہت زور ہو گیا ہے۔ مقبولیت حاصل کرنے کا ہر سطحی حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ لفّاظی، چرب زبانی، خوشامد، لباس، ایکٹنگ کر کے، کہیں خوش گلوئی کے وسیلے سے، اگر شاعرات ہیں تو میک اَپ کے وسیلے سے۔ مشاعرے میں اس طرح کی سطحیت بہت آ گئی ہے۔ قوالی نہ سنی مشاعرہ سن لیا۔ جب ہم مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم اپنے دل کی بات کہنے کے بجائے وہ بات کہنے کی کوشش کرتے ہیں جو سامعین کو دس پندرہ سیکنڈ میں سمجھ میں آ جائے۔ پہلے مشاعرے میں جس شاعر کو جتنی زیادہ واہ واہ ملے گی اگلے مشاعرے میں اسی اعتبار سے اس شاعر کی موجودگی لازمی ہو جاتی ہے۔ اس طرح جو شاعری کا ادبی معیار ہے وہ کم تر ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن اس کی وجہ سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ مشاعرہ ہماری زبان کے زوال کا سبب بنا ہے۔ زبان کے زوال کے اسباب دوسرے ہیں البتہ مشاعرہ ادب کے زوال کا سبب ضرور بنا ہے۔ جب کوئی چیز  کمرشیلائز ہو جاتی ہے یا اس سے فائدہ ہونے لگتا ہے تو بہت سارے تاجرانہ ذہنیت رکھنے والے لوگ اس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ اب شاعر اور شاعری اور ادب سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی جگہ مشاعرے سے کمائی کرنے والے لوگوں کا طبقہ پیدا ہو گیا ہے۔ یہاں ایک بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ یہ تو تاجرانہ ذہنیت رکھنے والے لوگوں کی مجبوری ہے۔ لیکن ہمارے اُردو اداروں اور اُردو اکیڈمیوں کے سامنے کیا مجبوریاں ہیں ؟ انھیں حکومت کی طرف سے اچھا خاصا بجٹ ملتا ہے۔ ہندوستان گیر پیمانے پر جو بہت اچھے شعر کہنے والے لوگ ہیں ان کا انھیں علم بھی ہے تو پھر یہ ادارے کیوں خالص ادبی مشاعرے نہیں کرتے۔ عوامی دلچسپی رکھنے والے مشاعرے تاجرانہ ذہنیت کے لوگوں کو کرنے دیجیے۔ اس وقت خالصتاً ادبی مشاعروں کی روش کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہے اور جو مشاعروں کے شاعر ادبیت کے بھی متحمل ہیں انھیں بھی اپنی فہرست میں شامل کر لیں تو اس طرح  کے ملے جلے پروگرام سے جو گرتا ہوا معیار ہے وہ ضرور بڑھ سکتا ہے اور جہاں تک تعلق ہے مشاعرے کی افادیت کا تو کوئی کم نظر ہی اس سے انکار کرسکتا ہے۔

ر۔ ع :   اکثر شعرا کو یہ گلہ رہا ہے کہ اب اچھی شاعری کے سامعین مفقود ہو گئے ہیں، لہٰذا بہت سطحی، بالکل سامنے کے اور غیر ادبی نوعیت کے اشعار کو مقبولیت ملتی ہے۔ آپ کیسا محسوس کرتے ہیں ؟ شاید یہی مجبوری اداروں کی بھی ہو؟

م۔ ح :   نہیں میں ان شاعروں میں سے ہوں جنھیں مشاعروں میں بھی بلایا جاتا ہے۔ تا حال تو مجھے کوئی ایسا تلخ تجربہ نہیں ہوا۔ خدا کا شکر ہے لوگ پسند بھی کرتے ہیں۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ اب سے تین چار سال پیشتر جدہ میں ہندوستانی سفارتخانے نے اپنے یہاں کے مشاعروں کا پچیس سالہ جشن منایا۔ انھوں نے بائیس کے قریب خالصتاً ادبی شعرا کو بلایا اور تین چار ادبی رچاؤ رکھنے والے مشاعرے کے شاعر بھی بلائے اور سعودی عرب کے مختلف شہروں میں مشاعرے کیے اور غالباً تاریخ میں پہلی مرتبہ مدینہ منوّرہ میں بھی مشاعرہ ہوا۔ وہاں کے ناقدین،اخبارات اور ادب دوستوں کا کہنا یہ تھا کہ گزشتہ پچیس سالوں میں یہ سب سے اچھے مشاعرے ہوئے۔ تو اگر آپ برابر تناسب سے کام لیں تو ادبی اور سنجیدہ مشاعرے کی موجودہ صورتِ حال کو بدلا جا سکتا ہے۔ مگر ایکٹنگ سے گریز شرط ہے۔

ر۔ ع :   غالباً یہ اندازِ مسخرگی یا ایکٹنگ اُردو مشاعروں میں ہندی کوی سمیلنوں کے اسٹیج کی ایکٹنگ سے آئی ہے۔

م۔ ح :   درست کہا آپ نے۔ لیکن ہندی کوی سمیلن اور اُردو مشاعرے میں فرق یہ ہے کہ ہندی کوی سمیلن کی کبھی اتنی چھتنار روایت نہیں رہی جتنی اُردو مشاعروں کی رہی ہے اس لیے مشاعرے پر جب زوال آتا ہے تو وہ تضاد ہمیں بہت نمایاں نظر آتا ہے۔ جہاں کوئی صحت مند اور روشن روایت قائم ہی نہ ہوئی ہو وہاں اگر اس طرح کی چیزیں سامنے آتی ہیں تو اتنی افسوسناک نہیں لگتیں۔ کھڑی بولی کی روایت ہندی میں بہت زیادہ مستحکم نہیں غالباً ۱۸۰۰ء سے اس کا رواج شروع ہوا ہے۔ مشاعرے کے زوال میں وہی ادبی معیار کی بات کر رہا ہوں اور جہاں تک طمطراق اور پیسے کا تعلق ہے، عوامی دلچسپی کا تعلق ہے، اس میں کسی طرح کی کمی کے مقابلے میں بہتری بھی آئی ہے۔ بھوپال میں جائیے دو دو لاکھ کا مجمع ایک ایک مشاعرے میں ہوتا ہے۔ غالبؔ و میرؔ اور اقبالؔ نے سوچا بھی نہ ہو گا کہ شاعر کو ہوائی جہاز سے سفر، فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام اور موٹی رقم کا لفافہ بھی حاصل ہو سکے گا اور وہ بھی معمولی شاعروں کو۔ یہ ایک کمال کی بات ہے اور زبان کو فروغ بھی مل رہا ہے مگر ادبی معیار میں زوال کا گھن ضرور لگا ہے۔

ر۔ ع :   آپ کا تعلق کئی دانش گاہوں سے رہا ہے۔ ہندوستان کی دانش گاہوں میں جو تحقیقی مقالے لکھے جا رہے ہیں ان کا معیار کیوں پست ہوتا جا رہا ہے؟

م۔ ح :   یہ آپ نے خطرناک سوال کیا۔ ایک بار سیفیہ کالج بھوپال میں اُردو کے بہت بڑے محقق مالک رام صاحب تشریف لائے۔ میں اُس زمانے میں ایم اے کا طالب علم تھا۔ انھوں نے بھی تقریباً یہی بات کہی تھی۔ یہ بات سنہ ۷۱ء کی ہے۔ میں نے ان کی تقریر کے بعد عرض کیا کہ جناب عالی دانش گاہوں میں بھی پست مقالے لکھے جا رہے ہیں اور باہر بھی پست مقالے لکھے جا رہے ہیں۔ ہر وہ مقالہ جو تحقیق کے نام پر اُردو میں شائع ہو کر سامنے آتا ہے وہ امتیاز علی عرشی، مالک رام اور قاضی عبد الودود کے معیار کا نہیں ہو سکتا۔ ہمیں توازن سے کام لینا چاہیے۔ موجودہ دَور میں آپ نے بالکل درست کہا۔ اصل میں ہوا یہ ہے کہ اس وقت صورتِ حال یہ بھی نہیں تھی، آگے چل کر یعنی تقریباً سنہ ۸۰ء کے آس پاس یو جی سی کی جانب سے یونیورسٹی اور کالجوں میں لیکچرار ہونے کے لیے لازمی شرط رکھ دی گئی کہ امیدوار کے پاس پی ایچ ڈی کی ڈگری ہونی چاہیے۔ اب یہ صورتِ حال بھی بدل گئی ہے۔ نیٹ اور سلیٹ ضروری ہو گیا۔ اس شرط نے بہت سے لوگوں کو آمادہ کیا خواہ وہ با صلاحیت ہوں یا نہ ہوں۔ اگر وہ کالج یا یونیورسٹی میں ملازمت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کو پی ایچ ڈی کرنا لازمی ہے۔ طلباء کوشش کرنے لگے کہ آسان سے آسان موضوع کا انتخاب کریں۔ رجسٹریشن کرائیں اور جلد سے جلد مقالہ جمع ہو جائے اور انھیں سند مل جائے۔ جب مانگ بڑھتی ہے تو پروڈکشن بھی زیادہ ہوتا ہے اور جب پروڈکشن بڑھتا ہے تو اس میں نقلی چیزیں بھی آ جاتی ہیں تو کمتر درجے کی چیزیں بھی پی ایچ ڈی کے نام پر جمع ہوئیں۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ قریب ۹۰ فیصد مقالے شائع نہیں ہوتے۔ مجھے ہر ماہ ایک دو مقالے ممتحن کی حیثیت سے دیکھنے ہوتے ہیں، اگر آپ وہ مقالے دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ صورتِ حال کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔ اگر ہم اس چکر کو اُردو میں روک دیں تو باقی ماندہ زبانوں میں بھی یہی صورتِ حال چل رہی ہے تو اُردو والا پچھڑ جائیگا۔ کمزور مقالوں کے ساتھ طباعت کے لیے ہم کچھ شرائط اپنی رپورٹ میں ضرور درج کرتے ہیں، لیکن یہ درست ہے کہ اس صورتِ حال نے تحقیقی کاموں میں بہت اڑچن ڈالی ہے۔ البتہ مغربی زبانوں میں بہت کم ایسا ہوتا ہے۔ میرے سامنے جب لوگوں نے یونیورسٹی میں کہا کہ صاحب اُمیدوار کی گھریلو حالت بہت کمزور ہے، رجسٹریشن کر دینا چاہیے تو میں نے کہا چلیے میرے ساتھ چوراہے پر فقیر بیٹھے ہیں ان کی جھولیوں میں پی ایچ ڈی کی ڈگری ڈال کر چلے آتے ہیں۔ اس سب سے ہماری زبان کو نقصان ضرور پہنچ رہا ہے۔

ر۔ ع :   کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں تخلیق کا معیار زیادہ بہتر ہے اور ہندوستان میں تحقیق اور تنقید کا۔ کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں ؟

م۔ ح :   جزوی طور پر میں آپ کے خیال سے متفق ہوں۔ اچھی اور خراب تخلیقات دونوں ملکوں میں ہو رہی ہیں۔ بے شک ہندوستان میں تحقیق اور تنقید کا معیار بہت بلند ہے۔ اس لیے کہ ہمارے یہاں مواقع ہیں اس لیے نہیں کہ ہم بہت زیادہ ذہین ہیں۔ کراچی پریس کلب میں مجھ سے یہ سوال کیا گیا بڑے خطرناک ماحول میں تو میں نے کہا دیکھیے جہاں تک تحقیق کا تعلق ہے اس کا تقابلی موازنہ کسی صحت مند نتیجے پر نہیں پہنچاسکتاکیونکہ ہندوستان میں تحقیق کا معیار آپ سے بہت بلند ہے۔

ر۔ ع :   آپ نے گجراتی، اُڑیا، ہندی اور انگریزی سے ادبی کتابوں کے اُردو میں ترجمے کیے۔ آپ کی بصیرت میں اُردو کا ادب ان زبانوں کے مقابلے میں کیا امتیازات رکھتا ہے؟

م۔ ح :   اتنا بڑاسوال ہے اس پر تو دس بیس کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔ ہر ادب کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں۔ بنگلہ ڈراما مجھے مرغوب رہا، اُردو میں تو ڈراما بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔ مراٹھی کا سٹائر(Satire) بہت اچھا لگا۔ تو ہر زبان کی اپنی اپنی خصوصیات ہوتی ہیں اور بہت سرسری انداز میں اس پر اظہار خیال نہیں کیا جا سکتا۔ ایک واقعہ بتاؤں بی بی سی کے انٹرویو میں رضا علی عابدی نے مجھ سے سوال کیا کہ بقول ستیہ پال آنند اُردو غزل عالمی زبانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں نہیں کر سکتی۔ تو میں نے کہا کہ اگر ہندوستان میں تاج محل جیسی خوبصورت عمارت ہے اور دوسرے ممالک کے پاس تاج محل کا جواب نہیں ہے تو ہمیں شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔ انھیں شرمندہ ہونا چاہیے جن کے پاس غزل نہیں ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ ہمیں شرمندہ کرنا چاہیں اور جہاں تک ستیہ آنند کا تعلق ہے ان کا تو عجیب ہی سلسلہ ہے،وہ تو کہتے ہیں کہ نظم ہی ہے جو بین الاقوامی زبانوں سے آنکھیں چار کر سکتی ہے اور بقول اُن کے اُردو میں اچھی نظمیں صرف ستیہ پال آنند نے ہی کہی ہیں۔

ر۔ ع :   کیا آپ نے مذکورہ زبانوں خصوصاً گجراتی اور اُڑیا سے براہِ راست تراجم کیے۔

م۔ ح :   بڑا خطرناک سوال کر رہے ہیں آپ۔ میں نے روسی زبان سے بھی ترجمہ کیا اور انگریزی سے بھی ترجمے کیے۔ یہ تراجم میں نے نیشنل بک ٹرسٹ کے لیے کیے۔ این بی ٹی والے کرتے یہ ہیں کہ جس کتاب کا ترجمہ کرانا ہوتا ہے تو ایک نسخہ اس کا اُس زبان کا جس میں وہ لکھی گئی، ایک انگریزی کا اور ایک ہندی کا اس طرح تین نسخے بھیجتے ہیں۔ اب مترجم کی ذمہ داری پر ہے کہ وہ کس زبان سے ترجمہ کرے۔ ظاہر ہے مذکورہ روسی، گجراتی، اُڑیا اور بنگلہ سے مجھے واقفیت نہیں ہے۔ میں یہ کام انگریزی ہی کے وسیلے سے کرتا رہا لیکن جہاں کہیں ایسا محسوس ہوا کہ ہندی اور انگریزی کی مدد سے ترجمے کا حق ادا نہیں ہوا تو پھر میں نے کسی صاحبِ زبان سے استفادہ کیا۔

ر۔ ع :   آپ کے ادبی سفر کا آغاز نظم و نثر دونوں سے ہوا۔ کیا ادب فہمی اور ادب پاروں کی تخلیق اور قدرت کے لیے علم عروض سے واقفیت ضروری ہے؟ کیا ہماری دانش گاہیں اس ضمن میں اپنی ذمّے داری ادا کر پا رہی ہیں ؟

م۔ ح :   ہمارے ناقدین عروضی خامیوں کی طرف اشارہ نہیں کرتے۔ میرا خیال ہے کہ یہ درست رویہ نہیں ہے۔ شاعری کو صحیح ڈھرے پر رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر کو واجبی واجبی، موٹی موٹی باتیں عروضی خامیوں اور خوبیوں کے بارے میں ضرور معلوم ہونا چاہیے۔ جہاں تک ہماری دانش گاہوں کا تعلق ہے میں سمجھتاہوں یہ خیال درست نہیں ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ اصل میں اختصاص کا دَور ہے اور ادب کے مختلف شعبے ہیں ان میں اختصاصی علم حاصل کر سکتے ہیں آپ۔ لیکن مجھے عرض کر نے دیجیے کہ جب میں ساتویں جماعت میں تھا تو ہمیں باقاعدہ اشعار کی تقطیع کرنے کے لیے دی جاتی تھی۔ سال میں دو یا تین مرتبہ مصرعہ ہائے طرح دیے جاتے تھے۔ ان پر ہم طلباء کو پانچ شعر کہہ کر لانے پڑتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہل کاندھے پر رکھ کر کھیت میں جاتے ہوئے کسان ’’اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا= اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا‘‘ پڑھتا تھا۔ آج ایم اے کا طالب علم بھی نہیں جانتا کہ یہ حالیؔ کی مسدّس کے مصرعے ہیں۔ تو اب وقت بدل گیا ہے مگر عروض کے علم سے واقفیت کلاسیکل ادب پڑھنے اور پڑھانے والوں کے لیے ضروری ہے اور بارہا اس کی کمی کا احساس بھی ہوتا ہے۔

ر۔ ع :   آپ کے استاد شادؔ عارفی بڑی رچی ہوئی انفرادیت رکھنے والے ایک قد آور شاعر اور قلم کار تھے۔ پھر کیا وجہ ہے کہ معاصرین میں ان کی شہرت کی سطح زیادہ بلند نہ ہو سکی۔

م۔ ح :   دیکھیے اس کی وجہ وہ خود ہیں۔ آپ ادب میں مقبول ہونے کے لیے جب قدم رکھتے ہیں یا آپ کو ہمعصر تنقید میں جگہ حاصل کرنی ہے تو آپ کو لین دین کا رویّہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ دوسرے کی باتوں کو سراہیے، اوسط درجے کی شاعری کیجیے اور اوسط درجے کی شاعری پڑھ کر تعریف کیجیے۔ عام طور پر اوسط درجے کے فنکار ہی یہ رویّہ اختیار کرتے ہیں۔ بڑے شاعر عام طور پر تھوڑے سے اناپسند ہوتے ہیں۔ یگانہ کے ساتھ کیا ہوا، شادؔ عارفی کے ساتھ کیا ہوا۔ عام طور پر ان لوگوں کے دَور میں غزل کے سب سے بڑے شاعر جگرؔ مراد آبادی تسلیم کیے جاتے تھے، آج اگر انھیں سب سے بڑا شاعر کہہ دیا جائے تو تنقید پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بڑے فنکاروں کی ان کے انتقال کے بعد حیاتِ نو شروع ہوتی ہے۔ ہندوستان میں شادؔ عارفی کی خدمات کا اتنا اعتراف نہیں کیا جاتا جتنا کہ پاکستان میں کیا جاتا ہے۔ کوئی انتخاب ہو اور ادب کی کیسی ہی گفتگو ہو ہندوستانی شاعر ہونے کے باوجود شادؔ عارفی کو اہمیت دی جاتی ہے۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا ان کا تشخص نکھرتا رہے گا۔ ایک تو وہ بالکل انوکھی شاعری کر رہے تھے دوسرے کسی بڑے سے بڑے شاعر اور نقاد کو وہ خاطر میں لاتے ہی نہیں تھے۔ سرورؔ صاحب ایک فارم لے کر انجمن ترقی اُردو کی طرف سے گئے کہ صاحب ڈھائی سو روپیہ ماہوار وظیفہ مل رہا ہے درخواست پر دستخط کر دیں۔ معلوم ہوا فارم پھاڑ کر ان کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا کہ حکومت کو نظر نہیں آتا میرا ہاتھ پھیلانا کیا ضروری ہے۔ فیض احمد فیضؔ، جگرؔ مراد آبادی اور فراقؔ کی اغلاط پر انھوں نے گرفت کی بلکہ فراقؔ کی غزل پر کئی بار انھوں نے کسی رسالے میں تنقید کی اور معلوم ہوا اگلے مہینے رسالے میں فراقؔ کا خط شائع ہوا کہ شادؔ نے صحیح اعتراض کیا میں نے شعر درست کر لیا ہے۔ مجروحؔ سلطانپوری کی غزل ’’ ہمیں شعورِ جنوں ہے کہ جس چمن میں رہے / نگاہ بن کے حسینوں کی انجمن میں رہے‘‘اس میں شادؔ کو بہت ساری خامیاں نظر آئیں اور ایک تلخ تنقید کر دی تو مجروح بوکھلا گئے اور ان کی خدمت میں خط لکھا کہ آپ کا مکان بہت بوسیدہ ہو گیا ہے میری امداد قبول کیجیے تو انھوں نے کہا کہ میں نے اس لیے تنقید نہیں کی تھی۔ اب تم جاؤ اور اپنی راہ لو۔ تو ایسا شخص جو اپنے معاصرین کو بڑا نہ کہتا ہو اس کو کون بڑا کہے گا۔ یہی ٹریجڈی میرے ساتھ بھی ہے۔ جو شاعر، نقاد بھی ہو وہ بڑے گھاٹے میں رہتا ہے۔ پھرایسا نقاد جو کھرا ہو، عجیب و غریب صورتِ حال ہے۔ آپ اگر کسی بھی چھوٹے بڑے نقاد، شاعر یا ادیب کی تخلیق کو اوسط درجے کی کہیں گے تو وہ آپ کی اوّل درجے کی تخلیق کو اوّل درجے کی کیوں کہے گا۔ انسان انسان ہے۔ شادؔ ساری عمر فنکاروں کی خامیاں بیان کرتے رہے۔ اپنے دور کے ہر بڑے شاعر اور نقاد کے ساتھ شادؔ عارفی کی چشمک رہی تو وہ کیوں انھیں تسلیم کرتے۔

ر۔ ع :   آپ گزشتہ چالیس سال کے اُردو منظر نامے پر گہری نظر رکھتے ہیں بالعموم کہا جا رہا ہے کہ اُردو زبان کی ترقی و ترویج کی رفتار تیزی سے رو بہ زوال ہے۔ اگر آپ کے خیال میں یہ خیال صحیح ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں اور کیا یہ ممکن ہے کہ ہندوستانی دوسری قومی زبانوں کی طرح اُردو زبان و ادب بھی ترقی کی منزل طے کر سکے۔

م۔ ح :   یہ سوال بڑی تفصیل چاہتا ہے۔ اوّل تو میں اس سے اتفاق ہی نہیں کرتا کہ اُردو زبان کی صورتِ حال تشویشناک ہے۔ یوپی وغیرہ کو چھوڑ کر۔ اس میں کچھ حصہ راجستھان اور مدھیہ پردیش کا بھی شامل ہے۔ باقی ریاستوں میں مشاعروں اور سیمیناروں کے وسیلے سے اور اکثر سلیکشن کمیٹیوں میں مہینے دو مہینے میں ہندوستان کے کونے کونے میں مجھے سفر کرنا پڑتا ہے۔ مجھے اُردو کی حالت اتنی تشویشناک نظر نہیں آتی جتنی عام طور پر لوگ واویلا مچا رہے ہیں۔ ہندوستان میں سنہ۴۷ سے قبل جتنے اُردو بولنے والے تھے آج اس سے زیادہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ آبادی بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔ اسپوکن(Spoken) اُردو تو بہت بڑھی ہے۔ ہندی کے حلقوں میں بھی کوشش کی جاتی ہے کہ اُردو بولی جائے چاہے ان کا تلفظ خراب ہو مگر وہ کلچرڈ کہلائیں یہ جتن ضرور رہتا ہے۔ جن صوبہ جات کی زبان ہندی ہے ان کی حکومت اور اداروں نے لا شعوری طور پر محسوس کیا کہ اگر اُردو مقبول ہو گئی تو ہندی کو ثانوی درجہ حاصل ہو جائے گا لہٰذا اُردو کو دبانے کی کوشش کی گئی۔ حکومتیں کچھ قوانین اُردو کی ترقی و ترویج کے لیے نافذ بھی کرتی رہی ہیں جن پر حکام عمل نہیں کرتے۔ میں نے اپنے آبائی وطن میں تحریک چلائی کہ اگر اُردو والوں کا کوئی بھی دعوت نامہ صرف ہندی میں چھپا ہوا آئے گا تو ہم ان کے یہاں شامل نہیں ہوں گے اور جہاں جہاں یہ صورتِ حال تشویشناک ہے وہاں اُردو والوں کو اپنی کاہلی چھوڑ کر میدانِ عمل میں جد و جہد کرنی چاہیے۔ ہندوستانی دستور کی رہنمائی و سر پرستی کیوں نہیں حاصل کرتے۔ کیا اُردو کی بقا کے لیے اُردو والے کبھی اُردو کو عوامی مسئلہ بنا پائے یا کبھی کوئی جلوس لے کر سڑکوں پر آئے؟ تو یہ صورتِ حال زیادہ تشویشناک ہے۔ سنہ ساٹھ تک جب ہم لکھ رہے تھے تب یہ صورتِ حال تھی کہ دھڑکا لگا رہتا تھا اُردو زبان زندہ رہے گی بھی یا نہیں۔ اب تو کئی نسلیں بدل چکی ہیں۔ البتہ اُردو والوں کو بیدار اور متحرک ہونے کی ضرورت ہے اپنے جمہوری حقوق کے لیے۔

ر۔ ع :   آپ کا ایک مصرع ہے ’’ میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اُتارا جائے‘‘ اس سے آپ کو کس پیغام کی ترسیل کی توقع ہے؟

م۔ ح :   بڑا اچھا مصرع پڑھا آپ نے۔ مرحومہ قرۃ العین حیدر کو یہ شعر بہت پسند تھا اور یوں ہے:

نہ جانے کب سے زمیں گھومتی ہے محور پر

میں بن چکا ہوں مجھے چاک سے اُتارا جائے

            تناظر کی وضاحت کا معاملہ یہ ہے کہ میں اس سے اختلاف رکھتا ہوں اور پچھلے دِنوں میں نے ایک جلسے میں کہا بھی تھا کہ تخلیق کے بارے میں یہ مت بتائیے کہ وہ کب، کیوں اور کس وجہ سے تخلیق ہوئی۔ اس سے اس کی پرت داری مجروح ہو جاتی ہے۔ مفہوم بیان کرنے سے محض ایک مفہوم متعین ہو جاتا ہے، پیٹرن جامد ہو جاتا ہے۔

ر۔ ع :   کوئی تازہ کلام ہمارے قارئین کے لیے پیش فرمائیں ؟

م۔ ح :   جی میں چند اشعار پیش کرتا ہوں :

تنکوں کے ارمان لبیک لبیک

طوفان طوفان لبیک لبیک

بے دست و پا میں بے دست و پا تو

جنگل بیابان لبیک لبیک

وحشت کی بستی کوتاہ دستی

میرا گریبان لبیک لبیک

اُونچا ہوا سر نیزہ بہ نیزہ

یاروں کا احسان لبیک لبیک

تتلی شگوفے جگنو ستارے

سب تیری پہچان لبیک لبیک

٭٭٭

 

 معین شاداب

ہفت روزہ ’’ چوتھی دنیا‘‘ ( نوئیڈا)      

سوال:  آپ نے بہت کام کیا ہے۔ مختلف اصناف اور موضوعات پر 60-70 کتابیں لکھ کر زبان و ادب کی بے مثال خدمت آپ نے کی ہے۔ کوئی ایسا عملی اقدام جس کا خاطر خواہ اعتراف نہ کیا گیا ہو؟

جواب: اردو میڈیم طلبہ کے لیے جو کتابیں تیار کی جاتی تھیں،وہ نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈٹریننگ( این سی ای آر ٹی) اپنی نگرانی میں شائع کرتی تھی۔ میں نے 1974ء  میں وہاں اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر( اردو ) کی حیثیت سے جوائن کیا تو جو پہلی کتاب چھپی وہ جیومیٹری کی چھٹی جماعت کی کتاب تھی۔ اس کی قیمت کا تعین پروڈکشن ونگ (Production wing)  میں کیا جانا تھا۔ انگریزی اور ہندی ورژن(version) پہلے ہی سے موجود تھی۔ ’’نو لوس نو پروفٹ‘‘ (No loss no profit)کے فارمولے پر کتابوں کی قیمت متعین کی جاتی تھی۔ طریقہ کار یہ تھا کہ جتنی لاگت آئے اسے تین گنا کر کے تعداد اشاعت سے تقسیم کر دیا جائے۔ اس طرح اردو کتاب کی قیمت بہت آتی تھی۔ میں نے نوٹ لگایا کہ اردو والوں کی اقتصادی حالت پہلے ہی کمزور ہے۔ پہلی مرتبہ اردو کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔ اس قیمت کو اردو والے قبول نہیں کریں گے۔ اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ چیف پبلیکیشن آفیسر نے مجھے اپنے دفتر میں طلب کیا اور بتایا کہ یہ فارمولہ وزارت تعلیم، حکومت ہند کی جانب سے طے کیاگیا ہے۔ این سی ای آر ٹی کو اس میں ترمیم کا کوئی حق نہیں ہے، چنانچہ میں اپنا نوٹ واپس لے کر مقررہ فارمولے کے مطابق قیمت طے کرنے کی سفارش کروں اور فائل آگے بڑھا دوں۔ میں نے سختی سے اپنا نوٹ واپس لینے سے منع کر دیا اور کہا کہ یہ پہلی کتاب ہے۔ اگر اس فارمولے کے تحت کتاب چھاپی گئی تو پہلی سے لے کر بارہویں جماعت تک کی تمام کتابیں جن کی تعداد سیکڑوں تک ہو گی، اسی اصول کے تحت چھپتی رہیں گی اور اُردو کا سخت نقصان ہو گا۔ بات کافی دنوں تک الجھی رہی اور آخر براہِ راست ڈائریکٹر کو مداخلت کرنی پڑی۔ مجھ سے ڈائریکٹر نے بڑی ہمدردی کے ساتھ گفتگو کی اور اصولاً میری تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے این سی ای آر ٹی کی مجبوری کا ذکر کیا کہ اسے وزارت تعلیم کی ہدایت پر عمل کرنا لازمی ہے۔ کیا اس مسئلہ کا کوئی حل میرے ذہن میں ہے؟ میں نے بتایا کہ کتاب کی قیمت اس لیے بہت زیادہ آ رہی ہے کہ اردو ایڈیشن صرف 2000 کاپیوں پر مشتمل ہے، جب کہ انگریزی اور ہندی میں یہی کتاب لاکھوں میں چھپتی ہے۔ ہندی میں اس کی قیمت ایک روپے اور انگریزی میں ایک روپے پانچ پیسے مقرر کی گئی ہے۔ میں نے تجویز پیش کی کہ اگر اردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شائع ہونے والی کتاب کی قیمت ایک روپے پانچ پیسے کر دی جائے تو مسئلہ حل ہو جائے گا، چنانچہ تجویز تسلیم کر لی گئی اور تا حال اسی فارمولے کے تحت کتابوں کی قیمت متعین ہوتی ہے۔

سوال:  وضاحتی کتابیات آپ کا ایک بڑا کام ہے۔ آپ کو اس کی تکمیل کے دوران کس قسم کے تجربات سے دوچار ہونا پڑا، اپنے اس کام سے کتنے مطمئن ہیں۔ کیا آپ کی اس کاوش کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی ہے؟

جواب: ترقی اردو بورڈ   ٭

مکمل کہانی

 کریدا۔ اس کی  پوچھتا، تھا، پرانی بوتلیں ایک طرف، پلاسٹک کا سامان ایک رف۔کی جانب سے 1976 ء میں گوپی چند نارنگ اور مجھے سال بہ سال اردو کی وضاحتی کتابیات تیار کرنے کا پروجیکٹ سونپا گیاجس کے لیے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یوجی سی) کی جانب سے ایک ریسرچ اسکالر اور وقتاً فوقتاً ہندوستان کے مختلف علاقوں میں سفر کرنے کی سہولت فراہم کی گئی۔ میں نے نارنگ کے اشتراک سے اس کتاب کی تین جلدیں تیار کیں۔ 1980 میں یو جی سی کا پروجیکٹ ختم ہو گیا اور پروفیسر نارنگ جامعہ ملیہ سے دہلی یونیورسٹی چلے گئے۔ اگلے پندرہ برسوں تک یہ سلسلہ منقطع رہا۔ 1996ئمیں قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان(این سی پی یو ایل) کے اس وقت کے ڈائرکٹر حمید اللہ بھٹ نے خواہش ظاہر کی کہ میں اس سلسلے کو کم از کم سال2000ئتک مکمل کر دوں لیکن اب نہ میری مدد کے لیے کوئی ریسرچ اسسٹنٹ فراہم کیا جائے گا اور نہ مختلف مقامات کے سفر خرچ کی گنجائش نکل سکتی ہے۔

                          بہر حال 1981تا 2000 ء شائع ہونے والی تمام اردو کتابوں کی سالانہ جلدیں (20جلدیں )جن میں سے ہر ایک کی ضخامت پانچ، چھ سوصفحات کے درمیان ہے، میں نے تنِ تنہا متعینہ وقت میں تیار کیں۔ ان میں کم و بیش پچیس ہزار کتابوں کا تعارفی اندراج ہے۔ بیسویں صدی کے آخری ربع میں ہندوستان میں شائع ہونے والی تقریباًسبھی کتابوں کا تعارف ان جلدوں میں پیش کر دیا گیا ہے۔ عام طور پر ایک آدھ شعری مجموعے یا فکشن وغیرہ سے متعلق کتاب پر جتنی شہرت اور عزت مصنفین کو نصیب ہوتی ہے اتنی بھی اس بے حد محنت طلب اور علمی کام کے معاوضے میں مجھے نصیب نہیں ہوئی۔ نہ کہیں سے کوئی اعزاز یا انعام تفویض کیاگیا۔ جی چاہتا ہے کہ اس کام کی اہمیت کا اردو والے قرار واقعی اعتراف کریں۔

سوال:  عصر حاضر میں شاعری کی صورت حال سے بعض لوگ مایوس ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب: شاعری کی صورتِ حال وہی ہے جو ہمیشہ سے تھی۔ ہوتا یہ ہے کہ ہر دور میں عمائدین ادب میں جمودکی شکایت کرتے ہیں،زوال اور انحطاط کے گلہ گزار ہوتے ہیں، لیکن مجموعی اعتبار سے کسی بھی دور میں اچھی اور سچی شاعری تھوک میں نہیں کی گئی۔ ہمیشہ خس و خاشاک کا ایک سیلاب سا آتا ہے، جس کے درمیان سے شاہکار برآمد ہوتے ہیں۔ یعنی اچھی اور قابل لحاظ تخلیقات کسی بھی دور میں ایک فیصد تو  کیا ہزار میں دو چار کی تعداد میں ہوتی ہیں۔ بقیہ چیزیں ادبی تاریخوں کے کباڑ خانے میں ڈال دی جاتی ہیں۔ عہد حاضر میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ اچھی شاعری کمیاب ضرور ہے نایاب نہیں ہے خواہ ہندوستان کے منظر نامے پر تلاش کریں یا عالمی منظر نامے پر۔

سوال:  کچھ ایسے شعراء کے نام جو آپ کی نظر میں اچھی اور سچی شاعری کر رہے ہیں ؟

جواب: ناموں کی نشاندہی نہ مناسب ہے اور نہ ممکن،اس کے لیے بہت غور و خوض اور چھان بین کی ضرورت ہے، لیکن چار، چھ بہت اچھے شاعر ہیں۔ ہندوستان میں بھی موجود ہیں اور پاکستان میں بھی۔ حتیٰ کہ انگلستان میں بھی ایک آدھ شاعر نمائندگی کے لیے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ممبئی سے ایک صاحب اپنے رسالے سے ایک کتابی سلسلہ چلاتے ہیں جو انٹر نیٹ پر بھی دستیاب ہے۔ اس کے تازہ ترین شمارے میں ایڈیٹر نے بڑے طمطراق سے لکھا ہے ’’ اردو میں اگر افسانے خراب لکھے جا رہے ہیں تو شاعری اس سے بھی خراب  ہو رہی ہے۔ ‘‘ اس جواز کے ساتھ مدیر نے رسالے میں صرف چار غیر ملکی زبانوں کے نوبل انعام یافتہ افسانہ نگاروں کی چار کہانیوں کے ترجمے شائع کیے ہیں اور شاعری کے حصے میں عرفان صدیقی کی ایک غزل کی زمین میں گیارہ ہم عصر غزل گویوں کی غزلیں چھاپی ہیں۔ میں نے موصوف کو خط لکھا ہے کہ مدیران رسائل کو اتنے بڑے بڑے دعوے کرنا زیب نہیں دیتا اور جیسی کہانیاں اور غزلیں انھوں نے اس شمارے میں شائع کی ہیں ان سے کہیں بہتر افسانے اور غزلیں ہم عصر تخلیق کار آج بھی تخلیق کر رہے ہیں، البتہ جوہر کو پہچاننے کے لیے جوہر شناسی ضروری ہے۔

سوال:  نئی نسل سے کیا توقعات ہیں آپ کو؟

جواب: نئی نسل سے جہاں تک توقعات کا تعلق ہے وہ قائم کرنے کا حق تو عمائدین ادب کو ہے، میں تو معمولی طالب علم ہوں، زیادہ سے زیادہ قلم کا مزدور کہہ لیجیے۔ البتہ یہ اعتراف کرنے میں اصابت رائے کہیں سے مجروح نہیں ہوتی کہ ہندوستان کے مختلف گوشوں سے نئے لکھنے والے قابل لحاظ تعداد میں سامنے آرہے ہیں جن میں شعراء اور افسانہ نگار بھی ہیں اور ادب کی دوسری اصناف سے دلچسپی رکھنے والے قلم کار بھی۔ ان کی تعداد اور نگارشات کے معیار و مقدار کو نگاہ میں رکھتے ہوئے اطمینان سے کہا جا سکتا ہے کہ اردو زبان و ادب کا مستقبل بلاشبہ روشن ہے۔

سوال:  تخلیق پر تنقید کو فوقیت دی جانے لگی ہے، اس رجحان کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں ؟

جواب: اس سلسلے میں میں مختلف مضامین میں کھل کر لکھتا آیا ہوں کہ موجودہ زمانے کا سب سے بڑا ادبی المیہ یہ ہے کہ نقاد کو تخلیق کار پر فوقیت دی جانے لگی ہے۔ عالمی زبانوں میں تو آج بھی یہ رجحان عام ہے کہ تحقیقی مقالے صرف تخلیقی شخصیتوں پر لکھے جاتے ہیں۔ آج اردو میں قلم بند کیے جانے والے تحقیقی مقالوں میں سے بیشتر نقادوں سے متعلق ہیں، کیوں کہ بیشتر مقالے انھیں کی نگرانی میں لکھے جاتے ہیں اور یہ بات میں بحیثیت تخلیق کار نہیں بلکہ ایک نقاد کے طور پر بھی کہہ رہا ہوں۔ اس صورت حال کو تبدیل ہونا چاہیے۔ اچھے اور سچے شاعر و ادیب کبھی نقاد کے پچھ لگو نہیں ہو سکتے اور ناقدین کو بھی اپنی حدود میں رہنے کا سبق پڑھنا چاہیے۔

سوال:  آج کا تخلیق کار بدلتے وقت کے تقاضوں کے تحت فکری اور فنی سطح پر روایت سے ہٹ کر لکھ رہا ہے۔ کیا موجودہ یا روایتی تنقیدی پیمانے ان فن پاروں کی جانچ پرکھ کے لیے کافی ہیں ؟

جواب: عام طور پر تنقیدی پیمانے تخلیق کاروں کے مجموعی رجحان کے پیش نظر ڈھالے جاتے ہیں۔ لیکن وقتاً فوقتاً ایسے شاعر اور فنکار مطلع ادب پر نمودار ہوتے رہتے ہیں، جو اپنے لہجے اور فکر اور اپنے انوکھے تجربات کی بنا پر پہلے سے طے شدہ تنقیدی سانچوں پر کھرے نہیں اترتے لیکن ان کی نگارشات کی بالیدگی کے پیش نظر نئے تنقیدی سانچے ڈھالنا ضروری ہو جاتا ہے اور ان سانچوں کے لحاظ سے تمام پچھلے ادبی سرمائے کو از سر نو نئی کسوٹی پر پرکھا جانے لگتا ہے۔ یہ تسلسل بہت دنوں سے جاری ہے اور جاری رہنے والا ہے۔ اسی لیے ہر زمانے میں بالکل نیا کہنے والے اپنے اپنے دور میں ناقدین کی بے اعتنائیوں کا شکار رہے ہیں۔ سبب یا تو تنقیدی خباثتوں کاہے، یا نقاد کی نا رسی اور کم فہمی کا بھی ہو سکتا ہے کہ وہ نت نئے ادبی تجربات اور انکشافات کی تیز رفتاری کا ساتھ نہیں دے سکتے۔

سوال:  شاعروں کو زبان کے فروغ کا وسیلہ تسلیم کیا جاتا رہا ہے لیکن آج مشاعروں کا معیار روز بروز گر رہا ہے۔ ایسے میں یہ ادارہ اپنی ذمے داری نبھانے میں کس حد تک کامیاب ہے؟

جواب: مشاعرے کے سلسلے میں، میں مختلف رائے رکھتا ہوں۔ میرا مشاہدہ کہتا ہے کہ ہندوستانی فلموں کو خواہ وہ ہندی سر ٹیفکیٹ کے ساتھ ریلیز ہوں، اور فلموں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قصبات سے لے کر بڑے بڑے شہروں تک آئے دن ہونے والے عوامی مشاعروں کو بھی اس کا کریڈٹ ملنا چاہیے کہ اردو زبان کی ترویج اور فروغ میں جتنا ہاتھ ان فلموں اور مشاعروں کا ہے اتنا غالباً اردو کی دانش گاہوں کا بھی نہیں ہے۔ ان اداروں کی وجہ سے ہی ہندوستان میں اردو بولنے والوں کی تعداد تقسیم ہند کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ خواہ ان اردو بولنے والوں کو اردو رسم الخط سے آگہی نہ ہو۔ البتہ مشاعروں میں پیشہ ور لوگوں کی وجہ سے جو لفاظی، چرب زبانی، خوشامد، پینترے بازی اداکاری، گلے بازی اور شاعرات کے بناؤ سنگھار، ناز و ادا اور جنسی اشارات وغیرہ کے باعث انحطاط  و زوال کا منظر نامہ نمودار ہوا ہے، اس نے اردو شاعری کو بلا شک تحت الثریٰ میں پہنچا دیا ہے۔ شعراء کی باہمی گٹ بندی نیز بیشتر نظامت کرنے والے اصحاب کی وجہ سے مشاعروں کا معیار زوال آشنا ہوا ہے۔ پھر بھی اعتراف کرنے دیجیے کہ گنتی میں دو چار ہی سہی آج بھی مشاعروں میں ادبی چاشنی اور معیار کو برقرار رکھنے والے فن کار موجود ہیں ادھر ایک خوش آئند بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ چند بڑے نقادوں نے مشاعرے کے مقبول شعراء کے معیاری اشعار کو اپنے تنقیدی مضامین میں شامل کیا ہے۔

سوال: ایک زمانہ تھا جب یہ امتیاز ممکن نہیں تھا کہ یہ ادب کے شعراء ہیں اور یہ مشاعرے کے شعراء ہیں۔ اکثر وہی شعراء مشاعرے کے اسٹیج پر ہوتے تھے جو ادب کا حصہ تھے یا جن کا کلام رسائل و جرائد کی زینت بنتا تھا۔ آج ادب کے شاعر اور مشاعرے کے شاعر الگ الگ کیوں ہو گیے ہیں۔

جواب: بہت اچھا سوال کیا ہے آپ نے۔ میں نے وہ دور دیکھا ہے جب جگرؔ، فانیؔ، حسرؔت، فراقؔ، یگانہؔ، شادؔ عارفی، جوشؔ ملیح آبادی، اخترؔ شیرانی، بے خودؔ اور ایسے متعدد استادانِ فن مشاعروں میں اپنا کلام سناتے اور پسند کیے جاتے تھے۔ فراقؔ اور  شادؔ عارفی وغیرہ توایسے شعراء میں تھے جو ڈائس سے سامعین کو ڈانٹ پھٹکار بھی لگا سکتے تھے۔ حسرت موہانی بڑے غیر متاثر کن انداز میں پڑھتے تھے لیکن ان کو پسند کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔ بعد ازاں ترقی پسند تحریک کے عہدِ شباب میں سردارؔ جعفری، وامقؔ جون پوری، فیض احمد فیضؔ، مجروحؔ، کیفیؔ اعظمی، مخدوم محی الدین، احمد ندیم قاسمی اور بہت سے دوسرے شعراء مشاعروں میں خالص ادبی تخلیقات، غزلیں اور نظمیں اپنے اپنے انداز میں پیش کرتے اور داد حاصل کرتے تھے۔ افسوس کہ آج صورت حال بالکل بدل چکی ہے مشاعروں کے شاعر اور ادبی شاعر دو الگ الگ طبقوں میں بٹ گئے ہیں۔

سوال:  اس صورتِ حال سے کیسے نمٹا جائے؟

جواب: میں سمجھتا ہوں کہ اگر مشاعروں کے کنوینر تھوڑی سی سمجھ داری سے کام لیں اور مشاعروں میں دوسروں سے حاصل کردہ کلام پڑھنے والے شعراء اور خوش اندام متشاعرات کو دور رکھیں نیز ادبی شان رکھنے والے شاعروں اور اسٹیج پر سلیقے سے کلام پڑھنے والے ادبی شعراء کا انتخاب کریں تو ایک دو سال میں فضا بدلی ہوئی نظر آئے گی۔

                 مجھے اس وقت 15 ستمبر2005ء کو جدہ میں سفارت خانہ ہند کی سلور جبلی کے موقع پر ہونے والا مشاعرہ یاد آتا ہے جس میں ہندوستان کے 12خالص ادبی شاعر اور تین چار مشاعرے کے بے حد کامیاب شعراء مدعو کیے گئے تھے۔ سارے ادبی شاعروں کو سامعین نے انتہائی گرم جوشی کے ساتھ سنا۔ ایک آدھ مشاعرے کے مقبول شاعر کو بھی گوارہ کیا گیا اور دو مقبول ترین مشاعرے باز شاعروں کو بری طرح ہوٹ کیا گیا۔ ۔ دوسرے دن مدینہ منورہ میں غالباً پہلی مرتبہ مشاعرہ ہوا۔ وہاں بھی یہی صورتِ حال رہی اور تیسرے دن ریاض میں منعقدہ مشاعرہ میں بھی ادبی شعراء کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کے دوسرے سال الخبیر اور دمام میں صرف دو شاعر بلوائے گئے ایک کا تعلق ادب سے تھا اور دوسرے خالص مشاعرے کے شاعر تھے۔ دونوں جگہوں پر مشاعرے کے مقبول شاعر کو بس گوارا کیا گیا اور ادبی شاعر کو بے حد پسند کیا گیا۔

                خراب صورتِ حال اس جگہ واقع ہوتی ہے جہاں 15-20 پیشہ ور شاعروں کے درمیان کوئی ایک آدھ ادبی شاعر طلب کر لیا جاتا ہے اورجسے ناظم مشاعرہ سیاست یا سادہ لوحی کے تحت احترام کے نام پر آخر وقت تک بٹھائے رکھتے ہیں اور اسے اس وقت پڑھنے کا موقع دیتے ہیں جب اعصاب کشیدہ اور دماغ خوابیدہ ہو جاتا ہے۔

                          عموماً کنوینروں کی طرف سے یہ جواز پیش کیا جاتا ہے کہ مشاعروں کے لیے ڈونیشن دینے والے لوگ اکثر اپنی پسند کے شعراء اور شاعرات کو مدعو کرنے کی تاکید کرتے ہیں۔ میں نے ایک سیمنار کے دوران ایک بڑی اردو اکادمی کے چیئر مین سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے پوچھا تھا کہ عام مشاعروں کے کنوینروں کوتو اس بنا پر معاف کیا جا سکتا ہے لیکن آپ تو لاکھوں کے بجٹ سے سرکاری خرچ پر مشاعرے کرتے ہیں، آپ کی کیا مجبوری ہے کہ آپ معیاری شاعروں کی جگہ عامیانہ کلام پیش کرنے والے متشاعروں کو ہی مدعو کرتے ہیں۔

سوال:  اردو شعر و ادب دیو ناگری رسم الخط میں لکھے جانے کا رجحان عام ہو گیا ہے۔ اپنے رسم الخظ سے کٹ کر اردو کو جو نقصان ہو رہا ہے اس کا ازالہ کس طرح ممکن ہے؟

جواب: رسم الخظ کا مسئلہ بعد از وقت ہے۔ یہ مسئلہ تو 30-35 برس پیشتر طے پا چکا ہے بلکہ اور زیادہ وقت گزر چکا ہے۔ سردار جعفری،کرشن چندر، احتشام حسین اور عصمت چغتائی نے یہ بات اٹھائی تھی کہ رسم الخط دیو ناگری کر لیا جائے۔ زبانیں عوام کے بل بوتے پر زندہ رہتی ہیں۔ دانشوروں سے نہیں۔ زبان کی زندگی کے لیے ضروری ہے کہ رسم الخط باقی رہے۔ رسم الخط شیروانیاں نہیں ہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ پورے جسم سے پہلی کھال ہٹا کر کوئی دوسری کھال پہنا دی جائے۔ اردو کو کسی دوسری اسکرپٹ میں لکھے جانے سے عجیب و غریب صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ دیو ناگری یا رومن اسکرپٹ میں  اللہ کا قافیہ ملاح بن سکتا ہے لیکن اردو میں نہیں بن سکتا۔

                        دُشنیت نے آگ کا قافیہ داغ باندھا تھا لیکن اردو میں نہیں باندھ سکتے۔ رسم الخط تبدیل کرنے میں بہت سے مسائل ہیں۔ ہندی اور دوسری زبانوں میں جو اردو ادب و شاعری شائع ہو رہی ہے و وہ در اصل لین دین کا معاملہ ہے۔ جس طرح ٹیگور اور شیکسپیئر کے ڈرامے اردو میں چھاپے گئے ہیں۔ یہ صورت حال دوسری ہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ زبان کا دائرہ کار بڑھ رہا ہے۔ ایک زبان کا ادب دوسری زبان میں منتقل ہو رہا ہے۔ یہ زبان سے یا رسم الخط سے دست برداری کا نہیں، بلکہ ادب کی منتقلی والا سلسلہ ہے۔

سوال:  اردو کامستقبل؟

جواب: جو یہ کہتے ہیں کہ اردو کامستقبل تاریک ہے، میں ان سے سوال کرتا ہوں۔ مجھے مشاعروں اور سیمناروں میں شرکت کے حوالے سے مختلف علاقوں میں سفر کرنے کا موقع ملتا ہے۔ مشاعرے پڑھنے والوں، عوامی جلسوں میں بیٹھ کر چلے آتے ہیں اور سیمناروں میں شرکت کر لینے کا معاملہ الگ ہے۔ یہ لوگ وہاں کی ادبی صورت حال سے واقف نہیں۔ سوائے اتر پردیش کے مختلف ریاستوں، مہاراشٹر، بنگال، بہار، کرناٹک، مدھیہ پردیش میں آج جتنے اُردو بولنے والے ہیں آزادی سے پہلے اتنے نہیں تھے۔ کشمیر میں تو اردو سرکاری زبان ہے۔ دہلی میں بھی اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ صورتِ حال مجموعی اعتبار سے خوش آئند ہے۔ تاہم مطمئن ہونے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ اتر پردیش میں حالت بے حد خراب ہے۔ وہاں شادی کے کارڈو پوسٹر، قبر کے کتبے ہندی میں لکھے جا رہے ہیں۔ وہاں اردو کو بچانے کی ضرورت ہے۔ اگر وہاں مکاتب نہ ہوتے تو اردو کی بیخ کنی ہو چکی ہوتی۔ وہاں کے لوگ دوسری ریاستوں سے سبق لیں۔ کسی دوسری ریاست میں صورت حال اتنی مایوس کن نہیں ہے۔ نا مساعد حالات میں بھی ملک میں سال بھر میں تقریباً 1800اردو کی کتابیں شائع ہوتی ہیں۔ جتنے رسالے اور اخبارات اردو کے ہیں خواہ ان کی تعدادِ اشاعت کم ہو،کم زبانوں میں اتنے رسالے اور اخبار شائع ہوتے ہیں۔

٭٭٭

 

ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی

ماہنامہ ’’ اردو دنیا‘‘ ( نئی دہلی)

            پروفیسر مظفر حنفی ( پیدائش: یکم اپریل 1936/کھنڈوہ، مدھیہ پردیش) اردو کے ممتاز ترین  شاعروں میں سے ہیں اور ہند و پاک کے ایسے منفرد غزل گو ہیں جنھیں اپنے لہجے کی بنا پر دور سے پہچانا جاتا ہے۔ حنفی صاحب 70 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں اور تنقید کے میدان میں بھی انھیں صاحبِ طرز تسلیم کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں اردو کی دنیا انھیں کئی معیاری کتب کے مرتب و تدوین کار، باریک بیں محقق، اچھے افسانہ نگار، بہترین مترجم اور ماہر ادب اطفال کی حیثیت سے بھی خوب پہچانتی ہے۔ ان کے ادبی سفر اور موجودہ ادبی صورت حال پر معروف ادبی صحافی ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے خصوصی گفتگو کی، جس کے اقتباسات پیش ہیں :

ممتاز عالم رضوی:  آپ نے جس دور میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا، وہ کیسا دور تھا اور آپ کے گرد و پیش کا کیا ماحول تھا؟

مظفر حنفی:  ویسے تو انسانی فطرت ہے کہ اسے ماضی ہمیشہ سنہرا نظر آتا ہے لیکن عرض واقعہ یہ ہے کہ جس زمانہ میں ہمیں ادبی ذوق کی لت لگی وہ ایک ایسا زمانہ تھا،میں سنہ 47 کے آس پاس کی بات کر رہاہوں، یعنی آزادی سے پیش تر ہمارے یہاں کچھ اس قسم کا ماحول تھا کہ یقین جانیے کھیتوں میں ہل چلاتے ہوئے کسانوں کو مسدس حالی کے پورے پورے بند گنگناتے ہوئے میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے۔ ہسوہ فتح پور سے ورنا کیولر مڈل اسکول پاس کیا تھا اور ساتویں کلاس میں کھنڈوا مدھیہ پردیش منتقل ہو گیا تھا۔ وہاں میرے تایا زاد بھائی کا بڑا کارو بار تھا۔ ہندوستان، پاکستان سے نکلنے والا شاید ہی کوئی اچھا رسالہ ہو جو اُن کی دُکان پر نہ آتا ہو، وہ بہت زیادہ پڑھے لکھے آدمی بھی نہیں تھے اور نہ ہی کوئی زیادہ ادبی ذوق تھا لیکن باور فرمائیں کہ عالم گیر، ادبی دنیا،نیرنگِ خیال، بمبئی یا دہلی سے ایک رسالہ’ کہکشاں ‘نکلتا تھا وہ، شاعر آتا تھا،ساغر نظامی کا’ ایشیا‘ آتا تھا، ناگپور سے ’نبّاض‘ نکلتا تھا اور ایسے کم از کم بارہ تیرہ رسالے اردو کے اس دوکان پر آتے تھے، ہم اور ہمارے جو کلاس فیلو تھے وہ ان ادبی رسالوں سے بھرپور استفادہ کرتے تھے۔ مشاعروں میں صورتِ حال یہ تھی کہ میں نے جگرؔ، فراؔق،نشورؔ واحدی، ناطقؔ گلاوٹھی، ماہرالقادری، ساغر نظامی جیسے شعرا کے ساتھ ساتھ دلؔ لکھنوی اور اس قسم کے مشاعروں کے مقبول شاعروں کو کلام سناتے ہوئے دیکھا ہے اور یہ بھی دیکھا کہ ادبی شعرا خواہ کتنے ہی بھونڈے انداز میں پڑھ رہے ہوں، انھیں ترنم سے زیادہ کوئی علاقہ نہیں ہوتا تھا، سوائے ماہرؔ القادری اور ساغر نظامی جیسے شعرا کے، جو مشاعرے کے شاعر سمجھے جاتے تھے لیکن ادبی شعرا ان کے مقابلہ میں زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ یہ وہ دور تھا میاں،جب میں نے اردو ادب کی دنیا میں قدم رکھا بچوں کے لیے کہانیاں لکھنے سے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا تھا اور اس کے بعد آگے سلسلہ چلا جس سے آپ واقف ہیں۔

سوال :  آپ نے اپنے ادبی سفر کا آغاز کیسے کیا، کن باتوں سے متاثر ہو کر ادبی دنیا میں قدم رکھا؟

جواب :  ہمارے اساتذہ میں، مڈل اسکول میں ایک استاد احسان الحمید تھے۔ وہ ادبی ذوق کو فروغ  دینے کی کوشش کرتے تھے۔ ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں مصرعہ طرح دیا جاتا تھا اور کہا جاتا تھا کہ اس کے اوپر شعر کہہ کر لائیے اور مجھے یاد ہے ایک بار مصرع تھا ’’سمندر میں گرے گا خون کا دریا رواں ہو کر‘‘ اس زمانہ میں جو دوسری عالمگیر جنگ تھی جس میں ہٹلر کو شکست ہوئی تھی، اس سلسلہ سے یہ مصرعہ متاثر تھا، میرا خیال ہے کہ یہ 44یا45 کے آس پاس کی بات ہے اور ہم نے اس میں چار پانچ اشعار کہے تھے، ہم لوگوں کو مشکل اشعار دے دیے جاتے تھے کہ ان کی تقطیع کر کے لے آؤ۔ یہ میں ساتویں اور آٹھویں کلاس کے طلبہ کی بات کر رہا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اس مصرع پر بہت سارے شعر کہتے ہوئے  میں نے یہ شعر کہہ دیا’’ جوانی کی دعا بچوں کو ناحق لوگ دیتے ہیں /یہی بچے مٹاتے ہیں جوانی کو جواں ہو کر‘‘ میں نے یہ شعر پڑھا تو آپ سمجھ لیجیے کہ برسر مشاعرہ گاہ(کلاس میں ) مولوی شبراتی صاحب نے میری پیٹھ پر ایک زور دار چھڑی لگائی اور کہا ’’ نا معقول تو جج کے یہاں چوری کر رہا ہے۔ ‘‘ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا بات ہے، تو انھوں نے بتایا کہ یہ اکبر الٰہ آبادی کا شعر ہے۔ تو یہ صورت حال تھی، وہ اکبر الٰہ آبادی کا شعر تھا، ظاہر ہے کہ ذہن میں کہیں رہا ہو گا جو کہ غزل کہتے ہوئے درمیان میں آ گیا۔ لیکن یہ شعوری طور پر نہیں ہوا تھا۔ جب ہم گھر آتے تھے تو بہت سارے رسالے پڑھنے کو ملتے تھے۔ ہمارے بھائی صاحب کا کتابوں کے لیے سالانہ ایک خاص بجٹ تھا، مجھ سے کہتے تھے کہ بھائی تم شعر و ادب میں دلچسپی رکھتے ہو،کتب کی فہرست آئی ہے اس میں سے ڈیڑھ دو سو کتابیں منتخب کر لو اور اس طرح ہرسال ڈیڑھ دو سو کتابیں خریدی جاتی تھیں۔ تیرتھ رام فیروز پوری کا میں دیوانہ تھا،وہ جاسوسی ناول ترجمہ کرتے تھے اور مجھے انگریزی کے جاسوسی ناول بہت پسند تھے۔ اس وقت جب میں آٹھویں جماعت میں تھا پورا سیٹ جس میں تیرتھ رام کی تقریباً سوا سو کتابیں تھیں خرید لیا تھا۔ جاسوسی دنیا کا ابن صفی ایک اچھا ناول نگار تھا لیکن اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے، اس پر تو پی ایچ ڈی ہونی چاہیے تھی۔

سوال:  آپ نے اپنے ادبی سفر کا آغاز بچوں کے ادب سے ہی کیوں کیا؟

جواب:  جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا اور بہت سارے رسالوں کے نام لیے اس میں ایک رسالہ اور جڑتا ہے، یہ غالباً 1948 کے آس پاس کی بات ہے کہ رسالہ شمع نکلا، شمع کے ادارہ سے پھر بچوں کے لیے رسالہ کھلونا نکلا۔ اس کا پہلا ہی شمارہ دیکھ کر میں اس پر فدا ہو گیا تھا، اور پھر یہیں دہلی سے ہی کوئی کامل اختر تھے انھوں نے پھلواری نام کا رسالہ نکالا۔ یہ دونوں رسالے بھی وہاں ( کھنڈوا، مدھیہ پردیش) پہنچتے تھے، تومیں نے ان کی کہانیاں پڑھیں اور49میں ہی میں نے کھلونا کے لیے مختصر سی کہانی لکھی، وہ بچوں کی کاوشوں کا کالم اس زمانہ میں چھاپا کرتے تھے، اس میں چھپی، اس کے بعد پھر آزادانہ کہانیاں لکھیں، بہت جلد ہی بچوں کے دیگر رسائل میں چھپنے لگا، جن میں کھلونا ہے، کلیاں ہے، جگنو بھوپال سے نکلتا تھا اس میں چھپا، پھول نکلتا تھا، کراچی سے دوست نکلتا تھا، اس قسم کے بہت سارے رسائل نکلتے تھے اور ان تمام رسالوں میں میں بچوں کے لیے کہانیاں لکھتا تھا۔ اس وقت میں نویں جماعت کا طالب علم تھا، اور میری عمر تیرہ یا چودہ سال رہی ہو گی۔ پھر سنہ 52 سے میں بڑوں کے رسالوں کے لیے افسانے لکھنے لگا، چونکہ بچوں کے لیے افسانے لکھنے کی وجہ سے میں کافی معروف ہو گیا تھا، اسی زمانہ میں نسیم بک ڈپو نے مجھے کچھ ناول ترجمہ کرنے کے لیے بھیج دیے تھے، وہ کر دیتا تھا تو بڑے ادبی رسالوں میں جیسے شمع، بیسویں صدی اور ایک رسالہ کہکشاں نکلتا تھا، دہلی سے ایک صاحب آریہ ورت نکالتے تھے۔ ان میں ابتدائی دور میں ایک دو سال تک افسانے چھپے، پھر شاہراہ میں ظ۔ انصاری صاحب نے چھاپ دیا اور جب آئینہ نکلا تو اس میں چھپنے لگا تو، سنہ 52 سے لے کر 58 تک میں نے مسلسل افسانے لکھے اور میں نے تقریباً ڈیڑھ سو افسانے لکھے ہیں جن کے تین مجموعے بھی چھپ چکے ہیں۔ اسی سلسلہ میں ایک دلچسپ بات اور بھی ہے کہ میں جاسوسی ناول نگار ہوتے ہوتے بچ گیا۔ الٰہ آباد میں مان سروور پبلی کیشن سے گوری شنکر اختر ’مان سروور‘ نام کا ایک رسالہ نکالتے تھے، انھوں نے مجھے جاسوسی ناول لکھنے پر آمادہ کر لیا تھا اور مجھے ایک ناول کے سوا سو روپے دیتے تھے۔ اس وقت میں نے ان کے لیے 6ناول لکھے تھے، یہ سنہ 54 کی بات ہے، تو 5یا6 ناول میرے ’مان سروور‘ میں چھپے تھے۔ ہمارے قلمی دوست تھے رضا علی عابدی جو بعد میں بی بی سی لندن میں چلے گئے تھے، ان کا میرے پاس بڑا لمبا چوڑا خط آیا کہ تم اچھے خاصے افسانہ نگار تھے، اب یہ کیا کر رہے ہو، یہ جاسوسی ناول کیوں لکھنے لگے، محدود ہو کر رہ جاؤ گے، ان کی باتوں سے مجھے کچھ ایسا محسوس ہوا کہ اس میں کوئی مستقبل نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ آج دیکھ لیجیے ابن صفی اتنا بڑا جاسوسی ناول نگار ہے لیکن اس کو ادبی حیثیت آج تک نصیب نہیں ہوئی تو اس طرح سے افسانہ نگاری کا سلسلہ شروع ہوا اور سن58میں جا کر میری پٹری بدلی۔

سوال:  آخر کیا وجہ ہوئی، کون سی بات نے آپ کو اتنا متاثر کیا کہ افسانوی دنیا کو بھی چھوڑ کر آپ شاعری کی دنیا میں آ گئے؟

جواب:  ہوا یہ کہ میاں، سنہ 58میں ہمارے بہت سارے کھنڈوا میں دوست تھے، کھنڈوا مدھیہ پردیش کا بہت بڑا ضلع تھا جہاں تقریباً 9پرائمری اور مڈل اسکول تھے جو کہ اردو میڈیم اسکول تھے، جہاں سینکڑوں کے تعداد میں لڑکے تعلیم پاتے تھے لیکن مڈل کے بعد نویں کلاس میں اردو میڈیم کے طلبہ کے لیے داخلہ کی کوئی گنجائش نہیں تھی تو وہاں کے جو اُردو میڈیم کے طلبہ تھے اور اُردو داں طبقہ کی جو آبادی تھی وہ تلملا کر رہ جاتی تھی۔ جو اتنی استطاعت رکھتے تھے کہ اپنے بچوں کو باہر بھیج کر پڑھاسکیں وہ بورڈنگ ہاؤس وغیرہ میں رکھ کر پڑھاتے تھے ورنہ آٹھویں جماعت کے بعد لڑکے ڈراپ لے لیتے تھے، تو ہم نے وہاں ایک تحریک چلائی کہ اردو میڈیم ہائی اسکول بھی ہونا چاہیے کیونکہ اردو میڈیم کے بچوں کا بہت نقصان ہو رہا ہے۔ اس زمانہ میں محسوس یہ کیا گیا کہ جب تک آپ کے پاس پلیٹ فارم نہ ہو کوئی کامیاب تحریک نہیں ہو سکتی، تو وہاں سے ہم نے روز نامہ تو نہیں لیکن ماہنامہ ’’نئے چراغ‘‘ نکالا۔ نئے چراغ نکالنے کے لیے کیا کرنا پڑا، ممتاز میاں آپ تو ادارت سے واقف ہیں کہ اس میں اتنا وقت لگ جاتا ہے کہ باقی ماندہ کام کے لیے وقت ہی نہیں بچتا، افسانہ لکھنے کے لیے وقت چاہیے کیونکہ پانچ یا دس منٹ میں آپ افسانہ نہیں لکھ سکتے، وقت کم تھا اور شعر کا معاملہ ایسا ہے کہ ایک شعر آپ نے آج کہہ لیا دوسراشعر جب پھر کبھی موقع ملا تب کہہ لیا، پھر تیسرا کہہ لیا، شاعری میں یہ سہولت تھی۔ دوسرے یہ بھی ہوا، جس کا ذکر اس سے پیش تر میں کر چکا ہوں کہ ہمارے یہاں جدیدیت کا رجحان جسے لوگ عام طور سے 60سے شروع ہونا مانتے ہیں لیکن حقیقتاً سنہ58ہے سات رنگ، سویرا اور مختلف رسائل جو پاکستان سے نکلے ہیں وہ سب 58سے نکلے ہیں، ہمارے یہاں اتفاق سے وہ بہت زیادہ دور تک نہیں چل پایا لیکن جدید رجحان کو فروغ دینے کے لیے’ نئے چراغ‘ بھی بڑا اہم کردار ادا کر گیا جس میں مخمور سعیدی، ندا فاضلی، راہی معصوم رضا، عمیق حنفی، بشر نواز، شہر یار، امین اشرف، خلیل الرحمن اعظمی اس قسم کے جدید لوگ بھی اس میں شریک ہوتے تھے اور احتشام حسین صاحب، قاضی عبد الودود صاحب، نیازؔفتحپوری، نثار احمد فاروقی، خلیق انجم، وغیرہ بھی اس کے مضمون نگاروں میں سے تھے۔ کھنڈوہ بہت ہی غیر ادبی شہر مانا جاتا تھا اور 58کو آپ ذہن میں رکھیے کہ جب وہاں کوئی پریس نہیں تھا،کوئی کاتب نہیں تھا، ہم کتابت بھوپال سے کرواتے اور آگرہ پریس میں اسے چھپواتے تھے، اس وقت یہ تمام ادبا و شعرا اس مختصر سے رسالہ میں شائع ہوتے تھے۔ سترہ اٹھارہ شمارے نکلنے کے بعد وہ رسالہ بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے کہ ہم لوگوں کے پاس اتنا سرمایہ نہیں تھا کہ اس سلسلہ کو جاری رکھ پاتے۔ اس زمانہ میں جدیدیت کو فروغ دینے کے علاوہ خاکسار کو شاعر بنانے میں بھی اسی کا ہاتھ ہے۔ شادؔ عارفی،عبد الحمیدعدمؔ، فراق گورکھپوری وغیرہ اس کے لکھنے والوں میں تھے۔ شاد عارفی کی غزلوں سے میں بہت متاثر ہوا تھا اور دوسرے یہ کہ وقت کی کمی کی وجہ سے میں شاعری کی طرف آیا،مجھے افسانہ کے مقابلہ میں شاعری آسان لگی،ویسے آسان تو نہیں کہنا چاہیے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ غزل کہنے میں سہولت زیادہ تھی، تواس طرح سے غزل کی طرف طبیعت آمادہ ہوئی۔

سوال:  ملک کی تقسیم نے ادب کو کس طرح متاثر کیا اور اس تقسیم سے ادب میں کس قسم کی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔

جواب:  ملک کی تقسیم سے ظاہر ہے کہ نقصانات ہوئے ہیں لیکن ملک نے ترقی بھی خوب کی ہے۔ اگر ملک آزاد نہ ہوا ہوتا تو ہم اتنی ترقی کر ہی نہیں سکتے تھے۔ لیکن تقسیم کے مضر اثرات بھی تھے۔ لاکھوں لوگ تقسیم کے دوران فرقہ وارانہ فسادات میں مارے گئے، تاہم اس المیہ نے اردو ادب کو فائدہ بھی بہت پہنچایا۔ عجیب و غریب صورت حال ہے۔ اب آپ دیکھیے کہ میر تقی میرؔ کے زمانے میں دلّی بارہ پندرہ مرتبہ لوٹی گئی لیکن میر تقی میرؔ کا دور غزل کا عہد زریں کہا جاتا ہے۔ یعنی سچا ادب اس وقت زیادہ پنپتا ہے کہ جب معاشرہ میں انتشار زیادہ ہو، معاشرہ میں انتشار ہو گا تو شاعر و ادیب زیادہ حساس ہوں گے، شدت احساس اور مشاہدے کی آمیزش سے ظاہر ہے کہ تخلیقات کا ایک فوارہ سا ابلتا ہے۔

سوال:  اردو میں شعری ادب کا کیا مقام ہے؟ کیا آج بھی شاعری کو ہی اردو ادب کہیں گے؟

جواب:  میاں سچائی تو یہی ہے دیکھیے عام طور سے یہ کہا جاتا ہے کہ نقاد جب بھی قلم اٹھاتا ہے شاعری پر اٹھاتا ہے لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے کہ اردو ادب کا 75فیصد اثاثہ شاعری میں ہے۔ آپ بہت پیچھے نہ جائیں لیکن ولیؔ سے تو لیں گے۔ ولیؔ سنہ 1700 ء میں دہلی آئے تھے۔ 1700سے لے کر آج اکیسویں صدی چل رہی ہے، اس تین ساڑھے تین سو سال کے سفر میں آپ دیکھیں کہ 1857تک تقریباً دو سو سال تک اردو شاعری ہی اردو ادب کا حصہ رہی ہے، 57 کے بعد نثری دور کی شروعات ہوتی ہے۔ گویا شاعری نے ہی اردو ادب کے ارتقائی دور کا بوجھ ڈھویا، غزل اس میں سب سے زیادہ نمایاں صنف سخن تھی۔ غزل کو کبھی دوسرے درجہ کی شاعری تسلیم نہیں کیا گیا۔ از اول تا حال غزل اپنی جگہ اولیت کے منصب پر فائز ہے۔ نظم نے ترقی کی، افسانہ نے ترقی کی، مرثیہ نے ترقی کی، مثنوی نے ترقی کی لیکن یہ پھر رو بہ زوال ہو گئے۔ بظاہر یہ لگتا ہے کہ غزل بہت ہی آسان صنف سخن ہے، ہزاروں لوگ غزلیں کہہ رہے ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ چند قافیوں کو جمع کر کے انھیں ردیف میں پرو دینے کا نام غزل ہے۔ لیکن اس کا نام غزل نہیں ہے میر تقی میرؔ نے ایک جگہ کہا ہے کہ ’ غزل کہنی نہ آتی تھی تو سو سو شعر کہتے تھے/مگر اک شعر بھی اے میرؔ اب مشکل سے ہوتا ہے‘۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ غزل کیا ہے تو آپ کے لیے ایک شعر بھی کہنا مشکل ہو جائے گا۔ جب مجھ سے یہ پوچھا جاتا ہے کہ صاحب اس دور میں غالبؔ کیوں پیدا نہیں ہوئے؟اس دور میں میرؔ کیوں نہیں ہوئے، اقبالؔ کیوں نہیں ہوئے تو میرا یہ کہنا ہے کہ ہر دور میں ایک خس و خاشاک کا سیلاب آتا ہے اور اس میں سے موتی چند رہ جاتے ہیں اور یہ موتی آگے چل کر میرؔ، غالبؔ اور اقبال کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ در اصل غزل کے شاعر کی اہمیت و افادیت کو اس کے بعد کا دور طے کرتا ہے۔ آج کے دور میں بھی جو اچھی شاعری ہو رہی ہے اس کا فیصلہ آنے والا نیا دور ہی کرے گا۔ موجودہ دور میں تو آپ جوڑ توڑ کے ذریعہ بڑے سے بڑا انعام حاصل کر لیجیے، ناقدین کی خوشامد کر کے اپنے بارے میں، اپنی تعریف میں مضامین لکھواسکتے ہیں لیکن سچاشاعر کچھ الگ ہی چیز ہے۔ اس سلسلہ میں میرا ایک مقطع ہے کہ ’ نقادوں کے قول نہ لاؤ/ غزلیں لاؤ مظفر جیسی‘۔ یا پھر یہ کہ ’ مظفر پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے/ کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکر میں نہیں رہتا‘۔ ایک اچھا اور ایماندار شاعر اچھی شاعری کرنا چاہتا ہے، اس کی تمنا یہ ہوتی ہے کہ غزلیں یا نظمیں پرتاثیر ہوں، عوام کے دلوں تک زیادہ سے زیادہ پہنچیں، اس کی یہ تمنا نہیں ہوتی کہ اس کو نقاد عظیم کہے، یا اسے فلاں ایوارڈ مل جائے۔ یہ درجہ دوم کے شاعروں کی فکر ہوتی ہے۔ کھرا شاعر جو ہے وہ نہ اعزاز و اکرام کا متمنی ہوتا ہے اور نہ وہ تنقیدی اسناد حاصل کرنے کا خواہش مند ہوتا ہے۔ وہ تو اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتا ہے۔

سوال:  آج کہا جا رہا ہے کہ اچھی تخلیقات وجود میں نہیں آ رہی ہیں حالانکہ لکھا بہت جا رہا ہے، اس میں کتنی سچائی ہے اور اس کے کیا اسباب ہیں ؟

جواب:  ممتاز صاحب یہ ایک جزوی سچائی ہے، آج لکھنؤ، دہلی میں دیکھیے ہمارے دور میں اگر تلاش کرنے نکلیں گے تو ہزارو دو ہزار شاعر دہلی میں آج کے دور میں نکل آئیں گے لیکن ان میں سے زندہ رہنے والے کتنے ہیں ؟کسی دور میں بھی سیکڑوں کی تعداد میں بڑے  شاعر سامنے نہیں آئے میرؔ کے دور میں بھی نہیں۔ اس وقت بقول میرؔ پونے تین شاعر تھے، تین سمجھ لیجیے آپ، سوداؔ، میر تقی میرؔ اور میر دردؔ۔ غالبؔ کے دور میں دیکھ لیجیے،اقبالؔ  کے دور میں دیکھ لیجیے ایک سیلاب ساآتا ہے خس و خاشاک کا، اس میں چند ہی موتی ہوتے ہیں۔ یہی صورتحال آج کی ہے۔ آپ جب آج کے دور میں خس و خاشاک کا تجزیہ کچھ وقفہ کے بعد کریں گے تو اس میں سے کچھ موتی یقیناً نکلیں گے لیکن بہت بڑی تعداد میں نہیں نکل سکتے کیوں کہ تخلیق کو آپ بہر حال ایک کارخانے میں نہیں ڈھال سکتے ایک طرح کا مال مارکیٹ میں نہیں لایا جا سکتا۔ تخلیق کار تو ہمیشہ محدود تعداد میں ہی پائے جائیں گے۔ میں نے اٹھارہ انیس سو غزلیں کہی ہیں۔ یقین جانیے میں سوچتا ہوں اگر میرے دس شعر بھی سو سال بعد عوام میں رائج ہوئے توسمجھوں گا کہ میں کامیاب شاعر ہوں۔ اس اعتبار سے کوئی بھی دور ایسا نہیں رہا جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ یہ آج کے دور سے زیادہ کھرا تھا یا آج کے دور سے زیادہ زرخیز تھا۔

سوال:  آپ کو کیا لگتا ہے کہ جو نئی نسل ہے وہ جلد بازی میں ہے،وہ چاہتی ہے کہ اس پر بہت کچھ لکھ دیا جائے، ان کو وہ سب کچھ جلد از جلد مل جائے کہ جس کے لیے ایک مدت درکار ہوتی ہے؟

جواب:  آپ نے بالکل درست کہا،میں خود اس بات سے فکر مند ہوں، آپ نے کسی جلسہ میں  مجھ سے ایک بار سوال کیا بھی تھا، یہ نئی نسل کے لکھنے والے نقادوں کا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا حرام کر دیتے ہیں، ہفتہ میں پانچ سات کتابیں آتی ہیں ایک بار مجھے بہت بُرا لگا تھا کہ گیان چند جین صاحب نے کہا تھا کہ مجھے لوگ کتابیں نہ بھیجا کریں۔ میرے گھر میں کتابوں کے رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ آج معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ کیوں کہتے تھے۔ میرا ماشاء اللہ تین منزلہ مکان ہے لیکن جب میں اس میں ایک نیا کمرہ بنواتا ہوں تو بیوی کہتی ہیں کہ یہ ہمارے کس کام آئے گا اس میں آپ پھر کتابیں بھر دیں گے۔ ہر ہفتہ پانچ سات کتابیں آتی ہیں اور ہر شخص پیچھے پڑا رہتا ہے خطوط کے ذریعہ سے اور اب تو موبائل اور ٹیلی فون ہے اس کے ذریعہ سے یہ اصرار رہتا ہے کہ کچھ لکھ دیا جائے۔ بھائی مہینہ میں اگر تیس کتابیں ملی ہیں تو میں ایک مہینہ میں تیس مضامین کیسے لکھ سکتا ہوں۔ میرا بیٹا انگلینڈ میں شاعر ہے، وہاں کے اچھے مشاعروں میں شرکت کرتا ہے۔ اچھے رسالوں میں چھپ رہا ہے، اس کا پرویز مظفر نام ہے، وہ نظموں کی حد تک ساقی فاروقی کا شاگرد ہے، غزلیں میں دیکھ لیتا ہوں، میں نے اس کو سختی سے منع کر رکھا ہے کہ ابھی مجموعہ منظرِ عام پر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے پندرہ سال تک مستقل اچھے رسائل میں چھپو اس کے بعد مجموعہ لانے کی سوچنا۔ ابھی اس کا پرسوں فون آیا تھا کہ پاپا چودہ سال ہو گئے ہیں۔ میں نے اسے منع کیا کہ ابھی نہیں۔ تو یہ صورت حال ہے، واقعہ یہ ہے کہ لوگوں میں صبر و تحمل نہیں ہے۔

سوال:  ڈاکٹر صاحب! آج جب ہم غزل پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ غزل کئی راستوں پر گامزن ہے۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ اصل غزل کیا ہے؟

جواب:  ہمارے ایک دوست بشیر بدر ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ جو شعر حسن و عشق سے متعلق ہے یا اس کے ارد گرد گھومتا ہے وہ تو غزل کا شعر ہوا باقی جو عصر حاضر اور سماجی معنویت رکھنے والے اشعار ہیں اس کو وہ کہتے ہیں کہ یہ ریختہ ہے لیکن میں اس بات کا قائل نہیں۔ غزل تو در اصل ایک ہیئت کا نام ہے۔ ایک مخصوص ہیئت میں آپ شعر کہیں بس۔ موضوعات کا تعین تو قصیدہ اور مرثیہ وغیرہ کے لیے ہے۔ غزل کے لیے پانچ شعر، سات شعر، پچیس یا پچاس شعر جتنے بھی شعر ہوں، اس میں موضوع کا کوئی تعین نہیں ہوتا۔ اس میں دُنیا کا کوئی بھی موضوع خواہ وہ مذہب ہو، سیاست ہو، فلکیات ہو، طنزیہ ہو یعنی کوئی خاص موضوع متعین نہیں ہو سکتا۔ سات شعروں میں سات مختلف موضوعات ہو سکتے ہیں۔ ہمارے یہاں ایک خاص دور ایسا گزرا جس میں لوگ کہتے تھے کہ خالص غزل کے شعر سنیں تو خالص غزل کے شعر سے لوگ یہی مراد لیتے ہیں کہ شاید حسن و عشق، زلف و رخسار سے متعلق بات ہو گی لیکن یہی زلف و رخسار والی شاعری ہے جسے حالیؔ نے کہا تھا کہ غزل کا شعر پڑھ کر تو ہمیں ایسامعلوم ہوتا ہے کہ جیسے ہم سنڈاس میں داخل ہو گئے ہیں۔ سب سے بکار آمد صنف سخن انھوں نے کہا کہ مثنوی ہے۔ اکثر میں نے اپنے مضامین میں یہ بات کہی ہے کہ غزل عورتوں سے گفتگو کرنے کا فن ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ عورتوں کے ساتھ بیٹھ کر جنسی گفتگو کرنا ہے،اس کا مقصد یہ ہیکہ لہجہ ایسا ہونا چاہیے کہ اگر کوئی غنڈا بھی چار عورتوں کے درمیان بیٹھا ہے تو وہ بھی اپنی گفتگو میں شائستگی لانے کی کوشش کرے گا، وہ گالی گلوج سے گریز کرے گا، متانت، شرافت،لطافت کے انداز میں گفتگو کرے گا جو کہ غزل کی اہم خصوصیات ہیں اور غزل کہتے وقت یہی لہجہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ غزل عورتوں سے گفتگو کرنے کا نام ہے۔

سوال:  اپنے معاصرین کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب:  بھائی بہت سے معاصرین ہیں اور تھے، بہت اچھے شعرا تھے لیکن وہ جوڑ توڑ کر کے منظر عام پر نہیں آسکتے تھے، ناقدین کو خوش نہیں رکھ سکتے تھے، یا وہ ادبی مراکز سے دور تھے، مثال کے طور پر علی گڑھ سے، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے یا حیدر آباد سے یا لاہور سے تعلق رکھنے والے جو لوگ تھے ان کو نقاد بھی ساتھ میں ملے اور ماحول بھی ملا، جو لوگ ان مراکز سے دور ہیں ان کی طرف نقادوں کی نظر کم جاتی ہے۔ بمل کرشن اشک، فضا ابن فیضی جیسے اہم شاعروں کو نقادوں نے بالکل نظر انداز کر دیا۔ سلطان اختر پٹنہ میں بیٹھا ہوا ہے، ابھی جب وہ 75سال کا ہو گیا ہے تب فاروقی صاحب کا مضمون اس کے اوپر آیا ہے۔ اس سے پہلے اس کے اوپر میں نے کوئی مضمون نہیں دیکھا تھا۔ اعزاز افضل جیسا شاعر اپنے اعتراف کو ترستا ہوا مرگیا۔ ہندوستان کے ہمارے معاصرین میں پچاسوں شعرا ایسے ہیں لیکن معاصرین میں نمایاں وہ ہوئے کہ جن لوگوں میں تخلیقی جوہر کم تھا۔ بیشتر شعرا ء کے یہاں خام کاری بہت ہے اور اگر فنی اعتبار سے دیکھا جائے تو اتنے کمزور شعر بحروں سے خارج شعر کہتے ہیں لیکن ان کو شاعری کا سب سے بڑا انعام دیا گیا۔ ان کے یہاں تازہ ترین غزلوں میں بحر سے خارج اشعار موجود ہیں۔ دوسروں سے کہلوانے کا اعتراف انھوں نے خود کر رکھا ہے۔ بہت سارے ایسے معاصرین ہیں کہ جن کی شاعری بہت پسند کی جاتی ہے لیکن ان کی 90فیصد شاعری میں اہمال ہے، وہ شعر بہ ظاہر خوبصورت معلوم ہوتے ہیں لیکن جب آپ اس شعر میں کچھ مفہوم تلاش کرنے جائیں گے تو کچھ نہ ملے گا۔ جب کہ شعر میں کوئی نہ کوئی مفہوم ضرور ہونا چاہیے، ابہام اگر پرتیں ڈال رہا ہے تو ایک سے زیادہ معنی نکلنا چاہیے، یہ بہت اچھی بات ہے لیکن اگر آپ نے اتنا مبہم بنا دیا کہ ایک بھی مفہوم نہیں نکلا تو وہ شعر مہمل ہو گیا۔ اس شعر نے گویا خود کشی کر لی، ایسے بہت سارے مشہور شعرا ہیں جن کا میں یہاں نام نہیں لینا چاہتا ان کے 90فیصد اشعار مہمل ہیں۔ لیکن نام کے ساتھ جڑا ہوا شعر ہے اس لیے یہ ہوتا ہے کہ فلاں صاحب نے کہا ہے تو اس میں کچھ بات تو ہو گی۔ جو حقیقی شعرا ہیں ان سے ان کمزور شاعروں کو بالا تر کر کے پیش کیا جا رہا ہے۔ اب تو آنے والا دور طے کرے گا۔ مگر معاصرین میں اچھے شعر کہنے والے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے۔

سوال:  نظریاتی بحث سے ادب کو فائدہ ہوا یا نقصان، آپ کو کیا لگتا ہے کہ اردو ادب کے لیے نظریاتی بحثیں کتنی کار آمد رہی ہیں ؟

جواب:  میں سمجھتا ہوں کہ اس سے نقصانات ہی زیادہ ہیں۔ نظریاتی بحثیں جو ہوتی ہیں ان میں ایک قسم کا شدت پسندانہ رویہ ہو جاتا ہے۔ آج کل جدیدیت اور ما بعد جدیدیت اور اِس کا اُس کا چکر چل رہا ہے۔ اس سے پہلے جدیدیت اور ترقی پسندی کا چکر چل رہا تھا۔ کبھی کسی ترقی پسند نے یہ تسلیم نہیں کیا کہ جدیدیت بہتر ہے اور نہ ہی کبھی کسی جدیدیت پسند نے یہ تسلیم کیا کہ ترقی پسندی بالا تر ہے۔

سوال:  نئی نسل جو ادبی دنیا میں داخل ہو رہی ہے اس کے سلسلہ میں آپ کی کیا رائے ہے؟

جواب:  میں نئی نسل کے سلسلہ میں بہت اچھی رائے  رکھتا ہوں۔ افسوس کہ یہ لوگ ذرا تعجیل پسند ہیں لیکن کل ملا کر نئی نسل سے مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اچھے شاعر، اچھے افسانہ نگار، اچھے ناول نگار اور دوسری اصناف میں اچھے لکھنے والے آرہے ہیں۔ تنقید لکھنے والے بھی کافی اچھے آرہے ہیں۔ اس لیے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

سوال:  مستقبل میں آپ مزید اور کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ؟

جواب:  ممتاز صاحب شدید احساس میں مبتلا ہوں کہ ابھی تک میں کچھ نہیں کر پایا حالانکہ کتابوں کی تعداد70یا80  ہو گئی ہے۔ اصل میں مختلف اصناف میں میرا کام ہے۔ بارہ تیرہ شعری مجموعے ہیں، تنقیدی کتابیں ہیں، بارہ تیرہ تحقیقی کاموں پر مشتمل ہیں،بائیس جلدوں پر مشتمل وضاحتی کتابیات ہے، مختلف اصناف کی وجہ سے اتنی کتابیں ہو گئی ہیں۔ میں کچھ ایسی چیزیں لکھنا چاہتا ہوں کہ جو زندہ رہ جائیں میں ابھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہوں۔ بوڑھا بھی ہو گیا ہوں اس لیے زیادہ کام بھی نہیں کر سکتا۔ لیکن لکھنے پڑھنے میں لگا رہتا ہوں، غزلیں نظمیں کہنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلی اپریل(۲۰۱۱ء) کو میری زندگی کے 75 سال مکمل ہو جائیں گے۔ غزلیں ابھی تک ہو رہی ہیں، سوتا ابھی خشک نہیں ہوا۔

٭٭٭

 

 احتشام الحسن

ماہنامہ ’’ بزمِ سہارا‘‘ (نوئیڈا)

            مظفر حنفی اردو کے ممتاز ترین شاعروں میں سے ہیں اور ہندو پاک کے ایسے منفرد غزل گو ہیں جنھیں اپنے لہجے کی بنا پر دور سے پہچانا جاتا ہے، ساٹھ سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں ان کا شمار اس عہد کے مقتدر نقادوں میں ہوتا ہے اور اس میدان میں بھی انھیں صاحب طرز تسلیم کیا جاتا ہے۔

سوال:  تعلیمی سفر میں ادبی سفر کا رجحان کب سے پیدا ہوا ؟

جواب:  میں کانپور اور الٰہ آباد کے مابین واقع ایک قدیم بستی (ہسوہ فتح پور)کے ورنا کیولر مڈل اسکول میں غالباً 1942 تا1945  زیرِ تعلیم تھا، اس کی لائبریری میں بچوں کے لیے بہت اچھی اچھی کتابیں موجود تھیں اور میں اس کا انچارج بنایا گیا تھا۔ عمرو عیّار کی کہانیاں، پھول اور بچوں کے ادبی رسائل، نٹ کھٹ پانڈے، احمد ندیم قاسمی کی بچوں کی کتابیں،مرزا ادیب کی کتابیں الغرض ایک اچھا خاصا ذخیرہ ادب اطفال سے متعلق دستیاب تھا جسے میں نے بڑے ذوق و شوق سے پڑھا، ہماری جماعت میں اکثر اشعار تقطیع کرانے سے لے کر طرحی مصرعوں پر شعر کہنے کی روایت بھی چلی آرہی تھی۔ یہیں سے اردو شعر و ادب سے دلچسپی پیدا ہوئی۔

                        مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے والد صاحب کے پاس کھنڈوا، مدھیہ پردیش چلا گیا، وہاں میرے تایا زاد بھائی کا بڑا کاروبار تھا ان کی دکان پر اس زمانے میں بارہ تیرہ رسالے آتے تھے جن میں ادب لطیف و نیرنگ خیال، ادبی دنیا، ایشیا، شاعر، بیسویں صدی، شمع، آجکل، ماہِ نو، کے نام یاد آتے ہیں، اسی زمانے میں دہلی سے بچوں کا رسالہ کھلونا نکلنا شروع ہوا جس نے سمند شوق پر تازیانے کا کام کیا۔ شاید میں آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ بچوں کے لیے چھوٹی چھوٹی کہانیوں اور نظموں کا سلسلہ شروع ہوا اور یہ چیزیں، کھلونا، پھلواری، کلیاں، جگنو، دوست وغیرہ بچوں کے رسالوں میں شائع ہونے لگیں، یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔

سوال:  بڑوں کے لیے لکھنے کا سلسلہ کب سے شروع کیا اور غزل کی جانب کیوں راغب ہو گئے؟

جواب:  بڑوں کے لیے لکھنے کا آغاز میں نے 1953سے کیا، پہلا افسانہ ’ منت کی چادریں ‘ ہے جو شمع میں اوردوسرا’ اونچی دوکان‘ بیسویں صدی میں شائع ہوا پھر یہ قصہ دراز ہو کر شاہراہ، افکار، شاعر، کردار، شعور، نکہت، آئینہ، صبح نو اور اس دور کے کئی دیگر ادبی رسائل تک پہنچا۔ 1958 میں  میں نے کھنڈواسے ماہنامہ نئے چراغ جاری کیا۔ کچھ تو ادارت کی مصروفیات کے باعث افسانے کے لیے وقت کم پڑنے لگا دوسرے اسی زمانے میں جدیدیت کا رجحان عام ہوا اور علامت پسندی، رمزیت و اشاریت نے اصناف ادب میں ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل کر لی، افسانے کا تو چولہ ہی بدل گیا، یہ صنف سخن، تفصیل و وضاحت کی متقاضی تھی،میرے نزدیک اس میں تجریدیت اور علامت، رمزیت اور اشاریت کی گنجائش کم تھی، ایسا لگتا تھا جیسے مردوں کو عورتوں کے زیور پہنائے جا رہے ہیں، اس لیے میں پٹری بدل کر غزل کی طرف آ گیا، جہاں یہی رمزیت اور اشاریت،ابہام اور علامت پسندی اپنے لیے بڑی گنجائش رکھتی ہے۔ ہر چند کہ میرے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے تھے جن پر فراقؔ، کنہیا لال کپور اور کرشن چندر جیسے عمائدین ادب نے پیش لفظ اور دیباچہ لکھے تھے اور میرے کئی ناول بھی شائع ہو چکے تھے، پھر بھی آجکل اردو والے مجھے بحیثیت شاعر اور نقاد تو بخوبی پہچانتے ہیں لیکن بطور افسانہ نگار کم معروف ہوں۔

سوال:  غزل اور تنقید کے حوالے سے آپ اپنے بارے میں بتائیے؟

جواب:  غزل کے سلسلے میں میرا نظریہ یہ ہے کہ یا تو شعر میں خیال نیا ہو جو بے حد مشکل کام ہے اور اردو ادب کی کئی سو سالہ تاریخ میں جو لاکھوں شاعر گزرے ہیں انھوں نے تقریباً تمام قوافی اور ان کے متعلقات و تلازمات پر خامہ فرسائی کر ڈالی ہے اس لیے عموماً نئے لہجے اور کہنے کے نئے انداز پر توجہ کرنا لازمی ہے، میر تقی میرؔ جیسے خدائے سخن کہلانے والے شاعر نے غلط نہیں کہا:

’’ غزل کہنی نہ آتی تھی تو سو سو شعر کہتے تھے

   مگر اِک شعر بھی اے میرؔ اب مشکل سے ہوتا ہے  ‘‘

            مقامِ شکر ہے اب تک کم و بیش1800 غزلیں کہہ چکا ہوں اور اردو تنقید متفقہ طور پر مجھے ایک خاص طرز کا غزل گو اور مخصوص اسلوب کا حامل شاعر تسلیم کرتی ہے، اس ضمن میں ایک شعر پیش ہے:

 نازک ہے فن شعر مگر طرز نو کے ساتھ

 ہم اس حباب کو بھی سلامت اٹھائیں گے

            عموماً مشکل زمینوں میں شگفتہ شعر نکالنے کی سعی کرتا ہوں۔

سوال:  دوسری زبانوں کے حوالے سے موجودہ وقت میں غزل کو کس نظریہ سے دیکھتے ہیں ؟

جواب:پچھلے دنوں بی بی سی میں رضا علی عابدی نے مجھ سے دو دن تک انٹرویو لیا انھوں نے دورانِ گفتگو کہا کہ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ غزل عالمی پیمانے پر بڑی زبانوں کے ادب سے آنکھیں نہیں ملا سکتی، میں نے جواباً عرض کیا تھا کہ دوسرے الفاظ میں عالمی زبانیں غزل سے آنکھیں نہیں ملا سکتیں، بھائی اگر غزل جیسی نازک اور صرف دو مصرعوں میں گہرے خیال اور پیچیدہ جذبات کو پر تاثیر انداز میں سننے والے کے دل و ذہن تک منتقل کر سکتی ہے اور دوسری زبانوں کو یہ ہنر نہیں آتا تو انھیں شرمندہ ہونا چاہیے۔ ہم کیوں احساس کمتری میں مبتلا ہوں، غزل کی اس ہنر مندی کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ اقبالؔ جیسے عظیم شاعر کی نظم’ شکوہ‘ اور دوسری نظم ’جواب شکوہ ‘کے سینکڑوں اشعار میں جو بات کہی گئی ہے غالبؔ نے اُسے غزل کے ایک شعر میں پوری تاثیر کے ساتھ سمیٹ لیا ہے شعر ہے:

’’ ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

 گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں ‘‘

            ذاتی تجربہ کی ایک مثال ہے 1960تا 1973  میں بھوپال میں مقیم رہا، فضل تابش اور عشرت قادری وغیرہ میرے قریبی دوستوں میں سے تھے۔ اسی زمانے میں دشینت کمار ہم لوگوں کی محفلوں میں بیٹھنے لگے اور میں نے اور فضل تابش نے انھیں غزل کہنے پر آمادہ کیا، اردو کے عروضی نظام سے عدم واقفیت کی وجہ سے ان کے یہاں فنی جھول تو بہت ہیں اور غریب بہت جلد لقمہ اجل بھی ہو گئے۔ لیکن آج دشینت کمار ہندی غزل کا بڑا نام ہے،  موجودہ مشہور کوی مانک ورما بھی میرے شناساؤں میں تھے اور اردو غزل کہتے کہتے ہندی میں گئے ہیں، عہد رواں میں ہندی تو کیا پنجابی،گجراتی، بنگلہ،مراٹھی اور دیگر ہندوستان کی علاقائی زبانوں میں غزل کہی جا رہی ہے، انگریزی، فرانسیسی، جاپانی، چینی نیپالی اور درجنوں دوسری غیر ملکی زبانوں میں غزل کہنے کا رواج پنپ رہا ہے۔ اسی سے غزل کی مقبولیت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کے بریگیڈیئر خواجہ طارق محمود نے فیض احمد فیض، قتیل شفائی، احمد فراز اور مجھ خاکسار کی غزلوں کے مجموعے اس التزام کے ساتھ انگریزی میں ترجمے کیے ہیں کہ ان میں اردو غزل کی طرح قافیہ ردیف کا التزام برقرار ہے۔ اگر غزل میں جاذبیت اور عہد حاضر سے متعلق رہنے کی صلاحیت نہ ہوتی تو ایسے اور اتنے بڑے پیمانے پر لوگ اس کی طرف کیوں مائل ہوتے۔

سوال:   ادبی سفر میں آپ کن لوگوں کو بہتر تسلیم کرتے ہیں ؟

جواب:  آپ نے بڑا سوال خطرناک پوچھا ہے،میرے ہم عصروں میں بہت سے لوگ اردو کی مختلف اصناف میں وقیع اضافہ کر چکے ہیں اور نئی نسل میں بھی بلا مبالغہ درجنوں قلم کار اچھی غزلیں، افسانے اور تنقید لکھ رہے ہیں، کتنی ہی طویل فہرست بنائی جائے، کچھ نام رہ ہی جاتے ہیں، اس لیے اس دلدل میں مت اتاریئے۔

سوال:  کسی ایک شخص کا نام جس کے ادب و تخلیق سے آپ متاثر ہوئے ہوں ؟

جواب:  شاد عارفی کا کلام پڑھنے اور اپنے رسالے نئے چراغ میں شائع کرنے کے بعد میں ان کا گرویدہ ہو گیا، آگے چل کر ان سے تلمیذ کا رشتہ بھی قائم ہوا، اور میں نے پی ایچ ڈی کے لیے ان کے فن اور شخصیت پر تحقیقی مقالہ بھی قلمبند کیا۔ صرف میرے ہی نہیں بیشتر ناقدین کے خیال میں جدیدیت کے رجحان کو فروغ دینے میں یگانہ، فراق اور سب سے زیادہ شاد عارفی کا ہاتھ رہا ہے۔ اپنی طرز کے اس واحد شاعر نے خالص طنز کو غزل میں اس ہنر مندی سے برتا اور ایسے مخصوص لہجے میں شعر کہے کہ سینکڑوں اشعار کے درمیان سے شادؔ عارفی کا شعر بہ آسانی پہچانا جاتا ہے۔

سوال:  جو تنقید آپ پر کی گئی اور آپ نے دوسروں پر کی، اس کے بارے میں بتائیے؟

جواب:  اس سوال کا جواب بہت تفصیل چاہتا ہے۔ مجھ پر پی ایچ ڈی کے دو ایک مقالے بھی لکھے گئے،اوراق، ترسیل، روشنائی، جدید ادب،چہار سو نیز کئی دوسرے رسالوں نے گوشے چھاپے لندن کے سفیر اردو، بھوپال کے صدائے اردو کلکتہ کے مژگان و سرونج کے انتساب نے مظفر حنفی نمبر شائع کیے، ناقدین کے مضامین پر مشتمل دو ضخیم کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں،’ مظفر حنفی : ایک مطالعہ ‘اور’ مظفر حنفی: شخصیت،حیات اور کارنامے‘۔ اسی طرح دوسری کئی کتابوں میں بہت سے مضامین میرے بارے میں مختلف جہات اور مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں کہ ان کے تنوع اور رنگارنگی کا موازنہ میں اپنی تحریروں سے دوچار سطروں میں نہیں کر سکتا۔ سات آٹھ مستقل تنقیدی کتابیں میں نے قلم بند کی ہیں جن میں میر تقی میرؔ و میر حسن، محمد حسین آزاد، حسرتؔ موہانی  اور شادؔ عارفی وغیرہ کے فکر و فن پر مباحث شامل ہیں، تقریباً 150 مضامین میرے تنقیدی مجموعوں میں شامل ہیں،مزید برآں 25برس تک این سی پی یو ایل کے  لیے وضاحتی کتابیات کے22 دفتر تیار کیے جن میں 1976 سے2000 تک اردو میں شائع ہونے والی کتابوں کے مختصر مختصر تعارف شامل ہیں عموماً کوشش کرتا ہوں کہ ایسے موضوعات پر قلم اٹھاؤں جن کی جانب عام ناقدین دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

سوال:  موجودہ دور کے قلم کار تعمیری عمل کر رہے ہیں یا تخریبی؟

جواب:   اچھے بُرے کام ہر دور میں ہر صنف ادب میں ہوتے آئے ہیں لیکن ہمارے زمانے کے ناقدین نے کچھ ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ ادب کو تنقید کا پچھ لگو سمجھا جانے لگا ہے، میں سمجھتا ہوں بڑے سے بڑے تنقید نگار کا مرتبہ تخلیق کار سے بلند نہیں ہوتا، آج کل چھوٹے موٹے درجہ سوئم اور چہارم کے تخلیق کاروں کو ناقدین اپنی سہولت اور قربت کے پیش نظر سچے اور اچھے فنکاروں کے مقابلے میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ اور ان اچھے قلمکاروں کی جانب سے بے اعتنائی کا رویہ اختیار کرتے ہیں جو ان کے آگے پیچھے نہیں گھومتے اور انعامات و اعزازات کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ گر وہ بندی اور جوڑ توڑ، تخلیقی جو ہر اور اعلیٰ ذہانت کے مقابلے میں زیادہ کار گر حربے ہو گئے ہیں۔ اب تو کوئی بھی انعام یا اعزاز اچھے تخلیق کار کی ادبی قامت میں اضافہ نہیں کرتا بھلے ہی تھوڑی بہت مالی اعانت ہو جاتی ہو، ایسے حالات میں یہ توقع کرنا کہ تنقید کے وسیلے سے ادب کی بہبود اور فروغ کے راستے کھلیں گے،شاید مناسب نہیں ہے۔ تخلیق کاروں کو صرف اپنے فن کے تئیں مخلص ہونا چاہیے انعام و اکرام کی لالچ میں پڑ کر فنکار ہمیشہ ذلیل ہوتا ہے:

’’ مظفرؔ پستہ قد تنقید سر پر تاج رکھتی ہے

  کھرا شاعر کبھی عظمت کے چکر میں نہیں رہتا‘‘

            جانبدارانہ تنقید ہو رہی ہے جن کی شاعری کا95فیصدی حصہ مہملیت کا شکار ہے،  ایسے شاعر،نقادوں کے دوست اور خوش آمدی بن کر بڑے سے بڑا انعام و اعزاز حاصل کر لیتے ہیں، ایسے حالات میں ناقدین کی اصابت رائے لائق اعتماد نہیں رہ گئی، غیر جانبداری اور معروضیت کا ہماری تنقید میں زبردست فقدان ہے، ریوڑیاں اندھے اپنوں میں بانٹ رہے ہیں چاہے وہ تنقیدی اسناد کی شکل میں ہوں یا انعام و اکرام کی صورت میں۔

سوال:  نئی نسل کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟

جواب:   نئی نسل کی روش میں اصلاح کی ضرورت ہے، میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ہفتہ میں کم از کم پانچ، چھ کتابیں موصول ہوتی ہیں اور ان کے مصنفین مسلسل فون یاخطوط لکھ کر تقاضے کرتے ہیں کہ تبصرہ کیاجائے۔ ان کتابوں کا تذکرہ سال میں ایک دو بار مختلف مضامین میں تومیں کرتا ہی ہوں در اصل نئی نسل صبر و تحمل کی قائل نہیں ہے جیسی کہ ان سے پیشتر کے لکھنے والوں میں ہوا کرتی تھی۔ بے نیازی اور قلم سے نکلی ہوئی چیزوں سے بے اطمینانی تو لازمی شرطیں ہیں، اچھے اور سچے قلم کاروں کے لیے۔ میرا بیٹا پرویز مظفر انگلینڈ میں مقیم ہے،نظمیں اور غزلیں کہتا ہے۔ وہ کئی سال سے اپنا شعری مجموعہ شائع کرنے کے چکر میں ہے، لیکن میں نے منع کر رکھا ہے کہ پہلے 15 برس تک رسالوں میں اپنا کلام اشاعت کے لیے بھیجو، اس کے بعد مجموعہ شائع کرنا۔ نئی نسل میں بھی کاش کہ اتنا ہی تحمل کا جذبہ پیدا ہو جائے۔ موجودہ زمانے میں اصلاح سخن کی روایت بھی دم توڑ رہی ہے، نہ کسی کہنہ مشق فنکار کو اتنی فرصت ہے کہ وہ دوسروں کی نگارشات کے حسن و قبح پر روشنی ڈالتے ہوئے اس کی اصلاح کرے، اور نہ ہی نئے لکھنے والوں میں یہ جذبہ پایا جاتا ہے کہ ان کا کلام کسی استاد کی اصلاح کا زیر بار ہو، نتیجہ میں فنی خامیوں اور زبان و بیان کی کمزوریوں سے اُبھرنا کارِ دشوار ہے۔

سوال:  آپ اردو والوں کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

جواب:  اپنے دوستوں اور آنے والی نسل سے دست بستہ گزارش کرتا ہوں کہ اُردو کے سلسلے میں دلوں میں زیادہ گنجائش پیدا کریں، وہ نسل جو اس زبان سے جذباتی لگاؤ رکھتی تھی، رفتہ رفتہ معدوم ہوتی جا رہی ہے۔ آنے والے دور میں اردو سے جذباتی لگاؤ رکھنے والے لوگوں کی بڑی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی ثقافت و تہذیب اور شناخت سے نا واقف محض ہو کر نہ رہ جائیں     ٭٭٭

 

 نثار احمد صدیقی

ماہنامہ ’’بے باک‘‘ ( مالیگاؤں )

کوائفِ مظفر حنفی

اصلی نام                        :          محمد ابو المظفر ( تاریخی)

ادبی نام              :          مظفر حنفی(ابتدا میں ہسوی کا سابقہ بھی شامل تھا)

جائے پیدائش:               کھنڈوہ( ایم پی) آبائی وطن: ہسوہ فتح پور (یوپی)

سالِ پیدائش       :          یکم اپریل ۱۹۳۶ء

تعلیم                 :          ایم اے، ایل ایل بی، پی ایچ ڈی، ادیب کامل

پہلی تخلیق         :          ۱۹۵۰ء میں ’ کھلونا‘ ( دہلی) میں بچوں کی کاوشیں کے تحت کہانی

                                    ۱۹۵۳ء میں ’ اُونچی دوکان ‘ (افسانہ )  مطبوعہ بیسویں صدی،دہلی

کتابیں                :          (شاعری)

                                    ٭        ’ پانی کی زبان‘۔ ۱۹۶۷ء

                                    ٭        تیکھی غزلیں۔ ۱۹۶۸ء

                                    ٭       ’عکس ریز‘ (طویل طنزیہ نظم)۔ ۱۹۶۹ء

                                    ٭       ’ صریر خامہ‘۔ ۱۹۷۳ء

                                    ٭       ’ دیپک راگ‘۔ ۱۹۷۴ء

                                    ٭       ’ یم بہ یم‘۔ ۱۹۷۹ء

                                    ٭       ’ طلسمِ حرف‘۔ ۱۹۸۰ء

                                    ٭       ’ کھُل جا سِم سِم‘۔ ۱۹۸۱ء

                                    ٭       ’پردہ سخن کا‘۔ ۱۹۸۶ء

                                    ٭       ’ یا اخی‘۔ ۱۹۸۶ء

                                    ٭       ’پرچمِ گرد باد۔ ۲۰۰۴ء

                                    ٭       ’ ہات اُوپر کیے‘۔ ۲۰۰۲ء

                                    ٭       ’ آگ مصروف ہے،۔ ۲۰۰۴ء

                                    ( تحقیق و تنقید)

                                    ٭       ’شاد عارفی: شخصیت اور فن‘۔ ۱۹۷۸ء

                                    ٭       ’نقد ریزے‘۔ ۱۹۷۸ء

                                    ٭       ’ تنقیدی ابعاد‘۔ ۱۹۸۰ء

                                    ٭       ’ جہات و جستجو‘۔ ۱۹۸۲ء

                                    ٭       ’ غزلیات میر حسن: انتخاب و مقدمہ،۔ ۱۹۹۱ء

                                    ٭       ’ادبی فیچر اور تقریریں ‘۔ ۱۹۹۲ءء

                                    ٭       ’باتیں ادب کی‘۔ ۱۹۹۴ء

                                    ٭       ’ محمد حسین آزاد‘۔ ۱۹۹۶ء

                                    ٭       ’ حسرت موہانی‘ ( کئی زبانوں میں )۔ ۲۰۰۰ء

                                    ٭       ’وضاحتی کتابیات‘( بائیس جلدیں )۔ ۲۰۰۱ء

                                    ٭       ’ لاگ لپیٹ کے بغیر‘۔ ۲۰۰۱ء

                                    ٭       ’ ہندوستان اُردو میں ‘۔ ۲۰۰۷ء

                                    ٭       ’ شاد عارفی: فن اور فنکار‘۔ ۲۰۰۱ء

                                    ٭       ’ مضامینِ تازہ‘۔ ( زیر ترتیب)

                                    (ترتیب و تدوین)

                                    ٭       ’ ایک تھا شاعر‘۔ ۱۹۶۷ء

                                    ٭       ’نثر و غزل دستہ‘۔ ۱۹۶۷ء

                                    ٭       ’شوخیِ تحریر‘۔ ۱۹۷۱ء

                                    ٭       ’ شاد عارفی کی غزلیں ‘۔ ۱۹۷۴ء

                                    ٭       ’ کلیاتِ شادؔ عارفی‘۔ ۱۹۷۵ء

                                    ٭       ’ جدیدیت: تجزیہ و تفہیم‘۱۹۸۵ء

                                    ٭       ’جائزے‘۔ ۱۹۸۵ء

                                    ٭       ’ آزادی کے بعد دہلی میں اردو طنز و مزاح‘۔ ۱۹۹۰ء

                                    ٭       ’شاد عارفی: ایک مطالعہ‘۔ ۱۹۹۲ء

                                    ٭       ’روحِ غزل‘۔ ۱۹۹۴ء

                                    ٭       ’ کلیاتِ ساعر نظامی‘۔ ( تین جلدیں )۔ ۱۹۹۹ء

                                    ٭       ’ شریشٹھ ایکانکی‘ ( ہندی)۔ ۲۰۰۰ء

                                    ٭       ’ مظفر حنفی کی غزلیں ‘( ہندی)۔ ۲۰۰۳ء

                                    ( تراجم)

                                    ٭       ’دہری سازش‘۔ ۱۹۵۵ء

                                    ٭       ’ گلاگ مجمع الجزائر‘ ( تین دفتر)۔ ۱۹۷۵ء

                                    ٭       ’ سخاروف نے کہا‘۔ ۱۹۷۶ء

                                    ٭       ’ گجراتی کے یک بابی ڈرامے‘۔ ۱۹۷۷ء

                                    ٭       ’ اُڑیا افسانے،۔ ۱۹۸۰ء

                                    ٭       ’ بیداری‘۔ ۱۹۸۰ء

                                    ٭       ’بھارتیندو ہریش چندر‘۱۹۸۴ء

                                    ٭       ’ بنکم چندر چٹر جی‘ اور پانچ جاسوسی ناول۔ ۱۹۸۸ء

گفتگو

(۱)       آپ اپنی ذاتی و ادبی زندگی کے کوائف بتائیں ؟

٭       ادبی سفر کا آغاز ۱۹۴۹ء سے۔ ۱۹۵۹ء میں کھنڈوہ سے ماہنامہ ’ نئے چراغ‘ جاری کیا۔ ایم اے، ایل ایل بی اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۷۴ء میں نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ میں اسسٹنٹ پروڈکشن آفیسر(اردو ) کی حیثیت سے تقرر ہوا۔ ۱۹۷۶ء سے ۱۹۸۹ء تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اُردو میں ریڈر کی حیثیت سے تدریس کا فریضہ انجام دیا۔ ۱۹۸۹ء میں کلکتہ یونیورسٹی نے مجھے اقبال چیئر پر پروفیسر کی حیثیت سے فائز کیا۔ مجموعی خدمات کے اعتراف میں مغربی بنگال اُردو اکاڈمی نے کل ہند پرویز شاہدی ایوارڈ، غالب انسٹی ٹیوٹ( دہلی) نے کل ہند فخر الدین علی احمد غالب ایوارڈ برائے تحقیق و تنقید، مدھیہ پردیش اُردو اکادمی نے سراج میر خاں سحر صوبائی اعزاز اور دہلی اُردو اکادمی نے مجموعی شعری خدمات کا انعام پیش کیا۔ نیشنل کونسل آف چائلڈ ایجوکیشن (دہلی)کا قومی اعزاز اور کل ہند میر اکادمی ( لکھنؤ) کا افتخارِ میرؔ اعزاز مل چکا ہے۔ اتر پردیش، دہلی،بہار، مغربی بنگال اور آندھرا پردیش کی اردو اکادمیوں نے میری پینتیس کتابوں کو انعامات سے نوازا ہے۔ مغربی بنگال اُردو اکادمی کی جنرل کونسل نیز گورننگ باڈی کا ممبر اور آل انڈیا ریڈیو کلکتہ کا مشیر رہا۔ میری نگرانی میں کام کر کے درجنوں ریسرچ اسکالروں نے ڈاکٹریٹ حاصل کی ہے۔ ڈاکٹر محبوب راہیؔ نے مظفر حنفی کی حیات، شخصیت اور ادبی خدمات پر تحقیقی کام کر کے ۱۹۸۴ء میں ناگپور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ادارہ ’ صدا‘ لندن نے،لوٹن، انگلینڈ میں میرے اعزاز میں جشن کیا اور توصیفی لوحِ زریں پیش کی،نیز چھ ادبی رسالوں نے میرے فن اور شخصیت پر ضخیم خاص نمبر شائع کیے ہیں۔ متعدد بار برطانیہ، سعودی عرب، پاکستا ن، جرمنی اور متحدہ عرب امارات وغیرہ کے سفر کر چکا ہوں۔

(۲)      آپ شاعری،مضمون نگاری اور افسانہ نگاری ان تینوں اصناف پر طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ ان تینوں اصناف میں سب سے زیادہ کس صنف سے دلچسپی ہے اور کیوں ؟

٭       میرا مقطع سن لیں :

بُری نہیں ہے مظفرؔ کوئی بھی صنف ادب

قلم غزل کے اثر میں رہے تو اچھا ہے

            ادب کی بہترین صفت یہ ہے کہ کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ متاثر کرے۔ تمام زبانوں کی تمام صنفوں میں یہ صفت غزل میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ صرف دو مصرعوں میں وہ باتیں سما جاتی ہیں جن کے لیے دوسری اصناف میں صفحوں پر صفحے لکھے جاتے ہیں۔ اب دیکھیے کہ اقبال کی نظموں ’ شکوہ‘ اور ’ جوابِ شکوہ‘ میں بیسوں بند کھپ گئے جب کہ غالبؔ کے مندرجہ ذیل ایک ہی شعر میں وہ سب کچھ موجود ہے:

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

(۳)     آزاد غزل، نثری غزل اور نثری نظم سے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟

٭       آزاد غزل اور نثری غزل چہ معنی دارد۔ غزل کی صرف ایک شرط ہے کہ وہ اپنی مخصوص ہیئت میں ہو۔ نثری نظم میں کچھ جان ہے لیکن اسے سہل پسندوں نے تختۂ مشق بنا رکھا ہے۔

(۴)      آج کی شاعری کی رفتار سے آپ کس قدر مطمئن ہیں ؟ ترقی پسند شاعری کے بعد جدید شاعری کا دور آیا اور اب مابعد جدید شاعری کا دور ہے۔ اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟تفصیل سے جواب دیں ؟

٭       مطمئن تو نہیں ہوں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنی تمام تر بوالعجبی کے با وصف جدیدیت کے رجحان نے غزل کو عروج پر پہنچا دیا۔ نظم پر خصوصاً ترقی پسند ادبی تحریک کے دور میں شباب آیا۔ مابعد جدیدیت اردو کے دو خود پسند نقاروں کے تنازعات کا ثمر ہے اور کچھ نہیں۔ فلسفیانہ تاویلوں سے ادب کی گھیرا بندی نہیں کی جا سکتی۔

(۵)      آپ کی کون سی تخلیق ہند و پاک میں مقبول ہوئی ہے؟ اور کیا آپ کی تخلیق کاکسی غیر ملکی زبان میں ترجمہ ہوا ہے؟

٭       نثر و نظم میں میں نے اتنا کچھ کہا ہے کہ کسی ایک تخلیق کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا۔ بیشتر چیزوں کے ترجمے ہندی،مراٹھی،گجراتی،ملیالم، بنگالی،پنجابی زبانوں میں ہو چکے ہیں۔ کئی نظموں اور غزلوں کے ترجمے ترکی، انگریزی، جرمن زبانوں میں ہوئے۔

(۶)      ترقی پسند ادب کے زمانے کے ناول’ آگ کا دریا‘‘، ’’ اداس نسلیں ‘‘ اور ’’ خدا کی بستی‘‘ کے مقابلے آج بیس سالوں میں کون سا ناول مارکیٹ میں آیا ہے، جس نے مشاہیر ادب کو متوجہ کیا ہے۔ ان ناولوں کے متعلق اپنا خیال ظاہر کریں ؟

٭       عینی کا ’ گردشِ رنگِ چمن‘، الیاس احمد گدی کا ’ فائر ایریا‘ حسین الحق کا ’ فرات‘ اچھے ناول ہیں، لیکن آپ نے جن ناولوں کا حوالہ دیا ہے ان کے مقابل نہیں رکھے جا سکتے۔

(۷)     موجودہ تنقید کی رفتار سے آپ کس قدر مطمئن ہیں ؟ ترقی پسند تنقید کے بعد جدید تنقید کا دور آیا اور اب ما بعد جدید تنقید کا دور آ گیا ہے۔ اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

٭       قطعی مطمئن نہیں ہوں۔ در حقیقت آج کے نقاد، تخلیق کار اور فنکار سے انصاف کرنے کے بجائے اپنی شخصیت سازی کرتے ہیں،اپنا گروپ تیار کرتے ہیں اور تنقید کو تخلیق کاسرپرست ظاہر کرتے ہیں، جب کہ تنقید بہر حال تخلیق کی ’ پچھ لگّو‘ ہی ہے۔

(۸)      ترقی پسند تحریک نے بہت سارے بلند قد  و قامت کے ادیب پیدا کیے۔ کیا جدیدیت کی تحریک (رجحان ) نے اُن کے مد مقابل ادیب پیدا کیے ؟ اگر کیے ہیں تو پھر آپ ان ادباء کے نام کے ساتھ ان کی خصوصیات بتائیے؟

٭       کیوں نہیں، نام لینے اور اوصاف فراہم کرنے سے فائدہ؟ کوئی ترقی پسند قلمکار جدید لکھنے والوں کی اہمیت کا قائل نہیں ہو گا جیسے کہ بیشتر جدید لکھنے والے بڑے سے بڑے ترقی پسند فنکار کی اہمیت کو رد کرتے ہیں۔ میاں !اچھے لکھنے والے ہر دور، ہر تحریک اور ہر رجحان میں موجود ہوتے ہیں اور اُن سے سوگنازیادہ خراب لکھنے والے سبھی ادوار، تحریکات اور رجحانات کے سائے میں جنم لیتے رہتے ہیں۔

(۹)      ہند و باک کے مشہور شاعر انیس ناگی،وزیر آغا،زبیر رضوی،نداؔ  فاضلی اور گلزار کے متعلق آپ چند ٹھوس تاثرات پیش کیجیے۔

٭       انیس ناگی کا نام آپ نے بیکار لیا۔ وزیر آغا اچھے نقاد،زبیر رضوی،ندا فاضلی اچھے نظم گو  اور گلزار فلموں کے اچھے نغمہ نگار ہیں۔

(۱۰)     ہند و پاک کے اردو رسالوں سے متعلق آپ کی رائے؟

٭       بے شک دونوں طرف اچھے اچھے پرچے نکل رہے ہیں۔ اُدھر ’ افکار‘، ’اوراق‘، ’ صریر‘، ’فنون‘، ’ نقوش‘ جیسے اہم رسالے بند ہوئے لیکن ’ بادبان‘، ’روشنائی‘، ’ تخلیق‘، ’آئندہ‘، ’چہارسو‘، ’آج‘ وغیرہ باقاعدگی سے نہ سہی، شائع ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں ’شب خون‘ جیسا رسالہ بند ہو گیا، ’شاعر‘ جیسا پرچہ تجارت کرنے لگا، ’ بیسویں صدی‘ نے آنکھیں موند لیں لیکن ’ نیا ورق‘، ’ مباحثہ‘،’ انتساب‘، ’ بزم ادب‘، ’ اثبات ‘،’ سب رس‘، ’نئی کتاب‘، ’زبان و ادب‘، ’آج کل‘، ’ ایوانِ اردو ‘، ’ ادب ساز‘، ’کاروان ادب ‘ جیسے درجنوں پرچے نکل رہے ہیں۔ ہر چند کہ ان کی تعداد اشاعت کم ہے لیکن میرا عقیدہ ہے: ’’وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘۔

(۱۱)      بول چال کی سطح پر یوں تو اردو کو فروغ ہو رہا ہے لیکن تلفظ کا معیار دن بہ دن خراب ہو رہا ہے اس مسئلہ کا کیا حل ہے؟

٭       آپ نے درست کہا۔ پہلے فلموں میں اداکاروں کا تلفظ درست کرنے کے لیے اچھے اردو داں ملازم رکھے جاتے تھے، وہ سلسلہ پھر جاری کرنا چاہیے اور اب فلم کے ساتھ ٹیلی ویژن پر بھی تلفظ درست کرنے کا انتظام کیا جانا چاہیے۔

(۱۲)     اردو کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں ؟

٭       بہت سے اقدام سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر کیے جا رہے ہیں جو کافی ہیں۔ اصل مسئلہ اُن پر عمل در آمد کاہے۔ ضرورت اس کی ہے کہ اردو بولنے والے ان میں اشتراک اور دلچسپی لیں۔ جہاں ملازمین اردو کے حقوق کونظر اندازکرتے ہیں ان کی گرفت کریں ضرورت پڑے تو عدالتوں میں جائیں اور اپنے بچوں کوکسی نہ کسی طرح اردو ضرور پڑھائیں۔ اردو کے اخبارات اور کتب خریدیں۔

(۱۳)    کیاہندوستان سے باہر غیر ممالک میں اردو زبان کو کوئی حیثیت حاصل ہے؟ اگر ہے تو کس پیمانے پر، تفصیل سے جواب دیں ؟

٭       آج دنیا کے تقریباً ہر ملک میں اردو بولنے والے پھیل گئے ہیں۔ لیکن ان کے بچے اس پیاری زبان سے نابلد ہیں، ان میں اردو بولنے اور پڑھنے کا شوق اُبھارنا چاہیے۔

(۱۴)     آخری سوال، آب اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کے متعلق رائے دیں ؟

٭       افسانہ نگاری ۱۹۶۰ء تک کی پھر رجحان تبدیل ہو گیا۔ شاعری خصوصاً غزل سے وابستہ ہوں۔ کم وبیش دو ہزار غزلیں ہو چکی ہیں۔ ان میں سو دو اشعار انشاء اللہ زندہ رہیں گے۔ رہ گئی تنقید سو اس کے بارے میں بہت پہلے کہہ چکا ہوں :

کئی نقاد عظمت بانٹتے ہیں

مظفرؔ سر بسر انکار ہو جا

٭٭٭

 

انل کمار شرما

(مترجم: ڈاکٹر سہیل فاروقی)

سہ ماہی ’’ کَنٹمپر  یری وائبِس ‘‘، انگریزی ( چنڈی گڑھ)

انل شرما:    کیا آپ کے حافظے میں بچپن کی یادیں محفوظ ہیں ؟

مظفّر حنفی:   جاگیر دارانہ نظام کے عہدِ زوال میں میں کھنڈوا مدھیہ پردیش میں ایک پرائمری اسکول ٹیچر کے یہاں پیدا ہوا تھا جنھیں قلیل تنخواہ میں ایک بڑے کنبے کی کفالت کرنی پڑتی تھی۔ زمینداری مہاجنوں کے قرض تلے دبی ہوئی تھی اور افلاس کا دور دورہ تھا پھر بھی ہم لوگ والد مرحوم عبد القدوس صاحب کے زیر سایہ ایک کرائے کے مکان میں پُرسکون زندگی بسر کرتے تھے اور تمام تیوہار خوشی خوشی مناتے تھے۔

انِل:     کیا آپ کے والد محترم نے بچپن میں آپ کو لکھنے پڑھنے کی رغبت دلائی اور آگے چل کر ادبی وقار حاصل کرنے میں معاونت کی تھی؟

مظفّر:   میرے والد صاحب خود بھی خامہ فرسائی کرتے تھے ’ منشیؔ‘ ان کا تخلص تھا اور اُن کی تخلیق کردہ چھوٹی چھوٹی نظمیں پرائمری اسکول کے بچے پڑھتے رہتے تھے۔ مرحوم نے میرے اور بہنوں کے لیے بچّوں کے کچھ رسالے جاری کرا دیے تھے جن میں پُر لطف کہانیاں اور نظمیں پڑھنا دوسرے کھیلوں اور تفریحات کے مقابلے میں ہم لوگوں کوزیادہ پسند تھا۔

انِل:     آپ کے بارے میں پڑھا اور سُنا ہے کہ کلاس میں ہم جماعتوں سے عمر میں چھوٹے بھی تھے اور جسمانی اعتبار سے کمزور بھی تھے اور ابتدائی زمانۂ تعلیم میں ایک مقام سے دوسرے مقام کو منتقل ہوتے رہتے تھے۔ اِن پریشانیوں کا سامنا آپ نے کیسے کیا؟ آپ کو ادب سے رغبت کیسے پیدا ہوئی؟

مظفّر:   بے شک میں اُلجھن میں مبتلا رہتا تھا۔ مجھ سے تقریباً دوگنی عمر والے ہم جماعتوں کے تحکمانہ رویَوں کی وجہ سے اسکول میں بھیگی بلّی بنا رہتا۔ گاؤں میں ایک سخت گیر مولوی صاحب مجھے کلامِ مجید حفظ کراتے تھے اور سرزنش کرتے رہتے تھے۔ مجھے کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور اس سلسلے میں مڈل اسکول لائبریری کے انچارج یادو جی کی خاص عنایت مجھ پر تھی۔ میں نے مڈل اسکول کے زمانے میں ہی پہلا شعر بڑی بہن کی فرمائش پر گڑھا تھا اور معاوضے میں ایک آنے کی خطیر رقم اُن سے وصول کی تھی۔ کچھ آگے چل کر کھنڈوہ کے موتی لعل نہرو اسکول میں مجھے ڈیبیٹنگ سوسائٹی (Debating Society) کا سکریٹری بنا دیا گیا اور اس کے مباحثوں میں پیش پیش رہنے کی وجہ سے میں جرأتِ اظہار اور نفاستِ گفتار سے آشنا ہوا۔ اس اسکول سے میں نے ضلع کھنڈوا کے تمام ہندی، گجراتی، مراٹھی اور اردو اسکولوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں بی۔ بی۔ سونی پرائز سے نوازا گیا۔

انِل:     آپ کے چچازاد بھائی مظہر الدین اپنے زمانے کے بڑے فروٹ مرچنٹ تھے جن کا آپ کی زندگی پر بہت اثر پڑا ہے۔ آپ کے نزدیک موصوف نے آپ کی شخصیت کی تشکیل میں کیا کردار ادا کیا؟

مظفّر:   مظہر بھائی ادبی اور ثقافتی انجمنوں کی سرپرستی کرتے تھے ہر چند کہ وہ خود زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے اور لیکن اُن کی ذاتی لائبریری میں بہت اچھی کتابوں کا بڑا ذخیرہ تھا اور اپنے زمانے کے تمام ادبی رسائل ان کے ہاں آتے تھے تن تنہا اپنے خرچ پر عظیم الشان مشاعرے منعقد کرتے تھے جن میں برِّ صغیر ہند کے بہت سے نامور شعرا شرکت کرتے تھے۔

انِل:     آپ کے والد صاحب نے کیا نصیحت کی تھی؟کیا اُن کی باتوں سے ہی آپ کو بڑا ادیب اور ممتاز شاعر بننے کی ترغیب ملی؟

مظفّر:   ایک مرتبہ میں رات گئے تک داستان ’’ طلسمِ ہوشربا‘‘ پڑھتا رہا۔ والدِ مرحوم نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ امتحان کے زمانے میں مجھے یکسوئی کے ساتھ نصابی کتابیں پڑھنی چاہئیں تاکہ خود کتابیں لکھنے کے قابل بن جاؤں جنھیں دوسرے پڑھیں۔ میرے ذہن نے اس ہدایت کا گہرا اثر قبول کیا اور میں نے پہلے کہانیاں اور نظمیں لکھنی شروع کیں پھر بڑوں کے لیے لکھنے لگا اور جلد ہی رسالوں کے مدیران اور ناشرینِ کتب کا پسندیدہ مصنف بن گیا۔

انِل:     آپ نے اپنی پسند کی زندگی بسر کرنے کے لیے کیا کاوشیں کیں ؟

مظفّر:   خاندان کی کمزور اقتصادی حالت کے زیر اثر میں انٹر میڈیٹ کے سالانہ امتحانات سے کچھ پہلے ہی ملازمت کی فکر میں تھا ایسے میں مجھے انڈین ایئر فورس کی جانب سے بھرتی کے لیے امتحان میں شرکت کا بلاوا آ گیا لیکن قسمت نے یاوری نہیں کی۔ میڈیکل میں میرے سینے کی چوڑائی مطلوبہ معیار سے ایک انچ کم تھی۔ یہ امتحان کانپور میں ہوا تھا۔ میں وہیں رُک گیا اور گزر بسر کے لیے ٹیوشن پڑھانے لگا۔ اس زمانے میں میں نے درجنوں افسانے لکھے جو ہند و پاک کے مقتدر رسائل نے شائع کیے۔ میں نے لکھنؤ کے ایک ناشر کی فرمائش پر انگریزی کے جاسوسی ناولوں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا جس سے کچھ رقم مل جاتی تھی۔ پھر میری تقدیر نے کروٹ لی اور مجھے بھوپال سے اپنے ہم وطن اشتیاق عارف صاحب، مدیر روز نامہ ’ افکار‘ کا خط ملا۔

انِل:     پھر آپ نے کیا کیا؟ کیا وہ خط کسی اخباری ملازمت کے سلسلے میں تھا یا کسی دوسرے ادبی کام کے سلسلے میں تھا وہ خط؟

مظفّر:   اشتیاق عارف بھی ہسوہ کے تھے۔ انھوں نے مشورہ دیا تھا کہ میں بھوپال کے قرب و جوار میں کسی اسکول میں ملازمت کر لوں چنانچہ میں بھوپال پہنچ گیا وہاں سے تقریباً چالیس میل کی دوری پر واقع لاڑ کوٹی کے مڈل اسکول میں بحیثیت استاد میرا تقرر ہو گیا۔ یہ ملازمت تین برس تک چلی لیکن چونکہ اس دور افتادہ مقام پر میں اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری نہیں رکھ سکتا تھا،مزید برآں مجھے ایک اور بھی دور افتادہ گاؤں میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا جہاں پہنچنے کے لیے پچیس میل پیدل چلنا پڑتا تھا اس لیے مجھے مستعفی ہونا پڑا۔ بھائی مظہر الدین دوبارہ منظر نامے پر آئے اور انھوں نے مجھے کھنڈوہ بلاکر اپنے کاروبار میں شریک کر لیا۔ وہاں میں نے انجمن ترقی اردو کی شاخ قائم کی اور اسی زمانے میں کچھ دوسرے ادب دوست نوجوانوں سے رابطہ استوار ہوا جن میں حسن رضا، حسن بشیر، علی احمد قریشی، قاضی انصار، ناصر حسین وغیرہ شامل تھے۔ ہم لوگوں نے مل کر کھنڈوہ سے اردو ماہنامہ ’’ نئے چراغ‘‘ نکالا جس کے قلمی معاونین میں ہند و پاک کے چوٹی کے اہلِ قلم شامل تھے۔ میں نے بحیثیت مدیر اعلیٰ اس پرچے کے دس شمارے ایڈٹ کیے اور اسی کے وسیلے سے میرا رابطہ شاد عارفی سے قائم ہوا جن سے آگے چل کر میں شاعری میں مشورۂ سخن کرنے اور اصلاح لینے لگا اور بعد ازاں میں نے  اس عظیم طنز نگار کے فن اور شخصیت پر تحقیقی مقالہ قلمبند کر کے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

انِل:     اسکول میں تدریس کا کام انجام دینے، پھر تجارت میں ساجھے داری کرنے اور معیاری ادبی  نگارشات تخلیق کرنے کے بعد آپ نے محکمۂ جنگلات کی ملازمت کیوں اختیار کر لی؟

مظفّر:   میرے والد صاحب کی خواہش تھی کہ میں سرکاری ملازمت کروں سو میں نے مدھیہ پردیش کے فارسٹ ڈپارٹمنٹ میں نوکری کر لی اور وہاں چودہ برس تک خدمات انجام دیں۔ اس ملازمت کے دوران مجھے زیادہ تر جیپ پر سفر کرنے کا موقعہ ہاتھ آیا اور مناظر فطرت نیز قبائلی زندگی کے نشیب و فراز کا قریب سے گہرا مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔ بھیلوں، گونڈوں اور دیگر قبائل کے آدی واسیوں کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا تھا میں نے ان کے بارے میں کئی افسانے لکھے۔         میں نے کم و بیش ڈیڑھ سو کہانیاں تخلیق کیں، چار ناولوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ آگے چل کر بدلتے ہوئے ادبی مزاج اور علامت پسندی کے رجحان کے فروغ نے مجھے نثر سے شاعری کی طرف مائل کر دیا۔ ہر چند کہ اپنے افسانہ نگاری کے دور میں بھی منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کبھی کبھار غزلیں بھی کہہ لیتا تھا۔ اب میں نے شاعری کو خصوصی اہمیت دے رکھی ہے۔ پیشے کی مجبوری یا کسی اور تقاضے کے تحت نثری اصناف پر بھی طبع آزمائی کرتا رہا ہوں لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہے۔ ۱۹۶۵ء میں میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا اور اس کے نو ماہ بعد والدہ بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئیں۔ ۱۹۶۴ء میں اپنے استاد شادؔ عارفی کی وفات کے بعد میں نے اُن کی شعری اور نثری نگارشات کو جمع کر کے مرتب کرنے اور کتابی شکل میں منظرِ عام پر لانے کا کام اپنے ہاتھوں میں لیا۔

انِل:     تخلیق اور ترجمے کا کام کرنے کے ساتھ آپ کے شانوں پر خاندان کی کفالت کا بار بھی تھا بایں ہمہ آپ نے تعلیمی استعداد کو بڑھانے اور ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ بی۔ اے، ایم۔ اے، اِل اِل۔ بی اور پھر ڈاکٹریٹ وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

مظفّر:   میں نے بی۔ اے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر پاس کیا۔  اِل اِل۔ بی سیہور گورنمنٹ کالج کی ایوننگ کلاسوں میں اور اردو میں ایم۔ اے کی سند برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے حاصل کی۔ ۱۹۷۴ء میں اسی یونیورسٹی نے اپنی پہلی پی ایچ۔ ڈی کی ڈگری مجھے تفویض کی تھی۔ اس کے فوراً بعد مجھے این سی ای آر ٹی (NCERT) دہلی میں اسسٹنٹ پروڈکشن افسر (اردو ) کی حیثیت سے تقرر مل گیا جہاں میں نے اردو میں درسی کتابوں کی تیاری اور اشاعت کے سلسلے کا آغاز کیا۔ ۱۹۷۶ء میں مجھے ایک ساتھ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبۂ اردو میں بطور لکچرر منتخب کیا گیا اور یونیورسٹی گرانٹ کمیشن نے بھی کلیاتِ میرؔ مرتب کرنے کے لیے ایسو سی ایٹ شپ کی پیشکش کی میں نے اوّل الذکر کا انتخاب کیا اور ۱۹۸۴ء میں ریڈر کی حیثیت سے ترقی پائی۔

انِل:     کہا جاتا ہے کلکتہ یونیورسٹی کی اقبال چیئر پر بحیثیت پروفیسر تقرری کے لیے بشمول فیض احمد فیضؔ بہت سے عمائدین ادب متمنّی تھے۔ آپ کو کسی کدو کاوش کے بغیر یہ منصب کیسے مل گیا؟

مظفّر:   یہ حقیقت ہے کہ اردو دنیا میں کلکتہ یونیور سٹی کی اقبال چیئر کو بڑی وقعت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا تھا۔ یونیورسٹی کے ضابطوں کی خانہ پُری میں تاخیر کی وجہ سے فیض احمد فیضؔ اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکے کہیں ۱۹۸۹ء میں جا کر بہت سے نامور دانشوروں پر مشتمل بورڈ نے مجھے اس منصب کو میرے تمام مطالبات منظور کرتے ہوئے پیش کرنے کی سفارش کی اور میں ستمبر ۱۹۸۹ء میں یہ ذمہ داری قبول کر کے دہلی سے کلکتہ منتقل ہو گیا۔ میں احساس تشکر کے ساتھ آج بھی اس محبت اور عقیدت کو یاد کرتا ہوں جو بنگال کے دانشوروں اور ادب دوستوں سے مجھے ملی۔

انِل:     کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ادبی تحریکات عوام کے لیے فائدہ مند ہوتی ہیں ؟ کیا ادب کو نظریات کا پابند ہونا چاہیے؟

مظفّر:   میرے خیال میں ادبی نظریات نے اور تحریکات نے ادب کو جتنا فائدہ پہنچایا ہے اُتنا ہی نقصان بھی پہنچایا ہے مثلاً حالیؔ کے زیر اثر اصلاحی تحریک اور بعد ازاں ترقی پسند تحریک نے نثر، فِکشن اور تنقید کو بیش بہا ترقی سے آشنا کیا لیکن غزل کے لیے یہ تحریکات مضرت رساں ثابت ہوئیں۔ جب کوئی نظریہ یا عقیدہ لکھنے والے کے خون میں رچ بس جاتا ہے تو ادب کے شاہکار وجود میں آتے ہیں بصورتِ دیگر ادب اور آرٹ کے نام پر محض پروپگنڈا سامنے آتا ہے۔ اپنی تخلیقات میں کوشش کی ہے میں نے کہ حقائق کو تخلیقی شان سے پیش کروں۔

انِل:     آپ نے افسانہ، تنقید، تحقیق، ڈراما، سفر نامہ، انٹرویو، ادبِ اطفال اور تراجم وغیرہ متعدد نثری اصناف میں خامہ فرسائی کی ہے اور شعری اصناف میں غزل،پابند اور آزاد نظم، رباعی اور بچوں کی منظومات میں بھی زورِ قلم دکھا یا ہے۔ بتائیں کہ آپ کس صنفِ ادب میں تخلیق کرتے ہوئے زیادہ سکون محسوس کرتے ہیں۔

مظفّر:   ہر چند کہ آپ نے جن اصنافِ نثرو نظم کا تذکرہ کیا ہے میری تصانیف اُن سب پر مشتمل ہیں لیکن بنیادی طور پر میں خود کو ایک غزل گو سمجھتا ہوں میں نے اٹھارہ سو سے زیادہ غزلیں کہی ہیں جن کے چودہ مجموعے منظرِ عام پر آ چکے ہیں اور جلد ہی میری تا حال شعری تخلیقات کا مکمل مجموعہ ’’ کمان‘‘ دو جلدوں میں شائع ہونے والا ہے۔

انِل:     آپ نے اپنی تحریروں میں سماج کے کمزور طبقے کے ساتھ روا رکھی جانے والی بے انصافیوں اور عدم مساوات کے بارے میں پُر زور احتجاج کیا ہے۔ کیا آپ اس طرح اپنے پڑھنے والوں کو سماجی مقصدیت اور ذمہ داری کے احساسات سے آشنا کرنا چاہتے ہیں ؟

مظفّر:   اپنی غزلوں، نظموں اور نثری تحریروں کے وسیلے سے میں نے ہمیشہ بے ایمانی اور بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھائی اور اپنے سماج کے کمزور طبقات کی پسماندگی دُور کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری تخلیقات نے خواہ وہ نثری ہوں یا شعری، دبے کچلے اور استحصال کا شکار ہونے والے لوگوں کی حمایت کی ہے چاہے اُن کا تعلق کسی بھی فرقے یا نظریے سے رہا ہو۔

انِل:     آپ کو ایک مخصوص لہجے کی بِنا پر دُور سے پہچان میں آنے والا تخلیق کار کہا جاتا ہے جس کی مثال ہمعصر ادب میں کہیں نہیں ملتی۔ آپ کے شعروں میں جاری و ساری طنز کی زیریں لہر، اسلوب کی دھار سے آمیز ہو کر آپ کو صاحبِ طرز بناتی ہے۔ کیا نئی نسل کے شاعروں اور نثر نگاروں نے اس سے تاثّر قبول کیا ہے۔

مظفّر:   نئی نسل کے بہت سے غزل کہنے والوں اور مشاعرے کے مشاعروں نے میرے اسلوب کو نمونہ قرار دے کر تقلید کی ہے۔ میری غزلوں اور مضامین کے ترجموں نے دوسری زبانوں کے اہلِ قلم کو بھی اپنی طرف متوجہ کیا ہے اور کئی ریسرچ اسکالروں نے اس طرز میں لکھنے کی سعی کی ہے۔ اب تک میری غزلوں اور دیگر تحریروں کے ترجمے ہندی، انگریزی، مراٹھی، گجراتی، بنگلہ، پنجابی، ترکی، جرمن وغیرہ ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر محبوب راہیؔ نے میری شخصیت اور فن پر پی ایچ۔ ڈی کے لیے جو مقالہ لکھا تھا وہ ۱۹۸۴ء میں شائع ہو چکا ہے اور میری خدمات پر دوسری یونیورسٹیوں میں بھی تحقیقی کام ہو رہے ہیں۔

انِل:     کیا آپ کٹّر پن اور انتہا پسندی کو ہندوستانی سماج کے لیے لعنت تصوّر کرتے ہیں ؟ مذہب پرستی اور اس کی تبلیغ کے بارے میں آپ کے خیالات کیا ہیں ؟

مظفّر:   کٹّرپن کو خواہ اس کا تعلق سماجی مسائل سے ہو یا مذہبی جہات سے، میں سخت نا پسند کرتا ہوں۔ ہر مذہب کی رُوح ہے بنی نوع انسان سے محبت اور ہمدردی۔ ہر چند کہ میں رسمی عبادت کا مخالف نہیں ہوں لیکن میرے خیال میں۔ یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں / کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں۔ حب الوطنی کے جوش میں دوسرے ملکوں کے انسانوں سے نفرت کرنا بھی ہرگز لائقِ تحسین نہیں ہے۔

انِل:     اتنے طویل ادبی سفر میں عمر گزارنے کے بعد کیا آپ اطمینان محسوس کرتے ہیں یا آپ کے خیال میں اس کا روانِ ادب کو، جو آپ کی کاوشوں سے آمادۂ سفر ہے، مزید قیادت درکار ہے؟

مظفّر:   اپنے ماضی پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے بے اطمینانی کا احساس ہوتا ہے کہ بہت سے ادبی کام، جو میں کرنا چاہتا تھا، نا مکمل رہ گئے۔ اب خانگی ذمہ داریوں کے پیشِ نظر میرے لیے انھیں تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں رہا البتہ خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں نے اپنی تمام عملی زندگی ادبی اور تدریسی کاموں میں بسر کی۔ لکھنے پڑھنے کے سوا دوسرے دنیوی مفادات کو کبھی لائقِ اعتنا نہیں سمجھا۔

انِل:     آپ کو اڑتالیس سے زائد انعامات اور اعزاز مل چکے ہیں۔ آپ کو ہندوستان کیا بیرونِ ملک بھی ایک حق گو اور غیر مصلحت پسند قلمکار کی حیثیت سے تسلیم کیا جاتا ہے۔ آپ کے چاہنے والے پوری دنیا میں موجود ہیں۔ کروڑوں شائقین آپ کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں میں دیکھتے اور سنتے ہیں۔ ایسے میں سرکاری انعام و اکرام کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

مظفّر:   میں نے خدا کے علاوہ کسی صاحبِ اقتدار کے سامنے سر جھکایا نہ کسی مفاد کے لیے جوڑ توڑ یا سفارش کا سہارا لیا۔ صرف اور صرف اپنی تخلیقات کے وسیلے سے، سیمناروں، کل ہنداور بین الاقوامی مشاعروں میں شرکت کے ذریعے مقبولیت حاصل کی۔ میں نے خود کو لکھنے پڑھنے کے لیے وقف کر رکھا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہوں کہ زندگی کی آخری سانس تک مجھے علم و ادب کی خدمت میں مصروف رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭٭٭

Anil kumar Sharma

Contemporary Vibes (Chandigarh)

 Prof. Muzaffar Hanfi

Born on April 1, 1936 at khandwa in Madhya Pradesh, in the household of a primary school teacher Abdul auddus, had to recuse his real name Mohd. Abul Muzaffar for his pen name Muzaffar Hanfi, did graduation, post-graduation, law graduation, doctorate from Aligarh and Barkarullah University of Bhopal (M.P.); Prof. Muzaffar Hanfi is a great well known Urdu poet, writer and critic. During the last five decades he has produced valuable literature on modern poetry, short stories, satire, criticism, research, children`s literature and translations. Professor Hanfi has devoted himself to Urdu poetry and literature. A matchless lyricist of our times has 1800 Ghazals to his credit published in 14 collections.

A child prodigy started writing poetry at the age of 14 and thereafter never stopped his caravan, crossed the national boundaries to be applauded abroad, participates and presides over national and international symposiums, seminars, mushairas, a big invite to the universities, acts as guide to research scholars with his knowledge and expertise.

Edited a monthly magazine ‘Naya Charag’ From Khandwa, a widely experienced poet has stints to his credit in Forests of Madhya Pradesh, NCERT of  New Delhi, Jamia Millia Islamia of  New Delhi, Calcutta University of West Bengal.

A profusely decorated and awarded poet has a long list of coveted awards amongst a few given by Urdu Academies of Delhi, West Bengal, Uttar Pradesh, Madhya Pradesh, Bihar, Andhra Pradesh and Karnataka, an Ex-professor of Iqbal Chair at Calcutta University has been recipient of about 48 awards; got produced 80 books to his credit, widely being emulated by the research scholars for his ironic characteristic ghazal compositions.

Literary Legend Speaks

Prof. Muzaffar hanfi – a living literary legend – a prolific perennial source of creative cascades in his unique style of poetics, prose, and criticism- revered and adored all over the world-especially academia and social-service sector, has been too kind enough to give a detailed interview to Anil K. Sharma- to reveal the intricacies of the complex journey of his life spanning more than Seven decades wherein from his childhood to the youthful days, to the evening of his life, a spectrum of cherished memorabilia of longings, struggles, suffocations- all mixed together in the human journey streaked with hurdles, handicaps and hard realism coupled with idealism, humanism, lamentations and struggling spirits,- all inflaming the torch of literature in the inequitable world of ruthless socio-economic disparities-present a scenario of the past, present and future. The timeless conversation shall prove to be eternal in its ethos for research scholars and lovers of literature as a light house to anchor the shores of knowledge and humanity.

Excerpts:

Q, Do you have the reminisces of childhood days?

In the backdrop of gasping zamindari system prevalent in khandwa, Madhya Pradesh, I was born in the  household of a primary school teacher having a big family to support with his meager income, in the midst of money lenders and poverty stricken ruralfolks surrounding my father Abdul Quddus; but we used to be happy celebrating festivals with full gaiety albeit living in a rented accommodation comfortably.

Q. Did your father inspire you at the first instance to be able to read and write and later on to become a literary giant?

My father used to write by the pen-name of ‘Munshi’ his composed rhymes were to be sung by his pupils regularly. My father subscribed for a few children`s magazines for me and my sisters which contained poems and stories that attracted us more than any game or activity.

Q. As you were a much younger and physically timid child in comparison to the other students and had been shifting places of initial learning, how did you cope with the odd situations? What made you to go literary?

I felt perplexed and kept a meek posture as my classmates behaved with me authoritatively as the boys used to be double of my age; I devoted my time in learning rudiments of Holy Quran form a tough master Molvi through  rigorous learning sessions. I was fond of books and our school librarian  Yadav ji did me a lot; I composed my first couplet awhile I was in middle School. It was my maiden commissioned literary job for which I received one ‘Anna’. When I became Secretary of Debating Society of the school, it gave me an impetus and my power of expression got refined with each participation. Ultimately I stood first among all sections of middle schools of Khandwa district.

Q. your father`s nephew Mazharuddin, a leading fruit merchant of his time, had a great role to play in your life, may be shaping your destiny, how did you perceive his role in your life`s strides?

Mazhar Bhai patronized art and literature generously. Although he had no interest, no informal education yet he had good stock of books and magazines: used to do funding of mushairas which were to be attended by distinguished poets of his time.

He had unique philosophy that the educated white-collared ultimately would fall on bad days; one should always try his hands on business. He convinced me to accompany him to important cities with mango and orange consignments; my name was struck off the rolls of the school to be re-admitted; and never to look back there after only to follow the advice of my father.

Q. What did your father advise you? Did he inspire you to be a writer of eminence or to become a distinguished professor?

Once I was reading ‘Tilism-e-Hoshruba’ and it was late night, my father reprimanded me saying that I should devote more time to my studies to be able to write my own books so that other people might read my books. My impressionistic mind picked up this advice and took to writing children`s stories, later short stories for adults. Soon I became popular with the editors and publishers.

Q. How did you choose your avocation to be able to live a life of your choice?

Due to Financial crisis in the family, I was looking for a job just a little before the annual examination, to be called for recruitment in the Indian Air Force. My luck did not help me, I was found to be having an inch less chest expansion; I stayed at Kanpur to have tuition work to have sustenance, wrote short stories which were published in leading magazines of India and Pakistan. I also translated a novel from English to Urdu for a publisher of Lucknow lest my destiny changed with a letter from ishtiaq Aarif, Editor of an Urdu Daily ‘Afkar’ (Bhopal).

Q. What did you do thereafter? Was it employment in the newspaper or some pursuit of literature?

Ishtiaq Aarif belonged to Haswa, who suggested that I should take up job in a school near Bhopal, so I was appointed in a Middle School, 40 kilometers away from Bhopal at Ladkoi. That employment continued for three years but my further studies were hampered due to that remote place. I was transferred to a place which involved a walk of 25 kilometers daily. I had to resign the job. Mazhar Bhai again came to picture, he brought me to Khandwa to be associated with Anjuman Taraqqi-e-Urdu and many literary fellows like Hasan Raza, Ali Ahmad Qureshi, Hasan Bashir, Qazi Ansar, Nasir Husain Etc.

Then, we launched a literary monthly magazine ‘Naye Charag’ giving coverage to the distinguished writers of the subcontinent. I edited ten issues of this magazine and it was there only I was introduced to Shaad Aarifi who later became my literary mentor and guide and thereafter subject of my research.

Q. How did you join Forest Department of Madhya Pradesh after teaching in a school, awhile doing business and being busy in writing literary pieces of excellence?

My father wanted me to join government service, so I joined the forest Department of M. P. and served the department for fourteen  long years, travelled extensively by jeep and had the opportunity to have a close look at virgin nature and rusticity of tribals. The problems faced by them, my quest for knowledge and the passion was quenched to some extent and as it found its vent in the magazine and books authored by me. I published 150 short stories besides translating four novels,but the new environment and changing literary trends diverted me to poetry which I used to compose for a change. Now I mostly compose verse and sometimes write prose. My father expired in 1965 and after sometimes my mother also passed away, when my mentor Shaad Aarifi left this world in 1964, I had to undertake the editing and publication of his works.

Q. Besides the editing and writing you have been shouldering the responsibility of the family. How did you manage to study to improve your formal education viz. doing graduation, post-graduation, law graduation and doctorate etc?

I did graduation in 1960 from Aligarh Muslim University being a private candidate, did bachelor of laws in the evening, passed Masters Degree in Urdu from Barkatullah University, Bhopal. I was the first Ph.D. degree recipient from the same university in 1974. My educational pursuits took me to be the Assistant Production officer (Urdu) at NCERT at new Delhi. There I initiated publication of Urdu books and in 1976 I was offered both Lecturership at Jamia Millia Islamia and UGC Associateship; I accepted the former and became a Reader in 1984.

Q. Iqbal Chair at Calcutta University is said to be a coveted hot seat to be sought by many legendary personalities including Faiz Ahmad Faiz, how did you get the same without much efforts?

It is correct that Iqbal Chair of Calcutta University has its prestigious place in the Urdu world and due to procedural delays Faiz Ahmad Faiz could not adorn the same. It was in 1989, a board of distinguished scholars decided in my favour to offer this honour on my terms and joined the same in September 1989. The love and affection of the scholars, academia and Urdu Academy of West Bengal was immense and gratifying.

Q. Do you believe that the literary movements do benefit the masses and have-nots? Should there be literature with an ideology?

I believe that the literary theory and movements have both contributed as well as done harm to literature; while verse, fiction and criticism flourished under the influence of Altaf Husain Hali`s reform movement and progressive literary movement; but the genre of ghazal got a set back at the same time.

If an ideology or belief is integrated with the sensibilities of the writer, it gives us a good piece of art; otherwise it is sheer propaganda in the name of literature and art. In my creations, I have adhered to the principle of harmonizing realism with creative finish.

Q. the varied forms of literature emanating from your desk are classified as short story, criticism, research, drama, travelogue, interview, children literature, editing and translations, while the verse forms are ghazals, nazms, rubai and poems for children, where do you associate yourself and feel comfortable?

Though I have good number of publication in all these genres of literature, I basically consider myself to be a poet of ghazal- a lyricist. I have composed over 1800 ghazals consisting of fourteen collections and now my complete poetic works are under publication.

Q. You are very vocal in your writing about the inequalities and injustice done to the weaker sections of the society, are you trying to arouse a sense of purpose or sensibilities of the dormant and affluent segments of the society?

Through my ghazals, poems, prose articles etc. I have been writing against corruption and for uplifting the weaker sections of our society as well as for the economic independence of all especially for gender equality.

I am also known for raising a voice in favour of equal justice to all without compromising with the politics or diplomacy of the time. My writings, both prose and poetry, have always been in support of the oppressed without taking into consideration the region, caste, religion or ideological barriers.

Q. As you are known for your distinct tone and tenor which is untraceable in any contemporary poet, the ironic perception of a rare kind emerges coupled with biting diction, is it to be followed by the new generation of poets and research scholars?

Many ghazal writers of new generation are following this trend as an ideal. My translated ghazals and articles have been instrumental in attracting the research scholars to emulate the new and characteristic trend of my writing. The translations have now been done in Hindi, English, Marathi, Gujrati, Bangala, Turkish, German and other languages.

٭٭٭

کتاب ’دو بدو گفتگو ‘کا پہلا حصہ، دوسرا حصہ حاضر جوابیاں کے نام سے الگ شائع کیا جا رہا ہے۔

تشکر: پرویز مظفر، ابن مظفر حنفی، جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید