FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

 

کون ہیں یاجوج و ماجوج ؟

کہاں ہے سدّ ذوالقرنین؟

 

تفاسیر، تواریخ، احادیث و مختلف محققین کے حوالجات

 

 

                محمد انور ایوبی

منماڑ

 

 

 

 

 

کتاب ہٰذا کے محققین، مفسرین و مورخین نے جن کتابوں سے استفادہ کیا :

 

٭قرآن کریم ٭علامہ سیوطی (الدرالمنثور ) ٭علامہ قرطبی (الجامع الاحکام القرآن )

٭ابن جوزی ٭علامہ سیوطی (اللالی الموضوعہ فی الاحادیث الموضوعہ )

٭حافظ ابن کثیر (تفسیر ابن کثیر و البدایہ والنہایہ )

٭علامہ سید محمد بن عبداللہ آلوسی بغدادی (روح المعانی )

٭تفسیر ماجدی (مولانا دریا آبادی ) ٭صحیح بخاری ٭مسند احمد ٭ابو داؤد

٭مسلم شریف ٭جامع ترمذی ٭ابن ماجہ ٭ابن خلدون (مقدمہ ابن خلدون )

٭مولانا انور شاہ کشمیری (عقیدۃ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام )

٭یاقوت حموی (معجم البلدان ) ٭امام احمدحجر عسقلانی (فتح الباری )

٭کعب احبار (اہل کتاب صحابی ) ٭توراۃ (کتاب پیدائش و حزقیل )

٭ابو جعفری محمد طبری (تفسیر ابن جریر ) ٭ابن اثیر (تاریخ کامل ) ٭مسعودی

٭قزوینی ٭اصطخری ٭ادریسی ٭ابوریحان بیرونی

٭امام رازی (مفاتح الغیب (تفسیر کبیر ) ٭انسائیکلو پیڈیا آف اسلام

٭رسالہ اخوان الصفا ٭دائرۃ المعارف بستانی ٭ابو حیان (البحرالمحیط )

٭جوزیفس (عبرانی مورخ ) ٭پرکوپئیس(Procopius)مورخ

٭سر اے ، وی، ولیم جیکسن (مورخ ) ٭ٹسی ٹس (Tacitus)

٭لیڈس (Lydus)مورخ

٭انتھونی جنکسن کی تصنیف (Hakluyt’s Voyages)

٭ایچ والڈ (Eich Wald) کی تصنیف کواکیس ٭انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا

٭بائبل (یوحنا ) ٭الزہری

 

 

 

 

 

                پیش لفظ

 

اس موضوع کی تالیف کا مقصد یہی تھا کہ کسی طرح یاجوج و ماجوج کو ن ہیں اور سد ذوالقرنین کہاں ہے ، ان سوالات کے جوابات قارئین تک پہنچاؤں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب میں نے تفاسیر اور محققین کی ان کتابوں کا مطالعہ کیا جو میرے ذاتی کتب خانہ میں موجود ہیں اور جن میں ان سوالات کے جوابات ملنے کی امید تھی، امید سے زیادہ مواد مجھے دستیاب ہو ا، مگر مجھے محسوس ہوا کہ ان سوالات کا جواب سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کسی کے پاس نہیں ہے۔

جتنے بھی حقائق ان کتابوں میں تحریر ہیں اختلاف سے پُر ہیں۔ حالانکہ محققین نے جتنی جانفشانی سے اور مختلف مستند کتابوں کے حوالوں سے اپنی تحقیقات مکمل کی ہیں ایک قابل تحسین کارنامہ ہے۔ خاص طور پر مولانا ابوالکلام آزاد (ترجمان القرآن )، مولانا حفظ الر حمٰن سیو ہاروی (قصص القرآن )، حضرت مولانا محمد شفیع صاحب (معارف القرآن ) اور حافظ ابن کثیر (تفسیر ابن کثیر اور البدیہ والنہایہ )۔

میں معذرت کے ساتھ انہیں محققین و مفسرین کی تحقیقات کو انہیں کی کتابوں کے حوالوں سے قارئین تک پہنچانے کی جرأت کر رہا ہوں ، تاکہ قارئین بھی ان کی تحقیقات سے مستفیض ہوسکیں اور یاجوج و ماجوج جیسے موضوع پر ان کی معلومات میں اضافہ ہو اور اگر قارئین میں کوئی تحقیق کا جذبہ رکھتا ہو تو وہ ان تحقیقات کو آگے بڑھائے ، کیونکہ مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب کے مطابق جس طرح آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے تک براعظم امریکہ کی کھوج نہیں ہوئی تھی جبکہ اس کا وجود تھا، اب بھی کرہ ارض پر ایسی جگہیں موجود ہو سکتی ہیں جہاں پر باوجود جدید تکنیک و سائنس کی ترقی کے انسان کی رسائی نہ ہوئی ہو، اور کسی ایسی جگہ ہی سد ذوالقرنین موجود ہو۔

جیسا کہ ابھی حال ہی میں آسٹریلیا کے شمالی ساحل پر سائنسدانوں نے ایک ہزار میل لمبی اور تقریباً ۱۲ میل چوڑی دیوار دریافت کی ہے ، جس پر بے شمار مخلوق بسی ہوئی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ خروج یاجوج و ماجوج دجال کے قتل کے بعد واقع ہو گا اور اسے قیامت کی علامتوں میں سے ایک علامت بتایا گیا ہے۔ اسی پر محققین و مفسرین نے سیر حاصل و دقیق تحقیقات کی ہیں اور اکثر مندرجہ باتوں پر متفق نظر آئے ہیں۔

۱۔ یاجوج و ماجوج اولاد آدم ہیں اور نوحؑ کے بیٹے یافث کی نسل سے ہیں۔

۲۔ یاجوج و ماجو ج کا تعلق منگولین قبائل سے ہے۔

۳۔ ان کا خروج قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

۴۔ ان کی تعداد دنیا کے عوام کے مقابلے میں ایک کے مقابلے دس ہو گی۔

۵۔ ہر فرد مرنے سے پہلے اپنی ایک ہزار ذریت چھوڑجاتا ہے ( اس میں کچھ اختلاف ہے۔ )

۶۔ جسامت غیر معمولی، کچھ کا قد درخت کے مانند، کچھ دو دو بالشت کے ، کان اتنے چوڑے کہ ایک کو بچھاتے ہیں دوسرے کو اوڑھتے ہیں ( اس میں بھی کچھ اختلاف ہے۔ )

۷۔ ان کا خروج قتل دجال کے بعد ہو گا۔

۸۔ ذوالقرنین نے انہیں آہنی اور سیسہ یا تانبا پلائی ہوئی دیوار میں قید کر دیا ہے۔

۹۔ سد ذوالقرنین کاکیشیا کے اطراف کے پہاڑوں میں موجود تھی۔

قارئین سب سے بہتر تحقیق مولانا حفظ الر حمٰن سیوہاروی صاحب کی ہے جنہوں نے ہر چیز کو اپنے احاطہ تحقیق میں لے لیا۔ خاص بات کہ یہ تحقیق مولانا نے ڈسٹرکٹ جیل مراد آباد میں اپنے قیام پذیری کے درمیان تحریر کی جبکہ انہیں ۱۹۴۲ ء کے Quit Indiaکی تحریک میں قید کر دیا گیا تھا۔

امید ہے کہ ہر مطالعہ پسند حلقہ و طبقہ اس کتاب کو اپنی قدر شناسی کی نگاہوں میں جگہ دے گا اور ان تمام محققین و مفسرین اور مورخین جنہوں نے اس موضوع پر اتنی جانفشانی سے تحقیق کی ہے ، کے حق میں دعا فرمائے گا۔

محمد انور ایوبی

۱۶ ؍ ذی القعدہ ۱۴۳۵ ھ مطابق ۱۲ ؍ ستمبر ۲۰۱۴ ء

 

 

 

 

 

 

                علم کے دریا سے نکلے غوطہ زن گوہر بدست

 

ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج کون ہیں ؟ سد ذوالقرنین کہاں واقع ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ادیان و مذاہب اور قوموں کی تاریخ میں کبھی بھی دلچسی سے خالی نہیں رہے ہیں ، تاریخ انسانی کے ان مسلمہ اور ناقابل انکار حقیقی کرداروں اور وقائع کو قصہ گو طبائع اور رنگین مزاج مؤرخین نے ’’فقط زیبِ داستاں ‘‘ کے لئے افسانوی کرداروں میں ڈھال رکھا تھا، قرآن مجید کے نزول سے قبل ان کے بارے میں ایسی دیومالائی اور محیر العقول کہانیاں مشہور تھیں جنہیں سن کر انسان انگشت بدنداں رہ جاتا، کچھ لوگوں کے دریافت کرنے پر جب اللہ پاک نے قرآن کریم میں ذوالقرنین اور یاجوج و ماجوج کے بارے میں چند آیتیں نہایت معجزانہ اسلوب میں نازل فرمائیں تو ان کے متعلق بیان کردہ تمام موضوع و من گھڑت، ناقابل اعتماد اور بے سر و پا اسرائیلی و تاریخی روایات کا شیش محل چکنا چور ہو کر رہ گیا۔ دوسری طرف جویائے حق کے لئے تحقیق و جستجو کا ایک معرکۃ الآرا ء موضوع میسر آ گیا۔

مطالعہ و تحقیق کے خوگر مفسرین کرام، عظیم مؤرخین اور ’’ارض قرآن ‘‘ کی سیاحت کرنے والے علما ء و فضلا ء کی آراء میں زبر دست اختلافات پائے جاتے ہیں۔ ان اختلافات کو دیکھ عام قاری سخت تذبذب اور حیرانی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔

قرآن کریم کتابِ ہدایت ہے۔ تاریخ، جغرافیہ یا ریاضی و ہندسہ کی کتاب نہیں ہے کہ تاریخی واقعات اور مقامات کو ماہ و سال کی ترتیب سے اور جغرافیائی و ہندسی ضابطوں اور پیمائشوں   کے لحاظ سے بیان کیاجائے ، قرآن کریم کا یہ ایک اعجازی اسلوب ہے کہ احکام و مواعظ کے درمیان درمیان میں تاریخی واقعات کے صرف اتنے ہی حصہ کو بیان کرتا ہے جتنے کی ضرورت ہو تی ہے اور واقعہ یہ ہے کہ اس موقع پر قصہ کا بیان کردہ اتنا جزء ہی عبرت پذیری اور موعظت و نصیحت کے لئے کافی ہوتا ہے ، غالباً اسی وجہ سے قرآن کریم میں ذوالقرنین، یاجوج و ماجوج اور سد ذوالقرنین کے بارے میں کچھ خاص تفصیلات نہیں ملتیں۔ بقول حضرت مولانا محمد اسلم شیخو پوری مد ظلہ ’’قرآن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ تعالیٰ نے مادی قوت بھی عطا کی تھی اور روحانی و ایمانی طاقت بھی اسے حاصل تھی۔ اس کی فتوحات کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ وہ ایک طرف مشرق کے آخری کنارے اور دوسری طرف مغرب کے انتہائی سرے تک پہنچ گیا تھا۔ اپنی فتوحات کے زمانے میں اس کا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جو پہاڑوں کے درمیان آباد تھی۔ اور ہمیشہ ایک وحشی قوم کے حملوں کا نشانہ بنتی تھی۔ جسے قرآن نے یاجوج و ماجو ج کا نام دیا ہے۔ اس مظلوم قوم کی درخواست پر ذوالقرنین نے ایک ایسی مضبوط دیوار تعمیر کر دی جس کی وجہ سے وہ یاجوج و ماجوج کی یورش اور حملوں سے محفوظ ہو گئے۔ یہ دیوار قربِ قیامت میں ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور یاجو ج و ماجوج پوری دنیا میں پھیل جائیں گے۔ ‘‘ (خلاصۃ القرآن، ص ۱۰۸ )

سورہ کہف کی آیات سے ماخوذ اس مضمون سے جو در س عبرت ہمیں ملتا ہے بقول حضرت مولانا محمد اسلم شیخو پوری یہ ہے کہ ’’ ذوالقرنین مادی وسائل کی بہتات کے باوجود اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا تھا جبکہ مادیت پرست افراد اور بادشاہ ظاہری اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں ، اس وقت مادیت کی بندگی میں پیش پیش ہونے کا سہرہ مغربی تہذیب کے سر بندھتا ہے اور اس تہذیب کا جو سب سے بڑا نمائندہ ظاہر ہو گا اسے زبان نبوت میں ’’دجال ‘‘ کہا گیا ہے۔ اور لگتا یہ ہے کہ اس کے ظہور میں اب زیادہ دیر نہیں ہو گی۔ کیونکہ ایمان اور مادیت کے درمیان آخری معرکہ برپا ہونے میں اب تھوڑا وقت ہی باقی رہ گیا ہے۔ مبارک ہیں وہ لوگ جو دجالی تہذیب اور دجال کے ظہور کے وقت اپنے ایمان بچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ‘‘(ایضاً)

کتاب ’’ کون ہیں یاجوج و ماجو ج ؟ کہاں ہے سد ذوالقرنین ؟ ‘‘ ہمارے محترم و مکرم جناب محمد انور ایوبی سر کی دوسری قابل قدر کاوش ہے۔ اس سے پہلے ’’ غلامان رسول عربی ﷺ ‘‘ کے نام سے ایک گراں قدر کتاب منظر عام پر آ چکی ہے۔ پیش نظر کتاب میں محترم مؤلف نے تفسیر و حدیث اور تاریخ کی معتبر و معتمد کتابوں کا بہت وسیع اور گہرا مطالعہ کر کے یاجوج و ماجو ج اور ذوالقرنین کی تعمیر کردہ دیوار کے متعلق عظیم مفسرین، محدثین اور محققین و مؤرخین کی تحریروں کو نہایت عرق ریزی کے ساتھ جمع کیا ہے اور انہیں بہت سلیقہ کے ساتھ ترتیب دیا ہے۔ جو لوگ قصص قرآنی اور تاریخی مقامات کے بارے میں کچھ پڑھنا اور جاننا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ کتاب دلچسپی اور افادیت سے ہرگز خالی نہیں رہے گی اور چونکہ یاجوج و ماجوج کا ظہور اور سد ذوالقرنین کا ٹوٹنا قیامت کی اہم علامات میں سے ہے ، اس اعتبار سے اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کے لئے نہایت ضروری ہو گا، تاکہ قیامت سے قبل وجود میں آنے والے فتنوں سے ہم باخبر رہیں اور ان سے بچنے کا اہتمام کریں۔

میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ محترم انور سر کو جزائے خیر عطا فرمائے، موصوف کی تمام کاوشوں کو قبول فرمائے، اسے عام قبولیت سے نوازے ، اس کے فائدے کو عام و تام فرمائے اور اسے موصوف کے لئے ذخیرہ آخرت بنائے ، آمین۔

یہ کس کا مضمون ہے

 

 

                یاجوُج ماجوُج

 

از : مولانا نظام الدین اسیر ادروی، صفحہ ۲۵۶

تفسیروں میں اسرائیلی روایات

قَالُوایَا ذَ ا لْقَرْ نَیْنِ ا ِ نَّ یَا جُوْ جِ و مَا جُوْجَ مِفْسِدُوْنَ فیِ الاَرْضِ فَھَلْ نَجْعَلُ لَکَ خَرْ جاً عَلیٰ اَنْ تَجْعَلَ بَیْنَنَا وَ بَیْنَھُمْ سَداً۔ (سورہ کہف ۹۴ )

’’ لوگوں نے کہا کہ ذوالقرنین ! یاجوج ماجوج زمین پر فساد پھیلاتے رہتے ہیں۔ ہم اخراجات کا انتظام کر دیں گے۔ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دیں۔ ‘‘

ذوالقرنین کے ذکر میں قرآن نے اس کا ایک بڑا کارنامہ یہ بتایا کہ اس سے ایک علاقہ کے کچھ لوگوں نے یہ شکایت کی کہ پہاڑی کی دوسری سمت ایسے لوگ آباد ہیں جو ہمہ وقت انسانی آبادی پر تخت و تاراج اور قتل و غارت گیری کرتے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے ہماری زندگی انتہائی تلخ اور مصیبتوں میں گھری رہتی ہے۔ ہم لوگ ان کی فساد انگیزی سے بہت ہی تنگ اور عاجز ہو چکے ہیں۔ بڑا کرم ہوتا کہ آپ ہمیں ان لوگوں سے محفوظ کر دینے کی کوئی تدبیر کرتے اور انہوں نے از خود یہ تجویز پیش کہ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار کھینچ دیں تو ہم ان سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ ہم اس دیوار کے اخراجات پورا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ سکندر نے یہ دیوار تعمیر کرائی جسے عام اصطلاح میں سدّ سکندری کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آیت مذکورہ میں اسی واقعہ کا ذکر ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے بہت ہی عجیب و غریب اور حیرتناک واقعات بیان کئے ہیں جو نہ عقل میں آتے ہیں اور نہ تجربات و مشاہدات اس کی شہادت دیتے ہیں ، اور نہ نقل صحیح سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

 

اسرائیلی روایات

 

علامہ سیوطی نے اپنی تفسیر (الدرالمنثور ج ۵ ص ۲۵۰، ۲۵۱ ) میں حضرت حذیفہؓ کی ایک روایت نقل کی ہے۔ حضرت حذیفہؓ نے کہا میں نے حضور ﷺ سے پوچھا کہ یاجوج ماجوج کیا ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا یاجوج ماجوج ایک امت ہے۔ ان کی ہر امت میں چار لاکھ امتیں ہیں۔ ان میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ ایک ہزار اولاد کو اپنے نطفہ سے نہیں پیدا کر لیتا۔ پوری امت مسلح رہتی ہے۔ میں نے کہا یا رسول اللہؐ ان کی کچھ خاص باتیں بتا دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ان کی تین قسمیں ہیں۔ ان کی ایک صنف ’ازد ‘ کی طرح ہے۔ میں نے کہا ازد کیا چیز ہوتی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا شام میں ایک درخت ہوتا ہے اس کی لمبائی ایک سو بیس ہاتھ ہوتی ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ ان کے لئے نہ پہاڑ رکاوٹ بنتا ہے نہ کوئی ہتھیار ان پر کام کرتا ہے۔ ان کی دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے کان اتنے لمبے چوڑے ہوتے ہیں کہ ایک کان بچھا لیتے ہیں اور دوسرے کان کو اوڑھ لیتے ہیں۔ ان کی راہ میں ہاتھی آ جائے یا کوئ وحشی جانور اونٹ یا سور کسی کو نہیں چھوڑتے سب کو کھا جاتے ہیں ان کی فوج کا اگلا حصہ شام میں ہوتا ہے اور پچھلا حصہ بحیرۂ طبریہ یا مشرق کی نہروں سے پانی پیتا رہتا ہے۔

ابن جریر نے اس سلسلہ میں کچھ موقوف روایتیں بھی نقل کی ہیں۔ علامہ قرطبی نے بھی اپنی تفسیر میں اسی طرح کی کئی روایتوں کو ذکر کیا ہے۔ ان تمام روایتوں میں یاجوج ماجوج کی محیر العقول خصوصیات بیان کی گئی ہیں۔ یہ قطعاً اسلام دشمن بد دینوں اور افترا پردازوں کا گھڑا ہوا فسانہ ہے۔ ان بد بختوں نے حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی کی طرف منسوب کر کے اپنی بد ترین جسارت کا مظاہرہ کیا ہے۔

مذکورہ بالا حدیث مرفوع کو ابن جوزی اور دوسرے لوگوں نے موضوعات میں شمار کیا ہے۔ خود علامہ سیوطی نے اپنی کتاب ’اللالی الموضوعہ فی الاحادیث الموضوعہ ‘ میں اس روایت کو موضوعات میں لکھا ہے۔ اس کے باوجود انہوں   نے اس کو اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے اور وہاں اس کے موضوع ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ یہ حدیث قطعاً موضوع اور گھڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلہ میں عبداللہ بن مسعودؓ ، عبداللہ بن عمر وؓ ، عبداللہ بن عمرؓ اور کعب احبار کی روایتیں اس لئے ذکر کی گئی ہیں تاکہ حدیث مرفوع کی اس سے تائید ہو جائے۔

کعب احبار کی روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کی تین صفتیں ہیں۔ ایک ’ ’ ازد ‘‘ کی طرح ہے۔ ایک صنف چار ہاتھ لمبی ہوتی ہے اور چار ہاتھ چوڑی ہوتی ہے۔ تیسری صنف ان لوگوں کی ہے جو ایک کان بچھالیتے ہیں اور دوسرے کان کو لحاف کی طرح اوڑھ لیتے ہیں۔ ان کی خوراک عورتوں کا نفاس ہے۔

عبداللہ بن عباسؓ کی روایت میں ہے انہوں نے کہا کہ یاجوج ماجوج کا قد ایک بالشت اور دو بالشت ہوتا ہے۔ ان میں جو سب سے لمبے قد والے ہوتے ہیں ان کے قد تین بالشت ہوتے ہیں۔ یہ سب اولاد آدم ہیں ، یعنی انسانوں میں سے ہیں۔ کوئی دوسری مخلوق نہیں ہیں۔ عبداللہ بن عباسؓ نے کہا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے شب معراج قوم یاجوج ماجوج کے پاس لے جایا گیا تھا۔ میں نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور اللہ کی عبادت کرنے کی تبلیغ کی۔ مگر انہوں نے مجھے جواب دینے سے انکار کر دیا۔ وہ سب کے سب جہنمی ہیں۔ وہ تمام مشرک و کافر انسانوں اور شیطانوں کے ساتھ جہنم میں جھونک دیئے جائیں گے۔

عبداللہ بن عمرؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج اولاد آدم میں سے ہیں اگر وہ عام انسانوں میں آباد ہوتے تو لوگوں کی زندگیاں اجیرن ہو جاتیں ان میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اس کی ذریت میں ایک ہزار یا اس سے زائد افراد نہ پیدا ہو جائیں۔ ان لوگوں کے تین فرقے ہیں تاویل، تادیس اور منسلک یا منسک۔

حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ذوالقرنین نے جو دیوار کھڑی کر دی ہے اس کو یاجوج ماجوج روزانہ کھودتے ہیں اور جب اس حد تک کھود لیتے ہیں کہ ذرا سی اور کھدائی کے بعد سورج کی کرنیں اور پار آجائیں گی تو لوٹ جاتے ہیں کہ اب کل کھدائی ہو گی لیکن وہ انشاء اللہ نہیں کہتے ، جب دوسری صبح کو کھدائی کی جگہ پر آتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ دیوار صحیح و سالم ہے اور جیسی تھی ویسی ہو گئی ہے اور دیوار میں کھدائی کا کوئی اثر اور نشان نہیں ہے اور پھر کھدائی شروع کر دیتے ہیں اور شام کو بقیہ کھدائی کل کرنے کے ارادہ سے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور انشا ء اللہ نہیں کہتے ہیں دوسرے دن آتے ہیں تو دیوار کو صحیح و سالم پاتے ہیں۔ اس طرح وہ مسلسل کھدائی جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن اس میں نقب بنانے میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن جب اللہ چاہے گا کہ وہ لوگوں کے درمیان آ جائیں تو اس شام کو واپس جاتے ہوئے کہیں گے کہ انشا ء اللہ کل کھدائی پوری کر لی جائے گی۔ اور دوسری صبح واپس آئیں گے تو کل کھدا ہوا حصہ بدستور رہے گا بقیہ حصے کی کھدائی کر کے وہ نکل پڑیں گے اور انسانی آبادی میں آ جائیں گے۔ وہ سارا پانی پی جائیں گے۔ لوگ مارے دہشت کے چھپ چھپ کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے کوئی ان کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ وہ آسمان کی طرف تیر چلائیں گے کہ ہم نے سارے زمین والوں پر غلبہ حاصل کر لیا اور آسمان والوں پر بھی ہم غالب ہو گئے پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں ایک بیماری پیدا کر دے گا جس کی وجہ سے وہ سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ؐ کی جان ہے زمین کے درندے اتنی لاشیں دیکھ کر مد مست ہو جائیں گے اور کھا کھا کر موٹے ہو جائیں گے اور اللہ کا شکر کریں گے۔ (ماخوذ ترمذی شریف ج ۲ ص ۱۴۴۔ الدرالمنثور ج ۴ ص ۲۵۱ )

 

تنقید و تبصرہ

 

ان روایتوں کے بارے میں حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اور امام ترمذی نے ابو عوانہ کی حدیث جو قتادہ سے نقل کی ہے۔ ذکر کر کے لکھا ہے ’’ غریب لایعرف الامن ھذا لوجہ ‘‘ اس کی سند عمدہ اور قوی ہے لیکن اس کے مفہوم اور متن کو حضور ؐ کی طرف رفع کرنے میں نکارت ہے کیونکہ قرآنی آیت اس سلسلہ میں بہت صریح ہے ’’ مااستطاعو الہ نقبا ‘‘ وہ دیوار کی مضبوطی اور استحکام کی وجہ سے اس میں سوراخ نہیں کر سکتے۔

کعب احبارؓ سے بھی بالکل اسی مفہوم کی ایک روایت منقول ہے۔ یہ پہلے اہل کتاب رہے ہیں۔ اس لئے بنی اسرائیل کے قصوں کے بڑے جاننے والے تھے۔ ہوسکتا ہے ابو ہریرہؓ نے کعب احبارؓ ہی سے یہ روایت لی ہو۔ کیونکہ ابو ہریرہؓ کی نشست و برخاست کعب احبارؓ کے یہاں  تھی اور کعب احبارؓ سے ان کی بات چیت تھی۔ ابو ہریرہؓ کے بیان کرنے کی وجہ سے دوسرے راویوں کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ روایت مرفوع ہے اور انہوں نے روایت کو مرفوعاً بیان کر دیا ہے۔ حافظ ابن کثیر کی یہی رائے ہے۔ واللہ اعلم با لصواب۔

اس سلسلے میں ایک اور اسرائیلی روایت ہے کہ یاجوج ماجوج حضرت آدمؑ کی اس منی سے پیدا ہوئے ہیں جو زمین پر گر کر مٹی میں مل گئی تھی۔ روایت بتاتی ہے کہ حضرت آدمؑ سوئے ہوئے تھے۔ ان کو بد خوابی ہو گئی۔ اس وجہ سے منی مٹی میں مل گئی۔ ان بد بختوں کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ انبیاء کو بد خوابی نہیں ہوتی۔ کیونکہ یہ شیطانی وسوسہ و اندیشہ سے ہوتی ہے اور انبیا ء شیطانی وسوسہ اندازی سے محفوظ ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ انتہائی غریب قول ہے ، جس پر کوئی دلیل نہیں نہ عقل ہی اسے تسلیم کرتی ہے اور نہ نقل سے اس کی تائید ہوتی ہے۔ اہل کتاب اس سلسلہ میں جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں کسی پر اعتماد کرنا جائز نہیں ہے۔ ان کے پاس اس طرح کے بے سر و پا قصوں اور کہانیوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ (ماخوذ از البدایہ والنہایہ، مطبوعہ بیروت۔ ج ۲ ص ۱۱۰ )

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ اصحاب کہف، ذوالقرنین اور یاجوج ماجوج حقائق ثابتہ ہیں قرآن نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ہم ان تمام خرافات اور بیہودہ بکواس سے قطعی انکار کرتے ہیں۔ سہل انگاری کی وجہ سے ان اسرائیلی روایتوں کی نشان دہی کی گئی ان روایتوں نے سچی حقیقتوں کو محیر العقول افسانہ بنا دیا ہے۔ اسلامی روایات ان سے بری ہیں اللہ اور اللہ کا رسول بری ہے۔ ’’ اینما ھی من اخبار بنی اسرائیل و اما ذیبھم و تحریقا تھم و نعوذ بااللہ من ذٰ لک۔ ‘‘

حافظ ابن کثیر نے اپنی مشہور عالم تاریخ میں ان تمام روایتوں پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ وہ روایت جس میں کہا گیا ہے کہ یاجوج ماجوج جو حضر ت آدمؑ کی اس منی سے پیدا ہوئے جو مٹی میں مل گئی تھی اور یہ حضرت حواؑ کے بطن سے نہیں ہیں جیسا کہ شیخ ابو زکریہ نووی نے شرح مسلم میں نقل کیا ہے اس روایت کی ہر ایک نے تضعیف کی ہے اور وہ اسی لائق ہی ہے۔ اس لئے کہ اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور یہ اس حقیقت ثابتہ کے خلاف ہے کہ تمام انسان حضرت نوحؑ کی ذریت سے ہیں اور طوفان نوح میں تمام کافر ہلاک ہو چکے تھے۔ ان کے قد و قامت کے سلسلے میں جو مختلف باتیں کہی گئی ہیں وہ کھجور کے درختوں کی طرح لمبے ہیں۔ ان کی ایک صنف کا قد ایک بالشت دو بالشت ہے یا ایک کان بچھاتے ہیں اور دوسرا اوڑھ لیتے ہیں۔ یہ سارے اقوال بے دلیل اور اٹکل پچوں کی باتیں ہیں۔ اور لوگوں کی قیاس آرائیاں ہیں۔ اس کی نہ کوئی حقیقت ہے نہ اس پر کوئی دلیل صحیح۔ سچی بات یہ ہے کہ وہ عام انسانی شکل و صورت اور قد و قامت کے ہیں۔ حضور ؐ کا ارشاد ہے کہ حضرت آدمؑ کا قد ساٹھ ہاتھ تھا۔ بتدریج انسانی قد گھٹتا جا رہا ہے۔ یہ حدیث قول فیصل ہے۔ اور یہ بات جو کہی جاتی ہے کہ ان میں کا کوئی فرد اس وقت تک نہیں مرتا جب تک اپنے خاندان کے ایک ہزار افراد کو نہیں دیکھ لیتا۔ اگر یہ صحیح حدیث سے ثابت ہوتی تو ہم اس کو ضرور تسلیم کر لیتے ورنہ ہم قطعی طور پر اس کو رد کر دیں گے۔ طبرانی کی روایت جس میں ہے کہ ان کا ہر فرد مرنے سے پہلے ایک ہزار افراد کو چھوڑ جاتا ہے یا اس سے زیادہ کو اور ان کی تین امتیں ہیں تادیل، تادیس، منسک یہ حدیث انتہائی غریب ہے۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس میں شدید نکارت ہے۔ وہ حدیث جو ابن جریر نے اپنی تاریخ میں لکھی ہے کہ حضور ؐ شب معراج میں ان کے پاس گئے اور ان کو دعوت اسلام دی اور انہوں نے قبول نہیں کیا، یہ حدیث موضوع اور گھڑی ہوئی ہے۔ اس کا وضع کرنے والا اپنے زمانے کا سب سے بڑا جھوٹا ابو نعیم عمر و بن الصبح ہے۔ جس نے وضع حدیث کا خود بھی اعتراف کیا ہے۔ (ماخوذ از البدایہ و النہایہ مطبوعہ بیروت مکتبہ المعارف۔ ج ۲ ص ۱۱۰ )

علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر (روح المعانی ج ۶ ص ۳۸، ۳۹ ) میں لکھا ہے کہ کعب احبار کی وہ روایت جس میں کہا گیا ہے کہ یاجوج ماجوج حضرت آدمؑ کی اس منی سے پیدا ہوئے ہیں جو مٹی میں مل گئی تھی اس لئے یہ اولاد آدم میں سے تو ہیں لیکن بغیر حواء کے پیدا ہوئے ہیں۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ان کی پیدائش طوفان نوح سے پہلے ہوئی اور حضرت نوح کی کشتی میں سوار ہونے والوں میں یہ نہیں تھے۔ سوال یہ ہے کہ وہ کہاں محفوظ رہے ؟ یہ بیہودہ بکواس اور خرافات ہے۔ حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ یہ روایت سوائے کعب احبار کے اور کسی سے منقول نہیں ہے اور وہ حدیث مرفوع اس روایت کی تردید کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یاجوج ماجوج نوحؑ کی ذات میں سے ہیں۔ اور یہ قطعی ہے کہ حضرت نوحؑ کی ذریت آد مؑ و حواؑ سے ہے۔ اس لئے کعب احبار کے نام سے جو روایت ہے غلط اور جھوٹی ہے۔ لیکن حدیث مرفوع سے وہ روایت مراد نہیں جو حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے ، جس میں کہا گیا ہے کہ نوحؑ کے تین لڑکے تھے سام، حام، یافث۔ سام کی اولاد میں عرب، ایران اور روم ہیں اور حام کی اولاد میں قبطی، بربر اور حبش ہیں اور یافث کی اولاد میں یاجوج ماجوج اور ترک صقالیہ ہیں۔ کیونکہ ابن حجر نے صاف لکھا ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ البتہ تورات میں ضرور اس کی تصریح موجود ہے کہ یاجوج ماجوج یافث کی اولاد میں ہیں۔ آخر بحث میں آلوسی نے انہیں تمام دلائل کا ذکر کیا ہے جو حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں لکھے ہیں اور ان کی وہی رائے ہے جو حافظ ابن کثیر کی رائے ہے۔

 

دور جدید کے مفسرین کی رائیں

 

مفتی محمد شفیع صاحب کہتے ہیں کہ یاجوج ماجوج کے متعلق اسرائیلی روایات اور تاریخی کہانیوں میں بہت بے سر و پا اور عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں۔ جن مفسرین نے انہیں نقل کیا ہے انہوں نے بھی ان پر اعتماد نہیں کیا ہے اور صرف انہیں تفصیلات کو صحیح تسلیم کیا ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں آئی ہیں۔ اتنایقینی ہے کہ وہ سب اولاد آدم میں سے ہیں اور یافث بن نوح کی اولاد میں ہیں اور عام انسانوں جیسے ہیں۔ ان کا خروج حضرت عیسیٰؑ کا زمانہ ہو گا۔ یاجوج ماجوج نام صرف ان وحشی اور غیر متمدن خونخوار ظالم لوگوں کا ہے جو تمدن سے نا آشنا ہیں۔ (معارف القرآن ج ۵ ص ۶۳۴ )

مولانا دریا آبادی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ یاجوج ماجوج بظاہر یہ وہ منگولی قبیلے معلوم ہوتے ہیں جو پہاڑوں کی دوسری طرف آباد تھے۔ وہ کبھی کبھی موقع پا کر یلغار کرتے ہوئے ترکوں کے درمیان گھس آتے تھے۔ یاجوج ماجوج کا اشتقاق اہل سنت نے مادہ اَجُّ سے کیا ہے جس کے معنی آگ کے شعلہ مارنے اور پانی کے تموج و تلاطم کے ہیں۔ ان کے یہ نام ان کی شدت شورش کی بنا پر پڑے۔ شبّھو ابالنا را المضطربۃ و المیاہ المضمر جۃ لکثرۃ اضطرا بھم (مفردات امام راغب ) بعض نے اسے عجمی نام کہا ہے۔ اسمان اعحمیان بدلیل منع الصرف (کشاف ) بائبل کی کتاب حزقیل کے باب ۳۸، ۳۹ میں یاجوج ماجوج کا ذکر بار بار آیا ہے اور پیش گوئیاں بھی درج ہیں لیکن کچھ تفصیلات بیان نہیں ہوتی ہیں۔ بائبل کے شارحین بھی آج تک ان کی تعین میں مضطرب ہیں۔ کوئی یاجوج ماجوج کو دو قومیں قرار دیتا ہے کوئی کہتا ہے کہ یاجوج ماجوج قوم کا نہیں مقام کا نام ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یاجوج ماجوج یافث بن نوح کی نسل سے ہے۔

عام طور پر ان لوگوں کی سکونت ایشیاء کوچک اور آرمینیا میں سمجھی گئی ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ وہی قومیں ہیں جو سیتھین کہلاتی ہیں۔ بہر حال بائبل اور اس کی شرح سے قرآنی یاجوج ماجوج پر کچھ زیادہ روشنی نہیں پڑتی۔ قرآنی اشاروں سے تو بس اتنا پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی شورہ پشت اور شورش پسند پہاڑی قبیلے تھے اور جو آبادیاں ان کی تاخت کی زد میں تھیں انہوں نے ذوالقرنین سے عرض کیا کہ ہم ان سے سخت پریشان ہیں ، کہئے تو ہم چندہ فراہم کر دیں اور آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک ایسی حد فاصل قرار دے دیں جسے توڑ کر وہ ہم پر حملہ آور نہ ہوسکیں۔ ( ماخوذ از تفسیر ماجدی۔ ص ۶۲۰)

 

                یاجوج ماجوج کی قوم کا ذکر

 

تاریخ ابن کثیر (البدایہ والنہایہ ) جلد ۲؎، ص ۴۴۷

از : علامہ حافظ ابو الفدا عماد الدین ابن کثیر

ذوالقرنین کے ذکر کے ضمن میں قرآن مجید میں یاجوج ماجوج کا جو ذکر آیا ہے اس پر مفسرین کے علاوہ دوسرے راویوں اور مورخین نے بھی کافی گفتگو کی ہے۔ ان کے بنی آدم ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس کا ثبوت صحیحین (صحیح مسلم و بخاری ) کی روایات میں ملتا ہے جو درحقیقت اس سلسلے میں حرف آخر ہے۔

صحیحین میں اس سلسلے کی حدیث نبوی اعمش کی روایت پر مبنی ہے۔ جس میں ابی صالح اور ابی سعید کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ روز قیامت آدم علیہ السلام سے فرمائے گا آدم ! اٹھو اور اپنی ذریت (اولاد ) کو سب سے بڑی آگ میں بھیجو ! ‘‘ آدم علیہ السلام عرض کریں گے ’’ اے پروردگار سب سے بڑی آگ میں بھیجی جانے والی قوم کون سی ہے ؟ ‘‘ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائیں گے ’’ ان تمام بے شمار لوگوں میں سے ہر ہزار میں ، نو سو ننانوے افراد کو آگ میں بھیجو اور صرف ایک قوم کو جنت میں بھیجو۔ کیونکہ دوسری سب قومیں نشہ باز لوگوں کی قومیں ہیں۔ وہ بچوں کو ضائع کرتے اور نشہ کرتے تھے اور نشہ باز سخت عذاب کے مستحق ہیں۔ ‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ! وہ ایک قوم کون سی ہے ؟ ‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’ وہ ایک قوم تم ہو باقی سب لوگ یاجوج ماجوج ہیں۔ ‘‘

راوی نے اس حدیث نبوی کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ یاجوج ماجوج سے مراد کسی قوم کے افراد کی اکثریت ہے جو دوسری قوموں پر اپنی کثرت کی وجہ سے غلبہ پا کر ان کے ہاں قتل و غارت گری کاہنگامہ کرتی رہی ہیں۔ (ترجمۂ مفہومی )

ایک دوسری روایت میں ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ دو قوموں کو جنت میں بھیجنے کاحکم دے گا۔ ‘‘

لوگوں نے پوچھا ’’ یا رسول اللہ (ﷺ ) وہ دو قومیں کون سی ہیں ؟ ‘‘ آپ ؐ نے فرمایا ’’ ایک قوم تم ہو اور دوسری وہ مظلوم قوم ہے جس پر کوئی دوسری قوم اپنی طاقت اور کثرت افواج کی بنا پر غلبہ حاصل کر کے اسے قتل و غارت کرے گی۔ ‘‘ ( ترجۂ مفہوم )

اس کے بعد آپ ؐ نے فرمایا کہ ’’ ان ظالم قوموں میں نوح علیہ السلام کی قوم بھی شامل ہو گی جس کے بارے میں انہوں نے دعا فرمائی تھی کہ ’’ اے اللہ ! اسے روئے زمین پر جہاں پر ہوا سے غارت کر دے اور صرف کشتی والوں کو چھوڑ دے چنانچہ (طوفان کے بعد ) وہ اہل کشتی بچ گئے تھے۔ (ترجمۂ مفہومی )

ایک اور حدیث میں جو مسند امام احمدؒ اور سنن ابو داؤد میں روایت کی گئی ہے بیان کیا گیا ہے کہ آنحضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ نوحؑ کے تین بیٹے تھے سام، حام، یافث۔ سام کی اولاد میں اہل عرب ہیں ، حام کی اولاد میں اہل افریقہ ہیں اور یافث کی اولاد میں ترک ( یعنی مغل ) اور دوسری قومیں ہیں۔ ‘‘

ایک دوسری روایت میں بتایا گیا ہے کہ جب ادھر کے لوگوں کے لئے ذوالقرنین نے دیوار بنا دی تھی تو دوسری طرف کے لوگ جنہیں ان کی کثرت افراد اور کثرت یلغار کی وجہ سے یاجوج ماجوج کہا جاتا تھا اس دیوار کے دوسری طرف کا حصہ ترک کر کے کہیں اور چلے گئے تھے اسی لئے وہ ترک کے نام سے مشہور ہو گئے۔

اس کے علاوہ یاجوج ماجوج کی وجہ تسمیہ اور بھی بتائی گئی ہے اور انہیں عربی، افریقی، ترکی سب قوموں سے الگ بتایا گیا ہے۔ کیونکہ وہ نسلاً الگ تھے لیکن ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ساری دنیا کے انسان حضرت نوحؑ کی اولاد در اولاد ہیں بعض مورخین نے یاجوج و ماجوج سے مراد تاتار سے لی ہے جنہوں نے دوسرے ملکوں کے علاوہ عباسیوں کی حکومت اور بغداد کو تاخت و تاراج کیا تھا۔

 

                یاجوج ماجوج کون ہیں اور کہاں ہیں

                سدّ ذوالقرنین کس جگہ ہے ؟

 

معارف القرآن

جلد پنجم، ص ۶۳۸ تا ۶۵۵

از : حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحبؒ

ان کے متعلق اسرائیلی روایات اور تاریخی کہانیوں میں بہت بے سر و پا اور عجیب و غریب باتیں مشہور ہیں جن کو بعض حضرات مفسرین نے بھی تاریخی حیثیت سے نقل کر دیا ہے ، مگر وہ خود ان کے نزدیک بھی قابل اعتماد نہیں۔ قرآن کریم نے ان کا مختصر سا حال اجمالاً بیان کیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بقدر ضرورت تفصیلات سے بھی امت کو آگاہ کر دیا، ایمان لانے اور اعتقاد رکھنے کی چیز صرف اتنی ہی ہے جو قرآن اور احادیث صحیحہ میں آ گئی ہے۔ اس سے زائد تاریخی اور جغرافیائی حالات جو مفسرین، محدثین اور مورخین نے ذکر کئے ہیں وہ صحیح بھی ہوسکتے ہیں اور غلط بھی، ان میں جو اہل تاریخ کے اقوال مختلف ہیں وہ قرائن اور قیاسات اور تخمینوں پر مبنی ہیں ان کے صحیح یا غلط ہونے کا کوئی اثر قرآنی ارشادات پر نہیں پڑتا۔

میں اس جگہ پہلے احادیث نقل کرتا ہوں جو اس معاملے میں محدثین کے نزدیک صحیح یا قابل اعتماد ہیں اس کے بعد بقدر ضرورت تاریخی روایات بھی لکھی جاوے گی۔

 

یاجوج ماجوج کے متعلق روایاتِ حدیث

 

قرآن اور سنت کی تصریحات سے اتنی بات تو بلا شبہ ثابت ہے کہ یاجوج ماجوج انسانوں ہی کی قومیں ہیں۔ عام انسانوں کی طرح نوحؑ کی اولاد میں سے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی نص صریح ہے و جَعَلُنَا ذُرِّیَّتَہْ ھُمُ الْبَاقِیْنَ۔ یعنی طوفان نوحؑ کے بعد جتنے انسان زمین پر باقی ہیں اور رہیں گے وہ سب حضرت نوحؑ کی اولاد میں ہوں گے۔ تاریخی روایات اس پر متفق ہیں کہ وہ یافث کی اولاد میں ہیں۔ ایک ضعیف حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ ان کے باقی حالات کے متعلق سب سے زیادہ تفصیلی اور صحیح حدیث حضرت نواس بن سمعانؓ کی ہے جس کو صحیح مسلم اور تمام مستند کتب حدیث میں نقل کیا گیا ہے اور محدثین نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔ اس میں خروج دجال، نزول عیسیٰؑ پھر خروج یاجوج ماجوج وغیرہ کی پوری تفصیل مذکور ہے۔ اس پوری حدیث کا ترجمہ حسب ذیل ہے :

حضرت نواس بن سمعانؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک دن صبح کے وقت دجال کا تذکرہ فرمایا اور تذکرہ فرماتے ہوئے بعض باتیں اس کے متعلق ایسی بتائیں کہ جن سے اس کے حقیر اور ذلیل ہونا معلوم ہوتا تھا (مثلاً یہ کہ وہ کانا ہے ) اور بعض باتیں اس کے متعلق ایسی فرمائیں کہ جن سے معلوم ہوتا تھا کہ اس کا فتنہ سخت اور عظیم ہے۔ (مثلاً جنت و دوزخ کا اس کے ساتھ ہونا اور دوسرے خوارق عادات ) آپ ؐ کے بیان سے (ہم پر ایسا خوف طاری ہوا ) گویا دجال کھجوروں کے جھنڈ میں ہے (یعنی قریب ہی موجود ہے ) جب ہم شام کو حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ؐ نے ہمارے قلبی تاثرات کو بھانپ لیا اور پوچھا کہ تم نے کیا سمجھا ؟ ہم نے عرض کیا کہ آپ نے دجال کا تذکرہ فرمایا اور بعض باتیں اس کے متعلق ایسی فرمائیں جن سے اس کا معاملہ حقیر اور آسان معلوم ہوتا تھا، اور بعض باتیں ایسی فرمائیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی بڑی قوت ہو گی اس کا فتنہ بڑا عظیم ہے۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہونے لگا کہ ہمارے قریب ہی وہ کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے۔ حضور ﷺ فرمانے لگے تمہارے بارے میں جن فتنوں کا مجھے خوف ہے ان میں دجال کی نسبت دوسرے فتنہ زیادہ قابل خوف ہیں۔ (یعنی دجال کا فتنہ اتنا عظیم نہیں جتنا تم نے سمجھ لیا ہے ) اگر میری موجودگی میں وہ نکلا تو میں اس کا مقابلہ خود کروں گا (تمہیں اس کے فکر کی ضرورت نہیں ) اور اگر میرے بعد آیا تو ہر شخص اپنی ہمت کے موافق اس کو مغلوب کرنے کی کوشش کرے گا۔ حق تعالیٰ میری غیر موجودگی میں ہر مسلمان کا ناصر و مددگار ہے ( اس کی علامت یہ ہے ) کہ وہ نوجوان سخت پیچدار بالوں والا ہے۔ اس کی ایک آنکھ اوپر کو ابھری ہوئی ہے (اور دوسری آنکھ سے کانا ہے جیسا کہ دوسری روایت میں ہے ) اور اگر میں ( اس کی قبیح صورت میں ) اس کو کسی کے ساتھ تشبیہ دے سکتا ہوں وہ عبد العزیٰ بن قطن ہے۔ (یہ زمانہ جاہلیت میں بنو خزاعہ قبیلہ کا ایک بد شکل شخص تھا ) اگر تم میں سے کسی مسلمان کا دجال کے ساتھ سامنا ہو جائے تو اس کو چاہئے کہ وہ سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھ لے ( اس سے دجال کے فتنہ سے محفوظ ہو جائے گا ) دجال شام اور عراق کے درمیان سے نکلے گا اور ہر طرف فساد مچائے گا۔ اے اللہ کے بندو ! اس کے مقابلے میں ثابت قدم رہنا۔

ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ وہ زمین میں کس قدر مدت رہے گا۔ آپ ؐ نے فرمایا وہ چالیس دن رہے گا لیکن پہلا دن ایک سال کے برابر ہو گا اور دوسرا دن ایک ماہ کے برابر ہو گا اور رتیسرا دن ایک ہفتہ کے برابر ہو گا اور باقی دن عام دنوں کے برابر ہوں گے۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ جو دن ایک سال کے برابر ہو گا کیا ہم اس میں ایک دن کی (پانچ نمازیں ) پڑھیں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا نہیں ، بلکہ وقت کا اندازہ کر کے پورے سال کی نمازیں ادا کرنا ہوں گی۔ پھر ہم نے عرض کیا یا رسول اللہؐ وہ زمین میں کس قدر سرعت کے ساتھ سفر کرے گا۔ فرمایا اس ابر کے مانند چلے گا جس کے پیچھے موافق ہوا لگی ہوئی ہو۔ پس دجال کسی قوم کے پاس سے گذرے گا ان کو اپنے باطل عقائد کی دعوت دے گا وہ اس پر ایمان لائیں گے تو وہ بادلوں کو حکم دے گا تو وہ برسنے لگیں گے اور زمین کو حکم دے گا تو سر سبز و شاداب ہو جائے گی (اور ا ن کے مویشی اس میں چریں گے ) اور شام کو جب واپس آئیں گے تو ان کے کوہان پہلے کی بہ نسبت بہت اونچے ہوں گے اور تھن بھرے ہوئے ہوں گے اور ان کی کوکھیں پُر ہوں گی۔ پھر دجال کسی دوسری قوم کے پاس کے گزرے گا اور ان کو بھی اپنے کفر و اضلال کی دعوت دے گا، لیکن وہ اس کی باتوں کو رد کر دیں گے۔ وہ ان سے مایوس ہو کر چلا جائے گا۔ تو یہ مسلمان لوگ قحط سالی میں مبتلا ہو جائیں گے اور ان کے پاس کچھ مال نہ رہے گا اور ویران زمین کے پاس سے اس کا گزر ہو گا تو وہ اس کو خطاب کرے گا کہ اپنے خزانوں کو باہر لے آ، چنانچہ زمین کے خزانے اس کے پیچھے پیچھے ہولیں گے ، جیسا کہ شہد کی مکھیاں اپنے سردار کے پیچھے ہو لیتی ہیں۔ پھر دجال ایک آدمی کو بلائے گا، جس کا شباب پورے زوروں پر ہو گا، اس کو تلوار مار کر دو ٹکڑے کر دے گا اور دونوں ٹکڑے اس قدر فاصلہ پر کر دیئے جائیں گے جس قدر تیر مارنے والے اور نشانہ کے درمیان فاصلہ ہوتا ہے۔ پھر وہ اس کو بلائے گا (وہ زندہ ہو کر ) دجال کی طرف اس کے اس فعل پر ہنستا ہوا روشن چہرے کے ساتھ آئے گا۔ در ایں اثنا ء حق تعالیٰ حضرت عیسیٰؑ کو نازل فرمائیں گے چنانچہ وہ دو رنگ دار چادریں پہنے ہوئے دمشق کی مشرقی جانب کے سفید مینار ہ پر اس طرح نزول فرمائیں گے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو فرشتوں کے پروں پر رکھے ہوئے ہوں گے۔ جب اپنے سر مبارک کو نیچے کریں گے تو اس سے پانی کے قطرات جھڑیں گے (جیسے کوئی ابھی غسل کر کے آیا ہو ) اور جب سر کو اوپر کریں گے تو اس وقت بھی پانی کے متفرق قطرات جو موتیوں کی طرح صاف ہوں گے ، گریں گے۔ جس کافر کو بھی آپ کی سانس کی ہوا پہنچے گی وہ وہیں مر جائے گا اور آپ کا سانس اس قدر دور پہنچے گا جس قدر دور آپ کی نگاہ جائے گی۔ حضرت عیسیٰؑ دجال کو تلاش کریں گے ، یہاں تک کہ آپ اسے باب لد پر جا پکڑیں  گے (یہ بستی اب بھی بیت المقدس کے قریب اسی نام سے موجود ہے ) وہاں اس کو قتل کر دیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰؑ لوگوں کے پاس تشریف لائیں گے (اور بطور شفقت کے ) ان کے چہروں پر ہاتھ پھیریں گے اور جنت میں اعلی ٰ درجات کی خوش خبری سنائیں گے

حضرت عیسیٰؑ ابھی اسی حالت میں ہوں گے کہ حق تعالیٰ کا حکم ہو گا کہ میں اپنے بندوں میں ایسے لوگوں کو نکالوں گا جن کے مقابلے کی کسی کو طاقت نہیں ، آپ مسلمانوں کو جمع کر کے کوہ طور پر چلے جائیں (چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام ایسا ہی کریں گے ) اور حق تعالیٰ یاجوج ماجوج کو کھول دیں  گے تو وہ سرعت سیر کے سبب ہر بلندی سے پھسلتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ ان میں سے پہلے لوگ بحیرۂ طبریہ سے گزریں گے اور اس کا سب پانی پی کر ایسا کر دیں گے کہ جب ان میں سے دوسرے لوگ اس بحیرہ سے گزریں گے تو دریا کی جگہ کو خشک دیکھ کر کہیں گے کہ کبھی یہاں پانی ہو گا۔

حضرت عیسیٰؑ اور ان کے رفقاء کوہ طور پر پناہ لیں گے ، کھانے پینے کا سامان ساتھ ہو گا، مگر وہ کم پڑے گا، تو ایک بیل کے سر کو سو دینا ر سے بہتر سمجھاجائے گا۔ حضرت عیسیٰؑ اور دوسرے مسلمان اپنی تکلیف دفع ہونے کے لئے حق تعالیٰ سے دعا کریں گے (حق تعالیٰ دعا قبول فرمائیں گے ) اور ان پر وبائی صورت میں ایک بیماری بھیجیں گے اور یاجوج ماجوج تھوڑی دیر میں سب مر جائیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی کوہ طور سے نیچے آئیں گے تو دیکھیں گے کہ زمین میں ایک بالشت جگہ بھی ان کی لاشوں سے خالی نہیں (اور لاشوں کے سڑنے کی وجہ سے ) سخت تعفن پھیلا ہو گا (اس کیفیت کو دیکھ کر دوبارہ ) حضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی حق تعالیٰ سے دعا کریں گے (کہ یہ مصیبت بھی دفع ہو، حق تعالیٰ قبول فرمائیں گے ) اور بہت بھاری بھرکم پرندوں کو بھیجیں گے جن کی گردنیں اونٹ کی گردن کی مانند ہوں گی ( وہ ان لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ کی مرضی ہو گی، پھینک دیں گے ، بعض روایات میں ہے کہ دریا میں ڈالیں گے۔ پھر حق تعالیٰ بارش برسائیں گے۔ کوئی شہر اور جنگل ایسا نہ ہو گا جہاں بارش نہ ہوتی ہو گی۔ ساری زمین دھُل جائے گی اور شیشہ کے مانند صاف ہو جائے گی۔ پھر اللہ تعالیٰ زمین کو حکم فرمائیں گے کہ اپنے پیٹ سے پھلوں اور پھولوں کو اگا دے اور (از سر نو ) اپنی برکات کو ظاہر کر دے (چنانچہ ایسا ہی ہو گا )اور اس قدر برکت ظاہر ہو گی کہ ایک انار ایک جماعت کے کھانے کے لئے کفایت کرے گا، اور لوگ اس چھلکے کی چھتری بنا کر سایہ حاصل کریں گے اور دودھ میں اس قدر برکت ہو گی کہ ایک اونٹنی کا دودھ ایک بہت بڑی جماعت کے لئے کافی ہو گا۔ اور ایک گائے کا دودھ ایک قبیلہ کے سب لوگوں کو کافی ہو جائے گا۔ ایک بکری کا دودھ پوری پوری برادری کو کافی ہو جائے گا۔ (یہ غیر معمولی برکات اور امن و امان کا زمانہ چالیس سال رہنے کے بعد جب قیامت کا وقت آ جائے گا تو اس وقت حق تعالیٰ ایک خوشگوار ہوا چلائیں گے جس کی وجہ سے سب مسلمانوں کی بغلوں کے نیچے ایک خاص بیماری ظاہر ہو جائے گی اور سب کے سب وفات پا جائیں گے اور باقی صرف شریر و کافر رہ جائیں  گے جو زمین پر کھلم کھلا حرام کاری جانوروں کی طرح کریں گے۔ ایسے ہی لوگوں پر قیامت آئے گی۔

اور حضرت عبدالرحمٰن بن یزید کی روایت میں یاجوج ماجوج کے قصہ کی زیادہ تفصیل آئی ہے۔ وہ یہ کہ بحیرہ طبریہ سے گزرنے کے بعد یاجوج ماجوج بیت المقدس کے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ جبل الخمر پر چڑھ جائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کو سب کو قتل کر دیا ہے لو اب ہم آسمان والوں کا خاتمہ کریں۔ چنانچہ وہ تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے ، اور وہ تیر اللہ تعالیٰ کے حکم سے خون آلود ہو کر ان کی طرف واپس آئیں گے (تاکہ وہ احمق یہ سمجھ کر خوش ہوں کہ آسمان والوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ )

صٓحیح بخاری و مسلم میں حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت کے روز اللہ تعالیٰ آدم علیہ السلام سے فرمائیں گے کہ آپ اپنی ذریت میں سے بعث النار (یعنی جہنمی لوگ ) اٹھایئے۔ وہ عرض کریں گے ، اے رب وہ کون ہیں ؟ تو حکم ہو گا ہر ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنمی ہیں اور صرف ایک جنتی ہے۔ صحابۂ کرام سہم گئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہؐ ہم میں سے وہ ایک جنتی کون سا ہو گا ؟ تو آپ ؐ نے فرمایا غم نہ کرو، کیونکہ یہ نو سو ننانوے جہنمی تم میں سے ایک اور یاجوج ماجوج میں سے ہزار کی نسبت سے ہوں گے۔ اور مستدرک حاکم میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کے دس حصے کئے ان میں سے نو حصے یاجوج ماجوج ہیں اور باقی ایک حصہ میں باقی ساری دنیا کے انسان ہیں (روح المعانی )

ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں ان روایات کو ذکر کر کے لکھا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ یاجوج ماجوج کی تعداد ساری انسانی آبادی سے بے حد زائد ہے۔

مسند احمد اور ابو داؤد میں با سناد صحیح حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد ۴۰ سال زمین پر رہیں گے۔ مسلم کی ایک روایت میں جو سات سال کا عرصہ بتلایا گیا ہے حافظ نے فتح الباری میں اس کو موَلّ یا مرجوح قرار دے کر چالیس ہی کا عرصہ صحیح قرار دیا ہے اور حسب تصریح احادیث یہ پورا عرصہ امن و امان اور برکات کے ظہور کا ہو گا۔ بغض و عداوت آپس میں قطعاً نہیں ہو گی۔ (روایت مسلم و احمد )

بخاری نے حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بیت اللہ کا حج و عمرہ خروج یاجوج ماجوج کے بعد بھی جاری رہے گا۔ (تفسیر مظہری )

بخاری و مسلم نے حضرت زینب بنت جحش ام المومنینؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہؐ …(ایک روز ) نیند سے ایسی حالت میں بیدار ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور آپ کی زبان ِ مبارک پر یہ جملے تھے

لا الٰہ الا اللہ ویل للعرب من شرقد اقترب فتح الیوم من روم یاجوج ماجوج مثل ھذہ حلّق تسعین،

اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، خرابی ہے عرب کی اس شر سے جو قریب آچکا ہے آج کے دن یاجوج ماجوج کی روم یعنی سدّ میں اتنا سوراخ کھل گیا ہے اور آپ ؐ نے عقد تسعین یعنی انگوٹھے اور انگشت شہادت کو ملا کر حلقہ بنا کر دکھلایا۔

ام المومنینؓ فرماتی ہیں کہ اس ارشاد پر ہم نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ کیا ہم ایسے حا ل میں  ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ ہمارے اندر صالحین موجود ہیں ؟ آپ ؐ نے فرمایا، ہاں ہلاک ہوسکتے ہیں جبکہ خَبّثْ (یعنی شر ) کی کثرت ہو جائے۔ (مثلہ فی الصحیحین عن ابی ہریرہؓ   کذافی البدایہ و النہایہ لا بن کثیر )اور سد یاجوج ماجوج میں بقدر حلقہ سوراخ ہو جانا اپنے حقیقی معنی بھی ہوسکتا ہے اور مجازی طور سد ذوالقرنین کے کمزور ہو جانے کے معنی میں بھی ہوسکتا ہے۔ (ابن کثیر، ابو حیان )

مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ نے حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا کہ یاجوج ماجوج ہر روز سد ذوالقرنین کو کھودتے رہتے ہیں ، یہاں تک کہ اس آہنی دیوار کے آخری حصہ تک اتنے قریب پہنچ جاتے ہیں کہ باقی کو کل کھود کر پار کر لیں گے مگر اللہ تعالیٰ اس کو پھر ویسا ہی مضبوط درست کر دیتے ہیں اور اگلے روز پھر نئی محنت اس کے کھودنے میں کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ کھودنے میں محنت کا اور پھر منجانب اللہ اس کی درستی کا اس وقت تک چلتا رہے گا جس وقت یاجوج ماجوج کو بند رکھنے کا ارادہ ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس کو کھولنے کا ارادہ فرمائیں گے تو اس روز جب محنت کر کے آخری حد میں پہنچا دیں گے اس دن یوں کہیں گے اگر اللہ نے چاہا تو کل ہم اس کو پار کر لیں گے (اللہ کے نام اور اس کی مشیت پر موقوف رکھنے سے آج توفیق ہو جائے گی ) تو اگلے روز دیوار کا باقی ماندہ حصہ اپنی حالت میں ملے گا اور وہ اس کو توڑ کر پار کر لیں گے۔

ترمذی نے اس روایت کو بسند ابی عوانہ عن قتادہ عن ابی رافع عن ابی ہریرہؓ نقل کر کے فرمایا غریب لالعرفہ الا من ھذا الوجہ۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو نقل کر کے فرمایا اسنادہ جیّدی قوی ولکن متنہ فی نکارۃ (اسناد اس کی جید اور قوی ہے لیکن حضرت ابو ہریرہؓ سے اس کو مرفوع کرنے یا اس کو رسول اللہؐ کی طرف منسوب کرنے میں ایک نکہت و اجنبیت معلوم ہوتی ہے۔ )

اور ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں اس حدیث کے متعلق فرمایا کہ اگر یہ بات صحیح مان لی جائے کہ یہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ کعب احبار کی روایت ہے تب تو بات صاف ہو گئی کہ یہ کوئی قابل اعتماد چیز نہیں اور اگر اس روایت کو وہم راوی سے محفوظ قرار دے کر آنحضرت ﷺ ہی کا ارشاد قرار دیا جائے تو پھر مطلب یہ ہو گا کہ یاجوج جو ماجوج کا یہ عمل سد کو کھودنے کا اس وقت ضرور شروع ہو گا جبکہ ان کے خروج کا وقت قریب آجائے گا۔ اور قرآنی ارشاد کہ اس دیوار میں نقب نہیں لگائی جا سکتی۔ یہ اس وقت کا حال ہے جبکہ ذوالقرنین نے اس کو تعمیر کیا تھا۔ اس لئے کوئی تعارض نہ رہا۔ نیز یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ نقب سے مراد دیوار کا وہ رخنہ یا سوراخ ہے جو آر پار ہو جائے ، اور اس روایت میں اس کی تصریح موجود ہے کہ یہ سوراخ آر پار نہیں ہوتا۔ (ہدایہ، ج ۲، ص ۱۱۳ )

حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں اس حدیث کو عبد بن حمید اور ابن حسان کے حوالے سے بھی نقل کر کے کہا ہے کہ ان سب کی روایت حضرت قتادہؓ سے ہے اور ان میں سے بعض کی سند کے رجال صحیح بخاری کے رجال ہیں۔ اور حدیث کے مرفوع قرار دینے پر بھی کوئی شبہ نہیں کیا، اور بحوالہ ابن عربی بیان کیا کہ اس حدیث میں تین آیات الٰہیہ یعنی معجزات ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذہنوں کو اس طرف متوجہ ہونے دیا، کہ سد کو کھودنے کا کام رات دن مسلسل جاری رکھیں ، ورنہ اتنی بڑی قوم کے لئے کیا مشکل تھا کہ دن اور رات کی ڈیوٹیاں الگ الگ مقرر کر لیتے ، دوسرے ان کے ذہنوں کو اس طرف سے پھیر دیا کہ سد کے اوپر چڑھنے کی کوشش کریں۔ اس کے لئے آلات سے مدد لیں حالانکہ وہب بن منبہ کی روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لو گ صاحب زراعت و صناعت ہیں، ہر طرح کے آلات رکھتے ہیں ، ان کی زمین میں درخت بھی مختلف قسم کے ہیں۔ کوئی مشکل کام نہ تھا کہ اوپر چڑھنے کے ذرائع وسائل پیدا کر لیتے ، تیسرے یہ کہ ساری مدت میں ان کے قلوب میں یہ بات نہ آئے کہ انشاء اللہ کہہ لیں ، صرف اس وقت یہ کلمہ ان کی زبان پر جاری ہو گا، جب ان کے نکلنے کا وقت مقررہ آ جائے گا۔

ابن عربی نے فرمایا کہ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یاجوج ماجوج میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے وجود اور اس کی مشیت و ارادے کو مانتے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر کسی عقیدے ہی ان کی زبان پر اللہ تعالیٰ یہ کلمہ جاری کر دے ، اور اس کی برکت سے ان کا کام بن جائے۔ (اشراط الساعۃ للسید محمد، ص ۱۵۴ ) مگر ظاہر یہی ہے کہ ان کے پاس بھی انبیا ء علیہم السلام کی دعوت پہنچ چکی ہے۔ ورنہ نص قرآنی کے مطابق ان کو جہنم کا عذاب نہ ہونا چاہئے وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتَّی نَبْعَثَ رَسُوْلاً، معلوم ہوا کہ دعوت ایمان ان کو بھی پہنچی ہے ، مگر یہ لوگ کفر پر جمے رہے ، ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہوں گے جو اللہ کے وجود اور اس کے ارادہ و مشیت کے قائل ہوں گے ، اگر چہ صرف اتنا عقیدہ ایمان کے لئے کافی نہیں جب تک رسالت اور آخرت پر ایمان نہ ہو، بہر حال انشاء اللہ کا کلمہ کہنا باوجود کفر کے بھی بعید نہیں۔

 

روایات حدیث سے حاصل شدہ نتائج

 

مذکورالصدر احادیث میں یاجوج ماجوج کے متعلق جو باتیں رسول اللہ ﷺ کے بیان سے ثابت ہوئیں وہ حسب ذیل ہیں ،

۱) یاجوج ماجوج عام انسانوں کی طرح انسان حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں، جمہور محدثین و مورخین ان کو یافث ابن نوحؑ کی اولاد قرار دیتے ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ یافث ابن نوحؑ کی اولاد نوح علیہ السلام کے زمانے سے ذوالقرنین کے زمانے تک دور دور تک مختلف قبائل اور مختلف قوموں اور مختلف آبادیوں میں پھیل چکی تھی۔ یاجوج ماجوج جن قوموں کا نام ہے یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب سد ذوالقرنین کے پیچھے ہی محصور ہو گئے ہوں ، ان کے کچھ قبائل اور قومیں سد ذوالقرنین کے اس طرف بھی ہوں گے ، البتہ ان میں سے جو قتل و غارت گری کرنے والے وحشی لوگ تھے وہ سد ذوالقرنین کے ذریعے روک دیئے گئے …مورخین عام طور سے ان کو ترک اور مغول یا منگولین لکھتے ہیں مگر ان میں سے یاجوج ماجوج نا م …صرف ان وحشی غیر متمدن خونخوار ظالم لوگوں کا ہے جو تمدن سے آشنا نہیں ہوئے۔ انہی کی برادری کے مغل اور ترک یا منگولین جو متمدن ہو گئے وہ اس نام سے خارج ہیں۔

۲) یاجوج ماجوج کی تعداد پوری دنیا کے انسانوں کی تعداد سے بدرجہا زائد، کم از کم ایک اور دس کی نسبت سے ہے۔

۳) یاجوج ماجوج کی جو قومیں اور قبائل سد ذوالقرنین کے ذریعہ اس طرف آنے سے روک دیئے گئے ہیں وہ قیامت کے بالکل قریب تک اسی طرح محصور رہیں گے ، ان کے نکلنے کا وقت مقرر ظہور مہدیؑ پھر خروج دجال کے بعد وہ ہو گا جبکہ عیسیٰؑ نازل ہو کر دجال کو قتل کر چکیں گے (حدیث نمبر ۱ )

۴) یاجوج ماجوج کے کھلنے کا وقت سد ذوالقرنین منہدم ہو کر زمین کے برابر ہو جائے گی۔ (آیات قرآن ) اس وقت یاجوج ماجوج کی بے پناہ قومیں بیک وقت پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتی ہوئی سرعت رفتار کے سبب ایسی معلوم ہوں گی کہ گویا پھسل پھسل کر گر رہے ہیں۔ اور یہ لا تعداد وحشی انسان عام انسانی آبادی اور پوری زمین پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے قتل و غارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔ اللہ کے رسول حضرت عیسیٰؑ بھی با مر الٰہی اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر کوہ طور پر پناہ لیں گے اور عام دنیا کی آبادیوں میں جہاں کچھ قلعے یا محفوظ مقامات ہیں وہ ان میں بند ہو کر اپنی جانیں بچائیں گے۔ کھانے پینے کا سامان ختم ہو جانے کے بعد ضروریات زندگی انتہا گراں ہو جائے گی۔ باقی انسانی آبادی کو یہ وحشی قومیں ختم کر ڈالیں گی۔ ان کے دریاؤں کو چاٹ جائیں گی۔

۵) حضرت عیسیٰؑ اور ان کے رفقاء کی دعا سے پھر یہ ٹڈی دل قسم کی بے شمار قومیں بیک وقت ہلاک کر دی جائیں گی۔ ان کی لاشوں سے ساری زمین پٹ جائے گی۔ ان کی بدبو کی وجہ سے زمین پر بسنا مشکل ہو جائے گا۔

۶) پھر حضرت عیسیٰؑ اور ان کے رفقا ء ہی کی دعا سے ان کی لاشیں دریا برد یا غائب کر دی جائیں گی اور عالمگیر بارش کے ذریعے پوری زمین کو دھوکر پاک و صاف کر دیا جائے گا۔

۷) اس کے بعد تقریباً چالیس سال امن و امان کا دور دورہ ہو گا۔ زمین اپنی برکات اگل دے گی۔ کوئی مفلس محتاج نہ رہے گا۔ کوئی کسی کو نہ ستائے گا، سکون و اطمینان آرام و راحت عام ہو گی۔

۸) اس امن و امان کے زمانے میں بیت اللہ کا حج و عمرہ جاری رہے گا۔ حضرت عیسیٰؑ کی وفات اور روضہ اقدس میں دفن روایات حدیث سے ثابت ہے۔ اس کی بھی یہی صورت ہو گی کہ وہ حج و عمرہ کے لئے حجاز کا سفر کریں گے (کما رواہ مسلم عن ابی ہریرہؓ التصریح ) اس کے بعد مدینہ طیبہ میں وفات ہو گی۔ روضہ اقدس میں دفن کیا جائے گا۔

۹ ) رسول اللہ ﷺ کے آخری زمانے میں بذریعہ وحی خواب آپ کو دکھلایا گیا سد ذوالقرنین میں ایک سوراخ ہو گیا ہے جس کو آپ ؐ نے عرب کے لئے شر اور فتنہ کی علامت قرار دی۔ اس دیوار میں سوراخ ہو جانے کو بعض محدثین نے اپنی حقیقت پر محمول کیا ہے اور بعض نے اس کا مطلب بطور استعارہ اور مجاز کے یہ قرار دیا ہے کہ اب سد ذوالقرنین کمزور ہو چکی ہے ، خروج یاجوج ماجوج کا وقت قریب آ گیا ہے اور اس کے آثار عرب قوم کا تنزل و انحطاط کے رنگ میں ظاہر ہوں گے۔ (واللہ اعلم )

۱۰ ) حضرت عیسیٰؑ کے نزول کے بعد ان کا قیام زمین پر چالیس سال ہو گا۔ ان سے پہلے حضرت مہدی علیہ السلام کا زمانہ بھی چالیس سال رہے گا جس میں کچھ حصہ دونوں کے اجتماع و اشتراک کا ہو گا۔ سید شریف برزنجی نے اپنی کتاب اشراط الساعۃ صفحہ ۱۴۵ میں لکھا ہے کہ عیسیٰؑ کا قیام قتل دجال اور امن و امان کے بعد چالیس سال ہو گا اور مجموعۂ قیام پینتالیس سال ہو گا اور صفحہ ۱۱۲ میں ہے کہ مہدی علیہ السلام حضرت عیسیٰؑ سے تیس سے اوپر کچھ سال پہلے ظاہر ہوں گے اور ان کا مجموعۂ زمانہ چالیس سال ہو گا۔ اس طرح پانچ یا سات سال تک دونوں حضرات کا اجتماع رہے گا۔ اور ان دونوں زمانوں کی یہ خصوصیت ہو گی کہ پوری زمین پر عدل و انصاف کی حکومت ہو گی۔ زمین اپنی برکات و خزائن اگل دے گی۔ کوئی فقیر و محتاج نہ رہے گا۔ لوگوں کے آپس میں بغض و عداوت قطعاً نہ رہے گی۔ ہاں مہدی علیہ السلام کے آخری زمانے میں دجال اکبر کا فتنہ عظیم سوائے مکہ اور مدینہ اور بیت المقدس اور کوہ طور کے سارے عالم پر چھا جائے گا اور یہ فتنہ دنیا کے تمام فتنوں سے عظیم تر ہو گا۔ دجال کا قیام اور فساد صرف چالیس دن رہے گا مگر ان چالیس دنوں میں پہلا دن ایک سال کا دوسرا دن ایک مہینہ کا اور تیسرا دن ایک ہفتہ کا ہو گا۔ باقی دن عام دنوں کی طرح ہوں گے ، جس کی صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ حقیقتاً یہ دن اتنے طویل کر دیئے جائیں ، کیونکہ اس آخر زمانے میں تقریباً سارے واقعات خرق عادت اور معجزہ کے ہوں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ دن رات تو اپنے معمول کے مطابق ہوتے رہیں مگر دجال کا بڑا ساحر ہونا حدیث سے ثابت ہے ، ہوسکتا ہے کہ اس کے سحر کے اثر سے عام مخلوق کی نظروں پر یہ دن رات کا تغیر و انقلاب ظاہر نہ ہو۔ وہ اس کو ایک ہی دن دیکھتے اور سمجھتے رہیں۔ حدیث میں جو اس دن کے اندر عام دنوں کے مطابق اندازہ لگا کر نمازیں پڑھنے کا حکم آیا ہے ، اس سے بھی تائید اس کی ہوتی ہے کہ حقیقت کے اعتبار سے تو دن رات بدل رہے ہوں گے مگر لوگوں کے احساس میں یہ بدلنا نہیں ہو گا۔ اس لئے اس ایک سال کے دن میں تین سو ساٹھ دنوں کی نمازیں ادا کرنے کا حکم دیا گیا ورنہ اگر دن حقیقتاً ایک ہی دن ہوتا تو قواعد شرعیہ کی رو سے اس میں صرف ایک ہی دن کی پانچ نمازیں فرض ہوتیں ، خلاصہ یہ ہے کہ دجال کا کل زمانہ اس طرح چالیس دن کا ہو گا۔

اس کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہو کر دجال کو قتل کر کے اس فتنہ کو ختم کریں گے۔ مگر اس کے متصل ہی یاجوج ماجوج کا خروج ہو گا جو پوری دنیا میں فساد اور قتل و غارت گری کریں گے مگر ان کا زمانہ بھی چند ایام ہی ہوں گے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعا سے یہ سب بیک وقت ہلا ک ہو جائیں گے غرض حضرت مہدی علیہ السلام کے زمانے کے آخر میں اور عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے کے شروع میں دو فتنے دجال اور یاجوج ماجوج کے ہوں گے جو تمام زمین کے لوگوں کو تہہ و بالا کر دیں گے۔ ان ایام معدودہ سے پہلے اور بعد میں پوری دنیا کے اندر عدل و انصاف اور امن و سکون اور برکات و ثمرات کا دور دورہ ہو گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں  اسلام کے سوا کوئی کلمہ و مذہب زمین پر نہ رہے گا۔ زمین اپنے خزائن و دفائن اگل دے گی۔ کوئی فقیر و محتاج نہ رہے گا، درندے اور زہریلے جانور بھی کسی کو تکلیف نہ پہنچائیں گے۔

یاجوج ماجوج اور سد ذوالقرنین کے متعلق یہ معلومات تو وہ ہیں جو قرآن اور احادیث نبویۂ نے امت کو بتلا دیئے ہیں۔ اسی پر عقیدہ رکھنا ضروری ہے اور مخالفت نا جائز ہے۔ باقی رہی اس کی جغرافیائی بحث کہ سد ذوالقرنین کس جگہ واقع ہے اور قوم یاجوج ماجوج کون سی قوم ہے اور اس وقت کہاں کہاں بستی ہے ، اگر چہ اس پر نہ کوئی اسلامی عقیدہ موقوف ہے اور نہ قرآن کی کسی آیات کا مطلب سمجھنا اس پر موقوف ہے۔ لیکن مخالفین کی ہفوات کے جواب اور مزید بصیرت کے لئے علما ء امت نے اس سے بحث فرمائی ہے اس کا کچھ حصہ نقل کیا جاتا ہے۔

قرطبیؔ نے اپنی تفسیر میں بحوالہ سدی نقل کیا ہے کہ یاجوج ماجوج کے بائیس قبیلوں میں سے اکیس قبیلوں کو سد ذوالقرنین سے بند کر دیا گیا۔ ان کا ایک قبیلہ سد ذوالقرنین کے اندر اس طرف رہ گیا وہ تُرک ہیں۔ اس کے بعد قرطبی ؔ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تُرک کے متعلق جو باتیں بتلائی ہیں وہ یاجوج ماجوج سے ملتی ہوئی ہیں ، اور آخر زمانے میں مسلمانوں کی ان سے جنگ ہونا صحیح مسلم کی حدیث میں ہے ، پھر فرمایا کہ اس زمانے میں تُرک قوم کی بڑی بھاری تعداد مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے نکلی ہوئی ہے جن کی صحیح تعداد اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ وہی مسلمانوں کو ان کے شر سے بچا سکتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہی یاجوج ماجوج ہیں یا کم از کم ان کا مقدمہ ہیں (قرطبی، ص ۵۸، جلد ۱۱، قرطبی کا زمانہ چھٹی ہجری ہے۔ جس میں فتنہ تاتار ظاہر ہوا، اور اسلامی خلافت کو تباہ و برباد کیا۔ ان کا عظیم فتنہ تاریخ اسلام میں معروف اور تاتاریوں کا مغل ترک میں سے ہونا مشہور ہے۔ ) مگر قرطبی نے ان کو یاجوج ماجوج کے مشابہ اور ان کا مقدمہ قرار دیا ہے۔ ان کے فتنہ کو وہ خروج یاجوج ماجوج نہیں بتایا، جو علامات قیامت میں سے ہے۔ کیونکہ صحیح مسلم کی حدیث مذکور میں اس کی تصریح ہے کہ وہ خروج حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کے زمانے میں ہو گا۔

اسی لئے علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان لوگوں پر سخت رد کیا ہے جنہوں نے تاتار ہی کو یاجوج ماجوج قرار دیا، اور فرمایا کہ ایسا خیال کرنا کھلی گمراہی ہے اور نصوص حدیث کی مخالفت ہے۔ البتہ یہ انہوں نے بھی فرمایا کہ بلا شبہ یہ فتنہ یاجوج ماجوج کے فتنہ کے مشابہ ضرور ہے۔ (روح المعانی، ص ۴۴، ج ۱۶ ) اس سے ثابت ہوا کہ اس زمانے میں جو بعض مورخین موجودہ روس یا چین یا دونوں کو یاجوج ماجوج قرار دیتے ہیں ، اگر اس سے ان کی مراد وہی ہوتی جو قرطبی اور آلوسی نے فرمایا کہ ان کا فتنہ فتنۂ یاجوج ماجوج کے مشابہ ہے تو یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوتا، مگر اسی کو وہ خروج یاجوج ماجوج قرار دینا جس کی خبر قرآن و حدیث میں بطور علامت قیامت دی گئی اور اس کا وقت نزول عیسیٰ علیہ السلام کے بعد بتلایا گیا یہ قطعاً غلط اور گمراہی اور نصوص حدیث کا انکار ہے۔

مشہور مورخ ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں اقلیم سادس کی بحث میں یاجوج ماجوج اور سد ذوالقرنین اور ان کے محل و مقام کے متعلق جغرافیائی تحقیق اس طرح فرمائی :

’’ ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں مغرب کی جانب ترکوں کے وہ قبائل آباد ہیں جو قنجاق اور چرکَس کہلاتے ہیں۔ اور مشرق کی جانب یاجوج ماجوج کی آبادیاں ہیں اور ان دونوں کے درمیان کوہ کاف حد فاصل ہے جس کا ذکر گذشتہ سطور میں ہو چکا ہے کہ وہ بحر محیط سے شروع ہوتا ہے جو چوتھی اقلیم کے آخر تک چلا گیا ہے اور پھر بحر محیط سے جدا ہو کر شمال مغرب میں ہوتا ہوا یعنی مغرب کی طرف جھکتا ہوا پانچویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہاں سے پھر اپنی پہلی سمت کو مڑ جاتا ہے حتیٰ کہ ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہاں پہنچ کر جنوب سے شمال مغرب کو ہوتا ہوا گیا ہے۔ اور اس سلسلہ کوہ کے درمیان سد سکندری ہے جس کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اور جس کی اطلاع قرآن نے بھی دی ہے۔

اور عبداللہ بن خرد از بہ نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں واثق باللہ خلیفہ عباسی کا وہ خواب نقل کیا ہے جس میں اس نے یہ دیکھا کہ سد کھل گئی ہے چنانچہ وہ گھبرا کر اٹھا اور دریافت حال کے لئے سلّام ترجمان کو روانہ کیا۔ اس نے واپس آ کر اسی سد کے حالات و اوصاف بیان کئے۔ (مقدمہ ابن خلدون ۷۹ )

واثق باللہ خلیفہ عباسی کا سد ذوالقرنین کی تحقیق کرنے کے لئے ایک جماعت کو بھیجنا اور ان کا تحقیق کر کے آنا ابن کثیر نے بھی البدایہ والنہایہ میں ذکر کیا ہے اور یہ دیوار لوہے سے تعمیر کی گئی ہے۔ اس میں بڑے بڑے دروازے بھی ہیں جن پر قفل پڑا ہوا ہے۔ اور شمال مشرق میں واقع ہے اور تفسیر کبیر و طبری نے اس واقعہ کو بیان کر کے یہ بھی لکھا ہے کہ جو آدمی اس دیوار کا معائنہ کر کے واپس آنا چاہتا ہے تو رہنما اس کو چٹیل میدانوں میں پہنچاتے ہیں جو سمر قند کے محاذرات میں ہے۔ ( تفسیر کبیر، ج ۵، ص ۵۱۳ )

حضرت الاستاذ حجۃ الاسلام سیدی حضر ت مولانا انور شاہ کشمیری قدس سرّہ نے اپنی کتاب عقیدہ الاسلام فی حیاۃ عیسیٰ علیہ السلام میں یاجوج ماجوج اور سد ذوالقرنین کا حال اگر چہ ضمنی طور پر بیان فرمایا ہے مگر جو کچھ بیان کیا ہے وہ تحقیق و روایت کے اعلیٰ معیار پر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ مفسد اور وحشی انسانوں کی تاخت و تاراج سے حفاظت کے لئے زمین پر ایک نہیں بہت سی جگہوں میں سد یں (دیواریں ) بنائی گئی ہیں جو مختلف بادشاہوں نے مختلف مقامات پر مختلف زمانوں میں بنائی ہیں۔ ان میں سے مشہور ’دیوار چین‘ ہے۔ جس کا طول ابو حیان اندلسی (دربار ایران کے شاہی مورخ ) نے بارہ سو میل بتلایا اور یہ کہ اس کا بانی مغفور بادشاہ چین ہے اور اس کی بنا کی تاریخ ہبوط آدم علیہ السلام سے تین ہزار چا ر سو ساٹھ سال بعد بتلائی اور یہ کہ اس دیوار چین کو مغل لوگ اَتْکُوْدَہْ اور ترک بُوْرقُوْرقَہ کہتے ہیں۔ اور فرمایا کہ اس طرح کی اور بھی متعدد دیواریں سدیں مختلف مقامات پر پائی جاتی ہیں۔

ہمارے خواجہ تاس مولانا حفظ الرحمٰن سہواریؒ نے اپنی کتاب قصص القرآن میں حضرت شیخؒ کے اس بیان کی تاریخی توضیح بڑی تفصیل و تحقیق سے لکھی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے :

یاجوج ماجوج کی تاخت و تاراج اور شر و فساد کا دائرہ اتنا وسیع تھا کہ ایک طرف کا کیشیا کے نیچے بسنے والے ان کے ظلم و ستم کا شکار تھے تو دوسری طرف تبت اور چین کے باشندے بھی ہر وقت ان کی زد میں تھے۔ انہی یاجوج ماجوج کے شر و فساد سے بچنے کے لئے مختلف زمانوں میں مختلف مقامات پر متعدد سد تعمیر کی گئی۔ ان میں سب سے زیادہ بڑی اور مشہور دیوار چین ہے ، جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔

دوسری سد وسط ایشیا ء میں بخارا اور ترمذ کے قریب واقع ہے اور اس کے محل وقوع کا نام دربند ہے۔ یہ سد مشہور مغل بادشاہ تیمور لنگ کے زمانہ میں موجو د تھی اور شاہ روم کے خاص ہم نشین سیلا برجر جرمنی نے بھی اس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے اور اندلس کے بادشاہ گسٹیل کے قاصد کلافچو نے بھی اپنے سفر نامہ میں اس کا ذکر کیا ہے۔ یہ ۱۴۰۳ ء میں اپنے بادشاہ کا سفیر ہو کر جب تیمور کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس جگہ سے گذرا۔ وہ لکھتا ہے کہ باب الحدید کی سد موصل کے اس راستہ پر ہے جو سمر قند اور ہندوستان کے درمیان ہے۔ (از تفسیر جواہر القرآن طنطاوی، ج ۰، ص ۱۹۸ )

تیسری سد روسی علاقہ داغستان میں واقع ہے۔ یہ بھی دربند اور باب الابواب کے نام سے مشہور ہے۔ یاقوت حموی نے معجم البلدان میں، ادریسی جغرافیہ میں اور بستانی نے دائرہ المعارف میں اس کے حالات بڑی تفصیل سے لکھے ہیں ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ :

’’ داغستان میں دربند ایک روسی شہر ہے۔ یہ شہر بحر خزر (کاسپین ) کے غربی کنارے پر واقع ہے۔ اس کا عرض البلد ۳-۴۳ اور طول البلد ۱۵-۴۸ شرقاً ہے۔ اور اس کو دربند انو شیرواں بھی کہتے ہیں اور باب الابواب کے نام سے بہت مشہور ہے۔ ‘‘

چوتھی سد اسی باب الابواب سے مغرب کی جانب کا کیشیا کے بہت بلند حصوں میں جہاں دو پہاڑوں کے درمیان ایک درہ، درۂ داریال کے نام سے مشہور ہے ، اس جگہ یہ چوتھی سد جو قفقار یا جبل قوقا یا کوہ کاف کی سد کہلاتی ہے۔ بستان نے اس کے متعلق لکھا ہے :

’’ اور اسی (یعنی سد باب الابواب ) کے قریب ایک اور سد ہے جو غربی جانب بڑھتی چلی گئی ہے۔ غالباً اس کو اہل فارس نے شمالی بربروں سے حفاظت کی خاطر بنایا ہو گا، کیونکہ اس کے بانی کا صحیح حال معلوم نہیں ہوسکا۔ بعض نے اس کی نسبت سکندر کی جانب کر دی اور بعض نے کسریٰ و نوشیرواں کی طرف اور یاقوت کہتا ہے کہ یہ تانبا پگھلا کر اس سے تعمیر کی گئی ہے۔ ‘‘(دائرۃ المعارف، جلد ۷، ص ۶۵۱، معجم البلدان، جلد ۸، ص ۹ )

چونکہ یہ سب دیواریں شمال ہی میں ہیں اور تقریباً ایک ہی ضرورت کے لئے بنائی گئی ہیں ، اس لئے ان میں سے سد ذوالقرنین کون سی ہے ، اس کے متعین کرنے میں اشکالات پیش آئے ہیں اور بڑا اختلاط ان آخری دو سدوں کے معاملہ میں پیش آیا، کیونکہ دونوں مقامات کا نام بھی دربند ہے اور دونوں جگہ سد بھی موجود ہے۔ مذکورالصدر چار سدوں میں سے دیوار چین جو سب سے زیادہ بڑی اور سب سے زیادہ قدیم ہے اس کے متعلق تو سد ذوالقرنین ہونے کا کوئی قائل نہیں اور بجائے شمال کے مشرق اقصیٰ میں ہے اور قرآن کریم کے اشارہ سے اس کا شمال میں ہونا ظاہر ہے۔

اب معاملہ باقی تین دیواروں کا رہ گیا، جو شمال ہی میں ہیں۔ ان میں سے عام طور پر مورخین مسعودی، اصطخری، حموی وغیرہ اس دیوار کو سد ذوالقرنین بتاتے ہیں جو داغستان یا کاکیشیا کے علاقہ باب الابواب کے دربند میں بحر خزر پر واقع ہے۔ بخارا و ترمذ کے دربند اور اس کی دیوار جن کو مورخین نے سد ذوالقرنین کہا ہے ، وہ غالباً لفظ دربند کے اشتراک کی وجہ سے ان کو اختلاط ہوا ہے۔ اب تقریباً اس کا محل وقوع متعین ہو گیا کہ علاقہ داغستان کاکیشیا کے دربند باب الابواب میں یا اس سے بھی اوپر جبل قفقاز یا کوہ کاف کی بلندی پر اور دونوں جگہوں پر سد کا ہونا مورخین کے نزدیک ثابت ہے۔

ان دونوں میں سے حضر ت الاستاذ مولانا سید محمد انور شاہ قدس سرہ نے عقیدہ الاسلام میں کوہ کاف قفقاز کی سد کو ترجیح دی ہے کہ یہ سد ذوالقرنین کی بنائی ہوئی ہے۔ (عقیدۃالاسلام ۲۹۷ )

 

                سد ذوالقرنین اس وقت تک موجود ہے اور قیامت تک رہے گی یا وہ ٹوٹ چکی ہے ؟

 

آج کل تاریخ و جغرافیہ کے ماہرین اہل یورپ اس وقت ان شمالی دیواروں میں سے کسی کا موجود ہونا تسلیم نہیں کرتے اور نہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اب بھی یاجوج ماجوج کا راستہ بند ہے۔ اس بنا پر بعض اہل اسلام مورخین نے بھی یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا ہے کہ یاجوج ماجوج جن کے خروج کا قرآن و حدیث میں ذکر ہے وہ ہو چکا ہے۔ بعض نے چھٹی صدی ہجری میں طوفان بن کر اٹھنے والی قوم تاتار ہی کو اس کا مصداق قرار دیا ہے۔ بعض نے اس زمانے میں دنیا پر غالب آ جانے والی قوموں روس اور چین اور اہل یورپ کو یاجوج ماجوج کہہ کر اس معاملہ کو ختم کر دیا ہے۔ مگر جیسا کہ اوپر بحوالہ روح المعانی بیان ہو چکا ہے کہ یہ سراسر غلط ہے۔ احادیث صحیحہ کے انکار کے بغیر کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جس خروج یاجوج ماجوج کو قرآن کریم نے بطور علامت قیامت بیان کیا اور جس کے متعلق صحیح مسلم کی حدیث نواس بن سمعان وغیرہ میں اس کی تصریح ہے کہ یہ واقعہ خروج دجال اور نزول عیسیٰ علیہ السلام اور قتل دجال کے بعد پیش آئے گا وہ واقعہ ہو چکا کیونکہ خروج دجال اور نزول عیسیٰ علیہ السلام بلاشبہ اب تک نہیں ہوا۔

البتہ یہ بات بھی قرآن و سنت کی کسی نص صریح کے خلاف نہیں ہے کہ سد ذوالقرنین اس وقت ٹوٹ چکی ہو۔ اور یاجوج ماجوج کی بعض قومیں اس طرف آ چکی ہوں ، بشرطیکہ اس کو تسلیم کیا جائے کہ آخری اور بڑا ہلّہ جو پوری انسانی آبادی کو تباہ کرنے والا ثابت ہو گا، وہ ابھی نہیں ہوا، بلکہ قیامت کی ان بڑی علامات کے بعد ہو گا جن کا ذکر اوپر آ چکا ہے یعنی خروج دجال اور نزول عیسیٰ علیہ السلام وغیرہ۔

حضرت الاستاذ حجۃ الاسلام علامہ کشمیریؒ کی تحقیق اس معاملہ میں یہ ہے کہ اہل یورپ کا یہ کہنا تو کوئی وزن نہیں رکھتا کہ ہم نے ساری دنیا چھان ماری ہے ، ہمیں اس دیوار کا پتہ نہیں لگا، کیونکہ اول تو خود انہی لوگوں کی یہ تصریحات موجود ہیں کہ سیاحت اور تحقیق کے انتہائی معراج پر پہنچنے کے باوجود آج بھی بہت سے جنگل اور دریا اور جزیرے ایسے باقی ہیں جن کا ہمیں علم نہیں ہوسکا، دوسرے یہ بھی احتمال بعید نہیں کہ اب وہ دیوار موجود ہونے کے باوجود پہاڑوں کے گرنے اور باہم مل جانے کے سبب ایک پہاڑی کی صورت اختیار کر چکی ہو، لیکن کوئی نص قطعی اس کے بھی منافی نہیں کہ قیامت سے پہلے یہ سد ٹوٹ جائے یا کسی دور دراز کے طویل راستہ سے یاجوج ماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آ سکیں۔

اس سد ذوالقرنین کے تا قیامت باقی رہنے پر بڑا استدلال قرآن کریم کو اس لفظ سے کیا جاتا کہ فَا ذَاجَآء وَعَدُرَبّیْ جَعَلَہٗ دَکَّآءَ، یعنی ذوالقرنین کا یہ قول کہ جب میرے رب کا وعدہ آ پہنچے گا (یعنی خروج یاجوج ماجوج کا وقت آ جائے گا ) تو اللہ تعالیٰ اس آہنی دیوار کو ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دیں گے۔ اس آیت میں وَعَدُرَبّیْ کا مفہوم ان حضرات نے قیامت کو قرار دیا ہے ، حالانکہ الفاظ قرآن میں اس بارے میں قطعی نہیں ، کیونکہ وَعَدُرَبّیْ کا صریح مفہوم تو یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا راستہ روکنے کا جو انتظام ذوالقرنین نے کیا ہے یہ کوئی ضروری نہیں کہ ہمیشہ اسی طرح رہے جب اللہ تعالیٰ چاہیں گے کہ ان کا راستہ کھل جائے تو یہ دیوار منہدم و مسمار ہو جائے گی۔ اس کے لئے ضروری نہیں کہ وہ بالکل قیامت کے متصل ہو، چنانچہ تمام حضرات مفسرین نے وَعَدُرَبّیْ کے مفہوم میں دونوں احتمال ذکر کئے ہیں۔ تفسیر بحر محیط میں ہے وَالوعد یحتمل ان یراد بہ یوم القیٰمۃوان پر ادبہ وقت خروج یاجوج ماجوج،

اس کی تحقیق یوں بھی ہوسکتی ہے کہ دیوار منہدم ہو کر راستہ ابھی کھل گیا ہو اور یاجوج ماجوج کے حملوں کی ابتدا ہو چکی ہو، خواہ اس کی ابتدا چھٹی صدی ہجری کے فتنہ تاتار سے قرا ر دی جائے ، یا اہل یورپ اور روس و چین کے غلبہ سے ، مگر یہ ظاہر ہے کہ ان متمدن قوموں کے خروج اور فساد کو جو آئینی اور قانونی رنگ میں ہو رہا ہے وہ فساد نہیں قرار دیا جا سکتا، جس کا پتہ قرآن و حدیث دے رہے ہیں کہ خالص قتل و غارت گری اور ایسی خوں ریزی کے ساتھ ہو گا کہ تمام انسانی آبادی کو تباہ و برباد کر دے گا، بلکہ اس کا حاصل پھر یہ ہو گا کہ انہی مفسد یاجوج ماجوج کی کچھ قومیں اس طرف آ کر متمدن بن گئیں ، اسلامی ممالک کے لئے بلاشبہ وہ فساد عظیم اور فتنہ عظیمہ ثابت ہوئیں ، مگر ابھی ان کی وحشی قومیں جو قتل و خوں ریزی کے سوا کچھ نہیں جانتیں وہ تقدیری طور پر اس طرف نہیں آئیں اور بڑی تعداد ان کی ایسی ہی ہے ، ان کا خروج قیامت کے بالکل قریب ہو گا۔

دوسرا استدلال ترمذی اور مسند احمد کی اس حدیث سے کیا جاتا ہے جس میں مذکور ہے کہ یاجوج ماجوج اس دیوار کو روزانہ کھودتے رہتے ہیں ، مگر اول تو اس حدیث کو ابن کثیر نے معلول قرار دیا ہے ، دوسرے اس میں بھی اس کی کوئی تصریح نہیں کہ جس روز یاجوج ماجوج انشاء اللہ کہنے کی برکت سے اس کو پار کر لیں گے وہ قیامت کے متصل ہی ہو گا، اور اس کی بھی اس حدیث میں کو ئی دلیل نہیں کہ سارے یاجوج ماجوج اس دیوار کے پیچھے رکے ہوئے رہیں گے ، اگر ان کی کچھ جماعتیں یا قومیں کسی دور دراز راستہ سے اس طرف آجائیں ، جیسا کہ آج کل کے طاقتور بحری جہازوں کے ذریعے ایسا ہو جانا کچھ مستبعد نہیں، اور بعض مورخین نے لکھا بھی ہے کہ یاجوج ماجوج کو طویل بحری سفر کر کے اس طرف آنے کا راستہ مل گیا ہے ، تو اس حدیث سے اس کی بھی نفی نہیں ہوتی۔

خلاصہ یہ ہے کہ قرآن وسنت میں کوئی ایسی دلیل صریح اور قطعی نہیں ہے جس سے یہ ثابت ہو کہ سد ذوالقرنین قیامت تک باقی رہے گی، یا ان کے ابتدائی اور معمولی حملے قیامت سے پہلے اس طرف کے انسانوں پر نہیں ہوسکیں گے ، البتہ وہ انتہائی خوفناک اور تباہ کن حملہ جو پوری انسانی آبادی کو ختم کر دے گا، اس کا وقت بالکل قیامت کے متصل ہی ہو گا جس کا ذکر بار بار آ چکا ہے ، حاصل یہ ہے کہ قرآن و سنت کی نصوص کی بنا ء پر نہ یہ قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ سد یاجوج ماجوج ٹوٹ چکی ہے اور راستہ کھل گیا ہے اور نہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ از روئے قرآن و سنت اس کا قیامت تک قائم رہنا ضروری ہے ، احتمال دونوں ہی ہیں، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم بحقیقۃ الحال،

 

                ذوالقرنین دیوار کے پاس پہنچے

 

تفسیر ابن کثیر

جلد ۳، صفحہ ۲۷۵

از : راس المفسرین علامہ عماد الدین ابن کثیر

مترجم : مولانا محمد صاحبؒ ، جونا گڑھی

اپنے مشرقی سفر کو ختم کر کے پھر ذوالقرنین وہیں شمال کی طرف ایک راہ چلے دیکھا کہ دو پہاڑ ہیں جو ملے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے درمیان گھاٹی ہے جہاں سے یاجوج ماجوج نکل کر ترکوں پر تباہی ڈالا کرتے ہیں ، انہیں قتل کرتے ہیں ، کھیت باغات تباہ کرتے ہیں ، بال بچوں کو بھی ہلاک کرتے ہیں اور سخت فساد برپا کرتے رہتے ہیں۔ یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں جیسے کہ بخاری و مسلم کی حدیث سے ثابت ہے۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں اللہ عز و جل حضرت آدمؑ سے فرمائے گا کہ اے آدم ! آپ لبیک و سعدیک کے ساتھ جواب دیں گے ، حکم ہو گا کہ آگ کا حصہ الگ کر۔ پوچھیں گے کتنا حصہ ؟ حکم ہو گا ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے دوزخ میں اور ایک جنت میں۔ یہی وہ وقت ہو گا کہ بچے بوڑھے ہو جائیں گے اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گا۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا تم میں دو امتیں ہیں کہ وہ جن میں ہوں انہیں کثرت کو پہنچا دیتی ہیں ، یعنی یاجوج ماجوج۔

امام نوویؒ نے شرح صحیح مسلم میں ایک عجیب بات لکھی ہے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت آدمؑ کے خاص پانی کے چند قطرے جو مٹی میں گرے تھے انہی سے یاجوج ماجوج پیدا کئے گئے   گویا وہ حضرت آدمؑ اور حواؑ کی نسل سے نہیں بلکہ صرف حضرت آدم کی نسل سے ہیں۔ لیکن یہ یاد رہے کہ یہ قول بالکل غریب ہے۔ نہ اس پر عقلی دلیل ہے نہ نقلی اور ایسی باتیں جو اہل کتاب سے پہنچتی ہیں وہ ماننے کے قابل نہیں ہوتیں بلکہ ان کے یہاں ایسے قصے ملاوٹی اور بناوٹی ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ حضرت نوحؑ کے تین بیٹے تھے سام، حام اور یافث۔ سام کی نسل سے کل عرب ہیں اور حام کی نسل سے کل حبشی ہیں اور یافث کی نسل سے کل ترک ہیں۔ بعض علماء کا قول ہے کہ یاجوج ماجوج ترکوں کے اس جد اعلیٰ یافث کی ہی اولاد ہیں۔ انہیں ترک اس لئے کہا گیا ہے کہ انہیں بوجہ ان کے فساد اور شرارت کے انسانوں کی آبادی کے پس پشت پہاڑوں کی آڑ میں چھوڑ دیا گیا تھا۔

امام ابن جریرؒ نے ذوالقرنین کے سفر کے متعلق اور اس دیوار کے بنائے جانے کے متعلق اور یاجوج ماجوج کے جسموں اور ان کی شکلوں ان کے کانوں وغیرہ کے متعلق وہب بن منبہ سے ایک بہت لمبا چوڑا واقعہ اپنی تفسیر میں بیان کیا ہے جو علاوہ عجیب و غریب ہونے کے صحت سے دور ہے۔ ابن ابی حاتم میں بھی ایسے بہت سے واقعات درج ہیں۔ لیکن سب غریب اور غیر صحیح ہیں۔ ان پہاڑوں کے درے میں ذوالقرنین نے انسانوں کی ایک آبادی پائی جو بوجہ دنیا کے اور لوگوں سے دوری کے اور ان کی اپنی مخصوص زبان کے اوروں کی بات بھی تقریباً نہیں سمجھتے تھے ، ان لوگوں نے ذوالقرنین کی قوت و طاقت عقل و ہنر کو دیکھ کر درخواست کی کہ اگر آپ رضا مند ہوں تو ہم آپ کے لئے بہت سا مال جمع کر دیں ، اور آپ ان پہاڑوں کے درمیان کی گھاٹی کو کسی مضبوط دیوار سے بند کر دیں تاکہ ہم ان فسادیوں کی روز مرہ کی ان تکالیف سے بچ جائیں۔ اس کے جواب میں حضرت ذوالقرنین نے فرمایا مجھے تمہارے مال کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ میرے پاس موجود ہے۔ اور وہ تمہارے مال سے بہت بہتر ہے۔ یہی جواب حضرت سلیمان کی طرف سے ملکہ سبا کے قاصدوں کو دیا گیا تھا۔ ذوالقرنین نے اپنے اس جواب کے بعد فرمایا کہ ہاں تم اپنی قوت و طاقت اور کام کاج سے میرا ساتھ دو تو میں تم میں اور ان میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دیتا ہوں۔ ’’ زُبرَ ‘‘ جمع ہے ’’ زُبرہ َ ‘‘ کی۔ ذوالقرنین فرماتے ہیں کہ لوہے کے ٹکڑے اینٹوں کی طرح کے میرے پاس لاؤ۔ جب یہ ٹکڑے جمع ہو گئے تو آپ نے دیوار بنانی شروع کرا دی اور وہ لمبائی چوڑائی میں اتنی ہو گئی کہ تمام جگہ گھر گئی اور پہاڑی کی چوٹی کے برابر پہنچ گئی۔ اس کے طول و عرض اور موٹائی کے بیان میں بہت سے مختلف اقوال ہیں۔ ذوالقرنین نے سیسیہ پلائی ہوئی دیوار بنا لی۔ جب یہ دیوار بالکل بن گئی تو حکم دیا کہ اب اس کے چو طرف آگ بھڑکا ؤ۔ جب وہ لوہے کی دیوار بالکل انگارے جیسی سرخ ہو گئی تو حکم دیا کہ پگھلا ہوا تانبا لاؤ اور ہر طر ف سے اس کے اوپر بہاؤ۔ چنانچہ یہ بھی کیا گیا۔ پس ٹھنڈی ہو کر یہ دیوار بہت ہی مضبوط اور پختہ ہو گئی اور دیکھنے میں ایسی معلوم ہونے لگی جیسے کوئی دھارے دار چادر ہو۔ ابن جریر میں ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے وہ دیوار دیکھی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیسی ہے ؟ اس نے کہا دھاری دار چادر جیسی۔ جس میں سرخ سیاہ دھاریاں ہیں۔ آپ ﷺ نے فریا ٹھیک ہے۔ لیکن وہ روایت مرسل ہے۔

خلیفہ واثق نے اپنے زمانے میں اپنے امیروں کو ایک وافر لشکر اور بہت سا سامان دے کر روانہ کیا تھا کہ وہ اس دیوار کی خبر لائیں۔ یہ لشکر دو سال سے زیادہ سفر میں رہا اور ملک در ملک پھرتا ہوا آخر ش اس دیوار تک پہنچا۔ دیکھا کہ لوہے اور تانبے کی دیوار ہے۔ اس میں ایک بہت بڑا نہایت پختہ عظیم الشان دروازہ بھی ہے ، جس پر منوں وزنی قفل لگے ہوئے ہیں۔ اور جو مال مسالہ دیوار کا بچا ہوا ہے وہیں پر ایک برج میں رکھا ہوا ہے جہاں پہرہ چوکی مقرر ہے۔ دیوار بیحد بلند ہے۔ کتنی ہی کوشش کی جائے لیکن اس پر چڑھنا ناممکن ہے۔ اس سے ملا ہوا پہاڑیوں کا سلسلہ دونوں طرف برابر چلا گیا ہے اور بہت سے عجائب و غرائب امور دیکھے جو انہوں نے واپس آ کر خلیفہ کی خدمت میں عرض کیے۔

 

                یاجوج ماجوج اس دیوار سے باہر نہیں نکل سکتے

 

اس دیوار پر نہ تو چڑھنے کی طاقت یاجوج ماجوج کو ہے نہ وہ اس میں کوئی سوراخ کر سکتے ہیں کہ وہاں سے باہر نکل آئیں چونکہ چڑھنا بہ نسبت توڑنے کے زیادہ آسان ہے اس لئے چڑھنے میں ’’ مَا اسْطَاعُوْا ‘‘ کا لفظ لائے اور توڑنے میں ’’ مَا اسْتَطَاعُوْا ‘‘کا لفظ لائے۔ غرض نہ تو وہ چڑھ کر آ سکتے ہیں نہ سوراخ کر کے۔ مسند احمد میں حدیث ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا یاجوج ماجوج اس دیوار کو کھودتے ہیں یہاں تک کہ قریب ہوتا ہے کہ سورج کی شعاع ان کو نظر آ جائیں ، چونکہ دن گذر جاتا ہے اس لئے ان کے سردار کا حکم ہوتا ہے کہ بس کرو کل توڑیں گے۔ لیکن جب دوسرے دن آتے ہیں تو اسے پہلے دن سے بھی زیادہ مضبوط پاتے ہیں۔ قیامت کے قریب جب ان کا نکالنا اللہ تعالیٰ کو منظور ہو گا تو یہ کھودتے ہوئے جب چھلکے جیسی کر دیں گے تو ان کا سردار کہے گا اب چھوڑ دو کل انشا ء اللہ اسے توڑ ڈالیں گے۔ پس انشاء اللہ کہہ لینے کی برکت سے دوسرے دن جب وہ آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے فوراً گرا دیں گے اور نکل پڑیں گے۔ تمام پانی چاٹ جائیں گے۔ لوگ تنگ آ کر قلعوں میں پناہ گزیں ہو جائیں گے۔ یہ اپنے تیر آسمانوں کی طرف چلائیں گے اور مثل خوں آلود تیروں کے ان کی طرف لوٹائے جائیں گے تو یہ کہیں گے زمین والے سب دب گئے آسمان والوں پر بھی ہم غالب آ گئے۔ اب ان کی گردنوں میں گٹھلیاں نکلیں گی اور سب کے سب بحکم ربانی اسی وبا سے ہلاک کر دیئے جائیں گے۔ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ؐ کی جان ہے کہ زمین کے جانوروں کی خوراک ان کے جسم و خون ہوں گے ، جس سے وہ خوب موٹے تازے ہو جائیں گے۔ ابن ماجہ میں بھی یہ روایت ہے۔ امام ترمذیؒ بھی اسے لائے ہیں اور فرمایا ہے یہ روایت غریب ہے سوائے اس سند کے مشہور نہیں۔ اس کی سند بہت قوی ہے۔ لیکن اس کا متن نکارت سے خالی نہیں۔ اس لئے کہ آیت کے ظاہری الفاظ صاف ہیں کہ نہ وہ چڑھ سکتے ہیں نہ سوراخ کر سکتے ہیں۔ کیونکہ دیوار نہایت مضبوط بہت پختہ اور سخت ہے۔

کعب احبارؓ سے مروی ہے کہ یاجوج ماجوج روزانہ اسے چاٹتے ہیں اور بالکل چھلکے جیسی کر دیتے ہیں۔ پھرکہتے ہیں چلو کل توڑدیں گے۔ دوسرے دن آتے ہیں تو جیسی اصل میں تھی ویسی ہی پاتے ہیں۔ آخری دن وہ بہ الہام الٰہی جاتے وقت انشا ء اللہ کہیں گے۔ دوسرے دن آئیں گے تو جیسی چھوڑ گئے تھے ویسی ہی پائیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ بہت ممکن ہے کہ انہی کعب سے حضرت ابو ہریرہؓ نے یہ بات سنی ہو پھر بیان کی ہو اور کسی راوی کو وہم ہو گیا اور اسے آنحضرت ﷺ کا فرمان سمجھ کر اسے مرفوعاً بیان کر دیا ہو۔ واللہ اعلم۔ یہ جو ہم کہہ رہے ہیں اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو مسند احمد میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور ﷺ نیند سے بیدار ہوئے۔ چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور فرمائے جاتے تھے ’’ لا الہ الااللہ ‘‘ عرب کی خرابی کا وقت قریب آ گیا۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا بڑا سوراخ ہو گیا، پھر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں سے حلقہ بنا کر دکھایا۔ اس پر ام المومنین حضرت زینب بنت جحشؓ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہؐ ! کیا ہم بھلے لوگوں کی موجودگی میں بھی ہلاک کر دیئے جائیں گے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا جب خبیث لوگوں کی کثرت ہو جائے۔ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔ بخاری و مسلم دونوں میں ہے۔ ہاں بخاری میں راویوں  کے ذکر میں حضرت حبیبہؓ کا ذکر نہیں۔ مسلم میں ہے اور بھی اس کی سند میں بہت سی ایسی باتیں ہیں جو بہت کم پائی گئی ہیں

مثلاً زہری کی روایت عروہ سے حالانکہ یہ دونوں بزرگ تابعی ہیں اور چار عورتیں کا آپس میں ایک دوسرے سے روایت کرنا پھر چاروں عورتیں صحابیہؓ پھر ان میں بھی دو حضور ؐ کی بیویوں کی لڑکیاں اور دو آپ ؐ کی بیویاںؓ ۔ بزاز میں یہی روایت ابو ہریرہؓ سے بھی مروی ہے۔ (مترجم کہتا ہے اس تکلف کی اور ان مرفوع حدیثوں کے متعلق اس قول کی ضرورت ہی کیا ہے ؟ ہم آیت قرآن اور ان صحیح مرفوع حدیثوں کے درمیان بہت آسانی سے یہ تطبیق دے سکتے ہیں کہ وہ کوئی سوراخ نہیں کر سکتے جس میں سے نکل آئیں۔ پتلی کر دینا یا حلقے کے برابر سوراخ کر دینا اور بات ہے جو مقصود ذوالقرنین کا اس دیوار کے بنانے سے تھا وہ بفضلہ حاصل ہے کہ نہ وہ اوپر سے اتر سکیں نہ توڑ کر یا سوراخ کر کے نکل سکیں اور اسی کی خبر آیت میں ہے اور اس کے خلاف کوئی حدیث نہیں۔ (واللہ اعلم۔ مترجم )

اس دیوار کو بنا کر ذوالقرنین اطمینان کا سانس لیتے ہیں اور اللہ کا شکر کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ لوگو ! یہ بھی رب کی رحمت ہے کہ اس نے ان شریروں کی شرارت سے مخلوق کو اب امن دے دیا۔ ہاں جب اللہ کا وعدہ آ جائے گا اور یہ زمین دوز ہو جائے گی، مضبوطی کچھ کام نہ آئے گی۔

 

                قرب قیامت یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں گے

 

تفسیر ابن کثیر

جلد ۳، صفحہ ۳۹۶

ہلاک شدہ لوگوں کا دنیا کی طرف پھر پلٹنا محال ہے۔ یہ بھی مطلب ہوسکتا ہے کہ ان کی توبہ قبول نہیں۔ لیکن پہلا قول اولیٰ ہے۔ یاجوج ماجوج نسل آدم سے ہیں۔ بلکہ وہ حضرت نوحؑ کے لڑکے یافث کی اولاد میں سے ہیں ، جن کی نسل سے ترک ہیں۔ یہ بھی انہی کا ایک گروہ ہے یہ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی دیوار کے باہر ہی چھوڑ دیئے گئے ہیں۔ آپ نے دیوار بنا کر فرمایا تھا کہ یہ میرے رب کی رحمت ہے۔ اللہ کے وعدے کے وقت اس کا چورا چورا ہو جائے گا۔ میرے رب کا وعدہ حق ہے۔ الخ۔ یاجوج ماجوج قرب قیامت کے وقت وہاں سے نکل آئیں گے اور زمین میں فساد مچا دیں گے۔ ہر اونچی جگہ کو عربی میں حدب کہتے ہیں۔ ان کے نکلنے کے وقت ان کی یہی حالت ہو گی تو اس خبر کو اس طرح سن جیسا کہ سننے والا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے اور واقع میں  اللہ تعالیٰ سے زیادہ سچی خبر کس کی ہو گی جو غیب اور حاضر کا جاننے والا، ہو چکی اور ہونے والی باتوں سے آگاہ ہے۔ ابن عباسؓ نے لڑکوں کو اچھلتے کودتے کھیلتے دوڑتے ایک دوسرے کی چڈیاں لیتے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ اس طرح یاجوج ماجوج آئیں گے۔

 

                یاجوج ماجوج کے متعلق احادیث

 

بہت سی احادیث میں ان کے نکلنے کا ذکر ہے :

۱) مسند احمد میں ہے رسول اللہؐ فرماتے ہیں یاجوج ماجوج کھولے جائیں گے اور وہ لوگوں کے پاس پہنچیں گے جیسے اللہ عز و جل کا فرمان ہے ’’ وَ ھُمْ مِّنْ کُلِّ حدَبٍ یَّنسِلُوْنَ ‘‘ وہ چھا جائیں گے اور مسلمان اپنے شہروں اور قلعوں میں سمٹ آئیں گے اور اپنے جانوروں کو بھی وہیں لے لیں گے اور اپنا پانی انہیں پلاتے رہیں گے۔ یاجوج ماجوج جس نہر سے گذریں گے اس کا پانی صفا چٹ کر جائیں گے۔ یہاں تک کہ اس میں خاک اڑنے لگے گی۔ ان میں دوسری جماعت جب وہاں پہنچے گی تو وہ کہے گی شاید اس میں کسی زمانے میں پانی ہو گا۔ جب یہ دیکھیں گے کہ اب زمین پر کوئی نہ رہا اور واقع میں سوائے ان مسلمانوں کے جو شہروں اور قلعوں میں پناہ گزیں ہوں گے کوئی اور وہاں ہو گا بھی نہیں تو یہ کہیں گے کہ اب زمین والوں سے تو ہم فارغ ہو گئے آؤ آسمان والوں کی خبر لیں۔ چنانچہ ان میں ایک شریر اپنا نیزہ گھما کر آسمان کی طر ف پھینکے گا، قدرت اللہ سے خون آلود ہو کر ان کے پاس گرے گا۔ یہ بھی ایک قدرتی آزمائش ہو گی اب ان کی گردنوں میں گٹھلی ہو جائے گی اور اس وبا میں یہ سارے کے سارے ایک دم مر جائیں گے۔ ایک بھی باقی نہ رہے گا۔ سارا شور و غل ختم ہو جائے گا۔ مسلمان کہیں گے کوئی ہے جو اپنی جان ہم مسلمانوں کے لئے ہتھیلی پر رکھ کر شہر کے باہر جائے او دشمنوں کو دیکھے کہ کس حال میں ہیں ؟ چنانچہ ایک صاحب اس کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اپنے تئیں قتل شدہ سمجھ کر اللہ کی راہ میں مسلمانوں کی خدمت کے لئے نکل کھڑے ہوں گے۔ دیکھیں گے کہ سب کا ڈھیر لگ رہا ہے۔ سارے ہلاک شدہ پڑے ہوئے ہیں۔ یہ اسی وقت ندا کرے گا کہ مسلمانو ! خوش ہو جاؤ، اللہ نے خود تمہارے دشمنوں کو غارت کر دیا۔ یہ ڈھیر پڑا ہواہے۔ اب مسلمان باہر آئیں گے اور اپنے مویشیوں کو بھی لائیں گے۔ ان کے لئے چارہ بجز ان کے گوشت کے اور کچھ نہ ہو گا۔ ان کا گوشت کھا کھا کر خوب موٹے تازے ہو جائیں گے۔

۲) مسند احمد میں ہے حضور ﷺ نے ایک دن صبح ہی صبح دجال کا ذکر کیا۔ اسے عیسیٰ علیہ السلام پیچھا کر کے مشرقی طرف باب لُدّ کے پاس قتل کر دیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰ بن مریم کی طرف اللہ کی وحی آئے گی کہ میں اپنے ایسے بندوں کو بھیجتا ہوں جن سے لڑنے کی تم میں تاب و طاقت نہیں۔ میرے بندوں کو کوہ طور کی طرف سمیٹ لے جا۔ جناب باری یاجوج ماجوج کو بھیجے گا جیسے فرمایا ’’ وَ ھُم ْ مِّنْ کُلِّ حَدَب ٍ یَّنْسِلُوْنَ ‘‘ان سے تنگ آ کر حضرت عیسیٰ اور آپ کے ساتھی جناب باری میں دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان پر گٹھلی کی بیماری بھیجے گا جو ان کی گردن میں نکلے گی اور سارے کے سارے اوپر تلے ایک ساتھ مر جائیں گے۔ تب عیسیٰ علیہ السلام مع مومنوں کے آئیں گے ، دیکھیں گے کہ تمام زمین ان کی لاشوں سے پٹی پڑی ہے اور ان کی بد بو سے کھڑا نہیں ہوا جاتا۔

آپ پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ اونٹوں کی گردنوں جیسے پرند بھیجے گا جو انہیں اٹھا کر اللہ جانے کہاں پھینک آئیں گے۔ کعبؓ کہتے مہیل میں یعنی سورج کے طلوع ہونے کی جگہ پھینک آئیں گے۔ پھر چالیس دن تک تمام زمین پر متواتر پیہم مسلسل بارش برسے گی۔ زمین دھل دھلا کر ہتھیلی کی طرح صاف ہو جائے گی۔ پھر بحکم اللہ اپنی برکتیں اگا دے گی۔ اس دن ایک جماعت کی جماعت ایک انارسے سیر ہو جائے گی اور اس کے چھلکے تلے سایہ حاصل کر لے گی۔ ایک اونٹنی کا دودھ لوگوں کی ایک جماعت کو ایک گائے کا دودھ ایک قبیلے کو اور ایک بکری کا دودھ ایک گھرانے کو کافی ہو گا۔ پھر ایک پاکیزہ ہوا چلے گی جو مسلمانوں کی بغل تلے سے نکل جائے گی اور ان کی روح قبض ہو جائے گی۔ پھر روئے زمین پر بد ترین شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو گدھوں کی طرح کودتے ہوں گے انہیں پر قیامت قام ہو گی۔ امام ترمذیؒ اسے حَسن کہتے ہیں۔

۳) مسند احمد میں ہے کہ حضور ﷺ کو ایک بچھو نے کاٹ کھایا تھا تو آپ ؐ اپنی انگلی پر پٹی باندھے ہوئے خطبے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا تم کہتے ہو اب دشمن نہیں ہیں۔ لیکن تم تو دشمنوں سے جہاد کرتے ہی رہو گے۔ یہاں تک کہ یاجوج ماجوج آ جائیں۔ وہ چوڑے چہرے والے ، چھوٹی آنکھوں والے ، ان کے چہرے تہہ بہ تہہ ڈھالوں جیسے ہوں گے۔

کعبؒ کا قول ہے کہ جب پرند آ کر اپنی چونچ میں لاشوں کو (یاجوج ماجوج ) لے کر سمندر میں پھینک آئیں گے تو اللہ تعالیٰ نہر حیات جاری کر دے گا جو زمین کو دھو کر پاک و صاف کر دے گی اور زمین اپنی برکتیں نکال دے گی۔ اچانک ایک شخص آئے گا اور ندا کرے گا کہ ذوالسویقتین نکل آیا ہے۔ حضرت عیسیٰ بن مریمؑ ساتھ آٹھ سو لشکریوں کا طلایہ بھیجیں گے۔ یہ ابھی راستے میں ہی ہوں گے جو یمنی پاک ہوا نہایت لطافت سے چلے گی، جو تمام مومنوں کی روح قبض کر لے گی۔ پھر روئے زمین پر ردی کھدی لوگ رہ جائیں گے جو چو پایوں جیسے ہوں گے ان پر قیامت قائم ہو گی جیسے پورے دنوں کی گھوڑی جو جننے کے قریب ہو اور گھوڑی والاآس پاس گھوم رہا ہو کہ کب بچہ ہو۔ حضرت کعبؒ یہ بیان کر کے فرمانے لگے اب جو شخص میرے اس قول اور اس علم کے بعد بھی کچھ کہے اس نے تکلف کیا۔ کعب کا یہ واقعہ بیان کرنا بہترین واقعہ ہے۔ کیونکہ اس کی شہادت صحیح حدیث میں بھی پائی جاتی ہے۔ احادیث میں یہ بھی آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ اس زمانے میں بیت اللہ کا حج بھی کریں گے۔

چنانچہ مسند احمد میں یہ حدیث مروی ہے کہ آپ یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد یقیناً بیت اللہ کا حج کریں گے۔ یہ حدیث بخاری میں بھی ہے۔

 

تفہیم القرآن

جلد سوم، ص ۴۴، ۴۶

از : مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ

اس میں یاجوج ماجوج کا ذکر مختصر اً اور صرف ذوالقرنین کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

مثلاً ذوالقرنین کی تیسری مہم کے ذکر میں یاجوج ماجوج کا ذکر آیا ہے۔ ’’یاجوج ماجوج سے مراد روس اور شمالی چین کے وہ قبائل ہیں جو تاتاری، منگولی اور مصن اور سیتھین وغیرہ ناموں سے مشہور ہیں۔ اور قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر حملے کرتے آرہے ہیں۔ نیز یہ بھی معلوم ہے کہ ان کے حملوں سے بچنے کے لئے قفقاز کے جنوبی علاقے میں دربند اور داریال کے استحکامات تعمیر کئے گئے تھے لیکن یہ ابھی تک ثابت نہیں ہوسکا ہے کہ خورس (ایران کا بادشاہ جسے مولانا نے ذوالقرنین کہا ہے ) ہی نے یہ استحکامات تعمیر کئے تھے۔

صفحہ نمبر ۴۶ ’’ یاجوج ماجوج سے مراد جیسا کہ اوپر حاشیہ نمبر ۶۲ (مندرجہ بالابیان ) اشارہ کیا جا چکا ہے ، ایشیاء کے شمالی مشرقی علاقے کی وہ قومیں ہیں جو قدیم زمانے سے متمدن ممالک پر غارت گرانہ حملے کرتی رہی ہیں اور جن کے سیلاب وقتاً فوقتاً اٹھ کر ایشیاء اور یورپ دونوں طرف رخ کرتے رہے ہیں ، بائبل کی کتاب پیدائش (باب ۱۰ ) میں ان کو حضرت نوحؑ کے بیٹے یافث کی نسل میں شمار کیا گیا ہے۔ (توریت پیدائش باب ۱۰ ’’ نوح کے بیٹوں سم، حام اور یافث کی اولاد میں طوفان نوح کے بعد ان کے ہاں بیٹے پیدا ہوئے۔ ’’ بنی یافث یہ ہیں حُمیر اور ماجوج اور مادی اور یاوان اور توبل اور مَسک اور تیراس ‘‘۔ از مؤلف) اور یہی بیان مسلمان مورخین کا بھی ہے۔ حزقی ایل کے صحیفے (باب ۳۸، ۳۹ ) میں ان کا علاقہ روس اور توبل (موجودہ بالسک ) اور مسک (موجودہ ماسکو ) بتایا گیا ہے۔ (توریت حزقی ایل باب ۳۸۔ ’’اور خداوند کا کلام مجھ پر نازل ہوا کہ اے آدم ز ا د جوج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش اور مسک اور توبل کا فرمانروا ہے متوجہ ہوا ور اس کے خلاف نبوّت کر۔ باب ۳۹ ’’ بس اے آدم زاد تو جوج کی طرف نُبوّت کر اور کہہ خداوند یوں فرماتا ہے دیکھ اے جوج روش اور مسک اور توبل کے فرمانروا میں تیرا مخالف ہوں۔ اور میں ماجوج پر اور ان پر جو بحر ی ممالک میں امن سے سکونت کرتے ہیں آگ بھیجوں گا اور وہ جانیں گے میں خداوند ہوں۔ ‘‘ از : مؤلف )

اسرائیلی مورخ یوسیفوس ان سے مراد سیتھیئن قوم لیتا ہے ، جس کا علاقہ بحر اسود کے شمال اور مشرق میں واقع تھا۔ جیروم کے بیان کے مطابق ماجوج کا کیشیا کے شمال میں بحر خزر (کیسپین سی ) کے قریب آباد تھے۔

 

تفہیم القرآن جلد سوم ۱۸۶

یاجوج ماجوج کے کھول دیئے جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ دنیا پر اس طرح ٹوٹ پڑیں گے کہ جیسے کوئی شکاری درندہ یکایک پنجرے یا بندھن سے چھوڑ دیا گیا ہو۔ ‘‘ وعدہ حق پورا ہونے کا وقت قریب آلگے گا۔ ‘‘ کا اشارہ صاف طور پر اس طرف ہے کہ یاجوج ماجوج کی یہ عالمگیر یورش آخری زمانے میں ہو گی اور اس کے بعد جلد ہی قیامت آ جائے گی۔ نبی ﷺ کا وہ ارشاد اس معنی کو اور زیادہ کھول دیتا ہے جو مسلم نے حذیفہ بن اسید الغفاری کی روایت سے نقل کیا ہے ’’ قیامت قائم نہ ہو گی جب تک تم اس سے پہلے دس علامتیں نہ دیکھ لو، دھواں ، دجال، دابۃ الارض، مغرب سے سورج کا طلوع، عیسیٰ بن مریمؑ کا نزول، یاجوج ماجوج کی یورش، اور تین بڑے خسوف (زمین کا دھنسنا یا Landslide) ایک مشرق میں دوسرا مغرب میں تیسرا جزیرۃ العرب میں۔ پھر سب سے آخر میں یمن میں سے ایک سخت آگ اٹھے گی جو لوگوں کو محشر کی طرف ہانکے گی (یعنی بس اس کے بعد قیامت آ جائے گی ) ایک اور حدیث میں یاجوج ماجوج کی یورش کا ذکر کر کے حضور ؐ نے فرمایا اس وقت قیامت اس قدر قریب ہو گی جیسے پورے پیٹوں کی حاملہ کہ نہیں کہہ سکتے کہ کب وہ بچہ جن دے ، رات کو یا دن کو۔ لیکن قرآن مجید اور احادیث میں یاجوج ماجوج کے متعلق جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے یہ مترشح نہیں ہوتا کہ یہ دونوں متحد ہوں گے اور مل کر دنیا پر ٹوٹ پڑیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ قیامت کے قریب زمانے میں یہ دونوں آپس ہی میں لڑ جائیں اور پھر ان کی لڑائی عالمگیر فساد کی موجب بن جائے۔

القرآن الکریم صفحہ نمبر ۴۰۵

ترجمہ : شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن صاحبؒ

تفسیر : شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد صاحب عثمانیؒ

یاجوج ماجوج کون ہیں ؟ کس ملک میں رہتے ہیں ؟ ذوالقرنین کی بنائی ہوئی سدّ (آہنی دیوار ) کہاں ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے متعلق مفسرین و مورخین کے اقوال مختلف رہے ہیں۔ میرا خیال یہ ہے (واللہ اعلم ) کہ یاجوج ماجوج کی قوم عام انسانوں اور جنات کے درمیان ایک برزخی مخلوق ہے اور جیسا کہ کعب احبار نے فرمایا اور نووی نے فتاویٰ میں جمہور علماء سے نقل کیا ہے ان کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے آدم علیہ السلام پر منشق ہوتا ہے مگر ماں کی طرف سے حوا تک نہیں پہنچتا۔ گویا وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہوئے۔ کیا عجب کہ دجال اگر جسے تمیم داری نے کسی جزیرہ میں مقید دیکھا تھا اسی قوم میں کا ہو۔ جب حضرت مسیح علیہ السلام جو محض ایک آدم زاد خاتون (مریم صدیقہ ) کے بطن سے متوسط نضحۂ ملکیہ پیدا ہوئے۔ نزول من السماء کے بعد دجال کو ہلاک کر دیں گے۔ اس وقت یہ قوم یاجوج ماجوج دنیا پر خروج کرے گی اور آخر کار حضرت مسیح کی دعا سے غیر معمولی موت مرے گی۔ اس وقت یہ قوم کہاں ہے اور ذوالقرنین کی دیوار آہنی کس جگہ واقع ہے ؟ سو جو شخص ان سب اوصاف کو پیش نظر رکھے گا جن کا ثبوت اس قوم اور دیوار آہنی کے متعلق قرآن کریم اور احادیث صحیحہ میں ملتا ہے۔ اس کو کہنا پڑے گا کہ جن قوموں ، ملکوں اور دیواروں کا لوگوں نے رائے سے پتہ دیا ہے ، یہ مجموعہ اوصاف ایک میں بھی پایا نہیں جاتا۔ لہٰذا وہ خیالات صحیح معلوم نہیں ہوئے۔ اور احادیث صحیحہ کا انکار یا نصوص کی تاویلات بعیدہ دین کے خلاف ہے۔ رہا مخالفین کا یہ شبہ کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا مگر کہیں اس کا پتہ نہیں ملا اور اسی شبہ کے جواب کے لئے ہمارے مؤلفین نے پتہ بتلانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا صحیح جواب وہ ہی ہے جو علامہ آلوسی بغدادی نے دیا ہے کہ ہم کو اس کا موقع معلوم نہیں اور ممکن ہے کہ ہمارے اور اس کے درمیان بڑے بڑے سمندر حائل ہوں اور یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تمام خشکی و تری پر محیط ہو چکے ہیں واجب تسلیم نہیں۔ عقلاً جائز ہے کہ جس طرح اب سے پانچ سو برس پہلے تک ہم کو چوتھے براعظم (امریکہ ) کے وجود کا پتہ نہ چلا۔ اب بھی کوئی پانچواں براعظم موجو د ہو جہاں تک ہم رسائی حاصل نہ کر سکے ہوں اور تھوڑے دنوں بعد ہم وہاں تک یا وہ لوگ ہم تک پہنچ سکیں۔ سمندر کی دیوار اعظم جو آسٹریلیا کے شمال مشرقی ساحل پر واقع ہے۔ آج کل برطانوی سائنس داں سی۔ ایم۔ ینگ کے زیر ہدایت اس کی تحقیقات جاری ہے۔ یہ دیوار ہزار میل سے زیادہ لمبی اور بعض بعض مقامات پر بارہ بارہ میل تک چوڑی اور ہزار فٹ اونچی ہے۔ جس پر بے شمار مخلوق بستی ہے۔ جو مہم اس کام کے لئے روانہ ہوئی تھی حال میں اس نے اپنی ایک سالہ تحقیقات ختم کی ہے۔ جس سے سمندر کے عجیب و غریب اسرار منکشف ہوتے ہیں۔ اور انسان کو حیرت و استعجاب کی ایک نئی دنیا معلوم ہو رہی ہے۔ پھر کیسے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہم کو خشکی و تری کی تمام مخلوق کے مکمل اکتشافات حاصل ہو چکے ہیں۔ بہر حال مخبر صادق نے جس کا صدق دلائل قطعیہ سے ثابت ہے۔ جب اس دیوار کی مع اس کے اوصاف کے خبر دی تو ہم پر واجب ہے کہ تصدیق کریں اور ان واقعات کے منتظر رہیں جو مشککین و منکرین کے علی الزعم پیش آ کر رہیں گے۔

قرآن کریم مع اردو ترجمہ و تفسیر ۸۲۸، ۸۲۹

شاہ فہد قرآن کریم پرنٹنگ کمپلیکس

مقدمہ : از قلم معالی الشیخ صالح بن عبدالعزیز بن محمد آل شیخ

وزیر اسلامی امور اوقاف اور دعوت و ارشاد

اب اس کا رخ (ذوالقرنین کا ) دوسری طرف کو ہو گیا۔ اس سے مراد دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے متقابل تھے۔ ان کے درمیان کھائی تھی، جس سے یاجوج ماجوج ادھر آبادی میں آ جاتے اور اودھم مچاتے اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کرتے۔ دونوں دیواروں کے پرے ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی۔ یعنی اپنی زبان کے سوا کسی اور زبان کو نہیں سمجھتی تھی۔ ذوالقرنین سے یہ خطاب یا تو کسی ترجمان کے ذریعے ہو ا ہو گا یا اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کو جو خصوصی اسباب و وسائل مہیا فرمائے تھے انہی میں مختلف زبانوں کا علم بھی ہو سکتا ہے اور یوں تو یہ خطاب براہ راست بھی ہوسکتا ہے۔

یاجوج ماجوج یہ دو قومیں ہیں اور حدیث صحیح کے مطابق نسل انسانی میں سے ہیں اور ان کی تعداد دوسری انسانی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ ہو گی اور انہی سے جہنم زیادہ بھرے گی۔

انہوں نے کہا کہ اے ذوالقرنین یاجوج ماجوج اس ملک میں (بڑے بھاری ) فسادی ہیں۔ تو کیا ہم آپ کے لئے کچھ خرچ کا انتظام کر دیں ؟ (اس شرط پر کہ ) آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنا دیں۔ ذوالقرنین نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے۔ تم صرف قوت اور طاقت سے میری مدد کرو۔ قوت سے مراد یعنی تم تعمیراتی سامان اور رجالی کار مہیا کرو۔

یعنی دونوں پہاڑوں کے درمیان جو خلا تھا اسے لوہے کی چھوٹی چھوٹی چادروں سے پُر کر دیا۔ لوہے کی چادروں کو خوب گرم کر کے ان پر پگھلا ہوا لوہا تانبہ یا سیسہ ڈالنے سے وہ پہاڑی درہ یا راستہ ایسا مضبوط ہو گیا کہ اسے عبور کر کے یا توڑ کر یاجوج ماجوج کا ادھر دوسری انسانی آبادیوں میں آنا ناممکن ہو گیا۔

یعنی یہ دیوار اگر چہ بڑی مضبوط بنا دی گئی، جس کے اوپر چڑھ کر یا اس میں سوراخ کر کے یاجوج ماجوج کا ادھر آنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن جب میرے رب کا وعدہ آ جائے گا تو وہ اسے ریزہ ریزہ کر کے زمین کے برابر کر دے گا۔ اس وعدہ سے مراد قیامت کے قریب یاجوج ماجوج کا ظہور ہے۔ جیسا کہ احادیث میں ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں نبی ﷺ نے اس دیوار میں تھوڑے سے سوراخ کو فتنے کے قریب ہونے سے تعبیر فرمایا۔ (صحیح بخاری ۳۳۴۶، مسلم ۲۲۰۸ ) ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ وہ ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں اور پھر کل کے لئے چھوڑ دیتے ہیں ، لیکن جب اللہ کی مشیت ان کے خروج کی ہو گی تو وہ پھر وہ کہیں گے کل انشاء اللہ اس کو کھودیں گے اور پھر دوسرے دن وہ اس سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ زمین میں فساد پھیلائیں گے۔ حتیٰ کہ لوگ قلعہ بند ہو جائیں گے۔ یہ آسمانوں پر تیر پھینکیں گے جو خون آلودہ لوٹیں گے۔ بالآخر اللہ تعالیٰ ان کی گدیوں پر ایسا کیڑا پیدا فرما دے گا جس سے ان کی ہلاکت واقع ہو جائے گی۔ (مسند احمد ۱۲ /۵۱۱، جامع ترمذی ۳۱۵۳، ولاحادیث الصحیحہ للہ البانی ۱۷۳۵) صحیح مسلم میں نواس بن سمعانؓ کی روایت میں صراحت ہے کہ یاجوج ماجوج کا ظہور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کی موجودگی میں ہو گا۔ (کتاب الفتن و ا شراط الساعۃ باب ذکر الدجال ) جس سے ان حضرات کی تردید ہو جاتی ہے۔ جو کہتے ہیں کہ تاتاریوں کا مسلمانوں یا منگولی ترک جن میں چنگیز بھی تھا یا روسی یا چینی قومیں یہی یاجوج ماجوج ہیں ، جن کا ظہور ہو چکا، یا مغربی قومیں ان کا مصداق ہیں کہ پوری دنیا میں ان کا غلبہ و تسلط ہے۔ یہ سب باتیں غلط ہیں کیونکہ ان کے غلبے سے سیاسی غلبہ مراد نہیں ہے بلکہ قتل و غارت گری اور شر و فساد کا وہ عارضی غلبہ ہے جس کا مقابلہ کرنے کی طاقت مسلمانوں میں  نہیں ہو گی، تاہم پھر وبائی مرض سے سب کے سب آن واحد میں لقمۂ اجل ہو جائیں گے۔

صفحہ ۹۰۶

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موجودگی میں قیامت کے قریب ان کا ظہور ہو گا اور اتنی تیزی اور کثرت سے یہ ہر طرف پھیل جائیں گے کہ ہر اونچی جگہ سے یہ دوڑتے ہوئے محسوس ہوں گے۔ ان کی فساد انگیزیوں اور شرارتوں سے اہل ایمان تنگ آ جائیں گے۔ حتیٰ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اہل ایمان کو ساتھ لے کر کوہ طور پر پناہ گزیں ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بد دعا سے یہ ہلاک ہو جائیں گے۔ ان کی لاشوں کی سڑاند اور بد بو ہر طرف پھیلی ہو گی، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ پرندے بھیجے گا جو ان لاشوں کو اٹھا کر سمندر میں پھینک دیں گے۔ پھر ایک زور دار بارش نازل فرمائے گا، جس سے ساری زمین صاف ہو جائے گی۔ ( یہ ساری تفصیلات صحیح احادیث میں بیان کی گئی ہیں۔ )

یاجوج ماجوج کے خروج کے بعد قیامت کا وعدہ جو برحق ہے بالکل قریب آ جائے گا اور جب یہ قیامت برپا ہو گی تو شدت ہولناکی کی وجہ سے کافروں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔

 

ترجمان القرآن صفحہ ۵۰۶، ۵۳۹

از : مولانا ابو الکلام آزاد

مولانا ذوالقرنین (سائرس ) کے بیان کے بعد لکھتے ہیں : اب صرف ایک معاملہ کی تشریح باقی رہ گئی ہے۔ یعنی یاجوج اور ماجوج سے کون سی قوم مراد ہے اور جو سد سائرس نے بنائی تھی اس کی تاریخی نوعیت کیا ہے ؟

قرآن مجید نے یاجوج ماجوج کا دو جگہ ذکر کیا ہے۔ ایک تو یہاں (سورۂ کہف ) ہے اور دوسرا سورۂ انبیاء میں ہے۔ (( ۲۱: ۹۶ )

یاجوج اور ماجوج کا نام سب سے پہلے عہد عتیق میں آیا ہے۔ حزقیل نبی کی کتاب میں جنہیں بخت نصر اپنے آخری حملہ بیت المقدس میں گرفتار کر کے بابل لے گیا تھا اور جو سائرس کے ظہور تک زندہ رہے ، یہ پیشن گوئی ملتی ہے۔

’’ اور خداوند کا کلام مجھ تک پہنچا، اس نے کہا : اے آدم زاد ! تو جو ج کی طرف جو ماجوج کی سرزمین کا ہے اور روش، مشک اور توبال کا سردار ہے۔ خداوند یہودا یوں کہتا ہے کہ میں تیرا مخالف ہوں ، میں تجھے بھرا دوں گا۔ تیرے جڑوں میں ہنسیاں ماروں گا۔ تیرے سارے لشکر اور گھوڑوں اور سواروں کو جو جنگی پوشاک پہنے جو پھریاں اور سپریں لئے ہوئے ہیں اور سب شمشیر بکف ہیں ، کھینچ نکالوں گا اور میں ان کے ساتھ فارس اور کوش اور فوط کو بھی کھینچ نکالوں گا۔ جو سپر لئے ہوئے اور خود پہنے ہوئے ہوں گے ، نیز جو مر اور شمال بعید کے اطراف کے باشندگان تجرمّہ اور ان کاسارا لشکر۔ ‘‘

اس کے بعد دور تک تفصیلات چلی گئی ہیں اور چار باتیں خصوصیت کے ساتھ کہی گئی ہیں : ایک یہ کہ جوج شمال کی طرف سے آئے گا تاکہ لوٹ مار کرے۔ دوسرے یہ کہ ماجوج پر اور ان پر جو جزیروں میں سکونت رکھتے ہیں تباہی آئے گی۔ تیسری یہ کہ جو لوگ اسرائیل کے شہروں میں بسنے والے ہیں وہ بھی ماجوج کے مقابلے میں حصہ لیں گے اور ان کے بے شمار ہتھیار ان کے ہاتھ آئیں گے۔ چوتھی یہ کہ تباہی کا گورستان ’’ مسافروں کی وادی ‘‘ میں بنے گا جو ’’ سمندر کے پورب میں ہے۔ ‘‘ ان کی لاشیں عرصہ تک وہاں پڑی رہیں گی۔ لوگ انہیں گاڑتے رہیں گے تاکہ رہ گذر صاف ہو جائے۔ (باب: ۳۸: ۳۹ )

یہ واضح رہے کہ اس پیشن گوئی سے پہلے سائرس (مولانا کے مطابق یہی ذوالقرنین ہے ) کے ظہور اور یہودیوں کی آزادی و خوش حالی کی پیشن گوئی بیان کی جاچکی ہے۔ اور اس پیشن گوئی کا محل ٹھیک اس مکاشفے کے بعد ہے جس میں حزقیل نے بنی اسرائیل کی سوکھی ہڈیوں کو زندہ ہوتے دیکھا تھا اور جسے قرآن نے بھی سورۂ بقرہ کی آیت (۲: ۲۵۹) میں بیان کیا ہے۔ پس ضروری ہے کہ جوج اور ماجوج کا معاملہ بھی اسی زمانے کے لگ بھگ پیش آنے والا ہو۔ یعنی سائرس کے زمانے میں اور یہ سائرس کے ذوالقرنین ہونے کا ایک مزید ثبوت ہے ، کیونکہ قرآن صاف کہہ رہا ہے کہ اسی نے یاجوج ماجوج کے حملوں کی روک تھام کے لئے ایک سد تعمیر کی تھی۔

عہد عتیق کے بعد یہ نام ہمیں مکاشف یوحنا میں بھی ملتا ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ جب ہزار برس پورے ہو چکیں گے تو شیطان قید سے چھوڑ دیا جائے گا اور وہ ان قوموں کی جو زمین کے چاروں طرف ہوں گی یعنی یاجوج ماجوج کو گمراہ کرنے اور لڑانے کے لئے جمع کرنے نکلے گا۔ ان کا شمار سمندر کی ریت کے برابر ہو گا۔ وہ تمام زمین کی وسعتوں پر چڑھ جائیں گی۔ (۲۰: ۷)

یاجوج اور ماجوج کے لئے یورپ کی زبانوں میں Gogاور Magogکے نام مشہور ہو گئے ہیں اور شارحین تورات کہتے ہیں کہ یہ نام سب سے پہلے تورات کے ترجمہ سبعینی (۵۹) میں اختیار کئے گئے تھے۔ لیکن کیا اس لئے اختیار کئے گئے کہ جوج اور ماجوج کا یونانی تلفظ یہی ہوسکتا تھا، یا خود یونانی میں پہلے سے یہ نام موجود تھے؟ اس بارے میں شارحین کی رائیں مختلف ہیں۔ لیکن زیادہ قوی بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ دونوں نام اسی طرح یا اس کے قریب قریب یونانیوں میں بھی مشہور تھے۔

اب سوال یہ ہے کہ یہ کون قوم تھی ؟ تمام تاریخی قرائن متفق طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سے مقصود صرف ایک ہی قوم ہوسکتی ہے ، اس کے سوا کوئی نہیں یعنی شمال مشرق میدانوں کے وہ وحشی مگر طاقت ور قبائل جن کا سیلاب قبل از تاریخ عہد سے لے کر نویں صدی مسیحی تک برابر مغرب کی طرف امنڈتا رہا، جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لئے چینیوں کو سینکڑوں میل لمبی دیوار بنانی پڑی تھی۔ جن کی مختلف شاخیں تاریخ میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہیں اور جن کا آخری قبیلہ یورپ میں میگر Magyar کے نام سے روشناس ہوا اور ایشیاء میں تاتاریوں کے نام سے۔ اسی قوم کی ایک شاخ تھی جسے یونانیوں نے سیتھین Scythianکے نام سے پکارا ہے۔ اور اسی کے حملوں کی روک تھام کے لئے سائرس نے سد تعمیر کی تھی۔

شمال مشرق کا اس علاقے کا بڑا حصہ اب ’منگولیا ‘ کہلاتا ہے ، لیکن منگول MONGOL کی ابتدائی شکل کیا تھی اس کے لئے جب ہم چین کے تاریخی مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں (اور ہمیں اس طرف رجوع ہونا چاہئے ، کیونکہ وہ منگولیا کے ہم سایہ ہے ) تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم نام ’موگ ‘ ہے ، جو چھ سو برس قبل مسیح یونانیوں میں ’میگ ‘ اور ’مے گاگ ‘ پکارا جاتا ہو گا اور یہی عبرانی میں ماجوج ہو گیا۔

چین کی تاریخ میں ہمیں اس علاقے کے ایک اور قبیلے کا ذکر ملتا ہے جو ’یواچی ‘ (Yueh-chi)کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہی ’’ یواچی ‘‘ ہے جس نے مختلف قوموں کے مخارج و تلفظ سے گزر کر کوئی ایسی شکل اختیار کر لی تھی کہ عبرانی میں ’’ یاجوج ‘‘ ہو گیا۔

اس امر کی وضاحت کے لئے ضروری ہے کہ ان نتائج پر ایک اجمالی نظر ڈال لی جائے جو مختلف قوموں کے نسلی، جغرافیائی اور لغوی علائق کی بحث و تنقیب سے پیدا ہوئے ہیں اور جو موجودہ زمانے میں تاریخ اقوام کے طے شدہ مبادیات ہیں۔

کرہ ارض کی بلند سطح کا وہ حصہ جو شمال مشرق میں واقع ہے اورجسے آج کل منگولیا اور چینی ترکستان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ تاریخ قدیم کی بے شمار قوموں کا ابتدائی گہوارہ رہ چکا ہے۔ یہ نسل انسانی کا ایک ایسا سر چشمہ تھا جہاں پانی برابر ابلتا اور جمع ہوتا اور جب بہت بڑھ جاتا تو مشرق و مغرب کی طرف امنڈنا چاہتا۔ اس کے مشرق میں چین تھا، مغرب و جنوب میں مغربی و جنوبی ایشیاء اور شمال مغرب میں یورپ۔ چنانچہ یکے بعد دیگرے قوموں اور قبیلوں کے سیلاب امنڈتے رہے کچھ وسط ایشیاء سے نیچے اتر گئے اور جنوبی و مغربی ایشیاء پر قابض ہو گئے۔ یہ قبائل جو اس علاقے سے نکلتے تھے ، مختلف ملکوں میں بس کر وہاں کی خصوصیات اختیار کر لیتے تھے۔ اور رفتہ رفتہ ایک مقامی قوم بن جاتے تھے۔ لیکن ان کا وطنی سر چشمہ اپنی اصلی حالت پر باقی رہتا۔ یہاں تک کہ پھر قبائل کا ایک نیا سیلاب اٹھتا اور کسی نئے علاقے میں پہنچ کر مقامی قومیت کی تخلیق کر دیتا۔

یہ علاقہ صدیوں تک اصل وحشیانہ حالت پر باقی رہا، لیکن جو قبائل یہاں سے نکل نکل کر مختلف ملکوں میں بستے گئے ، انہوں نے مقامی خصوصیات اختیار کر کے تہذیب و تمدن کی طرف بڑھنا شروع کر دیا۔ یہاں تک کہ چند صدیوں کے بعد ا ن کی حالت اس درجہ مختلف ہو گئی کہ ان میں اور ان کے قدیم ہم وطنوں میں کوئی بات بھی مشترک باقی نہ رہی، وہ اب مہذب ہو رہے تھے ، یہ بدستور وحشی تھے ، وہ تہذیب کے صناعی ہتھیاروں سے لڑتے تھے ، یہ وحشت کی قدرتی ہیبت اور درندگی سے ، ان میں زراعت، صناعت اور ذہنی ترقی کی مختلف شاخیں ابھر رہی تھیں ، وہ ان سب سے نا آشنا تھے۔ سر د علاقے کی صحرائی زندگی اور وحشیانہ خصائل کی خشونت نے انہیں وقت کی شائستہ اقوام کے لئے ایک خوفناک ہستی بنا دیا تھا۔

قبل اس کے تاریخی عہد کی صبح طلوع ہو، شمالی مشرقی قبائل کی یہ مہاجرت شروع ہو چکی تھی اور اس کا سلسلہ تاریخی عہد میں بھی بدستور جاری رہا۔

انہیں قبائل کا ایک ابتدائی گروہ وہ تھا جو آرین نسل (Aryan)کے نام سے پکارا گیا ہے۔ اس کا ایک حصہ وسط ایشیا ء سے یورپ کی طرف بڑھ گیا۔ ایک نیچے اتر کر پنجاب میں آباد ہو گیا۔ ایک مغرب کی طرف بڑھا اور فارس اور میڈیا اور اناتولیا میں بس گیا۔ اسے اب انڈو یورپین آریہ کے نام سے شناخت کیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ ہندوستان اور یورپ دونوں کی آریائی اقوام کے مورث اعلیٰ تھے۔ ان کا جو حصہ شمالی ہند میں بس گیا تھا اس نے اپنا نسلی خطاب برابر یاد رکھا اور اپنے کو آریاورت کہتا رہا، جو فارس اور میڈیا میں بسا اس نے اپنی ابتدائی قیام گاہ کو ایریانہ کے نام سے موسوم کیا (جسے اوستا میں ایریانہ ویگو (Airyana.Vego) کہا گیا ہے ) اور یہی ایریانہ ایران ہو گیا۔ جو قبائل اناتولیا تک پہنچ گئے تھے ، وہ غالباً ھٹی (Hittite)کے نام سے پکارے گئے ، جنہیں تورات کی کتاب پیدائش میں ’’ حتی ‘‘ کہا گیا ہے اور مصر کے قدیم نوشتوں میں ’’ ختّی ‘‘ پایا جاتا ہے۔

جو قبائل یورپ میں پہنچے وہ گوتھ (Goth)، فرانگ (Frank)، الامان (Alamanni)، ونڈال (Vandal)، ٹیوٹان (Teutan)اور ھن (Hun) کے نام سے مشہور ہوئے اور انہیں کی ایک وسیع شاخ وہ تھی جو بحر اسود سے لے کر دریائے ڈینیوب کی بالائی وادی تک پھیل گئی اور سیتھین (Seythian)کے نام سے پکاری گئی۔ وسط ایشیاء کے مشرقی قبائل بھی جو بکٹریا (بلخ ) پر تاخت و تاراج کرتے رہے تھے سیتھین ہی تسلیم کئے گئے ہیں اور خوددارا نے اپنے کتبۂ اصطخر میں انہیں اسی نام سے پکارا ہے۔

ان قبائل کی تین شاخیں شمالی ہند، اناتولیا (ایشیائے کوچک ) اور ایران میں بس گئی تھیں ، انہیں ایسا ماحول ملا جو زراعت کے لئے موزوں تھا۔ اس لئے بہت جلد انہوں نے زراعتی زندگی اختیار کر لی اور پھر تہذیب و حضارت کی طرف بڑھنے لگیں۔ لیکن جو شاخیں یورپ کی طرف بڑھیں ، انہیں ایسا ماحول میسر نہیں آیا، اس لئے صحرائی زندگی کی تمام خصوصیات ان میں بدستور باقی رہیں اور صدیوں تک متغیر نہ ہوئیں۔ اب گویا ان قبائل کی تین حالتیں ہو گئی تھیں۔

٭اولاً: منگولیا کے اصل باشندے جو یک قلم وحشی اور صحرائی تھے اور ان کی یہ حالت بغیر کسی تغیر کے برابر قائم رہی۔

٭ثانیاً : بحر اسود کے شمالی ساحل اور شمالی یورپ کے قبائل جو گو اپنے مولد اصل سے الگ ہو گئے تھے لیکن ان کی وحشیانہ خصوصیات نہیں بدلی تھیں۔

٭ثالثاً : ہندوستان، ایران اور اناتولیا کے قبائل جو بتدریج شہریت و حضارت میں ترقی کرنے لگے اور پھر آگے چل کر تین قدیم تہذیبوں کے بانی ہوئے۔

تقریباً ۷۰۰ قبل مسیح سے لے کر پانچویں صدی مسیحی تک یاجوج ماجوج یا ’گاگ‘ اور ’مے گاگ‘ کا اطلاق پہلی دو قسموں پر ہوتا رہا۔ پہلی پر اس لئے کہ قومیت اور مقام کے لحاظ سے وہی یاجوج ماجوج تھی۔ دوسری پر اس لئے کہ گو اپنے مولد و مقام سے الگ ہو چکی تھی، لیکن اپنی وحشیانہ خصوصیات میں بالکل متغیر نہیں ہوئی تھی۔ تیسری قسم چوں کی بیک قلم منقلب ہو چکی تھی، اس لئے اب وہ یاجوج ماجوج نہیں رہی تھی، بلکہ خود یاجوج ماجوج کی غارت گریوں کا نشانہ بن گئی تھی، البتہ جب پانچویں صدی مسیحی میں یورپ کے قبائل کی حالت بھی منقلب ہونا شروع ہو گئی اور مسیحیت اختیار کر کے تہذیب و حضارت کی طرف بڑھنے لگے تو قوموں کے حافظے سے ان کا نام بھی اتر گیا اور یاجوج ماجوج کا اطلاق صرف اسی خطے میں سمٹ آیا جہاں سے پھیلنا شروع ہوا تھا۔ یعنی صرف منگولیا کے صحرا نورد قبائل ہی یاجوج ماجوج سمجھے جانے لگے۔ چنانچہ قرآن نے سورہ انبیا میں ان کے جس خروج کی خبر دی ہے وہ منگولیا کے تاتاریوں کا آخری خروج تھا۔

یورپ کی تمام موجودہ قومیں (بعض چھوٹی قوموں کو مستثنیٰ کر دینے کے بعد ) براہ راست انہیں قبائل کی نسل سے ہیں جیسا کہ معلوم اور مسلم ہے۔

اس موقع پر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ نسل انسانی نے اکثر حالتوں میں پہلے صحرا نوردی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی ہے پھر توطن اور اقامت گزینی اختیار کی ہے اور اس اختلاف حالت نے ہمیشہ دو طرح کے انسانی گروہوں سے دنیا کو آباد رکھا ہے۔ صحرا نورد قبائل کے گروہ اور اقامت گزیں قبائل کے گروہ۔

معیشت کی یہ دونوں حالتیں اس درجہ مختلف تھیں کہ ایک ہی نسل کے دو قبیلوں میں سے اگر ایک قبیلہ صحرا نورد رہتا تو دوسرا اقامت گزیں ہو جاتا تو چند صدیوں کے بعد نہ صرف ایک دوسرے سے اجنبی ہو جاتے تھے بلکہ بالکل متضاد قسم کی مخلوق بن جاتے تھے۔ صحرا نورد قبائل کو غذا کے لئے جانوروں کے دودھ اور شکار کے گوشت پر اعتماد کرنا پڑتا تھا، اقامت گزیں قبائل کو اناج پر، وہ گھوڑوں کی برہنہ پیٹھ پر زندگی بسر کرتے، یہ کھیتوں میں اور مکانوں کی چار دیواری میں ، ان کی زندگی کا ماحول صحرائیت تھی، ان کا ماحول شہریت، ان کو نشو و نما کے لئے جنگ کی ضرورت تھی، ان کو امن کی، ان کا جسم روز بروز طاقت ور اور محنت پسند ہوتا جاتا تھا، ان کا روز بروز کمزور اور راحت پسند، وہ روز بروز وحشت و خوں خواری میں بڑھتے جاتے تھے ، یہ روز بروز تہذیب و حضارت میں ، تہذیب و حضارت کا لازمی نتیجہ تھا کہ جذبات و خصائل میں لطافت اور نرمی پیدا ہو، صحرائیت و خانہ بدوشی کا لازمی نتیجہ تھا کہ جذبات تند اور خصائل میں وحشت و خشونت ہو۔ نتیجہ یہ نکلتا کہ جوں جوں اقامت گزیں قبائل شائستہ ہوتے جاتے ، صحرا نورد قبائل کی ہستی ان کے لئے ہول ناک اور ناقابل مزاحمت ہوتی جاتی۔ جب کبھی دونوں میں مقابلہ ہوتا تو شہری قبائل دیکھتے کہ صحرا نورد قبائل عفریتوں کی طرح خوفناک اور درندوں کی طرح خوں خوار ہیں اور صحرا نورد قبائل کے لئے شہری آبادی سے زیادہ کوئی سہل شکار نہیں۔

البتہ صحرا نورد قبائل متفرق تھے اور اقامت گزینی کے طریقوں سے ناآشنا، اقامت گزیں قبائل باہم مربوط تھے اور معیشت کے منظم طریقوں سے آشنا، اس لئے قدرتی طور پر صحرا نوردوں کے حملے ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھ سکتے تھے۔ وہ خوفناک درندوں کی طرح آبادیوں پر گرتے اور قتل و غارت کر کے نکل جاتے لیکن جم کر ٹک نہیں سکتے تھے اور نہ علاقے فتح کر کے اپنے قبضے میں رکھ سکتے تھے مگر جب کبھی صدیوں کے بعد ان میں کوئی حکمراں قائد پیدا ہو جاتا اور وہ بہت سے قبیلوں کو متحد کر کے فوج کی نوعیت دے دیتا تو پھر قتل و غارت گری کی ایک ایسی منظم طاقت پیدا ہو جاتی، جو صرف وقتی حملوں ہی پر قانع نہیں رہتی، بلکہ مملکتوں اور قوموں پر قابض ہو جاتی، اور شہری آبادیوں کی بڑی سے بڑی قوتیں بھی اس کی راہ نہیں روک سکتیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ صحرا نورد اور غیر متمدن اقوام کے مقابلے میں شہری اور متمدن اقوام کا ہمیشہ ایسا ہی حال رہا، یہاں تک کہ علم و صناعت نے ایسے ہتھیار اور جنگی وسائل پیدا کر دیئے جن کے مقابلے سے غیر متمدن اقوام عاجز آ گئیں۔

چنانچہ ان شمال مشرقی قبائل کی پوری تاریخ اسی حقیقت کا افسانہ ہے ان کی جن شاخوں نے اقامت گزینی کی زندگی اختیار کر لی تھی وہ بالکل ایک دوسری قوم بن گئی اور جنہیں ایسے حالات میسر نہیں آئے وہ بدستور صحرا نورد رہیں۔ اقامت گزیں قبائل کے لئے صحرا نورد قبائل صرف اجنبی ہی نہیں ہو گئے تھے بلکہ خوفناک بھی ہو گئے تھے۔ کیونکہ ان کی روز افزوں شہریت ان کی صحرا ئی وحشت ناکیوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ یہ جب کبھی موقع پاتے قرب و جوار کی آبادیاں غارت کرتے اور اگر قبائل کا کوئی قائد نکل آتا تو ان کی غارت گریاں دور دور تک بھی پہنچ جاتیں۔ صدیوں تک ان کی حالت ایسی ہی رہی۔ پھر جب چوتھی صدی مسیحی سے ان کے اندر ایسے قائد پیدا ہونے لگے جنہوں نے نظم و اطاعت کا راز پا لیا تھا تو اچانک ان کی طاقت کا ایک نیا دور شروع ہو گیا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چوتھی صدی میں اٹیلا (Attila)نے جو ھن قبیلے کا قائد تھا، ایک عظیم فاتح کی حیثیت اختیار کر لی اور رومن امپائر کی دونوں مشرقی و مغربی مملکتوں کو لرزہ بر اندام کر دیا، پھر یہی قبائل ہیں جو بالآخر اس طرح تمام یورپ پر چھا گئے کہ نہ صرف رومن امپائر کو بلکہ رومی تمدن کو ہمیشہ کے لئے پامال کر دیا۔

چند صدیوں کے بعد تاریخ یہ منظر پھر دہراتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ خود منگولیا میں ایک نیا منگولی قائد چنگیز خان پیدا ہو گیا ہے۔ وہ تمام تاتاری قبائل کو اپنے ماتحت ایک قوم بنا دیتا ہے اور پھر فتح و تسخیر کا ایک ایسا ہولناک سیلاب امنڈ تا ہے جسے اسلامی ممالک کی کوئی متمدن قوت بھی نہ روک سکی۔ وسط ایشیاء سے لے کر عراق تک جو ملک اس کے سامنے آیا خس و خاشاک کی طرح بہہ گیا۔

بہر حال اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج ماجوج سے مقصود یہی منگولین قوم اور اس کی تمام صحرا نورد اور وحشی شاخیں ہیں۔ اب ہم چاہتے ہیں ان کے خروج و ظہور کے مختلف دور تاریخی ترتیب سے منضبط کر لیں۔ اسی ضمن میں یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ سائرس کے زما نے میں یہ قوم کہاں تھی اور کیوں اسے سد تعمیر کرنے کی ضرورت پیش آئی ؟ اس بارے میں تاریخ کی شہادتوں کا خلاصہ حسب ذیل ہے :

۱) پہلا دور تاریخی عہد سے پہلے کا ہے ، جب شمال مشرق سے ان قبائل کے ابتدائی گروہ نکلے اور وسط ایشیا ء میں آباد ہو گئے۔ پھر جنوب اور مغرب میں پھیلنے لگے۔ اس خروج و انشعاب کی رفتار بہت سست رہی ہو گی اور بے شمار منزلیں پیش آئی ہوں گی۔

۲) دوسرا دور صبح تاریخ کا ہے لیکن روشنی ابھی دھندلی ہے۔ اب اقامت گزینی اور صحرا نوردی کی دو مختلف اور متوازی معیشتوں کا سراغ لگا یا جا سکتا ہے ، شمالی ہند، ایران اور اناتولیا کے قبائل اقامت گزینی کی زندگی میں بدل چکے ہیں۔ مگر وسط ایشیاء سے لے کر بحر اسود تک صحرا نورد قبائل کے جتھے پھیلتے جا تے ہیں اور مشرق سے نئے نئے قبیلوں کے اقدام کا سلسلہ برابر جاری ہے۔ یہ زمانہ تقریباً ۳۰۰۰ قبل مسیح سے ۱۵۰۰ قبل مسیح تک کا تصور کرنا چاہئے۔

۳) تیسرا دور تاریخ کی روشنی میں پوری طرح نمایاں ہے۔ یہ تقریباً ایک ہزار قبل مسیح سے شروع ہوتا ہے۔ اب بحر خزر اور بحر اسود کا علاقہ ایک وحشی اور خون خوار قوم کا مرکز بن چکا ہے ، اور وہ مختلف ناموں میں اور مختلف جہتوں سے نمایاں ہوتی رہتی ہے۔ پھر اچانک تاریخ کے افق پر ’’ سیتھین ‘‘ قوم کا نام ابھرتا ہے۔ یہ وسط ایشیاء سے لے کر بحر اسود کے شمالی کناروں تک آباد ہے۔ اور اطراف و جوانب میں برابر حملہ آور ہوتی رہتی ہے۔ یہ زمانہ آشوری تمدن کے ظہور کا اور بابل اور نینویٰ کے عروج کا تھا۔ اور ہیروڈوٹس کی زبانی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ آشورین کے شمالی سرحد پر ’’ سیتھین ‘‘قبائل کی غارت گریاں برابر جاری ہیں۔ یہ شمالی سرحد بحر خزر کے جنوبی ساحل اور آرمینیا کے سلسلہ کوہ تک پہنچی ہوئی تھی۔ اور وہ کاکیشیا کے درے سے اتر کر آشوری آبادیوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔ پھر ۶۳۰ قبل مسیح میں اچانک ان کا ایک عظیم گروہ اسی راہ سے اترتا ہے اور ایران کا تمام مغربی حصہ پامال کر دیتا ہے۔ یونانی مورخ کہتے ہیں کہ آشوری مملکت کی تباہی کا ایک بڑا باعث یہی غارت گری تھی۔

۴) چوتھا دور ۵۵۰ قبل مسیح کا قرار دینا چاہئے جب سائرس کا ظہور ہوا اور فارس اور میڈیا کی متحدہ شہنشاہی کی بنیاد پڑی، اس عہد میں مغربی ایشیا ء کا تمام علاقہ سیتھین حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے۔ اور صدیوں تک ان کے حملوں کی کوئی صدا تاریخ کی سماعت تک نہیں پہنچتی۔ اس عہد میں صرف دو موقعوں پر ان کا ذکر آتا ہے۔ پہلا سائرس کے زمانے میں جب وہ فتح بابل سے پہلے سیتھین قبائل کے سرحدی حملوں کا تدارک کرتا ہے۔ دوسرا دارا کے زمانے میں جب وہ باسفورس عبور کر کے دریائے ڈینوب کی وادیوں میں پہنچ جاتا ہے اور ان قبائل کو دو ر تک بھگا دیتا ہے۔

دارا کے حملے کے بعد ان کا دباؤ شمالی یورپ کی طرف بڑھنے لگا۔

۵) پانچواں دور تیسری صدی قبل مسیح کا ہے۔ اس عہد میں منگولین قبائل کا ایک نیا سیلاب اٹھتا ہے اور پہلے چین کی آبادیوں پر ٹوٹتا ہے ، پھر آہستہ آہستہ وسط ایشیاء کی قدیم شاہ راہ اختیار کرتا ہے۔ چین کی تاریخ میں انہیں ہیونگ نو(Hiung-nu)کے نام سے پکارا گیا ہے۔ اور یہی نام آگے چل کر ’’ ھن ‘‘ (Hun)ہو گیا ہے۔ یہی زمانہ ہے جب شہنشاہ چین سین شیہ ہوانگ ٹی (Ch’in Shih Huang Ti) نے ان حملوں کے روکنے کے لئے وہ عظیم الشان دیوار تعمیر کی جو دیوار چین کے نام سے مشہور ہے اور پندرہ سو میل تک چلی گئی ہے۔ اس کی تعمیر ۲۱۴ قبل مسیح میں شروع ہوئی اور بیان کیا جاتا ہے کہ دس برس میں ختم ہوئی۔ اس نے شمال اور مغرب کی طرف سے منگولین قبائل کے حملوں کی تمام راہیں مسدود کر دی تھیں۔ اس لئے ان کا رخ پھر وسط ایشیاء کی طرف مڑ گیا۔

۶) چھٹا دور تیسری صدی مسیحی کا ہے جب ان قبائل نے یورپ میں ایک نئی کروٹ لی۔ اور بالآخر رومی مملکت اور رومی تمدن کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ کر دیا۔

۷) ساتواں اور آخری دور بارہویں صدی مسیحی اور چھٹی ہجری کا ہے جب منگولیا میں تازہ دم قبائل کی ایک بڑی تعداد پھر تیار ہو گئی اور چنگیز خان نے انہیں متحد کر کے ایک نئی فتح مند طاقت پید ا کر دی۔

مندرجہ صدر خلاصہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ چھٹی صدی قبل مسیح میں مغربی ایشیاء کا تمام علاقہ سیتھین قبائل کے حملوں سے غارت ہو رہا تھا اور جس ہاتھ نے اچانک ظاہر ہو کر ان کے حملے روک دیئے اور پھر ہمیشہ کے لئے مغربی ایشیاء یک قلم محفوظ ہو گیا، وہ سائرس کا ہاتھ تھا۔ پس یقیناً منگولین نسل کے یہی سیتھین قبائل تھے جو یاجوج ماجوج کے نام سے پکارے جاتے تھے اور ذوالقرنین یعنی سائرس نے انہیں کی راہ روکنے کے لئے سد تعمیر کی، جس طرح تین صدیوں کے بعد چینی مجبور ہوئے کہ انہیں روکنے کے لئے ایک دیوار تعمیر کریں۔

اب غور کرو ! سیتھین قبائل کے یہ حملے کس جانب سے ہوتے تھے۔ ہیرو ڈوٹس وغیرہ یونانی مورخ بتلاتے ہیں کہ صرف ایک راہ سے یعنی کاکیش کے درے سے۔ یہی مقام صدیوں تک دونوں علاقوں میں درمیان کا پھاٹک رہا ہے۔ اب اگر سائرس ان حملوں سے محفوظ ہونا چاہتا تھا تو کیا اس کے لئے ضروری نہ تھا کہ یہ پھاٹک بند کر دے ؟ قدرتی طور پر ضروری تھا اور اس لئے اس نے سد تعمیر کر کے یہ راہ مسدود کر دی۔ چونکہ ان حملوں کی صرف یہی ایک راہ تھی اور وہ اس طرح بند کر دی گئی۔ اس لئے یاجوجی حملوں کا بھی یک قلم خاتمہ ہو گیا۔

اب پھر حزقیل نبی کی پیشن گوئی پر ایک نظر ڈالو۔ اس میں جوج کو روش، مسک اور توبال کا سردار کہا ہے اور یہ ٹھیک ٹھیک انہیں قبائل کا نام ہے۔ ’روش ‘ وہی ہے جس سے ’رشیا‘ نکلا۔ مسک وہی ہے جو ’’موسکو ‘‘ ہوا اور توبال بحر اسود کا بالائی علاقہ تھا۔ پھر کہا کہ ’’ میں تجھے پھرا دوں گا اور تیرے جبڑوں میں بنسیاں ماروں گا۔ ‘‘ یہ وہی واقعہ ہے کہ سائرس نے سیتھین قبائل کے منہ پھرا دیئے اور سد تعمیر کر کے ان پر ان کی راہ روک دی۔ پھر کہا ہے : ایسا معاملہ واقع ہو گا کہ ان کے تمام ہتھیار جلا دیئے جائیں گے اور وہ رہگزروں کی ایک وادی میں جو سمندر کے پورب میں ہے ، ان قوموں کا گورستان بنے گا نیز عرصے تک لوگ لاشیں گاڑتے رہیں گے تاکہ راہ صاف کریں ، یہ وہ واقعہ ہے جو دارا کے حملہ یورپ میں پیش آیا۔ دارا کی فوج مملکت کی تمام اقوام سے مرکب تھی۔ اس میں یہودیوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی وہ باسفورس عبور کر کے مشرقی یورپ میں پہنچ گیا تھا اور اگر چہ یونانیوں کی بے وفائی کی وجہ سے اسے واپس ہونا پڑا، لیکن اس لشکر کشی میں بے شمار سیتھین مارے گئے اور ان کی قوت عرصے تک کے لئے مضمحل ہو گئی۔

باقی رہی وہ پیشن گوئی جو مکاشفات یوحنا میں ملتی ہے تو مکاشفات کے اکثر مقامات کی طرح اس مقام کو بھی کوئی جمی ہوئی تفسیر شارحین انجیل نہ کر سکے۔ اس میں ایک ہزار برس کی مدت بتلائی گئی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مدت سے مقصود کون سی مدت ہے اور کب سے شروع ہوتی ہے ؟ اگر حضرت مسیح سے شروع ہوتی تو ظاہر ہے کہ دسویں صدی مسیحی میں کوئی ایسا واقعہ ظہور میں نہیں آیا۔ ہوسکتا ہے کہ ہزار برس سے مقصود وہ مدت ہو جو سقوط بابل سے شروع ہوتی ہے ، کیونکہ اس معاملے سے پہلے بابل کی تباہی کا ذکر کیا گیا ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ایک بات بن سکتی ہے۔ بابل کا سقوط چھٹی صدی قبل مسیح میں ہوا ہے اور چوتھی صد ی مسیحی میں یورپ کے منگولین قبائل نے رومی مملکت پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔ پس یاجوج ماجوج کا یہ خروج سقوط بابل کے ہزار برس بعد ضرور ہوا ہے۔

ماجوج کا ذکر تورات کی کتاب پیدائش میں بھی آیا ہے ، جہاں حضرت نوحؑ کے تین لڑکوں سام، حام اور یافث سے اقوام عالم کا پورا ہونا بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ یافث کی نسبت لکھا ہے کہ اس سے ’’ جمر، ماجوج، مادی، یونان، توبال، مسک اور تیراس پیدا ہوئے۔ ‘‘ (۱۰: ۲)

اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ماجوج سے مقصود منگولین نسل ہے۔ کیونکہ قدیم مورخوں نے ایسی تصریح کی بنا پر انہیں یافثی نسل قرار دیا ہے۔ علاوہ بریں اگر یہ صحیح ہے کہ کتاب پیدائش کا مواد قید بابل کے زمانے میں تیار ہوا ہے تو اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس زمانے میں ماجوج اور مادیوں کو ہم نسل سمجھا جاتا تھا۔

یہ یاد رہے کہ گرچہ دنیا عرصہ تک کتاب پیدائش کے اس بیان پر مطمئن رہی اور عام طور پر تسلیم کر لیا گیا کہ تمام قومیں حضرت نوحؑ کے تین لڑکوں ہی سے پیدا ہوئی ہیں۔ لیکن اب اس کی علمی قدر و قیمت یک قلم مشتبہ ہو گئی ہے اور اسے کوئی بھی اس نظر سے نہیں دیکھتا جس نظر سے ایک تاریخی بیان کو دیکھنا چاہئے۔ زیادہ سے زیادہ یہ ایک ایسا نوشتہ ہے جس میں ہمیں ۵۰۰ قبل مسیح کے یہودی تصورات نظر آ جاتے ہیں۔ بلا شبہ ان میں ایک عنصر ان مقدس روایتوں کا بھی ہے جو قومی حافظے نے محفوظ رکھی تھیں۔ لیکن ساتھ ہی بابل اور آشوری روایتوں کا بھی ایک عنصر شامل ہو گیا ہے جو قیام بابل کی طویل مدت کا قدرتی نتیجہ تھا۔

اب ہمیں یہ معلوم کرنا چاہئے کہ سائرس نے جو سد تعمیر کی تھی اس کا صحیح محل کیا تھا اور موجودہ زمانے کے نقشے میں اسے کہاں ڈھونڈھنا چاہئے۔

بحر خزر کے مغربی ساحل پر ایک قدیم مشہور دربند آباد ہے ، یہ ٹھیک اس مقام پر واقع ہے جہاں کاکیش کا سلسلہ کوہ ختم ہوتا اور بحر خزر سے مل جاتا ہے ، اس مقام پر قدیم زمانے سے ایک عریض و طویل دیوار موجود ہے جو سمندر سے شروع ہو کر تقریباً تیس (۳۰) میل تک مغرب میں چلی گئی ہے اور اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں کاکیش کا مشرقی حصہ بہت زیادہ بلند ہو گیا ہے ، اس طرح اس دیوار نے ایک طرف بحر خزر کا ساحلی قیام بند کر دیا تھا، دوسری طرف پہاڑ کا تمام وہ حصہ بھی روک دیا تھا جو ڈھلوان ہونے کی وجہ سے قابل عبور ہوسکتا تھا۔ ساحل کی طرف یہ دیوار دوہری ہے، یعنی اگر آذر بائجان سے ساحل ہوتے ہوئے آگے بڑھیں تو پہلے ایک دیوار ملتی ہے جو سمندر سے برابر مغرب کی طرف چلی گئی ہے۔ اس میں پہلے ایک دروازہ تھا، دروازہ سے جب گذرتے تھے تو شہر دربند ملتا تھا۔ اب یہ صورت باقی نہیں رہی۔ دربند سے آگے پھر اسی طرح کی ایک دیوار ملتی ہے لیکن یہ دوہری دیوار صرف دو میل تک گئی ہے۔ اس کے بعد اکہری دیوار کا سلسلہ ہے۔ دونوں دیواریں جہاں جا کر ملی ہیں وہاں ایک قلعہ تک پہنچ کر دونوں کا درمیانی فاصلہ سو گز سے زیادہ نہیں رہتا، لیکن ساحل کے پاس پانچ سو گز ہے اور اسی پانچ سو گز کے عرض میں دربند آباد ہے ، اس دوہری دیوار کو ایرانی قدیم سے ’دوبارہ ‘ کہتے آئے ہیں یعنی دوہرا سلسلہ۔

یہ قطعی ہے کہ ظہور اسلام سے پہلے ساسانی عہد میں یہ مقام موجود تھا اور اسے ’دربند ‘کہا جاتا تھا، یعنی ’بند دروازہ ‘۔ کیونکہ مقدسی، ہمدانی، مسعودی، اصطخری، یاقوت اور قزوینی وغیرہ تمام مسلمان مورخوں اور جغرافیہ نویسوں نے اسی نام سے اس کا ذکر کیا ہے اور سب لکھتے ہیں کہ ساسانی عہد میں یہ مقام شمالی سرحد کا سب سے زیادہ اہم مقام تھا۔ کیونکہ اسی راہ سے شمال کے حملہ آور ایران کی طرف بڑھ سکتے تھے۔ یہ ایرانی مملکت کی کنجی تھی۔ جس کے ہاتھ یہ کنجی آ جاتی وہ پوری مملکت کا مالک ہو جاتا۔ اسی لئے ضروری ہوا کہ اس کی حفاظت کا اس درجہ اہتمام کیا جائے۔

مسلمانوں نے پہلی صدی ہجری میں جب یہ علاقہ فتح کیا تو ساسانیوں کی طرح انہوں نے بھی اس مقام کی اہمیت محسوس کی۔ اسے ’باب الابواب ‘اور ’الباب ‘ کے نام سے پکارنے لگے۔ کیونکہ مملکت کے لئے یہی مقام شمال کا دروازہ تھا اور ان بہت سے دروازوں میں سے آخری دروازہ جو اس دیوار کے طول میں بنائے گئے تھے ، بعضوں نے اسے ’باب الترک‘ اور ’باب الخزر‘ کے نام سے بھی پکارا ہے، کیونکہ تاتاریوں اور تاتاری النسل کا کیش قبیلوں کی آمد و رفت کی راہ یہی تھی۔

اس مقام سے جب مغرب کی طرف کاکیشیا کے اندرونی حصوں میں اور آگے بڑھتے ہیں تو ایک اور مقام ملتا ہے جو درۂ داریال (Darial Pass)کے نام سے مشہور ہے۔ اور موجودہ زمانے کے نقشے میں اس کا عمل ولاڈی کیوکز(Vladi Kaukes)اور ٹِفلس (Tiflis)کے درمیان دکھایا جاتا ہے۔ یہ کاکیشیا کے انتہا ئی بلند حصوں میں سے ہو کر گزرا ہے اور دور تک دو بلند چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں بھی قدیم زمانے سے ایک دیوار موجود ہے۔ اور ’ارمنی ‘ روایتوں میں اسے ’’آہنی دروازہ ‘‘ کے نام سے پکارا گیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیوار کس نے تعمیر کی تھی ؟ تمام عرب مورخوں کا بیان ہے کہ نوشیرواں نے تعمیر کی تھی۔ چنانچہ مسعودی نے اس کی تعمیر کی بعض تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔ اور بعد کے تمام مصنف اسے نقل کرتے آئے ہیں۔ لیکن جب ہم قبل از اسلام عہد کے تاریخی نوشتوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نوشیرواں کے عہد سے بہت پہلے یہاں ایک دیوار موجود تھی اور اس نے شمال سے جنوب کا راستہ روک رکھا تھا۔ چنانچہ سب سے پہلے چہل صدی مسیحی میں مشہور عبرانی مورخ جوزیفس (Josephus)اس کا ذکر کرتا ہے ، پھر پروکوپئیس (Procopius)چھٹی صدی مسیحی میں جب رومن جنرل ’بلی ساریوس‘(Belisarius)نے اس علاقے پر حملہ کیا تو یہ اس کے ہمراہ تھا۔ نوشیرواں کا زمانہ ۵۳۱ ء سے ۵۷۹ء تک تھا۔ اس لئے ظاہر ہے کہ یہ استحکامات اس کے بنائے ہوئے نہیں ہوسکتے۔

اب یہاں ایک اور الجھاؤ پڑتا ہے جوزیفس اور پروکوپئیس دونوں یہ روایت نقل کرتے ہیں کہ ان استحکامات کا بانی سکندر تھا۔ حالانکہ سکندر کی فتوحات کا کوئی واقعہ تاریخ کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے اور کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اس علاقے میں آیا ہو یا یہاں کوئی جنگ کی ہو۔

زمانۂ حال کے ایک امریکی مورخ سر اے وی ولیمس جیکسن (A.V. Williams)(پروفیسر کولمبیا یونیورسٹی ) نے اس علاقے کی سیاحت کی ہے اور اس کے تفصیلی حالات اپنے سفر نامے میں  بیان کئے ہیں وہ اس مشکل کا یہ حل تجویز کرتے ہیں کہ سکندر کے کسی جنرل نے یہ استحکامات تعمیر کئے ہوں گے۔ کم از کم درۂ داریال کے استحکامات۔ بعد کو ساسانی فرمانرواؤں نے انہیں اور زیادہ وسیع اور مکمل کر دیا، چوں کہ ابتدائی تعمیر سکندر کے عہد کی تھی اس لئے سکندر کی طرف منسوب ہو گئی۔

لیکن جب سکندر کے تمام فوجی اعمال خود اس کے عہد میں اور خود اس کے ساتھیوں نے قلم بند کر دیئے ہیں اور ان میں کہیں بھی کاکیشیا کی لڑائی یا کاکیشیا کے استحکامات کی تعمیر کا اشارہ نہیں ملتا، تو پھر کیوں کر ممکن ہے کہ اس طرح کی توجیہات قابل اطمینان تسلیم کر لی جائیں۔

اس طرح کے غیر معمولی استحکامات بھی تعمیر کئے جا سکتے ہیں جب کہ امن و حفاظت کی ضرورت نے انہیں ناگزیر کر دیا ہو۔ لیکن سکندر کو اپنی تمام فتوحات میں اس طرح کی کوئی ضرورت پیش ہی نہیں آئی۔ اس کے زمانے میں یہ علاقہ ایران کی قدیم شہنشاہی کے ماتحت تھا۔ اس نے شام کی راہ سے ایران پر حملہ کیا اور پھر وسط ایشیا ہو تا ہوا ہندوستان چلا گیا، ہندوستان سے واپسی پر ابھی بابل میں تھا کہ انتقال کر گیا۔ ایسی حالت میں وہ کون سے حالات ہوسکتے ہیں جو کاکیشیا کے استحکامات پر اسے مجبور کر سکتے تھے اور اگر پیش آئے تو کب ؟

اصل یہ ہے کہ یہ استحکامات سکندر سے دو سوبرس پہلے سائرس نے تعمیر کئے تھے اور درۂ داریال کی سد وہی سد ہے جس کا قرآن نے ذکر کیا ہے۔

حسب ذیل قرائن سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے :

اولاً: سائرس اور سکندر کی دو باتیں تاریخ کی قطعی روشنی میں آ چکی ہیں۔ سائرس کے زمانے میں یہاں سے سیتھین قوم کے حملے ہو رہے تھے۔ سکندر کے زمانے میں کوئی حملہ آور نہیں تھا۔ سائرس کے لئے ضروری تھا کہ راہ روکے۔ سکندر کو کوئی ایسی ضرورت پیش نہیں آئی۔ سائرس کی نسبت ہیرو ڈوٹس اور زینو فن کی شہادت موجود ہے کہ فتح لیڈیا کے بعد اس نے سیتھین قوم کے سرحدی حملوں کی روک تھام کی، سکندر کی نسبت کوئی ایسی شہادت موجود نہیں۔ ان دو باتوں کے جمع کرنے سے جو تاریخی قرینہ پید ا ہوتا ہے وہ یہی ہے کہ سد سائرس نے تعمیر کی ہو گی نہ کہ سکندر کے حکم سے کسی افسر نے۔

ثانیاً : پروکوپئیس کے علاوہ دوسرے قدیم مورخوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً ٹسی ٹس (Tacitus)اور لیڈس (Lydus) نے۔ وہ ہمیں بتلاتے ہیں کہ رومی اسے ’’ کاسپین پورٹا‘‘ کے نام سے پکارتے تھے یعنی ’’ با ب کاسپین ‘‘۔ لیکن اس طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے کہ یہ سکندر کے عہد کی تعمیر ہے۔

ثالثاً : ایک مثبت شہادت بھی موجود ہے جو سائرس کی طرف ذہن منتقل کر دیتی ہے۔ یہ ارمنی نوشتوں کی شہادت ہے ، جسے قرب محل کی وجہ سے مقامی شہادت تصور کرنا چاہئے۔ ارمنی زبان میں اس کا قدیم نام ’’ پھاک کورائی‘‘ اور ’’ کابان کورائی ‘‘ چلا آتا ہے۔ دونوں ناموں کا مطلب یہ ہے کہ ’’ کور کا درہ ‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’ کور ‘‘ سے مقصود کیا ہے ؟ کیا یہ ’’ گورش ‘‘ کی بدلی ہوئی شکل نہیں ہے۔ جو سائرس کا اصل نام تھا۔ جیسا کہ دارا کے کتبۂ اصطخر میں پڑھا جا چکا ہے۔

پروفیسر جیکسن اس ارمنی نام کا ذکر کرتے ہیں ، لیکن وہ ’’ کور ‘‘ کا تلفظ ’’ سور ‘‘ کرتے ہیں اور پھر عربی کے ایک نام ’’ سول ‘‘ کا اسے ماخذ قرار دیتے ہیں۔ اس طرح لفظی حقیقت گم ہو جاتی ہے۔

رابعاً : اس علاقے سے سائرس کے تعلق کی ایک دوسری شہادت بھی واضح ہے۔ کاکیشیا کے پہاڑ سے کئی دریا بہتے ہیں ، جن میں ایک دریا کا نام قدیم سے ’’ کورش ‘‘ چلا آتا ہے۔ جسے رومی نوشتوں میں سائرس کے نام سے پکارا گیا ہے۔ خود یورپ کے سیاحوں نے بھی اسے اسی نام سے پہچانا ہے۔ انتھونی جنکن سن (Anthony Jenkinson)جسے لندن کی ایک تجارتی کمپنی نے ۱۵۵۸ ء میں براہ روس بخارا بھیجا تھا اپنی یادداشت میں بحر خزر کا ذکر کرتے ہوئے اس دریا کا بھی ذکر کرتا ہے اور اسے ’’ سائرس ‘‘ کے نام سے پکارتا ہے۔

(Hakluyt’s Voyages Vol.1 P.462)علاوہ بریں تمام قدیم نوشتوں میں اس دریا کو اسی نام سے پکارا گیا ہے۔

اب ایک سوال اور غور طلب ہے۔ ذوالقرنین نے جو سد تعمیر کی تھی وہ درۂ داریال کی سد ہے یا دربند کی دیوار یا دونوں ؟

قرآن میں ہے کہ ذوالقرنین دو پہاڑی دیواروں کے درمیان پہنچا، اس نے آہنی تختیوں سے کام لیا، اس نے درمیان کا حصہ پاٹ کے برابر کر دیا، اس نے پگھلا نرم موجو دم نامکمل طریقے سے ختم ہو جاتی ہے۔ری کتاب انگریزی میں ہے!! تبدیلی کی ہےہوا تانبا استعمال کیا، تعمیر کی یہ تمام خصوصیات کسی طرح بھی دربند کی دیوار پر صادق نہیں آتیں۔ یہ پتھر کی بڑی بڑی سلوں   کی دیوار ہے اور دو پہاڑی دیواروں کے درمیان نہیں ہے بلکہ سمندر سے پہاڑ کے بلند حصے تک چلی گئی ہے۔ اس میں آہنی تختیوں اور پگھلے ہوئے تانبے کا کوئی نشان نہیں ملتا۔ بس یہ قطعی ہے کہ ذوالقرنین والی سد کا اطلاق اس پر نہیں ہوسکتا۔

البتہ درۂ داریال کا مقام ٹھیک ٹھیک قرآن کی تصریحات کے مطابق ہے۔ یہ پہاڑی چوٹیوں کے درمیان ہے اور جو سد تعمیر کی گئی ہے اس نے درمیان کی راہ بالکل مسدود کر دی ہے۔ چوں کہ اس کی تعمیر میں آہنی سلوں سے کام لیا گیا تھا اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ جارجیا میں ’آہنی دروازہ ‘ کا نام قدیم سے مشہور چلا آتا ہے۔ اسی کا ترجمہ ترکی میں ’’ وامر کبو ‘‘ مشہور ہو گیا۔

بہر حال ذوالقرنین کی اصلی سد یہی سد ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کے بعد خود اس کے جانشینوں نے یہ دیکھ کر کہ کاکیشیا کا مشرقی ڈھلوان بھی خطرے سے خالی نہیں ، دربند کی دیوار تعمیر کر دی ہو اور نوشیرواں نے اسے اور مضبوط کیا ہو، غالباً سب سے پہلا انگریز سیاح جس نے دربند کی دیوار کا ذکر کیا ہے انتھونی جنکنسن (Anthony Jeckinson) ہے اسے کوئن الزبتھ نے ۱۵۶۱ ء میں شاہ طہماسپ صغوی کے دربار میں بھیجا تھا۔ یہ روسی علاقے سے براہ بحر خزر دربند پہنچا اور وہاں چند دن ٹھہر کر شروان کی طرف روانہ ہوا، یہ لکھتا ہے کہ اکہری دیوار گر چکی ہے مگر اس کی بنیاد صاف نمایاں ہے۔ ( دیکھئے Hakluyt’s Voyages Vol.11.13. Everyman’s Library )۔

دربند کی دوہری دیوار ۱۷۹۶ ء تک موجود تھی جس کی تصویر ایک روسی سیاح کی بنائی ہوئی ایچ والڈ (Eich wald)نے اپنی کتاب ’’ کواکیس ‘‘ میں نقل کی ہے۔ لیکن ۱۹۰۴ ء میں جب پروفیسر جیکسن نے اس کا معائنہ کیا تو گو آثار باقی تھے ، لیکن دیوار گر چکی تھی۔ البتہ اکہری دیوار اکثر حصوں میں اب تک باقی ہے۔

موجودہ زمانے کے شارحین تورات میں بھی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ یاجوج ماجوج سے سیتھین قوم مراد تھی۔ لیکن وہ حزقیل کی پیشن گوئی کا محل ان کا وہ حملہ قرار دیتے ہیں جو ہیروڈوٹس کے قوم کے مطابق ۶۳۰ ق۔ م۔ میں ہوا تھا، لیکن اس صور ت میں یہ مشکل پیدا ہو جاتی ہے کہ حزقیل کی کتاب بابل کی اسیری کے زمانے میں لکھی گئی ہے کیونکہ وہ خود بھی بخت نصر کے اسیروں میں سے تھے اور سیتھین حملہ اس سے بہت پہلے ہو چکا تھا۔ (اس باب میں مزید تفصیلات کے لئے انسائیکلو پیڈیا برٹا نیکا اور میوٹش انسائیکلو پیڈیا میں لفظ (Gog)کا مقالہ دیکھنا چاہئے۔ )

ہم نے ذوالقرنین کے مبحث میں پوری تفصیل سے کام لیا ہے ، کیونکہ زمانہ حال کے معترضین قرآن نے اس مقام کو سب سے زیادہ اپنے معاندانہ استہزاء کا نشانہ بنایا ہے ، وہ کہتے ہیں ’’ذوالقرنین کی کوئی تاریخی اصلیت نہیں ہے۔ یہ محض عرب یہودیوں کی ایک کہانی تھی جو پیغمبر اسلام نے اپنی خوش اعتقادی سے صحیح سمجھ لی اور نقل کر دی۔ ‘‘ اس لئے ضروری تھا کہ ایک مرتبہ یہ مسئلہ اس طرح صاف کر دیاجائے کہ شک و تردد کا کوئی پہلو باقی نہ رہے۔

 

مظاہر حق جدید شرح مشکوٰۃ شریف اردو

جلد ششم صفحہ ۳۵۷

دجال کے خاتمہ کے بعد حضرت عیسیٰؑ اسی حال میں ہوں گے کہ اچانک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے پاس یہ وحی آئے گی کہ میں نے ایسے بندے پیدا کئے ہیں جن سے لڑنے کی قدرت و طاقت کوئی نہیں رکھتا۔ تم میرے بندوں کو جمع کر کے کوہ طور کی طرف لے جاؤ اور ان کی حفاظت کرو، پھر اللہ تعالیٰ یاجوج ماجوج کو ظاہر کرے گا جو ہر بلند زمین کو پھلانگتے ہوئے اتریں گے اور دوڑ یں گے ان کی تعداد اتنی زیادہ ہو گی کہ جب ان کی سب سے پہلی جماعت بحر طبریہ سے گذرے گی تو اس کا سارا پانی پی جائے گی۔ پھر جب اس جماعت کے بعد آنے والی جماعت وہاں سے گذرے گی تو بحر طبریہ کو خالی دیکھ کر کہے گی کہ اس میں بھی کبھی پانی تھا۔ اس کے بعد یاجوج ماجوج آگے بڑھیں گے۔ یہاں تک کہ جبل خمر تک پہنچ جائیں گے ، جو بیت المقدس کا ایک پہاڑ ہے ، اور ظلم و غارت گری، اذیت رسانی اور لوگوں کو پکڑنے ، قید کرنے میں مشغول ہو جائیں گے اور پھر کہیں گے کہ ہم نے زمین والوں کی ختم کر دیا، چلو آسمان والوں کا خاتمہ کر دیں۔ چنانچہ وہ آسمان کی طرف اپنے تیر پھینکیں گے۔ اور اللہ تعالیٰ ان کے تیروں کو خون آلود کر کے لوٹا دے گا تا کہ وہ اس بھرم میں رہیں کہ ہمارے تیرواقعتہً آسمان والوں کا کام تمام کر کے واپس آئے ہیں۔ گویا اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ڈھیل دی جائے گی اور یہ احتمال بھی ہے کہ وہ تیر فضا میں پرندوں کو لگیں گے اور ان کے خون سے آلودہ ہو کر واپس آئیں گے ، پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ دجال کا فتنہ زمین تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ زمین کے اوپر بھی پھیل جائے گا۔ اس عرصہ میں خدا کے نبی اور ان کے رفقا یعنی حضرت عیسیٰؑ اور اس وقت کے مومن کوہ طور پر روکے رکھے جائیں گے اور ان پر اسباب و معیشت کی تنگی و قلت اس درجہ کو پہنچ جائے گی کہ ان کے لئے بیل کا سر تمہارے آج کے سو دیناروں سے بہتر ہو گا۔ جب یہ حالت ہو جائے گی تو اللہ کے نبی عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی یاجوج ماجوج کی ہلاکت کے لئے دعا و زاری کریں گے۔ پس اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں نغف یعنی کیڑے پڑ جانے کی بیماری بھیجے گا جس سے وہ سب یک بارگی اس طرح مر جائیں گے جس طرح کوئی ایک شخص مر جاتا ہے۔ یعنی نغف کی بیماری کی شکل میں ان پر خدا کا قہر اس طرح نازل ہو گا کہ سب کے سب ایک ہی وقت میں موت کے گھاٹ اتر جائیں گے ، اللہ کے نبی اور ان کے ساتھی اس بات سے آگاہ ہو کر پہاڑ سے اتر آئیں گے۔ اور انہیں زمین پر ایک بالشت کا ٹکڑا بھی ایسا نہیں ملے گا جو یاجوج ماجوج کی چربی اور بد بو سے خالی ہو۔ اس مصیبت کے دفیعہ کے لئے حضرت عیسیٰؑ اور ان کے ساتھی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں گے۔ تب اللہ تعالیٰ اونٹ کی گردن جیسی لمبی گردنوں والے پرندوں کو بھیجے گا جو یاجوج ماجوج کی لاشوں کو اٹھا کر جہاں اللہ کی مرضی ہو گی اٹھا کر پھینک دیں گے۔ ایک اور روایت میں یہ ہے کہ وہ پرندے ان لاشوں کو فہبل میں ڈال دیں گے۔ ( فہبل یہ در اصل ایک جگہ کا نام ہے جو بیت المقدس کے علاقہ میں واقع ہے۔ دوسرے معنی گڑھے کے ہیں اور ایک معنی پہاڑ سے گرنے کے ہیں۔ ) اور مسلمان یا جوج ماجوج کی کمانوں تیروں اور ترکشوں کو سات سال تک چلاتے رہیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ ایک زور دار بارش بھیجے گا جس سے کوئی بھی مکان خواہ وہ مٹی کا ہو یا پتھر کا اور خواہ صوف کا ہو نہیں بچے گا وہ بارش زمین کو دھو کر آئینہ کی طرح صاف کر دے گی۔ پھر زمین کو حکم دیا جائے گا کہ اپنے پھلوں یعنی اپنی پیداوار کو نکال اور اپنی برکت کو واپس لا، چنانچہ زمین کی پیداوار اس وقت اس قدر بابرکت اور با افراط ہو گی کہ دس سے لے کر چالیس آدمیوں تک کی پوری جماعت ایک انار کے پھل سے سیراب ہو جائے گی۔ اور اس انار کے چھلکے سے لوگ سایہ حاصل کریں گے۔ نیز دودھ میں برکت دی جائے گی۔ یعنی اونٹ اور بکریوں کے تھنوں میں دودھ بہت ہو گا۔ یہاں تک کہ دودھ دینے والی ایک اونٹنی لوگوں کی ایک بڑی جماعت کے لئے کافی ہو گی۔ دودھ دینے والی ایک بکری آدمیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت کے لئے کافی ہو گی۔ بہرحال لوگ اس طرح کی خوش حال اور امن و چین کی زندگی گذار رہے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ایک خوشبو دار ہوا بھیجے گا جو ان کی بغل کے نیچے کے حصہ کو پکڑے گی۔ (یعنی اس ہوا کی وجہ سے ان کی بغلوں میں درد پیدا ہو گا ) اور پھر وہ ہوا ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور صرف بدکار اور شریر لوگ دنیا میں باقی رہ جائیں گے جو آپس میں گدھوں کی طرح مختلط ہو جائیں گے اور ان ہی لوگوں پر قیامت قائم ہو گی۔ اس پوری روایت کو مسلمؒ نے نقل کیا ہے۔

 

تیسیر الباری ترجمہ و شرح صحیح بخاری

جلد ۹، صفحہ ۱۸۹ تا ۱۹۱

باب یاجوج ماجوج

صحیح یہ ہے کہ یاجوج ماجوج آدمی ہیں ، یافث بن نوح کی اولاد سے۔ بعضوں نے کہا آدمؑ کا نطفہ مٹی میں مل گیا، اس سے پیدا ہوئے۔ مگر یہ قول محض بے دلیل ہے۔ ابن مردویہ اور حاکم حذیفہ سے مرفوعاً نکالا کہ یاجوج ماجوج دو قبیلے ہیں یافث بن نوح کی اولاد ہیں۔ ان میں کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار اولاد اپنی نہیں دیکھ لیتا اور ابن ابی حاتم نے نکالا آدمیوں اور جنوں کے دس حصے ہیں ان میں نو حصے یاجوج ماجوج ہیں۔ ایک حصے میں باقی لوگ۔ کعب سے منقول ہیں یاجوج ماجوج کے لوگ کئی قسم کے ہیں بعضے شمشاد کی طرح لمبے بعضے طول و عرض دونوں میں چار چار ہاتھ بعضے اتنے بڑے کان رکھتے ہیں کہ ایک کو بچھاتے ایک کو اوڑھ لیتے ہیں اور حاکم نے ابن عباسؓ سے نکالا یاجوج ماجوج کے لوگ ایک ایک بالشت کے ہیں۔ بہت لمبے ان میں سے وہ ہیں جو تین بالشت کے ہیں۔ ابن کثیر نے کہا ابن ابی حاتم نے ان کے اشکال اور حالت اور قد و قامت اور کانوں کے باب میں عجیب عجیب حدیثیں نقل کی ہیں جن کی سندیں صحیح نہیں ہیں ، میں کہتا ہوں جتنا صحیح حدیثوں سے ثابت ہے اسی قدر ہے کہ یاجوج ماجو ج دو قومیں ہیں آدمیوں کی، قیامت کے قریب وہ نہایت ہجوم کریں گے اور بستی میں گھس آئیں گے اس کو تباہ و برباد کریں گے۔ واللہ اعلم

 

حدیث ۷۸ :

ہم سے ابو ایمان نے بیان کیا، کہا ہم سے شعیب نے خبر دی، انہوں نے زہری سے ، دوسری سند اور ہم سے اسمٰعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ کو میرے بھائی عبدالمجید نے ، انہوں نے سلیمان بن بلال سے ، انہوں نے محمد بن ابی عتیق سے ، انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ بن زبیر سے ، ان سے زینب بن ابی سلمہ نے بیان کیا، ان سے حبیبہ بنت ابی سفیان نے ، انہوں نے ام المومنین زینب بن جحشؓ سے کہ ایک روز آنحضرت ﷺ ان کے پاس گھبرائے ہوئے تشریف لائے ، آپ ﷺ فرما رہے تھے لاالہ الااللہ عرب کی خرابی ایک آفت سے جو نزدیک ہی آن پہنچی۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی اور آپ ؐ نے انگوٹھے اور کلمے کی انگلی کا حلقہ کر کے بتلایا۔ یہ سن کر ام المومنین زینبؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا اچھے نیک بخت لوگ زندہ رہنے پر بھی ہم تباہ و برباد ہوں گے۔ آپ ؐ نے فرمایا ہاں جب بدکاری بہت پھیل جائے گی۔

 

حدیث ۷۹ :

ہم سے موسیٰ بن اسمٰعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے وہب بن خالد نے ، کہا ہم سے عبداللہ بن طاؤس نے ، انہوں نے اپنے والد سے ، انہوں نے ابو ہریرہؓ سے ، انہوں نے آنحضرت ﷺ سے۔ آپؐ نے فرمایا یاجوج ماجوج کی دیوار اتنی کھل گئی۔ وہب نے نوے کا اشارہ کر کے بتلایا ( اس اشارے کا ذکر اوپر گذر چکا۔ )

ہمارے زمانہ میں بہت سے لوگ اس میں شبہ کرتے ہیں کہ جب یاجوج ماجوج اتنی بڑی قوم ہے کہ اس میں کا کوئی شخص اس وقت تک نہیں مرتا جب تک ہزار آدمی اپنی نسل کے نہیں دیکھ لیتا تو یہ قوم اس وقت دنیا کے کس حصے میں آباد ہے۔ اہل جغرافیہ نے تو ساری زمین کو چھان ڈالا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ چھوٹا سا جزیرہ ان کی نظر سے رہ گیا ہو۔ مگر اتنا بڑا ملک جس میں ایسی کثیر تعداد قوم بستی ہے نظر نہ آنا قیاس سے دور ہے۔ دوسرے اس زمانے میں لوگ بڑے بڑے اونچے پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں ، ان میں ایسے ایسے سوراخ کرتے ہیں جس میں سے ریل چلی جاتی ہے تو دیوار ان کو کیونکر روک سکتی ہے۔ سخت سے سخت چیز دنیا میں فولاد ہے۔ اس میں بھی بآسانی سوراخ ہوسکتا ہے۔ کتنی ہی اونچی دیوار ہو، آلات کے ذریعے اس پر چڑھ سکتے ہیں۔ ڈائنا میٹ سے اس کو دم بھر میں گرا سکتے ہیں ، ان شبہوں کا جواب یہ ہے کہ ہم یہ نہیں کہہ سکتے وہ دیوار اب تک موجود ہے اور یاجوج ماجوج کو روکے ہوئے ہے۔ البتہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ تک ضرور موجود تھی اور اس وقت تک دنیا میں صنعت اور آلات کا ایسا رواج نہ تھا تو یاجوج ماجوج کی وحشی قومیں اس دیوار کی وجہ سے رکی رہنے میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔

رہی اور یہ بات کہ یاجوج ماجوج کے کسی شخص کا نہ مرنا جب تک وہ ہزار اپنی نسل سے نہ دیکھ لے یہ بھی ممکن ہے کہ اسی وقت تک کا بیان ہو جب آدمی کی عمر ہزار دو ہزار سال تک ہوا کرتی تھی نہ کہ ہمارے زمانے کا کہ جب عمر انسانی کی مقدار سو برس یا ایک سو بیس برس رہ گئی ہے۔ آخر یاجوج ماجوج بھی انسان ہیں۔ ہماری عمروں کی طرح ان کی عمر یں گھٹ گئی ہوں گی۔ اب یہ جو آثار صحابہ اور تابعین سے منقول ہے کہ ان کے قد و قامت اور کان ایسے ہیں ، ان کی سند یں قابل اعتماد اور صحیح نہیں ہیں اور جغرافیہ والوں نے جن قوموں کو دیکھا ہے انہی میں سے دو قومیں یاجوج اور ماجوج ہیں۔ اللہ خوب جانتا ہے کہ وہ کون سی قومیں ہیں۔ بعضوں نے قیاس سے روس اور تارتاری یعنی چینی اور جاپانی قوموں کو یاجوج ماجوج کہا ہے ، بعضوں نے انگریز اور روس کو مگر انگریز ی قوم کوئی بڑی تعداد کی قوم نہیں ، روس تاتار چین جاپان یہ دونوں یاجوج ماجو ج ہو سکتے ہیں۔ مسلم کی حدیث میں ہے کہ یاجو ج ماجوج بحیرہ طبریہ سے گذریں گے ، اس کا پانی تمام کر دیں گے ، امام احمد کی روایت ہے جس بستی پر گذریں گے اس کو تباہ کریں گے ، جس پانی پر سے گذریں گے اسے پی جائیں گے۔ مسلم کی حدیث میں ہے وہ کہیں گے اب زمین والوں کو تو ہم مار چکے ، لاؤ آسمان والوں کو بھی ماریں۔ پھر آسمان کی طرف تیر ماریں گے۔ اللہ تعالیٰ ان تیروں کو خون سے رنگ کر لوٹا دے گا۔ ابن جریر اور ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے ، وہ کہیں گے اب ہم آسمان والوں پر بھی غالب ہوئے۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ زمین کے سب جانور سانپ، بچھو تک بھی کھا جائیں گے اور ہاتھی اور سور بھی، ان کا مقدمہ الجیش شام میں ہو گا تو ساقہ (لشکر کا آخری حصہ ) خراساں میں لیکن اللہ مکہ اور مدینہ اور بیت المقدس کو ان سے بچائے رکھے گا۔

 

قصص القرآن جلد سوم، صفحہ ۱۸۰ تا ۲۳۲

از: مولانا محمد حفظ الرحمٰن صاحب سیوہارویؒ

یاجوج و ماجوج

ذوالقرنین کو زیر بحث لانے کے بعد دوسرا مسئلہ یاجوج ماجوج کی تعین کا ہے۔ مفسرین اور مورخین اسلام نے رطب و یابس روایات کا وہ تمام ذخیرہ نقل کر دیا ہے جو اس سلسلے میں بیان کی گئی ہیں اور ساتھ یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ چند روایات کے علاوہ اس سلسلہ کی تمام روایات خرافات و ہفوات کا مجموعہ ہیں جو عقلاً و نقلاً کسی طرح لائق اعتماد نہیں ہیں اور اسرائیلات کا لایعنی طومار ہیں۔

ان تمام روایات میں قدر مشترک یہ ہے کہ یاجوج ماجوج ایک ایسے قبائل کا مجموعہ ہیں جو جسمانی اور معاشرتی اعتبار سے عجیب و غریب زندگی کے حامل ہیں۔ مثلاً وہ بالشت ڈیڑھ بالشت یا زیادہ سے زیادہ ایک دراع کا قد رکھتے ہیں اور بعض غیر معمولی طویل القامت ہیں۔ اور ان کے دونوں کان اتنے بڑے ہیں کہ ایک اوڑھنے اور دوسرا بچھانے کے کام آتا ہے۔ چہرے چوڑے چکلے اور قد کے ساتھ غیر متناسب ہیں۔ ان کی غذا کے لئے قدرت سال بھر میں دو مرتبہ سمندر سے ایسی مچھلیاں نکال کر پھینک دیتی ہے جن کے سر اور دم کا فاصلہ اس قدر طویل ہوتا ہے کہ دس روز و شب اگر کوئی شخص اس پر چلتا رہے تب اس فاصلہ کو قطع کر سکتا ہے یا ایک ایسا سانپ ان کی خوراک ہے جو پہلے قر ب و جوار کے تمام بری جانوروں کو ہضم کر جاتا ہے اور پھر قدرت اس کو سمندر میں پھینک دیتی ہے اور وہ وہاں میلوں تک بحری جانوروں کو چٹ کر لیتا ہے اور پھر ایک بادل آتا ہے اور فرشتہ اس عظیم الجثہ اژدہے کو اٹھا کر اس پر رکھ دیتا ہے اور بادل اس کو ان قبائل میں  لے جا کر ڈال دیتا ہے اور یہ کہ یاجوج ماجوج ایک ایسی برزخی مخلوق ہیں جو آدم علیہ السلام کے صلب سے تو ہیں مگر حوا علیہ السلام کے بطن سے نہیں ہیں۔

ان روایات کو نقل کرتے ہوئے یاقوت نے معجم البلدان میں یہ رائے ظاہر کی ہے :

’’ اور میں نے جو کچھ روایات نقل کی ہیں ان کے اختلاف کے پیش نظر میں کسی طرح ان کی صحت کو باور نہیں کر سکتا اور اس معاملہ کی اصل حقیقت کا حال خدا ہی خوب جانتا ہے اور بہر حال اس میں ذرا سا بھی شبہ نہیں کہ جہاں تک سدّ کا معاملہ ہے اس کے صحیح ہونے میں مطلق گنجائش نہیں ہے۔ ‘‘

اور حافظ عماد الدین ابن کثیر البدایہ و النہایہ میں یہ ارشاد فرماتے ہیں :

’’ اور جس شخص نے یہ گمان رکھا ہے کہ یاجوج ماجوج حضرت آدمؑ کے ایسے نطفہ سے پیدا ہوئے ہیں جو احتلام کی حالت میں نکلا اور مٹی میں مل گیا اور یہ مخلوق وجود میں آ گئی۔ اور یہ جو حضرت حواؑ کے بطن سے نہیں ہیں تو یہ ایک قول ہے جس کو شیخ ابو زکریا نووی نے شرح مسلم میں حکایت کیا ہے اور ان کے علاوہ علماء نے اس کی تغلیط کی ہے بلاشبہ یہ قول اس قابل ہے کہ اسے صحیح نہ سمجھا جائے۔ اس لئے کہ یہ قطعاً بے دلیل بات ہے بلکہ اس قول کے بالکل خلاف ہے جو ابھی بیان کر چکے ہیں کہ نص قرآن سے یہ بات ثابت ہے کہ کائنات کی موجودہ انسانی مخلوق کا ہر فرد حضرت نوحؑ کی اولاد میں سے ہے اس طرح یہ قول بھی غلط اور بے دلیل ہے کہ یاجوج ماجوج عجیب عجیب مختلف شکلوں اور متضاد قد و قامت کی مخلوق ہیں۔ بعض ان میں سے اتنے لانبے ہیں کہ گویا کھجور کا بہت طویل درخت ہے اور بعض بہت ہی کوتاہ قامت اور بعض کے کان ایسے ہیں کہ ایک کو بچھاتے اور دوسرے کو اوڑھ لیتے ہیں۔ سو یہ تمام اقوال قطعاً بے دلیل اور محض اٹکل کے تیر ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ وہ عام بنی آدم کی طرح ہیں اور ان ہی کی طرح شکل و صورت اور جسمانی اوصاف رکھتے ہیں۔ ‘‘

اور تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں :

’’ یہ قول بلاشبہ اچنبا قول ہے کہ جس کے لئے نہ عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی اور بعض اہل کتاب نے جو اس سلسلہ میں حکایات بیان کی ہیں اس مقام پر کسی طرح ان پر بھروسہ کرنا درست نہیں ہے۔ اس لئے کہ ان کے یہاں تو اس قسم کے من گھڑت قصوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ‘‘

اور دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں :ـ

اور ابن جریر نے اس مقام پر وہب بن منبہ سے ذوالقرنین کی سیاحت اور سدّ کی تعمیر اور اس سے متعلق کیفیات کے بارہ میں ایک طویل و عجیب اثر نقل کیا ہے۔ دراصل وہ ایک طویل اور اچنبی داستان ہے اور اس میں ان (یاجوج ماجوج ) کی، شکلوں صورتوں ، ان کے طویل و کوتاہ ہونے اور ان کے کانوں کے متعلق اچنبی اور غیر معقول باتیں ہیں۔ ‘‘

اور حافظ ابن حجر عسقلانی اس عجیب و غریب قول کی تردید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں : ’’ اور شیخ محی الدین (نووی ) کے فتاویٰ میں مذکور ہے کہ یاجوج اور ماجوج حضرت آدمؑ کی نسل سے تو ہیں مگر حضرت حواؑ کے بطن سے نہیں ہیں۔ جمہور علما ء کا یہی خیال ہے اور اس طرح وہ حواؑ کے بطن سے بنی آدم کے علاقائی بھائی ہیں۔ مگر ہم نے کعب احبار کے علاوہ سلف میں سے کسی ایک شخص کو بھی اس کا قائل نہیں پایا اور اس قول کو وہ حدیث مرفوع قطعاً رد کرتی ہے جس میں یاجوج اور ماجوج کو نوح علیہ السلام کی نسل سے بتا گیا ہے اور حضرت نوحؑ بلاشبہ حضرت حواؑ کے بطن سے ہیں۔ ‘ ‘

اور دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں :

’’اور نووی اور بعض دوسروں نے ایک ایسے شخص کی بیان کردہ حکایت کی جانب اشارہ کیا ہے جو یہ کہتا ہے کہ آدمؑ خواب میں تھے کہ ایک مرتبہ ان کو احتلام ہو گیا اور ان کے قطرات منی مٹی میں مل گئے۔ بس اس سے یاجوج اور ماجوج کی نسل مخلوق ہو گئی، تو یہ قول ہے جو سر تا سر بے ہودہ اور بے اصل ہے اور بعض اہل کتاب کی حکایت کے سوائے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ ‘‘

اور حافظ ابن کثیر اپنی تاریخ میں تحریر فرماتے ہیں :

’’پھر وہ (یاجوج ماجوج ) نوح علیہ السلام کی ذریت میں سے ہیں ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ اطلاع دی ہے کہ اس نے اہل زمین کے متعلق نوح کی یہ دعا قبول کر لی (اے رب تو زمین پر کسی کا فر کو باقی نہ چھوڑ ) اور پھر حق تعالیٰ نے فرمایا (بس ہم نے اس کو اور کشتی والوں کو نجات دی ) اور پھر فرمایا اور ہم نے اس کی ذریت ہی کو باقی رہنے والوں میں چھوڑا )‘‘

وجہ استدلال یہ ہے کہ جب قرآن عزیز آیات میں یہ تصریح کرتا ہے کہ حضرت نوحؑ کی بد دعا کے بعد بنی آدم میں سے حضرت نوحؑ اور اصحاب کشتی یا دوسرے الفاظ میں حضرت نوحؑ کی ذریت اور چند مسلمانوں کے علاوہ کسی کو زندہ اور باقی نہیں چھوڑا اور اب دنیائے انسانی حضرت نوحؑ ہی کی اولاد ہے تو پھر یہ کہنا کہ یاجوج اور ماجوج بنی آدم میں سے ایک مستقل مخلوق ہے اور ذریت نوحؑ میں سے نہیں ہے قطعاً بے بنیاد اور بے اصل ہے۔ اس کی تائید میں حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اگر یہ حواؑ کے بطن سے نہ تھے اور اس لئے ذریت نوح میں سے بھی نہیں تھے تو طوفان نوحؑ میں یہ مخلوق کہاں تھی اور نص قرآنی کے خلاف یہ کیسے محفوظ رہی ؟

اور حضرت قتادہ سے جو منقول ہے وہ بھی اس قول کو رد کرتا ہے :

’’ اور عبدالرزاق نے کتاب التفسیر میں قتادہ سے نقل کیا ہے کہ یاجوج اور ماجوج دو قبیلے ہیں جو یافث بن نوحؑ کی نسل سے ہیں۔ ‘‘

اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مرفوع روایات ہے کہ یاجوج و ماجوج حضرت نوح کی نسل سے ہیں اور اگر چہ اس کی سند میں فی الجملہ ضعف ہے مگر اس کے مطاوع اور موئد بعض دوسری صحیح روایات ہیں ، چنانچہ حافظ ابن حجر نے بخاری کی اس مرفوع روایت کے متعلق جو حضرت ابو سعید خدریؓ سے منقول ہے یہ خیال ظاہر کیا ہے :

’’ امام بخاری کی اس روایت بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یاجوج ماجوج کا حال بیان کیا جائے اور ان کی کثرت تعداد کی جانب اشارہ ہے اور یہ کہ امت محمدیہ (علیہ الصلوٰۃو السلام ) کے مقابل میں وہ ہزاروں گنا زیادہ ہیں اور یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ دوسرے انسانوں کی طرح نسل آدم میں شامل ہیں اس سے ان لوگوں کا رد کرنا مقصود ہے جو اس کے خلاف ان کو عام انسانی مخلوق سے جدا مانتے ہیں۔ ‘‘

یہ چند نقول ہیں ان محققین کے ذخیرہ اقوال سے جو حدیث تفسیر اور علم تاریخ کی ماہر ہستیاں ہیں ، ان اقوال سے یہ بات قطعاً واضح اور صاف ہو جاتی ہے کہ یاجوج اور ماجوج عام دنیاء انسانی کی طرح ہے اور وہ کوئی عجوبہ روزگار مخلوق نہیں ہیں اور نہ برزخی مخلوق اور اس قسم کی جو روایات پائی جاتی ہیں ان کا اسلامی روایات سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے بلکہ اسرائیلیات کے بے سر و پا ذخیرہ کا جزو ہیں اور ان تمام روایات کا سلسلہ کعب احبار پر جا کر ختم ہوتا ہے جو یہودی نسل ہونے کی وجہ سے ان قصوں کے بہت بڑے عالم تھے اور اسلام لانے کے بعد یا تو تفریح کے طور پر ان کو سنایا کرتے تھے یا اس لئے کہ اس رطب و یابس میں سے جو دور از کار باتیں ہوں وہ رد کر دی جائیں اور جن سے قرآن اور احادیث نبوی ؐ کی تائید ہوتی ہو ان کو ایک تاریخی حیثیت میں لے لیا جائے ، مگر نقل کرنے والوں نے اس حقیقت پر نظر نہ رکھتے ہوئے اس پورے طومار کو جو ’’ غرقِ مے ناب اولیٰ ‘‘ کا مصداق تھا اسی طرح نقل کرنا شروع کر دیا، جس طرح حدیثیں روایات کو نقل کیا جاتا تھا اور اگر سلف صالحین اور متاخرین میں وہ بے نظیر ہستیاں نہ پیدا ہوتیں جنہوں نے روایات و احادیث کے تمام ذخیرے کو نقد و تبصرہ کی کسوٹی پر پرکھ کر دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دیا تو نہ معلوم آج اسلام کو کس قدر بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

پس اس وضاحت کے بعد اب یہ دیکھنا چاہئے کہ یاجوج و ماجوج کا مصداق کون سے قبائل ہیں اور ان قبائل کا کائنات انسانی کے ساتھ کیا تعلق رہا ؟ یہ مسئلہ درحقیقت ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے اور اقوام عالم کی بہت سی قوموں پر اثر انداز ہے۔ نیز سورہ انبیاء کی آیت ’’ حَتیٰ اِذافُتِحَتُ یَا جُوْجُ وَ مَاجُوْجُ وَ ھُمْ مِّنْ کُلِّ حَدَبٍ یَّلْسِلُوْنَ۔ ‘‘ سے اس کا گہرا تعلق ہے۔

بہر حال اس سے پہلے کہ ہم اس مسئلہ پر کچھ لکھیں مقدمہ اور تمہید کے طور پر یہ معلوم ہونا چاہئے کہ انسانی آبادی کے تمام گوشوں میں جو چہل پہل اور رونق نظر آتی ہے اور ربع مسکون جس طرح بنی آدم سے آباد ہے اور تمدن و حضارت کی نیرنگیوں سے گلزار بنا ہوا ہے ان کی ابتدا بدوی اور صحرائی قبائل سے ہوتی ہے اور یہی قبائل صدیاں گذر جانے اور اپنے اصل مرکز سے جدا ہو جانے کے بعد تمدن و حضارت کے بانی بنتے اور متمدن قومیں شمار ہوتے رہے ہیں۔

تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ دنیا کی قوموں کے سب سے بڑے سر چشمے کہ جہاں سے سیلاب کی طرح امنڈ امنڈ کر انسانی آبادی پھیلی اور پھلی پھولی ہے اور مختلف ملکوں اور زمین کے مختلف خطوں میں جا کر بسی ہے صرف دو ہیں حجاز اور دوسرا چینی ترکستان یا کاکیشیا کا وہ علاقہ جو شمال مشرق میں واقع ہے۔ اور سطح زمین کا مرتفع اور بلند حصہ شمار ہوتا ہے۔

حجاز ان تمام اقوام و قبائل کا سر چشمہ ہے جو سامی النسل یا سمیٹک (SEMETIC) کہلاتی ہیں۔ یہ قبائل ہزاروں سال سے اس بے آب و گیاہ سرزمین سے طوفان کی طرح اٹھتے اور بگولہ کی طرح دنیا کے مختلف حصوں پر پھیلتے رہے ہیں۔ اور بدوی اور صحرائی زندگی کے گہوارہ سے نکل کر زبر دست تمدن اور عظیم الشان حضارت و شہرت کے بانی قرار پائے۔

عاد اولیٰ اور عاد ثانیہ (ثمود ) اسی سر زمین سے اٹھے اور اپنی عظیم الشان صناعی اور پُر سطوت حکومت و صولت کے ذریعہ صدیوں تک تمدن و حضارت کے علم بردار رہے۔ جدیس، طسم اور اسی قسم کے دوسرے قبائل بھی جو آج امم بائدہ (ہلاک شدہ ) کہلاتے ہیں اسی خاک کے پروردہ تھے۔ اذوایمن (شاہان حمیر ) اور عمالقہ مصر و شام و عراق کے جلال و جبروت اور وسعتِ سلطنت کا یہ عالم تھا کہ ایک عرصہ تک فارس اور روم بلکہ ہندوستان کے بعض حصے بھی ان کے احکام کے محکوم اور ان کی حکومت کے باج گذار رہ چکے ہیں۔ غرض سامی النسل اقوام و قبائل خواہ بدوی اور صحرائی ہوں یا مصری اور متمدن شہری سب اسی خاک حجاز (عرب) کے ذرات تھے جو اپنی وسعت کے بعد آپس میں اس قدر اجنبی ہو گئے تھے کہ بدوی اور شہری بلکہ فراعنہ مصر (عمالقہ ) اور اذواءیمن (سلاطینِ حمیری ) اور عرب مستعربہ اسمٰعیلی عربوں کے درمیان مطابقت پیدا کرنی بھی مشکل ہو گئی تھی اور اگر نسلی امتیازات و خصوصیات اور زبان کی بنیادی یک رنگی ان کے باہم پیوند لگاتی تو تاریخ کے کسی گوشہ کی بھی یہ ہمت نہ تھی کہ وہ ابھر کر ان کی اخوت باہمی کا درس دے سکتا۔

اسی طرح قبائل و اقوام عالم کا دوسرا سمندر اور بحر ناپید کنار چینی ترکستان اور منگولیا کا وہ علاقہ رہا ہے جو شمال مشرق میں واقع ہے اور سطح زمین کا بلند اور مرتفع حصہ ہے۔

اس مقام سے بھی ہزاروں سال کے عرصے میں سینکڑوں قبائل اٹھے اور دنیا کے مختلف گوشوں تک پہنچے اور وہاں جا کر بس گئے۔ یہیں سے انسانوں کی موجیں اٹھیں اور وسط ایشیاء میں جا گریں۔ یہیں سے یورپ پہنچیں اور یہیں سے ہندوستان اور شمال مغرب تک پھیلتی چلی گئیں۔ ہندوستان میں بس جانے والوں نے اپنا تعارف آرین کے ساتھ کرایا، وسط ایشیاء میں بسنے والوں نے ’ایریانہ ‘ کہلا کر اپنے علاقہ کا نام ایران مشہور کیا۔ یورپ میں ’ہن گاتھ ‘ ڈانڈال وغیرہ ان ہی قبائل کے نام پڑے اور بحر اسود سے دریا ڈینوب تک بسنے والے سینتھئین کہلائے اور یورپ اور ایشیاء کے ایک بڑے حصہ پر چھا جانے والے ’’ رشین ‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے۔

یہ قبائل جب اپنے مرکز سے چلے تھے تو صحرائی وحشی اور بدوی تھے لیکن اپنے مرکز سے ہٹ کر جب دوسرے مقامات پر پہنچے اور حضارت و تمدن سے آشنا ہوئے یا ضرورت نے آشنا کرایا تو نئے نئے ناموں سے پکارے گئے۔ حتیٰ کہ اپنے مرکز کی ابتدائی حالت سے اس قدر بُعد ہو گیا کہ مرکز میں بسنے والے وحشی قبائل اور ان کے درمیان کوئی یکسانیت باقی نہ رہی۔ بلکہ ایک ہی اصل کی دونوں شاخیں ایک دوسرے کی حریف بن گئیں اور شہری اقوام کے لئے ان کے ہم نسل وحشی قبائل مستقل خطرہ ثابت ہونے لگے جو آئے دن شہریوں پر تاخت و تاراج کرتے اور لوٹ مار کر کے پھر اپنے مرکز کی جانب واپس ہو جاتے تھے۔

بہر حال تاریخ کے اوراق اس کے شاہد ہیں کہ عہد تاریخی کے قبل سے پانچویں صدی مسیح تک اس علاقہ سے جو آج کل منگولیا تاتار کہلاتا ہے اسی قسم کے انسانی طوفان اٹھتے رہے ہیں ، اور ان سے قریب اور ہمسایہ قوم ’’ چینی‘‘ ان کے بڑے دو قبائل کو ’’ موگ ‘‘ اور ’’ یوچی ‘‘ کہتے رہے ہیں۔ پس یہی ’’ موگ ‘‘ سے جو تقریباً چھ سو برس قبل مسیح یونان میں ’’ میگ ‘‘ اور ’’میگاگ ‘‘ بنا اور عربی میں ماجوج ہوا، اور غالباً یہی ’’ یوا جی ‘‘ یونانی میں ’’ یوگاگ ‘‘ اور عبرانی و عربی میں جوج اور یاجوج کہلایا۔ لیکن جب یہ قبائل دنیا کے مختلف حصوں میں جا کر آباد ہوئے اور بہت سے قبائل پہلے کی طرح اپنے مرکز ہی میں وحشی اور صحرائی بنے رہے تو اس اختلاف تمدن و معیشت نے ایسی صورت اختیار کر لی کہ ان قبائل کے وحشی اور صحرائی جنگجو تو اسی طرح یاجوج (گاگ Gog)اور ماجوج ( میگاگ Magog) کے نام سے موسوم رہے ، مگر متمدن اور شہری قبائل نے مقامی خصوصیات اور امتیازات کے ساتھ ساتھ اپنے ناموں کو بھی بھلا دیا اور نئے نئے ناموں سے شہرت پائی اور پھر یہ تقسیم اسی طرح قائم ہو گئی کہ تاریخ کے عہد میں بھی اس کو باقی رکھا گیا۔ اور وسط ایشیاء کے ایرانی، ایشیائی اور یورپین روسی اور دیگر یورپین قومیں اور ہندوستان کے آرین اصل کے اعتبار سے منگولین (یعنی موگ ماجوج اور یواگ یاجوج ) نسل ہونے کے باوجود تاریخ میں ان ناموں سے یاد نہیں کئے جاتے اور یاجوج و ماجوج کا نام صرف ان ہی قبائل کے لئے مخصوص کر دیا گیا ہے جو اپنی گذشتہ حالتِ وحشت و بربریت اور غیر متمدن زندگی میں اپنے مرکز کے اندر موجود ہیں اور مختلف صدیوں میں قتل و غارت اور لوٹ مار کرنے کے لئے اپنی ہم نسل متمدن اقوام پر حملے کرتے رہے ہیں اور ان ہی کے وحشیانہ حملوں کی حفاظت کے لئے اور مشرقی تاخت و تاراج سے بچنے کے لئے مختلف اقوام نے مختلف دیواریں اور سد قائم کیں اور ان ہی میں سے ایک وہ سد ہے جو ذوالقرنین نے اپنی قوم کے کہنے پر دو پہاڑوں کے درمیان لوہے اور تانبے سے ملا کر تیار کی تاکہ وہ یاجوج ماجوج کے مشرقی حملوں سے محفوظ ہو جائیں۔

یاجوج ماجوج کا ذکر توراۃ میں بھی ہے چنانچہ حزقیل علیہ السلام کے صحیفہ میں یوں کہا گیا (اس کا ذکر مولانا آزاد کے ترجمان القرآن والے بیان میں گزر چکا ہے۔ )

ان حوالوں میں یاجوج، ماجوج، روش، مسک اور توبال کا ذکر ہے اور ان کو خدا کا مخالف بتایا گیا ہے اور مظلوموں کو بشارت دی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو پھرا دے گا اور ان کے جبڑوں میں ہنسیاں مارے گا تاکہ وہ پلٹ جائیں اور یہ کہ قیامت کے قریب ان وحشی اور ظالم قبائل کو تباہ و برباد کر دیا جائے گا اور ان کی موت سے عرصہ تک رہ گذروں کے لئے راہیں بند ہو جائیں گی۔

ان ناموں کی تفصیل میں توراۃ کے مفسرین یہ کہتے ہیں کہ جوج (GOG)اور ماجوج سے میگاگ (MAGAG)اور روش سے روس (RUSIA)اور مسک سے مراد ماسکو (MASCOW) اور توبال سے بحر اسود کا بالائی علاقہ مراد ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ توراۃ کی شہادت بھی اس سے اتفاق کرتی ہے کہ لفظ یاجوج اور ماجوج ان ہی قبائل کے لئے مخصوص ہو گیا تھا جو منگولیا اور کاکیشیا سے لے کر دور تک مشرق میں پھیلتے چلے گئے تھے اور یہ کہ حزقیل علیہ السلام کے زمانہ تک روس (RUSIA)کا علاقہ تہذیب و تمدن اور حضارت سے عاری، وحشی قبائل کا موطن اور مسکن تھا اور قتل و غارت گری کا پیشہ کرتا تھا اور ظلم و ستم ان کا روز مرہ کا مشغلہ تھا۔ لہٰذا حضرت حزقیل علیہ السلام کی پیشن گوئیوں میں یہ بشارت دی گئی کہ وہ وقت قریب ہے جب کہ ان قبائل کی تاخت و تاراج کا یہ سلسلہ ایک عرصہ تک کے لئے بند ہو جائے گا۔ اس پیشن گوئی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یاجوج شمال کی جانب سے آئے گا تاکہ لوٹ مار کرے اور یہ کہ ماجوج پر اور جزیروں میں بسنے والوں پر سخت تباہی آئے گی اور یہ کہ اسرائیلی بھی ماجوج کے مقابلے میں حصہ لیں گے۔

اب اگر تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو آپ پر یہ بخوبی واضح ہو جائے گا کہ تقریباً ایک ہزار سال قبل مسیح سے بحر خزر اور بحر اسود کا علاقہ وحشی اور خونخوار قبائل کا مرکز بنا ہوا ہے جو مختلف ناموں کے ساتھ موسوم ہوتے رہے ہیں۔ بالآخر ان میں سے ایک زبردست قبیلہ نمودار ہوتا ہے جو تاریخ میں سنتھینین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ وسط ایشیاء سے بحر اسود کے شمالی کناروں تک پھیلا ہوا ہے اور اطراف میں مسلسل حملے کرتا رہتا اور متمدن اقوام پر تباہی لاتا رہتا ہے۔ یہ زمانہ بابل و نینویٰ کے عروج اور آشوریوں کے تمدن کے آغاز کا زمانہ تھا۔ پھر تقریباً ساڑھے چھ سو قبل مسیح میں ان کے ایک بڑے زبردست گروہ نے اپنی بلندیوں سے اتر کر ایران کا تمام مغربی حصہ تہ و بالا کر ڈالا۔

اب ۵۲۹ قبل مسیح میں سائرس ( کیخسرو) کا ظہور ہوتا ہے۔ اور یہی وہ زمانہ ہے جب کہ اس کے ہاتھوں بابل کی تباہی بنی اسرائیل کی آزادی اور میڈیا و فارس کی دو سلطنتوں کی ایک جا طاقت کا نظارہ سامنے آتا ہے اور ٹھیک حزقیل علیہ السلام کی پیشن گوئی کے خصوصی امتیازات اس کے ہاتھوں ظہور پذیر ہوتے ہیں اور سنتھینین قبائل کے مغربی حملوں سے حفاظت کے لئے اس کے ہاتھوں وہ سد قائم ہوتی ہے جس کا ذکر بار بار آ رہا ہے۔

بہر حال ان تمام تاریخی مصادر سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ حزقیل علیہ السلام کی پیشن گوئی کے مطابق وہ یاجوج ماجوج جن کی حفاظت کے لئے سائرس (ذوالقرنین ) نے سد تیار کی، یہی سنتھینین قبائل تھے جو ابھی تک اپنی وحشیانہ خصائص و خصائل کے اسی طرح حامل تھے جس طرح ان کے پیشرو اپنے مرکز میں رہتے ہوئے ان امتیازات کے ساتھ یاجوج و ماجوج کہلاتے رہے ہیں اور یہ دراصل ایک مزید ثبوت ہے اس دعویٰ کے لئے کہ ذوالقرنین ’’ سائرس ‘‘ (کیخسرو ) ہی تھے۔

یاجوج ماجوج کے متعلق جس قدر بحث اس وقت تک ہو چکی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ کوئی عجیب الخلقت مخلوق نہیں ہے بلکہ دنیا ء انسانی کی عام آبادی کی طرح وہ بھی حضرت نوح علیہ السلام کی ذریت میں سے ہیں اور یہ کہ یاجوج و ماجوج منگولیا (تاتار) کے ان وحشی قبائل کو کہا جاتا رہا ہے جو یورپ اور روس کی اقوام کے منبع و منشا ہیں اور چونکہ ان کی ہمسایہ قوم ان قبائل میں سے دو بڑے قبیلوں کو موگ اور یوچی کہتی تھی اس لئے یونانیوں نے ان کی تقلید میں ان کو میگ یا میگاگ اور یوگا کہا اور عبرانی اور عربی میں تصرف کر کے ان کو یاجوج و ماجوج سے یاد کیا گیا۔

اب ان تاریخی حقائق کی تائید میں عرب مورخین اور محقق مفسرین اور محدیثین کی تحقیق بھی قابل مطالعہ ہے تاکہ گذشتہ سطور میں جو کچھ لکھا گیا اس کی تصویب ہوسکے۔

حافظ عماد الدین ابن کثیر اپنی تاریخ میں تصریح فرماتے ہیں :

’’ اور یافث تاتاریوں کا نسلی باپ ہے۔ پس یاجوج و ماجوج تاتاریوں ہی کی ایک شاخ ہیں۔ اور یہ منگولیا کے قبائل کے منگول ہیں اور دوسرے تاتاریوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ طاقت ور اور بہت زیادہ فسادی اور لوٹ مار مچانے والے ہیں۔ ‘‘

اور اپنی تفسیر میں بھی اسی کی تائید فرماتے ہوئے یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ قبائل یافث بن نوحؑ کی نسل سے ہیں اور ان کا مولد و موطن منگولیا کا وہی علاقہ ہے جہاں سے قوموں کے طوفان اٹھے اور اٹھ کر یورپ وغیرہ میں جا کر بسے ہیں۔

اور ابن اثیر نے کامل میں یہ تحریر فرمایا ہے :

’’ یاجوج ماجوج کے متعلق مختلف اقوال ہیں اور صحیح قول یہ ہے کہ وہ تاتاری ہی میں سے ایک قسم کے تاتاری ہیں۔ وہ بہت طاقتور ہیں اور ان میں شر وفساد کا مادہ بہت ہے اور وہ بہت بڑی تعداد رکھتے ہیں اور قرب و جوار کی زمین میں فساد پھیلاتے اور جس بستی پر قابو پا جاتے اس کو برباد کر ڈالتے تھے اور پڑوسیوں کو ایذا پہنچاتے رہتے تھے۔ ‘‘

اور سید محمود آلوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں:

’’ یاجوج و ماجوج یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے دو قبیلے ہیں۔ اور وہب بن منبہ اسی پر یقین رکھتے ہیں اور متاخرین میں سے اکثر کی یہی رائے ہے۔ ‘‘

اور آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں :

’’ اور بعض کہتے ہیں کہ ترک (تاتاری ) ان ہی میں سے ہیں جیسا کہ ابن جریر اور ابن مردویہ نے سدی سے ایک قوی اثر نقل کیا ہے کہ ترک (تاتاری ) یاجوج و ماجوج کی شاخوں میں سے ایک شاخ ہیں اور عبدالرزاق نے حضرت قتادہ سے روایت کی ہے کہ یاجوج و ماجوج بائیس (۲۲) قبائل کا مجموعہ ہیں۔ ‘‘

ان کے علاوہ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں یاجوج و ماجوج سے متعلق جو کچھ نقل فرمایا ہے وہ بھی نقول بالا کی ہی تائید کرتا ہے۔ اور علامہ طنطحاوی اپنی تفسیر جواہر القرآن میں لکھتے ہیں :

’’ یاجوج و ماجوج اپنی اصل کے اعتبار سے یافث بن نوح کی اولاد میں سے ہیں اور یہ نام لفظ ’’ اجیح النار ‘‘ سے ماخوذ ہے۔ جس کے معنی آگ کے شعلہ اور شرارہ کے ہیں۔ گویا ان کی شدت اور کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ اور بعض اہل تحقیق نے ان کی اصل پر بحث کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ مغلوں (منگولیوں )اور تاتاریوں کا سلسلہ نسب ایک شخص ’’ ترک ‘‘ نامی پر پہنچتا ہے اور یہی شخص ہے جس کو ابوالفدا ماجوج کہتا ہے۔ پس اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یاجوج و ماجوج سے مراد منگولین اور تاتاری قبائل ہی ہیں ، ان قبائل کا سلسلہ ایشیا ء کے شمالی کنارہ سے شروع ہو کر تبت اور چین سے ہوتا ہوا محیط منجمد شمالی تک چلا گیا ہے۔ اور غربی جانب ترکستان کے علاقہ تک پھیلا ہوا ہے۔ فاکہتہ الخلفاء اور ابن سکویہ کی ’’ تہذیب الاخلاق اور رسائل ‘‘ ’’ اخوان الصنعا ‘‘ سب نے یہی کہا ہے کہ یہی قبائل یاجوج ماجوج کہلاتے ہیں۔ ‘‘

اور ابن خلدون نے اپنی تاریخ کے مقدمہ میں یاجوج و ماجوج کے مستقر اور اس کی جغرافیائی حیثیت کو اس طرح واضح کیا ہے :

’’ ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں مغرب کی جانب ترکوں کے قبائل آباد ہیں۔ جن کو ’’قفجاق ‘‘ اور ’’چرکس ‘‘کہا جاتا ہے اور مشرق کی جانب یاجوج کی آبادیاں اور ان دونوں کے درمیان کوہ کاف حد فاصل ہے ، جس کا ذکر گذشتہ سطور میں ہو چکا ہے کہ بحر محیط سے شروع ہوتا ہے جو چوتھی اقلیم کے مشرق میں واقع ہے اور اس کے ساتھ ساتھ شمال کی جانب اقلیم کے آخر تک چلا گیا ہے اور پھر بحر محیط (Atlantic)سے جدا ہو کر شمال مغرب میں ہوتا ہوا یعنی مغرب کی طرف جھکتا ہوا پانچویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہو جاتا ہے یہاں سے وہ پھر اپنی پہلی سمت کو مڑ جاتا ہے۔ حتیٰ کہ ساتویں اقلیم کے نویں حصہ میں داخل ہو جاتا ہے اور یہاں پہنچ کر جنوب سے شمال مغرب کو ہوتا ہوا گیا ہے اور اسی سلسلہ کوہ کے درمیان ’سد سکندری ‘ واقع ہے۔ اور ساتویں اقلیم کے نویں حصہ کے وسط ہی میں وہ ’’ سد سکندری ‘‘ ہے جس کا ابھی ہم ذکر کر آئے ہیں اور جس کی اطلاع قرآن نے بھی دی ہے۔ ‘‘

اور عبداللہ بن خرداذبہ نے اپنی جغرافیہ کی کتاب میں واثق بااللہ (خلیفہ عباسی )کا وہ خواب نقل کیا ہے جس میں اس نے یہ دیکھا تھا کہ سد کھل گئی ہے۔ چنانچہ وہ گھبرا کر اٹھا اور دریافت حال کے لئے ’’ سلام ترجمان ‘‘ کو روانہ کیا۔ اور اس نے واپس آ کر اسی سد کے حالات اور اوصاف بیان کئے۔

اور ساتویں اقلیم کے دسویں حصے میں ماجوج کی بستیاں ہیں جو مسلسل آخر تک چلی گئی ہیں۔ یہ حصہ بحر محیط کے ساحل پر واقع ہے جو اس کے مشرقی شمالی حصے کو اس طرح گھیرے ہوئے ہے جو شمال میں طول میں چلا گیا ہے۔ اور بعض مشرقی حصے میں عرض میں گیا ہے۔

ابن خلدون نے یاجوج اور ماجوج اور سد کے متعلق اسی طرح اقلیم خامس رابع، اقلیم خامس اور اقلیم سابع کی بحث میں بھی ضمناً بیان کیا ہے بلکہ اقلیم رابع میں یہ بھی تصریح ہے :

’’اور اقلیم رابع کے جز و عاشر کا حصہ بحر محیط کے اوپر واقع ہے اور یہ جبل یاجوج و ماجوج ہے اور یاجوج و ماجوج تمام قبائل ترک ہیں۔ ‘‘

گذشتہ بحث میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ منگولیا یا کاکیشیا کے یہ قبائل جب تک اپنے مرکز میں رہتے ہیں یاجوج و ماجوج کہلاتے ہیں اور جب وہاں سے نکل کر کہیں بس جاتے اور صدیوں بعد متمدن ہو جاتے ہیں تو پھر وہ اس نام کو بھلا دیتے ہیں اور دوسرے بھی ان کو اس وحشیانہ امتیاز سے یاد نہیں کرتے کیونکہ پھر یہ اپنے مرکز سے اس قدر اجنبی ہو جاتے ہیں کہ مرکز کے وحشی قبائل ان کو بھی اپنا حریف بنا لیتے اور ان پر غارت گری کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی اپنے ہی ہم نسل مرکزی وحشی قبائل سے اسی طرح خوف کھانے لگتے ہیں جس طرح دوسرے قبائل۔ چنانچہ اس مسئلہ کی تائید حافظ عماد الدین ابن کثیر کی اس عبارت سے بھی ہوتی ہے ، تحریر فرماتے ہیں :

’’ سدین سے مراد وہ دو پہاڑ ہیں جو ایک دوسرے کے مقابل ہیں اور ان کے درمیان شگاف ہے۔ اسی شگاف سے یاجوج و ماجوج ترکوں کے شہروں پر آ پڑتے اور ان میں فساد مچا دیتے اور کھیتوں اور نسلوں کو ہلاک اور برباد کر ڈالتے تھے۔ ‘‘

یعنی یاجوج و ماجوج بھی اگرچہ منگولی (تاتاری ) ہیں مگر پہاڑوں کے درے جو تاتاری قبائل اپنے مرکز سے ہٹ کر آباد ہو گئے تھے اور متمدن بن گئے تھے ہم نسل ہونے کے باوجود دونوں میں اس قدر تفاوت ہو گیا کہ ایک دوسرے سے نا آشنا بلکہ حریف بن گئے اور ایک ظالم کہلائے دوسرے مظلوم۔ اور ان ہی قبائل ن ے ذوالقرنین سے سد بنانے کی فرمائش کی۔

اور بعض عرب مورخین نے تو ’’ ترک ‘‘ کی وجہ تسمیہ ہی یہ بیان کر دی کہ یہ وہ قبائل ہیں جو یاجوج و ماجوج کے ہم نسل ہونے کے باوجود سد سے ورے آباد تھے اور اس لئے جب ذوالقرنین نے سد قائم کی اور ان کو اس میں شامل نہیں کیا تو اس چھوڑ دیئے جانے کی وجہ سے وہ ’’ ترک ‘‘ کہلائے۔

یہ وجہ تسمیہ اگر چہ ایک لطیفہ ہے تاہم اس امر کا ثبوت ضرور بہم پہنچاتی ہے کہ متمدن قبائل تمدن و حضارت کے بعد اپنے ہم نسل مرکزی قبائل سے اجنبی ہو جاتے تھے اور وہ یاجوج و ماجوج نہیں کہلاتے تھے اور لفظ یاجوج ماجوج صرف ان ہی قبائل کے لئے مخصوص ہو گئے ہیں جو اپنے مرکز میں سابق کی طرح ہنوز وحشت و بربریت اور درندگی کے ساتھ وابستہ ہیں۔

سدّ: یاجوج ماجوج کے اس تعین کے بعد دوسرا مسئلہ ’’ سدّ‘‘ کا سامنے آتا ہے، یعنی وہ ’’سدّ‘‘ کس جگہ واقع ہے جو ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کے فتنہ و فساد کو روکنے کے لئے بنائی اور جس کا ذکر قرآن عزیز میں بھی کیا گیا ہے۔

تعین سد سے پہلے یہ حقیقت پیش نظر رہنی چاہئے کہ یاجوج و ماجوج کی تاخت و تاراج اور شر و فساد کا دائرہ اس قدر وسیع تھا کہ ایک طرف کاکیشیا کے نیچے بسنے والے ان کے ظلم و ستم سے نالاں تھے تو دوسری جانب تبت اور چین کے باشندے بھی ان کی شمالی دستبرد سے محفوظ نہ تھے۔ اس لئے صرف ایک ہی غرض کے لئے یعنی قبائل یا جوج و ماجوج کے شر و فساد اور لوٹ مار سے بچنے کے لئے مختلف تاریخی زمانوں میں متعدد ’’ سد ّ ‘‘ تعمیر کی گئیں۔ ان میں سے ایک سد وہ ہے جو ’’دیوار چین ‘‘کے نام سے مشہور ہے۔ یہ دیوار تقریباً ایک ہزار میل طویل ہے۔ اس دیوار کو منگولی ’’اتکوہ ‘‘کہتے ہیں اور ترکی میں اس کا نام ’’ بوقورقہ ‘‘ ہے۔

دوسری سد وسط ایشیا میں بخارا اور ترز کے قریب واقع ہے۔ اور اس کے محل وقوع کا نام ’’در بند‘‘ ہے۔ یہ سد مشہور مغل بادشاہ تیمور لنگ کے زمانہ میں موجود تھی اور شاہ روم کے ندیم خاص سیلابر جرجرمنی نے بھی اس کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے۔ یہ ۱۴۰۳ ء میں اپنے بادشاہ کاسفیر ہو کر جب تیمور صاحبقراں کی خدمت میں حاضر ہوا ہے تو اس جگہ سے گذرا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ باب الحدید کی سد موصل کے اس راستے پر ہے جو سمر قند اور ہندوستان کے درمیان واقع ہے۔

تیسری سد روسی علاقہ داغستان میں واقع ہے۔ یہ بھی ’دربند ‘ اور ’باب الابواب ‘ کے نام سے مشہور ہے اور بعض مورخین اس کو ’الباب ‘ بھی لکھ دیتے ہیں۔ یاقوت حموی نے ’معجم البلدان ‘ میں ، ادریسی نے جغرافیہ میں اور بستانی نے دائرۃ المعارف میں اس کے حالات کو بہت تفصیل کے ساتھ لکھا ہے اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے :

’’ داغستان میں دربند ایک روسی شہر ہے۔ یہ شہر بحر خزر (کاسپین ) غربی کے کنارے واقع ہے۔ اس کا عرض البلد ۳ء ۴۳ شمالاً اور طول البلد ۱۵ء ۴۸ شرقاً ہے اور اس کو دربند نوشیرواں بھی کہتے ہیں۔ اور باب الابواب کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس کے اطراف و جوانب کو قدیم زمانہ سے چہار دیوار گھیرے ہوئے ہیں۔ جن کو قدیم مورخین ’’ ابواب البانیہ ‘‘ کہتے آئے ہیں۔ اور اب یہ خستہ حالت میں ہے اور اس کو باب الحدید اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی سد کی دیواروں میں  لوہے کے بڑے بڑے پھاٹک لگے ہوئے تھے۔ ‘‘

اور جب اسی باب الابواب سے مغرب کی جانب کا کیشیا کے اندرونی میں بڑھتے ہیں تو ایک درہ ملتا ہے جو درہ داریال کے نام سے مشہور ہے اور یہ کاکیشیا کے بہت بلند حصوں سے گزرا ہے ، یہاں ایک چوتھی سد ہے جو قفقاز یا جبل قاف کہلاتی ہے اور یہ سد دو پہاڑوں کے درمیان بنائی گئی ہے۔ بستائی اس کے متعلق لکھتا ہے :

’’اور اسی کے قریب ایک اور سد ہے جو غربی جانب بڑھتی چلی گئی ہے۔ غالباً اس کو اہل فارس نے شمالی بربروں سے حفاظت کی خاطر بنایا ہو گا۔ کیونکہ اس کے بانی کا صحیح حال معلوم نہیں ہوسکا۔ بعض نے اس کی نسبت سکندر کی جانب کر دی اور بعض نے کسریٰ و نوشیرواں کی جانب اور یاقوت کہتا ہے کہ یہ تانبا پگھلا کر اس سے تیار کی گئی ہے۔ ‘‘

اور انسائیکلو بر ٹانیکا میں بھی ’دربند ‘ کے مقالہ میں اس آہنی دیوار کا حال قریب قریب اسی کے بیان میں کیا ہے۔

چونکہ یہ سب دیواریں شمال ہی میں بنائی گئی ہیں۔ اور ایک ہی ضرورت کے لئے بنائی گئی ہیں۔ اس لئے ذوالقرنین کی بنائی ہوئی سد کے تعین میں سخت اشکال پیدا ہو گیا ہے۔ اور اسی لئے ہم مورخین میں اس مقام پر سخت اختلاف پاتے ہیں اور اس اختلاف نے ایک دلچسپ صورت اختیار کر لی ہے۔ اس لئے کہ دربند کے نام سے دو مقامات کا ذکر آتا ہے۔ اور دونوں مقامات میں سد یا دیوار بھی موجود ہے اور غرض بنا بھی ایک ہی نظر آتی ہے۔

تواب دیوار چین کو چھوڑ کر باقی تین دیواروں کے متعلق قابل بحث یہ بات ہے کہ ذوالقرنین کی سد ان تینوں میں سے کون سی ہے اور اس سلسلہ میں جس در بند کا ذکر آتا ہے وہ کون سا ہے ؟

مورخین عرب میں سے مسعودی، قزوینی، اصطخری، حموی سب اسی دربند کا ذکر کر رہے ہیں جو بحر خزر پر واقع ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شہر میں داخل ہونے سے پہلے بھی دیوار ملتی ہے اور شہر کے بعد بھی دیوار ہے۔ اگر چہ ایک دیوار چھوٹی ہے اور دوسری بڑی مگر شہر سد یا دیواروں سے گھرا ہوا ہے۔ اور ایران کے لئے یہ مقام خاص اہمیت رکھتا ہے اور دیوار سے پرے بسنے والے قبائل کی زد سے بچاتا ہے۔ البتہ ابو الضیاء اور بعض اس سے ناقل مورخین کی یہ غلطی ہو گئی کہ انہوں نے بخارا اور ترمذ کے قریب دربند کو اور بحر خزر کے قریب دربند کو ایک سمجھ کر ایک کے حالات دوسرے کے ساتھ خلط کر دیا ہے۔

مگر ادریسی نے دونوں جغرافیائی حالت کو مفصل اور جدا جدا بیان کر کے اس خلط کو دور کیا ہے اور اصل حقیقت کو بخوبی واضح کر دیا ہے۔

اس کے باوجود حال کے بعض اہل قلم کی اس غلطی پر اصرار ہے کہ سد ذوالقرنین یا سد سکندری کے سلسلہ میں جس سد کا ذکر آتا ہے اس سے بحر خزر یا بحر قزوین کا دربند مراد نہیں ہے بلکہ بخارا و ترمذ کے قریب جو دربند حصار کے علاقے میں ہے وہ مراد ہے۔ ( صدق ۱۸ ؍اگست ۴۱۰ء مضمون سد سکندری )

بہرحال یہ مورخین بحر خزر اور کاکیشیا کا علاقہ دربند (باب الابواب ) کی دیوار کے متعلق یہ واضح کرتے ہیں کہ قرآن عزیز میں جس سد کا ذکر ہے وہ یہی ہے مگر یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ کوئی اس کو سد سکندری کہتا ہے اور کوئی سد نوشیروانی، غرض دربند کے متعلق جب بھی مورخین کو خلط ہو جاتا ہے تو کوئی نہ کوئی محقق اور اس کو دور کر کے یہ ضرور واضح کر دیتا ہے کہ سد ذوالقرنین کا تعلق اس دربند سے ہے جو کاکیشیا میں بحر خزر کے کنارہ واقع ہے اس دربند سے نہیں ہے جو بخارا اور ترمذ کے قریب واقع ہے۔

چنانچہ وہب بن منبہ فرماتے ہیں :

’’ قرآن عزیز میں جو ’’ بین السدین ‘‘ آیا ہے تو سدین سے مراد جبلین ہے۔ یعنی دو پہاڑ کہ جن کے درمیان سد قائم کی گئی ہے۔ پہاڑ کی یہ دونوں چوٹیاں بہت بلند ہیں اور ان کے پیچھے بھی آبادیاں ہیں۔ اور ان کے سامنے بھی۔ اور یہ دونوں منگولین سرزمین کے اس آخری کنارہ پر واقع ہیں جو آرمینیہ اور آذر بیجان کے متصل ہے۔ ‘‘( تفسیر البحر المحیط، ابو حیان اندلسی۔ ج ۶، ص ۱۶۳ )

اور علامہ ہروی فرماتے ہیں :

’’ یہ دو پہاڑ کہ جن کے درمیان ذوالقرنین کی سد قائم ہے تاتاری قبائل کے درے واقع ہے۔ (یعنی سد ان کو اس جانب آنے سے روکنے کے لئے بنائی گئی ہے ) ‘‘ (تفسیر البحر المحیط ابو حیان اندلسی، ج ۶، ص ۱۶۳ )

اور امام رازی تحریر فرماتے ہیں :

’’ زیادہ صاف بات یہ ہے کہ ان دو پہاڑوں کا جاء وقوع جانب شمال میں ہے اور (تعین میں ) بعض نے کہا ہے کہ وہ دو پہاڑ آرمینیہ اور آذر بیجان کے درمیان واقع ہیں اور بعض نے کہا کہ تاتاری قبائل کی سرزمین کا جو آخری کنارہ ہے وہاں واقع ہے۔ ‘‘

اور طبری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے کہ شاہ آذر بیجان نے جبکہ وہ اس کو فتح کر چکا تھا ایک شخص کو خزر (بحر فردین ) کے اطراف سے بلایا کہ وہ شاہ آذر بیجان کو بالمشافہ سد کے حالات سنائے۔ اس نے بتایا کہ دو پہاڑوں کے درمیان ایک بلند سد ہے۔ اور اس کے اس جانب بہت بڑی خندق ہے جو نہایت گہری ہے۔

اور ابن خردار نے اپنی کتاب ’المسالک والممالک ‘ میں بیان کیا ہے کہ واثق باللہ نے ایک خواب دیکھا تھا کہ گویا اس نے اس سد کو کھول ڈالا ہے۔ اس خواب کی بنا پر اس نے اپنے بعض عمال کو اس کی تحقیق کے لئے بھیجا تاکہ وہ اس کا معائنہ کریں۔ سو یہ لوگ باب الابواب سے آگے بڑھے اور ٹھیک سد کے مقام پر پہنچ گئے۔ انہوں نے واثق باللہ سے آ کر بیان کیا کہ یہ سد لوہے کے ٹکڑوں سے بنائی گئی ہے جس میں پگھلا ہوا تانبا شامل کیا گیا ہے۔ اور اس کا آہنی دروازہ مقفل ہے۔ پھر جب انسان وہاں سے واپس ہوتا ہے تو راہنما اس کو ایسے چٹیل میدانوں میں پہنچا دیتے ہیں جو سمر قند کے محاذات میں واقع ہیں۔ (تفسیر کبیر۔ ج ۵، ص ۵۱۴، طبری ص ۲۵۶ )

ابو ریحان بیرونی کہتے ہیں کہ اس تعارف کا مقتضا یہ ہوا کہ وہ زمین کے ربع شمال میں واقع ہے۔

اور سید محمود آلوسی روح المعانی میں لکھتے ہیں :

’’ یہ دو پہاڑ ارض متعین جہت شمال میں واقع ہیں اور کتاب حزقیل علیہ السلام میں جوج کے متعلق لکھا ہے کہ وہ شمال کی جانب سے آخری دنوں میں آئیں گے اس سے بھی یہی مراد ہے۔ اور کاتب چلپی کا میلان بھی اسی جانب ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس سے آرمینیہ اور آذر بیجان کے پہاڑ مراد ہیں۔ اور قاضی بیضاوی کی رائے بھی یہی ہے اور بعض نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ حضرت عبداللہ بن عباس سے بھی یہی روایت ہے اگر چہ اس قول کا تعاقب کیا گیا ہے اور اس کی صحت میں کلام ہے ، ان اقوال سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ان حضرات کے نزدیک اس کا مصداق باب الابواب (دربند بحر قزوین ) ہے۔ حالانکہ ان ہی مورخین کے نزدیک اس کا بانی کسریٰ نوشیرواں ہے (خلاصہ روح المعانی۔ جلد ۶، ص ۳۵ )

’’ اور ابن ہشام ’ترک ‘ کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہیں کہ ان سے ایک جماعت مسلمان ہو گئی تھی۔ اس لئے جب ذوالقرنین نے آرمینیہ میں (یعنی ان پہاڑوں میں جو آرمینیہ سے آگے دور تک چلے گئے ہیں ) سد بنانی شروع کی تو ان کو سد کے اس جانب چھوڑ دیا۔ پس اس ترک کرنے پر وہ ’ترک‘ کہلائے۔ ترکھم فسموالترک الذلک (کتاب التیجان)

اور حضرت استاد علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری (نور اللہ مرقدہٗ )عقیدۃالاسلام میں تحریر فرماتے ہیں : ’’ قرآن عزیز نے ذوالقرنین کے تیسرے سفر کی جہت کا ذکر نہیں کیا اور قرینہ یہ بتایا ہے کہ وہ شمال کی جانب تھا اور اسی جانب اس کی سد ہے جو قفقاز کے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے اور جس غرض کے لئے ذوالقرنین نے سد بنائی تھی اسی غرض کے لئے اور بادشاہوں نے بھی سد تعمیر کی ہیں۔ مثلاً چینیوں نے دیوار چین بنائی، جس کو منگولین انکورہ اور ترک بوقورقہ کہتے ہیں۔ صاحب ناسخ التواریخ نے اس کا مفصل حال ذکر کیا ہے اور اسی طرح بعض عجمی بادشاہوں نے دربند (باب الابواب ) کی سد تعمیر کی اور اسی طرح اور سد بھی ہیں جو شمال ہی کی جانب ہیں۔ (ملحض عقیدۃ الاسلام فی حیواۃ عیسیٰ علیہ السلام۔ ص ۱۹۸ )

اور انسائیکلو پیڈیا آف اسلام میں کاکیشیا کے علاقہ یا بحر قزوین کے کنارہ واقع دربند (باب الابواب ) کے متعلق جو مقالہ ہے اس میں تحریر ہے :

’’ یہاں جو دربند ہے یزد گرد اول نے دوبارہ صاف کرا دیا اور اس کی مرمت کرائی۔ اس دیوار کو سکندر اعظم کی جانب منسوب کیا جاتا ہے۔ ‘‘ (انسائیکلو پیڈیا آف اسلام جلد ۱، ص ۹۴۰ )

اور دوسری جگہ بحر خزر کے متعلق تحریر ہے :

’’ رسالہ اخوان الصفا میں بحر یاجوج ماجوج کا ذکر آیا ہے تو اس سے مراد بحر کاسپین یعنی بحر خزر ہے۔ ‘‘ (ص ۱۱۴۲، بحث یاجوج و ماجوج )

پس عرب مورخین محدثین مفسرین اور محققین تاریخ کے ان حوالجات سے چند امور ثابت ہوتے ہیں :

۱) کوئی ایک مورخ بھی یہ صراحت نہیں کرتا کہ دربند ضلع حصار کی سد ’سد سکندری ‘ ہے۔

۲) ابوالفدا ء اور بعض مورخین کو دربند کے متعلق یہ خلط ہو گیا ہے کہ وہ بحرقزوین والے دربند کا ذکر شروع کرتے ہیں اور پھر ترمذ و بخارا والے دربند (حصار ) کے ساتھ اس کو ملا دیتے ہیں اور دونوں کے درمیان امتیاز کرنے سے قاصر ہیں۔

۳) باقی تمام محققین مورخین ہوں یا محدثین و مفسرین، امتیاز کے ساتھ یہ تصریح کر رہے ہیں کہ جو سد ’سد سکندری ‘ کے نام سے مشہور ہے وہ وہی ہے جو بحر قزوین کے قریب دربند (باب الابواب ) میں واقع ہے۔

چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا اور انسائیکلو پیڈیا آف اسلام اور دائرۃ المعارف بستانی میں بھی ( جو کہ جدید و قدیم تحقیق کا ذخیرہ ہیں ) یہی ہے۔ حتیٰ کہ برٹانیکا جلد ۱۳، ص ۵۲۶ طبع یازدہم میں جو دربند ضلع حصار کا مختصر حال بیان کیا ہے اس میں بھی اس سد کو سد سکندری نہیں بتایا بلکہ اس کے برعکس بحر قزوین والے دربند کی سد کے متعلق یہ کہا کہ اس کی نسبت سکندر کی جانب کی جاتی ہے اور اس لئے ’سد سکندری‘ کے نام سے مشہور ہے۔

۴)وہب بن منبہ ابو حیان اندلسی صاحب ناسخ التواریخ ( جو ایران کا درباری مورخ ہے ) بستانی اور حضرت علامہ محمد انور شاہ نے دربند قزوین کے متعلق یہ توجہ دلائی سد ذوالقرنین اس ’دربند بحر قزوین میں نہیں ہے بلکہ اس سے بھی اوپر قفقاز کے آخری کنارہ پر پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ، چنانچہ مولانا ابو الکلام نے اپنی تفسیر میں اس کا درہ داریال کے نام سے ذکر کیا ہے۔

اب ان چاروں باتوں سے تھوڑی دیر کے لئے قطع نظر کر لیجئے اور اس مسئلہ میں بھی سابق کی طرح قرآن عزیز ہی کو حکم بنایئے کہ تاکہ معاملہ واضح تر ہو جائے۔

’سد ذوالقرنین ‘ کے متعلق قرآن عزیز نے دو باتیں صاف صاف بیان کی ہیں ایک یہ کہ وہ سد پہاڑوں کے درمیان تعمیر کی گئی ہے۔ اور اس نے پہاڑوں کے درمیان اس ’’درہ ‘‘ کو بند کر دیا ہے جہاں سے ہو کر یاجوج و ماجوج اس جانب کے بسنے والوں کو تنگ کرتے تھے۔ آیت کا ترجمہ : یہاں تک کہ جب ذوالقرنین دو پہاڑوں کے درمیان پہنچا تو ان دونوں کے اس طرف ایک ایسی قوم کو پایا جن کی بات وہ پوری طرح نہیں سمجھتا تھا، وہ کہنے لگے اسے ذوالقرنین ! بلاشبہ یاجوج و ماجوج اس سر زمین میں فساد مچاتے ہیں۔ ‘‘)

دوسرے یہ کہ وہ سد چونے یا اینٹ گارے سے نہیں بنائی گئی ہے بلکہ لوہے کے ٹکڑوں سے تیار کی گئی ہے جس میں تانبا پگھلا ہوا شامل کیا گیا تھا (آیت کا ترجمہ : میں تمہارے اور ان کے (یاجوج و ماجوج کے ) درمیان ایک موٹی دیوار قائم کر دوں گا تم میرے پاس لوہے کے ٹکڑے لا کر دو یہاں تک کہ پہاڑ کی دونوں پھانکوں (چوٹیوں ) کے درمیان جب دیوار کو برابر کر دیا تو اس نے کہا دھونکو، یہاں تک کہ جب دھونک کر اس کو آگ کر دیا کہا لاؤ میرے پاس پگھلا ہوا تانبہ کہ اس پر ڈالوں ) (الجواہر طنطاوی ج ۱، ص ۱۹۸)

(حاشیہ : سدین کی تفسیر میں امام بخاری نے ترجمہ الباب میں روایت کا ایک ٹکڑا نقل کیا ہے۔ اس میں ہے ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ کو اطلاع دی، یا رسول اللہ میں نے سد کو دیکھا ہے جیسے یمنی چادر ’مثل الجر و المجر ‘۔ آپ ؐ نے فرمایا تو نے ضرور اس کو دیکھا ہے قال قدرائیۃ۔

یہ روایت بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس شخص نے لوہے تانبے سے مخلوط دیوار کو دیکھا کیونکہ ’جرہ ‘کے معنی اس زردی کے آتے ہیں جو دانتوں پر جمی ہوئی نظر آتی ہے اور یمنی چادر سیاہ اور زرد یا سیاہ و سرخ مخلوط دھاری دار ہوتی تھیں ، اس روایت کے موصول ہونے میں کلام ہے جو فتح الباری میں قابل مراجعت ہے۔ (حاشیہ مکمل ) )

قرآن عزیز کی بتائی ہوئی ان دونوں صفات کو سامنے رکھ کر اب ہم کو یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر کسی تاویل کے ان کا مصداق کون سی ’سد ‘ ہوسکتی ہے اور کس ‘سد ’ پر یہ صفات ٹھیک صادق آتی ہیں۔

سب سے پہلے ہم اس سد پر بحث کرنا چاہتے ہیں جو دربند (حصار ) میں واقع ہے۔ اس ’سد ‘کے حالات ساتویں صدی کے ایک چینی سیاح نے ہی نہیں بیان کئے بلکہ جیسا کہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں ، شاہ رخ کے جرمنی مصاحب سیلد برجر اور ہسپانوی سفیر کلا فچو نے بھی پندرہویں صدی عیسوی کے اوائل میں اس کا مشاہدہ کیا ہے اور انہوں نے بھی یہ کہا ہے کہ یہاں آہنی پھاٹک لگے ہوئے ہیں ، مگر مورخین یہ بھی تصریح کرتے ہیں کہ یہ سد (دیوار ) پتھر اور اینٹ کی بنی ہوئی ہے اور آہنی دروازوں کے علاوہ دیوار کسی جگہ بھی لوہے اور تانبے سے بنی ہوئی نہیں ہے اور لوہے کے پھاٹکوں کی وجہ سے اس کو بھی اسی طرح درہ آہنی کہتے ہیں جس طرح دربند (بحر قزوین) کو درہ آہنی کہا جاتا ہے۔

نیز یہ دیوار جس طرح پہاڑوں کے درمیان میں چلی گئی ہے اسی طرح اس کا ایک حصہ سطح زمین پر بھی بنایا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ صرف دو پہاڑوں کی پھانکوں (چوٹیوں ) کے درمیان ہی میں قائم کی گئی ہیں۔

پس اس دیوار کو ’سد ذوالقرنین ‘ کہنا قرآنی تصریحات کے قطعاً خلاف ہے اور غالب اسی وجہ سے کسی ایک مورخ نے بھی (جو کہ دربند ) حصار اور دربند (بحر قزوین ) کے درمیان امتیاز کر سکے ہیں ) اس دیوار کو سد ذوالقرنین یا سد سکندری نہیں کہا۔

مگر تعجب ہے محترم مدیر صاحب صدق سے کہ انہوں نے قرآنی تصریحات کو سامنے رکھے بغیر تمام مورخین کے خلاف یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ دربند (حصار) کی دیوار (سد ) ہی ’ سد سکندری ‘ یعنی سد ذوالقرنین ہے۔ شاید وہ اس جذبات کے لئے اس لئے مجبور ہوئے ہیں کہ توازن کا مسلک یہ ہے کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔ اور دوسرے اس جانب میں سکندر کی فتوحات کی آخری حد اسی علاقہ تک ہے جیسا کہ ۱۸ ؍ اگست ۴۱ءکے صدق کی اس عبارت سے ظاہر ہے :

’’ سکندر اعظم اپنی تیسری فوج کشی میں اسی علاقہ تک گیا تھا۔ ‘‘

ظاہر ہے کہ ان دو باتوں کی صراحت کے بعد وہ مجبور ہیں کہ در بند (حصار ) کی سد ہی سد ذوالقرنین تسلیم کریں۔ مگر اس سے زیادہ یہ ظاہر ہے کہ اس سد پر نہ قرآن عزیز کی بیان کردہ صفات ہی کا اطلاق ہوتا ہے اور نہ کوئی مورخ ہی اس کو سد سکندری یا سد ذوالقرنین کہتا ہے۔ اور بالفرض اگر اس کو سکندر کی تعمیر تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی وہ سد ذوالقرنین کسی طرح نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ وہ قرآنی صفات کے مطابق نہیں ہے۔

اس کے بعد دوسرانمبر دربند (بحر قزوین) کی دیوار (سد ) کو زیر بحث لانے کا ہے۔ اس کے متعلق یہ معلوم ہو چکا کہ اس کو عرب باب الابواب اور الباب کہتے ہیں اور اہل فارس دربند اور درہ آہنی نام رکھتے ہیں۔ اور اس میں شک نہیں کہ بڑی کثرت سے مورخین اس دربند کی دیوار (سد ) کو ’سد سکندری ‘ کہتے چلے آئے ہیں مگر محققین یہ بھی کہتے چلے آئے ہیں کہ بانی کا صحیح حال معلوم نہیں  ہے۔ البتہ اس کو سد سکندری بھی کہہ دیتے ہیں اور کاکیشین وال (کاکیشیا کی دیوار ) اور دیوار نوشیرواں بھی۔

لیکن ہم اس بحث کو موخر کرتے ہوئے کہ اس کے متعلق یہ اضطراب بیانی کیوں ہے۔ اس سد کو سد ذوالقرنین جب ہی مان سکتے ہیں کہ یہ قرآن عزیز کے بیان کردہ ہر دو صفات کے مطابق پوری اترے۔ مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کہ اس دیوار کے عرض و طول اور اس کے حجم کی تفصیلات دیتے ہوئے تمام مورخین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس دیوار کا بھی بہت بڑا حصہ سطح زمین پر تعمیر کیا گیا ہے اور آگے بڑھ کر پہاڑ پر بھی بنایا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی مانتے ہیں کہ اگر چہ یہ دیوار بعض جگہ سے دوہری بھی ہے اور اس میں متعدد لوہے کے پھاٹک بھی ہیں جن میں سے بعض بعض پہاڑوں کے درمیان قائم ہیں اور پہاڑوں پر اس کے استحکامات بھی ہیں ، تاہم دیوار لوہے کے ٹکڑوں اور تانبے سے نہیں بنائی گئی۔ بلکہ عام دیواروں کی طرح پتھر اور چونا سے بنائی گئی ہے۔ پس اس کا بانی کوئی شخص بھی ہو، اس دیوار کو سد ذوالقرنین کہنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اب اس کو سد سکندری کہنا اس سے انکار کی کوئی ضرورت نہ ہوتی اگر تاریخی حقائق اس دعوے کا ساتھ دیتے مگر حیرت اور تعجب کی بات یہ ہے کہ یہی مورخین جب سکندر مقدونی کا ذکر کرتے اور اس کی وسعت فتوحات کو زیر بحث لاتے ہیں تو ان میں سے کوئی ایک بھی یہ نہیں کہتا کہ سکندر اعظم کاکیشیا تک پہنچا ہے اور بقول مولانا ابوالکلام :

’’ لیکن جب سکندر کے تمام فوجی اعمال خود اس کے عہد میں اور خود اس کے ساتھیوں نے قلمبند کر دیئے ہیں اور ان میں کہیں بھی کاکیشیا کے استحکامات کی تعمیر کا اشارہ نہیں ملتا تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس طرح کی توجیہات قابل اطمینان تسلیم کر لی جائیں۔ ‘‘

یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ سکندر اعظم کی جانب یہ انتساب صحیح ہے۔

امریکہ کے ایک مشہور جغرافیہ داں کریم (CRAM)نے اپنے جغرافیہ کریمس یونیورسل اٹلس (CRAMES UNIVERSAL ATLAS) میں سکندر اعظم کی سلطنت سن ۳۸۱ -۳۳۱ ق۔ م۔ کا جو مکمل نقشہ تیار کیا ہے اس میں بھی کاکیشیا کا علاقہ اس کی فتوحات سے سیکڑوں میل دو ر نظر آتا ہے۔

بہرحال اکثر مورخین تو اس کا بانی نوشیرواں کو بتاتے ہیں اور جوزیفس سکندر کو اس کا بانی قرار دیتا ہے۔ مگر بیان کردہ تاریخی حقائق کے پیش نظر نہ نوشیرواں کی نسبت صحیح ہے اور نہ سکندر اعظم کی۔ اور اگر ان دونوں میں سے کسی کی نسبت کو بالفرض صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس کو سد ذوالقرنین کہنا حقائق قرآنی سے آنکھیں بند کر لینا ہو گا۔ پس دربند ( حصار ) ہو یا دربند (بحر خزر ) دونوں کی سد ’سد ذوالقرنین ‘ نہیں ہے۔

تیسری قابل ذکر وہ سد ہے جو دربند (قزوین ) یا کاکیشیا وال کے مغرب کی جانب میں ایک درہ کو بند کرتی ہے۔ یہ درہ بند سے مغر ب کی جانب کاکیشیا کے اندرونی حصوں میں آگے بڑھتے ہوئے ملتا ہے اور درہ داریال کے نام سے مشہور ہے اور قفقاز اور تفلس کے درمیان واقع ہے۔ یہ درہ کاکیشیا کے بہت بلند حصوں سے ہو کر گذرا ہے اور قدرتی طور پر پہاڑ کی دو بلند چوٹیوں سے گھرا ہوا ہے۔ اس کو فارسی میں درہ آہنی اور ترکی میں ’دامرکیو‘ کہتے ہیں۔

اس درہ کے متعلق گذشتہ صفحات میں امام رازی کی تفسیر سے تشریح کے بعد یہ دو پہاڑ جن کے درمیان سد واقع ہے قفقاز میں ہے۔ ہم ابن خرداد کی کتاب المسالک کا یہ حوالہ نقل کر چکے ہیں کہ واثق باللہ نے جب اپنے خواب کی تعبیر کے پیش نظر سد ذوالقرنین کی تحقیق کے لئے تحقیقاتی وفد (ریسرچ کمیشن ) مقرر کیا اور اس نے باب الابواب (دربند ) سے آگے چل کر جب اس کا مشاہدہ کیا ہے تو یہ تصریح کی ہے کہ یہ دیوار تمام لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے بنائی گئی ہے۔ اصل الفاظ یہ ہیں ’’ ان الواثق باللہ ای فی المنام کا نہ فتح ھذا الروم فبعث بعض الخدام الیہ لیعانیوہ فخر جو امن باب الابواب حتی و صلواالیہ و شاھد وہ فو صفواانہ بناء من لبن من حدید مشدودبا لخاس المداب و علیہ باب مقفل ‘‘اس کے ضمن میں ایک طویل حاشیہ موجود ہے وہ اس طرح ہے :

حاشیہ :

(دربند نامہ کاظم بک ص ۲۱، یہاں یہ بات بھی قابل لحاظ ہے کہ بعض معاصر بزرگ زیر بحث سد کے متعلق یہ شک ظاہر کرتے ہیں کہ یاقوت نے واثق باللہ کے تحقیقاتی وفد کی تفصیلات دیتے ہوئے یہ بیان کیا ہے کہ اس سفر کی آمد و رفت میں چھ ماہ صرف ہوئے۔ پس اگر ذوالقرنین کی سد درہ داریال کی سد ہوتی تو بغداد سے کاکیشیا (کوہ کاف ) کی راہ ایسی طویل نہیں ہے کہ یہ وفد اتنی مدت میں واپس آتا۔

مگر یہ شک صرف ایک قیاس مغالطہ ہے۔ اس لئے کہ اول تو یاقوت حموی نے اس واقعہ کی تفصیلات کو خود ہی اہمیت نہیں دی اور ایک داستان کی طرح اس کا ذکر کر دیا ہے جیسا کہ سلام ترجمان سے منقول ہے اس داستان کو نقل کرنے کے بعد کہتا ہے :

’’ میں نے سد کے حالات میں ان واقعات کو لکھ دیا ہے جن کو میں نے کتابوں میں لکھا پایا۔ اور میں نے جو کچھ بھی نقل کیا ہے میں ہر گز اس پر یقین نہیں کرتا، کیونکہ اس سلسلہ میں مختلف روایات ہیں جن کی صحت پر یقین نہیں کیا جا سکتا۔ ‘‘ (معجم البلدان ج ۵ )

دوسرے مدت سفر کی اس تصریح پر جب کچھ کہا جا سکتا تھا کہ اس کے ساتھ تفصیلات بھی بیان کی جاتیں کہ ذرائع رسل و رسائل کیا تھے ، درمیانی مقامات میں آمد و رفت کے موقعوں پر کس قدر قیام رہا اور مقام مطلوب میں مدت قیام کیا رہی۔ جب کہ عراق سے کاکیش (جبل قوفایا ) کی پہاڑیوں تک آٹھ سو نو سو میل کی ایک طرفہ مسافت ہے۔

علاوہ ازیں اس واقعہ کا ذکر ابن خلدون، ابن خردادبہ، ابن کثیر (رحمہم اللہ ) جیسے محقق مورخین و جغرافیہ داں بھی کرتے ہیں اور اس کے باوجود وہ یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ واثق باللہ کا یہ وفد اسی زیر بحث سد تک گیا ہے اور واپس ہو کر اسی کے حالات اس نے خلیفہ کو سنائے ہیں۔ (حاشیہ ختم ہوا) )

پس جب کہ آج کے مشاہدے سے بھی یہ ثابت ہے کہ داریال کا یہ درہ پہاڑوں کی دو چوٹیوں کے درمیان گھرا ہوا ہے اور تاریخی حقائق بھی اس کو تسلیم کرتے اور واضح کرتے ہیں نیز واثق باللہ کے کمیشن نے اپنا یہ مشاہدہ بیان کیا ہے کہ یہ دیوار لوہے اور پگھلے ہوئے تانبے سے تیار کی گئی ہے ، بلاشبہ یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ یہی دیوار وہ سد ذوالقرنین ہے جس کا ذکر قرآن عزیز نے سورہ کہف میں کیا ہے ، کیونکہ قرآن عزیز کے بتائے ہوئے دونوں وصف صرف اسی دیوار پر منطبق ہوتے ہیں ، اس لئے وہب، ابو حیان، ابن خرداد، علامہ انور شاہ اور مولانا آزاد جیسے محققین کی یہی رائے ہے کہ سد ذوالقرنین قفقاز کے اسی درہ کی سد کا نام ہے۔

اس تصریحات کے بعد اب ہم کو کہنے دیجئے کہ درہ داریال کی یہ سد سائرس (گورش یا کیخسرو ) کی تعمیر کردہ ہے اور جیسا کہ ہم یاجوج و ماجوج کی بحث میں بیان کر چکے ہیں، یہ ان وحشی قبائل کے لئے ا س نے بنائی تھی جو کاکیشیا کے انتہائی علاقوں سے آ کر اور اس درہ میں سے گذر کر قفقاز کے پہاڑوں کے اس طرف بسنے والوں پر لوٹ مچاتے تھے اور یہ وہی سنتھینین قبیلے تھے جوسائرس کے زمانے میں حملہ آور ہو رہے تھے اور اس وقت کے یاجوج و ماجوج کا مصداق یہی قبائل تھے۔ اور ان ہی کی روک تھام کی ضرورت سے سائرس نے ایک قوم کی شکایت پر یہ سد تیار کی اور ارمنی نوشتوں میں اس سد کا جو قدیم نا م’’ پھاک کورائی ‘‘ (کورکا درہ ) لکھا چلا آتا ہے۔ اس کور سے مراد غالباً گورش ہے جو سائرس ہی کا فارسی نام ہے۔

اور اس کے قریب دربند (بحر خزر ) کی دیوار اس کے بعد اس غرض سے کسی دوسرے بادشاہ نے بنوائی ہے اور نوشیرواں نے اپنے زمانہ میں اس کو دوبارہ صاف اور درست کرایا ہے جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے حوالہ سے ہم ابھی نقل کر چکے ہیں۔

اور ان تینوں دیواروں (سد ) میں سے سکندر کی بنائی ہوئی کوئی بھی سد نہیں ہے۔ اس لئے کہ سکندر کی فتوحات کی تاریخ جو کہ سامنے ہے اس سے کسی طرح یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سکندر کو اس غرض کے لئے کسی سد قائم کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو کیونکہ اس کی حکومت کے سارے دور میں یاجوج و ماجوج قبائل کا کوئی حملہ تاریخ میں موجود نہیں ہے اور نہ دربند (حصار ) تک پہنچنے پر کسی قوم کا اس قسم کے وحشی قبائل سے دوچار ہونا اور سکندر سے اس کی شکایت کرنا تاریخی حقائق میں کہیں نظر آتا ہے۔

البتہ یہ بات ضرور قابل غور ہے کہ آخر دربند (بحر قزوین یا بحر خزر ) کی دیوار کے متعلق سد سکندر کیوں مشہور ہوا سو اس کے تمام حقائق کو پیش نظر رکھنے کے بعد بآسانی اس کا یہ حل سمجھ میں آ جاتا ہے کہ چونکہ اس مسئلہ کا تعلق یہود کی مذہبی روایات سے بہت زیادہ وابستہ ہے اور اسی لئے یہود کے سوال پر قرآن عزیز نے بھی اس کا ذکر کیا ہے تو اس بدعت اور غلط انتساب کی ابتدا بھی وہیں سے ہوئی ہے اور سب سے پہلے جو زیفس نے اس کے متعلق یہ بلا دلیل بیان کیا کہ یہ سد، سد سکندری ہے اور وہیں سے یہ روایات چل گئی۔ اور مورخین اسلام میں سے محمد بن اسحٰق نے بھی چونکہ سکندر یونانی کو ذوالقرنین بتایا، اس لئے مسلمانوں نے بھی اس سد کو سد سکندری کہنا شروع کر دیا اور آخر کا ر اس انتساب نے شہرت حاصل کر لی۔

مذکورہ بالاسد کے متعلق اگر چہ اکثر عرب مورخین یہی کہتے جاتے ہیں کہ وہ نوشیرواں کی بنائی ہوئی ہے مگر محققین کی رائے یہ ہے کہ اس کے بانی کا صحیح علم حاصل نہیں ہوسکا۔ البتہ تاریخی قیاسات سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاید اس کی مرمت اور درستی نوشیرواں نے اپنے زمانہ میں کرائی ہو۔ اور ا سی وجہ سے وہ نو شیرواں کی جانب منسوب کر دی گئی ہو، بہر حال یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس سد کو سد سکندری کہنا ایک افواہی انتساب سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، نیز سکندر مقدونی جو انگریزی تاریخوں میں ’گریٹ الیکزنڈر ‘ کہا جاتا ہے کسی طرح ذوالقرنین نہیں ہوسکتا، اور نہ ’’سد ذوالقرنین ‘‘سے اس کا کوئی تعلق ہے۔

یاجوج وماجوج کا خروج

ذوالقرنین، یاجوج و ماجوج اور سد کی بحث کے بعد سب سے زیادہ اہم مسئلہ یاجوج و ماجوج کے اس خروج کا ہے ، جس کا ذکر قرآن عزیز نے کیا ہے اور اس مسئلہ کی اہمیت اس لئے اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ اس مسئلہ کا تعلق علامات قیامت سے ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ خروج یاجوج و ماجوج کا مسئلہ کہ جس کی خبر قرآن عزیز نے بطور پیشن گوئی کے دی ہے ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کو محض ظنی قیاسات سے حل کر لیا جائے اور جب کہ اس مسئلہ کا تعلق قرآن عزیز کے ’’ اخبار مغیبات ‘‘ سے ہے تو پھر اس کے متعلق فیصلہ کرنے کا حق بھی قرآن عزیز ہی کو پہنچتا ہے نہ کہ ظن و تخمین کو۔ قرآن عزیز نے اس واقعہ کو سورہ کہف اور سورہ انبیا ء میں بیان کیا ہے اور اس مسئلہ سے متعلق جو کچھ بھی ہے وہ صرف ان دو سورتوں میں مذکور ہے :

سورہ کہف میں یہ واقعہ اس طرح مذکور ہے :

’’پس نہیں طاقت رکھتے وہ (یاجوج و ماجوج ) اس سد پر چڑھنے کی اور نہ وہ اس میں سوراخ کرنے کی طاقت رکھتے ہیں (ذوالقرنین ) نے کہا یہ میرے پروردگار کی رحمت ہے ، پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اس کو گرا کر ریزہ ریزہ کر دے گا اور میرے پروردگار کی فرمائی ہوئی بات سچ ہے۔ ‘‘

اور سورہ انبیاء میں اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا گیا ہے :

’’یہاں تک کہ جب کھول دیئے جائیں گے یاجوج و ماجوج اور وہ زمین کی بلندیوں سے دوڑتے ہوئے اتر آئیں گے اور خدا کا سچا وعدہ قریب آ جائے تو اس وقت اچانک ایسا ہو گا کہ جن لوگوں نے کفر کیا ہے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی اور پکار اٹھیں گے ، ہائے کم بختی ہماری کہ ہم بے خبر رہے۔ ‘‘

ان دونوں مقامات پر قرآن عزیز نے ایک تو یہ بتایا ہے کہ جس زمانہ میں ’’ذوالقرنین ‘‘نے یاجوج و ماجوج پر سد قائم کی تو اس کے استحکام کی یہ حالت تھی کہ یہ قومیں نہ اس کو پھاند کر اس جانب آ سکتی تھیں اور نہ اس میں سوراخ کر کے اس کو عبور کر سکتی تھیں اور سد کی اس مضبوطی اور پائیداری کو دیکھ کر ذوالقرنین نے خدائے تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور یہ کہا کہ یہ سب خدا کی رحمت کا کرشمہ ہے کہ اس نے مجھ سے یہ نیک خدمت کرا دی۔

اور دوسری بات یہ بیان کی ہے کہ قیامت کا زمانہ قریب ہو گا تو یاجوج و ماجوج بے شمار فوج در فوج نکل کر دنیا میں پھیل جائیں گے اور لوٹ مار اور تباہی و بربادی مچا دیں گے۔

ان دونوں باتوں سے عام طور مفسرین نے یہ سمجھا ہے کہ یاجوج و ماجوج ’سد ذوالقرنین ‘ میں اس طرح محصور ہو گئے ہیں کہ یہ ’سد ‘ قیامت تک اسی طرح صحیح و سالم کھڑی رہے گی اور یاجوج و ماجوج کے خروج کا وقت قریب آئے گا اور وہ قیامت کے قریب اور علامات قیامت میں سے ہو گا تو اس وقت یکبارگی ’سد ‘ گر کر ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور اس لئے انہوں نے دونوں مقامات میں اسی کے مطابق آیات کی تفسیر کی ہے ، چنانچہ انہوں نے سورہ انبیاء کی اس آیت کا ’’ حتی اذا فتحت یاجوج و ماجوج ‘‘ کا ترجمہ کر کے ’’ یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج سد توڑ کر کھول دیئے جائیں گے ‘‘ اس ارشاد الٰہی کو ذوالقرنین کے اس قول کے ساتھ جوڑ دیا جو کہف میں مذکور ہے ’فاذا جاء وعد ربی جعلہ دکاء ‘ پھر میرے رب کا وعدہ آئے گا تو وہ اس کو ریزہ ریزہ کر دے گا۔ ‘

مگر آیات کے سیاق و سباق اور مفہوم پر غائر نظر ڈالنے سے یہ تفسیر آیات قرآنی کا حق ادا نہیں کرتی۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ قرآن عزیز نے سورہ کہف میں تو صرف اسی قدر ذکر کیا ہے کہ یاجوج و ماجوج پر جب ذوالقرنین ن سد تعمیر کر دی تو اس کے استحکام کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ جب میرے خدا کا وعدہ آ جائے گا تو یہ سد ریزہ ریزہ ہو جائے گی اور خدا کا وعدہ برحق ہے اور اس کے خلاف ہونا محال و ممتنع …

مگر اس جگہ یاجوج و ماجوج کے اس خروج کا کوئی ذکر نہیں ہے جو قیامت کے قریب وقوع میں آئے گا اور ہوتا بھی کیسے ، کیونکہ ذوالقرنین کا اپنا مقولہ ہے جو سد کو مستحکم اور مضبوط ہونے کے سلسلہ میں کہا گیا ہے اور خروج یاجوج و ماجوج ان اخبار مغیبات میں سے ہے جو علامات ساعت کے طور پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے بیان کیا گیا ہے اور نبی کریم ﷺ کے ذریعہ سے اقوام عالم کے لئے ایک تنبیہ ہے کہ خدا کی یہ زمین اپنے آخری لمحات میں ایک سخت اور ہولناک عالمگیر حادثہ سے دوچار ہونے والی ہے۔

اور سورہ انبیاء میں صرف یہ مذکور ہے کہ قیامت کے قریب یاجوج و ماجوج کا خروج ہو گا اور وہ بہت سرعت کے ساتھ بلندیوں سے پستی کی جانب فساد برپا کرنے کے لئے امنڈ پڑیں گے اور اس جگہ سد کا اور سد کے ریزہ ریزہ ہو کر اس سے یاجوج و ماجوج کے نکلنے کا قطعاً کوئی تذکرہ نہیں ہے اور لفظ’ ’ فُتِحَتْ ‘‘سے ایسا سمجھنا محض قیاسی و تخمینی ہے ، جیسا کہ عنقریب واضح ہو گا۔

پس سورہ کہف اور سورہ انبیاء دونوں میں اس واقعہ سے متعلق آیات کا صاف اور سادہ مطلب یہ ہے کہ سورہ کہف میں تو پہلے اس واقعہ کی تفصیلات سنائی گئی ہیں جن کے متعلق یہود نے نبی کریم ﷺ سے براہ راست خود یا مشرکین مکہ کے واسطہ سے سوال کیا تھا کہ ذوالقرنین کی شخصیت کے متعلق اگر کوئی علم رکھتے ہو تو ظاہر کرو۔ قرآن عزیز یعنی وحی الٰہی نے ان کو بتایا کہ ذوالقرنین ایک نیک اور صالح بادشاہ تھا۔ اس نے تین مہمیں قابل ذکر سر کیں۔ ایک مشرق اقصیٰ کی اور دوسری مغرب اقصیٰ کی اور تیسری شمال کی جانب۔ اور اس تیسری مہم میں اس کو ایک ایسی قوم سے سابقہ ہوا، جس نے یاجوج و ماجوج کی تباہ کاریوں کا شکوہ کرتے ہوئے اپنے اور ان کے درمیان سد قائم کر دینے کا مطالبہ کیا، ذوالقرنین نے ان کے مطالبہ کو اس طرح پورا کیا کہ اس جانب وہ جس درہ سے نکل کر حملہ آور ہوا کرتے تھے اس کو لوہے کی تختیوں اور پگھلے ہوئے تانبہ سے بند کر دیا اور دو پہاڑوں کے درمیان درہ پر ایک بہترین سد تعمیر کر دی اور ساتھ ہی شکر خدا بجا لاتے ہوئے اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ یہ سد اس قدر مستحکم اور مضبوط ہے کہ اب یاجوج و ماجوج نہ اس میں سوراخ کر سکیں گے اور نہ اس پر چڑھ کر ادھر آ سکیں گے ، لیکن میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ یہ سد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسی طرح رہے گی بلکہ خدا کو جب تک منظور ہے یہ اسی طرح قائم ہے اور وہ چاہے گا کہ یہ روک باقی نہ رہے تو یہ ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور خدا کا وعدہ یعنی ہر شئے کی طرح سد کا بھی فنا ہو جانا پورا ہو کر رہے گا۔

یہود نے چونکہ صرف ذوالقرنین کے متعلق سوال کیا تھا اس لئے سورہ کہف میں اسی کے متعلق تفصیل سے بتایا گیا اور یاجوج و ماجوج کا محض ضمنی تذکرہ آ گیا اور سورہ انبیاء میں اللہ تعالیٰ مشرکین کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو بستیاں ہلاک کر دی گئیں۔ اب ان کے باشندے دنیا میں زندہ نہیں واپس آئیں گے ، ہاں جب قیامت آ جائے گی، اور وہ جب آئے گی کہ اس سے پہلے یاجوج و ماجوج کا فتنہ پیش آئے گا تب البتہ میدان حشر میں سب دوبارہ زندہ کر کے رب العالمین کے سامنے جو اب وہ ہونے کے لئے جمع کئے جائیں گے۔

پھر چونکہ اس جگہ یاجوج و ماجوج کے خروج کو قیامت کی علامت بیان کر کے اہمیت دی گئی ہے اس لئے اس کے نکلنے کو سد کے ٹوٹنے اور ریزہ ریزہ ہونے کے ساتھ مقید نہیں کیا بلکہ سرے سے سد کا ذکر ہی نہیں کیا بلکہ یہ کہا کہ جب ان کے خروج موعود کا وقت آ جائے گا تو سرعت کے ساتھ بلند یوں سے پستی کی جانب امنڈ پڑیں گے اور تمام اقطاع و امصار میں پھیل جائیں گے۔

پس اس مجموعۂ آیات سے دو باتیں معلوم ہوئیں : ایک یہ کہ ’’سد ذوالقرنین ‘‘ یاجوج و ماجوج کے خروج سے پہلے ضرور ٹوٹ پھوٹ چکی ہو گی، دوسرے یہ کہ یاجوج و ماجوج کے موعود خروج کا وہ وقت ہو گا کہ قیامت کا وقت بالکل قریب ہو جائے اور اس کے بعد ’نفح صور ‘ ہی کا مرحلہ باقی رہ جائے۔ اس وقت یاجوج و ماجوج کے تمام قبائل بے پناہ سیلاب کی طرح امنڈ پڑیں گے اور تمام کائنات میں فساد عظیم برپا کریں گے۔

بہر حال ذوالقرنین کے مقولہ ’’ ادا جاء وعدہ رنی جعلہ کا ء ‘‘ میں ’وعد ‘ سے یاجوج و ماجوج کا خروج مراد نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ ایک وقت ایسا ضرور آئے گا کہ بلا شبہ سد کا اندکاک ہو جائے گا اور وہ ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور سورہ انبیا ء میں خدائے تعالیٰ کے ارشاد فُتِحَتْ یَا جُوْجُ و َ مَا جُوْجُ سے یہ مراد نہیں ہے کہ وہ توڑ کر نکل آئیں گے بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ اس کثرت سے فوج در فوج نکل پڑیں گے گویا کہیں بند تھے۔ اور آج کھول دیئے گئے ہیں۔

چنانچہ اہل عرب لفظ فتح کو جب جاندار اشیاء کے لئے استعمال کرتے ہیں تو اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ یہ کسی گوشہ میں الگ تھلگ پڑی ہوئی تھی اور اب اچانک نکل پڑی۔ اس لئے جب کوئی شخص کہتا ہے ’’فتح الجراد ‘‘ تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ ٹڈیاں   کسی جگہ بند تھیں اور اب ان کو کھول دیا گیا، بلکہ یہ معنی مراد ہوتے ہیں کہ ٹڈی دل کسی پہاڑی گوشہ میں الگ تھلگ پڑا تھا کہ اب اچانک فوج در فوج نکل پڑا۔

پس یہاں بھی یہ بتایا گیا ہے کہ یاجوج و ماجوج جیسے عظیم الشان قبائل جو عرصہ سے بایں کثرت و اژدھام دنیا کے ایک الگ گوشہ میں پڑے ہوئے تھے اس دن اس طرح امنڈ آئیں گے کہ گویا بند تھے اور اب اچانک کھول دیئے گئے۔

سورہ کہف اور سورہ انبیاء کی زیر بحث آیات کی تفسیر راس الحدیث حضرت استاذ علامہ سید محمد انور شاہ نوراللہ مرقدہٗ نے بھی عقیدۃالاسلام میں یہی فرمایا ہے اور بلاشبہ تفسیر بغیر کسی تاویل کے صحیح اور درست ہے اور اس سلسلہ کے بہت سے خدشات کو دور کرنے کے لئے مفید۔

حضرت شاہ صاحب تحریر فرماتے ہیں :

’’اور یہ بات سمجھنے کے قابل ہے کہ ذوالقرنین کا یہ قول ’’ھذا رحمت من ربی الایہ ‘‘ اس کا اپنا قول ہے اور کوئی قرینہ سیاق و سباق میں ایسا موجود نہیں ہے جس سے سد کے ریزہ ریزہ ہونے کے واقعہ کو علامات قیامت میں سے شمار کیا جائے اور شاید ذوالقرنین کو یہ علم بھی نہ ہو کہ اشراط ساعت میں سے خروج یاجوج و ماجوج بھی ہے اور اس نے ’وعد ربی ‘ سے صرف اس کا کسی وقت میں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ’ہم نے کر چھوڑا ان کو اس دن سے اس حالت میں کہ بعض بعض پر امنڈ رہے ہیں ‘ اتمرار تجددی پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی برابر ایسا ہوتا رہے گا کہ ان میں سے بعض قبائل بعض پر حملہ آور ہوتے رہیں گے ، حتیٰ کہ خروج موعود کا وقت آ جائے۔ ہاں اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد جو کہ سورہ انبیاء میں ہے ’حتی اذا فتحت ‘ تو البتہ یہ بلاشبہ علامات قیامت میں سے ہے لیکن اس میں سد کا قطعاً کوئی ذکر نہیں ہے۔ پس اس فرق کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ‘‘ (ص ۲۰۱ )

اور پھر ا س کو تفصیل کے ساتھ بیان فرماتے ہوئے آخر میں ارشاد فرماتے ہیں : ’’ اور یہ یا د رہے کہ میں نے ان آیات کی تفسیر میں جو کچھ کہا، وہ قرآن میں تاویل نہیں ہے بلکہ قرآن عزیز کے کسی لفظ کو اس کے اپنے موضوع سے نکالے بغیر تاریخ اور تحریر کے پیش نظر مزید اظہار حال ہے۔ ‘‘

عام مفسرین نے بیان کردہ تفسیر سے الگ سورہ کہف او انبیاء دونوں کی آیات متعلقہ کے واقعات کو اشراط ساعت میں شمار کرتے ہوئے جو تفسیر فرمائی ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ترمذی اور مسند احمد کی ایک مرفوع حدیث ہے جو حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے اور جس کا ترجمہ یہ ہے :

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یاجوج و ماجوج روزانہ ذوالقرنین کی سد کو کھودتے رہتے ہیں اور جب سورج نکلنے کا وقت ہوتا ہے تو آپس میں کہتے ہیں کہ اب کام ختم کرو اب یہ اس قابل ہو گئی ہے کہ کل تم اس کو کھود کر گرا سکو گے۔ مگر جب وہ اگلے روز پھر اس کام پر واپس آتے ہیں تو سد کو اصلی حالت سے بھی زیادہ مضبوط اور مستحکم پاتے ہیں ، یہ اسی طرح ہوتا رہتا ہے مگر جب ان کی معین مدت کا وقت پورا ہو جائے گا اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہو گا کہ اب وہ انسانی دنیا پر چھا جائیں تو اس روز بھی سابق کی طرح اس کو کھودیں گے اور جب سورج نکلنے کا وقت قریب ہو گا تو کام لینے والے کام کرنے والوں سے کہیں گے اب واپس جاؤ کل انشاءاللہ اس کو کھود کر برابر کر سکو گے اور آج چونکہ انشا ء اللہ کہہ دیا اس لئے جب واپس آئیں گے تو اپنی محنت کو درست پائیں گے اور اس وقت وہ باقی محنت کر کے سد کو گرا دیں گے اور لوگوں پر ٹوٹ پڑیں گے اور تمام روئے زمین کا پانی پی جائیں گے پھر وہ دنیا کو مغلوب سمجھ کر آسمان پر تیر پھینکیں گے کہ خدا اور عالم بالاسے جنگ کر کے اس کو بھی مغلوب کریں ، اللہ تعالیٰ ان کے تیروں کو خون آلود کر کے واپس کرے گا تو وہ سمجھیں گے کہ عالم بالا پر بھی غالب آ گئے ، پھر اللہ تعالیٰ ان کی گردنوں میں گلٹیاں پیدا کر دے گا جس سے وہ خودبخود مر جائیں گے۔ ‘‘ (ترمذی سورہ کہف )

مگر ترمذی نے اس حدیث کو بیان کر کے حدیث کی حیثیت پر یہ حکم لگایا ہے کہ : ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے اور ہم اسی طریقہ سند سے ایسی ہی اچنبھی باتیں جانا کرتے ہیں۔ ‘‘

یعنی ان کے نزدیک یہ روایت اپنے اعتبار سے منکر اور اچنبھی روایت ہے اور حافظ عماد الدین ابن کثیر اس روایت کو نقل کر کے اس پر یہ حکم لگاتے ہیں :

’اس حدیث میں مضمون کے لحاظ سے نکارت (اچنبھا ) ہے اور اس کو مرفوع کہنا یعنی رسول اللہﷺ سے نقل غلط ہے ، اصل بات یہ ہے کہ ٹھیک اسی قسم کی ایک اسرائیلی کہانی کعب احبار سے منقول ہے اور اس میں بھی یہ سب باتیں اسی طرح مذکور ہیں۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہؓ نے جو اکثر کعب احبار سے اسرائیلی قصے سنا کرتے تھے اس کو ایک اسرائیلی کہانی کے طور پر بیان کیا ہو گا جس کو نیچے کے راوی نے یہ سمجھا کہ یہ روایت نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے۔ درحقیقت یہ راوی کا وہم ہے اور کچھ نہیں ہے۔ ‘‘

اس حدیث کے متعلق میں نے جو کچھ کہا ہے میرا اپنا خیال ہی نہیں ہے بلکہ امام حدیث احمد بن حنبل بھی یہی فرماتے ہیں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ۳۔ ص ۱۰۵ ) ترمذی، ابن کثیر اور امام احمد کی ان تصریحات کے بعد اس روایت کی حیثیت ایک اسرائیلی قصہ سے زیادہ نہیں رہ جاتی۔ لہٰذا مفسرین کا محض اس روایت کی بنا پر سورہ کہف کی زیر بحث آیات کی تفسیر کرنا کہ سد ذوالقرنین ٹھیک اس وقت ریزہ ریزہ ہو گی جب اشراط ساعت میں سے موعود خروج یاجوج و ماجوج پیش آئے گا صحیح نہیں ہے۔

اور اگر ان کی تفسیر کا یہ حصہ صحیح مان لیا جائے تو پھر بھی وہ مذکور ہ بالا روایت کے تسلیم کر لینے کے بعد قرآن عزیز کی آیت کے تعرض سے سبکدوش نہ ہوسکتے ، اس لئے کہ قرآن عزیز (کہف ) میں سد کے متعلق ذوالقرنین کا یہ مقولہ نقل کیا گیا ہے ’ فما اسطاعوا ان یظھروہ وما استطاعو الہ نقبا‘اور اس کا مطلب تمام مفسرین نے بالاتفاق یہ بیان کیا ہے کہ یاجوج و ماجوج اس سد میں کسی قسم کے رد و بدل پر قادر نہیں ہیں۔ چنانچہ امام احمد اور ابن کثیر اس کی شرح میں فرماتے ہیں :

بلا شبہ اب یعنی بناء سد کے وقت یاجوج و ماجوج اس میں سوراخ کرنے یا کسی حصے کو بھی کھودنے پر قادر نہیں رہے۔ ‘‘ تو اب مفسرین اس روایت کے ان جملوں کے تعارض کو کس طرح دور فرمائیں گے جن میں یہ صراحت ہے کہ وہ اس کو کھود کر یا چاٹ کر گرنے کے قریب کر دیتے ہیں بلکہ اس سے زیادہ صحیح حدیث کے تعارض کو کس طرح دور کریں گے جن کو امام بخاری نے بسند صحیح روایت کیا ہے :

’’ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ خواب راحت سے بیدار ہوئے تو یہ حالت تھی کہ چہرہ مبارک سرخ تھا اور یہ ارشاد فرما رہے تھے ’لاالہ الا اللہ ویل للعرب من شرقد اقترب فتح الیوم من روم یاجوج و ماجوج مثل ھذا او حلق قلت یا رسول اللہ انھلک وفینا الصالحون قال نعم اذا کثر الخبیث ‘‘

لاالہ الا اللہ عرب کے لئے ہلاکت ہے اس شر سے جو قریب آرہا ہے آج یاجوج و ماجوج پر قائم شدہ سد اس طرح کھول دی گئی ہے اور انگوٹھے پر انگلی رکھ کر اور گول حلقہ بنا کر دکھایا۔ حضرت زینبؓ بنت جحش فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم ایسی حالت میں ہلاک ہو جائیں گے جب کہ ہم میں صالحین امت موجود ہوں گے۔ ارشاد فرمایا بے شک ایسا ہو گا اگر امت میں خبائث کی کثرت ہو جائے گی۔ ‘‘( بخاری و مسلم عن الزہری باب الفتن )

اس روایت میں یہ تصریح ہے کہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ سد میں حلقہ انگشت کے برابر ہو گیا ہے اور مفسرین کے مطابق قیامت کے موعود وقت سے قبل یہ ناممکن ہے۔

پس اگر کہا جائے کہ اس صحیح بلکہ اصح روایت حدیثی میں ’فتح ‘ سے مراد شر و فتنوں کا شیوع ہے اور اس کو استعارہ کے طور پر فتح روم کہہ دیا گیا تو سورہ انبیاء کی آیت میں ’فتحت ‘کے معنی میں یہ اصرار کیوں ہے کہ اس سے سد ٹوٹ کر کھلنا مراد ہے۔ حالانکہ اس جگہ روم یا سد کا تذکرہ تک نہیں اور کیوں نہ اس سے بھی استعارہ مراد لیا جائے اور کیوں وہ تفسیر نہ کی جائے جو ہم ابھی نقل کر چکے ہیں۔

اور اگر حدیث میں حقیقی نقب کا ذکر ہے تو یہ سورہ کہف کی اس تفسیر کے خلاف اور معارض ہے جو مفسرین نے عام طور پر بیان کی ہے کہ سد کا یہ استحکام قیامت کے موعود وقت تک یوں ہی رہے گا اور سد کا اس سے قبل ٹوٹنا پھوٹنا ناممکن ہے۔

لیکن عام تفسیر کے بر عکس اگر حضرت شاہ صاحب کی تفسیر کے مطابق ان دونوں مقامات کی تفسیر کی جائے کہ جس کی فی الجملہ تائید امام احمد اور محدث ابن کثیر کے اقوال سے بھی ہوتی ہے تو یہ سب مشکلات خود بخود دور ہو جاتی ہیں اور آیات کا مطلب اور حدیث کا مقصد بآسانی سمجھ میں آ جاتا ہے چنانچہ ابن کثیر آیت ’’ وما استطاعو الہ نقبا ‘‘ کی تفسیر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں :

’’یعنی وہ (یاجوج وماجوج ) اس زمانہ میں سد کے متعلق ہر قسم کے رد و بدل سے بے بس ہو گئے ہیں اس لئے کہ استطاعو کا صغیر زمانہ ماضی کی اطلاع کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ بس اس آیت میں اس بات کی ہر گز نفی نہیں نکلتی کہ زمانہ مستقبل میں اللہ تعالیٰ ان کو اس پر قدرت دیدے کہ وہ آہستہ آہستہ اور تدریجی طور پر اس سد کو توڑ پھوڑ ڈالیں تاکہ وہ وقت موعود آ پہنچے جس کی خبر سورہ انبیاء میں دی گئی ہے۔ اور امر مقدر پورا ہو جائے اور تب وہ یک لخت یلغار کر کے اس طرح نکل پڑیں گے جس طرح سورہ انبیاء کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے ’’ وھم من کل حدب یتسلون ‘‘

غرض اس عبارت کا مفہوم بھی وہی ہے جو حضرت شاہ صاحب نور اللہ مرقدہٗ سے منقول ہو چکا اور بغیر کسی تاویل کے ’’ آیت وما استطاعو الا یہ ‘‘کا صاف طور پر یہی مطلب متعین ہو جاتا ہے کہ یہ ذوالقرنین کے زمانہ کی کیفیت خود ان ہی کی زبانی بیان ہورہی ہے یہ مطلب کسی طرح بھی نہیں ہے کہ ذوالقرنین کی سد یاجوج و ماجوج کے خروج سے پہلے ٹوٹ ہی نہی سکتی۔

اور یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ یاجوج و ماجوج صرف ایک اس درہ سے ہی نکل کر غارت گری نہیں کرتے تھے بلکہ کاکیشیا کے اس کونے سے چین کے علاقہ منچوریا تک ان کے خروج کے بہت سے مقامات تھے۔ پس اگر ان کے لئے سد ذوالقرنین نے درہ داریال کی راہ ہمیشہ کے لئے مسدود کر دی تھی تو دوسرے مقامات سے ان کا خروج کیوں نہیں ہوسکتا تھا ؟

اسی لئے حضرت شاہ صاحب نے آیت ’ وترکنا بعضھم یومیذیموج فی بعض ‘ کی تفسیر یہ کی ہے کہ ذوالقرنین کے اس واقعہ میں چونکہ یاجوج و ماجوج پر اس جانب سے روک قائم ہو جانے کا تذکرہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے ذوالقرنین کے مقولہ کے بعد اپنی جانب سے اس آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ ا ے مخاطبین تم جن یاجوج و ماجوج قبائل کے متعلق یہ باتیں سن رہے ہو یہ بھی سن لو کہ ہم نے ان قبائل کے لئے یہ مقدر کر دیا ہے کہ آپس میں الجھتے رہیں گے اور موج در موج باہم دست بگریباں ہوتے رہیں گے۔ حتیٰ کہ وہ وقت آ جائے جب کہ قیامت کے بپا ہونے میں نفح صور سے پہلے قیامت کی اشراط و علامات میں سے ایک شرط یا علامات یہ پیش آئے گی کہ یاجوج و ماجوج کے تمام قبائل اپنے نکلنے کے مقام سے ایک ساتھ امنڈ آئیں گے اور دنیا کی عام غارت گری کے لئے اپنی مقامی بلندیوں سے تیزی کے ساتھ اتر تے ہوئے کائنات کے گوشہ گوشہ میں پھیل جائیں گے۔ ’’ من کل حدب ینسلون ‘‘لغت میں اوپر سے نیچے جھکنے کو کہتے ہیں۔ اس لئے ’حدب ‘ کے معنی اونچے مقام سے نیچے اترنے کے ہوتے ہیں اور’’ نسلان ‘‘ عربی لغت میں پھسلنے کو کہتے ہیں۔ اس لئے ’’ ینسلون ‘‘ کے معنی یہ ہوئے کہ وہ اس سرعت کے ساتھ امنڈ آئیں گے کہ یہ معلوم ہو گا گویا وہ کسی ٹیلے سے پھسل رہے ہیں۔ چنانچہ مفردات امام راغب اور نہایہ ابن اثیر میں ’’حدب ‘‘ اور ’’ نسل ونسلان ‘‘ کی بحث میں یہی لغوی تفصیل مذکور ہے۔ لہٰذا س تفسیر سے یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن عزیز نے یاجوج و ماجوج کے خروج موعود کی جو کیفیت بیان فرمائی ہے وہ ان ہی قبائل پر منطبق ہوتی ہے جو بحر کاسپین سے لے کر منچوریا تک پھیلے ہوئے ہیں اور جو دنیا کی بہت بڑی آبادی کے محور ہیں اور جائے وقوع کے اعتبار سے عام سطح آبادی سے اس قدر بلند حصہ زمین پر مقیم ہیں کہ جب کبھی نکل کر متمدن اقوام پر حملہ آور ہوتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا اوپر سے نیچے کو پھسل رہے ہیں۔ پس آئندہ بھی جب اشراط ساعت کی شکل میں ان کا آخری خروج ہو گا تو ان کے تمام قبائل کا سیلاب ایک ہی دفعہ امنڈ آئے گا اور ایسا معلوم ہو گا کہ انسانوں کا بند ٹوٹ گیا ہے اور وہ اپنے مقامات کی ہر بلندی سے نیچے کی جانب بہہ پڑا ہے۔

قرآن عزیز کی آیا ت زیر بحث کی یہ تفسیر، الفاظ اور جملوں کو ان کے لغوی معنی سے ادھر ادھر ہٹائے اور ان میں تاویل کئے بغیر، اس قدر لطیف ہے کہ جس سے وہ بہت سے شکوک و شبہات یک قلم دفع ہو جاتے ہیں جو اس سلسلہ میں مفسرین کو پیش آئے ہیں اور ان کو حل کرنے کے لئے غیر جاذب تاویلات کرنی پڑی ہیں۔ نیز مدعیان نبوت کو ان تاویلات سے فائدہ اٹھا کر الحاد و زندقہ پھیلانے کا موقع میسر آ گیا ہے۔

سورہ کہف اور سورہ انبیا ء کی آیات کی اس تفسیر کے بعد اب حدیث بخاری کا مرحلہ باقی رہ جاتا ہے کہ اس کی کیا مراد ہے ؟ تو حدیث ’’ ویل للعرب من شرقد اقترب‘‘اس بات پر تو صاف دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ کو رویا میں ’’ جو نبی کے لئے وحی کی طرح صحیح حجت ہوتا ہے ‘‘ یہ دکھایا گیا کہ سد یاجوج و ماجوج میں رخنہ پڑ جانے سے ایساسخت حادثہ پیش آنے والا ہے جو عرب کے لئے ہولناک ثابت ہو گا لیکن یہ بات پوری طرح وضاحت کے ساتھ نہ آ سکی کہ ’’فتح ‘‘ روم یا جوج و ماجوج میں لفظ ’فتح ‘ سے حقیقی معنی مراد ہیں کہ واقعی یاجوج و ماجوج کی حد میں انگوٹھے اور انگلی کے بنائے ہوئے حلقہ کی مقدار میں شگاف ہو گیاہے یا پیش گوئیوں کی طرح اس پیشن گوئی میں بھی ’’فتح ‘‘ اور ’’ حلق تسعین ‘‘ کو استعارہ کی شکل میں بیان کیا گیا ہے ، نیز یہ کہ اس جملہ کا پہلے جملہ ’’ ویل للعرب ‘‘ سے کوئی رابطہ ہے یا یہ الگ الگ دو مستقل باتیں ہیں۔

ان دونوں مسئلوں کے متعلق اہل تحقیق کی رائے مختلف ہے اور چونکہ اس رویا ء صادقہ کی تعبیر خود ذات اقدس (ﷺ) سے صحابہؓ کے آثار سے بسند صحیح منقول نہیں ہے۔ اس لئے محدثین اور ارباب سیر نے یہ کوشش فرمائی ہے کہ وہ اس حدیث کے مصداق کو تقریبی طور پر متعین فرمائیں۔

شیخ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ ’’ ویل للعرب ‘‘ کے جملے میں ان شر و فتن کی جانب اشارہ کیا گیا ہے جو آپ ؐ کی وفات کے بعد ہی امت میں رونما ہونے شروع ہو گئے اور جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ امت میں سب سے پہلے عرب (قریشی حکومت ) کی طاقت کا خاتمہ ہو گیا اور جن کی ہلاکتوں کا پہلا شکار اہل عرب ہی ہوئے اور بعد میں ان کا اثر تمام امت مرحومہ پر پڑا۔

اور روم (سد ) میں انگلی اور انگوٹھے کے بنائے ہوئے حلقہ کی مقدار رخنہ پیدا ہو جانے کا ذکر تقریبی ہے۔ یعنی یہ مقصد نہیں ہے کہ واقعی اتنا چھوٹا سا رخنہ پڑ گیا ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ سد ذوالقرنین کے استحکامات کی مدت ختم ہو گئی اور اب اس میں رخنہ پڑنے کی ابتدا ہو چکی ہے۔ گویا اب وہ آہستہ آہستہ شکست و ریخت ہو جائے گی ( عمدۃ القاری ج ۱۱، ص ۲۳۵ )

حافظ ابن حجر عسقلانی بھی قریب قریب یہی فرماتے ہیں۔ لکھتے ہیں کہ ’’ اس واقعہ کی جانب اشارہ ہے جو رویا ء صادقہ کے بعد قتل عثمان غنیؓ کی شکل میں ظاہر ہوا۔ اور پھر متواتر فتن اور شرور کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ جن کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب (قریشی حکومت ) تمام اقوام کے لئے ایسے ہو گئے جیسا کہ کھانے کے پیالہ پر کھانے والے جمع ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں اس تشبیہ کا ذکر بھی موجود ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :

’’ وہ زمانہ قریب ہے کہ تم پر قومیں اس طرح ایک دوسرے کو دعوت دیں گی جس طرح کھانے کے لئے بڑے پیالے پر کھانے والے ایک دوسرے کو دعوت دیتے ہیں۔ ‘‘ (فتح الباری، ج ۱۳، ص ۹۱ )

قرطبی کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد کے مخاطب عرب ہی ہیں۔ اور رخنہ سد کے متعلق دونوں محدثین کا رجحان اسی کی جانب معلوم ہوتا ہے کہ اس سے حقیقی رخنہ مراد نہیں ہے بلکہ یہ ایک تشبیہہ ہے۔

ان ہر دو محدثین کی تفصیلات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک ’’ ویل للعرب ‘‘ والا جملہ جو شرور و فتن سے متعلق ہے اور ’فتح روم ‘ کے جملہ میں ایک ہی بات بیان کی گئی ہے۔ اور یہ دونوں جملے اس طرح آپس میں مربوط ہیں کہ دونوں کو ایک ہی حادثہ سے متعلق سمجھا جائے۔

اور حافظ عماد الدین ابن کثیر اس بارہ میں کوئی فیصلہ کن رائے نہیں رکھتے اور متردد ہیں کہ زیر بحث حدیث ’’ فتح من روم یاجوج و ماجوج ‘‘ میں فتح سے حقیقی فتح ’کھل جانا ‘ مراد ہے یا استعارہ ہے کسی آئندہ ایسے حادثہ سے جو یاجوج و ماجوج کے ہاتھوں پیش آنے والا ہے اور جس کا اثر براہ راست عرب (حکومت قریش ) پر پڑے گا لیکن کرمانی شارح بخاری بعض علما ء سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اس پوری حدیث کو ایک ہی معاملہ سے متعلق سمجھتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ اس میں یاجوج و ماجوج کے ایسے حادثہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کا ظہور قیامت کی علامت سے جدا درمیانی وقفہ میں پیش آنے والا ہے۔ اور جو باعث ہو گا عرب کے زوال کا اور فتح روم استعارہ ہے اس بات سے کہ جو حادثہ آئندہ رونما ہونے والا ہے۔ اس کی ابتدا ہو گئی ہے اور یہ وہ حادثہ تھا جو مستعم باللہ خلیفہ عباسی کے زمانہ میں فتنہ تاتار کے نام سے برپا ہوا اور جس نے عرب طاقت کا خاتمہ کر کے رکھ دیا۔

اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج قبائل کی اس تاخت و تاراج کے بعد جس کا ذکر ذوالقرنین کے واقعہ کے ضمن میں آیا ہے۔ تاریخ میں ان قبائل کا پھر کوئی یادگار جملہ مذکور نہیں ہے۔

البتہ ساتویں صدی عیسوی میں ان کے لئے ذوالقرنین کی یہ روک بیکار ہو گئی اور انہوں نے بحر خزر اور بحر اسود کے اس درہ کے علاوہ جو ان پر بند کر دیا گیا تھا بحیرہ یورال اور بحر خزر کا درمیانی راستہ پا لیا۔ نیز ادھر سد ذوالقرنین کے استحکامات میں بھی فرق آنا شروع ہو گیا تھا اور اس طرح ذوالقرنین کے بعد اب یاجوج و ماجوج کے ایک نئے فتنہ کا آغاز ہو چلا تھا اور صدیوں سے ان خاموش قبائل فتنہ جو میں پھر حرکت شروع ہو گئی تھی۔

لہٰذا نبی کریم ﷺ کو رویا ء صادقہ میں یہ دکھایا گیا کہ اگر چہ ابھی وقت دور ہے جبکہ قیامت کے قریب تما م قبائل یاجوج و ماجوج عالم انسانیت پر چھا جائیں گے لیکن وہ وقت قریب ہے جبکہ ذوالقرنین کے بعد ان کا ایک اہم خروج پھر ہو گا اور وہ عرب کی طاقت اور فرمانروائی کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا اور اسی خروج کواس طرح حتمی طور پر دکھایا گیا گویا (سد ) دیوار میں ایک چھوٹا سا سوراخ ہو گیا ہے اور آہستہ آہستہ وہ دیوار گر کر منہدم ہو جانے والی ہے۔

چنانچہ زمانہ نبوی میں یہ وہ وقت تھا کہ ان قبائل میں سے چند منگولین قبائل نے اپنے مرکز سے نکل کر قرب و جوار میں پھیلنا اور چھوٹے چھوٹے حملے کرنا شروع کر دیا تھا۔ اور آخر کار چھٹی صدی ہجری میں چنگیز خان ان کا قائد بن گیا اور اس نے منتشر قبائل کو ایک جگہ جمع کرنا شروع کیا اور پھر اس کے بیٹے اوکتائی خان نے ایک بے پناہ طاقت کے ساتھ اٹھ کر مغرب و جنوب پر حملہ کر دیا اور ۶۸۶ ء میں آخر کار ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی عرب خلافت کا خاتمہ ہو گیا۔ اور اس نے خلافت عربیہ کو تہہ و بالا کر ڈالا۔

تو یوں سمجھئے کہ جس طرح نبی کریم ﷺ کی ذات اقدس خود علامات قیامت میں سے سب سے بڑی علامت ہے۔ یعنی آپ خاتم النبین ہیں اور پھر بھی قیامت کے وقت میں اور ذات اقدس میں کافی غیر متعین فاصلہ ہے۔ اسی طرح یہ فتنہ تاتار بھی علامت قیامت ’’ خروج یاجوج و ماجوج ‘‘ کا ایک ابتدائی نشان ہے۔ اور جس طرح خروج دجال و قتل دجال اور نزول عیسیٰؑ قیامت کی قریبی علامات ہیں اسی طرح سورہ انبیاء میں ذکر کردہ خروج یاجوج و ماجوج بھی علامت قیامت میں سے قریبی اور آخری علامت یا آخری شرط ہے۔ پس ’فتح روم ‘میں ان کی ابتدائی حرکت کی جانب اشارہ ہے جو رویائے صادقہ کے وقت شروع ہو چکی تھی اور ’ویل للعرب ‘ سے اس نتیجہ کا اظہار ہے جو عرب حکومت کے خاتمہ پر منتج ہوا ہے۔

لیکن شیخ بدرالدین عیسیٰ نے بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں کرمانی کے بیان کردہ اس قول کی تردید کی ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ تاتار ی فتنہ کا بانی چنگیز خان اور اس کا بیٹا ہلاکو خان تھا اور ان کو یاجوج و ماجوج میں سے سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا مصداق اس فتنہ کو قرار دینا بھی غلط ہے۔ بہر حال حدیث ’’ ویل للعرب ‘‘کی ان مختلف توجیہات سے جب کہ یہ بات ظاہر ہو گئی کہ اس روایت کے مصداق کا تعین خود حدیث سے نہیں ہوتا بلکہ محدثین نے قرآن اور الفاظ حدیث کی نشست کو پیش نظر رکھ کر اپنی جانب سے مصداق متعین کرنے کی سعی فرمائی ہے اور پھر اس میں بھی اختلاف رائے رہا ہے تو اب انہی کے بتائے ہوئے اصول کو سامنے رکھ کر ہم بھی کچھ کہنے اور حدیث زیر بحث کے مقصد کو متعین کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ اگر چہ دوسرے اقوال کی طرح وہ بھی غیر منصوص اور قابل رد و مقبول ہو گا۔

حدیث زیر بحث میں مستقبل میں پیش آنے والے جس فتنہ اور شر کی خبر دی گئی ہے اس کے دو جملے بہت اہم ہیں۔ ایک ’’ ویل للعرب من شر قد اقترب ‘‘ عر ب کے لئے ہلاکت ہے اس شر سے جو بلا شبہ قریب آ لگا ہے۔ اور دوسرا ’فتح الیوم من روم یاجوج و ماجوج و حلق تسعین ‘ آج کے دن یاجوج و ماجوج کی سد سے انگوٹھے اور انگلی کے گول دائرہ کی مقدار میں کھول دیا گیا ہے۔ اور ان ہر دو جملوں کے درمیان واو عطف بھی نہیں ہے۔

لہٰذا الفاظ حدیث پر کافی غور و خوض کے بعد یہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں مسطورہ بالاہر دو اقوال کی گنجائش ہے۔ یعنی حدیث کا پہلا جملہ یہ پتہ دیتا ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک ایسے اہم شر کی اطلاع دے رہے ہیں جس کا اثر یہ ہو گا کہ عر ب کے لئے سخت ہلاکت کا سامناہو گا اور ’’خلافت قریش ‘‘ زوال پذیر ہو جائے گی۔

اور دوسرا جملہ یا پہلے جملے کی تائید میں پیش کیا گیا ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ اس امت میں جو اہم فتنے برپا ہونے والے ہیں اور جن کا ابتدائی اثر عرب کی ہلاکت کی شکل میں ظاہر ہو گا ان فتنوں کے رونما ہونے کے لئے حسی علامت اس طرح سامنے آ گئی ہے کہ یاجوج و ماجوج پر بنائی ہوئی مستحکم سد ذوالقرنین میں رخنہ پڑنا شروع ہو گیا اور اس کی شکست و ریخت ہونے لگی۔ گویا یہ رخنہ آئندہ اسلامی طاقت یا عرب طاقت میں جلد رخنہ پڑ جانے کے لئے ایک علامت ہے۔ چنانچہ یہ فتنہ حضرت عثمانؓ کی شہادت سے شروع ہو کر مختلف فتنوں کے بعد چند صدیوں میں قریشی حکومت کی ہلاکت و تباہی پر جا کر ٹھہرا اور اس طرح حدیث کی پیشن گوئی پوری ہوئی۔

پس اس شکل میں ’فتح روم ‘ آئندہ فتنوں اور شروں کے پیش آنے کی علامت ہے ، جو امت اسلامیہ میں بپا ہو کر قرب قیامت میں موعود خروج یاجوج و ماجوج پر جا کر ختم ہو جائیں گے اور اس کے بعد دنیا کے درہم و برہم ہو جانے سے قیامت ہو جائے گی۔

یا یوں کہئے کہ دوسرا جملہ کی صرف تائید ہی نہیں ہے بلکہ اس کی تفسیر ہے اور پہلا جملہ درحقیقت نتیجہ و ثمرہ ہے۔ دوسرے جملہ کا اور مطلب یہ ہے کہ عرب (قریشی حکومت ) کی ہلاکت کا وقت آ پہنچا۔ گویا یاجوج و ماجوج کا وہ بند جو ذوالقرنین نے بہت مستحکم باندھا تھا اس میں اب رخنہ پڑ گیا اور معنی اس میں شکست و ریخت شروع ہو گئی اور یہ تمہید ہے اس فتنہ کی جو اسی جانب سے اٹھے گا اور قریشی حکومت کا خاتمہ کر دے گا۔

پس اس تعبیر کے لحاظ سے تاتاری فتنہ کی وہ تاریخ سامنے لائی جائے گی جو گذشتہ صفحات میں پیش کی گئی ہے اور جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح حدیث کی بیان کردہ پیشن گوئی کے مطابق اس فتنہ کی ابتدا دور رسالت سے شروع ہو گئی تھی اور پھر کس طرح وہ خلیفہ عباسی معتصم باللہ کے دور حکومت میں قریشی حکومت کے استیصال کا باعث ہوئی۔

پس اگر ان دونوں جملوں کے درمیان جو ربط اور تعلق ہے اس میں اس قدر وسعت تسلیم کر لی جائے کہ وہ محدثین کی بتائی ہوئی توجیہہ، یعنی اہم شرور و فتن کا شیوع اور کرمانی کا بیان کردہ ایک قول کے مطابق توجیہ ’’ یعنی فتنہ تاتار کا وجود ‘‘ ان دونوں توجیہات کو حاوی ہوسکے تو ایسا تسلیم کر لینے میں نہ شرعی قباحت لازم آتی ہے اور نہ تاریخی، اور زیر بحث حدیث کا مصداق بہت زیادہ فہم کے قریب آ جاتا ہے۔

رہا شیخ بدر الدین نوراللہ مرقدہٗ کا یہ ارشاد کہ چنگیز خانی تاتاری یاجوج و ماجوج نہیں کہلائے جا سکتے تو شیخ کا تسامح ہے اس لئے کہ یاجوج و ماجوج کے تعین کی بحث میں محققین، محدثین اور مورخین نے جن قبائل اور ان کے مواطن کو محقق قرار دیا ہے اور خود شیخ موصوف نے بھی جن کو بڑی حد تک تسلیم فرمایا ہے ، ان ہی قبائل میں سے ایک شاخ تاتاریوں کی بھی ہے جو چنگیز خانی کہلائے ، اور یہ اپنے دور بربریت و وحشت میں ان ہی جگہوں میں آباد رہے ہیں اور وہیں سے ان کا خروج ہوا ہے جن پر سد ذوالقرنین قائم کی گئی تھی۔

بہر حال سورہ کہف اور سورہ انبیاء کی زیر بحث آیات کی اس تفسیر کے درمیان جو ہم نے علامہ انور شاہ نور اللہ مرقدہ ٗ اور حافظ حدیث عماد الدین ابن کثیر کے حوالجات سے بیان کیا ہے اور اس حدیث کے پیشن گوئی کے مصداق متعین کرنے والی مسطورہ بالاتوجیہات کے درمیان کسی قسم کا بھی تعرض پیدا نہیں ہوتا اور زیر بحث آیات و روایات کے مصداق اپنی اپنی جگہ صاف اور واضح ہو جاتے ہیں اور ایسا کرنے میں نہ رکیک تاویلات کا سہارا لینے کی ضرورت پیش آتی ہے اور نہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس کو تفسیر بالرائے یا قابل اعتراض جذبات کہا جا سکتا ہے بلکہ یہ جو کچھ بھی ہے سلف صالحین اور محدثین و ارباب سیر کے مختلف اقوال میں ترجیح راجیح کے اصول کو کارفرما بنا کر ایک ایسی معتدل راہ ہے جو نصوص قرآنی اور صحیح روایات حدیثی کے درمیان تطبیق کی راہ کہلائی جاتی اور سلفاً عن خلفِ مقبول و محمود رہی ہے۔

اس ضمن میں یہ بات بھی پیش نظر رہنا ضروری ہے کہ حدیث مسطورہ بالا میں حلقہ کی مقدار پڑ جانے کا جو تذکرہ ہے اور اس کے متعلق محدثین کی یہ رائے ہے کہ استعارہ و تشبیہہ مراد ہو یا حسی رخنہ، بہر دو صورت حلقہ کی مقدار رخنہ کا ذکر تقریبی ہے نہ کہ تحدیدی۔ یعنی یہ مطلب ہے کہ سد میں رخنہ پڑنا شروع ہو گیا، یہ مراد نہیں ہے کہ واقعی ایک حلقہ کی مقدار ہی رخنہ پڑا ہے۔ چنانچہ گذشتہ صفحات میں ہم ابن کثیر سے اس سلسلہ میں نقول پیش کر چکے ہیں۔

اس سلسلہ میں مولانا آزاد نے ترجمان القرآن میں اور بعض دوسرے علما ء نے کتب سیرت میں اس امر کی کوشش کی ہے کہ سورہ انبیاء کی ان آیات کا مصداق جن میں یاجوج و ماجوج کے موعود خروج کا ذکر کیا گیا ہے ’’ حتی اذا فتحت یاجوج و ماجوج و ھم من کل حدب ینسلون ‘‘فتنہ تاتار کو بنا کر یہیں قصہ ختم کر دیں اور اس امارت ساعت و علامت قیامت سے کوئی تعلق باقی نہ رہنے دیں۔

مگر ہمارے یہاں قرآن عزیز کا سیاق و سباق ان کی اس تفسیر یا توجیہہ کا قطعاً اباءا ور انکار کرتا ہے اور یہ اس لئے کہ سورہ انبیاء میں اس واقعہ کو ترتیب سے بیان کیا ہے وہ یہ ہے :

’’ اور مقرر ہو چکا ہے ہر ایک ایسی بستی پر کہ جس کو ہم نے ہلاک کر دیا ہے کہ اس کے بسنے والے واپس نہ ہوں گے یہاں تک کہ کھول دیئے جائیں یاجوج و ماجوج اور وہ ہر بلندی سے دوڑتے ہوئے امنڈ پڑیں اور قریب آ جائے سچا وعدہ پھر اس وقت حیرانی سے کھلی کے کھلی رہ جائیں آنکھیں منکروں کی اور کہیں ہائے ہماری بد بختی کہ ہم بے خبر رہے ہیں (قیامت )سے بلکہ ہم ظلم و شرارت میں سرشار رہے۔ ‘‘

ان آیات میں آیت زیر بحث ’’ حتی اذا فتحت ‘‘(الایہ ) سے پہلی آیت میں یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ مرنے والوں کی موت کے بعد اب ان کے لئے اس دنیا میں دوبارہ زندگی نہیں   ہے اور آیت زیر بحث میں کہا گیا ہے کہ موت کے بعد دوبارہ زندگی کا وقت جن علامت و آیات کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے یا جن پر معلق کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ یاجوج و ماجوج کے تمام قبائل اپنی پوری طاقت کے ساتھ بیک وقت اپنے مراکز سے نکل کر تیزی سے تمام دنیا پر چھا جائیں گے اور اس سے متصل آیت میں مزید کہا گیا کہ پھر اس کے بعد قیامت بپا ہو جائے گی اور تمام شخص اپنی زندگی کے نیک و بد انجام دیکھنے کے لئے میدان حشر میں جمع ہو جائیں گے اور ناکام اپنی ناکامی پر حسرت ویاس کرتے رہ جائیں گے۔

پس آیت زیر بحث کے سیاق و سباق نے یہ بات بخوبی واضح کر دی کہ اس مقام پر یاجوج و ماجوج کے ایک ایسے خروج کی اطلاع دی گئی ہے جس کے شرور و فتن کا کوئی سلسلہ بلکہ دنیا کی ہستی کا کوئی سلسلہ باقی نہیں رہ جائے گا اور صرف قیامت بپا ہو جانے یعنی نفخ صور کی دیر باقی رہ جائے گی جو اس واقعہ کی تکمیل کے بعد عمل میں آ جائے گی۔

لہٰذا آیت کے سیاق و سباق سے قطع نظر کرتے ہوئے اور حدیث ’’ ویل للعرب من شر قد اقترب ‘‘کا مصداق فتنہ تاتار، کو متعین کرتے ہوئے سورہ انبیاء کی اس آیت کو آخری علامت ساعت سے نکال کر فتنہ تاتار پر محمول کر لینا ہر گز ہرگز صحیح نہیں کر سکتا۔ نیز جمہور سلف صالحین کی مسلّمہ توجیہہ کے قطعاً خلاف ہے۔

ممکن ہے کہ اس میں توجیہہ کے ناقلین و قائلین ہمارے اس اعتراض کو ہم پر پلٹ دیں اور یہ فرمائیں کہ اس طرح سورہ کہف میں بھی آیت ’’ اذاجاء وعد ربی جعلہ دکار ‘‘ میں ’’وعد ‘‘سے کیوں قیامت مراد لی جائے جبکہ اس کے بعد ہی آیت ’’ و نفخ فی الصور‘‘ موجود ہے جو بلاشبہ قیامت کی آخری علامت ہے اور کیوں نہ کہا جائے کہ اس آیت سے یہ مراد ہے کہ یاجوج و ماجوج نفخ صور تک سد کے اندر محصور اور بند رہیں گے اور نفخ صور کے قریب یک بیک سد گر جائے گی اور وہ نکل پڑیں گے۔

تو اس کے متعلق ہماری یہ گذارش ہے کہ یہ اعتراض اپنی اس تقریر کے ساتھ ہر گز ہم پر وارد نہیں ہوتا اس لئے کہ سورہ کہف کی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے ہم پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ ان آیات میں سب سے پہلے ’’ یسئلونک عن ذی القرنین ‘‘ سے شروع کر کے ’’ وکان وعد ربی حقا ‘‘ ذوالقرنین کا واقعہ بیان کیا گیا ہے یعنی آیت ’’ فا اذا جا ء وعد ربی جعلہ دکاء ‘‘ میں ذوالقرنین کا مقولہ نقل کیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ کا اپنا ارشاد نہیں ہے ، اس لئے یہاں ’’ وعد ‘‘ سے وعدۂ قیامت مراد نہیں ہے بلکہ کسی تعمیر کی تخریب کا مقدور معین وقت مراد ہے جس کی تعین ذوالقرنین نے اپنی جانب سے تخمینی طور پر معین کرنے کے بجائے مرد مومن اور مرد صالح کی طرح خدا کی مرضی کے حوالہ کر دیا ہے۔

اور چونکہ ذوالقرنین کے واقعہ میں ضمنی طور سے یا جوج و ماجوج کا بھی ذکر آ گیا تھا اس لئے اس کے خاتمہ پر اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے بھی یاجوج و ماجوج کا مختصر ذکر فرمایا اور آیت ’’ وترکنا بعضھم یومیذ یموج بعض ونفخ فی الصور ‘‘میں یہ بیان کیا کہ جن یاجوج و ماجوج کا ذکر تم نے ابھی ذوالقرنین کے واقعہ میں سنا، ان کو ہم نے شر اور فتنہ کی اس زندگی میں اس طرح کر چھوڑا ہے کہ وہ برابر فساد اور چپقلش باہمی میں مصروف رہیں گے ، اور یہ سلسلہ اس وقت تک قائم رہے گا کہ صور پھونک دیا جائے گا۔ اس دن وہ سب جمع کئے جائیں گے اور اس دن جہنم کافروں پر پیش کی جائے گی۔

گویا سورہ انبیاء مں   تو یاجوج و ماجوج کا ذکرمستقل حیثیت رکھتا ہے اور وہاں بتانا ہی یہ منظور ہے کہ ان کا اجتماعی خروج قیامت کی آخری علامات مںو سے ایک نمایاں علامت ہے۔ اور سورہ کہف مںی ان کا تذکرہ صرف ضمنی ہے اور ان کے فساد اور شر انگیزی کے خصوصی واقعہ کی مناسبت سے ان کی باہمی فساد انگیزیوں اور مختلف اوقات مںت موج در موج چپقلشوں کی وارداتوں   کا ذکر اس انداز مںق کر دیا گیا کہ ان کے موعود خروج کی جانب بھی اشارہ ہو جائے۔

غرض سورہ کہف کی زیر بحث آیا ت کا سیاق و سباق یعنی ان سے پہلی اور بعد کی آیات کا ہر گز یہ تقاضہ نہیں ہے کہ ذوالقرنین کے مقولہ ’’ اذا جا ء وعد ربی جعلہ دکاء میں ’وعد ‘ سے مراد وعدہ قیامت لیا جائے اور وہ معنی بیان کئے جائیں جو معترض نے ہماری بیان کردہ سورہ انبیاء کی تفسیر کے مقابلہ میں پیش کئے ہیں۔

الحاصل جن معاصر مفسرین نے سورہ انبیاء کی زیر بحث آیات کا مصداق فتنہ تاتار کو بتایا ہے اور اس کی تائید میں بخاری کی مشہور حدیث ’’ویل للعرب من شر قد اقترب ‘‘الخ کو پیش کیا ہے۔ ان کی یہ تفسیر غلط ہے اور حدیث سے اس کی تائید قطعاً بے محل ہے بلکہ بخاری ومسلم کی دوسری صحیح احادیث جو کتاب الفتن میں مذکور ہے اس تفسیر کے خلاف صاف صاف یہ بیان کرتی ہیں کہ علامات قیامت میں جب آخری علامات رونما ہوں گی تو پہلے عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا آسمان سے نزول ہو گا اور دجا ل کا سخت فتنہ برپا ہو گا۔ اور آخر کار حضرت عیسیٰؑ کے ہاتھوں وہ مارا جائے گا اور پھر کچھ عرصہ کے بعد یاجوج و ماجوج کا موعود خروج ہو گا جو تمام دنیا پر شر و فتن فساد کی صورت میں چھا جائے گا اور پھر کچھ وقفہ کے بعد نفخ صور ہو گا اور یہ کارخانہ دنیا درہم و برہم ہو جائے گا۔

یہ بھی واضح رہے کہ یہ اور اسی قسم کی دوسری قسم کی صحیح اور اصح روایات سے ان تینوں (جھوٹے مدعیان نبوت ) کے دعووں کا بھی ابطال ہو جاتا ہے اور ان کے کذب صریح کی رسوائی آشکار ہو جاتی ہے جو اپنی نبوت کی صداقت کی تعمیر یہ کہہ کر تیار کرتے ہیں کہ انگریز اور روس یاجوج و ماجوج ہیں اور جب کہ ان کا خروج ہو چکا اور وہ عالم کے اکثر حصوں پر قابض ہو چکے تو اب یسوع مسیح کی آمد ضروری ہو گئی، لہٰذا وہ موعود مسیح (عیسیٰ) ہم ہیں ، کیونکہ جب شرط موجود ہے تو مشروط کیوں نہ موجود ہو۔

کسی جھوٹے مدعی نبوت کی یہ دلیل اگر چہ خود تار عنکبوت سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتی اور اس لئے درخور اعتنا بھی نہیں ہے۔ تاہم عوام کو غلط فہمی سے محفوظ رکھنے کے لئے یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اس مدعی کے بیان کردہ یہ دونوں دعوے جو دلیل کے دو مقدموں کے طور پر بیان کئے گئے ہیں غلط اور ناقابل قبول ہیں اور اس لئے ان سے پیدا شدہ نتیجہ بھی بلا شبہ باطل اور مردود ہے۔

پہلا دعویٰ یا مقدمہ تو اس لئے غلط ہے کہ ہم نے یاجوج و ماجوج کی بحث میں تفصیل کے ساتھ حدیث و تاریخ سے یہ ثابت کر دیا ہے کہ یاجوج و ماجوج کا اطلاق صرف ان ہی قبائل پر ہوتا رہا ہے جو اپنے اصل مرکز میں ہمہ طریق وحشت و بربریت مقیم ہیں اور ان میں سے جو افراد یا قبائل مرکز چھوڑ کر دنیا کے مختلف حصوں میں بس گئے ہیں اور آہستہ آہستہ متمدن بن گئے ہیں وہ تاریخ کی نظر میں یاجوج و ماجوج نہیں کہلاتے بلکہ اپنے بعض امتیاز ات خصوصی کے پیش نظر نئے نئے ناموں   سے موسوم ہو گئے اور اپنے اصلی اور نسلی مرکز سے اس قدر اجنبی ہو گئے ہیں کہ وہ اور یہ دو مستقل جد ا جدا قومیں بن گئیں اور ایک دوسرے کے دشمن ہو گئے۔ اسی طرح قرآن اور حدیث کے مطالعہ سے بھی یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ ان ہی قبائل کو یاجوج و ماجوج کہتا ہے جو اپنی بربریت اور وحشت کے ساتھ عام دنیا سے الگ اپنے مرکز میں گوشہ گیر ہیں۔

اور اسی اصول پر دوسرا دعویٰ یا مقدمہ بھی باطل ہے کہ انگریز اور روس بلکہ یورپین حکومتوں کا تسلط اور قبضہ یاجوج و ماجوج کا خروج ہے اور یہ اس لئے کہ ایک تو ابھی ذکر ہو چکا کہ متمدن اقوام کو یاجوج ماجوج کہنا ہی غلط ہے دوسرے اس لئے یاجوج و ماجوج کے اس فتنہ و فساد کے پیش نظر جس کا ذکر ذوالقرنین کے واقعہ میں سورہ کہف میں مذکور ہے اور صحیح احادیث کی تصریحات کے مطابق ان کا وہ خروج بھی جس کا ذکر سورہ انبیاء میں کیا گیا ہے اور جس کو علامات قیامت میں سے ٹھہرا یا ہے ایسے ہی فساد و شر کے ساتھ ہو گا جس کا تعلق تمدن و حضارت سے دور کا بھی نہ ہو اور جو خاص وحشیانہ طرزو طریق پر برپا کیا جائے ، کہاں سائنس کی ایجادات و آلات کا طریقہ جنگ اور کہاں متمدن وحشیارجنگ و پیکا ر؟ شتَّان بینہما۔

اور یہ بات اس لئے بھی واضح ہے کہ متمدن اقوام کی جنگ و پیکار کتنی ہی وحشیانہ طرزو طریق اختیار کئے ہوئے کیوں نہ ہو، بہر حال سائنس اور حرب ضرب کے اصول کے مطابق ہوتی ہیں۔ اور یہ سلسلہ اقوام و امم میں ہمیشہ سے جاری ہے۔ اس لئے اگر اس قسم کے جابرانہ و قاہرانہ تسلط اور قبضہ کے متعلق قرآن کی پیشن گوئی کرنی تھی تو اس کی تعبیر کے لئے ہر گز یہ طریقہ اختیار نہ کیا جاتا جو یاجوج و ماجو ج کے خروج موعود کے سلسلہ میں سورہ انبیا ء میں اختیار کیا گیا ہے بلکہ ان کی ترقی نما بربریت کی جانب ضروری اشارات یا تصریحات کا ہونا لازم تھا۔

الحاصل احادیث صحیح اور آیات قرآنی کی مطابقت کے ساتھ ساتھ جب مسئلہ زیر بحث پر غور و فکر کیا جاتا ہے تو بصراحت یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس علامت سے قبل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ازآسمان ضروری ہے نہ یہ کہ پہلے یاجوج و ماجوج کا خروج ہو گا اور پھر مسیح علیہ السلام کی آمد کا انتظار کیا جائے۔ چنانچہ صحیح مسلم کی ایک طویل حدیث میں مذکور ہے۔

’’ واقعات یہاں تک پہنچیں گے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح بن مریم (علیہ السلام ) کو بھیجے گا اور وہ (جامع )دمشق کے سپید مینارہ کے نزدیک اس طرح اتریں گے کہ زعفرانی رنگ کی دو چادروں میں ملبوس اور فرشتوں کے بازوؤں پر ہاتھوں کا سہارا دیئے ہوئے ہوں گے جب سر کو جھکائیں گے تو پانی ٹپکنے لگے گا اور سر کو اٹھائیں گے تو اس سے پانی کے قطرات اسطرح گرنے لگیں گے گویا ہار سے موتی ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہے ہیں۔ یعنی آسمان پر غسل کر کے فوراً ہی نزول ہو گا، جہاں تک ان کا سانس جائے گا کافر کی موت کا باعث ہو گا۔ اور ان کا سانس ان کی حد نظر تک پہنچے گا، پھر اتر کر وہ دجال کا پیچھا کریں گے اور اس کو بیت المقدس کے قریب لدّ کے دروازہ پر پائیں گے اور قتل کر دیں گے پھر حضرت عیسیٰؑ ان لوگوں کے پاس تشریف لائیں گے جن کو اللہ تعالیٰ دجال کے فتنہ سے محفوظ رکھے گا اور ان کے غبار آلودہ چہروں کو مس کرتے ہوئے ان کو جنت میں جو درجات ملیں گے اس کے متعلق باتیں کریں گے ، حالات یہاں تک پہنچیں گے کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰؑ پر وحی کرے گا کہ اب میں اپنے بندوں میں سے ایک ایسی قوم نکالتا ہوں جن سے جنگ کرنے کی دنیا میں کسی کے اندر طاقت نہیں ہے ، لہٰذا تم میرے تمام بندوں کو کوہ طور پر لے جاؤ۔ اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ یاجوج و ماجوج کو نکالے گا جو تیزی کے ساتھ دوڑتے ہوئے آئیں گے اور ہر بلند جگہ سے نکل پڑیں گے۔ ‘‘ (مسلم۔ کتاب الفتن )

پس یاجوج و ماجوج کا خروج کسی حال میں بھی ان اقوام پر صادق نہیں آ سکتا جو تمدن و حضارت کی راہوں سے قاہرانہ اور جابرانہ جنگ و پیکار کے ذریعہ سے دنیا پر غالب و قابض ہوتی رہی ہیں ، اور کسی شخص کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ یاجوج و ماجوج قبائل کی تاریخی بحث سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اور جدید نبی بن کر اسلام کے اساسی اور بنیادی مسئلہ ختم نبوت کے خلاف تشکیل نبوت کی جدید طرح ڈالے اور اس طرح اسلام میں رخنہ انداز ہو کر دوست کا دشمن بنے۔

اسلامی انسائیکلو پیڈیا صفحہ ۷۵۶

مرتبہ : منشی محبوب عالم

یاجوج و ماجوج

اس مفسد قوم کا نام ہے جس کے انسداد فساد کے لئے سکندر اعظم (ذوالقرنین )ان کے فساد کو روکنے کے لئے نہایت مستحکم اور عظیم الشان آہنی دیوار کھنچوا دی، جیسا کہ قرآن مجید میں ا س کا ذکر حسب ذیل موجود ہے :

’’حتی اذا بلغ بین السدین تا مجنعھم جمعا ہ ‘‘ (سورہ کہف ع ۱۱)

یہاں تک کہ جب (سکندر چلتے چلتے ایک پہاڑی کی گھاٹی کے )دو کگاروں کے بیچ پہنچا تو دیکھا کہ کگاروں کے ادھر ایک قوم (آباد ) ہے (اور وہ ایسے وحشی ہیں ) کہ بات کے سمجھنے کے پاس تک نہیں پھٹکے۔ ان لوگوں نے (بولی میں )عرض کیا کہ اے ذوالقرنین (اس گھاٹی کے ادھر ) یاجوج اور ماجوج ( کی قوم ہے اور وہ لوگ ہمارے ) ملک میں (آ کر) فساد کرتے ہیں ( آپ کی مرضی ہو تو ) ہم آپ کے لئے چندہ جمع کر دیں بشرطیکہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان کوئی روک بنا دیں۔ (ذوالقرنین نے ) کہا کہ وہ مال جس میں میرے پروردگار نے مجھے (پورا ) اختیار دے رکھا ہے کافی و وافی ہے (چندے کی ضرورت نہیں مگر ہاں تم کو ایسی ہی مدد کرنی ہے ) تو (ہاتھ پاؤں کے ) زور سے میری مدد کرو میں تم (لوگوں ) میں اور ان (لوگوں ) میں ایک دیوار کھینچ دوں گا (اچھا تو کہیں سے لوہے کی سلیں ہم کو لادو، چنانچہ وہ سلیں لائے اور ضروری کاروائی ہوتی رہی ) یہاں تک کہ جب ذوالقرنین نے دونوں کگاروں کے بیچ ( کی کشادگی )کو (پاٹ کر ) برابر کر دیا تو حکم دیا کہ (اب اس کو ) دھونکو یہاں تک کہ جب دیوار کو (لال ) انگارہ کر دیا تو کہا کہ اب ہم کو تانبہ لادو کہ اس کو پگھلا کر اس دیوار پر انڈیل دیں۔ غرض ( اس تدبیر سے ایسی اونچی اور مضبوط دیوار تیار ہو گئی کہ یاجوج و ماجوج نہ تو اوپر چڑھ سکتے تھے اور نہ اس میں سوراخ کر سکتے تھے (ذوالقرنین نے اس آہنی دیوار کو دیکھ کر ) کہا یہ میرے رب کی مہربانی ہے۔ لیکن جب میرے پروردگار کا وعدہ (قیامت ) آ موجود ہو گا تو اس (دیوار ) کو ڈھا کر برابر کر دے گا اور میرے پروردگار کا وعدہ سچا ہے۔ اور (اے پیغمبر ) ہم اس دن یہ حال کر دیں گے کہ ( دریا کی لہروں ) کی طرح ایک میں ایک گڈ مڈ ہو جائیں گے۔

مطلب یہ ہے کہ اس وقت سد سکندر (ذوالقرنین ) جو ادھر کے رہنے والوں میں یاجوج و ماجوج میں حائل ہے ، قیامت کے دن یاجوج و ماجوج اس دیوار کے توڑ کر ادھر کے رہنے والوں پر ٹوٹ پڑیں گے۔

یہ قوم ہربن یافث بن نوح کی اولاد ہے۔ اس کی نسل بہت چلی ہے۔ عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں تمام بنی آدم دس جز ہیں از جملہ نو جز یاجوج و ماجوج اور ایک جز باقی تمام عالم ہے۔ ان کے قد چالیس گز ایک بالشت تک ہیں۔ کان اتنے بڑے کہ ایک کو بچھاتے اور ایک کو اوڑھتے ہیں۔ ان کے چار بادشاہ ہیں۔ طوطان، اشمح، طاون اور طاقر۔ بلاد شمال کے کنارے ہفت اقلیم سے باہر ان کا ملک ہے۔ سکندر ذوالقرنین نے دیوار آہنی قلعہ کوہ کی مقدار ساٹھ گز کی موٹی ان کے گرد بنائی وہ اس میں محصور ہیں۔ قیامت کے قریب وہ دیوار ٹوٹے گی اور یاجوج و ماجوج دنیا میں پھیل کر فتنہ وفساد برپا کریں گے۔

 

مقدمہ ابن خلدون حصہ اول صفحہ ۲۵۸

علامہ عبدالرحمٰن بن خلدون

چوتھی اقلیم کا نواں اور دسواں جز

اس ٹکڑے سے جو نویں حصہ میں ہے دریائے شاش (چاچ ) نکلتا ہے۔ جو آٹھویں حصہ کے عرض سے گذرتا ہوا دریائے جیجون میں اس جگہ آ کر گرتا ہے جہاں یہ ہشتم جز کو چھوڑ کر جز ہشتم کے شمال میں اقلیم پنجم کی طرف نکل جاتا ہے۔ اس سے سرزمین ایلاق میں ایک اور دریا مل جاتا ہے جو تبت کی سرحد س سے تیسری اقلیم کے نویں حصہ سے آتا ہے اور نویں حصہ سے نکلنے سے پہلے ہی اس میں دریائے فرغانہ مل جاتا ہے۔ دریائے شاش کی سمت ہی میں کوہ جبراغون ہے جو پانچویں اقلیم سے شروع ہو کر مشرق کی طرف قدرے شمال کو جھکتا ہوا مڑ کر نویں حصہ میں علاقہ شاش کو گھیرتا ہوا جا نکلتا ہے۔ پھر نویں حصہ میں مڑ کر وہاں جنوب تک شاش و فرغانہ کو گھیر لیتا ہے اور تیسری اقلیم میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس حصہ کے وسط میں دریائے شاش کے اور اس پہاڑ کے ایک حصہ کے درمیان فاراب کا علاقہ ہے اور اس کے اور بخارا اور خوازم کے علاقہ کے درمیان چٹیل میدان ہیں۔ اس حصہ کے شمال اور مشرقی کونہ میں خجندہ کا علاقہ ہے ، جس میں اسبیجاب اور طراز واقع ہیں۔ اس اقلیم کے مغربی نویں حصہ میں فرغانہ اور شاش کی سرزمین کے بعد جنوب میں خزلجیہ کی سرزمین ہے۔ اور شمال میں ارمنی خلیج ہے اور پورے مشرقی حصہ میں سرزمین گیما کیہ ہے جو پورے دسویں حصہ میں پھیل کر کوہ قوقیا (قاف ) جو مشرقی آخری جز ہے ، جا ملتی ہے بحر محیط کے ایک ٹکڑے پر کوہ یاجوج ما جوج (کوہ کاف ) ہے۔ یہ تمام قومیں ترکی قبائل میں سے ہیں۔

نصرالباری شرح اردو صحیح البخاری

حصہ ۱۲، ص ۴۴۵

مولف : مولانا سید حسین احمد مدنی کے شاگرد محمد عثمان غنی شیخ الحدیث

پسند فرمودہ مولانا مفتی محمد عاشق الٰہی بلند شہری مہاجر مدنی

باب یاجوج و ماجوج

یاجوج و ماجوج کا بیان

تحقیق و تشریح : یاجوج و ماجو ج و ھما اسمیان اعجمیان عند الاکثر منعامن الصرف للعامیہ و العجمہ (فتح) یعنی یاجوج و ماجوج اکثر کے نزدیک عجمہ اور علم کی بنا پر غیر منصرف ہے اور عند البعض عربی ہے اس صورت میں تانیث اور علم کی بنا پر غیر منصرف ہو گا، بہر صورت یہ غیر منصرف ہے۔

یاجوج و ماجوج کے مختصر حالات

قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات صحیح اور ثابت ہے کہ یاجوج و ماجوج انسانوں ہی کی قومیں ہیں۔ اور نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ قرآن مجید میں ہے ’’ وجلعنا ذریتہ ھم الباقین ‘‘(سورہ صافات ۷۷)(اور ہم نے باقی انہی کی اولاد کو رہنے دیا ) یعنی طوفان نوح کے بعد جتنے انسان دنیا میں ہیں وہ سب حضرت نوحؑ کی اولاد ہیں۔ تاریخی روایات اس پر متفق ہیں کہ وہ یافث بن نوحؑ کی اولاد ہیں جو ذوالقرنین کے زمانہ تک دور دور تک مختلف آبادیوں اور قوموں میں پھیل چکی تھیں۔

یاجو ج ماجوج جن قوموں کا نام ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ سب کے سب سد ذوالقرنین کے پیچھے ہی محصور ہوں۔ البتہ ان میں سے جو قتل و غارت گری کرنے والے وحشی لوگ تھے وہ سد ذوالقرنین کے ذریعے روک دیئے گئے یاجوج ماجوج نام صرف ان وحشی خونخوار ظالموں کا نام اور جو لوگ سد ذوالقرنین سے باہر رہ گئے جنہیں مورخین ترک اور منگولین لکھتے ہیں وہ متمدن ہو گئے۔ اس لئے وہ اس نام سے خارج ہیں۔ یاجوج ماجوج کی تعداد پوری دنیا کے انسانوں کی تعداد سے زائد ہے۔ یہ لوگ قیامت کے قریب تک محصور رہیں گے۔ ان کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی علیہ السلام اور خروج دجال کے بعد ہو گا، جبکہ حضرت عیسیٰؑ نازل ہو کر دجال کے قتل سے فارغ ہو جائیں گے تو سد ذوالقرنین منہدم ہو کر زمین کے برابر ہو جائے گی۔ اس وقت یاجوج ماجوج کی بے شمار قومیں بیک وقت پہاڑیوں کی بلندیوں سے سرعت رفتار سے اترتی ہوئی ایسی معلوم ہو گی کہ گویا پھسل پھسل کر گر رہے ہیں اور یہ لاتعداد وحشی انسان عام انسانی آبادی اور پوری زمین پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے قتل و غارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔ اللہ کے رسول حضرت عیسیٰ علیہ السلام بحکم الٰہی اپنے ساتھی مسلمانوں کے لے کر کوہ طور پر پناہ لیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی دعا سے یہ سب مر جائیں گے۔ پھر حضرت عیسیٰؑ علیہ السلام کوہ طور سے اتر آئیں گے تو دیکھیں گے کہ زمین پر ایک بالشت جگہ بھی ان کی لاشوں سے خالی نہیں ہیں۔ ان کی بدبو کی وجہ سے زمین پر بسنا مشکل ہو جائے گا۔ پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کے رفقا ء کی دعا سے ان کی لاشیں دریا برد یا غائب کر دی جائیں گی اور عالمگیر بارش کے ذریعہ پوری زمین دھو کر پاک و صاف کر دی جائے گی۔ اس کے بعد امن و امان کا دور دورہ رہے گا۔ زمین اپنی برکات اگل دے گی۔ کوئی مفلس و محتاج نہ رہے گا۔ اس امن و امان کے زمانے میں حج و عمرہ جاری رہے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی حج یا عمرہ کے لئے حجاز کا سفر کریں گے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ میں وفات ہو گی اور روضہ اقدس کے پاس دفن ہوں گے۔

 

نصر الباری جلد ۷، ص ۴۳۵

باب (۲۰۰۸) قصہ یاجوج و ماجوج

یاجوج و ماجوج کے قصہ کا بیان

یاجوج ماجوج کون ہیں : لوگوں نے اس میں کلام کیا ہے کہ یاجوج ماجوج کون لوگ ہیں۔ جمہور محدثین و مفسرین کا قول یہ ہے کہ انسانوں ہی کے دو قبیلوں کا نام ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد ہیں۔

قتادہ سے منقول ہے کہ یاجوج ماجوج کے بائیس قبیلے تھے۔ ذوالقرنین نے سد (دیوار) بنائی تو ایک قبیلہ ادھر ہی رہ گیا۔ اسی ایک قبیلے کو ترک کہا جاتا ہے۔ کیونکہ سد سے باہر ترک کر دیا (چھوڑ دیا ) گیا تھا۔ یاجوج ماجوج عجمی لفظ ہے۔

یاجوج ماجوج کی تعداد پوری دنیا کے انسانوں کی تعداد سے بدرجہا زائد کم از کم ہزار میں ایک اور دس کی نسبت سے ہے۔ یاجوج ماجوج کے جو قبائل سد ذوالقرنین کے ذریعہ محصور ہیں وہ قیامت کے قریب اسی طرح محصور رہیں گے ان کے نکلنے کا وقت ظہور مہدی اور خروج دجال کے بعد ہو گا جب کہ حضرت عیسیٰؑ نازل ہو کر دجال کے قتل سے فارغ ہو جائیں گے ، یاجوج ماجوج کے نکلنے کے وقت سد ذوالقرنین منہدم ہو کر زمین کے برابر ہو جائے گی۔ اس وقت یاجوج ماجوج کی بے شمار قومیں بیک وقت پہاڑوں کی بلندیوں سے اترتی ہوئی سرعت رفتار کے سبب ایسی معلوم ہوں گی کہ گویا یہ پھسل پھسل کر گر رہے ہیں۔ اور یہ لاتعداد وحشی انسان عام انسانی آبادی اور پوری زمین پر ٹوٹ پڑیں گے اور ان کے قتل و غارت گری کا کوئی مقابلہ نہ کر سکے گا۔ اللہ کے رسول عیسیٰؑ بھی با مر الٰہی اپنے ساتھی مسلمانوں کو لے کر کوہ طور پر پناہ لیں گے اور عام دنیا کی آبادیوں میں جہاں کچھ قلعے اور محفوظ مقامات ہیں ، وہ ان میں بند ہو کر اپنی جانیں بچائیں گے۔ کھانے پینے کا سامان ختم ہو جانے کے بعد ضرورت زندگی انتہا ئی گراں ہو جائے گی۔ باقی انسانی آبادی کو یہ وحشی قومیں ختم کر ڈالیں گی۔ ان کے دریاؤں کو چاٹ جائیں گے۔ حضرت عیسیٰؑ اور ان کے رفقاء کی دعا سے پھر یہ ٹڈی دل قسم کی بے شمار قومیں بیک وقت ہلاک کر دی جائیں گی۔ ان کی لاشوں سے ساری زمین پٹ جائے گی، ان کی بدبو کی وجہ سے زمین پر بسنا مشکل ہو جائے گا پھر حضرت عیسی ٰ علیہ السلام اور ان کے رفقاء ہی کی دعاؤں سے ان کی لاشیں دریا برد کر دی جائیں گی اور عالمگیر بارش کے ذریعہ پوری زمین دھو کر صاف کر دی جائے گی۔ اس کے بعد تقریباً چالیس سال امن و امان کا دور دورہ رہے گا۔ زمین اپنی برکات اگل دے گی۔ کوئی مفلس و محتاج نہ رہے گا۔ کوئی کسی کو نہ ستائے گا۔ سکون و اطمینان آرام و راحت عام ہو گی۔

اور آپ ﷺ سے ذوالقرنین کے بارے میں یہ لوگ پوچھتے ہیں (الی قولہ سببا ) سورہ کہف آیت ۸۳، ۸۴۔ سببا بمعنی طریق یعنی راستہ۔ اتونی زبر الحدید (میرے پاس لوہے کی تختیاں لاؤ ) زبر کا واحد زبرہ ہے ، جس کے معنی ٹکڑوں کے ہیں۔ ’حتی اذا ساوٰی بین الصدقین ‘ یہاں   تک کہ جب دونوں پہاڑوں کے پھاٹکوں کو برابر کر دیا۔ ابن عباسؓ سے (بین الصدقین ) کی تفسیر میں منقول ہے دو پہاڑ اور السدین دو پہاڑ ہیں۔ ’خرجا ‘ بمعنی اجرا یعنی محصول مزدوری۔ جمع اخراج۔ قال النفخوا حی۔ الخ۔ ذوالقرنین نے (عملہ سے ) کہا اس کو پھونکو یہاں تک کہ جب اس کو آگ بنا دیا تو کہا اب میرے پاس پگھلا ہوا تانبا لاؤ کہ میں اس پر انڈیل دوں۔ اجب علیہ قطر ا۔ قطر بمعنی رصاص یعنی سیسہ ہے اور بعض لوگوں نے کہا قطر کے معنی لوہا ہے اور کہا گیا ہے کہ پیتل ہے اور حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا ہے بمعنی نحاص یعنی تانبا ہے۔

فما اسطاعو ان یظھروہ پھر وہ (یاجوج ماجوج کے لوگ )اس پر نہ چڑھ سکے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یاجوج و ماجوج کو فی الحال یہ قدرت نہیں دی کہ وہ دیوار پھاند کر یا توڑ کر نکل آئیں۔ یظھروہ بمعنی یعلوہ استطاع اطعت لہ سے استفعال کا صیغہ ہے اس وجہ سے فتح دے کر پڑھا جاتا ہے۔ اسطاع یسطیع (مطلب یہ ہے کہ تخفیف کے لئے تاء کو حذف کر دیا گیا ہے اور اس کی حرکت ہمزہ کو دے کر اسطاع پڑھا گیا ) اور بعض نے استطاع یستطیع ہی پڑھا ہے۔ وما استطاعو الہ نقباً اور نہ وہ اس میں سوراخ لگا سکتے۔ (یعنی اس پر بھی قدرت نہ ہوئی کہ سوراخ لگا کر نکل آئیں ) قال ھذا رحمۃ من ربی۔ ذوالقرنین نے کہا یہ میرے رب کی ایک مہربانی ہے پھر جب میرے ر ب کا وعدہ آپہنچے گا تو اسے ڈھا کر پاش پاش کر دے گا۔ زمین سے چپکا دے گا۔ ناقۃ وکا ء۔ وہ اونٹنی جسے کوہان نہ ہو اور الد کداک من الارض وہ برابر زمین یہاں تک کہ سخت ہو جائے اور اس دن ہم چھوڑ دیں گے انہیں ہجوم کرتے ہوئے (ہر بستی پر ٹڈیوں کی طرح امنڈتے ہوئے ) یا مطلب یہ ہے کہ شدت ہول و اضطراب سے ساری مخلوق کو ایک پر ایک گرتے ہوئے چھوڑ دیں گے ) یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کھول دیئے جائیں گے اور ہر بلندی سے نکلنے لگیں۔ قال قتادہ الخ قتادہ نے کہا عدب بمعنی ٹیلہ ہے۔ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا میں نے سد سکندری کو دیکھا ہے۔ دھاری دار چادر کے مثل۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تو نے اس کو دیکھا ہے۔ ‘‘

ایک روایت میں ہے کہ یاجوج ماجوج ہر روز اس دیوار کو کھودتے ہیں۔ جب تھوڑی رہ جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ کل آ کر توڑ لیں گے۔ اللہ تعالیٰ شب بھر میں پھر اس کو ویسا ہی مضبوط کر دیتے ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ اس کو کھولنے کا ارادہ فرمائیں گے تو اس روز جب محنت کر کے آخری حد میں پہنچا دیں گے اس دن یوں کہیں گے کہ انشاء اللہ کل اس کو توڑلیں گے۔ اللہ کے نام اور اس کی مشیت پر موقوف رکھنے سے آج توفیق ہو جائے گی تو دیوار کا باقی ماندہ حصہ اپنی حالت پر ملے گا اور وہ اس کو توڑ کر نکل پڑیں گے۔

٭٭٭

تشکر: ڈاکٹر سیف قاضی جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی

تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید