فہرست مضامین
- چھاؤں
- تمہیں کیسے بتائیں ہم
- محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
- میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
- نہ اس طرح کوئی آیا نہ کوئی آتا ہے
- بستیاں سنہری تھیں لوگ بھی سنہرے تھے
- ذرا سی دیر کو منظر سُہانے لگتے ہیں
- کیا بتائیں فصلِ بے خوابی یہاں بوتا ہے کون
- خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
- کہیں تم اپنی قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
- ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے
- بچھائے جال کہیں جمع آب و دانہ کیا
- پہلی بارش
- سندیسہ
- تعبیر میں ڈھل رہے ہیں دونوں
- کوئی اُجالا اندھیروں سے کام لیتا ہوا
- حیرتِ دید لئے حلقۂ خُوشبو سے اُٹھا
- یوں تو کہنے کو سبھی اپنے تئیں زندہ ہیں
- جو سچی بات کرتا تھا، کہاں ہے وہ
- اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
- مجھے خبر تھی میرے بعد وہ بکھر جاتا
- یہ وصال ہے کہ فراق ہے، دلِ مبتلا کو پتا رہے
- قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
- بس اب کے اتنی تبدیلی ہوئی ہے
- جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا
- بہت سے خواب دیکھے ہیں کبھی شعروں میں ڈھالیں گے
- آؤ کہیں مل بیٹھیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے
- یہ اور بات کہ خود کو بہت تباہ کیا
چھاؤں
سلیم کوثر
جمع و ترتیب: اعجاز عبید
تمہیں کیسے بتائیں ہم
تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو !
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھُولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
چراغِ خواب گُل کرنے کی سازش کو
ہوا دیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندہ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے اُلجھی ہے
مرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مرے چہرے پہ کتنے موسموں کی گرد
اور اِس گرد کی تہہ میں
سمے کی دھُوپ میں رکھا اِک آئینہ
اور آئینے میں تا حد نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اِسی منظر میں آئینے سے اُلجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں تو کُچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی کو کئی کردار
مل جُل کر کہیں آگے چلاتے ہیں
محبت اپنے کرداروں کو خود آگے بڑھاتی ہے
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھُول اُڑتی ہے
محبت کی مُسافت راہ گیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اِک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں
جو بھی تھکا ہارا مُسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اُس کی نسل کیا ہے ، رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا
دھُوپ سہنا ہے
اُسے اِس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اُٹھایا ہے
کہاں کس عہد کو توڑا ، کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہو جائے
تو اکثر دھُوپ کے نیزے
رگ و پَے میں اُترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں !
٭٭٭
تم نے سچ بولنے کی جرات کی
یہ بھی توہین ہے عدالت کی
منزلیں راستوں کی دھول ہوئیں
پوچھتے کیا ہو تم مسافت کی
اپنا زادِ سفر بھی چھوڑ گئے
جانے والوں نے کتنی عجلت کی
میں جہاں قتل ہو رہا ہوں وہاں
میرے اجداد نے حکومت کی
پہلے مجھ سے جدا ہوا اور پھر
عکس نے آئینے سے ہجرت کی
میری آنکھوں پہ اس نے ہاتھ رکھا
اور اک خواب کی مہورت کی
اتنا مشکل نہیں تجھے پانا
اک گھڑی چاہئے ہے فرصت کی
ہم نے تو خود سے انتقام لیا
تم نے کیا سوچ کر محبت کی
کون کس کے لیے تباہ ہوا
کیا ضرورت ہے اس وضاحت کی
عشق جس سے نہ ہو سکا ، اس نے
شاعری میں عجب سیاست کی
یاد آئی تو ہوئی شناخت مگر
انتہا ہو گئی ہے غفلت کی
ہم وہاں پہلے رہ چکے ہیں سلیم
تم نے جس دل میں اب سکونت کی
٭٭٭
پیار کرنے کے لیے گیت سنانے کے لیے
اک خزانہ ہے میرے پاس لٹانے کے لیے
یاد کے زخم ہیں وعدوں کی دھنک ہے میں ہوں
یہ بہت ہے تیری تصویر بنانے کے لیے
ہم بھی کیا لوگ ہیں خوشبو کی روایت سے الگ
خود پہ ظاہر نہ ہوے تجھ کو چھپانے کے لیے
راستہ روک ہی لیتا ہے تغیر کا غبار
ورنہ ہر راہ کھلی ہے یہاں جانے کے لیے
کتنی صدیوں کا لہو صفحہ مقتل پہ رہا
ایک سچائ کو تحریر میں لانے کے لیے
ترک دنیا کا ارادہ ہی کیا تھا کہ وہ شخص
آگیا خواہش دنیا کو جگانے کے لیے
ایک ہی آگ کا ایندھن نہیں بجھنے پاتا
دوسری آگ ہے تیار جلانے کے لیے
اب کہیں تازہ مسافت پہ نکلتے ہیں سلیم
اب تو وعدہ بھی نہیں کوئ نبھانے کے لیے
٭٭٭
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے
محبت ڈائری ہرگز نہیں ہے آبِ جو ہے
جو دلوں کے درمیاں بہتی ہے خوشبو ہے
کبھی پلکوں پہ لہرائے تو آنکھیں ہنسنے لگتی ہیں
جو آنکھوں میں اتر جائے تو منظر اور پس منظر میں شمعیں جلتی ہیں
کسی بھی رنگ کو چھو لے
وہی دل کو گوارا ہے
کسی مٹی میں گھل جائے
وہی مٹی ستارہ ہے
٭٭٭
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سر آئینہ مرا عکس ہے پس آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست طلب میں ہوں تو کسی کے حرف دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی مجھے دوستوں کا پتہ نہ تھا
تری داستاں کوئی اور تھی مرا واقعہ کوئی اور ہے
٭٭٭
نہ اس طرح کوئی آیا نہ کوئی آتا ہے
مگر وہ ہے کہ مسلسل دیے جلاتا ہے
کبھی سفر کبھی رختِ سفر گنواتا ہے
پھر اُس کے بعد کوئی راستہ بناتا ہے
یہ لوگ عشق میں سچے نہیں ہیں ورنہ ہجر
نہ ابتدا نہ کہیں انتہا میں آتا ہے
یہ کون ہے جو دکھائی نہیں دیا اب تک
اور ایک عمر سے اپنی طرف بلاتا ہے
وہ کون تھا میں جسے راستے میں چھوڑ آیا
’’یہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ آتا ہے‘‘
وہی تسلسلِ اوقات توڑ دے گا کہ جو
درِ اُفق پہ شب و روز کو ملاتا ہے
جو آسمان سے راتیں اُتارتا ہے سلیم
وہی زمیں سے کبھی آفتاب اُٹھاتا ہے
٭٭٭
بستیاں سنہری تھیں لوگ بھی سنہرے تھے
کون سی جگہ تھی وہ ہم جہاں پہ ٹھہرے تھے
اک صدا کی ویرانی راستہ بتاتی تھی
اور اپنے چاروں سمت خواہشوں کے میلے تھے
نے سمے گزرتے تھے، نے پلَک جھپکتی تھی
ورنہ اپنی آنکھوں میں رت جگے تو گہرے تھے
اب سلیم اکیلے ہو ورنہ عمر بھر تم تو
دوستی میں اندھے تھے، دشمنی میں بہرے تھے
٭٭٭
ذرا سی دیر کو منظر سُہانے لگتے ہیں
پھر اُس کے بعد یہی قید خانے لگتے ہیں
میں سوچتا ہوں کہ تو دربدر نہ ہو، ورنہ
تجھے بھلانے میں کوئی زمانے لگتے ہیں
کبھی جو حد سے بڑھے دل میں تیری یاد کا حبس
کھلی فضا میں تجھے گنگنانے لگتے ہیں
جو تو نہیں ہے تو تجھ سے کئے ہوئے وعدے
ہم اپنے آپ سے خود ہی نبھانے لگتے ہیں
عجیب کھیل ہے جلتے ہیں اپنی آگ میں ہم
پھر اپنی راکھ بھی خود ہی اُڑانے لگتے ہیں
یہ آنے والے زمانے مرے سہی، لیکن
گذشتہ عمر کے سائے ڈرانے لگتے ہیں
نگار خانۂ ہستی میں کیسا پائے ثبات
کہیں کہیں تو قدم ڈگمگانے لگتے ہیں
٭٭٭
کیا بتائیں فصلِ بے خوابی یہاں بوتا ہے کون
جب در و دیوار جلتے ہوں تو پھر سوتا ہے کون
تم تو کہتے تھے کہ سب قیدی رہائی پا گئے
پھر پسِدیوارِ زنداں رات بھر روتا ہے کون
بس تری بیچارگی ہم سے نہیں دیکھی گئی
ورنہ ہاتھ آئی ہوئی دولت کو یوں کھوتا ہے کون
کون یہ پاتال سے لے کر ابھرتا ہے مجھے
اتنی تہہ داری سے مجھ پر منکشف ہوتا ہے کون
کوئی بے ترتیبیِ کردار کی حد ہے سلیم
داستاں کس کی کے زیبِ داستاں ہوتا ہے کون
٭٭٭
خود کو کردار سے اوجھل نہیں ہونے دیتا
وہ کہانی کو مکمل نہیں ہونے دیتا
سنگ بھی پھینکتا رہتا ہے کہیں ساحل سے
اور پانی میں بھی ہلچل نہیں ہونے دیتا
کاسۂ خواب سے تعبیر اُٹھا لیتا ہے
پھر بھی آبادی کو جنگل نہیں ہونے دیتا
دھوپ میں چھاؤں بھی رکھتا ہے سروں پر ، لیکن
آسماں پر کہیں بادل نہیں ہونے دیتا
ابر بھی بھیجتا رہتا ہے سدا بستی میں
گلی کوچوں میں بھی جل تھل نہیں ہونے دیتا
روز اک لہر اُٹھا لاتا ہے بے خوابی کی
اور پلکوں کو بھی بوجھل نہیں ہونے دیتا
پھول ہی پھول کھلاتا ہے سرِ شاخِ وُجود
اور خوشبو کو مسلسل نہیں ہونے دیتا
عالمِ ذات میں درویش بنا دیتا ہے
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
٭٭٭
کہیں تم اپنی قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
تو شاید ہم بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے
اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے دوا تبدیل کر لیتے
تمہارے ساتھ چلنے پر جو دل راضی نہیں ہوتا
بہت پہلے ہم اپنا فیصلہ تبدیل کر لیتے
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے
تمہاری طرح جینے کا ہنر آتا ، تو پھر شاید
مکان اپنا وہی رکھتے ، پتا تبدیل کر لیتے
وہی کردار ہیں تازہ کہانی میں ، جو پہلے بھی
کبھی چہرہ ، کبھی اپنی قبا تبدیل کر لیتے
جدائی بھی نہ ہوتی ، زندگی بھی سہل ہو جاتی
جو ہم اک دوسرے سے مسئلہ تبدیل کر لیتے
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم بول اٹھے ورنہ
گواہی دینے والے واقعہ تبدیل کر لیتے
بہت دھندلا گیا یادوں کی رم جھم میں دلِ سادہ
وہ مل جاتا تو ہم یہ آئینہ تبدیل کر لیتے
٭٭٭
ستم کی رات کو جب دن بنانا پڑتا ہے
چراغِ جاں سرِ مقتل جلانا پڑ تا ہے
اُٹھانا پڑتا ہے پلکوں سے رَت جگوں کا خُمار
پھر اس خُمار سے خود کو بچانا پڑ تا ہے
کسی کی نیند کسی سے بدلنی پڑ تی ہے
کسی کا خواب کسی کو دِکھانا پڑ تا ہے
کسی سے پوچھنا پڑتا ہے اپنے گھر کا پتا
کسی کو شہر کا نقشہ دِکھانا پڑ تا ہے
بگڑ رہا ہے کچھ ایسا توازنِ ہستی
کسی کا بوجھ کسی کو اُٹھا نا پڑ تا ہے
کوئی کسی کے کہے سے کبھی رُکا ہی نہیں
وہاں رُکا ہے جہاں آب و دانہ پڑ تا ہے
وہ ایک پَل کی مُسافت پہ تھا مگر مجھ سے
نہ جانے کس نے کہا تھا زمانہ پڑتا ہے
عجیب طرح سے اُس نے بنائی ہے دُنیا
کہیں کہیں تو یہاں دِل لگا نا پڑتا ہے
٭٭٭
بچھائے جال کہیں جمع آب و دانہ کیا
پھر اس نے سارے پرندوں کو بے ٹھکانہ کیا
میں تیرا حکم نہیں ٹالتا مگر مجھ میں
نہ جانے کون ہے جس نے تیرا کہا نہ کیا
بجز یقیں کوئی چارہ نہیں رہا میرے پاس
کہ پہلی بار تو اُس نے کوئی بہانہ کیا
ملے جو غم تو انہیں اپنے پاس ہی رکھا
خوشی ملی ہے تو تیری طرف روانہ کیا
میں مشتِ خاک ستاروں کا ہم نوا ٹھہرا
میں ایک پَل تھا اور اس نے مجھے زمانہ کیا
٭٭٭
پہلی بارش
رات کی جلتی تنہائی میں
اندھیاروں کے جال بنے تھے
دیواروں پے تاریکی کی گرد جمی تھی
خوشبو کا احساس ہوا میں ٹوٹ رہا تھا
دروازے بانہیں پھیلائے اونگھ رہے تھے
دور سمندر پار ہوائیں بادلوں سے باتیں کرتی تھیں
ایسے میں ایک نیند کا جھونکا
لہر بنا اور گزر گیا
پھر آنکھ کھلی تو اس موسم کی پہلی بارش
اور تیری یادیں
دونوں مل کر ٹوٹ کر برسیں
٭٭٭
کوئی سچے خواب دکھاتا ہے، پر جانے کون دکھاتا ہے
مجھے ساری رات جگاتا ہے، پر جانے کون جگاتا ہے
کوئی دریا ہے جس کی لہریں مجھے کھینچ رہی ہیں، اور کوئی
مری جانب ہاتھ بڑھاتا ہے، پر جانے کون بڑھاتا ہے
کبھی جائے نماز کی بانہوں میں، کبھی حمد درود کی چھاؤں میں
کوئی زار و زار رلاتا ہے، پر جانے کون رلاتا ہے
وہی بے خبری، وہی جیون کا بے انت سفر، اور ایسے میں
کوئی اپنی یاد دلاتا ہے، پر جانے کون دلاتا ہے
کہیں اس معلوم سی دنیا میں کوئی نا معلوم سی دنیا ہے
کوئی اس کے بھید بتاتا ہے، پر جانے کون بتاتا ہے
مری تنہائی میں ایک نئی تنہائی ہے، جس کے رنگوں میں
کوئی اپنے رنگ ملاتا ہے، پر جانے کون ملاتا ہے
کوئی کہتا ہے یہ رستہ ہے اور تیرے لیے ہے یہ رستہ
کوئی اس میں خاک اڑاتا ہے، پر جانے کون اڑاتا ہے
کوئی کہتا ہے یہ دنیا ہے اور تیرے لیے ہے یہ دنیا
کوئی اس سے خوف دلاتا ہے، پر جانے کون دلاتا ہے
کوئی کہتا ہے اس مٹی میں کئی خواب ہیں اور ان خوابوں سے
کوئی بیٹھا نقش بناتا ہے، پر جانے کون بناتا ہے
کوئی ہر شے کے سینے میں کہیں، موجود ہے ظاہر ہونے کو
کوئی اپنا آپ چھپاتا ہے، پر جانے کون چھپاتا ہے
کوئی دیکھا ان دیکھا ہر پل چپ چاپ لکھے جاتا ہے مگر
کوئی مجھ میں شور مچاتا ہے، پر جانے کون مچاتا ہے
مجھے دنیا اپنی چھب دکھلانے روز چلی آتی ہے مگر
کوئی دونوں بیچ آ جاتا ہے، پر جانے کون آ جاتا ہے
٭٭٭
وہاں محفل نہ سجائی جہاں خلوت نہیں کی
اُس کو سوچا ہی نہیں جس سے محبت نہیں کی
اب کے بھی تیرے لیے جاں سے گزر جائیں گے
ہم نے پہلے بھی محبت میں سیاست نہیں کی
تم سے کیا وعدہ خلافی کی شکایت کرتے
تم نے تو لوٹ کے آنے کی بھی زحمت نہیں کی
دھڑکنیں سینے سے آنکھوں میں سمٹ آئی تھیں
وہ بھی خاموش تھا، ہم نے بھی وضاحت نہیں کی
رات کو رات ہی اس بار کہا ہے ہم نے
ہم نے اس بار بھی توہینِ عدالت نہیں کی
گردِ آئینہ ہٹائی ہے کہ سچائی کھلے
ورنہ تم جانتے ہو ہم نے بغاوت نہیں کی
بس ہمیں عشق کی آشفتہ سری کھینچتی ہے
رزق کے واسطے ہم نے کبھی ہجرت نہیں کی
آ! ذرا دیکھ لیں دنیا کو بھی، کس حال میں ہے
کئی دن ہو گئے دشمن کی زیارت نہیں کی
تم نے سب کچھ کیا، انسان کی عزت نہیں کی
کیا ہوا وقت نے جو تم سے رعایت نہیں کی
٭٭٭
یہ سیلِ گریہ غبارِ عصیاں کو دھو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
کوئی کہیں چھپ کے رونا چاہے تو رو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہاں بکھرنے کا غم، سمٹنے کی لذّتیں منکشف ہیں جس پر
وہ ایک دھاگے میں سارے موتی پرو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
جسے ہواؤں کی سرکشی نے بچا لیا دھوپ کی نظر سے
وہ ابرِ آوارہ، دامنِ دل بھگو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہ میں ہوں، تم ہو، وہ ایلچی ہے، غلام ہیں اور وہ راستہ ہے
اب اس کہانی کا کوئی انجام ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
ترے لیے عشق جاگتا ہے، ترے لیے حسن جاگتا ہے
سو اب تُو چاہے تو اپنی مرضی سے سو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
یہاں ارادے کو جبر پر اختیار حاصل رہا تو اتنا
کوئی کسی کا، جو ہونا چاہے، تو ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
نئی مسافت کے رتجگوں کا خمار کیسا چڑھا ہوا ہے
سلیم کوثر! یہ نشّہ تم کو ڈبو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی
٭٭٭
کچھ پاس نہیں، پھر بھی خزانہ تجھے دیتے
ملتا تو سہی، سارا زمانہ تجھے دیتے
چلنے کے لیے راہ بناتے تری خاطر
رہنے کے لیے کوئی ٹھکانہ تجھے دیتے
اک بات نہ کرنے کے لیے بھی تجھے کہتے
کرنے کے لیے کوئی بہانہ تجھے دیتے
سننے کے لیے ہم، ہمہ تن گوش ہی رہتے
کہنے کے لیے کوئی فسانہ تجھے دیتے
دن بھر تجھے تعبیر دکھاتے نئے دن کی
راتوں کے لیے خواب سہانا تجھے دیتے
وحشت کے لیے دشتِ تمنّا کو بچھاتے
حیرت کے لیے آئینہ خانہ تجھے دیتے
تو بھی ہمیں تفصیلِ شب و روز بتاتا
اک تازہ خبر ہم بھی روزانہ تجھے دیتے
٭٭٭
سندیسہ
ہمارے پاؤں میںجو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پر جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑتے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پے سایہ کرتی تھیں
وہ سب مرجھا گئی ہیں
اسے کہنا
لبوں پر لفظ ہیں
لفظوں پر کوئی دستاں قصہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنائیں گے
بتایئں گے کہ ہم محراب ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
در لب بوسۂ اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میںہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آئینے کے درمیاں کب سے سر ساحل
کھڑے موجوںکو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آ کر خود اسے ملتے مگر مستقل بدلتے
موسموں کے خون میں رنگین ہیں ہم
ایسے بہت سے موسموںکے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو! ہم میں آج بھی اک عمر کی
وارفتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے ،وہ بازی جو
بساط دل پہ کھیلی تھی ابھی ہم نے جیتی ہے
نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں
٭٭٭
تعبیر میں ڈھل رہے ہیں دونوں
اک خواب میں چل رہے ہیں دونوں
اک زہر جڑیں پکڑ رہا ہے
چپ چاپ پگھل رہے ہیں دونوں
وعدوں سے بنا ہوا ہے فردا
تاریخ بدل رہے ہیں دونوں
دونوں کو پتا نہیں ہے اب تک
کس آگ میں جل رہے ہیں دونوں
خورشید افق سے اور میں گھر سے
اک ساتھ نکل رہے ہیں دونوں
٭٭٭
کوئی اُجالا اندھیروں سے کام لیتا ہوا
دیا جلاؤ ہوا سے دوام لیتا ہوا
بدلتا جاتا ہے ترتیبِ واقعہ کوئی
خُود اپنے ہاتھ میں سب اِنتظام لیتا ہوا
اسیرِ قحطِ ہوا ہو گیا ہے آخرِ کار
کھُلی فضا میں کوئی تیرا نام لیتا ہوا
گزر رہا ہے ابھی تک گروہ ِ نادیدہ
درونِ خانہ کوئی انتقام لیتا ہوا
ہمارے نام کو بے مثل کرتا جاتا ہے
سُخن دری کا کوئی ہم سے کام لیتا ہوا
غُبارِ شب سے اُلجھتا ہے روز اِک منظر
نشستِ صبح سے تصویرِ شام لیتا ہوا
یہ کون چھُو کے گزرتا ہے روز مجھ کو سلیم
دعائیں دیتا ہوا اور سلام لیتا ہوا
٭٭٭
حیرتِ دید لئے حلقۂ خُوشبو سے اُٹھا
میں اُجالے سے اُٹھا یا ترے پہلُو سے اُٹھا
صبح آغاز تری جنبشِ مژگاں سے ہوئی
لشکرِ شام ترے خیمۂ ابرُو سے اٹھا
گریۂ نیم شبی دستِ دعا تک آیا
اور تری یاد کا شعلہ مرے آنسُو سے اٹھا
میں کہ زندانئ شب تھا پہ گجر بجتے ہی
کیسا خورشید بکف حُجلۂ گیسُو سے اٹھا
میں جو درویش نہ صوفی، نہ قلندر ہوں سلیم
رقص کرتا ہوا کیوں مجمعِ باہُو سے اٹھا
٭٭٭
یوں تو کہنے کو سبھی اپنے تئیں زندہ ہیں
زندہ رہنے کی طرح لوگ نہیں زندہ ہیں
جانے کس معرکۂ صبر میں کام آ جائیں
لشکری مارے گئے، ایک ہمیں زندہ ہیں
نہ اُنہیں تیری خبر ہے، نہ تجھے اُن کا پتا
کس خرابے میں ترے گوشہ نشیں زندہ ہیں
ایک دیوارِ شکستہ ہے پسِ وہم و گماں
اب نہ وہ شہر سلامت، نہ مکیں زندہ ہیں
حالتِ جبر موافق بھی تو آ سکتی ہے
آسماں دیکھ ترے خاک نشیں زندہ ہیں
منتقل ہوتی ہے سچائی بہرحال سلیم
جو یہاں مارے گئے ، اور کہیں زندہ ہیں
٭٭٭
جو سچی بات کرتا تھا، کہاں ہے وہ
یہاں اک شخص رہتا تھا، کہاں ہے وہ
یہاں کشتی کناروں کو ملاتی تھی
اور اک دریا بھی بہتا تھا، کہاں ہے وہ
انہی بے نام گلیوں کے دریچوں میں
چراغِ شام جلتا تھا، کہاں ہے وہ
وہ چُپ رہنے کا عادی تھا، مگر پہلے
سخن آغاز کرتا تھا، کہاں ہے وہ
اسے رستہ بدل لینا بھی آتا تھا
مگر وہ ساتھ چلتا تھا، کہاں ہے وہ
٭٭٭
اس عالمِ حیرت و عبرت میں کچھ بھی تو سراب نہیں ہوتا
کوئی نیند مثال نہیں بنتی، کوئی لمحہ خواب نہیں ہوتا
اک عمر نمو کی خواہش میں، موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی، ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
اس لمحۂ خیر و شر میں کہیں اک ساعت ایسی ہے جس میں
ہر بات گناہ نہیں ہوتی، سب کارِ ثواب نہیں ہوتا
مرے چار طرف آوازیں اور دیواریں پھیل گئیں لیکن
کب تیری یاد نہیں آتی اور جی بے تاب نہیں ہوتا
یہاں منظر سے پس منظر تک حیرانی ہی حیرانی ہے
کبھی اصل کا بھید نہیں کھلتا، کبھی سچّا خواب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پر آنچ نہیں آتی، کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
مری باتیں جیون سپنوں کی، مرے شعر امانت نسلوں کی
میں شاہ کے گیت نہیں گاتا، مجھ سے آداب نہیں ہوتا
٭٭٭
مجھے خبر تھی میرے بعد وہ بکھر جاتا
سو اس کو کس کے بھروسے پہ چھوڑ کر جاتا
وہ خوشبوؤں میں گھرا تھا کہ مثل سایۂ ابر
میان صحن چمن میں ادھر اّدھر جاتا
وہ کوئی نشہ نہیں تھا کہ ٹوٹتا مجھ میں
وہ سا نحہ بھی نہیں تھا کہ جو گزر جاتا
وہ خواب جیسا کوئی تھا نگار خانۂ حسن
میں جتنا دیکھتا وہ اتنا ہی سنور جاتا
بس ایک خیال کی لو میں دھلا ہوا وہ بدن
میں جتنا سوچتا وہ اتنا ہی نکھر جاتا
رکا ہوا تھا میرا سانس میرے سینے میں
اسے گلے نہ لگاتا تو گھٹ کے مر جاتا
اک ایسے عالمِ وارفتگی سے گزرا ہوں
جہاں سمیٹتا خود کو تو میں بکھر جاتا
شکست ہو گیا پندار آئینہ ورنہ
یقین کر میں تیرے عشق سے مکر جاتا
نہ جانے کتنے محاذوں پہ جنگ تھی میری
بس ایک وعدہ نبھانے میں اپنے گھر جاتا
٭٭٭
یہ وصال ہے کہ فراق ہے، دلِ مبتلا کو پتا رہے
جو یہ پھول ہے تو کھلا رہے، جو یہ زخم ہے تو ہرا رہے
تیرے انتظار کے سلسلے ہیں میانِ دستک و دَر کہیں
یہی آس ہے تو بندھی رہے، یہ چراغ ہے تو جلا رہے
یونہی بھولے بھٹکے جو آ گئے ہیں اِدھر تو اتنی ہوا نہ دے
کہ غبارِ کوئے ملامتاں، کوئی واقعہ تو چھپا رہے
کسی چشمِ وعدہ کی لہر ہے بڑا دل گرفتہ یہ شہر ہے
سو ہوائے محرمِ دوستاں تیرے سلسلوں کا پتا رہے
یہ سرائے صبح کے ساتھ ہی مجھے چھوڑنی ہے غزالِ شب
تیری چشمِ رمز و کنایہ میں، کوئی خواب ہے تو سجا رہے
٭٭٭
قربتیں ہوتے ہوئے بھی فاصلوں میں قید ہیں
کتنی آزادی سے ہم اپنی حدوں میں قید ہیں
کون سی آنکھوں میں میرے خواب روشن ہیں ابھی
کس کی نیندیں ،جو میرے رتجگوں میں قید ہیں
شہر آبادی سے خالی ہو گئے، خوشبو سے پھول
اور کتنی خواہشیں ہیں جو دلوں میں قید ہیں
پاؤں میں رشتوں کی زنجیریں ہیں، دل میں خوف کی
ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنے گھروں میں قید ہیں
کون یہ پاتال سے ابھرا کنارے پر سلیم
سر پھری موجیں ابھی تک دائروں میں قید ہیں
٭٭٭
بس اب کے اتنی تبدیلی ہوئی ہے
پرانے گھر میں تنہائی نئی ہے
بہت جاگا ہوں اُن آنکھوں کے ہمراہ
مگر اب نیند آتی جا رہی ہے
ہم ایسے گمرہانِ نیم شب کا
تیری آواز پہرہ دے رہی ہے
پلٹ کر دیکھ لے تو ٹوٹ جائے
یہاں ہر شخص اتنا اجنبی ہے
وہ چہرہ ہٹ چکا ہے کب کا لیکن
دریچے میں ابھی تک روشنی ہے
وہی رستے ہیں زیرِ پا ابھی تک
سلیم اب تک وہی آوارگی ہے
میرے وجود میں سچائی میری ماں کی ہے
وگرنہ شعر عبادت تو قرضِ جاں کی ہے
سفر میں لمحۂ آوارگی بھی شرط سہی
ٹھہر گئے تو علامت یہ امتحاں کی ہے
بلا کا حبس رگوں میں اُتر گیا اب کے
نہ جانے زہر گھلی یہ ہوا کہاں کی ہے
سنا ہے اب نہیں اُترے گا ہم پہ کوئی عذاب
زمیں پہ آخری تہمت یہ آسماں کی ہے
نہ تُو ملا ہے، نہ خود ہی سے نبھ سکی اپنی
تو پھر یہ عمر کہاں ہم نے رائیگاں کی ہے
کھلے دریچوں میں یادیں سجی ہوئی ہیں سلیم
بچھڑ کے اُس سے یہ صورت قرارِ جاں کی ہے
٭٭٭
جو دل میں ہے، آنکھوں کے حوالے نہیں کرنا
خود کو کبھی خوابوں کے حوالے نہیں کرنا
اِس عمر میں خوش فہمیاں اچھی نہیں ہوتیں
اِس لمحہ کو وعدوں کے حوالے نہیں کرنا
اب اپنے ٹھکانے ہی پہ رہتا نہیں کوئی
پیغام ، پرندوں کے حوالے نہیں کرنا
اب کے جو مسافت ہمیں درپیش ہے اس میں
کچھ بھی تو سرابوں کے حوالے نہیں کرنا!
اِس معرکۂ عشق میں جو حال ہو میرا
لیکن مجھے لوگوں کے حوالے نہیں کرنا
٭٭٭
بہت سے خواب دیکھے ہیں کبھی شعروں میں ڈھالیں گے
کوئی چہرہ تراشیں گے، کوئی مُورت نکالیں گے
ابھی تو پاؤں کے نیچے زمیں محسُوس ہوتی ہے
جہاں یہ ختم ہو گی وہیں ہم گھر بنا لیں گے
یہی ہے نا تمہیں ہم سے بچھڑ جانے کی جلدی ہے
کبھی ملنا تمہارے مسئلے کا حل نکالیں گے
ابھی چُپکے سے ہجر آثار لمحہ آئے گا اور پھر
تم اپنی راہ چل دو گے، ہم اپنا راستہ لیں گے
جو اپنے خون سے اپنی گواہی خاک پر لکھ دے
ہم ایسے آدمی کو آسمانوں پر اُٹھا لیں گے
ہمارے ہاتھ جس کے قتل کی سازش میںشامل تھے
سلیم اُس شخص کا قاتل ہم کیوں خوں بہا لیں گے
٭٭٭
آؤ کہیں مل بیٹھیں، کیا ایسا ہو سکتا ہے
ایسا ہو جائے تو موسم اچھا ہو سکتا ہے
دنیا کے بارے میں اکثر سوچتا ہوں اب اس میں
کیا تبدیل نہیں ہو سکتا، کیا ہو سکتا ہے
قسمت کی ساری ریکھائیں بدلی جا سکتی ہیں
اور جو کچھ تم سوچ رہے ہو، اُلٹا ہو سکتا ہے
جس کی خاطر ساری دنیا چھوڑنے کو جی چاہے
اُس کے ساتھ بھی رہ کر، آدمی تنہا ہو سکتا ہے
جو بھی حُسن ہے، عشق کے ہونے سے قائم ہے، ورنہ
عشق بِنا تو سب کچھ کھیل تماشہ ہو سکتا ہے
دُنیا داروں میں اکثر درویش نکل آ تے ہیں
اور درویش کا کیا ہے، صاحبِ دنیا ہو سکتا ہے
٭٭٭
یہ اور بات کہ خود کو بہت تباہ کیا
مگر یہ دیکھ تیرے ساتھ تو نباہ کیا
عجب طبعیت درویش تھی کہ تاج اور تخت
اسی کو سونپ دیا اور بادشاہ کیا
بساطِ عالم امکاں سمیٹ کر اس نے
خیالِ دشتِ تمنا کو گردِ راہ کیا
متاع دیدہ و دل صرف انتظار ہوئی
تیرے لیئے تیری آمد کو فرشِ راہ کیا
زمیں پہ جس نے جھکا دیں ہیں آسمان کی حدیں
اسی نے خاک نشینوں کو کج کلاہ کیا
بجز خدا میں کسی کو جواب دہ تو نہیں
سو میں نے اپنی خموشی ہی کو گواہ کیا
سلیم اس نے اندھیروں سے صبح کرنی تھی
سو دن کو دن ہی رکھا رات کو سیاہ کیا
٭٭٭
ماخذ:
http://www.freeurdupoetry.com/?q=taxonomy/term/2
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید