FavoriteLoadingپسندیدہ کتابوں میں شامل کریں

 

 

فہرست مضامین

{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَاَ}(۵۷؍الحدید : ۲۲)

 

 پریشانیوں اور مشکلات  کا حل

 

 

تالیف

                حافظ محمد حمزہ کاشف، ڈاکٹر حافظ محمد شہبازحسن

 

 تحقیق

                مولانا محمد ارشد کمال

 

 

الانتساب

 

میں اپنی اس پہلی اور جزوی کاوش کو

پیارے دوست طاہر عزیز

کی طرف منسوب کرتا ہوں، جو حصولِ علم کی جدوجہد میں میرے لیے مشعلِ راہ بنے اور جن کی علمی ترغیب و تحریض کی بنا پر میں اس قابل ہوا۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

 

حافظ محمدحمزہ کاشف، لاہور

 

 

 

عرضِ ناشر

 

دنیا دار الامتحان ہے، اس میں انسانوں کو آزمایا جاتا ہے، آزمائش سے کسی مومن کو بھی مفر نہیں، اسے اس جہان میں طرح طرح کی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، قسم قسم کے ہموم  و غموم اس پر حملہ آور ہوتے ہیں، چنانچہ علامہ حافظ ابنِ قیم جوزیہؒ فرماتے ہیں :

آزمائش کی تکلیف کا احساس ایک ایسا طبعی امر ہے جس سے فرار ممکن نہیں، لہٰذا اس امید پر کہ آپ کی دلی بیماریوں کو شفا مل جائے اور اس طمع میں کہ آپ کو اجر و ثواب سے نوازا جائے اور رحمن و رحیم اللہ کی خوشنودی حاصل ہو جائے، آپ کو اپنے نفس کو آزمائش کی اس تکلیف کو برداشت کرنے پر مطمئن کرنا ہو گا اور اس سلسلہ میں دوا کی ترشی اور کڑواہٹ کو نہ دیکھیں بلکہ اس بزرگ و برتر مشفق طبیب کو دیکھیں جس نے آپ کو یہ دوا عطا کی ہے اور یہ کڑوی دوا دے کر شفا یابی سے ہمکنار کرنا ارحم الراحمین کی رحمت کا حصہ ہے۔ لہٰذا بہترین رحم کرنے والے کی کامل رحمت کا حصہ ہے کہ وہ بندے کو انواع و اقسام کی آزمائشوں میں مبتلا کرے، کیونکہ وہ بندے کی مصلحت کو زیادہ جانتا ہے، پس اس کا اپنے بندے کو آزمائش و امتحان میں مبتلا کرنا اور اسے بہت سی اغراض و شہوات سے روکنا، یہ اللہ کی بندے کے ساتھ رحمت کرنے کا حصہ ہے لیکن بندہ اپنے اوپر ڈالی ہوئی آزمائش کی وجہ سے ظلم و جہالت کی بنا پر اپنے رب تعالیٰ پر (ظلم وغیرہ کی) تہمت لگاتا ہے اور اس کے آزمائش اور امتحان میں مبتلا کر کے احسان و فضل کرنے کی مصلحت کو نہیں سمجھتا۔  (اغاثۃ اللھفان : ۲/۱۸۶)

آزمائش مومن کے حق میں بہتر ہے کیونکہ وہ اللہ حکیم و علیم کی طرف سے اس پر نازل ہوتی ہے، لیکن اسے آزمائش کی تکلیف محسوس ہوتی ہے مگر اس کی حقیقت سے آگاہی کی وجہ سے تکلیفیں ہلکی ہو جاتی ہیں بلکہ بعض اوقات ان کے ساتھ خوشی بھی مل جاتی ہے اور اس آزمائش کے ختم ہونے سے کلی طور پر تکلیفیں چھٹ جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{اِنْ یَّمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ وَ تِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ}  (۳؍اٰل عمرٰن : ۱۴۰)

’’اگر تمھیں کوئی زخم پہنچا ہے تو یقیناً ان لوگوں کو بھی اس جیسا زخم پہنچ چکا ہے اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔ ‘‘

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ  مَا لَا یَرْجُوْنَ}  (۴؍النساء : ۱۰۴)

’’اگر تم تکلیف اٹھاتے ہو تو یقیناً وہ بھی تکلیف اٹھاتے ہیں، جیسے تم تکلیف اٹھاتے ہو اور تم اللہ سے وہ امید رکھتے ہو جو وہ امید نہیں رکھتے۔ ‘‘

پس تکلیف میں تو کافر اور مومن دونوں برابر ہیں، مگر مومن اس لحاظ سے کافر سے ممتاز ہے کہ وہ اس تکلیف پر صبر کر کے اللہ تعالیٰ کے اجر و ثواب اور اس کے قرب کا حق دار بن جاتا ہے۔

حالات و واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ مومنوں کو پہنچنے والی سختیاں تکلیفیں اور پریشانیاں اور نوعیت کی ہوتی ہیں، جب کہ کافروں کو پہنچنے والی سختیاں، تکلیفیں اور پریشانیاں اور نوعیت کی ہوتی ہیں، رسول اللہﷺ سے پوچھا گیا کہ سب سے سخت مصیبت کس پر آتی ہے ؟ تو رسول اللہ ﷺ  نے فرمایا:

((الأنبیاء، ثم الأمثل، فالأمثل۔ ))  (ترمذی :۲۳۹۸)

’’انبیاء پر پھر جو اُن کے بعد افضل ہیں، پھر جو اُن کے بعد افضل ہیں، ۔ ‘‘

نیز فرماتے ہیں :

((عجبا لأمر المؤمن، إن أمرہ کلہ لہ خیر، ولیس ذلک لأحد إلا للمؤمن، إن إصابتہ سراء شکر فکان خیرا لہ، وإن أصابتہ ضراء صبر فکان خیرا لہ۔ ))  (مسلم : ۲۹۹۹)

’’مومن کا معاملہ بڑا تعجب والا ہے، بلا شبہ اس کا سارا معاملہ بھلائی والا ہے اور یہ سعادت صرف مومن کو حاصل ہے، اگر اسے خوشی ملے تو وہ شکر کرتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ صبر کرتا ہے تو یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ ‘‘

ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:

((من یرد اللّٰہ بہ خیرا یصب منہ۔ ))  (بخاری : ۵۶۴۵)

’’جس کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اسے وہ مصیبت میں مبتلا کرتا ہے۔ ‘‘

مگر مومن اس بھلائی کو تبھی حاصل ہے جب مذکورہ بالا حدیث کے مطابق صبرواستقامت کا مظاہرہ کرے۔

مصائب، مشکلات، پریشانیوں اور غموں کے علاج اور ان سے نجات سے متعلق کئی کتب چھپ چکی ہیں، جن میں سے ہر ایک کی اپنی افادیت ہے، ان میں سے کچھ زیادہ مختصر اور کچھ مفصل ہیں، اس کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ یہ نہ زیادہ مختصر ہے اور نہ زیادہ مطول۔ اس کتاب کی ترتیب کے وقت اس موضوع کی اکثر کتب بالخصوص عامر محمد ہلالی کی کتاب مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں ؟ کو مد نظر رکھا گیا ہے۔

قارئین کی سہولت کی خاطر اس موضوع کے جملہ مواد کو ابواب کی شکل میں پیش کیا گیا ہے، اس تالیف کو حرفِ اول، حرفِ آخر اور درجِ ذیل ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے :

۱۔ آزمائش اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور وہی مشکل دُور کر سکتا ہے۔

۲۔ آزمائش اور تقدیر الٰہی

۳۔ آزمائشوں میں خیر و برکات کے پہلو

۴۔ سوچنے کا عمدہ انداز اور خوش رہنے کے قاعدے

۵۔ آزمائش میں نیک لوگوں کا طرزِ عمل

۶۔ آزمائش سے پہلے اور بعد

جن کتب سے اس کتاب کی ترتیب کے لیے استفادہ کیا گیا ہے ان کے حوالہ جات درج کر دیے گئے ہیں، نیز احادیث کے حوالہ جات میں اختصار کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔

فاضل محقق مولانا محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کی تحقیق کے ساتھ اس کتاب کی افادیت اور ثقاہت میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ کتاب پریشانیوں کا احساس کم کرنے اور غموں کے زخموں پر  مرہم رکھنے میں معاون ثابت ہو گی، ان شاء اللہ۔

اللہ تعالیٰ اس کاوش کو مؤلفین، جملہ معاونین، تمام قارئین اور ناشرین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔

٭٭٭

 

 

 

 

حرفِ آغاز: مومنوں کی آزمائش

 

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جنہیں پسند کرتا ہے انھیں آزمائش میں مبتلا کر دیتا ہے، تاکہ وہ اطاعت پر مضبوط ہو کر نیکی کے کاموں میں جلدی کریں اور جو آزمائش انھیں پہنچی ہے اس پر وہ صبر کریں، تاکہ انھیں بغیر حساب کے اجر و ثواب دیا جائے اور یقیناً اللہ کی سنت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ اپنے نیک بندوں کو آزماتا رہے تاکہ وہ ناپاک کو پاک سے، نیک کو بد سے اور سچے کو جھوٹے سے جدا کر دے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوْلُوْٓا اٰمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُوْنَo وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ}  (۲۹؍العنکبوت : ۲۔ ۳)

’’کیالوگوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔ حالانکہ بلاشبہ ہم نے ان لوگوں کی بھی آزمائش کی جو اُن سے پہلے تھے۔ ‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَاْتِکُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْامِنْ قَبْلِکُمْ مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآئُ وَ الضَّرَّآئُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ مَتٰی نَصْرُ اللّٰہِ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ}  (۲؍البقرۃ : ۲۱۴)

’’کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ ابھی تک تم پر ان لوگوں جیسی حالت نہیں آئی جو تم سے پہلے تھے، انھیں تنگدستی اور تکلیف پہنچی اور وہ سخت ہلائے گئے، یہاں تک کہ رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے تھے، کہہ اٹھے : اللہ کی مدد کب ہو گی؟ سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔ ‘‘

علامہ عبد الرحمن بن ناصر سعدیؒ  نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے :

’’اللہ تبارک و تعالیٰ گزشتہ آیت میں خبر دے رہے ہیں کہ لازمی طور پر وہ اپنے بندوں کو خوشحالی، تنگی اور مشقت میں مبتلا کر کے ان کا امتحان لے جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کا امتحان لیا، لہٰذا یہ ایک نہ بدلنے والی سنت جاریہ ہے کہ جو شخص بھی اللہ کے دین و شریعت پر کاربند ہو گا یقیناً وہ اس کا امتحان لے گا۔ ‘‘  (تیسیر الکریم الرحمن فی تفسیر کلام المنان، ص : ۹۷)

علامہ عبد اللہ علوانؒ نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے :

’’وہ لوگ جو دعوتِ اسلامیہ کے منہج پر کاربند ہوتے ہیں اور وہ لوگوں کی اصلاح، ان میں انقلاب برپا کرنے اور ان کی ہدایت و راہنمائی کے راستے پر چلتے ہیں ان کا مشقت میں مبتلا ہونا ضروری ہے۔ اس راہ میں بڑی مضبوط چٹانیں اور تکلیف دہ کانٹے بچھے ہوئے ہیں اور اس راہ میں سرکش اور بدبخت مجرموں سے سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر داعی ان تکلیفوں کو برداشت کر کے اس راہ پر ثابت قدمی اختیار کرنے اور صبر کرنے اور صبر کرنے میں دوسروں سے سبقت کرنے کا عادی نہ ہو گا تو وہ مشقت کے ابتدائی لمحوں میں ہی شکست کھا جائے گا اور آزمائش کے ابتدائی لمحات میں الٹے پاؤں اس راستے سے پلٹ جائے گا اور وہ رک جانے والے اور مایوس ہو کر بیٹھنے والے لوگوں کے ساتھ بیٹھ جائے گا۔ ‘‘

(الأمن النفسی، محمد موسٰی الشریف، ص : ۶۳، ۶۴)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ}  (۲؍البقرۃ : ۱۵۵)

’’اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ ‘‘

معلوم ہوا کہ آزمائش ضروری ہے اور مومنوں کا آزمائش میں مبتلا ہونا سنت جاریہ ہے۔ اگر وہ یہ بات ذہن میں رکھیں تو آزمائش ہلکی محسوس ہو گی اور آپ اس بات کو سمجھ جائیں گے کہ آپ کو عظیم خیر و بھلائی حاصل ہے جب تک آپ اپنے ایمان اور دعوت کی راہ میں آزمائش میں مبتلا رہیں اور آزمائش میں مبتلا ہو کر بھی آپ اپنے دین کو مضبوطی سے تھامے رکھیں اور اپنے رب تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہیں۔

آزمائش کے بہت سے پہلو ہیں، عامر محمد ہلالی نے آزمائش کی درج ذیل اقسام بیان کی ہیں :

۱:      بیماری کے ساتھ آزمائش۔

۲:     قید و بند کے ساتھ آزمائش۔

۳:     استہزاء و تمسخر کے ساتھ آزمائش۔

۴:     گالی گلوچ کے ساتھ آزمائش۔

۵:     اذیت، مار پیٹ اور سزا کے ساتھ آزمائش۔

۶:     خوف اور بے چینی کے ساتھ آزمائش۔

۷:     فقر و فاقہ، مالوں اور پھلوں کے نقصان کے ساتھ آزمائش۔

۸:     غم اور فکر کے ساتھ آزمائش۔

۹:     جلاوطنی کے ساتھ آزمائش۔

۱۰:    دشمن کے تسلط اور غلبہ کے ساتھ آزمائش۔

۱۱:     حاسدوں اور منافقوں کے پروپیگنڈوں کے ساتھ آزمائش۔

۱۲:    قریبی رشتہ دار کی موت اور دوست کی گمشدگی کے ساتھ آزمائش۔

۱۳:    بھوک کے ساتھ آزمائش۔

۱۴:    رسوائی، تہمت، احساسات کے مجروح ہونے اور شہرت کے خراب ہونے کے ساتھ آزمائش۔

۱۵:    ظالموں کی طرف سے حملہ، دھمکی اور ان کے ہاتھوں خوف زدہ ہونے کے ساتھ آزمائش۔

۱۶:    اپنے گھر والوں کے متعلق اس خوف کے ساتھ آزمائش کہ انھیں اس کی وجہ سے کوئی اذیت پہنچے اور وہ اس اذیت کو اُن سے دُور کرنے کی طاقت بھی نہ رکھے۔

۱۷:    بیوی بچوں پر نازل ہونے والی تکالیف کے ساتھ آزمائش۔

(مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں ؟ صفحہ ۱۵۔ ۱۶، ط: ۲۰۱۲:، مکتبہ بیت السلام، لاہور)

٭٭

 

 

 

باب اوّل

آزمائش اللہ کی طرف سے ہوتی ہے

 

                اور وہی مشکل دُور کر سکتا ہے

 

تمام آزمائشیں اور ابتلائیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ اِِلَّا بِاِِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّؤْمِنْ بِاللّٰہِ یَہْدِ قَلْبَہُ وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ}  (۶۴؍التغابن : ۱۱)

’’کوئی مصیبت نہیں پہنچتی مگر اللہ کے اذن سے اور جو اللہ پر ایمان لے آئے وہ اس کے دل کو ہدایت دیتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ ‘‘

مومن کا دل اللہ کے ساتھ وابستہ رہتا ہے، چنانچہ جب اس پر کوئی آفت آتی ہے تو وہ اللہ کو یاد کرتا ہے اور اس بات کو سمجھ لیتا ہے کہ یہ آفت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ وہ اس کے سامنے سرتسلیم خم کر دیتا ہے اور اس پر راضی ہو جاتا ہے۔ نیز وہ اس بات کا ادراک بھی کر لیتا ہے کہ اسے یہ آفت پہنچانے میں اللہ کی کئی حکمتیں ہیں جو اس کی کمزور عقل پر مخفی ہیں۔

لیکن جب کسی ایسے شخص پر کوئی آفت نازل ہوتی ہے جو مومن نہیں ہوتا تو وہ اپنے دل کو صرف ظاہری اسباب کی طرف متوجہ کر لیتا ہے اور اس حقیقت کو بھول ہی جاتا ہے کہ اس آفت کے نازل ہونے سے پہلے اور اس کے بعد بھی سارے معاملات اللہ ہی کے لیے ہیں اور جو مصیبت اسے پہنچی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اگرچہ وہ مخلوق کے ہاتھوں سے پہنچے، اسے لوگوں کے ہاتھوں سے یہ مصیبت پہنچانے والا اللہ تعالیٰ ہی تو ہے۔

پھر اس طرح شیطان اس کے دل کو وساوس و اوہام سے بھر دیتا ہے اور اس کے دل میں خوف اور حسرتیں پیدا کر دیتا ہے، لیکن جب بندہ اس بات کا یقین کر لے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے یہ مصیبت پہنچانے کا ارادہ کر کے اس کے مقدر میں کی ہے تو اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے، کیونکہ وہ یہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ خوب حکمت والا ہے اور وہ اپنی مشیت میں باریک بین ہے۔

لہٰذا جو آفت و مصیبت آپ کو پہنچی ہے وہ اندھی تقسیم کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ اللہ علیم و حکیم کی تقدیر، اس کے ارادے اور مشیت سے ہے۔ وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے وہ آفت آپ کے مقدر میں کی ہے اور آپ پر وہ آزمائش ڈالی ہے۔

لہٰذا جب آپ کو اس قسم کا یقین حاصل ہو جائے اور آپ پر واضح ہو جائے کہ جو مصیبت بھی آپ کو پہنچی ہے وہ اللہ کی مشیت و ارادے اور اس کے علم کے ساتھ ہے اور وہی اللہ اس آزمائش کو آپ کے مقدر میں کرنے والا ہے تو آپ وساوس و اوہام سے بچ جائیں گے اور اللہ کی رضا پر راضی ہوتے ہوئے جزع فزع نہیں کریں گے اور نہ کسی قسم کا خوف ہی محسوس کریں گے۔ (مشکلات کا مقابلہ کیسے کریں ؟ ص : ۲۰۔ ۲۱)

اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہنا نبی اکرمﷺ کی سنت ہے، چنانچہ نبی اکرمﷺ اپنی ایک دعا میں یہ پڑھا کرتے تھے :

((وَأَسْأَلُکَ الرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ۔ ))  (نسائی، ح: ۱۳۰۵)

’’اور مَیں تجھ سے تیرے ہر فیصلے کے بعد اس پر راضی ہونے کا سوال کرتا ہوں۔ ‘‘

’’اور (اللہ کی تقدیر اور قضاء پر) رضا سے تمام معاملات میں مقدر کی ہوئی چیز پر دل کی خوشی، ہر حال میں نفس کی پاکیزگی اور اس کا سکون، دنیا کے معاملات سے ہر قسم کی گھبراہٹ اور بے قراری سے دلی اطمینان، قناعت کی ٹھنڈک، بندے کا اپنے رب کی تقسیم پر خوش ہونے، اپنے آقا و مولیٰ کی دیکھ بھال پر خوش رہنے، ہر چیز میں اپنے مولیٰ کے سامنے سرتسلیم خم کرنے وہ جس میں بھی اسے مبتلا کرے اس پر راضی رہنے، اس کے احکام اور فیصلوں کو تسلیم کرنے اور اس کے حسن تدبیر اور کمال حکمت کا اعتقاد رکھنے جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ‘‘

(المدارج : ۲/۲۱۲)

ہر قسم کا نفع اور نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے، اس کا حکم ہی اصل حکم ہے، اس کی بادشاہی ہی اصل بادشاہی ہے اور ہر قسم کا معاملہ اسی کی طرف لوٹایا جاتا ہے۔ عزت و ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے، وہی بلند کرتا اور پست کرتا ہے، وہی تنگی اور کشادگی کرتا ہے، لہٰذا کوئی شخص اللہ کے اذن و حکم کے بغیر آپ کو نقصان پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتا اور نہ وہ اللہ کی اجازت کے بغیر آپ کو کوئی فائدہ ہی پہنچا سکتا ہے، جو وہ دینا چاہے اسے کوئی روک نہیں سکتا اور جو وہ روکنا چاہے اسے کوئی عطا نہیں کر سکتا۔

لہٰذا ہم ان کمزور مخلوقات سے کیوں ڈریں جبکہ وہ ربِ کائنات کے قبضے میں ہیں ؟ ہم اس مخلوق سے کیوں ڈریں جو نفع و نقصان کی مالک نہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ}  (۱۰؍یونس : ۱۰۷)

’’اور اگر اللہ آپ کو کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دُور کرنے والا نہیں اور اگر وہ آپ کے ساتھ کسی بھلائی کا ارادہ کر لے تو کوئی بھی اس کے فضل کو کوئی ہٹانے والا نہیں۔ ‘‘

نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :

{مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ}  (۳۵؍فاطر : ۲)

’’جو کچھ اللہ لوگوں کے لیے رحمت میں سے کھول دے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں اور جو بند کر دے تو اس کے بعد اسے کوئی کھولنے والا نہیں۔ ‘‘

(نیز دیکھیے :۳۹؍ الزمر : ۳۸)

عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’آگاہ رہیں ! اگر ساری دنیا کے لوگ آپ کو کوئی فائدہ پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو وہ ہرگز آپ کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے آپ کے مقدر میں لکھ دیا ہے اور اگر وہ آپ کو کوئی نقصان پہنچانے کے لیے جمع ہو جائیں تو وہ کبھی آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتے، مگر وہی جو اللہ نے آپ کے مقدر میں لکھ دیا ہے، قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔ ‘‘

(ترمذی، ح : ۲۵۱۶۔ امام ترمذیؒ  نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ )

حافظ ابنِ قیمؒ لکھتے ہیں :

’’اللہ سبحانہ و تعالیٰ ساری کائنات میں تصرف کرنے اور اختیار چلانے والا ہے، کوئی جھگڑا کرنے والا اس کی ملکیت میں جھگڑا نہیں کر سکتا اور نہ اس کا کوئی مقابلہ کرنے والا اس کا مقابلہ کر سکتا ہے، وہ گناہ کو معاف کرتا ہے، رنج و غم کو دُور کرتا ہے، مظلوم کی مدد کرتا ہے، ظالم کو پکڑتا ہے، قیدی کو چھڑاتا ہے، فقیر کو غنی کرتا ہے، ٹوٹے ہوئے کو جوڑتا ہے، بیمار کو شفا دیتا ہے، لغزش و غلطی کو معاف کرتا ہے، پردہ پوشی کرتا ہے، ذلیل کو عزت دیتا ہے، عزت والے کو ذلیل کرتا ہے، مانگنے والے کو دیتا ہے، کسی سے حکومت چھین لیتا ہے اور کسی کو عطا کر دیتا ہے، لوگوں کے لیے زمانے کو گھماتا ہے اور کئی قوموں کو بلند کرتا ہے تو کئی ایک کو گراتا ہے۔ ‘‘ (طریق الہجرتین وباب السعادتین، ص : ۵۲   ،          نوٹ:اس عظیم الشان کتاب کا اردو ترجمہ و تلخیص اور تحقیق از ڈاکٹر حافظ محمدشہبازحسن، مکتبہ اسلامیہ کی طرف سے شائع شدہ ہے۔ )

جس شخص نے یہ یقین کر لیا کہ معاملات کی باگ ڈور اللہ کے ہاتھ میں ہے اور نفع و نقصان اسی کی طرف سے ہے تو وہ آنے والی آزمائش سے پریشان نہیں ہوتا اور مخلوق یا آزمائشوں کے اسباب سے نہیں گھبراتا، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ ساری مخلوق محتاج ہے، اس پر اُسی کا حکم چلتا ہے اور پابند کرنے والا اور حکم چلانے والا اللہ جل جلالہ ہے۔

مخلوق اور مادی اسباب پر بھروسا نہ کریں، بلکہ توکل اور بھروسا اللہ کی ذات پر کریں اور کسی چھوٹی بڑی مخلوق کے ساتھ اپنی آرزو کو وابستہ نہ کریں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ  نے فرمایا:

’’اللہ کے غلام اور بندے پر لازم ہے کہ اس کا دل مادی اسباب میں سے کسی پر بھروسا نہ کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایسے اسباب میسر کر دے گا جو اس کی دنیا و آخرت کی اصلاح و درستگی کا باعث بنیں گے۔ ‘‘

(مجموع فتاوٰی : ۸/۵۲۸)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ}

(۸؍الانفال : ۶۴)

’’نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو بھی جو آپ کے پیچھے چلے ہیں۔ ‘‘

آپﷺ نے فرمایا:

((إذا سألت فاسأل اللّٰہ، وإذا استعنت فاستعن باللّٰہ۔ ))

(ترمذی، ح :۶ ۲۵۱)

’’جب تُو سوال کرے تو اللہ سے سوال کر اور جب تُو مدد مانگے تو اللہ سے مدد مانگ۔ ‘‘

ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ ابراہیمؑ کو جب آگ میں ڈالا گیا تو اُنھوں نے پڑھا:

حسبنا اللّٰہ ونعم الوکیل

(ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ )

اور محمدﷺ نے یہ اس وقت پڑھا جب لوگوں نے آپﷺ سے کہا:

{اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ }  (۳؍اٰل عمرٰن : ۱۷۳)

’’بے شک لوگوں نے تمھارے لیے (فوج) جمع کر لی ہے، ان سے ڈرو تو اس (بات) نے انھیں ایمان میں زیادہ کر دیا اور انہوں نے کہا:

ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ اچھا کارساز ہے۔ ‘‘  (بخاری : ۴۵۶۳)

لہٰذا آپ ہر چھوٹی بڑی آزمائش و مصیبت کے اترنے پر اللہ تعالیٰ پر ہی توکل و بھروسا کریں اور مخلوقات کو اس کی شکایت کرنے یا ان پر بھروسا کرنے سے بچیں۔

عمر بن خطابؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((لو أنکم کنتم توکلون علی اللّٰہ حق توکلہ، لرزقتم کما یرزق الطیر، تغدوا خماصا وتروح بطانا۔ )) (ترمذی :۲۳۴۴)

’’اگر آپ اللہ پر اس طرح توکل کریں جیسا کہ اس کا حق ہے تو آپ کو یوں رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو دیا جاتا ہے، وہ صبح کو نکلتے ہیں تو خالی پیٹ ہوتے ہیں اور شام کو لوٹتے ہیں تو ان کی پوٹیں بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ‘‘

الشیخ محمد بن صالح عثیمینؒ  نے {وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَہُوَ حَسْبُہٗ} (الطلاق : ۳) کی تفسیر میں فرمایا:

’’یہ جملہ شرطیہ ہے جو اپنے منطوق (مفہوم) کے ساتھ یہ فائدہ دیتا ہے کہ جو اَللہ پر توکل کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی پریشانیوں میں کافی ہو گا اور اس کے معاملات میں آسانی پیدا کر دے گا، پس اللہ تعالیٰ اسے کافی ہے، اگرچہ اسے کچھ تکلیف کا سامنا کرنا پڑے، اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف میں اسے کفایت کرے گا اور رسول اللہﷺ جو تمام لوگوں سے زیادہ توکل کرنے والے ہیں اس کے باوجود انھیں تکلیف پہنچتی ہے مگر انھیں اس کا نقصان نہیں ہوتا کیونکہ بلاشبہ اللہ انھیں کفایت کرتا ہے، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ جس شخص نے اللہ پر توکل کیا اللہ اس کی مشقت و تکلیف میں اسے کفایت کرے گا۔ ‘‘

(مجموع فتاوٰی و رسائل ابن عثیمین : ۱۰/۶۷۴)

اور جسے اللہ تعالیٰ کافی ہو جائے اور اسے اپنی حفاظت میں لے لے تو اس کا دشمن اسے میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا اور اسے صرف اتنی ہی تکلیف پہنچا سکتا ہے جس سے چھٹکارا ممکن نہ ہو، جیسے گرمی و سردی کا لگ جانا اور بھوک و پیاس میں مبتلا ہونا، رہا دشمن کا اسے اپنی حسبِ منشا نقصان پہنچانا تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔

اللہ تعالیٰ کے سوا سب کو چھوڑ کر صرف اسی اکیلے پر توکل و بھروسا کرنے کے درج ذیل فوائد و ثمرات ہیں :

۱:      اللہ پر سچا بھروسا کرنے والا اس کی معیت میں اسی طرح زندگی گزارتا ہے کہ اسے اللہ کے علاوہ کسی کا کوئی ڈر اور خوف نہیں ہوتا۔

۲:     جو اللہ پر توکل کرے گا اسے دنیا اور آخرت میں اطمینان، سکونِ قلب اور سعادت و نیک بختی نصیب ہو گی، پس اللہ پر توکل و بھروسا کرنے کا سچے مومنوں کے دلوں میں سکون و آرام بھرنے میں گہرا اثر ہے، بلکہ وہ مومنوں کے دلوں سے خوف کو دُور کر دیتا ہے اور انھیں روحانی قوت اور ابدی سعادت عطا کرتا ہے جن کے ساتھ وہ اپنے خوف اور مصائب و تکالیف کے ذریعہ پہنچنے والی بے چینی و بے قراری پر قابو پا لیتے ہیں۔

۳:     جو شخص اللہ پر بھروسا کرے گا اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کی ضرورت و محتاجی سے بے پروا کر دے گا۔

۴:     توکل کے ثمرات سے یہ بھی ہے کہ وہ مومن کے غنی ہونے اور اس کی عزت کا سبب بنتا ہے۔

۵:     جو شخص مخلوق بے پروائی اختیار کرتے ہوئے صبر کرے گا اور اللہ پر بھروسا کرتے ہوئے سوال وغیرہ سے بچے گا تو وہ کامیاب ہو جائے گا اور اپنی زندگی اور دیگر تمام معاملات میں نفع مند ہو گا۔ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۵۹۔ ۱۶۰)

جو غیر اللہ سے مدد مانگے گا اور اس کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ کرے گا یا اس کے علم و عقل سے مانوس ہو گا اور اس کے علاج اور گلے وغیرہ میں باندھے جانے والے تمیموں (اور تعویذوں ) سے راحت و سکون محسوس کرے گا اور اس کی قوت و طاقت پر اعتماد کرے گا تو اللہ تعالیٰ اسے اسی کے سپرد کر دے گا اور اسے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا اور اسے اس کی طرف سے اس کے ارادے کے بالکل الٹ اور برعکس دنیا و آخرت میں برائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جو شخص غیر اللہ سے مانوس ہوا اور اس پر اعتماد و بھروسا کیا یا مخلوق میں سے کسی ایسے کی طرف میلان اختیار کیا جو اس کے لیے تدبیر کرے تو اس کے سارے منصوبے خاک میں مل جائیں گے اور اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف سے بے یار و مددگار چھوڑ دے گا۔

مومن کو اللہ پر بھروسا ہوتا ہے، آزمائش کی لہریں اور فتنوں کی تیز آندھیاں اس کے اللہ پر اعتماد و بھروسے میں کوئی لغزش اور جنبش پیدا نہیں کرتیں۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ لَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَ رَسُوْلَہٗ وَ صَدَقَ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ مَا زَادَہُمْ اِلَّآ اِیْمَانًا وَّ تَسْلِیْمًا}   (۳۳؍الاحزاب : ۲۲)

’’اور جب مومنوں نے لشکروں کو دیکھا تو انہوں نے کہا یہ وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا تھا، اور اس چیز نے انھیں ایمان اور فرمانبرداری ہی میں زیادہ کیا۔ ‘‘

(نیز دیکھیے : اٰل عمرٰن : ۱۷۳۔ ۱۷۴)

انبیاء کے اپنے اللہ عزوجل پر بھروسے کو دیکھیے کہ اپنے سامنے سمندر کی موجیں اور اپنے پیچھے فرعون کی فوجیں دیکھ کر بھی موسیٰؑ کے پایۂ استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی بلکہ وہ پکار اٹھے :

{اِِنَّ مَعِی رَبِّی سَیَہْدِیْنِ}  (۲۶؍الشعراء : ۶۲)

’’بے شک میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ مجھے ضرور راستہ بتائے گا۔ ‘‘

اور جب مشرکین مکہ اس غار کے منہ تک پہنچ گئے جس میں نبیﷺ اور ابوبکرؓ چھپے ہوئے تھے تو ابوبکرؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! اگر ان میں سے کسی ایک نے اپنے قدموں سے نیچے کی طرف دیکھا تو وہ ضرور ہمیں دیکھ لے گا۔ تو آپﷺ نے فرمایا:

((ما ظنک باثنین اللّٰہ ثالثھما؟ لا تحزن إن اللّٰہ معنا))

( بخاری، ح : ۳۶۵۳، ۴۶۶۳)

’’(ابوبکرؓ!) آپ کا ان دو آدمیوں کے متعلق کیا خیال ہے جن کا تیسرا اللہ ہے ؟ غم نہ کریں، کیونکہ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘

(مختصر سیرۃ الرسول ﷺ، ص : ۹۴)

بلکہ آپﷺ کے اپنے رب تعالیٰ پر اور اس کے اس وعدے پر بھروسے کا مشاہدہ کریں جس کی وہ خلاف ورزی نہیں کرتا۔ جب آپﷺ کو اپنے شہر مکہ سے نکلنے پر مجبور کیا گیا اور آپﷺ ہجرت کرنے کے لیے مدینہ کی طرف عازم سفر ہوئے تو خطرات کے باوجود آپ کا اپنے رب پر کامل توکل اور مکمل حسنِ ظن تھا۔

آپ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھیں اور آگاہ رہیں کہ اس نے آپ کو عطا کرنے کے لیے آپ سے نعمتوں کو روکا اور آپ کو شفا بخشنے کے لیے آپ کو بیمار کیا ہے اور آپ کو عافیت دینے کے لیے آپ کو آزمائش میں مبتلا کیا ہے، لہٰذا آزمائش کے ساتھ وہ آپ کی تربیت کرے گا اور آپ کو ہلاکتوں سے نجات دے گا۔

اللہ تعالیٰ آپ کو بھلائی پہنچائے گا، خواہ وہ آپ کو گراں گزرے اور آپ کو نقصان دہ چیز سے دُور کرے گا، خواہ آپ کا نفس اس کی طرف کتنا ہی مشتاق ہو۔

وہ آپ کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ آپ کے صبر اور بہادری کا امتحان لے اور آپ کی گریہ و زاری اور دعا سنے، وہ آپ کو عذاب دینے اور ہلاک کرنے کے لیے آپ کو آزمائش میں مبتلا نہیں کرتا، لہٰذا آپ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھیں آپ ضرور بالضرور بھلائی، فتح و نصرت اور فوز و فلاح سے ہمکنار ہوں گے، جو شخص بھی اللہ سے حسن ظن رکھے گا وہ کبھی ذلیل اور نامراد نہیں ہو گا۔

ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((یقول اللّٰہ تعالٰی: أنا عند ظن عبدی بی، وأنا معہ إذا ذکرنی، فإن ذکرنی فی نفسہ، ذکرتہ فی نفسی، وإن ذکرنی فی ملاء ذکرتہ فی ملاء خیر منہم۔ ))

(بخاری، ح: ۷۴۰۵۔ مسلم، ح: ۲۶۷۵)

’’اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : مَیں اپنے بندے کے گمان کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہوں، جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو مَیں اس کے ساتھ ہوتا ہوں پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو مَیں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے ایک جماعت میں یاد کرے تو مَیں اسے ایسی جماعت میں یاد کرتا ہوں جو اُن (بندوں کی جماعت) سے بہتر ہے۔ ‘‘

مذکورہ حدیث قدسی میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ((أنا عند ظن عبدی بی)) ’’مَیں اپنے بندے سے اس کے میرے متعلق کیے ہوئے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہوں ‘‘ کے بارے میں قاضی شوکانیؒ  نے کہا ہے :

’’اس میں اللہ عزوجل کی طرف سے اپنے بندوں کے لیے ایک ترغیب ہے کہ وہ اپنے گمان کو اچھا کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے گمان کے مطابق ہی ان سے سلوک کرے گا، پس جو شخص اللہ کے متعلق اچھا گمان رکھے گا اللہ تعالیٰ اس پر وافر بھلائیاں نچھاور کرے گا، اس پر اچھے احسانات کرے گا اور اس پر اپنی خوبصورت کرامات اور بھرپور عطیات کی بارش برسائے گا اور جو اللہ کے ساتھ اس طرح کا اچھا گمان نہیں کرے گا تو اللہ بھی اس کے ساتھ اس طرح کا حسن سلوک نہیں کرے گا تو یہ مطلب ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا اپنے بندے کے گمان کے مطابق سلوک کرنے کا، لہٰذا بندے پر لازم ہے کہ وہ تمام حالات میں اپنے رب کے ساتھ حسن ظن رکھے۔ ‘‘  (تحفۃ الذاکرین، ص : ۱۷، ۱۸)

وہ تو صرف اس آزمائش کے ذریعہ میری تربیت کرنے اور میری حالت کو درست کرنے کا ارادہ رکھتا ہے یا وہ فلاں فلاں چیز سے میرا دل پاک کرنا چاہتا ہے یا وہ مجھ سے میرے گناہ، برائیاں اور خطائیں دُور کرنا چاہتا ہے اور اسی طرح دوسری کوتاہیاں دُور کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اللہ حکیم و علیم سبحانہ و تعالیٰ سے اس قسم کا گمان کرنا واجب ہے :

{اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآئُ اِنَّہٗ ہُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْمُ}  (۱۲؍یوسف : ۱۰۰)

’’بے شک میرا رب جو چاہے اس کی باریک تدبیر کرنے والا ہے، بلاشبہ وہی سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَاُفَوِّضُ اَمْرِیْ اِِلَی اللّٰہِ اِِنَّ اللّٰہَ بَصِیْرٌ بِالْعِبَادِ}  (۴۰؍المؤمن : ۴۴)

’’اور مَیں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں، بے شک اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔ ‘‘

یعنی مَیں اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہوں اور اسی کے سامنے پیش کر کے اس پر توکل و بھروسا کرتا ہوں کیونکہ وہ اس شخص کو کافی ہے جس نے اس پر توکل کیا۔

(تفسیر الطبری : ۱۱/۶۵)

جس نے اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کر دیا اور زیادتی کی امید یا نقصان کے خوف یا طلبِ صحت یا بیماری سے فرار کے لیے اپنے اختیار و تدبیر کو ترک کر دیا اور یہ جان لیا کہ اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے اور وہی اختیار و تدبیر میں یکا و تنہا ہے اور بندے کے حق میں اس کی تدبیر بندے کی اپنے لیے کی ہوئی تدبیر سے بہتر ہے اور وہ بندے سے زیادہ اس کی مصلحت کو جانتا ہے اور اس مصلحت کے حصول پر بندے سے زیادہ قادر ہے اور وہ بندے کے لیے خود اس سے بھی زیادہ خیر خواہ ہے اور اس سے بھی زیادہ اس پر رحم کرنے والا ہے اور خود اس سے زیادہ اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا ہے۔ نیز بندے نے اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی جان لیا کہ وہ اللہ کی تدبیر کے سامنے ایک قدم بھی نہیں چل سکتا، پس وہ اللہ کی قضا و تقدیر سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتا، یہ سمجھ کر اس نے اپنے آپ کو اَللہ کے سامنے پھینک دیا اور تمام تر معاملہ اسی کے سپرد کر دیا، وہ اللہ کے سامنے یوں پیش ہو گیا جس طرح ایک کمزور اور مملوک غلام طاقتور آقا کے سامنے اپنے آپ کو پیش کر دیتا ہے، اس طرح کہ اللہ کو اپنے بندے میں ہر قسم کا تصرف کرنے کا حق ہو اور بندے کو اپنی ذات پر کسی قسم کا تصرف کرنے کا حق نہ ہو تو تب وہ غموں، مشکلوں اور حسرتوں سے آرام پا جائے گا اور وہ اپنا بوجھ، حاجات اور مصلحتیں اس ذات کو اٹھوا دے گا جسے ان کے اٹھانے کی پروا نہیں ہے اور نہ وہ اس پر بوجھ ہے اور نہ اسے کوئی پریشانی اور پروا ہے۔

وہ بندے کی طرف سے ان کی ذمہ داری اٹھا لیتا ہے اور بندے کو اپنا لطف و کرم، حسن سلوک اور احسان و رحمت دکھاتا ہے، علاوہ اس کے کہ بندے کو ان کا کوئی اہتمام کرنا پڑے اور کسی قسم کی تھکاوٹ و مشقت کا سامنا کرنا پڑے، کیونکہ وہ اکیلا اس کا سارا اہتمام اور تمام فکر اپنے ذمہ لے لیتا ہے اور اس کی طرف سے اپنی حاجات اور دنیا کی مصلحتوں کے اہتمام کو پھیر دیتا ہے اور ان کی طرف سے اس کا دل فارغ کر دیتا ہے جس کی بنا پر اس کی زندگی کتنی عمدہ، دل کتنا تر و تازہ ہو جاتا ہے اور اس کی خوشی اور مسرت کی کوئی انتہاء نہیں رہتی۔

(الفوائد للإمام ابن القیم، ص : ۱۲۸، ۱۲۹)

پس جو شخص اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دے گا تو اس نے اپنا معاملہ اللہ کو سونپا اور اس کی حفاظت میں دیا اور اس کی پناہ میں رکھا جہاں اسے کسی سرکش دشمن کا ہاتھ نہیں چھو سکتا اور نہ کوئی باغی متکبر ہی اس کے خلاف کوئی کارروائی کر سکتا ہے۔  (المدارج : ۲/۳۲)

جس شخص نے اپنا تمام تر معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا تو اللہ تعالیٰ اسے رضا و خوشنودی اور یقین عطا کرے گا اور اسے اپنے معاملے کا ایسا اچھا انجام دکھائے گا جس کا خیال بھی کبھی اس کے دل میں نہ گزرا ہو گا۔

(التوبۃ وظیفۃ العمر، ص : ۲۶۷، للشیخ محمد إبراہیم الحمد)

اُمّ سلمہr سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اگر وہ یہ کہے جس کا اللہ نے اسے حکم دیا ہے :

((اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ، اَللّٰہُمَّ اَجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاخْلُفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا))

’’ ہم بھی اللہ کے لیے ہیں اور ہم (سب) اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں، اللہ! مجھے میری مصیبت کے بدلے اچھا اجر دیجیے اور مجھے اس کا نعم البدل عطا کر دیجیے۔ ‘‘

((إلا أخلف اللہ لہ خیرا منہا))

’’تو اللہ اسے پہلے سے بہتر بدل عطا کرے گا۔ ‘‘

اُمّ سلمہr کہتی ہیں کہ جب ابوسلمہؓ وفات پا گئے تو مَیں نے کہا: مسلمانوں میں سے ابوسلمہؓ سے بہتر کون ہوسکتا ہے ؟ (ابوسلمہؓ کا گھرانہ) وہ پہلا گھرانہ ہے جس نے اللہ کے رسول کی طرف ہجرت کی لیکن جب مَیں نے ابوسلمہؓ کی وفات پر مذکورہ دعا پڑھی تو اللہ نے مجھے بدلے میں رسول اللہﷺ عطا کر دیے۔ (مسلم، ح: ۹۱۸)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

{وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓئِکَ عَلَیْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَo}  (۲؍البقرۃ : ۱۵۵۔ ۱۵۷)

’’اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ وہ لوگ کہ جب انھیں کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو کہتے ہیں : بے شک ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقیناً ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ یہ لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی طرف سے کئی مہربانیاں اور بڑی رحمت ہے اور یہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں۔ ‘‘

دنیا اور آخرت میں اللہ سے بدلے کی امید رکھیں، اللہ سے اجر و ثواب کی امید رکھیں اور اس سے امید رکھیں کہ وہ آپ کو رضا و یقین کی مٹھاس عطا کرے۔ نیز اس سے عافیت کی امید رکھیں جیسے آپ نے اس آزمائش پر اجر و ثواب کی امید رکھی۔ جب آپ صبر کریں گے اور ثواب کی امید رکھیں گے تو عنقریب اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین بدلہ عطا کرے گا۔

انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ مَیں نے نبی اکرمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((ان اللّٰہ قال: إذا ابتلیت عبدی بحبیبتیہ فصبر، عوضتہ منہما الجنۃ۔ ))  (بخاری، ح: ۵۶۵۳)

’’اللہ فرماتے ہیں : جب مَیں اپنے بندے کو اُس کی دو پیاری چیزوں کے متعلق آزمائش میں مبتلا کرتا ہوں اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو مَیں اسے ان چیزوں کے بدلے جنت عطا کروں گا۔ ‘‘

ان دو چیزوں سے مراد اس کی دو آنکھیں ہیں۔

لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کو، جب وہ صبر کرے اور جو اُسے آزمائش پہنچی ہے اس پر ثواب کی امید رکھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاصْبِرْ اِنَّ الْعَاقِبَۃَ لِلْمُتَّقِیْنَo}  (۱۱؍ھود : ۴۹)

’’پس صبر کر، بے شک اچھا انجام متقی لوگوں کے لیے ہے۔ ‘‘

پس آپ گالی گلوچ سے تکلیف محسوس نہ کریں اور آپ کو طعن و تشنیع اور مذاق غمگین نہ کرے اور ظالموں، فاجروں اور منافقوں سے مت ڈریں، قابل تعریف انجام آپ کا ہی ہو گا، عنقریب ان کے اسباب منقطع ہو جائیں گے اور عنقریب اللہ کے حکم سے آپ کی ذلت عزت سے اور آپ کی کمزوری قوت سے بدل جائے گی۔ آپ پر فقط یہ لازم ہے کہ آپ یقین رکھیں کہ قابل تعریف انجام اس کا ہو گا جو اللہ سے ڈرتا ہے، پس یہ ایک ایسی جاری سنت ہے جو تبدیل نہیں ہوتی، مومنوں کے جیسے بھی حالات ہو جائیں انجام کار انہی کی مدد کی جائے گی، وہی کامیاب و کامران ہوں گے اور انہی کو حکومت اور اقتدار ملے گا۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۸۴)

کیونکہ اعتبار تو انجام کے کمال کا ہوتا ہے نہ کہ ابتدا میں نقص اور کمزوری کا۔

(دیکھیے : الاعراف : ۱۲۸۔ ۱۲۹، ۱۳۷، القصص : ۵۔ ۶)

حافظ ابنِ قیمؒ نے فرمایا:

’’کافر، فاجر اور منافق کو جو (بظاہر) عزت، نصرت اور اقتدار حاصل ہوتا ہے وہ اکثر مومنوں کی عزت، نصرت اور اقتدار سے مختلف ہوتا ہے بلکہ ان کی عزت، نصرت اور اقتدار کے باطن میں ذلت و رسوائی اور توڑ پھوڑ ہوتی ہے اگرچہ ظاہری حالت اس کے برخلاف ہو۔ ‘‘ (إغاثۃ اللہفان : ۲/۲۰۱)

تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لیے

امام حسن بصریؒ  نے فرمایا:

’’اگرچہ ان (کافروں، فاجروں اور منافقوں ) کو لے کر گھوڑے تیزی سے بھاگتے ہوں اور خچر آواز نکالتے ہوئے دوڑتے ہوں پھر بھی معصیت و نافرمانی کی ذلت ان کے دلوں میں موجود ہوتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ اپنی نافرمانی کرنے والوں کو ذلیل کرنے کے سوا کسی چیز کو نہیں مانتا۔ ‘‘  (ایضاً)

غور کریں کہ درج ذیل افراد میں سے قابل تعریف انجام کس کا ہوا:

٭     نوحؑ اور ان کی قوم۔

٭     موسیٰؑ اور فرعون۔

٭     نبیﷺ اور کفار قریش۔

٭     امام احمدؒ  اور ابن ابی داؤد۔

٭     امام ابن تیمیہؒ  اور ان کے مدمقابل۔

یہ چند مثالیں ہیں وگرنہ وہ تاریخی شواہد جو اللہ کی مذکورہ سنت پر دلالت کرتے ہیں بہت زیادہ ہیں۔ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۸۷)

اس کی تدبیر اور تقدیر میں کوئی خلل اور خرابی نہیں ہے، اس کے کام میں کوئی نقص یا کمی نہیں ہے اور اس کے افعال میں لغزش اور غلطی واقع نہیں ہوتی۔

(أسماء اللہ الحسنی، ص : ۱۲۸، أد۔ عمر الأشقر)

وہ جو فیصلہ بھی کرتا ہے اس میں کمال حکمت ہوتی ہے، وہ کسی کو دیتا ہے تو حکمت کے ساتھ اور کسی سے روکتا ہے تو حکمت کے ساتھ، وہ حکمت کے ساتھ ہی عزت و ذلت دیتا ہے، اس کے کسی کو اٹھانے اور گرانے میں بھی اس کی کمال حکمت ہی کارفرما ہوتی ہے۔ اسی طرح اس کے ہر فعل میں حکمت پنہاں ہے۔

کسی حکم اور فیصلے میں وہ کبھی ظلم نہیں کرتا اور وہ کسی پر بھی ظلم نہیں کرتا بلکہ وہ ظلم کرنے سے بلند و بالا ہے، پس اس کے اسمائے حسنیٰ اور اس کے افعال اس کی طرف ظلم کی نسبت کو روکتے ہیں اور وہ اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ صرف وہی کچھ کرے جو اس کی حکمت کے مطابق ہو۔ (الدعاء، محمد الحمد، ص : ۹۵، ۹۶)

آپ کو جو بھی آزمائش پہنچی اس میں عین مصلحت ہے۔ لہٰذا آزمائش کو خندہ پیشانی سے برداشت کریں اور دین کو تھامے رکھیں۔ آپ کا انجام بہت اچھا ہو گا اگرچہ اس میں کچھ تاخیر ہو جائے۔

مخلوقات کمزور اور ہیں، وہ نفع و نقصان کی مالک نہیں ہیں، نہ کسی موت کی مالک ہیں اور نہ زندگی کی اور نہ اٹھائے جانے کی اور نہ اجر و ثواب دینے اور نہ سزا و عذاب دینے کی مالک ہیں۔

دل میں لوگوں کا خوف رکھنا ان کی خوشنودی چاہنے اور ان کی ناراضی سے ڈرنے کی دلیل ہے۔

عائشہr سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((من ارضی اللہ بسخط الناس کفاہ اللہ، و من اسخط اللہ برضی الناس وکلہ اللہ الی الناس))

(صحیح ابن حبان، ح: ۲۷۷)

’’جس شخص نے لوگوں کی ناراضی کے بدلے اللہ کو خوش کر لیا تو اللہ اس کے لیے کافی ہو جائے گا اور جس نے لوگوں کی خوشنودی کے بدلے اللہ کو ناراض کر دیا اللہ اسے لوگوں کے حوالے کر دے گا۔ ‘‘

اس بات کو خوب سمجھ لیجیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نہ بدلنے والی سنت جاریہ ہے۔ جس نے مخلوق کی رضا کو اللہ کی رضا و خوشنودی پر ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اس پر اس شخص کو ناراض کر دیتا ہے جس کی رضا کو اس نے اللہ کی رضا پر ترجیح دی ہوتی ہے اور وہ اسے اس کی طرف سے بے یار و مددگار کر دیتا ہے اور اس کی کوشش و کاوش کو اس کے خلاف پلٹ دیتا ہے، پس اس کی تعریف کرنے والے کو اس کی مذمت کرنے والے بنا دیتا ہے اور جس کی رضا کو اس نے ترجیح دی ہوتی ہے اسے اس پر ناراض کر دیتا ہے تو نہ اسے مخلوق کی طرف سے اپنا مقصود حاصل ہوتا ہے اور نہ اپنے رب کی رضا کو ہی حاصل کر پاتا ہے۔ (المدارج : ۲/۲۸۶)

٭٭

 

                خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو فراموش نہ کریں

 

تمام حالات بالخصوص خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کو یاد رکھنا چاہیے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((تعرف الیہ فی الرخاء یعرفک فی الشدۃ۔ ))

(مسند أحمد : ۱/۳۰۸)

’’تم خوشحالی میں اللہ سے جان پہچان پیدا کرو اللہ تعالیٰ سختی کے وقت تم سے جان پہچان رکھتے ہوئے تمھاری حفاظت کرے گا۔ ‘‘

علامہ ابن رجبؒ  نے فرمایا:

’’یعنی جب بندہ اللہ سے ڈرتا ہے، اس کی حدوں کی حفاظت کرتا اور اپنی خوشحالی میں اس کے حقوق ادا کرتا ہے تو اس کی اللہ سے واقفیت ہو جاتی ہے اور اس کے اور اس کے رب تعالیٰ کے درمیان ایک خاص معرفت پیدا ہو جاتی ہے، پس اس کا رب سختی میں اسے یاد رکھتا ہے اور بندے کے خوشحالی میں اسے یاد رکھنے کی قدر کرتا ہے اور اللہ اس کی یاد گیری کی وجہ سے اسے سختیوں سے نجات دے دیتا ہے۔ یہ ایک خاص قسم کی معرفت ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کا قرب اور محبت حاصل کر لیتا ہے جس کے نتیجہ میں اللہ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے۔ ‘‘

ضحاک بن قیس نے کہا: آپ خوشحالی میں اللہ کو یاد کریں تو وہ آپ کو سختیوں میں یاد رکھے گا کیونکہ یونسؑ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے تو جب وہ مچھلی کے پیٹ میں گرفتار ہو گئے تو اللہ عزوجل نے فرمایا:

{فَلَوْلَا اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَo لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہِ اِِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَo}

(الصّٰفٰت : ۱۴۳، ۱۴۴)

’’پھر اگر یہ بات نہ ہوتی کہ بے شک وہ تسبیح کرنے والوں سے تھا۔ تو یقیناً اس کے پیٹ میں اس دن تک رہتا جس میں لوگ اٹھائے جائیں گے۔ ‘‘

فرعون سرکش بن کر اللہ کے ذکر کو بھولا رہا لیکن جب وہ غرق ہونے لگا تو اس نے کہا: اٰمَنْتُ’’ مَیں ایمان لایا‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ}  (۱۰؍یونس : ۹۱)

’’کیا اب؟ حالانکہ بے شک تُو نے اس سے پہلے نافرمانی کی اور تُو فساد کرنے والوں میں سے تھا۔ ‘‘  (جامع العلوم والحکم (۱/۴۷۵، ۴۷۶)

اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کے ساتھ ہے، وہ ان کی حفاظت کرتا ہے اور اپنی آنکھ کے ساتھ ان کی نگرانی کرتا ہے جو سوتی نہیں اور وہ اپنی نگرانی کے ساتھ ان کی حفاظت کرتا ہے، اور انھیں ان کے کمزور نفسوں کے سپرد نہیں کرتا بلکہ وہ ان کا دفاع کرتا ہے اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کرتا ہے اور ان کے دلوں میں ایمان و یقین پیدا کر کے ان سے تکلیف کو ہلکا کرتا ہے۔ فرمایا:

{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ}  (۱۶؍النحل : ۱۲۸)

’’بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور وہ جو نیکی کرنے والے ہیں۔ ‘‘

نیز فرمایا:

{لَا تَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا }  (۹؍التوبۃ : ۴۰)

’’(جب وہ اپنے ساتھی سے فرما رہے تھے ) غم نہ کریں، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘

مومن کا اللہ کی معیت اور ساتھ کو محسوس کرنا غم اور خوف کو دُور کرنے اور مایوسی کی جڑوں کو اکھاڑنے کا ضامن ہے۔

اور مومن کو غم اور خوف کیسے ہو جبکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ اسے دیکھ رہا ہے اور اس کی نگرانی کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ ہر آنے جانے والی چیز کو دیکھتا ہے، اور اس پر کائنات کی کوئی چیز مخفی نہیں۔

لہٰذا جب مومن کو اللہ کی معیت اور ساتھ کا شعور و یقین ہو تو اس کے بعد اسے کون سی چیز خوف زدہ کرسکتی ہے ؟ لہٰذا اے مومن! اللہ آپ کے ساتھ ہے، وہ آپ کا حمایتی ہے، وہ آپ کی مصیبت سے آگاہ ہے اور وہی اسے آپ کے مقدر میں کرتا ہے، وہ آپ کی حالت اور آپ کے مصائب سے آگاہ ہے، لہٰذا آپ خوف نہ کھائیں، نہ غم کریں اور نہ کسی قسم کی بے چینی اور بے قراری کا شکار بنو۔

{قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی}  (۲۰؍طٰہٰ : ۴۶)

’’فرمایا ڈرو نہیں، بے شک مَیں تم دونوں کے ساتھ ہوں، مَیں سن رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘

تو جب بھی آپ کے حیلے وسیلے تنگ پڑ جائیں اور آپ کی امیدیں منقطع ہو جائیں تو جان لیں کہ اللہ کا سہارا موجود ہے۔

جب اللہ کا سہارا موجود ہے تو آپ اس خفیہ چال سے پریشان نہ ہوں جو آپ کے متعلق چلی جا رہی ہے اور اس تدبیر سے مت گھبرائیں جو آپ کے متعلق سوچی جا رہی ہے، کیونکہ وہ چال اور تدبیر چلنے والے پر ہی بوجھ اور اس کی ہلاکت کا سبب بنے گی اور اللہ تعالیٰ بطور کارساز، حفاظت کرنے والا اور جاننے والا کافی ہے اور وہ ان کے اعمال کا احاطہ کرنے والا ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے : جو اپنے بھائی کے لیے گھڑا کھودے گا وہ خود ہی اس میں گرے گا۔

اللہ تعالیٰ نے کیا ہی خوب فرمایا:

{وَ لَا یَحِیْقُ الْمَکْرُالسَّیِّیُٔ اِلَّا بِاَہْلِہٖ}  (۳۵؍فاطر : ۴۳)

’’اور بری تدبیر اپنے کرنے والے کے سوا کسی کو نہیں گھیرتی۔ ‘‘

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{اِِنَّہُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًاo وَاَکِیْدُ کَیْدًاo فَمَہِّلِ الْکٰفِرِیْنَ اَمْہِلْہُمْ رُوَیْدًاo}

(۸۶؍الطارق : ۱۵۔ ۱۷)

’’بے شک وہ خفیہ تدبیر کرتے ہیں، ایک خفیہ تدبیر اور مَیں بھی خفیہ تدبیر کرتا ہوں، ایک خفیہ تدبیر۔ لہٰذا کافروں کو مہلت دیجیے، مہلت دیجیے انھیں تھوڑی سی مہلت۔ ‘‘(نیز دیکھیے : البقرۃ : ۹، النساء : ۱۴۲، المائدۃ : ۶۷، الانعام : ۱۲۳، ابرہیم : ۴۶، النحل : ۳۴، ۱۲۷، ۱۲۸، الحجر : ۹۵، النمل : ۵۰۔ ۵۱)

٭٭

 

                یہ سوچیں کہ زیادہ نقصان بھی ہوسکتا تھا

 

جب کوئی آفت و مصیبت نازل ہو تو اس سے برے احتمال کی توقع رکھیں جس کا آپ کو پہنچنا ممکن تھا، پھر اپنے آپ کو اس کے برداشت کرنے اور اسے قبول کرنے پر مطمئن کریں اور اسے ہلکا جاننے کی کوشش کریں، پس جب ایسی حالت میں آپ کو کوئی آفت و مصیبت پہنچے گی تو آپ اس حال میں اس کا سامنا کریں گے کہ آپ اس کے لیے چوکنے اور تیار ہوں گے اور جب وہ آپ کی توقع سے کم ہو گی تو یہ آپ کے لیے بہتر اور ایک نعمت ہے اور یہ ایک نفع بخش قاعدہ ہے۔

جو شخص اپنے قتل ہونے کی توقع رکھتا تھا اور اسے قتل کی بجائے قید کی سزا ہو گئی تو وہ اس پر اللہ کی تعریف کرے اور جس شخص کو یہ توقع تھی کہ بیماری کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹنا پڑے گا، مگر آپریشن کی وجہ سے ہاتھ کاٹنے کی نوبت نہ آئی تو وہ اس پر اللہ کی تعریف کرے اور جس شخص کو توقع تھی کہ اس کا سارا مال تلف اور ضائع ہو جائے گا تو وہ جزوی نقصان پر راضی رہے۔ اسی طرح اس کی مزید مثالیں ہیں۔

لہٰذا آپ اپنے آپ کو اپنی توقع سے زیادہ برے احتمال پر مطمئن کریں، اس طرح آپ راحت، اطمینان اور آسانی پائیں گے۔  (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۲۵)

٭٭

 

                اللہ حافظ!

 

اللہ تعالیٰ کی تمام حدود کی مکمل حفاظت کریں، احکام پر عمل کریں اور نواہی کو ترک کر دیں، اللہ تعالیٰ آپ کو تکلیفوں اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے گا۔

عبد اللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ ایک دن میں رسول اللہﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھا ہوا تھا تو آپﷺ نے فرمایا:

’’لڑکے ! مَیں آپ کو چند کلمات کی تعلیم دیتا ہوں (وہ یہ کہ) اللہ کی (حدود کو) حفاظت کریں، اللہ آپ کی حفاظت کرے گا، حدود اللہ کی پاسداری کریں تو اسے (ہر مشکل میں ) اپنے سامنے پائے گا، جب آپ سوال کریں تو اللہ سے سوال کریں اور جب آپ مدد طلب کریں تو صرف اللہ سے مدد طلب کریں۔ ‘‘

(ترمذی، ح:۶ ۲۵۱)

آپﷺ کے فرمان ’’احفظ اللّٰہ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی حدود، حقوق اور اوامر و نواہی کی حفاظت کریں۔ ان کی حفاظت کرنے کا مطلب ہے اللہ کے احکام کی اطاعت کرنا اور اس کے نواہی سے اجتناب کرتے ہوئے رک جائیں۔ پس کوئی شخص اللہ کے حکم و اجازت سے آگے بڑھ کر اس کے منع کردہ عمل کی طرف جانے کی کوشش نہ کرے۔ جس شخص نے یہ کام کیا تو وہ حدود اللہ کی حفاظت کرنے والوں میں سے ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب لاریب میں تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے :

{ہٰذَا مَا تُوْعَدُوْنَ لِکُلِّ اَوَّابٍ حَفِیْظٍo مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُنِیبٍo}  (۵۰؍ق : ۳۲، ۳۳)

’’یہ ہے جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا، ہر اس شخص کے لیے جو بہت رجوع والا، خوب حفاظت کرنے والا ہو جو رحمن سے بغیر دیکھے ڈر گیا اور اور رجوع کرنے والا دل لے کر آیا۔ ‘‘

مذکورہ بالا آیت کریمہ میں لفظ ’’حفیظ‘‘ کی تفسیر یوں کی گئی ہے کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کے احکام کی حفاظت کرنے والا اور گناہوں سے توبہ کرنے والا ہو۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۲۸۔ ۱۲۹)

اللہ تعالیٰ کے احکام میں سے جن کی حفاظت کرنا واجب ہے ان میں سے ایک بڑا حکم نماز ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:

{وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ یُحَافِظُوْنَo   ۷۰؍المعارج : ۳۴، ۳۵)

’’اور وہ جو اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں۔ ‘‘ (نیز دیکھیے : البقرۃ : ۴۰، ۱۵۲، المائدۃ : ۸۹، بنی اسراء یل : ۳۶، المومنون: ۱۔ ۶، النور : ۳۰، ۳۱، الاحزاب : ۳۵)

اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی اصلاح کی وجہ سے اس کی موت کے بعد اس کی اولاد کی بھی حفاظت کرتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے :

{وَ کَانَ اَبُوْہُمَا صَالِحًا} (۱۸؍الکہف : ۸۲)

’’اور ان کا باپ نیک تھا۔ ‘‘

ان دو بچوں کے مال کی حفاظت کی گئی اس لیے کہ ان کا باپ اصلاح یافتہ تھا۔

لہٰذا جو شخص حدود اللہ کی حفاظت کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہر حال میں اس کے ساتھ ہو گا، اسے اپنی پناہ میں رکھے گا، اس کی حفاظت کرے گا، اس کی مدد کرے گا اور ہر کام میں اسے سیدھا رکھے گا۔ انجام کار یہ ہو گا کہ وہ دنیا و آخرت میں سرخرو ہو گا۔

٭٭

 

                عمل کی سزا

 

دشمنوں کے مسلط ہونے اور آزمائشوں کے اترنے کا ایک سبب گناہوں کا ارتکاب ہے، لہٰذا ان سے تائب ہو کر ان کے برے انجام سے بچ جاؤ۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَمَا اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیکُمْ وَیَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ}

(۴۲؍الشورٰی : ۳۰)

’’اور جو بھی تمھیں کوئی مصیبت پہنچی تو وہ اس کی وجہ سے ہے جو تمھارے ہاتھوں نے کمایا اور وہ بہت سی چیزوں سے درگزر کر جاتا ہے۔ ‘‘

نیز فرمایا:

{فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمْ اَنَّمَا یُرِیْدُ  اللّٰہُ اَنْ یُّصِیْبَہُمْ بِبَعْضِ ذُنُوْبِہِمْ}

(۵؍المائدہ : ۴۹)

’’پھر اگر وہ پھر جائیں تو جان لیجیے کہ اللہ یہی چاہتا ہے کہ انھیں ان کے کچھ گناہوں کی سزا پہنچائے۔ ‘‘

(نیز دیکھیے ۳؍ اٰل عمرٰن : ۱۵۵، ۲۹؍ العنکبوت : ۴۰)

یعنی جان رکھیں ! ان پر اللہ کی قدرت اور حکمت کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان کے گزشتہ گناہوں کی وجہ سے انھیں ہدایت سے دُور کر دیتا ہے۔ (تیسیر العلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر (۲/۵۸)، محمد نسیب الرفاعی)

جو بندہ بھی اللہ کی نافرمانی کرے گا وہ اس کی سزا جلد یا بدیر ضرور پائے گا، اور یہ بہت بڑا دھوکا ہے کہ آپ گناہ کریں اور اللہ کی طرف سے حسن سلوک کی امید رکھیں، آپ یہ گمان کریں کہ آپ سے درگزر کیا گیا ہے اور آپ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو بھول جائیں :

{مَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓءً ا یُّجْزَ بِہٖ}  (۴؍النساء : ۱۲۳)

’’جو بھی کوئی برائی کرے گا اسے اس کی سزا دی جائے گی۔ ‘‘

اصل بات یہ ہے کہ سزا کبھی موخر ہو جاتی ہے۔

(دیکھیے : المقتنی العاطر من صید الخاطر، ص : ۱۰۵)

جب بندے پر ظلم کیا جائے، اسے نقصان پہنچایا جائے اور اس پر اس کے دشمن کو مسلط کر دیا جائے تو اس کے لیے ایسے حالات میں سچی توبہ سے زیادہ مفید کوئی چیز نہ ہو گی، اس کی سعادت و نیک بختی کی علامت یہ ہے کہ وہ اپنے آپ پراور گناہوں اور عیبوں پر نظر کرے، اور فکرمند ہو۔ گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اپنی اصلاح پر لگ جائے۔ پس اس کے پاس اترنے والی آزمائش و تکلیف پر فکر کرنے کے لیے کوئی وقت نہیں بچے گا، بلکہ وہ توبہ کرنے اور عیبوں کی اصلاح کا کام سر انجام دے گا اور اللہ تعالیٰ لازمی طور پر اس کی مدد، حفاظت اور دفعِ بلاء کا کام اپنے ذمہ لے لے گا، پس یہ بندہ کتنا سعادت مند ہے ؟ اور کتنی برکت والی ہے وہ آفت و مصیبت جو اس پر اتری ہے اور کتنا اچھا ہے اس پر اُس کا اثر کہ یہ اس کی وجہ سے تائب ہو گیا اور اپنی اصلاح کر لی اور اجر و ثواب سے نوازا گیا۔

مگر اس کی توفیق اور راہنمائی اللہ کے ہاتھ میں ہے، جو وہ دینا چاہے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جس چیز کو وہ روک دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں ہے، ہر شخص کو اس کی توفیق نہیں ملتی، کسی میں بھی اس مذکورہ انعام کو پہچان کر اس کا ارادہ کرنا اور اس پر قدرت پانا اور اس کے علاوہ بھی نیکی کرنے کی توفیق اور گناہ سے بچنے کی طاقت اللہ کے بغیر نہیں ہے۔

(لا تحزن(غم نہ کریں )، ص : ۳۱۷)

ضمیر جاگ ہی جاتا ہے، اگر زندہ ہو اِقبال

کبھی گناہ سے پہلے، تو کبھی گناہ کے بعد

سعادت و نیک بختی کا دارومدار، فلاح و کامیابی کی علامت اور نجات کا راستہ اللہ کی اطاعت، اس کے تقویٰ اور اس کے ساتھ وابستگی اور مضبوط تعلق قائم کرنے میں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

{وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ  ہُوَ مَوْلٰکُمْ  فِنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ}

(۲۲؍الحج : ۷۸)

’’اور اللہ کو مضبوطی سے پکڑو، وہی تمھارا مالک ہے، تو وہ اچھا مالک ہے اور اچھا مددگار ہے۔ ‘‘

{فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ اعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُہُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ فَضْلٍ وَّ یَہْدِیْہِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا}  (۴؍النساء : ۱۷۵)

’’پھر جو لوگ تو اللہ پر ایمان لائے اور اسے مضبوطی سے تھام لیا تو عنقریب وہ انھیں اپنی خاص رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انھیں اپنی طرف سیدھے راستے کی ہدایت دے گا۔ ‘‘  (اللّٰہ أہل الثناء والمجد، ص : ۴۵۳، ۴۵۴)

لہٰذا اللہ سے مضبوط تعلق ہی دنیا و آخرت میں سلامتی کی بنیاد ہے اور نجات، امن، عزت اور نصرت کی راہ ہے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب دوم

آزمائش اور تقدیر الٰہی

 

آپ اس مصیبت پر کیونکر غمگین ہوتے ہیں جو آپ کو پہنچی ہے حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ وہ مصیبت آپ کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی اور اس تقدیر کو آسمان و زمین کی تخلیق سے بھی پہلے لکھ دیا گیا تھا۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{مَا اَصَابَ مِنْ مُّصِیبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْ اَنْفُسِکُمْ اِِلَّا فِیْ کِتَابٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ o}  (۵۷؍الحدید : ۲۲)

’’کوئی مصیبت نہ زمین پر پہنچتی ہے اور نہ تمھاری جانوں پر مگر وہ ایک کتاب میں ہے، اس سے پہلے کہ ہم اسے پیدا کریں۔ یقیناً یہ اللہ پر بہت آسان ہے۔ ‘‘

اور نبی اکرمﷺ نے فرمایا:

((کتب اللّٰہ مقادیر الخلائق قبل أن یخلق السمٰوات والأرض بخمسین ألف سنۃ۔ ))  (مسلم، ح: ۲۶۵۳)

’’اللہ نے آسمان و زمین کی تخلیق سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیریں لکھ دی تھیں۔ ‘‘

حضرت عبادہ بن صامتؓ کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((إن أول ما خلق اللّٰہ القلم، فقال لہ: اکتب۔ قال: رب! وما ذا أکتب؟ قال: أکتب مقادیر کل شیء حتی تقوم الساعۃ۔ ))

(ابوداؤد، ح: ۴۷۰۰۔ ترمذی، ح:۲۱۵۵)

’’اللہ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اسے حکم دیا: لکھ! اس نے پوچھا: میرے رب! مَیں کیا کیا لکھوں ؟ اللہ تعالیٰ نے جواب دیا: قیامت تک ہر چیز کی تقدیر لکھ۔ ‘‘

لہٰذا جب آپ یہ سمجھ جائیں کہ جو مصیبت آپ پر نازل ہوئی ہے اللہ نے اسے آپ کے حق میں لکھ دیا تھا اور اسے آپ کے مقدر میں کر دیا تھا تو آپ اس سے مانوس ہو جائیں گے اور آپ کا دل ایسا مطمئن ہو جائے گا کہ اس میں قلق اور افسوس کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی لیکن اُس کے لیے اس مذکورہ قاعدہ پر غور کریں اور اسے اپنے دل میں بٹھا لیں تاکہ آپ اللہ کے حکم سے اس کا عجیب نتیجہ اور کرشمہ دیکھیں۔

مومن کا دل اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی بدولت ایک نعمت عظمیٰ سے مالا مال ہے، جس نعمت کا دنیا کی تمام نعمتیں مقابلہ نہیں کرسکتیں، بلکہ یہ ہر حال میں امن و اطمینان فراہم کرنے والی نعمت ہے اور کیسے نہ ہو جبکہ وہ جانتا ہے کہ جو مصیبت بھی اسے پہنچتی ہے وہ اس کے مقدر میں لکھی ہوئی ہے اور تقدیریں اللہ عزوجل کے حکم اور اس کی تدبیر سے جاری ہوتی ہیں اور ایسے ہی آفتیں اور مصیبتیں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت و ارادے سے ہی نازل ہوا کرتی ہیں۔

(الإیمان، للدکتور محمد نعیم یاسین، ص : ۱۲۵، ۱۲۶)

ارشادِ نبوی ہے :

((فَتَعَلَمْ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَان مَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبُکَ، وَاِنَّکَ اِنْ مِتَّ عَلٰی غَیْرِ ھٰذَا دَخَلْتَ النَّارَ))

(ابن ماجۃ، ح: ۷۷۔ ابو داؤد، ح: ۴۶۹۹)

’’تو جان لیجیے کہ جو مصیبت آپ کو پہنچی ہے وہ آپ سے چوک نہیں سکتی تھی اور جو آپ سے چوک گئی وہ آپ کو پہنچ نہیں سکتی تھی، اگر آپ اس ( تقدیر) پر ایمان لائے بغیر مر گئے تو آپ آگ میں داخل ہوں گے۔ ‘‘

ابو حفصہ سے مروی ہے کہ عبادہ بن صامتؓ نے اپنے بیٹے سے کہا:

یَا بُنَیَّ اِنَّکَ لَنْ تَجِدَ طَعْمَ حَقِیْقَۃِ الْاِیْمَانِ حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَ، وَمَا أَخْطَأَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُصِیْبُکَ

(ابو داؤد، ح: ۴۷۰۰)

’’میرے بیٹے ! آپ حقیقت ایمان کے ذائقہ کو ہرگز چکھ نہیں سکتے یہاں تک کہ آپ جان لیں (اور جان کر مان لیں ) کہ جو مصیبت آپ کو پہنچی وہ آپ سے چوکنے والی نہ تھی اور جو آپ سے چوک گئی وہ آپ کو پہنچ نہیں سکتی تھی۔ ‘‘

علامہ محمد بن صالح عثیمینؒ  نے حضرت عبادہؓ کے اس فرمان حَتّٰی تَعْلَمَ أَنَّ مَا أَصَابَکَ لَمْ یَکُنْ لِیُخْطِئَکَکی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:

’’اس عبارت کو درجِ ذیل دو معنوں میں کسی ایک یا دونوں پر محمول کیا جائے گا:

(۱)۔ ۔ ۔ ’’مَا أَصَابَکَ‘‘ کا معنی یہ ہے کہ جو مصیبت اللہ نے آپ کے مقدر میں کی ہے۔ یہاں پر تقدیر کو لفظ ’’إصابہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے، کیونکہ اللہ نے جو تقدیر مقرر کی ہے وہ عنقریب واقع ہونے والی ہے، پس جو مصیبت آپ کو پہنچانا اللہ نے مقدر کیا ہے آپ جو اسباب بھی اختیار کر لیں وہ مصیبت آپ سے چوک نہیں سکتی۔

(۲)۔ ۔ ۔ جو مصیبت آپ کو پہنچنے والی ہے تو یہ نہ سوچیں کہ وہ آپ سے چوک جائے گی، پس آپ ایسا نہ کہیں کہ اگر مَیں ایسے کرتا تو یہ مصیبت نہ پہنچتی، کیونکہ جو مصیبت آپ کو اب پہنچی ہے اس کا آپ سے چوک جانا ممکن نہیں تھا۔ لہٰذا وہ ساری تقدیریں جو آپ کے مقدر میں کی گئی ہیں۔ اور آپ کہتے ہیں : اگر مَیں ایسے کرتا تو مجھے یہ مصیبت نہ پہنچتی، وہ تو اوہام و خیالات ہیں جو کچھ اثر نہیں رکھتے۔ بہرحال جو بھی مفہوم ہو دونوں صورتوں میں معنی درست ہے۔ لہٰذا اللہ نے بندے کے مقدر میں جو مصیبت لکھی ہوئی ہے وہ اسے پہنچنے ہی والی ہے، اس سے مصیبت کا چوکنا ممکن نہیں ہے اور جو مصیبت بھی انسان کو پہنچی اسے کوئی چیز ہرگز روکنے والی نہیں ہے۔ جب آپ اس طرح کا ایمان لے آئیں گے تو آپ ایمان کا ذائقہ چکھ لیں گے، کیونکہ آپ مطمئن ہو جائیں گے اور آپ یہ جان لیں گے کہ یہ معاملہ اسی طرح ہونے ہی والا تھا، جیسا کہ وہ واقع ہوا ہے اور اسے کسی بھی صورت میں بدلا نہیں جا سکتا۔ ‘‘

(مجموع فتاوٰی و رسائل الشیخ محمد بن صالح عثیمینa: ۱۰/۱۰۰۶، ۱۰۰۷)

پس آپ پختہ یقین کر لیں کہ جو بھی مصیبت آپ کو پہنچی ہے وہ آپ سے چوک نہیں سکتی تھی، چاہے آپ کیسے ہی اسباب اختیار کر لیں آپ کے بس میں نہیں کہ آپ اس سے بچ سکیں یا اس مصیبت کے اترنے کو روک سکیں، وہ نازل ہونے والی ہے اور ہر صورت میں نازل ہو کر رہے گی۔ جب آپ یہ یقین کر لیں گے تو آپ کا نفس آرام پا جائے گا اور آپ کا دل مطمئن ہو جائے گا اور حزن و ملال رفع ہو جائے گا۔

پس آپ سارے خیالات کو چھوڑ دیں اور مت کہیں : اگر مَیں ایسے کرتا تو مجھے اس مصیبت کا سامنا نہ کرنا پڑتا، یا اگر مَیں ایسے نہ کرتا تو مجھے یہ معاملہ درپیش نہ ہوتا کیونکہ یہ سارے غلط افکار ہیں، کیونکہ آپ کے بس میں نہیں ہے کہ آپ ان چیزوں سے کبھی بچ سکیں جو آپ کے مقدر میں ہیں اور یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ اللہ کی تقدیر آپ سے چوک جائے۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۳۶)

جب بندے کے دل میں یہ پختہ یقین بیٹھ جائے کہ جو مصیبت بھی اسے پہنچی ہے وہ اس سے کبھی بچ نہیں سکتا تھا تو آزمائشیں اور تکالیف اسے پریشان نہیں کرسکتیں۔ پھر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر فیصلہ عدل و حکمت پر مبنی ہوتا ہے اور وہ جو چاہتا ہے حکم صادر کرتا ہے جیسا کہ اس نے خود فرمایا ہے :

{اِنَّ اللّٰہَ  یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ}  (۵؍المائدہ : ۱)

جس کی شان و عظمت یہ ہے تو اس اللہ جل جلالہ کے افعال کے سامنے سرتسلیم خم کر دینا چاہیے۔

{لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ہُمْ یُسْئَلُوْنَ}  (۲۱؍الانبیاء : ۲۳)

’’اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھا جاتا ہے۔ ‘‘

آیات و احادیث اسی امر پر دلالت کرتی ہیں اور یہ ایسا معاملہ ہے جس کا بیان بہت طویل ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے درجِ ذیل فرمان سے اس کی مثال دی جا سکتی ہے :

{اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ وَ  اِنْ تَکُ حَسَنَۃً یُّضٰعِفْہَا وَ یُؤْتِ مِنْ لَّدُنْہُ  اَجْرًا عَظِیْمًا}  (۴؍النساء : ۴۰)

’’بے شک اللہ ایک ذرّے کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر ایک نیکی ہو گی تو اسے دوگنا کر دے گا اور اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔ ‘‘

جب اللہ کا عدل و انصاف کامل و مکمل ہے تو اللہ جل جلالہ اپنی کائنات اور مخلوقات میں جو بھی تصرفات کرتا ہے ہمیں چاہیے کہ ان کے حوالے سے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیں اور اس کی فرمانبرداری اختیار کریں اور مسئلہ تقدیر کی مخالفت کر کے جہالت اور بدبختی کی بنا پر اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں۔ (الأمن النفسی، ص : ۵۴، ۵۵)

ارے مسلمان! اللہ تعالیٰ جانتا ہے آپ نہیں جانتے اور آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ عدل و انصاف پر مبنی ہے جیسا کہ ایک طویل دعا میں آپﷺ نے فرمایا:

((مَاضٍ فِیَّ حُکْمُکَ، عَدْلٌ فِیَّ قَضَائُکَ۔ ))

(مسند أحمد : ۱/۳۹۱)

’’مجھ پر تیرا حکم جاری ہونے والا ہے، میرے متعلق تیرا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے۔ ‘‘

لہٰذا اللہ کے عدل و انصاف پر راضی ہو جائیں کیونکہ وہ تمام رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا اور تمام فیصلہ کرنے والوں سے زیادہ بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ سے بھی زیادہ آپ کی مصلحت کو جاننے والا ہے۔

٭٭

 

                ماضی کے غم

 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{لِّکَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا مَآ اَصَابَکُمْ}  (۳؍اٰل عمرٰن  : ۱۵۳)

’’تاکہ تم نہ اس پر غمزدہ ہو جو تمھارے ہاتھ سے نکل گیا اور نہ اس پر جو تمھیں مصیبت پہنچی۔ ‘‘

نیز فرمایا:

{وَ لَا تَہِنُوْا وَ لَا تَحْزَنُوْا}  (۳؍اٰل عمرٰن : ۱۳۹)

’’اور نہ کمزور بنو اور نہ غم کرو۔ ‘‘

اور نبی ﷺ غم و حزن سے پناہ مانگتے :

(( أَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحُزْنِ، وَالْعَجْزِ وَالْکَسْلِ، وَالْبُخْلِ وَالْجُبْنِ وَضَلَعِ الدَّیْنِ وَغَلَبَۃِ الرِّجَالِ))

(بخاری، ح: ۶۳۶۳)

’’اللہ! مَیں غم و حزن، کمزوری اور سستی، بخیلی اور بزدلی، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

پس غم کرنے کا کیا فائدہ جب وہ غم مصیبت کو رفع نہیں کرتا، نہ اسے دُور کرتا ہے اور نہ اسے ہلکا ہی کرتا ہے، بلکہ غم کرنے سے مصیبت میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور دل تکلیف اور حسرت سے بھر جاتا ہے۔ پھر اس ماضی پر غم کرنے کا کیا فائدہ جو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا اور نہ اسے لوٹانے کی کوئی طاقت ہی رکھتا ہے ؟

لہٰذا آپ ایسی آزمائش پر غم نہ کریں جو آئی اور ختم ہو گئی اور ایسی مصیبت پر جلتے ہوئے افسوس نہ کریں جو واقع ہوئی اور اٹھ گئی۔ یاد رکھیں ! اگر آپ آزمائش مصیبت پر غم و افسوس کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو آپ اپنے غم اور حسرت میں اضافہ کریں گے۔

لہٰذا جب آپ کا غم ایسی غلطیوں اور کمزوریوں پر ہے جو آپ سے سرزد ہوئیں تو آپ اس کام میں جو سرزد ہوا اور ختم ہو گیا آپ معذور ہیں، کیونکہ وہ آپ پر لکھا ہوا تھا اور اللہ کی تقدیر کے ساتھ آپ پر وارد ہونے والا ہے، لہٰذا آپ غم و افسوس کرنے سے باز آ جاؤ۔ آپ کے لیے اس غم کا دفاع کرنے کا ایک اور ذریعہ بھی ہے، اور وہ یہ ہے کہ آپ اپنی موجودہ حالت کی اصلاح کریں اور عمر کے باقی ماندہ حصے میں اپنی اصلاح کرنے کا عزم کریں، پس جب آپ اپنی موجودہ حالت کی اصلاح کر لیں گے تو اللہ کے حکم سے آپ کے دل سے افسوس ناک ماضی پر غم و فکر دُور ہو جائے گا۔

اور اگر آپ کا غم و افسوس ان مصائب و تکالیف کی وجہ سے ہے جو ماضی میں آپ کو پہنچیں تو اسی طرح وہ بھی آپ کے مقدر میں لکھی ہوئی تھیں اور آپ پر ضروری ہے کہ آپ اس حقیقت کو سمجھیں کہ اللہ عزوجل حکمت والا اور باریک بین ہے، وہ آپ پر آزمائش کو دائمی اور ابدی نہیں بنائے گا۔ پس آپ اللہ سے امید رکھیں کہ وہ آپ کو خوشحالی، نعمت اور کامل صحت و عافیت سے نوازے گا اس وجہ سے جو آپ نے ماضی میں واقع ہونے والی آزمائش پر صبر کیا ہے۔ لہٰذا گزری ہوئی آزمائش پر غم کرنا چھوڑ دیں اور اپنی باقی ماندہ زندگی میں کامل صحت یابی اور مبارکبادی کے لائق اعمال کی امید رکھیں۔

آپ پر واجب ہے کہ ماضی میں پہنچنے والی آزمائش و مصیبت پر غمگین ہونے کی بجائے غم و فکر کو دُور کریں کیونکہ ماضی کے مصائب و تکالیف پر غمگین ہونے کا سرے سے کوئی فائدہ نہیں ہے، وہ محض اللہ کی تقدیر کے ساتھ آپ پر واقع ہو گئیں اور وہ اب کبھی نہیں لوٹیں گی، لہٰذا ان پر غم و افسوس کرنا محض ضرر و نقصان کا باعث ہے۔

مسلمان! آگاہ رہیں کہ شیطان دھوکے سے یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ آپ کے غمناک ماضی کی فائل اور ریکارڈ آپ کی یادداشت میں کھولے رکھے تاکہ آپ اس پر غم و فکر کرتے رہیں اور اوپر سے آپ کو اس خوش فہمی میں مبتلا کرتا ہے کہ آپ اپنے اس عمل میں حق پر ہو اور آپ کو ماضی پر غور و فکر کرنے سے فائدہ ہو گا اور پھر آپ تھوڑا سا فکر کر کے جب چاہیں اسے ترک کر دینا۔

یاد رکھیں ! یہ سب شیطانی حیلے ہیں جن کے ذریعہ وہ آپ کو اوہام، خیالات اور غموں کے پھندے میں پھنساتا ہے جس سے آپ کا چھوٹنا مشکل ہو گا، لہٰذا پہلے پہل ہی شیطان کی یہ راہ بند سیکھیں اور حتی الوسع اپنے ذہن پر غموں کو سوار نہ ہونے دو، کیونکہ ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے۔ ‘‘ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۵۳۔ ۵۵)

٭٭

 

 

                مستقبل کا مقدر

 

صرف وہی کچھ وقوع پذیر ہو گا جو اللہ کا ارادہ ہے اور جو اس نے آپ کے مقدر میں کیا ہے، پس آپ مستقبل سے اور نہ کسی ایسی چیز سے ہی ڈریں جس کا مستقبل میں آپ کو پہنچنے کا امکان ہے، لہٰذا اس سے نہ ڈریں کہ آپ کو فقر و فاقہ آ جائے گا، نہ اس سے کہ آپ کو کوئی بیماری لگ جائے گی اور نہ اس کے علاوہ کسی چیز کا خوف ہی کھائیں، بلکہ جان رکھیں ! آپ کو صرف وہی کچھ لاحق ہو گا جو آپ کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے اور اگر روئے زمین کے جن اور انسان مل کر آپ کو کوئی ایسی تکلیف دینا چاہیں جو اللہ نے آپ کے مقدر میں نہیں لکھی تو وہ کبھی آپ کو وہ تکلیف نہیں دے سکیں گے۔

پس آپ اس عظیم قاعدے اور نسخے کو یاد رکھیں آپ کا دل مطمئن اور پرسکون ہو جائے گا اور جو اللہ کل آپ کے غم میں آپ کو کافی ہوا تھا وہ مستقبل کے غم میں بھی آپ کو کافی ہو گا، لہٰذا آپ ٹھنڈی آنکھوں اور مطمئن دل کے ساتھ سو رہیں جب تک آپ کو یہ یقین ہو کہ آپ کا مستقبل اللہ کے ہاتھ میں ہے اور جان لیں ! مستقبل میں آپ کو صرف وہی کچھ ہو گا جو اللہ نے آپ کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَآ اِلَّا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَنَا ہُوَ مَوْلٰنَا وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَo}  (۹؍التوبۃ : ۵۱)

’’فرما دیجیے ! ہمیں ہرگز کوئی نقصان نہ پہنچے گا مگر جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہی ہمارا مالک ہے اور اللہ ہی پر پس لازم ہے کہ ایمان والے بھروسا کریں۔ ‘‘

اس ایمان میں دل کا اطمینان اور بدن، نفس اور اعصاب کا سکون ہے اور غمـ و فکر سے چھٹکارا ہے، پس میرا نفس نہیں بکھرے گا، میرے اعصاب میں تناؤ نہیں آئے گا اور مجھے کسی قسم کی وحشت و تنہائی اور توڑ پھوڑ محسوس نہیں ہو گی، بلکہ مجھے تو صرف رضا و خوشنودی، اطمینان، سعادت، راحت، سکون، یقین کی پختگی، آنکھوں کی ٹھنڈک، ضمیر کا اطمینان، سینے کا کھل جانا اور اللہ کی رحمت، عدل، علم اور حکمت پر اطمینان جیسی چیزیں حاصل ہوں گی جو وسوسوں اور کھٹکوں سے بچاتی ہیں۔ (الإیمان، محمد نعیم یاسین، ص : ۱۲۸، ۱۲۹)

پس مستقبل پر کوئی خوف نہیں رہتا اور نہ مستقبل میں کسی چیز کے متوقع ہونے سے ڈر رہتا ہے، بلکہ روشن خیال و آرزو اور نہ ڈگمگانے والا یقین ہوتا ہے کہ مستقبل صرف اللہ اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، کسی اور کے ہاتھ میں نہیں۔  (لا تحزن، ص : ۳۷۸)

٭٭

 

                ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے

 

آزمائش کی ایک مدت ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرسکتی اور ایک وقت ہے جس سے وہ پیش قدمی نہیں کرسکتی، پس جب مقدر چیز کا وقت آ جاتا ہے تو اس سے ایک لمحہ کی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی، تکلیف کا ایک وقت ہے جس کے بعد وہ زائل ہو جاتی ہے اور اس کی ایک مدت ہے پھر وہ ٹل جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کی ایک مقدار مقرر کر رکھی ہے۔

(ہکذا حدثنا الزمان، ص : ۲۲۳، ۲۲۴، د۔ عائض القرنی)

سختی اور مصیبت بیماری کی طرح ہے اور اس بیماری کے لیے لازمی طور پر ایک مدت ہے جس کے بعد وہ زائل ہو جائے گی، جس نے اس کے زائل ہونے میں جلدی سے کام لیا تو عنقریب وہ بیماری بڑھ جائے گی اور سنگین ہو جائے گی۔ اسی طرح مصیبت اور سختی کا بھی ایک وقت مقرر ہے جس کے گزر جانے پر اس کے نشانات مٹ جائیں گے، لہٰذا مصیبت میں مبتلا شخص پر واجب ہے کہ وہ صبر سے کام لے، مصیبت کے ٹل جانے کا انتظار کرے اور مسلسل دعا کرتا رہے۔ (لا تحزن، ص : ۹۶، د۔ عائض القرنی)

اور جس نے آزمائش کے ٹلنے کو جلدی طلب کیا جبکہ اس آزمائش کا زمانہ لمبا ہو گیا اور اس کا ٹلنا دُور ہو گیا تو وہ بے چین و مضطرب ہو کر بزدل بن جائے گا اور اپنے آپ کو برباد کر لے گا، کیونکہ وہ یہ ایمان ہی نہیں رکھتا کہ مصیبت کا ایک محدود زمانہ ہے جو اس سے ختم ہونے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ اِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکَ اِعْرَاضُہُمْ فَاِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ تَبْتَغِیَ نَفَقًا فِی الْاَرْضِ اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ فَتَاْتِیَہُمْ بِاٰیَۃٍ وَ لَوْ شَآءَ اللّٰہُ لَجَمَعَہُمْ عَلَی الْہُدٰی}

(۶؍الانعام : ۳۵)

’’اور اگر آپ پر ان کا منہ پھیرنا بھاری گزرا ہے تو اگر آپ کرسکیں تو زمین میں کوئی سرنگ یا آسمان میں کوئی سیڑھی ڈھونڈ نکالیں، پھر ان کے پاس کوئی نشانی لے آئیں (تو لے آئیں ) اور اگر اللہ چاہتا تو یقیناً انھیں ہدایت پر جمع کر دیتا۔ ‘‘

٭٭

 

 

                تقدیر پر راضی رہیں

 

اللہ کی تقدیر و فیصلے پر ناراض ہونے سے بچیں اور جان لیں کہ اللہ کی تقدیر و فیصلے پر ناراض ہونا فکر، غم، حزن، دل کے منتشر ہونے، بدحال ہونے اور اللہ کے متعلق ایسے گمان کا دروازہ کھول دیتا ہے جو اس کے لائق نہیں ہے۔ (مدارج السالکین : ۲/۲۰۰)

٭     جب بندہ اپنے مقدر پر ناراض اور غصے ہوتا ہے تو اس کا غم، فکر اور صدمہ بڑھ جاتا ہے۔

٭     مقدر پر ناراضی انسان پر مایوسی کا دروازہ کھول دیتی ہے اور اس کے سامنے امید و آرزو کا دروازہ بند کر دیتی ہے۔ تصور کریں کہ مایوسی کی حالت کس قدر غم ناک ہو گی؟

٭     جب وہ اپنے مقدر پر ناراض ہو گا تو اسے (صبر کرنے کا) اجر و ثواب نہیں ملے گا، بلکہ اس کا گناہ بڑھ جائے گا اور اس کی برائیوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔

٭     جب بندہ اپنے مقدر پر ناراض ہوتا ہے تو اس پر اس کا رب ناراض ہو جاتا ہے اور جب اس کا رب ہی اس پر ناراض ہو گیا تو اس کے لیے اس کے بعد کون سی فلاح و کامیابی کی امید کی جا سکے گی؟

٭     جب وہ آزمائش سے ناراض ہوتا ہے تو اس پر آزمائش کی تکلیف بڑھ جائے گی اور آزمائش پر ناراضی اس سے آزمائش کی تکلیف کو کچھ بھی کم نہیں کرے گی۔

٭     جب انسان آزمائش پر ناراض ہوتا ہے تو اس آزمائش کے ٹل جانے کے بعد اس کے لیے کسی اچھے انجام کی امید نہیں کی جا سکے گی اور وہ آزمائش کے وہ ثمرات حاصل نہیں کر پائے گا جو ثمرات صبر کرنے والے، ثواب کی امید رکھنے والے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے لوگ حاصل کرتے ہیں۔

٭     جب وہ اس آزمائش پر ناراض ہو گا تو جو آزمائش اس کے بعد آئے گی وہ لازمی طور پر اس سے زیادہ تکلیف دہ اور غم ناک ہو گی۔  (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۵۸۔ ۵۹)

٭٭٭

 

 

 

 

باب سوم

آزمائشوں میں خیر و برکات کے پہلو

 

آزمائشوں اور مشکلات میں خیر و برکت کے بہت سے پہلو بھی پوشیدہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَاُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَقٰتَلُوْا وَقُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْہُمْ سَیِّاٰتِہِمْ}  (۳؍اٰل عمرٰن : ۱۹۵)

’’تو وہ لوگ جنھوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور انھیں میرے راستے میں ایذا دی گئی اور وہ لڑے اور قتل کیے گئے، یقیناً میں ان سے ان کی برائیاں ضرور دُور کر دوں گا۔ ‘‘

رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’جس مسلمان کو بیماری یا اس کے علاوہ کسی اور چیز کی وجہ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ ایسے ہی گرا دیتا ہے جیسے درخت اپنے پتے گرا دیتا ہے۔ ‘‘ (بخاری، ح: ۵۶۶۰)

ابوہریرہؓ نبیﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

((مَا یُصِیْبُ الْمُؤْمِنَ مِنْ وَصَبٍ وَلَا نَصَبٍ وَلَاسَقَمٍ وَلَا حُزْنٍ حَتَّی الْھَمَّ یُھِمُّہُ إِلَّا کَفَّرَ مِنْ سَیِّاٰٰتِہِ))

(بخاری، ح: ۵۶۴۱۔ مسلم، ح: ۲۵۷۳)

’’مومن کو جو بھی درد، تھکاوٹ، بیماری اور پریشانی پہنچتی ہے حتیٰ کہ وہ غم جو اسے پریشان کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان کے عوض اس کی خطائیں معاف کر دیتا ہے۔ ‘‘

جابر بن عبد اللہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ أم سائب یا أم مسیب کے پاس گئے اور فرمایا:

’’ام سائب! یا اے ام مسیب! آپ کانپ رہی ہو! کیا بات ہے ؟ اس نے کہا: مجھے بخار ہے، اللہ اسے برکت نہ دے ! آپ نے فرمایا: بخار کو گالیاں مت دو، یہ اولادِ آدم کی خطائیں اسی طرح صاف کر دیتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کی میل کچیل دُور کر دیتی ہے۔ ‘‘  (مسلم، ح: ۲۵۷۵)

ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((ما یزال البلاء بالمؤمن والمؤمنۃ فی نفسہ وولدہ ومالہ حتی یلقی اللّٰہ وما علیہ خطیئۃ۔ ))

(ترمذی، ح: ۲۳۹۹۔ امام ترمذیؒ  نے اسے حسن صحیح کہا ہے۔ )

’’مومن مرد و عورت اپنے نفس، اولاد اور مال کی آزمائش میں مبتلا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ کو اِس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا۔ ‘‘

آفت زدہ مومن! اللہ تعالیٰ اس آفت و تکلیف کی وجہ سے آپ کے گناہوں کو ہلکا کر دے گا، آپ کی خطائیں مٹا دے گا لہٰذا آپ پریشان نہ ہوں۔  لا بأس طہور ان شاء اللّٰہ۔

٭٭

 

                آزمائش اور تربیت

 

مومن کا سختی اور مصیبت میں مبتلا ہونا لازمی ہے، لہٰذا جب وہ اسے برداشت کرتے ہوئے آگے بڑھے گا تو یہ سختیاں اور مصائب عطیات اور نعمتیں بن جائیں گی اور وہ مشقتیں اس کے حق میں معاون و مددگار بن جائیں گی۔ یہ عام و خاص کے تجربہ سے ثابت ہے کہ جب بھی بندے نے مخلوق کی رضا پر اللہ عزوجل کی رضا و خوشنودی کو ترجیح دی، اس کے بوجھ اور مشقت کو برداشت کیا اور اس کی سختی و مصیبت پر صبر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس بندے کے اللہ کی رضا کو ترجیح دینے کے بقدر اس سختی اور مشقت سے نعمت، مسرت اور مدد کو پیدا کر دیا، پس اس کے خوف کو امن سے اور اس کی ہلاکتوں کے امکانات کو نجات سے، اس کی مشقت کو مدد سے، اس کی آزمائش کو نعمت سے اس کی مصیبت کو عطیے سے اور اس کی ناراضی کو رضا سے بدل دیا اور جو لوگ اس سختی اور مصیبت کو برداشت کرنے سے ڈر گئے اور آگے نہ بڑھے وہ ناکام اور رسوا ہوئے۔ (مدارج السالکین : ۲/۲۸۵)

الشیخ عبد الرحمن بن ناصر سعدی نے کہا:

’’پس ایسے ہی جو شخص بھی حق پر قائم ہو گا اس کی آزمائش ہو گی اور اس کا امتحان لیا جائے گا، لہٰذا جب اس کی آزمائش اور امتحان سخت اور مشکل ہو گا تو اس کی وہ آزمائش اور تکلیف اس کے حق میں اللہ کا عطیہ اور نعمت بن جائے گی، اس کی مشقتیں راحتوں میں بدل جائیں گی، بشرطیکہ وہ آزمائش و تکلیف پر صبر کرنے والا اور اس پر استقامت اختیار کرنے والا ہو اور مزید یہ کہ اللہ تعالیٰ دشمنوں کے خلاف اس کی مدد کرے گا اور اس کی قلبی اور روحانی بیماری سے اسے شفا یاب کرے گا۔ ‘‘ (تیسیر الکریم الرحمـن، ص : ۷۹)

آزمائش کی حکمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ لِیَبْتَلِیَ اللّٰہُ مَا فِیْ صُدُوْرِکُمْ وَ لِیُمَحِّصَ مَا فِیْ قُلُوْبِکُمْ}

(۳؍اٰل عمرٰن : ۱۵۴)

’’اور تاکہ اللہ اسے آزما لے جو تمھارے سینوں میں ہے اور تاکہ اسے خالص کر دے جو تمھارے دلوں میں ہے۔‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{مَا کَانَ اللّٰہُ لِیَذَرَ الْمُوْمِنِیْنَ عَلٰی مَآ اَنْتُمْ عَلَیْہِ حَتّٰی یَمِیْزَ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ}  (۳؍اٰل عمرٰن : ۱۷۹)

’’اللہ ایسا نہیں کہ ایمان والوں کو اُس حال پر چھوڑ دے جس پر تم ہو، یہاں تک کہ ناپاک کو پاک سے جدا کر دے۔ ‘‘

تو جب آزمائش کی آگ اپنی تمام انواع و اقسام کے ساتھ شعلہ مارنے والی آگ کے جلاؤ پر غالب آجاتی ہے تو لوگوں کی اصل حقیقت واضح ہو جاتی ہے اور وہ دو گروہوں صابر مومن اور دھوکے باز منافق میں تقسیم ہو جاتے ہیں، مومن اپنی شدتِ صبر اور قوتِ برداشت کے پیش نظر بہت سے طبقات میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ اللہ کی اپنے بندوں پر رحمت کرنے کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ وہ ان پر آزمائش ڈالتا ہے پھر انھیں اس پر ثابت قدمی کی توفیق دیتا ہے تاکہ وہ اس کے ہاں اجر عظیم کے مستحق بن جائیں، اس طرح اللہ تعالیٰ سختیوں اور مصیبتوں کے ذریعہ ان کی تربیت کرتا ہے اور ان کے دلوں کو خرابی، شک اور دھوکے جیسی بیماریوں سے صاف کر دیتا ہے۔ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۴۸)

آزمائش کے ساتھ انسان کی تربیت ضروری ہے۔ خوف، سختی، بھوک، مالوں، جانوں اور پھلوں کی کمی کے ساتھ آزمائش اور حق کے معرکہ میں پختہ ارادے کا امتحان ہونا ضروری ہے۔

’’اور یقیناً ہم تمھیں خوف اور بھوک اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی میں سے کسی نہ کسی چیز کے ساتھ ضرور آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجیے۔ ‘‘ (۲؍البقرۃ : ۱۵۵)

اس آزمائش کا آنا ضروری ہے تاکہ وہ مومنوں کو عقیدہ (توحید و رسالت وغیرہ) پر قائم رہنے کی تکالیف کی طرف لے جائے، اس طرح انہوں نے عقیدہ کے لیے جتنی تکلیفیں اٹھائی ہوں گی اتنا ہی وہ ان کے دلوں کو مضبوط کر دے گا، وہ آسان اور سستے عقائد جن سے لوگوں پر تکلیفیں اور سختیاں نہیں آتی ہیں تو وہ پہلے ہی صدمے میں ان عقائد سے منحرف ہو جاتے ہیں۔

آزمائش مومن کی کیسے تربیت کرتی ہے اور اس میں کتنا خلوص پیدا کرتی ہے اس پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں :

۱:      آزمائش کے ذریعہ صرف اللہ پر اعتماد پختہ ہو جاتا ہے، صرف اسی سے خوف اور اسی سے امید و آرزو لگائی جاتی ہے۔

۲:     آزمائش کے ذریعہ بندے کو یہ سمجھ آ جاتی ہے کہ اسباب چاہے وہ کتنے بڑے ہوں کفایت نہیں کرسکتے اور نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

۳:     آزمائش کے ذریعہ بندے کو اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ مخلوقات کمزور اور عاجز ہیں اور نفع و نقصان کے مالک نہیں ہیں، سوائے ان حدود میں رہتے ہوئے جن میں اللہ تعالیٰ نے انھیں اپنی طرف سے قدرت دے رکھی ہے اور وہ وہی کچھ کرسکتے جو اللہ تعالیٰ انھیں کرنے دے۔

۴:     آزمائش کے ذریعہ بغض و کینہ، غرور و تکبر اور دیگر مہلک بیماریوں سے دل پاک ہو جاتا ہے، پس آزمائش ان (روحانی) بیماریوں کو اللہ کے اذن و حکم سے زائل کرتے ہوئے جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے۔

۵:     آزمائش کے ذریعہ دل قوی ہو جاتا ہے، چنانچہ پریشان کن اوہام اور پراگندہ خیالات دل کو ہلا نہیں پاتے اور ڈر، خوف اور دہشت انگیز چیزیں اسے پریشان نہیں کرتیں۔

۶:     آزمائش کے ذریعہ بندے کی اپنے رب تعالیٰ کی معرفت قوی ہو جاتی ہے اور باقی سب سے بے نیاز ہو کر ایک اللہ سے اس کا تعلق بڑھ جاتا ہے۔

۷:     آزمائش کے ذریعہ غفلت دُور ہو کر اللہ کا ڈر اور خوف قوی اور مضبوط ہو جاتا ہے۔

۸:     آزمائش کے ذریعہ بصیرت کھل جاتی ہے، دل زندہ ہو جاتا ہے، (مایوسیوں کے ) پردے چھٹ جاتے ہیں اور (دلوں کا) زنگ اتر جاتا ہے۔

۹:     آزمائش کے ذریعہ دل نرم ہو جاتا ہے وہ اللہ کا تابع فرماں ہو جاتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس کے سامنے جھک جاتا ہے۔

۱۰:    آزمائش کے ذریعہ عقل بڑھ جاتی اور بندے کو شعور اور ادراک حاصل ہو جاتا ہے لیکن یہ اس شخص کو حاصل نہیں ہوتا جو کبھی آزمائش میں مبتلا نہ ہوا ہو۔

۱۱:     آزمائش کے ذریعہ بندے کے اخلاق خوب آراستہ ہو جاتے ہیں اور اس کی طبیعت میں نرمی آ جاتی ہے۔

۱۲:    آزمائش کے ذریعہ دل میں دنیا کی بے رغبتی پیدا ہو جاتی ہے اور اسے اس حقیقت کا ادراک ہو جاتا ہے کہ دنیا بہت حقیر اور گھٹیا ہے اور یہ ایک ایسی ڈھلتی ہوئی چھاؤں ہے جس کی کوئی قدر و منزلت نہیں ہے۔

یہ اس خلوص کی معمولی سی جھلک ہے جو خلوص آزمائش کے ذریعہ دلِ مومن میں پیدا ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ آزمائش کے ذریعہ مومن کے دل کی اصلاح کرتا ہے اور اس کے ٹیڑھے پن کو سیدھا کرتا ہے، کیونکہ بغیر آزمائش کے نہ نفس کا تزکیہ ہوتا ہے اور نہ دل ہی صاف ہوتا ہے۔ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۴۹، ۱۵۱۔ ۱۵۳)

٭٭

 

 

                عفو و درگزر

 

جس شخص نے آپ کو اذیت پہنچائی ہے اس سے انتقام لینے کا ارادہ نہ کریں اگرچہ اس نے آپ کو اذیت دینے میں کتنا ہی مبالغہ کیوں نہ کیا ہو، پھر بھی اسے معاف کر دیں اور اس کی لغزشوں اور غلطیوں سے چشم پوشی کریں۔

{فَاصْفَحِ الصَّفْحَ الْجَمِیْلَ}  (۱۵؍الحجر : ۸۵)

’’پس درگزر کریں خوبصورت طریقے سے درگزر کرنا۔ ‘‘

پس معاف کر دینا آپ کے فائدے میں ہے اور آپ کے لیے بہتر ہے، چاہے ایسا کرنا آپ کو گراں ہی کیوں نہ گزرے۔

بندے کو مخلوق کی طرف سے جس اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مخلوق اس پر جو زیادتیاں کرتی ہے اس کے متعلق یہاں چند ایک قابل توجہ نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں۔

(دیکھیے : مدارج السالکین : ۲/۳۰۳۔ ۳۰۷)

ان میں سے ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ وہ ’’عفو، درگزر اور حلم و بردباری‘‘ کی طرف توجہ کرے کیونکہ جب وہ ان کی طرف اور ان کی فضیلت، مٹھاس اور عزت افزائی کی طرف توجہ کرے گا تو وہ ان سے صرفِ نظر نہیں کرے گا، جیسا کہ ارشادِ نبوی ہے :

((ما زاد اللّٰہ عبدا بعفو إلا عزا))  (مسلم، ح: ۲۵۸۸)

’’بندے کے کسی کو معاف کرنے کی وجہ سے اللہ اس کی عزت میں ہی اضافہ کرتا ہے۔ ‘‘

جو شخص بھی انتقام لیتا ہے وہ رسوا ہو جاتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ درگزر، معافی اور حلم و بردباری میں وہ مٹھاس، اطمینان، سکون، نفس کا شرف اور عزت ہے جو مقابلہ کرتے ہوئے انتقام لینے میں نہیں ہے۔

نبی ﷺ کو جس انداز میں بھی تنگ کیا گیا اور ستایا گیا آپﷺ نے کبھی تنگ کرنے والے سے انتقام نہیں لیا، الا یہ کہ اللہ کی حدوں کو پامال کیا گیا ہوتا تو آپﷺ اللہ تعالیٰ کے لیے انتقام لیتے تھے۔ (مسلم، ح: ۲۳۲۸)

قابل غور یہ بات ہے کہ لوگوں کے آپ کو اذیت دینے میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں جس کے کئی ایک فائدے ہیں :

٭     ان میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ صبر کرنا، غصے کو پی جانا، نفس سے مجاہدہ کرنا اور اس کا مقابلہ کرنا سیکھ جاؤ گے۔

٭     ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کو کسی کے برائی کرنے پر حلم و بردباری کا مظاہرہ کرنا آ جائے گا۔

٭     ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کو عفو و درگزر کرنا، اچھے انداز میں دفاع کرنا اور برا سلوک کرنے والے سے حسن سلوک کرنے کی تربیت حاصل ہو گی۔ پس اگر آپ تکلیف اور اذیت کا سامنا نہ کریں تو آپ ان خصال حمیدہ کو نہ جان سکیں، اور یہ بڑی مشکل بات ہے کہ آپ اذیت کا سامنا کیے بغیر حلیم بن سکیں۔

٭     ایک فائدہ یہ ہے کہ آپ کو اس حقیقت کا ادراک ہو گا کہ مخلوق جس قدر بھی آپ کی اذیت اور مضرت کا ارادہ کرے بہرحال ہے وہ کمزور ہی۔

لوگوں کی ایذا رسانی کے مذکورہ بالا منافع کے علاوہ بھی بہت سی حکمتیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے مومن بندوں پر کی جانے والی نعمتوں میں سے ایک نعمت یہ بھی ہے کہ وہ ان پر اذیت مسلط کرتا ہے تاکہ ان کی صبر، تحمل اور اس طرح کی دیگر خصال حمیدہ پر تربیت کرے۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۲۴۸)

٭٭٭

 

 

 

 

باب چہارم

سوچنے کا عمدہ انداز اور خوش رہنے کے قاعدے

 

جو چیز آپ کے دین اور دنیا کے لیے نفع بخش ہے اس میں مشغول رہیں اور اس چیز کی حرص کریں جو آپ کے لیے مفید ہے، کسی صورت میں بھی کمزوری نہ دکھائیں اور نہ سستی کا ہی مظاہرہ کریں، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’پس طاقت ور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کو زیادہ پسند ہے، ویسے ہر مومن میں بھلائی ہے، اس چیز کی حرص کریں جو آپ کو نفع پہنچائے اور اللہ سے مدد طلب کریں اور عاجز نہ آئیں اور اگر آپ کو کوئی مصیبت پہنچے تو یہ مت کہیں کہ اگر مَیں ایسا کرتا تو ایسے ہو جاتا بلکہ کہیں : اللہ نے مقدر کیا اور اس نے جو چاہا کیا، کیونکہ کلمہ ’’لو‘‘ (کاش) شیطان کے عمل کو کھول دیتا ہے۔ ‘‘

(مسلم، ح:۲۶۶۴)

اور ضرر رساں امور کی طرف توجہ نہ کریں اور ان کے متعلق فکر مند ہونے کی کوئی گنجائش نہ چھوڑیں، لوگوں نے جو آپ کو اذیت پہنچائی ہے اس کی پروا نہ کریں، بلکہ اللہ نے جو آپ کو حکم دیا ہے اسے اپنی فکر اور سوچ بناؤ اور اسے مضبوطی سے پکڑتے ہوئے اس میں مشغول و مصروف ہو جاؤ۔ اللہ کا وہ حکم نماز کی شکل میں ہو یا صدقہ کی صورت میں ہو، وہ حکم روزہ ہو یا نیکی کا کوئی بھی کام، وہ کسی سے احسان کرنا ہو یا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے منع کرنا، وہ وقت کی قدر کرنا ہو یا لوگوں کے ساتھ احسان کرنا پس جس شخص نے بھی اللہ کے حکم کی اہمیت کو پہچانتے ہوئے اس کا اہتمام کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے غم و فکر میں اس سے کفایت کرے گا اور اس کے معاملات میں آسانی پیدا کر دے گا۔

سبقت کریں، فوقیت لے جائیں، ممتاز ہو جائیں، عمل میں لگ جائیں اور حرکت کرتے رہیں اور جان رکھیں کہ کامیابی اور سبقت نفس کو ضرر رساں امور کی طرف متوجہ ہونے سے مشغول کر دیتی ہے بلکہ وہ نفس کو راحت، سعادت اور وسعت بخشتی ہے جو بہت سے غموں اور دکھوں کا مداوا بن جاتی ہیں۔ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۲۲۵۔ ۲۲۶)

ممکن ہے کہ ہم وسوسوں کی نسبت مومنوں کو دو قسموں میں تقسیم کریں۔ ایک تو وہ قسم جسے وسوسے لاحق ہوتے ہیں لیکن وہ اللہ کے حکم سے ان سے لڑنے، انھیں دُور کرنے اور ان سے بچ جانے کی طاقت رکھتا ہے، پس اس قسم کے مومنوں کا فرض یہ ہے کہ وہ ان وسوسوں سے جنگ کریں اور ان سے بچ جائیں اور ان میں مبتلا نہ ہوں۔

اور دوسری قسم ان مومنوں کی ہے جو وسوسوں میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن وہ انھیں دُور کرنے کی تمام تر کوشش کے باوجود ان سے بچاؤ کی طاقت نہیں رکھتے، مومنوں کی یہ قسم علاج کی محتاج ہے اور نفسیاتی طب میں اس طرح کے مسلط وسوسوں کا نام وسواس قھری (مالیخولیا) رکھا جاتا ہے۔

مالیخولیا کی بے چینی میں مشکل یہ ہے کہ مریض اکثر اوقات اسے ایسا پوشیدہ مرض سمجھتا ہے جسے وہ اپنے اور اپنے نفس کے درمیان مخفی رکھتا ہے کیونکہ وہ اس کے عوارض سے شرمندہ ہوتا ہے اور اس بات سے ڈرتا ہے کہ لوگ اس کے پاگل پن یا اس کی اپنے آپ پر کم اعتمادی یا اس کی ناقص دینداری یا اس کے شیطان کے ہتھے چڑھ جانے کی علامت سمجھیں گے، اس سے بڑھ کر یہ کہ مالیخولیا کے اکثر مریض یہ جانتے ہی نہیں ہوتے کہ وہ مریض ہیں کیونکہ وہ اپنی تکالیف اور مشقتوں کے، جو اکثر کئی سالوں کی مدت پر محیط اور طویل ہوتی ہیں، برعکس یہ گمان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں پیدا ہی اس شکل پر کیا ہے، ان کی یہ عجیب و غریب صفات ان کے سوا کسی میں بھی نہیں پائی جاتیں، خاص طور پر ہمارے ملکوں میں پائے جانے والے تسلطی افکار اکثر دینی یا جنسی نوعیت کے ہیں اور یہ بات انتہائی قابل افسوس ہے کہ اس نوعیت کے افکار انہی لوگوں کو لاحق ہوتے ہیں جو دیندار اور پابند شرع ہیں یعنی اس کے برعکس جو اکثر لوگ اعتقاد رکھتے ہیں (کہ اس قسم کے افکار فاسق و فاجر لوگوں کو لاحق ہوتے ہیں ) اور وہ اس ڈر سے کہ لوگ ان پر کفر یا شیطان کے مسلط ہونے کے فتوے لگائیں گے، انہی تکالیف اور مشقتوں میں مبتلا رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

رہے جنسی نوعیت کے تفکرات اور اوہام تو یقیناً انہوں نے ہمارے معاشرے کے بہت سے لوگوں کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے اور ان میں بھی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ انہی افکار کو متاثر کرتے ہیں جن کے ساتھ وہ حلال و حرام کا التزام کرتے ہیں اور اکثر لوگوں کو اس تکلیف و مشقت پر چپ سادھ لینے پر مجبور کرتے ہیں، کیونکہ انھیں یہ خدشہ ہوتا ہے کہ لوگ انھیں حقیر سمجھیں گے یا ان پر پیدائشی کمزوری یا قلت دین کا الزام جڑ دیں گے، جبکہ وہ جس تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں وہ ایک ایسا مرض ہے جس کے متعلق یہ عین ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نفسیاتی ڈاکٹر کو اس کا علاج کرنے کی توفیق دے۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۲۲۸۔ ۲۲۹)

کتنے ہی وہ لوگ ہیں جن پر ذہنی الجھنوں اور وسوسوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ وہ طہارت، نماز، اکثر شک میں مبتلا رہنا، تردد اور بیماریوں سے خوف میں ان وسواس کا مقابلہ اور ان کا دفاع کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور اللہ کی ذات کے متعلق وسوسہ، جنس کے متعلقہ وسوسے، خوف، شرمندگی، شک و شبہ اور اس کے علاوہ کئی وسوسے اور کبھی وہ ان مسلط سوچوں کے متعلق غافل ہو جاتے ہیں کہ ان کا کوئی حل یا علاج بھی ہوسکتا ہے۔ وسواس کوئی جادو نہیں ہے اور نہ کوئی ایسا معمہ ہی ہے جس کا حل مشکل ہو، بلکہ وہ تو صرف ایک مرض ہے جس کا اللہ کی مشیت سے حل بھی موجود ہے۔

(الوسواس القہری، از پروفیسر ڈاکٹر وائل ابوہندی)

وہ شخص جو وسوسہ کی بیماری میں مبتلا ہو اُسے چاہیے کہ شیطان مردود سے اللہ کی پناہ مانگے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ پختہ تعلق استوار کرے نیز وہ نفسیات کے کسی ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرے کیونکہ:

((فإن اللّٰہ عز و جل لم یضع داء إلا وضع لہ دواء۔ ))

(ابو داؤد : ۳۸۵۵)

’’اللہ عزوجل نے (دنیا میں ) جو بیماری بھی رکھی ہے اس نے اس کی دوا بھی پیدا کی ہے۔ ‘‘

یہ الگ بات ہے لوگوں کو بعض بیماریوں کی دوا کا علم نہیں ہوا ہوتا، ورنہ کوئی بھی مرض لاعلاج نہیں۔

مومن! اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں کو دیکھیں اور ان کا اپنے اوپر آنے والی آفت و مصیبت سے موازنہ کریں۔

کیا اللہ نے آپ کو دو آنکھیں، ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں عطا کر رکھے، جبکہ آپ کے علاوہ کئی لوگ ان تمام نعمتوں یا ان میں سے بعض نعمتوں سے محروم ہیں ؟

کیا ایسا نہیں ہے کہ آپ امن و سکون کے ساتھ سوتے ہو اور آپ کے علاوہ کئی لوگوں کی آنکھوں سے خوف و فکر نے نیند اڑا رکھی ہے ؟

کیا اللہ نے آپ کو عقل جیسی نعمت سے نہیں نوازا ہے، جبکہ آپ کے علاوہ کئی لوگ دیوانے اور مجنون کہلاتے ہیں ؟

کیا اس طرح نہیں کہ اللہ نے آپ کو مال کی فراوانی عطا کر رکھی ہے جبکہ آپ کے علاوہ کتنے ہی لوگ ہیں جو اس مال سے محروم ہیں ؟

آپ کے پاس بیوی، بچے، پُر آسائش گھر اور خوبصورت گاڑی ہے جبکہ آپ کے علاوہ دوسرے کئی لوگ ان سہولتوں سے یا ان میں سے بعض سہولتوں سے محروم ہیں ؟

ان کے علاوہ کتنی نعمتیں آپ کو حاصل ہیں، صدق دل سے اپنی طرف نگاہ دوڑاؤ اور تعصب کی عینک اتار کر دیکھیں تو آپ کو اپنے اوپر اللہ کی بے شمار نعمتیں دکھائی دیں گی۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۲۵۰)

علامہ ابن سعدیؒ  نے کہا:

’’مومن کو لائق ہے کہ جب اسے کوئی آفت و مصیبت پہنچے یا وہ اس سے خوف زدہ ہو تو وہ اپنے اوپر دینی اور دنیاوی نعمتوں اور اس آفت و مصیبت کے درمیان موازنہ کرے، پس موازنے کے بعد اسے معلوم ہو گا کہ اس پر نعمتیں بہت زیادہ ہیں اور اسے جو مصیبت پہنچی ہے وہ ان نعمتوں کے مقابلے میں بہت کمزور اور ہلکی ہے۔ ‘‘ (الوسائل المفیدہ، ص : ۱۴)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ اٰتٰکُمْ مِّنْ کُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْہُ وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْہَا}

(۱۴؍ابرٰہیم : ۳۴)

’’اور تمھیں ہر اس چیز میں سے دیا جو تم نے اس سے مانگی اور اگر تم اللہ کی نعمت شمار کرو تو اسے شمار نہ کرپاؤ گے۔ ‘‘

پس اس آزمائش اور تکالیف سے بھری ہوئی دنیا میں لذت، سرور، بھلائی، نعمتیں، عافیت، مصلحت اور رحمت اپنے مقابل آفات سے کہیں زیادہ ہیں، لہٰذا مومن کی لذت اور اس کی تکالیف کا کیا مقابلہ؟ اس کی صحت کی اس کی بیماری سے کیا نسبت؟ کہاں اس کا سیر اور سیراب ہونا اور کہاں اس کی بھوک و پیاس؟ کہاں اس کی تھکاوٹ اور کہاں اس کی راحت و آرام؟ اس کے غم و فکر کی اس کے سرور، عافیت اور راحت سے کیا نسبت؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo اِِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاo}  (۹۴؍الانشراح : ۵، ۶)

’’پس بے شک ہر مشکل کے ساتھ ایک آسانی ہے۔ بے شک اسی مشکل کے ساتھ ایک اور آسانی ہے۔ ‘‘

((لن یغلب عسر یسرین۔ ))

(شفاء العلیل، ابن القیم رحمہ اللّٰہ ۲:۵/۶۸۵)

’’ایک تنگی دو آسانیوں پر غالب و بھاری نہیں ہے۔ ‘‘

لیکن ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم اپنی زندگی میں برے پہلو سے متاثر ہوتے ہیں جو دوسرے (روشن) پہلوؤں پر غالب آ جاتا ہے، حالانکہ وہ (روشن پہلو) اس مصیبت سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں جو مصیبت ہمیں پہنچی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی زندگی میں اپنے اوپر اللہ کی نعمتوں اور روشن پہلوؤں کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ وہ کہیں بہتر اور زیادہ ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا بھی ادراک ہو گا کہ جو چیزیں ہماری خوشی کا باعث بنتی ہیں وہ ان چیزوں سے کہیں زیادہ بڑھی ہوتی ہیں جو ہمیں بری لگتی ہیں اور ہمیں غمگین کرتی ہیں۔

اور سچ ہی تو کہا جس نے کہا:

’’ہم انسان ان چیزوں کے متعلق فکر مند رہتے ہیں جو ہمیں ملی نہیں ہوتیں اور جو چیزیں ہمیں عطا ہوئی ہیں ان پر اللہ کا شکر ادا نہیں کرتے، ہم اپنی زندگی کے برے اور تاریک پہلو کو ہی دیکھے جاتے ہیں اور روشن پہلو کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے ہمیں جس چیز کی کمی ہوتی ہے ہم اس پر حسرت کے ہاتھ ملتے رہتے ہیں اور جو کچھ ہمارے پاس ہوتا ہے اس پر اپنی سعادت مندی کو نہیں دیکھتے۔ ‘‘

(لا تحزن، ص : ۱۸۹)

٭٭

 

 

                خوش رہنے کے قاعدے

 

اعتدال کے ساتھ ہنسنا مسکرانا تفکرات و ہموم کے لیے تریاق اور مرہم ہے۔ روحانی خوشی اور قلبی شادمانی میں اس کا بڑا کردار ہے۔ حتیٰ کہ ابودرداء ؓ فرماتے ہیں :

مَیں اس لیے ہنستا ہوں کہ میرے قلب کو آرام ملے۔

محسنِ انسانیت بھی کبھی کبھار ہنستے تھے، آپ کے سامنے کے دانت نظر آ جاتے تھے۔

(بخاری، الادب، التبسم والضحک، ح:۶۰۸۷)

یہ ان لوگوں کی ہنسی ہے جو عقل والے ہیں اور نفس کی بیماریوں اور ان کی دوا کا علم رکھتے ہیں۔ خوشی کی انتہا آرام اور انبساط کی کامل شکل ہنسی ہے۔ لیکن اس میں زیادتی نہ ہونی چاہیے۔ (ارشادِ نبوی ہے )’’کثرت سے ہنسنا دل کو مار دیتا ہے۔ ‘‘

(ابن ماجۃ، الزھد، الحزن و البکاء، ح:۴۱۹۳)

لہٰذا اعتدال اختیار کرنا چاہیے۔

ارشاد نبوی ہے :’’بھائی کے سامنے مسکرانا صدقہ ہے۔ ‘‘

(مسلم، البر و الصلۃ، استحباب الطلاقۃ…، ح:۲۶۶۲)

اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’اس کی بات سن کر وہ( سلیمان) ہنس پڑے۔ ‘‘

(۲۷؍النمل:۱۹)

لیکن مذاق اور استہزاء والی ہنسی نہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :

’’جب وہ ہماری آیتیں لے کر آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہ ٹھٹھا کرتے ہیں۔ ‘‘

(۴۳؍الزخرف:۴۷)

اہلِ جنت کو جو نعمتیں ملیں گی ان میں ہنسی بھی ہے۔

’’آج وہ کفار پر ہنستے ہوں گے۔ ‘‘ (۸۳؍الطففین:۳۴)

عرب ہنسنے والوں کی تعریف کرتے تھے اور اسے سخاوت و کشادہ دلی اور حسنِ اخلاق کی نشانی سمجھتے تھے …

واقعہ یہ ہے کہ اسلام عقائد، عبادات، اخلاق، سلوک وغیرہ میں میانہ روی اور اعتدال پر قائم ہے۔ اس میں تنگ دلی، ترش روی اور تیوری چڑھانے کی گنجائش ہے نہ زور زور سے قہقہے لگانے کی۔ بلکہ سنجیدگی اور وقار و متانت ہو اور مزاج میں شادابی و مزاح ہو…

انسان اپنی فطرت سے خوش طبع ہے، کبھی کبھار انانیت، طمع اور شر جو اِسے لاحق ہوتے ہیں اس سے وہ ترش رو ہو جاتا ہے۔ اور فطرت سے دُور ہو جاتا ہے۔ جو ترش رو ہو گا وہ جمال کا ادراک نہیں کر سکتا۔ جس کا دل میلا ہو اُسے حقیقت دکھائی نہیں دے گی۔ کیونکہ ہر اِنسان دنیا کو اَپنے خیال، عمل اور محرکات کے چشمے سے دیکھتا ہے۔ اگر عمل اچھا ہو گا، محرکات صحیح ہوں گے، فکر پاکیزہ ہو گی تو اُس کا آئینہ دل بھی صاف ستھرا ہو گا، لہٰذا دنیا اسے اچھی اور خوبصورت نظر آئے گی۔ اگر آئینہ ہی میلا ہو، اس کا شیشہ کالا پڑ جائے تو ہر چیز کالی اور میلی دکھائی دے گی…

انسان کی زندگی کا بڑا مقصد یہ ہے کہ زندگی میں جتنا بھی ممکن ہو وہ لوگوں کے لیے خیر و خوبی کا سرچشمہ بنے۔ ایسا سورج بن جائے جس سے روشنی، محبت اور خیر کا اجالا پھیلے، اس کا دل انسانی خیرخواہی، بھلائی اور شفقت سے بھرپور ہو۔ اُ س سے جو بھی قریب ہو اُسے بھلائی پہنچے، ایسا شخص ہوتا ہے جو مشکلات و مسائل کو دیکھ کر مسکراتا ہے۔ ان پر غلبہ پانے سے اسے لذت ملتی ہے، وہ ان کا مقابلہ ہنستا مسکراتا کرتا ہے اور زیرِ لب دہراتا ہے   ؎

چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے

اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے

(ملخصاً از: غم نہ کریں، ص:۶۲۔ ۶۵، ڈاکٹر عائض القرنی(مترجم:غطریف شہباز ندوی)ط:۲۰۱۴، مکتبہ اسلامیہ، غزنی سٹریٹ اردو بازار، لاہور)

خوش رہنے کے لیے چند امور کو ملحوظِ خاطر رکھنا ضروری ہے، اس سلسلے کے بعض قواعد درجِ ذیل ہیں ـ:

۱۔      پہلی بات یہ دھیان میں رکھیں کہ اگر آپ صرف آج پر نظر نہ رکھیں گے تو ذہن بٹ جائے گا۔ معاملات ڈانوا ڈول ہوں گے، اندیشے اور تفکرات بڑھ جائیں گے، اسی بات کو تو یوں کہا گیا ہے :

’’صبح کر لو تو شام کا انتظار نہ کرو، شام کرو تو صبح کے انتظار میں مت رہو۔ ‘‘

(بخاری، الرقاق، قول النبی ﷺ کن فی الدنیا…ح:۶۴۱۶)

۲۔      ماضی کو پورے طور پر بھول جائیں، جو گزر گیا اُس پر غور و فکر بے وقوفی اور جنون ہے۔

۳۔     مستقبل پر توجہ نہ دیں کہ عالمِ غیب کی بات ہے۔ جب تک وہ آ نہ جائے اس کے بارے پیشگی فکرمند نہ ہوں۔

۴۔     تنقید سے اکھڑ نہ جائیے، ثابت قدم رہیے، یہ جن لیجیے کہ تنقید سے آپ کی قیمت بڑھے گی۔

۵۔     اللہ پر ایمان اور عمل صالح ہی بہترین اور خوشگوار زندگی ہے۔

۶۔      جو اِطمینان و سکون اور راحت چاہتا ہو اُسے اللہ کا ذکر اختیار کرنا چاہیے۔

۷۔     بندہ پر یہ یقین کرنا لازم ہے کہ ہر شے قضا و قدر سے ہوتی ہے۔

۸۔     کسی کی طرف سے شکریہ کا انتظار نہ کریں۔

۹۔      اپنے آپ کو اِس کا عادی بنائیں کہ مشکل سے مشکل ڈیوٹی انجام دیں۔

۱۰۔     جو ہوا، ہو سکتا ہے وہ بہتر ہو۔

۱۱۔     مسلمان کے لیے تقدیر کا ہر فیصلہ بہتر ہے۔

۱۲۔     نعمتوں پر شکر ادا کریں اور ان پر غور کریں۔

۱۳۔    جو کچھ آپ کے پاس ہے اس کے ساتھ آپ بہت سے لوگوں سے بہتر ہیں۔

۱۴۔    ایک وقت سے دوسرا وقت آسان ہے۔

۱۵۔    مصیبت کے وقت دعا ضروری ہے۔

۱۶۔     مصائب بصیرت کے لیے مرہم اور قلب کے لیے قوت ہوتے ہیں۔

۱۷۔    تنگی کے ساتھ آسانی بھی ہے۔

۱۸۔    چھوٹے امور آپ پر حاوی نہ ہو جائیں۔

۱۹۔     آپ کا رب بہت معاف کرنے والا ہے۔

۲۰۔    غصہ نہ کریں، غصہ نہ کریں، غصہ نہ کریں۔

۲۱۔     سامانِ زندگی روٹی، پانی اور سایہ ہے اس کے علاوہ کی فکر نہ کریں۔

۲۲۔    آسمان میں آپ کے لیے روزی اور وہ ہے جس کا آپ سے وعدہ کیا جا رہا ہے۔

(۵۱؍الذٰریٰت:۲۲)

۲۳۔    جس حادثے کا زیادہ اندیشہ ہوتا ہے وہ نہیں ہوتا۔

۲۴۔    مصیبت زدوں میں آپ کے لیے نمونہ ہے۔

۲۵۔    اللہ جب کسی قوم کو پسند کرتا ہے انھیں مبتلائے مصیبت کرتا ہے۔

۲۶۔    مصیبت میں مسنون دعائیں کریں بے کار نہ بیٹھیں۔

۲۷۔    سنجیدہ اور مفید کام کریں، یونہی نہ بیٹھے رہیں۔

۲۸۔    افواہوں اور فضول باتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی تصدیق نہ کریں۔

۲۹۔    کینہ اور انتقام کی خواہش آپ کی صحت کو نقصان پہنچائے گی، حریف اور دشمن کو نہیں۔

۳۰۔    جو تکلیف بھی پہنچی ہے وہ گناہوں کا کفارہ ہے۔

(ایضاً، ص:۱۱۷۔ ۱۱۸)

 

                خوش رہنے کے لیے کچھ مزید ہدایات

 

٭     اپنی صورت، صلاحیت، آمدنی اور اہل و عیال پر قناعت کریں تمھیں راحت ملے گی۔

٭     استغفار زیادہ سے زیادہ کریں، اس سے روزی کشادہ، اولاد، علم نافع اور آسانی ملتی ہے اور گناہ کم ہوتے ہیں۔

٭     ’’ہم نے انسان کو مشقت میں پیدا کیا ہے۔ ‘‘(۹۰؍البلد:۴)   یہ انسان کے لیے سنّتِ ثابتہ ہے۔ اس میں تبدیلی نہیں ہو گی کہ اسے مجاہدہ محنت و مشقت میں رہنا ہے۔ لہٰذا حقیقت کو تسلیم کر کے زندگی کو اُس کے مطابق ڈھالنا چاہیے۔

٭     رکاوٹوں اور مشکلات پر قابو پا لینا بھی خوش بختی کا کام ہے کیونکہ کامیابی کی لذت کے برابر کوئی لذت نہیں ہوتی۔

٭     مصیبت سے اللہ اور بندے کے درمیان قربت ہوتی ہے۔ آپ دعا کرتے ہیں، مصیبت کبر و غرور اور فخر کو ختم کر دے گی۔

٭     سعادت کے بڑے دروازوں میں سے والدین کی دعا ہے، اُسے غنیمت جانیں تاکہ ان کی دعا ہر برائی سے آپ کے لیے ڈھال بن جائے۔

٭     لاحول ولا قوۃ الا باللہ بار بار پڑھیں، اس سے شرح صدر ہوتا ہے، حال کی اصلاح ہوتی ہے، بوجھ ہلکا اور اللہ راضی ہوتا ہے۔

٭      { لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ} (۲۱؍الانبیاء:۸۷)  ہمیشہ پڑھا کریں، کیونکہ تکلیف دُور کرنے اور آزمائش ہٹانے میں اس دعا کی بڑی تاثیر ہے۔

٭     سورہ الم نشرح پر غور کریں، پریشانیوں میں اس کی تلاوت کریں، بحرانوں میں یہ سب سے بڑی دوا ہے۔

٭     دعائے کرب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ الْعَظِیْمُ الْحَلِیْمُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ رَبُّ السَّمٰوَاتِ وَ رَبُّ الْاَرْضِ وَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیْمِ پڑھا کریں۔

(بخاری، الدعوات، الدعاء عنداللہ، ح:۶۳۴۶؛مسلم، ح:۲۷۳۰)

٭     {حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ} (۳؍اٰل عمرٰن:۱۷۳) کو نہ بھولیں کہ لگی آگ اس سے بجھ جاتی ہے، ڈوبتا ہوا بچھ جاتا ہے، کھوئے ہوئے کو راستہ مل جاتا ہے اور اللہ سے عہد مضبوط ہو جاتا ہے۔

٭     ’’صبر و نماز کے ذریعے سے مدد طلب کرو۔ ‘‘(۲؍البقرۃ:۴۵)  یہ دونوں زندگی کی قوتیں ہیں، زادِ سفر ہیں، بابِ امید ہیں، کشادگی کی کنجی ہیں، جس نے صبر کیا، نماز کی پابندی کی تو اسے صبحِ صادق، فتحِ مبین اور قریبی مدد کی خوشخبری دے دیجیے۔

٭     ’’غم نہ کریں اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ‘‘(۹؍التوبۃ:۴۰) وہ ہمیں دیکھ رہا ہے، ہماری سنتا ہے۔ دشمن پر ہماری مدد کرتا ہے، مشکلات کو آسان کرتا ہے، غمناک چیزیں دُور کرتا ہے۔

٭     ’’اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ‘‘(۱۲؍یوسف:۸۷)  کہ اس کی کشادگی قریب ہے۔ اس کا لطف جلد ہی آئے گا، اس کی آسانی ملنے والی ہے، اس کا کرم وسیع اور فضل بہت بڑا ہے۔

٭     ’’اللہ بہترین محافظ ہے۔ ‘‘(۱۲؍یوسف:۶۴)  غائب کی حفاظت کرتا، بے وطن کو وطن واپس کرتا، گم کردہ راہ کو ہدایت دیتا، مبتلائے مصیبت کو عافیت دیتا، مریض کو شفا دیتا، اور تکلیف دُور کرتا ہے۔

٭     ’’ہر روز اُس کی ایک شان ہوتی ہے۔ ‘‘(۵۵؍الرحمٰن:۲۹)  وہ تکلیف دُور کرتا، گناہ کی مغفرت کرتا، روزی دیتا، مریض کو شفا دیتا، آزمائش میں مبتلا کو معافی دیتا ہے، قیدی کو چھڑاتا اور ٹوٹے کو جوڑتا ہے۔

٭     ’’کوئی اس کے علاوہ کوئی الٰہ ہے جو پریشان حال کی دعا سنتا ہے ؟‘‘ (۲۷؍النمل:۶۲) وہی مضطر کی تکلیف اور اذیت دُور کرتا ہے، اس کی تمنا پُوری کرتا اور اس کی مراد بر لاتا ہے۔

٭     ’’اللہ ہمیں کافی ہے وہ بڑا اچھا کارساز ہے۔ ‘‘(۳؍اٰل عمرٰن:۱۷۳)  ہماری تکلیفیں دُور کرتا ہے، مصیبتیں ختم کرتا، گناہ معاف کرتا، دلوں کی اصلاح کرتا اور عیوب کی پردہ پوشی کرتا ہے۔ ’’کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں۔ ‘‘ (۳۹؍الزمر:۲۶)

٭     ’’اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔ ‘‘(۵؍المائدۃ:۶۷)  لہٰذا کوئی دشمن نقصان نہ پہنچائے گا، کوئی سرکش تم تک نہ پہنچے گا، کوئی حاسد تم پر غالب نہ ہو گا، کوئی دشمن مسلط نہ ہو گا اور جابر تم پر ظلم نہ کر سکے گا۔

٭     ’’تم نہیں جانتے کہ اللہ اس کے بعد کوئی راہ نکالے۔ ‘‘(۶۵؍الطلاق:۱)  تو غم ختم ہو جائے، فکر مٹ جائے، حزن کا ازالہ ہو جائے، معاملہ آسان کر دے، دُور کو نزدیک کر دے۔

٭     ’’ اللہ تنگی کے بعد آسانی لاتا ہے۔ ‘‘(۶۵؍الطلاق:۷)  بیڑی کھل جائے گی، رسی ٹوٹ جائے گی، دروازہ کھلے گا، بارش برسے گی، غائب آ جائے گا اور حالات درست ہو جائیں گے۔

٭     قرآن کا حافظ جو رات میں اور صبح و شام پڑھتا ہو تکان کا شکار ہو گا نہ خلا اور اکتاہٹ کا کیونکہ قرآن زندگی میں مسرت بھر دیتا ہے۔

٭     اگر دشمن تمھیں برا بھلا کہتے ہیں، حاسد سب و شتم کرتے ہیں تو اس سے تمھارا ہی وزن بڑھتا ہے، اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تم اتنی اہمیت والے ہو گئے تبھی تو تمھارا ذکر ہو رہا ہے۔

٭     یہ جان لیں کہ جو تمھاری چغلی کرتا ہے اس نے اپنی نیکیاں تمھیں دے دیں، تمھاری برائیاں ختم کر دیں، تمھیں مشہور کر دیا۔ یہ بھی ایک نعمت ہے۔

٭     گھر، مال، اولاد، ملازمت اور اور شکل و صورت میں جو آپ سے کم تر ہو اُس پر نظر رکھیں تاکہ اندازہ ہو کہ آپ ہزاروں سے اوپر ہیں۔

٭     آپ پیروں پر چل رہے ہیں، جبکہ کتنے ہی پیر کٹے ہوئے ہیں، آپ ٹانگوں پر کھڑے ہوتے ہیں کتنی ٹانگیں کٹی ہوئی ہیں، آپ سوتے ہیں کتنے ہیں جنھیں نیند نہیں آتی، آپ شکم سیر ہیں کتنے ہیں جو بھوکے ہیں۔

٭     یہ جان لیں کہ بھائی، بیٹے، بیوی، بچے اور دوست و احباب جن سے بھی واسطہ پڑتا ہے وہ عیب سے خالی نہیں اس لیے سب کو جیسے ہیں ویسے قبول کرنے کی عادت ڈالیں۔

٭     ایک ساعت میں تنہائی اختیار کر کے اپنے امور میں غور کریں، اپنے آپ کا محاسبہ کریں، آخرت کے بارے میں سوچیں، اپنی اصلاح کریں۔

٭     لوگوں کو پہلے سلام کریں، مسکرا کر ملیں، اور ان سے توجہ سے پیش آئیں تاکہ ان سے قریب ہو جائیں اور دلوں میں ان کے لیے محبت ہو جائے۔

٭     خاوند اور بیوی میں ایک ناراض ہو تو دوسرا چپ رہے، دونوں ایک دوسرے کی کمی کو برداشت کریں۔ کیونکہ انسان غلطی سے پاک نہیں ہو سکتا۔

٭     سعادت حسب ونسب اور سونے چاندی میں نہیں بلکہ دین، علم، ادب اور ضرورت کی تکمیل میں ہے۔

٭     دن کو ضائع کرنے والا وہ ہے جو اُسے بغیر حق ادا کیے، بغیر کسی فرض کو نبھائے، بغیر کسی مقام کو پائے، بغیر خوشی حاصل کیے، بغیر علم سیکھے، بغیر کسی صلہ رحمی کے اور بغیر کسی خیر کو انجام دیے بغیر گزار دے۔

٭     بہترین دوست وہ ہے جس پر آپ کو اعتماد ہو اور جس سے راحت ملے، جس سے آپ دل کی بات کہہ سکیں، جو آپ کے غم میں شریک ہو، جو آپ کا راز افشا نہ کرے۔

٭     اگر آپ کو کوئی گالی دیتا ہے تو رنجیدہ مت ہوں، لوگوں نے تو رب تعالیٰ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں جس نے انھیں وجود بخشا، اس کے وجود میں انھوں نے شک کیا، بھوکے ہوتے ہیں کھلاتا وہ ہے، شکر کسی اور کا کرتے ہیں۔ وہ انھیں خوف سے نجات دیتا ہے یہ اس سے جنگ کرتے ہیں۔

٭     جس کا بیٹا نافرمان، بیوی جھگڑالو، پڑوسی موذی، دوست بد خلق، نفس امارہ ہو اور جو خواہشات کے پیچھے چلتا ہو وہ کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ آپ کے رب کا آپ پر حق ہے، آپ کے نفس کا حق ہے، آپ کی آنکھوں کا حق ہے، آپ کی بیوی کا حق ہے، آپ کے مہمان کا حق ہے، لہٰذا ہر حق دار کو اُس کا حق دیں۔

٭     فراخی کے دنوں میں مصیبت کے دنوں کا سامان کر لیں، مال کو صدقہ دے کر تحفظ کا ذریعہ بنائیں، اپنی عمر کو اِطاعت ربی میں صرف کریں۔

٭     ’’اور آگے قدم بڑھاؤ۔ ‘‘(۵۷؍الحدید:۲۱)  پیش قدمی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں، زمانہ گزر رہا ہے، سورج چل رہا ہے، چاند محوِ سفر ہے، ہوا چل رہی ہے لہٰذا آپ بھی نہ ٹھہریں، زندگی کا قافلہ رک کر آپ کا انتظار نہیں کرے گا۔

٭     پرندے کو روزی گھونسلے میں نہیں مل جاتی، شیر کی خوراک کچھار میں نہیں پہنچتی، چیونٹی کا کھانا گھر میں نہیں آتا۔ یہ سب غذا کی طلب میں نکلتے اور محنت کرتے ہیں۔ انہی کی طرح طلب کریں اور محنت کریں تبھی پائیں گے۔

٭٭٭

 

 

 

 

باب پنجم

آزمائش میں نیک لوگوں کا طرزِ عمل

 

جب ایسے مومن پر آزمائش آتی ہے جو اپنے رب کی اطاعت کا حریص اور نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا ہوتا ہے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت کرتے ہیں۔

کیونکہ انبیاء o اللہ تعالیٰ کو تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہیں لیکن اس کے باوجود وہ تمام لوگوں سے بڑھ کر آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا:

((إن عظم الجزاء مع عظم البلاء، وإن اللّٰہ إذا أحب قوما ابتلاھم، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فعلیہ السخط۔ ))  (ترمذی، ح: ۲۳۹۶)

’’بڑی جزاء بڑی آزمائش کے ساتھ ہے اور یقیناً جب اللہ کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو وہ اسے آزمائش میں مبتلا کر دیتے ہیں، جو شخص (آزمائش پر) راضی رہا تو اس کے لیے (اللہ کی) رضا اور خوشنودی ہے اور جو آزمائش پر ناراض ہوا تو اس کے لیے (اللہ کی) ناراضی اور غصہ ہے۔ ‘‘

پس آزمائش بندے کے اللہ کے ہاں ذلیل و رسوا ہونے کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ کے اسے برگزیدہ بنانے اور اس سے محبت کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے اس لیے آزمائش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ اسے کسی بڑی خدمت کے لیے منتخب کر لے اور اسے برتری اور فضیلت عطا کرے۔ (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۵۰)

انسان بعض اوقات اپنی کم علمی کی بنا پر مفید چیزوں کو اپنے لیے مضر خیال کرتا ہے جبکہ معاملہ اس کے برعکس ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَo}  (۲؍البقرۃ : ۲۱۶)

’’اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور وہ تمھارے لیے بہتر ہو اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ ‘‘

{فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْئًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا}  (۴؍النساء : ۱۹)

’’شاید کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت بھلائی رکھ دے۔ ‘‘

ابن الفرضی کہتے ہیں کہ میں نے ذوالنون کو یہ کہتے ہوئے سنا:

’’آزمائش مومن کے لیے ایک خوش نما اور جاذب نظر چیز ہے، جب اس پر آزمائش نہیں ہوتی تو اس کی حالت بگڑ جاتی ہے۔ ‘‘

(تہذیب حلیۃ الأولیاء : ۳/۲۳۴، اعداد، صالح الشامی)

پس مسلمان جب اللہ سے تقویٰ اختیار کرتا ہے اور مخلص ہو کر اس کی اطاعت و بندگی میں لگ جاتا ہے تو ہر وہ ناپسندیدہ چیز جس میں وہ مبتلا ہوتا ہے اس کے حق میں بہتر ہوتی ہے۔ (الفوائد، ص : ۱۰۴)

اور جب بندے کو اپنے رب تعالیٰ کے متعلق معرفت تامہ حاصل ہو جاتی ہے تو وہ یقینی طور پر یہ جان لیتا ہے کہ وہ ناپسندیدہ سختیاں اور مصیبتیں جو اسے پہنچی ہیں ان میں اس کے لیے کئی قسم کی مصلحتیں اور فائدے ہیں جو اس کے علم اور اس کی سوچ و فکر میں نہیں آ سکتے، بلکہ بندے کے لیے اس چیز میں، جسے وہ ناپسند کرتا ہے، عظیم مصلحت ہوتی ہے، اس چیز کی نسبت جسے وہ پسند کرتا ہے۔ پس لوگوں کی عام مصلحتیں ان کی ناپسندیدہ چیزوں میں ہوتی ہیں، جیسا کہ ان کی عام تکلیفیں اور نقصان اور ان کی ہلاکتوں کے اسباب ان کی پسندیدہ چیزوں میں ہوتے ہیں۔ (الفوائد : ۱۰۴۔ ۱۰۵)

نبیﷺ نے فرمایا:

’’مومن کا معاملہ بہت قابل تعجب ہے، اس کا معاملہ سارے کا سارا اس کے لیے بہتر ہے اور یہ سعادت صرف مومن کو ہی حاصل ہے، اگر اسے خوشحالی ملے تو وہ اس پر شکریہ ادا کرتا ہے، پس یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف پہنچے تو وہ اس پر صبر کرتا ہے تو یہ اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ ‘‘

(مسلم : ۲۹۹۹)

٭٭

 

                آزمائشوں کے راستے

 

آزمائشوں کا کٹھن راستہ انبیاءؑ اور دیگر عظیم لوگوں کا راستہ ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَکَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ وَکَفٰی بِرَبِّکَ ہَادِیًا وَّنَصِیْرًاo}  (۲۵؍الفرقان : ۳۱)

’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے مجرموں میں سے کوئی نہ کوئی دشمن بنایا اور آپ کا رب ہدایت دینے والا اور مدد کرنے والا کافی ہے۔ ‘‘

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُہُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا} (۶؍الانعام : ۱۱۲)

’’اور اسی طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانوں اور جنوں کے شیطانوں کو دشمن بنادیا، ان کا بعض بعض کی طرف ملمع کی ہوئی بات دھوکا دینے کے لیے دل میں ڈالتا رہتا ہے۔ ‘‘

مصعب بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: مَیں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش میں کون مبتلا کیے گئے ؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’انبیاء (کی سب سے سخت آزمائش ہوئی) پھر ان جیسا مشن اختیار کرنے والے، پھر جو اُن سے قریب ترین تھے۔ آدمی اپنی دینداری کے مطابق آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے، اگر تو اس کی دینداری ٹھوس اور پختہ ہو تو اس کی آزمائش سخت ہوتی ہے اور اگر اس کی دینداری میں کچھ لچک اور نرمی ہو تو اسے اپنی دینداری کے مطابق آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور بندہ (مومن) پر آزمائش آتی ہی رہتی ہے حتیٰ کہ اسے زمین پر چلنے والا ایسا انسان بنا دیتی ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ ‘‘

(ترمذی، ح: ۲۳۹۸۔ امام ترمذیؒ  نے اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ )

عائشہr فرماتی ہیں :

’’مَیں نے رسول اللہﷺ سے زیادہ کسی کو تکلیف میں مبتلا نہیں دیکھا۔ ‘‘

(بخاری، ح:۵۶۴۵۶)

اور آپﷺ نے فرمایا:

((إنی أوعک کما یوعک رجلان منکم۔ ))

(بخاری، ح: ۵۶۶۰)

’’مجھے تم میں سے دو آدمیوں جتنا بخار چڑھتا ہے۔ ‘‘

عظیم لوگ تو وہ ہیں جو مشکلات کا سامنا کرتے ہیں مگر وہ ہمت کے ساتھ آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں لیکن ٹھہر جانے والوں کو مشکل اور دشوار گزار راستے پر نہیں چلنا پڑتا۔

؎

نہیں تیرا نشیمن قصرِسلطانی کے گنبد پر

تُو شاہیں ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

٭٭

 

                آزمائشوں میں گرفتار ہونے والے لوگ

 

پھر یہ سوچیں کہ آپ اکیلے ہی مصیبت میں مبتلا نہیں کیے گئے، آپ سے پہلے اور آپ کے بعد لوگ آزمائشوں میں ڈالے گئے اور ڈالے جائیں گے اور آپ اللہ کی زمین میں جدھر بھی نگاہ دوڑاؤ گے آپ کو آزمائشوں میں مبتلا لوگ نظر آئیں گے، اللہ تعالیٰ جو آزمائش بھی کسی کے مقدر کرتا ہے اس میں اس کی کمال حکمت پنہاں ہوتی ہے۔

انبیاء و صالحین آزمائشوں میں مبتلا کیے گئے۔ ان میں سے کسی کو قید کیا گیا اور کسی کو بیماری میں مبتلا کیا گیا، کسی کو اس کے شہر و ملک سے نکال دیا گیا، ان میں سے کسی کو مارا پیٹا گیا اور کسی سے دشمنی کی گئی اور تکلیفیں دی گئیں۔ سینکڑوں افراد ایسے ہوں گے جن کو معزول کیا گیا یا دھتکارا گیا یا بیماری یا فقر و فاقہ اور دیگر تکلیفوں میں مبتلا کیا گیا، پس آپ کو اکیلے ہی مصیبت نہیں پہنچی اور نہ آپ اکیلے ہی آزمائش میں مبتلا ہوئے۔

٭     ایوبؑ طویل مدت تک بیماری میں مبتلا رہے۔

٭     طویل عرصہ تک یعقوبؑ اپنے بیٹے (یوسفu) کو گم کیے رہے۔

٭     یوسف ؑ کو قید میں ڈالا گیا۔

٭    موسیٰ ؑ کو سخت تکلیف میں مبتلا کیا گیا اور انھیں ایک جبار و سرکش دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔

٭     محمدﷺ نے یتیمی کی حالت میں فقر و فاقہ کی زندگی بسر کی، آپﷺ کو جھٹلایا گیا، آپﷺ کو جادوگر، مجنون اور شاعر کہا گیا اور آپﷺ کا مذاق اڑایا گیا اور سجدے کی حالت میں آپﷺ کی پشت پر اونٹ کی اوجڑی پھینکی گئی، آپﷺ کو اپنے شہر سے نکالا گیا۔ آپﷺ کو اپنے پیاروں اور صحابہy کی وفات کا صدمہ پہنچتا رہا۔

اور صحابہ ] کو طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں اور انہوں نے بہت سی سختیوں اور مصیبتوں کا سامنا کیا اور ہر دَور میں اور ہر جگہ علماء اور صالحین کو آزمائشوں میں مبتلا کیا گیا۔

(مشکلات کا مقابلہ، ص : ۷۷۔ ۷۸)

چنانچہ رسولوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

{حَتّٰٓی اِذَا اسْتَیْئَسَ الرُّسُلُ وَ ظَنُّوْٓا اَنَّہُمْ  قَدْ کُذِبُوْا جَآءَ ہُمْ نَصْرُنَا فَنُجِّیَ مَنْ نَّشَآئُ وَ لَا یُرَدُّ بَاْسُنَا عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِیْنَ}  (۱۲؍یوسف : ۱۱۰)

’’یہاں تک کہ جب رسول بالکل ناامید ہو گئے اور انہوں نے گمان کیا کہ ان سے یقیناً جھوٹ کہا گیا تھا تو ان کے پاس ہماری مدد آ گئی، پھر جسے ہم چاہتے تھے وہ بچا لیا گیا اور ہمارا عذاب مجرم لوگوں سے ہٹایا نہیں جاتا۔ ‘‘

رسولوں کی آزمائش ہوئی تو اُنہوں نے آزمائش پر صبر کیا یہاں تک کہ ان کے پاس اللہ کی مدد آئی۔

{وَ لَقَدْ کُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِکَ فَصَبَرُوْاعَلٰی مَا کُذِّبُوْا وَ اُوْذُوْا حَتّٰٓی اَتٰہُمْ نَصْرُنَا }   (۶؍الانعام : ۳۴)

’’اور یقیناً آپ سے پہلے کئی رسول جھٹلائے گئے تو اُنہوں نے اس پر صبر کیا کہ وہ جھٹلائے گئے اور ایذا دیے گئے، یہاں تک کہ ان کے پاس ہماری مدد آ گئی۔ ‘‘

فتح و نصرت وہ مقام ہے جو آزمائش سے ملتا ہے اور وہ منزل ہے جس تک آزمائش سے گزرے بغیر پہنچا نہیں جا سکتا اور ممکن نہیں کہ یہ کہا جائے کہ فلاں شخص فتح سے ہمکنار ہو گیا، جب کہ اس نے کسی ایسی آزمائش کا سامنا نہیں کیا ہے جس کی بنیادس پر اسے فاتح اور کامیاب قرار دیا گیا ہو اور ہم کسی طالب علم کے متعلق اسی وقت یہ کہیں گے کہ وہ کامیاب ہو گیا جب وہ امتحان کو پاس کر لے گا، پس ایسے ہی زمین میں حقیقتاً فتح و نصرت آزمائش و امتحان سے گزرنے کے بعد ہی حاصل ہوتی ہے۔  (مشکلات کا مقابلہ، ص : ۱۰۲)

لہٰذا مومن آزمائش میں مبتلا کیا جائے تو اُسے چاہیے کہ فتح و نصرت کا منتظر رہے :

{اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ}  (۲؍البقرۃ : ۲۱۴)

’’سن لو! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔ ‘‘

٭٭

 

                انبیاء و رسلؑ اور  دیگر صلحاء کی سیرت کا مطالعہ

 

عزیمت اختیار کرنے والے راہِ حق کے راہوں کے سچے واقعات اور سیرت کے مطالعہ میں بہت سے فوائد اور عبرتیں ہیں جو آزمائش میں مبتلا مومن کی ثابت قدمی اور تسلی کا باعث بنتی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ کُلًّا نَّقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِہٖ فُؤَادَکَ}

(۱۱؍ھود : ۱۲۰)

’’اور ہم رسولوں کی خبروں میں سے ہر وہ چیز آپ سے بیان کرتے ہیں جس کے ساتھ ہم آپ کے دل کو ثابت رکھتے ہیں۔ ‘‘

سچے واقعات میں عبرت پکڑنے والے کے لیے عبرت کا سامان موجود ہے۔ جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشعراء میں واقعات بیان کیے تو ہر واقعہ کے آخر میں فرمایا:

{اِِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَۃً وَّمَا کَانَ اَکْثَرُہُمْ مُؤْمِنِیْنَo}  (۲۶؍الشعراء : ۸)

’’اس میں یقیناً ایک نشانی ہے اور ان کے اکثر ایمان لانے والے نہیں تھے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ ہماری ہی نصیحت کے لیے بیان کیے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِہِمْ عِبْرَۃٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِ مَا کَانَ حَدِیْثًا یُّفْتَرٰی}

(۱۲؍یوسف : ۱۱۱)

’’ان کے بیان میں عقل والوں کے لیے ہمیشہ سے ایک عبرت ہے۔ ‘‘

اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولﷺ کو حکم دیا کہ آپﷺ لوگوں کو وہ واقعات سنائیں جو آپﷺ کے علم میں ہیں تاکہ لوگ اپنے سے پہلے گزرنے والوں کے حالات پر غور و فکر کریں اور اپنے آپ کو ان پر قیاس کرتے ہوئے اپنے لیے عبرت کا سامان بنائیں۔ اگر گزشتہ لوگ ظالم تھے تو یہ ان کی روش سے دُور رہیں اور اگر وہ نیک تھے تو یہ ان کے کردار و عمل کو بنیاد بنائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّہُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ}  (۷؍الاعراف : ۱۷۶)

’’تو آپ یہ بیان سنادیجیے تاکہ وہ غور و فکر کریں۔ ‘‘

رسول اللہﷺ اور دین کی طرف دعوت دینے والے سابقہ لوگوں کے قصوں سے عبرت و نصیحت پکڑا کرتے تھے اور قرآنی واقعات اور حدیث نبوی میں مذکورہ قصے زاد راہ ہیں جو نفسوں کو سیراب اور دلوں کو مضبوط کرتے ہیں۔

(دیکھیے : صحیح القصص النبوی، عمر الأشقر، ص : ۱۵)

نوحؑ اور ان کی قوم، ہودؑ اور ان کی قوم، صالحؑ اور ان کی قوم، ابراہیمؑ اور ان کی قوم، لوطؑ اور ان کی قوم، موسیٰؑ اور ان کی قوم، عیسیٰؑ اور ان کی قوم اور حضرت محمدﷺ اور آپ کی قوم کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا انھیں جاننے کی حرص اور کوشش کریں۔

اہل علم نے نبیﷺ اور ان کی قوم کے جو حالات بیان کیے ہیں انھیں پڑھیں اور مکہ اور مدینہ میں انھیں جن حالات سے پالا پڑا ان کا مطالعہ کریں۔ علماء نے آپﷺ کے صحابہ کرامy کے احوال و اعمال کے متعلق جو کچھ بیان کیا ہے انھیں بھی پڑھیں۔

(مختصر سیرت النبیﷺ، ص : ۸)

اسی طرح ہر علاقے اور ہر دَور کے علمائے حق اور نیک لوگوں کی سیرت پر غور و فکر کریں کیونکہ اس سے حکمت و سبق حاصل ہو گا اور آنے والی ہر آزمائش کے لیے کوئی نمونہ مل جائے گا۔ تاریخ میں کس قدر سبق اور عبرتیں ہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

 

باب ششم

آزمائش سے پہلے اور بعد

 

مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اذکار اور دعاؤں کے ذریعہ اپنے آپ کو محفوظ کرے اور تمام مصائب اور برائیوں سے بچنے کا طریقہ کار اختیار کرے۔

برائیوں سے بچنے، مصائب سے نجات پانے اور ان سے محفوظ رہنے میں ذکر کے عظیم فائدے ہیں۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :

۱:      ’’جس شخص نے بستر پر لیٹتے وقت آیۃ الکرسی پڑھی اس پر اللہ کی طرف سے ایک محافظ و نگران مقرر ہو جاتا ہے، چنانچہ صبح تک شیطان اس کے قریب نہیں آنے پاتا۔ ‘‘ (بخاری، ح: ۲۳۱۱)

۲:   عبد اللہ بن خبیبؓ کہتے ہیں : مَیں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! مَیں کیا پڑھوں ؟ آپﷺ نے فرمایا:

’’ہر صبح و شام تین تین مرتبہ {قُلْ ہُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ} (سورہ اخلاص) {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ} (سورۃالفلق) اور {قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ} (سورۃالناس) پڑھیں تو یہ آپ کو ہر (آفت و پریشانی والی) چیز سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔ ‘‘  (ترمذی، ح: ۳۵۷۵۔ ابو داؤد، ح: ۵۰۸۲)

۳:  ابومسعودؓ سے مروی ہے، وہ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:

’’جس نے رات کو سورۃ البقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھیں وہ اسے (ہر قسم کی آفت و مصیبت سے بچانے کے لیے ) کافی ہیں۔ ‘‘  (بخاری، ح: ۵۰۰۹)

حافظ ابن قیمؒ  نے کہا:

’’صحیح بات یہ ہے کہ گزشتہ حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ سورۃ البقرہ کی آیتیں پڑھنا اسے ہر تکلیف دہ چیز کے شر سے بچانے کے لیے کافی ہیں۔ ‘‘

(الوابل الصیب، ص : ۱۲۱)

۴:  ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

’’جس شخص نے کسی مصیبت زدہ آدمی کو دیکھ کر یہ پڑھا:

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِہٖ وَفَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا

’’سب تعریف اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے اس مصیبت سے بچایا ہے جس میں آپ کو مبتلا کیا ہے اور جس نے مجھے بہت سی دیگر مخلوقات پر فضیلت عطا کی ہے ‘‘ تو وہ (مذکورہ دعا پڑھنے والا) کبھی اس مصیبت میں مبتلا نہیں ہو گا۔ ‘‘

(ترمذی، ح: ۳۴۳۱؛مسندالبزار، ح:۵۸۳۸)

۵:  ایک روایت میں ہے کہ

’’جس شخص نے شام کے وقت تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے :

أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ

(مَیں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعہ تمام مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ) تو اسے اس رات ڈنگ مارنے والے جانور کا زہر نقصان نہیں پہنچائے گا۔ ‘‘

(مسلم، ح:۲۷۰۹؛ ترمذی، ح: ۳۶۰۴)

سہیل (مذکورہ حدیث کی سند کے ایک راوی) نے کہا:

’’ہمارے گھر والے ان الفاظ کو یاد کر کے ہر رات انھیں پڑھتے تھے تو ان میں سے ایک لونڈی کو کسی زہریلے جانور نے ڈنک مارا مگر اسے اس سے بالکل درد محسوس نہ ہوا۔ ‘‘

۶:   خولہ بنت حکیمr رسول اللہﷺ سے روایت کرتی ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی جگہ پڑاؤ ڈالا، پھر یہ کلمات پڑھے :

أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَق

(مَیں اللہ کے کامل کلمات کے ذریعہ تمام مخلوق کے شر سے پناہ مانگتا ہوں ) تو اس کے اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز اسے نقصان نہ پہنچائے گی۔

(ترمذی، ح: ۳۴۳۷)

۷:  عثمان بن عفانؓ فرماتے تھے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

’’جس شخص نے (شام کے وقت) تین مرتبہ یہ کلمات پڑھے :

بِسمِْ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّ مَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآءِ وَہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ

(اللہ کے نام کے ساتھ جس کے نام (کی برکت) سے زمین و آسمان کی کوئی چیز نقصان نہیں پہنچا سکتی) تو اسے صبح تک کوئی بلائے ناگہانی نہیں پہنچے گی اور جس نے صبح کے وقت تین مرتبہ یہ کلمات کہے تو شام تک اسے کوئی اچانک مصیبت نہیں پہنچے گی۔ ‘‘

راوی حدیث نے کہا: ’’اس روایت کو بیان کرنے والے ابان بن عثمان کو فالج ہو گیا، جب انہوں نے مذکورہ حدیث سنائی تو سننے والا شخص ان کی طرف دیکھنے لگا، یہ فرمانے لگا: آپ کو کیا ہے کہ آپ میری طرف دیکھ رہے ہو؟ اللہ کی قسم! مَیں نے عثمانؓ پر جھوٹ نہیں بولا اور نہ عثمانؓ نے ہی نبیﷺ کے ذمہ جھوٹ لگایا ہے، لیکن جس دن مجھے یہ فالج ہوا تھا اس دن مجھے کسی بات پر غصہ چڑھا ہوا تھا تو میں یہ کلمات پڑھنا بھول گیا تھا۔ ‘‘

(ابو داؤد، ح: ۵۰۸۸۔ ترمذی، ح: ۳۳۸۸)

۸:  عمرو بن عاصؓ نبی اکرمﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو یہ پڑھتے :

((أَعُوْذُ بِاللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِوَجْہِہِ الْکَرِیْمِ وَبِسُلْطَانِہِ الْقَدِیْمِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ))

’’مَیں اللہ عظیم کی اس کے کریم چہرے اور لازوال بادشاہت کے واسطے سے شیطان مردود سے پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

آپﷺ نے فرمایا:

((فإذا قال ذلک، قال الشیطان: حفظ منی سائر الیوم))

(ابو داؤد، ح: ۴۶۶)

’’تو جب وہ مذکورہ دعا پڑھتا ہے تو شیطان کہتا ہے : یہ (دعا پڑھنے والا) تمام دن کے لیے مجھ سے بچالیا گیا۔ ‘‘

۹:  جابرؓ سے مروی ہے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

’’جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان (اپنے چیلوں کو مخاطب کر کے ) کہتا ہے : نہ یہاں آپ کا قیام ہے نہ طعام اور جب وہ گھر میں داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہیں کرتا تو شیطان کہتا ہے : (میرے شاگردو!) آپ کا قیام اس گھر میں ہے اور جب وہ کھانا کھاتے وقت بھی اللہ کا ذکر نہیں کرتے تو شیطان کہتا ہے : آپ کا قیام و طعام اسی گھر میں ہے۔ ‘‘ (مسلم، ح: ۲۱۰۸)

۱۰:   انس بن مالکؓ سے مروی ہے :

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے گھر سے نکلتے وقت پڑھا:

بِسْمِ اللّٰہِ تَوَکَّلْتُ عَلَی اللّٰہِ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ

(اللہ کے نام کے ساتھ (مَیں گھر سے نکلتا ہوں ) مَیں اللہ پر بھروسا کرتا ہوں، اللہ کی توفیق کے بغیر کسی گناہ سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی ہمت نہیں ہے ) اس (پڑھنے والے ) کے حق میں کہا جاتا ہے :

تُو کفایت کیا گیا، تیری راہنمائی کی گئی اور تُو بچا لیا گیا۔

شیطان اس سے الگ ہو جاتا ہے اور دوسرے شیطان سے کہتا ہے :

تُو اس شخص کا کیا بگاڑ سکتا ہے جس کی (اللہ کی طرف سے ) راہنمائی کی گئی، اسے کفایت کی گئی اور اسے (ہر قسم کے شر اور خسارے سے ) بچا لیا گیا۔ ‘‘

(ابو داؤد، ح: ۵۰۹۵)

اللہ کے ذکر میں شیاطین سے بچاؤ ہے، نیز مصیبتوں اور برائیوں سے بچاؤ ہے۔ یہ تو محض مثالیں تھیں ورنہ اس قسم کے اذکار اور دعائیں تو بہت زیادہ ہیں لہٰذا انھیں زیادہ سے زیادہ یاد کرنے اور پڑھنے کی حرص پیدا کریں، اللہ کے اذن و حکم کے ساتھ وہ بہت سی برائیوں اور مصیبتوں سے آپ کو محفوظ رکھیں گی۔

بچاؤ کے اسباب اختیار کریں اور ہر اس چیز سے بچیں اور دُور رہیں جو برائی کو کھینچ لاتی ہے یا مصیبت کا سبب بنتی ہے یا عداوت و دشمنی کو بھڑکاتی ہے۔ پس اگر اعتدال کے ساتھ مبالغہ آمیزی سے بچتے ہوئے ان حفاظتی تدابیر کے بعد بھی کوئی آفت و مصیبت آن پڑے تو آپ کو قصور وار ٹھہرا کر ملامت نہیں کی جائے گی یا آپ کو ضمیر کی ملامت کا احساس نہیں ہو گا اور اس بات پر ایمان لائیں کہ ہر چیز اللہ کے فیصلے اور تقدیر کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ (ملخصاً از: مشکلات کا مقابلہ، ص : ۹۱۔ ۹۸)

اچھے انجام کو یاد کر کے، اجر و ثواب کو یاد رکھ کر، جلد کشادگی کی امید اور اس جیسی دیگر چیزوں کو یاد کر کے اپنے آپ سے آزمائش کے اثر اور اس کے بوجھ کو دُور کریں اور ہر ممکن اسباب کو اِختیار کریں، جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((واحرص علی ما ینفعک …ولا تعجز۔ ))

(مسلم، ح: ۲۶۶۴)

’’اور اس چیز کی حرص کریں جو آپ کو فائدہ دے …اور  عاجز ہو کر مت بیٹھ جائیں۔ ‘‘

اسباب کو بروئے کار لانا (کشادگی کے ) دروازے کھول دیتا ہے اور اسباب کو اختیار کرنے میں کوتاہی کرنا ان چیزوں میں سے ہے جو اِنسان کو کمزور، لاچار اور بے بس کر دیتی ہیں :

٭  لہٰذا جب آپ بیمار ہوں تو

(۱)۔ اللہ کے متعلق حسن ظن رکھیں۔

(۲)۔ تلاوتِ قرآن اور مسنون دعاؤں کے ساتھ اپنے دل کو نرم کریں۔

٭     عائشہr سے مروی ہے کہ نبی ﷺ کو جب کوئی شخص (کسی تکلیف کی) شکایت کرتا یا اسے کوئی پھوڑا یا زخم ہوتا تو نبی ﷺ اس طرح اپنی انگلی کو رکھتے (راوی حدیث) سفیان بن عیینہ نے اپنی سبابہ انگلی زمین پر رکھی، پھر اسے اٹھایا اور پڑھا:

’’بِسْمِ اللّٰہِ، تُرْبَۃُ أَرْضِنَا، بِرِیْقَۃِ بَعْضِنَا، یُشْفٰی بِہِ سَقِیْمُنَا، بِإِذْنِ رَبِّنَا۔ ‘‘ (مسلم، ح: ۲۱۹۴)

’’اللہ کے نام کے ساتھ، یہ ہماری زمین کی مٹی ہے ہمارے بعض کے تھوک کے ساتھ، ہمارے رب کے حکم سے اس کے ساتھ ہمارا بیمار شفا یاب ہو جائے گا۔ ‘‘

۳:     آپ کے پاس شہد موجود رہے :

{فِیْہِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِ}  (۱۶؍النحل : ۶۹)

’’اس میں لوگوں کے لیے ایک قسم کی شفا ہے۔ ‘‘

۴:     حبۃ السوداء (کلونجی) میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے شفاء ہے :

((فإن فیہا شفاء من کل داء إلا السام۔ ))  (ترمذی، ح: ۲۰۴۱)

’’یقیناً (کلونجی) میں، سوائے موت کے، ہر بیماری سے شفا ہے۔ ‘‘

۵:     زمزم کا پانی استعمال کریں :

((إنہا مبارکۃ، إنہا طعام طعم۔ ))  (مسلم، ح: ۲۴۷۳)

’’وہ (آبِ زمزم) بابرکت ہے، یقیناً وہ کھانے کا کھانا (اور پینے کا پینا) ہے۔ ‘‘

٭ جب آپ فقیر ہیں اور آپ کو کوئی کام نہ مل رہا ہو تو:

۱:      گناہوں سے بچیں، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ان گناہوں نے ہی آپ کو رزق سے محروم کر رکھا ہو۔

۲:     اللہ کا تقویٰ اختیار کریں :

{وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ}

(۶۵؍الطلاق: ۲، ۳)

’’اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا اور اسے رزق دے گا جہاں سے وہ گمان نہیں کرتا۔ ‘‘

۳:     آگاہ رہیں آپ کے مقدر کا رزق آپ کو مل کر رہے گا اور کوئی شخص اس وقت تک ہرگز نہیں مرتا جب تک وہ اپنا رزق مکمل نہیں کر لیتا:

((فإن نفسا لن تموت حتی تستوفی رزقہا وإن أبطأ عنہا۔ ))

(ابن ماجۃ، ح: ۲۱۴۴)

’’بے شک کوئی شخص اپنا رزق پورا کرنے سے پہلے ہرگز فوت نہ ہو گا اگرچہ اس کا رزق اسے کچھ تاخیر سے ملے (اسے مل کر رہے گا)۔ ‘‘

۴:     فقر و فاقہ سے مت ڈریں اور اپنے فقر و فاقہ کو اَللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کریں اور صرف اسی سے اس کی شکایت کریں :

((ومن نزلت بہ فاقۃ فأنزلہا باللّٰہ فیوشک اللّٰہ لہ برزق عاجل أو آجل۔ ))  (ترمذی، ح: ۲۳۲۶)

’’اور جس شخص کو فاقہ پہنچا تو اس نے اسے اللہ کے سامنے پیش کیا (اور اسی سے شکایت کی) پس اللہ اسے جلد یا بدیر ضرور رزق سے نوازے گا۔ ‘‘

۵:     اللہ پر سچا توکل اور بھروسا کریں :

((لو أنکم توکلون علی اللّٰہ حق توکلہ لرزقتم کما یرزق الطیر، تغدوا خماصا وتروح بطانا۔ ))  (ترمذی، ح: ۲۳۴۴)

’’اور اگر واقعی تم اللہ پر ویسا بھروسا کرو جیسا اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تم پرندوں کی طرح رزق دیے جاؤ جو صبح کو خالی پیٹ روانہ ہوتے ہیں اور شام کو سیر ہو کر واپس لوٹتے ہیں۔ ‘‘

۶:     گناہوں سے توبہ اور استغفار کو لازم پکڑیں اور اسے اپنا وطیرہ بنائیں :

{فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًاo یُّرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًاo وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًاo}

(۷۱؍نوح: ۱۰۔ ۱۲)

’’تو مَیں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔ ‘‘

۷:     کام اور نوکری تلاش کریں، مایوسی ترک کر دیں اور ممکنہ اسباب کو بروئے کار لائیں۔

۸:     حرام مال کا طمع نہ کریں چاہے وہ تھوڑا ہی ہو اور دھوکا دہی اور خیانت سے بچیں۔

۹:     لوگوں کے مال کا طمع نہ کریں اور حتی الوسع لوگوں سے بے پروائی اختیار کریں۔

۱۰:    جب آپ کے لیے رزق کا دروازہ کھل جائے تو اسے لازم پکڑیں، اگرچہ وہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو۔

۱۱:     دعا کو لازم کر لیں :

((اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ وَرَبَّ الْأَرَضِینَ وَرَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَفَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْقُرْاٰنِ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِی شَرٍّ أَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَالظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَالْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَأَغْنِنِیْ مِنَ الْفَقْرِ))  (ترمذی، ح: ۳۴۰۹)

’’آسمانوں اور زمینوں کے رب! ہمارے اور ہر چیز کے رب! دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے ! تورات، انجیل اور قرآن کو نازل کرنے والے اللہ! مَیں تیری پناہ مانگتا ہوں، ہر اس شریر کے شر سے جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تُو ہی اول ہے، تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور تُو ہی آخر ہے، تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تُو ہی ظاہر ہے، پس تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تُو ہی باطن ہے، تجھ سے قریب کوئی چیز نہیں، مجھ سے قرض دُور کر دیجیے اور فقر و فاقہ سے میری کفایت کر دیجیے۔ ‘‘

٭  جب آپ کو جیل میں ڈال دیا جائے تو:

۱:      اللہ کی حمد بیان کریں، آپ کو مارا جائے گا اور نہ سزا ہی دی جائے گی۔

۲:     آپ سے پہلے بھی بہت سے عظیم لوگ گرفتار ہوئے جو آپ کے لیے نمونہ ہیں۔

۳:     جان لیں کہ قید کے ایام محدود اورگنتی کے ہیں جو جلد ختم ہو جائیں گے۔

۴:     ہر گزرنے والے دن پر خوش ہوتے رہیں کیونکہ وہ آپ کو رہائی کے قریب کر دے گا۔

۵:     پس رات کو چھٹنا ہی ہے اور ہتھکڑی کو ٹوٹنا ہی ہے۔

۶:     غم نہ کریں کیونکہ اللہ آپ کے ساتھ ہے :

{اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَo}

(۱۶؍النحل : ۱۲۸)

’’بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو ڈر گئے اور ان لوگوں کے جو نیکی کرنے والے ہیں۔ ‘‘

۷:     اس آزمائش پر صبر کریں تاکہ اللہ کے حکم سے اس کے بعد آپ کو نعمت اور خوشحالی نصیب ہو۔

۸:     کثرت سے دعا کرتے رہیں اور جان رکھیں کہ اللہ تعالیٰ آپ پر اس آزمائش کو ہمیشہ باقی نہیں رکھے گا۔

۹:     رہائی کی لذت کو یاد کریں اور اپنے نفس سے اس کے متعلق باتیں کریں، ان شاء اللہ وہ قریب ہے۔

٭  جب آپ کو کوئی ظالم بری دھمکی دے یا آپ کسی حاسد کے شر سے ڈریں تو :

۱:      اس سے مت ڈریں کیونکہ وہ بشر ہے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہے۔

۲:     اگر آپ کے بس میں ہے تو اس سے دُور رہنے کی کوشش کریں۔

۳:     اس کے شر سے اللہ کی پناہ مانگیں۔

۴:     اذکار و وظائف کے ساتھ بچاؤ اختیار کریں۔

۵:     اللہ سے ڈریں اور اپنے گناہوں سے توبہ کریں، اپنی غلطیوں کی اصلاح کریں۔ دانا لوگوں میں سے کسی سے پوچھا گیا: انسان اپنے دشمن سے انتقام کیسے لے ؟ تو اس نے کہا: اپنے نفس کی اصلاح کے ساتھ۔

۶:     اچھے انداز میں اس کا دفاع کریں۔

۷:     اپنے نفس کو اس برے سلوک پر مطمئن کریں جس کی آپ توقع رکھتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ روا رکھنے کی طاقت رکھتا ہے، پھر اسے ہلکا سمجھتے ہوئے اس کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔

۸:     آگاہ رہیں کہ وہ ہرگز آپ کو اس سے زیادہ نقصان پہنچانے کی قدرت نہیں رکھتا جو آپ کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے چاہے وہ اس کے لیے کتنے ذرائع اختیار کر لے، لہٰذا آپ مطمئن رہیں۔

۹:     خوب جان لیں کہ بری تدبیر کا وبال کرنے والے پر ہی پڑتا ہے۔

٭  جب آپ کا کوئی قریبی اور پیارا فوت ہو جائے تو:

۱:      اپنا معاملہ اور کام اللہ کے سپرد کریں۔

۲:     آگاہ رہیں کہ اس بات کا امکان ہی نہ تھا کہ وہ موت سے بچ جاتا۔

۳:     گزرتے ہوئے ایام کے متعلق بیٹھے مت سوچتے رہیں۔

۴:     اپنے آپ کو کسی مباح اور جائز کھیل میں مصروف کریں تاکہ آپ اپنے دل سے غموں کے بوجھ کو ہلکا کرسکیں۔

۵:     اپنے آپ کو کسی ایسے مفید اور نفع بخش کام میں مشغول کریں جس کی طرف آپ کا دل مائل ہے تاکہ آپ اس صدمے کو، جو آپ کو پہنچا ہے، بھول سکیں۔

۶:     صبر کریں اور اس صبر پر ثواب کی امید رکھیں :

((ما لعبدی المؤمن عندی جزاء إذا قبضت صفیہ من أہل الدنیا ثم احتسبہ إلا الجنۃ۔ ))

’’میرا وہ مومن بندہ جس کے دنیا کے گھر والوں میں سے کسی پیارے کو میں فوت کر دوں اور وہ اس پر صبر کرتے ہوئے ثواب کی امید رکھے تو میرے پاس اس کے لیے جنت کے سوا کوئی بدلہ نہیں ہے۔ ‘‘  (بخاری، ح: ۶۴۲۴)

۷:     اپنے آپ کو یہ عظیم ثمرہ یاد دلائیں تاکہ آپ کے دل سے اس آزمائش کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔

٭  جب آپ کو آپ کے وطن سے نکال دیا جائے تو:

۱:      اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں۔

۲:     اللہ کے متعلق حسن ظن رکھیں اور جان لیں کہ اس نے آپ کو شر سے دُور اور خیر کے قریب کیا ہے۔

۳:     تمام مخلوق سے افضل و بہتر انسان محمدﷺ بھی اپنے وطن سے نکالے گئے، آپ کے لیے ان میں نمونہ ہے۔

۴:     جس مصیبت سے آپ دوچار ہوئے اس سے گھبراؤ نہیں کیونکہ وہ آزمائش تو آپ کے مقدر میں لکھی ہوئی تھی۔

۵:     اپنے وطن واپسی کی امید رکھیں، شاید کہ آپ کی واپسی قریب ہو۔

٭  جب آپ اولاد سے محروم اور بانجھ ہوں تو:

۱:      کثرت سے استغفار کریں :

{فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ اِِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًاo یُّرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًاo وَّیُمْدِدْکُمْ بِاَمْوَالٍ وَّبَنِیْنَ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ جَنّٰتٍ وَّیَجْعَلْ لَّکُمْ اَنْہٰرًاo}

(۷۱؍نوح :۱۰۔ ۱۲)

’’تو مَیں نے کہا: اپنے رب سے معافی مانگ لو، یقیناً وہ ہمیشہ سے بہت معاف کرنے والا ہے۔ وہ تم پر بہت برستی ہوئی بارش اتارے گا اور وہ مالوں اور بیٹوں کے ساتھ  تمھاری مدد کرے گا اور تمھیں باغات عطا کرے گا اور تمھارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔ ‘‘

۲:     اس دعا کو لازم کر لیں :

{رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَo}  (۲۱؍الانبیاء : ۸۹)

’’میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو بہترین وارث ہے۔ ‘‘

۳:     ہسپتالوں میں جائیں اور اسباب کو بروئے کار لائیں، علاج کی حرص کریں اور دوا استعمال کریں۔

٭  جب آپ گالی گلوچ کا نشانہ بنیں تو:

۱:      جان رکھیں آپ کو گالی گلوچ کیا جانا آپ کے بلند مرتبہ ہونے کی دلیل ہے۔

۲:     جس نے آپ کو گالی دی اس نے آپ کی شہرت کی اور آپ کا نام روشن کیا جو بذاتِ خود ایک نعمت ہے۔

۳:     گالی گلوچ ہرگز آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مَیں نے کبھی کوئی ایسا کلام نہیں دیکھا جو بزرگی کو گراتا اور مضبوط دیوار کو ڈھاتا ہو۔

۴:     گالی گلوچ سے آپ کا مرتبہ کم نہیں ہو گا۔

لَا یَضُرُّ الْبَحْرَ أَمْسٰی زَاخِرًا

إِنْ رَمٰی فِیْہِ غُلَامٌ بِحَجَرٍ

’’موجیں مارنے والے سمندر میں اگر کوئی بچہ پتھر مارے تو اس سے سمندر کو کچھ نقصان نہیں ہوتا۔ ‘‘

وَہَلْ یَضُرُّ السَّحَابَ نَبْحُ الْکِلَابِ

’’اور کیا کتوں کا بھونکنا بادل کو کوئی نقصان دے سکتا ہے ؟‘‘

۵:     صبر، حلم اور بردباری کا مظاہرہ کریں، کیونکہ حلم اور بردباری دشمنوں کو مغلوب کر دیتی ہے۔

۶:     آپ کو جو کچھ کہا گیا ہے اس پر تجاہل عارفانہ کا مظاہرہ کریں کہ جیسا آپ نے کچھ سنا ہی نہیں ہے :

’’جب بے وقوف بولے تو اسے جواب نہ دیں کیونکہ اسے جواب دینے سے خاموشی اختیار کرنا بہتر ہے۔ ‘‘

۷:     انبیاءؑ کو بھی گالی گلوچ کی گئی جو آپ کے لیے نمونہ ہیں۔

٭  جب آپ پر ظلم اور ایذا رسانی کی جائے تو:

۱:      جان لیں کہ ظلم تو ظلم کرنے والے کے لیے ہی دنیا و آخرت میں اندھیروں کا باعث ہے۔

۲:     مظلوم! آپ کی دعا قبول کی جائے گی۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔

۳:     جس نے آپ پر ظلم کیا آپ اسے معاف کر دیں، آپ کی قوت و عزت میں اضافہ ہو گا:

((وما زاد اللّٰہ عبدا بعفو إلا عزا))  (مسلم، ح: ۲۵۸۸)

’’کسی کو معاف کرنے کے سبب اللہ معاف کرنے والے کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے۔ ‘‘

اور یہ بھی کہا گیا ہے : سب سے اچھا اور بڑا اِنتقام عفو و درگزر کرنا ہے۔

۴:     جس شخص نے آپ کو تکلیف پہنچائی اور آپ پر ظلم کیا آپ اس کے متعلق اللہ سے ڈریں، پس آپ اس شخص کو جس نے آپ کے متعلق اللہ کی نافرمانی کی، اس جیسا بدلہ نہیں دے سکتے کہ آپ اس کے متعلق اللہ کی اطاعت کریں، آپ کے لیے اللہ کی طرف سے یہی نصرت و تائید کافی ہے کہ آپ اپنے دشمن کو اپنے متعلق اللہ کی نافرمانی کرتا ہوا دیکھیں۔

کُنْ کَالنَّخِیْلِ عَنْ الْأَحْقَادِ مُرْتَفِعًا

بِالطَّوْبِ یُرْمٰی فَیُلْقِیْ أَطْیَبَ الثَّمَرِ

’’کھجور کی طرح کینے سے بلند ہو جا جسے اینٹ ماری جاتی ہے تو وہ بدلے میں عمدہ پھل گراتی ہے۔ ‘‘

۶:     اور شر کو ترک کرنا شر کو بہت زیادہ قطع و دفع کرنے والا ہے۔

۷:     شر کے ساتھ غالب آنے والا مغلوب ہوتا ہے۔

٭  جب آپ مقروض ہیں تو:

۱:      علیؓ سے مروی ہے کہ ایک مکاتب غلام ان کے پاس آیا اور عرض کی: مَیں اپنی مکاتبت کی رقم ادا کرنے سے عاجز آ گیا ہوں، لہٰذا میری مدد کی جائے۔ علیؓ نے فرمایا: کیا مَیں آپ کو وہ کلمات نہ سکھاؤں جو مجھے رسول اللہﷺ نے سکھائے تھے، اگر آپ پر ایک بڑے پہاڑ کے برابر بھی قرض ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے آپ سے دُور کر دے گا؟ انہوں نے فرمایا: پڑھیں :

((أَللّٰہُمَّ اکْفِنِیْ بِحَلَالِکَ عَنْ حَرَامِکَ وَاَغْنِنِیْ بِفَضْلِکَ عَمَّنْ سِوَاکَ))

’’اللہ! اپنے حلال رزق سے میری تمام ضرورتیں پوری کر دیجیے اور مجھے حرام سے بچا لیجیے اور اپنے فضل سے مجھے اپنی ذات کے سوا ہر ایک سے بے نیاز کر دیجیے۔ ‘‘ (ترمذی، ح: ۲۵۶۳)

۲:     ایک دن رسول اللہﷺ مسجد نبوی میں داخل ہوئے تو وہاں پر سیدنا ابو امامہ ایک انصاری صحابی تھے تو آپﷺ نے فرمایا:

((یا أبا أمامۃ، مالی أراک جالسا فی المسجد فی غیر وقت صلاۃ؟))

’’ابو امامہ! کیا بات ہے کہ مَیں آپ کو نماز کے وقت کے علاوہ مسجد میں بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں ؟‘‘

ابو امامہؓ نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! مجھے غموں نے گھیر رکھا ہے اور قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہوں، آپﷺ نے فرمایا:

((أفلا أعلمک کلاما إذا انت قلتہ أذھب اللّٰہ عزوجل ہمک وقضٰی عنک دینک۔ ))

’’کیا مَیں آپ کو ایک کلام نہ سکھاؤں کہ جب آپ اسے پڑھیں تو اللہ عزوجل آپ کا غم دُور کر دے گا اور آپ کا قرض اتار دے گا۔ ‘‘

ابو امامہؓ کہتے ہیں کہ مَیں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ کیوں نہیں ! (ضرور بتائیے ) آپﷺ نے فرمایا کہ صبح و شام یہ دعا پڑھیں :

((أَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْہَمِّ وَالْحُزْنِ وَأَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَالْکَسْلِ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ أَعُوْذُبِکَ مِنْ غَلَبَۃِ الدَّیْنِ  وَقَہْرِ الرِّجَالِ))

(ابو داؤد، ح: ۱۵۵۵، اس کی سند ضعیف ہے، اس حدیث کے راوی وفات سے قبل اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ محقق)

’’اللہ! مَیں غم و حزن سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور کمزوری و سستی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، بزدلی اور بخیلی سے تیری پناہ مانگتا ہوں، قرض کے بوجھ اور لوگوں کے غلبہ سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ ‘‘

ابو امامہؓ فرماتے ہیں : مَیں نے مذکورہ بالا دعا پڑھی تو اللہ تعالیٰ نے میرا غم بھی دُور کر دیا اور میرا قرض بھی اتار دیا۔

۳:     یہ دعا بھی پڑھیں :

((اَللّٰہُمَّ رَبَّ السَّمٰوَاتِ وَرَبَّ الْأَرَضِینَ وَرَبَّنَا وَرَبَّ کُلِّ شَیْئٍ وَفَالِقَ الْحَبِّ وَالنَّوٰی وَمُنْزِلَ التَّوْرَاۃِ وَالْإِنْجِیلِ وَالْقُرْاٰنِ أَعُوذُ بِکَ مِنْ شَرِّ کُلِّ ذِی شَرٍّ أَنْتَ اٰخِذٌ بِنَاصِیَتِہِ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْئٌ وَأَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْئٌ وَالظَّاہِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْئٌ وَالْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُونَکَ شَیْئٌ اِقْضِ عَنِّی الدَّیْنَ وَأَغْنِنِیْ مِنَ الْفَقْرِ)) (ترمذی، ح:۳۴۰۰)

’’آسمانوں اور زمینوں کے رب ہمارے اور ہر چیز کے رب! دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والے، تورات، انجیل اور قرآن کو نازل کرنے والے اللہ! مَیں تیری پناہ مانگتا ہوں، ہر اس شریر کے شر سے جس کی پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، تُو ہی اول ہے پس تجھ سے پہلے کوئی چیز نہیں اور تُو ہی آخر ہے پس تیرے بعد کوئی چیز نہیں اور تُو ہی ظاہر ہے پس تجھ سے اوپر کوئی چیز نہیں اور تُو ہی باطن ہے تجھ سے قریب کوئی چیز نہیں، مجھ سے قرض دُور کر دیجیے اور فقر و فاقہ سے میری کفایت کر دیجیے۔ ‘‘

۴:     حتیٰ الوسع حاجت روائی کو موخر نہ کریں اور نہ اس پر کسی ایسی چیز کو مقدم کریں جس کا مقدم کرنا لائق اور مناسب ہے ورنہ آپ ندامت کا سامنا کریں گے۔

۵:     جان لیں کہ اکثر قرض داروں کے پاس مال ہوتا ہے لیکن وہ کمزور دلیلوں اور بہانے کے ساتھ دوسروں کی ضرورت پوری کرنے سے قصداً اعراض کرتے ہیں اور عمداً ٹال مٹول کرتے ہیں، آپ ایسے لوگوں میں شامل ہونے سے بچیں۔

مقصود یہ ہے کہ آپ آزمائش کی تکلیفوں اور اس کے ثمرات، اچھے انجام اور اجر و ثواب کی امید پر اپنے نفس پر واقع ہونے سے روکیں اور اس شعور کے ساتھ کہ جو بھی ممکن ہے اس آزمائش کے واقع ہونے اور اپنے آپ پر اس کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کریں، نیز آزمائش کے اثرات سے بچنے کے لیے اسباب و ذرائع کو بروئے کار لائیں اور دل شکستہ، عاجز و کمزور اور شکست خوردہ بن کر کھڑے نہ ہو جائیں۔

(ملخصاً ایضاً، ص :۲۵۷۔ ۲۷۲)

٭٭

 

                دعا کا کمال

 

آپ جس آزمائش میں مبتلا ہو بہت سی عاجزی و انکساری، گریہ و زاری اور کثرتِ دعا کے ساتھ اور زمین و آسمان کے رب پر اصرار و مواظبت کے ساتھ اس کا سامنا کریں۔

ثوبانؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

((لا یزید فی العمر إلا البر، ولا یرد القدر الا الدعائ۔ ))

’’نیکی کے علاوہ کوئی چیز عمر میں اضافہ نہیں کرسکتی اور دعا کے علاوہ کوئی چیز تقدیر کو نہیں بدل سکتی۔ ‘‘  (ابن ماجۃ، ح: ۹۰)

اور دعا آزمائش کی دشمن ہے جو اسے دُور کرتی ہے، اس کا مقابلہ کرتی ہے اور اسے غالب آنے سے روکتی ہے، وہ آزمائش کا دفاع کرتی ہے یا اگر وہ اتر ہی پڑے تو اسے ہلکا کرتی ہے، لہٰذا دعا مومن کا اسلحہ اور ہتھیار ہے۔ (الداء والدواء، ص : ۲۰)

ذیل میں کچھ ان لوگوں کی مثالیں ہیں جو مشکلات میں گھر گئے پھر ان کی دعا اور اللہ کی پناہ اور سہارا لینے کی وجہ سے ان کی مشکلات دُور ہو گئیں۔

٭     نوحؑ اپنے معاملے کی اللہ کو شکایت کرتے ہیں اور اپنے مولیٰ کا سہارا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَلَقَدْ نَادٰنَا نُوحٌ فَلَنِعْمَ الْمُجِیْبُوْنَo وَنَجَّیْنٰہُ وَاَہْلَہٗ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِo}

(۳۷؍الصّٰفّٰت : ۷۵، ۷۶)

’’اور یقیناً نوح نے ہمیں پکارا تو یقیناً ہم اچھے قبول کرنے والے ہیں اور ہم نے آپ کو اور آپ کے گھر والوں کو بہت بڑی مصیبت سے نجات دی۔ ‘‘

(نیز دیکھیے ۵۴؍القمر: ۱۰۔ ۱۱؛ ۲۱؍الانبیاء: ۷۶)

پکار اور سرگوشی نوحؑ کی طرف سے ہوئی اور اس کی قبولیت رحمن رحیم اللہ کی طرف سے۔

٭     ایوبuکو اَللہ تعالیٰ نے طویل عرصہ بیماری میں مبتلا کیا لیکن وہ مایوس نہیں ہوئے بلکہ اس پر صبر کیا اور اپنے اللہ سے اجر و ثواب کے امیدوار رہے۔

انہوں نے اپنے رب تعالیٰ کی طرف شکوہ کرتے ہوئے توجہ کی تاکہ اللہ تعالیٰ ان کی تکلیف اور آزمائش کو ٹال دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗٓ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo}

(۲۱؍الانبیاء : ۸۳)

’’اور ایوب، جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا کہ یقیناً مجھے تکلیف پہنچی اور تُو بہترین رحم کرنے والاہے۔ ‘‘

پس نتیجہ کیا نکلا؟ یہی کہ حق تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰہُ اَہْلَہٗ وَ مِثْلَہُمْ مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَo}  (۲۱؍الانبیاء : ۸۴)

’’تو ہم نے آپ کی دعا قبول کر لی، پس انھیں جو بھی تکلیف تھی دُور کر دی اور انھیں ان کے گھر والے اور ان کے ساتھ ان کی مثل (اور) عطا کر دیے، اپنے پاس سے رحمت کے لیے اور ان لوگوں کی یاد دہانی کے لیے جو عبادت کرنے والے ہیں۔ ‘‘

٭     یونسؑ نے اپنی شکایت اللہ کے سامنے پیش کی، پس انہوں نے صرف اللہ کو پکارا اور اس سے سرگوشی کی۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَo}  (۲۱؍الانبیاء : ۸۷)

’’اور مچھلی والے کو، جب وہ غصے سے بھرے ہوئے چلے گئے، پس انہوں نے سمجھا کہ ہم ان پر گرفت تنگ نہ کریں گے تو اُنھوں نے اندھیروں میں پکارا کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تُو پاک ہے، یقیناً مَیں ظلم کرنے والوں سے ہو گیا ہوں۔ ‘‘

پھر نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَ کَذٰلِکَ نْ نُجِی الْمُؤْمِنِیْنَo}

(۲۱؍الانبیاء : ۸۸)

’’تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں غم سے نجات دی اور اسی طرح ہم ایمان والوں کو نجات دیتے ہیں۔ ‘‘

٭     زکریاؑ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

{وَ زَکَرِیَّآ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ  رَبِّ لَا تَذَرْنِیْ فَرْدًا وَّ اَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَo فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَ وَہَبْنَا لَہٗ یَحْیٰی وَ اَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ}  (۲۱؍الانبیاء : ۸۹، ۹۰)

’’اور زکریا کو جب انھوں نے اپنے رب کو پکارا، میرے رب! مجھے اکیلا نہ چھوڑ اور تُو سب وارثوں سے بہتر ہے تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور انھیں یحییٰ عطا کیا اور ان کی بیوی کو اُن کے لیے درست کر دیا۔ ‘‘

٭     ادھر یعقوبؑ کے بارے میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

{قَالَ اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَ حُزْنِیْٓ اِلَی اللّٰہِ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَo}

(۱۲؍یوسف : ۸۶)

’’انھوں نے کہا: مَیں تو اپنی ظاہر ہو جانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں اور مَیں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ ‘‘

پس اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا اور شکایت قبول کی اور یوسفؑ اور ان کے بھائی کو واپس لوٹا دیا۔

٭     یوسفؑ کو اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے مکر و فریب کی آزمائش میں مبتلا کیا تو انہوں نے اللہ کی پناہ کا سہارا لیا اور اس سے شکایت کرتے ہوئے دعا کی۔ فرمایا:

{وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَہُنَّ اَصْبُ اِلَیْہِنَّ وَ اَکُنْ مِّنَ الْجٰہِلِیْنَo فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَہُنَّ اِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo}

(۱۲؍یوسف : ۳۳، ۳۴)

’’اور اگر تُو مجھ سے ان کے فریب کو نہ ہٹائے گا تو مَیں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور نادانوں میں سے ہو جاؤں گا۔ تو اُن کے رب نے ان کی دعا قبول کر لی، پس ان سے ان (عورتوں ) کا فریب ہٹا دیا، بے شک وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔ ‘‘

٭     اللہ نے ہمارے نبی محمدﷺ اور ان کے صحابہ y کے متعلق خبر دیتے ہوئے فرمایا:

{اِذْ تَسْتَغِیْثُوْنَ رَبَّکُمْ فَاسْتَجَابَ لَکُمْ اَنِّیْ مُمِدُّکُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِکَۃِ مُرْدِفِیْنَo}  (۸؍الانفال : ۹)

’’جب تم اپنے رب سے مدد مانگ رہے تھے تو اس نے تمھاری دعا قبول کر لی کہ بے شک مَیں ایک ہزار فرشتوں کے ساتھ تمھاری مدد کرنے والا ہوں جو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والے ہیں۔ ‘‘

٭     اور جب خندق والے دن مشرکین مکہ اور یہودی جمع ہو کر مدینے پر حملہ آور ہوئے تو آپﷺ نے ان کے خلاف یہ بددعا کی:

((اَللّٰہُمَّ مُنْزِلَ الْکِتَابِ، سَرِیْعَ الْحِسَابِ اِہْزِمِ الْأَحْزَابَ، اَللّٰہُمَّ اھْزِمْہُمْ وَزَلْزِلْہُمْ))  (بخاری، ح: ۴۱۱۵)

’’کتاب کے نازل کرنے والے اور جلد حساب لینے والے اللہ! ان لشکروں کو شکست دیجیے۔ اللہ! انھیں شکست دیجیے اور ان کے قدم اکھاڑ دیجیے۔ ‘‘

پس اللہ تعالیٰ نے انھیں شکست دے دی اور ان پر تیز ہوا مسلط کر دی جس نے انھیں ذلیل و رسوا کر کے پلٹا دیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مشکل سے نجات دی جو غار میں پھنس گئے تھے۔  (بخاری : ۳۴۶۵)

حاجت مندو! بیمارو! مقروضو! پریشان حالو اور مظلومو! تنگ دستو اور غمگین ہونے والو! اور فقیرو اور محرومو!

ازدواجی زندگی میں سعادت و راحت کے متلاشی! بے اولادی کی شکایت کرنے والے اور اولاد ڈھونڈنے والے ! پڑھائی اور ڈیوٹی میں توفیق طلب کرنے والے ! مسلمانوں کے معاملے کی فکر کرنے والے ! ہر قسم کے ضرورت مند! وہ شخص جس پر زمین کشادہ ہونے کے باوجود تنگ ہو گئی! آپ اپنے معاملے کی شکایت اللہ کی جناب میں پیش کیوں نہیں کرتے جبکہ وہ فرماتا ہے :

{ادْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ}  (۴۰؍المؤمن : ۶۰)

’’مجھے پکارو، مَیں تمھاری دعا قبول کروں گا۔ ‘‘

ہم اپنے امر کی شکایت اللہ کے حضور کیوں پیش نہیں کرتے حالانکہ اس کا کہنا ہے :

{وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ }

(۲؍البقرۃ : ۱۸۶)

’’اور جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کریں تو بے شک میں قریب ہوں، مَیں پکارنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ ‘‘

نیز اس کا کہنا ہے :

{قُلْ مَا یَعْبَاُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلَا دُعَاؤُکُمْ}  (۲۵؍الفرقان : ۷۷)

’’کہہ دیجیے ! میرا رب تمھاری پروا  نہ کرتا اگر تمھارا پکارنا نہ ہو۔ ‘‘

اے وہ شخص کہ جب آپ پر آزمائش آئی تو آپ کے پیارے بھول گئے اور آپ کے ساتھی اور ہمراہی آپ کو چھوڑ گئے۔ اے وہ شخص! جس پر کوئی آفت نازل ہوئی ہے یا آپ پر سخت مصیبت اتری ہے اور اے وہ شخص کہ آپ مصیبت اور آزمائش میں مبتلا کیے گئے ہو۔ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاؤ، کثرت سے آنسو بہاؤ اور گریہ و زاری کریں اور دعا میں اللہ سے اصرار کریں۔

’’پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ بڑا حیا کرنے والا سخی ہے جب بندہ اس کے حضور ہاتھ اٹھاتا ہے تو انھیں خالی اور نامراد لوٹاتے ہوئے اسے شرم آتی ہے۔ ‘‘

(ترمذی، ح: ۳۵۵۶)

جابرؓ سے مروی ہے کہ مَیں نے رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:

((ما من أحد یدعو بدعاء إلا اٰتاہ اللّٰہ ما سأل، أو کف عنہ من السوء مثلہ، ما لم یدع باثم أو قطیعۃ رحم۔ ))

(ترمذی، ح: ۳۳۸۱)

’’جب کوئی شخص دعا کرتا ہے تو اللہ اسے وہی چیز عطا کر دیتا ہے جو اس نے مانگی ہوتی ہے یا اس دعا کے برابر اس سے کوئی مصیبت ٹال دیتا ہے بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ مانگے۔ ‘‘

کیا ایک عقلمند مومن دعا کی فضیلت اور اہمیت کو جان لینے کے بعد بھی دعا مانگنا چھوڑے گا؟

دعا ایک ایسا ہتھیار اور اسلحہ ہے جس کے ساتھ آزمائش کو ہٹایا، اس کا سامنا کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ برے فیصلے کو روکا جاتا ہے۔

اے مومن! ہوشیار باش! لازمی اور ضروری ہے کہ تکلیف اور مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے عاجزی و انکساری کا اظہار کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

{فَاَخَذْنٰہُمْ بِالْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ لَعَلَّہُمْ یَتَضَرَّعُوْنَo فَلَوْ لَآ اِذْ جَآءَ ہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰکِنْ قَسَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ زَیَّنَ لَہُمُ الشَّیْطٰنُ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ}

(۶؍الانعام : ۴۲، ۴۳)

’’پھر ہم نے انھیں تنگ دستی اور تکلیف کے ساتھ پکڑا، تاکہ وہ عاجزی کریں۔ پھر انہوں نے کیوں عاجزی نہ کی، جب ان پر ہمارا عذاب آیا اور لیکن ان کے دل سخت ہو گئے اور شیطان نے ان کے لیے خوشنما بنا دیا جو کچھ وہ کرتے تھے۔ ‘‘

پس اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ابھارا ہے اور ترغیب دلائی ہے کہ جب ان پر بیماریوں، زخموں، جنگ، دشمنوں کے تسلط کی شکل میں یا ان کے علاوہ دیگر مصائب ٹوٹ پڑیں تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عاجزی و انکساری کریں اور اسی کی طرف اپنی محتاجی کو ظاہر کرتے ہوئے مدد کے طلب گار بنیں۔ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا یہی مطلب ہے :

{فَلَوْ لَآ اِذْ جَآئَ ہُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا}  (۶؍الانعام : ۴۳)

’’پھر انہوں نے کیوں عاجزی نہ کی، جب ان پر ہمارا عذاب آیا۔ ‘‘

مطلب یہ کہ جب ان کے پاس ہمارا عذاب آیا تو انہوں نے کیوں عاجزی نہ کی، اللہ سے دعا نہ کی اور اس کی پناہ کا سہارا نہ لیا۔

وہ سبحانہ و تعالیٰ ڈر سے بھاگنے والوں کی پناہ گاہ ہے، خوف زدہ لوگوں کا ملجاء و ماویٰ، کمزوروں کا معاون و مددگار اور دل شکستہ لوگوں کے دل جوڑنے والا ہے۔

اللہ! دل کی جلن و سوزش کی جگہ سکون، غم کے بدلے خوشی اور خوف کے وقت امن عطا کر دیجیے۔

اللہ! دل کی سوزش کو یقین کی برف سے ٹھنڈا کر دیجیے اور مصیبت کی آگ کو اِیمان کے پانی سے بجھا دیجیے۔

میرے رب! بے خوابی کی شکار آنکھوں پر اپنی طرف سے امن والی اونگھ ڈال دیجیے اور بے چین و بے قرار نفسوں پر سکون نازل کر دیجیے اور انھیں فوری فتح عطا کر دیجیے۔

اللہ! فجر صادق کے نور کے ساتھ ساتھ وسوسوں کو دُور کر دیجیے اور پوشیدہ باطل کو حق کے ایک حملے سے نیست و نابود کر دیجیے، شیطان اور اس کے معاونین کی تدبیر کو اپنی مدد کے لشکروں کی مدد سے دُور کر دیجیے۔

اللہ! ہم سے غم دُور کر دیجیے، ہماری تکلیف کو زائل کر دیجیے اور ہمارے نفسوں سے قلق اور بے چینی کو دُور کر دیجیے۔  (ملخصاً ایضاً، ص : ۱۹۲۔ ۲۰۹)

٭٭

 

 

                حرفِ آخر

 

جب آپ نے یہ جان لیا کہ آپ کی آزمائش ضروری ہے اور آپ نے اس بات کا بھی یقین کر لیا کہ جو مصیبت آپ پر نازل ہوئی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور وہ آپ کی قسمت میں لکھ دی گئی ہے، آپ نے یہ بھی جان لیا کہ آپ کے بس میں نہ تھا کہ کبھی اس آزمائش سے بچ سکتے اور وہ آپ کے حق میں مفید اور بہتر ہے اور اس آزمائش کا ایک محدود وقت ہے جس کے گزرنے کے بعد وہ ختم ہو جائے گی اور ماضی پر غمگین و پریشان ہونا کسی فائدے میں نہیں ہے اور آپ کو مستقبل میں وہی کچھ لاحق ہو گا جو آپ کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے، اور اے مومن! جب آپ نے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا اور اس پر بھروسا کیا اور اللہ کے متعلق حسن ظن رکھا اور ممکن اسباب کو اختیار کیا اور یہ یقین کر لیا کہ نفع و نقصان اللہ کے ہاتھ میں ہے اور آپ اللہ پر راضی و خوش رہے اور اس کام میں لگے رہے جس کا آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہم، خوف اور پریشانی دُور ہو جائے گی اور ان کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے گی، بلکہ اس کے برعکس آپ کو آزمائش کی گھڑی میں بھی خوشی نصیب ہو گی۔

اللہ تعالیٰ اکیلا ہی مددگار ہے لہٰذا اُسی پر توکل کیجیے، نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی ہمت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

وصلی اللّٰہ تعالٰی علی خاتم النبیین والمرسلین وعلی اٰلہ واصحابہ اجمعین وسلم

٭٭٭

تشکر: مصنفین جنہوں نے فائل فراہم کی

ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید